HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Darimi

1. مقدمہ دارمی

سنن الدارمي

1

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُؤَاخَذُ الرَّجُلُ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا كَانَ عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ
حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! آدمی نے زمانہ جہالت میں جو عمل کیا ہو کیا اس پر مواخذہ ہوگا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اسلام لانے کے بعد اچھے کام کرے اس سے ان اعمال پر مواخذہ نہیں ہوگا جو اس نے زمانہ جاہلیت میں کئے تھے۔ اور جو شخص اسلام لانے کے بعد بھی برے عمل کرے اس سے پہلے اور بعد والے تمام اعمال کا مواخذہ ہوگا۔

2

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِيُّ عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ أَبِي الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ عَنْ الْوَضِينِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ فَكُنَّا نَقْتُلُ الْأَوْلَادَ وَكَانَتْ عِنْدِي ابْنَةٌ لِي فَلَمَّا أَجَابَتْ وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِي إِذَا دَعَوْتُهَا فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَاتَّبَعَتْنِي فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُ بِئْرًا مِنْ أَهْلِي غَيْرَ بَعِيدٍ فَأَخَذْتُ بِيَدِهَا فَرَدَّيْتُ بِهَا فِي الْبِئْرِ وَكَانَ آخِرَ عَهْدِي بِهَا أَنْ تَقُولَ يَا أَبَتَاهُ يَا أَبَتَاهُ فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْزَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ كُفَّ فَإِنَّهُ يَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَعِدْ عَلَيَّ حَدِيثَكَ فَأَعَادَهُ فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَيْنَيْهِ عَلَى لِحْيَتِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ وَضَعَ عَنْ الْجَاهِلِيَّةِ مَا عَمِلُوا فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ
حضرت وضین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم جاہلیت میں مبتلا لوگوں اور بتوں کے پجاری تھے۔ ہم اپنی اولاد کو قتل کردیا کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جب وہ کچھ بڑی ہوئی تو جب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے پر خوش ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا وہ میرے پیچھے آئی میں چلتا ہوا اپنے گھر کے کنویں کے پاس آگیا جو زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے اس بچی کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں پھینک دیا اس نے مجھ سے آخری بات یہ کہی اے اباجان اے اباجان (راوی کہتے ہیں) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رونے لگے یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری ہوگئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرات میں سے ایک صاحب نے اس شخص سے کہا تم نے اللہ کے رسول کو غم گین کردیا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان صاحب سے کہا رہنے دیں۔ اس نے وہ بات دریافت کی ہے جسے اہم سمجھا ہے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے کہا اپنی بات میرے سامنے دوبارہ بیان کرو۔ اس شخص نے دوبارہ بیان کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رونے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسوجاری ہو کر آپ کی داڑھی مبارک پر گرنے لگے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں جو کام کئے تھے اللہ نے انھیں درگزر کردیا ہے۔ اب تم نئے سرے سے عمل کا آغاز کرو۔

3

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي مَوْلَايَ أَنَّ أَهْلَهُ بَعَثُوا مَعَهُ بِقَدَحٍ فِيهِ زُبْدٌ وَلَبَنٌ إِلَى آلِهَتِهِمْ قَالَ فَمَنَعَنِي أَنْ آكُلَ الزُّبْدَ لِمَخَافَتِهَا قَالَ فَجَاءَ كَلْبٌ فَأَكَلَ الزُّبْدَ وَشَرِبَ اللَّبَنَ ثُمَّ بَالَ عَلَى الصَّنَمِ وَهُوَ إِسَافٌ وَنَائِلَةُ قَالَ هَارُونُ كَانَ الرَّجُلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا سَافَرَ حَمَلَ مَعَهُ أَرْبَعَةَ أَحْجَارٍ ثَلَاثَةً لِقِدْرِهِ وَالرَّابِعَ يَعْبُدُهُ وَيُرَبِّي كَلْبَهُ وَيَقْتُلُ وَلَدَهُ
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے غلام نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے اسے ایک پیالہ دے کر اپنے باطل معبودوں کے پاس بھیجا اس پیالے میں مکھن اور دودھ تھا۔ وہ غلام کہتا ہے ان معبودوں کے خوف کی وجہ سے میں نے وہ مکھن نہیں کھایا وہ مزید بیان کرتا ہے اسی دوران ایک کتا وہاں آیا اور اس نے وہ مکھن کھالیا اور دودھ پی لیا اور پھر اس بت کے اوپر پیشاب بھی کردیا۔ (راوی کہتے ہیں) وہ بت " اساف " اور " نائلہ " تھے۔
ہارون (نامی راوی) بیان کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص سفر پر روانہ ہوتا تو وہ اپنے ساتھ چار پتھر لے کرجاتا تھا جن میں سے تین پتھر چولہے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ہوتے تھے۔ اور چوتھے کی وہ عبادت کرتا تھا۔ (زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والاشخص) اپنے کتے کی پرورش کرتا تھا اور اپنی اولاد یعنی بیٹیوں کو دفن کردیتا تھا۔

4

حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ السَّامِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ قَالَ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا أَصَبْنَا حَجَرًا حَسَنًا عَبَدْنَاهُ وَإِنْ لَمْ نُصِبْ حَجَرًا جَمَعْنَا كُثْبَةً مِنْ رَمْلٍ ثُمَّ جِئْنَا بِالنَّاقَةِ الصَّفِيِّ فَتَفَاجُّ عَلَيْهَا فَنَحْلُبُهَا عَلَى الْكُثْبَةِ حَتَّى نَرْوِيَهَا ثُمَّ نَعْبُدُ تِلْكَ الْكُثْبَةَ مَا أَقَمْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد الصَّفِيُّ الْكَثِيرَةُ الْأَلْبَانِ
ابورجاء (رض) بیان کرتے ہیں زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ حال تھا کہ جب ہم کسی خوبصورت پتھر کے پاس پہنچتے تو ہم اس کی عبادت کرنے لگتے تھے اور اگر ہمیں کوئی پتھر نہ ملتا تو ہم ریت کا ایک ٹیلہ بنالیتے اور پھر زیادہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی کو لا کر اس ٹیلے پر کھڑا کرتے۔ ہم اس اونٹنی کا دودھ اس ٹیلے پر دوھ لیتے اور پھر اسے سیراب کرتے پھر جب تک ہم اس مقام پر رہتے اس کی عبادت کرتے۔ امام ابو محمد دارمی فرماتے ہیں (اس روایت میں استعمال ہونے والا لفظ (صفی کا مطلب ہے بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی (جبکہ اس روایت میں استعمال ہونے والالفظ) فتفاج کا مطلب ہے جب کوئی اونٹنی اپنی دونوں ٹانگیں دودھ دوہنے کے لیے پھیلادے اور فج کھلے راستے کو کہتے ہیں اور اس کی جمع فجاج استعمال ہوتی ہے۔

5

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ قَالَ كَعْبٌ نَجِدُهُ مَكْتُوبًا مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيظٌ وَلَا صَخَّابٌ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ وَيَحْمَدُونَهُ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيَتَأَزَّرُونَ عَلَى أَنْصَافِهِمْ وَيَتَوَضَّئُونَ عَلَى أَطْرَافِهِمْ مُنَادِيهِمْ يُنَادِي فِي جَوِّ السَّمَاءِ صَفُّهُمْ فِي الْقِتَالِ وَصَفُّهُمْ فِي الصَّلَاةِ سَوَاءٌ لَهُمْ بِاللَّيْلِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ وَمَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَمُهَاجِرُهُ بِطَابَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ
حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے (اپنی آسمانی کتاب توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ) ان الفاظ میں پایا۔ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ وہ سخت مزاج اور سخت دل نہیں ہیں۔ بازاروں میں چیخ کے بولنے والے نہیں ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی کے ذریعے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں بخش دیتے ہیں۔ ان کی امت اللہ تعالیٰ کی بکثرت حمد کرنے والی ہوگی اور اللہ کی کبریائی کا تذکرہ ہر مقام پر کرنے والی ہوگی۔ وہ لوگ اللہ کی حمد ہر جگہ بیان کریں گے ان کے تہبند نصف پنڈلی تک ہوں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء کو وضو کے دوران دھوئیں گے۔ ان کا موذن کھلی فضا میں اذان دیا کرے گا۔ جنگ کے دوران ان کی صفیں اور نماز کے دوران ان کی صفیں ایک جیسی ہوں گی۔ وہ لوگ رات کے وقت شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کریں گے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش مکہ میں ہوگی وہ ہجرت کرکے طیبہ جائیں گے اور ان کی بادشاہی شام میں ہوگی۔

6

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِنَّا لَنَجِدُ صِفَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُهُ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا صَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَتَجَاوَزُ وَلَنْ أَقْبِضَهُ حَتَّى نُقِيمَ الْمِلَّةَ الْمُتَعَوِّجَةَ بِأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْتَحُ بِهِ أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ كَعْبًا يَقُولُ مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ
حضرت ابن سلام (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے اپنی آسمانی کتاب توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ ان الفاظ میں پایا ہے۔
بےشک ہم نے تمہیں گواہ خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا پناہ گاہ بنا کر بھیجا ہے اس قوم کے لیے جوان پڑھ ہے (اے محمد) تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے اس یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام متوکل رکھا ہے وہ سخت دل اور سخت مزاج نہیں ہوگا اور نہ ہی بازار میں اونچی آواز سے چیخے گا اور برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں نہیں دے گا بلکہ معاف کرے گا اور درگزر کرے گا اور میں اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کروں گا جب تک وہ بگڑی ہوئی قوم یعنی کفر میں مبتلا قوم کو یہ اعتراف نہ کروا دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ہم اس کے ذریعے اندھی آنکھوں بہرے کانوں اور پردے میں چھپے ہوئے دلوں کو کشادگی عطا کریں گے۔ عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو واقد لیثی نے یہ بات بتائی کہ انھوں نے حضرت کعب (رض) کو بھی یہی بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے جو حضرت ابن سلام (رض) نے بیان کی ہے۔

7

أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ عَوْفٍ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ كَعْبٍ فِي السَّطْرِ الْأَوَّلِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَبْدِي الْمُخْتَارُ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيظٌ وَلَا صَخَّابٌ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَهِجْرَتُهُ بِطَيْبَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ وَفِي السَّطْرِ الثَّانِي مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيُكَبِّرُونَ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ رُعَاةُ الشَّمْسِ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ إِذَا جَاءَ وَقْتُهَا وَلَوْ كَانُوا عَلَى رَأْسِ كُنَاسَةٍ وَيَأْتَزِرُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ وَيُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ وَأَصْوَاتُهُمْ بِاللَّيْلِ فِي جَوِّ السَّمَاءِ كَأَصْوَاتِ النَّحْلِ
حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں ( توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں) پہلی لائن میں یہ تحریر ہے " محمد اللہ کے رسول ہیں۔ میرے اختیار کردہ بندے ہیں وہ سخت مزاج نہیں اور سخت دل نہیں ہیں اور بازار میں بلند آواز سے چیخنے والے نہیں ہیں وہ برائی کا بدلہ برائی کے ذریعے نہیں دے گا بلکہ معاف کردے گا بخش دے گا اس کی جائے پیدائش مکہ ہوگی اور وہ ہجرت کرکے طیبہ آئے گا اور اس کی بادشاہی شام میں ہوگی۔ دوسری سطر میں یہ تحریر " محمد اللہ کے رسول ہیں ان کی امت بکثرت اللہ کی حمد کرنے والی ہے وہ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں اللہ کی حمد بیان کریں گے۔ جب نماز کا وقت آجائے گا تو نماز ضرور ادا کریں گے اگرچہ وہ کسی کناسہ پر ہوں ان کے تہبند نصف پندلی تک ہوں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء پر وضو کریں گے رات کے وقت کھلی فضا میں ان کی آواز یوں ہوگی جیسے کسی شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے۔

8

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَأَلَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ كَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ كَعْبٌ نَجِدُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُولَدُ بِمَكَّةَ وَيُهَاجِرُ إِلَى طَابَةَ وَيَكُونُ مُلْكُهُ بِالشَّامِ وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَافِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ سَرَّاءَ وَضَرَّاءَ وَيُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ يُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ وَيَأْتَزِرُونَ فِي أَوْسَاطِهِمْ يُصَفُّونَ فِي صَلَوَاتِهِمْ كَمَا يُصَفُّونَ فِي قِتَالِهِمْ دَوِيُّهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ كَدَوِيِّ النَّحْلِ يُسْمَعُ مُنَادِيهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت کعب سے دریافت کیا آپ حضرات نے توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ کن الفاظ میں پایا ہے ؟ تو حضرت کعب نے جواب دیا ہم نے ان الفاظ میں پایا ہے محمد بن عبداللہ (رض) مکہ میں پیدا ہوں گے وہ ہجرت کر کے طابہ میں جائیں گے ان کی حکومت شام میں بھی ہوگی وہ فحش گفتگو کرنے والے نہیں ہوں گے اور بازار میں چیخ کر نہیں بولیں گے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیں گے بلکہ معاف کردیں گے بخش دیں گے۔ ان کی امت بکثرت حمد بیان کرنے والی ہوگی۔ وہ ہر پریشانی کے عالم میں بھی اللہ کی حمد بیان کریں گے اور ہر مقام پر اللہ کی کبریائی کا تذکرہ کریں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء پر وضو کریں گے وہ اپنی نصف پنڈلی تک تہبند باندھیں گے۔ نماز میں ان کی صف اسی طرح ہوگی جیسے جنگ کے دوران ان کی صف ہوگی۔ ان کی مساجد میں ان کی آواز شہد کی مکھی کی آواز جیسی ان کے اذان دینے والے کی آواز کھلی فضا میں سنی جاسکے گی۔

9

أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمِيثَمِيُّ حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ إِلَيْكُمْ لَيْسَ بِوَهِنٍ وَلَا كَسِلٍ لِيَخْتِنَ قُلُوبًا غُلْفًا وَيَفْتَحَ أَعْيُنًا عُمْيًا وَيُسْمِعَ آذَانًا صُمًّا وَيُقِيمَ أَلْسِنَةً عُوجًا حَتَّى يُقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ
حضرت جبیر بن نفیر حضرمی (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو سست اور کاہل نہیں ہے اس کی آمد کا مقصد یہ ہے کہ وہ غفلت میں مبتلا دلوں کو زندہ کردے۔ نابینا آنکھوں کی بینائی کو کشادہ کردے اور بہرے کانوں کو پیغام حق سنادے۔ وہ کفر پر قائم ملت کو درست کردے۔ یہاں تک کہ یہ اعتراف کرلیا جائے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے صرف وہی ایک معبود ہے۔

10

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَمَشَى مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ قَالَ فَإِحْدَى رِجْلَيْهِ فِي الْبَيْتِ وَالْأُخْرَى خَارِجَهُ كَأَنَّهُ يُنَاجِي فَالْتَفَتَ فَقَالَ أَتَدْرِي مَنْ كُنْتُ أُكَلِّمُ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ أَرَهُ قَطُّ قَبْلَ يَوْمِي هَذَا اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ قَالَ إِنَّا آتَيْنَاكَ أَوْ أَنْزَلْنَا الْقُرْآنَ فَصْلًا وَالسَّكِينَةَ صَبْرًا وَالْفُرْقَانَ وَصْلًا
حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ کام تھا صحابی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلتے ہوئے ان کے گھر تک تشریف لے گئے وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ابھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک پاؤں گھر کے اندر تھا اور ایک پاؤں گھر کے باہر تھا اور یوں محسوس ہوا جیسے آپ کسی سے خفیہ طور پر بات کر رہے ہیں۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کیا تمہیں پتہ ہے میں کس سے بات کررہا تھا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جسے میں نے آج سے پہلے نہیں دیکھا اس نے اپنے پروردگار سے یہ اجازت مانگی کہ وہ مجھے سلام کرے (سلام کرنے کے بعد اس نے اللہ کا یہ پیغام مجھے پہنچایا ہے) ہم نے تمہیں قرآن دیا (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں) ہم نے تم پر قرآن نازل کیا جو (حق و باطل) کے درمیان علیحدگی کرنے والا ہے اور سکینت نازل کی جو صبر دیتی ہے اور فرقان نازل کیا جو ملا دیتا ہے۔

11

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَطِيَّةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيَّ يَقُولُ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ لِتَنَمْ عَيْنُكَ وَلْتَسْمَعْ أُذُنُكَ وَلْيَعْقِلْ قَلْبُكَ قَالَ فَنَامَتْ عَيْنَايَ وَسَمِعَتْ أُذُنَايَ وَعَقَلَ قَلْبِي قَالَ فَقِيلَ لِي سَيِّدٌ بَنَى دَارًا فَصَنَعَ مَأْدُبَةً وَأَرْسَلَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنْ الْمَأْدُبَةِ وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلْ الدَّارَ وَلَمْ يَطْعَمْ مِنْ الْمَأْدُبَةِ وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ قَالَ فَاللَّهُ السَّيِّدُ وَمُحَمَّدٌ الدَّاعِي وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ وَالْمَأْدُبَةُ الْجَنَّةُ
حضرت عطیہ (رض) بیان کرتے ہیں انھوں نے حضرت ربیعہ جرشی کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کوئی فرشتہ آیا اور آپ سے یہ کہا گیا کہ آپ کی آنکھ تو سوتی ہے لیکن آپ کے کان سنتے رہیں گے اور آپ کا دل سمجھتا رہے گا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن میرے کان سنتے رہتے ہیں اور دل سمجھ لیتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر مجھ سے کہا گیا کہ ایک سردار نے گھر بنایا اس میں دسترخوان سجایا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیجا تو جو شخص اس دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرلے گا وہ اس گھر میں آئے گا اور اس دستر خوان سے کھائے گا۔ وہ سردار اس سے راضی ہوگا اور جو شخص اس دعوت دینے والے کی بات نہیں مانے گا وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا اور اس دسترخوان سے نہیں کھائے گا اور وہ سردار اس سے ناراض ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں وہ سردار اللہ تعالیٰ ہیں وہ دعوت دینے والا شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے وہ گھر اسلام ہے اور وہ دسترخوان جنت ہے۔

12

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ التَّمِيمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ وَمَعَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ فَأَقْعَدَهُ وَخَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا ثُمَّ قَالَ لَا تَبْرَحَنَّ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَنْ يُكَلِّمُوكَ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ ثُمَّ جَعَلُوا يَنْتَهُونَ إِلَى الْخَطِّ لَا يُجَاوِزُونَهُ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ جَاءَ إِلَيَّ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ فِي النَّوْمِ نَفْخًا فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي رَاقِدٌ إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الْجِمَالُ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ حَتَّى قَعَدَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِهِ وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ فَقَالُوا بَيْنَهُمْ مَا رَأَيْنَا عَبْدًا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَيْنَيْهِ لَتَنَامَانِ وَإِنَّ قَلْبَهُ لَيَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا سَيِّدٌ بَنَى قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ لِي أَتَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ هُمْ الْمَلَائِكَةُ قَالَ وَهَلْ تَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوهُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ الرَّحْمَنُ بَنَى الْجَنَّةَ فَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ جَنَّتَهُ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ وَعَذَّبَهُ
حضرت ابوعثمان نہدی (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھلے میدان کی طرف تشریف لے گئے حضرت ابن مسعود (رض) آپ کے ساتھ تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بٹھایا اور ان کے اردگرد ایک لائن کھینچ کر ارشاد فرمایا تم نے یہاں سے باہر نہیں آنا تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے تم نے ان سے بات نہیں کرنی وہ بھی تمہارے ساتھ بات نہیں کریں گے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں جانا چاہتے تھے وہاں تشریف لے گئے پھر کچھ لوگ اس لکیر کے پاس آنے لگے لیکن اندر نہیں آتے تھے پھر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے گئے جب رات کا آخری حصہ آیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے آپ نے میرے زانو کا تکیہ بنایاجب آپ سوتے تھے تو خراٹے لیا کرتے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے زانو پر سو رہے تھے اسی دوران میرے پاس کچھ لوگ آئے جن کے قد اونٹ جتنے اونچے تھے انھوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایسی خوبصورتی اور کسی میں نہیں ہوگی ان میں سے کچھ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرہانے کی طرف بیٹھ گئے اور کچھ لوگ پاؤں کی طرف بیٹھ گئے وہ یہ بات کرنے لگے کہ اس نبی کو جو فضیلت عطا کی گئی ہے ہمارے خیال میں وہ اور کسی کو عطا نہیں کی گئی ان کی دونوں آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن ان کا دل بیدار رہتا ہے ان کے لیے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ ایک سردار نے ایک محل بنایا پھر دستر خوان بچھا کر (دعوت عام) اس کھانے اور مشروبات کی طرف بلایا (حضرت عبداللہ فرماتے ہیں) پھر وہ لوگ چلے گئے اسی وقت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے تو آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون لوگ تھے میں نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہ فرشتے تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کیا تم جانتے ہو کہ انھوں نے جو مثال دی اس کا مطلب کیا ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا رحمن نے جنت بنائی اس کی طرف اپنے بندوں کو دعوت دی جو اس دعوت کو قبول کرلے گا وہ اس کی جنت میں داخل ہوجائے گا جو قبول نہیں کرے گا اللہ اس سے ناراض ہوگا اور اسے عذاب کا شکار کرے گا۔

13

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ رَجُلٌ كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كَانَتْ حَاضِنَتِي مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنٌ لَهَا فِي بَهْمٍ لَنَا وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا فَقُلْتُ يَا أَخِي اذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا فَانْطَلَقَ أَخِي وَمَكَثْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ فَأَقْبَلَ طَائِرَانِ أَبْيَضَانِ كَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ أَهُوَ هُوَ قَالَ الْآخَرُ نَعَمْ فَأَقْبَلَا يَبْتَدِرَانِي فَأَخَذَانِي فَبَطَحَانِي لِلْقَفَا فَشَقَّا بَطْنِي ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِي فَشَقَّاهُ فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَيْنِ سَوْدَاوَيْنِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ ائْتِنِي بِمَاءِ ثَلْجٍ فَغَسَلَ بِهِ جَوْفِي ثُمَّ قَالَ ائْتِنِي بِمَاءِ بَرَدٍ فَغَسَلَ بِهِ قَلْبِي ثُمَّ قَالَ ائْتِنِي بِالسَّكِينَةِ فَذَرَّهُ فِي قَلْبِي ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ حُصْهُ فَحَاصَهُ وَخَتَمَ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اجْعَلْهُ فِي كِفَّةٍ وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِهِ فِي كِفَّةٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْأَلْفِ فَوْقِي أُشْفِقُ أَنْ يَخِرَّ عَلَيَّ بَعْضُهُمْ فَقَالَ لَوْ أَنَّ أُمَّتَهُ وُزِنَتْ بِهِ لَمَالَ بِهِمْ ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَكَانِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَرِقْتُ فَرَقًا شَدِيدًا ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى أُمِّي فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِي لَقِيتُ فَأَشْفَقَتْ أَنْ يَكُونَ قَدْ الْتَبَسَ بِي فَقَالَتْ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ فَرَحَلَتْ بَعِيرًا لَهَا فَجَعَلَتْنِي عَلَى الرَّحْلِ وَرَكِبَتْ خَلْفِي حَتَّى بُلْغَتِنَا إِلَى أُمِّي فَقَالَتْ أَدَّيْتُ أَمَانَتِي وَذِمَّتِي وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِي لَقِيتُ فَلَمْ يَرُعْهَا ذَلِكَ وَقَالَتْ إِنِّي رَأَيْتُ حِينَ خَرَجَ مِنِّي يَعْنِي نُورًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ
حضرت عتبہ بن عبدسلمی بیان کرتے ہیں یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں شامل ہیں ایک شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ آپ کا بچپن کیسا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میری دایہ کا تعلق بنوسعد بن بکر سے تھا ایک مرتبہ میں اور ان کا بیٹا اپنی بکریاں چرانے کے لیے گئے ہمارے ساتھ کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا میں نے کہا اے میرے بھائی تم جاؤ اور امی جان سے ہمارے لیے کچھ کھانا لاؤ میرا بھائی چلا گیا میں ان جانوروں کے پاس ٹھہر گیا اسی دوران دو سفید پرندے جو گدھوں کی مانند تھے آئے اور ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہی ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ہاں وہ دونوں تیزی سے میری طرف لپکے انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے سیدھا لٹا کر میرے پیٹ کو چیر دیا پھر انھوں نے میرا دل نکال کر اسے چیر دیا اور اس میں سے سیاہ خون کے دو لوتھڑے نکالے ان میں ایک نے اپنے ساتھی سے کہا برف کا پانی لاؤ پھر اس نے اس پانی کے ذریعے میرے پیٹ کو دھویا پھر وہ بولا ٹھنڈا پانی لاؤ پھر اس نے اس کے ذریعے میرے دل کو دھویا پھر وہ بولا سکینت لاؤ وہ اس نے میرے دل پر چھڑک دیا پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہا اسے سی دو ۔ اس نے اسے سی دیا۔ اس نے اس پر مہر نبوت لگادی۔ پھر اس نے کہا انھیں ایک پلڑے میں رکھو اور ان کی امت سے ایک ہزار افراد کو دوسرے پلڑے میں رکھو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرماتے ہیں جب میں نے دیکھا کہ ایک ہزار افراد میرے اوپر تھے اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کوئی میرے اوپر گر نہ جائے تو ان میں سے ایک شخص بولا اگر ان کی پوری امت کے ساتھ بھی ان کا وزن کیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہوگا پھر وہ دونوں چلے گئے انھوں نے مجھے وہیں رہنے دیا۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے بہت الجھن ہوئی میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انھیں اس صورتحال کے بارے میں بتایا جو مجھے پیش آئی تھی وہ ڈر گئیں کہ شاید مجھے کوئی ذہنی مرض لاحق ہوگیا ہے وہ بولیں میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں اور مجھے بھی سوار کیا یہاں تک کہ میری والدہ (سیدہ آمنہ) کے پاس آگئے میری دایہ نے کہا میں اپنی امانت اور اپنا ذمہ ادا کرچکی ہوں پھر انھوں نے میری والدہ کو وہ واقعہ بتایا جو میرے ساتھ پیش آیا تھا تو والدہ اس سے خوف زدہ نہیں ہوئیں اور بولیں جب ان کی ولادت ہوئی تھی تو میں نے دیکھا تھا کہ میرے اندر کوئی چیز نکلی ہے (راوی کہتے ہیں) یعنی نور نکلا جس کے ذریعے شام کے محلات روشن ہوگئے تھے۔

14

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتَّى اسْتَيْقَنْتَ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ أَتَانِي مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا عَلَى الْأَرْضِ وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ أَهُوَ هُوَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَزِنْهُ بِرَجُلٍ فَوُزِنْتُ بِهِ فَوَزَنْتُهُ ثُمَّ قَالَ فَزِنْهُ بِعَشَرَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْهُ بِمِائَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْهُ بِأَلْفٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَوْ وَزَنْتَهُ بِأُمَّتِهِ لَرَجَحَهَا
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلی مرتبہ کب اس بات کا یقینی علم ہوا کہ آپ نبی ہیں ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے ابوذر ( (رض) میرے پاس دو فرشتے آئے میں اس وقت مکہ کے کھلے میدان میں تھا ان میں ایک زمین پر اتر آیا اور دوسرا آسمان اور زمین کے درمیان رہا ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا یہ وہی ہیں ؟ اس نے جواب دیا ہاں وہ بولا ایک آدمی کے ساتھ ان کا وزن کرو اس آدمی کے ساتھ میرا وزن کیا گیا میرا پلڑا بھاری تھا پھر اس نے نے کہا دس آدمیوں کے ساتھ میرا وزن کرو ان کے ساتھ میرا وزن کیا گیا تو پھر میرا پلڑا بھاری تھا پھر وہ بولا سو آدمیوں کے ساتھ وزن کرو اس کے ساتھ میرا وزن کیا گیا تو بھی میں ہی بھاری تھا پھر وہ بولا ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ میرا وزن کرو ان کے ساتھ میرا وزن کیا گیا تو بھی میرا پلڑا بھاری تھا مجھے یوں محسوس ہوا کہ ان لوگوں کا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے کوئی میرے اوپر نہ گرجائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا اگر ان کی پوری امت کے مقابلے میں ان کا وزن کیا جائے تو بھی ان کا پلڑا بھاری ہوگا۔

15

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِيهِمْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ
حضرت ابوصالح بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلند آواز سے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو میں رحمت ہوں اور ہدایت دینے کے لیے آیا ہوں۔

16

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ تُرِيدُ قَالَ إِلَى أَهْلِي قَالَ هَلْ لَكَ فِي خَيْرٍ قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ قَالَ وَمَنْ يَشْهَدُ عَلَى مَا تَقُولُ قَالَ هَذِهِ السَّلَمَةُ فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَأَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْأَرْضَ خَدًّا حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاسْتَشْهَدَهَا ثَلَاثًا فَشَهِدَتْ ثَلَاثًا أَنَّهُ كَمَا قَالَ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَنْبَتِهَا وَرَجَعَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى قَوْمِهِ وَقَالَ إِنْ اتَّبَعُونِي أَتَيْتُكَ بِهِمْ وَإِلَّا رَجَعْتُ فَكُنْتُ مَعَكَ
حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں ایک سفر کے دوران ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ اسی دوران ایک صحابی آیاجب وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تم کہاں جا رہے ہو۔ اس نے جواب دیا اپنے گھر جارہا ہوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا ' کیا تمہیں بھلائی میں کوئی دلچسپی ہے۔ اس نے جواب دیا : وہ کیا ہے ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں صرف وہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اس کا شریک نہیں ہے اور محمد اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔ وہ دیہاتی بولا آپ کی اس بات کی گواہی کون دے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیکر کا ایک درخت۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس درخت کو بلایا وہ درخت وادی کے کنارے پر موجود تھا۔ وہ زمین کو چیرتا ہوا آپ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے تین مرتبہ گواہی مانگی اور اس نے تین مرتبہ اس بات کی گواہی دی جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا پھر وہ واپس اس جگہ پر چلا آیا جہاں وہ موجود تھا۔ وہ دیہاتی اپنی قوم میں واپس جاتے ہوئے بولا۔ اگر ان لوگوں نے میری پیروی کی تو میں انھیں آپ کے پاس لاؤں گا اور اگر نہیں کی تو میں واپس آجاؤں گا اور میں آپ کے پاس رہوں گا۔

17

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَكَانَ لَا يَأْتِي الْبَرَازَ حَتَّى يَتَغَيَّبَ فَلَا يُرَى فَنَزَلْنَا بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ لَيْسَ فِيهَا شَجَرٌ وَلَا عَلَمٌ فَقَالَ يَا جَابِرُ اجْعَلْ فِي إِدَاوَتِكَ مَاءً ثُمَّ انْطَلِقْ بِنَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى لَا نُرَى فَإِذَا هُوَ بِشَجَرَتَيْنِ بَيْنَهُمَا أَرْبَعُ أَذْرُعٍ فَقَالَ يَا جَابِرُ انْطَلِقْ إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَقُلْ يُقَلْ لَكِ الْحَقِي بِصَاحِبَتِكِ حَتَّى أَجْلِسَ خَلْفَكُمَا فَرَجَعَتْ إِلَيْهَا فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُمَا ثُمَّ رَجَعَتَا إِلَى مَكَانِهِمَا فَرَكِبْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا فَعَرَضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا يَأْخُذُهُ الشَّيْطَانُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ فَتَنَاوَلَ الصَّبِيَّ فَجَعَلَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مُقَدَّمِ الرَّحْلِ ثُمَّ قَالَ اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيْهَا فَلَمَّا قَضَيْنَا سَفَرَنَا مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ فَعَرَضَتْ لَنَا الْمَرْأَةُ مَعَهَا صَبِيُّهَا وَمَعَهَا كَبْشَانِ تَسُوقُهُمَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْبَلْ مِنِّي هَدِيَّتِي فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عَادَ إِلَيْهِ بَعْدُ فَقَالَ خُذُوا مِنْهَا وَاحِدًا وَرُدُّوا عَلَيْهَا الْآخَرَ قَالَ ثُمَّ سِرْنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا فَإِذَا جَمَلٌ نَادٌّ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ سِمَاطَيْنِ خَرَّ سَاجِدًا فَحَبَسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَلَيَّ النَّاسَ مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ فَإِذَا فِتْيَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ قَالُوا هُوَ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَا شَأْنُهُ قَالُوا اسْتَنَيْنَا عَلَيْهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَكَانَتْ بِهِ شُحَيْمَةٌ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَهُ فَنَقْسِمَهُ بَيْنَ غِلْمَانِنَا فَانْفَلَتَ مِنَّا قَالَ بِيعُونِيهِ قَالُوا لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَمَّا لِي فَأَحْسِنُوا إِلَيْهِ حَتَّى يَأْتِيَهُ أَجَلُهُ قَالَ الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُودِ لَكَ مِنْ الْبَهَائِمِ قَالَ لَا يَنْبَغِي لِشَيْءٍ أَنْ يَسْجُدَ لِشَيْءٍ وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ كَانَ النِّسَاءُ لِأَزْوَاجِهِنَّ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جارہا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی قضائے حاجت کے لیے جاتے تو اتنی دور چلے جاتے تھے کہ آپ کو دیکھا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک ایسی زمین پر پڑاؤ کیا جو آب وگیاہ تھی وہاں کوئی درخت نہیں تھا اور نہ ہی ٹیلہ تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اپنے برتن میں کچھ پانی رکھو اور میرے ساتھ چلو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں۔ ہم لوگ چل پڑے۔ یہاں تک کہ لوگوں کی نظروں سے دور ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم درختوں کے درمیان آئے جن کے درمیان چار ذراع کا فاصلہ تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے جابر (رض) ! اس درخت کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ تم اپنے اس ساتھی درخت کے ساتھ مل جاؤ تاکہ میں تم دونوں کی اوٹ میں بیٹھ سکوں حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو وہ درخت اس دوسرے درخت کے پاس آگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کی اوٹ چلے گئے۔ پھر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ واپس چلے گے۔ پھر ہم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سوار ہو کر چلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان ہی تھے۔
آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی کہ گویا ہمارے اوپر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ ایک عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول یہ میرا بیٹا ہے۔ شیطان روزانہ تین مرتبہ اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کو پکڑا اسے اپنے اور پالان کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا لیا۔ پھر ارشاد فرمایا اے اللہ کے دشمن دور ہوجا۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر بچے کو اس عورت کے سپرد کردیا راوی بیان کرتے ہیں واپسی کے سفر کے دوران جب ہم اسی جگہ سے گزرے تو وہی عورت سامنے آئے اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا اور ساتھ دو دنبے بھی تھے جنہیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے نبی میری طرف سے یہ تحفہ قبول کریں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ہمراہ مبعوث کیا۔ شیطان دوبارہ اس بچے کی طرف نہیں آیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اس میں سے ایک دنبہ رکھ لو اور دوسرا اسے واپس کردو۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر ہم لوگ سفر کرتے رہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے۔ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی۔ گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ اسی دوران ایک اونٹ جو بھاگا ہوا تھا آگیا۔ جب لوگوں کے درمیان آیا تو سجدے میں چلا گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا۔ اس اونٹ کا مالک کون ہے۔ کچھ انصاری نوجوانوں نے عرض کی : یا رسول اللہ یہ ہمارا اونٹ ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا۔ اسے کیا ہوا ہے۔ انھوں نے عرض کی ہم بیس برس سے اسے پانی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اب اس میں چربی زیادہ ہوگئی ہے۔ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ ہم اسے ذبح کر کے اپنے لڑکوں کے درمیان تقسیم کردیں تو یہ ہم سے بھاگ کر آگیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے مجھے بیچ دو ان نوجوانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : یہ آپ ہی کی ملکیت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم یہ کہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو۔ یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آجائے اس وقت مسلمانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : جانوروں کے مقابلے میں ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کسی کے لیے بھی کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خواتین اپنے شوہروں کو سجدہ کرتیں۔

18

حَدَّثَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ عَنْ الذَّيَّالِ بْنِ حَرْمَلَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دُفِعْنَا إِلَى حَائِطٍ فِي بَنِي النَّجَّارِ فَإِذَا فِيهِ جَمَلٌ لَا يَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ فَدَعَاهُ فَجَاءَ وَاضِعًا مِشْفَرَهُ عَلَى الْأَرْضِ حَتَّى بَرَكَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ هَاتُوا خِطَامًا فَخَطَمَهُ وَدَفَعَهُ إِلَى صَاحِبِهِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ
حضرت جابر بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہم بنونجار کے ایک باغ کے پاس آئے اس میں ایک اونٹ تھا۔ باغ میں جو شخص بھی داخل ہوتا تھا۔ وہ اونٹ اس پر حملہ کردیتا تھا۔ لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے۔ آپ نے اسے بلایا۔ وہ اپنا منہ زمین پر رکھ کر آگیا۔ یہاں تک کہ آپ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اس کی لگام لاؤ۔ پھر آپ نے اسے لگام پہنائی اور اسے اس کے مالک کے سپرد کردیا پھر آپ نے (ہماری طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا) گناہ گار جنات اور انسانوں کے علاوہ آسمان اور زمین میں موجود ہر چیز یہ بات جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

19

أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ بِابْنٍ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي بِهِ جُنُونٌ وَإِنَّهُ يَأْخُذُهُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا فَيُخَبَّثُ عَلَيْنَا فَمَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ وَدَعَا فَثَعَّ ثَعَّةً وَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ مِثْلُ الْجِرْوِ الْأَسْوَدِ فَسَعَى
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے بیٹے کو جنون لاحق ہوجاتا ہے اس پر یہ دورہ صبح وشام کے وقت پڑتا ہے تو یہ ہمیں بہت تنگ کرتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اس کے لیے دعا کی تو اس نے قے کردی اور اس کے پیٹ میں سے سیاہ بلی جیسے کوئی چیز نکل کر بھاگ گئی۔

20

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْعَبْدِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مکہ میں موجود ایک پتھر کو میں آج بھی پہنچانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے آج بھی پہچانتا ہوں۔

21

حَدَّثَنَا فَرْوَةُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ إِسْمَعِيلَ السُّدِّيِّ عَنْ عَبَّادٍ أَبِي يَزِيدَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا مَعَهُ فِي بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَرَرْنَا بَيْنَ الْجِبَالِ وَالشَّجَرِ فَلَمْ نَمُرَّ بِشَجَرَةٍ وَلَا جَبَلٍ إِلَّا قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
علی بن ابوطالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم مکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ہم آپ کے ساتھ کسی نواحی علاقے میں چلے گئے ہم جن پہاڑوں اور درختوں کے پاس سے گزرتے تو ان میں سے ہر ایک درخت اور ہر پہاڑ نے یہی کہا۔ السلام علیک یا رسول اللہ۔ (اے اللہ کے رسول آپ پر سلامتی ہو)

22

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ فَإِذَا هُوَ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وُفُودُ الذِّئَابِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْضَخُوا لَهُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِكُمْ وَتَأْمَنُونَ عَلَى مَا سِوَى ذَلِكَ فَشَكَوْا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَاجَةَ قَالَ فَآذِنُوهُنَّ قَالَ فَآذَنُوهُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَهُنَّ عُوَاءٌ
شمر بن عطیہ بیان کرتے ہیں کہ مزینہ قبیلے یا جہینہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی نماز ادا کی اس وقت وہاں سو بھیڑیے موجود تھے جنہوں نے اپنے نمائندوں کے طور پر کچھ بھیڑیوں کو بھیجا تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے ارشاد فرمایا تم اپنے کھانے میں سے انھیں کچھ کھانے کو دے دیا کرو تم ان کے حملے سے محفوظ رہوگے۔ ان بھیڑیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی ضرورت کی درخواست پیش کی تھی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی وہ ضرورت پوری کردی راوی کا بیان ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ضرورت پوری کردی تو وہ بھیڑیے آوازیں نکالتے ہوئے چلے گئے۔

23

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ حَزِينٌ وَقَدْ تَخَضَّبَ بِالدَّمِ مِنْ فِعْلِ أَهْلِ مَكَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ جِبْرِيلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ تُحِبُّ أَنْ أُرِيَكَ آيَةً قَالَ نَعَمْ فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَائِهِ فَقَالَ ادْعُ بِهَا فَدَعَا بِهَا فَجَاءَتْ وَقَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ مُرْهَا فَلْتَرْجِعْ فَأَمَرَهَا فَرَجَعَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسْبِي حَسْبِي
حضرت انس بیان کرتے ہیں حضرت جبرائیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ اس وقت غم گین بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ قریش سے تعلق رکھنے والے اہل مکہ کی زیادتی کے نتیجے میں آپ کا خون بہت زیادہ بہہ گیا تھا حضرت جبرائیل نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ پسند کریں گے کہ میں آپ کو ایک نشانی دکھلاؤں آپ نے جواب دیا ہاں۔ تو حضرت جبرائیل نے اپنے کے پیچھے ایک درخت کی طرف دیکھا اور عرض کیا آپ اسے بلائیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلایا تو وہ آکر آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ حضرت جبرائیل نے عرض کی آپ اسے واپس جانے کا حکم دیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا تو وہ واپس چلا گیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اتنا ہی کافی ہے۔

24

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَتَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُرِيكَ آيَةً قَالَ بَلَى قَالَ فَاذْهَبْ فَادْعُ تِلْكَ النَّخْلَةَ فَدَعَاهَا فَجَاءَتْ تَنْقُزُ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ قُلْ لَهَا تَرْجِعْ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْجِعِي فَرَجَعَتْ حَتَّى عَادَتْ إِلَى مَكَانِهَا فَقَالَ يَا بَنِي عَامِرٍ مَا رَأَيْتُ رَجُلًا كَالْيَوْمِ أَسْحَرَ مِنْهُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنوعامر سے تعلق رکھنے والا ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں ایک نشانی دوں اس نے عرض کیا جی ہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جاؤ اور کھجور کے اس درخت کو بلاؤ اس نے اس کھجور کے درخت کو بلایا تو وہ چلتا ہو آپ کے سامنے آگیا اس شخص نے عرض کی آپ اسے حکم دیں کہ یہ واپس چلا جائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس درخت سے کہا کہ واپس چلے جاؤ تو وہ اس جگہ سے واپس چلا گیا جہاں وہ موجود تھا اس شخص نے اپنے قبیلے والوں سے کہا اے بنوعامر میں نے آج جتنا بڑا جادو گر دیکھا ہے اتنا بڑا پہلے نہیں دیکھا۔

25

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَطَلَبَ بِلَالٌ الْمَاءَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ الْمَاءَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ مِنْ شَنٍّ فَأَتَاهُ بِشَنٍّ فَبَسَطَ كَفَّيْهِ فِيهِ فَانْبَعَثَتْ تَحْتَ يَدَيْهِ عَيْنٌ قَالَ فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَشْرَبُ وَغَيْرُهُ يَتَوَضَّأُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا حضرت بلال پانی ڈھونڈنے کے لیے گئے پھر آکر عرض کیا اللہ کے رسول مجھے پانی کہیں نہیں ملا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا کوئی مشکیزہ ہے ؟ حضرت بلال ایک مشکیزہ لے کر آئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دونوں ہتھلیاں اس میں پھیلائیں تو آپ کے دونوں ہاتھوں سے ایک چشمہ جاری ہوگیا راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس پانی کو پیا اور باقی صحابہ نے وضو کیا۔

26

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ قَالَ قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ غَزَوْنَا أَوْ سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ بِضْعَةَ عَشَرَ وَمِائَتَانِ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ فِي الْقَوْمِ مِنْ طَهُورٍ فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْعَى بِإِدَاوَةٍ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ لَيْسَ فِي الْقَوْمِ مَاءٌ غَيْرُهُ فَصَبَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَدَحٍ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَرَكَ الْقَدَحَ فَرَكِبَ النَّاسُ ذَلِكَ الْقَدَحَ وَقَالُوا تَمَسَّحُوا تَمَسَّحُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكُمْ حِينَ سَمِعَهُمْ يَقُولُونَ ذَلِكَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّهُ فِي الْمَاءِ وَالْقَدَحِ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ أَسْبِغُوا الطُّهُورَ فَوَالَّذِي هُوَ ابْتَلَانِي بِبَصَرِي لَقَدْ رَأَيْتُ الْعُيُونَ عُيُونَ الْمَاءِ تَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَلَمْ يَرْفَعْهَا حَتَّى تَوَضَّئُوا أَجْمَعُونَ
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ایک غزوہ میں یا ایک سفر میں شریک تھے ہماری تعداد دو سو دس سے زیادہ تھی نماز کا وقت ہوگیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کیا لوگوں میں سے کسی کے پاس وضو کا پانی ہے۔ ایک شخص ایک برتن کے ہمراہ دوڑتا ہوا آیا جس میں تھوڑا سا پانی موجود تھا تمام حاضرین میں سے اس کے علاوہ کوئی اور پانی موجود نہ تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پانی کو ایک پیالے میں ڈالا پھر آپ نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر آپ مڑے اور پیالے کو چھوڑ دیا لوگوں نے اس پیالے کے پاس آخر یہ کہنا شروع کردیا۔ مسح کرلو مسح کرلو (یعنی وضو کرتے ہوئے زیادہ پانی استعمال نہ کرنا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اطمینان سے۔ یہ بات آپ نے اس وقت کہی جب آپ نے لوگوں کی وہ بات سنی۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک اس پانی اور پیالے میں رکھا اور فرمایا اللہ کے نام (سے برکت حاصل کرتا ہوں) پھر آپ نے ارشاد فرمایا اچھی طرح سے وضو کرلو۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے مجھے آنکھوں کی بینائی کی رخصتی میں مبتلا کیا میں نے دیکھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے آپ نے اس وقت تک اپنا دست مبارک نہیں اٹھایا جب تک سب لوگوں نے وضو نہیں کرلیا۔

27

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ وَحُصَيْنٍ سَمِعَا سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ يَقُولُ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَصَابَنَا عَطَشٌ فَجَهَشْنَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي تَوْرٍ فَجَعَلَ يَفُورُ كَأَنَّهُ عُيُونٌ مِنْ خَلَلِ أَصَابِعِهِ وَقَالَ اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فَشَرِبْنَا حَتَّى وَسِعَنَا وَكَفَانَا وَفِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ فَقُلْنَا لِجَابِرٍ كَمْ كُنْتُمْ قَالَ كُنَّا أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ وَلَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں ہمیں پیاس لاحق ہوئی ہم گھبرا گئے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک ایک برتن میں رکھا تو وہ پانی یوں جوش مارنے لگا جیسے وہ چشمہ ہو جو آپ کی انگلیوں میں سے نکل رہا تھا آپ نے ارشاد فرمایا (اللہ کا نام لے کر اس پانی کو استعمال کرو) ہم نے وہ پانی پیا یہاں تک کہ وہ ہم سب کے لیے کافی ہوگیا۔ ایک روایت میں راوی یہ کہتے ہیں ہم نے حضرت جابر سے دریافت کیا آپ کی تعداد اس وقت کتنی تھی انھوں نے جواب دیا ہماری تعداد پندرہ سو تھی اگر ہم اس وقت ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمارے لیے کافی ہوتا۔

28

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا الْجَعْدُ أَبُو عُثْمَانَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ شَكَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَطَشَ فَدَعَا بِعُسٍّ فَصُبَّ فِيهِ مَاءٌ وَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِيهِ قَالَ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَاءِ يَنْبُعُ عُيُونًا مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَسْتَقُونَ حَتَّى اسْتَقَى النَّاسُ كُلُّهُمْ
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو آپ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا اس میں کچھ پانی انڈیلا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک اس میں ڈال دیا۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے دیکھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ لوگوں نے اس پانی کو پیا یہاں تک کہ سب لوگوں نے اسے پی لیا۔ (وہ سب ان کے لیے کافی ہوگیا) ۔

29

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بِخَسْفٍ فَقَالَ كُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا إِنَّا بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ مَعَنَا مَاءٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اطْلُبُوا مَنْ مَعَهُ فَضْلُ مَاءٍ فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَصَبَّهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ فِيهِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ الْمُبَارَكِ وَالْبَرَكَةُ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى فَشَرِبْنَا و قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ
حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے کہیں زمین دھنسنے کے بارے میں سنا تو ارشاد فرمایا ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ظاہر ہونی والی نشانیوں کو برکت شمار کرتے تھے جبکہ تم انھیں خوف زدہ کرنے والی چیز سمجھتے ہو ایک مرتبہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے پمارے پاس پانی موجود نہیں تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا اس شخص کو ڈھونڈو جس کے پاس پانی موجود ہو وہ پانی لایا گیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے برتن میں انڈیل دیا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے لگا پھر آپ نے ارشاد فرمایا برکت والے طہارت دینے والے پانی کی طرف آؤ اور برکت اللہ کی طرف سے ہے (راوی بیان کرتے ہیں) ہم نے وہ پانی پی بھی لیا۔

30

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ عَلَى عَهْدِ عَبْدِ اللَّهِ فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ فَقَالَ إِنَّا كُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ نَرَى الْآيَاتِ بَرَكَاتٍ وَأَنْتُمْ تَرَوْنَهَا تَخْوِيفًا بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ إِذْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَنَا مَاءٌ إِلَّا يَسِيرٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فِي صَحْفَةٍ وَوَضَعَ كَفَّهُ فِيهِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبَجِسُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ ثُمَّ نَادَى حَيَّ عَلَى الْوَضُوءِ وَالْبَرَكَةُ مِنْ اللَّهِ فَأَقْبَلَ النَّاسُ فَتَوَضَّئُوا وَجَعَلْتُ لَا هَمَّ لِي إِلَّا مَا أُدْخِلُهُ بَطْنِي لِقَوْلِهِ وَالْبَرَكَةُ مِنْ اللَّهِ فَحَدَّثْتُ بِهِ سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ فَقَالَ كَانُوا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةٍ
حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ کے زمانے میں زمین میں زلزلہ آگیا انھیں اس کی اطلاع ملی تو بولے ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ظاہر ہونے والی نشانیوں کو برکت کی علامت سمجھتے تھے جبکہ تم انھیں خوفزدہ کرنے والی چیز سمجھتے ہو ہم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ایک سفر میں تھے نماز کا وقت ہوگیا ہمارے پاس پانی موجود نہیں تھا۔ صرف تھوڑا سا پانی تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک برتن میں پانی منگوایا آپ نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی پھوٹ پڑا پھر آپ نے بلند آواز میں کہا وضو کرنے والی چیز کی طرف آؤ برکت اللہ کی طرف سے ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں لوگ آئے اور انھوں نے وضو کرنا شروع کردیا میرا یہ ارادہ ہوا کہ میں اس پانی کو اپنے پیٹ میں ڈال لوں کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے برکت ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں میں نے سالم کو یہ حدیث سنائی تو وہ بولے اس وقت صحابہ کی تعداد پندرہ سو تھی۔

31

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّى أَتَاهُ فَمَسَحَهُ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے جب آپ نے منبر بنالیا تو وہ تنا رونے لگا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس تشریف لائے اور آپ نے اس پر ہاتھ پھیرا۔

32

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَيَّانَ حَدَّثَنِي ابْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ فَكَانَ يَشُقُّ عَلَيْهِ قِيَامُهُ فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَهُ وَأُقِيمَ إِلَى جَنْبِهِ قَائِمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِيَامُ عَلَيْهِ اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّكَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِهِ رَجُلٌ كَانَ وَرَدَ الْمَدِينَةَ فَرَآهُ قَائِمًا إِلَى جَنْبِ ذَلِكَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ يَلِيهِ مِنْ النَّاسِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَحْمَدُنِي فِي شَيْءٍ يَرْفُقُ بِهِ لَصَنَعْتُ لَهُ مَجْلِسًا يَقُومُ عَلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ وَإِنْ شَاءَ قَامَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ائْتُونِي بِهِ فَأَتَوْهُ بِهِ فَأُمِرَ أَنْ يَصْنَعَ لَهُ هَذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلَاثَ أَوْ الْأَرْبَعَ هِيَ الْآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِينَةِ فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ رَاحَةً فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلَى هَذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَهُ جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ كَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِينَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ حَنِينَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ اخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَكَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ فَتَكُونَ كَمَا كُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَكَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُيُونِهَا فَيَحْسُنُ نَبْتُكَ وَتُثْمِرُ فَيَأْكُلَ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ مِنْ ثَمَرَتِكَ وَنَخْلِكَ فَعَلْتُ فَزَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لَهُ نَعَمْ قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهُ فِي الْجَنَّةِ
ابن بریدہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو آپ طویل قیام کرتے تھے یہ کھڑا ہونا آپ کے لیے مشقت کا باعث ہوتا تھا کھجور کا ایک تنا لایا گیا اور اسے گاڑھ دیا گیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پہلو میں کھڑے ہوتے تھے جب آپ خطبہ دیتے اور طویل قیام کرتے تو اس کے ساتھ ٹیک لگالیا کرتے تھے ایک شخص نے یہ بات دیکھی وہ شخص نیا مدینہ میں آیا تھا جب اس نے آپ کو اس تنے کے پہلو میں کھڑے ہوئے دیکھا تو اپنے ساتھ موجود شخص سے کہا اگر مجھے یہ پتہ چل جائے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری اس بات کی تعریف کریں گے جس کی وجہ سے انھیں آسانی مل جائے گی تو ان کے لیے ایک بیٹھنے کی چیز بنا دیتا ہوں جس پر وہ کھڑے بھی ہوسکیں گے۔ اگر وہ چاہیں تو بیٹھ جائیں اور جب تک چاہیں بیٹھے رہیں اور اگر وہ چاہیں تو کھڑے ہوجائیں اس بات کی اطلاع نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی تو آپ نے ارشاد فرمایا اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ لوگ اس شخص کو آپ کے پاس لے کر آئے آپ نے اسے ہدایت کی کہ وہ آپ کے لیے یہ تین یا چار سیڑھیاں بنادے جو اب مدینہ منورہ میں منبر ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں بہت راحت محسوس کی جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تنے کو چھوڑ دیا اور اس منبر کی طرف آنے لگے جو آپ کے لیے بنایا تھا تو وہ تنا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدائی کے وقت یوں رویا جیسے کوئی اونٹنی روتی ہے۔ روای بیان کرتے ہیں کہ ابن بریدہ نے اپنے والد کے حوالے سے یہ بات بیان کی ہے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تنے کے رونے کی آواز سنی تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اوپر رکھ دیا اور فرمایا تمہیں اختیار ہے میں تمہیں اس جگہ گاڑھ دیتا ہوں جہاں تم ہو اور تم یونہی رہوگے جیسے تم ہو اگر تم چاہو تو میں تمہیں جنت میں لگوا دوں گا۔ تم اس کی نہروں اور چشموں سے پانی حاصل کرنا یوں تمہاری نشو و نما بہتر ہوجائے گی اور پھر تم پھل دوگے اور تمہارے پھل اور کھجوروں کو اللہ کے نیک بندے کھائیں گے اگر تم چاہو تو میں ایسا کردیتا ہوں۔ ابن بریدہ بیان کرتے ہیں ان کے والد نے یہ بات بیان کی انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ اس کھجور کے تنے سے یہ کہہ رہے تھے ٹھیک ہے میں نے ایساہی کیا آپ نے یہ بات دو دفعہ ارشاد فرمائی (ابن بریدہ کے والد یا کسی اور شخص نے) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا اس نے یہ بات اختیار کی کہ میں اسے جنت میں لگوادوں۔

33

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ يُجْعَلَ الْمِنْبَرُ فَلَمَّا جُعِلَ الْمِنْبَرُ حَنَّ ذَلِكَ الْجِذْعُ حَتَّى سَمِعْنَا حَنِينَهُ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَيْهِ فَسَكَنَ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کے تنے کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے یہ منبر بنائے جانے سے پہلے کی بات ہے جب منبر بنادیا گیا تو وہ تنا رونے لگا یہاں تک کہ ہم نے بھی اس کے رونے کی آواز سنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست اقدس اس پر رکھا تو اسے سکون آیا۔

34

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِلَى خَشَبَةٍ فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ فَجَلَسَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَنَّتْ حَنِينَ الْعِشَارِ حَتَّى وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لکڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے جب منبر بنادیا گیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی یوں رونے لگی جیسے کوئی اونٹنی روتی ہے یہاں تک کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اس کو سکون آیا۔

35

أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي كَرِبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَنَّتْ الْخَشَبَةُ حَنِينَ النَّاقَةِ الْخَلُوجِ
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں وہ لکڑی اس طرح روئی جس طرح کوئی اونٹنی بچہ جنم دیتے وقت روتی ہے۔

36

أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ وَيَخْطُبُ إِلَيْهِ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ أَلَا نَجْعَلُ لَكَ عَرِيشًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَرَاكَ النَّاسُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَتُسْمِعُ مِنْ خُطْبَتِكَ قَالَ نَعَمْ فَصَنَعَ لَهُ الثَّلَاثَ دَرَجَاتٍ هُنَّ اللَّوَاتِي عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ وَوُضِعَ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الْمِنْبَرَ مَرَّ عَلَيْهِ فَلَمَّا جَاوَزَهُ خَارَ الْجِذْعُ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ فَرَجَعَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ حَتَّى سَكَنَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ قَالَ فَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَّى إِلَيْهِ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ أَخَذَ ذَلِكَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدَهُ حَتَّى بَلِيَ وَأَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا
حضرت طفیل اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجور کے تنے کی طرف منہ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے اور اسی سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد میں سائے کے لیے کچھ تھا (باقاعدہ چھت نہیں تھی) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے کہا کیا ہم آپ کے لیے کوئی ایسا تخت نہ بنالیں جس پر آپ کھڑے ہوجایا کریں اور جمعہ کے دن لوگ آپ کو دیکھ سکیں گے اور آپ انھیں اپنا خطبہ سنا سکیں گے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ہاں۔ تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تین سیڑھیاں بنالی گئیں۔ یہ وہی ہیں جو منبر ہے۔ جب منبر رکھا گیا اور اسے اس جگہ رکھا گیا جہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ راوی کا بیان ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے آپ کا ارادہ منبر پر بیٹھنے کا تھا جب آپ اس لکڑی کے پاس سے گزرے اور آپ آگے بڑھ گئے تو وہ تنا رونے لگا اور بلند آواز نکالنے لگا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیرا تو اسے سکون آیا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر کے پاس آئے۔ راوی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز ادا کرتے تو اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے جب مسجد کو منہدم کردیا گیا تو حضرت ابی بن کعب نے اس تنے کو حاصل کرلیا وہ ان کے پاس رہا۔ یہاں تک کہ وہ بوسیدہ ہوگیا اور اسے دیمک نے چاٹ لیا اور ریزہ ریزہ ہوگیا۔

37

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِلَى لِزْقِ جِذْعٍ فَأَتَاهُ رَجُلٌ رُومِيٌّ فَقَالَ أَصْنَعُ لَكَ مِنْبَرًا تَخْطُبُ عَلَيْهِ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا هَذَا الَّذِي تَرَوْنَ قَالَ فَلَمَّا قَامَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ حَنَّ الْجِذْعُ حَنِينَ النَّاقَةِ إِلَى وَلَدِهَا فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ فَسَكَنَ فَأُمِرَ بِهِ أَنْ يُحْفَرَ لَهُ وَيُدْفَنَ
حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے ایک رومی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں آپ کے لیے ایک منبر بنا دیتا ہوں۔ آپ اس پر بیٹھ کر خطبہ دیا کریں۔ اس شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہی منبر بنادیا جسے تم لوگ دیکھتے ہو حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے اس منبر پر کھڑے ہوئے تو کھجور کے اس تنے نے یوں رونا شروع کردیا جیسے کوئی اونٹنی اپنے بچوں کی وجہ سے روتی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اترے اس تنے کے پاس آئے آپ نے اسے بھینچ لیا تو اسے سکون آیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے تحت زمین کھود کر اس تنے کو دفن کردیا گیا۔

38

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا الصَّعْقُ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ لَمَّا أَنْ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ جَعَلَ يُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى خَشَبَةٍ وَيُحَدِّثُ النَّاسَ فَكَثُرُوا حَوْلَهُ فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُسْمِعَهُمْ فَقَالَ ابْنُوا لِي شَيْئًا أَرْتَفِعُ عَلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ عَرِيشٌ كَعَرِيشِ مُوسَى فَلَمَّا أَنْ بَنَوْا لَهُ قَالَ الْحَسَنُ حَنَّتْ وَاللَّهِ الْخَشَبَةُ قَالَ الْحَسَنُ سُبْحَانَ اللَّهِ هَلْ تُبْتَغَى قُلُوبُ قَوْمٍ سَمِعُوا قَالَ أَبُو مُحَمَّد يَعْنِي هَذَا
حسن بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ لکڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرما ہوتے تھے اور لوگوں سے بات چیت کرتے تھے لوگ بکثرت تعداد میں آپ کے اردگرد اکٹھے ہوتے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خواہش ہوئی کہ آپ اپنی آواز ان تک پہنچائیں۔ آپ نے حکم دیا کہ میرے لیے کوئی ایسی چیز بناؤ جس پر میں بلندی پر بیٹھ سکوں۔ لوگوں نے دریافت کیا وہ کیسے ؟ اے اللہ کے نبی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کوئی تخت ہو جیسے حضرت موسیٰ کا تخت تھا۔ جب لوگوں نے اسے بنادیا تو حسن بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم وہ لکڑی رونے لگی۔ حسن فرماتے ہیں سبحان اللہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بات سنی ہو کیا ان کے دل کوئی اور معجزہ تلاش کریں گے۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے ہیں یعنی رونے کی آواز سنی ہو۔

39

31. أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَ الْمِنْبَرَ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ وَتَحَوَّلَ إِلَيْهِ حَنَّ الْجِذْعُ فَاحْتَضَنَهُ فَسَكَنَ وَقَالَ لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ بِمِثْلِهِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے منبر بنائے جانے سے پہلے کی بات ہے جب آپ نے منبر کو اختیار کیا اور اس کی طرف جانے لگے تو کھجور کا وہ تنا رونے لگا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے لپٹا لیا تو اسے سکون آگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر میں اسے لپٹا نہ لیتا تو یہ قیامت کے دن تک روتا رہتا۔
حضرت انس (رض) سے بھی یہی منقول ہے۔

40

31. أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ حَنَّتْ الْخَشَبَةُ الَّتِي كَانَ يَقُومُ عِنْدَهَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهَا فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ
حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس لکڑی کے پاس کھڑے ہوا کرتے تھے اس نے رونا شروع کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس تشریف لائے آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اسے سکون آیا۔

41

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى جِذْعٍ مَنْصُوبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ فَجَاءَهُ رُومِيٌّ فَقَالَ أَلَا أَصْنَعُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَكَأَنَّكَ قَائِمٌ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ وَيَقْعُدُ عَلَى الثَّالِثَةِ فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ خَارَ الْجِذْعُ كَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّى ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ يَخُورُ فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكَنَ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ لَمَا زَالَ هَكَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن کھڑے ہوا کرتے تھے آپ اپنی پشت مسجد میں موجود ایک تنے سے ٹکا لیتے تھے اور خود لوگوں کو خطبہ دیتے تھے ایک رومی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ کے لیے ایسی چیز نہ بنادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوجایا کریں اور یوں ہی ہوگا جیسے آپ کھڑے ہوں اس شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے منبر بنایا جس کی دوسیڑھیاں تھیں اور تیسری سیڑھی پر آپ تشریف فرما ہوجایا کرتے تھے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس منبر پر تشریف فرما ہوئے تو لکڑی کے اس تنے نے بیل کی مانند آواز نکالنا شروع کردی۔ یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدائی کی وجہ سے تھی۔ یہاں تک کہ پوری مسجد میں اس کی آواز گونج گئی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اور اس کے پاس آئے۔ آپ نے اسے لپٹا لیا وہ رو رہا تھا۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے لپٹا لیا تو اسے سکون آیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر میں اسے نہ لپٹاتا تو یہ قیامت تک اسی حالت میں رہتا۔ راوی کہتے ہیں اللہ کے رسول کی جدائی کی وجہ سے ایسا ہوتا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے تحت اس کو دفن کردیا گیا۔

42

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَيْمَنَ الْمَكِّيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَرْوِيهِ عَنْكَ فَقَالَ جَابِرٌ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفُرُهُ فَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْهِ فَعَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ كُدْيَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ كُدْيَةٌ قَدْ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ فَرَشَشْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ أَوْ الْمِسْحَاةَ ثُمَّ سَمَّى ثَلَاثًا ثُمَّ ضَرَبَ فَعَادَتْ كَثِيبًا أَهْيَلَ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ايْذَنْ لِي قَالَ فَأَذِنَ لِي فَجِئْتُ امْرَأَتِي فَقُلْتُ ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ فَقُلْتُ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا صَبْرَ لِي عَلَيْهِ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَتْ عِنْدِي صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَعَنَاقٌ قَالَ فَطَحَنَّا الشَّعِيرَ وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ وَسَلَخْتُهَا وَجَعَلْتُهَا فِي الْبُرْمَةِ وَعَجَنْتُ الشَّعِيرَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِثْتُ سَاعَةً ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ الثَّانِيَةَ فَأَذِنَ لِي فَجِئْتُ فَإِذَا الْعَجِينُ قَدْ أَمْكَنَ فَأَمَرْتُهَا بِالْخَبْزِ وَجَعَلْتُ الْقِدْرَ عَلَى الْأَثَاثِي قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّمَا هِيَ الْأَثَافِيُّ وَلَكِنْ هَكَذَا قَالَ ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عِنْدَنَا طُعَيِّمًا لَنَا فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَقُومَ مَعِي أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ مَعَكَ فَقَالَ وَكَمْ هُوَ قُلْتُ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَعَنَاقٌ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ وَقُلْ لَهَا لَا تَنْزِعْ الْقِدْرَ مِنْ الْأَثَافِيِّ وَلَا تُخْرِجْ الْخُبْزَ مِنْ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ قُومُوا إِلَى بَيْتِ جَابِرٍ قَالَ فَاسْتَحْيَيْتُ حَيَاءً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ قَدْ جَاءَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ فَقَالَتْ أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَكَ كَمْ الطَّعَامُ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَدْ أَخْبَرْتَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَنَا قَالَ فَذَهَبَ عَنِّي بَعْضُ مَا كُنْتُ أَجِدُ وَقُلْتُ لَقَدْ صَدَقْتِ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ لَا تَضَاغَطُوا ثُمَّ بَرَّكَ عَلَى التَّنُّورِ وَعَلَى الْبُرْمَةِ قَالَ فَجَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنْ التَّنُّورِ الْخُبْزَ وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنْ الْبُرْمَةِ فَنُثَرِّدُ وَنَغْرِفُ لَهُمْ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَجْلِسْ عَلَى الصَّحْفَةِ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِيَةٌ فَإِذَا أَكَلُوا كَشَفْنَا عَنْ التَّنُّورِ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ فَإِذَا هُمَا أَمْلَأُ مَا كَانَا فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ وَجَدْنَاهُمَا أَمْلَأَ مَا كَانَا حَتَّى شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ كُلُّهُمْ وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْ الطَّعَامِ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْهُمْ مَخْمَصَةٌ فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا فَلَمْ نَزَلْ يَوْمَنَا ذَلِكَ نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ قَالَ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُمْ كَانُوا ثَمَانَ مِائَةٍ أَوْ قَالَ ثَلَاثَ مِائَةٍ قَالَ أَيْمَنُ لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ
عبدالواحد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے حضرت جابربن عبداللہ سے عرض کی کہ آپ مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنا ہو۔ تاکہ میں اسے آپ کے حوالے سے روایت کرسکوں۔ حضرت جابر نے جواب دیا : غزوہ خندق کے موقع پر ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خندق کھود رہے تھے۔ تین دن تک ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ کھانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ خندق میں ایک سخت پتھر آگیا۔ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ یہ ایک پتھر آگیا ہے جو خندق میں ہے۔ ہم نے اس پر پانی چھڑکا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا آپ نے پھاؤڑے یا شاید کدال کو پکڑا اور تین مرتبہ اللہ کا نام لے کر ضرب لگائی تو وہ ریت کے ٹیلے کی مانند ہوگیا۔ جب میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ کیفیت دیکھی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول۔ آپ اجازت دیں حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں آپ نے مجھے اجازت دی میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں روئے۔ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس عالم میں دیکھا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا کیا تمہارے پاس کھانا پکانے کے لیے کچھ ہے۔ اس نے جواب دیا۔ میرے پاس جو کا ایک صاع ہے۔ اور ایک بکری کا بچہ ہے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے اس جو کو پیسا اور اس بکری کو ذبح کیا میں نے اس کی کھال اتاری اور اسے ہنڈیا میں رکھ دیا میں نے اس جو کو گوندھا۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں واپس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کچھ دیر وہاں رہنے کے بعد میں نے آپ سے اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت عطا کردی۔ میں گھر آیا وہ آٹا ٹھہر چکا تھا میں نے اپنی بیوی کو روٹی پکانے کا حکم دیا اور ہنڈیا کو چولہے پر رکھ دیا۔ امام ابوعبدالرحمن کہتے ہیں روایت کا صحیح لفظ اثافی ہے تاہم اس روایت میں یہی منقول ہے۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں پھر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہمارے ہاں تھوڑا سا کھانا موجود ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ میرے ساتھ چلیں آپ کے ساتھ ایک یا دو اور صاحبان ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا جو کا ایک صاع اور ایک بکری کا بچہ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم اپنی بیوی کے پاس واپس جاؤ اور اسے یہ ہدایت کردو کہ چولہے سے ہنڈیا نہ اتارنا جب تک میں نہ آجاؤں تندور سے روٹیاں بھی نہ نکالے۔ پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جابر (رض) کے گھر کی طرف چلو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں مجھے اتنی حیاء محسوس ہوئی کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہوسکتا ہے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں روئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام اصحاب کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں میری بیوی نے مجھ سے دریافت کیا کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تھا کہ کھانا کتنا ہے میں نے جواب دیا ہاں۔ وہ بولی اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ تم نے انھیں بتادیا تھا کہ ہمارے پاس کتنا کھانا موجود ہے۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں یہ سن کر میری الجھن کچھ کم ہوئی اور میں نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ اندر تشریف لائے۔ پھر آپ نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا ہجوم کی شکل میں نہ آؤ۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندور کے پاس اور ہنڈیا کے پاس بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے تندور میں سے روٹیاں نکالنی شروع کی اور ہنڈیا میں سے گوشت نکالنا شروع کیا اور اس کا ثرید بنانا شروع کردیا اور لوگوں کو ڈال کردینا شروع کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ایک پیالے کے اوپر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں تو ہم نے تندور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا۔ وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ ہم اسی طرح کرتے رہے جب بھی ہم تندور کھولتے ہنڈیا سے ڈھکن اٹھاتے وہ پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمانوں نے کھانا کھالیا اور کچھ کھانا پھر باقی رہ گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے کہا لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے اس لیے میں انھیں اپنے ساتھ لے آیا اب تم کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اس دن کے بعد ہم خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے مجھے بتایا اس وقت ان لوگوں کی تعداد آٹھ سو تھی۔ (راوی کو شک ہے یا شاید) یہ الفاظ ہیں تین سو تھی۔ ایمن نامی راوی کہتے ہیں مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا لفظ منقول تھا۔

43

أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ أَنْ تَجْعَلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا يَأْكُلُ مِنْهُ قَالَ ثُمَّ بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ بَعَثَنِي إِلَيْكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ لِلْقَوْمِ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ مَعَهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا صَنَعْتُ طَعَامًا لِنَفْسِكَ خَاصَّةً فَقَالَ لَا عَلَيْكَ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ قَالَ فَأَذِنَ لَهُمْ فَقَالَ كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ قَامُوا ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ كَمَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى وَسَمَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَقَالَ كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ قَامُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا قَالَ وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں حضرت ابوطلحہ نے اپنی اہلیہ ام سلیم کو ہدایت کی کہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کھانا تیار کریں تاکہ آپ اسے کھاسکیں۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں۔ پھر حضرت ابوطلحہ نے مجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ حضرت ابوطلحہ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پاس موجود حضرات کو حکم دیا اٹھو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے۔ آپ کے ساتھ دیگرحاضرین بھی تھے۔ (جب آپ تشریف لائے) تو حضرت ابوطلحہ نے عرض کی ' یا رسول اللہ میں نے تو آپ کے لیے کھانا پکایا تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : تم پریشان نہ ہو۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روانہ ہوئے لوگ بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں جب کھانا لایا گیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست اقدس اس پر رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھ کر ارشاد فرمایا دس آدمیوں کو اندر آنے دو ۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں حضرت طلحہ نے دس آدمیوں کو اندر آنے دیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔ ان لوگوں نے کھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست اقدس رکھ کر وہی عمل کیا جو پہلے کیا تھا اور اس پر اللہ کا نام لیا۔ پھر ارشاد فرمایا دس آدمیوں کوا ندر آنے کے لیے کہو۔ حضرت ابوطلحہ انھیں اندر لے آئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔ ان لوگوں نے کھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ سیر ہوگئے تو اٹھ کر چلے گئے۔ یہاں تک کہ اسی (80) افراد نے کھانا کھالیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور گھر میں موجود تمام افراد نے بھی وہ کھانا کھایا پھر بھی باقی بچ گیا۔

44

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهُ طَبَخَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا فَقَالَ لَهُ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ وَكَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ فَنَاوَلَهُ الذِّرَاعَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَنَاوَلَهُ ذِرَاعًا ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَنْ لَوْ سَكَتَّ لَأُعْطِيتُ أَذْرُعًا مَا دَعَوْتُ بِهِ
حضرت ابوعبید بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک ہنڈیا میں کھانا تیار کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا تم ایک پائے کی بوٹی دو ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پائے کی بوٹی پسند تھی۔ حضرت ابوعبید نے پائے کی بوٹی ان کی طرف بڑھا دی۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ایک پائے کی بوٹی مجھے دو ۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی ایک بکری کے کتنے پائے ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اگر تم خاموش رہتے تو جب تک میں تم سے پائے مانگتا رہتاتم دیتے رہتے۔

45

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ فَقَالَ أَبِي عَبْدُ اللَّهِ يَا جَابِرُ لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي لِتَدْفِنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا فَلَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرُدُّوا الْقَتْلَى فَتَدْفِنُوهَا فِي مَضَاجِعِهَا حَيْثُ قُتِلَتْ فَرَدَدْنَاهُمَا فَدَفَنَّاهُمَا فِي مَضْجَعِهِمَا حَيْثُ قُتِلَا فَبَيْنَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ يَا جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عُمَّالُ مُعَاوِيَةَ فَبَدَا فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلَّا مَا لَمْ يَدَعْ الْقَتِيلَ قَالَ فَوَارَيْتُهُ وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي التَّقَاضِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا وَإِنَّهُ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ وَإِنَّهُ قَدْ اشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي الطَّلَبِ فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ لَعَلَّهُ أَنْ يُنْظِرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ نَعَمْ آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ قَالَ فَجَاءَ وَمَعَهُ حَوَارِيُّوهُ قَالَ فَجَلَسُوا فِي الظِّلِّ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْنَا قَالَ وَقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِيَّ الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ فَلَا يَرَيَنَّكِ وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ وَلَا تُكَلِّمِيهِ فَفَرَشَتْ فِرَاشًا وَوِسَادَةً وَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ فَقُلْتُ لِمَوْلًى لِي اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَةٌ فَالْوَحَى وَالْعَجَلَ افْرُغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَكَ فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا وَهُوَ نَائِمٌ فَقُلْتُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَسْتَيْقِظُ يَدْعُو بِطَهُورِهِ وَأَنَا أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ فَلَا يَفْرُغَ مِنْ طُهُورِهِ حَتَّى يُوضَعَ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ قَالَ يَا جَابِرُ ايْتِنِي بِطَهُورٍ قَالَ نَعَمْ فَلَمْ يَفْرُغْ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى وُضِعَتْ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا اللَّحْمِ ادْعُ أَبَا بَكْرٍ ثُمَّ دَعَا حَوَارِيِّيهِ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوُضِعَ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ كُلُوا فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَ مِنْهَا لَحْمٌ كَثِيرٌ وَقَالَ وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلَمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِمْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ مَا يَقْرَبُونَهُ مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ ثُمَّ قَامَ وَقَامَ أَصْحَابُهُ فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ وَكَانَ يَقُولُ خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ قَالَ فَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغْتُ سَقُفَّةَ الْبَابِ فَأَخْرَجَتْ امْرَأَتِي صَدْرَهَا وَكَانَتْ سَتِيرَةً فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ ثُمَّ قَالَ ادْعُوا لِي فُلَانًا لِلْغَرِيمِ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ فَقَالَ أَنْسِ جَابِرًا طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ قَالَ وَاعْتَلَّ وَقَالَ إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ جَابِرٌ قَالَ قُلْتُ أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كِلْ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ قَالَ الصَّلَاةُ يَا أَبَا بَكْرٍ قَالَ فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ لِغَرِيمِي قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ فَكِلْتُ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ كَأَنِّي شَرَارَةٌ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ فَجَاءَ يُهَرْوِلُ قَالَ سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ قَالَ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَدَّدَ عَلَيْهِ وَرَدَّدَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ وَكَانَ لَا يُرَاجَعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ فَقَالَ مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ قَالَ قُلْتُ وَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَرَجَعْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَقَالَتْ تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُورِدُ نَبِيَّهُ فِي بَيْتِي ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو میرے والد عبداللہ نے کہا اے جابر (رض) تم کو اس میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ تم مدینہ کے مخالفین میں شامل ہو۔ یہاں تک تمہیں اس بات کا پتہ چل جائے کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اللہ کی قسم اگر میں نے اپنے بعد بیٹیاں نہ چھوڑی ہوتیں تو مجھے یہ بات پسند تھی کہ تم میرے سامنے شہید ہوتے۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں میں مدینہ کے مخالفین میں شامل تھا۔ جب میری پھوپھی میرے والد اور میرے ماموں (کی میت) کے ساتھ آئیں تاکہ انھیں ہمارے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ایک شخص نے یہ اعلان کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ہدایت کی ہے کہ تم مقتولین کو واپس لے جاؤ اور انھیں اسی جگہ پر دفن کرو جہاں وہ شہید ہوئے ہیں۔ ہم ان دونوں کو واپس لے گئے اور ان دونوں حضرات کو وہیں دفن کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے ( حضرت جابر بیان کرتے ہیں) میں حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے عہد خلافت میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا اے جابر بن عبداللہ حضرت معاویہ کے سرکاری اہلکاروں نے آپ کے والد کی قبر سے مٹی ہٹادی ہے۔ جس سے میت ظاہر ہوئی ہے۔ لوگوں میں سے بہت سے لوگ نکلے میں بھی وہاں گیا تو میں نے انھیں اسی حالت میں پایا جس حالت میں انھیں دفن کیا تھا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی ' سوائے اس کے کہ قتل کی وجہ سے جو تبدیلی آنی تھی حضرت جابر کہتے ہیں میں نے ان کی قبر کو ڈھانپ دیا۔ میرے والد نے اپنے ذمہ کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا تھا قرض خواہوں نے مجھ سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد فلاں موقع پر شہید ہوگئے انھوں نے کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا ہے قرض خواہ مجھ سے شدت سے تقاضا کر رہے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کیجیے تاکہ قرض خواہ اگلی آنیوالی پیدوار تک میرے ساتھ کچھ نرمی کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں دوپہر کے قریب کسی وقت تمہارے پاس آؤں گا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں آپ تشریف لائے آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی تھے یہ سب حضرات سائے میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی اور پھر آپ اندر تشریف لائے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے اپنی اہلیہ سے کہا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت تشریف لائیں گے وہ تمہیں (یعنی تمہاری طرف سے کوئی ناخوشگوار بات) نہ دیکھیں گے اور تم اللہ کے رسول کو کوئی اذیت نہ ہونے دینا اور تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے دینا اور ان سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس عورت نے ایک بچھونا بچھا دیا اور ایک تکیہ رکھ دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ میں نے اپنے غلام سے کہا اس بکری کو ذبح کرو۔ یہ موٹی اور صحت مند بکری تھی اور جلدی کرنا تیزی کے ساتھ۔ تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیدار ہونے سے پہلے اس کام سے فارغ ہوجانا میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ہم نے یہ کام کیا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت سو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول جب بیدار ہوں گے تو وہ وضو کے لیے پانی مانگیں گے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ جب وہ فارغ ہوں گے تو اٹھ کرچلیں جائیں گے۔ لہٰذا وہ جتنی دیر میں وضو کرکے فارغ ہوتے ہیں بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا جائے۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدا ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا اے جابر (رض) وضو کے لیے پانی لاؤ میں نے عرض کیا جی ہاں پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وضو کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا گیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا تمہیں پتا ہے کہ مجھے گوشت پسند ہے ابوبکر (رض) کو بلاؤ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو بلایا حضرت جابر بیان کرتے ہیں کھانا لا کر رکھ دیا گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک رکھا اور ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کھانا شروع کرو ان حضرات نے کھانا شروع کیا وہ سیر ہوگئے پھر بھی اس میں سے بہت سا گوشت باقی بچ گیا۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم بنوسلمہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے یہ بات ان کے نزدیک ان کی آنکھوں سے زیادہ عزیز تھی وہ آپ کے قریب اس لیے نہیں آتے تھے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے آپ کے ساتھی بھی کھڑے ہوئے وہ حضرات آپ کے آگے نکلے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے پیچھے والی جگہ فرشتوں کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ان کے پیچھے میں بھی آیا۔ یہاں تک کہ جب ہم دروازے کی چوکھٹ تک پہنچے تو میری بیوی نے سر باہر نکال کر کہا حالانکہ وہ پردہ دار عورت تھی اے اللہ کے رسول آپ میرے لیے اور میرے شوہر کے لیے دعائے برکت کریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے شوہر پر برکت نازل کرے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا فلاں شخص کو بلا کر لاؤ یہ آپ نے قرض خواہ کے لیے کہا جس نے مجھ سے سختی سے مطالبہ کیا تھا پھر آپ نے حکم دیا تم جابر کو اپنے قرض میں سے کچھ چھوٹ دو جو اس کے والد کے ذمہ واجب الاداء تھا اور یہ چھوٹ اگلی پیدوار تک ہوگی اس نے عرض کیا میں یہ نہیں کرسکوں گا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں اس نے کوئی عذر بیان کیا اور بولا کہ یہ یتیموں کا مال ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا جابر (رضی اللہ عنہ) کہاں ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہاں ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے ناپ کر دیدو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کھجوروں کو پورا کردے گا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا سورج ڈھل چکا تھا آپ نے فرمایا ابوبکر (رض) نماز کا وقت ہوگیا ہے پھر یہ حضرات مسجد کی طرف تشریف لے گئے حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا تم اپنا برتن آگے لاؤ میں نے اسے ناپ کر عجوہ کھجور دیدیں تو اللہ نے ان کھجوروں کو وہیں پورا کردیا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں ڈرتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مسجد میں آیا یوں جیسے کوئی شعلہ ہوتا ہے میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے اپنے قرض خواہ کو ناپ کر اس کی کھجوریں دے دیں ہیں۔ اللہ نے انھیں پورا کردیا تھا پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ عمر بن خطاب کہاں ہیں حضرت جابر (رض) کہتے ہیں وہ تیزی سے چلتے ہوئے آئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جابر (رض) سے اس کے قرض خواہ اور کھجوروں کا معاملہ دریافت کرو۔ حضرت عمر نے عرض کی میں یہ نہیں پوچھوں گا۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اللہ انھیں پورا کردے گا یہ اسی وقت پتا چل گیا تھا جب آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ اس کو پورا کردے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور حضرت عمر نے ہر مرتبہ یہی کہا کہ میں نہیں پوچھوں گا پھر انھوں نے دریافت کیا کہ تمہارے قرض خواہ اور کھجوروں کا کیا معاملہ ہوا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں نے بتایا اللہ نے انھیں پورا کردیا تھا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں اپنی اہلیہ کے پاس واپس آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کے ساتھ کلام نہیں کرو گی وہ عورت بولی کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اللہ اپنے نبی کو ہمارے ہاں لائے اور پھر وہ واپس تشریف لے جائیں اور میں ان سے اپنے بارے میں اور اپنے شوہر کے بارے میں دعائے رحمت کے لیے نہ کہوں۔

46

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَ مُحَمَّدًا عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَعَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَقَالُوا يَا ابْنَ عَبَّاسٍ بِمَ فَضَّلَهُ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِأَهْلِ السَّمَاءِ وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ الْآيَةَ وَقَالَ اللَّهُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالُوا فَمَا فَضْلُهُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ الْآيَةَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ فَأَرْسَلَهُ إِلَى الْجِنِّ وَالْإِنْسِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بیشک اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا کی اور آسمان کی جملہ مخلوقات پر فضیلت عطاکی لوگوں نے دریافت کیا اے حضرت ابن عباس (رض) ! اللہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمان والوں پر کیسے فضیلت عطا کی ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا اللہ نے آسمان والوں سے یہ ارشاد فرمایا آیت (ترجمہ) " اور ان میں سے جو یہ کہے کہ اس کی بجائے میں معبود ہوں تو ہم اس کی جزا جہنم کردیں گے۔ ظلم کرنے والوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ " جب کہ اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد فرمایا آیت۔ " بیشک ہم نے تمہیں واضح فتح عطا کی تاکہ اللہ تمہارے گزشتہ اور آئندہ گناہوں کی مغفرت کردے۔
لوگوں نے دریافت کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انبیاء پر فضیلت کیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے۔ آیت۔ " ہم نے جو بھی رسول مبعوث کیا اسے اس کی قوم کی زبان کے ہمراہ مبعوث کیا تاکہ وہ اس قوم کے لیے واضح طور پر اللہ کے احکام بیان کردے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد فرمایا۔ آیت۔ اور ہم نے تمہیں تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث کیا ہے۔

47

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَتَسَمَّعَ حَدِيثَهُمْ فَإِذَا بَعْضُهُمْ يَقُولُ عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلًا فَإِبْرَاهِيمُ خَلِيلُهُ وَقَالَ آخَرُ مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ وَقَالَ آخَرُ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَمُوسَى نَجِيُّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَى رُوحُهُ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ تَعَالَى وَهُوَ كَذَلِكَ أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهُ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ بِحَلَقِ الْجَنَّةِ وَلَا فَخْرَ فَيَفْتَحُ اللَّهُ فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ عَلَى اللَّهِ وَلَا فَخْرَ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ صحابہ بیٹھے ہوئے آپ کا انتظار کر رہے تھے آپ تشریف لائے جب آپ ان کے قریب ہوئے تو انھیں کسی موضوع پر گفتگو کرتے سنا آپ نے ان کی بات پر غور کیا تو ان میں سے ایک صاحب یہ کہہ رہے تھے یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ایک کو خلیل بنایا ہے۔ حضرت ابراہیم اس کے خلیل ہیں اور ایک صاحب بولے اس سے زیادہ حیران کن بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو شرف ہم کلامی عطا کیا ہے ایک صاحب اور بولے حضرت عیسیٰ اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ایک اور صاحب بولے اللہ نے حضرت آدم کو چن لیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو سلام کیا اور ارشاد فرمایا میں نے تمہاری گفتگو اور حیرانی کا اظہارسنا ہے بیشک حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور حضرت موسیٰ اس کے نجی ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور حضرت عیسیٰ اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور حضرت آدم کو اللہ نے منتخب کرلیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنا میں اللہ کا حبیب ہوں اور یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا قیامت کے دن لواء حمد میں اٹھاؤں گا حضرت آدم اور دیگر سب لوگ اس کے نیچے ہوں گے اور یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا قیامت کے دن سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا سب سے پہلے جنت کے دروازے کی زنجیر کو میں حرکت دوں گا اور یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا اور اللہ تعالیٰ اسے کھول دے گا اور مجھے جنت میں داخل کرے گا میرے ساتھ غریب مسلمان ہوں گے اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا اللہ کے نزدیک میں تمام پہلے والوں اور سب بعد والوں کے مقابلے میں زیادہ باعزت ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر میں تم لوگوں سے نہیں کہہ رہا۔

48

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوجًا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوا وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوا وَأَنَا مُسْتَشْفِعُكُمْ إِذَا حُبِسُوا وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا الْكَرَامَةُ وَالْمَفَاتِيحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي يَطُوفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ كَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَكْنُونٌ أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُورٌ
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے میں اپنی قبر سے نکلوں گا جب وہ لوگ وفد کی شکل میں آئیں گے تو میں ان کی قیادت کروں گا جب وہ لوگ خاموش ہوں گے تو ان کی طرف سے میں خطبہ دوں گا جب انھیں محبوس کرلیا جائے گا تو میں ان کی طرف سے شفاعت طلب کروں گا۔ جب وہ مایوس ہوجائیں گے تو میں انھیں خوش خبری سناؤں گا۔ اس دن بزرگی اور چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گے۔ اپنے پروردگار کے نزدیک سب سے زیادہ میں معزز ہوں سفید موتیوں جیسے ایک ہزار خادم میرے گرد چکر لگائیں گے۔
(راوی کو شک ہے یا شاید) پروئے ہوئے موتیوں جیسے (خادم چکر لگائیں گے)

49

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْمِصْرِيُّ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ صَالِحٍ هُوَ ابْنُ عَطَاءِ بْنِ خَبَّابٍ مَوْلَى بَنِي الدُّئِلِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا اور تمام انبیاء کا (کی آمد کے سلسلے کو) ختم کرنے والا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور جس کی شفاعت قبول کی جائے گی وہ شخص میں ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔

50

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا قَالَ أَنَسٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهَا وَصَفَ لَنَا سُفْيَانُ كَذَا وَجَمَعَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَصَابِعَهُ وَحَرَّكَهَا قَالَ وَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ مَسِسْتَ يَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَعْطِنِيهَا أُقَبِّلْهَا
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے میں جنت کے دروازے کی کنڈی کو پکڑوں گا اور اسے کھٹکھٹاؤں گا۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک کے ذریعے اشارہ کیا تھا راوی کا بیان ہے میرے استاد نے بھی مجھے اسی طرح اشارہ کرکے یہ بات بتائی۔ ابوعبداللہ نامی راوی نے بھی اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور انھیں حرکت دی راوی کا بیان ہے ثابت نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے ہاتھ کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک کو چھوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیاہاں۔ ثابت نے کہا آپ ہاتھ میری طرف بڑھائیں تاکہ میں اسے بوسہ دوں۔

51

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ فِي الْجَنَّةِ
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت کے بارے میں سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا۔

52

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأُعْطَى لِوَاءَ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَآتِي بَابَ الْجَنَّةِ فَآخُذُ بِحَلْقَتِهَا فَيَقُولُونَ مَنْ هَذَا فَأَقُولُ أَنَا مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي فَأَدْخُلُ فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي فَأَسْجُدُ لَهُ فَيَقُولُ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْكَ وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيَقُولُ اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيرٍ مِنْ الْإِيمَانِ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي فَأَسْجُدُ لَهُ فَيَقُولُ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْكَ وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيَقُولُ اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ الْإِيمَانِ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ وَفُرِغَ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ وَأُدْخِلَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أُمَّتِي فِي النَّارِ مَعَ أَهْلِ النَّارِ فَيَقُولُ أَهْلُ النَّارِ مَا أَغْنَى عَنْكُمْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُونَ بِهِ شَيْئًا فَيَقُولُ الْجَبَّارُ فَبِعِزَّتِي لَأَعْتِقَنَّهُمْ مِنْ النَّارِ فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ فَيَخْرُجُونَ مِنْ النَّارِ وَقَدْ امْتُحِشُوا فَيُدْخَلُونَ فِي نَهَرِ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ فِيهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي غُثَاءِ السَّيْلِ وَيُكْتَبُ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ فَيُذْهَبُ بِهِمْ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ الْجَهَنَّمِيُّونَ فَيَقُولُ الْجَبَّارُ بَلْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الْجَبَّارِ
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا کیونکہ میرے ہی سرہانے کی طرف سے زمین کو شق کیا جائے گا (یعنی سب سے پہلے میں قبر سے نکلوں گا) اور یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور مجھے " لواء حمد '' عطا کیا جائے گا اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا اور یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو جنت میں داخل ہوگا اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اس کی کنڈی کو پکڑوں گا لوگ دریافت کریں گے یہ کون شخص ہے میں جواب دوں گا میں محمد ہوں وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھولیں گے میں اندر داخل ہوجاؤں گا میں اپنے سامنے اللہ کا خاص جلوہ پاؤں گا تو اس کی بارگاہ میں سجدے میں چلا جاؤں گا وہ ارشاد فرمائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ اور بات کرو تمہاری بات سنی جائے گی بولو قبول کیا جائے گا شفاعت کرو شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت کو بخش دے میری امت کو بخش دے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنی امت کے پاس جاؤ اور میں سے جس کے دل میں جو کے دانے کے وزن کے برابر ایمان ہو اسے جنت میں داخل کردو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آؤں اور جس کے دل میں اتنے وزن جتنا ایمان پاؤں گا اسے میں جنت میں داخل کردوں گا پھر میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جاؤں گا اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گا اور وہ ارشاد فرمائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ اور بات کرو بات سنی جائے گی بولو قبول کیا جائے گا شفاعت کرو شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں عرض کروں گا اے میر پروردگار میری امت کو بخش دے میری امت کو بخش دے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنی امت کے پاس جاؤ اور ان میں سے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جنت میں داخل کردو میں جاؤں گا جس کے دل میں اتنے وزن جتنا ایمان ہوگا اسے جنت میں داخل کردوں گا لوگوں کا حساب ختم ہوجائے گا اور میری امت سے تعلق رکھنے والے بقیہ افراد اہل جہنم کے ساتھ جہنم میں چلے جائیں گے پہلے جہنمی کہیں گے تم لوگ جو اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے آج تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اللہ ارشاد فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی قسم ہے میں ان لوگوں کو ضرور جہنم سے آزاد کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف فرشتوں کو بھیجے گا ان لوگوں کو جہنم سے نکالا جائے گا وہ بالکل کوئلہ ہوچکے ہوں گے انھیں جنت کی نہر حیات میں ڈالا جائے گا تو وہ اس میں یوں پھوٹ پڑیں گے جیسے سیلاب کی گزرگاہ میں کوئی دانہ پھوٹ کر پودا بن جاتا ہے ان لوگوں کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہی لکھ دیا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے آزاد کئے ہوئے لوگ ہیں پھر ان لوگوں کو لایا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا اہل جنت ان سے کہیں گے یہ جہنمی لوگ ہیں اللہ فرمائے گا نہیں بلکہ یہ جبار یعنی اللہ کی طرف سے آزاد کردہ ہیں۔

53

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ ابْنِ غَنْمٍ قَالَ نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَقَّ بَطْنَهُ ثُمَّ قَالَ جِبْرِيلُ قَلْبٌ وَكِيعٌ فِيهِ أُذُنَانِ سَمِيعَتَانِ وَعَيْنَانِ بَصِيرَتَانِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ الْمُقَفِّي الْحَاشِرُ خُلُقُكَ قَيِّمٌ وَلِسَانُكَ صَادِقٌ وَنَفْسُكَ مُطْمَئِنَّةٌ قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَكِيعٌ يَعْنِي شَدِيدًا
ابن غنم بیان کرتے ہیں حضرت جبرائیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے انھوں نے آپ کے پیٹ کو چیر دیا پھر جبرائیل نے کہا یہ بہت زبردست دل ہے۔ اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اور دو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں یہ سب سے آخر میں تشریف لائے ہیں یہی حشر کرنے والے ہیں اے محمد آپ کے اخلاق مضبوط ہیں آپ کی زبان سچی ہے اور آپ کا نفس مطمئن ہے۔ امام بومحمد دارمی فرماتے ہیں اس حدیث میں استعمال ہونے والا لفظ وکیع کا مطلب شدید اور زبردست ہے۔

54

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ أَدْرَكَ بِيَ الْأَجَلَ الْمَرْحُومَ وَاخْتَصَرَ لِيَ اخْتِصَارًا فَنَحْنُ الْآخِرُونَ وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللَّهِ وَمُوسَى صَفِيُّ اللَّهِ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَلَاثٍ لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلَى ضَلَالَةٍ
حضرت عمرو بن قیس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ میرے ذریعے رحمت کے انتہائی حصے کو ظاہر کرے گا اور میرے لیے ہی اختصار کرے گا ہم سب سے آخری لوگ ہیں لیکن قیامت کے دن ہم سب سے پہلے ہوں گے میں جو کہہ رہا ہوں یہ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں۔ حضرت موسیٰ اللہ کے صفی ہیں اور میں اللہ کا حبیب ہوں قیامت کے دن " لواء حمد " میرے پاس ہوگا بیشک اللہ نے میری امت کے بارے میں مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے اور انھیں تین چیزوں سے امان عطا کردی ہے ان پر قحط سالی نازل نہیں ہوگی دشمن انھیں سرے سے ختم نہیں کرے گا اور وہ لوگ گمراہی پر متفق نہیں ہوں گے۔

55

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ سَمِعْتُ مَسْلَمَةَ السَّكُونِيَّ وَقَالَ غَيْرُ مُحَمَّدٍ سَلَمَةَ السَّكُونِيَّ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ أُتِيتَ بِطَعَامٍ مِنْ السَّمَاءِ قَالَ نَعَمْ أُتِيتُ بِطَعَامٍ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ كَانَ فِيهِ مِنْ فَضْلٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا فُعِلَ بِهِ قَالِ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ وَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنِّي غَيْرُ لَابِثٍ فِيكُمْ إِلَّا قَلِيلًا ثُمَّ تَلْبَثُونَ حَتَّى تَقُولُوا مَتَى مَتَى ثُمَّ تَأْتُونِي أَفْنَادًا يُفْنِي بَعْضُكُمْ بَعْضًا بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مُوتَانٌ شَدِيدٌ وَبَعْدَهُ سَنَوَاتُ الزَّلَازِلِ
مسلمہ سکونی بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کے پاس آسمان سے بھی کوئی کھانا آتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ہاں کچھ کھانا آتا ہے اس شخص نے جواب دیا اے للہ کے نبی کیا اس میں کوئی فضیلت ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ہاں اس شخص نے عرض کی پھر اس کے ساتھ کیا کیا گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے آسمان کی طرف اٹھالیا گیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی میں تمہارے درمیان تھوڑا عرصہ رہوں گا پھر تم لوگ رہو گے یہاں تک کہ تم لوگ یہ کہو گے قیامت کب آئے گی پھر تم لوگ متفرق گروہوں کی شکل میں آؤ گے تم میں سے ایک دوسرے کو فنا کردے گا قیامت کے قریب دو شدید قتل عام ہوں اس کے بعد کچھ سال تک زلزلے آتے رہیں گے۔

56

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ فَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ الْقَوْمِ فَتَعَاقَبُوهَا إِلَى الظُّهْرِ مِنْ غُدْوَةٍ يَقُومُ قَوْمٌ وَيَجْلِسُ آخَرُونَ فَقَالَ رَجُلٌ لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَمَا كَانَتْ تُمَدُّ فَقَالَ سَمُرَةُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَعْجَبُ مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلَّا مِنْ هَا هُنَا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ
حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ پیش کیا گیا اس پیالے کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا لوگ صبح سے لے کر ظہر تک یکے بعد دیگرے اسے کھاتے رہے ایک گروہ اٹھ کرجاتا تو دوسرا آکر بیٹھ جاتا۔ ایک شخص نے سمرہ بن جندب سے کہا کیا وہ کھانا بڑھتا رہا تو حضرت سمرہ نے جواب دیا کہ تمہیں کس بات کی حیرانی ہو رہی ہے اس میں اضافہ وہاں سے ہوتا تھا (راوی بیان کرتے ہیں) حضرت سمرہ نے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔

57

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانَ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ قَالَ فَلَهُوَ كَانَ أَحْسَنَ فِي عَيْنِي مِنْ الْقَمَرِ
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چاندنی رات میں دیکھا آپ نے اس وقت سرخ حلہ پہن رکھا تھا میں کبھی آپ کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی چاند کی طرف دیکھتا تھا حضرت جابر بن سمرہ بیان فرماتے ہیں میری نظر میں آپ چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔

58

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ الزُّهْرِيُّ حَدَّثَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنُ أَخِي مُوسَى عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَجَ الثَّنِيَّتَيْنِ إِذَا تَكَلَّمَ رُئِيَ كَالنُّورِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ثَنَايَاهُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے دو دانتوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ کشادہ تھی اور جب آپ گفتگو کرتے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے دونوں دانتوں کے درمیان میں سے نور نکل رہا ہو۔

59

57. أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَنْجَدَ وَلَا أَجْوَدَ وَلَا أَشْجَعَ وَلَا أَضْوَأَ وَأَوْضَأَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ سخی دلیر، خوبصورت کوئی اور نہیں دیکھا۔

60

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ قُلْتُ لِلرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ صِفِي لَنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ لَوْ رَأَيْتَهُ رَأَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً
ابوعبیدہ بیان کرتے ہیں میں نے ربیع بنت معوذ سے کہا کہ آپ ہمارے سامنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسن و جمال کا تذکرہ کریں انھوں نے جواب دیا اے میرے بیٹے اگر تم ان کو دیکھ لیتے تو تم یہ محسوس کرتے گویا تم سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔

61

أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْهَرَ اللَّوْنِ كَأَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤُ إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ وَمَا مَسِسْتُ حَرِيرَةً وَلَا دِيبَاجَةً أَلْيَنَ مِنْ كَفِّهِ وَلَا شَمِمْتُ رَائِحَةً قَطُّ أَطْيَبُ مِنْ رَائِحَتِهِ مِسْكَةً وَلَا غَيْرَهَا
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گورے رنگ کے مالک تھے آپ کا پسینہ موتیوں جیسا تھا جب آپ چلتے تو آگے کی طرف جھک کر چلتے تھے میں نے آج تک آپ کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم کسی ریشم اور دیباج کو نہیں چھوا اور میں نے آپ کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ کوئی خوشبو، خواہ وہ مشک ہو یا کوئی اور ہو نہیں سونگھی۔

62

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا أَوْ هَلَّا صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا وَقَالَ لَا وَاللَّهِ مَا مَسِسْتُ بِيَدِي دِيبَاجًا وَلَا حَرِيرًا أَلْيَنَ مِنْ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَجَدْتُ رِيحًا قَطُّ أَوْ عَرْفًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرْفِ أَوْ رِيحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی ہے آپ نے کبھی بھی مجھے اف نہیں کہا اور نہ ہی میں نے جو کام کیا اس کے بارے میں یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کہا تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں اللہ کی قسم میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک سے زیادہ ملائم اور دیباج اور ریشم کو نہیں چھوا اور نہ ہی میں نے کبھی بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ کسی خوشبو کو سونگھا ہے۔ (راوی بیان کرتے ہیں حدیث کے الفاظ میں کچھ اختلاف ہے۔

63

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ خُدْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي حُرَيْشٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ أَبِي حِينَ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ فَلَمَّا أَخَذَتْهُ الْحِجَارَةُ أُرْعِبْتُ فَضَمَّنِي إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَالَ عَلَيَّ مِنْ عَرَقِ إِبْطِهِ مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ
حبیب بیان کرتے ہیں بنوحریش سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے مجھے یہ بات بتائی کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ماعز بن مالک کو سنگسار کروایا اس وقت میں بھی اپنے والد کے ہمراہ موجود تھا جب انھیں پتھر لگنے لگے تو میں ڈر گیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا آپ کی بغل کا کچھ پسینہ بہہ کر مجھے آکر لگا اس کی خوشبو مشک جیسی تھی۔

64

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ سَأَلَهُ رَجُلٌ قَالَ أَرَأَيْتَ كَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ السَّيْفِ قَالَ لَا مِثْلَ الْقَمَرِ
حضرت براء کے بارے میں منقول ہے ایک شخص نے ان سے دریافت کیا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح چمکتا تھا انھوں نے جواب دیا نہیں بلکہ چاند کی طرح چمکتا تھا۔

65

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ بِاللَّيْلِ بِرِيحِ الطِّيبِ
ابراہیم بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشبو کی پاکیزگی کی وجہ سے رات کے وقت بھی آپ کو پہچان لیا جاتا تھا۔

66

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْهَاشِمِيُّ أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْلُكْ طَرِيقًا أَوْ لَا يَسْلُكُ طَرِيقًا فَيَتْبَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ سَلَكَهُ مِنْ طِيبِ عَرْفِهِ أَوْ قَالَ مِنْ رِيحِ عَرَقِهِ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بھی راستے سے گزرتے تھے تو آپ کے پیچھے جانے والا کوئی بھی شخص آپ کی خوشبو کی وجہ سے جان لیتا تھا کہ آپ وہاں سے گزرے تھے۔ (روایت کے الفاظ میں کچھ اختلاف ہے) ۔

67

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو اللَّيْثِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ وَلَا يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ فَأَهْدَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْ يَهُودِ خَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً فَتَنَاوَلَ مِنْهَا وَتَنَاوَلَ مِنْهَا بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذِهِ تُخْبِرُنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ فَقَالَتْ إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ شَيْءٌ وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ فَقَالَ فِي مَرَضِهِ مَا زِلْتُ مِنْ الْأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تحفے کے طور پر پیش کی جانے والی چیز کھالیتے تھے البتہ صدقہ قبول نہیں کرتے خیبر میں رہنے والے یہودیوں میں سے ایک عورت نے تحفے کے طور پر آپ کو ایک بکری بھیجی جو بھنی ہوئی آپ نے اسے کھانا شروع کیا آپ کے ہمراہ بشر بن براء نے بھی کھانا شروع کیا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک کھینچ لیا اور ارشاد فرمایا اس گوشت نے مجھے بتلایا ہے اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ (راوی بیان کرتے ہیں) بشر تو فوت ہوگئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اس عورت نے جواب دیا کہ اگر آپ نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی اور اگر آپ بادشاہ ہوں گے تو میں لوگوں کو آپ سے نجات دلوا دوں گی۔ (راوی بیان کرتے ہیں) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مرگ وفات کے درمیان فرمایا تھا کہ میں نے خیبر میں جو گوشت کھایا تھا اس کا اثر ابھی تک باقی ہے اور اس کی وجہ سے مجھے اپنی رگیں کٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

68

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا وَأَكَلَ الرَّهْطُ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ وَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ لَهَا أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ فَقَالَتْ نَعَمْ وَمَنْ أَخْبَرَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِيَ الذِّرَاعُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ فَمَاذَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ قَالَتْ قُلْتُ إِنْ كَانَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُعَاقِبْهَا وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنْ الشَّاةِ وَاحْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنْ الشَّاةِ حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ مَوْلَى بَنِي بَيَاضَةَ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ وَهُوَ مِنْ بَنِي ثُمَامَةَ وَهُمْ حَيٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ
ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں حضرت جابر (رض) نے حدیث سنائی ہے کہ خیبر سے تعلق رکھنے والی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملا کر اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے پائے پکڑ کر اسے کھانا شروع کیا آپ کے ہمراہ آپ کے کچھ صحابہ نے بھی کھانا شروع کیا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان حضرات سے کہا اپنا ہاتھ کھینچ لو پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی عورت کو بلوایا اور اس سے ارشاد فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے اس نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ کو کس نے بتایا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے ہاتھ میں موجود اس نے بتایا ہے (راوی کہتے ہیں آپ نے پائے کے بارے میں یہ بات بتائی) اس عورت نے جواب دیا جی ہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا اس حرکت کے ذریعے تمہارا مقصد کیا تھا اس عورت نے جواب دیا میں نے یہ سوچا اگر وہ نبی ہوں تو انھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اگر وہ نبی نہیں ہوں گے تو ہمیں ان سے نجات مل جائے گی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو معاف کردیا اور اسے کوئی سزا نہیں دی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی جنہوں نے اس بکری کا گوشت کھایا تھا ان کا انتقال ہوگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بکری کا جو گوشت کھایا تھا اس کی وجہ سے آپ نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان پچھنے لگوائے۔ بنوبیاضہ کے آزاد کردہ غلام ابوہند نے آپ کے پچھنے لگائے اس نے سینگ اور چھری کے ذریعے پچھنے لگائے تھے۔ اس کا تعلق بنوثمامہ سے تھا جو انصار کا ایک قبیلہ ہے۔

69

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا فَتَحْنَا خَيْبَرَ أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْمَعُوا لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ الْيَهُودِ فَجُمِعُوا لَهُ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ قَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَبُوكُمْ قَالُوا أَبُونَا فُلَانٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَبْتُمْ بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ قَالُوا صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ فَقَالَ لَهُمْ هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ فَقَالُوا نَعَمْ وَإِنْ كَذَبْنَاكَ عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَ فِي آبَائِنَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ أَهْلُ النَّارِ فَقَالُوا نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَا فِيهَا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَئُوا فِيهَا وَاللَّهِ لَا نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا ثُمَّ قَالَ لَهُمْ هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا قَالُوا نَعَمْ قَالَ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ قَالُوا أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا أَنْ نَسْتَرِيحَ مِنْكَ وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک بکری کا گوشت پیش کیا گیا جس میں زہر ملا ہوا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہاں جتنے بھی یہودی ہیں انھیں میرے پاس لاؤ ان سب کو اکٹھا کرکے لایا گیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت کیا تم سے میں ایک سوال کرنے لگا ہوں کیا تم اس کا سچا جواب دوگے انھوں نے جواب دیا جی ہاں اے ابوقاسم۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت فرمایا تمہارا باپ کون ہے۔ انھوں نے جواب دیا ہمارا باپ فلاں ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے غلط کہا بلکہ تمہارا باپ فلاں شخص ہے ان لوگوں نے کہا آپ نے سچ کہا اور درست کہا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سے جو سوال کروں تم اس کا صحیح جواب دوں گے انھوں نے کہا جی ہاں۔ اگر ہم آپ کے ساتھ جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارے جھوٹ کو جان لیں گے جیسے ہمارے باپ کے بارے میں آپ نے جان لیا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا اہل جہنم کون ہیں ان لوگوں نے جواب دیا ہم تو اس میں تھوڑ دیر تک رہیں گے ہمارے بعد آپ لوگ اس میں رہیں گے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا تم یہاں سے دور ہوجاؤ اللہ کی قسم ہم کبھی بھی تمہارے بعد اس میں نہیں جائیں گے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا اگر تم سے کوئی سوال کروں تو تم اس کا صحیح جواب دوگے انھوں نے جواب دیا جی ہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ انھوں نے جواب دیا ہمارا یہ ارادہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اگر آپ نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

70

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ مَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا قَالَ أَبُو مُحَمَّد قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ وَعَدَ
حضرت جابر بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب بھی کوئی چیز مانگی گئی آپ نے کبھی نہ نہیں کی۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے ہیں ابن عیینہ نے فرمایا : اگر آپ کے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی تھی تو آپ وعدہ کرلیتے تھے۔

71

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ زَمْعَةَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيِيًّا لَا يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ
حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیاء والے تھے آپ سے جو چیز مانگی جاتی تھی آپ عطا کردیتے تھے۔

72

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ زَحَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَفِي رِجْلِي نَعْلٌ كَثِيفَةٌ فَوَطِئْتُ بِهَا عَلَى رِجْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَحَنِي نَفْحَةً بِسَوْطٍ فِي يَدِهِ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ أَوْجَعْتَنِي قَالَ فَبِتُّ لِنَفْسِي لَائِمًا أَقُولُ أَوْجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَبِتُّ بِلَيْلَةٍ كَمَا يَعْلَمُ اللَّهُ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا رَجُلٌ يَقُولُ أَيْنَ فُلَانٌ قَالَ قُلْتُ هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي كَانَ مِنِّي بِالْأَمْسِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مُتَخَوِّفٌ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ وَطِئْتَ بِنَعْلِكَ عَلَى رِجْلِي بِالْأَمْسِ فَأَوْجَعْتَنِي فَنَفَحْتُكَ نَفْحَةً بِالسَّوْطِ فَهَذِهِ ثَمَانُونَ نَعْجَةً فَخُذْهَا بِهَا
عبداللہ بن ابوبکر بیان کرتے ہیں ایک عربی شخص نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ٹکرا گیا میرے پاؤں میں بھارے تلے والے جوتی تھی میں نے اس جوتی کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کو کچل دیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ میں موجود سوٹی مجھے ماری اور فرمایا اللہ کا نام لو تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے وہ صاحب بیان کرتے ہیں اس رات میں اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا اور یہی سوچتا رہا کہ میں نے اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔ وہ صاحب بیان کرتے ہیں وہ رات جیسے میں نے گزاری ہے اللہ بہتر جانتا ہے اگلے دن صبح ہوئی تو ایک شخص یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں صاحب کہاں ہے میں نے سوچا میرے کل والے معاملے کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔ میں چل دیا میں خوفزدہ تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا کل تم نے اپنے جوتے کے ذریعے میرے پاؤں کو دبا دیا تھا۔ جس سے مجھے تکلیف ہوئی تھی میں نے تمہیں ایک سوٹی ماری تھی یہ اسیّ اونٹ ہیں تم انھیں اس مار کے عوض وصول کرو۔

73

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ إِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ مَا فِي الْأَرْضِ أَهْلُ عَشَرَةِ أَبْيَاتٍ إِلَّا قَلَّبْتُهُمْ فَمَا وَجَدْتُ أَحَدًا أَشَدَّ إِنْفَاقًا لِهَذَا الْمَالِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
زہری بیان کرتے ہیں جبرائیل نے یہ بات بیان کی روئے زمین میں دس گھروں پر مشتمل جو بھی بستی ہے میں اس کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے ان میں سے کسی ایک شخص کو بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مال خرچ کرنے والا نہیں پایا۔

74

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقْصِرُ الْخُطْبَةَ وَلَا يَأْنَفُ وَلَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِيَ لَهُمَا حَاجَتَهُمَا
حضرت عبداللہ بن اوفٰی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکثرت ذکر کیا کرتے تھے اور دنیاوی باتیں نہیں کرتے تھے آپ نماز طویل پڑھتے تھے اور خطبہ مختصر دیتے تھے اور آپ اس بات میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرتے تھے کہ آپ کسی بیوہ عورت کے یا غریب آدمی کے ساتھ چل کر جائیں اور ان کی کوئی ضرورت پوری کردیں۔

75

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ قَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ لَأَعْلَمَنَّ مَا بَقَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَأَيْتُهُمْ قَدْ آذَوْكَ وَآذَاكَ غُبَارُهُمْ فَلَوْ اتَّخَذْتَ عَرِيشًا تُكَلِّمُهُمْ مِنْهُ فَقَالَ لَا أَزَالُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ يَطَئُونَ عَقِبِي وَيُنَازِعُونِي رِدَائِي حَتَّى يَكُونَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي يُرِيحُنِي مِنْهُمْ قَالَ فَعَلِمْتُ أَنَّ بَقَاءَهُ فِينَا قَلِيلٌ
حضرت عباس بیان کرتے ہیں میں اچھی طرح جانتا تھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کتنا عرصہ رہیں گے۔ انھوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! میں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کا غبار آپ کو اذیت پہنچاتا ہے اگر آپ کوئی تخت بنالیں تو بیٹھ کر ان کے ساتھ بات چیت کیا کریں ؟ (یہ مناسب ہوگا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : میں تو اسی طرح رہوں گا یہ لوگ میرے پیچھے آتے رہیں میری چادر کھینچتے رہیں۔ یہاں تک کہ اللہ مجھے ان سے نجات عطا کردے۔ حضرت عباس بیان کرتے ہیں میں اس سے جان لیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب ہمارے درمیان کچھ عرصہ رہیں گے۔

76

75. أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَحْجُبُكَ فَقَالَ لَا دَعُوهُمْ يَطَئُونَ عَقِبِي وَأَطَأُ أَعْقَابَهُمْ حَتَّى يُرِيحَنِي اللَّهُ مِنْهُمْ
داؤد بن علی بیان کرتے ہیں عرض کی گئی یا رسول اللہ کیا ہم آپ کے لیے دربان مقرر نہ کردیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نہیں لوگوں کو ایسے ہی رہنے دو وہ میرے پیچھے آتے رہیں اور میں ان کے پیچھے رہوں۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ مجھے ان سے سکون عطا کردے۔

77

أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ أُنَيْسِ بْنِ أَبِي يَحْيَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ عَاصِبًا رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ حَتَّى أَهْوَى نَحْوَ الْمِنْبَرِ فَاسْتَوَى عَلَيْهِ وَاتَّبَعْنَاهُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى الْحَوْضِ مِنْ مَقَامِي هَذَا ثُمَّ قَالَ إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا فَاخْتَارَ الْآخِرَةَ قَالَ فَلَمْ يَفْطِنْ لَهَا أَحَدٌ غَيْرُ أَبِي بَكْرٍ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ فَبَكَى ثُمَّ قَالَ بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا وَأَنْفُسِنَا وَأَمْوَالِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ثُمَّ هَبَطَ فَمَا قَامَ عَلَيْهِ حَتَّى السَّاعَةِ
حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے یہ آپ کے اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ کا انتقال ہوا۔ ہم لوگ اس وقت مسجد میں تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر پر ایک پٹی باندھی ہوئی تھی۔ آپ نے منبر کی طرف رخ کیا اور اس پر تشریف فرما ہوئے ہم آپ کے پیچھے آئے آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں یہاں سے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے ارشاد فرمایا ایک بندے کے سامنے دنیا اور اس کی آرائش و زبیائش پیش کی گئی تو اس بندے نے آخرت کو اختیار۔ حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں اس بات کو حضرت ابوبکر (رض) کے علاوہ اور کسی نے نہیں سمجھا۔ حضرت ابوبکر (رض) رونے لگے ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے پھر وہ بولے یا رسول اللہ ہم فدیئے کے طور پر اپنے باپ مائیں اپنی جانیں اپنے اموال پیش کرتے ہیں حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اور اس کے بعد پھر کبھی آپ منبر پر تشریف فرما نہ ہوئے۔

78

أَخْبَرَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ عُبَيْدٍ مَوْلَى الْحَكَمِ بْنِ أَبِي الْعَاصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ فَانْطَلِقْ مَعِي فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِمْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ لِيُهْنِكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِيهِ مِمَّا أَصْبَحَ فِيهِ النَّاسُ أَقْبَلَتْ الْفِتَنُ كَقِطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يَتْبَعُ آخِرُهَا أَوَّلَهَا الْآخِرَةُ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَى ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ إِنِّي قَدْ أُوتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدِ فِيهَا ثُمَّ الْجَنَّةُ فَخُيِّرْتُ بَيْنَ ذَلِكَ وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّي قُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي خُذْ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا ثُمَّ الْجَنَّةَ قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ لَقَدْ اخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّي ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَبُدِئَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ
ابومویہبہ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام ہیں بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کروں تم میرے ساتھ چلو ابومویبہ بیان کرتے ہیں میں نصف رات کے وقت آپ کے ساتھ چل دیا جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں پہنچے تو آپ نے یہ دعا پڑھی۔ اے قبرستان والو تم پر سلامتی نازل ہو۔ لوگ جس حالت میں ہیں اس کے بجائے تم جس حالت میں ہو اس پر تمہیں مبارک باد ہو۔ تاریک رات کے ٹکڑوں جیسے فتنے آرہے ہیں جن میں سے ایک کے پیچھے دوسرا ہوگا اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ خطرناک ہوگا (راوی بیان کرتے ہیں) پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے ابومویہبہ مجھے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں اور وہاں ہمیشہ رہنا دیا گیا اور پھر جنت کی پیش کش کی گئی مجھے اس کے درمیان اور اپنے پروردگار سے ملاقات کے درمیان اختیار دیا گیا (راوی کہتے ہیں) میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ دنیا کے خزانوں کی چابیاں اس میں ہمشہ رہنا، جنت کو حاصل کرلیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا نہیں۔ اللہ کی قسم اے ابومویہبہ میں نے پروردگار سے ملاقات کو اختیار کیا ہے۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی اور پھر آپ تشریف لے آئے اسی دوران نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بیماری کا آغاز ہوا جس میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔

79

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فَقَالَ قَدْ نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي فَبَكَتْ فَقَالَ لَا تَبْكِي فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لِحَاقًا بِي فَضَحِكَتْ فَرَآهَا بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَ يَا فَاطِمَةُ رَأَيْنَاكِ بَكَيْتِ ثُمَّ ضَحِكْتِ قَالَتْ إِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ قَدْ نُعِيَتْ إِلَيْهِ نَفْسُهُ فَبَكَيْتُ فَقَالَ لِي لَا تَبْكِي فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لَاحِقٌ بِي فَضَحِكْتُ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَجَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَالْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدہ فاطمہ کو بلوایا اور ارشاد فرمایا (اس آیت إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ کے نزول میں) میری وفات کے بارے میں اطلاع دی گئی ہے۔ سیدہ فاطمہ رونے لگی آپ نے ارشاد فرمایا نہ رو ! کیونکہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھ سے آکر ملو گی تو وہ ہنسنے لگی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ نے انھیں دیکھا اور ازواج مطہرات نے کہا اے فاطمہ ہم نے دیکھا کہ پہلے آپ رونے لگی اور پھر ہنسنے لگی۔ سیدہ فاطمہ نے جواب دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ بات بتائی کہ ان کی وفات کی اطلاع آگئی ہے اس بات پر میں رو پڑی آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ نہ رو۔ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملو گی میں ہنس پڑی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ کی فتح اور مدد آگئی ہے اور اہل یمن بھی آگئے ہیں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اہل یمن سے مراد کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا وہ لوگ نرم دل کے مالک ہیں اور ایمان یمن ہی ہے اور حکمت یمن ہی ہے۔

80

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ رَجَعَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ جَنَازَةٍ مِنْ الْبَقِيعِ فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ قَالَ بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ قَالَ وَمَا ضَرَّكِ لَوْ مُتِّ قَبْلِي فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ فَقُلْتُ لَكَأَنِّي بِكَ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَرَجَعْتَ إِلَى بَيْتِي فَعَرَّسْتَ فِيهِ بِبَعْضِ نِسَائِكَ قَالَتْ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ بُدِئَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں ایک دن رسول اللہ جنت البقیع میں جنازے میں شرکت کرنے کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو مجھے اس حالت میں پایا کہ مجھے درد تھا اور میں یہ کہہ رہی تھی ہائے میرا سر آپ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ عائشہ (رض) مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہائے میرا سر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تمہیں کیا نقصان ہے اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو میں تمہیں غسل دوں گا تمہیں کفن دوں گا تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا تمہیں دفن کروں گا۔ میں نے عرض کی ایسا ہی ہوگا اللہ کی قسم اگر میں مرجاتی ہوں تو آپ واپس میرے اس گھر میں آئیں گے اور یہاں اپنی کسی دوسری اہلیہ محترمہ کے ساتھ رہیں گے سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرادئیے اس کے بعد آپ کو اس تکلیف کا آغاز ہوا جس میں آپ کا وصال ہوا تھا۔

81

أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ صُبُّوا عَلَيَّ سَبْعَ قِرَبٍ مِنْ سَبْعِ آبَارٍ شَتَّى حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى النَّاسِ فَأَعْهَدَ إِلَيْهِمْ قَالَتْ فَأَقْعَدْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ فَصَبَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ صَبًّا أَوْ شَنَنَّا عَلَيْهِ شَنًّا الشَّكُّ مِنْ قِبَلِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ فَوَجَدَ رَاحَةً فَخَرَجَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَاسْتَغْفَرَ لِلشُّهَدَاءِ مِنْ أَصْحَابِ أُحُدٍ وَدَعَا لَهُمْ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْأَنْصَارَ عَيْبَتِي الَّتِي أَوَيْتُ إِلَيْهَا فَأَكْرِمُوا كَرِيمَهُمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ إِلَّا فِي حَدٍّ أَلَا إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ قَدْ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَظَنَّ أَنَّهُ يَعْنِي نَفْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ سُدُّوا هَذِهِ الْأَبْوَابَ الشَّوَارِعَ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ امْرَأً أَفْضَلَ عِنْدِي يَدًا فِي الصُّحْبَةِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیماری کے دوران یہ بات ارشاد فرمائی میرے اوپر سات مشکیزوں کے ذریعے سات مختلف کنوؤں کا پانی بہاؤ تاکہ میں لوگوں کے پاس جا کر ان سے عہد لے سکوں۔ راوی بیان کرتے ہیں ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بڑے ٹب میں جو سیدہ حفصہ کا تھا اس میں بٹھایا اور آپ پر پانی بہایا۔ (یہاں حدیث کے ان الفاظ میں محمد بن اسحق نامی راوی کو شک ہے) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ محسوس ہوا آپ باہر تشریف فرما ہوئے منبر پر تشریف لائے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر آپ نے شہدائے احد کے لیے دعائے مغفرت کی اور ان کے لیے دعا کی پھر ارشاد فرمایا۔ اما بعد ! انصار میرے قریبی ساتھی ہیں جن کی طرف میں نے پناہ حاصل کی تم ان میں سے معزز لوگوں کا احترام کرو اگر کوئی غلطی کرے تو اس سے درگزر کرو۔ البتہ حد کا معاملہ مختلف ہے یہ بات یاد رکھو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں موجود نعمتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو بندے نے اللہ کے پاس موجود نعمتوں کو اختیار کیا راوی بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) رو پڑے اور وہ یہ سمجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بارے میں یہ بات کی ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ابوبکر (رض) اطمینان رکھو۔ پھر آپ نے حکم دیا مسجد کی طرف آنے والے تمام دروازوں کو بند کردیا جائے صرف ابوبکر (رض) کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے کیونکہ میرے نزدیک ساتھ کے اعتبار سے ابوبکر (رض) سے افضل کوئی اور نہیں۔

82

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أُوذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ فِي مَرَضِهِ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ هَلْ أَمَرْتُنَّ أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَقُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ فَقَالَ أَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَرُبَّ قَائِلٍ مُتَمَنٍّ وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کے دوران آپ کو نماز کے لیے بلوایا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ابوبکر (رض) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ پھر آپ پر مدہوشی طاری ہوگئی جب افاقہ ہوا تو آپ نے پھر ارشاد فرمایا کیا تم نے ابوبکر (رض) سے کہہ دیا ہے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ (سیدہ عائشہ (رض) نے عرض کیا) ابوبکر (رض) نرم دل کے آدمی ہیں۔ حضرت عمر کو ہدایت کریں ( تو یہ مناسب ہوگا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم بھی یوسف کے زمانے کے عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر (رض) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ بہت سے لوگ یہ تمنا رکھتے ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان ابوبکر (رض) سے ہی راضی ہیں۔

83

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ فَحُبِسَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَلَيْلَتَهُ وَالْغَدَ حَتَّى دُفِنَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ وَقَالُوا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى وَاللَّهِ لَا يَمُوتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أَقْوَامٍ وَأَلْسِنَتَهُمْ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ حَتَّى أَزْبَدَ شِدْقَاهُ مِمَّا يُوعِدُ وَيَقُولُ فَقَامَ الْعَبَّاسُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَإِنَّهُ لَبَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْسُنُ كَمَا يَأْسُنُ الْبَشَرُ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَهُ إِمَاتَتَيْنِ أَيُمِيتُ أَحَدَكُمْ إِمَاتَةً وَيُمِيتُهُ إِمَاتَتَيْنِ وَهُوَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنْ يَكُ كَمَا تَقُولُونَ فَلَيْسَ بِعَزِيزٍ عَلَى اللَّهِ أَنْ يَبْحَثَ عَنْهُ التُّرَابَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا مَاتَ حَتَّى تَرَكَ السَّبِيلَ نَهْجًا وَاضِحًا فَأَحَلَّ الْحَلَالَ وَحَرَّمَ الْحَرَامَ وَنَكَحَ وَطَلَّقَ وَحَارَبَ وَسَالَمَ مَا كَانَ رَاعِي غَنَمٍ يَتَّبِعُ بِهَا صَاحِبُهَا رُءُوسَ الْجِبَالِ يَخْبِطُ عَلَيْهَا الْعِضَاهَ بِمِخْبَطِهِ وَيَمْدُرُ حَوْضَهَا بِيَدِهِ بِأَنْصَبَ وَلَا أَدْأَبَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِيكُمْ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ قَالَ وَجَعَلَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَبْكِي فَقِيلَ لَهَا يَا أُمَّ أَيْمَنَ تَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَّا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ ذَهَبَ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الدُّنْيَا وَلَكِنِّي أَبْكِي عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِ انْقَطَعَ قَالَ حَمَّادٌ خَنَقَتْ الْعَبْرَةُ أَيُّوبَ حِينَ بَلَغَ هَا هُنَا
عکرمہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصال پیر کے دن ہوا آپ کو اس دن کے بقیہ حصے میں رات تک اور اگلے دن تک رکھا گیا یہاں تک کہ بدھ کی شام کو آپ کو دفن کیا گیا۔ بعض لوگوں نے یہ بات کہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا بلکہ ان کی روح کو اوپر لے جایا گیا جیسے حضرت موسیٰ کی روح کو اوپر لے جایا گیا تھا حضرت عمر اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے بیشک اللہ کے رسول کا انتقال نہیں ہوا بلکہ ان کی روح کو اسی طرح سے اوپر لے جایا گیا جیسے حضرت موسیٰ کی روح کو اوپر لے جایا گیا اللہ کی قسم اللہ کے رسول انتقال نہیں کریں گے۔ جب تک کفار کی اقوام کے ہاتھ اور زبانیں کاٹ نہ دیئے جائیں۔ حضرت عمر یہی بات کہتے رہے یہاں تکہ ان کے دھمکانے اور بولنے کی وجہ سے ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اس وقت حضرت عباس کھڑے ہوئے اور بولے بیشک اللہ کے رسول انتقال کرچکے ہیں وہ ایک انسان تھے اور اسی طرح بوڑھے ہوئے جیسے انسان بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ اے لوگو اپنے آقا کو دفن کردو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے زیادہ برگزیدہ ہیں کہ اللہ انھیں دو مرتبہ موت میں مبتلا کرے کیا اللہ تم میں سے کسی کو ایک موت میں مبتلا کرے گا اور انھیں دو مرتبہ موت میں مبتلا کرے گا۔ جب کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ برگزیدہ بندے ہیں۔ اے لوگو اپنے آقا کو دفن کردو۔ اگر وہ ایسے ہیں جیسے تم کہہ رہے ہو تو اللہ کے لیے یہ بات مشکل نہیں ہے کہ ان سے مٹی کو ہٹادے بیشک اللہ کے رسول نے اللہ کی قسم اس وقت تک انتقال نہیں کیا جب تک انھوں نے راستے کو واضح کردیا آپ نے حلال کو بھی واضح نہیں کردیا۔ حرام کو حرام قرار دیا آپ نے نکاح بھی کیا طلاق بھی دی جنگ بھی کی اور امن کی حالت میں بھی رہے بکریوں کا کوئی بھی چرواہا جس کے پیچھے بکریاں جاتی ہیں اور جو پہاڑوں کے سروں پر جاتا ہے اور درختوں سے اپنی لاٹھی کے ذریعے پتے جھاڑتا ہے اور ان بکریوں کے لیے اپنے ہاتھ سے حوض درست کرتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ محنتی اور کوشش کرنے والا نہیں تھا جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان رہے اے لوگو اپنے آقاکو دفن کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں سیدہ ام ایمن رونے لگی ان سے کہا گیا اے ام ایمن کیا آپ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے رو رہی ہیں انھوں نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے نہیں رو رہی کیونکہ مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ آپ ایسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جو آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ اب آسمان سے وحی کے نزول کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حماد بیان کرتے ہیں جب ایوب نامی راوی نے یہ بات بیان کی تو ان کی آواز یوں پھنس کر رہ گئی جیسے ان کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو۔

84

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي يَعِيشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ
مکحول بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے جب تم میں سے کسی ایک شخص کو مصیبت لاحق ہو تو میری مصیبت کو یاد کرلے کیونکہ وہی سب سے عظیم مصیبت ہے۔

85

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصَابَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ
عطا روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی ایک شخص کو مصیبت لاحق ہو تو مجھے لاحق ہونے والی مصیبت کو یاد کرلے کیونکہ وہی سب سے عظیم مصیبت ہے۔

86

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَذْكُرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِلَّا بَكَى
عمر بن محمد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو جب کبھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا وہ ہمیشہ رو دیا کرتے تھے۔

87

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ يَا أَنَسُ كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ وَقَالَتْ يَا أَبَتَاهْ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ قَالَ حَمَّادٌ حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى و قَالَ ثَابِتٌ حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نے کہا اے انس (رض) تم لوگوں نے یہ کیسے گوارا کیا کہ تم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالو سیدہ فاطمہ نے یہ بھی کہا اے ابا جان۔ آپ اپنے پروردگار کے کتنے قریب ہیں۔ اے اباجان جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے اے اباجان حضرت جبرائیل نے آپ کی وفات کی خبر دی تھی۔ اے اباجان آپ نے اپنے پروردگار کے بلاوے پر لبیک کہا۔ حماد بیان کرتے ہیں ثابت نے جب یہ حدیث بیان کی تو وہ رونے لگے ثابت بیان کرتے ہیں حضرت انس (رض) نے جب حدیث بیان کی تو وہ بھی رونے لگے تھے۔

88

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ يَا أَنَسُ كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ وَقَالَتْ يَا أَبَتَاهْ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ قَالَ حَمَّادٌ حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى و قَالَ ثَابِتٌ حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تھے اس وقت وہاں موجود تھا اور جب ہمارے پاس تشریف لائے تھے تو اس سے زیادہ اچھا اور روشن دن میں نے کوئی نہیں دیکھا اور جس دن آپ کا وصال ہوا اس وقت بھی میں وہاں موجود تھا اس سے زیادہ برا دن اور اس سے زیادہ تاریک دن جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔

89

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي عَبْدِ الْجَلِيلِ عَنْ أَبِي حَرِيزٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَائِمًا عِنْدَ رَبِّكَ وَأَنْتَ مُحْمَارَّةٌ وَجْنَتَاكَ مُسْتَحْيٍ مِنْ رَبِّكَ مِمَّا أَحْدَثَتْ أُمَّتُكَ مِنْ بَعْدِكَ
حضرت عبداللہ بن سلام نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ ہم قیامت کے دن آپ کو اپنے پروردگار کے پاس کھڑا ہوا پائیں گے اور آپ کے رخسار سرخ ہوں گے اور آپ اپنے پروردگار سے اس بات پر حیاء کر رہے ہوں گے جو آپ کی امت نے آپ کے بعد دین میں نئی باتیں داخل کرلی تھیں۔

90

أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الْقُرَشِيِّ عَنْ أَبِي قُرَّةَ مَوْلَى أَبِي جَهْلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ لَمَّا أُنْزِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَخْرُجُنَّ مِنْهَا أَفْوَاجًا كَمَا دَخَلُوهُ أَفْوَاجًا
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جب یہ سورت نازل ہوئی " جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور تم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں " تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس میں سے لوگ فو در فوج اسی طرح نکلیں گے جس طرح فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔

91

أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ الْمِصْرِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ أَبِي أَيُّوبَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيِّ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَهْتَمِ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مَعَ الْعَامَّةِ فَلَمْ يُفْجَأْ عُمَرُ إِلَّا وَهُوَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَتَكَلَّمُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ غَنِيًّا عَنْ طَاعَتِهِمْ آمِنًا لِمَعْصِيَتِهِمْ وَالنَّاسُ يَوْمَئِذٍ فِي الْمَنَازِلِ وَالرَّأْيِ مُخْتَلِفُونَ فَالْعَرَبُ بِشَرِّ تِلْكَ الْمَنَازِلِ أَهْلُ الْحَجَرِ وَأَهْلُ الْوَبَرِ وَأَهْلُ الدَّبَرِ يُحْتَازُ دُونَهُمْ طَيِّبَاتُ الدُّنْيَا وَرَخَاءُ عَيْشِهَا لَا يَسْأَلُونَ اللَّهَ جَمَاعَةً وَلَا يَتْلُونَ لَهُ كِتَابًا مَيِّتُهُمْ فِي النَّارِ وَحَيُّهُمْ أَعْمَى نَجِسٌ مَعَ مَا لَا يُحْصَى مِنْ الْمَرْغُوبِ عَنْهُ وَالْمَزْهُودِ فِيهِ فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَنْشُرَ عَلَيْهِمْ رَحْمَتَهُ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُمْ ذَلِكَ أَنْ جَرَحُوهُ فِي جِسْمِهِ وَلَقَّبُوهُ فِي اسْمِهِ وَمَعَهُ كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ نَاطِقٌ لَا يُقَدَّمُ إِلَّا بِأَمْرِهِ وَلَا يُرْحَلُ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَلَمَّا أُمِرَ بِالْعَزْمَةِ وَحُمِلَ عَلَى الْجِهَادِ انْبَسَطَ لِأَمْرِ اللَّهِ لَوْثُهُ فَأَفْلَجَ اللَّهُ حُجَّتَهُ وَأَجَازَ كَلِمَتَهُ وَأَظْهَرَ دَعْوَتَهُ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ فَسَلَكَ سُنَّتَهُ وَأَخَذَ سَبِيلَهُ وَارْتَدَّتْ الْعَرَبُ أَوْ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُمْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الَّذِي كَانَ قَابِلًا انْتَزَعَ السُّيُوفَ مِنْ أَغْمَادِهَا وَأَوْقَدَ النِّيرَانَ فِي شُعُلِهَا ثُمَّ رَكِبَ بِأَهْلِ الْحَقِّ أَهْلَ الْبَاطِلِ فَلَمْ يَبْرَحْ يُقَطِّعُ أَوْصَالَهُمْ وَيَسْقِي الْأَرْضَ دِمَاءَهُمْ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ فِي الَّذِي خَرَجُوا مِنْهُ وَقَرَّرَهُمْ بِالَّذِي نَفَرُوا عَنْهُ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بَكْرًا يَرْتَوِي عَلَيْهِ وَحَبَشِيَّةً أَرْضَعَتْ وَلَدًا لَهُ فَرَأَى ذَلِكَ عِنْدَ مَوْتِهِ غُصَّةً فِي حَلْقِهِ فَأَدَّى ذَلِكَ إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبِهِ ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَمَصَّرَ الْأَمْصَارَ وَخَلَطَ الشِّدَّةَ بِاللِّينِ وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ وَشَمَّرَ عَنْ سَاقَيْهِ وَأَعَدَّ لِلْأُمُورِ أَقْرَانَهَا وَلِلْحَرْبِ آلَتَهَا فَلَمَّا أَصَابَهُ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَمَرَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَسْأَلُ النَّاسَ هَلْ يُثْبِتُونَ قَاتِلَهُ فَلَمَّا قِيلَ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ اسْتَهَلَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ أَصَابَهُ ذُو حَقٍّ فِي الْفَيْءِ فَيَحْتَجَّ عَلَيْهِ بِأَنَّهُ إِنَّمَا اسْتَحَلَّ دَمَهُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ حَقِّهِ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بِضْعَةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا فَكَسَرَ لَهَا رِبَاعَهُ وَكَرِهَ بِهَا كَفَالَةَ أَوْلَادِهِ فَأَدَّاهَا إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبَيْهِ ثُمَّ إِنَّكَ يَا عُمَرُ بُنَيُّ الدُّنْيَا وَلَّدَتْكَ مُلُوكُهَا وَأَلْقَمَتْكَ ثَدْيَيْهَا وَنَبَتَّ فِيهَا تَلْتَمِسُهَا مَظَانَّهَا فَلَمَّا وُلِّيتَهَا أَلْقَيْتَهَا حَيْثُ أَلْقَاهَا اللَّهُ هَجَرْتَهَا وَجَفَوْتَهَا وَقَذِرْتَهَا إِلَّا مَا تَزَوَّدْتَ مِنْهَا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَلَا بِكَ حَوْبَتَنَا وَكَشَفَ بِكَ كُرْبَتَنَا فَامْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ فَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ عَلَى الْحَقِّ شَيْءٌ وَلَا يَذِلُّ عَلَى الْبَاطِلِ شَيْءٌ أَقُولُ قَوْلِي وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ قَالَ أَبُو أَيُّوبَ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ فِي الشَّيْءِ قَالَ لِيَ ابْنُ الْأَهْتَمِ امْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ
خالد بن معدان بیان کرتے ہیں عبداللہ بن اہتم عمر بن عبدالعزیز کے پاس آئے ان کے ساتھ چند لوگ بھی تھے جیسے ہی وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس پہنچے ساتھ ہی گفتگو چھیڑ لی انھوں نے اللہ کی حمد وثناء بیان کرتے کے بعد یہ کہا امابعد ! بیشک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے حالانکہ وہ ان کی اطاعت سے بےنیاز ہے اور ان کے گناہوں سے محفوظ ہے۔ لوگ اس وقت حیثیت اور عقل مندی میں ایک دوسرے سے مختلف تھے عرب اس وقت سب سے زیادہ برے حال میں تھے جھونپڑوں اور ڈیروں میں رہتے تھے اور شہد کی مکھیاں پالتے تھے دنیا کی تمام تر پاکیزہ اور عیش و عشرت کا سامان ان سے دور تھا۔ وہ اللہ سے اجتماعی طور پر کچھ نہیں مانگتے تھے۔ اور نہ ہی اس کی کوئی کتاب پڑھتے تھے ان کے مرحومین جہنم میں گئے اور ان کے زندہ لوگ اندھے تھے اور ناپاک تھے اس کے علاوہ ان میں بہت سی خامیاں اور بری باتیں پائی جاتی تھیں جب اللہ نے ان پر اپنی رحمت پھیلانے کا ارادہ کیا تو ان کی طرف انہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے نزدیک تمہارا مشقت میں مبتلا ہونا بہت دشوار تھا وہ تمہاری بھلائی کے لیے بہت زیادہ حریص تھے اللہ اس پر درود نازل کرے اور سلام نازل کرے اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں لیکن اس کے باوجود عرب اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک کو زخمی کیا آپ کے نام کے ساتھ منفی لقب کا اضافہ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ اللہ کی کتاب موجود تھی جو حکم دینے والی تھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم کے تحت ہر کام کرتے تھے اور اسی کیا اجازت سے آپ نے ہجرت کی جب آپ کو فرائض کا حکم دیا گیا اور جہاد کی ترغیب دی گئی تو اللہ کے حکم کی بدولت آپ کی حکومت پھیل گئی۔ اللہ نے آپ کی حجت ظاہر کی آپ کے کلمے کو غالب کیا اور آپ کی دعوت کو عام کیا آپ نے پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے علیحدگی اختیار کی۔
آپ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) مسلمانوں کے خلیفہ بنے آپ کی سنت پر عمل کیا آپ کے راستے کو اپنایا بعض عرب مرتد ہوگئے تھے یا ان میں سے جس نے بھی یہ حرکت کی اللہ کے رسول کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے ایسے لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور صرف اسی کو قبول کیا جو قبول کرنے کے لائق تھا تلواریں میانوں سے باہر آگئیں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے حضرت ابوبکر (رض) نے اہل حق کی مدد سے اہل باطل کو نقصان پہنچایا اس وقت تک ان کے اعضاء کاٹتے رہے اور زمین کو ان کے خون سے سیراب کرتے رہے جب تک انھیں واپس وہیں نہیں پہنچادیا گیا جہاں سے وہ نکلے تھے اور انھیں وہیں قائم کیا جہاں سے وہ بارہ آئے تھے تو اللہ کے مال میں سے حضرت ابوبکر (رض) کو ایک اونٹ ملا جس پر پانی لاد کر لایا جاتا تھا ایک حبشی کنیز ملی جوان کے بچے کو دودھ پلاتی تھی موت کے وقت حضرت ابوبکر (رض) نے اس بات کو اپنے لیے الجھن کا باعث سمجھا اس لیے انھوں نے یہ چیزیں اپنے بعد والے خلیفہ کے سپرد کردیں اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے بالکل اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے۔
اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے انھوں نے شہر بسائے نرمی کے ہمراہ شدت کو ملا دیا اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھالیں اور اپنی پنڈلیوں سے دامن سمیٹ لیا اور تمام امور کے لیے مناسب لوگوں کا انتظام کیا جنگ کے لیے آلات کا انتظام گیا جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے ان پر حملہ کیا تو آپ نے ابن عباس (رض) کو ہدایت کی وہ لوگوں سے دریافت کریں کیا لوگوں نے ان کے قتل کرنے والے کی تحقیق کی ہے تو جب انھیں بتایا گیا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام ہے (جوغیر مسلم ہے) تو انھوں نے بلند آواز سے اپنے پروردگار کی تعریف کی کہ مال غنیمت میں سے کسی حق دار نے ان پر حملہ نہیں کیا جو ان کے خلاف کوئی حجت پیش کرتا کہ حضرت عمر نے اس کا جو حق دبایا تھا اس کی خاطر انھوں نے ان کا خون بہایا تھا۔ حضرت عمر نے اللہ کے مال میں سے اسی ہزار سے کچھ زیادہ درہم وصول کئے تھے۔ اس کی خاطر انھوں نے اپنے مکان کو فروخت کردیا اور یہ ناپسند کیا کہ ان کی اولاد اس رقم کو دینے کی پابند ہو۔ انھوں نے یہ رقم اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کی اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں اپنے دونوں پیش رو حضرات کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
عبداللہ بن اہتم نے کہا اے عمربن عبدالعزیز پھر اس کے بعد تم ہو دنیا کے بادشاہوں کی اولاد نے تمہیں جنم دیا ہے اسی نے تمہیں دودھ پلایا انہی لوگوں میں تمہاری پرورش ہوئی انھیں جگہوں پر تم انھیں تلاش کرتے رہے لیکن جب تم حکومت کے مالک بنے تو تم نے اسے وہیں رکھا جہاں اللہ نے اسے رکھا تھا تم نے اس سے لاتعلقی اختیار کی اور اس سے جفا کی اور اسے بڑا سمجھا ماسوائے اس چیز کے جس کی تمہارے لیے ضرورت ہو اور ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے ہے جس نے تمہاری وجہ سے ہماری حاجات کو پورا کیا اور تمہاری وجہ سے ہماری پریشانی کو ختم کیا تم چلتے رہو اور ادھر ادھر توجہ نہ دو کیونکہ حق سے زیادہ عزت دار کوئی چیز نہیں ہے اور باطل سے زیادہ ذلیل کوئی اور چیز نہیں ہے میں نے یہ بات ختم کی اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ابوایوب بیان کرتے ہیں عمربن عبدالعزیز جب بھی کسی چیز کے بارے میں کچھ کہتے تھے یہ بات فرماتے مجھے ابن اہتم نے بتائی ہے اور یہی کہتے کہ تھے کہ چلتے رہو ادھر ادھر توجہ نہ دو ۔

92

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ قَالَ فَفَعَلُوا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتْ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنْ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ
ابو جوزاء اوس بن عبداللہ بیان کرتے ہیں۔ اہل مدینہ شدیدقحط میں مبتلا ہوگئے انھوں نے سیدہ عائشہ (رض) سے شکایت کی سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ بنادو کہ آپ کی قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ ہو راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے ایسا کیا اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ گھاس اگ گئی اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے وہ پھول گئے اس سال کو عام الفتق (بارش کا سال) قرار دیا گیا۔

93

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ مِنْ الْمَسْجِدِ وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ
سعید بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں واقعہ حرہ کے دوران نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں تین دن تک اذان نہیں ہوئی اور نہ ہی اقامت کہی گئی اس دوران حضرت سعید بن مسیب مسجد میں ہی رہے انھیں نماز کے اوقات کا اس طرح سے پتہ چلتا تھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک سے ہلکی سی آواز آیا کرتی تھی۔

94

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ كَعْبًا دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَعْبٌ مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِكَةِ حَتَّى يَحُفُّوا بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُونَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِكَةِ يَزِفُّونَهُ
نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں حضرت کعب سیدہ عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ چھیڑا تو حضرت کعب نے کہا : روزانہ ستر ہزار فرشتے نیچے اترتے ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں وہ اپنے پر اس کے ساتھ مس کرتے ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے نیچے اترتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر (قیامت کے دن) کشادہ ہوگی آپ ستر ہزار فرشتوں کے جلو میں تشریف لائیں گے۔

95

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ ثُمَّ وَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسَنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَالْمُحْدَثَاتِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ و قَالَ أَبُو عَاصِمٍ مَرَّةً وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اس کے بعد آپ نے ہمیں ایک بلیغ وعظ کہا جس کے نتیجے میں لوگوں کی آنکھوں آنسوں جاری ہوگئے اور ان کے دل تڑپ اٹھے ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ یہ الوداعی وعظ محسوس ہو رہا ہے آپ ہمیں کوئی نصیحت کریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور (حاکم وقت) کی اطاعت اور فرمان برداری کی وصیت کرتا ہوں خواہ کوئی حبشی غلام ہو میرے بعد جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا تم پر لازم ہے کہ میری سنت اختیار کرو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت اختیار کرو اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور نت نئے پیدا ہونے والے امور سے اجتناب کرو کیونکہ ہر نئی پیدا ہونے والی چیز بدعت ہے۔
ابو اصم نامی راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ روایت کئے ہیں اور نئے پیدا ہونے والے امور سے بچتے رہنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

96

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ عُلَمَائِنَا يَقُولُونَ الِاعْتِصَامُ بِالسُّنَّةِ نَجَاةٌ وَالْعِلْمُ يُقْبَضُ قَبْضًا سَرِيعًا فَنَعْشُ الْعِلْمِ ثَبَاتُ الدِّينِ وَالدُّنْيَا وَفِي ذَهَابِ الْعِلْمِ ذَهَابُ ذَلِكَ كُلِّهِ
زہری بیان کرتے ہیں ہمارے جو علماء گزر چکے ہیں وہ کہا کرتے تھے سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہی نجات ہے اور علم کو بڑی تیزی سے قبض کرلیا جائے گا علم کو برقرار رکھنا دین اور دنیا کو ثابت رکھنے کے مترادف ہے اور علم کی رخصتی میں ان سب (دین ودنیا کی نعمتوں) کی رخصتی ہے۔

97

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ أَوَّلَ الدِّينِ تَرْكًا السُّنَّةُ يَذْهَبُ الدِّينُ سُنَّةً سُنَّةً كَمَا يَذْهَبُ الْحَبْلُ قُوَّةً قُوَّةً
عبداللہ بن دیلمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ بات پتہ چلی ہے کہ دین میں سب سے زیادہ سنت کو ترک کرنا آئے گا ایک ایک سنت کر کے دین اس طرح رخصت ہوگا جیسے کوئی رسی ایک ایک دھاگہ کرکے ٹوٹ جاتی ہے۔

98

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَسَّانَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمْ إِلَّا نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا ثُمَّ لَا يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
حسان بیان کرتے ہیں جو بھی قوم اپنے دین میں نئی بدعت ایجاد کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان میں سے اس بدعت جیسی سنت کو اٹھالیتا ہے اور پھر اسے دوبارہ ان لوگوں کے پاس قیامت تک نہیں لوٹاتا۔

99

95. أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ رَجُلٌ بِدْعَةً إِلَّا اسْتَحَلَّ السَّيْفَ
حضرت ابوقلابہ بیان کرتے ہیں جو شخص بدعت ایجاد کرتا ہے وہ (اپنے اوپر حملے کے لئے) تلوار کو حلال کردیتا ہے۔

100

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ إِنَّ أَهْلَ الْأَهْوَاءِ أَهْلُ الضَّلَالَةِ وَلَا أَرَى مَصِيرَهُمْ إِلَّا النَّارَ فَجَرِّبْهُمْ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَنْتَحِلُ قَوْلًا أَوْ قَالَ حَدِيثًا فَيَتَنَاهَى بِهِ الْأَمْرُ دُونَ السَّيْفِ وَإِنَّ النِّفَاقَ كَانَ ضُرُوبًا ثُمَّ تَلَا وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ وَمِنْهُمْ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ فَاخْتَلَفَ قَوْلُهُمْ وَاجْتَمَعُوا فِي الشَّكِّ وَالتَّكْذِيبِ وَإِنَّ هَؤُلَاءِ اخْتَلَفَ قَوْلُهُمْ وَاجْتَمَعُوا فِي السَّيْفِ وَلَا أَرَى مَصِيرَهُمْ إِلَّا النَّارَ قَالَ حَمَّادٌ ثُمَّ قَالَ أَيُّوبُ عِنْدَ ذَا الْحَدِيثِ أَوْ عِنْدَ الْأَوَّلِ وَكَانَ وَاللَّهِ مِنْ الْفُقَهَاءِ ذَوِي الْأَلْبَابِ يَعْنِي أَبَا قِلَابَةَ
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں خواہشات کے پروردگار گمراہ لوگ ہیں اور میرے نزدیک ان کا ٹھکانا صرف جہنم ہے تم ان کا تجربہ کرلو ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنی بات یا حدیث میں سے تلوار سے کم کسی بات پر باز آجائے (یعنی تلوار کے زور پر انھیں روکنا پڑتا ہے)
نفاق کی کئی قسمیں ہیں۔
(راوی بیان کرتے ہیں) پھر حضرت ابوقلابہ نے مختلف آیات کی تلاوت کی۔
" ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا کہ اگر اس نے ہمیں فضیلت عطا کی تو ہم صدقہ بھی کریں گے اور نیک لوگوں میں سے ہوجائیں گے "۔
ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں تم پر الزام لگاتے ہیں اگر ان صدقات میں سے انھیں دے دیا جائے تو وہ راضی رہیں گے اگر انھیں نہ دیا تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں "۔
اور ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں "۔
ابو قلابہ کہتے ہیں ان لوگوں کے اقوال مختلف ہیں۔ لیکن شک اور تکذیب کے حوالے سے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں ان لوگوں کی باتیں مختلف ہیں لیکن تلوار کے معاملے میں سب ایک جیسے ہیں اور میرے نزدیک ان کا ٹھکانا صرف جہنم ہے۔
حماد بیان کرتے ہیں پہلے والی روایت نقل کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں وہ یعنی ابوقلابہ سمجھدار فقہاء میں سے ایک ہیں۔

101

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَحُذَيْفَةَ أَنَّهُمَا كَانَا جَالِسَيْنِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُمَا عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ لِحُذَيْفَةَ لِأَيِّ شَيْءٍ تَرَى يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا قَالَ يَعْلَمُونَهُ ثُمَّ يَتْرُكُونَهُ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ مَا سَأَلْتُمُونَا عَنْ شَيْءٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى نَعْلَمُهُ أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ أَوْ سُنَّةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ وَلَا طَاقَةَ لَنَا بِمَا أَحْدَثْتُمْ
حضرت ابن مسعود اور حضرت حذیفہ ایک جگہ تشریف فرما تھے ایک شخص آیا اس نے ان دونوں حضرات سے ایک چیز کے بارے میں سوال کیا حضرت ابن مسعود (رض) نے حضرت حذیفہ (رض) سے کہا آپ کے خیال میں یہ لوگ کس وجہ سے مجھ سے یہ سوال کر رہے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا : یہ لوگ علم بھی رکھتے ہیں اور پھر اسے ترک بھی کردیتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس شخص کی طرف رخ کیا اور ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود کسی بھی چیز کے بارے میں تم ہم سے جو بھی سوال کرو گے ہمیں اس کا علم ہوگا تو ہم اس سے تمہیں آگاہ کردیں گے لیکن جو تم نے خود ایجاد کیا ہے اس کی ہمارے اندر طاقت نہیں ہے۔

102

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ قَالَ مَا خَطَبَ عَبْدُ اللَّهِ خُطْبَةً بِالْكُوفَةِ إِلَّا شَهِدْتُهَا فَسَمِعْتُهُ يَوْمًا وَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَمَانِيَةً وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ قَالَ هُوَ كَمَا قَالَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ كِتَابَهُ وَبَيَّنَ بَيَانَهُ فَمَنْ أَتَى الْأَمْرَ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَقَدْ بُيِّنَ لَهُ وَمَنْ خَالَفَ فَوَاللَّهِ مَا نُطِيقُ خِلَافَكُمْ
حضرت نزال بن سبرہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ نے کوفہ میں جو بھی خطبہ دیا میں اس میں موجود رہا ایک دن میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا ان سے ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے دی ہیں یا اتنی کوئی تعداد تھی۔ جو بھی اس نے کہا خیر پھر حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل کی ہے اور اس نے اپنا بیان واضح کردیا ہے۔ جو شخص اس حوالے سے کوئی معاملہ لے کر آئے گا وہ اس کے لیے بیان کردیا جائے گا۔ جو اس سے مختلف لے کر آئے گا تو اللہ کی قسم تمہارے مختلف معامالات کی ہمارے اندر طاقت نہیں ہے۔

103

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ قَالَ شَهِدْتُ عَبْدَ اللَّهِ وَأَتَاهُ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ فِي تَحْرِيمٍ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَيَّنَ فَمَنْ أَتَى الْأَمْرَ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَقَدْ بُيِّنَ وَمَنْ خَالَفَ فَوَاللَّهِ مَا نُطِيقُ خِلَافَكُمْ
نزال بن سبرہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ کے پاس موجود تھا جب ایک شخص اور اس کی بیوی ان کے پاس آئے جو طلاق میں حرمت کا معاملہ دریافت کرنا چاہتے تھے۔ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا اللہ نے حکم واضح کردیا ہے۔ جو شخص اس حوالے سے کوئی معاملہ لے کر آئے گا وہ اس کے سامنے بیان کردیا جائے گا اور جو اس سے مختلف لے کر آئے گا تو اللہ کی قسم ہم تمہارے اختلاف کی طاقت نہیں رکھتے۔

104

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ لَا يَقُولُ بِرَأْيِهِ إِلَّا شَيْئًا سَمِعَهُ
ابن سیرین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی رائے سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے تھے صرف وہی چیز بیان کرتے تھے جس کے بارے میں انھوں نے کوئی حدیث یا صحابی کا قول سناہو۔

105

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَثَّامٌ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ مَا سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ بِرَأْيِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ
اعمش بیان کرتے ہیں میں نے کبھی بھی حضرت ابراہیم نخعی کو اپنی رائے سے کوئی بات بیان کرتے نہیں سنا۔

106

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ مَا قُلْتُ بِرَأْيِي مُنْذُ ثَلَاثُونَ سَنَةً قَالَ أَبُو هِلَالٍ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں میں نے سابقہ تیس برسوں سے اپنی رائے سے کوئی بات بیان نہیں کی۔ ابوہلال بیان کرتے ہیں چالیس برسوں سے کوئی بات نہیں کی۔

107

حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ سُئِلَ عَطَاءٌ عَنْ شَيْءٍ قَالَ لَا أَدْرِي قَالَ قِيلَ لَهُ أَلَا تَقُولُ فِيهَا بِرَأْيِكَ قَالَ إِنِّي أَسْتَحْيِي مِنْ اللَّهِ أَنْ يُدَانَ فِي الْأَرْضِ بِرَأْيِي
عبدالعزیز بیان کرتے ہیں عطاء سے کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا انھوں نے جواب دیا مجھے علم نہیں ہے ان سے کہا گیا ہے اس بارے میں اپنی رائے سے کوئی فتوی کیوں نہیں دیتے انھوں نے جواب دیا مجھے اللہ سے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ دنیا میں میری رائے کی پیروی کی جائے۔

108

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ أَخْبَرَنِي حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عِيسَى عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ جَاءَهُ رَجُلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ فِيهِ كَذَا وَكَذَا قَالَ أَخْبِرْنِي أَنْتَ بِرَأْيِكَ فَقَالَ أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا أَخْبَرْتُهُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيَسْأَلُنِي عَنْ رَأْيِي وَدِينِي عِنْدِي آثَرُ مِنْ ذَلِكَ وَاللَّهِ لَأَنْ أَتَعَنَّى بِعَنِيَّةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُخْبِرَكَ بِرَأْيِي
شعبی بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ایک شخص آیا جس نے ان سے کوئی سوال کیا تو شعبی نے جواب دیا ابن مسعود (رض) اس بارے میں یہ فرماتے ہیں وہ شخص بولا مجھے اس بارے میں اپنی رائے بیان کریں۔ شعبی بولے کیا آپ لوگوں کو اس شخص پر حیرت نہیں ہو رہی میں اس شخص کے سامنے حضرت ابن مسعود (رض) کی رائے بیان کررہا ہوں مجھ سے میری رائے پوچھتا ہے جبکہ میرا دین میرے نزدیک اس سے کم تر حثییت رکھتا ہے اللہ کی قسم میرے نزدیک گانا گالینا اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں تمہیں اپنی رائے کے مطابق کوئی بات بتاؤں۔

109

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عِيسَى عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْمُقَايَسَةَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ أَخَذْتُمْ بِالْمُقَايَسَةِ لَتُحِلُّنَّ الْحَرَامَ وَلَتُحَرِّمُنَّ الْحَلَالَ وَلَكِنْ مَا بَلَغَكُمْ عَنْ مَنْ حَفِظَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْمَلُوا بِهِ
شعبی بیان کرتے ہیں کہ قیاس کرنے سے بچو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم قیاس پر عمل کرنا شروع کردو گے تو حرام کو حلال ٹھہراؤ گے اور حلال کو حرام قرار دوگے۔ بلکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے جو احکام تم تک پہنچے ہیں ان پر عمل کرو۔

110

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَارِحَةَ ثَمَانِيًا قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ فَيُرِيدُونَ أَنْ يُبِينُوا مِنْكَ امْرَأَتَكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ مِائَةَ طَلْقَةٍ قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ فَيُرِيدُونَ أَنْ يُبِينُوا مِنْكَ امْرَأَتَكَ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ طَلَّقَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ فَقَدْ بَيَّنَ اللَّهُ الطَّلَاقَ وَمَنْ لَبَّسَ عَلَى نَفْسِهِ وَكَّلْنَا بِهِ لَبْسَهُ وَاللَّهِ لَا تُلَبِّسُونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَنَتَحَمَّلُهُ نَحْنُ هُوَ كَمَا تَقُولُونَ
عکرمہ بیان کرتے ہیں ایک شخص حضرت عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس نے گذشہ دن اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دی ہیں حضرت عبداللہ نے دریافت کیا کہ ایک ہی جملے کے ذریعے ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک ہی جملے کے ذریعے۔ حضرت عبداللہ بولے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری بیوی سے الگ کردیں اس نے جواب دیا ہاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور بولا اس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا اسی جملے کے ذریعے اس نے جواب دیا ہاں حضرت عبداللہ بولے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری بیوی سے الگ کردیں اس نے جواب دیا ہاں۔ اسی جملے کے ذریعے۔ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا جو شخص اس طرح طلاق دے جیسے اللہ نے حکم دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کا حکم واضح کردیا ہے اور جو شخص اپنے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہو ہم اسے اس غلطی کے سپرد کرتے ہیں اللہ کی قسم یہ نہیں ہوسکتا تم اپنی ذات کے حوالے سے ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرو اور ہم اپنے اوپر بوجھ ڈال کر وہی کہیں جو تم چاہتے ہو۔

111

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ الْقَاسِمِ قَالَ لَأَنْ يَعِيشَ الرَّجُلُ جَاهِلًا بَعْدَ أَنْ يَعْلَمَ حَقَّ اللَّهِ عَلَيْهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ
قاسم بیان کرتے ہیں ایک شخص جسے اپنی ذات کے بارے میں اللہ کے حق کا پتہ چل جائے اس کے بعد اس کا جاہل کے طور پر زندہ رہنا اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز بیان کرے جس کا اسے علم نہیں ہے۔

112

101. أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُسْأَلُ قَالَ إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ كُلَّ مَا تَسْأَلُونَ عَنْهُ وَلَوْ عَلِمْنَا مَا كَتَمْنَاكُمْ وَلَا حَلَّ لَنَا أَنْ نَكْتُمَكُمْ
ایوب بیان کرتے ہیں کہ قاسم سے سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا بیشک اللہ کی قسم ہمیں ہر اس چیز کا علم نہیں ہوتا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو اور اگر ہمیں علم ہو تو ہم تم سے نہ چھپائیں اور نہ ہی ہمارے لیے اس بات کو چھپانا جائز ہے۔

113

101. أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ سُئِلَ الْقَاسِمُ عَنْ شَيْءٍ قَدْ سَمَّاهُ فَقَالَ مَا أَضْطَرُّ إِلَى مَشُورَةٍ وَمَا أَنَا مِنْ ذَا فِي شَيْءٍ
قاسم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جسے وہ بتا چکے انھوں نے ارشاد فرمایا مجھے کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں اس معاملے میں مجبور ہوں۔

114

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى قَالَ قُلْتُ لِلْقَاسِمِ مَا أَشَدَّ عَلَيَّ أَنْ تُسْأَلَ عَنْ الشَّيْءِ لَا يَكُونُ عِنْدَكَ وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ إِمَامًا قَالَ إِنَّ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنْ اللَّهِ أَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ أَرْوِيَ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ
یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے قاسم سے کہا کہ مجھے یہ بات بہت بری لگتی ہے کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کیا جائے اور آپ کے پاس اس کا جواب نہ ہو آپ کے والد جلیل القدر امام ہیں تو قاسم نے جواب دیا اللہ کے نزدیک اور عقل والے کے نزدیک یہ بات شدید بری ہوگی کہ میں نے علم نہ ہونے کے باوجود فتوی دیا یا کسی غیر مستند راوی کے حوالے سے روایت نقل کروں۔

115

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ عَنْ الْعَوَّامِ عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ قَالَ كَانُوا إِذَا نَزَلَتْ بِهِمْ قَضِيَّةٌ لَيْسَ فِيهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَثَرٌ اجْتَمَعُوا لَهَا وَأَجْمَعُوا فَالْحَقُّ فِيمَا رَأَوْا فَالْحَقُّ فِيمَا رَأَوْا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ عَنْ الْعَوَّامِ بِهَذَا
مسیب بن رافع بیان کرتے ہیں لوگوں کے درمیان جب بھی کوئی نیا معاملہ پیش ہوتا اور اس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث منقول نہ ہوتی تو وہ لوگ اکٹھے ہو کر کسی ایک چیز پر اتفاق کرلیتے۔ ان کی جور ائے ہوتی تھی وہی حق ہوتا تھا۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

116

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْحِمْصِيُّ أَنَّ وَهْبَ بْنَ عَمْرٍو الْجُمَحِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَعْجَلُوا بِالْبَلِيَّةِ قَبْلَ نُزُولِهَا فَإِنَّكُمْ إِنْ لَا تَعْجَلُوهَا قَبْلَ نُزُولِهَا لَا يَنْفَكُّ الْمُسْلِمُونَ وَفِيهِمْ إِذَا هِيَ نَزَلَتْ مَنْ إِذَا قَالَ وُفِّقَ وَسُدِّدَ وَإِنَّكُمْ إِنْ تَعْجَلُوهَا تَخْتَلِفْ بِكُمْ الْأَهْوَاءُ فَتَأْخُذُوا هَكَذَا وَهَكَذَا وَأَشَارَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ
حضرت وہب بن عمرو بن جمحی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کسی آزمائش کے لازم ہونے سے پہلے سے اپنی طرف سے گھڑنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ اگر تم اس کے بارے جلدی نہیں کرو گے تو اس کے نازل ہونے سے پہلے مسلمان اس بارے میں الگ نہیں ہوں گے اور جب یہ صورت حال پیش آئے گی تو کوئی ایک ایسا شخص ضرور گا جسے صحیح جواب کی توفیق دی گئی ہوگی اور اس کی مدد کی گئی ہوگی لیکن اگر تم اس کی جلدی کرو گے تو تمہاری آرا ایک دوسرے سے مختلف ہوجائیں گی کوئی شخص ادھر جارہا ہوگا کوئی شخص ادھر جارہا ہوگا۔ راوی کا بیان ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کے ذریعے دائیں اور بائیں طرف اشارہ کیا۔

117

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ يَحْدُثُ لَيْسَ فِي كِتَابٍ وَلَا سُنَّةٍ فَقَالَ يَنْظُرُ فِيهِ الْعَابِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ
حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی معاملے کے بارے میں سوال کیا گیا جو نیا لاحق ہوا تھا اور اس بارے میں کسی کتاب یا سنت کا حکم موجود نہیں تھا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس طرح کے معاملے کے بارے میں اہل ایمان میں سے عبادت گزار لوگ جائزہ لیں گے۔

118

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ قَالَ الْقَاسِمُ إِنَّكُمْ لَتَسْأَلُونَا عَنْ أَشْيَاءَ مَا كُنَّا نَسْأَلُ عَنْهَا وَتُنَقِّرُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا كُنَّا نُنَقِّرُ عَنْهَا وَتَسْأَلُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا هِيَ وَلَوْ عَلِمْنَاهَا مَا حَلَّ لَنَا أَنْ نَكْتُمَكُمُوهَا
قاسم بیان کرتے ہیں تم لوگ ایسے ہی اشیاء کے بارے میں سوال کرتے ہو جن کے بارے میں ہم سوال نہیں کرتے تھے اور تم لوگ ایسی اشیاء کے بارے میں بحث کرتے ہو جن کے بارے میں ہم بحث نہیں کرتے تھے تم لوگ ایسی اشیاء کے بارے میں سوال کرتے ہو کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کا حکم کیا ہے اور اگر مجھے اس کا علم ہوتا تو یہ بات ہمارے لیے جائز نہیں تھی کہ ہم ان باتوں کو تم سے چھپاتے۔

119

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ هُوَ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْأَشَجِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّهُ سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ
عمر بن اشج بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کے متاشابہات کے بارے میں تمہارے ساتھ بحث کریں گے تم سنت کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنا کیونکہ سنت کے ماہرین ہی اللہ کی کتاب کا علم رکھتے ہیں۔

120

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامٍ هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ أَبْنَاءُ النِّسَاءِ الَّتِي سَبَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ مِنْ غَيْرِهِمْ فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَأَضَلُّوهُمْ
حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں بنی اسرائیل کا معاملہ اس وقت تک ٹھیک رہا اور ان میں کوئی خرابی نہیں آئی یہاں تک کہ ان میں باہر سے پیدا ہونے والے بچوں نے نشو و نما نہیں پائی یہ مختلف اقوام کے بچے تھے یہ ان عورتوں کے اولاد تھے جنہیں بنی اسرائیل نے دوسری اقوام میں سے قیدی بنایا تھا ان لوگوں نے رائے کے مطابق بات کہنا شروع کی اور انھیں گمراہ کردیا۔

121

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ يَزِيدَ الْمِنْقَرِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ جَاءَ رَجُلٌ يَوْمًا إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَمْ يَكُنْ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَلْعَنُ مَنْ سَأَلَ عَمَّا لَمْ يَكُنْ
حماد بن یزید بیان کرتے ہیں میرے والد یہ بات بیان کرتے ہیں ایک دن ایک شخص حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ایسی چیز کے بارے میں دریافت کیا جس کا مجھے پتہ نہ چل سکا کہ وہ کیا معاملہ تھا حضرت ابن عمر (رض) نے اس سے کہا کہ ایسا سوال نہ کیا کرو جو پیش نہ آیا ہو کیونکہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو ایسے شخص پر لعنت کرتے سنا ہے جو ایسا سوال کرتا تھا جو پیش نہ آیا ہو۔

122

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ بَلَغَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ يَقُولُ إِذَا سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ أَكَانَ هَذَا فَإِنْ قَالُوا نَعَمْ قَدْ كَانَ حَدَّثَ فِيهِ بِالَّذِي يَعْلَمُ وَالَّذِي يَرَى وَإِنْ قَالُوا لَمْ يَكُنْ قَالَ فَذَرُوهُ حَتَّى يَكُونَ
حضرت زید بن ثابت انصاری کے بارے میں منقول ہے جب ان سے کسی معاملے کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو وہ یہ دریافت کرتے کہ کیا یہ درپیش ہوچکا ہے اگر لوگ یہ جواب دیتے جی ہاں پیش آچکا ہے تو حضرت زید بن ثابت اپنے علم یا اپنی رائے کے مطابق اس بارے میں بیان کردیتے لیکن اگر لوگ یہ کہتے کہ یہ پیش نہیں آیا تو حضرت زید یہ فرماتے اسے اس وقت تک رہنے دو جب تک پیش نہ آجائے۔

123

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا دَاوُدُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سُئِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ هَلْ كَانَ هَذَا بَعْدُ قَالُوا لَا قَالَ دَعُونَا حَتَّى تَكُونَ فَإِذَا كَانَتْ تَجَشَّمْنَاهَا لَكُمْ
حضرت عمار بن یاسر سے ایک مسئلے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے دریافت کیا کیا یہ پیش آچکا ہے لوگوں نے جواب دیا نہیں فرمایا اسے اس وقت تک رہنے دو جب تک پیش نہ آجائے گا تو ہم اس کی وجہ سے تمہارے لیے مشقت برداشت کرلیں گے۔

124

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ أُحَرِّجُ بِاللَّهِ عَلَى رَجُلٍ سَأَلَ عَمَّا لَمْ يَكُنْ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ بَيَّنَ مَا هُوَ كَائِنٌ
حضرت عمر نے برسر منبر یہ بات ارشاد فرمائی میں اس شخص کو اللہ کا نام لے کر منع کرتا ہوں جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو ظہور پذیر نہیں ہوئی بیشک اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کردیا جو کچھ بھی ہوگا۔

125

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا رَأَيْتُ قَوْمًا كَانُوا خَيْرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا سَأَلُوهُ إِلَّا عَنْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ مَسْأَلَةً حَتَّى قُبِضَ كُلُّهُنَّ فِي الْقُرْآنِ مِنْهُنَّ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْمَحِيضِ قَالَ مَا كَانُوا يَسْأَلُونَ إِلَّا عَمَّا يَنْفَعُهُمْ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے زیادہ کوئی قوم نہیں دیکھی ان لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال فرمانے تک صرف تیرہ چیزوں کے بارے میں سوال کیا تھا اور ان سب کا ذکر قرآن میں موجود ہے جس میں ایک آیت یہ (يَسْأَلُونَكَ عَنْ الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْمَحِيضِ ) ہے۔ لوگ تم سے حرمت والے مہینوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ " لوگ تم سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں "۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ لوگ وہی سوال کرتے ہیں جس سے ان کو نفع حاصل ہو۔

126

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ لَمَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرُ مِمَّنْ سَبَقَنِي مِنْهُمْ فَمَا رَأَيْتُ قَوْمًا أَيْسَرَ سِيرَةً وَلَا أَقَلَّ تَشْدِيدًا مِنْهُمْ
عمیر بن اسحاق بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جتنے اصحاب کو پایا ہے ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو اصحاب مجھ سے پہلے گزر چکے تھے میں نے کسی بھی قوم کو سیرت کے اعتبار سے ان سے زیادہ نرم نہیں پایا اور شدت پسندی میں کم ہونے کے اعتبار سے ان سے زیادہ بہتر نہیں پایا۔

127

أَخْبَرَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ سُفْيَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ نُسَيٍّ الْكِنْدِيَّ وَسُئِلَ عَنْ امْرَأَةٍ مَاتَتْ مَعَ قَوْمٍ لَيْسَ لَهَا وَلِيٌّ فَقَالَ أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا مَا كَانُوا يُشَدِّدُونَ تَشْدِيدَكُمْ وَلَا يَسْأَلُونَ مَسَائِلَكُمْ
عبادہ بن نسی کندی کے بارے میں منقول ہے ان سے ایک ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ مرجاتی ہے اس عورت کا کوئی ولی نہیں ہے تو انھوں جواب دیا میں نے ان حضرات کو پایا ہے جو تمہاری طرح تشدد سے کام نہیں لیتے تھے اور تمہاری طرح کے سوالات نہیں پوچھا کرتے تھے۔

128

أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ سُفْيَانَ أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ قَالَ كُنْتُ مَعَ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ بِمَرْجِ الدِّيبَاجِ فَرَأَيْتُ مِنْهُ خَلْوَةً فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ لِي مَا تَصْنَعُ بِالْمَسَائِلِ قُلْتُ لَوْلَا الْمَسَائِلُ لَذَهَبَ الْعِلْمُ قَالَ لَا تَقُلْ ذَهَبَ الْعِلْمُ إِنَّهُ لَا يَذْهَبُ الْعِلْمُ مَا قُرِئَ الْقُرْآنُ وَلَكِنْ لَوْ قُلْتَ يَذْهَبُ الْفِقْهُ
ہشام بن مسلم قرشی بیان کرتے ہیں میں ابن محیریز کے ہمراہ مرج دیباج میں تھا جب میں نے انھیں تنہا دیکھا تو میں نے ان سے ایک مسئلہ دریافت کیا انھوں نے مجھ سے فرمایا تم مسائل کا کیا کرو گے ؟ میں نے کہا اگر مسائل نہ ہوں تو علم رخصت ہوجائے گا انھوں نے فرمایا تم یہ نہ کہو کہ علم رخصت ہوجائے گا جب تک قرآن پڑھا جاتا رہے گا علم رخصت نہیں ہوگا البتہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ فقہ رخصت ہوجائے گی۔

129

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ دَاوُدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّ عُمَرَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا لَا نَدْرِي لَعَلَّنَا نَأْمُرُكُمْ بِأَشْيَاءَ لَا تَحِلُّ لَكُمْ وَلَعَلَّنَا نُحَرِّمُ عَلَيْكُمْ أَشْيَاءَ هِيَ لَكُمْ حَلَالٌ إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنْ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُبَيِّنْهَا لَنَا حَتَّى مَاتَ فَدَعُوا مَا يَرِيبُكُمْ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكُمْ
شعبی بیان کرتے ہیں حضرت عمر نے ارشاد فرمایا ہے اے لوگو بیشک ہم نہیں جانتے ہوسکتا ہے ہم تم میں ایسی اشیاء کو حرام قرار دیں جو تمہارے لیے حلال ہوں قرآن میں سب سے آخر میں سود سے متعلق آیت نازل ہوئی تھی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے سامنے اس کی وضاحت نہیں کی۔ یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوگیا اس لیے جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اسے چھوڑا کر اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں مبتلا نہ کرے۔

130

أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عَمِّهِ قَالَ خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ إِبْرَاهِيمَ فَاسْتَقْبَلَنِي حَمَّادٌ فَحَمَّلَنِي ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ مَسَائِلَ فَسَأَلْتُهُ فَأَجَابَنِي عَنْ أَرْبَعٍ وَتَرَكَ أَرْبَعًا
ابن ادریس اپنے چچا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں ابراہیم کے پاس اٹھ کر آیا تو میرا سامنا حماد سے ہوا میں نے آٹھ مسائل یاد کئے تھے میں نے ان سے پوچھے تو انھوں نے چار کے جواب دیئے اور چار کے جواب نہیں دیئے۔

131

أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ عَنْ زُبَيْدٍ قَالَ مَا سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا عَرَفْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ
زبید بیان کرتے ہیں میں نے ابراہیم سے جب بھی کوئی سوال کیا تو ان کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔

132

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ لَا عِلْمَ لِي بِهِ مِنْ الشَّعْبِيِّ
عمر بن ابوزائدہ بیان کرتے ہیں میں نے شعبی سے زیادہ کسی شخص کو جب اس سے کسی چیز کے بارے میں یہ سوال کیا گیا ہو یہ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

133

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ قَالَ كَانَ الشَّعْبِيُّ إِذَا جَاءَهُ شَيْءٌ اتَّقَى وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ يَقُولُ وَيَقُولُ وَيَقُولُ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ كَانَ الشَّعْبِيُّ فِي هَذَا أَحْسَنَ حَالًا عِنْدَ ابْنِ عَوْنٍ مِنْ إِبْرَاهِيمَ
ابن عون بیان کرتے ہیں شعبی کے سامنے جب کوئی سوال آتا تھا تو وہ بچنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ ابراہیم ایک جواب دیتے تھے پھر ایک جواب دیتے تھے پھر ایک جواب دیتے تھے۔ ابوعاصم کہتے ہیں اس بارے میں شعبی کی حالت ابراہیم سے بہتر تھی یہ ابن عون کا خیال ہے۔

134

130. أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ قَالَ قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مَا لَكَ لَا تَقُولُ فِي الطَّلَاقِ شَيْئًا قَالَ مَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ سَأَلْتُ عَنْهُ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ حَرَامًا أَوْ أُحَرِّمَ حَلَالًا
جعفر بن ایاس فرماتے ہیں میں نے سعید بن جبیر سے کہا آپ طلاق کے بارے میں کوئی فتوٰی کیوں نہیں دیتے ہیں انھوں نے جواب دیا اس معاملے کے ہر پہلو کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جاتا ہے لیکن میں یہ بات ناپسند کرتا ہوں کہ میں کسی حرام چیز کو حلال قرار دے دوں یا حلال چیز کو حرام قرار دیدوں۔

135

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ لَقَدْ أَدْرَكْتُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ عِشْرِينَ وَمِائَةً مِنْ الْأَنْصَارِ وَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ يُحَدِّثُ بِحَدِيثٍ إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْحَدِيثَ وَلَا يُسْأَلُ عَنْ فُتْيَا إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْفُتْيَا
عبدالرحمن بن ابولیلی فرماتے ہیں میں نے اس مسجد میں ایک سو بیس (120) انصاری صحابہ کرام کو پایا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث بیان نہیں کرتا تھا اس کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا کوئی بھائی حدیث بیان کردے اور ان سے جب کوئی فتوی طلب کیا جاتا تو بھی ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ ان کا کوئی بھائی فتوی دیدے۔

136

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ دَاوُدَ قَالَ سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ إِذَا سُئِلْتُمْ قَالَ عَلَى الْخَبِيرِ وَقَعْتَ كَانَ إِذَا سُئِلَ الرَّجُلُ قَالَ لِصَاحِبِهِ أَفْتِهِمْ فَلَا يَزَالُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْأَوَّلِ
داؤد بیان کرتے ہیں میں نے شعبی سے سوال کیا جب آپ حضرات سے سوال کیا جاتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں انھوں نے جواب دیا تم نے واقف حال شخص سے بات پوچھی ہے جب کسی شخص سے سوال کیا جاتا ہے وہ اپنے ساتھی سے یہ کہے تم انھیں فتوی دو اور اسی طرح ہوتا رہے یہاں تک کہ وہی سوال پہلے شخص کے پاس آجائے۔

137

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ إِنَّ الْعَالِمَ يَدْخُلُ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ وَبَيْنَ عِبَادِهِ فَلْيَطْلُبْ لِنَفْسِهِ الْمَخْرَجَ
ابن منکدر بیان کرتے ہیں کہ عالم شخص اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان داخل ہوجاتا ہے اس لیے اسے اپنے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔

138

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ أَخْرَجَ إِلَيَّ مَعْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كِتَابًا فَحَلَفَ لِي بِاللَّهِ إِنَّهُ خَطُّ أَبِيهِ فَإِذَا فِيهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَى الْمُتَنَطِّعِينَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَيْهِمْ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَإِنِّي لَأَرَى عُمَرَ كَانَ أَشَدَّ خَوْفًا عَلَيْهِمْ أَوْ لَهُمْ
مسعر بیان کرتے ہیں معن بن عبدالرحمن نے ایک تحریر میرے سامنے نکالی اور میرے سامنے اللہ کے نام پر قسم اٹھا کر یہ کہا کہ یہ ان کے والد کا خط ہے اس میں یہ تحریر تھا عبداللہ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو مبالغہ آمیزی کرنے والے کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ سخت ہو اور میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اس طرح کے لوگوں کے بارے میں حضرت ابوبکر (رض) سے زیادہ سخت ہو اور میں حضرت عمر کو دیکھا ہے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں شدید خوف کا شکار تھے۔

139

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَاضِرٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَوْصِنِي فَقَالَ نَعَمْ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالِاسْتِقَامَةِ اتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ
عثمان بن حاضر ازدی بیان کرتے ہیں میں حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے کوئی نصیحت کریں جواب دیا، ہاں تم اللہ کے خوف کو اپنے اوپر لازم کرلو۔ استقامت کو لازم کرو۔ حدیث کی پیروی کرو بدعت کی پیروی نہ کرو۔

140

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلَى الطَّرِيقِ مَا كَانَ عَلَى الْأَثَرِ
ابن سیرین بیان کرتے ہیں پہلے زمانے کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک وہ سنت کی پیروی کرتے رہیں گے وہ صحیح راستے پر گامزن رہیں گے۔

141

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَزْهَرُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ مَا دَامَ عَلَى الْأَثَرِ فَهُوَ عَلَى الطَّرِيقِ
ابن سیرین بیان کرتے ہیں آدمی جب سنت کی پیروی کرتا رہے گا وہ سیدھے راستے پر گامزن رہتا ہے۔

142

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَقَبْضُهُ أَنْ يَذْهَبَ أَهْلُهُ أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَالتَّعَمُّقَ وَالْبِدَعَ وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں علم کے قبض ہوجانے سے پہلے علم حاصل کرلو اس کا قبض ہوجانا یہ ہے کہ اہل علم رخصت ہوجائیں اور خبردار۔ مبالغہ آمیز باتیں کرنے سے بچو اور بال کی کھال نکالنے والوں سے اور بدعت لانے والوں سے بچو اور اپنے اوپر سنت کو لازم کرلو۔

143

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَقَبْضُهُ أَنْ يُذْهَبَ بِأَصْحَابِهِ عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُفْتَقَرُ إِلَيْهِ أَوْ يُفْتَقَرُ إِلَى مَا عِنْدَهُ إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَقْوَامًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَدْعُونَكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَقَدْ نَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ فَعَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّبَدُّعَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ
حضرت ابن مسعود (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے علم کو اپنے اوپر لازم کرلو اس کا قبض ہوجانا یہ ہے کہ اس کے ماہرین رخصت ہوجائیں تو علم کو لازم کرلو کیونکہ تم میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جانتا کہ اسے کب اس کی ضرورت پیش آجائے یا کسی اور کو اس کے پاس موجود علم کی ضرورت پیش آجائے تم عنقریب ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو یہ گمان رکھتے ہوں گے کہ وہ تمہیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دے رہے ہیں حالانکہ وہ اس کتاب کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک چکے ہوں گے اس لیے تم علم کو لازمی طور پر اختیار کرو اور بدعت کرنے سے بچو اور مبالغہ آمیزی اختیار کرنے سے بچو اور بال کی کھال نکالنے سے بچو اور سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو۔

144

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ صَبِيغٌ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ وَقَدْ أَعَدَّ لَهُ عَرَاجِينَ النَّخْلِ فَقَالَ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ صَبِيغٌ فَأَخَذَ عُمَرُ عُرْجُونًا مِنْ تِلْكَ الْعَرَاجِينِ فَضَرَبَهُ وَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فَجَعَلَ لَهُ ضَرْبًا حَتَّى دَمِيَ رَأْسُهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حَسْبُكَ قَدْ ذَهَبَ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ فِي رَأْسِي
حضرت سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں ایک شخص جس کا نام صبیغ تھا وہ مدینہ آیا اور قرآن کے متشابہات کے بارے میں سوال کرنے لگا حضرت عمر نے اس کی طرف ایک شخص کو بھیجا اور اس شخص کے لیے کچھ کھجور کی شاخوں کی سوٹیاں تیار کرلیں حضرت عمر نے دریافت کیا تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا میں اللہ کا بندہ صبیغ ہوں۔ حضرت عمر نے ان سوٹیوں میں سے ایک سوٹی پکڑی اور اسے مار کر کہا میں اللہ بندہ عمر ہوں حضرت عمر لگا تار اسے مارتے رہے یہاں تک کہ اس کے سر میں سے خون نکلنے لگا وہ بولا اے امیرالمومنین اتنا ہی کافی ہے کیونکہ میرے دماغ میں جو فتور موجود تھا وہ چلا گیا۔

145

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَاحْذَرُوهُمْ
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت تلاوت کی وہی وہ ذات ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس میں سے بعض آیات محکم ہیں یہی کتاب کی بنیاد ہے اور بعض دیگر متشابہ ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کے متاشابہات کی پیروی کرتے ہوں تو ان سے بچو۔

146

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ سُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ لَكَ شَيْئًا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ أَوْ أُحَرِّمَ مَا أَحَلَّهُ اللَّهُ لَكَ
شقیق بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں تمہارے لیے کسی ایسی چیز کو حلال قرار دوں جسے اللہ نے تمہارے لیے حرام قرار دیا ہو یا میں کسی ایسی چیز کو حرام قرار دوں جو اللہ نے حلال قرار دی ہے۔

147

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ لَأَنْ أَرُدَّهُ بِعِيِّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّفَ لَهُ مَا لَا أَعْلَمُ
حمید بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کسی سوال کا جواب دینے سے عاجز ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے سوال کو واپس کرنا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں جس چیز کا علم نہیں رکھتا اس کے بارے میں اپنی طرف سے ایجاد کرکے کوئی جواب دوں۔

148

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ فَقَالَ أَيْنَ الرَّجُلُ قَالَ فِي الرَّحْلِ قَالَ عُمَرُ أَبْصِرْ أَيَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنْهُ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ فَأَتَاهُ بِهِ فَقَالَ عُمَرُ تَسْأَلُ مُحْدَثَةً وَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ ثُمَّ عَادَ لَهُ ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ قَالَ فَقَالَ صَبِيغٌ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي فَقَدْ وَاللَّهِ بَرَأْتُ فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ فَكَتَبَ عُمَرُ أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام نافع بیان کرتے ہیں صبیغ عراقی نامی ایک شخص مسلمانوں کے ایک لشکر میں قرآن سے متعلق بعض سوال کیا کرتا تھا وہ مصر آیا تو حضرت عمرو بن عاص نے اسے حضرت عمر کے پاس بھیج دیا جب قاصد حضرت عمرو بن عاص کا خط لے کر آیا اور حضرت عمر نے اسے پڑھ لیا تو دریافت کیا یہ شخص کہاں ہے قاصد نے جواب دیا پڑاؤ میں ہے حضرت عمر نے ارشاد فرمایا اس کا خیال رکھنا وہ چلا نہ جائے ورنہ میں تمہیں سخت سزادوں گا پھر اس شخص کو حضرت عمر کے پاس لایا گیا حضرت عمر نے دریافت کیا تم نئے قسم کے سوالات کرتے ہو پھر حضرت عمر نے لکڑی کی سوٹیاں منگوائی اور ان کے ذریعے اس کی پٹائی کرکے اس کی پشت کو زخمی کردیا پھر اسے چھوڑ دیا جب وہ ٹھیک ہوگیا تو دوبارہ اسے اسی طرح مارا پھر اسے چھوڑ دیا اور وہ دوبارہ ٹھیک ہوا پھر اسے بلایا تاکہ دوبارہ اسے ماریں تو صبیغ نامی اس شخص نے کہا اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اچھے طریقے سے قتل کریں اور اگر آپ میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں حضرت عمر نے اسے اجازت دی کہ وہ اپنے علاقے میں واپس چلا جائے حضرت عمر نے حضرت موسیٰ اشعری کو خط میں لکھا کہ کوئی بھی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔ یہ بات اس شخص کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی پھر حضرت ابوموسی نے حضرت عمر کو خط میں لکھا کہ اس شخص نے اچھی طرح توبہ کرلی ہے تو حضرت عمر نے جواب دیا اب تم لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہو۔

149

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ عَامِرًا يَقُولُ اسْتَفْتَى رَجُلٌ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ مَا تَقُولُ فِي كَذَا وَكَذَا قَالَ يَا بُنَيَّ أَكَانَ الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ قَالَ لَا قَالَ أَمَّا لَا فَأَجِّلْنِي حَتَّى يَكُونَ فَنُعَالِجَ أَنْفُسَنَا حَتَّى نُخْبِرَكَ
عامر بیان کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے کوئی فتوی دریافت کیا اور کہا اے ابومنذر آپ فلاں مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا اے میرے بیٹے تم نے جس چیز کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے وہ واقع ہوچکی ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں تو حضرت ابی بن کعب نے فرمایا اگر نہیں ہوئی تو پھر رہنے دو مجھے مہلت دو جب تک وہ رونما نہ ہوجائے ہم اپنے نفس کا علاج کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم تمہیں اس کے بارے میں بتادیں گے۔

150

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ فَأَخْبَرَنَا عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَقَالَ فَتًى مَا تَقُولُ يَا عَمَّاهُ فِي كَذَا وَكَذَا قَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَكَانَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَأَعْفِنَا حَتَّى يَكُونَ
مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابی بن کعب کے ساتھ کہیں جارہا تھا ایک نوجوان نے کہا اے چچا جان آپ فلاں مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا اے میرے بھتیجے کیا وہ رونما ہوچکا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا نہیں تو حضرت ابی نے فرمایا جب تک وہ رونما ہو نہیں جاتا تم مجھے معاف رکھو۔

151

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُجِبْ فِيهِ إِلَّا جَوَابَ الَّذِي سُئِلَ عَنْهُ
اعمش بیان کرتے ہیں ابراہیم سے جب کوئی سوال کیا جاتا تو وہ صرف اتنا ہی جواب دیتے تھے جتنا سوال کیا جاتا تھا۔

152

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ وُهَيْبٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ لَا يُفْتِي فِي الْفَرْجِ بِشَيْءٍ فِيهِ اخْتِلَافٌ
محمد بن سیرین کے بارے میں منقول ہے وہ سہولت کے بارے میں کوئی ایسا فتوی نہیں دیتے تھے جس میں اختلاف پایا جاتا ہو۔

153

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ لِي كَانَ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ آللَّهِ قُلْتُ آللَّهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَنَا أَخْبَرُونَا عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّهُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ فَيُذْهَبُ بِكُمْ هَا هُنَا وَهَا هُنَا فَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ لَمْ يَنْفَكَّ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ إِذَا سُئِلَ سَدَّدَ وَإِذَا قَالَ وُفِّقَ
صلت بن راشد بیان کرتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے ایک مسئلہ دریافت کیا انھوں نے مجھ سے فرمایا کیا یہ رونما ہوچکا ہے میں نے جواب دیا جی ہاں انھوں نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نے جواب دیا اللہ کی قسم۔ انھوں نے فرمایا ہمارے اصحاب نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا تھا اے لوگو کسی نئی صورت حال کے نازل ہونے سے پہلے جلدی نہیں کرو گے تو اس بارے میں مسلمان انتشار کا شکار نہیں ہوں گے اور ان میں سے کوئی ایسا شخص ہوگا جس سے سوال کیا جائے گا تو وہ صحیح جواب دے گا اور جب جواب دے گا تو اسے توفیق عنایت کی جائے گی۔

154

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ أَدْرَكَهُ رَمَضَانَانِ فَقَالَ أَكَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ قَالَ لَمْ يَكُنْ بَعْدُ فَقَالَ اتْرُكْ بَلِيَّتَهُ حَتَّى تَنْزِلَ قَالَ فَدَلَسْنَا لَهُ رَجُلًا فَقَالَ قَدْ كَانَ فَقَالَ يُطْعِمُ عَنْ الْأَوَّلِ مِنْهُمَا ثَلَاثِينَ مِسْكِينًا لِكُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ
حضرت ابن عباس (رض) کے بارے میں منقول ہے میں نے ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جس نے دو رمضان نہ پائے ہوں اور روزے نہ رکھے ہوں حضرت ابن عباس (رض) نے دریافت کیا کیا یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے یا نہیں سائل نے کہا یہ رونما نہیں ہوا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تم اس نئی صورت حال کو رہنے دو یہاں تک کہ یہ رونما ہوجائے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر ہم نے انھیں ایک فرضی شخص سے ملایا اس نے کہا یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے فتوی دیا وہ شخص دونوں سالوں میں سے پہلے سال کی طرف سے تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے گا ایک روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا۔

155

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ كُنْتُ أَجْلِسُ بِمَكَّةَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ يَوْمًا وَإِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَوْمًا فَمَا يَقُولُ ابْنُ عُمَرَ فِيمَا يُسْأَلُ لَا عِلْمَ لِي أَكْثَرُ مِمَّا يُفْتِي بِهِ
عبید بن جریج بیان کرتے ہیں میں مکہ ایک دن حضرت ابن عمر کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں ایک دن حاضر ہوتا تھا تو حضرت عمر سے جو سوال کیا جاتا تھا وہ اس کے جواب میں فتوی دینے میں زیادہ تر یہی کہتے تھے مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

156

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ تَعَلَّمُوا فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُخْتَلُّ إِلَيْهِ
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ علم حاصل کرو کیونکہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ کب کسی اختلافی مسئلے کے بارے میں اس کے پاس آیا جائے گا۔

157

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْرَؤُكُمْ عَلَى الْفُتْيَا أَجْرَؤُكُمْ عَلَى النَّارِ
حضرت عبیداللہ بن ابوجعفر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تمہیں فتوی دینے کے مقابلے میں سب سے زیادہ جرات وہ شخص کرے گا جو جہنم کے بارے میں سب سے زیادہ جرات مند ہو۔

158

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَنْ أَحْدَثَ رَأْيًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ تَمْضِ بِهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَدْرِ عَلَى مَا هُوَ مِنْهُ إِذَا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جو شخص اپنی ایسی رائے ایجاد کرتے جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو اس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت بھی موجود ہو اور اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ جب وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو اس کا کیا حال ہوگا۔

159

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا مِنْ غَيْرِ ثَبْتٍ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص کسی دلیل کے بغیر فتوی دے اس کا گناہ فتوی دینے والے کے سر ہوگا۔

160

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَنْ أَفْتَى بِفُتْيَا يُعَمَّى عَلَيْهَا فَإِثْمُهَا عَلَيْهِ
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جو شخص کوئی ایسا فتوی دے جس سے وہ آگاہ نہیں ہے تو اس کا گناہ اس کے سر ہوگا۔

161

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا وَرَدَ عَلَيْهِ الْخَصْمُ نَظَرَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَجَدَ فِيهِ مَا يَقْضِي بَيْنَهُمْ قَضَى بِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْكِتَابِ وَعَلِمَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْأَمْرِ سُنَّةً قَضَى بِهِ فَإِنْ أَعْيَاهُ خَرَجَ فَسَأَلَ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ أَتَانِي كَذَا وَكَذَا فَهَلْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي ذَلِكَ بِقَضَاءٍ فَرُبَّمَا اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّفَرُ كُلُّهُمْ يَذْكُرُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ قَضَاءً فَيَقُولُ أَبُو بَكْرٍ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَلَى نَبِيِّنَا فَإِنْ أَعْيَاهُ أَنْ يَجِدَ فِيهِ سُنَّةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ رُءُوسَ النَّاسِ وَخِيَارَهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فَإِنْ أَجْمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَمْرٍ قَضَى بِهِ
میمون بن مہران بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) کی بارگاہ میں جب کوئی شخص مسئلہ لے کر آتا تو وہ اللہ کی کتاب سے رہنمائی لیتے اگر وہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی ایسا حکم پالیتے جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکتے تو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے اگر اللہ کی کتاب میں وہ بات موجود نہ ہوتی اور اس معاملے میں اللہ کے رسول کی سنت کا علم ہوتا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کردیتے اگر یہ بھی نہ ہوتا تو پھر وہ مسلمانوں سے اس بارے میں دریافت کرتے اور ارشاد فرماتے میرے پاس فلاں فلاں شخص کو لے آؤ اور ارشاد فرماتے کیا تمہیں علم ہے کہ اللہ کے رسول نے اس بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ آپ کے پاس جو لوگ جمع ہوتے تو وہ اس بات کا ذکر کرتے کہ اس بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا فیصلہ ہے تو حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جس نے ہمارے درمیان ایسے حضرات رکھے ہیں جو ہمارے نبی کے فرامین کا علم رکھتے ہیں لیکن اگر اس بات کا بھی پتہ نہ چلتا کہ اللہ کے رسول کی سنت کا علم نہ ہوتا تو حضرت ابوبکر (رض) سمجھدار اور بزرگ لوگوں کو اکٹھا کرکے ان سے مشورے کرتے اور جس معاملے میں ان کی رائے متفق ہوتی اس کا فیصلہ کردیتے۔

162

. أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى وَعَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ قَالَ كَانَ عَلَى امْرَأَتِي اعْتِكَافُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَسَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعِنْدَهُ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ قُلْتُ عَلَيْهَا صِيَامٌ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ لَا يَكُونُ اعْتِكَافٌ إِلَّا بِصِيَامٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا قَالَ فَعَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ لَا قَالَ فَعَنْ عُمَرَ قَالَ لَا قَالَ فَعَنْ عُثْمَانَ قَالَ لَا قَالَ عُمَرُ مَا أَرَى عَلَيْهَا صِيَامًا فَخَرَجْتُ فَوَجَدْتُ طَاوُسًا وَعَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ فَسَأَلْتُهُمَا فَقَالَ طَاوُسٌ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا يَرَى عَلَيْهَا صِيَامًا إِلَّا أَنْ تَجْعَلَهُ عَلَى نَفْسِهَا قَالَ وَقَالَ عَطَاءٌ ذَلِكَ رَأْيِي
حضرت ابوسہیل بیان کرتے ہیں میری بیوی پر مسجد حرام میں تین دن تک اعتکاف کرنا لازم تھا میں نے اس بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز سے سوال کیا اس وقت ان کے پاس ابن شہاب موجود تھے۔ ابوسہیل کہتے ہیں میں نے یہ کہا میرے خیال میں اس عورت پر روزہ بھی لازم ہے ابن شہاب نے فرمایا روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان سے دریافت کیا کیا یہ بات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے انھوں نے جواب دیا نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا کیا حضرت ابوبکر (رض) سے منقول ہے انھوں نے جواب دیا نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سوال کیا کیا حضرت عمر سے منقول ہے انھوں نے جواب دیا نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا حضرت عثمان سے منقول ہے انھوں نے جواب دیا نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا میرے خیال میں اس پر روزے رکھنا لازم نہیں ہیں ابوسہیل بیان کرتے ہیں میں وہاں سے نکلا میری ملاقات طاؤس بن ابی رباح سے ہوئی میں نے ان دونوں حضرات سے سوال کیا طاؤس نے جواب دیا ابن عباس (رض) کے نزدیک ایسی عورت پر روزہ رکھنا لازم نہیں ہے البتہ اس نے روزے کی بھی نذر مانی ہو تو لازم ہوگا عطاء نے جواب دیا میری بھی یہی رائے ہے۔

163

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَبُو سَلَمَةَ الْبَصْرَةَ أَتَيْتُهُ أَنَا وَالْحَسَنُ فَقَالَ لِلْحَسَنِ أَنْتَ الْحَسَنُ مَا كَانَ أَحَدٌ بِالْبَصْرَةِ أَحَبَّ إِلَيَّ لِقَاءً مِنْكَ وَذَلِكَ أَنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُفْتِي بِرَأْيِكَ فَلَا تُفْتِ بِرَأْيِكَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ سُنَّةٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ كِتَابٌ مُنْزَلٌ
ابونضرہ بیان کرتے ہیں جب حضرت ابوسلمہ بصرہ تشریف لائے تو میں اور حضرت حسن بصری ان کی خدمت میں حاضر ہوئے انھوں نے حضرت حسن بصری سے کہا تم حسن ہو بصرہ میں مجھے سب سے زیادہ تم سے ملاقات کی خواہش تھی اس کی وجہ یہ کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنی رائے کے مطابق فتوی دیتے ہو تم اپنی رائے کے مطابق فتوی نہ دیا کرو بلکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے حوالے سے یا اللہ کی کتاب کے حکم کے حوالے سے فتوی دیا کرو۔

164

أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ لَقِيَهُ فِي الطَّوَافِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ إِنَّكَ مِنْ فُقَهَاءِ الْبَصْرَةِ فَلَا تُفْتِ إِلَّا بِقُرْآنٍ نَاطِقٍ أَوْ سُنَّةٍ مَاضِيَةٍ فَإِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ غَيْرَ ذَلِكَ هَلَكْتَ وَأَهْلَكْتَ
حضرت جابر بن زید بیان کرتے ہیں وہ طواف کے دوران حضرت ابن عمر (رض) سے ملے تو حضرت ابن عمر (رض) نے ان سے کہا اے ابوشعثاء تم بصرہ کے فقہاء میں سے ایک ہو تم صرف قرآن کے حکم کے ذریعے فتوی دیا کرو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے ذریعے فتوی دیا کرو اگر تم اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے فتوی دو گے تو تم بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے۔

165

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ لَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ قَدَّرَ مِنْ الْأَمْرِ أَنْ قَدْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ وَلَا يَقُلْ إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أُرَى فَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَالْحَلَالَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ہمارے اوپر ایسا زمانہ آگیا ہے جس میں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہم یہاں رہ سکتے ہیں لیکن بیشک اللہ نے معاملہ طے کردیا ہے ہم نے تبلیغ کردی ہے۔ جیسا کہ تم جانتے ہو آج کے بعد جس شخص کو کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ اس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں جو موجود ہے اس کے مطابق فیصلے دے اگر ایسی صورت حال ہو جس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں بھی حکم موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کوئی فیصلہ نہ دیا ہو تو وہ اس بارے میں وہ فیصلہ دے جو نیک لوگ فیصلہ کرتے ہیں اور یہ نہ کہے مجھے یہ اندیشہ ہے یا میری رائے ہے کیونکہ حرام واضح ہے اور حلال واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان متشابہہ امور ہیں اس لیے جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اسے چھوڑ کر اسے اختیار کر جو شک میں مبتلا نہ کرے۔

166

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِذَا سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ فَكَانَ فِي الْقُرْآنِ أَخْبَرَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْقُرْآنِ وَكَانَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ بِهِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَعَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَالَ فِيهِ بِرَأْيِهِ
حضرت عبیداللہ بن ابویزید بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے جب کسی مسئلے کے بارے میں دریافت کیا جاتا وہ قرآن میں موجود ہوتا تو وہ اس حوالے سے بتا دیتے تھے اگر وہ قرآن میں موجود نہ ہوتا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے منقول ہوتا تو وہ اس بارے میں بھی بتا دیتے تھے اگر ایسا بھی نہ ہوتا تو حضرت عمر یا حضرت ابوبکر (رض) سے منقول ہوتا تو وہ اس بارے میں بتا دیتے اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو وہ اپنی رائے کے مطابق جواب دیتے تھے۔

167

. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ شُرَيْحٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَيْهِ إِنْ جَاءَكَ شَيْءٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَاقْضِ بِهِ وَلَا تَلْفِتْكَ عَنْهُ الرِّجَالُ فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَانْظُرْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْضِ بِهَا فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْظُرْ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ فَخُذْ بِهِ فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ أَحَدٌ قَبْلَكَ فَاخْتَرْ أَيَّ الْأَمْرَيْنِ شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَتَقَدَّمْ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَأَخَّرَ فَتَأَخَّرْ وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ
شریح بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے انھیں خط میں لکھا اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود ہو تو تم اس کے مطابق فیصلہ کرو اس کے بارے میں لوگوں کی طرف توجہ نہ کرو۔ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو تو اس بارے میں اللہ کے رسول کی سنت کا جائزہ لو اور اس کے مطابق فیصلہ دو اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت موجود نہ ہو تو تم اس بات کا جائزہ لو کہ لوگ جس معاملے پر متفق ہوں اس کے بارے میں فیصلہ دو اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے اللہ کی کتاب کا حکم موجود نہ ہو اور اس بارے میں سنت موجود نہ ہو اور تم سے پہلے لوگوں نے اس بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو تو تم دو میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتے ہو اگر تم چاہو اجتہاد کر کے اپنی رائے کے ذریعے فیصلہ دے کر آگے آسکتے ہو اور اگر چاہو تو اس مسئلے میں سے پیچھے ہٹ جاؤ میرے خیال میں تمہارا اس مسئلے سے پیچھے ہٹ جانا زیادہ بہتر ہے۔

168

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ نَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ كَيْفَ تَقْضِي قَالَ أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو قَالَ فَضَرَبَ صَدْرَهُ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ
عمروبن حارث جو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے بھتیجے ہیں۔ وہ حمص سے تعلق رکھنے والے حضرت معاذ کے شاگردوں کے حوالے سے یہ بات روایت کرتے ہیں حضرت معاذ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انھیں یمن بھیجا تو دریافت کیا اگر تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش کیا جائے تو تم کیا سمجھتے ہو تم کس طرح اس کا فیصلہ کرو گے۔ حضرت معاذ نے جواب دیا : میں اللہ کی کتاب کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا اگر وہ حکم اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو ؟ حضرت معاذ نے عرض کی اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا اگر وہ مسئلہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود نہ ہو ؟ تو حضرت معاذ نے عرض کی۔ پھر میں اپنی رائے کے ذریعے اجتہاد کرنے کی کوشش کروں گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کروں گا حضرت معاذ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر ارشاد فرمایا ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جس نے اللہ کے رسول کے نمائندے کو اس بات کی توفیق عطا کی جس کے ذریعے وہ اللہ کے رسول کو راضی کر دے۔

169

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ قَالَ أَحْسَبُهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَمَا نُسْأَلُ وَمَا نَحْنُ هُنَاكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَدَّرَ أَنْ بَلَغْتُ مَا تَرَوْنَ فَإِذَا سُئِلْتُمْ عَنْ شَيْءٍ فَانْظُرُوا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَفِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوهُ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ فَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ فَاجْتَهِدْ رَأْيَكَ وَلَا تَقُلْ إِنِّي أَخَافُ وَأَخْشَى فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بِنَحْوِهِ
حریث بن ظہیر بیان کرتے ہیں میرا یہ خیال ہے کہ حضرت عبداللہ نے یہ بات بیان کی تھی۔ ہمارے سامنے ایک ایسا وقت آگیا ہے جہاں ہم میں سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ہماری یہ حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تقدیر میں طے کی تھی کہ میں بھی وہاں تک پہنچوں جو تم دیکھ رہے ہو جب تم لوگوں سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے تو تم اللہ کی کتاب میں اسے تلاش کرو۔ اگر اسے اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ تو اللہ کے رسول کی سنت میں تلاش کرو۔ اگر اس مسئلے کو اللہ کے رسول کی سنت میں بھی نہ پاؤ تو جس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہو (اس کے مطابق حکم بیان کرو) اور اگر وہ ایسا مسئلہ ہو جس کے بارے میں مسلمانوں کا اتفاق نہ ہو تو تم اپنی رائے کے ذریعے اجتہاد کرو لیکن یہ نہ کہنا کہ مجھے یہ اندیشہ ہے اور میں اس بات سے خوفزدہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں اس لیے تم اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں مبتلا کرے اور اسے اختیار کرو جس کے بارے میں تمہیں کوئی شک نہ ہو۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

170

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ سَتُحْدِثُونَ وَيُحْدَثُ لَكُمْ فَإِذَا رَأَيْتُمْ مُحْدَثَةً فَعَلَيْكُمْ بِالْأَمْرِ الْأَوَّلِ قَالَ حَفْصٌ كُنْتُ أُسْنِدُ عَنْ حَبِيبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثُمَّ دَخَلَنِي مِنْهُ شَكٌّ
اعمش بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں۔ اے لوگو ! عنقریب تم نئی باتیں پیدا کرو گے اور تمہارے سامنے نئی باتیں پیدا ہوں گی۔ جب تم کسی نئی بات کو دیکھو تو پہلے حکم کو اپنے اوپر لازم رکھو۔
حفص نامی راوی یہ بات بیان کرتے ہیں پہلے میں اس روایت کی سند حبیب کے حوالے سے ابوعبدالرحمن کے حوالے سے نقل کرتا تھا لیکن پھر مجھے اس بارے میں شک ہوگیا۔

171

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي مَسْعُودٍ أَلَمْ أُنْبَأْ أَوْ أُنْبِئْتُ أَنَّكَ تُفْتِي وَلَسْتَ بِأَمِيرٍ وَلِّ حَارَّهَا مَنْ تَوَلَّى قَارَّهَا
محمد (نامی راوی) بیان کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے حضرت ابن مسعود (رض) کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ فتوی دیتے ہیں حالانکہ آپ امیر نہیں ہیں اس (بھاری ذمہ داری) کی شدت بھی اسی شخص کے حوالے کرو جو اس کے فائدے کا نگران ہو۔

172

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ إِنَّ الَّذِي يُفْتِي النَّاسَ فِي كُلِّ مَا يُسْتَفْتَى لَمَجْنُونٌ
حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں جو شخص لوگوں کو ہر معاملے میں فتوی دے دیتا ہے وہ دیوانہ ہوتا ہے۔

173

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ إِنَّمَا يُفْتِي النَّاسَ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ إِمَامٌ أَوْ وَالٍ وَرَجُلٌ يَعْلَمُ نَاسِخَ الْقُرْآنِ مِنْ الْمَنْسُوخِ قَالُوا يَا حُذَيْفَةُ وَمَنْ ذَاكَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَوْ أَحْمَقُ مُتَكَلِّفٌ
حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں تین طرح کے لوگ دوسروں کو فتوی دے سکتے ہیں۔ ایک وہ شخص جو حکمران یا ولی ہو۔ دوسرا وہ شخص جو قرآن کے ناسخ اور منسوخ کا علم رکھتا ہو۔ لوگوں نے دریافت کیا اے حذیفہ یہ کون شخص ہے (جسے قرآن کے ناسخ اور منسوخ کا علم ہو) تو انھوں نے جواب دیا : حضرت عمر بن خطاب (حضرت حذیفہ فرماتے ہیں تیسرا وہ شخص ہے) جو بیوقوف ہو اور اپنی طرف سے ایجاد کرکے گڑھ کر جواب دے۔

174

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ حُذَيْفَةُ إِنَّمَا يُفْتِي النَّاسَ أَحَدُ ثَلَاثَةٍ رَجُلٌ عَلِمَ نَاسِخَ الْقُرْآنِ مِنْ مَنْسُوخِهِ قَالُوا وَمَنْ ذَاكَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ وَأَمِيرٌ لَا يَجِدُ بُدًّا أَوْ أَحْمَقُ مُتَكَلِّفٌ ثُمَّ قَالَ مُحَمَّدٌ فَلَسْتُ بِوَاحِدٍ مِنْ هَذَيْنِ وَأَرْجُو أَنْ لَا أَكُونَ الثَّالِثَ
حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں۔ تین میں سے ایک قسم کا شخص لوگوں کو فتوی دے سکتا ہے۔ ایک وہ شخص جسے قرآن کے ناسخ اور منسوخ کا علم ہو۔ لوگوں نے دریافت کیا وہ کون شخص ہے حضرت حذیفہ نے جواب دیا وہ حضرت عمر بن خطاب ہیں۔ حضرت حذیفہ نے مزید بتایا یا دوسرا وہ امیر جس کی ذمہ داری ہی فتوی دینا ہو اور تیسرا وہ بیوقوف شخص جو اپنی طرف سے فتوی دے۔
یہ روایت نقل کرنے کے بعد محمد نامی راوی نے یہ کہا میں پہلی دو قسموں سے تو تعلق رکھتا اور مجھے یہ امید ہے کہ میں تیسری قسم میں بھی شامل نہیں ہوں گا۔

175

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ عِلْمًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ الْعَالِمَ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ قَالَ اللَّهُ أَعْلَمُ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں تم میں سے جس شخص کو جس چیز کا علم ہو اسے اس کے بارے میں بتا دینا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ چونکہ جب کسی عالم سے کسی ایسی چیز کے بارے میں دریافت کیا جائے جس کا علم نہ ہو اور وہ یہ کہ دے اللہ بہتر جانتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔
تم فرمادو میں اس بات پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگ رہا اور نہ ہی میں اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات بیان کرتا ہوں۔

176

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ أَنَّ أَبَا مُوسَى قَالَ فِي خُطْبَتِهِ مَنْ عَلِمَ عِلْمًا فَلْيُعَلِّمْهُ النَّاسَ وَإِيَّاهُ أَنْ يَقُولَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ فَيَمْرُقَ مِنْ الدِّينِ وَيَكُونَ مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ
ابومہلب بیان کرتے ہیں حضرت ابوموسی نے اپنے خطبے میں یہ بات بیان کی جو شخص کسی بات کا علم رکھتا ہو وہ اس کی تعلیم لوگوں کو دے اور کوئی ایسی بات بیان کرنے سے بچے جس کا علم نہ ہو ورنہ دین سے نکل کر ان لوگوں کو صف میں شامل ہوجائے جو اپنی طرف سے بات بنا کر بیان کرتے ہیں۔

177

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ وَزَاذَانَ قَالَا قَالَ عَلِيٌّ وَا بَرْدَهَا عَلَى الْكَبِدِ إِذَا سُئِلْتُ عَمَّا لَا أَعْلَمُ أَنْ أَقُولَ اللَّهُ أَعْلَمُ
ابوبختری اور زاذان بیان کرتے ہیں حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا ہے کلیجے کے لیے سب سے زیادہ ٹھنڈی بات یہ ہے کہ جب مجھ سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے جس کا مجھے علم نہ ہو تو میں جواب میں یہ کہہ دوں کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔

178

152. أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ يَا بَرْدَهَا عَلَى الْكَبِدِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ
ابوبختری حضرت علی (رض) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں یہ بات کلیجے کے لیے کتنی ٹھنڈک کا باعث ہے کہ جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے بارے میں یہ کہہ دو اللہ بہتر جانتا ہے۔

179

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا عُمَيْرُ بْنُ عَرْفَجَةَ حَدَّثَنَا رَزِينٌ أَبُو النُّعْمَانِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِذَا سُئِلْتُمْ عَمَّا لَا تَعْلَمُونَ فَاهْرُبُوا قَالُوا وَكَيْفَ الْهَرَبُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ تَقُولُونَ اللَّهُ أَعْلَمُ
حضرت علی بن ابوطالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے جس کا تمہیں علم نہ ہو تو بھاگنے کی کوشش کرو۔ لوگوں نے دریافت کیا امیرالمومنین بھاگا کیسے جاسکتا ہے۔ حضرت علی (رض) نے جواب دیا تم یہ کہہ دو کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔

180

152. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ عَزْرَةَ التَّمِيمِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ وَا بَرْدَهَا عَلَى الْكَبِدِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالُوا وَمَا ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ أَنْ يُسْأَلَ الرَّجُلُ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَيَقُولُ اللَّهُ أَعْلَمُ
عذرہ تمیمی بیان کرتے ہیں حضرت علی (رض) نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی یہ بات کلیجے کے لیے کتنی ٹھنڈک کا باعث ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا اے امیرالمومنین وہ کیا بات ہے حضرت علی (رض) نے فرمایا جب انسان سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے جس کا علم نہ ہو تو وہ جواب میں یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔

181

أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ لَا عِلْمَ لِي بِهَا فَلَمَّا أَدْبَرَ الرَّجُلُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ نِعْمَ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَقَالَ لَا عِلْمَ لِي بِهِ
ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر (رض) سے ایک مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے جب وہ شخص چلا گیا تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا ابن عمر (رض) نے کتنا اچھا جواب دیا ہے اس سے ایک ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہے جس کا علم اسے نہیں تھا تو اس نے یہ کہہ دیا مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

182

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ لَا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ
امام شعبی فرماتے ہیں یہ کہنا کہ مجھے علم نہیں ہے یہ نصف علم ہے۔

183

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى ابْنَ عُمَرَ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ لَا عِلْمَ لِي ثُمَّ الْتَفَتَ بَعْدَ أَنْ قَفَّا الرَّجُلُ فَقَالَ نِعْمَ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَقَالَ لَا عِلْمَ لِي يَعْنِي ابْنُ عُمَرَ نَفْسَهُ
نافع بیان کرتے ہیں ایک شخص حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ ان سے کسی مسئلے کے بارے میں دریافت کرے تو حضرت ابن عمر (رض) نے جواب دیا مجھے اس کا علم نہیں ہے اس شخص کے جانے کے بعد حضرت ابن عمر (رض) متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا ابن عمر (رض) نے کتنااچھا جواب دیا ہے اس سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا علم نہیں تھا تو اس نے جواب دیا مجھے اس کا علم نہیں ہے یعنی حضرت ابن عمر (رض) نے یہ بات اپنے بارے میں ارشاد فرمائی۔

184

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ قَالَ كَانَ عَامِرٌ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ يَقُولُ لَا أَدْرِي فَإِنْ رُدُّوا عَلَيْهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ كُنْتُ حَلَفْتُ لَكَ بِاللَّهِ إِنْ كَانَ لِي بِهِ عِلْمٌ
مغیرہ بیان کرتے ہیں جب عامر سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ جواب میں یہ کہتے مجھے اس کا علم نہیں ہے اگر لوگ دوبارہ ان سے وہی سوال کرتے تو وہ یہ کہتے کہ میں اللہ کے نام پر قسم اٹھا کر تمہیں یہ بات بتارہا ہوں کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

185

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ مَا أُبَالِي سُئِلْتُ عَمَّا أَعْلَمُ أَوْ مَا لَا أَعْلَمُ لِأَنِّي إِذَا سُئِلْتُ عَمَّا أَعْلَمُ قُلْتُ مَا أَعْلَمُ وَإِذَا سُئِلْتُ عَمَّا لَا أَعْلَمُ قُلْتُ لَا أَعْلَمُ
ابن سیرین فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ مجھ سے جو سوال کیا جاتا ہے مجھے اس کا علم ہے یا مجھے اس کا علم نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مجھ سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے جس کا مجھے علم نہ ہو تو میں جواب میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ مجھے اس کا پتا نہیں ہے۔

186

حَدَّثَنَا هَارُونُ عَنْ حَفْصٍ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ مَا سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ قَطُّ حَلَالٌ وَلَا حَرَامٌ إِنَّمَا كَانَ يَقُولُ كَانُوا يَكْرَهُونَ وَكَانُوا يَسْتَحِبُّونَ
اعمش بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابراہیم کو کبھی بھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ یہ حلال ہے یا حرام ہے وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے علماء اسے مکروہ قرار دیتے ہیں علماء اسے مستحب قرار دیتے ہیں۔

187

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَبِسَتْكُمْ فِتْنَةٌ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَيَرْبُو فِيهَا الصَّغِيرُ وَيَتَّخِذُهَا النَّاسُ سُنَّةً فَإِذَا غُيِّرَتْ قَالُوا غُيِّرَتْ السُّنَّةُ قَالُوا وَمَتَى ذَلِكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ إِذَا كَثُرَتْ قُرَّاؤُكُمْ وَقَلَّتْ فُقَهَاؤُكُمْ وَكَثُرَتْ أُمَرَاؤُكُمْ وَقَلَّتْ أُمَنَاؤُكُمْ وَالْتُمِسَتْ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں اس وقت تمہارا کیا عالم ہوگا جب تمہارے درمیان ایسا فتنہ پیدا ہوگا جس کی وجہ سے بڑی عمر کے لوگ بوڑھے ہوجائیں گے اور چھوٹی عمر کے لوگ بڑے ہوجائیں گے۔ لوگ اس فتنے کو سنت بنالیں گے اور جب وہ تبدیل ہوجائے گا تو لوگ یہ کہیں گے سنت تبدیل ہوگئی۔ لوگوں نے دریافت کیا اے ابوعبدالرحمن یہ کب ہوگا۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا جب تمہارے ہاں قرآن کا علم کہلانے والوں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی اور دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی تعداد کم ہوجائے گی تمہارے امراء زیادہ ہوجائیں گے اور امین لوگ کم ہوجائیں گے اور آخرت کے عمل کے عوض میں دنیا کو تلاش کیا جائے گا۔

188

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَبِسَتْكُمْ فِتْنَةٌ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَيَرْبُو فِيهَا الصَّغِيرُ إِذَا تُرِكَ مِنْهَا شَيْءٌ قِيلَ تُرِكَتْ السُّنَّةُ قَالُوا وَمَتَى ذَاكَ قَالَ إِذَا ذَهَبَتْ عُلَمَاؤُكُمْ وَكَثُرَتْ جُهَلَاؤُكُمْ وَكَثُرَتْ قُرَّاؤُكُمْ وَقَلَّتْ فُقَهَاؤُكُمْ وَكَثُرَتْ أُمَرَاؤُكُمْ وَقَلَّتْ أُمَنَاؤُكُمْ وَالْتُمِسَتْ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ وَتُفُقِّهَ لِغَيْرِ الدِّينِ
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں اس وقت تمہارا کیا عالم ہوگا جب تمہارے سامنے ایسا فتنہ آئے گا جو بڑی عمر کے لوگوں کو بوڑھا کردے گا اور کم عمر لوگوں کو جوان کردے گا جب اس فتنے میں سے کسی چیز کو ترک کیا جائے گا تو یہ کہا جائے گا سنت ترک ہوگئی ہے لوگوں نے دریافت کیا ایسا کب ہوگا۔ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا تمہارے علماء رخصت ہوجائیں گے۔ تمہارے ہاں جہلاء کی کثرت ہوجائے گی قرآن کے عالم کہلانے والوں کی کثرت ہوجائے گی۔ دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی کمی ہوجائے گی امراء بکثرت ہوں گے اور امین لوگ کم ہوجائیں گے اور آخرت کے عمل کے نتیجے میں دنیا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور دین کے بجائے دیگر معاملات میں سمجھ بوجھ اختیار کی جائے گی۔

189

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ أُنْبِئْتُ أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ وَيْلٌ لِلْمُتَفَقِّهِينَ لِغَيْرِ الْعِبَادَةِ وَالْمُسْتَحِلِّينَ لِلْحُرُمَاتِ بِالشُّبُهَاتِ
اوزاعی بیان کرتے ہیں مجھے یہ بات بتائی گئی ہے کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ فقہ کے ان طلباء کے لیے بربادی ہے جو عبادت کی نیت سے علم حاصل نہیں کرتے بلکہ شبہات کے ذریعے حرام چیزوں کو حلال قرار دینے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

190

أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ سُهَيْلٍ مَوْلَى يَحْيَى بْنِ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ عَامٌ إِلَّا وَهُوَ شَرٌّ مِنْ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَامًا أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ وَلَا أَمِيرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيرٍ وَلَكِنْ عُلَمَاؤُكُمْ وَخِيَارُكُمْ وَفُقَهَاؤُكُمْ يَذْهَبُونَ ثُمَّ لَا تَجِدُونَ مِنْهُمْ خَلَفًا وَيَجِيءُ قَوْمٌ يَقِيسُونَ الْأُمُورَ بِرَأْيِهِمْ
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں تمہارا آنے والا ہر برس گزرے ہوئے برس سے زیادہ برا ہوگا میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک سال دوسرے سال سے زیادہ خراب ہے یا ایک حکمران دوسرے حکمران سے زیادہ بہتر ہے بلکہ تمہارے علماء تمہارے معزز لوگ اور تمہارے فقہاء رخصت ہوجائیں گے پھر تمہیں ان کا حقیقی نائب نہیں ملے گا اور وہ لوگ آجائیں گے جو معاملات میں اپنی رائے کے ذریعے قیاس کرکے حکم بیان کریں گے۔

191

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ سَمِعْتُ دَاوُدَ بْنَ أَبِي هِنْدٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ أَوَّلُ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ وَمَا عُبِدَتْ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ إِلَّا بِالْمَقَايِيسِ
ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا اور سورج اور چاند کی پرستش بھی قیاس کی وجہ سے کی گئی ہے۔

192

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ ابْنِ شَوْذَبٍ عَنْ مَطَرٍ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّهُ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ قَالَ قَاسَ إِبْلِيسُ وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ قَاسَ
حضرت حسن بصری نے یہ آیت ( خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ) تلاوت کی " تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے "۔

193

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّهُ قَالَ إِنِّي أَخَافُ أَوْ أَخْشَى أَنْ أَقِيسَ فَتَزِلَّ قَدَمِي
مسروق ارشاد فرماتے ہیں مجھے اس بات کا خوف ہے مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر میں قیاس سے کام لوں تو میرے پاؤں پھسل جائیں گے۔

194

أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ وَاللَّهِ لَئِنْ أَخَذْتُمْ بِالْمَقَايِيسِ لَتُحَرِّمُنَّ الْحَلَالَ وَلَتُحِلُّنَّ الْحَرَامَ
شعبی بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم قیاس کرنا شروع کردو تو تم حلال کو حرام قرار دو گے اور حرام کو حلال قرار دو گے۔

195

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَامِرٍ أَنَّهُ قَالَ كَانَ يَقُولُ مَا أَبْغَضَ إِلَيَّ أَرَأَيْتَ أَرَأَيْتَ يَسْأَلُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ فَيَقُولُ أَرَأَيْتَ وَكَانَ لَا يُقَايِسُ
عامر بیان کرتے ہیں کہ میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ بات یہ سوال ہے کہ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے تم نے غور کیا ایک شخص اپنے ساتھیوں سے سوال کرتا ہے اور یہ کہتا ہے آپ کی رائے کیا ہے۔ (راوی بیان کرتے ہیں) عامر قیاس سے کام نہیں لیتے تھے۔

196

أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ الزِّبْرِقَانِ قَالَ نَهَانِي أَبُو وَائِلٍ أَنْ أُجَالِسَ أَصْحَابَ أَرَأَيْتَ
زبرقان بیان کرتے ہیں حضرت ابو وائل نے مجھے اس بات سے منع کیا تھا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے بچوں جو یہ کہتے ہیں (اس مسئلہ میں) آپ کی کیا رائے ہے۔

197

أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ لَوْ أَنَّ هَؤُلَاءِ كَانُوا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَزَلَتْ عَامَّةُ الْقُرْآنِ يَسْأَلُونَكَ يَسْأَلُونَكَ
شعبی ارشاد فرماتے ہیں اگر یہ لوگ جو قیاس سے کام لیتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود ہوتے تو قرآن کی آیات عام طور پر ان الفاظ میں نازل ہوتیں لوگ تم سے یہ سوال کرتے ہیں، لوگ تم سے یہ سوال کرتے ہیں۔

198

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ طَلْحَةَ عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ لِي إِبْرَاهِيمُ يَا أَبَا حَمْزَةَ وَاللَّهِ لَقَدْ تَكَلَّمْتُ وَلَوْ وَجَدْتُ بُدًّا مَا تَكَلَّمْتُ وَإِنَّ زَمَانًا أَكُونُ فِيهِ فَقِيهَ أَهْلِ الْكُوفَةِ زَمَانُ سُوءٍ
ابوحمزہ میمون ارشاد فرماتے ہیں ابراہیم نے مجھ سے کہا اے ابوحمزہ اللہ کی قسم میں بات کرلیتاہوں اگر میرے پاس کوئی چارہ ہوتا تو میں کبھی بھی (کسی شرعی مسئلے کے بارے میں بات نہ کرتا) اور وہ زمانہ بہت ہی برا ہے جس میں مجھے اہل کوفہ کا فقیہ (یامفتی) سمجھاجائے۔

199

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ إِيَّاكَ وَالْمُكَايَلَةَ يَعْنِي فِي الْكَلَامِ
مجاہد ارشاد فرماتے ہیں حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں ناپ تول سے بچو (راوی بیان کرتے ہیں) یعنی گفتگو کے دوران (قیاس کرنے سے بچو) ۔

200

أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ شَهِدْتُ شُرَيْحًا وَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ مُرَادٍ فَقَالَ يَا أَبَا أُمَيَّةَ مَا دِيَةُ الْأَصَابِعِ قَالَ عَشْرٌ عَشْرٌ قَالَ يَا سُبْحَانَ اللَّهِ أَسَوَاءٌ هَاتَانِ جَمَعَ بَيْنَ الْخِنْصِرِ وَالْإِبْهَامِ فَقَالَ شُرَيْحٌ يَا سُبْحَانَ اللَّهِ أَسَوَاءٌ أُذُنُكَ وَيَدُكَ فَإِنَّ الْأُذُنَ يُوَارِيهَا الشَّعْرُ وَالْكُمَّةُ وَالْعِمَامَةُ فِيهَا نِصْفُ الدِّيَةِ وَفِي الْيَدِ نِصْفُ الدِّيَةِ وَيْحَكَ إِنَّ السُّنَّةَ سَبَقَتْ قِيَاسَكُمْ فَاتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ فَإِنَّكَ لَنْ تَضِلَّ مَا أَخَذْتَ بِالْأَثَرِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ لِي الشَّعْبِيُّ يَا هُذَلِيُّ لَوْ أَنَّ أَحْنَفَكُمْ قُتِلَ وَهَذَا الصَّبِيُّ فِي مَهْدِهِ أَكَانَ دِيَتُهُمَا سَوَاءً قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَأَيْنَ الْقِيَاسُ
شعبی بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں قاضی شریح کے پاس موجود تھا قبیلہ مراد سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ان کے پاس آیا اور بولا اے ابوامیہ (یہ قاضی شریح کی کنیت ہے) انگلیوں کی دیت کیا ہے۔ قاضی صاحب نے جواب دیا دس اونٹ وہ شخص بولا سبحان اللہ کیا یہ دونوں برابر ہیں۔ اس نے انگھوٹے اور سب سے چھوٹی انگلی کے ذریعے اشارہ کرکے کہا قاضی شریح نے جواب دیا سبحان اللہ کیا تمہارا کان اور تمہارے ہاتھ برابر کی حثیت رکھتے ہیں کیونکہ کان کو تو بال، ٹوپی یا عمامہ ڈھانپ لیتے اور ان میں نصف دیت ہوتی ہے جبکہ ہاتھ کی دیت بھی نصف دیت ہوتی ہے تمہارا ستیاناس ہو تمہارے قیاس سے پہلے سنت کا حکم آچکا ہے اس لیے تم اس کی پیروی کرو اور بدعت اختیار کرنے کی کوشش نہ کرو۔ تم اس وقت تک گمراہی کا شکار نہیں ہو گے جب تک تم سنت پر عمل کرتے رہو گے۔ ابوبکر نامی راوی کہتے ہیں امام شعبی نے مجھ سے کہا اے ھذلی اگر تمہارے ایک بڑے سمجھ دار آدمی کو اور جھولے میں موجود ایک بچے کو قتل کردیا جائے تو کیا ان کی دیت برابر نہیں ہوگی ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں تو شعبی نے دریافت کیا پھر قیاس کہاں گیا۔

201

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يُفْتَحُ الْقُرْآنُ عَلَى النَّاسِ حَتَّى يَقْرَأَهُ الْمَرْأَةُ وَالصَّبِيُّ وَالرَّجُلُ فَيَقُولُ الرَّجُلُ قَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فَلَمْ أُتَّبَعُ وَاللَّهِ لَأَقُومَنَّ بِهِ فِيهِمْ لَعَلِّي أُتَّبَعُ فَيَقُومُ بِهِ فِيهِمْ فَلَا يُتَّبَعُ فَيَقُولُ قَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فَلَمْ أُتَّبَعْ وَقَدْ قُمْتُ بِهِ فِيهِمْ فَلَمْ أُتَّبَعْ لَأَخْتَصِرَنَّ فِي بَيْتِي مَسْجِدًا لَعَلِّي أُتَّبَعْ فَيَخْتَصِرُ فِي بَيْتِهِ مَسْجِدًا فَلَا يُتَّبَعُ فَيَقُولُ قَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فَلَمْ أُتَّبَعْ وَقُمْتُ بِهِ فِيهِمْ فَلَمْ أُتَّبَعْ وَقَدْ اخْتَصَرْتُ فِي بَيْتِي مَسْجِدًا فَلَمْ أُتَّبَعْ وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ بِحَدِيثٍ لَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَسْمَعُوهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ لَعَلِّي أُتَّبَعُ قَالَ مُعَاذٌ فَإِيَّاكُمْ وَمَا جَاءَ بِهِ فَإِنَّ مَا جَاءَ بِهِ ضَلَالَةٌ
حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں قرآن لوگوں کے لیے کھول دیا جائے گا یہاں تک کہ ایک عام عورت بچہ اور مرد اسے پڑھیں گے مرد یہ کہے گا میں نے قرآن پڑھا اور میری پیروی نہیں کی گئی اللہ کی قسم میں لوگوں کے درمیان اس کو پڑھوں گا تاکہ میری پیروی کی جائے پھر وہ اسے لوگوں کے درمیان پڑھے گا لیکن اس کی پیروی نہیں کی جائے گی پھر وہ یہ کہے گا میں نے قرآن پڑھا لیکن میری پیروی نہیں کی گئی۔ پھر میں نے اسے لوگوں کے درمیان پڑھا پھر بھی میری پیروی نہیں کی گئی۔ اب میں اپنے گھر کے اندر ایک مسجد بناؤں گا تاکہ میری پیروی کی جائے پھر وہ شخص اپنے گھر کے اندر ایک مسجد بنائے گا پھر بھی اس کی پیروی نہیں کی جائے گی تو وہ یہ کہے گا میں نے قرآن کا علم حاصل کیا لیکن میری پیروی نہیں کی گئی میں نے اسے لوگوں کے درمیان پڑھا پھر بھی میری پیروی نہیں۔ پھر میں نے اسے اپنے گھر کے اندر مسجد میں پڑھا پھر بھی میری پیروی نہیں کی گئی اللہ کی قسم میں ان لوگوں کے پاس ایک ایسی بات لے کر آؤں گا جس کے بارے میں وہ اللہ کی کتاب میں کوئی حکم نہیں پائیں گے اور اس بارے میں انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث نہیں سنی ہوگی اس طرح وہ لوگ میری پیروی کریں گے۔ حضرت معاذ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے وہ چیز جو لے کر آئے اس سے تم بچنے کی کوشش کرنا اس لیے کہ جو وہ لے کے آئے گا وہ گمراہی ہوگی۔

202

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ هُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ قَالَ قَالَ لِيَ الشَّعْبِيُّ مَا حَدَّثُوكَ هَؤُلَاءِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخُذْ بِهِ وَمَا قَالُوهُ بِرَأْيِهِمْ فَأَلْقِهِ فِي الْحُشِّ
ابن مغول بیان کرتے ہیں شعبی نے مجھے یہ کہا علماء نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے جو حدیث تمہارے سامنے بیان کریں تم اس پر عمل کرو اور جو چیز وہ اپنی رائے سے بیان کریں اسے کوڑے میں ڈال دو ۔

203

أَخْبَرَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ سُفْيَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ أَبِي لُبَابَةَ يَقُولُ قَدْ رَضِيتُ مِنْ أَهْلِ زَمَانِي هَؤُلَاءِ أَنْ لَا يَسْأَلُونِي وَلَا أَسْأَلُهُمْ إِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمْ أَرَأَيْتَ أَرَأَيْتَ
رجاء بن ابوسلمہ بیان کرتے ہیں میں نے عبدہ بن ابولبابہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے میں اپنے زمانے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اس بات سے راضی ہوں کہ وہ نہ مجھ سے کوئی سوال کریں اور نہ میں ان سے کوئی سوال کروں کیونکہ ان میں سے ہر شخص یہی کہتا ہے آپ کی کیا رائے ہے اور آپ کی کیا رائے ہے۔

204

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطًّا ثُمَّ قَالَ هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ ثُمَّ تَلَا وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں ایک دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور ارشاد فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے اور پھر آپ نے اس لکیر کے دائیں طرف اور بائیں طرف دوسری لکیریں کھینچیں اور ارشاد فرمایا یہ چند لکیریں ہیں جن میں سے ہر ایک پر ایک مخصوص شیطان موجود ہوتا ہے جو اس کی طرف دعوت دیتا ہے پھر آپ نے یہ آیت (وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ) تلاوت کی۔ بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے تم اس کی پیروی کرو (شیطان) کے راستوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردے گا۔

205

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ قَالَ الْبِدَعَ وَالشُّبُهَاتِ
ارشاد باری تعالیٰ " اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو۔ مجاہد ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد بدعت اور شبہات ہیں۔

206

202. أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ فَإِذَا خَرَجَ مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ فَقَالَ أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ قُلْنَا لَا فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَمَا هُوَ فَقَالَ إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصًى فَيَقُولُ كَبِّرُوا مِائَةً فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً فَيَقُولُ هَلِّلُوا مِائَةً فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً وَيَقُولُ سَبِّحُوا مِائَةً فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً قَالَ فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ قَالَ مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ وَانْتِظَارَ أَمْرِكَ قَالَ أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًى نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ قَالَ فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ قَالُوا وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ قَالَ وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ
عمرو بن یحییٰ اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران حضرت ابوموسی اشعری وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا کیا حضرت ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) باہر تشریف لائے۔ ہم نے جواب دیا نہیں تو حضرت ابوموسی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعود باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کر ان کے پاس آگئے حضرت ابوموسی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے دریافت کیا وہ کیا بات ہے حضرت ابوموسی نے جواب دیاشام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ان سے دریافت کیا آپ نے ان سے کیا کہا۔ حضرت ابوموسی اشعری نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا آپ نے انھیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انھیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ (راوی کا بیان کرتے ہیں) پھر حضرت عبداللہ بن مسعود چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں انھوں نے جواب دیا اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریان ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے ؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیک ہے۔ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو۔ پھر حضرت عبداللہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنت میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔

207

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ حَبِيبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ اتَّبِعُوا وَلَا تَبْتَدِعُوا فَقَدْ كُفِيتُمْ
ابوعبدالرحمن روایت کرتے ہیں حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا سنت کی پیروی کرو اور بدعت اختیار نہ کرو یہی بات تمہارے لیے کافی ہے۔

208

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ أَفْضَلَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
امام جعفر صادق اپنے والد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں حضرت جابر بن عبداللہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر یہ ارشاد فرمایا بیشک سب سے افضل ہدایت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی ہدایت ہے اور سب سے برا کام نیا پیدا شدہ کام ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

209

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ أَسْلَمَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ بِلَادِ بْنِ عِصْمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ وَكَانَ إِذَا كَانَ عَشِيَّةَ الْخَمِيسِ لِلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ قَامَ فَقَالَ إِنَّ أَصْدَقَ الْقَوْلِ قَوْلُ اللَّهِ وَإِنَّ أَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَإِنَّ شَرَّ الرَّوَايَا رَوَايَا الْكَذِبِ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ مَا هُوَ آتٍ قَرِيبٌ
بلاز بن عصمہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے یہ شب جمعہ اور جمعرات کی شام کی بات ہے۔ حضرت عبداللہ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا بیشک سب سے سچی بات اللہ کا فرمان ہے اور سب سے بہترین ہدایت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی ہدایت ہے اور بدبخت شخص وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی بدبخت ہو اور سب سے بری جھوٹی بات ہے اور سب سے برا فعل نیا پیدا شدہ فعل ہے اور ہر وہ چیز جو آنے والی ہو وہ قریب ہے۔

210

أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ مَا أَخَذَ رَجُلٌ بِبِدْعَةٍ فَرَاجَعَ سُنَّةً
ابن سیرین بیان کرتے ہیں جو شخص بدعت کو اختیار کرلیتا ہے وہ سنت کی طرف واپس نہیں آتا۔

211

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ
حضرت ثوبان نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں مجھے اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے پیشواؤں کی طرف سے خوف ہے۔

212

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو الْوَلِيدِ الْهَرَوِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ حَيَّةَ بِنْتِ أَبِي حَيَّةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَجُلٌ بِالظَّهِيرَةِ فَقُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي فِي بُغَاءٍ لَنَا فَانْطَلَقَ صَاحِبِي يَبْغِي وَدَخَلْتُ أَنَا أَسْتَظِلُّ بِالظِّلِّ وَأَشْرَبُ مِنْ الشَّرَابِ فَقُمْتُ إِلَى لُبَيْنَةٍ حَامِضَةٍ رُبَّمَا قَالَتْ فَقُمْتُ إِلَى ضَيْحَةٍ حَامِضَةٍ فَسَقَيْتُهُ مِنْهَا فَشَرِبَ وَشَرِبْتُ قَالَتْ وَتَوَسَّمْتُهُ فَقُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَنْ أَنْتَ فَقَالَ أَنَا أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ أَنْتَ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي سَمِعْتُ بِهِ قَالَ نَعَمْ قَالَتْ فَذَكَرْتُ غَزْوَنَا خَثْعَمًا وَغَزْوَةَ بَعْضِنَا بَعْضًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْأُلْفَةِ وَأَطْنَابِ الْفَسَاطِيطِ وَشَبَّكَ ابْنُ عَوْنٍ أَصَابِعَهُ وَوَصَفَهُ لَنَا مُعَاذٌ وَشَبَّكَ أَحْمَدُ فَقُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ حَتَّى مَتَى تَرَى أَمْرَ النَّاسِ هَذَا قَالَ مَا اسْتَقَامَتْ الْأَئِمَّةُ قُلْتُ مَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا رَأَيْتِ السَّيِّدَ يَكُونُ فِي الْحِوَاءِ فَيَتَّبِعُونَهُ وَيُطِيعُونَهُ فَمَا اسْتَقَامَ أُولَئِكَ
حیہ بنت ابوحیہ بیان کرتی ہیں دوپہر کے وقت ہمارے ہاں ایک شخص آیا میں نے کہا اے اللہ کے بندے تو کہاں سے آیا ہے اس نے جواب دیا میں اور میرا ایک ساتھی اپنی ایک چیز کو ڈھونڈنے کے لیے آرہے تھے میرا ساتھی تو اس کی تلاش میں نکل گیا اور میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ تھوڑی دیر سائے میں رہوں اور کچھ چیز پی لوں حیہ بیان کرتی ہیں میں اٹھی اور لسی لا کر اس کے سامنے رکھی اس نے وہ پی لی۔ میں نے بھی پی لی۔ حیہ بیان کرتی ہیں مجھے اس کی پہچان حاصل کرنا تھی۔ میں نے دریافت کیا اے اللہ کے بندے تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا میں ابوبکر (رض) ہوں حیہ بیان کرتی ہیں میں نے کہا آپ وہ ابوبکر ہیں جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں جن کے بارے میں میں نے سن رکھا ہے انھوں نے جواب دیا ہاں۔ حیہ بیان کرتی ہیں میں نے ان کے سامنے جثعم قبیلے سے ہونیوالی جنگ کا تذکرہ کیا اور زمانہ جاہلیت کی بعض دیگر جنگوں کا تذکرہ کیا اور پھر اللہ نے جو الفت اور آسائشیں عطا کی ہیں ان کا تذکرہ کیا (راوی بیان کرتے ہیں ابن عون نامی راوی نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں اور معاذ نامی راوی نے بھی اسی طرح کرکے دکھایا اور احمد نامی نے بھی اپنی انگلیاں ڈالیں) حیہ بیان کرتی ہیں میں نے کہا اے اللہ کے بندے آپ کے خیال میں لوگوں کا معاملہ ایسے کب تک رہے گا اس شخص نے جواب دیا جب تک حکمران ٹھیک نہیں ہوں گے میں نے دریافت کیا حکمرانوں سے مراد کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کیا تم نے غور نہیں کیا محلے میں ایک سردار ہوتا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ سب لوگ کیسے ٹھیک رہتے ہیں۔

213

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَخٍ لِعَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ
حضرت ابودرداء روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے پیشواؤں کا ہے۔

214

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ قَالَ فَرَآهَا لَا تَتَكَلَّمُ فَقَالَ مَا لَهَا لَا تَتَكَلَّمُ قَالُوا نَوَتْ حَجَّةً مُصْمِتَةً فَقَالَ لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ مِنْ أَيِّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَتْ فَمِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّكِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ قَالَتْ وَمَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُؤَسَاءُ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَى قَالَ فَهُمْ مِثْلُ أُولَئِكَ عَلَى النَّاسِ
قیس بن ابوحازم بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر حمس قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون نے جس کا نام زینب تھا کے ہاں تشریف لائے۔ راوی بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) نے اسے دیکھا کہ وہ عورت بات نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر نے دریافت کیا یہ عورت بات کیوں نہیں کرتی لوگوں نے جواب دیا اس نے خاموشی کے حج کی نیت کی ہوئی ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس عورت سے کہا تم بات کرو کیونکہ یہ بات جائز نہیں ہے یہ زمانہ جاہلیت کا عمل ہے راوی بیان کرتے ہیں اس عورت نے بات کی اور دریافت کیا آپ کون ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا قریش سے تعلق رکھتا ہوں اس عورت نے دریافت کیا قریش کے کون سے قبیلے سے ہے حضرت ابوبکر (رض) نے جواب دیا تم سوال بہت زیادہ کرتی ہو۔ میں ابوبکر (رض) ہوں وہ عورت بولی یہ جو خوشحال زمانہ ہے جو جاہلیت کے بعد اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے یہ کب تک جاری رہے گا حضرت ابوبکر (رض) نے جواب دیا تم لوگ اس حالت میں اس وقت تک باقی رہو گے جب تک تمہارے پیشوا ٹھیک رہیں گے۔ اس عورت نے دریافت کیا پیشو اسے کیا مراد ہے حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا کیا تمہاری قوم میں رؤسا اور اشراف نہیں ہیں جو لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں اس عورت نے جواب دیا جی ہاں تو حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا بس اسی کی مثال وہ لوگ ہوں گے جو لوگوں پر حکمران ہوں گے۔

215

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا عَائِذَةُ قَالَتْ رَأَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ يُوصِي الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ وَيَقُولُ مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُنَّ مِنْ امْرَأَةٍ أَوْ رَجُلٍ فَالسَّمْتَ الْأَوَّلَ فَإِنَّكُمْ عَلَى الْفِطْرَةِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ السَّمْتُ الطَّرِيقُ
عائز نامی ایک خاتون بیان کرتی ہیں میں نے حضرت ابن مسعود (رض) کو مردوں اور خواتین کو یہ نصیحت ارشاد کرتے ہوئے دیکھا ہے آپ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو بھی مرد یا عورت فتنے کا زمانہ پائے تو وہ پہلے لوگوں کے طریقے پر عمل کرے کیونکہ تم لوگ دین فطرت (کے ماننے والے ہو) ۔

216

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ قَالَ قَالَ لِي عُمَرُ هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ
زیاد بن حدیر بیان کرتے ہیں حضرت عمر نے مجھ سے دریافت کیا کیا تم یہ جانتے ہو اسلام کو کیا چیز تباہ کرتی ہے زیادہ کہتے ہیں میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا عالم شخص کی لغزش، منافق شخص کا قرآن کے بارے میں بحث اور گمراہ کرنے والے پیشواؤں کی حکمرانی اسلام کو تباہ کردے گی۔

217

أَخْبَرَنَا هَارُونُ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ لَا تُجَالِسُوا أَصْحَابَ الْخُصُومَاتِ فَإِنَّهُمْ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ
امام محمد باقر ارشاد فرماتے ہیں بحث کرنیوالے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو کیونکہ یہ لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں فضول اور لایعنی بحث کرتے ہیں۔

218

202. أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مُبَارَكٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ سُنَّتُكُمْ وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ بَيْنَهُمَا بَيْنَ الْغَالِي وَالْجَافِي فَاصْبِرُوا عَلَيْهَا رَحِمَكُمْ اللَّهُ فَإِنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ كَانُوا أَقَلَّ النَّاسِ فِيمَا مَضَى وَهُمْ أَقَلُّ النَّاسِ فِيمَا بَقِيَ الَّذِينَ لَمْ يَذْهَبُوا مَعَ أَهْلِ الْإِتْرَافِ فِي إِتْرَافِهِمْ وَلَا مَعَ أَهْلِ الْبِدَعِ فِي بِدَعِهِمْ وَصَبَرُوا عَلَى سُنَّتِهِمْ حَتَّى لَقُوا رَبَّهُمْ فَكَذَلِكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَكُونُوا
حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے تمہارا طریقہ دو راستوں کے درمیان ہے اس میں انتہا پسندی بھی نہیں ہے اور غیر فطری طور پر افراط بھی نہیں ہے تم صبر کرو اللہ تم پر رحم کرے گا بیشک سنت پر عمل کرنے والے لوگ گزشتہ زمانوں میں بھی کم تھے اور بعد میں آنے والے زمانے میں بھی کم ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سخت گیری کے اندر سخت گیروں کے ساتھ نہیں ہیں اور اہل بدعت کی بدعت میں بھی ان کا ساتھ نہیں دیتے یہ لوگ سنت پر گامزن ہیں اور یہ لوگ سنت پر گامزن رہے یہاں تک کہ پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تم بھی اسی طرح رہنا اللہ نے چاہا تو تم ایسے ہی رہوگے۔

219

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ وَمَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ الْقَصْدُ فِي السُّنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الِاجْتِهَادِ فِي الْبِدْعَةِ
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں سنت معمول کے مطابق عمل کرنا بدعت میں کوشش کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔

220

أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَقَدْ أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا لَوْ لَمْ يُجَاوِزْ أَحَدُهُمْ ظُفْرًا لَمَا جَاوَزْتُهُ كَفَى إِزْرَاءً عَلَى قَوْمٍ أَنْ تُخَالَفَ أَفْعَالُهُمْ
حضرت ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں میں نے ایسے لوگوں کا زمانہ پایا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک شخص ایک ناخن جتنا بھی آگے نہ بڑھتا تو میں بھی آگے نہ بڑھتا کسی بھی قوم کی ذلت کے لیے کافی ہے تم ان کے افعال کی مخالفت کرنے لگو۔

221

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ أُولُو الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَطَاعَةُ الرَّسُولِ اتِّبَاعُ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
عطا بیان کرتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے " اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ اولوالامر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ عطاء ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد علم اور فقہ کے ماہرین ہیں اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب اللہ اور سنت کی پیروی کرنا ہے۔

222

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَدْهَمَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ شُبْرُمَةَ عَنْ شَيْءٍ وَكَانَتْ عِنْدِي مَسْأَلَةٌ شَدِيدَةٌ فَقُلْتُ رَحِمَكَ اللَّهُ انْظُرْ فِيهَا قَالَ إِذَا وَضَحَ لِيَ الطَّرِيقُ وَوَجَدْتُ الْأَثَرَ لَمْ أَحْبَسْ
حضرت ابراہیم بن ادھم بیان کرتے ہیں میں نے ابن شبرمہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا جو میرے نزدیک نہایت اہم تھا میں نے کہا اللہ آپ پر رحم کرے آپ ذرا اس کا جائزہ لیں تو انھوں نے ارشاد فرمایا جب میرے لیے راستہ واضح ہوجائے گا اور میں اس بارے میں کوئی حدیث پالوں گا تو اسے اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔

223

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ جَابِرٍ مِنْ أَهْلِ هَجَرَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا
حضرت ابن مسعود (رض) ارشاد فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا علم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو ۔ وراثت کا علم حاصل کرو اور لوگوں کی اس کی تعلیم دو ۔ قرآن کا علم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو ۔ میں تو دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا اور عنقریب علم کم ہوجائے گا فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ ایسے دو افراد جن کے درمیان کسی فرض کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو انھیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جوان کے درمیان فیصلہ کرسکے۔

224

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَلِيفَةَ قَالَ سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ مِخْرَاقٍ ذَكَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ قَالَ تَسَانَدَا وَتَطَاوَعَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا فَقَدِمَا الْيَمَنَ فَخَطَبَ النَّاسَ مُعَاذٌ فَحَضَّهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَأَمَرَهُمْ بِالتَّفَقُّهِ وَالْقُرْآنِ وَقَالَ إِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ فَاسْأَلُونِي أُخْبِرْكُمْ عَنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمَكَثُوا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَمْكُثُوا فَقَالُوا لِمُعَاذٍ قَدْ كُنْتَ أَمَرْتَنَا إِذَا نَحْنُ تَفَقَّهْنَا وَقَرَأْنَا أَنْ نَسْأَلَكَ فَتُخْبِرَنَا بِأَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذٌ إِذَا ذُكِرَ الرَّجُلُ بِخَيْرٍ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِذَا ذُكِرَ بِشَرٍّ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسی اشعری کو یمن بھیجا اور یہ ہدایت کی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ایک دوسرے کی بات ماننا اور سہولت فراہم کرنا اور متنفر نہ کرنا یہ دونوں حضرات یمن تشریف لائے حضرت معاذ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے انھیں اسلام کی ترغیب دی اور انھیں قرآن کا علم حاصل کرنے کی ہدایت کی اور ارشاد فرمایا جب تم یہ کرلو گے تم مجھ سے سوال کرنا میں تمہیں بتادوں گا جہنمی کون اور جنتی کون ہے۔ یہ حضرات جب تک اللہ کی مرضی تھی وہاں مقیم رہے لوگوں نے پھر حضرت معاذ سے دریافت کیا آپ نے ہمیں یہ کہا تھا کہ جب ہم قرآن کا علم حاصل کرلیں گے اور اسے پڑھ لینگے تو ہم آپ سے سوال کریں گے اور آپ ہمیں بتائیں گے کہ جنتی کون ہے اور جہنمی کون ہے تو حضرت معاذ نے ان سے کہا جب کسی شخص کا (مرنے کے بعد یا زندگی میں) اچھے الفاظ میں ذکر کیا جائے تو وہ جنتی ہوگا اور جب کسی شخص کا برے الفاظ میں ذکر کیا جائے تو وہ جہنمی ہوگا۔

225

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ قَالَ أَتْقَاهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ قَالَ فَيُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ قَالَ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں عرض کی گئی یا رسول اللہ سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے لوگوں نے عرض کیا ہم آپ سے اس بارے میں دریافت نہیں کر رہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا حضرت یعقوب کے صاحبزادے حضرت یوسف سب سے زیادہ معزز ہیں چونکہ وہ اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں جو اللہ کے خلیل کے صاحبزادے تھے لوگوں نے عرض کی ہم اس بارے میں آپ سے دریافت نہیں کر رہے آپ نے ارشاد فرمایا پھر تم عربوں کے معززین کے بارے میں دریافت کر رہے ہو ؟ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں بہتر شمار ہوتے تھے اسلام میں بھی وہی بہتر شمار ہوں گے جبکہ وہ اسلام کا علم حاصل کرلیں۔

226

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
حضرت معاویہ روایت کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ جس شخص کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرلے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا کردیتا ہے۔

227

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
حضرت ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرلے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے۔

228

220. أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
حضرت معاویہ روایت کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا کردیتا ہے۔

229

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الزَّهْرَانِيُّ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاكُمْ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا بِمَكَانِي هَذَا فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ سَمِعَ مَقَالَتِي الْيَوْمَ فَوَعَاهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ وَلَا فِقْهَ لَهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَاءَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ هَذَا الْيَوْمِ فِي هَذَا الشَّهْرِ فِي هَذَا الْبَلَدِ وَاعْلَمُوا أَنَّ الْقُلُوبَ لَا تُغِلُّ عَلَى ثَلَاثٍ إِخْلَاصِ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَمُنَاصَحَةِ أُولِي الْأَمْرِ وَعَلَى لُزُومِ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ
محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حجتہ الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خطبہ دیا وہ اس میں شریک تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے لوگو۔ اللہ کی قسم مجھے اس کا علم نہیں ہے شاید آج کے بعد میں اس جگہ پر تم سے نہ مل سکوں اللہ اس شخص پر رحم کرے جو آج میری بات سن کر اسے محفوظ کرلے کیونکہ بہت لوگ صاحب علم کہلاتے ہیں حالانکہ ان کے پاس علم نہیں ہوتا اور بعض لوگ اہل علم ہوتے ہیں لیکن دوسرے ان سے زیادہ اہل علم ہوتے ہیں تم یہ بات جان لو تمہارے مال تمہارے خون تمہارے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جیسے آج کا یہ دن قابل احترام ہے اور یہ مہینہ قابل احترام ہے اور یہ شہر قابل احترام ہے۔ یہ بات جان لو تین چیزوں کے بارے میں خیانت نہ کرنا ایک عمل کا اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہونا، دوسرا حاکم وقت کے لیے خیرخواہی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا کیونکہ ان کی دعا بعد والے لوگوں پر بھی محیط ہوتی ہے۔

230

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى فَقَالَ نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَى مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَطَاعَةُ ذَوِي الْأَمْرِ وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تَكُونُ مِنْ وَرَائِهِمْ
محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات سن کر اسے محفوظ کرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بعض علم والوں کو حقیقی علم نہیں ہوتا اور بعض اوقات ایک علم والا دوسرے ایسے شخص تک علم منتقل کرتا ہے جو زیادہ سمجھدار ہوتا ہے تین باتوں میں مسلمان کا دل دھوکا نہیں دیتا ایک عمل کا اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہونا، دوسرا حاکم وقت کی پیروی کرنا اور تیسرا مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا چونکہ ان کی غیر موجوگی میں ان کی دعا موجود لوگوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔

231

أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ بِنِصْفِ النَّهَارِ قَالَ فَقُلْتُ مَا خَرَجَ هَذِهِ السَّاعَةَ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ إِلَّا وَقَدْ سَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ نَعَمْ سَأَلَنِي عَنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ فَأَدَّاهُ إِلَى مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ لَا يَعْتَقِدُ قَلْبُ مُسْلِمٍ عَلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ قُلْتُ مَا هُنَّ قَالَ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَالنَّصِيحَةُ لِوُلَاةِ الْأَمْرِ وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ وَمَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا نِيَّتَهُ فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ قَالَ وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى قَالَ هِيَ الظُّهْرُ
حضرت زید بن ثابت، مروان بن حکم کے ہاں سے دوپہر کے وقت باہر نکلے راوی کا بیان ہے میں نے دریافت کیا آپ اس وقت مروان کے ہاں سے کیوں آرہے ہیں۔ ضرور اس نے آپ سے کوئی سوال کیا ہوگا میں حضرت زید کے پاس آیا اور ان سے دریافت کیا انھوں نے جواب دیا ہاں اس نے مجھ سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا تھا جو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنی ہے آپ نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جو ہماری زبانی کوئی بات سن کر اسے یاد کرلے اور اسے اس شخص تک منتقل کر دے جو اس سے زیادہ بہتر طور اسے یاد رکھے کیونکہ بعض اوقات علم رکھنے والا شخص درحقیقت عالم نہیں ہوتا اور بعض اوقات علم رکھنے والا شخص کسی ایسے شخص تک بات منتقل کردیتا ہے جو زیادہ بڑا عالم ہو۔ جس مسلمان کا دل تین باتوں پر یقین رکھے گا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا راوی بیان کرتے ہیں میں نے دریافت کیا وہ کیا باتیں ہیں آپ نے ارشاد فرمایا عمل میں اخلاص، حکام کے لیے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم کرنا چونکہ ان کی دعا غیر موجود لوگوں پر بھی محیط ہوتی ہے۔ جس شخص کی نیت آخرت ہوگی اللہ تعالیٰ اس شخص کے دل میں بےنیازی پیدا کردے گا اور اس کے تمام معاملات سیدھے کردے گا دنیا اس کے پاس سرجھکا کر آئے گی لیکن جس شخص کی نیت دنیا کا حصول ہوگی اللہ اس کے معاملات بکھیر دے گا اس کے فقر کو اس کے سامنے کردے گا اور دنیا اسے اس کی نصیب کے مطابق ملے گی۔ راوی بیان کرتے ہیں میں نے ان سے نماز وسطی کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا اس سے مراد ظہر کی نماز ہے۔

232

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ عَنْ أَبِي الْعَجْلَانِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ ثَلَاثٌ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَالنَّصِيحَةُ لِكُلِّ مُسْلِمٍ وَلُزُومُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّ دُعَاءَهُمْ يُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اللہ اس شخص کو خوش رکھے جو ہم سے کوئی بات سنے اسے اسی طرح آگے پہنچائے جیسے سنی ہے کیونکہ بعض اوقات جس شخص تک بات پہنچائی جاتی ہے وہ براہ راست سننے والے کے مقابلے میں بہتر طور پر اسے یاد رکھ سکتا ہے۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا ایک عمل کا اللہ کے لیے خالص ہونا دوسرا ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی اور تیسرا مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا کیونکہ ان کی دعا غیر موجود لوگوں پر بھی محیط ہوتی ہے۔

233

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

234

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت ابن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

235

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ حَدَّثَ عَنِّي كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت عبداللہ بن عروہ (رض) حضرت زبیر (رض) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا جو شخص میرے حوالے سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

236

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي الصَّبَّاحُ بْنُ مُحَارِبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
عمر بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کے حوالے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کوئی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

237

أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَتَّابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ لَوْلَا أَنِّي أَخْشَى أَنْ أُخْطِئَ لَحَدَّثْتُكُمْ بِأَشْيَاءَ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاكَ أَنِّي سَمِعْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت انس بن مالک ارشاد فرماتے ہیں اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ میں غلطی کر جاؤں گا تو میں تمہیں بہت سی ایسی احادیث سناتا جو میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنی ہیں یا جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائی ہیں لیکن میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کوئی بات جھوٹی منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

238

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ وَعَنْ التَّيْمِيِّ وَعَنْ عَتَّابٍ مَوْلَى ابْنِ هُرْمُزَ سَمِعُوا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت انس بن مالک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

239

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَدِيثِ عَنِّي فَمَنْ قَالَ عَلَيَّ فَلَا يَقُلْ إِلَّا حَقًّا أَوْ إِلَّا صِدْقًا وَمَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برسر منبر پر یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سنا اے لوگو ! میرے حوالے سے بکثرت احادیث بیان کرنے سے بچو جو بھی شخص میرے حوالے سے کوئی بات کرے وہ سچی بات کرے اور جو شخص میرے حوالے سے کوئی ایسی بات کہے گا جو میں نے نہ کہی ہو تو اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

240

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

241

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنْ قَبْضُ الْعِلْمِ قَبْضُ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ علم کو قبض کرلے گا اسے لوگوں سے الگ کردے گا لیکن علم کا قبض کرنا علماء کے قبض کرنے کی شکل میں ہوگا یہاں تک کہ وہ کسی عالم کو (دنیا میں) باقی نہیں رہنے دے گا تو لوگ جہلاء کو پیشوا بنالیں گے ان جہلاء سے سوال کئے جائیں گے وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجود فتوی دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

242

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ خُذُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يَذْهَبَ قَالُوا وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَفِينَا كِتَابُ اللَّهِ قَالَ فَغَضِبَ لَا يُغْضِبُهُ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ ثَكِلَتْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ أَوَلَمْ تَكُنِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمْ شَيْئًا إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ
حضرت ابوامامہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے اسے حاصل کرلو لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے نبی علم کیسے رخصت ہوگا جبکہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا تمہاری مائیں تمہیں روئیں۔ کیا توراۃ اور انجیل بنی اسرائیل میں موجود نہیں تھیں۔ یہ دونوں ان کے کیا کام آسکی تھیں علم کارخصت ہونا یہ ہے کہ علم کے ماہرین رخصت ہوجائیں۔

243

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا هِلَالٌ هُوَ ابْنُ خَبَّابٍ قَالَ سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ قُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مَا عَلَامَةُ هَلَاكِ النَّاسِ قَالَ إِذَا هَلَكَ عُلَمَاؤُهُمْ
ہلال بن خباب بیان کرتے ہیں میں نے سعید بن جبیر سے دریافت کیا اے ابو عبداللہ لوگوں کے ہلاک ہونے کی نشانی کیا ہے انھوں نے جواب دیا جب ان کے علماء ہلاک ہوجائیں۔

244

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ سَعْدٍ الْجُعْفِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رُبَيِّعَةَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا بَقِيَ الْأَوَّلُ حَتَّى يَتَعَلَّمَ أَوْ يُعَلِّمَ الْآخِرَ فَإِنْ هَلَكَ الْأَوَّلُ قَبْلَ أَنْ يُعَلِّمَ أَوْ يَتَعَلَّمَ الْآخِرُ هَلَكَ النَّاسُ
حضرت سلمان بیان کرتے ہیں لوگ اس وقت تک بھلائی پر گامزن رہیں گے جب تک پہلے سے لوگوں سے علم حاصل کیا جاتا رہے گا یا دوسرے لوگ ان سے علم حاصل کرتے رہیں گے۔ جب پہلے لوگوں سے علم کے حصول سے پہلے ہی پہلے لوگ فوت ہوجائیں تو لوگ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے۔

245

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ عَنْ قَابُوسَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَا ذَهَابُ الْعِلْمِ قُلْنَا لَا قَالَ ذَهَابُ الْعُلَمَاءِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کیا تم لوگ یہ جانتے ہو کہ علم کے رخصت ہونے سے مراد کیا ہے لوگوں نے جواب دیا نہیں انھوں نے ارشاد فرمایا علماء کا رخصت ہوجانا۔

246

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَسْعَدَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ حُذَيْفَةُ أَتَدْرِي كَيْفَ يُنْقَصُ الْعِلْمُ قَالَ قُلْتُ كَمَا يُنْفَضُ الثَّوْبُ وَكَمَا يَقْسُو الدِّرْهَمُ قَالَ لَا وَإِنَّ ذَلِكَ لَمِنْهُ قَبْضُ الْعِلْمِ قَبْضُ الْعُلَمَاءِ
حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کیا تم جانتے ہو علم کیسے کم ہوتا ہے راوی کا بیان ہے میں نے کہا جیسے کپڑے کا رنگ کم ہوجاتا ہے یا جیسے درہم کھوٹا ہوجاتا ہے انھوں نے جواب دیا نہیں ایسا بھی ہوتا ہے لیکن علم کا رخصت ہوجانا علماء کا رخصت ہوجانا ہے۔

247

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ مَا لِي أَرَى عُلَمَاءَكُمْ يَذْهَبُونَ وَجُهَّالَكُمْ لَا يَتَعَلَّمُونَ فَتَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ فَإِنَّ رَفْعَ الْعِلْمِ ذَهَابُ الْعُلَمَاءِ
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے علماء رخصت ہوتے جا رہے ہیں اور تمہارے جہلاء علم حاصل نہیں کر رہے تم علم حاصل کرلو اس سے پہلے کہ علم اٹھا لیا جائے کیونکہ علماء کا رخصت ہونا ہی علم کا اٹھا لیا جانا ہے۔

248

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ عَنْ بُرْدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ النَّاسُ عَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ وَلَا خَيْرَ فِيمَا بَعْدَ ذَلِكَ
حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں آدمی یا عالم ہوتا ہے یا طالبعلم ہوتا ہے اس کے بعد کسی صورت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

249

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ وَالْمُتَعَلِّمُ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ وَلَيْسَ لِسَائِرِ النَّاسِ بَعْدُ خَيْرٌ
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں بھلائی کی تعلیم دینے والا اور بھلائی کا علم حاصل کرنے والا اجر میں برابر ہیں۔ ان کے علاوہ لوگوں میں کوئی خیر نہیں ہے۔

250

أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا وَلَا تَكُنِ الرَّابِعَ فَتَهْلِكَ
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں یا عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو چوتھے شخص نہ بننا اور نہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔

251

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رُبَيِّعَةَ قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا بَقِيَ الْأَوَّلُ حَتَّى يَتَعَلَّمَ الْآخِرُ فَإِذَا هَلَكَ الْأَوَّلُ قَبْلَ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْآخِرُ هَلَكَ النَّاسُ
حضرت سلمان بیان کرتے ہیں لوگ اس وقت بھلائی ہر باقی رہیں گے جب تک بعد والے لوگ پہلے لوگوں سے علم حاصل کرتے رہیں گے جب بعد والوں کے علم حاصل کرنے سے پہلے ہی پہلے والے لوگ فوت ہوجائیں تو لوگ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے۔

252

أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ الْأَحْنَفِ قَالَ قَالَ عُمَرُ تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا
حضرت سلمان بیان کرتے ہیں حضرت عمر بیان کرتے ہیں قائد بننے سے پہلے علم حاصل کرو۔

253

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ رُسْتُمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ تَطَاوَلَ النَّاسُ فِي الْبِنَاءِ فِي زَمَنِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ يَا مَعْشَرَ الْعُرَيْبِ الْأَرْضَ الْأَرْضَ إِنَّهُ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ فَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى الْفِقْهِ كَانَ حَيَاةً لَهُ وَلَهُمْ وَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ كَانَ هَلَاكًا لَهُ وَلَهُمْ
حضرت تمیم داری ارشاد فرماتے ہیں حضرت عمر کے زمانے میں لوگوں نے تعمیرات میں ایک دوسرے سے بلند تعمیرات کرنا شروع کردیں تو حضرت عمر نے ارشاد فرمایا اے عرب کے رہنے والو۔ زمین کے ساتھ رہو گے کیونکہ جماعت کے بغیر اسلام کی کوئی حثییت نہیں ہے اور امارت کے بغیر جماعت کی کوئی حثییت نہیں ہے اور اطاعت کے بغیر امارت کی کوئی حثییت نہیں ہے جس شخص کو اس کی قوم اس کی سمجھ سے کی وجہ سے اپنا قائد مقرر کرے وہ شخص اپنے لیے اور قوم کے لیے خیر کی زندگی ہوگا اور جس شخص کے جاہل ہونے کے باوجود اس کی قوم سے اپنا قائد بنا لے۔ وہ شخص خود بھی ہلاک ہوگا اور لوگوں کے لیے بھی ہلاکت کا باعث بنے گا۔

254

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ الْمُهَاصِرَ بْنَ حَبِيبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ وَلَكِنِّي أَتَقَبَّلُ هَمَّهُ وَهَوَاهُ فَإِنْ كَانَ هَمُّهُ وَهَوَاهُ فِي طَاعَتِي جَعَلْتُ صَمْتَهُ حَمْدًا لِي وَوَقَارًا وَإِنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ
مہاصر بن حبیب روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں ہر سمجھدار آدمی کی بات قبول نہیں کرتا بلکہ میں اس کی خواہش اور ارادے کو قبول کرتا ہوں اگر اس کی خواہش اور اس کا ارادہ میری فرمان برداری ہو تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنی حمد اور وقار قرار دیتا ہوں اگرچہ وہ کوئی بھی بات نہ کرے۔

255

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ أَبُثُّ الْعِلْمَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ حَتَّى يَعْلَمَهُ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ بِهِمْ أَخَذْتُهُمْ بِحَقِّي عَلَيْهِمْ
ابوزاہریہ حدیث کے طور پر یہ بات نقل کرتے ہیں اللہ یہ ارشاد فرماتا ہے آخری زمانے میں علم کو پھیلادوں گا یہاں تک کہ ہر مرد عورت غلام، آزاد شخص، بچہ بڑا علم حاصل کرلیں گے جب میں ان کے ساتھ ایسا کروں گا تو اس بارے میں میرا جو حق ہے اس پر ان کی گرفت کروں گا۔

256

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ مَنْ طَلَبَ شَيْئًا مِنْ هَذَا الْعِلْمِ فَأَرَادَ بِهِ مَا عِنْدَ اللَّهِ يُدْرِكْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَمَنْ أَرَادَ بِهِ الدُّنْيَا فَذَاكَ وَاللَّهِ حَظُّهُ مِنْهُ
حضرت حسن بیان کرتے ہیں جو شخص علم کی طلب میں اللہ کے پاس موجود اجر وثواب کی نیت کرے گا اگر اللہ نے چاہا تو اسے پالے گا اور جو شخص اس کے ذریعے دنیاحاصل کرنا چاہے گا تو وہ اللہ کی قسم اسے اپنے حصے کے مطابق ہی ملے گا۔

257

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عِيسَى قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِثَلَاثٍ لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ وَتُجَادِلُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ وَلِتَصْرِفُوا بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ وَابْتَغُوا بِقَوْلِكُمْ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَإِنَّهُ يَدُومُ وَيَبْقَى وَيَنْفَدُ مَا سِوَاهُ
حضرت ابن مسعود (رض) ارشاد فرماتے ہیں تین مقاصد کے لیے علم حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعے تم بیوقوفوں کے ساتھ بحث کرو یا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرو بلکہ تم اپنی بات کے ذریعے اللہ کے ہاں موجود اجر وثواب حاصل کرو کیونکہ وہ ہمیشہ رہے گا اور باقی رہے گا اور اس کے علاوہ ہر چیز فنا ہوجائے گی۔

258

وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ كُونُوا يَنَابِيعَ الْعِلْمِ مَصَابِيحَ الْهُدَى أَحْلَاسَ الْبُيُوتِ سُرُجَ اللَّيْلِ جُدُدَ الْقُلُوبِ خُلْقَانَ الثِّيَابِ تُعْرَفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ وَتَخْفَوْنَ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ
اسی سند کے ہمراہ یہ بات منقول ہے حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں تم علم کے چشمے بن جاؤ ہدایت کے چراغ بن جاؤ گھروں میں محافظ بن جاؤ۔ رات کے وقت چراغ بن جاؤ نئے دلوں کے مالک بن جاؤ (یایوں ہوجاؤ کہ) تمہارے کپڑے پرانے ہوں تو تمہیں آسمان میں پہچانا جائے گا اور زمین والوں کے نزدیک تمہاری حثییت کچھ بھی نہیں رہے گی۔

259

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَطْلُبُ هَذَا الْعِلْمَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ بِهِ إِلَّا الدُّنْيَا إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیاوی مقصد حاصل کرنے کے لیے علم کو حاصل کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی خوشبو کو حرام کردے گا۔

260

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلشَّعْبِيِّ أَفْتِنِي أَيُّهَا الْعَالِمُ فَقَالَ الْعَالِمُ مَنْ يَخَافُ اللَّهَ
مالک بن مغول بیان کرتے ہیں ایک شخص نے امام شعبی سے کہا اے عالم آپ مجھے فتوی دیں امام شعبی نے جواب دیا عالم وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔

261

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مَزْيَدٍ عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ تُعْرَفُوا بِهِ وَاعْمَلُوا بِهِ تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهِ فَإِنَّهُ سَيَأْتِي بَعْدَ هَذَا زَمَانٌ لَا يَعْرِفُ فِيهِ تِسْعَةُ عُشَرَائِهِمْ الْمَعْرُوفَ وَلَا يَنْجُو مِنْهُ إِلَّا كُلُّ نُوَمَةٍ فَأُولَئِكَ أَئِمَّةُ الْهُدَى وَمَصَابِيحُ الْعِلْمِ لَيْسُوا بِالْمَسَايِيحِ وَلَا الْمَذَايِيعِ الْبُذْرِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد نُوَمَةٌ غَافِلٌ عَنْ الشَّرِّ الْمَذَايِيعُ الْبُذْرِ كَثِيرُ الْكَلَامِ
حضرت علی بیان کرتے رہے ہیں۔ علم حاصل کرو اس کے ذریعے تمہاری پہچان ہوگی۔ تم اس پر عمل کرو تم اس کے اہل میں شامل ہو جاؤگے کیونکہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جب دس آدمیوں میں سے نو آدمی نیکی کے بارے میں علم نہیں رکھیں گے اور ان میں سے کوئی بھی برائی سے نہیں بچے گا۔ ماسوائے اس کے جو اس سے بےخبر ہو اس وقت یہی لوگ ہدایت کے پیشوا ہوں گے اور علم کے چراغ ہوں گے جو فساد پھیلانے والے چغل خوری کرنے والے اور فضول باتیں کرنے والے نہیں ہوں گے۔ امام ابومحمد دارمی ارشاد فرماتے ہیں اس روایت میں استعمال ہونے والا لفظ نومہ سے مراد وہ شخص ہے جو برائی سے غافل ہو۔ مذابیع سے مراد بکثرت گفتگو کرنے والا ہے البذر سے مراد چغلی کرنے والا ہے۔

262

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ بَعْدَ أَنْ تَعْلَمُوا فَلَنْ يَأْجُرَكُمْ اللَّهُ بِالْعِلْمِ حَتَّى تَعْمَلُوا
حضرت معاذ بن جبل ارشاد فرماتے ہیں جب تم علم حاصل کرلو تو تم جتنا چاہو عمل کرو اللہ تعالیٰ علم کا اجر اس وقت تک نہیں دے گا جب تک تم اس پر عمل نہ کرو۔

263

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدِ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مَزْيَدٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدٍ أَنَّهُ أَتَى ابْنَ مُنَبِّهٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْحَسَنِ وَقَالَ لَهُ كَيْفَ عَقْلُهُ فَأَخْبَرَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ أَوْ نَجِدُ فِي الْكُتُبِ أَنَّهُ مَا آتَى اللَّهُ عَبْدًا عِلْمًا فَعَمِلَ بِهِ عَلَى سَبِيلِ الْهُدَى فَيَسْلُبَهُ عَقْلَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ
حضرت سعد کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ابن منبہ کے پاس آئے اور ان کے حسن بصری کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کی عقل کیسی ہے ابن منبہ نے انھیں بتایا پھر وہ بولے ہم آپس میں یہ بات کرتے ہیں اور ہم نے یہ بات اپنی کتابوں میں بھی پڑھی ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ علم عطاء کردے اور وہ اس عمل کرے اور ہدایت پر گامزن رہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس کے مرنے سے پہلے اس کی عقل کو چھین لے۔

264

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ بْنِ قَيْسٍ حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ سَيْفٍ الْحِمْصِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ السَّلُولِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِمًا لَا يَنْتَفِعُ بِعِلْمِهِ
حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک قیامت کے دن قدر و منزلت کے اعتبار سے سب سے بڑا وہ عالم ہوگا جس کے علم سے نفع حاصل نہ کیا جائے۔

265

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو قُدَامَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ مَنْ يَزْدَدْ عِلْمًا يَزْدَدْ وَجَعًا وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ مَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي أَنْ يُقَالَ لِي مَا عَلِمْتَ وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ يُقَالَ لِي مَاذَا عَمِلْتَ
حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں جس شخص کے علم میں اضافہ ہوگا اس کی تکلیف میں بھی اضافہ ہوگا۔ حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بارے میں یہ خوف نہیں ہے کہ مجھ سے یہ کہا جائے کہ تم نے کیا علم حاصل کیا ہے بلکہ مجھے اپنے بارے میں یہ خوف ہے کہ مجھ سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا عمل کیا ہے۔

266

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ يَذْكُرُ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَةً مِنْ اللَّيْلِ خَيْرٌ مِنْ إِحْيَائِهَاو قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِنِّي لَأُجَزِّئُ اللَّيْلَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ فَثُلُثٌ أَنَامُ وَثُلُثٌ أَقُومُ وَثُلُثٌ أَتَذَكَّرُ أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں رات میں ایک گھڑی علم کی درس و تدریس رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) ارشاد فرماتے ہیں میں نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تہائی حصے میں سوتا ہوں ایک تہائی حصے میں نوافل ادا کرتا ہوں اور ایک تہائی حصے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث یاد کرتا ہوں

267

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ مَنْ ابْتَغَى شَيْئًا مِنْ الْعِلْمِ يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ آتَاهُ اللَّهُ مِنْهُ مَا يَكْفِيهِ
حضرت ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں جو شخص علم کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے اتنا کچھ عطا کردے گا جو اس کے لیے کافی ہوگا۔

268

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ قَالَ سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ حَدِيثٍ فَحَدَّثَنِيهِ فَقُلْتُ إِنَّهُ يُرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا عَلَى مَنْ دُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيْنَا فَإِنْ كَانَ فِيهِ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ كَانَ عَلَى مَنْ دُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عاصم بیان کرتے ہیں میں نے امام شعبی سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا جو انھوں نے مجھے سنائی تھی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کیا یہ حدیث نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب ہے انھوں نے جواب دیا نہیں اسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے بعد والے کسی راوی کی طرف منسوب کرنا ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ اگر اس میں کوئی کمی یا اضافہ ہوگا تو وہ بعد والے راوی کے حوالے سے ہوگا۔

269

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ فَقِيلَ لَهُ أَمَا تَحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا غَيْرَ هَذَا قَالَ بَلَى وَلَكِنْ أَقُولُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ عَلْقَمَةُ أَحَبُّ إِلَيَّ
حضرت ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع کیا ہے ابراہیم سے سوال کیا گیا کیا آپ کو اس حدیث کے علاوہ کوئی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی اور حدیث بھی یاد ہے ؟ انھوں نے جواب دیا ہاں لیکن میرے نزدیک یہ کہنا زیادہ پسندیدہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے یہ بات بیان کی ہے یا علقمہ نے یہ بات بیان کی ہے۔

270

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا حَدَّثَ بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ أَوْ شِبْهَهُ أَوْ شَكْلَهُ
حضرت ابودرداء کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ اس کی مانند اس کے مشابہ یا اس طرح سے آپ نے ارشاد فرمایا۔

271

أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا حَدَّثَ حَدِيثًا قَالَ اللَّهُمَّ إِلَّا هَكَذَا أَوْ كَشَكْلِهِ
حضرت ابودرداء کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ یہ بھی کہتے تھے اے اللہ یہ شاید اسی طرح یا اس کی مانند ہے۔

272

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُسْلِمٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ كُنْتُ لَا تَفُوتُنِي عَشِيَّةُ خَمِيسٍ إِلَّا آتِي فِيهَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ لِشَيْءٍ قَطُّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ حَتَّى كَانَتْ ذَاتَ عَشِيَّةٍ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاغْرَوْرَقَتَا عَيْنَاهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ فَأَنَا رَأَيْتُهُ مَحْلُولَةً أَزْرَارُهُ وَقَالَ أَوْ مِثْلُهُ أَوْ نَحْوُهُ أَوْ شَبِيهٌ بِهِ
عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں ہر جمعرات کی شام میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں باقاعدگی کے ساتھ حاضر ہوا کرتا تھا میں نے انھیں کبھی بھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ارشاد فرمایا ہے ایک مرتبہ شام کے وقت انھوں نے یہ کہہ دیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا ہے عمرو بیان کرتے ہیں یہ کہہ کر ان کے آنسوجاری ہوگئے اور ان کی رگیں پھول گئیں میں نے دیکھا کہ ان کا تکمہ کھل گیا ہے پھر وہ بولے اس کی مانند یا اس طرح جیسا ارشاد فرمایا ہے۔

273

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَابْنِ سِيرِينَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَيَّامِ تَرَبَّدَ وَجْهُهُ وَقَالَ هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ
امام شعبی ابن سیرین بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ان کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ آپ نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے یا اس کی مانند ارشاد فرمایا۔

274

أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا تَوْبَةُ الْعَنْبَرِيُّ قَالَ قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ أَرَأَيْتَ فُلَانًا الَّذِي يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَعَدْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَةً وَنِصْفًا فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ
توبہ عنبری ارشاد فرماتے ہیں امام شعبی نے مجھ سے کہا کیا تم نے غور کیا ہے وہ فلاں شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا ہے میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں دو برس یا شاید ڈیڑھ برس تک رہاہوں لیکن میں نے انھیں کبھی نہیں سنا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کی ماسوائے ان چند احادیث کہ جو میں تمہارے سامنے بیان کرچکا ہوں۔

275

أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ جَالَسْتُ ابْنَ عُمَرَ سَنَةً فَلَمْ أَسْمَعْهُ يَذْكُرُ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبداللہ بن ابوسفر بیان کرتے ہیں شعبی ارشاد فرماتے ہیں میں ایک سال تک حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں رہا ہوں میں نے انھیں کبھی بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔

276

أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ثَابِتِ بْنِ قُطْبَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُحَدِّثُنَا فِي الشَّهْرِ بِالْحَدِيثَيْنِ أَوْ الثَّلَاثَةِ
حضرت ثابت بن قطبہ انصاری بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ مہینے بھر میں ہمارے سامنے دو یا شاید تین حدیثیں بیان کیا کرتے تھے۔

277

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ مَرَّ بِنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَقُلْنَا حَدِّثْنَا بِبَعْضِ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَأَتَحَلَّلُ
عبدالملک بن عبید بیان کرتے ہیں حضرت انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے تو ہم نے درخواست کی آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنی ہو انھوں نے جواب دیا کیا میں اپنے لیے جہنم کو حلال کرلوں۔

278

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كَانَ أَنَسٌ قَلِيلَ الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
امام محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے اور جب بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث نقل کرتے تھے تو ساتھ یہ ضرور کہتے تھے کہ اسی کی مانند نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔

279

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كَانَ أَنَسٌ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا قَالَ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
امام محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے جو حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ یہ کہہ دیتے تھے کہ یا اسی کی مانند نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔

280

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ سَعْدٍ إِلَى مَكَّةَ فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ
سائب بن یزید بیان کرتے ہیں میں حضرت سعد کے ہمراہ مکہ گیا میں نے انھیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ واپس آگئے۔

281

أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا بَيَانٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ قَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ شَيَّعَ الْأَنْصَارَ حِينَ خَرَجُوا مِنْ الْمَدِينَةِ فَقَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ شَيَّعْتُكُمْ قُلْنَا لِحَقِّ الْأَنْصَارِ قَالَ إِنَّكُمْ تَأْتُونَ قَوْمًا تَهْتَزُّ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ اهْتِزَازَ النَّخْلِ فَلَا تَصُدُّوهُمْ بِالْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا شَرِيكُكُمْ قَالَ فَمَا حَدَّثْتُ بِشَيْءٍ وَقَدْ سَمِعْتُ كَمَا سَمِعَ أَصْحَابِي
قرظہ بن کعب بیان کرتے ہیں جب بعض انصار مدینہ سے نکل کر جانے لگے تو حضرت عمر ان کے ساتھ چلتے ہوئے آئے اور بولے کیا تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیوں آیاہوں ہم نے جواب دیا انصار کے حق کی وجہ سے۔ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اتنی تیزی کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں جیسے کھجور کا درخت ہلتا ہے لہٰذا تم انھیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی حدیث کے حوالے سے قرآن سے روکنے کی کوشش نہ کرنا میں تمہارے
راوی بیان کرتے ہیں اس کے بعد میں نے کو ءی ایسی حدیث بیان نہیں کی حالانکہ میں نے بھی اسی طرح احادیث سنی ہوئی ہیں جیسے میرے ساتھیوں نے سنی ہوئی ہیں۔

282

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ قَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ قَالَ بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى الْكُوفَةِ فَبَعَثَنِي مَعَهُمْ فَجَعَلَ يَمْشِي مَعَنَا حَتَّى أَتَى صِرَارَ وَصِرَارُ مَاءٌ فِي طَرِيقِ الْمَدِينَةِ فَجَعَلَ يَنْفُضُ الْغُبَارَ عَنْ رِجْلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّكُمْ تَأْتُونَ الْكُوفَةَ فَتَأْتُونَ قَوْمًا لَهُمْ أَزِيزٌ بِالْقُرْآنِ فَيَأْتُونَكُمْ فَيَقُولُونَ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ فَيَأْتُونَكُمْ فَيَسْأَلُونَكُمْ عَنْ الْحَدِيثِ فَاعْلَمُوا أَنَّ أَسْبَغَ الْوُضُوءِ ثَلَاثٌ وَثِنْتَانِ تُجْزِيَانِ ثُمَّ قَالَ إِنَّكُمْ تَأْتُونَ الْكُوفَةَ فَتَأْتُونَ قَوْمًا لَهُمْ أَزِيزٌ بِالْقُرْآنِ فَيَقُولُونَ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ فَيَأْتُونَكُمْ فَيَسْأَلُونَكُمْ عَنْ الْحَدِيثِ فَأَقِلُّوا الرِّوَايَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا شَرِيكُكُمْ فِيهِ قَالَ قَرَظَةُ وَإِنْ كُنْتُ لَأَجْلِسُ فِي الْقَوْمِ فَيَذْكُرُونَ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَمِنْ أَحْفَظِهِمْ لَهُ فَإِذَا ذَكَرْتُ وَصِيَّةَ عُمَرَ سَكَتُّ قَالَ أَبُو مُحَمَّد مَعْنَاهُ عِنْدِي الْحَدِيثُ عَنْ أَيَّامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ السُّنَنَ وَالْفَرَائِضَ
قرظہ بن کعب بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے چند انصاری صحابہ کرام کو کوفہ بھیجا اور مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا حضرت عمر ہمارے ساتھ چلتے ہوئے صرار تک آئے۔ صرار مدینے کے راستے میں ایک چشمہ ہے وہاں حضرت عمر نے اپنے پاؤں سے مٹی صاف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تم لوگ کوفہ جارہے ہو تم ایک ایسی قوم کے پاس جاؤ گے جو لوگ بڑے شوق سے قرآن پڑھتے ہیں وہ لوگ تمہارے پاس آئینگے اور یہ کہیں گے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تشریف لائے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تشریف لائے ہیں وہ تمہارے پاس آئیں گے اور حدیث کے بارے میں سوال کریں گے تم یہ بات یاد رکھنا کہ کامل وضو میں تین مرتبہ اعضاء کو دھویا جاتا ہے ویسے دو مرتبہ دھونا بھی کافی ہے۔ پھر حضرت عمر نے ارشاد فرمایا تم لوگ کوفہ جارہے ہو تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو بڑے ذوق اور شوق سے قرآن پڑھتے ہیں وہ یہ کہیں گے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تشریف لائے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تشریف لے کر آئے ہیں وہ تمہارے پاس آئیں گے اور تم سے احادیث کے بارے میں سوال کریں گے تو تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کم احادیث بیان کرنا میں اس بارے میں تمہارے ساتھ ہوں۔
قرظہ فرماتے ہیں میں کچھ لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا ہوتا ہوں وہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث ذکر کرتے ہیں حالانکہ مجھے ان سے زیادہ احادیث یاد ہیں لیکن جب مجھے حضرت عمر کی نصیحت یاد آتی ہے تو میں خاموشی اختیار کرلیتا ہوں۔ امام محمد عبداللہ دارمی ارشاد فرماتے ہیں اس حدیث کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے حوالے سے احادیث بیان نہ کی جائیں سنن اور فرائض سے اس حدیث کا تعلق نہیں ہے۔

283

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ارْتَعَدَ ثُمَّ قَالَ نَحْوَ ذَلِكَ أَوْ فَوْقَ ذَاكَ
علقمہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ نے ایک مرتبہ یہ کہا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے پھر ان پر کپکپی طاری ہوگئی اور پھر بولے اس کی مانند یا اس سے کچھ زیادہ ارشاد فرمایا ہے۔

284

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ إِنَّ مِنْ الشَّجَرِ شَجَرًا مِثْلَ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ قَالَ عُمَرُ وَدِدْتُ أَنَّكَ قُلْتَ وَعَلَيَّ كَذَا
مجاہد بیان کرتے ہیں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ مدینہ منورہ تک آیا میں نے انھیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا البتہ انھوں نے یہ حدیث بیان کی ایک مرتبہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا آپ کی خدمت میں جمار نامی مخصوص کھاناپیش کیا گیا آپ نے ارشاد فرمایا ایک درخت ایسا ہے جس کی مثال مسلمان بندے کی طرح ہے (حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں) میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں یہ جواب دوں کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے جائزہ لیا تو میں حاضرین میں سب سے کم سن تھا اس لیے میں خاموش رہا بعد میں حضرت عمر (کو یہ بات بتائی گئی تو انھوں نے ارشاد فرمایا) میری یہ خواہش تھی کہ تم یہ جواب دے دیتے اگرچہ اس کے عوض میں مجھے یہ کچھ دینا پڑتا۔

285

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْهَدَادِيُّ حَدَّثَنَا صَالِحٌ الدَّهَّانُ قَالَ مَا سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ قَطُّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِعْظَامًا وَاتِّقَاءً أَنْ يَكْذِبَ عَلَيْهِ
صالح بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر بن زید کو کبھی بھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ارشاد فرمایا ہے وہ اس چیز سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کو بہت اہم سمجھتے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی غلط بات بیان کردیں۔

286

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ جَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى كَعْبٍ يَسْأَلُ عَنْهُ وَكَعْبٌ فِي الْقَوْمِ فَقَالَ كَعْبٌ مَا تُرِيدُ مِنْهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَا أَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونَ أَحْفَظَ لِحَدِيثِهِ مِنِّي فَقَالَ كَعْبٌ أَمَا إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَالِبَ شَيْءٍ إِلَّا سَيَشْبَعُ مِنْهُ يَوْمًا مِنْ الدَّهْرِ إِلَّا طَالِبَ عِلْمٍ أَوْ طَالِبَ دُنْيَا فَقَالَ أَنْتَ كَعْبٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ لِمِثْلِ هَذَا جِئْتُ
حضرت عبداللہ بن شفیق بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ (رض) حضرت کعب کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے آئے حضرت کعب کچھ لوگوں کے درمیان موجود تھے حضرت کعب نے دریافت کیا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواب دیا میں نبی کریم کے اصحاب میں کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں جو آپ کی احادیث کا مجھ سے زیادہ حافظ ہو۔ حضرت کعب نے جواب دیا آپ کسی بھی چیز کے طلبگار کو پائیں گے وہ ایک وقت میں اپنی طلب سے سیر ہوجاتا ہے ماسوائے علم کے طلب گار کے اور دنیا کے طلب گار کے وہ دونوں کبھی سیر نہیں ہوتے حضرت ابوہریرہ (رض) نے دریافت کیا آپ کعب ہیں انھوں نے جواب دیا ہاں۔ حضرت کعب نے فرمایا اسی لیے میں آپ کے پاس آیا تھا۔

287

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا شِبْلٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ قَالَ مَنْ جَمَعَ عِلْمَ النَّاسِ إِلَى عِلْمِهِ وَكُلُّ طَالِبِ عِلْمٍ غَرْثَانُ إِلَى عِلْمٍ
طاؤس بیان کرتے ہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون سا شخص زیادہ علم رکھتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا جو لوگوں کے علم کو اپنے علم کے ساتھ ملادے اور وہ جو علم کا بھوکا ہوتا ہے۔

288

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ قَالَ كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا الْمَشْيَخَةُ وَهُمْ يَتَرَاجَعُونَ فِيهِمْ عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ شَابٌّ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ أَفِيضُوا فِي ذِكْرِ اللَّهِ بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمْ فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فِي أَيِّ شَيْءٍ رَآنَا ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا فَمُرْ لَئِنْ عُدْتَ لَنَفْعَلَنَّ وَلَنَفْعَلَنَّ
معاویہ بن قرہ بیان کرتے ہیں ایک حلقے میں جس میں کچھ بزرگ لوگ موجود تھے اور آپس میں بات چیت کررہے ان میں عائذ بن عمرو بھی موجود تھے حاضرین میں سے ایک کنارے میں موجود ایک شخص بولا اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاؤ اللہ تمہیں برکت عطا کرے گا۔ حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بولے تم ہمیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہو پھر ایک شخص نے دریافت کیا تمہیں یہ بات کہنے کی ہدایت کس نے کہی ہے چلے جاؤ یہاں سے اگر واپس آئے تو ہم تمہیں اتنی سخت سزا دیں گے۔

289

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ نِعْمَ الْمَجْلِسُ مَجْلِسٌ يُنْشَرُ فِيهِ الْحِكْمَةُ وَتُرْجَى فِيهِ الرَّحْمَةُ
عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں سب سے بہترین محفل وہ ہے جس میں حکمت کو پھیلایا جائے اور رحمت کی امید رکھی جائے۔

290

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبْيَرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنْ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا يُغْنِي عَنْهُمْ قَالَ جُبَيْرٌ فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ قُلْتُ أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ قَالَ صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنْ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ الْجَمَاعَةِ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف جمائی اور یہ ارشاد فرمایا یہی وہ گھڑی ہوگی جس میں لوگوں کے درمیان سے علم اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ذرا سے علم پر بھی قادر نہیں ہوں گے حضرت زیاد بن لبید انصاری نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہمارے درمیان سے علم کیسے اٹھایا جائے گا جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم ہم اسے پڑھتے رہیں گے اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی یہ پڑھاتے رہیں گے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے زیاد تمہاری ماں تمہیں روئے میں تو یہ سمجھتا تھا کہ تم مدینے کے سمجھدار لوگوں میں سے ایک ہو یہ توراۃ اور انجیل بھی تو یہود و نصاری کے پاس تھیں اس کا انھیں کیا فائدہ ہوا۔ جبیر نامی روای بیان کرتے ہیں میری ملاقات حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے ہوئی تو میں نے انس (رض) نے کہا آپ نے سنا کہ آپ کے بھائی حضرت ابودرداء کیا حدیث بیان کرتے ہیں پھر میں نے انھیں وہ حدیث سنائی جو حضرت ابودرداء نے بیان کی تھی تو حضرت عبادہ نے ارشاد فرمایا حضرت ابودرداء نے سچ کہا ہے اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں کہ سب سے پہلے لوگوں میں سے کون ساعلم اٹھایا جائے گا وہ علم خشوع ہوگا یہاں تک کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم جامع مسجد میں داخل ہوں گے تو تمہیں ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آئے گا جس میں خشوع پایا جاتا ہو۔

291

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ الْكِنَانِيُّ حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ وَالنُّونَ فِي الْبَحْرِ يُصَلُّونَ عَلَى الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ الْخَيْرَ
مکحول بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے عالم شخص کی عبادت گزار شخص پر وہی فضیلت ہے جو میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی۔ بیشک اللہ سے اس کے بندوں میں سے اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ اس کے فرشتے آسمان اور زمین میں موجود مخلوقات یہاں تک کہ سمندر میں موجود مچھلیاں بھی اس شخص کے لیے دعائے رحمت کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔

292

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَا يَكُونُ الرَّجُلُ عَالِمًا حَتَّى لَا يَحْسُدَ مَنْ فَوْقَهُ وَلَا يَحْقِرَ مَنْ دُونَهُ وَلَا يَبْتَغِيَ بِعِلْمِهِ ثَمَنًا
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کوئی شخص اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے سے اوپر والے سے حسد کرنے سے باز نہ آجائے اور اپنے سے کم تر شخص کو حقیر سمجھنے سے باز نہ آجائے اور اپنے علم کے عوض میں معاوضے کا طلب گار نہ ہو۔

293

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الْأَعْلَى التَّيْمِيَّ يَقُولُ مَنْ أُوتِيَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَا يُبْكِيهِ لَخَلِيقٌ أَنْ لَا يَكُونَ أُوتِيَ عِلْمًا يَنْفَعُهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَعَتَ الْعُلَمَاءَ ثُمَّ قَرَأَ الْقُرْآنَ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِلَى قَوْلِهِ يَبْكُونَ
عبدالاعلی تیمی بیان کرتے ہیں جس شخص کو علم عطا کیا جائے اور وہ علم اس شخص کو رلائے نہیں وہ اس لائق ہے کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جنہیں وہ علم عطا کیا گیا ہے جو انھیں نفع دیتا ہے کیونکہ اللہ نے علماء کی یہ تعریف کی ہے پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی۔ بیشک وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا اس آیت کو وہ روتے ہیں۔ تک پڑھا۔

294

أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ لَا تَكُونُ عَالِمًا حَتَّى يَكُونَ فِيكَ ثَلَاثُ خِصَالٍ لَا تَبْغِي عَلَى مَنْ فَوْقَكَ وَلَا تَحْقِرُ مَنْ دُونَكَ وَلَا تَأْخُذُ عَلَى عِلْمِكَ دُنْيَا
ابوحاذم بیان کرتے ہیں تم اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتے جب تک تمہارے اندر تین خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں تم اپنے سے اوپر والے شخص کے خلاف سرکشی نہ کرو اور اپنے سے کم تر شخص کو حقیر نہ سمجھو اور اپنے علم کے عوض میں دنیا کے طلب گار نہ ہو۔

295

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى الدِّمَشْقِيِّ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ لَا تَكُونُ عَالِمًا حَتَّى تَكُونَ مُتَعَلِّمًا وَلَا تَكُونُ بِالْعِلْمِ عَالِمًا حَتَّى تَكُونَ بِهِ عَامِلًا وَكَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا وَكَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُمَارِيًا وَكَفَى بِكَ كَاذِبًا أَنْ لَا تَزَالَ مُحَدِّثًا فِي غَيْرِ ذَاتِ اللَّهِ
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں تم اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتے جب تم طالب علم نہ بن جاؤ اور تم اس وقت تک علم کے عالم نہیں ہوسکتے جب تک تم اس پر عمل نہیں کرتے اور تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ بحث و مباحثہ کرتے رہو اور تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے تم ہمیشہ جھگڑا کرتے رہو اور تمہارے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے تم جب بھی کوئی بات کرو وہ اللہ کی رضا کی بجائے کسی اور مقصد کے لیے ہو۔

296

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَخِيهِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عِمْرَانَ الْمِنْقَرِيِّ قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ يَوْمًا فِي شَيْءٍ قَالَهُ يَا أَبَا سَعِيدٍ لَيْسَ هَكَذَا يَقُولُ الْفُقَهَاءُ فَقَالَ وَيْحَكَ وَرَأَيْتَ أَنْتَ فَقِيهًا قَطُّ إِنَّمَا الْفَقِيهُ الزَّاهِدُ فِي الدُّنْيَا الرَّاغِبُ فِي الْآخِرَةِ الْبَصِيرُ بِأَمْرِ دِينِهِ الْمُدَاوِمُ عَلَى عِبَادَةِ رَبِّهِ
عمران منقری بیان کرتے ہیں میں نے حضرت حسن بصری سے ایک دن کسی بات کے بارے میں جو انھوں نے بیان کی تھی یہ کہا اے ابوسعید فقہاء ایسے نہیں کہتے جو آپ نے بیان کیا ہے تو حضرت حسن بصری نے فرمایا تمہارا ستیا ناس ہو کیا تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے فقیہ وہ شخص ہوتا ہے جو دنیا سے بےرغبت ہو۔ آخرت کی طرف متوجہ ہو اپنے دین کے معاملات کا نگران ہو اور ہمیشہ اپنے پروردگار کی عبادت میں مصروف رہے۔

297

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْبَجَلِيُّ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قِيلَ لَهُ مَنْ أَفْقَهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قَالَ أَتْقَاهُمْ لِرَبِّهِ
سعد بن ابراہیم سے سوال کیا گیا مدینہ کا سب سے زیادہ سمجھدار شخص کون ہے انھوں نے جواب دیا جو اپنے پروردگار سے سب سے زیادہ ڈرتا ہو۔

298

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ إِنَّمَا الْفَقِيهُ مَنْ يَخَافُ اللَّهَ
مجاہد ارشاد فرماتے ہیں فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہو۔

299

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ يَعْقُوبَ الْقُمِّيِّ حَدَّثَنِي لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِنَّ الْفَقِيهَ حَقَّ الْفَقِيهِ مَنْ لَمْ يُقَنِّطْ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ وَلَمْ يُؤَمِّنْهُمْ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَدَعْ الْقُرْآنَ رَغْبَةً عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ إِنَّهُ لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَا عِلْمَ فِيهَا وَلَا عِلْمٍ لَا فَهْمَ فِيهِ وَلَا قِرَاءَةٍ لَا تَدَبُّرَ فِيهَا
حضرت علی بن ابوطالب (رض) ارشاد فرماتے ہیں حقیقی معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور انھیں اللہ کی نافرمانی کی رخصت نہ دے اور انھیں اللہ کے آداب سے بےنیاز نہ کردے اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ نہ ہوجائے۔ ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں علم نہ ہو اور ایسے علم میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرأت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں غور و فکر نہ ہو۔

300

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ الْفَقِيهُ حَقُّ الْفَقِيهِ الَّذِي لَا يُقَنِّطُ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ وَلَا يُؤَمِّنُهُمْ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَلَا يُرَخِّصُ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ إِنَّهُ لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَا عِلْمَ فِيهَا وَلَا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَا فَهْمَ فِيهِ وَلَا خَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَا تَدَبُّرَ فِيهَا
حضرت علی بن ابوطالب (رض) ارشاد فرماتے ہیں حقیقی معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور انھیں اللہ کے آداب سے بےنیاز نہ کردے اور انھیں اللہ کی نافرمانی کی رخصت نہ دے بیشک ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں علم نہ ہو اور ایسے علم میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرأت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں غور و فکر نہ ہو۔

301

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنِي عَمِّي جَرِيرُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ تُبَيْعًا يُحَدِّثُ عَنْ كَعْبٍ قَالَ إِنِّي لَأَجِدُ نَعْتَ قَوْمٍ يَتَعَلَّمُونَ لِغَيْرِ الْعَمَلِ وَيَتَفَقَّهُونَ لِغَيْرِ الْعِبَادَةِ وَيَطْلُبُونَ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ وَيَلْبَسُونَ جُلُودَ الضَّأْنِ وَقُلُوبُهُمْ أَمَرُّ مِنْ الصَّبْرِ فَبِي يَغْتَرُّونَ أَوْ إِيَّايَ يُخَادِعُونَ فَحَلَفْتُ بِي لَأُتِيحَنَّ لَهُمْ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ
کعب بیان کرتے ہیں میں نے اس قوم کی حالت ان الفاظ میں پائی ہے (ارشاد باری تعالیٰ ہے) جو عمل کے بجائے ویسے ہی علم حاصل کرتے ہیں اور عبادت کرنے کی بجائے دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں وہ آخرت سے متعلق عمل کے ذریعے دنیا طلب کرنا چاہتے ہیں اور وہ اونٹ کی کھال کے لباس پہنیں گے ان کے دل کڑوی چیز سے زیادہ کڑوے ہوں گے تو کیا وہ مجھے دھوکا دیں گے یا میرے ساتھ فریب کریں گے میں یہ قسم اٹھاتاہیوں کہ میں ان لوگوں کو ایسے فتنے میں مبتلا کروں گا جس میں بردبار شخص بھی حیران رہ جاتا ہے۔

302

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ هَرِمِ بْنِ حَيَّانَ أَنَّهُ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْعَالِمَ الْفَاسِقَ فَبَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ وَأَشْفَقَ مِنْهَا مَا الْعَالِمُ الْفَاسِقُ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ هَرِمٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهِ إِلَّا الْخَيْرَ يَكُونُ إِمَامٌ يَتَكَلَّمُ بِالْعِلْمِ وَيَعْمَلُ بِالْفِسْقِ فَيُشَبِّهُ عَلَى النَّاسِ فَيَضِلُّوا
ہرم بن حیان بیان کرتے ہیں فاسق عالم سے بچو اس بات کی اطلاع حضرت عمر بن خطاب کو ملی تو حضرت عمر نے انھیں خط میں لکھا فاسق عالم سے مراد کیا ہے ہرم اس بات سے خوفزدہ ہوگئے ہرم نے انھیں جواب میں لکھا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم میری مراد صرف نیکی ہی تھی بعض اوقات کوئی ایساحکمران ہوتا ہے جو اپنے علم کے مطابق بات تو کرتا ہے لیکن اس کا عمل گناہ پر ہوتا ہے ایسا شخص لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کردیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔

303

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ إِسْمَعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْمُهَاجِرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُكْرَمَ دِينُهُ فَلَا يَدْخُلْ عَلَى السُّلْطَانِ وَلَا يَخْلُوَنَّ بِالنِّسْوَانِ وَلَا يُخَاصِمَنَّ أَصْحَابَ الْأَهْوَاءِ
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے دین کی عزت افزائی کرنا چاہتا ہو وہ کسی حکمران کے پاس نہ جائے اور تنہائی میں عورتوں کے پاس موجود نہ ہو اور بد عقیدہ لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرے۔

304

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ قَالَ كَتَبَ إِلَيَّ مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ إِيَّاكَ وَالْخُصُومَةَ وَالْجِدَالَ فِي الدِّينِ لَا تُجَادِلَنَّ عَالِمًا وَلَا جَاهِلًا أَمَّا الْعَالِمُ فَإِنَّهُ يَخْزُنُ عَنْكَ عِلْمَهُ وَلَا يُبَالِي مَا صَنَعْتَ وَأَمَّا الْجَاهِلُ فَإِنَّهُ يُخَشِّنُ بِصَدْرِكَ وَلَا يُطِيعُكَ
یونس بیان کرتے ہیں میمون بن مہران نے مجھے خط لکھا دینی معاملات میں بحث و مباحثہ کرنے سے بچو کسی عالم یا جاہل کے ساتھ ہرگز بحث نہ کرو عالم کے ساتھ اس لیے کہ کیونکہ وہ اپنے علم کے زور پر تمہیں رسوائی کا شکار کردے گا اور اس چیز کی پروا نہیں کرے گا تم نے کیا کیا ہے اور جاہل کے ساتھ اس لیے وہ شخص تمہارے سینے کو غصے سے بھردے گا اور تمہاری فرمان برداری نہیں کرے گا۔

305

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام لِابْنِهِ دَعْ الْمِرَاءَ فَإِنَّ نَفْعَهُ قَلِيلٌ وَهُوَ يُهَيِّجُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَ الْإِخْوَانِ
یحییٰ بن ابوکثیر بیان کرتے ہیں حضرت سلیمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا بحث کو چھوڑ دو کیونکہ اس کا فائدہ کم ہوتا ہے اور یہ بھائیوں کے درمیان دشمنی کو رواج دیتی ہے۔

306

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ مَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَاتِ أَكْثَرَ التَّنَقُّلَ
حضرت عمر بن عبدالعزیز ارشاد فرماتے ہیں جو شخص اپنے دین کو بحث و مباحثہ کا نشانہ بنائے گا اس کی رائے تیزی سے تبدیل ہوتی چلی جائے گی۔

307

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ إِنَّهُ مَنْ تَعَبَّدَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ مَا يُفْسِدُ أَكْثَرَ مِمَّا يُصْلِحُ وَمَنْ عَدَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهِ قَلَّ كَلَامُهُ إِلَّا فِيمَا يَعْنِيهِ وَمَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَةِ كَثُرَ تَنَقُّلُهُ
سعید بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اہل مدینہ کو خط میں یہ لکھا جو شخص علم کے بغیر عبادت اختیار کرے وہ اصلاح کے مقابلے میں فساد زیادہ کرے گا اور جو شخص اپنے کلام کو اپنے عمل کا حصہ شمار کرے گا اس کا کلام کم ہوگا اور وہ صرف ضروری باتیں کرے اور جو شخص اپنے دین کو بحث و مباحثہ کا حصہ بنا لے اس کی رائے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوگی۔

308

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ شَيْءٍ مِنْ الْأَهْوَاءِ فَقَالَ عَلَيْكَ بِدِينِ الْأَعْرَابِيِّ وَالْغُلَامِ فِي الْكُتَّابِ وَالْهَ عَمَّا سِوَى ذَلِكَ قَالَ أَبُو مُحَمَّد كَثُرَ تَنَقُّلُهُ أَيْ يَنْتَقِلُ مِنْ رَأْيٍ إِلَى رَأْيٍ
حضرت عمر بن عبدالعزیز سے ایک شخص نے نفسانی خواہشات کی پیروی کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیاتم دیہاتی اور مدرسوں میں پڑھنے والے لڑکوں کی مانند اپنے دینی عقائد پر پختہ رہو اس کے علاوہ ہر چیز سے لاتعلق ہوجاؤ۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے ہیں روایت کے الفاظ میں بکثرت نقل ہونے سے مراد یہ ہے کہ کبھی اس کی رائے یہ ہوگی کبھی اس کی رائے دوسری ہوگی۔

309

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا يُنْتِجُونَ بِأَمْرٍ دُونَ عَامَّتِهِمْ فَهُمْ عَلَى تَأْسِيسِ الضَّلَالَةِ
حضرت عمر بن عبدالعزیز ارشاد فرماتے ہیں جب تم کسی قوم کو دیکھو کہ وہ عام مسلمانوں سے ہٹ کر کوئی نئی راہ اختیار کررہے ہیں تو وہ لوگ گمراہی کی بنیاد رکھ رہے ہوں گے ۔

310

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ قَالَ إِبْلِيسُ لِأَوْلِيَائِهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَأْتُونَ بَنِي آدَمَ فَقَالُوا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ قَالَ فَهَلْ تَأْتُونَهُمْ مِنْ قِبَلِ الِاسْتِغْفَارِ قَالُوا هَيْهَاتَ ذَاكَ شَيْءٌ قُرِنَ بِالتَّوْحِيدِ قَالَ لَأَبُثَّنَّ فِيهِمْ شَيْئًا لَا يَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ مِنْهُ قَالَ فَبَثَّ فِيهِمْ الْأَهْوَاءَ
امام اوزاعی ارشاد فرماتے ہیں ابلیس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم اولاد آدم کو کس چیز کے ذریعے لاتے ہو کیا تم انھیں استغفار کی طرف سے بھی لاتے ہو۔ انھوں نے جواب دیا کہاں ! یہ وہ چیز ہے جو توحید کے ساتھ ملی ہوتی ہے (ہم اس سے انھیں نہیں پھسلا سکتے) ابلیس نے کہا میں ان کے درمیان ایسی چیز پھیلانے لگاہوں جس کی وجہ سے وہ اللہ سے مغفرت طلب نہیں کریں۔ امام اوزعی فرماتے ہیں پھر شیطان نے ان کے درمیان نفسانی خواہشات کی پیروی کو پھیلا دیا۔

311

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الْمُحَارِبِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ مَا أَدْرِي أَيُّ النِّعْمَتَيْنِ عَلَيَّ أَعْظَمُ أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ أَوْ عَافَانِي مِنْ هَذِهِ الْأَهْوَاءِ
مجاہد بیان کرتے ہیں مجھے نہیں پتا کہ میرے لیے ان دونعمتوں میں کون سی زیادہ اہم ہے یہ کہ اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی یا یہ کہ اس نے مجھے نفسانی خواہشات کی پیروی سے محفوظ رکھا۔

312

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ عَنْ حَبَّةَ بْنِ جُوَيْنٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا أَوْ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ وَقَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ قُتِلَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ لَحَشَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ مَنْ يُرَى أَنَّهُ كَانَ عَلَى هُدًى
حبہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت علی (رض) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اگر کوئی شخص زندگی بھر روزہ رکھتا ہے اور زندگی بھر نفل پڑھتا ہے پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اسے قتل کردیا جائے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا حشر انہی لوگوں کے ساتھ کرے جنہیں وہ ہدایت یافتہ سمجھتا تھا۔

313

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ هَارُونَ هُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي صَادِقٍ قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لَوْ وَضَعَ رَجُلٌ رَأْسَهُ عَلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَصَامَ النَّهَارَ وَقَامَ اللَّيْلَ لَبَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ هَوَاهُ
ابوصادق بیان کرتے ہیں حضرت سلمان فارسی ارشاد فرماتے ہیں اگر کوئی شخص اپنا سر حجر اسود پر رکھے اور دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر نفل پڑھے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کی نفسانی خواہشات کے ہمراہ مبعوث کرے گا۔

314

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ هُوَ ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرَةَ عَنْ أَبِي صَادِقٍ الْأَزْدِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِذٍ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ كُونُوا فِي النَّاسِ كَالنَّحْلَةِ فِي الطَّيْرِ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ الطَّيْرِ شَيْءٌ إِلَّا وَهُوَ يَسْتَضْعِفُهَا وَلَوْ يَعْلَمُ الطَّيْرُ مَا فِي أَجْوَافِهَا مِنْ الْبَرَكَةِ لَمْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ بِهَا خَالِطُوا النَّاسَ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَأَجْسَادِكُمْ وَزَايِلُوهُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وَقُلُوبِكُمْ فَإِنَّ لِلْمَرْءِ مَا اكْتَسَبَ وَهُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ مَنْ أَحَبَّ
حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں لوگوں کے درمیان یوں رہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہوتی ہے ہر پرندہ اسے اپنے سے کم ترشمار کرتا ہے لیکن اگر پرندوں کو یہ پتا چل جائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں کتنی برکت موجود ہے تو وہ اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں تم اپنی زبان اور جسم کے ذریعے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھو لیکن اپنے اعمال اور اپنی قلبی کیفیات کے حوالے سے ان سے الگ رہو آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے جو اس نے کمایا اور وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔

315

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنِي بَقِيَّةُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ نِعْمَ وَزِيرُ الْعِلْمِ الرَّأْيُ الْحَسَنُ
زہری بیان کرتے ہیں علم کا بہترین وزیر اچھی رائے ہے۔

316

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ يَخْشَى اللَّهَ وَكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَنْ يُعْجَبَ بِعِلْمِهِ قَالَو قَالَ مَسْرُوقٌ الْمَرْءُ حَقِيقٌ أَنْ يَكُونَ لَهُ مَجَالِسُ يَخْلُو فِيهَا فَيَذْكُرُ ذُنُوبَهُ فَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى مِنْهَا
مسروق بیان کرتے ہیں آدمی کے عالم ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور آدمی کے جاہل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے علم کے حوالے سے خود پسندی کا شکار ہو۔ مسروق ارشاد فرماتے ہیں درحقیقت آدمی کے لیے کچھ محافل ایسی بھی ہونی چاہیے جس میں وہ تنہا بیٹھ کر اپنے گناہوں کو یاد کرے اور ان گناہوں سے اللہ سے مغفرت طلب کرے۔

317

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنِي مَعْنٌ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ إِذَا حَدَّثْنَاكُمْ بِالْحَدِيثِ عَلَى مَعْنَاهُ فَحَسْبُكُمْ
حضرت واثلہ بن اسقع ارشاد فرماتے ہیں جب ہم معنوی طور پر تمہیں کوئی حدیث سنادیں تو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔

318

أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا حَدَّثَ لَمْ يُقَدِّمْ وَلَمْ يُؤَخِّرْ وَكَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ قَدَّمَ وَأَخَّرَ
ابن سیرین کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو الفاظ آگے پیچھے نہیں کرتے تھے جبکہ حسن جب کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو وہ الفاظ آگے پیچھے کردیا کرتے تھے۔

319

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ كَانَ الْحَسَنُ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الْأَصْلُ وَاحِدٌ وَالْكَلَامُ مُخْتَلِفٌ
جریر بن حازم بیان کرتے ہیں حضرت حسن بصری جب حدیث بیان کرتے تھے تو اس کا مضمون ایک ہوتا تھا لیکن الفاظ مختلف ہوتے تھے۔

320

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ الشَّاةِ بَيْنَ الرَّبِيضَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لَا إِنَّمَا قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزِدْ فِيهِ وَلَمْ يُنْقِصْ مِنْهُ وَلَمْ يُجَاوِزْهُ وَلَمْ يُقَصِّرْ عَنْهُ
امام محمد باقر بیان کرتے ہیں عبید بن عمیر نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے یہ حدیث پڑھی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا منافق شخص کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو تھنوں کے درمیان ہو (یا شاید دو ریوڑوں کے درمیان ہو) تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا نہیں بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات اس طرح ارشاد فرمائی ہے امام محمد فرماتے ہیں حضرت ابن عمر (رض) نے جو بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی وہ اس میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی نہیں کرتے تھے نہ وہ اس سے آگے بڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے کچھ کم کرتے تھے۔

321

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ كَانَ الشَّعْبِيُّ وَالنَّخَعِيُّ وَالْحَسَنُ يُحَدِّثُونَ بِالْحَدِيثِ مَرَّةً هَكَذَا وَمَرَّةً هَكَذَا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُمْ لَوْ حَدَّثُوا بِهِ كَمَا سَمِعُوهُ كَانَ خَيْرًا لَهُمْ
ابن عون بیان کرتے ہیں شعبی، نخعی اور حسن جب کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو کبھی ان الفاظ میں بیان کردیتے تھے اور کبھی دوسرے الفاظ میں بیان کردیتے تھے میں نے اس بات کا تذکرہ امام محمد بن سیرین سے کیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا اگر یہ حضرات اسی طرح حدیث بیان کریں جیسے انھوں نے سنی ہے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔

322

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا عَثَّامٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ قَالَ إِنِّي لَأَسْمَعُ الْحَدِيثَ لَحْنًا فَأَلْحَنُ اتِّبَاعًا لِمَا سَمِعْتُ
ابومعمر ارشاد فرماتے ہیں اگر میں نے حدیث سنتے ہوئے کوئی اعرابی غلطی سنی ہو تو میں سنے ہوئے کی پیروی کرتے ہوئے اسی غلطی کو آگے بیان کردیتا ہوں۔

323

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ قَالَ رَأَى مُجَاهِدٌ طَاوُسًا فِي الْمَنَامِ كَأَنَّهُ فِي الْكَعْبَةِ يُصَلِّي مُتَقَنِّعًا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ اكْشِفْ قِنَاعَكَ وَأَظْهِرْ قِرَاءَتَكَ قَالَ فَكَأَنَّهُ عَبَّرَهُ عَلَى الْعِلْمِ فَانْبَسَطَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْحَدِيثِ
ابراہیم بن میسرہ ارشاد فرماتے ہیں مجاہد نے طاؤس کو خواب میں دیکھا وہ کعبہ کے اندر سر پر کپڑا لپیٹ کر نماز پڑھ رہے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبے کے دروازے پر کھڑے ہوئے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجاہد (رض) سے کہا اے اللہ کے بندے اپنا کپڑا اتاردو اور اپنی قرأت کو ظاہر کرو۔

324

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ يَمَانٍ عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ كَعْبٍ قَالَ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا مُتَعَلِّمَ خَيْرٍ أَوْ مُعَلِّمَهُ
کعب ارشاد فرماتے ہیں دنیا ملعون ہے اور اس میں موجود ہر چیز ملعون ہے سوائے بھلائی کا علم حاصل کرنے والے شخص کے اور بھلائی کی تعلیم دینے والے شخص کے۔ (یہ دونوں ملعون نہیں ہیں)

325

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ النَّاسُ عَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ هَمَجٌ لَا خَيْرَ فِيهِ
خالد بن معدان ارشاد فرماتے ہیں انسان یا تو عالم ہوگا یا طالب علم ہوگا اس کے درمیان بربادی ہے جس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

326

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ كَانُوا يَقُولُونَ مَوْتُ الْعَالِمِ ثُلْمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ مَا اخْتَلَفَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے عالم کی موت سے اسلام میں ایساسوراخ آجاتا ہے جسے کوئی چیز بھر نہیں سکتی اس وقت جب تک دن رات کا اختلاف باقی ہے (یعنی قیامت کے دن تک کوئی چیز نہیں بھرسکتی)

327

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا مُنْذِرٌ هُوَ ابْنُ النُّعْمَانِ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ مَجْلِسٌ يُتَنَازَعُ فِيهِ الْعِلْمُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ قَدْرِهِ صَلَاةً لَعَلَّ أَحَدَهُمْ يَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيَنْتَفِعُ بِهَا سَنَةً أَوْ مَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِهِ
وہب بن منبہ ارشاد فرماتے ہیں جس محفل میں علم کے بارے میں بحث ہو رہی ہو وہ میرے نزدیک اتنی ہی اوقات کے برابر نماز نفل اد کرنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کوئی شخص اس میں ایسی بات سن لے جس کے ذریعے وہ سال بھر تک یا اپنی پوری زندگی نفع حاصل کرتا رہے۔

328

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ قَالَ قَالَ سُفْيَانُ مَا أَعْلَمُ عَمَلًا أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ وَحِفْظِهِ لِمَنْ أَرَادَ اللَّهَ بِهِ قَالَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ إِنَّ النَّاسَ لَيَحْتَاجُونَ إِلَى هَذَا الْعِلْمِ فِي دِينِهِمْ كَمَا يَحْتَاجُونَ إِلَى الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ فِي دُنْيَاهُمْ
سفیان بیان کرتے ہیں علم کی طلب اور اسے یاد رکھنے سے زیادہ میرے نزدیک کوئی دوسرا عمل افضل نہیں ہے اور یہ اس کے لیے ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے۔ حسن بن صالح بیان کرتے ہیں لوگ اپنے دینی معاملات میں علم کے اسی طرح محتاج ہیں جیسے اپنی دنیا میں کھانے پینے کے محتاج ہیں۔

329

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَا حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ قَالَ قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ تَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ الْعِلْمُ فَإِنَّ قَبْضَ الْعِلْمِ قَبْضُ الْعُلَمَاءِ وَإِنَّ الْعَالِمَ وَالْمُتَعَلِّمَ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ
حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں علم کے اٹھالیے جانے سے پہلے اسے حاصل کرو کیونکہ علماء کے اٹھا لیے جانے کے ذریعے علم کو اٹھالیا جائے گا اور علم حاصل کرنے والا شخص اور عالم برابر حثییت رکھتے ہیں۔

330

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ عَنْ الضَّحَّاكِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ قَالَ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَنْ يَكُونَ فَقِيهًا
ضحاک نے یہ آیت تلاوت کی " لیکن تم ربانی بن جاؤ اس چیز کے مطابق جو تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو۔ پھر ضحاک نے کہا ہر وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہو وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اسے فقیہ قرار دیا جائے۔

331

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ الْحَسَنِ لَوْلَا يَنْهَاهُمْ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ قَالَ الْحُكَمَاءُ الْعُلَمَاءُ
ارشاد باری تعالیٰ ہے " اگر ان کے ربانی اور احبار انھیں اس سے منع نہ کرتے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد ان کے دانا اور علماء ہیں۔

332

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ قَالَ عُلَمَاءُ فُقَهَاءُ
ارشاد باری عالی ہے تم ربانی بن جاؤ۔ سعد بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔

333

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ يُرَادُ لِلْعِلْمِ الْحِفْظُ وَالْعَمَلُ وَالِاسْتِمَاعُ وَالْإِنْصَاتُ وَالنَّشْرُ
سفیان بن عیینہ ارشاد فرماتے ہیں علم کے لیے یاد داشت عمل، غور سے سننا، خاموش رہنا اور پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

334

قَالَ و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ أَجْهَلُ النَّاسِ مَنْ تَرَكَ مَا يَعْلَمُ وَأَعْلَمُ النَّاسِ مَنْ عَمِلَ بِمَا يَعْلَمُ وَأَفْضَلُ النَّاسِ أَخْشَعَهُمْ لِلَّهِ
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں سب سے بڑا جاہل وہ شخص ہے جو اس چیز کو ترک کردے جس کا اسے علم ہو اور سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو اس چیز پر عمل کرے جس کا اسے علم ہو اور لوگوں میں سب سے زیادہ افضل وہ شخص ہے جو اللہ سب سے زیادہ ڈرتا ہو۔

335

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ سَيَّارٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ مَنْهُومٌ فِي الْعِلْمِ لَا يَشْبَعُ مِنْهُ وَمَنْهُومٌ فِي الدُّنْيَا لَا يَشْبَعُ مِنْهَا فَمَنْ تَكُنِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ وَبَثَّهُ وَسَدَمَهُ يَكْفِي اللَّهُ ضَيْعَتَهُ وَيَجْعَلُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَمَنْ تَكُنِ الدُّنْيَا هَمَّهُ وَبَثَّهُ وَسَدَمَهُ يُفْشِي اللَّهُ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ وَيَجْعَلُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ لَا يُصْبِحُ إِلَّا فَقِيرًا وَلَا يُمْسِي إِلَّا فَقِيرًا
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں دو طرح کے حریص کبھی بھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا حریص وہ علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا اور دوسرا دنیا کا حریص کبھی سیر نہیں ہوتا جس شخص کا ارادہ طلب اور منظور نظر آخرت ہو اللہ اس کے معاملات پورے کردیتا ہے اور اس کے دل کو بےنیاز کردیتا ہے اور جس شخص کی طلب خواہش اور منظور نظر دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو پھیلا دیتا ہے اس کی غربت کو اس کے آگے کردیتا ہے اور پھر وہ شخص صبح بھی فقیر ہوتا ہے اور شام کو بھی فقیر ہوتا ہے۔ (یعنی ہر حال میں غریب رہتا ہے) ۔

336

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ عَنْ عَوْنٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ صَاحِبُ الْعِلْمِ وَصَاحِبُ الدُّنْيَا وَلَا يَسْتَوِيَانِ أَمَّا صَاحِبُ الْعِلْمِ فَيَزْدَادُ رِضًا لِلرَّحْمَنِ وَأَمَّا صَاحِبُ الدُّنْيَا فَيَتَمَادَى فِي الطُّغْيَانِ ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى قَالَ وَقَالَ الْآخَرُ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں دو طرح کے حریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طلب گار اور دوسرادنیاکاطلب گار یہ دونوں برابر نہیں ہوتے کیونکہ علم کا طلب گار اللہ کی رضامندی میں اضافہ کرتا ہے اور دنیا کا طلب گار سرکشی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے پھر حضرت عبداللہ نے یہ آیت تلاوت کی بیشک اللہ کے بندوں میں سے علماء اللہ سے ڈرتے ہیں۔

337

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ الْأَزْهَرِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ قَالَ مَنْ خَشِيَ اللَّهَ فَهُوَ عَالِمٌ٫
حضرت ابن عباس (رض) قرآن کی اس آیت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، بیشک اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے علماء ڈرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں جو شخص اللہ سے ڈرتا ہو وہ عالم ہے۔

338

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وَطَالِبُ دُنْيَا
حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں دو طرح کے حریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طلب گار اور دوسرا دنیا کا طلب گار۔

339

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رَبِيعَةَ الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ فَأَدْرَكَهُ كَانَ لَهُ كِفْلَانِ مِنْ الْأَجْرِ فَإِنْ لَمْ يُدْرِكْهُ كَانَ لَهُ كِفْلٌ مِنْ الْأَجْرِ
حضرت واثلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص علم کی طلب میں نکلے اور اسے پالے اسے اجر کے دو ب رتن ملیں گے جو شخص اسے نہ پائے اسے اجر کا ایک برتن ملے گا۔

340

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَوْفٍ عَنْ عَبَّاسٍ الْعَمِّيِّ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ دَاوُدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي تَعَالَيْتَ فَوْقَ عَرْشِكَ وَجَعَلْتَ خَشْيَتَكَ عَلَى مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فَأَقْرَبُ خَلْقِكَ مِنْكَ مَنْزِلَةً أَشَدُّهُمْ لَكَ خَشْيَةً وَمَا عِلْمُ مَنْ لَمْ يَخْشَكَ وَمَا حِكْمَةُ مَنْ لَمْ يُطِعْ أَمْرَكَ
حضرت عباس عمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ پتا چلا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد اپنی دعا میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ تو پاک ہے تو میرا پروردگار ہے تو عرش کے اوپر بزرگ و برتر ہے آسمانوں اور زمین کے اندر موجود ہر چیز میں تو نے اپنی خشیت رکھ دی ہے تیری مخلوق میں سے قدرومنزلت کے اعتبار سے تیرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو تجھ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہو جو شخص تجھ سے نہیں ڈرتا اسے کوئی بھی علم نہیں ہے اور جو تیرے حکم کی پیروی نہیں کرتا اس میں کوئی دانائی نہیں ہے۔

341

أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا سَلَّامٌ هُوَ ابْنُ أَبِي مُطِيعٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْهَزْهَازِ يُحَدِّثُ عَنْ الضَّحَّاكِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا وَلَا خَيْرَ فِيمَا سِوَاهُمَا
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں یا عالم بنو یا طالب علم بنو ان دونوں کے علاوہ کسی بھی حالت میں بھلائی نہیں ہے۔

342

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَتَكُونُ فِتَنٌ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا إِلَّا مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ
حضرت ابوامامہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں عنقریب ایسے فتنے آئیں گے جن میں صبح کے وقت آدمی مومن ہوگا اور شام کے وقت کافر ہوگا سوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے زندگی عطا کرے۔

343

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ رِيَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا وَلَا تَغْدُ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ فَإِنَّ مَا بَيْنَ ذَلِكَ جَاهِلٌ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَبْسُطُ أَجْنِحَتَهَا لِلرَّجُلِ غَدَا يَبْتَغِي الْعِلْمَ مِنْ الرِّضَا بِمَا يَصْنَعُ
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں یا عالم بنو یا طالب علم بنو اس کے علاوہ کسی اور حالت میں نہ رہو گے کیونکہ اس کی درمیانی حالت جاہل کی حالت ہے اور بیشک فرشتے اس شخص کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں جو علم کی تلاش میں جاتا ہے اور اس کے اس عمل سے راضی ہو کر فرشتے ایسا کرتے ہیں۔

344

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَحَدُهُمَا كَانَ عَالِمًا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ وَالْآخَرُ يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ هَذَا الْعَالِمِ الَّذِي يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ عَلَى الْعَابِدِ الَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ رَجُلًا
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو ایسے افراد کے بارے میں سوال کیا گیا جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا ان میں ایک شخص عالم تھا وہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتا اور لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا تھا جبکہ دوسرا شخص دن کے وقت روزہ رکھتا تھا اور رات کے وقت نوافل ادا کرتا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا ان دونوں میں سے کون سا شخص افضل ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا یہ عالم جو فرض نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے یہ اس کے عابد جو دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات کو نوافل ادا کرتا ہے اسی طرح فضیلت رکھتا ہے جیسے تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر فضیلت رکھتا ہوں۔

345

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا سُمَيْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُصُّ وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَذْكُرُ الْعِلْمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَمَيَّلْتُ إِلَى أَيِّهِمَا أَجْلِسُ فَنَعَسْتُ فَأَتَانِي آتٍ فَقَالَ مَيَّلْتَ إِلَى أَيِّهِمَا تَجْلِسُ إِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ مَكَانَ جِبْرَائِيلَ مِنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
ابن سیرین بیان کرتے ہیں میں مسجد میں داخل ہوا وہاں سمیر بن عبدالرحمن وعظ کر رہے تھے جبکہ حمید بن عبدالرحمن مسجد کے ایک کونے میں علم کا درس دے رہے تھے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوگیا کہ میں ان دونوں میں سے کسی کی محفل میں بیٹھوں اسی دوران اونگھ آگئی اور میرے خواب میں آ کے کسی شخص نے کہا تم اس بارے میں الجھن کا شکار ہو کہ کس کی مجلس میں بیٹھوں۔ اگر تم چاہو تو میں حمید بن عبدالرحمن کی مجلس میں حضرت جبرائیل کے بیٹھنے کی جگہ تمہیں دکھا سکتا ہوں۔

346

أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي أَتَيْتُكَ مِنْ الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَمَا جَاءَ بِكَ تِجَارَةٌ قَالَ لَا قَالَ وَلَا جَاءَ بِكَ غَيْرُهُ قَالَ لَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظِّهِ أَوْ بِحَظٍّ وَافِرٍ
کثیر بن قیس فرماتے ہیں میں حضرت ابودرداء کے ساتھ مسجد دمشق میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور بولا اے حضرت ابودرداء میں مدینہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شہر ہے اور ایک حدیث کے سلسلے میں آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے پتا چلا ہے کہ وہ آپ حدیث نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں حضرت ابودرداء نے دریافت کیا کیا تم تجارت کی غرض سے یہاں آئے ہو۔ اس نے جواب دیا نہیں حضرت ابودرداء نے دریافت کیا کیا اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے تحت آئے ہو اس نے جواب دیا نہیں حضرت ابودرداء میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص علم کے حصول کے لیے راستے پر چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص کے لیے جنت کے راستے آسان کردیتا ہے اور علم کے طلبگار سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اس کے لیے بچھا دیتے ہیں اور بیشک عالم شخص کو عبادت گزار آسمان اور زمین میں موجود ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں اور بیشک عالم کی فضیلت عبادت گزار پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو تمام ستاروں پر حاصل ہے۔ بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ بیشک انبیاء وراثت میں دینار یا درہم نہیں چھوڑتے وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں جو اس میں سے جتنا حاصل کرے وہ اپنا حصہ حاصل کرلیتا ہے۔ (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں) وہ بڑا حصہ حاصل کرلیتا ہے۔

347

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بھلائی کی تعلیم دینے والے شخص کے لیے ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں۔

348

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ رَجُلٍ يَسْلُكُ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ
حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص علم کی طلب کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان کردیتا ہے اور جس شخص کا عمل کمزور ہو اس کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا۔

349

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ يَعْقُوبَ هُوَ الْقُّمِّيُّ عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا سَلَكَ رَجُلٌ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ الْعِلْمَ إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَنْ يُبْطِئْ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ اس کی وجہ سے اس شخص کے لیے جنت کو آسان کردیتا ہے اور جس شخص کا علم اسے آہستہ کردے اس کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا۔

350

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ ابْنِ شَوْذَبٍ عَنْ مُطَرِّفٍ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ قَالَ هَلْ مِنْ طَالِبِ خَيْرٍ فَيُعَانَ عَلَيْهِو أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ عَنْ ضَمْرَةَ قَالَ طَالِبُ عِلْمٍ
ارشاد باری تعالیٰ ہے " اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی سمجھنے والا ہے۔
مطرف ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ کیا کوئی بھلائی کا طلب گار ہے تاکہ اس کی مدد کی جائے۔ ضمرہ ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد طالب علم ہے۔

351

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ هُوَ الْقُمِّيُّ عَنْ عَامِرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا رَأَى طَلَبَةَ الْعِلْمِ قَالَ مَرْحَبًا بِطَلَبَةِ الْعِلْمِ وَكَانَ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى بِكُمْ
عامر بن ابراہیم بیان کرتے ہیں حضرت ابودرداء جب علم کے طلب گاروں کو دیکھتے تو یہ فرماتے علم کے طلب گاروں کو خوش آمدید۔ وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے بارے میں نصیحت کی تھی۔

352

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوْ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا قَالَ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مسجد میں دو محافل کے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا دونوں نیکی کا کام کررہے ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت رکھتی ہے۔ یہ لوگ جو اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں اس کی بارگاہ میں متوجہ ہیں اگر اللہ نے چاہا تو انھیں عطا کردے اور اگر چاہے تو عطا نہ کرے اور یہ لوگ جو دین کا علم حاصل کررہے ہیں اور ناواقف لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں یہ افضل ہیں کیونکہ مجھے بھی تعلیم دینے والا بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان حضرات میں تشریف فرما ہوگئے۔

353

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ أَنَّهُ قَالَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ إِنَّ الْعِلْمَ خَيْرٌ مِنْ الْعَمَلِ
مطرف بن عبداللہ نے اپنے صاحبزادے سے یہ کہا اے میرے بیٹے بیشک علم عمل سے بہتر ہے۔

354

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يَقُولُ لَيْسَ هَدِيَّةٌ أَفْضَلَ مِنْ كَلِمَةِ حِكْمَةٍ تُهْدِيهَا لِأَخِيكَ
ابوعبدالرحمن ارشاد فرماتے ہیں تم تحفے کے طور پر اپنے بھائی کو جو حکمت آمیز کلمہ سناؤ اس سے بہترین تحفہ اور کوئی نہیں ہے۔

355

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْمُجْتَهِدِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ حُضْرُ الْفَرَسِ الْمُضَمَّرِ السَّرِيعِ
زہری ارشاد فرماتے ہیں عالم شخص کی عبادت گزار شخص پر ایک سو گنا فضیلت ہے جن میں ہر دو درجوں کے درمیان تیز رفتار سدھائے ہوئے گھوڑے کے پانچ سو برس کی مسافت کا فاصلہ ہے۔

356

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي السَّكَنُ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ قَالَ يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا بِدَرَجَاتٍ
ارشاد باری تعالیٰ ہے " تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم عطا کیا گیا اللہ ان کے درجات بلند کرے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں جو لوگ ایمان لائے ان کے مقابلے میں اللہ ان لوگوں کے درجات زیادہ بلند کرے گا جنہیں علم عطا کیا گیا۔

357

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَمْرِو بْنِ كَثِيرٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِيَ بِهِ الْإِسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّينَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ
حضرت حسن بصری روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس شخص کو اس حال میں موت آجائے کہ وہ علم کی طلب میں ہو تاکہ اس کے ذریعے اسلام کو زندہ کردے تو اس کے درمیان انبیاء کے درمیان جنت میں ایک درجہ ہوگا۔

358

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مِهْرَانُ حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ ذَهَبَ عُمَرُ بِثُلُثَيْ الْعِلْمِ فَذَكَرْتُ لِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ ذَهَبَ عُمَرُ بِتِسْعَةِ أَعْشَارِ الْعِلْمِ
عمرو بن میمون ارشاد فرماتے ہیں حضرت عمر دنیا سے رخصت ہوجانے پر دو تہائی علم اپنے ساتھ لے گئے۔ اس بات کا تذکرہ ابراہیم نخعی سے کیا گیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا حضرت عمر علم کے دس حصوں میں سے نو اپنے ساتھ لے گئے۔

359

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ هَارُونَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتَذَاكَرُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا أَظَلَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي بِهِ الْعِلْمَ سَهَّلَ اللَّهُ طَرِيقَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ
حضرت ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں جب کوئی قوم اللہ کے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب کی درس و تدریس کرتی ہے تو فرشتے اپنے پروں کے ذریعے ان پر سایہ کردیتے ہیں اور اس وقت تک رکھتے ہیں جب تک وہ کسی دوسری بات میں مشغول نہیں ہوجاتے۔ اور جو شخص علم کے حصول کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کے راستے آسان کردیتا ہے اور جس شخص کا عمل کمزور ہو اس شخص کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا۔

360

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ غَدَوْتُ عَلَى صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ قُلْتُ ابْتِغَاءُ الْعِلْمِ قَالَ أَلَا أُبَشِّرُكَ قُلْتُ بَلَى فَقَالَ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ
حضرت ذر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں صبح کے وقت حضرت صفوان بن عسال مرادی کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرا یہ ارادہ تھا کہ میں ان سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں دریافت کروں۔ انھوں نے دریافت کیا تم کیوں آئے ہو۔ میں نے عرض کیا علم کی تلاش میں انھوں نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں کوئی خوش خبری سناؤں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ انھوں نے فرمایا اور اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کے طور پر بیان کیا آپ نے ارشاد فرمایا طالب علم کی طلب سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اس کے لیے بچھا دیتے ہیں۔

361

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ مَا كَانَ طَلَبُ الْحَدِيثِ أَفْضَلَ مِنْهُ الْيَوْمَ قَالُوا لِسُفْيَانَ إِنَّهُمْ يَطْلُبُونَهُ بِغَيْرِ نِيَّةٍ قَالَ طَلَبُهُمْ إِيَّاهُ نِيَّةٌ
یحییٰ بن یمان ارشاد فرماتے ہیں میں چالیس برس سے سفیان کو یہ کہتے ہوئے سن رہا ہوں کہ علم حدیث طلب کرنا جتنا اب افضل ہے اتناپہلے نہیں تھا۔ لوگوں نے سفیان سے دریافت کیا لوگ کسی نیت کے بغیر اس علم کو حاصل کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا ان کا علم کو حاصل کرنا ہی نیت ہے۔

362

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ طَلَبْنَا هَذَا الْعِلْمَ وَمَا لَنَا فِيهِ كَبِيرُ نِيَّةٍ ثُمَّ رَزَقَ اللَّهُ بَعْدُ فِيهِ النِّيَّةَ
مجاہد ارشاد فرماتے ہیں ہم نے اس علم کو حاصل کیا اور ہماری نیتیں اس کے بارے میں کوئی بڑی نہیں تھیں اس کے بعد اللہ نے اس کے بارے میں ہمیں نیت عطا کی۔

363

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ لَقَدْ طَلَبَ أَقْوَامٌ الْعِلْمَ مَا أَرَادُوا بِهِ اللَّهَ وَلَا مَا عِنْدَهُ قَالَ فَمَا زَالَ بِهِمْ الْعِلْمُ حَتَّى أَرَادُوا بِهِ اللَّهَ وَمَا عِنْدَهُ
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں کچھ لوگ علم حاصل کرتے ہیں اور ان کا ارادہ اللہ کی رضا یا اس کے پاس موجود اجر وثواب نہیں ہوتا پھر وہ لوگ علم کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی نیت اللہ کی رضا اور اس کے پاس موجود اجر وثواب ہوجاتی ہے۔

364

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ الْعُلَمَاءُ ثَلَاثَةٌ فَرَجُلٌ عَاشَ فِي عِلْمِهِ وَعَاشَ مَعَهُ النَّاسُ فِيهِ وَرَجُلٌ عَاشَ فِي عِلْمِهِ وَلَمْ يَعِشْ مَعَهُ فِيهِ أَحَدٌ وَرَجُلٌ عَاشَ النَّاسُ فِي عِلْمِهِ وَكَانَ وَبَالًا عَلَيْهِ
ابومسلم خولانی ارشاد فرماتے ہیں علماء تین طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ شخص جو اپنے علم میں زندگی بسر کرے اور اس کے ساتھ لوگ بھی اس میں زندگی بسر کریں اور اس کا وبال اس شخص پر ہوگا۔

365

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ قَالَ مُوسَى يَا رَبِّ أَيُّ عِبَادِكَ أَحْكَمُ قَالَ الَّذِي يَحْكُمُ لِلنَّاسِ كَمَا يَحْكُمُ لِنَفْسِهِ قَالَ يَا رَبِّ أَيُّ عِبَادِكَ أَغْنَى قَالَ أَرْضَاهُمْ بِمَا قَسَمْتُ لَهُ قَالَ يَا رَبِّ أَيُّ عِبَادِكَ أَخْشَى لَكَ قَالَ أَعْلَمُهُمْ بِي
عطاء بیان کرتے ہیں حضرت موسیٰ نے عرض کی اے میرے پروردگار تیرا کون سا بندہ سب سے بہتر فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا جو لوگوں کے لیے وہی فیصلہ کرتا ہے جو اپنے لیے فیصلہ کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے دریافت کیا اے میرے پروردگار تیرا کون سا بندہ سب سے زیادہ غنی ہے اللہ نے جواب دیا میں نے اس کو عطاء کیا ہے وہ سب سے زیادہ اس سے راضی ہو حضرت موسیٰ نے دریافت کیا اے میرے اللہ تیرا کون سابندہ تجھ سے زیادہ ڈرتا ہے تو اللہ نے جواب دیا جو میرے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

366

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ كَانَ يُقَالُ الْعُلَمَاءُ ثَلَاثَةٌ عَالِمٌ بِاللَّهِ يَخْشَى اللَّهَ لَيْسَ بِعَالِمٍ بِأَمْرِ اللَّهِ وَعَالِمٌ بِاللَّهِ عَالِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ يَخْشَى اللَّهَ فَذَاكَ الْعَالِمُ الْكَامِلُ وَعَالِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ لَيْسَ بِعَالِمٍ بِاللَّهِ لَا يَخْشَى اللَّهَ فَذَلِكَ الْعَالِمُ الْفَاجِرُ
سفیان بیان کرتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ علماء تین قسم کے ہیں وہ جو اللہ کا علم رکھتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں لیکن اللہ کے حکم کا علم نہیں رکھتے ہوں اور وہ جو اللہ کا علم رکھتے ہوں اور اللہ کے حکم کا بھی علم رکھتے ہیوں اور اللہ سے ڈرتے بھی ہوں۔ یہ کامل عالم ہیں اور وہ جو اللہ کے حکم کا علم رکھتے ہیں لیکن اللہ کا علم نہیں رکھتے وہ اللہ سے نہیں ڈرتے یہ گناہ گار عالم ہیں۔

367

أَخْبَرَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَلِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَلِكَ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ آدَمَ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ
حضرت حسن فرماتے ہیں علم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ علم جو دل میں ہو اور یہ نفع بخش علم ہے اور دوسرا وہ علم جو زبان پر ہو یہ آدمی کے خلاف اللہ کی حجت ہے۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے طور پر نقل کی ہے۔

368

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ تَعَلَّمُوا تَعَلَّمُوا فَإِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں علم حاصل کرو جب تم علم حاصل کرلو تو اس پر عمل کرو۔

369

أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَعِيلَ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبُ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ مَنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِأَرْبَعٍ دَخَلَ النَّارَ أَوْ نَحْوَ هَذِهِ الْكَلِمَةِ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ لِيَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَوْ لِيَأْخُذَ بِهِ مِنْ الْأُمَرَاءِ
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں جو شخص چار مقاصد کے لیے علم حاصل کرے گا وہ جہنم میں جائے گا یا اسی طرح کا کوئی کلمہ انھوں نے ارشاد فرمایا تاکہ اس علم کے ذریعے علماء کے سامنے فخر کا اظہار کرے تاکہ اس علم کے ذریعے جہلاء کے ساتھ بحث کرے یا اس علم کے ذریعے لوگوں کو توجہ اپنی طرف مبذول کرے یا اس علم کے ذریعے امراء کا قرب حاصل کرے۔

370

أَخْبَرَنَا سَعدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتَوَائِيِّ قَالَ قَرَأْتُ فِي كِتَابٍ بَلَغَنِي أَنَّهُ مِنْ كَلَامِ عِيسَى تَعْمَلُونَ لِلدُّنْيَا وَأَنْتُمْ تُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ عَمَلٍ وَلَا تَعْمَلُونَ لِلْآخِرَةِ وَأَنْتُمْ لَا تُرْزَقُونَ فِيهَا إِلَّا بِالْعَمَلِ وَإِنَّكُمْ عُلَمَاءَ السَّوْءِ الْأَجْرَ تَأْخُذُونَ وَالْعَمَلَ تُضَيِّعُونَ يُوشِكُ رَبُّ الْعَمَلِ أَنْ يَطْلُبَ عَمَلَهُ وَتُوشِكُونَ أَنْ تَخْرُجُوا مِنْ الدُّنْيَا الْعَرِيضَةِ إِلَى ظُلْمَةِ الْقَبْرِ وَضِيقِهِ اللَّهُ نَهَاكُمْ عَنْ الْخَطَايَا كَمَا أَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ سَخِطَ رِزْقَهُ وَاحْتَقَرَ مَنْزِلَتَهُ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ اتَّهَمَ اللَّهَ فِيمَا قَضَى لَهُ فَلَيْسَ يَرْضَى شَيْئًا أَصَابَهُ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ دُنْيَاهُ آثَرُ عِنْدَهُ مِنْ آخِرَتِهِ وَهُوَ فِي الدُّنْيَا أَفْضَلُ رَغْبَةً كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ مَصِيرُهُ إِلَى آخِرَتِهِ وَهُوَ مُقْبِلٌ عَلَى دُنْيَاهُ وَمَا يَضُرُّهُ أَشْهَى إِلَيْهِ أَوْ قَالَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِمَّا يَنْفَعُهُ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ يَطْلُبُ الْكَلَامَ لِيُخْبِرَ بِهِ وَلَا يَطْلُبُهُ لِيَعْمَلَ بِهِ
ہشام بن جو دستوائی کے ساتھی ہیں بیان کرتے ہیں میں نے اپنی کتاب میں یہ بات پڑھی ہے حضرت عیسیٰ کے فرامین میں یہ بات شامل ہے تم لوگ دنیا کے لیے عمل کرتے ہو حالانکہ تمہیں دنیا میں کسی عمل کے بغیر رزق دیا جاتا ہے۔ تم لوگ آخرت کے لیے عمل نہیں کرتے حالانکہ تمہیں آخرت میں عمل کے بغیر رزق نہیں ملے گا اے برے علماء تمہارے لیے بربادی ہے تم معاوضہ وصول کرلیتے ہو اور عمل کو ضائع کردیتے ہو عنقریب عمل کا پروردگار ان سے عمل کے بارے میں مطالبہ کرے گا اور عنقریب تم لوگ دنیا سے نکل کر قبر کی تاریکی اور تنگی میں چلے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں گناہوں سے منع کیا ہے جیسا کہ انھوں نے نماز اور روزوں کا حکم دیا ہے ایسا شخص کیسے عالم ہوسکتا ہے جو اپنے رزق سے ناراض ہو اور اپنی حثییت کو کم تر سمجھتا ہوں جبکہ وہ یہ بات جانتا ہو کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کے علم اور اس کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق ہیں۔ ایسا شخص کیسے عالم ہوسکتا ہے جو اللہ کے مقرر کردہ فیصلے پر الزام لگائے اور اس چیز سے راضی نہ ہو جو اسے نصیب ہوئی ہے۔ ایسا شخص کیسے عالم ہوسکتا ہے جس کے نزدیک دنیا آخرت کے مقابلے میں زیادہ قابل ترجیح ہو حالانکہ دنیا میں سب سے زیادہ توجہ آخرت کی طرف مبذول ہونی چاہیے۔ ایسا شخص کیسے عالم ہوسکتا ہے جس کا انجام آخرت ہو لیکن وہ دنیا کی طرف متوجہ ہو اور جس چیز کے مقابلے میں جو اسے نقصان دینے والی ہے اس کی اسے زیادہ خواہش ہو وہ اسے زیادہ محبوب ہو اس چیز کے مقابلے میں جو اسے نفع دے سکی ہے۔ ایسا شخص کیسے عالم ہوسکتا ہے جو علم اس لیے حاصل کرتا ہے لوگوں کو بتائے وہ اس لیے حاصل نہیں کرتا تاکہ اس پر عمل کرے۔

371

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا حَرِيزٌ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ كَانَ يُقَالُ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَانْتَفِعُوا بِهِ وَلَا تَعَلَّمُوهُ لِتَتَجَمَّلُوا بِهِ فَإِنَّهُ يُوشِكُ إِنْ طَالَ بِكُمْ عُمُرٌ أَنْ يَتَجَمَّلَ ذُو الْعِلْمِ بِعِلْمِهِ كَمَا يَتَجَمَّلُ ذُو الْبِزَّةِ بِبِزَّتِهِ
حبیب بن عبید ارشاد فرماتے ہیں یہ کہا جاتا ہے علم حاصل کرو اس سے نفع حاصل کرو اسے اس لیے حاصل نہ کرو تاکہ اس کے لیے آرائش و زبیائش اختیار کرو کیونکہ عنقریب تمہاری زندگی طویل ہوگی اور وہ وقت آئے گا جب اہل علم علم کے ذریعے اسی طرح آرائش و زیبائش اختیار کریں گے جیسے کوئی شخص اپنے لباس کے ذریعے آرائش کرتا ہے۔

372

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ الْأَحْوَصِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الشَّرِّ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ الشَّرِّ وَاسْأَلُونِي عَنْ الْخَيْرِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ خِيَارُ الْعُلَمَاءِ
احوص بن حکیم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے برائی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا مجھ سے برائی کے بارے میں سوال نہ کرو مجھ سے بھلائی کے بارے میں سوال کرو یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی اس کے بعد آپ نے فرمایا برے لوگوں میں سب سے زیادہ برے برے علماء ہیں اور بہتر لوگوں میں سب سے بہتر بہتر علماء ہیں۔

373

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا بِهِ حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ عَنْ عِيسَى قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ إِنَّمَا كَانَ يَطْلُبُ هَذَا الْعِلْمَ مَنْ اجْتَمَعَتْ فِيهِ خَصْلَتَانِ الْعَقْلُ وَالنُّسُكُ فَإِنْ كَانَ نَاسِكًا وَلَمْ يَكُنْ عَاقِلًا قَالَ هَذَا أَمْرٌ لَا يَنَالُهُ إِلَّا الْعُقَلَاءُ فَلَمْ يَطْلُبْهُ وَإِنْ كَانَ عَاقِلًا وَلَمْ يَكُنْ نَاسِكًا قَالَ هَذَا أَمْرٌ لَا يَنَالُهُ إِلَّا النُّسَّاكُ فَلَمْ يَطْلُبْهُ فَقَالَ الشَّعْبِيُّ وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ يَكُونَ يَطْلُبُهُ الْيَوْمَ مَنْ لَيْسَتْ فِيهِ وَاحِدَةٌ مِنْهُمَا لَا عَقْلٌ وَلَا نُسُكٌ
شعبی ارشاد فرماتے ہیں وہ شخص طلب کرے جس میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں عقلمندی اور عبادت گزاری۔ جو شخص عبادت گزار ہو اور عقل مند نہ ہو وہ یہ کہے گا یہ وہ کام ہے جسے عقل مند حاصل نہیں کرسکتے اس لیے وہ اسے طلب نہیں کرے گا اور اگر وہ شخص جو عقلمند ہو اور عبادت گزار نہ ہو تو یہ کہے گا کہ یہ وہ معاملہ ہے جسے عبادت گزار حاصل نہیں کرسکتے اس لیے وہ اس کی طلب بھی نہیں کرے گا۔ شعبی ارشاد فرماتے ہیں اب تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ آج کل وہ لوگ علم حاصل کرنا شروع نہ کرچکے ہوں جن میں ان دونوں میں سے کوئی بھی خصوصیات نہیں پائی جاتی نہ عقل پائی جاتی ہے اور نہ عبادت گزاری پائی جاتی ہے۔

374

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ زَعَمَ لِي سُفْيَانُ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ لَا يَطْلُبُ الْعِلْمَ حَتَّى يَتَعَبَّدَ قَبْلَ ذَلِكَ أَرْبَعِينَ سَنَةً
ابوعاصم بیان کرتے ہیں سفیان نے مجھ سے بات بیان کی کوئی بھی شخص اس وقت علم حاصل کرنا شروع نہ کرے جب تک اس سے پہلے چالیس برس تک عبادت نہ کرلے۔

375

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ وَلِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ
مکحول ارشاد فرماتے ہیں جو شخص علم اس لیے حاصل کرے تاکہ اس کے ذریعے بیوقوف لوگوں سے بحث کرے اور علماء کے سامنے فخر کرسکے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرسکے تو وہ شخص جہنم میں جائے گا۔

376

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ بِسْطَامَ عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يُرِيدُ أَنْ يُقْبِلَ بِوُجُوهِ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ جَهَنَّمَ
مکحول روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص علم اس لیے حاصل کرے تاکہ اس ذریعے علماء کے سامنے فخر کرسکے یا بیوقوف لوگوں کے ساتھ بحث کرسکے یا اس کا ارادہ یہ ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جہنم میں داخل کرے گا۔

377

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا يُحْفَظُ حَدِيثُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ
حضرت ابن مسعود ارشاد فرماتے ہیں آدمی کی اس بات کی نیت کے حساب سے یاد رکھی جاتی ہے۔

378

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ الرَّجُلَ يَنْسَى الْعِلْمَ كَانَ يَعْلَمُهُ لِلْخَطِيئَةِ كَانَ يَعْمَلُهَا
قاسم بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا میں یہ سمجھتا ہوں کہ آدمی علم اس وقت بھولتا ہے جب وہ کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔

379

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ لُقْمَانَ الْحَكِيمَ كَانَ يَقُولُ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لَا تَعَلَّمْ الْعِلْمَ لِتُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِتُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ تُرَائِيَ بِهِ فِي الْمَجَالِسِ وَلَا تَتْرُكْ الْعِلْمَ زُهْدًا فِيهِ وَرَغْبَةً فِي الْجَهَالَةِ يَا بُنَيَّ اخْتَرْ الْمَجَالِسَ عَلَى عَيْنِكَ وَإِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فَاجْلِسْ مَعَهُمْ فَإِنَّكَ إِنْ تَكُنْ عَالِمًا يَنْفَعْكَ عِلْمُكَ وَإِنْ تَكُنْ جَاهِلًا يُعَلِّمُوكَ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ بِرَحْمَتِهِ فَيُصِيبَكَ بِهَا مَعَهُمْ وَإِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فَلَا تَجْلِسْ مَعَهُمْ فَإِنَّكَ إِنْ تَكُنْ عَالِمًا لَا يَنْفَعْكَ عِلْمُكَ وَإِنْ تَكُنْ جَاهِلًا زَادُوكَ غَيًّا وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ بِعَذَابٍ فَيُصِيبَكَ مَعَهُمْ
حضرت شہر بن حوشب فرماتے ہیں مجھے یہ پتا چلا ہے کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے یہ کہا تھا اے میرے بیٹے علم اس لیے حاصل نہ کرنا تاکہ اس کے ذریعے علماء کے ساتھ مقابلہ کرسکو یا بیوقوف لوگوں کے ساتھ بحث کرسکو یا اس کے ذریعے محافل میں اپنا آپ دکھا سکو اور اس علم سے بےرغبت ہو کر جہالت کی طرف راغب ہوتے ہوئے علم کو چھوڑ نہ دینا۔ اے میرے بیٹے محافل کا جائزہ لیتے رہنا جب تم کسی ایسی قوم کو دیکھو جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ بیٹھ جانا کیونکہ اگر تم عالم ہوگے تو تمہارا علم تمہیں فائدہ دے گا اور اگر تم جاہل ہو گے تو وہ لوگ تمہیں تعلیم دیں گے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی رحمت ان لوگوں کی طرف متوجہ ہو اور اس میں سے کچھ حصہ تمہیں بھی نصیب ہوجائے۔ اسی طرح اگر تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ اللہ کا ذکر نہیں کر رہے تو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھنا کیونکہ اگر تم عالم ہوگے تو تمہارا علم تمہیں وہاں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اگر تم جاہل ہوگے تو وہ لوگ تمہاری جہالت میں مزید اضافہ کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ اللہ کا عذاب ان کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس کے ساتھ وہ تمہیں بھی پہنچ جائے۔

380

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا حَرِيزٌ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ سُمَيْرٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ لَا تُحَدِّثْ الْبَاطِلَ الْحُكَمَاءَ فَيَمْقُتُوكَ وَلَا تُحَدِّثْ الْحِكْمَةَ لِلسُّفَهَاءِ فَيُكَذِّبُوكَ وَلَا تَمْنَعْ الْعِلْمَ أَهْلَهُ فَتَأْثَمَ وَلَا تَضَعْهُ فِي غَيْرِ أَهْلِهِ فَتُجَهَّلَ إِنَّ عَلَيْكَ فِي عِلْمِكَ حَقًّا كَمَا أَنَّ عَلَيْكَ فِي مَالِكَ حَقًّا
کثیر بن مرہ ارشاد فرماتے ہیں باطل بات عقل مند لوگوں کے سامنے بیان مت کرنا ورنہ وہ تمہیں شرمندہ کردیں گے اور حکمت کی بات بیوقوف لوگوں کے سامنے بیان مت کرنا وہ تمہیں جھٹلا دیں گے اور جو شخص علم کا اہل ہو اس سے علم کو روکنا ورنہ تم گناہ گار ہوجاؤ گے اور نااہل شخص کے سپرد علم نہ کرنا ورنہ تمہیں جاہل قرار دیا جائے گا تمہارے علم کا تم پر حق ہے جیسے تمہارے مال کا تم پر حق ہے۔

381

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ أَنَّ أَبَا فَرْوَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَانَ يَقُولُ لَا تَمْنَعْ الْعِلْمَ مِنْ أَهْلِهِ فَتَأْثَمَ وَلَا تَنْشُرْهُ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ فَتُجَهَّلَ وَكُنْ طَبِيبًا رَفِيقًا يَضَعُ دَوَاءَهُ حَيْثُ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَنْفَعُ
ابوفروہ بیان کرتے ہیں حضرت عیسیٰ بن مریم ارشاد فرماتے ہیں علم کو اس کے اہل سے نہ روکو ورنہ تم گناہ گار ہوگے اور نااہل کے سامنے اسے نہ پھیلاؤ ورنہ تمہیں جاہل قرار دیا جائے گا تم ایسے مہربان طبیب بن جاؤ جو دوا کو وہیں رکھتا ہے جہاں اسے پتا ہو کہ وہ دوا فائدہ دے گی۔

382

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ عَنْ غَيْلَانَ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ لَا تُطْعِمْ طَعَامَكَ مَنْ لَا يَشْتَهِيهِ
مطرف بیان کرتے ہیں تم اپنا کھانا ایسے شخص کو نہ کھلاؤ جسے اس کی خواہش نہ ہو۔

383

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ سَمِعَ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ يَقُولُ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لَا تَعَلَّمْ الْعِلْمَ لِتُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ تُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ وَتُرَائِيَ بِهِ فِي الْمَجَالِسِ وَلَا تَتْرُكْ الْعِلْمَ زَهَادَةً فِيهِ وَرَغْبَةً فِي الْجَهَالَةِ وَإِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فَاجْلِسْ مَعَهُمْ إِنْ تَكُنْ عَالِمًا يَنْفَعْكَ عِلْمُكَ وَإِنْ تَكُنْ جَاهِلًا عَلَّمُوكَ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ بِرَحْمَتِهِ فَيُصِيبَكَ بِهَا مَعَهُمْ وَإِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فَلَا تَجْلِسْ مَعَهُمْ إِنْ تَكُنْ عَالِمًا لَمْ يَنْفَعْكَ عِلْمُكَ وَإِنْ تَكُنْ جَاهِلًا زَادُوكَ غَيًّا أَوْ عِيًّا وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ بِسَخَطٍ فَيُصِيبَكَ بِهِ مَعَهُمْ
حضرت شہر بن حوشب فرماتے ہیں مجھے یہ پتا چلا ہے کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے یہ کہا تھا اے میرے بیٹے علم اس لیے حاصل نہ کرنا تاکہ اس کے ذریعے علماء کے ساتھ مقابلہ کرسکو یا بیوقوف لوگوں کے ساتھ بحث کرسکو یا اس کے ذریعے محافل میں اپنا آپ دکھا سکو اور اس علم سے بےرغبت ہو کر جہالت کی طرف راغب ہوتے ہوئے علم کو چھوڑ نہ دینا۔ اے میرے بیٹے محافل کا جائزہ لیتے رہنا جب تم کسی ایسی قوم کو دیکھو جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ بیٹھ جانا کیونکہ اگر تم عالم ہوگے تو تمہارا علم تمہیں فائدہ دے گا اور اگر تم جاہل ہو گے تو وہ لوگ تمہیں تعلیم دیں گے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی رحمت ان لوگوں کی طرف متوجہ ہو اور اس میں سے کچھ حصہ تمہیں بھی نصیب ہوجائے۔ اسی طرح اگر تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ اللہ کا ذکر نہیں کر رہے تو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھنا کیونکہ اگر تم عالم ہوگے تو تمہارا علم تمہیں وہاں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اگر تم جاہل ہوگے تو وہ لوگ تمہاری جہالت میں مزید اضافہ کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ اللہ کا عذاب ان کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس کے ساتھ وہ تمہیں بھی پہنچ جائے۔

384

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ يَا حَمَلَةَ الْعِلْمِ اعْمَلُوا بِهِ فَإِنَّمَا الْعَالِمُ مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَوَافَقَ عِلْمُهُ عَمَلَهُ وَسَيَكُونُ أَقْوَامٌ يَحْمِلُونَ الْعِلْمَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يُخَالِفُ عَمَلُهُمْ عِلْمَهُمْ وَتُخَالِفُ سَرِيرَتُهُمْ عَلَانِيَتَهُمْ يَجْلِسُونَ حِلَقًا فَيُبَاهِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَغْضَبُ عَلَى جَلِيسِهِ أَنْ يَجْلِسَ إِلَى غَيْرِهِ وَيَدَعَهُ أُولَئِكَ لَا تَصْعَدُ أَعْمَالُهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ تِلْكَ إِلَى اللَّهِ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں اے علم حاصل کرنے والو اس پر عمل کرو کیونکہ جو عالم اپنے حاصل کئے ہوئے علم پر عمل کرتا ہے تو اس کا علم اس کے عمل کے مطابق ہوجاتا ہے۔ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو علم حاصل کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا۔ ان کا عمل ان کے علم کے مخالف ہوگا تم خفیہ اور اعلانیہ ہر حالت میں ان سے علیحدہ رہنا وہ دو حلقے بنا کر بیٹھیں گے جن میں سے وہ ایک دوسرے کے سامنے فخر کا اظہار کریں گے یہاں تک کہ ایک شخص اپنے ہم نشین سے اس بات پر ناراض ہوجائے گا اور اسے چھوڑ دے گا کہ وہ دوسرے شخص کے ساتھ جا کر کیوں بیٹھا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اس طرح کی محافل میں کئے گئے افعال اللہ کی بارگاہ میں نہیں پہنچیں گے۔

385

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ يَخْشَى اللَّهَ وَكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَنْ يُعْجَبَ بِعِلْمِهِ
مسروق بیان کرتے ہیں آدمی کے عالم ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہو اور آدمی کے جاہل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے علم پر غرور کرتا ہو۔

386

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُجَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ قَالَ لَوْ أَنَّ أَدْنَى هَذِهِ الْأُمَّةِ عِلْمًا أَخَذَتْ أُمَّةٌ مِنْ الْأُمَمِ بِعِلْمِهِ لَرَشَدَتْ تِلْكَ الْأُمَّةُ
معاویہ بن قرہ بیان کرتے ہیں اس امت میں جو سب سے کم تر علم ہے اگر دوسری امتوں میں سے کوئی امت اسے ہی حاصل کرلیتی تو وہ امت ہدایت پا جاتی۔

387

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيُصِيبُ الْبَابَ مِنْ الْعِلْمِ فَيَعْمَلُ بِهِ فَيَكُونُ خَيْرًا لَهُ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا لَوْ كَانَتْ لَهُ فَجَعَلَهَا فِي الْآخِرَةِ قَالَقَالَ الْحَسَنُ كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَبَ الْعِلْمَ لَمْ يَلْبَثْ أَنْ يُرَى ذَلِكَ فِي بَصَرِهِ وَتَخَشُّعِهِ وَلِسَانِهِ وَيَدِهِ وَصِلَتِهِ وَزُهْدِهِ قَالَ و قَالَ مُحَمَّدٌ انْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ هَذَا الْحَدِيثَ فَإِنَّمَا هُوَ دِينُكُمْ
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں ایک شخص علم کے دروازے تک پہنچنا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو یہ اس کے لیے دنیا اور اس میں موجود سب چیزوں سے زیادہ بہتر ہے کہ جو اسے مل جائے تو وہ انھیں آخرت کے لیے استعمال کرتا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں جو شخص علم حاصل کرنا شروع کرتا ہے اس کا اثر اس کی نگاہوں میں اس کی خشیت میں اس کی زبان میں اس کے ہاتھوں میں اس کی نماز میں اور اس کی پرہیزگاری میں نظر آتا ہے۔ امام محمد ارشاد فرماتے ہیں تم جس شخص سے حدیث حاصل کر رہے ہو اس کا جائزہ لے لیا کرو کیونکہ یہ حدیث تمہارے دین کے احکام کا ماخذ ہے۔

388

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ مَا ازْدَادَ عَبْدٌ عِلْمًا فَازْدَادَ فِي الدُّنْيَا رَغْبَةً إِلَّا ازْدَادَ مِنْ اللَّهِ بُعْدًا
سفیان ارشاد فرماتے ہیں جس بندے کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے دنیا کی طرف اس کی توجہ بھی زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماسوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالیٰ (دنیا سے) دور کردے۔

389

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَسَّانَ قَالَ مَا ازْدَادَ عَبْدٌ بِاللَّهِ عِلْمًا إِلَّا ازْدَادَ النَّاسُ مِنْهُ قُرْبًا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِوَقَالَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ مَا ازْدَادَ عَبْدٌ عِلْمًا إِلَّا ازْدَادَ قَصْدًا وَلَا قَلَّدَ اللَّهُ عَبْدًا قِلَادَةً خَيْرًا مِنْ سَكِينَةٍ
حضرت حسان ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے بارے میں بندے کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے اللہ کی رحمت کی وجہ سے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حسان بیان کرتے ہیں جس بندے کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس کی میانہ روی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو جو ہار پہناتا ہے اس میں سب سے بہتر سکینت ہے۔

390

أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَمِيرَةَ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ إِنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِهِ اذْهَبْ فَاطْلُبْ الْعِلْمَ فَخَرَجَ فَغَابَ عَنْهُ مَا غَابَ ثُمَّ جَاءَهُ فَحَدَّثَهُ بِأَحَادِيثَ فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ يَا بُنَيَّ اذْهَبْ فَاطْلُبْ الْعِلْمَ فَغَابَ عَنْهُ أَيْضًا زَمَانًا ثُمَّ جَاءَهُ بِقَرَاطِيسَ فِيهَا كُتُبٌ فَقَرَأَهَا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ هَذَا سَوَادٌ فِي بَيَاضٍ فَاذْهَبْ اطْلُبْ الْعِلْمَ فَخَرَجَ فَغَابَ عَنْهُ مَا غَابَ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ لِأَبِيهِ سَلْنِي عَمَّا بَدَا لَكَ فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّكَ مَرَرْتَ بِرَجُلٍ يَمْدَحُكَ وَمَرَرْتَ بِآخَرَ يَعِيبُكَ قَالَ إِذًا لَمْ أَلُمْ الَّذِي يَعِيبُنِي وَلَمْ أَحْمَدْ الَّذِي يَمْدَحُنِي قَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِصَفِيحَةٍ قَالَ أَبُو شُرَيْحٍ لَا أَدْرِي أَمِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ فَقَالَ إِذًا لَمْ أُهَيِّجْهَا وَلَمْ أَقْرَبْهَا فَقَالَ اذْهَبْ فَقَدْ عَلِمْتَ
عمیرہ بیان کرتے ہیں ایک شخص نے اپنے بیٹے سے کہا جاؤ اور علم حاصل کرو وہ بچہ گیا اور کافی عرصے تک غائب رہا پھر وہ آیا اس نے اپنے باپ کو کچھ احادیث سنائیں اس کے باپ نے اس سے کہا اے میرے بیٹے تم جاؤ اور علم حاصل کرو۔ وہ بچہ پھر کافی عرصے کے لیے چلا گیا پھر وہ کچھ کاپیاں لے کے آیا جن میں مختلف چیزیں تحریر تھیں اس نے وہ باپ کو پڑھ سنائیں تو اس کے باپ نے اس سے یہ کہا یہ سفیدی کے اوپر سیاہی کے ساتھ کچھ لکھا ہوا ہے تم جاؤ اور علم حاصل کرو۔ پھر وہ بچہ چلا گیا اور کافی عرصے تک غائب رہا پھر آیا اور اپنے ماں باپ سے کہا اب آپ مجھ سے جو چاہیں سوال کرسکتے ہیں اس کے والد نے اس سے کہا تمہارے خیال میں اگر تم کسی ایسے شخص کے پاس گزرو جو تمہاری تعریف کررہا ہو اور پھر تم کسی دوسرے ایسے شخص کے پاس سے گزرو جو تمہاری برائی کررہا ہو تو تمہاری کیفیت کیا ہوگی اس نے جواب جو شخص میری برائی بیان کررہا ہو اس سے مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا اور جو میری تعریف کررہا ہوگا میں اس کی کوئی تعریف نہیں کروں گا اس کے والد نے کہا اگر تم کسی ایسے برتن کے پاس سے گزرو (راوی کہتے ہیں مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ اصل الفاظ کیا تھے کہ وہ برتن سونے کا ہو یا چاندی کا ہو ؟ اس بیٹے نے جواب دیا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی اور میں اس کے قریب نہیں جاؤں گا تو والد نے کہا تم جاؤ اب تم علم حاصل کرچکے ہو۔

391

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ عَنْ السَّكَنِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ مُنَبِّهٍ يَقُولُ يَا بُنَيَّ عَلَيْكَ بِالْحِكْمَةِ فَإِنَّ الْخَيْرَ فِي الْحِكْمَةِ كُلَّهُ وَتُشَرِّفُ الصَّغِيرَ عَلَى الْكَبِيرِ وَالْعَبْدَ عَلَى الْحُرِّ وَتُزِيدُ السَّيِّدَ سُؤْدُدًا وَتُجْلِسُ الْفَقِيرَ مَجَالِسَ الْمُلُوكِ
وہب بن منبہ ارشاد فرماتے ہیں اے میرے بیٹے تم حکمت کو لازم کرو کیونکہ تمام بھلائی حکمت میں موجود ہے یہی حکمت چھوٹے کو بڑے سے ممتاز کرتی ہے۔ غلام کو آزاد شخص سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ سرداروں کی سرداری میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور غریب لوگوں کو بادشاہوں کا ہم نشین بنا دیتی ہے۔

392

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ أَخْبَرَنِي بَقِيَّةُ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ وَمَا نَحْنُ لَوْلَا كَلِمَاتُ الْعُلَمَاءِ
حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں اگر علماء کے اقوال نہ ہوتے توہم (ہدایت حاصل نہ کرسکتے) ۔

393

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْأَهْوَاءِ وَلَا تُجَادِلُوهُمْ فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَغْمِسُوكُمْ فِي ضَلَالَتِهِمْ أَوْ يَلْبِسُوا عَلَيْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ
ابو قلابہ ارشاد فرماتے ہیں بد مذہب لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور ان کے ساتھ بحث نا کرو کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ لوگ تمہیں بھی اپنی گمراہی میں شریک کرلیں گے یا تمہارے عقائد کے بارے میں تمہیں شب ہے کا شکار کردیں گے۔

394

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ رَآنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ جَلَسْتُ إِلَى طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ فَقَالَ لِي أَلَمْ أَرَكَ جَلَسْتَ إِلَى طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ لَا تُجَالِسَنَّهُ
ایوب بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ سعید بن جبیر نے مجھے طلق بن حبیب کے پاس بیٹھے دیکھا تو مجھ سے کہا میں نے تمہیں طلق بن حبیب کے پاس ہی بیٹھے دیکھا تھا ؟ آئندہ تم ہرگز اس کے ساتھ نہ بیٹھنا۔

395

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تَقْرَأْ عَلَيْهِ السَّلَامَ
حضرت ابن عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں ان کے پاس ایک شخص آیا تھا اور یہ بولا کہ فلاں شخص نے آپ کو سلام بھیجا ہے تو حضرت ابن عمر (رض) نے جواب دیا : مجھے یہ پتا چلا ہے کہ وہ شخص بدعتی ہے اگر وہ بدعتی ہے تو تم میری طرف سے اسے سلام نہ کہنا۔

396

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ لَا يَرَى غِيبَةً لِلْمُبْتَدِعِ
اعمش بیان کرتے ہیں ابراہیم نخعی کے نزدیک بدعتی شخص کی برائی بیان کرنا برائی نہیں ہے۔

397

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ إِنَّمَا سُمِّيَ الْهَوَى لِأَنَّهُ يَهْوِي بِصَاحِبِهِ
شعبی ارشاد فرماتے ہیں (نفسانی خواہشات کی پیروی کو) ہوی اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھی کو جھکا دیتی ہے۔

398

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ قَالَ كَانَ مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ يَقُولُ إِيَّاكُمْ وَالْمِرَاءَ فَإِنَّهَا سَاعَةُ جَهْلِ الْعَالِمِ وَبِهَا يَبْتَغِي الشَّيْطَانُ زَلَّتَهُ
محمد بن واسع بیان کرتے ہیں مسلم بن یسار فرمایا کرتے تھے بحث کرنے سے بچو کیونکہ یہ وہ گھڑی ہوتی ہے جس میں عالم شخص بھی جاہل بن جاتا ہے اور شیطان اسے پھسلانے کے لیے اسی موقع کی تلاش میں ہوتا ہے۔

399

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ دَخَلَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ عَلَى ابْنِ سِيرِينَ فَقَالَا يَا أَبَا بَكْرٍ نُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ قَالَ لَا قَالَا فَنَقْرَأُ عَلَيْكَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ قَالَ لَا لِتَقُومَانِ عَنِّي أَوْ لَأَقُومَنَّ قَالَ فَخَرَجَا فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَا أَبَا بَكْرٍ وَمَا كَانَ عَلَيْكَ أَنْ يَقْرَأَا عَلَيْكَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ قَالَ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْرَأَا عَلَيَّ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَيُحَرِّفَانِهَا فَيَقِرُّ ذَلِكَ فِي قَلْبِي
اسماء بن عبید بیان کرتے ہیں۔ دو بدمذہب شخص ابن سیرین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے اے ابوبکر (یہ ابن سیرین کا لقب ہے) ہم آپ کو ایک حدیث سناتے ہیں ابن سیرین نے جواب دیا : نہیں وہ دونوں بولے پھر ہم آپ کے سامنے اللہ کی کتاب کی کوئی آیت تلاوت کردیتے ہیں۔ ابن سیرین نے کہا نہیں تم دونوں اٹھ کر چلے جاؤ ورنہ میں اٹھ کر چلاجاؤں گا۔ راوی بیان کرتے ہیں وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے تو حاضرین میں سے کسی شخص نے کہا اے ابوبکر اگر وہ آپ کے سامنے قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیتے تو اس میں کیا حرج تھا تو ابن سیرین نے جواب دیا : مجھے یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ میرے سامنے کوئی آیت پڑھیں گے اور اس کی اپنی طرف سے کوئی تفسیر بیان کریں گے اور وہ میرے دل میں پختہ ہوجائے گی۔

400

أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ قَالَ لِأَيُّوبَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَسْأَلُكَ عَنْ كَلِمَةٍ قَالَ فَوَلَّى وَهُوَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ وَلَا نِصْفَ كَلِمَةٍ وَأَشَارَ لَنَا سَعِيدٌ بِخِنْصِرِهِ الْيُمْنَى
سلام بن ابومطیع ارشاد فرماتے ہیں۔ ایک بدعتی شخص نے ایوب سے کہا اے ابوبکر میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں تو ایوب نے اس سے منہ پھیرلیا اور انگلی کے ذریعے اشارہ کر کے کہا کہ میں آدھی بات بھی نہیں بتاؤں گا (امام دارمی فرماتے ہیں) سعید نامی راوی نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ذریعے باقاعدہ اشارہ کر کے یہ بات بتائی۔

401

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ عَنْ شَيْءٍ فَلَمْ يُجِبْهُ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَزِيشَانْ
کلثوم بن جبر بیان کرتے ہیں۔ ایک شخص نے سعید بن جبیر سے کوئی سوال کیا تو انھوں نے اسے جواب نہیں دیا اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا : یہ انہی (بد مذہب) لوگوں میں سے ایک ہے۔

402

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ لَا تُجَالِسُوا أَصْحَابَ الْخُصُومَاتِ فَإِنَّهُمْ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ
امام ابوجعفر محمد بن علی ارشاد فرماتے ہیں : بحث کرنے والوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو کیونکہ وہ اللہ کی آیات کے بارے میں (اپنی کم فہم کے مطابق غلط طریقے سے) بحث کرتے ہیں۔

403

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ أَنَّهُمَا قَالَا لَا تُجَالِسُوا أَصْحَابَ الْأَهْوَاءِ وَلَا تُجَادِلُوهُمْ وَلَا تَسْمَعُوا مِنْهُمْ
حضرت حسن بصری اور ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں بدمذہب لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور ان کے ساتھ بحث نہ کرو اور ان کی باتیں نہ سنو۔

404

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أُمَيٍّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ إِنَّمَا سُمُّوا أَصْحَابَ الْأَهْوَاءِ لِأَنَّهُمْ يَهْوُونَ فِي النَّارِ
امام شعبی فرماتے ہیں (خواہش نفس کی پیروی کرنیوالے بد مذہب لوگوں کو) " اصحاب ہواء " اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کے نظریات انھیں جہنم میں لے جائیں گے۔

405

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ مَيْسَرَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ النَّاسِ الشَّرِيفُ وَالْوَضِيعُ عِنْدَهُ سَوَاءٌ غَيْرَ طَاوُسٍ وَهُوَ يَحْلِفُ عَلَيْهِ
ابن میسرہ ارشاد فرماتے ہیں۔ میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جس کے سامنے کوئی امیر اور غریب شخص یکساں اہمیت رکھتے ہوں۔ صرف طاؤس ایسے آدمی تھے ابن میسرہ نے یہ بات قسم اٹھا کر بیان کی۔

406

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كُنَّا نَكْرَهُ كِتَابَةَ الْعِلْمِ حَتَّى أَكْرَهَنَا عَلَيْهِ السُّلْطَانُ فَكَرِهْنَا أَنْ نَمْنَعَهُ أَحَدًا
زہری ارشاد فرماتے ہیں پہلے ہم لوگ علمی باتیں تحریر کرنے کو ناپسند قرار دیتے تھے یہاں تک کہ حاکم وقت نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا تو پھر ہمیں یہ اچھا نہیں لگا کہ ہم کسی اور شخص کو بھی اس بات سے منع کریں۔

407

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ كَلَّمُوا مُحَمَّدًا فِي رَجُلٍ يَعْنِي يُحَدِّثُهُ فَقَالَ لَوْ كَانَ رَجُلًا مِنْ الزِّنْجِ لَكَانَ عِنْدِي وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا سَوَاءً
ابن عون ارشاد فرماتے ہیں لوگوں نے محمد نامی (محدث) سے ایک شخص کے بارے میں کچھ بات کی جس کے حوالے سے وہ حدیث روایت کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا : اگر وہ شخص سیاہ فام ہوتا تو میرے نزدیک اس کی اور میرے بیٹے عبداللہ کی حیثیت ایک جیسی ہوتی۔

408

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الصَّلْتِ بْنِ رَاشِدٍ سَأَلَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ طَاوُسًا عَنْ مَسْأَلَةٍ فَلَمْ يُجِبْهُ فَقِيلَ لَهُ هَذَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ قَالَ ذَلِكَ أَهْوَنُ لَهُ عَلَيَّ
صلت بن راشد بیان کرتے ہیں سلم بن قتیبہ نے طاؤس سے ایک مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان سے کہا گیا یہ سلم بن قتیبہ ہے تو انھوں نے جواب دیا : یہ تو میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

409

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ بَقِيَّةَ قَالَ حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ مَا خِفْتُ أَحَدًا مِنْ النَّاسِ مَخَافَةَ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ
حبیب بن صالح بیان کرتے ہیں مجھے خالد بن معدان سے جتنا ڈر لگتا ہے اتنا کسی سے نہیں لگتا۔

410

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُغِيرَةَ قَالَ كُنَّا نَهَابُ إِبْرَاهِيمَ هَيْبَةَ الْأَمِيرِ
مغیرہ بیان کرتے ہیں ہم حضرت ابراہیم نخعی سے اتنا ڈرتے تھے جیسے کوئی شخص حاکم سے ڈرتا ہے۔

411

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ يَوْمًا بِحَدِيثٍ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَاسْتَعَدْتُهُ فَقَالَ لِي مَا كُلَّ سَاعَةٍ أَحْلُبُ فَأُشْرَبُ
ایوب بیان کرتے ہیں ایک دن سعید بن جبیر نے ایک حدیث بیان کی میں کھڑا ہوا اور ان سے اس حدیث کو دہرانے کی درخواست کی تو انھوں نے جواب دیا : میں ہر وقت دودھ دوہ کر نہیں پیتا ہوں ( یعنی اپنی مرضی سے حدیث بیان کرتا ہوں) ۔

412

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا هَارُونُ هُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ وَيَحْيَى بْنُ ضُرَيْسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ عَطَاءٍ أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ كَرِهَ الْحَدِيثَ فِي الطَّرِيقِ
عطاء بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابوعبدالرحمن راستے میں حدیث بیان کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

413

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ ضُرَيْسٍ حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَحَدَّثَ بِحَدِيثٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مَنْ حَدَّثَكَ هَذَا أَوْ مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا فَغَضِبَ وَمَنَعَنَا حَدِيثَهُ حَتَّى قَامَ
حبیب بن ابوثابت بیان کرتے ہیں۔ میں سعید بن جبیر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے ایک حدیث بیان کی۔ ایک شخص نے ان سے دریافت کیا آپ کو یہ حدیث کس نے سنائی ہے یا شاید یہ کہا آپ نے یہ حدیث کس سے سنی ہے تو وہ ناراض ہوگئے۔ اور انھوں نے ہمیں پھر حدیث نہیں سنائی اور اٹھ کر چلے گئے۔

414

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ لَوْ رَفَقْتُ بِابْنِ عَبَّاسٍ لَأَصَبْتُ مِنْهُ عِلْمًا كَثِيرًا
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں اگر میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر رہتا تو ان سے بہت زیادہ علم حاصل کرلیتا۔

415

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ عَنْ أُمِّ عَبْدِ اللَّهِ بِنْتِ خَالِدٍ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْرَمَ لِلْعِلْمِ مِنْ أَبِي
ام عبداللہ بنت خالد بیان کرتی ہیں علم کے حوالے سے میں نے اپنے والد سے زیادہ معزز کسی شخص کو نہیں دیکھا۔

416

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى قَالَ قُلْتُ لِطَاوُسٍ إِنَّ فُلَانًا حَدَّثَنِي بِكَذَا وَكَذَا قَالَ إِنْ كَانَ صَاحِبُكَ مَلِيًّا فَخُذْ عَنْهُ
سلیمان بن موسیٰ بیان کرتے ہیں۔ میں نے طاؤس سے کہا فلاں شخص نے مجھے یہ یہ حدیث سنائی ہے تو انھوں نے جواب دیا : وہ مستند آدمی ہے تم اس سے حدیث روایت کرسکتے ہو۔

417

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ لَا يُحَدِّثْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَّا الثِّقَاتُ
سعد بن ابراہیم ارشاد فرماتے ہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے صرف مستند لوگ حدیث بیان کرسکتے ہیں۔

418

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ كَانُوا لَا يَسْأَلُونَ عَنْ الْإِسْنَادِ ثُمَّ سَأَلُوا بَعْدُ لِيَعْرِفُوا مَنْ كَانَ صَاحِبَ سُنَّةٍ أَخَذُوا عَنْهُ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبَ سُنَّةٍ لَمْ يَأْخُذُوا عَنْهُ قَالَ أَبُو مُحَمَّد مَا أَظُنُّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَاصِمٍ
ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں پہلے لوگ سند کے بارے میں دریافت نہیں کرتے تھے اس کے بعد انھوں نے اس بارے میں تحقیق کرنا شروع کردی تاکہ وہ اس بات کا اندازہ لگا لیں کہ جو شخص علم حدیث کا ماہر ہے اس سے حدیث روایت کریں اور جو شخص اس کا ماہر نہیں ہے اس سے حدیث روایت نہ کریں۔ امام محمد دارمی فرماتے ہیں میرے خیال میں اس روایت کے راوی عاصم نے اس بات کو ابن سیرین سے براہ راست نہیں سنا ہے۔

419

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَاصِمٍ قَالَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ مَا حَدَّثْتَنِي فَلَا تُحَدِّثْنِي عَنْ رَجُلَيْنِ فَإِنَّهُمَا لَا يُبَالِيَانِ عَمَّنْ أَخَذَا حَدِيثَهُمَا قَالَ أَبُو مُحَمَّد عَبْدُ اللَّهِ لَا أَظُنُّهُ سَمِعَهُ
امام محمد بن سیرین ارشاد فرماتے ہیں تم نے مجھے جو حدیثیں بیان کردی ہیں وہ ٹھیک ہیں آئندہ ان دو لوگوں کے حوالے سے مجھے کوئی حدیث نہ سنانا کیونکہ یہ دونوں اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ انھوں نے کسی شخص سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ امام محمد عبداللہ درامی ارشاد فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ عاصم نامی راوی نے یہ بات بھی ابن سیرین کی زبانی نہیں سنی ہے۔

420

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ قَالَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا حَدَّثْتَنِي فَحَدِّثْنِي عَنْ أَبِي زُرْعَةَ فَإِنَّهُ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسَنَةٍ فَمَا أَخْرَمَ مِنْهُ حَرْفًا
ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں جب تم میرے سامنے کوئی حدیث بیان کرو تو ابوزرعہ نامی راوی کے حوالے سے روایت کیا کرو کیونکہ ایک مرتبہ انھوں نے مجھے ایک حدیث سنائی تھی پھر اس کے ایک برس بعد میں نے ان سے اسی حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کسی بھی حرف کے اختلاف کے بغیر وہی حدیث سنادی تھی۔

421

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَلْيَنْظُرْ الرَّجُلُ عَمَّنْ يَأْخُذُ دِينَهُ
امام محمد ارشاد فرماتے ہیں یہ علم دین ہے لہٰذا تم اس بات کا جائزہ لیا کرو تم اپنا دین کسی شخص سے حاصل کر رہے ہو۔

422

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هُشَيْمٍ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانُوا إِذَا أَتَوْا الرَّجُلَ لِيَأْخُذُوا عَنْهُ نَظَرُوا إِلَى صَلَاتِهِ وَإِلَى سَمْتِهِ وَإِلَى هَيْئَتِهِ
ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں پہلے لوگ جب کسی شخص کے پاس جاتے تھے تاکہ اس سے علم حدیث حاصل کریں تو پہلے اس شخص کی نماز اس کے طریقہ کار، اس کے ظاہری حلیے کا جائزہ لیا کرتے تھے ہیئت کا جائزہ لیتے تھے اور پھر اس سے علم حاصل کرتے تھے۔

423

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانُوا إِذَا أَتَوْا الرَّجُلَ يَأْخُذُونَ عَنْهُ الْعِلْمَ نَظَرُوا إِلَى صَلَاتِهِ وَإِلَى سَمْتِهِ وَإِلَى هَيْئَتِهِ ثُمَّ يَأْخُذُونَ عَنْهُ أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ رَوْحٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ نَحْوَ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ
ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں پہلے لوگ جب کسی شخص کے پاس جاتے تھے تاکہ اس سے علم حدیث حاصل کریں تو پہلے اس شخص کی نماز اس کے طریقہ کار، اس کی ظاہری ہیئت کا جائزہ لیتے تھے اور پھر اس سے علم حاصل کرتے تھے۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

424

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ كُنَّا نَأْتِي الرَّجُلَ لِنَأْخُذَ عَنْهُ فَنَنْظُرُ إِذَا صَلَّى فَإِنْ أَحْسَنَهَا جَلَسْنَا إِلَيْهِ وَقُلْنَا هُوَ لِغَيْرِهَا أَحْسَنُ وَإِنْ أَسَاءَهَا قُمْنَا عَنْهُ وَقُلْنَا هُوَ لِغَيْرِهَا أَسْوَأُ قَالَ أَبُو مَعْمَرٍ لَفْظُهُ نَحْوُ هَذَا
ابوعالیہ ارشاد فرماتے ہیں پہلے ہم کسی شخص کے پاس جایا کرتے تھے اس سے علم حدیث حاصل کریں تو ہم اس بات کا جائزہ لیا کرتے تھے اگر وہ شخص اچھی طرح سے نماز ادا کرتا تو ہم اس کے پاس بیٹھ جاتے اور یہ سوچتے کہ یہ دیگر معاملات میں زیادہ بہتر ہوگا لیکن اگر وہ برے طریقے سے نماز ادا کرتا تو ہم اس کے پاس سے اٹھ جاتے تھے کہ دیگر معاملات میں زیادہ برا ہوگا۔ ابومعمر نامی راوی بیان کرتے ہیں میرا خیال ہے کہ شاید اسی طرح کے کچھ الفاظ ہیں۔

425

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ لَا أَدْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ أَوْ لَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ
امام محمد ارشاد فرماتے ہیں یہ علم دین ہے۔ لہٰذا تم اس بات کا جائزہ لو کہ تم اپنا دین کس شخص سے حاصل کر رہے ہو۔

426

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى قَالَ قُلْتُ لِطَاوُسٍ إِنَّ فُلَانًا حَدَّثَنِي بِكَذَا وَكَذَا قَالَ فَإِنْ كَانَ صَاحِبُكَ مَلِيًّا فَخُذْ عَنْهُ
حضرت سلیمان بن موسیٰ ارشاد فرماتے ہیں میں نے طاؤس سے کہا فلاں شخص نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے تو انھوں نے جواب دیا وہ مستند آدمی ہے تم اس سے حدیث دریافت کرسکتے ہو۔

427

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ جَاءَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَعِدْ عَلَيَّ الْحَدِيثَ الْأَوَّلَ قَالَ لَهُ بُشَيْرٌ مَا أَدْرِي عَرَفْتَ حَدِيثِي كُلَّهُ وَأَنْكَرْتَ هَذَا أَوْ عَرَفْتَ هَذَا وَأَنْكَرْتَ حَدِيثِي كُلَّهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّا كُنَّا نُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ لَمْ يَكُنْ يُكْذَبُ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ تَرَكْنَا الْحَدِيثَ عَنْهُ
طاؤس بیان کرتے ہیں بشیر بن کعب حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے سامنے حدیثیں بیان کرنا شروع کردی تو حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا تم پہلے والی حدیث مجھے دوبارہ سناؤ بشیر نے ان کی خدمت میں عرض کیا مجھے اس بات کا اندازہ نہیں ہوسکا کہ آپ نے میری دیگر تمام احادیث کو مستند تسلیم کرلیا ہے اور اس پہلی حدیث کو مستند نہیں مانایاس پہلی حدیث کو مستند تسلیم کرلیا باقی حدیثوں کو مستند نہیں مانا حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا پہلے ہم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے حدیث روایت کرتے تھے جب آپ کے حوالے سے جھوٹی بات روایت نہیں ہوتی تھی اس کے بعد لوگوں نے ہر طرح کی روایتیں بیان کرنا شروع کردیں تو ہم آپ کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں۔

428

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنَّا نَحْفَظُ الْحَدِيثَ وَالْحَدِيثُ يُحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَكِبْتُمْ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ
ابن طاؤس اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں پہلے ہم حدیث یاد رکھتے تھے اور حدیث نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے یاد رکھی جاتی تھی اس کے بعد تم لوگوں نے ہر طرح کی روایتیں بیان کرنا شروع کردی ہیں۔

429

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ يُوشِكُ أَنْ يَظْهَرَ شَيَاطِينُ قَدْ أَوْثَقَهَا سُلَيْمَانُ يُفَقِّهُونَ النَّاسَ فِي الدِّينِ
طاؤس بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جن شیاطین کو حضرت سلیمان نے باندھ رکھا تھا وہ کھل جائیں گے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دینا شروع کردیں گے۔

430

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ انْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ هَذَا الْحَدِيثَ فَإِنَّهُ دِينُكُمْ
امام محمد ارشاد فرماتے ہیں تم اس بات کا جائزہ لیا کرو کہ تم کس شخص سے حدیث حاصل کر رہے ہو کیونکہ یہ تمہارے دین کے احکام کا بنیادی ماخذ) ہے۔

431

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لِيُتَّقَى مِنْ تَفْسِيرِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا يُتَّقَى مِنْ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
معتمر اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے اتنی ہی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہے جتنی احتیاط قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے کی جاتی ہے۔

432

أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَا تَخَافُونَ أَنْ تُعَذَّبُوا أَوْ يُخْسَفَ بِكُمْ أَنْ تَقُولُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ وَقَالَ فُلَانٌ
حضرت ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں کیا تم لوگوں کو اس بات سے ڈر نہیں لگتا کی جب تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے ہمراہ یہ کہتے ہو کہ فلاں نے یہ کہا ہے کہ تمہیں عذاب دیا جائے یا تمہیں زمین میں دھنسا دیا جائے۔

433

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا الْمُعَافَى عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِنَّهُ لَا رَأْيَ لِأَحَدٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَإِنَّمَا رَأْيُ الْأَئِمَّةِ فِيمَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ كِتَابٌ وَلَمْ تَمْضِ بِهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَأْيَ لِأَحَدٍ فِي سُنَّةٍ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اوزاعی ارشاد فرماتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خط لکھا تھا کہ اللہ کی کتاب کے بارے میں کسی شخص کی رائے کی کوئی حثییت نہیں ہے ائمہ کی رائے ان معاملات میں ہوتی ہے جس کے بارے میں کتاب کا کوئی حکم نازل نہ ہوا ہو اس بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی سنت موجود نہ ہو اللہ کے رسول نے جو سنت مقرر کردی ہو اس کے بارے میں کسی رائے کا اعتبار نہیں ہوگا۔

434

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ خَطَبَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ بَعْدَ نَبِيِّكُمْ نَبِيًّا وَلَمْ يُنْزِلْ بَعْدَ هَذَا الْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْهِ كِتَابًا فَمَا أَحَلَّ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ فَهُوَ حَلَالٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَا حَرَّمَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَلَا وَإِنِّي لَسْتُ بِقَاصٍّ وَلَكِنِّي مُنَفِّذٌ وَلَسْتُ بِمُبْتَدِعٍ وَلَكِنِّي مُتَّبِعٌ وَلَسْتُ بِخَيْرٍ مِنْكُمْ غَيْرَ أَنِّي أَثْقَلُكُمْ حِمْلًا أَلَا وَإِنَّهُ لَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ أَنْ يُطَاعَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ أَلَا هَلْ أَسْمَعْتُ
عبیداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو بیشک اللہ نے تمہارے نبی کے بعد کسی اور نبی مبعوث نہیں کرنا اور اس نبی پر اپنی جو کتاب نازل کی تھی اس کے بعد کسی اور کتاب کو نازل نہیں کیا لہٰذا اپنے نبی کی مقدس زبان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے وہ قیامت تک حلال رہیں گی اور اپنے نبی کی مقدس زبان کے ذریعے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ قیامت تک حرام رہیں گی۔ یہ بات یاد رکھنا کہ میں فیصلہ دینے والا نہیں ہوں بلکہ میں (شرعی احکام کو) نافذ کرنے والا ہوں۔ میں بدعتی نہیں ہوں میں (سنت کا) پیروکار ہوں اور میں تم سے زیادہ بہتر نہیں ہوں البتہ میرے اوپر بھاری ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ یہ بات یاد رکھنا اللہ کی نافرمانی کے معاملے میں اس کی مخلوق میں سے کسی کی بھی پیروی نہیں کی جاسکتی کیا میں نے اپنی بات واضح کردی ہے ؟۔

435

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ قَالَ كَانَ طَاوُسٌ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ اتْرُكْهُمَا قَالَ إِنَّمَا نُهِيَ عَنْهَا أَنْ تُتَّخَذُ سُلَّمًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنَّهُ قَدْ نُهِيَ عَنْ صَلَاةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَلَا أَدْرِي أَتُعَذَّبُ عَلَيْهَا أَمْ تُؤْجَرُ لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ قَالَ سُفْيَانُ تُتَّخَذَ سُلَّمًا يَقُولُ يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ
ہشام بیان کرتے ہیں طاؤس عصر کے بعد دو رکعت ادا کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے کہا انھیں پڑھناچھوڑ دو ۔ طاؤس نے عرض کی کہ ان سے اس لیے منع کیا گیا کہ انھیں سیڑھی کے طور پر نہ پڑھا جائے۔ ابن عباس نے ارشاد فرمایا عصر کے بعد نماز ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے مجھے نہیں پتا کہ تمہیں ان نوافل کے پڑھنے پر عذاب دیا جائے گا یا اجر ملے گا کیونکہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کسی بھی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بھی معاملے میں فیصلہ دے دیں تو انھیں اپنے کسی معاملے میں کسی قسم کا کوئی اختیار ہو اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی کا شکار ہوجائے گا۔۔ سفیان بیان کرتے ہیں سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک مسلسل نوافل ادا کئے جائیں۔

436

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں توراۃ کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ توراۃ کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے ؟ حضرت عمر نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اب اگر موسیٰ تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔

437

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي رَبَاحٍ شَيْخٌ مِنْ آلِ عُمَرَ قَالَ رَأَى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ الرَّكْعَتَيْنِ يُكْثِرُ فَقَالَ لَهُ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَيُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَى الصَّلَاةِ قَالَ لَا وَلَكِنْ يُعَذِّبُكَ اللَّهُ بِخِلَافِ السُّنَّةِ
حضرت عمر کی اولاد سے تعلق رکھنے والے ابورباح نامی ایک بزرگ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ سعید بن مسیب نے ایک شخص کو عصر کے بعد نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو اسے منع کیا۔ اس شخص نے ان سے دریافت کیا اے ابومحمد کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا تو سعید بن مسیب نے جواب دیا نہیں بلکہ اللہ تمہیں سنت کی خلاف ورزی کرنے پر عذاب دے گا۔

438

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ الْعَجْلَانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَتَبَخْتَرُ فِي بُرْدَيْنِ خَسَفَ اللَّهُ بِهِ الْأَرْضَ فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقَالَ لَهُ فَتًى قَدْ سَمَّاهُ وَهُوَ فِي حُلَّةٍ لَهُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَهَكَذَا كَانَ يَمْشِي ذَلِكَ الْفَتَى الَّذِي خُسِفَ بِهِ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ فَعَثَرَ عَثْرَةً كَادَ يَتَكَسَّرُ مِنْهَا فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لِلْمَنْخَرَيْنِ وَلِلْفَمِ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ
حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کیا ایک مرتبہ ایک شخص اپنی دو چادروں پر اتراتے ہوئے چل رہا تھا تو اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین دھنستا رہے گا حاضرین میں ایک نوجوان نے جس کا نام راوی نے بیان کیا تھا اسی قسم کا کپڑا پہنا ہوا تھا وہ بولا اے ابوہریرہ (رض) کیا وہ نوجوان اس طرح چل رہا تھا جسے زمین میں دھنسایا گیا پھر اس نوجوان نے اپنے ہاتھ کو جھٹکا تو وہ گرگیا اور قریب تھا کہ اس کی کوئی چیز ٹوٹ جاتی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کے نتھنوں اور منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ارشاد بانی " بیشک مذاق اڑانے والوں کے لیے تمہاری طرف سے ہم کافی ہیں۔

439

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا هَارُونُ هُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ خِرَاشِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَتًى يَخْذِفُ فَقَالَ لَهُ شَيْخٌ لَا تَخْذِفْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْخَذْفِ فَغَفَلَ الْفَتَى وَظَنَّ أَنَّ الشَّيْخَ لَا يَفْطِنُ لَهُ فَخَذَفَ فَقَالَ لَهُ الشَّيْخُ أُحَدِّثُكَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ الْخَذْفِ ثُمَّ تَخْذِفُ وَاللَّهِ لَا أَشْهَدُ لَكَ جَنَازَةً وَلَا أَعُودُكَ فِي مَرَضٍ وَلَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا فَقُلْتُ لِصَاحِبٍ لِي يُقَالُ لَهُ مُهَاجِرٌ انْطَلِقْ إِلَى خِرَاشٍ فَاسْأَلْهُ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ عَنْهُ فَحَدَّثَهُ
خراش بن جبیر بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں ایک نوجوان کو دیکھا جو کنکریوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ایک بزرگ نے اس سے کہا کنکریوں کے ساتھ نہ کھیلو کیونکہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کنکریوں سے کھیلنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے وہ نوجوان اپنے عمل میں مصروف رہا اس نے یہ سمجھا کہ شاید وہ بزرگ اس کا جائزہ نہیں لے رہا اور ویسے یہ کنکریوں سے کھیلتا رہا۔ اس بزرگ نے اس سے کہا میں نے تمہیں حدیث بیان کی ہے میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کنکریوں سے کھیلنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور تم پھر ان کے ساتھ کھیل رہے ہو اللہ کی قسم اب میں تمہارے جنازے میں بھی شریک نہ ہوں گا اور کبھی بیماری کے دوران تمہاری عیادت کے لیے بھی نہیں آؤں گا اور تم سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گا۔ زبیر نامی راوی بیان کرتے ہیں میں نے اپنے ساتھی جس کا نام مہاجر تھا سے کہا چلو خراش کی طرف چلتے ہیں اور ان سے اس بارے میں دریافت کرتے ہیں پھر وہ ان کے پاس آئے اور اس بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے یہ بات سنائی۔

440

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَذْفِ وَقَالَ إِنَّهَا لَا تَصْطَادُ صَيْدًا وَلَا تَنْكِي عَدُوًّا وَلَكِنَّهَا تَكْسِرُ السِّنَّ وَتَفْقَأُ الْعَيْنَ فَرَفَعَ رَجُلٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعِيدٍ قَرَابَةٌ شَيْئًا مِنْ الْأَرْضِ فَقَالَ هَذِهِ وَمَا تَكُونُ هَذِهِ فَقَالَ سَعِيدٌ أَلَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ تَهَاوَنُ بِهِ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا
حضرت عبداللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنکریوں سے کھیلنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کے ذریعے تم کسی چیز کو شکار نہیں کرسکتے اور دشمن کو قتل نہیں کرسکتے یہ صرف دانت توڑ سکتی ہے اور آنکھ پھوڑ سکتی ہے۔

441

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ رَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُغَفَّلٍ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ يَخْذِفُ فَقَالَ لَا تَخْذِفْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ الْخَذْفِ وَكَانَ يَكْرَهُهُ وَإِنَّهُ لَا يُنْكَأُ بِهِ عَدُوٌّ وَلَا يُصَادُ بِهِ صَيْدٌ وَلَكِنَّهُ قَدْ يَفْقَأُ الْعَيْنَ وَيَكْسِرُ السِّنَّ ثُمَّ رَآهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَخْذِفُ فَقَالَ لَهُ أَلَمْ أُخْبِرْكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْهُ ثُمَّ أَرَاكَ تَخْذِفُ وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا
عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن مغفل نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کنکری کے ذریعے کھیلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا تم ایسا نہ کرو کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنکری سے کھیلنے سے منع کیا ہے یا اس بات کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا اس کے ذریعے دشمن کو مارا نہیں جاسکتا کسی چیز کو شکار نہیں کیا جاسکتا اس کے ذریعے صرف آنکھ کو پھوڑا جاسکتا ہے اور دانت کو توڑا جاسکتا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن مغفل نے پھر اس نوجوان کو کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا میں نے تمہیں بتایا نہیں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع کیا ہے میں تمہیں دیکھ رہاہوں کہ تم پھر اس کے ساتھ کھیل رہے ہو اللہ کی قسم میں اب تمہارے ساتھ کبھی بھی بات نہیں کروں گا۔

442

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَ ابْنُ سِيرِينَ رَجُلًا بِحَدِيثٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ أُحَدِّثُكَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ قَالَ فُلَانٌ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا
قتادہ بیان کرتے ہیں ابن سیرین نے ایک شخص کے سامنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث بیان کی وہ شخص بولا فلاں شخص نے یہ بات کہی ہے۔ ابن سیرین نے کہا میں تمہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو فلاں شخص نے یہ بات کہی ہے۔ آئندہ میں کبھی تمہارے ساتھ کوئی بات نہیں کروں گا۔

443

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمْ امْرَأَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا فَقَالَ فُلَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِذًا وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ فَشَتَمَهُ شَتِيمَةً لَمْ أَرَهُ يَشْتِمُهَا أَحَدًا قَبْلَهُ قَطُّ ثُمَّ قَالَ أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ إِذًا وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا
حضرت ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب کسی کی بیوی مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اسے منع نہ کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ کے فلاں صاحبزادے کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کی قسم میں تو اپنی بیوی کو ضرور منع کروں گا۔ حضرت ابن عمر (رض) اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے وہ گالی دی جو میں نے انھیں کبھی کسی اور کو دیتے ہوئے نہیں سنا اور پھر بولے میں تمہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے حدیث سنا رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو اللہ کی قسم میں تو روکوں گا۔

444

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ مَعْرُوفٍ عَنْ أَبِي الْمُخَارِقِ قَالَ ذَكَرَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ فَقَالَ فُلَانٌ مَا أَرَى بِهَذَا بَأْسًا يَدًا بِيَدٍ فَقَالَ عُبَادَةُ أَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ لَا أَرَى بِهِ بَأْسًا وَاللَّهِ لَا يُظِلُّنِي وَإِيَّاكَ سَقْفٌ أَبَدًا
ابومخارق بیان کرتے ہیں حضرت عبادہ بن صامت نے یہ بات بیان کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک درہم کے عوض میں دو درہموں کے لین دین سے منع کیا ہے تو ایک شخص نے میرے خیال میں اگر یہ دست بدست لین دین ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے حضرت عبادہ نے ارشاد فرمایا یہ میں نے بیان نہیں کیا بلکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے اور تم یہ کہہ رہے ہو کہ میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اللہ کی قسم آج کے بعد میں اور تم کبھی ایک چھت کے نیچے اکٹھے نہیں ہوں گے۔

445

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ زَمْعَةَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا قَالَ وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَافِلًا فَانْسَاقَ رَجُلَانِ إِلَى أَهْلَيْهِمَا فَكِلَاهُمَا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا
حضرت ابن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں سفر سے واپسی پر شہر پہنچنے پر جب رات ہوجائے تو رات کے وقت کوئی اپنی بیوی کے پاس نہ جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قافلے کی شکل میں کسی سفر سے تشریف لائے تھے۔ دو لوگ اپنے گھرچلے گئے تو ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی کے ساتھ ایک شخص کو پایا۔

446

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ نَزَلَ الْمُعَرَّسَ ثُمَّ قَالَ لَا تَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا فَخَرَجَ رَجُلَانِ مِمَّنْ سَمِعَ مَقَالَتَهُ فَطَرَقَا أَهْلَيْهِمَا فَوَجَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو رات کے وقت پڑاؤ کرلیتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا کوئی بھی شخص رات کے وقت اپنی بیوی کے پاس نہ جائے جن لوگوں نے آپ کی بات سنی تھی ان میں دو صاحبان نکلے اور اپنے گھرچلے گئے تو ان دونوں میں ہر ایک نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک شخص کو پایا۔

447

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ يُوَدِّعُهُ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ فَقَالَ لَهُ لَا تَبْرَحْ حَتَّى تُصَلِّيَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَخْرُجُ بَعْدَ النِّدَاءِ مِنْ الْمَسْجِدِ إِلَّا مُنَافِقٌ إِلَّا رَجُلٌ أَخْرَجَتْهُ حَاجَتُهُ وَهُوَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَالَ إِنَّ أَصْحَابِي بِالْحَرَّةِ قَالَ فَخَرَجَ قَالَ فَلَمْ يَزَلْ سَعِيدٌ يَوْلَعُ بِذِكْرِهِ حَتَّى أُخْبِرَ أَنَّهُ وَقَعَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَانْكَسَرَتْ فَخِذُهُ
عبدالرحمن بن حرملہ بیان کرتے ہیں ایک شخص سعید بن مسیب کی خدمت میں حاضر ہوا جسے انھوں نے حج یا عمرے کے لیے الوداع کیا تھا سعید نے ان سے کہا تم نماز ہونے تک یہیں ٹھہرے رہو کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اذان ہونے کے بعد مسجد سے صرف منافق باہر نکلتا ہے۔ یا وہ شخص جسے کوئی کام ہو اور وہ مسجد میں واپس بھی آنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ شخص بولا میرے ساتھی حرہ میدان میں میرا انتظار کررہے ہیں راوی کا بیان ہے وہ شخص چلا گیا۔ راوی بیان کرتے ہیں سعید کو اس کی طرف سے پریشانی لاحق ہوگئی یہاں تک کہ انھیں یہ بتایا گیا کہ وہ شخص اپنی اونٹنی سے گرگیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔

448

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا تُمِلُّوا النَّاسَ
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں لوگوں کو اکتاہٹ کا شکار نہ کرو۔

449

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ عَنْ كُرْدُوسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِنَّ لِلْقُلُوبِ نَشَاطًا وَإِقْبَالًا وَإِنَّ لَهَا تَوْلِيَةً وَإِدْبَارًا فَحَدِّثُوا النَّاسَ مَا أَقْبَلُوا عَلَيْكُمْ
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں لوگ پسند اور توجہ کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں اور لوگ ناپسندیدگی اور عدم توجہ کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں لہٰذا تم لوگوں کے ساتھ اس وقت تک گفتگو کرتے رہو جب تک وہ تمہاری طرف متوجہ رہیں۔

450

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ كَانَ يُقَالُ حَدِّثْ الْقَوْمَ مَا أَقْبَلُوا عَلَيْكَ بِوُجُوهِهِمْ فَإِذَا الْتَفَتُوا فَاعْلَمْ أَنَّ لَهُمْ حَاجَاتٍ
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ اس وقت تک بات چیت کرو جب تک وہ تمہاری طرف متوجہ رہیں جب وہ ادھر ادھر متوجہ ہوجائیں تو سمجھ لو کہ انھیں کوئی کام ہے۔

451

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ فَمَنْ كَتَبَ عَنِّي شَيْئًا غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ
حضرت ابوسعید (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میرے حوالے سے قرآن کے علاوہ اور کوئی بات نہ لکھا کرو جس شخص نے قرآن کے علاوہ میرے حوالے سے کوئی بات لکھی ہو تو وہ اسے مٹا دے۔

452

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ حَدَّثَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُمْ اسْتَأْذَنُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَنْ يَكْتُبُوا عَنْهُ فَلَمْ يَأْذَنْ لَهُمْ
حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اجازت مانگی کہ وہ آپ کے فرامین لکھ لیا کریں تو نبی اکرم نے انھیں اجازت نہیں دی۔

453

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ يَا شِبَاكُ أَرُدُّ عَلَيْكَ يَعْنِي الْحَدِيثَ مَا أَرَدْتُ أَنْ يُرَدَّ عَلَيَّ حَدِيثٌ قَطُّ
امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں اے شباک میں تمہیں حدیث دوبارہ بیان کردیتا ہوں حالانکہ میرا یہ ارادہ کبھی نہیں ہوا کہ میرے سامنے کوئی حدیث دوبارہ بیان کی جائے۔

454

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ يَقُولُ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ بِحَدِيثٍ فَلَقِيتُهُ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ فَأَخَذْتُ بِلِجَامِهِ فَقُلْتُ يَا أَبَا بَكْرٍ أَعِدْ عَلَيَّ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثْتَنَا بِهِ قَالَ وَتَسْتَعِيدُ الْحَدِيثَ قَالَ قُلْتُ وَمَا كُنْتَ تَسْتَعِيدُ الْحَدِيثَ قَالَ لَا قُلْتُ وَلَا تَكْتُبُ قَالَ لَا
مالک بن انس ارشاد فرماتے ہیں ایک مرتبہ امام زہری کو ایک حدیث کا پتا چلا میرا ان سے راستے میں سامنا ہوا میں نے ان کی سواری کی لگام پکڑی اور درخواست کی اے ابوبکر (رض) آپ نے ہمارے سامنے جو فلاں حدیث بیان کی تھی اسے میرے سامنے دہرا دیں۔ زہری نے دریافت کیا کیا تم حدیث دوبارہ سننا چاہتے ہو میں نے دریافت کیا آپ دو بار حدیث نہیں سناتے۔ انھوں نے جواب دیا نہیں میں نے دریافت کیا آپ اسے لکھتے بھی نہیں ہیں انھوں نے جواب دیا نہیں۔

455

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ كَانَ قَتَادَةُ يَكْرَهُ الْكِتَابَةَ فَإِذَا سَمِعَ وَقْعَ الْكِتَابِ أَنْكَرَهُ وَالْتَمَسَهُ بِيَدِهِأَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ قَالَ كَانَ الْأَوْزَاعِيُّ يَكْرَهُهُ
امام اوزاعی بیان کرتے ہیں قتادہ حدیث تحریر کرنے کو ناپسند کرتے تھے جب انھیں بعض تحریرات کے بارے میں پتا چلا تو انھوں نے اس کا انکار کیا اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹادیا۔ ابومغیرہ بیان کرتے ہیں امام اوزاعی اس بات کو ناپسند کرتے تھے۔

456

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ يَكْرَهُ الْكِتَابَ يَعْنِي الْعِلْمَ
منصور بیان کرتے ہیں امام ابراہیم نخعی علمی باتیں تحریر کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

457

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا كِتَابًا لَاتَّخَذْتُ رَسَائِلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن سیرین بیان کرتے ہیں اگر میں نے کوئی تحریر کرنا ہوتی تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسائل تحریر کرتا۔

458

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ رَأَيْتُ حَمَّادًا يَكْتُبُ عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ لَهُ إِبْرَاهِيمُ أَلَمْ أَنْهَكَ قَالَ إِنَّمَا هِيَ أَطْرَافٌ
ابن عون بیان کرتے ہیں میں نے حماد کو دیکھا کہ وہ ابراہیم کی موجودگی میں کوئی بات نوٹ کر رہے تھے ابراہیم نے ان سے کہا میں نے تمہیں منع نہیں کیا انھوں نے جواب دیا میں یہ حاشیہ لکھ رہا ہوں۔

459

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَالَ لِي عَبِيدَةُ لَا تُخَلِّدَنَّ عَلَيَّ كِتَابًا
ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں عبیدہ نے مجھ سے کہا میرے پاس تحریر لے کر کبھی نہ آنا۔

460

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ مَا كَتَبْتُ عَنْ مُحَمَّدٍ إِلَّا حَدِيثَ الْأَعْمَاقِ فَلَمَّا حَفِظْتُهُ مَحَوْتُهُ
ہشام بیان کرتے ہیں میں نے محمد نامی راوی کے حوالے سے صرف اعماق والی حدیث تحریر کی ہے جب وہ مجھے یاد ہوگئی تو میں نے اسے بھی مٹا دیا تھا۔

461

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ
سعید بن عبدالعزیز ارشاد فرماتے ہیں میں نے کبھی کوئی حدیث تحریر نہیں کی۔

462

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْمُغِيرَةِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ مَا كَتَبْتُ شَيْئًا قَطُّ
ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں میں نے کبھی کوئی بات تحریر نہیں کی۔

463

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَأَلْتُ عَبِيدَةَ قِطْعَةَ جِلْدٍ أَكْتُبُ فِيهِ فَقَالَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَا تُخَلِّدَنَّ عَنِّي كِتَابًا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ مِثْلَهُ
ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں میں نے عبیدہ سے کھال کے ایسے ٹکڑے کے بارے میں دریافت کیا جس پر میں کوئی چیز نوٹ کرلوں تو انھوں نے جواب دیا اے ابراہیم کبھی بھی میرے حوالے سے کوئی بات نوٹ نہ کرنا۔
یہی روایت ایک اور سند سے بھی منقول ہے۔

464

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَتِيكٍ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُكْتَبَ الْحَدِيثُ فِي الْكَرَارِيسِ وَيَقُولُ يُشَبَّهُ بِالْمَصَاحِفِ قَالَ يَحْيَى وَوَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ زِيَادٍ الْكَاتِبِ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ وَاكْتُبْ كَيْفَ شِئْتَ
ابومعشر بیان کرتے ہیں حضرت ابراہیم نخعی اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ رجسٹر میں کوئی حدیث نوٹ کی جائے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ اس طرح یہ قرآن مجید کی مشابہت اختیار کر جاتی ہے یحییٰ ارشاد فرماتے ہیں میں نے اپنی تحریر میں زیادہ کاتب کے حوالے سے ابومعشر کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ تم جو چاہو اسے نوٹ کرسکتے ہو۔

465

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ نُعْمَانَ بْنِ قَيْسٍ أَنَّ عَبِيدَةَ دَعَا بِكُتُبِهِ فَمَحَاهَا عِنْدَ الْمَوْتِ وَقَالَ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَلِيَهَا قَوْمٌ فَلَا يَضَعُونَهَا مَوَاضِعَهَا
نعمان بن قیس بیان کرتے ہیں عبیدہ نے اپنی تحریرات منگوائیں اور مرتے وقت انھیں مٹادیا اور یہ کہا کہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ لوگ انھیں حاصل کریں گے تو انھیں درست جگہ استعمال نہیں کریں گے۔

466

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ وَزَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُكْتَبَ الْعِلْمُ فِي الْكَرَارِيسِ
لیث بیان کرتے ہیں مجاہد اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ علمی باتوں کو رجسٹر میں نوٹ کیا جائے۔

467

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ مَا زَالَ هَذَا الْعِلْمُ عَزِيزًا تَتَلَاقَاهُ الرِّجَالُ حَتَّى وَقَعَ فِي الصُّحُفِ فَحَمَلَهُ أَوْ دَخَلَ فِيهِ غَيْرُ أَهْلِهِ
امام اوزاعی ارشاد فرماتے ہیں یہ علم اس وقت تک قابل احترام رہا اور لوگ اسے حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ جب اسے رجسٹروں میں نوٹ کیا جانے لگا تو اسے ان لوگوں نے بھی حاصل کرنا شروع کردیا جو اس کے اہل نہیں تھے۔

468

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ يُونُسَ قَالَ كَانَ الْحَسَنُ يَكْتُبُ وَيُكْتِبُ وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ لَا يَكْتُبُ وَلَا يُكْتِبُ
یونس بیان کرتے ہیں حضرت حسن حدیث نوٹ کرلیا کرتے تھے اور نوٹ کروا بھی دیا کرتے تھے جبکہ ابن سیرین نہ خود نوٹ کرتے تھے اور نہ نوٹ کروایا کرتے تھے۔

469

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ قَالَ بَلَغَ ابْنَ مَسْعُودٍ أَنَّ عِنْدَ نَاسٍ كِتَابًا يُعْجَبُونَ بِهِ فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ حَتَّى أَتَوْهُ بِهِ فَمَحَاهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا عَلَى كُتُبِ عُلَمَائِهِمْ وَتَرَكُوا كِتَابَ رَبِّهِمْ
ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں حضرت ابن مسعود (رض) کو یہ پتا چلا کہ کچھ لوگوں کے پاس ایک تحریر ہے جسے وہ بہت پسند کرتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ان کے پاس تشریف لائے اور اسے مٹادیا اور ارشاد فرمایا تم سے پہلے اہل کتاب اسی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئے تھے کہ انھوں نے اپنے علماء کی کتابوں کو پڑھنا شروع کردیا تھا اور اپنے پروردگار کی کتاب کو چھوڑ دیا تھا۔

470

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ قُلْتُ لِعَبِيدَةَ أَكْتُبُ مَا أَسْمَعُ مِنْكَ قَالَ لَا قُلْتُ فَإِنْ وَجَدْتُ كِتَابًا أَقْرَؤُهُ قَالَ لَا
امام محمد بیان کرتے ہیں میں نے عبیدہ سے کہا آپ سے میں جو بات سنتا ہوں اسے نوٹ کرلیا کرتا ہوں انھوں نے جواب دیا نہیں میں نے کہا اگر مجھے کوئی تحریر مل جائے تو میں اسے پڑھ لیا کروں انھوں نے جواب دیا نہیں۔

471

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَلَا تُكْتِبُنَا فَإِنَّا لَا نَحْفَظُ فَقَالَ لَا إِنَّا لَنْ نُكْتِبَكُمْ وَلَنْ نَجْعَلَهُ قُرْآنًا وَلَكِنْ احْفَظُوا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا نَحْنُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابونضرہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ابوسعید (رض) سے کہا کیا ہم آپ کے حوالے سے احادیث نوٹ نہ کرلیا کریں کیونکہ ہمیں بات یاد نہیں رہتی انھوں نے جواب دیا نہیں ہم تمہیں ہرگز نوٹ نہیں کروائیں گے اور ہم ان تحریرات کو قرآن جیسا نہیں بنائیں گے بلکہ تم ہمارے حوالے سے احادیث اسی طرح یاد کرلیا کرو جیسے ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سن کر یاد رکھتے تھے۔

472

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا كَثِيرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَا يَكْتُبُ وَلَا يُكْتِبُ
حضرت ابوہریرہ (رض) ارشاد فرماتے ہیں ابوہریرہ (رض) نہ خود نوٹ کرتا ہے اور نہ کسی کو نوٹ کرواتا ہے۔

473

أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ أَنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ حَدِيثَ أَبِيهِ فَرَآهُ أَبُو مُوسَى فَمَحَاهُ
حضرت ابوبردہ (رض) بیان کرتے ہیں وہ پہلے اپنے والد کے حوالے سے احادیث نوٹ کرلیا کرتے تھے ایک مرتبہ حضرت ابوموسی نے اسے دیکھ لیا تو اسے مٹا دیا۔

474

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنِي قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ عَوْنٍ وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّقَالَ ابْنُ عَوْنٍ قَالَ ابْنُ سِيرِينَ لَا وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ قَالَ لِي ابْنُ سِيرِينَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَرَادَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ أَنْ أُكْتِبَهُ شَيْئًا قَالَ فَلَمْ أَفْعَلْ قَالَ فَجَعَلَ سِتْرًا بَيْنَ مَجْلِسِهِ وَبَيْنَ بَقِيَّةِ دَارِهِ قَالَ فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِ وَيَتَحَدَّثُونَ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ فَأَقْبَلَ مَرْوَانُ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ خُنَّاهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ قَالَ قُلْتُ وَمَا ذَاكَ قَالَ مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ خُنَّاكَ قَالَ قُلْتُ وَمَا ذَاكَ قَالَ إِنَّا أَمَرْنَا رَجُلًا يَقْعُدُ خَلْفَ هَذَا السِّتْرِ فَيَكْتُبُ مَا تُفْتِي هَؤُلَاءِ وَمَا تَقُولُ
قریش بن انس بیان کرتے ہیں ابن عون نے مجھ سے کہا اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی حدیث نوٹ نہیں کی۔ ابن سیرین بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم میں نے بھی کبھی کوئی حدیث نوٹ نہیں کی۔ ابن عون بیان کرتے ہیں ابن سیرین نے مجھ سے کہا حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں مروان بن حکم مدینے کا گورنر تھا اس نے یہ چاہا کہ میں اسے کوئی چیز نوٹ کروا دوں۔ حضرت زید فرماتے ہیں میں نے ایسا نہیں کیا حضرت زید فرماتے ہیں پھر اس نے اپنی محفل اور گھر کے بقیہ حصے کے درمیان ایک پردہ ڈلوا دیا۔ حضرت زید فرماتے ہیں لوگ اس کے پاس آیا کرتے تھے اور اس جگہ پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے ایک دن مروان نے اپنے ساتھیوں سے کہا میرا یہ خیال ہے کہ ہم نے آپ کے ساتھ بےایمانی کی ہے میں نے دریافت کیا وہ کیا اس نے کہا میں نے ایک شخص کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ اس پردے کے دوسری طرف بیٹھ جایا کرے اور آپ جو فتوی دیتے ہیں اور جو بیان کرتے ہیں اسے نوٹ کرلیا کرے۔

475

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ إِنَّ سَالِمًا أَتَمُّ مِنْكَ حَدِيثًا قَالَ إِنَّ سَالِمًا كَانَ يَكْتُبُ
منصور بیان کرتے ہیں میں نے ابراہیم سے کہا سالم آپ کے مقابلے میں زیادہ مکمل حدیث بیان کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا سالم حدیث کو نوٹ کرلیا کرتے تھے۔

476

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ قَالَ وَفَدْتُ مَعَ أَبِي إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بِحُوَّارَيْنَ حِينَ تُوُفِّيَ مُعَاوِيَةُ نُعَزِّيهِ وَنُهَنِّيهِ بِالْخِلَافَةِ فَإِذَا رَجُلٌ فِي مَسْجِدِهَا يَقُولُ أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوضَعَ الْأَخْيَارُ أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَظْهَرَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُتْلَى الْمَثْنَاةُ فَلَا يُوجَدُ مَنْ يُغَيِّرُهَا قِيلَ لَهُ وَمَا الْمَثْنَاةُ قَالَ مَا اسْتُكْتِبَ مِنْ كِتَابٍ غَيْرِ الْقُرْآنِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَبِهِ هُدِيتُمْ وَبِهِ تُجْزَوْنَ وَعَنْهُ تُسْأَلُونَ فَلَمْ أَدْرِ مَنْ الرَّجُلُ فَحَدَّثْتُ بِذَا الْحَدِيثِ بَعْدَ ذَلِكَ بِحِمْصَ فَقَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ أَوَ مَا تَعْرِفُهُ قُلْتُ لَا قَالَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو
عمرو بن قیس بیان کرتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ وفد کی شکل میں یزید بن معاویہ کی خدمت میں حوارین میں حاضر ہوا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت معاویہ کا انتقال ہوا تھا ہم نے یزید سے تعزیت کرنی تھی اور اسے خلافت کی مبارک باد دینی تھی ہم نے دیکھا ایک شخص مسجد میں یہ کہہ رہا ہے خبردار قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بات بھی ہے کہ برے لوگوں کو چڑھا دیا جائے گا اور نیک لوگوں کو اٹھالیا جائے گا۔ خبردار قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بات بھی ہے کہ باتیں کی جائیں گی اور عمل ترک کردیا جائے گا۔ خبردار قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بات بھی کہ مثنات کو پڑھا جائے گا اور کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو اسے مٹادے۔ ان سے دریافت کیا گیا مثنات کیا ہے انھوں نے جواب دیا وہ چیز جو قرآن کے علاوہ ہو اسے نوٹ کیا جائے تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم قرآن کو اختیار کرو اور اس کے ذریعے ہی تمہیں ہدایت ملے گی۔ اسی کے ذریعے تمہیں بدلہ ملے گا اور اسی کے حوالے سے تم سے حساب لیا جائے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں مجھے نہیں پتہ چلا کہ وہ کون صاحب ہیں میں نے حمص میں یہ حدیث بیان کی تو حاضرین میں سے ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کیا تم نے انھیں پہچانا نہیں میں نے جواب دیا نہیں اس شخص نے بتایا وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔

477

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ جَاءَ أَبُو قُرَّةَ الْكِنْدِيُّ بِكِتَابٍ مِنْ الشَّامِ فَحَمَلَهُ فَدَفَعَهُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَنَظَرَ فِيهِ فَدَعَا بِطَسْتٍ ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَرَسَهُ فِيهِ وَقَالَ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِاتِّبَاعِهِمْ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَهُمْ قَالَ حُصَيْنٌ فَقَالَ مُرَّةُ أَمَا إِنَّهُ لَوْ كَانَ مِنْ الْقُرْآنِ أَوْ السُّنَّةِ لَمْ يَمْحُهُ وَلَكِنْ كَانَ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ
مرہ ہمدانی بیان کرتے ہیں ابوقرہ کندی شام سے ایک تحریر لے کر آئے اور اسے حضرت عبداللہ بن مسعود کے سامنے پیش کیا حضرت عبداللہ نے اس کا جائزہ لے کر ایک طشت منگوایا پھر آپ نے پانی منگوایا اور اسے اس پانی میں دھو دیا اور ارشاد فرمایا تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوگئے کہ انھوں نے اس طرح کی کتابوں کی پیروی شروع کردی تھی اور اللہ کی طرف سے ان کے اوپر جو کتاب نازل ہوئی اسے چھوڑ دیا تھا۔ حسین نامی راوی بیان کرتے ہیں مرہ فرماتے ہیں اگر اس میں قرآن یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے متعلق کوئی چیز نہ ہوتی تو حضرت عبداللہ اسے ہرگز نہ مٹاتے۔ اس میں اہل کتاب سے متعلق کوئی چیز ہوگی۔

478

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَتِفٍ فِيهِ كِتَابٌ فَقَالَ كَفَى بِقَوْمٍ ضَلَالًا أَنْ يَرْغَبُوا عَمَّا جَاءَ بِهِ نَبِيُّهُمْ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ نَبِيٌّ غَيْرُ نَبِيِّهِمْ أَوْ كِتَابٌ غَيْرُ كِتَابِهِمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ الْآيَةَ
یحییٰ بن جعدہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کسی جانور کے کندھے کی ہڈی پیش کی گئی جس میں کوئی بات تحریر تھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کسی بھی قوم کے گمراہ ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا نبی ان کے پاس جو چیز لایا ہو وہ اسے چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوجائیں جو کوئی دوسرا نبی لایا تھا یا وہ اپنی کتاب کے بجائے کسی دوسری کتاب کی طرف متوجہ ہوجائیں راوی بیان کرتے ہیں تو اللہ نے یہ آیت نازل کی۔ " کیا ان لوگوں کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر کتاب نازل کی ہے جس کی ان لوگوں کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے اس قوم کے لیے جو ایمان رکھتی ہو۔

479

أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَشْعَثِ عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ مَعَ رَجُلٍ صَحِيفَةً فِيهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ فَقُلْتُ أَنْسِخْنِيهَا فَكَأَنَّهُ بَخِلَ بِهَا ثُمَّ وَعَدَنِي أَنْ يُعْطِيَنِيهَا فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ فَإِذَا هِيَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ إِنَّ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ بِدْعَةٌ وَفِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ هَذَا وَأَشْبَاهُ هَذَا إِنَّهُمْ كَتَبُوهَا فَاسْتَلَذَّتْهَا أَلْسِنَتُهُمْ وَأُشْرِبَتْهَا قُلُوبُهُمْ فَأَعْزِمُ عَلَى كُلِّ امْرِئٍ يَعْلَمُ بِمَكَانِ كِتَابٍ إِلَّا دَلَّ عَلَيْهِ وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ قَالَ شُعْبَةُ فَأَقْسَمَ بِاللَّهِ قَالَ أَحْسَبُهُ أَقْسَمَ لَوْ أَنَّهَا ذُكِرَتْ لَهُ بِدَارِ الْهِنْدِ أُرَاهُ يَعْنِي مَكَانًا بِالْكُوفَةِ بَعِيدًا إِلَّا أَتَيْتُهُ وَلَوْ مَشْيًا
اشعث اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں جو حضرت عبداللہ کے ساتھیوں میں سے ایک تھے وہ بیان کرتے ہیں میں نے ایک شخص کے پاس ایک صحیفہ دیکھا جس میں سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الا اللہ، اللہ اکبر تحریر تھا میں نے اس سے کہا تم مجھے اس کا ایک نسخہ تیار کردو۔ اس نے اس بارے میں کنجوسی کا مظاہرہ کیا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ پھر کسی وقت کردے گا۔ میں حضرت عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ تحریر ان کے سامنے موجود تھی حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا اس کتاب میں جو کچھ بھی موجود ہے یہ بدعت ہے آزمائش ہے اور گمراہی ہے تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئے کہ وہ اس طرح کی باتیں لکھ لیا کرتے تھے ان کی زبانیں ان سے مانوس ہوجاتی تھیں ان کے دل ان کی طرف مائل ہوجاتے تھے۔ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو ایسی تحریر کا علم ہو وہ اس کی طرف رہنمائی کرے اور میں اللہ کی قسم دیتاہوں۔ شعبہ نامی راوی بیان کرتے ہیں میں نے دریافت کیا کیا انھوں نے اللہ کی قسم دی تھی۔ انھوں نے جواب دیا میرا خیال ہے کہ انھوں نے قسم دی تھی اگر ان کے سامنے یہ بات بیان کی جاتی کہ دار ہند میں وہ تحریر موجود ہے جو کوفہ کا ایک دور دراز مقام ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود وہاں بھی پہنچ جاتے خواہ انھیں پیدل چل کے جانا پڑے۔

480

أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَتَبُوا كِتَابًا فَتَبِعُوهُ وَتَرَكُوا التَّوْرَاةَ
حضرت ابوموسی ارشاد فرماتے ہیں بنی اسرائیل نے خود ایک کتاب لکھی اور اس کی پیروی کرنی شروع کردی اور پھر توراۃ کو ترک کردیا۔

481

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ عُثْمَانَ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ عَفَّاقٍ الْمُحَارِبِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ إِنَّ نَاسًا يَسْمَعُونَ كَلَامِي ثُمَّ يَنْطَلِقُونَ فَيَكْتُبُونَهُ وَإِنِّي لَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْتُبَ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ
حضرت ابن مسعود (رض) ارشاد فرماتے ہیں لوگ مجھ سے کوئی بات سن کر چلے جاتے ہیں اور پھر اسے نوٹ کرلیتے ہیں میں کسی شخص کے لیے یہ بات جائز قرار نہیں دیتا کہ وہ اللہ کی کتاب کے علاوہ کسی اور بات کو نوٹ کرے۔

482

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ وَلَا اسْتَعَدْتُ حَدِيثًا مِنْ إِنْسَانٍ
امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں میں سفید کاغذ پر سیاہی کے ساتھ کچھ نہیں نوٹ کرتا اور نہ ہی کسی شخص کے سامنے کوئی حدیث دوبارہ بیان کرتا ہوں۔

483

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ أَخِيهِ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں مجھ سے زیادہ حدیث صرف حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے روایت کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نوٹ کرلیا کرتے تھے اور میں نوٹ نہیں کرتا تھا۔

484

أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ قَالَ حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا تَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَكْتُ عَنْ الْكِتَابِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَوْمَأَ بِإِصْبَعِهِ إِلَى فِيهِ وَقَالَ اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا خَرَجَ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ
حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں پہلے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی جو بھی بات سنتا تھا اسے نوٹ کرلیتا تھا میرا ارادہ یہ ہوتا تھا کہ میں اسے یاد کروں گا قریش نے مجھے اس بات سے منع کیا اور یہ بات کہی تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنی ہوئی ہر بات نوٹ کرلیتے ہو جبکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ایک انسان ہیں آپ کسی وقت غصے کے عالم میں اور کسی وقت خوشی کے عالم میں کوئی بات ارشاد فرما سکتے ہیں تو میں نوٹ کرنے سے رک گیا پھر میں نے اس بات کا تذکرہ نبی اکرم سے کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی کے ذریعے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تم نوٹ کرسکتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس (یعنی منہ سے) حق کے علاوہ کوئی چیز نہیں نکلتی۔

485

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَرْوِيَ مِنْ حَدِيثِكَ فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْتَعِينَ بِكِتَابِ يَدِي مَعَ قَلْبِي إِنْ رَأَيْتَ ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَ قَالَهُ عِ حَدِيثِي ثُمَّ اسْتَعِنْ بِيَدِكَ مَعَ قَلْبِكَ
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں آپ کے حوالے سے حدیث روایت کروں میں نے یہ ارادہ کیا ہے میں اس بارے میں اپنی یاد داشت کے ہمراہ اپنی تحریرات سے بھی مدد حاصل کروں اگر آپ مناسب سمجھیں ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میری حدیث کو محفوظ کرو اور اس بارے میں اپنے ذہن کے ہمراہ اپنے ہاتھ سے بھی مدد حاصل کرو۔

486

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قَبِيلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكْتُبُ إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا بَلْ مَدِينَةُ هِرَقْلَ أَوَّلًا
حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ نوٹ کررہے تھے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کون سا شہر پہلے فتح ہوگا۔ قسطنطینہ یا رومیہ ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہرقل کا شہر پہلے فتح ہوگا۔

487

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو مَعْمَرٍ عَنْ أَبِي ضَمْرَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَنْ اكْتُبْ إِلَيَّ بِمَا ثَبَتَ عِنْدَكَ مِنْ الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِحَدِيثِ عَمْرَةَ فَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَهُ
حضرت عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن محمد کو خط لکھا آپ کے نزدیک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو مستند احادیث ہیں آپ وہ لکھ کر میرے پاس بھیجوائیں اور عمرہ کی احادیث بھی بھجوائیں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ علم رخصت ہوجائے گا۔

488

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ انْظُرُوا حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبُوهُ فَإِنِّي قَدْ خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ أَهْلِهِ
حضرت عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اہل مدینہ کو خط لکھا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث تلاش کرکے انھیں نوٹ کرلو کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ علم رخصت ہوجائے گا اور اہل علم بھی رخصت ہوجائیں گے۔

489

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ قَالَ يَعِيبُونَ عَلَيْنَا الْكِتَابَ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ
ابوملیح بیان کرتے ہیں لوگ ہمارے اوپر تحریری طور پر محفوظ کرنے کی وجہ سے عیب لگاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے " اس کا علم میرے پروردگار کے ہاں تحریر میں محفوظ ہے "۔

490

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا سَوَادَةُ بْنُ حَيَّانَ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ قُرَّةَ أَبَا إِيَاسٍ يَقُولُ كَانَ يُقَالُ مَنْ لَمْ يَكْتُبْ عِلْمَهُ لَمْ يُعَدَّ عِلْمُهُ عِلْمًا
سوادہ بن حیان بیان کرتے ہیں میں نے معاویہ بن قرہ کو ابوایاس سے یہ کہتے ہوئے سنا جو شخص اپنے علم کو نوٹ نہیں کرتا اس کے علم کو علم شمار نہیں کیا جاتا۔

491

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّ أَنَسًا كَانَ يَقُولُ لِبَنِيهِ يَا بَنِيَّ قَيِّدُوا هَذَا الْعِلْمَ
ثمامہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں حضرت انس (رض) نے اپنے بیٹے سے یہ کہا تھا اے میرے بیٹے اس علم کو تحریر کے ذریعے قید کرلو۔

492

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ سَلْمٍ الْعَلَوِيِّ قَالَ رَأَيْتُ أَبَانَ يَكْتُبُ عِنْدَ أَنَسٍ فِي سَبُّورَةٍ
حضرت سلمہ علوی فرماتے ہیں میں نے ابان کو حضرت انس (رض) کے حوالے سے منقول روایات کو ایک تختے پر نوٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

493

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ جَابِرٍ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ عَنْ كِتَابِ الْعِلْمِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ
حسن بن جابر (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوامامہ باہلی سے علم کو نوٹ کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

494

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا مُعَاذٌ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ قَالَ كُنْتُ أَكْتُبُ مَا أَسْمَعُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أُفَارِقَهُ أَتَيْتُهُ بِكِتَابِهِ فَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ وَقُلْتُ لَهُ هَذَا سَمِعْتُ مِنْكَ قَالَ نَعَمْ
حضرت بشیر بن نہیک بیان کرتے ہیں میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی زبانی جو باتیں سنتا تھا انھیں نوٹ کرلیا کرتا تھا جب میں نے ان سے جدا ہونے کا ارادہ کیا تو میں وہ تحریر لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان احادیث کو ان کے سامنے پڑھا اور ان سے کہا یہ وہ روایات ہیں جو میں نے آپ کی زبانی سنی ہیں انھوں نے جواب دیا ٹھیک ہے۔

495

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ أَسْمَعُ مِنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِاللَّيْلِ فَأَكْتُبُهُ فِي وَاسِطَةِ الرَّحْلِ
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں میں حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) کی زبانی رات کے وقت جو احادیث سنتا تھا انھیں پالان کی لکڑی پر لکھ لیا کرتا تھا۔

496

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَا يُرَغِّبُنِي فِي الْحَيَاةِ إِلَّا الصَّادِقَةُ وَالْوَهْطُ فَأَمَّا الصَّادِقَةُ فَصَحِيفَةٌ كَتَبْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَّا الْوَهْطُ فَأَرْضٌ تَصَدَّقَ بِهَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ كَانَ يَقُومُ عَلَيْهَا
حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں مجھے زندگی میں صرف دو ہی چیزیں پسند ہیں ایک صادقہ اور دوسری وھط۔ الصادقہ وہ صحیفہ ہے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث پر مشتمل ہے جسے میں نے نوٹ کیا ہے اور وھط وہ زمین ہے جسے حضرت عمرو بن عاص نے صدقہ کیا تھا اور حضرت عبداللہ اس کے نگران تھے۔

497

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ عَمِّهْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ قَيِّدُوا الْعِلْمَ بِالْكِتَابِ
حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں علم کو تحریر کے ذریعے قید کرلو۔

498

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الثَّقَفِيُّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ قَيِّدُوا هَذَا الْعِلْمَ بِالْكِتَابِ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں اس علم کو تحریر کے ذریعے قید کرلو۔

499

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ لَيْلًا وَكَانَ يُحَدِّثُنِي بِالْحَدِيثِ فَأَكْتُبُهُ فِي وَاسِطَةِ الرَّحْلِ حَتَّى أُصْبِحَ فَأَكْتُبَهُ
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں رات کے وقت حضرت عبداللہ بن عباس کے ہمراہ مکہ میں ایک راستے پر جا رہا تھا وہ مجھے یہ حدیث بیان کررہے تھے اور میں اسے پالان کی لکڑی پر لکھ رہا تھا یہاں تک کہ جب صبح ہوگئی تو میں نے اسے باقاعدہ نوٹ کرلیا۔

500

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ يَعْقُوبَ الْقُمِّيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ أَكْتُبُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي صَحِيفَةٍ وَأَكْتُبُ فِي نَعْلَيَّ
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں میں حضرت ابن عباس (رض) کی موجودگی میں ایک رجسٹر میں (احادیث) لکھ لیتا تھا اور چمڑے پر بھی لکھ لیتا تھا۔

501

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مَنْدَلُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَنَزِيُّ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَأَكْتُبُ فِي الصَّحِيفَةِ حَتَّى تَمْتَلِئَ ثُمَّ أَقْلِبُ نَعْلَيَّ فَأَكْتُبُ فِي ظُهُورِهِمَا
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں میں حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں بیٹھا ہوتا تھا اور اپنے رجسٹر پر احادیث نوٹ کرلیتا تھا جب وہ بھر جاتا تھا میں چمڑے کے اوپر ان احادیث کو نوٹ کرلیتا تھا۔

502

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا فُضَيْلٌ عَنْ عُبَيْدٍ الْمُكْتِبِ قَالَ رَأَيْتُهُمْ يَكْتُبُونَ التَّفْسِيرَ عِنْدَ مُجَاهِدٍ
عبید بن مکتب بیان کرتے ہیں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ مجاہد کی موجودگی میں تفسیر تحریر کیا کرتے تھے۔

503

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو وَكِيعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنَشٍ قَالَ رَأَيْتُهُمْ يَكْتُبُونَ عِنْدَ الْبَرَاءِ بِأَطْرَافِ الْقَصَبِ عَلَى أَكُفِّهِمْ
عبداللہ بن حنش بیان کرتے ہیں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ حضرت براء کی موجودگی میں احادیث کو نوٹ کرلیا کرتے تھے۔

504

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ ابْنِ إِدْرِيسَ عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ بِحَدِيثٍ فَقُلْتُ أَكْتُبُهُ عَنْكَ قَالَ فَرَخَّصَ لِي وَلَمْ يَكَدْ
ہارون بن عترہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے میرے سامنے ایک حدیث بیان کی میں نے دریافت کیا میں اس حدیث کو آپ کے حوالے سے نوٹ کرلوں تو انھوں نے مجھے اس کی رخصت دی تاہم انھوں نے مشکل سے ایسا کیا۔

505

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي السَّائِبِ عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ قَالَ كَتَبَ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ إِلَى عَامِلِهِ أَنْ يَسْأَلَنِي عَنْ حَدِيثٍ قَالَ رَجَاءٌ فَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُهُ لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ عِنْدِي مَكْتُوبًا
رجاء بن حیوۃ بیان کرتے ہیں ہشام بن عبدالملک نے اپنے گورنر کو خط میں یہ لکھا کہ وہ مجھ سے ایک حدیث دریافت کرے رجاء بیان کرتے ہیں اگر وہ حدیث تحریری طور پر میرے سامنے موجود نہ ہوتی تو میں تو اسے بھول چکا ہوتا۔

506

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ قَالَ كَانَ يُسْأَلُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَيُكْتَبُ مَا يُجِيبَ فِيهِ بَيْنَ يَدَيْهِ
ہشام بن غاز بیان کرتے ہیں انھوں نے عطاء بن ابی رباح سے کچھ سوالات کئے اور انھوں نے جو جوابات دیئے ان کی موجودگی میں ہی ان جوابات کو نوٹ کرلیا گیا۔

507

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي السَّائِبِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى أَنَّهُ رَأَى نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يُمْلِي عِلْمَهُ وَيُكْتَبُ بَيْنَ يَدَيْهِ
سلیمان بن موسیٰ بیان کرتے ہیں انھوں نے حضرت ابن عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام نافع کو دیکھا کہ وہ اپنے علمی نکات املاء کروایا کرتے تھے اور لوگ ان کی موجودگی میں انھیں نوٹ کرلیا کرتے تھے۔

508

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ كَانَ سُفْيَانُ يَكْتُبُ الْحَدِيثَ بِاللَّيْلِ فِي الْحَائِطِ فَإِذَا أَصْبَحَ نَسَخَهُ ثُمَّ حَكَّهُ
مبارک بن سعید بیان کرتے ہیں سفیان رات کے وقت حدیث دیوار پر نوٹ کرلیتے تھے صبح کے وقت پھر اس حدیث کو نقل کر کے وہاں سے مٹا دیتے تھے۔

509

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا أَبُو غِفَارٍ الْمُثَنَّى بْنُ سَعْدٍ الطَّائِيُّ حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنِي فُلَانٌ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفَهُ عُمَرُ قُلْتُ حَدَّثَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْحَيَاءَ وَالْعَفَافَ وَالْعِيَّ عِيَّ اللِّسَانِ لَا عِيَّ الْقَلْبِ وَالْفِقْهَ مِنْ الْإِيمَانِ وَهُنَّ مِمَّا يَزِدْنَ فِي الْآخِرَةِ وَيُنْقِصْنَ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا يَزِدْنَ فِي الْآخِرَةِ أَكْثَرُ وَإِنَّ الْبَذَاءَ وَالْجَفَاءَ وَالشُّحَّ مِنْ النِّفَاقِ وَهُنَّ مِمَّا يَزِدْنَ فِي الدُّنْيَا وَيُنْقِصْنَ فِي الْآخِرَةِ وَمَا يُنْقِصْنَ فِي الْآخِرَةِ أَكْثَرُأَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ قَالَ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ خَرَجَ عَلَيْنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ وَمَعَهُ قِرْطَاسٌ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا لِصَلَاةِ الْعَصْرِ وَهُوَ مَعَهُ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الْكِتَابُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَدَّثَنِي بِهِ عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَأَعْجَبَنِي فَكَتَبْتُهُ فَإِذَا فِيهِ هَذَا الْحَدِيثُ
عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہا فلاں صاحب نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک صحابی کا نام لیا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز انھیں جانتے تھے میں نے کہا انھوں نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیشک حیاء، پاکدامنی اور رکاوٹ، زبان کی رکاوٹ دل کی نہیں اور سمجھ بوجھ ایمان کا حصہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو آخرت میں انسان کے مرتبہ و مقام میں اضافہ کرتی ہیں اور دنیا میں (حاصل ہونے والی نعمتوں میں) کمی کردیتی ہیں جبکہ فضول گوئی بد زبانی اور بخل وہ چیزیں ہیں جو نفاق کا حصہ ہیں یہ چیزیں دنیا میں انسان کے اشتغال میں اضافہ کرتی ہیں اور آخرت کی طرف توجہ میں کمی کردیتی ہیں اور آخرت میں کمی کرنے والی چیزیں بہت ہیں۔ ابوقلابہ بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز ہمارے پاس ظہر کی نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے ان کے پاس ایک کا پی تھی پھر جب وہ عصر کی نماز پڑھانے کے لیے ہمارے پاس تشریف لائے تو وہ کا پی پھر ان کے پاس تھی میں نے ان سے دریافت کیا اے امیرالمومنین اس تحریر میں کیا ہے انھوں نے فرمایا یہ ایک حدیث ہے جو عون بن عبداللہ نے مجھے سنائی ہے مجھے یہ بہت اچھی لگی تو میں نے اسے نوٹ کرلیا اس میں یہ حدیث موجود تھی (جوسابقہ سطور میں نقل کی جا چکی ہے)

510

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا مَسْعُودٌ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ شُرَحْبِيلَ أَبِي سَعْدٍ قَالَ دَعَا الْحَسَنُ بَنِيهِ وَبَنِي أَخِيهِ فَقَالَ يَا بَنِيَّ وَبَنِي أَخِي إِنَّكُمْ صِغَارُ قَوْمٍ يُوشِكُ أَنْ تَكُونُوا كِبَارَ آخَرِينَ فَتَعَلَّمُوا الْعِلْمَ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ أَنْ يَرْوِيَهُ أَوْ قَالَ يَحْفَظَهُ فَلْيَكْتُبْهُ وَلْيَضَعْهُ فِي بَيْتِهِ
حضرت شرحبیل فرماتے ہیں حضرت حسن بصری نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو بلایا اور کہا اے میرے بچو اور میرے بھتیجو۔ تم لوگ کم سن ہو عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم دوسرے لوگوں کے لیے بڑے بن جاؤ گے اس لیے تم علم حاصل کرو تم میں سے جو شخص احادیث کو یاد رکھنے کی صلاحییت نہیں رکھتا وہ انھیں نوٹ کرلے اور اسے اپنے گھر میں سنبھال کے رکھ لے۔

511

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ حَدَّثَنَاهُ عَاصِمٌ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً عُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِ شَيْءٌ
حضرت جریر روایت کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی اچھے کام کا آغاز کرے جس پر اس کے بعد بھی عمل کیا جائے تو اس شخص کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اور جو شخص کسی برے کام کا آغاز کرے گا تو انھیں ان سب کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا جو اس پر عمل کریں گے حالانکہ ان لوگوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

512

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ مَوْلَى الْحُرَقَةِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ اتَّبَعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اسے اس کی پیروی کرنیوالوں کے اجر جتنا اجر ملے گا اور ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جو شخص کسی گمراہی کی طرف بلائے اسے اس کی پیروی کرنیوالے سب لوگوں کے گناہوں جتنا گناہ ملے گا اور ان لوگوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

513

أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ يَعْنِي ابْنَ صُبَيْحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا حَتَّى بَانَ فِي وَجْهِهِ الْغَضَبُ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ فَتَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ السُّرُورُ فَقَالَ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً كَانَ لَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ
حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی لوگوں نے اس بارے میں سستی کا اظہار کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے پھر انصار سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ایک تھیلی لے کر آیا تو اس کے بعد لوگ یکے بعد دیگرے چیزیں لانے لگے یہاں تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی اچھے کام کا آغاز کرتا ہے اسے اس کا اجر ملتا ہے اور جتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کے جتنا اجر ملتا ہے حالانکہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اور جو شخص کسی برے کام کا آغاز کرتا ہے اسے ان سب لوگوں کے گناہوں جتنا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے جو اس پر عمل کرتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

514

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا أَعْظَمُكُمْ أَجْرًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَنَّ لِي أَجْرِي وَمِثْلَ أَجْرِ مَنْ اتَّبَعَنِي
حسان بن عطیہ بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مجھے تم سب سے زیادہ اجر نصیب ہوگا کیونکہ مجھے میرا بھی اجر ملے گا اور ہر اس شخص جتنا بھی اجر ملے جو میری پیروی کرے گا۔

515

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ بِشْرٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ دَعَا إِلَى أَمْرٍ وَلَوْ دَعَا رَجُلٌ رَجُلًا كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَوْقُوفًا بِهِ لَازِمًا بِغَارِبِهِ ثُمَّ قَرَأَ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ
حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی معاملے کی طرف دعوت دے خواہ ایک شخص کو دعوت دے تو قیامت کے دن اسے روکا جائے گا اور اس کی پشت کو پکڑ لیا جائے گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی۔ " اور انھیں روک لو ان سے حساب لیا جائے گا۔

516

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ أَرْبَعٌ يُعْطَاهَا الرَّجُلُ بَعْدَ مَوْتِهِ ثُلُثُ مَالِهِ إِذَا كَانَ فِيهِ قَبْلَ ذَلِكَ لِلَّهِ مُطِيعًا وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ يَدْعُو لَهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ وَالسُّنَّةُ الْحَسَنَةُ يَسُنُّهَا الرَّجُلُ فَيُعْمَلُ بِهَا بَعْدَ مَوْتِهِ وَالْمِائَةُ إِذَا شَفَعُوا لِلرَّجُلِ شُفِّعُوا فِيهِ
امام شعبی روایت کرتے ہیں حضرت ابن مسعود (رض) ارشاد فرماتے ہیں چار چیزوں کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا ہے اس کا ایک تہائی مال جبکہ وہ اس سے پہلے اس کے بارے میں اللہ کا فرمان بردار ہو وہ نیک اولاد جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرتی رہے اور وہ اچھا طریقہ جسے کسی انسان نے آغاز کیا ہو اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس پر عمل ہوتا رہے اور وہ شخص جس کی نماز جنازہ میں سو افراد شریک ہوں اور ان کی دعا قبول ہوجائے۔

517

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ جَهَدْنَا بِإِبْرَاهِيمَ حَتَّى أَنْ نُجْلِسَهُ إِلَى سَارِيَةٍ فَأَبَى
اعمش بیان کرتے ہیں ہم نے بڑی کوشش کی کہ ابراہیم نخعی کو ستون کے ساتھ بٹھائیں لیکن انھوں نے انکار کردیا۔

518

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَسْتَنِدَ إِلَى السَّارِيَةِ
ابراہیم نخعی اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ ستون کے ساتھ ٹیک لگائیں۔

519

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ قَالَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ لَا يَبْتَدِئُ الْحَدِيثَ حَتَّى يُسْأَلَ
مغیرہ بیان کرتے ہیں ابراہیم بات کا آغاز نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ جب سوال کیا جاتا پھر اس کا جواب دیتے تھے۔

520

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ قَالَ كَانَ الْحَارِثُ بْنُ قَيْسٍ الْجُعْفِيُّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ وَكَانُوا مُعْجَبِينَ بِهِ فَكَانَ يَجْلِسُ إِلَيْهِ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ فَيُحَدِّثُهُمَا فَإِذَا كَثُرُوا قَامَ وَتَرَكَهُمْ
خیثمہ بیان کرتے ہیں حارث بن قیس جعفی جو حضرت عبداللہ کے شاگردوں میں سے ہیں اور لوگ انھیں بہت پسند کرتے تھے اگر ایک یا دو آدمی ان کے پاس بیٹھتے تو وہ انھیں حدیث سنایا کرتے تھے لیکن جب زیادہ لوگ بیٹھتے تو وہ اٹھ کر چلے جاتے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے۔

521

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قِيلَ لَهُ حِينَ مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ قَعَدْتَ فَعَلَّمْتَ النَّاسَ السُّنَّةَ فَقَالَ أَتُرِيدُونَ أَنْ يُوطَأَ عَقِبِي
ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں جب حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تو علقمہ سے کہا گیا اگر آپ تشریف فرما ہو کر لوگوں کو سنت کی تعلیم دینا شروع کریں تو یہ مناسب ہوگا۔ انھوں نے جواب دیا کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ لوگ میری پیروی کرنا شروع کردیں۔

522

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ سَمِعْتُ هَارُونَ بْنَ عَنْتَرَةَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ أَتَيْنَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ لِنَتَحَدَّثَ إِلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ قُمْنَا وَنَحْنُ نَمْشِي خَلْفَهُ فَرَهَقَنَا عُمَرُ فَتَبِعَهُ فَضَرَبَهُ عُمَرُ بِالدِّرَّةِ قَالَ فَاتَّقَاهُ بِذِرَاعَيْهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا نَصْنَعُ قَالَ أَوَ مَا تَرَى فِتْنَةً لِلْمَتْبُوعِ مَذَلَّةً لِلتَّابِعِ
سلیم بن حنظلہ بیان کرتے ہیں ہم حضرت ابی بن کعب کی خدمت میں حاضر ہوتے تاکہ ان سے کچھ گفتگو کریں جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم ان کے پیچھے چلنے لگے حضرت عمر نے ہمیں دیکھ لیا وہ ان کے پیچھے آئے اور حضرت عمر نے انھیں درہ سے مارا۔ حضرت ابی نے بازو وؤ کے ذریعے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے دریافت کیا اے امیرالمومنین آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ حضرت عمر نے جواب دیا کیا تم نے غور نہیں کیا (تمہاری یہ حرکت) پیشوا کے لیے آزمائش ہے اور پیروی کرنے والوں کے لیے ذلت ہے۔

523

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُهُمْ
حضرت ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں پہلے زمانہ کے مشائخ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ ان کے پیچھے چلا جائے۔

524

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ بِسْطَامِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ إِذَا مَشَى مَعَهُ الرَّجُلُ قَامَ فَقَالَ أَلَكَ حَاجَةٌ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ قَضَاهَا وَإِنْ عَادَ يَمْشِي مَعَهُ قَامَ فَقَالَ أَلَكَ حَاجَةٌ
بسطام بن مسلم بیان کرتے ہیں محمد بن سیرین جب ان کے ساتھ کوئی شخص چلتا تو وہ ٹھہر جاتے اور یہ دریافت کرتے کیا تمہیں کوئی کام ہے اگر اس شخص کو کوئی کام ہوتا تو اسے پورا کردیتے اور اگر وہ دوبارہ ان کے ساتھ چلنے لگتا تو پھر ٹھہر جاتے اور دریافت کرتے کیا تمہیں کوئی کام ہے۔

525

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُكُمْ
حضرت ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں تم اس بات سے بچو کہ تمہارے پیچھے چلا جائے۔

526

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْهَيْثَمِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ أَنَّهُ رَأَى أُنَاسًا يَتْبَعُونَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ قَالَ فَأُرَاهُ قَالَ نَهَاهُمْ وَقَالَ إِنَّ صَنِيعَكُمْ هَذَا أَوْ مَشْيَكُمْ هَذَا مَذَلَّةٌ لِلتَّابِعِ وَفِتْنَةٌ لِلْمَتْبُوعِ
عاصم بن ضمرہ بیان کرتے ہیں انھوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو حضرت سعد بن جبیر کے پیچھے چلنے لگے عاصم بیان کرتے ہیں سعید نے انھیں منع کیا اور فرمایا تمہاری یہ حرکت پیچھے چلنے والوں کے لیے ذات اور جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لیے آزمائش کی حثییت رکھتی ہے۔

527

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَسْوَدَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ شَاوَرْتُ مُحَمَّدًا فِي بِنَاءٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَهُ فِي الْكَلَّاءِ قَالَ فَأَشَارَ عَلَيَّ وَقَالَ إِذَا أَرَدْتَ أَسَاسَ الْبِنَاءِ فَآذِنِّي حَتَّى أَجِيءَ مَعَكَ قَالَ فَأَتَيْتُهُ قَالَ فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَمْشِي إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَمَشَى مَعَهُ فَقَامَ فَقَالَ أَلَكَ حَاجَةٌ قَالَ لَا قَالَ أَمَّا لَا فَاذْهَبْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ أَنْتَ أَيْضًا فَاذْهَبْ قَالَ فَذَهَبْتُ حَتَّى خَالَفْتُ الطَّرِيقَ
ابن عون بیان کرتے ہیں میں نے محمد نامی محدث سے ایک عمارت تعمیر کرنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ ویران علاقے میں اسے تعمیر کروں گا۔ انھوں نے اشارے کے ذریعے مجھ سے کہا جب تم اس عمارت کی بنیاد رکھنے لگو تو مجھے بتا دینا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ ابن عون کہتے ہیں مقررہ وقت پر میں ان کے پاس آیا ہم جا رہے تھے اسی دوران ایک شخص آیا اور ان کے ساتھ چلنے لگا وہ ٹھہر گئے اور پوچھا کیا تمہیں کوئی کام ہے۔ اس نے جواب دیا نہیں تو محمد (نامی محدث) نے کہا اگر کوئی کام نہیں ہے تو تم جاؤ۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے ایسا کرو تم بھی جاؤ۔ ابن عون بیان کرتے ہیں پھر میں بھی چل پڑا اور دوسرے راستے سے وہاں تک پہنچا۔

528

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ نُسَيْرٍ أَنَّ الرَّبِيعَ كَانَ إِذَا أَتَوْهُ يَقُولُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكُمْ يَعْنِي أَصْحَابَهُ
نسیر بیان کرتے ہیں ربیع کے پاس جب لوگ آتے تھے تو وہ کہا کرتے تھے کہ میں تم لوگوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

529

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ فَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ وَهُوَ سَاكِتٌ فَقِيلَ لَهُ أَلَا تُحَدِّثُ أَصْحَابَكَ قَالَ أَخَافُ أَنْ أَقُولَ لَهُمْ مَا لَا أَفْعَلُ
عبدالرحمن بن بشیر بیان کرتے ہیں ہم لوگ حضرت خباب بن ارت کے پاس موجود تھے ان کے ساتھی ان کے پاس اکٹھے ہوئے تو وہ خاموش ہوگئے ان سے کہا گیا آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوئی بات کیوں نہیں کرتے ؟ انھوں نے جواب دیا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ میں ان سے کوئی ایسی بات نہ کہہ دوں جس پر میں خود عمل نہیں کرتا۔

530

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ صَالِحٍ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ قَالَ وَدِدْتُ أَنِّي نَجَوْتُ مِنْ عَمَلِي كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ
صالح بیان کرتے ہیں میں نے شعبی کو یہ کہتے ہوئے سنا میری یہ خواہش ہے کہ میرے علم کے حوالے سے میری نجات ہی ہوجائے تو اتناہی کافی ہے کہ نہ مجھے کوئی ثواب ملے اور نہ میرے اوپر کوئی وبال ہو۔

531

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَمْشِي وَنَاسٌ يَطَئُونَ عَقِبَهُ فَقَالَ لَا تَطَئُوا عَقِبِي فَوَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أُغْلِقُ عَلَيْهِ بَابِي مَا تَبِعَنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ
حسن بیان کرتے ہیں حضرت ابن مسعود (رض) جب چلتے تھے تو لوگ ان کے پیچھے ہولیتے تھے تو وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پیچھے نہ چلو اللہ کی قسم اگر تمہیں یہ پتا چل جائے کہ میں بند دروازے کے پیچھے کیا کام کرتا ہوں تو تم میں سے کوئی بھی میرے پیچھے نہ آئے۔

532

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ فِتْنَةٌ لِلْمَتْبُوعِ مَذَلَّةٌ لِلتَّابِعِ
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کسی کے پیچھے چلنا آگے جانے والے شخص کے لیے آزمائش اور پیچھے آنیوالے کے لیے ذلت ہے۔

533

أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أُمَيٍّ قَالَ مَشَوْا خَلْفَ عَلِيٍّ فَقَالَ عَنِّي خَفْقَ نِعَالِكُمْ فَإِنَّهَا مُفْسِدَةٌ لِقُلُوبِ نَوْكَى الرِّجَالِ
امی بیان کرتے ہیں لوگ حضرت علی (رض) کے پیچھے چلا کرتے تھے وہ یہ فرماتے تھے میرے پیچھے نہ آؤ کیونکہ اس کی وجہ سے بیوقوف لوگوں کے دل خراب ہوجاتے ہیں۔

534

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ إِنَّ خَفْقَ النِّعَالِ حَوْلَ الرِّجَالِ قَلَّ مَا يُلَبِّثُ الْحَمْقَى
حسن بیان کرتے ہیں پیچھے چلنے سے بیوقوف آدمی کا دماغ خراب ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

535

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ حَدَّثَنَا قَاسِمُ هُوَ ابْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ كَانَ إِذَا جَلَسَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ أَوْ الرَّجُلَانِ قَامَ فَتَنَحَّى
طاؤس کے بارے میں منقول ہے کہ جب ایک یا دو آدمی ان کے پاس آ کر بیٹھتے تو وہ اٹھ کر چلے جاتے تھے۔

536

أَخْبَرَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ مَا فَعَلَ بِهِ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ
حضرت ابوبرزہ اسلمی (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن کسی بندے کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ برقرار رہیں گے جب تک اس سے اس کی زندگی کے بارے میں سوال نہ کیا جائے کہ اس نے اسے کس بارے میں صرف کیا اور اس کے علم کے بارے میں دریافت کیا جائے گا کہ اس نے اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں دریافت کیا جائے گا کہ اس نے اس کو کہاں خرچ کیا اور اس کے جسم کے بارے میں کہ سوال کیا جائے گا کہ اس نے اسے کس آزمائش میں مبتلا کیا۔

537

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ رَاشِدٍ حَدَّثَنِي فُلَانٌ الْعُرَنِيُّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ لَا يَدَعُ اللَّهُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ حَتَّى يَسْأَلَهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ عَمَّا أَفْنَوْا فِيهِ أَعْمَارَهُمْ وَعَمَّا أَبْلَوْا فِيهِ أَجْسَادَهُمْ وَعَمَّا كَسَبُوا فِيمَا أَنْفَقُوا وَعَمَّا عَمِلُوا فِيمَا عَلِمُوا
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں نہیں چھوڑے گا اس دن لوگ تمام جہاں کے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے یہاں تک کہ لوگوں سے چار چیزوں کے بارے میں حساب لیا جائے گا کہ انھوں نے اپنی زندگی کس کام میں بسر کی انھوں نے اپنے جسموں کو کن معاملات میں استعمال کیا انھوں نے کیسے کمایا اور کیسے خرچ کیا اور جس چیز کا انھیں علم حاصل ہوا اس پر کیسے عمل کیا۔

538

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ جَسَدِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا وَضَعَهُ وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ فِيهِ
حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں قیامت کے دن بندے کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں حساب نہ لیا جائے۔ اس کی عمر کے بارے میں جو اس نے بسر کی اس کے جسم کے بارے میں جسے اس نے آزمائش میں مبتلا کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے کہاں کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اس کے علم کے بارے میں اس پر کتنا عمل کیا۔

539

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ لَيْثٍ قَالَ قَالَ لِي طَاوُسٌ مَا تَعَلَّمْتَ فَتَعَلَّمْ لِنَفْسِكَ فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ ذَهَبَتْ مِنْهُمْ الْأَمَانَةُ
لیث بیان کرتے ہیں طاؤس نے مجھ سے کہا تم جو علم حاصل کرتے ہو اسے اپنے لیے حاصل کرو کیونکہ لوگوں میں سے امانت رخصت ہوگئی ہے۔

540

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَالنَّاسِكُ إِذَا نَسَكَ لَمْ يُعْرَفْ مِنْ قِبَلِ مَنْطِقِهِ وَلَكِنْ يُعْرَفُ مِنْ قِبَلِ عَمَلِهِ فَذَلِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ
حسن بیان کرتے ہیں میں نے لوگوں کو اس حالت میں پایا کہ عبادت کرنے والا شخص جب عبادت کرتا تھا تو اسے اس کی باتوں کی وجہ سے نہیں پہچانا جاتا تھا بلکہ اس کے عمل کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا اور یہی نفع دینے والا علم ہے۔

541

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَسَّانَ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
حضرت ابوکبشہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ وہ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا میری طرف سے دوسروں تک پہنچا دو خواہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے حوالے سے روایت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جو شخص میری طرف سے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنے مخصوص مقام پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

542

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ أَبُو عِيسَى الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَغْلِبُونَا عَلَى ثَلَاثٍ أَنْ نَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَنْهَى عَنْ الْمُنْكَرِ وَنُعَلِّمَ النَّاسَ السُّنَنَ
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ ہم تین معاملات کے بارے میں کوتاہی کا شکار نہ ہوں۔ ایک یہ کہ نیکی کا حکم کریں اور برائی سے منع کریں اور لوگوں کو تعلیم دیں۔

543

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ كَانَ أَبُو أُمَامَةَ إِذَا قَعَدْنَا إِلَيْهِ يَجِيئُنَا مِنْ الْحَدِيثِ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وَيَقُولُ لَنَا اسْمَعُوا وَاعْقِلُوا وَبَلِّغُوا عَنَّا مَا تَسْمَعُونَ قَالَ سُلَيْمٌ بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُشْهِدُ عَلَى مَا عَلِمَ
سلیم بن عامر بیان کرتے ہیں جب حضرت ابوامامہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو وہ ہمیں بہت اہم احادیث سنایا کرتے تھے اور ہمیں یہ کہا کرتے تھے انھیں سن لو اور یاد رکھو اور ہماری طرف سے جو کچھ تم نے سنا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ سلیم فرماتے ہیں ایسا شخص اس شخص کی مانند ہے جو علم رکھنے والے کے بارے میں گواہی دیتا ہے۔

544

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ وَهُوَ جَالِسٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْوُسْطَى وَقَدْ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ يَسْتَفْتُونَهُ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَوَقَفَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ تُنْهَ عَنْ الْفُتْيَا فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ فَقَالَ أَرَقِيبٌ أَنْتَ عَلَيَّ لَوْ وَضَعْتُمْ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لَأَنْفَذْتُهَا
ابوکثیر بیان کرتے ہیں میرے والد نے مجھے یہ بات بتائی ہے میں حضرت ابوذر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ اس وقت درمیانی جمرہ کے پاس تشریف فرما تھے لوگ ان کے پاس جمع تھے اور ان سے مسائل دریافت کر رہے تھے ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان کے پاس کھڑا ہو کر بولا کیا آپ کو فتوی دینے سے منع نہیں کیا گیا۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا تم میرے نگران ہو اگر اس جگہ پر، انھوں نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا اور کہا، تلوار رکھ دی جائے اور پھر مجھے یہ اندازہ ہو کہ تمہارے مجھے قتل کرنے سے پہلے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنی ہوئی ایک بات بیان کرسکتا ہوں تو میں وہ بھی کروں گا۔

545

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ الْعَوَّامِ عَنْ عَوْفٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ يَا أَبَا الْعَالِيَةِ أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ مُفْتِيًا فَقُلْتُ لَا وَلَكِنْ لَا آمَنُ أَنْ تَذْهَبُوا وَنَبْقَى فَقَالَ صَدَقَ أَبُو الْعَالِيَةِ
ابوعالیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک چیز کے بارے میں سوال کیا انھوں نے فرمایا اے ابوعالیہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم مفتی بن جاؤ میں نے جواب دیا نہیں لیکن یہ بھی اندیشہ ہے کہ آپ جیسے لوگ رخصت ہوجائیں گے اور ہم جیسے باقی رہ جائیں گے تو حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا ابوالعالیہ نے سچ کہا۔

546

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا عَبَّادٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ عَبِيدَةُ يَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ كُلَّ خَمِيسٍ فَيَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ غَابَ عَنْهَا فَكَانَ عَامَّةُ مَا يُحْفَظُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِمَّا يَسْأَلُهُ عَبِيدَةُ عَنْهُ
ابراہیم نخعی فرماتے ہیں عبیدہ حضرت عبداللہ کی خدمت میں ہر جمعرات کو حاضر ہوا کرتے تھے اور ان سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے جوان کے علم میں نہیں ہیں تو ابراہیم نے حضرت عبداللہ کی زبانی سنی ہوئی زیادہ تر وہی باتیں یاد رکھی ہیں جن کے بارے میں عبیدہ نے ان سے سوال کیا تھا۔

547

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا غَسَّانُ هُوَ ابْنُ مُضَرَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَقُولُ مَا لَكُمْ لَا تَسْأَلُونِي أَفْلَسْتُمْ
سعید بن یزید بیان کرتے ہیں میں نے عکرمہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا تم لوگ مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتے کیا تم لوگ مفلس ہوگئے ہو۔

548

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ الْعِلْمُ خَزَائِنُ وَتَفْتَحُهَا الْمَسْأَلَةُ
ابن شہاب بیان کرتے ہیں علم خزانوں کی طرح ہے اور سوال کرنے کے ذریعے انھیں کھولا جاسکتا ہے۔

549

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ مَنْ رَقَّ وَجْهُهُ رَقَّ عِلْمُهُ وَوَكِيعٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ مَنْ رَقَّ وَجْهُهُ جَهِلَ عِلْمُهُ وَعَنْ ضَمْرَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَنْ رَقَّ وَجْهُهُ رَقَّ عِلْمُهُ
ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں جس شخص کا نرم چہرہ ہوگا اس کا علم بھی نرم ہوگا۔ شعبی ارشاد فرماتے ہیں جس شخص کا نرم چہرہ ہوگا اسکاعلم بھی نرم ہوگا۔ حضرت عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں جس شخص کا نرم چہرہ ہوگا اس کا علم بھی نرم ہوگا۔

550

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ لَا يَتَعَلَّمُ مَنْ اسْتَحْيَا وَاسْتَكْبَرَ
مجاہد ارشاد فرماتے ہیں جو شخص شرماتا ہو اور جو تکبر کرتا ہو وہ علم حاصل نہیں کرسکتا۔

551

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ يَجْمَعُ بَنِيهِ فَيَقُولُ يَا بَنِيَّ تَعَلَّمُوا فَإِنْ تَكُونُوا صِغَارَ قَوْمٍ فَعَسَى أَنْ تَكُونُوا كِبَارَ آخَرِينَ وَمَا أَقْبَحَ عَلَى شَيْخٍ يُسْأَلُ لَيْسَ عِنْدَهُ عِلْمٌ
ہشام بن عروہ اپنے والد کے بارے میں نقل کرتے ہیں انھوں نے اپنے بچوں کو جمع کیا اور ارشاد فرمایا اے میرے بیٹو تم لوگ علم حاصل کیا کرو کیونکہ ابھی تم بچے ہو لیکن کل کو بڑے ہوجاؤ گے تو کسی عمر رسیدہ کے بارے میں یہ چیز کتنی بری ہے کہ اس سے کوئی ایسا سوال کیا جائے جس کا اسے پتا ہی نہ ہو۔

552

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْخِرِّيتِ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَضَعُ فِي رِجْلَيَّ الْكَبْلَ وَيُعَلِّمُنِي الْقُرْآنَ وَالسُّنَنَ
عکرمہ بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) میرے پاؤں میں بیڑی ڈال کر مجھے قرآن اور سنت کی تعلیم دیتے تھے۔

553

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضُّرَيْسِ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ مَنْ تَرَأَّسَ سَرِيعًا أَضَرَّ بِكَثِيرٍ مِنْ الْعِلْمِ وَمَنْ لَمْ يَتَرَأَّسْ طَلَبَ وَطَلَبَ حَتَّى يَبْلُغَ
سفیان بیان کرتے ہیں جو شخص جلدی پیشوا بننے کی کوشش کرے گا وہ بہت علم سے محروم رہ جائے گا اور جو شخص جلدی بڑا بننے کی کوشش نہیں کرے گا وہ علم حاصل کرتا رہے گا اور اس وقت تک حاصل کرتا رہے گا جب تک علم میں کمال کی حدتک نہیں پہنچ جاتا۔

554

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ عِلْمٌ لَا يُقَالُ بِهِ كَكَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ
حضرت سلمان فارسی بیان کرتے ہیں ایسا علم جسے بیان نہ کیا جائے اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خرچ نہ کیا جائے۔

555

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ أَبِي عِيَاضٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ عِلْمٍ لَا يُنْتَفَعُ بِهِ كَمَثَلِ كَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں نبی نے ارشاد فرمایا جس علم کے ذریعے نفع نہ حاصل کیا جائے اس کی مثال اس خزانے کی مانند ہے جس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے۔

556

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُوسَى بْنِ يَسَارٍ عَمِّهِ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ سَلْمَانَ كَتَبَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ إِنَّ الْعِلْمَ كَالْيَنَابِيعِ يَغْشَاهُنَّ النَّاسُ فَيَخْتَلِجُهُ هَذَا وَهَذَا فَيَنْفَعُ اللَّهُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ وَإِنَّ حِكْمَةً لَا يُتَكَلَّمُ بِهَا كَجَسَدٍ لَا رُوحَ فِيهِ وَإِنَّ عِلْمًا لَا يُخْرَجُ كَكَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ وَإِنَّمَا مَثَلُ الْعَالِمِ كَمَثَلِ رَجُلٍ حَمَلَ سِرَاجًا فِي طَرِيقٍ مُظْلِمٍ يَسْتَضِيءُ بِهِ مَنْ مَرَّ بِهِ وَكُلٌّ يَدْعُو لَهُ بِالْخَيْرِ
موسیٰ بن یسار اپنے چچا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں مجھے یہ پتا چلا کہ حضرت سلمان نے خط میں حضرت ابودرداء کو یہ لکھا کہ علم ان چشموں کی مانند ہے جن پر لوگ آتے ہیں یہ فلاں شخص کو اپنی طرف لے آتا ہے اور فلاں کو لے آتا ہے اس کے ذریعے اللہ کئی لوگوں کو نفع عطا کرتا ہے۔ ایسی دانائی جس کی گفتگو نہ کی جائے وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہیں ہوتی اور ایسا علم جسے دوسروں تک پہنچایا نہ جائے ایسے خزانے کی مانند ہے جس میں سے خرچ نہ کیا جائے اور عالم کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو تاریک راستے میں چراغ اٹھا کر کھڑا ہوجائے تاکہ گزرنے والا شخص اس کی روشنی سے فیض یاب ہوسکے ہر شخص ایسے شخص کے لیے دعائے خیر کرتا ہے۔

557

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ يَتْبَعُ الرَّجُلَ بَعْدَ مَوْتِهِ ثَلَاثُ خِلَالٍ صَدَقَةٌ تَجْرِي بَعْدَهُ وَصَلَاةُ وَلَدِهِ عَلَيْهِ وَعِلْمٌ أَفْشَاهُ يُعْمَلُ بِهِ بَعْدَهُ
ابراہیم نخعی فرماتے ہیں مرنے کے بعد تین چیزیں انسان تک پہنچتی ہیں ایک وہ صدقہ جو اس کے بعد بھی جاری رہے دوسرا اس کی اولاد کی اس کے بارے میں دعا اور تیسرا وہ علم جسے اس نے پھیلایا ہو اور اس کے بعد بھی اس پر عمل ہوتا رہے۔

558

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ صَدَقَةٍ تَجْرِي لَهُ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین اعمال کے وہ علم جس کے ذریعے نفع حاصل کیا جائے وہ صدقہ جو جاری ہو اور وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔

559

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ صَالِحِ بْنِ رُسْتُمَ الْمُزَنِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّهُ قَالَ حِينَ قَدِمَ الْبَصْرَةَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُعَلِّمُكُمْ كِتَابَ رَبِّكُمْ وَسُنَّتَكُمْ وَأُنَظِّفُ طُرُقَكُمْ
حضرت ابوموسی کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ بصرہ تشریف لائے تو یہ کہا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجھے تم لوگوں کی طرف بھیجا ہے میں تمہیں تمہارے پروردگار کی کتاب اور اس کی سنت کی تعلیم دوں گا اور تمہارے راستوں کو صاف کروں گا۔

560

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَلَّى حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ عَنْ أَبِي دَاوُدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ عَنْ سَخْبَرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى
حضرت سخبرہ نبی اکرم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص علم کا حصول شروع کرے یہ کام اس کے گزشتہ گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔

561

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ لَقَدْ أَقَمْتُ فِي الْمَدِينَةِ ثَلَاثًا مَا لِي حَاجَةٌ إِلَّا وَقَدْ فَرَغْتُ مِنْهَا إِلَّا أَنَّ رَجُلًا كَانُوا يَتَوَقَّعُونَهُ كَانَ يَرْوِي حَدِيثًا فَأَقَمْتُ حَتَّى قَدِمَ فَسَأَلْتُهُ
حضرت ابوقلابہ بیان کرتے ہیں میں نے مدینہ میں تین دن قیام کیا میرا جو بھی کام تھا میں اس سے فارغ ہوگیا البتہ ایک صاحب تھے جن سے یہ توقع تھی کہ وہ کوئی حدیث بیان کرتے ہیں میں وہاں ٹھہر گیا جب وہ آئے تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا۔

562

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ ابْنِ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ يَقُولُ إِنْ كُنْتُ لَأَرْكَبُ إِلَى مِصْرٍ مِنْ الْأَمْصَارِ فِي الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ لِأَسْمَعَهُ
حضرت بسر بن عبیداللہ بیان کرتے ہیں میں ایک حدیث سننے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کرتا رہا ہوں۔

563

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو قَطَنٍ عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ عَنْ أَبِي خَلْدَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ كُنَّا نَسْمَعُ الرِّوَايَةَ بِالْبَصْرَةِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَرْضَ حَتَّى رَكِبْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ فَسَمِعْنَاهَا مِنْ أَفْوَاهِهِمْ
ابوالعالیہ بیان کرتے ہیں ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے حوالے سے بصرہ میں کچھ احادیث سنیں لیکن ہم اس وقت تک مطمئن نہ ہوئے جب تک خود مدینہ منورہ جا کر ان کی زبانی ان احادیث کو سن لیا۔

564

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التُّسْتَرِيِّ قَالَ قَالَ دَاوُدُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ لِصَاحِبِ الْعِلْمِ يَتَّخِذْ عَصًا مِنْ حَدِيدٍ وَنَعْلَيْنِ مِنْ حَدِيدٍ وَيَطْلُبْ الْعِلْمَ حَتَّى تَنْكَسِرَ الْعَصَا وَتَنْخَرِقَ النَّعْلَانِ
عبداللہ بن عبدالرحمن قشیری فرماتے ہیں اللہ کے نبی حضرت داؤد نے یہ ارشاد فرمایا ہے علم حاصل کرنیوالے کو یہ کہہ دو کہ لوہے کا عصا بنائے اور لوہے کے جوتے بنائے اور علم کا حصول شروع کردے یہاں تک کہ وہ عصا بھی ٹوٹ جائے اور وہ جوتے بھی ٹوٹ جائیں۔

565

أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ آلِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَلَبْتُ الْعِلْمَ فَلَمْ أَجِدْهُ أَكْثَرَ مِنْهُ فِي الْأَنْصَارِ فَكُنْتُ آتِي الرَّجُلَ فَأَسْأَلُ عَنْهُ فَيُقَالُ لِي نَائِمٌ فَأَتَوَسَّدُ رِدَائِي ثُمَّ أَضْطَجِعُ حَتَّى يَخْرُجَ إِلَى الظُّهْرِ فَيَقُولُ مَتَى كُنْتَ هَا هُنَا يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ فَأَقُولُ مُنْذُ زَمَنٍ طَوِيلٍ فَيَقُولُ بِئْسَ مَا صَنَعْتَ هَلَّا أَعْلَمْتَنِي فَأَقُولُ أَرَدْتُ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيَّ وَقَدْ قَضَيْتَ حَاجَتَكَ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں میں نے علم حاصل کیا اور سب سے زیادہ اسے انصار سے حاصل کیا میں کسی صاحب کے ہاں آتا تھا ان کے بارے میں دریافت کرتا تو مجھے بتایا جاتا کہ وہ سو رہے ہیں تو میں اپنی چادر سرکے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا یہاں تک کہ دوپہر کے وقت وہ صاحب تشریف لاتے تو دریافت کیا اللہ کے رسول کے چچا زاد آپ کب سے یہاں ہیں۔ میں جواب دیتا کافی دیر ہوگئی ہے تو وہ یہ کہتا آپ نے بہت برا کیا آپ نے مجھے بتا کیوں نہیں دیا تو میں یہ جواب دیتا کہ میری یہ خواہش تھی کہ آپ خود باہر تشریف لائیں پہلے اپنے کاموں سے فارغ ہوجائیں۔

566

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ وُجِدَ أَكْثَرُ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَآتِي الرَّجُلَ مِنْهُمْ فَيُقَالُ هُوَ نَائِمٌ فَلَوْ شِئْتُ أَنْ يُوقَظَ لِي فَأَدَعُهُ حَتَّى يَخْرُجَ لِأَسْتَطِيبَ بِذَلِكَ حَدِيثَهُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر احادیث مجھے انصار سے ملی اللہ کی قسم بعض اوقات میں کسی شخص کے ہاں جاتا تو مجھے بتایا جاتا کہ وہ سو رہے ہیں اگر میں چاہتا تو اسے بیدار کرسکتا تھا لیکن میں اسے ایسے ہی رہنے دیتا یہاں تک کہ وہ خود ہی باہر آجاتا ایسا اس لیے کرتا تھا کہ تاکہ مناسب طریقے سے حدیث کا علم حاصل کرسکوں۔

567

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ لَوْ رَفَقْتُ بِابْنِ عَبَّاسٍ لَأَصَبْتُ مِنْهُ عِلْمًا كَثِيرًا
حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں اگر میں ابن عباس (رض) کے ساتھ مناسب تعلقات رکھتا تو ان سے بہت سارا علم حاصل کرسکتا تھا۔

568

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كُنْتُ آتِي بَابَ عُرْوَةَ فَأَجْلِسُ بِالْبَابِ وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أَدْخُلَ لَدَخَلْتُ وَلَكِنْ إِجْلَالًا لَهُ
زہری بیان کرتے ہیں میں حضرت عروہ کے دروازے پر آیا اور دروازے پر بیٹھ گیا اگر میں چاہتا تو اندر جاسکتا تھا لیکن میں نے ان کے احترام میں ایسا نہیں کیا۔

569

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا فُلَانُ هَلُمَّ فَلْنَسْأَلْ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُمْ الْيَوْمَ كَثِيرٌ فَقَالَ وَا عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَتَرَى النَّاسَ يَحْتَاجُونَ إِلَيْكَ وَفِي النَّاسِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَى فَتَرَكَ ذَلِكَ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْمَسْأَلَةِ فَإِنْ كَانَ لَيَبْلُغُنِي الْحَدِيثُ عَنْ الرَّجُلِ فَآتِيهِ وَهُوَ قَائِلٌ فَأَتَوَسَّدُ رِدَائِي عَلَى بَابِهِ فَتَسْفِي الرِّيحُ عَلَى وَجْهِي التُّرَابَ فَيَخْرُجُ فَيَرَانِي فَيَقُولُ يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ مَا جَاءَ بِكَ أَلَا أَرْسَلْتَ إِلَيَّ فَآتِيَكَ فَأَقُولُ لَا أَنَا أَحَقُّ أَنْ آتِيَكَ فَأَسْأَلُهُ عَنْ الْحَدِيثِ قَالَ فَبَقِيَ الرَّجُلُ حَتَّى رَآنِي وَقَدْ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيَّ فَقَالَ كَانَ هَذَا الْفَتَى أَعْقَلَ مِنِّي
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا تو میں نے ایک انصاری صاحب سے کہا اے فلاں۔ آؤ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے (احادیث کے بارے میں) دریافت کریں کیونکہ آج تو ان کی تعداد بہت زیادہ ہے وہ شخص بولا اے ابن عباس (رض) مجھے آپ پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں لوگوں کو آپ کی ضرورت ہوگی حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے اتنے لوگ بھی موجود ہیں جو آپ بھی جانتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس شخص نے اس پر عمل نہیں کیا میں یہ علم حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوگیا جب بھی مجھے کسی شخص کے بارے میں کسی حدیث کا پتا چلتا میں اس کے پاس آتا اگر وہ سو رہا ہوتا تو میں اس کے دروازے پر چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا۔ ہوا چلتی تو مٹی میرے چہرے پر آجاتی۔ جب وہ شخص باہر آتا اور مجھے دیکھتا اور کہتا کہ اے اللہ کے رسول کے چچازاد۔ آپ کس لیے تشریف لائے ہیں آپ نے مجھے پیغام کیوں نہیں دیا۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا تو میں یہ کہتا کہ نہیں میں اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ میں آپ کے پاس آؤں میں آپ سے ایک حدیث کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے آیا ہوں۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں پھر ایک وقت وہ آیا کہ اس شخص نے مجھے دیکھا کہ جب لوگ میرے اردگرد اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ شخص بولا یہ نوجوان مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا۔

570

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ رَجُلًا مَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحَلَ إِلَى فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَهُوَ بِمِصْرَ فَقَدِمَ عَلَيْهِ وَهُوَ يَمُدُّ لِنَاقَةٍ لَهُ فَقَالَ مَرْحَبًا قَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا وَلَكِنْ سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَ كَذَا وَكَذَا
حضرت عبداللہ بن بردہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں سے ایک صاحب حضرت فضالہ بن عبید کے پاس گئے وہ اس وقت مصر میں مقیم تھے وہ اس کے پاس آئے اور اپنی اونٹنی کو ان کی طرف بڑھایا تو انھوں نے خوش آمدید کہا وہ بولے میں آپ کے پاس آپ کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ میں نے اور آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو یاد ہوگی تو انھوں نے جواب دیا ہاں وہ حدیث اس طرح سے تھی۔

571

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ الْحَسَنِ أَنَّهُ دَخَلَ السُّوقَ فَسَاوَمَ رَجُلًا بِثَوْبٍ فَقَالَ هُوَ لَكَ بِكَذَا وَكَذَا وَاللَّهِ لَوْ كَانَ غَيْرَكَ مَا أَعْطَيْتُهُ فَقَالَ فَعَلْتُمُوهَا فَمَا رُئِيَ بَعْدَهَا مُشْتَرِيًا مِنْ السُّوقِ وَلَا بَائِعًا حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ
حضرت حسن بیان کرتے ہیں وہ ایک بازار میں داخل ہوئے اور ایک شخص کے ساتھ کپڑے کا سودا کرنا شروع کیا وہ شخص بولا یہ آپ کو اتنے میں مل جائے گا اللہ کی قسم آپ کے علاوہ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو میں اسے نہ دیتا۔ حضرت حسن بولے تم لوگ یہ کام کرتے ہو اس کے بعد حضرت حسن کو بازار میں خریدو فروخت کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔

572

أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ عَنْ حُسَامٍ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ كَانَ لَا يَشْتَرِي مِمَّنْ يَعْرِفُهُ
حضرت ابراہیم نخعی کے بارے میں منقول ہے وہ جان پہچان والے کسی شخص کے ساتھ لین دین نہیں کرتے تھے۔

573

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ السَّلَامِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ الْمُزَنِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ قَسَمَ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ مَالًا فِي قُرَّاءِ أَهْلِ الْكُوفَةِ حِينَ دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فَبَعَثَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ فَقَالَ لَهُ اسْتَعِنْ بِهَا فِي شَهْرِكَ هَذَا فَرَدَّهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ وَقَالَ لَمْ نَقْرَأْ الْقُرْآنَ لِهَذَا
عبید بن حسن بیان کرتے ہیں حضرت مصعب بن زبیر نے کوفہ میں رہنے والے قرآن کے علوم کے ماہرین میں کچھ مال تقسیم کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب رمضان کا مہینہ آگیا تھا انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن معقل کی خدمت میں دو ہزار دینار بھجوائے اور انھیں یہ پیغام دیا کہ آپ اس مبارک مہینے میں اسے اپنے استعمال میں لائیں تو عبدالرحمن بن معقل نے وہ دینار انھیں واپس کردیئے اور کہا ہم اس کے لیے قرآن نہیں پڑھتے۔

574

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ قَالَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ قَالَ فَمَا يَنْفِي الْعِلْمَ مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ قَالَ الطَّمَعُ
عبیداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عبداللہ بن سلام سے دریافت کیا اہل علم کون لوگ ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں، حضرت عمر نے دریافت کیا آدمی کے دل میں سے کون سی چیز علم کو ختم کردیتی ہے انھوں نے جواب دیا لالچ۔

575

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ زَيْدٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ مَا أَوَى شَيْءٌ إِلَى شَيْءٍ أَزْيَنَ مِنْ حِلْمٍ إِلَى عِلْمٍ
حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کوئی عمدہ چیز دوسری چیز کے ساتھ اتنے اچھے طریقے سے جمع نہیں ہوئی جتنا علم کے ساتھ بردباری جمع ہوئی۔

576

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ زَيْنُ الْعِلْمِ حِلْمُ أَهْلِهِ
عامر شعبی بیان کرتے ہیں علم کی زینت اہل علم کی بردباری ہے۔

577

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ مَا حُمِلَ الْعِلْمُ فِي مِثْلِ جِرَابِ حِلْمٍ
طاؤس بیان کرتے ہیں بردباری کے تھیلے جیسی کسی چیز میں علم نہیں رکھا گیا۔

578

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ زَيْنُ الْعِلْمِ حِلْمُ أَهْلِهِ
شعبی بیان کرتے ہیں علم کی زینت اہل علم کی بردباری ہے۔

579

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مُطَرِّفُ بْنُ مَازِنٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ مِقْسَمٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ إِنَّ الْحِكْمَةَ تَسْكُنُ الْقَلْبَ الْوَادِعَ السَّاكِنَ
وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں بیشک دانائی پرہیزگاری اور صبر دل کو سکون دیتے ہے۔

580

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ شِنْتُمْ الْعِلْمَ وَأَذْهَبْتُمْ نُورَهُ وَلَوْ أَدْرَكَنِي وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ لَأَوْجَعَنَا
عبداللہ بیان کرتے ہیں تم لوگوں نے علم کو رسوا کردیا ہے اس کا نور ختم کردیا ہے اگر حضرت عمر مجھے اور تم جیسے لوگوں کو پالیتے تو ہماری پٹائی کرتے۔

581

أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أُمَيٍّ الْمُرَادِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ فَإِذَا عَلِمْتُمُوهُ فَاكْظِمُوا عَلَيْهِ وَلَا تَشُوبُوهُ بِضَحِكٍ وَلَا بِلَعِبٍ فَتَمُجَّهُ الْقُلُوبُ
امی بیان کرتے ہیں حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں علم حاصل کرو جب تم علم حاصل کرلو تو اسے خواہ مخواہ ظاہر نہ کرو اور اس کے ساتھ ہنسی مذاق نہ ملاؤ اور کھیل کود نہ ملاؤ ورنہ لوگوں کے دل سے اس کا احترام ختم ہوجائے گا۔

582

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ مَنْ ضَحِكَ ضَحْكَةً مَجَّ مَجَّةً مِنْ الْعِلْمِ
امام زین العابدین ارشاد فرماتے ہیں جو شخص زیادہ ہنستا ہے وہ علم کی اہمیت کھو دیتا ہے۔

583

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ لِكَعْبٍ مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ قَالَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ قَالَ فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ قَالَ الطَّمَعُ
سفیان بیان کرتے ہیں حضرت عمر نے کعب سے کہا اہل علم کون ہیں انھوں نے جواب دیا وہ لوگ جو اپنے علم پر عمل کرتے ہوں حضرت عمر نے دریافت کیا علماء کے دل میں کون سی چیز علم کو باہر کردیتی ہے انھوں نے جواب دیا لالچ۔

584

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ كُنْتُ نَازِلًا عَلَى عَمْرِو بْنِ النُّعْمَانِ فَأَتَاهُ رَسُولُ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ حِينَ حَضَرَهُ رَمَضَانُ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ فَقَالَ إِنَّ الْأَمِيرَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَقَالَ إِنَّا لَمْ نَدَعْ قَارِئًا شَرِيفًا إِلَّا وَقَدْ وَصَلَ إِلَيْهِ مِنَّا مَعْرُوفٌ فَاسْتَعِنْ بِهَذَيْنِ عَلَى نَفَقَةِ شَهْرِكَ هَذَا فَقَالَ أَقْرِئْ الْأَمِيرَ السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَرَأْنَا الْقُرْآنَ نُرِيدُ بِهِ الدُّنْيَا وَدِرْهَمَهَا
ابوایاس بیان کرتے ہیں میں نے عمرو بن نعمان کے ہاں پڑاؤ کیا تو ان کے پاس مصعب بن زبیر کا قاصد آیا وہ دو ہزار درہم لے کر آیا تھا یہ رمضان کے مہینے کی بات ہے وہ قاصد بولا گورنر نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ ہم نے ہر معزز عالم کی خدمت میں یہ ہدیہ پیش کیا ہے اس لیے آپ بھی اس مہینے میں اس رقم کو اپنے خرچ میں لائیں تو عمرو بن نعمان نے جواب دیا گورنر کو میری طرف سے سلام کہہ دینا۔ اور انھیں یہ کہنا کہ اللہ کی قسم ہم قرآن اس لیے نہیں پڑھتے کہ اس کے عوض میں دنیا اور اس کے درہم حاصل کریں۔

585

أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ أَشْيَاءَ يَوْمَ خَيْبَرَ الْحِمَارَ وَغَيْرَهُ ثُمَّ قَالَ لَيُوشِكُ بِالرَّجُلِ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثِي فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ أَلَا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ هُوَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ
حضرت مقدام بن معدی کرب کندی بیان کرتے ہیں غزرہ خیبر کے دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گدھوں کا گوشت اور اس کے علاوہ دیگرچیزوں کو حرام کرنے کے بعد ارشاد فرمایا عنقریب وہ وقت آئے گا جب کوئی شخص اپنے تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر میری کوئی حدیث بیان کرے گا اور پھر یہ کہے گا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب باقی ہے۔ ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسے حلال قرار دیں گے اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے اسے حرام قرار دیں گے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں یہ بات یاد رکھنا اللہ کا رسول جس چیز کو حرام قرار دے دے وہ اسی کی مانند ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔

586

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ السُّنَّةُ قَاضِيَةٌ عَلَى الْقُرْآنِ وَلَيْسَ الْقُرْآنُ بِقَاضٍ عَلَى السُّنَّةِ
یحییٰ بن ابوکثیر بیان کرتے ہیں سنت قرآن کے بارے میں فیصلہ کردیتی ہے البتہ قرآن سنت کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتا۔

587

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ حَسَّانَ قَالَ كَانَ جِبْرِيلُ يَنْزِلُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسُّنَّةِ كَمَا يَنْزِلُ عَلَيْهِ بِالْقُرْآنِ
حضرت حسان بیان کرتے ہیں حضرت جبرائیل سنت کا حکم لے کر اسی طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جیسے وہ قرآن لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔

588

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ السُّنَّةُ سُنَّتَانِ سُنَّةٌ الْأَخْذُ بِهَا فَرِيضَةٌ وَتَرْكُهَا كُفْرٌ وَسُنَّةٌ الْأَخْذُ بِهَا فَضِيلَةٌ وَتَرْكُهَا إِلَى غَيْرِ حَرَجٍ
حضرت مکحول بیان کرتے ہیں سنت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ سنت جس پر عمل کرنا فرض ہے اور اس کو ترک کرنا کفر ہے اور دوسری وہ سنت ہے جس پر عمل کرنا فضیلت کا باعث ہے اور اسے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

589

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا قَالَ أَلَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ مِنْكَ
حضرت سعید بن جبیر نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کی تو ایک شخص بولا اللہ کی کتاب میں اس کے برعکس حکم موجود ہے تو حضرت سعید نے کہا میں تمہارے سامنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے حدیث بیان کر رہاہوں اور تم اس کے مقابلے میں اللہ کی کتاب پیش کر رہے ہو اللہ کے رسول اللہ کتاب کے بارے میں تم سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

590

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ إِذَا حُدِّثْتُمْ بِالْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْيَأُ وَالَّذِي هُوَ أَهْدَى وَالَّذِي هُوَ أَتْقَى
حضرت ابن مسعود (رض) ارشاد فرماتے ہیں جب تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرو تو اس کے بارے میں وہی بات سوچو جو زیادہ بہترہدایت کے زیادہ قریب اور زیادہ پرہیزگاری پر مشتمل ہو۔

591

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ إِذَا حُدِّثْتُمْ شَيْئًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْدَى وَالَّذِي هُوَ أَتْقَى وَالَّذِي هُوَ أَهْيَأُ
حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں جب تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرو تو اس کے بارے میں وہی مفہوم مراد لو جو حدیث کے مطابق ہو اور پرہیزگاری کے قریب ہو اور زیادہ مناسب ہو۔

592

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِذَا حَدَّثَ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمُونِي أُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تَجِدُوهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ أَوْ حَسَنًا عِنْدَ النَّاسِ فَاعْلَمُوا أَنِّي قَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهِ
حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں منقول ہے جب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی بات بیان کرتے تھے تو یہ بھی ساتھ کہتے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اسے جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حضرت ابن عباس (رض) جب کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ یہ بھی کہا کرتے تھے جب تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کوئی ایسی بات منسوب کرتے ہوئے سنو جسے تم اللہ کی کتاب میں بھی نہ پاؤ اور لوگ بھی اسے اچھا نہ سمجھتے ہوں تو یہ بات جان لو کہ میں نے آپ کے حوالے سے جھوٹی بات بیان کی تھی۔

593

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ إِنَّ أَزْهَدَ النَّاسِ فِي عَالِمٍ أَهْلُهُ
عکرمہ بیان کرتے ہیں لوگوں میں سب سے زیادہ زاہد وہ شخص ہے جو عالم ہو۔

594

أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ وَأَبِي مَسْلَمَةَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ تَذَاكَرُوا الْحَدِيثَ فَإِنَّ الْحَدِيثَ يُهَيِّجُ الْحَدِيثَ
حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں حدیث کے بارے میں مذاکرہ کیا کرو کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلا دیتی ہے۔

595

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ تَذَاكَرُوا الْحَدِيثَ فَإِنَّ الْحَدِيثَ يُهَيِّجُ الْحَدِيثَ
حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں حدیث کے بارے میں مذاکرہ کیا کرو کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلا دیتی ہے۔

596

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَنْ هُشَيْمٍ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ تَذَاكَرُوا الْحَدِيثَ فَإِنَّ الْحَدِيثَ يُهَيِّجُ الْحَدِيثَأَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍوَابْنِ عُلَيَّةَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍوَأَبُو مَسْلَمَةَ وَفِيهِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا
حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں حدیث کے بارے میں مذاکرہ کیا کرو کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلا دیتی ہے۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ حضرت ابوسعید کے قول کے طور پر منقول ہے۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ حضرت ابوسعید کے قول کے طور پر منقول ہے۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے تاہم اس میں کلام کچھ زیادہ ہے۔

597

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ قَالَ لِي طَاوُسٌ اذْهَبْ بِنَا نُجَالِسْ النَّاسَ
عمرو بیان کرتے ہیں طاؤس نے مجھ سے کہا چلو ہم لوگوں کے پاس جا کر بیٹھتے ہیں اور ان سے علم حاصل کرتے ہیں اور ان سے علمی گفتگو کرتے ہیں۔

598

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَذَاكَرُوا هَذَا الْحَدِيثَ لَا يَنْفَلِتْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ لَيْسَ مِثْلَ الْقُرْآنِ مَجْمُوعٌ مَحْفُوظٌ وَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَذَاكَرُوا هَذَا الْحَدِيثَ يَنْفَلِتْ مِنْكُمْ وَلَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ حَدَّثْتُ أَمْسِ فَلَا أُحَدِّثُ الْيَوْمَ بَلْ حَدِّثْ أَمْسِ وَلْتُحَدِّثْ الْيَوْمَ وَلْتُحَدِّثْ غَدًا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں تم لوگ حدیث کے بارے میں مذاکرہ کیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تم سے رہ جائیں کیونکہ یہ قرآن کی مانند ہے جنہیں جمع کردیا گیا ہو اور محفوظ کردیا گیا ہو۔ اگر تم حدیث کا مذاکرہ نہیں کروگے تو یہ تم سے رہ جائیں گی۔ تم میں سے کوئی بھی شخص یہ نہ کہے کہ میں نے کل یہ حدیث بیان کی تھی اس لیے آج بیان نہیں کروں گا بلکہ کل جو تم نے حدیث بیان کی تھی آج بھی کرو اور آنے والے کل میں بھی کرو۔

599

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مِنْدَلُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ أَبِي الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رُدُّوا الْحَدِيثَ وَاسْتَذْكِرُوهُ فَإِنَّهُ إِنْ لَمْ تَذْكُرُوهُ ذَهَبَ وَلَا يَقُولَنَّ رَجُلٌ لِحَدِيثٍ قَدْ حَدَّثَهُ قَدْ حَدَّثْتُهُ مَرَّةً فَإِنَّهُ مَنْ كَانَ سَمِعَهُ يَزْدَادُ بِهِ عِلْمًا وَيَسْمَعُ مَنْ لَمْ يَسْمَعْ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں حدیث کو دہراؤ اور اس کا مذاکرہ کرو کیونکہ اگر تم اس کا مذاکرہ نہیں کروگے تو وہ رخصت ہوجائے گی کوئی بھی شخص کسی حدیث کے بارے میں یہ بیان نہ کرے کہ میں اس حدیث کو بیان کرچکا ہوں یا میں اسے ایک مرتبہ بیان کرچکا ہوں کیونکہ جو شخص بھی اس حدیث کو سنے گا اس کے علم میں اضافہ ہوگا اور اسے کوئی ایسا شخص بھی سن سکتا ہے جس نے وہ پہلے نہ سنی ہو۔

600

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ تَذَاكَرُوا فَإِنَّ إِحْيَاءَ الْحَدِيثِ مُذَاكَرَتُهُ
عبدالرحمن بن ابولیلی بیان کرتے ہیں حدیث کا مذاکرہ کرو کیونکہ مذا کرے کے ذریعے حدیث کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔

601

أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ تَذَاكَرُوا الْحَدِيثَ فَإِنَّ ذِكْرَهُ حَيَاتُهُ
علقمہ بیان کرتے ہیں حدیث کا مذاکرہ کرو کیونکہ اس کا ذکر کرنا ہی اس کی زندگی ہے۔

602

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَ ابْنُ شِهَابٍ يُحَدِّثُ الْأَعْرَابَ
زیاد بن سعد بیان کرتے ہیں ابن شہاب دیہاتی لوگوں کے سامنے حدیث بیان کیا کرتے تھے۔

603

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ كَانَ إِسْمَعِيلُ بْنُ رَجَاءٍ يَجْمَعُ صِبْيَانَ الْكُتَّابِ يُحَدِّثُهُمْ يَتَحَفَّظُ بِذَاكَ
اعمش فرماتے ہیں اسماعیل بن رجاء مدر سے کے بچوں کو اکٹھا کر کے ان کے سامنے حدیث بیان کیا کرتے تھے یوں وہ خود ان احادیث کو یاد رکھتے تھے۔

604

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الشَّقَرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدِّثْ حَدِيثَكَ مَنْ يَشْتَهِيهِ وَمَنْ لَا يَشْتَهِيهِ فَإِنَّهُ يَصِيرُ عِنْدَكَ كَأَنَّهُ إِمَامٌ تَقْرَؤُهُ
حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں تم سب لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرو خواہ انھیں اس کی کوئی خواہش ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ اس طرح وہ حدیث تمہارے سامنے یوں ہوگی جیسے تمہارے سامنے کوئی تحریر ہے جسے تم پڑھ رہے ہو۔

605

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ مِنَّا حَدِيثًا فَتَذَاكَرُوهُ بَيْنَكُمْ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنو تو اس کی آپس میں تکرار کیا کرو۔

606

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَنْ هُشَيْمٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ قَالَ كُنَّا نَأْتِي الْحَسَنَ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ تَذَاكَرْنَا بَيْنَنَا
یونس بیان کرتے ہیں ہم حضرت حسن بصری کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور جب ان کے پاس سے اٹھ کر واپس آتے تھے تو آپس میں اس حدیث کی تکرار کیا کرتے تھے۔

607

أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حُنَيْنِ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَرْوِيَ حَدِيثًا فَلْيُرَدِّدْهُ ثَلَاثًا
حضرت ابن عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں جب کوئی شخص حدیث روایت کرنا چاہتا ہو تو اسے تین مرتبہ دہرائے۔

608

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ إِحْيَاءُ الْحَدِيثِ مُذَاكَرَتُهُ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ يَرْحَمُكَ اللَّهُ كَمْ مِنْ حَدِيثٍ أَحْيَيْتَهُ فِي صَدْرِي كَانَ قَدْ مَاتَ
عبدالرحمن بن ابولیلی فرماتے ہیں حدیث کا مذاکرہ کرنا اسے زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔ عبداللہ بن شداد نے ان سے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے آپ نے میرے سینے میں ایسی کتنی ہی حدیثوں کو زندہ کیا جو فوت ہوچکی تھیں۔

609

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الْعُكْلِيُّ وَابْنُ شُبْرُمَةَ وَالْقَعْقَاعُ بْنُ يَزِيدَ وَمُغِيرَةُ إِذَا صَلَّوْا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ جَلَسُوا فِي الْفِقْهِ فَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَهُمْ إِلَّا أَذَانُ الصُّبْحِ
محمد بن فضیل اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حارث بن یزید عکلی، ابن شبرمہ، قعقاع بن یزید اور مغیرہ یہ حضرات جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے تو بیٹھ کر علمی گفتگو شروع کردیتے تھے۔ اور صبح کی اذان تک یہی کام کرتے رہتے تھے۔

610

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَ سَمِعْتُ شَرِيكًا ذَكَرَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَطَاءٍ وَطَاوُسٍ وَمُجَاهِدٍ قَالَ عَنْ اثْنَيْنِ مِنْهُمْ لَا بَأْسَ بِالسَّمَرِ فِي الْفِقْهِ
لیث بیان کرتے ہیں، عطا، طاؤس اور مجاہد میں سے دو حضرات کے بارے میں منقول ہے کہ یہ لوگ رات کے وقت علمی گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

611

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ لَا بَأْسَ بِالسَّمَرِ فِي الْفِقْهِ
مجاہد کے بارے میں منقول ہے کہ یہ رات کے وقت علمی گفتگو کے بارے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

612

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَةً مِنْ اللَّيْلِ خَيْرٌ مِنْ إِحْيَائِهَا
ابن جریج بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں رات کے کچھ حصے میں علم کی درس و تدریس ساری رات کے نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔

613

أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى عَنْ هُشَيْمٍ أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ كُنَّا نَأْتِي جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ تَذَاكَرْنَا فَكَانَ أَبُو الزُّبَيْرِ أَحْفَظَنَا لِحَدِيثِهِ
عطاء بیان کرتے ہیں ہم حضرت جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب ان کے پاس سے اٹھ کر آئے تو آپس میں تکرار کرنے لگے۔ ابوزبیر ہم میں سب سے زیادہ ان کی احادیث کے حافظ تھے۔

614

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ يَقُولُ تَذَاكَرَ ابْنُ شِهَابٍ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ حَدِيثًا وَهُوَ جَالِسٌ مُتَوَضِّئًا قَالَ فَمَا زَالَ ذَلِكَ مَجْلِسَهُ حَتَّى أَصْبَحَ قَالَ مَرْوَانُ جَعَلَ يَتَذَاكَرُ الْحَدِيثَ
لیث بن سعد بیان کرتے ہیں ایک رات عشاء کے بعد ابن شہاب کو ایک حدیث یاد آئی اس وقت بیٹھے وہ وضو کر رہے تھے تو اسی حالت میں وہ بیٹھے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ مروان نامی راوی کہتے ہیں وہ اس حدیث کی تکرار کرتے رہے۔

615

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كُنْتُ إِذَا لَقِيتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَكَأَنَّمَا أَفْجُرُ بِهِ بَحْرًا
زہری بیان کرتے ہیں جب عبیداللہ بن عبداللہ سے ملتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے میں نے سمندر کا منہ کھول دیا ہو۔

616

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ الْحَارِثُ الْعُكْلِيُّ وَأَصْحَابُهُ يَتَجَالَسُونَ بِاللَّيْلِ وَيَذْكُرُونَ الْفِقْهَ
عثمان بن عبداللہ بیان کرتے ہیں حارث، عکلی اور ان کے ساتھی رات بھربیٹھے علمی بحث و تمحیص کرتے رہتے تھے۔

617

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ أَوْ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ تَذَاكَرُوا هَذَا الْحَدِيثَ فَإِنَّ حَيَاتَهُ مُذَاكَرَتُهُ
عبداللہ بیان کرتے ہیں حدیث کی تکرار کرتے رہو کیونکہ اس کی زندگی اس کی تکرار ہے۔

618

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَوْنٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ حِينَ قَدِمُوا عَلَيْهِ هَلْ تَجَالَسُونَ قَالُوا لَيْسَ نُتْرَكُ وَذَاكَ قَالَ فَهَلْ تَزَاوَرُونَ قَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ الرَّجُلَ مِنَّا لَيَفْقِدُ أَخَاهُ فَيَمْشِي فِي طَلَبِهِ إِلَى أَقْصَى الْكُوفَةِ حَتَّى يَلْقَاهُ قَالَ فَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ
حضرت عبداللہ اپنے ساتھیوں سے یہ کہا کرتے تھے جب وہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے کیا تم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہو۔ وہ جواب دیتے ہم نے اس کام کو ترک نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ دریافت کرتے کیا تم ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہو وہ جواب دیتے کہ جی ہاں۔ اگر ہم میں سے کسی ایک شخص کا بھائی نہ آئے تو وہ اس کی تلاش میں کوفہ کے دور دراز کے حصے تک چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس سے ملاقات کرتا ہے تو حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا جب تک تم یہ کام کرتے رہوگے بھلائی پر گامزن رہوگے۔

619

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ آفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ وَتَرْكُ الْمُذَاكَرَةِ
زہری بیان کرتے ہیں علم کی آفت بھول جانا اور تکرار ترک کرنا ہے۔

620

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَنْبَأَنَا أَبُو عُمَيْسٍ عَنْ الْقَاسِمِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ آفَةُ الْحَدِيثِ النِّسْيَانُ
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں حدیث کی آفت بھول جانا ہے۔

621

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ طَارِقٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ آفَةً وَآفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں ہر چیز کی کوئی آفت ہوتی ہے اور علم کی آفت بھول جانا ہے۔

622

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ وَإِضَاعَتُهُ أَنْ تُحَدِّثَ بِهِ غَيْرَ أَهْلِهِ
اعمش روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا علم کی بردباری اسے بھول جانا ہے اور علم کو ضائع کرنا یہ ہے کہ تم نااہل شخص کے سامنے اسے بیان کرو۔

623

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَنْبَأَنَا أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ غَائِلَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ
حضرت حسن فرماتے ہیں علم کی خرابی اسے بھول جانا ہے۔

624

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا كَهْمَسٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ تَذَاكَرُوا هَذَا الْحَدِيثَ وَتَزَاوَرُوا فَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا يَدْرُسْ
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں حدیث کی تکرار کرتے رہوا ور ایک دوسرے سے ملتے رہو کیونکہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ علم ختم ہوجائے گا۔

625

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ قَالَ الزُّهْرِيُّ كُنْتُ أَحْسَبُ بِأَنِّي أَصَبْتُ مِنْ الْعِلْمِ فَجَالَسْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ فَكَأَنِّي كُنْتُ فِي شِعْبٍ مِنْ الشِّعَابِ
زہری بیان کرتے ہیں پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ میں نے علم حاصل کرلیا ہے لیکن جب میں حضرت عبیداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے یہ محسوس ہوا جیسے ایک گھاٹی میں تھا۔ اب کھلے میدان میں آگیا ہوں۔

626

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ لَوْ جَمَعْتَ النَّاسَ عَلَى شَيْءٍ فَقَالَ مَا يَسُرُّنِي أَنَّهُمْ لَمْ يَخْتَلِفُوا قَالَ ثُمَّ كَتَبَ إِلَى الْآفَاقِ وَإِلَى الْأَمْصَارِ لِيَقْضِ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ فُقَهَاؤُهُمْ
حمید بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عبدالعزیز سے کہا اگر آپ لوگوں کو ایک بات پر اکٹھا کرلیں تو یہ مناسب ہوگا۔ انھوں نے جواب دیا مجھے یہ بھی بات پسند نہیں ہے کہ ان کے درمیان اختلاف ہو حمید بیان کرتے ہیں پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تمام شہروں اور علاقوں میں یہ خط لکھا کہ ہر علاقے کے لوگ اسی کے مطابق فتوی دیں جس پر ان کے اہل علم کا اتفاق ہو۔

627

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَا أُحِبُّ أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْتَلِفُوا فَإِنَّهُمْ لَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى شَيْءٍ فَتَرَكَهُ رَجُلٌ تَرَكَ السُّنَّةَ وَلَوْ اخْتَلَفُوا فَأَخَذَ رَجُلٌ بِقَوْلِ أَحَدٍ أَخَذَ بِالسُّنَّةِ
عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں مجھے یہ بات پسند نہیں کہ صحابہ کرام کے درمیان اختلاف نہ ہوتا اس لیے کہ اگر وہ سب لوگ کسی بات پر اکٹھے ہوجاتے اور پھر کوئی شخص اس بات کو ترک کرتا تو اس نے سنت کو ترک کرنا تھا، لیکن اب اگر ان کے درمیان اختلاف ہو اور کوئی ایک شخص ان میں سے کسی ایک قول کو اختیار کرلے تو اس نے سنت پر عمل کیا۔

628

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا حَسَنٌ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ رُبَّمَا رَأَى ابْنُ عَبَّاسٍ الرَّأْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ
طاؤس بیان کرتے ہیں بعض اوقات حضرت ابن عباس (رض) ایک رائے قائم کرتے تھے اور پھر اسے ترک کردیتے تھے۔

629

أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِنَّ عُمَرَ قَالَ لِي إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ فِي الْجَدِّ رَأْيًا فَإِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تَتَّبِعُوهُ فَاتَّبِعُوهُ قَالَ عُثْمَانُ إِنْ نَتَّبِعْ رَأْيَكَ فَإِنَّهُ رَشَدٌ وَإِنْ نَتَّبِعْ رَأْيَ الشَّيْخِ قَبْلَكَ فَنِعْمَ ذُو الرَّأْيِ كَانَ قَالَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَجْعَلُهُ أَبًا
مروان بن حکم فرماتے ہیں حضرت عثمان بن عفان نے مجھ سے کہا کہ حضرت عمر نے مجھ سے یہ کہا دادا کی وراثت کے بارے میں میری ایک رائے ہے کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کی پیروی کریں۔ حضرت عثمان نے کہا اگر ہم آپ کی رائے کی پیروی کرتے ہیں تو یہ بھی ہدایت کے مطابق ہے اور اگر ہم اس بزرگ کی پیروی کرتے ہیں جو آپ سے پہلے تھے تو وہ بھی بہترین رائے کے مالک تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں وہ حضرت ابوبکر (رض) تھے جنہوں نے اسے (دادا) باپ قرار دیا تھا۔

630

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ قَالَ عَرَضْتُ عَلَى الشَّعْبِيِّ أَحَادِيثَ الْفِقْهِ فَأَجَازَهَا لِي
عاصم بیان کرتے ہیں میں نے شعبی کے سامنے فقہ سے متعلق بہت سی احادیث پڑھ کر سنائیں انھوں نے مجھے ان کی اجازت دی۔

631

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ أَسَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ بِسِهَامٍ أَمْسِكْ بِنِصَالِهَا قَالَ نَعَمْ
سفیان کہتے ہیں میں نے عمرو بن دینار سے کہا کیا آپ نے حضرت جابر بن عبداللہ کی زبانی یہ بات سنی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں سے تیر لے کر گزرنے والے ایک شخص سے یہ کہا تھا کہ اس کی پیکان تھام کر رکھو تو انھوں نے جواب دیا ہاں۔

632

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ أَسَمِعْتَ أَبَاكَ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ قَالَ نَعَمْ
سفیان کہتے ہیں میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے دریافت کیا کیا آپ نے اپنے والد کو حضرت عائشہ (رض) کے حوالے سے یہ حدیث روایت کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لیا کرتے تھے انھوں نے جواب دیا ہاں۔

633

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا مِسْكِينُ بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ كَتَبَ إِلَيَّ مَنْصُورٌ بِحَدِيثٍ فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ أُحَدِّثُ بِهِ عَنْكَ قَالَ أَوَ لَيْسَ إِذَا كَتَبْتُ إِلَيْكَ فَقَدْ حَدَّثْتُكَ قَالَ وَسَأَلْتُ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيَّ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ
شعبہ بیان کرتے ہیں منصور نے مجھے خط کے ذریعے ایک حدیث بھیجی میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا میں وہ حدیث آپ کے حوالے سے بیان کرسکتا ہوں تو انھوں نے فرمایا جب میں نے تمہاری طرف سے لکھ کر بھیج دیا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے تمہارے سامنے حدیث بیان کردی ہے۔ شعبہ بیان کرتے ہیں میں نے ایوب سختیانی سے یہی سوال کیا تو انھوں نے بھی ایسا ہی جواب دیا۔

634

أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ عَرَضْتُ عَلَيْهِ كِتَابًا فَقُلْتُ أَرْوِيهِ عَنْكَ قَالَ وَمَنْ حَدَّثَكَ بِهِ غَيْرِي
معمر بیان کرتے ہیں میں نے زہری کے سامنے ایک تحریر پڑھ کر سنائی اور پھر دریافت کیا کہ کیا میں اسے آپ کے حوالے سے روایت کرسکتا ہوں انھوں نے جواب دیا تمہیں میرے علاوہ اور کس نے یہ حدیث سنائی ہے۔

635

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ مَوْلَى الْمُزَنِيِّينَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عَرْضُ الْكِتَابِ وَالْحَدِيثُ سَوَاءٌ
ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں تحریر پڑھ کر سنانا یا حدیث بیان کرنا ایک جیسی حثییت رکھتا ہے۔

636

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عَرْضُ الْكِتَابِ وَالْحَدِيثُ سَوَاءٌ
امام جعفر صادق اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں تحریر پڑھ کر سنانا اور حدیث بیان کرنا ایک جیسی حثیت رکھتے ہیں۔

637

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ قَالَ كَانَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ يَرَى عَرْضَ الْكِتَابِ وَالْحَدِيثَ سَوَاءً وَكَانَ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ يَرَى ذَلِكَ
داؤد بن عطا بیان کرتے ہیں زید بن اسلم کی یہ رائے تھی کہ تحریر پڑھ کر سنانا اور حدیث بیان کرنا ایک جیسی حثییت رکھتے ہیں۔ ابن ابی ذئب بھی اسی رائے کے مالک تھے۔

638

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ كَانَ يَرَى الْعَرْضَ وَالْحَدِيثَ سَوَاءً
امام مالک بن انس (رض) فرماتے ہیں حدیث پڑھ کر سنانا ایک جیسی حثییت رکھتے ہیں۔

639

أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَقُولُ يَقُومُ عَنْ يَسَارِهِ فَحَدَّثْتُهُ عَنْ سُمَيْعٍ الزَّيَّاتِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَهُ عَنْ يَمِينِهِ فَأَخَذَ بِهِ
اعمش بیان کرتے ہیں ابراہیم نخعی یہ فتوی دیتے تھے کہ ایک مقتدی امام کے بائیں طرف کھڑا ہوگا میں نے سمیع الزیات کے حوالے سے انھیں یہ حدیث سنائی کہ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اپنے دائیں طرف کھڑا کیا تھا تو ابراہیم نخعی نے اس حدیث کو اختیار کرلیا۔

640

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِيهِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ نَشَدَ عُمَرُ النَّاسَ أَسَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنْكُمْ فِي الْجَنِينِ فَقَامَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ قَضَى فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً فَنَشَدَ النَّاسَ أَيْضًا فَقَامَ الْمَقْضِيُّ لَهُ فَقَالَ قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِي بِهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً فَنَشَدَ النَّاسَ أَيْضًا فَقَامَ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ فَقَالَ قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ غُرَّةً عَبْدًا أَوْ أَمَةً فَقُلْتُ أَتَقْضِي عَلَيَّ فِيهِ فِيمَا لَا أَكَلَ وَلَا شَرِبَ وَلَا اسْتَهَلَّ وَلَا نَطَقَ أَنْ تُطِلَّهُ فَهُوَ أَحَقُّ مَا يُطَلُّ فَهَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ مَعَهُ فَقَالَ أَشِعْرٌ فَقَالَ عُمَرُ لَوْلَا مَا بَلَغَنِي مِنْ قَضَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَجَعَلْتُهُ دِيَةً بَيْنَ دِيَتَيْنِ
عقار بن مغیرہ اپنے والد حضرت مغیرہ بن شعبہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت عمر نے لوگوں کو قسم دے کر دریافت کیا کہ کیا کسی شخص نے یا کیا آپ میں سے کسی شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی پیٹ کے بچے کے بارے میں کوئی حکم سنا ہے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کھڑے ہوئے اور بولے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بارے میں ایک غلام یا کنیز ادا کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ حضرت عمر نے لوگوں کو یہ قسم دے کر دریافت کیا تو جس شخص کے حق میں یہ فیصلہ ہوا تھا اس نے یہ بتایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے حق میں ایک غلام یا کنیز کی ادائیگی کا فیصلہ دیا تھا۔ حضرت عمر نے پھر لوگوں کو قسم دی تو جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے یہ بتایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے اوپر ادائیگی لازم کی تھی۔ جو ایک غلام یا ایک کنیز تھی تو میں نے عرض کی تھی کیا آپ میرے خلاف اس بچے کے بارے میں فیصلہ دے رہے ہیں جس نے نہ کچھ کھایا ہے نہ کچھ پیا ہے۔ نہ وہ چلا کر رویا نہ وہ کچھ بولا اس طرح کا خون تو اس بات کا حق دار ہے کہ وہ ضائع ہوجائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کیا تم شاعری کر رہے ہو تو حضرت عمر نے ارشاد فرمایا اگر مجھے اس بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کا پتا نہ چلتا تو میں ایسے بچے کی دیت دو طرح کی دیت کے درمیان کی دیت مقرر کردیتا۔

641

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ كَانَ سَلَّامٌ يَذْكُرُ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْرِفَ خَطَأَ مُعَلِّمِكَ فَجَالِسْ غَيْرَهُ
ایوب بیان کرتے ہیں جب تمہیں کسی تعلیم دینے والے کی غلطی کا پتا چلے تو اٹھ کر کسی اور کی محفل میں چلے جاؤ۔

642

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ قَالَ تَذَاكَرْنَا بِمَكَّةَ الرَّجُلَ يَمُوتُ فَقُلْتُ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ لِقَوْلِ الْحَسَنِ وَقَتَادَةَ وَأَصْحَابِنَا قَالَ فَلَقِيَنِي طَلْقُ بْنُ حَبِيبٍ الْعَنَزِيُّ فَقَالَ إِنَّكَ عَلَيَّ كَرِيمٌ وَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِ بَلَدٍ الْعَيْنُ إِلَيْهِمْ سَرِيعَةٌ وَإِنِّي لَسْتُ آمَنُ عَلَيْكَ وَإِنَّكَ قُلْتَ قَوْلًا هَا هُنَا خِلَافَ قَوْلِ أَهْلِ الْبَلَدِ وَلَسْتُ آمَنُ فَقُلْتُ وَفِي ذَا اخْتِلَافٌ قَالَ نَعَمْ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ يَمُوتُ فَلَقِيتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ وَسَأَلْتُ مُجَاهِدًا فَقَالَ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَسَأَلْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ فَقَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَسَأَلْتُ أَبَا قِلَابَةَ فَقَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ فَقَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ و سَمِعْت عِكْرِمَةَ يَقُولُ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ وَقَالَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ حَمَّادٌ وَسَمِعْتُ لَيْثًا حَدَّثَ عَنْ الْحَكَمِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ تُوُفِّيَ عَلِيٌّ مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَقُولُ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ
ایوب بیان کرتے ہیں ہم مکہ میں ایک ایسے شخص کا ذکر کررہے تھے جو فوت ہوچکا تھا میں نے کہا اس کی بیوی کی عدت اس دن سے شروع ہوگی جب اس شخص کی وفات کی اطلاع ملے گی کیونکہ حسن بصری قتادہ اور ہمارے مشائخ کی یہی رائے ہے۔ ایوب بیان کرتے ہیں پھر میری ملاقات طلق بن حبیب عنزی سے ہوئی تو وہ بولے آپ مجھ پر بڑے مہربان ہیں آپ اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظریں تیزی سے جاتی ہیں اور میں آپ کے بارے میں امن میں نہیں ہوں اس نے یہ بھی کہا کہ آپ نے یہاں ایک بات کی ہے جو اس شہر کے اہل علم کے قول کے خلاف ہے اس لیے میں مطمئن نہیں ہوں میں نے دریافت کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے اس نے جواب دیا جی ہاں۔ اس عورت کی عدت اس دن سے شروع ہوگئی جب وہ شخص فوت ہوا تھا کیونکہ میری ملاقات حضرت سعید بن جبیر سے ہوئی تھی اور میں نے یہی سوال ان سے کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ اس عورت کی عدت اس دن سے شروع ہوگی جب وہ مرد فوت ہوا تھا پھر میں نے مجاہد (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر میں نے عطاء بن ابی رباح سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا، پھر میں نے ابوقلابہ سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ وفات کے دن سے ہوگی پھر میں نے محمد بن سیرین سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ وفات کے دن سے ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نافع نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے بھی یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اس دن سے شروع ہوگی جس دن اس کے مرد کا انتقال ہوا ہے۔ میں نے عکرمہ کو اور حضرت جابر بن زید کو اور حضرت ابن عباس (رض) کو بھی یہی فتوی دیتے سنا ہے کہ وفات کے دن سے آغاز ہوگا۔ حماد بیان کرتے ہیں میں نے لیث کو حکم کے حوالے سے یہ بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ وفات کے دن سے آغاز ہوگا۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں حضرت علی (رض) نے یہ ارشاد فرمایا جس دن اس کی وفات کی خبر آئے گی اس دن سے آغاز ہوگا۔ عبداللہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں تو میں نے بھی یہی فتوی دیا کہ وفات کے دن سے حساب شمار ہوگا۔

643

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَتَيْنَا عُمَرَ فِي الْمُشَرَّكَةِ فَلَمْ يُشَرِّكْ ثُمَّ أَتَيْنَاهُ الْعَامَ الْمُقْبِلَ فَشَرَّكَ فَقُلْنَا لَهُ فَقَالَ تِلْكَ عَلَى مَا قَضَيْنَا وَهَذِهِ عَلَى مَا قَضَيْنَا
حکم بیان کرتے ہیں ہم ایک مشترکہ چیز کے بارے میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے ہمیں اس کا شریک قرار نہیں دیا پھر ہم اگلے سال ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے ہمیں حصہ قرار دیدیا ہم نے ان سے اس بارے میں کہا تو انھوں نے جواب دیا پہلے وہ حکم تھا جو ہمیں پہلے سمجھ میں آیا اور یہ وہ حکم ہے جو اب ہمارے نزدیک بہتر ہے۔

644

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ قَالَ قَالَ ابْنُ مُنَبِّهٍ كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا مَضَى يَضَنُّونَ بِعِلْمِهِمْ عَنْ أَهْلِ الدُّنْيَا فَيَرْغَبُ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ فَيَبْذُلُونَ لَهُمْ دُنْيَاهُمْ وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ الْيَوْمَ بَذَلُوا عِلْمَهُمْ لِأَهْلِ الدُّنْيَا فَزَهِدَ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ فَضَنُّوا عَلَيْهِمْ بِدُنْيَاهُمْ
ابن منبہ بیان کرتے ہیں گزشتہ زمانے میں اہل علم اپنے علم کی وجہ سے دنیا داروں کے معاملے میں بخیل ہوتے تھے تو اہل دنیا ان کے علم کی وجہ سے ان کی طرف راغب ہوتے تھے اور اپنا دنیاوی مال و دولت ان پر خرچ کرتے تھے آج کے اہل علم اپنا علم دنیا والوں پر خرچ کرتے ہیں لیکن اہل دنیا ان کے علم سے بےنیاز ہیں اور اپنی دنیاوی مال و دولت کے معاملے میں ان سے بخل کرتے ہیں۔

645

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْكُمَيْتِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ وَهْبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُوسَى قَالَ مَرَّ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُرِيدُ مَكَّةَ فَأَقَامَ بِهَا أَيَّامًا فَقَالَ هَلْ بِالْمَدِينَةِ أَحَدٌ أَدْرَكَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا لَهُ أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ لَهُ يَا أَبَا حَازِمٍ مَا هَذَا الْجَفَاءُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَيُّ جَفَاءٍ رَأَيْتَ مِنِّي قَالَ أَتَانِي وُجُوهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَلَمْ تَأْتِنِي قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَقُولَ مَا لَمْ يَكُنْ مَا عَرَفْتَنِي قَبْلَ هَذَا الْيَوْمِ وَلَا أَنَا رَأَيْتُكَ قَالَ فَالْتَفَتَ سُلَيْمَانُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ فَقَالَ أَصَابَ الشَّيْخُ وَأَخْطَأْتُ قَالَ سُلَيْمَانُ يَا أَبَا حَازِمٍ مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لِأَنَّكُمْ أَخْرَبْتُمْ الْآخِرَةَ وَعَمَّرْتُمْ الدُّنْيَا فَكَرِهْتُمْ أَنْ تُنْقَلُوا مِنْ الْعُمْرَانِ إِلَى الْخَرَابِ قَالَ أَصَبْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ فَكَيْفَ الْقُدُومُ غَدًا عَلَى اللَّهِ قَالَ أَمَّا الْمُحْسِنُ فَكَالْغَائِبِ يَقْدُمُ عَلَى أَهْلِهِ وَأَمَّا الْمُسِيءُ فَكَالْآبِقِ يَقْدُمُ عَلَى مَوْلَاهُ فَبَكَى سُلَيْمَانُ وَقَالَ لَيْتَ شِعْرِي مَا لَنَا عِنْدَ اللَّهِ قَالَ اعْرِضْ عَمَلَكَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ وَأَيُّ مَكَانٍ أَجِدُهُ قَالَ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ قَالَ سُلَيْمَانُ فَأَيْنَ رَحْمَةُ اللَّهِ يَا أَبَا حَازِمٍ قَالَ أَبُو حَازِمٍ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنْ الْمُحْسِنِينَ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ يَا أَبَا حَازِمٍ فَأَيُّ عِبَادِ اللَّهِ أَكْرَمُ قَالَ أُولُو الْمُرُوءَةِ وَالنُّهَى قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ فَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ أَدَاءُ الْفَرَائِضِ مَعَ اجْتِنَابِ الْمَحَارِمِ قَالَ سُلَيْمَانُ فَأَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ دُعَاءُ الْمُحْسَنِ إِلَيْهِ لِلْمُحْسِنِ قَالَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ لِلسَّائِلِ الْبَائِسِ وَجُهْدُ الْمُقِلِّ لَيْسَ فِيهَا مَنٌّ وَلَا أَذًى قَالَ فَأَيُّ الْقَوْلِ أَعْدَلُ قَالَ قَوْلُ الْحَقِّ عِنْدَ مَنْ تَخَافُهُ أَوْ تَرْجُوهُ قَالَ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ قَالَ رَجُلٌ عَمِلَ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَدَلَّ النَّاسَ عَلَيْهَا قَالَ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَحْمَقُ قَالَ رَجُلٌ انْحَطَّ فِي هَوَى أَخِيهِ وَهُوَ ظَالِمٌ فَبَاعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَصَبْتَ فَمَا تَقُولُ فِيمَا نَحْنُ فِيهِ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَوَ تُعْفِينِي قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ لَا وَلَكِنْ نَصِيحَةٌ تُلْقِيهَا إِلَيَّ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ آبَاءَكَ قَهَرُوا النَّاسَ بِالسَّيْفِ وَأَخَذُوا هَذَا الْمُلْكَ عَنْوَةً عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَلَا رِضَاهُمْ حَتَّى قَتَلُوا مِنْهُمْ مَقْتَلَةً عَظِيمَةً فَقَدْ ارْتَحَلُوا عَنْهَا فَلَوْ أُشْعِرْتَ مَا قَالُوا وَمَا قِيلَ لَهُمْ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ قَالَ أَبُو حَازِمٍ كَذَبْتَ إِنَّ اللَّهَ أَخَذَ مِيثَاقَ الْعُلَمَاءِ لَيُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا يَكْتُمُونَهُ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ فَكَيْفَ لَنَا أَنْ نُصْلِحَ قَالَ تَدَعُونَ الصَّلَفَ وَتَمَسَّكُونَ بِالْمُرُوءَةِ وَتَقْسِمُونَ بِالسَّوِيَّةِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ كَيْفَ لَنَا بِالْمَأْخَذِ بِهِ قَالَ أَبُو حَاَزِمٍ تَأْخُذُهُ مِنْ حِلِّهِ وَتَضَعُهُ فِي أَهْلِهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ هَلْ لَكَ يَا أَبَا حَازِمٍ أَنْ تَصْحَبَنَا فَتُصِيبَ مِنَّا وَنُصِيبَ مِنْكَ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ وَلِمَ ذَاكَ قَالَ أَخْشَى أَنْ أَرْكَنَ إِلَيْكُمْ شَيْئًا قَلِيلًا فَيُذِيقَنِي اللَّهُ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ ارْفَعْ إِلَيْنَا حَوَائِجَكَ قَالَ تُنْجِينِي مِنْ النَّارِ وَتُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ سُلَيْمَانُ لَيْسَ ذَاكَ إِلَيَّ قَالَ أَبُو حَازِمٍ فَمَا لِي إِلَيْكَ حَاجَةٌ غَيْرُهَا قَالَ فَادْعُ لِي قَالَ أَبُو حَازِمٍ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ سُلَيْمَانُ وَلِيَّكَ فَيَسِّرْهُ لِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَإِنْ كَانَ عَدُوَّكَ فَخُذْ بِنَاصِيَتِهِ إِلَى مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ قَطُّ قَالَ أَبُو حَازِمٍ قَدْ أَوْجَزْتُ وَأَكْثَرْتُ إِنْ كُنْتَ مِنْ أَهْلِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ أَهْلِهِ فَمَا يَنْفَعُنِي أَنْ أَرْمِيَ عَنْ قَوْسٍ لَيْسَ لَهَا وَتَرٌ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَوْصِنِي قَالَ سَأُوصِيكَ وَأُوجِزُ عَظِّمْ رَبَّكَ وَنَزِّهْهُ أَنْ يَرَاكَ حَيْثُ نَهَاكَ أَوْ يَفْقِدَكَ حَيْثُ أَمَرَكَ فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ بَعَثَ إِلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ وَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ أَنْفِقْهَا وَلَكَ عِنْدِي مِثْلُهَا كَثِيرٌ قَالَ فَرَدَّهَا عَلَيْهِ وَكَتَبَ إِلَيْهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ يَكُونَ سُؤَالُكَ إِيَّايَ هَزْلًا أَوْ رَدِّي عَلَيْكَ بَذْلًا وَمَا أَرْضَاهَا لَكَ فَكَيْفَ أَرْضَاهَا لِنَفْسِي وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهَا رِعَاءً يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمْ جَارِيَتَيْنِ تَذُودَانِ فَسَأَلَهُمَا فَقَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ جَائِعًا خَائِفًا لَا يَأْمَنُ فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلَمْ يَسْأَلْ النَّاسَ فَلَمْ يَفْطِنْ الرِّعَاءُ وَفَطِنَتْ الْجَارِيتَانِ فَلَمَّا رَجَعَتَا إِلَى أَبِيهِمَا أَخْبَرَتَاهُ بِالْقِصَّةِ وَبِقَوْلِهِ فَقَالَ أَبُوهُمَا وَهُوَ شُعَيْبٌ هَذَا رَجُلٌ جَائِعٌ فَقَالَ لِإِحْدَاهُمَا اذْهَبِي فَادْعِيهِ فَلَمَّا أَتَتْهُ عَظَّمَتْهُ وَغَطَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَشَقَّ عَلَى مُوسَى حِينَ ذَكَرَتْ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا وَلَمْ يَجِدْ بُدًّا مِنْ أَنْ يَتْبَعَهَا إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ الْجِبَالِ جَائِعًا مُسْتَوْحِشًا فَلَمَّا تَبِعَهَا هَبَّتْ الرِّيحُ فَجَعَلَتْ تَصْفِقُ ثِيَابَهَا عَلَى ظَهْرِهَا فَتَصِفُ لَهُ عَجِيزَتَهَا وَكَانَتْ ذَاتَ عَجُزٍ وَجَعَلَ مُوسَى يُعْرِضُ مَرَّةً وَيَغُضُّ أُخْرَى فَلَمَّا عِيلَ صَبْرُهُ نَادَاهَا يَا أَمَةَ اللَّهِ كُونِي خَلْفِي وَأَرِينِي السَّمْتَ بِقَوْلِكِ ذَا فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى شُعَيْبٍ إِذَا هُوَ بِالْعَشَاءِ مُهَيَّأً فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ اجْلِسْ يَا شَابُّ فَتَعَشَّ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَعُوذُ بِاللَّهِ فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ لِمَ أَمَا أَنْتَ جَائِعٌ قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ هَذَا عِوَضًا لِمَا سَقَيْتُ لَهُمَا وَإِنَّا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ لَا نَبِيعُ شَيْئًا مِنْ دِينِنَا بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ لَا يَا شَابُّ وَلَكِنَّهَا عَادَتِي وَعَادَةُ آبَائِي نُقْرِي الضَّيْفَ وَنُطْعِمُ الطَّعَامَ فَجَلَسَ مُوسَى فَأَكَلَ فَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْمِائَةُ دِينَارٍ عِوَضًا لِمَا حَدَّثْتُ فَالْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ فِي حَالِ الِاضْطِرَارِ أَحَلُّ مِنْ هَذِهِ وَإِنْ كَانَ لِحَقٍّ لِي فِي بَيْتِ الْمَالِ فَلِي فِيهَا نُظَرَاءُ فَإِنْ سَاوَيْتَ بَيْنَنَا وَإِلَّا فَلَيْسَ لِي فِيهَا حَاجَةٌ
ضحاک بن موسیٰ بیان کرتے ہیں سلیمان بن عبدالملک کا گزر مدینہ سے ہوا وہ مکہ جانا چاہتے تھے اس نے کچھ دن مدینہ میں قیام کیا اور دریافت کیا کہ کیا مدینہ میں کوئی ایسے صاحب موجود ہیں جنہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا زمانہ پایا ہو لوگوں نے انھیں بتایا کہ ابوحازم ہیں سلیمان نے انھیں پیغام بھجوایا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو سلیمان نے ان سے کہا اے ابوحازم یہ زیادتی ہے ابوحازم نے دریافت کیا اے امیرالمومنین آپ نے میری طرف سے کون سی زیادتی دیکھی ہے سلیمان نے کہا میرے پاس مدینے کئے تمام سر کردہ لوگ آئے ہیں لیکن آپ میرے پاس تشریف نہیں لائے۔ ابوحازم نے جواب دیا اے امیرالمومنین میں اس بارے میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتاہوں کہ آپ وہ بات کریں جو نہیں ہوئی آج کے دن سے پہلے آپ مجھ سے واقف نہیں تھے اور میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا تو میں کیوں آپ کے پاس آتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سلیمان، محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوا اور بولا یہ بزرگ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ سلیمان نے کہا اے ابوحازم ہم موت کو ناپسند کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت خراب کی ہوئی ہے اور دنیا کو آباد کیا ہوا ہے اس لیے آپ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ کسی بسی ہوئی چیز سے کسی تباہ حال کی طرف جائیں۔ سلیمان نے کہا اے ابوحازم آپ نے ٹھیک کہا ہے کل ہم اللہ کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہوں گے ؟ ابوحازم نے جواب دیا نیک آدمی تو یوں آئے گا جیسا کہ گھر سے غیر موجود شخص اپنے گھر واپس آتا تھا۔ اور گناہ گار یوں آئے گا جیسے کوئی مفرور غلام اپنے آقا کے پاس آتا ہے۔ سلیمان رو پڑا اور بولا ہائے افسوس۔ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ابوحازم نے کہا آپ اپنے عمل اللہ کی کتاب پر پیش کریں۔ سلیمان نے دریافت کیا کیا میں کسی جگہ انھیں پاسکتا ہوں ؟ ابوحازم نے کہا بیشک نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور گناہ گار لوگ جہنم میں ہوں گے۔ سلیمان نے دریافت کیا اے ابوحازم اللہ کی رحمت کہاں ہوگی۔ ابوحازم نے جواب دیا اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے پاس ہوگی۔ سلیمان نے ان سے کہا اے ابوحازم اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے ؟ انھوں نے جواب دیا جو مروت اور سمجھ کا مالک ہو۔ سلیمان نے ان سے کہا سب سے افضل عمل کون سا ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا حرام چیزوں سے اجتناب کرنے کے ہمراہ فرائض ادا کرنا۔ سلیمان نے پوچھا کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جس شخص کے ساتھ احسان کیا گیا وہ اپنے محسن کے لیے جو دعا کرتا ہے۔ سلیمان نے دریافت کیا کون سا صدقہ افضل ہے ؟ ابوحازم نے جواب دیا جو مصیبت زدہ شخص کو دیا جائے اور جو کوئی غریب شخص دے جس میں احسان نہ جتایا جائے اور تکلیف نہ دی جائے۔ سلیمان نے پوچھا کون سی بات عدل کے زیادہ قریب ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جس بات سے تم خوف زدہ ہو یا جب تمہیں کوئی امید ہو اس وقت حق بیان کرنا۔ سلیمان نے پوچھا سب سے زیادہ عقل مند کون سا مومن ہے ؟ ابوحازم نے جواب دیا جو شخص اللہ کی کتاب پر عمل کرے اور لوگوں کی اس طرف رہنمائی کرے۔ سلیمان نے پوچھا کون سا مومن سب سے زیادہ احمق ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جو شخص اپنے بھائی کی نفسانی خواہش میں شریک ہو کر ظلم کا ارتکاب کرے یوں وہ دوسرے شخص کی دنیا کے عوض میں اپنی آخرت کو فروخت کردے۔ سلیمان نے ان سے کہا آپ نے ٹھیک کہا ہے ہم جس حال میں ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہو۔ ابوحازم نے جواب دیا اے امیرالمومنین کیا آپ مجھ سے درگزر کریں گے۔ سلیمان نے ان سے کہا نہیں یہ ایک نصیحت ہوگی جو آپ کی طرف سے مجھ تک آئے گی۔ ابوحازم نے کہا اے امیرالمومنین آپ کے آباء و اجداد نے تلواروں کے ذریعے لوگوں کو مغلوب کیا ہے انھوں نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کی اس میں کوئی رضامندی نہیں تھی انھوں نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور بہت سے لوگ ان کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں کاش آپ جان سکتے کہ انھوں نے کیا کہا اور ان سے کیا کہا گیا۔ راوی بیان کرتے ہیں حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا اے ابوحازم آپ نے بہت غلط بات کہی ہے۔ ابوحازم نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو بیشک اللہ نے علماء سے یہ پختہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کو واضح طور پر بیان کریں گے اور ان سے چھپائیں گے نہیں۔ سلیمان نے کہا ہم اب اس چیز کو کیسے ٹھیک کرسکتے ہیں ؟ ابوحازم نے کہا آپ لوگ تکبر کو چھوڑ دیں اور مروت کو اختیار کریں اور برابری کی بنیاد پر تقسیم کریں۔ سلیمان نے ان سے کہا ٹیکس وصول کرنے کے بارے میں ہمارے لیے کتنی گنجائش ہے ؟ ابوحازم نے جواب دیا آپ اسے مناسب طور پر وصول کرسکتے ہیں اور اس کے مستحق لوگوں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ سلیمان نے ان سے دریافت کیا اے ابوحازم کیا یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں یوں ہمیں آپ سے فائدہ ہوگا اور ہم بھی آپ کو کچھ فائدہ پہنچا دیں گے۔ ابوحازم نے جواب دیا میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ سلیمان نے ان سے کہا ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔ ابوحازم نے جواب دیا مجھے یہ ڈر ہے کہ آپ کی طرف میں تھوڑا سا جھکوں گا جس کے نتیجے میں اللہ مجھے زندگی میں اور مرنے کے بعد دگنا عذاب دے گا۔ سلیمان نے ان سے کہا اپنی ضروریات ہمارے سامنے پیش کریں۔ ابوحازم نے جواب دیا آپ مجھے جہنم سے نجات دلوا کر جنت میں داخل کروا دیں۔ سلیمان نے کہا یہ تو میں نہیں کرسکتا۔ ابوحازم نے کہا پھر آپ سے مجھے کوئی کام نہیں۔ سلیمان نے کہا آپ میرے لیے دعا کریں۔ ابوحازم نے دعا کی اے اللہ اگر سلیمان تیرا دوست ہے تو اسے دنیا اور آخرت میں بھلائی کے ذریعے خوش کردے اور اگر یہ تیرا دوست نہیں تو اس کی پیشانی پکڑ کر اسے اس طرف لے جا جس سے تو راضی ہوجائے اور جو تجھے پسند ہو۔ سلیمان نے ان سے کہا بس اتناہی ؟ ابوحازم بولے میں نے مختصر الفاظ میں وسیع مفہوم رکھنے والی دعا کردی اگر تم اس کے اہل ہوئے اور اگر تم اس کے اہل نہ ہوئے تو مجھے کیا فائدہ ہوگا اگر میں کمان کے ذریعے کوئی ایسا تیر پھینکوں جس پر پھل ہی نہ لگا ہو ؟ سلیمان نے ان سے کہا آپ مجھے کوئی وصیت کریں۔ ابوحازم بولے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اور مختصر الفاظ میں کروں گا تم اپنے پروردگار کو عظیم سمجھو اور اسے اس بات سے پاک رکھو کہ وہ تمہیں کسی ایسے معاملے میں دیکھے جس سے اس نے تمہیں منع کیا ہے یا کسی ایسی جگہ پر تمہیں غیرموجود پائے جس کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ جب سلیمان ان کے ہاں سے اٹھ کر گیا تو ان کی خدمت میں سو دینار بھیجے اور ساتھ ہی یہ تحریر بھیجی آپ انھیں خرچ کیجیے میری طرف سے آپ کو ان جیسے اور بہت ملیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں ابوحازم نے وہ انھیں واپس کردیئے اور جوابی خط میں لکھا اے امیر المومنین میں آپ کو اس بات سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں کہ آپ نے مذاق کے طور پر مجھ سے کچھ مانگیں یا آپ تذلیل کے طور پر کوئی چیز واپس لیں جس چیز پر میں آپ کے لیے راضی نہیں ہوں اس سے اپنے لیے کیسے راضی ہوسکتا ہوں۔
ابوحازم نے سلیمان کو خط میں لکھا حضرت موسیٰ جب مدین کے چشمے پر آئے تو وہاں انھوں نے کچھ لوگوں کو بکریوں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا دو لڑکیاں ان سے کچھ ہٹ کر کھڑی ہوئی تھیں حضرت موسیٰ نے ان دونوں سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا ہم اس وقت تک پانی حاصل نہیں کرسکتے جب تک یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا لیتے۔ کیونکہ ہمارے والد عمر رسیدہ آدمی ہیں حضرت موسیٰ نے ان دونوں کو پانی لا کردیا اور پھر سائے میں آکر بیٹھ گئے اور بولے اے میرے رب تو میری طرف جو بھلائی نازل کرے گا میں اس کا محتاج ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھوک کے عالم میں تھے اور خوف زدہ بھی۔ کیونکہ وہ امن کی حالت میں نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنے پروردگار سے مانگا۔ انھوں نے لوگوں سے سوال نہیں کیا۔ بکریوں کے چرواہوں کو اس بات کا پتہ نہیں چل سکا لیکن وہ دونوں لڑکیاں یہ بات سمجھ گئیں جب وہ دونوں اپنے والد کے پاس واپس گئیں اور انھیں یہ ماجرا سنایا اور ان کی بات کے بارے میں بتایا تو ان کے والد نے جو حضرت شعیب تھے یہ کہا وہ شخص بھوکا ہوگا پھر انھوں نے ایک لڑکی سے کہا تم جاؤ اور اسے بلا کر لاؤ جب وہ لڑکی ان کے پاس آئی تو انھیں تعظیم پیش کی اور اپنا چہرہ چھپالیا۔ اور یہ بولی کہ میرے والد نے آپ کو بلایا ہے تاکہ آپ نے ہمیں جو پانی لا کردیا ہے اس کا بدلہ آپ کو دیں۔ جب اس لڑکی نے یہ بات کہ جو آپ نے پانی پلایا ہے اس کا بدلہ آپ کو دیں تو حضرت موسیٰ کو اس سے بہت تکلیف ہوئی لیکن اس وقت ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس لڑکی کے پیچھے چلے جائیں کیونکہ وہ اس وقت پہاڑی سلسلے کے درمیان تھے بھوکے تھے وحشت کا شکار تھے اس لیے وہ اس کے پیچھے چل پڑے جب وہ اس کے پیچھے چلے تو ہوا چل پڑی جس کے نتیجے میں اس کی پشت کی جانب سے کپڑے ہلنے لگے جس کی وجہ سے بےپردگی کے آثار پیدا ہوئے وہ صحت مند جسم کی مالک لڑکی تھی حضرت موسیٰ کبھی نگاہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے اور کبھی نگاہ جھکا دیتے تھے جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو اس نے بلند آواز سے کہا اے لڑکی اللہ کی کنیز تم میرے پیچھے آجاؤ اور مجھے زبانی طور پر راستے کے بارے میں بتاؤ۔
جب حضرت موسیٰ حضرت شعیب کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت رات کا کھانا تیار تھا حضرت شعیب نے ان سے کہا اے نوجوان بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاؤ حضرت موسیٰ نے ان سے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں حضرت شعیب نے ان سے کہا وہ کیوں کیا تم بھوکے نہیں ہو۔ حضرت موسیٰ نے جواب دیا جی ہاں۔ لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ اس چیز کا معاوضہ ہے جو میں نے ان دو لڑکیوں کو پانی لا کردیا تھا۔ میں اسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جس کے لوگ تمام روئے زمین کے برابر سونے کے عوض میں بھی اپنی نیکی فروخت نہیں کرتے۔ حضرت شعیب نے ان سے کہا نہیں اے نوجوان لیکن میری اور میرے آباء و اجداد کی یہ عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے ہیں۔ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو حضرت موسیٰ بیٹھ گئے اور انھوں نے کھانا کھالیا۔ ابوحازم نے سلیمان کو لکھا کہ آپ نے جو سو دینار بھیجے ہیں اگر تو یہ اس چیز کا معاوضہ ہے جو میں نے آپ سے باتیں کی تھیں تو مردار، خون اور گوشت سور کا، اضطرار کی حالت میں اس سے زیادہ حلال ہے اور اگر یہ بیت المال کے حق کی وجہ سے ہے تو اس کے بہت سے مستحق ہیں اگر تو آپ ہم سب میں برابر تقسیم کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

646

أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَسْمَلِيِّ أَخْبَرَنَا زَيْدٌ الْعَمِّيُّ عَنْ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُ قَالَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ اعْمَلْ بِعِلْمِكَ وَأَعْطِ فَضْلَ مَالِكَ وَاحْبِسْ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِكَ إِلَّا بِشَيْءٍ مِنْ الْحَدِيثِ يَنْفَعُكَ عِنْدَ رَبِّكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي عَلِمْتَ ثُمَّ لَمْ تَعْمَلْ بِهِ قَاطِعٌ حُجَّتَكَ وَمَعْذِرَتَكَ عِنْدِ رَبِّكَ إِذَا لَقِيتَهُ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي أُمِرْتَ بِهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَيَشْغَلُكَ عَمَّا نُهِيتَ عَنْهُ مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تَكُونَنَّ قَوِيًّا فِي عَمَلِ غَيْرِكَ ضَعِيفًا فِي عَمَلِ نَفْسِكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا يَشْغَلَنَّكَ الَّذِي لِغَيْرِكَ عَنْ الَّذِي لَكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ جَالِسْ الْعُلَمَاءَ وَزَاحِمْهُمْ وَاسْتَمِعْ مِنْهُمْ وَدَعْ مُنَازَعَتَهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ عَظِّمْ الْعُلَمَاءَ لِعِلْمِهِمْ وَصَغِّرْ الْجُهَّالَ لِجَهْلِهِمْ وَلَا تُبَاعِدْهُمْ وَقَرِّبْهُمْ وَعَلِّمْهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تُحَدِّثْ بِحَدِيثٍ فِي مَجْلِسٍ حَتَّى تَفْهَمَهُ وَلَا تُجِبْ امْرَأً فِي قَوْلِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مَا قَالَ لَكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تَغْتَرَّ بِاللَّهِ وَلَا تَغْتَرَّ بِالنَّاسِ فَإِنَّ الْغِرَّةَ بِاللَّهِ تَرْكُ أَمْرِهِ وَالْغِرَّةَ بِالنَّاسِ اتِّبَاعُ أَهْوَائِهِمْ وَاحْذَرْ مِنْ اللَّهِ مَا حَذَّرَكَ مِنْ نَفْسِهِ وَاحْذَرْ مِنْ النَّاسِ فِتْنَتَهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّهُ لَا يَكْمُلُ ضَوْءُ النَّهَارِ إِلَّا بِالشَّمْسِ كَذَلِكَ لَا تَكْمُلُ الْحِكْمَةُ إِلَّا بِطَاعَةِ اللَّهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ الزَّرْعُ إِلَّا بِالْمَاءِ وَالتُّرَابِ كَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ الْإِيمَانُ إِلَّا بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ كُلُّ مُسَافِرٍ مُتَزَوِّدٌ وَسَيَجِدُ إِذَا احْتَاجَ إِلَى زَادِهِ مَا تَزَوَّدَ وَكَذَلِكَ سَيَجِدُ كُلُّ عَامِلٍ إِذَا احْتَاجَ إِلَى عَمَلِهِ فِي الْآخِرَةِ مَا عَمِلَ فِي الدُّنْيَا يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَحُضَّكَ عَلَى عِبَادَتِهِ فَاعْلَمْ أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يُبَيِّنَ لَكَ كَرَامَتَكَ عَلَيْهِ فَلَا تَحَوَّلَنَّ إِلَى غَيْرِهِ فَتَرْجِعَ مِنْ كَرَامَتِهِ إِلَى هَوَانِهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِنْ تَنْقُلْ الْحِجَارَةَ وَالْحَدِيدَ أَهْوَنُ عَلَيْكَ مِنْ أَنْ تُحَدِّثَ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَكَ وَمَثَلُ الَّذِي يُحَدِّثُ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَهُ كَمَثَلِ الَّذِي يُنَادِي الْمَيِّتَ وَيَضَعُ الْمَائِدَةَ لِأَهْلِ الْقُبُورِ
زید بیان کرتے ہیں ایک عالم نے یہ بات بیان کی۔ اے صاحب علم اپنے علم پر عمل کرو اور اپنا اضافی مال مستحق لوگوں کو دے دو اور فضول گفتگو نہ کرو۔ صرف وہی بات کرو جو تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں تمہیں فائدہ پہنچائے۔ اے صاحب علم جس چیز کا تم نے علم حاصل کیا ہے پھر اس پر عمل نہیں کیا جب تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوگے تو وہ چیز تمہاری حجت کو توڑ دے گی اور تمہاری معذرت کو ختم کردے گی۔ اے صاحب علم۔ تمہیں اللہ کی جب عبادت کا حکم دیا گیا ہے وہ تمہیں اس کی اس نافرمانی سے روکے گی جس سے تمہیں منع کیا گیا ہے اے صاحب علم تم دوسروں کی طرف سے عمل کرنے میں طاقت ور ہو اور اپنی ذات کے طرف سے عمل کرنے میں کمزور نہ ہوجانا۔ اے صاحب علم تم علماء کی تعظیم کرو ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ ان کی باتیں غور سے سنو اور ان سے بحث نہ کرو۔ اے صاحب علم ! علماء کو ان کے علم کی وجہ سے عظیم سمجھو اور جہلاء کو ان کی جہالت کی وجہ سے کم سمجھو لیکن ان سے دوری اختیار نہ کرو۔ بلکہ ان کے قریب رہو اور ان کو تعلیم دو ۔ اے صاحب علم کسی محفل میں اس وقت تک کوئی بات نہ کرو جب تک تمہیں اس بات کی سمجھ نہ آجائے اور کسی بھی شخص کی بات کا اس وقت تک جواب نہ دو جب تک یہ جان نہ لو کہ اس نے تم سے کیا کہا۔ اے صاحب علم۔ اللہ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہونا اور لوگوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ اللہ کے بارے میں غلط فہمی یہ ہے کہ اس کے حکم کو چھوڑ دیا جائے اور لوگوں کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ان کی نفسانی خواہشات کی پیروی کی جائے اور اللہ کے بارے میں ہر اس چیز سے بچو جس کے بارے میں بچنے کی اس نے تلقین کی ہے اور لوگوں کے حوالے سے فتنے سے بچو۔ اے صاحب علم ہر مسافر کے پاس زاد راہ موجود ہوتا ہے کیونکہ بہت جلد اسے اس سامان کی ضرورت پیش آجاتی ہے اسی طرح ہر عمل کرنے والا شخص آخرت میں اپنے عمل کی ضرورت محسوس کرے گا جو عمل اس نے دنیا میں کیا ہوگا۔ اے صاحب علم جب اللہ اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ اپنی عبادت کی تمہیں ترغیب دے تو یہ بات جان لو کہ اس نے اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ اپنی بارگاہ میں تمہاری بزرگی کو تمہارے سامنے ظاہر کردے۔ اس لیے تم اس کے علاوہ کسی اور کی طرف نہ جانا ورنہ بزرگی بےعزتی میں تبدیل ہوجائے گی۔ اے اہل علم تمہارا پتھر اور لوہا منتقل کرنا تمہارے نزدیک اس بات سے زیادہ آسان ہونا چاہیے کہ تم کوئی ایسی بات بیان کرو جس کی تمہیں خود بھی سمجھ نہ ہو۔ جو شخص کوئی ایسی بات بیان کرتا ہے جس کی اسے خود سمجھ نہ ہو۔ اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مردے کو مخاطب کرتا ہے اور قبرستان والوں کے سامنے دسترخوان رکھ دیتا ہے۔

647

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْطَاكِيُّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِيِّ أَبِي عُتْبَةَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ اعْقِلُوا وَالْعَقْلُ نِعْمَةٌ فَرُبَّ ذِي عَقْلٍ قَدْ شُغِلَ قَلْبُهُ بِالتَّعَمُّقِ عَمَّا هُوَ عَلَيْهِ ضَرَرٌ عَنْ الِانْتِفَاعِ بِمَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ حَتَّى صَارَ عَنْ ذَلِكَ سَاهِيًا وَمِنْ فَضْلِ عَقْلِ الْمَرْءِ تَرْكُ النَّظَرِ فِيمَا لَا نَظَرَ فِيهِ حَتَّى لَا يَكُونَ فَضْلُ عَقْلِهِ وَبَالًا عَلَيْهِ فِي تَرْكِ مُنَافَسَةِ مَنْ هُوَ دُونَهُ فِي الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ أَوْ رَجُلٍ شُغِلَ قَلْبُهُ بِبِدْعَةٍ قَلَّدَ فِيهَا دِينَهُ رِجَالًا دُونَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ اكْتَفَى بِرَأْيِهِ فِيمَا لَا يَرَى الْهُدَى إِلَّا فِيهَا وَلَا يَرَى الضَّلَالَةَ إِلَّا بِتَرْكِهَا يَزْعُمُ أَنَّهُ أَخَذَهَا مِنْ الْقُرْآنِ وَهُوَ يَدْعُو إِلَى فِرَاقِ الْقُرْآنِ أَفَمَا كَانَ لِلْقُرْآنِ حَمَلَةٌ قَبْلَهُ وَقَبْلَ أَصْحَابِهِ يَعْمَلُونَ بِمُحْكَمِهِ وَيُؤْمِنُونَ بِمُتَشَابِهِهِ وَكَانُوا مِنْهُ عَلَى مَنَارٍ كَوَضَحِ الطَّرِيقِ فَكَانَ الْقُرْآنُ إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ إِمَامًا لِأَصْحَابِهِ وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ رِجَالٌ مَعْرُوفُونَ مَنْسُوبُونَ فِي الْبُلْدَانِ مُتَّفِقُونَ فِي الرَّدِّ عَلَى أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ مَعَ مَا كَانَ بَيْنَهُمْ مِنْ الِاخْتِلَافِ وَتَسَكَّعَ أَصْحَابُ الْأَهْوَاءِ بِرَأْيِهِمْ فِي سُبُلٍ مُخْتَلِفَةٍ جَائِرَةٍ عَنْ الْقَصْدِ مُفَارِقَةٍ لِلصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ فَتَوَّهَتْ بِهِمْ أَدِلَّاؤُهُمْ فِي مَهَامِهَ مُضِلَّةٍ فَأَمْعَنُوا فِيهَا مُتَعَسِّفِينَ فِي تِيهِهِمْ كُلَّمَا أَحْدَثَ لَهُمْ الشَّيْطَانُ بِدْعَةً فِي ضَلَالَتِهِمْ انْتَقَلُوا مِنْهَا إِلَى غَيْرِهَا لِأَنَّهُمْ لَمْ يَطْلُبُوا أَثَرَ السَّالِفِينَ وَلَمْ يَقْتَدُوا بِالْمُهَاجِرِينَ وَقَدْ ذُكِرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لِزِيَادٍ هَلْ تَدْرِي مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ زَلَّةُ عَالِمٍ وَجِدَالُ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ وَأَئِمَّةٌ مُضِلُّونَ اتَّقُوا اللَّهَ وَمَا حَدَثَ فِي قُرَّائِكُمْ وَأَهْلِ مَسَاجِدِكُمْ مِنْ الْغِيبَةِ وَالنَّمِيمَةِ وَالْمَشْيِ بَيْنَ النَّاسِ بِوَجْهَيْنِ وَلِسَانَيْنِ وَقَدْ ذُكِرَ أَنَّ مَنْ كَانَ ذَا وَجْهَيْنِ فِي الدُّنْيَا كَانَ ذَا وَجْهَيْنِ فِي النَّارِ يَلْقَاكَ صَاحِبُ الْغِيبَةِ فَيَغْتَابُ عِنْدَكَ مَنْ يَرَى أَنَّكَ تُحِبُّ غِيبَتَهُ وَيُخَالِفُكَ إِلَى صَاحِبِكَ فَيَأْتِيهِ عَنْكَ بِمِثْلِهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ أَصَابَ عِنْدَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا حَاجَتَهُ وَخَفِيَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا مَا أُتِيَ بِهِ عِنْدَ صَاحِبِهِ حُضُورُهُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَهُ حُضُورُ الْإِخْوَانِ وَغَيْبَتُهُ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهُ غَيْبَةُ الْأَعْدَاءِ مَنْ حَضَرَ مِنْهُمْ كَانَتْ لَهُ الْأَثَرَةُ وَمَنْ غَابَ مِنْهُمْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حُرْمَةٌ يَفْتِنُ مَنْ حَضَرَهُ بِالتَّزْكِيَةِ وَيَغْتَابُ مَنْ غَابَ عَنْهُ بِالْغِيبَةِ فَيَا لَعِبَادَ اللَّهِ أَمَا فِي الْقَوْمِ مِنْ رَشِيدٍ وَلَا مُصْلِحٍ يَقْمَعُ هَذَا عَنْ مَكِيدَتِهِ وَيَرُدُّهُ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بَلْ عَرَفَ هَوَاهُمْ فِيمَا مَشَى بِهِ إِلَيْهِمْ فَاسْتَمْكَنَ مِنْهُمْ وَأَمْكَنُوهُ مِنْ حَاجَتِهِ فَأَكَلَ بِدِينِهِ مَعَ أَدْيَانِهِمْ فَاللَّهَ اللَّهَ ذُبُّوا عَنْ حُرَمِ أَغْيَابِكُمْ وَكُفُّوا أَلْسِنَتَكُمْ عَنْهُمْ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ وَنَاصِحُوا اللَّهَ فِي أُمَّتِكُمْ إِذْ كُنْتُمْ حَمَلَةَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَإِنَّ الْكِتَابَ لَا يَنْطِقُ حَتَّى يُنْطَقَ بِهِ وَإِنَّ السُّنَّةَ لَا تَعْمَلُ حَتَّى يُعْمَلَ بِهَا فَمَتَى يَتَعَلَّمُ الْجَاهِلُ إِذَا سَكَتَ الْعَالِمُ فَلَمْ يُنْكِرْ مَا ظَهَرَ وَلَمْ يَأْمُرْ بِمَا تُرِكَ وَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ اتَّقُوا اللَّهَ فَإِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ رَقَّ فِيهِ الْوَرَعُ وَقَلَّ فِيهِ الْخُشُوعُ وَحَمَلَ الْعِلْمَ مُفْسِدُوهُ فَأَحَبُّوا أَنْ يُعْرَفُوا بِحَمْلِهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُعْرَفُوا بِإِضَاعَتِهِ فَنَطَقُوا فِيهِ بِالْهَوَى لَمَّا أَدْخَلُوا فِيهِ مِنْ الْخَطَإِ وَحَرَّفُوا الْكَلِمَ عَمَّا تَرَكُوا مِنْ الْحَقِّ إِلَى مَا عَمِلُوا بِهِ مِنْ بَاطِلٍ فَذُنُوبُهُمْ ذُنُوبٌ لَا يُسْتَغْفَرُ مِنْهَا وَتَقْصِيرُهُمْ تَقْصِيرٌ لَا يُعْتَرَفُ بِهِ كَيْفَ يَهْتَدِي الْمُسْتَدِلُّ الْمُسْتَرْشِدُ إِذَا كَانَ الدَّلِيلُ حَائِرًا أَحَبُّوا الدُّنْيَا وَكَرِهُوا مَنْزِلَةَ أَهْلِهَا فَشَارَكُوهُمْ فِي الْعَيْشِ وَزَايَلُوهُمْ بِالْقَوْلِ وَدَافَعُوا بِالْقَوْلِ عَنْ أَنْفُسِهِمْ أَنْ يُنْسَبُوا إِلَى عَمَلِهِمْ فَلَمْ يَتَبَرَّءُوا مِمَّا انْتَفَوْا مِنْهُ وَلَمْ يَدْخُلُوا فِيمَا نَسَبُوا إِلَيْهِ أَنْفُسَهُمْ لِأَنَّ الْعَامِلَ بِالْحَقِّ مُتَكَلِّمٌ وَإِنْ سَكَتَ وَقَدْ ذُكِرَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ وَلَكِنِّي أَنْظُرُ إِلَى هَمِّهِ وَهَوَاهُ فَإِنْ كَانَ هَمُّهُ وَهَوَاهُ لِي جَعَلْتُ صَمْتَهُ حَمْدًا وَوَقَارًا لِي وَإِنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا لَمْ يَعْمَلُوا بِهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا كُتُبًا وَقَالَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ قَالَ الْعَمَلُ بِمَا فِيهِ وَلَا تَكْتَفُوا مِنْ السُّنَّةِ بِانْتِحَالِهَا بِالْقَوْلِ دُونَ الْعَمَلِ بِهَا فَإِنَّ انْتِحَالَ السُّنَّةِ دُونَ الْعَمَلِ بِهَا كَذِبٌ بِالْقَوْلِ مَعَ إِضَاعَةِ الْعَمَلِ وَلَا تَعِيبُوا بِالْبِدَعِ تَزَيُّنًا بِعَيْبِهَا فَإِنَّ فَسَادَ أَهْلِ الْبِدَعِ لَيْسَ بِزَائِدٍ فِي صَلَاحِكُمْ وَلَا تَعِيبُوهَا بَغْيًا عَلَى أَهْلِهَا فَإِنَّ الْبَغْيَ مِنْ فَسَادِ أَنْفُسِكُمْ وَلَيْسَ يَنْبَغِي لِلطَّبِيبِ أَنْ يُدَاوِيَ الْمَرْضَى بِمَا يُبَرِّئُهُمْ وَيُمْرِضُهُ فَإِنَّهُ إِذَا مَرِضَ اشْتَغَلَ بِمَرَضِهِ عَنْ مُدَاوَاتِهِمْ وَلَكِنْ يَنْبَغِي أَنْ يَلْتَمِسَ لِنَفْسِهِ الصِّحَّةَ لِيَقْوَى بِهِ عَلَى عِلَاجِ الْمَرْضَى فَلْيَكُنْ أَمْرُكُمْ فِيمَا تُنْكِرُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ نَظَرًا مِنْكُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَنَصِيحَةً مِنْكُمْ لِرَبِّكُمْ وَشَفَقَةً مِنْكُمْ عَلَى إِخْوَانِكُمْ وَأَنْ تَكُونُوا مَعَ ذَلِكَ بِعُيُوبِ أَنْفُسِكُمْ أَعْنَى مِنْكُمْ بِعُيُوبِ غَيْرِكُمْ وَأَنْ يَسْتَطْعِمَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا النَّصِيحَةَ وَأَنْ يَحْظَى عِنْدَكُمْ مَنْ بَذَلَهَا لَكُمْ وَقَبِلَهَا مِنْكُمْ وَقَدْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَهْدَى إِلَيَّ عُيُوبِي تُحِبُّونَ أَنْ تَقُولُوا فَيُحْتَمَلَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمْ مِثْلُ الَّذِي قُلْتُمْ غَضِبْتُمْ تَجِدُونَ عَلَى النَّاسِ فِيمَا تُنْكِرُونَ مِنْ أُمُورِهِمْ وَتَأْتُونَ مِثْلَ ذَلِكَ فَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يُوجَدَ عَلَيْكُمْ اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ وَرَأْيَ أَهْلِ زَمَانِكُمْ وَتَثَبَّتُوا قَبْلَ أَنْ تَكَلَّمُوا وَتَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ تَعْمَلُوا فَإِنَّهُ يَأْتِي زَمَانٌ يَشْتَبِهُ فِيهِ الْحَقُّ وَالْبَاطِلُ وَيَكُونُ الْمَعْرُوفُ فِيهِ مُنْكَرًا وَالْمُنْكَرُ فِيهِ مَعْرُوفًا فَكَمْ مِنْ مُتَقَرِّبٍ إِلَى اللَّهِ بِمَا يُبَاعِدُهُ وَمُتَحَبِّبٍ إِلَيْهِ بِمَا يُغْضِبُهُ عَلَيْهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا الْآيَةَ فَعَلَيْكُمْ بِالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ حَتَّى يَبْرُزَ لَكُمْ وَاضِحُ الْحَقِّ بِالْبَيِّنَةِ فَإِنَّ الدَّاخِلَ فِيمَا لَا يَعْلَمُ بِغَيْرِ عِلْمٍ آثِمٌ وَمَنْ نَظَرَ لِلَّهِ نَظَرَ اللَّهُ لَهُ عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَأْتَمُّوا بِهِ وَأُمُّوا بِهِ وَعَلَيْكُمْ بِطَلَبِ أَثَرِ الْمَاضِينَ فِيهِ وَلَوْ أَنَّ الْأَحْبَارَ وَالرُّهْبَانَ لَمْ يَتَّقُوا زَوَالَ مَرَاتِبِهِمْ وَفَسَادَ مَنْزِلَتِهِمْ بِإِقَامَةِ الْكِتَابِ وَتِبْيَانِهِ مَا حَرَّفُوهُ وَلَا كَتَمُوهُ وَلَكِنَّهُمْ لَمَّا خَالَفُوا الْكِتَابَ بِأَعْمَالِهِمْ الْتَمَسُوا أَنْ يَخْدَعُوا قَوْمَهُمْ عَمَّا صَنَعُوا مَخَافَةَ أَنْ تَفْسُدَ مَنَازِلُهُمْ وَأَنْ يَتَبَيَّنَ لِلنَّاسِ فَسَادُهُمْ فَحَرَّفُوا الْكِتَابَ بِالتَّفْسِيرِ وَمَا لَمْ يَسْتَطِيعُوا تَحْرِيفَهُ كَتَمُوهُ فَسَكَتُوا عَنْ صَنِيعِ أَنْفُسِهِمْ إِبْقَاءً عَلَى مَنَازِلِهِمْ وَسَكَتُوا عَمَّا صَنَعَ قَوْمُهُمْ مُصَانَعَةً لَهُمْ وَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ بَلْ مَالَئُوا عَلَيْهِ وَرَقَّقُوا لَهُمْ فِيهِ
ابو عتبہ عباد بن عباد خواص شامی تحریر کرتے ہیں امابعد۔ یہ بات جان لو کہ عقل بڑی نعمت ہے کچھ عقل مند ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان چیزوں میں غور کرتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا ذہن غافل ہوجاتا ہے اور جس چیز کی انھیں ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ اس چیز سے غافل ہوجاتے ہیں آدمی کی عقل کی فضیلت یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ اس کے بارے میں غور و فکر نہ کرے تاکہ اس کی عقل کی فضیلت اس کے لیے وبال کا باعث نہ بن جائے۔ کہ اس نے ان لوگوں پر گرفت نہیں کی جو اعمال میں ان سے کم تھے یا وہ شخص جس کا دل بدعت میں مبتلا ہوجائے اور وہ اپنے گلے میں اس دین کا ہار پہنا لے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا نہیں تھا یا وہ اپنی رائے پر اکتفا کرتے ہوئے یہی سمجھے کہ صرف وہی ہدایت ہے اور اس کے اپنے نظریے کو ترک کرنا ہی گمراہی ہے وہ یہ سمجھے کہ اس نے یہ نظریہ قرآن سے حاصل کیا ہے حالانکہ وہ قرآن سے الگ کرنے والا ہوگیا اس شخص سے اور اس کے ساتھیوں سے پہلے قرآن کے ماہر نہیں تھے۔ جو قرآن کے محکم پر عمل کرتے تھے اور اس کے متشابہ پر ایمان رکھتے تھے اور وہ لوگ اس واضح طریقے پر گامزن تھے قرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیشوا تھا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے پیشوا تھے اور ان کے ساتھی بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے پیشوا تھے جن سے ہر شخص واقف تھا اور وہ ہر شہر میں موجود تھے۔ یہ لوگ آپس میں فقہی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے لیکن بدمذہب لوگوں کی تردید کے بارے میں ان کے درمیان اتفاق پایا جاتا تھا ان بدمذہب لوگوں کو ان کی رائے نے مختلف راستوں پر ڈال دیا ہے جو میانہ روی سے دور ہے اور صراط مستقیم سے الگ ہے ان کے پیشواؤں نے ان لوگوں کو گمراہی کے میدان میں تھکا دیا ہے یہ لوگ انھیں میدانوں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں جب بھی ان کی گمراہی کے لیے شیطان کوئی نئی بدعت ایجاد کرتا ہے یہ ایک سے دوسری طرف منتقل ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ سابقہ زمانے کے لوگوں کے نشانات کی تلاش نہیں کرتے اور ہجرت کرنے والے صحابہ کی پیروی نہیں کرتے۔ حضرت عمر کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے زیاد سے یہ کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز اسلام کو منہدم کردیتی ہے عالم شخص کی پھسلن، منافق شخص کا قرآن کے بارے میں بحث کرنا اور گمراہ کرنے والے پیشوا، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اس چیز کے بارے میں جو تمہارے علماء اور تمہارے مساجد والوں کے درمیان غیبت اور چغل خوری اور لوگوں کے ساتھ دوغلے چہرے اور دوغلی زبانوں کے ساتھ ملنا آچکا ہے یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ جو شخص دنیا میں دوغلے چہرے کا مالک ہوگا وہ جہنم میں دوغلے چہرے کا مالک ہوگا۔ غیبت کرنے والا شخص تم سے ملاقات کرتا ہے اور تمہارے سامنے اس شخص کی غیبت کرتا ہے جس کی غیبت کو تم پسند کرتے ہو پھر وہ تمہارے مخالف کے پاس آجاتا ہے اور اس کے سامنے تمہارے بارے میں وہی حرکت کرتا ہے جو تمہارے ساتھ کی تھی اس طرح وہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس سے اپنا مقصد حاصل کرلیتا ہے اور دونوں میں سے ہر ایک سے وہ بات پوشیدہ رکھتا ہے جو اس نے دوسرے فریق کے سامنے پیش کی تھی وہ جس شخص کے پاس موجود ہوتا ہے اس کے پاس بھائیوں کی طرح موجود ہوتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اس کے بارے میں دشمنوں کا سا رویہ رکھتا ہے، جس کے پاس اس کے زیر اثر ہوتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اس کا اس کے نزدیک کوئی احترام نہیں ہوتا۔ وہ جس شخص کے پاس موجود ہوتا ہے اسے تزکیہ کے حوالے سے آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اسے غیبت کے حوالے سے برا بنا دیتا ہے۔ اور اے اللہ کے بندو کیا تمہارے اندر کوئی بھی سمجھدار نہیں ہے اور کوئی بھی ایسا اصلاح پسند نہیں ہے جو ان لوگوں کے فریب کا قلع قمع کردے اور اپنے مسلمان بھائی کی عزت کو واپس لوٹا دے بلکہ ان لوگوں کی خواہش کو سمجھ کر وہ لوگ جس طرف لے کے جا رہے ہیں انھیں وہیں رہنے دے اور ان سے ان کی ضرورت پوری کرلے یوں وہ اپنے دین کے ہمراہ ان کے دین کو بھی محفوظ کرلے گا۔
اے اللہ کے بندو ! کیا تمہارے درمیان کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو سمجھ دار ہو اور ان لوگوں کی اصلاح کرے اور ان کے فریب کو ختم کرے اور اسے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی خلاف ورزی کرنے سے باز رکھے بلکہ وہ یہ جان لے کہ ان کی خواہش کیا ہے اس چیز کے بارے میں جسے وہ ساتھ لے کر ان کی طرف گیا ہے پھر اس نے ان لوگوں سے اپنی ضرورت نکالی تو انھوں نے اس کی ضرورت پوری کردی یوں اس شخص نے ان لوگوں کے دین کے ہمراہ اپنے دین کو بھی خراب کرلیا ہے۔ اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو۔ اپنے غیر موجود لوگوں کے احترام کے حوالے سے بچو اور ان کے بارے میں اپنی زبان سے صرف اچھی بات استعمال کرو اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں اللہ کی خیرخواہی اختیار کرو اگر تم کتاب وسنت کے عالم ہو بیشک کتاب خود بات نہیں کرتی جب تک اس کی بات بیان نہ کی جائے اور سنت خود عمل نہیں کرتی جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے جب عالم خاموش رہے گا تو ناواقف شخص کیسے علم حاصل کرے گا اگر وہ ظاہر ہونے والی چیز کا انکار نہ کرے اور جس چیز کو ترک کیا گیا ہے اس کا حکم نہ دے تو پھر کیا ہوگا جبکہ اللہ نے ان لوگوں کو جنہیں کتاب دی گئی ان سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اسے واضح طور پر بیان کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں۔ اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ تم ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں پرہیزگاری کمزور ہوگئی ہے اور عاجزی کم ہوگئی ہے علم کے حاصل کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اس میں فساد پیدا کرتے ہیں اور یہ بات پسند کرتے ہیں کہ عالم کے طور پر ان کی پہچان ہو اور وہ یہ بات ناپسند کرتے ہیں علم کے ضائع کرنے کے حوالے سے ان کی شناخت ہوجائے وہ علم کے بارے میں اپنی خواہش نفس کے مطابق وہ بات بیان کرتے ہیں جو اس میں انھوں نے غلط شامل کردی ہے اور وہ کلمات میں تحریف کے حق کو چھوڑ کر اس باطل کی طرف لے جاتے ہیں جس پر وہ عمل کرتے ہیں ان کے گناہ ایسے ہیں کہ ان کی مغفرت نہیں کی جاسکتی اور ان کی غلطیاں ایسی ہیں جن کا اعتراف نہیں کیا جاسکتا۔ دلیل حاصل کرنے والا اور ہدایت حاصل کرنے والا کیسے ہدایت حاصل کرسکتا ہے جبکہ دلیل ہی بھٹکانے والی ہو۔ یہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور یہ بات ناپسند کرتے ہیں اہل دنیا کی تعظیم کریں۔ یہ لوگ زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں لیکن باتوں کے حوالے سے ان سے الگ رہتے ہیں اور اپنی طرف سے اس بات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے عمل کی طرف انھیں منسوب کیا جائے۔ لہٰذا جس چیز کی نفی کرنا چاہتے ہیں اس سے بری نہیں ہوتے اور جس چیز کی طرف منسوب یہ خود کو کرتے ہیں اس میں یہ داخل نہیں ہوتے اس لیے کہ حق کے اوپر عمل کرنے والا شخص بول رہا ہو یا خاموش ہو اس کی ایک ہی حیثت ہوتی ہے یہ بات مذکور ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے میں ہر دانا شخص کی ہر بات کو قبول نہیں کرتا بلکہ میں اس کی خواہش اور ارادے کی طرف دیکھتا ہوں اگر اس کی خواہش اور ارادہ میرے لیے ہو تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنے لیے حمد وثناء سمجھتاہوں اگرچہ اس نے کوئی بات کہی ہو یا نہ۔ " وہ لوگ جنہیں توراۃ کا علم دیا گیا اور پھر انھوں نے اس کا علم حاصل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بنڈل لاد لیتا ہے۔ اور اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسے قوت سے حاصل کرلو۔ یعنی جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرو لہٰذا کسی بھی حدیث پر صرف زبانی طور پر عمل کئے بغیر اکتفا نہ کرو کیونکہ حدیث پر عمل کئے بغیر صرف زبانی طور پر اسے بیان کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے اور علم کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، اہل بدعت کی برائی اس لیے بیان نہ کرو کہ ان کی برائی بیان کرنے سے تمہیں شہرت ملے گی اس لیے کہ اہل بدعت کا فاسد ہونا تمہاری بہتری میں کوئی اضافہ نہیں کرے گا اور ان کی برائی بیان کرتے ہوئے زیادتی نہ کرو چونکہ یہ زیادتی تمہارے نفس کا فساد ہوگی۔ کسی طبیب کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ بیمار کا علاج کسی ایسی دوائی کے ذریعے کرے جو اسے ٹھیک نہ کرے بلکہ اور بیمار کردے کیونکہ جب وہ شخص بیمار ہوگا تو وہ اپنی بیماری میں مشغول ہونے کی وجہ سے دوسروں کو دوا دینے سے دینے سے باز آجائے گا، اس لیے اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ پہلے اپنی ذات کے لیے صحت کا خیال رکھے تاکہ اس کی بدولت بیمار لوگوں کے علاج کے قابل ہوسکے۔ اس لیے تمہارا معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ تم اپنے بھائیوں کی جس بات کا انکار کرتے ہو اس میں تم اپنے آپ کا بھی جائزہ لو اور اپنی طرف سے اپنے رب کے لیے خیر خواہی اختیار کرو یہ تمہاری طرف سے تمہارے بھائیوں کے لیے شفقت ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رکھو کہ دوسروں کے عیوب کے مقابلے میں تمہیں اپنے عیوب کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، ایک شخص دوسرے کے لیے خیرخواہی چاہتا ہے اور اس شخص کا تمہارے نزدیک حصہ ہونا چاہیے جو تمہارے لیے خیر خواہی کرتا ہے یا تمہاری طرف سے خیر خواہی کو قبول کرتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں اللہ اس شخص پر رحم کرے جو میری خامیوں سے مجھے آگاہ کرتا ہے کہ کیا تم لوگ یہ بات پسند کرتے ہو کہ تم لوگ کوئی بات بیان کرو تو اسے برداشت کیا جائے اور تم نے جو بات بیان کی ہے اگر اسی جیسی تم سے کہی جائے تو تم ناراض ہوجاؤ تم ان لوگوں کو اس حال میں پاتے ہو جس کا تم انکار کرتے ہو اور خود وہی کام سر انجام دیتے ہو کیا تم لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اس بارے میں تم سے مواخذہ کیا جائے۔ تم اپنی رائے اور اپنے زمانے کے لوگوں کی رائے پر الزام لگاؤ اور بات کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرو اور عمل کرنے سے پہلے علم حاصل کرو کیونک عنقریب وہ زمانہ آجائے گا جس میں حق و باطل مشتبہ ہوجائیں گے اس زمانے میں نیکی گناہ بن جائے گی اور گناہ نیکی بن جائے گا اللہ کے قرب کے طلب گار کتنے ہی لوگ ہوں جو درحقیقت اللہ سے دور ہو رہے ہوں گے اور اللہ کی محبت کے کتنے ہی طلب گار ہیں جو اپنے بارے میں اللہ کی ناراضگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے اللہ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جس کے لیے اس کے عمل کی برائی کو سجادیا گیا ہے وہ شخص اسے نیکی سمجھتا ہے۔ شبہات سے بچنا تم پر لازم ہے یہاں تک کہ شہادت کے ذریعے واضح حق تمہارے سامنے نمودار ہوجائے گا اس لیے کہ جو شخص علم کے بغیر اس چیز میں داخل ہوتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے وہ شخص گناہ گار ہوتا ہے اور جو شخص اللہ کے لیے کسی بات کا جائزہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کا جائز لیتا ہے
تم پر قرآن پڑھنالازم ہے تم اسے اپنا پیشوا بناؤ اور اس سے ہدایت حاصل کرو اور گزرے ہوئے لوگوں کے آثار کی تلاش کرو اس لیے کہ اگر مذہی پیشوا اور رہنما اپنے مراتب کے زوال سے نہ ڈریں اور اپنے اعمال میں کتاب قائم کرنے کے ذریعے اپنی قدر و منزلت کے فساد سے نہ ڈریں اور انھوں نے جو تحریف کی ہے اسے واضح نہ کریں اور اسے نہ چھپائیں لیکن وہ لوگ جب وہ اپنے اعمال کے ذریعے کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں تو وہ ایسی چیز تلاش کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ قوم کو دھوکا دے سکیں اس چیز کے بارے میں جو انھوں نے کیا ہے انھیں یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنی حثییت خراب کر جائیں گے وہ لوگوں کے سامنے اس کے فساد کو بیان کرتے ہیں اور کتاب کے مفہوم میں تحریف کردیتے ہیں اور جہاں وہ تحریف نہیں کرسکتے وہاں اسے چھپالیتے ہیں اور اپنی حثییت کو برقرار رکھنے کے لیے خود جو حرکت کی ہوتی ہے اس پر خاموش رہتے ہیں اور اس بات پر بھی خاموش رہتے ہیں جو لوگوں نے انھیں بچانے کے لیے کیا ہوتا ہے تحقیق اللہ نے جن لوگوں کو کتاب دی ان سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح طور پر اسے بتائیں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں بلکہ وہ لوگ تو خود اس کی طرف جھک گئے ہیں اور اس بارے میں انھوں نے لوگوں کے ساتھ نرمی کی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔