HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Darimi

8. حج کا بیان۔

سنن الدارمي

1719

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَمْنَعْهُ عَنْ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِيًّا
حضرت ابوامامہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جس شخص کو کوئی ظاہری ضرورت ظالم حکمران یا شدید بیماری حج سے نہ روکے اور پھر بھی وہ حج کئے بغیر فوت ہوجائے تو پھر اس کی مرضی ہے وہ چاہے تو یہودی ہونے کی حالت میں مرے چاہے تو عیسائی ہونے کی حالت میں مرے۔

1720

أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُولُ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هِجْرَتِهِ حَجَّةً قَالَ وَقَالَ أَبُو إِسْحَقَ حَجَّ قَبْلَ هِجْرَتِهِ حَجَّةً
حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد ایک مرتبہ حج کیا۔ امام ابواسحق فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے پہلے بھی ایک حج کیا تھا۔

1721

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ كَمْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَجَّةً وَاحِدَةً وَاعْتَمَرَ أَرْبَعًا عُمْرَتُهُ الْأُولَى الَّتِي صَدَّهُ الْمُشْرِكُونَ عَنْ الْبَيْتِ وَعُمْرَتُهُ الثَّانِيَةُ حِينَ صَالَحُوهُ فَرَجَعَ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ وَعُمْرَتُهُ مِنْ الْجِعْرَانَةِ حِينَ قَسَّمَ غَنِيمَةَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَتُهُ مَعَ حَجَّتِهِ
قتادہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت انس (رض) سے دریافت کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنے حج کئے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا آپ نے ایک حج کیا تھا اور چار عمرے کئے تھے آپ کا پہلا عمرہ وہ تھا جس میں مشرکین نے آپ کو بیت اللہ تک جانے نہیں دیا آپ کا دوسرا عمرہ وہ تھا جس میں مشرکین نے آپ کے ساتھ صلح کی تھی اور آپ اگلے برس تشریف لائے تھے ایک عمرہ وہ تھا جو آپ نے ذیقعدہ کے مہینے میں حنین کا مال غنیمت تقسیم کرنے کے بعد جعرانہ سے کیا تھا اور ایک عمرہ وہ تھا جو آپ نے حج کے ہمراہ کیا تھا۔

1722

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سِنَانٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْحَجُّ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي كُلِّ عَامٍ قَالَ لَا وَلَوْ قُلْتُهَا لَوَجَبَتْ الْحَجُّ مَرَّةٌ فَمَا زَادَ فَهُوَ تَطَوُّعٌ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَرِيكٍ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ
حضرت ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم لوگوں پر حج فرض کیا گیا ہے عرض کی گئی یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ نے فرمایا نہیں اگر میں یہ کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا حج ایک مرتبہ ہے جو اس سے زیادہ کرے وہ نفلی کرے گا۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1723

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ أَمَّا هَذِهِ الثَّلَاثُ فَإِنِّي سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَنِي أَنَّهُ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مِثْلَهُ
حضرت ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ذوالحلیفہ کو میقات قرار دیا ہے اور اہل شام کے لیے حجفہ اور اہل نجد کے لیے قرن کو میقات قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں میں نے خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنا ہے اور مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات قرار دیا ہے۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1724

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ أَلَمْلَمَ هُنَّ لِأَهْلِهِنَّ وَلِكُلِّ آتٍ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِهِنَّ مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ
حضرت ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے قرن منازل کو اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات قرار دیا ہے یہ وہاں رہنے والوں کے لیے میقات ہیں جو بھی شخص ان سے پرے کے علاقوں سے حج یا عمرے کے لیے آئے گا۔ اس کے لیے یہ میقات ہے اور جو شخص ان کے اندرونی علاقوں میں رہتا ہے وہ جہاں سے چاہے احرام باندھ سکتا ہے یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ سے احرام باندھیں گے۔

1725

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ امْتَرَى الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ وَابْنُ عَبَّاسٍ فِي غَسْلِ الْمُحْرِمِ رَأْسَهُ فَأَرْسَلُونِي إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَأَتَيْتُ أَبَا أَيُّوبَ وَهُوَ بَيْنَ قَرْنَيْ الْبِئْرِ وَقَدْ سُتِرَ عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَضَمَّ الثَّوْبَ إِلَيْهِ فَقُلْتُ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ ابْنُ أَخِيكَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ فَأَمَرَّ يَدَيْهِ عَلَى رَأْسِهِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا
ابراہیم بن عبداللہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت ابن عباس کے درمیان اس موضوع پر بحث چھڑ گئی کہ حالت احرام والا شخص اپنا سر دھو سکتا ہے ان حضرات نے مجھے حضرت ابوایوب کی خدمت میں بھیجا تاکہ میں دریافت کروں کہ آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حالت احرام میں کس طرح سر دھوتے ہوئے دیکھا ہے راوی کہتے ہیں میں حضرت ابوایوب کی خدمت میں حاضر ہوا وہ اس وقت دو لکڑیوں کے درمیان پردہ کرکے غسل کر رہے تھے انھوں نے ایک کپڑے کے ذریعے کپڑا تان رکھا تھا میں نے انھیں سلام کیا انھوں نے وہ کپڑا لپیٹ لیا میں نے عرض کی مجھے آپ کے چچا زاد بھائی ابن عباس نے بھیجا ہے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا سر مبارک احرام میں کس طرح دھوتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت ابوایوب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف پھیرا اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے۔

1726

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَعْقُوبَ الْمَدَنِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِلْإِهْلَالِ وَاغْتَسَلَ
خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام اتار کر غسل کیا تھا۔

1727

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَجَّةٌ مَبْرُورَةٌ لَيْسَ لَهَا ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ وَعُمْرَتَانِ تُكَفِّرَانِ مَا بَيْنَهُمَا مِنْ الذُّنُوبِ
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں مبرور حج کا ثواب صرف جنت ہے دو عمرے ان دونوں کے درمیان ہونے والے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔

1728

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص بیت اللہ کا حج کرے اور اس دوران عورت کے ساتھ صحبت نہ کرے اور کوئی گناہ نہ کرے وہ جب واپس آتا ہے تو اسی حالت میں ہوتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔

1729

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ الْعَجُّ يَعْنِي التَّلْبِيَةَ وَالثَّجُّ يَعْنِي إِهْرَاقَةَ الدَّمِ
حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا افضل حج کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا عج اور ثج (راوی بیان کرتے ہیں یعنی عج کا مطلب ہے تلبیہ اور ثج کا مطلب ہے قربانی کرنا۔

1730

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا نَلْبَسُ مِنْ الثِّيَابِ إِذَا أَحْرَمْنَا قَالَ لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَجْعَلْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا مِنْ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ وَرْسٌ وَلَا زَعْفَرَانٌ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا حالت احرام میں ہم کون سے کپڑے پہنیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا تم قمیض شلوار عمامہ ٹوپی اور موزے نہ پہنو البتہ جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن سکتا ہے اسے چاہیے کہ انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس پر ورس یا زعفران لگا ہوا ہو۔

1731

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَمْ يَجِدْ إِزَارًا فَلْيَلْبَسْ سَرَاوِيلَ وَمَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ قَالَ قُلْتُ أَوْ قِيلَ أَيَقْطَعُهُمَا قَالَ لَا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کے پاس تہبند نہ ہو وہ شلوار پہن لے اور جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں موزے پہن لے۔ راوی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا یا شاید ان سے دریافت کیا گیا کیا وہ شخص ان دونوں کو کاٹ لے انھوں نے جواب دیا نہیں۔

1732

أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ قَالَ لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ لَا يَجِدَ نَعْلَيْنِ فَيَلْبَسَ خُفَّيْنِ وَيَقْطَعَهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا گیا حالت احرام والا شخص کیا پہنے ؟ تو آپ نے جواب دیا قمیض نہ پہنے عمامہ نہ باندھے ٹوپی نہ پہنے موزے نہ پہنے البتہ جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن لے لیکن اسے چاہیے کہ انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔

1733

أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ بِأَطْيَبِ الطِّيبِ قَالَ وَكَانَ عُرْوَةُ يَقُولُ لَنَا تَطَيَّبُوا قَبْلَ أَنْ تُحْرِمُوا وَقَبْلَ أَنْ تُفِيضُوا يَوْمَ النَّحْرِ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احرام باندھنے سے پہلے میں آپ کو بہترین خوشبو لگاتی تھی۔ راوی کہتے ہیں حضرت عروہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگا لیا کرو اور قربانی کے دن روانہ ہونے سے پہلے بھی لگا لیا کرو۔

1734

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَقَدْ كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْرَامِهِ بِأَطْيَبِ مَا أَجِدُهُ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام باندھنے کے وقت اپنے پاس موجود سب سے بہترین خوشبو لگاتی تھی۔

1735

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُرْمِهِ وَطَيَّبْتُهُ بِمِنًى قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام باندھتے وقت خوشبو لگاتی تھی اور منیٰ میں آپ کے روانہ ہوتے وقت خوشبو لگاتی تھی۔

1736

حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ نُفِسَتْ أَسْمَاءُ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ بِالشَّجَرَةِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں (حضرت ابوبکر کی اہلیہ) اسماء محمد بن ابوبکر کی پیدائش کے وقت حالت نفاس میں آگئیں۔ یہ شجرہ کے قریب کی بات ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو ہدایت کی وہ سیدہ اسماء سے کہیں کہ وہ غسل کرکے احرام باندھ لیں۔

1737

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ فِي حَدِيثِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ حِينَ نُفِسَتْ بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يَأْمُرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں سیدہ اسماء بنت عمیس ذوالحلیفہ کے مقام پر حالت نفاس میں آئیں تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو ہدایت کی وہ انھیں ہدایت کریں کہ وہ غسل کرکے احرام باندھ لیں۔

1738

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ دُبُرَ الصَّلَاةِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے بعد احرام باندھا تھا۔

1739

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ قَالَ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ هُوَ ابْنُ شُمَيْلٍ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ أَوْ أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے بعد احرام باندھا تھا اور تلبیہ پڑھنا شروع کیا تھا۔

1740

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَبَّى قَالَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالَ يَحْيَى وَذَكَرَ نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَزِيدُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تلبیہ پڑھا کرتے تھے۔ " میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں حاضر ہوں بیشک حمد اور نعمت تیرے لیے ہیں اور بادشاہی میں بھی تیرا کوئی شریک نہیں نافع بیان کرتے ہیں حضرت ابن عمر (رض) ان کلمات میں ان کلمات کا اضافہ کیا کرتے تھے میں حاضر ہوں رغبت اور عمل تیرے ہی لیے ہیں میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں

1741

أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي جِبْرَائِيلُ فَقَالَ مُرْ أَصْحَابَكَ أَوْ مَنْ مَعَكَ أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّلْبِيَةِ أَوْ بِالْإِهْلَالِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ
خلاد بن سائب اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا ہے جبرائیل میرے پاس آئے اور بولے آپ اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دیں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ پڑھیں۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔

1742

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ خَبَّابٍ قَالَ فَحَدَّثْتُ عِكْرِمَةَ فَحَدَّثَنِي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَحُجَّ فَكَيْفَ أَقُولُ قَالَ قُولِي لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ وَمَحِلِّي حَيْثُ تَحْبِسُنِي فَإِنَّ لَكِ عَلَى رَبِّكِ مَا اسْتَثْنَيْتِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادی ضباعہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہ میں حج کرنا چاہتی ہوں میں کیا نیت کروں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا تم یہ نیت کرو میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں وہیں حلال ہوجاؤں گی جہاں آگے جانے کے قابل نہ رہوں (پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) اپنے پروردگار کی بارگاہ میں تمہیں وہی سہولت حاصل ہوگی جس کا تم نے استثناء کیا۔

1743

أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کیا ہے۔

1744

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ بَعْدُ إِنَّهُ كَانَ يُسَلَّمُ عَلَيَّ وَإِنَّ ابْنَ زِيَادٍ أَمَرَنِي فَاكْتَوَيْتُ فَاحْتُبِسَ عَنِّي حَتَّى ذَهَبَ أَثَرُ الْمَكَاوِي وَاعْلَمْ أَنَّ الْمُتْعَةَ حَلَالٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ لَمْ يَنْهَ عَنْهَا نَبِيٌّ وَلَمْ يَنْزِلْ فِيهَا كِتَابٌ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا بَدَا لَهُ
حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد اس حدیث کے ذریعے نفع دے مجھے فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔ ابن زیاد نے مجھے یہ ہدایت کی میں نے انھیں داغ لگوا دیا تو سلام آنا بند ہوگیا یہاں تک کہ داغ کا اثر ختم ہوگیا۔ (تو سلام آنا شروع ہوگیا) تم یہ بات جان لو اللہ کی کتاب میں حج تمتع حلال ہے اس سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع نہیں کیا اس کے بارے میں قرآن کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا ایک صاحب نے اپنی رائے کے مطابق جو مناسب سمجھا اس کے بارے میں بیان کردیا۔

1745

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَامَ حَجَّ مُعَاوِيَةُ يَسْأَلُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ كَيْفَ تَقُولُ بِالتَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ قَالَ حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ فَقَالَ قَدْ كَانَ عُمَرُ يَنْهَى عَنْهَا فَأَنْتَ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ قَالَ عُمَرُ خَيْرٌ مِنِّي وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ
محمد بن عبداللہ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں نے حج کے موقع پر حضرت معاویہ کو حضرت سعد بن مالک سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ آپ حج تمتع کے بارے میں کیا کہتے ہیں عمرے کو حج کے ساتھ ملا دینا۔ انھوں نے جواب دیا یہ بہت بہتر ہے حضرت معاویہ نے کہا حضرت عمر تو اس سے منع کیا کرتے تھے اور آپ حضرت عمر سے زیادہ بہتر ہیں ؟ حضرت سعد نے فرمایا عمر مجھ سے بہتر ہے لیکن یہ کام نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے کیونکہ وہ حضرت عمر سے بھی بہتر ہیں۔

1746

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقٍ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَجَّ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ فَقَالَ لِي أَحَجَجْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ كَيْفَ أَهْلَلْتَ قَالَ قُلْتُ لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَحْسَنْتَ اذْهَبْ فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حِلَّ قَالَ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ بَنِي قَيْسٍ فَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسِي فَجَعَلْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فَقَالَ لِي رَجُلٌ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ رُوَيْدًا بَعْضَ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ فَقُلْتُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَلْيَتَّئِدْ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَأْتَمُّوا فَلَمَّا قَدِمَ أَتَيْتُهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ
حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ حج کرکے فارغ ہوچکے تھے اور بطحاء میں آپ نے پڑاؤ کیا ہوا تھا آپ نے مجھ سے دریافت کیا کیا تم نے حج کرلیا ہے میں نے عرض کی جی ہاں آپ نے دریافت کیا تم نے کون سا احرام باندھا تھا ؟ میں نے عرض کی میں نے یہ نیت کی تھی میں حاضر ہوں اور میں وہی احرام باندھتا ہوں جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے بہت اچھا کیا اب جاؤ اور بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا مروہ کا چکر لگاؤ اور پھر احرام کھول دو حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کا چکر لگایا۔ پھر میں بنوقیس سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے پاس آیا انھوں نے میرے سر میں سے جوئیں نکالیں اس کے بعد میں لوگوں کو یہی فتوی دیتارہا ایک مرتبہ ایک شخص نے مجھ کو کہا اے عبداللہ بن قیس اپنے پاس سے فتاوی بیان کرنا بند کردو آپ نہیں جانتے آپ کے بعد حج کے احکام کے بارے میں امیرالمومنین نے کیا حکم دیا ہے۔ (حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں) میں نے کہا اے لوگو میں نے تمہیں جتنے بھی فتوی دیئے ان سے باز آجاؤ امیرالمومنین تمہارے پاس تشریف لانے والے تم ان کی پیروی کرو جب حضرت عمر تشریف لائے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے یہ بات ذکر کی تو انھوں نے فرمایا اگر ہم اللہ کی کتاب کے حکم پر عمل کریں تو اللہ کی کتاب میں حج وعمرہ کو مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا جائز لیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا تھا جب تک قربانی کا جانور اپنے مخصوص مقام تک نہیں پہنچ گیا۔

1747

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسٌ لَا جُنَاحَ فِي قَتْلِ مَنْ قُتِلَ مِنْهُنَّ الْغُرَابُ وَالْفَأْرَةُ وَالْحِدَأَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
حضرت ابن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی قتل کردے تو اسے کوئی بھی گناہ نہیں ہوگا کوا چوہا چیل بچھو اور باؤلا کتا۔

1748

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ خَمْسِ فَوَاسِقَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ الْحِدَأَةِ وَالْغُرَابِ وَالْفَأْرَةِ وَالْعَقْرَبِ وَالْكَلْبِ الْعَقُورِ قَالَ عَبْد اللَّهِ الْكَلْبُ الْعَقُورُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ الْأَسْوَدُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا إِنَّ مَعْمَرًا كَانَ يَذْكُرُهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَعَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدہ عائشہ (رض) صدیقہ بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ فاسق جانوروں کو حل اور حرم میں قتل کرنے کا حکم دیا ہے چیل کوا چوہا بچھو اور باؤلا کتا۔ امام ابومحمد عبداللہ دارمی فرماتے ہیں بعض روایات میں باؤلے کتے کی بجائے کالے کتے کا ذکر آیا ہے۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔

1749

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت احرام میں بچھنے لگوائے تھے۔

1750

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْيِ جَمَلٍ وَهُوَ مُحْرِمٌ
حضرت عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لحی جمل کے مقام پر پچھنے لگوائے تھے آپ اس وقت حالت احرام میں تھے۔

1751

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَاءٍ وَطَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ قَالَ إِسْحَقُ قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً عَنْ عَطَاءٍ وَمَرَّةً عَنْ طَاوُسٍ وَجَمَعَهُمَا مَرَّةً
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت احرام میں بچھنے لگوائے تھے۔ اسحق بیان کرتے ہیں سفیان اس حدیث کو کبھی عطاء کے حوالے سے بیان کرتے ہیں اور کبھی طاؤس کے حوالے سے بیان کرتے ہیں اور کبھی ان دونوں کے حوالے سے ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں۔

1752

حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت احرام میں شادی کی تھی۔

1753

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ خَطَبَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ فَقَالَ أَبَانُ لَا أُرَاهُ عِرَاقِيًّا جَافِيًا إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكِحُ أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ عُثْمَانُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد تَقُولُ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ
نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں قریش سے تعلق رکھنے ایک شخص نے ابان بن عثمان کو شادی کا پیغام بھیجا وہ امیر حج تھے ابان نے کہا میرا خیال ہے یہ کوئی بد مذہب عراقی ہے حالت احرام والا شخص نہ تو کوئی خود نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی کا کوئی نکاح کرواسکتا ہے ہمیں یہ بات حضرت عثمان غنی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بتائی ہے۔ امام ابومحمد دارمی سے سوال کیا گیا آپ اس حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔

1754

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ أَنَّ مَيْمُونَةَ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ حَلَالَانِ بَعْدَمَا رَجَعَ مِنْ مَكَّةَ بِسَرِفَ
یزید بن اصم بیان کرتے ہیں سیدہ میمونہ بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب میرے ساتھ شادی کی تھی اس وقت ہم احرام کھول چکے تھے اور مکہ سے واپس آرہے تھے اور سرف کے مقام پر تھے۔

1755

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ حَلَالًا وَبَنَى بِهَا حَلَالًا وَكُنْتُ الرَّسُولَ بَيْنَهُمَا
حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدہ میمونہ سے شادی کی تھی آپ اس وقت احرام کھول چکے تھے جب آپ نے ان کے ساتھ شب بسری کی اس وقت آپ احرام کھول چکے تھے میں نے ان دونوں کے درمیان قاصد کے فرائض سر انجام دیئے تھے۔

1756

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ عَنْ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ انْطَلَقَ أَبِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ أَبُو قَتَادَةَ فَأَصَابَ حِمَارَ وَحْشٍ فَطَعَنَهُ وَأَكَلَ مِنْ لَحْمِهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ فَطَعَنْتُهُ فَقَالَ لِلْقَوْمِ كُلُوا وَهُمْ مُحْرِمُونَ
حضرت عبداللہ بن ابوقتادہ بیان کرتے ہیں میرے والد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے احرام باندھا ہوا تھا جبکہ حضرت ابوقتادہ نے احرام نہیں باندھا ہوا تھا انھوں نے ایک نیل گائے کو پکڑا اور اسے زخمی کردیا اور اس کا گوشت کھالیا (حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے ایک نیل گائے کو پکڑ کر اس کو شکار کیا ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اس کا حکم دیا اسے کھالو وہ سب لوگ حالت احرام میں تھے۔

1757

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَأَبُو قَتَادَةَ حَلَالٌ إِذْ رَأَيْتُ حِمَارًا فَرَكِبْتُ فَرَسًا فَأَصَبْتُهُ فَأَكَلُوا مِنْ لَحْمِهِ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَلَمْ آكُلْ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ أَشَرْتُمْ قَتَلْتُمْ أَوْ قَالَ ضَرَبْتُمْ قَالُوا لَا قَالَ فَكُلُوا
حضرت عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کا یہ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم سفر کر رہے تھے لوگ حالت احرام میں تھے جبکہ حضرت ابوقتادہ حالت احرام میں نہیں تھے (حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں) میں نے ایک نیل گائے کو دیکھا میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے جا لیا لوگوں نے حالت احرام میں ہونے کے باوجود اس کا گوشت کھالیا لیکن میں نے نہیں کھایا تھا جب وہ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انھوں نے آپ سے دریافت کیا کیا تم لوگوں نے شکار کیا تھا یا تم نے اسے مارا تھا (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں ضربتم (یعنی تم نے اسے مارا ہے) لوگوں نے عرض کی نہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تم کھالو۔

1758

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمِ حِمَارِ وَحْشٍ فَرَدَّهُ وَقَالَ إِنَّا حُرُمٌ لَا نَأْكُلُ الصَّيْدَ
حضرت صعب بن جثامہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک نیل گائے کا گوشت لایا گیا تو آپ نے اسے واپس کردیا اور فرمایا ہم حالت احرام میں ہیں اور ہم شکار کا گوشت نہیں کھا سکتے۔

1759

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا مَعَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ فِي سَفَرٍ فَأُهْدِيَ لَهُ طَيْرٌ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَهُوَ رَاقِدٌ فَمِنَّا مَنْ أَكَلَ وَمِنَّا مَنْ تَوَرَّعَ فَاسْتَيْقَظَ طَلْحَةُ فَأَخْبَرُوهُ فَوَفَّقَ مَنْ أَكَلَهُ وَقَالَ أَكَلْنَاهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
معاذ بن عبدالرحمن اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں طلحہ بن عبیداللہ کے ساتھ ایک سفر میں تشریف تھا آپ کی خدمت میں ایک پرندہ تحفہ کے طور پر پیش کیا گیا وہ سب لوگ حالت احرام میں تھے حضرت طلحہ سو رہے تھے ہم میں سے بعض لوگوں نے پرندے کا گوشت کھالیا اور بعض لوگوں نے پرہیز کیا جب حضرت طلحہ بیدار ہوئے تو لوگوں نے انھیں اس بارے میں بتایا تو حضرت طلحہ نے ان لوگوں کی رائے کی تائید کی جن لوگوں نے گوشت کھالیا تھا اور فرمایا اس شکار کا گوشت ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ کھایا تھا۔

1760

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ قَالَ مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ فَأَهْدَيْتُ لَهُ لَحْمَ حِمَارِ وَحْشٍ فَرَدَّهُ عَلَيَّ فَلَمَّا رَأَى فِي وَجْهِي الْكَرَاهِيَةَ قَالَ إِنَّهُ لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْكَ وَلَكِنَّا حُرُمٌ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں مجھے حضرت صعب بن جثامہ نے یہ بات بتائی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے میں اس وقت ابواء (راوی کو شک ہے یا شاید) ودان کے مقام پر موجود تھا میں نے آپ کی خدمت میں ایک نیل گائے کا گوشت تحفے کے طور پر پیش کیا تو آپ نے وہ مجھے واپس کردیا جب آپ نے میرے چہرے پر ملال کے آثار دیکھے تو آپ نے فرمایا میں نے تمہیں واپس نہیں کرنا تھا لیکن ہم حالت احرام میں تھے۔

1761

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَقَالَتْ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَمْسِكُ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَلَمْ يَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد تَقُولُ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ
حضرت ابن عباس (رض) حضرت فضل بن عباس کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حضرت فضل حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سوار تھے وہ بیان کرتے ہیں خثعم قبیلے والی ایک عورت آئی اور عرض کی اللہ تعالیٰ نے حج اپنے بندوں پر فرض کیا ہے اور میرے والد بہت بوڑھے ہوچکے ہیں وہ سواری پر سنبھل کر بیٹھ نہیں سکتے کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا جی ہاں۔ امام دارمی سے سوال کیا گیا آپ اس حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔

1762

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ هُوَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ لَا يَسْتَوِي عَلَى الْبَعِيرِ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجِّي عَنْهُ
حضرت ابن عباس (رض) حضرت فضل بن عباس کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک خاتون نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں وہ اونٹ پر صحیح بیٹھ نہیں سکتے لیکن اللہ کا فرض (یعنی حج) ان پر فرض ہوچکا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا تم ان کی طرف سے حج کرلو۔

1763

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ الْأَوْزَاعِيِّ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں خثعم قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ مسئلہ دریافت کیا اس وقت حضرت فضل بن عباس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سواری پر سوار تھے اس خاتون نے عرض کی یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں وہ سواری پر صحیح بیٹھ نہیں سکتے اگر میں ان کی طرف سے حج کرلوں کیا ان کا فرض ادا ہوجائے گا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا جی ہاں !
حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہی روایت سند کے ہمراہ منقول ہے۔

1764

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ أَوْ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَوْ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرٌ إِنْ أَنَا حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ وَإِنْ رَبَطْتُهَا خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ أَوْ أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ تَقْضِيهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ أَوْ أُمِّكَ قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ الْحَجُّ عَنْ الْحَيِّ قَالَ إِذَا لَزِمَهُ قِيلَ لَهُ تَقُولُ بِحَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ نَعَمْ
حضرت فضل بن عباس (راوی کو شک ہے یا شاید) حضرت عبیداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میرے والد یا شاید میری والدہ بوڑھے ہوچکے ہیں اگر میں انھیں اونٹ پر سوار کرتا ہوں وہ سنبھل کر بیٹھ نہیں سکیں گے اگر میں انھیں باندھ دیتا ہوں تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ فوت ہوجائیں گے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تمہارا کیا خیال ہے تمہارے والد یا شاید تمہاری والدہ کے ذمہ کوئی قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے اس نے جواب دیا جی ہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو (راوی کو شک ہے یا شاید) یہ فرمایا اپنی والدہ کی طرف سے۔ امام دارمی سے سوال کیا گیا کیا زندہ آدمی کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا اگر اس زندہ شخص پر فرض ہو جبکہ اس زندہ شخص پر حج فرض ہوچکا ہو ان سے پوچھا گیا آپ حضرت فضل بن عباس کی حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔

1765

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ مَوْلًى لِآلِ الْزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ خَثْعَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْإِسْلَامُ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ رُكُوبَ الرَّحْلِ وَالْحَجُّ مَكْتُوبٌ عَلَيْهِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ أَنْتَ أَكْبَرُ وَلَدِهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ عَنْهُ أَكَانَ ذَلِكَ يُجْزِئُ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاحْجُجْ عَنْهُ
حضرت عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں خثعم قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میرے والد کو اسلام کا زمانہ نصیب ہوگیا وہ بوڑھے ہوچکے ہیں اور سواری پر سوار نہیں ہوسکتے ان پر حج فرض ہوچکا ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کیا تم ان کی اولاد میں سب سے بڑے ہو اس نے جواب دیا جی ہاں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے والد کے ذمہ کوئی قرض ہوتا تو تم ان کی طرف سے ادا کردیتے اور کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہوجاتا اس نے عرض کی جی ہاں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تم ان کی طرف سے حج کرلو۔

1766

أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ مَوْلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ يُقَالُ لَهُ يُوسُفُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَوْ الزُّبَيْرُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ قَالَتْ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَحُجَّ قَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ عَنْهُ قُبِلَ مِنْهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اللَّهُ أَرْحَمُ حُجَّ عَنْ أَبِيكَ
حضرت سودہ بنت زمعاء بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں وہ حج نہیں کرسکتے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارے والد کے ذمہ کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ان کی طرف سے ادا کردیتے اور کیا وہ ان کی طرف سے قبول ہوجاتا اس نے عرض کی جی ہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو۔

1767

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَا تَرَكْتُ اسْتِلَامَ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُمَا قُلْتُ لِنَافِعٍ أَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمْشِي بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ قَالَ إِنَّمَا كَانَ يَمْشِي لِيَكُونَ أَيْسَرَ لِاسْتِلَامِهِ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب سے میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دونوں ارکان (حجراسود اور رکن یمانی) کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کے بعد تنگی اور آسانی کسی بھی زمانے میں کبھی میں نے ان دوارکان کا استلام ترک نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں میں نے نافع سے دریافت کیا کیا حضرت ابن عمر (رض) دونوں رکنوں کے درمیان چلا کرتے تھے انھوں نے جواب دیا وہ اس لیے چلتے تھے کہ اس طرح استلام میں آسانی رہتی ہے۔

1768

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ الْحَجَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنْ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ قَالَ سُلَيْمَانُ لِمَنْ اسْتَلَمَهُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب حجر اسود کو لائے گا تو اس کی دو آنکھیں ہونگی جس کے ذریعے وہ دیکھ رہا ہوگا اور ایک زبان ہوگی جس کے ذریعے وہ بولے گا اور وہ ہر اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جس نے اس کا استلام کیا تھا۔ ایک روایت میں الفاظ کچھ مختلف تھے۔

1769

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود سے رکن یمانی تک تین چکروں میں رمل کیا تھا۔

1770

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ الطَّوَافَ الْأَوَّلَ خَبَّ ثَلَاثَةً وَمَشَى أَرْبَعَةً وَكَانَ يَسْعَى بِبَطْنِ الْمَسِيلِ إِذَا سَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقُلْتُ لِنَافِعٍ أَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَمْشِي إِذَا بَلَغَ الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ قَالَ لَا إِلَّا أَنْ يُزَاحَمَ عَلَى الرُّكْنِ فَإِنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُهُ حَتَّى يَسْتَلِمَهُ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بیت اللہ کا پہلی مرتبہ طواف کیا تو تین چکروں میں آپ دوڑ کر گزرے اور چار چکروں میں عام رفتار سے چلے جب آپ صفا اور مروہ کی سعی کرتے ہوئے درمیان میں پہنچے تو آپ دوڑ کر گزرے۔ راوی کہتے ہیں میں نے نافع سے دریافت کیا حضرت عبداللہ جب رکن یمانی کے پاس پہنچتے تو کیا وہ چلنا شروع کردیتے تھے انھوں نے جواب دیا نہیں البتہ جب رکن کے پاس ہجوم زیادہ ہوتا تھا تو چلتے تھے۔ کیونکہ وہ رکن کے استلام کے بغیر آگے نہیں جاتے تھے۔

1771

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود سے رکن یمانی تک تین چکروں تک رمل کیا ہے اور چار چکروں میں چل کر گزرے ہیں۔

1772

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ يَعْلَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ طَافَ مُضْطَبِعًا
ابن یعلی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخصوص طرز پر چادر لپیٹ کر طواف کیا تھا۔

1773

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ كَفَاهُ لَهُمَا طَوَافٌ وَاحِدٌ وَلَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص حج اور عمرہ کا احرام باندھے اس کے لیے ان دونوں کے واسطے ایک طواف کافی ہے اور وہ اس وقت تک احرام نہیں کھولے گا جب تک ان دونوں سے فارغ نہ ہوجائے۔

1774

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ عَلَى بَعِيرٍ كُلَّمَا أَتَى عَلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ فِي يَدِهِ وَكَبَّرَ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا تھا آپ جب رکن کے پاس تشریف لاتے تو اپنے ہاتھ میں موجود چیز کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کرتے اور تکبیر کہتے۔

1775

أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں جب مکہ میں آئی تو مجھے حیض آگیا میں صفا ومروہ کا طواف نہیں کرسکی تو میں نے اس بات کی شکایت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی تو آپ نے ارشاد فرمایا تم وہ تمام کام کرو جو حاجی کرتے ہیں البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔

1776

أَخْبَرَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ صَلَاةٌ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَحَلَّ فِيهِ الْمَنْطِقَ فَمَنْ نَطَقَ فِيهِ فَلَا يَنْطِقْ إِلَّا بِخَيْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ
حضرت ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیت اللہ کا طواف کرنا نماز پڑھنے کی مانند ہے۔ تاہم اللہ نے اس طواف میں گفتگو کو جائز قرار دیا ہے تو اس کے دوران کوئی شخص جو بات کرے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے۔
یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1777

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى
حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں میرے پروردگار نے تین امور کے بارے میں میری رائے کی موافقت کی ہے میں نے عرض کی تھی اے اللہ کے رسول اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالیں تو یہ مناسب ہوگا تو اللہ نے یہ آیت نازل کی " مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لو۔

1778

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنْ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى زِرِّيَ الْأَعْلَى وَزِرِّيَ الْأَسْفَلِ ثُمَّ وَضَعَ فَمَهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى وَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَقَامَ فِي سَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ رَجَعَ طَرَفُهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ فَصَلَّى فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا فَقَالَ مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أُذِّنَ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ فَقَالَ اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ فَنَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَخَلْفَهُ مِثْلُ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يُنْزَلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ فَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ فَلَمْ يَزِدْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا وَلَبَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ قَالَ جَابِرٌ لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَصَلَّى فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ وَكَانَ أَبِي يَقُولُ وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا فَلَمَّا أَتَى الصَّفَا قَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ فَقَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ يَعْنِي فَرَمَلَ حَتَّى إِذَا صَعِدْنَا مَشَى حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرَ طَوَافٍ عَلَى الْمَرْوَةِ قَالَ إِنِّي لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُحِلَّ وَيَجْعَلْهَا عُمْرَةً فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَوْ لِأَبَدِ أَبَدٍ فَشَبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ فِي الْأُخْرَى فَقَالَ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ هَكَذَا مَرَّتَيْنِ لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ لَا بَلْ لَأَبَدِ أَبَدٍ وَقَدِمَ عَلِيٌّ بِبُدْنٍ مِنْ الْيَمَنِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ فَاطِمَةَ مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابَ صَبِيغٍ وَاكْتَحَلَتْ فَأَنْكَرَ عَلِيٌّ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ أَبِي أَمَرَنِي فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحَرِّشُهُ عَلَى فَاطِمَةَ فِي الَّذِي صَنَعَتْ مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذَكَرَتْ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَ صَدَقَتْ مَا فَعَلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ قَالَ قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ قَالَ فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحْلِلْ قَالَ فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ بَدَنَةٍ فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَجَّهَ إِلَى مِنًى فَأَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِنَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى إِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَ لَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي الْمُزْدَلِفَةِ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتْ يَعْنِي الشَّمْسَ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِّلَتْ لَهُ فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَلَا إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ دِمَاؤُنَا دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّمَا أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ قَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ فَرَفَعَهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِنِدَاءٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَةٍ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ لَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى وَقَفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصُّخَيْرَاتِ وَقَالَ إِسْمَعِيلُ إِلَى الشُّجَيْرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَذَهَبَتْ الصُّفْرَةُ حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ فَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ ثُمَّ دَفَعَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُصِيبُ رَأْسُهَا مَوْرِكَ رَحْلِهِ وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنْ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى الْفَجْرَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَا اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا ثُمَّ دَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا فَلَمَّا دَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالظُّعُنِ يَجْرِينَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَوَضَعَهَا عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ فَحَوَّلَ الْفَضْلُ رَأْسَهُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ حَتَّى إِذَا أَتَى مُحَسِّرَ حَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى إِذَا أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَهَا الشَّجَرَةُ فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ حَصَاةٍ مِنْ حَصَى الْخَذْفِ ثُمَّ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي بُدْنِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لُحُومِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَأَتَى الْبَيْتَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمَكَّةَ وَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْتَقُونَ عَلَى زَمْزَمَ فَقَالَ انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَوْلَا يَغْلِبُكُمْ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَصْبَهَانِيُّ أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ بِهَذَا
امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد بن باقر کا یہ بیان نقل کرتے ہیں امام باقر فرماتے ہیں ہم حضرت جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے انھوں نے تمام حاضرین کا تعارف دریافت کیا جب میری باری آئی تو میں نے کہا میں علی بن حسین بن علی کا بیٹا " محمد " ہوں۔ تو حضرت جابر بن عبداللہ نے اپنا ہاتھ میرے اوپر والے اور نیچے والے بٹن کی طرف بڑھایا اور پھر اپنا منہ میرے سینے کے اوپر رکھ دیا میں ان دنوں نوجوان تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرمایا اے میرے بھتیجے تمہیں خوش آمدید ہو تم جو چاہو سوال کرسکتے ہو میں نے انس (رض) سے سوال کیا وہ نابینا ہوچکے تھے اور نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ انھوں نے چھوٹی چادر لپیٹ کر نماز پڑھنا شروع کردی۔ وہ جب بھی اس چادر کو اپنے کندھوں کے اوپر ڈالتے تو اس کے ایک طرف والا حصہ ڈھلک جاتا کیونکہ وہ چھوٹی چادر تھی حالانکہ ان کی بڑی چادر ایک طرف کھونٹی کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی جب انھوں نے نماز ادا کرلی تو میں نے دریافت کیا آپ ہمیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کے بارے میں بتائیں انھوں نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نو برس تک کوئی حج نہ کیا پھر دسویں سال آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج کے لیے تشریف لے جا رہے تھے کہ مدینہ منورہ سے بہت سے لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے ان میں سے بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرح حج کریں جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کریں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ہم لوگ بھی روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ پہنچ گئے وہاں حضرت اسماء بنت عمیس نے محمد بن ابوبکر کو جنم دیا انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کسی کو بھیجا کہ اب میں کیا کروں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ہدایت کی کہ تم غسل کرلو اور کپڑے کے ذریعے خون کے مقام کو باندھ لو اور احرام باندھ لو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں کی مسجد میں نماز ادا کی پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی میں نے یہ دیکھا کہ حدنگاہ تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے سوار اور پیدل لوگوں کا ہجوم ہے آپ کے دائیں طرف بھی اسی طرح لوگ تھے اور بائیں طرف بھی اتنے ہی لوگ تھے اور آپ کے پیچھے بھی اتنے ہی لوگوں کا ہجوم تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود تھے آپ پر قرآن نازل ہورہا تھا آپ کو اس کے مفہوم کا بخوبی علم تھا آپ نے کلمہ توحید کے ذریعے تلبیہ پڑھا اور کہا میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں حاضر ہوں بیشک حمد اور نعمت تیرے لیے ہے اور بادشاہی بھی تیرا کوئی شریک نہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تلبیہ پڑھا تھا لوگوں نے بھی تلبیہ پڑھنا شروع کردیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ ہم آپ کی ہمراہی میں بیت اللہ تک پہنچ گئے۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ہماری نیت صرف حج کرنے کی تھی ہمیں عمرے کا کوئی خیال نہیں تھا جب ہم بیت اللہ ان کے ہمراہ پہنچ گئے آپ نے رک کر ان کا استلام کیا تین مرتبہ رمل کیا اور چار مرتبہ چل کر گزرے پھر آپ مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے وہاں نماز ادا کی اور یہ آیت پڑھی۔ " مقام ابراہیم کو مصلی (جائے نماز) بنا لو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھا تھا میرے والد صاحب نے یہ بات بتائی تھی کہ میرا خیال ہے انھوں نے حضرت جابر کے حوالے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کے طور پر نقل کی ہوگی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دو رکعات میں سورت اخلاص اور سورت کافرون کی تلاوت کی۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکن کے پاس واپس تشریف لائے آپ نے اس کا استلام کیا پھر آپ دروازے سے ہو کر صفا کی طرف تشریف لے گئے صفا تشریف لا کر آپ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔ " بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر آپ نے ارشاد فرمایا میں اس سے آغاز کروں گا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا سے آغاز کیا آپ اس پر چڑھ گئے جب آپ نے بیت اللہ کی طرف نظر کی تو اللہ کی وحدانیت اور کبریائی بیان کی اور یہ پڑھا۔
" اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے وہی ایک معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے بادشاہی ہے حمد و نعمت اسی کے لیے مخصوص ہے وہ زندہ کرتا ہے۔ وہ موت دیتا ہے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے صرف ایک اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اپنے خاص بندوں کی مدد کی اور دشمنوں کے گروہوں کو تنہا اس نے پسپا کیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان دعا کی اور یہی کلمات تین مرتبہ پڑھے پھر آپ اتر کر مروہ کے پاس آگئے جب آپ بطن وادی میں پہنچے امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی فرماتے ہیں یعنی وہاں پہنچ کر آپ دوڑ کر گزرے یہاں تک کہ آپ بلندی کی طرف چڑھنے لگے تو آپ پھر چلنے لگے۔ ہم لوگ جب مروہ پر آئے تو آپ نے مروہ پر بھی وہی عمل کیا جو صفا پر کیا تھا یہاں تک کہ جب آپ نے مروہ کا آخری چکر لگایا تو یہ فرمایا جو بات بعد میں میرے ذہن میں آئی اگر مجھے پہلے خیال آجاتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ آتا اور اس عمل کو عمرہ بنا لیتا تم میں سے جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو وہ احرام کھول دے اور اسے عمرے میں تبدیل کردے۔ حضرت سراقہ بن مالک نے دریافت کیا یا رسول اللہ کیا یہ اسی سال کے لیے مخصوص ہے یا ہمیشہ کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کرتے ہوئے ارشاد فرمایا عمرہ حج میں داخل ہوگیا یہ بات آپ نے دو مرتبہ ارشاد فرمائی اور فرمایا نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ حضرت علی (رض) یمن سے قربانی کے کچھ جانور لے کر آئے تو انھوں نے سیدہ فاطمہ کو دیکھا کہ وہ احرام کھول چکی ہیں انھوں نے رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگایا ہوا ہے حضرت علی (رض) نے اس بات پر ان کا انکار کیا کہ حضرت فاطمہ نے بتایا کہ میرے والد نے مجھے یہ ہدایت کی ہے حضرت علی (رض) نے فرمایا میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا تاکہ حضرت فاطمہ کی شکایت کروں جو انھوں نے عمل کیا ہے اس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کروں اور جو بات بتائی ہے اس کے بارے میں بھی دریافت کروں اور میں نے جو انکار کیا ہے اس کا بھی ذکر کروں تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو کیا نیت کی تھی حضرت علی (رض) کہتے ہیں میں نے عرض کی میں نے یہ نیت کی تھی کہ اے اللہ میں وہی نیت کرتا ہوں جو تیرے رسول نے کی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے ساتھ تو قربانی کا جانور بھی ہے تو تم احرام نہ کھولو۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں حضرت علی (رض) یمن سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ایک سو قربانی کے اونٹ لے کر۔ سب لوگوں نے احرام کھول لیے اور بال کٹوا لیے سوائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور ان لوگوں کے جن کے ہمراہ قربانی کے جانور موجود تھے۔
ترویہ کے دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ کا رخ کیا تو ہم لوگوں نے حج کا احرام باندھ لیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوئے منیٰ پہنچ کر آپ نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور صبح کی نماز ادا کی پھر آپ نے وہاں کچھ دیر قیام کیا یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا تو آپ نے نمرہ میں ایک خیمہ لگانے کا حکم دیا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہو کر روانہ ہوئے قریش کو اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ آپ مشعر حرام کے نزدیک قیام کریں گے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ کے نزدیک قیام کیا کرتے تھے لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے گزر کر عرفہ آگئے وہاں آپ کے لیے نمرہ میں خیمہ لگایا جا چکا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری سے اترے جب سورج ڈھل گیا تو آپ کے حکم کے ذریعے قصواء پر پالان رکھا گیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر سوار ہو کر بطن وادی میں تشریف لائے آپ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ " بیشک تمہارے خون اموال اسی طرح قابل احترام ہیں جیسے آج کا دن یہ مہینہ اور یہ شہر قابل احترام ہے خبردار زمانہ جاہلیت کے تمام تر معاملات میں اپنے قدموں کے نیچے روندتا ہوں زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں اور سب سے پہلے میں اپنا خون معاف کرتا ہوں جو ربیعہ بنت حارث کے صاحبزادے کا تھا۔ جو بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا اسے ہذیل قبیلے کے لوگوں نے قتل کردیا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا تمام سود معاف ہے میں سب سے پہلے حضرت عباس بن عبدالمطلب کے وصول کرنے والے سود کو معاف کرتا ہوں وہ سب معاف ہیں۔ خواتین کے بارے میں اللہ سے ڈرو تم نے اللہ کی امانت کے ذریعے انھیں حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کی پٹائی کرو لیکن زیادتی کئے بغیر اور ان کا تم پر حق ہے کہ تم ان کے کھانے پینے اور لباس کا مناسب طور پر انتظام کرو اگر تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے تو تم کیا جواب دو گے لوگوں نے عرض کی ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے تصدیق کردی ہے اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے اور خیر خواہی کی ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر انگلیوں کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے یہ دعا پڑھی اے اللہ تو گواہ ہوجا اے اللہ تو گواہ ہوجا اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ پھر حضرت بلال نے ایک ہی اذان کہی پھر امامت کہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز ادا کی پھر حضرت بلال نے اقامت کہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز ادا کی آپ نے ان دونوں کے درمیان کوئی نماز ادا نہیں کی۔ پھر آپ سواری پر سوار ہوئے اور کھڑے ہوگئے آپ نے اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ " م خیرات " اور ایک روایت میں ہے " شجیرات " کی طرف کیا جبل مشات آپ کے سامنے تھا آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور وہاں کھڑے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب رہ گیا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اس کی زردی رخصت ہوگئی جب سورج کی ٹکیہ غروب ہوگئی آپ نے حضرت اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور روانہ ہوگئے آپ نے قصواء اونٹنی کی لگام کھینچی ہوئی تھی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے ساتھ مل رہا تھا آپ اپنے دائیں ہاتھ کے ذریعے یہ فرما رہے تھے آرام سے چلو، آرام سے چلو، جب آپ کسی ٹیلے کے پاس آتے تو اس کی لگام ڈھیلی کردیتے تاکہ وہ اوپر چڑھ جائے یہاں تک کہ آپ مزدلفہ تشریف لے آئے وہاں آپ نے ایک اذان اور دو اقامت کے ذریعے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ جب صبح صادق کا وقت ہوا تو آپ نے فجر کی نماز ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ادا کی پھر آپ قصوا اونٹنی پر سوار ہوئے اور مشعرح رام کے قریب آکر آپ نے قیام کیا۔
آپ نے قبلہ کی طرف منہ کیا اللہ تعالیٰ سے دعا کی اس کی کبریائی بیان کی اس کی معبودیت کا ذکر کیا اس کی وحدانیت کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ جب اچھی طرح سے روشنی پھیل گئی تو سورج طلوع ہونے کے بعد آپ وہاں سے روانہ ہوئے آپ نے حضرت فضل بن عباس کو پیچھے بٹھا لیا وہ خوبصورت آدمی تھے ان کے بال بھی بہت خوبصورت تھے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روانہ ہوئے تو کچھ خواتین آپ کے پاس سے گزریں جو جارہی تھیں۔ حضرت فضل نے ان کی طرف دیکھنا شروع کردیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ ان کے چہرے پر رکھا اور حضرت فضل کا منہ دوسری طرف پھیر دیا یہاں تک کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسر پہنچے تو آپ نے اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کردی اور اس کے درمیانی راستے پر ہو لیے جس سے تم لوگ جمرہ کبری کی طرف جاتے ہو جب آپ اس جمرہ کے پاس سے تشریف لائے جس کے پاس درخت ہیں تو وہاں آپ نے چھوٹی چھوٹی سات کنکریوں کے ذریعے رمی کی۔ پھر آپ نے بطن وادی سے رمی کی پھر آپ واپس قربان گاہ کی طرف لائے وہاں آپ نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے اور پھر بقیہ حضرت علی (رض) کو دے دیئے جو انھوں نے قربان کئے آپ نے حضرت علی (رض) کو اپنی قربانی میں شریک کرلیا۔ پھر آپ کے حکم کے تحت ہر قربانی کے اونٹ کے کچھ حصہ لے کر ایک ہنڈیا میں پکایا گیا ان دونوں حضرات نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا پھر آپ سوار ہوئے۔ بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے جب آپ بیت اللہ تشریف لائے تو آپ نے مکہ میں ظہر کی نماز ادا کی پھر آپ بنوعبدالمطلب کے پاس تشریف لائے وہ لوگ زم زم میں سے پانی نکال رہے تھے آپ نے فرمایا بنو عبدالمطلب پانی نکالتے رہو اگر لوگ تمہارے پلانے کے کام پر غالب نہ آگئے ہوتے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی نکالتا ان لوگوں نے پانی کا ڈول آپ کی طرف بڑھایا تو آپ نے اسے نوش فرما لیا۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ امام جعفر صادق کے حوالے سے امام محمد باقر سے حضرت جابر (رض) سے منقول ہے۔

1779

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَوَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ أَوْ قَالَ فَأَقْعَصَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا وہ اپنی اونٹنی سے گرگیا ۔ (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں) کہ اس کی اونٹنی نے اسے گرا دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ذریعے غسل دو اور اسے دو کپڑوں میں کفن دو اور اسے خوشبو نہ لگانا۔ اور اس کا سر بھی نہ ڈھانپنا کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا لائے گا۔

1780

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ كَانَ يَرْفَعُهُ أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں بیت اللہ کے طواف رمی جمار اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کو اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ ابوعاصم اس روایت کو مرفوع حدیث کے طور پر نقل کرتے ہیں۔
یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے۔

1781

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسْخُ الْحَجِّ لَنَا خَاصَّةً أَمْ لِمَنْ بَعْدَنَا قَالَ بَلْ لَنَا خَاصَّةً
حضرت بلال بن حارث اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حج کو فسخ کرنا کیا ہمارے لیے مخصوص ہے یا ہم سے بعد والوں کے لیے بھی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلکہ صرف ہمارے لیے مخصوص ہے۔

1782

أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَا بِهَا فَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ فَقَدْ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
حضرت ابن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں یہ عمرہ ہے جس کے لیے ہم نے فائدہ حاصل کیا ہے جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ مکمل طور پر احرام کھول دے۔ کیونکہ عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوگیا ہے۔

1783

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ رَبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغُوا عُسْفَانَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ يُقَالُ لَهُ مَالِكُ بْنُ سُرَاقَةَ أَوْ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ اقْضِ لَنَا قَضَاءَ قَوْمٍ وُلِدُوا الْيَوْمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدْخَلَ عَلَيْكُمْ فِي حَجِّكُمْ هَذَا عُمْرَةً فَإِذَا أَنْتُمْ قَدِمْتُمْ فَمَنْ تَطَوَّفَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَدْ حَلَّ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ
حضرت ربیعہ بن سبرہ بیان کرتے ہیں ان کے والد نے ہمیں بتایا تھا ان حضرات نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سفر کیا یہاں تک کہ وہ لوگ عسفان پہنچے تو بنو مدلج سے تعلق رکھنے والے شخص نے جس کا نام مالک بن سراقہ یا شاید سراقہ بن مالک تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ان لوگوں کے بارے میں ہمیں حکم فرما دیجیے جو آج پیدا ہوئے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے حج میں اس عمرے کو داخل کردیا ہے لہٰذا تم لوگ آؤ جو شخص بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرلے تو وہ احرام کھول لے۔ البتہ جس شخص کے ہمراہ قربانی کا جانور ہو اس کا حکم مختلف ہے۔

1784

أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ أَوْ قَالَ عُمْرَةَ الْقِصَاصِ شَكَّ شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ مِنْ قَابِلٍ وَالثَّالِثَةَ مِنْ الْجِعْرَانَةِ وَالرَّابِعَةَ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار عمرے کئے ہیں ایک حدیبیہ کے موقع پر عمرہ کیا دوسرا عمرہ قضا یا راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں عمرہ قصاص جو اگلے برس کیا تیسرے جعرانہ سے کیا اور چوتھا حج کے ہمراہ کیا۔

1785

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِامْرَأَةٍ اعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خاتون سے فرمایا تم رمضان کے مہینے میں عمرہ کرو کیونکہ رمضان کے مہینے میں حج کرنے کے برابر ہے۔

1786

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْقِلِ بْنِ أَبِي مَعْقَلٍ الْأَسَدِيِّ أَسَدُ خُزَيْمَةَ حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً
یوسف بن عبداللہ اپنی دادی ام معقل کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا حج کرنے کے برابر ہے۔

1787

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي مُزَاحِمُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْجِعْرَانَةِ حِينَ أَنْشَأَ مُعْتَمِرًا فَدَخَلَ مَكَّةَ لَيْلًا فَقَضَى عُمْرَتَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ تَحْتِ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ بِالْجِعْرَانَةِ كَبَائِتٍ
حضرت محرش کعبی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ جعرانہ سے روانہ ہوئے رات کے وقت آپ مکہ میں داخل ہوئے آپ نے عمرہ ادا کیا اور پھر رات ہی میں واپسی تشریف لے آئے اور صبح کے وقت آپ جعرانہ میں تھے۔ یوں جیسے آپ نے رات وہیں بسر کی ہے۔

1788

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ يَقُولُ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ يَقُولُ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُرْدِفَ عَائِشَةَ فَأُعْمِرَهَا مِنْ التَّنْعِيمِ قَالَ سُفْيَانُ كَانَ شُعْبَةُ يُعْجِبُهُ مِثْلَ هَذَا الْإِسْنَادِ
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ ہدایت کی تھی میں سیدہ عائشہ (رض) کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھاؤں اور انھیں تنعیم سے عمرہ کرواؤں۔ سفیان کہتے ہیں شعبہ اس حدیث کی سند کو پسند کرتے ہیں۔

1789

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ الْعَطَّارُ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ أَبِيهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَرْدِفْ أُخْتَكَ يَعْنِي عَائِشَةَ وَأَعْمِرْهَا مِنْ التَّنْعِيمِ فَإِذَا هَبَطْتَ مِنْ الْأَكَمَةِ فَمُرْهَا فَلْتُحْرِمْ فَإِنَّهَا عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ
حضرت حفصہ بنت عبدالرحمن اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر (رض) کو یہ حکم دیا کہ اپنی بہن یعنی سیدہ عائشہ (رض) صدیقہ کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھاؤ اور انھیں تنعیم سے عمرہ کرواؤ جب تم ٹیلہ سے نیچے اترو تو انھیں ہدایت کرنا وہ احرام باندھ لیں گی۔ یہ مقبول عمرہ ہوگا۔

1790

أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَكِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ
حضرت ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں حضرت عمر نے کہا تھا کہ اے حجر اسود میں تمہیں بوسہ دے رہا ہوں لیکن مجھے پتہ ہے تو ایک پتھر ہے لیکن میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تھا۔

1791

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ ثُمَّ يُقَبِّلُهُ وَيَسْجُدُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا فَقَالَ رَأَيْتُ خَالَكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يَفْعَلُهُ ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ فَعَلَهُ ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَكِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ هَذَا
جعفر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں میں نے محمد بن عباد کو حجر اسود کو چھوتے اور بوسہ دیتے ہوئے اس پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ان سے دریافت کیا یہ آپ نے کیا کیا ہے انھوں نے جواب دیا میں نے تمہارے ماموں حضرت عبداللہ بن عباس کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے انھوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عمر کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور پھر حضرت عمر نے کہا مجھے پتہ ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے لیکن میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

1792

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَنَاخَ فِي أَصْلِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَسَعَى النَّاسُ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِلَالٌ وَأُسَامَةُ فَقُلْتُ لِبِلَالٍ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ هُوَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَبِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ فَذَكَرَ نَحْوَهُ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت اسامہ بن زید آپ کے ہمراہ سواری پر سوار تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خانہ کعبہ کے قریب اپنی سواری کو بٹھایا، حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں وہ دوڑتے ہوئے آئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت بلال اور حضرت اسامہ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے میں نے دروازے سے باہر حضرت بلال سے پوچھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہاں نماز ادا کی ہے تو انھوں نے جواب دیا دو ستونوں کے درمیان۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے آپ کے ہمراہ حضرت اسامہ بن زید بھی تھے اور حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ تھے۔ (اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے)

1793

حَدَّثَنِي فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ ثُمَّ لَبَنَيْتُهَا عَلَى أُسِّ إِبْرَاهِيمَ فَإِنَّ قُرَيْشًا حِينَ بَنَتْ اسْتَقْصَرَتْ ثُمَّ جَعَلَتْ لَهَا خَلْفًا
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا اگر تمہاری قوم کفر کے زمانے کے نزدیک نہ ہوتی تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا کر اسے حضرت ابراہیم کی بنیادوں کے مطابق تعمیر کرتا کیونکہ قریش نے اسے بناتے ہوئے اسے چھوٹا کردیا تھا اور میں اس کے پیچھے کی طرف والا دروازہ بھی بناتا۔

1794

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ لَعَمَدْتُ إِلَى الْحِجْرِ فَجَعَلْتُهُ فِي الْبَيْتِ وَأَلْزَقْتُ بَابَهُ بِالْأَرْضِ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حطیم کے بارے میں دریافت کیا کیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے آپ نے جواب دیا ہاں میں نے دریافت کیا ان لوگوں نے اس حصے کو بیت اللہ میں شامل کیوں نہیں کیا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا میں نے دریافت کیا ان لوگوں نے اس کا دروازہ اونچا کیوں رکھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری قوم نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ جسے چاہے اندر داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں اندر داخل نہ ہونے دیں اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت نئی نئی چھوڑ کر مسلمان نہ ہوئی ہوتی اور مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ ان کے دل منکر ہوجائیں گے تو میں حطیم کو بیت اللہ میں شامل کرتا اور اس کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا۔

1795

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَاءٍ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ التَّحْصِيبُ لَيْسَ بِشَيْءٍ إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو مُحَمَّد التَّحْصِيبُ مَوْضِعٌ بِمَكَّةَ وَهُوَ مَوْضِعٌ بِبَطْحَاءَ
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں تحصیب میں رات بسر کرنا کوئی حکم نہیں ہے یہ جگہ ہے جہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑاؤ کیا تھا۔ امام دارمی فرماتے ہیں تحصیب مکہ میں ایک جگہ ہے اور یہ بطحاء میں بھی ایک جگہ کا نام ہے۔

1796

أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ هُوَ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى خَمْسَ صَلَوَاتٍ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ میں پانچ نمازیں ادا کیں۔

1797

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ قَالَ بِمِنًى قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ قَالَ بِالْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَ اصْنَعْ مَا يَصْنَعُ أُمَرَاؤُكَ
عبدالعزیز بیان کرتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک (رض) دریافت کیا آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے یاد ہو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلبیہ کے دن ظہر کی نماز کہاں ادا کی تھی انھوں نے جواب دیا منیٰ میں، میں نے دریافت کیا روانگی کے دن آپ نے عصر کی نماز کہاں ادا کی تھی۔ انھوں نے جواب دیا بطحاء میں، پھر حضرت انس (رض) نے فرمایا تم وہی کرو جو تمہارے امراء کرتے ہیں۔

1798

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي خَالِدٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَرَقَدَ رَقْدَةً بِمِنًى ثُمَّ رَكِبَ إِلَى الْبَيْتِ فَطَافَ بِهِ
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی پھر آپ منیٰ میں کچھ دیر سوگئے پھر آپ سوار ہو کر بیت اللہ کی طرف آئے اور اس کا طواف کیا۔

1799

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَصَلَّى مَعَ عُثْمَانَ بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمْ الطُّرُقُ فَلَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ
حضرت عبداللہ نے حضرت عثمان غنی کی اقتداء میں منیٰ میں چار رکعت ادا کرنے کے بعد فرمایا میں نے اس جگہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں دو رکعت ادا کی ہیں اور حضرت ابوبکر (رض) کی اقتداء میں دو رکعت ادا کی ہیں اور حضرت عمر کی اقتداء میں دو رکعت ادا کی ہیں، پھر تمہارے راستے مختلف ہوگئے کاش مجھے ان چار رکعات کی بجائے دو مقبول رکعات مل جاتی۔

1800

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ وَأَبَا بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ وَعُمَرَ رَكْعَتَيْنِ وَعُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ ثُمَّ أَتَمَّهَا بَعْدُ
سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ میں دو رکعت ادا کی ہیں حضرت ابوبکر (رض) نے دو رکعت ادا کی ہیں اور حضرت عمر نے دو رکعت ادا کی ہیں، حضرت عثمان اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں دو رکعت ادا کرتے رہے لیکن بعد میں پوری چار پڑھنے لگے۔

1801

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى فَمِنَّا مَنْ يُكَبِّرُ وَمِنَّا مَنْ يُلَبِّي
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ہم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ہی منیٰ سے روانہ ہوئے ہم میں سے بعض لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور بعض لوگ تلبیہ پڑھ رہے تھے۔

1802

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مَالِكٌ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيُّ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ عَنْ التَّلْبِيَةِ كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ يُلَبِّي الْمُلَبِّي فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ
محمد بن ابوبکر بیان کرتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سوال کیا ہم لوگ اس وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے میرا سوال تلبیہ کے بارے میں تھا آپ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمراہی میں کیا کرتے تھے حضرت انس (رض) نے جواب دیا کچھ لوگ تلبیہ پڑھتے تھے اور ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا اور کچھ لوگ تکبیر پڑھتے تھے ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔

1803

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ قَالَ جُبَيْرٌ أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَمِنْ الْحُمْسِ فَمَا شَأْنُهُ هَا هُنَا
محمد بن جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں حضرت جبیر بیان کرتے ہیں میرا اونٹ گم ہوگیا میں اسے تلاش کرنے کے لیے نکلا میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے ہمراہ عرفہ میں کھڑے ہوئے پایا میں نے سوچا اللہ کی قسم ان کا تعلق حمس (قریش) سے ہے یہ اس وقت یہاں کیا کررہے ہیں (کیونکہ قریش وہاں قیام نہیں کرتے تھے)

1804

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى ثُمَّ قَعَدَ لِلنَّاسِ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ قَالَ لَا حَرَجَ ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ لَا حَرَجَ قَالَ فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا قَالَ لَا حَرَجَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمی کی پھر آپ لوگوں کے سامنے بیٹھ گئے ایک صاحب آئے عرض کی یا رسول اللہ میں نے قربانی سے پہلے ہی سر منڈوا لیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے ایک اور صاحب آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے رمی کرنے سے پہلے ہی طواف کرلیا ہے آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے پھر راوی کہتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے یہی جواب دیا کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا عرفہ سارے کا سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے اور مزدلفہ سارے کا سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے اور منیٰ میں ہر جگہ قربانی ہوسکتی ہے اور مکہ کی ہر گلی گزرگاہ اور راستہ قربانی کی جگہ ہے۔

1805

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ وَكَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ فَإِذَا أَتَى عَلَى فَجْوَةٍ نَصَّ
حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سواری پر سوار تھے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ سے روانہ ہوئے تو آپ آہستہ چل رہے تھے جب آپ کسی ٹیلہ کے پاس تشریف لاتے تو سواری کو تیز کرلیتے۔

1806

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ قَالَ أَخْبِرْنِي عَشِيَّةَ رَدِفْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ فَعَلْتُمْ أَوْ صَنَعْتُمْ قَالَ جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمُعَرَّسِ فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ ثُمَّ بَالَ وَمَا قَالَ أَهْرَاقَ الْمَاءَ ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالسَّابِغِ جِدًّا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ الصَّلَاةَ قَالَ الصَّلَاةُ أَمَامَكَ قَالَ فَرَكِبَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمُزْدَلِفَةَ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَنَاخَ وَالنَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فَصَلَّى ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ قَالَ قُلْتُ أَخْبِرْنِي كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ قَالَ رَدِفَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ فَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ كُرَيْبِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ عَنْ أُسَامَةَ نَحْوَهُ
کریب بیان کرتے ہیں انھوں نے حضرت اسامہ بن زید سے سوال کیا کہ جب آپ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سواری پر سوار تھے تو اس شام آپ نے کیا کیا۔ مجھے اس بارے میں بتائیں حضرت اسامہ نے جواب دیا جب ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ رات کے وقت اونٹ بٹھاتے تھے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں اونٹنی کو بٹھایا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیشاب کیا (راوی کہتے ہیں انھوں نے) یہ نہیں کہا کہ پانی دو پھر آپ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو کیا لیکن اس میں اسباغ نہیں کیا پھر میں نے عرض کی یا رسول اللہ نماز۔ آپ نے فرمایا نماز آگے چل کر پڑھیں گے حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں پھر آپ سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آگئے۔ آپ نے مغرب کی نماز ادا کی پھر آپ نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا لوگ اپنے اپنے پڑاؤ کی جگہ پر تھے لوگوں نے اس وقت تک احرام نہ کھولا جب تک عشاء کی نماز ادانہ کرلی۔ اور جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھا دی تو پھر لوگوں نے اپنا اپنا احرام کھول دیا۔ کریب بیان کرتے ہیں میں نے عرض کی مجھے یہ بتائیں اگلے دن آپ نے صبح کیا کیا تو حضرت اسامہ نے جواب دیا اس وقت حضرت فضل بن عباس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سوار تھے میں قریش کے چند لوگوں کے ساتھ پیدل آگے چلا گیا تھا۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1807

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنْبَأَنِي قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ يَعْنِي بِجَمْعٍ
حضرت ابوایوب بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی تھی۔ راوی کہتے ہیں یعنی مزدلفہ میں۔

1808

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ لَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا إِلَّا بِالْإِقَامَةِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا وَلَا عَلَى إِثْرِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا
سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی ان میں کسی ایک کے لیے بھی اذان نہیں دی گئی صرف اقامت کہی گئی آپ نے ان دونوں کے درمیان کوئی تسبیح یا نوافل ادا نہیں کئے اور ان دونوں میں سے کسی ایک نماز کے بعد بھی کوئی تسبیح یا نوافل ادا نہیں کئے۔

1809

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ شَوَّالٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا أَنْ تَنْفِرَ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ
سیدہ ام حبیبہ بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں یہ ہدایت کی وہ مزدلفہ سے رات کے وقت ہی روانہ ہوجائیں۔

1810

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا أَفْلَحُ قَالَ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْذَنَ لَهَا فَتَدْفَعَ قَبْلَ أَنْ يَدْفَعَ فَأَذِنَ لَهَا قَالَ الْقَاسِمُ وَكَانَتْ امْرَأَةً ثَبِطَةً قَالَ الْقَاسِمُ الثَّبِطَةُ الثَّقِيلَةُ فَدَفَعَتْ وَحُبِسْنَا مَعَهُ حَتَّى دَفَعْنَا بِدَفْعِهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَأَنْ أَكُونَ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ فَأَدْفَعَ قَبْلَ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَفْرُوحٍ بِهِ
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں سیدہ سودہ بنت زمعہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اجازت مانگی کہ آپ اپنے روانہ ہونے سے پہلے ہی انھیں روانگی کی اجازت دیں تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اجازت دے دی۔ قاسم بیان کرتے ہیں وہ ایک بھاری بھرکم خاتون تھیں وہ روانہ ہوگئیں اور ہم لوگ وہیں رہے یہاں تک کہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں جس طرح سیدہ سودہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی تھی میں بھی اسی طرح آپ سے اجازت لے کر لوگوں سے پہلے چلی جاتی تھی تو یہ بات میرے نزدیک ہر اس چیز سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے خوش ہوا جاتا ہے۔

1811

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمُرَ الدِّيلِيَّ يَقُولُ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَجِّ فَقَالَ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ أَوْ يَوْمُ عَرَفَةَ وَمَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَقَدْ أَدْرَكَ وَقَالَ أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ
عبدالرحمن بن یعمر دہلی بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حج کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا حج عرفات میں قیام کا نام ہے (راوی کو شک ہے) عرفہ کا نام ہے جو شخص فجر کی نماز سے پہلے مزدلفہ میں رات کے وقت پہنچ جاتا ہے اس نے حج کو پالیا۔ آپ فرماتے ہیں منیٰ کے ایام تین ہیں ارشاد ربانی ہے " جو شخص دونوں میں جلدی کرے اسے کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر سے کام لے اسے بھی کوئی گناہ نہیں۔

1812

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ عَامِرٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَوْقِفِ عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّءٍ أَكْلَلْتُ مَطِيَّتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللَّهِ إِنْ بَقِيَ جَبَلٌ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ قَالَ مَنْ شَهِدَ مَعَنَا هَذِهِ الصَّلَاةَ وَقَدْ أَتَى عَرَفَاتٍ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَقَدْ قَضَى تَفَثَهُ وَتَمَّ حَجُّهُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ
حضرت عروہ بن مضرس بیان کرتے ہیں ایک شخص میدان عرفات میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت کئی لوگ موجود تھے اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں جبل طے سے آرہا ہوں میری سواری تھک گئی ہے اور میں خود بھی تھک کر چور ہوگیا ہوں کوئی پہاڑ ایسا نہیں ہے جس سے گزر کر میں نہیں آیا کیا مجھے حج نصیب ہوگا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے ہمراہ اس نماز میں شریک ہو اور وہ رات یا دن سے پہلے عرفات آگیا اس نے اپنے احرام کو پورا کرلیا اور حج کو مکمل کرلیا۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1813

أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَكَانُوا يَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ لَعَلَّنَا نُغِيرُ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ بِقَدْرِ صَلَاةِ الْمُسْفِرِينَ أَوْ قَالَ الْمُشْرِقِينَ بِصَلَاةِ الْغَدَاةِ
حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں زمانہ جاہلیت میں لوگ مزدلفہ سے سورج نکلنے کے بعد روانہ ہوتے تھے وہ یہ کہا کرتے ہیں اے ثبیر تو روشن ہوجا تاکہ ہم روانہ ہوجائیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت کی اور آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی جس وقت روشنی میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے اس وقت روانہ ہوگئے۔

1814

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي عَشِيَّةِ عَرَفَةَ وَغَدَاةِ جَمْعٍ حِينَ دَفَعُوا عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ وَهُوَ كَافٌّ نَاقَتَهُ حَتَّى إِذَا دَخَلَ مُحَسِّرًا أَوْضَعَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ قَالَ عَبْد اللَّهِ الْإِيضَاعُ لِلْإِبِلِ وَالْإِيجَافُ لِلْخَيْلِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں حضرت فضل روایت کرتے ہیں عرفہ کی رات اور مزدلفہ کی صبح جب وہ لوگ روانہ ہوئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا آرام سے چلو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اونٹ کی لگام کھینچے ہوئے تھے جب آپ وادی محسر میں داخل ہوئے تو آپ نے رفتار تیز کردی۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔
امام ابومحمد عبداللہ دارمی فرماتے ہیں اونٹ کو تیز چلانے کے لیے لفظ ایضاع استعمال ہوتا ہے جبکہ گھوڑے کو دوڑانے کیلئے لفظ ایجاف استعمال ہوتا ہے۔

1815

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَسَالِمًا كَلَّمَا ابْنَ عُمَرَ لَيَالِيَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ قَبْلَ أَنْ يُقْتَلَ فَقَالَا لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ نَخَافُ أَنْ يُحَالَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَقَالَ قَدْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِرِينَ فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ فَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيَهُ وَحَلَقَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ طُفْتُ وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا كَانَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ ثُمَّ سَارَ فَقَالَ إِنَّمَا شَأْنُهُمَا وَاحِدٌ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي قَالَ نَافِعٌ فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا وَسَعَى لَهُمَا سَعْيًا وَاحِدًا ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى جَاءَ يَوْمَ النَّحْرِ فَأَهْدَى وَكَانَ يَقُولُ مَنْ جَمَعَ الْعُمْرَةَ وَالْحَجَّ فَأَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا فَلَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا يَوْمَ النَّحْرِ
نافع بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے صاحبزادے عبداللہ اور سالم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ آپ کو بیت اللہ تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا یہ اس زمانے کی بات ہے جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر پر حملہ کیا تھا اور ابھی انھیں شہید نہیں کیا تھا حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے جواب دیا ہم لوگ عمرہ کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ روانہ ہوئے تو بیت اللہ سے پہلے ہی کفار قریش ہمارے راستے میں رکاوٹ بن گئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہیں اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا اور اپنا سر منڈوا لیا اور واپس تشریف لائے میں تمہیں گواہ بنا رہا ہوں میں نے عمرہ کی نیت کرلی ہے اگر مجھے بیت اللہ تک جانے دیا گیا تو میں طواف کرلوں گا اگر راستے میں رکاوٹ ڈال دی گئی تو میں وہی کروں گا جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا اور میں بھی اس وقت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا راوی کہتے ہیں پھر حضرت عبداللہ نے ذوالحلیفہ سے عمرہ کی نیت کی اور روانہ ہوئے اور بولے ان دونوں کی حیثیت ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے عمرہ کے ہمراہ حج کی نیت بھی کرلی ہے نافع بیان کرتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے حج اور عمرہ کے لیے ایک طواف کیا اور ان دونوں کی ایک ہی مرتبہ سعی کی۔ اور پھر اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک قربانی کے دن انھوں نے قربانی نہیں کی۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا جو شخص حج اور عمرہ ایک ساتھ ادا کرے وہ ان دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک قربانی کے دن ان دونوں سے مکمل طور پر فارغ نہ ہوجائے۔

1816

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كُسِرَ أَوْ عُرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَى قَالَ أَبُو مُحَمَّد رَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ وَمَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حجاج بن عمرو انصاری نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو وہ احرام کھول دے اس پر بعد میں حج کرنا لازم ہوگا۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے ہیں یہی روایت ایک سند کے ہمراہ منقول ہے۔

1817

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ الضُّحَى وَبَعْدَ ذَلِكَ عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے دن چاشت کے وقت یا اس کے بعد سورج ڈھلنے سے پہلے جمرہ کی رمی کی تھی۔

1818

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ لِرِعَاءِ الْإِبِلِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَرْمُوا الْغَدَ أَوْ مِنْ بَعْدِ الْغَدِ لِيَوْمَيْنِ ثُمَّ يَرْمُوا يَوْمَ النَّفْرِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ
عاصم بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے چرواہوں کو یہ رخصت دی تھی کہ وہ قربانی کے دن رمی کرلیں پھر اس سے اگلے دن بھی کرسکتے ہیں اور پھر اس کے بعد دو دن تک کرسکتے ہیں پھر وہ روانگی کے دن بھی کرسکتے ہیں۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے ہیں یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔

1819

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُرَّةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ أَنْ نَرْمِيَ الْجَمْرَةَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ
حضرت ابوعبدالرحمن بن عثمان بیان کرتے ہیں حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ ہدایت کی تھی کہ ہم چٹکی میں آنے والی کنکری کے ذریعے رمی کریں۔

1820

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَمَوْا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ وَأَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ وَقَالَ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کے تحت لوگوں نے چٹکی میں آنے والی کنکری کے ذریعے رمی کی تھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی محسر سے تیزی سے گزر رہے تھے (بقیہ سفر کے دوران آپ نے لوگوں کو) ہدایت کی تھی آرام سے چلو۔

1821

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَرْمِيَ الْجِمَارَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ نَعَمْ
عبدالرحمن بن معاذ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہدایت کی ہم چٹکی میں آنے والی کنکری کے ذریعے رمی جمار کریں۔ امام ابومحمد دارمی سے یہ سوال کیا گیا حضرت عبدالرحمن بن معاذ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔

1822

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَالْمُؤَمَّلُ وَأَبُو نُعَيْمٍ عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ الْكِلَابِيِّ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارَ عَلَى نَاقَةٍ صَهْبَاءَ لَيْسَ ثَمَّ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ وَلَا إِلَيْكَ إِلَيْكَ
حضرت قدامہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے آپ اپنی سرخ اونٹنی پر سوار تھے اور رمی جمار کر رہے تھے وہاں کوئی مار پیٹ اور دھکم پیل نہیں تھی اور ہٹو بچو کی آوازیں نہیں تھیں۔

1823

أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ هُوَ الْجَزَرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ
حضرت ابن عباس (رض) حضرت فضل بن عباس کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سواری پر سوار تھا رمی جمرہ کرنے کے تک آپ تلبیہ پڑھتے رہے۔

1824

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ الَّتِي تَلِي الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ مِنًى يَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ تَقَدَّمَ أَمَامَهَا فَوَقَفَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَكَانَ يُطِيلُ الْوُقُوفَ ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ ثُمَّ يَنْحَدِرُ مِنْ ذَاتِ الْيَسَارِ مِمَّا يَلِي الْوَادِي رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الْعَقَبَةِ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ ثُمَّ يَنْصَرِفُ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا قَالَ الزُّهْرِيُّ سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ
زہری بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جمرہ کی رمی کی جو مسجد میناء کے ساتھ ہے تو آپ نے سات سات کنکریاں لیں اور ہر کنکری کو پھینکتے ہوئے تکبیر کہی پھر آپ آگے بڑھے اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر ٹھہر گئے وہاں آپ خاصی دیر کھڑے رہے پھر آپ دوسرے جمرہ کے پاس آئے آپ نے اسے بھی سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری کے ہمراہ تکبیر کہی پھر آپ واپس آئے اور وادی کے بائیں طرف ہوگئے اور دونوں ہاتھ بلند کرکے دعا کرنے لگے پھر آپ اس جمرہ کے پاس آئے جو عقبہ کے پاس آئے آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پھینکتے وقت تکبیر کہی پھر آپ تشریف لے آئے اور ان کے پاس نہیں ٹھہرے زہری بیان کرتے ہیں یہ حدیث میں نے سالم بن عبداللہ سے سنی ہے۔ انھوں نے یہ حدیث اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے حوالے سے روایت کی ہے۔ سالم کہتے ہیں حضرت ابن عمر (رض) بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

1825

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ الْمَاجِشُونُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهُرْتُ فَأَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ فَأُتِيَ بِلَحْمِ بَقَرٍ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالُوا أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں ہم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ روانہ ہوئے ہمارا ارادہ حج کرنے کا تھا جب ہم سرف کے مقام تک پہنچے تو جب قربانی کا دن آیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بھیجا میں نے طواف افاضہ کیا میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے دریافت کیا یہ کہاں سے لایا گیا ہے لوگوں نے جواب دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے قربان کی ہے۔

1826

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ قَالَتْ أَخْبَرَتْنِي أُمُّ عُثْمَانَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا خواتین کے لیے سر منڈوانا درست نہیں ہے۔ وہ صرف بال کٹوا سکتی ہیں۔

1827

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ قِيلَ وَالْمُقَصِّرِينَ قَالَ رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ قَالَ فِي الرَّابِعَةِ وَالْمُقَصِّرِينَ
حضرت ابن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا نقل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے جن لوگوں نے بال منڈوا لیے ہیں عرض کی گئی بال کٹوانے والوں کے لیے دعائے خیر فرمائیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے جن لوگوں نے سرمنڈوالیے ہیں راوی کہتے ہیں پھر آپ نے چوتھی مرتبہ فرمایا بال کٹوانے والوں پر اللہ رحم کرے۔

1828

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ آخَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ قَالَ انْحَرْ وَلَا حَرَجَ قَالَ فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمرہ کے قریب دیکھا آپ سے سوال کئے جا رہے تھے ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میں نے رمی کرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے آپ نے فرمایا تم رمی کرلواب کوئی حرج نہیں ہے ایک اور شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈوا لیا آپ نے فرمایا تم اب قربانی کرلو اب کوئی حرج نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں اس دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس بھی چیز کے پہلے یا بعد میں ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے یہی فرمایا اب کرلو کوئی حرج نہیں ہے۔

1829

أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ لِلنَّاسِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ قَالَ لَا حَرَجَ قَالَ لَمْ أَشْعُرْ ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ لَا حَرَجَ فَلَمْ يُسْأَلْ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ أَوْ أُخِّرَ إِلَّا قَالَ لَا حَرَجَ قَالَ عَبْد اللَّهِ أَنَا أَقُولُ بِهَذَا وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يُشَدِّدُونَ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے پاس ٹھہر گئے ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈوا لیا ہے آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے ایک شخص نے عرض کی مجھے پتہ نہیں تھا میں نے رمی سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے (راوی کہتے ہیں) اس دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس بھی چیز کے پہلے یا بعد میں ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے یہی فرمایا کوئی حرج نہیں ہے۔ امام دارمی فرماتے ہیں میں اس حدیث کے مطابق فتوی دیتا ہوں اہل کوفہ اس بارے میں تشدد سے کام لیتے ہیں۔

1830

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نَاجِيَةَ الْأَسْلَمِيِّ صَاحِبِ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنْ الْهَدْيِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ بَدَنَةٍ عَطِبَتْ فَانْحَرْهَا ثُمَّ أَلْقِ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ فَلْيَأْكُلُوهَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نَاجِيَةَ نَحْوَهُ
حضرت ناجیہ اسلمی جو حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قربانی کے جانور لا رہے تھے میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا اگر قربانی کا کوئی جانور تھک کر (مرنے کے قریب ہوجائے) تو میں کیا کروں تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قربانی کا جو بھی جانور تھک کر مرنے کے قریب ہوجائے تو تم اسے قربان کردو اور پھر اس کی ٹانگ خون میں ڈبو کر اسے وہیں چھوڑ دو ۔ اسے لوگوں کے لیے رہنے دو وہ خود ہی اسے کھا لیں گے۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1831

أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً غَنَمًا
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے جانور کے طور پر بکری بھجوائی تھی۔

1832

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ ثُمَّ دَعَا بِبَدَنَةٍ فَأَشْعَرَهَا مِنْ صَفْحَةِ سَنَامِهَا الْأَيْمَنِ ثُمَّ سَلَتَ الدَّمَ عَنْهَا وَقَلَّدَهَا نَعْلَيْنِ ثُمَّ أُتِيَ بِرَاحِلَتِهِ فَلَمَّا قَعَدَ عَلَيْهَا وَاسْتَوَتْ عَلَى الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ بِالْحَجِّ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز ادا کی پھر آپ نے اپنی قربانی کا جانور منگوایا اور اس کو کوہان کے دائیں طرف داغ لگایا پھر اس کا کچھ خون بہایا اور اس کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈال دیا۔ پھر آپ کی سواری لائی گئی آپ اس پر تشریف فرما ہوئے جب وہ کھڑی ہوئی تو آپ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔

1833

أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ قَتَادَةُ أَخْبَرَنِي قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى رَجُلٍ يَسُوقُ بَدَنَتَهُ قَالَ ارْكَبْهَا فَقَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا قَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا وَيْحَكَ
حضرت انس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں آپ نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا جانور لے کر چل رہا تھا آپ نے فرمایا تم اس پر سوار ہوجاؤ اس نے عرض کی یہ قربانی کا جانور آپ نے فرمایا تم اس پر سوار ہوجاؤ اس نے عرض کی یہ قربانی کا جانور ہے آپ نے فرمایا تمہارا ستیا ناس ہو تم اس پر سوار ہوجاؤ۔

1834

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا قَدْ أَنَاخَ بَدَنَةً فَقَالَ ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابن عمر (رض) نے ایک شخص کو دیکھا جس نے قربانی کا جانور (اونٹ) کو قربان کرنے کے لیے لٹا لیا تھا تو فرمایا تم اسے کھڑا کر کے باندھ کے ذبح کرو یہ حضرت محمد کی سنت ہے۔

1835

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى أَبِي قُرَّةَ هُوَ مُوسَى بْنُ طَارِقٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَجَعَ مِنْ عُمْرَةِ الْجِعْرَانَةِ بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ عَلَى الْحَجِّ فَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ ثُوِّبَ بِالصُّبْحِ فَلَمَّا اسْتَوَى لِيُكَبِّرَ سَمِعَ الرَّغْوَةَ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَوَقَفَ عَنْ التَّكْبِيرِ فَقَالَ هَذِهِ رَغْوَةُ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَاءِ لَقَدْ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُصَلِّيَ مَعَهُ فَإِذَا عَلِيٌّ عَلَيْهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمِيرٌ أَمْ رَسُولٌ قَالَ لَا بَلْ رَسُولٌ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَاءَةٌ أَقْرَؤُهَا عَلَى النَّاسِ فِي مَوَاقِفِ الْحَجِّ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمٍ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا ثُمَّ خَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا ثُمَّ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَأَفَضْنَا فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو بَكْرٍ خَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ إِفَاضَتِهِمْ وَعَنْ نَحْرِهِمْ وَعَنْ مَنَاسِكِهِمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّفْرِ الْأَوَّلُ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ كَيْفَ يَنْفِرُونَ وَكَيْفَ يَرْمُونَ فَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ بَرَاءَةٌ عَلَى النَّاسِ حَتَّى خَتَمَهَا
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعرانہ سے عمرہ کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا ہم لوگ ان کے ہمراہ مکہ روانہ ہوگئے ہم جب عرج کے مقام پر پہنچے اور فجر کی نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو حضرت ابوبکر (رض) تکبیر کہنے کے لیے کھڑے ہوگئے تو انھوں نے پیچھے سے اونٹنی کی آواز سنی تو حضرت ابوبکر (رض) تکبیر کہنے سے رک گئے اور بولے یہ تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی جدعا ہے ہوسکتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا ارادہ کرلیا ہو اگر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہوئے تو ہم آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرلیں گے راوی کہتے ہیں اس اونٹنی پر حضرت علی (رض) سوار تھے حضرت ابوبکر (رض) نے دریافت کیا کہ آپ امیر کی حثییت سے آئے ہیں یا پیغام رساں کی حیثیت سے ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں پیغام رساں کی حیثیت سے۔ مجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورت توبہ کے ہمراہ بھیجا ہے اور یہ ہدایت کی ہے کہ حج کے مختلف مقامات پر لوگوں کے سامنے اس کی تلاوت کروں۔ (حضرت جابر بیان کرتے ہیں) ہم لوگ مکہ آگئے ترویہ سے ایک دن پہلے ابوبکر (رض) نے خطبہ دینا شروع کردیا۔ اور لوگوں کو حج کے مختلف ارکان سے آگاہ کیا جب وہ خطبہ دے کر فارغ ہوئے تو حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور انھوں نے لوگوں کے سامنے پوری سورت کی تلاوت کی۔
جب قربانی کا دن آیا تو ہم نے طواف افاضہ کرنا تھا تو حضرت ابوبکر (رض) واپس آئے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے انھیں طواف افاضہ کے بارے میں اور قربانی کے بارے میں اور اس کے دیگر ارکان کے بارے میں بتایا جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور انھوں نے لوگوں کے سامنے سورت توبہ پڑھی اور مکمل سورت پڑھی اور جب روانگی کا وقت آیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے انھیں روانگی کا طریقہ سکھایا اور رمی کرنے کا طریقہ سکھایا اور انھیں حج کے مناسک کی تعلیم دی اور جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور انھوں نے لوگوں کے سامنے سورت توبہ کی تلاوت کی اور مکمل سورت پڑھی۔

1836

أَخْبَرَنَا أَبُو حَاتِمٍ أَشْهَلُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ قَعَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعِيرٍ لَا أَدْرِي جَمَلٌ أَوْ نَاقَةٌ وَأَخَذَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ قَالَ بِزِمَامِهِ فَقَالَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا قَالَ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ فَقَالَ أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ قُلْنَا بَلَى قَالَ فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا قَالَ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ فَقَالَ أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ قُلْنَا بَلَى قَالَ فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا قَالَ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ فَقَالَ أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ قُلْنَا بَلَى قَالَ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى مِنْهُ
حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں اس دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اونٹ پر سوار تھے مجھے نہیں پتا چلا کہ وہ اونٹ تھا یا اونٹنی، ایک صاحب نے اس کی لگام پکڑی ہوئی تھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا آج کون سا دن ہے۔ راوی کہتے ہیں ہم خاموش رہے ہم نے یہ خیال کیا کہ آپ شاید اس کے نام کی بجائے کوئی دوسرا نام تجویز کریں گے آپ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن ہے ہم نے عرض کی جی ہاں آپ نے دریافت کیا یہ کون سا مہینہ ہے ہم خاموش رہے ہم یہ سمجھے شاید آپ اس مہینے کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز کریں گے آپ نے دریافت کیا یہ ذوالحج کا مہینہ نہیں ہے ہم نے عرض کی جی ہاں۔ پھر آپ نے دریافت کی یہ کون سا شہر ہے ہم خاموش رہے ہم یہ سمجھے کہ آپ اس کے اصل نام کے بجائے کوئی دوسرا نام تجویز کریں گے آپ نے دریافت کیا یہ البلدہ مکہ مکرمہ نہیں ہے ہم نے عرض کی جی ہاں آپ نے فرمایا تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت آپس میں اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح یہ دن قابل احترام ہے یہ مہینہ قابل احترام ہے اور یہ شہر قابل احترام ہے ہر موجود شخص غیر موجود شخص کو یہ پیغام پہنچا دے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ موجود شخص اس شخص کو یہ پیغام پہنچائے جو موجود شخص سے زیادہ طریقے سے اس حکم کو محفوظ رکھے۔

1837

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ حَاضَتْ صَفِيَّةُ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ النَّفْرِ قَالَتْ أَيْ حَلْقَى أَيْ عَقْرَى بِلُغَةٍ لَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَسْتِ قَدْ طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَتْ بَلَى قَالَ فَارْكَبِي حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ بِنَحْوِهِ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں حضرت صفیہ کو حیض آگیا جب روانگی کا وقت آیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ نالائق یعنی عقری یہ ان کی لغت تھی پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کیا تم نے قربانی کے دن طواف نہیں کرلیا تھا انھوں نے عرض کی جی ہاں آپ نے فرمایا پھر سوار ہوجاؤ۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے۔

1838

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ قَالَ سَأَلْنَا عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ قَالَ بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلَا يَجْتَمِعُ مُسْلِمٌ وَكَافِرٌ فِي الْحَجِّ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ فَهِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يَقُولُ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ أَجَلُهُمْ عِشْرِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَاقْتُلُوهُمْ بَعْدَ الْأَرْبَعَةِ
حضرت زید بیان کرتے ہیں ہم نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا آپ کو کس پیغام کے ہمراہ بھیجا گیا تھا انھوں نے جواب دیا مجھے چار احکام کے ہمراہ بھیجا گیا تھا یہ کہ میں اعلان کردوں جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے اور کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکے گا اس سال کے بعد آئندہ سال مسلمان اور کافر ایک ساتھ حج نہیں کرسکیں گے اور جس شخص کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ طے شدہ مدت کے لیے کافی ہوگا اور جس شخص کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے اس کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے یہ بات انھوں نے قربانی کے دن بیان کی تھی اور ان لوگوں کی مہلت بیس ذوالحج تھی چار دن کے بعد تم انھیں قتل کردینا۔

1839

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي أَبُو قَزَعَةَ قَالَ سَمِعْتُ مُهَاجِرًا يَقُولُ سُئِلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي عِنْدَ الْبَيْتِ فَقَالَ إِنَّمَا كَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ الْيَهُودُ حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَصَنَعْنَا ذَاكَ
حضرت جابر بن عبداللہ سے بیت اللہ کے نزدیک ہاتھ اٹھانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا یہ یہودیوں کا طریقہ ہے ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حج کیا ہے کیا ہم یہ کرسکتے ہیں۔

1840

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ وَحَجَّاجٌ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ يُحَدِّثُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اسْتَنْصَتَ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ثُمَّ قَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ
حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لوگوں کو خاموش کرواؤ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے پھر آپ نے ارشاد فرمایا میرے بعد زمانہ کفر کی طرح کی ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع نہ کردینا۔

1841

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ وَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ سَعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَنَحْنُ نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يُصِيبَهُ أَحَدٌ بِحَجَرٍ أَوْ بِرَمْيَةٍ
حضرت ابن ابی اوفیٰ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ پر سعی کی اور ہم نے آپ کو اہل مکہ سے بچایا ہوا تھا تاکہ کوئی شخص پتھر یا تیر کے ذریعے آپ پر حملہ نہ کرے۔

1842

أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ شَهِدَ عَلِيًّا وَعُثْمَانَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَعُثْمَانُ يَنْهَى عَنْ الْمُتْعَةِ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا فَقَالَ لَبَّيْكَ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ مَعًا فَقَالَ تَرَانِي أَنْهَى عَنْهُ وَتَفْعَلُهُ فَقَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَدَعَ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ
مروان بن حکم بیان کرتے ہیں وہ حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے راستے میں موجود تھے حضرت عثمان نے حج تمتع سے منع کردیا جب حضرت علی (رض) نے دیکھا تو انھوں نے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھ لیا اور بولے میں حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں حضرت عثمان بولے آپ نے دیکھا نہیں میں نے اس سے منع کیا ہے اور آپ یہ کررہے ہیں حضرت علی (رض) نے جواب دیا میں کسی صاحب کے کہنے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت نہیں چھوڑ سکتا۔

1843

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نیت کرتے ہوئے سنا۔ " عمرہ اور حج کے لیے میں حاضر ہوں۔

1844

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ أَنَسٍ فَقَالَ إِنَّمَا أَهَلَّ بِالْحَجِّ فَرَجَعْتُ إِلَى أَنَسٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ مَا يَعُدُّونَا إِلَّا صِبْيَانًا
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا راوی کہتے ہیں میری ملاقات حضرت ابن عمر (رض) سے ہوئی میں نے انھیں حضرت انس (رض) کے اس بیان کے بارے میں بتایا تو حضرت عبداللہ نے جواب دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف حج کا احرام باندھا تھا راوی کہتے ہیں میں واپس حضرت انس (رض) کے پاس آیا اور انھیں حضرت ابن عمر (رض) کے بیان سے آگاہ کیا تو وہ بولے وہ ہمیں بچہ ہی سمجھتے تھے۔

1845

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ إِنْ وَلِيتُمْ هَذَا الْأَمْرَ فَلَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ أَوْ صَلَّى أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ
حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے عبدمناف کی اولاد اگر تمہیں اس معاملے کا نگران بنادیا جائے کہ تو تم کسی بھی شخص کو دن یا رات میں کسی بھی وقت طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے نہ روکنا۔

1846

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاتَ بِذِي طُوًى حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ دَخَلَ مَكَّةَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی طوی میں رات بسر کی اور صبح کے وقت آپ مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عمر (رض) بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

1847

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْخُلُ مَكَّةَ مِنْ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا وَيَخْرُجُ مِنْ الثَّنِيَّةِ السُّفْلَى
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوپروالی گھاٹی کے راستے سے مکہ میں داخل ہوتے تھے اور نیچے والی گھاٹی کے راستے سے باہر تشریف لاتے تھے۔

1848

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَدْخَلَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ وَاسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ أَهَلَّ مِنْ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم اپنا پاؤں لگام میں رکھتے تھے اور آپ کی اونٹنی کھڑی ہوجاتی تھی تو آپ مسجد ذوالحلیفہ کے پاس سے تلبیہ پڑھنا شروع کردیتے تھے۔

1849

أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ فِي الْمُحْرِمِ إِذَا اشْتَكَى عَيْنَيْهِ يَضْمِدُهَا بِالصَّبِرِ
حضرت ابان بن عثمان اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا ہے جب حالت احرام میں کسی شخص کو آنکھوں میں تکلیف ہوجائے تو وہ صبر کے ذریعے آنکھوں پر لیپ کرے۔

1850

أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا قَالَ شُعْبَةُ فَحَدَّثَنِي أَيُّوبُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ هِيَ السُّنَّةُ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس دو نوافل ادا کئے پھر آپ صفا کی طرف تشریف لے گئے۔
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں یہی طریقہ سنت ہے۔

1851

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں لوگ پہلے جس طرف سے چاہتے واپس چلے جاتے تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کوئی بھی شخص اس طرح واپس نہ جائے بلکہ اس کا سب سے آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہیے۔

1852

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رُخِّصَ لِلْحَائِضِ أَنْ تَنْفِرَ إِذَا أَفَاضَتْ قَالَ وَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ عَامَ الْأَوَّلِ أَنَّهَا لَا تَنْفِرُ ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ تَنْفِرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لَهُنَّ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں حیض والی خاتون کو یہ رخصت دی گئی ہے کہ وہ طواف افاضہ کرلیں تو دوبارہ بیت اللہ کا طواف کئے بغیر واپس جاسکتی ہیں۔
حضرت ابن عمر (رض) پہلے یہ فرماتے تھے کہ خواتین ایسے واپس نہیں جاسکتی ہیں لیکن پھر وہ یہ فرمانے لگے کہ وہ جاسکتی ہیں کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی رخصت عطا کی ہے۔

1853

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ يَقُولُ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي طَاوُسٌ الْيَمَانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنْ حَبْسِ النِّسَاءِ عَنْ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ إِذَا حِضْنَ قَبْلَ النَّفْرِ وَقَدْ أَفَضْنَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ إِنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَذْكُرُ رُخْصَةً لِلنِّسَاءِ وَذَلِكَ قَبْلَ مَوْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِعَامٍ
ابن شہاب بیان کرتے ہیں طاؤس یا یمانی نے بتایا کہ انھوں نے عبداللہ بن عامر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر واپس روانگی سے پہلے خواتین کو حیض آجائے اور وہ بیت اللہ کا الوداعی طواف نہ کرسکیں تو کیا ان کی وجہ سے رک جایا جائے گا جب کہ وہ قربانی کے دن طواف افاضہ کرچکی ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے جواب دیا حضرت عائشہ (رض) نے یہ بات بیان کی کہ خواتین کو یہ رخصت دی گئی ہے راوی کہتے ہیں یہ حضرت ابن عمر (رض) کے وصال سے ایک سال پہلے کی بات ہے۔

1854

أَخْبَرَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَائِشَةَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ رِجَالًا يَبْعَثُ أَحَدُهُمْ بِالْهَدْيِ مَعَ الرَّجُلِ فَيَقُولُ إِذَا بَلَغْتَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا فَقَلِّدْهُ فَإِذَا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ لَمْ يَزَلْ مُحْرِمًا حَتَّى يَحِلَّ النَّاسُ قَالَ فَسَمِعْتُ صَفْقَتَهَا بِيَدِهَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ وَقَالَتْ لَقَدْ كُنْتُ أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْعَثُ بِالْهَدْيِ إِلَى الْكَعْبَةِ مَا يَحْرُمُ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِمَّا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ مِنْ أَهْلِهِ حَتَّى يَرْجِعَ النَّاسُ
مسروق بیان کرتے ہیں انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے دریافت کیا اے ام المومنین بعض لوگ اپنی قربانی کے جانور کسی اور شخص کے ہمراہ مکہ مکرمہ بھیج دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں جب یہ فلاں جگہ پہنچ جائے تو وہ جانور کے گلے میں ہار ڈال دیں جب یہ فلاں جگہ پر پہنچے تو اس وقت تک وہ (جس نے قربانی کا جانور) بھیجا ہے حالت احرام میں رہے گا جب تک لوگ کھول نہیں دیتے۔ مسروق کہتے ہیں میں نے پردے کے پیچھے سے سیدہ عائشہ (رض) کی تالی بجانے کی آواز سنی انھوں نے فرمایا میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قربانی کے جانوروں کے لیے ہار بنایا کرتی تھی آپ انھیں مکہ مکرمہ بھیج دیتے تھے لیکن آپ اپنے اوپر ایسی کوئی چیز حرام نہیں کرتے تھے جو کسی بھی شخص کے لیے اپنے اہل خانہ کے حوالے سے جائز ہو یہاں تک کہ لوگ حج کرنے کے بعد واپس آجاتے تھے۔

1855

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَعَمْرَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْعَثُ بِهَدْيِهِ مُقَلَّدَةً وَيُقِيمُ بِالْمَدِينَةِ وَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا حَتَّى يُنْحَرَ هَدْيُهُ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قربانی کے جانوروں کے لیے ہار میں بنایا کرتی تھی آپ وہ جانور بھیج دیتے تھے ان کے گلوں میں ہار ہوتے تھے اور خود مدینہ منورہ میں مقیم رہتے تھے۔ اور ان جانوروں کی قربانی تک کسی ایسی چیز سے اجتناب نہیں کرتے تھے (جس کو انجام دینا حالت احرام والے شخص کے لیے جائز نہ ہو) ۔

1856

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ عَنْ أُمِّهِ مُسَيْكَةَ وَأَثْنَى عَلَيْهَا خَيْرًا عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَبْنِي لَكَ بِمِنًى بِنَاءً يُظِلُّكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم منیٰ میں آپ کے لیے کوئی عمارت نہ بنادیں تاکہ آپ اس کے سائے میں رہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نہیں منیٰ میں جو پہلے پہنچ جائے وہ اپنا جانور بٹھا سکتا ہے۔ (اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

1857

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ مِغْفَرٌ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْتُلُوهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدٍ وَقُرِئَ عَلَى مَالِكٍ قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں فتح مکہ کے موقع پر جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر ایک خود تھا آپ نے اسے اتارا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ابن خطل کعبہ کے پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے قتل کردو۔ عبداللہ بن خالد بیان کرتے ہیں امام مالک کے سامنے یہ حدیث بیان کی گئی کہ ابن شہاب بیان کرتے ہیں اس دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت احرام میں نہیں تھے۔

1858

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمَّارٍ الدُّهْنِيُّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ حِينَ افْتَتَحَهَا وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ قَالَ إِسْمَعِيلُ سَمِعَهُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ كَانَ مَعَ أَبِيهِ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں فتح مکہ کے موقع پر جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سیاہ عمامہ باندھا ہوا تھا آپ حالت احرام میں نہیں تھے۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

1859

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعَبْدُ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيُّ أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا مِنْهَا شَيْئًا
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ قربانی کے جانوروں کی نگرانی کریں اور قربانی کے جانور کا سب کچھ تقسیم کردیں اور اس کا گوشت اور اس پر موجود کپڑ اور قصاب کو اس میں سے معاوضے کے طور پر کچھ نہ دیا جائے۔

1860

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الضَّبُعِ فَقَالَ هُوَ صَيْدٌ وَفِيهِ كَبْشٌ إِذَا أَصَابَهُ الْمُحْرِمُ
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بجو کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ شکار ہے اور اگر کوئی حالت احرام میں اس کا شکار کرے تو اسے ایک دنبہ ذبح کرنا ہوگا۔

1861

أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الضَّبُعِ آكُلُهُ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ هُوَ صَيْدٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ مَا تَقُولُ فِي الضَّبُعِ تَأْكُلُهُ قَالَ أَنَا أَكْرَهُ أَكْلَهُ
عبدالرحمن بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر (رض) سے سوال کیا بجو کھا سکتا ہوں انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔ میں نے سوال کیا کہ وہ شکار ہے انھوں نے جواب دیا ہاں میں نے دریافت کیا گیا آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی ہے انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔ امام دارمی سے سوال کیا گیا آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کیا بجوکھایا جاسکتا ہے انھوں نے جواب دیا میں اس کے کھانے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔

1862

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الْعَّبَاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَبِيتَ بِمَكَّةَ لَيَالِيَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں حضرت عباس بن عبدالمطلب نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی کہ وہ منیٰ میں بسر کی جانے والی راتیں مکہ میں بسر کریں کیونکہ انھوں نے لوگوں کو پانی پلانا ہوتا ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اجازت عطا کردی۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔