HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4216

۴۲۱۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ فِیْ رَجُلٍ أَعْتَقَ أَمَتَہٗ، وَجَعَلَ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا ، ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : عَلَیْہَا أَنْ تَسْعَی فِیْ نِصْفِ قِیْمَتِہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ہٰذَا عَلٰی أَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، أَنَّ مَا ذَکَرَہٗ مِنْ وُجُوْبِ السِّعَایَۃِ عَلَیْہَا ، اِذَا أَبَتْ فِیْ قِیْمَتِہَا ، قَدْ قَالَ ہُوَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا فَمَا لَزِمَہُمَا مِنْ ذٰلِکَ فِیْ قَوْلِہَا اِذَا أَجَابَتْ اِلَی التَّزْوِیْجِ ، فَہُوَ لَازِمٌ لَہُمَا .وَأَمَّا زُفَرُ فَکَانَ یَقُوْلُ : لَا سِعَایَۃَ عَلَیْہِمَا اِذَا أَبَتْ لِأَنَّہٗ وَاِنْ کَانَ شَرَطَ عَلَیْہَا النِّکَاحَ فِیْ أَصْلِ الْعَتَاقِ ، فَاِنَّمَا شَرَطَ ذٰلِکَ عَلَیْہَا بِبَدَلٍ شَرَطَہُ لَہَا عَلٰی نَفْسِہٖ، وَہُوَ الصَّدَاقُ الَّذِیْ یَجِبُ لَہَا فِیْ قَوْلِہٖ اِذَا أَجَابَتْ ، فَکَانَ الْعَتَاقُ وَاقِعًا عَلَیْہَا لَا بِبَدَلٍ ، وَالنِّکَاحُ الْمَشْرُوْطُ عَلَیْہَا لَہُ بَدَلٌ ، غَیْرُ الْعَتَاقِ .فَصَارَ ذٰلِکَ ، کَرَجُلٍ أَعْتَقَ عَبْدَہُ عَلٰی أَنْ یَخْدُمَہُ سَنَۃً بِأَلْفِ دِرْہَمٍ ، فَقَبِلَ ذٰلِکَ الْعَبْدُ ثُمَّ أَبَی أَنْ یَخْدُمَہٗ، فَلَا شَیْئَ لَہٗ عَلَیْہِ، لِأَنَّہٗ لَوْ خَدَمَہٗ، لَکَانَ یَسْتَحِقُّ عَلَیْہِ بِاسْتِخْدَامِہِ اِیَّاہُ أَجْرًا ، بَدَلًا مِنَ الْخِدْمَۃِ .فَکَذٰلِکَ اِذَا کَانَ مِنْ قَوْلِ زُفَرَ فِی الْأَمَۃِ الْمُعْتَقَۃِ عَلَی التَّزْوِیْجِ ، أَنَّہَا اِذَا أَجَابَتْ اِلَی التَّزْوِیْجِ ، وَجَبَ لَہَا مَہْرٌ بَدَلًا مِنْ بُضْعِہَا ، فَاِذَا أَبَتْ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہَا بَدَلٌ مِنْ رَقَبَتِہَا ، لِأَنَّ رَقَبَتَہَا عَتَقَتْ لَا بِبَدَلٍ ، وَاشْتُرِطَ عَلَیْہَا نِکَاحٌ بِبَدَلٍ .وَلَا یَثْبُتُ الْبَدَلُ مِنْ النِّکَاحِ ، اِلَّا بِثُبُوْتِ النِّکَاحِ ، کَمَا لَا یَثْبُتُ الْبَدَلُ عَلَی الْخِدْمَۃِ اِلَّا بِثُبُوْتِ الْخِدْمَۃِ .فَلَیْسَ بُطْلَانُہُمَا ، وَلَا بُطْلَانُ وَاحِدٍ مِنْہُمَا ، بِمُوْجِبٍ فِی الْعَتَاقِ الَّذِی وَقَعَ عَلٰی غَیْرِ شَیْئٍ بَدَلًا .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، کَمَا قَالَ زُفَرُ ، لَا کَمَا قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ کَانَ أَیُّوْبُ السِّخْتِیَانِیُّ ، یَذْہَبُ فِیْ تَزْوِیْجِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَفِیَّۃَ عَلَی عِتْقِہَا ، اِلَی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَزُفَرُ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ أَیْضًا .
٤٢١٦: اشعث (رح) نے حسن بصری (رح) سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو اپنی لونڈی کو آزاد کر دے جبکہ اس نے لونڈی کی آزادی کو اس کا مہر ٹھہرایا ہو۔ پھر اس نے اس عورت کو طلاق قبل از دخول دے دی (تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) تو فرمایا وہ عورت اپنی نصف قیمت کی ادائیگی کے لیے کام کاج کرے۔ اس میں امام ابو یوسف کے خلاف دلیل یہ ہے کہ انھوں نے عورت کے نکاح سے انکار کی صورت میں اپنی قیمت کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت کو لازم قرار دیا ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) نے نکاح کو قبول کرلینے کی صورت میں اسی کو واجب قرار دیا ہے۔ امام زفر (رح) فرماتے ہیں کہ اگر عورت شادی سے انکار کرے تو اس پر سعی و مشقت لازم نہیں کیونکہ آزادی کے سلسلہ میں اس پر نکاح کی شرط اگرچہ رکھی گئی ہے مگر یہ اس شرط کے بدلے میں ہے جو اس عورت کی طرف سے مرد پر لازم آتی ہے یعنی وہ مہر جو قبولیت نکاح کی صورت میں عورت کے لیے (مرد کے ذمہ) لازم ہوگا تو گویا عورت کو آزادی بغیر کسی عوض کے حاصل ہوگئی اور مرد نے جس نکاح کی شرط رکھی ہے اس کے لیے آزادی کے علاوہ بدل ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جس نے اپنا غلام اس شرط پر آزاد کیا کہ وہ ایک ہزار درہم کے بدلے ایک سال اس کی خدمت کرے گا غلام نے شرط منظور کرلی پھر خدمت سے انکار کردیا تو اس کے ذمہ کچھ بھی واجب نہ ہوگا کیونکہ اگر وہ اس کی خدمت کرتا تو اس کے بدلے میں وہ اجرت کا حقدار ٹھہرتا جو کہ خدمت کا بدل قرار پاتا بالکل اسی طرح نکاح کی شرط پر آزاد کی گئی لونڈی کے متعلق بھی حکم یہی ہوگا کہ جب وہ عورت نکاح کو قبول کرے تو اس کے بضع کے بدلے میں مرد پر مہر واجب ہوگا اور اگر وہ انکار کر دے تو آزادی کی وجہ سے اس پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا کیونکہ اسے کسی عوض کے بغیر آزاد کیا گیا اور نکاح کی شرط بدل کے ساتھ رکھی گئی ہے (اصل کے ساتھ نہیں) نکاح کا بدل تب ثابت ہوگا جب نکاح ثابت ہوگا جس طرح کہ خدمت کا بدل خدمت کرنے کی صورت میں ثابت ہوتا ہے (اس کے بغیر نہیں) پس ان دونوں یعنی ثبوت نکاح اور ثبوت خدمت کا بطلان یا ایک کا بطلان آزادی کے سلسلہ میں کسی چیز کو واجب نہیں کرتا کیونکہ وہ بدل سے واقع ہوتی ہے اس باب میں قیاس اسی طرح ہے جس طرح کہ امام زفر (رح) نے فرمایا۔ مگر یہ امام زفر (رح) کی نظری دلیل ہے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کیں ظری دلیل نہیں۔ ایوب سختیانی (رح) نے کہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ (رض) سے جس طرح نکاح کیا اس سلسلہ میں ایوب سختیانی (رح) نے امام ابوحنیفہ ‘ امام زفر ‘ محمد (رح) کا مؤقف ہی اختیار کیا ہے۔ اثر ملاحظہ ہو۔ حضرت عائشہ (رض) نے اس آزادی کی نوعیت خوب واضح کردی جس کا تذکرہ روایت ابن عمر (رض) میں موجود ہے کہ اس آزادی کے بدلے میں آپ نے ان سے نکاح کیا اور اس کو مہر قرار دیا اس کی کیفیت کیا تھی دراصل وہ ان کی طرف سے بدل کتابت کی ادائیگی تھی جس پر انھوں نے آزادی کے لیے مکاتبت کی تھی پھر وہ آزادی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال کتابت کی ادائیگی سے حاصل ہوتی تھی وہ ان کا مہر قرار پائی جس کا تذکرہ ابن عمر (رض) کی روایت میں موجود ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی مکاتب کو اس کا بدل کتابت ادا کر دے اور یہ آزادی بدل کتابت ادا کرنے والے کی طرف سے مہر قرار پائے اور ہ وہ عورت مکاتبہ اس کی بیوی بن جائے۔ پس جب اس کو مہر قرار دینا آپ کی خصوصیت سے ہے امت کے لیے جائز نہیں تو جس آزادی کی آپ کو ولایت حاصل ہوئی اس کو مہر قرار دینا بھی آپ کے ساتھ خاص تھا امت کے لیے جائز نہیں۔ آثار کے انداز سے ہم نے اس باب کی صورت پیش کردی اب طریق نظر ملاحظہ ہو۔ امام ابو یوسف (رح) کا قول : میرے ہاں قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جس عورت کو اس شرط پر آزادی ملے کہ اس کی آزادی ہی مہر ہو اور اس کے ساتھ اور کچھ نہ ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ جب آزادی اس شرط پر واقع ہوئی ہے کہ وہ عورت اس آزاد کنندہ سے نکاح کرے گی پھر وہ عورت نکاح سے انکاری ہوگئی تو اب عورت پر لازم ہے کہ وہ ادائیگی قیمت کے لیے محنت و مشقت کرے کیونکہ نکاح سے انکار کی صورت میں جس چیز کے لیے اس پر محنت و مشقت لازم ہوئی ہے یہی چیز اس کے لیے مہر قرار پاتی اگر وہ نکاح سے انکار نہ کرتی۔ اگر وہ مرد (نکاح کی صورت میں) جماع کے بعد طلاق دے تو عورت پر نصف قیمت کے لیے مال کمانا ضروری ہوگا اس بات کو حضرت حسن بصری (رح) نے بھی ذکر فرمایا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔ امام یوسف (رح) کے قول کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے عورت کے نکاح سے انکار کی صورت میں اپنی قیمت کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت کو لازم قرار دیا ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) نے نکاح کو قبول کرلینے کی صورت میں اسی کو واجب قرار دیا ہے۔
امام زفر (رح) کی نظری دلیل :
امام زفر (رح) فرماتے ہیں کہ اگر عورت شادی سے انکار کرے تو اس پر سعی و مشقت لازم نہیں کیونکہ آزادی کے سلسلہ میں اس پر نکاح کی شرط اگرچہ رکھی گئی ہے مگر یہ اس شرط کے بدلے میں ہے جو اس عورت کی طرف سے مرد پر لازم آتی ہے یعنی وہ مہر جو قبولیت نکاح کی صورت میں عورت کے لیے (مرد کے ذمہ) لازم ہوگا تو گویا عورت کو آزادی بغیر کسی عوض کے حاصل ہوگئی اور مرد نے جس نکاح کی شرط رکھی ہے اس کے لیے آزادی کے علاوہ بدل ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جس نے اپنا غلام اس شرط پر آزاد کیا کہ وہ ایک ہزار درہم کے بدلے ایک سال اس کی خدمت کرے گا غلام نے شرط منظور کرلی پھر خدمت سے انکار کردیا تو اس کے لیے غلام کے ذمہ کچھ بھی واجب نہ ہوگا کیونکہ اگر وہ اس کی خدمت کرتا ہے تو اس کے بدلے میں وہ اجرت کا حقدار ٹھہرتا جو کہ خدمت کا بدل قرار پاتا بالکل اسی طرح نکاح کی شرط پر آزاد کی گئی لونڈی کے متعلق بھی حکم یہی ہوگا کہ جب وہ عورت نکاح کو قبول کرے تو اس کے بضع کے بدلے میں مرد پر مہر واجب ہوگا اور اگر وہ انکار کر دے تو آزادی کی وجہ سے اس پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا کیونکہ اسے کسی عوض کے بغیر آزاد کیا گیا اور نکاح کی شرط بدل کے ساتھ رکھی گئی ہے (اصل کے ساتھ نہیں) نکاح کا بدل تب ثابت ہوگا جب نکاح ثابت ہوگا جس طرح کہ خدمت کا بدل خدمت کرنے کی صورت میں ثابت ہوتا ہے (اس کے بغیر نہیں) پس ان دونوں یعنی ثبوت نکاح اور ثبوت خدمت کا بطلان یا ایک کا بطلان آزادی کے سلسلہ میں کسی چیز کو واجب نہیں کرتا کیونکہ وہ بدل سے واقع ہوتی ہے اس باب میں قیاس اسی طرح ہے جس طرح کہ امام زفر (رح) نے فرمایا۔ مگر یہ امام زفر (رح) کی نظری دلیل ہے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کی نظری دلیل نہیں۔
ایوب سختیانی (رح) کا مؤقف : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ (رض) سے جس طرح نکاح کیا اس سلسلہ میں ایوب سختیانی (رح) نے امام ابوحنیفہ ‘ امام زفر ‘ محمد (رح) کا مؤقف ہی اختیار کیا ہے۔ اثر ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔