HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2541

۲۵۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائً یَقُوْلُ: صَلّٰی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِأَصْحَابِہٖ فَسَلَّمَ فِیْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ‘ فَقِیْلَ لَہٗ ذٰلِکَ فَقَالَ : : إِنِّیْ جَہَّزْتُ عِیْرًا مِنَ الْعِرَاقِ بِأَحْمَالِہَا وَأَحْقَابِہَا حَتّی وَرَدْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَصَلّٰی بِہِمْ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ .فَدَلَّ تَرْکُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَا قَدْ عَلِمَہٗ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا وَعَمَلُہُ بِخِلَافِہٖ عَلٰی نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ‘ وَعَلٰی أَنَّ الْحَکَمَ کَانَ فِیْ تِلْکَ الْحَادِثَۃِ فِیْ زَمَنِہِ‘ بِخِلَافِ مَا کَانَ فِیْ یَوْمِ ذِی الْیَدَیْنِ .وَقَدْ کَانَ فِعْلُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا أَیْضًا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْنَ قَدْ حَضَرَ بَعْضُہُمْ فِعْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَلَمْ یُنْکِرُوْا ذٰلِکَ عَلَیْہٖ‘ وَلَمْ یَقُوْلُوْا لَہٗ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ خِلَافَ مَا فَعَلْتُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا عَمِلُوْا مِنْ نَسْخِ ذٰلِکَ‘ مَا قَدْ کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلِمَہٗ. وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ‘ وَأَنَّ الْعَمَلَ عَلٰی خِلَافِہٖ‘ أَنَّ الْأُمَّۃَ قَدِ اجْتَمَعَتْ أَنَّ رَجُلًا لَوْ تَرَکَ إِمَامُہُ مِنْ صَلَاتِہِ شَیْئًا‘ أَنَّہٗ یُسَبِّحُ بِہٖ، لِیُعْلِمَ إِمَامَہُ مَا قَدْ تَرَکَ‘ فَیَأْتِیْ بِہٖ، وَذُو الْیَدَیْنِ فَلَمْ یُسَبِّحْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ وَلَا أَنْکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلَامَہُ إِیَّاہُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ مَا عَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ مِنَ التَّسْبِیْحِ لِنَائِبَۃٍ تَنُوْبُہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ کَانَ مُتَأَخِّرًا عَنْ ذٰلِکَ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَیْضًا وَعِمْرَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا یَدُلُّ عَلَی النَّسْخِ وَذٰلِکَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (سَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ مَضٰی إِلٰی خَشَبَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ) .وَقَالَ عِمْرَانُ : (ثُمَّ مَضٰی إِلٰی حُجْرَتِہِ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ صَرَفَ وَجْہَہُ عَنِ الْقِبْلَۃِ‘ وَعَمِلَ عَمَلًا فِی الصَّلَاۃِ لَیْسَ مِنْہَا‘ مِنَ الْمَشْیِ وَغَیْرِہٖ فَیَجُوْزُ ھٰذَا لِأَحَدِ ڑ الْیَوْمَ أَنْ یُصِیْبَہٗ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ بَقِیَتْ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاتِہٖ بَقِیَّۃٌ‘ فَلاَ یُخْرِجُہٗ ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : نَعَمْ‘ لَا یُخْرِجُہُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ لِأَنَّہٗ فَعَلَہٗ وَلَا یَرٰی أَنَّہٗ فِی الصَّلَاۃِ .لَزِمَہٗ أَنْ یَقُوْلَ : لَوْ طَعِمَ أَیْضًا أَوْ شَرِبَ وَھٰذِہٖ حَالَتُہٗ، لَمْ یُخْرِجْہُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ کَذٰلِکَ إِنَّ بَاعَ أَوِ اشْتَرٰی‘ أَوْ جَامَعَ أَہْلَہٗ۔فَکَفٰی بِقَوْلِہٖ فَسَادًا أَنْ یَلْزَمَ ھٰذَا قَائِلَہٗ۔فَإِنْ کَانَ شَیْئٌ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ یَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنْ صَلَاتِہٖ، إِنْ فَعَلَہٗ عَلٰی أَنَّہٗ یَرٰی أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہَا کَذٰلِکَ الْکَلَامُ الَّذِیْ لَیْسَ مِنْہَا یُخْرِجُہُ مِنْ صَلَاتِہٖ وَإِنْ کَانَ قَدْ تَکَلَّمَ بِہٖ، وَہُوَ لَا یَرٰی أَنَّہٗ فِیْہَا .وَقَدْ زَعَمَ الْقَائِلُ بِحَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ یَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ‘ وَیَجِبُ بِہِ الْعَمَلُ‘ فَقَدْ أَخْبَرَ ذُو الْیَدَیْنِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا أَخْبَرَہٗ بِہٖ، وَہُوَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ مَأْمُوْنٌ‘ فَالْتَفَتَ بَعْدَ إِخْبَارِہِ إِیَّاہُ بِذٰلِکَ إِلٰی أَصْحَابِہٖ فَقَالَ : (أَقَصَرْتِ الصَّلَاۃَ؟) .فَکَانَ مُتَکَلِّمًا بِذٰلِکَ بَعْد عِلْمِہٖ بِأَنَّہٗ فِی الصَّلَاۃِ‘ عَلٰی مَذْہَبِ ھٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ مُخْرِجًا لَہٗ مِنَ الصَّلَاۃِ .فَقَدْ لَزِمَہُ بِھٰذَا عَلٰی أَصْلِہٖ، أَنَّ ذٰلِکَ الْکَلَامَ‘ کَانَ قَبْلَ نَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ : (أَصَدَقَ ذُو الْیَدَیْنِ) قَالُوْا : نَعَمْ .وَقَدْ کَانَ یُمْکِنُہُمْ أَنْ یُّوْمِئُوْا إِلَیْہِ بِذٰلِکَ فَیَعْلَمَہٗ مِنْہُمْ‘ فَقَدْ کَلَّمُوْہُ بِمَا کَلَّمُوْہُ بِہٖ، عَلٰی عِلْمٍ مِنْہُمْ أَنَّہُمْ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ‘ وَلَمْ یَأْمُرْہُمْ بِالْاِعَادَۃِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا ذَکَرْنَا‘ مِمَّا کَانَ فِیْ حَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ‘ کَانَ قَبْلَ نَسْخِ الْکَلَامِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ھٰذَا قَبْلَ نَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ وَأَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ حَاضِرًا ذٰلِکَ وَإِسْلَامُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا کَانَ قَبْلَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثِ سِنِیْنَ؟ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٥٤١: عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی اور دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور واپس لوٹ گئے تو لوگوں نے بتلایا تو انھوں نے فرمایا میں نے عراق سے ایک قافلہ ان کے بوجھ اور گھاٹیوں سمیت تیار کر کے مدینہ منورہ پہنچایا پھر آپ نے ان کو چار رکعت نماز پڑھائی تو فاروق (رض) کا اس فعل کے خلاف کرنا جو ذوالیدین والے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اس وقت حکم تھا اور نسخ کی وجہ سے اب وہی حکم ہے جو انھوں نے کیا ہے اور حضرت عمر (رض) کا یہ فعل صحابہ کرام (رض) کے سامنے تھا جن میں بہت سی تعداد ذوالیدین کے واقعہ میں موجود تھی انھوں نے انکار نہیں کیا اور نہ اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کے خلاف قرار دیا اس سے یہ بات مزید روشن ہوگئی کہ ان کو بھی نسخ کا علم ہوچکا تھا جو کہ عمر (رض) کو تھا۔ حضرت عمر (رض) کا اس پر عمل کو ترک کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایسے مواقع پر ان کو جو فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا وہ منسوخ ہوچکا تھا تبھی انھوں نے اس کے خلاف عمل کیا اور آپ کا اس حادثہ کے سلسلہ میں وہی عمل تھا جو حضرت عمر (رض) نے اختیار کیا بخلاف اس عمل کے جو حضرت ذوالیدین والے واقعہ میں پیش آیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) یہ عمل صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں کی جبکہ ان میں سے کئی حضرات خود واقعہ ذوالیدین کے موقعہ پر موجود تھے۔ مگر انھوں نے اس عمل میں فاروق اعظم (رض) کی مخالفت نہ کی اور یہ بھی نہ کہا کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوالیدین والے دن کے عمل کے خلاف ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کو بھی حضرت عمر (رض) کی طرح نسخ والے حکم کا علم تھا اور اس کے خلاف حکم پر ہی عمل کیا جائے گا۔ اس بات پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ اگر امام نماز میں سے کوئی چیز ترک کر دے تو وہ تسبیح کہے تاکہ اس کے امام کو اپنی کوتاہی کا علم ہوجائے اور وہ اس کا تدارک کرلے اور حضرت ذوالیدین نے نہ تو تسبیح کہی اور نہ اس کلام کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انوکھا سمجھا۔ پس اس سے بھی یہ دلالت میسر آگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جو تسبیح وغیرہ نماز میں پیش آنے والی غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے سکھائی وہ اس سے بعد کا معاملہ ہے اور حضرت ابوہریرہ اور عمران (رض) کی روایات میں ایسی دلالت ملتی ہے جو اس حکم کے نسخ کو ظاہر کرتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا ‘ پھر آپ مسجد میں ایک لکڑی کی طرف تشریف لے گئے اور حضرت عمران (رض) کہتے ہیں کہ آپ اپنے حجرہ مبارک کی طرف چل دیے۔ اس سے کم از کم یہ دلالت میسر آگئی کہ آپ کا چہرہ مبارک قبلہ سے پھر گیا اور آپ نے نماز میں ایسا عمل کیا جو نماز کا حصہ نہیں یعنی چلنا وغیرہ۔ پس آپ ہی بتلائیں کہ کیا آج کسی شخص کو یہ بات پیش آجائے تو اس کی نماز باقی رہ جائے گی اور وہ نماز سے نہ نکلے گا۔ پھر اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ ہاں اس کا یہ عمل اس کو نماز سے نہ نکالے گا کیونکہ یہ عمل کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو نماز میں مشغول نہیں سمجھتا۔ (ہم جواب میں کہیں گے) اگر بات اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں تو اس کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ بھی کہے کہ اگر اس سے کھا پی لیا تو اس کی یہ حالت اسے نماز سے خارج نہ کرے گی۔ اسی طرح اگر اس نے خریدو فروخت کی یا اپنے بیوی سے قربت کی تو تب بھی وہ نماز سے نہ نکلے گا۔ اس قائل کے قول کے فاسد ہونے کے لیے یہ لازم آنے والی بات کافی ہے۔ پس اگر یہ چیزیں اس نمازی کو نماز سے خارج کردیتی ہیں خواہ اس نے یہ خیال کر کے کی ہیں کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اپنی دلیل میں حدیث ذوالیدین کو پیش کیا ان کا خیال یہ ہے کہ خبر واحد سے حجت قائم ہو کر عمل لازم ہوجاتا ہے۔ حضرت ذوالیدین (رض) آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص ہیں وہ صحابی ہونے کے ناطے اس خبر دینے میں مامون و محفوظ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خبر دینے پر دیگر صحابہ کرام (رض) کی طرف التفات فرمائی۔ حضرت ذوالیدین (رض) نے کہا ” أقصرت الصلاۃ ام نسیت۔۔۔“ (الحدیث) وہ یہ کلام اس حالت میں کر رہے تھے کہ بقول اس قائل کے وہ اپنے آپ کو نماز میں خیال کر رہے تھے۔ پس یہ کلام ان کو نماز سے نکالنے والا نہ تھا۔ تو اصل قاعدہ کے مطابق اس پر یہ لازم آیا کہ یہ گفتگو نماز میں کلام کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا۔ کیا ذوالیدین نے درست کہا ؟ تو انھوں کہا جی ہاں۔ حالانکہ صحابہ کرام (رض) کے لیے ممکن تھا کہ وہ آپ کو اشارہ کر کے بتلا دیتے جس سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتا مگر انھوں نے مگر انھوں نے یہ جانتے ہوئے کلام کیا جو کلام کیا کہ وہ نماز میں نہیں۔ آپ نے ان کی اس بات کا انکار نہیں کیا اور نہ ان کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذی الیدین کی روایت میں جو کچھ مذکور ہے۔ وہ نماز میں گفتگو کے منسوخ سے پہلے کی بات ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ نسخ کلام کا حکم ملنے سے پہلے کا واقعہ نہیں کیونکہ ابوہریرہ (رض) اس میں خود موجود تھے اور ابوہریرہ (رض) کے اسلام کا زمانہ وفات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سال پہلے کا ہے۔ جیسا کہ روایت ذیل میں ہے۔
نسخ پر دوسرا استشہاد :
امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز پڑھے اور اس کا امام نماز میں سے کوئی چیز چھوڑ جائے تو اسے تسبیح کہنی ہوگی تاکہ امام کو معلوم ہوجائے کہ اس سے یہ چیز رہ گئی ہے اور وہ اسے کرلے اور ذوالیدین نے اس دن کوئی تسبیح نہ کہی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے کلام اور اس کے ساتھ کلام کو برا خیال نہیں کیا بلکہ دوسروں سے بھی دریافت کیا اس سے یہ دلالت ملتی ہے کہ لوگوں کو غلطی پر خبردار کرنے کے لیے تسبیح کی تعلیم اس سے متأخر ہے۔
ایک اور قرینہ نسخ :
روایت ابوہریرہ (رض) اور عمران (رض) میں بھی نسخ کا قرینہ موجود ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعتوں پر سلام پھیرا پھر مسجد میں گڑھی ہوئی ایک لکڑی کے پاس آپ جا کر کھڑے ہوگئے اور عمران کہتے ہیں کہ آپ حجرہ مبارک میں چلے گئے۔ (بخاری باب ٥‘ مسلم نمبر ١٠٢)
اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اپنا چہرہ قبلہ سے پھیرلیا تھا اور ایسا عمل کیا تھا جو نماز کا حصہ نہ تھا مثلاً چلنا ‘ لکڑی کے پاس کھڑے ہونا ‘ حجرہ کی طرف جانا وغیرہ۔
آپ خود فیصلہ فرمائیں اگر کسی کو نماز میں کوئی معاملہ پیش آجائے تو آج یہ سب کچھ جائز ہے حالانکہ اب تک اس کی نماز کا کچھ حصہ باقی ہے کیا یہ حرکات اسے نماز سے خارج نہ کریں گی۔
بالفرض اگر کوئی کہے کہ جی ہاں ! یہ چیزیں نماز سے باہر نہ کریں گی کیونکہ جب اس نے یہ کیا تو وہ اپنے آپ کو نماز میں خیال نہیں کرتا تھا۔
تو پھر ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ اگر وہ کھالے اور پی لے اور ایسی حالت بھی پیش آجائے تو یہ سب اسے نماز سے خارج نہ کریں گی بلکہ اگر اس نے خریدو فروخت اور جماع بھی کرلیا تو کیا تب بھی نماز کے لیے یہ چیزیں مفسد نہ ہوں گی ؟ تو اس آدمی کی غلطی اظہر من الشمس ہے۔
پس یہ مذکورہ اشیاء اگر آدمی کو ایسی حالت میں نماز سے خارج کردیتی ہیں جبکہ وہ یہ خیال کر کے کرے کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔ اسی طرح وہ کلام جو نماز سے نہ ہو وہ اس کو اس کی نماز سے نکال دے گی اگرچہ وہ کلام اس نے یہ نہ سمجھ کر کی ہو کہ وہ نماز میں ہے۔
ایک ضمنی سوال قدزعم الی اخرہ۔ اور جواب۔
حدیث ذوالیدین سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر واحد حجت اور قابل استدلال ہے۔
جواب : مگر یہ استدلال کمزور ہے البتہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو اس صحابی کی خبر کی بات تھی جو جھوٹ سے مامون ہیں عام لوگوں کی خبر پر اس سے استدلال درست نہیں دوسری بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے صحابہ سے پوچھا کہ ذوالیدین درست کہہ رہا ہے یا نہیں۔ تو یہ تو خبرواحد کے مستدل نہ ہونے کی دلیل بن گئی حاصل جواب یہ ہوا کہ جب دوران میں کھانا پینا درست نہیں تو کلام بھی درست نہیں یہ زمانہ نسخ سے پہلے کی بات ہے۔
ایک اور جواب سنئے۔
ذوالیدین نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا مگر پھر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیگر صحابہ کرام (رض) سے دریافت کیا تو سب نے ذوالیدین کی تصدیق کی حالانکہ اشارے سے بھی معلوم ہوسکتا تھا آپ کا زبانی دریافت کرنا اور صحابہ کرام (رض) کا زبانی جواب دینا اور آپ کا ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہ دینا یہ سب ایسے معاملات ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ یہ واقعہ کلام فی الصلاۃ کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے اس لیے اس سے استدلال چنداں درست نہیں۔
ایک اور اشکال :
حدیث ذوالیدین کا نسخ سے پہلے ہونا کیوں کر ممکن ہے کہ وہ واقعہ ذوالیدین میں خود موجود ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) تو وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سال پہلے اسلام لائے پس ذوالیدین کا واقعہ ٧ ہجری کے بعد پیش آیا ہوگا اور کلام فی الصلاۃ تو مکہ مکرمہ میں منسوخ ہوچکا تھا پس حدیث ذوالیدین کو منسوخ نہیں کہا جاسکتا۔ روایت ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔