HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Darimi

25. وصیت کا بیان۔

سنن الدارمي

3046

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ
حضرت ابن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کسی مسلمان کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز موجود ہو اس نے اس کی وصیت کرنی ہو اور وہ چیز اس کے پاس دو راتیں گزار دے ماسوائے اس کے کہ اس کی وصیت اس کے پاس تحریری موجود ہو۔

3047

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ الْمُؤْمِنُ لَا يَأْكُلُ فِي كُلِّ بَطْنِهِ وَلَا تَزَالُ وَصِيَّتُهُ تَحْتَ جَنْبِهِ
حسن بیان کرتے ہیں مومن پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتا اور اس کی وصیت ہمیشہ اس کے پاس ہوتی ہے۔

3048

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ لِي ثُمَامَةُ بْنُ حَزْنٍ مَا فَعَلَ أَبُوكَ قُلْتُ مَاتَ قَالَ فَهَلْ أَوْصَى فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ كَانَ وَصِيَّتُهُ تَمَامًا لِمَا ضَيَّعَ مِنْ زَكَاتِهِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد و قَالَ غَيْرُهُ الْقَاسِمُ بْنُ عَمْرٍو
قاسم بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ثمامہ بن حزن نے مجھ سے دریافت کیا تمہارے والد کا کیا حال ہے میں نے جواب دیا ان کا انتقال ہوگیا انھوں نے دریافت کیا انھوں نے وصیت کردی تھی کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص وصیت کردیتا ہے تو اس کی زکوۃ کے حوالے سے جو کمی ہو یہ وصیت اسے پورا کردیتی ہے۔ امام دارمی فرماتے ہیں اس روایت کے راوی قاسم بن عمر (رض) کو دیگر محدثین نے قاسم بن عمر (رض) نے روایت کیا ہے۔

3049

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ كَانَ يُقَالُ مَنْ أَوْصَى بِوَصِيَّةٍ فَلَمْ يَجُرْ وَلَمْ يَحِفْ كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ مَا أَنْ لَوْ تَصَدَّقَ بِهِ فِي حَيَاتِهِ
شعبی ارشاد فرماتے ہیں جو شخص کوئی وصیت کرے اور اس میں کوئی کمی زیادتی یا ناانصافی نہ کرے تو اسے اتناہی اجر ملتا ہے جیسے وہ اپنی زندگی میں اس چیز کو صدقہ کرتا۔

3050

أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي يُونُسَ عَنْ قَزَعَةَ قَالَ قِيلَ لِهَرِمِ بْنِ حَيَّانَ أَوْصِهْ قَالَ أُوصِيكُمْ بِالْآيَاتِ الْأَوَاخِرِ مِنْ سُورَةِ النَّحْلِ وَقَرَأَ ابْنُ حَيَّانَ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ إِلَى قَوْلِهِ وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ
ابوقزعہ بیان کرتے ہیں ہرم بن حیان سے کہا گیا آپ ہمیں کوئی وصیت کریں انھوں نے جواب دیا میں تمہیں سورت نحل کی آخری آیت کی وصیت کرتا ہوں پھرا بن حیان نے ان آیات کی تلاوت کی۔
" اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھے واعظ کے ذریعے دعوت دو اور ان لوگوں کے ساتھ اچھی طرح بحث کرو بیشک تمہارا پروردگار زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے گمراہ ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے بارے میں بھی زیادہ بہتر جانتا ہے اگر تم انھیں جواب دینا چاہتے ہو تو تم انھیں اسی طرح جواب دو جیسے تمہیں دیا گیا تھا اور اگر تم صبر سے کام لو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے تم صبر کرو اور صبر صرف اللہ کی طرف سے ہوسکتا ہے تم ان کے بارے میں غم گین نہ ہو اور جس فریب کاری سے کام لے رہے ہیں اس کے بارے میں تنگی کا شکار نہ ہو۔ بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور جو نیکی کرتے ہیںَ

3051

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ الْيَامِيِّ قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا قُلْتُ فَكَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ فَقَالَ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ و قَالَ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ أَبُو بَكْرٍ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَّ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ وَجَدَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا فَخَزَمَ أَنْفَهُ بِخِزَامَةٍ
طلحہ بن مصرف یامی بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے دریافت کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کی تھی انھوں نے جواب دیا نہیں میں نے پوچھا پھر لوگوں پر وصیت کرنا لازم کیوں کیا گیا یا انھیں وصیت کرنے کا حکم کیوں دیا گیا انھوں نے جواب دیا آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق وصیت کی تھی۔ ہزیل بن شرحبیل بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت کی مکمل طور پر پیروی کرتے تھے ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی بھی حکم پائیں تو اسے اپنے ناک میں لگام کے طور پر لگائیں یعنی اس کی مکمل پیروی کریں۔

3052

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ قَالَ الْخَيْرُ الْمَالُ كَانَ يُقَالُ أَلْفًا فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ
قتادہ کے بارے میں منقول ہے انھوں نے یہ آیت تلاوت کی۔ تو اگر وہ بھلائی چھوڑ کر جارہا ہو تو والدین اور قریبی رشتہ داروں کے بارے میں مناسب طور پر وصیت کردے یہ بات متقین پر لازم ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں یہاں بھلائی سے مراد مال ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ خواہ وہ ایک ہزار ہو یا اس سے زیادہ ہو۔ (وصیت کرنی چاہیے)

3053

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ أَوْصَى ذِكْرُ مَا أَوْصَى بِهِ أَوْ هَذَا ذِكْرُ مَا أَوْصَى بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ بَنِيهِ وَأَهْلَ بَيْتِهِ أَنْ اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ وَأَوْصَاهُمْ بِمَا أَوْصَى بِهِ إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمْ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَأَوْصَاهُمْ أَنْ لَا يَرْغَبُوا أَنْ يَكُونُوا مَوَالِيَ الْأَنْصَارِ وَإِخْوَانَهُمْ فِي الدِّينِ وَأَنَّ الْعِفَّةَ وَالصِّدْقَ خَيْرٌ وَأَتْقَى مِنْ الزِّنَا وَالْكَذِبِ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ فِي مَرَضِي هَذَا قَبْلَ أَنْ أُغَيِّرَ وَصِيَّتِي هَذِهِ ثُمَّ ذَكَرَ حَاجَتَهُ
محمد بن سیرین کے بارے میں منقول ہے انھوں نے وہی وصیت کی تھی جو محمد بن ابی عمرہ نے اپنے بچوں اور اہل خانہ کو کی تھی۔ اور وہ قرآن کی یہ آیت تھی۔ اللہ سے ڈرو اور اپنے درمیان اصلاح قائم رکھو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔ اور انھوں نے وہ وصیت بھی کی تھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کی تھی جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے۔ اور اس بات کی وصیت ابراہیم نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب نے بھی اے میرے بچو بیشک اللہ نے تمہارے لیے ایک خاص دین کو پسند کرلیا ہے لہٰذا تم مرتے وقت مسلمان ہی رہنا۔ انھوں نے اپنے اہل خانہ کو یہ وصیت کی تھی وہ انصار کے حمایتی اور دینی بھائی بن کر رہیں گے بیشک پاکیز سیرت اور سچائی بہتر ہے اور زیادہ باقی رہنے والی ہے جھوٹ کے مقابلے میں۔ اگر میری اس بیماری کے دوران میرے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے اور میری اس وصیت کو تبدیل کرنے سے پہلے میں مرجاؤں تو یہ کردینا پھر انھوں نے اس کام کا تذکرہ کیا۔

3054

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ هَكَذَا كَانُوا يُوصُونَ هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ أَنَّهُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ وَأَوْصَى مَنْ تَرَكَ بَعْدَهُ مِنْ أَهْلِهِ أَنْ يَتَّقُوا اللَّهَ وَيُصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِهِمْ وَأَنْ يُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ وَأَوْصَاهُمْ بِمَا أَوْصَى بِهِ إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمْ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَأَوْصَى إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ مِنْ وَجَعِهِ هَذَا أَنَّ حَاجَتَهُ كَذَا وَكَذَا
انس بیان کرتے ہیں پہلے اس طرح کی وصیت کی جاتی تھی یہ وہ وصیت ہے جو فلاں بن فلاں نے کی ہے اور وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور وہی ایک معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور بیشک حضرت محمد اللہ کے خاص بندے اور رسول ہیں بیشک قیامت آنے والی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ ان لوگوں کو زندہ کرے گا جو قبروں میں ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص اپنے بعض اہل خانہ کو وصیت کرتا تھا وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور اپنے درمیان بھلائی کو برقرار رکھیں گے اور اللہ کے اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اگر وہ مومن ہیں اور انھیں بھی وصیت کرتا تھا جو حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب نے اپنے بچوں کو کی تھی۔ اے بچو۔ بیشک اللہ نے تمہارے لیے دین کو پسند کیا ہے لہٰذا تم مرتے وقت مسلمان ہی رہنا۔ اور وہ یہ بھی وصیت کرتا تھا کہ اگر اس بیماری کے دوران میرے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے یعنی وہ فوت ہوجائیں تو اس کا یہ کام کردیا جائے اور اس کے بعد وہ کام کا ذکر کردیا کرتا تھا۔

3055

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ عَنْ حَفْصِ بْنِ غَيْلَانَ عَنْ مَكْحُولٍ حِينَ أَوْصَى قَالَ تَشَهُّدُ هَذَا مَا شَهِدَ بِهِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ عَلَى ذَلِكَ يَحْيَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَيَمُوتُ وَيُبْعَثُ وَأَوْصَى فِيمَا رَزَقَهُ اللَّهُ فِيمَا تَرَكَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ وَهُوَ كَذَا وَكَذَا إِنْ لَمْ يُغَيِّرْ شَيْئًا مِمَّا فِي هَذِهِ الْوَصِيَّةِ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ هَذِهِ وَصِيَّةُ أَبِي الدَّرْدَاءِ
مکحول کے بارے میں منقول ہے کہ جب انھوں نے وصیت کی تو یہ بولے میں اس بات کی گواہی دیتاہوں اور تم بھی اس پر گواہی دو ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور وہی ایک معبود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے حضرت محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور طاغوت کا انکار کرتے ہیں اگر اللہ نے چاہا تو اس عقیدے پر زندہ رہیں گے اور اس پر ان کی موت ہوگی اور اسی پر انھیں زندہ کیا جائے گا پھر انھوں نے یہ وصیت کی کہ اللہ نے انھیں جو رزق عطا کیا ہے وہ جو چھوڑ کر جارہے ہیں اگر ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے تو اسے اس طرح کیا جائے اگر وہ اس وصیت میں مرنے سے پہلے کوئی اور تبدیلی نہیں کرتے۔
مکحول روایت کرتے ہیں یہ حضرت ابودرداء کی وصیت ہے۔

3056

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَتَبَ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ وَصِيَّتَهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ وَأَشْهَدَ اللَّهَ عَلَيْهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا وَجَازِيًا لِعِبَادِهِ الصَّالِحِينَ وَمُثِيبًا بِأَنِّي رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا وَإِنِّي آمُرُ نَفْسِي وَمَنْ أَطَاعَنِي أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ فِي الْعَابِدِينَ وَنَحْمَدَهُ فِي الْحَامِدِينَ وَأَنْ نَنْصَحَ لِجَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ
ابوحیان تیمی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت ربیع بن خثیم نے یہ وصیت تحریر کی تھی۔ اللہ کے نام سے آغاز کرتا ہوں وہ جو رحمن اور رحیم ہے۔
یہ وہ وصیت ہے جو ربیع بن خیثم نے کی ہے وہ اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہے اور اللہ ہی گواہ کے طور پر کافی ہے اور اپنے نیک بندوں کو جزاء اور ثواب دینے کے لیے کافی ہے میں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد کے نبی ہونے سے راضی ہوں میں اپنے آپ کو اور اپنے پیر و کاروں کو یہ حکم دیتاہوں کہ ہم عبادت گزاروں کے ہمراہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور حمد کرنے والوں کے ہمراہ اس کی حمد بیان کریں اور مسلمانوں کی جماعت کی خیرخواہی کریں۔
جن حضرات کے نزدیک تھوڑے مال کی وصیت کرنا ضروری نہیں ہے۔

3057

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَلِيًّا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ فَذَكَرُوا لَهُ الْوَصِيَّةَ فَقَالَ عَلِيٌّ قَالَ اللَّهُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا وَلَا أُرَاهُ تَرَكَ خَيْرًا قَالَ حَمَّادٌ فَحَفِظْتُ أَنَّهُ تَرَكَ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِ مِائَةٍ
ہشام اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت علی (رض) ایک بیمار آدمی کے پاس تشریف لے گئے لوگوں نے ان کے سامنے وصیت کا تذکرہ کیا تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا اللہ نے ارشاد فرمایا ہے اگر وہ بھلائی یعنی مال کو چھوڑ کر جائے۔ میرا خیال ہے اس نے بھلائی یعنی مال نہیں چھوڑا۔ حماد نامی روای بیان کرتے ہیں مجھے یاد ہے کہ اس شخص نے سات سو سے زیادہ ترکہ چھوڑا تھا۔

3058

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كُنَاسَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَى رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ يَعُودُهُ فَقَالَ أُوصِي قَالَ لَا لَمْ تَدَعْ مَالًا فَدَعْ مَالَكَ لِوَلَدِكَ
ہشام اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت علی (رض) بن ابوطالب اپنی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی عیادت کے لیے اس کے ہاں گئے اس نے دریافت کیا میں وصیت کردوں حضرت علی نے فرمایا نہیں۔ تم نے کوئی مال چھوڑا تو نہیں ہے جو تمہارا سارا مال ہے وہ تم اپنے بیٹے کے لیے رہنے دو ۔

3059

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِي رَجُلٍ أَوْصَى وَالْوَرَثَةُ شُهُودٌ مُقِرُّونَ فَقَالَ لَا يَجُوزُ قَالَ أَبُو مُحَمَّد يَعْنِي إِذَا أَنْكَرُوا بَعْدُ
ابراہیم فرماتے ہیں کوئی شخص وصیت کرے اور اس کے ورثاء موجود ہوں اور وہ اس کا اقرار کرلیں تو یہ بات جائز نہیں ہے۔ امام دارمی فرماتے ہیں یعنی اس شخص کے فوت ہوجانے کے بعد ان ورثاء کا وصیت سے انکار کرنا جائز نہیں ہے۔

3060

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَأَلْتُ الْحَكَمَ وَحَمَّادًا عَنْ الْأَوْلِيَاءِ يُجِيزُونَ الْوَصِيَّةَ فَإِذَا مَاتَ لَمْ يُجِيزُوا قَالَا لَا يَجُوزُ
شعبہ بیان کرتے ہیں میں نے حکم اور حماد سے سوال کیا جو اولیاء وصیت کو درست قرار دیدیں اور پھر وصیت کرنے والے شخص کو فوت ہونے کے بعد اسے درست قرار نہ دیں تو حکم اور حماد دونوں نے جواب دیا یہ جائز نہیں ہے۔

3061

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ شُرَيْحٍ فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِأَكْثَرَ مِنْ ثُلُثِهِ قَالَ إِنْ أَجَازَتْهُ الْوَرَثَةُ أَجَزْنَاهُ وَإِنْ قَالَتْ الْوَرَثَةُ أَجَزْنَاهُ فَهُمْ بِالْخِيَارِ إِذَا نَفَضُوا أَيْدِيَهُمْ مِنْ الْقَبْرِ
قاضی شریح ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو شخص اپنے ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرے اگر اس کے ورثاء اس کی اجازت دیں تو ہم بھی اس کو جائز قرار دیں گے اور اگر ورثاء یہ کہیں کہ ہم نے اس کو جائز قرار دیا ہے تو ان ورثاء کو یہ اختیار ہوگا کہ جب وہ اس شخص کو دفنادیں تو اس کو برقرار رہنے دیں یا نہ رہنے دیں۔

3062

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ أَبِي عَوْنٍ عَنْ الْقَاسِمِ أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ وَرَثَتَهُ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ فَأَذِنُوا لَهُ ثُمَّ رَجَعُوا فِيهِ بَعْدَ مَا مَاتَ فَسُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ هَذَا التَّكَرُّهُ لَا يَجُوزُ
قاسم بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے ورثاء سے اجازت لے کہ وہ اپنا تہائی مال سے زیادہ وصیت کرے اور ورثاء اس کو اجازت دیں تو پھر وہ ورثاء اس شخص کے فوت ہونے کے بعد اس سے رجوع کرلیں تو اس بارے میں حضرت عبداللہ سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا یہ زبردستی نہیں ہے۔

3063

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ فَرَضِيَ الْوَرَثَةُ قَالَ هُوَ جَائِزٌ قَالَ أَبُو مُحَمَّد أَجَزْنَاهُ يَعْنِي فِي الْحَيَاةِ
حسن فرماتے ہیں جو شخص اپنے ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرے اور اس کے ورثاء اس سے راضی ہوں تو یہ جائز ہے۔ امام دارمی فرماتے ہیں (حدیث ٣٢٣٥ میں ورثاء کا یہ کہنا) ہم نے اسے جائز قرا ردیا تھا یعنی وصیت کرنے والے شخص کی زندگی میں جائز قرار دیا تھا۔

3064

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ وَهُوَ بِمَكَّةَ وَلَيْسَ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قُلْتُ فَأُوصِي بِالنِّصْفِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِالثُّلُثِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ
محمد بن سعد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے وہ اس وقت مکہ میں تھے ان کی صرف ایک بیٹی تھی وہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی میری صرف ایک ہی بیٹی ہے کیا اپنے پورے مال کو صدقہ کرنے کی وصیت کردوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نہیں میں نے عرض کی میں نصف مال وصیت کردوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا نہیں حضرت سعد بیان کرتے ہیں پھر میں نے عرض کی ایک تہائی مال وصیت کردوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تہائی کی وصیت ویسے بھی زیادہ ہے۔

3065

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ اشْتَكَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حَتَّى أُدْنِفْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أُرَانِي إِلَّا لِمَا بِي وَأَنَا ذُو مَالٍ كَثِيرٍ وَإِنَّمَا يَرِثُنِي ابْنَةٌ لِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَبِنِصْفِهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ إِنْ تَتْرُكْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ فُقَرَاءَ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ بِأَيْدِيهِمْ وَإِنَّكَ لَا تُنْفِقُ نَفَقَةً إِلَّا آجَرَكَ اللَّهُ فِيهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ
عامر بن سعید اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حجتہ الوداع کے موقع پر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا اور شدید بیمار ہوگیا جب بیماری زیادہ ہوگئی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول مجھے لگ رہا ہے کہ میرا آخری وقت قریب آگیا ہے میں بہت سے مال کا مالک ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے میں اپنا پورا مال صدقہ کردوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں میں نے عرض کی نصف مال ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا نہیں میں نے دریافت کیا پھر ایک تہائی مال ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ویسے ایک تہائی بھی زیادہ ہے تم اپنے ورثاء کو خوشحال چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انھیں غریب چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ اس کے بارے میں تمہیں اجر عطا کرے گا یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو اس کا بھی تم کو اجر ملے گا۔

3066

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ زِيَادٍ أَنَّ أَبَاهُ زِيَادَ بْنَ مَطَرٍ أَوْصَى فَقَالَ وَصِيَّتِي مَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ فُقَهَاءُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَسَأَلْتُ فَاتَّفَقُوا عَلَى الْخُمُسِ
علاء بن زیادہ بیان کرتے ہیں ان کے والد زیاد بن مطر نے یہ وصیت کی تھی میری وصیت وہ ہے جس پر اہل بصرہ کے فقہاء کا اتفاق ہے میں نے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا یہ حضرات پانچویں حصے کی ادائیگی کی وصیت کرنے پر متفق ہیں۔

3067

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ زِيَادٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنَّ وَارِثِي كَلَالَةٌ فَأُوصِي بِالنِّصْفِ قَالَ لَا قَالَ فَالثُّلُثِ قَالَ لَا قَالَ فَالرُّبُعِ قَالَ لَا قَالَ فَالْخُمُسِ قَالَ لَا حَتَّى صَارَ إِلَى الْعُشْرِ فَقَالَ أَوْصِ بِالْعُشْرِ
علاء بن زیاد بیان کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب سے سوال کیا میرے وارث کلالہ ہیں کیا میں اپنے نصف مال کی وصیت کردوں انھوں نے جواب دیا نہیں اس نے دریافت کیا پھر ایک تہائی کی ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں پھر اس نے دریافت کیا چوتھائی تو انھوں نے جواب دیا نہیں اس نے دریافت کیا پھر پانچویں حصے کی ؟ حضرت عمر نے فرمایا نہیں یہاں تک کہ جب اس نے دسویں حصے کا تذکرہ کیا تو حضرت عمر نے فرمایا تم دسویں حصے کی وصیت کردو۔

3068

حَدَّثَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ إِنَّمَا كَانُوا يُوصُونَ بِالْخُمُسِ وَالرُّبُعِ وَكَانَ الثُّلُثُ مُنْتَهَى الْجَامِحِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد يَعْنِي بِالْجَامِحِ الْفَرَسَ الْجَمُوحَ
عامر بیان کرتے ہیں پہلے زمانے کے لوگ چوتھے یا پانچویں حصے کی وصیت کرتے تھے اور کوئی بہت زیادہ بھی کرتا تھا زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی کرتا تھا۔ امام دارمی فرماتے ہیں اس روایت میں استعمال ہونے والے لفظ جامح کا مطلب تیز رفتار گھوڑا ہے۔

3069

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ بَكْرٍ قَالَ أَوْصَيْتُ إِلَى حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ مَا كُنْتُ لِأَقْبَلَ وَصِيَّةَ رَجُلٍ لَهُ وَلَدٌ يُوصِي بِالثُّلُثِ
بکر بیان کرتے ہیں میں نے حمید بن عبدالرحمن کو یہ وصیت کی تو وہ بولے میں کسی ایسے شخص کی وصیت قبول نہیں کرتا جس کی اولاد ہو اور وہ ایک تہائی حصے کی وصیت کردے۔

3070

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ شُرَيْحٍ قَالَ الثُّلُثُ جَهْدٌ وَهُوَ جَائِزٌ
قاضی شریح بیان کرتے ہیں ایک تہائی کافی زیادہ ہے لیکن یہ جائز ہے۔

3071

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ السُّدُسُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ الثُّلُثِ
حضرت ابراہیم فرماتے ہیں اہل علم کے نزدیک تہائی حصے کے مقابلے میں چھٹے حصہ کی وصیت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔

3072

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الْوَصِيُّ أَمِينٌ فِيمَا أُوصِيَ إِلَيْهِ بِهِ
ابراہیم فرماتے ہیں وصی امین ہوتا ہے اس چیز کے بارے میں جس کی اس کو وصیت کی گئی ہے۔

3073

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ أَمْرُ الْوَصِيِّ جَائِزٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي الِابْتِيَاعِ وَإِذَا بَاعَ بَيْعًا لَمْ يُقِلْ وَهُوَ رَأْيُ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ
مکحول فرماتے ہیں گھر کے علاوہ ہر معاملے میں وصی کا فیصلہ درست ہے جب وہ کسی چیز کو فروخت کردے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

3074

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ الْوَصِيُّ أَمِينٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي الْعِتْقِ فَإِنَّ عَلَيْهِ أَنْ يُقِيمَ الْوَلَاءَ
یحییٰ بن حمزہ کی بھی یہی رائے ہے یحییٰ بن ابوکثیر فرماتے ہیں وصی شخص ہر معاملے میں امین ہوتا ہے البتہ آزاد کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا اس پر لازم ہے کہ وہ ولاء کو قائم رکھے۔

3075

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ يَعْمَلُ بِهِ الْوَصِيُّ إِذَا أَوْصَى إِلَى الرَّجُلِ
یتیم کے مال کے بارے میں ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں وصی شخص اس کے لیے کام کروائے گا جبکہ کسی شخص نے اس کے بارے میں وصیت کی ہو۔

3076

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ وَصِيُّ الْيَتِيمِ يَأْخُذُ لَهُ بِالشُّفْعَةِ وَالْغَائِبُ عَلَى شُفْعَتِهِ
حسن فرماتے ہیں یتیم کا مال وصی اس کی طرف سے شفعہ وصول کرسکتا ہے جبکہ غیر موجود شخص کے شفعہ کا حق برقرار رہتا ہے۔

3077

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعِنْدَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو قِلَابَةَ إِذْ دَخَلَ غُلَامٌ فَقَالَ أَرْضُنَا بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا بَاعَكُمْ الْوَصِيُّ وَنَحْنُ أَطْفَالٌ فَالْتَفَتَ إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ فَقَالَ مَا تَقُولُ فَأَضْجَعَ فِي الْقَوْلِ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ فَقَالَ مَا تَقُولُ قَالَ رُدَّ عَلَى الْغُلَامِ أَرْضَهُ قَالَ إِذًا يَهْلِكُ مَالُنَا قَالَ أَنْتَ أَهْلَكْتَهُ
عکرمہ جو کہ دمشق کے ایک بزرگ ہیں بیان کرتے ہیں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس موجود تھا اس وقت ان کے پاس سلیمان بن حبیب اور ابوقلابہ بھی موجود تھے ایک لڑکا وہاں آیا اور بولا ہماری زمین فلاں جگہ پر ہے جسے وصی نے آپ کو فروخت کردیا تھا ہم اس وقت بچے تھے راوی بیان کرتے ہیں سلیمان بن حبیب نے میری طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا آپ کیا کہتے ہیں انھوں نے جواب دیتے ہوئے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ پھر انھوں نے ابوقلابہ کی طرف توجہ کی اور ان سے دریافت کیا آپ کیا کہتے ہیں انھوں نے فرمایا اس غلام کو اس کی زمین واپس کردو تو وہ بولے اس صورت میں ہمارا مال ہلاک ہوجائے گا تو ابوقلابہ بولے آپ نے خود اسے ہلاک کیا ہے۔

3078

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ الْحَسَنِ فِي رَجُلٍ أَوْصَى لِرَجُلٍ بِنِصْفِ مَالِهِ وَلِآخَرَ بِثُلُثِ مَالِهِ قَالَ يَضْرِبَانِ بِذَلِكَ فِي الثُّلُثِ هَذَا بِالنِّصْفِ وَهَذَا بِالثُّلُثِ
حسن بیان کرتے ہیں جو شخص کسی کے بارے میں اپنے نصف مال کی وصیت کرے اور کسی دوسرے شخص کے بارے میں تہائی مال کی وصیت کرے تو یہ دونوں حصے تیسرے حصے سے نکالے جائیں گے اس تیسرے حصے کا نصف ایک کو مل جائے اور تہائی حصہ دوسرے کو مل جائے گا۔

3079

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ يُغَيِّرُ صَاحِبُ الْوَصِيَّةِ مِنْهَا مَا شَاءَ غَيْرَ الْعَتَاقَةِ
شعبی بیان کرتے ہیں وصیت کرنے والا شخص (غلام یا کنیز کو) آزاد کرنے کے علاوہ کسی بھی معاملے میں جب چاہے وصیت تبدیل کرسکتا ہے۔

3080

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ يُحْدِثُ الرَّجُلُ فِي وَصِيَّتِهِ مَا شَاءَ وَمِلَاكُ الْوَصِيَّةِ آخِرُهَا
عبداللہ بن ابوربیعہ بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں آدمی اپنی وصیت میں جو چاہے تبدیل کرسکتا ہے آخری وقت کی وصیت قابل قبول ہوگی۔

3081

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنِي قَتَادَةُ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّ أَبَاهُ أَعْتَقَ رَقِيقًا لَهُ فِي مَرَضِهِ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرُدَّهُمْ وَيُعْتِقَ غَيْرَهُمْ قَالَ فَخَاصَمُونِي إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ فَأَجَازَ عِتْقَ الْآخِرِينَ وَأَبْطَلَ عِتْقَ الْأَوَّلِينَ
عمرو بن دینار بیان کرتے ہیں ان کے والد نے اپنی بیماری کے دوران اپنے ایک غلام کو آزاد کردیا پھر انھیں یہ مناسب لگا کہ وہ واپس لے کر دوسرے کو آزاد کردیں ان غلاموں نے اس بارے میں عبدالملک بن مروان کے سامنے مقدمہ پیش کیا تو عبدالملک نے بعد والے غلام کی آزادی کو برقرار رکھا اور پہلے والے غلام کی آزادی کو کالعدم قرار دیا۔

3082

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنِي قَتَادَةُ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّ أَبَاهُ أَعْتَقَ رَقِيقًا لَهُ فِي مَرَضِهِ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرُدَّهُمْ وَيُعْتِقَ غَيْرَهُمْ قَالَ فَخَاصَمُونِي إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ فَأَجَازَ عِتْقَ الْآخِرِينَ وَأَبْطَلَ عِتْقَ الْأَوَّلِينَ
حضرت عمرو ارشاد فرماتے ہیں آدمی جو چاہے اپنی وصیت کو تبدیل کرسکتا ہے آخری وقت کی وصیت معتبر ہوتی ہے امام دارمی فرماتے ہیں اس روایت میں ہمام نامی راوی نے عمر نامی راوی سے نہیں سنا ہے ان دونوں کے درمیان قتادہ نامی راوی موجود ہے۔

3083

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِوَصِيَّةٍ ثُمَّ يُوصِي بِأُخْرَى قَالَ هُمَا جَائِزَتَانِ فِي مَالِهِ
زہری بیان کرتے ہیں جو شخص وصیت کرے اور پھر اس کے بعد دوسری وصیت کردے تو اس کے مال کے بارے میں یہ دونوں وصیتیں درست ہوں گی۔

3084

حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِلَاكُ الْوَصِيَّةِ آخِرُهَا
حضرت عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں آخری وصیت معتبر ہوتی ہے۔

3085

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى قَالَ إِذَا اتَّهَمَ الْقَاضِي الْوَصِيَّ لَمْ يَعْزِلْهُ وَلَكِنْ يُوَكِّلُ مَعَهُ غَيْرَهُ وَهُوَ رَأْيُ الْأَوْزَاعِيِّ
یحییٰ بیان کرتے ہیں جب قاضی کسی وصی کے بارے میں مشکوک ہوجائے تو اسے معزول نہیں کرے گا بلکہ اس کے ہمراہ کسی دوسرے شخص کو اس کا وکیل مقرر کردے گا امام اوزاعی کی بھی یہی رائے ہے۔

3086

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ عَامِرٍ قَالَ يَجُوزُ بَيْعُ الْمَرِيضِ وَشِرَاؤُهُ وَنِكَاحُهُ وَلَا يَكُونُ مِنْ الثُّلُثِ
عامر بیان کرتے ہیں قریب المرگ بیمار شخص کا خریدو فروخت اور نکاح کرنا جائز ہے البتہ تہائی حصے کے بارے میں اس کی وصیت درست ہوگی۔

3087

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ قَالَ مَا حَابَى بِهِ الْمَرِيضُ فِي مَرَضِهِ مِنْ بَيْعٍ أَوْ شِرَاءٍ فَهُوَ فِي ثُلُثِهِ قِيمَةُ عَدْلٍ
حارث عکلی بیان کرتے ہیں بیمار شخص جو خریدو فروخت کرے وہ مناسب قیمت کے اعتبار سے اس کے تہائی مال میں حساب لگایا جائے گا۔

3088

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَعْطَتْ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِنَا وَهِيَ حَامِلٌ فَسُئِلَ الْقَاسِمُ فَقَالَ هُوَ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ قَالَ يَحْيَى وَنَحْنُ نَقُولُ إِذَا ضَرَبَهَا الْمَخَاضُ فَمَا أَعْطَتْ فَمِنْ الثُّلُثِ
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں ایک خاتون نے جو ہمارے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور حاملہ تھی اس نے کچھ دیا اس بارے میں قاسم سے سوال کیا گیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا پورے مال میں سے حساب ہوگا۔ یحییٰ فرماتے ہیں ہم یہ کہتے ہیں جب اسے درد زِہ شروع ہوچکا تو پھر جو اس نے دیا ہوگا وہ تہائی مال شمار ہوگا۔

3089

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ الْحَسَنِ فِي رَجُلٍ قَالَ لِغُلَامِهِ إِنْ دَخَلْتُ دَارَ فُلَانٍ فَغُلَامِي حُرٌّ ثُمَّ دَخَلَهَا وَهُوَ مَرِيضٌ قَالَ يُعْتَقُ مِنْ الثُّلُثِ وَإِنْ دَخَلَ فِي صِحَّتِهِ عُتِقَ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ
حسن فرماتے ہیں اگر کوئی شخص اپنے غلام سے یہ کہے کہ اگر میں فلاں شخص کے گھر میں داخل ہوا تو میرا غلام آزاد ہوگا پھر وہ شخص بیماری کے عالم میں اس گھر میں داخل ہوگیا تو اس کا تیسرا غلام کا حصہ آزاد ہوجائے گا اور اگر وہ صحت کی حالت میں داخل ہوا تو اس کے پورے مال میں سے غلام آزاد ہوجائے گا۔

3090

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ إِذَا كَانَ الْوَرَثَةُ مَحَاوِيجَ فَلَا أَرَى بَأْسًا أَنْ يُرَدَّ عَلَيْهِمْ مِنْ الثُّلُثِ قَالَ يَحْيَى فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْأَوْزَاعِيِّ فَأَعْجَبَهُ
مکحول بیان کرتے ہیں جب ورثاء غریب ہوجائیں تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک تہائی مال انھیں کی طرف واپس کردیا جائے۔ یحییٰ بیان کرتے ہیں میں نے اس بات کا تذکرہ امام اوزاعی سے کیا تو انھیں یہ بات بہت پسند آئی۔

3091

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ الْحَسَنِ ح و أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَا إِذَا شَهِدَ شَاهِدَانِ مِنْ الْوَرَثَةِ جَازَ عَلَى جَمِيعِهِمْ وَإِذَا شَهِدَ وَاحِدٌ فَفِي نَصِيبِهِ بِحِصَّتِهِ
ابراہیم فرماتے ہیں جب ورثاء میں سے دو افراد کوئی گواہی دیں تو وہ ان سب کے بارے میں درست شمار ہوگی۔ لیکن اگر کوئی ایک شخص گواہی دے تو وہ اس کے مخصوص حصہ میں سے حساب کیا جائے گا۔

3092

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَنَّهُ سَمِعَ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ إِذَا شَهِدَ رَجُلٌ مِنْ الْوَرَثَةِ فَفِي نَصِيبِهِ بِحِصَّتِهِ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي جَمِيعِ حِصَّتِهِ
مطرف بیان کرتے ہیں انھوں نے شعبی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے جب ورثاء میں سے کوئی ایک شخص گواہی دے تو یہ اس کے مخصوص حصے میں سے حساب کیا جائے گا پھر اس کے بعد انھوں نے یہ بتایا کہ پورے مال میں سے حساب لگایا جائے گا۔

3093

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ فَفِي الْعَيْنِ وَالدَّيْنِ وَإِذَا أَوْصَى بِخَمْسِينَ أَوْ سِتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ فَفِي الْعَيْنِ حَتَّى يَبْلُغَ الثُّلُثَ
ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں جب کوئی شخص تہائی مال کی وصیت کرے تو یہ نقد اور ادھار دونوں میں شمار ہوگی لیکن اگر وہ پچاس ساٹھ یا سو تک کی وصیت کرتا ہے توہ نقد شمار ہوگی یہاں تک کہ کل مال کا تیسرا حصہ بن جائے۔

3094

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ أَحَقُّ بِثُلُثِ مَالِهِ يَضَعُهُ فِي أَيِّ مَالِهِ شَاءَ
یزید بن عبداللہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا آدمی اپنے ایک تہائی مال کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ وہ اسے جہاں چاہے خرچ کرے۔

3095

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ عَنْ رَجُلٍ جَعَلَ دَرَاهِمَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ أَوْ يُعْتِقُ كَالَّذِي يُهْدِي بَعْدَ مَا شَبِعَ
ابوحبیبہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ابودرداء سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو اپنے درہم اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو حضرت ابودرداء نے جواب دیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو شخص مرتے وقت صدقہ کرتا ہے یا کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو خود سیر ہونے کے بعد باقی چیز کو صدقہ کردیتا ہے۔

3096

حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِأَشْيَاءَ وَفِيهَا الْعِتْقُ فَيُجَاوِزُ الثُّلُثَ قَالَ يُبْدَأُ بِالْعِتْقِ حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ بِالْحِصَصِ
حسن ارشاد فرماتے ہیں جس شخص نے کچھ معاملات کی وصیت کی ہو اور ان میں غلام کو شامل کرنا بھی ہو اور وہ سب کچھ ایک تہائی مال سے زیادہ ہو تو سب سے پہلے غلام آزاد کیا جائے گا۔
امام محمد فرماتے ہیں حصوں کے حساب سے اعتبار ہوگا۔

3097

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا الْمُعَافَى عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ مَنْ أَوْصَى أَوْ أَعْتَقَ فَكَانَ فِي وَصِيَّتِهِ عَوْلٌ دَخَلَ الْعَوْلُ عَلَى أَهْلِ الْعَتَاقَةِ وَأَهْلِ الْوَصِيَّةِ قَالَ وَقَالَ عَطَاءٌ إِنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ غَلَبُونَا يَبْدَءُونَ بِالْعَتَاقَةِ قَبْلُ
عطاء بیان کرتے ہیں جو شخص کوئی وصیت کرے یا کسی غلام کو آزاد کرے اور اس کی وصیت میں عول ہو تو وہ عول اہل عتاقہ اور اہل وصیت دونوں میں شامل ہوگا۔

3098

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ فِي الَّذِي يُوصِي بِعِتْقٍ وَغَيْرِهِ فَيَزِيدُ عَلَى الثُّلُثِ قَالَ بِالْحِصَصِ
عمرو بن دینار فرماتے ہیں جو شخص کسی کو آزاد کرے اور اس کے علاوہ دوسری وصیت کرے اور وہ ایک تہائی مال سے زیادہ ہوجائے تو ہر وصیت کے حصوں سے اعتبار ہوگا۔
عطاء بیان کرتے ہیں اہل مدینہ اس بارے میں ہم پر غالب آگئے ہیں وہ لوگ سب سے پہلے غلام آزاد کرتے ہیں

3099

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ شِنْظِيرٍ عَنْ الْحَسَنِ فِي رَجُلٍ أَوْصَى بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ وَفِيهِ عِتْقٌ قَالَ يُبْدَأُ بِالْعِتْقِ
حسن فرماتے ہیں جو شخص اپنے ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرے اور اس وصیت میں غلام کو آزاد کرنا بھی ہو تو سب سے پہلے غلام کو آزاد کیا جائے گا۔

3100

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ يُبْدَأُ بِالْعَتَاقَةِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ
ابراہیم فرماتے ہیں وصیت سے پہلے غلام آزاد کیا جائے گا۔

3101

أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ فِي الرَّجُلِ يُوصِي لِبَنِي فُلَانٍ قَالَ غَنِيُّهُمْ وَفَقِيرُهُمْ وَذَكَرُهُمْ وَأُنْثَاهُمْ سَوَاءٌ
حسن فرماتے ہیں جو شخص کسی مخصوص خاندان کے لیے وصیت کرے تو اس میں اس خاندان کے امیر اور غریب مرد اور خواتین سب شامل ہوں گے۔

3102

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ الْحَسَنِ قَالَ إِذَا أَوْصَى لِبَنِي فُلَانٍ فَالذَّكَرُ وَالْأُنْثَى فِيهِ سَوَاءٌ
حسن فرماتے ہیں جب کوئی شخص کسی مخصوص خاندان کے لیے وصیت کرے تو اس بارے میں مرد اور خواتین برابر حق رکھیں گے۔

3103

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ مُوسَى الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنِي سَيَّارُ بْنُ أَبِي كَرِبٍ أَنَّ آتِيًا أَتَى شُرَيْحًا فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَى بِسَهْمٍ مِنْ مَالِهِ قَالَ تُحْسَبُ الْفَرِيضَةُ فَمَا بَلَغَ سِهَامَهَا أُعْطِيَ الْمُوصَى لَهُ سَهْمًا كَأَحَدِهَا
سیار بیان کرتے ہیں ایک شخص قاضی شریح کی خدمت میں آیا اور ان سے کسی ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جس نے اپنے مال کے مخصوص حصے کی وصیت کی ہو تو قاضی صاحب نے فرمایا تم فرض حصے کا حساب لگاؤ جتنے حصے بنیں گے ان میں سے ایک حصہ اس شخص کو دیا جائے گا جس کے بارے میں وصیت کی گئی ہے۔

3104

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ إِذَا تَصَدَّقَ الرَّجُلُ عَلَى بَعْضِ وَرَثَتِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ بِأَكْثَرَ مِنْ النِّصْفِ رُدَّ إِلَى الثُّلُثِ وَإِذَا أَعْطَى النِّصْفَ جَازَ لَهُ ذَلِكَ قَالَ سَعِيدٌ وَكَانَ قُضَاةُ أَهْلِ دِمَشْقَ يَقْضُونَ بِذَلِكَ
مکحول فرماتے ہیں جب کوئی شخص اپنے کسی ایک وارث کو صدقے کے طور پر کوئی چیز دے اور وہ اس وقت تندرست ہو اور وہ چیز اس کے نصف مال سے زیادہ ہو تو اسے ایک تہائی مال تک لایا جائے گا اور اگر وہ نصف دیدے تو یہ اس کے لیے جائز ہوگا۔ سعید بیان کرتے ہیں دمشق کے قاضی اس کے مطابق فتوی دیتے تھے۔

3105

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ
ابراہیم فرماتے ہیں کفن پورے مال سے ہوگا۔

3106

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى عَنْ مُعَاذٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ الْحَسَنِ فِي رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ قِيمَةَ أَلْفَيْ دِرْهَمٍ وَعَلَيْهِ مِثْلُهَا أَوْ أَكْثَرُ قَالَ يُكَفَّنُ مِنْهَا وَلَا يُعْطَى دَيْنُهُ
حسن ارشاد فرماتے ہیں جو شخص فوت ہوجائے اور اس نے دو ہزار درہم چھوڑے ہوں اور اس پر اتنے ہی درہم یا اس سے زیادہ کی ادائیگی لازم ہو تو پہلے اس مال میں سے کفن دیا جائے گا اس کا قرض نہیں چکایا جائے گا۔

3107

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَمَّنْ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ قَالَ يُبْدَأُ بِالْكَفَنِ ثُمَّ الدَّيْنِ ثُمَّ الْوَصِيَّةِ
ابراہیم فرماتے ہیں مرحوم کے مال میں سے سب سے پہلے کفن دیا جائے گا پھر قرض ادا کیا جائے اور پھر جو وصیت کی تھی وہ نافذ کی جائے گی۔

3108

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَمَّنْ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ قَالَ يُبْدَأُ بِالْكَفَنِ ثُمَّ الدَّيْنِ ثُمَّ الْوَصِيَّةِ
شعبی فرماتے ہیں جو خاتون فوت ہوجائے اس کا کفن اس خاتون کے مال میں سے دیا جائے گا اس کے شوہر پر کفن دینا لازم نہیں ہے۔

3109

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ الْحَنُوطُ وَالْكَفَنُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ
عطاء بیان کرتے ہیں کفن دفن کا سارا انتظام میت کے اصل مال میں سے کیا جائے گا۔

3110

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ الْكَفَنُ مِنْ وَسَطِ الْمَالِ يُكَفَّنُ عَلَى قَدْرِ مَا كَانَ يَلْبَسُ فِي حَيَاتِهِ ثُمَّ يُخْرَجُ الدَّيْنُ ثُمَّ الثُّلُثُ
حسن فرماتے ہیں کفن کو میت کے اصل مال سے دیا جائے گا اور وہ کفن مرحوم کی زندگی میں استعمال کرنے والے کپڑوں کے حساب سے ہوگا اس کے بعد قرض ادا کیا جائے گا پھر تہائی حصہ کا حساب ہوگا۔

3111

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَهُوَ غَائِبٌ فَلْيَقْبَلْ وَصِيَّتَهُ وَإِنْ كَانَ حَاضِرًا فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ قَبِلَ وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ
حسن بیان کرتے ہیں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے بارے میں وصیت کرے اور وہ شخص اس وقت موجود نہ ہو تو وہ اس وصیت کو قبول کرلے اگر وہ موجود ہوتا تو اسے اختیار ہوتا اگر چاہے تو قبول کرلے اور اگر چاہتا تو قبول نہ کرتا۔

3112

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ سَأَلْتُ الْحَسَنَ وَمُحَمَّدًا عَنْ الرَّجُلِ يُوصِي إِلَى الرَّجُلِ قَالَا نَخْتَارُ أَنْ يَقْبَلَ
ایوب بیان کرتے ہیں میں نے حسن اور محمد سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جو کسی دوسرے شخص کے بارے میں وصیت کرتا ہے تو ان دونوں نے یہ جواب دیا اس دوسرے شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ چاہے تو اسے قبول کرلے۔

3113

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَسْعَدَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَهُوَ غَائِبٌ فَإِذَا قَدِمَ فَإِنْ شَاءَ قَبِلَ فَإِذَا قَبِلَ لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرُدَّ
حسن بیان کرتے ہیں جب کوئی شخص کسی غیر موجود شخص کے بارے وصیت کرتا ہے تو جب وہ دوسرا شخص آئے تو اسے اختیار ہوگا اگر وہ چاہے تو قبول کرلے اگر وہ قبول کرلیتا ہے تو اسے واپس کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

3114

حَدَّثَنَا الْوَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ فَعُرِضَتْ عَلَيْهِ الْوَصِيَّةُ وَكَانَ غَائِبًا فَقَبِلَ لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ
حسن بیان کرتے ہیں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو کوئی وصیت کرتا ہے اور اس دوسرے شخص کے سامنے اس وصیت کو پیش کیا جائے تو اگر وہ شخص غیر موجود ہو اور اسے قبول کرلے تب اسے اس بات کا اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اس سے رجوع کرلے۔

3115

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ لِإِنْسَانٍ وَهُوَ غَائِبٌ وَكَانَ مَيِّتًا وَهُوَ لَا يَدْرِي فَهِيَ رَاجِعَةٌ
ابراہیم فرماتے ہیں جب کوئی شخص کسی انسان کے بارے میں وصیت کرے اور وہ انسان غیر موجود ہو اور وہ مرچکا ہو لیکن وصیت کرنے والے کو اس کا پتہ نہ ہو تو وہ وصیت واپس ہوجائے گی۔

3116

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ إِذَا أَوْصَى لِعَبْدِهِ ثُلُثَ مَالِهِ رُبُعَ مَالِهِ خُمُسَ مَالِهِ فَهُوَ مِنْ مَالِهِ دَخَلَتْهُ عَتَاقَةٌ
حسن بیان کرتے ہیں جب کوئی شخص غلام کے بارے میں وصیت کرے اپنے مال کے تہائی حصے کے چوتھائی حصے یا پانچویں حصے کی تو یہ اس کے مال میں شامل ہوگا اور اس میں اس کی آزادی بھی شامل ہوگی۔

3117

حَدَّثَنَا يَعْلَى عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ كَانَ يُقَالُ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ بَرَكَةَ مَالِهِ فِي حَيَاتِهِ فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَوْتِ تَزَوَّدَ بِفَجْرَةٍ
قیس بیان کرتے ہیں یہ کہا جاتا ہے آدمی اپنی زندگی میں مال کی برکت سے محروم رہتا ہے اور جب مرنے کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے ذریعے آخرت کا زاد راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

3118

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ الْمُرَّانِ الْإِمْسَاكُ فِي الْحَيَاةِ وَالتَّبْذِيرُ عِنْدَ الْمَوْتِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد يُقَالُ مُرٌّ فِي الْحَيَاةِ وَمُرٌّ عِنْدَ الْمَوْتِ
ابراہیم تیمی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت عبداللہ فرماتے ہیں دو حرکتیں کڑوی ہیں ایک زندگی میں مال سنبھال کر رکھنا اور دوسرا مرتے وقت اسے خرچ کرنا۔ امام دارمی فرماتے ہیں یہ محاورہ ہے کہ زندگی میں بھی کڑوا رہا اور مرتے وقت بھی کڑوا رہا۔

3119

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ لِآخَرَ بِمِثْلِ نَصِيبِ ابْنِهِ فَلَا يَتِمُّ لَهُ مِثْلُ نَصِيبِهِ حَتَّى يَنْقُصَ مِنْهُ
ابراہیم بیان کرتے ہیں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے بارے میں وصیت کرے جو اس کے بیٹے کے مخصوص حصے کی مانند ہو تو اس کو حصہ اس کے بیٹے کی مانند ملے گا یہاں تک کہ اس میں کمی ہوجائے گی۔

3120

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ فِي رَجُلٍ كَانَ لَهُ ثَلَاثَةُ بَنِينَ فَأَوْصَى لِرَجُلٍ مِثْلَ نَصِيبِ أَحَدِهِمْ لَوْ كَانُوا أَرْبَعَةً قَالَ الشَّعْبِيُّ يُعْطَى الْخُمُسَ
شعبی بیان کرتے ہیں جس شخص کے تین بیٹے ہوں اور وہ کسی شخص کے لیے ان میں سے کسی ایک کے حصے کی مانند مال کی وصیت کردے تو اگر وہ چاروں ہوں تو شعبی ارشاد فرماتے ہیں اسے پانچواں حصہ دیا جائے گا۔

3121

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ قَالَ سَأَلْنَا عَامِرًا عَنْ رَجُلٍ تَرَكَ ابْنَيْنِ وَأَوْصَى بِمِثْلِ نَصِيبِ أَحَدِهِمْ لَوْ كَانُوا ثَلَاثَةً قَالَ أَوْصَى بِالرُّبُعِ
داؤد بن ابی ہند بیان کرتے ہیں ہم نے عامر سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جس نے دو بیٹے چھوڑے ہوں اور ان میں سے ایک کے حصے جنتے مال کی وصیت کسی کے لیے کردی ہو تو یوں یہ تین ہوجائیں تو عامر نے جواب دیا اس شخص کو چوتھائی حصے کی وصیت کرنی چاہیے۔

3122

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ فِي رَجُلٍ أَوْصَى بِمِثْلِ نَصِيبِ بَعْضِ الْوَرَثَةِ قَالَ لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ الثُّلُثِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد هُوَ حَسَنٌ
ابراہیم فرماتے ہیں جو شخص اپنے کسی ایک وارث کے حصے جتنے مال کی وصیت کرے یہ درست نہیں ہے اگر وہ تہائی حصہ سے کم ہو۔ امام دارمی فرماتے ہیں یہ رائے بہتر ہے۔

3123

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الشَّعْبِيِّ فِي رَجُلٍ أَوْصَى فِي غَلَّةِ عَبْدِهِ بِدِرْهَمٍ وَغَلَّتُهُ سِتَّةٌ قَالَ لَهُ سُدُسُهُ
شعبی فرماتے ہیں جو شخص اپنے غلام کی آمدنی میں ایک درہم کی وصیت کرے اور اس غلام کی آمدن چھ درہم ہو تو اس شخص کو چھٹا حصہ ملے گا۔

3124

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ إِذَا أَقَرَّ لِوَارِثٍ وَلِغَيْرِ وَارِثٍ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ أَرَى أَنْ أُبْطِلَهُمَا جَمِيعًا
سفیان فرماتے ہیں جب کوئی شخص اپنے کسی وارث کے علاوہ کسی اور کے لیے ایک سو درہم کا اقرار کرے تو میں یہ سمجھتا ہوں ان دونوں کو باطل قرار دیا جائے گا۔

3125

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ شُرَيْحٍ قَالَ لَا يَجُوزُ إِقْرَارٌ لِوَارِثٍ قَالَ و قَالَ الْحَسَنُ أَحَقُّ مَا جَازَ عَلَيْهِ عِنْدَ مَوْتِهِ أَوَّلَ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الْآخِرَةِ وَآخِرَ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا
شریح بیان کرتے ہیں وارث کے حق میں اقرار کرنا درست نہیں ہے۔ حسن فرماتے ہیں مرتے وقت جو آخرت کی زندگی کا پہلا دن ہے اور دنیا کی زندگی کا آخری دن ہے اس قت کی کہی ہوئی بات پوری کرنا زیادہ حق رکھتی ہے۔

3126

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ لَا يَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

3127

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ حُمَيْدٍ أَنَّ رَجُلًا يُكْنَى أَبَا ثَابِتٍ أَقَرَّ لِامْرَأَتِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ أَنَّ لَهَا عَلَيْهِ أَرْبَعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ صَدَاقِهَا فَأَجَازَهُ الْحَسَنُ
حبیب بیان کرتے ہیں ایک شخص جس کی کنیت ابوثابت تھی اس نے مرتے وقت اپنی بیوی کے لیے اقرار کیا کہ اس نے اس عورت کو چار سو درہم جو اس کا مہر ہے ادا کرنے ہیں تو حسن نے اسے درست قرار دیا ہے۔

3128

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ قَالَ كُنْتُ تَحْتَ نَاقَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا وَلُعَابُهَا يَنُوصُ بَيْنَ كَتِفَيَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ أَلَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا يَجُوزُ وَصِيَّةٌ لِوَارِثٍ
عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے نیچے موجود تھا وہ جگالی کررہی تھی اور اس کا جگال میرے کندھوں کے درمیان گر رہا تھا میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے خبردار بیشک اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے اس لیے وارث کے بارے میں وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

3129

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ فَأَمَرَ أَنْ يُوصِيَ لِوَالِدَيْهِ وَأَقَارِبِهِ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي سُورَةِ النِّسَاءِ فَجَعَلَ لِلْوَالِدَيْنِ نَصِيبًا مَعْلُومًا وَأَلْحَقَ لِكُلِّ ذِي مِيرَاثٍ نَصِيبَهُ مِنْهُ وَلَيْسَتْ لَهُمْ وَصِيَّةٌ فَصَارَتْ الْوَصِيَّةُ لِمَنْ لَا يَرِثُ مِنْ قَرِيبٍ وَغَيْرِهِ
قتادہ کے بارے میں منقول ہے انھوں نے یہ آیت پڑھی۔ جب کسی شخص کے پاس موت آجائے اور اگر وہ بھلائی (مال) چھوڑ کر جارہا ہے تو اسے والدین اور قریبی رشتے داروں کے بارے میں مناسب طور پر وصیت کرنی چاہیے یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے۔ قتادہ نے کہا یہ حکم دیا گیا کہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کی جائے اس کے بعد اسے سورت نساء میں منسوخ کردیا گیا ہے اور والدین کے لیے طے شدہ حصہ ہے۔ اس لیے ورثاء کے بارے میں وصیت نہیں ہوسکتی۔ وصیت اس شخص کے بارے میں ہوگی جو وارث نہیں بنتا ہے خواہ وہ قریبی عزیز ہو یا دور کا عزیز۔

3130

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ وَكَانَتْ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ وَالثُّلُثَ وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں پہلے مال اولاد کے لیے ہوتا تھا اور وصیت والدین کے اور قریبی رشتہ داروں کے لیے ہوتی تھی پھر اللہ نے اپنی مرضی کے مطابق اسے منسوخ کردیا ہے اور ہر مذکر کے لیے دو مونث کے لیے ایک حصہ مقرر کیا والدین میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا اور تیسراحصہ مقرر کیا بیوی کے لیے آٹھواں حصہ مقرر کیا اور شوہر کے لیے چوتھا یا نصف حصہ مقرر کیا۔

3131

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ يَزِيدَ عَنْ عِكْرِمَةَ وَالْحَسَنِ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَكَانَتْ الْوَصِيَّةُ كَذَلِكَ حَتَّى نَسَخَتْهَا آيَةُ الْمِيرَاثِ
عکرمہ بیان کرتے ہیں اللہ فرماتے ہیں اگر وہ بھلائی (مال) چھوڑ کر جا رہا ہے تو والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب وصیت کرے۔ عکرمہ اور حسن فرماتے ہیں پہلے وصیت اس طرح ہوتی تھی یہاں تک کہ وراثت کے متعلق آیت نے اسے منسوخ کردیا۔

3132

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَى وَلَهُ أَخٌ مُوسِرٌ أَيُوصِ لَهُ قَالَ نَعَمْ وَإِنْ كَانَ رَبَّ عِشْرِينَ أَلْفًا ثُمَّ قَالَ وَإِنْ كَانَ رَبَّ مِائَةِ أَلْفٍ فَإِنَّ غِنَاهُ لَا يَمْنَعُهُ الْحَقَّ
حسن کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے وصیت کرنی ہو اور اس کا ایک خوش حال بھائی بھی ہو کیا وہ اس کے حق میں وصیت کرسکتا ہے انھوں نے جواب دیا اگر وہ بھائی بیس ہزار درہم کا مالک ہو اس کے بارے میں وصیت کی جاسکتی ہے۔ پھر وہ بولے اگر ایک لاکھ کا بھی مالک ہو تو بھی کیونکہ اس کا خوش حال ہونا اسے اس کے حق سے محروم نہیں کرسکتا۔

3133

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ الْحَسَنِ وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فِي رَجُلٍ قَالَ سَيْفِي لِفُلَانٍ فَإِنْ مَاتَ فُلَانٌ فَلِفُلَانٍ فَإِنْ مَاتَ فُلَانٌ فَمَرْجِعُهُ إِلَيَّ قَالَا هُوَ لِلْأَوَّلِ قَالَ وَقَالَ حُمَيْدُ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُمْضَى كَمَا قَالَ
حسن اور سعید بن مسیب فرماتے ہیں جو شخص یہ کہے کہ میری تلوار فلاں شخص کو ملے گی اور اگر فلاں شخص فوت ہوجائے تو پھر فلاں کو ملے گی اور اگر فلاں بھی فوت ہوگیا تو یہ میرے پاس واپس لانا تو یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں یہ پہلے شخص کو ملے گی حمید فرماتے ہیں یہ اس شخص کی وصیت کے مطابق ہوجائے گی۔

3134

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ أَنَّ عُرْوَةَ قَالَ فِي الرَّجُلِ يُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ فَيَقُولُ هُوَ لَكَ فَإِذَا مُتَّ فَلِفُلَانٍ فَإِذَا مَاتَ فُلَانٌ فَلِفُلَانٍ وَإِذَا مَاتَ فُلَانٌ فَمَرْجِعُهُ إِلَيَّ قَالَ يُمْضَى كَمَا قَالَ وَإِنْ كَانُوا مِائَةً
ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں جو شخص کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دے اور یہ کہے کہ تمہاری ہے جب میں مرجاؤں تو یہ فلاں کی ہوگی اگر وہ فوت ہوگیا تو یہ فلاں کی ہوگی۔ اگر فلاں بھی فوت ہوگیا تو پھر یہ میرے پاس واپس آجائے گی تو عروہ فرماتے ہیں اگر وہ سو آدمیوں کا نام بھی لے تو پھر بھی اس کے مطابق عمل ہوگا۔

3135

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَةُ بْنُ هِشَامٍ الرَّاسِبِيُّ وَكَثِيرُ بْنُ مَعْدَانَ قَالَا سَأَلْنَا سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الرَّجُلِ يُوصِي فِي غَيْرِ قَرَابَتِهِ فَقَالَ سَالِمٌ هِيَ حَيْثُ جَعَلَهَا قَالَ فَقُلْنَا إِنَّ الْحَسَنَ يَقُولُ يُرَدُّ عَلَى الْأَقْرَبِينَ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ وَقَالَ قَوْلًا شَدِيدًا
کثیر بیان کرتے ہیں ہم نے سالم بن عبداللہ سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جو اپنے رشتے دار کی بجائے کسی اور کے لیے وصیت کرے تو سالم نے جواب دیا وہ وصیت اسی طرح نافذ ہوگی جس طرح اس نے کہا ہے راوی کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کہا حسن یہ کہتے ہیں کہ وہ وصیت اس کے قریبی رشتے دار کی طرف واپس آجائے گی تو سالم نے اس بات کا انکار کیا اور اس بارے میں سخت بات کہی۔

3136

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ الْحَسَنِ قَالَ إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ فِي قَرَابَتِهِ فَهُوَ لِأَقْرَبِهِمْ بِبَطْنٍ الذَّكَرُ وَالْأُنْثَى فِيهِ سَوَاءٌ
حسن ارشاد فرماتے ہیں جب کوئی شخص اپنے رشتے داروں کے بارے میں وصیت کرے تو وہ اس کے قریبی رشتے داروں کے بارے میں شمار ہوگی اور اس میں مرد اور عورت دونوں برابر ہوں گے۔

3137

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ فِي رَجُلٍ قَالَ أَحَدُ غُلَامَيَّ حُرٌّ ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ يُبَيِّنْ قَالَ الْوَرَثَةُ بِمَنْزِلَتِهِ يُعْتِقُونَ أَيَّهُمَا أَحَبُّوا
شعبی فرماتے ہیں جو شخص یہ کہے کہ میرا ایک غلام آزاد ہے اور پھر وہ غلام کو بیان کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء اس کے قائم مقام ہوں گے وہ جسے چاہیں آزاد کریں۔

3138

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ فِي مَرَضِهِ لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَعَبْدِي فُلَانٌ حُرٌّ وَلَمْ يَقُلْ إِنْ حَدَثَ بِي حَدَثٌ فَبَرَأَ قَالَ هُوَ مَمْلُوكٌ
حسن بیان کرتے ہیں ایک شخص نے اپنی بیماری کے عالم میں یہ کہا فلاں شخص کو اتنا ملے گا فلاں شخص کو اتنا ملے گا اور میرا فلاں غلام آزاد ہوگا اور یہ نہیں کہا کہ اگر میں فوت ہوگیا تو پھر وہ شخص تندرست ہوجائے تو وہ غلام اس کی ملکیت میں رہے گا۔

3139

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ فِي رَجُلٍ أَعْتَقَ غُلَامَهُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَلَيْسَ لَهُ غَيْرُهُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ قَالَ يَسْعَى لِلْغُرَمَاءِ فِي ثَمَنِهِ
شعبی فرماتے ہیں جو شخص مرتے وقت اپنے غلام کو آزاد کردے اور اس کے پاس غلام کے علاوہ کوئی اور مال نہ ہو اور اس کے ذمے قرض بھی ہو تو شعبی فرماتے ہیں وہ غلام اپنی قیمت ان قرض خواہوں کو ادا کرے گا۔

3140

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّ رَجُلًا اشْتَرَى عَبْدًا بِتِسْعِ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَأَعْتَقَهُ وَلَمْ يَقْضِ ثَمَنَ الْعَبْدِ وَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا فَقَالَ عَلِيٌّ يَسْعَى الْعَبْدُ فِي ثَمَنِهِ
حسن فرماتے ہیں ایک شخص سات سو دینار کے عوض میں ایک غلام خرید کر اسے آزاد کردیتا ہے اور ابھی اس نے غلام کی قیمت ادا نہیں کی تھی کہ فوت ہوگیا اور ترکہ میں کچھ چھوڑ کر نہیں گیا حضرت علی (رض) فرماتے ہیں غلام اپنی قیمت ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

3141

حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ الْأَشْعَثِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ الْمُدَبَّرُ مِنْ الثُّلُثِ
حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں مدبر تہائی حصے میں شامل ہوتا ہے۔

3142

حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الْمُدَبَّرُ مِنْ الثُّلُثِ
ابراہیم فرماتے ہیں مدبر تہائی حصے میں شامل ہوتا ہے۔

3143

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ كَثِيرٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ الْمُعْتَقُ عَنْ دُبُرٍ مِنْ الثُّلُثِ
حسن فرماتے ہیں مدبر تہائی حصے میں شامل ہوتا ہے۔

3144

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ الْمُعْتَقَةُ عَنْ دُبُرٍ وَوَلَدُهَا مِنْ الثُّلُثِ
حسن فرماتے ہیں مدبرہ عورت اور اس کی اولاد تہائی حصے میں شمار ہوتے ہیں۔

3145

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ مَنْصُورٌ أَخْبَرَنِي عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الْمُعْتَقُ عَنْ دُبُرٍ مِنْ الثُّلُثِ
ابراہیم فرماتے ہیں مدبرتہائی حصے میں شامل ہوتا ہے۔

3146

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الشَّقَرِيِّ وَأَبِي هَاشِمٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الْمُدَبَّرُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ
ابراہیم فرماتے ہیں مدبر پورے مال میں شامل ہوگا۔

3147

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ الْمُعْتَقُ عَنْ دُبُرٍ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد بِأَيِّهِمَا تَقُولُ قَالَ مِنْ الثُّلُثِ
سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں تدبیر کے طور پر آزاد ہونے والا شخص پورے مال میں شامل ہوگا۔ امام دارمی سے سوال کیا گیا آپ کس قول کے مطابق فتوی دیتے ہیں انھوں نے جواب دیا تہائی مال کے حساب سے۔

3148

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ لَا تَشْهَدْ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى تُقْرَأَ عَلَيْكَ وَلَا تَشْهَدْ عَلَى مَنْ لَا تَعْرِفُ
حسن فرماتے ہیں اس وقت تک کسی وصیت کے گواہ نہ بنو جب تک اسے تمہارے سامنے پڑھ نہ لیا جائے اور ایسی چیز کے بارے میں گواہی نہ دو جس سے تم واقف نہ ہو۔

3149

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَوْصَى لِأُمَّهَاتِ أَوْلَادِهِ بِأَرْبَعَةِ آلَافٍ أَرْبَعَةِ آلَافٍ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ
حسن بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے اپنی امہات اولاد کے لیے چار ہزار کی وصیت کی تھی ان میں سے ہر خاتون کو چار ہزار درہم یا دینار ملے تھے۔

3150

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَنَّهُ أَجَازَ وَصِيَّةَ ابْنِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً
عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے تیرہ سال کے لڑکے کی وصیت کو درست قرار دیا تھا۔

3151

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ أَوْصَى غُلَامٌ مِنْ الْحَيِّ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ فَقَالَ شُرَيْحٌ إِذَا أَصَابَ الْغُلَامُ فِي وَصِيَّتِهِ جَازَتْ قَالَ أَبُو مُحَمَّد يُعْجِبُنِي وَالْقُضَاةُ لَا يُجِيزُونَ
ابواسحاق بیان کرتے ہیں ایک قبیلے کے لڑکے نے جس کی عمر سات سال تھی وصیت کی تو قاضی شریح نے کہا اگر اس بچے نے درست وصیت کی ہے تو یہ درست ہوگی۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے مجھے یہ بات اچھی لگی لیکن قاضی اس کے مطابق فیصلہ نہیں دیتے۔

3152

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ أَنَّهُ شَهِدَ شُرَيْحًا أَجَازَ وَصِيَّةَ عَبَّاسِ بْنِ إِسْمَعِيلَ بْنِ مَرْثَدٍ لِظِئْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ وَعَبَّاسٌ صَبِيٌّ
ابواسحاق بیان کرتے ہی وہ اس وقت قاضی شریح کے پاس موجود تھے جب انھوں نے عباس بن اسماعیل بن مرثد نامی آدمی جو کہ حیرہ میں موجود تھا اس کی اپنی دانائی کے لیے وصیت کو درست قرار دیا تھا حالانکہ عباس نامی شخص ان دنوں بچہ تھا۔

3153

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ قَالَ قَالَ شُرَيْحٌ إِذَا اتَّقَى الصَّبِيُّ الرَّكِيَّةَ جَازَتْ وَصِيَّتُهُ
ابواسحاق بیان کرتے ہیں قاضی شریح فرماتے ہیں جب بچہ چکی سے بچنے لگ جائے تو اس کی وصیت درست ہوگی۔

3154

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ أَنَّ غُلَامًا مِنْهُمْ حِينَ ثُغِرَ يُقَالُ لَهُ مَرْثَدٌ أَوْصَى لِظِئْرٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ بِأَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَأَجَازَهُ شُرَيْحٌ وَقَالَ مَنْ أَصَابَ الْحَقَّ أَجَزْنَاهُ
ابواسحاق بیان کرتے ہیں ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا تھا جس کا نام مرثد تھا اس نے حیرہ میں موجود اپنی دائی کے لیے چالیس درہم کی وصیت کی تو قاضی نے اسے درست قرار دیا اور فرمایا جو شخص حق تک پہنچ جائے ہم اسے برقرار رکھیں گے۔

3155

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ غُلَامًا بِالْمَدِينَةِ حَضَرَهُ الْمَوْتُ وَوَرَثَتُهُ بِالشَّامِ وَأَنَّهُمْ ذَكَرُوا لِعُمَرَ أَنَّهُ يَمُوتُ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُوصِيَ فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُوصِيَ فَأَوْصَى بِبِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ جُشَمَ وَإِنَّ أَهْلَهَا بَاعُوهَا بِثَلَاثِينَ أَلْفًا ذَكَرَ أَبُو بَكْرٍ أَنَّ الْغُلَامَ كَانَ ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ أَوْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ
یحییٰ بیان کرتے ہیں ابوبکر نے انھیں بتایا کہ مدینہ میں ایک لڑکا تھا اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو اس کے ورثاء شام میں رہتے تھے لوگوں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عمر نے کیا کہ وہ مرنے والا ہے اور لوگوں نے اس سے کہا وہ وصیت کردے حضرت عمر نے اسے ہدایت کی کہ وہ وصیت کردے تو اس نے بئر جشم نامی ایک کنویں کے بارے میں وصیت کی کہ اس کے مالکان نے اس کنویں کو تیس ہزار درہم میں فروخت کیا تھا ابوبکر نے یہ بات بیان کی اس وقت اس لڑکے کی عمر دس سال یا شاید بارہ سال تھی۔

3156

حَدَّثَنَا يَزِيدُ عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ يَجُوزُ وَصِيَّةُ الصَّبِيِّ فِي مَالِهِ فِي الثُّلُثِ فَمَا دُونَهُ وَإِنَّمَا يَمْنَعُهُ وَلِيُّهُ ذَلِكَ فِي الصِّحَّةِ رَهْبَةَ الْفَاقَةِ عَلَيْهِ فَأَمَّا عِنْدَ الْمَوْتِ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَمْنَعَهُ
ابراہیم بیان کرتے ہیں ایک تہائی مال میں یا اس سے کم میں بچے کی وصیت درست ہوتی ہے اس کا ولی اس کو صحت کے عالم میں اس لیے تصرف کرنے سے روکتا ہے تاکہ اس پر فاقہ نہ آجائے البتہ مرتے وقت ولی اس کو اس بات سے منع نہیں کرتا۔

3157

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ وَأَيُّوبَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّهُ أُتِيَ فِي جَارِيَةٍ أَوْصَتْ فَجَعَلُوا يُصَغِّرُونَهَا فَقَالَ مَنْ أَصَابَ الْحَقَّ أَجَزْنَاهُ
عبداللہ بن عتبہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے سامنے ایک لڑکی لائی گئی جس نے کوئی وصیت کی تھی لوگ اس کو کم سن سمجھ رہے تھے تو عبداللہ نے فرمایا جو شخص حق بات بیان کردے ہم اسے برقرار رکھیں گے۔

3158

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ سُلَيْمًا الْغَسَّانِيَّ مَاتَ وَهُوَ ابْنُ عَشْرٍ أَوْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً فَأَوْصَى بِبِئْرٍ لَهُ قِيمَتُهَا ثَلَاثُونَ أَلْفًا فَأَجَازَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد النَّاسُ يَقُولُونَ عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنَيْهِ عَبْدِ اللَّهِ وَمُحَمَّدٍ ابْنَيْ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِيهِمَا مِثْلَ ذَلِكَ غَيْرَ أَنَّ أَحَدَهُمَا قَالَ ابْنُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَقَالَ الْآخَرُ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ قَالَ أَبُو مُحَمَّد عَنْ ابْنَيْهِ يَعْنِي ابْنَيْ أَبِي بَكْرٍ
ابوبکر بیان کرتے ہیں سلیم غسانی کا انتقال ہوگیا اس وقت ان کی عمر دس سال یا شاید بارہ سال تھی انھوں نے ایک کنویں کے بارے میں وصیت کی تھی جس کی قیمت تیس ہزار درہم تھی تو حضرت عمر نے اس وصیت کو درست قرار دیا تھا امام دارمی فرماتے ہیں محدثین نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس لڑکے کا نام عمرو بن سلیم تھا۔
عبداللہ اور محمد اپنے والد ابوبکر کے حوالے سے یہی بات نقل کرتے ہیں تاہم ان میں سے ایک نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس لڑکے کی عمر تیرہ سال تھی جبکہ دوسرے نے یہ بات کہی تھی کہ وہ اس وقت بالغ نہیں ہوا تھا۔ امام دارمی فرماتے ہیں ان کے دونوں بیٹوں سے مراد ابوبکر نامی راوی کے دو بیٹے ہیں۔

3159

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ وَصِيَّتُهُ لَيْسَتْ بِجَائِزَةٍ إِلَّا مَا لَيْسَ بِذِي بَالٍ يَعْنِي الْغُلَامَ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ
زہری بیان کرتے ہیں بچے کی وصیت جائز نہیں ہوتی ماسوائے اس کے اس کی کوئی حثییت نہیں ہو (یعنی اس سے مراد وہ لڑکا جو بالغ نہ ہوا ہو) ۔

3160

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ لَا يَجُوزُ طَلَاقُ الْغُلَامِ وَلَا وَصِيَّتُهُ وَلَا هِبَتُهُ وَلَا صَدَقَتُهُ وَلَا عَتَاقَتُهُ حَتَّى يَحْتَلِمَ
حسن بیان کرتے ہیں لڑکے کی طلاق، وصیت، ہبہ اور صدقہ کرنا اور آزاد کرنے کا حکم اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے۔

3161

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَا يَجُوزُ طَلَاقُ الصَّبِيِّ وَلَا عِتْقُهُ وَلَا وَصِيَّتُهُ وَلَا شِرَاؤُهُ وَلَا بَيْعُهُ وَلَا شَيْءٌ
ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بچے کی طلاق، اس کا غلام آزاد کرنا اور اس کی وصیت، اس کا فروخت کرنا، اس کا خریدنا اس کا کوئی بھی تصرف درست نہیں ہوتا۔

3162

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ قَالَ لَا يَجُوزُ طَلَاقٌ وَلَا وَصِيَّةٌ إِلَّا فِي عَقْلٍ إِلَّا النَّشْوَانَ يَعْنِي السَّكْرَانَ فَإِنَّهُ يَجُوزُ طَلَاقُهُ وَيُضْرَبُ ظَهْرُهُ
حبیب بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں طلاق اور وصیت اس وقت جائز ہوتی ہے جب عقل موجود ہو ما سوائے اس صورت کے جب انسان نشے میں ہو کیونکہ ایسی حالت میں طلاق جائز ہوتی ہے اور ایسے شخص کی پشت پر کوڑے لگائے جاتے ہیں۔

3163

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُعَاوِيَةَ بْنَ قُرَّةَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ فِي وَصِيَّتِهِ كُلُّ مَمْلُوكٍ لِي حُرٌّ وَلَهُ مَمْلُوكٌ آبِقٌ فَقَالَا هُوَ حُرٌّ و قَالَ الْحَسَنُ وَإِيَاسٌ وَبَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِحُرٍّ
یحییٰ بن ابواسحاق بیان کرتے ہیں میں نے قاسم بن عبدالرحمن اور معاویہ بن قرہ سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جس نے اپنی وصیت میں یہ کہا کہ میرا ہر غلام آزاد ہے اور اس کے غلاموں میں ایک مفرور غلام بھی ہو تو دونوں حضرات نے جواب دیا وہ آزاد شمار ہوگا۔ حسن، ایاس اور بکربن عبداللہ فرماتے ہیں وہ آزاد نہیں ہوگا۔

3164

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ أَوْصَى إِلَى حَفْصَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ
حضرت ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں حضرت عمر نے ام المومنین سیدہ حفصہ کے بارے میں وصیت کی تھی۔

3165

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ لَيْثٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ صَفِيَّةَ أَوْصَتْ لِنَسِيبٍ لَهَا يَهُودِيٍّ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں سیدہ حفصہ نے اپنے ایک یہودی رشتے دار کے بارے میں وصیت کی تھی۔

3166

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ أَوْصَى غُلَامٌ مِنْ الْحَيِّ يُقَالُ لَهُ عَبَّاسُ بْنُ مَرْثَدٍ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ لِظِئْرٍ لَهُ يَهُودِيَّةٍ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ بِأَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَقَالَ شُرَيْحٌ إِذَا أَصَابَ الْغُلَامُ فِي وَصِيَّتِهِ جَازَتْ وَإِنَّمَا أَوْصَى لِذِي حَقٍّ قَالَ أَبُو مُحَمَّد أَنَا أَقُولُ بِهِ
ابواسحاق بیان کرتے ہیں ایک قبیلے کے لڑکے نے جس کا نام عباس تھا اور وہ سات برس کا تھا حیرہ میں موجود اپنی دائی جو یہودن تھی کے بارے میں چالیس درہم کی وصیت کی تھی تو قاضی نے یہ کہا کہ لڑکے نے درست وصیت کی ہے یہ جائز ہے کیونکہ اس نے حق دار کے لیے وصیت کی ہے۔ امام دارمی فرماتے ہیں میں بھی اس کے مطابق فتوی دیتاہوں۔

3167

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ الزُّبَيْرَ جَعَلَ دُورَهُ صَدَقَةً عَلَى بَنِيهِ لَا تُبَاعُ وَلَا تُوَرَّثُ وَأَنَّ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ وَلَا مُضَارٍّ بِهَا فَإِنْ هِيَ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ فَلَا حَقَّ لَهَا
ہشام اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت زبیر نے اپنے گھر اپنے بیٹوں کو صدقہ کردیئے تھے یوں کہ انھیں فروخت نہیں کیا جائے گا اور ان کو وراثت میں شامل نہیں کیا جائے گا اور ان کی بیٹیوں میں سے جس کو طلاق ہوجائے تو وہاں سکونت اختیار کرسکے گی بشرطیکہ اسے کوئی ضرر لاحق نہ ہو اور اس کی وجہ سے کسی کو ضرر لاحق نہ ہو اور اگر شوہر کے پاس رہنے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہ ہو تو پھر اس لڑکی کا ان میں کوئی حق نہیں ہوگا۔

3168

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ عَنْ حَفْصٍ عَنْ مَكْحُولٍ فِي الرَّجُلِ يُوصِي لِلرَّجُلِ بِدَنَانِيرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَمُوتُ الْمُوصَى لَهُ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ بِهَا مِنْ أَهْلِهِ قَالَ هِيَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمُتَوَفَّى الْمُوصِي يُنْفِذُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
مکحول بیان کرتے ہیں ایک شخص نے دوسرے شخص کے بارے میں اللہ کی راہ میں چند دیناروں کی وصیت کی تھی جس شخص کے بارے میں وصیت کی تھی اس کا انتقال ہوگیا اس سے پہلے کہ وہ انھیں لے کر اپنے اہل خانہ کے پاس جاتا مکحول فرماتے ہیں وہ دینار اس فوت ہونے والے شخص کے رشتہ داروں کو ملیں گے جنہیں وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیں گے۔

3169

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ الْحَسَنِ فِي الرَّجُلِ يُوصِي لِلرَّجُلِ بِالْوَصِيَّةِ فَيَمُوتُ الْمُوصَى لَهُ قَبْلَ الْمُوصِي قَالَ هِيَ جَائِزَةٌ لِوَرَثَةِ الْمُوصَى لَهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ السَّبِيعِيِّ قَالَ حُدِّثْتُ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يُجِيزُهَا مِثْلَ قَوْلِ الْحَسَنِ
حسن بیان کرتے ہیں جو شخص کسی دوسرے شخص کے بارے میں وصیت کرے اور جس کے بارے میں وصیت کی گئی ہے وہ وصیت کرنے والے سے پہلے فوت ہوجائے تو حسن فرماتے ہیں جس شخص کے بارے میں وصیت کی گئی تھی اس کے ورثاء کے بارے میں یہ وصیت جائز ہوگی۔
ابواسحاق بیان کرتے ہیں مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت علی (رض) اس وصیت کو درست سمجھتے تھے اور ان کی رائے بھی وہی تھی جو حسن بصری کی ہے۔

3170

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى هُوَ ابْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ إِنَّ رَجُلًا أَوْصَى إِلَيَّ وَجَعَلَ نَاقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَذَا زَمَانًا يُخْرَجُ إِلَى الْغَزْوِ فَأَحْمِلُ عَلَيْهَا فِي الْحَجِّ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ مِنْ سَبِيلِ اللَّهِ
نافع بیان کرتے ہیں ایک شخص حضرت ابن عمر (رض) کے پاس آیا اور بولا کہ ایک شخص نے مجھ سے یہ وصیت کی تھی کہ وہ اپنی اونٹنی اللہ کی راہ میں دیتا ہے اب وہ زمانہ نہیں ہے جس میں لوگ جنگ کی طرف جاتے ہیں کیا میں اس پر حج کرنے والوں کو سوار کردوں حضرت عمر نے جواب دیا حج اور عمرہ اللہ کی راہ میں ہوتے ہیں۔

3171

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا أَوْصَى بِمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَسَأَلَ الْوَصِيُّ عَنْ ذَلِكَ عُمَرَ فَقَالَ أَعْطِهِ عُمَّالَ اللَّهِ قَالَ وَمَنْ عُمَّالُ اللَّهِ قَالَ حَاجُّ بَيْتِ اللَّهِ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک شخص نے اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی تھی جس شخص کو وصیت کی تھی اس شخص نے حضرت عمر سے دریافت کیا تو حضرت عمر نے فرمایا اللہ کی راہ میں کام کرنے والوں کو دے دو اس شخص نے دریافت کیا اللہ کی راہ میں کام کرنے والے کون لوگ ہیں حضرت عمر نے فرمایا اللہ کے گھر میں حج کرنے والے لوگ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔