HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

11. قربانی کا بیان

موطأ الامام محمد

629

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ «يَنْهَى عَمَّا لَمْ تُسِنَّ مِنَ الضَّحَايَا وَالْبُدْنِ، وَعَنِ الَّتِي نُقِصَ مِنْ خَلْقِهَا»
نافع (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے کہ ایسی قربانیاں نہ کرو جو مسنہ نہ ہوں۔ جن کے اعضاء میں پیدائشی نقص ہو۔

630

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ ضَحَّى مَرَّةً بِالْمَدِينَةِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَشْتَرِيَ لَهُ كَبْشًا فَحِيلا أَقْرَنَ، ثُمَّ أَذْبَحَهُ لَهُ يَوْمَ الأَضْحَى فِي مُصَلَّى النَّاسِ فَفَعَلْتُ، ثُمَّ حُمِلَ إِلَيْهِ، فَحَلَقَ رَأْسَهُ حِينَ ذُبِحَ كَبْشُهُ، وَكَانَ مَرِيضًا لَمْ يَشْهَدِ الْعِيدَ مَعَ النَّاسِ، قَالَ نَافِعٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ: «لَيْسَ حِلاقُ الرَّأْسِ بِوَاجِبٍ عَلَى مَنْ ضَحَّى إِذَا لَمْ يَحُجَّ» ، وَقَدْ فَعَلَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ إِلا فِي خَصْلَةٍ وَاحِدَةٍ، الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ إِذَا كَانَ عَظِيمًا أَجْزَأَ، فِي الْهَدْيِ وَالأُضْحِيَةِ، بِذَلِكَ جَاءَتِ الآثَارُ: الْخَصِيُّ مِنَ الأُضْحِيَةِ يُجْزِئُ مِمَّا يُجْزِئُ مِنْهُ الْفَحْلُ، وَأَمَّا الْحِلاقُ فَنَقُولُ فِيهِ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَى مَنْ لَمْ يَحُجَّ فِي يَوْمِ النَّحْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا۔ کہ انھوں نے ایک مرتبہ مدینہ شریف میں قربانی کی تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لیے لئے ایک سینگ والا بکر خرید لاؤں۔ پھر ان کی طرف سے قربانی کے دن عید گاہ میں ذبح کروں۔ میں نے اسی طرح کیا۔ (خرید لایا) پھر قربانی کا جانور ان کی خدمت میں پیش کیا۔ جب ان کا بکر ذبح کیا گیا تو انھوں نے اپنا سر منڈیا۔ وہ بیماری کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ عید گاہ نہ جاسکے۔ ن ٧ اف ٧ ع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے تھے کہ قربانی دینے والے پر سر منڈانا واجب نہیں۔ جبکہ اس نے حج نہیں کیا ( حج کے موقعہ پر تو احرام سے نکلنے کے لیے منڈوانا ضروری ہے) عبداللہ بن عمر (رض) نے تبرکا یہاں سر منڈایا ۔ ( اس اثر کو باب ما یستحب من الضحایا میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس روایت کو ہم مکمل طور پر اختیار کرتے ہیں۔ البتہ ہمارے ہاں چھ ماہ کا مینڈھا جو بڑا معلوم ہوتا ہو ( سال کے برابر نظر آئے) قربانی میں اس کو ذبح کرنا جائز قرار دیتے ہیں۔ قربانی کے متعلق بہت سے آثار وارد ہیں۔ جس میں فحل جائز ہے۔ اس میں خصی کی قربانی بہی جائز ہے۔ اور سرمنڈوانے کے سلسلہ میں ہم وہی کہتے ہیں جو ابن عمر (رض) نے فرمایا ہے۔ جس نے حج نہیں کیا اس پر قربانی کے دن سرمنڈوانا واجب نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

631

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، «لَمْ يَكُنْ يُضَحِّي عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لا يُضَحَّى عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ
امام نافع (رح) نے ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ اس بچے کی طرف سے قربانی نہ کرتے تھے جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ اس کے بچے کی طرف سے قربانی نہیں جو ابھی شکم مادر میں ہے۔

632

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عُبَيْدَ بْنَ فَيْرُوزَ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاذَا يُتَّقَى مِنَ الضَّحَايَا؟ فَأَشَارَ بِيَدِهِ، وَقَالَ: «أَرْبَعٌ» ، وَكَانَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ يُشِيرُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: يَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِهِ وَهِيَ الْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفاءُ الَّتِي لا تُنْقِي، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، فَأَمَّا الْعَرْجَاءُ فَإِذَا مَشَتْ عَلَى رِجْلِهَا فَهِيَ تُجْزِئُ، وَإِنْ كَانَتْ لا تَمْشِي لَمْ تُجْزِئْ، وَأَمَّا الْعَوْرَاءُ فَإِنْ كَانَ بَقِيَ مِنَ الْبَصَرِ الأَكْثَرُ مِنْ نِصْفِ الْبَصَرِ أَجْزَأَتْ، وَإِنْ ذَهَبَ النِّصْفُ فَصَاعِدًا لَمْ تُجْزِئْ، وَأَمَّا الْمَرِيضَةُ الَّتِي فَسَدَتْ لِمَرَضِهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لا تُنْقِي فَإِنَّهُمَا لا يُجْزِئَانِ
عبید بن فیروز بیان کرتے ہیں کہ براء بن عازب (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا۔ کہ قربانی میں کن جانوروں سے بچنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست اقدس سے اشارہ فرمایا۔ اور ارشاد فرمایا وہ چار ہیں۔ براء بن عازب اپنے ہاتھ سے اسی طرح اشارہ کرتے اور فرماتے میرا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت ہیی چھوٹا ہے۔ وہ چار یہ ہے۔ (١) لنگڑا جانور جو چل نہ سکے۔ (٢) وہ کانا جانور جس کا کانا ہونا ظاہر ہو۔ (٣) وہ بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر و غالب ہو۔ (٤) ایسی دبلی قربانی جس میں گودا اور مخ نہ رہی ہو۔ (اس روایت کو باب ما ینہی من الضحایا میں امام مالک لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہیگ ہم اسی کو اخیتار کرتے ہیں۔ البتہ لنگڑا جانور اپنے پاؤں پر چل سکتا تو جائز ہے۔ اگر نہ چل سکتا ہو تو ناجائز ہے۔ کانے جانور کی نصف سے زیادہ بینائی باقی ہو تو جائز ہے۔ اگر نصف جاتی رہے تو جائز نہیں اور مریض جانور سے مراد وہ ہے جو مرض کے سبب خراب ہوجائے۔ اور دبلی پتلی سے مرارد وہ جس میں چربی اور مخ نہ رہے۔ یہ دونوں بہی جائز نہ ہوں گے۔

633

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلاثٍ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَتْ: صَدَقَ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ تَقُولُ: " دَفَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الأَضْحَى فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ادَّخِرُوا الثُّلُثَ، وَتَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ "، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ كَانَ النَّاسُ يَنْتَفِعُونَ فِي ضَحَايَاهُمْ، يَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ وَيَتَّخِذُونَ مِنْهَا الأَسْقِيَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا ذَاكَ؟ كَمَا قَالَ، قَالُوا: نَهَيْتَ عَنْ إِمْسَاكِ لُحُومِ الأَضَاحِي بَعْدَ ثَلاثٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي كَانَتْ دَفَّتْ حَضْرَةَ الأَضْحَى، فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَادَّخِرُوا
عبداللہ بن واقد (رح) کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا۔ عبداللہ بن ابوبکر (رض) نے کہا میں نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے اس بات کا تذکر کیا ۔ تو انھوں نے کہا کہ ابن عمر (رض) نے سچ فرمایا ہے۔ میں نے خود ام المؤمنین عائشہ (رض) عنہا سے سنا وہ فرماتی تھیں کہ بادیہ نشینوں کی ایک جماعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں قربانی کے دن پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تین دن کے لیے گوشت رکھو باقی خیرات کردو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اور ان کی چربی جمع کرتے ت ہے اور ان کی کھالوں سے مشکیں تیار کرتے تھے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ کیا بات ہے ؟ یا اسی قسم کی بات فرمائی۔ لوگوں نے عرض کیا ہم لوگوں کو تین دن سے زیادہ دن قربانی کا گوشت جمع کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں اس جماعت کے باعث روک دیا گیا تھا۔ جو قربانی کے دن آئی تھی۔ پس (اب تم) کھاؤ، خیرات کرو اور جمع کرکے رکھو۔

635

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَنْهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلاثٍ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: كُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا "، [ص:216] قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِأَنْ يَأْكُلَ الرَّجُلُ مِنْ أُضْحِيَتِهِ وَيَدَّخِرَ وَيَتَصَدَّقَ، وَمَا نُحِبُّ لَهُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِأَقَلَّ مِنَ الثُّلُثِ، وَإِنْ تَصَدَّقَ بِأَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ جَازَ
ابو زبیر مکی (رح) نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد فرمایا۔ کھاؤ، ذخیرہ کرو اور خیرات کرو۔ ( ان آثار و روایت کو امام مالک (رح) نے باب اور ادخار لحم الاضاحی میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اسمیں کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص قربانی کے گوشت میں سے کھائے، جمع کرے اور خیرات کرے ( ہر طرح جائز ہے) البتہ ہمارے ہاں پسندیدہ بات نہیں ہے کہ وہ تہائی سے کم خیرات کرے۔ اور اگر اس سے مزید کم وہ خیرات کرے تو تب بھی درست ہے)

636

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ، " ذَبَحَ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ يَوْمَ الأَضْحَى، وَأَنَّهُ ذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَعُودَ بِأُضْحِيَةٍ أُخْرَى، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا كَانَ الرَّجُلُ فِي مِصْرٍ يُصَلَّى الْعِيدُ فِيهِ، فَذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ الإِمَامُ فَإِنَّمَا هِيَ شَاةُ لَحْمٍ، وَلا يُجْزِئُ مِنَ الأُضْحِيَةِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ فِي مِصْرٍ وَكَانَ فِي بَادِيَةٍ أَوْ نَحْوِهَا مِنَ الْقُرَى النَّائِيَةِ عَنِ الْمِصْرِ فَإِذَا ذَبَحَ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ وَحِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ أَجْزَأَهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
عباد بن تیمخ (رض) سے روایت ہے کہ عویر بن اشقر نے قرانی کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے قربانی کردی۔ اور سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ دوبارہ اور قربانی کرے۔ ( اس روایت کو باب النہی عن ذبح الاضحیۃ قبل انصنراف الامام میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص شہر میں ہو جہاں عید کی نماز ہوتی ہے تو امام کے نماز پر ھانے سے پہلے اگر وہ قربانی ذبح کرلے تو گویا وہ ایک بکری کا گوشت ہوگا۔ اگر شہر میں نہ بلکہ جنگل میں ہو یا ایسے گاؤں میں رہتا ہو جو شہر سے دور ہو تو وہ شخص اکر طلوع فجر یا آفتاب کے طلوع کے وقت ذبح کرے گا تو اس کی قربانی جائز ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔

637

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ صَيَّادٍ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ، صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: «كُنَّا نُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ يَذْبَحُهَا الرَّجُلُ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، ثُمَّ تَبَاهَى النَّاسُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَصَارَتْ مُبَاهَاةً» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: كَانَ الرَّجُلُ يَكُونُ مُحْتَاجًا فَيَذْبَحُ الشَّاةَ الْوَاحِدَةَ يُضَحِّي بِهَا عَنْ نَفْسِهِ، فَيَأْكُلُ وَيُطْعِمُ أَهْلَهُ، فَأَمَّا شَاةٌ وَاحِدَةٌ تُذْبَحُ عَنِ اثْنَيْنِ، أَوْ ثَلاثَةٍ أُضْحِيَةٌ فَهَذَا لا يُجْزِئُ، وَلا يَجُوزُ شَاةٌ إِلا عَنِ الْوَاحِدِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عطاء بن یسار (رح) نے بیان کیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے بتلایا کہ ہم ایک بکری کی قربانی کرتے تھے۔ ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ذبح کرتا تھا۔ پہر لوکوں نے فخر کرنا شروع کردیا۔ اور قربانی فخر بن گئی ( ای اثر کو باب الشرکۃ فی الضحایا میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اگر غریب ہوتے تھے تو ایک بکری ذبح کرلیتے تھے۔ اور خود کھالیتے تھے۔ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاتے تھے۔ لیکن ایک بکر دو یا تین آدمیوں کی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں۔ ایک بکری کی قربانی ایک شخص کی طرف سے ہی ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

638

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْبَدَنَةُ وَالْبَقَرَةُ تُجْزِئُ عَنْ سَبْعَةٍ فِي الأُضْحِيَةِ وَالْهَدْيِ مُتَفَرِّقِينَ كَانُوا، أَوْ مُجْتَمِعِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ وَاحِدٍ، أَوْ غَيْرِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
ابو زبیر مکی (رح) نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہم نے مقام حدیبیہ میں ایک اونٹ اور ایک گائے سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے۔
اس اثر کو باب الشرکۃ فی الضحایا میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اونٹ اور گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے جائز ہے خواہ وہ ایک گھر کے ہوں یا متفرق گھروں کے ہوں یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

639

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَجُلا كَانَ يَرْعَى لِقْحَةً لَهُ بِأُحُدٍ، فَجَاءَهَا الْمَوْتُ فَذَكَّاهَا بِشِظَاظٍ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِهَا، فَقَالَ: «لا بَأْسَ بِهَا كُلُوهَا»
عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی احد کے قریب اپنی اونٹنی چرارہا تھا وہ مرنے لگی تو اس نے ایک تیز دھار لکڑے سے اسے ذبح کرلیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عالیہ میں عرض کیا کہ اس کے گوشت کا کیا حکم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس کو کھالو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

640

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ سَعْدٍ، أَوْ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ جَارِيَةً لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا لَهُ بِسَلْعٍ فَأُصِيبَتْ مِنْهَا شَاةٌ، فَأَدْرَكَتْهَا، ثُمَّ ذَبَحَتْهَا بِحَجَرٍ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: لا بَأْسَ بِهَا كُلُوهَا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، كُلُّ شَيْءٍ أَفْرَى الأَوْدَاجَ وَأَنْهَرَ الدَّمَ فَذَبَحْتَ بِهِ فَلا بَأْسَ بِذَلِكَ إِلا السِّنَّ وَالظُّفْرَ وَالْعَظْمَ، فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ أَنْ تَذْبَحَ بِشَيْءٍ مِنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) نے ایک انصاری سے نقل کیا کہ معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ (رض) نے اس سے بیان کیا کع کعب بن مالک (رض) کی ایک لونڈی مقام سلع میں بکریان چرارہی تھی۔ ایک بکری مرنے لگی تو اس لونڈی نے جاکر اسے ایک پتھر سے ذبح کیا پھر اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اسے کھالو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اس کو اختیار کرتے ہیں ہر وہ چیز جو رگیں کاٹ دے اور خون بہادے اس سے ذبح کرنا درست۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ ناخن، دانت یا ہڈی میں سے کسی چیز سے ذبح کرنا مکروہ ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام ف فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔

641

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «مَا ذُبِحَ بِهِ إِذَا بَضَعَ فَلا بَأْسَ بِهِ إِذَا اضْطُرِرْتَ إِلَيْهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِذَلِكَ كُلِّهِ عَلَى مَا فَسَّرْتُ لَكَ، وَإِنْ ذُبِحَ بِسِنٍّ أَوْ ظُفْرٍ مَنْزُوعَيْنِ فَأَفْرَى الأَوْدَاجَ وَأَنْهَرَ الدَّمَ أُكِلَ أَيْضًا، وَذَلِكَ مَكْرُوهٌ، فَإِنْ كَانَا مَنْزُوعَيْنِ فَإِنَّمَا قَتَلَهَا قَتْلًا فَهِيَ مَيْتَةٌ لا تُؤْكَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى.
سعید بن المسیب (رح) نے فرمایا۔ کہ ہر وہ چیز جس سے ذبح کیا جائے۔ اور وہ کچھ کاٹ ڈالے۔ مجبوری کی حالت میں اس سے ذبح کرنا جائز ہے۔ کچھ حرج نہیں۔ معمولی الافظ کے فرق سے یہ آثار و روایت باب ما یجوز من الزکوۃ علي حال الضرورۃ میں امام مالک نے ذکر فرمائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ کہ ان تمام اشیاء میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کردیا گیا۔ اگر جدا کئے ہوتے دانت یا ناخن سے ذبح کیا جائے اور اس سے رگ کٹ جائے، خون بہہ جائے تو اس گوشت کو کھایا جائے۔ البتہ یہ مکروہ ہے۔ اگر دانت و ناخن اپنے مقام سے جدا نہ کئے ہوں تو وہ ذبیحہ مرادار ہیی۔ اسے کھانا نہ جائے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

642

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ»
ابو ادریس خولانی (رح) نے ابو ثعلبہ خشنی (رض) سے روایت نقل کی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا۔

643

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حدّثنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «أكْلُ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ حَرَامٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يُكْرَهُ أَكْلُ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَكُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ، وَيُكْرَهُ مِنَ الطَّيْرِ أَيْضًا مَا يَأْكُلُ الْجِيَفَ مِمَّا لَهُ مِخْلَبٌ، أَوْ لَيْسَ لَهُ مِخْلَبٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ
عبیدہ بن سلیمان حضرمی نے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانا حرام ہے ( ان دونوں روایات کو امام مالک (رح) نے باب تحریم اکل کل ذی ناب من السباع میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں کہ ہر کچلی والے یدرندے، ہر پنجے والے پرندے اور پنجے سے مراد نوچنے والے پرندے کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اور ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے۔

644

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُتِيَ بِضَبٍّ مَحْنُوذٍ فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقَالَ بَعْضُ النِّسْوَةِ اللاتِي كُنَّ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ: أَخبِرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يُرِيدُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ، فَقُلْنَ: هُوَ ضَبٌّ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَقُلْتُ: أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: «لا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ» ، قَالَ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ
عبداللہ بن عباس (رض) نے خالد بن ولید (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ام المؤمنین حضرت میمونہ (رض) عنہا کے گھر میں داخل ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک بھی ہوئی گوہ لائی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو جو عورتیں حضرت میمونہ (رض) عنہا کے گھر میں موجود تھیں۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلادو، کیونکہ وہ اس کے کھانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ انھوں بتلایا کہ یہ گوہ ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے کہا کیا یہ حرام ہے ؟ حضور (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں۔ لیکن یہ ہماری زمین میں نہیں ہوتی۔ اس لیے مجھے اس کے کھانے سے کراہت آتی ہے۔
خالد کہتے ہیں کہ میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کھالیا جب کہ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے دیکھ رہے تھے۔
(اس روایت کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی اکل الضب میں ذکر کیا ہے)

645

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: نَادَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي أَكْلِ الضَّبِّ؟ قَالَ: «لَسْتُ بِآكِلِهِ، وَلا مُحَرِّمِهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدْ جَاءَ فِي أَكْلِهِ اخْتِلَافٌ، فَأَمَّا نَحْنُ، فَلا نَرَى أَنْ يُؤْكَلَ
ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دی اور عرض کیا۔ کہ آپ گوہ کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام کہتا ہوں۔ ( اس روایت کو بھی امام مالک (رح) نے مذکورہ باب میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس کے کھانے میں شدید اختلاف ہے۔ مکر ہمارے ہاں اس کا کھانا مناسب نہیں۔ اس کا سبب مندرجہ ذیل روایات ہیں۔

646

أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُ «أُهْدِيَ لَهَا ضَبٌّ، فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنْ أَكْلِهِ فَنَهَاهَا عَنْهُ» ، فَجَاءَتْ سَائِلَةٌ فَأَرَادَتْ أَنْ تُطْعِمَهَا إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتُطْعِمِينَهَا مِمَّا لا تَأْكُلِينَ؟»
ابراہیم نخعی نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا کا ارشاد نقل کیا کہ ان کے پاس ایک گوہ بطور تحفہ بھیجی گئی۔ اس وقت ان کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے کھانے کے متعلق دریافت کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا۔ اتنے میں ایک سائلہ آگئی تو حضرت عائشہ (رض) عنہا نے اسے گوہ کھلانے کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تم اسے وہ چیز کھلانا چاہتی ہو جو تم خود نہیں کھاتی ہو۔

647

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَبَّاسٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَزِيزِ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، أَنَّهُ «نَهَى عَنْ أَكْلِ الضَّبِّ وَالضَّبُعِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَتَرْكُهُ أَحَبُّ إِلَيْنَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
حارث (رح) بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی مرتضی (رض) نے گوہ اور بچو کے کھانے سے منع فرمایا۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ اس کھانے کو ترک کرنا ہمارے نزدیک بہتر ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔

648

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " عَمَّا لَفَظَهُ الْبَحْرُ؟ فَنَهَاهُ عَنْهُ، ثُمَّ انْقَلَبَ فَدَعَا بِمُصْحَفٍ فَقَرَأَ: {أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ} [المائدة: 96] "، قَالَ نَافِعٌ: فَأَرْسَلَنِي إِلَيْهِ أنْ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ فَكُلْهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ الآخِرِ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِمَا لَفَظَهُ الْبَحْرُ وَبِمَا حَسَرَ عَنْهُ الْمَاءُ إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ الطَّافِي، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
عبد الرحمن بن ابوہریرہ نے ابن عمر (رض) سے اس جانور کے متعلق دریافت کیا جس کو دریا باہر پھینک دے۔ تو انھوں فرمایا اسے نہ کھایا جائے۔ پھر لوٹ گئے اور قرآن مجید منگوایا اور یہ آیت پڑھی احل لکم صید البحر و طعامہ نافع کہتے ہیں کہ انھوں نے مجھے عبد الرحمن بن ابوہریرہ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ اسے کھالیا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ( اس روایت کو باب ما جاء فی ص ید البحر میں امام مالک (رح) ذکر فرماتی ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ابن عمر (رض) کے قول پر ہمارا عمل ہے۔ کہ جس کو سمندر یا دریا پھینک دے یا پانی کم ہونے سے اٹک جائے اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بیماری کے سبب جو مرجائے تو اس کا کھانا مکروہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

649

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجَارِيِّ بْنِ الْجَارِ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْحِيتَانِ يَقْتُلُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَيَمُوتُ صَرَدًا وَفِي أَصْلِ ابْنِ الصَّوَّافِ: وَيَمُوتُ بَرْدًا، قَالَ: «لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ» ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا مَاتَتِ الْحِيتَانُ مِنْ حَرٍّ أَوْ بَرْدٍ أَوْ قَتْلِ بَعْضِهَا بَعْضًا، فَلا بَأْسَ بِأَكْلِهَا، فَأَمَّا إِذَا مَاتَتْ مِيتَةَ نَفْسِهَا فَطَفَتْ فَهَذَا يُكْرَهُ مِنَ السَّمَكِ، فَأَمَّا سِوَى ذَلِكَ، فَلا بَأْسَ بِهِ
سعید جاری بن جار (رح) کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے ان مچھلیوں کے متعلق سوال کیا جو ایک دوسرے کو مار ڈالیں یا سردی کی شدت سے مرجائے (ابن الصواف کے نسخہ میں صردا کی بجائے بردا کا لفظ ہے) تو انھوں نے فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور کہنے لگے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ ( اس اثر کو باب ما جاء فی صید البر میں امام مالک (رح) لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ جب مچھلیاں گرمی یا سردی سے مرجائیں یا ایک دوسرے کو مار ڈالیں تو ان کے کھالینے کنوئیں کوئی مضائقہ و حرج نہیں۔ لیکن جب خود بخود مرجائیں اور پانی کے اوپر تیرنے لکیں تو ایسی مچھلی کا کھانا مکروہ ہے۔ اس کے علاوہ کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

650

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «إِذَا نُحِرَتِ النَّاقَةُ فَذَكَاةُ مَا فِي بَطْنِهَا ذَكَاتُهَا إِذَا كَانَ قَدْ تَمَّ خَلْقُهُ، وَنَبَتَ شَعْرُهُ فَإِذَا خَرَجَ مِنْ بَطْنِهَا ذُبِحَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّمُ مِنْ جَوْفِهِ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب اونٹنی ذبح کرلی جائے تو اس کے پیٹ کے بچہ کا ذبح کرنا وہی ہے جو اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے۔ جب کہ بچہ پورا ہوچکا ہو۔ اور اس کے بال اُگ آئے ہوں۔ جب اس کو اس کے پیٹ سے نکالا جائے تو اسے ذبح کیا جائے تاکہ اس سے پیٹ کا خون نکل آئے۔

651

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: ذَكَاةُ مَا كَانَ فِي بَطْنِ الذَّبِيحَةِ ذَكَاةُ أُمِّهِ إِذَا كَانَ قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ، وَتَمَّ خَلْقُهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ إِذَا تَمَّ خَلْقُهُ، فَذَكَاتُهُ فِي ذَكَاةِ أُمِّهِ، فَلا بَأْسَ بِأَكْلِهِ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ فَكَانَ يَكْرَهُ أَكْلَهُ حَتَّى يَخْرُجَ حَيًّا فَيُذَكَّى، وَكَانَ يَرْوِي، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ قَالَ: لا تَكُونُ ذَكَاةُ نَفْسٍ ذَكَاةَ نَفْسَيْنِ.
سعید بن المسیب (رح) فرماتے تھے کہ مذبوحہ جانور کے پیٹ کا جو بچہ ہو اس کا ذبح کرنا بعینہ وہی ہے جو اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے۔ جبکہ اس کے بال اگ آئے ہوں اور اس کے اعضاء پورے ہوگئے ہوں۔ ( ان دونوں آثار کو امام مالک باب ما یکرہ من الذبیحۃ فی الذکاۃ میں لائے ہیں)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ جبکہ اس کے اعضاء پورے طور پر تیار ہوچکے ہوں تو اس کی ماں کا ذبح کرنا خود اس کا ذبح کرنا ہے۔ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن امام ابوحنیفہ (رح) اس کے کھانے کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ اگر وہ زندہ نکل آئے اس کو ذبح کرلیا جائے تو پھر ان کے کھانے میں کراہت نہیں۔ ابراہیم نخعی رحمہ الہ کا قول یہی ہے کہ ایک کا ذبح کرنا دو ذبح کرنا نہیں ہوسکتا۔

652

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْجَرَادِ؟ فَقَالَ: «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي قَفْعَةً مِنْ جَرَادٍ فَآكُلُ مِنْهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، فَجَرَادٌ ذُكِّيَ كُلُّهُ لا بَأْسَ بِأَكْلِهِ إِنْ أُخِذَ حَيًّا، أَوْ مَيِّتًا، وَهُوَ ذَكِيٌّ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن عمر (رض) سے ٹڈے دل کے متعلق دریافت کیا گیا۔ تو انھوں نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ میرے پاس ٹڈیوں کا ایک تھیلا ہو اور میں اس میں سے کھاؤں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ٹڈی مذبوحہ جانور کے حکم میں ہے۔ وہ زندہ پکڑی جائے یا مردہ اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ وہ بہرحال مذبوح شمار ہوگی۔ (جیسا کہ مچھلی) یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

653

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ ذَبَائِحِ نَصَارَى الْعَرَبِ؟ فَقَالَ: «لا بَأْسَ بِهَا» ، وَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: " {وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ} [المائدة: 51] "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ
ابن عباس (رض) سے نصاری عرب کے ذبیحہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے یہ آیت ومن یتولہم منکم فانہ منہم پڑھی۔ کہ جوان سے درستی رکھے وہ ان میں سے ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

654

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، قَالَ: رَمَيْتُ طَائِرَيْنِ بِحَجَرٍ وَأَنَا بِالْجُرُفِ، فَأَصَبْتُهُمَا، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَمَاتَ، فَطَرَحَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأَمَّا الآخَرُ فَذَهَبَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّيهِ بِقَدُومٍ فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُذَكِّيهِ فَطَرَحَهُ أَيْضًا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، مَا رُمِيَ بِهِ الطَّيْرُ، فَقُتِلَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تُدْرَكَ ذَكَاتُهُ لَمْ يُؤْكَلْ، إِلا أَنْ يُخْرَقَ، أَوْ يُبْضَعَ فَإِذَا خُرِقَ وَبُضِعَ، فَلا بَأْسَ بِأَكْلِهِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع روایت کرتے ہیں کہ میں نے مقام جرف میں دو پرندوں کو پتھر مارا جو دونوں کو لگ گیا۔ ان میں سے ایک مرگیا۔ اسے ابن عمر (رض) نے پھینک دیا دوسرے کو وہ چھری سے ذبح کرنے لگے تو وہ ذبح سے پہلے ہی مر کیا تو اسے بھی پھینک دیا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس کو ہم اختیار کرتے ہیں۔ کہ جس پرندہ کی طرف کوئی چیز پھینک کرا سے مارا جائے اور وہ ذبح سے ــپہلے مرجائے تو اسے نہ کھایا جائے گا۔ البتہ اگر وہ زخمی ہوا یا اس کا کوئی عضو کٹ گیا ( اس کو ذبح کرلیا گیا) تو اس کے کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

655

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ «شَاةٍ ذَبَحَهَا فَتَحَرَّكَ بَعْضُهَا؟ فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهَا» ، ثُمَّ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَقَالَ: «إِنَّ الْمَيْتَةَ لَتَتَحَرَّكُ، وَنَهَاهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا تَحَرَّكَتْ تَحَرُّكًا: أَكْبَرُ الرَّأْيِ فِيهِ وَالظَّنِّ أَنَّهَا حَيَّةٌ أُكِلَتْ، وَإِذَا كَانَ تَحَرُّكُهَا شَبِيهًا بِالاخْتِلاجِ، وَأَكْبَرُ الرَّأْيِ وَالظَّنِّ فِي ذَلِكَ أَنَّهَا مَيْتَةٌ لَمْ تُؤْكَلْ
ابو مرہ نے ابوہریرہ (رض) سے ایسی بکری کے متعلق دریافت کیا جو ذبح کی گئی اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ہلا تو انھوں نے اس کے کھانے کا حکم فرمایا۔ پھر یہی مسئلہ زید بن ثابت (رض) سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا مردہ بھی حرکت کرتا ہے۔ پس انھوں نے کھانے سے منع کردیا۔ اس روایت کو ابا ما یکرہ من الذبیحہ فی الذکاۃ میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : اگر وہ اس طرح حرکت کرے کہ اس کے زندہ ہونے کا گمان غالب ہو تو اس کو کھالیا جائے اور جب اس کی حرکت چھڑکنے کے مشابہ ہو اور گمان غالب اس کے مرنے کا ہو تو اسے نہ کھایا جائے۔

656

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ " يَأْتُونَ بِلُحْمَانٍ، فَلا نَدْرِي هَلْ سَمَّوْا عَلَيْهَا أَمْ لا؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهَا، ثُمَّ كُلُوهَا "، قَالَ: وَذَلِكَ فِي أَوَّلِ الإِسْلامِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ إِذَا كَانَ الَّذِي يَأْتِي بِهَا مُسْلِمًا، أَوْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَإِنْ أَتَى بِذَلِكَ مَجُوسِيٌّ، وَذَكَرَ أَنَّ مُسْلِمًا ذَبَحَهُ، أَوْ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمْ يُصَدَّقْ، وَلَمْ يُؤْكَلْ بِقَوْلِهِ
عروہ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیہاتی لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں۔ اور ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان پر تکبیر کہی ہے یا نہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم اس پر بسم اللہ پڑھ لو۔ پھر کھالو۔ امام مالک فرماتے ہیں یہ حکم ابتداء اسلام کا تھا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ گوشت لانے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب میں سے ہو۔ لیکن اگر مجوسی لائے اور بیان کرے کہ اس کو کسی مسلمان نے یا کتابی نے ذبح کیا ہے تو اس کو سچا نہ جانیں گے۔ اور اس کے کہنے کی بناء پر اسے نہ کھایا جائے گا۔

657

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ فِي الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ: كُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ، إِنْ قَتَلَ، أَوْ لَمْ يَقْتُلْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، كُلُّ مَا قُتِلَ، وَمَا لَمْ يُقْتَلْ إِذَا ذَكَّيْتَهُ مَا لَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ، فَإِنْ أَكَلَ، فَلا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ، وَكَذَلِكَ بَلَغَنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) تربیت یافتہ کتے کے متعلق فرماتے وہ تمہارے لیے جو پکڑ کر رکھے اسے کھالو، خواہ شکار اس نے مار ڈالا ہو یا زندہ پکڑ کر لایا ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیارا کرتے ہیں۔ کہ خواہ اس نے مار ڈالا ہو یا نہ مارا ہو جب کہ تم نے اسے ذبح کرلیا ہو اور اس نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو۔ ( تب تو تم کھاسکتے ہو) اور اگر اس نے اس میں سے کچھ کھالیا ہو تو اس کو مت کھاؤ۔ کیونکہ وہ شکار اس نے اپنے لیے پکڑا ہے۔ ابن عباس (رض) سے بھی ہم تک یہی بات پہنچی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

658

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي ضَمْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْعَقِيقَةِ؟ قَالَ: «لا أُحِبُّ الْعُقُوقَ» ، فَكَأَنَّهُ إِنَّمَا كَرِهَ الاسْمَ، وَقَالَ: «مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبُّ، أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَفْعَلْ»
زید بن اسلم نے بنی ضمرہ کے ایک شخص سے اور اس نے اپنے والد کی وساطت سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات نقل کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا میں عقوق کو پسند نہیں کرتا۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نام کو پسند نہیں فرمایا۔ اور فرمایا جس کے ہاں بچہ پیدا ہو میں پسند کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچہ کی طرف سے قربانی کرے۔

659

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ «لَمْ يَكُنْ يَسْأَلُهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ عَقِيقَةً إِلا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَكَانَ يَعِقُّ عَنْ وَلَدِهِ بِشَاةٌ شَاةٍ عَنِ الذَّكَرِ وَالأُنْثَى»
نافع (رح) روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کے گھر والوں سے اگر کوئی عیقہ کے متعلق سوال کرتا تو وہ ضرور عقیقہ کرتے۔ وہ اپنی اولاد کے لیے ایک بکری سے عقیقہ کرتے۔ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔

660

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: «وَزَنَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرَ حَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَزَيْنَبَ، وَأُمِّ كُلْثُومٍ، فَتَصَدَّقَتْ بِوَزْنِ ذَلِكَ فِضَّةً»
محمد بن علی (رح) نے نقل کیا کہ حضرت فاطمہ (رض) عنہا نے حضرت حسن، حسین، زینب، ام کلثوم (رض) عنہم کے بالوں کا وزن کرکے اس کے ہم وزن چاندی خیرات کی۔

661

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّهُ قَالَ: «وَزَنَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرَ حَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ، فَتَصَدَّقَتْ بِوَزْنِهِ فِضَّةً» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا الْعَقِيقَةُ فَبَلَغَنَا أَنَّهَا كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَدْ فُعِلَتْ فِي أَوَّلِ الإِسْلامِ ثُمَّ نَسَخَ الأَضْحَى كُلَّ ذَبْحٍ كَانَ قَبْلَهُ، وَنَسَخَ صَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ كُلَّ صَوْمٍ كَانَ قَبْلَهُ، وَنَسَخَ غُسْلُ الْجَنَابَةِ كُلَّ غُسْلٍ كَانَ قَبْلَهُ، وَنَسَخَتِ الزَّكَاةُ كُلَّ صَدَقَةٍ كَانَتْ قَبْلَهَا، كَذَلِكَ بَلَغَنَا
محمد بن علی (رح) نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ (رض) عنہا نے حضرت حسن و حسین (رض) عنہا کے بالوں کا وزن کیا اور اس کے برابر چاندی خیرات کی ( دونوں روایات کو امام مالک نے باب ما جاء فی العقیقہ میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : عقیقہ کے متعلق ہمیں معلوم ہوا کہ یہ زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کیا گیا ہے۔ پھر قربانی نے ہر ذبح کو منسوخ کردیا۔ اور رمضان کے روزوں نے تمام روزوں کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے تھے۔ اور غسل جنابت سے پہلے کے تمام مروجہ غسل کو منسوخ کردیا۔ اور زکوۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا۔ جو پہلے رائج تھا۔ اسی طرح یہ بات ہم تک پہنچی ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔