HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

7. نکاح سے متعلقہ احادیث

موطأ الامام محمد

523

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَنَى بِأُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ لَهَا حِينَ أَصْبَحَتْ عِنْدَهُ: «لَيْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانٌ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ عِنْدَكِ وَسَبَّعْتُ عِنْدَهُنَّ، وَإِنْ شِئْتِ ثَلَّثْتُ عِنْدَكِ وَدُرْتُ» ، قَالَتْ: ثَلِّثْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ يَنْبَغِي إِنْ سَبَّعَ عِنْدَهَا أَنْ يُسَبِّعَ عِنْدَهُنَّ لا يَزِيدُ لَهَا عَلَيْهِنَّ شَيْئًا وَإِنْ ثَلَّثَ عِنْدَهَا أَنْ يُثَلِّثَ عِنْدَهُنَّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابوبکر بن حارث نے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت ام سلمہ (رض) عنہا سے نکاح کیا تو صبح کے وقت ان سے فرمایا۔ میں ایسا نہ کروں گا کہ تم اپنے لوگوں میں ذلیل ہوجاؤ۔ اگر تم پسند کرو تو سات دن تمہارے پاس رہوں گا اور سات سات دن دوسری بیویوں کے پاس رہوں۔ اور اکر تم پسند کرو تو تین دن تمہارے ہاں اور ایک ایک دن ان تمام کے ہاں قیام کروں۔ ام سلمہ (رض) عنہا نے عرض کیا تین دن بہتر ہے۔ (اس روایت کو باب المقام عند الایم والبکر میں امام مالک نے ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی کو ہم اختیار کرنے والے ہیں۔ کہ نئی بیوی کے ہاں سات دن رہے اور دوسری ازواج کے ہاں بھی سات سات دن رہے اور اس نئی بیوی کے لیے ان ایام میں کچھ بھی اضافہ نہ کرے۔ اور اگر اس کے ہاں تین دن قیام کرے تو ان کے ہاں بھی تین تین دن رہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

524

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ " تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ: كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا؟ قَالَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، أَدْنَى الْمَهْرُ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ مَا تُقْطَعُ فِيهِ الْيَدُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
حمید الطویل نے انس بن مالک (رض) اور انھوں نے عبد الرحمن بن عوف (رض) سے نقل کیا کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور مجھ پر زردی کا نشان تھا۔ میں نے بتلایا کہ میں نے ایک انصاریہ عورت سے شادی کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا مہر کتنا ادا کیا ی ؟ میں نے جواب میں عرض کیا ایک گٹھلی کے برابر سونا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہو۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الولیمہ میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی پر ہمارا عمل ہے کہ کم سے کم مقدار دس درہم ہے یہ وہ مقدار ہے جس پر چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

525

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَجْمَعُ الرَّجُلُ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، وَلا بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ کوئی شخص کسی عورت اور اس کی پھوپھی کو اور اس کی خالہ کو (ایک نکاح میں) جمع نہ کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) و ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

526

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَنْهَى أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا، أَوْ عَلَى عَمَّتِهَا وَأَنْ يَطَأَ الرَّجُلُ وَلِيدَةً فِي بَطْنِهَا جَنِينٌ لِغَيْرِهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى.
یحی بن سعید (رح) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب (رح) کو اس بات سے منع کرتے ہوئے سنا کہ کوئی شخص کسی عورت سے اس کی پھوپھی کے نکاح میں ہوتے ہوئے نکاح نہ کرے اور اسی طرح اس کی خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس سے نکاح نہ کرے اور کسی ایسی لونڈی سے مجامعت نہ کرے جو کہ کسی مرد سے حاملہ ہو۔ ( ان دونوں مرویات کو امام مالک نے باب مالا یجمع بینہ من النساء میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

527

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَخْطُبُ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے پیغام نکاح پر نکاح کا اپنا پیغام نہ دے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الخطبۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

528

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُجَمِّعٍ ابْنَيْ يَزِيدَ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ خَنْسَاءَ ابْنَةِ خِذَامٍ، أَنَّ «أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ، فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي أَنْ تُنْكَحَ الثَّيِّبُ، وَلا الْبِكْرُ إِذَا بَلَغَتْ إِلا بِإِذْنِهِمَا فَأَمَّا إِذْنُ الْبِكْرِ فَصَمْتُهَا، وَأَمَّا إِذْنُ الثَّيِّبِ فَرِضَاهَا بِلِسَانِهَا، زَوَّجَهَا وَالِدُهَا أَوْ غَيْرُهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
یزید بن جاریہ انصاری کے بیٹے جمع اور عبد الرحمن نے بیان کیا کہ خنساء بنت خذام کے والد نے خنساء کا نکاح اس حالت میں کردیا جبکہ وہ ثیبہ تھیں۔ ان کو یہ نکاح ناپسند ہوا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں ( اور شکایت کی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نکاح رد ( فسخ) کردیا۔ ( اس روایت کو باب جامع ما لا یجوز من النکاح میں ذکر یکا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ثیبہ یا باکرہ دجب بالغ ہوجائیں تو ان کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر مناسب نہیں۔ باکرہ کی خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائے گی مگر ثیبہ کی رضا مندی زبان سے معتبر ہوگی۔ خواہ اس کا نکاح اس کا والد کرے یا کوئی اور کرے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔

529

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: بَلَغَنَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ وَكَانَ عِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ حِينَ أَسْلَمَ الثَّقَفِيُّ، فَقَالَ لَهُ: «أَمْسِكْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا، وَفَارِقْ سَائِرَهُنَّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَخْتَارُ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا أَيَّتُهُنَّ شَاءَ، وَيُفَارِقُ مَا بَقِيَ، وَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَقَالَ: نِكَاحُ الأَرْبَعَةِ الأُوَلِ جَائِزٌ، وَنِكَاحُ مَنْ بَقِيَ مِنْهُنَّ بَاطِلٌ وَهُوَ قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت پہنچی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ثقفی کو فرمایا جس نے اسلام قبول کیا تو اس کے ہاں دس عورتیں تھیں۔ ان بیویوں میں سے چار کو روک لو اور باقی سے جدا اختیار کرلو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ان بیویوں میں سے جن چار کو چاہے منتخب کرے جائز ہے اور باقی کو الگ کردے۔ لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ پہلی چار کا نکاح جائز ہے۔ اور باقی کا باطل ہے۔ اور ابراہیم نخعی (رح) بھی اسی طرف گئے ہیں۔

530

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ الْوَلِيدَ سَأَلَ الْقَاسِمَ، وَعُرْوَةَ وَكَانَتْ عِنْدَهُ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ فَأَرَادَ أَنْ يَبِتَّ وَاحِدَةً وَيَتَزَوَّجُ أُخْرَى، فَقَالَ: نَعَمْ، فَارِقِ امْرَأَتَكَ ثَلاثًا وَتَزَوَّجْ، فَقَالَ الْقَاسِمُ فِي مَجَالِسَ مُخْتَلِفَةٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يُعْجِبُنَا أَنْ يَتَزَوَّجَ خَامِسَةً وَإِنْ بَتَّ طَلاقَ إِحْدَاهُنَّ حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، لا يُعْجِبُنَا أَنْ يَكُونَ مَاؤُهُ فِي رَحِمِ خَمْسِ نِسْوَةٍ حَرَائِرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ.
ولد نے عروہ و قاسم سے استفسار کیا کہ میرے گھر میں چار بیویاں ہیں اور میں ایک کو چھوڑنا اور ایک دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں د ان دونوں نے جواب دیا کہ بہتر یہ ہے کہ تم ایک عورت کو تین طلاق دے دو اور جس عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہو کرلو۔ قاسم کہنے لگے کہ تین مختلف مجالس میں طلاق دو ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ پانچویں عورت سے نکاح کرے۔ ان میں سے ایک طو طلاق بائنہ دے چکا ہو جب تک کہ اس کی عدت مکمل نہ ہوجائے۔ اس لیے کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ اس کا مادہ منویہ ( بیک وقت) پانچ آزاد عورتوں کے رح میں ہو۔ ( گویا عدت کے بعد اس کو نکاح کرنا چاہیے) یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

531

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: «إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بِامْرَأَتِهِ، وَأُرْخِيَتِ السُّتُورُ فَقَدْ وَجَبَ الصَّدَاقُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، وَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِنْ طَلَّقَهَا بَعْدَ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ لَهَا إِلا نِصْفُ الْمَهْرِ إِلا أَنْ يَطُولَ مُكْثُهَا وَيَتَلَذَّذُ مِنْهَا فَيَجِبُ الصَّدَاقُ
ابن شہاب (رح) حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ آدمی جب اپنی بیوی کے پاس جائے اور پردے لٹکادئیے جائیں یعنی خلوت صحیحہ میسر ہوجائے تو مہر واجب ہوجاتا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔ البتہ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اگر اس نے اس کے بعد طلاق دے دی تو اس کو نصف مہر ملے گا۔ کامل مہر تب ملے گا جب کہ وہ زیادہ دیر ٹھہرے اور اس سے لذت حاصل کرے۔

532

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنِ الشِّغَارِ» ، وَالشِّغَارُ أَنْ يُنْكِحَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُنْكِحَهُ الآخَرُ ابْنَتَهُ لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَكُونُ الصَّدَاقُ نِكَاحَ امْرَأَةٍ فَإِذَا تَزَوَّجَهَا عَلَى أَنْ يَكُونَ صَدَاقُهَا أَنْ يُزَوِّجَهُ ابْنَتَهُ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَهَا صَدَاقُ مِثْلِهَا مِنْ نِسَائِهَا، وَلا وَكْسَ، وَلا شَطَطَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح شغار سے ممانعت فرمائی ۔ شغار کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردے گا اس حال میں کہ ان کے درمیان مہر نہ ہو۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب جامع مالا یحوز من النکاح میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ کسی عورت کا نکاح کسی دوسری عورت کا مہر قرار نہیں پاسکتا۔ اکر وہ اس طرح نکاح کرلے کہ اس کا مہر یہ ہو کا کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس مذکورہ شخص سے کردے گا تو اس صورت میں نکاح جائز ہوجائے گا اور اس کو مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ جتنا اس عورت کے خاندان کی عورتوں کا ہوگا نہ اسمیں کمی کی جائے گی اور نہ اضافہ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

533

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُمَرَ أُتِيَ بِرَجُلٍ فِي نِكَاحٍ لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهِ إِلا رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ: هَذَا نِكَاحُ السِّرِّ، وَلا نُجِيزُهُ وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهِ لَرَجَمْتُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لأَنَّ النِّكَاحَ لا يَجُوزُ فِي أَقَلِّ مِنْ شَاهِدَيْنِ وَإِنَّمَا شَهِدَ عَلَى هَذَا الَّذِي رَدَّهُ عُمَرُ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ، فَهَذَا نِكَاحُ السِّرِّ لأَنَّ الشَّهَادَةَ لَمْ تَكْمُلْ وَلَوْ كَمُلَتِ الشَّهَادَةُ بِرَجُلَيْنِ، أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ كَانَ نِكَاحًا جَائِزًا، وَإِنْ كَانَ سِرًّا، وَإِنَّمَا يُفْسِدُ نِكَاحَ السِّرِّ أَنْ يَكُونَ بِغَيْرِ شُهُودٍ، فَأَمَّا إِذَا كَمُلَتْ فِيهِ الشَّهَادَةُ فَهُوَ نِكَاحُ الْعَلانِيَةِ وَإِنْ كَانُوا أَسَرُّوهُ
ابو زبیر (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک شخص کو پیش کیا گیا۔ جس کے نکاح پر ایک مرد اور ایک عورت کے علاوہ کوئی گواہ نہ تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ یہ خفیہ نکاح ہے۔ ہم اسے جائز نہیں سمجھتے۔ اگر میں اس (قانون) کی وضاحت پہلے کرچکا ہوتا تو اس شخص کو سنگسار کرتا۔ اس روایت کو باب جامع ما لا یجوز من النکاح میں امام مالک (رح) نے ذکر فرمایا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو مختار قرار دیتے ہیں کیونکہ دو سے کم گواہوں سے نکاح نہیں ہوتا۔ جس نکاح کو حضرت عمر (رض) نے رد کیا اس میں ایک مرد اور ایک عورت گواہ ہے۔ لہٰذا یہ نکاح خفیہ تھا۔ کیونکہ اس کی گواہی مکمل نہ تھی۔ اگر گواہی دو مردوں سے یا ایک مرد اور دو عورتوں سے مکمل ہوتی تو پھر یہ نکاح جائز ہوتا خواہ مخفی طور پر کیا ہوتا ۔ اس لیے کہ خفیہ نکاح کی یہی تفسیر گئی ہے کہ وہ گواہوں کے بغیر ہو۔ جب نکاح میں گواہی کامل ہوجائے تو وہ نکاح علانیہ شمار ہوگا۔ خواہ وہ اس کو مخفی کریں۔

534

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ «أَجَازَ شَهَادَةَ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ فِي النِّكَاحِ وَالْفُرْقَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حماد نے ابراہیم نخعی کے واسطہ سے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) نے نکاح میں ایک آدمی اور دو عورتوں کی شہادت کو جائز قرار دیا اور فرقت میں اسی قدر گواہی کو کافی قرار ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے اس کا ثبوت مندرجہ بالا روایت ہے۔

535

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ وَابْنَتِهَا مِمَّا مَلَكَتِ الْيَمِينُ أَتُوطَأُ إِحْدَاهُمَا بَعْدَ الأُخْرَى؟ قَالَ: لا أُحِبُّ أَنْ أُجِيزَهُمَا جَمِيعًا "، وَنَهَاهُ
عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) سے ایک عورت اور اس کی بیٹی کے متعلق دریافت کیا گیا جو کہ ملک یمین میں ہوں۔ کیا ان میں یکے بعد دیگرے مباشرت کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے جواب دیا میں اس کو جائز قرار نہیں دیتا۔ آپ نے اس کو منع کردیا۔

536

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، أَنَّ رَجُلا سَأَلَ عُثْمَانَ عَنِ الأُخْتَيْنِ مِمَّا مَلَكَتِ الْيَمِينُ هَلْ يُجْمَعُ بَيْنَهُمَا؟ فَقَالَ: «أَحلَّتْهُمَا آيَةٌ وَحَرَّمَتْهُمَا آيَةٌ، مَا كُنْتُ لِأَصْنَعَ ذَلِكَ» ، ثُمَّ خَرَجَ فَلَقِيَ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: لَوْ كَانَ لِي مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ، ثُمَّ أُتِيتُ بِأَحَدٍ فَعَلَ ذَلِكَ جَعَلْتُهُ نَكَالا، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أُرَاهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ لا يَنْبَغِي أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَبَيْنَ ابْنَتِهَا، وَلا بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَأُخْتِهَا فِي مِلْكِ الْيَمِينِ، قَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ: مَا حَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْحَرَائِرِ شَيْئًا إِلا وَقَدْ حَرَّمَ مِنَ الإِمَاءِ مِثْلَهُ إِلا أَنْ يَجْمَعَهُنَّ رَجُلٌ، يَعْنِي بِذَلِكَ أَنَّهُ يَجْمَعُ مَا شَاءَ مِنَ الإِمَاءِ، وَلا يَحِلُّ لَهُ فَوْقَ أَرْبَعِ حَرَائِرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
قبیصہ بن ذویب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) سے دو ملک یمین بہنوں کے متلق استفسار کیا کیا۔ انھوں جواب دیا کہ ایک آیت نے انھیں حلال قرار دیا الا ما مالک ایمانکم اور دوسری آیت و أن تجمعوا ین الاختین سے حرام قرار دیا۔ اس لیے میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ وہ شخص چلا گیا ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی (رض) سے ملا اور ان سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا اگر میرے اختیار میں کچھ بھی ہوتا اور میں کسی کو ایسا کرتے دیکھتا تو اسے عبرتناک سزا دیتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ مراے خیال میں وہ صحابی (رض) حضرت علی (رض) تھے۔ ( ان دونوں روایات کو امام مالک نے باب ما جاء فی کراہیۃ اصابۃ الاختین بملک الیمین میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام امور کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ ماں۔ بیتی کا یا دو بہنوں کا ملک یمین میں اجتماع مناسب نہیں۔ عمار بن یاسر (رض) کا ارشاد ہے کہ جو باتیں اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کے لیے حرام کی ہیں وہی لونڈیوں کے متعلق حرام کی ہیں۔ سوائے اس کے کہ آدمی جس قدر چاہے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ مگر آزاد عورتیں چار سے زائد نہیں رکہی جاسکتیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

537

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أنَّهُ كَانَ يَقُولُ: مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَمَسَّهَا فَإِنَّهُ يُضْرَبُ لَهُ أَجَلٌ سَنَةً فَإِنْ مَسَّهَا وَإِلا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ إِنْ مَضَتْ سَنَةٌ وَلَمْ يَمَسَّهَا خُيِّرَتْ فَإِنِ اخْتَارَتْهُ فَهِيَ زَوْجَتُهُ، وَلا خِيَارَ لَهَا بَعْدَ ذَلِكَ أَبَدًا، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنْ قَالَ إِنِّي قَدْ مَسِسْتُهَا فِي السَّنَةِ إِنْ كَانَتْ ثَيِّبًا فَالْقَوْلُ قَوْلُهُ مَعَ يَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ بِكْرًا أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أنَّهُ كَانَ يَقُولُ: مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَمَسَّهَا فَإِنَّهُ يُضْرَبُ لَهُ أَجَلٌ سَنَةً فَإِنْ مَسَّهَا وَإِلا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ إِنْ مَضَتْ سَنَةٌ وَلَمْ يَمَسَّهَا خُيِّرَتْ فَإِنِ اخْتَارَتْهُ فَهِيَ زَوْجَتُهُ، وَلا خِيَارَ لَهَا بَعْدَ ذَلِكَ أَبَدًا، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنْ قَالَ إِنِّي قَدْ مَسِسْتُهَا فِي السَّنَةِ إِنْ كَانَتْ ثَيِّبًا فَالْقَوْلُ قَوْلُهُ مَعَ يَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ بِكْرًا نَظَرَ إِلَيْهَا النِّسَاءُ، فَإِنْ قُلْنَ هِيَ بِكْرٌ خُيِّرَتْ بَعْدَ مَا تُحَلَّفُ بِاللَّهِ مَا مَسَّهَا وَإِنْ قُلْنَ هِيَ ثَيِّبٌ، فَالْقَوْلُ قَوْلُهُ مَعَ يَمِينِهِ لَقَدْ مَسِسْتُهَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
ابن شہاب سعید بن المسیب (رح) سے نقل کرتے ہیں جو شخص کسی عورت سے شادی کرے اور اس سے حقوق زوجیت پر قدرت نہ ہو اسے ایک سال مہلت دی جائے گی۔ اگر وہ جماع کرسکا تو فبہا و نعمت ورنہ ان کے ما بین تفریق کردی جائے گی۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب الرجل الذی لا یمس امراتہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بہی یہی قول ہے۔ اگر ایک سال گزر جائے اور اس کو جماع کی قدرت حاصل نہ ہو تو اس عورت کو اختیار ہے۔ اگر اس شوہر کو اختیار کرے تو وہ اس کی بیوی ہے اور اس کے بعد عورت کو اختیار نہ رہے گا اور اگر وہ عورت اپنے اختیار کو استعمال کرتی ہے تو اسے طلاق بائنہ ہوجائے گی۔ اگر خاوند دعوی کرے کہ وہ سال کے دوران اس سے مباشرت کرچکا ہے۔ اگر وہ عورت ثیبہ ثابت ہو تو خاوند کا دعوی قسم کے ساتھ معتبر ہوگا۔ اور اکر وہ باکرہ ہی ہے تو عورتیں اس کو ملاحظہ کریں گی۔ اکر وہ اس کے باکرہ ہونے کی گواہی دیں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہے کہ اس کے خاوند نے اس سے جماع نہیں کیا ہے۔ اور اکر عورتیں اس کو ثیبہ ہونے کا فیصلہ دیتی ہیں تو شوہر کو اللہ کی قسم دے کر کہنا ہوگا کہ اس نے اس عورت سے جماع کیا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

538

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُجَبَّرٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَبِهِ جُنُونٌ، أَوْ ضُرٌّ فَإِنَّهَا تُخَيَّرُ إِنْ شَاءَتْ قَرَّتْ وَإِنْ شَاءَتْ فَارَقَتْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا كَانَ أَمْرًا لا يُحْتَمَلُ خُيِّرَتْ، فَإِنْ شَاءَتْ قَرَّتْ، وَإِنْ شَاءَتْ فَارَقَتْ، وَإِلا لا خِيَارَ لَهَا إِلا فِي الْعِنِّينِ وَالْمَجْبُوبِ.
مجر نے سعید بن المسیب سے نقل کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے شادی کرے اور وہ شخص دیوانہ ہو یا اسے کوئی مرض ہو تو تو عورت کو اختیار رہے کہ خواہ وہ اس نکاح کو قائم رکھے یا جدائی اختیار کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اگر ایسی بیماری ہے کہ اس کے ساتھ رہنا ممکن نہیں تو عورت کو اختیار حاصل ہوگا خواہ نکاح کو قائم رکھے اور خواہ جدائی اختیار کرے۔ ورنہ نامرد اور حصی کے سوا عورت کو اختیار کی کو سی صورت نہیں۔

539

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَذَاتُ الأَبِ وَغَيْرِ الأَبِ فِي ذَلِكَ سَوَاءٌ
نافع بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ثیبہ اپنے ولی کی بنسبت اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے۔ اور باکرہ سے اس کی ذات کے متعلق اجازت لی جائے گی۔ اس کی خاموشی اجازت ہے۔ اس روایت کو امام مالک نے باب استیذان البکر میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔ اس سلسلہ میں باپ والی اور بغیر باپ والی ہر دو برابر ہیں۔

540

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَسَدِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تُسْتَأْذَنُ الأَبْكَارُ فِي أَنْفُسِهِنَّ ذَوَاتِ الأَبِ وَغَيْرِ الأَبِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَبِهَذَا نَأْخُذُ
عبد الکریم جزری نے سعید بن المسیب (رح) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باکرہ لڑکیوں سے ان کے نفس کے بارے میں اجازت لی جائے گی۔ خواہ وہ باپ والی ہوں یا بغیر باپ والی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔

541

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا رَجُلٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لا يَصْلُحُ لامْرَأَةٍ أَنْ تُنْكَحَ إِلا بِإِذْنِ وَلِيِّهَا، أَوْ ذِي الرَّأْيِ مِنْ أَهْلِهَا، أَوِ السُّلْطَانِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا نِكَاحَ إِلا بِوَلِيٍّ، فَإِنْ تَشَاجَرَتْ هِيَ وَالْوَلِيُّ فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لا وَلِيَّ لَهُ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: إِذَا وَضَعَتْ نَفْسَهَا فِي كَفَاءَةٍ وَلَمْ تُقَصِّرْ فِي نَفْسِهَا فِي صَدَاقٍ، فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ، وَمِنْ حُجَّتِهِ قَوْلُ عُمَرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: أَوْ ذِي الرَّأْيِ مِنْ أَهْلِهَا، إِنَّهُ لَيْسَ بِوَلِيٍّ، وَقَدْ أَجَازَ نِكَاحَهُ لأَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ لا تُقَصِّرَ بِنَفْسِهَا فَإِذَا فَعَلَتْ هِيَ ذَلِكَ جَازَ
سعید بن المسیب (رح) نے حضرت عمر (رض) سے نقل کیا کہ کسی عورت کا نکاح اس کے ولی یا اس کے خاندان کے کسی صاحب رائے یا بادشاہ کی اجازت کے بغیر درست نہیں۔ ( اس روایت کو با استیذان البکر میں امام مالک نے ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ول کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اگر اس کے اور ولی کے درمیان اختلاف ہو تو باشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا جب کوئی عورت کفر میں شادی کرے اور مہر مثل میں کمی نہ ہو۔ تو نکاح جائز ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی دلیل حضرت عمر (رض) کا یہ ارشاد ہے او ذی الرأی من اہلہا حالانکہ وہ ولی نہیں لیکن اس کے نکاح جائز قرار دیا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ عورت بذات خود مہر میں کمی نہ کرے۔ جب اس عورت نے کردی تو اس سے نکاح تیرے لیے جائز ہوا۔

542

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ بِنْتًا لِعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَأُمُّهَا ابْنَةُ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ كَانَتْ تَحْتَ ابْنٍ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَمَاتَ، وَلَمْ يُسَمِّ لَهَا صَدَاقًا، فَقَامَتْ أُمُّهَا تَطْلُبُ صَدَاقَهَا؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَيْسَ لَهَا صَدَاقٌ وَلَوْ كَانَ لَهَا صَدَاقٌ لَمْ نُمْسِكْهُ وَلَمْ نَظْلِمْهَا، وَأَبَتْ أَنْ تَقْبَلَ ذَلِكَ فَجَعَلُوا بَيْنَهُمْ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَقَضَى أَنْ لا صَدَاقَ لَهَا، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِهَذَا.
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن عمر (رض) کی بیٹی جس کی والدہ زیدہ بن خطاب کی بیٹی تھی وہ عبداللہ بن عمر کے بیٹے کے نکاح میں آئیں اور فوت ہوگئیں نہ ان سے صحبت ہوئی اور نہ مہر مقرر ہوا۔ ان کی والدہ نے مہر کا مطالبہ کیا تو ابن عمر (رض) نی کہا سک حق مہر کا استحقاق نہیں۔ اگر ہوتا ہو ہم نہ روکتے اور ہم زیادتی نہیں کرتے۔ اس عورت نے ہی بات قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھوں نے زید بن ثابت کو ثالث مقرر کیا۔ انھوں فیصلہ کیا کہ اس حا حق مہر نہیں البتہ اسے وراثت میں حصہ ملے گا۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الصداق والحیاء میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو اختیار نہیں کرتے ہیں اس کی دلیل درج ذیل روایت ہے۔

543

أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّ رَجُلا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: لَهَا صَدَاقُ مِثْلِهَا مِنْ نِسَائِهَا، لا وَكْسَ، وَلا شَطَطَ "، فَلَمَّا قَضَى قَالَ: فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي، وَمِنَ الشَّيْطَانِ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ بَرِيئَانِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: بَلَغَنَا أَنَّهُ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الأَشْجَعِيُّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَضَيْتَ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ الأَشْجَعِيَّةِ، قَالَ: فَفَرِحَ عَبْدُ اللَّهِ فَرْحَةً مَا فَرِحَ قَبْلَهَا مِثْلَهَا لِمُوَافَقَةِ قَوْلِهِ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَسْرُوقُ بْنُ الأَجْدَعِ: لا يَكُونُ مِيرَاثٌ حَتَّى يَكُونَ قَبْلَهُ صَدَاقٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے کسی سے شادی کی اور کوئی مہر مقرر نہ کیا اور وہ عورت مباشرت سے پہلے ہی فوت ہوگئی تو اس کے متعلق ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اس عورت کو بلا کم وکاست مہر مثل کا حق حاصل ہے جب یہ فیصلہ کیا تو فرمایا اکر یہ فیصلہ درست ہے تو اللہ تعالیٰ طی طرف سے ہے۔ اور اگر غلط ہے تو شیطان کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسوۃ ل غلط فیصلے سے بری الذمہ ہیں۔ ان کی مجلس میں سے ایک شخص نے کہا ہمیں اطلاع پہنچی ہے کہ وہ معقل بن سنان اشجعی تھے اور وہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے تھے۔ کہ اے ابن ا مسعود تم نے اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بروع بنت واشق اشجعی کے متعلق فرمایا تھا۔ ابراہہیم کہتے ہیں کہ ابن مسعود اس بات پر اس قدر خوش ہوئے کہ اس سے پہلے کبہی اتنے خوش نہ ہوئے تھید اس لیے کہ ان کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موافق ہو کیا اور مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ میراث اس وقت نہ ہوگی جب تک مہر نہ ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

544

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَا، أَنَّ ابْنَةَ طَلْحَةِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ كَانَتْ تَحْتَ رُشَيْدٍ الثَّقَفِيِّ، فَطَلَّقَهَا، فَنَكَحَتْ فِي عِدَّتِهَا أَبَا سَعِيدِ بْنَ مُنَبِّهٍ، أَوْ أَبَا الْجُلاسِ بْنَ مُنَيَّةٍ فَضَرَبَهَا عُمَرُ، وَضَرَبَ زَوْجَهَا بِالْمِخْفَقَةِ ضَرَبَاتٍ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ عُمَرُ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ فِي عِدَّتِهَا، وَإِنْ كَانَ زَوْجُهَا الَّذِي تَزَوَّجَهَا لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَاعْتَدَّتْ بَقِيَّةَ عِدَّتِهَا مِنَ الأَوَّلِ، ثُمَّ كَانَ خَاطِبًا مِنَ الْخُطَّابِ، وَإِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ اعْتَدَّتْ بَقِيَّةَ عِدَّتِهَا مِنَ الآخِرِ ثُمَّ لَمْ يَنْكِحْهَا أَبَدًا» ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: وَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَجَعَ عَنْ هَذَا الْقَوْلِ إِلَى قَوْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
سعید بن المسیب اور سلیمان بن یسار نے بیان کیا کہ طلحہ بن عبداللہ کی بیٹی رشید ثقفی کے نکاح میں تھیں۔ اس نے انھیں طلاق دے دی تو عدت کے دوران ابو سعید بن منبہ یا ابو الجلاس بن منبہ نے اس سے نکاح کرلیاد حضرت عمر (رض) نے اس کو اور اس کے خاوند کو بطور سزا درے لگائے اور ان کے درمیان تفریق کرادی۔ اور حضرت عمر (رض) نے فرمایا جس عورت نے اپنی عدت کے اندر نکاح کرلیاد اگر اس کے شوہر نے اس سے مباشرت نہ کی ہو تو ان دونوں کو جدا کردیا جائے اور عورت اپنے پہلے شوہر کی عدت پوری کرلے۔ اس کے بعد دوسرا شوہر عام لوگوں کی طرح منگنی کا پیغام بھیجے گا اگر دوسرے شوہر نے مباشرت کرلی ہو تو ان کو جدا کردیا جائے۔ پھر عورت اپنے پہلے شوہر کی عدت پوری کرے۔ پھر دوسرے شوہر کی عدت پوری کرے۔ لیکن دوسرے شوہر سے کبھی نکاح نہ کرید سعدی بن المسیب کہتے ہیں اس عورت کو مہر ملے گا۔ کیونکہ اس شخص نے اس کی شرمگاح کو حلال سمجھا۔ ( اس روایت کو باب جامع ما لا یجوز من النکاح میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کے قول کی طرف رجوع کرلیاد جو درج ذیل ہے۔

545

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: رَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي الَّتِي تَتَزَوَّجُ فِي عِدَّتِهَا إِلَى قَوْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَذَلِكَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ: «إِذَا دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَجْتَمِعَا أَبَدًا، وَأَخَذَ صَدَاقَهَا، فَجَعَلَ فِي بَيْتِ الْمَالِ» ، فَقَالَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ: «لَهَا صَدَاقَهَا بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا مِنَ الأَوَّلِ تَزَوَّجَها الآخَرُ إِنْ شَاءَ» ، فَرَجِعَ عُمَرُ إِلَى قَوْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عدت کے زمانہ میں نکاح کرنے والی عورت کے بارہ میں حضرت علی (رض) کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا جو کہ اس طرح ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جب اس نے عورت سے مباشرت کرلی تو ان دونوں میں تفریقہ دی جائے گی۔ یہ دونوں بہی جمع نہیں سکتے۔ آپ نے اس کا حق مہر لے کر بیت اللہ المال میں جمع کرلیا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا حق مہر اس ورت کا حق ہے کیونکہ مرد نے اس کی شرمگاہ سے لذت اٹھائی ہے۔ جب وہ پہلے شوہر کی عدت پوری کرے تو اگر وہ چاہے تو ( کسی دوسرے سے شادی کرلے) یا اس دوسرے شوہر سے شادی کرلے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کے قول کو اختیار کرلیا۔ (حق مہر بھی واپس کردیا اور شادی کی اجازت بھی دے دی)
قول محمد (رح) ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

546

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، أَنَّ امْرَأَةً هَلَكَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَاعْتَدَّتْ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، ثُمَّ تَزَوَّجَتْ حِينَ حَلَّتْ فَمَكَثَتْ عِنْدَ زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَنِصْفًا، ثُمَّ وَلَدَتْ وَلَدًا تَامًّا، فَجَاءَ زَوْجُهَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: " فَدَعَا عُمَرُ نِسَاءً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ قُدَمَاءَ، فَسَأَلَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ مِنْهُنَّ: أَنَا أُخْبِرُكَ، أَمَّا هَذِهِ الْمَرْأَةُ هَلَكَ زَوْجُهَا حِينَ حَمَلَتْ، فَأُهْرِيقَتِ الدِّمَاءُ فَحَشَفَ وَلَدُهَا فِي بَطْنِهَا، فَلَمَّا أَصَابَهَا زَوْجُهَا الَّذِي نَكَحَتْهُ، وَأَصَابَ الْوَلَدَ الْمَاءُ تَحَرَّكَ الْوَلَدُ فِي بَطْنِهَا، وَكَبِرَ فَصَدَّقَهَا عُمَرُ بِذَلِكَ وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا "، وَقَالَ عُمَرُ: «أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَبْلُغْنِي عَنْهُمَا إِلا خَيْرًا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالأَوَّلِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْوَلَدُ وَلَدُ الأَوَّلِ، لأَنَّهَا جَاءَتْ بِهِ عِنْدَ الآخَرِ لِأَقَلَّ مِنْ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَلا تَلِدُ الْمَرْأَةُ وَلَدًا تَامًّا لِأَقَلَّ مِنْ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَهُوَ ابْنُ الأَوَّلِ، وَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الآخَرِ، وَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا: الأَقَلُّ مِمَّا سُمِّيَ لَهَا وَمِنْ مَهْرِ مِثْلِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سلیمان بن ی سار بیان کرتے ہیں عبداللہ بن امیہ نے ذکر کیا کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا۔ اس نے عدت کے چار ماہ دس دن پورے کئے۔ عدت سے فارغ ہو کر اس سے نکاح کرلیا۔ اس شوہر کے ہاں ساڑھے چار ماہ کے بعد اس کے بطن سے مکمل بچہ پیدا ہوگیا۔ اس کا ا خاوند حضرت عمر (رض) کے خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے زمانہ جاہلیت کی چند بوڑھی عورتوں کو بلایا اور ان سے اس کے متعلق استفسار کیا۔ ان میں سے ایک عورت نے کہا میں آپ کو بتلاتی ہوں جب اس عورت کا خاوند فوت ہوا یہ حاملہ تھی۔ خون بہنے سے اس کا بچہ اس کے پیٹ میں خشک ہوگیا۔ جب اس نے دوسرے شوہر سے مباشرت کی تو بچے کو وہ پانی پہنچا اس نے ماں کے پیٹ میں حرکت کی اور بڑھ گیا۔
حضرت عمر (رض) نے اس بات سے اتفا اق کیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی اور فرمایا تم دونوں کی اس میں کوئی شرارت نہیں۔ اور بچے کو اول خاوند سے ملحق کردیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ بچہ پہلے خاوند کا ہے کیونکہ وہ عورت اس دوسرے خاوند کے پاس چھ ماہ سے کم مدت رہی ۔ اور عورت چھ ماہ سے کم مدت میں بچہ نہیں جن سکتی کیونکہ اس کی شرمگاہ سے فائدہ حاصل کیا گیا ۔ حق مہر مقررہ مقدار یا مہر مثل سے کم ہوگا۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

547

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ كَانَ يَعْزِلُ»
ابو الننضر سالم نے عامر بن سعدی بن ابی وقاص نے خبر دی کہ سعد (رض) عزل کرتے تھے

548

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَفْلَحَ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أُمِّ وَلَدِ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ «كَانَ يَعْزِلُ»
ابو ایوب کے غلام افلح ابو ایوب کی ام ولد سے بیان کرتے ہیں کہ ابو ایوب (رض) عزل کرتے تھے۔

549

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ضَمْرَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَازِنِيُّ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرِو بْنِ غَزِيَّةَ، أنَّهُ كَانَ جَالِسًا عِنْدَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَجَاءَهُ ابْنُ قَهْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: " يَا أَبَا سَعِيدٍ، إِنَّ عِنْدِي جَوَارِيَ، لَيْسَ نِسَائِي اللاتِي كُنَّ بِأَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْهُنَّ، وَلَيْسَ كُلُّهُنَّ يُعْجِبُنِي أَنْ تَحْمِلَ مِنِّي، أَفَأَعْزِلُ؟ قَالَ: قَالَ: أَفْتِهِ يَا حَجَّاجُ، قَالَ: قُلْتُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ، إِنَّمَا نَجْلِسُ إِلَيْكَ لِنَتَعَلَّمَ مِنْكَ، قَالَ، أَفْتِهِ، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ حَرْثُكَ إِنْ شِئْتَ عَطَّشْتَهُ وَإِنْ شِئْتَ سَقَيْتَهُ "، قَالَ: وَقَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ ذَلِكَ مِنْ زَيْدٍ، فَقَالَ زَيْدٌ: صَدَقَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لا نَرَى بِالْعَزْلِ بَأْسًا عَنِ الأَمَةِ، وَأَمَّا الْحُرَّةُ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يَعْزِلَ عَنْهَا إِلا بِإِذْنٍ، وَإِذَا كَانَتِ الأَمَةُ زَوْجَةَ الرَّجُلِ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يَعْزِلَ عَنْهَا إِلا بِإِذْنٍ مَوْلاهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حجاج بن عمرو بن غزیہ بیان کرتے ہیں کہ میں زید بن ثابت کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ایک یمنی آدمی آیا۔ جس کا نام ابن قہد تھا۔ اور اس نے کہا اے ابو سعید میری چند لونڈیاں ہیں۔ وہ میری بیوی سے زیادہ حسین ہیں۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ مجھ سے حاملہ ہوں۔ کیا میں عزل کرسکتا ہوں۔ حجاج کہتے ہیں کہ مجھے مخاطب ہو کر زید بن ثابت فرمانے لگے۔ اے حجاج اس کو مسئلہ بتلاؤ۔ میں نے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ہم تو آپ کی خدمت میں آپ سے سیکھنے بیٹھتے ہیں پھر زید بن ثابت نے کہا وہ تمہاری کھیتی ہے چاہو اسے خشک رکھو اور خواہ اس کو سیراب کرو۔ اس نے کہا یہ بات تو میں زید سے بھی سنا کرتا تھا۔ تو زید فرمانے لگے یہ حق اور درست ہے۔ ( ان آثار کو امام مالک (رح) نے بالعزل میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں لونڈی سے عزل میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہ کرنا چاہیے۔ لوندی اگر کسی کے نکاح میں تو اس کو مولی اجازت کے بغیر اس سے عزل کرنا مناسب نہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

550

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: «مَا بَالُ رِجَالٍ يَعْزِلُونَ عَنْ وَلائِدِهِمْ؟ لا تَأْتِينِي وَلِيدَةٌ فَيَعْتَرِفُ سَيِّدُهَا أَنَّهُ قَدْ أَلَمَّ بِهَا إِلا أَلْحَقْتُ بِهِ وَلَدَهَا فَاعْتَزِلُوا بَعْدُ، أَوِ اتْرُكُوا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا صَنَعَ هَذَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى التَّهْدِيدِ لِلنَّاسِ أَنْ يُضَيِّعُوا، وَلائِدَهُمْ، وَهُمْ يَطَئُونَهُنَّ، قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَطِئَ جَارِيَةً لَهُ، فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ، فَنَفَاهُ، وَأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَطِئَ جَارِيَةً لَهُ فَحَمَلَتْ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لا تُلْحِقْ بِآلِ عُمَرَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَجَاءَتْ بِغُلامٍ أَسْوَدَ، فَأَقَرَّتْ أَنَّهُ مِنَ الرَّاعِي، فَانْتَفَى مِنْهُ عُمَرُ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ، يَقُولُ: إِذَا حَصَّنَهَا وَلَمْ يَدَعْهَا تَخْرُجْ، فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ لَمْ يَسَعْهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَنْتَفِي مِنْهُ، فَبِهَذَا نَأْخُذُ
عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنی کنیزوں سے عزل کرتے ہیں تاکہ اس کے ہاں بچہ نہ ہو پس اگر کسی کے آقانے مجھ سے اعتراف کرلیا کہ اس نے لونڈی کے ساتھ جماع کیا ہے تو میں اس کو بچہ اس سے ملا دوں گا خواہ وہ عزل کریں یا نہ کریں۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ یہ بات حضرت عمر (رض) سے لوگوں کو ڈرانے کے لیے کہی تاکہ لوگ اپنا پانی ضائع نہ کریں۔ جبکہ وہ ان سے جماع کرتے ہیں۔ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ زید بن ثابت نے اپنی کنیز سے مباشرت کی اس سے بچہ بیدا ہوا تو آپ نے اس سے انکار کردیا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے لونڈی سے مباشرت کی تو وہ حاملہ ہوگئی تو آپ نے یوں دعا کی۔ اے اللہ جو عمر کی اولاد سے نہیں۔ اسے اس کی اولاد کے ساتھ نہ ملا۔ اس لونڈی کے ہاں سیاہ رنگ کا بچہ پیدا ہوا تو اس نے اقرار کیا کہ یہ ایک چرواہے کا ہے۔ پس حضرت عمر (رض) نے اس بچہ سے انکار کردیا ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ جب لونڈی کو پردہ میں رکھے اور اسے باہر نہ نکلنے دے اور لونڈی کے بچہ پیدا ہو تو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس بات کی گنجائش نہیں۔ کہ وہ بچہ کا انکار کرے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔

551

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حدَّثنا نَافِعٌ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَتْ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «مَا بَالُ رِجَالٍ يَطَئُونَ، وَلائِدَهُمْ ثُمَّ يَدَعُونَهُنَّ فَيَخْرُجْنَ؟ وَاللَّهِ لا تَأْتِينِي وَلِيدَةٌ فَيَعْتَرِفُ سَيِّدُهَا أَنْ قَدْ وَطِئَها إِلا أَلْحَقْتُ بِهِ وَلَدَهَا فَأَرْسِلُوهُنَّ بَعْدُ، أَوْ أَمْسِكُوهُنَّ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ صفیہ بنت عبید نے کہا کہ عمر (رض) نے فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا : کہ وہ اپنی لونڈیوں سے مباشرت کرتے ہیں۔ پھر انھیں بارہ جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر کوئی لونڈی کوئی بچہ لے کر آئی اور اس سکے آقان نے اعتراف کرلیا کہ اس نے اس سے مباشرت کی ہے تو میں اس کے بجھ کو اس سے ساتھ ملا دوں گا۔ پھر وہ انھیں جھوڑ دیں یای روک لیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔