HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

30152

30152- عن عروة في نزول النبي صلى الله عليه وسلم الحديبية قال: وفزعت قريش لنزوله عليهم وأحب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبعث إليهم رجلا من أصحابه فدعا عمر بن الخطاب ليبعثه إليهم فقال: يا رسول الله إني لألعنهم وليس أحد بمكة من بني كعب يغضب لي إن أوذيت فأرسل عثمان، فإن عشيرته بها وإنه يبلغ لك ما أردت، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان بن عفان فأرسله إلى قريش وقال: أخبرهم أنا لم نأت لقتال، وإنما جئنا عمارا وأدعهم إلى الإسلام وأمره أن يأتي رجالا من المؤمنين بمكة ونساء مؤمنات فيدخل عليهم ويبشرهم بالفتح ويخبرهم أن الله جل ثناؤه يوشك أن يظهر دينه بمكة حتى لا يستخفى فيها بالإيمان تثبيتا يثبتهم قال: فانطلق عثمان فمر على قريش ببلدح فقالت قريش: أين؟ قال: بعثني رسول الله إليك لأدعوكم إلى الله عز وجل وإلى الإسلام، ونخبركم أنا لم نأت لقتال أحد وإنما جئنا عمارا، فدعاهم عثمان كما أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: قد سمعنا ما تقول فانفذ لحاجتك، وقام إليه أبان بن سعيد بن العاص فرحب به، وأسرج فرسه فحمل عثمان على الفرس فأجاره وردفه أبان حتى جاء مكة، ثم إن قريشا بعثوا بديل بن ورقاء الخزاعي وأخا بني كنانة، ثم جاء عروة بن مسعود الثقفي - فذكر الحديث فيما قالوا وقيل لهم - ورجع عروة إلى قريش وقال: إنما جاء الرجل وأصحابه عمارا، فخلوا بينه وبين البيت، فليطوفوا فشتموه. ثم بعثت قريش سهيل بن عمرو وحويطب بن عبد العزى ومكرز بن حفص ليصلحوا عليهم فكلموا رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعوه إلى الصلح والموادعة فلما لان بعضهم لبعض وهم على ذلك لم يستقم لهم ما يدعون إليه من الصلح وقد أمر بعضهم بعضا وتزاوروا، فبينا هم كذلك وطوائف المسلمين في المشركين لا يخاف بعضهم بعضا ينتظرون الصلح والهدنة إذ رمى رجل من أحد الفريقين رجلا من الفريق الآخر فكانت معركة وتراموا بالنبل والحجارة، وصاح الفريقان كلاهما وارتهن كل واحد من الفريقين من فيهم، فارتهن المسلمون سهيل بن عمرو ومن أتاهم من المشركين، وارتهن المشركون عثمان بن عفان ومن كان أتاهم من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البيعة، ونادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا إن روح القدس قد نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بالبيعة فاخرجوا على اسم الله فبايعوا، فثار المسلمون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو تحت الشجرة، فبايعوه على أن لا يفروا أبدا، فرعبهم الله تعالى، فأرسلوا من كانوا قد ارتهنوا، ودعوا إلى الموادعة والصلح - وذكر الحديث في كيفية الصلح والتحلل من العمرة قال: وقال المسلمون وهم بالحديبية قبل أن يرجع عثمان: خلص عثمان من بيننا إلى البيت فطاف به، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ما أظنه طاف بالبيت ونحن محصورون، قالوا: وما يمنعه يا رسول الله وقد خلص؟ قال: ذاك ظني به أن لا يطوف بالكعبة حتى نطوف معا، فرجع إليهم عثمان فقال المسلمون: اشتفيت يا أبا عبد الله من الطواف بالبيت؟ فقال عثمان: بئسما ظننتم بي فوالذي نفسي بيده لو مكثت مقيما بها سنة ورسول الله صلى الله عليه وسلم مقيم بالحديبية ما طفت بها حتى يطوف بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولقد دعتني قريش إلى الطواف بالبيت فأبيت فقال المسلمون: رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أعلمنا بالله وأحسننا ظنا. "كر، ش".
30152 ۔۔۔ عروہ روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ اترے قریش میں کھلبلی مچ گئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آدمی کو مکہ بطور ایلچی بھیجنا چاہا آپ نے اس کام کے لیے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنے پاس بلایا تاکہ انھیں بھیجیں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! میں قریش پر لعنت بھیجتا ہوں بنی کعب کا کوئی شخص مکہ میں نہیں جو مجھے اذیت پہنچانے پر غصہ ہو آپ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کو بھیج دیں چونکہ مکہ میں ان کے رشتہ دار ہیں وہ سفارت اچھی طرح سے کریں گے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کو بلایا اور انہی کو قریش کی پاس بھیجا اور فرمایا : ان سے جا کر کہو کہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے ہم تو عمرہ کے لیے آئے ہیں نیز انھیں اسلام کی دعوت دو اور مکہ میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے پاس جاؤ انھیں بشارت دو کہ فتح عنقریب نصیب ہونے والی ہے انھیں خبر دو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ عنقریب دین حق کو غالب کر دے گا حتی کہ دین اسلام کا نام لیوا کوئی شخص نہیں چھپے گا ۔ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) رخصت ہوئے اور مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گزرے قریش نے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں دعوت اسلام دوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤں نیز میں تمہیں یہ خبر کرنے آیا ہوں کہ ہم لوگ کسی شخص سے جنگ کرنے نہیں آئے ہم تو عمرہ کے لیے آئے ہیں قریش نے کہا : ہم نے تمہاری بات سن لی اپنا کام کرو اتنے میں امان بن سعید بن العاص کھڑا ہوا عثمان (رض) کو خوش آمدید کہا اپنے گھوڑے پر زین درست کی پھر سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کو گھوڑے پر سوار کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پناہ دی اور خود ان کے پیچھے سوار ہوگیا حتی کہ مکہ آن پہنچے پھر قریش نے بدیل بن ورقاء خزاعی اور بنی کنانہ کے ایک شخص کو بھیجا پھر عروہ بن مسعود ثقفی آیا (پھر پوری حدیث ذکر کی) پھر عروہ قریش کے پاس آیا اور کہا : محمد اور اس کے ساتھی عمرہ کے لیے آئے ہیں لہٰذا انھیں بیت اللہ میں عمرہ کے لیے جانے دو پھر قریش نے سہیل بن عمرو ، حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن حفص کو صلح کے لیے بھیجا انھوں نے آکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح اور معاہدہ کی دعوت دی جب فریقین ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور مشرکین کے پاس جو مسلمان تھے وہ بھی صلح کے انتظار میں تھے اسی اثناء میں فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کو تیر مارا اور یوں جنگ چھڑ گئی فریقین ایک دوسرے پر تیر اور پتھر برسانے لگے چنانچہ فریقین نے ایک دوسرے کے ایلچیوں کو گرفتار کرلیا مسلمانوں نے سہیل بن عمرو اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیا اور مشرکین نے حضرت عثمان اور ان کے ساتھ جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو پکڑ لیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو (مرمٹنے کی) بیعت کے لیے بلایا ، ایک منادی نے اعلان کیا کہ جبرائیل امین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ہیں اور آپ کے بیعت کا حکم دیا ہے لہٰذا اللہ کا نام لے کر نکلو اور بیعت کرو مسلمانوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بیعت کے لیے لپک پڑے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اس شرط پر بیعت کی کہ بھاگیں گے نہیں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو مرعوب کیا اور انھوں نے جن مسلمانوں کو گرفتار کرلیا تھا انھیں چھوڑ دیا اور صلح اور معاہدہ کی دعوت دینے لگے ۔ مسلمان کہنے لگے جبکہ وہ حدیبیہ میں تھے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کے واپس لوٹنے سے پہلے کہ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) بیت اللہ کی طرف ہم سے نکل کر جا چکے ہیں انھوں نے بیت اللہ کا طواف کرلیا ہوگا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا گمان نہیں کہ عثمان نے بیت اللہ کا طواف کیا ہو اور ہم یہاں محصور ہوں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں طواف کرنے میں کیا ممانعت ہے حالانکہ وہ بیت اللہ تک پہنچ گئے ہیں فرمایا : میرا گمان ہے کہ وہ طواف نہیں کرے گا تاوقتیکہ ہم سب مل کر طواف نہ کریں حتی کہ جب سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) واپس لوٹے ۔ مسلمانوں نے کہا : اے ابو عبداللہ کیا تم نے بیت اللہ کا طواف کرلیا ہے ؟ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) نے جواب دیا : تم لوگ بدگمانی کا شکار ہوئے ہو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں ایک سال تک مکہ میں قیام کئے رہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغیر بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا حالانکہ مجھے قریش نے طواف کی دعوت دی تھی میں نے طواف کرنے سے انکار کردیا مسلمانوں نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں۔ (رواہ ابن عساکر وابن ابی شیبۃ)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔