HADITH.One
پڑھنے کی ترتیبات
Urdu
System
عربی فونٹ منتخب کریں
Kfgq Hafs
ترجمہ فونٹ منتخب کریں
Noori_nastaleeq
22
17
عام ترتیبات
عربی دکھائیں
ترجمہ دکھائیں
حوالہ دکھائیں
حدیث دو حصوں میں دیکھیں
صدقہ جاریہ میں حصہ لیں
ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔
عطیہ کریں۔
Muawtta Imam Muhammad
4. روزوں سے متعلقہ احادیث
موطأ الامام محمد
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ، فَقَالَ: «لا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ، وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن دینار ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان المبارک کا ذکر کرتے ہئے فرمایا ، تم اس وقت تک روزہ نہ رکھو جب تک چاند دیکھ نہ لو اور اس وقت تک افطار نہ کرو جب تک چاند دیکھ نہ لو۔ اگر چاند کے دیکھنے میں بادل حائل ہوجائے تو ( تیس) کی گنتی پوری کرو۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی رؤیۃ الہلال للصیام و الفطر فی رمضان میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ بِلالا يُنَادِي بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ»
ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلال رات کو اذان دیتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ (وہ ططلوع صبح صادق پر اذان دیتے ہیں ( تاکہ لوگ بروقت اٹھ کر سحری کرسکیں) ابن ام مکتوم صبح صادق کے طلوع کے بعد نماز فجر کے لیے اذان دتے اسی لیے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، مِثْلَهُ، قَالَ: " وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ لا يُنَادِي حَتَّى يُقَالَ لَهُ: قَدْ أَصْبَحْتَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: كَانَ بِلالٌ يُنَادِي بِلَيْلٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِسَحُورِ النَّاسِ، وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ يُنَادِي لِلصَّلاةِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَلِذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ
زہری (رح) نے سالم سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور ابن ام مکتور (رض) اس وقت تک اذان نہ دیتے کیونکہ وہ نابینا تھے) یہاں تک کہ انھیں کہا جاتا تم نے صبح کردی)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلا أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ، «فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكَفِّرَ بِعِتْقِ رَقَبَةٍ، أَوْ صِيَامِ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، أَوْ إِطْعَامِ سِتِّينَ مِسْكِينًا» ، قَالَ: لا أَجِدُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ، فَقَالَ: «خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ» ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَجِدُ أَحَدًا أَحْوَجَ إِلَيْهِ مِنِّي، قَالَ: «كُلْهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ إِذَا أَفْطَرَ الرَّجُلُ مُتَعَمِّدًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِأَكْلٍ، أَوْ شُرْبٍ، أَوْ جِمَاعٍ فَعَلَيْهِ قَضَاءُ يَوْمٍ مَكَانَهُ، وَكَفَّارَةُ الظِّهَارِ أَنْ يَعْتِقَ رَقَبَةً، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ، فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، أَطْعَمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا، لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ حِنْطَةٍ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ، أَوْ شَعِيرٍ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں روزہ افطار کرلیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو غلام آزاد کرنے کا حکم دیا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا۔ اس نے عرض کیا میں یہ چیزیں نہیں پاتا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجور کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اسے لے لو اور صدقہ کردو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔ (اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی ناجذ ظاہر ہوگئیں) پھر فرمایا تو ہی اسے کھالے۔
(اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب کفارۃ من افطر فی رمضان میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص رمضان کے روزے کو جان بوجھ کر افطار کردے خواہ اس کا سبب کھانا یا پینا یا جماع ہو اس پر ایک یوم کی قضا لازم آئے گی اور کفارہ ظہار لازم ہوگا۔ اولاً وہ گردن آزاد کرے اگر وہ نہ پائے تو دو ماہ کے پے در پے روزے رکھے اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع کچھور یا جو دے۔
(اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب کفارۃ من افطر فی رمضان میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص رمضان کے روزے کو جان بوجھ کر افطار کردے خواہ اس کا سبب کھانا یا پینا یا جماع ہو اس پر ایک یوم کی قضا لازم آئے گی اور کفارہ ظہار لازم ہوگا۔ اولاً وہ گردن آزاد کرے اگر وہ نہ پائے تو دو ماہ کے پے در پے روزے رکھے اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع کچھور یا جو دے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَجُلا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى الْبَابِ وَأَنَا أَسْمَعُ: إِنِّي أَصْبَحْتُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِيدُ الصَّوْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَنَا أُصْبِحُ جُنُبًا، ثُمَّ أَغْتَسِلُ فَأَصُومُ» ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّكَ لَسْتَ مِثْلَنَا، فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي «لأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَعْلَمَكُمْ بِمَا أَتَّقِي»
حضرت عائشہ (رض) عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جبکہ وہ دروازے پر کھڑا تھا اور میں سن رہی تہی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حالت جنابت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں بہی صبح جنابت کی حالت میں کرتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ پس میں غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھ لیتا ہوں پس اس شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہماری مانند نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی کوتاہیان معاف کردی ہیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ واللہ مجھے امید ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے خوف کرنے والا ہوں۔ اور تم سب سے زیادہ ان جیزوں کو جاننے والا ہوں ۔ جن سے بچنا ضروری ہے۔ ( اس روایت کو امام مالک باب جاء فی صیام الذ یصبح جنباء میں ذکر کیا)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: كُنْتُ أَنَا، وَأَبِي عِنْدَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا أَفْطَرَ، فَقَالَ مَرْوَانُ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ لِتَذْهَبَنَّ إِلَى أُمَّيِ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ، فَتَسْأَلْهُمَا عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَذَهَبْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَسَلَّمْنَا عَلَى عَائِشَةَ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، كُنَّا عِنْدَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَذَكَرَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا أَفْطَرَ ذَلِكَ الْيَوْمِ، قَالَتْ: لَيْسَ كَمَا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، أَتَرْغَبُ عَمَّا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: لا وَاللَّهِ، قَالَتْ: «فَأَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ غَيْرَ احْتِلامٍ، ثُمَّ يَصُومُ ذَلِكَ الْيَوْمِ» ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَتْ كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ، فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا مَرْوَانَ، فَذَكَرَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مَا قَالَتَا، فَقَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَتَرْكَبَنَّ دَابَّتِي، فَإِنَّهَا بِالْبَابِ، فَلَتَذْهَبَنَّ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَإِنَّهُ بِأَرْضِهِ بِالْعَقِيقِ، فَلَتُخْبِرَنَّهُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَكِبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَرَكِبْتُ مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَتَحَدَّثَ مَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَاعَةً ثُمَّ ذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لا عِلْمُ لِي بِذَلِكَ، إِنَّمَا أَخْبَرَنِيهِ مُخْبِرٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ مِنْ غَيْرِ احْتِلامٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، ثُمَّ اغْتَسَلَ بَعْدَ مَا طَلَعَ الْفَجْرُ، فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَكِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ} [البقرة: 187] يَعْنِي الْجِمَاعَ {مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ} [البقرة: 187] يَعْنِي الْوَلَدَ {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ} [البقرة: 187] يَعْنِي حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ قَدْ رُخِّصَ لَهُ أَنْ يُجَامِعَ، وَيَبْتَغِي الْوَلَدَ، وَيَأْكُلَ، وَيَشْرَبَ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَمَتَى يَكُونُ الْغُسْلُ إِلا بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَهَذَا لا بَأْسَ بِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَالْعَامَّةِ
ابوبکر بن عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام کہتے تھے کہ میں اور میرا والد دونوں مروان بن الحکم کے پاس تھے۔ جن دنوں وہ مدینہ کا امیر تھا ( امیر معاویہ (رض) کے دور میں) پس عبد الرحمن نے مروان کو بتایا کہ ابو ہر ہیرہ (رض) کہتے تھے کہ جو شخص جنابت کی حالت میں صبح کرے اس کا اس دن کا روزہ نہیں رہا۔ اس پر مروان کہنے لگا اے عبد الرحمن میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ ام المؤمنین عائشہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس جاؤ اور یہ مسئلہ ان سے دریافت کرو۔ پس عبد الرحمن : ئے اور میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ یہاں تک کہ ہم حضرت عائشہ (رض) عنہا کی خدمت میں پہنچے پس عبد الرحمن نے ان کو سلام کیا اور پہر کہا اے ایمان والو کی ماں ! ہم مروان کے پاس ت ہے اور وہ ان یہ ذکر ہوا کہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں جو شخص صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے اس کا اس دن کا روزہ نہیں۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا کہ بات وہ نہیں جو ابوہریرہ نے کہی۔ اے عبد الرحمن کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے سے منہ پھیرتا ہے ؟ عبد الرحمن نے کہا واللہ نہیں۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق شہادت دیتی ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت جماع کے ساتھ جنابت کی حالت میں ہوتے نہ کہ احتلام کے ساتھ۔ اور پھر اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ پہر ہم وہاں سے نکلے تو ام سلمہ (رض) عنہا کے ہاں گئے۔ عبد الرحمن نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ تو انھوں نے بہی حضرت عائشہ (رض) عنہا جیسی بات فرمائی۔ ابوبکر کہتا کہ پھر ہم وہاں سے باہر آئے اور مروان کے پاس پہنچے اور عبد الرحمن نے اسے ان دونوں کا قول بتایا مروان نے کہا۔ اے ابو محمد ! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ میری سواری پر چڑھ جو کہ دروازے پر موجود ہے اور بالضرور ابوہریرہ (رض) کے پاس جا جو مقام عقیق میں اپنی زمین پر ہیں اور انھیں یہ بتلاؤ۔ پس عبد الرحمن سوار ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا۔ یہ ان تک کہ ہم ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں پہنچے۔ عبد الرحمن نے کچھ دیر ان سے گفتگو کی۔ پہر انھیں وہ بات بتلائی۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں مجھے اس کا کجھ علم نہ تھا۔ مجھے تو کسی بتانے والے نے یہ بتایا تھا۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی صیام الذی یصبح جننبار فی رمضان میں ذکر کی ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جو شخص جماع کے باعث نہ کہ احتلاف کے سبب بوقت صبح رمضان میں جنبی ہو۔ پہر طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اس پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انلفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم فالان باشروہن (یعنی جماع کیا ہو) وابتغو ما کتب اللہ لکم (یعنی اولاد) و کلوا و اشربو حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود ( یعنی یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے) جب اس آیت میں جماع کی اجازت ، ابتغاء اولاد کا حکم اور کھانے اور پینے کی اجازت طکلوع فجر تک پائی جاتی ہے۔ تو یہ ظاہر ہے کہ غسل طلوع فجر کے بعد ہوگا۔ پس اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء بہی ادھر ہی گئے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جو شخص جماع کے باعث نہ کہ احتلاف کے سبب بوقت صبح رمضان میں جنبی ہو۔ پہر طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اس پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انلفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم فالان باشروہن (یعنی جماع کیا ہو) وابتغو ما کتب اللہ لکم (یعنی اولاد) و کلوا و اشربو حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود ( یعنی یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے) جب اس آیت میں جماع کی اجازت ، ابتغاء اولاد کا حکم اور کھانے اور پینے کی اجازت طکلوع فجر تک پائی جاتی ہے۔ تو یہ ظاہر ہے کہ غسل طلوع فجر کے بعد ہوگا۔ پس اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء بہی ادھر ہی گئے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَجُلا قَبَّلَ امْرَأَةً وَهُوَ صَائِمٌ، فَوَجَدَ مِنْ ذَلِكَ وَجْدًا شَدِيدًا، فَأَرْسَلَ امْرَأَتَهُ تَسْأَلُ لَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَدَخَلَتْ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهَا أُمُّ سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ» ، فَرَجَعَتْ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَتْهُ بِذَلِكَ، فَزَادَهُ ذَلِكَ شَرًّا، فَقَالَ: إِنَّا لَسْنَا مِثْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُحِلُّ اللَّهُ لِرَسُولِهِ مَا شَاءَ، فَرَجَعَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَوَجَدَتْ عِنْدَهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ هَذِهِ الْمَرْأَةِ؟ فَأَخْبَرَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَ: أَلا أَخْبَرْتِهَا أَنِّي أَفْعَلُ ذَلِكَ؟ قَالَتْ: قَدْ أَخْبَرْتُهَا، فَذَهَبَتْ إِلَى زَوْجِهَا، فَأَخْبَرَتْهُ، فَزَادَهُ ذَلِكَ شَرًّا، وَقَالَ: إِنَّا لَسْنَا مِثْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُحِلُّ اللَّهُ لِرَسُولِهِ مَا شَاءَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «وَاللَّهِ إِنِّي لأَتْقَاكُمْ لِلَّهِ، وَأَعْلَمُكُمْ بِحُدُودِهِ»
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ ایک مرد نے رمضان میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لیا لیا اور اسے اس کے باعث شدید غم ہوا۔ اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ اس کے متعلق جاکر سوال کرو۔ پس وہ عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) عنہا کے پاس حاضر ہوئی اور ان سے اپنے اس واقعہ کا تذکرہ کیا۔ ام سلمہ (رض) عنہا نے بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں بوسہ لے لیتے ہیں۔ وہ عورت اپنے خاوند کے پاس واپس آگئی اور اسے یہ بات بتائی تو اس کا رنج اور بڑھ گیا اور کہنے لگا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مانند نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہے حلال کرسکتا ہے۔ پھر اس کی بیوی ام سلمہ (رض) عنہا کے پاس واپس گئی تو وہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موجود پایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس عورت کو کیا کام ہے ؟ ام سلمہ (رض) عنہا نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو نے اسے یہ کیوں نہ بتلایا کہ میں بھی ایسا کرتا ہوں ؟ ام سلمہ (رض) عنہا نے کہا میں نے اسے بتایا تھا یہ اپنے خاوند کے پاس گئی اور اسے اس بات کی خبر دی۔ تو اس کا رنج و غم اور بڑھ گیا اور اس نے کہا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مانند نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہے حلال کردے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے اور فرمایا۔ اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہوں اور اس کی حدود کو زیادہ جانتا ہوں۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الرخصۃ فی القبلۃ للصائم میں ذکر کیا ہے) ۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَائِشَةَ ابْنَةَ طَلْحَةٍ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا زَوْجُهَا هُنَالِكَ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: «مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَدْنُوَ إِلَى أَهْلِكَ تُقَبِّلُهَا وَتُلاعِبُهَا؟» ، قَالَ: " أُقَبِّلُهَا وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِالْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَهُ عَنِ الْجِمَاعِ، فَإِنْ خَافَ أَنْ لا يَمْلِكَ نَفْسَهُ، فَالْكَفُّ أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ قَبْلَنَا
عائشہ بنت طلحہ نے بتایا کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) عنہا کے پاس تھی اور عائشہ بنت طلحہ کا خاوند وہیں آگیا جو کہ عبداللہ بن عبد الرحمن تھا۔ اور وہ روزہ سے تھا۔ پس عائشہ (رض) نے اس سے فرمایا تجھے کیا چیز اس سے روکتی ہے کہ تو اپنی بیوی کے قرب جائے اور اس کا بوسہ لے۔ اور اس سے ملاعبت کرے۔ اس نے کہا کیا میں روزہ کی حالت میں بھی اس کا بوسہ لے لوں ؟ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا۔ ہاں۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب الرخصۃ فی القبلۃ للصائم میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : روزہ دار کو اس وقت بوسہ میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ جماع سے بچنے کی پوری قوت رکھتا ہو۔ اگر اسے خطرہ ہو کہ وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے گا تو اس سے بچنا افضل ہے۔ یہی امامابو حنیفہ (رح) کا قول ہے۔ ہم سے پہلے تابعین اور صحابہ کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : روزہ دار کو اس وقت بوسہ میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ جماع سے بچنے کی پوری قوت رکھتا ہو۔ اگر اسے خطرہ ہو کہ وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے گا تو اس سے بچنا افضل ہے۔ یہی امامابو حنیفہ (رح) کا قول ہے۔ ہم سے پہلے تابعین اور صحابہ کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ «يَنْهَى عَنِ القُبْلَةِ، وَالْمُبَاشَرَةِ لِلصَّائِمِ»
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) روزہ دار کو بوسہ اور مباشرت سے منع کیا کرتے تھے۔ (مباشرت سے مرارد صرف ملامست اور ملاعبت ہے) (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی التشدید فی القبلۃ للصائم میں ذکر کیا ہے۔ )
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، أَنَّ سَعْدًا، وَابْنَ عُمَرَ، كَانَا «يَحْتَجِمَانِ وَهُمَا صَائِمَانِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ، وَإِنَّمَا كُرِهَتْ مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ، فَإِذَا أُمِنَ ذَلِكَ، فَلا بَأْسَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
زہری بیان کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر (رض) روزے کی حالت میں سینگی لگوایا کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : روزہ دار کے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ کمزوری ہوجانے کے خدشے سے ناپسند قرار دی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنی قوت کی وجہ سے اس سے محفوظ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : روزہ دار کے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ کمزوری ہوجانے کے خدشے سے ناپسند قرار دی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنی قوت کی وجہ سے اس سے محفوظ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَبِي قَطُّ احْتَجَمَ، إِلا وَهُوَ صَائِمٌ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
عروہ کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو جب بہی دیکھا روزہ کی حالت میں سینگی لگواتے دیکھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «مَنِ اسْتَقَاءَ وَهُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَمَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے جو شخص جان بوجھ کر قے کرے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو اس کے ذمہ اس روزہ کی قضاء لازم ہے۔ اور جس کو قئی خود پیش آجائے اس پر کوئی شیء لازم نہیں (نہ قضاء نہ کفارہ) اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی قضاء رمضان و الکفارات میں ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَرَجَ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ الْكُدَيْدَ ثُمَّ أَفْطَرَ، فَأَفْطَرَ النَّاسُ مَعَهُ، وَكَانَ فَتْحُ مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ» ، قَالَ: وَكَانُوا يَأْخُذُونَ بِالأَحْدَثِ فَالأَحْدَثِ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ شَاءَ صَامَ فِي السَّفَرِ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ، وَالصَّوْمُ أَفْضَلُ لِمَنْ قَوِيَ عَلَيْهِ، وَإِنَّمَا بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْطَرَ حِينَ سَافَرَ إِلَى مَكَّةَ لأَنَّ النَّاسَ شَكَوْا إِلَيْهِ الْجَهْدَ مِنَ الصَّوْمِ، فَأَفْطَرَ لِذَلِكَ، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيَّ سَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ، فَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ قَبْلَنَا
ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح کے سال مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ آپ مقام کدید تک مسلسل روزے رکھتے رہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کیا تو لوگوں نے بھی افطار کیا۔ فتح مکہ کا یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش يیا اور صحابہ کرام کا طریقہ تھا کہ وہ آپ کے نئے سے نئے کام کو اختیار کرتے تھے۔ ( یعنی قدیم چھوڑ دیتے جدید اختیار کرتے کیونکہ نزول وحی اور نئے احکام آرہے تھے۔ اور صحابہ کرام اس مزاج کو سمجھ گئے تھے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : سفر میں جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے افطار کرلے۔ جو طاقت رکھتا ہو اس کے لیے روزہ افضل ہے۔ ہمیں (١) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی طرف سفر کیا تو ( راستہ میں) افطار کردیا کو کن کہ لوگوں نے روزے کی وجہ سے مشقت پہنچنے کا تذکر کیا۔ اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کردیا۔ اور ہمیں یہ روایت بہی پہنچی ہے کہ حمزہ اسلمی (رض) نے (٢) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر میں روزہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تو چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر مناسب خیال کرتا ہے تو افطار کرلے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ ہم سے پہلے صحابہ اور تابعین کا قول بھی یہی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : سفر میں جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے افطار کرلے۔ جو طاقت رکھتا ہو اس کے لیے روزہ افضل ہے۔ ہمیں (١) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی طرف سفر کیا تو ( راستہ میں) افطار کردیا کو کن کہ لوگوں نے روزے کی وجہ سے مشقت پہنچنے کا تذکر کیا۔ اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کردیا۔ اور ہمیں یہ روایت بہی پہنچی ہے کہ حمزہ اسلمی (رض) نے (٢) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر میں روزہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تو چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر مناسب خیال کرتا ہے تو افطار کرلے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ ہم سے پہلے صحابہ اور تابعین کا قول بھی یہی ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ " اخْتَلَفَا فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: يُفَرَّقُ بَيْنَهُ، وَقَالَ الآخَرُ: لا يُفَرَّقُ بَيْنَهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْجَمْعُ بَيْنَهُ أَفْضَلُ، وَإِنْ فَرَّقْتَ وَأَحْصَيْتَ الْعِدَّةَ، فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ قَبْلَنَا
ابن شہاب کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) نے قضائِ رمضان کے سلسلہ میں اختلاف کیا ان میں سے ایک نے کہا متفرق طور پر رکھے جائیں گے اور دوسرے نے کہا متفرق نہ رکھے جائیں گے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی قضاء رمضان میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : مسلسل رکھنا افضل ہے اور اگر اس نے متفرق طور پر رکھے اور گنتی پوری کرلی تو تب بھی کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہم سے پہلے صحابہ اور تابعین کا بھی یہی قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : مسلسل رکھنا افضل ہے اور اگر اس نے متفرق طور پر رکھے اور گنتی پوری کرلی تو تب بھی کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہم سے پہلے صحابہ اور تابعین کا بھی یہی قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، أَنَّ عَائِشَةَ، وَحْفَصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَصْبَحَتَا صَائِمَتَيْنِ مُتَطَوِّعَتَيْنِ، فَأُهدِيَ لَهُمَا طَعَامٌ فَأَفْطَرَتَا عَلَيْهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَتْ حَفْصَةُ: بَدَرَتْنِي بِالْكَلامِ، وَكَانَتِ ابْنَةَ أَبِيهَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصْبَحْتُ أَنَا، وَعَائِشَةُ صَائِمَتَيْنِ مُتَطَوِّعَتَيْنِ، فَأُهْدِيَ لَنَا طَعَامٌ، فَأَفْطَرْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْضِيَا يَوْمًا مَكَانَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ صَامَ تَطَوُّعًا، ثُمَّ أَفْطَرَ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ قَبْلَنَا
ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ و حفصہ (رض) نے نفلی روزہ رکھا اور انھیں بطور ہدیہ ایک کھانا بھیجا گیا تو انھوں نے اس پر روزہ افطار کرلیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر تشریف لائے ابن شہاب کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) نے فرمایا حفصہ مجھ سے کلام میں سبقت لے گئی۔ اور کیونکہ یہ نہ ہوتا آخر وہ اپنے باپ عمر کی بیٹی تھی۔ وہ بولیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا اور عائشہ کا روزہ نفلی تھا۔ ہمیں کجھ کھانا بطور ہدیہ ملا اور ہم نے اس پر روزہ افطار کرلیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کی جگہ ایک اور دن کا روزہ رکھو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جس نے نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا اس پر قضاء لازم ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور عام تابعین کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جس نے نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا اس پر قضاء لازم ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور عام تابعین کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الإِفْطَارَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: تَعْجِيلُ الإِفْطَارِ، وَصَلاةِ الْمَغْرِبِ أَفْضَلُ مِنْ تَأْخِيرِهِمَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ
سہل بن سعد الساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگ برابر بھلائی کے ساتھ رہیں گے۔ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : افطار میں جلدی کرنا اور اسی طرح نماز مغرب میں جلدی کرنا ان کو مؤخر کرنے سے افضل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور جمہور علماء اہل سنت کا یہی قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : افطار میں جلدی کرنا اور اسی طرح نماز مغرب میں جلدی کرنا ان کو مؤخر کرنے سے افضل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور جمہور علماء اہل سنت کا یہی قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ كَانَا «يُصَلِّيَانِ الْمَغْرِبَ حِينَ يَنْظُرَانِ اللَّيْلَ الأَسْوَدَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرُوا، ثُمَّ يُفْطِرَانِ بَعْدَ الصَّلاةِ فِي رَمَضَانَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهَذَا كُلُّهُ وَاسِعٌ، فَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ قَبْلَ الصَّلاةِ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ بَعْدَهَا، وَكُلُّ ذَلِكَ لا بَأْسَ بِهِ
حمید بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان (رض) مغرب کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جبکہ سیاہ رات کی طرف دیکھتے اس سے پہلے کہ افطار کریں پھر افطار نماز کے بعد کرتے تھے۔ اور یہ رمضان میں ہوتا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : تمام کی گنجائش ہے جو چاہے نماز سے پہلے افطار کرے اور جو چاہے اس کے بعد افطار کرے۔ ان میں حرج نہیں ( بشرطیکہ اشتبابک نجوم کی صریح ممانعت سے بچا ہوا ہو)
قول محمد (رح) یہ ہے : تمام کی گنجائش ہے جو چاہے نماز سے پہلے افطار کرے اور جو چاہے اس کے بعد افطار کرے۔ ان میں حرج نہیں ( بشرطیکہ اشتبابک نجوم کی صریح ممانعت سے بچا ہوا ہو)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَفْطَرَ فِي يَوْمِ رَمَضَانَ فِي يَوْمِ غَيْمٍ، وَرَأَى أَنَّهُ قَدْ أَمْسَى، أَوْ غَابَتِ الشَّمْسُ "، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: «الْخَطْبُ يَسِيرٌ وَقَدِ اجْتَهَدْنَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ أَفْطَرَ وَهُوَ يَرَى أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ غَابَتْ، ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهَا لَمْ تَغِبْ لَمْ يَأْكُلْ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَلَمْ يَشْرَبْ وَعَلَيْهِ قَضَاؤُهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے رمضان المبارک میں ایک ابر والے دن اس خیال سے روزہ افطار کرلیا کہ شاید شام ہوگئی ہے یا سورج غروب ہو کیا ہے۔ اسی دوران ایک شخص نے آکر کہا اے امیر المؤمنین سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے فرمایا ہم نے بہت کوشش کی ہے ؟ معاملہ ( قضاء) آسان ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جس شخص نے اس خیال سے روزہ افطار کرلیا کہ سورج غروب ہو کیا ۔ پہر اسے معلوم ہوا کہ ابھی غروب نہیں ہوا تو وہ دن کے باقی وقت میں کجہ نہ کھائے گا اور نہ کچھ پیئے : ا۔ اس پر قضاء واجب ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جس شخص نے اس خیال سے روزہ افطار کرلیا کہ سورج غروب ہو کیا ۔ پہر اسے معلوم ہوا کہ ابھی غروب نہیں ہوا تو وہ دن کے باقی وقت میں کجہ نہ کھائے گا اور نہ کچھ پیئے : ا۔ اس پر قضاء واجب ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنِ الْوِصَالِ» ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ: «إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ إِنِّي أُطْعَمُ، وَأُسْقَى»
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال سے منع فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ( اس معاملہ میں ) تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔
(امام مالک نے اس اثر کو باب النہی عن الوصال فی الصوم میں ذکر فرمایا ہے)
(امام مالک نے اس اثر کو باب النہی عن الوصال فی الصوم میں ذکر فرمایا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ، إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ» ، قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي، فَاكْلَفُوا مِنَ الأَعْمَالِ مَا لَكُمْ بِهِ طَاقَةٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْوِصَالُ مَكْرُوهٌ، وَهُوَ أَنْ يُوَاصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ يَوْمَيْنِ فِي الصَّوْمِ، لا يَأْكُلُ فِي اللَّيْلِ شَيْئًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ
ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صوم وصال سے بچتے رہو۔ سوم وصال سے بچ رک رہو۔ لوگوں نے عرض کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ میں ( اس میں ) تمہاری مانند نہیں ہوں۔ مجھے تو میرا رب رات کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اعما ٧ ل میں ٧ ان اعمال کو ادا کرو جن کو ادا کرنے کی طاقت ہو۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ باب النہی من الوصال فی الصیام میں نقل کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں وصال صوم مکروہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دو دنوں کے روزوں کو ملا کر رکھے رات کو بھی کچھ نہ کھائے یہی امام ابوحنیفہ اور جمہور علماء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں وصال صوم مکروہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دو دنوں کے روزوں کو ملا کر رکھے رات کو بھی کچھ نہ کھائے یہی امام ابوحنیفہ اور جمہور علماء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ ابْنَةِ الْحَارِثِ، " أَنَّ نَاسًا تَمَارَوْا فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: صَائِمٌ، وَقَالَ آخَرُونَ: لَيْسَ بِصَائِمٍ، فَأَرْسَلَتْ أُمُّ الْفَضْلِ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ فَشَرِبَهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ شَاءَ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ، إِنَّمَا صَوْمُهُ تَطَوُّعٌ، فَإِنْ كَانَ إِذَا صَامَهُ يُضْعِفُهُ ذَلِكَ عَنِ الدُّعَاءِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، فَالإِفْطَارُ أَفْضَلُ مِنَ الصَّوْم
ام الفضل بنت الحارث (رض) عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یوم عرفہ کے روزے کے متعلق باہمی شک کیا بعض نے کہا آپ روزے سے تھے اور دوسروں نے کہا آپ روزہ دار نہ تھے۔ تو ام فضل نے دودھ کا ایک پیالہ منگوایا اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقوف عرفات میں مصروف تھے ( وہ پیالہ آپ کی خدمت میں پیش کیا) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے نوش فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : عرفہ کے دن جو روزہ رکھنا چاہے روزہ رکھ لے اور جو افطار کرنا چاہے اس کی مرضی ہے۔ یہ نفلی روزہ ہوگا۔ اگر روزہ اس کو اس دن کی دعا میں کمزوری کا باعث ہو تو اس کو افطار ہی افضل ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : عرفہ کے دن جو روزہ رکھنا چاہے روزہ رکھ لے اور جو افطار کرنا چاہے اس کی مرضی ہے۔ یہ نفلی روزہ ہوگا۔ اگر روزہ اس کو اس دن کی دعا میں کمزوری کا باعث ہو تو اس کو افطار ہی افضل ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سُلْيَمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ صِيَامِ أَيَّامِ مِنًى»
سلیمان بن یسار (رح) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایام منی کے روزے سے منع فرمایا ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: دَخَلَ عَلَى أَبِيهِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، فَقَرَّبَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لأَبِيهِ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: كُلْ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يَأْمُرُنَا بِالْفِطْرِ فِي هَذِهِ الأَيَّامِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يُصَامَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ لِمُتْعَةٍ، وَلا لِغَيْرِهَا، لِمَا جَاءَ مِنَ النَّهْيِ عَنْ صَوْمِهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ قَبْلِنَا، وَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: يَصُومُهَا الْمُتَمَتِّعُ الَّذِي لا يَجِدُ الْهَدْيَ، أَوْ فَاتَتْهُ الأَيَّامُ الثَّلاثَةُ قَبْلَ يَوْمِ النَّحْرِ
ابو مرہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) ایام تشریق میں حضرت عمرو بن العاص (رض) کے پاس گئے تو حضرت عمرو نے عبداللہ کے سامنے کھانا رکھا۔ عبداللہ نے کہا میں روزہ دار ہوں۔ تو عمرو (رض) کہنے لگے کھاؤ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دنوں میں ہمیں افطار کا حکم فرماتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ایام تشریق میں روزہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔ نہ تمتع کرنے والے ( کو اور نہ قران و افراد کرنے والے) دوسرے افراد کو۔ اس لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہم سے پہلے صحابہ وتابعین کا عمل ہے۔ امام مالک (رح) کہتے ہیں۔ وہ متمتع جس کو ہدی میسر نہ آئے وہ ان دنوں میں روزے رکھے یا وہ شخص جس کو ہدی کی طاقت نہ ہو اور یوم نحر سے پہلے تین دن روزے نہ رکھ سکا ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ایام تشریق میں روزہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔ نہ تمتع کرنے والے ( کو اور نہ قران و افراد کرنے والے) دوسرے افراد کو۔ اس لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہم سے پہلے صحابہ وتابعین کا عمل ہے۔ امام مالک (رح) کہتے ہیں۔ وہ متمتع جس کو ہدی میسر نہ آئے وہ ان دنوں میں روزے رکھے یا وہ شخص جس کو ہدی کی طاقت نہ ہو اور یوم نحر سے پہلے تین دن روزے نہ رکھ سکا ہو۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: «لا يَصُومُ إِلا مَنْ أَجْمَعَ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَمَنْ أَجْمَعَ أَيْضًا عَلَى الصِّيَامِ قَبْلَ نِصْفِ النَّهَارِ فَهُوَ صَائِمٌ، وَقَدْ رَوَى ذَلِكَ غَيْرُ وَاحِدٍ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ قَبْلَنَا
نافع ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ اس کا روزہ نہیں مگر وہ شخص جو طلوع فجر سے پہلے اس کی پختہ نیت کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جس نے نصف النہار سے قبل روزے کی نیت کرلی اس کا روزہ درست ہے اور وہ روزہ دار شمار ہوگا۔ اور یہ مضمون بہت سے آثار میں منقول ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہم سے قبل صحابہ وتابعین میں عام کا مذہب ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جس نے نصف النہار سے قبل روزے کی نیت کرلی اس کا روزہ درست ہے اور وہ روزہ دار شمار ہوگا۔ اور یہ مضمون بہت سے آثار میں منقول ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہم سے قبل صحابہ وتابعین میں عام کا مذہب ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَصُومُ حَتَّى يُقَالَ: لا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى يُقَالَ: لا يَصُومُ، وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ "
عائشہ (رض) عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ رکھنا شروع فرماتے یہاں تک کہ یوں کہا جاتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افطار نہ کریں گے (بلکہ روزے رکھتے رہیں گے) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افطار رکتے یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ نہ رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان المبارک کے۔ اور تمام مہینوں میں سب سے زیادہ شعبان کے مہینہ میں روزے رکھتے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَامَ حَجٍّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِهَذَا الْيَوْمِ: «هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ لَمْ يَكْتُبِ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، أَنَا صَائِمٌ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ كَانَ وَاجِبًا قَبْلَ أَنْ يُفْتَرَضَ رَمَضَانُ ثُمَّ نَسَخَهُ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَهُوَ تَطَوُّعٌ مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ قَبْلَنَا
حمید بن عبد الرحمن نے حضرت معاویہ (رض) کو منبر پر خطبہ دیتے سنا جبکہ انھوں نے حج کیا۔ وہ کہ رہے تھے۔ اے اہل مدینہ ! تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس دن کے متعلق کہتے سنا تھا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے اور اس کا روزہ تم پر فرض نہیں۔ اور میں روزہ رکھنے والا ہوں۔ پس جو چاہیے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
(امام مالک نے یہ روایت باب صیام یوم عاشوراء میں نقل کی ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : عاشورہ کا روزہ فرضیت رمضان سے پہلے فرض تھا پھر اس کی فرضیت رمضان کی وجہ سے منسوخ ہوگئی۔ اب یہ نفلی روزہ ہے۔ جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہم سے پہلے صحابہ (رض) عنہم وتابعین (رح) میں عام کا قول ہے۔
(امام مالک نے یہ روایت باب صیام یوم عاشوراء میں نقل کی ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : عاشورہ کا روزہ فرضیت رمضان سے پہلے فرض تھا پھر اس کی فرضیت رمضان کی وجہ سے منسوخ ہوگئی۔ اب یہ نفلی روزہ ہے۔ جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہم سے پہلے صحابہ (رض) عنہم وتابعین (رح) میں عام کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ»
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کی آخری سات راتون میں تلاش کرو۔ ( اس روایت کو امام مالک نے معمولی الفاظ کے فرق کے ساتھ باب ما جاء فی لیلۃ القدر میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ»
عروہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان المبار کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی لیلۃ القدر میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا اعْتَكَفَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلا لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَخْرُجُ الرَّجُلُ إِذَا اعْتَكَفَ إِلا لِلْغَائِطِ، أَوِ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الطَّعَامُ، وَالشَّرَابُ فَيَكُونُ فِي مُعْتَكَفِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اعتکاف میں ہوتے تو میری طرف اپنا سر مبارک جھکاتے تھے اور میں اس میں کنگھی کردیا کرتی تھی۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں سوائے انسانی ضرورت (قضائے حاجت) کے اور کسی کام کے لیے داخل نہ ہوتے تھے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ذکر الاعتکاف میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ آدمی اپنے معتکف سے صرف بول و براز کے لیے نکل سکتا ہے۔ رہا طعام و شراب وہ اپنے معتکف میں کھائے گا اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ آدمی اپنے معتکف سے صرف بول و براز کے لیے نکل سکتا ہے۔ رہا طعام و شراب وہ اپنے معتکف میں کھائے گا اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْوُسَطَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَاعْتَكَفَ عَامًّا حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَهُيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي يَخْرُجُ فِيهَا مِنَ اعْتِكَافِهِ قَالَ: «مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِيَ فَلْيَعْتَكِفِ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ، وَقَدْ رَأَيْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، وَقَدْ رَأَيْتُنِي مِنْ صُبْحَتِهَا أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالْتَمِسُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ» ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمُطِرَتِ السَّمَاءُ مِنْ تِلْكَ اللَّيْلَةِ، وَكَانَ الْمَسْجِدُ سَقْفُهُ عَرِيشًا فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ عَلَيْنَا، وَعَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ أَثَرُ الْمَاءِ وَالطِّينِ مِنْ صُبْحِ لَيْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان المبارک کے دریمانی عشرہ اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعتکاف کیا یہ ان تک کہ اکیسویں رات آگئی۔ اور یہ وہ رات تھی کہ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو اپنے اعتکاف سے باہر آیا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے میری طرح درمیانے عشرہ کا اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کرے کیونکہ میں نے لیلۃ القدر دیکھی تھی اور پھر اسے بھول گیا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ اس (رات کی) صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کرتا ہوں۔ پس تم اسے آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ اور ہر طاق رات میں ڈہونڈو۔ ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ اس رات کو بارش ہو : ئی اور مسجد چھت کھجور کے چھپر کی بنی ہوئی تہی پس وہ ٹپک پڑی۔ ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ میرے آنکھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا نشان تھا ۔ اور یہ واقعہ اکیسویں شب کا ہے (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی لیلۃ القدر میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، " سَأَلْتُ ابْنَ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ عَنِ الرَّجُلِ الْمُعْتَكِفِ يَذْهَبُ لِحَاجَتِهِ تَحْتَ سَقْفٍ؟ قَالَ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: بِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ لِلْمُعْتَكِفِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ الْحَاجَةَ مِنَ الْغَائِطِ، أَوِ الْبَوْلِ أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ، أَوْ أَنْ يَمُرَّ تَحْتَ السَّقْفِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى.
مالک کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن شہاب (رح) سے دریافت کیا کہ جو شخص اعتکاف کرے کیا وہ اپنی حاجت کے لیے چھت کے نیچے جاسکتا ہے۔ انھوں نے جواب مں ا فرمایا ۔ جی ہاں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (اس اثر کو باب ١ کر الاعتکاف میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ معتکف کو قضاء حاجت کے لیے گھر میں داخل ہونا جائز ہے۔ اسی طرح کسی چھت کے نیچے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ معتکف کو قضاء حاجت کے لیے گھر میں داخل ہونا جائز ہے۔ اسی طرح کسی چھت کے نیچے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
پڑھنے کی ترتیبات
Urdu
System
عربی فونٹ منتخب کریں
Kfgq Hafs
ترجمہ فونٹ منتخب کریں
Noori_nastaleeq
22
17
عام ترتیبات
عربی دکھائیں
ترجمہ دکھائیں
حوالہ دکھائیں
حدیث دو حصوں میں دیکھیں
صدقہ جاریہ میں حصہ لیں
ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔
عطیہ کریں۔