HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4385

۴۳۸۵: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ طَاوٗسٍ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ أَبَا الصَّہْبَائِ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : أَتَعْلَمُ أَنَّ الثَّلَاثَ کَانَتْ تُجْعَلُ وَاحِدَۃً عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَثَلَاثًا مِنْ اِمَارَۃِ عُمَرَ ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : نَعَمْ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ0 ثَلَاثًا مَعًا ، فَقَدْ وَقَعَتْ عَلَیْہَا وَاحِدَۃٌ اِذَا کَانَتْ فِیْ وَقْتِ سُنَّۃٍ ، وَذٰلِکَ أَنْ تَکُوْنَ طَاہِرًا فِیْ غَیْرِ جِمَاعٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَقَالُوْا : لَمَّا کَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِنَّمَا أَمَرَ عِبَادَہُ أَنْ یُطَلِّقُوْا لِوَقْتٍ عَلَیْ صِفَۃٍ ، فَطَلَّقُوْا عَلٰی غَیْرِ مَا أَمَرَہُمْ بِہٖ ، لَمْ یَقَعْ طَلَاقُہُمْ .وَقَالُوْا : أَلَا تَرَوْنَ أَنَّ رَجُلًا لَوْ أَمَرَ رَجُلًا أَنْ یُطَلِّقَ امْرَأَتَہُ فِیْ وَقْتٍ عَلَیْ صِفَۃٍ ، فَطَلَّقَہَا فِیْ غَیْرِہٖ، أَوْ أَمَرَہٗ أَنْ یُطَلِّقَہَا عَلَی شَرِیْطَۃٍ ، فَطَلَّقَہَا عَلٰی غَیْرِ تِلْکَ الشَّرِیْطَۃِ ، أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَقَعُ ، اِذْ کَانَ قَدْ خَالَفَ مَا أَمَرَ بِہٖ. قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ الطَّلَاقُ ، الَّذِی أَمَرَ بِہٖ الْعِبَادَ ، فَاِذَا أَوْقَعُوْھُ کَمَا أُمِرُوْا بِہٖ ، وَقَعَ ، وَاِذَا أَوْقَعُوْھُ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ ، لَمْ یَقَعْ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَکْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ ، فَقَالُوْا : الَّذِی أَمَرَ بِہٖ الْعِبَادَ مِنْ اِیْقَاعِ الطَّلَاقِ ، فَہُوَ کَمَا ذَکَرْتُمْ ، اِذَا کَانَتِ الْمَرْأَۃُ طَاہِرًا ، مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ ، أَوْ کَانَتْ حَامِلًا ، وَأُمِرُوْا بِتَفْرِیْقِ الثَّلَاثِ اِذَا أَرَادُوْا اِیْقَاعَہُنَّ ، وَلَا یُوْقِعُوْنَہُنَّ مَعًا .فَاِذَا خَالَفُوْا ذٰلِکَ ، فَطَلَّقُوْا فِی الْوَقْتِ الَّذِی لَا یَنْبَغِی لَہُمْ أَنْ یُطَلِّقُوْا فِیْہِ، وَأَوْقَعُوْا مِنِ الطَّلَاقِ أَکْثَرَ مِمَّا أُمِرُوْا بِاِیْقَاعِہٖ، لَزِمَہُمْ مَا أَوْقَعُوْا مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُمْ آثِمُوْنَ فِیْ تَعَدِّیہِمْ مَا أَمَرَہُمْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ .وَلَیْسَ ذٰلِکَ کَالْوَکَالَاتِ ، لِأَنَّ الْوُکَلَائَ اِنَّمَا یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ لِلْمُوَکِّلِیْنَ ، فَیَحِلُّوْنَ فِیْ أَفْعَالِہِمْ تِلْکَ مَحَلَّہُمْ فَاِنْ فَعَلُوْا ذٰلِکَ کَمَا أُمِرُوْا لَزِمَ وَاِنْ فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَلٰی غَیْرِ مَا أُمِرُوْا بِہٖ لَمْ یَلْزَمْ .وَالْعِبَادُ فِیْ طَلَاقِہِمْ اِنَّمَا یَفْعَلُوْنَہُ لِأَنْفُسِہِمْ لَا لِغَیْرِہِمْ ، لَا لِرَبِّہِمْ عَزَّ وَجَلَّ ، وَلَا یَحِلُّوْنَ فِیْ فِعْلِہِمْ ذٰلِکَ مَحَلَّ غَیْرِہِمْ ، فَیُرَادُ مِنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ اِصَابَۃُ مَا أَمَرَہُمْ بِہٖ الَّذِیْنَ یَحِلُّوْنَ فِیْ فِعْلِہِمْ ذٰلِکَ مَحَلَّہُمْ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، لَزِمَہُمْ مَا فَعَلُوْا ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ نُہُوْا عَنْہُ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ ، مِمَّا قَدْ نَہَی اللّٰہُ تَعَالٰی الْعِبَادَ عَنْ فِعْلِہَا ، أَوْجَبَ عَلَیْہِمْ اِذَا فَعَلُوْہَا أَحْکَامًا .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ نَہَاہُمْ عَنْ الظِّہَارِ ، وَوَصَفَہُ بِأَنَّہٗ مُنْکَرٌ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوْرٌ ، وَلَمْ یَمْنَعْ مَا کَانَ کَذٰلِکَ أَنْ تَحْرُمَ بِہٖ الْمَرْأَۃُ عَلَی زَوْجِہَا ، حَتّٰی یَفْعَلَ مَا أَمَرَہٗ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہٖ مِنَ الْکَفَّارَۃِ .فَلَمَّا رَأَیْنَا الظِّہَارَ قَوْلًا مُنْکَرًا وَزُوْرًا ، وَقَدْ لَزِمَتْ بِہٖ حُرْمَۃٌ ، کَانَ کَذٰلِکَ الطَّلَاقُ الْمَنْہِیُّ عَنْہُ، ہُوَ مُنْکَرٌ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوْرٌ ، وَالْحُرْمَۃُ بِہٖ وَاجِبَۃٌ .وَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا سَأَلَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ طَلَاقِ عَبْدِ اللّٰہِ امْرَأَتَہٗ وَہِیَ حَائِضٌ ، أَمَرَہٗ بِمُرَاجَعَتِہَا ، وَتَوَاتَرَتْ عَنْہُ بِذٰلِکَ الْآثَارُ ، وَقَدْ ذَکَرْتُہٗ َا فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یُؤْمَرَ بِالْمُرَاجَعَۃِ ، مَنْ لَمْ یَقَعْ طَلَاقُہُ .فَلَمَّا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَلْزَمَہُ الطَّلَاقَ فِی الْحَیْضِ ، وَہُوَ وَقْتٌ لَا یَحِلُّ اِیْقَاعُ الطَّلَاقِ فِیْہِ، کَانَ کَذٰلِکَ مَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا ، فَأَوْقَعَ کُلًّا فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہٗ مِنْ ذٰلِکَ مَا أَلْزَمَ نَفْسَہٗ، وَاِنْ کَانَ قَدْ فَعَلَہٗ عَلٰی خِلَافِ مَا أُمِرَ بِہٖ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، مَا لَوْ اکْتَفَیْنَا بِہٖ کَانَ حُجَّۃً قَاطِعَۃً ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ فَلَمَّا کَانَ زَمَانُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، قَدْ کَانَتْ لَکُمْ فِی الطَّلَاقِ أَنَاۃٌ وَاِنَّہٗ مَنْ تَعَجَّلَ أَنَاۃَ اللّٰہِ فِی الطَّلَاقِ أَلْزَمْنَاہُ اِیَّاہُ .
٤٣٨٥: ابن طاؤس نے والد سے نقل کیا کہ ابوالصہباء نے ابن عباس (رض) سے کہا کیا تم جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ نبوت میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا اسی طرح ابوبکر (رض) اور عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی تینوں سالوں میں یہی سلسلہ تھا ؟ ابن عباس (رض) کہنے لگے ہاں یہ درست ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دے دے تو اس پر ایک طلاق واقع ہوگی بشرطیکہ اس نے وہ طلاق اس وقت میں دی ہو جس میں طلاق دینا سنت ہے (طہر) اور اس طہر میں ہو جس میں جماع نہ کیا گیا ہو انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ طلاق وقت میں دیں اور ایک خاص طریقے پر دیں وہ وقت طہر ہے جس میں جماع نہ کیا ہو۔ دلیل میں اس روایت کو پیش کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خاص وقت میں خاص انداز سے دیں تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف طلاق دی تو ان کی طلاق ہی واقع نہیں ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ معاملات میں بھی اگر ایک آدمی کسی آدمی کو کہے کہ وہ اس کی کو اس وقت میں اس انداز سے طلاق دے اس نے اس کی شرط کے بغیر طلاق دی یا اس کو کہا گیا کہ وہ اس شرط پر طلاق دے اس سے اس نے کسی اور شرط پر طلاق دی تو وہ واقع نہ ہوگی کیونکہ اس نے مامور کی مخالفت کی ہے۔ بالکل اسی طرح طلاق کا بھی حکم ہے کہ بندوں کو جس طرح دینے کا حکم دیا اگر وہ اسی طرح بجا لائیں تو واقع ہوگی اور جب وہ اس کے برخلاف دیں گے تو وہ واقع نہ ہوگی۔ اکثر اہل علم نے اس بات کی مخالفت کی ہے اور طلاق بدعی کو بھی واقع قرار دیا اس کی وجوہ بھی ذکر فرمائیں۔ دلائل کی روایات مذکور ہوں گی اور اگر سابقہ مؤقف کا جواب دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو طلاق کے سلسلہ میں جو حکم فرمایا ہے وہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ تم نے ذکر کیا ہے۔ کہ جب عورت طہر کی حالت میں ہو اور اس طہر میں خاوند نے مجامعت بھی نہ کی ہو یا وہ حاملہ ہو (تو اس وقت طلاق دی جائے) اور تین طلاق الگ الگ دینے کا حکم دیا جبکہ وہ طلاق واقع کرنا چاہتے ہو ان کو اکٹھا واقع نہ کریں۔ مگر جب انھوں نے مخالفت کردی اور ایسے وقت میں طلاق دے دی جس میں انھیں طلاق نہ دینا چاہیے تھی اور طلاق کی تعداد میں جتنی دینی چاہیے تھیں اس سے زیادہ دیں تو جتنی انھوں نے واقع کی ہیں وہ لازم ہوجائیں گی مگر وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں تجاوز کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔ بقیہ رہا آپ کا طلاق کو دیگر وکالات پر قیاس کرنا تو یہ درست نہیں کیونکہ طلاق کا حکم عام وکالتوں کی طرح نہیں ہے کیونکہ وکلاء اپنا وہ فعل اپنے موکلین کی خاطر کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے موکل کے مقام پر شمار کر لیے جاتے ہیں اور وکیل کا فعل ان کا اپنا فعل شمار ہوتا اور کیا جاتا ہے اسی وجہ سے وکلاء اگر انہی شرائط کے ساتھ انجام دیں تو ان پر لازم ہوجاتا ہے اور اگر ان شرائط کا پاس نہ کریں تو موکل پر وہ فعل لازم نہیں ہوتا۔ یہاں معاملہ طلاق میں طلاق کا یہ فعل بندے اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں کسی دوسرے کے لیے نہیں کرتے اور نہ اپنے رب کے لیے کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اس فعل میں دوسروں کے قائم مقام ہوتے ہیں کہ ان سے اس بات کا ارادہ کیا جائے کہ وہ ان لوگوں کے حکم کے مطابق صحیح طلاق دیں جن کے یہ قائم مقام ہیں۔ پس جب بات بالکل اسی طرح ہے تو جو کچھ انھوں نے کیا وہ ان پر لازم ہوجائے گا خواہ یہ ان امور سے ہے جن سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بعض کاموں سے منع فرمایا مگر عمل کی صورت میں حکم لازم کردیا ان میں سے ایک ظہار ہے کہ اس سے منع کیا گیا اور اس کو بری بات اور جھوٹا قول قرار دیا گیا مگر اس کے باوجود جو شخص ظہار کرے اس کی بیوی خاوند پر اس وقت تک کے لیے حرام ہوجاتی ہے جب تک وہ اس کا کفارہ ادا نہ کرے تو جب ہم دیکھتے ہیں کہ ظہار بری بات اور جھوٹ ہے لیکن اس کے باوجود لازم ہوگئی۔ اسی طرح جس طلاق سے روکا گیا وہ بھی بری بات اور جھوٹ ہونے کے باوجود حرمت لازم ہوگئی۔ جب ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابن عمر (رض) کی اس طلاق کے متعلق دریافت کیا جو انھوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں دی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رجوع کا حکم دیا جیسا کہ متواتر روایات سے ثابت ہے جن کا تذکرہ گزشتہ باب الطلاق میں ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو رجوع کا کیا معنی ہے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیض میں دی ہوئی طلاق کو نافذ اور لازم قرار دیا جبکہ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں۔ تو بالکل اسی طرح جو شخص بیک وقت تین طلاق دے تو طلاق نافذ ہوجائے گی اور جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا وہ لازم ہوجائے گا اگرچہ اس نے یہ عمل مامور بہ کے خلاف کیا ہے اس باب میں قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ رہی ابن عباس (رض) والی روایت جو شروع باب میں مذکور ہوئی اگر اسی پر اکتفاء کریں تو وہ قطعی دلیل ہے کیونکہ ان کا فرمان یہ ہے کہ جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انھوں نے فرمایا اے لوگو ! تمہارے لیے طلاق میں ٹھہراؤ تھا اور شان یہ ہے کہ جو شخص طلاق کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تاخیر و مہلت میں جلد بازی کرے تو وہ طلاق اس پر لازم ہوجائے گی۔ جیسا اس روایت میں ہے۔
امام ابو جعفر (رح) کا قول : بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دے دے تو اس پر ایک طلاق واقع ہوگی بشرطیکہ اس نے وہ طلاق اس وقت میں دی ہو جس میں طلاق دینا سنت ہے (طہر) اور اس طہر میں ہو جس میں جماع نہ کیا گیا ہو انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ طلاق وقت میں دیں اور ایک خاص طریقے پر دیں وہ وقت طہر ہے جس میں جماع نہ کیا ہو۔ دلیل میں اس روایت کو پیش کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خاص وقت میں خاص انداز سے دیں تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف طلاق دی تو ان کی طلاق ہی واقع نہیں ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ معاملات میں بھی اگر ایک آدمی کسی آدمی کو کہے کہ وہ اس کی بیوی کو اس وقت میں اس انداز سے طلاق دے اس نے اس کی شرط کے بغیر طلاق دی یا اس کو کہا گیا کہ وہ اس شرط پر طلاق دے اس سے اس نے کسی اور شرط پر طلاق دی تو وہ واقع نہ ہوگی کیونکہ اس نے مامور کی مخالفت کی ہے۔
ٰ بالکل اسی طرح طلاق کا بھی حکم ہے کہ بندوں کو جس طرح دینے کا حکم دیا اگر وہ اسی طرح بجا لائیں تو واقع ہوگی اور جب وہ اس کے برخلاف دیں گے تو وہ واقع نہ ہوگی۔
فریق ثانی کا قول : اکثر اہل علم نے اس بات کی مخالفت کی ہے اور طلاق بدعی کو بھی واقع قرار دیا اس کی وجوہ بھی ذکر فرمائیں۔ دلائل کی روایات مذکور ہوں گی اور اگر سابقہ مؤقف کا جواب دیا جائے گا۔
سابقہ مؤقف کا جواب : اللہ تعالیٰ نے بندوں کو طلاق کے سلسلہ میں جو حکم فرمایا ہے وہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ تم نے ذکر کیا ہے۔ کہ جب عورت طہر کی حالت میں ہو اور اس طہر میں خاوند نے مجامعت بھی نہ کی ہو یا وہ حاملہ ہو (تو اس وقت طلاق دی جائے) اور تین طلاق الگ الگ دینے کا حکم دیا جبکہ وہ طلاق واقع کرنا چاہتے ہو ان کو اکٹھا واقع نہ کریں۔
مگر جب انھوں نے مخالفت کردی اور ایسے وقت میں طلاق دے دی جس میں انھیں طلاق نہ دینا چاہیے تھی اور طلاق کی تعداد میں جتنی دینی چاہیے تھیں اس سے زیادہ دیں تو جتنی انھوں نے واقع کی ہیں وہ لازم ہوجائیں گی مگر وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں تجاوز کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔
بقیہ رہا آپ کا طلاق کو دیگر وکالات پر قیاس کرنا تو یہ درست نہیں کیونکہ طلاق کا حکم عام وکالتوں کی طرح نہیں ہے کیونکہ وکلاء اپنا وہ فعل اپنے موکلین کی خاطر کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے موکل کے مقام پر شمار کر لیے جاتے ہیں اور وکیل کا فعل ان کا اپنا فعل شمار ہوتا اور کیا جاتا ہے اسی وجہ سے وکلاء اگر انہی شرائط کے ساتھ انجام دیں تو ان پر لازم ہوجاتا ہے اور اگر ان شرائط کا پاس نہ کریں تو موکل پر وہ فعل لازم نہیں ہوتا۔
یہاں معاملہ طلاق میں طلاق کا یہ فعل بندے اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں کسی دوسرے کے لیے نہیں کرتے اور نہ اپنے رب کے لیے کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اس فعل میں دوسروں کے قائم مقام ہوتے ہیں کہ ان سے اس بات کا ارادہ کیا جائے کہ وہ ان لوگوں کے حکم کے مطابق صحیح طلاق دیں جن کے یہ قائم مقام ہیں۔
پس جب بات بالکل اسی طرح ہے تو جو کچھ انھوں نے کیا وہ ان پر لازم ہوجائے گا خواہ یہ ان امور سے ہے جن سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بعض کاموں سے منع فرمایا مگر عمل کی صورت میں حکم لازم کردیا ان میں سے ایک ظہار ہے کہ اس سے منع کیا گیا اور اس کو بری بات اور جھوٹا قول قرار دیا گیا مگر اس کے باوجود جو شخص ظہار کرے اس کی بیوی خاوند پر اس وقت تک کے لیے حرام ہوجاتی ہے جب تک وہ اس کا کفارہ ادا نہ کرے تو جب ہم دیکھتے ہیں کہ ظہار بری بات اور جھوٹ ہے لیکن اس کے باوجود لازم ہوگئی۔ اسی طرح جس طلاق سے روکا گیا وہ بھی بری بات اور جھوٹ ہونے کے باوجود حرمت لازم ہوگئی۔
جب ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابن عمر (رض) کی اس طلاق کے متعلق دریافت کیا جو انھوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں دی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رجوع کا حکم دیا جیسا کہ متواتر روایات سے ثابت ہے جن کا تذکرہ گزشتہ باب الطلاق میں ہوا۔
اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو رجوع کا کیا معنی ہے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیض میں دی ہوئی طلاق کو نافذ اور لازم قرار دیا جبکہ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں۔ تو بالکل اسی طرح جو شخص بیک وقت تین طلاق دے تو طلاق نافذ ہوجائے گی اور جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا وہ لازم ہوجائے گا اگرچہ اس نے یہ عمل مامور بہ کے خلاف کیا ہے اس باب میں قیاس کا یہی تقاضا ہے۔
رہی ابن عباس (رض) والی روایت جو شروع باب میں مذکور ہوئی اگر اسی پر اکتفاء کریں تو وہ قطعی دلیل ہے کیونکہ ان کا فرمان یہ ہے کہ جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انھوں نے فرمایا اے لوگو ! تمہارے لیے طلاق میں ٹھہراؤ تھا اور شان یہ ہے کہ جو شخص طلاق کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تاخیر و مہلت میں جلد بازی کرے تو وہ طلاق اس پر لازم ہوجائے گی۔ جیسا اس روایت میں ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔