HADITH.One
پڑھنے کی ترتیبات
Urdu
System
عربی فونٹ منتخب کریں
Kfgq Hafs
ترجمہ فونٹ منتخب کریں
Noori_nastaleeq
22
17
عام ترتیبات
عربی دکھائیں
ترجمہ دکھائیں
حوالہ دکھائیں
حدیث دو حصوں میں دیکھیں
صدقہ جاریہ میں حصہ لیں
ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔
عطیہ کریں۔
Muawtta Imam Muhammad
12. دیت کا بیان
موطأ الامام محمد
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ عَنِ الْكِتَابِ الَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَهُ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فِي الْعُقُولِ، فَكَتَبَ: «أَنَّ فِي النَّفْسِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَفِي الأَنْفِ إِذا أُوعِيَتْ جَدْعًا مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَفِي الْجَائِفَةِ ثُلُثَ النَّفْسِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ مِثْلَهَا، وَفِي الْعَيْنِ خَمْسِينَ، وَفِي الْيَدِ خَمْسِينَ، وَفِي الرِّجْلِ خَمْسِينَ، وَفِي كُلِّ إِصْبَعٍ مِمَّا هُنَالِكَ عَشْرًا مِنَ الإِبِلِ، وَفِي السِّنِّ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ، وَفِي الْمُوضِحَةِ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے اس خط کے متعلق بتلایا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت کے سلسلہ میں عمرو بن حزم (رض) کو تحریر فرمایا تھا۔ اس کے مندرجات یہ تھے۔ (١) جان کی دیت سو اونٹ ہیں (٢) ناک کی دیت جب پوری کٹ جائے تو سو اونٹ ہیں۔ (٣) جائفہ (زخم) میں دیت کا تیسرا حصہ ہے۔ (٤) مامومہ (زخم) میں بھی اسی قدر ہے۔ (٥) آنکھ کی دیت پچاس اونٹ ہیں (٦) ہاتھ کی دیت پچاس اونٹ (٧) پاؤں کی دیت پچاس اونٹ (٨) ہر انگلی کی دیت دس اونٹ۔ (٩) ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ (١٠) موضحہ (زخم) کی دیت بھی پانچ اونٹ ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔ جائفہ پیٹ تک پہنچنے والا زخم، مامومہ سر کا زخم جو پیچھے کی کھال تک پہنچے۔ موضحہ وہ زخم جس سے ہڈی ننگی ہوجائے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔ جائفہ پیٹ تک پہنچنے والا زخم، مامومہ سر کا زخم جو پیچھے کی کھال تک پہنچے۔ موضحہ وہ زخم جس سے ہڈی ننگی ہوجائے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الشَّفَتَيْنِ الدِّيَةُ، فَإِذَا قُطِعَتِ السُّفْلَى، فَفِيهَا ثُلُثُ الدِّيَةِ.
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِهَذَا، الشَّفَتَانِ سَوَاءٌ، فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا نِصْفُ الدِّيَةِ، أَلا تَرَى أَنَّ الْخِنْصَرَ وَالإِبْهَامَ سَوَاءٌ، وَمَنْفَعَتُهُمَا مُخْتَلِفَةٌ.
وَهَذَا قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَأبي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سعید بن المسیب (رح) فرماتے تھے دونوں ہونٹوں کی پوری دیت ہے۔ اگر نے چت کا ہونٹ کاٹ دیا تو تہائی ہوگئی۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب ما فیہ الدیۃ کاملہ میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسے اختیار نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک دونوں ہونٹ برابر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں نصف دیت ہوگی کیا تم غور نہیں کرتے کہ خنصر اور بنصر دونوں انگلیوں میں دیت برابر ہے۔ جبکہ ان کا فائدہ مختلف ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ابراہمن نخعی (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسے اختیار نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک دونوں ہونٹ برابر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں نصف دیت ہوگی کیا تم غور نہیں کرتے کہ خنصر اور بنصر دونوں انگلیوں میں دیت برابر ہے۔ جبکہ ان کا فائدہ مختلف ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ابراہمن نخعی (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: مَضَتِ السُّنَّةُ «أَنَّ الْعَاقِلَةَ لا تَحْمِلُ شَيْئًا مِنْ دِيَةِ الْعَمْدِ إِلا أَنْ تَشَاءَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ
ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ قتل عمد میں قاتل کے ورثاء سے دیت نہ لی جائے بلکہ یہ خود قاتل کے ذمہ ہے۔ مگر یہ کہ ورثاء خوشی سے دیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لا تَعْقِلُ الْعَاقِلَةُ عَمْدًا، وَلا صُلْحًا، وَلا اعْتِرَافًا، وَلا مَا جَنَى الْمَمْلُوكُ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبید اللہ بن عبداللہ بن مسعود (رح) فرماتے تھے۔ کہ وارث قتل عمد کی دیت نہ قصدا دیں ، نہ صلح اور اعتراف کی بناء پر ادا کریں اور نہ غلام کی دیت اس کی جنایت کی صورت میں دیں ( بلکہ قاتل و جانی خود ادا کرے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: فِي دِيَةِ الْخَطَأِ عِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَعِشْرُونَ ابْنَ لَبُونٍ، وَعِشْرُونَ حِقَّةً، وَعِشْرُونَ جَذَعَةً. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِهَذَا، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " دِيَةُ الْخَطَأِ أَخْمَاسٌ، عِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَعِشْرُونَ ابْنَ مَخَاضٍ، وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَعِشْرُونَ حِقَّةً، وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، أَخْمَاسٌ.
وَإِنَّمَا خَالَفَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ فِي الذُّكُورِ، فَجَعَلَهَا مِنْ بَنِي اللَّبُونِ، وَجَعَلَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ مِنْ بَنِي مَخَاضٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ
سلیمان بن یسار کہا کرتے تھے کہ قتل خطاء کی دیت بیس بنت مخاض بیس بنت لبون، بیس ابن لبون، بیس حقے، بیس جذعے ہے۔ دوسرے سال میں داخل ہونے والی اونٹنی کو بنت مخاض، بنت لبون جو تیسرے سال میں داخل ہوجائے، حقہ چوتھے سال میں داخل ہونے والے اونٹنی جو سواری کے قابل ہو۔ جذعہ جس کا پانچواں سال شروع ۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب دیۃ الخطأ فی القتل میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار نہیں کرتے۔ اور عبداللہ بن مسعود کی بات کو اپناتے ہیں۔ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قتل خطاء کی دیت کے پانچ حصے ہیں۔ بیس بنت مخاض، بیس ابن مخاص، بیس بنت لبون، بیس حقے، اور بیس جذعے، سلیمان بن یسار (رح) نے ہم سے مذکر میں اختلاف کیا ہے۔ انھوں نے ابن لبون کہا ہے اور ابن مسعود (رض) نے ابن مخاض فرمایا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ابن مسعود (رض) کے مطابق ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار نہیں کرتے۔ اور عبداللہ بن مسعود کی بات کو اپناتے ہیں۔ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قتل خطاء کی دیت کے پانچ حصے ہیں۔ بیس بنت مخاض، بیس ابن مخاص، بیس بنت لبون، بیس حقے، اور بیس جذعے، سلیمان بن یسار (رح) نے ہم سے مذکر میں اختلاف کیا ہے۔ انھوں نے ابن لبون کہا ہے اور ابن مسعود (رض) نے ابن مخاض فرمایا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ابن مسعود (رض) کے مطابق ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، أَنَّ أَبَا غَطَفَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ أَرْسَلَهُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ مَا فِي الضِّرْسِ؟ فَقَالَ: إِنَّ فِيهِ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ، قَالَ: فَرَدَّنِي مَرْوَانُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: فَلِمَ تَجْعَلُ مُقَدَّمَ الْفَمِ مِثْلَ الأَضْرَاسِ؟ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَوْلا أَنَّكَ لا تَعْتَبِرُ إِلا بِالأَصَابِعِ عَقْلُهَا سَوَاءٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَأْخُذُ، عَقْلُ الأَسْنَانِ سَوَاءٌ، وَعَقْلُ الأَصَابِعِ سَوَاءٌ، فِي كُلِّ إِصْبَعٍ عُشْرٌ مِنَ الدِّيَةِ، وَفِي كُلِّ سِنٍّ نِصْفُ عُشْرٍ مِنَ الدِّيَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو غطفان (رح) نے بتلایا کہ مروان بن حکم نے مجھے ابن عباس (رض) کی خدمت میں بھیجا کہ ڈاڑھ کی دیت کیا ہے ؟ ابن عباس (رض) نے فرمایا۔ اس کی دیت پانچ اونٹ ہیں۔ مروان نے مجھے ابن عباس (رض) کی طرف دوبارہ بھیجا کہ ڈاڑھ کو دانتوں کے برابر کیوں کرتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا۔ اگر تم دانتوں کو انگلیوں کے برابر قیاس کرتے تو تمہارے لیے کافی ہوتا کیونکہ تمام انگلیوں کی دیت برابر ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ابن عباس (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ دانتوں کی دیت اور انگلیوں کی دیت دونوں برابر ہیں۔ ہر انگلی کی دیت اصل دیت کا دسواں حصہ ہے۔ اور ہر دانت کی دیت اصل دیت کا بیسواں حصہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ابن عباس (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ دانتوں کی دیت اور انگلیوں کی دیت دونوں برابر ہیں۔ ہر انگلی کی دیت اصل دیت کا دسواں حصہ ہے۔ اور ہر دانت کی دیت اصل دیت کا بیسواں حصہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، كَانَ يَقُولُ: إِذَا أُصِيبَتِ السِّنُّ فَاسْوَدَّتْ فَفِيهَا عَقْلُهَا تَامًّا.
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا أُصِيبَتِ السِّنُّ فَاسْوَدَّتْ أَوِ احْمَرَّتْ أَوِ اخْضَرَّتْ فَقَدْ تَمَّ عَقْلُهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
سعید بن المسیب (رح) کہتے ہیں کہ جب دانت کو نقصان ہوجائے اور وہ سیاہ ہوجائے تو اس کی دیت پوری ہوگی۔ ( اس اثر کو اباب جامع الاسنان میں امام مالک نے ذکر کیا ہے) الفاظ کا معمولی فرق ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں کہ جب دانت کو نقصان پہنچ جائے اور وہ سیاہ سرخ یا س بز ہوجائے تو اس کی پوری دیت لازم ہوگی یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں کہ جب دانت کو نقصان پہنچ جائے اور وہ سیاہ سرخ یا س بز ہوجائے تو اس کی پوری دیت لازم ہوگی یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، كَانَ يَقُولُ: «فِي الْعَيْنِ الْقَائِمَةِ إِذَا فُقِئَتْ مِائَةُ دِينَارٍ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: لَيْسَ عِنْدَنَا فِيهَا أَرْشٌ مَعْلُومٌ، فَفِيهَا حُكُومَةُ عَدْلٍ، فَإِنْ بَلَغَتِ الْحُكُومَةُ مِائَةَ دِينَارٍ، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، كَانَتِ الْحُكُومَةُ فِيهَا، وَإِنَّمَا نَضَعُ هَذَا مِنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ لأَنَّهُ حَكَمَ بِذَلِكَ
سلیمان بن یسار فرماتے ہیں زید بن ثابت (رض) فرماتے تھے کہ جب آنکھ درست رہے لیکن بےنور ہوجائے تو اس کی دیت سو دینار ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں اس کی دیت مقرر نہیں۔ اس میں نحاکم عادل کو اختیار ہے۔ خواہ وہ سود دینار کا حکم دے یا زیادہ کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ ہم یہ مسئلہ زید بن ثابت (رض) کے فیصلہ سے اخذ کرتے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں اس کی دیت مقرر نہیں۔ اس میں نحاکم عادل کو اختیار ہے۔ خواہ وہ سود دینار کا حکم دے یا زیادہ کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ ہم یہ مسئلہ زید بن ثابت (رض) کے فیصلہ سے اخذ کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، " قَتَلَ نَفَرًا، خَمْسَةً، أَوْ سَبْعَةً بِرَجُلٍ قَتَلُوهُ قَتْلَ غِيلَةٍ، وَقَالَ: لَوْ تَمَالأَ عَلَيْهِ أَهْلُ صَنْعَاءَ قَتَلْتُهُمْ بِهِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِنْ قَتَلَ سَبْعَةٌ، أَوْ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ رَجُلا عَمْدًا قَتْلَ غِيلَةٍ، أَوْ غَيْرَ غِيلَةٍ ضَرَبُوهُ بِأَسْيَافِهِمْ حَتَّى قَتَلُوهُ قُتِلُوا بِهِ كُلُّهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّه
سعید بن المسیب (رح) بیان کرتے ہیں کہ عمر فاروق (رض) نے اشک شخص کے قتل کا بدلہ میں پانچ یا سات آدمیوں کو قتل کیا اور فرمایا کہ اگر صنعاء شہر کے تمام آدمی اس کو قتل کرتے تو میں ان سب کو قتل کردیتا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الغیلۃ والسحر میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو عمل میں لاتے ہیں کہ اگر سات یا اس سے زیادہ افراد نے کسی کو قصدا دھوکا دے کر یا دھوکا کے بغیر تلواروں سے مارا ہو تو وہ سب کے سب اس کے قتل کے بدلے میں قتل کئے جائیں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو عمل میں لاتے ہیں کہ اگر سات یا اس سے زیادہ افراد نے کسی کو قصدا دھوکا دے کر یا دھوکا کے بغیر تلواروں سے مارا ہو تو وہ سب کے سب اس کے قتل کے بدلے میں قتل کئے جائیں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، نَشَدَ النَّاسَ بِمِنًى: مَنْ كَانَ عِنْدَهُ عِلْمٌ فِي الدِّيَةِ أَنْ يُخْبِرَنِي بِهِ، فَقَامَ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ، فَقَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ: «أَنْ وَرِّثِ امْرَأَتَهُ مِنْ دِيَتِهِ» .
فَقَالَ عُمَرُ: ادْخُلِ الْخِبَاءَ حَتَّى آتِيَكَ، فَلَمَّا نَزَلَ أَخْبَرَهُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ بِذَلِكَ، فَقَضَى بِهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لِكُلِّ وَارِثٍ فِي الدِّيَةِ وَالدَّمِ نَصِيبٌ، امْرَأَةً كَانَ الْوَارِثُ، أَوْ زَوْجًا، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ.
وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے منی کے مقام میں ان لوگوں کو بلایا جو کہ دیت کے مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں۔ تاکہ دیت کے متعلق وہ بتلائیں۔ ضحاک بن سفیان (رض) کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اشیم الضبابی کے متعلق تحریر فرمایا تھا کہ اس کی دیت میں اس کی ب یوی کو وراثت کا حصہ دلاؤ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تم خیمہ میں جاؤ یہ ان تک کہ میں آجاؤں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) خیمہ میں تشریف لے گئے تو ضحاک بن سفیان (رض) نے انھیں بتلایا اور حضر عمر (رض) نے اس کے مطابق فیصل فرمایا ( اس روایت کو باب ما جاء فی میراث العقل و التغلیظ فیہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ دیت اور خون بہاء میں تمام ورثاء کا حصہ ہے۔ وہ وارث شوہر ہو یا بیوی یا ان کے علاوہ اور کوئی وارث ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ دیت اور خون بہاء میں تمام ورثاء کا حصہ ہے۔ وہ وارث شوہر ہو یا بیوی یا ان کے علاوہ اور کوئی وارث ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: فِي كُلِّ نَافِذَةٍ، فِي عُضْوٍ مِنَ الأَعْضَاءِ ثُلُثُ عَقْلِ ذَلِكَ الْعُضْوِ.
قَالَ مُحَمَّدٌ: فِي ذَلِكَ أَيْضًا حُكُومَةُ عَدْلٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عید ابن المسیب رحمہ الہ فرماتے ہیں کہ جو زخم کسی عضو میں آر پار ہوجائے تو اس عشو کی تہائی دیت لازم ہے۔
قول محمد (رح) ہ ہے : کہ اس سلسلہ میں بھی حاکم عادل کا فیصلہ معتبر ہوگا۔ یہی امام اوب حنیفہ ر اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) ہ ہے : کہ اس سلسلہ میں بھی حاکم عادل کا فیصلہ معتبر ہوگا۔ یہی امام اوب حنیفہ ر اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَضَى فِي الْجَنِينِ يُقْتَلُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ، أَوْ وَلِيدَةٍ» .
فَقَالَ الَّذِي قَضَى عَلَيْهِ: كَيْفَ أَغْرَمُ مَنْ لا شَرِبَ، وَلا أَكَلَ، وَلا نَطَقَ، وَلا اسْتَهَلَّ، وَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ»
سعید المسیب (رح) فرماتے ہیں کہ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کے متعلق جس کو ماں کے پیٹ میں قتل کردیا جائے۔ ایک غلام یا ایک لونڈی دیت میں دینے کا فیصلہ فرمایا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا اس کا تاوان کیسے دوں۔ جس نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا نہ وہ رویا یا چلایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ اسْتَبَّتَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، فَطَرَحَتْ جَنِينَهَا، فَقَضَى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم بِغُرَّةِ عَبْدٍ، أَوْ وَلِيدَةٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا ضُرِبَ بَطْنُ الْمَرْأَةِ الْحُرَّةِ، فَأَلْقَتْ جَنِينًا مَيِّتًا، فَفِيهِ غُرَّةُ عَبْدٍ، أَوْ أَمَةٍ، أَوْ خَمْسُونَ دِينَارًا، أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ نِصْفُ عُشْرِ الدِّيَةِ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الإِبِلِ أُخِذَ مِنْهُ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْغَنَمِ أُخِذَ مِنْهُ مِائَةٌ مِنَ الشَّاةِ نِصْفُ عُشْرِ الدِّيَةِ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں باہم جھگڑا کیا۔ ایک نے دوسرے کو پتھر دے مارا۔ اس کے پیٹ سے بچہ نکل کیا ( حمل گرگیا) تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام یا لونڈی دیت میں دینے کا فیصلہ صادر فرمایا ( ان دونوں آثار کو امام مالک نے باب عقل الجنین میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ اگر کسی نے آزاد عورت کے پیٹ پر ضرب لگائی اور اس سے مردہ بچہ ساقط ہو کیا تو اس کو ایک غلام یا لونڈی یا پچاس دینار یا پاننچ سو درہم دیت ادا کرنا ہو کی یہ دیت کا بیسوان حصہ ہے۔ اگر اونٹ کا مالک ہے تو اس سے پانچ اونٹ لیے جائیں گے اور اکر بکریوں والا ہے تو اس سے سو بکریاں لی جائیں گی۔ یہ دیت کا بیسواں حصہ ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ اگر کسی نے آزاد عورت کے پیٹ پر ضرب لگائی اور اس سے مردہ بچہ ساقط ہو کیا تو اس کو ایک غلام یا لونڈی یا پچاس دینار یا پاننچ سو درہم دیت ادا کرنا ہو کی یہ دیت کا بیسوان حصہ ہے۔ اگر اونٹ کا مالک ہے تو اس سے پانچ اونٹ لیے جائیں گے اور اکر بکریوں والا ہے تو اس سے سو بکریاں لی جائیں گی۔ یہ دیت کا بیسواں حصہ ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ , أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُوضِحَةِ فِي الْوَجْهِ: إِنْ لَمْ تُعِبِ الْوَجْهَ مِثْلَ مَا فِي الْمُوضِحَةِ فِي الرَّأْسِ.
قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمُوضِحَةُ فِي الْوَجْهِ وَالرَّأْسِ سَوَاءٌ، فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ نِصْفُ عُشْرِ الدِّيَةِ، وَهُوَ قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَأبي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سلیمان بن یسار (رح) ب یان کرتے ہیں کہ چہر یا سر میں موضحہ یعنی ہڈی ظاہر کرنے والا زخم لگ گیا۔ بشرطیکہ چہرہ یا سر عیب دار نہ ہو ( دیت کا بیسواں حصہ ہوگا)
قول محمد (رح) یہ ہے : چہرہ یا سر کے موضحہ کی دیت برابر ہے۔ یعین دیت کا بیسواں حصہ دیا جائے گا۔ یہی ابراہیم نخعی (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : چہرہ یا سر کے موضحہ کی دیت برابر ہے۔ یعین دیت کا بیسواں حصہ دیا جائے گا۔ یہی ابراہیم نخعی (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «جَرْحُ الْعَجْمَاءِ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَالْجُبَارُ الْهَدَرُ، وَالْعَجْمَاءُ الدَّابَّةُ الْمُنْفَلِتَةُ تَجْرَحُ الإِنْسَانَ، أَوْ تَعْقِرُهُ، وَالْبِئْرُ وَالْمَعْدِنُ، الرَّجُلُ يَسْتَأْجِرُ الرَّجُلَ يَحْفُرُ لَهُ بِئْرًا وَمَعْدِنًا، فَيَسْقُطُ عَلَيْهِ، فَيَقْتُلَهُ، فَذَلِكَ هَدَرٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ، وَالرِّكَازُ مَا اسْتُخْرِجَ مِنَ الْمَعْدِنِ مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ فِضَّةٍ، أَوْ رَصَاصٍ، أَوْ نُحَاسٍ، أَوْ حَدِيدٍ، أَوْ زَيْبَقٍ، فَفِيهِ الْخُمْسُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کہ چار پایوں کے مجروح کرنے میں ، کنواں کھودتے ہوئے دب کر مرجانے میں، اور کان کھودتے ہوئے دب کر مرجانے میں دیت نہ ہوگی۔ مدفون خزانہ جس کو مل جائے اس کا پانچواں حصہ حکومت وقت لے گی۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب جامع العقل میں ذکر ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جبار کے معنی لغو ہیں اور عجماء وہ چوپایہ جس کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے اور وہ کسی کو زخمی کردے یا سینگ ماردے۔ کنوأن اور کان کھودنے کے لیے مزودور لگائے جائیں اور وہ گر پرے اور کھودنے والے دب کر مرجائیں۔ تو وہ بھی لغو ہے۔ یعنی اس بر کوئی دیت نہ ہوگی۔ البتہ کان سے جو سونا، چاندی ، سیسہ ، تانبا، لوھار یا پارہ نکلے اس میں سے پانچواں حصہ حکومت وقت کو دینا ہوگا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جبار کے معنی لغو ہیں اور عجماء وہ چوپایہ جس کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے اور وہ کسی کو زخمی کردے یا سینگ ماردے۔ کنوأن اور کان کھودنے کے لیے مزودور لگائے جائیں اور وہ گر پرے اور کھودنے والے دب کر مرجائیں۔ تو وہ بھی لغو ہے۔ یعنی اس بر کوئی دیت نہ ہوگی۔ البتہ کان سے جو سونا، چاندی ، سیسہ ، تانبا، لوھار یا پارہ نکلے اس میں سے پانچواں حصہ حکومت وقت کو دینا ہوگا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حَازِمِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ مُحِيِّصَةَ، أَنَّ نَاقَةً لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ دَخَلَتْ حَائِطًا لرجُلٍ، فَأَفْسَدَتْ فِيهِ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّ عَلَى أَهْلِ الْحَائِطِ حِفْظَهَا بِالنَّهَارِ، وَأَنَّ مَا أَفْسَدَتِ الْمَوَاشِي بِاللَّيْلِ فَالضَّمَانُ عَلَى أَهْلِهَا
حازم بن سعید بن محیصہ (رح) سے روایت ہے کہ براء بن عازب (رض) کی اونٹنی ایک شخص کے باغ میں چلی گئی اور اس نے باغ کو خراب کردیا جناب رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصل فرمایا کہ دن کے وقت باغ کی حفاظت باغ والے کے ذمہ ہے۔ البتہ رات کو جو جانور نقصان کرجائیں تو اس نقصان کا ذمہ دار جانوروں کا مالک ہوگا۔
باب قتل خطاء کی دیت جس کے عاقلہ نامعلوم ہوں۔
باب قتل خطاء کی دیت جس کے عاقلہ نامعلوم ہوں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، " أَنَّ سَائِبَةَ كَانَ أَعْتَقَهُ بَعْضُ الْحُجَّاجِ، فَكَانَ يَلْعَبُ مَعَ ابْنِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَابِدٍ، فَقَتَلَ السَّائِبَةُ ابْنَ الْعَابِدِيِّ، فَجَاءَ الْعَابِدِيُّ أَبُو الْمَقْتُولِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَطَلَبَ دِيَةَ ابْنِهِ، فَأَبَى عُمَرُ أَنْ يَدِيَهُ، وَقَالَ: لَيْسَ لَهُ مَوْلًى، فَقَالَ الْعَابِدِيُّ لَهُ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ ابْنِي قَتَلَهُ؟ قَالَ: إِذَنْ تُخْرِجُوا دِيَتَهُ، قَالَ الْعَابِدِيُّ: هُوَ إِذَنْ كَالأَرْقَمِ، إِنْ يُتْرَكْ يَلْقَمْ، وإِنْ يُقْتَلْ يَنْقَمْ "، قَالَ مُحَمَدٌّ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا نَرَى أَنَّ عُمَرَ أَبْطَلَ دِيَتَهُ عَنِ الْقَاتِلِ، وَلا نَرَاهُ أَبْطَلَ ذَلِكَ لأَنَّ لَهُ عَاقِلَةً، وَلَكِنَّ عُمَرَ لَمْ يَعْرِفْهَا، فَيَجْعَلَ الدِّيَةَ عَلَى الْعَاقِلَةِ، وَلَوْ أَنَّ عُمَرَ لَمْ يَرَ لَهُ مَوْلًى، وَلا أَنَّ لَهُ عَاقِلَةً لَجَعَلَ دِيَةَ مَنْ قُتِلَ فِي مَالِهِ، أَوْ عَلَى بَيْتِ الْمَالِ، وَلَكِنَّهُ رَأَى لَهُ عَاقِلَةً، وَلَمْ يَعْرِفْهُمْ لأَنَّ بَعْضَ الْحُجَّاجِ أَعْتَقَهُ، وَلَمْ يُعْرَفِ الْمُعْتِقُ، وَلا عَاقِلَتُهُ، فَأَبْطَلَ ذَلِكَ عُمَرُ حَتَّى يُعْرَفَ، وَلَوْ كَانَ لا يَرَى لَهُ عَاقِلَةً لَجَعَلَ ذَلِكَ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ، أَوْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فِي بَيْتِ مَالِهِمْ
سلیمان بن یسار (رح) نے فرمایا کہ ایک سائبہ ( وہ غلام جس کو آزاد کرتے وقت اس کا مالک کہے میں اس کا وارث نہ ہوں گا) کو کسی حاجی نے آزاد کردیا تھا۔ وہ بنی عابد کے کسی بیٹے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس سائبہ نے عابدی کے بیٹے کو قتل کردیا۔ مقتول عابدی کا والد حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور اس نے اپنے بیٹے کی دیت طلب کی حضرت عمر (رض) نے دیت دلانے سے انکار کردیا۔ اور فرمایا اس کا کوئی مالک نہ تھا عابدی نے کہا کیا خیال ہے کہ اگر میرا بیٹا اس کو قتل کردیتا آپ نے فرمایا تمہیں اس کی دیتدین پڑتی۔ عابدی نے کہا سائبہ گویا چتکبرے سانپ کی طرح ہے کہ اگر اس کو چھوڑ دیں تو ڈس لے اور اگر ماڈالا جائے تو اس کا انتقام لیا جائے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ہم نہیں سمجھتے کہ عمر (رض) نے قاتل سے دیت کو ہٹادیا، اور نہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس دیت کو باطل کردیا کیونکہ اس کا عاقلہ ہے لیکن حضرت عمر (رض) کو معلوم نہ تھا کہ وہ عاقلہ پر دیت کو لازم کرتے اور اگر ان کو معلو ہوجاتا کہ اس کا مولی نہیں اور نہ کوئی عاقلہ ہے تو مقتول کی دیت قاتل کے مال سے یا مسکین ہونے کی صورت میں بیت المال سے دلواتے، لیکن انھیں معلوم تھا کہ اس کا عاقلہ ہے۔ لیکن کون ہے۔ اس کا علم نہ ہوسکا۔ کیونکہ کسی حاجی نے اسے آزاد کیا تھا۔ نہ آزاد کرنے والا معلو ہوسکا اور نہ عاقلہ معلوم ہوسکا۔ پس انھوں نے دیت کا باطل کردیا۔ یہاں تک کہ اس کا آزاد کرنے والا معلوم ہوسکے۔ اگر انھیں ابتداء سے ہی معلوم ہوتا کہ کوئی اس کا عاقلہ نہیں ہے تو دیت اس کے مال سے یا مسلمانوں کے کے بیت المال سے دلواتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ہم نہیں سمجھتے کہ عمر (رض) نے قاتل سے دیت کو ہٹادیا، اور نہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس دیت کو باطل کردیا کیونکہ اس کا عاقلہ ہے لیکن حضرت عمر (رض) کو معلوم نہ تھا کہ وہ عاقلہ پر دیت کو لازم کرتے اور اگر ان کو معلو ہوجاتا کہ اس کا مولی نہیں اور نہ کوئی عاقلہ ہے تو مقتول کی دیت قاتل کے مال سے یا مسکین ہونے کی صورت میں بیت المال سے دلواتے، لیکن انھیں معلوم تھا کہ اس کا عاقلہ ہے۔ لیکن کون ہے۔ اس کا علم نہ ہوسکا۔ کیونکہ کسی حاجی نے اسے آزاد کیا تھا۔ نہ آزاد کرنے والا معلو ہوسکا اور نہ عاقلہ معلوم ہوسکا۔ پس انھوں نے دیت کا باطل کردیا۔ یہاں تک کہ اس کا آزاد کرنے والا معلوم ہوسکے۔ اگر انھیں ابتداء سے ہی معلوم ہوتا کہ کوئی اس کا عاقلہ نہیں ہے تو دیت اس کے مال سے یا مسلمانوں کے کے بیت المال سے دلواتے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَعِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ الْغِفَارِيِّ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ، " أَنَّ رَجُلا مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ لَيْثٍ أَجْرَى فَرَسًا، فَوَطِئَ عَلَى إِصْبَعِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي جُهَيْنَةَ، فَنَزَفَ مِنْهَا الدَّمُ، فَمَاتَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِلَّذِينَ ادُّعِيَ عَلَيْهِمْ: أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا مَا مَاتَ مِنْهَا؟ فَأَبَوْا، وَتَحَرَّجُوا مِنَ الأَيْمَانِ، فَقَالَ لِلآخَرِينَ: احْلِفُوا أَنْتُمْ، فَأَبَوْا، فَقَضَى بِشَطْرِ الدِّيَةِ عَلَى السَّعْدِيِّينَ "
ابن شہاب (رح) نے سلیمان بن یاسر اور عراک ابن مالک غفاری سے نقل کیا کہ قبیلہ سعد بن لیث کے ایک آدمی نے گھوڑا دوڑایا گھوڑے نے بنی جہنیہ کے ایک آدمی کی انگلی کچل ڈالی۔ جس سے خون بھنے لگا اور وہ شخص مرگیا تو عمر ر ضی اللہ عنہ نے مدعا علیہم سے فرمایا کہ تم پج اس آدمی قسم کھاؤ گے کہ وہ اس سبب سے نہیں مراد انھوں نے انکار کردیا اور قسم نہ دی۔ پھر آپ نے دوسروں یعنی مدعیوں سے کہا کہ تم قسم کھاؤ گے تو انھوں نے بھی انکار کردیا۔ تو آپ نے بنو سعد کے لوگوں کو نصف دیت کا حکم دیا۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب دیتۃ الخطاء فی القتل میں ذکر کیا ہے) یہ فیصلہ فاروق اعظم (رض) نے ان کے درمیان مصالحت کے لیے کیا اس لیے امام مالک کہتے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو لَيْلَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ رِجَالٌ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمَا، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ، فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ، وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ، أَوْ عَيْنٍ، فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ قَتَلْتُمُوهُ؟ فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ، وَهُوَ أَخُوهُ أَكْبَرُ مِنْهُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ لِيَتَكَلَّمَ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَبِّرْ كَبِّرْ» ، يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ» ، فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا لَهُ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: «تَحْلِفُونَ وَتَستَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ» ، قَالُوا: لا، قَالَ: «فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ» ، قَالُوا: لا، لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ.
«فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ» .
قَالَ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ» ، يَعْنِي بِالدِّيَةِ لَيْسَ بِالْقَوَدِ، وَإِنَّمَا يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ الدِّيَةَ دُونَ الْقَوَدِ، قَوْلُهُ فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ: «إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ تُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ» .
فَهَذَا يَدُلُّ عَلَى آخِرِ الْحَدِيثِ، وَهُوَ قَوْلُهُ: «تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ» ، لأَنَّ الدَّمَ قَدْ يُستَحَقُّ بِالدِّيَةِ كَمَا يُسْتَحَقُّ بِالْقَوَدِ، لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقُلْ لَهُمْ: " تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ مَنِ ادَّعَيْتُمْ، فَيَكُونَ هَذَا عَلَى الْقَوَدِ، وَإِنَّمَا قَالَ لَهُمْ: «تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ» ، فَإِنَّمَا عَنَى بِهِ تَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ بِالدِّيَةِ، لأَنَّ أَوَّلَ الْحَدِيثِ يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُهُ: «إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ تُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ» ، وَقَدْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: الْقَسَامَةُ تُوجِبُ الْعَقْلَ، وَلا تُشِيطُ الدَّمَ فِي أَحَادِيثَ كَثِيرَةٍ، فَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سہل بن ابی حثمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری قوم کے بڑے لوگوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ دونوں غربت کی وجہ سے خیبر گئے۔ کسی نے آکر محیصہ کو خبر دی کہ عبداللہ کو قتل کردیا گیا ہے اور ان کو کسی چشمے یا کنوئیں میں پھینک دیا گیا ہے تو محیصہ یہود کے پاس آئے اور کہا تم نے اسے قتل کیا ہے انھوں نے انکار کیا اور کہا اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پہر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ پھر وہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبد الرحمن بن سہل خیبر گئے اور وہ بات کرنے لگے اور وہ خیبر میں تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بڑا، بڑأ یعنی جو تم میں عمر میں بڑا ہے وہ گفتگو کرے چنانچہ حویصہ (رض) نے گفتگو کی پھر محیصہ (رض) عنہنے کی ۔ تو اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کہ وہ تمہارے بھائی کی دیت ادا کریں۔ یا اعلان جنگ کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق یہود خیبر کو لکھا۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب میں تحریر کیا کہ اللہ کی قسم ! ہم نے انھیں قتل نہیں کیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حویصہ اور محیصہ (رض) اور عبد الرحمن (رض) سے کہا کہ یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ تو مسلمان نہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کی۔ انھیں سو اونٹنیاں بھیجیں۔ یہاں تک مہ وہ مرے گھر میں داخل ہوگئیں۔ سہل بن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات مار دی تھی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم کھاؤ۔ اور دیت کے مالک ہوجاؤ۔ اس سے مراد قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔ اس پر آپ کا وہ اراشد دلالت کررہا ہے۔ جو ابتداء روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ یہود دیت ادا کریں یا جنگ کریں۔ اور اس پر آپ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے ارشاد کے آخر میں فرمایا ہے کہ ” تحلفون و تستحقون دم صاحبکم “ اس لیے کہ ” دم “ کا استحقاق کبہی تو دیت کے ذریعہ ہوتا ہے اور کبھی قصاص کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں یہ نہیں فرمایا کہ قسم کھائیں اور دم کے مستحق ہوجائیں۔ اگر یہ فرماتے تو اس سے مراد قصاص ہوتا بلکہ یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کے دم کے مستحق ہوجاؤ۔ یعنی دیت کے ذریعہ اپنے ساتھی کے خون کے مستحق ہوجاؤ۔ اور اس بات پر یہود کے متعلق یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے یا تو اپنے ساتھی کی دیت ادا کردیں یا علان جنگ کردیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ قسامت دیت کو واجب کرتی ہے۔ خون کو باطل نہیں کرتی۔ یہ بات تو بہت سی روایات میں وارد ہے۔ اور اس کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قسامت : جب محلہ میں قتل ہوجائے اور قاتل نامعلوم ہوں تو اہل محلہ میں سے معتبر آدمی قسم دیں کہ نہ انھوں نے قتل کیا ہے یاور ان کو قاتل کا علم ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم کھاؤ۔ اور دیت کے مالک ہوجاؤ۔ اس سے مراد قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔ اس پر آپ کا وہ اراشد دلالت کررہا ہے۔ جو ابتداء روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ یہود دیت ادا کریں یا جنگ کریں۔ اور اس پر آپ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے ارشاد کے آخر میں فرمایا ہے کہ ” تحلفون و تستحقون دم صاحبکم “ اس لیے کہ ” دم “ کا استحقاق کبہی تو دیت کے ذریعہ ہوتا ہے اور کبھی قصاص کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں یہ نہیں فرمایا کہ قسم کھائیں اور دم کے مستحق ہوجائیں۔ اگر یہ فرماتے تو اس سے مراد قصاص ہوتا بلکہ یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کے دم کے مستحق ہوجاؤ۔ یعنی دیت کے ذریعہ اپنے ساتھی کے خون کے مستحق ہوجاؤ۔ اور اس بات پر یہود کے متعلق یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے یا تو اپنے ساتھی کی دیت ادا کردیں یا علان جنگ کردیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ قسامت دیت کو واجب کرتی ہے۔ خون کو باطل نہیں کرتی۔ یہ بات تو بہت سی روایات میں وارد ہے۔ اور اس کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قسامت : جب محلہ میں قتل ہوجائے اور قاتل نامعلوم ہوں تو اہل محلہ میں سے معتبر آدمی قسم دیں کہ نہ انھوں نے قتل کیا ہے یاور ان کو قاتل کا علم ہے۔
پڑھنے کی ترتیبات
Urdu
System
عربی فونٹ منتخب کریں
Kfgq Hafs
ترجمہ فونٹ منتخب کریں
Noori_nastaleeq
22
17
عام ترتیبات
عربی دکھائیں
ترجمہ دکھائیں
حوالہ دکھائیں
حدیث دو حصوں میں دیکھیں
صدقہ جاریہ میں حصہ لیں
ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔
عطیہ کریں۔