HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

13. چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ

موطأ الامام محمد

681

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو الْحَضْرَمِيَّ، جَاءَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِعَبْدٍ لَهُ، فَقَالَ: " اقْطَعْ هَذَا، فَإِنَّهُ سَرَقَ، فَقَالَ: وَمَاذَا سَرَقَ؟ قَالَ: سَرَقَ مِرْآةً لامْرَأَتِي ثَمَنُهَا سِتُّونَ دِرْهَمًا، قَالَ عُمَرُ: أَرْسِلْهُ، لَيْسَ عَلَيْهِ قَطْعٌ، خَادِمُكُمْ سَرَقَ مَتَاعَكُمْ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ لَهُ عَبْدٌ سَرَقَ مِنْ ذِي رَحِمٍ مُحَرَّمٍ مِنْهُ، أَوْ مِنْ مَوْلاهُ، أَوْ مِنِ امْرَأَةِ مَوْلاهُ، أَوْ مِنْ زَوْجِ مَوْلاتِهِ، فَلا قَطْعَ عَلَيْهِ فِي مَا يَسْرِقُ، وَكَيْفَ يَكُونُ عَلَيْهِ الْقَطْعُ فِيمَا سَرَقَ مِنْ أُخْتِهِ أَوْ أَخِيهِ أَوْ عَمَّتِهِ أَوْ خَالَتِهِ، وَهُوَ لَوْ كَانَ مُحْتَاجًا زَمِنًا أَوْ صَغِيرًا، أَوْ كَانَتْ مُحْتَاجَةً، أُجْبِرَ عَلَى نَفَقَتِهِمْ، فَكَانَ لَهُمْ فِي مَالِهِ نَصِيبٌ، فَكَيْفَ يُقْطَعُ مَنْ سَرَقَ مِمَّنْ لَهُ فِي مَالِهِ نَصِيبٌ؟ وَهَذَا كُلُّهُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو حضرمی حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک غلام تھا۔ عبداللہ کہنے لگے اس نے چوری کی ہے۔ اس کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جائے۔ آپ نے دریافت فرمایا۔ اس نے کیا چوری کی ہے ؟ انھوں نے کہا میری بیوی کا آئینہ چوری کیا ہے۔ جس کی قیمت ساتھ درہم ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اسے چھوڑ دو ۔ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ اس لیے کہ تمہارا خادم ہے۔ اور اس نے تمہاری چیز چرائی ہے ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب مالاقطع فیہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے غلام نے اس کے رحم کے رشتہ دار، مالک کی بیوی اپنی مالکہ کے شوہر کی گوئی چیز چوری کرلی تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ اور کس طرح اس کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے۔ جب کہ کوئی شخص اپنے بھائی، بہن، پھوپھی، عخالہ کی کوئی جیز چوری کرے اور وہ ضروت مند ہے یا محتاج ہے یا اپاہج یا بچہ یا محتاج لڑکی ہو کہ جس کے خرچہ پر ان کو مجبور کیا جاسکا ہے۔ اور اس کا ان کے مال میں حصہ ہے۔ تو اس کی چوری پر کس طرح اس کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے۔ یہ تمام امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کے اقوال ہیں۔

682

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ مُعَلَّقٍ، وَلا فِي حَرِيسَةِ جَبَلٍ، فَإِذَا آوَاهُ الْمُرَاحُ، أَوِ الْجَرِينُ، فَالْقَطْعُ فِيمَا بَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ سَرَقَ ثَمَرًا فِي رَأْسِ النَّخْلِ، أَوْ شَاةً فِي الْمَرْعَى، فَلا قَطْعَ عَلَيْهِ، فَإِذَا أُتِيَ بِالثَّمَرِ الْجَرِينَ أَوِ الْبَيْتَ، وَأُتِيَ بِالْغَنَمِ الْمُرَاحَ، وَكَانَ لَهَا مَنْ يَحْفَظُهَا، فَجَاءَ سَارِقٌ سَرَقَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا يُسَاوِي ثَمَنَ الْمِجَنِّ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، وَالْمِجَنُّ كَانَ يُسَاوِي يَوْمَئِذٍ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، وَلا يُقْطَعُ فِي أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابو حسین (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ درخت سے لگے ہوئے پھل یا پہاڑ پر بغیر محافظ کے پھرنے والی بکری کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا لیکن جب بکری گھر میں آجائے یا پھل توڑ لیا جائے کاٹ کر خشک کرنے کے لیے رکھا جائے اور اس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ( اس روایت کو باب ما یجب فیہ القطع میں امام مالک (رح) نے ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جس نے درخت پر لگے ہوئے پھل کو جرایا یا اس بکری کو جو چراکاہ میں ہو تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ لیکن جب پہل خشک کرنے کے لیے اس کی جگہ میں پھیلادیں یا گہر میں رکھ دیں اور بکری اپنے باڑے میں آجائے اور اس کا کوئی محافظ ہو، اسی یطرح چور آیا اور اس نے انی چوری کی جس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس زمانہ میں ڈھال کی قمیت دس درہم کے برابر ہوا کرتی تھی۔ اس سے کم قیمت کی چیز پر ہاتھ کانا روانہ ہوگا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

683

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، أَنَّ غُلامًا سَرَقَ وَدِيًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ، فَغَرَسَهُ فِي حَائِطِ سَيِّدِهِ، فَخَرَجَ صَاحِبُ الْوَدِيِّ يَلْتَمِسُ وَدِيَّهُ، فَوَجَدَهُ فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، فَسَجَنَهُ وَأَرَادَ قَطْعَ يَدِهِ، فَانْطَلَقَ سَيِّدُ الْعَبْدِ إِلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلا كَثْرٍ» . وَالكَثْرُ الْجُمَّارُ، قَالَ الرَّجُلُ: إِنَّ مَرْوَانَ أَخَذَ غُلامِي، وَهُوَ يُرِيدُ قَطْعَ يَدِهِ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَمْشِيَ إِلَيْهِ، فَتُخْبِرَهُ بِالَّذِي سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَشَى مَعَهُ، حَتَّى أَتَى مَرْوَانَ، فَقَالَ لَهُ رَافِعٌ: أَخَذْتَ غُلامَ هَذَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَنْتَ صَانِعٌ، قَالَ: أُرِيدُ قَطْعَ يَدِهِ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ، وَلا كَثْرٍ» . فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِالْعَبْدِ، فَأُرْسِلَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ مُعَلَّقٍ فِي شَجَرٍ، وَلا فِي كَثْرٍ، وَالكَثْرُ الْجُمَّارُ، وَلا فِي وَدِيٍّ، وَلا فِي شَجَرٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
محمد بن یحی بن حبان بیان کرتے ہیں کہ ایک غلام نے کسی کے باغ میں سے کھجور کا پودا چوری کیا اور اپنے آقا کے باغ میں لگادیا۔ پودے کا مالک اس کو تلاش کرنے نکلا اور اسے پالیا۔ اس نے مروان بن حکم کے پاس جاکر دعوی دائر کردیا۔ مروان نے غلام کو قید کردیا اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا غلام کا آقا حضرت رافع بن خدیج (رض) کی خدمت میں گیا اور ان سے مسئلہ دریافت کیا د۔ انھوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ نہ پھل کی چوری میں ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اور نہ گودے کی چوری میں گودے سے کھجور کا گودا مراد ہے۔ اس شخص نے کہا مروان نے میرے غلام کو پکڑ لیا ہے اور وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ آپ مروان کے پاس چل کر انھیں یہ ارشاد نبوت سنادیں ج و کہ آپ نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوا ہے۔ پس رافع (رض) مروان کے پاس آئے اور اس سے کہا کیا تم نے اس کے غلام کو پکڑا ہوا ہے ؟ اس نے جواب دیا ہاں۔ پھر دریافت کار اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو ؟ مروان نے کہا میں اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہوں رافع (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ پہل اور پودے کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا۔ مروان نے غلام کو قید سے رہائی کا حکم دے دیا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما لا قطع فیہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں، کہ درخت پر لگے ہوئے پھل کی چوری، کھجور کے گودے پنیری پودے اور درخت کے چرالینے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

684

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قِيلَ لِصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ: إِنَّهُ مَنْ لَمْ يُهَاجِرْ هَلَكَ، فَدَعَا بِرَاحِلَتِهِ، فَرَكِبَهَا حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ قِيلَ لِي: إِنَّهُ مَنْ لَمْ يُهَاجِرْ هَلَكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ارْجِعْ أَبَا وَهْبٍ إِلَى أَبَاطِحِ مَكَّةَ» ، فَنَامَ صَفْوَانُ فِي الْمَسْجِدِ مُتَوَسِّدًا رِدَاءَهُ، فَجَاءَهُ سَارِقٌ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَأَخذَ السَّارِقَ، فَأَتَى بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّارِقِ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ» ، فَقَالَ صَفْوَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أُرِدْ هَذَا، هُوَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَهَلا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا رُفِعَ السَّارِقُ إِلَى الإِمَامِ، أَوِ الْقَاذِفِ، فَوَهَبَ صَاحِبُ الْحَدِّ حَدَّهُ، لَمْ يَنْبَغِ لِلإِمَامِ أَنْ يُعَطِّلَ الْحَدَّ، وَلَكِنَّهُ يُمْضِيهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
صفوان بن امیہ (رض) سے کہ گیا کہ جس نے ہجرت نہ کی وہ ہلاک ہوا۔ انھوں نے سواری منگوائی اور سوار ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اور عرض کیا کہ مجھے بتلایا کیا ہے کہ جس نے ہجرت نہ کی وہ ہلاک ہوگیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے ابو وہب ! مکہ مکرمہ کی پتھریلی زمینوں کی طرف لوٹ جاؤ۔ صفوان مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ لگار کر سوگئے۔ ایک چور يیا اور ان کی چار لے کر چل دیا۔ وہ چور کو پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صفوان نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا مقصد نہ تھا ۔ یہ چار اس پر صدقہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میرے پاس آنے سے پہلے یہ کیوں نہ کہا تھا ؟ ( باب ترک الشفاعۃ للسارق میں امام مالک (رح) نے اس روایت کو ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ جب چور یا زنا کی تہمت والا امام یعنی حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے۔ اس کے بعد مدعی اگر اپنا دعوی چھوڑے تو امام کے لیے اب گنجائش نہیں ہے کہ وہ حد کو معطل کرے بلکہ وہ حد کو جاری کرے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

685

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «قَطَعَ فِي مِجَنٍّ قِيمَتُهُ ثَلاثَةُ دَرَاهِمَ»
نافع (رح) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی۔

686

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَتْ إِلَى مَكَّةَ، وَمَعَهَا مَوْلاتَانِ لَهَا، وَمَعَهَا غُلامٌ لِبَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَأَنَّهُ بُعِثَ مَعَ تَيْنِكِ الْمَرْأَتَيْنِ بِبُرْدِ مَرَاجِلَ قَدْ خِيطَتْ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ خَضْرَاءُ، قَالَتْ: فَأَخَذَ الْغُلامُ الْبُرْدَ، فَفَتَقَ عَنْهُ، فَاسْتَخْرَجَهُ، وَجَعَلَ مَكَانَهُ لِبْدًا، أَوْ فَرْوَةً، وَخَاطَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، دَفَعْنَا ذَلِكَ الْبُرْدَ إِلَى أَهْلِهِ، فَلَمَّا فَتَقُوا عَنْهُ وَجَدُوا ذَلِكَ اللِّبْدَ، وَلَمْ يَجِدُوا الْبُرْدَ، فَكَلَّمُوا الْمَرْأَتَيْنِ، فَكَلَّمَتَا عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَوْ كَتَبَتَا إِلَيْهَا، وَاتَّهَمَتَا الْعَبْدَ، فَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، فَاعْتَرَفَ، فَأَمَرَتْ بِهِ عَائِشَةُ، فَقُطِعَتْ يَدُهُ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: «الْقَطْعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا»
عمرہ بنت عبد الرحمن بیان کرتی ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) مکہ مکرمہ روانہ ہوئیں۔ دو آزاد کردہ لونڈیان اور اولاد عدب اللہ بن ابی بکر (رض) کا ایک غلام ان کے ساتھ تھ۔ ان دولوں ڈیوں کے ساتھ ایک مراجل چادر روانہ کی۔ اس چارد پر ایک سبز کپڑأ سلائی کردیا۔ عمرہ کہتی ہیں کہ غلام نے وہ چادر لی اور سبز کپڑا پھاڑ کر نکال لیاد اور اس جگہ پوستین یا نمدہ رکھ کر سلائی کردی۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اس نے وہ چادر اس کے مالکو پہنچادی۔ اس نے چادر کو کھولا تو سبز چادر کی بجائے نمدہ تھا۔ ان دونوں لونڈیوں سے دریافت کیا گیا۔ تو انھوں نے حضرت عائشہ (رض) عنہا کو بتایا یا بذریعہ خط اطلاع دی اور اس غلام پر شبہ ظاہر کیا۔ غلام سے دریافت کیا : یا تو اس نے اعتراف کرلیا۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا ربع دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاتا جاتا ہے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) ما یجب فیہ القطع میں ذکر کیا ہے)

687

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ سَارِقًا سَرَقَ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ أُتْرُجَّةً، فَأَمَرَ بِهَا عُثْمَانُ أَنْ تُقَوَّمَ، فَقُوِّمَتْ بِثَلاثَةِ دَرَاهِمَ مِنْ صَرْفِ اثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا بِدِينَارٍ، فَقَطَعَ عُثْمَانُ يَدَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِيمَا يُقْطَعُ فِيهِ الْيَدُ: فَقَالَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ: رُبْعُ دِينَارٍ، وَرَوَوْا هَذِهِ الأَحَادِيثَ، وَقَالَ الْعِرَاقُ لا تُقْطَعُ الْيَدُ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَرَوَوْا ذَلِكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ عُمَرَ، وَعَنْ عُثْمَانَ، وَعَنْ عَلِيٍّ، وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، فَإِذَا جَاءَ الاخْتِلافُ فِي الْحُدُودِ أُخِذَ فِيهَا بِالثِّقَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابوبکر بن عبد الرحمن نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے نقل کیا کہ حضرت عثمان غنی (رض) کے زمانہ خلافت میں ایک چور نے ایک ترنج چرالیا حضرت عثمان (رض) نے اس کی قیمت لگانی کا حکم دیا۔ اس کی قیمت بارہ درہم فی دینار کے حساب سے تین درہم لگائی گئی۔ حضرت عثمان (رض) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ ( اس روایت کو باب ما یجب فیہ القطع میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ لوگوں کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کس قدر چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے۔ اہل مدینہ کا قول یہ ہے کہ ربع دینار پر ہاتھ کاٹا جائے اور اس کی تائید میں مندرجہ بالا روایات پیش کرتے ہیں۔ اور اہل عراق کے نزدیک دس درہم سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ور اس کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عمر فاروق، عثمان غنی، علی مرتضی، عبداللہ بن مسعود (رض) عنہم سے احادیث مروی ہیں۔ پس جب حدود میں اختلاف ہوجائے تو پختہ کو اختیار کیا جائے گا اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور عام فقہاء کا قول ہے۔

688

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَقْطَعَ الْيَدِ وَالرِّجْلِ قَدِمَ، فَنَزَلَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَشَكَا إِلَيْهِ أَنَّ عَامِلَ الْيَمَنِ ظَلَمَهُ، قَالَ: فَكَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَيَقُولُ أَبُو بَكْرٍ: وَأَبِيكَ، مَا لَيْلُكَ بِلَيْلِ سَارِقٍ، ثُمَّ افْتَقَدُوا حُلِيًّا لأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ، فَجَعَلَ يَطُوفُ مَعَهُمْ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمَنْ بَيَّتَ أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ الصَّالِحِ، فَوَجَدُوهُ عِنْدَ صَائِغٍ، زَعَمَ أَنَّ الأَقْطَعَ جَاءَهُ بِهِ، فَاعْتَرَفَ بِهِ الأَقْطَعُ، أَوْ شُهِدَ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَقُطِعَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ، لَدُعَاؤُهُ عَلَى نَفْسِهِ أَشَدُّ عِنْدِي عَلَيْهِ مِنْ سَرِقَتِهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ: يُرْوَى ذَلِكَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّمَا كَانَ الَّذِي سَرَقَ حُلِيَّ أَسْمَاءَ أَقْطَعَ الْيَدِ الْيُمْنَى، فَقَطَعَ أَبُو بَكْرٍ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَكَانَتْ تُنْكِرُ أنْ يَكُونَ أَقْطَعَ الْيَدِ وَالرِّجْلِ، وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ أَعْلَمَ مِنْ غَيْرِهِ بِهَذَا وَنَحْوِهِ مِنْ أَهْلِ بِلادِهِ، وَقَدْ بَلَغَنَا، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُمَا لَمْ يَزِيدَا فِي الْقَطْعِ عَلَى قَطْعِ الْيُمْنَى، أَوِ الرِّجْلِ الْيُسْرَى، فَإِنْ أُتِيَ بِهِ بَعْدَ ذَلِكَ لَمْ يَقْطَعَاهُ وَضَمَّنَاهُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
قاسم (رح) کہتے ہیں کہ ایک یمنی جس کا اک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹا ہوا تھا وہ مدینہ منورہ آیا اور اس نے صدیق اکبر (رض) کی خدمت میں شکایت کی کہ عامل یمن نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ قاسم کہتے ہیں کہ وہ نماز تہجد پڑھا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا۔ تیرے باپ کے مالک کی قسم ! تیری رات چوروں کی رات نہیں پھر ابوبکر (رض) کی اہلیہ اسماء بنت عمیس کا ایک ہار گم ہوگیا تو وہ شخص لوگوں کے ساتھ پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے برباد کرے جس نے اس نیکوکار کے گھر میں چوری کی۔ لوگوں نے وہ ہار ایک سنار کے ہاں پالیا۔ اس نے بتلایا کہ یہ اسے اسی کٹے ہوئے ہاتھ والے شخص نے دیا ہے۔ اس نے اعتراف بھی کرلیا یا گواہی سے ثابت ہوگیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے حکم دیا اور اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میرے نزدیک اس کی چوری سے زیادہ سخت بات اس کی اپنے حق میں بد دعا ثابت ہوئی ہے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب جامع القطع میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ ہر وایت حضرت عائشہ (رض) عنہا سے روایت کی جاتی ہے کہ انھوں نے فرمایا جس شخص نے حضرت اسماء کا زیور چرایا تھا اس کا دایاں ہاتھ کٹا ہوا تھا تو حضرت ابوبکر (رض) نے اس کا بایا پاؤں کاٹ دیا۔ وہ اس بات سے انکار کرتی تھیں کہ اس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ ابن شہاب زہری اس خبر کو اور اس جیسی دیگر خبروں کو اپنے شہر کے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتے تھے۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ عمر بن خطاب (رض) اور علی بن ابی طالب (رض) چور کے دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں سے زیادہ نہ کاٹتے تھے۔ اگر کوئی چور اس کے بعد بھی پکڑا جاتا تو وہ نہ کاٹتے تھے بلکہ اس سے تاوان وصول کرتے تھے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

689

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ سَرَقَ وَهُوَ آبِقٌ، فَبَعَثَ بِهِ ابْنُ عُمَرَ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ لِيَقْطَعَ يَدَهُ، فَأَبَى سَعِيدٌ أَنْ يَقْطَعَ يَدَهُ، قَالَ: «لا تُقْطَعُ يدُ الآبِقِ إِذَا سَرَقَ» ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَفِي كِتَابِ اللَّهِ وَجَدْتَ هَذَا: إِنَّ الْعَبْدَ الآبِقَ لا تُقْطَعُ يَدُهُ؟ فَأَمَرَ بِهِ ابْنُ عُمَرَ، فَقُطِعَتْ يَدُهُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: تُقْطَعُ يَدُ الآبِقِ، وَغَيْرِ الآبِقِ إِذَا سَرَقَ، وَلَكِنْ لا يَنْبَغِي أَنْ يَقْطَعَ السَّارِقَ أَحَدٌ إِلا الإِمَامُ الَّذِي يَحْكُمُ، لأَنَّهُ حَدٌّ لا يَقُومُ بِهِ إِلا الإِمَامُ، أَوْ مَنْ وَلَّاهُ الإِمَامُ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کے ایک مفرور غلام نے چوری کرلی۔ تو انھوں نے سعید بن العاص کے پاس اس کا ہاتھ کاٹنے کے لیے بھیجا۔ تو سعید نے اس کا ہاتھ کاٹنے سے انکار کردیا۔ اور کہا بھاگنے والا غلام جب چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ ابن عمر (رض) نے کہا کیا تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ایسا حکم پایا ہے۔ کہ مفرور چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ چنانچہ ابن عمر (رض) نے حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ( اس روایت کو باب ما جاء فی قطع الاٰبق و السارق مں چ امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : مفرور یا غیر مفرور غلام چوری کریں ہر دو کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ لیکن امام کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں۔ کہ اس کا ہاتھ کاٹے کیونکہ یہ حد ہے۔ اور حد شرعی جاری کرنے حق امام کو ہے۔ یا امام جس کو مقرر کردے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

690

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ رَجُلا اخْتَلَسَ شَيْئًا فِي زَمَنِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَأَرَادَ مَرْوَانُ قَطْعَ يَدِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ لا قَطْعَ عَلَيْهِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قَطْعَ فِي الْمُخْتَلِسِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مروان بن حکم کے زمانہ میں کجھ اچک کرلے گیا۔ مروان نے اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو زید بن ثابت (رض) اس کے پاس آئے اور اسے بتلایا کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب ما لا قطع میں نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ اچکے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔