HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5283

۵۲۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ وَغَیْرِہٖ، نَحْوُہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ ذَکَرَ أَنَّ الْمُنَاشِدَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٰذَا الشِّعْرِ ، عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَدْخُلْ خُزَاعَۃَ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِلْحِلْفِ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ ، اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ اِعْطَائُ بَنِی الْمُطَّلِبِ لِلْحِلْفِ ، وَلَوْ کَانَ اِعْطَاؤُہُمْ لِلْحِلْفِ أَیْضًا ، لَأَعْطَی مَوَالِیَ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَہُوَ فَلَمْ یُعْطِہِمْ شَیْئًا .وَأَمَّا مَا ذَہَبَ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا ، مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُمَا ، فَہُوَ أَحْسَنُ ہٰذِہِ الْأَقْوَالِ کُلِّہَا عِنْدَنَا ، لِأَنَّا رَأَیْنَا النَّاسَ فِیْ دَہْرِنَا ہٰذَا، یُنْسَبُوْنَ اِلَی الْعَبَّاسِ ، وَکَذٰلِکَ آلُ عَلِی ، وَآلُ جَعْفَرٍ ، وَآلُ عَقِیْلٍ ، وَآلُ الزُّبَیْرِ ، وَطَلْحَۃَ ، کُلُّ ہٰؤُلَائِ لَا یُنْسَبُ أَوْلَادُہُمْ اِلَّا اِلٰی أَبِیْھِمُ الْأَعْلٰی، فَیُقَالُ : بَنُو الْعَبَّاسِ ، وَبَنُوْ عَلِی ، وَبَنُو مَنْ ذَکَرْنَا ، حَتَّی قَدْ صَارَ ذٰلِکَ یَجْمَعُہُمْ ، وَحَتَّی قَدْ صَارُوْا بِآبَائِہِمْ مُتَفَرِّقِیْنَ کَأَہْلِ الْعَشَائِرِ الْمُخْتَلِفَۃِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَسَمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، اِنَّمَا جَعَلَہٗ فِیْمَنْ یَجْمَعُہُ وَاِیَّاہُ أَبٌ جَاہِلِیٌّ ، فَکَانَ بَنُو ذٰلِکَ الْأَبِ مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ، وَکَذٰلِکَ مَنْ أَعْطَاہُ أَبُو طَلْحَۃَ ، مَا أَعْطَاہُ مِمَّنْ ذَکَرْنَا ، فَاِنَّمَا یَجْمَعُہُمْ وَاِیَّاہُ أَبٌ جَاہِلِیٌّ .فَلِمَ قُلْتُمْ : اِنَّ قَرَابَۃَ الرَّجُلِ ہِیَ مَنْ جَمَعَہٗ وَاِیَّاہُ أَقْصَی آبَائِہِ فِی الْاِسْلَامِ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ ذَکَرْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَّا ، فِیْ کِتَابِنَا ہٰذَا، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی قَرَابَۃً ، وَمَنَعَ قَرَابَۃً ، وَقَدْ کَانَ کُلُّ مَنْ أَعْطَاہُ وَکُلُّ مَنْ حَرَمَہٗ، مِمَّنْ لَمْ یُعْطِہٖ، مِمَّنْ مَوْضِعُہُ مِنْہٗ، وَمَوْضِعُ الَّذِی أَعْطَاہُ یَجْمَعُہُ وَاِیَّاہُمْ عَشِیْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ ، یُنْسَبُوْنَ اِلَیْہَا حَتَّی یُقَالَ لَہُمْ جَمِیْعًا ہٰؤُلَائِ الْقُرَیْشِیُّوْنَ وَلَا یُنْسَبُوْنَ اِلَی مَا بَعْدَ قُرَیْشٍ ، فَیُقَالُ ہٰؤُلَائِ الْکِنَانِیُّوْنَ فَصَارَ أَہْلُ الْعَشِیْرَۃِ جَمِیْعًا بَنِیْ أَبٍ وَاحِدٍ وَقَرَابَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، وَبَانُوْا مِمَّنْ سِوَاہُمْ ، فَلَمْ یُنْسَبُوْا اِلَیْہِ فَکَذٰلِکَ أَیْضًا کُلُّ أَبٍ حَدَثَ فِی الْاِسْلَامِ صَارَ فَخِذًا أَوْ صَارَ عَشِیْرَۃً یُنْسَبُ وَلَدُہُ اِلَیْہِ فِی الْاِسْلَامِ فَکَانَ ہُوَ وَوَلَدُہُ یُنْسَبُوْنَ جَمِیْعًا اِلَی عَشِیْرَۃٍ وَاحِدَۃٍ قَدْ تَقَدَّمَتِ الْاِسْلَامَ فَہُمْ جَمِیْعًا مِنْ أَہْلِ تِلْکَ الْعَشِیْرَۃِ ، ہَذَا أَحْسَنُ الْأَقْوَالِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عِنْدَنَا ، وَاللّٰہَ نَسْأَلُہُ التَّوْفِیْقَ . ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی مَا أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَوِیْ قُرْبَاہٗ، فَوَجَدْنَا النَّاسَ قَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : أَعْطَاہُ بِحَق قَدْ وَجَبَ لَہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِیَّاہُمْ فِیْ آیَۃِ الْغَنَائِمِ ، وَفِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ ، وَلَمْ یَکُنْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْعُہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَا التَّخَطِّی بِہٖ عَنْہُمْ اِلَی غَیْرِہِمْ وَلِأَنْفُسِہِمْ ، مِنْ خُمُسِ جَمِیْعِ الْفَیْئِ ، وَمِنْ خُمُسِ خُمُسِ جَمِیْعِ الْغَنَائِمِ ، کَمَا لَیْسَ لَہٗ مِنْہٗ، مَنْعُ الْمُقَاتِلَۃِ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَخْمَاسِ الْغَنَائِمِ ، وَلَا التَّخَطِّی بِہٖ عَنْہُمْ اِلَی غَیْرِہِمْ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : لَمْ یَجِبْ لِذِیْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقٌّ فِی الْفَیْء ، وَلَا فِیْ خُمُسِ الْغَنَائِمِ بِالْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ ذَکَرْتُہٗ مَا فِیْ أَوَّلِ کِتَابِنَا ہٰذَا، وَاِنَّمَا وَکَّدَ اللّٰہُ أَمْرَہُمْ بِذِکْرِہِ اِیَّاہُمْ فِیْ ہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ ، ثُمَّ لَا یَجِبُ بَعْدَ ذٰلِکَ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَخُمُسِ الْغَنَائِمِ اِلَّا کَمَا یَجِبُ لِغَیْرِہِمْ مِنْ سَائِرِ فُقَرَائِ الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْنَ لَا قَرَابَۃَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْقَوْلُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ .
٥٢٨٢: محمد بن اسحاق نے زہری وغیرہ سے اسی طرح بیان کی البتہ اس نے یہ بیان کیا کہ ان اشعار سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد دلانے والا عمرو بن سالم خزاعی ہے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اور خزاعہ کے درمیان معاہدے کی وجہ سے ان کو قرابت داروں کے حصے میں شریک نہیں فرمایا تو یہ بات ناممکن ہے کہ بنو مطلب کو معاہدے کی وجہ سے عطاء فرمایا۔ اگر آپ معاہدے کی وجہ سے عطاء فرماتے تو بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلاموں کو بھی دیتے لیکن آپ نے ان کو کچھ نہیں دیا ۔ ان تمام اقوال میں سب سے بہتر قول وہ ہے جس کو امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔ ان اقوال میں سب سے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے زمانے میں حضرت عباس (رض) کی طرف منسوب ہو کر آل عباس اور آل علی ‘ آل جعفر ‘ آل عقیل ‘ آل زبیر ‘ آل طلحہ (رض) وغیرہ کہلاتے ہیں۔ تو ان تمام کی اولاد اپنے جد اعلیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے گویا ان اولاد کو جد اعلیٰ کا ایک ہونا جمع کرتا ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی وجہ سے اسی طرح الگ الگ ہوتے ہیں جیسے مختلف قبائل ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قرابت داروں کا حصہ تقسیم فرمایا تو ان لوگوں کو عنایت فرمایا جو آپ کے ساتھ دور جاہلیت کے باپ میں شریک تھے تو اس باپ کی اولاد آپ کے قرابتدار تھے۔ اسی طرح حضرت ابو طلحہ (رض) نے جن لوگوں کو عطاء فرمایا ان کی بھی یہی صورت تھی۔ تو پھر یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ قرابت میں وہ لوگ شریک ہیں جس کے ساتھ وہ اسلام میں جد اولیٰ کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ ہم جیسا کہ پہلے ذکر کر آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعض قرابتداروں کو دیا اور بعض کو محروم کردیا اور روک لیا۔ تو آپ نے جن کو دیا اور جن کو نہ دیا وہ تمام آپ کے ساتھ ایک ہی قبیلہ میں جمع ہوتے ہیں اور اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کو قریش کہا جاتا ہے وہ قریش کے بعد کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے کہ ان کو کنانی کہا جائے تو وہ تمام ایک قبیلے کے افراد ہوئے ایک باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی قرابت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح وہ باقی لوگوں سے جدا ہوگئے ان کی طرف منسوب نہیں ہوتے اسی طرح جو باپ اسلام میں سامنے آیا تو وہ فخذ یا عشیرہ کہلایا ان کی اولاد اسلام میں اس کی طرف منسوب ہوتی ہے تو وہ اور اس کی اولاد سب کے سب ایک قبیلہ (عشیرہ) کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو اسلام سے پہلے ہو اور وہ سب اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے نزدیک یہ سب سے اچھا قول ہے۔ اس مضمون کی طرف ہم پھر لوٹ آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قرابت داروں کو کس طرح عطاء فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ حق عنایت فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آیت غنیمت اور آیت فئی میں ذکر کر کے لازم کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار نہ تھا کہ آپ ان سے اس حق کو روکتے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو عنایت فرماتے۔ ان کو یہ تمام مال فئی کے خمس اور تمام غنائم کے خمس سے دیا جاتا جیسا کہ غنائم کے پانچ حصوں میں سے چار حصے مجاہدین سے روکنے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو دینے کا آپ کو اختیار نہ تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لیے فئی اور غنائم کے خمس میں جو حق لازم ہوا وہ ان دو آیات کی وجہ سے نہیں جنہیں اس کتاب کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس حق کا ذکر تاکید سے فرمایا پھر ان کے لیے فئی اور غنیمت کے خمس میں اسی طرح لازم ہوا جیسا کہ دیگر فقراء اسلام کے لیے واجب ہے جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت کا حق حاصل نہ تھا۔ یہ قول حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ہے۔
تشریح جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اور بنو خزاعہ کے درمیان معاہدے کی وجہ سے ان کو قرابت داروں کے حصے میں شریک نہیں فرمایا تو یہ بات ناممکن ہے کہ بنو مطلب کو معاہدے کی وجہ سے عطاء فرمایا۔ اگر آپ معاہدے کی وجہ سے عطاء فرماتے تو بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلاموں کو بھی دیتے لیکن آپ نے ان کو کچھ نہیں دیا۔
تمام اقوال میں بہتر قول :
ان تمام اقوال میں سب سے بہتر قول وہ جس کو امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔
وجہ ترجیح : ان اقوال میں سب سے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے زمانے میں حضرت عباس (رض) کی طرف منسوب ہو کر آل عباس اور آل علی ‘ آل جعفر ‘ آل عقیل ‘ آل زبیر ‘ آل طلحہ (رض) وغیرہ کہلاتے ہیں۔ تو ان تمام کی نسبت اپنے جد اعلیٰ کی طرف ہے گویا ان اولاد کو جد اعلیٰ کا ایک ہونا جمع کرتا ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی وجہ سے اسی طرح الگ الگ ہوتے ہیں جیسے مختلف قبائل ہیں۔
M: اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قرابت داروں کا حصہ تقسیم فرمایا تو ان لوگوں کو عنایت فرمایا جو آپ کے ساتھ دور جاہلیت کے باپ میں شریک تھے تو اس باپ کی اولاد آپ کے قرابتدار تھے۔ اسی طرح حضرت ابو طلحہ (رض) نے جن لوگوں کو عطاء فرمایا ان کی بھی یہی صورت تھی۔ تو پھر یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ قرابت میں وہ لوگ شریک ہیں جس کے ساتھ وہ اسلام میں جد اولیٰ کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔
جوابہم جیسا کہ پہلے ذکر کر آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعض قرابتداروں کو دیا اور بعض کو محروم کردیا اور روک لیا۔ تو آپ نے جن کو دیا اور جن کو نہ دیا وہ تمام آپ کے ساتھ ایک ہی قبیلہ میں جمع ہوتے ہیں اور اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کو قریش کہا جاتا ہے وہ قریش کے بعد کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے کہ ان کو کنانی کہا جائے تو وہ تمام ایک قبیلے کے افراد ہوئے ایک باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی قرابت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح وہ باقی لوگ سے جدا ہوگئے ان کی طرف منسوب نہیں ہوتے اسی طرح جو باپ اسلام میں سامنے آیا تو وہ فخذ یا عشیرہ کہلایا ان کی اولاد اسلام میں اس کی طرف منسوب ہوتی ہے تو وہ اور اس کی اولاد سب کے سب ایک قبیلہ (عشیرہ) کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو اسلام سے پہلے ہو اور وہ سب اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے نزدیک یہ سب سے اچھا قول ہے۔
لغات : عشیرہ۔ ایک باپ کی اولاد۔ فخذ۔ اسلام میں جد اعلیٰ کی اولاد۔
قرابتداروں کا حق کس طور دیا گیا :
اس مضمون کی طرف ہم پھر لوٹ آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قرابت داروں کو کس طرح عطاء فرمایا۔
قول اوّل : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ حق عنایت فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آیت غنیمت اور آیت فئی میں ذکر کر کے لازم کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار نہ تھا کہ آپ ان سے اس حق کو روکتے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو عنایت فرماتے۔ ان کو یہ تمام مال فئی کے خمس اور تمام غنائم کے خمس سے دیا جاتا جیسا کہ غنائم کے پانچ حصوں میں سے چار حصے مجاہدین سے روکنے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو دینے کا آپ کو اختیار نہ تھا۔
دوسرا قول : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لیے فئی اور غنائم کے خمس میں جو حق لازم ہوا وہ ان دو آیات کی وجہ سے نہیں جنہیں اس باب کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس حق کا ذکر تاکید سے فرمایا پھر ان کے لیے فئی اور غنیمت کے خمس میں اسی طرح لازم ہوا جیسا کہ دیگر فقراء اسلام کے لیے واجب ہے جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت کا حق حاصل نہ تھا۔ یہ قول حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔