hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sahih Bukhari

3. علم کا بیان

صحيح البخاري

59

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ . ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا النَّبِيُّ (ﷺ) فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَتَى السَّاعَةُ ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ سَمِعَ مَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهَ مَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ (فلیح) نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ ﷺ نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ ﷺ اپنی باتیں پوری کرچکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ ! ) میں موجود ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

60

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ (ﷺ) فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے یوسف بن ماہک سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انہوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ ﷺ ہم سے اس وقت ملے جب (عصر کی) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ (یہ حال دیکھ کر) آپ ﷺ نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ ﷺ نے (یوں ہی بلند آواز سے) فرمایا۔

61

صحیح
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ):‏‏‏‏ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے ؟ یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ (رض) نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی (کم سنی کی) شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے نبی کریم ﷺ ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

62

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لاَ بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ. وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔

63

صحیح
حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السمائ قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسولک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ سے سوالات کرنے سے منع کردیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ ﷺ سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چناچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمد ﷺ ! ) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ ﷺ کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ ﷺ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ ﷺ کو یہ حکم فرمایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا) آپ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہوجائے گا۔ (نوٹ : صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے) ۔

64

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ.
اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ (شاہ ایران) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا (راوی کہتے ہیں) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔

65

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبَ النَّبِيُّ (ﷺ) كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ:‏‏‏‏ مَنْ قَالَ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَسٌ.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے، انہیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے (یعنی بےمہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے) تب آپ (ﷺ) نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں محمد رسول الله‏کندہ تھا۔ گویا میں (آج بھی) آپ ﷺ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا (کہ) اس پر محمد رسول الله‏کندہ تھا ؟ انہوں نے جواب دیا، انس (رض) نے۔

66

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) وَذَهَبَ وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الثَّالِثُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَآوَاهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ان سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کے واسطے سے ذکر کیا، بیشک ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب نے انہیں ابو واقد اللیثی سے خبر دی کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے (ان میں سے) دو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب) مجلس میں (ایک جگہ کچھ) گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ ﷺ (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے (تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ تو (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا (کہ اسے بھی بخش دیا) اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے (بھی) اس سے منہ موڑ لیا۔

67

صحیح
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏‏‏‏ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ- مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ. وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ‏‏‏‏. وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ‏‏‏‏. وَقَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ. وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ (ﷺ) قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏كُونُوا رَبَّانِيِّينَ‏‏‏‏ حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ. وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ.
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاعلم أنه لا إله إلا الله‏ (آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے) تو (گویا) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور (حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے (دولت کی) بہت بڑی مقدار حاصل کرلی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں (کافروں) نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں ؟ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور ابوذر (رض) کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو ، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کرسکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ آیت کونوا ربانيين‏سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور ربانياس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔

68

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ (ﷺ) يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہیں سفیان نے اعمش سے خبر دی، وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کردیئے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں۔

69

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، ‏‏‏‏‏‏وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے شعبہ نے، ان سے ابوالتیاح نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔

70

صحیح
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ (ﷺ) يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ (ابن مسعود) (رض) ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن ! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔ انہوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہوجاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔

71

صحیح
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے (اور یہ عالم فنا ہوجائے) ۔

72

صحیح
حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ (ﷺ) فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ.
ہم سے علی (بن مدینی) نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے (اس) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ﷺ کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ (اسے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ (ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ (پھر) رسول اللہ ﷺ نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔

73

صحیح
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

74

صحیح
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ (ﷺ) يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) يَقُولُ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ ؟ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ.
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کے بارے میں بحثے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ خضر (علیہ السلام) تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس (رض) نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر (علیہ السلام) سے ملنے کی کیا صورت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہوگی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انہوں نے خضر (علیہ السلام) کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔

75

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ضَمَّنِي رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے، ان سے خالد نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے مجھے (سینے سے) لگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ اسے علم کتاب (قرآن) عطا فرمائیو

76

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَيَّ.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار (کی آڑ) نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہوگیا (مگر) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔

77

صحیح
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ (ﷺ) مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔

78

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَالِدُ بْنُ خَلِيٍّ قَاضِي حِمْصَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) يَذْكُرُ شَأْنَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى:‏‏‏‏ بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ.
ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس (رض) نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی موسیٰ (علیہ السلام) نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ ابی نے کہا کہ ہاں ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کرلو گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر (علیہ السلام) کو انہوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

79

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ قَالَ إِسْحَاقُ :‏‏‏‏ وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ الْمَاءَ قَاعٌ يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے قبلت الماءکا لفظ نقل کیا ہے۔ قاع اس خطہٰ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے (مگر ٹھہرے نہیں) اور صفصفاس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔

80

صحیح
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ):‏‏‏‏ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرَ الزِّنَا.
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے ابوالتیاح کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہوجائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔

81

صحیح
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمْ أَحَدٌ بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقِلَّ الْعِلْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرَ الزِّنَا، ‏‏‏‏‏‏وَتَكْثُرَ النِّسَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے شعبہ سے نقل کیا، وہ قتادہ سے اور قتادہ انس سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے بعد تم سے کوئی نہیں بیان کرے گا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم (دین) کم ہوجائے گا۔ جہل ظاہر ہوجائے گا۔ زنا بکثرت ہوگا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہوجائیں گے۔ حتیٰ کہ 50 عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔

82

صحیح
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْث ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْعِلْمَ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے لیث نے، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا علم۔

83

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ارْمِ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا سُئِلَ النَّبِيُّ (ﷺ) عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بیخبر ی میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا (اب) ذبح کرلے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بیخبر ی میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی۔ آپ ﷺ نے فرمایا (اب) رمی کرلے۔ (اور پہلے کردینے سے) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں (اس دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کرلی تھی۔ تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ اب کرلے اور کچھ حرج نہیں۔

84

صحیح
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) سُئِلَ فِي حَجَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا حَرَجَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ایوب نے عکرمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے آپ کے (آخری) حج میں کسی نے پوچھا کہ میں نے رمی کرنے (یعنی کنکر پھینکنے) سے پہلے ذبح کرلیا، آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا (اور) فرمایا کچھ حرج نہیں۔ کسی نے کہا کہ میں نے ذبح سے پہلے حلق کرا لیا۔ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ فرما دیا کہ کچھ حرج نہیں۔

85

صحیح
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يُقْبَضُ الْعِلْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ وَالْفِتَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا الْهَرْجُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَرَّفَهَا كَأَنَّه يُرِيدُ الْقَتْلَ.
ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، انہیں حنظلہ نے سالم سے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! ہرج سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ ﷺ نے اس سے قتل مراد لیا۔

86

صحیح
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ آيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ (ﷺ) وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ مِثْلَ أَوْ قَرِيبًا لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي بِأَيِّهِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا هُوَ مُحَمَّدٌ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ نَمْ صَالِحًا، ‏‏‏‏‏‏قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ہشام نے فاطمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ (رض) کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی سورج کو گہن لگا ہے) اتنے میں لوگ (نماز کے لیے) کھڑے ہوگئے۔ عائشہ (رض) نے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا (کیا یہ گہن) کوئی (خاص) نشانی ہے ؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں ! پھر میں (بھی نماز کے لیے) کھڑی ہوگئی۔ حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (نماز کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، مثلیا قربکا کون سا لفظ اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی، فاطمہ کہتی ہیں (یعنی) فتنہ دجال کی طرح (آزمائے جاؤ گے) کہا جائے گا (قبر کے اندر کہ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہوگا، کون سا لفظ فرمایا اسماء (رض) نے، مجھے یاد نہیں۔ وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول ﷺ ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کرلیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد ﷺ ہیں۔ تین بار (اسی طرح کہے گا) پھر (اس سے) کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد ﷺ پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہرحال منافق یا شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء (رض) نے کہا۔ تو وہ (منافق یا شکی آدمی) کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے (بھی) وہی کہہ دیا۔ (باقی میں کچھ نہیں جانتا۔ )

87

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍوَبَيْنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ رَبِيعَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس (رض) اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس (رض) نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے ؟ یا یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ ﷺ کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آسکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ ﷺ نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات نقيرکہتے تھے اور بسا اوقات مقير‏۔ (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو ۔

88

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ:‏‏‏‏ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ):‏‏‏‏ كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا، کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) حالانکہ (اس کے متعلق یہ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کرلیا۔

89

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ . ح قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَ صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَثَمَّ هُوَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ طَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ:‏‏‏‏ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی (ایک دوسری سند سے) امام بخاری (رح) کہتے ہیں کہ ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے، وہ عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے (پورب کی طرف) بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم ﷺ کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ ﷺ کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا (جب واپس آیا) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور (میرے بارے میں پوچھا کہ) کیا عمر یہاں ہیں ؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آگیا ہے۔ (یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے) پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ (ﷺ ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ (یہ افواہ غلط ہے) تب میں نے (تعجب سے) کہا الله اکبراللہ بہت بڑا ہے۔

90

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انہیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ( حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہوسکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہوجاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔

91

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْرِفْ وِكَاءَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ احْمَرَّ وَجْهُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا لَكَ وَلَهَا، ‏‏‏‏‏‏مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا، ‏‏‏‏‏‏تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ ﷺ سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی (پہچان لے) پھر ایک سال تک اس کی شناخت (کا اعلان) کراؤ پھر (اس کا مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آجائے تو اسے سونپ دو ۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے ؟ آپ کو اس قدر غصہ آگیا کہ رخسار مبارک سرخ ہوگئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے (پاؤں کے) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے (بارے میں) کیا ارشاد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔

92

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ (ﷺ) عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:‏‏‏‏ سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ ﷺ کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ ﷺ پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آگیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر عمر (رض) نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

93

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) خَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ (ﷺ) نَبِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہیں انس بن مالک نے بتلایا کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : حذافہ، پھر آپ ﷺ نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر (رض) نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔

94

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا. حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَارُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا.
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، ان سے انس (رض) نے بیان کیا، وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے بیان کیا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ ﷺ تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے۔

96

صحیح
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الصَّلَاةَ صَلَاةَ الْعَصْرِ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی بشر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یوسف بن ماھک سے بیان کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے، وہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ﷺ ہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا یا تنگ ہوگیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔

97

صحیح
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَيَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَامِرٌ الشَّعْبِيُّ :‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ):‏‏‏‏ ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ، ‏‏‏‏‏‏رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ عَامِرٌ:‏‏‏‏ أَعْطَيْنَاكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ قَدْ كَانَ يُرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں محاربی نے خبر دی، وہ صالح بن حیان سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عامر شعبی نے بیان کیا، کہا ان سے ابوبردہ نے اپنے باپ کے واسطے سے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد ﷺ پر ایمان لائے اور (دوسرے) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ (دونوں) کا حق ادا کرے اور (تیسرے) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔ پھر عامر نے (صالح بن حیان سے) کہا کہ ہم نے یہ حدیث تمہیں بغیر اجرت کے سنا دی ہے (ورنہ) اس سے کم حدیث کے لیے مدینہ تک کا سفر کیا جاتا تھا۔

98

صحیح
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَطَاءً ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ عَطَاءٌ أَشْهَدُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، ‏‏‏‏‏‏فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ :‏‏‏‏ عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ).
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ایوب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا، انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ میں رسول اللہ ﷺ پر گواہی دیتا ہوں، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ ﷺ کے ساتھ بلال (رض) تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ ﷺ نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا (یہ وعظ سن کر) کوئی عورت بالی (اور کوئی عورت) انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال (رض) اپنے کپڑے کے دامن میں (یہ چیزیں) لینے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے روایت کیا، انہوں نے عطاء سے کہ ابن عباس (رض) نے یوں کہا کہ میں نبی کریم ﷺ پر گواہی دیتا ہوں (اس میں شک نہیں ہے) ۔ امام بخاری (رح) کی غرض یہ ہے کہ اگلا باب عام لوگوں سے متعلق تھا اور یہ حاکم اور امام سے متعلق ہے کہ وہ بھی عورتوں کو وعظ سنائے۔

99

صحیح
حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي حَدِيثَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى قَوْلِهِ ذَهَابَ الْعُلَمَاءِ.
ہم سے علاء بن عبدالجبار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے اس کو بیان کیا یعنی عمر بن عبدالعزیز کی حدیث ذهاب العلماء‏تک۔

100

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، ‏‏‏‏‏‏فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْفِرَبْرِيُّ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے قتیبہ نے، کہا ہم سے جریر نے، انہوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے۔

101

صحیح
حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ (ﷺ):‏‏‏‏ غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، ‏‏‏‏‏‏فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّمَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَةً مِنْ وَلَدِهَا إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ امْرَأَةٌ وَاثْنَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاثْنَتَيْنِ.
ہم سے آدم نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابن الاصبہانی نے، انہوں نے ابوصالح ذکوان سے سنا، وہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ (آپ ﷺ سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ ﷺ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور (مناسب) احکام سنائے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بات بھی تھی کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے) تین (لڑکے) آگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے پناہ بن جائیں گے۔ اس پر ایک عورت نے کہا، اگر دو (بچے بھیج دے) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اور دو (کا بھی یہ حکم ہے) ۔

102

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ذَكْوَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ) بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے عبدالرحمٰن بن الاصبہانی کے واسطے سے بیان کیا، وہ ذکوان سے، وہ ابوسعید سے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، رسول اللہ ﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ اور (دوسری سند میں) عبدالرحمٰن الاصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحازم سے سنا، وہ ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ایسے تین (بچے) جو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں۔

103

صحیح
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ (ﷺ) كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ أَوَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 8، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں نافع بن عمر نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی عائشہ (رض) جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تاکہ سمجھ لیں۔ چناچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس سے حساب لیا گیا اسے عذاب کیا جائے گا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ (یہ سن کر) میں نے کہا کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ صرف (اللہ کے دربار میں) پیشی کا ذکر ہے۔ لیکن جس کے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی (سمجھو) وہ غارت ہوگیا۔

104

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ (ﷺ) الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَعَاهُ قَلْبِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) فِيهَا فَقُولُوا:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ:‏‏‏‏ مَا قَالَ عَمْرٌو ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے، وہ ابوشریح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید (والی مدینہ) سے جب وہ مکہ میں (ابن زبیر سے لڑنے کے لیے) فوجیں بھیج رہے تھے کہا کہ اے امیر ! مجھے آپ اجازت دیں تو میں وہ حدیث آپ سے بیان کر دوں، جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس (حدیث) کو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے اور جب رسول اللہ ﷺ یہ حدیث فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ ﷺ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی۔ آج اس کی حرمت لوٹ آئی، جیسی کل تھی۔ اور حاضر غائب کو (یہ بات) پہنچا دے۔ (یہ حدیث سننے کے بعد راوی حدیث) ابوشریح سے پوچھا گیا کہ (آپ کی یہ بات سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا ؟ کہا یوں کہ اے (ابوشریح ! ) حدیث کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم (مکہ) کسی خطاکار کو یا خون کر کے اور فتنہ پھیلا کر بھاگ آنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔

105

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏ذُكِرَ النَّبِيُّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُهُ قَالَ:‏‏‏‏ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مُحَمَّدٌ يَقُولُ:‏‏‏‏ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏كَانَ ذَلِكَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ مَرَّتَيْنِ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے حماد نے ایوب کے واسطے سے نقل کیا، وہ محمد سے اور وہ ابن ابی بکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ابوبکرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے (یوں) فرمایا، تمہارے خون اور تمہارے مال، محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ ﷺ نے وأعراضکمکا لفظ بھی فرمایا۔ (یعنی) اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو ! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔ اور محمد (راوی حدیث) کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا۔ (پھر) دوبارہ فرمایا کہ کیا میں نے (اللہ کا یہ حکم) تمہیں نہیں پہنچا دیا۔

106

صحیح
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَنْصُورٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُعَلِيًّا ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجْ النَّارَ.
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہوں نے ربعی بن حراش سے سنا کہ میں نے علی (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو۔

107

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِلزُّبَيْرِ :‏‏‏‏ إِنِّي لَا أَسْمَعُكَ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) كَمَا يُحَدِّثُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنِّي لَمْ أُفَارِقْهُ وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبداللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

108

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ :‏‏‏‏ إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے عبدالعزیز کے واسطے سے نقل کیا کہ انس (رض) فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

109

صحیح
حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن الاکوع (رض) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

110

صحیح
حَدَّثَنَا مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَسَمَّوْا بِاسْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ (رض) سے وہ رسول اللہ ﷺ سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔

111

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُطَرِّفٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُلِعَلِيِّ :‏‏‏‏ هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی (رح) سے، انہوں نے ابوحجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی ) کتاب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

112

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، ‏‏‏‏‏‏شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ:‏‏‏‏ وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْفِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) وَالْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلُّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اكْتُبُوا لِأَبِي فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ:‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ إِلَّا الْإِذْخِرَقَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ يُقَالُ يُقَادُ بِالْقَافِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ:‏‏‏‏ أَيُّ شَيْءٍ كَتَبَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبَ لَهُ هَذِهِ الْخُطْبَةَ.
ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے القتلاور الفيلکہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ الفيلکہتے ہیں۔ (پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمان کو غالب کردیا اور سمجھ لو کہ وہ (مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ (آئندہ) کبھی ہوگا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کردیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو (اس کے عزیزوں کو) اختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے (یہ مسائل) لکھ دو ۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ (یا مٹی ملا کر) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (ہاں) مگر اذخر، مگر اذخر۔

113

صحیح
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَخِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ (ﷺ) أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ .
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہب بن منبہ نے اپنے بھائی کے واسطے سے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو (رض) کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ دوسری سند سے معمر نے وہب بن منبہ کی متابعت کی، وہ ہمام سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ (رض) سے۔

114

صحیح
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ (ﷺ) وَجَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) وَبَيْنَ كِتَابِهِ.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کے مرض میں شدت ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر (رض) نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ ﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہوگئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس (رض) یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ ﷺ کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہوگئی۔

115

صحیح
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِنْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَة ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِنْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ (ﷺ) ذَاتَ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ، ‏‏‏‏‏‏أَيْقِظُوا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ.
صدقہ نے ہم سے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے معمر کے واسطے سے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں، زہری ہند سے، وہ ام سلمہ (رض) سے، (دوسری سند میں) عمرو اور یحییٰ بن سعید زہری سے، وہ ایک عورت سے، وہ ام سلمہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ ایک رات نبی کریم ﷺ نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں (جو) دنیا میں (باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔

116

صحیح
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ (ﷺ) الْعِشَاءَ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ.
سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ آخر عمر میں (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

117

صحیح
حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّبِيُّ (ﷺ) عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى النَّبِيُّ (ﷺ) الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ.
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث (رض) زوجہ نبی کریم ﷺ کے پاس گزاری اور نبی کریم ﷺ (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ ﷺ سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہوگئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کرلیا، تب آپ ﷺ نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ ﷺ سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔

118

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَتْلُو إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ إِلَى قَوْلِهِ الرَّحِيمُ سورة البقرة آية 159 - 160، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمْ والصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الْعَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) بِشِبَعِ بَطْنِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْضُرُ مَا لَا يَحْضُرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْفَظُ مَا لَا يَحْفَظُونَ.
عبدالعزیز بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور (میں کہتا ہوں) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی، (جس کا ترجمہ یہ ہے) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں (آخر آیت) رحيم‏تک۔ (واقعہ یہ ہے کہ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خریدو فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جی بھر کر رہتا (تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بےفکری رہے) اور (ان مجلسوں میں) حاضر رہتا جن (مجلسوں) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ (باتیں) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

119

صحیح
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَبُو مُصْعَبٍ، ‏‏‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ضُمَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ غَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ.
ہم سے ابومصعب احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن دینار نے ابن ابی ذئب کے واسطے سے بیان کیا، وہ سعید المقبری سے، وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں آپ ﷺ سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور (میری چادر میں ڈال دی) فرمایا کہ (چادر کو) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو (اپنے بدن پر) لپیٹ لیا، پھر (اس کے بعد) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ (یوں) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس (چادر) میں ڈال دی۔

120

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَخِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ) وِعَاءَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی (عبدالحمید) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ (رض) سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (علم کے) دو برتن یاد کرلیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری (رح) نے فرمایا کہ بلعومسے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔

121

صحیح
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَرِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:‏‏‏‏ اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
ہم سے حجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے علی بن مدرک نے ابوزرعہ سے خبر دی، وہ جریر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو ! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔

122

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَيْفَ بِهِ ؟ فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ، ‏‏‏‏‏‏وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا، ‏‏‏‏‏‏فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ:‏‏‏‏ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْخَضِرُ:‏‏‏‏ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا لمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْخَضِرُ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ:‏‏‏‏ وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْخَضِرُ:‏‏‏‏ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ مُوسَى:‏‏‏‏ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا.
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انہیں سعید بن جبیر (رض) نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) (جو خضر (علیہ السلام) کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس (رض) بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کردیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے پروردگار ! میری ان سے ملاقات کیسے ہو ؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی) (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہوگئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سلام کیا، خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں ؟ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔ اسے موسیٰ ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام) کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہوگا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے پھر خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر (مفت میں) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی (کی لکڑی) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر (علیہ السلام) بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟ (اس پر) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے (کشتی سے اتر کر) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر (علیہ السلام) نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا (غضب ہوگیا) خضر (علیہ السلام) بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کردیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آگیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے (اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ (علیہ السلام) کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔

123

صحیح
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے ؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔

124

صحیح
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ارْمِ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ آخَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْحَرْ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے زہری کے واسطے سے روایت کیا، انہوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ ﷺ سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں نے رمی سے قبل قربانی کرلی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اب) رمی کرلو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اب) قربانی کرلو کچھ حرج نہیں۔ (اس وقت) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہوگئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ ﷺ نے یہ ہی جواب دیا (اب) کرلو کچھ حرج نہیں۔

125

صحیح
حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ سُلَيْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ (ﷺ) فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا تَسْأَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَنَسْأَلَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الرُّوحُ ؟ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْأَعْمَشُ:‏‏‏‏ هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا.
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے اعمش سلیمان بن مہران نے ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے علقمہ سے نقل کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم ! روح کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آرہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہوگیا۔ جب آپ ﷺ سے (وہ کیفیت) دور ہوگئی تو آپ ﷺ نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی ! ) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔ (اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے) اعمش کہتے ہیں کہ ہماری قرآت میں وما اوتواہے۔ ( ‏‏‏‏وما اوتيتم ‏‏‏‏) نہیں۔

126

صحیح
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ :‏‏‏‏ كَانَتْ عَائِشَةُتُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ قَالَتْ لِي:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ:‏‏‏‏ بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہوگئی ہوتی) ابن زبیر (رض) نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔

127

صحیح
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ بِذَلِكَ.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے معروف کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابوالطفیل سے نقل کیا، انہوں نے علی سے مضمون حدیث حدثوا الناس بما يعرفون الخ بیان کیا، (ترجمہ گذر چکا ہے۔ )

128

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا يَتَّكِلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، اس نے کہا کہ میرے باپ نے قتادہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) معاذ بن جبل رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کردیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہوجائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ (رض) نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔

129

صحیح
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِمُعَاذِ:‏‏‏‏ مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے معتمر نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے انس (رض) سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز معاذ (رض) سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ (یقیناً ) جنت میں داخل ہوگا، معاذ بولے، یا رسول اللہ ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

130

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ ؟ قَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَعْنِي وَجْهَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے زینب بنت ام سلمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ (اپنی والدہ) ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا (اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (ہاں) جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو) تو (یہ سن کر) ام سلمہ (رض) نے (شرم کی وجہ سے) اپنا چہرہ چھپالیا اور کہا، یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں ! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے) ۔

131

صحیح
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدِّثُونِي مَا هِيَ ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَاسْتَحْيَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبِرْنَا بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ):‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے ؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑگئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آگئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ہی (خود) اس کے بارے میں بتلائیے، آپ ﷺ نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔

132

صحیح
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُنْذِرٍ الْثَّوْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَلِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِيهِ الْوُضُوءُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن داؤد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے منذر ثوری سے نقل کیا، انہوں نے محمد ابن الحنفیہ سے نقل کیا، وہ علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے (اپنے شاگرد) مقداد کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں۔ تو انہوں نے آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس (مرض) میں غسل نہیں ہے (ہاں) وضو فرض ہے۔

133

صحیح
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ):‏‏‏‏ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) قَالَ:‏‏‏‏ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ).
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، ان سے نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر بن الخطاب نے، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ ﷺ سے یاد نہیں۔

134

صحیح
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ وَبَيَّنَ النَّبِيُّ (ﷺ) أَنَّ فَرْضَ الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَتَوَضَّأَ أَيْضًا مَرَّتَيْنِ وَثَلاَثًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ثَلاَثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ أَهْلُ الْعِلْمِ الإِسْرَافَ فِيهِ وَأَنْ يُجَاوِزُوا فِعْلَ النَّبِيِّ (ﷺ).
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ تو (پہلے وضو کرتے ہوئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو۔ اور اپنے سروں کا مسح کرو۔ اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھوؤ ۔ امام بخاری (رح) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وضو میں (اعضاء کا دھونا) ایک ایک مرتبہ فرض ہے اور آپ ﷺ نے (اعضاء) دو دو بار (دھو کر بھی) وضو کیا ہے اور تین تین بار بھی۔ ہاں تین مرتبہ سے زیادہ نہیں کیا اور علماء نے وضو میں اسراف (پانی حد سے زائد استعمال کرنے) کو مکروہ کہا ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے فعل سے آگے بڑھ جائیں۔

95

صحیح
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَارُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ) ، " أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا " .
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، وہ رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں کہ` جب آپ (ﷺ) کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ (ﷺ) تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔