HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

3. زکوۃ کا بیان

موطأ الامام محمد

321

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ يَقُولُ: «هَذَا شَهْرُ زَكَاتِكُمْ، فَمَنْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَلْيُؤَدِّ دَيْنَهُ حَتَّى تُحَصَّلَ أَمْوَالُكُمْ، فَتُؤَدُّوا مِنْهَا الزَّكَاةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ وَلَهُ مَالٌ فَلْيَدْفَعْ دَيْنَهُ مِنْ مَالِهِ، فَإِنْ بَقِيَ بَعْدَ ذَلِكَ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ فَفِيهِ زَكَاةٌ، وَتِلْكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ، أَوْ عِشْرُونَ مِثْقَالا ذَهَبًا فَصَاعِدًا، وَإِنْ كَانَ الَّذِي بَقِيَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ، بَعْدَ مَا يَدْفَعُ مِنْ مَالِهِ الدَّيْنَ فَلَيْسَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت عثمان بن عفان (رض) (رمضان کے متعلق کہا کرتے تھے) یہ تمہاری زکوۃ کا مہینہ ہے ) ۔ پس جس کے ذمہ قرضہ ہو وہ اپنا قرض ادا کرے پھر جو مال باقی رہ جائے پس اس میں سے زکوۃ ادا کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جس کے ذمہ قرضہ ہو اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے مال میں سے اپنا قرضہ ادا کرے اگر اس کے بعد اتنا مال بچ جائے جس میں زکوۃ لازم ہوتی ہو تو اس میں زکوۃ ہے۔ اور اس کی اس نصاب کی مقدار چاندی کے حساب سے دو سو درہم یا بیس مثقال سونا ہے یا اس سے زیادہ ہو ( تو اس میں کزوۃ ہوگی) اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال اس مقدار سے کم ہو تو اس میں زکوۃ نہیں ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے (اس روایت کو باب الزکوۃ فی الدین میں امام مالک نے ذکر کیا ہے) امام سرخسی نے مبسوط میں تصریح کی ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے کتاب الاثار میں رمضان کا لفظ خود موجود ہے

322

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ لَهُ مَالٌ، وَعَلَيْهِ مِثْلُهُ مِنَ الدَّيْنِ، أَعَلَيْهِ الزَّكَاةُ؟ فَقَالَ: لا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
یزید بن خصیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن یسار سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا کہ جس کے پاس مال بھی ہو اور اتنی مقدار میں اس پر قرض ہو تو کیا ایسے شخص پر زکوۃ لازم ہوگی۔ تو وہ کہنے لگے نہیں۔ ( ان دونوں آثار کو امام مالک نے باب الزکوۃ فی الدین میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے)

323

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا محمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ ذَوْدٍ مِنَ الإِبِلِ صَدَقَةٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَأْخُذُ بِذَلِكَ إِلا فِي خَصْلَةٍ وَاحِدَةٍ، فَإِنَّهُ، كَانَ يَقُولُ: فِيمَا أَخْرَجَتِ الأَرْضُ الْعُشْرُ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ إِنْ كَانَتْ تُشْرَبُ سَيْحًا أَوْ تَسْقِيهَا السَّمَاءُ، وَإِنْ كَانَتْ تُشْرَبُ بِغَرْبٍ أَوْ دَالِيَةٍ فَنِصْفُ عُشْرٍ، وَهُوَ قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعَيِّ، وَمُجَاهِدٍ
ابو سعید الخدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ وسق سے کم کھجور میں صدقہ نہیں ہے۔ اور چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں صدقہ نہیں۔ اور پانچ اونٹ سے کم میں صدقہ یعنی زکوۃ نہیں۔ (اسی رویت کو امام مالک نے باب ما یجب فیہ الزکوۃ میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام صاحب (رح) بہی اسی کو اختیار کرتے تھے مکر ایک صورت میں وہ فرماتے جو زمین سے نکلے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ بشرطیہ بارانی یا چشمہ سے یا بارش سے سیراب ہوتی ہو تو اس میں عشر ہے۔ اکر وہ زمین ڈول یا رہٹ سے سیراب ہوتی ہو تو اس میں نصف عشر ہے اور یہی ابراہیم نخعی اور مجاہد رحمہا اللہ کا قول ہے۔

324

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «لا تَجِبُ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، إِلا أَنْ يَكْتِسَبَ مَالا فَيَجْمَعُهُ إِلَى مَالٍ عِنْدَهُ مِمَّا يُزَكَّى، فَإِذَا وَجَبَتِ الزَّكَاةُ فِي الأَوَّلِ، زَكَّى الثَّانِي مَعَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى
نافع ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب تک سال نہ گزرے زکوۃ لازم نہیں ہوتی۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الزکوۃ العین من الذہب و الورق میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ لیکن اگر کوئی نیا مال کمائی تو اسے بہی پہلے مال میں جامع کرے۔ جب پہلے میں زکوۃ واجب ہوگی تو دوسرے کی زکوۃ بھی اس کے ساتھ ادا کرے اور یہی امام ابوحنیفہ اور ابراہیم نخعی رحمہا اللہ کا قول ہے۔

325

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ مَوْلَى الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ مُكَاتَبٍ لَهُ قَاطَعَهُ بِمَالٍ عَظِيمٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: هَلْ فِيهِ زَكَاةٌ؟ قَالَ الْقَاسِمُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ " لا يَأْخُذُ مِنْ مَالٍ صَدَقَةً حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ، قَالَ الْقَاسِمُ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَعْطَى النَّاسَ أُعْطِياتِهِمْ يَسْأَلُ الرَّجُلَ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ مَالٍ قَدْ وَجَبَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، أَخَذَ مِنْ عَطَائِهِ زَكَاةَ ذَلِكَ الْمَالِ، وَإِنْ قَالَ لا، سَلَّمَ إِلَيْهِ عَطَاءَهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
قائم بن محمد (رح) ایک سوال کے جواب میں فرمانے لگے۔ ابوبکر صدیق (رض) اس وقت تک کسی مال سے زکوۃ وصول نہ کرتے تھے ۔ جب تک اس پر سال نہ گرز جائے۔ قاسم کہنے لگے حضرت لوکوں کو بیت المال سے وظائف عطاء فرماتے تو سوال کرتے کہ کیا تمہارے پاس اتنا مال ہے جس پر زکوۃ واجب ہوسکتی ہو ؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہوتا تو اس مال کی زکوۃ اس کے وظیفے سے لے لیتے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہوتا تو اس کا وظیفہ اس کے حوالے کردیتے تھے اور اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

326

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ: كُنْتُ إِذَا قَبَضْتُ عَطَائِي مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، سَأَلَنِي " هَلْ عِنْدَكَ مَالٌ وَجَبَ عَلَيْكَ فِيهِ الزَّكَاةُ؟ فَإِنْ قُلْتُ: نَعَمْ، أَخَذَ مِنْ عَطَائِي زَكَاةَ ذَلِكَ الْمَالِ، وَإِلا دَفَعَ إِلَيَّ عَطَائِي "
قدامہ بن مظعون (رض) روایت کرتے ہیں کہ جب میں اپنا وظیفہ لینے کے لیے حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس آتا تھا تو وہ استفسار فرماتے کہ کیا تمہارے پاس قابل زکوۃ مال موجود ہے ؟ اکر میں ہان میں جواب دیتا تو وہ اس مال کی زکوۃ میرے وظیفہ سے کاٹ لیتے تھے اور اگر میں کہتا کہ نہیں تو میرا وظیفہ میرے حوالے کردیتے۔ ( اس روایت کو باب الزکوۃ فی العین من الذہب والورق میں امام مالک (رح) نے نقل کیا ہے)

327

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ قَاسِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ «تَلِي بَنَاتَ أَخِيهَا يَتَامَى فِي حِجْرِهَا، لَهُنَّ حُلِيٌّ، فَلا تُخْرِجُ مِنْ حُلِيِّهِنَّ الزَّكَاةَ»
محمد بیان کرتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ (رض) عنہا اپنی یتیم بھتیجیوں کو اپنی گود میں پالتی تھیں، اور ان کے زیورات سے زکوۃ نہ نکالتی تھیں۔

328

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يُحَلِّي بَنَاتَهُ وَجَوَارِيهِ، فَلا يُخْرِجُ مِنْ حُلِيِّهِنَّ الزَّكَاةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا مَا كَانَ مِنْ حُلِيِّ جَوْهَرٍ وَلُؤْلُؤٍ، فَلَيْسَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَأَمَّا مَا كَانَ مِنْ حُلِيِّ ذَهَبٍ، أَوْ فِضَّةٍ، فَفِيهِ الزَّكَاةُ، إِلا أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ لِيَتِيمٍ، أَوْ يَتِيمَةٍ لَمْ يَبْلُغَا، فَلا تَكُونُ فِي مَالِهَا زَكَاةٌ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) اپنی بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کا زیور پہناتے تھے پھر ان کے زیورات میں سے زکوۃ نہ نکالتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جواہرات کی قسم سے جو زیور ہوگا اور اسی طرح موتیوں سے ہوگا اس میں زکوۃ کسی حال میں بھی نہیں ہے۔ البتہ سونے اور چاندی کے زیورات میں زکو وۃ ہے۔ اگر یتیم بچے یا بچی کا زیور ہو جو کہ نابالغ ہوں تو ان کے مال میں زکوۃ نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

329

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ كَانَ «يَأْخُذُ عَنِ النَّبَطِ مِنَ الْحِنْطَةِ، وَالزَّيْتِ نِصْفَ الْعُشُرِ، يُرِيدُ أَنْ يُكْثِرَ الْحِمْلَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَيَأْخُذُ مِنَ الْقِطَنِيَّةِ الْعُشُرَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يُؤْخَذُ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ مِمَّا اخْتَلَفُوا فِيهِ لِلتِّجَارَةِ مِنْ قِطَنِيَّةٍ، أَوْ غَيْرِ قِطَنِيَّةٍ نِصْفُ الْعُشُرِ فِي كُلِّ سَنَةٍ، وَمِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ إِذَا دَخَلُوا أَرْضَ الإِسْلامِ بِأَمَانٍ الْعُشُرُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ، وَكَذَلِكَ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ زِيَادَ بْنَ حُدَيْرٍ، وَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ بَعَثَهُمَا عَلَى عُشُورِ الْكُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) عن نبطیوں سے گندم اور زیتون میں سے نصف عشر لیا کرتے تھے اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں تجارتی اجناس زیادہ سے زیادہ آئیں اور آپ دالوں کی اجناس سے عشر لیتے تھے۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب عشور اہل الذمہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اہل ذمہ جب تجارت کے لیے دار الاسلام میں آمد و رفت کریں تو ان سے دالوں کی اجناس اور دیگر اجناس سے ہر سال میں ایک مرتبہ نصف عشر لیا جائے گا۔ اور اہل حرب جب دار الاسلام میں امام لے کر تجارت کے لیے آئیں تو ان سے تمام اجناس میں عشر وصول کیا جائے گا۔ حضرت عمر (رض) نے جب زیاد بن حدیر اور انس بن مالک کو کوفہ اور بصرہ کے عشرکا نگران بنا کر بھیجا تو انھیں یہی حکم دیا تھا اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

330

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَخَذَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَيْنِ الْجِزْيَةَ، وَأَنَّ عُمَرَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ فَارِسٍ، وَأَخَذَهَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ مِنَ الْبَرْبَرِ»
ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ مج ہے اطلاع پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحرین کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا تھا۔ اور عمر (رض) نے ابران کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا تھا۔ اور عثمان بن عفان (رض) نے اسے بربر سے وصول کیا تھا۔ بربر سے افریقی قبائل مراد ہیں۔ (اس روایت کو امام مالم نے باب جززیۃ اہل الکتاب و المجوس میں بیان کیا ہے)

331

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ «ضَرَبَ الْجِزْيَةَ عَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا، وَعَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ، وَمَعَ ذَلِكَ أَرْزَاقَ الْمُسْلِمِينَ وَضِيَافَةَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ»
اسلم بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے سونے والوں پر چار دینار اور چاندی والوں پر چالیس درہم جزیہ مقرر کیا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے ارزاق ( مجاہدین اسلام کی مہمانی) اور وہ ضیافت تین دن لازم ہوگی۔

332

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ يُؤْتَى بِنَعَمٍ كَثِيرَةٍ مِنْ نَعَمِ الْجِزْيَةِ "، قَالَ مَالِكٌ: أُرَاهُ تُؤْخَذُ مِنْ أَهْلِ الْجِزْيَةِ فِي جِزْيَتِهِمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: السُّنَّةُ أَنْ تُؤْخَذَ الْجِزْيَةُ مِنَ الْمَجُوسِ مِنْ غَيْرِ أَنْ تُنْكَحَ نِسَاؤُهُمْ، وَلا تُؤْكَلَ ذَبَائِحُهُمْ، وَكَذَلِكَ بَلَغَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَضَرَبَ عُمَرُ الْجِزْيَةَ عَلَى أَهْلِ سَوَادِ الْكُوفَةِ، عَلَى الْمُعْسِرِ اثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَعَلَى الْوَسَطِ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَعَلَى الْغَنِيِّ ثَمَانِيَةً وَأَرْبَعِينَ دِرْهَمًا، وَأَمَّا مَا ذَكَرَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمْ يَأْخُذِ الْإِبِلَ فِي جِزْيَةٍ عَلِمْنَاهَا إِلا مِنْ بَنِي تَغْلِبَ فَإِنَّهُ أَضْعَفَ عَلَيْهِمُ الصَّدَقَةَ، فَجَعَلَ ذَلِكَ جِزْيَتَهُمْ، فَأَخَذَ مِنْ إِبِلِهِمْ وَبَقَرِهِمْ وَغَنَمِهِمْ
اسلم کہتے ہیں کہ عمررضی اللہ عنہ کے پاس جزیہ میں بہت سے اونٹ آتے تھے مالک کہتے ہیں شاید یہ اونٹ اہل جزیہ سے بطور جزیہ وصول کیے جاتے ہوں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : سنت یہ ہے کہ مجوسیوں سے جزیہ تو لیا جائے گا مکر نہ ان کیو عورتوں سے نکاح کیا جائے گا اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے گا۔ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت پہنچی اور حضرت عمر (رض) نے اہل کوفہ پر اسی شرح سے جزیہ مقرر فرمایا تھا۔ غریب سے بارہ درہم اور متوسط الحال سے چوبیس درہم اور امیر آدمی سے اڑتالیس درہم۔ باقی رہی وہ بات جو امام مالک (رح) نے ذکر کی ہے کہ اونٹ جزیہ میں آتے ت ہے۔ تو ہمارے علم کے مطابق حضرت عمر (رض) جزیہ میں اونٹ نہ لیتے تھے سوائے ان لوکوں کے جو بنو تغلب سے ہوں ان پر بطو جرمانہ جزیہ دوگنا کردیا گیا تھا۔ پس ان سے جزیہ کو پورا کرنے کے لیے اونٹ، بکرکیاں، گائیں وصول کی جاتی تھیں۔

333

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ صَدَقَةِ الْبَرَاذِينَ فَقَالَ: أَوَ فِي الْخَيْلِ صَدَقَةٌ؟ .
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب (رح) سے ٹٹوؤں کی زکوۃ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے مجھ سے سوال کیا گھوڑوں پر زکوۃ ہوتی ہے ؟ یہ استفہام انکاری ہے

334

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سُلْيَمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ، وَلا فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لَيْسَ فِي الْخَيْلِ صَدَقَةٌ سَائِمَةً كَانَتْ، أَوْ غَيْرَ سَائِمَةٍ، وَأَمَّا فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ: فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةً يُطْلَبُ نَسْلُهَا فَفِيهَا الزَّكَاةُ، إِنْ شِئْتَ فِي كُلِّ فَرَسٍ دِينَارٌ، وَإِنْ شِئْتَ فَالْقِيمَةُ، ثُمَّ فِي كُلِّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَهُوَ قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑے میں کوئی زکوۃ نہیں ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ گھوڑوں میں زکوۃ نہیں ہے۔ خواہ وہ چرنے والے ہوں یا نہ ۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں جب وہ چرنے والے ہوں اور نر اور مادہ ہوں ان کو نسل کشی کے لیے رکھا گیا ہو تو ان میں زکوۃ ہوگی۔ اگر مناسب خیال کرو تو اس طرح ادا کرو کہ ہر گھوڑے پر ایک دینار دے دو اور اگر قیمت لگاؤ تو چالیسواں حصہ ادا کردو تو اس طرح بہی درست ہے اور یہی امام ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے۔

335

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَيْهِ: أَنْ لا يَأْخُذَ مِنَ الْخَيْلِ، وَلا الْعَسَلِ صَدَقَةً، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا الْخَيْلُ فَهِيَ عَلَى مَا وَصَفْتُ لَكَ، وَأَمَّا الْعَسَلُ فَفِيهِ الْعُشُرُ، إِذَا أَصَبْتَ مِنْهُ الشَّيْءَ الْكَبِيرَ خَمْسَةَ أَفْرَاقٍ فَصَاعِدًا، وَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَقَالَ: فِي قَلِيلِهِ، وَكَثِيرِهِ الْعُشُرُ، وَقَدْ بَلَغَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ جَعَلَ فِي الْعَسَلِ الْعُشُرَ.
عبداللہ بن ابی بکر بن حزم (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد ابوبکر بن حزم کے پاس ( منی میں) عمر بن عبد العزیز (رح) کا خط پہنچا جس میں درج تھا کہ گھوڑوں اور شہد سے زکوۃ نہ لی جائے۔ ( اس قول کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی صدقۃ ا لرقیق و الخیل و العسل میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : گھوڑوں کے متعلق تو اوپر وضاحت کردی گئی۔ رہا شہد کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں عشر ہے۔ جبکہ تم پبانچ فرق یا اس سے زیادہ شہد اس سے حاصل کرو۔ مکر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ شہد کی مقدار کم ہو یا زیادہ اس میں عشر واجب ہے اور ہمیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد میں عشر مقرر کیا ہے۔ (رواہ العقیلی عن ابی ہریرہ (رض) اور اس کی مثل ابو داؤد، نسائی ، ابن ماجہ نے روایت نقل کرکے عشر کی وصولی ١ کر کی ہے)

336

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سُلْيَمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ أَهْلَ الشَّامِ قَالُوا لأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ: خُذْ مِنْ خَيْلِنَا، وَرَقِيقِنَا صَدَقَةً، فَأَبَى، ثُمَّ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ: " إِنْ أَحَبُّوا فَخُذْهَا مِنْهُمْ، وَارْدُدْهَا عَلَيْهِمْ، يَعْنِي: عَلَى فُقَرَائِهِمْ، وَارْزُقْ رَقِيقَهُمْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْقَوْلُ فِي هَذَا الْقَوْلِ الأَوَّلِ، وَلَيْسَ فِي فَرَسِ الْمُسْلِمِ صَدَقَةٌ، وَلا فِي عَبْدِهِ إِلا صَدَقَةَ الْفِطْرِ
اہل شام نے ابو عبیدہ بن جراح (رض) سے عرض کیا کہ ہمارے گھوڑوں اور ہمارے غلاموں کی زکوۃ وصول کی جائے تو ابو عبیدہ (رض) نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ پھر ان لوگوں نے ابو عبیدہ (رض) سے عرض کیا کہ ہم نے عمر (رض) کو بھی لکھا ہے) ان لوگوں کے جواب میں عمر (رض) نے لکھا کہ اگر یہ لوگ خود اپنی مرضی سے ایسا چاہتے ہیں تو ان سے زکوۃ وصول کرلو اور اسے انھیں ( فقراء ) پر لوٹا دو ۔ ان کے غلام کو بیت المال سے رزق دو ۔ ( جیسا کہ ابوبکر (رض) کرتے تھے)
(اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی صدقۃ الرقیق والخیل والعسل میں درج کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہیگ کہ اس سلسلہ میں بات پہلے کہہ دی گئی ہے کہ مسلمان کے گھوڑے اور غلام میں زکوۃ نہیں ہے۔ صرف صدقۃ الفطر وصول کیا جائے گا۔

337

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَقْطَعَ لِبَلالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ مَعَادِنَ مِنْ مَعَادِنِ الْقَبَلِيَّةِ، وَهُوَ مِنْ نَاحِيَةِ الْفُرُعِ، فَتِلْكَ الْمَعَادِنُ إِلَى الْيَوْمِ لا يُؤْخَذُ مِنْهَا إِلا الزَّكَاةُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْحَدِيثُ الْمَعْرُوفُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الرِّكَازُ؟ قَالَ: الْمَالُ الَّذِي خَلَقَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي الأَرْضِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي هَذِهِ الْمَعَادِنِ، فَفِيهَا الْخُمُسُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةُ مِنْ فُقَهَائِنَا
ربیعہ بن ابی عبد الرحمن اور ان کے علاوہ دوسروں نے بھی بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال بن حارث مزنی (رض) کو قبلیہ کی کانوں میں ایک کان بطور جاگیر عنایت فرمائی۔ یہ قلیہ فرح کی جانب واقع ہے۔ یہ کانیں آج تک قائم ہیں ان سے صرف زکوۃ لی جاتی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اس سلسلہ میں مشہور روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (جس کو ابوہریرہ (رض) نے نے نقل کیا۔ کہ دفینہ میں خسم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا طیا کہ رکاز کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ مال جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں آسمان و زمین کی پیدائش کے دن سے پیدا فرمایا۔ ان کانوں میں خمس ہے۔ اور یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء بہی اسی طرح گئے ہیں۔

338

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ الْجَبَلِ إِلَى الْيَمَنِ، «فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً» ، فَأُتِيَ بِهَا دُونَ ذَلِكَ، فَأَبَى أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا، وَقَالَ: لَمْ أَسْمَعْ فِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ مُعَاذٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لَيْسَ فِي أَقَلِّ مِنْ ثَلاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ زَكَاةٌ، فَإِذَا كَانَتْ ثَلاثِينَ فَفِيهَا تَبِيعٌ، أَوْ تَبِيعَةٌ، وَالتَّبِيعُ الْجَذَعُ الْحَوْلِيُّ، إِلَى أَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا مُسِنَّةٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَالْعَامَّةِ
طاؤس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن کی طرف گورنر بناکر روانہ فرمایا۔ اور ان کو حکم فرمایا کہ ہر تیس گائے بھینسوں میں سے ایک سالہ مونث بچھڑی اور چالیس میں سیایک دو سالہ مونث بچھڑی لی جائے۔ پس ان کے ہاں تیس سے کم تعداد لائی گئی تو انھوں نے اس میں کچھ لینے سے انکار کردیا اور فرمایا۔ کہ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ نہیں سنا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل کر دریافت کروں گا۔ پس معاذ بن جبل (رض) کے آنے سے پہلے ہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب صدقۃ البقر میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ تیس سے کم تعداد گائے بھینسوں میں کوئی زکوۃ نہیں۔ جب ان کی تعداد تیس ہوجائے تو اس میں ایک بچھرا یا بچھڑی دی جائے گی۔ ( تبیعہ ایک سال کا بچھڑا) چالیس تک یہی حکم ہے۔ جب چالیس کی تعداد پوری ہوجائے اس میں دو سال کا بچھڑا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

339

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ، عَنِ الْكَنْزِ؟ فَقَالَ: «هُوَ الْمَالُ الَّذِي لا تُؤَدَّى زَكَاتُهُ»
ابن عمر (رض) سے کنز کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے کنز اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوۃ نہ ادا کی جائے۔ اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الکنز میں ذکر کیا ہے)

340

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، وَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ يَطْلُبُهُ حَتَّى يُمْكِنَهُ فَيَقُولَ: أَنَا كَنْزُكَ "
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جس شخص کے پاس مال ہو اور اس کی وہ زکوۃ ادا نہ کرے تو وہ اس کے لیے قیامت کے ان سفید سر والا گنجا سانپ بنادیا جائے گا۔ جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ وہ سانپ اس کو تلاش کرے یہاں تک کہ وہ گنجا سانپ اسے قابو میں کرلے گا۔ اور اس طرح کہے گا میں تیرا خزانہ ہوں۔ (اس روایت کو امام مالک رحمہ نے باب ما جاء فی الکنز میں ذکر کیا ہے)

341

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلا لِخَمْسَةٍ: لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ لِغَارِمٍ، أَوْ لِرَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ لِرَجُلٍ لَهُ جَارٌ مِسْكِينٌ تُصُدِّقَ عَلَى الْمِسْكِينِ، فَأَهْدَى إِلَى الْغَنِيِّ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِذَا كَانَ لَهُ عَنْهَا غِنًى يَقْدِرُ بِغِنَاهُ عَلَى الْغَزْوِ لَمْ يُسْتَحَبَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا شَيْئًا، وَكَذَلِكَ الْغَارِمُ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ وَفَاءٌ بِدَيْنِهِ، وَفَضْلٌ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ لَمْ يُسْتَحَبَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا شَيْئًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عطاء بن یسار (رح) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صدقہ غنی کے لیے حلال نہیں۔ صرف پانچ اشخاص کے لیے درست ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ (٢) صدقات کا عامل۔ (٣) مقروض۔ (٤) جو شخص اسے اپنے مال کے ساتھ خریدے۔ (٥) وہ شخص جس کا کوئی مسکین ہمسایہ ہو، اس مسکین کو صدقہ دیا جائے اور وہ مسکین غنی کو ہدیہ کردے۔ ( اس روایت کو امام ملک نے بھی مرسلا باب اخذ الصدقۃ و من یجوز لہ اخذہا میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر مجاہد کے پاس خود اتنا مال ہو جو اس کو صدقہ سے مستغنی کرنے والا ہو تو پھر اس کو صدقہ لینا اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح چٹی بھرنے والے کا قرضہ ادا ہوجانے کے بعد اتنا مال باقی بچ گیا کہ اس میں زکوۃ لاگو ہوسکتی ہے تو اس کو بھی زکوۃ کے مال سے لینا مناسب نہیں ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

342

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَبْعَثُ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ إِلَى الَّذِي تُجْمَعُ عِنْدَهُ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمَيْنِ، أَوْ ثَلاثَةٍ "، قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يُعْجِبُنَا تَعْجِيلُ زَكَاةِ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ الرَّجُلُ إِلَى الْمُصَلَّى، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ وہ صدقہ الفطر جمع کرنے والے کے پاس عید الفطر سے دو تین روز قبل بھیج دیتے تھے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب وقت ارسال زکوۃ الفطر میں ذکر فرمایا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں اور ہمیں یہی پسند ہے کہ صدقہ الفطر عیدگاہ کی طرف جانے سے پہلے دے دیا جائے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

343

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: «صَدَقَةُ الزَّيْتُونِ الْعُشُرُ» ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ إِذْ خَرَجَ مِنْهُ خَمْسَةُ أَوْسُقٍ فَصَاعِدًا، وَلا يُلْتَفَتُ فِي هَذَا إِلَى الزَّيْتِ، إِنَّمَا يُنْظَرُ فِي هَذَا إِلَى الزَّيْتُونِ، وَأَمَّا فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ فَفِي قَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ.
ابن شہاب کہتے ہیں کہ زیتون کی زکوۃ عشر ہے۔ ( اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب زکوۃ الحبوب و الزیتون میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب اس سے پانچ وسق ہوجائے ای اس سے زیادہ تو اس وقت عشر نکالیں گے۔ اس میں تیل کا لحاظ نہ کیا جائے گا۔ بلکہ زیتون کا دیکھا جائے گا۔ باقی امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں کوئی مقدار مقرر نہیں اس کے قلیل و کثیر میں عشر ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔