HADITH.One
پڑھنے کی ترتیبات
Urdu
System
عربی فونٹ منتخب کریں
Kfgq Hafs
ترجمہ فونٹ منتخب کریں
Noori_nastaleeq
22
17
عام ترتیبات
عربی دکھائیں
ترجمہ دکھائیں
حوالہ دکھائیں
حدیث دو حصوں میں دیکھیں
صدقہ جاریہ میں حصہ لیں
ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔
عطیہ کریں۔
Muawtta Imam Muhammad
8. طلاق کا بیان۔
موطأ الامام محمد
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقْرَأُ: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِقُبُلِ عِدَّتِهِنَّ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: طَلاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا لِقُبُلِ عِدَّتِهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ حِينَ تَطْهُرُ مِنْ حَيْضِهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو قرآن مجید کی یہ آیت یا ایہا الذین امنوا اذا طلقتمن النساء فطلقوہن لقبل عدتہن ۔ اس طرح پڑھتے سنا ( اے ایمان والو ! جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت سے کچھ پہلے دو )
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ طلاق سنت یہ ہے کہ آدمی اس کی عدت سے کچھ پہلے حالت طہارت میں اسے طلاق دے اور اس طہر میں جماع بھی نہ کرے ؎ دوسری طلاق دوسرے طہر میں دے۔ اسی طرح تیسیر طلاق تیسرے طہر میں دے ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاوء کا مسلک ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ طلاق سنت یہ ہے کہ آدمی اس کی عدت سے کچھ پہلے حالت طہارت میں اسے طلاق دے اور اس طہر میں جماع بھی نہ کرے ؎ دوسری طلاق دوسرے طہر میں دے۔ اسی طرح تیسیر طلاق تیسرے طہر میں دے ۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاوء کا مسلک ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اپنی بیوی کو طلاق دی اس وقت میری بیوی حالت حیض میں تھی۔ (میرے والد) عمر (رض) نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں کیا اور اس کا حکم دریافت کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ عبداللہ رجوع کرے پھر اس کی بیوی حیض سے پاک ہوجائے پھر اسے حیض آئے اور وہ اس سے پاک ہوجائے۔ اس کے بعد چاہے تو اسے روک لے اور خواہ مباشرت سے قبل اسے طلاق دے دے۔ پس یہی وہ عدت ہے جس کا للہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ اس کے لیے عورتوں کو طلاق دی جائے (فطلقوہن لعدتہن میں اسی طرح اشارہ ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ نُفَيْعًا مُكَاتِبَ أُمِّ سَلَمَةَ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ، فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَتَيْنِ، فَاسْتَفْتَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ: فَقَالَ: «حَرُمَتْ عَلَيْكَ»
سعید بن مسیب (رح) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) عنہا کا مکاتب جس کا نام نفیع تھا۔ اس کے نکاح میں ایک آزاد عورت تہی اس نے اپنی اس بیوی کے دو طلاقیں دے دیں۔ پھر اس سے رجوع کرنا چاہا تو ازواج مطہرات (رض) عنہن نے اسے کہا کہ وہ حضرت عثمان (رض) کے خدمت میں جائے اور مسئلہ دریافت کرے چنانچہ وہ حضرت عثمان (رض) کو مقام درج میں جاکر ملاد جبکہ وہ حضرت زید بن ثابت (رض) کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور ان سے اپنی بیوی کے متعلق دریافت کیا تو دونوں نے فرمایا وہ تجھ پر حرام ہوگئی۔ وہ تجھ پر حرام ہوگئی۔ (یہ اثر امام مالک (رض) نے باب ما جاء فی طلاق العبد میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ نُفَيْعًا كَانَ عَبْدًا لأُمِّ سَلَمَةَ، أَوْ مُكَاتِبًا، وَكَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ، فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَتَيْنِ، فَأَمَرَهُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عُثْمَانَ فَيَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَلَقِيَهُ عِنْدَ الدَّرَجِ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَسَأَلَهُ فَابْتَدَرَاهُ جَمِيعًا، فَقَالا: «حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَرُمَتْ عَلَيْكَ»
سلیمان بن یسار (رح) بیان کرتے ہیں کہ نفیع حضرت سلمہ (رض) عنہا کا مکاتب یا غلام تھا۔ ان کی زوجیت میں ایک آزاد عورت تھی۔ فقیع نے اسے دو طلاقیں دے دیں ۔ پھر اس سے رجوع کرنا چاہا تو ازواج مطہرات (رض) عنہن نے اسے کہا کہ حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں جائے اور مسئلہ دریافت کرے چنانچہ وہ حضرت عثمان (رض) کو مقام درج مں ن جاکر ملاد جبکہ وہ حضرت زید بن ثابت (رض) کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور ان سے اپنی بیوی کے متعلق دریافت کیا تو دونوں نے فرمایا وہ تجھ پر حرام ہوگئی۔ وہ تجھ پر حرام ہوگئی۔ ( یہ اثر امام مالک (رض) نے باب ما جاء فی طلاق العبد میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «إِذَا طَلَّقَ الْعَبْدُ امْرَأَتَهُ اثْنَتَيْنِ فَقَدْ حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، حُرَّةً كَانَتْ، أَوْ أَمَةً، وَعِدَّةُ الْحُرَّةِ ثَلاثَةُ قُرُوءٍ وَعِدَّةُ الأَمَةِ حَيْضَتَانِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي هَذَا، فَأَمَّا مَا عَلَيْهِ فُقَهَاؤُنَا فَإِنَّهُمْ يَقُولُونَ: الطَّلاقُ بِالنِّسَاءِ وَالْعِدَّةُ بِهِنَّ لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] ، فَإِنَّمَا الطَّلاقُ لِلْعِدَّةِ فَإِذَا كَانَتِ الْحُرَّةَ وَزَوْجُهَا عَبْدٌ فَعِدَّتُهَا ثَلاثَةُ قُرُوءٍ وَطَلاقُهَا ثَلاثَةُ تَطْلِيقَاتٍ لِلْعِدَّةِ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَإِذَا كَانَ الْحُرُّ تَحْتَهُ الأَمَةُ فَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ، وَطَلاقُهَا لِلْعِدَّةِ تَطْلِيقَتَانِ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا جب کوئی غلام اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام دونوں صورتوں میں وہ عورت اس پر حرام ہوگئی۔ جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔ آزاد عورت کی عدت تین حیض ہے اور لونڈی کی عدت دو حیض ہے۔ (یہ اثر ممؤطا امام مالک ما جاء فی طلاق العبد میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے فقہاء احناف (رح) یہ کہتے ہیں کہ طلاق اور عدت میں عورتوں کا اعتبار کیا چائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے فطلقوہن لعدتہن ۔ پس طلاق عدت کے لحاظ سے ہے۔ جب بیوی آزاد عورت ہو اور شوہر غلام ہو تو اس کی عدت تین طہر ہوگی ۔ اور عدت کے لیے اس کی طلاقیں بھی تین ہوں گی۔ جیسا کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا اور جب شوہر آزاد ہو اور بیوی لونڈی ہو تو اس کی عدت دو حیض ہو کی اور عدت کے لیے اس کی طلاقیں بھی ہوں گی۔ جیسا کہ اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے فقہاء احناف (رح) یہ کہتے ہیں کہ طلاق اور عدت میں عورتوں کا اعتبار کیا چائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے فطلقوہن لعدتہن ۔ پس طلاق عدت کے لحاظ سے ہے۔ جب بیوی آزاد عورت ہو اور شوہر غلام ہو تو اس کی عدت تین طہر ہوگی ۔ اور عدت کے لیے اس کی طلاقیں بھی تین ہوں گی۔ جیسا کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا اور جب شوہر آزاد ہو اور بیوی لونڈی ہو تو اس کی عدت دو حیض ہو کی اور عدت کے لیے اس کی طلاقیں بھی ہوں گی۔ جیسا کہ اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے۔
قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ الْمَكِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، يَقُولُ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: " الطَّلاقُ بِالنِّسَاءِ وَالْعِدَّةُ بِهِنَّ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
محمد (رح) کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح (رح) نے کہا حضرت علی مرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا ” طلاق عورتوں کے اعتبار سے ہے اور عدت بہی عورتوں کے لحاظ سے ہوگی۔ یہی عبد الہ بن مسعود (رض) کا ارشاد ہے۔ اور ہمارے فقہاء احناف عام طور پر اسی طرف گئے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «مَنْ أَذِنَ لِعَبْدِهِ فِي أَنْ يَنْكِحَ فَإِنَّهُ لا يَجُوزُ لامْرَأَتِهِ طَلاقٌ إِلا أَنْ يُطَلِّقَهَا الْعَبْدُ، فَأَمَّا أَنْ يَأْخُذَ الرَّجُلُ أَمَةَ غُلامِهِ، أَوْ أَمَةَ وَلِيدَتِهِ، فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو نکاح کی اجازت دی تو اس کی بیوی کو طلاق دینے کا حق ( بھی غلام کو تفویض ہوگیا) صرف وہ غلام ہی اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ البتہ وہ شخص اپنے غلام کی لونڈی یا اپنی لونڈی کی لونڈی کو لے لے تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ (کیونکہ اس کی ملک اس کی اپنی ملک ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، «أَنَّ مَوْلاةً لِصَفِيَّةَ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا بِكُلِّ شَيْءٍ لَهَا، فَلَمْ يُنْكِرْهُ ابْنُ عُمَرَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَا اخْتَلَعَتْ بِهِ امْرَأَةٌ مِنْ زَوْجِهَا فَهُوَ جَائِزٌ فِي الْقَضَاءِ، وَمَا نُحِبُّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا، وَإِنْ جَاءَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا، فَأَمَّا إِذَا جَاءَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهِ لَمْ نُحِبَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا قَلِيلا وَلا كَثِيرًا، وَإِنْ أَخَذَ فَهُوَ جَائِزٌ فِي الْقَضَاءِ، وَهُوَ مَكْرُوهٌ لَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ تَعَالَى، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ صفیہ (رض) عنہا کی آزاد کردہ لونڈی نے اپنی تمام اشیاء دے کر اپنے خاوند سے خلع حاصل کرلیا۔ تو عبداللہ بن عمر (رض) نے اس بات کو ناپسند نہ (بلکہ رضامندی کا اظہار فرمایا) اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب ما جاء فی الخلع میں ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) ہے : کہ عورت اپنے خاوند سے جس چیز پر بہی خلع کرے فتوی و قضاء کے لحاظ سے یہ جائز ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بات پسندیدہ نہیں کہ خاوند اپنے مہر کی مقدار سے زیادہ رقم لے۔ اگرچہ زیادتی اور اختلاف کی ابتداء عورت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ (یہ خلاف مروت ہے) اور اگر اختلاف مرد ہی طرف سے ہو تو ہم پسند نہیں کرتے کہ وہ اس مقدار مہر سے تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی لے ۔ البتہ بلحاظ فتوی لینا درست ہے۔ لیکن بندے اور اللہ تعالیٰ (حقوق اللہ) کے لحاظ سے مکروہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) ہے : کہ عورت اپنے خاوند سے جس چیز پر بہی خلع کرے فتوی و قضاء کے لحاظ سے یہ جائز ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بات پسندیدہ نہیں کہ خاوند اپنے مہر کی مقدار سے زیادہ رقم لے۔ اگرچہ زیادتی اور اختلاف کی ابتداء عورت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ (یہ خلاف مروت ہے) اور اگر اختلاف مرد ہی طرف سے ہو تو ہم پسند نہیں کرتے کہ وہ اس مقدار مہر سے تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی لے ۔ البتہ بلحاظ فتوی لینا درست ہے۔ لیکن بندے اور اللہ تعالیٰ (حقوق اللہ) کے لحاظ سے مکروہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جُمْهَانَ مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أُمِّ بَكْرٍ الأَسْلَمِيَّةِ، أَنَّهَا اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَسِيدٍ، ثُمَّ أَتَيَا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: «هِيَ تَطْلِيقَةٌ إِلا أَنْ تَكُونَ سَمَّتْ شَيْئًا فَهُوَ عَلَى مَا سَمَّتْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ إِلا أَنْ يَكُونَ سَمَّى ثَلاثًا، أَوْ نَوَاهَا فَيَكُونُ ثَلاثًا
اسلمیین کے غلام جمہان (رح) نے بیان کیا کہ ام بکر اسلمیہ (رض) عنہا نے اپنے شوہر عبداللہ بن اسید (رض) عنے خلع حاصل کرلیا۔ پھر دونوں حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں آئے تاکہ اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کریں۔ آپ نے فرمایا یہ ایک طلاق ہے۔ مگر یہ کہ وہ عورت اگر دو یا تین کا نام لے تو اتنی تعداد میں ہوجائیں گی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے۔ اگر تین کا نام لے یا تین کی نیت کرے تو تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے۔ اگر تین کا نام لے یا تین کی نیت کرے تو تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّ رَجُلا سَأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ": إِنِّي قُلْتُ: إِنْ تَزَوَّجْتُ فُلانَةً فَهِيَ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي، قَالَ: إِنْ تَزَوَّجْتَهَا فَلا تَقْرَبْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ يَكُونُ مُظَاهِرًا مِنْهَا إِذَا تَزَوَّجَهَا فَلا يَقْرَبْهَا حَتَّى يُكَفِّرَ
قاسم بن محمد (رح) کہتے ہیں کہ عمر فاروق (رض) سے ایک آدمی نے مسئلہ دریافت کیا کہ میں نے اس طرح کہا ہے اکر میں فلاں عورت سے شادی کروں تو وہ میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے۔ تو حضرت عمر (رض) نے جوابا فرمایا اکر تم نے اس سے نکاح کرلیا تو جب تک کفارہ ادا نہ کروگے اس کے قریب نہیں جاسکتے ہو۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے کہ اگر اس سے شادی کرلی تو گویا اس سے ظہار واقع ہوگیا۔ وہ جب تک کفارہ ظہار ادا نہ کردے اس وقت تک اس عورت سے مجامعت نہیں کرسکتا۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے کہ اگر اس سے شادی کرلی تو گویا اس سے ظہار واقع ہوگیا۔ وہ جب تک کفارہ ظہار ادا نہ کردے اس وقت تک اس عورت سے مجامعت نہیں کرسکتا۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا عِنْدَهُ، فَأَتَاهُ بَعْضُ بَنِي أَبِي عَتِيقٍ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ لَهُ: «مَا شَأْنُكَ؟» ، فَقَالَ: مَلَّكْتُ امْرَأَتِي أَمْرَهَا بِيَدِهَا فَفَارقَتْنِي، فَقَالَ لَهُ: «مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟» ، قَالَ: الْقَدَرُ، قَالَ لَهُ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: «ارْتَجِعْهَا إِنْ شِئْتَ، فَإِنَّمَا هِيَ وَاحِدَةٌ وَأَنْتَ أَمْلَكُ بِهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا عِنْدَنَا عَلَى مَا نَوَى الزَّوْجُ فَإِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَهُوَ خَاطِبٌ مِنَ الْخُطَّابِ، وَإِنْ نَوَى ثَلاثًا فَثَلاثٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا , وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ
خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں زید بن ثابت کے پاس بیٹھا تھا۔ اس وقت ابی عتیق کا ایک بیٹا يیا اس کی آنکھوں سے آنسو روان تھے ۔ حضرت زید (رض) نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ؟ اس نے کہا میں نے اپنی بیوی کو طلاق کا حق دے دیا تھا۔ تو اس نے مجھ سے جدائی اختا ر کرلی ہے۔ حضرت زید بن ثابت (رض) نے فرمایا تمہیں اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا ۔ اس نے جواب دیا تقدیر نے آپ نے فرمایا۔ اگر پسند کرتے ہو تو اس سے رجوعو کرلو۔ کیونکہ یہ ایک طلاق ہے اور تمہیں اس کا رجوع کا حق حاصل ہے اور تم دوسروں کی نسبت اس (عورت) کے زیادہ حقدار ہو۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب ما یجب فیہ تطلیقہ واخذہ من التملیک میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارے ہاں یہ شوہر کی نیت پر موقوف ہے۔ اگر وہ ایک طلاق کی نیت کرے تو یہ طلاق بائنہ ہوگی اور اس کی حیثیت ایک پیغام رساں کی سی ہوگی۔ اگر اس نے تین کی نیت کی تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔ حضرت عثمان اور علی مرتضی (رض) نے فرمایا۔ فیصلہ وہ ہے جو وہ عورت کرے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارے ہاں یہ شوہر کی نیت پر موقوف ہے۔ اگر وہ ایک طلاق کی نیت کرے تو یہ طلاق بائنہ ہوگی اور اس کی حیثیت ایک پیغام رساں کی سی ہوگی۔ اگر اس نے تین کی نیت کی تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے۔ حضرت عثمان اور علی مرتضی (رض) نے فرمایا۔ فیصلہ وہ ہے جو وہ عورت کرے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنَّهَا زَوَّجَتْ حَفْصَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ غَائِبٌ بِالشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: وَمِثْلِي يُصْنَعُ بِهِ هَذَا، وَيُفْتَاتُ عَلَيْهِ بِبَنَاتِهِ؟ فَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ الْمُنْذِرَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: فَإِنَّ ذَلِكَ فِي يَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا لِي رَغْبَةٌ عَنْهُ وَلَكِنَّ مِثْلِي لَيْسَ يُفْتَاتُ عَلَيْهِ بِبَنَاتِهِ، وَمَا كُنْتُ لأَرُدَّ أَمْرًا قَضَيْتِهِ، فَقَرَّتِ امْرَأَتُهُ تَحْتَهُ وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ طَلاقًا "ٍ
قاسم (رح) کہتے ہیں ام المومنین عائشہ (رض) عنہا نے اپنی بھتیجی حفصہ بنت عبد الرحمن (رض) کا نکاح منذر بن زبیر (رح) کردیا۔ جب کہ عبد الارحمن (رض) شام گئے ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو انھوں نے کہا مجھ سے ایسا کیا کیا ہے کہ بیورحں کے سلسلہ میں رائے نہیں لی گئید حضرت عائشہ (رض) عنہا نے منذر بن زبیر (رح) سے گفتگو کی تو منذر نے کہ یہ معاملہ عبد الرحمن کے ہاتھ میں ہے۔ ( وہ جیسے چاہیں فیصلہ فرمادیں میں راضی ہوں) عبد الرحمن کہنے لگے مجھے منذر سے انکار نہیں۔ لیکن مجھ ہی سے ایسا کرنا تھا کہ بیٹیوں کے معاملہ میں مجھ سے رائے نہیں لی گئی۔ لیکن تم جو کرچکی ہو میں اسے رد نہیں کرتا۔ چنانچہ حفصہ منذر کے نکاح میں رہیں اور طلاق نہ ہوئی۔ ( اس روایت کو باب ما لا یبین من التملیک میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ كَانَتْ تَحْتَهُ وَلِيدَةٌ، فَأَبَتْ طَلاقَهَا، ثُمَّ اشْتَرَاهَا، أَيَحِلُّ أَنْ يَمَسَّهَا؟ فَقَالَ: «لا يَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
ابو عبد الرحمن نقل کرتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے فرمایا جب کہ ان سے ایک شخص نے دریافت کیا جس شخص کے نکاح میں لونڈی تھی۔ اس نے اسے طلاق مغلظہ دے دی۔ پھر اس لونڈی کو خرید لیا کیا وہ اس لونڈی سے اب مباشرت کرسکتا ہے ؟ انھوں نے جوابا فرمایا۔ اس کے لیے حلاف نہیں ہے کہ وہ اس سے مباشرت کرے جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔
قول محمد (رح) یہ ہیگ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہیگ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ زَبْرَاءَ مَوْلاةً لِبَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ، وَكَانَتْ أَمَةً فَأُعْتِقَتْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهَا حَفْصَةُ، وَقَالَتْ: إِنِّي مُخْبِرَتُكِ خَبَرًا، وَمَا أُحِبُّ أَنْ تَصْنَعِي شَيْئًا، «إِنَّ أَمْرَكِ بِيَدِكَ مَا لَمْ يَمَسَّكِ، فَإِذَا مَسَّكِ فَلَيْسَ لَكَ مِنْ أَمْرِكَ شَيْءٌ» ، قَالَتْ: وَفَارَقْتُهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا عَلِمَتْ أَنَّ لَهَا خِيَارًا، فَأَمْرُهَا بِيَدِهَا مَا دَامَتْ فِي مَجْلِسِهَا مَا لَمْ تَقُمْ مِنْهُ، أَوْ تَأْخُذْ فِي عَمَلٍ آخَرَ، أَوْ يَمَسَّهَا، فَإِذَا كَانَ شَيْءٌ مِنْ هَذَا بَطُلَ خِيَارُهَا، فَأَمَّا إِنْ مَسَّهَا وَلَمْ تَعْلَمْ بِالْعِتْقِ، أَوْ عَلِمَتْ بِهِ وَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ لَهَا الْخِيَارُ فَإِنَّ ذَلِكَ لا يُبْطِلُ خِيَارَهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کعبنی عدی بن کعب کی لونڈی جس کا نام زبراء تھا۔ اس نے بتلایا کہ میں ایک غلام کے نکاح میں تہی اور یہ خود لونڈی تھی۔ ان کے آقانے اسے آزادی دے دی۔ تو حضرت حفصہ (رض) عنہا نے اسے بلا کر فرمایا میں تمہیں ایک اطلاق دیتی ہوں۔ مگر یہ ہپسند نہیں کرتی کہ تم اس سلسلہ میں کچھ اقدام کرود وہ اطلاع یہ ہے جب تک تمہارا شوہر تم سے مباشرت نہ کرے اس وقت تک اختیار تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ مباشرت کرے گا تو تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا۔ اس لونڈی نے کہا میں نے اس سے جدائی اختیار کرلی۔ (اس روایت کو باب ما جاء فی الخیام میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ جب لونڈی کو علم ہوجائے کہ اسے خیار حاصل ہو کیا ہے تو اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک وہ اس مجلس میں رہے اور وہاں سے کھڑی نہ ہو یا کسی دوسورے کام میں مشغول نہ ہو یا شوہر نے اس سے مباشرت نہیں کی۔ اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات پیش آجائے تو اس سے حق خیار ختم ہوجاتا ہے۔ اگر شوہر نے اس سے مباشرت کرلی اور اسے آزادی کا علم ہی نہ ہوا یا علم تو ہوا مگر یہ خبر نہ تھی کہ اس کو اخیار حاصل ہے تو ان دونوں صورتوں میں بھی اس کا حق خیار باطل نہ ہوگا۔ یہی امام ابوجنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ جب لونڈی کو علم ہوجائے کہ اسے خیار حاصل ہو کیا ہے تو اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک وہ اس مجلس میں رہے اور وہاں سے کھڑی نہ ہو یا کسی دوسورے کام میں مشغول نہ ہو یا شوہر نے اس سے مباشرت نہیں کی۔ اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات پیش آجائے تو اس سے حق خیار ختم ہوجاتا ہے۔ اگر شوہر نے اس سے مباشرت کرلی اور اسے آزادی کا علم ہی نہ ہوا یا علم تو ہوا مگر یہ خبر نہ تھی کہ اس کو اخیار حاصل ہے تو ان دونوں صورتوں میں بھی اس کا حق خیار باطل نہ ہوگا۔ یہی امام ابوجنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «إِذَا وَضَعَتْ مَا فِي بَطْنِهَا حَلَّتْ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ فِي الطَّلاقِ وَالْمَوْتِ جَمِيعًا، تَنْقَضِي عِدَّتُهَا بِالْوِلادَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) عنہا نے ارشاد فرمایا جب عورت بچہ جنے تو اس کی عدت پوری ہوجاتی ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ طلاق اور موت تمام امور میں اسی پر ہمارا عمل ہے کہ ولادت کے بعد اس کی عدت پوری جاتی ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ طلاق اور موت تمام امور میں اسی پر ہمارا عمل ہے کہ ولادت کے بعد اس کی عدت پوری جاتی ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: إِذَا آلَى الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ فَاءَ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، فَهِيَ امْرَأَتُهُ لَمْ يَذْهَبْ مِنْ طَلاقِهَا شَيْءٌ، فَإِنْ مَضَتِ الأَرْبَعَةُ الأَشْهُرُ قَبْلَ أَنْ يَفِيءَ، فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ وَهُوَ أَمْلَكُ بِالرَّجْعَةِ مَا لَمْ تَنْقَضِ عِدَّتُهَا "، قَالَ: وَكَانَ مَرْوَانُ يَقْضِي بِذَلِكَ.
سعید بن المسیب (رح) فرماتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی سے ایلاء کرلے (مجامعت نہ کرنے کی قسم اٹھالے) پھر چار ماہ گزرنے سے پہلے اس سے رجوع کرلے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اگر رجوع کرنے سے پہلے چارہ ما گزرگئے تو ایک طلاق واقع ہوئی۔ اور وہ رجوع کا زیادہ حقدار ہے۔ جب تک کہ اس کی عدت نہ گزری ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ مروان اسی کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَنْكِحَهَا فَجَاءَ يَسْتَفْتِي، قَالَ: فَذَهَبَتْ مَعَهُ، فَسَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالا: «لا يَنْكِحُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ طَلاقِي إِيَّاهَا وَاحِدَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «أَرْسَلْتَ مِنْ يَدِكَ مَا كَانَ لَكَ مِنْ فَضْلٍ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، لأَنَّهُ طَلَّقَهَا ثَلاثًا جَمِيعًا، فَوَقَعْنَ عَلَيْهَا جَمِيعًا مَعًا، وَلَوْ فَرَّقَهُنَّ وَقَعَتِ الأُولَى خَاصَّةً لأَنَّهَا بَانَتْ بِهَا قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ، وَلا عِدَّةَ عَلَيْهَا فَتَقَعُ عَلَيْهَا الثَّانِيَةُ وَالثَّالِثَةُ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ
محمد بن ایاس بن بکر (رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے مباشرت سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں۔ پھر اس نے اس سے نکاح کرنا چاہا۔ وہ ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) کی خدمت میں مسئلہ معلوم کرنے کی غرض سے حاضر ہوا۔ محمد کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ انھوں نے ارشاد فرمایا۔ وہ عورت اس کے نکاح میں نہیں آسکتی جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔ سائل نے کہا میری تو ایک ہی طلاق تھی۔ ابن عباس (رض) عنہا نے فرمایا تمارے ہاتھ میں جو اختیار تھا وہ تم نے کھودیا۔ (اس روایت کو باب طلاق البکر میں امام مالک (رح) نے ذکر کیا ہے) ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے کیونکہ اس نے تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ اس لیے تمام ایک ساتھ واقع ہوں گی۔ اگر وہ ان میں تفریق کرتا تو صرف پہلی واقع ہوتی اور وہ طلاق بائنہ ہوتی اس سے پہلے کہ وہ کلام کرتا اور اس عورت پر عدت بھی نہیں پس اس پر دوسری اور تیسری طلاق واقع ہوگی جب تک وہ عدت میں ہے۔ جب عدت نہیں تو دوسری، تیسری طلاق بھی نہیں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول ہے کیونکہ اس نے تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ اس لیے تمام ایک ساتھ واقع ہوں گی۔ اگر وہ ان میں تفریق کرتا تو صرف پہلی واقع ہوتی اور وہ طلاق بائنہ ہوتی اس سے پہلے کہ وہ کلام کرتا اور اس عورت پر عدت بھی نہیں پس اس پر دوسری اور تیسری طلاق واقع ہوگی جب تک وہ عدت میں ہے۔ جب عدت نہیں تو دوسری، تیسری طلاق بھی نہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الْمِسْوَرُ بْنُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيُّ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ رِفَاعَةَ بْنَ سِمْوَالٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَمِيمَةَ بِنْتَ وَهْبٍ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثًا، فَنَكَحَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَمَسَّهَا، فَفَارَقَهَا وَلَمْ يَمَسَّهَا، " فَأَرَادَ رِفَاعَةُ أَنْ يَنْكِحَهَا، وَهُوَ زَوْجُهَا الأَوَّلُ الَّذِي طَلَّقَهَا، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُ عَنْ تَزْوِيجِهَا، وَقَالَ: «لا تَحِلُّ لَكَ حَتَّى تَذُوقَ الْعُسَيْلَةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، لأَنَّ الثَّانِيَ لَمْ يُجَامِعْهَا، فَلا يَحِلُّ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى الأَوَّلِ حَتَّى يُجَامِعَهَا الثَّانِي
زبیر بن عبد الرحمن (رح) نے بیان کیا کہ رفاعہ بن سموال نے اپنی بیوی تتمیہ بنت وہب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تین طلاقیں دے دیں۔ تو اس سے عبد الرحمن بن زبیر نے نکاح کرلیا۔ اور اس سے اعراض کیا اور اس سے مقاربت نہ کرسکا۔ تو اس کو طلاق دے دی حالانکہ اس کو چھوا نہ تھا۔ رفاعہ نے جو اس کا سابقہ خاوند تھا ۔ اس عورت دوبارہ نکاح کرنا چاہا۔ اس بات کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا گیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نکاح سے منع فرمادیا۔ اور فرمایا وہ تمہارے لیے حلال نہیں ت ہے۔ جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے مباشرت نہ کرلے۔
(اس روایت کو باب نکاح المحلل و ما اشبہ میں امام مالک نے ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا اسی پر عمل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔ کیونکہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہیں کیا اس لیے اس سے رجوع کرنا پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں۔ جب تک دوسرا شوہر اس سے مباشرت نہ کرلے۔ ( یہ روایت بھی طلاق ثلاثہ کے نفاذ کی واضح دلیل ہے۔ جدید مجتہدین نگاہ ڈالیں)
(اس روایت کو باب نکاح المحلل و ما اشبہ میں امام مالک نے ذکر کیا ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا اسی پر عمل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔ کیونکہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہیں کیا اس لیے اس سے رجوع کرنا پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں۔ جب تک دوسرا شوہر اس سے مباشرت نہ کرلے۔ ( یہ روایت بھی طلاق ثلاثہ کے نفاذ کی واضح دلیل ہے۔ جدید مجتہدین نگاہ ڈالیں)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ اشْتَكَتْ عَيْنَيْهَا وَهِيَ حَادٌّ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمْ تَكْتَحِلْ حَتَّى كَادَتْ عَيْنَاهَا أَنْ تَرْمَصَا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ لا يَنْبَغِي أَنْ تَكْتَحِلَ بِكُحْلِ الزِّينَةِ، وَلا تَدَّهِنَ، وَلا تَتَطَيَّبَ، فَأَمَّا الذُّرُورُ وَنَحْوُهُ فَلا بَأْسَ بِهِ، لأَنَّ هَذَا لَيْسَ بِزِينَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا.
نافع بیان کرتے ہیں کہ صفیہ بنت ابی عبید کی آنکھوں میں تکلیف تہی۔ ور وہ اپنے خاوند عبداللہ بن عمر (رض) کے بعد سوگ کے ایام گزار رہیں تھیں۔ پس انھوں نے سرمہ نہیں لگایا۔ یہاں تک کہ ان کی آنکھیں میل کچیل سے بھر گئیں۔ ( اس روایت کو امام مالک نے باب الاحداد میں ذکر کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا اسی پر عمل ہے۔ عورت کو بطور زینت سرمہ، تیل، خوشبو لگانی جائز نہیں۔ البتہ ذرور نامی دواء لگانا درست ہے۔ کیونکہ وہ زینت کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : کہ ہمارا اسی پر عمل ہے۔ عورت کو بطور زینت سرمہ، تیل، خوشبو لگانی جائز نہیں۔ البتہ ذرور نامی دواء لگانا درست ہے۔ کیونکہ وہ زینت کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، " أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ الْبتَّةَ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ إِلَى مَرْوَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ: اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدِ الْمَرْأَةَ إِلَى بَيْتِهَا، فَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ غَلَبَنِي، وَقَالَ فِي حَدِيثِ الْقَاسِمِ: أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: لا يَضُرُّكَ أَنْ لا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ، قَالَ مَرْوَانُ، إِنْ كَانَ بِكِ الشَّرُّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ مَنْزِلِهَا الَّذِي طَلَّقَهَا فِيهِ زَوْجُهَا طَلاقًا بَائِنًا، أَوْ غَيْرَهُ، أَوْ مَاتَ عَنْهَا فِيهِ حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
سلیمان بن یسار بیان کرتے تھے کہ یحی بن سعید بن عاص نے عبد الرحمن بن حکم کی بیتی کو طلاق مغلظہ دے دی۔ عبد الرحمن نے بیٹی کو گھر بلایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عنہا نے مروان کے پاس پیغام بھیجا جو کہ حاکم مدینہ تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اور بیٹی کو اس کے گھر ب بھیج دو ۔ سلیمان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ مروان نے کہا کہ عبد الرحمنان مجھ پر غالب آگیا ہے “ اور قاسم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ کیا تمہیں فاطمہ بنت قیس کی خبر نہیں ( کہ وہ خاوند بیوی کے جھگڑے کے باعث دوران عدت ہی گھر سے نکل آئیں) حضرت عائشہ (رض) عنہا نے فرمایا اگر تم فاطمہ کی بات بیان نہ کرتے تو تمہارا کوئی نقصان نہ تھا۔ مروان نے کہا اگر آپ کے ہاں فاطمہ کے گھر سے نکلنے کا باعث جھگڑا ہے تو یہاں بھی وہی جھگڑا باعث ہے۔
(اس روایت کو امام مالک احمد نے باب عدۃ المرأۃ فی بیتہا اذا طلغت فیہ میں ذکر ہے
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں عورت کو مناسب نہیں ہی کہ وہ اس مکان سے منتقل ہو جس میں اس کے خاوند نے اس کو طلاق دی ہے۔ خواہ طلاق بائنہ ہو یا طلاق مغلظہ یا جس گھر میں وہ خاوند فوت ہوا ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے۔
(اس روایت کو امام مالک احمد نے باب عدۃ المرأۃ فی بیتہا اذا طلغت فیہ میں ذکر ہے
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں عورت کو مناسب نہیں ہی کہ وہ اس مکان سے منتقل ہو جس میں اس کے خاوند نے اس کو طلاق دی ہے۔ خواہ طلاق بائنہ ہو یا طلاق مغلظہ یا جس گھر میں وہ خاوند فوت ہوا ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ «ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ نُفَيْلٍ طُلِّقَتِ الْبَتَّةَ، فَانْتَقَلَتْ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ابْنُ عُمَرَ»
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ سعید بن زید (رض) کی بیٹی کو طلاق دے دی گئی اور وہ اس گھر سے منتقل ہوگئی تو اس بات کو عبداللہ بن عمر نے ناپسند کیا ( دونوں آثار کو باب ما جاء فی عدۃ المرأۃ میں امام مالک نے ذکر یکا ہے) ۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ ابْنَةِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةٍ، فَإِنَّ زَوْجِي خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ أَدْرَكَهُمْ، فَقَتَلُوهُ، فَقَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْذَنَ لِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فِي بَنِي خُدْرَةٍ فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْنِي فِي مَسْكَنٍ يَمْلِكُهُ، وَلا نَفَقَةٍ، فَقَالَ: «نَعَمْ» ، فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِالْحُجْرَةِ دَعَانِي، أَوْ أَمَرَ مَنْ دَعَانِي، فَدُعِيتُ لَهُ، فَقَالَ: «كَيْفَ قُلْتِ؟» ، فَرَدَّدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «امْكُثِي فِي بَيْتِكَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ» ، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ أَمْرُ عُثْمَانَ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ
زیبب بنت کعب بنت عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان (رض) جو ابو سعید خدری (رض) کی بہن تھیں فرماتی تھیں کہ میں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں اس مقصد کے لیے حاضر ہوئی کہ کیا میں اپنے خاندان بنو خدرہ میں واپس چلی جاؤن ۔ جبکہ میرے شوہر جو مفرور غلاموں کی تلاش میں نکلے تھے۔ وہ ان کو پالینے کے قریب تھے کہ وہ غلام قدوم کے قریب مل گئے اور انھوں نے ان کو قتل کردیا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں رسول لالہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ مجھے اپنے خاوندان بنی خدرہ مں ر لوٹنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ میرے شوہر نے مجھے میرے ذاتی مکان میں نہیں چھوڑا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہان تم جاسکتی ہو۔ میں وہاں سے نکلی اور گھر چھوڑنے کے قریب تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا یا کسی بلانے والے کو بھیجا۔ پس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ تم نے کیا کہا تھا ؟ تو میں پوری بات بیان کردی جو پہلی کہی تھے۔ حضور (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا تم عدت گزارنے تک اپنے اسی گھر میں رہو۔ فریعہ (رض) عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن گزارے۔ فریعہ (رض) عنہا کہتی ہیں کہ عثمان غنی (رض) کا دو خلافت تھا انھوں ن مجھے بلایا اور مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا تو میں نے انھیں یہ بات بتلائی انھوں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ (اس روایت کو باب مقام المتوفی عنہا زوجہا فی بیتہا حتی تحل میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي مَسْكَنِ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ طَرِيقُهُ فِي حُجْرَتِهَا، فَكَانَ يَسْلُكُ الطَّرِيقَ الأُخْرَى مِنْ أَدْبَارِ الْبُيُوتِ إِلَى الْمَسْجِدِ، كَرَاهَةَ أَنْ يَسْتَأْذِنَ عَلَيْهَا حَتَّى رَاجَعَهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا يَنْبَغِي لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ مَنْزِلِهَا الَّذِي طَلَّقَهَا فِيهِ زَوْجُهَا، إِنْ كَانَ الطَّلاقُ بَائِنًا، أَوْ غَيْرَ بَائِنٍ، أَوْ مَاتَ عَنْهَا فِيهِ حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
نافع (رح) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) اپنی زوجہ کو ام المؤمنین حفصہ (رض) کا مسجد کو جانے کا رساتہ حجرہ حفصہ (رض) عنہا کے گھر میں سے تھا۔ پس ابن عمر (رض) گھروں کے پچھلی جانب سے ہو کر دوسرے راستہ سے مسجد جاتے تھے کیونکہ وہ رجوع کے بغیر مطلقعہ کے گھر سے گزرنے کی اجازت لینا ناپسند کرتے تھے۔ ( اس روایت کو باب ما جاء فی عدۃ المرأۃ فی بیتہا میں امام مالک نے نقل کیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ عورت کو طلاق والے مکان سے عدت گزارے بغیر نکلنا جائز نہیں یا جہاں وہ خاوند فوت ہوا ہو۔ خواہ طلاق بائنہ یا مغلظہ۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہم اس کو اختیار کرتے ہیں کہ عورت کو طلاق والے مکان سے عدت گزارے بغیر نکلنا جائز نہیں یا جہاں وہ خاوند فوت ہوا ہو۔ خواہ طلاق بائنہ یا مغلظہ۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، أَنَّهُ قَالَ: «عِدَّةُ أُمِّ الْوَلَدِ ثَلاثُ حِيَضٍ»
یحی بن جزار (رح) نے علی مرتضی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ ام ولد کی عدت میرے نزدیک تین حیض ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أُمَّ حَكِيمٍ بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ كَانَتْ تَحْتَ عِكْرِمَةَ بْنِ أَبِي جَهْلٍ فَأَسْلَمَتْ يَوْمَ الْفَتْحِ، وَخَرَجَ عِكْرِمَةُ هَارِبًا مِنَ الإِسْلامِ حَتَّى قَدِمَ الْيَمَنَ، فَارْتَحَلَتْ أُمُّ حَكِيمٍ حَتَّى قَدِمَتْ فَدَعَتْهُ إِلَى الإِسْلامِ فَأَسْلَمَ، فَقَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبَ إِلَيْهِ فَرَحًا وَمَا عَلَيْهِ رِدَاؤُهُ حَتَّى بَايَعَهُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِذَا أَسْلَمَتِ الْمَرْأَةُ وَزَوْجُهَا كَافِرٌ فِي دَارِ الإِسْلامِ لَمْ يُفَرَّقْ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُعْرَضَ عَلَى الزَّوْجِ الْإِسْلامُ، فَإِنْ أَسْلَمَ فَهِيَ امْرَأَتُهُ وَإِنْ أَبَى أَنْ يُسْلِمَ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَكَانَتْ فُرْقَتُهُمَا تَطْلِيقَةً بَائِنَةً، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ
ام حکیم بنت حارث بن ہشام (رض) عنہا یہ عکرمہ بن ابو جہل کے نکاح میں تھیں۔ وہ فتح مکہ کے دن حلقہ بگوش اسلام ہوگیں۔ عکرمہ اسلام لانے کے خوف سے مکہ سے بھاگ کر یمن کی طرف چل دئیے۔ ام حکیم (رض) عنہا نے سامان سفر باندھا اور ان کے پاس چلی گئیں۔ اور اس کو اسلام کی دعوت دی۔ عکرمنہ اسلام قبول کرلیا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھا تو خوشی کھڑے ہوگئے اس حال میں کہ آپ کی چادر آپ پر نہ تھی یہاں تک کہ انھوں نے بیعت کرلی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جب عورت اسلام لے آئے اور اس کا شوہر دار الاسلام میں کافر ہو۔ تو ان میں تفریق نہ کی جائے گی۔ یہاں تک کہ شوہر پر اسلام پیش کیا جائے۔ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو وہ اسی کی بیوی ہے اور اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرے تو ان میں تفریق کردی جائے گی۔ یہ طلاق بائنہ شمار ہوگی۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے۔
قول محمد (رح) یہ ہے : جب عورت اسلام لے آئے اور اس کا شوہر دار الاسلام میں کافر ہو۔ تو ان میں تفریق نہ کی جائے گی۔ یہاں تک کہ شوہر پر اسلام پیش کیا جائے۔ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو وہ اسی کی بیوی ہے اور اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرے تو ان میں تفریق کردی جائے گی۔ یہ طلاق بائنہ شمار ہوگی۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " انْتَقَلَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ حِينَ دَخَلَتْ فِي الدَّمِ مِنَ الْحَيْضَةِ الثَّالِثَةِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَتْ: صَدَقَ عُرْوَةُ، وَقَدْ جَادَلَهَا فِيهِ نَاسٌ، وَقَالُوا، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {ثَلاثَةَ قُرُوءٍ} [البقرة: 228] ، فَقَالَتْ: صَدَقْتُمْ، وَتَدْرُونَ مَا الأَقْرَاءُ؟ إِنَّمَا الأَقْرَاءُ: الأَطْهَارُ "
عروہ بن زبیر (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) عنہا نے جب کہ ( ان کی بھتیجی) حفصہ بنت عبد الرحمن کو تیسرا حیض شروع ہوا تو وہ عدت سے اٹھ گئیں۔ اپنی دوسری بھتیجی عمرہ بنت عبد الرحمن کو اس کے متعلق ذکر کیا اور کہا کہ عروہ نے سچ کہا ہے۔ بعض لوگوں نی حضرت عائشہ (رض) عنہا سے اس سلسلہ میں مجادلہ کیا اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ثلاثۃ قروء۔ تو عائشہ صدیقہ (رض) عنہا فرمانے لگیں تم نے سچ کہا۔ کیا تم جانتے ہو اقراء کا ہے فرمایا اقراء طہر ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ طُلِّقَتْ فَحَاضَتْ حَيْضَةً، أَوْ حَيْضَتَيْنِ ثُمَّ رُفِعَتْ حَيْضَتُهَا فَإِنَّهَا تَنْتَظِرُ تِسْعَةَ أَشْهُرٍ فَإِنِ اسْتَبَانَ بِهَا حَمْلٌ فَذَلِكَ وَإِلا اعْتَدَّتْ بَعْدَ التِّسْعَةِ ثَلاثَةَ أَشْهُرٍ ثُمَّ حَلَّتْ»
سعید بن المسیب (رح) نے بیان کیا کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ارشاد فرمایا۔ جس عورت کو طلاق دے دی جائے اور اسے ایک یا دو حیض آکر خون رک گیا ہو۔ تو وہ نوماہ تک انتظار کرے۔ اگر حمل ظاہر ہوجائے تو یہ حمل ہے۔ ورنہ نو ماہ کے بعد تین ماہ اور انتظار کرے کے پھر ( عدت سے نکلے : ی اور) حلال ہوگی۔ (اس اثر کو امام مالک (رح) نے باب المراۃ یطلقہا زوجہا طلاقا میں ذکر کیا ہے)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ أَبِي عِيسَى الْخَيَّاطُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ قَيْسٍ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَهُ بِأَكْلِ مِيرَاثِهَا "، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَهَذَا أَكْثَرُ مِنْ تِسْعَةِ أَشْهُرٍ وَثَلاثَةِ أَشْهُرٍ بَعْدَهَا، فَبِهَذَا نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، لأَنَّ الِعَدَّةَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أَرْبَعَةِ أَوْجُهٍ لا خَامِسَ لَهَا: لِلْحَامِلِ حَتَّى تَضَعَ وَالَّتِي لَمْ تَبْلُغِ الْحَيْضَةَ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ، وَالَّتِي قَدْ يَئِسَتْ مِنَ الْمَحِيضِ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ، وَالَّتِي تَحِيضُ ثَلاثُ حِيَضٍ، فَهَذَا الَّذِي ذَكَرْتُمْ لَيْسَ بِعِدَّةِ الْحَائِضِ، وَلا غَيْرِهَا
علقمہ بن قیس (رح) نے ابن عمر (رض) سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو انھوں نے اس عورت کی میراث استعمال کرنے کا حکم صادر فرمایا ( جیسا کہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا تھا)
قول محمد (رح) یہ ہے : عدت نو ماہ اور اس کے بعد تین ماہ سے زائد ہے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔ کیونکہ قرآن عزیز میں عدت کی چار صورتین مذکور ہیں۔ پانچیوں کوئی صورت نہیں۔ نمبر ١ وضع حمل تک۔ نمبر ٢ جو حیض کی عمر کو نہ پہنچی اس کی عدت تین ما۔ نمبر ٣ جو حیض سے مایوسی کی عمر کو پہنچ جائے اس کی عدت تین ماہ ہے۔ نمبر ٤ جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت تین حیض ہے۔ اور یہ جو تم نے ذکر کیا ہے یہ نہ حائضہ کی عدت ہے اور نہ غیر حائضہ کی۔
قول محمد (رح) یہ ہے : عدت نو ماہ اور اس کے بعد تین ماہ سے زائد ہے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء اسی طرف گئے ہیں۔ کیونکہ قرآن عزیز میں عدت کی چار صورتین مذکور ہیں۔ پانچیوں کوئی صورت نہیں۔ نمبر ١ وضع حمل تک۔ نمبر ٢ جو حیض کی عمر کو نہ پہنچی اس کی عدت تین ما۔ نمبر ٣ جو حیض سے مایوسی کی عمر کو پہنچ جائے اس کی عدت تین ماہ ہے۔ نمبر ٤ جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت تین حیض ہے۔ اور یہ جو تم نے ذکر کیا ہے یہ نہ حائضہ کی عدت ہے اور نہ غیر حائضہ کی۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: عِدَّةُ الْمُسْتَحَاضَةِ سَنَةٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَعْرُوفُ عِنْدَنَا أَنَّ عِدَّتَهَا عَلَى أَقْرَائِهَا الَّتِي كَانَتْ تَجْلِسُ فِيمَا مَضَى، وَكَذَلِكَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَغَيْرُهُ مِنَ الْفُقَهَاءِ، وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا، أَلا تَرَى أَنَّهَا تَتْرُكُ الصَّلاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا الَّتِي كَانَتْ تَجْلِسُ لأَنَّهَا فِيهِنَّ حَائِضٌ؟ فَكَذَلِكَ تَعْتَدُّ بِهِنَّ، فَإِذَا مَضَتْ ثَلاثَةُ قُرُوءٍ مِنْهُنَّ بَانَتْ إِنْ كَانَ ذَلِكَ أَقَلَّ مِنْ سَنَةٍ، أَوْ أَكْثَرَ.
سعید بن مسیب ر حمہ اللہ نے فرمایا مستحاضہ کی عدت ایک سال ہے ( اس اثر کو باب جامع عدۃ الطلاق میں ذکر کیا گیا ہے)
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں معروف ہے کہ اس کی عدت اس کے حیض پر موقوف ہے۔ جس لحاظ سے وہ حیض کے ایام عمر میں گزارتی رہی۔ ارہیم نخعی (رح) و دیگر فقہاء نے بھی یہی کہا ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے اکثر فقہاء کا قول ہے۔
ذرا غور تو کرو ! کہ ان ایام میں جب کہ وہ عدت بیٹھتی ہے۔ تو وہ نماز ترک کردیتی ہے کیونکہ ان دونوں میں وہ حائضہ شمار ہوتی ہے۔ فلہذا اسی لحاظ کر کے وہ ایام عدت گزارے گی۔ جب تین ماہ مدت حیض گزر جائے گی تو اس کی عدت تکمیل پذیر ہوگی اور وہ خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ خواہ یہ ایک سال سے کم عرصہ میں ہو یا زیادہ عرصہ میں۔
قول محمد (رح) یہ ہے : ہمارے ہاں معروف ہے کہ اس کی عدت اس کے حیض پر موقوف ہے۔ جس لحاظ سے وہ حیض کے ایام عمر میں گزارتی رہی۔ ارہیم نخعی (رح) و دیگر فقہاء نے بھی یہی کہا ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ہمارے اکثر فقہاء کا قول ہے۔
ذرا غور تو کرو ! کہ ان ایام میں جب کہ وہ عدت بیٹھتی ہے۔ تو وہ نماز ترک کردیتی ہے کیونکہ ان دونوں میں وہ حائضہ شمار ہوتی ہے۔ فلہذا اسی لحاظ کر کے وہ ایام عدت گزارے گی۔ جب تین ماہ مدت حیض گزر جائے گی تو اس کی عدت تکمیل پذیر ہوگی اور وہ خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ خواہ یہ ایک سال سے کم عرصہ میں ہو یا زیادہ عرصہ میں۔
پڑھنے کی ترتیبات
Urdu
System
عربی فونٹ منتخب کریں
Kfgq Hafs
ترجمہ فونٹ منتخب کریں
Noori_nastaleeq
22
17
عام ترتیبات
عربی دکھائیں
ترجمہ دکھائیں
حوالہ دکھائیں
حدیث دو حصوں میں دیکھیں
صدقہ جاریہ میں حصہ لیں
ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔
عطیہ کریں۔