HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

5. حج کا بیان۔

موطأ الامام محمد

378

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ» ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اہل مدینہ ذو الحلفہ سے احرام باندھیں اور اہل شام جحفہ سے احرام باند ہیں اور اہل نجد قرن منازل سے احرام باندھیں، عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں مجھے خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں۔ (ان کا خیال یہ ہے کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔
اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب مواقیت الاہلال میں ذکر کیا ہے۔

379

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: «أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَنْ يُهِلُّوا مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلَ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلَ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَمَّا هَؤُلاءِ الثَّلاثِ فَسَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَأَمَّا أَهْلُ الْيَمَنِ، فَيُهِلُّونَ مِنْ يَلْمَلَمَ»
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ والوں کو حکم دیا کہ وہ ذو الحلیفہ سے احرام باندھیں اور شام والوں کو حکم دیا کہ جحفہ سے احرام باندھین اور اہل نجد کم حکم دیا کہ وہ قرن منازل سے احرام باندھیں۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں میقات تو میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنے ہیں۔ اور مجھے یہ بتلایا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب مواقیت الاہلال میں ذکر کیا ہے)

380

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «أَحْرَمَ مِنَ الْفُرُعِ»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرع سے احرام باندہا۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے مواقیت الاہل میں ذکر کیا ہے)

381

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الثِّقَةُ عِنْدِي، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «أَحْرَمَ مِنْ إِيلِيَّاءَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، هَذِهِ مَوَاقِيتُ وَقَّتَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلا يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يُجَاوِزَهَا إِذَا أَرَادَ حَجًّا إِلا مُحْرِمًا، فَأَمَّا إِحْرَامُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنَ الْفُرُعِ وَهُوَ دُونَ ذِي الْحُلَيْفَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَإِنَّ أَمَامَهَا وَقْتٌ آخَرُ وَهُوَ الْجُحْفَةُ، وَقَدْ رُخِّصَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُحْرِمُوا مِنَ الْجُحْفَةِ لأَنَّهَا وَقْتٌ مِنَ الْمَوَاقِيتِ بَلَغَنَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَمْتِعَ بِثِيَابِهِ إِلَى الْجُحْفَةِ فَلْيَفْعَلْ» ، أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ أَبُو يُوسُفَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبداللہ بن عمر (رض) نے ایلیا (بیت المقدس) سے احرام باندھا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے مواقیت والے باب میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ مواقیت ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمائے ہیں۔ ان سے کسی کو آگے گزرنا بغیر احرارم جائز نہیں جب کہ وہ حج و عمرے کا ارادہ رکھتا ہو۔ باقی عبداللہ بن عمر (رض) نے مقام فرع سے احرام باندہا وہ ذو الحلیفہ سے آگے مکہ کی جانب واقع ہے۔ فرع کے سامنے ایک اور میقات جحفہ آتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کو اجازت دی ہے کہ وہ جحفہ سے احرام باندھ لیں ( یا ذو الحلیفہ سے) کیونکہ وہ بھی مواقیت میں سے ایک میقات ہے۔ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص تم میں سے پسند کرے کہ وہ اپنے کپڑون سے جحفہ تک فائدہ حاصل کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس اثر کو علی بن حسین (رح) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔

382

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ كَانَ «يُصَلِّي فِي مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ، فَإِذَا انْبَعَثَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ أَحْرَمَ»
ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) مسجد ذو الحلیفہ میں دو رکعت ادا کرتے جب ان کی اونٹنی کھڑی ہوجاتی تو اس وقت تلبیہ کہتے۔

384

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لا شَرِيكَ لَكَ "، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِيهَا: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، وَالرُّغَبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، التَّلْبِيَةُ هِيَ التَّلْبِيَةُ الأُولَى الَّتِي رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا زِدْتَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلبیہ یہ تھا۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد و النعمۃ لک و الملک لا شریک لک۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اس میں لبیک لبیک وسعدیک و الخیر بیدیک و الرغباء الیک والعمل کا اضافہ فرماتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی تلبیہ کو اختیار کرتے ہیں اور وہی پہلا تلبیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ اور جو اس میں اضافہ کرے۔ وہ اچھا ہے یاور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

385

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيُّ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَهُمَا غَادِيَانِ إِلَى عَرَفَةَ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْيَوْمِ؟ قَالَ: «كَانَ يُهِلُّ الْمُهِلُّ، فَلا يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ، فَلا يُنْكَرُ عَلَيْهِ»
محمد بن ابوبکر ثقفی نے انس بن مالک سے دریافت کیا جب کہ وہ دونوں منی سے عرفات جار رہے تھے۔ کہ يپ لوگ آج کے دن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ انس کہنے لگے جو چاہتا تلبیہ کہتا اور اسے کچھ نہ کہا جاتا اور جو چاہتا تکبیر کہتا اور اسے کجھ نہ کہا جاتا۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے اسی باب قطع التلبیہ میں ذکر کیا ہے)

386

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كُلُّ ذَلِكَ قَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ يَفْعَلُونَهُ، فَأَمَّا نَحْنُ فَنُكَبِّرُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: بِذَلِكَ نَأْخُذُ عَلَى أَنَّ التَّلْبِيَةَ هِيَ الْوَاجِبَةُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ إِلا أَنَّ التَّكْبِيرَ لا يُنْكَرُ عَلَى حَالٍ مِنَ الْحَالاتِ وَالتَّلْبِيَةِ لا يَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ إِلا فِي مَوْضِعِهَا
ابن عمر (رض) فرماتے ہیں یہ سب کچھ میں نے صحابہ کرام (رض) عنہم کو کرتے دیکھا باقی ہم تو تکبیر کہتے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ تلبیہ اس دن واجب ہے البتہ تکبیر کا کسی وقت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر تلبیہ کے مواقع ہیں انھیں میں ہونا چاہیے۔

387

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ «يَدَعُ التَّلْبِيَةَ إِذَا انْتَهَى إِلَى الْحَرَمِ حَتَّى يَطُوفَ بِالْبَيْتِ، وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةَ، ثُمَّ يُلَبِّيَ حَتَّى يَغْدُوَ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ، فَإِذَا غَدَا تَرَكَ التَّلْبِيَةَ»
عبداللہ بن عمر (رض) جب حرم میں پہنچتے تو تلبیہ ترک کردیتے یہاں تک کہ بیت اللہ کے جو اف اور صفا ومروہ کی سعی سے فارغ ہوجاتے پھر جب منی سے عرفات کو جاتے تو تبلیہ کہتے یعنی چلنے سے پہلے تک۔ جب چلنا شروع کرتے تو تلبیہ ترک کردیتے تھے۔ ( اور عمرہ میں جب حرم کے اندر داخل ہوتے تو تلبیہ ترک کردیتے)

388

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَائِشَةَ «كَانَتْ تَتْرُكُ التَّلْبِيَةَ إِذَا رَاحَتْ إِلَى الْمَوْقِفِ»
عائشہ (رض) عنہا کے متعلق مروی ہے کہ جب وہ موقف کی طرف جاتیں ( عرفات میں زوال کے بعد ) تو تلبیہ چھوڑ دیتیں۔

389

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ، أَنَّ أُمَّهُ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ «تَنْزِلُ بِعَرَفَةَ بِنَمِرَةَ، ثُمَّ تَحَوَّلَتْ فَنَزَلَتْ فِي الأَرَاكِ، فَكَانَتْ عَائِشَةُ تُهِلُّ مَا كَانَتْ فِي مَنْزِلِهَا، وَمَنْ كَانَ مَعَهَا فَإِذَا رَكِبَتْ وَتَوَجَّهَتْ إِلَى الْمَوْقِفِ تَرَكَتِ الإِهْلالَ، وَكَانَتْ تُقِيمُ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْحَجِّ، فَإِذَا كَانَ قَبْلَ هِلالِ الْمُحَرَّمِ خَرَجَتْ حَتَّى تَأْتِيَ الْجُحْفَةَ، فَتُقِيمَ بِهَا حَتَّى تَرَى الْهِلالَ، فَإِذَا رَأَتِ الْهِلالَ أَهَلَّتْ بِالْعُمْرَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، أَوْ قَرَنَ لَبَّى حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ بِأَوَّلِ حَصَاةٍ رَمَى يَوْمَ النَّحْرِ، فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ، وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ مُفْرَدَةٍ لَبَّى حَتَّى يَسْتَلِمَ الرُّكْنَ لِلطَّوَافِ، بِذَلِكَ جَاءَتِ الآثَارُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَغَيْرِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عائشہ (رض) عنہا عرفات میں نمرہ کے مقام پر اتر تیں پھر وہاں سے بدل کر مقام اراک میں اترتیں۔ ام علقمہ کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) عنہا جب تک اپنی منزل میں رہتی وہ تلبیہ کہتیں اور ان کے ساتھ والی عورتیں بہی تلبیہ کہتیں۔ جب سوار ہوتیں اور موقف کی طرف روانہ ہوتیں تو تلبیہ ترک کردیتیں۔ وہ حج کے بعد مکہ میں مقیم ہوجاتیں۔ جب محرم کا چاند طلوع کے قریب ہوتا تو مکہ سی نکل کر جحفہ آکر وہاں مقیم ہوجاتیں جب محرم کا چاند نظر آجاتا تو وہ عمرے کا حرام باندھتیں۔ (روایات الا کو امام مالک نے باب قطع التلبیہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : جس نے حج مفرد کا احرام باندھا یا اس نے قرآن کیا تو وہ جمرہ اولی کی کنکریان مارنے تک تلبیہ کہتا رہے یہ کنکریان نحر کے دن ماری جاتی ہیں۔ پہلی کنکری پر تلبیہ قطع کردے۔ جو شخص فقط عمرہ کا احرام باند ہے تو طواف شروع کرتے وقت استلام رکن ( حجر اسود) تک تلبیہ کہیٔ۔ اس کے متعلق ابن عباس (رض) سے آثار و ارد ہوئے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

390

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَلادَ بْنَ السَّائِبِ الأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي، أَوْ مَنْ مَعِيَ أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالإِهْلالِ بِالتَّلْبِيَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سائب بن خلاد بن سوید انصاری ٧ خزرجی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو یا اپنے ساتھ والوں کو تلبیہ کے ساتھ آوازیں بلند کرنے کا حکم دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہلال یا تلبیہ میں سے ایک لفظ بولا راوی کو شک ہے) اس روایت کو امام مالک نے باب رفع الصوت بالتلبیہ میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ تلبیہ کو بلند آواز سے کہنا افضل ہی اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے

391

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِيُّ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ كَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، وَمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَحَلَّ مَنْ كَانَ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، أَوْ جَمَعَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَلَمْ يَحِلُّوا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے باہر تشریف لے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے بعض نے حج کا احرام باندہا اور عبض نے عمرے کا احرام باندھا اور بعض نے حج وعمرہ کو جمع کیا۔ بس جنہوں نے عمرہ کا احرام باندہا انھوں نے عمرہ کرکے احرام کھول دیا اور جنہوں نے حج یا حج وعمرہ کا احرام باندہا انھوں نے احرام نہ کھولا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور عام فقہاء کا قول ہے۔

392

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ فِي الْفِتْنَةِ مُعْتَمِرًا، وَقَالَ: " إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَخَرَجَ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ وَسَارَ، حَتَّى إِذَا ظَهَرَ عَلَى ظَهْرِ الْبَيْدَاءِ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: مَا أَمْرُهُمَا إِلا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ، فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا جَاءَ الْبَيْتَ طَافَ بِهِ، وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِ، وَرَأَى ذَلِكَ مُجْزِيًا عَنْهُ وَأَهْدَى "
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فتنہ والے سال عمرہ کے لیے نکلے۔ کہنے لگے اگر ہمیں بیت اللہ سے روک لیا گیا تو ہم اسی طرح کریں گے۔ جیسا ہم ٧ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ( حدیبیہ والے سال) کیا پس وہ نکلے تو عمرے کا احرام باندہا اور چلتے رہے یہاں تک کہ بیداء کی پشت پر چڑھے تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ نافع کہتے ہیں کہ ان کا ( حج وعمرہ) کا معاملہ ایک جسا کہ ۔ میں تم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے حج کو عمرہ کے ساتھ اپنے اوپر لازم کرلیا۔ پس وہاں سے روانہ ہوئے یہیاں تک کہ جب بیت اللہ میں پہنچے تو بیت اللہ کا طوال کیا اور صفاو مروہ کے درمیان ساچکر سعی کی اور اس سے مزید کچھ نہ کیا۔ اور اسی کو کافی خیال کیا اور ہدی کو ذبح کیا۔

393

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ الْمَكِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، وَدَخَلْنَا عَلَيْهِ قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمَيْنِ، أَوْ ثَلاثَةٍ، وَدَخَلَ عَلَيْهِ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ ثَائِرَ الرَّأْسِ، فَقَالَ: " يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي ضَفَّرْتُ رَأْسِي، وَأَحْرَمْتُ بِعُمْرَةٍ مُفْرَدَةٍ، فَمَاذَا تَرَى؟ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَوْ كُنْتُ مَعَكَ حِينَ أَحْرَمْتَ لأَمَرْتُكَ أَنْ تُهِلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، فَإِذَا قَدِمْتَ طُفْتَ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَكُنْتَ عَلَى إِحْرَامِكَ، لا تَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى تَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا يَوْمَ النَّحْرِ، وَتَنْحَرَ هَدْيَكَ، وَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: خُذْ مَا تَطَايَرَ مِنْ شَعْرِكَ، وَاهْدِ، فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَةٌ فِي الْبَيْتِ: وَمَا هَدْيُهُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: هَدْيُهُ ثَلاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ هَدْيُهُ، قَالَ: ثُمَّ سَكَتَ ابْنُ عُمَرَ، حَتَّى إِذَا أَرَدْنَا الْخُرُوجَ، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَوْ لَمْ أَجِدْ إِلا شَاةً لَكَانَ أُرَى أَنْ أَذْبَحَهَا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَصُومَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْقِرَانُ أَفْضَلُ، كَمَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَإِذَا كَانَتِ الْعُمْرَةُ، وَقَدْ حَضَرَ الْحَجُّ، فَطَافَ لَهَا وَسَعَى، فَلْيُقَصِّرْ، ثُمَّ لِيُحْرِمْ بِالْحَجِّ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ حَلَقَ وَشَاةٌ تُجْزِئُهُ، كَمَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
صدقہ بن یسار مکی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو کہتے سنا جبکہ ہم ان کے پاس یوم الترویہ سے دو یا تین دن پہلے حاضر ہوئے اور لوگ ان کے پاس مسائل دریافت کرنے آرہے تھے۔ اسی دوران ان کے پاس ایک یمنی آیا۔ جس کے سر کے بال پراگندہ تھے۔ اور اس نے کہا اے ابو عبد الرحمن ! میں نے اپنے بال گوندھ لیے ہیں اور صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے۔ آپ اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں۔ آپ نے جوابا فرمایا اگر میں تمہارے احرام باندھنے کے وقت تمہارے ساتھ ہوتا تو میں تمہیں حج قران کا حکم دیتا ۔ کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے اور احرام کی حالت میں رہتے اور تمہارے لے کچھ بھی حلال نہ ہوتا یہاں تک کہ تم قربانی کرتے تو سب کجھ حلال ہوجاتا۔ اور قربانی کا جانور ذبح کرتے۔ ابن عمر (رض) نے اس سے کہا اپنے پراگندہ بالوں کو کترالو اور ہدی دے دو ۔ گھر میں سے ایک عورت نے سوال کیا کہ اس کی ہدی کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا۔ اس کی ہدی۔ اس کی عورت نے سوال تین مرتبہ کیا آپ نے ہر مرتبہ یہی کہا اس کی ہدی ( اونٹ ، گائے، بکری) پھر ابن عمر (رض) خاموش ہوگئے۔ جب ہم نکلنے لگے تو آپ نے فرمایا مجھے ہدی کی ایک بکری مل جائے تو وہ مجھے روزہ رکھنے سے زیادہ پسند ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ قران ہمارے ہاں افضل ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نی ارشاد فرمایا۔ جب عمرہ کا احرام باندھ کر تمتع کا ارادہ کرے تو طواف اور سعی کرکے بال کرتوائے۔ پھر حج کے لیے از سر نو احرام باندھے۔ دسویں ذی الحجہ کو حلق کرکے ایک بکری ذبح کرے یہ بھی جائز ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

394

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَنَا، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَامَ حَجِّ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: لا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ تَعَالَى، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ: بِئْسَ مَا قُلْتَ، قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: القِرَانُ عِنْدَنَا أَفْضَلُ مِنَ الإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَإِفْرَادُ الْعُمْرَةِ، فَإِذَا قَرَنَ طَافَ بِالْبَيْتِ لِعُمْرَتِهِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَطَافَ بِالْبَيْتِ لِحَجَّتِهِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، طَوَافَانِ وَسَعْيَانِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ طَوَافٍ وَاحِدٍ، وَسَعْيٍ وَاحِدٍ، ثَبَتَ ذَلِكَ بِمَا جَاءَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ أَمَرَ الْقَارِنَ بِطَوَافَيْنِ وَسَعْيَيْنِ، وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں میں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس (رض) سے سنا کہ جس سال معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے حج کیا۔ یہ دون ’ ن حضرات مسئلہ تمتع پر بحث کررہے تھے۔ ضحاک (رض) کہنے لگے۔ تمتع وہی کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے واقفیبت نہ ہو۔ سعد بن ابی وقاص کہنے لگے۔ تم نے بالکل غلط بات کہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خودتمتع کیا۔ اور ہم نے ان کے ساتھ تمتع کیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے نزدیک قرآن افضل ہے۔ مفرد حج اور صرف عمرہ سے۔ جب وہ قران کرے تو بیت اللہ کا طواف عمرے کی طرح کرے اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے اور اپنے حج کے لیے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان دو طواف اور دو سعیاں کرے یہ دو طواف و سعیاں ہمیں صرف ایک طواف و سعی سے زیادہ محبوب ہیں اور یہ بات اس روایت سے ثابت ہے جو علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے قارن کو دو طواف اور دو سعی کا حکم دیا۔ اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کا اور ہمارے عم فقہاء کا یہی قول ہے۔

395

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: «افْصِلُوا بَيْنَ حَجِّكُمْ وَعُمْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ أَتَمُّ لِحَجِّ أَحَدِكُمْ، وَأَتَمُّ لِعُمْرَتِهِ أَنْ يَعْتَمِرَ فِي غَيْرِ أَشْهُرِ الْحَجِّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يَعْتَمِرُ الرَّجُلُ وَيَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ ثُمَّ يَحُجَّ وَيَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ فَيَكُونُ ذَلِكَ فِي سَفَرَيْنِ أَفْضَلَ مِنَ الْقِرَانِ، وَلَكِنَّ الْقِرَانَ أَفْضَلُ مِنَ الْحَجِّ مُفْرَدًا، وَالْعُمْرَةُ مِنْ مَكَّةَ، وَمِنَ التَّمَتُّعِ، وَالْحَجُّ مِنْ مَكَّةَ، لأَنَّهُ إِذَا قَرَنَ كَانَتْ عُمْرَتُهُ، وَحَجَّتُهُ مِنْ بَلَدِهِ، وَإِذَا تَمَتَّعَ كَانَتْ حَجَّتُهُ مَكِّيَّةً، وَإِذَا أَفْرَدَ بِالْحَجِّ كَانَتْ عُمْرَتُهُ مَكِّيَّةً، فَالْقِرَانُ أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا۔ اپنے حج وعمرہ کے درمیان فصل کرو۔ اس طرح تمہارا حج بھی مکمل اور عمرہ بھی مکمل ہوگا۔ وہ اس طرح کہ عمرہ حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں کرو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اگر آدمی عمرہ کرکے گھر لوٹ جائے پھر دوبارہ جاکر حج کرے اور لوٹ آئے اس طرح حج وعمرہ دو اسفار کے ساتھ کرنا قران سے افضل ہے۔ البتہ قران حج مفرد سے افضل ہے۔ اور اسی طرح مکہ مکرمہ سے عمرہ ادا کرنے اور مکہ مکرمہ سے تمتع کرنے سے افضل ہے۔ کیونکہ جب قر ان کرے گا تو اس کا عمرہ اور حج اس کے اپنے شہر سے ہوگا۔ دوسری طرف جب تمتع کرے گا تو اس کا حج مکی ہوگا۔ اور جب حج مفرد کرے گا تو اس کا عمرہ مکل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ قران افضل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا اختیار ہے۔

396

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ ابْنَ زِيَادِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ كَتَبَ إِلَى عَائِشَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: " مَنْ أَهْدَى هَدْيًا حَرُمَ عَلَيْهِ مَا يَحْرُمُ عَلَى الْحَاجِّ، وَقَدْ بَعَثْتُ بِهَدْيٍ، فَاكْتُبِي إِلَيَّ بِأَمْرِكِ، أَوْ مُرِي صَاحِبَ الْهَدْيِ، قَالَتْ عَمْرَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: لَيْسَ كَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَا فَتَلْتُ قَلائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي ثُمَّ قَلَّدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَبَعَثَ بِهَا مَعَ أَبِي، ثُمَّ لَمْ يَحْرُمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ شَيْءٌ كَانَ أَحلَّهُ اللَّهُ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَإِنَّمَا يَحْرُمُ عَلَى الَّذِي يَتَوَجَّهُ مَعَ هَدْيِهِ يُرِيدُ مَكَّةَ، وَقَدْ سَاقَ بَدَنَةً وَقَلَّدَهَا، فَهَذَا يَكُونُ مُحْرِمًا حِينَ يَتَوَجَّهُ مَعَ بَدَنَتِهِ الْمُقَلَّدَةِ بِمَا أَرَادَ مِنْ حَجٍّ، أَوْ عُمْرَةٍ، فَأَمَّا إِذَا كَانَ مُقِيمًا فِي أَهْلِهِ لَمْ يَكُنْ مُحْرِمًا، وَلَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ شَيْءٌ حَلَّ لَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
عمرہ بنت عبد الرحمن نے بتلایا کہ زیاد بن ابی سفیان عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کی طرف لکھا کہ ابن عباس (رض) عنہا کہتے ہیں کہ جو شخص ہدی روانہ کردے اس پر وہ باتیں حرام ہوجاتی ہیں جو احرام کی حالت میں حرام ہوتی ہیں۔ میں نے ہدی روانہ کی ہے۔ آپ اپنا فتوی لکھ کر بتلادیں یا کسی کے ہاتھ کہلا بھیجیں۔ عمرہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا۔ ابن عباس (رض) جو بیان کرتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے ہدی کے پٹے بنے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دست اقدس سے ان کو ہدی کے گلے میں لٹکا کر میرے والد محترم کے ساتھ روانہ کردیا۔ پھر بھی حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کجھ حرام نہیں ہوا تھا۔ وہ جو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا تھا۔ یہاں تک کہ ہدایا ذبح کردیئے گئے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی پر ہمارا عمل ہے کہ محرم والے احکام اس پر لاگو ہوتے ہیں جو اپنی ہدی کے ساتھ خود جائے اور ان کو قلادہ ڈالے یہ یہدی کے ساتھ جانے کی وجہ سے محرم بن جائے۔ خواہ اس کے حج کا ارادہ کیا ہو یا عمرے کا۔ رہا وہ شخص جو مقیم ہو اپنے گھر مں ن ٹھہرا رہے وہ محرم نہ بنے گا۔ اور اس کے لیے کوئی حلال شی حرام نہ ہوگی۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

397

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ «إِذَا أَهْدَى هَدْيًا مِنَ الْمَدِينَةِ قَلَّدَهُ وَأَشْعَرَهُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، يُقَلِّدُهُ قَبْلَ أَنْ يُشْعِرُهُ، وَذَلِكَ فِي مَكَانٍ وَاحِدٍ وَهُوَ مُوَجِّهُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ، يُقَلِّدُهُ بِنَعْلَيْنِ، وَيُشْعِرُهُ مِنْ شِقِّهِ الأَيْسَرِ، ثُمَّ يُسَاقُ مَعَهُ حَتَّى يُوقَفَ بِهِ مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ، ثُمَّ يُدْفَعُ بِهِ مَعَهُمْ إِذَا دَفَعُوا، فَإِذَا قَدِمَ مِنًى مِنْ غَدَاةِ يَوْمِ النَّحْرِ نَحَرَهُ قَبْلَ أَنْ يَحْلِقَ، أَوْ يُقَصِّرَ، وَكَانَ يَنْحَرُ هَدْيَهُ بِيَدِهِ يَصُفُّهُنَّ قِيَامًا، وَيُوَجِّهُّنَّ إِلَى الْقِبْلَةِ ثُمَّ يَأْكُلُ وَيُطْعِمُ»
عبداللہ بن عمر (رض) جب مدینہ منورہ سے ہدی لے جاتے تو اسے قلادہ پہنادیتے اور اس پر ذو الحلیفہ کے مقام پر نشان لگا دیتے (کوہان پر نشان لگاتے تاکہ معلوم ہو کہ ہدی کا جانور ہے) نشان لگانے سے پہلے قلادہ ٧ پہناتے تھے۔ اور دونوں کام ایک ہی جگہ کرتے تھے۔ اور نشان لگانے کے وقت ہدی کو قبلہ رخ کرتے دو جوتوں کا قلادہ پہناتے اور بائیں جانب سے اشعار کرتے تھے۔ پھر وہ ہدی ان کے ساتھ ہان کی جاتی۔ حتی کہ اسے عرفات میں لوگوں کے ساتھ کھرا کردیا جاتا تھا۔ پھر لوگوں کے ساتھ ہی عرفات سے لایا جاتا۔ پس جب یوم نحر کو صبح کے وقت وہ منی میں آتے تو حلق یا قصر رکانے سے قبل اسے نحر کرتے تھے۔ اور وہ اپنی ہدی کو اپنے ہاتھ سے نحر کرتے تھے۔ کھڑا کرکے قبلہ رخ ان کی صف بندی کی جاتی پھر ان کا گوشت پکواکر کھاتے اور کھلاتے تھے۔ ( امام مالک (رح) نے اس روایت کو باب العمل فی الہدی حین السیاق میں نقل کیا ہے)

398

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ " إِذَا وَخَزَ فِي سِنَامٍ بَدَنَتِهِ وَهُوَ يُشْعِرُهَا، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ "
نافع (رح) سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) عنہمااشعار کے لئی جب کوہان پر نیزہ مارتے تو بس الہ واللہ اکبر کہتے تھے۔ (امام مالک نے اس روایت کو باب العمل فی الہدی میں ذکر کیا ہے)

399

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ " يُشْعِرُ بَدَنَتَهُ فِي الشِّقِّ الأَيْسَرِ إِلا أَنْ تَكُونَ صِعَابًا مُقَرَّنَةً، فَإِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَدْخُلَ بَيْنَهَا أَشْعَرَ مِنَ الشِّقِّ الأَيْمَنِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُشْعِرَهَا وَجَّهَهَا إِلَى الْقِبْلَةِ، قَالَ: فَإِذَا أَشْعَرَهَا، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَكَانَ يُشْعِرُهَا بِيَدِهِ وَيَنْحَرُهَا بِيَدِهِ قِيَامًا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، التَّقْلِيدُ أَفْضَلُ مِنَ الإِشْعَارِ، وَالإِشْعَارُ حَسَنٌ، وَالإِشْعَارُ مِنَ الْجَانِبِ الأَيْسَرِ، إِلا أَنْ تَكُونَ صِعَابًا مُقَرَّنَةً لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَدْخُلَ بَيْنَهَا فَلْيُشْعِرْهَا مِنَ الْجَانِبِ الأَيْسَرِ وَالأَيْمَنِ
نافع (رح) سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) اپنی ہدی کی بائیں جانب اشعار کرتے مگر جب ان کے ساتھ ملے ہوئے ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان داخل ہونا مشکل ہوتا تو دائیں جانب اشعار کردیتے۔ جب اشعار کا ارادہ کرتے تو ہدی کو قبلہ رخ کرتے۔ نافع کہتے ہیں جب وہ اشعار کرتے تو بسم اللہ واللہ اکبر زبان سے کہتے اور پھر اپنے ہاتھ سیٔ اشعار کرتے اور کھڑا کر کی اپنے ہاتھ سے نحر کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ قلادہ ڈالنا، اشعار سے افضل ہے۔ اشعار بہت خوب ہے۔ اور اشعار بائیں جانب ہونی چاہیے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ساتھ ملے ہوئے ہونے کی وجہ سے درمیان میں داخل نہ ہوسکتا ہو تو دائیں جانب سے اشعار کردے یا بائیں جانب سے۔

400

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَجَدَ رِيحَ طِيبٍ وَهُوَ بِالشَّجَرَةِ، فَقَالَ: " مِمَّنْ رِيحُ هَذَا الطِّيبِ؟ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ: مِنِّي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: مِنْكَ لَعَمْرِي، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ طَيَّبَتْنِي، قَالَ: عَزَمْتُ عَلَيْكَ لَتَرْجِعَنَّ فَلَتَغْسِلَنَّهُ "
اسلم بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کسی خوشبودار چیز کی ہوا پائی جبکہ آپ مقام شجرہ میں تھے۔ آپ نے فرمایا یہ خوشبو کس سے آرہی ہے۔ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے کہا یہ مجھ سے آتی ہے۔ اے امیر المؤمنین ! پھر امیر المؤمنین (رض) نے فرمایا واللہ ! یہ تمہی سے آتی ہے۔ معاویہ (رض) نے کہ ام حبیبہ (رض) نے مجھے خوشبو لگائی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ جاؤ! اسے دھوڈالو۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی التطیب فی الحج میں ذکر کیا کیا ہے)

401

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ بْنُ زُبَيْدٍ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَجَدَ رِيحَ طِيبٍ وَهُوَ بِالشَّجَرَةِ وَإِلَى جَنْبِهِ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَقَالَ: " مِمَّنْ رِيحُ هَذَا الطِّيبِ؟ قَالَ كَثِيرٌ: مِنِّي، لَبَّدْتُ رَأْسِي وَأَرَدْتُ أَنْ أَحْلِقَ، قَالَ عُمَرُ: فَاذْهَبْ إِلَى شَرَبَةٍ، فَادْلِكْ مِنْهَا رَأْسَكَ حَتَّى تُنَقِّيَهُ، فَفَعَلَ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا أَرَى أَنْ يَتَطَيَّبَ الْمُحْرِمُ حِينَ يُرِيدُ الإِحْرَامَ إِلا أَنْ يَتَطَيَّبَ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ بَعْدَ ذَلِكَ، وَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَإِنَّهُ كَانَ لا يَرَى بِهِ بَأْسًا
حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مقام شجرہ میں کسی خوشبو دار چیز کو پایا ان کے پہلے میں کثیرابن صلت تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ خوشبو کس سے آتی ہے۔ کثیر نے کہ کہ یہ مجھ سے آتی ہے۔ کیونکہ میں نے سر پر خوشبو لیپ کی ہے۔ اور چاہتا ہوں کہ حج سے فراغت کے بعد سر منڈواؤں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کسی پانی کے گڑھے پر جاؤ اور اپنا سر مل کر ( پانی سے) صاف کرد۔ پس کثیر بن صلت نے ایسا ہی کیا۔ شربہ ۔ پانی کا چھوٹا حوض۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ماجاء فی التطیب فی الحج میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب محرم احرام کا اردہ کرے اس وقت خوشبو لگانے میں کوئی قباحت نہیں ۔ مگر خوشبو لگائے اور غسل کرے تو یہ مناسب ہے۔ امام ابوحنیفہ تو اس کے لگے رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

402

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حدَّثنا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: مَنْ سَاقَ بَدَنَةً تَطَوُّعًا، ثُمَّ عَطِبَتْ فَنَحَرَهَا فَلْيَجْعَلْ قِلادَتَهَا وَنَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ يَتْرُكْهَا لِلنَّاسِ يَأْكُلُونَهَا، وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، فَإِنْ هُوَ أَكَلَ مِنْهَا، أَوْ أَمَرَ بِأَكْلِهَا فَعَلَيْهِ الْغُرْمُ.
سعید بن المسیب (رح) نے کہا جو شخص ہدی لے کر روانہ ہوا اور وہ جانور ہلاکت کو پہنچا تو اسے نحر کردے اس کا قلادہ اور موزہ ہخون میں رکھ دے اور اسے لوگوں کے سپرد کردے ( کہ وہ اس کا گوشت) کھالیں تو اس کے یذمہ کوئی کفارہ نہیں ہے یاور اگر اس نے اس میں سے خود کھالیا یا کسی کو کھانے کا حکم دیا یا کھلایا تو اس کے بدلہ میں (اور ہدی کی قیمت) چتی ہے۔ ( معمولی فرق سے اس روایت کو امام مالک نے باب العمل فی الہدی اذا عطب میں ذکر کیا ہے)

403

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ صَاحِبَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: كَيْفَ نَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنَ الْهَدْيِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْحَرْهَا وَأَلْقِ قِلادَتَهَا، أَوْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا وَخَلِّ بَيْنَ النَّاسِ، وَبَيْنَهَا يَأْكُلُونَهَا»
عروہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدی پر مقررہ صحابی ( جن کا نام ناجیہ بن جندب اسلمی تھا ۔ ان کا اصل نام ذکوان تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے بچ نکلنے کی بناء پر ان کا نام ناجیہ رکھا اور یہی مشہور ہوگیا۔ سبحان اللہ) نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدی میں جو جانور ہلاک ہوجائی ی میں اس کا کیا کروں ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہدی میں سے جو اونٹ ضائع ہو رہا ہو۔ اسے ذبح کردو۔ پھر اس کے قلادہ کو اس کے خون میں بھگودو۔ پھر اسے لوگوں کے لیے چھوڑ دو تاکہ وہ اسے کھالیں۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب العمل فی الہدی اذا عطب میں ذکر کیا ہے) ۔

404

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: كُنْتُ أَرَى ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ «يُهْدِي فِي الْحَجِّ بَدَنَتَيْنِ، وَفِي الْعُمْرَةِ بَدَنَةً» ، قَالَ: رَأَيْتُهُ فِي الْعُمْرَةِ «يَنْحَرُ بَدَنتَهُ وَهِيَ قَائِمَةٌ فِي حَرْفِ دَارِ خَالِدِ بْنِ أَسِيدٍ وَكَانَ فِيهَا مَنْزِلُهُ» ، وَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ «طَعَنَ فِي لَبَّةِ بَدَنَتِهِ حَتَّى خَرَجَتْ سِنَّةُ الْحَرْبَةِ مِنْ تَحْتِ حَنَكِهَا»
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کو دیکھتا کہ وہ حج میں دو دو اونٹ اور عمرہ میں ایک ایک اونٹ ہدی بھیجتے۔ میں نے عمرہ میں خود ان کو اپنے اونٹ کو نحر کرتے دیکھا اس سحال میں کہ وہ اونٹ خالد بن اسید کے گھر کی ایک جانب کھڑا تھا۔ ابن عمر (رض) کا مکان وہیں تھا۔ اور میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی ہدی کی گردن میں نیزہ اس قدر قوت سے مارا کہ نیزہ تالو سے پار ر ہوگیا۔

405

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْقَارِئُ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ أَهْدَى عَامًا بَدَنَتَيْنِ، إِحْدَاهُمَا بُخْتِيَّةٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، كُلُّ هَدْيِ تَطَوُّعٍ عَطِبَ فِي الطَّرِيقِ صَنَعَ كَمَا صَنَعَ، وَخَلَّى بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ يَأْكُلُونَهُ، وَلا يُعْجِبُنَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ إِلا مَنْ كَانَ مُحْتَاجًا إِلَيْهِ.
ابو جعفر القاری سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عیاش بن نابی ربیعہ مخزومی نے دو اونٹ قربان کیے ، جن میں ایک بختی تھا۔ (بختی دو کوہان والا اونٹ جو بخت نصر بادشاہ کی طرف منسوب ہے) ۔
(اس اثر کو امام ممالک نے باب ما یجوز من الہدی میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ان سب کو اختیار کرتے ہیں۔ ہر وہ نفلی ہدی جو راستہ میں ہلاکت کو پہنچ جائے۔ تو اس کو ذبح کیا جائے گا اور اس کے اور لوگوں کے درمیان راستہ چھوڑ دیا جائے گا تاکہ وہ اس کو کھالیں اور ہدی کے مالک کا اس میں سے کھالینا ہمیں پسند نہیں۔ البتہ اگر وہ محتاج و مجبور ہو تو کھاسکتا ہے۔

406

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «الْهَدْيُ مَا قُلِّدَ، أَوْ أُشْعِرَ وَأُوقِفَ بِهِ بِعَرَفَةَ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہدی وہ ہے جس کو قلادہ ڈالا جائے یا اشعار کیا جائے اور عرفات میں اس کو ٹھہرایا جائے۔

407

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ نَذَرَ بَدَنَةً فَإِنَّهُ يُقَلِّدُهَا نَعْلا، وَيُشْعِرُهَا، ثُمَّ يَسُوقُهَا، فَيَنْحَرُهَا عِنْدَ الْبَيْتِ، أَوْ بِمَنًى يَوْمَ النَّحْرِ لَيْسَ لَهُ مَحِلٌّ دُونَ ذَلِكَ، وَمَنْ نَذَرَ جَزُورًا مِنَ الإِبِلِ، أَوِ الْبَقَرِ فَإِنَّهُ يَنْحَرُهَا حَيْثُ شَاءَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ غَيْرِهِ مِنْ أَصْحَابِهِ أَنَّهُمْ رَخَّصُوا فِي نَحْرِ الْبَدَنَةِ حَيْثُ شَاءَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْهَدْيُ بِمَكَّةَ لأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ} [المائدة: 95] ، وَلَمْ يَقُلْ ذَلِكَ فِي الْبَدَنَةِ، فَالْبَدَنَةُ حَيْثُ شَاءَ إِلا أَنْ يَنْوِيَ الْحَرَمَ، فَلا يَنْحَرْهَا إِلا فِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَس
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر فرماتے ہیں جس نے بدنہ کی نذر مان لی۔ اسے چاہیے کہ وہ اس کے گلے میں جوتے کا قلادہ ڈال دے یا اشعار کرکے اس کو ہانک دے۔ پھر اس کو بیت اللہ پاس ذبح کرے یا منی میں نحر کے دن ذبح کرے۔ اس کے علاوہ اس کی قربانی کی اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور جو شخص اونٹوں کی نذر مانے یا گائے کی ندر مانے وہ انھیں جہاں چاہے نحر کرسکتا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ ابن عمر (رض) کا قول ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپ کے دیگر اصحاب سے روایات وارد ہیں کہ انھوں نے بدنہ کو تو ہر جگہ ذبح کی رخصت دی ہے یاور بعض نے کہا ہدی مکہ میں ذبح کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہدیا بالغ الکعبۃ ( ہ ٧٧ دی جو کہ کزعبہ تک پہنچے والی ہو) بدنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا۔ بدنہ جہاں چاہے ذبح کرسکتا ہے۔ اگر حرم ہی میں نحر کی نیت کرلے تو پھر حرم ہی میں نحر کرے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ابراہیم نخعی اور مالک بن انس رحمہما اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔

408

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ بَدَنَةٍ جَعَلَتْهَا امْرَأَةٌ عَلَيْهَا، قَالَ: فَقَالَ سَعِيدٌ: " الْبُدْنُ مِنَ الإِبِلِ، وَمَحِلُّ الْبُدْنِ الْبَيْتُ الْعَتِيقُ إِلا أَنْ تَكُونَ سَمَّتْ مَكَانًا مِنَ الأَرْضِ فَلْتَنْحَرْهَا حَيْثُ سَمَّتْ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ بَدَنَةً فَبَقَرَةٌ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بَقَرَةً فَعَشَرٌ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: مِثْلَ مَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: إِنْ لَمْ تَجِدْ بَقَرَةً، فَسَبْعٌ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ خَارِجَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ سَالِمٌ، ثُمَّ جِئْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْبُدْنُ مِنَ الإِبِلِ وَالْبَقَرِ، وَلَهَا أَنْ تَنْحَرَهَا حَيْثُ شَاءَتْ إِلا أَنْ تَنْوِيَ الْحَرَمَ، فَلا تَنْحَرْهَا إِلا فِي الْحَرَمِ وَيَكُونُ هَدْيًا، وَالْبَدَنَةُ مِنَ الإِبِلِ وَالْبَقَرِ تُجْزِئُ عَنْ سَبْعَةٍ، وَلا تُجْزِئُ عَنْ أَكْثَرِ مِنْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
عمرو بن عبید اللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب (رح) سے بدنہ کے متعلق دریافت کیا ۔ جس کی نذر ان کی بیوی نے مان رکھی تھی۔ سعید بن المسیب کہنے لگے۔ بدنہ اصل تو اونٹ ہے اور اس کے ذبح کا مقام بیت اللہ ہے۔ البتہ اگر اور کسی جگہ کی نیت کی جائے اس صورت میں اسی جگہ ذبح کرنا چاہیے۔ اگر اونٹ نہ ملے تو ایک گائے اور یہ بھی میسر نہ ہو تو دس بکریاں۔ عمر بن عبید اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سالم بن عبداللہ سے دریافت کیا۔ تو انھوں بھی وہی جواب دیا جو سعید بن مسیب نے کہا تھا۔ صرف فریہ تھا کہ گائے نہ ملے تو انھوں نے سات بکریأن بتلائیں پھر میں خارجہ بن زید بن ثابت کے پاس گیا اور ان سے دریافت کیا۔ انھوں نے بھی سالم بن عبداللہ کی طرح کہا پھر میں عبداللہ بن محمد بن علی (رض) عنہم کے پاس گ کیا انھوں نے بھی سالم بن عبداللہ کی طرح جواب دیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : بدنہ اونٹ یا گائے کو کہتے ہیں۔ اور اس کو جس جگہ چاہے ذبج کرے، مگر جو شخص حرم کی نیت کرے وہ صرف حرم میں قربانی دے۔ اور یہ اس کی طرف سے ” ہدی “ ہوگی اور قربانی اونٹ یا گائے کی ہے۔ جو کہ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے۔ اس سے زائد کی طرف سے نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

409

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: إِذَا اضْطُرِرْتَ إِلَى بَدَنَتِكَ فَارْكَبْهَا رُكُوبًا غَيْرَ فَادِحٍ.
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب تمہیں ضرورت پیش آئے تو اپنی ہدی پر سواری کرسکتے ہو۔ مگر اس قدر نہیں کہ اس کو تکلیف ہو۔

410

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَسُوقُ بَدَنَتَهُ، فَقَالَ لَهُ: ارْكَبْهَا، فَقَالَ: أَنَّهَا بَدَنَةٌ، فَقَالَ لَهُ بَعْدَ مَرَّتَيْنِ: ارْكَبْهَا وَيْلَكَ "
ابو ازناد نے اعرج اور انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص کے قریب سے گزرے وہ اپنی ہدی کے اونٹ کو چلا رہا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس پر سوار ہوجاؤ۔ اس نے عرض کیا۔ یہ ” بدنہ “ ہے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دو مرتبہ فرمایا کہ اس پر سوار ہوجاؤ تیرا بھلا ہو۔

411

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «إِذَا نَتَجَتِ الْبَدَنَةُ فَلْيُحْمَلْ وَلَدُهَا مَعَهَا حَتَّى يُنْحَرَ مَعَهَا، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ لَهُ مَحْمَلا فَلْيَحْمِلْهُ عَلَى أُمِّهِ حَتَّى يُنْحَرَ مَعَهَا»
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) عنہما کہا کرتے تھے۔ جب اونٹنی بچہ جنے تو اس کے بچے کو اس کے ساتھ ہی اٹھا لیا جائے تاکہ اس کو بھی اس کے ساتھ ہی ذبج کیا جاسکے اگر اس کے اٹھانے کی اور کوئی صورت نہ ہو اس کی ماں پر ہی اس کو سوار کردیا جائے تاکہ اس کے ساتھ اس کو ذبح کیا جائے۔

412

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَوْ عُمَرَ، شَكَّ مُحَمَّدٌ، كَانَ يَقُولُ: «مَنْ أَهْدَى بَدَنَةً فَضَلَّتْ، أَوْ مَاتَتْ، فَإِنْ كَانَتْ نَذْرًا أَبْدَلَهَا، وَإِنْ كَانَتْ تَطَوُّعًا، فَإِنْ شَاءَ أَبْدَلَهَا، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَمَنِ اضْطُرَّ إِلَى رُكُوبِ بَدَنَتِهِ فَلْيَرْكَبْهَا فَإِنْ نَقَصَهَا ذَلِكَ شَيْئًا تَصَدَّقَ بِمَا نَقَصَهَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر یا عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں۔ ( محمد کو نام میں شک ہے) کہ جس نے بدنہ ہدی کے طور پر بھیجا وہ راستہ میں گم ہوگیا یا مر کیا پس اگر اس نے نذر مانی ہوئی تھی تو اس کا بدلہ ( اس طرح کے جانور سے) دے اور اگر وہ نفلی ہدی ہے تو اس کی مرضی ہے خواہ اس کا بدلہ دے یا نہ دے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جو آدمی بدنہ پر سواری کرنے پر مجبور ہوجائے تو وہ اس پر سوار ہوجائے اگر اس طرح جانور میں کوئی نقصان ہوا تو جتنی (قیمت میں کمی آئی) اتنا صدقہ کرے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

413

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: الْمُحْرِمُ لا يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَنْتِفَ مِنْ شَعْرِهِ شَيْئًا، وَلا يَحْلِقَهُ، وَلا يُقَصِّرَهُ إِلا أَنْ يُصِيبَهُ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ، فَعَلَيْهِ فِدْيَةٌ، كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُقَلِّمَ أَظْفَارَهُ، وَلا يَقْتُلَ قَمْلَةً، وَلا يَطْرَحَهَا مِنْ رَأْسِهِ إِلَى الأَرْضِ، وَلا مِنْ جَسِدِهِ، وَلا مِنْ ثَوْبِهِ، وَلا يَقْتُلَ الصَّيْدَ، وَلا يَأْمُرَ بِهِ، وَلا يَدُلَّ عَلَيْهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى.
نافع کہتے ہیں کہ محرم کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بعض بالوں کو اکھارے، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کو کٹوائے یا منڈوائے۔ ہاں اگر اس کے سر میں کوئی تکلیف ہوجائے ( تو مندواسکتا ہے) اس صورت میں اس پر فدیہ ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فمن کان منکم مریضا اوبہ اذا من راسہ اور اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے ناخن کاٹے اور جوں مارنا بھی جائز نہیں، اور نہی یہ درست ہے کہ وہ جوؤں کو اپنے سر سے زمین پر پھینکے اور نہ اپنے کپڑے سے پھینگے اور نہ وہ کسی جانور کا شکار کرے اور نہ شکار کا کسی کو حکم دے اور نہ اس کے بارے میں کسی کی راہنمائی کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

414

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «لا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلا أَنْ يَضْطَرَّ إِلَيْهِ مِمَّا لا بُدَّ مِنْهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِأَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ، وَلَكِنْ لا يَحْلِقُ شَعْرًا، بَلَغَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ، وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کہا کرتے تھے محرم سینگی نہ لگوائے سوائے اس صورت کے کوئی مجبوری ہو جس کے بغیر چارہ کار نہ ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : محرم کے سینگی لگوانے میں حرج نہیں ہے۔ لیکن سینگی لگوانے کے لیے بال نہ مونڈے جائیں۔ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حال میں سینگی لگوائی جب کہ يپ احرام کی حالت میں روزہ کے ساتھ تھے۔ اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

415

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ بِالْعَرْجِ وَهُوَ " مُحْرِمٌ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ قَدْ غَطَّى وَجْهَهُ بِقَطِيفَةِ أُرْجُوَانٍ، ثُمَّ أُتِيَ بِلَحْمِ صَيْدٍ، فَقَالَ: كُلُوا، قَالُوا: أَلا تَأْكُلُ؟ قَالَ: لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنَّمَا صِيدَ مِنْ أَجْلِي "
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ععفان کو مقام عرج میں گرمی کے موسم میں احرام کی حالت میں دیکھا کہ انھوں نے ایک سرخ خطوط والی چادر سے اپنا چہر ڈہانپ رکھا ہے پھر ان کے پاس شکار کا گوشت لایا گیا تو آپ نے فرمایا تم کھاؤ۔ انھوں نے کہا کیا آپ نہ کھائیں گے ؟ آپ نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں یہ شکار ہی میری خاطر کیا گیا ہے۔

416

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «مَا فَوْقَ الذَّقَنِ مِنَ الرَّأْسِ، فَلا يُخَمِّرُهُ الْمُحْرِمُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع نے بیان کیا ابن عمر (رض) کہا کرتے تھے۔ سر کے ٹھوڑی سے اوپر والے حصے کو محرم نہ ڈھانپے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ابن عمر (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

417

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «لا يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ إِلا مِنَ الاحْتِلامِ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) احتلام کے فرضی غسل کے علاوہ اپنا سر حالت احرام میں نہ دھوتے تھے۔

418

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ تَمَارَيَا بِالأَبْوَاءِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لا، فَأَرْسَلَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ يَسْأَلُهُ، فَوَجَدَهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يُسْتَرُ بِثَوْبٍ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ، أَرَسَلَنِي إِلَيْكَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَسْأَلُكَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ " فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى الثَّوْبِ وَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لإِنْسَانٍ يَصُبُّ الْمَاءَ عَلَيْهِ: اصْبُبْ، فَصُبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَأَقْبَلَ بِيَدِهِ وَأَدْبَرَ، فَقَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ أَبِي أَيُّوبَ نَأْخُذُ، لا نَرَى بَأْسًا أَنْ يَغْسِلَ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ بِالْمَاءِ، وَهَلْ يَزِيدُهُ الْمَاءُ إِلا شَعَثًا؟ ! وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن حنین کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ (رض) نے مقام ابواء میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ عبداللہ کہتے تھے محرم اپنا سر دھوسکتا ہے۔ مسور کہتے تھے کہ محرم کو اجازت نہیں۔ چنانچہ ابن عباس (رض) عنہمانے ان کو ابو ایوب (رض) کے پاس اس مسئلہ کو دریافت کرنے کے لیے بھیجا تو ابن حنین نے ابو ایوب (رض) کو دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے پایا۔ ان لکڑیوں پر کبڑا ڈال کر وہ غسل فرما رہے تھے۔ ابن حنین کہتے ہیں میں نے سلام کیا تو انھوں نے پوجھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا میں عبداللہ بن حنین ہوں۔ مجھے ابن عباسنی آپ کی خدمت میھ یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احرام کی حالت میں کس طرح سر مبارک دھوتے تھے۔ انھوں نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اس کو اس قدر جھکایا کہ ان کا سر مجھے نظر آنے لگا۔ پھر پانی ڈالنے والے کو فرمانے لگے پانی ڈالو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا۔ پھر انھوں نے اپنے ہاتھ سے سر کو ہلایا ( ملا) اور ہاتھ کو پچھلی طرف لے گئے اور کہنے لگے میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ابو ایوب انصاری (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ محرم کے لیے سر دھونے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے اور پانی تو بالوں کی پراگندگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

419

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِيَعْلَى بْنِ مُنِيَّةَ وَهُوَ يَصُبُّ عَلَى عُمَرَ مَاءً، وَعُمَرُ يَغْتَسِلُ: " اصْبُبْ عَلَى رَأْسِي، قَالَ لَهُ يَعْلَى: أَتُرِيدُ أَنْ تَجْعَلَهَا فِيَّ؟ إِنْ أَمَرْتَنِي صَبَبْتُ، قَالَ: اصْبُبْ، فَلَمْ يَزِدِ الْمَاءُ إِلا شَعَثًا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا نَرَى بِهَذَا بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
عطاء بن ابی رباح (رح) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) عن نے یعلی بن منیہ کو اس وقت فرمایا جبکہ وہ عمر (رض) پر پانی ڈال رہے تھے اور عمر (رض) غسل کر رہے تھے کہ پانی میرے سر پر ڈالو۔ یعلی کہنے لگے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھ پر گناہ لازم ہوجائے کہ مجھے بہانے کا حکم دے رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ۔ پانی بہاء اس سے تو بالوں کی پراگندگی میں اضافہ ہی ہوگا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے اسی قول کو امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء نے اختیار کیا ہے۔

420

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَ: «لا يَلْبَسُ القُمُصَ، وَلا الْعَمَائِمَ، وَلا السَّرَاوِيلاتِ، وَلا الْبَرَانِسَ، وَلا الْخِفَافَ إِلا أَحَدٌ لا يَجِدُ نَعْلَيْنِ، فَيَلْبَسُ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ، وَلَا الوَرْسَ»
نافع احمد اللہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ محرم کونسا لباس پہنے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ محرم قمیص، عمامہ، پانجامہ، ٹوپی اور موزہ وغیرہ ہرگز نہ پہنے۔ البتہ اگر کسی کو جوتا میسر نہ ہو تو وہ موزے کو پہن کر ٹخنے کے نیچے تک انھیں کاٹ ڈالے۔ اسی طرح زعفران غ اور خوشبو لگے ہوئے کپڑے استعمال نہ کرے۔

421

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِزَعْفَرَانٍ، أَوْ وَرْسٍ، وَقَالَ: مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ "
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محرم کو زعفران یا درس میں رنگے ہوئے کپڑے استعمال کرنے سی منع فرمایا اور فرمایا جس کو جوتا میسر نہ ہو وہ موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے اور پھر پہنے۔

422

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «لا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ، وَلا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بنب عمر (رض) فرماتے ، عورت احرام کی حالت میں منہ پر نقال نہ ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔

423

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَسْلَمَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى عَلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ثَوْبًا مَصْبُوغًا وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقَالَ عُمَرُ: " مَا هَذَا الثَّوْبُ الْمَصْبُوغُ يَا طَلْحَةُ؟ قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّمَا هُوَ مِنْ مَدَرٍ، قَالَ: إِنَّكُمْ أَيُّهَا الرَّهْطُ أَئِمَّةٌ يَقْتَدِي بِكُمُ النَّاسُ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلا جَاهِلا رَأَى هَذَا الثَّوْبَ لَقَالَ: أَنَّ طَلْحَةَ كَانَ يَلْبَسُ الثِّيَابَ الْمُصْبَغَةَ فِي الإِحْرَامِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: يُكْرَهُ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ الْمُشَبَّعُ بِالْعُصْفُرِ وَالْمَصْبُوغَ بِالْوَرْسِ أَوِ الزَّعْفَرَانِ، إِلا أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ قَدْ غُسِلَ، فَذَهَبَ رِيحُهُ وَصَارَ لا يَنْفَضُّ، فَلا بَأْسَ بِأَنْ يَلْبَسَهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَتَنَقَّبَ فَإِنْ أَرَادَتْ أَنْ تُغَطِّيَ وَجْهَهَا فَلْتَسْدِلِ الثَّوْبَ سَدْلا مِنْ فَوْقِ خِمَارِهَا عَلَى وَجْهِهَا، وَتُجَافِيهِ عَنْ وَجْهِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
اسلم (رح) بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے طلحہ بن عبید اللہ کو احرام کی حالت میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے پایا جبکہ وہ حالت احرام میں تھے۔ عمر (رض) نے پوچہا یہ رنگا ہوا کپڑا کیا ہے۔ اے طلحہ ! انھوں نے کہا اے امیر المؤمنین یہ مٹی کا رنگ ہے۔ تو عمر ر ضی اللہ عنہ فرمانے ل کے۔ اے جماعت صحابہ کرام تم لوگوں کے مقتداء و راہنما ہو۔ وہ تمہاری پیروی کرتے ہیں۔ اگر کوئی جاہل اس کپڑے کو دیکھے گا تو کہے گا کہ جل کہ بن عبید اللہ احرام میں رنگین کپڑا استعمال کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ محرم کے لیے مکروہ ہے کہ وہ زعفران، درس، اور عصفر سے رنگا ہوا کپڑا استعمال کرے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ کپڑا دھوڈالنے سے اس کی خوشبو جاتی رہے تو اسے پہننے میں کوئی حرج نہیں جب کہ اس اس نے اسے دھو ڈالا اور اس کی خوشبو جاتی رہی اور وہ اس طرح ہوگیا کہ اس سے خوشبو بالکل نہیں مہکتی تو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ عورت کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ نقاب پہنے اگر وہ اپنا چہرہ ڈھانپنا چاہتی ہے تو اپنے دو پتے کے اوپر سے کپڑا لٹکالے جو چہرے کے سامنے لٹک جائے ۔ مگر چہرے سے لگا ہوا نہ ہو یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا مسلک ہے۔

424

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِحُنَيْنٍ، وَعَلَى الأَعْرَابِيِّ قَمِيصٌ بِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي أَصْنَعُ؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْزَعْ قَمِيصَكَ وَاغْسِلْ هَذِهِ الصُّفْرَةَ عَنْكَ، وَافْعَلْ فِي عُمْرَتِكَ مِثْلَ مَا تَفْعَلُ فِي حَجِّكَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْزَعُ قَمِيصَهُ وَيَغْسِلُ الصُّفْرَةَ الَّتِي بِهِ
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جبک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام حنین میں تھے۔ اس اعرابی نے ایک قمیص پہن رکھی تھی جس پر زود رنگ کا نشان تھا۔ اس نے عرض کار یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے۔ اس کے متعلق آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اپنے قمیص کو اتار دو اور اس زردی کو دھو ڈالو اور اپنے عمرہ میں اسی طرح کرو جیسا تم اپنے حج میں کرتے ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے قمیص کو اتار ڈالے اور بدن پر زردی کے نشان کو دھوڈالے۔ (حالت احرام میں سلاد ہوا قمیص تو پہن نہیں سکتا)

425

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِ لَيْسَ عَلَى الْمُحْرِمِ فِي قَتْلِهِنَّ جُنَاحٌ: الْغُرَابُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ "
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پانچ جانوروں کا مارنا محرم کے لیے جائز ہے۔ کوا، جوہا، بچھو، چیل، کاٹنے والا کتا جو پاگل ہو۔ اس روایت کو امام مالک نے باب ما یقتل المحرم من الدواب میں ذکر کیا ہے۔

426

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ، مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ: الْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ "
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ پانچ ایسے جانور ہیں جنہیں احرام اور حرم میں بہی قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ بچھو، چوہا، دیوانہ کتا، چیلع کوا۔ ( اس روایت کو اماوم مالک (رح) نے باب ما رخص للمحرم میں درج کیا ہے)

427

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ «أَمَرَ بِقَتْلِ الْحَيَّاتِ فِي الْحَرَمِ»
ابن شہاب نے عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے سانپوں کو حدود حرم میں قتل کا حکم دیا۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) باب ما رخص للمحرم ان یقتل میں ذکر کیا ہے)

428

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: بَلَغَنِي، أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، كَانَ يَقُولُ: «أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ سعد بن ابی وقاص (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلی کو مارنے کا حکم فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

429

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ هَبَّارَ بْنَ الأَسْوَدِ جَاءَ يَوْمَ النَّحْرِ، وَعُمَرُ يَنْحَرُ بُدْنَهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَخْطَأْنَا فِي الْعِدَّةِ كُنَّا نُرَى أَنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اذْهَبْ إِلَى مَكَّةَ فَطُفْ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا، أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ وَانْحَرْ هَدْيًا إِنْ كَانَ مَعَكَ، ثُمَّ احْلِقُوا، أَوْ قَصِّرُوا، وَارْجَعُوا فَإِذَا كَانَ قَابِلٌ فَحُجُّوا، وَاهْدُوا، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَيَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ، وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعْتُمْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا إِلا فِي خَصْلَةٍ وَاحِدَةٍ، لا هَدْيَ عَلَيْهِمْ فِي قَابِلٍ، وَلا صَوْمٍ، وَكَذَلِكَ رَوَى الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الَّذِي يَفُوتُهُ الْحَجُّ؟ فَقَالَ: يَحِلُّ بِعُمْرَةٍ، وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ هَدْيًا، ثُمَّ قَالَ: سَأَلْتُ بَعْدَ ذَلِكَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَقَالَ: مِثْلَ مَا قَالَ عُمَرُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَكَيْفَ يَكُونُ عَلَيْهِ هَدْيٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَالصِّيَامُ وَهُوَ لَمْ يَتَمَتَّعْ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ؟
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ہبار بن اسود یوم النحر کو يیا جبکہ عمر بن خطاب (رض) اپنی ہدی کو نحر کر رہے تھے۔ پس اس نے عرض کیا۔ اے امیر المؤمنین ! ہم نے گنتی میں غلطی کی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ آج یوم عرفہ ہے۔ پس حضرت عمر (رض) ع ٧ نہ نے فرمایا ٧ ک ٧ ہ ٧ تم مکہ جاؤ اور تم اور تمہارے ساتھی طواف و سعی کریں اور اگر ہدی تمہارے ساتھ ہے تو اسے نحر کرو۔ پھر سر منڈوا یا بال کترواء اور واپس چلے جاؤ۔ اگلے سال حج کرو اور ہدی دو ۔ جس کو ہدی میسر نہ وہ تین دن کے روزے ایام حج میں رکھے اور سات دن کے روزے اس سے فراغت کے بعد رکھے
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ہدی من فاتہ الحج میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔ مگر ایک بات میں اختلاف ہے کہ آئندہ سال اس پر ہدی نہیں اور نہ روزہ ہے اور اسی طرح اعمش نے ابراہیم نخعی اور انھوں نے اسود بن یزید کی سند سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے دریافت کیا کہ جس کا حج فوت ہوجائے تو انھوں نے فرمایا وہ عمرہ کے افعال کرکے حلال ہوجائے۔ اور اس پر آئندہ سال حج ہے۔ اور ہدی کا تذکرہ کرتے اگر لازم ہوتی ۔ پھر میں نے زید بن ثابت (رض) سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے اسی طرح فرمایا جس طرح عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس پر ہدی کس جرح ہوگی پھر اگر وہ ہدی نہ پائی تو اس پر روزے کیسے لازم ہوں گے جبکہ اس نے اشہر حج میں تمتع بھی نہیں کیا ( بلکہ اس کا حج رہ گیا)

430

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ «يَكْرَهُ أَنْ يَنْزَعَ الْمُحْرِمُ حَلَمَةً، أَوْ قُرَادًا عَنْ بَعِيرِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ، قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي هَذَا أَعْجَبُ إِلَيْنَا مِنْ قَوْلِ ابْنِ عُمَر
نافع کہتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) احرام کی دوران اپنے اونٹ کی چیچڑی اتارنا مکروہ خیال کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہان چیچڑی اتارنے میں کوئی حرج نہیں اور ہمیں ابن عمر کی نسبت عمر بن خطاب (رض) کا قول زیادہ پسند ہے۔

431

اَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهُدَيْرِ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «يُقَرِّدُ بَعِيرَهُ بِالسُّقْيَا وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَيَجْعَلُهُ فِي طِينٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِهِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ربیعہ بن عبداللہ بن ھدیر کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ مقام سقیاء میں اپنے اونٹ کی چیچڑیاں اتار رہے تھے۔ حالانکہ وہ اس وقت حالت احرام میں تھے۔ اور ان چیچڑیوں کو مٹی میں دفن کررہے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

432

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يَكْرَهُ لُبْسَ الْمِنْطَقَةِ لِلْمُحْرِمِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا أَيْضًا لا بَأْسَ بِهِ، قَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْفُقَهَاءِ فِي لُبْسِ الْهِمْيَانِ لِلْمُحْرِمِ، وَقَالَ: اسْتَوْثِقْ مِنْ نَفَقَتِكَ
ابن عمر (رض) محرم کے لیے منطقہ کا استعمال مکروہ خیال کرتے تھے۔ ( اس اثر کو امام مالک (رح) باب لبس المحرم المنطقہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے کہ محرم ہمیانی کو استعمال کرے۔ بلکہ یہ کہا کہ اپنے زارد سفر کو خوب مضبوطی سے باندھے۔

433

أَخْبَرَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا، تُسْأَلُ عَنِ الْمُحْرِمِ، يَحُكُّ جِلْدَهُ؟ فَتَقُولُ: نَعَمْ، فَلْيَحُكَّ وَلْيَشْدُدْ، وَلَوْ رُبِطَتْ يَدَايَ، ثُمَّ لَمْ أَجِدْ إِلا أَنْ أَحُكَّ بِرِجْلَيَّ لاحْتَكَكْتُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
علقمہ کی والدہ مرجانہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) عنہا سے سنا جب ان سے استفسار کیا گیا کہ محرم کھجلی کرے تو جواب میں فرمایا۔ کھجلائے اور خوب کھجلائے۔ اگر میڑ ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور مجھے کھجلی کی ضرورت پیش آجائے تو میں اپنے پاؤں سے کھجلالوں گی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہں د اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

434

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَخِي بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ أَرْسَلَ إِلَى أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ، وَأَبَانٌ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ هُمَا مُحْرِمَانِ، فَقَالَ: إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أُنْكِحَ طَلْحَةَ بْنَ عُمَرَ ابْنَةَ شَيْبَةَ بْنِ جُبَيْرٍ، وَأَرَدْتُ أَنْ تَحْضُرَ ذَلِكَ، فَأَنْكَرَ عَلَيْهِ أَبَانٌ، وَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ، وَلا يَخْطُبُ، وَلا يُنْكَحُ»
عمر بن عبید اللہ نے ابان بن عثمان کو پیغام بھیجا۔ ابان اس وقت مدینہ منورہ کے امیر تھے۔ اور عمر اور ابان ہر دو احرام کی حالت میں تھے۔ کہنے لگا میں نے ارادہ کیا ہے کہ طلحہ بن عمر کا نکاح شیبہ بن جبیر کی بیتی سے کرودوں۔ اور میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ بھی تشریف لائیں۔ اس پر ابان نے اس بات کی تردید کی اور اس سے انکار کردیا اور کہنے لگے میں نے اپنے والد عثمان بن عفان (رض) سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ محرم نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی کو نکاح کا پیغام دے اور نہ کسی کا نکاح کرائے۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب نکاح المحرم میں ذکر کیا ہے)

435

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «لا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ، وَلا يَخْطُبُ عَلَى نَفْسِهِ، وَلا عَلَى غَيْرِهِ»
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ محرم نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کیے اور کے لیے پیغام نکاح دے۔

436

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا غَطْفَانُ بْنُ طَرِيفٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ طَرِيفًا «تَزَوَّجَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَرَدَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِكَاحَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ جَاءَ فِي هَذَا اخْتِلافٌ، فَأَبْطَلَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ نِكَاحَ الْمُحْرِمِ، وَأَجَازَ أَهْلُ مَكَّةَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ نِكَاحَهُ، وَرَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَلا نَعْلَمُ أَحَدًا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ أَعْلَمَ بِتَزَوُّجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهُوَ ابْنُ أُخْتِهَا، فَلا نَرَى بِتَزَوُّجِ الْمُحْرِمِ بَأْسًا وَلَكِنْ لا يُقَبِّلْ، وَلا يَمَسَّ حَتَّى يَحِلَّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
ابو غططفان بن طریف المری نے کہا کہ میرے باپ طریف نے حالت احرام میں مکہ مکرمہ میں کا ح کیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس کا نکاح رد کردیا۔ ( ان دونوں روایات کو امام مالک (رح) نے باب نکاح المحرم میں ذکر فرمایا ہے۔ )
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس سلسلہ میں اختلاف وارد ہے۔ (١) اہل مدینہ کا قول یہ ہے کہ نکاح باطل ہے۔ (٢) اہل مکہ اور اہل عراق نے اس نکاح کو جائز قرار دیا ۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے روایت کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمونہ بنت الحارث سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ ہمارے علم کے مطابق ابن عباس (رض) جو کہ میمونہ (رض) کا حقیقی بھانجا ہے اس سے زیادہ اس نکاح کو کون جاننے والا ہوسکتا ہے۔ پس اسی وجہ سے ہم محرم کے نکاح میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ لیکن محرم اس کو نہ بوسہ دے سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے جب تک کہ حلال نہ ہوجائے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

437

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ: أَنَّهُ كَانَ يَرَى الْبَيْتَ يَخْلُو بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ، مَا يَطُوفُ بِهِ أَحَدٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا كَانَ يَخْلُو لأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْرَهُونَ الصَّلاةَ تَيْنَكَ السَّاعَتَيْنِ، وَالطَّوَافُ لابُدَّ لَهُ مِنْ صَلاةِ رَكْعَتَيْنِ، فَلا بَأْسَ بِأَنْ يَطُوفَ سَبْعًا، وَلا يُصَلِّيَ الرَّكْعَتَيْنِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَتَبْيَضَّ، كَمَا صَنَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَوْ يُصَلِّيَ الْمَغْرِبَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى.
ابو الزبیر مکی کہتے ہیں کہ میں نے نماز فجر اور عصر کے بعد بیت اللہ کو خالی پایا اور کوئی شخص اس کا طواف نہ کرتا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ان دو اوقات میں بیت اللہ کے خالی ہونے کا مطلب یہی تھا کہ لوگ ان دو اوقات میں نماز کو مکروہ جانتے تھے۔ اور دو رکعت کا طوال کے لیے ہونا ضروری ہے۔ پس اس کوئی کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص اس وقت طواف کرے۔ مگر دو رکعت کو اس وقت تک نہ پڑھے جب تک کہ سورج بلند اور دھوپ صاف نہ ہوجائے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کیا تھا۔ اگر نماز عصر کے بعد طواف کرے تو نماز مغرب پڑھ کردو رکعت طواف ادا کرے اور یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

438

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ طَافَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بَعْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ بِالْكَعْبَةِ، فَلَمَّا قَضَى طَوَافَهُ نَظَرَ فَلَمْ يَرَ الشَّمْسَ، فَرَكِبَ وَلَمْ يُسَبِّحْ حَتَّى أَنَاخَ بِذِي طُوًى فَسَبَّحَ رَكْعَتَيْنِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي أَنْ لا يُصَلِّيَ رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَتَبْيَضَّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبد الرحمن بن القاری نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد کعبہ کا طواف کیا جب انھوں نے اپنا طواف مکمل کرلیا تو انھوں نے نگاح دوڑائی مکر سورج نظر نہ يیا پس وہ سوار ہوئے اور دو رکعت طواف نہ پڑھیں۔ روانہ ہوگئے یہیاں تک کہ انھوں نے ذی طوی میں اونٹنی بٹھائی اور دو رکعت نماز ادا کی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ طواف کی دو رکعت اس وقت نہ پڑہی جائیں یہاں تک کہ سوج طلوع ہوجائے اور دن کی سپیدی پھیل جائے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

439

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ اللَّيْثِ، أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِيًّا، وَهُوَ بِالأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ، فَرَدَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى مَا فِي وَجْهِي، قَالَ: «إِنَّا لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكَ إِلا أَنَّا حُرُمٌ»
صعب بن جثامہ لیثی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک حمار وحشی بطور ہدیہ پیش کیا جب کہ آپ ابواء یا مقام ودان میں تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واپس کردیا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے چہرے کی کیفیت دیکھی تو فرمایا ہم تمہیں اس لیے واپس کر رہے ہیں کیونکہ ہم احرام کی حالت میں ہیں۔

440

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّهُ " مَرَّ بِهِ قَوْمٌ مُحْرِمُونَ بِالرَّبَذَةِ، فَاسْتَفْتَوْهُ فِي لَحْمِ صَيْدٍ وَجَدُوا أَحِلَّةً يَأْكُلُونَهُ، فَأَفْتَاهُمْ بِأَكْلِهِ، ثُمَّ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: بِمَ أَفْتَيْتَهُمْ؟ قَالَ: أَفْتَيْتُهُمْ بِأَكْلِهِ، قَالَ عُمَرُ: لَوْ أَفْتَيْتَهُمْ بِغَيْرِهِ لأَوْجَعْتُكَ "
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) یہ واقعہ عبداللہ بن عمر (رض) کو بیان کررہے تھے کہ میرے پاس سے محرمین کا ایک قافلہ گزرا۔ ( ابوہریرہ بحرین سے آئے تھے اور قافلہ عراق سے آیا تھا دونوں ربذہ میں جمع ہوگئے) انھوں نے شکار کے گوشت کے متعلق سوال کیا جو غیر محرموں نے کیا تھا تاکہ وہ خود کھائیں۔ تو انھوں نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اس کے کھالینے کا حکم دیا پھر میں مدینہ منورہ پہنچا اور عمر بن خطاب (رض) سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو عمر مجھے کہنے لگے تم نے ان کو کس وجہ سے فتوی دیا۔ میں نے کہا ان کے کھانے کے سبب میں نے ان کو فتوی دیا۔ عمر کہنے لگے اگر تو اس کے بغیر کسی اور وجہ کا فتوی دیتا تو میں تجھے سزا دیتا ( تو حرام یا مکروہ قرار دیتا)

441

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ تَخَلَّفَ مِنْ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ، وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ، فَأَبَوْا فَسَأَلَهُمْ أَنْ يُنَاوِلُوهُ رُمْحَهُ، فَأَبَوْا، فَأَخَذَهُ ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَلَمَّا أَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ "
ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ یہاں تک کہ مکہ کی راہ میں ایک جگہ اپنے محرم ساتھیوں سے پیچھے رہ گیا اور خود غیر محرم تھا۔ پس اس نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سیدھا ہو بیٹھا۔ پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اسے اس کا کوڑا پکڑادیں۔ انھوں نے اس سے انکار کردیا ۔ پھر اس نے ان سے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے انکار کیا پس اس نے نیزہ پکڑا اور گدھے پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ پس اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اصحاب نے کھایا اور بعض نے انکار کیا۔ پھر جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جاکر ملے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دریافت کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک کھانا تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما یجوز للمحرم اکلہ من الصید میں ذکر کیا ہ ہے)

442

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ كَعْبَ الأَحْبَارِ أَقْبَلَ مِنَ الشَّامِ فِي رَكْبٍ مُحْرِمِينَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ وَجَدُوا لَحْمَ صَيْدٍ فَأَفْتَاهُمْ كَعْبٌ بِأَكْلِهِ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «مَنْ أَفْتَاكُمْ بِهَذَا؟» ، فَقَالُوا: كَعْبٌ، قَالَ: «فَإِنِّي أَمَّرْتُهُ عَلَيْكُمْ حَتَّى تَرْجِعُوا» ، ثُمَّ لَمَّا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، طَرِيقِ مَكَّةَ، مَرَّتْ بِهِمْ رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ، فَأَفْتَاهُمْ كَعْبٌ بِأَنْ يَأْكُلُوهُ، وَيَأْخُذُوهُ فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى عُمَرَ، ذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ تُفْتِيَهُمْ بِهَذَا؟ قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ هُوَ إِلا نَثْرَةُ حُوتٍ يَنْثُرُهُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّتَيْنِ "
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ کعب الاحبار (رح) ایک محرم سواروں کی جماعت ک ٧ یٔ ساتھ شام سے آئے جب وہ راستے میں تھے تو انھوں نے شکار کا گوشت پایا۔ کعب نے انھیں کھالینے کا فتوی دیا۔ عطاء کہ ٧ تٔے ہیں جب یہ لوگ مدینہ منورہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے تو ان سے اس مسئلہ کا ذکر کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تمہیں یہ فتوی کس نے دیا ہے۔ انھوں نے کہا یہ فتوی کعب نے دیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں نے تمہاری واپس تک اس کو تمہارا امیر مقرر کیا ہے۔ پھر جب وہ مکہ کے کسی راستے میں ت ہے تو ان کے پاس ایک ٹڈی دل گزرا۔ کعب نے انھیں فتوی دیا کہ اسے پکڑیں اور کھائیں۔ عطاء نے کہا جب وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو ان سے اس کا ذکر ہوا۔ انھوں نے فرمایا کہ تجھییہ فتوی دینے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ کعب نے کہا یہ سمندری شکار ہے۔ کعب نے کہا اے امیر المؤمنین ! خدا کی قسم یہ تو مچھلی کی چھینک ہے۔ جو وہ ہر سال دو بار مارتی ہے۔ ( صاحب الحلی فرماتے ہیں کعب کا یہ جواب غلط تھا مگر مجتہد کی خطاء سے در گزر کی گئی ہے)

443

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، أَنَّ رَجُلا سَأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ جَرَادَاتٍ بِسَوْطِي، فَقَالَ: أَطْعِمْ قَبْضَةً مِنْ طَعَامٍ "
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عمر (رض) سے سوال کیا کہ میں نے کئی مکڑیان اپنے کوڑے سے مارڈالی ہیں ( اس کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا ایک مٹھی طعام مساکین کو کھلا دو ۔

444

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنِ الْعَوَّامِ كَانَ «يَتَزَوَّدُ صَفِيفَ الظِّبَاءِ فِي الإِحْرَامِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، إِذَا صَادَ الْحَلالُ الصَّيْدَ فَذَبَحَهُ، فَلا بَأْسَ بِأَنْ يَأْكُلَ الْمُحْرِمُ مِنْ لَحْمِهِ إِنْ كَانَ صِيدَ مِنْ أَجْلِهِ، أَوْ لَمْ يُصَدْ مِنْ أَجْلِهِ لأَنَّ الْحَلالَ صَادَهُ وَذَبَحَهُ، وَذَلِكَ لَهُ حَلالٌ، فَخَرَجَ مِنْ حَالِ الصَّيْدِ وَصَارَ لَحْمًا، فَلا بَأْسَ بِأَنْ يَأْكُلَ الْمُحْرِمُ مِنْهُ، وَأَمَّا الْجَرَادُ، فَلا يَنْبَغِي لِلْمُحْرِمِ أَنْ يَصِيدَهُ فَإِنْ فَعَلَ كَفَّرَ، وَتَمْرَةٌ خَيْرٌ مِنْ جَرَادَةٍ: كَذَلِكَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهَذَا كُلُّهُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
عروہ کہتے ہیں کہ میرے والد زبیر (رض) احرام کی حالت میں ہرنیوں کا گوشت بطور زادہ راہ ساتھ لیتے۔
(اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما یجوز للمحرم اکلہ من الصید میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ان تمام کو اختیار کرتے ہیں۔ جب غیر محرم نے شکار کو ذبح کردیا تو اس کا گوشت محرم اگر کھالے تو کوئی حرج نہیں۔ خواہ اس کی خاطر شکار کیا جائے یا اس کی خاطر شکار نہ کیا جائے کیونکہ غیر محرم نے اس کو شکار کیا ہے اور اسے ذبح بھی اسی نے ہی کیا ہے اور اس کے لیے شکار حلال ہے۔ پس وہ شکار کی حالت سے نکل گیا اور عام گوشت کی طرح بن گیا۔ پس جس طرح تمام گوشت کھانا محرم کو جائز ہے یہ بھی جائز ہے۔
مکڑی کے سلسلہ میں محرم کو شکار کی اجازت نہیں اگر اس نے شکار کرلیا تو کفارہ ادا کرے اور ایک کھجور مکڑی سے بہتر ہے۔ فاروق اعظم (رض) نے اسی طرح فرمایا۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

445

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنْ يَعْتَمِرَ فِي شَوَّالٍ، فَأَذِنَ لَهُ، فَاعْتَمَرَ فِي شَوَّالٍ ثُمَّ قَفَلَ إِلَى أَهْلِهِ وَلَمْ يَحُجَّ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَلا مُتْعَةَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
عمر بن ابی سلمہ مخزومی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) عن سے شوال میں عمرہ کی اجازت طلب کی عمر (رض) نے ان کو اجازت مرحمت فرمادی، پس انھوں نے شوال میں عمرہ کیا پہر واپس مدینہ لوٹ آئے اور حج نہ کیا۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) باب العمرۃ ف اشہر لحج میں ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور اس پر دم تمتع بہی لازم نہ ہوگا ( خواہ اسی سال وہ حج افراد کرے۔ تمتع تو صفر واحد سے متعلق ہے) امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

446

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَعْتَمِرَ قَبْلَ الْحَجِّ، وَأُهْدِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَمِرَ فِي ذِي الْحِجَّةِ بَعْدَ الْحَجِّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: كُلُّ هَذَا حَسَنٌ وَاسِعٌ إِنْ شَاءَ فَعَلَ وَإِنْ شَاءَ قَرَنَ وَأَهْدَى فَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ
عبداللہ بن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ حج سے قبل عمرہ کرنا اور ہدی پیش کرنا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب تر ہے کہ حج کے بعد حج کے مہینوں میں عمرہ کروں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ سب خوب ہے۔ اس میں گنجائش ہے اگر چاہے تمتع کرلے اور اگر چاہے تو قران کرے اور ہدی روانہ کرے اور یہ الگ کرنے سے بہتر ہے۔

447

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَمْ يَعْتَمِرْ إِلا ثَلاثَ عُمَرٍ، إِحْدَاهُنَّ فِي شَوَّالٍ، وَاثْنَتَيْنِ فِي ذِي الْقِعْدَةِ»
عروہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف تین عمرے ادا فرمائے تھے ان میں سے ایک شوال اور دو ذی قعدہ میں تھے۔

448

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَوْلاهُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ تَجَهَّزْتُ لِلْحَجِّ وَأَرَدْتُهُ، فَاعْتَرَضَ لِي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ، فَإِنَّ عُمْرَةً فِيهِ كَحَجَّةٍ»
ابوبکر بن عبد الرحمن کہتے تھے کہ ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میں نے حج کی تیاری کی تہی اور کوئی رکاوٹ پیش آگئی۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو رمضان میں عمرہ کرلے اس کا عمرہ حج کی طرح ثواب رکھتا ہے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب جامع ما جاء فی العمرۃ میں ذکر کیا ہے)

449

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: «مَنِ اعْتَمَرَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ فِي شَوَّالٍ، أَوْ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، أَوْ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَدِ اسْتَمْتَعَ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْهَدْيُ، أَوِ الصِّيَامُ إِنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا»
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا ۔ جو شوال کے مہینے یا ذو القعدہ یا ذو الحجہ میں عمرہ کرے اس نے گویا تمتع کیا اس پر ہدی یا روزے لازم ہیں اگر اس کو ہدی کی توفیق نہ ہو۔

450

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: «الصِّيَامُ لِمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ مِمَّنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا مَا بَيْنَ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ إِلَى يَوْمِ عَرَفَةَ، فَإِنْ لَمْ يَصُمْ صَامَ أَيَّامَ مِنًى» ،
عائشہ (رض) عنہا فرماتی ہیں۔ روزے اس شخص کے لیے ہیں جس نے حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھایا۔ جس کو ہدی میسر نہ ہو اس دن سے لے کر جب سے اس نے احرام باندھا یہاں تک کہ عرفات کا دن آپہنچا اگر اس نے اب تک روزے نہیں رکھے تو ایام منی میں روزے رکھے۔

451

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، مِثْلَ ذَلِكَ
سالم بن عبداللہ ابن عمر (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔

452

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: مَنِ اعْتَمَرَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ فِي شَوَّالٍ، أَوْ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، أَوْ فِي ذِي الْحِجَّةِ، ثُمَّ أَقَامَ حَتَّى يَحُجَّ فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ قَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، أَوِ الصِّيَامُ إِنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا، وَمَنْ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، ثُمَّ حَجَّ، فَلَيْسَ بِمُتَمَتِّعٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى.
سعید بن المسیب فرماتے ہیں جو حج کے مہینوں میں عمرہ کرے یعنی شوال یا ذیقعدہ یا ذی الحج میں پھر مکہ میں اقامت اختیار کرے یہاں تک کہ وہ حج کرے تو وہ متمتع شمار ہوگا۔ اور اس پر تمتع کی ہدی لازم ہوگئی اور اگر ہدی نہ پائے تو روزے رکھے اور جو شخص اپنے گھر واپس لوت آیا پھر اگرچہ اسی سال حج کیا وہ متمتع شمار نہ ہوگا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ان تمام کو اختیار کرتے ہیں اور یہ یامام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

453

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَامِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «رَمَلَ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الرَّمْلُ ثَلاثَةُ أَشْوَاطٍ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
جابر بن عبداللہ جو حرام بن کعب انصاری کی اولاد سے تھے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود سے حجر اسود تک ( تین چکروں میں) رمل کیا (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الرمل فی الطواف میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ رمل تین چکروں میں جو اسود سے حجر اسود تک کیا جائے گا۔ یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ ہمارے عام فقہاء بھی ادھر ہی گئے ہیں۔

454

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ «أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ مِنَ التَّنْعِيمِ» ، قَالَ: «ثُمَّ رَأَيْتُهُ يَسْعَى حَوْلَ الْبَيْتِ حَتَّى طَافَ الأَشْوَاطَ الثَّلاثَةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الرَّمْلُ وَاجِبٌ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن زبیر (رض) کو دیکھا کہ انھوں تنعیم سے احرام باندھا۔ پھر میں نے ان کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ کے گرد تین چکروں میٔں قوت و ہمت سے چل رہے (رمل کر رہے) ہیں۔ اس روایت کو امام مالک نے باب الرمل فی الطواف میں ذکر کیا ہی)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں رمل اہل مکہ اور آفاقی ہر دو پر حج وعمرہ میں واجب ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔

455

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ مَوْلاةً لِعَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُقَالُ لَهَا: رُقَيَّةُ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ خَرَجَتْ مَعَ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى مَكَّةَ، قَالَتْ: فَدَخَلَتْ عَمْرَةُ مَكَّةَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ وَأَنَا مَعَهَا، قَالَتْ: فَطَافَتْ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ دَخَلَتْ صُفَّةَ الْمَسْجِدِ، فَقَالَتْ: أَمَعَكَ مِقَصَّانِ؟ فَقُلْتُ: لا، قَالَتْ: فَالْتَمِسِيهِ لِي، قَالَتْ: فَالْتَمَسْتُهُ حَتَّى جِئْتُ بِهِ، فَأَخَذْتُ مِنْ قُرُونِ رَأْسِهَا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ ذَبَحَتْ شَاةً، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لِلْمُعْتَمِرِ وَالْمُعْتَمِرَةِ، يَنْبَغِي أَنْ يُقَصِّرَ مِنْ شَعْرِهِ إِذَا طَافَ وَسَعَى، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ، ذَبَحَ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى.
عمرہ کی کنیز رقیہ نے بیان کیا کہ میں نے عمرہ بنت عبد الرحمن کے ساتھ مکہ مکرمہ کا سفر کیا۔ عمرہ مکہ مکرمہ ٨ ذی الحجہ کو پہنچیں، میں بھی ان کے ہمراہ تھی۔ انھوں نے ( وہاں بہنچ کر) بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی۔ پھر مسجد حرام کے چبوترہ پر گئیں اور مجھے کہا کیا تمہارے پاس قینچی ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ عمرہ نے کہا کہیں سے ڈھونڈ لاؤ۔ میں لے آئی۔ تو عمرہ نے اپنے سر کے بالوں کی مینڈھیوں کے پائی حصہ میں سے تھوڑا سا کاٹا۔ جب قربانی کا دن يیا تو ایک بکری ذبح کی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے۔ عمرہ کرنے والے مرد یا عورت کو سعی سے فارغ ہو کر قصر کرنا ہوتا ہے۔ اور یوم نحر کو اگر قربانی میسر ہو تو ذبح کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

456

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَقُولُ: «مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ شَاةٌ»
محمد کہتے ہیں کہ علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ ما استیسر من الہدی کی تفسیر بکری ہے۔ (ہدی کا سب سے کم درجہ یہی ہے)

457

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ بَعِيرٌ أَوْ بَقَرَةٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ عَلِيٍّ نَأْخُذُ، مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ شَاةٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ ما استیسر من الہدی کی تفسیر اونٹ یا گائے ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : علی مرتضی (رض) کے قول پر ہمارا عمل ہے کہ جو قربانی میسر ہو آسان ہو۔ اس سے مراد بکری ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے

458

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «اعْتَمَرَ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِقُدَيْدٍ جَاءَهُ خَبَرٌ مِنَ الْمَدِينَةِ، فَرَجِعَ فَدَخَلَ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ كَانَ فِي الْمَوَاقِيتِ، أَوْ دُونَهَا إِلَى مَكَّةَ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَكَّةَ وَقْتٌ مِنَ الْمَوَاقِيتِ الَّتِي وُقِّتَتْ، فَلا بَأْسَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ خَلْفَ الْمَوَاقِيتِ أَيَّ وَقْتٍ مِنَ الْمَوَاقِيتِ الَّتِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَكَّةَ، فَلا يَدْخُلَنَّ مَكَّةَ إِلا بِإِحْرَامٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے عمرہ کیا پھر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ ابھی مقام قدید میں پہنچے تھے کہ انھیں مدینہ منورہ سے کوئی اطلاع ملی جس کی وجہ سے وہ واپس لوٹ گئے اور مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخل ہوئے۔ (اس روایت کو باب جامع الحج میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی پر ہمارا عمل ہے۔ جو شخص میقات میں ہو یا مکہ مکرمہ کے قری ہو اس کے اور مکہ مکرمہ کے درمیان کوئی مقررہ مقیات نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہوجائے۔ البتہ جوش شخص میقات سے باہر ہو تو وہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہو یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

459

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: «مَنْ ضَفَرَ فَلْيَحْلِقْ، وَلا تُشبِّهُوا بِالتَّلْبِيدِ»
نافع ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا جس نے بالوں کو گوندھا ہے وہ حلق کر والے اور تلبید کی مشابہت مت کرو۔

460

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَالْمُقَصِّرِينَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ ضَفَّرَ فَلْيَحْلِقْ، وَالْحَلْقُ أَفْضَلُ مِنَ التَّقْصِيرِ، وَالتَّقْصِيرُ يُجْزِئُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ سرمنڈوانـ والوں پر رحم فرما۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ اور بال کٹوانے والوں پر۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ حلف کروانے والوں پر رحم فرمایا۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ اور بال کٹوانے والوں پر۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ حلف کروانے والوں پر رحم فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور بال کٹوانے والوں پر ۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) باب الخلاق میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم سی کو اختیار کرتے ہیں گوندھے ہوئے بالوں کو پکڑے یاور مونڈے اور حلق تقصیر سے افضل ہے۔ اور کچھ بال کٹوانا کفایت کرجاتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاؤ کا قول ہے۔

461

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «إِذَا حَلَقَ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ أَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ وَمِنْ شَارِبِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لَيْسَ هَذَا بِوَاجِبٍ، مَنْ شَاءَ فَعَلَهُ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَفْعَلْهُ
نافع بیان کرتے ہیں ابن عمر (رض) جب حج یا عمرہ میں سر منڈواتے تو ڈاڑھی اور مونچھوں کے کچھ بال لیتے تھے۔

462

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «الْمَرْأَةُ الْحَائِضُ الَّتِي تُهِلُّ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ تُهِلُّ بِحَجَّتِهَا، أَوْ بِعُمْرَتِهَا إِذَا أَرَادَتْ، وَلَكِنْ لا تَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَلا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّى تَطَّهَّرَ، وَتَشْهَدَ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا مَعَ النَّاسِ غَيْرَ أَنَّهَا لا تَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَلا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَلا تَقْرَبُ الْمَسْجِدَ، وَلا تُحِلُّ حَتَّى تَطُوفَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ»
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے جب عورت نے حج یا عمرہ کے لیے حالت حیض میں احرام باندھا ہو وہ جب چاہے تلبیہ کہے۔ لیکن پاک ہونے تک حیض کے ایام میں بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی نہ کرے، دیگر تمام مناسک حج میں لوگوں کے ساتھ شریک رہے۔ البتہ طواف و سعی نہ کرے اور نہ مسجد میں داخل ہو اور نہ احرام اتارے جب تک کہ (پاک ہو کر) بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی نہ کرـلے۔

463

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " قَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَلا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطَّهَّرِي "
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہا فرماتی ہیں کہ میں مکہ آئی اور اس وقت ایام میں تھی۔ ٧٧ میں نے نہ تو بیت اللہ کا طواف کیا اور نہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ میں نے اس بات کی شکایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تو وہ سب کچھ کر جو حاجی کرتے ہیں۔ مگر تو بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کر۔ یہاں تک کہ تو پاک ہوجائے۔ (اس روایت کو باب دخول الحائض مکۃ میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)

464

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، ثُمَّ لا يُحِلَّ حَتَّى يُحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا» ، قَالَتْ: " فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَلا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْتُ الْحَجَّ، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ مَكَانَ عُمْرَتِكِ» ، وَطَافَ الَّذِينَ حَلُّوا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْحَائِضُ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا غَيْرَ أَنْ لا تَطُوفَ، وَلا تَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّى تَطَّهَّرَ، فَإِنْ كَانَتْ أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ فَخَافَتْ فَوْتَ الْحَجِّ فَلْتُحْرِمْ بِالْحَجِّ، وَتَقِفْ بِعَرَفَةَ، وَتَرْفُضِ الْعُمْرَةَ، فَإِذَا فَرَغَتْ مِنْ حَجِّهَا قَضَتِ الْعُمْرَةَ كَمَا قَضَتْهَا عَائِشَةُ، وَذَبَحَتْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَبَحَ عَنْهَا بَقَرَةً، وَهَذَا كُلُّهُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، إِلا مَنْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّهُ يَطُوفُ طَوَافَيْنِ وَيَسْعَى سَعْيَيْنِ
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ( مدینہ منورہ سے) نکلیں۔ ہم نے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کے ساتھ ہدی ہے وہ عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھے۔ پھر وہ حلال نہ ہوگا ۔ جب تک کہ ان دونوں سے حلال نہ ہو۔ ام المؤمنین کہتی ہیں کہ جب میں مکہ پہنچی تو حالت ماہواری سے تھی۔ پس میں نے نہ تو بیت اللہ کا طواف کیلا اور نہ صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر میں نے اس کی شکایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو اپنے سر کی مینڈھیاں کھول دے۔ اور کنگھی کر اور حج کا احرام باندھ لے۔ اور عمرہ ترک کردے۔ ام المؤمنین کہتی ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا۔ جب ہم نے حج کرلیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) کے ساتھ تنعیم کے مقام کی طرف بھیجا تو میں نے عمرہ ( کا احرام باندھا اور) ادا کیا۔ اس پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ عمرہ تیرے اس ترک شدہ عمرہ کی جگہ ہے۔ بس جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انھوں نے بیت اللہ طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، پھر وہ حلال ہوگئے۔ اور منی سے واپسی کے بعد انھوں نے ایک اور طواف اپنے حج کی طرف سے کیا ۔ لیکن جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا۔ تو انھوں نے ایک ہی طواف کیا۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب دخول الحائض مکۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی طو اختیار کرتے ہیں۔ حائض تمام منااسک حج کو ادا کرتی جائے گی۔ البتہ طواف بیت اللہ اور سعی صفا ومروہ اس وقت تک نہ کرے گی۔ جب تک وہ طہارت تامہ حاصل نہ کرے گی۔ اگر اس نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ حج فوت ہوجائے گا تو حج کا احرام باندھ لے اور وقوف عرفات کرے اور عمرہ کو چھوڑ دے۔ جب وہ اپنے حج کے تمام افعال سے فراغت پالے تو وہ عمرے کی قضا کرے جس طرح کہ ام المؤمنین (رض) عنہا نے قضا کیا۔ اور جو ہدی میسر آئے وہ ذبح کرے ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عائشہ (رض) عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔ یہ تمام امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ جس نے حج وعمرہ کو جمع کیا ہو وہ دو طواف اور دو سعیاں کرے۔

465

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَبُو الرِّجَالِ، أَنَّ عَمْرَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ «إِذَا حَجَّتْ وَمَعَهَا نِسَاءٌ تَخَافُ أَنْ تَحِضْنَ قَدَّمَتْهُنَّ يَوْمَ النَّحْرِ فَأَفَضْنَ، فَإِنْ حِضْنَ بَعْدَ ذَلِكَ لَمْ تَنْتَظِرْ، تَنْفِرُ بِهِنَّ وَهُنَّ حُيَّضٌ إِذَا كُنَّ قَدْ أَفَضْنَ»
عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے حضرت عائشہ (رض) عنہا جب حج کرتیں اور ان کے ساتھ کچھ عورتیں ہوتں تو حضرت عائشہ (رض) عنہا اس خوف سے کہ کہیں انھیں ایام نہ آجائین ( طواف افاضہ سے قبل) انھیں یوم النحر اور لوگوں سے پہلے پہلے بھیج دیتیں تاکہ طواف افاضہ کرلیں۔ اگر اس کے بعد انھیں حیض آجاتا تو آپ ان کا انتظار نہ کرتیں ( کہ پاک ہوجائیں) انھیں لے کر واپس لوٹ جاتیں۔ اس حال میں کہ وہ دوبارہ حائضہ ہوتیں جب کہ وہ طواف افاضہ سے فراغت حاصل کرچکی ہوتی تھیں۔

466

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ قَدْ حَاضَتْ لَعَلَّهَا تَحْبِسُنَا، قَالَ: أَلَمْ تَكُنْ طَافَتْ مَعَكُنَّ بِالْبَيْتِ؟ قُلْنَ: بَلَى، إِلا أَنَّهَا لَمْ تَطُفْ طَوَافَ الْوَدَاعِ، قَالَ: فَاخْرُجْنَ "
حضرت عائشہ ام المؤمنین (رض) عنہا سے روایت ہے کہ صفیہ بنت حی (رض) عنہا کو ایام آگئے میں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا وہ ہمیں (سفر پر روانگی سے) روکنے والی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا کہ اس نے طواف افاضہ کرلیا ہے۔ مگر طواف وداع نہیں کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پھر نہیں ! ( ہم اس کی خاطر نہ رکیں گے کیونکہ اس پر طواف و داع لازم نہیں ہے)

467

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ ابْنَةِ مِلْحَانَ، قَالَتْ: «اسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَنْ حَاضَتْ، أَوْ وَلَدَتْ بَعْدَمَا أَفَاضَتْ يَوْمَ النَّحْرِ، فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَتْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، أَيُّمَا امْرَأَةٍ حَاضَتْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفَ يَوْمَ النَّحْرِ طَوَافَ الزِّيَارَةِ، أَوْ وَلَدَتْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَلا تَنْفِرَنَّ حَتَّى تَطُوفَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ، وَإِنْ كَانَتْ طَافَتْ طَوَافَ الزِّيَارَةِ ثُمَّ حَاضَتْ، أَوْ وَلَدَتْ، فَلا بَأْسَ بِأَنْ تَنْفِرَ قَبْلَ أَنْ تَطُوفَ طَوَافَ الصَّدَرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ام سلیم بنت ملحان (رض) عنہا نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتوی پوچھا۔ وہ حالت حیض سے تھیں یا طواف افاضہ کے بعد اس نے بچہ جنا تھا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اجازت مرحمت فرمادی (کہ وہ مدینہ لوٹ چلیی) ان تینوں روایات کو امام مالک (رح) نے باب افاضۃ الحائض میں نے فرمایا ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جس عورت کو طواف زیارت سے قبل حیض یا نفاس کی حالت پیش آجائے۔ وہ اس وقت تک مکہ سے لوٹ نہیں سکتی جب تک طواف زیارت نہ کرلے۔ اگر طواف زیارت کے بعد حیض کی حالت پیش آئی یا نفاس کی حالت ہوئی تو پھر طواف صدر سے پہلے وطن واپسی میں کوئی حرج نہیں۔ اور یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء (رح) کا قول ہے۔
باب عورت حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتی ہو پھر اس کو حیض یا ولادت احرام سے پہلے پیش آئے۔

468

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَلَدَتْ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ بِالْبَيْدَاءِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهَا فَلْتَغْتَسِلْ ثُمَّ لِتُهِلَّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ فِي النُّفَسَاءِ، وَالْحَائِضِ جَمِيعًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
قاسم کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس (رض) عنہا کے ہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت مقام بیداء میں ہوگئی۔ ابوبکر (رض) نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو غسل کا کہو اور پھر غسل کے بعد احرام باندھ لے۔ (یہ غسل صرف ستہراکا ہوگا)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ نفاس و حیض والی عورت غسل کرکے احرام باندھ لیں اور یہی امام ابوحنیفہ حمہ اللہ کا قول ہے اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔

469

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، أَنَّ أَبَا مَاعِزٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنُ سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ تَسْتَفْتِيهِ، فَقَالَتْ: " إِنِّي أَقْبَلْتُ أُرِيدُ أَنْ أَطُوفَ الْبَيْتَ حَتَّى إِذَا كُنْتُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ أَهْرَقْتُ، فَرَجَعْتُ حَتَّى ذَهَبَ ذَلِكَ عَنِّي، ثُمَّ أَقْبَلْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ أَهْرَقْتُ، فَرَجَعْتُ حَتَّى ذَهَبَ ذَلِكَ عَنِّي، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى بَابِ الْمَسْجِدِ أَيْضًا، فَقَالَ لَهَا ابْنُ عُمَرَ: إِنَّمَا ذَلِكَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ فَاغْتَسِلِي ثُمَّ اسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ ثُمَّ طُوفِي "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، هَذِهِ الْمُسْتَحَاضَةُ فَلْتَتَوَضَّأْ وَلْتَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ ثُمَّ تَطُوفُ وَتَصْنَعُ مَا تَصْنَعُ الطَّاهِرَةُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو ماعز عبداللہ بن سفیان کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس بیٹہا تھا کہ ان کے پاس ایک عورت آئی۔ جو کہ مسئلہ دریافت کرنا چاہتی تھی۔ اس عورت نے کہا کہ میں بیت اللہ طواف کرنا چاہتی ہوں۔ جونہی میں مسجد کے دروازہ کے قریب پہنچی تو مجھے خون آنے لگا۔ میں واپس چلی گئی۔ جب خون رک گیا تو میں پھر آئی۔ جونہی مسجد کے دروازہ پر پہنچی تو پھر خون کی آمد شروع ہوئی۔ میں پھر واپس پلٹ گئی یہاں تک کہ خون رک گیا۔ پھر میں مسجد کے دروازہ تک پہنی تو پھر وہی صورت پیش آگئی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا یہ شیطانی رگ ہے۔ تم پھر غسل کرو اور شرمگاہ پر کپڑا بانڈہ کر طوال کرلو۔ اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب جامع الطواف میں نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے مستحاضہ وضو کرکے شرمگاہ پر کپڑا باندھ لے، پہر طواف کرے اور جس طرح پاک عورتیں کرتی ہیں وہ بھی وہی افعال کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

470

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَنَا مِنْ مَكَّةَ بَاتَ بِذِي طُوًى بَيْنَ الثَّنِيَّتَيْنِ حَتَّى يُصْبِحَ ثُمَّ يُصَلِّيَ الصُّبْحَ، ثُمَّ يَدْخُلَ مِنَ الثَّنِيَّةِ الَّتِي بِأَعْلَى مَكَّةَ، وَلا يَدْخُلَ مَكَّةَ إِذَا خَرَجَ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا حَتَّى يَغْتَسِلَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ إِذَا دَنَا مِنْ مَكَّةَ بِذِي طُوًى، وَيَأْمُرُ مَنْ مَعَهُ فَيَغْتَسِلُوا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلُوا»
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو وہ وادی ذی طوی کے قریب دو گھاٹیوں کے درمیان رات گزارتے، جب صبح ہوتی تو نماز فجر پڑھ کر مکہ مکرمہ میں اس وادی سے داخل ہوتے جو مکہ کے اوپر کی جانب ہے۔ اور جب آپ حج وعمرہ کا ارادہ سے آتے۔ جب تک ذی طو ٧ ی میں غسل نہ کرلیتے اس وقت تک مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوتے۔ اور اپنے ساتھیوں کو بھی حکم دیتے کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرلیں۔

471

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَنَّ أَبَاهُ الْقَاسِمُ كَانَ يَدْخُلُ مَكَّةَ لَيْلا وَهُوَ مُعْتَمِرٌ، فَيَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَيُؤَخِّرُ الْحِلاقَ حَتَّى يُصْبِحَ، وَلَكِنَّهُ لا يَعُودُ إِلَى الْبَيْتِ فَيَطُوفُ بِهِ حَتَّى يَحْلِقَ، وَرُبَّمَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَأَوْتَرَ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَقْرَبِ الْبَيْتَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِأَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ إِنْ شَاءَ لَيْلا وَإِنْ شَاءَ نَهَارًا، فَيَطُوفَ وَيَسْعَى، وَلَكِنَّهُ لا يُعْجِبُنَا لَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الطَّوَافِ حَتَّى يَحْلِقَ، أَوْ يُقَصِّرَ كَمَا فَعَلَ الْقَاسِمُ، فَأَمَّا الْغُسْلُ حِينَ يَدْخُلُ فَهُوَ حَسَنٌ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ.
قاسم رات کو مکہ میں داخل ہوتے جب کہ وہ عمرہ کا احرام باندھے ہوتے۔ وہ بیت اللہ کا طواف کرتے اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے اور پھر صبح تک سر نہ منڈواتے۔ لیکن دوسرا طواف ٧ ح ٧ لق کرائے بغیر نہ کرتے۔ جب رات کے آخری یحصہ میں مسجد داخل ہوتے تو بیت اللہ میں وتر ادا کرتے طواف اور استلام نہ کرتے بلکہ بیت اللہ کے قریب بھی نہ جاتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ مکہ مکرمہ میں رات یا دن کسی وقت میں داخل ہوسکتا ہے۔ اس میں کچھ حرج نہیں۔ پھر طواف اور سعی کرے۔ مگر ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ پہلے عمرہ کا حلق یا قصر کرنے سے پہلے دوبارہ طواف کرے۔ جیسا کہ قاسم نے کیا۔ باقی رہا غسل دخول مکہ کے وقت تو وہ اچھا ہے لازم نہیں ہے۔

472

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا طَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ بَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ حَتَّى يَبْدُوَ لَهُ الْبَيْتُ، وَكَانَ يُكَبِّرُ ثَلاثَ تَكْبِيرَاتٍ ثُمَّ يَقُولُ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، يَفْعَلُ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَذَلِكَ إِحْدَى وَعِشْرُونَ تَكْبِيرَةً وَسَبْعُ تَهْلِيلاتٍ، وَيَدْعُو فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَيَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى ثُمَّ يَهْبِطُ، فَيَمْشِي حَتَّى إِذَا جَاءَ بَطْنَ الْمَسِيلِ سَعَى حَتَّى يَظْهَرَ مِنْهُ، ثُمَّ يَمْشِي حَتَّى يَأْتِيَ الْمَرْوَةَ فَيَرْقَى فَيَصْنَعَ عَلَيْهَا مِثْلَ مَا صَنَعَ عَلَى الصَّفَا، يَصْنَعُ ذَلِكُ سَبْعَ مَرَّاتٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ سَعْيِهِ، وَسَمِعْتُهُ يَدْعُو عَلَى الصَّفَا: اللَّهُمَّ إِنَّكَ قُلْتَ: ادُّعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ، وَإِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ كَمَا هَدَيْتَنِي لِلإِسْلامِ أَنْ لا تَنْزِعَهُ مِنِّي حَتَّى تَوَفَّانِي وَأَنَا مُسْلِمٌ "
عبداللہ بن عمر جب صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے تو صفا سے شروع کرتے اور اس قدر اوپر چڑھ جاتے کہ وہاں سے بیت اللہ نظر آنے لگتا تین بار تکبرات (اللہ اکبر) کہتے پھر کہتے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت وہو علي کل شیء قدیر۔ اور یہ سات مرتبہ کرتے تو یہ ایکس تکبرمات اور سات مرتبہ کلمہ ہوجاتا ۔ اور اس دوران اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کرتے۔ پھر اتر کر آرام سے چلتے یہاں تک کہ وادی میں داخل ہوجاتے پھر دوڑتے پھر وادی سے نکل کر آرام سے چلتے یہاں تک کہ مروہ تک پہنچ جاتے، پھر مروہ پر چڑھ جاتے یہاں تک کہ اس پر وہی تمام اعمال کرتے جو صفا پر کیے تھے۔ اس طرح سات مرتبہ سعی کرتے یہاں تک کہ سعی سے فارغ ہوجاتے۔ میں نے سنا کہ وہ صفا پر اس طرح دعا کرتے : اللہم انک قلت ادعونی استجیب لکم و انک لا تخلف المیعاد و انی أسألک کما ہدیتنی للاسلام ان لا تنزعہ منی حتی توفانی وأنا مسلم۔

473

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ " حِينَ هَبَطَ مِنَ الصَّفَا مَشَى حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْمَسِيلِ سَعَى حَتَّى ظَهَرَ مِنْهُ، قَالَ: وَكَانَ يُكَبِّرُ عَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثَلاثًا، وَيُهَلِّلُ وَاحِدَةً، يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، إِذَا صَعِدَ الرَّجُلُ الصَّفَا كَبَّرَ وَهَلَّلَ وَدَعَا، ثُمَّ هَبَطَ مَاشِيًا حَتَّى يَبْلُغَ بَطْنَ الْوَادِي، فَيَسْعَى فِيهِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْهُ، ثُمَّ يَمْشِيَ مَشْيًا عَلَى هِينَتِهِ، حَتَّى يَأْتِيَ الْمَرْوَةَ فَيَصْعَدَ عَلَيْهَا، فَيُكَبِّرَ وَيُهَلِّلَ وَيَدْعُوَ، يَصْنَعُ ذَلِكَ بَيْنَهُمَا سَبْعًا، يَسْعَى فِي بَطْنِ الْوَادِي فِي كُلِّ مَرَّةٍ مِنْهُمَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا سے اترتے تو آپ مناسب رفتار سے چلتے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدم مبارک بطن وادی میں لگتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑتے یہاں تک تک کہ وادی سے باہر نکل جاتے، جابر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا ومروہ پر تین تین مرتبہ تکبیر اور ایک ایک مرتبہلا الہ الا اللہ پڑھا کرتے تھے۔ اور یہ تین مرتبہ کرتے گویا نو مرتبہ تکبیرا اور تین مرتبہ لا الہ الا اللہ ہر ایک پر پڑھتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام مآثار کو ہم اختیار کرتے ہیں کہ جب کو ئیث شخص صفا پر چڑھے تو تکبیر، تہلیل کہے اور دعا کرے پھر مناسب رفتار سے چلتا ہوانیچے اترے جب بطن وادی میں پہنچے تو اس میں دوڑے یہاں تک کہ بطن واد ٧ ی سے ٧ نکل جائے۔ پھر چلتا رہے مناسب رفتار سے چلتا ہوا مروہ تک پہنچے اور اس پر چڑھ جائے اور تکبیر تہلیل کہے اور دعا کرے۔ ان کے درمیان سات چکروں میں اسی طرح کرے کہ بطن وادی میں سات مرتبہ دوڑے ( آتے، جاتے مرتبہ اور دعا و تکبیر و تہلیل ہر ایک پر) ہر مرتبہ اور یہی امام ابوحنیفہ ٧ (رح) کا قول ہے اور ہمارے عام فقہاء بہی اسی طرف گئے ہیں۔

474

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " اشْتَكَيْتُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ، قَالَتْ: فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَانِبِ الْبَيْتِ، وَيَقْرَأُ: بِ الطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ لِلْمَرِيضِ وَذِي الْعِلَّةِ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ مَحْمُولا، وَلا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ام المؤمینل ام سلمہ (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ میثں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو لوگوں سے دور دور رہوکر سواری کی حالت میں طوال کرلو۔ ام سلمہ (رض) عنہا کہتی ہیں میں نے طوال کیا۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے ایک طرف لوگوں کو نماز پڑھارہی ت ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة الطور تلاوت فرما رہے تھے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب جامع الطواف میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اخیتار کرتے ہیں۔ بیمار و تکلیف والے کو سواری کی حالت میں طواف کرایا جاسکتا ہے۔ اور طواف کرنے والے پر اس صورت میں کوئی کفارہ بھی نہ ہوگا اور ہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

475

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " مَرَّ عَلَى امْرَأَةٍ مَجْذُومَةٍ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقَالَ: يَا أَمَةَ اللَّهِ، اقْعُدِي فِي بَيْتِكِ، وَلا تُؤْذِي النَّاسَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَتَتْ، فَقِيلَ لَهَا: هَلَكَ الَّذِي كَانَ يَنْهَاكِ عَنِ الْخُرُوجِ، قَالَتْ: وَاللَّهِ لا أُطِيعُهُ حَيًّا وَأَعْصِيهِ مَيِّتًا "
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) کا گزر ایک جذام کی مریضہ کے پاس سے ہوا جو کہ بیت اللہ کا طواف کر رہی تھی۔ تو آپ نے فرمایا اے اللہ کی بندی ! تو گھر میں بیٹھ اور لوکوں کو ایذا نہ دے۔ جب عمر (رض) وفات پاگئے تو وہ مکہ مکرمہ میں آئی۔ کسی نے اس سے کہا جس نے تجھے نلکنے سے منع کیا وہ فوت ہوگیا۔ ( اس لیے تو طواف کرنلے) وہ کہنے لگی اللہ کی قسم جس کی میں نے زندگی میں اطاعت کی ہے۔ موت کے بعد اس کی نافرمانی کیوں کروں۔ ( واہ سبحان اللہ۔ کیا عظیم جذبہ اطاعت ہے)

476

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ يَصْنَعُهَا! قَالَ: فَمَا هُنَّ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ؟ قَالَ: رَأَيْتُكَ لا تَمَسُّ مِنَ الأَرْكَانِ إِلا الْيَمَانِيَيْنِ، وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْهِلالَ وَلَمْ تُهْلِلْ أَنْتَ حَتَّى يَكُونَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ! قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: «أَمَّا الأَرْكَانُ، فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَلَمَ إِلا الْيَمَانِيَيْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعْرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، وَأَمَّا الصُّفْرَةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، وَأَمَّا الإِهْلالُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهَذَا كُلُّهُ حَسَنٌ، وَلا يَنْبَغِي أَنْ يَسْتَلِمَ مِنَ الأَرْكَانِ، إِلا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَّ وَالْحَجَرَ، وَهُمَا اللَّذَانِ اسْتَلَمَهُمَا ابْنُ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
عبید اللہ بن جریج عبداللہ بن عمر (رض) کو کہنے لگے۔ اے ابو عبد الرحمن میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھا جو آپ کے دسوتون میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ انھوں نے فرمایا۔ وہ چار باتیں کون سی ہیں۔ ابن جریج کہنے لگے (١) میں نے آپ کو دیکھا کہ ارکان بیت اللہ میں سے آپ صرف حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرتے ہیں۔ (٢) آپ چمڑے کی بغیر بالوں والی حوتیان پہنٹے ہو۔ (٣) زرد رنگ کا خضاب کرتے دیکھا۔ (٤) جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں تو عام لوکوں کی طرح یکم ذی الحجہ کو احرام نہیں باندھتے بلکہ آپ یوم الترویہ کو احرام باندھتے ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمر (رض) کہنے لگے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ رکن حجر اور رکن یمانی کے سوا اور کسی رکن کا استلام نہیں کرتے۔ رہا جوتے کا معاملہ تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کے جوتے پہنے دیکہا جس میں بال نہیں ہوتے تھے۔ اور آپ اسی میں وضو فرماتے تھے اس لیے میں بہی ویسا جوتا پہنا پسند کرتا ہوں۔
خضاب کے سلسلہ میں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زرد رنگ کا خضاب کرتے دیکھا اس لیے وہ و مجھے محوب ہے۔ کہ میں بھی زرد رنگ کا خضاب کرتا ہوں۔ اور رہا چوتھا سوال کہ تلبیہ اور احرام تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلبیہ کہتے نہیں یدکھا یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آتھوین تاریخ کو اونٹ پر سوار ہو کر منی کی طرف چلتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ تمام امور خوب ہیں۔ بیت اللہ کے ارکان میں صرف حجر اسود اور رکن یمانی کا ہی استلام جائز ہے۔ اور یہی دو ارکان ہیں جن کا استلام عبداللہ بن عمر (رض) نے کیا۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور عام فقہاء کا قول ہے۔

477

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ حِينَ بَنَوُا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ؟ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلا تَرُدَّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ؟ قَالَتْ: فَقَالَ: لَوْلا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحَجَرَ إِلا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يَتِمَّ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ
عائشہ صدیقہ (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ قریش جو تمہاری قوم ہے جب انھوں بیت اللہ کی تعمیر کی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر کیوں نہیں اٹھاتے۔ عائشہ (رض) عنہا کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر ان کے کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا ( یعنی یہ نئے نئے اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوتے) تو میں ایسا کر ڈالتا) عبداللہ بن عمر کہنے لگے اگر یہ بات عائشہ (رض) عنہا نے رسول اللہ سے سن رکھی ہے تو میں نے اس کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام ترک کیا ہو۔ البتہ بیت اللہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بناء ابراہیمی پر از سر نو تعمیر نہیں کیا۔ ( اسی روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی بناء الکعبۃ میں ذکر کیا ہے)

478

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ الْكَعْبَةَ هُوَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ، فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ، وَمَكَثَ فِيهَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَسَأَلْتُ بِلالا حِينَ خَرَجُوا مَاذَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ، وَعَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ، وَثَلاثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، ثُمَّ صَلَّى، وَكَانَ الْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الصَّلاةُ فِي الْكَعْبَةِ حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں اسمہ بن زید، بلال، عثمان بن طلحہ حجی کے ہمراہ داخل ہوئے۔ عثمان نے دروازے کو اندر سے بند کردیا آپ اس میں کچھ دیر ٹھہرے رہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال (رض) سے استفسار کیا جبکہ وہ باہر نکلے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر کیا عمل کیا ہے۔ انھوں نے بتلایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ستون کو اپنے بائیں جانب کیا اور دو ستونوں کو اپنے دائیں جانب کیا۔ جبکہ تین ستون آپ کی پشت کی جانب تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ادا فرمائی اس وقت بیت اللہ کے اندر چھ ستون تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔ بیت اللہ میں نماز پڑھنا خوب اور خوب ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

479

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ تَسْتَفْتِيهِ، قَالَ: فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بِيَدِهِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، فَقَالَتْ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكْتُ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ "، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ
عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ فضل بن عباس (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے اونٹنی پر سوار تھا۔ قبیلہ خشعم کی ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک مسئلہ دریافت کرنے آئی۔ فضل اس کی طرف دیکھنے لگا اور وہ اس کی طرف دیکھنے لگی (یہ فضل خو برو نوجوان تھا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل کا منہ دوسری جانب پھیر دیا۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کی طرف سے اس کے بندوں پر لازم ہے وہ میرے باپ کو پہنچا ہے وہ بہت بوڑھا آدمی ہے۔ سواری پر بھی جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہاں اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے ( امام مالک (رح) نے اس واقعہ کو باب الحج عمن یحج عنہ میں ذکر کیا ہے)

480

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ رَجُلٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَنَّ أُمِّي امْرَأَةٌ كَبِيرَةٌ لا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَحْمِلَهَا عَلَى بَعِيرٍ، وَإِنْ رَبَطْنَاهَا خِفْنَا أَنْ تَمُوتَ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ "
عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ میرؤ مان بہت بوڑھی ہے۔ وہ اونٹ پر سواری کی طاقت نہیں رکھتی۔ اگر اس کو ہم اونٹ پر باندھیں تو خطرہ ہے کہ وہ فوت ہوجائے گی۔ کا ب میں اس کی جگہ حج کرلوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہاں !

481

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَنَّ رَجُلا كَانَ جَعَلَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَبْلُغَ أَحَدٌ مِنْ وَلَدِهِ الْحَلْبَ، فَيَحْلِبَ فَيَشْرَبَ، وَيَسْتَقِيَهُ إِلا حَجَّ وَحَجَّ بِهِ، قَالَ: فَبَلَغَ رَجُلٌ مِنْ وَلَدِهِ الَّذِي قَالَ: وَقَدْ كَبِرَ الشَّيْخُ، فَجَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ: " إِنَّ أَبِي قَدْ كَبِرَ وَهُوَ لا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالْحَجِّ عَنِ الْمَيِّتِ وَعَنِ الْمَرْأَةِ وَالرَّجُلِ إِذَا بَلَغَا مِنَ الْكِبَرِ مَا لا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَحُجَّا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى، وَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لا أَرَى أَنْ يَحُجَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ
ابن سیرین (رح) کہتے ہیں کہ ایک شخص کی اولاد بچپن میں فوت ہوجاتی تھی۔ اس نے منت مانی کہ اگر میرا کوئی بچہ اس عمر تک زندہ رہا کہ وہ اپنے ہاتھ سے اونٹنی کا دودھ دوھ کر پی سکے تو میں اس کے ساتھ حج کروں گا چانچہ اس کا ایک بیٹا اس عمر کو پہنچا۔ تو یہ شخص بہت بوڑھا ہوچکا تھا۔ اس کا بیٹا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرا والد بہت بوڑھا ہوچکا ہے اور وہ حج کے قابل نہیں تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہاں کرلو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ میت یا انتہائی بوڑھے مرد و عورت کی طرف سے حج بدل کرلیا جائے جس میں حج کی سکت نہ رہی ہو ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا مسلک ہے البتہ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی کسی طرف سے حج نہیں کرسکتا۔

482

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يُصَلِّي الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ، وَالصُّبْحَ بِمِنًى، ثُمَّ يَغْدُو إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ إِلَى عَرَفَةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا السُّنَّةُ فَإِنْ عَجَّلَ، أَوْ تَأَخَّرَ، فَلا بَأْسَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں مني میں پڑھتے تھے۔ پھر جب سورج طلوع ہوتا تو عرفات کی طرف روانہ ہوجاتے ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الصلوۃ بمنی یوم الترویہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ سنت طریقہ یہی ہے اگر وہ اس سے جلدی چلا جائے یادیر سے جائے تو تب بھی ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

483

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يَغْتَسِلُ بِعَرَفَةَ يَوْمَ عَرَفَةَ حِينَ يُرِيدُ أَنْ يُرَوِّحَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا حَسَنٌ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) عرفہ کے دن عرفات میں جبل رحمت کی طرف جانے سے پہلے غسل کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ اچھا اور مناسب ہے مگر واجب نہیں۔

484

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَيْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ، فَقَالَ: «كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ حَتَّى إِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ» ، قَالَ هِشَامٌ: وَالنَّصُّ أَرْفَعُ مِنَ الْعَنَقِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا أَنَّهُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيضَاعِ الإِبِلِ، وَإِيجَافِ الْخَيْلِ، وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عروہ (رح) کہتے ہیں میں اسامہ بن زید (رض) کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ان سے کسی شخص نے سوال کیا ؟ کہ آخری سفر حج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفات سے واپسی پر کیسی رفتار اختیار فرمائی تھی ؟ اسامہ (رض) نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درمیان چال اختیار فرمائی۔ جب گنجائش ملتی تو سواری کو بہگا دیتے۔ ہشام کہتے ہیں کہ النص (اونٹ کی چال کا نام ہے) العنق ( یہ بہی اونٹ کی چال کا نام ہے) سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الیسر فی الدفعہ میں بیان فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں سکون و وقار کو اختیار کرنا چاہیے۔ اونٹوں و گھوڑوں کو تیز دوڑانے میں نیکی نہیں۔ ہم اسی طو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

485

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يُحَرِّكُ رَاحِلَتَهُ فِي بَطْنٍ مُحَسِّرٍ كَقَدْرِ رَمْيَةٍ بِحَجَرٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا كُلُّهُ وَاسِعٌ إِنْ شِئْتَ حَرَّكْتَ، وَإِنْ شِئْتَ سِرْتَ عَلَى هَيْنَتِكَ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي السَّيْرَيْنِ جَمِيعًا: عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، حِينَ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ، وَحِينَ أَفَاضَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) بطن محسر میں اپنی اونٹنی کو اتنی دور تک تیزدوڑاتے جتنی دور پتھر پھینکا جاسکے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب السیر فی الدفع میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ان باتوں میں گنجائش ہے خواہ اپنی اونٹنی کو تیر حرکت دو یای مناسب چال سے چلتا رہے۔ ہمیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اطلاع ملی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونہوں مواقع بر چلنے کے متعلق یہ ہدایت دی جبکہ آپ عرفات اور مزدلفہ سے لوٹے کہ تم کو وقار و سکون اختیار کرنا چاہیے۔

486

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ «يُصَلِّي الْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا»
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء جمع کرکے پڑھیں۔ (اس روایت کو امام مالک نے موطا کے باب صلوۃ المزدلفہ میں ذکر کیا ہے)

487

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «صَلَّى الْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا»
سالم (رح) روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا فرمائیں۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے نافع کے سند کے ساتھ باب صلوۃ المزدلفہ میں ذکر کیا ہے)

488

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ الْخَطْمِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: «صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يُصَلِّي الرَّجُلُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُزْدَلِفَةَ، وَإِنْ ذَهَبَ نِصْفُ اللَّيْلِ، فَإِذَا أَتَاهَا أَذَّنَ وَأَقَامَ، فَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ حجۃ الواداع میں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھیں۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب صلوۃ المزدلفہ میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم انھیں کو اختیار کرتے ہیں۔ مغرب کی نماز مزدلفہ پہنچنے سے پہلے ادا نہ کرے اگرچہ آدھی رات گزر جائے۔ جب مزدلفہ پہنچے تو ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب و عشاء کی نمازیں ادا کرے یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

489

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ بِعَرَفَةَ فَعَلَّمَهُمْ أَمْرَ الْحَجِّ، وَقَالَ لَهُمْ فِيمَا قَالَ: «ثُمَّ جِئْتُمْ مِنًى، فَمَنْ رَمَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الْعَقَبَةِ فَقَدْ حَلَّ لَهُ مَا حَرُمَ عَلَيْهِ إِلا النِّسَاءَ وَالطِّيبَ، لا يَمَسَّ أَحَدٌ نِسَاءً، وَلا طِيبًا حَتَّى يَطُوفَ بِالْبَيْتِ»
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں حضرت عمر (رض) نے میدان عرفات میں لوگوں کو خطبہ دیا۔ ان کو حج کے احکامات سکھائے اور منجملہ باتوں میں یہ بات بھی فرمائی پھر منی میں آؤگے۔ پس جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی رمی کرلی تو اس کے لیے تمام ممنوعہ باتیں درست ہوگئیں سوائے عورتوں اور خوشبو کے۔ وہ نہ عورتوں کے قریب جائے اور نہ خوشبولگائے جب تک کہ طواف زیارت سے فارغ نہ ہوجائے۔

490

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «مَنْ رَمَى الْجَمْرَةَ ثُمَّ حَلَقَ، أَوْ قَصَّرَ، وَنَحَرَ هَدْيًا إِنْ كَانَ مَعَهُ حَلَّ لَهُ مَا حَرُمَ عَلَيْهِ فِي الْحَجِّ إِلا النِّسَاءَ وَالطِّيبَ حَتَّى يَطُوفَ بِالْبَيْتِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا قَوْلُ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رَوَتْ عَائِشَةُ خِلافَ ذَلِكَ قَالَتْ: طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ هَاتَيْنِ بَعْدَ مَا حَلَقَ قَبْلَ أَنْ يَزُورَ الْبَيْتَ، فَأَخَذْنَا بِقَوْلِهَا، وَعَلَيْهِ أَبُو حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةُ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن عمر ر ضی اللہ عنہما کہتے ہیں حضرت عمر (رض) کہتے تھے جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کرکے حلق یا قصور اور قربانی کرلی جبکہ ہدی اس کو میسر ہو تو اب وہ چیزیں اس کے لیے حرام تھیں وہ اب حلال ہوگئیں۔ مگر عورتیں اور خوشبو طواف زیارت تک حرام رہتی ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ حضرت عمر اور ابن عمر (رض) کا قول ہے۔ عائشہ صدیقہ ر ضی اللہ عنہا سے اس کے برعکس روایت وارد ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلق کروالینے کی بعد اور طواف زیارت سے پہلی اپنے ان دونوں ہاتھوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشبو لگائی۔ اس لیے ہم نے عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کے قول کو اختیار کیا ہے اور امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔

491

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: «كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لإِحْرَامِهِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ فِي الطِّيبِ قَبْلَ زِيَارَةِ الْبَيْتِ وَنَدَعُ مَا رَوَى عُمَرُ، وَابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
قاسم (رح) روایت کرتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ (رض) عنہا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے احرام کی تیاری کے موقعہ پر اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے احرام سے فارغ ہوتے تو طواف زیارت سے پہلے خوشبو لگایا کرتی تھی۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ طواف زیارت سے قبل خوشبو لگانا درست ہے۔ اور عمر اور ابن عمر (رض) والی روایت پر اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا مسلک ہے۔

492

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ: مِنْ أَيْنَ كَانَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ يَرْمِي جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ: مِنْ حَيْثُ تَيَسَّرَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَفْضَلُ ذَلِكَ أَنْ يَرْمِيَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، وَمِنْ حَيْثُ مَا رَمَى فَهُوَ جَائِزٌ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ.
مالک (رح) کہتے ہیں میں نے عبد الرحمن بن القاسم سے پوچھا کہ قاسم کس جگہ سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے تھے۔ عبد الرحمن کہنے لگے جہاں سے میسر ہوتا رمی کرتے ( اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب الجمار میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : بطن وادی سے رمی کرے یہ سب سے افضل ہے مگر جہاں سے بھی وہ رمی کرے جائز ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور فقہاء کا یہی قول ہے۔

493

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا الْبَدَّاحِ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «أَنَّهُ رَخَّصَ لِرِعَاءِ الإِبِلِ فِي الْبَيْتُوتَةِ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ يَرْمُونَ مِنَ الْغَدِ، أَوْ مِنْ بَعْدِ الْغَدِ لِيَوْمَيْنِ، ثُمَّ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ جَمَعَ رَمْيَ يَوْمَيْنِ فِي يَوْمٍ مِنْ عِلَّةٍ أَوْ غَيْرِ عِلَّةٍ، فَلا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ إِلا أَنَّهُ يُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَدَعَ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ حَتَّى الْغَدِ، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إِذَا تَرَكَ ذَلِكَ حَتَّى الْغَدِ فَعَلَيْهِ دَمٌ
عاصم بن عدی رضی الہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ چرانے والوں کو منی سے باہر رات گزارنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی اور یہی بھی کہ وہ یوم نحر کو رمی کریں پھر آئندہ کل یا پرسوں کو دو دن کی رمی کریں اور پھر وہ منی سے کوچ کے دن رمی کریں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جس شخص نے دو دن کی رمی کو ایک دن میں جمع کیا۔ خواہ کسی سبب سے ہو یا بلا سبب تو اس کے ذمہ کوئی کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ لیکن بلا سبب آج کی رمی کو کل پر اٹھا رکھنا مکروہ ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ جب ایک دن کی رمی کو ترک کرکے دوسرے دن کیا جائے تو اس پر خون بہانا لازم ہوگیا۔

494

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: أَنَّ النَّاسَ كَانُوا إِذَا رَمَوُا الْجِمَارَ مَشَوْا ذَاهِبِينَ وَرَاجِعِينَ وَأَوَّلُ مَنْ رَكِبَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَشْيُ أَفْضَلُ وَمَنْ رَكِبَ، فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ.
قاسم (رح) کہتے ہیں کہ جب لوگ جمرات پر رمی کرتے تو پیدل آتے اور لوٹتے۔ سب سے پہلے سوار ہو کر رمی معاویہ بن ابی سفاجن (رض) عنہا نے کی ۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب رحمی الجمار میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : پیدل رمی افضل ہے۔ اور جو سوار ہو کر رمی کرے اس پر کچھ گناہ نہیں۔

495

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى الْجَمْرَةَ بِحَصَاةٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ جب ابن عمر (رض) جب بہی جمرہ کو رمی کرتے تو ہر کنکری پھینکتے وقت اللہ اکر کہتے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب رمی الجمار میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔

496

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ يَقِفُ وُقُوفًا طَوِيلا، يُكَبِّرُ اللَّهَ وَيُسَبِّحُهُ وَيَدْعُو اللَّهَ، وَلا يَقِفُ عِنْدَ الْعَقَبَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) جمرہ اولی اور وسطی کے پاس کافی دیر ٹھہرتے اور اللہ کی بڑائی اور تسبیح کرتے اور دعا مانگتے، مگر جمرہ عقبہ کے پاس نہ ٹھہرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

497

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «لا تُرْمَى الْجِمَارُ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ فِي الأَيَّامِ الثَّلاثَةِ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں زوال شمس سے پہلے رمی نہ کی جائے یہ ان تینون دن کی رمی کا حکم ہے البتہ یوم قربان کی رمی صبح سویرے ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔

498

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، قَالَ: زَعَمُوا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ «يَبْعَثُ رِجَالا يُدْخِلُونَ النَّاسَ مِنْ وَرَاءِ الْعَقَبَةِ إِلَى مِنًى»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے کہ عمر بن خطاب (رض) کچھ آدمیوں کو بھیجتے جو لوگوں کو گھاٹی کے اوپر سے منی میں داخل کریں۔ (تاکہ لوگ اس جگہ کے سوا اور کسی ج کہ رات نہ گزاریں)

499

قَالَ نَافِعٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ: «لا يَبِيتَنَّ أَحَدٌ مِنَ الْحَاجِّ لَيَالِي مِنًى وَرَاءَ الْعَقَبَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنَ الْحَاجِّ أَنْ يَبِيتَ إِلا بِمِنًى لَيَالِي الْحَجِّ فَإِنْ فَعَلَ فَهُوَ مَكْرُوهٌ، وَلا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ عمر (رض) تاکیدا فرماتے کہ کوئی منی کی راتوں گھاٹی کے پر لی طرف ( مکہ کی جانب منی سے باہر) ہرگز نہ گزارے ۔ ( اس اثر کو امام مالک (رح) باب البیتوتۃ بم کہ لیالی مني میں ذکر کیا ہے) ۔

500

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ لِلنَّاسِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَسْأَلُونَهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ " فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: ارْمِ، وَلا حَرَجَ "، وَقَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ " فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ: اذْبَحْ وَلا حَرَجَ "، فَمَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ يَوْمَئِذٍ قُدِّمَ وَلا أُخِّرَ إِلا قَالَ: «افْعَلْ وَلا حَرَجَ»
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے لیے منی میں وقوف فرمانے والے تھے۔ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف سوالات کر رہے تھے۔ اس دوران ایک شخص وارد ہوا۔ اور کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے بھول ہوگئی اور میں نے نحر سے پہلے حلق کروالیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تو ذبح کر اور کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور وہ کہنے لگایا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے بھول کر رمی سے پہلے نحر کرلیا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمی کر اور کوئی حرج نہیں۔ عبداللہ کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تقدیم و تاخیر کے متعلق جو سوال بھی کیا گیا۔ آپ نے فرمایا کرو اور کوئی حرج نہیں۔

501

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «مَنْ نَسِيَ مِنْ نُسُكِهِ شَيْئًا، أَوْ تَرَكَ فَلْيُهْرِقْ دَمًا» ، قَالَ أَيُّوبُ: لا أَدْرِي أَقَالَ تَرَكَ أَمْ نَسِيَ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِالْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَأْخُذُ أَنَّهُ قَالَ: لا حَرَجَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ: لا حَرَجَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَلَمْ يَرَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ كَفَّارَةً إِلا فِي خَصْلَةٍ وَاحِدَةٍ، الْمُتَمَتِّعُ وَالْقَارِنُ إِذَا حَلَقَ قَبْلَ أَنْ يَذْبَحَ قَالَ: عَلَيْهِ دَمٌ، وَأَمَّا نَحْنُ، فَلا نَرَى عَلَيْهِ شَيْئًا
ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جس نے کسی حج کے مناسک میں سے کسی کو بھلا دیا یا چھوڑ دیا وہ ایک دم دے۔ ایوب کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ انھوں نے ترک کا لفظ بولا یا نسی کا لفظ استعمال فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہیگ ہم اس حدیث مبارکہ سے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی گئی ہے استدلال کر رتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں سے کسی چیز میں کوئی گناہ نہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ان میں سے کسی چیز میں کوئی گناہ نہیں البتہ ایک صورت ایسی ہے کہ متمتع یا قارن جب ذبح ہدی سے پہلے حلق کروادے تو امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس پر دم لازم ہے۔ باقی ہمارے ہاں اس پر کسی صورت میں کوئی چیز لازم نہیں آتی۔

502

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ «قَضَى فِي الضَّبُعِ بِكَبْشٍ وَفِي الْغَزَالِ بِعَنْزٍ، وَفِي الأَرْنَبِ بِعَنَاقٍ وَفِي الْيَرْبُوعِ بِجَفْرَةٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ لأَنَّ هَذَا أَمْثِلَةٌ مِنَ النَّعَمِ
جابر بن عبداللہ (رض) عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے بجو کے متعلق دنبے کا فیصلہ فرمایا اور ایک ہرن کے شکار پر ایک بکرا اور خرگوش کے شکار کرنے پر بکری کا سال بھر کا بچہ اور جنگلی جو ہے کا مارنے پر بکری کا چارہ ماہ کا بچہ ( بطور کفارہ) ذبح کا حکم فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ان سب کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ یہ پالتو جانور ان جنگلی جانورں کے مشابہ ہیں۔

503

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمًا، فَآذَاهُ الْقُمَّلُ فِي رَأْسِهِ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْلِقَ رَأْسَهُ وَقَالَ: صُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ مُدَّيْنِ مُدَّيْنِ، أَوِ انْسُكْ شَاةً أَيَّ ذَلِكَ فَعَلْتَ أَجْزَأَ عَنْكَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احرام میں تھا۔ میرے سر میں جو ئین پڑگئیں۔ اور انھوں نے اذاء پہنچائی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ میں اپنا سرمنڈوادوں۔ اور تین دن کے روزے رکھ لون یا چھ مساکین کو کھانا کھلادوں ہر مسکین کو دو دو مد یا پھر ایک بکری قربان کردوں، ان میں سے جو بہی میسر ہو کافی ہے ( اس روایت امام مالک نے باب فدیہ من حلق قبل ان ینحر میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہیگ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

504

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ سَالِمٍ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ «يُقَدِّمُ صِبْيَانَهُ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ إِلَى مِنًى حَتَّى يُصَلُّوا الصُّبْحَ بِمِنًى» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِأَنْ تُقَدَّمَ الضَّعَفَةُ وَيُوغِرَ إِلَيْهِمْ أَنْ لا يَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) اپنے بچوں کو مزدلفہ سے منی کی طرف پہلے روانہ کرتے یہاں تک کہ وہ فجر کی نماز منی میں ادا کرتے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) باب تقدیم النساء والصبیان میں ذکر کیا ہے) اخرجہ البخاری والمسلم)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ کمزوروں اور ضعفاء کو پہلے روانہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ ان کو رمی جمرات کے لیے طلوع آفتاب کا انتظار کرنا لازم ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

505

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ " لا يَشُقُّ جِلالَ بُدْنِهِ، وَكَانَ لا يُجَلِّلُهَا حَتَّى يَغْدُوَ بِهَا مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ وَكَانَ يُجَلِّلُهَا بِالْحُلَلِ وَالْقُبَاطِيِّ وَالأَنْمَاطِ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِجِلالِهَا، فَيَكْسُوهَا الْكَعْبَةَ، قَالَ: فَلَمَّا كُسِيَتِ الْكَعْبَةُ هَذِهِ الْكِسْوَةَ أَقْصَرَ مِنَ الْجِلالِ "
نافع روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) اپنے ہدی یک جھولیں اس وقت تک نہ کاٹتے تھے اور نہ ان کو جھولین پہناتے تھے، یہاں تک کہ منی سے صبح کے وقت مقام عرفات میں نہ پہنچ جاتے، یہاں مصری کپڑوں کے چار جامے اور جھول پہناتے تھے۔ پھر یہ جھول اتار کر خانہ کعبہ پر بطور غلاف چرہادتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب سے کعبۃ اللہ کو غلاف پہنانے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت سے جھول چڑھانے کا یہ سلسلہ بند ہوگیا۔

506

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ، مَا كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَصْنَعُ بِجِلالِ بُدْنِهِ؟ حَتَّى أَقْصَرَ عَنْ تِلْكَ الْكِسْوَةِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي أَنْ يُتَصَدَّقَ بِجِلالِ الْبُدْنِ وَبِخُطُمِهَا، وَأَنْ لا يُعْطَى الْجَزَّارُ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، وَلا مِنْ لُحُومِهَا، بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَدْيٍ، فَأَمَرَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِجِلالِهِ وَبِخُطُمِهِ، وَأَنْ لا يُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْ خُطُمِهِ وَجِلالِهِ شَيْئًا
عبداللہ بن دینار سے سوال کیا گیا کہ جب خانہ کعبہ کا غلام بن گیا تو پھر عبداللہ بن عمر (رض) اپنے قربانی کے اونٹوں کے جھول کو کیا کرتے تھے ؟ عبداللہ بن دینار کہنے لگے۔ وہ جھول صدقہ کردیا کرتے تھے۔
قول محمد (رح) ہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ قربانی کے جانوروں کے جھول ، رسیاں اور نکیل وغیرہ تمام صدقہ کردی جائیں۔ اور ان اشیاء میں سے کوئی جیز بہی قصاب کو اس کی اجرت میں نہ دی جائے۔ ہمیں اس سلسلہ میں روایت پہنجی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ سولم نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) کو اپنی قربانی کے اونٹوں کے ساتھ روانہ فرمایا تو ان کو حکم فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کے جھول اور نکیل خیرات کردی جائیں۔ اور ان میں سے کوئی چیز قصاب کو مزدوری میں نہ دی جائے۔

507

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ أُحْصِرَ دُونَ الْبَيْتِ بِمَرَضٍ، فَإِنَّهُ لا يَحِلُّ حَتَّى يَطُوفَ بِالْبَيْتِ فَهُوَ يَتَدَاوَى مِمَّا اضْطُرَّ إِلَيْهِ وَيَفْتَدِيَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَعَلَ الْمُحْصَرَ بِالْوَجَعِ، كَالْمُحْصَرِ بِالْعَدُوِّ، فَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ اعْتَمَرَ فَنَهَشَتْهُ حَيَّةٌ فَلَمْ يَسْتَطِعِ الْمُضِيَّ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لِيَبْعَثْ بِهَدْيٍ، وَيُوَاعِدْ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أَمَارٍ، فَإِذَا نَحَرَ عَنْهُ الْهَدْيَ حَلَّ، وَكَانَتْ عَلَيْهِ عُمْرَةٌ مَكَانَ عُمْرَتِهِ، وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کو بیت اللہ تک جانے سے کوئی بماے ری روک دے۔ وہ اس وقت تک حلال نہ ہوگا یہاں تک کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے، اور وہ اپنے مرض کا علاج کرے اور فدیہ دے۔ ( اس روایت کو مختلف الفاظ کے ساتھ باب ما فیمن احصر بغیر عدو ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے گ کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت پہنچی ہے کہ انھوں نے مرض کی وجہ سے رک جانے والے کو دشمن کی وجہ سے روکے جانے والے کی طرح قرار دیا ہے۔ ان سے شخص کے متعلق دریافت کیا کیا جس نے عمرہ کا ارادہ کیا پھر اس کو سانپ نے ڈس لیا اور وہ جانے کے قابل نہ رہا۔ اس کے جواب میں عبداللہ نے فرمایا وہ قربانی کے اونٹ روانہ کردے اور اپنے ساتھیوں سے ان قربانی کا وقت طے کرلے۔ جب وہ قربانی کردیں تو یہ احرام کھول دے۔ اور اس عمرہ کی جگہ دوسرا عمرہ کرے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

508

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَفَّنَ ابْنَهُ وَاقِدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَقَدْ مَاتَ مُحْرِمًا بِالْجُحْفَةِ، وَخَمَّرَ رَأْسَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ: إِذَا مَاتَ فَقَدْ ذَهَبَ الإِحْرَامُ عَنْهُ
عبداللہ بن (رض) کے بیٹے واقد (رح) جحفہ کے مقام پر احرام کی حالت میں انتقال فرماگئے۔ تو عبداللہ (رض) نے واقد کو کفن دیا اور ان کا سرڈھانپ دیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اسی پر ہمارا عمل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ جب محرم فوت ہوجاتا ہے تو اس کا احرام ٹوٹ جاتا ہے۔

509

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «مَنْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ جس شخص نے مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے عرفات میں قیام کرلیا۔ اس نے حج کو پالیا۔ امام مالک (رح) نے اس روایت کو باب وقوف من فاتہ الحج میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی یکو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ اور عام فقہاء کا قول ہے۔

510

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «مَنْ غَرَبَتْ لَهُ الشَّمْسُ مِنْ أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَهُوَ بِمِنًى، لا يَنْفِرَنَّ حَتَّى يَرْمِيَ الْجِمَارَ مِنَ الْغَدِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے جس کو ایام تشریق کے درمیان ( بارہ تاریخ کو ) منٰی میں سورج غروب ہوجائے وہ دوسرے دن ( تیرھیوں) کی رمی کے بغیر کوچ نہ کرے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب رمی الجمار میں ذکر کا ئ ہے)
قول محمد (رح) یہ ہیگ کہ اسی کو ہم اختیار کرنے والے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

511

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " لَقِيَ رَجُلا مِنْ أَهْلِهِ يُقَالُ لَهُ: الْمُجَبِّرُ، وَقَدْ أَفَاضَ وَلَمْ يَحْلِقْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقَصِّرْ، جَهِلَ ذَلِكَ، فَأَمَرَهُ عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَرْجِعَ فَيَحْلِقَ رَأْسَهُ، أَوْ يُقَصِّرَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى الْبَيْتِ، فَيُفِيضَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کو ان کے قرابت داروں میں سے ایک آدمی ملا جس کا نام المجبر تھا ۔ اس نے سر منڈوانییا بل کترانے سے پہلے بے خبری کے سبب طواف افا اضہ کرلیا تھا۔ اس کو عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ واپس جاؤ اور حلق یا قصر کراؤ پھر بیت اللہ لوٹ کر طواف افاضہ کرلو۔
قول محمد (رح) یہ ہے گ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔

512

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ «فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْحَرَ بَدَنَةً» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ حَجَّهُ، فَمَنْ جَامَعَ بَعْدَ مَا يَقِفُ بِعَرَفَةَ لَمْ يَفْسَدْ حَجُّهُ، وَلَكِنْ عَلَيْهِ بَدَنَةٌ لِجمَاعِهِ، وَحَجُّهُ تَامٌّ، وَإِذَا جَامَعَ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ لا يَفْسَدُ حَجُّهُ» ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن عباس (رض) سے ایک شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو طواف افاضہ سے پہلے مجامعت کرلے۔ تو آپ نے فرمایا وہ ایک اونٹ قربانی کے طور پر ادا کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس نے عرفات میں قیام کرلیاد اس نے حج پالیا۔ جس نے عرفات میں قیام کے بعد مجامعت کی اس کا حج فاسد نہیں ہواد لیکن نجماع کے سبب اس پر ایک اونٹ کی قربانی واجب آتی ہے۔ اس کا حج مکمل ہے۔ اگر اس نے طواف زیارت سے پہلے مجامعت کرلی ہو تو تب بھی یہی حکم ہوگا۔ اس کا حج فاسد نہ ہوگا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

513

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: يَا أَهْلَ مَكَّةَ، مَا شَأْنُ النَّاسِ يَأْتُونَ شُعْثًا، وَأَنْتُمْ مُدَّهِنُونَ، «أَهِلُّوا إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلالَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: تَعْجِيلُ الإِهْلالِ أَفْضَلُ مِنْ تَأْخِيرِهِ إِذَا مَلَكْتَ نَفْسَكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا۔ اے اہل مکہ ! تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ لوگ (اطراف سے) پراگندہ بال آتے ہیں اور تم (احرام کے بغیر) بالوں میں تیل لگاتے ہو۔ ( اور احرام باندھنے میں سستی کرتے ہو) جب تم چاند دیکھو تو تم احرام باندھ لو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ احرام میں جلدی کرنا تاخیر سے افضل ہے۔ بشرطیکہ کہ تمہیں اپنے اوپر (احرام کی پابندیاں اٹھا لینے پر) پورا وثوق و اعتماد ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

514

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا قَفَلَ مِنْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، أَوْ غَزْوَةٍ يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الأَرْضِ ثَلاثَ تَكْبِيرَاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ: لا إِلَه إِلا اللَّهُ، وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ، عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ "
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حج وعمرہ یا کسی غزوہ سے واپس تشریف لاتے تو زمین کے ہر بلند حصے پر تین مرتبہ تکبیر کہتے پھر یہ دعا فرماتے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و لہ الحمد یحی و یمیت و ہو علی کل شیء قدیر آئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق اللہ وعدہ و نصر عبدہ و ہزم اـحزاب وحدہ، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی باشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم واپس لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ہیں۔ عبادت گزار ہیں۔ اپنے رب کے لیے سجدہ کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعہد سچ کر دکھایا۔ اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلئے نے سب لشکروں کو شکست دے دی۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب جامع الحج میں ذکر کیا ہے)

515

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّذِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَيُصَلِّي بِهَا وَيُهَلِّلُ» ، قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حج یای عمرہ سے واپس لوٹتے تو اپنے اونٹ کو مقام بطحاء میں بٹھاتے یہ ذو الحلیفہ میں واقع ہے۔ پھر وہاں نماز (نفل) ادا فرماتے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے لا الہ الا اللہ کہتے، عبداللہ بن عمر (رض) کی متعلق نافع بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب صلوٰۃ المعرس و المحصب میں ذکر کیا ہے)

516

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: «لا يَصْدُرَنَّ أَحَدٌ مِنَ الْحَاجِّ حَتَّى يَطُوفَ بِالْبَيْتِ فَإِنَّ آخِرَ النُّسُكِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، طَوَافُ الصَّدَرِ وَاجِبٌ عَلَى الْحَاجِّ، وَمَنْ تَرَكَهُ فَعَلَيْهِ دَمٌ إِلا الْحَائِضَ وَالنُّفَسَاءَ فَإِنَّهَا تَنْفِرُ، وَلا تَطُوفُ إِنْ شَاءَتْ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ کوئی حج کرنے والا بیت اللہ طواف و داع کرنے سے پہلے نہ جائے کیونکہ حج کا آخری رکن طواف ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ حاجی پر طواف صدر واجب ہے۔ جو شخص اس کو ترک کرے : اس پر قربانی واجب ہے۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت کے لیے اس میں رخصت دی گئی ہے۔ کہ وہ گھر واپس لوٹ سکتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء کا بھی یہی قول ہے۔

517

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ إِذَا حَلَّتْ لا تَمْتَشِطُ حَتَّى تَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهَا، شَعْرِ رَأْسِهَا، وَإِنْ كَانَ لَهَا هَدْيٌ لَمْ تَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهَا شَيْئًا حَتَّى تَنْحَرَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ احرام والی عو ورت جب حلال ہوجائے تو قصر کرنے سے پہلے اپنے سر کے بالوں میں کنگھی نہ کرے اور اگر اس کے پاس قربانی کا جانور ہو تو اسے ذبح کرنے سے پہلے قصر نہ کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

518

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ «يُصَلِّي الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ بِالْمُحَصَّبِ، ثُمَّ يَدْخُلُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَطُوفُ بِالْبَيْتِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا حَسَنٌ، وَمَنْ تَرَكَ النُّزُولَ بِالْمُحَصَّبِ، فَلا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں مقام محصب میں ادا کرتے۔ پھر رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب صلوۃ العرس والمحصب میں ذکر فرمایا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اچھا اور بہتر ہے کہ محصب میں اترے اگر کوئی شخص نہ اترے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے۔

519

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ «إِذَا أَحْرَمَ مِنْ مَكَّةَ لَمْ يَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَلا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّى يَرْجِعَ مِنْ مِنًى، وَلا يَسْعَى إِلا إِذَا طَافَ حَوْلَ الْبَيْتِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنْ فَعَلَ هَذَا أَجْزَأَهُ، وَإِنْ طَافَ وَرَمَلَ وَسَعَى قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ أَجْزَأَهُ ذَلِكَ، كُلُّ ذَلِكَ حَسَنٌ إِلا أَنَّا نُحِبُّ لَهُ أَنْ لا يَتْرُكَ الرَّمَلَ بِالْبَيْتِ فِي الأَشْوَاطِ الثَّلاثَةِ الأُوَلِ إِنْ عَجَّلَ، أَوْ أَخَّرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب مکہ مکرمہ سے احرام باندھتے تو بیت اللہ کا طواف نہ کرتے اور نہ ہی صفاء ومروہ کے درمیان سعی کرتے۔ یہاں تک کہ منٰی سے واپس لوٹ آتے اور سعی نہ کرتے مگر جب کہ بیت اللہ کا طواف کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اگر کوئی اس طرح کرے تو مناسب ہے۔ اور اگر منٰی جانے سے پہلے رمل کے ساتھ طوال کرے اور سعی کرے تو یہ بہی جائز ہے۔ یہ سب کچھ خوب ہے مگر ہمارے ہاں زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے طواف کے چکروں کے دوران پہلے تین چکروں میں رمل ترک نہ کرے۔ خواہ طواف پہلے کرچکا یا بعد میں د یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
رمل : طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر پہلوانوں کی طرح چلنا۔ یہ ہر اس طواف میں سنت ہے جس کے بعد سعی ہو۔

520

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ فَوْقَ رَأْسِهِ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ مُحْرِمٌ بِمَكَانٍ مِنْ طَرِيقِ مَكَّةَ يُقَالُ لَهُ: لَحْيُ جَمَلٍ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِأَنْ يَحْتَجِمَ الرَّجُلُ وَهُوَ مُحْرِمٌ، اضْطُرَّ إِلَيْهِ، أَوْ لَمْ يُضْطَرَّ إِلا أَنَّهُ لا يَحْلِقُ شَعْرًا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر پر سینگی کھنچوائی حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کی راہ میں مقام لحی جمل میں احرام کی حالت میں قیام پذیر تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں احرام کی حالت میں سینگی لگوانے میں ہم کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جب کہ کوئی محبوری درپیش ہو یا مجبوری نہ ہو۔ مگر سینگی لگوانے کے لیے بالوں کو مونڈھنا درست نہیں د یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔

521

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «لا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلا أَنْ يُضْطَرَّ إِلَيْهِ»
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ محرم کی حالت اضطرار میں ہو تو سینگی لگواسکتا ہے۔ ( ان دونوں روایات کو امام مالک نے باب حجامۃ المحرم میں ذکر کیا ہے)

522

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ: ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، قَالَ: اقْتُلُوهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ حِينَ فَتَحَهَا غَيْرَ مُحْرِمٍ وَلِذَلِكَ دَخَلَ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّهُ حِينَ أَحْرَمَ مِنْ حُنَيْنٍ، قَالَ: هَذِهِ الْعُمْرَةُ لِدُخُولِنَا مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ يَعْنِي يَوْمَ الْفَتْحِ، فَكَذَلِكَ الأَمْرُ عِنْدَنَا: مَنْ دَخَلَ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ، فَلا بُدَّ لَهُ مِنْ أَنْ يَخْرُجَ فَيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، أَوْ بِحَجَّةٍ لِدُخُولِهِ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر خود تھا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اتا را تو ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر دریافت کیا کہ ابن خطل بیت اللہ کے پردوں کے ساتھ لٹکنے والا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو قتل کردو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ اسی لیے داخلہ کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر خود تھا۔ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین سے احرام باندھا تو فرمایا یہ مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخلے کا عمرہ ہے۔ یعنی فتح مکہ کے دن ہم بلا احرام مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔ پس ہمارے ہاں اسی طرح حکم کہ جو شخص مکہ مکرمہ میں بغیر احرام داخل ہوا اسے ضروری ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے نلک کر حج یا عمرہ کا احرام باندھے، ( تاکہ تعظیم بیت اللہ کا تقاضا پورا ہوسکے) یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا مسلک ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔