HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

30266

30266- "مسند الصديق" الواقدي حدثني عبد الله بن جعفر بن عبد الرحمن بن أزهر بن عوف عن الزهري عن عروة عن أسامة بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره أن يغير على أهل أبني صباحا، وأن يحرق قالوا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأسامة: امض على اسم الله، فخرج بلوائه معقودا فدفعه إلى بريدة بن الحصيب الأسلمي، فخرج به إلى أسامة وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أسامة فعسكر بالجرف وضرب عسكره في موضع سقاية سليمان اليوم، وجعل الناس يأخذون بالخروج إلى العسكر فيخرج من فرغ من حاجته إلى معسكره، ومن لم يقض حاجته فهو على فراغ ولم يبق أحد من المهاجرين الأولين إلا انتدب في تلك الغزوة: عمر بن الخطاب وأبو عبيدة وسعد بن أبي وقاص وأبو الأعور سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل في رجال من المهاجرين والأنصار وكان أشدهم في ذلك عدة قتادة بن النعمان وسلمة بن أسلم بن حريش فقال رجال من المهاجرين وكان أشدهم في ذلك قولا عياش بن أبي ربيعة: يستعمل هذا الغلام على المهاجرين الأولين فكثرت القالة في ذلك فسمع عمر بن الخطاب بعض ذلك القول فرده على من تكلم به وجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره بقول من قال، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم غضبا شديدا فخرج وقد عصب على رأسه بعصابة وعليه قطيفة ثم صعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: أما بعد أيها الناس فما مقالة بلغتني عن بعضكم في تأميري أسامة فوالله لئن طعنتم في إمارتي أسامة لقد طعنتم في إمارتي أباه من قبله، وايم الله إن كان للإمارة لخليق وإن ابنه من بعده لخليق للإمارة، وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي وإنهما لمخيلان لكل خير فاستوصوا به خيرا، فإنه من خياركم. ثم نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل بيته وذلك يوم السبت لعشر ليال خلون من ربيع الأول، وجاء المسلمون الذين يخرجون مع أسامة يودعون رسول الله صلى الله عليه وسلم وفيهم عمر بن الخطاب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أنفذوا بعث أسامة ودخلت أم أيمن فقالت: أي رسول الله لو تركت أسامة يقيم في معسكره حتى تتماثل فإن أسامة إن خرج على حاله هذه لم ينتفع بنفسه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنفذوا بعث أسامة فمضى الناس إلى العسكر فباتوا ليلة الأحد ونزل أسامة يوم الأحد ورسول الله صلى الله عليه وسلم ثقيل مغمور وهو اليوم الذي لدوه فيه فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعيناه تهملان وعنده العباس والنساء حوله فطأطأ عليه أسامة فقبله ورسول الله صلى الله عليه وسلم لا يتكلم فجعل يرفع يديه إلى السماء ثم يصبهما على أسامة، فأعرف أنه كان يدعو لي قال أسامة: فرجعت إلى معسكري، فلما أصبح يوم الاثنين غدا من معسكره وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم مفيقا فجاءه أسامة فقال اغد على بركة الله، فودعه أسامة ورسول الله صلى الله عليه وسلم مفيق مريح وجعلت نساءه يتماشطن سرورا براحته، ودخل أبو بكر الصديق فقال: يا رسول الله أصبحت مفيقا بحمد الله، واليوم يوم ابنة خارجة فأذن لي فأذن له، فذهب إلى السنح وركب أسامة إلى معسكره وصاح في أصحابه باللحوق إلى العسكر، فانتهى إلى معسكره ونزل وأمر الناس بالرحيل وقد منع النهار، فبينا أسامة بن زيد يريد أن يركب من الجرف أتاه رسول أم أيمن وهي أمه تخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يموت، فأقبل أسامة إلى المدينة ومعه عمر وأبو عبيدة بن الجراح فانتهوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يموت فتوفي صلى الله عليه وسلم حين زاغت الشمس يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلة خلت من ربيع الأول، ودخل المسلمون الذين عسكروا بالجرف إلى المدينة، ودخل بريدة بن الحصيب بلواء أسامة معقودا حتى أتى به باب رسول الله صلى الله عليه وسلم فغرزه عنده، فلما بويع لأبي بكر أمر بريدة أن يذهب باللواء إلى بيت أسامة ولا يحله حتى يغزوهم أسامة فقال بريدة: فخرجت باللواء حتى انتهيت به إلى بيت أسامة ثم خرجت به إلى الشام معقودا مع أسامة، ثم رجعت به إلى بيت أسامة فما زال معقودا في بيت أسامة حتى توفي أسامة فلما بلغ العرب وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وارتد من ارتد منها عن الإسلام قال أبو بكر لأسامة أنفذ في وجهك الذي وجهك فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأخذ الناس بالخروج وعسكروا في موضعهم الأول، وخرج بريدة باللواء حتى انتهى إلى معسكرهم الأول، فشق على كبار المهاجرين الأولين ودخل على أبي بكر عمر وعثمان وأبو عبيدة وسعد ابن أبي وقاص وسعيد بن زيد فقالوا: يا خليفة رسول الله إن العرب قد انتقضت عليك من كل جانب وإنك لا تصنع بتفريق هذا الجيش المنتشر شيئا اجعلهم عدة لأهل الردة ترمي بهم في نحورهم، وأخرى لا تأمن على أهل المدينة أن يغار عليها وفي الذراري والنساء فلو استأنيت بغزو الروم حتى يضرب الإسلام بجرانه ويعود أهل الردة إلى ما خرجوا منه أو يفنيهم السيف ثم تبعث أسامة حينئذ فنحن نأمن الروم أن تزحف إلينا؟ فلما استوعب أبو بكر كلامهم قال: هل منكم أحد يريد أن يقول شيئا؟ قالوا: لا قد سمعت مقالتنا فقال: والذي نفسي بيده لو ظننت أن السباع تأكلني بالمدينة لأنفذت هذا البعث ولا بدأت بأول منه كيف ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عليه الوحي من السماء يقول: " أنفذوا جيش أسامة" ولكن خصلة أكلم بها أسامة أكلمه في عمر يخلفه يقيم عندنا فإنه لا غنى بنا عنه، والله ما أدري يفعل أسامة أم لا، والله إن أبى لا أكرهه فعرف القوم أن أبا بكر قد عزم على إنفاذ بعث أسامة، ومشى أبو بكر إلى أسامة في بيته فكلمه في أن يترك عمر ففعل أسامة، وجعل يقول له: اذنت ونفسك طيبة؟ فقال أسامة: نعم، قال: وخرج فأمر مناديه ينادي: عزمة مني أن لا يتخلف عن أسامة من بعثه من كان انتدب معه في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني لن أوتى بأحد أبطأ عن الخروج معه إلا ألحقته به ماشيا، وأرسل إلى النفر من المهاجرين الذين كانوا تكلموا في إمارة فغلظ عليهم وأخذهم بالخروج، فلم يتخلف عن البعث إنسان واحد، وخرج أبو بكر يشيع أسامة والمسلمين، فلما ركب أسامة من الجرف في أصحابه وهم ثلاثة آلاف رجل، وفيهم ألف فرس، فسار أبو بكر إلى جنب أسامة ساعة ثمن قال: استودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك، إني سمعت رسول الله يوصيك فأنفذ لأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني لست آمرك ولا أنهاك عنه، إنما منفذ لأمر أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج سريعا فوطئ بلادا هادئة لم يرجعوا عن الإسلام مثل جهينة وغيرها من قضاعة، فلما نزل وادي القرى قدم عينا له من بني عذرة يدعى حريثا فخرج على صدر راحلته أمامه منفذا حتى انتهى إلى أبنى فنظر إلى ما هناك وارتاد الطريق، ثم رجع سريعا حتى لقي أسامة على مسيرة ليلتين من أبنى، فأخبره أن الناس غارون ولا جموع لهم وأمره أن يسرع السير قبل أن تجتمع الجموع وأن يشنها غارة. "كر"
30266 ۔۔۔ ” مسند صدیق “ واقدی عبداللہ بن جعفر بن عبدالرحمن بن ازھر بن عوف زہری عروہ کی سند سے حضرت اسامہ بن زید (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم دیا کہ اہل ابنی پر صبح صبح حملہ کریں اور ان کے اموال (گھر وغیرہ) جلا دیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ سے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام لے کر کوچ کر جاؤ اور آپ نے اپنے دست اقدس پرچم کو گرہیں لگا کر بریدہ بن حصیب اسلمی (رض) کو عطا کیا بریدہ (رض) پرچم لے کر اسامہ (رض) کی طرف چل پڑے حضرت اسامہ بن زید (رض) نے لشکر کا پہلا پڑاؤ مقام جرف میں کیا چنانچہ لوگ مدینہ سے نکل کر جرف میں لشکر کے ساتھ شامل ہوجاتے اور جسے کوئی تھوڑی بہت مشغولیت ہوتی یا کوئی کام ہوتا وہ فارغ ہو کر لشکر سے جا ملتا چنانچہ مہاجریں سابقین و اولین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس لشکر میں شامل نہ ہواہو حتی کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ، ابو عبیدہ ، سعد بن ابی وقاص ، ابو اعور ، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) اجمعین جیسے عمائدین اسلام بھی اس لشکر میں شامل تھے اس لشکر میں قتادہ بن نعمان اور سلمہ بن اسلم بن حریش بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے جبکہ مہاجرین میں سے بعض لوگ حضرت اسامہ بن زید (رض) کی امارت کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے لگے اس میں عباس بن ابی ربیعہ (رض) پیش پیش تھے اور کہتے تھے اس لڑکے کو مہاجرین اولین پر امیر بنادیا گیا ہے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سن کر پرزور تردید کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر شکایت کی اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت غصہ آیا آپ (بیماری کی حالت ہی میں) گھر سے باہر تشریف لائے آپ نے سر مبارک پر پٹی باندھ رکھی تھی اور اپنے اوپر چادر اوڑھی ہوئی تھی پھر منبر پر تشریف لے گئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثناء کی اور پھر فرمایا : امابعد ! اے لوگو ! میں کچھ چہ میگوئیاں سن رہا ہوں جو اسامہ کو امیر مقرر کرنے پر کی جا رہی ہیں اگر تم نے اسامہ کو امیر مقرر کرنے پر طعنے دیئے ہیں تو قبل ازیں تم لوگ اس کے باپ کو امیر مقرر کرنے پر طعنے دے چکے ہو بلاشبہ اس کا باپ امارت کا سزاوار تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کا سزاوار ہے اس کا باپ مجھے محبوب تھا اور یہ بھی مجھے محبوب ہے یہ دونوں (باپ بیٹا) طالب خیر ہیں لہٰذا تمہیں اسامہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہیے چونکہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہوگئے یہ واقعہ بروز ہفتہ 10 ربیع الاول کا ہے اس کے بعد مسلمانوں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو الوداع کہہ کر اسامہ (رض) کے پاس (صرف میں) چلے جاتے ، رخصت ہونے والوں میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے فرمایا : اسامہ کے لشکر کو بھیج دو اسی اثناء میں ام ایمن (اسامہ (رض) کی والدہ محترمہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں داخل ہوئیں اور عرض کی : یا رسول اللہ ! اگر آپ اسامہ کو یہیں لشکر گاہ ہی میں عارضی طور پر قیام کی اجازت مرحمت فرما دیں حتی کہ آپ کی صحت اچھی ہوجائے چونکہ اگر وہ آپ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا گیا اس کے دل میں آپ کے متعلق تردد رہے گا ؟ آپ نے فرمایا : اسامہ کے لشکر کو جانے دو چنانچہ جو لوگ پس وپیش میں تھے وہ بھی لشکر سے جا ملے یوں گیارہ ربیع الاول کی رات لوگوں نے لشکر گاہ میں گزاری پھر اتوار کو حضرت اسامہ بن زید (رض) خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کا بدن بیماری کی وجہ سے بوجھل ہوا جا رہا تھا اور آپ پر غشی بھی طاری ہوجاتی تھی اسی دن لوگوں نے آپ کو لدود (ایک دوائی) پلایا تھا چنانچہ اسامہ (رض) آپ کے پاس داخل ہوئے جبکہ اسامہ (رض) کی آنکھیں اشکبار تھیں آپ کے پاس حضرت عباس (رض) تھے اور آپ کے اردگرد عورتیں جمع تھیں حضرت اسامہ بن زید (رض) نے قریب پہنچ کر سر جھکا لیا اور آپ کا بوسہ لیا جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بات نہیں کرسکتے تھے آپ دونوں ہاتھ اوپر آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر حضرت اسامہ بن زید (رض) پر ڈال دیتے اسامہ (رض) کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ آپ میرے لیے دعا کر رہے ہیں بالآکر میں لشکر گاہ میں چلا گیا پیر کی صبح اسامہ (رض) اپنی لشکرگاہ میں تھے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آج صبح افاقہ تھا اسامہ (رض) خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا نام لے کر روانہ ہوجاؤ ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ : حضرت اسامہ بن زید (رض) نے آپ کو الوداع کہا آپ کو افاقہ تھا اور عورتوں نے آپ کو افاقہ میں دیکھ کر کنگھی کرنی شروع کردی اور عورتیں خوش ہوگئیں اتنے میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی تشریف لائے اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آج آپ کو افاقہ ہے آج میری ابن خارجہ کے ہاں جانے کی باری ہے آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں چنانچہ آپ نے ابوبکر (رض) کو اجازت مرحمت فرمائی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) مقام سخ کی طرف روانہ ہوگئے اور ادھر اسامہ (رض) بھی اپنی لشکر گاہ کی طرف چل پڑے اور لوگوں کو بھی لشکر سے جا ملنے کا حکم دیا جب لشکر گاہ میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کرکے کوش کرنے کا حکم دیا حتی کہ کوچ کی تیاریاں مکمل ہوگئیں حضرت اسامہ بن زید (رض) سوار ہو کر بس کوچ کرنے لگے تھے کہ اتنے میں ام ایمن (اسامہ (رض) کی والدہ) کا قاصد پہنچ گیا اس نے پیغام دیا کہ ام ایمن کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ آخری وقت ہے چنانچہ حضرت اسامہ بن زید (رض) سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت ابو عبیدہ (رض) مدینہ واپس لوٹ آئے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے آپ دنیا سے رخصت ہوئے جا رہے تھے چنانچہ جب سورج بلند ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ یہ 12 ربیع الاول سوموار کا دن تھا مسلمانوں کا جو لشکر مقام صرف میں جمع تھا وہ بھی مدینہ میں واپس لوٹ آئے حضرت بریدہ اسلمی (رض) بھی لپٹا ہوا جھنڈا لے کر واپس لوٹ آئے اور جھنڈا لا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر گاڑ دیا جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ہاتھ پر بیعت ہوگئی تو آپ (رض) نے بریدہ (رض) کو حکم دیا کہ پرچم اسامہ (رض) کے گھر لے جاؤ اور اسے کھولنا نہیں چنانچہ میں جھنڈا لے کر اسامہ کے پاس گیا پھر یہ جھنڈا اسی حالت میں میں لے کر بسوئے شام گیا اور جھنڈا برابر لپٹا رہا پھر یہ جھنڈا لے کر میں اسامہ (رض) کے گھر آیا اور اسی حالت میں ان کے گھر رہا حتی کہ اسامہ (رض) دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ جب عرب کے طول وعرض میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر پہنچی تو بہت سارے لوگ اسلام سے برگشتہ ہوگئے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے کہا تم اسی مہم کے لیے روانہ ہوجاؤ جس کے لیے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا چنانچہ لوگ پہلی لشکر گاہ مقام جرف میں جمع ہونے شروع ہوئے بریدہ (رض) بھی پرچم لے کر لشکر گاہ میں تشریف لائے ، قبائل کی ارتدادی حالت دیکھ کر مہاجرین اولین نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کے لشکر کو مہم کے لیے جانا مناسب نہ سمجھا حتی کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ، سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) ابو عبیدہ (رض) سعد بن ابی وقاص (رض) اور سعید بن زید (رض) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! مرتدین نے چاروں طرف سے پر تولنے شروع کردیئے ہیں لہٰذا اس لشکر کا جانا حالات کے موافق نہیں فی الحال آپ لشکر کو مرتدین کے فتنہ کو رفو کرنے کے لیے بھیجیں تاکہ آپ مرتدین کے فتنہ کا سد باب کرسکیں دوسری بات یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ لشکر میں چلے جائیں گے پیچھے مدینہ خالی رہ جائے گا کیا معلوم عورتوں اور بچوں پر کوئی حملہ کر دے یوں جب داخلی شورش ختم ہوجائے گی اور مرکز پر کسی قسم کی یلغار کا امکان نہیں رہے گا تب آپ اسامہ کے لشکر کو روانہ کردیں ، جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی گفتگو سنی فرمایا : کیا تم میں سے کسی اور شخص نے بھی کچھ کہنا ہے ؟ انھوں نے عرض کی : نہیں ہم نے جو کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر مجھے چرند پرند مدینہ میں نوچ لیں میں تب بھی اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں کا یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی رہی ہے اور آپ آخر وقت تک اس لشکر کے روانہ کرنے کی تاکید فرماتے رہے ہیں البتہ میں اسامہ سے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے متعلق بات کروں گا کہ وہ عمر کو ہمارے پاس چھوڑ جائیں چونکہ عمر کے بغیر ہمارا کوئی چارہ کار نہیں بخدا مجھے معلوم نہیں اسامہ ایسا کرے گا یا نہیں ۔ اسامہ (رض) کی امارت پر اظہار اطمینان : چنانچہ سب ہی لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ اسامہ (رض) کے لشکر کو روانہ کرنے کا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پختہ عزم کرلیا ہے ابوبکر (رض) اسامہ کے ساتھ ان کے گھر تک گئے اور سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو چھوڑ دینے کے متعلق گفتگو کی چنانچہ اسامہ (رض) نے عمر (رض) کو پیچھے چھوڑ دیا حتی کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسامہ (رض) سے کہا : کیا تم خوشی سے عمر کو پیچھے رہنے کی اجازت دیتے ہو ؟ عرض کی : جی ہاں پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اعلان عام کرایا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اس لشکر کے لیے نکلا تھا وہ ضرور جائے اور پیچھے نہ رہے اگر میں نے کسی کو پیچھے پالیا میں اسے پیادہ لشکر سے ملاؤں گا جن حضرات مہاجرین نے اسامہ (رض) کی امارت پر تنقید کی تھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے انھیں سختی سے ڈانٹا اور لشکر کے ساتھ جانے کا حکم دیا ، چنانچہ لشکر سے پیچھے کوئی شخص نہ رہا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اسامہ (رض) اور مسلمانوں کے ساتھ مشابہت کے لیے چلے لشکر میں تین ہزار افراد شامل تھے ان میں سے ایک ہزار گھوڑا سوار تھے مقام جرف سے جب لشکر نے جمع کیا اسامہ (رض) اپنی سواری پر سوار ہوئے ابوبکر (رض) ان کے ساتھ تھوڑا آگے تک چلتے رہے اور فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو نافذ کیا ہے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام تر نصیحت کردی ہے میں تمہیں مزید کچھ حکم نہیں دیتا اور نہ منع کرتا ہوں اسامہ (رض) منزل بہ منزل آگے بڑھتے گئے جب کہ قبیلہ جہنیہ اور قضاعہ تقریبا پورا ہی اسلام سے برگشتہ ہوگیا تھا جب اسامہ (رض) مقام وادی القری میں پہنچے تو یہاں سے ایک جاسوس روانہ کیا یہ جاسوس بنی عذرہ کا ایک حریث نامہ آدمی تھا چنانچہ جاسوس اونٹنی پر سوار ہو کر لشکر سے پہلے ہی روانہ ہوگیا اور ابنی جا پہنچا یوں راستہ اور حالات کا جائز لے کر جاسوس واپس لوٹ آیا اور ابنی سے دو دن کی مسافت کی دوری پر اسامہ (رض) سے ملاقات ہوئی اس نے خبر دی کہ دشمن غفلت میں ہے اور دشمن نے ہمارے خلاف کوئی جمعیت اکٹھی نہیں کی جاسوس نے یہ بھی کہا کہ اب تمہیں وقت ضائع کیے بغیر بہت جلد منزل مقصود تک پہنچ جانا چاہیے تاکہ دشمن کو جمع ہونے کی فرصت نہ ملے اور یوں ان پر دفعۃ حملہ ہوجائے ۔ (رواہ ابن عساکر)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔