HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Muawtta Imam Muhammad

9. طلاق کا بیان

موطأ الامام محمد

558

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «لا تَبِيتُ الْمَبْتُوتَةُ، وَلا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا إِلا فِي بَيْتِ زَوْجِهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، أَمَّا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا فَإِنَّهَا تَخْرُجُ بِالنَّهَارِ فِي حَوَائِجِهَا، وَلا تَبِيتُ إِلا فِي بَيْتِهَا، وَأَمَّا الْمُطَلَّقَةُ مَبْتُوتَةً كَانَتْ، أَوْ غَيْرَ مَبْتُوتَةٍ، فَلا تَخْرُجُ لَيْلا، وَلا نَهَارًا مَا دَامَتْ فِي عِدَّتِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت طلاق ہوجائے یا سا سکا خامند فوت ہوجائے تو وہ عدت مکمل کرنے تک اپنے شوہر کے گھر میں ہی رات بسر کرے۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) باب ماقم المتوفی عنہا زوجہا فی بیتہا حتی تحل میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں البتہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ مجبوری کی صورت میں اپنی ضروریات کے لیے دن میں باہر نکل سکتی ہے۔ مکر رات اپنے خاوند ہی کے گھر میں گزارنا ہوگی۔ رہی وہ عورت جس کو طلاق بائنہ ہوچکی یا غیر بائنہ وہ جب تک عدت میں ہے۔ وہ اپنے خاوند کے گھر سے نہ رات کو باہر نکل سکتی ہے یاور نہ دن کود یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

560

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدًا لِبَعْضِ ثَقِيفٍ جَاءَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: أَنَّ سَيِّدِي أَنْكَحَنِي جَارِيَتَهُ، فُلانَةً، وَكَانَ عُمَرُ يَعْرِفُ الْجَارِيَةَ، وَهُوَ يَطَؤُهَا فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى الرَّجُلِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَتْ جَارِيَتُكَ؟ قَالَ: هِيَ عِنْدِي، قَالَ: هَلْ تَطَؤُهَا؟ فَأَشَارَ إِلَى بَعْضِ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ، فَقَالَ: لا، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا وَاللَّهِ لَوِ اعْتَرَفَتْ لَجَعَلْتُكَ نَكَالا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي إِذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهُ عَبْدَهُ أَنْ يَطَأَهَا لأَنَّ الطَّلاقَ وَالْفُرْقَةَ بِيَدِ الْعَبْدِ إِذَا زَوَّجَهُ مَوْلاهُ، وَلَيْسَ لِمَوْلاهُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا بَعْدَ أَنْ زَوَّجَهَا فَإِنْ وَطِئَهَا يُنْدَمُ إِلَيْهِ فِي ذَلِكَ، فَإِنْ عَادَ أَدَّبَهُ الإِمَامُ عَلَى قَدْرِ مَا يَرَى مِنَ الْحَبْسِ وَالضَّرْبِ، وَلا يَبْلُغَ بِذَلِكَ أَرْبَعِينَ سَوْطًا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ بنو ثقیف قبیلہ کا ایک غلام حضرت فاروق اعظم (رض) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میرے آقا نے اپنی فلاں کنیز سے میرا نکاح کردیا ( فاروق اعظم (رض) اس لونڈی کو ذاتی طور پر جانتے تھے) اور اب وہ خود بھی اس سے مباشرت کرتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس متعلقہ آدمی کو بلا بھیجا وہ حاضر ہوا تو اس سے دریافت کیا تمہاری لونڈی ( فلانہ) کہاں ہے ؟ اس نے بتلایا کہ وہ میرے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تم اس سے مباشرت کرتے ہو ؟ حضرت عمر (رض) نے بعض اہل مجلس نے اس کو اشارہ کیا تو اس آدمی نے کہا نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم ! اگر تو اعتراف کرتا تو میں تجھے عبرتناک سزا دیتا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب کوئی شخص اپنی لونڈی اپنے کسی غلام کے نکاح میں دے دے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس سے مباشرت کرے۔ کیونکہ جب آقا نے اس سے اپنی رضا مندی سے نکاح کردیا ہے تو اسے طلاق یا جدائی اختیار ( غلام کو تفویض کردیا ہے اب) غلام اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ لونڈی کو اس کے نکاح میں دینے کے بعد آقا کو انھیں جدا کرنے ( طلاق دینے) کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اگر وہ اس سے مباشرت کرے گا تو اس بارے میں اسے ملامت کی جائے گی۔ اگر وہ باز نہ آئے اور اس کا اعادہ کرے تو امام وقت جس قدر چاہے اسے مارپیت یا قید کی سزا دے۔ سب کچھ روا ہے البتہ یہ سزا چالیس کوڑوں سے زیادہ نہ ہوگی۔

563

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُجَبِّرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " إِذَا قَالَ الرَّجُلُ: إِذَا نَكَحْتُ، فُلانَةً فَهِيَ طَالِقٌ، فَهِيَ طَالِقٌ، فَهِيَ كَذَلِكَ إِذَا نَكَحَهَا، وَإِذَا كَانَ طَلَّقَهَا وَاحِدَةً، أَوِ اثْنَتَيْنِ، أَوْ ثَلاثًا فَهُوَ كَمَا قَالَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
مجبر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص کہے ” اگر میں فلانہ عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ تو وہ جب بہی اس سے نکاح کرے گا ۔ اس کو وہی طلاقیں واقع ہوجائیں گی جتنی طلاقوں کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ ایک یا دو یا تین میں جس قدر اس نے کہی تھیں اتنی ہی واقع ہوجائیں گی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

565

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ اسْتَفْتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً أَوْ تَطْلِيقَتَيْنِ، وَتَرَكَهَا حَتَّى تَحِلَّ، ثُمَّ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَيَمُوتَ أَوْ يُطَلَّقَا فَيَتَزَوَّجُهَا زَوْجُهَا الأَوَّلُ عَلَى كَمْ هِيَ؟ قَالَ عُمَرُ: هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ طَلاقِهَا ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: إِذَا عَادَتْ إِلَى الأَوَّلِ بَعْدَ مَا دَخَلَ بِهَا الآخَرُ عَادَتْ عَلَى طَلاقٍ جَدِيدٍ ثَلاثِ تَطْلِيقَاتٍ مُسْتَقْبِلاتٍ، وَفِي أَصْلِ ابْنِ الصَّوَّافِ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضرت عمر (رض) سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دے اور اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہوجائے پھر وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ ہدوسرا مرد فوت ہوجائے یا اسے طلاق دے تو اب پہلا مرد اس سے نکاح کرلے وہ مرد اب کتنی طلاقوں مالک ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ تین طلاقوں میں سے جتنی طلاقیں باقی رہ گئی ہیں۔ ( اس اثر کو باب جامع الطلاق میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کا فرمان یہ ہے کہ اگر وہ عورت پہلے شوہر کے پاس اس حالت میں لوٹی کہ دوسرا شوہر اس سے مباشرت کرچکا ہے تو صورت میں پہلا شوہر از سر نو تین طلاقوں کا مالک ہوگا۔

567

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا، " أَنَّهَا خَطَبَتْ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قُرَيْبَةَ بِنْتِ أَبِي أُمَيَّةَ، فَزَوَّجَتْهُ ثُمَّ إِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وَقَالُوا: مَا زَوَّجْنَا إِلا عَائِشَةَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَجَعَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَمْرَ قُرَيْبَةَ بِيَدِهَا، فَاخْتَارَتْهُ، وَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأَخْتَارَ عَلَيْكَ أَحَدًا، فَقَرَّتْ تَحْتَهُ، فَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ طَلاقًا "
قاسم (رح) نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) عنہا نے اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابوبکر (رض) کا پیغام قریبہ بنت ابی امیہ کے پاس بھیجا۔ پس اس سے ان کا نکاح ہوگیا۔ اس پر قریبہ کے ورثاء عبد الرحمن سے ناراض ہوگئے اور کہنے لگے ۔ ہم نے سوچنے سمجھنے کے بغیر عائشہ (رض) عنہا کے کہنے پر نکاح کردیا ہے۔ حضرت ام المؤمنین (رض) عنہا نے اپنے بھائی عبد الرحمن (رض) پیغام بھیجا اور اس بات کا ان سے تذکرہ کیا۔ عبد الرحمن (رض) نے قریبہ کو اختیادے دیا کہ خواہ تو میرے پاس رہے اور خواہ تو جدائی اخیتار کرلے۔ قریبہ نے میں تمہارے مقابلے میں کین اختیار نہیں کرتی۔ پس یہ طلاق نہ ہوئی۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما لا یبین من التملیک میں ذکر کیا ہے)

569

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " إِذَا مَلَّكَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ أَمْرَهَا فَالْقَضَاءُ مَا قَضَتْ إِلا أَنْ يُنْكِرَ عَلَيْهَا، فَيَقُولُ: لَمْ أُرِدْ إِلا تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً فَيُحَلَّفُ عَلَى ذَلِكَ، وَيَكُونُ أَمْلَكَ بِهَا فِي عِدَّتِهَا "
نافع (رح) ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے دے تو فیصلہ بیوی کی مرضی پر ہوگا۔ مگر یہ شوہر انکار کردے اور کہے کہ میں نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا۔ تو اس صورت میں اس سے یاس بات کی قسم لی جائے گی۔ اور عدت کے ایام تک وہ خاوند اس کا مالک و مختار ہوگا۔

570

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: إِذَا مَلَّكَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ أَمْرَهَا فَلَمْ تُفَارِقْهُ وَقَرَّتْ عِنْدَهُ فَلَيْسَ ذَلِكَ بِطَلاقٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلَيْسَ ذَلِكَ بِطَلاقٍ وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَهُوَ عَلَى مَا نَوَى الزَّوْجُ، فَإِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنْ نَوَى ثَلاثًا فَثَلاثٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے دے اور وہ اس سے جدائی اختیار نہ کرے بلکہ اس کے پاس ٹھہری رہے تو یہ طلاق نہیں ( اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما لا یبین من التملیک میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب عورت نے اپنے خاوند کو اختیار کرلیا تو یہ طلاق نہیں۔ اور اگر عورت نے اپنی ذات کو اختیار کرلیا تو اس صورت میں مرد کی نیت کا اعتبار ہوگا اگر اس نے ایک طلاق کی نیت کی ہوگی تو یہ ایک طلاق بائنہ ہوگی۔ اگر تین کی نیت کی ہوگی تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

572

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ " يَقُولُ فِي الأَمَةِ تَحْتَ الْعَبْدِ فَتُعْتَقُ: أَنَّ الْخِيَارَ لَهَا مَا لَمْ يَمَسَّهَا "
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کہتے تھے کہ جو لونڈی کسی غلام کی منکوحہ تھی اور وہ آزاد کردی گئی۔ جب تک اس سے مباشرت نہ کی جائے اس وقت اس کو اختیار حاصل ہے کہ نکاح کو باقی رکھے یا نہ)

574

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَوَرَّثَهَا عُثْمَانُ مِنْهُ بَعْدَ مَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا.
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کا بیان ہے کہ عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ جبکہ وہ بیمار تھے۔ حضرت عثمان (رض) نے عدت گزارنے کے بعد انھیں وارث قرار دے کر ترکہ میں حصہ دلایا۔ ( اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب طلاق المریض میں ذکر کیا ہے)

575

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنَّهُ «وَرَّثَ نِسَاءَ ابْنِ مُكْمِلٍ مِنْهُ، كَانَ طَلَّقَ نِسَاءَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يَرِثْنَهُ مَا دُمْنَ فِي الْعِدَّةِ فَإِذَا انْقَضَتِ الْعِدَّةُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ، فَلا مِيرَاثَ لَهُنَّ وَكَذَلِكَ ذَكَرَ هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ الضَّبِّيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَيْهِ، فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا وَهُوَ مَرِيضٌ: «أَنْ وَرِّثْهَا مَا دَامَتْ فِي عِدَّتِهَا، فَإِذَا انْقَضَتِ الْعِدَّةُ، فَلا مِيرَاثَ لَهَا» ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
اعرج (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے ابن مکمل کی عورتوں کو وراثت میں حصہ دلایا۔ اس نے اپنی ب یویں کو مرض (الموت) میں طلاق دے دی تھے۔ ( یہ اثر باب طلاق المریض میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ وہ عورتیں وارث ہونگیں۔ اگر شوہر کی وفات سے قبل عدت ختم ہوجائے تو انھیں ترکہ و وراثت مں ن حصہ نہ ملے گا۔ اس طرح ہشیم بن بشیر نے مغیر (رض) اور انھوں ابراہیم نخعی اور انھوں نے شریح کی سند سے عمر بن خطاب (رض) کا ارشاد نقل کیا کہ انھوں نے اس شخص کے متعلق تحریر کیا جس نے بحلت مرض اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں کہ اگر وہ عدت میں ہو تو اسے وراثت سے حصہ ۔ اگر اس کی عدت مکمل ہوچکی ہو تو اس کو کوئی حصہ مثراث سے نہیں ملے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

576

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سُئلَ عَنِ امْرَأَةٍ يُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا؟ قَالَ: «إِذَا وَضَعَتْ فَقَدْ حَلَّتْ» ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ عِنْدَهُ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: «لَوْ وَضَعَتْ مَا فِي بَطْنِهَا وَهُوَ عَلَى سَرِيرِهِ لَمْ يُدْفَنْ بَعْدُ حَلَّتْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر سے اس عورت کے متعلق سوال کیا گیا۔ کہ جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو۔ انھوں نے فرمایا جب اس کا بچہ پیدا ہوجائے تو اس کی عدت پوری ہوجاتی ہے ایک انصاری نے (جوان کے پاس بیٹھے تھے) کہا عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا اکر وہ بچہ پیدا ہوجائے اور شوہر کی میت ابہی تختہ پر ہی ہو اور اسے دفن نہ کیا کیا ہو تب بہی اس کی عدت پوری ہوجاتی ہے ؟ (یہ اثر معمولی اختلاف سند کے ساتھ باب عدۃ المتوفی عنہا زوجہا اذا کانت حاملا میں امام مالک نے ذکر فرمایا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

579

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ آلَى مِنِ امْرَأَتِهِ فَإِذَا مَضَتِ الأَرْبَعَةُ الأَشْهُرُ وُقِفَ حَتَّى يُطَلِّقَ، أَوْ يَفِيءَ، وَلا يَقَعُ عَلَيْهَا طَلاقٌ، وَإِنْ مَضَتِ الأَرْبَعَةُ الأَشْهُرُ حَتَّى يُوقَفَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: بَلَغَنَا، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُمْ قَالُوا: إِذَا آلَى الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِهِ فَمَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ قَبْلَ أَنْ يَفِيءَ فَقَدْ بَانَتْ بِتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ، وَهُوَ خَاطِبٌ مِنَ الْخُطَّابِ وَكَانُوا لا يَرَوْنَ أَنْ يُوقَفَ بَعْدَ الأَرْبَعَةِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الآيَةِ: {لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [البقرة: 226] ، {وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [البقرة: 227] ، قَالَ: الْفَيْءُ: الْجِمَاعُ فِي الأَرْبَعَةِ الأَشْهُرِ، وَعَزِيمَةُ الطَّلاقِ: انْقِضَاءُ الأَرْبَعَةِ الأَشْهُرِ، فَإِذَا مَضَتْ بَانَتْ بِتَطْلِيقَةٍ، وَلا يُوقَفُ بَعْدَهَا، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَعْلَمَ بِتَفْسِيرِ الْقُرْآنِ مِنْ غَيْرِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرلے۔ جب چار ماہ گزر جائیں۔ حاکم شوہر کو طلاق دینے یا رجوع کرنے پر مجبور کرلے۔ اگر چار ماہ طلاق دینیی کے بغیر گزر جائیں تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ پس چارہ ما کے اندر شوہر کو حاکم مجبور کرے۔
(امام مالک (رح) نے ان ندونوں آثار کو باب الایلاء میں ذکر فرمایا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہمیں حضرت عمر، عثمان، ابن مسعود زید بن ثابت (رض) عنہم کی روایت پہنچی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرلے اور رجوع سے پہلے چار ماہ گزر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی۔ اور شوہر کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جو شادی کا پیغام پہنچانے والا ہو۔ یہ حضرات چارہ ماہ کے بعد شوہر کو مجبور کرنا ضرور قرار نہ دیتے تھے۔
ابن عباس (رض) نے للذین یولیون من نساہ م تا غفور رحیم کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ الفیء سے مراد چارہ ماہ کے اندر معاشرت کرلینا ہے۔ اور ان عزموا الطلاق سے چار ماہ گزر جانا مراد ہے۔ جب چار ماہ گزر جائیں تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اس کے بعد شوہر کو مجبور نہ کیا جائے گا۔ عبداللہ بن عباس (رض) کو تفسیر قرآن کا ملکہ دوسروں سے زیادہ مقدار میں میسر ہوا تھا۔ اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا حناف کا قول ہے۔

582

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الْمَكِّيُّ الأَعْرَجُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ «يَرُدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهُنَّ أَزْوَاجَهُنَّ مِنَ الْبَيْدَاءِ يَمْنَعُهُنَّ الْحَجَّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا لا يَنْبَغِي لامْرَأَةٍ أَنْ تُسَافِرَ فِي عِدَّتِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ مِنْ طَلاقٍ كَانَتْ، أَوْ مَوْتٍ
سعید بن مسیب (رح) بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) ان عورتوں کو جو اپنے خاوند کی عدت میں ہوتیں تھی حج سے منع فرماتے اور مقام بیداء سے واپس کردیتے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے کہ ہجو عورت عدت میں ہو اس کیلئے مناسب نہیں کہ وہ عدت مکمل کرنے کے بغیر سفر اختیار کرے۔ خواہ عدت طلاق ہو یا عدت وفات ہو۔

583

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَالْحَسَنِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ جَدِّهِمَا، أَنَّهُ قَالَ لابْنِ عَبَّاسٍ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الإِنْسِيَّةِ»
علی بن حسین (رح) کہتے ہیں کہ میرے دادا علی مرتضی (رض) نے ابن عباس ر ضی اللہ عنما سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے دن متعہ اور گھریلو پالتوں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔

584

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتِ حَكِيمٍ دَخَلَتْ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَتْ: أَنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ مُوَلَّدَةٍ فَحَمَلَتْ مِنْهُ، فَخَرَجَ عُمَرُ فَزِعًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ، فَقَالَ: «هَذِهِ الْمُتْعَةُ لَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا لَرَجَمْتُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمُتْعَةُ مَكْرُوهَةٌ، فَلا يَنْبَغِي، فَقَدْ نَهَى عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَاءَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ، وَلا اثْنَيْنِ، وَقَوْلُ عُمَرَ: لَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا لَرَجَمْتُ، إِنَّمَا نَضَعُهُ مِنْ عُمَرَ عَلَى التَّهْدِيدِ، وَهَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروہ بن زبیر (رح) نے بیان کیا کہ خولہ بنت حکیم (رض) عنہا حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ کہ ربیعہ بن امیہ نے ایک مولدہ عورت سے متعہ کرلیا تھا۔ اور وہ عورت اس سے حاملہ ہوگئید یہ سن کر حضرت عمر (رض) اپنی چادر سمیٹتے ہوئے گھبراکر نکلے کہ یہ متعہ ہے۔ اگر میں اس کے حرام ہونے کا پہلے سے اعلان کرچکا ہوتا تو اسے سنگسار کرتا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ متعہ ممنوع ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد احادیث میں اس کی ممانعت فرمادی ہے حضرت عمر (رض) کا یہ کہنا کہ اگر میں اس کے متعلق پہلے سے اعلان کرچکا ہوتا تو اس کو سنگسار کرتا ۔ ہمارے نزدیک دھمکانے لیے ہے۔ یین امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

585

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ، فَكَانَتْ تَحْتَهُ، فَتَزَوَّجَ عَلَيْهَا امْرَأَةً شَابَّةً فَآثَرَ الشَّابَّةَ عَلَيْهَا، فَنَاشَدَتْهُ الطَّلاقَ فَطَلَّقَهَا وَاحِدَةً، ثُمَّ أَمْهَلَهَا حَتَّى إِذَا كَادَتْ تَحِلُّ ارْتَجَعَهَا، ثُمَّ عَادَ، فَآثَرَ الشَّابَّةَ، فَنَاشَدَتْهُ الطَّلاقَ، فَطَلَّقَهَا وَاحِدَةً، ثُمَّ أَمْهَلَهَا حَتَّى كَادَتْ أَنْ تَحِلَّ ارْتَجَعَهَا، ثُمَّ عَادَ فَآثَرَ الشَّابَّةَ، فَنَاشَدَتْهُ الطَّلاقَ، فَقَالَ: «مَا شِئْتِ إِنَّمَا بَقِيَتْ وَاحِدَةٌ، فَإِنْ شِئْتِ اسْتَقْرَرْتِ عَلَى مَا تَرَيْنَ مِنَ الأَثَرَةِ وَإِنْ شِئْتِ طَلَّقْتُكِ» ، قَالَتْ: بَلْ أَسْتَقِرُّ عَلَى الأَثَرَةِ، فَأَمْسَكَهَا عَلَى ذَلِكَ، وَلَمْ يَرَ رَافِعٌ أَنَّ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ إِثْمًا حِينَ رَضِيَتْ أَنْ تَسْتَقِرَّ عَلَى الأَثَرَةِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا رَضِيَتْ بِهِ الْمَرْأَةُ، وَلَهَا أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ إِذَا بَدَا لَهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
زہری نے بیان کیا کہ رافع بن خدیج (رض) نے محمد بن سلمہ (رض) کی بیٹی سے نکاح کیا۔ چنانچہ وہ ان کے ہاں رہیں۔ ان کی موجودگی میں رافع نے ایک جوان عورت سے نکاح کرلیا۔ اور اس کی طرف ان کا میلان زیادہ ہوا۔ پہلی بیوی نے ان سے طلاق کا مطالبہ کردیا تو انھوں نے اسے ایک طلاق دے دی۔ اور انھیں روکے رکھا۔ جب عدت گزرنے لگی تو اس سے رجوع کرلیا پھر جوان عورت کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ تو بیوی نے دوبارہ طلاق کا مطالبہ کردیا۔ انھوں نے پھر ایک طلاق دے دی۔ اور اسے اپنے پاس روکے رکھا۔ جب عدت تمام ہونے لگی تو اس سے رجوع کرلیا اور لوٹا لیا۔ پھر جوان عورت کی طرف مائل ہوگئے۔ تو اس نے پھر طلاق کا مطالبہ کردیا۔ رافع کہنے لگے تم کیا چاہتے ہو ؟ اب صرف ایک طلاق باقی رہ گئی ہے۔ اگر چاہتی ہو تو اسی طرح رہو اور اگر تم پسند کرتی ہو تو میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں۔ زوجہ اول نے کہا میں تمہارے اس کی طرف شدید میلان کے باوجود تمہارے برقرار رہنا منظور کرتی ہوں۔ تو رافع (رض) نے انھیں روک لیا۔ اور رافع (رض) نے اس بارے میں کوئی گناہ تصور نہیں کیا جبکہ وہ (دوسری) بیوی کی ترجیح پر راضی ہوگئیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جب عورت اس کو پسند کرے مگر جب وہ پسند کرکے اس سے پھر جائے تو اسے اس کا اختیار حاصل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔

586

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ «رَجُلا لاعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، إِذَا نَفَى الرَّجُلُ وَلَدَ امْرَأَتِهِ، وَلاعَنَ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَلَزِمَ الْوَلَدُ أُمَّهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع (رح) نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے لعام کیا اور اس کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا انکار کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی اور بچے کو اس عورت کے حوالہ کردیا۔
(اس روایت کو امام مالک نے باب اللعان میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : اس پر ہمارا عمل ہے جب خاوند اپنی بیوی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا انکار کردے اور اس پر زنا کا الزام لگائے تو ان کڑ درمیان تفریق کرادی جائے گی۔ اور وہ لڑکا ماں کے حوالے کردیا جائے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

587

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «لِكُلِّ مُطَلِّقَةٍ مُتْعَةٌ إِلا الَّتِي تُطَلَّقُ، وَقَدْ فُرِضَ لَهَا صَدَاقٌ، وَلَمْ تُمَسَّ فَحَسْبُهَا نِصْفُ مَا فُرِضَ لَهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَلَيْسَتِ الْمُتْعَةُ الَّتِي يُجْبَرُ عَلَيْهَا صَاحِبُهَا إِلا مُتْعَةً وَاحِدَةً، هِيَ مُتْعَةُ الَّذِي يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا، فَهَذِهِ لَهَا الْمُتْعَةُ وَاجِبَةٌ، يُؤْخَذُ بِهَا فِي الْقَضَاءِ، وَأَدْنَى الْمُتْعَةِ لِبَاسُهَا فِي بَيْتِهَا: الدِّرْعُ وَالْمِلْحَفَةُ وَالْخِمَارُ، وَهُوَ قولُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا۔ کہ ہر مطلقہ کے لیے متعہ ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ جب اس کو طلاق دی گئی ہو اور مہر مقرر کردیا گیا ہو۔ لیکن مباشرت سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس صورت میں عورت کو نصف مہر ادا کرنا کافی ہوگا۔ (یہ اثر باب متعۃ الطلاق میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ متعہ ایسی چیز نہیں کہ جس کی ادائیگی پر خاوند کو مجبور کیا جائے۔ سوائے اس متعہ کے کہ جب خاوند اپنی بو ی کو قبل از مباشرت طلاق دے دے اور ہر بہی مقرر نہ ہوا ہو۔ تو اس صورت میں متعہ عدالت کے ذریعہ وصلو کا ہ جائے۔ اور کم از کم متعہ کی مقدار اس کا وہ لباس ہے جو وہ اپنے گھر میں استعمال کرتی ہے۔ اوڑھنی، ایک کرتہ، ایک تہہ بند، امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مالک ہے۔ اور ہمارے عام فقہاء کا کرام کا رجحان بھی یہی ہے۔

589

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ حَفْصَةَ، أَوْ عَائِشَةَ، أَوْ عَنْهُمَا جَمِيعًا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ إِلا عَلَى زَوْجٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، يَنْبَغِي لِلْمَرْأَةِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَلا تَتَطَيَّبُ، وَلا تَدَّهِنُ لِزِينَةٍ، وَلا تَكْتَحِلُ لِزِينَةٍ، حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
صفیہ بنت ابی عبید سے روایت ہے کہ حضرت حفصہ یا عائشہ (رض) سے یا دونوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ جو عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کو جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور میت کا سوگ تین دن سے زائد دن کرے۔ ( ان دونوں آثار کو باب ما جاء فی الاحداد میں امام مالک نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں عورت کے لیے مناسب یہی ہے کہ عدت گزرنے تک وہ اپنے شوہر کا سوگ منائے۔ جب تک عدت نہ گزر جائے۔ نہ خوشبولگائے نہ زینت کے لیے تیل و سرمہ لگائے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

593

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا وَهِيَ فِي بَيْتِ بِكِرَاءٍ، عَلَى مَنِ الْكِرَاءُ؟ قَالَ: عَلَى زَوْجِهَا، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَ زَوْجِهَا؟ قَالَ: فَعَلَيْهَا، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهَا؟ قَالَ: فَعَلَى الْأَمِيرِ.
سعید بن مسیب (رح) سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک ایسی عورت کے متعلق سوال کیا گیا جس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہو اور وہ کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہو۔ تو کرایہ کس کو ادا کرنا ہوگا۔ سعید فرمانے لگے ۔ اس عورت کے شوہر پر۔ ان لوگوں نے سوال کیا اگر شوہر کے پاس کچھ نہ ہو تو فرمایا پھر عورت پر۔ لوگوں نے سوال کیا اگر عورت کے پاس بھی کجھ نہ ہو تو سعید کہنے لگے۔ امیر پر واجب ہے۔ (اس اثر کو امام مالک نے باب ما جاء فی عدۃ المرأۃ میں ذکر کیا ہے)

595

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «عِدَّةُ أُمِّ الْوَلَدِ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا سَيِّدُهَا حَيْضَةٌ»
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ام ولد کا آقا فوت ہوجائے تو اس کی عدت ایک حیض ہے۔
(اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب عدۃ ام الولد میں ذکر کیا ہے)

597

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، أَنَّ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سُئِلَ عَنْ عِدَّةِ أُمِّ الْوَلَدِ؟ فَقَالَ: «لا تُلْبِسُوا عَلَيْنَا فِي دِينِنَا إِنْ تَكُ أَمَةً فَإِنَّ عِدَّتَهَا عِدَّةُ حُرَّةٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
رجاء بن حیوہ (رح) نے عمرہ بن عاص (رض) سے روایت کی ہے کہ ان سے ام ولد کی عدت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا ہمارے دین کے متعلق ہمیں اشتباہ میں مت ڈالو۔ اس کی عدت آزاد عورت کی عدت ہے اگرچہ وہ لونڈی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ اور ابراہیم نخعی رحمہا اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے۔

598

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «الْخَلِيَّةُ وَالْبَرِيَّةُ ثَلاثُ تَطْلِيقَاتٍ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا»
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ خلیہ اور بریہ کے الفاظ میں سے ہر ایک لفظ تین طلاقیں ہیں۔

599

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ تَحْتَهُ وَلِيدَةٌ فَقَالَ لأَهْلِهَا: شَأْنَكُمْ بِهَا؟ قَالَ الْقَاسِمُ: فَرَأَى النَّاسُ أَنَّهَا تَطْلِيقَةٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا نَوَى الرَّجُلُ بِالْخَلِيَّةِ وَبِالْبَرِيَّةِ ثَلاثَ تَطْلِيقَاتٍ فَهِيَ ثَلاثُ تَطْلِيقَاتٍ وَإِذَا أَرَادَ بِهَا وَاحِدَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنٌ، دَخَلَ بِامْرَأَتِهِ، أَوْ لَمْ يَدْخُلْ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
قاسم بن محمد (رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کے نکاح میں ایک لونڈی تہی اس نے لونڈی کے مالک کو کہا۔ تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ لوگوں نے اس کو طلاق سمجھا۔ (اس اثرکو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الخلیۃ والبریہ میں ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے کہ خلیہ اور بریہ کے الفاظ سے تین طلاق طلاق کا ارادہ کرلیا جائے تو تین طلاق واقع ہوجائیں گی۔ جب دو کا ارادہ کرے یا کچھ بھی اردہ نہ کرے تو یہ ایک طلاق بائنہ ہوگی۔ خواہ اپنی بیوی سے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔

600

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟» ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «مَا أَلْوَانُهَا؟» ، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: «فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَاقٍ؟» ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَبِمَا كَانَ ذَلِكَ؟» ، قَالَ: أُرَاهُ نَزَعَهُ عِرْقٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «فَلَعَلَّ ابْنَكَ نَزَعَهُ عِرْقٌ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَنْتَفِيَ مِنْ وَلَدِهِ بِهَذَا وَنَحْوِهِ
سعید بن مسیب (رح) ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اور اس نے کہا میری بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس کا رنگ سیاہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارے ہاں اونٹ ہیں۔ اس نے کہا جی ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا۔ کس رنگ کے ہیں اس نے کہا سرخ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا ایسا کیوں ہوا ؟ اس نے کہا کسی رگ نے اسے کھینچا ہوگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیرے بچہ کو بھی کسی رگ (آبائی) نے کھینچا ہوگا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ اپنے بچے کو اس قسم کے شبہ کی بناء پر مسترد کردے۔

603

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ مِثْلَ ذَلِكَ.
زہری کہتے ہیں کہ ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بھی اسی طرح کہتے تھے۔

604

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، وَزَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ: الأَحْوَصُ، طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ مَاتَ حِينَ دَخَلَتْ فِي الدَّمِ مِنَ الْحَيْضَةِ الثَّالِثَةِ، فَقَالَتْ: أَنَا وَارِثَتُهُ، وَقَالَ بَنُوهُ: لا تَرِثِينَهُ، فَاخْتَصَمُوا إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَسَأَلَ مُعَاوِيَةُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ وَنَاسًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُمْ عِلْمًا فِيهِ، فَكَتَبَ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: «أَنَّهَا إِذَا دَخَلَتْ فِي الدَّمِ مِنَ الْحَيْضَةِ الثَّالِثَةِ فَإِنَّهَا لا تَرِثُهُ، وَلا يَرِثُهَا، وَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ وَبَرِئَ مِنْهَا» ،
زید بن اسلم و نافع رحمہما اللہ سے روایت ہے کہ سلیمان بن ی سار (رح) نے بیان کیا ایک شامی نے جس کا نام احوص تھا اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ فوت ہوگیا۔ جب اس کی عورت کو تیسیرا حیض آیا تو اس نے کہا میں اس کی وراثت میں شریک ہوں۔ اس کی اولاد نے اس کی وراثت میں حصہ دینے سے انکار کردیا تو یہ معاملہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے پاس پہنچا۔ امیر معاویہ (رض) نے فضالہ بن ع بید (رض) کو تحریر کیا اور شام والوں سے اس مسئلہ میں دریافت کیا۔ انھیں اس کے متعلق علم نہ تھا تو حضرت امیر رمعاویہ نے زید بن ثابت (رض) کو لکھا۔ حضرت زید بن ثابت (رض) نے جواب میں لکھا کہ جب وہ تیسرے حیض میں داخل ہوگئی تو نہ خاوند اس کا وارث رہا اور نہ وہ خاوند کی وارث رہی ۔ نہ خاوند کا اس سے تعلق رہا اور نہ اس کا خاوند سے کوئی واسطہ رہا۔

605

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: انْقِضَاءُ الْعِدَّةِ عِنْدَنَا الطَّهَارَةُ مِنَ الدَّمِ مِنَ الْحَيْضَةِ الثَّالِثَةِ إِذَا اغْتَسَلَتْ مِنْهَا
نافع (رح) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ( ان آثار اور روایات بالا کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الاقراء و عدۃ الطلاق میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارے ہاں عدت اس وقت پوری ہوتی ہے جب تیسرے حیض سے فارغ ہوجائے اور اس سے غسل کرلے۔
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل روایات نقل کی جاتی ہیں

606

أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، " أَنَّ رَجُلا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، ثُمَّ تَرَكَهَا حَتَّى انْقَطَعَ دَمُهَا مِنَ الْحَيْضَةِ الثَّالِثَةِ وَدَخَلَتْ مُغْتَسَلَهَا، وَأَدْنَتْ مَاءَهَا، فَأَتَاهَا فَقَالَ لَهَا: قَدْ رَاجَعْتُكِ، فَسَأَلَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ ذَلِكَ وَعِنْدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ عُمَرُ: قُلْ فِيهَا بِرَأْيِكَ، فَقَالَ: أُرَاهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَحَقَّ بِرَجْعَتِهَا مَا لَمْ تَغْتَسِلْ مِنْ حَيْضَتِهَا الثَّالِثَةِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَأَنَا أَرَى ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: «كُنَيْفٌ مُلِئَ عِلْمًا»
ابراہیم نخعی (رح) سے نقل کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے دی۔ پھر اسے چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اس کے تیسرے حیض کا خون موقوف ہوگیا۔ وہ غسل خانہ میں گئی۔ غسل کے لیے پانی کے قریب گئی ہی تھی کہ اس کا شوہر آگیا اور اس نے کہا میں تجھ سے رجوع کرتا ہوں۔ اس عورت نے عمر بن خطاب (رض) سے مسئلہ دریافت کیا۔ اس وقت وہاں عبداللہ بن مسعود (رض) موجود تھے۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے کہا کہ اس کے متعلق اپنی رائے دیں۔ ابن مسعود (رض) کہنے لگے اے امیر المؤمنین ! میری رائے میں وہ اس سے رجوع کا زیادہ حقدار ہے۔ جت تیسرے حیض سے پاک ہو کر وہ غسل نہ کرلے۔ حضرت امیر المؤمنین ر ضی اللہ عنہ نے کہا میری رائے بھی یہی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ابن مسعود (رض) سے فرمایا تم تو علم سے بھرا ہوا خیمہ ہو۔

607

أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «هُوَ أَحَقُّ بِهَا حَتَّى تَغْتَسِلَ مِنْ حَيْضَتِهَا الثَّالِثَةِ»
سعید بن مسیب (رح) نے علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ شوہر رجوع کا زیادہ حق دار ہے جب تک بیوی تیسرے حیض سے غسل کر کے پاک نہ ہوجائے۔

608

أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ أَبِي عِيسَى الْخَيَّاطُ الْمَدِينِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ ثَلاثَةَ عَشَرَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ قَالُوا: " الرَّجُلُ أَحَقُّ بِامْرَأَتِهِ حَتَّى تَغْتَسِلَ مِنْ حَيْضَتِهَا الثَّالِثَةِ، قَالَ عِيسَى: وَسَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: الرَّجُلُ أَحَقُّ بِامْرَأَتِهِ حَتَّى تَغْتَسِلَ مِنْ حَيْضَتِهَا الثَّالِثَةِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
شعبی (رح) نے تیر (١٣) صحابہ کرام (رض) عنہم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ تمام اس بات کے قائل تھے کہ شوہر اپنی بیوی کو لوٹالینے کا زیادہ حقدار ہے۔ جب تک وہ تیسرے حیض سے پاک ہو کر غسل نہ کرلے۔ راوی عیسیٰ (رح) کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب (رح) کو کہتے سنا کہ مرد اپنی بیوی کو لوٹانے کا زیادہ حق دار ہے جب تک کہ وہ تیسرے حیض سے پاک ہو کر غسل نہ کرلے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور ہمارے امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہاء اسی قول کو لیتے ہیں۔

609

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَدِّهِ امْرَأَتَانِ هَاشِمِيَّةٌ، وَأَنْصَارِيَّةٌ، فَطَلَّقَ الأَنْصَارِيَّةَ وَهِيَ تُرْضِعُ، وَكَانَتْ لا تَحِيضُ وَهِيَ تُرْضِعُ فَمَرَّ بِهَا قَرِيبٌ مِنْ سَنَةٍ، ثُمَّ هَلِكَ زَوْجُهَا حِبَّانُ عِنْدَ رَأْسِ السَّنَةِ، أَوْ قَرِيبٌ مِنْ ذَلِكَ لَمْ تَحِضْ، فَقَالَتْ: أَنَا أَرِثُهُ مَا لَمْ أَحِضْ، فَاخْتَصَمُوا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «فَقَضَى لَهَا بِالْمِيرَاثِ» ، فَلامَتِ الْهَاشِمِيَّةُ عُثْمَانَ، فَقَالَ: «هَذَا عَمَلُ ابْنِ عَمِّكِ هُوَ أَشَارَ عَلَيْنَا بِذَلِكَ» ، يَعْنِي عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ
محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا کی دو بیویاں تھیں۔ ایک ہاشمی دوسری انصاری، میرے دادا نے انصاریہ کو طلاق دے دی۔ جب تک وہ دودھ پلاتی رہتی تھیں ان کو حیض نہ آتا تھا۔ جب ان کو طلاق دی گئی اس وقت وہ دودھ پلا رہی تھی۔ بچے کو دودھ پلاتے ہوئے پورا سال گزر کیا۔ ( ان کو ایک بھی حیض نہ آیا) اسی دورارن ( میرے دادا) ان کے خاوند ابن حبان (رض) کا انتقال ہوگیا۔ اس بر ایک سال کے قریب عدت گزری اور انھیں حیض نہ آیا۔ ( کیونکہ بچہ ابہی دودھ پی رہا تھا) انھوں نے ترکہ کا دعوی کردیا۔ کیونکہ مجھے حیض نہیں آیا ہے۔ (میں ان کی عدت میں تھی کہ ان کا انقال ہوا ہے) چنانچہ وہ حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں استغاثہ کے لیے گئیں۔ انھوں نے اس عورت کے حق میں میراث کا فیصلہ کردیا۔ ہاشمیہ زوجہ نے حضرت عثمان (رض) کو ملامت کی۔ تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا یہ تمہارے عم زاد کا عمل ہے۔ عم زاد سے ان کی مراد علی بن ابی طالب (رض) تھے۔

611

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ قَيْسٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ طَلاقًا يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ فَحَاضَتْ حَيْضَةً، أَوْ حَيْضَتَيْنِ، ثُمَّ ارْتَفَعَ حَيْضُهَا عَنْهَا ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ مَاتَتْ فَسَأَلَ عَلْقَمَةُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «هَذِهِ امْرَأَةٌ حَبَسَ اللَّهُ عَلَيْكَ مِيرَاثُهَا فَكُلْهُ» ،
ابراہیم نخی (رح) فرماتے ہیں کہ علقمہ بن قیص نے اپنی بیوی کو طلاق رجعیہ دے دی۔ اسے ایک یا دو حیض آئے پھر اٹھارہ ماہ تک اس کا حیض بند رہا۔ پھر اس کی وفات ہوگئی۔ تو علقمہ (رح) نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا عورت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا ترکہ روک رکھا تو تم ( اس ترکہ کے وارث ہو) پس تم اسے کھاؤ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔