HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

1. ا ب ج

موطأ الامام محمد

1

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ , أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلاةِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «أَنَا أُخْبِرُكَ، صَلِّ الظُّهْرَ إِذَا كَانَ ظِلُّكَ مِثْلَكَ، وَالْعَصْرَ إِذَا كَانَ ظِلُّكَ مِثلَيْكَ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ثُلُثِ اللَّيْلِ، فَإِنْ نِمْتَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ فَلا نَامَتْ عَيْنَاكَ، وَصَلِّ الصُّبْحَ بِغَلَسٍ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ، وَكَانَ يَرَى الإِسْفَارَ فِي الْفَجْرِ، وَأَمَّا فِي قَوْلِنَا، فَإِنَّا نَقُولُ: إِذَا زَادَ الظِّلُّ عَلَى الْمِثْلِ فَصَارَ مِثْلَ الشَّيْءِ وَزِيَادَةً مِنْ حِينِ زَالَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ. وَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَإِنَّهُ قَالَ: لا يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ حَتَّى يَصِيرَ الظِّلُّ مِثلَيْهِ
امام محمد (رح) نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن رافع (جو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) عنہا کے غلام ہیں) سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے نماز کے وقت کے سلسلہ میں سوال کیا تو ابوہریرہ (رض) نے فرمایا میں تمہیں نماز کا وقت بتلاتا ہوں۔ جب تیرا سایہ تیرے برابر ہوجائے تو ظہر کی نماز پڑھ لو۔ جب تمہارا سایہ تم سے دو مثل ہوجائے تو عصر کی نماز ادا کرلو۔ اور جب سورج غروب ہوجائے تو مغرب کی نماز ادا کرلو۔ اور عشاء کی نماز تہائی رات آنے پر ادا کرو اور اگر تو آدھی رات تک سو گیا اللہ کرے تیری آنکھ نہ سوئے (عشاء کی نماز سے پہلے سوجانے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیا ہے) اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھو۔
امام محمد کا ارشاد : وقت عصر کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ کا مسلک اوپر کی روایت کے مطابق مثلین میں ہے۔ البتہ نماز فجر وہ اسفار (صبح کے سپیدے) میں پڑھنے کے قائل ہیں۔ مگر ہمارے ہاں (محمد و ابویوسف) جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل سے بڑھ جائے اور وہ اضافہ فی الزوال کے علاوہ ہو۔ تو عصر کا وقت شروع ہوگیا۔ مگر ابوحنیفہ (رح) دو مثل سے پہلے وقت عصر کے داخل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔

2

2 - أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُصَلِّي الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»
امام محمد نے اپنی سند سے عروہ سے نقل کیا ہے۔ عروہ کہتے ہیں مجھے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ادا فرمالیتے جب کہ دھوپ ابھی میرے حجرہ میں ہوتی تھی، ابھی دیواروں پر نہ چڑھی ہوتی تھی۔

3

3 - أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى قُبَاءَ، فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ»
امام محمد نے اپنی سند کے ساتھ انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ ہم عصر کی نماز ادا کرتے، پھر کوئی جانے والا مضافاتی بستی قباء میں سورج کے بلند ہوتے ہوئے پہنچ جاتا۔

4

4 - أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَخْرُجُ الإِنْسَانُ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَيَجِدُهُمْ يُصَلُّونَ الْعَصْرَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: تَأْخِيرُ الْعَصْرِ أَفْضَلُ عِنْدَنَا مِنْ تَعْجِيلِهَا إِذَا صَلَّيْتَهَا وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ لَمْ تَدْخُلْهَا صُفْرَةٌ، وَبِذَلِكَ جَاءَتْ عَامَّةُ الآثَارِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ الْفُقَهَاءِ: إِنَّمَا سُمِّيَتِ الْعَصْرَ، لأَنَّهَا تُعْصَرُ وَتُؤَخَّرُ
امام محمد نے اپنی سند کے ساتھ انس بن مالک (رض) کا فرمان نقل کیا ہے کہ ہم عصر کی نماز ادا کرتے پھر بنی عمرو بن عوف کی طرف جانے والا جاتا تو وہ ان کو ہاں نماز عصر ادا کرتے ہوئے پاتا۔
قول محمد (رح) : ہمارے نزدیک نماز عصر کو مؤخر کرنا اس کے جلد ادا کرنے سے افضل ہے۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ نماز عصر ایسے وقت کے اندر ادا کرلی جائے جب دھوپ صاف ستھری ہو اس میں زردی کا اثر نہ پایا جائے اور عام آثار صحابہ وتابعین اس کی تائید کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ کا یہی مسلک ہے۔ بعض فقہاء نے اس کی تاخیر کا قول لفظ ” عصر “ سے اخذ کیا ہے۔ کیونکہ اس کا معنی نچوڑنا اور مؤخر کرنا ہے۔ اور اس کو مؤخر کرکے پڑھا جاتا ہے۔

5

5 - أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَسَنٍ الْمَازِنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ يَحْيَى، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ أَبَا حَسَنٍ، يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُرِيَنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ: نَعَمْ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ مَضْمَضَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ مِنْ مُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي مِنْهُ بَدَأَ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا حَسَنٌ، وَالْوُضُوءُ ثَلاثًا ثَلاثًا أَفْضَلُ، وَالاثْنَانِ يُجْزِيَانِ، وَالْوَاحِدَةُ إِذَا أَسْبَغَتْ تُجْزِئُ أَيْضًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
عمرو بن یحی نے اپنے والد یحی بن عمارہ سے روایت کی کہ اس نے عبداللہ بن زید بن عاصم سے کہا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے تھے کہ کیا آپ مجھے دکھاسکتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح وضو فرماتے تھے ؟ عبداللہ بن زید نے کہا۔ ہاں۔ پھر انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے، پھر کلی کی اور پھر اپنا منہ تین بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو مرتبہ کہنیوں سمیت دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح اس طرح کیا کہ دونوں ہاتھوں کو سر کی اگلی جانب سے گدی کی طرف لے گئے پھر ان کو اسی جگہ واپس لائے جہاں مسح کی ابتداء میں رکھا تھا، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
امام محمد (رح) فرماتے ہیں کہ یہ خوب ہے یاور تین تین بار دھونا افضل ہے۔ اور دو بار کفایت کرنے والا ہے اور ایک بار بھی کفایت ہے بشرطیکہ اعضاء پر پانی کو خوب بہا لیا جائے اور یہی ابوحنیفہ کا قول ہے۔

6

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ، ثُمَّ لِيَسْتَنْثِرْ»
عبد الرحمن الاعرج نے ابوہریرہ سے روایت نقل کی کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو وہ اپنے ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے۔

7

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي لِلْمُتَوَضِّئِ أَنْ يَتَمَضْمَضَ ويَسْتَنْثِرَ، وَيَنْبَغِي لَهُ أَيْضًا أَنْ يَسْتَجْمِرَ. وَالاسْتِجَمَارُ: الاسْتِنْجَاءُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
ابو ادریس خولانی نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو وضو کریپ وہ ناک میں پانی لے کر ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے استنجاء کے لیے استعمال کرے وہ طاق عدد لے۔
امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اسی طرح استدلال کرتے ہیں کہ وضو کرنے والے کو اول پانی لے کر کلی اور پھر ناک صاف کرنی چاہیے اور ڈھیلوں سے استنجاء کرنا مناسب ہے اور استجمار۔ استنجاء کو کہتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔

8

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَى الصَّلاةِ، فَهُوَ فِي صَلاةٍ مَا كَانَ يَعْمِدُ، وَأَنَّهُ تُكْتَبُ لَهُ بِإِحْدَى خُطْوَتَيْهِ حَسَنَةٌ، وَتُمْحَى عَنْهُ بِالأُخْرَى سَيِّئَةٌ، فَإِنْ سَمِعَ أَحَدُكُمُ الإِقَامَةَ فَلا يَسْعَ، فَإِنَّ أَعْظَمَكُمْ أَجْرًا أَبْعَدُكُمْ دَارًا، قَالُوا: لِمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: مِنْ أَجْلِ كَثْرَةِ الْخُطَا "
نعیم بن عبداللہ الجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ جس شخص نے خوب انداز سے وضو کیا پھر نماز کا قصد کرکے گھر سے نکلا تو وہ وقت قصد سے نماز کا ثواب پانے لگا۔ اس کے ہر قدم پر ایک نیکی لیھہ جاتی ہے اور دوسرا قدم اٹھانے پر ایک برائی مٹائی جاتی ہے۔ اگر چلنے کے دوران تم میں سے کوئی اقامت سن پائے تو وہ بالکل نہ دوڑے۔ تم سے دور گھر والا زیادہ ثواب حا حقدار ہے۔ شاکردوں نے سوال کیا حضرت ! یہ کیوں ؟ تو ابوہریرہ (رض) فرمانے لگے کیونکہ وہ مسجد کی طرف زیادہ قدم اٹھاکر آیا ہے۔

9

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا حَسَنٌ، وَهَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُفْعَلَ وَلَيْسَ مِنَ الأَمْرِ الْوَاجِبِ الَّذِي إِنْ تَرَكَهُ تَارِكٌ أَثِمَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
اعرج (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو پانی والے برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ دھولے۔ اس لیے کہ اس کو یہ معلوم نہیں کہ رات سوتے میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ یہ طریقہ مستحسن ہے، لازم نہیں کہ اس کو چھوڑنے والا گناہ گار ہو اور امام ابوحنیفہ رحمہ کا بھی یہی قول ہے۔

10

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَحْلاءَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَتَوَضَّأُ وُضُوءً لِمَا تَحْتَ إِزَارِهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخَذُ , وَالاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ غَيْرِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
عبد الرحمن بن عثمان تیمی (رح) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں سنا کہ وہ اپنے ستر کی صفائی کے لیے پانی استعمال فرماتے تھے۔
قول محمد (رح) : ہم اسی سے دلیل لیتے ہیں۔ پانی سے استنجاء ہمارے ہاں دیگر تمام اشیاء کے ساتھ استنجاء کرنے سے افضل ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

11

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: " كُنْتُ أُمْسِكُ الْمُصْحَفَ عَلَى سَعْدٍ فَاحْتَكَكْتُ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ مَسَسْتَ ذَكَرَكَ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: قُمْ فَتَوَضَّأْ. قَالَ: فَقُمْتُ فَتَوَضَّأْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ "
مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سعد (رض) کا مصحف اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے اسی دوران اپنے ہاتھ سے ستر کو کھجلایا تو سعد نے مجھے کہا شاید تم نے اپنی شرمگاہ کو چھولیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ تو سعد نے کہا اٹھو اور وضو کرو چنانچہ میں نے اٹھ کر وضو کیا پھر واپس لوٹ آیا۔

12

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ يَغْتَسِلُ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، فَقَالَ لَهُ: " أَمَا يُجْزِيكَ الْغُسْلُ مِنَ الْوُضُوءِ؟ قَالَ: بَلَى وَلَكِنِّي أَحْيَانًا أَمَسُّ ذَكَرِي فَأَتَوَضَّأُ " , قَالَ مُحَمَّدٌ: لا وُضُوءَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَفِي ذَلِكَ آثَارٌ كَثِيرَةٌ
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) کو غسل کے بعد وضو کرتے دیکھا تو میں نے کہا ۔ ابا جی ! کیا غسل وضو کے لیے کفایت نہیں کرتا ؟ تو فرمایا کیوں نہیں ! لیکن میں کبھی غسل کے بعد اپنے ستر کو ہاتھ لگالیتا ہوں اس لیے میں وضو کرتا ہوں۔
امام محمد کا قول یہ ہے۔ ستر کو ہاتھ لگ جانے یای لگانے سے شرعی وضو لازم نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بہی یہی مسلک ہے۔ مندرجہ ذیل سولہ آثار اس کی تائید کرتے ہیں۔

13

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ التَّيْمِيُّ قَاضِي الْيَمَامَةِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ: " أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مَسَّ ذَكَرَهُ، أَيَتَوَضَّأُ؟ قَالَ: هَلْ هُوَ إِلا بِضْعَةٌ مِنْ جَسَدِكَ "
قیس بن طلق نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے ستر کو ہاتھ لگانے پر وضو کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ بھی تو تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔

14

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو الْمَكِّيُّ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وَأَنْتَ فِي الصَّلاةِ، قَالَ: «مَا أُبَالِي مَسَسْتُهُ أَوْ مَسَسْتُ أَنْفِي»
عطاء بن ابی رباح (رح) نے عبداللہ بن عباس (رض) عنہماء سے شرمگاہ کے نماز کے اندر چھولینے کے بارے میں (ایک سوال کے جواب میں) نقل کیا کہ میں اپنے ستر کو چھونے یا ناک کو چھونے میں فرق نہیں سمجھتا

15

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، أَخْبَرَنَا صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَيْسَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وُضُوءٌ»
توامہ کے غلام صالح نے عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد نقل کیا کہ شرمگاہ کو چھولینے سے وضو لازم نہیں ہے۔

16

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي ذُبَابٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: «لَيْسَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وُضُوءٌ» .
حارث بن ابی ذباب کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب (رح) کو فرماتے سنا ہے کہ شرمگاہ کو چھولینے سے وضو نہیں۔

17

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَوَّامِ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: " يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، رَجُلٌ مَسَّ فَرْجَهُ بَعْدَ مَا تَوَضَّأَ؟ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ: إِنْ كُنْتَ تَسْتَنْجِسُهُ فَاقْطَعْهُ، قَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: هَذَا وَاللَّهِ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ
ابو عوام بصری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے دریافت کیا۔ اے ابو محمد ! جس شخص نے وضو کے بعد اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگالیا (اس کا کیا حکم ہے) ان لوگوں میں سے ایک نے کہا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے تھے کہ اگر تم اس کو ایسا ناپاک سمجھتے ہو تو اسے کاٹ ڈالو۔ اس بر عطاء کہنے لگے اللہ کی قسم ! عبداللہ کا یہی ارشاد ہے۔

18

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي مَسِّ الذَّكَرِ , قَالَ: «مَا أُبَالِي مَسَسْتُهُ، أَوْ طَرْفَ أَنْفِي»
ابراہیم نخعی (رح) نے علی بن ابی طالب (رض) کا ارشاد نقل کیا کہ میں ستر کو چھونے اور ناک کو چھولینے میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔

19

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، " أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ سُئِلَ عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ؟ فَقَالَ: إِنْ كَانَ نَجِسًا فَاقْطَعْهُ
اسی طرح ابراہیم نے عبداللہ بن مسعود (رض) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ان سے کسی نے شرمگاہ کو چھونے سے وضو لازم ہونے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے جواب میں فرمایا اگر یہ نجس ہے تو اس کو کاٹ پھینکو۔

20

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا مُحِلٌّ الضَّبِّيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، فِي مَسِّ الذَّكَرِ فِي الصَّلاةِ قَالَ» إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ ".
ابراہیم نخعی سے محل الضبی نے شرمگاہ کو چھولینے پر وضو کرنے کے متعلق دریافت کیا تو ابراہیم کہنے لگے وہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔

21

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيلَ، قَالَ: " قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: إِنِّي أَحُكُّ جَسَدِي وَأَنَا فِي الصَّلاةِ فَأَمَسُّ ذَكَرِي، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ "
ارقم شرحبیل نے نقل کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سوال کیا کہ میں دوران نماز اپنے جسم کو خارش کرتے ہوئے شرمگاہ کو چھولوں تو کیا حکم ہے۔ انھوں نے فرمایا وہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔

22

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا سَلامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنِ السَّدُوسِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: " سَأَلْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، عَنِ الرَّجُلِ مَسَّ ذكَرَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ كَمَسِّهِ رَأْسَهُ "
براء بن قیس نے بیان کیا کہ میں نے حذیفہ بن یمان (رض) سے اس آدمی کا حکم دریافت کیا جسنی اپنی شرمگاہ کوۃ ہاتھ لگالیا ہو۔ تو انھوں نے فرمایا اس کا حکم وہی ہے جو سر کو چھونے کا حکم ہے۔

23

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعْدٍ النَّخَعِيِّ، قَالَ: " كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَذَكَرَ مَسَّ الذَّكَرِ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ وَإِنَّ لِكَفِّكَ لَمَوْضِعًا غَيْرَهُ "
عمیر بن سعدنخعی ذکر کرتے ہیں کہ میں خود عمار بن یاسر (رض) کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ وہاں شرم گاہ کو چھولینے کا تذکرہ ہوا تو حضرت عمار (رض) نے فرمایا وہ تمہارے جسم کا حصہ ہے اوۃ ر بلاشبہ تمہاری ہتھیلی کے لیے جسم میں اس کے علاوہ اور جگہ بھی (کہ بلا ضرورت ہر وقت ادھر ہی ہاتھ مت مارتے رہو)

24

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنِ الْبَرَّاءِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: " قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ فِي مَسِّ الذَّكَرِ: مِثْلُ أَنْفِكَ "
براء بن قیس (رح) نے حذیفہ بن یمان (رض) سے شرمگاہ کو چھونے کا حکم نقل فرمایا کہ وہ تمہاری ناک کی طرح ہے۔

25

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، حَدَّثَنَا قَابُوسُ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «مَا أُبَالِي إِيَّاهُ مَسَسْتُ، أَوْ أَنْفِي، أَوْ أُذُنِي»
ابو ظبیان (رح) نے علی بن ابی طالب (رض) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں اپنی ناک یا کان یا شرمگاہ کو چھولینے کے حکم میں فرق نہیں پاتا۔

26

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " إِنِّي مَسَسْتُ ذَكَرِي وَأَنَا فِي الصَّلاةِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَلا قَطَعْتَهُ؟ ثُمَّ قَالَ: وَهَلْ ذَكَرُكَ إِلا كَسَائِرِ جَسَدِكَ؟ ! "
علقمہ نے قیس کی وساطت سے نقل کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا اور دریافت کیا کہ اگر میں درو ران نماز اپنے ستر کو چھولوں تو میری نماز کا کیا حکم ہے ؟ عبداللہ (رض) نے فرمایا تم اس کو کاٹ کیوں نہیں دیتے ؟
پھر فرمایا وہ تیرے اعضاء جسم کی طرح ایک عضو و ہے۔

27

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: " أَيَحِلُّ لِي أَنْ أَمَسَّ ذَكَرِي وَأَنَا فِي الصَّلاةِ؟ فَقَالَ: إِنْ عَلِمْتَ أَنَّ مِنْكَ بِضْعَةً نَجِسَةً فَاقْطَعْهَا "
قیس بن اب حازم (رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سعد بن ابی وقاص (رض) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ دوران نماز میں اپنی شرمگاہ کو چھوسکتا ہوں ؟ اس کے جواب میں حضرت سعد رضی لالہ عنہ نے فرمایا اگر تم اس کو جسم کا پلید حصہ سمجھتے ہو تو اس کو کاٹ ڈالو۔

28

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ حَبِيبٍ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، " أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ "
حبیب بن عبید (رح) حضرت ابو درداء (رض) کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ان سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگانے کا حکم دریافت کیا تو فرمایا بلاشبہ وہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔

29

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: «رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ أَكَلَ لَحْمًا، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ»
جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے تھے کہ میں نے ابوبکر صدیق (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے گوشت نوش فرمایا اور پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔

30

30 - أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ جَنْبَ شَاةٍ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ "
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بکری کے شانے کا گوشت کھایا پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔

31

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ تَعَشَّى مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ "
عبداللہ بن ہدیر نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ شام کا کھانا کھایا پھر انھوں نے نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔

32

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ضَمْرَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَازِنِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، «أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَكَلَ لَحْمًا، وَخُبْزًا فَتَمَضْمَضَ، وَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ مَسَحَهُمَا بِوَجْهِهِ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ»
ابان بن عثمان (رح) نے خبر دی کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے روٹی اور گوشت کھایا۔ پھر کلی کی اور دونوں ہاتھ دھوکر منہ پر پھیر لیے۔ نیا وضو کرنے کے بغیر سابقہ وضو سے نماز پڑھی۔

33

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ الْعَدَوِيَّ، عَنِ الرَّجُلِ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يُصِيبُ الطَّعَامَ قَدْ مَسَّتْهُ النَّارُ أَيَتَوَضَّأُ مِنْهُ؟ قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ أَبِي يَفْعَلُ ذَلِكَ، ثُمَّ لا يَتَوَضَّأُ "
یحی بن سعید (رح) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ (رض) سے اس آدمی کا حکم دریافت کیا جو وضو کرکے آگ کی پکی ہوئی چیز استعمال کرے تو کیا اسے دوبارہ وضو کرنا چاہیے ؟ انھوں نے فرمایا میں نے اپنے کو ایسا کرتے پایا کہ وہ کھانا کھانے کے بعد وضو نہ کرتے تھے۔

34

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى بَنِي حَارِثَةَ، أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ نُعْمَانَ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالصَّهْبَاءِ وَهِيَ أَدْنَى خَيْبَرَ، صَلَّوُا الْعَصْرَ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالأَزْوَادِ، فَلَمْ يُؤْتَ إِلا بِالسَّوِيقِ، فَأَمَرَ بِهِ فَثُرِّيَ لَهُمْ بِالْمَاءِ، «فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلْنَا، ثُمَّ قَامَ إِلَى الْمَغْرِبِ، فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا وُضُوءَ مِمَّا مَسَّتْهُ النَّارُ وَلا مِمَّا دَخَلَ، إِنَّمَا الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ مِنَ الْحَدَثِ، فَأَمَّا مَا دَخَلَ مِنَ الطَّعَامِ مِمَّا مَسَّتْهُ النَّارُ، أَوْ لَمْ تَمَسَسْهُ فَلا وُضُوءَ فِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
سوید بن نعمان (رض) نے بتلایا کہ غزوہ خیبر والے سال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمراہی میں نکلا۔ جب آپ خیبر کے قریب مقام صہباء میں پہنچے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری سے اتر کر نماز عصر ادا فرمائی پھر آپ نے کھانے کا سامان طلب کیا۔ آپ کی خدمت میں ستو پیش کیے : ئے آپ نے اسے گھولنے کا حکم دیا۔ (چنانچہ وہ حسب الحکم گھول دئیے گئے آپ نے نوش فرمائے اور ہم نے بھی پئے) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب کے لیے اٹھے تو آپ نے کلی کی اور ہم نے بھی کلیان کیں پھر آپ نے نیا وضو کرنے کے بغیر مغربب کی نماز پڑھائی۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم انھیں آثار و روایت سے دلیل لیتے ہیں کہ آگ سے پکی چیز کے کھالینے کے بعد نہ وضو لازم ہے اور نہ اس چیز کے کھالینے بعد جو آگ سے نہ پکی ہو (پھل، سبزیاں وغیرہ) بلکہ وضو اس پلیدی اور نجاست سے لازم ہوتا ہے جو جسم سے نکلے۔ آگ سے پکی ہوئی یا کچی کھانے کی چیز کھا لینے وضو کرنا لازم نہیں ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

35

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ يَتَوَضَّئُونَ جَمِيعًا فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِأَنْ تَتَوَضَّأَ الْمَرْأَةُ وَتَغْتَسِلُ مَعَ الرَّجُلِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ إِنْ بَدَأَتْ قَبْلَهُ، أَوْ بَدَأَ قَبْلَهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں مرد و عورت ایک برتن میں وضو کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ مرد و عورت ( میاں، بیوی) ایک برتن سے وضو یا غسل کرلیں تو کوئی حرج نہیں خواہ عورت پہلی وضو کرے یا مرد ابتداء کرے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

36

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَعَفَ رَجَعَ، فتَوَضَّأَ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ، ثُمَّ رَجَعَ فَبَنَى عَلَى مَا صَلَّى»
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) عنہماکو جب نکسیر پھوٹ جاتی تو باہر چلے جاتے اور وضو کرتے پھر آکر پہلی پڑہی ہوئی نماز سے آگے پڑھتے اس دورارن میں کلام نہ کرتے۔

37

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، «أَنَّهُ رَأَى سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ رَعَفَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَأَتَى حُجْرَةَ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُتِيَ بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَجَعَ فَبَنَى عَلَى مَا قَدْ صَلَّى» .
یزید بن عبداللہ بن قسیط (رح) کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب (رح) کو دیکھا کہ انھیں دروان نماز نکسیر پھوٹ پڑی چنانچہ وہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) عنہا کے حجرہ میں آئے۔ ان کے لیے پانی منگویا گیا انھوں نے وضو کیا پھر واپس لوٹ کر گزشتہ نماز پر بناء کی۔

38

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، " أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الَّذِي يَرْعُفُ فَيَكْثُرُ عَلَيْهِ الدَّمُ كَيْفَ يُصَلِّي؟ قَالَ: يُومِئُ إِيمَاءً بِرَأْسِهِ فِي الصَّلاةِ «.
سعید بن مسیب (رح) سے کسی شخص نے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جسے نکسیر بہت پھوٹتی ہو کہ وہ کس طرح نماز ادا کرے تو انھوں نے کہا ہ سر کے اشارہ سے نماز ادا کرے۔

39

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُجَبَّرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ رَأَى سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ يُدْخِلُ إِصْبَعَهُ فِي أَنْفِهِ، أَوْ إِصْبَعَيْهِ ثُمَّ يُخْرِجُهَا وَفِيهَا شَيْءٌ مِنْ دَمٍ فَيَفْتِلُهُ، ثُمَّ يُصَلِّي وَلا يَتَوَضَّأُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، فَأَمَّا الرُّعَافُ فَإِنَّ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ كَانَ لا يَأْخُذُ بِذَلِكَ، وَيَرَى إِذَا رَعَفَ الرَّجُلُ فِي صَلاتِهِ، أَنْ يَغْسِلَ الدَّمَ وَيَسْتَقْبِلَ الصَّلاةَ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَإِنَّهُ يَقُولُ بِمَا رَوَى مَالِكٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ إِنَّهُ يَنْصَرِفُ فَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يَبْنِي عَلَى مَا صَلَّى إِنْ لَمْ يَتَكَلَّمَ، وَهُوَ قَوْلُنَا، وَأَمَّا إِذَا كَثُرَ الرُّعَافُ عَلَى الرَّجُلِ فَكَانَ إِنْ أَوْمَأَ بِرَأْسِهِ إِيمَاءً، لَمْ يَرْعُفُ وَإِنْ سَجَدَ رَعَفَ، أَوْمَأَ بِرَأْسِهِ إِيمَاءً، وَأَجْزَاهُ، وَإِنْ كَانَ يَرْعُفُ كُلَّ حَالٍ سَجَدَ، وَأَمَّا إِذَا أَدْخَلَ الرَّجُلُ إِصْبَعَهُ فِي أَنْفِهِ، فَأَخْرَجَ عَلَيْهَا شَيْئًا مِنْ دَمٍ، فَهَذَا لا وُضُوءَ فِيهِ لأَنَّهُ غَيْرُ سَائِلٍ، وَلا قَاطِرٍ، وَإِنَّمَا الْوُضُوءُ فِي الدَّمِ، مِمَّا سَالَ أَوْ قَطُرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ.
عبد الرحمن بن مجبر کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا کہ (جب ان کی ناک سے خون ہوتا تو ) وہ اپنی ایک انگلی یا دو انگلیان نتھنوں میں داخل کرے کے نماز سے نکل جاتے۔ اس پر اگر خون کا معمولی اثر ہوتا تو اس کو صاف کرتے پھر نماز ادا کرلیتے اور وضو کا اعادہ نہ کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ان تمام آثار پر ہمارا عمل ہے۔ امام مالک رحمہ ان آثار کو نہیں لیتے بلکہ فرماتے ہیں کہ جب دوران نماز کسی کو نکسیر آجائے تو وہ خون کو دھو ڈالے اور اپنی نماز کو از سر نو شروع کرے۔ ( البتہ وضو کی حاجت نہیں) باقی امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عمر ر ضی اللہ عنہ اور سعید بن مسیب (رح) نکسیر آنے کی احلت میں لوٹ کر وضو کرتے اور سابقہ نماز پر بناء کرتے تھے۔ اگر اس دوران وہ کلام نہ کرتے۔ ہمارا یہی قول ہے۔ البتہ نماز کے دوران کثرت سے نکسیر کا خون آنے ـلگے تو پھر دیکھا جائے اگر سجد کرنے سی خون جاری ہوتا ہے تو وہ سر کے اشارہ سے نماز ادا کرلے تو نماز ادا ہوجائے گی اور اکر ہر دو حال میں خون یکساں بہتا ہو تو پھر بہر صورت سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرے ( اشارہ سے نماز درست نہ ہوگی) اور اگر آدمی کی نکسیر پھوٹنے کی یہ کیفیت ہوۃ کہ جب وہ اپنی انگلی ناک میں داخل کرے تو اس پر خون کا معمولی نشان پایا جاتا ہے تو ایسی نکسیر سے وضو نہ ٹوٹے گا کیونکہ یہ نہ تو جاری خون ہے اور نہ قطرہ قطرہ ٹپکنے والا ہے۔ وضو فقط اس خون سے لازم ہوتا ہے جو یا تو بہنے والا ہو یا پھر قطرہ قطرہ ٹپکنے والا ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک ہے۔

40

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ: «أَنَّهَا جَاءَتْ بِابْنٍ لَهَا صَغِيرٍ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُجْرِهِ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَنَضَحَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَغْسِلْهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ جَاءَتْ رُخْصَةٌ فِي بَوْلِ الْغُلامِ إِذَا كَانَ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ، وَأَمَرَ بِغَسْلِ بَوْلِ الْجَارِيَةِ، وَغَسْلُهُمَا جَمِيعًا أَحَبُّ إِلَيْنَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
ام قیس (رض) عنہا بنت محصن نقل کرتی ہیں کہ میں اپنے ایک چھوٹے بچے کو لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی وہ بچہ ابھی کھانا نہ کھاتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کو گود میں بٹھالیا۔ اس بچے نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلن نے پانی منگواکر اسے کپڑوں پر بہادیا ( مل کر) نہیں دھویا۔
قول محمد (رح) یہ ہیگ کہ لڑکا جب تک کھانا نہ کھاتا ہو اس کے دھونے میں رخصت وارد ہے۔ البتہ لڑکی کے پیشاب میں دھونے کا حکم دیا گیا ہے اور ہمارے ہاں دونوں کو دھونا زیادہ بہتر ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

41

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: «أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ إِيَّاهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ تُتْبِعُهُ إِيَّاهُ غَسْلا حَتَّى تُنَقِّيَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عروہ بن زبیر نے امر المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک بچہ لایا گیا۔ اس بچے نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا اور اس کپڑے پر پانی بہادیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی ارشاد پر عمل کرتے ہیں۔ ہ م دھونے کی خاطر اس پر پانی بہاتے ہیں یہاں تک کہ ہم اس کو صاف کردیتے ہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا ارشاد ہے۔

42

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ مَعْمَرٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَمَرَهُ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ إِذَا دَنَا مِنْ أَهْلِهِ، فَخَرَجَ مِنْهُ الْمَذْيُ مَاذَا عَلَيْهِ؟» فَإِنَّ عِنْدِي ابْنَتَهُ، وَأَنَا أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَهُ، فَقَالَ الْمِقْدَادُ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ، وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ»
مقداد بن اسود (رض) سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب نے مجھے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کرو کہ جب آدمی اپنی بیوی کے قریب جائے اور اس کی مذی نکل جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ مقداد کہتے ہیں کہ مجھے علی کہنے لگے میرے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ہے۔ اس لیے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات پوچھتے ہوئے شرماتا ہوں۔ مقدار کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو ایسا اتفاق ہوجائے تو وہ اپنی شرمگاہ کو پانی سے دھو ڈالے پھر نماز کے وضو جیسا وضو کرے۔ امام مالک نے اس روایت کو باب الوضوء من المذی میں ذکر کیا ہے۔

43

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «إِنِّي لأَجِدُهُ يَتَحَدَّرُ مِنِّي مِثْلَ الْخُرَيْزَةِ، فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ، فَلْيَغْسِلْ فَرْجَهُ وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ: يَغْسِلُ مَوْضِعَ الْمَذْيِ، وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
اسلم عمر بن خطاب (رض) کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں اپنی مذی کو اس طرح کرتا ہوا پاتا ہوں جس طرح موتی گرتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص اس کیفیت کو جب پائے تو اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے۔ (یہ اثر مؤطا امام مالک میں باب الوضوء من المذی میں مذکور ہے)

44

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ بْنُ زُيَيْدٍ، " أَنَّهُ سَأَلَ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ عَنْ بَلَلٍ يَجِدُهُ فَقَالَ: انْضَحْ مَا تَحْتَ ثَوْبِكَ وَالْهَ عَنْهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا كَثُرَ ذَلِكَ مِنَ الإِنْسَانِ، وَأَدْخَلَ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ فِي الشَّكِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
صلت بن زبید نے سلیمان بن یسار (رح) سے سوال کیا کہ اس تری کا کیا حکم ہے جو کپڑے یا جسم پر پائی جائے تو انھوں جواب دیا اپنے ستر کو پانی سے دھو ڈالو اور پھر اس کا خیال مت لاؤ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں جب کثرت سے مذی آئے اور شیطان اس کو وسووسہ میں ڈال کر شک میں مبتلا کرے تو وہ اسی طرح کرے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

45

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ فِي رَكْبٍ فِيهِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، حَتَّى وَرَدُوا حَوْضًا، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: " يَا صَاحِبَ الْحَوْضِ هَلْ تَرِدُ حَوْضَكَ السِّبَاعُ؟ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا صَاحِبَ الْحَوْضِ، لا تُخْبِرْنَا، فَإِنَّا نَرِدُ عَلَى السِّبَاعِ وَتَرِدُ عَلَيْنَا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا كَانَ الْحَوْضُ عَظِيمَا إِنْ حُرِّكَتْ مِنْهُ نَاحِيةٌ، لَمْ تَتحَرَّكْ بِهِ النَّاحِيَةُ الأُخْرَى لَمْ يُفسِدْ ذَلِكَ الْمَاءَ مَا وَلِغَ فِيهِ مِنْ سَبُعٍ، وَلا مَا وَقَعَ فِيهِ مِنْ قَذَرٍ، إِلا أَنْ يَغْلِبَ عَلَى رِيحٍ، أَوْ طَعْمٍ، فَإِذَا كَانَ حَوْضًا صَغِيرًا، إِنْ حُرِّكَتْ مِنْهُ نَاحِيَةٌ تَحَرَّكَتِ النَّاحِيَةُ الأُخْرَى، فَوَلَغَ فِيهِ السِّبَاعُ أَوْ وَقَعَ فِيهِ الْقَذَرُ، لا يَتَوَضَّأُ مِنْهُ، أَلا يُرَى أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَرِهَ أَنْ يُخْبِرَهُ وَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ، وَهَذَا كُلُّهُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
یحی بن حاطب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ باہر تشریف لے گئے، ان سواروں میں عمرو بن العاص (رض) بھی تھے۔ چلتے ہوئے وہ پانی کے ایک جوہڑ پر اتری۔ عمرو بن العاص (رض) نے اس حوض کے مالک سے دریافت کیا۔ اے حوض والے ! کیا تمہارے اس حوض پر درندوں کی آمد و رفت ہوتی ہے ؟ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا اے حوض والے ! ہمیں مت بتاؤ کیونکہ کبھی ہم درندوں سے پہلے وارد ہوتے ہیں اور کبھی وہ ہم سے قبل وارد ہوتے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جب حوض بڑا ہو کہ اس کی ایک جانب پانی کو حرکت دینے سے دوسری جانب حرکت کا اثر نہیں جاتا۔ تو وہ پانی درندے کے پینے سے نجس نہ ہوگا اور نہ ہی گندگی کے ایک جانب پڑجانے سے دوسری جانب کو نجس شمار کیا جائے گا۔ البتہ اس وقت تمام نجس شمار ہوگا جبکہ پانی پر گندگی کی بدبو یا ذائقہ غالب معلوم ہو۔ اور اگر حوض چھوٹا ہو کا اس کی ایک جانب حرکت دینے سے دوسری جانب حرکت کا اثر پہنچ جائے اور اس میں سے درندہ پانی پی لے یا گندگی اس میں گرجائے تو وہ ( نجس ہوجائے گا) وضو کے قابل نہ رہے گا۔
ذرا غور تو کرو کہ عمر بن خطاب (رض) نے حوض والے کے خبر دینے کو ناپسند کرتے ہوئے اس کو خبر دینے سے روک دیا۔ یہ سب امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک ہے۔

46

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَزْرَقِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنَّا رَكْبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا " أَفَنَتَوَضَّأُ بِمَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحَلالُ مَيْتَتُهُ " , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ مَاءُ الْبَحْرِ طَهُورٌ كَغَيْرِهِ مِنَ الْمِيَاهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ
مغیرہ بن ابی بردہ (رح) نے ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی اتھاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں گے۔ کیا ہمیں سمندری پانی سے وضو کی اجازت ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سمندرکا پانی خود بھی پاک اور پاک کرنے والا ہے اور اس کا مرادرا ( مچھلی) حلال ہے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب الاطہور للوضوء میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی ارشاد نبوت پر عمل ہے۔ سمندر کا پانی دوسرے پانیوں کی طرح پاک ہے یہی امام ابوحنیفہ اور دیگر عام علماء کا قول ہے۔

47

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ زِيَادٍ مِنْ وَلَدِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ لِحَاجَتِهِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكٍ، قَالَ: فَذَهَبْتُ مَعَهُ بِمَاءٍ، قَالَ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَكَبْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثُمَّ ذَهَبَ يُخْرِجُ يَدَيْهِ فَلَمْ يَسْتَطِعْ مِنْ ضِيقِ كُمَّيْ جُبَّتِهِ فَأَخْرَجَهُمَا مِنْ تَحْتِ جُبَّتِهِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ يَؤُمُّهُمْ قَدْ صَلَّى بِهِمْ سَجْدَةً، فَصَلَّى مَعَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى الرَّكَّعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ، فَفَزِعَ النَّاسُ لَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: قَدْ أَحْسَنْتُمْ "
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک میں رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ مغیرہ (رض) کہتے ہیں میں پانی لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا چہرہ مبارک دھویا۔ پھر اپنے جُبے کی آستنیوں سے اپنے ہاتھ نکالنے کوشش کی مگر آستنین تنگ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبے کے نیچے سے ہاتھ باہر نکال لیے اور انھیں دھویا اور اپنے سر کا مسح فرمایا اور دونوں موزوں پر بہی مسح فرمایا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکرگاہ میں واپس تشریف لائے تو اس وقت عبد الرحمن بن عوف (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دوسری رکعت کو ان کے ساتھ ادا فرمایا۔ پہر رہ جانے والی رکعت کو ( امام کے سلام کے بعد اٹھ کر) ادا فرمایا۔ پس لوگ گھبراگئے ( انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کیونکر نہ کیا) جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز مکمل کرچکے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یفرمایاگ ” تم نے بہت خوب کیا۔ (اس روایت کو مؤطا امام مالک میں اسی باب کے تحت ذکر کیا گیا ہے) ۔

48

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رُقَيْشٍ، أَنَّهُ قَالَ: «رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَتَى قِبَاءَ، فَبَالَ ثُمَّ أَتَى بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ثُمَّ صَلَّى»
عبد الرحمن بن رقیش کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو دیکھا کہ وہ قباء میں تشریف لائے اور انھوں نے پیشاب کیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا جس سے انھوں نے وضو کیا۔ پہلے اپنا چہرہ دھویا اور پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر موزوں پر مسح کیا (پھر مسجد میں جاکر) نماز ادی کی ( یہ روایت مؤطامالک میں بھی ہے)

49

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ: " أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَدِمَ الْكُوفَةَ عَلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَهُوَ أَمِيرُهَا، فَرَآهُ عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: سَلْ أَبَاكَ إِذَا قَدِمْتَ عَلَيْهِ، فَنَسِيَ عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَسْأَلَهُ حَتَّى قَدِمَ سَعْدٌ، فَقَالَ: أَسَأَلْتَ أَبَاكَ؟ فَقَالَ: لا، فَسَأَلَهُ عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالَ: إِذَا أَدْخَلْتَ رِجْلَيْكَ فِي الْخُفَّيْنِ وُهَمَا طَاهِرَتَانِ فَامْسَحْ عَلَيْهِمَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ مِنَ الْغَائِطِ؟ قَالَ: وَإِنْ جَاءَ أَحَدُكُمْ مِنَ الْغَائِطِ "
عبداللہ بن عمر (رض) کوفہ میں سعد بن ابی وقاص (رض) کے ہاں گئے جبکہ وہ کوفہ کے امیر تھے۔ انھوں نے سعد (رض) کو موزوں پر مسح کرتے پایا تو ان کو یہ بات گراں گزری۔ سعد (رض) نے کہا جب تم مدینہ جاؤ تو اپنے والد سے پوچھ لینا۔ پس عبداللہ جب مدینہ واپس آئے تو اپنے والد سے دریافت کرنا بھول گئے۔ یہاں تک کہ خود سعد (رض) کا مدینہ میں آنا ہوا تو انھوں نے پوجھا کہ کیا تم نے اپنے والد سے اس سلسلہ میں سوال کیا ؟ عبداللہ نے کہا نہیں۔ (انکے یاد دلانے پر) عبداللہ (رض) نے اپنے والد عمر (رض) سے دریافت کیا تو انھوں جواب میں فرمایا ( جب تم اپنے پاؤں موزوں میں اس حالت میں داخل کرو کہ وہ پاک ہوں یعنی تمہارا وضو ہو) تو پھر ان موزوں پر ( آئندہ جب وضو ٹوٹ جانے کے بعد کرنے کا موقعہ آئے تو) مسح کرتے رہو۔ عبداللہ نے سوال کیا کہ اگر ہم میں سے کوئی رفع حاجت کرکے لوٹے ؟ ( کیا پھر بھی مسح ہی کرے) حضرت عمر نے فرمایا۔ ہاں اگرچہ تم میں سے کوئی رفع حاجت کرنے کی بعد آئے۔ (اس اثر کو امام مالک نے اسی باب میں ذکر فرمایا ہے)

50

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ , أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بَالَ بِالسُّوقِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ دُعِيَ لِجَنَازَةٍ حِينَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ صَلَّى
عبداللہ بن عمر (رض) بازار گئے انھوں نے بازار میں (پیشاب کے لیے مناسب جگہ پر) پیشاب کیا پھر وضو کیا اور منہ دھویا اور ہاتھ دھوئے اور سر کا مسح پھر ان کو ایک جنازہ پڑھنے لیے بلایا گیا جبکہ وہ مسجد میں نماز کے لیے داخل ہوچکے تھے۔ انھوں نے وضو مں اپنے موزوں پر مسح کیا پھر نماز ادا فرمائی۔

51

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى أَبَاهُ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ عَلَى ظُهُورِهِمَا لا يَمْسَحُ بُطُونَهُمَا، قَالَ: ثُمَّ يَرْفَعُ الْعَمَامَةَ فَيَمْسَحُ بِرَأْسِهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ، نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَنَرَى الْمَسْحَ لِلْمُقِيمِ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَثَلاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهَا لِلْمُسَافِرِ، وَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لا يَمْسَحُ الْمُقِيمُ عَلَى الْخُفَّيْنِ. وَعَامَّةُ هَذِهِ الآثَارِ الَّتِي رَوَى مَالِكٌ فِي الْمَسْحِ، إِنَّمَا هِي فِي الْمُقِيمِ، ثُمَّ قَالَ: لا يَمْسَحُ الْمُقِيمُ عَلَى الْخُفَّيْنِ
ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ وہ موزوں کے مسح کے وقت ان کے اوپر کی جانب مسح کرتے تھے نہ کہ نچلی جانب۔ پھر وہ اپنی پگڑی کو اٹھاتے اور اپنے سر پر مسح کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم ان تمام آثار پر عمل کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ مقیم کو ایک دن رات مسح کی اجازت ہے اور مسافر کو تین دن رات مسح کی اجازت ہے۔ امام مالک کہتے تھے کہ مقیم کو موزوں پر مسح کی اجازت نہیں ہے۔ حالانکہ ان سے مروی تمام آثار مسح مقیم ہی کے لیے ثابت کرتے ہیں مگر پھر بھی انھوں نے فرمایا کہ مقیم موزوں پر مسح نہ کرے۔

52

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: بَلَغَنِي , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، " أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعِمَامَةِ؟ فَقَالَ: لا، حَتَّى يَمَسَّ الشَّعْرَ الْمَاءُ " , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے عمامہ پر مسح کی متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا ۔ نہیں۔ مسح نہیں ہوتا جب تک کہ بالوں کو پانی سے نہ چھوا جائے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ماجاء فی المسح بالار اس و الاذنین میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اسی پر ہمارا عمل ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

53

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ «رَأَيْتُ صَفِيَّةَ ابْنَةَ أَبِي عُبَيْدٍ تَتَوَضَّأُ، وَتَنْزِعُ خِمَارَهَا، ثُمَّ تَمْسَحُ بِرَأْسِهَا» . قَالَ نَافِعٌ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ صَغِيرٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يُمسَحُ عَلَى الْخِمَارِ وَلا الْعِمَامَةِ، بَلَغَنَا أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى الْعِمَامَةِ كَانَ فَتُرِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنِا.
نافع نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبیدہ (رض) کے متعلق بیان کیا کہ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنا دوپٹہ اتار کر سر کا مسح پانی کے ساتھ کرتی تھیں اور نافع ان دنوں چھوٹا بچہ تھا۔ (یہ اثر مؤطا امام مالک میں مسح الرائی و الاذنین میں مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اس کو اختیار کرتے ہیں پگڑی اور ڑھنی پر مسح نہ کیا جائے۔ ہمیں یہ اطلاع پہنی ہے کہ ابتداء میں عمامہ پر مسح تھا پھر ترک کردیا گیا۔ یہی اما ابوحنیفہ اور ہمارے دیگر فقہاء کا قول ہے۔

54

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ: «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ أَفْرَغَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، وَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ، وَنَضَحَ فِي عَيْنَيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى، ثُمَّ الْيُسْرَى، ثُمَّ غَسَلَ رَأْسَهُ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، وَأَفَاضَ الْمَاءَ عَلَى جِلْدِهِ» , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ إِلا النَّضْحَ فِي الْعَيْنَيْنِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَى النَّاسِ فِي الْجَنَابَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالْعَامَّةِ
عبداللہ بن عمر (رض) جب جنابت سے غسل کرتے تو ابتداء میں دائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اسے دھوتے پھر اپنی شرمگاہ کو دھوتے، پھر کلی کرتے اور ناک صاف کرتے۔ پھر منہ دھوتے اور آنکھوں کے اندر پانی کے چھینٹے مارتے، پھر دایاں ہاتھ پھر پایاں ہاتھ دھوتے، پھر اپنا سر دھوتے پھر غسل کرتے اور اپنے جسم پر پانی بہاتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام باتوں پر ہمارا عمل ہے۔ سوائے آنکھوں میں پانی ڈالنے والے عمل کے اس لیے کہ یہ غسل جنابت میں لازم نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہا اللہ کا قول ہے اور عام علماء بھی یہی کہتے ہیں۔

55

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " ذَكَرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ: تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ وَنَمْ " , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ، وَلَمْ يَغْسِلْ ذَكَرَهُ حَتَّى يَنَامَ فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ أَيْضًا
عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ۔ رات کو انھیں جنابت پیش آتی ہے تو وہ کیا کریں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالو پھر سو جاؤ۔ ( مؤطا مالک میں باب وضوء الجنب میں یہ روایت مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اگر اس نے وضو نہ کیا اور نہ فوری طور پر غسل کیا اور اپنی شرمگاہ کو دھویاتو اس میں کوئی گناہ نہیں۔

56

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصِيبُ مِنْ أَهْلِهِ، ثُمَّ يَنَامُ وَلا يَمَسَّ مَاءً، فَإِنِ اسْتَيْقَظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، عَادَ وَاغْتَسَلَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا الْحَدِيثُ أَرْفَقُ بِالنَّاسِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
اسود بن یزید نے حضرت عائشہ (رض) عنہا سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر والوں سے صحبت کرتے پھر سو رہتے اور پانی کو ہاتھ بھی نہ لگاتے پھر اگر رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوتے تو دوبارہ صحبت کرتے اور پھر غسل کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اس روایت میں لوگوں کے لیے بہت سہولت ہے اور یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

57

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ»
نافع ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کیلئے آئے تو وہ غسل کرے۔ (مؤطاء مالک میں یہ روایت کتاب الجمعہ میں مذکور ہے)

58

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ»
عطاء بن یسار نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جمعہ کے دن غسل ہر بالغ پر واجب ہے ( یہ راویت مؤطا امام مالک کتاب الجمعہ میں مذکور ہے)

59

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ ابْنِ السَّبَّاقِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، هَذَا يَوْمٌ جَعَلَهُ اللَّهُ تَعَالَى عِيدًا لِلْمُسْلِمِينَ، فَاغْتَسِلُوا، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طِيبٌ فَلا يَضُرُّهُ أَنْ يَمَّسَّ مِنْهُ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ»
زہری نے ابن السباق (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے مسلمانو ! اس دن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے عید بنایا ہے۔ پس تم اس دن غسل کیا کرو اور جس کو خوشبو میسر وہ وہ ـلگائے اور اس میں کوئی حرج نہیں اور تم ضرور مسواک کیا کرو۔

60

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: «غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ كَغُسْلِ الْجَنَابَةِ»
مقبری نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ مرد پر اس طرح واجب ہے جیسا کہ غسل جنابت لازم ہے۔

61

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ لا يَرُوحُ إِلَى الْجُمُعَةِ إِلا اغْتَسَلَ»
نافع نے ابن عمر (رض) کا معمول نقل کیا ہے کہ وہ جمعہ کے لیے غسل کر کے جاتے ۔

62

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوقِ فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ أَقْبَلْتُ، قَالَ عُمَرُ: وَالْوُضُوءَ أَيْضًا! وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: الْغُسْلُ أَفْضَلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ، وَفِي هَذَا آثَارٌ كَثِيرَة
سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک صحابی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا۔ جبکہ عمر بنب الخطاب (رض) خطبہ دے رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا یہ آنے کونسا وقت ہے ؟ ( یعنی تم دیر سے کیوں آئے) اس شخص نے کہا اے امیر المؤمنین ! میں بازار سے واپس آیا تو میں اذان سنی، پھر میں نے صرف اتنی دیر لگائی کہ میں وضو کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا اچھا ! کیا صرف وضو ہی کیا۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو غسل جمعہ کا حکم دیا کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے واجب نہیں اور اس سلسلہ میں بہت سے آثار ہیں (جو اس بات تائید کرتے ہیں)

63

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ صَبِيحٍ، عَنْ سَعِيدٍ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، كِلاهُمَا يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ»
سعید قاضی نے انس بن مالک صحابی (رض) اور حسن بصری تابعی (رح) سے نقل کرتے ہیں۔ وہ دونوں مروفوعا نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نیجمعہ کے دن وضو کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے غسل کیا اس نے خوب ترین عمل کیا۔

64

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ حَمَّادٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْغُسْلِ مِنَ الْحِجَامَةِ، وَالْغُسْلِ فِي الْعِيدَيْنِ؟ قَالَ: إِنِ اغْتَسَلْتَ فَحَسَنٌ، وَإِنْ تَرَكْتَ فَلَيْسَ عَلَيْكَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ رَاحَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ» ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لَيْسَ مِنَ الأُمُورِ الْوَاجِبَةِ، وَإِنَّمَا وَهُوَ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ} [البقرة: 282] ، فَمَنْ أَشْهَدَ فَقَدْ أَحْسَنَ، وَمَنْ تَرَكَ فَلَيْسَ عَلَيْهِ، وَكَقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ} [الجمعة: 10] ، فَمَنِ انْتَشَرَ فَلا بَأْسَ وَمَنْ جَلَسَ فَلا بَأْسَ. قَالَ حَمَّادٌ: وَلَقَدْ رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيَّ يَأْتِي الْعِيدَيْنِ وَمَا يَغْتَسِلَ.
حماد نے ابراہیم نخعی تابعی (رح) سے نقل کیا کہ میں نے ان سے سوال کیا کہ جمعہ کے دن غسل اور اسی طرح سینگی لگوانے کے بعدغسل اور عیدین کے روز غسل کرنے کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے جواب میں فرمایا گ اگر غسل کرو تو خوب ہے اور اگر چھوڑ دو تو گناہ لازم نہ آئے گا۔ میں نے ان سے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمایا من راح الی الجمعۃ فلیغتسل ۔ کہ جو جمعہ کی طرف جائے وہ غسل کرے) انھوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالکل یہ بات فرمائی ہے۔ لیکن یہ غسل ان احکام میں سے نہیں جن کا کرنا فرض و واجب ہو۔ وہ صیغہ امر اللہ تعالیٰ کے ارشاد واشہدوا اذا تبایعتم ۔ جب تم باہمی خریدو فروخت کا معاملہ کرو تو گواہ بنا لو) اشہدوا کے امر کی طرح ہے) پس جس نے گواہ بنالئے خوب کیا اور جس نے نہ بنائے اس پر گناہ نہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض۔ کہ جب تم جمعہ کی نماز ادا کرچکو تو زمین میں پھیل جاؤ۔ تو جمعہ کے بعد جو مسحد سے چلا جائے اس پر بھی گناہ نہیں اور جو بیٹھا رہے اس پر بھی کچھ گناہ و تنگی نہیں حماد کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی کو بارہا عیدین کی طرف بغیر غسل کئے جاتے دیکھا۔

65

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: " كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلاةُ، أَيْ: الْجُمُعَةُ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ، فَقَالَ لَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: أَلا تَعْتَسِلُ؟ قَالَ: الْيَومَ يَومٌ بَارِدٌ، فَتَوَضَّأَ «
عطاء بن ابی رباح (رح) کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عباس (رض) کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ نماز کا وقت ہوا۔ آپ نے پانی منگواکر وضو کیا ان کے بعض شاگردوں نے کہا آپ نے غسل کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے جواد دیا۔ آج سردی ہے۔ اس لیے میں نے وضو کیا۔

66

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا سَلامُ بْنُ سُلَيْمٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ» كَانَ عَلْقَمَةُ بْنُ قَيْسٍ إِذَا سَافَرَ لَمْ يُصَلِّ الضُّحَى، وَلَمْ يَغْتَسِلْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ «.
ابراہیم کہتے ہیں کہ علقمہ بن قیس (رح) جب سفر میں ہوتے تو نہ عید الاضحي کی نماز پڑھتے اور نہ ہی جمعہ کے دن غسل کرتے تھے۔

67

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ» مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، أَجَزَأَهُ عَنْ غُسْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ".
سفیان ثوری نے منصور کے واسطہ سے مجاہد تابعی (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ جس نے جمعہ کے دن طلوع کے بعد غسل کرلیا ۔ اس کا یہ غسل غسل جمعہ کے لیے کفایت کرنے والا ہے۔

68

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّاسُ عُمَّالَ أَنْفُسِهِمْ، فَكَانُوا يَرُوحُونَ إِلَى الْجُمُعَةِ بِهَيْئَاتِهِمْ، فَكَانَ يُقَالُ لَهُمْ: لَوِ اغْتَسَلْتُمْ "
عمرہ رحمہا اللہ نے عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے نقل کیا ہے وہ فرماتی ہیں لوگ محنت مزدوری کرتے تھے اور اسی طرح اپنے میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ نماز جمعہ کے لیے آجاتے تھے۔ اس لیے ان سے کہا جاتا تھا کہ اگر تم غسل کرلیتے تو بہت خوب ہوتا۔

69

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ إِلَى الْعِيدِ»
نافع رحمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے غسل کرتے تھے۔

70

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ، قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْغُسْلُ يَوْمَ الْعِيدِ حَسَنٌ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) نے بتلایا کہ عبداللہ بن عمر (رض) عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
قول محمد رحمہ یہ ہے : عید کے دنوں میں غسل خوب ہے۔ لازم و واجب نہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

71

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ , أَنَّهُ أَقْبَلَ هُوَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مِنَ الْجُرْفِ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمِرْبَدِ، نَزَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَتَيَمَّمَ صَعِيدًا طَيِّبًا، فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى
نافع کہتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن عمر مقام جرف سے واپس آئے۔ جب ہم مربد کے مقام پر پہنچے تو عبداللہ سواری سے اترے اور انھوں نے پاک مٹی پر تیمم کیا۔ پس اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت اس مٹی کو مَل لیا۔ پھر نماز ادا کی۔ (اس اثر کو مؤطا مالک باب العمل فی التیمم میں ذکر کیا گیا ہے)

72

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا , أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ، انْقَطَعَ عِقْدِي، فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالُوا: أَلا تَرَى إِلَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ؟ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِالنَّاسِ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِي وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي، فَلا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلا رَأْسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا "، فَقَالَ أُسَيدُ بْنُ حُضَيرٍ: مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: وَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّتِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقدَ تَحْتَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَالتَّيَمُّمُ ضَرْبَتَانِ، ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ، وَضَرْبَةٌ لِلْيَدَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
قاسم نے ام المؤمنین عائشہ (رض) عنہا سے نقل کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں نککلیں۔ چلتے ہوئے ہم بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر پہنچے تو میرا ایک ہار گم ہوگیا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاش کے لیے ٹھہر گئے۔ وہاں پانی کا کوئی چشمہ نہ تھا اور لوگوں کے پاس پانی بھی موجود نہ تھا۔ پس لوگ صدیق اکبر (رض) کے پاس گئے اور کہنے لگے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ عائشہ نے کیا کیا ہے ؟ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگوں کو روک دیا ہے۔ حالانکہ لوگ کسی تالاب بر نہیں اور نہی ان کے پاس پانی ہے۔
حضرت عائشہ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) آئے اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر مبارک میری ران پر رکھ کر آرام فرما رہے تھے۔ پس ابوبکر نے فرمایا گ تو نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک دیا ہے اور لوگوں کو بھی روک دیا ہے حالانکہ نہ لوگ کسی چشمہ پر ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پانی موجود ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے ابوبکر (رض) نے عتاب کیا اور جو کہنا تھا وہ کہا اور میرے پہلے میں کچو کے دئیے جن کی وجہ سے میں صرف اس لیے حرکت نہ کرتی تھی کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح تک سوئے اور پانی موجود نہ تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی، اور لوگوں نے تیمم کیا۔ تو اسید بن حضیر (رض) کہنے لگے اے آلِ ابی بکر ! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے (بلکہ تمہاری وجہ سے پہلے بھی بہت برکات امت کو حاصل ہوئی ہیں) حضرت عائشہ (رض) عنہا کہتے ہیں کہ جب ہم نے اونٹ اٹھایا تو ہار اس کے نیچے پایا گیا۔ (مؤطا مالک میں یہ روایت باب التیمم میں مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ تیمم دو ضربات ہیں ایک چہرے کیلئے اور ایک ہاتھوں (کہنیوں سمیت) کے لیے امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

73

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ يَسْأَلُهَا هَلْ يُبَاشِرُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؟ فَقَالَتْ: لِتَشُدَّ إِزْارَهَا عَلَى أَسْفَلِهَا، ثُمَّ يُبَاشِرْهَا إِنْ شَاءَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے ام المؤمنین عائشہ (رض) عنہا کے پاس ایک آدمی بھیج کر سوال کیا۔ ایام حیض میں مرد اپنی عورت کے ساتھ ہم آغوشی کرسکتا ہے ؟ عائشہ (رض) عنہا نے جواب دیا کہ عورت اپنے نیچے اپنے پہننے کی چیز کو مضبوطی سے باندھ لے پھر مرد اگر چاہیے تو اس سے ہم آغوشی کرسکتا ہے۔ (یہ اثر باب ما یحل للرجل میں مؤطا امام مالک میں مذکور ہے)
قول محمد (رح) ہمارا یہی معمول بہا ہے اور امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا یہی مختار ہے)

74

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الثِّقَةُ عِنْدِي، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، " أَنَّهُمَا سُئِلا عَنِ الْحَائِضِ هَلْ يُصِيبُهَا زَوْجُهَا إِذَا رَأَتِ الطُّهرَ قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ؟ فَقَالا: لا حَتَّى تَغْتَسِلَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا تُباشَرُ حَائِضٌ عِنْدَنَا حَتَّى تَحِلَّ لَهَا الصَّلاةُ أَوْ تَجِبَ عَلَيْهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
مالک بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی کہ سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار رحمہما اللہ سے دریافت کیا : یا کہ جب عورت حیض سے فارغ ہوجائے تو کیا خاوند غسل سے پہلے اس سے جماع کرسکتا ہے۔ ان دونوں نے جواب دیا نہیں۔ جب تک وہ غسل نہ کرلے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب تک عورت کے لیے نماز حلال نہ ہو یا نماز اس پر واجب نہ ہو۔ اس وقت تک خاوند کو اس سے جماع حلال نہیں ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

75

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، أَنَّ رَجُلا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَحِلُّ لِي مِنَ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ؟ قَالَ: تَشُدُّ عَلَيْهَا إِزَارَهَا، ثُمَّ شَأْنَكَ بِأَعْلاهَا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَقَدْ جَاءَ مَا هُوَ أَرْخَصُ مِنْ هَذَا , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: يَجْتَنِبَ شِعَارَ الدَّمِ، وَلَهُ مَا سِوَى ذَلِكَ
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ جب میری بیوی ایام حیض میں ہو تو مجھے اس سے کیا حلال ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ عورت اپن ازار کو مضبوطی سے باندھ لے۔ پھر اس کے اور برسے تم جانو اور تیرا کام (مؤطا امام مالک میں باب ما یحل للرجل من امارۃ میں اس روایت کو نقل کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ یہی ہمارا اور امام ابوحنیفہ (رح) کا مختار ہے اور اس سے زیادہ رخصت حضرت عائشہ (رض) عنہا سے وارد ہے کہ خون والی جگہ سے اجتناب کرے اور اس کے سوا جو چاہے کرے۔

76

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَائِشَةَ، كَانُوا يَقُولُونَ: «إِذَا مَسَّ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ»
سعید بن مسیب (رح) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب، عثمان بن عفان ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہم کہا کرتے تھے کہ جب دو شرمگاہوں کا ملاپ ہوگیا تو غسل واجب ہوگیا۔ (امام مالک نے باب وجوب الغسل میں یہ روایت لی ہے)

77

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ؟ فَقَالَتْ: أَتَدْرِي مَا مَثَلُكَ يَا أَبَا سَلَمَةَ؟ مَثَلُ الْفَرُّوجِ يَسْمَعُ الدِّيَكَةَ تَصْرُخُ فَيَصْرُخُ مَعَهَا إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلَ "
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ ام المؤمنین (رض) عنہا سے دریافت کیا کہ غسل کس چیز سے واجب ہوتا ہے۔ انھوں نے فرمایا۔ اے ابو سلمہ تجھے معلوم ہے کہ تیری مثال کیا ہے ؟ تیری مثال چوزے کی طرح ہے جو مرغوں کو چینختا دیکھ کر ان کے ساتھ چیخنا شروع کردے۔ جب مرد کی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب وجود الغسل میں نقل کیا ہے۔

78

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، " أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الرَّجُلِ يُصِيبُ أَهْلَهُ ثُمَّ يُكْسِلُ؟ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: يَغْتَسِلُ "، فَقَالَ لَهُ مَحْمُودُ بْنُ لَبِيدٍ: فَإِنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ لا يَرَى الْغُسْلَ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: نَزَعَ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ، وَتَوَارَتِ الْحَشَفَةُ وَجَبَ الْغُسْلُ أَنْزَلَ، أَوْ لَمْ يُنْزِلْ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت محموۃ د بن لبید انصاری (رض) نے حضرت زید بن ثابت انصاری (رض) سے اس مرد کے متعلق دریافت کیا جو اپنے گھر والوں سے جماع کرے پھر سستی پڑجانے کی وجہ سے انزال نہ ہو۔ (تو اس کا کیا حکم ہے) زید (رض) نے کہا کہ وہ غسل کرے۔ محمود نے کہا ابی بن کعب کے ہاں تو اس سے غسل نہ آتا تھا۔ اس پر زید بن ثابت نے کہا کہ ابی بن کعب نے اپنے اس خیال سے موت سے قبل رجوع کرلیا تھا۔ (اس کو مؤطا امام مالک میں اسی باب میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) : ہم اسی کو اخیتار کرتے ہیں جب دونوں شرمگاہیں مل جائیں اور حشفہ غائب ہوجائے ۔ انززال ہو یا نہ ہو بہرحال غسل واجب ہوجاتا ہے۔ یہی امام اوۃ ب حنیفہ (رح) کا قول ہے۔

79

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، قَالَ «إِذَا نَامَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فَلْيَتَوَضَّأْ» .
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نی فرمایا جب تم سے کوئی چِت لیٹ کر سو رہے تو (اٹھنے پر) وہ وضو کرے۔

80

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهُوَ قَاعِدٌ فَلا يَتَوَضَّأُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ فِي الْوَجْهَيْنِ جَمِيعًا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع رحمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے پھر وہ وضو نہ کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم دونوں صورتوں میں ابن عمر (رض) کے قول پر عمل پیرا ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے

81

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ " أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْمَرْأَةُ تَرَى فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ أَتَغْتَسِلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ فَلْتَغْتَسِلْ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةَ: أُفٍّ لَكِ، وَهَلْ تَرَى ذَلِكَ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ: فَالْتَفَتَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: تَرِبَتْ يَمِينُكِ، وَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهِ "؟ قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
اسم سلیم (رض) عنہا نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اگر عورت خواب میں اس طرح دیک ہے جس طرح مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں وہ بھی غسل کرے۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے ام سلیم (رض) عنہا سے فرمایا۔ تجھ پر افسوس اور نفرین ہے۔ کیا عورت بھی یہ کچھ دیکھتی ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تیرا بھا ہو ! اگر ایسا نہ ہو تو پھر (والدہ کے ساتھ) بچے کی مشابہت کہاں سے ہوتی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا ہی قول ہے۔

82

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تُهْرَاقُ الدَّمَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَتْ لَهَا أُمُّ سلَمَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لِتَنْظُرِ اللَّيَالِيَ وَالأَيَّامَ الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ مِنَ الشَّهْرِ قَبْلَ أَنْ يُصِيبَهَا الَّذِي أَصَابَهَا، فَلْتَتْرُكِ الصَّلاةَ قَدْرَ ذَلِكَ مِنَ الشَّهْرِ، فَإِذَا خَلَّفَتْ ذَلِكَ، فَلْتَغْتَسِلْ ثُمَّ لِتَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ فَلْتُصَلِّ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَتَتَوَضَّأُ لِوَقْتِ كُلِّ صَلاةٍ، وَتُصَلِّي إِلَى الْوَقْتِ الآخَرِ، وَإِنْ سَالَ دَمُهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مں ر ایک عورت کو بہت خون آتا تھا۔ پس اس کی خاطر ام سلمہ (رض) عنہا نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتوی دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر وہ مہینے کے ان دن راتوں کو دیکھے جن میں اسے حیض آتا ہے جبکہ وہ اس بیماری میں مبتلا نہ ہوئی تھی۔ پھر مہینے میں ان دنوں کی مقدار نماز کو ترک کردے۔ جب وہ ان ایام کو گزار لے تو غسل کرے اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھے پھر نماز ادا کرے۔ (یہ حدیث مؤطاء امام مالک میں باب المستحاضہ میں مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے اور وقت کے آخر تک نماز پڑھتی رہے۔ خواہ اس دوران اس کا خون بہتا رہے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

83

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ الْقَعْقَاعَ بْنَ حَكِيمٍ، وَزَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ أَرْسَلاهُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْمُسْتَحَاضَةِ كَيْفَ تَغْتَسِلُ؟ فَقَالَ سَعِيدٌ «تَغْتَسِلُ مِنْ طُهْرٍ إِلَى طُهْرٍ، وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاةٍ، فَإِنْ غَلَبَهَا الدَّمُ اسْتَثْفَرَتْ بِثَوْبٍ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: تَغْتَسِلُ إِذَا مَضَتْ أَيَّامُ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاةٍ وَتُصَلِّي، حَتَّى تَأْتِيَهَا أَيَّامُ أَقْرَائِهَا، فَتَدَعُ الصَّلاةَ، فَإِذَا مَضَتْ، اغْتَسَلَتْ غُسْلا وَاحِدًا، ثُمَّ تَوَضَّأَتْ لِكُلِّ وَقْتِ صَلاةٍ وَتُصَلِّي، حَتَّى يَدْخُلَ الْوَقْتُ الآخَرُ مَا دَامَتْ تَرَى الدَّمَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
قعقاع بن حکیم اور زید بن اسلم رحمہما اللہ دونوں نے ابوبکر بن عبد الرحمن کے غلام سمی کو سعید بن المسیب کی خدمت میں بھیجا کہ مستحاضہ کیونکر غسل کرے۔ سعید کہنے لگے کہ وہ طہر سے طہر تک غسل کرے اور ہر نماز کے لیے وضو کرے پھر اگر اس پر خون کا غلبہ ہو تو لنگوٹ باندھ لے۔ (امام مالک نے مؤطا میں یہ اثر نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جب اس عورت کے ایام حیض گزر جائیں تو غسل کرے اور ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے یہاں تک کہ اس کے ایام حیض آجائیں۔ ان میں نماز چھوڑدے۔ پھر ایام حیض گزر جانے پر ایک بار غسل کرے اور ہر نماز کے وقت وضو کرتی رہے۔ اور دوسری نماز کا وقت آنے تک نماز پڑھ لے جب تک کہ اس کا یہ بیماری والا خون کا سلسل قائم ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

84

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «لَيْسَ عَلَى الْمُسْتَحَاضَةِ أَنْ تَغْتَسِلَ إِلا غُسْلا وَاحِدًا، ثُمَّ تتَوَضَّأُ بَعْدَ ذَلِكَ لِلصَّلاةِ» .
عروہ (رح) نے کہا کہ مستحاضہ پر ایک ہی غسل واجب ہے۔ پھر اس کے بعد وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔

85

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ مَوْلاةِ عَائِشَةِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَانَ النِّسَاءُ يَبْعَثْنَ إِلَى عَائِشَةَ بِالدُّرْجَةِ فِيهَا الْكُرْسُفُ، فِيهِ الصُّفْرَةُ مِنَ الْحَيْضِ فَتَقُولُ: لا تَعْجَلَنَّ حَتَّى تَرَيْنَ الْقَصَّةَ الْبَيْضَاءَ ". تُرِيدُ بِذَلِكَ الطُّهْرَ مِنَ الْحَيْضِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا تَطْهُرُ الْمَرْأَةُ مَا دَامَتْ تَرَى حُمْرَةً، أَوْ صُفَرَةً، أَوْ كُدْرَةً، حَتَّى تَرَى الْبَيَاضَ خَالِصًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
علقمہ نے اپنی والدہ مرجانہ سے نقل کیا ۔ یہ عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں کہ عورتیں ام المؤمین (رض) عنہا کے پاس ڈبیاں بھیجتیں تھیں۔ جن میں روائی ہوتی اور اس روئی پر حیض کے خون کے زردی ہوتی تھی۔ وہ پوچھتی تھیں کہ کیا اب ہم پر نماز فرض ہے ( جبکہ خارج ہونے والا مادہ زرد رنگت اختیار کرچکا) وہ فرماتی تھی کہ جلدی مت کرو جب تک کہ سفید پانی نہ دیکھو۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ جب تک حیض سے پوری طرح پاک نہ ہوجائے اور طہر کے ایام نہ آجائے اس وقت تک صبر کرو۔ اس روایت کو مؤطا امام مالک نے باب المراۃ تری الصفرۃ و الکلدرۃ میں نقل کیا ہے۔
قول محمد (رح) ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں کہ عورت اس وقت تک حیض سے پاک نہ ہوگی جب تک سرخ یا زرد، میلا مادہ خارج ہونے والا ہو خالص سفیدی طہر کی علامت ہے یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

86

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنِ ابْنَةِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، " أَنَّهُ بَلَغَهَا أَنَّ نِسَاءً كُنَّ يَدْعُونَ بِالْمَصَابِيحِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَيَنْظُرْنَ إِلَى الطُّهْرِ، فَكَانَتْ تَعِيبُ عَلَيْهِنَّ وَتَقُولُ: مَا كَانَ النِّسَاءُ يَصْنَعْنَ هَذَا ".
زید بن ثابت کی بیٹی کو معلوم کہ عورتیں رات کو طہر دیکھنے کے لیے چراغ منگواتی ہیں تو اس نے ان عورتوں کے اس فعل کو ناپسند کیا اور کہا عورتوں کو ایسا نہ کرنا چاہیے۔ صحابہ کی عورتیں ایسا نہ کرتی تھیں۔

87

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ تَغْسِلُ جَوَارِيهِ، رِجْلَيْهِ، وَيُعْطِينَهُ الْخُمْرَةَ وَهُنَّ حُيَّضٌ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی لونڈیاں حالت حیض میں ان کے ہاتھ پاؤں دھوتیں اور ان کو جائے نماز لاکر دیتی تھیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

88

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كُنْتُ أُرَجِّلُ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا حَائِضٌ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروہ بن زبیر حضرت عائشہ (رض) عنہا کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں حالت حیض میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک کو کنگھی کر تھی۔ (امام مالک نے باب جامع الحیضہ میں اس کو ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اس میں کجھ قباحت نہیں اور امام ابو حنفیہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی کے قائل ہیں۔

89

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «لا بَأْسَ بِأَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ، مَا لَمْ تَكُنْ جُنُبًا أَوْ حَائِضًا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ وَغُسْلِهَا، وَسُؤْرِهَا وَإِنْ كَانَتْ جُنُبًا، أَوْ حَائِضًا , بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ هُوَ، وَعَائِشَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ لِيَتَنَازَعَانِ الْغُسْلَ جَمِيعًا، فَهُوَ فَضْلُ غُسْلِ الْمَرْأَةِ الْجُنُبِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) عنہا کا ارشاد نقل کیا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں کہ مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے جبکہ وہ عورت حائضہ یا جنابت والی نہ ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ عورت کے بچے ہوئے یا جھوٹے پانی غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اگرچہ وہ عورت حائضہ یا جنابت والی ہی کیوں نہ ۔ ہمین یہ روایت پہنچی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عائشہ صدیقہ (رض) عنہا ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور وہ یکے بعد دیگرے اس برتن سے پانی لیتے تھے۔ پس یہ جنبی عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل تھا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

90

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ امْرَأَتَهُ حُمَيدَةَ ابْنَةَ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ أَخْبَرَتْهُ , عَنْ خَالَتِهَا كَبْشَةَ ابْنَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَتْ تَحْتَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ , " أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ أَمَرَهَا فَسَكَبَتْ لَهُ وَضُوءًا، فَجَاءَتْ هِرَّةٌ فَشَرِبَتْ مِنْهُ، فَأَصْغَى لَهَا الإِنَاءَ فَشِرِبَتْ، قَالَتْ كَبْشَةُ: فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ , فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا ابْنَةَ أَخِي؟ قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِأَنْ يَتَوَضَّأَ بِفَضْلِ سُؤْرِ الْهِرَّةِ، وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
کبشہ بنت کعب نے جو ابو قتادہ کی بہو تھیں بیان کیا کہ ابو قتادہ (رض) میرے ہان تشریف لائے اور کبشہ نے ان کے وضو کے لیے پانی ڈالا۔ اچانک ایک بلی آ نکلی اور اس برتن سے پانی پینے لگی ابو قتادہ نے بلی کی طرف برتن جھکا دیا۔ پس بلی نے اس میں سے پانی پی لیا۔ ابو قتادہ (رض) نے دیکھا کبشہ تعجب سے دیکھ رہی ہے۔ پس فرمانے لگے اے میری بھتیجی ! کیا تو حیران ہورہی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! تو وہ فرمانے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ نجس نہیں کیونکہ یہ ہر وقت ہر جگہ تمہارے پاس گھومتی پھرتی ہے۔ (امام مالک نے اس روایت کو باب الطہور للوضوء میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ بلی کے جھوٹے پانی سے وضو کرلینے میں کچھ قباحت نہیں۔ البتہ دیگر پانی موجود ہو تو اس کو ترجیح دی جائے گی۔ (یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے)

91

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ» , قَالَ مَالِكٌ: بَلَغَنَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ يُؤْذِنُهُ لِصَلاةِ الصُّبْحِ، فَوَجَدَهُ نَائِمًا فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يَجْعَلَهَا فِي نِدَاءِ الصُّبْحِ
ابو سعید خدری (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم اذان سنو تو تم اسی طرح کہو جو مؤذن کہے۔
امام مالک کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ ایک دن مؤذن عمر فاروق (رض) کے پاس ان کو صبح کی نماز کے لیے بیدار کرنے لیے يیا تو انھیں سوتا ہوا پا کر کہنے لگا۔ الصلوۃ خیر من النوم تو عمر (رض) عنہا نے اس کو حکم دیا کہ اس کو صبح کی اذان میں کہا کرو۔ (یہ اثر امام مالک نے باب ما جاء فی النداء للصلوۃ میں ذکر کا ہے۔ )

92

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي النِّدَاءِ ثَلاثًا وَيَتَشَهَّدُ ثَلاثًا، وَكَانَ أَحْيَانًا إِذَا قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ , قَالَ عَلَى إِثْرِهَا حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ يَكْوُنُ ذَلِكَ فِي نِدَاءِ الصُّبْحِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ النِّدَاءِ، وَلا يَجِبُ أَنْ يُزَادَ فِي النِّدَاءِ مَا لَمْ يَكُنْ مِنْهُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اذان میں اللہ اکبر تین بار اور اشہد ان لا الہ الا اللہ تین بار کہتے اور کبھی حی علي الفلاح کہہ لینے بعد حی علی خیر العمل کہتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ الصلوۃ خیر من النوم کا کلمہ صبح کی اذان میں اذان سے فارغ ہو کر کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ اذن میں کوئی ایسا کلمہ جو اذان میں نہ ہو وہ اس میں بڑھانا پسندیدہ بات نہیں ہے۔

93

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاةِ فَلا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ وَأْتُوهَا وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ فِي صَلاةٍ مَا كَانَ يَعْمِدُ إِلَى الصَّلاةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا تَعْجَلَنَّ بِرُكُوعٍ، وَلا افْتِتَاحٍ حَتَّى تَصِلَ إِلَى الصَّفِّ وَتَقُومَ فِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب نماز کی اقامت ہوجائے تو دوڑتے ہوئے اس کی طرف مت آؤ بلکہ اس حال میں آؤ کہ تم پر سکون اور وقار ہو۔ پھر جتنی نماز پالو اسے پڑھ لو اور جو تمہیں نہ مل سکی اسے پورا کرلو کیونکہ جو شخص نماز کی طرف آتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : تم ہرگز رکوع کرنے یا افتتاح کرنے میں جلدی نہ کرو جب تک صف میں کھڑے نہ ہوجاؤ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

94

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سَمِعَ الإِقَامَةَ وَهُوَ بِالْبَقِيعِ فَأَسْرَعَ الْمَشْيَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهَذَا لا بَأْسَ بِهِ مَا لَمْ يُجْهِدْ نَفْسَهُ
نافع نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے بقیع میں اقامت سنی تو جلدی سے (واپس) چل دئیے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جلدی چلنے میں قباحت نہیں جب تک کہ اپنے کو مشقت میں نہ ڈالے۔ (دوڑ کی ممانعت ہے تاکہ خشوع میں خلل واقع نہ ہو۔ ایسی چال ہو جو سکون و وقار کے بھی خلاف نہ ہو) ۔

95

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سُمَيٌّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: «مَنْ غَدَا أَوْ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ لا يُرِيدُ غَيْرَهُ لِيَتَعَلَّمَ خَيْرًا، أَوْ يُعَلِّمَهُ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ كَانَ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ رَجَعَ غَانِمًا»
سمی کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکر بن عبد الرحمن کو کہتے سنا ہے کہ جو شخص صبح یا دوپہر کو مسجد کی طرف صرف اس غرض سے گیا کہ کسی کو پڑھائے یا خود پڑھے پھر وہ (فارغ ہو کر) لوٹ آئے تو وہ اس مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے جو مال غنیمت لے کر واپس لوٹا۔

96

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نُمَيْرٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: " سَمِعَ قَوْمٌ الإِقَامَةَ فَقَامُوا يُصَلُّونَ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَصَلاتَانِ مَعًا "؟ ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يُكْرَهُ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاةُ، أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ تَطَوُّعًا غَيْرَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ خَاصَةً، فَإِنَّهُ لا بَأْسَ بِأَنْ يُصَلِّيَهُمَا الرَّجُلُ إِنْ أَخَذَ الْمُؤَذِّنُ فِي الإِقَامَةِ، وَكَذَلِكَ يَنْبَغِي، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اقامت سنی اور وہ سنتوں کے لیے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حجرے سے نکل کر فرمایا کیا دو نمازیں ایک ساتھ پڑھتے ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جب تکبیر ہوجائے تو کسی بھی شخص کو نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ فجر کی دو سنتیں ادا کرنے میں حرج نہیں خواہ مکبر نے تکبیر شروع کردی ہو یہی مناسب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔

97

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَأْمُرَ رِجَالا بِتَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ، فَإِذَا جَاءُوهُ فَأَخْبَرُوهُ بِتَسْوِيَتِهَا كَبَّرَ بَعْدُ "
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ عمر فاروق (رض) چند اصحاب کو ص فیں درست کرنے پر مقرر فرماتے جب وہ آکر صفوف کی درستگی کی اطلاع دے دیتے تو آپ تکبیر کہتے۔ (اس اثر کو مؤطا امام مالک باب تسویۃ الصف میں ذکر کیا گیا ہے)

98

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الأَنْصَارَيِّ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، كَانَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ: «إِذَا قَامَتِ الصَّلاةِ، فَاعْدِلُوا الصُّفُوفَ، وَحَاذُوا بِالْمَناكِبِ، فَإِنَّ اعْتِدَالِ الصُّفُوفِ مِنْ تَمَامِ الصَّلاةِ» ، ثُمَّ لا يُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَهُ رِجَالٌ قَدْ وَكَّلَهُمْ بِتَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ، فَيُخْبِرُونَهُ أَنْ قَدِ اسْتَوَتْ فَيُكَبِّرُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: يَنْبَغِي لِلْقَوْمِ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ أَنْ يَقُومُوا إِلَى الصَّلاةِ فَيَصُفُّوا، وَيُسَوُّوا الصُّفُوفَ، وَيُحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ، فَإِذَا أَقَامَ الْمُؤَذِّنُ الصَّلاةَ كَبَّرَ الإِمَامُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
مالک بن عامر اصبحی (امام مالک کے دادا ہیں) کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اپنے خطبہ میں کہتے تھے۔ جب اقامت کہی جائے تو صفیں برابر کرلو اور اپنے شانہ کو شانہ سے ملا لو کیونکہ صفوف کو برابر کرنا نماز کا تکملہ ہے۔ آپ اس وقت تک تکبیر نہ کہتے تھے جب تک آپ کے پاس مقررہ لوگ صفوف کی برابری کی اطلاع نہ کردیتے۔ پھر آپ تکبیر کہتے۔ (مؤطا امام مالک میں اسی کے مشابہ روایت باب تسویۃ الصفوف میں مذکور ہے)

99

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھاتے۔ جب رکوع کی تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے پھر ربنا ولک الحمد کہتے۔

100

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ كَانَ «إِذَا ابْتَدَأَ الصَّلاةَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا دُونَ ذَلِكَ»
عبداللہ بن عمر (رض) جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کڑ برابر ہاتھ اٹھاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اس سے کسی قدر کم ہاتھ اٹھاتے۔ مؤطاء امام مالک میں یہ اثر افتتاح الصلوۃ میں مذکور ہے۔

101

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، «أَنَّهُ يُعَلِّمُهُمُ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاةِ، أَمَرَنَا أَنْ نُكَبِّرَ كُلَّمَا خَفَضْنَا، وَرَفَعْنَا»
وہب ن کیسان نے جابر بن عبداللہ انصاری کے متعلق بیان کیا کہ وہ اپنے شاگردوں کو نماز کی تکبیر سکھاتے اور حکم دیتے تھے کہ ہم جب بہی نیچے کو جھکیں یا اوپر اٹھیں تو تکبیر کہیں۔ ( یہ اثر مؤطا امام مالک میں مذکور ہے)

102

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ كُلَّمَا خَفَضَ، وَكُلَّمَا رَفَعَ، فَلَمْ تَزَلْ تِلْكَ صَلاتُهُ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»
علی بن حسین (رح) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں ہر پستی اور بلندی میں تکبیر کہتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں پہنچ جانے تک آپ کی یہی نماز رہی۔ (یہ اثر بھی مؤطاء امام میں میں مذکور ہے)

103

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ «كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَكَبَّرَ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ، ثُمَّ انْصَرَفَ» ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لأَشْبَهُكُمْ صَلاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) لوگوں کو نماز پڑھاتے اور ہر پستی و بلندی میں تکبیر کہتے تھے۔ نماز کے اختتام کے بعد کہتے اللہ کی قسم ! میری نماز تم سب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہ ہے۔

104

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نُعَيْمٌ الْمُجْمِرُ، وَأَبُو جَعْفَرٍ الْقَارِئُ «أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَكَبَّرَ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ» ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: «وَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ، وَيَفْتَحُ الصَّلاةَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: السُّنَّةُ أَنْ يُكَبِّرَ الرَّجُلُ فِي صَلاتِهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَإِذَا انْحَطَّ لِلسُّجُودِ كَبَّرَ، وَإِذَا انْحَطَّ لِلسُّجُودِ الثَّانِي كَبَّرَ. فَأَمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاةِ فَإِنَّهُ يَرْفَعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الأُذُنَيْنِ فِي ابْتِدَاءِ الصَّلاةِ مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ لا يَرْفَعُ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلاةِ بَعْدَ ذَلِكَ، وَهَذَا كُلُّهُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَفِي ذَلِكَ آثَارٌ كَثِيرَةٌ
نعیم مجمر اور ابو جعفر القاری دونوں ابوہریرہ (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ ہمیں نماز پڑھاتے تو ہر پستی و بلندی میں تکبیر کہتے اور وہ تکبیر کے وقت اور نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھاتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : سنت یہ ہے کہ ہر پستی و بلندی میں نماز کے دوران تکبیر کہے اور جب سجدہ کے لیے جھکے تو تکبیر کہے جب دوسرے سجدہ کے لیے جھکے تو تکبیر کہے۔ باقی نماز میں ہاتھ صرف تکبیر افتتاح میں ایک مرتبہ اٹھائے پھر اس کے بعد دوران نماز کہیں ہاتھ نہ اٹھائے۔
یہ تمام امام ابوحنیفہ (رح) کے ارشاد ہیں اس سلسلہ میں بہت سے آثار اس کے مؤید ہیں۔

105

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ «رَفَعَ يَدَيْهِ فِي التَّكْبِيرَةِ الأُولَى مِنَ الصَّلاةِ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ»
کلیب جرمی کہتے ہیں کہ میں نے علی مرتضی (رض) کو فرض نماز کی تکبیر اولی میں رفع یدن کرتے دیکھا اس کے علاوہ وہ نماز میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔

106

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، قَالَ: «لا تَرْفَعْ يَدَيْكَ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلاةِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى» .
حماد کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی (رح) نے فرمایا تکبیر تحریمہ کے بعد نماز میں کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھاؤ۔

107

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، قَالَ عَمْرُو , حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ، فَرَآهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا كَبَّرَ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ» ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: مَا أَدْرِي لَعَلَّهُ لَمْ يَرَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلا ذَلِكَ الْيَوْمَ فَحَفِظَ هَذَا مِنْهُ، وَلَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأَصْحَابُهُ مَا سَمِعْتُهُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ، إِنَّمَا كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي بَدْءِ الصَّلاةِ حِينَ يُكَبِّرُونَ
حصین بن عبد الرحمن اور عمرو بن مرہ دونوں ابراہیم نخعی کے پاس آئے۔ پہر عمرو نے کہا کہ مجھے علقمہ نے اپنے والد وائل حضرمی کی وساطت سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ جب تکبیر کہتے ، رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ اٹھاتے، اس پر ابراہیم نخعی کہنے لگے انھوں نے ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے دیکھا اور پس وہی بات ان کو یاد رہی اور انھوں نے محفوظ کی مگر اس بات کو ابن مسعود اور ان کے شاگردوں نے محفوظ نہ کیا۔ میں نے ابن میں سے کسی سے یہ نہیں سنا۔ وہ تمام نماز کی ابتدائی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔

108

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ»
عبد العزیز بن حکیم کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ نماز کی افتتاحی تکبیر میں اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں کے برابر اٹھاتے۔ اس کے علاوہ دوران نماز کہیں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔

109

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ , أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي التَّكْبِيرَةِ الأُولَى الَّتِي يَفْتَتِحُ بِهَا الصَّلاةَ، ثُمَّ لا يَرْفَعُهُمَا فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلاةِ "
کلیب جرمی (رح) بیان کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) تکبیر افتتاحی میں اپنے ہاتھ اٹھاتے اس کے بعد نماز کے کسی حصہ میں وہ ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔ یہ کلیب جرمی، علی (رض) کے خصوصی شاگردوں میں سے تھے۔

110

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ , أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ "
ابراہیم نے بیان کیا کہ ابن مسعود (رض) صرف افتتاح صلوۃ کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے

111

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْصَرَفَ مِنْ صَلاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَقَالَ: هَلْ قَرَأَ مَعِيَ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ: إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنازَعَ الْقُرْآنَ "؟ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ بِهِ مِنَ الصَّلاةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ
ابن اکیمہ لیثی (رح) ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جہری نماز کو جب ختم کیا تو فرمایا کہ کیا ابھی تھوڑی دیر پہلے تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی تھی ؟ ایک شخص کہنے لگا۔ جی ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے قرات کی تھے۔ ابوہریرہ (رض) کہنے لگے اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے میرے ساتھ قرآن پڑھنے میں تنازع کیا جاتا ہے۔ پس لوگوں نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے باز آگئے۔ ( اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب ترک القرائۃ خلف الامام فیما جہر فیہ میں ذکر کیا ہے) ۔

112

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ مَعَ الإِمَامِ؟ قَالَ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ مَعَ الإِمَامِ، فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ لا يَقْرَأُ مَعَ الإِمَامِ»
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے جب پوچھا جاتا تھا کہ کیا کوئی امام کے پیچھے قراءت کرے ؟ تو وہ جوابا فرماتے۔ جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو اسے امام کی قراءت کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قراءت کرے اور عبداللہ بن عمر (رض) امام کے پیچھے قراءت نہ کرتے تھے۔ یہ اثر بھی مؤطا امام مالک میں سابقہ حوالہ سے مذکورہ ہے۔

113

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِ أُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ يَصُلِّ إِلا وَرَاءَ الإِمَامِ»
وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جس شخص نے نماز کی کوئی رکعت پڑھی مگر اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہ پڑھی۔ مگر جبکہ وہ امام پیچھے ہو۔ (اس اثر کو مؤطا امام مالک میں باب ما جاء فی ام القرآن میں نقل کیا ہے)

114

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الإِمَامِ؟ قَالَ: فَغَمَزَ ذِرَاعِي , وَقَالَ: يَا فَارِسِيُّ، اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: «قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ» ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا، يَقُولُ الْعَبْدُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] ، يَقُولُ اللَّهُ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 3] ، يَقُولُ اللَّهُ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الَعَبْدُ: {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ} [الفاتحة: 4] ، يَقُولُ اللَّهُ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5] ، فَهَذِهِ الآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ {6} صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 6-7] ، فَهَؤُلاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " , قَالَ مُحَمَّدٌ: لا قِرَاءَةَ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ وَلا فِيمَا لَمْ يَجْهَرْ، بِذَلِكَ جَاءَتْ عَامَّةُ الآثَارِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابو السائب مولی ہشام حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول الل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز نامکمل ہے۔ نامکمل ہے پوری نہیں ہے۔ ابو السائب کہتے ہیں میں نی پوچھا اے ابوہریرہ (رض) میں کبہی کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں۔ اس پر ابوہریرہ رضی الل ٧٧ ہ عنہ نے میرا بازو دبایا (متوجہ کرنے کے لیے ) اور کہا اے فارسی ! اسے اپنے جی میں پڑھ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے نماز کو ابنے اور بندے کے درمیان آدھا، آدھا بانٹ لیا ہے۔ پس نماز نصف میری ہے اور نصف میرے بندے کی ہے اور میرا بند جو مانگے گا اسے دیا جائے گا ( میرے بندے کا نصف وہ ہے جس میں سوال ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پڑھو ! بندہ کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میرے بندے نے میری حمد کی۔ پھر بندہ کہتا ہے الرحمن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری ثناء کی۔ پھر بندہ کہتا ہے مالک یوم الدین۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت بیان کی پھر بندہ کہتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین۔ پس یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ (یعنی تعلق عبدیت کو ظاہر کرتی اور طرف معبود و مستعان کو بتلاتی ہے) اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے سوال کیا۔ پھر بندہ کہتا ہے اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المضغوب علیہ ولا الضالین۔ پس یہ آیات میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو اس نے مانگا۔ (اس حدیث کو امام مالک نے مؤطا میں باب القراء ۃ خلف الامام میں نقل کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ امام کے پیچھے جہری اور سری ہر دو نمازوں میں قراءت درست نہیں، اس بڑ عام آثار شاہد ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔

115

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الإِمَامِ كَفَتْهُ قِرَاءَتُهُ»
نافع رحمہ نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہا نہو وں نے فرمایا جس نے امام کے پیچھے نماز ادا کی اس کو امام کی قراءت کافی ہے۔

116

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيُّ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، " أَنَّهُ سَأَلَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ، قَالَ: تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الإِمَامِ "
انس بن سیرین نے ابن عمر (رض) سے نقل ک یا ہے کہ ان سے قرات خلف الامام کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا۔ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

117

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ»
عبداللہ بن شداد نے جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت نقل کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس نے امام کے پیچھے نماز ادا کی پس امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔

118

قَالَ مُحَمَّدٌ , حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَلِيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الإِمَامِ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ»
ابن الزبیر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ٧٧ جس نے امام کے پیچھے نماز پڑھی پس امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔

119

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ ابْنُ عُمَرَ لا يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ، قَالَ: فَسَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنْ تَرَكْتَ فَقَدْ تَرَكَهُ نَاسٌ يُقْتَدَى بِهِمْ، وَإِنْ قَرَأْتَ فَقَدْ قَرَأَهُ نَاسٌ يُقْتَدَى بِهِمْ ". وَكَانَ الْقَاسِمُ مِمَّنْ لا يَقْرَأُ
سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر ضی اللہ عنہما کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ امام کے پیچھے قرات نہ کرتے تھے۔ سالم کہتے ہیں میں نے قاسم بن محمد (رح) سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب میں فرمایا۔ اگر تم نے قراءت چھوڑی ہے تو اس کو قابل اقتداء (صحابہ کرام) لوگوں نے چھوڑا ہے اور اگر تم نے قراءت کی ہے تو قابل اقتداء لوگوں (صحابہ کرام) نے وہ قراءت کی ہے۔ سالم کہتے ہیں کہ یہ قاسم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو امام کے پیچھے قراءت نہ کرتے تھے۔

120

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: " سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ، قَالَ: أَنْصِتْ، فَإِنَّ فِي الصَّلاةِ شُغْلا سَيْكَفِيكَ ذَاكَ الإِمَامُ "
ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے قرات خلف الامام کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا گ خاموش رہو اس لیے کہ نماز میں ایشی مشغولیت ہے جس میں امام تمہارے لیے کفایت کرنے والا ہے۔

121

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ الْقُرَشِيُّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، «أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ لا يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ، وَفِيمَا يُخَافِتُ فِيهِ فِي الأُولَيَيْنِ، وَلا فِي الأُخْرَيَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ قَرَأَ فِي الأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، وَلَمْ يَقْرَأْ فِي الأُخْرَيَيْنِ شَيْئًا»
علقمہ بن قیس (رح) بتلاتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نہ امام کے پیچھے نہ تو پہلی دو رکعتوں میں پڑھتے جن میں جہرا قراءت کی جاتی ہے اور نہ پچھلی دو رکعتوں میں جن میں سررا قرات کی جاتی ہے اور جب آپ (رض) اکیلے نماز پڑھتے تو پہلی دو رکعات میں فاتحۃ الکتاب اور کوئی سورت پڑھتے اور آخری رکعات میں کچھ نہ پڑھتے تھے۔

122

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَنْصِتْ لِلْقِرَاءَةِ، فَإِنَّ فِي الصَّلاةِ شُغْلا، وَسَيَكْفِيكَ الإِمَامُ.
ابو وائال نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا کہ عبداللہ فرمانے لگے تم قرآن مجید کی قراءت سننے کے لیے خاموش رہو۔ اس لیے کہ نماز میں ایک خاص مشغولیت ہے اوۃ ر امام ہی اس میں تمہارے لیے کفایت کرنے والے ہیں۔

123

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنَ قَيْسٍ، قَالَ» لأَنْ أَعُضَّ عَلَى جَمْرَةٍ، أَحَبُّ إِلَى مِنْ أَنْ أَقْرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ.
علقمہ بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میرے لیے آگ چنگاری کو منہ میں چبانا اس سے بہتر ہے کہ امام کے پیچھے میں قراءت کروں۔

124

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ» إِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ رَجُلٌ اتُّهِمَ ".
منصور (رح) نے ابراہیم (رح) سے نقل کیا کہ وہ آدمی جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ متہم ہوا۔

125

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، قَالَ: أَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَصْرِ، قَالَ: فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ فَغَمَزَهُ الَّذِي يَلِيهِ، فَلَمَّا أَنْ صَلَّى قَالَ: لِمَ غَمَزْتَنِي؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ [ص:63] عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُدَّامَكَ، فَكَرِهْتُ أَنْ تَقْرَأَ خَلْفَهُ، فَسَمِعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ
موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شداد (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن لوگوں کو عصر کی نماز پڑھائی تو ایک شخص نے آپ کے پیچھے قراءت کی تو اس کی ساتھ والے نے اس کو چوک لگائی۔ جب نماز پڑھی جاچکی تو اس نے کہا تو نے مجھے کیوں نچزک ماری ہے۔ اس نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے آگے تھے (امامت کروا رہے تھے) پس میں نے اس بات کو ناپسند یکا کہ تم ان کے پیچھے قراءت کرو۔ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کان مبارک میں پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جو امام کے پیچھے نماز پڑھی پس امام کی قرات اس کی قراءت ہے۔

126

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ الْفَرَّاءِ الْمَدَنِيُّ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ وَلَدِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , أَنَّهُ ذَكَرَ لَهُ أَنَّ سَعْدًا، قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِي فِيهِ جَمْرَةٌ
داؤد بن قیس فراء المدنی کہتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے فرمایا میں یہ چاہتاہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قراءت کرتا ہٍ اس کے منہ میں جلتا ہوا کوئلہ ہوتا ہے۔

127

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ الْفَرَّاءُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَيْتَ فِي فَمِ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ حَجَرًا
محمد بن عجلان (رح) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) فرمانے لگے کاش اس شخص کے منہ میں پتھر پڑیں جو امام کے پیچھے قرات کرتا ہے۔

128

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ سَعْدِ بْنِ قَيْسٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ يُحَدِّثُهُ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَلا صَلاةَ لَهُ
عمرو اپنے دادا زید بن ثابت (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نیٔ فرمایا جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کی نماز مقبول نہیں ہے۔

129

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ , أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا فَاتَهُ شَيْءٌ مِنَ الصَّلاةِ مَعَ الإِمَامِ الَّتِي يُعْلِنُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَإِذَا سَلَّمَ، قَامَ ابْنُ عُمَرَ، فَقَرَأَ لِنَفْسِهِ فِيمَا يَقْضِي " قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لأَنَّهُ يَقْضِي أَوَّلَ صَلاتِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کے متعلق بیان کیا کہ جب ان کی جہری قراءت والی نماز کا کچھ حصہ امام کے ساتھ فوت ہواجاتا تو ابن عمر سلام کے بعد کھڑے ہو کر بقیہ نماز جہری قراءت کے ساتھ ادا کرتے (اس اثر کو امام مالک نے باب العمل فی القرائۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی گزری نماز کا پہلی حصہ ادا کرے گا اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

130

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَاءَ إِلَى الصَّلاةِ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ رَفَعُوا مِنْ رَكْعَتِهِمْ سَجَدَ مَعَهُمْ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: بِهَذَا نَأْخُذُ، وَيَسْجُدُ مَعَهُمْ وَلا يَعْتَدُّ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کے متعلق ذکر کیا کہ جب وہ نماز کے لیے آتے اور لوگوں کو دیکھتے کہ وہ رکوع سے سر اٹھا چکے ہیں تو سجدہ میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتے
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ سجدہ میں شمولیت اختیار کرے مگر اس رکعت کو شمار نہ کیا جائے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے

131

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ إِذَا وَجَدَ الإِمَامَ قَدْ صَلَّى بَعْضَ الصَّلاةِ، صَلَّى مَعَهُ مَا أَدْرَكَ مِنَ الصَّلاةِ، إِنْ كَانَ قَائِمًا قَامَ، وَإِنْ كَانَ قَاعِدًا قَعَدَ، حَتَّى يَقْضِي الإِمَامُ صَلاتَهُ، لا يُخَالِفُ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلاةِ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا ہے کہ جب وہ امام کو اس حال میں پاتے کہ وہ نماز کا کچھ حصہ ادا کرچکا ہے تو اس کی ساتھ نماز میں شامل ہوجاتے۔ جو نماز کا حصہ امام کے ساتھ پباتے اگر امام کھڑا ہوتا تو کھڑے ہوجاتے اور اگر وہ قعدہ مں ہوتا تو قعدہ میں کرتے۔ جب تک امام اپنی نماز میں رہتا اس کی نماز کے ساتھ کسی چیز میں مخالفت نہ کرتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اس پرر عمل کرتے ہیں امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

132

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلاةِ رَكْعَةً، فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاةَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس نے نماز کی ایک رکعت پالی وتو گویا اس نے نماز کو پالیا۔ (ثواب جماعت پالیا)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

133

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «إِذَا فَاتَتْكَ الرَّكْعَةُ فَاتَتْكَ السَّجْدَةُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ سَجَدَ السَّجْدَتَيْنِ مَعَ الإِمَامِ لا يُعْتَدُّ بِهِمَا، فَإِذَا سَلَّمَ الإِمَامُ قَضَى رَكْعَةً تَامَةً بِسَجْدَتَيْهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کا ارشاد نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں جب تم میں سے کسی کا رکوع رہ جائے تو تم سے سجدہ فوت ہوگیا یعنی رکعت فوت ہوگئی۔
قول محمد یہ ہے جس شخص نے امام کے ساتھ دو سجدے پائے اس کی وہ رکعت شمار نہ ہوگی۔ جب امام سلام پھیر دے تو وہ رکعت دونوں سجدوں سمیت ادا کرے۔ یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

134

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ إِذَا صَلَّى وَحْدَهُ يَقْرَأُ فِي الأَرْبَعِ جَمِيعًا مِنَ الظُّهْرِ، وَالْعَصْرِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَكَانَ أَحْيَانًا يَقْرَأُ بِالسُّورَتَيْنِ، أَوِ الثَّلاثِ فِي صَلاةِ الْفَرِيضَةِ فِي الرَّكْعَةِ الْوَاحِدَةِ، وَيَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنَ الْمَغْرِبِ، كَذَلِكَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَسُورَةٍ سُورَةٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: السُّنَّةُ أَنْ تَقْرَأَ فِي الْفَرِيضَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَإِنْ لَمْ تَقْرَأْ فِيهِمَا أَجْزَأَكَ، وَإِنْ سَبَّحْتَ فِيهِمَا أَجْزَأَكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) کہتے ہیں جب عبداللہ بن عمر (رض) تنہا نماز پڑھتے تو ظہر اور عصر کی تمام رکعات میں سورة فاتحہ اور قرآن مجید یک کوئی سی سورت پڑھتے تھے اور کبھی دو یا تین سورتیں فرض نماز کی ایک ررکعت میں پڑھتے اور مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ فرئض کی پہلی دو رکعات میں سورة فاتحہ اور کوئی سورت پر ہے اور آخری کی دو رکعتوں میں صرف فاتحہ پڑھے اور ان میں کچھ بھی نہ پڑھے۔ یا سبحان اللہ ، سبحان اللہ ہی کہہ دے تو بھی جائز ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

135

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَمِّي أَبُو سُهَيْلٍ، أَنْ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ , «أَنْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاةِ، وَأَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ قِرَاءَةَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عِنْدَ دَارِ أَبِي جَهْمٍ» , قَالَ مُحَمَّدٌ: الْجَهْرُ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاةِ فِيمَا يَجْهَرُ فِيهِ بِالْقِرَاءَةِ حَسَنٌ، مَا لَمْ يُجْهِدِ الرَّجُلُ نَفْسَهُ
مالک بن ابی عامر اصبحی (جو ابو سہیل کے والد ہیں) نے خبر دی کہ عمر بن خطاب (رض) نماز میں اس قدر بلند آواز سے قراءت کرتے تھے کہ ا میں ابو جہم کے مکان میں ان کی قراءت سن پاتا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ جہی نمازوں میں بلند آواز سے قراءت خوب بات ہے مگر اس قدر کہ آدمی اپنے کو مشقت میں نہ ڈالے۔

136

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: آمِينَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي إِذَا فَرَغَ الإِمَامُ مِنْ أُمِّ الْكِتَابِ أَنْ يُؤَمِّنَ الإِمَامُ، وَيُؤَمِّنَ مَنْ خَلْفَهُ، وَلا يَجْهَرُونَ بِذَلِكَ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: يُؤَمِّنُ مَنْ خَلْفَ الإِمَامِ، وَلا يُؤَمِّنُ الإِمَامُ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت بیان کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ شان یہ ہے کہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین ہوگئی اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے گئے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ ابن شہاب زہری (رح) نے یہ بھی بتلایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آمین کہتے تھے۔ (اس روایت کو مؤطا امام التامین خلف الامام میں درج کیا گیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو عمل کے لیے اختیار کرتے ہیں مناسب یہ ہے کہ جب امام، فاتحہ پڑھ کر فارغ ہوجائے تو امام اور مقتدی دونوں آمین کہیں۔ مگر آمین آہستہ کہیں مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ امام آمین نہ کہے صرف مقتدی آمین کہیں۔

137

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي الصَّلاةِ جَاءَهُ الشَّيْطَانُ، فَلَبَّسَ عَلَيْهِ حَتَّى لا يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى، فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ»
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنی کھڑا ہو تو شیطان اس کے پاس آکر گڑبڑ پیدا کردیتا ہے۔ حتی کہ اسے پتہ نہیں چلتا کہ میں نے کتنی نماز پڑھی ہے۔
جب تم میں سے کوئی شخص یہ چیز پائے تو بیٹھ جائے اور دوسجدے کرے۔ (بخاری) (اس روایت کو مؤطا امام مالک باب العمل فی السہو میں ذکر کیا گیا ہے)

138

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الْعَصْرِ، فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، فَقَامَ ذُوُ الْيَدَيْنِ فَقَالَ: أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ نَسِيتَ؟ فَقَالَ: كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: أَصَدَقَ ذُوُ الْيَدَيْنِ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ. فَأَتَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنَ الصَّلاةِ ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ التَّسْلِيمِ "
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعت پر سلام پھیردیا۔ پس ذو الیدین اٹھا اور کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا نماز کم کردی یا آپ بھول گئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں کوئی بات بہی پیش نہیں آئی ہے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں کوئی بات تو ضرور پیش آئی ہے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا ذو الیدین نے سچ کہا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ا تھے اور باقی ماندہ نماز پوری کی۔ پھر بیٹھنے کی حالت میں سلام کے بعد دو سجدے کئے۔
(اس روایت کو امام ممالک نے مؤطا میں باب ما یفعل من سلم من رکعتین ساہیا میں نقل کیا ہے)

139

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاتِهِ، فَلا يَدْرِي كَمْ صَلَّى ثَلاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَقُمْ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً، وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ. فَإِنْ كَانَتِ الرَّكْعَةُ الَّتِي صَلَّى خَامِسَةً شَفَعَهَا بِهَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ رَابِعَةً فَالسَّجْدَتَانِ تَرْغِيمٌ لِلشَّيْطَانِ»
عطاء بن یسار (رح) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے نے تین رکعات پڑہی ہیں یا چار پڑھی ہیں تو وہ ایک رکعت پڑھ لے اور بیٹھے بیٹھے آخری سلام سے قبل دوسجدے کرے۔ پس اگر اس نے یہ رکعت جو پڑھی پانچویں ہے تو ان دو سجدوں کے ساتھ اس نے گوئیا دو رکعات بنالیں اور اگر یہ چوتھی رکعت تھی تو دو سجدے شیطان کی تذلیل کا باعث ہوں گے۔
(مؤطا امام مالک میں یہ راویت امام مالک نے باب اتمام المصلی ما ذکر اذا شک فی الصلوۃ میں ذکر کی ہے)

140

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنِ ابْنِ بُحَينَةَ، أَنَّهُ قَالَ: «صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ، فَقَامَ النَّاسُ فَلَمَّا قَضَى صَلاتَهُ وَنَظَرْنَا تَسْلِيمَهُ كَبَّرَ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ ثُمَّ سَلَّمَ»
عبداللہ بن بحینہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم نے دو رکعات پڑھائیں، اور قعدہ اولی میں بیتھنے کے بغیر کھڑے ہوگئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ اٹھے کھڑے ہوئے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پوری کرلی اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلام کا انتظار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر کہہ کرہ پھر دو سجدے کئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری قعدہ بیٹھے، یہ سجدے آخری سلام سے پہلے تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیر دیا۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب من قام بعد الاتمام او فی الرکعتین میں ذکر کیا ہے) ۔

141

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَفِيفُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْمُسَيِّبِ السَّهْمِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَكَعْبًا عَنِ الَّذِي يَشُكُّ كَمْ صَلَّى ثَلاثًا، أَوْ أَرْبَعًا، قَالَ: فَكِلاهُمَا قَالا: «فَلْيَقُمْ وَلْيُصَلِّ رَكْعَةً أُخْرَى قَائِمًا ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ إِذَا صَلَّى»
عطاء بن یسار (رح) کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو اور کعب الاحبار (رض) عنہما سے سوال کیا کہ جوش شخص اپنی نماز میں شک کرے اور اسے معلوم نہیں آیا اس نے چار رکعت ادا کی ہیں یا تین، دونوں میں ارشاد فرمایا وہ ایک اور رکعت پڑھے اور بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے ادا کرے۔

142

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنِ النِّسْيَانِ، قَالَ: «يَتَوَخَّى أَحَدُكُمُ الَّذِي يَظُنُّ أَنَّهُ نَسِيَ مِنْ صَلاتِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا نَاءَ لِلْقِيَامِ وَتَغَيَّرَتْ حَالُهُ عَنِ الْقُعُودِ وَجَبَ عَلَيْهِ لِذَلِكَ سَجْدَتَا السَّهْوِ. وَكُلُّ سَهْوٍ وَجَبَتْ فِيهِ سَجْدَتَانِ مِنْ زِيَادَةٍ، أَوْ نُقْصَانِ فَسَجْدَتَا السَّهْوِ فِيهِ بَعْدُ التَّسْلِيمِ. وَمَنْ أَدْخَلَ عَلَيْهِ الشَّيْطَانُ الشَّكَّ فِي صَلاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ أَثَلاثًا صَلَّى أَمْ أَرْبَعًا، فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ مَا لَقِيَ تَكَلَّمَ وَاسْتَقْبَلَ صَلاتَهُ، وَإِنْ كَانَ يُبْتَلَى بِذَلِكَ كَثِيرًا مَضَى عَلَى أَكْثَرِ ظَنِّهِ وَرَأْيِهِ وَلَمْ يَمْضِ عَلَى الْيَقِينِ، فَإِنَّهُ إِنْ فَعَلَ ذَلِكَ لَمْ يَنْجُ فِيمَا يَرَى مِنَ السَّهْوِ الَّذِي يُدْخِلُ عَلَيْهِ الشَّيْطَانُ، وَفِي ذَلِكَ آثَارٌ كَثِيرَةٌ
نافع (رح) نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) سے جب نماز میں بھول جانے کے متعلق دریافت کا ا گیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا۔ (کہ جس کو یہ حالت پیش آئے) وہ کسی گمان کو پختہ اور غالب کرلے کہ اس کی نماز میں کتنی بھول ہوئی ہے پھر اسے (گمان غالب کے مطابق) ادا کرے۔ مؤطا امام مالک میں فلیصلہ کے لفظ زائد ہیں۔ ( یہ دونوں اثر مؤطا امام مالک میں سابقہ باب کے حوالہ میں مذکور ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے ہمارا عمل پر ہے کہ نمبر ١ جب قیام کے لیے کھڑا ہوجائے اور قعود کی حالت بدل جائے تو اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہیں اور نمبر ٢ ہر بھول کے لیے خواہ وہ کمی کی صورت میں ہو یا اضافہ کی صورت میں سلام کے بعد دو سجدے ہی لازم ہوں گے۔ نمبر ٣ جس آدمی کو شیطان اس کی نماز میں شک ڈال دے اور اسے معلوم نہ رہے کہ اس نے تین رکعات ادا کی ہیں یا چار پڑھی ہیں۔ دیکھا جائے گا کہ اگر یہ شک اسے بار اول پیش آیا تو وہ نماز کو توڑ ڈالے اور از سر نو نماز پڑھے اور اگر نمبر ٥ یہ شک اسے اکثر پیش آتارہتا ہے تو وہ اپنے غالب گمان پر عمل پیرا ہو۔ اگر یقین نہ تو زیادہ تفتیش میں نہ پڑے اگر وہ تفتیش کے پیچھے پڑا تب بہی وہ شیطان کے خللانداز ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا۔ (پس غالب گمان بر اکتفاء کرے) اس سلسلہ میں بہت سے آثار مؤید ہیں۔ بطور نمونہ ایک ذکر کیے دیتے ہیں۔

143

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، «أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ صَلَّى بِهِمْ فِي سَفَرٍ كَانَ مَعَهُ فِيهِ فَصَلَّى سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ نَاءَ لِلْقِيَامِ، فَسَبَّحَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَرَجَعَ، ثُمَّ لَمَّا قَضَى صَلاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ» , قَالَ: لا أَدْرِي أَقْبَلَ التَّسْلِيمِ أَوْ بَعْدَهُ؟
یحی بن سعید نقل کرتے ہیں کہ ایک سفر میں حضرت انس بن مالک (رض) نے لوگوں کو نماز پڑھائی اس سفر میں وہ خود شریک تھے جب وہ دو رکعت پڑھ چکے پھر قیام کے قریب ہوگئے تو ان کے بعض مقتدیوں نے پیچھے سے سبحان اللہ کہہ دیا۔ وہ پھر قعدہ کی طرف لوٹ گئے۔ جب نماز مکمل کرلی تو دو سجدے کئے۔ یحی بن سعید کہتے ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انھوں نے دو سجد سلام سے پہلے کیے یا بعد کیے۔

144

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْقَارِئُ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ سَوَّى الْحَصَى تَسْوِيَةً خَفِيفَةً» . وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: كُنْتُ يَوْمًا أُصَلِّي، وَابْنُ عُمَرَ وَرَائِي، فَالْتَفَتُّ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي قَفَايَ فَغَمَزَنِي
ابو جعفر القاری کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ جب وہ سجدے کے لیے جھکتے تو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ کو ہلکا ساچھوتے تھے۔ اور کنکریوں کو معلمولی طور پر برابر کرلیتے تھے۔ ابوجعفر کہتے ہیں کہ میں ایک دن نماز پڑھ رہا تھا اور ابن عمر (رض) میرے پیچھے کھڑے تھے۔ پس میں نے ان کی طرف توجہ کی تو انھوں نے اپنا ہاتھ مبارک میری گردن پر رکھا اور مجھے ٹھٹھکارا۔

145

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُعَاوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: رَآنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَعْبَثُ بِالْحَصَى فِي الصَّلاةِ، فَلَمَّا انْصَرَفْتُ نَهَانِي، وَقَالَ: اصْنَعْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ، فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِصَنِيعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْخَذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، فَأَمَّا تَسْوِيَةُ الْحَصَى فَلا بَأْسَ بِتَسْوِيَتِهِ مَرَّةً وَاحِدَةً، وَتَرْكُهَا أَفْضَلُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
علی بن عبد الرحمن المعاوی کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن عمر نے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے دیکھا۔ جب میں فارغ ہوا تو مجھے اس سے منع کیا اور فرمایا تم اس طرح کرو جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں بیٹھنے کی حالت میں کرتے تھے ؟ انھوں نے جوابا فرمایا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی کو دائیں ران بر رکھتے اور تمام انگلیوں کو بند کرلیتے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی ران پر رکھتے۔ اور پھر فرمانے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے۔ ( اس روایت کو مؤطا مالک میں باب العمل فی الجلوس میں ذکر کیا گیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز علم کو اختیار کرنے والے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ باقی جہاں کنکریوں کرنے کا معاملہ ہے تو ایک بار درست کرنے میں ہم کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر اس کو بھی ترک کردینا زیادہ بہرت ہے اور امام اوبو حنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

146

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَتَشَهَّدُ فَتَقُولُ: «التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ الزَّكِيَّاتُ لِلَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، السَّلامُ عَلَيْكُمْ»
قاسم بن محمد (رح) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) عنہا یہ کہتیں التحیات التطبیات الصلوات الزاکیات للہ۔ اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد أن محمد عبدہ رسولہ، السلام علیک ایہا النبی ور حمۃ اللہ برکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین۔ السلام علیکم۔

147

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى الْمِنْبَرِ يُعَلِّمُ النَّاسَ التَّشَهُّدَ وَيَقُولُ: قُولُوا: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، الزَّاكِيَّاتُ لِلَّهِ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»
عبد الرحمن بن عبد القاری (رح) نے عمر بن خطاب (رض) کو منبر پر تشریف رکھتے ہوئے لوگوں کو تشہد کی تعلیم دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے اے لوگو اس طرح کہو۔ التحیات للہ۔ الطیبات الصلوات للہ، السلام علیک ایہا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ، السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین، اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد أن محمد عبدہ و رسولہ ، تمام سلاموں کے تحفے اللہ کی کے لیے ہیں ، پاکیزہ اعمال اللہ ہی کے لیے ہیں، پاکیزہ نمازیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں، ہم پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

148

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَتَشَهَّدُ فَيَقُولُ: «بِسْمِ اللَّهِ، التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، وَالزَّاكِيَّاتُ لِلَّهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ شَهِدْتُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَشِهِدْتُ أَنْ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» ، يَقُولُ هَذَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، وَيَدْعُو بِمَا بَدَا لَهُ إِذَا قَضَى تَشَهُّدَهُ، فَإِذَا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلاتِهِ تَشَهَّدَ كَذَلِكَ إِلا أَنَّهُ يُقَدِّمُ التَّشَهُّدَ ثُمَّ يَدْعُو بِمَا بَدَا لَهُ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُسَلِّمَ قَالَ: السَّلامُ عَلَى النَّبِيِّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ. السَّلامُ عَلَيْكُمْ عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى الإِمَامِ، فَإِنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ أَحَدٌ عَنْ يَسَارِهِ رَدَّ عَلَيْهِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: التَّشَهُّدُ الَّذِي ذُكِرَ كُلُّهُ حَسَنٌ وَلَيْسَ يُشْبِهُ تَشَهُّدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعِنْدَنَا تَشَهُّدُهُ لأَنَّهُ رَوَاهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِ الْعَامَّةُ عِنْدَنَا
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) تشہد میں یہ پڑھا کرتے تھے۔ بسم اللہ التحیات للہ، و الصلوات للہ والزاکیات للہ، السلام علیک أیہا النبی ورحمۃ اللہ و وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین شہدت ان لا الہ الا اللہ شہدت ان محمدا رسول اللہ۔ فرماتے ہیں یہ پہلی دو رکعات کا تشہد ہی اور جب تشہد پورا کرے تو اپنے لیے جو چاہے دعاء کرے، جب اپنی نماز کے آخر میں قعدہ کے لیے بیٹھ جائے تو پھر بھی اسی طرح تشہد پڑھے البتہ تشہد کو دعء سے مقدم کرے پھر اپنے لیے جو چاہے دعا کرے جب وہ اپنا تشہد مکمل کرلے اور سلام پھیرنے کا ارادہ کرے تو اس طرح کہے السلام علی النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین پھر دائیں طرف سلام پھیر لے پھر امام کے سلام کا جواب دے (پھر بائیں طرف سلام پھیرے) اگر بائیں طرف کسی نے لام دیا ہو اس کا جواب دے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ان تمام روایات میں مذکور تشہد خوب ہے۔ مگر عبداللہ بن مسعود (رض) والے تشہد کے مشابہہ نہیں۔ ہمارے ہاں ابن مسعود کا تشہد ہے کیونکہ وہ تشہد انھوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے اور ہمارے عام علماء کا بھی یہی مسلک ہے۔

149

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحِلُّ بْنُ مُحرِزٍ الضَّبِّيُّ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الأَسْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلامُ عَلَى اللَّهِ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاتَهُ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: لا تَقُولُوا السَّلامُ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلامُ، وَلَكِنْ قُولُوا: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَكْرَهُ أَنْ يُزَادَ فِيهِ حَرْفٌ، أَوْ يُنْقَصُ مِنْهُ حَرْفٌ
عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم اس طرح کہتے السلام علی اللہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ادا فرمائی اور ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا السلام علی اللہ کے الفاظ نہ کہا کرو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ذات خود السلام ہے بلکہ اس طرح کہا کرو۔ التحیات للہ والصلوات و الطیبیات، السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
(تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں۔ سلام ہو تم پر اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ اس تشہد میں کسی حرف کا اضافہ کیا جائے اس میں کسی حرف کی کمی کی جائے۔

150

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى الَّذِي يَضَعُ جَبْهَتَهُ عَلَيْهِ» ، قَالَ: «وَرَأَيْتُهُ فِي بَرْدٍ شَدِيدٍ وَإِنَّهُ لَيُخْرِجُ كَفَّيْهِ مِنْ بُرْنُسِهِ حَتَّى يَضَعَهُمَا عَلَى الْحَصَى»
نافع (رح) روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب سجدہ کرتے تو وہ جس چیز پر اپنی پیشانی رکھنا ہوتی اس پر اپنا ہاتھ رکھتے، نافع کہتے ہیں میں نے ان کو سخت سردی میں دیکھا کہ وہ اپنی دونوں ہتھلیان ٹوپی والے جبے سے نکالتے اور ان کو کنکریوں پر رکھ دیتے تھے۔

151

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «مَنْ وَضَعَ جَبْهَتَهُ بِالأَرْضِ فَلْيَضَعْ كَفَّيْهِ، ثُمَّ إِذَا رَفَعَ جَبْهَتَهُ فَلْيَرْفَعْ كَفَّيْهِ، فَإِنَّ الْيَدَيْنِ تَسْجُدَانِ كَمَا يَسْجُدُ الْوَجْهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ إِذَا وَضَعَ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا، أَنْ يَضَعَ كَفَّيْهِ بِحَذَاءِ أُذُنَيْهِ، وَيَجْمَعَ أَصَابِعَهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ، وَلا يَفْتَحْهَا، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، رَفَعَهُمَا مَعَ ذَلِكَ، فَأَمَّا مَنْ أَصَابَهُ بَرْدٌ يُؤْذِي، وَجَعَلَ يَدَيْهِ عَلَى الأَرْضِ مِنْ تَحْتِ كِسَاءٍ أَوْ ثَوْبٍ، فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع نے ابن عمر (رض) کے متعلق بیان کیا کہ وہ فرماتے تھے۔ جو شخص سجدے کے لیے اپنی پیشانی زمین پر رکھے وہ اپنی دونوں ہاتھ بھی رکھے۔ پھر جب اپنی پیشانی سجد سے اٹھنے کے لیے اٹھائے تو اس کے معا بعد اپنے ہاتھ اٹھائے کیونکہ چھرہ کے سجدہ کرنے کی طرح ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔
قول محمد رحمہ للہ یہ ہے اسی پر عمل ہے کہ جب کوئی شخص سجدہ کے لیے اپنا سرزمین پر رکھے تو وہ اپنے ہاتھ سجد میں کانوں کے برابر رکھے اور اپنی انگلیوں کو ملاکر قبلہ رخ رکھے۔ ان کو کھولے نہیں، پھر جب اپنا سر اٹھائے تو ہاتھ اس کے متصل ہی اٹھائے۔ جس شخص کو سردی نقصان دیت ہو اور وہ اپنی چادر یا کپڑے کے اندر سے اپنے ہاتھ زمین پر رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔

152

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ صَلَّى إِلَى جَنْبِهِ رَجُلٌ، فَلَمَّا جَلَسَ الرَّجُلُ تَرَبَّعَ وَثَنَّى رِجْلَيْهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ ابْنُ عُمَرَ عَابَ ذَلِكَ عَلَيْهِ» ، قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّكَ تَفْعَلُهُ! قَالَ إِنِّي أَشْتَكِيٍ
عبداللہ بن دینار (رح) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا کہ ایک شخص نے میرے پہلی میں نماز پڑھی ۔ جب وہ چوتھی رکعت میں بیٹھا تو اس آدمی نے چوکڑی ماری اور اپن دونوں پاؤں موڑ لیے، جب عبداللہ نے نماز ختم کی تو اس شخص کے اس طرح نماز میں بیٹھنے پر تنقید کی۔ اس پر وہ آدمی کہنے لگا۔ تم بھی تو اسی طرح کرتے ہو۔ اس پر عبداللہ بن عمر کہنے لگے میں تو بیمار ہوں۔ اس روایت کو مؤکاء اماممالک میں باب العمل فی الجلوس فی الصلوۃ میں ذکر کیا گیا ہے۔

153

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، " أَنَّهُ كَانَ يَرَى أَبَاهُ يَتَرَبَّعُ فِي الصَّلاةِ إِذَا جَلَسَ، قَالَ: فَفَعَلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ، فَنَهَانِي أَبِي، فَقَالَ: إِنَّهَا لَيْسَتْ بِسُنَّةِ الصَّلاةِ، وَإِنَّمَا سُنَّةُ الصَّلاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِي رِجْلَكَ الْيُسْرَى ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَأْخُذُ بِذَلِكَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، وَأَمَّا فِي الرَّكْعَةِ الرَّابِعَةِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَقُولُ: يُفْضِي الرَّجُلُ بِأَلْيَتَيْهِ إِلَى الأَرْضِ، وَيَجْعَلُ رِجْلَيْهِ إِلَى الْجَانِبِ الأَيْمَنِ
عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) کو نماز میں جو کڑی مارکر بیٹھے دیکھتا تھا۔ میں اس وقت بالکل جھوٹا تھا۔ ایک دن میں نے بھی اسی طرح کیا تو عبداللہ بن عمر (رض) نے مجھے ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا نماز میں بےٹھن کا طریقہ یہ ہے کہ تم اپنا دایا پاؤں کھڑا رکھو اور بایاں بجھاؤ۔ میں نے سوال کیا آپ اس طرح کیوں کرتے ہیں ؟ تو عبداللہ نے کہا میرے پاؤں (ضعف و بڑھاپے کی وجہ سے) میرے جسم کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اخیتار کرتے ہیں اور ہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ امام مالک پہلی دو رکعتوں میں اسی طرح بیتھنے کو اختیار کرتے ہیں۔ البتہ قعدہ اخیرہ میں وہ فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی دونوں سرین زمین پر بچھا کر اپنے دونوں پاؤں کو دائیں جانب نکال لے۔

154

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَجْلِسُ عَلَى عَقِبَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ فِي الصَّلاةِ، فَذَكَرْتُ لَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا فَعَلْتُهُ مُنْذُ اشْتَكَيْتُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يَجْلِسَ عَلَى عَقِبَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَلَكِنَّهُ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا كَجُلُوسِهِ فِي صَلاتِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
مغیرہ بن حکیم نے عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ دونوں سجدوں میں اپنے قدموں کے پنجوں پر سہارا لیتے تھے۔ جب انھوں نے نماز ختم کی تو مغیرہ نے ان سے اس بات کا تذکرہ کیا تو عبداللہ کہنے لگے۔ یہ نماز کی سنت نہیں ہے۔ اور میں تو اس لیے ایسا کرتا ہوں کہ میں بیمار ہوں۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ دونوں نسجدوں کے درمیان بھی پنجوں پر بیٹھنا مناسب نہیں بلکہ ان کے ما بین بھی اسی طرح بیٹھے جیسے تشہد میں بیٹھتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

155

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهَا قَالَتْ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَكَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا وَيَقَرْأُ بِالسُّورَةِ وَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلِ مِنْهَا»
ام المؤمنین حضرت حفصہ (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبہی بیتہ کر نفل نماز پڑھتے نہیں دیکہا البتہ وفات سے ایک سال پہلے آپ نفل بیٹھ کر پڑھتے تھے اور قراءت ترتیل سے فرماتے یہاں تک کہ وہ سورت اپنے سے زیادہ لمبی سورت سے بھی ہوجاتی اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی صلوۃ القاعد فی النافلۃ میں ذکر فرمایا ہے۔

156

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ مَوْلَى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَلاةُ أَحَدِكُمْ وَهُوَ قَاعِدٌ مِثْلُ نِصْفِ صَلاتِهِ وَهُوَ قَائِمٌ
عبداللہ بن عمرو کے غلام عبداللہ بن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیٹھنے والے کی نماز کھڑے ہونے والے کی نماز سے نصف ثواب رکھتی ہے۔

157

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ نَالَنَا، وَبَاءٌ مِنْ وَعْكِهَا شَدِيدٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ وَهُمْ يُصَلُّونَ فِي سُبْحَتِهِمْ قُعُودًا، فَقَالَ: «صَلاةُ الْقَاعِدِ عَلَى نِصْفِ صَلاةِ الْقَائِمِ»
زہری نے بیان کیا عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں گئے تو ہمیں مدینہ منورہ کے شدید وبائی بخار نے آلیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کیپ اس تشرلائے جبکہ لوگ اپنی نفل نماز بیٹھ کر ادا کر رہے تھے آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا بیٹھنے والے کی نماز کھڑے ہونے والے کی نماز سے آدھا اجر رکھتی ہے۔

158

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ، فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلاةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَصَلَّيْنَا جُلُوسًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: " إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، إِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعِينَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، صَلاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا لِلتَّطَوُّعِ مِثْلُ نِصْفِ صَلاتِهِ قَائِمًا، فَأَمَّا مَا رُوِيَ مِنْ قَوْلِهِ: إِذَا صَلَّى الإِمَامُ جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ، فَقَدْ رُوِيَ ذَلِكَ وَقَدْ جَاءَ مَا قَدْ نَسَخَهُ
انس ابن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ اس سے گرپڑے جس کی وجہ سے آپ کے دائیں پہلو میں خراش آگئی آپ نے لوگوں کو بیتھ کر نماز پڑھائی ہم نے بہی بیٹھ کر نماز پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ کھرا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو دب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ر بنا ولک الحمد کہو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بہی تمام بیٹھ کر نماز پڑھو اس روایت کو امام مالک نے باب صلوۃ الامام وہو جالس میں ذکر فرمایا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ بیٹھ کر نفلی نماز پڑھنے سے کھڑے ہو کر پڑھنے کا ثواب دگنا ہے رہی بات کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بہی بیٹھ کر پڑھو بلاشبہ یہ روایت میں آیا مگر ایسی روایت بھی موجود ہے جو اس روایت کو منسوخ کرنے والی ہے۔

159

قَالَ مُحَمَّدٌ , حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا يَؤُمَّنَّ النَّاسَ أَحَدٌ بَعْدِي جَالِسًا» . فَأَخَذَ النَّاسُ بِهَذَا
جابر بن عبداللہ عامر شعبی سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے بعد لوگوں کو بیٹھ کر کوئی امامت نہ کرائے لوگوں نے اسی طرز عمل کو اختیار کرلیا۔

160

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ الْخَوْلانِيِّ، قَالَ: «كَانَتْ مَيْمُونَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تصَلِّي فِي الدِّرْعِ وَالْخِمَارِ، وَلَيْسَ عَلَيْهَا إِزَارٌ»
عبداللہ خولانی جو ام المومنین میمونہ (رض) عنہا کا پروردہ تھا بیان کرتا ہے کہ حضرت میمونہ قمیص اور اوڑھنی میں نماز پڑھتی تھیں۔ اس حال میں کہ وہ ازار پہنے ہوئے نہ ہوتی تھیں ( اس روایت کو مؤطا امام مالک باب الرخصۃ فی صلوۃ المراء فی الدرع و الخمار میں ذکر کیا ہے) ۔

161

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، " أَنَّ سَائِلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاةِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: أَوَلِكُلِّكُمْ ثَوْبَانِ؟ "
سعید بن المسیب (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ ایک سائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم سے دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں۔ ( اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب الرخصہ فی الصلوۃ فی الثوب الواحد میں ذکر کیا ہے)

162

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «صَلَّى عَامَ الْفَتْحِ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا بِثَوْبٍ»
عقیل بن ابی طالب کے مولی ابو مرہ نے بیان کیا ام ہانی بنت ابی طالب (رض) عنہا نے مجھے بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن آٹھ رکعات ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر ادا فرمائیں۔

163

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَبُو النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عُقَيْلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئِ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تُحَدِّثُ أَنَّهَا ذَهَبَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدَتْهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَ: فَسَلَّمَتْ، وَذَلِكَ ضُحَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا؟ فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئِ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، «قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ ثُمَّ انْصَرَفَ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتَلَ رَجُلا أَجَرْتُهُ، فُلانُ ابْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئِ»
ابو مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ام ہانی بنت ابی طالب (رض) عنہا کو کہتے سنا کہ میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی ، پس میں نے آب کو غسل کرتے پایا۔ اس وقت آب کی بیتی فاطمہ (رض) عنہا ایک کبڑے کے ساتھ پردہ کر رہی تھی۔ ام ہانی کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا۔ یہ ہچاشت کا وقت تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا د کون ہے ؟ میں نے کہا میں ام ہانی ہوں، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا د ام ہانی کو خوش يمدید ہو۔ پھر جب آپ نے غسل سے فراغت پالی تو آتھ رکعات نماز ایک کپڑے میں لپٹ کر ادا فرمائی۔ پھر نماز کو مکمل کیا تو میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ میرے ماں جائے بھائی علی رضی لالہ عنہ نے کہا ہے کہ وہ ایک شخص کو قتل کردے گا۔ جسے میں نے پناہ دی ہے۔ وہ فلاں ابن ہبیرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم نے فرمایا۔ اے ام ہانی جسے تو نے پناہ دی ، میں نے بہی اسے پناہ دی۔

164

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدِ التَّيْمِيُّ، عَنْ أُمِّهِ، «أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا تُصَلِّي فِيهِ الْمَرْأَةُ» ؟ قَالَتْ: «فِي الْخِمَارِ، وَالدِّرْعِ السَابِغِ الَّذِي يُغَيِّبُ ظَهْرَ قَدَمَيْهَا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، فَإِذَا صَلَّى الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ تَوَشَّحَ بِهِ تَوَشُّحًا جَازَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عمر بن ابی سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت ام سلمہ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز ادا فرماتے دیکھا۔ آپ نے اس چادر جسم پر لپیٹ رکھا تھا۔ اور اس کی دونوں اطراف کو کندھوں بر باندھ رکھا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے ان تمام روایات کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ جب آدمی ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو خوب لپت کر پڑھے ، یہ درست ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہ قول ہے۔

165

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، " أَنَّ رُجَلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ الصَّلاةُ بِاللَّيْلِ؟ قَالَ: مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُصْبِحَ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى "
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز تہجد کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ رات کی نماز دو رکعت ہے پھر جب تم میں سے کسی کو صبح کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے جو اس کی پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنادے گی۔ امام مالک نے باب صلوۃ اللیل میں اس روایت کو درج کیا ہے۔

166

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةَ، يُوتِرُ مِنْهُنَّ بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ
ام المؤمنین عائشہ صدیقہہ (رض) عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک رکعت کے ساتھ نماز کو وتر بناتے اور فارغ ہونے بعد دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
(اس روایت کو امام ماملک نے بال صلوۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الوتر میں ذکر فرمایا ہے)

167

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: " لأَرْمُقَنَّ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَوَسَّدْتُ عَتَبَتَهُ أَوْ فُسْطَاطَهُ، قَالَ: فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَهُمَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ "
زید بن خالد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا کہ آج رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو غور سے دیکھوں گا۔ میں نے آپ کے دروازے یا خیمے کی دہلیز کو اپنا تکہہ بنالیا۔ (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ا تھے اور دو خفیف رکعات ادا فرمائیں۔ پھر آپ نے دو طویل رکعتیں پڑھیں جو پہلی دو ررکعتوں سے بڑی تہیں، پھر اور دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ جوان پہلی دو رکعات سے قدرے چھوٹی تھیں د اس کے بعد آپ نے اور دو رکعتیں پڑھیں اور وہ اپنے سے پہلی رکعات سے قدرے چھوٹی تھیں۔ پھر اور دورکعات ادا فرمائیں پھر وتر ادا فرمائے ( پس یہ گیارہ رکعات ہوئیں) اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب صلوۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الوتر میں نقل کیا گیا ہے)

168

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا مِنَ امْرِئٍ تَكُونُ لَهُ صَلاةٌ بِاللَّيْلِ يَغْلِبُهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ إِلا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرَ صَلاتِهِ وَكَانَ نَوْمُهُ عَلَيْهِ صَدَقَةً»
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص رات کو نماز پڑھتا ہو اور (کسی دن) اس پر نیند کا غلبہ ہوجائے جس کے باعث وہ ادا نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ اس کی نماز کا اجر اس کے لیے لکھ دے گا۔ اور اس کی نیند اس پر صدقہ ہوگی۔ (یہ روایت باب ما جاء فی صلوۃ اللیل میں امام مالک نے ذکر فرمائی ہے) ۔

169

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: «مَنْ فَاتَهُ مِنْ حِزْبِهِ شَيْءٌ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَرَأَهُ مِنْ حِينِ تَزُولُ الشَّمْسُ إِلَى صَلاةِ الظُّهْرِ فَكَأَنَّهُ لَمْ يَفُتْهُ شَيْءٌ»
حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں جس کسی کا کوئی رات والامعمول چھوٹ گیا پھر اس نے زوال کے وقت سے ظہر کی نماز تک ادا کرلیا تو گویا اس کا کچھ معمول فوت نہیں ہوا۔

170

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُصَلِّي كُلَّ لَيْلَةٍ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُصَلِّي، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، أَيْقَظَ أَهْلَهُ لِلصَّلاةِ وَيَتْلُو هَذِهِ الآيَةَ: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى} [طه: 132] "
اسلم نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) رات کو جتنی دیر اللہ تعالیٰ چاہتا نماز ادا فرماتے، جب رات کا پچھلا حصہ ہوتا تو پھر اپنے گھر والوں کو نماز کے لیے جگاتے اور ان سے فرماتے، نماز، نماز ( کہ اتھ کر نماز پڑھو، نماز پڑھو) پھر یہ آیت تلاوت فرماتے وامر اہلک بالصلوۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رزقا نحن نرزقک والعاقبۃ للتقوی۔ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر قائم رہو ہم تم سے رزق نہیں مانگتے ہم ہی تو تمہیں رزق دینے والے ہیں اور اچھا انجام تقوی ( والوں ) کا ہے

171

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مَخْرَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْوَالِبِيُّ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهلُهُ فِي طُولِهَا قَالَ: فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، «جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَرَأَ بِالْعَشْرِ الآيَاتِ الْخَوَاتِيمِ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ، فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي» . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى بِيَدِهِ الْيُمْنَى، فَفَتَلَهَا ثُمَّ قَالَ: «فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ سِتَّ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حِينَ جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: صَلاةُ اللَّيْلِ عِنْدَنَا مَثْنَى مَثْنَى، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: صَلاةُ اللَّيْلِ إِنْ شِئْتَ صَلَّيْتَ رَكْعَتَيْنِ، وَإِنْ شِئْتَ صَلَّيْتَ أَرْبَعًا، وَإِنْ شِئْتَ سِتًّا، وَإِنْ شِئْتَ ثَمَانِيًا، وَإِنْ شِئْتَ مَا شِئْتَ بِتَكْبِيرَةٍ وَاحِدَةٍ، وَأَفْضَلُ ذَلِكَ أَرْبَعًا أَرْبَعًا. وَأَمَّا الْوِتْرُ فَقَوْلُنَا وَقَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فِيهِ وَاحِدٌ، وَالْوِتْرُ ثَلاثٌ لا يُفْصَلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کرتے ہں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ ام المؤمنین (رض) عنہا کے ہاں رات گزاری۔ ابن عباس (رض) ( سونے کی کیفیت نقل کرتے ہیں) کہ میں تکیہ کی چوڑائی والی جانب لیٹا ( جدھر سونے والے کا سر ہوتا ہے) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل خانہ گدے کے طول کی جانب آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصف رات تک سوئے یا اس سے کچھ کم یا زیادہ ، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اور اپنی آنکھیں ملیں اور سورة آل عمران کی دس آخری آیات تلاوت فرمائیں، پھر ایک لٹکی مشک کی طرف اٹھے اور اس سے خوب تر انداز سے وضو فرمایا۔ پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح کیا۔ پھر میں آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں دست اقدس میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر مروڑ ا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر دور رکعتیں، پھر اور ردو رکعتیں، پھر مزید دو رکعتیں پھر اور دو رکعتیں ادا فرمائیں، پھر اور دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر وتر ادا فرمائے اور آرام فرمانے کے لیے لیٹ گئے۔ یہاں تک کہ مؤذن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (اطلاع دینے) آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو ہلکی رکعتیں ادا فرمائیں۔ پھر حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور نماز فجر ادا فرمائی۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب صلوۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الوتر میں درج فرمایا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : رات کی نماز ہمارے (صاحبین) کے ہاں دو دو رکعات ہے اور ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ رات کی نماز چاہو تو دو دو رکعت پڑھو، اور اگر چاہو تو چار چار پڑھو، اور اگر چاہو تو چھ چھ اور آٹھ آٹھ بھی پڑھ سکتے ہو۔ ایک تحریمے سے بھی پڑھ سکتے ہو مگر افضل چار چار کو ایک تحریمہ سے ادا کرنا ہے۔
البتہ وتر میں ہمارے قول اور امام ابوحنیفہ (رح) کے قول میں فرق نہیں ہے۔ وتر کی تعداد تین ہے جن کے درمیان سلام سے فاصلہ نہ کیا جائے گا۔

172

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي الْحَكِيمِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَبَّرَ فِي صَلاةٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ، ثُمَّ أَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدَهِ أَنِ امْكُثُوا، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ وَعَلَى جِلْدِهِ أَثَرٌ فَصَلَّى» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ سَبَقَهُ حَدَثٌ فِي صَلاةٍ، فَلا بَأْسَ أَنْ يَنْصَرِفَ، وَلا يَتَكَلَّمَ فَيَتَوَضَّأَ، ثُمَّ يَبْنِيَ عَلَى مَا صَلَّى، وَأَفْضَلُ ذَلِكَ أَنْ يَتَكَلَّمَ وَيَتَوَضَّأَ وَيَسْتَقْبِلَ صَلاتَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عطاء بن یسار (رح) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی نماز میں تکبیر تحریمہ کہی، پھر لوگوں کو ہاتھ کا اشارہ فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ پھر تشریف لے گئے اور جب واپس لوٹے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسد اطہر پر پانی کی علامات تھیں۔ پھر آپ نے نماز پڑھائی۔
(اس روایت کو مرسل ہی مؤطا امام مالک میں ذکر کیا گیا ہے باب اعادۃ الجنب الصلوۃ)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جس کو نماز میں حدث لاحق ہوجائے اسے نماز سے پھرجانے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ لوٹ جائے اور گفتگو نہ کرے پھر وضو کرکے اپنی سابقہ نماز پر بناء کرے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ کلام کرے اور وضو کر کے نئے سرے سے نماز شروع کرے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہ قول ہے۔

173

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، " أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلا مِنَ اللَّيْلِ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الرَّجُلَ يُقَلِّلُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدَهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ "
ابو سعید خدری (رض) نے کسی شخص کو قل ہو اللہ احد پڑھتے سنا، وہ اسے بار بار دھراتا تھا۔ جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا۔ گویا وہ شخص اسے یکم سمجھتا تھا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یقیناً یہ سورت قرآن کے تیسرے حصے کے برابر ہے
(اس روایت کو مؤطاء میں امام مالک نے باب ما جاء فی قراء ۃ قل ہو اللہ میں ذکر کیا ہے

174

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: «لأَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ مِنْ بُكْرَةٍ إِلَى اللَّيْلِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْمِلَ عَلَى جِيَادِ الْخَيْلِ مِنْ بُكْرَةٍ حَتَّى اللَّيْلِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: ذِكْرُ اللَّهِ حَسَنٌ عَلَى كُلِّ حَالٍ
معاذ بن جبل (رض) روایت کرتے ہیں کہ صبح سے رات تک اللہ تعالیٰ یاد کرنا مجھے شاندار گھڑوں پر سوار ہو کر جہاد سے زیادہ افضل ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں خوب تر ہے۔ (حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کی مرفوع روایت وارد ہے کان یذکر اللہ فی کل احیانہ)

175

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الإِبِلِ الْمُعَلَّقَةِ، إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ»
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہصاحب قرآن کی مثال اس طرح ہے جیسے گھٹنے بندھے ہوئے اونت والا ہو اگر ان کی نگرانی کرے گا تو پھر انھیں محفوظ رکھے گا اور اگر وہ انھیں کھول دے گا تو وہ چلے جائیں گے۔

176

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ يُصَلِّي، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَرَجَعَ إِلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَ: «إِذَا سُلِّمَ عَلَى أَحَدِكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي، فَلا يَتَكَلَّمْ وَلْيُشِرْ بِيَدِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِلْمُصَلِّي أَنْ يَرُدَّ السَّلامَ إِذَا سُلِّمَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلاةِ، فَإِنْ فَعَلَ فَسَدَتْ صَلاتُهُ، وَلا يَنْبَغِي أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کا ایک آدمی کے پاس سے گزر ہوا جو نماز میں مصروف تھا۔ ابن عمر (رض) نے اسے سلام کیا۔ اس نے ( نماز ہی میں) آپ کے سلام کا ا جواب دیا۔ ابن عمر ر ضی اللہ عنہما اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز میں مصروف ہو اور اسے کوئی سلام دے تو وہ ہرگز زبان سے بول کر اس کے سلام کا جواب نہ دے۔ البتہ اپنے ہاتھ سے سلام کا اشارہ کردے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ نمازی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ نماز میں سلام کا اجواب دے۔ اگر وہ اس طرح کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ باہر والے شخص کو مناسب نہیں کہ وہ نمازی کو نماز میں سلام دے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یی قول ہے۔

177

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «دَخَلْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِالْهَاجِرَةِ، فَوَجَدْتُهُ يُسَبِّحُ، فَقُمْتُ وَرَاءَهُ فَقَرَّبَنِي، فَجَعَلَنِي بِحِذَائِهِ عَنْ يَمِينِهِ، فَلَمَّا جَاءَ يَرْفَأُ تَأَخَّرْتُ فَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ»
عتبہ کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے پاس دو پہر کے وقت گیا، میں نے انھیں دیکھا کہ وہ نفل پڑھ رہے ہیں۔ پس میں ان کے پیجھے کھڑا ہوگیا ( میں ذرا دور کھڑا ہوا) تو انھوں مجھے قریب کرلیا اور اپنے دائیں جانب کرلیا ( کیونکہ میں بائیں طرف کھڑا ہوگیا تھا) پھر جب بیرفاء آگئے تو میں پیچھے ہٹ گیا اور ہم دونوں نے ان کے پیچھے صف بنالی۔

178

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، «أَنَّهُ قَامَ عَنْ يَسَارِ بْنِ عُمَرَ فِي صَلاتِهِ، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ»
نافع (رح) کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو نہوں نے مجھے اپنے دائیں جانب کرلیا۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب العمل فی صلوۃ الجماعۃ میں ذکر کیا ہے)

179

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ، فَأَكَلَ ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلْنُصَلِّ بِكُمْ» . قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَصُفِفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ وَالْعَجُوزُ وَرَاءَنَا، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مَعَ الإِمَامِ قَامَ عَنْ يَمِينِ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى الاثْنَانِ قَامَا خَلْفَهُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
انس بن مالک کہتے ہیں کہ میری دادی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانے کی دعوت دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (تشریف لائے اور آپ) نے کھانا کھایا۔ پھر فرمایا اٹھو تاکہ ہم تمہارے لیے نماز پڑھ لیں۔ اسن کہتے ہیں میں نے ایک چٹائی اٹھائی جو زیادہ استعمال کے باعث سیاہ پڑچکی تھی۔ میں نے اس پر (نرم کرنے کے لئے) پانی چھڑکا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے۔ میں اور یتیم دونوں نے آپ کے پیجھے صف بنائی اور بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ پھر واپس تشریف لے گئے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی طرح اختیار کرتے ہیں کہ جب امام ایک مقتدی کے ساتھ نماز پڑھے تو مقتدی امام کے دائیں جانب کھڑا ہو۔ اور جب نمازی دو ہوجائیں تو امام کے پیچھے صف بندی کریں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

180

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ مَالِكِ بْنِ الْخَيْثَمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: «أَحْسِنْ إِلَى غَنَمِكَ، وَأَطِبْ مُرَاحَهَا، وَصَلِّ فِي نَاحِيَتِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ دَوَابِّ الْجَنَّةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ فِي مُرَاحِ الْغَنَمِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ أَبْوَالُهَا وَبَعْرُهَا مَا أَكَلْتَ لَحْمَهَا فَلا بَأْسَ بِبَوْلِهَا
حمید بن مالک (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا اپنی بکریوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے باڑ کو صاف ستھرا رکہا کرو اور ان کے ایک جانب نماز پڑھا کرو یہ جنت کے جانوروں میں سے ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ بکریوں کے باڑے میں ایک طرف نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے اگرچہ اس میں ان کے پیشاب اور مینگنیاں پائی جائیں، ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں۔

181

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا يَتَحَرَّى أَحَدُكُمْ فَيُصَلِّيَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَلا عِنْدَ غُرُوبِهَا»
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص طلوع و غروبب شمس کے وقت نماز کا قصد نہ کرے۔ (اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب النہی عن الصلوۃ بعد الصبح میں ذکر کیا ہے)

182

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ وَمَعَهَا قَرْنُ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ زَائَلَهَا، ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ قَارَنَهَا، ثُمَّ إِذَا زَالَتْ فَارَقَهَا، ثُمَّ إِذَا دَنَتْ لِلْغُرُوبِ قَارَنَهَا، فَإِذَا غَرَبَتْ فَارَقَهَا» ، قَالَ: «وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاةِ فِي تِلْكَ السَّاعَاتِ»
عبداللہ الصنابحی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساستھ شیطان کا سینگ ہوتا ہے۔ جب سوررج بلند ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ نصف النہار میں سیدھا کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے ساتھ آملتا ہے۔ جب سورج زائل ہوجائے ( زوال ہوجائے) تو وہ اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ پھر جب غروب کے قریب ہو تو وہ سینگ اس کے ساتھ آملتا ہے اور جب غروب ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اوقات میں نماز سے منع فرمایا ہے۔

183

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: «لا تَحَرَّوْا بِصَلاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلا غُرُوبَهَا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَطْلُعُ قَرْنَاهُ مِنْ طُلُوعِهَا، وَيَغْرُبَانِ عِنْدَ غُرُوبِهَا» ، وَكَانَ يَضْرِبُ النَّاسَ عَنْ تِلْكَ الصَّلاةِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ وَغَيْرُهُ عِنْدَنَا فِي ذَلِكَ سَوَاءٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) کہا کرتے تھے۔ کہ سورج کے طلوع و غروبب کے وقت نماز کا قصد مرت کرو کیونکہ طلوع آفتاب کے ساتھ شیطان کے دو سینگ کھڑیی ہوتے ہیں اور اس کے غروب کے ساتھ وہ بھی غروب ہوجاتے ہیں اور عمر (رض) لوگوں کو عصرر کے بعد نماز پڑھنے پر مارتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم سب روایات و آثار کو اختیار کرتے ہیں اس میں جمعہ اور غیر جمعہ کا دن ایک ہی حکم رکھتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

184

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا كَانَ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ» , وَذَكَرَ أَنَّ النَّارَ اشْتَكَتْ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ، فَأَذِنَ لَهَا فِي كُلِّ بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٌ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٌ فِي الصَّيْفِ , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، نُبْرِدُ لِصَلاةِ الظُّهْرِ فِي الصَّيْفِ، وَنُصَلِّي فِي الشِّتَاءِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب گرمی ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھڑک سے ہے اور یہ بہی ذکر فرمایا کہ آگ نے اپنے رب تعاغلی کی بارگارہ میں شکوہ ک یا بس اسے ہر سال میں دو سانس لینے کی اجازت دے دی گئی، ایک سانس سردیوں میں اور دوسرا سانس گرمیوں میں۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہوئے نماز ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرتے ہیں اور سردیوں میں اس کو زوال کے بعد جلد ادا کرلیتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب بھی یہی ہے۔

185

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَفَلَ مِنْ خَيْبَرَ أَسْرَى، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلالٍ: اكْلأْ لَنَا الصُّبْحَ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، وَكَلأَ بِلالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، ثُمَّ اسْتَنَدَ إِلَى رَاحِلَتِهِ وَهُوَ مُقَابِلُ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلا بِلالٌ، وَلا أَحَدٌ مِنَ الرَّكْبِ، حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا بِلالُ، فَقَالَ بِلالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، قَالَ: اقْتَادُوا فَبَعَثُوا رَوَاحِلَهُمْ، فَاقْتَادُوهَا شَيْئًا، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلالا، فَأَقَامَ الصَّلاةَ فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، ثُمَّ قَالَ حِينَ قَضَى الصَّلاةَ: " مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14] ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِلا أَنْ يَذْكُرَهَا فِي السَّاعَةِ الَّتِي نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاةِ فِيهَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ وَتَبْيَضَّ، وَنِصْفَ النَّهَارِ حَتَّى تَزُولَ، حِينَ تَحْمَرُّ الشَّمْسُ حَتَّى تَغِيبَ إِلا عَصْرَ يَوْمِهِ فَإِنَّهُ يُصَلِّيهَا وَإِنِ احْمَرَّتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
سعید بن المسیب نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خیبر سے واپس لوٹے تو رات کو سفر اختیار فرمایا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مقام پر اترپڑے اور بلال (رض) سے کہا کہ صبح کی نماز کے لیے ہمارا خیال کرنا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سوگئے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا بلال جاگتے رہے پھر اپنی سواری کے ساتھ مشرق کی طرف رخ کر کے سہارا لگایا تو ان پر بھی نیند غالب آگئی پھر کوئی اٹھا نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے نہ بلال نہ کوئی اور سوار یہیاں تک کہ سورج کی شعائیں ان پر پڑیں تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرا کر اٹھے اور فرمایا اے بلال (یہ کیا بات ہے) بلال کہنے لگے میرے بھی نفس کو اسی نے قابو کرلیا جس نے آپ نے نفس کو قابو کیا آپ نے فرمایا یہاں سے کوچ کرو انھوں نے اپنی سواریوں کو اٹھایا اور وہاں سے کچھ فاصلے تک کوچ کیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو حکم دیا انھوں نے اقامت کہی اور ان کو فجر کی نماز پڑھائی پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا جو آدمی اپنی کوئی نماز بھول جائے جب اس کو یاد آئے تو اس کو ادا کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اقم الصلوۃ لذکری تم میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی طرح اختیار کرتے ہیں سوائے ان اوقات کے کہ جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
نمبر ١ سورج کے طلوع ہونے کے وقت یہاں تک کہ وہ طلوع ہوجائے اور کی روشنی سفید ہوجائے۔ نمبر ٢ زوال کا وقت یہاں تک کہ وہ ڈھل جائے ۔ نمبر ٣ اور سورج زرد پڑجائے یہاں تک کہ غروب ہوجائے ان تینوں اوقات میں اگر نماز یاد آئے تو اس کو اسی قوت پڑھنا ادرست نہیں البتہ اس دن کی عصر کی نماز باوجود سورج کے زرد پڑجانے کے غروب آفتاب سے پہلے درست ہی اور یہی یامام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

186

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنِ الأَعْرَجِ، يُحَدِّثُونَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا. وَمَنْ أَدْرَكَهَا مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا»
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے گویا نماز کو پالیا اور جس شخص نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پائی اس نے گویا عصر کی نماز پالی۔

187

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلاةِ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةً بَارِدَةً ذَاتَ مَطَرٍ يَقُولُ: أَلا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا حَسَنٌ وَهَذَا رُخْصَةٌ وَالصَّلاةُ فِي الْجَمَاعَةِ أَفْضَل
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے سفر کے دوران ایک انتہائی ٹھنڈی اور ہوا والی رات میں اذان دی پہر اعلان کیا الا صلوا فی الرحال ( اپنے کجاو وں کے پاس نماز ادا کرلو) پھر آپ نے فرمایا کہ جب رات بہت سرد اور بارش والی ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ اذان میں کہے الا صلوا فی الرحال (یہ روایت باب النداء فی السفر میں مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ یہ خوب ہے اور بطور رخصت اجازت ہے مگر جماعت سے نماز افضل ہے۔

188

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: «إِنَّ أَفْضَلَ صَلاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ إِلا صَلاةَ الْجَمَاعَةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَكُلٌّ حَسَنٌ
زید بن ثابت نے بیان فرمایا کہ تمہاری سب سے افضل نماز (نفل) وہ ہے جو تم اپنے گھروں میں ادا کرو سوائے جماعت کی نماز کے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی پر ہمارا عمل ہے اور یہ سب درست و خوب ہے۔

189

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَضْلُ صَلاةِ الْجَمَاعَةِ عَلَى صَلاةِ الرَّجُلِ وَحْدَهُ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةٍ»
ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جماعت کی نماز اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز پر ستائیس گنا زیادہ درجہ رکھتی ہے۔

190

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا , أَنَّهَا قَالَتْ: «فُرِضَتِ الصَّلاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، فَزِيدَ فِي صَلاةِ الْحَضَرِ، وَأُقِرَّتْ صَلاةُ السَّفَرِ»
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہا فرماتی ہیں کہ نماز سفر و حضر میں دو دو رکعت ہی فرض ہوئی تھی پھر سفری نماز کو اسی طرح رہنے دیا گیا اور حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب قصر الصلوۃ فی السفر میں ذکر کیا ہے)

191

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا «كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ قَصَرَ الصَّلاةَ»
نافع کہتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) خیبر کا سفر کرتے تو قصر نماز پڑھتے۔ (یہ اثر مؤطا مالک میں باب ما یجب القصر میں مذکور ہے)

192

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا خَرَجَ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا، قَصَرَ الصَّلاةَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ»
عبداللہ بن عمر (رض) جب حج یا عمرہ کی نیت سے نکلتے تو ذو الحلیفہ میں نماز قصر سے پڑھتے۔
(اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما یجب فیہ قصر اللوۃ میں ذکر کیا ہے)

193

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «خَرَجَ إِلَى رِيمَ فَقَصَرَ الصَّلاةَ فِي مَسِيرِهِ ذَلِكَ»
سالم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) ریم مقام کی طرف سوار ہو کر گئے تو اس مسافت میں بھی نماز کو قصر کیا۔

194

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، «أَنَّهُ كَانَ يُسَافِرُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ الْبَرِيدُ، فَلا يَقْصُرُ الصَّلاةَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا خَرَجَ الْمُسَافِرُ أَتَمَّ الصَّلاةَ، إِلا أَنْ يُرِيدَ مَسِيرَةَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ كَوَامِلَ بِسَيْرِ الإِبِلِ، وَمَشْيِ الأَقْدَامِ، فَإِذَا أَرَادَ ذَلِكَ، قَصَرَ الصَّلاةَ حِينَ يَخْرُجُ مِنْ مِصْرِهِ، وَيَجْعَلَ الْبُيُوتَ خَلْفَ ظَهْرِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع کہتے ہیں ابن عمر (رض) کے ساتھ ایک برید کا سفر کرتا تھا تو عبداللہ اس مسافت میں قصر نہ فرماتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے مسافر جب تین دن کی مسافت ارادہ کرکے نکلے تو قصر کرے گا اور اس رفتار سے پیدل یا اونٹ کی رفتار مراد ہے۔ یہ قصر اپنے شہر سے نکلنے سے شروع ہوجائے گی اور شہر کی آبادی کو پیچھے چھوڑنے پر قصر کرے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔

195

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «أُصَلِّي صَلاةَ الْمُسَافِرِ مَا لَمْ أُجْمِعْ مُكْثًا، وَإِنْ حَبَسَنِي ذَلِكَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً»
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے کہ میں مسافر کی نماز پڑھتا ہوں ۔ جب تک کہ اقامت کا پختہ ارادہ نہ کرلوں۔ اگرچہ یہ ( تردد کی کیفیت) مجھے بارہ رات روک رکھے)
(اس اثر کو امام مالک نے باب صلوۃ المسافر میں ذکر کیا ہے)

196

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ كَانَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ صَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَهْلَ مَكَّةَ أَتِمُّوا صَلاتَكُمْ فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ»
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) جب مکہ آتے تو انھیں دو رکعت پڑھا کر فرماتے۔ اے مکہ والو ! تم اپنی نماز پوری کرول کیونکہ ہم مسافر لوک ہیں۔ (یہ اثر مؤطا مالک (رح) میں باب صلوۃ المسافر اذا کان امام میں ذکر کیا گیا ہے)

197

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يُقِيمُ بِمَكَّةَ عَشْرًا، فَيَقْصُرُ الصَّلاةَ إِلا أَنْ يَشْهَدَ الصَّلاةَ مَعَ النَّاسِ، فَيُصَلِّي بِصَلاتِهِمْ»
نافع (رح) کہتے ہیں کہ ابنب عمر (رض) مکہ میں دس دن تک ٹھہرے اور قصر کرتے رہے جب لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہوتے تو انھیں کے مطابق ( پوری) نماز پڑھتے۔

198

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، " أَنَّهُ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْمُسَافِرِ إِذَا كَانَ لا يَدْرِي مَتَى يَخْرُجُ يَقُولُ: أَخْرُجُ الْيَومَ، بَلْ أَخْرُجُ غَدًا، بَلِ السَّاعَةَ، فَكَانَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيْهِ لَيَالٍ كَثِيرَةٌ أَيَقْصُرُ، أَمْ مَا يَصْنَعُ؟ قَالَ: يَقْصُرُ وَإِنْ تَمَادَى بِهِ ذَلِكَ شَهْرًا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: نَرَى قَصْرَ الصَّلاةِ إِذَا دَخَلَ الْمُسَافِرُ مِصْرًا مِنَ الأَمْصَارِ، وَإِنْ عَزَمَ عَلَى الْمُقَامِ، إِلا أَنْ يَعْزِمَ عَلَى الْمُقَامِ خَمْسَةَ عَشْرَ يَوْمًا فَصَاعِدًا، فَإِذَا عَزَمَ عَلَى ذَلِكَ أَتَمَّ الصَّلاةَ.
ہشام کہتے ہیں میں نے سالم بن عبداللہ سے اس مسافر کا حکم دریافت کیا جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب سفر پر چل دے گا اور اس طرح ارادہ کرتا ہے آج نکلوں گا بلکہ ایک گھنٹہ کے بعد نکلوں گا۔ وہ اس طرح کرتا رہے یہاں تک کہ اس پر کئی راتیں گزرجائیں، کیا وہ قصر کرے گا یا کیا کرے گا سالم کہنے لگے وہ قصر کرے خواہ یہ مدت ایک مہینہ ہوجائے۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہمارے ہاں جب مسافر کسی شہر میں داخل ہو اگر وہ اقامت کا پختہ ارادہ کرے اور وہ ارادہ کم از کم پندرہ دن یا سا سے زیادہ کا ہو تو وہ نماز کو مکمل کرے گا ورنہ وہ مسافر ہی رہے گا۔

199

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ الْخُرَاسَانِيُّ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ «مَنْ أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ فلْيُتِمَّ الصَّلاةَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِهَذَا، يَقْصُرُ الْمُسَافِرُ حَتَّى يُجْمِعَ عَلَى إِقَامَةِ خَمْسَةَ عَشْرَ يَوْمًا، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ.
عطاء خراسانی (رح) نے سعید بن المسیب کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص چار دن ٹھہرنے کا ارادہ رکلے جبکہ وہ مسافر ہو تو اب وہ نماز پوری پڑھے گا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اس کو اخیا ار نہیں کرتے ، مسافر اس وقت تک قصر کرتا رہے گا یہاں تک کہ یکبارگی پندرہ دن اقامت کی نیت کرے اور یہی ابن عمر (رض) اور سعید بن جبیر اور سعید بن المسیب کا قول ہے۔

200

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مَعَ الإِمَامِ أَرْبَعًا، وَإِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا كَانَ الإِمَامُ مُقِيمًا، وَالرَّجُلُ مُسَافِرًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) ابن عمر (رض) عنہماکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ وہ امام کے پیچھے چار رکعت ادا کرتے اور جب تنہاء نماز پڑھتے تو دو رکعت پڑھتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب امام مقیم اور آدمی مسافر ہو اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

201

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ يَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ بِالْعَشْرِ السُّوَرِ مِنْ أَوَّلِ الْمُفَصَّلِ، يُرَدِّدُهُنَّ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ سُورَةً» . قَالَ مُحَمَّدٌ: يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ فِي السَّفَرِ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ، وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَنَحْوِهِمَا
نافع (رح) ابن عمر (رض) کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ سفر میں صبح کی نماز میں مفصل اول کی پہلی دس سورتوں میں سے پڑھتے اور ان کو ہر رکعت میں ایک ایک سورة کر کے دھراتے، (اس روایت کو کچھ اضافہ کے ساتھ امام مالک نے باب القراء ۃ فی الصبح میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے سفر کے دوران فجر کی نماز میں سورت بروج اور طارق اور ان نجیسی متوسط سورتیں پڑھے۔ (ابن ابی شیبہ نے عمر (رض) سے سفر حج میں نماز فجر قل یہا ایہالکافرون اور قل ہو اللہ سے پڑھانی منقول ہے۔ سفر تخفیف کو چاہتا ہے)

202

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءِ»
عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کرتے (اس روایت کو مؤطا مالک (رح) میں باب الجمع بین الصلاتین فی السفر میں ذکر کیا ہے)

203

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «حِينَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ فِي السَّفَرِ، سَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ»
نافع (رح) کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) جب مغرب و عشاء کو جمع کرتے تو سفر میں چلتے رہتے یہاں تک کہ شفق غائب ہوجاتی۔ (اس اثر کو بخاری باب السرعۃ فی السیر کتاب الجہاد میں نقل کیا ہے)

204

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، أَخْبَرَهُ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ «يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ، وَالْعَصْرِ فِي سَفَرٍ إِلَى تَبُوكَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ. وَالْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ أَنْ تُؤَخَّرَ الأُولَى مِنْهُمَا، فَتُصَلَّى فِي آخِرِ وَقْتِهَا، وَتُعَجَّلَ الثَّانِيَةُ، فَتُصَلَّى فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا. وَقَدْ بَلَغَنَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ أَخَّرَ الصَّلاةَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، خِلافَ مَا رَوَى مَالِكٌ
عبد الرحمن بن ہرمز (رح) کہتے ہیں کہ رسول اللہ سفر تبوک میں ظہر و عصر کو جمع فرماتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ دو نمازوں کو جمع کرنا اس طرح ہے کہ پہلی کو مؤخر کر کے آخری وقت میں ادا کریں اور دوسری کو اول وقت میں نجلد پڑھ لیا جائے۔ ہمیں ابن عمر (رض) کا یہ عمل پہنچا ہے کہ انھوں نے مغرب کی نماز اس وقت غروب شفق سے کچھ پہلے تک مؤخر کی۔ (اس اثر کو طحاوی نے بھی نقل کیا ہے) اس کے خلاف جو امام مالک نے روایت کی ہے)

205

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَمَعَ الأُمَرَاءُ بَيْنَ الْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ جَمَعَ مَعَهُمْ فِي الْمَطَرِ» . قَالَ: لَسْنَا نَأْخُذُ بِهَذَا، لا نَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ، إِلا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِعَرَفَةَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِمُزْدَلِفَةَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا , عَنْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ «كَتَبَ فِي الآفَاقِ، يَنْهَاهُمْ أَنْ يَجْمَعُوا بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ، وَيُخْبِرُهُمْ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ كَبِيرَةٌ مِنَ الْكَبَائِرِ» , أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ الثِّقَاتُ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ.
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) بارش میں امراء کے ساتھ مغرب و عشاء کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ نماز ادا کرلیتے۔ اس اثر کو امام مالک (رح) نے مؤطا میں باب الجمع بین الصلاتین فی السفر میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اس قول کو نہیں لیتے۔ ہم ایک وقت میں دو نمازوں کو جمع نہیں کرتے۔ صرف ظہر و عصر کو عرفات اور مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں جمع کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
محمد فرماتے ہیں کہ ہمیں عمر بن خطاب (رض) کا یہ اثر پہنچا کہ آپ نے اپنی مملکت کی اطراف میں یہ لکھ بھیجا کہ وہ دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع نہ کریں بلکہ اس سے باز آئیں۔ اس لیے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ یہ اثر ہمیں مکحول کی سند سے پہنچا ہے۔

206

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ فِي السَّفَرِ حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ» ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَصْنَعُ ذَلِكَ
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں اونٹ پر سواری کی حالت میں ادھر ہی رخ کرکے نماز پڑھتے ج۔ ھر اونٹ کا رخ ہوتا تھا۔ عبداللہ بن دینار نے کہا کہ عبداللہ بن عمر بھی ایسا کرتے تھے۔ اس کو امام مالک نے باب صلوۃ النافلۃ فی السفر بالنہار واللیل میں ذکر کیا ہے۔

207

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ سَعِيدًا أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي سَفَرٍ، فَكُنْتُ أَسِيرُ مَعَهُ وَأَتَحَدَّثُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا خَشِيتُ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرَ تَخَلَّفْتُ، فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ، ثُمَّ رَكِبْتُ، فَلَحِقْتُهُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ وَخَشِيتُ أَنْ أُصْبِحَ، فَقَالَ: أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟ فَقُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ»
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ مکہ کی راہ میں سفر کررہا تھا۔ جب مجھے صبح کا خوف ہوا تو میں نے سواری سے اتر کر وتر ادا کرلیے اور پھر ان سے جا ملا ، عبداللہ بن عمر (رض) نے مجھ سے کہا کہ تم کہاں تھے ؟ میں نے کہا مجھے صبحہ خوف ہوا تو میں نے اتر کر وتر اداء کیے ہیں۔ عبداللہ کہنے لگے کیا تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی میں بہتر نمونہ نہیں ہے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اللہ کی قسم ! اس پر عبداللہ کہنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ پر وتر ادا فرماتے ۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الامر بالوتر میں ذکر کیا ہے) ۔

208

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي سَفَرٍ يُصَلِّي عَلَى حِمَارِهِ، وَهُوَ مُتَوَجِّهٌ إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ، يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ إِيمَاءً بِرَأْسِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَضَعَ وَجْهَهُ عَلَى شَيْءٍ»
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو سفر میں گدھے پر سواری کی حالت میں نماز پڑھتے دیکھا۔ اس وقت وہ ان کا ررخ قبلہ کے علاوہ اور طرف تھا۔ وہ اشارے سے سجدہ و رکوع کر رہے تھے بغیر اس کے کہ کسی چیز پر وہ اپنے چہرے کو رکیں ۔ (مؤطا مالک میں اس کو باب صلوۃ النافلۃ فی السفر بالنہار واللیل و الصلوۃ علي الدابۃ میں نقل کیا ہے)

209

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَمْ يُصَلِّ مَعَ صَلاةِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ التَّطَوُّعَ قَبْلَهَا، وَلا بَعْدَهَا إِلا مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي نَازِلا عَلَى الأَرْضِ، وَعَلَى بَعِيرِهِ أَيْنَمَا تَوَجَّهَ بِهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمُسَافِرُ عَلَى دَابَّتِهِ تَطَوُّعًا إِيمَاءً حَيْثُ كَانَ وَجْهُهُ، يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ، فَأَمَّا الْوِتْرُ، وَالْمَكْتُوبَةُ فَإِنَّهُمَا تُصَلَّيَانِ عَلَى الأَرْضِ، وَبِذَلِكَ جَاءَتِ الآثَارُ
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سفر میں فرائض سے بعد اور پہلے کوئی نفل نماز نہ پڑھتے تھے۔ ہاں نماز تہجد زمین پر اتر کر ادا فرماتے اور بسا اوقات سواری پر ادا کرلیتے خواہ وہ جس طرف کو جا رہی ہوتی۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے مؤطا میں باب صلوۃ النافلۃ فی السفر بالنہار واللیل میں ذکر فرمایا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے اشارہ کے ساتھ مسافر اگر اپنی سواری پر نفل نماز ادا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے جانور کا رخ جدھر بہی ہو۔ رکوع کے اشارہ سے سجدے کا اشارہ ذرا جھکا اہو ہونا چاہیے۔ وتر اور فرائض زمین پر پر ہے جائیں گے۔ اس کی تائید بہت سے آثار سے ہوتی ہے جو مذکور ہیں۔

210

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، قَالَ: «كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُصَلِّي التَّطَوُّعَ عَلَى رَاحِلَتِهِ أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ، فَإِذَا كَانَتِ الْفَرِيضَةِ، أَوِ الْوِتْرِ نَزَلَ فَصَلَّى»
مجاہد (رح) نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) سفر میں دو رکعت فرض کے ساتھ بعد یا پہلے کسی نفل کا اضافہ نہ کرتے تھے اور تمام رات سواری پر عبادت کرتے، طلوع سحر سے کچھ دیر پہلے سواری سے اتر کر زمین پر وتر ادا کرتے، جب رات کو کہیں قیام فرما ہوتے تو تمام رارت عبادت میں گزارتے۔

211

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ حَمَّادٍ ابْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: " صَحِبْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَكَانَ يُصَلِّي الصَّلاةَ كُلَّهَا عَلَى بَعِيرِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةَ، وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ إِيمَاءً، وَيَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ، إِلا الْمَكْتُوبَةَ وَالْوِتْرِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَنْزِلُ لَهُمَا، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ حَيْثُ كَانَ وَجْهُهُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ، وَيَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ»
مجاہد (رح) نقل کرتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ سفر میں عبداللہ بن عمر (رض) کی رفاقت کی، وہ اپنی تمام نمازیں (نفلی) سواری پر ہی مدینہ منورہ کی طرف رخ کر کے سر کے اشارہ سے ادا کرتے سجدہ میں رکوع کی نسبت زیادہ جھک کر اشارہ کرتے مگر فرض اور وتر کی نمازوں کے لیے سواری سے نیچے اترتے۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح سر کے اشارہ سے نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور سجدہ کا اشارہ رکوع سے بنسبت زیادہ جھک کر کرتے تھے۔

212

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى ظَهْرِ رَاحِلَتِهِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ، وَلا يَضَعُ جَبْهَتَهُ، وَلَكِنْ يُشِيرُ لِلرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ بِرَأْسِهِ، فَإِذَا نَزَلَ أَوْتَرَ» .
ہشام بیان کرتے ہیں کہ میرے والد عروہ بن زبیر (رح) اپنی سواری کی پشت پر (نفلی) نماز ادا کرتے۔ خواہ سواری کا رخ کسی طرف ہوتا۔ وہ اپنی پیشانی سجدہ کے لیے کسی چیز پر نہ رکھتے۔ رکوع اور سجدہ کو اشارہ سے ادا کرتے تھے۔ جب اترتے تو وتر ادا کرتے۔

213

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ الضَّبِّيِّ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ حَيْثُ كَانَ وَجْهُهُ تَطَوُّعًا، يُومِئُ إِيمَاءً، وَيَقَرْأُ السَّجْدَةَ فَيُومِئُ، وَيَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ، وَالْوِتْرِ»
ابراہیم نخعی (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) سواری پر جس طرف سواری کا رخ ہوتا اشارہ سے نماز ادا فرماتے تھے۔ سجدہ کی يیت تلاوت کرتے تو سجدہ تلاوت بھی سر کے اشارہ سے ادا کرتے، فرض اور وتر اتر کر ادا فرماتے تھے۔

214

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ غَزْوَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ صَلَّى التَّطَوُّعَ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ، نَزَلَ فَأَوْتَرَ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ببن عمر (رض) کی سواری کا رخ جدھر ہوتا ادہر ہی وہ سواری کی حالت میں نوافل ادا فرماتے۔ جب وتر ادا کرنے کا ارادہ کرتے تو سواری سے اتر جاتے پھر وتر ادا کرتے۔

215

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «مَنْ نَسِيَ صَلاةً مِنْ صَلاتِهِ، فَلَمْ يَذْكُرْ إِلا وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ، فَإِذَا سَلَّمَ الإِمَامُ، فَلْيُصَلِّ صَلاتَهُ الَّتِي نَسِيَ، ثُمَّ لُيَصَلِّ بَعْدَهَا الصَّلاةَ الأُخْرَى» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ إِلا فِي خِصْلَةٍ وَاحِدَةٍ، إِذَا ذَكَرَهَا وَهُوَ فِي صَلاةٍ فِي آخِرِ وَقْتِهَا يَخَافُ إِنْ بَدَأَ بِالأُولَى، أَنْ يَخْرُجَ وَقْتُ هَذِهِ الثَّانِيَةِ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيهَا، فَلْيَبْدَأْ بِهَذِهِ الثَّانِيَةَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ثُمَّ يُصَلِّي الأُولَى بَعْدَ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ
نافع ر حمہ اللہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں جو شخص کوئی نماز پڑھنا بھول جائے اور وہ امام کے ساتھ نماز ادا کرنے کی حالت میں اس بھولی ہوئی نماز کو یاد کرلے تو جب امام سلام پھیر دے تو جو نماز وہ بھول گیا تھا وہ نماز ادا کرے پھر وہ نماز ادا کرے جو امام کے ساتھ ادا کرچکا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی قول کو اختیار کرنے والے ہیں البتہ اگر آخری (تنگ) وقت میں نماز ادا کرتے ہوئے یاد آئے اور اس کو ادا کرنے سے دوسری (وقتی) نماز کا وقت ہاتھ سے چلا جائے گا۔ اس صورت میں وقتی نماز ادا کرے اور اس کے بعد یاد آنے والی سابقہ نماز پڑھے، یہی امام ابوحنیفہ اور سعید بن مسیب رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔

216

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي الدِّيلِ يُقَالُ لَهُ: بُسْرُ بْنُ مِحْجَنٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِّنَ بِالصَّلاةِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَالرَّجُلُ فِي مَجْلِسِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ النَّاسِ؟ أَلَسْتَ رَجُلا مُسْلِمًا؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي قَدْ كُنْتُ صَلَّيْتُ فِي أَهْلِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جِئْتَ فَصَلِّ مَعَ النَّاسِ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ»
محجن دیلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اتنے میں اذان ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اٹھ کر نماز پڑھائی مگر میں اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوگئے) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز سے کس بات نے روک دیا ؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں میں مسلمان ہوں ! مگر بات یہ ہے کہ میں گھر میں نماز پڑھ چکا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم ( مسجد میں) آؤ (اور لوگوں کو نماز میں پاؤ) تو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو، خواہ تم پہلے نماز ادا کرچکے ہو۔ (اس روایت کو بخاری نے ادب المفرد اور نسائی و ابن خزیمہ اور طبرانی نے عبداللہ بن سرجس سے مرفوعا نقل کیا ہے) ۔

217

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى صَلاةَ الْمَغْرِبِ، أَوِ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُمَا، فَلا يُعِيدُ لَهُمَا غَيْرَ مَا قَدْ صَلاهُمَا»
نافع (رح) ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص مغرب یا صبح کی نماز پڑھ چکا ہو، پھر وہ جماعت کو پالے تو انھیں دوبارہ نہ پڑھے۔

218

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَفِيفُ بْنُ عَمْرِو السَّهْمِيُّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ، فَقَالَ: «إِنِّي أُصَلِّي، ثُمَّ آتِي الْمَسْجِدَ فَأَجِدُ الإِمَامَ يُصَلِّي، أَفَأُصَلِّي مَعَهُ» ؟ قَالَ: «نَعَمْ، صَلِّ مَعَهُ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَلَهُ مِثْلُ سَهْمِ جَمْعٍ أَوْ سَهْمُ جَمْعٍ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَنَأْخُذُ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ أَيْضًا، أَنْ لا نُعِيدَ صَلاةَ الْمَغْرِبِ وَالصُّبْحِ، لأَنَّ الْمَغْرِبَ وِتْرٌ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يُصَلِّيَ التَّطَوُّعَ وِتْرًا، وَلا صَلاةَ تَطَوُّعٍ بَعْدَ الصُّبْحِ، وَكَذَلِكَ الْعَصْرُ عِنْدَنَا، وَهِيَ بِمَنْزِلَةِ الْمَغْرِبِ وَالصُّبْحِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ایک شخص نے ابو ایوب انصاری (رض) سے دریافت کیا کہ اگر میں نماز پڑھ لوں، پھر مسجد میں آؤں اور امام کو نماز میں پاؤں تو کیا میں اس کے ساتھ نماز پڑھ لوں ؟ ابو ایوب (رض) کہنے لگے جی ہاں ! اس کے ساتھ نماز پڑھ لو۔ کیونکہ جو اس طرح کرے اسے جماعت کے ثواب میں سے حصہ ملتا ہے یا اس طرح فرمایا جو ایسے کرے اسے جماعت کے ثواب جیسا ثواب مل جاتا ہے یا جماعت کا ثواب ہے (راوی کو شک ہے کہ مثل کا لفظ فرمایا یا نہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے ان تمام کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ ابن عمر (رض) کا قول بھی لیتے ہیں کہ ہم مغرب اور صبح کی نماز نہیں لوٹاتے کیونکہ مغرب کی طاق رکعات ہیں اور نفل طاق نہیں ہوتے اور دوسرا یہ کہ صبح کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل نہیں اور اسی طرح عصر (کے بعد بہی نفل کی کراہیت بہت سی روایت سے ثابت ہے اور وہ ) بہی ہمارے ہاں یہی حکم رکھتی ہے یعنی مغرب و صبح کی طرح ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔
باب کھانا اور نماز دونوں میں کس کو پہلے انجام دے۔

219

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يُقَرَّبُ إِلَيْهِ الطَّعَامُ، فَيَسْمَعُ قِرَاءَةَ الإِمَامِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَلا يَعْجَلُ عَنْ طَعَامِهِ حَتَّى يَقْضِيَ مِنْهُ حَاجَتَهُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: لا نَرَى بِهَذَا بَأْسًا، وَنُحِبُّ أَنْ لا نَتَوَخَّى تِلْكَ السَّاعَةَ
نافع رحمہ للہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کو کھانا پیش کیا جاتا اور وہ گھر میں لامام کی قراءت کی آواز سنتے مگر نہ تو جلدی مچاتے اور نہ کھانا چھوڑتے یہاں تک کہ اس سے بقدر حاجت کھانہ لیتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اس میں حرج نہیں سمجھتے، ہم یہ پسند کرتے ہیں کہ ہم اس وقت کھانے کا قصد نہ کریں۔

220

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ رَأَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَضْرِبُ الْمُنْكَدِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا صَلاةَ تَطَوُّعٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ المنکر کو عصر کے بعد نماز پڑھنے کے باعث پیٹ رہے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں، عصر کے بعد کوئی نفل نماز درست نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

221

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «الَّذِي يَفُوتُهُ الْعَصْرُ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ»
نافع (رح) ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا اس کے مال و اولاد تمام ہلاک ہوگئے۔

222

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَمِّي أَبُو سُهَيْلِ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَرَى طِنْفَسَةً لِعَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تُطْرَحُ إِلَى جِدَارِ الْمَسْجِدِ الْغَرْبِيِّ، فَإِذَا غَشِيَ الطِّنْفَسَةَ كُلَّهَا ظِلُّ الْجِدَارِ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الصَّلاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ نَرْجِعُ، فَنُقِيلُ قَائِلَةَ الضَّحَاءِ»
مالک بن عمر اصبحی بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن عقیل بن ابی طالب کے لیے مسجد نبوی کی مغربی دیوار کے نیچے ایک بوریا ڈالا جاتا تھا۔ جب اس بوریے پر پورا سایہ آجاتا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے لیے نکلتے پھر ہم نماز کے بعد دوپہر کا قیلولہ کرتے تھے۔

223

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ , أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «لا يَرُوحُ إِلَى الْجُمُعَةِ، إِلا وَهُوَ مُدَّهِنٌ مُتَطَيِّبٌ، إِلا أَنْ يَكُونَ مُحْرِمًا»
نافع کہتے ہیں ابن عمر (رض) جمعہ کے دن جمعہ کے احرام کے علاوہ حالت میں تیل اور خوشبو لگاکر جاتے۔

224

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَالنِّدَاءُ الثَّالِثُ الَّذِي زِيدَ هُوَ النِّدَاءُ الأَوَّلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان (رض) نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا اضافہ کیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے۔ تیسری اذان زیادہ کی گئی ہے وہ پہلی اذان ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

225

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَازِنِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ الضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ سَأَلَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، مَاذَا كَانَ يَقْرَأُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِثْرِ سُورَةِ الْجُمُعَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؟ فَقَالَ: كَانَ يَقْرَأُ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ "
ضحاک بن قیس (رح) نے نعمان بن بشیر (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن سورة جمعہ کے بعد کیا ی پڑھتے تھے ؟ نعمان کہنے لگے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة الغاشیہ پڑھتے تھے۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب القراء ۃ فی صلوۃ الجمعۃ میں ذکر فرمایا ہے)

226

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، أَنَّهُمْ كَانُوا زَمَانَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يُصَلُّونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَخْرُجَ عُمَرُ، فَإِذَا خَرَجَ وَجَلَسَ إِلَى الْمِنْبَرِ، وَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ ثَعْلَبَةُ: «جَلَسْنَا نَتَحَدَّثُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ وَقَامَ عُمَرُ سَكَتْنَا، فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ مِنَّا»
ثعلبہ بن ابی مالک قرظی (رح) بیان کرتے ہیں کہ مسلمان جمعہ کے دن حضرت عمر بن خطاب (رض) کے زامانے میں نماز نفل پڑھتے رہتے تھے۔ یہاں تک عمر بن خطاب (رض) باہر تشریف لاتے۔ جب آپ تشریف لاتے اور منبر پر ب یٹھ جاتے اور مؤذن اذان دیتے۔ تو ثعلبہ کہتے ہیں کہ ہم بیٹھ کر بات چیت (دینی) کرتے جب مؤذن خاموش ہوجاتے اور حضرت عمر (رض) خطبہ دینے کھڑے ہوتے تو ہم خاموش ہوجاتے اور ہم میں سے کوئی نہ بولتا۔

227

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: «خُرُوجُهُ يَقْطَعُ الصَّلاةَ، وَكَلامُهُ يَقْطَعُ الْكَلامَ»
زہری بیان کرتے ہیں کہ امام کا ( خطبہ کیلئے) نکلنا نماز و کلام کو منقطع کردیتا ہے)

228

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ كَانَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ قَلَّمَا يَدَعُ ذَلِكَ إِذَا خَطَبَ: إِذَا قَامَ الإِمَامُ فَاسْتَمِعُوا وَأَنْصِتُوا؛ فَإِنَّ لِلْمُنْصِتِ الَّذِي لا يَسْمَعُ مِنَ الْحَظِّ مِثْلَ مَا لِلسَّامِعِ الْمُنْصِتِ "
مالک ابن ابی عامر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کہا کرتے تھے اور آپ کے بہت کم خطبے اس سے خالی ہوتے تھے۔ ” کہ جب بامام جمعہ کے دن خطبہ دینے کھڑا ہو تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ جس کو خطبہ سنائی نہ دے اور وہ خاموش رہنے والا ہو اس کو بہی اسی قدر ثواب ہے۔ جس قدر خاموشی سے سننے والے کو ملتا ہے “ (پہر جب نماز کھڑی ہوجائے تو صفوف کو برابر کرو اور کندھوں سے کندھا ملاؤ۔ کیونکہ صفوں کو سیدھا کرنا یہ کمال نماز حصہ ہے۔ حضرت عثمان (رض) اس وقت تک تکبیر نہ کہتے تھے جب تک ان کے مقررہ لوگ صفیں درست ہونے کے متعلق آکر اطلاع نہ کردیتے۔ جب صفوف کی درستی کی اطلاع مل جاتی تب آپ تکبیر کہتے) ۔ اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب میں ذکر فرمایا ہے)

229

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَاد، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ فَقَدْ لَغَوْتَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ»
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران تم نے اپنے ساتھی کو اس طررح کہا ” خاموش رہ، تو تم نے لغو کام کیا۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعۃ میں ذکر کیا ہے)

230

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، «أَنَّ أَبَاهُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ رَأَى فِي قَمِيصِهِ دَمًا وَالإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَنَزَعَ قَمِيصَهُ فَوَضَعَهُ» .
قاسم بن محمد (رح) نے اپنے قیص بر خون کا نشان دیکھا۔ اس وقت امام منبر پر خطبہ میں مصروف تھا تو انھوں نے قمیص کو کھینچ کر اتار دیا اور الگ رکھ دیا۔

231

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَالآخَرُ يَوْمَ تَأْكُلُونَ مِنْ لُحُومِ نُسُكِكُمْ "، قَالَ: ثُمَّ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدِ اجْتَمَعَ لَكُمْ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِيدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْ أَهْلِ الْعَالِيَةِ أَنْ يَنْتَظِرَ الْجُمُعَةَ فَلْيَنْتَظِرْهَا وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَرْجِعَ فَلْيَرْجِعْ، فَقَدْ أَذِنْتُ لَهُ، فَقَالَ: ثُمَّ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَخَطَبَ
عبد الرحمن بن ازہر (رح) کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ نماز عید میں حاضر ہوا انھوں نے عید کی نماز پڑھائی اور پھر لوگوں کو خطبہ دیا۔ اور ارشاد فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دو ونوں دنوں ( فطر و اضحی) کے روزے سے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک تو تمہارا وہ دن ہے جس میں تم اپنے روز سے فارغ ہو کر فطر کرتے ہو۔ اور دوسرا وہ دن ہے جس میں تم قربانی کرتے ہو اور اس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو۔ ابو عبید (رح) کا بیان ہے کہ پھر میں حضرت عثمان بن عفان (رض) کے ساتھ ( ان کے زمانہ خلافت میں) عید کی نماز میں حاضر ہوا۔ انھوں نے آکر نماز عید پڑھائی اور پھر خطبہ دیا اور فرمایا کہ تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئیں ہیں ( یعنی جمعہ، عید) پس جو شخص باہر کے دیہات سے آئے ہوں۔ اور وہ جمعہ کا انتظار کرنا چاہتا ہو تو فبہا اور جو واپس جلانا چاہتا ہو میں اسے اجازت دیتا ہوں۔ ابوعبید بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت عثمان (رض) جب باغیوں میں گھرے ہوئے تھے تو میں عید میں علی بن ابی طالب (رض) کے ساتھ حاضر ہوا۔ علی مرتضی (رض) آئے نماز پڑھائی پھر پھر خطبہ دیا۔
اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الامر بالصلوۃ قبل الخطبۃ فی العیدین میں نقل کیا ہے)

232

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُصَلِّي يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الأَضْحَى قَبْلَ الْخُطْبَةِ» ، وَذَكَرَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانَا يَصْنَعَانِ ذَلِكَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَإِنَّمَا رَخَّصَ عُثْمَانُ فِي الْجُمُعَةِ لأَهْلِ الْعَالِيَةِ لأَنَّهُمْ لَيْسُوا مِنْ أَهْلِ الْمِصْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبد الفطر و اضحی کے دن نماز پہلے پڑھتے پھر خطبہ دیتے تھے۔ (اس اثر کو بخاری، مسلم نے ابن عمر (رض) عنہما سے مرفوعا اور جابر (رض) سے بھی مرفوعا نقل کیا ہے) اور امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے ہی بات پہنچی ہے کہ ابوبکر و عمر (رض) ایسا ہی کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے ان تمام کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ حضرت عثمان (رض) نے دیہا ت اور عوالی مدینہ والوں کو جمعہ کی رخصت دی کیونکہ وہ شہر کے باسی نہ تھے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

233

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ لا يُصَلِّي يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلاةِ وَلا بَعْدَهَا»
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نفل نہ پڑھتے تھے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ترک الصلوۃ قبل العیدین و بعدہما میں ذکر فرمایا ہے)

234

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ قَاسِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا صَلاةَ قَبْلَ صَلاةِ الْعِيدِ، فَأَمَّا بَعْدَهَا فَإِنْ شِئْتَ صَلَّيْتَ، وَإِنْ شِئْتَ لَمْ تُصَلِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ.
عبد الرحمن بن القاسم سے روایت ہے کہ قاسم (رح) عیدگاہ جانے سے پہلے چار رکعت نماز (گھر میں ) پڑھتے تھے)
قول محمد (رح) یہ ہے : عید کی نماز سے قبل کوئی نماز نہیں ۔ البتہ اس کے بعد اگر تم چاہو ( تو گھر میں آکر) پڑھ سکتے ہو اور اگر نہ چاہو تو نہ پڑھو۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

235

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَازِنِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيّ: «مَاذَا كَانَ يَقْرَأُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الأَضْحَى، وَالْفِطْرِ» ؟ قَالَ: «كَانَ يَقْرَأُ بِقَافٍ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ، واقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ»
حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت ابو واقد لیثی (رض) سے دریافت فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الاضحی اور عید الفطر میں کیا قراءت فرماتے تھے۔ ابو واقد لیثی (رض) کہنے لگے سورة ق والقرآن المجید اور اقتربت الساعۃ پڑھتے تھے۔ (اس حدیث کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی التکبیر و القر اء ۃ میں ذکر کیا ہے)

236

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ قَالَ: «شَهِدْتُ الأَضْحَى وَالْفِطْرَ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَكَبَّرَ فِي الأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ، وَفِي الآخِرَةِ بِخَمْسِ تَكْبِيرَاتٍ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدِ اخْتُلِفَ النَّاسُ فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ، فَمَا أَخَذْتَ بِهِ فَهُوَ حَسَنٌ وَأَفْضَلُ ذَلِكَ عِنْدَنَا مَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ عِيدٍ تِسْعًا: خَمْسًا وَأَرْبَعًا، فِيهِنَّ تَكْبِيرَةُ الافْتِتَاحِ، وَتَكْبِيرَتَا الرُّكُوعِ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْقِرَاءَتَيْنِ، وَيُؤَخِّرُهَا فِي الأُولَى، وَيُقَدِّمُهَا فِي الثَّانِيَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
نافع کا بیان ہے کہ میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ عید الاضحی اور عید الفطر میں حاضر ہوا۔ انھوں نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیرات کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : لوگوں نے تکبیرات میں اختلاف کیا ہے۔ پس جس روایت کو اختیار کیا ہے وہ اچھی ہے۔ مگر ہمارے ہاں افضل وہ ہے جس کو عبداللہ بن مسعود (رض) نے روایت کیا کہ وہ ہر عید میں نو تکبیرات کہا کرتے تھے۔ پانچ پہلی رکعت میں اور چار دوسری رکعت میں۔ پہلی رکعت میں تکبیر افتتاح اور رکوع کی تکبیر اور تین زائد۔ دونوں رکعات میں قرات میں دونوں قرائتوں کو پے درپے پڑھتے اسی لیے پہلی میں قراءت کو تکبیرات سے مؤخر کرتے اور دوسری میں تکبیرات کو قرات سے مؤخر کرتے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ (اول رکعت ٣ زائد + افتتاح کی تکبیر+ رکوع کی تکبیر کل پانچ تکبیرات ہوئیں۔ دوسری رکعت میں ٣ زائد+ تکبیر رکوع کل چار ہوئی = مجموع ٩ نو ہوگئیں۔

237

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى بِصَلاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ كَثُرُوا مِنَ الْقَابِلَةِ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةَ أَوِ الرَّابِعَةَ فَكَثُرُوا، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي قَدْ صَنَعْتُمُ الْبَارِحَةَ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ إِلا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ يُفْرَضَ عَلَيْكُمْ "، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ
ام المؤمنین عائشہ (رض) عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن مسجد میں نماز ادا فرمائی اور کچھ لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگلی رات کو نماز ادا کی تو لوگوں نے تعداد میں کافی اضافہ ہوگال۔ پھر تیسر ی اور چوتھی رات کو لوگ جمع ہوئے مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس حجرہ سے باہر تشریف نہ لائے۔ صبح کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کچھ تم نے کیا تھا میں نے دیکھا مگر تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف یہ خوف مانع بن گیا کہ کہیں یہ نماز پر فرض نہ ہوجائے۔ اور یہ رمضان کا واقعہ تھا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب الترغیب فی الصلوۃ فی رمضان میں ذکر کیا ہے)

238

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاثًا» ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، عَيْنَايَ تَنَامَانِ وَلا يَنَامُ قَلْبِي
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے عائشہ (رض) عنہا سے سوال کیا کہ رمضان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کی کیفیت کیا ہوتی تھی ؟ انھوں نے جوابا فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ فرماتے تھے۔ چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طوالت کو مت پوچھو۔ پھر چار رکعت ادا کرتے تم ان کے حسن اور طوالت کا نہ پوچھو۔ پھر تین رکعت پڑھتے (یعنی وتر) عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کیا آپ وتر سے قبل سوجاتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے عائشہ میری آنکھیں تو سوجاتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

239

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرَغِّبُ النَّاسَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيمَةٍ، فَيَقُولُ: «مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» , قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَتُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ فِي خِلافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ
ابوسلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام رمضان کی ترغیب دلاتے تھے مگر تاکیدی حکم صادر نہ فرماتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے جس نے ایمان و خلوص کے ساتھ قیام رمضان کیا اس کے پہلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ابن شہاب کہتے ہیں اسی بات پر عمل رہا تاآنکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں اسی طرح رہا ( اس روایت کو امام مالک نے باب الترغیب فی الصلوۃ فی رمضان میں ذکر کیا ہے)

240

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، " أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: " وَاللَّهِ، إِنِّي لأَظُنُّنِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ فِيهَا. يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلِهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ تَطَوُّعًا بِإِمَامٍ، لأَنَّ الْمُسْلِمِينَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ وَرَأَوْهُ حَسَنًا. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَا رَآهُ الْمُؤْمِنُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ، وَمَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ قَبِيحًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ قَبِيحٌ»
عبد الرحمن بن القاری کہتے ہیں کہ میں رمضان میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ نکلا۔ لوگ مسجد میں جدا جدا گروہوں میں نماز پڑھ رہے تھے۔ کوئی اکیلا پڑھ رہا تھا تو بعض کے ساتھ کئی افراد تھے۔ پس حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کو ایک امام پر جمع کرودوں تو اچھا ہوگا۔ پھر انھوں نے لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کردیا۔ عبد الرحمن کہتے ہیں پھر میں ان کے ساتھ ایک روز رات کو نکلا اور لوگوں کو اپنے امام کے ساتھ پڑھتے پایا تو عمر (رض) نے فرمایا یہ ایک اچھی نئی چیز ( کئی جماعتوں کا ایک جماعت بن ایک امام کے ساتھ پڑھنا) ہے اور جس کو تم قائم کرتے ہو۔ حضرت عمر (رض) کی مراد آخر شب کی نماز تھی۔ اور لوگ تراویح کو اول شب میں ہی پڑھتے تھے۔ ( مؤطاء میں امام مالک نے باب ما جاء فی قیام رمضان میں نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام روایات کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں لوگوں کی نفلی نماز جامعت کے ساتھ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے اور وہ اس کو اجھا خیال کرتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ جس کو مؤمن اچھا خیال کریں وہ اللہ کے ہاں بھی حسن اور جس کو وہہ قبیح خیال کریں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبیح ہے۔

241

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: «كَانَ ابْنُ عُمَرَ لا يَقْنُتُ فِي الصُّبْحِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فجر کی نماز میں قنوت نہ پڑھتے ( امام مالک نے اس روایت کو باب القنوت فی الصبح میں نقل کیا ہے) الفاظ کا تھوڑا فراق ہے وہاں فی شیء من الصلوۃ ہے۔ یہاں فجر ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور ہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

242

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَدَ سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، وَأَنَّ عُمَرَ غَدَا إِلَى السُّوقِ وَكَانَ مَنْزِلُ سُلَيْمَانَ بَيْنَ السُّوقِ وَالْمَسْجِدِ، فَمَرَّ عُمَرُ عَلَى أُمِّ سُلَيْمَانَ الشِّفَاءِ، فَقَالَ: لَمْ أَرَ سُلَيْمَانَ فِي الصُّبْحِ، فَقَالَتْ: بَاتَ يُصَلِّي فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ: «لأَنْ أَشْهَدَ صَلاةَ الصُّبْحِ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ أَنْ أَقُومَ لَيْلَةً»
حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سلیمان بن ابی حثمہ (رض) کو نماز فجر میں نہ پایا۔ پھر حضرت عمر (رض) بازار کی طرف گئے۔ سلیمان کا گھر بازار اور مسجد نبوی کے درمیان وواقع تھا۔ حضرت عمر (رض) کا گزر سلیمان کی والدیہ شفاء کے پاس سے ہوا تو انھوں نے اس سے سلیمان کے متعلق دریافت کیا کہ وہ آج صبح کی نماز میں موجود نہ تھے۔ شفاء نے کہا وہ رات بھر نماز پڑھتے رہے۔ پس ان پر نیند کا غلبہ ہوگیا۔ جس کی وجہ سے وہ فجر میں حاصر نہ ہوئے) حضرت عمر (رض) نے فرمایا مجھے صبح کی نماز جامعت کے ساتھ اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں تمام رات نفل پڑھوں اور فجر جماعت سے نہ پڑھوں) ۔

243

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلاةِ الصُّبْحِ وَبَدَأَ الصُّبْحُ، رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلاةُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ صَلاةِ الْفَجْرِ يُخَفَّفَانِ
ام المؤمنین حفصہ (رض) عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب مؤذن صبح کی اذان دے کر خاموش ہوجاتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز فجر کی اقامت سے قبل دو ہلکی رکعتیں ادا فرماتے تھے۔ ( اس روایت کو مؤطا امام مالک میں باب ما جاء فی رکعتی الفجر میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارے ہاں یہ مختار ہے کہ صلوۃ فجر سے قبل دو رکعت خفیفہ پڑھی جائیں۔

244

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ " رَأَى رَجُلا رَكَعَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا شَأْنُهُ؟ فَقَالَ نَافِعٌ: فَقُلْتُ: يَفْصِلُ بَيْنَ صَلاتِهِ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَيُّ فَصْلٍ أَفْضَلُ مِنَ السَّلامِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابن عمر (رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ فجر کی دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ گیا ابن عمر (رض) عنما کہنے لگے ، وہ اس طرح کیوں کررہا ہے ؟ نافع کہتے ہیں کہ میں کہا وہ اپنی نماز کے دوران فرق کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا سلام پھیرنے سے بڑھ کر کسی اور فرق کی حاجت تھی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم ابن عمر (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ (کہ فاصلہ کے لیے لیٹنے کی حاجت نہیں ہے)

245

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ الْفَضْلِ، " أَنَّهَا سَمِعَتْهُ يَقْرَأُ وَالْمُرْسَلاتِ، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ لَقَدْ ذَكَّرْتَنِي بِقِرَاءَتِكَ هَذِهِ السُّورَةَ إِنَّهَا لآخِرُ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغرِبِ "
ام فضل (رض) عنہا نے اپنے بیٹے ابن عباس (رض) کو نماز میں سورة المرسلات پڑھتے سنا تو انھوں نے فرمایا۔ اے میرے لخت جگر ! تمہاری اس سورت کو قراءت نے مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات یاد لادی۔ یہ آخری رسولت ہے جس کو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مغرب کی نماز میں پڑھتے سنا ہے۔ (اس روایت کو امام مالک رحمہ نے باب القراءت فی المغرب و العشاء میں ذکر کیا ہے)

246

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَقْرَأُ بِالطُّورِ فِي الْمَغْرِبِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: الْعَامَّةُ عَلَى أَنَّ الْقِرَاءَةَ تُخَفَّفُ فِي صَلاةِ الْمَغْرِبِ، يَقْرَأُ فِيهَا بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ. وَنَرَى أَنْ هَذَا كَانَ شَيْئًا فَتُرِكَ، أَوْ لَعَلَّهُ كَانَ يَقْرَأُ بَعْضَ السُّوَرَةِ ثُمَّ يَرْكَعُ
جبیر بن معطم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز مغرب میں سورة الطور پڑھتے سنا ہے۔ اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب القراءت فی المغرب و العشاء میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ عام فقہاء کے ہاں مغررب کی نماز میں ن چھوٹی سورتیں تلاوت کی جائیں۔ جیسے قصار مفصل ( سورة لکن یکن سے آخر قرآن تک) ہمارا خیال یہ ہے کہ ابتداء میں یہ سورتیں پڑھی ہوں گی بعد میں ترک فرمادیں یا ان سورتوں کا بعض حصہ پڑھتے اور پھر رکوع کرلیتے ہوں گے)

247

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ السَّقِيمَ، وَالضَّعِيفَ، وَالْكَبِيرَ وَإِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑہائے تو وہ ہلکی قراءت کرے۔ کیونکہ جماعت میں بیمار، ضعیف، بوڑھے تو جس قدر چاہے قراءت طویل کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

248

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «صَلاةُ الْمَغْرِبِ وِترُ صَلاةِ النَّهَارِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَيَنْبَغِي لِمَنْ جَعَلَ الْمَغْرِبَ وِتْرَ صَلاةِ النَّهَارِ، كَمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَكُونُ وِتْرُ صَلاةِ اللَّيْلِ مِثْلَهَا، لا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِتَسْلِيمٍ، كَمَا لا يَفْصِلُ فِي الْمَغْرِبِ بِتَسْلِيمٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نماز مغرب دن کی طاق نماز ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جنہوں نے ابن عمر (رض) کی طرح مغرب کو دن کے وتر قرار دیا انھیں وتروں کو بھی اسی طرح قرار دینا چاہیے کہ ان کے درمیان سلام سے فال کہ نہ کیا جائے، جیسا مغرب میں فاصلہ نہیں کیا جاتا۔ یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اس اثر کو ابن نابی شیبہ (رح) نے مرفوعا نقل کیا ہے۔

249

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ أَخْبَرْتُكَ كَيْفَ أَصْنَعُ أَنَا؟ قَالَ: أَخْبِرْنِي، قَالَ: «إِذَا صَلَّيْتُ الْعِشَاءَ صَلَّيْتُ بَعْدَهَا خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَنَامُ فَإِنْ قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ صَلَّيْتُ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِنْ أَصْبَحْتُ أَصْبَحْتُ عَلَى وِتْرٍ»
ابو مرہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح وتر پڑھتے تھے، اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر میں نے سوال کیا پھر انھوں نے خاموشی ظاہر فرمائی۔ پہر میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا اگر تو پسند کرتا ہے تو میں تجھے بتلاتا ہوں کہ میں کس طرح کرتا ہوں۔ ابو مرہ کہنے لگے میں نے کہا مجھے بتلائیں تو ابوہریرہ کہنے لگے جب میں عشاء پڑھ لیتا ہوں تو اس کے بعد میں پانچ رکعت پڑھتا ہوں۔ پھر میں سو رہتا ہوں۔ پھر اگر رات کو بیدار ہوجاؤں۔ تو دو دو رکعت پڑھتا ہوں۔ اور اگر صبح کے وقت جاگتا ہوں تو میں وتر کی ٧٧ حالت میں صبح کرتا ہوں (کیونکہ ان کو میں عشاء کے ساتھ ادا کرچکا ہوتا ہوں)

250

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِمَكَّةَ، وَالسَّمَاءُ مُتَغَيِّمَةٌ فَخَشِيَ الصُّبْحَ، فَأَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ، ثُمَّ انْكَشَفَ الْغَيْمُ، فَرَأَى عَلَيْهِ لَيْلا، فَشَفَعَ بِسَجْدَةٍ ثُمَّ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ، سَجْدَتَيْنِ، فَلَمَّا خَشِيَ الصُّبْحَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ نَأْخُذُ، لا نَرَى أَنْ يَشْفَعَ إِلَى الْوِتْرِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ صَلاةِ الْوِتْرِ، وَلَكِنَّهُ يُصَلِّي بَعْدَ وِتْرِهِ مَا أَحَبَّ، وَلا يَنْقُضُ وِتْرَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّه
نافع کہتے ہیں کہ میں مکہ کی رات میں ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا اور آسمان ابر آلود تھا۔ عبداللہ نے خطرہ محسوس کیا کہ کہیں صبح نہ ہوگئی ہو۔ تو انھوں نے ایک رکرعت کے ساتھ نماز کو وتر بنایا۔ پھر ( تھوڑی دیر بعد) بادل چھٹ گیا تو عبداللہ نے دیکھا کہ ابھی تو رات باقی ہے۔ پس انھوں نے ایک اور رکعت پڑھ کر نماز جفت کیا ا۔ پھر دو رکعات پڑھتے رہے ۔ پھر جب صبح کے طلوع کا خدشہ ہوا تو ایک رکعت کے ساتھ نماز کو وتر بنالیا۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب الامر بالوتر میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں البتہ ہم وتر کی ادائیگی کے بعد اس کو جفت نہیں بناتے۔ لیکن وہ اپنی وتر نماز کے بعد جو نفلی نماز من میں ن يئے وہ ادا ک رے اپنے وتر کو نہ توڑے یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

251

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَوْتَرَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ جَاءَ هَذَا الْحَدِيثُ، وَجَاءَ غَيْرُهُ فَأَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا مَا بَدَا لَهُ، فَإِذَا بَلَغَ الْوِتْرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَى الأَرْضِ، وَهُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سواری پر وتر ادا کئے۔
قول محمد (رح) ہے ہے : یہ روایت بھی آئی اور اس کے علاوہ روایات بھی وارد ہیں۔ ہمارے ہاں مختار قول یہ ہے کہ نفل نماز جتنی چاہے سواری پر ادا کرے جب وتر تک پہنچے تو اتر کر وتر ادا کرے اور یہی عمر بن خطاب اور عبداللہ بن عمر (رض) کا قول ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

252

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، يَقُولُ: «إِنِّي لأُوتِرُ وَأَنَا أَسْمَعُ الإِقَامَةَ، أَوْ بَعْدَ الْفَجْرِ» ، يَشُكُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَيَّ ذَلِكَ قَالَ
عبد الرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ (رض) کو کہتے سنا کہ میں وتر پڑھ رہا ہوتا ہوں اور میں اقامت کی آواز سنتا ہوں یا یہ کہا کہ میں وتر فجر کے بعد پڑھتا ہو۔ عبد الرحمن کو شک ہے کہ عبداللہ نے دونوں میں کونسی بات کہی۔

253

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، " أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يَقُولُ: إِنِّي لأُوتِرُ بَعْدَ الْفَجْرِ "
عبد الرحمن بن قائم کہتے ہیں میں نے قاسم بن محمد رحمہ کو کہتے سنا کہ میں فجر کے بعد (بھی) وتر پڑھ لیتا ہوں۔

254

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، يَقُولُ: «إِنِّي لأُوتِرُ وَأَنَا أَسْمَعُ الإِقَامَةَ، أَوْ بَعْدَ الْفَجْرِ» ، يَشُكُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَيَّ ذَلِكَ قَالَ
عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا مجھے اس بات کی پروانہ نہیں کہ اگر نماز صبح کھڑی ہوجائے اور میں وتر پڑھ رہا ہوں۔

255

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ رَقَدَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ لِخَادِمِهِ: «انْظُرْ مَاذَا صَنَعَ النَّاسُ» ، وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: «قَدِ انْصَرَفَ النَّاسُ مِنَ الصُّبْحِ» ، فَقَامَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَأَوْتَرَ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ
سعید بن جبیر (رح) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سو کر اٹھے تو اپنے خادم سے فرمایا۔ دیکھو لوگ کیا کرتے ہیں ؟ عبداللہ بن عباس (رض) اس وقت نابینا ہوچکے تھے پس خادم جاکر واپس آیا اور اس نے بتلایا کہ لوگ فجر پڑھ کر واپس چلے گئے ہیں۔ پھر عبداللہ ا تھے ور وتر پڑھے، پھر نماز فجر ادا کی۔

256

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ كَانَ «يَؤُمُّ يَوْمًا، فَخَرَجَ يَوْمًا لِلصُّبْحِ، فَأَقَامَ الْمُؤَذِّنُ الصَّلاةَ، فَأَسْكَتَهُ حَتَّى أَوْتَرَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ يُوتِرَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ، وَلا يُؤَخِّرَهُ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَإِنْ طَلَعَ قَبْلَ أَنْ يُوتِرَ فَلْيُوتِرْ، وَلا يَتَعَمَّدْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
امام مالک (رح) کہتے ہیں کہ یحی بن سعید نے خبردی کہ عبادہ بن صامت (رض) لوگوں کو امامت کراتے تھے ایک دن وہ صبح کی نماز کے لیے نکلے تو مؤذن نگے نماز فجر کے لیے اقامت شروع کردی۔ آپ نے یاس کو خاموش کرایا یہاں تک کہ وتر ادا کرلیے پھر ان کو جماعت کرائی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں یہ پسندیدہ بات ہے کہ طلوع صبح سے پہلے وتر پڑھے جائیں اور ان کو طلوع فجر تک مؤخر نہ کیا جائے۔ اگر ( کسی عذر کی بناء پر) وتروں کی ادائیگی سے پہلے فجر طلوع ہوگئی تو اس وقت وتر ادا کرلے۔ مگر ایسی حرکت جان بوجھ کر مت کرے۔ ییہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

257

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يُسَلِّمُ فِي الْوِتْرِ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالرَّكْعَةِ حَتَّى يَأْمُرَ بِبَعْضِ حَاجَتِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِهَذَا، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَلا نَرَى أَنْ يُسَلِّمَ بَيْنَهُمَا
نافع (رح) ابن عمر (رض) کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ وہ وتر کی دو رکعتوں اور آخری رکعت کے درمیان سلام پھیرتے یہاں تک کہ وہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار نہیں کرتے بلکہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) ، ابن عباس (رض) کے اقوال کو لیتے ہیں۔ وتروں کے درمیان سلام کو ہم درست نہیں سمجھتے۔

258

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُصَلِّي مَا بَيْنَ صَلاةِ الْعِشَاءِ إِلَى صَلاةِ الصُّبْحِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ تَطَوُّعًا، وَثَلاثَ رَكَعَاتِ الْوِتْرِ، وَرَكْعَتَيِ الْفَجْرِ»
ابو جعفر نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔ آٹھ رکعت نفل، تین رکعت وتتر اور دو فجر کی ( سنتوں) کی رکعات ( اس اثر کو بخاری ومسلم اور ابوب داؤد نے عائشہ (رض) سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ )

259

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: «مَا أُحِبُّ أَنِّي تَرَكْتُ الْوِتْرَ بِثَلاثٍ، وَإِنَّ لِي حُمْرَ النَّعَمِ»
ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ میں وتر کی تین رکعات سرخ اونٹوں کے عوض بھی چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔

260

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «الْوِتْرُ ثَلاثٌ كَثَلاثِ الْمَغْرِبِ»
ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ وتر کی تین رکعات مغرب کی تین رکعتوں کی طرح ہیں۔

261

قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الْمَكْفُوفُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «الْوِتْرُ ثَلاثٌ كَصَلاةِ الْمَغْرِبِ»
عبد الرحمن بن یزید روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا وتر تین ہیں جس طرح مغرب کی نماز۔

262

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، «الْوِتْرُ كَصَلاةِ الْمَغْرِبِ»
عطاء کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وتر نماز مغرب کی طرح ہے۔

263

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «مَا أَجْزَأَتْ رَكْعَةٌ وَاحِدَةٌ قَطُّ»
حصین بن ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں کبھی ایک رکعت کو جائز قرار نہیں دیتا۔

264

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا سَلامُ بْنُ سُلَيْمٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، «أَهْوَنُ مَا يَكُونُ الْوِتْرُ ثَلاثُ رَكَعَاتٍ»
علقمہ کہتے ہیں کہ ہمیں نعبداللہ بن مسعود (رض) نے خبر دی کہ وتر کی سب سے کم رکعات تین ہیں۔

265

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَبِي أَوْفَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «لا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيِ الْوِتْرِ»
سعید بن ہشام کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کی تین رکعت میں سلام نہیں پھیرتے تھے۔

266

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَرَأَ بِهِمْ: «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، فَسَجَدَ فِيهَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِيهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لا يَرَى فِيهَا سَجْدَةً
ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے (نماز میں) سورة انشقاق تلاوت فرمایا اور سجدہ کیا اور نماز کے بعد لوگوں کو بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سجد کیا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی قول کو اختیار کرتے ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک اس میں سجدہ کو درست نہیں مانتے۔

267

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ " قَرَأَ بِهِمُ: النَّجْمَ، فَسَجَدَ فِيهَا، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ سُورَةً أُخْرَى "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لا يَرَى فِيهَا سَجْدَةً
اعرج سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے سورة النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔ پھر اٹھے اور دوسری سورت پڑھی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ امام مالک، النجم میں بھی سجدہ کے قائل نہیں ہیں۔

268

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، أَنَّ عُمَرَ " قَرَأَ سُورَةَ: الْحَجِّ، فَسَجَدَ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ، وَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ السُّورَةَ فُضِّلَتْ بِسَجْدَتَيْنِ "
نافع روایت کرتے ہیں کہ ایک مصری نے مجھے خبر دی کہ عمر بن خطاب (رض) نے سورة الحج تلاوت فرمائی پس اس میں دو سجدے کیے اور پھر فرمایا اس سورت کو دو سجدوں کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔

269

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، «أَنَّهُ رَآهُ» سَجَدَ فِي سُورَةِ الْحَجِّ سَجْدَتَيْنِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: رُوِيَ هَذَا عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ لا يَرَى فِي سُورَةِ الْحَجِّ إِلا سَجْدَةً وَاحِدَةً: الأُولَى، وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن دینار نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو سورة حج میں دو سجدے ی کرتے دیکھا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : سوررہ حج کے دو سجدے عمرو ابن عمر (رض) دونوں سے مروی ہیں۔ مگر ابن عباس سورة الحج میں ایک پہلا سجدہ مانتے تھے اور ہم انہی کا قول اختیار کرنے والے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

270

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ، أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ الأَنْصَارِيِّ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ يَعلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ» ، قَالَ: لا أَدْرِي قَالَ: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ سَنَةً
زید بن خالد جہنی (رض) نے بسر بن سعید (رض) کو ابو جہم (رض) کے باس بھیجا کہ ان سے دریافت کریں کہ انھوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا سنا تھا۔ ابوب جہم (رض) کہنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہو کہ اسے کتنا گناہ ملا ہے تو وہ چالیس تک کھڑا رہنے کو اس کے سامنے گزرنے سے بہتر جانتا، ابو النضر راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ بسر نے چالیس دن یا چالیس ماہ یا چالیس سال کہا تھا۔

271

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَلا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ»
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو وہ کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہ دے اور جہاں تک ہوسکے اسے ہٹائے۔ پھر اگر وہ انکار کرے تو اس کو زیادہ شدت روکے۔ کیونکہ وہ شیطان ہے۔

272

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: «لَوْ كَانَ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ كَانَ أَنْ يُخْسَفَ بِهِ خَيْرًا لَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يُكْرَهُ أَنْ يَمُرَّ الرَّجُلُ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْرَأْ مَا اسْتَطَاعَ وَلا يُقَاتِلْهُ، فَإِنْ قَاتَلَهُ كَانَ مَا يَدْخُلُ عَلَيْهِ فِي صَلاتِهِ مِنْ قِتَالِهِ إِيَّاهُ أَشَدَّ عَلَيْهِ مِنْ مَمَرِّ هَذَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى قِتَالَهُ، إِلا مَا رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَلَيْسَتِ الْعَامَّةُ عَلَيْهَا، وَلَكِنَّهَا عَلَى مَا وَصَفْتُ لَكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عطاء بن یسار رکہتے ہیں کہ کعب الاحبار (رح) کہنے لگے اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لیتا کہ اسے کس قدر گناہ ہوگا تو اسے زمین میں دھنس جانا سامنے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہوتا۔ (یہ اثر شاید انھوں نے کبت سابقہ سے لیا ہوگا جن کا ان کو علم تھا)
قول محمد (رح) یہ ہے : نمازی کے آگے سے گزرنا مکروہ ناپسند ہے۔ اگر کوئی گزرنے کی کوشش کرے تو طاقت کے مطابق وہ مدافعت کرے مگر اس سے لڑائی نہ کرے اگر اس سے لڑے گا تو اس کی وجہ سے نماز میں گزرنے والے کے گزرنے سے جو خلل آتا ہے اس سے بڑھ کر خلل واقع ہوگا۔ مچھے تو معلوم نہیں کہ کسی نے لڑائی کی اجازت دی ہو۔ صرف ابو سعید خدر ی کی روایت میں موجود ہے۔ لیکن عام فقہاء اس کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے۔ بس اسی حد تک جیسا کہ میں نے بتلایا کہ حتی الامکان ہٹانے کی کوشش کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

273

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «لا يَقْطَعُ الصَّلاةَ شَيْءٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، لا يَقْطَعُ الصَّلاةَ شَيْءٌ مِنْ مَارٍّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نماز کو کسی چیز کا گزرنا قطع نہیں کرتا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ نمازی کے سامنے سے کسی گزرنے والے کے گزرنے سے نماز منقطع نہیں ہوتی اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

274

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السُّلَمِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا تَطَوُّعٌ وَهُوَ حَسَنٌ، وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ
ابو قتادہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں ن داخل ہو تو بیٹھنے سے قبل دو رکعت نماز پڑھے۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب تحیۃ المسجد میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ نماز نفل ہے اور بہتر ہے واجب نہیں ہے۔

275

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، قَالَ: " كُنْتُ أُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْقِبْلَةِ، فَلَمَّا قَضَيْتُ صَلاتِي انْصَرَفْتُ إِلَيْهِ مِنْ قِبَلِ شِقِّي الأَيْسَرِ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَنْصَرِفَ عَلَى يَمِينِكَ؟ قُلْتُ: رَأَيْتُكَ وَانْصَرَفْتُ إِلَيْكَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَإِنَّكَ قَدْ أَصَبْتَ فَإِنَّ قَائِلا يَقُولُ: انْصَرِفْ عَلَى يَمِينِكَ، فَإِذَا كُنْتَ تُصَلِّي انْصَرِفْ حَيْثُ أَحْبَبْتَ عَلَى يَمِينِكَ، أَوْ يَسَارِكَ، وَيَقُولُ نَاسٌ: إِذَا قَعَدْتَ عَلَى حَاجَتِكَ فَلا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَلا بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ رَقِيتُ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَنَا فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَتِهِ مُسْتَقْبِلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ نَأْخُذُ، يَنْصَرِفُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ عَلَى أَيِّ شِقِّهِ أَحَبَّ، وَلا بَأْسَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ بِالْخَلاءِ مِنَ الْغَائِطِ، وَالْبَوْلِ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، إِنَّمَا يُكْرَهُ أَنْ يَسْتَقْبِلَ بِذَلِكَ الْقِبْلَةَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
واسع بن حبان کہتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز ادا کررہا تھا اس وقت عبداللہ بن عمر (رض) بیت اللہ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ جب میں اپنی نماز مکمل کرچکا تو میں اپنی بائیں طرف سے ان کی طرف پلٹ کر لوٹا تو مجھے فرمانے لگے تم اپنی دائیں جانب کیوں نہیں پھرے۔ میں نے کہا میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف پلٹ آیا۔ عبداللہ فرمانے لگے تم نے درست کیا۔ پھر فرمانے لگے نمبر ١ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تم دائیں یا بائیں جانب جدھ رپسند کرو پھر جاؤ۔ نمبر ٢ پھر فرمانے لگے بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب تم اپنی حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلہ کی طرف رخ نہ کر رو اور نہ ہی بیت المقدس کی طرف رخ کرو عبداللہ فرمانے لگے میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے قضائے حاجت کرتے دیکھا۔ (یہ روایت امام مالک (رح) نے باب الرخصۃ فی استقبال القبلۃ میں ذکر کی ہے، باب جامع الصلاۃ میں اسے ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم عبداللہ بن عمر (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد جس جانب چاہے پھر سکتا ہے اور بیت الخلاء میں پیشاب و پاخانہ کے وقت بیت المقدس کی طرف رخ کرنے میں حرج نہیں۔ قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے۔ اور یین امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

276

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَلَمْ يَقْضِ الصَّلاةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ إِذَا أُغْمِيَ عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِنْ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، وَأَمَّا إِذَا أُغْمِيَ عَلَيْهِ يَوْمًا وَلَيْلَةً، أَوْ أَقَلَّ قَضَى صَلاتَهُ
ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ اپر بیہوشی طاری ہوئی پھر ان کو افاقہ ہوگیا تو انھوں نے نماز کو قضاء نہ کیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب کہ ایک دن رات سے زیادہ بےہوشی واقع ہو۔ اگر بےہوشی ایک دن یا ایک رات یا اس سے کم ہے تو وہ نماز قضاء کرے گا۔

277

بَلَغَنَا، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، «أَنَّهُ أُغْمِيَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ صَلَوَاتٍ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَضَاهَا» ، أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ أَبُو مَعْشَرٍ الْمَدِينِيُّ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ
عمارر بن یاسر (رض) کے متعلق ہمیں روایت پہنچی ہے کہ ان پر چار نمازیں بےہوشی طاری رہی پھر ان کو افاقہ ہوا تو انھوں نے ان نمازوں کو قضاء کیا۔ یہ روایت ہمیں ابو معشر مدینی نے حضرت عمار (رض) کے بعض احباب کے واسطہ سے بیان کی۔

278

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: «إِذَا لَمْ يَسْتَطَعِ الْمَرِيضُ السُّجُودَ، أَوْمَى بِرَأْسِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَلا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى عُودٍ، وَلا شَيْءٍ يُرْفَعُ إِلَيْهِ، وَيَجْعَلُ سُجُودَهُ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا جب مریض سجدہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ سر سے اشارہ کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ نمازی کو کسی لکڑی یا کسی چیز بلند چیز پر ، سجدہ جائز نہیں بلکہ وہ اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع سے ذرا جھکا اہوا ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ رحہ اللہ کا قول ہے۔

279

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى بُصَاقًا فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَحَكَّهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَلا يَبْصُقْ قِبَلَ وَجْهِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يَنْبَغِي لَهُ أَنْ لا يَبْصُقَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، وَلا عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ تَحْتَ رِجْلِهِ الْيُسْرَى
ابن عمر (رض) عنما سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے کھرچ دیا۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو وہ اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے جب کہ وہ نماز میں ہو۔
(اس روایت کو باب النہی عن البصاقۃ فی القبلہ میں امام مالک (رح) سے نقل فرمایا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے قبلہ کی جانت تھوکنا نا مناسب ہے۔ اسی طرح دائیں جانب بھی تھوکنا نہ چاہیے بلکہ اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔

280

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حدَّثنا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَعْرَقُ فِي الثَّوْبِ وَهُوَ جُنُبٌ، ثُمَّ يُصَلِّي فِيهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لا بَأْسَ بِهِ، مَا لَمْ يُصِبِ الثَّوْبَ مِنَ الْمَنِيِّ شَيْءٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) کو بحالت جنابت کپڑوں میں پیسنہ آتا تھا۔ (پھر وہ غسل کے بعد وہی کپڑے پہن لیتے) اور انھیں میں نماز پڑھتے تھے۔ ( اس روایت باب جامع غسل الجنابت میں امام مالک نے ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس وقت تک پسینہ سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ کپڑے کو منی وغیرہ میں سے کوئی چیز نہ لگے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

281

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ إِذْ أَتَاهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا، وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّامِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ فِيمَنْ أَخْطَأَ الْقِبْلَةَ حَتَّى صَلَّى رَكْعَةً، أَوْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ يُصَلِّي إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ فَلْيَنْحَرِفْ إِلَى الْقِبْلَةِ فَيُصَلِّي مَا بَقِيَ وَيَعْتَدُّ بِمَا مَضَى، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مسجد قباء میں لوگ صبح کی نماز میں تھے کہ کوئی آنے والا آیا اور کہنے لگا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آج رات قرآنی آیات اتری ہیں اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ملا ہے۔ پس ان لوگوں نے اسی وقت منہ قبلہ کی طرف کرلیا۔ پہلے ان کا منہ شام کی طرف تھا۔ اب وہ گھوم کر کعبہ کی طرف پھرگئے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے اباب ما جاء فی القبلۃ میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جو شخص غلطی سے اور طرف نماز پڑھنے لگا یہاں تک کہ اس نے ایک رکعت یا دو رکعت پڑھ لی پھر اس کو معلوم ہوا کہ وہ غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ قبلہ کی طرف پھر جائے اور اپنی بقہی نماز ادا کرے ( نئے سرے سے نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی) اس کی گزشتہ نماز شمار کی جائے گی ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

282

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي الْحَكِيمِ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ صَلَّى الصُّبْحَ، ثُمَّ رَكِبَ إِلَى الْجُرُفِ، ثُمَّ بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ رَأَى فِي ثَوْبِهِ احْتِلامًا، فَقَالَ: «لَقَدِ احْتَلَمْتُ، وَمَا شَعُرْتُ، وَلَقَدْ سُلِّطَ عَلَيَّ الاحْتِلامُ مُنْذُ وُلِّيتُ أَمْرَ النَّاسِ، ثُمَّ غَسَلَ مَا رَأَى فِي ثَوْبِهِ، وَنَضَحَهُ، ثُمَّ اغْتَسَلَ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى الصُّبْحَ بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَنَرَى أَنَّ مَنْ عَلِمَ ذَلِكَ مِمَّنْ صَلَّى خَلْفَ عُمَرَ، فَعَلَيْهِ أَنْ يُعِيدَ الصَّلاةَ كَمَا أَعَادَهَا عُمَرُ، لأَنَّ الإِمَامَ إِذَا فَسَدَتْ صَلاتُهُ، فَسَدَتْ صَلاةُ مَنْ خَلْفَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ جناب عمر (رض) نے صبح کی نماز پڑھائی پھر سوار ہو کر مقام جرف کی طرف جہاں آپ کی زمین تھی تشریف لے گئے پھر سورج طلوع ہوجانے کے بعد آپ نے اپنے کپڑے پر احتلام کا اثر پایا تو فرمانے لگے مجھے تو احتلام ہوا ہے اور مجھے معلوم بہی نہ ہوا اور اس وقت سے مجھ پر احتلام مسلط ہوا ہے اور جب سے لوگوں کے معاملات کے انتظام میں مصروف ہوا ہوں۔ پھر يپ نے اپنے کپڑے پر احتلام کے اثر کو مل کر دھویا پھر غسل فرمایا۔ پھر کھڑے ہوئے اور صبح کی نماز سورج طلوع ہونے کے بعد ادا کی۔ (اس اثر کو امام مالک نے باب اعادہ جنب الصلوۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ جس کو یہ علم ہوجائے اسے دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے جیسا کہ عمر (رض) نے اس کا اعادہ کیا کیونکہ جب امام کی نماز فا اسد ہوجائے تو مقتدی کی نماز خود فاسد ہوجاتی ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

283

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَوَجَدَ النَّاسَ رُكُوعًا، فَرَكَعَ ثُمَّ دَبَّ حَتَّى وَصَلَ الصَّفَّ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا يُجْزِئُ، وَأَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ لا يَرْكَعَ حَتَّى يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابو امام بن سہل بن حنیف (رح) کہتے ہیں کہ زید بن ثابت مسجد میں آئے اور لوگوں کو رکوع میں پایا۔ پس انھوں نے رکوع کیا اور اسی حالت میں رینگ رینگ کر صف میں داخل ہوگئے ۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما یفعل من جاء والامام راکع میں ذکر کا ب ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں یہ کافی ہے مگر زیادہ پسندیدہ بات یہ ہے کہ صف تک پہنچ جانے کے بغیر رکوع نہ کرے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ آئندہ روایت اس کی تائید کرتی ہے۔

284

قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ أَبَا بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ، ثُمَّ مَشَى حَتَّى وَصَلَ الصَّفَّ، فَلَمَّا قَضَى صَلاتَهُ ذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا، وَلا تُعِدْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا نَقُولُ: وَهُوَ يُجْزِئُ، وَأَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ لا يَفْعَلَ
حسن بصری (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کیا پھر آہستہ آہستہ چلتے رہے یہاں تک کہ صف کے ساتھ آملے۔ پھر جب اپنی نماز مکمل کرلی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس بات کا تذکرہ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری حرص میں اضافہ فرمائے۔ مگر ایسا دوبارہ مت کرو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی طرح کہتے ہیں۔ یہ جائز و درست تو ہے مگر مجھے زیادہ پسند یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔

285

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ، وَعَنْ لُبْسِ الْمُعَصْفَرِ، وَعَنْ تَخَتُّمِ الذَّهَبِ، وَعَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي الرُّكُوعِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، تُكْرَهُ الْقِرَاءَةُ فِي الرُّكُوعِ، وَالسُّجُودِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشم کے کپڑٔ٧ ے، عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے اور سونے کی انگوٹھے پہنے اور رکوع میں قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا اسی پر عمل ہے۔ سجدہ اور رکوع میں قراءت مکروہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

286

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السُّلَمِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلأَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا»
ابو قتادہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے تھے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام کو اٹھائے ہوتے تھے۔ یہ امام آپ کی صاحبزادی زینب (رض) کی بیٹی ہیں اس کے والدکا نام ابو العاص بن رربیعہ ہے ( جو آپ کے بڑے داماد تھے) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ کرتے تو اسے رکھ دیتے تھے۔ اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے تھے۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب جامع الصلوۃ میں ذکر کیا ہے)

287

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ عَائِشَةَ، النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: «كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلايَ فِي الْقِبْلَةِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، وَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهَا، وَالْبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِأَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ نَائِمَةٌ، أَوْ قَائِمَةٌ، أَوْ قَاعِدَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، أَوْ إِلَى جَنْبِهِ، أَوْ تُصَلِّيَ إِذَا كَانَتْ تُصَلِّي فِي غَيْرِ صَلاتِهِ، إِنَّمَا يُكْرَهُ أَنْ تُصَلِّيَ إِلَى جَنْبِهِ، أَوْ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهُمَا فِي صَلاةٍ وَاحِدَةٍ، أَوْ يُصَلِّيَانِ مَعَ إِمَامٍ وَاحِدٍ، فَإِنْ كَانَتْ كَذَلِكَ فَسَدَتْ صَلاتُهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت عائشہ صدیقہ ام المؤمین (رض) عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سوئی پڑی ہوتی تھی اور میرے پاؤں قبلہ والی جانب ( سجدہ کے مقام پر) ہوتے جب آپ سجدہ کرتے تو ذرا سی ٹھونک ل : اتے تو میں اپنے پاؤں اکٹھے کرلیتی ۔ ان دنوں گھروں میں چراغ نہ ہوتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اس میں کچھ حرج نہیں کہ آدمی نماز پڑھ رہا ہو اور سامنے عورت سو رہی ہو یا کھڑے یا بیٹھی ہو یا سا کے پہلی میں بی تھی یا کوئی اور نکاز پڑھتی ہو۔ البتہ عورت کے لیے مکروہ ہے کہ وہ مرد سامنے یا پہلو میں بیٹا ہو اور وہ نماز پڑھ رہی ہو اور یہ بھی مکروہ ہے کہ وہ دونوں ایک نماز پڑھ رہے ہوں یا ایک امام کے پیچھے دونوں نماز پڑھ رہے ہوں ( اور درمیان میں حائل بھی نہ ہو) تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔

288

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلاةِ الْخَوْفِ، قَالَ: يَتَقَدَّمُ الإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُصَلِّي بِهِمْ سَجْدَةً وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ [ص:104] وَلَمْ يُصَلُّوا، فَإِذَا صَلَّى الَّذِينَ مَعَهُ سَجْدَةً اسْتَأْخَرُوا مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَلا يُسَلِّمُونَ، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّونَ مَعَهُ سَجْدَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الإِمَامُ، وَقَدْ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُومُ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ فَيُصَلُّونَ لأَنْفُسِهِمْ سَجْدَةً، بَعْدَ انْصِرَافِ الإِمَامِ، فَيَكُونُ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ قَدْ صَلَّوْا سَجْدَتَيْنِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفًا هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالا قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ، أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةَ، وَغَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَا "، قَالَ نَافِعٌ: وَلا أُرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ إِلا حَدَّثَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لا يَأْخُذُ بِهِ
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) عنہما سے جب صلوۃ خوف کے متعلق دریافت کیا جاتا تو وہ فرماتے امام آگے بڑھے اور لوگوں کا ایک گروہ اس کے ساتھ ۔ پس امام ان کو ایک رکعت پڑھائے اور دوسرا گروہ امام اور دشمن کے درمیان رہے اور نماز نہ پڑھے، جب یہ پہلا گروہ ایک رکعت سے فارغ ہوجائے تو وہ دوسرے گروہ کی جگہ چلا جائے جنہوں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی اور یہ پہلا گروہ نماز سے سلام نہ پھیر گا (بلکہ ویسے ہی اسلحہ اٹھا کر دشمن کے سامنے چلا جائے) اور دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑہیں پھر امام اپنی نماز سے فارغ ہوجائے ( یعنی سلام پھیرے) اس لیے کہ وہ دو رکعت پڑھ چکا پہر ہر گروہ اپنے لیے ایک ایک رکعت ادا پڑھے، اور یہ رکعت امام کی فراغت کے بعد پڑھیں۔ اس طرح دونوں گروں نے دو دو رکعت پڑھ لی۔ اکر خوف اس سے زیادہ شدید تر ہوجائے تو لوگ کھڑے ہو کر پیدل یا سواری کی حالت میں قبلہ رخ ہوں یا قبلہ رخ نہ ہوں۔ اشارہ سے نماز پڑھیں۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب صلوۃ الخوف میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ امام مالک اس کو اختیار نہیں کرتے (بلکہ دوسری روایت کو لیتے ہیں)

289

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ، أَنْ يَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلاةِ» ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: وَلا أَعْلَمُ إِلا أَنَّهُ يَنْمِي ذَلِكَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يَنْبَغِي لِلْمُصَلِّي إِذَا قَامَ فِي صَلاتِهِ، أَنْ يَضَعَ بَاطِنَ كَفِّهِ الْيُمْنَى عَلَى رُسْغِهِ الْيُسْرَى تَحْتَ السُّرَّةِ، وَيَرْمِيَ بِبَصَرِهِ إِلَى مَوْضِعِ سُجُودِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّه
سہل بن سعد ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھیں، ابو حازم راوی کہتے ہیں کہ میں اس کے سوا نہیں جانتا کہ سہل اس روایت کو مرفوع بیان کرتے تھے، (مؤطا امام مالک میں یہ روایت باب وضع الایدین احداہما علي الاخری فی الصلوۃ میں ذکر کی ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : نمازی کو چاہیے کہ جب وہ نماز کے لیے قیام کرے تو اپنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا باطنی حصہ اپنے بائیں ہاتھ کے گٹے پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھے اور اپنی نگاہ کو سجدہ کی جگہ پر ٹکائے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

290

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: " قُولُوا: [ص:105] اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "
عمرو بن سلیم زرقی (رح) کہتے ہیں کہ مجھے ابو حمید ساعدی (رض) نے خبر دی کہ صحابہ کرام (رض) عنہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا ہم آپ پر صلوۃ کیسے بھیجیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہو اللہم صلی علی محمد وعلی آلہ و اصحابہ و ازواجہ وذریاتہ کما صلیت علی ابراہم وبارک علی محمد وعی ازواجہ وذریاتہ کما بارکت علی ابراہیم انک حمید مجید
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الصلوۃ علي النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ذکر کیا ہے)

291

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمَرُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الَّذِي أُرِيَ النِّدَاءَ فِي النَّوْمِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ أَبَا مَسْعُودٍ، أَخْبَرَهُ، فَقَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ مَعَنَا فِي مَجْلِسِ ابْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو النُّعْمَانِ: أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّا لَمْ نَسْأَلْهُ، قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلامُ كَمَا قَدْ عُلِّمْتُمْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: كُلُّ هَذَا حَسَنٌ
ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سعد بن عبادہ کے ڈیرے پر ہمارے ہاں تشریف لائے۔ بشیر بن سعد (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ پس ہم آپ پر کس طرح درود بھیجیں ؟ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کاش بشیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال نہ کرتا ( شاید آپ نے اس سوال کو ناپسند فرمایا) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گویا ہوئے تم اس طرح کہو اللہ صلی اے اللہ رحمت بھیج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس طرح کہ آپ نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم (علیہ السلام) پر اور برکت بھیج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس طرح کہ تو نے جہاں والوں میں سے آل ابراہیم پر برکت بھیجی بیشک تو لائق تعریف اور بزرگ و برکتر ہے اور سلام اس طرح ہے جیسا کہ تم جانتے ہو۔
ابو مسعود (رض) سے نقل کرنے والے محمد ہیں جو کہ عبداللہ کے بیٹے ہیں یہ عبداللہ وہی صحابی ہیں جن خواب میں اذان تلقین ہوئی، بشیر بن سعد سے مراد نعمان کے والد ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ تمام صیغے درست اور خوب ہیں ( جتنے صیغے مروی ہیں سب درست ہیں) ۔

292

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ الْمَازِنِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الْمَازِنِيَّ، يَقُولُ: «خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُصَلَّى فَاسْتَسْقَى وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ حِينَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، فَكَانَ لا يَرَى فِي الاسْتِسْقَاءِ صَلاةً، وَأَمَّا فِي قَوْلِنَا فَإِنَّ الإِمَامَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَدْعُو وَيُحَوِّلُ رِدَاءَهُ، فَيَجْعَلُ الأَيْمَنَ عَلَى الأَيْسَرِ، وَالأَيْسَرَ عَلَى الأَيْمَنِ، وَلا يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدٌ إِلا الإِمَامُ
عبداللہ بن زید المازنی (رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید گاہ کی طرف نکلے پھر بارش کی نماز پڑہی اور اپنی چادر کو الٹ دیا جبکہ قبلہ رخ ہوئے۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب العمل فی الاستسقاء میں نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں استسقاء میں نماز نہیں ہے مگر ہمارا قول ہے ہے کہ امام لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائے اور پھر اد اکرے یاور اپنی چادر کو پلٹے ڈائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں طرف کرے اور امام کے علاوہ اور کوئی نہ کرے۔

293

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمَرُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، ثُمَّ جَلَسَ فِي مُصَلاهُ، لَمْ تَزَلِ الْمَلائِكَةُ تُصَلِّي عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، فَإِنْ قَامَ مِنْ مُصَلاهُ، فَجَلَسَ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاةَ، لَمْ يَزَلْ فِي صَلاةٍ حَتَّي يُصَلِّيَ "
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ کر وہیں نماز کی جگہ بیٹھ جائے تو فرشتے برابر رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ کہ اے اللہ اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما، پھر اگر وہ نماز کی جگہ سے اٹھ جائے اور نماز کے انتظار میں مسجد میں بھا ا رہے تو نماز کی ادائیگی تک وہ برابر نماز میں شمار رہوتا ہے۔
(اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب انتظار الصلوۃ والمشی الیہا میں ذکر کیا ہے)
یہ روایت مرفوعا بھی کی گئی ہے۔ نسائی میں بھی مرفوعا موجود ہے۔

294

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَ صَلاةِ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ، وَبَعْدَ صَلاةِ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَيَسْجُدَ سَجْدَتَيْنِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا تَطَوُّعٌ وَهُوَ حَسَنٌ وَقَدْ بَلَغَنَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ» ، فَسَأَلَهُ أَبُو أَيُّوبَ الأَنْصَارِيُّ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «أَنَّ أَبْوَابَ السَّمَاءِ تُفْتَحُ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ، فَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيهَا عَمَلٌ» ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُفْصَلُ بَيْنَهُنَّ بِسَلامٍ؟ فَقَالَ: «لا» ، أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ بُكَيْرُ بْنُ عَامِرٍ الْبَجَلِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، وَالشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
نافع ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر سے پہلے دو رکعت اور ظہر کے بعد دو رکعت اور مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں ادا فرماتے اور سی طرح عشاء کے بعد دو رکعت ادا فرماتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے بعد مسجد میں کوئی نماز ادا نہ فرماتے یہاں تک کہ گھر لوٹ کردو رکعت نماز پڑھتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ یہ نفلی نماز ہے اور مستحب ہے ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر سے قبل چار رکعت پر ھتے تھے۔ ابو ایوب انصاری (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ اس وقت میرا ر کوئی عمل اس میں اٹھایا جائے۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ان کے درمیان سلام سے فصل کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں۔ اس روایت کی سند یہ ہے۔ بکیر بن عامر البجلی عن ابراہیم و الشعبی عن ابی ایوب انصاری (رض) ۔

295

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، قَالَ: إِنَّ فِي الْكِتَابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ: «لا يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلا طَاهِرٌ»
عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خط جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے داد عمرو بن (رض) کو دیا تھا اس میں یہ مذکور تھا کہ قرآن مجید کو پاک آدمی ہی چھوئے۔

296

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ، كَانَ يَقُولُ: «لا يَسْجُدُ الرَّجُلُ، وَلا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، إِلا وَهُوَ طَاهِرٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، إِلا فِي خَصْلَةٍ وَاحِدَةٍ، لا بَأْسَ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ إِلا أَنْ يَكُونَ جُنُبًا
ابن عمر (رض) سے مروی کہ قرآن مجید کو پاک آدمی ہاتھ لگائے اور سجدہ بھی طاہرت کی حالت میں کیا جائے۔

297

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ عَامِرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي، وَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ مَا لَمْ يَعْلَقْ بِالذَّيْلِ قَذَرٌ، فَيَكُونُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ الْكَبِيرِ الْمِثْقَالِ: فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ، فَلا يُصَلِّيَنَّ فِيهِ حَتَّى يَغْسِلَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ام سلمہ ام المؤمنین (رض) عنہا سے ابراہیم بن عبد الرحمن کی ام ولد نے دریافت کیا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو کہ لمبا دامن رکھتی ہوں اور اسی طرح لٹکا کر چلتی ہوں۔ جس میں مجھے گندے مقامامت سے بھی گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے ( تو اس کپڑے کا کیا حکم ہے) ام سلمہ (رض) عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( اس قسم کے سوال کا جواب یہ مرحمت) فرمایا کہ بعد مالا راستہ اس دامن کو پاک کردے گا۔
قول محمد (رح) یہ ہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کہ اگر دامل اوپر سے گزرے مگر دامن کے ساتھ اتنی نجاست نہ چمٹے جو مقدار درہم سے زاید ہو۔ اگر مقدار درہم سے زیادہ ہو دھونے کے بغیر اس کپڑے میں ہرگز نماز نہ پڑھی جائے گی۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

298

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَانِتِ الَّذِي لا يَفْتُرُ مِنْ صِيَامٍ، وَلا صَلاةٍ حَتَّى يَرْجِعَ»
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ، اس روزے دار اور نمازی کی مانند ہے جو کبہی اپنے روزے اور نماز سے نہ ہٹے، یہاں تک کہ وہ جہاد سے واپس لوٹے۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب الترغیب فی الجہاد میں ذکر فرمایا ہے۔ )

299

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ «لَوَدِدْتُ أَنْ أُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأُقْتَلَ، ثُمَّ أُحْيَى، فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْيَى، فَأُقْتَلَ» ، فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقُولُ ثَلاثًا: أُشْهَدُ الِلَّهِ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری قدرت میں میری جان ہے۔ میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کروں اور قتل کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ پھر ابوہریرہ (رض) تین کہتے تھے کہ میں اللہ کے لیے گواہی دیتا ہوں۔ ( اس کو بخاری و مسلم میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ )

300

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ عَتِيكِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَتِيكٍ وَهُوَ جَدُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ، فَصَاحَ بِهِ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " غُلِبْنَا عَلَيْكَ يَا أَبَا الرَّبِيعِ، فَصَاحَ النِّسْوَةُ وَبَكَيْنَ، فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسْكِتُهُنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ، فَلا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةً، قَالُوا: وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِذَا مَاتَ، قَالَتِ ابْنَتُهُ: وَاللَّهِ إِنِّي كُنْتُ لأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا، فَإِنَّكَ قَدْ كُنْتَ قَضَيْتَ جِهَازَكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ؟ قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ: الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِيقُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ، وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجَمْعٍ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ "
جابر بن عتیک (رض) کہتے ہیں۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن ثابت (رض) کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں سخت تکلیف میں پایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں آواز دی مگر وہ ( تکلیف کی وجہ سے) جواب نہ دے سکے۔ پس پھر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھی، پھر فرمایا۔ اے ابو الربیع ہم تمہارے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے سامنے مغلوب ہیں۔ اس پر عورتوں نے چیخ و پکار کی اور وہ رونے لگیں۔ جابر بن عتیک (رض) عورتوں کو خاموش کرنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ انھیں چھوڑدو۔ جب واجب ہوچکا تو کوئی رونے والی ہرگز نہ روئے (یعنی اس کے رونے سے کیا فائدہ ) لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا وجوب کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ اس کا فوت ہوجانا ہے۔ عبداللہ مرحوم کی بیٹی بولی۔ اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ تم شہید ہوگئے۔ تمنی جہاد کا مکمل سامان تیار کر رکھا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کا اجر ان کی نیت کے مطابق تیار کر رکھا ہے۔ ( اے لوگو ! ) تم کس چیز کو شہادت سمجھتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا جو اللہ تعالیٰ راہ میں مارا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کے سوا شہادت کی سات اور صورتیں بہی ہیں۔ (١) طاعون سے مرنے والا شہید ہے (٢) ڈوب کر مرنے والا شہید ہے۔ (٣) نمونیہ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے۔ (٤) جل کر مرنے والا شہید ہے۔ (٥) دیوار کے نیچے دب کر مرجانے والا شہید ہے۔ (٦) وضع حمل کے دوران مرنے والی عورت شہیدہ ہے۔ (٧) ہیضہ کی بیماری سے مرجانے والا شہید ہے ( رواہ ابو داؤد و نسائی) (امام مالک نے اسے باب النہی عن البکاء علی المیت میں ذکر کیا ہے)

301

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سُمَيٌّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ، فَأَخَّرَهُ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فغَفَرَ لَهُ، وَقَالَ: الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: الْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِيقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَقَالَ: لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لاسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا "
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ایک آدمی جارہا تھا اس نے راستہ میں ایک کانٹے دار ٹہنی دیکھی۔ اس نے راستہ سے وہ ٹہنی ہٹادی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی اور اس بخشش فرمادی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ شہید پانچ قسم کے لوگ ہیں۔ (١) ہیضہ کی بیماری سے مرنے والا۔ (٢) طاعون سے مرنے والا۔ (٣) پانی میں ڈوبنے والا۔ (٤) دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا۔ (٥) جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جائے اور یہ بھی ارشاد فرمایا۔ اگر لوگوں کو علم ہوجائے کہ اذان دینے اور صف اول میں شریک ہونے میں کس قدر ثواب ہے تو وہ اس کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ مسجد میں پہلے آنے کا کیا ثواب ہے تو وہ پہلے پہنچنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرتے۔ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ عشاء اور فجر کی جماعت میں شرکت کرنے کا کتنا ثواب ہے تو وہ ان جماعتوں میں شرکت کے لیے گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔

303

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ: «الْمَيِّتُ يُقَمَّصُ وَيُؤَزَّرُ، وَيُلَفُّ بِالثَّوْبِ الثَّالِثِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلا ثَوْبٌ وَاحِدٌ كُفِّنَ فِيهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الإِزَارُ بِجَعْلِ لِفَافَةٍ مِثْلَ الثَّوْبِ الآخَرِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ أَنْ يُؤَزَّرَ، وَلا يُعْجِبُنَا أَنْ يَنْقُصَ الْمَيِّتُ فِي كَفَنِهِ مِنْ ثَوْبَيْنِ إِلا مِنْ ضَرُورَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میت کو اول قمیص پہنائی جائے پھر تہبند اور تیسرے کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اور اگر ایک ہی کپڑا میسر ہو تو اسی کو اس کا کفن بنادیا جائے ( اور اس کے دفن کے لیے اور کسی چیز کا انتظار نہ کیا جائے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ازار کو بھی دوسرے کپڑے کی طرح لفافے کے ساتھ استعمال کیا جائے گا یہ ہمیں ازار پہنانے سیزیادہ پٍند ہے اور دو کپڑوں سے میت کے کفن کو کم کرنا ہمیں پسند نہیں ہاں ضرورت کے وقت ایسا کیا جاسکتا ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

304

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: «أَسْرِعُوا بِجَنَائِزِكُمْ، فَإِنَّمَا هُوَ خَيْرٌ تُقَدِّمُونَهُ، أَوْ شَرٌّ تُلْقُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، السُّرْعَةُ بِهَا أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنَ الإِبْطَاءِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ اپنے جنازوں کو جلدی لے کر چلو کیونکہ دو صورتیں ہیں یا تم میت کو بھلائی کی طرف پیش کرتے ہو ( اگر وہ نیک ہے) یا ایک شر کو اپنی گردنوں سے اتارتے ہو ( اگر وہ بُرا ہے) اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جنازے کو جلد لے جانا ہمیں دیر کرنے سے زیادہ محبوب و پسند ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

305

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَمْشِي أَمَامَ الْجِنَازَةِ» ، وَالْخُلَفَاءُ هَلُمَّ جَرًّا وَابْنُ عُمَرَ
زہری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء جن ٧٧ ازے کے آگے پیدل چلتے تھے اور اب تک خلفاء اسی طرح کرتے ہیں اور عبداللہ بن عمر (رض) بھی آگے چلتے تھے۔ (مؤطا (رح) میں باب المشی امام الجنازہ میں یہ روایت ہے)

306

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُدَيْرٍ، أَنَّهُ رَأَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ «يَقْدُمُ النَّاسَ أَمَامَ جِنَازَةِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَشْيُ أَمَامَهَا حَسَنٌ، وَالْمَشْيُ خَلْفَهَا أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو زینب بن جحش ام المؤمنین (رض) عنہا کے جنازے میں جنازے سے آگے لوگوں کے آگے چلتے دیکھا۔
اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب المشی امام الجنازۃ میں ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جنازے سے آگے چلنا اچھا ہے۔ مگر پیچھے چلنا افضل ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

307

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ «نَهَى أَنْ يُتَّبَعَ بِنَارٍ بَعْدَ مَوْتِهِ، أَوْ بِمِجْمَرَةٍ فِي جِنَازَتِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
سعید المقبری سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے اس بات سے منع کیا کہ ان وفات کے بعد ان کے جنازہ کے ساتھ آگ لے جائی جائے یا آگ کی انگیٹھی لے جائی جائے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

308

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمٍ، عَنْ مُعَوِّذِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ يَقُومُ فِي الْجِنَازَةِ، ثُمَّ يَجْلِسُ بَعْدُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا لا نَرَى الْقِيَامَ لِلْجَنَائِزِ، كَانَ هَذَا شَيْئًا فَتُرِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازوں کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ مگر بعد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے رہتے تھے۔ (مؤطا مالک (رح) باب الوقوف للجنائز میں یہ روایت مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ہم جنازے کے لیے کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے یعنی اس کو مشروعیت باقی نہیں رہی۔ یہ اولا حکم تھا پھر چھوڑ دیا گیا۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

309

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ [ص:111] يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: " أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
سعید المقبری (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے دریافت کیا کہ آپ نماز جنازہ کس طرح پڑھتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا اللہ کی قسم ! میں تجھے بتاتاہوں۔ میں میت کے گھر والوں سے جنازہ کے ساتھ چلتا ہوں۔ پھر جب اسے نیچے رکھا جاتا ہے۔ تو تکبیر کہتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرتا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درود شریف پڑھتا ہوں۔ پھر دعا کرتا ہوں اور کہتا ہوں۔ اے اللہ یہ تیرا بندہ تھا اور تیرے بندے کا بیٹا تھا اور تیری بندی کا بیٹا تھا۔ اور یہ اس بات کی شہادت دیتا تھا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں۔ اے اللہ تو اس کے حال کو خوب جانتا ہے۔ اے اللہ ! اکر یہ نیک تھا تو تو اس کی نیی میں اضافہ فرمایا اور اگر یہ گناہ گار تھا تو تو اس کے گناہوں سے درگزر فرما۔ اے اللہ تو ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما۔ اور اس کے بعد ہمیں فتنے میں مبت نہ فرما۔
(اس روایت کو امام مالک نے باب ما یقول المصلی علي الجنازۃ میں ذکر کیا ہے۔ )
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جنازہ میں قراءت نہیں ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

310

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ» إِذَا صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ سَلَّمَ، حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَيَسَارِهِ، وَيُسْمِعُ مَنْ يَلِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) جب جنازہ کی نماز پڑھتے تو سلام پھرتے یہاں تک کہ قریب صف والے سن لیتے۔ (اس اثر کو باب جامع الصلوۃ علی الجنائز میں امام مالک (رح) نے نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام دائیں بائیں سلام پہیرے اور قریب صف والوں کو اس کی آواز پہنچ جائے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

311

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ «يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ إِذَا صُلِّيَتَا لِوَقْتِهِمَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ عَلَى الْجِنَازَةِ فِي تَيْنِكَ السَّاعَتَيْنِ مَا لَمْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، أَوْ تَتَغَيَّرُ الشَّمْسُ بِصُفْرَةٍ لِلْمَغِيبِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) عصر و صبح کے بعد جنازہ کی نماز پڑھتے۔ جبکہ یہ دونوں نمازیں اپنے وقت پر پڑھی گئی ہوں۔ (یہ اثر امام مالک نے باب التکبیر علی الجنائز میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ان دونوں اقامت میں جنازہ پڑھنے میں ہمارے ہاں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر صبح میں سورج طلوع نہ ہورہا ہو اور عصر میں سورج زرد نہ پڑچکا ہو اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

312

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «مَا صُلِّيَ عَلَى عُمَرَ إِلا فِي الْمَسْجِدِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يُصَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، وَكَذَلِكَ بَلَغَنَا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَمَوْضِعُ الْجِنَازَةِ بِالْمَدِينَةِ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَهُوَ الْمَوْضِعُ الَّذِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ فِيهِ
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا۔ عمر (رض) کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا گیا ۔ (اس اثر کو باب الصلوۃ علي الجنائز بعد الصبح والعصر میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ ہمیں ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت پہنچی ہے۔ جنازگاہ مدینہ میں مسجد سے الگ تھی۔ اور یہ وہی جگہ تھی جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازہ پڑھاتے تھے۔
باب کیا میت اٹھانے اور اس کو غسل سے وضو ٹوٹ جاتا ہے

313

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عُمَرَ «حَنَّطَ ابْنًا لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَحَمَلَهُ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا وُضُوءَ عَلَى مَنْ حَمَلَ جِنَازَةً، وَلا مَنْ حَنَّطَ مَيِّتًا، أَوْ كَفَّنَهُ أَوْ غَسَّلَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے سعید بن زید کے بیٹے کو حنوط لگائی اور اس کو و ( قبرستان لے جانے کے لیے ) اٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوئے نماز ادا کی اور وضو نہ کیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی طو اختیار کرتے ہیں۔ اس پر وضو لازم نہیں جو جنازے کو اٹھائے اور نہ اس بر ہے جو میت کو حنوط لگائے یا کفن دے یا غسل دے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

314

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ، كَانَ يَقُولُ: «لا يُصَلِّي الرَّجُلُ عَلَى جِنَازَةٍ، إِلا وَهُوَ طَاهِرٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى الْجِنَازَةِ، إِلا طَاهِرٌ، فَإِنْ فَاجَأَتْهُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ طُهُورٍ تَيَمَّمَ، وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّهُ
ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آدمی کو نماز جنازہ طہارت کی حالت میں ہی ادا کرنی چاہیے۔ ( اس اثر کو امام مالک (رح) باب جامع الصلوۃ علی الجنائز میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اخیتار کرتے ہیں۔ بلا طہارت جنازہ کی نماز جائز نہیں۔ اگر اچانک جنازہ آگیا اور بےوضو تھا تو تیمم کرکے نماز جنازہ میں شریک ہوجائے یاور یہی ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

315

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ»
-317 سعید بن المسیب ( ابوہریرہ (رض) سے ) نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی کی موت کے خبر اس دن دی جس دن وہ فوت ہوا تھا۔ اور لوگوں کو لے کر جنازگاہ میں تشریف لے گئے وہاں ان کی صف بنائی اور چار تکبیریں کہیں۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب التکبیر علی الجنائز میں ابوہریرہ سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ اگرچہ امام محمد (رح) نے مرسلا روایت کیا ہے)

316

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مِسْكِينَةً مَرِضَتْ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَرَضِهَا، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَسَاكِينَ، وَيَسْأَلُ عَنْهُمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا مَاتَتْ فَآذِنُونِي بِهَا» ، قَالَ: فَأُتِيَ بِجِنَازَتِهَا لَيْلا، فَكَرِهُوا أَنْ يُؤْذِنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُخْبِرَ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شَأْنِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَمْ آمُرُكُمْ أَنْ تُؤْذِنُونِي؟» ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَرِهْنَا أَنْ نُخْرِجَكَ لَيْلا، أَوْ نُوقِظَكَ، قَالَ: «فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَفَّ بِالنَّاسِ عَلَى قَبْرِهَا، فَصَلَّى عَلَى قَبْرِهَا، فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، التَّكْبِيرُ عَلَى الْجِنَازَةِ أَرْبَعُ تَكْبِيرَاتٍ، وَلا يَنْبَغِي أَنْ يُصَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ قَدْ صُلِّيَ عَلَيْهَا، وَلَيْسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا كَغَيْرِهِ، أَلا يُرَى أَنَّهُ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ بِالْمَدِينَةِ، وَقَدْ مَاتَ بِالْحَبَشَةِ، فَصَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرَكَةٌ، وَطَهُورٌ فَلَيْسَتْ كَغَيْرِهَا مِنَ الصَّلَوَاتِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابو امامہ بن سہل بن حنیف (رض) نے بتایا کہ ایک مسکین عورت بیمار ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی بیماری کی اطلاع دی گئی۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مساکین کی تیمارداری فرماتے اور ان کی خیریت دریافت فرمایا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ جب وہ فوت ہوجائے تو مجھے اطلاع دینا۔ پس اس کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا اور لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جگانا مناسب خیال نہ کیا ( کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آرام میں خلل نہ واقع ہو) جب صبح ہوءی تو حضور (علیہ السلام) کو یہ بات بتائی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا میں نے تمہیں نہ کہا تھا کہ مجھے اس کی اطلاع دینا ؟ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے رات کے وقت آپ کو باہر لے جانا اور نیند سے بیدار کرنا پسند نہ کیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لے گئے اور لوگوں نے اس کی قبر پر صف بنائی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھیں۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب التکبیر علی الجنائز میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جنازہ کی چار تکبیرات ہیں۔ جس کی نماز جنازہ پڑھ لی جائے دوبارہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑہی جائے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے اس میں دوسروں کا وہ حکم نہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ ( اس خصوصیت کی دلیل) یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی کی نماز جنازہ مدینہ منورہ میں ادا فرمائی حالانکہ اس کی موت حبشہ میں ہوئی۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ بیشمار برکات رکھتی تہی۔ اور پاکیزگی کا باعث تہی۔ دوسروں کی نماز کی طرح نہ تھی ( گویا یہ آپ کی خصوصیت ہے) اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے)

317

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «لا تَبْكُوا عَلَى مَوْتَاكُمْ، فَإِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»
ابن عمر (رض) نے فرمایا اپنے مرنے والوں پر مت رویا کرو اس لیے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

318

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: أَنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لابْنِ عُمَرَ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنَّهُ قَدْ نَسِيَ، أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جِنَازَةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہا فرمانے لگیں جب ان کے سامنے ابن عمر (رض) کی اس بات کو ذکر کیا گیا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ ابن عمر (رض) کو بخشے انھوں نے جھوٹ نہیں بولا مگر یا تو ان سے بھول ہوگئی یا غلطی سے یہ کہا ہے۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک یہودی عورت کے پاس سے گزر رہے تھے۔ جس کے گھر والے اس پر رو رہے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس کے گھر والوے تو یہاں اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ ( یہ روایت مؤطا امام مالک میں معمولی الفاظ کے فرق سے بیاب ما روی ان المیت یعذب ببکاء الحی میں مذکور ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کے قول کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

319

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ یہود کو ہلاک کرے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ : اہ بنالیا۔

320

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: بَلَغَنِي، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «كَانَ يَتَوَسَّدُ عَلَيْهَا وَيَضْطَجِعُ عَلَيْهَا» ، قَالَ بِشْرٌ: يَعْنِي الْقُبُورَ
علی مرتضی (رض) کے بارے میں خبر ملی ہے کہ وہ قبروں کے ساتھ ٹیک لگالیتے تھے اور ان پر لیٹ جاتے تھے۔

614

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «لا رَضَاعَةَ إِلا لِمَنْ أُرْضِعَ فِي الصِّغَرِ»
نافع (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ رضاعت وہی ہے جو کم سنی میں ہو۔

615

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا، وَإِنَّهَا سَمِعَتْ رَجُلا يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرَاهُ فُلانًا لِعَمٍّ لِحَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ كَانَ عَمِّي فُلانٌ مِنَ الرَّضَاعَةِ حَيًّا دَخَلَ عَلَيَّ؟ قَالَ: نَعَمْ "
عمرہ بنت عبدالرحمن رحمہا اللہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے نقل کرتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں قیام پذیر تھے۔ میں نے سنا کہ ایک شخص حفصہ (رض) عنہا کے گھر میں داخلہ کی اجازت طلب کررہا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ شخص آپ کے گھر میں داخلہ کی اجازت مانگ رہا ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ حفصہ کا رضاعی چچا ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میرے فلاں رضاعی چچا زندہ ہوتے تو میرے ہاں کیا ان کو آنے کی اجازت ہوتی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں۔

616

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ»
سلیمان بن یسار (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رضاعت سے وہ چیز حرام ہوجاتی ہے جو نسب سے سبب حرام ہوتی ہیں۔

617

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أنَّهُ كَانَ «يَدْخُلُ عَلَيْهَا مَنْ أَرْضَعَتْهُ أَخَوَاتُهَا وَبَنَاتُ أَخِيهَا، وَلا يَدْخُلُ عَلَيْهَا مَنْ أَرْضَعَتْهُ نِسَاءُ إِخْوَتِهَا»
قاسم (رح) بیان کرتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ (رض) ان کے سامنے ہوتی تھیں جن کو ان کی بھانجیوں اور بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہوتا تھا اور ان کے سامنے نہ ہوتی تھیں جنہیں ان کے بھاوجوں نے دودھ پلایا ہوتا تھا۔

618

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ، فَأَرْضَعَتْ إِحْدَاهُمَا غُلامًا، وَالأُخْرَى جَارِيَةً، فَسُئِلَ هَلْ يَتَزَوَّجُ الْغُلامُ الْجَارِيَةَ؟ قَالَ: لا، اللِّقَاحُ وَاحِدٌ
عمرو بن ثرید نے عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے ان سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا۔ جس کے ہاں دو لیویاں ہوں ان میں ایک بیوی ایک ل ڑ کے کو دودھ پلائے اور دوسری بیوی دوسری لڑکی کو دودھ پلائے۔ اس صورت میں کیا اس ل ڑ کے اور اس لڑکی کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے ؟ انھوں نے فرماین نہیں اس لیے کہ دونوں کا باپ ایک ہے۔

619

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ الرَّضَاعَةِ؟ فَقَالَ: مَاكَانَ فِي الْحَوْلَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ مَصَّةً وَاحِدَةً فَهِيَ تُحَرِّمُ، وَمَا كَانَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ فَإِنَّمَا طَعَامٌ يَأْكُلُهُ.
سعید بن مسیب (رح) سے دریافت کیا کیا کہ رضاعت کا کیا حکم ہے تو انھوں نی فرمایا۔ دو سال کے اندر اگر ایک قطرہ (دودھ) بہی ہو تب بہی وح حرمت کا سبب بن جائے گا۔ اگر دو سال کے بعد ہوگا تو وہ گویا کھانے کی طرح ہے۔ جو اس نے کھالیا ( یعنی اس سے کچھ نہ ہوگا)

620

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ.
ابراہیم بن عقبہ (رح) کہتے ہیں میں نے عروہ بن زبیر (رح) سے سوال کیا کہ رضاعت کب تک ہے تو انھوں نے بھی سعید بن المسیب والا جواب مرحمت فرمایا۔

621

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، كَانَ يَقُولُ: «مَا كَانَ فِي الْحَوْلَيْنِ وَإِنْ كَانَتْ مَصَّةً وَاحِدَةً فَهِيَ تُحَرِّمُ»
ثور بن زید نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس (رض) فرماتے تھے کہ دو سال کے دوران ایک بار جو سنے سی حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی۔

622

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَرْسَلَتْ بِهِ وَهُوَ يَرْضَعُ إِلَى أُخْتِهَا أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: «أَرْضِعِيهِ عَشْرَ رَضَعَاتٍ حَتَّى يَدْخُلَ عَلَيَّ» ، فَأَرْضَعَتْنِي أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ ثَلاثَ رَضَعَاتٍ، ثُمَّ مَرِضَتْ، فَلَمْ تُرْضِعْنِي غَيْرَ ثَلاثَ مِرَارٍ، فَلَمْ أَكُنْ أَدْخُلُ عَلَى عَائِشَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّ أُمَّ كُلْثُومٍ لَمْ تُتِمَّ لِي عَشْرَ رَضَعَاتٍ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں سالم بن عبداللہ نے حضرت عائشہ (رض) عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے اپنی بہن ام کلثوم بنت ابوبکر صدیق (رض) عنہا کے پاس پیغام بھیجا جب کہ میں شیر خوار بچہ تھا کہ وہ مجھے دس بارہ گھونٹ دودھ پلادیں۔ کہ وہ بڑا ہو کر وہ میرے پاس آجاجا سکے تو ام کلثوم (رض) عنہا نے مجھے تین گھونٹ دودھ کے پلائے۔ پھر وہ بیمار ہوگئیں اور تین گھونٹ سے زائد نہ پلاسکیں۔ اس لیے میں حضرت عائشہ (رض) عنہا کے پاس نہ جاسکتا تھا کیونکہ ام کلثوم مجھے دس گھونٹ نہ پلاسکیں تھیں۔

623

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ صَفِيَّةَ ابْنَةِ أَبِي عُبَيْدٍ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ حَفْصَةَ «أَرْسَلَتْ بِعَاصِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ إِلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ عُمَرَ تُرْضِعُهُ عَشْرَ رَضَعَاتٍ لِيَدْخُلَ عَلَيْهَا، فَفَعَلَتْ، فَكَانَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا وَهُوَ يَوْمَ أَرْضَعَتْهُ صَغِيرٌ يَرْضَعُ»
نافع (رح) صفیہ بنت ابی عبید سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حفصہ (رض) عنہا نے عاصم بن عبید سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حفصہ (رض) عنہا نے عاصم بن عبید کو اپنی بہن فاطمہ بنت عمر (رض) عنہا کے پاس بھیجا کہ وہ انھیں دس : ھونٹ دودھ کے پلائیں تاکہ وہ میرے ہاں بےپردہ آ جاسکے۔ انھوں نے ایسا کردیا۔ چنانچہ وہ حضرت حفصہ (رض) عنہا کے پاس آتے جاتے تھے۔ جس زمانہ میں ان کو دودھ پلایا گیا اس میں وہ شیر خوار کم سن بچے تھے۔

624

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ "
عمرہ بنت عبد الارحمن رحمہا اللہ حضرت عائشہ (رض) عنہا سے نقل کرتی ہیں کہ انھوں نے فرمایا پہلے قرآن مجید میں نازل ہوا تھا کہ دس بارہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ یہ یہ منسوخ ہوگیا پانچ بار پلانے ( کی آیت ) سے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب رحلت فرمائی تو لوگ اس آیت کو قرآن مجید میں پڑھتے تھے۔

625

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَنَا مَعَهُ عِنْدَ دَارِ الْقَضَاءِ، يَسْأَلُهُ عَنْ رَضَاعَةِ الْكَبِيرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: كَانَتْ لِي وَلِيدَةٌ فَكُنْتُ أُصِيبُهَا، فَعَمَدَتِ امْرَأَتِي إِلَيْهَا، فَأَرْضَعَتْهَا، فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا، فَقَالَتِ امْرَأَتِي: دُونَكَ، وَاللَّهِ قَدْ أَرْضَعْتُهَا، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَوْجِعْهَا وَائْتِ جَارِيَتَكَ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ رَضَاعَةُ الصَّغِيرِ»
عبداللہ بن دینار (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی دار القضاء کے قریب عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں آیای ۔ اس وقت میں ان کے ساتھ تھا۔ اس نے دریافت کیا ی کہ بڑے آدمی کی رضاعت کا کیا حکم ہے ؟ تو ابن عمر (رض) نے فرمایا ایک شخص عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا میرے ایک لونڈی ہے۔ جس سے میں مباشرت کرتا ہوں۔ میری بیوی نے اسے دودھ پلادیا۔ اب میں اس کے قریب جانے لگا تو میری بیوی نے کہا اللہ کی قسم ! میں نے اس کو دودھ پلادیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اپنی بیوی کو مناسب سرزنش کرو اور لونڈی سے مباشرت کرو۔ اس لیے کہ رضاعت کا ثبوت تو کم سنی کی عمر میں ہوتا ہے۔ (ان میں اکثر يثار و روایت کو امام مالک (رح) نے باب رضعۃ الصغیر میں ذکر کیا ہے)

626

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، وَسُئِلَ عَنْ رَضَاعَةِ الْكَبِيرِ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهِدَ بَدْرًا، وَكَانَ تَبَنَّى سَالِمًا الَّذِي يُقَالُ لَهُ: مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، كَمَا كَانَ تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ، فَأَنْكَحَ أَبُو حُذَيْفَةَ سَالِمًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ ابْنُهُ أَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ فَاطِمَةَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَهِيَ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الأُوَلِ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامَى قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي زَيْدٍ مَا أَنْزَلَ: {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ} [الأحزاب: 5] رُدَّ كُلُّ [ص:212] أَحَدٍ تُبُنِّيَ إِلَى أَبِيهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ يُعْلَمُ أَبُوهُ رُدَّ إِلَى مَوَالِيهِ، فَجَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ امْرَأَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ وَهِيَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا، فَقَالَتْ: كُنَّا نُرَى سَالِمًا وَلَدًا، وَكَانَ يَدْخُلُ عَلَيَّ وَأَنَا فُضْلٌ وَلَيْسَ لَنَا إِلا بَيْتٌ وَاحِدٌ، فَمَا تَرَى فِي شَأْنِهِ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا: «أَرْضِعِيهِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ، فَيَحْرُمَ بِلَبَنِكَ، أَوْ بِلَبَنِهَا» ، وَكَانَتْ تَرَاهُ ابْنًا مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَأَخَذَتْ بِذَلِكَ عَائِشَةُ فِيمَنْ تُحِبُّ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا مِنَ الرِّجَالِ، فَكَانَتْ تَأْمُرُ أُمَّ كُلْثُومٍ، وَبَنَاتِ أَخِيهَا يُرْضِعْنَ مَنْ أَحْبَبْنَ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا، وَأَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِمْ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ مَا نَرَى الَّذِي أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْلَةَ بِنْتَ سُهَيْلٍ إِلا رُخْصَةً لَهَا فِي رَضَاعَةِ سَالِمٍ وَحْدَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لا يَدْخُلُ عَلَيْنَا بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ أَحَدٌ، فَعَلَى هَذَا كَانَ رَأْيُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَضَاعَةِ الْكَبِيرِ
ابن شہاب (رح) سے کسی نے دریافت کیا کہ بڑا آدمی اگر عورت کا دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہوجائے گی یا نہیں تو انھوں نے فرمایا مجھے عروہ بن زبیر (رض) نے خبر دی کہ حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی اور شرکاء بدر میں سے تھے۔ انھوں نے سالم کو متبنی (لے پالک) بنالیا تھا۔ جنہیں مولی ابو حذیفہ کہا جاتا تھا۔ جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ (رض) کو متبنی بنایا تھا۔ ابو حذیفہ (رض) سالم کو بیٹا تصور کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید سے کرادیا۔ فاطمہ (رض) عنہا پہلے پہلے ہجرت کرنے والی خواتین میں سے تھیں۔ اور اس وقت قریش کی افضل ترین عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔
جب اس آیت کا نزول ہوا ادعوہم لاباء ہم الایہ ان کو ان کے والدوں کی طرف منسوب کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ ہاں زیادہ انصاف والی بات ہے۔ تو ہر متبنی اپنے باپ کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ اگر کسی کا باپ معلوم نہ ہوا ( یعین ان کا نام معلوم نہ ہوا) تو وہ ابنے مولی کی طرف منسوب ہوگیا۔ ابو حذیفہ (رض) کی بیوی سہلہ بن سہیل (رض) عنہا جو بنی عامر بن لؤی سے تھیں۔ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس معاملے کا تذکرہ کیا۔ کہ ہم تم سالم کو اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ اور اس کا ہمارے ہاں بیٹوں کی طرح آنا جانا ہے۔ ہم کھلے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( جیسا کہ ہمیں معلوم ہیں) کہ اس کو پانچ گھونٹ اپنے دودھ کے پلادو۔ وہ تمہارے دودھ کی وجہ سے حرام ہوجائے گا۔ لفظ بلبنک یا بلبنہا فرمایا۔ چنانچہ وہ سالم کو اپنا رضاعی بیٹا خیال کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ (رض) عنہا نے اسی بات کو دلیل بنایا۔ جس مرد کے متعلق وہ چاہتی تھیں کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہو تو وہ اپنی بہن ام کلثوم یا اپنی بھتیجیوں کو حکم دیتی تھیں کہ وہ اسے دودھ پلادیں (چنانچہ وہ بھی ان کو دودھ پلادتی تھیں اور وہ ان کے پاس آتے جاتے تھے) مگر دوسری تمام ازواج مطہرات نے اس سے انکار کردیا۔ کہ ایسی رضاعت کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ہاں داخل نہ ہو۔ ان سب نے حضرت عائشہ (رض) عنہا سے کہا اللہ کی قسم ! ہمارے خیال کے مطابق اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہلہ بنت سہیل (رض) عنہا کو جو بات ارشاد فرمائی تھی وہ صرف سالم (رض) کے متعلق مخصوص تھی۔ ایسی رضاعت کی وجہ سے ہمارے ہاں کوئی شخص داخل نہ ہوگا۔ بڑوں کی رضاعت کے متعلق تمام ازواج مطہرات (رض) عنہن کا یہای خیال اور رائے تھی۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الرضاعۃ بعد البکر میں ذکر کیا ہے)

627

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: لا رَضَاعَةَ إِلا فِي الْمَهْدِ، وَلا رَضَاعَةَ إِلا مَا أَنْبَتَ اللَّحْمُ وَالدَّمُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يُحَرِّمُ الرَّضَاعُ إِلا مَا كَانَ فِي الْحَوْلَيْنِ، فَمَا كَانَ فِيهَا مِنَ الرَّضَاعِ، وَإِنْ كَانَ مَصَّةً وَاحِدَةً فَهِيَ تُحَرِّمُ كَمَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَمَا كَانَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ فَتَمَامُ الرَّضَاعَةِ الْحَوْلانِ، فَلا رَضَاعَةَ بَعْدَ تَمَامِهِمَا تُحَرِّمُ شَيْئًا، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يَحْتَاطُ بِسِتَّةِ أَشْهُرٍ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ، فَيَقُولُ: يُحَرِّمُ مَا كَانَ فِي الْحَوْلَيْنِ وَبَعْدَهُمَا إِلَى تَمَامِ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، وَذَلِكَ ثَلاثُونَ شَهْرًا، وَلا يُحَرِّمُ مَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَنَحْنُ لا نَرَى أَنَّهُ يُحَرِّمُ، وَنَرَى أَنَّهُ لا يُحَرِّمُ مَا كَانَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ، وَأَمَّا لَبَنُ الْفَحْلِ فَإِنَّا نَرَاهُ يُحَرِّمُ، وَنَرَى أَنَّهُ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ، فَالأَخُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مِنَ الأَبِ تَحْرُمُ عَلَيْهِ أُخْتُهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مِنَ الأَبِ، وَإِنْ كَانَتِ الأُمَّانِ مُخْتَلِفَتَيْنِ إِذَا كَانَ لَبَنُهُمَا مِنْ رَجُلٍ وَاحِدٍ، كَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اللِّقَاحُ وَاحِدٌ، فَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
سعید بن مسیب (رح) فرماتے تھے کہ رضاعت وہی ہے جو گہوارہ میں ہو۔ رضاعت وہی ہے جس نے گوشت اور خون بڑھایا ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ حرمت اسی رضاعت سے ہے جو دو سال کے اندر اندر ہو۔ جو رضاعت اس مدت میں ہو وہ حرمت کا سبب ہوتی ہے۔ خواہ ایک بار ہی جوس لگایا ہو۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس (رض) ، سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر رحمہم اللہ نے فرمایا۔ اور جو رضاعت دو سال کے عبد ہوگی وہ کچھ بہی حرام نہیں کرتی۔ اس لیے اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا۔ والوالدات یرضعین تا الرضاعۃ۔ مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں جو رضاعت پوری کرنا چاہتے ہوں۔ رضاعت کی انتہائی مدت دو سال ہے۔ اس کے بعد کوئی رضاعت نہیں جو کسی کو حرام کردے۔
امام ابوحنیفہ (رح) دو سال کے بعد بطور احتیاط چھ ما بڑھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ تیس مہنے ہیں۔ ان کے بعد کوئی رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ اور ہمارے نزدیک یہ ( چھ ماہ بعد والی) حرام نہیں کرتی کیونکہ دو سال کے بعد مدت رضاعت اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں مرد کا دودھ حرمت کو ثابت کرتا ہے اور ہمارے نزدیک رضاعت کے سبب وہ تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسب کی ودجہ سے حرام ہوتی ہیں۔ اس لیے دودھ شریک بھائی پر رضاعی بہن جو باپ کی طرف سے ہو وہ حرام ہوجاتی ہے۔ خواہ ماں ایک نہ ہو۔ بشرطیکہ دونوں کا دودھ ایک ہی مرد سے ہو۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا کہ دود ایک ہی مرد کا ہے۔ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

691

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: " الرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبْلُ، أَوِ الاعْتِرَافُ
ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں شادی شدہ مرد و عورت کے سنگسار کرنے کا حکم ثابت ہے۔ جب کہ ان کے خلاف شہادت مل جائے یا جمل قرار پاجائے یا وہ اعتراف کرلیں۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الرجم میں تحریر فرمایا ہے) ۔

692

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: لَمَّا صَدَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ مِنًى، أَنَاخَ بِالأَبْطَحِ، ثُمَّ كَوَّمَ كَوْمَةً مِنْ بَطْحَاءَ، ثُمَّ طَرَحَ عَلَيْهِ ثَوْبَهُ، ثُمَّ اسْتَلْقَى، وَمدَّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ كَبِرَتْ سِنِّي، وَضَعُفَتْ قُوَّتِي، وَانْتَشَرَتْ رَعِيَّتِي، فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مُضَيِّعٍ، وَلا مُفَرِّطٍ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ سُنَّتْ لَكُمُ السُّنَنُ، وَفُرِضَتْ لَكُمُ الْفَرَائِضُ، وَتُرِكْتُمْ عَلَى الْوَاضِحَةِ، وَصَفَّقَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الأُخْرَى، إِلا أَنْ لا تَضِلُّوا بِالنَّاسِ يَمِينًا وَشِمَالا، ثُمَّ إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ، أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: لا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمْنَا، وَإِنِّي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ لَكَتَبْتُهَا: «الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ» ، فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا. قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: فَمَا انْسَلَخَ ذُو الْحِجَّةِ حَتَّى قُتِلَ عُمَرُ
سعید بن المسیب (رح) کہا کرتے تھے کہ جب حضرت عمر (رض) اپنے آخری سفر حج میں منی سے مقام ابطح میں آئے تو آپ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا۔ کنکریوں کا ڈھیر لگار اپنی چادر اس پر پھیلادی اور اس پر خود لیٹ گئے۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلادئیے اور عرض کیا۔ اے میرے اللہ ! میں بوڑھا ہو کیا ہوں۔ میری قوت کمزور ہوگئی ہے اور میری رعایا بہت دور تک پھیل چکی ہے۔ مجھے اپنے پاس اس حال میں بلا لے کہ میں تیرے احکام کو نہ ضائع کرنے والا اور نہ ان میں حد سے گزرنے مالا بنوں۔ پھر يپ مدینہ منورہ تشریف لائے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اے لوگو ! تمہارے لیے طریقے مقرر کیے جا چکے اور فرائض تمہارے ذمے لاگو ہوچکے ہیں۔ میں نے تم کو ایک واضح راستہ پر چھوڑا ہے۔ پھر آپ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارتے ہوئے فرمایا۔ خبردار ! لوکوں کے ساتھ دائیں بائیں گمراہ نہ ہوجانا۔ پھر فرمایا۔ خبردار ! تم آیت رجم کے متعلق ہلاکت میں مبتلا نہ ہوجانا۔ کہ تم میں سے کوئی شخص یہ کہے کہ ہم کتاب اللہ میں رجم کی آیت نہیں پاتے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے رجم کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ کہیں کے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیا ہے تو میں اس میں لکھ دیتا ۔ اشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتہ۔ ہم نے تو اس کو پڑھا ہے۔ سعید بن المسیب (رح) کہتے ہیں کہ اپہی ذو الحجہ کا مہینہ گزرنے نہ پایا تھا کہ حضرت عمر (رض) کو شہید کردیا گیا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے معمولی الافظ کے فرق سے باب ما جاء فی الرجم میں ذکر کیا ہے) ۔

693

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» . قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً. وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہ کہ یہود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے بتلایا کہ ان کے ایک مرد و عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا۔ رجم کے متعلق تم توراۃ میں کیا حکم پاتے ہو ؟ انھوں نے کہا ان دونوں کو بدنام کیا جائے اور کوڑے لگائے جائیں۔ عبداللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔ اس میں تو رجم کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ وہ لوگ توراۃ لائے اور اسے کھولا گیا تو ان کے ایک آدمی نے يیت رجم پر ہاتھ رکھ لیا اور اس سے پہلے اور بعد والے حصہوں کو پڑھ دیا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے فرمایا۔ اپنا ہاتھ اٹہاؤ۔ اس شخص نے ہاتھ اٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ اس نے کہا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) يپ نے سچ کہا ہے۔ اس میں يیت رجم موجود ہے۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا۔ کہ ان دونوں کو سنگسار کیا جائے۔ ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ آدمی اس عورت کو پتھرے بچانے کیلئے جھک جاتا تھا۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الرجم میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر کوئی آزاد مسلمان مرد عورت کسی عورت کے ساتھ زنا کا مرتکب ہوجائے جبکہ اس سے پہلے وہ کسی آزاد مسلمان عورت سے نکاح کرچکا ہو اور اس سے مباشرت بھی کرچکا ہو تو وہ محصن کہلاتا ہے اور اس پر رجم واجب ہے۔ لکنر اگر اس سے مباشرت نہیں کی تھی۔ صرف نکاح کیا تھا اس سے مجامعت نہ کی تھی یا اس سے پاس یہودی یا نصرانی لونڈی ہے تو وہ محص شمار نہ ہوگا اور اس کو رجم نہ کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے مارے جائیں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔ ( ان تمام روایت و آثار کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الرجم میں ذکر کیا ہے)

694

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُمَا أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَقَالَ الآخَرُ وَهُوَ أَفْقَهُهُمَا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَائْذَنْ لِي فِي أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ: «تكلَّمْ» ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا يَعْنِي أَجِيرًا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَجَارِيَةٍ لِي، ثُمَّ إِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي: إِنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتغْرِيبُ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى: «أَمَّا غَنَمُكَ وَجَارِيَتُكَ فَرَدٌّ عَلَيْكَ» . وَجَلَدَ ابْنَهُ مِائَةً وَغَرَّبَهُ عَامًا، وَأَمَرَ أُنَيْسًا الأَسْلَمِيَّ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةَ الآخَرِ، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ رَجَمَهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا "
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ابوہریرہ (رض) سے اور زید بن خالد جہنی (رض) سے نقل کیا کہ دو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جھگڑتے ہوئے آئے۔ ان میں سے ایک نے عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیں۔ دوسرے نے کہا اور وہ دونوں میں زیادہ سمجھ دار تھا ۔ ہاں یا رسول اللہ ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ فرمادیں۔ لیکن مجھے بات کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہو ! اس نے کہا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدوری کرتا تھا۔ یعنی مزدور ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا۔ مجھے لوگوں نے بتلایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے لازم ہیں۔ میں نے اس کے فدیہ میں سو بکریاں اور اپنی ایک لونڈی آزاد کردی۔ پہر میں نے اہل علم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتلایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ اور اس کی بیوی پر رجم ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت مں میری جان ہے۔ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پس تمہارے سو بکریاں اور لونڈی تمہیں واپس کی جاتی ہے۔ اور بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں۔ اور ایک سال کے لیے جلا وطنی دے دی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انیس اسلمی (رض) کو حکم فرمایا کہ دوسرے آدمی کی عورت کے پاس جاکر دریافت کرو۔ اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردیا جائے۔ اس عورت نے اعتراف کرلیا چنانچہ اسے سنگسار کردیا گیا۔ (انیس (رض) کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ عورت کے اعتراف کے بغیر اس پر حد نہ لگ سکتی تھی۔ جب اعتراف کرلیا تو حد لگادی گئی۔ فافہم و تدبر)
(اس روایت کو باب ما جاء فی الرجم میں امام مالک (رح) لائے ہیں)

695

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا زَنَتْ وَهِيَ حَامِلٌ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبِي حَتَّى تَضَعِي» ، فَلَمَّا وَضعَتْ، أَتَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: «اذْهَبِي حَتَّى تُرْضِعِي» ، فَلَمَّا أَرْضَعَتْ، أَتَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: «اذْهَبِي حَتَّى تَسْتَوْدِعِيهِ» ، فَاسْتَوْدَعَتْهُ، ثُمَّ جَاءَتْهُ، «فَأَمَرَ بِهَا، فَأُقِيمَ عَلَيْهَا الْحَدُّ»
عبداللہ بن ابی ملیکہ (رض) نے نقل کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک عورت آئی اور اس نے بیان کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے۔ اور وہ حاملہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اب چلی جاء ! جب تک وضع حمل نہ ہوجائے جب بچہ پیدا ہوگیا۔ تو وہ آگئی فرمایا ابھی واپس جاؤ۔ جب تک تو اسے دودھ پلائے۔ جب دودھ کی مدت ختم ہوگئی تو وہ پھر آگئی۔ آپ نے فرمایا جا اور اس لڑکے کو کسی کے سپر کردے۔ پھر وہ بچے کو سپرد کر کے آئی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر رجم کا حکم نافذ کردیا۔ اور اس پر حد جاری فرمادی۔ ( یہ عورت قبیلہ جہینہ کی شاخ غامدیہ سے تھی۔ دوسری احادیث سے اس کی نماز جنازہ کا ثبوت بھی ملتا ہے)
(یہ روایت بھی باب الرجم میں ہے)

696

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ رَجُلا اعْتَرَفَ بِالزِّنَا عَلَى نَفْسِهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، «فَأَمَرَ بِهِ فَحُدَّ» . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يُؤْخَذُ الْمَرْءُ بِاعْتِرَافِهِ عَلَى نَفْسِهِ
ابن شہاب زہری کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں ایک شخص نے اپنے متعلق زنا کا اعتراف کیا۔ اور اپنے خلاف چار گواہ پیش کردئیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا جو جاری کردی گئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں اسی وجہ سے جو شخص اپنے جرم کا اعتراف کرے اس سے اس کا مؤاخذہ ہوتا ہے۔ (یہ روایت بھی باب الرجم میں مذکور ہے)

697

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، أَنَّ رَجُلا اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَاءِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوْطٍ، فَأُتِيَ بِسَوْطٍ مَكْسُورٍ، فَقَالَ: «فَوْقَ هَذَا» ، فَأُتِيَ بِسَوْطٍ جَدِيدٍ لَمْ تُقْطَعْ ثَمَرَتُهُ، فَقَالَ: «بَيْنَ هَذَيْنِ» ، فَأُتِيَ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِّبَ بِهِ فَلَانَ، «فَأَمَرَ بِهِ فَجُلِدَ» ، ثُمَّ قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تَنْتَهُوا عَنْ حُدُودِ اللَّهِ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ هَذِهِ الْقَاذُورَاتِ شَيْءٌ فَلْيَسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ مَنْ يُبْدِ لَنَا صَفْحَتَهُ نُقِمْ عَلَيْهِ كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک شخص نے اپنے متعلق زنا کا اعتراف کیا۔ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کوڑا منگوایا۔ ایک ٹوٹا ہوا کوڑا لا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اچھا کوڑا لاؤ۔ تو ایک نیا کوڑا لا گیا۔ جو ابھی استعمال نہ ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ان دونوں کے درمیان کا کوڑا لاؤ۔ چنانچہ ایک کوڑا لایا گیا جو کسی شخص کا استعمال کیا ہوا تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے لوگو ! تم پر وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ کی حدود سے باز رہو۔ پس جو شخص اس قسم کے گناہوں کا مرتکب ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پردے میں چھپا رہے۔ جو شخص اپنے پردے کو ظاہر کردے گا ( گناہ ظاہر کردے گا) تو ہم اللہ تعالیٰ بزرگ و رتبر کی کتاب کے مطابق اس پر حد قائم کریں گے۔ (اس روایت کو باب ما جاء فی من اعترف علی نفسہ بالزنا میں ذکر فرمایا ہے)

698

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ حَدَّثَتْهُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، أَنَّ رَجُلا وَقَعَ عَلَى جَارِيَةٍ بِكْرٍ فَأَحْبَلَهَا، ثُمَّ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ أَنَّهُ زَنَى، وَلَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ، فَأَمَرَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، فَجُلِدَ الْحَدَّ، ثُمَّ نُفِيَ إِلَى فَدَكَ
نافع بیان کرتے ہیں کہ صفیہ بنت ابی عبید نے ذکر کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا۔ جس نے کسی کنواری لونڈی سے زنا کیا تھا۔ اور وہ حاملہ ہوگئی۔ پھر اس شخص نے اپنے زنا کا اعتراف کرلیا۔ اور وہ محص نہ تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حکم دیا تو اسے کوڑے لگائے گئے۔ پھر فدک کی طرف اسے جلا وکن کردیا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی من اعترف علی نفسہ بالزنا میں ذکر کیا ہے)

699

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلا مِنْ أَسْلَمَ أَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ الأَخِرَ قَدْ زَنَى، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ ذَكَرْتَ هَذَا لأَحَدٍ غَيْرِي؟ قَالَ: لا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تُبْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَاسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِه. قَالَ سَعِيدٌ: فَلَمْ تَقَرَّ بِهِ نَفْسُهُ حَتَّى أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ لأَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ كَمَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ سَعِيدٌ: فَلْم تَقَرَّ بِهِ نَفْسُهُ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: الأَخِرُ قَدْ زَنَى، قَالَ سَعِيدٌ: فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فقَالَ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ، حَتَّى إِذَا أَكْثَرَ عَلَيْهِ، بَعَثَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ: «أَيَشْتَكِي؟ أَبِه جِنَّةٌ؟ !» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَصَحِيحٌ، قَالَ: «أَبِكْرٌ أَمْ ثَيِّبٌ» قَالُوا: ثَيِّبٌ. «فَأَمَرَ بِهِ، فَرُجِمَ»
سعید بن مسیب بیان کرتے تھے کہ قبیلہ بنو اسلم کا ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں آیا کہ میں نالائق نے زنا کرلیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے درفیات فرمایا کیا تم نے کسی اور سے اس کا تذکرہ کیا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو۔ اور اپنے گناہ کو اللہ کے پردہ میں چھپائے رکھ۔ اللہ تعالیٰ بلاشبہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والے ہیں۔ سعید کہتے ہیں کہ اس بات سے اس کا دل مطمئن نہ ہوا۔ یہاں کہ تک وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور ان سے بہی وہی کہا جو حضرت ابوبکر (رض) سے کہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا تھا۔
سعید کہتے ہیں کہ اس کے دل کو پھر بھی اطمنینان نہ ہوا۔ تاآنکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا۔ اس نالائق نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض فرمایا۔ سعید (رح) کہتے ہیں اس نے بار بار یہی کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر بار اس سے اعراض فرماتے رہے۔ جب بہت زیادہ ( مرتبہ یہ اقرار) ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے گھر والوں کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا یہ بیمار ہے۔ یا مجنون ہے ؟ انھوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بالکل تندرست ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ ہے۔ انھوں نے بتلایا کہ یہ شادی شدہ ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اسے سنگسار کرو اس کو سنگسار کردیا گیا۔

700

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ يُدْعَى هَزَّالا: «يَا هَزَّالُ، لَوْ سَتَرْتَهُ بِرِدَائِكَ لَكَانَ خَيْرًا لَكَ» ، قَالَ يَحْيَى: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ يَزِيدُ بْنُ نُعَيْمِ بْنِ هَزَّالٍ، فَقَالَ: هَزَّالٌ جَدِّي، وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ حَقٌّ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَلا يُحَدُّ الرَّجُلُ بِاعْتِرَافِهِ بِالزِّنَى حَتَّى يُقِرَّ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ فِي أَرْبَعِ مَجَالِسَ مُخْتَلِفَةٍ، وَكَذَلِكَ جَاءَتِ السُّنَّةُ: لا يُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِاعْتِرَافِهِ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَا حَتَّى يُقِرَّ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا. وَإِنْ أَقَرَّ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ثُمَّ رَجَعَ قُبِلَ رَجُوعُهُ وَخُلِّيَ سَبِيلُهُ.
یحییٰ بن سعید ر ضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتا تھا اور اسے ہزال کہا جاتا تھا ۔ فرمایا۔ اے ہزال ! اگر تم اسے اپنی چادر سے چھپاتے تو یہ تیرے لیے بہتر تھا۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے یہ روایت ایک مجلس میں بیان کی جس میں یزید بن نعیم بن ہزال موجود تھے ۔ تو یزید کہنے لگے کہ یہ ہزال میرے دادا تھے۔ اور یہ حدیث صحیح ہے اور حق ہے۔ ( ان تمام روایات و آثار کو ٦٩٦ کے علاوہ امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الرجم میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کسی پر حد صرف اعتراف سے جاری نہ کی جائے گی جب تک چار مختلف مجالس میں چار مرتبہ وہ اعتراف نہ کرے۔ احادیث میں اسی طرح وارد ہے۔ کہ کسی شخص کو اپنے بارے میں اعتراف زنا کرنے پر حد جاری نہ کی جائے جب تک چار بار اعتراف نہ کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔ اور اگر چار بار اقرار کرکے پھر اقرار سے پھر جائے تو اس کا رجوع کرلینا قبول کیا جائے گا۔ اور اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

701

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدًا كَانَ يَقُومُ عَلَى رَقِيقِ الْخُمْسِ، وَأَنَّهُ اسْتَكْرَهَ جَارِيةً مِنْ ذَلِكَ الرَّقِيقِ، فَوَقَعَ بِهَا، فَجَلَدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَنَفَاهُ، وَلَمْ يَجْلِدِ الْوَلِيدَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ اسْتَكْرَهَهَا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک غلام خمس میں آنے والی لونڈیوں اور غلاموں پر مقرر تھا۔ اس نے ان میں سے ایک لونڈی کے ساتھ زبردستی زنا کیا۔ حضرت عمر (رض) نے اسے کوڑے لگوائے اور جلا وطن کردیا۔ مگر لونڈی کو کوڑے نہیں لگائے کیونکہ اس سے بالجبر زنا کیا گیا تھا۔ ( یہ اثر باب جامع ما جاء فی حد الزناء میں مذکور ہے)

702

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ، قَضَى فِي امْرَأَةٍ أُصِيبَتْ مُسْتَكْرَهَةً بِصَدَاقِهَا عَلَى مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا اسْتُكْرِهَتِ الْمَرْأَةُ فَلا حَدَّ عَلَيْهَا، وَعَلَى مَنِ اسْتَكْرَهَهَا الْحَدُّ، فَإِذَا وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَدُّ بَطَلَ الصَّدَاقُ، وَلا يَجِبُ الْحَدُّ وَالصَّدَاقُ فِي جِمَاعٍ وَاحِدٍ، فَإِنْ دُرِئَ عَنْهُ الْحَدُّ بِشُبْهَةٍ وَجَبَ عَلَيْهِ الصَّدَاقُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
-703 ابن شہاب زہری (رح) کہتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے ایک شخص کے متعلق فیصلہ کیا جس نے زنا کیا تھاد کہ وہ اس عورت کو مہر ادا کرے جس سے اس نے زبردستی زنا کیا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جس عورت سے زنا بالجبر کیا جائے۔ تو اس عورت پر حد نہیں ہے۔ جس نے جبر کیا اس پر حد لاگو ہوگی۔ جب اس پر حد واجب ہوجائے گی تو مہر باطل ہوجائے گا۔ ایک ہی جماع میں حد اور مہر دونوں جمع نہیں ہوں گے۔ اور اکر کس پر شبہ کی بناء پر حد جاری ہوجائے تو اس پر مہر واجب ہوگا۔ امام ابوحنیفہ (رح) ابراہیم نخعی (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

703

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيِّ، قَالَ: «أَمَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي فِتْيَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَجَلَدْنَا وَلائِدَ مِنْ وَلائِدِ الإِمَارَةِ خَمْسِينَ خَمْسِينَ فِي الزِّنَاءِ»
سلیمان بن یسار نے عبداللہ بن عیاش (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے اور قریش کے چند نوجوانوں کو حکم دیا اور ہم نے بیت المال کی لونڈیوں کو زنا کے جرم میں پچاس پچاس کوڑے لگائے۔

704

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الأَمَةِ إِذَا زَنَتْ، وَلَمْ تُحْصَنْ؟ فَقَالَ: «إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ» . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: لا أَدْرِي أَبَعْدَ الثَّالِثَةِ، أَوِ الرَّابِعَةِ. وَالضَّفِيرُ: الْحَبْلُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يُجْلَدُ الْمَمْلُوكُ وَالْمَمْلُوكَةُ فِي حَدِّ الزِّنَا نِصْفَ حَدِّ الْحُرَّةِ خَمْسِينَ جَلْدَةً، وَكَذَلِكَ الْقَذْفُ وَشُرْبُ الْخَمْرِ وَالسُّكْرِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ابوہریرہ (رض) سے اور زید بن خالد جہنی سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس لونڈی کے متعلق دریافت کیا گیا۔ جو زنا کا ارتکاب کرے اور محصن بھی نہ ہو۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اگر وہ زنا کرے تو کوڑے مارو پھر زنا کرے تو کوڑے مارو۔ پہر زنا کرے تو کوڑے مارو۔ پھر اسے فروخت کردو۔ خواہ ایک بالوں کی رسی کے عوض ہی فروخت کرنا پرے۔ ابن شہاب کہتی ہیں کہ یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ تیسر مرتبہ یا چوتہی مرتبہ کے بعد فروخت کا حکم فرمایا۔ اور الضفیر بالوں کی رسی (امام مالک نے اس روایت کو باب ما جامع ما جاء فی حد الزنا میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ غلام اور لونڈی کی حد نصف ہوگی۔ اور وہ پچاس کوڑے ہیں۔ حد قذف شراب، نشہ تینوں کا یہی حکم ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

705

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّهُ جَلَدَ عَبْدًا فِي فِرْيَةٍ ثَمَانِينَ. قَالَ أَبُو الزِّنَادِ: فَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَ: أَدْرَكْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَالْخُلَفَاءَ هَلُمَّ جَرًّا، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا ضَرَبَ عَبْدًا فِي فِرْيَةٍ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يُضْرَبُ الْعَبْدُ فِي الْفِرْيَةِ إِلا أَرْبَعِينَ جَلْدَةً نِصْفَ حَدِّ الْحُرِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو الزناد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے ایک غلام کو قذف کے جرم میں اسی کوڑے لگائے۔ ابو الزناد کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عامر (رح) سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ اور دوسرے خلفاء کا زمانہ پایا ہے۔ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ انھوں نے غلاموں کو چالیس سے زیادہ کوڑے لگائے ہوں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ کہ قذف میں غلام کو آزاد کی نصف حد یعنی چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

706

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، وَسُئِلَ عَنْ حَدِّ الْعَبْدِ فِي الْخَمْرِ؟ فَقَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ عَلَيْهِ نِصْفَ حَدِّ الْحُرِّ، وَأَنَّ عَلِيًّا، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَابْنَ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ جَلَدُوا عَبِيدَهُمْ نِصْفَ حَدِّ الْحُرِّ فِي الْخَمْرِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، الْحَدُّ فِي الْخَمْرِ وَالسُّكْرِ ثَمَانُونَ، وَحَدُّ الْعَبْدِ فِي ذَلِكَ أَرْبَعُونَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن شہاب زہری نے بیان کیا جب کہ غلام کو شراب پینے کی حد کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا۔ کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ آزاد کے مقابلے میں غلام کی حد نصف ہے۔ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور عبداللہ بن عامر (رض) عنہم کا یہی عمل ہے وہ اپنے غلاموں کو شراب پینے کے جرم میں آزاد سے نصف حد جاری کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام روایات کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ شراب اور نشہ کی حد اسی کوڑے ہے۔ اور اس میں غلام کی حد چالیس کوڑے ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول و عمل ہے۔

707

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الرِّجَالِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ عَمَرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَجُلَيْنِ فِي زَمَانِ عُمَرَ اسْتَبَّا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: مَا أَبِي بِزَانٍ، وَلا أُمِّي بِزَانِيَةٍ، فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ قَائِلٌ: مَدَحَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، وَقَالَ آخَرُونَ: وَقَدْ كَانَ لأَبِيهِ وَأُمِّهِ مَدْحٌ سِوَى هَذَا، نَرَى أَنْ تَجْلِدَهُ الْحَدَّ، فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ ثَمَانِينَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدِ اخْتَلَفَ فِي هَذَا عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لا نَرَى عَلَيْهِ حَدًّا، مَدَحَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، فَأَخَذْنَا بِقَوْلِ مَنْ دَرَأَ الْحَدَّ مِنْهُمْ، وَمِمَّنْ دَرَأَ الْحَدَّ وَقَالَ لَيْسَ فِي التَّعْرِيضِ جَلْدٌ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عمرہ بنت عبد الرحمن نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں دو افراد نے باہم گالی گلوچ کی۔ پس ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا نہ میرا باپ زانی تھا اور نہ میمرے مان نے زنا کیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کے متعلق مشورہ کیا۔ ایک نے کہا اس نے اپنے ماں، باپ کی تعریف کی ہے۔ دوسروں نے کہا۔ کیا اس کے کے ماں باپ میں اور کوئی خوبی نہ تھی۔ ہماری رائے یہ ہے کہ پر حد جاری کی جائے ( کہ اس نے کنایہ دوسرے کے ماں، باپ کو زانی کہا ہے) حضرت عمر (رض) نے اسے اسی کوڑوں کی سزا دی ۔ اس اثر کو امام مالک نے بال الحد فی القذف میں ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : اس میں صحابہ کرام (رض) عنہم نے حضرت عمر (رض) سے اختلاف کیا۔ ان میں سے بعض نے کہا ہم اس پر حد کو لازم خیال نہیں کرتے۔ اس نے اپنے ماں، باپ کی تعریف کی ہے۔ ہم حد کی نفی کرنے والے صحابہ کرام (رض) عنہم کے قول پر عمل کرتے ہیں۔ اس پر ہمارا عمل ہے کہ علی مرتضی نے فرمایا تعریض پر حد نہیں۔ اور ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

708

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ فُلانٍ رِيحَ شَرَابٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَزَعَمَ أَنَّهُ شَرِبَ طِلاءً، وَأَنَا سَائِلٌ عَنْهُ، فَإِنْ كَانَ يُسْكِرُ جَلَدْتُهُ الْحَدَّ، فَجَلَدَهُ الْحَدَّ
سائب بن یزید (رح) نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں فلان کے منہ سے شراب کی بو محسوس کرتا ہوں۔ میں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے کہاں ہاں ! میں نے طلاء (انگور کا مشروب) پیا ہے۔ اب میں اس کے متعلق دریافت کرتا ہوں۔ کہ اگر اس میں نشہ ہے تو میں اسے کوڑے ماروں گا۔ چنانچہ (طلاء کے متعلق نشہ تصدیق ہوگئی) تو اس پر آپ نے شراب کی حد جاری کی۔

709

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَشَارَ فِي الْخَمْرِ يَشْرَبُهَا الرَّجُلُ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: أَرَى أَنْ تَضْرِبَهُ ثَمَانِينَ، فَإِنَّهُ إِذَا شَرِبَهَا سَكِرَ، وَإِذَا سَكِرَ هَذَى، وَإِذَا هَذَى افْتَرَى "، أَوْ كَمَا قَالَ. فجَلَدَ عُمَرُ فِي الْخَمْرِ ثَمَانِينَ
ثور بن زید دیلی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کسی شخص کے شراب پینے کی حد کے متعلق مشہورہ کیا تو حضرت علی (رض) نے ان سے کہا میری رائے یہ ہے کہ اس کو اسی کوڑے مارے جائیں۔ کیونکہ وہ شراب پیئے : ا تو نشہ ہوگا بدمست ہو کر جو منہ میں آئے گا بگ دے گا۔ تہمت لگائے گا یا آپ نے اسی کے مشابہ الافظ استعمال فرمائے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے شراب کی حد میں اس کو اس کوڑے لگوائے۔ ( ان دونوں آثار کو امام مالک (رح) نے باب الحد فی الخمر میں ذکر کیا ہے)

710

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِتْعِ؟ فَقَالَ: «كُلُّ شَرَابٍ أَسْكَرَ فَهُوَ حَرَامٌ»
ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رح) نے حضرت عائشہ (رض) عنہا سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدبو دار شہد کی شراب کے متعلق دریافت کیا کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر وہ شراب جو نشہ لائے وہ حرام ہے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب تحریم الخمر میں ذکر کیا ) ۔

711

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْغُبَيْرَاءِ؟ فَقَالَ: «لا خَيْرَ فِيهَا، وَنَهَى عَنْهَا» ، فَسَأَلْتُ زَيْدًا مَا الْغُبَيْرَاءُ؟ فَقَالَ: السُّكُرْكَةُ
عطاء بن یسار (رح) نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غبیراء (جوار کی شراب ) کے متعلق سوال کیا کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میں کوئی خیر نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ممانعت فرمائی۔ میں نے زید ابن سلم (رح) سے دریافت کیا کہ غبیراء کیا ہے۔ انھوں کہا وہ سکر کہ ( جوار کی شراب) ہے۔ ان دونوں آثار کو امام مالک نے باب تحریم الخمر میں ذکر کیا ہے۔

712

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي وَعْلَةَ الْمِصْرِيِّ، أَنَّهُ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَمَّا يُعْصَرُ مِنَ الْعِنَبِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَهْدَى رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاوِيَةَ خَمْرٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَهَا» ؟ قَالَ: لا، فَسَارَّهُ إِنْسَانٌ إِلَى جَنْبِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِمَ سَارَرْتَهُ؟» قَالَ: أَمَرْتُهُ بِبَيْعِهَا، فَقَالَ: «إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا حَرَّمَ بَيْعَهَا» . قَالَ: فَفَتَحَ الْمَزَادَتَيْنِ حَتَّى ذَهَبَ مَا فِيهِمَا
ابو وعلہ مصری نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا جب کہ ان سے انگور نچوڑنے کا حکم دریافت کی گیا۔ تو فرمانے لگے۔ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شراب کی ایک مشک لایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیا ہے “۔ اس نے عرض کیا نہیں۔ اس کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اسے چپکے سے کچھ کہا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تو نے اسے کیا کہا ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اسے اس کے بیچ ڈالنے کا مشورہ دیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس نے اس کا پینا حرام کیا اس نے اس کا فروخت کرنا بہی حرام قرار دیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس پر اس شخص نے مشکیزے کا منہ کھول دیا۔ جس سے تمام شراب بہہ گئی۔ ( اس اثر کو باب جامع تحریم الخمر میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)

713

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَبْتَاعُ مِنْ ثَمَرِ النَّخْلِ، وَالْعِنَبِ، وَالْقَصَبِ، فَنَعْصِرُهُ خَمْرًا فَنَبِيعَهُ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتَهُ، وَمَنْ سَمِعَ مِنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ أَنِّي لا آمُرُكُمْ أَنْ تَبْتَاعُوهَا، فَلا تَبْتَاعُوهَا وَلا تَعْصِرُوهَا وَلا تَسْقُوهَا، فَإِنَّهَا رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَا كَرِهْنَا شُرْبَهُ مِنَ الأَشْرِبَةِ الْخَمْرِ وَالسُّكْرِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، فَلا خَيْرَ فِي بَيْعِهِ وَلا أَكْلِ ثَمَنهِ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے ایک عراقی نے کہا کہ ہم کھجور، انگور کا پھل اور گنا خریدتے ہیں، پھر ان کی شراب بناکر فروخت کرتے ہیں۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا۔ میں تم بر اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں اور اس کے فرشتوں اور جن و انس جو سنتے ہیں سب کو گواہ بناتا ہوں کہ میں تمہیں اجازت نہیں دیتا کہ تم اسے خریدو فرخت کرو۔ یا اسے نچوڑو۔ یا اسے پلاؤ کیونکہ وہ ناپاک ہے۔ اور شیطان کے عمل میں سے ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جن مشروبات کا پینا برا ہے۔ مثلا شراب اور نشہ آور اشیاء وغیرہ ان کے فروخت کرنے اور ان کی قیمت کھانے میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے۔

714

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا حُرِمَهَا فِي الآخِرَةِ فَلَمْ يُسْقَهَا»
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جس شخص نے شراب پی اور اس نے ( موت سے پہلے) توبہ نہ کی وہ آخرت میں (شراب طہور) سے محروم رہے گا۔ اسے نہ پی سکے گا۔ ( اس اثر کو باب تحریم الخمر میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)

715

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: " كُنْتُ أَسْقِي أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَأَبا طَلْحَةَ الأَنْصَارِيَّ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ شَرَابًا مِنْ فَضِيخٍ وَتَمْرٍ، فَأَتَاهُمْ آتٍ فَقَالَ: إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أَنَسُ، قُمْ إِلَى هَذِهِ الْجِرَارِ، فَاكْسِرْهَا، فَقُمْتُ إِلَى مِهْرَاسٍ لَنَا، فَضَرَبْتُهَا بِأَسْفَلِهِ حَتَّى تَكَسَّرَتْ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: النَّقِيعُ عِنْدَنَا مَكْرُوهٌ، وَلا يَنْبَغِي أَنْ يُشْرَبَ مِنَ الْبُسْرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ جَمِيعًا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ إِذَا كَانَ شَدِيدًا يُسْكِرُ
اسحاق بن عبداللہ (رح) نے بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) نے کہا کہ میں ابو عبید ہ بن جراح ، ابو طلحہ انصاری اور ابی ابن کعب (رض) عنہم کو تر و خشک کھجور کی شراب پلا رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا شراب حرام کردی گئی۔ اوب طلحہ (رض) نے کہا انس اٹھو ! اور ان گھڑوں کو توڑ ڈالوں۔ میں اٹھا اور اپنا موسل لے کر انھیں نیچے کی جانب سے چوٹ لگائی۔ اور ان تمام کو توڑ ڈالا۔ ( اس اثر کو باب جامع تحرم الخمر میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں نچوڑ حرام ہے خواہ وہ نچوڑ تر کھجور یا خشک کھجور، انگور کا ہو ان کو پینا درست نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے جبکہ وہ سخت نشہ آور۔

716

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ عِنْدِي، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُبَابٍ الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ شُرْبِ التَّمْرِ وَالزَّبِيبِ جَمِيعًا وَالزَّهْوِ وَالرُّطَبِ جَمِيعًا»
عبد الرحمن بن حباب اسلمی نے ابو قتادہ انصاری (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قسم کی کھجور، انگور کو تر اور خشک کھجور کے ساتھ ملاکر پینے سے منع فرمایا۔

717

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى أَنْ يُنْبَذَ الْبُسْرُ وَالتَّمْرُ جَمِيعًا»
عطاء بن یسار (رح) نے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تر کھجور اور خشک کھجور کو انگور اور کھجور کے ساتھ ملا کر بھگونے سے منع فرمایا ان دونوں آثار کو امام مالک نے باب ما یکرہ ان ینبنذ جمیعا میں ذکر کیا ہے)

718

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَأَقْبَلْتُ نَحْوَهُ، فَانْصَرَفَ قَبْلَ أَنْ أَبْلُغَهُ، فَقُلْتُ: مَا قَالَ؟ قَالُوا: «نَهَى أَنْ يُنْبَذَ فِي الدُّبَّاءِ، وَالْمُزَفَّتِ»
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی غزوہ میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ( خطبہ سننے کے لئے) روانہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پہنچنے سے پہلے ہی خطبہ سے فارغ ہوچکے تھے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا۔ لوگوں نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلن نے دباء ( کدو کا برتن) اور مزفت (اندر سے روغن کیا ہوا برتن) میں نبی ذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔

719

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى أَنْ يُنْبَذَ فِي الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ»
عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دباء اور مزفت میں نبیذ بنانے کی ممانعت فرمائی۔ ( ان دونوں آثار کو باب ما ینہی أن ینبذفیہ میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے) ان برتنوں میں نبیذ کی ممانعت شروع میں شراب سے نفرت زیادہ کرنے کے لیے کی گئی بعد میں ان میں نبیذ کی اجازت دی گئی۔ من شاء التفصیل فلیراجع غلی فصل المعبود۔

720

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، حِينَ قَدِمَ الشَّامَ، شَكَا إِلَيْهِ أَهْلُ الشَّامِ وَبَاءَ الأَرْضِ أَوْ ثِقَلَهَا، وَقَالُوا: لا يَصْلُحُ لَنَا إِلا هَذَا الشَّرَابُ، قَالَ: اشْرَبُوا الْعَسَلَ، قَالُوا: لا يُصْلِحُنَا الْعَسَلُ، قَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ: هَلْ لَكَ أَنْ أَجْعَلَ لَكَ مِنْ هَذَا الشَّرَابِ شَيْئًا لا يُسْكِرُ، قَالَ: نَعَمْ. فَطَبَخُوهُ، حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثَاهُ، وَبَقِيَ ثُلُثُهُ، فَأَتَوْا بِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِيهِ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ، فَتَبِعَهُ يَتَمَطَّطُ، فَقَالَ: هَذَا الطِّلاءُ مِثْلُ طِلاءِ الإِبِلِ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوهُ، فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ: أَحْلَلْتَهَا وَاللَّهِ، قَالَ: كَلَّا، وَاللَّهِ مَا أَحْلَلْتُهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي لا أُحِلُّ لَهُمْ شَيْئًا حَرَّمْتَهُ عَلَيْهِمْ، وَلا أُحَرِّمُ عَلَيْهِمْ شَيْئًا أَحْلَلْتَهُ لَهُمْ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِشُرْبِ الطِّلاءِ الَّذِي قَدْ ذَهَبَ ثُلُثَاهُ وَبَقِيَ ثُلُثُهُ، وَهُوَ لا يُسْكِرُ، فَأَمَّا كُلُّ مُعَتَّقٍ يُسْكِرُ فَلا خَيْرَ فِيهِ
محمود بن لبید انصاری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) شام تشریف لے گئے تو اہل شام نے وہاں کے دباء اور آپ و ہوا کے بھار ہونے کی شکایت کی۔ اور کہا اس شراب کے بغیر ہمارا مزاج درست نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا شہد پی لیا کرو۔ وہ کہنے لگے ۔ شہد ہمیں موافق نہیں آتا۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا۔ آپ اس میں سے ایسی چیز بنانے کی اجازت دے دیں جو نشہ آور نہ ہود فرمایا ہاں ! تو انھوں نے اسے پکایا۔ یہاں تک کہ اس کا دو تہائی حصہ أڑگیا۔ اور ایک تہائی باقی رہ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس میں انگلی ڈالی پھر اپنا ہاتھ اٹہایا تو وہ ہاتھ ( چکناہت سے) چپ جپ کرنے لگا۔ اس پر آپ نے فرمایا یہ طلاء تو اونٹ کے طلاء ک مانند ہے۔ پس آپ نے اس کے پینے کی اجازت دے دی۔ اس پر عبادہ بن صامت (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! آپ نے اسے حلال کردیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں نے اسے حلال نہیں کیا اے اللہ میں نے ان پر کوئی وہ چیز حلال نہیں کی ہے۔ جو تو نے حرام کی تھی یاور نہ میں نے ان پر کوئی ایسی چیز حرام کی ہے جو تو نے حلال کی تھی۔ ( اس اثر کو باب جامع تحریم الخمر میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ طلاء کے پینے میں کوئی حرج نہیں۔ جس کا دو تہائی خشک ہوجائے باقی ایک تہائی رہ جائے بشرطیہ وہ نشہ نہ لائے۔ مگر ہر پرانی شراب جو نشہ آور ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں یعنی وہ حرام ہی ہے۔

721

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَضَ لِلْجَدِّ الَّذِي يَفْرِضُ لَهُ النَّاسُ الْيَوْمَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ فِي الْجَدِّ، وَهُوَ قَوْلُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَبِهِ يَقُولُ الْعَامَّةُ، وَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ فِي الْجَدِّ بِقَوْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، فَلا يُوَرِّثُ الإِخْوَةَ مَعَهُ شَيْئًا
قبصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے دادا کو اتنا ترکہ دلایا جتنا آج لوگ دیتے ہیں۔ ( اس اثر کو امام مالک نے ابب میراث الجد میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : دادا کے متعلق ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی زید بن ثابت (رض) کا قول بھی ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔ مگر اما ابوحنیفہ (رح) عنہ دادا کے سلسلہ میں حضرت ابوبکر صدیق اور ابن عباس ر ضی اللہ عنہما کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ وہ دادا کی موجودگی میں بھا ائی کو کچھ بھی وراثت نہیں دلاتے۔

722

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خَرَشَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ، وَمَا عَلِمْنَا لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ، قَالَ: فَسَأَلَ النَّاسَ، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهَا السُّدُسَ، فَقَالَ: هَلْ مَعَكِ غَيْرُكِ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَتِ الْجَدَّةُ الآخُرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ، وَمَا كَانَ الْقَضَاءُ الَّذِي قُضِيَ بِهِ إِلا لِغَيْرِكِ، وَمَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ مِنْ شَيْءٍ، وَلَكِنْ هُوَ ذَلِكَ السُّدُسُ، فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا، وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا اجْتَمَعَتِ الْجَدَّتَانِ: أُمُّ الأُمِّ، وَأُمُّ الأَبِ، فَالسُّدُسُ بَيْنَهُمَا، وَإِنْ خَلَتْ بِهِ إِحْدَاهُمَا فَهُوَ لَهَا، وَلا تَرِثُ مَعَهَا جَدَّةٌ فَوْقَهَا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ مرنے والے کی نانی حضرت ابوبکر (رض) کے پاس ترکہ حاصل کرنے گئی تو آپ نے فرمایا۔ کتاب اللہ میں تیرا کوئی ترکہ مذکورہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمارے علم میں ہے۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں تیرا کوئی حصہ مقرر کیا گیا ہو۔ تم واپس چلی جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے دریافت کرلوں۔ پھر آپ نے لوگوں سے اس سلسلہ میں دریافت کیا۔ تو مغیر بن شعبہ (رض) نے کہا ایک نانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے چھٹا حصہ دلایا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تمہارے ساتھ اس واقعہ میں کوئی شاہد موجود ہے۔ تو حضرت محمد بن مسلمہ انصاری (رض) کھڑے ہوئے اور انھوں نے بھی یہی بیان کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو نافذ کردیا۔ حضرت عمر (رض) کے عہد میں ایک دادی اپنا ترکہ حاصل کرنے کے لیے آئی آپ نے فرمایا کتا اللہ میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور جو فیصلہ اس سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) نے کیا وہ تیرے علاوہ نانی کے حق میں کیا گیا ہے۔ اور میں فرائض میں اس چھٹے حصہ کے علاوہ زیادتی کرنے والا نہیں ۔ اگر تم دونوں دادی اور نانی موجود ہو تو دونوں بانٹ لو۔ اگر تم دونوں میں صرف ایک ہے تو وہ اکیلی چھٹا حصہ لے لے۔ (اس اثر کو امام مالک نے باب میراث الجدہ میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب نانی اور دادی دونوں موجو ہوں تو چھٹا حصہ دونوں میں بانٹ کر تقسیم کردیا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ پر دادی اور پرنانی کو کچھ نہ ملے گا ( کیونکہ حصہ اقرب کی طرف جاتا ہے) یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا مختار قول ہے۔

723

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَبَاهُ كَثِيرًا يَقُولُ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ: عَجَبًا لِلْعَمَّةِ، تُورَثُ، وَلا تَرِثُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا يَعْنِي عُمَرُ هَذَا فِيمَا نَرَى أَنَّهَا تُورَثُ، لأَنَّ ابْنَ الأَخِ ذُو سَهْمٍ، وَلا تَرِثُ لأَنَّهَا لَيْسَتْ بِذَاتِ سَهْمٍ، وَنَحْنُ نَرْوِي عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُمْ قَالُوا فِي الْعَمَّةِ وَالْخَالَةِ إِذَا لَمْ يَكُنْ ذُو سَهْمٍ، وَلا عَصَبَةٍ: فَلِلْخَالَةِ الثُّلُثُ، وَلِلْعَمَّةِ الثُّلُثَانِ. وَحَدِيثٌ يَرْوِيهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهُ: أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الدَّحْدَاحِ مَاتَ، وَلا وَارِثَ لَهُ، " فَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، وَكَانَ ابْنُ أُخْتِهِ مِيرَاثَهُ. وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يُوَرِّثُ الْعَمَّةَ، وَالْخَالَةَ، وَذَوِي الْقُرُبَاتِ بِقُرْبَتِهِمْ، وَكَانَ مِنْ أَفْقَهِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَأَعْلَمِهِمْ بِالرِّوَايَةِ
ابوبکر بن عمر بن حزم بیان کرتے تھے کہ حضرت عمر (رض) فرماتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پھوپھی کا وارث بھتیجا ہوتا ہے لیکن پھوپھی خود وارث نہیں ہوتی ( اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما جاؤ فی العمۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : حضرت عمر (رض) نے جو یہ فرمایا کہ بھتیجا پھوپی کا وارث ہوتا ہے اور وہ اس کی وارث نہیں ہوتی۔ شاید یہ اس لیے فرمایا ہے کہ بھتیجا اس کے ورثہ میں حصہ دار ہے اور پھوپہی اس کے ورثہ میں شریک نہیں کہ وہ ذو سہمہ یعنی حصہ دار نہیں۔ اور ہم حضرت عمر علی بن ابی طالب اور ابن مسعود (رض) عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ ان حضرات نے فرمایا کہ اس صورت میں جبکہ کوئی اور ذو سہم اور عصبہ موجود نہ ہو تو خالہ کو ایک تہائی اور پھوپھی کو دو تہائی ترکہ ملے گا۔ رہی وہ روایت جو اہل مدینہ بیان کرتے ہیں۔ اسے مخالف رد نہیں کرسکتے کیونکہ جب ثابت بن دحداح (رض) کا انتقال ہوا اور ان کا وارث کوئی نہ ٹہا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بھانجے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو ترکہ دلایا۔ اور ابن شہاب تو پھوپھی، خالہ اور تمام ذی الارحام کو ان کی قرابت کے لحاظ سے ورثہ دلاتے تھے۔ اور وہ اہل مدینہ میں بڑے فقیہ اور روایت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔

724

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَنْظَلَةَ بْنِ عَجْلانَ الزُّرَقِيِّ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ مَوْلًى لِقُرَيْشٍ كَانَ قَدِيمًا يُقَالُ لَهُ ابْنُ مِرْسٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا صَلَّى صَلاةَ الظُّهْرِ قَالَ: يَا يَرْفَأُ، هَلُمَّ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِكِتَابٍ كَانَ كَتَبَهُ فِي شَأْنِ الْعَمَّةِ يُسْأَلُ عَنْهُ، وَيَسْتَخْبِرُ اللَّهَ، هَلْ لَهَا مِنْ شَيْءٍ؟ فَأَتَى بِهِ يَرْفَأُ، ثُمَّ دَعَا بِتَوْرٍ فِيهِ مَاءٌ أَوْ قَدَحٍ، فَمَحَا ذَلِكَ الْكِتَابَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ رَضِيَكِ اللَّهُ أَقَرَّكِ، لَوْ رَضِيَكِ اللَّهُ أَقَرَّكِ
عبد الرحمن بن حنظلہ بن عجلان زرقی نے بیان کیا کہ مجھے قریش کے ایک ضعیف العمر آزاد کردہ غلام ابن مرسی نے بتلایا کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا۔ جب کہ آپ ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے اپنے خادم یرفاء کو فرمایا۔ اے یرفاء وہ کتاب لے آؤ۔ وہ ترحیر يپ نے پھوپھی کی ورثات کے سلسلہ میں تحریر کی تھے۔ تکہ اس کے متعلق لوگوں سے یاستفسار کریں۔ اور اللہ تعالیٰ سے استخارہ کریں کہ کیا پھوپھی کا کچھ حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ یرفاء وہ کتاب اٹھالائے پھر آپ نے پانی کا ایک تھال منگوایا اور اس سے اس کتاب پر لکھی تحریر کو دھوڈالا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی تو تیرا حصہ قائم کردیتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی تو تیرا حصہ نہ مٹاتا۔ (یہ اثر امام مالک نے الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ باب ما جاء فی العمہ میں ذکر کیا ہے)

725

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا تَقْسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ»
اعرج (رح) ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں۔ کہ میری وراثت ایک ایک دینار کی صورت تقتسیم نہ ہوگی جو میں نے اپنے بعد چھوڑا اس میں سے میری ازواج کے خرچہ جات اور عمال کی تنخواہوں کے علاوہ جو کچھ ہے وہ صدقہ ہے۔ ( ان دونوں روایات کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی ترکۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ذکر کیا ہے)

726

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ نِسَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَ مِيرَاثَهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»
اعرج بن زبیر (رح) حضرت عائشہ (رض) عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا۔ تو ازواج مطہرات نے حضرت عثمان (رض) کو حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں بھیجنے کا ارادہ کیا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ان کو حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانی نہیں کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

727

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ، وَالْكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ، يَتَوَارَثُونَ بِهِ، وَإِنِ اخْتَلَفَتْ مِلَلُهُمْ، يَرِثُ الْيَهُودِيُّ النَّصْرَانِيَّ، وَالنَّصْرَانِيُّ الْيَهُودِيَّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
علی بن حسین نے عمر بن عثمان (رح) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اسامہ بن زید (رض) سے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ مسلمان کافر کا وارث نہ ہوگا۔ ( اس اثر کو باب میراث اہل الملل میں امام مالک نے ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔ اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوتا ہے۔ کفر ایک متحدہ ملت ہے وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ اگر مختلف مذاہب ہوں گے تو نصرانی یہویدی کا وارث ہوگا اور یہودی نصرانی کا۔ یہی قول امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا ہے)

728

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: «وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ، وَلَمْ يَرِثْهُ عَلِيٌّ»
علی بن حسین (رح) نے نقل کیا کہ ابو طالب کے وارث عقیل اور طالب ہوئے تھے لیکن علی، (جعفر) وارث نہیں تھے۔ (اس اثر کو معمولی اختلاف کے ساتھ باب میراث اہل الملل میں ذکر کیا ہے)

729

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ، " أَنَّ الْعَاصِ بْنَ هِشَامٍ هَلَكَ وَتَرَكَ بَنِينَ لَهُ ثَلاثَةً؛ ابْنَيْنِ لأُمٍّ وَرَجُلا لِعَلَّةٍ، فَهَلَكَ أَحَدُ الِابْنَيْنِ اللَّذَيْنِ هُمَا لأُمٍّ، وَتَرَكَ مَالا وَمَوَالِيَ، فَوَرِثَهُ أَخُوهُ لأُمِّهِ وَأَبِيهِ، وَوَرِثَ مَالَهُ وَوَلاءَ مَوَالِيهِ، ثُمَّ هَلَكَ أَخُوهُ وَتَرَكَ ابْنَهُ وَأَخَاهُ لأَبِيهِ، فَقَالَ ابْنُهُ: قَدْ أَحْرَزْتُ مَا كَانَ أَبِي أَحْرَزَ مِنَ الْمَالِ وَوَلَاءِ الْمَوالِي، وَقَالَ أَخُوهُ: لَيْسَ كُلُّهُ لَكَ، إِنَّمَا أَحْرَزْتَ الْمَالَ، فَأَمَّا وَلَاءُ الْمَوَالِي فَلا، أَرَأَيْتَ لَوْ هَلَكَ أَخِي الْيَوْمَ، أَلَسْتُ أَرِثُهُ أَنَا؟ فَاخْتَصَمَا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَقَضَى لأَخِيهِ بِوَلاءِ الْمَوَالِي، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْوَلاءُ لِلأَخِ مِنَ الأَبِ دُونَ بَنِي الأَخِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن ابوبکر بن حزم (رح) نے بیان کیا کہ عبد المالک بن ابی بکر بن ہشام نے مجھے خبر دی کہ میرے والد ابوبکر نے بیان کیا کہ عاص بن ہشام کا انتقال ہوگیا۔ اور انھوں نے تین بیٹے چھوڑے۔ ان میں دو ماں کی طرف سے حقیقی بھائی تھے۔ اور ایک سوتیلا بھائی تھا۔ ان حقیقی بھائیوں میں سے بہی ایک فوت ہوگیا۔ اور اس نے مال اور آزادہ کردہ غلام چھوڑے۔ ماں باپ کی طرف حقیقی بھائی اس کے مالا، ودلاء اور آزاد کردہ غلاموں میں اس کا وارث ہوا۔ پھر اس کا بھائی فوت ہوگیا۔ اس نے ایک بیٹا اور سوتیلا بھائی چھوڑا۔ بیٹے نے کہا میں اپنے باپ اور آزاد کردہ غلاموں کی ولاء کا وارث ہوں۔ اس کے بھائی نے کہا تو ہر چیز کا مالک نہیں ہے۔ تو مال کا مالک ہے۔ مگر تو ولاء کا مالک نہیں ہے۔ اگر آج میرا بھائی فوت ہوتا تو کیا میں اس کا وارث نہ ہوتا ؟ وہ دونوں اپنا تنازعہ حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں لے گئے۔ تو آپ نے ولاء کا مالک بھاؤ کو قرار دیا۔ ( یہ وراثت ولاء کا مالک بننے والا علاتی ( باپ شریک بھائی ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ولاء علاتی بھائی کو پہنچتی ہے۔ بھائی کی موجودگی میں بھتیجے کو نہیں ملتی۔ ہم اس کو مختار قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بہی یہی قول ہے۔

730

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا عِنْدَ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ، فَاخْتَصَمَ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ جُهَيْنَةَ، وَنَفَرٌ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ جُهَيْنَةَ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، يُقَالُ لَهُ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ كُلَيْبٍ، فَمَاتَتْ، فَوَرِثَهَا ابْنُهَا وَزَوْجُهَا، وَتَرَكَتْ مَالا وَمَوَالِيًا، ثُمَّ مَاتَ ابْنُهَا، فَقَالَ وَرَثَتُهُ: لَنَا وَلَاءُ الْمَوَالِي، وَقَدْ كَانَ ابْنُهَا أَحْرَزَهُ، وَقَالَ الْجُهَنِيُّونَ: لَيْسَ كَذَلِكَ، إِنَّمَا هُوَ مَوَالِي صَاحِبَتِنَا، فَإِذَا مَاتَ وَلَدُهَا، فَلَنَا وَلاؤُهُمْ، وَنَحْنُ نَرِثُهُمْ، فَقَضَى أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ لِلْجُهَنِيِّينَ بِوَلاءِ الْمَوَالِي. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا أَيْضًا نَأْخُذُ، إِذَا انْقَرَضَ وَلَدُهَا الذُّكُورُ رَجَعَ الْوَلاءُ وَمِيرَاثُ مَنْ مَاتَ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْ مَوَالِيهَا إِلَى عَصَبَتِهَا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ میں ابان بن عثمان کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کی خدمت میں قبیلہ جہنہ کا ایک شخص يیا اور بنی حارث بن خزرج کے کچھ لوگ جھگڑتے ہوئے آئے۔ معاملہ یہ تھا کہ جہینہ کی ایک عورت بنو حارث کے ایک آدمی کے نکاح میں تھی۔ جس کا نام ابراہیم بن کلیب تھا۔ وع عورت فوت ہوگئی۔ اس نے مال اور کچھ آزاد کردہ غلام چھوڑے۔ اس کا بیٹا اور شوہر وارث ہوا۔ پھر اس کا وہ بیٹا فوت ہوگیا۔ تو اس کے وارثوں نے کہا کہ اس کی ولاء ہمیں ملے گی۔ کیونکہ اس کا بیٹا اس پر قابض تھا ۔ جہنی کہتے تھے کہ ایسا نہیں ہے۔ ولاء کے مستحق ہم ہیں۔ کیونکہ غلام ہمارے قبیلہ کی عورت کے ہیں۔ جب اس کا بیتا فوت ہوگیا ہے تو اب ولاء کے مستحق ہم ہیں۔ ابان بن عثمان (رح) نے فیصلہ کیا کہ آزاد کردہ غلاموں کی ولاء تو جہنیوں کو ملے گی ( ان دونوں آثار کو امام مالک (رح) نے باب میراث الولاء میں ذکر کیا ہے) جہنیہ والوں کو میراث عصبہ کی حیثیت سے ملی )
قول محمد (رح) یہ ہے : اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں کہ جب بیٹا فوت ہوجائے تو اس کی ولاء اور میراث ان عصبات کو جو بعد میں فوت ہوں گے ان کو ملے گی۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

731

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ عَبْدٍ لَهُ وَلَدٌ مِنَ امْرَأَةٍ حُرَّةٍ، لِمَنْ وَلاؤُهُمْ؟ قَالَ: إِنْ مَاتَ أَبُوهُمْ وَهُوَ عَبْدٌ لَمْ يُعْتَقْ، فَوَلَاؤُهُمْ لِمَوَالِي أُمِّهِمْ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَإِنْ أُعْتِقَ أَبُوهُمْ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ جَرَّ وَلاءَهُمْ، فَصَارَ وِلَايَتُهُمْ لِمَوَالِي أَبِيهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
سعید بن المسیب (رح) سے سوال کیا گیا کہ اکر ایک غلام کا لڑکا آزاد عورت کے بطن سے ہو تو اس کی ولا کا حقدار کون ہوگا ؟ تو وہ فرمانے لگے اکر ان کا باپ اس حال میں فوت ہوا جائے کہ وہ آزاد نہیں ہوا تھا تو ولاء اس کی ماں کے موالی کو ملے گی۔
(اس اثر کو باب جر العبد الولاء اذا اعتق میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ اگر ان کا والد فوت ہونے سے پہلے آزاد ہوجائے تو پھر ولاء باپ کے موالی کو ملے گی یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

732

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: «أَبَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنْ يُوَرِّثَ أَحَدًا مِنَ الأَعَاجِمِ إِلا مَا وُلِدَ فِي الْعَرَبِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يُوَرَّثُ الْحَمِيلُ الَّذِي يُسْبَى وَتُسْبَى مَعَهُ امْرَأَةٌ، فَتَقُولُ: هُوَ وَلَدِي أَوْ تَقُولُ هُوَ أَخِي، أَوْ يَقُولُ هِيَ أُخْتِي، وَلا نَسَبَ مِنَ الأَنْسَابِ يُوَرِّثُ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ إِلَّا الْوَالِدُ وَالْوَلَدُ، فَإِنَّهُ إِذَا ادَّعَى الْوَالِدُ أَنَّهُ ابْنُهُ وَصَدَّقَهُ فَهُوَ ابْنُهُ، وَلا يَحْتَاجُ فِي هَذَا إِلَى بَيِّنَةٍ إِلا أَنْ يَكُونَ الْوَلَدُ عَبْدًا فَيُكَذِّبَهُ مَوْلاهُ بِذَلِكَ، فَلا يَكُونُ ابْنَ الأَبِ مَا دَامَ عَبْدًا حَتَّى يُصَدِّقَهُ الْمَوْلَى، وَالْمَرْأَةُ إِذَا ادَّعَتِ الْوَلَدَ، وَشَهِدَتِ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ مُسْلِمَةٌ عَلَى أَنَّهَا وَلَدَتْهُ وَهُوَ يُصَدِّقُهَا وَهُوَ حُرٌّ فَهُوَ ابْنُهَا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کسی غیر عرب کو ترکہ دلانے سے انکار کردیا۔ مگر یہ کہ وہ عرب میں پیدا ہوا ہو۔ (اس اثر کو امام مالک نے باب میراث اہل الملل میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ حمیل وارث نہ ہوگا۔ حمیل سے مراد وہ بچہ ہے جو دار الحرب سے گرفتار کرے لایا جائے۔ اور اس کے استھ کوئی عورت بہی ہو اور وہ عورت دعوی کرے کہ میرا ب یٹا ہے۔ یا کہے یہ میرا بھائی ہے یا کہے کہ یہ میری بہن ہے تو محض کسی نسب کے اقرار کرنے سے گواہوں کے بغیر وہ وارث نہ ہوگا۔ سوائے باپ بیٹے کے۔ اس لیے کہ جب باپ دعوی کرے کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ اور بیٹا اس کی تصدیق کرے تو وہ اس کا بیٹا شمار ہوگا اس کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں۔ سوائے اس بات کے کہ باپ غلام ہو اور اس کا آقا اس کا انکار کرے۔ تو اس صورت میں وہ باپ کا بیٹا مار نہ ہوگا۔ جب تک مالک اس کی تصدیق نہ کرے۔ کیہ یہ اس نے جنا ہے) تو تصدیق کی صورت میں اس کا بیٹا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

733

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، هَذَا حَسَنٌ جَمِيلٌ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو۔ جس میں وصیت ضروری ہو اور وہ دو راتیں بھی ایسی گزارے کہ وصیت اس کے پاس لکہی ہوئی نہ ہو۔
قول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہے : یہی ہمارا مختار ہے۔ اور یہ بہت خوب تر بات ہے۔

734

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيَّ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: إِنَّ هَهُنَا غُلامًا يَفَاعًا مِنْ غَسَّانَ، وَوَارِثُهُ بِالشَّامِ، وَلَهُ مَالٌ، وَلَيْسَ هُنَا إِلا ابْنَةُ عَمٍّ لَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: مُرُوهُ، فَلْيُوصِ لَهَا، فَأَوْصَى لَهَا بِمَالٍ، يُقَالُ لَهُ: بِئْرُ جُشَمَ، قَالَ عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ: فَبِعْتُ ذَلِكَ الْمَالَ بِثَلاثِينَ أَلْفًا بَعْدَ ذَلِكَ، وَابْنَةُ عَمِّهِ الَّتِي أَوْصَى لَهَا هِيَ أُمُّ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ
ابوبکر بن حزم بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن سلیم زرقی نے بتلایا کہ حضرت عمر (رض) سے کہا گیا کہ مدینہ منورہ میں غسان قبیلہ کا قریب البلوغ لڑکا ہے۔ اس کے ورثاء شام میں ہیں۔ اس کے پاس مال ہے۔ اور یہاں اس کی ایک چچا زاد بہن کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ عمرو بن سلیم کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لگے اسے کہو کہ وہ اپنی چچازاد بہن کے لیے وصیت کردے۔ تو اس نے اپنی جائیداد میں سے بیئر جشم کی وصیت اپنی چچازاد بہن کے لیے کردی ۔ عمرو بن سلیم کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے وہ کنواں تیس ہزار ( دراہم) میں فروخت کیا۔ اور جس چچا زاد بہن کے حق میں اس نے وصیت کی تھی وہ عمرو بن سلیم کی وا الدہ تھیں۔

735

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَعُودُنِي مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَ مِنِّي الْوَجَعُ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلا يَرِثُنِي إِلا ابْنَةٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: «لا» ، قَالَ: فَبِالشَّطْرِ؟ قَالَ: «لا» ، قَالَ: فَبِالثُّلُثِ؟ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، أَوْ كَبِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَذَرْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى إِلا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي امْرَأَتِكَ» ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ قَالَ: «إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى إِلا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهم أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْوَصَايَا جَائِزَةٌ فِي ثُلُثِ مَالِ الْمَيِّتِ بَعْدَ قَضَاءِ دَيْنِهِ، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، فَإِنْ أَوْصَى بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَأَجَازَتْهُ الْوَرَثَةُ بَعْدَ مَوْتِهِ فَهُوَ جَائِزٌ، وَلَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَرْجِعُوا بَعْدَ إِجَازَتِهِمْ، وَإِنْ رَدُّوا، رَجَعَ ذَلِكَ إِلَى الثُّلُثِ لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ» ، فَلا يَجُوزُ لأَحَدٍ وَصِيَّةٌ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ إِلا أَنْ يُجِيزَ الْوَرَثَةُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
عامر بن سعد بن ابن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں اس وقت شدید بیمار تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ میں سخت بیمار ہوں۔ میرے پاس مال و دولت ہے۔ اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ کیا میں دو تہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ دے دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا۔ نصف دے دوں ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے پھر کہا تہائی دے دوں ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تہائی مال دے دو ۔ تہائی مال بہت زیادہ ہے یا بہت بڑا ہے۔ کثیر کا لفظ فرمایا یا کبیر کا لفظ فرمایا۔ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑو ۔ تو یہ اس سے بہتر ہے۔ کہ انھیں مفلس چھوڑو۔ اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں ۔ تم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے جو کچھ خرچ کروگے اس پر تمہیں اجر دیای جائے گا۔ یہاں تک کہ اپنی بیوی بچوں کے منہ میں جو لقمہ دیتے ہو۔ سعد کہتے ہیں کہ میں نے باگار ہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں ( اپنی بیماری کی وجہ سے) اپنے احباب سے پیچھے رہ جاؤں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم پیچھے نہیں چھوڑے جاؤ گے۔ تم جو نیک عمل اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر کرو : ے اللہ تعالیٰ اس کے سبب تمہارے درجات اور بلندیوں میں اضافہ فرمائیں گے۔ اور شاید تم پیچھے رہ جاء ( زندہ رہو) اور تمہاری وجہ سے ارللہ تعالیٰ ایک قوم ( مسلمانوں) نفع پہنچائے گا اور دوسری قوم ( کفار) کو نقصان پہنچائے گا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی) اے اللہ میرے اصاحاب کی ہجرت کو مکمل فرمادے، اور انھیں ان کی ہجرت سے ایڑیوں کے بل واپس نہ فرما۔ لیکن مصیبت زدہ تو سعد بن خولہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے افسوس ہمدردی کا اظہار فرما رہے تھے اس لیے کہ اس کی موت مکہ میں آئی) (یہ آخری فقرہ مدرج ہے اور زہری کا کلام ہے اس روایت کو باب الوصیۃ فی الثلث لا تتعدی میں امام مالک (رح) نے ذکر کی ہے)
قول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہے : کہ میت کے تہائی مال میں وصیت جائز ہے۔ اور یہ بہی قرض کی ادائی کی کے بعد ہے۔ میت کو جائز نہیں کہ وہ اس سے زائد کی وصیت کرے۔ اکر اس نے اس سے زائد کی وصیت کی اور موت کے بعد ورثاء نے اس کو جائز قرار دے دیا تو پھر دوبارہ ان کو اجازت سے رجوع جائز نہیں ہے۔ اور اکر وہ موت کے بعد رد کردیں تو پھر ثلث میں ناف ١ کردی جائے گی کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیسرا اور تیسرا بہت ہے (پس اس ارشاد کے بعد) کسی کو ثلث مال سے زائد کی وصیت جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ورثاء اس کو درست قرار دے دیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

736

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكَفِّرُ عَنْ يَمِينِهِ بِإِطْعَامِ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ، لِكُلِّ إِنْسانٍ مُدٌّ مِنْ حِنْطَةٍ، وَكَانَ يُعْتِقُ الْجَوَارِيَ إِذَا وَكَّدَ فِي الْيَمِينِ "
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) عنہما سے نقل کیا کہ وہ اپنی قسم کے کفارہ میں دس مساکین کو کھانا کھلاتے تھے۔ ہر مسکین کو ایک مد جو عنایت کرتے اور جب ایک قسم کو بار بار کہتے تو لونڈیاں آزاد کرتی تھے۔

737

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ إِذَا أَعْطَوُا الْمَسَاكِينَ فِي كَفَّارَةِ الْيَمِينِ أَعْطَوْا مُدًّا مِنْ حِنْطَةٍ بِالْمُدِّ الأَصْغَرِ، وَرَأَوْا أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُ عَنْهُمْ
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ قسم کا کفارہ دیتے ہیں تو ہر مسکین کو ایک ایک مد گندم سے دیتے اور چھوٹے مد سے دیتے اور اس کو کافی سمجھتے تھے

738

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: مَنْ حَلَفَ بِيَمِينٍ فَوَكَّدَهَا، ثُمَّ حَنَثَ، فَعَلَيْهِ عِتْقُ رَقَبَةٍ، أَوْ كِسْوَةُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ، وَمَنْ حَلَفَ بِيَمِينٍ، وَلَمْ يُؤَكِّدْهَا، فَحَنَثَ، فَعَلَيْهِ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ، لِكُلِّ مِسْكِينٍ مُدٌّ مِنْ حِنْطَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ غَدَاءً وَعَشَاءً، أَوْ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ حِنْطَةٍ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ، أَوْ شَعِيرٍ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا جس نے قسم کھائی اور اسے مؤکد کردیا پھر اسے توڑ دیا۔ تو اس پر ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ اور جس نے قسم کھاکر اسے مؤکد نہ کیا اور توڑ دیا۔ اس پر دس مساکین کا کھانا واجب بہے۔ ہر مسکین کو ایک مد گندم دے گا۔ اور جس کو اس کی استطاعت نہ ہو تین دن کے روزے رکھے۔ ( ان تینوں روایات کو امام مالک (رح) نے ابب العمل فی کفارۃ الایمان میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہے : کہ دس مساکین کو صبح و شام کھانا کھلائے یا نصف صاع گندم دے یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو دے۔

739

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا سَلامُ بْنُ سُلَيْمٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ، عَنْ يَرْفَأَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا يَرْفَأُ، إِنِّي أَنْزَلْتُ مَالَ اللَّهِ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ مَالِ الْيَتِيمِ، إِنِ احْتَجْتُ أَخَذْتُ مِنْهُ، فَإِذَا أَيْسَرْتُ رَدَدْتُهُ، وَإِنِ اسْتَغْنَيْتُ اسْتَعْفَفْتُ، وَإِنِّي قَدْ وُلِّيتُ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ أَمْرًا عَظِيمًا، فَإِذَا أَنْتَ سَمِعْتَنِي أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَلَمْ أَمْضِهَا، فَأَطْعِمْ عَنِّي عَشَرَةَ مَسَاكِينَ خَمْسَةَ أَصْوُعٍ بُرٍّ، بَيْنَ كُلِّ مِسْكِينَيْنِ صَاعٌ
ابو اسحاق سبیعی (رح) نے عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام یرفا سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اے یرفراء میں اپنے مال کو یتیم کے مال کی طرح خیال کرتا ہوں۔ اگر مجھے ضرورت ہوتی ہے تو اس میں ضرور ل ے لیتا ہوں۔ پھڑ جب خوشحالی آجاتی ہے تو دے دیتا ہوں۔ اگر میں غنی ہوتا ہوں تو اس سے بھی بچتا ہوں۔ مسلمانوں کی عظیم ذمہ داریاں میرے سپرد ہیں۔ پس اگر تم مجھے قسم کھاتے ہوئے سنو اور میں اسے پورا نہ کرسکوں تو میری طریف سے تم دس مساکین کو کھانا کھلا دینا یای پانچ صاح گندم اس طرح سے دینا کہ ہر مسکین کو نصف صاع ملے۔

740

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ يَسَارِ بْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ يَرْفَأَ غُلَامِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ لَهُ: " إِنَّ عَلَيَّ أَمْرًا مِنْ أَمْرِ النَّاسِ جَسِيمًا، فَإِذَا رَأَيْتَنِي قَدْ حَلَفْتُ عَلَى شَيْءٍ، فَأَطْعِمْ عَنِّي عَشَرَةَ مَسَاكِينَ، كُلُّ مِسْكِينٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ
یسار بن نمیر نے حضرت عمر (رض) کے آزادہ غلام یرفاء سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ مجھ پر لوگوں کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ جب تم دیکھو کہ میں نے کسی چیز کے لیے قسم کھائی تو میری طرف سے دس مساکین کو کھانا کھلا دینا۔ اس طرح کہ ہر مسکین کو نصف صاع گندم ملے۔

741

أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يَسَارِ بْنِ نُمَيْرٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ أَنْ يُكَفَّرَ عَنْ يَمِينِهِ بِنِصْفِ صَاعٍ لِكُلِّ مِسْكِينٍ "
یسار بن نمیر (رح) نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا کہ ان کی قسم کا کفارہ ہر مسکین کو نصف صاع دیا جائے۔

742

أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: فِي كُلِّ شَيْءٍ مِنَ الْكَفَّارَاتِ فِيهِ إِطْعَامُ الْمَسَاكِينِ، نِصْفُ صَاعٍ لِكُلِّ مِسْكِينٍ
مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ ہر قسم کی قسم کا کفارہ مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ اور ہر مسکین کو نصف صاع دیا جائے۔

743

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ عَنْ جَدَّتِهِ، أَنَّهَا كَانَت جَعَلَتْ عَلَيْهَا مَشْيًا إِلَى مَسْجِدِ قُبَاءَ، فَمَاتَتْ، وَلَمْ تَقْضِهِ، فَأَفْتَى ابْنُ عَبَّاسٍ ابْنَتَهَا أَنْ تَمْشِيَ عَنْهَا "
عبداللہ بن ابی بکر کی دادی نے مسجد قباء تک پیدل جانے کی نذر مانی تہی لیکن وہ فوت ہوگئیں۔ اور اپنی نذر پوری نہ کرسکیں۔ ابن عباس (رض) نے ان کی لڑکی کو فرمایا کہ ماں کی طرف سے قبا تک پیدل چلی جا۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے ما یجب من النذور فی المشی میں ذکر کیا ہے)

744

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حَبِيبَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِرَجُلٍ، وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ، لَيْسَ عَلَى الرَّجُلِ يَقُولُ: عَلَيَّ الْمَشْيُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلا يُسَمِّي نَذْرًا شَيْءٌ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُعْطِيَكَ هَذَا الْجَرْوَ، لِجَرْوِ قِثَّاءٍ فِي يَدِهِ، وَتَقُولُ: عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ تَعَالَى؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقُلْتُهُ، فَمَكَثْتُ حِينًا حَتَّى عَقَلْتُ، فَقِيلَ لِي: إِنَّ عَلَيْكَ مَشْيًا، فَجِئْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: عَلَيْكَ مَشْيٌ، فَمَشَيْتُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ جَعَلَ عَلَيْهِ الْمَشْيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ لَزِمَهُ الْمَشْيُ إِنْ جَعَلَهُ نَذْرًا، أَوْ غَيْرَ نَذْرٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
عبداللہ بن ابی حبیبہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنی کم عمر میں ایک شخص سے کہا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مجھ پر خانہ کعبہ تک پیدل جانا واجب ہے اور وہ یوں نہ کہے۔ کہ مجھ پر نذر واجب ہے۔ تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا۔ اس شخص نے کہا میرے ہاتھ میں یہ لکڑی ہے یہ تمہیں دیتا ہوں (لکڑی اس کے ہاتھ میں تھے) تم یہ کہہ دو کہ خانہ کعبہ تک پیدل جانا مجھ پر واجب ہے۔ میں نے کہا ہاں، اور میں کچھ دیر تھہرا یہاں تک کہ مجھے عقل آئی تو لوگوں نے کجھے کہا کہ بیت اللہ تک پیدل جانا تم پر واجب ہوگیا ۔ چنانچہ میں نے سعید بن المسیب (رح) کی خدمت میں حاضری دی اور ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا تم پر پیدل جانا ہوگیا۔ چنانچہ میں پیدل چل کر گیا۔
(اس روایت کو باب ما جاء فی من نذر مشیا الی بیت اللہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جو آدمی خانہ کعبہ تک پیدل جانا اپنے اور پر لازم کرے خواہ وہ نذر کے طور پر ہو یا بلا نذر ہو۔ اس پر خانہ کعبہ تک پیدل جانا واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

745

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ أُذَيْنَةَ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ جَدَّةٍ لِي عَلَيْهَا مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَجَزَتْ، فَأَرْسَلَتْ مَوْلًى لَهَا إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ لِيَسْأَلَهُ، وَخَرَجْتُ مَعَ الْمَوْلَى، فَسَأَلَهُ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: مُرْهَا، فَلْتَرْكَبْ، ثُمَّ لِتَمْشِ مِنْ حَيْثُ عَجَزَتْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ قَالَ هَذَا قَوْمٌ، وَأَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ هَذَا الْقَوْلِ مَا رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
عروہ بن اذینہ کہتے ہیں کہ میں اپنی دادی کے ساتھ روانہ ہوا۔ انھوں نے خانہ کعبہ تک پیدل چلنے کی نذر مان رکھی تھی۔ ابھی ہم راستہ میں تھے کہ کہ وہ تھک گئیں۔ انھوں نے اپنے آزاد کردہ غلام کو ابن عمر (رض) کی خدمت میں مسئلہ دریافت کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ اور میں بہی اس کے ساتھ گیا غلام نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا اسے کہو کہ اب سوار ہوجائے۔ جہاں تھک گئی تھی، واپسی پر وہاں سے پیدل چلے ( اس روایت کو باب ما جاء فی من نذر مشیا الی بیت اللہ میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ ایک جماعت کا قول ہے۔ اور ہمیں اس قول سے زیادہ وہ روایت پسند ہے جو حضرت علی (رض) سے مروی ہے جو درج ذیل ہے۔

746

أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ نَذَرَ أَنْ يَحُجَّ مَاشِيًا، ثُمَّ عَجَزَ فَلْيَرْكَبْ، وَلْيَحُجَّ، وَلْيَنْحَرْ بَدَنَةً وَجَاءَ عَنْهُ فِي حَدِيثٍ آخَرَ وَيُهْدِي هَدْيًا. فَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَكُونُ الْهَدْيُ مَكَانَ الْمَشْيِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابراہیم نخعی (رح) نے حضرت علی (رض) کا ارشاد نقل کیا کہ جس نے پیدل چل کر حج کی نذر مانی پھر وہ پیدل نہ جاسکے تو سوار ہو کر وہ حج کرے اور ایک بدنہ کی وہ قربانی دے اور ان سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ ایک ہدی بھیج دے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ہدی اس کے پیدل چلنے کے قائم مقام ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

747

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ عَلَيَّ مَشْيٌ، فَأَصَابَتْنِي خَاصِرَةٌ، فَرَكِبْتُ حَتَّى أَتَيْتُ مَكَّةَ، فَسَأَلْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرَهُ، فَقَالُوا: عَلَيْكَ هَدْيٌ، فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ سَأَلْتُ، فَأَمَرُونِي أَنْ أَمْشِيَ مِنْ حَيْثُ عَجَزْتُ مَرَّةً أُخْرَى، فَمَشَيْتُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ عَطَاءٍ نَأْخُذُ، يَرْكَبُ وَعَلَيْهِ هَدْيٌ لِرُكُوبِهِ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ أَنْ يَعُودَ
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر پیدل چلنا واجب تھا۔ میری کمر میں درد ہوگیا تو میں سوار ہو کیا۔ مکہ مکرمہ پہنچا تو میں نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے دریافت کیا انھوں نے کہا تم پر ہدی واجب ہے۔ پھر جب میں مدینہ منورہ آیا تو میں نے لوگوں سے اس بارہ میں دریافت کیا۔ انھوں نے مجھے بتلایا کہ میں جس جگہ سے مجبور ہو کیا تھا۔ وہاں سے دو باہ پیدل چل کر جاؤں۔ چنانچہ میں پیدل چل کر گیا۔
محمد کہتے ہیں کہ ہم عطاء کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ اور سوار ہونے کی وجہ سے اس پر ہدی لازم ہے۔ اس پر دوبارہ پیدال چلنا لازم نہیں۔

748

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: مَنْ قَالَ وَاللَّهِ، ثُمّ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ لَمْ يَفْعَلِ الَّذِي عَلَيْهِ لَمْ يَحْنَثْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَوَصَلَهَا بِيَمِينِهِ، فَلا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا جس نے قسم کھائی اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ کہہ لیا اور قسم پوری نہ کرسکا تو وہ قسم توڑنے والا شمار نہ ہوگا۔ ( اس روایت کو باب ما لا یجب فیہ الکفارۃ من الایمان میں ذکر کیا ہے)

749

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ لَمْ تَقْضِهِ، قَالَ: «اقْضِهِ عَنْهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَا كَانَ مِنْ نَذْرٍ، أَوْ صَدَقَةٍ، أَوْ حَجٍّ قَضَاهَا عَنْهَا أَجْزَأَ ذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى: وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
عبید اللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی کہ سعد بن عبادہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میری والدہ فوت ہوگئیں اور ان پر نذر واجب تھی۔ جسے وہ پورا نہیں کرسکی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم اس طرح سے پوری کرد ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما یجب من النذور فی المشی میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : جس شخص کے ذمہ کوئی نذر یا صدقہ یا حج واجب ہو اور کوئی دوسرا اس کی طرف سے پورا کردے تو یہ ان شاء اللہ تعالیٰ کافی ہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

750

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلا يَعْصِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ نَذَرَ نَذْرًا فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَمْ يُسَمِّ، فَلْيُطِعِ اللَّهَ، وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
قاسم بن محمد (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے روایت کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی وہ اسے پورا کرے اور جس نے اس کی نافرمانی کی نذر مانی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جس آدمی نے کسی معصیت کی نذر مان لی اور اس کا تعین نہیں کیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور قسم کا کفارہ ادا کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

751

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، يَقُولُ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ ابْنِي، فَقَالَ: لا تَنْحَرِي ابْنَكِ، وَكَفِّرِي عَنْ يَمِينِكِ، فَقَالَ شَيْخٌ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَالِسٌ: كَيْفَ يَكُونُ فِي هَذَا كَفَّارَةٌ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ: {وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ} [المجادلة: 3] ، ثُمَّ جَعَلَ فِيهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ مَا قَدْ رَأَيْتَ؟ ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَأْخُذُ، وَهَذَا مِمَّا وَصَفْتُ لَكَ أَنَّهُ مَنْ حَلَفَ، أَوْ نَذَرَ نَذْرًا فِي مَعْصِيَةٍ، فَلا يَعْصِيَنَّ، وَلْيُكَفِّرَنَّ، عَنْ يَمِينِهِ
قاسم بن محمد (رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ابن عباس (رض) کی خدمت میں آئی ۔ اور کہنے لگی میں نے نذر مانی ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کروں گی۔ آپ نے فرمایا تو اپنے بیٹے کو ذبح نہ کر بلکہ اپنی قسم کا کفارہ دے دیی۔ ابن عباس (رض) کے پاس ایک بوڑہھا بیٹھا تھا اس نے کہا اس میں کفارہ کیسے ہوگا ؟ ( گناہ کی قسم لغو ہوتی ہے اس پر کفارہ نہیں ہوتا) ابن عباس (رض) نے فرمایا تم غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ و الذین یظاہرون من نساء ہم پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے کفارہ مقرر فرمایا ہے۔ ( اس روایت کو باب ما لا یجوز من النذور فی معصیۃ اللہ میں نقل کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم ابن عباس کے قول کو اختیار کرتے ہیں اور وہ وہی ہے جو میں نے تمہیں پہلے بیان کیا کہ جس نے قسم اٹھالی یا معصیت کی نذر مانی وہ ہرگز معصیت نہ کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے ۔
( اس روایت کو باب ما یجب فیہ الکفارۃ عن الایمان میں ذکر کیا ہے) ۔

752

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَفْعَلْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
ابوہریرہ (رض) نے روایت نقل فرمائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جس شخص نے کسی بات پر قسم اٹھائی پھر اس سے بہتر کوئی اور بات معلوم ہوگئی تو وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور وہ کام کرلے۔ ( اب روایت کو باب ما یجب فیہ الکفارۃ من الایمان میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

753

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَقُولُ: لا وَأَبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، ثُمَّ لِيَبْرُرْ، أَوْ لِيَصْمُتْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يَحْلِفَ بِأَبِيهِ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، ثُمَّ لِيَبْرُرْ، أَوْ لِيَصْمُتْ
ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کو لا وابی کے الفاظ قسم کے موقعہ پر استعمال کرتے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں آباؤ اداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے۔ جو شخص قسم کھانا چاہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے۔ پھر وہ اسے پوری کرے یا ی خاموش رہے ( قسم نہ اٹھائے) ( اس روایت کو باب جامع الایمان میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہی ہے : اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے باپ کی قسم کھائے جس کو قسم کھانی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے۔ بھر قسم پوری کرے یا خاموش رہے ( قسم نہ اٹھائے)

754

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى مِنْ وُلْدِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَجَبِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: فِيمَنْ قَالَ: مَالِي فِي رِتَاجِ الْكَعْبَةِ، يُكَفِّرُ ذَلِكَ بِمَا يُكَفِّرُ الْيَمِينَ. [ص:266] قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ بَلَغَنَا هَذَا عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. وَأَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ يَفِيَ بِمَا جَعَلَ عَلَى نَفْسِهِ، فَيَتَصَدَّقُ بِذَلِكَ، وَيُمْسِكُ مَا يَقُوتُهُ، فَإِذَا أَفَادَ مَالا تَصَدَّقَ بِمِثْلِ مَا كَانَ أَمْسَكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبد الرحمن حجبی نے حضرت عائشہ (رض) عنہا سے روایت نقل کی کہ جو شخص اس طرح کہے کہ میرا مال کعبہ کے دروازہ پر وقف ہے۔ تو وہ اس کا کفارہ ادا کرے گا۔ جیسے قسم کا کفارہ ادا کرتا ہے۔ ( اس روایتی کو باب جامع الایمان میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمیں حضرت عائشہ (رض) عنہا سے یہ روایت پہنچی ہے ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ جو اس نے اپنے اوپر واجب کیا ہے۔ اسے پورا کرے۔ وہ اس رقم کو خیرات کردے اور جس قدر گزارہ کیلئے ہوسکتا ہے وہ رکھ لے۔ پھر جب فراخی ہو تو جس قدر روک لیا تھا۔ اسی قدر خیرات کردے یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

755

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: «لَغْوُ الْيَمِينِ قَوْلُ الإِنْسَانِ لا وَاللَّهِ، وَبَلَى وَاللَّهِ، وَبَلَى وَاللَّهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، اللَّغْوُ مَا حَلَفَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ أَنَّهُ حَقٌّ، فَاسْتَبَانَ لَهُ بَعْدُ أَنَّهُ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، فَهَذَا مِنَ اللَّغْوِ عِنْدَنَا
عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا لغو قسم یہ ہے کہ انسان بات بات پر قسم کھائے۔ واللہ، باللہ، بلی واللہ کہتا پھرے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب اللغو فی الیمین میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ آدمی کسی بابت کو درست سمجھ کر قسم کھائے پھر بعد میں معلوم ہو کہ ہحق اس کے خلاف تھا۔ د تو ہمارے ہاں یہ یمین لغو ہے۔

756

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «رَخَّصَ لِصَاحِبِ الْعَرِيَّةِ أَنْ يَبِيعَهَا بِخِرْصِهَا»
ابن عمر (رض) نے زید بن ثابت (رض) کی وساطت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ل کا ارشاد نقل کیا ہے۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاحب عریہ کو اٹکل سے فروخت کی اجازت مرحمت فرمائی۔

757

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ» . شَكَّ دَاوُدُ، لا يَدْرِي أَقَالَ خَمْسَةً، أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةٍ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَذَكَرَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ أَنَّ الْعَرِيَّةَ إِنَّمَا تَكُونُ أَنَّ الرَّجُلَ يَكُونُ لَهُ النَّخْلُ، فَيُطْعِمُ الرَّجُلَ مِنْهَا ثَمَرَةَ نَخْلَةٍ أَوْ نَخْلَتَيْنِ يَلْقُطُهَا لِعِيَالِهِ، ثُمَّ يَثْقُلُ عَلَيْهِ دُخُولُهُ حَائِطَهُ، فَيَسْأَلُهُ أَنْ يَتَجَاوَزَ لَهُ عَنْهَا عَلَى أَنْ يُعْطِيَهُ بِمَكِيلَتِهَا تَمْرًا عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ، فَهَذَا كُلُّهُ لا بَأْسَ بِهِ عِنْدَنَا، لأَنَّ التَّمْرَ كُلَّهُ كَانَ لِلأَوَّلِ، وَهُوَ يُعْطِي مِنْهُ مَا شَاءَ، فَإِنْ شَاءَ سَلَّمَ لَهُ تَمْرَ النَّخْلِ، وَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهَا بَمَكِيلَتِهَا مِنَ التَّمْرِ، لأَنَّ هَذَا لا يُجْعَلُ بَيْعًا، وَلَوْ جُعِلَ بَيْعًا، مَا حَلَّ تَمْرٌ بِتَمْرٍ إِلَى أَجَلٍ
ابو سفیان غلام نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ وصق میں یا کم میں بیع عرایا کی اجازت دی ہے۔ داؤد کو شک ہے کہ سفیان نے پانچ وسق کہا یا پانچ سے کم کہا۔ (ان دونوں روایات کو امام مالک (رح) نے مؤطاء میں باب ما جائی فی بیع العریۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام مالک (رح) نے عریہ کی تعریف یہ کی ہے کہ کسی شخص کے پاس کھجور کا درخت ہو۔ وہ کسی محتاج کو ایک یا جو کھجور کے درختوں کا پھل اس کے بیوی بچوں کے لیے دے دے پھر اسے اس کا باغ میں بار بار آنا پسند نہ آئے تو وہ اس شخص سے کہے کہ وہ پہل توڑنے کے وقت برابر وزن کے کے کھجور اس محتاج کو دے دے گا۔ ان تمام صورتوں میں ہمارے ہاں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ دینے والا خود کھجور کا مالک ہے خواہ اس کے برابر خشک کرکے ماپ کردے۔ یہ فروخت نہیں ہے۔ اگر بطور بیع دے دے تو کھجور کی بیع کھجور کے عوض مہلت کے ساتھ جائز نہیں ہے۔

758

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلاحُهَا، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ»
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فروخت کرنے والے اور خریدار دونوں کو پھلوں کے فروخت کرنے سے منع فرمایا دیا جب تک کہ پھل پختہ یا اس کا فا ائدہ ظاہر نہ ہو۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب النہی عن بیع الثماء میں ذکر کیا ہے) ۔

759

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الرِّجَالِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي أَنْ يُبَاعَ شَيْءٌ مِنَ الثِّمَارِ عَلَى أَنْ يُتْرَكَ فِي النَّخْلِ حَتَّى يَبْلُغَ، إِلا أَنْ يَحْمَرَّ أَوْ يَصْفَرَّ، أَوْ يَبْلُغَ بَعْضُهُ، فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَلا بَأْسَ بِبَيْعِهِ عَلَى أَنْ يُتْرَكَ حَتَّى يَبْلُغَ، فَإِذَا لَمْ يَحْمَرَّ أَوْ يَصْفَرَّ، أَوْ كَانَ أَخْضَرَ، أَوْ كَانَ كُفَرَّى، فَلا خَيْرَ فِي شِرَائِهِ عَلَى أَنْ يُتْرَكَ حَتَّى يَبْلُغَ، وَلا بَأْسَ بِشِرَائِهِ عَلَى أَنْ يُقْطَعَ وَيُبَاعَ. وَكَذَلِكَ بَلَغَنَا عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ: لا بَأْسَ بِبَيْعِ الْكُفُرَّى عَلَى أَنْ يُقْطَعَ، فَبِهَذَا نَأْخُذُ
عمرہ بنت عبد الرحمن بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھلوں کی فروخت سے منع فرمایا ہے۔ جب تک کہ وہ آفات سے محفوز نہ ہوجائیں۔
(اس روایت کو باب النہی عن بیع الثمار میں امام مالک لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ نامناسب ہے کہ پھلوں کو سرخ یا زرد ہونے سے پہلے درختوں پر فروخت کردیا جائے۔ جب وہ سرخ یا زرد ہوجائیں یا ان میں سے کچھ پک جائیں تو اس شرط بر ان کو فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ تیار ہونے کے وقت تک انھیں درخت پر چھوڑ دے گا۔ چنانچہ اگر سرخ یا زرد نہ ہوا ہو یا سبز ہو یا ابھی نکلا نہ ہو تو اس شرط پر خریدنے میں کوئی بھلائی نہیں کہ پکنے کے وقت تک درخت پر ہی چھوڑ دے گا۔ لیکن کاٹ کر اگر کچا پھل فرخت کردے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جس بصری (رح) سے ہمیں اس طرح روایت ملی ہے کہ فورا نکلے ہوئے پھل کو کاٹ کر فروخت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں۔

760

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ كَانَ لا يَبِيعُ ثِمَارَهُ حَتَّى يَطْلُعَ الثُّرَيَّا يَعْنِي بَيْعَ النَّخْلِ "
خارجہ بن زید نے زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا وہ اپنا پھل فروخت نہیں کرتے تھے۔ جب تک ثریا ستارہ ظاہر نہ ہوجاتا ۔ ( یہ کھجور کے تیار ہونے کا زمانہ ہے)
(اس اثر کو باب النہی من بیع الثمار میں ذکر کیا گیا ہے)

761

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ بَاعَ حَائِطًا لَهُ يُقَالُ لَهُ: الأَفْرَاقُ بِأَرْبَعَةِ آلافِ دِرْهَمٍ، وَاسْتَثْنَى مِنْهُ بِثَمَانِي مِائَةِ دِرْهَمٍ تَمْرًا
ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ محمد بن حزم نے اپنا باغ جس کا نام افر اق تھا چار ہزار درہم میں فروخت کیا اور اس میں سی آٹھ سو درہم کی کھجوریں مستثني کرلیں۔

762

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الرِّجَالِ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا كَانَتْ تَبِيعُ ثِمَارَهَا وَتَسْتَثْنِي مِنْهَا.
عمرہ بنت عبد الرحمن (رض) عنہا اپنے پھل فروخت کرتیں تو اس میں سے کچھ مستثنی کر لتیں تھیں۔

763

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا رَبِيعَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ كَانَ يَبِيعُ وَيَسْتَثْنِي مِنْهَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ ثَمَرَهُ وَيَسْتَثْنِيَ بَعْضَهُ، إِذَا اسْتَثْنَى شَيْئًا مِنْ جُمْلَتِهِ رُبْعًا أَوْ خُمْسًا أَوْ سُدْسًا.
قاسم بن محمد (رح) اپنا پھل فروخت کرتے اور اس میں سے مستثنی کرلیتے تھے۔ ( ان تینوں آثارکو امام مالک باب ما یجوز من استثناء الثمر میں لائے ہیں) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی آدمی اپنا باغ فروخت کرے اور اس میں سے کچھ مستثنی کرلے بشطی کہ اس کی مقدار معلوم ہو۔ کہ مجمو عہ میں سے چوتھا یا پانچواں یا چھٹا وغیرہ مستثنی ہوگا۔

764

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ مَوْلًى لِبَنِي زُهْرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَمَّنِ اشْتَرَى الْبَيْضَاءَ بِالسُّلْتِ؟ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْبَيْضَاءُ، قَالَ: فَنَهَانِي عَنْهُ، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّنِ اشْتَرَى التَّمْرَ بِالرُّطَبِ؟ فَقَالَ: «أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ» ؟ قَالُوا: نَعَمْ، «فَنَهَى عَنْهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا خَيْرَ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ قَفِيزَ رُطَبٍ بِقَفِيزٍ مِنْ تَمْرٍ، يَدًا بِيَدٍ، لأَنَّ الرُّطَبَ يَنْقُصُ إِذَا جَفَّ، فَيَصِيرُ أَقَلَّ مِنْ قَفِيزٍ، فَلِذَلِكَ فَسَدَ الْبَيْعُ فِيهِ
عبداللہ بن یزید بیان کرتے ہیں کہ بنی زہرہ کے غلام زید ابو عیاش نے مجھے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے جو کہ غلہ کے بدلے فروخت کرنے کے متعلق دریافت کیا۔ سعد نے سوال کیا کہ ان میں سے بہتر کو نسان ہے ؟ میں نے کہا بیضا بہہتر ہے۔ تو سعد نے مجھے اس سے منع کردیا۔ اور کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تر کھجور کے بدلے خشک کھجور خریدنے کا سوال کیا گیا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کیا تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہوجاتی ہے ؟ لوگوں نے کہا۔ جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فروخت سے منع فرمایا۔ ( اس روایت کو باب ما یکرہ من بیع التمر میں امام مالک لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے کہ ایک شخص ایک قفیز تر کھجور کے دے کر ایک قفیز خشک کھجور کا لے۔ کیونکہ تر کھجور خشک ہو کر ایک قفیز سے کم رہ جائے گی۔ اس لیے یہ بیع فاسد ہوجاتی ہے۔

765

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، ابْتَاعَ طَعَامًا أَمَرَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِلنَّاسِ، فَبَاعَ حَكِيمٌ الطَّعَامَ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَهُ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، وَقَالَ: «لا تَبِعْ طَعَامًا ابْتَعْتَهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَهُ»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ حکیم بن حزام (رض) نے وہ غلہ خریدا جو حضرت عمر (رض) نے لوگوں کے لیے خریدنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن حکیم (رض) نے قبضہ سے قبل اس کو فروخت کردیا۔ حضرت عمر (رض) کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے بیع کو رد کردیا اور فرمایا جو غلہ خریدا کرو اس کو قبضہ سے پہلے فروخت مت کرو۔

766

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلا يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَكَذَلِكَ كُلُّ شَيْءٍ بِيعَ مِنْ طَعَامٍ أَوْ غَيْرِهِ فَلا يَنْبَغِي أَنْ يَبِيعَهُ الَّذِي اشْتَرَاهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ، وَكَذَلِكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَمَّا الَّذِي نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ فَهُوَ الطَّعَامُ أَنْ يُبَاعَ حَتَّى يُقْبَضَ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلا أَحْسَبُ كُلَّ شَيْءٍ إِلا مِثْلَ ذَلِكَ. فَبِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَأْخُذُ، الْأَشْيَاءُ كُلُّهَا مِثْلُ الطَّعَامِ، لا يَنْبَغِي أَنْ يَبِيعَ الْمُشْتَرِي شَيْئًا اشْتَرَاهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ، وَكَذَلِكَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ إِلا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الدُّورِ وَالْعَقَارِ وَالأَرَضِينَ الَّتِي لا تُحَوَّلُ أَنْ تُبَاعَ قَبْلَ أَنْ تُقْبَضَ، أَمَّا نَحْنُ فَلا نُجِيزُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ حَتَّى يُقْبَضَ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ حو شخص غلہ خریدے جب تک وہ قبضہ نہ کرے وہ اسے فروخت نہ کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا مختار یہی ہے۔ اسی طرح غلہ ہو یا اور کوئی چیز۔ مناسب نہیں کہ خرید کر قبضلہ کرنے کے بغیر اس کو فروخت کردیا جائے۔ ابن عباس (رض) نے بہی یہی کہا ہے کہ جس شے کو قبضہ سے پہـلے فروخت کرلے اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اگرچہ یہ غلہ کے متعلق ہے مگر ہم تمام اشیاء کو اسی طرح تصور کرتے ہیں۔ تمام اشیاء ( منقولہ) کو خریدار کے قبضہ کرنے کے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا بہی یہی قول ہے۔ مگر انھوں نے غیر منقولہ اشیائ ( مکان، زمین وغیرہ) قبضہ سے پہلے فروخت کی اجازت دی ہے۔ مگر ہم ان چیزوں میں بھی کسی چیز کو قبضہ کے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں سمجھتے۔

767

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا نَبْتَاعُ الطَّعَامَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَبَعَثَ عَلَيْنَا مَنْ يَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِهِ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي نَبْتَاعُهُ فِيهِ إِلَى مَكَانٍ سِوَاهُ قَبْلَ أَنْ نَبِيعَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا كَانَ يُرَادُ بِهَذَا الْقَبْضُ، لِئَلَّا يَبِيعَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ حَتَّى يَقْبِضَهُ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يَبِيعَ شَيْئًا اشْتَرَاهُ رَجُلٌ حَتَّى يَقْبِضَهُ
نافع (رح) ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں دست بدست غلہ خریدتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نی ہمارے پاس ایک آدمی بھیجا کہ غلہ کو فروخت سے قبل اپنی جگہ سے منتقل کروالیں۔
(اس باب کی تمام روایت کو امام مالک (رح) باب العینۃ و ما یشبہا میں لاتے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس سے مراد قرضہ ہے۔ تاکہ کوئی شخص قبضہ سے پہلے کوئی چیز فروخت نہ کرے۔ کیونکہ کسی شخص کے لیے قبضہ سے قبل فروخت کرنا جائز نہیں۔

768

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي صَالِحِ بْنِ عُبَيْدٍ مَوْلَى السَّفَّاحِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَاعَ بَزًّا مِنْ أَهْلِ دَارِ نَخْلَةَ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ أَرَادُوا الْخُرُوجَ إِلَى كُوفَةَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَنْقُدُوهُ، وَيَضَعُ عَنْهُمْ، فَسَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، فَقَالَ: لا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَ ذَلِكَ وَلا تُوَكِّلَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ وَجَبَ لَهُ دَيْنٌ عَلَى إِنْسَانٍ إِلَى أَجَلٍ فَسَأَلَ أَنْ يَضَعَ عَنْهُ وَيُعَجِّلَ لَهُ مَا بَقِيَ لَمْ يَنْبَغِ ذَلِكَ، لأَنَّهُ يُعَجِّلُ قَلِيلا بِكَثِيرٍ دَيْنًا، فَكَأَنَّهُ يَبِيعُ قَلِيلا نَقْدًا بِكَثِيرٍ دَيْنًا. وَهُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
ابو صالح بن عبید احمد اللہ نے بیان کیا کہ ہم نے دار نخلہ والوں سے ایک مقررہ وعدہ ٩ پر کپڑا خریدا۔ وہ کوفہ جانے لگے تو ان سے کہا اگر قیمت کچھ کم کردو تو نقد ادا کردیتا ہوں۔ پھر زید بن ثابت (رض) سے مسئفلہ دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا میں تمہیں اس کے نہ کھانے کی اجازت دیتا ہوں اور نہ کھلانے کی۔ (اس روایت باب ماجاء فی الربا فی الدین میں امام مالک (رح) لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جس شخص پر کوئی قرض ہو۔ اور ادائیگی کی مدت مقرر ہو ار قرض دار کہے اگر تم کچھ کم کردو تو بقایا نقد ادا کردیتا ہوں تو یہ جائز نہیں کیونکہ جلدی جلدی کی غرض سے وہ زیادہ کی بجائے تھوڑا عوض لے گا گویا اس نے قرض کی عوض تھورا نقد خریدا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

769

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَنِيَ عَلَفُ دَابَّتِهِ، فَقَالَ لِغُلامِهِ: خُذْ مِنْ حِنْطَةِ أَهْلِكَ فَاشْتَرِ بِهِ شَعِيرًا، وَلا تَأْخُذْ إِلا مِثْلًا بِمِثْلٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَرَى بَأْسًا بِأَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ قَفِيزَيْنِ مِنْ شَعِيرٍ بِقَفِيزٍ مِنْ حِنْطَةٍ يَدًا بِيَدٍ. وَالْحَدِيثُ الْمَعْرُوفُ فِي ذَلِكَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلا بِمِثْلٍ، وَالْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلا بِمِثْلٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلا بِمِثْلٍ، وَلا بَأْسَ بِأَنْ يَأْخُذَ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ وَالْفِضَّةُ أَكْثَرُ، وَلا بَأْسَ بِأَنْ يَأْخُذَ الْحِنْطَةَ بِالشَّعِيرِ، وَالشَّعِيرُ أَكْثَرُ يَدًا بِيَدٍ» . فِي ذَلِكَ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ مَعْرُوفَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سلیمان بن یسار (رح) نے بتایا کہ عبد الرحمن بن اسود بن عبد یغوث کی سواری کے جانور کا چارہ ختم ہوگیا۔ تو اس نے اپنے غلام کو کہا کہ گہر سے گندم لے جاء اور اس کے بدلے برابر برابر جو خردی لا کم یاد زیادہ نہ ہوں۔
(اس روایت کو باب بیع الطعام بالطعام میں امام مالک لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص دست بدست ایک قفیز گندم کے بدلے دو قفیز جو خریدے ۔ اس کے متعلق عبادہ بن صامت رضی اللالہ عنہ کی مشہور روایت ہے۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے اور جو جو کے بدلے برابر برابر فروخت کرے اور خریدے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص سونا زیادہ چاندی کے بدلے اور گندم زیادہ جو کے بدلے دست بدست خریدے۔ اس کے متعلق اور بہت سے مشہور روایات ہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

770

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، وَسُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ كَانَا يَكْرَهَانِ أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ بِذَهَبٍ، ثُمَّ يَشْتَرِي بِذَلِكَ الذَّهَبِ تَمْرًا قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهَا. قَالَ مُحَمَدٌّ: وَنَحْنُ لا نَرَى بَأْسًا أَنْ يَشْتَرِيَ بِهَا تَمْرًا قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهَا إِذَا كَانَ التَّمْرُ بِعَيْنِهِ، وَلَمْ يَكُنْ دَيْنًا. وَقَدْ ذُكِرَ هَذَا الْقَوْلُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَلَمْ يَرَهُ شَيْئًا، وَقَالَ: لا بَأْسَ بِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو الزناد کہتے ہیں کہ سلیمان بن یسار اور سعید بن المسیب رحمہا اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے۔ کہ کوئی شخص غلہ سونے کے عوض فروخت کرے پھر اس سونے پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی کھجور خریدلے۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما یکرہ من بیع الطعام الی اجل میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس میں کوئی حرج نہیں خیال کرتے کہ کوئی شخص قبضہ کرنے سے پہلے اس کے عوض کھجور خریدے۔ بشرطیکہ کھجور موجود ہو۔ اور ادھار نہ ہو۔ یہ قول سعید بن جبیر (رح) کا ہے۔ انھوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا اور فرمایا کہ اس میں کچھ قباحت نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

771

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ تَلَقِّي السِّلَعِ حَتَّى تَهْبِطَ الأَسْوَاقَ، وَنَهَى عَنِ النَّجَشِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، كُلُّ ذَلِكَ مَكْرُوهٌ، فَأَمَّا النَّجْشُ فَالرَّجُلُ يَحْضُرُ، فَيَزِيدُ فِي الثَّمَنِ، وَيُعْطِي فِيهِ مَا لا يُرِيدُ أَنْ يَشْتَرِيَ بِهِ لِيُسْمِعَ بِذَلِكَ غَيْرَهُ، فَيَشْتَرِيَ عَلَى سَوْمِهِ، فَهَذَا لا يَنْبَغِي، وَأَمَّا تَلَقِّي السِّلَعِ، فَكُلُّ أَرْضٍ كَانَ ذَلِكَ يَضُرُّ بِأَهْلِهَا، فَلَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يُفْعَلَ ذَلِكَ بِهَا، فَإِذَا كَثُرَتِ الأَشْيَاءُ بِهَا حَتَّى صَارَ ذَلِكَ لا يَضُرُّ بِأَهْلِهَا فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیوپاریوں کو شہر سے باہر راستوں پر فروخت کرنے والوں کو ملنے سے منع فرمایا ہے۔ جب تک کہ وہ بازار میں نہ آجائے۔ دلالی ( خواہ مخواہ قیمت بڑھانے) سے منع فرمایا
(قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں، یہ تمام باتیں مکروہ ہیں۔ نجش یہ ہے کہ آدمی آ کر بولی دینے لگے تاکہ قیمت بڑھ جائے حالانکہ اس کا ارادہ خریدنے کا نہ ہو۔ تاکہ دوسرا خریدار اس کی بولی سن کر اس کی کہی ہوئی قیمت پر خرید لے۔ یہ بالکل نا مناسب ہے۔ ہاں تک شہر سے باہر جاکر بیوپار یوں کو ملنے کا تعلق ہے اگر اس سے شہر والوں کو نقصان ہوتا ہو تو ایسا نہ کرنا چاہیے اور اگر سامان کثرت سے میسر ہو اور شہر والوں کو نقصان کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

772

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: لا بَأْسَ بِأَنْ يَبْتَاعَ الرَّجُلُ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِنْ كَانَ لِصَاحِبِهِ طَعَامٌ، أَوْ لَمْ يَكُنْ، مَا لَمْ يَكُنْ فِي زَرْعٍ لَمْ يَبْدُ صَلاحُهَا، أَوْ فِي تَمْرٍ لَمْ يَبْدُ صَلاحُهَا، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، وَعَنْ شِرَائِهَا حَتَّى يَبْدُوَ صَلاحُهَا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا عِنْدَنَا لا بَأْسَ بِهِ، وَهُوَ السَّلَمُ، يُسْلِمُ الرَّجُلُ فِي طَعَامٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ، بِكَيْلٍ مَعْلُومٍ، مِنْ صِنْفٍ مَعْلُومٍ، وَلا خَيْرَ فِي أَنْ يَشْتَرِطَ ذَلِكَ مِنْ زَرْعٍ مَعْلُومٍ، أَوْ مِنْ نَخْلٍ مَعْلُومٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع رحمنہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے تھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص ایک مقررہ قیمت کے بدلے ادھار خریدے، خواہ فروخت کرنے والے کے پاس غلہ موجود ہو یا نہ ہو، بشرطیکہ کھیتی یا پہل ایسی صورت میں نہ ہو کہ اس کی بہتری کا حال ظاہر نہ ہوا ہو۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی حالت میں پھلوں کو خریدو فروخت سے منع کیا جبکہ پھولوں کی بہتری کا حال ظاہر نہ ہوا ہو (اس روایت کو باب السلفۃ فی الطعام میں امام مالک لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : اس بیع میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سلم کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نے ایک معین غلہ مقررہ مدت پر نرخ مقرر کرکے اس کا وصف وغیرہ ظاہر کردیا ۔ اور اگر کسی خاص کھیت یا خاص درخت کا تعین کردیا ۔ تو اس میں کوئی خیر و بھلائی نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

773

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ بَاعَ غُلامًا لَهُ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ بِالْبَرَاءَةِ، وَقَالَ الَّذِي ابْتَاعَ الْعَبْدَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: بِالْعَبْدِ دَاءٌ لَمْ تُسَمِّهِ لِي، فَاخْتَصَمَا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: بَاعَنِي عَبْدًا وَبِهِ دَاءٌ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: بِعْتُهُ بِالْبَرَاءَةِ، فَقَضَى عُثْمَانُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ، أَنْ يَحْلِفَ بِاللَّهِ: لَقَدْ بَاعَهُ وَمَا بِهِ دَاءٌ يَعْلَمُهُ، فَأَبَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَنْ يَحْلِفَ، فَارْتَجَعَ الْغُلامَ، فَصَحَّ عِنْدَهُ الْعَبْدُ، فَبَاعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ بِأَلْفٍ وَخَمْسِ مِائَةِ دِرْهَمٍ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ بَاعَ غُلامًا بِالْبَرَاءَةِ فَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ، وَكَذَلِكَ بَاعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بِالْبَرَاءَةِ، وَرَآهَا بَرَاءَةً جَائِزَةً. فَبِقَوْلِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ نَأْخُذُ، مَنْ بَاعَ غُلامًا، أَوْ شَيْئًا، وَتَبَرَّأَ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ، وَرَضِيَ بِذَلِكَ الْمُشْتَرِي، وَقَبَضَهُ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ عَلِمَهُ، أَوْ لَمْ يَعْلَمْهُ، لأَنَّ الْمُشْتَرِيَ قَدْ برَّأَهُ مِنْ ذَلِكَ. فَأَمَّا أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَالُوا: يَبْرَأُ الْبَائِعُ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ لَمْ يَعْلَمْهُ، فَأَمَّا مَا عَلِمَهُ، وَكَتَمَهُ، فَإِنَّهُ لا يَبْرَأُ مِنْهُ، وَقَالُوا: إِذَا بَاعَهُ بَيْعَ الْمِيرَاثِ بَرِئَ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ عَلِمَهُ، أَوْ لَمْ يَعْلَمْهُ، إِذَا قَالَ: بِعْتُكَ بَيْعَ الْمِيرَاثِ، فَالَّذِي يَقُولُ: أَتَبَرَّأُ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ، وَبَيَّنَ ذَلِكَ أَحْرَى أَنْ يَبْرَأَ لِمَا اشْتَرَطَ مِنْ هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَقَوْلُنَا، وَالْعَامَّةِ
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ایک غلام آٹھ سو درہم میں اس شرط کے ساتھ فروخت کیا کہ وہ اس کے عیب کے ذمہ دار نہیں۔ غلام کے خریدار نے عبداللہ بن عمر (رض) کو کہا کہ غلام بیمار ہے۔ آپ نے اس کا مرض مجھ سے بیان نہیں کیا۔ دونوں اپنا جھگڑا حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں لے گئے۔ خریدار نے کہا کہ انھوں نے میرے پاس ایک غلام فروخت کیا اور وہ بیمار ہے۔ ابن عمر (رض) عنہمانے کہا میں نے عیب کی اس ش رط پر فروخت کیا تھا کہ ہم اس کے عیب کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ حضرت عثمان (رض) نے فیصلہ کیا کہ ابن عمر (رض) اللہ تعالیٰ کی قسم کھائین کہ انھوں جب غلام فروخت کیا تو اس وقت ان کو اس کے بیمار ہونے علم نہ تھا۔ ابن عمر (رض) نے قسم سے انکار کردیا تو غلام کو ان کے پاس لوٹادیا گیا۔ وہ غلام ان کے پاس آکر درست ہوگیا۔ پھر ابن عمر (رض) نے اس کو ڈیڑھ ہزار درہم میں فروخت کیا۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب العیب فی الرقیق میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں زید بن ثابت کا قول پہنچا ہے کہ انھوں نے فرمایا۔ جس شخص نے غلام عیب کی عدم ذمہ داری پر فروخت کیا وہ اس کے ہر عیب سے بری ہے۔ جس طرح ابن عمر (رض) نے عیب کی عدم ذمہ داری پر فروخت کیا۔ انھوں نے برأت کو جائز قرار دیا۔ ہم زید بن ثابت اور ابن عمر (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز یا غلام خریدے اور اس کے ہر عیب سے بری ہونے کی شرط کرلے اور مشتری اس پر رضا مندی ظاہر کرکے قبضلہ کرلے تو وہ چیز ہر عیب کی ذمہ داری سے آزاد ہے۔ خواہ اسے عیب معلوم ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ خریدار نے اس کو اس بات سے آزاد کردیا ہے۔ لیکن علماء مدینہ کے ہان فروخت کرنے والا صرف اس عیب سے بری ہوگا۔ جس کا اسے علم نہیں۔ جس عیب کا اسے علم ہو اور اس نے اس عیب کو چھپایا ہو تو وہ اس سے بری الذمہ نہ ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب فروخت کرنے والا عیب بتلا کر اس سے عدم ذمہ داری کی شرط کرے تب تو وہ اس سے بری ہوگا۔ خواہ اس عیب کا اس کو علم ہو یا نہ ہو۔ جب باس نے کہہ دیا کہ میں برائت کی شرط پر فروخت کرتا ہوں۔ اور اسنے عیب بتلا بھی دیا تو اس شرط کی بناء بر مناسب ہے کہ وہ بری ہوجائے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے فقہاء کا قول ہے۔

774

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، بَيْعُ الْغَرَرِ كُلُّهُ فَاسِدٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
سعید بن المسیب (رح) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دھوکا کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ ( اس روایت کو امام مالک بیع الغرر میں لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ تمام دھوکا کے بیوع فاسد ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

775

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لا رِبَا فِي الْحَيَوَانِ، وَإِنَّمَا نُهِيَ عَنِ الْحَيَوَانِ عَنْ ثَلاثٍ: عَنِ الْمَضَامِينِ وَالْمَلاقِيحِ، وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ. وَالْمَضَامِينُ مَا فِي بُطُونِ إِنَاثِ الْإِبِلِ، وَالَمَلَاقِيحُ مَا فِي ظُهُورِ الْجِمَالِ
سعید بن المسیب فرماتے تھے کہ حیوان میں ربوا نہیں۔ البتہ حیوانات میں تین قسم کی بیوع سے منع کیا گیا ۔ نمبر ١ مضامین۔ نمبر ٢ ملاقیح۔ نمبر ٣ حبل الحبلۃ
مضامین : وہ بچے جو ابھی اونٹنی کے پیٹ میں ہیں۔
ملاقیح : وہ بچے جو ابہی اونٹ کے پشت میں ہیں۔
حبل الحبلہ : اس شرط پر اونٹ کی فروخت کی جائے کہ جب اس کا بچہ ہوگا اور پھر اس بچے کا بچہ ہوگا تو تب قیمت ادا کروں گا۔

776

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ» . وَكَانَ بَيْعًا يَبْتَاعُهُ الْجَاهِلِيَّةُ، يَبِيعُ أَحَدُهُمُ الْجَزُورَ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ، ثُمَّ تُنتَجُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهَذِهِ الْبُيُوعُ كُلُّهَا مَكْرُوهَةٌ، وَلا يَنْبَغِي، لأَنَّهَا غَرَرٌ عِنْدَنَا، وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حبل الحبلہ سے منع فرمایا۔ زمانہ جاہلیت میں اس بیع کا رواج عام ت ھا۔ کہ اس ایک شخص اس وعدے پر اونٹ خریتا تھا کہ جب اس کا بچہ ہوگا اور پھر اس بچے کا بچہ ہوگا تو اس وقت قیمت ادا کردوں گا۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما لا یجوز من بیع الحیوان میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : بیع کی یہ تمام مذکورہ صورتیں مکروہ ( تحریمی) ہیں اس لیے کہ ہمارے نزدیک یہ تمام دھوکا کی صورتیں ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دہو کہ والی بیع سے منع فرمایا ہے۔

777

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ» . وَالْمُزَابَنَةُ بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، وَبَيْعُ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ كَيْلا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ تر کھجور کی بیع چھوارے کے بدلے اور انگور کی بیع کشمش کے بدلے ماپ کر کی جائے۔ ( یہ روایت باب ما جاء فی المزابنہ والمحاقلہ میں نقل فرمائی ہے)

778

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ» . وَالْمُزَابَنَةُ اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، وَالْمُحَاقَلَةُ اشْتِرَاءُ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ، وَاسْتِكْرَاءُ الأَرْضِ بِالْحِنْطَةِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: سَأَلْتُ عَنْ كِرَائِهَا بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، فَقَالَ: لا بَأْسَ بِهِ
سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح بیع محاقلہ سے منع فرمایا۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت کھجور کو کھجور کے بدلے خریدنا۔ اور محاقلہ یہ ہے گہتی کو گندم کے بدلے خریدنا اور گندم کے بدلے زمین کاشت کاری کے لیے بٹائی پر لینا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے سوال کیا کہ زمین کو بٹائی پر سونا چاندی کے بدلے لینا دینا کیسا ہے تو انھوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔ ( یہ روایت بھی مندرجہ بالا باب میں مذکور ہے)

779

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَةِ وَالُمَحَاقَلَةِ» . وَالْمُزَابَنَةُ اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ فِي رُءُوسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ، وَالْمُحَاقَلَةُ كِرَاءُ الأَرْضِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمُزَابَنَةُ عِنْدَنَا اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ فِي رُءُوسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ كَيْلًا لا يُدْرَى التَّمْرُ الَّذِي أُعْطِيَ أَكْثَرُ أَوْ أَقَلُّ، وَالزَّبِيبُ بِالْعِنَبِ لا يُدْرَى أَيُّهُمَا أَكْثَرُ، وَالْمُحَاقَلَةُ اشْتِرَاءُ الْحَبِّ فِي السُّنْبُلِ بِالْحِنْطَةِ كَيْلًا، لا يُدْرَى أَيُّهُمَا أَكْثَرُ، وَهَذَا كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَلا يَنْبَغِي مُبَاشَرَتُهُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ وَقَوْلُنَا
ابن احمد کے غلام ابو سفیان نے ابو سعید الخدری سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کھجور کے بدلے درخت پر لگے ہوئے پھل کو خریدنا اور محاقلہ زمین کا کاریہ بر لینا۔ اس روایت کو امام مالک نے ما جاء فی المزابنہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک پھل کے عوض تخمینہ سے فروخت کرنا جبکہ یہ معلوم نہ ہو کم ہے یا زیادہ اور خشک انگور کو تر انگور کے لدے اس طرح فروخت کرنا کہ یہ معلو نہ ہو کہ کونسا زیادہ ہے۔
محاقلہ : یہ ہے کہ بالوں میں لگے ہوئے گیہوں کو گندم (غلہ) کے عوض اس طرح فروخت کرنا کہ یہ معلوم نہ ہو کون زیادہ ہے اور کون کم۔ یہ تمام صورتیں مکروہ ہیں۔ اس قسم کی خریدو فروخت روا انہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے اور ہماری بھی یہی رائے ہے۔

780

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّب، قَالَ: نُهِيَ عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِاللَّحْمِ. قَالَ قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: أَرَأَيْتَ رَجُلا اشْتَرَى شَارِفًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ، أَوْ قَالَ شَاةً، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: إِنْ كَانَ اشْتَرَاهَا لِيَنْحَرَهَا فَلا خَيْرَ فِي ذَلِكَ. قَالَ أَبُو الزِّنَادِ: وَكَانَ مَنْ أَدْرَكْتُ مِنَ النَّاسِ يَنْهَوْنَ عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِاللَّحْمِ، وَكَانَ يُكْتَبُ فِي عُهُودِ الْعُمَّالِ فِي زَمَانِ أَبَانٍ وَهِشَامٍ يُنْهَوْنَ عَنْ ذَلِكَ.
ابو الزناد نے نقل کیا کہ سعید بن المسیب (رح) نے فرمایا کہ گوشت کے بدلے جانور کی فروخت ممنوع ہے۔ میں نے سعید بن المسیب (رح) سے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص ایک اونٹ دس بکریوں کے بدلے خریدے تو کیا حکم ہے۔ انھوں نے کہا اگر اسے ذبح کرنے کے لیے خریدتا ہے تو اس میں کوئی خیر نہیں۔ ابو الزناد کہتے ہیں میں نے جن لوگوں کو پایا وہ گوشت کے بدلے حیوان کی بیع سے منع کرتے تھے۔ ابان اور ہشام کے زمانہ میں حکام کے پروانوں پر اس کی ممانعت درج ہوتی تھی۔ اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب بیع الحیوان باللحم میں ذکر کیا ہے۔

781

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: وَكَانَ مِنْ مَيْسِرِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ بَيْعُ اللَّحْمِ بِالشَّاةِ وَالشَّاتَيْنِ
سعید بن المسیب فرماتے تھے کہ گوشت کو ایک یا دو بکریوں کے عوض خریدو فروخت کرنا دور جاہلیت کا جوا ہے۔ ( اس اثر کو باب بیع الحیوان باللحم میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)

782

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِاللَّحْمِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ بَاعَ لَحْمًا مِنْ لَحْمِ الْغَنَمِ بِشَاةٍ حَيَّةٍ لا يُدْرَى اللَّحْمُ أَكْثَرُ، أَوْ مَا فِي الشَّاةِ أَكْثَرُ، فَالْبَيْعُ فَاسِدٌ مَكْرُوهٌ لا يَنْبَغِي. وَهَذَا مِثْلُ الْمُزَابَنَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ، وَكَذَلِكَ بَيْعُ الزَّيْتُونِ بِالزَّيْتِ، وَدُهْنُ السِّمْسِم بِالسِّمْسِمِ
سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گوشت کے بدلے جانور فروخت کرنے کو منع فرمایا۔ ( ان آثار کو امام مالک نے باب بیع الحیوان باللحم میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اخیتار کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے بکری کا گوشت زندہ بکری کے بدلہ میں فروخت کیا تو اسے معلوم نہیں کہ وہ گوشت جو اسے بکری سے ملے گا۔ زیادہ ہے یا کم۔ پس یہ بیع فاسد اور مکروہ ( تحریمی) ہے۔ اور یہ مزابنہ اور محاقلہ کی طرح ہے۔ اسی طرح زیتون کی بیع زیتون کے تیل کے عوض اور تل کی بیع تل کے تیل کے عوض فاسد ہے۔

783

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي إِذَا سَاوَمَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ بِالشَّيْءِ أَنْ يَزِيدَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ فِيهِ حَتَّى يَشْتَرِيَ، أَوْ يَدَعَ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کے سودے پر دوسرے شخص کے سو دار کرنے سے منع فرمایا۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب ما ینہی عنہ من المساومۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا یہی مختار ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کی قیمت پر گفتگو کر رہرا ہو تو کسی دوسرے شخص کو جائز نہیں کہ اس کی قیمت بڑھائے جب تک کہ وہ خرید نہ لے یا چھوڑ نہ دے۔

784

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمُتَبَايِعَانِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ عَلَى صَاحِبِهِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، إِلا بَيْعَ الْخِيَارِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَتَفْسِيرُهُ عِنْدَنَا عَلَى مَا بَلَغَنَا عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: الْمُتَبَايِعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، قَالَ: مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا عَنْ مَنْطِقِ الْبَيْعِ إِذَا قَالَ الْبَائِعُ: قَدْ بِعْتُكَ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ مَا لَمْ يَقُلِ الآخَرُ: قَدِ اشْتَرَيْتُ، فَإِذَا قَالَ الْمُشْتَرِي: قَدِ اشْتَرَيْتُ بِكَذَا وَكَذَا فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ مَا لَمْ يَقُلِ الْبَائِعُ قَدْ بِعْتُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خریدار کو اور فروخت کرنے والے کو اختیار (رد و قبول بیع) اس وقت تک ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں۔ سوائے بیع خیار کے۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب بیع الخیار میں ذکر ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں یہی مختار ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے جو ابراہیم نخی (رح) سے ہم تک پہنچی ہے کہ بائع یا مشتری کو اختیار ہے۔ جب تک دونوں خریدو فروخت کی گفتگو سے جدا نہ ہوئے ہوں۔ جب اس نے کہہ دیا میں نے اس کو تمہارے ہاتھ فروخت کردیا۔ تو اسے اس وقت تک رجوع کا حق ہے۔ جت تک خریدار یہ نہ کہہ دے کہ میں اسے خرید لیا۔ اسی طرح جب مشتری یہ کہے کہ میں نے اس کو ان شرائط پر خرید لیا تو اسے رجوع کرنے کا اختیار اس وقت تک ہے جب تک فروخت کرنے والا یہ نہ کہے میں اس کو فروخت کردیا۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

785

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَيُّمَا بَيِّعَانِ تَبَايَعَا، فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ، أَوْ يَتَرَادَّانِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا اخْتَلَفَا فِي الثَّمَنِ تَحَالَفَا وَتَرَادَّا الْبَيْعَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، إِذَا كَانَ الْمَبِيعُ قَائِمًا بِعَيْنِهِ، فَإِنْ كَانَ الْمُشْتَرِي قَدِ اسْتَهْلَكَهُ، فَالْقَوْلُ مَا قَالَ الْمُشْتَرِي فِي الثَّمَنِ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ، وَأَمَّا فِي قَوْلِنَا فَيَتَحَالَفَانِ، وَيَتَرَادَّانِ الْقِيمَةَ
عبداللہ بن مسعود (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے تھے کہ جب بائع اور مشتری کے دریمان اختلاف ہوجائے تو بائع کا قول معتبر ہوگا یا پھر دونوں اس کو رد کردیں۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب بیع الخیار میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب دونوں قیمت میں اختلاف ہکریں تو دونوں قسم کھائیں اور سودے کو رد کریں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرح گئے ہیں۔ بشرطیکہ بیع اسی طرح قائم ہو اور اکر مشتری نے اس کو برباد کردیا تو اس وقت ثمن کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں مشتری کی بات معتبر مانی جائے گی۔ لیکن ہمارے نزدیک دونوں قسم کھائیں گے اور قیمت لوٹادیں گے۔

786

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ مَتَاعًا، فَأَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَهُ، وَلَمْ يَقْبِضِ الَّذِي بَاعَهُ مِنْ ثَمَنِهِ شَيْئًا فَوَجَدَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ، وإِنْ مَاتَ الْمُشْتَرِي فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ فِيهِ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا مَاتَ وَقَدْ قَبَضَهُ فَصَاحِبُهُ فِيهِ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ، وَإِنْ كَانَ لَمْ يَقْبِضِ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ بَقِيَّةِ الْغُرَمَاءِ حَتَّى يَسْتَوْفِيَ حَقَّهُ، وَكَذَلِكَ إِنْ أَفْلَسَ الْمُشْتَرِي، وَلَمْ يَقْبِضْ مَا يَشْتَرِي، فَالْبَائِعُ أَحَقُّ بِمَا بَاعَ حَتَّى يَسْتَوْفِيَ حَقَّهُ
ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہہشام نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کوئی شخص اگر کچھ فروخت کرے اور خریدار مفلس ہوجائے اور بائع کو اس کی قیمت نہ ملی ہو۔ لیکن اسے اپنی چیز بیعنہ مل گئی۔ تو بائع اس کا زیادہ حقدار ہے۔ اکر مشتری مرجائے تو بائع دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہوگا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ جب مشتری فوت ہوجائے اور نے اس چیز پر قبضہ کرلیا ہو۔ تو بائع دوسرے قرضداروں کے برابر شمار ہوگا۔ مشتری نے اگر قبضہ نہ کیا ہو تو فروخت کرنے والے دوسرے قرضداروں کی نسبت زیادہ حقدار ہوگا۔ یہاں تک کہ اس کا حق اسے پورا پروا مل جائے۔ اسی طرح اکر خریدار مفلس ہوجائے اور اس نے خرید کردہ چیز بر قبضہ بہی نہ کیا ہو تو فروخت کرنے والا فروخت شدہ شیء کا زیاد ہ حق دار ہے۔ یہاں تک کہ اس کی رقم پور ہوجائے۔ ( اس روایت کو اباب ما جاء فی افلاس الغریم میں ذکر کیا گیا ہے)

787

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلا ذَكَرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ بَايَعْتَهُ فَقُلْ: لا خِلابَةَ ". فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا بَاعَ فَقَالَ: لا خِلابَةَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: نُرَى أَنَّ هَذَا كَانَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ خَاصَّةً
عبداللہ بن دینار (رح) نے ابن عمر (رض) عنہا سے بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ وہ خریدو فروخت میں دھوکا کھا جاتا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم جس شخص سے خرید و فروخت کا معاملہ کرو تو اسے کہہ دو کہ دھوکا نہ دینا۔ چنانچہ جب یہ خرید و فرخت کرتا تو کہتا دھوکا فریب نہ دینا ( اس روایت کو امام مالک نے باب جامع البیوع میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہی حکم اس شخص کے لیے خاص تھا۔

788

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مَرَّ عَلَى حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ وَهُوَ يَبِيعُ زَبِيبًا لَهُ بِالسُّوقِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يُسَعَّرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَيُقَالُ لَهُمْ: بِيعُوا كَذَا وَكَذَا بِكَذَا وَكَذَا، وَيُجْبَرُوا عَلَى ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ عمر فاروق (رض) حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کے پاس سے گزرے وہ بازر میں اپنے خشک انگور فروخت کر رہے تھے۔ ان سے حضرت عمر (رض) نے فرمایا تم قیمت بڑھاؤ یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔ (کیونکہ وہ ام بازار کے نزخ سے کم نزخ پر فروخت کرتے تھے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ مسلمان تاجروں پر کوئی نرخ مقرر کیا جائے اور ان کو کہا جائے کہ وہ اس نرخ بر فرخت کریں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

789

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، " اشْتَرَى مِنِ امْرَأَتِهِ الثَّقَفِيَّةِ جَارِيَةً، وَاشْتَرَطَتْ عَلَيْهِ: إِنَّكَ إِنْ بِعْتَهَا فَهِيَ لِي بِالثَّمَنِ الَّذِي تَبِيعُهَا بِهِ، فَاسْتَفْتَى فِي ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: لا تَقْرَبْهَا، وَفِيهَا شَرْطٌ لأَحَدٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، كُلُّ شَرْطٍ اشْتَرَطَ الْبَائِعُ عَلَى الْمُشْتَرِي، أَوِ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ لَيْسَ مِنْ شُرُوطِ الْبَيْعِ، وَفِيهِ مَنْفَعَةٌ لِلْبَائِعِ، أَوِ الْمُشْتَرِي، فَالْبَيْعُ فَاسِدٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے اپنی بیوی زینب ثقفیہ (رض) عنہا سے ایک لوندی خریدی۔ بیوی نے یہ شرط لکائی کہ اگر تم نے اسے فروخت رکنا ہو تو جس قیمت پر فروخت کرنے لگو میرے ہاتھ فروخت کردینا۔ پھر اس سلسلہ میں حضرت عمر (رض) سے مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا اس لونڈی سے صحبت نہ کرنا۔ جب کہ اس س میں کسی کی شرط لگی ہوئی ہو۔ حضرت عمر (رض) کے قول کا مطلب یہ تھا کہ بیع واپس کردو اور اس سودے سے کنارہ کشی یاختیار کرو چنانچہ کتاب میں امام محمد (رح) نے ذکر کیا کہ عبداللہ نے بیع سے رجوع کرکے اسے مسترد کردیا تھا۔ جیسا کہ اگلے اثر سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اگر فروخت کرنے والا خریدار سے یا خریدار فروخت کرنے والے سے کوئی ایسی شرط طے کرے جو بیع کے مقاصد سے نہ ہو اور اس میں ان میں سے کسی کو کوئی فاسدہ بہی نہ ہو تو وہ بیع فاسد ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

790

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «لا يَطَأُ الرَّجُلُ وَلِيدَةً إِلا وَلِيدَتَهُ، إِنْ شَاءَ بَاعَهَا، وَإِنْ شَاءَ وَهَبَهَا، وَإِنْ شَاءَ صَنَعَ بِهَا مَا شَاءَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهَذَا تَفْسِيرٌ، أَنَّ الْعَبْدَ لا يَنْبَغِي أَنْ يَتَسَرَّى، لأَنَّهُ إِنْ وَهَبَ لَمْ يَجُزْ هِبَتُهُ، كَمَا يَجُوزُ هِبَةُ الْحُرِّ، فَهَذَا مَعْنَى قَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ آدمی اس لونڈی سے مباشرت کرے۔ جس کو وہ چاہے تو فروخت کردے اور چاہے تو ہبہ کردے اور اس کے متعلق جو چاہے سو کرسکتا ہو۔ ( مشروع نہ ہو) (ان دونوں روایات کو امام مالک نے باب ما یفعل فی الولیدہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ غلام کو لونڈی رکھنا جائز نہیں کیونکہ اکر وہ اس کو ہبہ کرے تو اس کا ہبہ نافذ نہ ہوگا۔ جس طرح آزاد کا ہبہ نافذ ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کے قول کا یہی مطلب ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

791

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ بَاعَ نَخْلا قَدْ أُبِّرَتْ، فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلا أَنْ يَشْتَرِطَهَا الْمُبْتَاعُ»
نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس نے پیوند لگایا ہوا کھجور کا درخت فروخت کیا تو اس کا بھل فروخت کرنے والے کا ہوگا۔ مکر یہ کہ مشتری پھل کے متعلق شرط لگالے ( کہ پہل اس کا ہوگا) اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی ثمر المال بیباع اصلہ میں ذکر کیا ہے)

792

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: «مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ، فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلا أَنْ يَشْتَرِطَهُ الْمُبْتَاعُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ جش شخص نے مالدار غلام فروخت کیا تو اس کا مال فروخت کرنے والے کا ہوگا۔ مکر یہ کہ مشتری اس کی شرط لگائے۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب المملوک اذا باع میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور ہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے

793

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ «اشْتَرَى مِنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ جَارِيَةً، فَوَجَدَهَا ذَاتَ زَوْجٍ فَرَدَّهَا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَكُونُ بَيْعُهَا طَلاقَهَا، فَإِذَا كَانَتْ ذَاتَ زَوْجٍ فَهَذَا عَيْبٌ تُرَدُّ بِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رح) نے بیان کیا کہ عبد الرحمن بن عوف (رض) نے عاصم بن عدی (رض) سے ایک لونڈی خریدی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر ہے تو اسے واپس کردیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ اس لونڈی کی فروخت طلاق کے قائم مقام نہ ہوگی۔ جب کہ وہ شوہر والی ہو۔ تو گویا یہ عیب ہے جس کی وجہ سے اسے واپس کردیا جائے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

794

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرٍ، أَهْدَى لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ جَارِيَةً مِنَ الْبَصْرَةِ وَلَهَا زَوْجٌ، فَقَالَ عُثْمَانَ: «لَنْ أَقْرَبَهَا حَتَّى يُفَارِقَهَا زَوْجُهَا، فَأَرْضَى ابْنُ عَامِرٍ زَوْجَهَا، فَفَارَقَهَا»
ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عامر (رض) نے حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کو بصرہ کی ایک لونڈی بطرو ہدیہ دی جس کا شوہر بہی تھا۔ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا میں اس کے پاس کبھی نہ جاؤں گا جب تک اس کا شوہر اسے چھوڑ نہ دے۔ ابن عامر (رض) نے اس کے شوہر کو راضی کرکلیا۔ اس نے لوندی کو چھوڑ دیا۔ ان دونوں آثار کو امام مالک (رح) نے باب النہی عن ان یطأ الرجل ولیدۃ وہلہا زود میں ذکر کیا ہے)

795

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ، وَهِشَامَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ، يُعَلِّمَانِ النَّاسَ عُهْدَةَ الثَّلاثِ وَالسَّنَةِ، يَخْطُبَانِ بِهِ عَلَى الْمِنْبَرِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: لَسْنَا نَعْرِفُ عُهْدَةَ الثَّلاثِ، وَلا عُهْدَةَ السَّنَةِ إِلا أَنْ يَشْتَرِطَ الرَّجُلُ خِيَارَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ خِيَارَ سَنَةٍ فَيَكُونُ ذَلِكَ عَلَى مَا اشْتَرَطَ، وَأَمَّا فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ فَلا يَجُوزُ الْخِيَارُ إِلا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ
عبداللہ بن ابوبکر (رح) کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل رحمہما اللہ لوگوں کو تین دن اور ایک سال کے عہدہ وعدے کی تعلیم دیتے تھے۔ اور منبر بر اس کے متعلق بیان کرتے تھے۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب ما جاء فی العہد میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم ایک سال اور تین دن کی شرط نہیں جانتے مگر یہ کہ کوئی شخص تین دن یا سال کے خیار کی شرط مقرر کرے ( اور مشتری اس شرط کو تسلیم کرے) تو اس صورت میں جو شرط مقرر کی ہے اسی شرط پر بیع ہوگی۔
مکر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ تین دن سے زیادہ خیار شرط جائز نہیں ہے۔

796

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلاءِ وَهِبَتِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَجُوزُ بَيْعُ الْوَلاءِ، وَلا هِبَتُهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن دینار (رح) نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولاء کی بیع اور اس کے ہبہ سے منع فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ولاء کی نہ بیع جائز ہے اور نہ اس کا ہبہ درست ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

797

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ وَلِيدَةً فَتُعْتِقَهَا، فَقَالَ أَهْلُهَا: نَبِيعُكِ عَلَى أَنَّ وَلاءَهَا لَنَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «لا يَمْنَعُكِ ذَلِكَ؛ فَإِنَّمَا الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، لا يَتَحَوَّلُ عَنْهُ، وَهُوَ كَالنَّسَبِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے ایک لونڈی خریدکر آزاد کرنے کا ارادہ کیا۔ اس لونڈی کے مالک نے کہا اس کو ہم اس شرط پر فروخت کرتے ہیں کہ اس کی ولاء کے ہم حق دار ہوں گے۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شرط تمہیں اس حق سے نہیں روک سکتی اس لیے کہ ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے ازاد کرے۔ ( ان دونوں آیار اور روایات کو باب مصیر الولاء لمن اعتق میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ولاء کا حق دار وہی ہے جو آزاد کرے یہ حق اس سے منتقل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ حق نسب کی طرح ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں

798

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «أَيُّمَا وَلِيدَةٍ وَلَدَتْ مِنْ سَيِّدِهَا فَإِنَّهُ لا يَبِيعُهَا، وَلا يَهَبُهَا، وَلا يُوَرِّثُهَا، وَهُوَ يَسْتَمْتِعُ مِنْهَا، فَإِذَا مَاتَ فَهِيَ حُرَّةٌ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ جو لونڈی اپنے آقا سے بچہ جنے تو مالک اس کو نہ فروخت کرے اور نہ ہبہ کرے اور نہ اسے وارث بنائے بلکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جب وہ فوت ہوجائے گا تو وہ لونڈی آزاد ہے۔ ( اس اثر کو باب عتق امہات الاولاد میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

799

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، بَاعَ جَمَلا لَهُ يُدْعَى عُصَيْفِيرًا بِعِشْرِينَ بَعِيرًا إِلَى أَجَلٍ
حسن بن علی (رح) نے بیان کیا کہ علی بن ابی طالب (رض) نے عصیفیر نامی ایک اونٹ بیس اونٹوں کے بدلے میں ادھار فروخت کیا۔

800

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، «اشْتَرَى رَاحِلَةً بِأَرْبَعَةِ أَبْعِرَةٍ مَضْمُونَةٍ عَلَيْهِ، يُوَفِّيَهَا إِيَّاهُ بِالرَّبَذَةِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ خِلافُ هَذَا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے ایک اونٹنی چار اونٹوں کے بدلے خریدی اور یہ شرط لگائی کہ وہ اس اونٹنی کو ربذہ پہنچادے گا۔ ( ان دونوں آثار کو باب ملا یجوز من بیع الحیوان بعضہ ببعض میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمیں علی مرتضی (رض) کا قول اس کے اخلاف پہنچا ہے جو درج ذیل ہے۔

801

أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذُؤَيْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي حَسَنٍ الْبَزَّارِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، «أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْبَعِيرِ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى أَجَلٍ، وَالشَّاةِ بِالشَّاتَيْنِ إِلَى أَجَلٍ» وَبَلَغَنَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً» فَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
حسن بزار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی (رض) سے نقل کیا کہ علی مرتضی (رض) نے ایک اونٹ کو دو اونٹوں کے عوض اور ایک بکری کو دو بکریوں کے عوض ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا اور ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادہار فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے فقہاء عام کا قول ہے۔

802

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: " كُنْتُ أَبِيعُ الْبَزَّ فِي زَمانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنَّ عُمَرَ قَالَ: «لا يَبِيعُهُ فِي سُوقِنَا أَعْجَمِيٌّ، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَفْقَهُوا فِي الدِّينِ، وَلَمْ يُقِيمُوا فِي الْمِيزَانِ وَالْمِكْيَالِ» . قَالَ يَعْقُوبُ: فَذَهَبْتُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ لَكَ فِي غَنِيمَةٍ بَارِدَةٍ؟ قَالَ: مَا هِيَ؟ قُلْتُ: بَزٌّ، قَدْ عَلِمْتُ مَكَانَهُ، يَبِيعُهُ صَاحِبُهُ بِرُخْصٍ، لا يَسْتَطِيعُ بَيْعَهُ، أَشْتَرِيهِ لَكَ، ثُمَّ أَبِيعُهُ لَكَ، قَالَ: نَعَمْ، فَذَهَبْتُ، فَصَفَقْتُ بِالْبَزِّ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ، فَطَرَحْتُ فِي دَارِ عُثْمَانَ، فَلَمَّا رَجَعَ عُثْمَانَ، فَرَأَى الْعُكُومَ فِي دَارِهِ، قَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: بَزٌّ، جَاءَ بِهِ يَعْقُوبُ، قَالَ: ادْعُوهُ لِي، فَجِئْتُ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قُلْتُ: هَذَا الَّذِي قُلْتُ لَكَ، قَالَ: أَنَظَرْتَهُ؟ قُلْتُ: كَفَيْتُكَ، وَلَكِنْ رَابَهُ حَرَسُ عُمَرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى حَرَسِ عُمَرَ، فَقَالَ: إِنَّ يَعْقُوبَ يَبِيعُ بَزِّي فَلا تَمْنَعُوهُ، قَالُوا: نَعَمْ، جِئْتُ بِالْبَزِّ السُّوقَ، فَلَمْ أَلْبَثْ حَتَّى جَعَلْتُ ثَمَنَهُ فِي مِزْوَدٍ، وَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى عُثْمَانَ، وَبِالَّذِي اشْتَرَيْتُ الْبَزَّ مِنْهُ، فَقُلْتُ: عُدَّ الَّذِي لَكَ، فَاعْتَدَّهُ، وَبَقِيَ مَالٌ كَثِيرٌ، قَالَ: فَقُلْتُ لِعُثْمَانَ: هَذَا لَكَ، أَمَا إِنِّي لَمْ أَظْلِمْ بِهِ أَحَدًا، قَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، وَفَرِحَ بِذَلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَمَا إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ مَكَانَ بَيْعِهَا مِثْلِهَا، أَوْ أَفْضَلَ، قَالَ: وَعَائِدٌ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ، قَالَ: قَدْ شِئْتُ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَإِنِّي بَاغٍ خَيْرًا فَأَشْرِكْنِي، قَالَ: نَعَمْ بَيْنِي، وَبَيْنَكَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِأَنْ يَشْتَرِكَ الرَّجُلَانِ فِي الشِّرَاءِ بِالنَّسِيئَةِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِوَاحِدٍ مِنْهُمْ رَأْسُ مَالٍ، عَلَى أَنَّ الرِّبْحَ بَيْنَهُمَا، وَالْوَضِيعَةُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: وَإِنْ وَلِيَ الشِّرَاءَ وَالْبَيْعَ [ص:284] أَحَدُهُمَا دُونَ صَاحِبِهِ، وَلا يَفْضُلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ فِي الرِّبْحِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لا يَجُوزُ أَنْ يَأْكُلَ أَحَدُهُمَا رِبْحَ مَا ضَمِنَ صَاحِبُهُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبد الرحمن بن یعقوب ب یان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں میں کپڑا فروخت کرتا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا کہ ہمارے بازار میں عجمی لوگ فروخت نہ کیا کریں۔ کیونکہ یہ لوگ دین کی سمجھ نہیں رکھتے اور ماپ تول ٹھیک نہیں کرتے۔ یعقول کرہتے ہیں کہ میں حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں گیا کہ آپ کو مفت کا فائدہ منظور ہی ؟ انھوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا کپڑا ہے۔ میں اس کی جگہ جانتا ہوں۔ اس کا مالک سستا فروخت کرتا ہے اور وہ اسے ( عجمی ہونے کی وجہ سے بازار میں) فروخت نہیں کرسکتا۔ کیا میں اس کپڑے کو آپ کے لیے خرید لوں۔ پھر آپ کی طرف سے فروخت کردوں ؟ انھوں نے جواب دیای ہاں۔ میں وہاں گیا۔ کپڑا خرید کر حضرت عثمان (رض) گھر لے آیا۔ جب حضرت عثمان (رض) واپس آئے تو انھوں اپنے گھر میں ڈھیر دی کہ کر فرمایا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتلایا یہ کپڑا ہے جو یعقوب لایا ہے۔ آپ نے فرمایا اسے بلاؤ۔ میں حاضر ہوا تو انھوں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا وہی کپڑا ہے جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے خوب دیکھ لیا ہے۔ میں نے عرض کیا آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن حضرت عمر کے چوکیداروں خوف دلایا ہے۔ حضرت عثمان چوکیداروں کے پاس گئے اور کہا یعقوب میرا کپڑا فروخت کرتا۔ اسے منع نہ کرنا۔ انھوں نے کہا بہتر۔ پس میں کپڑا لے کر بازار گیا۔ پس تھوڑی ہی دیر میں کپڑا فروخت کرکے اس کی قیمت تھیلی میں ڈال لی۔ اور حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ شخص میرے ساتھ تھا جس سے میں نے کپڑا خریدا تھا۔ میں نے اس سے کہا جو تمہارا ہے گن لو۔ چنانچہ اس نے اپنا حصہ شمار کیا مگر پھر بھی کافی مال بچ گیا۔ یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) سے کہا یہ آپ کا ہے۔ اور میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا۔ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے۔ وہ اس سے بہت خوش ہوئے۔ یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا میں اس کے فروخت کرنے کی ایسی ہی جگہ بلکہ اس سے بہتر جگہ جانتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ کیا دوبارہ ایسا کرنے کا خیال ہے۔ میں نے کہا ہاں۔ اگر آپکو پسند ہے۔ انھوں نے فرمایا۔ مجھے منظور و پسند ہے۔ میں نے عرض کیا اگر آپ مجھے شریک کرلیں تو میں نیکی کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا ہاں۔ میرے تمہارے درمیان نصفا نصف ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ دو افراد ادھار خرید نے میں شریک ہوں خواہ ان میں سے کسی کے پاس بھی سأس المال نہ ہو۔ اور وہ نفع کے متعلق شرط لگالیں کہ نفع نصف و نصف تقسیم کرلیں گے۔ اور نقصان بھی آدھ آدھ ہوگا۔ جب ایک شخص خرید و فروخت کا ذمہ دار ہوا اور دوسرا کچھ بھ نہ کرے تو اس کو زیادہ حصہ دینا جائز نہیں۔ اس لیے کہ جس مال کے نقصان کا دوسرا شخص ذمہ دار ہے تو وہ اس کا نفع کس طرح کھاسکتا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

803

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا يَمْنَعُ أَحَدُكُمْ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ» ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا لِي أَرَاكُمْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ؟ وَاللَّهِ لأَرْمِيَنَّ بِهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ. قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا عِنْدَنَا عَلَى وَجْهِ التَّوَسُّعِ مِنَ النَّاسِ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ وَحُسْنِ الْخُلُقِ، فَأَمَّا فِي الْحُكْمِ فَلا يُجْبَرُونَ عَلَى ذَلِكَ. بَلَغَنَا أَنَّ شُرَيْحًا اخْتُصِمَ إِلَيْهِ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ لِلَّذِي وَضَعَ الْخَشَبَةَ: ارْفَعْ رِجْلَكَ عَنْ مَطِيَّةِ أَخِيكَ، فَهَذَا الْحُكْمُ فِي ذَلِكَ، وَالتَّوَسُّعُ أَفْضَلُ
اعرج (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سی منع نہ کرے۔ اعرج کہتی ہیں پھر ابوہریرہ (رض) نے فرمایا میں تم لوگوں کو اس بات سے انکاری دیکھتا ہوں۔ اللہ کی قسم میں لکڑی کو تمہارے کندھوں کے درمیان گاڑدوں گا۔ ( یعنی تمہیں ضرور اس کو ماننا ہوگا) (اس روایت کو باب القضاء فی المرافق میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارے نزدیک اس ارشاد کا مقصد آپس میں حسن خلق اور آسانی پیدا کرنا ہے بطور حکم لوگوں کو اس پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ ہمیں یہ بات پہنجی ہے کہ شریح (رح) کے پاس اس سلسلہ میں ایک مقدمہ پیش ہوا ۔ کس نے لکڑی دیوار پر رکھی تھی آپ نے اسے فرمایا کہ اپنا پاؤں اپنے بھائی کی سواری سے اٹھا لو۔ اس کے متعلق فیصلہ یہی ہے۔ لیکن وسعت کرنا زیادہ بہتر ہے۔

804

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي غَطَفَانَ بْنِ طَرِيفٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ: " مَنْ وَهَبَ هِبَةً لِصَلَةِ رَحِمٍ، أَوْ عَلَى وَجْهِ صَدَقَةٍ، فَإِنَّهُ لا يَرْجِعُ فِيهَا، وَمَنْ وَهَبَ هِبَةً يَرَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ بِهَا الثَّوَابَ، فَهُوَ عَلَى هِبَتِهِ، يَرْجِعُ فِيهَا إِنْ لَمْ يَرْضَ مِنْهَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ وَهَبَ هِبَةً لِذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ، أَوْ عَلَى وَجْهِ صَدَقَةٍ، فَقَبَضَهَا الْمَوْهُوبُ لَهُ، فَلَيْسَ لِلْوَاهِبِ أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا، وَمَنْ وَهَبَ هِبَةً لِغَيْرِ ذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ وَقَبَضَهَا فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا، إِنْ لَمْ يُثَبْ مِنْهَا، أَوْ يُزَدْ خَيْرًا فِي يَدِهِ، أَوْ يَخْرُجْ مِنْ مِلْكِهِ إِلَى مِلْكِ غَيْرِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
مروان بن حکم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جس شخص نے صلہ رحمی کے طور پر یا صدقہ کے طور پر کچہ ہبہ کیا تو اس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور جس شخص نے کچھ ہبہ کیا اور اس ثواب و بدلہ لینے کی نیت ہو تو وہ ہبہ اپنی جکھ قائم ہے۔ اس سے وہ رجوع کرسکتا ہے۔ اکر وہ اس سے خوش نہ ہو۔ ( اس روایت کو باب القضاء فی الہبۃ میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جس شخص نے کسی رشتہ دار کو بطور صلہ رحمہ یا بطور صدقہ کوئی چیز ہبہ کردی اور جس کو ہبہ کیا گیا ہے وہ اس پر قابض ہوگیا۔ تو ہبہ کرنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ ہبہ سے رجوع کرے لیکن جس شخص نے غیر رشتہ دار کو کوئی چیز ہبہ کی اور وہ اس پر قابض ہوگیا ۔ تو ہبہ کرنے والے کو اس سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اکر اسے اچھا بدلہ نہ ملے ای اس میں کوئی خیر نہ پائے یا اس کے ہاتھ سے کسی دوسرے کی ملکیت میں وہ چیز چلی جائے ( جسے وہ پسند نہ کرتا ہو) امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

805

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ يُحَدِّثَانِهِ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: إِنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلامًا كَانَ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكُلُّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا؟» قَالَ: لا، قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ»
حمید بن عبدالرحمن بن عوف اور محمد بن عثمان بن بشیر رحمہا اللہ بیان کرت یہیں کہ نعمان بتلانے لگے کہ مجھے میرے والد بشیر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے اور کہا کہ میں اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم ن یاپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی ایک غلام دیا ہے۔ انھوں نے عرض کیا نہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے رجوع کرلو۔

806

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ نَحَلَهَا جُذَاذَ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْعَالِيَةِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ: وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ، مَا مِنَ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ، وَلا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا مِنْكِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ مِنْ مَالِي جُذَاذَ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَلَوْ كُنْتِ جَذَذْتِيهِ، وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ، فَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا هُوَ أَخُوكِ وَأُخْتَاكِ، فَاقْسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَتْ: يَا أَبَتِ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ، إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ، فَمَنِ الأُخْرَى؟ قَالَ: ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ أُرَاهَا جَارِيَةً، فَوَلَدَتْ جَارِيَةً
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) عالیہ میں کھجور کے کچھ درخت ہبہ کئے جن سے پیس وسق کھجوریں اترتی تھیں۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے کہا اللہ کی قسم ! اے میری بیٹی ! مجھے اپنے بعد تم سے زیادہ کسی کا غنی دیکھنا پسند نہیں۔ اور تم سے زیادہ کسی کا مفلس ہونا ناپسند نہیں۔ میں نے تمہیں اپنے مال میں سے بیس وسق کھجور کے درخت دئیے تھے۔ اگر تم انھیں کاٹ کر محفوظ کرلیتیں تو تمہارے ہوجاتے۔ لیکن آج وہ ورثاء کا مال ہے۔ تمہارا ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ پس تم اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرلینا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں ہیں میں نے کہا ابا جان ! اکر اس سے زیادہ بہی ہوتا تو میں چھوڑ دیتی۔ ہان ایک بہن تو یہ اسماء ہے۔ دوسری کون ہوئی ؟ فرمایا وہ حبیبہ بنت خارجہ کے شکم میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ لڑکی ہے۔ چنانچہ ان کے بطن سے لڑکی پیدا ہوئی۔

807

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَادِرِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: " مَا بَالُ رِجَالٍ يَنْحَلُونَ أَبْنَاءَهُمْ نُحْلًا، ثُمَّ يُمْسِكُونَهَا، قَالَ: فَإِنْ مَاتَ ابْنُ أَحَدِهِمْ، قَالَ: مَالِي بِيَدِي، وَلَمْ أُعْطِهِ أَحَدًا، وَإِنْ مَاتَ هُوَ قَالَ: هُوَ لِابْنِي، قَدْ كُنْتُ أَعْطَيْتُهُ إِيَّاهُ، مَنْ نَحَلَ نِحْلَةً لَمْ يَحُزْهَا الَّذِي نُحِلَهَا حَتَّى تَكُونَ إِنْ مَاتَ لِوَرَثَتِهِ فَهِيَ بَاطِلٌ "
عبد الرحمن بن عبد القاری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ اپنے بیٹوں کو ہبہ کرتے ہیں۔ پھر اسے روک لیتے ہیں۔ پھر اکر کسی کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں یہ میرا ل ہے۔ میرے قبضہ میں ہے۔ میں اسے کسی کو نہیں دیتلا۔ اگر خود مرجاتے ہیں تو کہتے ہیں میں یہ مال اپنے بیٹے کو ہبہ کرچکا ہوں۔ یہ اسی کا ہے۔ جو شخص تم میں سے ہبہ کرے وہ اسے کو جاری نہ کرے۔ یہاں تک کہ ہبہ کرنے والا فوت ہوجائے تو وہ مال اس کے ورثاء کا ہے۔ اور ہبہ باطل ہے۔ ( ان تینوں روایات کو امام مالک (رح) نے باب مالا یحوز فی النحل میں ذکر کیا ہے)

808

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ: «مَنْ نَحَلَ وَلَدًا لَهُ صَغِيرًا لَمْ يَبْلُغْ أَنْ يَحُوزَ نُحْلَةٌ فَأَعْلَنَ بِهَا وَأَشْهَدَ عَلَيْهَا فَهِيَ جَائِزَةٌ، وَإِنْ وَلِيَهَا أَبُوهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلَةِ، وَلا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَمَنْ نَحَلَ نُحْلَةً وَلَدًا أَوْ غَيْرَهُ فَلَمْ يَقْبِضْهَا الَّذِي نُحِلَهَا حَتَّى مَاتَ النَّاحِلُ وَالْمَنْحُولُ فَهِيَ مَرْدُودَةٌ عَلَى النَّاحِلِ وَعَلَى وَرَثَتِهِ، وَلا تَجُوزُ لِلْمَنْحُولِ حَتَّى يَقْبِضَهَا، إِلا الْوَلَدَ الصَّغِيرَ، فَإِنْ قَبَضَ وَالِدُهُ لَهُ قَبْضٌ فَإِذَا أَعْلَنَهَا وَأَشْهَدَ بِهَا فَهِيَ جَائِزَةٌ لِوَلَدِهِ، وَلا سَبِيلَ لِلْوَالِدِ إِلَى الرَّجْعَةِ فِيهَا، وَلا إِلَى اغْتِصَابِهَا بَعْدَ أَنْ أَشْهَدَ عَلَيْهَا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سعید بن المسیب (رح) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا جو شخص اپنے بچے کو کچھ ہبہ کردے ۔ جبکہ وہ بالغ نہ ہو اور اس کا اعلان کردے اور اس پر گواہ مقرر کردے تو یہ ہبہ جائز ہے۔ اس کا ولی اس کا باپ ہوگا۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما یجوز من النخل میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ان تمام احادیث پر ہمارا عمل ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے اولاد کو عطیہ دینے میں مساوات کا لحاظ کرے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فوقیت نہ دے۔ اگر کسی شخص نے اپنے بیٹے کو یا کسی اور کو عطیہ دیا اور اس نے وہ عطیہ قبضہ میں نہ لیا اور عطیہ دینے والا مرگیا یا جس کو عطیہ دیا ہو وہ جائے تو عطیہ دینے والے یا اس کے وارث کو وہ عطیہ لوٹ جائے گا۔ جب تک کہ اس پر عطیہ لینے والا قبضہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ عطیہ دئیے جانے والے کے لیے جائز نہیں۔ البتہ اگر عطیہ یدا جانے والا نابالغ لڑکا ہو اور اس کا والد عطیہ پر قبضہ کرلے تو یہ بالغ کا قبضہ شمار ہوگا۔ جبکہ اس کا اعلان کردیا جائے اور اس پر گواہ بنالئے جائیں تو اس صورت میں یہ عطیہ اس بیٹے کے لیے جائز ہے۔ عطیہ دینے والے کے والد کا اس ہبہ سے رجوع کرنا یا اس کا غصب کرنا جائز نہیں۔ بشرطیکہ اس پر گواہ مقرر ہوچکے ہوں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

809

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ فَإِنَّهَا لِلَّذِي يُعْطَاهَا، لا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتِ الْمَوَارِثُ فِيهِ»
سلمہ بن عبد الرحمن (رح) نے جابر بن عبداللہ (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی تا زندگی رہنے کے لیے کسی کو جگہ دے دے یا اس کے وارثوں کو دے دے تو وہ اس کا ہوجاتا ہے۔ ( جس کو دیا کیا) دینے والے کو واپس نہیں مل سکتا کیونکہ یہ ایسا عطیہ ہے جس میں وراثت جاری ہوتی ہے۔ ( کیونکر اسے لے) یہ ابو سلمہ کا بیان ہے جیسا کہ ابن ابی ذؤیب کی روایت سے صراحۃ ثابت ہوتا ہے۔ جابر (رض) کی روایت میں بھی یہ اضافہ نہیں۔

810

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، «وَرَّثَ حَفْصَةَ دَارَهَا، وَكَانَتْ حَفْصَةُ قَدْ أَسْكَنَتْ بِنْتَ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ مَا عَاشَتْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ بِنْتُ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ قَبَضَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْمَسْكَنَ، وَرَأَى أَنَّهُ لَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْعُمْرَى هِبَةٌ، فَمَنْ أُعْمِرَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، وَالسُّكْنَى لَهُ عَارِيَةٌ تُرْجَعُ إِلَى الَّذِي أَسْكَنَهَا، وَإِلَى وَارِثِهِ مِنْ بَعْدِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا. وَالْعُمْرَى أَنْ قَالَ هِيَ لَهُ وَلِعَقِبِهِ، أَوْ لَمْ يَقُلْ وَلِعَقِبِهِ فَهُوَ سَوَاءٌ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) حضرت حفصہ (رض) عنہا کے وارث ہوئے اور وہ زید بن خطاب کی بیٹی کو اپنا گھر اپنی زند کی میں دے گئی تھیں۔ جب زید بن خطاب کی بیٹی فوت ہوگئیں تو ابن عمر (رض) نے مکان اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اور یہ خیال کیا کہ اب میں اس گھر کا مالک ہوں۔ (دونوں روایات باب القضاء فی العمری میں امام مالک نے ذکر کی ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ عمری وہ عطیہ جو تا حیات دیا جائے۔ وہ جس کو دیا جائے اسی کا ہوجاتا ہے۔ سکنی سے مراد عارضی رہائش ہے، جو بطور عاریبت دی جائے۔ وہ اس کے بعد اصل مالک کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ امام ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔
العمری یہ ہے کہ اس کو کہے کہ تیری عمر کے لیے تمہیں دیا جاتا ہے اور تیری اولاد کے لیے ۔ اگر تیری اولاد۔ نہ بہی کہے تب بھی درست ہے۔

811

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «لا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالذَّهَبِ، أَحَدُهُمَا غَائِبٌ وَالآخَرُ نَاجِزٌ، فَإِنِ اسْتَنْظَرَكَ إِلَى أَنْ يَلِجَ بَيْتَهُ فَلا تُنْظِرْهُ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمُ الرَّمَاءَ، وَالرَّمَاءُ هُوَ الرِّبَا»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرماتے تھے کہ چاندی کو سونے کے بدلے میں اس حال میں فروخت نہ کرو کہ ان میں سے ایک غائب ہو اور دوسرا موجود ہو۔ اگر اس میں اتنی مہلت مانگے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو کر نکل آتی تو اتنی مہلت بہی جائز نہیں مجھے تمہارے متعلق ربوی یعنی سود کا خطرہ ہے۔

812

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، وَلا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، وَلا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالْوَرِقِ أَحَدُهُمَا غَائِبٌ وَالآخَرُ نَاجِزٌ، وَإِنِ اسْتَنْظَرَكَ حَتَّى يَلِجَ بَيْتَهُ فَلا تُنْظِرْ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمُ الرِّبَا»
ابن عمر رضی الہل عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے فروخت نہ کرو کہ ان میں سے ایک نقد اور دوسرا ادھار ہو۔ اگر اس میں اتنی مہلت مانگے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو کر نکل آتی تو اتنی مہلت بھی جائز نہیں مجھے تمہارے متعلق سود کا ڈر ہے۔

813

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، وَلا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، وَلا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلا تَبِيعُوا مِنْهَا شَيْئًا غَائِبًا بِنَاجِزٍ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ سونے کو سونے کے لدلے فروخت نہ کرو۔ مگر جبکہ برابر برابر ہو۔ ایک دوسرے زیادہ نہ کرو اور چاندی کو چاندی کے عورض برابر برابر فروخت کرو۔ ایک کو دوسرے سے زیادہ نہ کرو۔ اور نقد کو ادھار کے عوض فروخت نہ کرو۔

814

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي تَمِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ، لا فَضْلَ بَيْنَهُمَا»
سعید بن یسار (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا کہ دینار کو دینار کے بدلے فروخت کرو اور درہم کو درہم کے بدلے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ نہ کرو۔ ( ان چاروں روایات کو باب بیع الذہب بالفضہ میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)

815

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ الْتَمَسَ صَرْفًا بِمِائَةِ دِينَارٍ، وَقَالَ: فَدَعَانِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: فَتَرَاوَضْنَا حَتَّى اصْطَرَفَ مِنِّي، فَأَخَذَ طَلْحَةُ الذَّهَبَ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى يَأْتِيَنِي خَازِنِي مِنَ الْغَابَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْمَعُ كَلامَهُ، فَقَالَ: لا، وَاللَّهِ لا تُفَارِقْهُ حَتَّى تَأْخُذَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الذَّهَبُ بِالْفِضَّةِ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ»
الک بن اوس بن حدثان بصری نے بتلایا کہ مجھے سو دینار کے درہم لینے کی ضرورت پیش آئی تو مجھے طلحہ بن عبداللہ نے بلایا۔ ہم دونوں رضا مند ہوگئے۔ طلحہ نے مجھ سے دینار لے لیے اور انھیں اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کرنے ل کے پھر کہا انتظار کرو کہ میرا خزانجی مقام غابہ سے آجائے۔ حضرت عمر (رض) یہ سن رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم۔ تم طلحہ کو بغیر مال لیے نہ چھوڑنا۔ پھر کہنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سونے کو چاندی کے عوض ، کھچور کو کھجور کے عوض اور جو کو جو کے بدلے فروخت کرنا اضافہ سے ( ربوہ ہے مگر اس وقت ربا نہیں جبکہ ) دست بدست ہو ( اور اضافہع نہ ہو) ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الصرف میں ذکر کیا ہے) اس روایت سے جمہور کی تائید ہوتی ہے کہ جو اور گندم الگ الگ اجناس ہیں پس تفاضل جائز ہے۔ حضرت عمر (رض) نے یہ بات بطور تاکید فرمائی ہے۔ بعض دراہم کے کھوٹے ہونے سے بیع صرف جمہور کے ہاں باطل نہیں۔

816

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَوْ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، بَاعَ سِقَايَةً مِنْ وَرِقٍ، أَوْ ذَهَبٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: «سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ» ، قَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا نَرَى بِهِ بَأْسًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ مُعَاوِيَةَ، أُخْبِرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُخْبِرُنِي عَنْ رَأْيِهِ، لا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ أَنْتَ بِهَا، قَالَ: فَقَدِمَ أَبُو الدَّرْدَاءِ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَخْبَرَهُ، فَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ أَنْ لا يَبِيعَ ذَلِكَ إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، أَوْ وَزْنًا بِوَزْنٍ
زید بن اسلم (رح) نے عطاء بن یسار یا سلیمان بن یسار سے نقل کیا کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے سونے یای چاندے برتن اس کے وزن سے زائد کے بلدے فروخت کیا تو ان سے ابو درداء نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کی خریدو فروخت سے منع فرمایا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ دونوں برابر برابر ہوں۔ معاوہی (رض) کہنے لگے میرے نزدیک اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ابو درداء (رض) کنے لگے ۔ امیر معاویہ (رض) کے مقابلہ میں میرا عذر کون قبول کرے گا۔ میں ان کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث پیش کررہا ہوں اور وہ مجھے اپنے رائے بتلاتے ہیں۔ میں اس سرزمین میں نہ رہوں گا جہاں تم ہو۔ پھر ابو درداء (رض) مدینہ منورہ آگئے اور حضرت عمر (رض) کے ہاں یہ واقعہ ذکر کیا۔ انھوں نے امیر معاویہ (رض) کو لکھا کہ اس طرح فروخت نہ کریں بلکہ برابر، برابر یا ہم وزن فروخت کریں۔ ( اس روایت کو امالک نے باب بیع الذہب بالفضہ میں ذکر کیا ہے) امیر معاویہ (رض) کا ممکن ہے یہ اجتہاد ہو یا ڈھلائی کو اس میں داخل کرکے اضافہ تجویز کیا ہو۔ انھوں نے ابو درداء سے تفصیل سے بات نہ کی بظاہرا نص کے تقابل کی وجہ سے وہ ناراض ہوگئے۔ امیر عمر (رض) نے آئندہ کی ممانعت کی مگر سابقہ بیع کو رد نہ کیا۔ کیونکہ امیر معاویہ (رض) نے تاویل سے یہ کیا تھا۔

817

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ اللَّيْثِيُّ، أَنَّهُ رَأَى سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يُراطِلُ الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ، قَالَ: فَيُفَرِّغُ الذَّهَبَ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ، وَيُفَرِّغُ الآخَرُ الذَّهَبَ فِي كِفَّتِهِ الْأُخْرَى، قَالَ: ثُمَّ يَرْفَعُ الْمِيزَانَ، فَإِذَا اعْتَدَلَ لِسَانُ الْمِيزَانِ أَخَذَ وَأَعْطَى صَاحِبَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ عَلَى مَا جَاءَتِ الآثَارُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
یزید لیثی (رح) نے سعید بن المسیب کو دیکھا کہ وہ سونے کو سونے کے بدلے فروخت کرتے ہیں۔ وہ سونا ترازو کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں ہیں پھر ترازو اٹھاتے ہیں۔ جب ترازوکا کانٹا برابر ہوجاتا ہے تو دوسرے کا سونا لے لیتے اور اپنا سونا اسے دے دیتے ہیں۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب المراطلہ میں ذکر کیا ہے) (مراطلہ : سونے کی بیع سونے کے بدلے اور چاندی کی بیع چاندی کے بدلے وزن کرکے مراطلہ کہلاتی ہے۔ بیع مراطلہ کے متعلقہ امام مالک، امام ابوحنیفہ میں اختلاف نہیں بلکہ یہ درست ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ان تمام پر ہمارا عمل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

818

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: لا رِبَا إِلا فِي ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ أَوْ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ مِمَّا يُوكَلُ أَوْ يُشْرَبُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا كَانَ مَا يُكَالُ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ، أَوْ كَانَ مَا يُوزَنُ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ، فَهُوَ مَكْرُوهٌ أَيْضًا، إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُؤْكَلُ وَيُشْرَبُ، وَهُوَ قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَأَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو الزناد نے سعید ابن المسیب (رح) کو کہتے سنا کہ سود صرف سوے چاندی یا کھانے پینے کی ان اشیاء میں ہے جو تول کر یا ماپ کر فروخت کی جائیں ۔
قول محمد (رح) یہ ہیگ کہ جو چیز مکیلی یا موزونی ہو اور وہ ایک ہی جنس سے ہو اس میں برابر برابر اور دست بدست کے علاوہ ناجائز ہے۔ کیونکہ وہ بھی کھانے پینے کی اشیاء کی طرح ہے۔ یہی ابراہیم نخعی (رح) اور امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

819

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلا بِمِثْلٍ» ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَامِلَكَ عَلَى خَيْبَرَ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَدِيٍّ مِنَ الأَنْصَارِ، يَأْخُذُ الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ، قَالَ: ادْعُوهُ لِي، فَدُعِيَ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَأْخُذِ الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لا يُعْطُونِي الْجَنِيبَ بِالْجَمْعِ إِلا صَاعًا بِصَاعَيْنِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، وَاشْتَرِ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا»
زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کھجور کھجور کے ہم وزن فروخت کرو۔ عرض کیا کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عامل خیبر جو انصار کے قبیلہ بنو عدی سے تعلق رکھتے ہیں ایک صاع کھجور دو صاع کے عوض لیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اسے میرے پاس بلاؤ! انھوں نے بلایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا ایک صاع دو صاع کے عوض مت لو۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ اچھی کھجور ردی کھجور کے عوض نہیں دیتے سوائے اس صورت کے کہ ایک صاع کے عوض دو صاع ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ردی کھجور دراہم کے بدلے فروخت کردو۔ اور ان دراہم سے اچھی کھجور خردی لو۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما یکرہ من بیع الثمر میں ذکر کیا ہے)
اس روایت کی بعض روایت میں اتصال ہے اور یہ روایت مرسل ہے۔

820

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ سُهَيْلٍ، وَالزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلا عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟» قَالَ: لا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَكِنَّ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ، وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلاثَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلا تَفْعَلْ، بِعْ تَمْرَكَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ اشْتَرِ بِالدَّرَاهِمِ جَنيِبًا» . وَقَالَ: فِي الْمِيزَانِ مِثْلُ ذَلِكَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سعید بن المسیب (رح) نے ابو سعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ایک شخص کو خیبر کا عامل مقرر کیا گیا۔ اس نے آپ کی خدمت میں اعلی درجہ کی کھجوریں پیش کیں۔ يپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اسنی کہ اللہ کی قسم ایسا نہیں ! لیکن ایک صاع کھجوریں دو صاع کے عوض اور دو صاع تین صاع کے عوض مل جاتی ہیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایسا نہ کرو۔ بلکہ اپنی کھجوریں دراہم کے بدلے فروخت کرو۔ پھر دراہم سے اچھی کھجوریں خرید لو۔ اور فرمایا۔ وزن کی جانے والی اشیاء میں ایسے ہی کرو۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما یکرہ من بیع الثمر میں ذکر کیا)
قول محمد (رح) یہ ہے : ان تمام اقولا کو ہم اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا مسلک ہے۔

821

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ رَجُلٍ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ رَجُلٍ يَشْتَرِي طَعَامًا مِنَ الْجَارِ بِدِينَارٍ وَنِصْفِ دِرْهَمٍ، أَيُعْطِيهِ دِينَارًا وَنِصْفَ دِرْهَمٍ طَعَامًا؟ قَالَ: لا، وَلَكِنْ يُعْطِيهِ دِينَارًا وَدِرْهَمًا، وَيَرُدُّ عَلَيْهِ الْبَائِعُ نِصْفَ دِرْهَمٍ طَعَامًا. قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا الْوَجْهُ أَحَبُّ إِلَيْنَا، وَالْوَجْهُ الآخَرُ يَجُوزُ أَيْضًا إِذَا لَمْ يُعْطِهِ مِنَ الطَّعَامِ الَّذِي اشْتَرَى أَقَلَّ مِمَّا يُصِيبُ نِصْفُ الدِّرْهَمِ مِنْهُ فِي الْبَيْعِ الأَوَّلِ، فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهُ أَقَلَّ مِمَّا يُصِيبُ نِصْفُ الدِّرْهَمِ مِنْهُ فِي الْبَيْعِ الأَوَّلِ، لَمْ يَجُزْ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ایک آدمی نے سعید المسیب سے سوال کیا جو شخص مقام جار ر میں ایک دینا اور نصف درہم کا غلہ لے تو کیا وہ اسے ایک دینا اور درہم طعام کے بدلے دے سکتا ہے انھوں نے کہا نہیں۔ لیکن وہ اس کو ایک دینار اور درہیم دے دے اور فروخت کرنے والا اس کو نصف درہم کے مطابق طعام لوٹادے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ صورت ہمارے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور دوسری صورت بھی جائز ہے۔ کہ جب غلہ سے جو نصف درہم کے بدلے خریدا تھا اسی نرخ سے یہ بہی نصف درہم کا غلہ دے دے۔ بشرطیکہ کم نہ ہو۔ اگر پہلے نرخ سے کم ہے تو جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

822

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَمِيلًا الْمُؤَذِّنَ، يَقُولُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: إِنِّي رَجُلٌ أَشْتَرِي هَذِهِ الأَرْزَاقَ الَّتِي يُعْطِيهَا النَّاسُ بِالْجَارِ، فَأَبْتَاعُ مِنْهَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُرِيدُ أَنْ أَبِيعَ الطَّعَامَ الْمَضْمُونَ عَلَيَّ إِلَى ذَلِكَ الأَجَلِ، فَقَالَ لَهُ سَعِيدٌ: أَتُرِيدُ أَنْ تُوَفِّيَهُمْ مِنْ تِلْكَ الأَرْزَاقِ الَّتِي ابْتَعْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ إِذَا كَانَ لَهُ دَيْنٌ أَنْ يَبِيعَهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ، لأَنَّهُ غَرَرٌ، فَلا يُدْرَى، أَيَخْرُجُ أَمْ لا يَخْرُجُ؟ . وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
یحییٰ نے سناء کہ جمیل مؤذن سعید بن المسیب (رح) کو کہہ رہے تھے کہ میں ان غلہ جات کو جو لوگوں کے لیے مقرر ہیں۔ مقام جار میں خرید تا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ اس غلہ کو ایک میعاد مقرر کرکے فروخت کردوں تو سعید نے کیا تو ایسا چاہتا ہے کہ تو لوگوں کو اس غلہ سے ادائیگی کرے جو تو نے یخریدا ہے۔ جمیل نے کہا ہاں۔ سعید بن المسیب نے جمیل کو اس سے روک دیا۔ ( ممانعت کی وجہ بیع قبل القبض ہے) (اس روایت کو باب العینہ و ما یشبہہا میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ قبضہ کئے بغیر قرض والی چیز کو فروخت کرے۔ جب تک اسے ہاتھ میں مل نہ جائے کیونکہ اس میں دھوکا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ وہ پورا وصول ہوگا یا نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

823

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلا يَسْأَلُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ فَقَالَ: إِنِّي رَجُلٌ أَبِيعُ الدَّيْنَ، وَذَكَرَ لَهُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُسَيِّبِ: لا تَبِعْ إِلا مَا آوَيْتَ إِلَى رَحْلِكَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَبِيعَ دَيْنًا لَهُ عَلَى إِنْسَانٍ إِلا مِنَ الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ، لأَنَّ بَيْعَ الدَّيْنِ غَرَرٌ، لا يُدْرَى، أَيَخْرُجُ مِنْهُ أَمْ لا؟ . وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
موسیٰ بن میسر نے ایک شخص کو سعید بن المسیب (رح) سے یہ دریافت کرتے سنا کہ میں قرض فروخت کرتا ہوں اور اس کی صورتیں بیان کردیں۔ اس پر سعید بن المسیب فرمانے لگے فروخت نہ کر جب تک تو اسے اپنے گھر نہ لے آئے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا مختار یہ ہے کہ کسی شخص مناسب نہیں کہ وہ اس شیء کو فروخت کرے جو کسی پر قرض ہے۔ البتہ اس شخص کو فورخت کردے دس پر قرض ہے اس لیے کہ قرض کا فروخت کرنا دھوکا ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ وصول ہوگا یا نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

824

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: " اسْتَسْلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مِنْ رَجُلٍ دَرَاهِمَ، ثُمَّ قَضَى خَيْرًا مِنْهَا، فَقَالَ الرَّجُلُ: هَذِهِ خَيْرٌ مِنْ دَرَاهِمِي الَّتِي أَسْلَفْتُكَ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ عَلِمْتُ، وَلَكِنَّ نَفْسِي بِذَلِكَ طَيِّبَةٌ "
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے کسی شخص سے کچھ دراہم قرض لیے۔ پھر اس سے بہتر ادا کئے۔ اس شخص نے کہا یہ میرے دراہم سے بہتر ہیں۔ جو میں نے آپ کو قرض دئیے تھے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا میں جانتا ہوں لیکن میں نے اپنی خوشی سے دئیے ہیں۔

825

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا، فَقَدِمَتْ عَلَيْهِ إِبِلٌ مِنْ صَدَقَةٍ، فَأَمَرَ أَبَا رَافِعٍ أَنْ يَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ، فَرَجَعَ إِلَيْهِ أَبُو رَافِعٍ، فَقَالَ: لَمْ أَجِدْ فِيهَا إِلا جَمَلا رَبَاعِيًا خِيَارًا، فَقَالَ: أَعْطِهِ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِذَلِكَ، إِذَا كَانَ مِنْ غَيْرِ شَرْطٍ اشْتُرِطَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عطاء بن یسار (رح) نے رافع (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی شخص سے ایک چھوٹا اونٹ قرض لیا ۔ آپ کے پاس صدقہ کے اونٹ يئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو رافع (رض) کو حکم فرمایا۔ کہ اسے ایک چھوٹا اونٹ دے دو ۔ ابو رافع (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا صدقہ میں سب سے اجھے اور چھ برس کی عمر کے بڑے اور نٹ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ انہی میں سے دے دو ۔ کہ اچھے لوگ وہ ٧٧ ہیں جو قرض بہتر طور پر ادا کریں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا عمل ابن عمر (رض) کے قول پر ہے اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس قسم کی کوئی شرط ( قرض کے وقت ) مقرر نہ کی گئی ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

826

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلَا يَشْتَرِطْ إِلا قَضَاءَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ أَفْضَلَ مِنْهُ، وَلا يَشْتَرِطَ عَلَيْهِ أَحْسَنَ مِنْهُ، فَإِنَّ الشَّرْطَ فِي هَذَا لا يَنْبَغِي، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے جو شخص قرض لیتا تو اس کی ادائیگی کے علاوہ اس سے کوئی شرط نہ کرتے۔ (ان تمام روایات کو امام مالک نے باب ما یجوز من السلف میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا مختار یہی قول ہـے۔ یہ جائز نہیں کہ وہ اس سے افضل یا اس سے بہتر کی شرط مقرر کرے۔ کیونکہ قرض میں کوئی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

827

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: قَطْعُ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ مِنَ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي قَطْعُ الدَّرَاهِمِ، وَالدَّنَانِيرِ لِغَيْرِ مَنْفَعَةٍ
یحییٰ بن سعید نے نقل کیا کہ سعید بن المسیب فرماتے کہ چاندی اور سونی کا کاٹنا زمین میں فساد برپا کرنا ہے ( اس اثر کو باب بیع الذہب بالفضہ میں تبرا میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ درہم و دینار کا کسی منفعت و ضرورت کے بغیر کاٹنا درست نہیں ہے۔

828

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ حَنْظَلَةَ الأَنْصَارِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ فَقَالَ: «قَدْ نُهِيَ عَنْهُ» ، قَالَ حَنْظَلَةُ: فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: بِالذَّهَبِ، وَالْوَرِقِ؟ قَالَ رَافِعٌ: لا بَأْسَ بِكِرَائِهَا بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِكِرَائِهَا بِالذَّهَبِ، وَالْوَرِقِ بِالْحِنْطَةِ كَيْلا مَعْلُومًا، وَضَرْبًا مَعْلُومًا، مَا لَمْ يُشْتَرَطْ ذَلِكَ مِمَّا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَإِنِ اشْتُرِطَ مِمَّا يَخْرُجُ مِنْهَا كَيْلا مَعْلُومًا، فَلا خَيْرَ فِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، وَقَدْ سُئِلَ عَنْ كِرَائِهَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ بِالْحِنْطَةِ كَيْلا مَعْلُومًا، فَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: هَلْ ذَلِكَ إِلا مِثْلُ الْبَيْتِ يُكْرَى
حنظلہ انصاری (رح) نے خبر دی کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے کھیتوں کے کرایہ کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا اس سے منع کیا گیا ہے۔ حنظلہ کہتے ہیں میں نے دوسرا سوال سونے چاندی کے متعلق کیا تو انھوں نے فرمایا چاندی و سونے کے بدلے میں کرایہ پر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے
(اس روایت کو کتاب کر اء الارض میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارا مختار یہی قول ہے۔ سونے چاندی اور گندم کے بدلے زمین کرایہ بر دینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ وزن اور جنس معلو ہو۔ یہ شرط نہ کی ہو کہ جو کچھ زمین سے پیدا ہوگا وہ دے دے گا۔ اکر یہ شرط ٹھہرائی کہ جو زمین سے پیدا ہوگا اس میں سے اس قدر دے دوں گا۔ تو اس میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ رحمہ الل ٩ ہ اور ہمارے یعام فقہاء کا قول ہے۔ اور سعیدبن جبیر سے ایک مقررہ مقدار گندم کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے اس کی اجازت دے دی۔ انھوں نے فرمایا یہ یہ اس طرح ہے جیسے مکان کرایہ پردے دیا جاتا ہے ( مزارعت کی اس صورت کے تمام علماء احناف قائل ہیں امام صاحب کا اختلاف صرف بٹائی میں ہے۔ امام صاحب کے ہاں زمین سے حاصل ہونے والی فصل کے ثلث ، ربع پر زمین کو کرائے پر دینا درست نہیں اس کو مخابرت کہا جاتا ہے اور اسی کی ممانعت احادیث میں آتی ہے۔ مزارعت کو سب جائز مانتے ہیں)

829

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَتَحَ خَيْبَرَ، قَالَ لِلْيَهُودِ: «أُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ عَلَى أَنَّ الثَّمَرَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ» ، قَالَ: «وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْعَثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ، فَيَخْرُصُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ» . ثُمَّ يَقُولُ: إِنْ شِئْتُمْ فَلَكُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ فَلِي، قَالَ: فَكَانُوا يَأْخُذُونَهُ
سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے فرمایا۔ اللہ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے میں تمہیں اس پر بر قرار رکھوں گا۔ اس طور پر کہ پھل ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک طور پر تقسیم ہوگا۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عبداللہ بن رواحہ انصاری (رض) کو بھیجتے وہ اس مشترک پھل کا اندازہ کرلیتے اور کہتے چاہو تم لے لو۔ اور چاہو تم مجھے دے دو یہود پہل لے لیتے ( اور اندازے کی نصف قیمت ادا کردیتے)

830

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْعَثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ فَيَخْرُصُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْيَهُودِ» ، قَالَ: فَجَمَعُوا حُلِيًّا مِنْ حُلِيِّ نِسَائِهِمْ، فَقَالُوا: هَذَا لَكَ، وَخَفِّفْ عَنَّا، وَتَجَاوَزْ فِي الْقِسْمَةِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، وَاللَّهِ إِنَّكُمْ لَمِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ، وَمَا ذَاكَ بِحَامِلِي أَنْ أَحِيفَ عَلَيْكُمْ، أَمَّا الَّذِي عَرَضْتُمْ مِنَ الرَّشْوَةِ، فَإِنَّهَا سُحْتٌ وَإِنَّا لا نَأْكُلُهَا، قَالُوا: بِهَذَا قَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِمُعَامَلَةِ النَّخْلِ عَلَى الشَّطْرِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبْعِ، وَبِمُزَارَعَةِ الأَرْضِ الْبَيْضَاءِ عَلَى الشَّطْرِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبْعِ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَكْرَهُ ذَلِكَ، وَيَذْكُرُ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ الْمُخَابَرَةُ الَّتِي نَهَى عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سلیمان بن یسار بن کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشترک پھلوں کا اندازہ کرتے۔ سلیمان بیان کرتے ہیں کہ ہ یہودی نے اپنی بیویوں کے زیورات اکٹھے کیے اور کہا یہ تمہارے لیے ہیں۔ تم ہمارے محصول میں کمی کردو۔ اور بٹائی کے سلسلہ میں ہم میں سے درگزر کرو۔ عبداللہ ٨ بن رواحہ (رض) نے فرمایا اے یہود ! میرے نزدیک تم دنیا کی بدترین مخلوق ہو ! اس کے باجود مجھے یہ بات اس پر آمادہ نہیں کرتی کہ میں تم پر ظلم کروں اور رشوت تم دینا چاہتے ہو وہ حرام ہے۔ ہم لوگ اسے نہیں کھاتے۔ یہود کہنے لگے اسی سے آسمان و زمین قائم ہیں (جب انصاف نہ رہے گا قیامت آجائے گی) (ان دونوں روایات کو کتاب المساقات میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا مختار یہی ہے۔ کھجور اور خالی زمین کا نصف تہائی یا چوتھائی حصہ پر معاملہ کرنا درست ہے اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اسے مکروہ ق رار دیتے اور کہتے تھے کہ وہ ب یع مخابرہ ہے۔ جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا۔

831

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ، وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ»
عروہ بن زبیر (رح) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شخص نے بنجر زیمن کو آباد کیا وہ اسی کی ہے کسی ظالم آدیم کا اس میں حق نہیں ہے۔

832

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً بِإِذْنِ الإِمَامِ، أَوْ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَهِيَ لَهُ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَقَالَ: لا يَكُونُ لَهُ إِلا أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ الإِمَامُ، قَالَ: وَيَنْبَغِي لِلإِمَامِ إِذَا أَحْيَاهَا أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ لَمْ تَكُنْ لَهُ
سالم بن عبداللہ (رح) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جس نے غیر آباد زمین کو يباد کیا وہ اس کی ملکیت ہے ( ان دونوں آثار کو امام مالک نے باب القضاء فی عمارۃ الموات میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ امام اجازت یا بلا اذن جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کی ملکیت ہے۔ امام ابو حنف ہے (رح) کا قول یہ ہے کہ زمین اس کی ملکیت نہ بنے گی۔ جب تک امام اس کو اجازت نہ دے لیکن امام کے لیے مناسب یہی ہے۔ کہ جب اس نے آباد کی ہے تو وہ اس کو دے دے۔ اور اگر امام اجازت نہ دے تو وہ اس کی نہیں ہوگی۔

833

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي سَبِيلِ مَهْزُورٍ وَمُذَيْنِبٍ: يُمْسِكُ حَتَّى يَبْلُغَ الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسِلُ الأَعْلَى عَلَى الأَسْفَلِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، لأَنَّهُ كَانَ كَذَلِكَ الصُّلْحُ بَيْنَهُمْ: لِكُلِّ قَوْمٍ مَا اصْطَلَحُوا، وَأَسْلَمُوا عَلَيْهِ مِنْ عُيُونِهِمْ وَسُيُولِهِمْ وَأَنْهَارِهِمْ وَشِرْبِهِمْ
عبداللہ بن ابی بکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہز ور اور مذینب کے متعلق فرمایا۔ کہ (بلند باغ والے) پانی کو روکیں یہاں تک کہ پانی ٹخنوں تک پہنچ جائے پھر وہ نیچے والے کے لیے پانی چھوڑ دیں۔ ( اس روایت کو باب القضاء فی المیاہ مں ن ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا مختار یہی قول ہے۔ ان کے ما بین اس طرح صلح ہوگی۔ اور ہر قوم کو اجازت ہے کہ وہ اپنے چشموں کے متعلق، بارش کے پانیوں کے متعلق، اور نہروں کے سلسلہ میں ( باہم تقسیم طے کرکے) صلح کرلیں۔

834

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ الضَّحَّاكَ بْنَ خَلِيفَةَ سَاقَ خَلِيجًا لَهُ حَتَّى النَّهْرِ الصَّغِيرِ مِنَ الْعُرَيْضِ، فَأَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بِهِ فِي أَرْضٍ لِمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، فَأَبَى مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ: لِمَ تَمْنَعُنِي، وَهُوَ لَكَ مَنْفَعَةٌ تَشْرَبُ بِهِ أَوَّلا وَآخِرًا، وَلا يَضُرُّكَ، فَأَبَى، فَكَلَّمَ فِيهِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَدَعَا مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَهُ، فَأَبَى، فَقَالَ عُمَرُ: لِمَ تَمْنَعُ أَخَاكَ مَا يَنْفَعُهُ، وَهُوَ لَكَ نَافِعٌ تَشْرَبُ بِهِ أَوَّلا وَآخِرًا، وَلا يَضُرُّكَ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ: لا وَاللَّهِ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لَيَمُرَّنَّ بِهِ وَلَوْ عَلَى بَطْنِكَ. فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُجْرِيَهُ
یحییٰ روایت کرتے ہیں کہ ضحاک بن خلیفہ (رح) نے وادی عریض میں ایک چھوٹی نہر نکالی۔ اسے محمد بن مسلمہ (رض) نے زمین میں سے گزارنا چاہا۔ تو محمد بن مسلمہ (رض) نے انکار کیا۔ ضحاک نے کہا مجھے انکار نہ کرو اس میں تمہارا فائدہ ہے۔ اس میں شروع میں بھی پانی لوگے اور آخر میں بھی پانی لگے۔ اور تمہارا نقصان کچھ بھی نہیں ۔ اس نے پھر انکار کیا۔ ضحاک نے اس سلسلہ میں حضرت عمر (رض) سے بات چیت کی۔ تو آپ نے محمد بن مسلمہ (رض) کو بلا بھیجا وہ آئے تو ان کو فرمایا اسے راستہ دے دو ۔ انھوں نے انکار کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اپنے بھائی کو اس کام سے منع نہ کرو جو تمہارے لیے بہی نفع بخش ہے۔ تو اول بھی پانی لو کے اور آخر میں بہی پانی لوکی۔ اور اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اللہ کی قسم وہ نہر بنائی جائے گی۔ خواہ تمہارے پیت پر سے ( گزارنی پڑے) پہر حضرت عمر (رض) نے محمد بن مسلمہ (رض) کو نہر نکالنے کا حکم دیا ور ( ضحاک نے نہر نکال لی) ( اس روایت کو باب القضاء فی المرفق میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے) بقول ابو الولید امام مالک و ابوحنیفہ رحمہا اللہ نے حضرت عمر کے فیصلہ کو اختیار نہیں کیا۔ اور ان کا یہ اجتہادی حکم ان کے زمانہ کی مناسب تھا۔ بعد کے زمانہ کے موافق نہ تھا۔

835

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى الْمَازِنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ فِي حَائِطِ جَدِّهِ رَبِيعٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَأَرَادَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَنْ يُحَوِّلَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْحَائِطِ هِيَ أَرْفَقُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَقْرَبُ إِلَى أَرْضِهِ، فَمَنَعَهُ صَاحِبُ الْحَائِطِ، فَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَضَى لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بِتَحْوِيلِهِ
یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کے باغ میں سے ہو کر عبد الرحمن بن عوف (رض) کی ایک چھوٹی سے نہر گزرتی تھی عبد الرحمن نے چاہا کہ اس نہر کو باغ کی دوسری جانب منتقل کریں اور وہ جانب ان کی زمیان سے قریب تھی۔ اور اس سے سیراب کرنا بھی يسان تھاد لیکن باغ کے مالک یعنی مرے دادا نے انھیں اس بات سے روکا۔ تو عبد الرحمن بن عوف (رض) نے حضرت عمر (رض) سے یہ ماجرا بیان کیا د تو انھوں نے عبد الرحمن کو اس کے منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس روایت کو باب القضاء فی المرافق میں ذکر کیا ہے) امام مالک و شافعی و ابوحنیفہ نے اس رائے کو اختارر نہیں کیا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے حالات زمانہ کے مناسب یہ فیصلہ فرمایا۔ اور حالات ایک طریق پر نہیں رہتے۔ آج کل لوگ پانی گزار کر ملکیت کے مدعی بن جاتے ہیں۔

836

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يُمْنَعُ نَقْعُ بِئْرٍ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ بِئْرٌ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَمْنَعَ النَّاسَ مِنْهَا أَنْ يَسْتَقُوا مِنْهَا لِشِفَاهِهِمْ، وَإِبِلِهِمْ وَغَنَمِهِمْ، وَأَمَّا لِزَرْعِهِمْ، وَنَخْلِهِمْ فَلَهُ أَنْ يَمْنَعَ ذَلِكَ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عمرہ بن عبد الرحمن (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ کسی کو کنوئیں کے بچے ہوئے پانی سے نہ روکا جائے۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب القضاء فی المیاہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اکر کسی کا کنواں ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ لوگوں کو پانی بھرنے یا ن کے اونٹ اور بکریوں کو پانی پلانے سے منع کرے ۔ البتہ ان کو کھیتی باڑی اور کھجوروں سے روکنے کا اسے اختیار حاصل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

837

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ «سَيَّبَ سَائِبَةً» . قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ: «الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ» ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: لا سَائِبَةَ فِي الإِسْلامِ، وَلَوِ اسْتَقَامَ أَنْ يُعْتِقَ الرَّجُلُ سَائِبَةً، فَلا يَكُونُ لِمَنْ أَعْتَقَهُ وَلاؤُهُ لاسْتَقَامَ لِمَنْ طَلَبَ مِنْ عَائِشَةَ أَنْ تُعْتِقَ، وَيَكُونُ الْوَلاءُ لِغَيْرِهَا، فَقَدْ طَلَبَ ذَلِكَ مِنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ» ، وَإِذَا اسْتَقَامَ أَنْ لا يَكُونَ لِمَنْ أَعْتَقَ وَلَاءٌ اسْتَقَامَ أَنْ يُسْتَثْنَى عَنْهُ الْوَلاءُ، فَيَكُونَ لِغَيْرِهِ، وَاسْتَقَامَ أَنْ يَهَبَ الْوَلاءَ وَيَبِيعَهُ، «وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلاءِ وَهِبَتِهِ» . وَالْوَلاءُ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ النَّسَبِ، وَهُوَ لِمَنْ أَعْتَقَ، إِنْ أَعْتَقَ سَائِبَةً أَوْ غَيْرَهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے ایک غلام کو سائبہ بنا کر چھوڑ دیا۔
سائبہ : جس غلام کو اس شرط میں آزاد کردیا جائے کہ تیر ولاء کے ہم وارث نہ ہوں گے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد گرامی میں فرمادیا ” ولاء اس کی ہے کہ جو غلام کو آزاد کرلے، ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اسلام میں سائبہ بنانا مالک معتق کو نہ ملے تو ان لوگوں کے لیے درست ہوتا جنہوں عائشہ (رض) عنہا سے ولاء طلب کی تہی اور کہا تھا۔ تم آزاد کرو ولاء تمہارے لیے نہ ہوگی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ ولاء تو آزاد کرنے والے کو ملے : ی۔ اکر یہ بات درست ہو کہ ولاء آزد کرنے والے کی نہیں ہے تو ولاء کا استثناء بہی جائز ہوتا تاکہ وہ دوسروں کو مل سکے۔ اور اس کی فروخت اور ہبہ بھی درست ہوتا۔ حالانکہ ولاء کی فروخت اور ہبہ سے صاف ممانعت کی گئی ہے۔ میرے نزدی ولاء بطور نسب کے ہیں۔ وہ اس کے لیے ہے۔ جس نے آزاد کیا۔ خواہ سائبہ کے طور پر یا کسی دوسری صورت میں آزاد کیا ہوا امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

838

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ، وَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ، قُوِّمَ قِيمَةَ الْعَدْلِ، ثُمَّ أُعْطِيَ شُرَكَاؤُهُ حِصَصَهُمْ، وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِلا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا أُعْتِقَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا فِي مَمْلُوكٍ فَهُوَ حُرٌّ كُلُّهُ، فَإِنْ كَانَ الَّذِي أَعْتَقَ مُوسِرًا ضَمِنَ حِصَّةَ شَرِيكِهِ مِنَ الْعَبْدِ، وَإِنْ كَانَ مُعْسِرًا سَعَى الْعَبْدُ لِشُرَكَائِهِ فِي حِصَصِهِمْ، وَكَذَلِكَ بَلَغَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: يُعْتَقُ عَلَيْهِ بِقَدْرِ مَا أَعْتَقَ، وَالشُّرَكَاءُ بِالْخِيَارِ: إِنْ شَاءُوا أَعْتَقُوا كَمَا أَعْتَقَ، وَإِنْ شَاءُوا ضَمَّنُوهُ إِنْ كَانَ مُوسِرًا، وَإِنْ شَاءُوا اسْتَسْعَوُا الْعَبْدَ فِي حِصَصِهِمْ، فَإِنِ اسْتَسْعَوْا، أَوْ أَعْتَقُوا كَانَ الْوَلاءُ بَيْنَهُمْ عَلَى قَدْرِ حِصَصِهِمْ، وَإِنْ ضَمَّنُوا الْمُعْتِقَ كَانَ الْوَلاءُ كُلُّهُ لَهُ، وَرَجَعَ عَلَى الْعَبْدِ بِمَا ضُمِّنَ، وَاسْتَسْعَاهُ بِهِ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے مشترکہ غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا اور آزاد کرنے والے کے پاس اس قدر مال ہے جو کہ غلام کی قیمت کے برابر ہو تو اس کی غلام کی قتما لگائی جائے۔ آزاد کرنے والا شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق دے دے۔ اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہوجائے گا۔ ورنہ اسی قدر آزاد ہوگا جتنا اس نے آزاد کیا ( اس روایت کو باب من اعتق شرکالہ فی مملوک میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جس ٧ نے غ ٧ لام کا ایک حصہ آزاد کیا تو وہ پورا آزاد ہے ٧٧۔ اکر وہ مالدار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کا ضامن ہونے کی وجہ سے ادائیگی کرے گا۔ اور اکرتنگدست اور فقیر ہے تو غلام مزودوری کرکے ان کے حصے ادار کرے گا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایت ہم تک اسی طرح پہنچی ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا غلام اس قدر آزاد ہوگا۔ جتنا اس نے آزاد کیا ہے۔ باقی شرکاء کو خود اختیار ہے۔ وہ چاہیں تو آزاد کردیں جیسے کہ اس نے آزاد کیا۔ اور اگر چاہیں تو اس سے ضمان لے لیں اگر وہ مالدار ہو اور اکر چاہیں تو غلام سے اپنے حصہ کی مزودوری لے لیں ۔ اگر ان لوگوں نے اس سیُ کام لیا اور آزاد کردیا تو ودلاء سب کو ان کے حصص کے مطابق مشترک ملے گی۔ اکر آزاد کرنے والے سے اس کی قیمت وصول کرلی گئی تو تمام ولاء کا مالک وہ معتق ہی ہوگا۔ وہ غلام سے اس قدر کام لے گا جس قدر حصہ کی اس نے قیمت اداء کی ہے۔

839

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، «أَعْتَقَ وَلَدَ زِنًا وَأُمَّهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَهُوَ حَسَنٌ جَمِيلٌ، بَلَغَنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ عَبْدَيْنِ: أَحَدُهُمَا لِبَغِيَّةٍ، وَالآخَرُ لِرِشْدَةٍ: أَيُّهُمَا يُعْتَقُ؟ قَالَ: أَغْلاهُمَا ثَمَنًا بِدِينَارٍ. فَهَكَذَا نَقُولُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے ایک والد الزناء کو اور اس کی والدہ کو آزاد کردیا ( اس روایت کو باب فضل عتق الرقاب میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ سب بہتر ہے۔ ابن عباس (رض) سے ہمیں یہ روایت پہنجی ہے کہ ان دو غلاموں کے متعلق جب ان سے سوال ہوا کہ ایک زانیہ لونڈی کے بطن سے ہے دوسرا نیک لوندی کے بطن سے ہے ان میں سے کس کو آزاد کیا جائے۔ انھوں نے فرمایا جس کی قیمت زایدہ ہو۔ چانچہ ہم بہی یہی کہتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

840

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: «تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فِي نَوْمٍ نَامَهُ، فَأَعْتَقَتْ عَائِشَةُ رِقَابًا كَثِيرَةً» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ أَنْ يُعْتَقَ عَنِ الْمَيِّتِ، فَإِنْ كَانَ أَوْصَى بِذَلِكَ كَانَ الْوَلاءُ لَهُ، وَإِنْ كَانَ لَمْ يُوصِ كَانَ الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، وَيَلْحَقُهُ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
حییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) نیند کی حالت میں انتقال فرماگئے۔ تو ان کی طرف سے ان کی بہن عائشہ (رض) عنہا نے بہت سے غلام آزاد کئے ۔ ( اس روایت کو باب عتق الحی عن المیت میں امام مالک نے ذکرمایا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو مختار قرار دیتے ہیں کہ میت کی طرف سے غلام آزاد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر مرحوم کی طرف سے وصیت ہو تو ولاء اس کی ہوگی۔ اور اکر وصیت نہ کی ہو بلکہ بطور تبرع ہو تو ولاء آزاد کرنے والے کو ملے گی اور اس کو ان شاء اللہ تعالیٰ اجر بھی ملے گا۔

841

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الرِّجَالِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِيَةً لَهَا عَنْ دُبُرٍ مِنْهَا، ثُمَّ إِنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بَعْدَ ذَلِكَ اشْتَكَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَشْتَكِيَ، ثُمَّ إِنَّهُ دَخَلَ عَلَيْهَا رَجُلٌ سِنْدِيٌّ، فَقَالَ لَهَا، أَنْتِ مَطبُوبَةٌ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: وَيْلَكَ، مَنْ طَبَّنِي؟ قَالَ: امْرَأَةٌ مِنْ نَعْتِهَا كَذَا وَكَذَا، فَوَصَفَهَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي حَجْرِهَا الآنَ صَبِيًّا قَدْ بَالَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: ادْعُوا لِي فُلانَةً جَارِيَةً كَانَتْ تَخْدُمُهَا، فَوَجَدُوهَا فِي بَيْتِ جِيرَانٍ لَهُمْ فِي حَجْرِهَا صَبِيٌّ، قَالَتْ: الآنَ حَتَّى أَغْسِلَ بَوْلَ هَذَا الصَّبِيِّ، فَغَسَلَتْهُ ثُمَّ جَاءَتْ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: أَسَحَرْتِنِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: لِمَ؟ قَالَتْ: أَحْبَبْتُ الْعِتْقَ، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لا تَعْتَقِينَ أَبَدًا، ثُمَّ أَمَرَتْ عَائِشَةُ ابْنَ أُخْتِهَا أَنْ يَبِيعَهَا مِنَ الأَعْرَابِ مِمَّنْ يُسِيءُ مَلْكَتَهَا، قَالَتْ: ثُمَّ ابْتَعْ لِي بِثَمَنِهَا رَقَبَةً، ثُمَّ أَعْتِقْهَا، فَقَالَتْ عَمْرَةُ: فَلَبِثَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مَا شَاءَ اللَّهُ مِنَ الزَّمَانِ، ثُمَّ إِنَّهَا رَأَتْ فِي الْمَنَامِ أَنِ اغْتَسِلِي مِنْ آبَارٍ ثَلاثَةٍ يَمُدُّ بَعْضُهَا بَعْضا، فَإِنَّكِ تُشْفَيْنَ، فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، فَذَكَرَتْ أُمُّ عَائِشَةَ الَّذِي رَأَتْ، فَانْطَلَقَا إِلَى قَنَاةٍ، فَوَجَدَا آبَارًا ثَلاثَةً يَمُدُّ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَاسْتَقَوْا مِنْ كُلِّ بِئْرٍ مِنْهَا ثَلاثَ شُجُبٍ حَتَّى مَلَئُوا الشُّجُبَ مِنْ جَمِيعِهَا، ثُمَّ أَتَوْا بِذَلِكَ الْمَاءِ إِلَى عَائِشَةَ، فَاغْتَسَلَتْ فِيهِ فَشُفِيَتْ. قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا نَحْنُ فَلا نَرَى أَنْ يُبَاعَ الْمُدَبَّرُ، وَهُوَ قَوْلُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عمرہ بنت عبد الرحمن (رض) عنہا نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم کی زوجہ محترمہ عائشہ صدیقہ (رض) عنہا نے ایک لونڈی کی مدبرہ بنایا تھا حضرت عائشہ (رض) عنہا اس کے بعد بیمار پڑگئیں اور جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا بیمار ہیں۔ ایک سندی بھی ٧٧ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ پر جادو کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے اس کو فررمایا تیرا برا ہو مجھ پر کون جادو کرے گا ؟ اس نے کہا ایک عورت جو ایسی ایسی ہے۔ اس نے اس کا پورا حلیہ بیان کردیا۔ اس نے کہا اس وقت اس کی گود میں بچہ ہے اور اس نے پاشعب کیا ہوا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے حکم دیا کہ فلاں لونڈی کو میرے پاس لاؤ۔ جو ان کی خدمت کرتی تھی۔ ( اس کا حلیہ وہی تھا) لوگوں نے اسے ان کے پڑوس میں پالیا اس کی گود میں بچہ تھا۔ وہ بولی ابھی آتی ہوں۔ اس بچہ کے پیشاب کو دھولوں۔ جب پیشا دھوچ کی تو آئی۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے اس سے فرمایا۔ کیا تو نے مجھ پر جادو کیا ہے ؟ اس نے اقرار کرلیا۔ انھوں نے دریافت کیا کیوں ؟ وہ کہنے لگی میں آزاد ہونا چاہتی تھی۔ آپ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم تم کبھی آزاد نہ ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے بھتیجے کو حکم دیا کہ اس کو کسی ایسے بدو کے ہاتھ فروخت کردو جو اس کو تکلیف میں رکھے۔ اس کے بعد اس کی قیمت کا غلام خرید کر اس کو آزاد کردو۔
عمرہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا بیماری کی حالت میں رہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر انھوں نے خواب میں دیکھا تم ان تین کنوؤں کے پانی سے غسل کرو۔ جن کا پانی ایک دوسرے سے ملتا ہے۔ تو تم شفایاب ہوجاؤگی۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا کی خدمت میں اسماعیل بن ابوبکر اور عبد الرحمن بن سعد بن زائدہ آئے تو حضرت عائشہ (رض) عنہا نے ان سے اس خواب کا تذکرہ فرمایا۔ وہ دونوں اس جگہ گئے جہاں سے پانی نکلتا تھا۔ وہاں انھوں نے تین کنوئیں پائیں۔ جن کا پانی ایک دوسرے سے ملتا تھا ۔ انھوں نے ہر کنوئیں سے تہائی مشک بھری۔ جب مشک پانی سے بھر گئی تو وہ بھری ہوئی مشک حضرت عائشہ (رض) عنہا کی خدمت میں لائے۔ انھوں نے اس سے غسل کیا تو وہ شفا یاب ہوگئیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ مدبر کی فروخت جائز نہیں ہے۔ یہی زید بن ثابت اور ابن عمر (رض) کا قول ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے اکثر فقہاء کا قول یہی ہے۔

842

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: مَنْ أَعْتَقَ وَلِيدَةً عَنْ دُبُرٍ مِنْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَنْ يَطَأَهَا وَأَنْ يُزَوِّجَهَا، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَبِيعَهَا، وَلا أَنْ يَهَبَهَا، وَوَلَدُهَا بِمَنْزِلَتِهَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب (رح) کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی کنیز کو مدبر کی صورت میں آزاد کردے تو اس سے اس کا مباشرت کرنا یا کسی اور سے اس کا نکاح کردینا جائز ہے۔ لیکن اسے فروخت کرنے یا ہبہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ اور اس کا لڑکا بھی اسی طی طرح ہے (اس اثر کو امام مالک (رح) باب مس الرجل ولیدتہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو مختار قرار دیتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

843

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدٌ، وَقَالَ: ابْنُ أخِي، قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ أَخِي فِيهِ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي، قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ أَخِي عُتْبَةُ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، ابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، ثُمَّ قَالَ: «الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرِ» ، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ: احْتَجِبِي مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا۔ کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے۔ تم اسے اپنے پاس رکھو۔ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن سعد نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے دعوی کیا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ اور میرے والد کی لوندی کا بیٹا ہے۔ اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں نے اپنا معاملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا۔ سعد نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ بولے کہ یہ میرا بھائی ہے۔ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے عبد بن زمعہ ! یہ تمہارا ہے۔ پھر فرمایا۔ لڑکا اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانے کے لیے پتھر ہیں ( یعنی سنگساری کی سزا کا حق دار ہے) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ن سودہ بنت زمعہ (رض) عنہا سے فرمایا۔ تم اس سے پردہ کیا کرو۔ اس لیے کہ اس لڑکے کی مشابہت عتبہ سے محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت سودی (رض) عنہا نے اس کو نہیں دیکھا (ہمیشہ پردہ کرتی رہیں) یہاں تک کہ فوت ہوگئیں۔ ( اس روایت کو باب القضاء بلحاق الولد بابیہ میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو اختیار کرتے ہیں بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کو سنگسار کیا جائے ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

844

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبَلَغَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِلافُ ذَلِكَ، وَقَالَ: ذَكَرَ ذَلِكَ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ، وَأَوَّلُ مَنْ قَضَى بِهَا مُعَاوِيَةُ، وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ أَعْلَمُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِهِ، وَكَذَلِكَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَيْضًا، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ: أَنَّهُ قَالَ: كَانَ الْقَضَاءُ الأَوَّلُ لا يُقْبَلُ إِلا شَاهِدَانِ، فَأَوَّلُ مَنْ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ
جعفر بن محمد (رح) نے اپنے والد محمد بن باقر (رح) سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ کے استھ قسم کے بعد فیصلہ فرمایا۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب القضاء بالیمین مع الشاہد میں ذکر کیا ہے) یہ حدیث مرسل ہے مگر مسلم، ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ نے ابن عباس اور جابر سے موصولا نقل کی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس کے خلاف پہنچا ہے۔ جس کو ابن ابی زئب نے ابن شہاب زہری سے نقل کیا کہ میں نے ان سے ایک گواہ کے ساتھ قسم کے متعلق دریافت کیا۔ تو انھوں نے فرمایا یہ بدعت ہے۔ اور پہلا شخص جس نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا وہ امیر معاویہ رضی ارللہ عنہ ہے اور اہل مدینہ کے ہاں ابن شہاب زہری دوسروں کی نسبت حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ اسی طرح ابن جریج اور عطاء بن رباح نے بھی روایت کی ہے۔ انھوں نے کہا ابتداء میں ندو گواہوں کے بغیر فیصلے نہیں کیے جاتے تھے۔ سب سے پہلے جس نے ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ کیا وہ عبد الملمک بن مروان تھا۔

845

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ، يَقُولُ: اخْتَصَمَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَابْنُ مُطِيعٍ فِي دَارٍ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَقَضَى عَلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ بِالْيَمِينِ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ لَهُ زَيْدٌ: أَحْلِفُ لَهُ مَكَانِي، فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ: لا وَاللَّهِ إِلا عِنْدَ مَقَاطِعِ الْحُقُوقِ، قَالَ: فَجَعَلَ زَيْدٌ يَحْلِفُ أَنَّ حَقَّهُ لَحَقٌّ، وَأَبَى أَنْ يَحْلِفَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، فَجَعَلَ مَرْوَانُ يَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَأْخُذُ، وَحَيْثُمَا حَلَفَ الرَّجُلُ فَهُوَ جَائِزٌ، وَلَوْ رَأَى زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ ذَلِكَ يَلْزَمُهُ مَا أَبَى أَنْ يُعْطِيَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِ، وَلَكِنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُعْطِيَ مَا لَيْسَ عَلَيْهِ، فَهُوَ أَحَقُّ أَنْ يُؤْخَذَ بِقَوْلِهِ، وَفِعْلِهِ مِمَّنِ اسْتَحْلَفَهُ
ابو غطفان بن طریف مری کہتے ہیں کہ زید بن ثابت اور ابن مطیع (رض) کا ایک مکان کے سلسلہ میں جھگڑا ہوا مروان بن الحکم (حاکم مدینہ) نے زید بن ثابت کے لیے فیصلہ کیا وہ منبر نبوی کے قریب قسم کھائیں۔ زید نے کہا میں یہیں قسم کھاؤں گا۔ مرواننی کہا اللہ کی قسم نہیں ! جہاں مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں وہاں قسم کھاؤ۔ اوب غطفان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے اپنے دعوے کے حق میں قسم کھائی۔ لیکن منبر نبوی کے قریب قسم کھانے سے انکار کیا۔ مروان کو اس بات پر تعجب ہوا۔ ( اس روایت کو باب جامع ما جاء فی الیمین علی المنبر میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم زید بن ثابت کے قول پر عمل کرتے ہیں۔ کہ آدمی جہاں بہی قسم گہائے جائز ہے۔ اگر زید بن ثابت ( منبر کے قریب حلف کو ) ضروری قرار دیتے تو اس کا انکار نہ کرتے۔ وہ اس حق کو دے دیتے جو ان کے ذمہ بنتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس حق کو دینا ناپسند جو ان کے ذمہ بنتا ہی نہ تھا۔ پس وہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کے قول و فعل کی اتباع کی جائے ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے ان سے قسم طلب کی تھی۔

846

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لا يُغْلَقُ الرَّهْنُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَتَفْسِيرُ قَوْلِهِ: «لا يُغْلَقُ الرَّهْنُ» ، أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَرْهَنُ الرَّهْنَ عِنْدَ الرَّجُلِ، فَيَقُولُ لَهُ: إِنْ جِئْتُكَ بِمَالِكَ إِلَى كَذَا وَكَذَا، وَإِلا فَالرَّهْنُ لَكَ بِمَالِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا يُغْلَقُ الرَّهْنُ» ، وَلا يَكُونُ لِلْمُرْتَهِنِ بِمَالِهِ، وَكَذَلِكَ نَقُولُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَكَذَلِكَ فَسَّرَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ
ابن شہاب (رح) سعید بن المسیب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رہن کو نہ روکا جائے۔ ( اس روایت کو باب ما لا یجوز من غلق الرہن میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد رہن نہ روکا جائے، کی تشریح اس طرح ہے۔ کہ کوئی شخص کسی کے ہاں کوئی چیز رہن رکھے۔ اور کہے اگر میں تمہارا مال اس قدر مدت میں ادا کرسکا تو بہتر ورنہ رہن تمہارے مال کے بدلہ میں تمہارا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رہن کو روکا نہ جائے۔ وہ رہن رکھنے والے کے مال کا عوض نہیں ہوسکتا۔ ہم بہی یہی کہتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ امام مالک (رح) کے ہاں بہی اس کی تشریح یہی ہے۔

847

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَيْنِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بِالشَّهَادَةِ، أَوْ يُخْبِرُ بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ شَهَادَةٌ لإِنْسَانٍ لا يَعْلَمُ ذَلِكَ الإِنْسَانُ بِهَا، فَلْيُخْبِرْهُ بِشَهَادَتِهِ، وإِنْ لَمْ يَسْأَلْهَا إِيَّاهُ
عبد الرحمن بن ابی عمرہ انصاری نے بتلایا کہ مجھے زید بن خالد جہنی (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتلادوں کہ گواہوں میں بہترین گواہ وہ ہے جو خود گواہی دے۔ یا سوال سے پہلے وہ گواہی کی اطلاع دے ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الشہادات میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جس کسی کے پاس کوئی شہادت ہو اور وہ انسان اس گواہی کو نہ جانتا ہو تو اسے بتلا دینا چاہیے خواہ وہ اس سے دریافت نہ کرے۔

848

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، أَنَّ ضَوَالَّ الإِبِلِ كَانَتْ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِبِلا مُرْسَلَةً تَنَاتَجُ، لا يَمَسُّهَا أَحَدٌ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَمَرَ بِمَعْرِفَتِهَا، وَتَعْرِيفِهَا، ثُمَّ تُبَاعُ، فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا أُعْطِيَ ثَمَنَهَا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: كِلَا الْوَجْهَيْنِ حَسَنٌ، إِنْ شَاءَ الإِمَامُ تَرَكَهَا حَتَّى يَجِيءَ أَهْلُهَا، فَإِنْ خَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةَ، أَوْ لَمْ يَجِدْ مَنْ يَرْعَاهَا فَبَاعَهَا، وَوَقَّفَ ثَمَنَهَا حَتَّى يَأْتِيَ أَرْبَابُهَا فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ
ابن شہاب زہریر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں گمشدہ اونٹنیاں چھوڑی جاتی تھیں۔ وہ بچے جنتی تھیں اوۃ ر انھیں کوئی نہیں چھوتا تھاد یہاں تک کہ حضرت عثمان (رض) کا زمانہ آیا تو آپ نے ان کو پہچاننے اور مشتہر کرنے کا حکم دیا (مالک نہ ملتا ) تو انھیں فروخت کردیا جاتا جب مالک آتا تو اس کو اس کی قیمت دے دی جاتی۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب القضاء فی الضوال میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس کی دونوں صورتیں بہتر ہیں (١) امام پسند کرے تو اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کا مالک آجائے۔ (٢) اگر اسے نقصان کا اندیشہ ہو اور ایسا آدم نہ ملے جو اس کی حفاظت کرے۔ تو اس کو فروخت کردے اور اس کی قیمت محفوظ رکھی جائے۔ تآنکہ اس کا مالک آجائے۔ ان دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔

849

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ رَجُلا وَجَدَ لُقَطَةً، فَجَاءَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ لُقَطَةً، فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا؟ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: عَرِّفْهَا، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَ: زِدْ، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَ: لا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَهَا، لَوْ شِئْتَ لَمْ تَأْخُذْهَا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کو گری پڑی جیز ملی وہ ابن عمر (رض) کے پاس آیا۔ کہ مجھے گری پڑی چیز ملی ہے۔ آپ اس کے متعلق مج ہے کیا حکم دیتے ہیں۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا اس کی مشہوری کرو۔ اس نے کہا کہ میں مشتہر کرچکا ہوں انھوں نے فرمایا اور مشتہر کرو۔ میں نے کہا متعدد بار کرچکا ہوں۔ انھوں نے فرمایا میں تمہیں کھانے کا حکم نہ دوں گا۔ ہاں اگر تم چاہتے۔ تو پہلے اسے نہ لیتے ( اب تو حفاظت کرنا ضروری ہے) ( اس روایت کو باب القضاء فی اللقطہ میں ذکر کیا ہے)

850

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، يُحَدِّثُ أَنَّ ثَابِتَ بْنَ ضَحَّاكٍ الأَنْصَارِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ وَجَدَ بَعِيرًا بِالْحَرَّةِ، فَعَرَّفَهُ، ثُمَّ ذَكَرَ ذَلِكَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُعَرِّفَهُ، قَالَ ثَابِتٌ لِعُمَرَ: قَدْ شَغَلَنِي عَنْهُ ضَيْعَتِي، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أرْسِلْهُ حَيْثُ وَجَدْتَهُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، مَنِ الْتَقَطَ لُقَطَةً تُسَاوِي عَشَرَةَ دَرَاهِمَ فَصَاعِدًا عَرَّفَهَا حَوْلا، فَإِنْ عُرِفَتْ، وَإِلا تَصَدَّقَ بِهَا، فَإِنْ كَانَ مُحْتَاجًا أَكَلَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا خَيَّرَهُ بَيْنَ الأَجْرِ وَبَيْنَ أَنْ يَغْرَمَهَا لَهُ، وَإِنْ كَانَ قِيمَتُهَا أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ عَرَّفَهَا عَلَى قَدْرِ مَا يَرَى أَيَّامًا، ثُمَّ صَنَعَ بِهَا كَمَا صَنَعَ بِالأُولَى، وَكَانَ الْحُكْمُ فِيهَا إِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا كَالْحُكْمِ فِي الأُولَى، وَإِنْ رَدَّهَا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي وَجَدَهَا فِيهِ بَرِئَ مِنْهَا، وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ ضَمَانٌ
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن یسار (رح) کو بیان کرتے سنا۔ کہ ثابت بن ضحاک انصاری نے بیان کیا۔ کہ میں نے مقام حسرہ میں ایک اونٹ پایا۔ اس کی تشہیر کی۔ پھر حضرت عمر فاروق (رض) سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے حکم دیا اس کی تشہیر کرو۔ ثابت کہنے لگے۔ میں اس سے اپنے کام کاج سے مجبور ہوجاؤں گا۔ میر زیمن اس بات سے مجھے مشغول کرنے والی ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر اسے جہاں تم نے پایا وہیں چھوڑ دو ۔ اس روایت کو امام مالک (رح) باب القضاء فی الضوال میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو مختار قرار دیتے ہیں۔ کہ اگر کسی شخص کو کوئی گری پڑی چیز مال جائے ۔ جس کی قیمت دس درہم ہو یا اس سے زیادہ ہو تو اسک سال اس کی تشہیر کرے۔ ( مالک مل جائے تو فبہا) ورنہ اسے خیرات کردے۔ اگر خود محتاج ہو۔ تو اسے کھالے۔ پھر اکر اس کا مالک آجائے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اس کی قیمت لے یا ویسی ہی کوئی چیز لے لے۔ اور اکر قیمت دس درہم سے کم ہو تو جتنے دن مناسب خیال کرے اس کی تشہرکرے پھر اس سلسلہ میں ویسے ہی کرے جیسے پہلے کے ساتھ کیا ( خیرات کردے) اکر مالک آجائے تو اس کا حکم وہی ہوگا۔ جو پہلے کا ہے۔ اگر اس جگہ چھوڑ آئے جہاں سے پایا تھا تو وہ اس سے بری الذمہ ہوجائے گا۔ اس پر کوئی ذمہ دار ی نہ ہوگی۔

851

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ: مَنْ أَخَذَ ضَالَّةً فَهُوَ ضَالٌّ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَإِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ مَنْ أَخَذَهَا لِيَذْهَبَ بِهَا، فَأَمَّا مَنْ أَخَذَهَا لِيَرُدَّهَا، أَوْ لِيُعَرِّفَهَا، فَلا بَأْسَ بِهِ
سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جبکہ وہ خانہ کعبہ سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ جس نے گم شدہ چیز اٹھالی وہ خود گمراہ ہے ( اس روایت کو امام مالک نے باب القضاء فی الضوال میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کے قول کا منشاء یہ ہے کہ جو اسے کھاپی جانے کی غرض اور ارادہ سے اٹھائے ( وہ گمراہ ہے) جو واپس کرنے یا مشتہر کرنے کے ارادہ سے اٹھائے اسے کوئی حرج نہیں۔

852

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ، أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: «إِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ فِي أَرْضٍ فَلا شُفْعَةَ فِيهَا، وَلا شُفْعَةَ فِي بِئْرٍ وَلا فِي فَحْلِ نَخْلٍ»
ابوبکر بن محمد بن حزم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا۔ جب کسی زمین میں حدیں لگادی جائیں۔ تو اس میں کوئی شفعہ نہیں ہے۔ اور نہ کنوئیں اور نہ کھجور کے درخت میں شفعہ ہے۔

853

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالشُّفْعَةِ فِيمَا لَمْ يُقَسَّمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ فَلا شُفْعَةَ فِيهِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ جَاءَتْ فِي هَذَا أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَالشَّرِيكُ أَحَقُّ بِالشُّفْعَةِ مِنَ الْجَارِ، وَالْجَارُ أَحَقُّ مِنْ غَيْرِهِ، بَلَغَنَا ذَلِكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رح) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس زمین کے شفعہ کا فیصلہ فرمایا جو تقسم نہ ہوئی ہو۔ جب حدیں لگادیں جائیں تو کوئی شفعہ نہیں۔ ( ان روایت کو باب ما تقع فیہ الشفعۃ میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : اس کے متعلق مختلف روایات وارد ہوئی ہیں۔ پر وسی کی بنسبت شریک شفعہ کا زیادہ حقدار ہے۔ اور پڑوسی دوسرے کی بنسبت زیادہ حق دار ہے۔ یہ ہر وایت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمیں پہنچی ہے۔

854

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى الثَّقَفِيُّ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ» ، وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عمرو بن شرید (رح) نے اپنے والدشرید بن سوید (رض) سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پر وسی شفعہ کا زیادہ حق دار ہے۔ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

855

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ مُكَاتَبَتِهِ شَيْءٌ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْعَبْدِ فِي شَهَادَتِهِ وَحُدُودِهِ وَجَمِيعِ أَمْرِهِ، إِلا أَنَّهُ لا سَبِيلَ لِمَوْلاهُ عَلَى مَالِهِ مَا دَامَ مُكَاتَبًا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے تھے کہ مکاتب اس وقت تک غلام ہے۔ جب تک اس کے ذمہ مکاتبت کی ١ رہ سی چیز بھی باقی ہے۔ یہ اثر بخاری نے تعلیقا روایت کیا او بو داؤود و نسائی اور حاکم نے مرفوعا نقل کیا ہے۔ ( اس اثر کو امام مالک نے باب القضاء فی المکاتب میں لکھا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور ہمارے عام فقہاء بہی اسی طرف گئے ہیں کہ وہ شہادت، حدود اور تمام امور میں غلام کی طرح ہے۔ سوائے اس بات کے کہ آقا کو اس کے مال میں کوئی دخل اندازی کا حق نہیں۔

856

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الْمَكِّيُّ، أَنَّ مُكَاتَبًا لابْنِ الْمُتَوَكِّلِ هَلَكَ بِمَكَّةَ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنْ مُكَاتَبَتِهِ، وَدُيُونِ النَّاسِ، وَتَرَكَ ابْنَةً، فَأَشْكَلَ عَلَى عَامِلِ مَكَّةَ الْقَضَاءُ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ أَنِ ابْدَأْ بِدُيُونِ النَّاسِ فَاقْضِهَا، ثُمَّ اقْضِ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ مُكَاتَبَتِهِ، ثُمَّ اقْسِمْ مَا بَقِيَ مِنْ مَالِهِ بَيْنَ ابْنَتِهِ، وَمَوَالِيهِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، أَنَّهُ إِذَا مَاتَ بُدِئَ بِدُيُونِ النَّاسِ، ثُمَّ بِمُكَاتَبَتِهِ، ثُمَّ مَا بَقِيَ كَانَ مِيرَاثًا لِوَرَثَتِهِ الأَحْرَارِ مَنْ كَانُوا
حمید بن قیس مکی بیان کرتے ہیں کہ ابن متوکل کا ایک مکاتب غلام مکہ مکرمہ میں فوت ہوگیا۔ اس کے ذمہ کجھ بدل کتابت باقی تھا۔ اور لوکوں کا قراض بھی تھا۔ اس نے ایک بیٹی چھوڑی۔ حاکم مکہ کو اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو کیا تو اس نے عبد الملک بن مروان کو اس سلسلہ میں دریافت کے لیے تحریر کیا۔ عبد الملک نے جواب دیا۔ لوگوں کا قرض ادا کرو۔ پھر مکاتبت کی جس قدر رقم باقی ہے۔ وہ ادا کرو۔ اس کے بعد اس کے مال میں سے جو رقم بچ جائے وہ اس کی ب یتی اور موالی کے درمیان تقسیم کردو۔ ( اس روایت کو باب القضاء فی المکاتب میں امام مالک (رح) نے درج کیا ہے) اخرجہ البخاری و نسائی و ابن ماجہ)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے کہ جب مکاتب فوت ہوجائے تو پہلے لوگوں کا قرض ادا کرو پھر بدل کتابت ۔ اس کے بعد جو بچ جائے اس میں وارثوں کا حق ہوگا خواہ وہ کوئی ۔

857

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ عِنْدِي، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، سُئِلا عَنْ رَجُلٍ كَاتَبَ عَلَى نَفْسِهِ، وَعَلَى وَلَدِهِ، ثُمَّ هَلَكَ الْمُكَاتَبُ، وَتَرَكَ بَنِينَ، أَيَسْعَوْنَ فِي مُكَاتَبَةِ أَبِيهِمْ أَمْ هُمْ عَبِيدٌ؟ فَقَالَ: بَلْ يَسْعَوْنَ فِي كِتَابَةِ أَبِيهِمْ، وَلا يُوضَعُ عَنْهُمْ لِمَوْتِ أَبِيهِمْ شَيْءٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا أدَّوْا عَتَقُوا جَمِيعًا أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُخْبِرٌ، أَنَّ أَمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ، تُقَاطِعُ مُكَاتَبِيهَا بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ. وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار رحمہما اللہ سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا۔ جس نے اپنے بیٹے کے حق میں مکاتبت کی ۔ اور وہ فوت ہوگیا۔ اور اس نے اپنے بیٹے چھوڑے تو کیا وہ اپنے باپ کی مکاتبت حاصل کرنے کی کوشش کریں یا وہ غلام ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ وہ اپنے ابپ کی بدل کتابت کی بقایا رقم ادا کرنے کی کوشش کریں۔ باپ کے فوت ہوجانے سے ان سے کوئی چیز کم نہ ہوگی۔ ( اس روایت کو باب القضاء فی المکاتب میں امام مالک (رح) نے لکھا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جب وہ بدل کتابت کی بقایا رقم ادا کردیں تو وہ آزاد ہوجائیں گے۔ ( ورنہ نہیں)

858

اخبرنا مالک اخبرنا مخبر ان ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانت تقاطع مکاتبتھا۔ بالذھب والورق واللہ اعلم
امام مالک نے ہمیں خبر دی کہ ہمیں ایک خبر دینے والے نے بتلایا کہ ام سلمہ (رض) عنہا ام المؤمنین اپنی مکاتبہ سے بدل کتاب سونے اور چاندی کے ساتھ طے کرتی تھیں۔ ( واللہ اعلم) (ان تمام آثار کو امام مالک (رح) نے باب القطاعۃ فی الکتابت میں ذکر کیا ہے)

859

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: لَيْسَ بِرِهَانِ الْخَيْلِ بَأْسٌ، إِذَا أَدْخَلُوا فِيهَا مُحَلِّلا، إِنْ سَبَقَ أَخَذَ السَّبْقَ، وَإِنْ سُبِقَ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ شَيْءٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ هَذَا أَنْ يَضَعَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا سَبْقًا، فَإِنْ سَبَقَ أَحَدُهُمَا أَخَذَ السَّبْقَيْنِ جَمِيعًا، فَيَكُونُ هَذَا كَالْمُبَايَعَةِ، فَأَمَّا إِذَا كَانَ السَّبْقُ مِنْ أَحَدِهِمَا، أَوْ كَانُوا ثَلاثَةً، وَالسَّبْقُ مِنِ اثْنَيْنِ مِنْهُمْ، وَالثَّالِثُ لَيْسَ مِنْهُ سَبْقٌ، إِنْ سَبَقَ أَخَذَ، وَإِنْ لَمْ يَسْبِقْ لَمْ يَغْرَمْهُ، فَهَذَا لا بَأْسَ بِهِ أَيْضًا، وَهُوَ الْمُحَلِّلُ الَّذِي قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب (رح) کہتے تھے کہ گھوڑ دوڑ میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جب کہ ان کے درمیان ایک ( تیسرا) محلل ہو اگر آگے نکل جائے تو وہ لے گا۔ لیکن پیچھے رہ جائے تو اس پر کجھ واجب نہ ہوگا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ایسی گھڑ دوڑ ممنوع ہے کہ جس میں دونوں میں سے ہر ایک یہ شرط کرے کہ جس کا گھوڑا آگے نکل گیا وہ روپیہ لے گا۔ یہ جوئے کی طرح ہوجائے گا اکر دونوں میں سے ایک کی طرف سے شرط ہو یا تین مقابلے والے ہوں اور دو کی طرف سے شرط ہو تیسرے کی طرف سے کچھ نہ ہو ۔ کہ اگر وہ آگے بڑھ گیا تو روپیہ لے لے گا۔ لیکن پیجھے رہنے کی صورت میں اس پر کچھ بہی واجب نہ ہوگا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں اور سعید بن المسیب نے جو محلل کہا اس سے یہی مراد ہے۔

860

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: إِنَّ الْقَصْوَاءَ نَاقَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تَسْبِقُ كُلَّمَا وَقَعَتْ فِي سِبَاقٍ، فَوَقَعَتْ يَوْمًا فِي إِبِلٍ، فَسُبِقَتْ، فَكَانَتْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ كَآبَةٌ أَنْ سُبِقَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَفَعُوا شَيْئًا، أَوْ أَرَادُوا رَفْعَ شَيْءٍ وَضَعَه اللَّهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالسَّبْقِ فِي النَّصْلِ، وَالْحَافِرِ، وَالْخُفِّ
ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ سعید بن المسیب (رح) کو میں نے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناقہ قصواء دوڑتی ہوئی آگے نلک جاتی تھی۔ ایک دن دوڑ میں پیجھے رہ گئی۔ تو مسلمانوں کو اس کے پیچھے رہ جانے سے بہت صدمہ ہوا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب لوگ کسی چیز کو بلند کرتے یا بلند کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو نیچا کردیتا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ تیر اندازی، سم والے جانور ( گھوڑے ، خچر، گدھے وغیرہ) اور موزے والے جانور (اونٹ وغیرہ ) کی دوڑ اور مقابلہ میں کوئی حرج نہیں۔

861

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: «مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلا أُلْقِيَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبُ، وَلا فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلا كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ، وَلا نَقَصَ قَوْمٌ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلا قُطِعَ عَلَيْهِمُ الرِّزْقُ، وَلا حَكَمَ قَوْمٌ بِغَيْرِ الْحَقِّ إِلا فَشَا فِيهِمُ الدَّمُ، وَلا خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَهْدِ إِلا سُلِّطَ عَلَيْهِمُ الْعَدُوُّ»
یحییٰ بن سعید ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جس قوم میں مال غنیمت کے اندر چوری کا رواج ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ جس قوم میں زنا کی کثرت ہوجائے تو ان میں موت زیادہ واقع ہونے لگتی ہے۔ اور جو قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے۔ اس کے رزق میں کمی ہوجاتی ہے۔ جو قوم ناحق فیصلے کرتی ہی۔ اس میں خون ریزی عام ہوجاتی ہے۔ اور جو قوم عہد شکنی شروع کردتی ہے۔ اس پر دشمن مسلط کردیا جاتا ہے ( ذکر ابن ماجہ موصولا)

862

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «بَعَثَ سَرِيَّةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَغَنِمُوا إِبِلا كَثِيرَةً، فَكَانَ سُهْمَانُهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: كَانَ النَّفْلُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَفِّلُ مِنَ الْخُمُسِ أَهْلَ الْحَاجَةِ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ} [الأنفال: 1] ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلا نَفَلَ بَعْدَ إِحْرَازِ الْغَنِيمَةِ إِلا مِنَ الْخُمُسِ لِمُحْتَاجٍ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجد کی طرف ایک چھوٹا لشکر روانہ فرمایا۔ وہ بہت سے اونٹ مال غنیمت لایا۔ ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور ایک ایک اونٹ انعام میں ملا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ نفل یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاص حق تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس میں سے صرف ضرورت مندوں دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ قل الانفال للہ و الرسول ۔ مکر اب مال غنیمت کے جمع کرنے کے بعد اس میں سے انفال نہ ہوگا۔ صرف محتاجوں کے لیے خمس اس میں سے دیا جائے گا۔
السیر مغازی اور جہاد کے متعلق چیزوں پر بولا جاتا ہے

863

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُعْطِي الشَّيْءَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا بَلَغَ رَأْسَ مَغْزَاتِهِ فَهُوَ لَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِذَا بَلَغَ وَادِيَ الْقُرَى فَهُوَ لَهُ، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ، وَغَيْرُهُ مِنْ فُقَهَائِنَا: إِذَا دَفَعَهُ إِلَيْهِ صَاحِبُهُ فَهُوَ لَهُ
یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ سعید بن المسیب (رح) سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا۔ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدین کو کچھ بھیجے۔ انھوں نے جواب دیا جب وہ چیز میدان جنگ تک پہنچ جائے تو اس کی ہوجاتی ہے۔ جس کے لیے روانہ کی گئی۔ ( رأس مغزاۃ وادی القری کو کہا جاتا تھ) ا کیونکہ وہ شام میں داخلے کا ناکہ ہے) صدقہ والے کو رجوع سے محفوظ کرنے کے لیے یہ بات فرمائی گئی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ سعید بن المسیب کا قول ہے اور ابن عمر (رض) کا قول یہ ہے کہ جب وہ جیز وادی القری تک پہنچ جائے تو مجاہد کی ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ روانہ کرتے ہی مجاہد کی بن جاتی ہے۔

864

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ فِيكُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاتَكُمْ مَعَ صَلاتِهِمْ، وَأَعْمَالَكُمْ مَعَ أَعْمَالِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، تَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلا تَرَى شَيْئًا، تَنْظُرُ فِي الْقِدْحِ فَلا تَرَى شَيْئًا، تَنْظُرُ فِي الرِّيشِ فَلا تَرَى شَيْئًا، وَتَتَمَارَى فِي الْفُوقِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا خَيْرَ فِي الْخُرُوجِ، وَلا يَنْبَغِي إِلا لُزُومُ الْجَمَاعَةِ
ابو موسیٰ بن عبد الرحمن نے ابو سعید الخدری (رض) سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ تم میں سے ایک ایسی قوم پیدا ہوگی۔ کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلے میں حقیر قرار دوگے۔ وہ قرآن مجید پڑھیں گیٔ ٧۔ لیکن وہ قرآن مجید ان کے حلق سے نیجے نہ اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نلک جاتا ہے۔ تمہیں ان کے تیر کے پھل میں کجھ خون نظر نہ آئے گا۔ جب تم تیر کے پچھلے حصے میں دیکھوگے تو کچھ بھی نظر نہ آئے گا۔ جب تیر کے پر کو دیکھو وہاں بہی کجہ نظر نہ آئے گا۔ تمہیں تسمہ باندھنے کی جگہ شک سا پڑے گا۔ ( یعنی ان پر دین کے عقائد اعمال کا کو وئی اثر نظر نہ آئے گا)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام ( حق) کے خلاف خروج و بغاوت میں کوئی خیر نہیں۔ مناسب یہ ہے کہ امت مسلمہ کی اجتماعیت کو بر قرار رکھاجائے۔

865

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاحَ فَلَيْسَ مِنَّا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: مَنْ حَمَلَ السِّلاحَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَاعْتَرَضَهُمْ بِهِ لِقَتْلِهِمْ، فَمَنْ قَتَلَهُ فَلا شَيْءَ عَلَيْهِ، لأَنَّهُ أَحَلَّ دَمَهُ بِاعْتِرَاضِ النَّاسِ بِسَيْفِهِ
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھایر اٹھائے اور ہتھہیار بند ہو کر ان کو قتل کرنے لگا۔ ایسے شخص کو اگر کسی نے قتل کردیا تو اس پر قصاص لازم نہ آئے گا۔ کیونکہ اس نے لوگوں پر تلوار اٹھاکر اپنے خون کو حلال کردیا ہے۔ (یعنی اپنے قتل کا جواز مہیا کردیا ہے)

866

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: أَلا أُخْبِرُكُمْ، أَوْ أُحَدِّثُكُمْ، أَوْ أُحَدِّثُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ كَثِيرٍ مِنَ الصَّلاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْبِغْضَةَ، فَإِنَّمَا هِيَ الْحَالِقَةُ.
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ انھوں نے سعید بن المسیب (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلادوں۔ جو نماز اور صدقہ سے بہتر ہے ؟ لوگوں نے کہا۔ جی ہاں۔ آپ نے فرمایا دو آدمیوں میں صلح کرانا۔ بغض سے بچنا کیونکہ یہ مونڈنے والا ہے۔ (یعنی نیکیوں کو بالوں کی طرح جڑ سے ختم کردیتا ہے)

867

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ امْرَأَةً مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ، وَنَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يُقْتَلَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْمَغَازِي امْرَأَةٌ، وَلا شَيْخٌ فَانٍ، إِلا أَنْ تُقَاتِلَ الْمَرْأَةُ فَتُقْتَلَ
نافع (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو مقتول پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند کیا۔ بچوں اور عورتوں کے قتل سے منع فرمایا۔ اس روایت کو باب النہی عن قتل النساء و الولدان میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ غزوات میں عورتوں ، بچوں اور قریب المرگ بوڑھوں کا قتل جائز نہیں۔ البتہ اگر کوئی عورت جنگ کرے تو اس کا قتل جائز ہے۔

868

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ قِبَلِ أَبِي مُوسَى، فَسَأَلَهُ عَنِ النَّاسِ، فَأَخْبَرَهُ، ثُمّ قَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ مُغْرِبَةٍ خَبَرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلامِهِ، فَقَالَ: مَاذَا فَعَلْتُمْ بِهِ؟ قَالَ: قَرَّبْنَاهُ، فَضَرَبْنَا عُنُقَهُ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَهَلا طَبَقْتُمْ عَلَيْهِ بَيْتًا، ثَلاثًا، وَأَطْعَمْتُمُوهُ كُلَّ يَوْمٍ رَغِيفًا، فَاسْتَتَبْتُمُوهُ، لَعَلَّهُ يَتُوبُ، وَيَرْجِعُ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ آمُرْ، وَلَمْ أَحْضُرْ، وَلَمْ أَرْضَ إِذْ بَلَغَنِي ". قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنْ شَاءَ الإِمَامُ أَخَّرَ الْمُرْتَدَّ ثَلاثًا إِنْ طَمِعَ فِي تَوْبَتِهِ أَوْ سَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ الْمُرْتَدُّ، وَإِنْ لَمْ يَطْمَعْ فِي ذَلِكَ وَلَمْ يَسْأَلْهُ الْمُرْتَدُّ، فَقَتَلَهُ، فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ
محمد بن عبد القاری ر حمہ اللہ نے بیان کیا کہ ایک شخص ابو موسیٰ اشعری (رض) کی طرف سے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے وہاں کے حالات دریافت کیے ۔ اس نے بیان کیے۔ آپ نے پھر دریافت کیا تمہارے پاس کوئی نئی خبر ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ کہ ایک شخص نے اسلام کے بعد کفر اختیار کرلیا۔ يپ نے دریافت کیا پھر تم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس نے کہ ان ہم نے اس کی گردن اڑادی۔ حضرت عمر (رض) نے کہا تم نے اسے ایک گھر میں تین دن کے لیے کیوں نہ بند کردیا ؟ اور اسے بقدر ضرورت کھانا کھاتے اور توبہ کی ترغیب دیتے ۔ شاید وہ توبہ کرلیتا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آتا ۔ پھر فرمایا اے اللہ ! میں نے اس کا حکم نہیں دیا۔ نہ میں وہاں موجود تھا۔ اور نہ میں اس سے خوش ہوا جب مجھے معلوم ہوا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ امام کو چاہیے کہ اسے تین دن روک لے اگر توبہ کی امید ہو۔ یا مرتد خود امام سے اس کی درخواست کرے۔ اکر اس سے ( توبہ کی) امید نہ ہو تو یا مرتد امام سے درخواست نہ کرے تو پھر اس کو قتل کردیا جائے۔ تو اس میں کوئی مضائقہ و حرج نہیں ہے۔

869

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَى حُلَّةَ سِيَرَاءَ تُبَاعُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ الْحُلَّةَ، فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلِلْوُفُودِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ؟ قَالَ: «إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لا خَلاقَ لَهُ فِي الآخِرَةِ» ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ، «فَأَعْطَى عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً» ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا، وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: «إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا» . فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مِنْ أُمِّهِ مُشْرِكًا بِمَكَّةَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ أَنْ يَلْبَسَ الْحَرِيرَ، وَالدِّيبَاجَ وَالذَّهَبَ، كُلُّ ذَلِكَ مَكْرُوهٌ لِلذُّكُورِ مِنَ الصِّغَارِ وَالْكِبَارِ، وَلا بَأْسَ بِهِ لِلإِنَاثِ وَلا بَأْسَ بِهِ أَيْضًا بِالْهَدِيَّةِ إِلَى الْمُشْرِكِ الْمُحَارِبِ، مَا لَمْ يُهْدَ إِلَيْهِ سِلاحٌ أَوْ دِرْعٌ. هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی کہ حضرت عمر (رض) نے مسجد نبوی کے دروازہ کے پاس خالاص ریشمی کپڑا فروخت ہوتا دیکھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا۔ کاش آپ یہ حلہ خرید لیتے اور اسے جمع کے دن یا وفود کے اپنے پاس آنے پر پہنتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس کو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے ایک عمر (رض) کو دیا۔ عمر (رض) نے عرض کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مجھے دی دیا حالانکہ آپ نے عطارد کے حلہ کے متعلق فرمایا جو فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ میں نے تمہیں پہننے کو تھوڑا دیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے وہ کپڑا مکہ مکرمہ میں مقیم ماں کی طرف سے رشتہ دار ایک مشرک بھائی کو دے دیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ مسلمان مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ ریشم یا ریشمی کپڑا یا سونا پہنے۔ یہ تمام چیزیں چھوٹے بڑے مردوں کے لیے ناجائز ہیں۔ عورتوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح حربی مشرک کو بطور تحفہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ اسالحہ یا زرہ دینا مشرک حربی کو جائز نہیں ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

870

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " اتَّخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَلْبَسُ هَذَا الْخَاتَمَ، فَنَبَذَهُ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لا أَلْبَسُهُ أَبَدًا "، قَالَ: فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَتَخَتَّمَ بِذَهَبٍ وَلا حَدِيدٍ وَلا صُفْرٍ وَلا يَتَخَتَّمُ إِلا بِالْفِضَّةِ، فَأَمَّا النِّسَاءُ فَلا بَأْسَ بِتَخَتُّمِ الذَّهَبِ لَهُنَّ
عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سو نے کی ایک انگوٹھی لی اور کھڑے ہو کر فرمایا میں یہ انگوٹہی پہنتا تھا۔ پھر اسے پھینکتے ہوئے فرمایا اللہ کی قسم ! آئندہ کبھی اسے نہ پہنوں گا۔ لوگوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ اس روایت کو امام مالک نے باب ماجاء فی لبس الخاتمہ میں ذکر فرمایا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ سونے، لوھے، یا تانبے کی انگوٹھی پہنے۔ لیکن عورتوں کے لیے سونے کی انگوٹہی کے استعمال میں مضائقہ نہیں۔

871

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَحْتَلِبَنَّ أَحَدُكُمْ مَاشِيَةَ امْرِئٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مُشْرَبَتُهُ فَتُكْسَرَ خِزَانَتُهُ فَيَنْتَقِلَ طَعَامُهُ؟ فَإِنَّمَا تَخْزُنُ لَهُمْ ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ أَطْعِمَتَهُمْ، فَلا يَحْلِبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ امْرِئٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِرَجُلٍ مَرَّ عَلَى مَاشِيَةِ رَجُلٍ أَنْ يَحْلِبَ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ أَمْرِ أَهْلِهَا، وَكَذَلِكَ إِنْ مَرَّ عَلَى حَائِطٍ لَهُ فِيهِ نَخْلٌ، أَوْ شَجَرٌ فِيهِ ثَمَرٌ فَلا يَأْخُذَنَّ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، وَلا يَأْكُلْهُ إِلا بِإِذْنِ أَهْلِهِ إِلا أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى ذَلِكَ، فَيَأْكُلُ، وَيَشْرَبُ، وَيَغْرَمُ ذَلِكَ لأَهْلِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ دودھے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا۔ کہ تمہارے توشہ خانہ میں کوئی آئے اور خزانہ توڑ کر اس کا غلہ اٹھالے جائے۔ تمہیں اس سے تکلیف ہو کی ۔ ان کے مویشیوں کے تھن ان کی خوراک ہیں۔ لہٰذا تم میں سے کوئی شخص کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ نکالے۔
(اس روایت کو معلمولی الفاظ کے فرق سے امام مالک نے باب ما جائے فی امر الغنم میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ کسی کے جانور کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کا دودھ نکالے ۔ اسی طرح اگر کسی کے باغ کے پاس سے گزرے جس میں کھجور یا کسی اور پہل کا درخت ہو۔ تو اس میں سے کچھ ہرگز نہ کالے۔ اور اس کے مالک کی اجازت کے بغیر (پھل) نہ کھائے۔ البتہ اضطراری حالت میں کھاپی سکتا ہے۔ اور اس کا معاوضہ اس کے مالک کو ادا کردے۔ یہی امام ابوحنیفہ حمہ اللہ کا قول ہے۔

872

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «ضَرَبَ لِلنَّصَارَى، وَالْيَهُودِ، وَالْمَجُوسِ بِالْمَدِينَةِ إِقَامَةَ ثَلاثِ لَيَالٍ يَتَسَوَّقُونَ، وَيَقْضُونَ حَوَائِجَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْهُمْ يُقِيمُ بَعْدَ ذَلِكَ» قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ وَمَا حَوْلَهُمَا مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَقَدْ بَلَغَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ «لا يَبْقَى دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ» . فَأَخَرَجَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ مَنْ لَمْ يَكُنْ مُسْلِمًا مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ لِهَذَا الْحَدِيثِ
نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے نصاری یہودی اور آتش پرستوں کو مدینہ منورہ میں تین دن سے زیادہ ٹھہرنے کی اجازت نہ دی۔ تین دن گھوم پھر کر اپنی ضروریات پوری کرلینے کی فقط اجازت دی۔ چنانچہ ان میں سے کوئی تین دن کے بعد نہ ٹھہرتا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ مکہ مکرمہ، اور مدینہ منورہ اور اس کے اطراف جزریہ العرب ہیں۔ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت پہنچی ہے کہ جزیرۃ العرب میں دو دین نہیں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس ارشاد کی بناء پر ان لوگوں کو جو مسلمان نہیں تھے۔ جزیرۃ العرب سے نکال دیا۔

873

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: بَلَغَنِي، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَبْقَيَنَّ دِينَانِ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ فَعَلَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَأَخْرَجَ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ.
اسماعیل بن حکیم نے عمر بن عبد العزیز (رح) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ جزیرۃ العرب میں دودین باقی نہ رہیں گے۔
یہ روایت صحیحین میں موجود ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ، اور یہود نصاری کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا۔

874

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «لا يُقِيمُ أَحَدُكُمُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ فَيَجْلِسَ فِيهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ أَنْ يَصْنَعَ هَذَا بِأَخِيهِ وَيُقِيمَهُ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَجْلِسَ فِيهِ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے۔ کہ تم میں سے کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے ہٹاکر خود وہاں نہ بیٹھے۔
قول محمدر حمہ اللہ یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایساسلوک کرے کہ اس کو اس کی جگہ سے اٹھادے اور خود اس کی جگہ بیٹھ جائے۔

875

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهِيَ تَشْتَكِي، وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا، فَقَالَ: «ارْقِيهَا بِكِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالرُّقَى بِمَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَا كَانَ لا يُعْرَفُ مِنْ كَلامٍ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يُرْقَى بِهِ
عمرہ بنت عبد الرحمن (رض) عنہا کہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) حضرت عائشہ صدیقہ ر ضی اللہ عنہا کے پاس آتے جبکہ وہ بیمار تھیں اور ایک یہودی عورت ان پر جھاڑ پھونک کر رہی تھی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے پڑھ کر پھونک مار۔ ( اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب تعالج المریض میں ذکر کیا ہے)
قول محمد یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ قرآن پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یا جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہو لیکن لا یعنی کلام سے جھاڑ پھونک کر ناجائز نہیں۔

876

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَ أُمِّ سَلَمَةَ وَفِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ يَبْكِي، فَذَكَرُوا أَنَّ بِهِ الْعَيْنَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفَلا تَسْتَرْقُونَ لَهُ مِنَ الْعَيْنِ؟» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، لا نَرَى بِالرُّقْيَةِ بَأْسًا إِذَا كَانَتْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى
یحییٰ بن سعید نے سلیمان یسار (رح) سے نقل کیا کہ عروہ بن زبیر نے بیان کیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام سلمہ (رض) عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ گھر میں ایک بچہ رو رہا تھا۔ لوگوں نے بیان کیا اسے نظر بد لگ گئی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پر نظر بد کا دم کیونکر نہیں کرتے ہو۔ ( اس اثر کو باب الرقیہ من العین میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ہم جھاڑ پھونک میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ ذکر الہی سے ہو۔

877

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ السُّلَمِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُثْمَانُ: وَبِي وَجَعٌ حَتَّى كَادَ يُهْلِكُنِي قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " امْسَحْهُ بِيَمِينِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَقُلْ: أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ "، فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَذْهَبَ اللَّهُ مَا كَانَ بِي، فَلَمْ أَزَلْ بَعْدُ آمُرُ بِهِ أَهْلِي وَغَيْرَهُمْ
نافع بن جبیر بن مطعم نے بتلایا کہ عثمان بن ابی العاص (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے ان کا بیان ہے کہ مجھے اس شدت سے درد تھا کہ میں مرا جارہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اپنا دایاں ہاتھ درد کی جگہ پر کھو اور سات مرتبہ پھیر کر یوں کہو اعوذ بعزۃ اللہ و قدرتہ من شرما اجد ۔ پس میں نے ایسا ہی کیا اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف کو دور فرمادیا۔ اس کے بعد ہمیشہ میں نے اپنے اہل خانہ اور دوسروں کو یہی بتلایا اس اثر کو باب التعوذ و الرقیہ فی المریض میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)

878

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلَقْحَةٍ عِنْدَهُ: " مَنْ يَحْلِبُ هَذِهِ النَّاقَةَ؟ فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ: مَا اسْمُكَ؟ فَقَالَ لَهُ: مُرَّةُ، قَالَ: اجْلِسْ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَحْلِبُ هَذِهِ النَّاقَةَ؟ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: حَرْبٌ، قَالَ: اجْلِسْ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَحْلِبُ هَذِهِ النَّاقَةَ؟ فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: يَعِيشُ، قَالَ: احْلِبْ ".
یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اونٹنی تھی آپ نے فرمایا اسے کون دوہے گا۔ ایک شخص کھڑا ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تمہارا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا مرۃ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ پھر فرمایا اس اونٹنی کا دودھ کون دوھ لائے گا ؟ ایک شخص کھڑا ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا حرب۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا حرب۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ پھر فرمایا اس ونٹنی کا دودھ کون دوھ لائے گا ؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا ی تمیہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا یعیش۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم دودھ دوھ لاؤ۔ ( اس روایت کو باب ما یکرہ من الااسماء میں ذکر کیا ہے)

879

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، «كَانَا لا يَرَيَانِ بِشُرْبِ الإِنْسانِ وَهُوَ قَائِمٌ بَأْسًا»
ابن شہاب زہری نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا سے اور سعد بن ابی وقاص (رض) کے متعلق بیان کیا کہ وہ دونوں کھڑے ہو کر پانی پینے میں حرج نہ سمجھتے تھے ( اس روایت کو باب ما جاء فی شرب الرجل وہو قائم میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)

880

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، وَعَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ كَانُوا يَشْرَبُونَ قِيَامًا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا نَرَى بِالشُّرْبِ قَائِمًا بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
امام مالک فرماتے ہیں مجھے ایک خبر دینے والے نے بتلایا کہ حضرت عمر، علی مرتضی اور عثمان (رض) کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے۔ (سابقہ حوالہ میں یہ روایت مذکورہ ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں، ہمارے نزدیک کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عالم فقہاء کا قول ہے۔

881

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الَّذِي يَشْرَبُ فِي آنِيَةِ الْفِضَّةِ إِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِي بَطْنِهِ نَارَ جَهَنَّمَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يُكْرَهُ الشُّرْبُ فِي آنِيَةِ الْفِضَّةِ وَالذَّهَبِ، وَلا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا فِي الإِنَاءِ الْمُفَضَّضِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے زید بن عبید اللہ اور اس نے عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) سے بیان کیا کہ ام سلمہ ام المؤمنین (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو چاندی کے برتن میں پانی پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ گھونٹ گھونٹ کرکے پیتا ہے۔ ( اس روایت کو اب النہی عن الشرا اب فی آنیۃ الفضۃ میں نقل کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اس کو اختیار کرنے والے ہیں۔ چاندی کے برتن میں پانی پینے میں کوئی حرج نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

882

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ، وَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يَأْكُلَ بِشِمَالِهِ، وَلا يَشْرَبُ بِشِمَالِهِ إِلا مِنْ عِلَّةٍ
ابن شہاب نے ابوبکر بن عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور دائیں ہاتھ سے پیئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی پر عمل کرتے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے کھانا نامناسب ہے۔ اور نہ ہی پینا مناسب ہے۔ البتہ اگر کوئی مرض ہو تو ضرورتا جائز ہے۔

883

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَبَنٍ قَدْ شِيبَ بِمَاءٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، " فَشَرِبَ ثُمَّ أَعْطَى الأَعْرَابِيَّ، ثُمَّ قَالَ: الأَيْمَنُ فَالأَيْمَنُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ
ابن شہاب زہری نے انس بن مالک (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ۔ کہ آپ کی خدمت میں دودھ لایا گیا جس میں پانی ملا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں جانب ایک اعرابی تھا اور بائیں طرف ابوبکر صدیق (رض) تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوش فرما کر اعرابی کو دیا۔ اور فرمایا دایاں پھر دایاں ( اسی طرح بڑھاتے جاؤ) ( اس اثر کو امام مالک نے باب السنۃ فی الشرب میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اپناتے ہیں۔

884

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلامٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَشْيَاخٌ، فَقَالَ لِلْغُلامِ: أَتَأْذَنُ لِي فِي أَنْ أُعْطِيَهُ هَؤُلاءِ؟ فَقَالَ: لا وَاللَّهِ، لا أُوثِرُ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا، قَالَ: فَتَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِهِ "
ابو حازم (رح) سے سہل بن سعد ساعدی (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ آپ کی خدمت میں کوئی مشروب لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے نوش فرمایا آپ کے دائیں جانب ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب بوڑھے بزرگ بیٹھے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں پہلے ان بزرگوں کو دے دوں۔ اس نے کہا نہیں۔ اللہ کی قسم نہیں۔ میں اپنے حصہ والے آپ کے تبرک میں سے کسی کو نہ دوں گا۔ سہل کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لڑکے کو عنایت فرمادیا۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب السنۃ فی الشرب و مناولۃ عن الیمین میں ذکر کیا ہے)

885

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى وَلِيمَةٍ فَلْيَأْتِهَا»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل فرمایا۔ کہ جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے۔
الولیمہ یہ الولم سے ہے جس کا معنی جمع ہے۔

886

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدْعَى لَهَا الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِينُ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ»
اعرج بیان کرتے ہیں کہ ابون ہریرہ (رض) نے فرمایا کہ بدترین کھانا اس ولیمہ کا ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور غرباء کو چھ ’ ڑ دیا جائے اور جس شخص نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

887

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى طَعَامٍ صَنَعَهُ، قَالَ أَنَسٌ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا مِنْ شَعِيرٍ، وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ، قَالَ أَنَسٌ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوْلِ الْقَصْعَةِ "، فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مُنْذُ يَوْمِئِذٍ
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ انس بن مالک (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانے پر مدعو کیا۔ انس کہتے ہیں کہ میں اس دعوت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گیا۔ اس نے جو کی روٹی اور شوربا جس میں کدو تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لاکر رکھا۔ انس کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس تھال میں سے کدو کی ڈلیاں چن چن کر تناول فرما رہے تھے۔ اس دن سے میں ہمیشہ کدو کو پسند کرتا ہوں۔

888

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا، ثُمَّ لَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدَيَّ، وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ؟ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبْتُ بِهِ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ، وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَالَ: بِطَعَامٍ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: قُومُوا، قَالَ: فانْطَلَقْتُ بَيْنَ يَدَيْهِمْ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، كَيْفَ نَصْنَعُ؟ فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ هُوَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ، فَجَاءَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفُتَّ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا، فَآدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، حَتَّى أَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، وَشَبِعُوا وَهُمْ سَبْعُونَ، أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُجِيبَ الدَّعْوَةَ الْعَامَّةَ، وَلا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلا لِعِلَّةٍ، فَأَمَّا الدَّعْوَةُ الْخَاصَّةُ فَإِنْ شَاءَ أَجَابَ، وَإِنْ شَاءَ لَمْ يُجِبْ
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ ابو طلحہ (رض) نے ام سلیم سے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز بہت مدہم سنی ہے۔ میں اس کی وجہ سے محسوس کرتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھوک لگی ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ ہے۔ انھوں نے کہا ہاں۔ تو ام سلیم (رض) عنہا نے جو کی روٹیاں لیں۔ پھر اپنا دوپٹہ لے کر اس کے کونے میں چند روتیاں لپیٹ دیں۔ اور وہ روٹیاں میری بغل میں دباکر اوڑھنی کا کچھ حصہ مجھ پر ڈال دیا۔ پھر ام سلیم نے مجھے دے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اور ان کے پاس بہت سے آدمی بیٹھے تھے۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑا ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا تمہیں ابو طلحہ (رض) نے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمایا کیا کھانے کی کوئی چیز لائے ہو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے تمام ساتھیوں کو فرمایا۔ اٹھو۔
انس کہتے ہیں کہ تمام چل پڑے۔ اور میں ان کے آگے آگے تھا پھر میں ابو طلحہ (رض) کے پاس گیا اور انھیں اطلاع دی۔
ابو طلحہ (رض) نے کہا اے ام سلیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس اس قدر کھانا نہیں کہ ان سب کو کھلائیں۔ ہم کیا کریں گے انھوں نے جواب دیا۔ اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
ابو طلحہ (رض) نکلے یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں داخل ہوئے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے ام سلیم جو کجھ تمہارے پاس ہے۔ لے آؤ۔ چنانچہ وہ چند روٹیاں لے آئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ٹکڑے کرائے۔ ام سلیم نے ان پر گھی کی کپی نچوڑ دی۔ اور اس کی چوری کچوری بنادی پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا پڑھا پھر فرمایا۔ د س دس آدمی بلاؤ انھیں بلایا گیا۔ انھوں نے سیر ہو کر کھایا اور وہ باہر نکلے ۔ پھر دس آدمیوں کو بلایا انھوں نے کھایا اور سیر ہوگئے۔ پھر باہر چلے گئے۔ پھر حضور (علیہ السلام) نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ۔ انھوں بلایا انھوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس اور آدمیوں کو بلایاد یہاں تک کہ تمام آدمیوں نے سرٹ ہو کر کھایا یہ تمام ستر یا اسی آدمی تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں، آدمی کو عام دعوت قبول کر لینی چاہیے۔ عذر کے بغیر دعوت سے انکار مناسب نہیں ۔ لیکن خاص دعوت چاہے قبول کرے اور خواہ قبول نہ کرے اس کی مرضی پر موقوف ہے۔

889

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَعَامُ الاثْنَيْنِ كَافٍ لِلثَّلاثَةِ، وَطَعَامُ الثَّلاثَةِ كَافٍ لِلأَرْبَعَةِ»
اعرج (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دو افراد کا کھانا تین کے لیے اور تین کا کھانا چار کے لیے کافی ہے۔

890

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلامِ، ثُمَّ أَصَابَهُ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى، فَخَرَجَ الأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَدِينَةَ كَالْكِيرِ، تَنْفِي خَبَثَهَا وَتَنْصَعُ طِيبَهَا»
محمد بن منکدر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے خبر دی کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام پر بیعت کی ۔ پھر اسے مدینہ منورہ میں بخار آنے لگا۔ تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس يیا اور کہنے لگا۔ میری بیعت توڑ دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار فرمایا۔ وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا۔ میری بیعت توڑ دو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار فرمایا۔ وہ پھر تیسری بار آیا اور کہنے لگا۔ میری بیعت توڑ دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ ایک بھتی کی طرح ہے۔ جو کہ اپنا میل کچیل دور کردیتی اور عمدہ کو کندن بناکر رکھ لیتی ہے۔

891

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ شَنُوءَةَ، وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ أُنَاسًا مَعَهُ، وَهُوَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لا يُغْنِي بِهِ زَرْعًا، وَلا ضَرْعًا نُقِصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ» . قَالَ: قُلْتُ، أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: يُكْرَهُ اقْتِنَاءُ الْكَلْبِ لِغَيْرِ مَنْفَعَةٍ، فَأَمَّا كَلْبُ الزَّرْعِ أَوِ الضَّرْعِ أَوِ الصَّيْدِ أَوِ الْحَرَسِ فَلا بَأْسَ بِهِ
سفیان بن ابی زہیر (رض) نے جو کہ قبیلہ شنوہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ حدیث بیان کی کہ جس شخص نے کتا پالا اور اس کا مقصد نہ کھیت کی حفاظت تھی نہ بکریوں کی رکھوالی، اس کے اعمال میں سے روزنہ ایک قیراط کم ہوتا جاتا ہے۔ سائب کہتے ہیں میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے یہ خود ارشاد نبوت سنا ہے۔ تو انھوں نے کہا رب کعبہ کی قسم اور اس مسجد نبوی کے رب کی قسم میں نے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود سنا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ کسی فائدہ کے بغیر کتا پالنا مکروہ ہے۔ البتہ بکریوں، کھیتوں کی حفاظت کے لیے پالنے کی اجازت ہے۔ اس میں حرج نہیں۔

892

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، قَالَ: «رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَهْلِ الْبَيْتِ الْقَاصِي فِي الْكَلْبِ يَتَّخِذُونَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: فَهَذَا لِلْحَرَسِ
ابراہیم نخعی (رح) نے عبداللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوکوں کو کتا پالنے کی اجازت دی ۔ جن کے گھر آبادی سے باہر ہوں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ اجازت گھروں کی حفاظت سے مختص ہے۔

893

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا، إِلا كَلْبَ مَاشِيَةٍ، أَوْ ضَارِيًا، نُقِصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ
عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جس شخص نے شکاری کتے یا کھیتوں کی حفاظت کے علاوہ کتا پالا پس اس کے اعمال میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوتے جاتے ہیں۔

894

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْذِبُ امْرَأَتِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا خَيْرَ فِي الْكَذِبِ» ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعِدُهَا وَأَقُولُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا جُنَاحَ عَلَيْكَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا خَيْرَ فِي الْكَذِبِ فِي جِدٍّ وَلا هَزْلٍ، فَإِنْ وُسِّعَ الْكَذِبُ فِي شَيْءٍ فَفِي خَصْلَةٍ وَاحِدَةٍ أَنْ تَرْفَعَ عَنْ نَفْسِكَ أَوْ عَنْ أَخِيكَ مَظْلَمَةً، فَهَذَا نَرْجُو أَنْ لا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ
عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں اپنی بیوی سے جھوٹ بول سکتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جھوٹ میں کوئی خیر نہیں۔ اس نے عرض کیا۔ کیا اپنی بیوی سے وعدہ کرلوں اور کہہ دوں ( کہ فلاں کام کروں گا) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میں مجھ پر حرج نہیں ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ جھوٹ ہنسی مذاق میں ہو یا واقعی جھوٹ ہو۔ اس میں کوئی خیر نہیں۔ اگر جھوٹ کے لیے کوئی گنجائش ہوسکتی ہے تو وہ صرف اس صورت میں کہ اپنے آپ سے یا اپنے بھائی سے کسی ظلم کو دور کرنا مقصود ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہ ہوگا۔

895

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلا تَجَسَّسُوا، وَلا تَنَافَسُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا»
اعرج (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ خبردار، خبردار، بدگمانی سے بچو۔ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ لوگوں کے عیب تلاش نہ کرو۔ نہ ایک دوسرے پر فخر کرو۔ نہ کسی سے حسد کرو۔ نہ باہم بغض رکھو۔ نہ علیحدگی اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔

896

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذُو الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلاءِ بِوَجْهٍ»
اعرج ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوکوں میں بد ترین شخص دو غلا پن والا ہے۔ جو ایک سے کجھ تو دوسرے سے کچھ کہتا ہے ( تاکہ بگاڑ و فساد فرپا کرے)

897

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ، سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى أَنْفَذَ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: «مَا يَكُنْ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، مَنْ يَسْتَعِفَّ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ»
عطاء بن یزید لیثی نے ابو سعید خدری (رض) سے بیان کیا کہ کچھ انصار مدینہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٍی سوال کیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں دے دیا۔ پھر انھوں نے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر دے دیا۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہوگیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میرے پاس جو کچھ تھا میں نے تم سے بچاکر نہیں رکھا۔ جو شخص سوال سے بچنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بچالیتا ہے۔ اور غناء طلب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے غنی بنادیتا ہے۔ جو صبر کرنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے صبر عطاء فرماتا ہے۔ اور جو نعمتیں کس کی شخص کو بہی عطاء کی گئی ہیں۔ ان سب سے بہتر اور سب سے وسیع نعمت صبر ہے۔ (اس روایت کو باب ما جاء فی التعفف عن المسئلہ میں امام مالک (رح) نے ذکر فرمایا ہے۔

898

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلا مِنْ بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ سَأَلَهُ أَبْعِرَةً مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، وَكَانَ مِمَّا يُعْرَفُ بِهِ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ أَنْ يَحْمَرَّ عَيْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ: «الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مَا لا يَصْلُحُ لِي، وَلا لَهُ، فَإِنْ مَنَعْتُهُ كَرِهْتُ الْمَنْعَ، وَإِنْ أَعْطَيْتُهُ أَعْطَيْتُهُ مَا لا يَصْلُحُ لِي، وَلا لَهُ» ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لا أَسْأَلُكَ مِنْهَا شَيْئًا أَبَدًا. قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي أَنْ يُعْطَى مِنَ الصَّدَقَةِ غَنِيًّا، وَإِنَّمَا نَرَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ، لأَنَّ الرَّجُلَ كَانَ غَنِيًّا، وَلَوْ كَانَ فَقِيرًا لأَعْطَاهُ مِنْهَا
عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد ابوبکر نے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ عبد الاشہل کے ایک آدمی کو صدقات کا عامل مقرر فرمایا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صدقہ کے کچھ اونٹ مانگے۔ ابوبکر کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک میں غصہ کے آثار ظاہر ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک چہرہ پر غصہ کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں سرخی آجاتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس شخص نے مجھ سے وہ سوال کیا۔ جو نہ میرے لیے جائز ہے نہ اس کے لئے۔ اگر میں اسے نہیں دیتا ہوں تو نہ دینا مجھے ناگوار گزرتا ہے۔ اور اگر دیتا ہوں تو ایسی چیز دیتا ہوں جو نہ اس کے لیے جائز ہے اور نہ میرے لیے مناسب ہے۔ اس شخص نے عرض کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبہی ایسی جیز نا مانگوں گا اس روایت کو ( باب ما یکرہ من الصدقہ میں ذکر کیا گیا)
یعفہ : عفت عنایت کرتے ہیں۔ یستغن : غین ظاہر کرتا ہے۔ یتصبر : بتکلف اپنے کو صبر پر ضمادہ کرنا
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ صدقہ کے مال سے مالدار کو دینا روا نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ آدمی مال دار تھا اگر وہ تنگ دست ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ضرور مرحمت فرماتے

899

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ الْمَلِكِ يُبَايِعُهُ فَكَتَبَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، أَمَّا بَعْدُ، لِعَبْدِ اللَّهِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، سَلامٌ عَلَيْكَ، فَإِنِّي أَحْمَدُ إِلَيْكَ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ، وَأُقِرُّ لَكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلى سُنَّةِ اللَّهِ، وَسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا اسْتَطَعْتُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ إِذَا كَتَبَ الرَّجُلُ إِلَى صَاحِبِهِ أَنْ يَبْدَأَ بِصَاحِبِهِ قَبْلَ نَفْسِهِ
عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے امیر المؤمنین عبد الملک کو بیعت کا خط اس طرح لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ امام بعد اللہ کے بندے امیر المؤمنین عبد الملک کے نام۔
عبداللہ بن عمر کی طرف سے۔ تم پر سلامتی ہو۔ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں۔ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اپنی استطاعت و ہمت کے مطابق میں آپ کی بات سننے اور اطاعت کرنے کا اقرار کرتا ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنا نام لکھنے سے پہلے اس کا نام لکھے جس کو خط لکھا جارہا ہوتا ہے۔

900

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَن زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، لِعَبْدِ اللَّهِ مُعَاوِيَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، مِنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَلا بَأْسَ بِأَنْ يَبْدَأَ الرَّجُلُ بِصَاحِبِهِ قَبْلَ نَفْسِهِ فِي الْكِتَابِ
خارجہ بن زید نے زید بن ثابت (رض) کے متعلق ذکر کیا کہ انھوں نے امیر معاویہ (رض) کو اس طرح خط تحریر کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے معاویہ امیر المؤمنین کی طرف زید بن ثابت کی طرف سے۔
خارجہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے نام سے پہلے مکتوب الیہ کا نام تحریر کریں۔ ( جیسا کہ اس خط میں موجود ہے)

901

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّي؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي مَعَهَا فِي الْبَيْتِ، قَالَ: «اسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا» ، قَالَ: إِنِّي أَخْدُمُهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أتُحِبُّ أَنْ تَرَاهَا عُرْيَانَةً؟» قَالَ: لا، قَالَ: «فَاسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الاسْتِئْذَانُ حَسَنٌ، وَيَنْبَغِي أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ عَلَى كُلِّ مَنْ يَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّظَرُ إِلَى عَوْرَتِهِ وَنَحْوِهَا
صفوان بن سلیم کہتے ہیں کہ عطاء بن یسار (رح) نے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں گھر میں داخل ہونے کے لیے اپنی والدہ سے بھی اجازت حاصل کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جی ہاں ! اس نے عرض کیا میں گھر میں ان کے ساتھ رہتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ان سے اجازت حاصل کرو۔ اس نے عرض کیا میں تو ان کی خدمت گزاری کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا تم اسے برہنہ دیکھنا پسند کرتے ہو ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس ( اسی لیے ) ان سے اجازت لے کر داخل ہوا کرو (اس روایت کو امام مالک نے باب الاستیذان میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اجازت لے کر داخل ہونا بہت ہی خوب ہے۔ مناسب تو یہ ہے کہ ہراس فرد سے اجازت لے کر داخل ہو۔ جس کے ستر پر نگاہ ڈالنا اس کے لیے روانہ ہو۔

902

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الْجَرَّاحِ مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْعِيرُ الَّتِي فِيهَا جَرَسٌ لا تَصْحَبُهَا الْمَلائِكَةُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا رُوِيَ ذَلِكَ فِي الْحَرْبِ، لأَنَّهُ يُنْذَرُ بِهِ الْعَدُوُّ
سالم بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ام حبیبہ (رض) عنہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتی تھیں کہ جس قافلہ میں گھنٹہ کی آواز ہو۔ اس میں ( رحمت کے) فرشتے ساتھ نہیں ہوتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارے ہاں یہ حکم جنگ کے موقعہ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ اس سے دشمن کو خبر ہوجاتی ہے

903

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَهَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي طَلْحَةَ الأَنْصَارِيِّ يَعُودُهُ، فَوَجَدَ عِنْدَهُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَدَعَا أَبُو طَلْحَةَ إِنْسَانًا يَنْزِعُ نَمَطًا تَحْتَهُ، فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ: لِمَ تَنْزِعُهُ؟ قَالَ: لأَنَّ فِيهِ تَصَاوِيرُ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ فِيهَا مَا قَدْ عَلِمْتَ، قَالَ سَهْلٌ: أَوَ لَمْ يَقُلْ إِلا مَا كَانَ رَقْمًا فِي ثَوْبٍ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّهُ أَطْيَبُ لِنَفْسِي، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَا كَانَ فِيهِ مِنْ تَصَاوِيرَ مِنْ بِسَاطٍ يُبْسَطُ أَوْ فِرَاشٍ يُفْرَشُ أَوْ وِسَادَةٍ فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ، إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ فِي السِّتْرِ، وَمَا يُنْصَبُ نَصْبًا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو النضر مولی عبداللہ بن عبید اللہ نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (رح) کے متعلق بیان کیا کہ وہ حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) کی عیادت کو گئے۔ ان کے پاس سہل بن حنیف (رض) بھی موجود تھے۔ ابو طلحہ (رض) نے اس وقت ایک شخص کو بلایا کہ وہ ان کے نیچے سے گرہ کھینچ لں ر۔ سہل بن حنیف (رض) نے پوچھا گرہ کیوں کر کھینچتے ہو۔ انھوں نے جواب دیا کہ اس میں تصاویر ہیں۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا جو کچھ کہ فرمایا وہ تم لوگ جانتے ہوئے۔ سہل نے کہا کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا، مگر یہ کہ کپڑے کے اندرنقش ہوں ؟ ابو طلحہ (رض) نے کہا لیکن میری خوشی اسی بات میں ہے۔ ( کہ اس کو میرے نیچے سے نکال لیا جائے) ( اس روایت کو باب ما جاء فی الصورو التماثیل میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ اگر بچھائی جانے والی دری یا فرش پر تصاویر بنی ہوئی ہوں یا تکیہ پر ہوں تو ان میں کو مضائقہ نہیں۔ لیکن پردوں اور لٹکانے والے کپڑوں، نصب شدہ چیزوں پر منع ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

904

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا خَيْرَ بِاللَّعِبِ كُلِّهَا مِنَ النَّرْدِ، وَالشِّطْرَنْجِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ
سعید بن ابی ہند نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جس نے شطرنج کھیلا اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی النرد میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ چوسر اور شطرنج اور اس قسم کے تمام کھیلوں میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

905

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ مَنْ سَمِعَ عَائِشَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ صَوْتَ أُنَاسٍ يَلْعَبُونَ مِنَ الْحَبَشِ، وَغَيْرِهِمْ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتُحِبِّينَ أَنْ تَرَيْ لَعِبَهُمْ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءُوا، وَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ النَّاسِ، فَوَضَعَ كَفَّهُ عَلَى الْبَابِ، وَمَدَّ يَدَهُ، وَوَضَعْتُ ذَقَنِي عَلَى يَدِهِ، فَجَعَلُوا يَلْعَبُونَ وَأَنَا أَنْظُرُ، قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: حَسْبُكِ، قَالَتْ: وَأَسْكُتُ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلاثًا، ثُمَّ قَالَ لِي: حَسْبُكِ، قُلْتُ: نَعَمْ. فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ فَانْصَرَفُوا "
ابو النضر نے ایک شخص سے بیان کیا جس نے حضرت عائشہ (رض) عنہا کو فرماتے سنا۔ کہ میں نے عاشورہ کے دن حبش وغیرہ کے لگوں کے کھیل کی آواز سنی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا تم اس کھیل کو دیکھنا چاہتی ہو ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بلوایا وہ آگئے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے درمیان کھڑے ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ہتھیلی مبارک دروازہ پر رکھی اور دست اقدس دراز کرلیا۔ میں نے اپنی ٹھوڑی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست اقدس پر رکھی۔ چنانچہ وہ لوگ کھیلنے لگے اور میں دیکھتی رہی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہیں کافی ہوگیا۔ کیا کافی ہوگیا۔ دو یا تین مرتبہ دریافت کرنے پر میں خاموش رہی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استفسار فرمایا۔ تمہیں کافی ہوگیا۔ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اشارہ کیا تو وہ واپس پلٹ گئے۔

906

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، عَامَ حَجَّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ ، وَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعْرٍ، كَانَتْ فِي يَدِ حَرَسِيٍّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا، وَيَقُولُ: إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يُكْرَهُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصِلَ شَعْرًا إِلَى شَعْرِهَا، أَوْ تَتَّخِذَ قُصَّةَ شَعْرٍ، وَلا بَأْسَ بِالْوَصْلِ فِي الرَّأْسِ إِذَا كَانَ صُوفًا، فَأَمَّا الشَّعْرُ مِنْ شُعُورِ النَّاسِ فَلا يَنْبَغِي، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
حمید بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ (رض) نے جس سال حج کیا ( تو وہ مدینہ تشرف لائے) وہ مسجد نبوی کے منبر پر فرمانے لگے۔ اے اہل مدینہ تمہارے علماء کہاں ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے ایک چوکیدار کے ہاتھ سے بالوں کا ایک گچھا لیا اور کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قسم کی چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل ہلاک ہوگئے۔ جب ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اسی پر ہمارا عمل ہے۔ عورتوں کے لیے مکروہ ہے کہ دوسروں کے بالوں سے اپنے بالوں کو جوڑے یا جوڑہ بنائے۔ سرک کے اس جوڑے میں مضائقہ نہیں اگر وہ اون ہو لیکن لوگوں کے بالوں کو جوڑنا جائز نہیں ہے۔ ( یعنی انسانی بالوں کو جوڑنا جائز نہیں م) یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

907

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ، فَأُرِيدُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ میں قیامت کے دن تک اپنی امت کی شفاعت کی دعا کو پوشیدہ رکھوں۔

908

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَتَطَيَّبُ بِالْمِسْكِ الْمُفَتَّتِ الْيَابِسِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالْمِسْكِ لِلْحَيِّ، وَلِلْمَيِّتِ أَنْ يَتَطَيَّبَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
یحییٰ بن سعد نے ہم سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) خشک کستوری گھس کر خوشبو لگاتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زندوں یا مردوں کو مشک لگانے میں کوئی حرج نہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

909

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الَّذِينَ قَتَلُوا أَصْحَابَ بِئْرِ مَعُونَةَ ثَلاثِينَ غَدَاةً، يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ، وذَكْوَانَ، وَعُصَيَّةَ: عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ". قَالَ أَنَسٌ: نَزَلَ فِي الَّذِينَ قُتِلُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ قُرْآنٌ قَرَأْنَاهُ حَتَّى نُسِخَ: بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا وَرَضِيَ اللَّهُ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ (رح) نے اسن بن مالک (رض) سے یہ ارشاد نبوت نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے لیے تیس روز تک بد جعا فرمائی جنہوں نے بئر معونہ کے مقام پر اصحاب کو قتل کیا تھا۔ وہ قبائل رعل ، ذکوان، لحیان اور عصیہ تھے۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی تھی۔ انس باین کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو بئر معونہ میں قتل ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے حق میں قرآن مجید میں آیات نازل ہوئیں۔ جن کو ہم نے پڑھا۔ پہر وہ منسوخ ہوگئیں۔ کہ ہماری قوم کو پیغام پہنچادو۔ کہ ہم اپنے رب سے ملنے والے ہیں وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہوئے۔

910

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْقَارِيُّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ بْنِ عُمَرَ، فَكَانَ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَيَقُولُ مِثْلَ مَا يُقَالُ لَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا لا بَأْسَ بِهِ، وَإِنْ زَادَ الرَّحْمَةَ، وَالْبَرَكَةَ فَهُوَ أَفْضَلُ
ابو جعفر قاری کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) عنما کے ساتھ تھا۔ جب انھیں کہا جاتا ۔ اسلام علیکم تو وہ بھی اس طرح جواب دیتے اور وہ کہتے جیسے انھیں کہا جاتا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن رحمۃ اللہ اور برکاتہ کے الفاظ کا اضافہ کردا جائے تو بہت زیادہ بہتر ہے۔

911

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَى السُّوقِ، قَالَ: وَإِذَا غَدَوْنَا إِلَى السُّوقِ لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى سَقَّاطٍ وَلا صَاحِبِ بَيْعٍ وَلا مِسْكِينٍ وَلا أَحَدٍ إِلا سَلَّمَ عَلَيْهِ. قَالَ الطُّفَيْلُ بْنُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: فَجِئْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَوْمًا، فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَى السُّوقِ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا تَصْنَعُ فِي السُّوقِ وَلا تَقِفُ عَلَى الْبَيِّعِ وَلا تَسْأَلُ عَنِ السِّلَعِ وَلا تُسَاوِمُ بِهَا وَلا تَجْلِسُ فِي مَجْلِسِ السُّوقِ؟ اجْلِسْ بِنَا هَهُنَا نَتَحَدَّثُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَا أَبَا بَطْنٍ وَكَانَ الطُّفَيْلُ ذَا بَطْنٍ، إِنَّمَا نَغْدُو لأَجْلِ السَّلامِ، نُسَلِّمُ عَلَى مَنْ لَقِينَا "
طفیل بن ابی بن کعب (رح) نے بتلایا کہ ابن عمر (رض) میرے پاس آتے تھے۔ اور میں ان کے ساتھ بازار جاتا تھا۔ جب ہم بازار جاتے تو عبداللہ بن عمر (رض) ردی سامان فروخت کرنے والے ، عام تاجر، مسکین یا کسی بہی شخص کے قریب سے گزرتے تو انھیں سلام کرتے۔
طفیل کہتے ہیں میں ایک دن ابن عمر (رض) کے پاس آیا وہ مجھے بازار کی طرف لے کر چلدئیے۔ میں نے عرض کیا ۔ آپ بازار میں کیا کرتے ہیں۔ نہ کسی دو کان پر رکتے ہیں نہ کسی سامان کے متعلق دریافت کرتے ہیں ؟ نہ سودا کرتے ہیں۔ اور نہ بازار میں کہیں بیٹھتے ہیں۔ آئیں ہم دونوں یہاں بیٹھتے ہیں یا باتیں کرتے ہیں۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا اے بڑے پیٹ والے ! ہم بازار تو صرف سلام کرنے جاتے ہیں جس سے ملیں اسے سلام کہیں ( اس روایت کو باب جامع السلام میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)

912

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُهُمْ فَإِنَّمَا يَقُولُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَقُولُوا: عَلَيْكَ "
عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرتا ہے تو وہ السام علیکم (تم پر موت ہو) کہتا ہے۔ تم اس کے جواب میں علیک کہہ دیا کرو۔ ( اس روایت کو باب ما جاء فی السلام علی الیھودی و النصرانی میں ذکر کیا گیا ہے)

913

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: " كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ يَمَانِيٌّ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ثُمَّ زَادَ شَيْئًا مَعَ ذَلِكَ أَيْضًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: مَنْ هَذَا؟ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ قَالُوا: هَذَا الْيَمَانِيُّ الَّذِي يَغْشَاكَ، فَعَرَّفُوهُ إِيَّاهُ حَتَّى عَرَفَهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ السَّلامَ انْتَهَى إِلَى الْبَرَكَةِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا قَالَ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَلْيَكْفُفْ، فَإِنَّ اتِّبَاعَ السُّنَّةِ أَفْضَلُ
محمد بن عمرو بن عطاء (رح) نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس بیٹھے تھے۔ کہ ان کے پاس ایک یمنی شخص آیا۔ اور اس نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا۔ اور اس کے ساتھ گچھ اور الفاظ کا اضافہ کیا۔ ابن عباس (رض) نے پوچھا یہ کون ہے۔ ابن عباس (رض) کی بنائی جا چکی تھے۔ لوگوں نے بتلایا کہ یہ وہ یمنی ہے جو آپ کے پاس آیا کرتا تھا۔ اس کا نام و پتہ بتلایا۔ یہاں تک کہ انھوں نے پہچان لیا ۔ تو عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمانے لگے۔ سلام تو وبرکاتہ پر ختم ہوجاتا ہے ( اس روایت کو باب العمل فی السلام میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ جب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو رک جائے۔ اس لیے کہ سنت کی پیروی اعلی و افضل ہے۔

914

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، وَقَالَ: رَآنِي ابْنُ عُمَرَ، وَأَنَا أَدْعُو، فَأُشِيرُ بِأُصْبُعَيَّ أُصْبُعٍ مِنْ كُلِّ يَدٍ فَنَهَانِي ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ نَأْخُذُ، يَنْبَغِي أَنْ يُشِيرَ بِأُصْبُعٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے مجھے دعا کرتے دیکھا اور میں اپنے دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں سے اشارہ کررہا تھا۔ آپ نے ( اشارہ سے) منع فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ابن ع مر (رض) کے قول کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ اور اس پر ہمارا عمل ہے۔ صرف ایک انگلی سے اشارہ کرنا چاہیے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

915

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيُرْفَعُ بِدُعَاءِ وَلَدِهِ مِنْ بَعْدِهِ، وَقَالَ بِيَدِهِ فَرَفَعَهَا إِلَى السَّمَاءِ
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب (رح) کو فرماتے سنا کہ مرنے کے بعد بیٹے کی دعاء سے باپ کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اور اس بلندی کے اظہار کے لیے يپ نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

916

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ، فَيُعْرِضُ هَذَا، وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمُ الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلامِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي الْهِجْرَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمَيْنِ
عطاء بن یزید نے ابو ایوب انصاری (رض) سے نقل کیا کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرلے۔ اور راستہ میں اس سے اس طرح ملے کہ وہ ایک دوسرے سے تعلق سے منہ پھیر لیں۔ ان میں بہتر آدمی وہ ہے جو سلام کے ساتھ ابتداء کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں مسلمانوں کے درمیان تین دن سے زیادہ ترک تعلق جائز نہیں۔

917

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: مَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَاتِ أَكْثَرَ التَّنَقُّلَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي الْخُصُومَاتُ فِي الدِّينِ
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے فرمایا۔ جو شخص دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنائے وہ کبھی کسی دین میں جا پڑتا ہے۔ اور کبھی کسی کے دین میں ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ دین میں جھگڑنا مناسب نہیں۔

918

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لأَخِيهِ: كَافِرٌ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ أَنْ يَشْهَدَ عَلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ بِذَنْبٍ أَذْنَبَهُ بِكُفْرٍ، وَإِنْ عَظُمَ جُرْمُهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن دینار (رح) نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو اس کا کفر اسی پر لوٹا ( اگر وہ کفر کا حقدار نہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو کافر کہے۔ خواہ اس نے کبیرہ گناہ کیا ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

919

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ وَفِي رِوَايَةٍ الْخَبِيثَةِ، فَلا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، يُؤْذِينَا بِرِيحِ الثُّومِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ لِرِيحِهِ، فَإِذَا أَمَتَّهُ طَبْخًا فَلا بَأْسَ بِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
ابن شہاب زہری (رح) فرماتے ہیں کہ سعید بن المسیب (رح) نے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شحص نے اس درخت سے کھایا اور ایک روایت میں خبیثہ کا لفظ ہے۔ وہ ہماری مسجد میں داخل نہ ہو۔ لہسن کی بو سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ لہسن کی بو کی وجہ سے لہسن مکروہ ہے۔ جب پکار کر اس کی بو ختم کردی جائے۔ تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے

920

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الشَّيْءَ يَكْرَهُهُ فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ إِذَا اسْتَيْقَظَ، وَلْيَتَعَوَّذْ مِنْ شَرِّهَا، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى»
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ (رض) کو کہتے سنا کہ ابو قتادہ کہا کرتے تھے۔ کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہی فرماتے سنا کہ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ جب کوئی شخص برا خواب دیکھے تو جب اس سے بیدار ہو اس وقت وہ بائیں طرف تین بار تھوک دے اور اس کے شر سے اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرے۔ ان شاء اللہ اس کے مضر اثرات سے بچا رہے گا۔

921

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ، وَعَن لِبْسَتَيْنِ، وَعَنْ صَلاتَيْنِ، وَعَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ، فَأَمَّا الْبَيْعَتَانِ: الْمُنَابَذَةُ وَالْمُلامَسَةُ، وَأَمَّا اللِّبْسَتَانِ: فَاشْتِمَالُ الصَّمَّاءِ وَالاحْتِبَاءُ بِثَوْبٍ وَاحِدٍ كَاشِفًا عَنْ فَرْجِهِ، وَأَمَّا الصَّلاتَانِ: فَالصَّلاةُ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسِ، وَالصَّلاةُ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَمَّا الصِّيَامَانِ: فَصِيَامُ يَوْمِ الأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عبد الرحمن الاعرج (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نمبر ١۔ دو قسم کی خریدو فروخت سے منع فرمایا۔ نمبر ٢۔ دو قسم کے لباس سے منع فرمایا۔ نمبر ٣۔ دو نمازوں سے روکا۔ نمبر ٤۔ دو روزوں سے منع کیا۔
دو قسم کی خریدو فروخت یہ ہے نمبر ١ منابذہ۔ نمبر ٢۔ ملامسہ۔
دو ممنوع لباس یہ ہیں : نمبر ١۔ اشتمال الصماء۔ نمبر ٢۔ حتباء ایک ایسے کپڑے میں لپٹنا جس سے شرمگاہ کھل جائے۔
دو نمازیں جو ممنوع ہیں۔ عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک نماز پڑھنا۔ نمبر ٢ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنا۔
دو ممنوع روزے یہ ہیں : نمبر ١ عبد الفطر نمبر ٢۔ عبد قربانی کا روزہ۔ ( منابذہ کنکری پھینک کر جس چیز پر کنکری پڑے یہ جاہلیت کی بیع تھی۔ ملامسہ جس چیز کو ہاتھ لگ جائے وہ میری یہ بھی جاہلیت کی بیع تھی۔ اشتمال الصماء : پورے جسم پر کپڑا لپیٹنا کہ ہاتھ اس کے اندر ڈھنپ جائیں اور شرمگاہ اور ہاتھوں کے درمیان کوئی کپڑا حائل نہ ہو)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ان تمام پر ہمارا عمل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہی ہے۔

922

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ وَهُوَ يُوصِي رَجُلا: " لا تَعْتَرِضْ فِيمَا لا يَعْنِيكَ، وَاعْتَزِلْ عَدُوَّكَ، وَاحْذَرْ خَلِيلَكَ إِلا الأَمِينَ، وَلا أَمِينَ إِلا مَنْ خَشِيَ اللَّهَ، وَلا تَصْحَبْ فَاجِرًا كَيْ تَتَعَلَّمَ مِنْ فُجُورِهِ، وَلا تُفْشِ إِلَيْهِ سِرَّكَ، وَاسْتَشِرْ فِي أَمْرِكَ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ
امام مالک کہتے ہیں کہ ہمیں ایک بیان کرنے والے نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) ایک شخص کو وصیت فرما رہے تھے۔ کہ اس کا کام سے لگاؤ نہ رکھو جس میں تمہارا کوئی مقصد نہ ہو۔ اپنے دشمن سے دور رہو۔ اپنے دوست سے ڈرو ! مگر یہ کہ وہ امین ہو اور امین صرف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ اور فاجر کی دوستی مت اختیار کرو ورنہ تم اس کی بدکاری کی باتیں سیکھ لوگے۔ اور اسے اپنا رزامت دو اور اپنے معاملہ میں ان لوگوں سے مشورہ کرو جو اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوں۔

923

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى أَنْ يَأْكُلَ الرَّجُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَمْشِيَ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ، وَأَنْ يَشْتَمِلَ الصَّمَّاءَ، أَوْ يَحْتَبِيَ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، كَاشِفًا عَنْ فَرْجِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: يُكْرَهُ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْكُلَ بِشِمَالِهِ، وَأَنْ يَشْتَمِلَ الصَّمَّاءَ، وَاشْتِمَالُ الصَّمَّاءِ أَنْ يَشْتَمِلَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ، فَيَشْتَمِلُ بِهِ فَتَنْكَشِفُ عَوْرَتُهُ مِنَ النَّاحِيَةِ الَّتِي تُرْفَعُ مِنْ ثَوْبِهِ، وَكَذَلِكَ الاحْتِبَاءُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ
ابو الزبیر مکی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے سے منع فرمایا۔ اور ایک جوتا پہن کر چلنے سے منع فرمایا۔ اور سارے ننگے جسم پر ایک ہی کپڑا لپیٹنے سے کہ ہاتھ بھی باہر نہ نکلیں اور اس طرح سرین کے بل بیٹھے کہ شرمگاہ کھل جائے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : بائیں ہاتھ سے کھانا مکروہ ہے۔ اور اشتمال الصماء بھی مکروہ ہے۔ اشتمال صماء یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے جسم پر ایک کپڑا لپیت لے کہ کپڑا کسی طرف سے اٹھائے تو شرمگا کھل جائے اور حتباء ایک کپڑے میں وہ بھی یہی حکم رکھتا ہے۔

924

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِي قُبَاءَ رَاكِبًا، وَمَاشِيًا»
عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قباء میں کبھی پیدل اور کبھی سوار تشریف لاتے۔

925

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ هَذِهِ الأَحَادِيثَ الأَرْبَعَةَ، قَالَ أَنَسٌ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ رَقَّعَ بَيْنَ كَتِفَيْهِ بِرِقَاعٍ ثَلاثٍ، لَبَّدَ بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ، وَقَالَ أَنَسٌ: وَقَدْ رَأَيْتُ يُطْرَحُ لَهُ صَاعُ تَمْرٍ فَيَأْكُلُهُ حَتَّى يَأْكُلَ حَشَفَهُ قَالَ أَنَسٌ: وَسَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا، وَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَبَيْنِي وَبَيْنَهُ جِدَارٌ، وَهُوَ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، بَخٍ بَخٍ، وَاللَّهِ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ لَتَتَّقِيَنَّ اللَّهَ، أَوْ لَيُعَذِّبَنَّكَ قَالَ أَنَسٌ: وَسَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ رَجُلٌ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ، ثُمَّ سَأَلَ عُمَرُ الرَّجُلَ: كَيْفَ أَنْتَ؟ قَالَ الرَّجُلُ: أَحْمَدُ اللَّهَ إِلَيْكَ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَذِهِ أَرَدْتُ مِنْكَ
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ (رح) نے بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) نے چار باتیں بیان فرمائیں۔ نمبر۔ جن دنوں عمر (رض) اللہ امیر المؤمنین تھے میں نے دیکھا کہ ان کے مونڈھوں کے درمامن ایک دوسرے کے اوپر تلے تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ نمبر ٢۔ میں نے عمر (رض) کو دیکھا کہ ان کٍ امنے ایک صاع کھجوریں رکھ دی جاتیں تو وہ کھالیتے۔ یہاں تک کہ جو ردی ہوتیں وہ بھی کھالیتے۔ نمبر ٣ ایک دن عمر (رض) کے ساتھ میں نکلا یہاں تک کہ وہ ایک باغ میں داخل ہوگئے وہ باغ کے اندر تھے میرے اور ان کے درمیان صرف دیوار حائل تھی۔ میں نے سنا کہ وہ ( اپنے کو مخاطب کرکے) کہہ رہے تھے۔ اے امیر المؤمنین عمر بن خطاب ! اللہ کی قسم ! اے خطاب کے بیٹے ! اللہ تعالیٰ سے ڈر ورنہ وہ تجھے عذاب میں مبتلا کردے گا۔ نمبر ٤۔ ایک شخص نے ان کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور دریافت کیا تمہارا کیا حال ہے ؟ اس نے جواب دیا۔ میں آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ میں تم سے یہی چاہتا تھا۔

926

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَبْعَثُ إِلَيْنَا بِأَحِظَّائِنَا مِنَ الأَكَارِعِ، وَالرُّءُوسِ
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا حضرت عمر (رض) کوئی جانور ذبح کرتے تو ہم لوگوں کا حصہ سری پائے بھیج دیتے تھے۔

927

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَقُولُ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَهُوَ يُرِيدُ الشَّامَ، حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَ الشَّامِ أَنَاخَ عُمَرُ، وَذَهَبَ لِحَاجَةٍ، قَالَ أَسْلَمُ: فَطَرَحْتُ فَرْوَتِي بَيْنَ شِقَّيْ رَحْلِي، فَلَمَّا فَرَغَ عُمَرُ عَمَدَ إِلَى بَعِيرِي، فَرَكِبَهُ عَلَى الْفَرْوَةِ، وَرَكِبَ أَسْلَمُ بَعِيرَهُ، فَخَرَجَا يَسِيرَانِ حَتَّى لَقِيَهُمَا أَهْلُ الأَرْضِ، يَتَلَقَّوْنَ عُمَرَ، قَالَ أَسْلَمُ: فَلَمَّا دَنَوْا مِنَّا أَشَرْتُ لَهُمْ إِلَى عُمَرَ، فَجَعَلُوا يَتَحَدَّثُونَ بَيْنَهُمْ، قَالَ عُمَرُ: تَطْمَحُ أَبْصَارُهُمْ إِلَى مَرَاكِبِ مَنْ لا خَلاقَ لَهُمْ، يُرِيدُ مَرَاكِبَ الْعَجَمِ
قاسم بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلم ( جو عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام تھے) سے سنا کہ میں حضرت عمر رضی ارللہ عنہ کے ساتھ نکلا۔ ان کا ارادہ شام جانے کا تھا۔ ہم شام کے قریب علاقہ میں پہنچے تو حضرت عمر (رض) نے اپنی سواری بٹھائی اور رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں نے اپنی گودڑی پھینکی اور اپنے کجاوے پر رکھ دی۔ جب آپ فارغ ہو کر تشریف لائے تو میرے اونٹ کی طرف رخ کیا اور اس پر سوال ہوگیا۔ اور ہم دونوں روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہمیں اس علاقہ کے لوگ آملے۔ جو آپ کے استقبال کو آئے تھے۔ جب وہ ہمارے قریب آئے۔ تو میں نے ان کو اشارہ سے بتلایا کہ امیر المؤمنین عمر (رض) وہ ہیں۔ وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ یہ لوگ ان سواروں کے انتظار میں ہیں۔ جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ( اس سے مراد حضرت عمر (رض) کی ( عجمی حکام کا استقبال کرنے والے اور حکام مراد تھے۔ کہ جن کی نگاہ میں اسلامی مملکت کا سربراہ اسی ٹھاٹھ باٹھ والا ہوگا) عجمی بادشاہوں کی ٹھا تھا والی سواریاں مراد تھیں۔

928

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَأْكُلُ خُبْزًا مَفْتُوتًا بِسَمْنٍ، فَدَعَا رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَجَعَلَ يَأْكُلُ، وَيَتَّبِعُ بِاللُّقْمَةِ وَضَرَ الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: كَأَنَّكَ مُفْقِرٌ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ سَمْنًا، وَلا رَأَيْتُ أَكْلا بِهِ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لا آكُلُ السَّمْنَ حَتَّى يُحْيِيَ النَّاسُ مِنْ أَوَّلِ مَا أُحْيَوْا»
یحییٰ بن سعید (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) روٹی گھی میں کوٹ کر کھا رہے تھے۔ آپ نے ایک دیہاتی کو کھانے کے لیے بلایا تو وہ لقمہ کے ساتھ پالے کا میل بھی کھانے لگا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا تو بھوکا ہے ؟ اس نے کہا۔ اللہ کی قسم ! ایک عرصہ ہوگیا کہ گھی نہیں دیکھا، نہ گہی کھانے والے کو دیکھا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ میں بھی اس وقت تک گھی نہ کھاؤں گا ۔ جب تک لوگ ویسے ہی آسودہ حال نہ ہوجائیں۔ جیسے پہلے تھے۔

929

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَّى السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: لا شَيْءَ، وَاللَّهِ إِنِّي لَقَلِيلُ الصِّيَامِ وَالصَّلاةِ وَإِنِّي لأُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ: إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ "
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ (رح) نے انس بن مالک (رض) سے بیان کیا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! قیامت کا دن کب آئے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے ؟ اس نے عرض کیا کچھ بھی نہیں۔ میں تو تھوڑے روزے اور قلیل نمازوں والا شخص ہوں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں۔ يپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ( کل قیامت کے روز) ان کے ساتھ ہوگا۔ جن سی تو محبت کرتا ہے۔

930

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِالطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ، تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الَّذِي مَا عِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ، وَلا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ، وَلا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا أَحَقُّ بِالْعَطِيَّةِ، وَأَيُّهُمَا أَعْطَيْتَهُ زَكَاتَكَ أَجْزَاكَ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبد الرحمن اعرج (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مسکین وہ نہیں جو گھر گھر پھرتا ہے اور اس کو لوگ ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور دے دیتے ہیں۔ صحابہ کرام (رض) عنہم نے سوال کیا مسکین کون ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مسکین وہ جس کے پاس اتنا نہ ہو کہ جو اس کو مستغنی کرسکے اور نہ لوگ اس کو غریب خیال کرتے ہوں کہ اس پر صدقہ ہی کردیں۔ اور نہ وہ لوگوں کے سامنے مانگنے کھڑا ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : یہ شخص عطیہ کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ ان میں سے جس کو تم زکوۃ دو تو تمہارے لیے دینا جائز ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

931

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا نِسَاءَ الْمُؤْمِنَاتِ، لا تَحْقِرَنَّ إِحْدَاكُنَّ لِجَارَتِهَا وَلَوْ كُرَاعَ شَاةٍ مُحْرَقًا»
معاذ بن سعد بن معاذ (رح) اپنی دادی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اے مؤمنہ عورتو ! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کو حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا ایک جلا ہوا کھر ہی بھیج دے ( اس قبول کرے)

932

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي بُجَيْدٍ الأَنْصَارِيِّ، ثُمَّ الْحَارِثِيِّ، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رُدُّوا الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِظِلْفٍ مُحْرَقٍ»
زید بن اسلم نے ابو بجید انصاری الحارثی (رح) سے اور ابو بجید نے اپنی دادی سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ مسکین کو دے کر لوتاؤ خواہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہو ( مراد معمولی چیز ہے)

933

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سُمَيٌّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا، فَنَزَلَ فِيهَا، فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ: لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي بَلَغَ بِي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ، فَمَلأَ خُفَّهُ، ثُمَّ أَمْسَكَ الْخُفَّ بِفِيهِ حَتَّى رَقِيَ، فَسَقَى الْكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ لأَجْرًا؟ قَالَ: فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ "
ابو صالح سمان نے ابوہریرہ (رض) کی وساطت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ایک شخص کسی راہ پر جارہا تھا۔ اس کو راستے میں پیاس نے آلیا۔ اس نے ایک کنواں پایا۔ اس میں اتر کر اس سے پانی پیا۔ جب باہر نکلا تو ایک کتے پر نظر پری جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی وجہ سے اس کا یہ حال تھا کہ وہ گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے اپنے دل میں کہا یہ حیوان پیاس میں انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ جس طرح پیاس نے مجھے بےبس کردیا تھا۔ اس نے اتر کر کنوئیں میں سے اپنا موزہ بھرا اور موزے کو اپنے منہ میں تھام کر کنوئیں سے باہر نکلا اور اس نے اس کتے کو پانی پلایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی ( اس نیکی کی ) قدر افزائی فرمائی اور اس کو بخش دیا۔ صحابہ کرام (رض) عنہم نے سوال کیا۔ کیا حیوانات کو پانی پلانے سے بھی ہمیں اجر ملتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہر تر جگر والے حیوان میں اجر ملتا ہے۔

934

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ عَمْرَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا زَالَ جَبْرَئِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ لَيُوَرِّثَنَّهُ»
ابوبکر بن محمد بن حزم کہتی ہیں مجھے عمرہ بنت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) عنہا فرماتی تھیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ جبرائیل (علیہ السلام) مجھے پڑوس کے متعلق وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنادیا جائے گا۔

935

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، كَتَبَ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سُنَّتِهِ، أَوْ حَدِيثِ عُمَرَ، أَوْ نَحْوِ هَذَا فَاكْتُبْهُ لِي، فَإِنِّي قَدْ خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ، وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَلا نَرَى بِكَتَابَةِ الْعِلْمِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عمر بن عبد العزیز (رح) نے ابوبکر بن حزم کی طرف تحریر فرمایا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث یا سنت دیکھو یا حضرت عمر (رض) اور دوسرے خلفاء کا اثر پاؤ تو اسے میری طرف لکھ بھیجو۔ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے گزر جانے کا ڈر ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ ہم علم کی کتابت میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

936

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، كَانَ جَلِيسًا لَنَا، وَكَانَ أَبْيَضَ اللِّحْيَةِ وَالرَّأْسِ، فَغَدَا عَلَيْهِمْ ذَاتَ يَوْمٍ، وَقَدْ حَمَّرَهَا، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: هَذَا أَحْسَنُ، فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَيَّ الْبَارِحَةَ جَارِيَتَهَا نُخَيْلَةَ، فَأَقْسَمَتْ عَلَيَّ لأَصْبِغَنَّ، فَأَخْبَرَتْنِي أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَصْبُغُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا نَرَى بِالْخِضَابِ بِالْوَسَمَةِ، وَالْحِنَّاءِ، وَالصُّفْرَةِ بَأْسًا، وَإِنْ تَرَكَهُ أَبْيَضَ، فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ، كُلُّ ذَلِكَ حَسَنٌ
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے بیان کیا کہ عبد الرحمن بن اسود ہمارے پاس اٹھتا بیٹھتا تھا۔ ان کی ڈاڑھی اور سر کے بال سفید ت ہے۔ ایک دن صبح آئے تو ان کے بال سرخ تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ یہ اچھا ہے۔ وہ کہنے لگے میری ماں عائشہ صدیقہ (رض) عنہا نے کل رات اپنی لوندی نخیلہ کے ذریعہ قسم کے ساتھ تاکیدی پیغام بھیجا کہ میں بالوں میں ضرور خضاب لگاؤں۔ انھوں نے مجھے خبر دی کہ ابوبکر (رض) خضاب لگاتے تھے۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی صبغ الشعر میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہماں وسمہ، مہندی اور زرد رنگ سے خضاب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر اسے سفید رہنے دیا جائے تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں۔ تمام صورتیں خوب ہیں۔

937

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ لَهُ: إِنَّ لِي يَتِيمًا، وَلَهُ إِبِلٌ، فَأَشْرَبُ مِنْ لَبَنِ إِبِلِهِ؟ قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنْ كُنْتَ تَبْغِي ضَالَّةَ إِبِلِهِ، وَتَهْنَأُ جَرْبَاهَا، وَتَلِيطُ حَوْضَهَا، وَتَسْقِيهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، فَاشْرَبْ غَيْرَ مُضِرٍّ بِنَسْلٍ، وَلا نَاهِكٍ فِي حَلْبٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَكَرَ وَالِيَ الْيَتِيمِ، فَقَالَ: إِنِ اسْتَغْنَى اسْتَعَفَّ، وَإِنِ افْتَقَرَ أَكَلَ بِالْمَعْرُوفِ قَرْضًا. بَلَغَنَا عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَسَّرَ هَذِهِ الآيَةَ {وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ} [النساء: 6] ، قَالَ: قَرْضًا
قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس (رض) کی خدمت میں آیا۔ اور ان سے کہنے لگا میری کفالت میں ایک یتیم لڑکا ہے۔ اس کے اونٹ ہیں پس میں اس کے اونٹوں سے دودھ پیتا ہوں ابن عباس (رض) نے فرمایا اگر تم اس کے گم شدہ اونٹ تلاش کرتے ہو اور خارش زدہ کا علاج معالجہ کرتے ہو اور اس کا حوض لیپ پوت کرکے پانے کے دن پانی پلاتے ہو تو تم اس طرح پیو کہ اونٹ کی نسل ضائع نہ ہو۔ اور اونٹنی دودھ کی وجہ سے کمزوری کا شکار نہ ہوجائے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمیں عمر بن خطاب (رض) سے خبر ملی ہے کہ آپ نے یتیم کے نگران کا ذکر فرمایا اور ارشاد فرمایا۔ اکر وہ مالدار ہے تو بچتا رہے۔ اور اگر غریب ہے تو معروف طریقہ سے قرض لے کر کھائے۔ سعید بن جبیر (رح) سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر (رض) نے قرآن مجید کی اس يیت کی تفسیر کی ہے۔ من کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف۔ پھر فرمایا کہ معروف سے طور قرض مراد ہی۔

938

أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، أَنَّ رَجُلا أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَوْصِنِي إِلَى يَتِيمٍ، فَقَالَ: لا تَشْتَرِيَنَّ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا، وَلا تَسْتَقْرِضْ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا. وَالاسْتِعْفَافُ عَنْ مَالِهِ عِنْدَنَا أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا کہ مجھے یتیم کے متعلق وصیت فرمائیں۔ انھوں نے فرمایا اس کے مال میں سے نہ کجھ خرید اور نہ کچھ قرض لے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے نزدیک اس کے مال سے بچنا افضل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے تمام فقہاء کا قول ہے۔

939

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: بَيْنَا أَنَا أَغْتَسِلُ وَيَتِيمٌ كَانَ فِي حَجْرِ أَبِي، يَصُبُّ أَحَدُنَا عَلَى صَاحِبِهِ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا عَامِرٌ وَنَحْنُ كَذَلِكَ، فَقَالَ: يَنْظُرُ بَعْضُكُمْ إِلَى عَوْرَةِ بَعْضٍ؟ وَاللَّهِ إِنِّي كُنْتُ لأَحْسَبُكُمْ خَيْرًا مِنَّا قُلْتُ: قَوْمٌ وُلِدُوا فِي الإِسْلامِ لَمْ يُولَدُوا فِي شَيْءٍ مِنَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَاللَّهِ لَأَظُنُّكُمُ الْخَلْفَ. قَالَ مُحَمَّدٌ لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى عَوْرَةِ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ إِلا مِنْ ضَرُورَةٍ لِمُدَاوَاةٍ، وَنَحْوِهِ
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عامر (رض) کو فرماتے سنا جبکہ میں اور ایک یتیم لڑکا جو میرے والدی پرورش میں تھا۔ اور ہم دونوں غسل کر رہے تھے۔ اور ایک دوسرے پر پانی ڈال رہے تھے کہ میرے والد عامر کا گزر میرے پاس سے ہوا اور ہم اسی حالت میں تھے تو عامر کہنے لگے تم ایک دوسرے کے ستر پر نظر ڈال رہے ہو۔ اللہ کی قسم ! میں تمہیں اپنی ذات سے بہتر جانتا ہوں میں کہتا تھا کہ تم اسلام میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں سے نہیں ہوئے۔ اللہ کی قسم میں تمہیں نالائق گمان کرتا ہوں۔ ( بطور زجر فرمایا)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ کسی مرد کو مناسب نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کے ستر پر نگاہ ڈالید البتہ علاج وغیرہ کی ضرورت سے جائز ہے۔

940

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ حَبِيبٍ مَوْلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى الْجُهَنِيِّ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَدَخَلَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ عَلَى مَرْوَانَ، فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ: أَسَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ «نَهَى عَنِ النَّفْخِ فِي الشَّرَابِ» ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ، قَالَ: " فَأَبِنِ الْقَدَحَ عَنْ فِيكَ، ثُمَّ تَنَفَّسْ، قَالَ: فَإِنِّي أَرَى الْقَذَاةَ فِيهِ، قَالَ: فَأَهْرِقْهَا "
ابو المثنی جہنی کہتے ہیں کہ ہم مروان بن حکم کے پاس بیٹھے تھے کہ حضرت ابو سعید الخدری (رض) تشریف لائے۔ مروان نے ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانی میں سانس لینے سے منع فرماتے تھے۔ انھوں نے کہا ہاں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے کہا کہ ہم ایک سانس سے سیراب نہیں ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اپنے منہ سے برتن جدا کرو۔ پھر سانس لو۔ اس نے کہا کہ میں اس میں تنکے یا گرد دیکھوں تو ؟ تو آپ فرمانے لگے۔ اس پانی کو کجھ گرا ( کر نکال) دو ۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب النہی عن ا لشراب فی آنیۃ الفضۃ میں ذکر کیا ہے)

941

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ تُبَايِعُهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ لا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلا نَسْرِقَ، وَلا نَزْنِيَ، وَلا نَقْتُلَ أَوْلادَنَا، وَلا نَأْتِيَ بِبُهْتانٍ نَفْتَرِيهِ بَيْنَ أَيْدِينَا، وَأَرْجُلِنَا، وَلا نَعْصِيَكَ فِي مَعْرُوفٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ، وَأَطَقْتُنَّ» ، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا مِنَّا بِأَنْفُسِنَا، هَلُمَّ نُبَايِعْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «إِنِّي لا أُصَافِحُ النِّسَاءَ، إِنَّمَا قُولِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ، أَوْ مِثْلَ قَوْلِي لامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ»
امیمہ بنت رقیقہ (رض) عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ان عورتوں کے ساتھ حاضر ہوئی جو بیعت کرنے آئیں تھیں۔ ہم نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے بیعت کرتی ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔ چوری نہ کریں گی۔
زنانہ کریں گی۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ اپنی جانب سے کسی پر بہتان نہ باندھیں گی۔ معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس قدر اطاعت جس قدر تم میں استطاعت ہے۔ ہم نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم پر خود ہم سے زیادہ شفقت کرنے والے ہیں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( اپنا درست اقدس لائیے) تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ میری بات سو عورت کو بھی وہی ہے جو ایک عورت کو ہے۔ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمایا میرا سو عورت کو کہنا ایک عورت کو کہہ دینے کی مثل ہے۔

942

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ: «لَقَدْ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ»
یحییٰ بن سعید نے سعید بن مسیب (رح) کو کہتے سنا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص کو کہتے ہوئے سنا فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے احد کے دن اپنے ماں ع باپ دونوں کو جمع کرکے فرمایا۔ میرے ماں، باپ اے سعد تم پر قربان ہوں۔

943

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطَعَنَ النَّاسُ فِي إِمْرَتِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِهِ، فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلإِمْرَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ مِنْ بَعْدِهِ "
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا اس کا سردار اسامہ بن زید کو مقرر فرمایا۔ لوگوں نے اس کی سرداری پر اعتراض فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اگر تم آج اس کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو تو تم نے اس سے قبل اس کے والد کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم ! وہ سپہ سالاری کے لائق تھے۔ اور یہ اسامہ اس کے بعد مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔

944

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ عُبَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ تَعَالَى بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ الْعَبْدُ مَا عِنْدَهُ» ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ، وَقَالَ النَّاسُ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَبَرِ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَهُوَ يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا. فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَعْلَمَنَا بِهِ. وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلا لاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلا، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلامِ، وَلا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلا خَوْخَةُ أَبِي بَكْرٍ»
عبید بن حنین نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اور ارشاد فرمایا کہ ایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اسے دنیا کی بہادے دی جائے جتنی اسے پسند ہو۔ اور اگر وہ پسند کرے تو اس کے ہاں جانا پسند کرے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کچھ ہے اس کو پسند کرلیا۔ یہ سن کر ابوبکر (رض) رو پڑے اور کہنے لگے ہمارے ماں ، باپ آپ پر قربان ہوں۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ ہم نے اس پر تعجب کیا۔ لوگوں نے کہا اس بوڑھے کو دیکھو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک بندے کی خبر دے رہے ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے۔ اور وہ کہہ رہے ہیں۔ ہم آپ پر اپنے ماں ، باپ وارتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بیشک لوگوں میں مجھ پر سب سے بڑھ کر احسان کرنے والا خواہ دوستی کے لحاظ سے ہو یا مال کے لحاظ سے ہو وہ ابوبکر (رض) ہیں۔ اگر میں کسی کو خلیل منتخب کرتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔ لیکن اخوت اسلام کی اخوت ہے اور مسجد میں جن مکانات کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ وہ تمام بند کردی جائیں صرف ابوبکر (رض) کی کھڑکی کھلی رہے۔

945

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ ثَابِتَ بْنَ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ أَكُونَ قَدْ هَلَكْتُ قَالَ: «لِمَ» ؟ قَالَ: نَهَانَا اللَّهُ أَنْ نُحِبَّ أَنْ نُحْمَدَ بِمَا لَمْ نَفْعَلْ، وَأَنَا امْرُؤٌ أُحِبُّ الْحَمْدَ، وَنَهَانَا عَنِ الْخُيَلاءِ، وَأَنَا امْرُؤٌ أُحِبُّ الْجَمَالَ، وَنَهَانَا اللَّهُ أَنْ نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا فَوْقَ صَوْتِكَ، وَأَنَا رَجُلٌ جَهِيرُ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا ثَابِتُ، أَمَا تَرْضَى أَنْ تَعِيشَ حَمِيدًا، وَتُقْتَلَ شَهِيدًا، وَتَدْخُلَ الْجَنَّةَ»
اسماعیل بن محمد انصاری بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس (رض) نی کہا یا رسول اللہ مجھے ڈر ہے کہ میں ہلاک نہ ہوجاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ وہ کیوں ؟ ثابت کہنے لگے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے۔ کہ ہم اس کا کام پر تعریف کو پسند نہ کریں۔ جو ہم نے نہ کیا ہو۔ اور میں ایک ایسا انسان ہوں کہ میں تعریف کو پسند کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نی ہمیں فخر سے روکا ہے۔ اور مجھے حسن پسند ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ آپ کی مبارک آواز سے اپنی آواز بلند نہ کریں۔۔ اور میں بلند آواز والا انسان ہوں۔ جس کی آواز بلند ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے ثابت ! کیا تو پسند نہیں کرتا کہ تو اس طرح زندہ رہے ۔ کہ تیری تعریف ہو۔ اور تو قتل کیا جائے تو شہادت کا درجہ پائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو۔

946

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلا بِالْقَصِيرِ، وَلا بِالأَبْيَضِ الأَمْهَقِ، وَلَيْسَ بِالآدَمِ، وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلا بِالسَّبْطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ "
ربیعہ بن ابی عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو کہتے سنا۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہت دراز قد تھے اور نہ پستہ قد، اور نہ آپ کا رنگ انتہائی سفید تھا اور نہ ہی بالکل گندم گوں، بال مبارک نہ گھنگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے کھڑے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں فرمائی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال مکہ میں مقیم رہے اور دس سال مدینہ منورہ میں اقامت پذیر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساٹھ سال کے اختتام پر وفات دی اس وقت آپ کے سر مبارک اور ڈاڑہی مبارکہ میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ ( اس رویت کو امام مالک (رح) باب ما جاء فی صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ذکر کیا ہے)

947

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبداللہ بن دینار نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب سفر کا ارادہ کرتے یا سفر سے واپس لوٹتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب درود شریف پڑھتے، اور دعا کرتے اور پھر واپس ہوتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ جو شخص مدینہ منورہ جائے اسے اسی طرح کرنا مناسب ہے۔ کہ وہ قبر مبارک پر حاضر ہو (اور درود پڑھے)

948

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ حُسْنِ إِسْلامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لا يَعْنِيهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ أَنْ يَكُونَ تَارِكًا لِمَا لا يَعْنِيهِ
علی بن حسین (رح) نے اپنی سند سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آدمی کے اسلام کی خوبی لا یعنی باتوں کو ترک کرنا ہے۔
( اس روایت کو باب ما جاء فی حسن الخلق میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے) دار قطنی نے اس روایت کو موصولا بیان کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہر لا یعنی بات کو چھوڑنا ہی مناسب ہے۔

949

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ صَفْوَانَ الزُّرَقِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْحَةَ الرُّكَانَيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الإِسْلامِ الْحَيَاءُ»
سلمہ بن صفوان زرقی نے یزید بن طلحہ رکانی سے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہر دین کا کوئی خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔

950

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُخْبِرٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهُ، فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الإِيمَانِ»
سالم بن عبداللہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا۔ وہ اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کررہا تھا۔ يپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو ! اس لیے کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔
(ان دونوں روایات کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الحیاء میں ذکر کیا ہے)

951

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنِي بَشِيرُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّ حُصَيْنَ بْنَ مِحْصَنٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمَّةً، لَهُ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهَا زَعَمَتْ، أَنَّهُ قَالَ لَهَا: " أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَزَعَمَتْ أَنَّهُ قَالَ لَهَا: كَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟ فَقَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ، قَالَ: فَانْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ جَنَّتُكِ أَوْ نَارُكِ "
حصین بن محصن نے اپنی پھوپھی سے بیان کیا کہ نبی اکرم کے پاس میں حاضر ہوئی ۔ اور میں نے سمجھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ خاوند سے کیا سلوک کرتی ہو۔ میں نے عرض کیا جو کچھ مجھ سے ہوسکتا ہے۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتی۔ سوائے اس کے جو میں نہ کرسکوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم کس خیال میں ہو، تمہارا خاوند تو تمہاری جنت یا دوزخ ہے ( یعنی اگر اطاعت کروگی تو جنت ورنہ جہنم)

952

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ»
سعید مقبری نے ابو شریح کعبی سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی خاطر مدارات ایک دن رات کرے اور مہمانداری تین دن رات ہے۔ اس کے بعد صدقہ ہے۔ اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو تن کی میں مبتلا کردے۔

953

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّكَ مَضْنُوكٌ ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: لا أَدْرِي أَبَعْدَ الثَّالِثَةِ، أَوِ الرَّابِعَةِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، فَإِنْ لَمْ تُشَمِّتْهُ حَتَّى يَعْطُسَ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلاثًا أَجْزَاكَ أَنْ تُشَمِّتَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً
عبداللہ بن ابوبکر بن حزم نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ اس کا جواب دے اگر پھر دوبارہ اس کو چھینک آئے تو بہی اس کا جوب دے پھر اگر اس کو چھینک يئے تو اس کو جواب دے اگر چوتھی مرتبہ چھینک آئے تو کہہ دے تمہیں زکام ہوگیا ہے۔
عبداللہ کہتے ہیں مجھے یاید نہیں کہ آپ نے تیسری مرتبہ یا چوتھی خمرتبہ کے بعد فرمایا ( کہ تمہیں زکام ہے)
( اس روایت کو امام مالک باب التشمیت فی العطاس میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اس کا جواب دے پھر چھینک يئے تو اس کو جواب دے پھر اگر اس نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ دو تعینی مرتبہ چھینک آجائے تو اس کا جواب ایک مرتبہ دے دینا کافی ہے۔

954

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ هَذَا الطَّاعُونَ رِجْزٌ أُرْسِلَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَوْ أُرْسِلَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، شَكَّ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ فِي أَيِّهِمَا قَالَ: فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلا تَدْخُلُوا عَلَيْهِ وَإِنْ وَقَعَ فِي أَرْضٍ فَلا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا حَدِيثٌ مَعْرُوفٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، فَلا بَأْسَ إِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ أَنْ لا يَدْخُلَهَا اجْتِنَابًا لَهُ
عامر بن وقاص کہتے ہیں کہ اسامہ بن زید (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے۔ جو تم سے پہلی امتوں پر بھیجا گیا یا بنی اسرائیل پر بھیجا گیا۔ ابن مندر کو اشتباہ ہے کہ عامر نے دونوں میں سے کونسا لفظ استعمال فرمایا تھا) پس جب تم کسی جگہ کے متعلق سنو کہ وہاں طاعون پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ۔ اور کسی جگہ پھیل جائے تو وہاں سے فرار مت اختیار کرو۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب ما جاء فی الطاعون میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ مشہور روایت ہے جس کو ایک سے زائد رواۃ نے بیان کیا ہے۔ پس اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی جگہ طاعون ہو تو پرہیز کی خاطر وہاں نہ جایا جائے۔

955

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيَّادٍ، أَنَّ الْمُطَّلِبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ الْمَخْزُومِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلا " سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا الْغِيبَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْ تَذْكُرَ مِنَ الْمَرْءِ مَا يَكْرَهُ أَنْ يَسْمَعَ» ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ حَقًّا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قُلْتَ بَاطِلا فَذَلِكَ الْبُهْتَانُ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي أَنْ يَذْكُرَ لأَخِيهِ الْمُسْلِمِ الزَّلَّةَ تَكُونُ مِنْهُ مِمَّا يَكْرَهُ، فَأَمَّا صَاحِبُ الْهَوَى الْمُتَعَالِنُ بِهَوَاهُ الْمُتَعَرِّفُ بِهِ، وَالْفَاسِقُ الْمُتَعَالِنُ بِفِسْقِهِ، فَلا بَأْسَ، أَنْ تَذْكُرَ هَذَيْنِ بِفِعْلِهِمَا. فَإِذَا ذَكَرْتَ مِنَ الْمُسْلِمِ مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ الْبُهْتَانُ، وَهُوَ الْكَذِبُ
ولید بن عبداللہ بن صیاد نے بیان کیا کہ مجھے مطلب بن عبداللہ المخزومی (رض) نے بیان کیا۔ کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ غیبت کیا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم کسی شخص کے متعلق ایسی بات کہو کہ اگر وہ سن پائے تو اسے ناپسند لگے۔ اس نے سوال کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ وہ سچی بات ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اکر تم نے جھوٹی بات کہی تو یہ بہتا ن ہے۔ (اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الغیبۃ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ مناسب نہیں کہ مسلمان بھائی کی کسی ایسی لغزشوں کو بیان کیا جائے۔ جو اسے ناگوار ہوں۔ لیکن خواہشات کا غلام جو اتباع خواہشات میں معروف ہو۔ اور وہ بدکار جو علانیہ برائی کا ارتکاب کرنے والا ہو تو ان دونوں کے برے افعال بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر کسی مسلمان کے متعلق ایسی بات بیان کرے جو اس میں پائی نہیں جاتی تو یہ بہتان اور جھوٹ ہے۔

956

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَغْلِقُوا الْبَابَ، وَأَوْكُوا السِّقَاءَ، وَأَكْفِئُوا الإِنَاءَ، أَوْ خَمِّرُوا الإِنَاءَ، وَأَطْفِئُوا الْمِصْبَاحَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لا يَفْتَحُ غَلَقًا، وَلا يَحُلُّ وِكَاءً، وَلا يَكْشِفُ إِنَاءً، وَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ تُضْرِمُ عَلَى النَّاسِ بَيْتَهُمْ»
ابو الزبیر مکی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (١) رات کو دروازے بند کرلیا کرو۔ (٢) مشکیزہ کا مہ باندھ دیا کرو۔ (٣) برتنوں کو ڈھانپ کر رکھا کرو۔ برتن کو کپڑے سے ڈھانپو ( کا لفظ فرمایا۔ (٤) چراغ گل کردیا کر۔ اس لیے کہ شیطان بند دروازہ نہیں کھولتا اور نہ بند کی ہوئی مشک ( کھولتا ہے) اور نہ ڈھانپے برتن کو ننگا کرتا ہے اور چوہیا لوگ ’ ن کے گھروں کو آگ لگا دیتی ہے ( کہ چراغ کی بتی منہ میں پکڑ کر بھاگ نکلے جس کپڑے وغیرہ کے پاس سے گزرے گی آگ لگ جائے گی) (اس روایت کو باب جامع ما جاء فی الطعام و الشراب میں ذکر کیا گیا ہے)

957

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُسْلِمُ يَأْكُلُ فِي مِعًى، وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ»
عبد الرحمن اعرج بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کہ مسلمان ایک انتڑی کھاتا ہے اور کافر سات انتڑیوں سے کھاتا ہے۔ (اس روایت کو باب ما جاء فی معی الکافر میں امام مالک نے ذکر کیا ہے) انسان کی آنتیں سات ہیں۔ ان سے کھانے کا مطلب شدت حرص طعام ہے)

958

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، يَرْفَعُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ، كَالَّذِي يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ كَالَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ» ،
صفوان بن سلیم نے مرفوعا روایت نقل کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بیوا اؤں اور مساکین کی خدمت کرنے والا اس شخص کی طرح ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا اور ات کو پہر جاگتا اور قیام کرتا ہے) ( اس روایت کو بخای و مسلم ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے نقل کیا ہے۔

959

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ ذَلِكَ
ثور بن زید نے ابو الغیث مولی ابی المطیع سے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کا ارشاد نقل کیا ہے۔

960

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَعْصَعَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ يَسَارٍ أَبَا الْحُبَابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ»
سعید بن یسار نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں۔

961

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، وَحَمْزَةَ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الشُّؤْمَ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالْفَرَسِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنَّمَا بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ
سالم و حمزہ نے اپنے والد ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ نحوست اگر کوئی چیز ہوتی تو عورت، گھر اور گھوڑے میں ہوتی ( کہ یہ تینوں لازم ملزوم ہیں)

962

عبد اللہ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں بازار میں خالد بن عقبہ کے مکان کے پاس تھا۔ کہ ایک شخص یا اور اس نے میرے کان میں کوئی سرگوشی کرنا چاہی اور وہاں میرے اور سرگوشی والے کے سواء اور کوئی شخص موجود نہ تھا۔ اس پر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اور شخص کو بلایا یہاں تک کہ ہم چار ہوگئے۔ تو عبد اللہ نے مجھے اور چوتھے آدمی کو فرمایا تم ایک طرف ہوجاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آدمی ایک شخص کو اکیلا چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ اس روایت کو امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں بازار میں خالد بن عقبہ کے مکان کے پاس تھا۔ کہ ایک شخص یا اور اس نے میرے کان میں کوئی سرگوشی کرنا چاہی اور وہاں میرے اور سرگوشی والے کے سواء اور کوئی شخص موجود نہ تھا۔ اس پر عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک اور شخص کو بلایا یہاں تک کہ ہم چار ہوگئے۔ تو عبداللہ نے مجھے اور چوتھے آدمی کو فرمایا تم ایک طرف ہوجاؤ۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آدمی ایک شخص کو اکیلا چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ اس روایت کو امام مالک (رح) نے بیان کیا ہے۔

963

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لا يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ» ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: حَدِّثْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هِيَ؟ قَالَ: «النَّخْلَةُ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِالَّذِي وَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا
عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن فرمایا کہ ایک درخت ہے جس کا پتہ نہیں گرتا اور وہ مسلمانوں کی طرح ہے۔ مجھے بتلاؤ کہ وہ کو نسان درخت ہے۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ لوگ اپنی سوچ جنگلی درختوں میں دوڑانے لگے۔ میرے دل میں خیال يیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اس کے بیان کرنے سے شرمایا لوکوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہی بتلائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا وہ کھجور کا درخت ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد عمر بن خطاب (رض) سے اس کا تذکرہ کیا۔ کہ میرے دل میں یہی آیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اللہ کی قسم ! اگر تم بتلا دیتے تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے اتنا اتنا مال مل جائے۔

964

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ: سَالَمَهَا اللَّهُ، وَعُصَيَّةُ: عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ "
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ بخش دے ۔ اور قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ اور عصیہ قبیلہ نے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

965

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كُنَّا حِينَ نُبَايِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ يَقُولُ لَنَا: فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ "
عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت آپ کا حکم سننے اور اطاعت کرنے پر کی ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جہاں تک تمہاری استطاعت ہو۔

966

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِ الْحِجْر: «لا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلاءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِينَ إِلا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَلا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ»
عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا۔ تم ان عذاب دی ہوئی اقوال پر داخل نہ ہو مکر یہ کہ تم رونے والے ہو۔ اگر رونا نہ يئے تو ان کے علاقہ میں داخل نہ ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں وہی عذاب آلے جوان پر آیا۔

967

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: أَدْرَكْتُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُونَ: «مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ الْمَعْلُومَةِ الْمَعْرُوفَةِ، أَنْ تَرَى الرَّجُلَ يَدْخُلُ الْبَيْتَ لا يَشُكُّ مَنْ رَآهُ أَنْ يَدْخُلَهُ لِسُوءٍ، غَيْرَ أَنَّ الْجُدُرَ تُوَارِيهِ»
عبداللہ بن عبد الرحمن بن معمر نے ابی محیریز سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے صحابہ (رض) عنہم کو قیامت کے مشہور و معروف علام بیان کرتے ہوئے پایا کہ تم آدمی کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ لو حالانکہ دیکھنے والے کو یہ ہرگز شک نہیں کہ یہ شخص برے ارادے سے داخل ہوا ہے۔ ( مگر پھر بھی اس کو داخل ہوتے تاڑ رہا ہے) البتہ دیواریں اس کو ( دیکھنے سے) چھپانے والی ہیں۔

968

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي عَمِّي أَبُو سُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: «مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كَانَ النَّاسُ عَلَيْهِ إِلا النِّدَاءَ بِالصَّلاةِ»
ابو سہیل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مالک بن عامر کو کہتے سنا کہ اب کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کو اسی طرح دیکھتا ہوں جس پر لوگ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں) تھے فقط نماز کی اذان ہے ( جو اس طرح باقی ہے مگر افسوس اب تو لوگوں نے اذان بھی بدل دی)

969

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنِّي أُنَسَّى لِأَسُنَّ»
مالک کہتے ہیں مجھے ایک خبر دینے والے نے بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس لیے بھلایا جاتا ہوں تاکہ سنت قائم کروں ( تاکہ بھول کا حکم معلوم ہوجائے)

970

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ بْنُ أَنَسٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ عُتْبَةَ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مُسْتَلْقِيًا فِي الْمَسْجِدِ، وَاضِعًا إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الأُخْرَى» ،
عبادہ بن تمیم نے اپنے چچا عتبہ سے بیان کیا کہ عتبہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں چت لیٹ اس حال میں دیکہا کہ ایک دست اقدس دوسرے پر رکھنے والے تھے۔

971

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا «كَانَا يَفْعَلانِ ذَلِكَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا نَرَى بِهَذَا بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب اور عثمان ر ضی اللہ عنہما دونوں اسی طرح کرتے تھے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کچھ حرج نہیں ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

972

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: قِيلَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا " لَوْ دُفِنْتِ مَعَهُمْ؟ قَالَ: قَالَتْ: «إِنِّي إِذًا لَأَنَا الْمُبْتَدِئَةُ بِعَمَلِي»
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا سے عرض کیا گیا کہ اگر تم بھی ان حضرات کے ساتھ دفن کیا جاؤ۔ تو انھوں نے جوابا فرمایا تو اس صورت میں اس عمل کی ابتداء کرنے والی بنوں گی ( جو پہلے کسی نے نہیں کیا)

973

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: قَالَ سَلَمَةُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: " مَا شَأْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَمْ يُدْفَنْ مَعَهُمْ؟ فَسَكَتَ ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ قَالَ: إِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُتَشَاغِلِينَ ".
سلمہ نے عمر بن عبداللہ کو کہا ۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ عثمان (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) عنہم کے ساتھ دفن نہ ہوئے۔ عمر یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ سلمہ نے سوال کا اعادہ کیا تو انھوں نے جواب دیا اس وقت لوگ فتنہ کی وجہ سے اپنے حال میں گھرے ہوئے تھے۔

974

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ وُقِيَ شَرَّ اثْنَيْنِ وَلَجَ الْجَنَّةَ، وَأَعَادَ ذَلِكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، مَنْ وُقِيَ شَرَّ اثْنَيْنِ وَلَجَ الْجَنَّةَ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ»
زید بن اسلم نے عطاء بن یاسر (رح) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جو شخص دو چیزوں کے شر سے بچا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جملہ تین مرتبہ دھرایا۔ کہ جو شخص دو چیزوں کے شر سے بچا وہ جنت میں داخل ہوگیا ایک وہ جو اس کے دونوں جبروں کے درمیان ہے۔ اور دوسرے وہ جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے ( زبان، شرمگاہ)

975

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ، عَلَيْهِ السَّلامُ كَانَ يَقُولُ: «لا تُكْثِرُوا الْكَلامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ، فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ، فَإِنَّ الْقَلْبَ الْقَاسِيَ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى، وَلَكِنْ لا تَعْلَمُونَ، وَلا تَنْظُرُوا فِي ذُنُوبِ النَّاسِ كَأَنَّكُمْ أَرْبَابٌ، وَانْظُرُوا فِيهَا كَأَنَّكُمْ عَبِيدٌ، فَإِنَّمَا النَّاسُ مُبْتَلًى وَمُعَافًى، فَارْحَمُوا أَهْلَ الْبَلاءِ، وَاحْمَدُوا اللَّهَ تَعَالَى عَلَى الْعَافِيَةِ»
امام مالک فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کرکے سوا زیادہ کلام نہ کیا کرو۔ کیونکہ اس سے دل سخت ہوجاتا ہے۔ اور سخت دل اللہ تعالیٰ رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ لیکن تم نہیں جانتے۔ تم لوگوں کے گناہوں کو اس طرح نہ دیکھو کہ گویا تم خود گناہ کے مرتکب ہو۔ بلکہ اس طرح دیکھو کہ گویا تم غلام ہو۔ پس لوگ گناہوں میں مبتلا ہونے والے اور معاف والے دونوں قسم کے ہوتے ہیں۔ آزمائش میں مبتلاء لوگوں پر رحم کھاؤ۔ اور صحت و عافیت پر اللہ تعالیٰ تعریف کرو۔

976

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنِي سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ نَوْمَهُ، وَطَعَامَهُ، وَشَرَابَهُ، فَإِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ نَهْمَتَهُ مِنْ وَجْهِهِ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ»
ابو صالح سمان نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ کہ یہ مسافر کو نیند اور کھانے پینے سے روک دیتا ہے۔ پس جب تمہارا مقصد پورا ہوجائے تو سفر سے جلد اپنے گھر واپس لوٹ آؤ۔

977

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا أَقْوَى عَلَى هَذَا الأَمْرِ مِنِّي لَكَانَ أَنْ أُقَدَّمَ فَيُضْرَبَ عُنُقِي أَهْوَنَ عَلَيَّ، فَمَنْ وَلِيَ هَذَا الأَمْرَ بَعْدِي فَلْيَعْلَمْ أَنْ سَيَرُدُّهُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَالْبَعِيدُ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأُقَاتِلُ النَّاسَ عَنْ نَفْسِي»
سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس امر ( خلافت) کے لیے کوئی اور مجھ سے زیادہ مضبوط ہے اور ( اس کے ہوتے ہوئے مجھے آکے کیا جاتا تو ( اس بوجھ کو اٹھانے کی بجائے یہ) آسان ہوتا میری گردن اڑادی جاتی۔ جو شخص میرے بعد اس امر خلافت کا ذمہ دار ہو۔ اسے جان لینا چاہیے کہ اسے جلد دور و نزدیک کے الزامات رد کرنا پڑیں گے۔ اللہ کی قسم ! اگر میں ہوتا تو اپنے اوپر سے الزامات دفع کرنے کے لیے جنگ کرتا۔

978

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، قَالَ: «وَرَقًا كَانَ النَّاسُ لا شَوْكَ فِيهِ، وَهُمُ الْيَوْمَ شَوْكٌ لا وَرَقَ فِيهِ، إِنْ تَرَكْتَهُمْ لَمْ يَتْرُكُوكَ، وَإِنْ نَقَدْتَهُمْ نَقَدُوكَ»
امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے ایک خبر دینے والے بتلایا کہ ابو الدردا (رض) فرمانے لگے ۔ کہ پہلے لوگ صرف پتے ہی پتے تھے ان مں کوئی کانٹا نہ تھا۔ مگر آج کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ پتہ کوئی نہیں۔ اگر تم ان کو چھوڑ بھی دو تو وہ تمہیں نہ چھوڑیں گے۔ ور اگر تم ان کو پرکھنا چغاہو تو وہ تمہیں پڑکھنے لگ جائیں گے (قسم قسم کے الزام دیں گے)

979

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: كَانَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَوَّلَ النَّاسِ ضَيَّفَ الضَّيْفَ، وَأَوَّلَ النَّاسِ اخْتَتَنَ، وَأَوَّلَ النَّاسِ قَصَّ شَارِبَهُ، وَأَوَّلَ النَّاسِ رَأَى الشَّيْبَ، فَقَالَ: يَا رَبِّ مَا هَذَا؟ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَقَارٌ يَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: رَبِّ زِدْنِي وَقَارًا "
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب (رح) کو کہتے سنا کہ ابراہیم (علیہ السلام) سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مہمان نوازی کی اور سب سے پہلے ختنہ کرایا۔ سب سے پہلے مونچھیں تراشوائیں۔ اور سب سے پہلے سفید بال دیکھے تو عرض کیا یا اللہ یہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم یہ وقار ہے۔ تو انھوں نے عرض کیا اے میرے اللہ میرے وقار میں اضافہ فرما۔

980

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يُحَدِّثُه، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ يَهْبِطُ مِن ثَنِيَّةِ هَرْشِي مَاشِيًا، عَلَيْهِ ثَوْبٌ أَسْوَدُ»
یحییٰ بن سعید نے سعید بن المسیب کو کہتے سنا کہ انھوں نے ایک شخص کی روایت ہے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ گویا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہر شہ پہاڑی کی گھاٹی سے اتر رہے ہیں۔ اور وہ سیاہ کپڑا اوڑ ہے ہوئے ہیں۔

981

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: " دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَنْصَارَ لِيُقْطِعَ لَهُمْ بِالْبَحْرَيْنِ، فَقَالُوا: لا وَاللَّهِ إِلا أَنْ تُقْطِعَ لِإِخْوَانِنَا مِنْ قُرَيْشٍ مِثْلَهَا، مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلاثًا، فَقَالَ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي "
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسن بن مالک (رح) کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاری کو بلایا۔ تاکہ بحرین کی زمین ان کے درمیان تقسیم کردیں۔ انھوں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! ہم اس وقت تک نہ لیں گے جب تک ہمارے قریش ( مکی) بھائی مہاجرین کو اسی قدر عنایت نہ فرمادیں۔ انھوں نے دو تین بار یہی بات دھوراہئی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ تم دیکھوگے کہ میرے بعد لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آملو۔

982

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا کہ میں نے علقمہ بن وقاص (رض) کو کہتے سنا۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے۔ کہ اعمال کی جزاء نیت پر موقوف ہے۔ ہر شخص کو وہ ملے گا۔ جس کی اس نے نیت کی۔ جس نے اللہ اور رسول کی خاجر رہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس نے دنیا کے لیے ہجرت کی اسے دنیا مل جائے گی یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی۔ جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔

983

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ فَأْرَةٍ وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ، فَمَاتَتْ؟ قَالَ: خُذُوهَا وَمَا حَوْلَهَا مِنَ السَّمْنِ فَاطْرَحُوهُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا كَانَ السَّمْنُ جَامِدًا أُخِذَتِ الْفَأْرَةُ وَمَا حَوْلَهَا مِنَ السَّمْنِ فَرُمِيَ بِهِ، وَأُكِلَ مَا سِوَى ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ ذَائِبًا لا يُؤْكَلُ مِنْهُ شَيْءٌ، وَاسْتُصْبِحَ بِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ابن عباس (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے جو چوہا گھی میں مرجائے۔ يپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس چوہے اور اس کے چاروں طرف والے گھی کو نکال کر پھینک دو ۔ ( اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الفارۃ تقع میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب گھی جما ہوا ہو تو چوہا اور اس کے آس باس والا گھی نکال پھینک دیا جائے اور باقی گھی استعمال کرلیا جائے۔ اور اکر گھی پگھلا ہوا ہو تو اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا جائے۔ اس سے چراغ جلایا جائے۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

984

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي وَعْلَةَ الْمِصْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دُبِغَ الإِهَابُ فقَدْ طَهُرَ»
ابو وعلہ مصری نے عبداللہ بن عباس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل فرمایا۔ کہ چمڑہ کو جب دباغت کرلی جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے۔

985

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَمَرَ أَنْ يُسْتَمْتَعَ بِجُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ»
محمد بن عبد الرحمن بن قسیط نے اپنی والدہ محترمہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کی وساطت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ جب مردار کا چمڑہ دباغت کرلیا جائے تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور استعمال میں لایا جائے۔

986

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ كَانَ أَعْطَاهَا مَوْلًى لِمَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْتَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلا انْتَفَعْتُمْ بِجِلْدِهَا» ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا مَيْتَةٌ، قَالَ: «إِنَّمَا حُرِّمَ أَكْلُهَا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا دُبِغَ إِهَابُ الْمَيْتَةِ فَقَدْ طَهُرَ، وَهُوَ ذَكَاتُهُ، وَلا بَأْسَ بِالانْتِفَاعِ بِهِ، وَلا بَأْسَ بِبَيْعِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
عبید اللہ بن عبداللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے ۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام المؤمنین میمونہ کے آزاد کردہ غلام کو دی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس کی کھال سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا گیا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مردار ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ صرف ( اس کے گوشت) کا کھانا حرام کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ جب مردار کے چمڑے کی دباغت کرلی جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے۔ اور یہی اس کی پاکیزگی ( کا باعث) ہے۔ اس سے نفع اٹہانے میں کوئی حرج نہیں نہ اس کی فروخت میں کوئی برائی ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

987

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَأَعْطَاهُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ أَنْ يُعْطَى الْحَجَّامُ أَجْرًا عَلَى حِجَامَتِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
حمید طویل نے انس بن مالک (رض) نے نقل کیا کہ ابو طیبہ حجام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پچھنے لگائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایک صاع کھجور دی۔ اور اس کے مالک کو حکم دیا کہ اس کے خراج میں کمی کردو ( معلو ہوتا ہے کہ ابو طیبہ ذمی غلام تھا) اس روایت کو امام مالک (رح) باب ما جاء فی الحجامۃ و اجر الحجام میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ سینگی لگانے والے کو اس کی اجرت دینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

988

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «الْمَمْلُوكُ وَمَالُهُ لِسَيِّدِهِ، وَلا يَصْلُحُ لِلْمَمْلُوكِ أَنْ يُنْفِقَ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا بِغَيْرِ إِذْن سَيِّدِهِ إِلا أَنْ يَأْكُلَ، أَوْ يَكْتَسِيَ، أَوْ يُنْفِقَ بِالْمَعْرُوفِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ إِلا أَنَّهُ يُرَخَّصُ لَهُ فِي الطَّعَامِ الَّذِي يُوَكَّلُ أَنْ يُطْعِمَ مِنْهُ، وَفِي عَارِيَةِ الدَّابَّةِ، وَنَحْوِهَا، فَأَمَّا هِبَةُ دِرْهَمٍ وَدِينَارٍ، أَوْ كِسْوَةُ ثَوْبٍ فَلا. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ اللہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا غلام اور اس کا مال اس کے مالک کا ہے۔ غلام کے لیے جائز نہیں اس کے آقا کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ خرچ کرے۔ سوائے اس کے کہ کھائے، پہنے، اور جائز طریقہ سے خرچ کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ مگر یہ کہ کھانے کی اشیاء میں سے کسی کو کھلائے یا کسی کو سواری یا اس قسم کی چیز عاریۃ دے۔ البتہ روپیہ پیسہ یا لباس کسی کو ہبہ کرنا جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔

989

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ تِسْعُ صِحَافٍ يَبْعَثُ بِهَا إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا كَانَتِ الظُّرَفَةُ أَوِ الْفَاكِهَةُ أَوِ الْقَسْمُ، وَكَانَ يَبْعَثُ بِآخِرِهِنَّ صَفْحَةً إِلَى حَفْصَةَ، فَإِنْ كَانَ قِلَّةٌ، أَوْ نُقْصَانٌ كَانَ بِهَا "
اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس نو رکابیاں تھیں۔ جب گوشت، پھل، یا تحفہ آتا تو ان میں رکھ کر ازواج مطہرات کو بھیجتے تھے۔ آخری رکابی اپنی بیٹی امو المؤمنین حفصہ (رض) عنہا کو بھیجتے تاکہ اگر کوئی کمی واقع ہو تو ان کے حصہ میں واقع ہو۔

990

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ يَعْنِي فِتْنَةَ عُثْمَانَ، فَلَمْ يَبْقَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ أَحَدٌ، ثُمَّ وَقَعَتْ فِتْنَةُ الْحَرَّةِ، فَلَمْ يَبْقَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدٌ، فَإِنْ وَقَعَتِ الثَّالِثَةُ لَمْ يَبْقَ بِالنَّاسِ طَبَاخٌ
یحییٰ بن سعید نے سعید بن المسیب (رح) کو کہتے سنا کہ ایک فتنہ ( شہادت عثمان (رض) ہوا تو حضرات شرکاء بدر میں سے کوئی نہ رہا۔ پھر دوسرا فتنہ حرہ پیش ( ٣٦ ھ میں) آیا تو اصحاب حدیبیہ میں سے کوئی باقی نہ رہا۔ پھر اگر کوئی تیسرا فتنہ رونما ہوا تو کوئی پختہ سمجھدار باقی نہ رہے گا۔

991

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ عَلَيْهِمْ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَامْرَأَةُ الرَّجُلِ رَاعِيَةٌ عَلَى مَالِ زَوْجِهَا، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُ، وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»
عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے ہر شخص راعی ہے۔ اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ مرد اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ لوگوں کا حکمران اس سے لوکوں کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ مرد اپنے اہل خانہ کا نگران ہے۔ اس سے اس کے ما تحتوں کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ بیوی اپنے شوہر کے مال اور بچوں کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہو کی۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے۔ اس سے مال کے متعلق باز پرس ہوگی۔ پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی زیر نکرانی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔

992

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْغَادِرَ يَقُومُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ، فَيُقَالُ: هَذِهِ غُدْرَةُ فُلَانٍ "
عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) کی وساطت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکا باز کے لیے ایک جھنڈا گاڑا جائے گا۔ اور اسے کہا جائے گا یہ فلاں شخص ( کے ساتھ کیا جانے والا) دھوکا ہے۔

993

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
عبداللہ بن دینار (رح) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں اللہ تعالیٰ نے خیر رکھ دی۔

994

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ رَآهُ يَبُولُ قَائِمًا» . قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَالْبَوْلُ جَالِسًا أَفْضَلُ
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے ( کسی موقعہ عذر میں)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کچھ حرج نہیں ( بشرطیکہ جسم اور کپڑوں پر چھینٹے نہ پڑیں) لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا افضل ہے۔

995

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ، وَاخْتِلافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَمَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَاجْتَنِبُوهُ»
عبد الرحمن اعرج (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جب میں تمہیں چھوڑ دوں ( کسی حکم میں پابندی نہ لگاؤں) تو تم مجھے چھوڑ دو ( سوال مت کرو) کیونکہ تم سے پہلے امتیں کثرت سوالات کی وجہ سے اور اپنے انبیاء (علیہم السلام) سے اختلاف کرنے کی بناء پر ہلاکت کا شکار ہوئں و۔ پس جس شیء سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو۔

996

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرَأَيْتَ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ نَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ فِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ قَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَنْزِعُ نَزْعَهُ، حَتَّى ضَرَبَ النَّاسَ بِعَطَنٍ»
اعرج (رح) کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میں نے ابوبکر کو خواب میں دیکھا۔ انھوں نے ایک یا دو ڈول کھینچے۔ اس کھینچنے میں کمزوری کے آثار تھے۔ وفات کے بعد شدید فتنوں کی وجہ سے دین کے حالات میں بظاہر کمزوری نزر ر آئی تھی) اللہ تعالیٰ ابوبکر کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر عمر ( (رض) عنہ) ڈول کھینچنے کے لیے کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ ڈول غرب ( گائے کی کھال کا بڑا ڈول جس کو کئی آدمی کینچ سکتے ہیں) بن گیا۔ میں نے کسی طاقتور جوان کو نہیں دیکھا جو اس طرح قوت سے ان کی طرح ڈول کھینچنے والا ہو۔ یہاں تک کہ اس نے لوگوں کے پانی سینچ کر پر کردیا۔

997

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي يَرْبُوعٍ الْمَخْزُومِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، يَقُولُ: «الصَّلاةُ الْوُسْطَى صَلاةُ الظُّهْرِ»
ابو یربوع مخزومی نے زید بن ثابت (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے۔ صلوۃ وسطیٰ سے مراد نماز ظہر ہے۔

998

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ رَافِعٍ، أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ مُصْحَفًا لِحَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الآيَةَ فَآذِنِّي، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا فَقَالَتْ: «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَصَلاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ»
عمرو بن رافع کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین حفصہ (رض) عنہا کے لیے قرآن مجید لکھتا تھا۔ انھوں نے کہا جب تم اس آیت پر پہنچو تو مجھے بتلا دینا۔ پس جب میں ان آیات پر پہنچا تو انھوں نے فرمایا لکھ۔ حافظوا علی الصلوت و الصلوۃ الموسطی و الصلوۃ العصر وقوموا للہ قانتین ( مصحف حفصہ ر ضی اللہ عنہا سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ” والصلوۃ العصر “ کے الفاظ انھوں نے بطور تفسیر لکھوائے۔ ورنہ قرات متواترہ میں یہ لفظ موجود نہیں اور قرآن مجید تو پورا تواتر کے ساتھ پہنچا ہے) (عصر والا قول، طحاوی، ابن جریر عبد الرزاقع ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے)

999

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، قَالَ: أَمَرَتْنِي أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، قَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الآيَةَ فَآذِنِّي {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى} [البقرة: 238] ، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذنْتُهَا، وَأَمْلَتْ عَلَيَّ «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَصَلاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» ، سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابو یونس مولٰی عائشہ (رض) عنہا کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ (رض) عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے قرآن مجید لکھوں۔ اور جب اس آیت پر پہنچو تو مجھے اطلاع کرو۔ حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی۔ جب میں ای يیتی پر پہنچا تو میں نے ان کو بتلایا انھوں نے مجھ سے لکھوایا۔ والصلوۃ العصر وقوموا للہ قانتین میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے ہی سنا۔

1000

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ صَيَّادٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ فِي الْبَاقِيَاتِ الصَّالِحَاتِ: قَوْلُ الْعَبْدِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.
عمارہ بن صیاد نے سعید ابن المسیب (رح) کو کہتے سنا کہ الباقیات الصالحات کا مطلب یہ ہے کہ بندہ سبحان اللہ والحمد للہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و لا حول ولا قول الا باللہ العلی العظیم کے کلمات کہے۔ ( اسی روایت کو اپنی حبان، حاکم، ابن مردویہ نے ابو سعید خدری سے مرفوعا نقل کیا ہے)

1001

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، وَسُئِلَ عَنِ الْمُحْصَنَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: هُنَّ ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ، وَيَرْجِعُ ذَلِكَ إِلَى أَنَّ اللَّهُ حَرَّمَ الزِّنَا
ابن شہاب زہری (رح) نے بیان کیا کہ والمحصنات من النساء کی تفسیر یہ ہے جو سعید بن المسیب (رح) سے میں نے اس طرح سنی ” شوہر والی عورتیں “ اور اس کا ما حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کیا ہے۔

1002

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَغِبَتْ هَذِهِ الأُمَّةُ عَنْهُ، مِنْ هَذِهِ الآيَةِ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا} [الحجرات: 9]
محمد بن ابوبکر بن عمرو بن حزم نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کا یہ ارشاد نقل کیا ہی کہ میں نے نہیں دیکھا کہ اس امت کے افراد نے اس آیت سے زیادہ کسی اور آیت سے اتنی روگردانی کی ہو جتنی اس آیت سے اختیار کی و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینہما۔ کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں باہمی لڑ پڑیں تو ان کے ما بین صلح کرادو۔ پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر سرککشی کرے تو سرکشی کرنے والی جماعت سے جنگ کرو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔ اگر وہ لوٹ آئیں تو ان کے درمیان انصاف سے صلح کرادو۔

1003

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ} [النور: 3] ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّهَا نُسِخَتْ هَذَه الآيَةُ بِالَّتِي بَعْدَهَا، ثُمَّ قَرَأَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ} [النور: 32] ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا لا بَأْسَ بِتَزَوُّجِ الْمَرْأَةِ، وَإِنْ كَانَتْ قَدْ فَجَرَتْ، وَإِنْ يَتَزَوَّجْهَا مَنْ لَمْ يَفْجُرْ
یحییٰ بن سعید نے سعید بن المسیب سے بیان کیا کہ آیت ” الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ و الزانیۃ لا ینکحہا الا زان او مشرک اس آیت سے منسوخ ہے جو اس کے بعد آرہی ہے۔ پھر وہ نااسخ آیت پڑھی و انکحوا الایامی منکم والصالحین من عبادکم و امائکم ۔ اور تم اپنے میں سے بیوہ عورتوں سے نکاح کردو اور اپنے نیک غلاموں اور لوندیوں کا نکاح کردو “
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو مختار قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ اس عورت سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اس نے (پہلے) بدکاری کی ہو۔ اور نکاح کرنے والے نے بدکاری نہ کی ہو ( جمہور کا یہی مسلک ہے)

1004

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ} [البقرة: 235] ، قَالَ: أَنْ تَقُولَ لِلْمَرْأَةِ وَهِيَ فِي عِدَّتِهَا مِنْ وَفَاةِ زَوْجِهَا: إِنَّكَ عَلَيَّ كَرِيمَةٌ، وَإِنِّي فِيكِ لَرَاغِبٌ، وَإِنَّ اللَّهَ سَائِقٌ إِلَيْكِ رِزْقًا، وَنَحْوَ هَذَا مِنَ الْقَوْلِ
عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ قاسم قرآن مجید کی اس آیت ” ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء او اکننتم فی انفسکم “ تم پر کچھ گناہ نہیں اس بات میں جو تم بطور تعریض عورتوں کی منگنی کے سلسلہ میں کہو یا اپنے دلوں میں چھپاؤ۔ کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ جو عورت اپنے خاوند کی عدت وفات کے ایام گزار رہی ہو اور اس سے کوئی کہے کہ تم میرے لیے ایک نعمت ہو۔ اور مجھے تمہارے طرف رغبت ہے اور اللہ تعالیٰ تمہاری طرف رزق لانے والے ہیں۔ اور اسی قسم کے الفاظ عرضتم سے مراد ہیں۔

1005

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " دُلُوكُ الشَّمْسِ: مَيْلُهَا "
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے اس آیت کی تفسیر اس طرح فرمائی دلوک الشمس سے مراد سورج کا ڈھلنا ہے۔

1006

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ يَقُولُ: دُلُوكُ الشَّمْسِ: مَيْلُهَا، وَغَسَقُ اللَّيْلِ: اجْتِمَاعُ اللَّيْلِ وَظُلْمَتُهُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: دُلُوكُهَا غُرُوبُهَا، وَكُلٌّ حَسَنٌ
داؤد بن حصین نے ابن عباس (رض) سے دلوک الشمس کی تفسیر ” سورج کا ڈھلنا “ اور غسق اللیل کی مراد رات اور اس کی تاریکی کا جمع ہونا کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ ان دونوں حضرات کا قول ہے۔ ابن مسعود (رض) نے دلوک الشمس کی تفسیر غروب ہونا کی ہے۔ اور دونوں تفاسیر عمدہ ہیں۔

1007

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِيمَا خَلا مِنَ الأُمَمِ، كَمَا بَيْنَ صَلاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ؟ وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالا، فَقَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ؟ قَالَ: فَعَمِلَتِ الْيَهُودُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ؟ فَعَمِلَتِ النَّصَارَى عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنَ صَلاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، أَلا فَأَنْتُمُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ مِنْ صَلاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، قَالَ: فَغَضِبَ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، وَقَالُوا: نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلا، وَأَقَلُّ عَطَاءً، قَالَ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا؟ قَالُوا: لا، قَالَ: فَإِنَّهُ فَضْلِي أُعْطِيهِ مَنْ شِئْتُ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ تَأْخِيرَ الْعَصْرِ أَفْضَلُ مِنْ تَعْجِيلِهَا، أَلا تَرَى أَنَّهُ جَعَلَ مَا بَيْنَ الظُّهْرِ إِلَى الْعَصْرِ أَكْثَرَ مِمَّا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَمَنْ عَجَّلَ الْعَصْرَ كَانَ مَا بَيْنَ الظُّهْرِ إِلَى الْعَصْرِ أَقَلَّ مِمَّا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ، فَهَذَا يَدُلُّ عَلَى تَأْخِيرِ الْعَصْرِ، وَتَأْخِيرِ الْعَصْرِ أَفْضَلُ مِنْ تَعْجِيلِهَا، مَا دَامَتِ الشَّمْسُ بَيْضَاءَ نَقِيَّةً لَمْ تُخَالِطْهَا صُفْرةٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس امت کا زمانہ گزشتہ امتوں کے مقابلے میں اس طرح ہے۔ جیسے عصر سے مغرب تک وقت۔ اور ( اجر کے سلسلہ میں ) تمہاری اور یہود و نصاری کی مثال اس طرح ہے۔ جیسے کسی نے مزدور کام پر لگایا۔ اور اعلان کیا کہ کون صبح سے لے کر نصف دن تک مزدوری کرے گا۔ اور مزدوری ایک قیراط ہوگی۔ چنانچہ یہود نے مزودوری کی پھر مالک نے اعلان کیا کون نصف دن سے لی کر عصر تک مزودری کرے گا اور مزودری ایک قیراط ہوگی۔ چنانچہ نصاریٰ نے ایک قیراط کے بدلے عصر تک کام کیا۔ پھر آقا نے اعلان کیا کہ کون عصر سے مغرب تک مزدوری کرے گا۔ اور مزودری دو قیراط ہوگی۔ خبردار اچھی طرح آگاہ ہوجاؤ! تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے عصر سے مغرب تک مزودری دو قیراط کے بدلے میں کی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پر یہود و نصاریٰ کو ناراضگی پیدا ہوئی۔ وہ کہنے لگے ہمارا کام زیادہ اور مزودری کم ملی۔ مالک نے جواب دیا کیا میں نے تم پر ظلم کیا اور تمہارے حقوق میں سے کوئی چیز کم کی انھوں نے جواب میں کہا نہیں۔ تو مالک نے جواب دیا پھر یہ تو میرا فضل ہے۔ وہ جس کو میں چاہتا ہوں دیتا ہوں۔
(یہ روایت حدیث القیراط کے نام سے مشہور ہے جیسا کہ بخاری، مسلم، ترمذی نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ یہ روایت دلالت کر رہی ہے کہ عصر کو مؤخر کرکے پڑھنا اس کو جلد پڑھنے سے افضل ہے۔ ذرا غور کرو کہ ظہر اور عصر کے درمیانی وقت کو عصر و مغرب کے درمیانی وقت سے اس حدیث میں زیادہ قرار دیا گیا ہے۔ جس شخص نے عصر کو جلدی پڑھا تو اس کا ظہر سے عصر تک کا وقت عصر و مغرب کے درمیانی وقت سے کم ہوگا۔ اور عصر کے وقت سے عصر کا وہ وقت جس میں سورج کی دھوپ سفید اور صاف ستھری ہوتی ہے۔ اس میں زردی کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء (رح) اجمعین کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔