HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

38120

(۳۸۱۲۱) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَیْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَیْرٍ ، قَالَ : قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ رَبَاحٍ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : وَکَانَتِ الأَنْصَارُ تُفَقِّہُہُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَیْشَ الأُمَرَائِ ، وَقَالَ : عَلَیْکُمْ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ ، فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ فَجَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ فَعَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ ، فَوَثَبَ جَعْفَرٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا کُنْتُ أَرْہَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَیَّ زَیْدًا ، فَقَالَ : امْضِ ، فَإِنَّک لاَ تَدْرِی أَیُّ ذَلِکَ خَیْرٌ۔ فَانْطَلَقُوا ، فَلَبِثُوا مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ ، وَأَمَرَ فَنُودِیَ : الصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ثَابَ خَیْرٌ ، ثَابَ خَیْرٌ ، ثَلاَثًا ، أُخْبِرُکُمْ عَنْ جَیْشِکُمْ ہَذَا الْغَازِی ، انْطَلَقُوا فَلَقُوا الْعَدُوَّ ، فَقُتِلَ زَیْدٌ شَہِیدًا ، فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، فَشَدَّ عَلَی الْقَوْمِ حَتَّی قُتِلَ شَہِیدًا ، اشْہَدُوا لَہُ بِالشَّہَادَۃِ ، وَاسْتَغْفِرُوا لَہُ ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ ، فَأَثْبَتَ قَدَمَیْہِ حَتَّی قُتِلَ شَہِیدًا ، فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ، وَلَمْ یَکُنْ مِنَ الأُمَرَائِ ، ہُوَ أَمَّرَ نَفْسَہُ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ إِنَّہُ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِکَ ، فَأَنْتَ تَنْصُرُہُ ، فَمِنْ یَوْمَئِذٍ سُمِّیَ سَیْفَ اللہِ الْمَسْلُولَ ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : انْفِرُوا ، فَأَمِدُّوا إِخْوَانَکُمْ ، وَلاَ یَتَخَلَّفَنَّ مِنْکُمْ أَحَدٌ ، فَنَفَرُوا مُشَاۃً وَرُکْبَانًا ، وَذَلِکَ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ۔ فَبَیْنَمَا ہُمْ لَیْلَۃً مُمَایَلِینُ عَنِ الطَّرِیقِ ، إِذْ نَعَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی مَالَ عَنِ الرَّحْلِ ، فَأَتَیْتُہُ ، فَدَعَّمْتُہُ بِیَدَیَّ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ یَدِ رَجُلٍ اعْتَدَلَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : أَبُو قَتَادَۃَ ، فَسَارَ أَیْضًا ثُمَّ نَعَسَ حَتَّی مَالَ عَنِ الرَّحْلِ ، فَأَتَیْتُہُ ، فَدَعَّمْتُہُ بِیَدَیَّ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ یَدِ رَجُلٍ اعْتَدَلَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : أَبُو قَتَادَۃَ ، قَالَ فِی الثَّانِیَۃِ ، أَوِ الثَّالِثَۃِ ، قَالَ : مَا أُرَانِی إِلاَّ قَدْ شَقَقْتُ عَلَیْک مُنْذُ اللَّیْلَۃِ ، قَالَ : قُلْتُ : کَلاَ ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ، وَلَکِنْ أَرَی الْکَرَی أَو النُّعَاسَ قَدْ شَقَّ عَلَیْک ، فَلَوْ عَدَلْتَ فَنَزَلْتَ حَتَّی یَذْہَبَ کَرَاکَ ، قَالَ : إِنِّی أَخَافُ أَنْ یُخْذَلَ النَّاسُ ، قَالَ : قُلْتُ : کَلاَّ ، بِأَبِی وَأُمِّی۔ قَالَ: فَابْغِنَا مَکَانًا خَمِیرًا، قَالَ: فَعَدَلْتُ عَنِ الطَّرِیقِ، فَإِذَا أَنَا بِعُقْدَۃٍ مِنْ شَجَرٍ، فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ، ہَذِہِ عُقْدَۃٌ مِنْ شَجَرٍ قَدْ أَصَبْتُہَا ، قَالَ : فَعَدَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَدَلَ مَعَہُ مَنْ یَلِیہِ مِنْ أَہْلِ الطَّرِیقِ ، فَنَزَلُوا وَاسْتَتَرُوا بِالْعُقْدَۃِ مِنَ الطَّرِیقِ ، فَمَا اسْتَیْقَظْنَا إِلاَّ بِالشَّمْسِ طَالِعَۃً عَلَیْنَا ، فَقُمْنَا وَنَحْنُ وَہِلِینَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رُوَیْدًا رُوَیْدًا ، حَتَّی تَعَالَتِ الشَّمْسُ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ کَانَ یُصَلِّی ہَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ فَلْیُصَلِّہِمَا ، فَصَلاَہُمَا مَنْ کَانَ یُصَلِّیہِمَا ، وَمَنْ کَانَ لاَ یُصَلِّیہِمَا۔ ثُمَّ أَمَرَ فَنُودِیَ بِالصَّلاَۃِ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِنَا ، فَلَمَّا سَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّا نَحْمَدُ اللَّہَ ، أَنا لَمْ نَکُنْ فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا یَشْغَلُنَا عَنْ صَلاَتِنَا ، وَلَکِنْ أَرْوَاحَنَا کَانَتْ بِیَدِ اللہِ ، أَرْسَلَہَا أَنَّی شَائَ ، أَلاَ فَمَنْ أَدْرَکَتْہُ ہَذِہِ الصَّلاَۃُ مِنْ عَبْدٍ صَالِحٍ فَلْیَقْضِ مَعَہَا مِثْلَہَا۔ قَالَوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، الْعَطَشُ ، قَالَ : لاَ عَطَشَ ، یَا أَبَا قَتَادَۃَ ، أَرِنِی الْمَیْضَأَۃَ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ بِہَا ، فَجَعَلَہَا فِی ضِبْنِہِ ، ثُمَّ الْتَقَمَ فَمَہَا ، فَاَللَّہُ أَعْلَمُ أَنَفَثَ فِیہَا ، أَمْ لاَ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَبَا قَتَادَۃَ ، أَرِنِی الْغُمَرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ ، فَأَتَیْتہ بِقَدَحٍ بَیْنَ الْقَدَحَیْنِ ، فَصَبَّ فِیہِ ، فَقَالَ : اسْقِ الْقَوْمَ ، وَنَادَی رَسُولُ اللہِ وَرَفَعَ صَوْتَہُ : أَلاَ مَنْ أَتَاہُ إِنَاؤُہُ فَلْیَشْرَبْہُ ، فَأَتَیْتُ رَجُلاً فَسَقَیْتُہُ ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِفَضْلَۃِ الْقَدَحِ ، فَذَہَبْتُ فَسَقَیْتُ الَّذِی یَلِیہِ ، حَتَّی سَقَیْتُ أَہْلَ تِلْکَ الْحَلْقَۃِ ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِفَضْلَۃِ الْقَدَحِ ، فَذَہَبْتُ فَسَقَیْتُ حَلْقَۃً أُخْرَی ، حَتَّی سَقَیْت سَبْعَۃَ رُفَقٍ۔ وَجَعَلْتُ أَتَطَاوَلُ ، أَنْظُرُ ہَلْ بَقِیَ فِیہَا شَیْئٌ ، فَصَبَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقَدَحِ ، فَقَالَ لِی: اشْرَبْ ، قَالَ : قُلْتُ : بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ، إِنِّی لاَ أَجِدُ بِی کَثِیرَ عَطَشٍ ، قَالَ إِلَیْک عَنِّی ، فَإِنِّی سَاقِی الْقَوْمَ مُنْذُ الْیَوْمِ ، قَالَ : فَصَبَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقَدَحِ فَشَرِبَ ، ثُمَّ صَبَّ فِی الْقَدَحِ فَشَرِبَ، ثُمَّ صَبَّ فِی الْقَدَحِ فَشَرِبَ ، ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْنَا۔ ثُمَّ قَالَ : کَیْفَ تَرَی الْقَوْمَ صَنَعُوا حِینَ فَقَدُوا نَبِیَّہُمْ ، وَأَرْہَقَتْہُمْ صَلاَتُہُمْ ؟ قُلْتُ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : أَلَیْسَ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ ؟ إِنْ یُطِیعُوہُمَا فَقَدْ رَشَِدُوا ، وَرَشَِدَتْ أُمَّتُہُمْ ، وَإِنْ یَعْصُوہُمَا فَقَدْ غَوَوْا وَغَوَتْ أُمَّتُہُمْ ، قَالَہَا ثَلاَثًا ، ثُمَّ سَارَ وَسِرْنَا ، حَتَّی إِذَا کُنَّا فِی نَحْرِ الظَّہِیرَۃِ ، إِذَا نَاسٌ یَتَّبِعُونَ ظِلاَلَ الشَّجَرَۃِ، فَأَتَیْنَاہُمْ ، فَإِذَا نَاسٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : فَقُلْنَا لَہُمْ : کَیْفَ صَنَعْتُمْ حِینَ فَقَدْتُمْ نَبِیَّکُمْ ، وَأَرْہَقَتْکُمْ صَلاَتُکُمْ ؟ قَالَوا : نَحْنُ وَاللہِ نُخْبِرُکُمْ ، وَثَبَ عُمَرُ ، فَقَالَ لأَبِی بَکْرٍ : إِنَّ اللَّہَ قَالَ فِی کِتَابِہِ: {إِنَّک مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ} وَإِنِّی وَاللہِ مَا أَدْرِی لَعَلَّ اللَّہَ قَدْ تَوَفَّی نَبِیَّہُ ، فَقُمْ فَصَلِّ وَانْطَلِقْ، إِنِّی نَاظِرٌ بَعْدَک وَمُتلوِّمٌ ، فَإِنْ رَأَیْتُ شَیْئًا وَإِلاَّ لَحِقْتُ بِکَ ، قَالَ : وَأُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ ، وَانْقَطَعَ الْحَدِیثُ۔ (ابوداؤد ۴۳۸۔ ترمذی ۱۷۷)
(٣٨١٢١) حضرت خالد بن سمرہ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عبداللہ بن رباح انصاری تشریف لائے ۔۔۔ اور انصار صحابہ ان کو فقیہ سمجھتے تھے تو انھوں نے فرمایا : ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھڑ سوار ابو قتادہ نے بیان کیا۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جیش الامراء (غزوہ مؤتہ کا لشکر) کو روانہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : ” تم پر زید بن حارثہ حاکم ہیں۔ پس اگر یہ قتل ہوجائیں تو پھر جعفر بن ابی طالب ہیں اور اگر یہ بھی قتل ہوجائیں تو پھر عبداللہ بن رواحہ ہیں۔ “ حضرت جعفر اچھل پڑے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس بات سے خوف نہیں کھاتا کہ آپ مجھ پر زید کو حاکم بنائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جانے دو ! تم نہیں جانتے کہ ان میں کیا چیز خیر ہے۔
٢۔ پھر یہ لوگ چل پڑے اور جتنی دیر اللہ کو منظور تھا یہ لوگ وہاں رہے ۔ پھر (ایک دن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حکم دیا اور یہ منادی کی گئی کہ الصلاۃ جامعۃ۔ چنانچہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خیر کی بات پہنچی ہے ، خیر کی بات پہنچی ہے۔ یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔۔۔ میں تمہیں اس لڑنے والے لشکر کے بارے میں خبر دیتا ہوں۔ یہ لوگ (یہاں سے) چلے تو ان کی دشمن سے ملاقات (اور لڑائی) ہوئی چنانچہ حضرت زید شہادت کی حالت میں قتل کردیئے گئے۔ تم لوگ ان کے لیے استغفار کرو، پھر جھنڈا حضرت جعفر بن ابی طالب نے سنبھال لیا اور انھوں نے دشمن پر خوب حملہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہادت کی حالت میں قتل ہوگئے۔ تم ان کی شہادت پر گواہ بن جاؤ اور ان کے لیے استغفار کرو۔ پھر جھنڈا، حضرت عبداللہ بن رواحہ نے سنبھال لیا اور اپنے قدم خوب جما لیے (لیکن) آخر کار وہ شہید کردیئے گئے۔ تم ان کے لیے استغفار کرو پھر (ان کے بعد) جھنڈا حضرت خالد بن الولید نے سنبھال لیا ہے حالانکہ وہ (پہلے سے متعین) امیروں میں سے نہیں تھے (بلکہ) انھوں نے خود اپنے آپ کو امیر بنا لیا ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا مانگی ” اے اللہ ! یہ خالد تو تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں تو ہی ان کی مدد فرما۔ “ اس دن سے حضرت خالد بن الولید کا نام سیف اللہ المسلول پڑگیا ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” نکل جاؤ اور اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ کوئی بھی تم میں سے پیچھے نہ رہے۔ “ چنانچہ صحابہ کرام پیدل اور سوار ہو کر نکل پڑے اور یہ سخت گرمی کا وقت تھا۔
٣۔ ایک رات صحابہ راستہ سے ہٹے ہوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونگھ آگئی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کجاوہ سے ایک طرف جھک گئے ۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھا کرنے والے آدمی کے ہاتھ کا چھونا محسوس فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ میں نے عرض کیا : ابو قتادہ ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے پھر (دوبارہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونگھ آئی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کجاوہ سے ایک طرف جھک گئے ۔ میں (دوبارہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور میں نے اپنے ہاتھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سہارا دیا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سیدھا کرنے والے آدمی کے ہاتھ کا چھونا محسوس کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کون شخص ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ ابو قتادہ ہے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ میں ارشاد فرمایا : میرا خیال تو اپنے بارے میں یہ ہے کہ میں نے تمہیں آج کی رات مشقت میں ڈال دیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ ہرگز نہیں ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ نیند یا اونگھ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشقت میں ڈالا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر آپ ایک طرف ہوجائیں اور پڑاؤ ڈال لیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیند ختم ہوجائے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے اس بات کا خوف ہے کہ لوگ ان یخذل الناس۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : ہرگز نہیں ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر تم ہمارے واسطے پردے والی جگہ تلاش کرو۔ “ راوی کہتے ہیں : میں راستہ سے اترا تو اچانک مجھے درختوں کا ایک جھُنڈ نظر آیا۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ درختوں کا جُھنڈ ہے جو مجھے ملا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ راستہ پر تھے وہ راستہ سے ایک طرف ہٹے اور انھوں نے پڑاؤ کیا اور درختوں کے جھنڈ میں راستہ سے پردہ کرلیا۔ پھر ہماری آنکھ اس حالت میں کھلی کہ سورج ہم پر طلوع ہوچکا تھا۔ چنانچہ ہم کھڑے ہوئے درآنحالیکہ ہم خوف زدہ تھے ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” آرام آرام سے “ یہاں تک کہ سورج بلند ہوگیا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس آدمی نے ان دو رکعات کو صبح کی نماز سے پہلے ادا کیا ہے وہ بھی ان کو ادا کرلے “ چنانچہ یہ دو رکعات ان لوگوں نے بھی پڑھیں جنہوں نے ان کو (پہلے) پڑھا تھا اور انھوں نے بھی پڑھا جنہوں نے پہلے نہیں پڑھا تھا۔
٥۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور نماز کے لیے منادی کی گئی پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو فرمایا : ” ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہیں۔ ہم کسی ایسی دنیوی چیز میں مشغول نہیں تھے کہ جس نے ہمیں نماز سے لاپرواہ کردیا ہو بلکہ ہماری ارواح اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں تھیں۔ جب چاہتے ہیں روحوں کو بھیجتے ہیں۔ خبردار ! جس آدمی کو یہ نماز کسی بندہ صالح کی طرف سے آ لے تو اس کو چاہیے کہ اس کے ساتھ ایسی نماز ہی قضا کرلے۔ “
٦۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پیاس ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی پیاس نہیں ہے۔ اے ابو قتادہ ! مجھے وضو والا برتن دو “۔ راوی کہتے ہیں : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وضو والا برتن لے کر حاضر ہوا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے منہ کے ساتھ منہ لگایا ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں پھونک ماری یا نہیں ماری۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو قتادہ ! مجھے کجاوہ پر سے چھوٹا پیالہ پکڑا دو ۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دو پیالہ کے درمیان کا پیالہ لے کر حاضر ہوا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں پانی ڈالا اور فرمایا : لوگوں کو پلاؤ۔ اور (خود) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز لگائی اور بلند آواز کر کے فرمایا : خبردار ! جس کسی کے پاس بھی برتن پہنچے تو اس کو چاہیے کہ وہ پانی پی لے۔ پس میں ایک آدمی کے پاس پہنچا اور اس کو پانی پلایا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پیالہ میں بقیہ پانی لے کر لوٹا (وہاں سے مزید لے کر) میں گیا اور میں نے پہلے آدمی کے ساتھ والے کو پانی پلایا۔ یہاں تک کہ اس حلقہ کے تمام لوگوں کو میں نے پانی پلایا۔ پھر میں پیالہ کا بقیہ پانی لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا (وہاں سے مزید لے کر) اور میں گیا اور میں نے دوسرے حلقہ کو پانی پلایا یہاں تک کہ میں نے سات حلقوں کو پانی پلایا۔
٧۔ میں نے نظر لمبی کر کے وضو کے برتن میں دیکھنا شروع کیا کہ اس میں کچھ باقی ہے ؟ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ میں پانی انڈیلا اور مجھے فرمایا : تو پی ! راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ مجھے کچھ زیادہ پیاس نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے پاس سے دور رہو۔ آج کے دن تو لوگوں کو پلانے والا میں ہوں۔ “ راوی کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ میں پانی ڈالا اور اس کو نوش فرمایا۔ پھر دوبارہ پیالہ میں پانی ڈالا اور نوش فرمایا پھر سہ بارہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ میں پانی ڈالا اور نوش فرمایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوگئے اور ہم بھی سوار ہوگئے۔
٨۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب لوگ اپنے پیغمبر کو غیر موجود پائیں اور ان کی نماز ان کے بہت قریب آجائے تو تم ایسے لوگوں کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہو کہ وہ کیا کریں “ میں نے عرض کاب۔ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا ان میں ابوبکر اور عمر موجود نہیں ہیں۔ اگر لوگ ان دونوں کی بات مانیں گے تو ہدایت پاجائیں گے اور ان کی جماعتیں بھی ہدایت پاجائیں گی اور اگر لوگ ان دونوں کی نافرمانی کریں گے تو لوگ بھی گمراہ ہوں گے اور ان کی جماعتیں بھی گمراہ ہوں گی “ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
٩۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے اور ہم بھی چل پڑے ۔ یہاں تک کہ جب ہم نصف دن میں پہنچے تو لوگوں نے درختوں کے سایہ کو تلاش کیا۔ پھر ہم کچھ مہاجرین کے پاس آئے۔ ان میں حضرت عمر بھی تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنے نبی کو نہ پاؤ اور نماز کا وقت ہوجائے تو تم کیا کرو گے ؟ انھوں نے کہا کہ بخدا ہم تمہیں بتائیں گے۔ پھر حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {إِنَّک مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ } میرے خیال میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اپنے پاس بلائے گا۔ آپ کھڑے ہوں اور نماز پڑھائیں۔ میں آپ کے جانے کے بعد نگرانی کروں گا۔ اگر معاملات ٹھیک ہوئے تو ساتھ آملوں گا۔ پھر نماز کھڑی ہوگئی اور گفتگو رک گئی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔