HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

16. سونے چاندى اور ان کى چیزوں کا بیان

الطحاوي

5665

۵۶۶۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ عَوْنٍ الْوَاسِطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِیْ عِمْرَانَ ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِیِّ ، عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ : أَصَبْتُ یَوْمَ خَیْبَرَ قِلَادَۃً فِیْہَا ذَہَبٌ وَخَرَزٌ ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَبِیْعَہَا .فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ، فَقَالَ افْصِلْ بَعْضَہَا عَنْ بَعْضٍ ، ثُمَّ بِعْہَا کَیْفَ شِئْتَ .
٥٦٦٤: حنش صنعانی نے فضالہ بن عبیداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار پایا جس میں سونا اور موتی تھے میں نے فروخت کرنا چاہا تو میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ان کو ایک دوسرے سے الگ کرو پھر اسے جس طرح چاہو فروخت کرو۔
تخریج : نسائی فی البیوع باب ٤٨۔

5666

۵۶۶۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ شُجَاعٍ ، سَعِیْدُ بْنُ یَزِیْدَ الْحِمْیَرِیُّ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِیْ عِمْرَانَ ، عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ ، صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اشْتَرَیْتُ یَوْمَ خَیْبَرَ قِلَادَۃً .فِیْہَا ذَہَبٌ وَخَرَزٌ ، بِاثْنَیْ عَشَرَ دِیْنَارًا ، فَفَصَلْتُہَا فَاِذَا الذَّہَبُ أَکْثَرُ مِنْ اثْنٰی عَشَرَ دِیْنَارًا .فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تُبَاعُ حَتّٰی تَفْصِلَہٗ۔
٥٦٦٥: خالد بن ابی عمران نے فضالہ بن عبیدا (رض) سے نقل کیا کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار بارہ دینار سے خریدا جس میں سونا اور موتی تھے پس میں نے ان کو الگ کیا تو سونا بارہ دینار سے زیادہ تھا تو میں نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ذکر کی تو آپ نے فرمایا اس کو فروخت نہ کیا جائے یہاں تک کہ تم اس کو الگ کرو۔
تخریج : مسلم فی المساقاۃ ٩٠‘ ابو داؤد فی البیوع باب ١٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٣٢‘ نسائی فی البیوع باب ٤٨‘ مسند احمد ٢١۔

5667

۵۶۶۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ یَزِیْدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ ، یُحَدِّثُ عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ فَضَالَۃَ قَالَ : أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ بِقِلَادَۃٍ ، فِیْہَا خَرَزٌ مُعَلَّقَۃٌ بِذَہَبٍ ، ابْتَاعَہَا رَجُلٌ بِسَبْعٍ أَوْ بِتِسْعٍ .فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ لَا ، حَتّٰی تُمَیِّزَ مَا بَیْنَہُمَا .فَقَالَ : اِنَّمَا أَرَدْتُ الْحِجَارَۃَ فَقَالَ لَا ، حَتّٰی تُمَیِّزَ بَیْنَہُمَا ، فَرَدَّہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْقِلَادَۃَ اِذَا کَانَتْ کَمَا ذَکَرْنَا لَمْ یَجُزْ أَنْ تُبَاعَ بِالذَّہَبِ ، لِأَنَّ ذٰلِکَ الثَّمَنَ ، وَہُوَ ذَہَبٌ ، یُقْسَمُ عَلَی قِیْمَۃِ الْخَرَزِ ، وَعَلَی الذَّہَبِ ، فَیَکُوْنُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَبِیْعًا ، بِمَا أَصَابَہٗ مِنَ الثَّمَنِ ، کَالْعَرْضَیْنِ یُبَاعَانِ بِذَہَبٍ ، فَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَبِیْعٌ بِمَا أَصَابَ قِیْمَتَہٗ، مِنْ ذٰلِکَ الذَّہَبِ .قَالُوْا : فَلَمَّا کَانَ مَا یُصِیْبُ الذَّہَبُ ، الَّذِیْ فِی الْقِلَادَۃِ ، اِنَّمَا یُصِیْبُہٗ بِالْخَرَزِ ، وَالظَّنِّ ، وَکَانَ الذَّہَبُ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُبَاعَ بِالذَّہَبِ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، لَمْ یَجُزُ الْبَیْعُ اِلَّا أَنْ یَعْلَمَ أَنَّ ثَمَنَ الذَّہَبِ الَّذِیْ فِی الْقِلَادَۃِ مِثْلُ وَزْنِہِ مِنَ الذَّہَبِ ، الَّذِیْ اُشْتُرِیَتْ بِہٖ الْقِلَادَۃُ .وَلَا یَعْلَمُ بِقِسْمَۃِ الثَّمَنِ ، اِنَّمَا یَعْلَمُ بِأَنْ یَکُوْنَ عَلٰی حِدَۃٍ ، بَعْدَ الْوُقُوْفِ عَلَی وَزْنِہٖ، وَذٰلِکَ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ اِلَّا بَعْدَ أَنْ یُفْصَلَ مِنَ الْقِلَادَۃِ .قَالُوْا : فَلَا یَجُوْزُ بَیْعُ ہٰذِہِ الْقِلَادَۃِ بِالذَّہَبِ ، اِلَّا بَعْدَ أَنْ یُفْصَلَ ذَہَبَہَا مِنْہَا ، لِمَا قَدْ ذَکَرْنَاہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلِمَا احْتَجَجْنَا بِہٖ مِنَ النَّظَرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : اِنْ کَانَتْ ہٰذِہِ الْقِلَادَۃُ ، لَا یُعْلَمُ مِقْدَارُ ذَہَبِہَا ، أَہُوَ مِثْلُ وَزْنِ جَمِیْعِ الثَّمَنِ ، أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ ، أَوْ أَکْثَرُ ، اِلَّا أَنْ تُفْصَلَ الْقِلَادَۃُ ، فَیُوْزَنُ ذٰلِکَ الذَّہَبُ الَّذِیْ فِیْہَا ، فَیُوْقَفُ عَلَی زِنَتِہِ لَمْ یَجُزْ بَیْعُہَا بِذَہَبٍ اِلَّا بَعْدَ أَنْ یُفْصَلَ ذَہَبُہَا مِنْہَا ، فَیُعْلَمَ أَنَّہٗ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ الثَّمَنِ .وَاِنْ کَانَتِ الْقِلَادَۃُ یُحِیطُ الْعِلْمُ بِوَزْنِ مَا فِیْہَا مِنَ الذَّہَبِ ، وَیُعْلَمُ أَنَّہٗ أَقَلُّ مِنَ الذَّہَبِ الَّذِی بِیْعَتْ بِہٖ أَوْ لَا یُحِیطُ الْعِلْمُ بِوَزْنِہِ اِلَّا أَنَّہٗ یَعْلَم - فِی الْحَقِیْقَۃِ - أَقَلُّ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِی بِیْعَتْ بِہٖ الْقِلَادَۃُ ، وَہُوَ ذَہَبٌ ، فَالْبَیْعُ جَائِزٌ .وَذٰلِکَ أَنَّہٗ یَکُوْنُ ذَہَبُہَا ، بِمِثْلِ وَزْنِہِ مِنَ الذَّہَبِ الثَّمَنَ ، وَیَکُوْنُ مَا فِیْہَا مِنَ الْخَرَزِ ، بِمَا بَقِیَ مِنَ الثَّمَنِ ، وَلَا یُحْتَاجُ اِلَیْہِ فِی الْعُرُوْضِ الْمَبِیْعَۃِ بِالثَّمَنِ الْوَاحِدِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنَّا رَأَیْنَا الذَّہَبَ ، لَا یَجُوْزُ أَنْ یُبَاعَ بِذَہَبٍ مِثْلًا بِمِثْلٍ ، وَرَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْ دِیْنَارَیْنِ ، أَحَدُہُمَا فِی الْجَوْدَۃِ أَفْضَلُ مِنَ الْآخَرِ ، بِیْعَا ، صَفْقَۃً وَاحِدَۃً ، بِدِیْنَارَیْنِ مُتَسَاوِیَیْنِ فِی الْجَوْدَۃِ ، أَوْ بِذَہَبٍ غَیْرِ مَضْرُوْبٍ جَیِّدٍ ، أَنَّ الْبَیْعَ جَائِزٌ .فَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مَرْدُوْدٌ اِلَی حُکْمِ الْقِیْمَۃِ ، کَمَا تُرَدُّ الْعُرُوْض مِنْ غَیْرِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، اِذَا بِیْعَتْ بِثَمَنٍ وَاحِدٍ ، اِذًا لَفَسَدَ الْبَیْعُ ، لِأَنَّ الدِّیْنَارَ الرَّدِیئَ ، یُصِیْبُہُ أَقَلُّ مِنْ وَزْنِہِ اِذَا کَانَتْ قِیْمَتُہُ أَقَلَّ مِنْ قِیْمَۃِ الدِّیْنَارِ الْآخَرِ .فَلَمَّا أُجْمِعَ عَلَیْ صِحَّۃِ ذٰلِکَ الْبَیْعِ ، وَکَانَتِ السُّنَّۃُ قَدْ ثَبَتَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِأَنَّ الذَّہَبَ ، تِبْرَہُ وَعَیْنَہُ سَوَاء ٌ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ الذَّہَبِ فِی الْبَیْعِ اِذَا کَانَ بِذَہَبٍ عَلٰی غَیْرِ الْقِسْمَۃِ عَلَی الْقِیَمِ ، وَأَنَّہٗ مَخْصُوْصٌ فِیْ ذٰلِکَ بِحُکْمٍ ، دُوْنَ حُکْمِ سَائِرِ الْعُرُوْضِ الْمَبِیْعَۃِ صَفْقَۃً وَاحِدَۃً ، وَاِنَّمَا یُصِیْبُہٗ مِنَ الثَّمَنِ وَزْنُہٗ، لَا مَا یُصِیْبُ قِیْمَتَہٗ۔ فَہٰذَا ہُوَ مَا یَشْہَدُ لِہٰذَا الْقَوْلِ مِنَ النَّظَرِ .وَقَدْ اضْطَرَبَ عَلَیْنَا حَدِیْثُ فَضَالَۃَ ، الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، فَرَوَاہُ قَوْمٌ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، وَرَوَاہُ آخَرُوْنَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ .
٥٦٦٦: حنش نے فضالہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خیبر کے دن ایک قلادہ لایا گیا جس میں جواہرات سونے کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے ‘ ایک آدمی نے اسے سات یا نو دینار کے بدلے خریدا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا اور یہ بات عرض کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا دونوں کو الگ کرنے کے بغیر فروخت نہیں کرسکتے ہو۔ اس نے کہا میرا مقصود تو جواہرات تھے آپ نے فرمایا پھر بھی جائز نہیں جب تک کہ دونوں کو الگ الگ نہ کیا جائے پس اس نے واپس کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اگر ہار کی مذکورہ صورت ہو تو علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ ایسے ہار کو سونے کے بدلے فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سونا ثمن ہے اس کو جواہرات اور سونے پر تقسیم کیا جائے تو وہ دونوں اس قیمت میں فروخت شدہ مال بنے گا جیسا کہ وہ اشیاء سونے کے بدلے فروخت کی جائیں تو اس سونے میں سے جس چیز کے حصہ میں جتنا آئے گا تو وہ اس کے بدلے میں بیع کی جانے والی چیز ہوگی۔ ہار کے سونے کی قیمت وہ جواہرات اور اندازے کے بدلے ہوگی حالانکہ سونے کو سونے کے بدلے صرف برابر برابر فروخت کرسکتے ہیں تو اس بیع کے اب جائز ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ ہار والے سونے کی قیمت اس سونے کے وزن کے برابر ہے جس سونے کے بدلے ہار کو خریدا گیا ہے اور یہ بات تقسیم قیمت سے معلوم نہیں ہوسکتی۔ اس کی صورت یہی ہے کہ جب ہار کے سونے کا وزن کر کے اس کی قیمت الگ سے مقرر کی جائے اور یہ اس وقت معلوم ہوگا جب کہ وہ سونا اس ہار سے الگ کردیا جائے۔ پس اس ہار کو سونے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں جب تک اس کا سونا الگ نہ کردیا جائے جیسا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے اور اس سبب سے جو ہم نے قیاس سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا اس ہار کے سونے سے متعلق یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ تمام قیمت کے برابر ہے یاس اس سے کم زیادہ ہے مگر جبکہ اس کو ہار سے الگ کر کے وزن کیا جائے اور اس کے وزن سے واقفیت حاصل کی جائے تو اب اس کی بیع اس وقت تک جائز نہ ہوگی جب تک کہ وہ سونا الگ نہ کیا جائے اور معلوم ہوجائے کہ وہ اس قیمت سے کم ہے اور اگر ہار کے سونے کا علم حاصل ہو اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ وہ اس سونے سے کم ہے جس کے بدلے اس کو فروخت کیا گیا ہے یا اس کے وزن کا علم حاصل نہ ہو مگر یہ معلوم ہوجائے کہ فی الواقع اس کا سونا ہار کی قیمت سے کم ہے اور وہ سونا ہار کی قیمت سے کم ہے جس سونے کے بدلے ہار فروخت کیا گیا تو اس صورت میں یہ سودا جائز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے ہار کا سونا اس سونے کے برابر جس کے بدلے میں فروخت کیا گیا ہے اور بقیہ ثمن کے بدلے موتی و جواہرات ہیں اس صورت میں ثمن (سونے) کو قیمتوں پر تقسیم کی ضرورت نہ ہوگی جیسا کہ سامان جس کو ایک ثمن پر فروخت کیا جائے (اس میں الگ اشیاء پر تقسیم کی حاجت نہیں) اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ سونا برابر سونے کے بدلے فروخت کرنا درست ہے اور یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فقہاء کا اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسے دو دینار جن میں ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ کھرا ہو ایک ہی معاہدے میں ان دو دیناروں کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے جو کھرے پن میں برابر ہوں یا اس سونے کی ڈلی کے بدلے جس کا سکہ نہ بنایا گیا ہو اور وہ خالص ہو۔ اگر اس کو بھی قیمت کے حکم کی طرف لوٹایا جاتا جیسا کہ سونے چاندی کے علاوہ سامان کو لوٹایا جاتا ہے جبکہ ان کو ایک ہی ثمن سے فروخت کیا جائے تو یہ بیع فاسد ہوتی کیونکہ ردی دینار کے بدلے کم مقدار میں سونا آئے گا اور اس لیے کہ اس کی قیمت تو دوسرے دینار سے کم ہے۔ یہ ہے کہ ان دو دیناروں کی برابر سونے کے بدلے بیع جب جائز ہے اور یہ طریقہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل سے ثابت ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے فروخت کے وقت قیمتوں پر تقسیم نہ کیا جائے گا اور یہ حکم سونے کا پترا اور خالص سونا دونوں برابر ہیں اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بیع میں یہ سونے کا حکم اس وقت ہے جبکہ وہ سونے کے بدلے میں ہو قیمتوں پر تقسیم والا نہیں ہوگا یہ حکم سونے کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے سامان کا یہ حکم نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں جو قیمت ہوگی وہ وزن کے اعتبار سے ہوگی قیمت کے لحاظ سے نہیں قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے۔ حضرت فضالہ (رض) والی روایت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ ایک روایت میں تو اسے اسی طرح روایت کیا گیا جیسا کہ ہم نے شروع باب میں نقل کیا ہے۔ دوسرے حضرات نے اس طرح روایت کی ہے۔

5668

۵۶۶۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ، أَبُوْ ھَانِیٍٔ ، أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ رَبَاحٍ اللَّخْمِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ یَقُوْلُ : أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِخَیْبَرَ بِقِلَادَۃٍ فِیْہَا ذَہَبٌ وَخَرَزٌ ، وَہِیَ مِنَ الْمَغَانِمِ تُبَاعُ .فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالذَّہَبِ الَّذِیْ فِی الْقِلَادَۃِ ، فَنُزِعَ وَحْدَہٗ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ ، وَزْنًا بِوَزْنٍ .
٥٦٦٧: علی بن رباح لخمی نے حضرت فضالہ بن عبید (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خیبر میں ایک ہار لایا گیا اس میں سونا اور جواہرات تھے وہ مال غنیمت میں تھا اس کو فروخت کیا جا رہا تھا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہار میں لگے ہوئے سونے کو الگ کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا سونے کے بدلے سونا وزن کے لحاظ سے ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ١٣‘ مسند احمد ٦؍١٩۔

5669

۵۶۶۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حُمَیْدُ بْنُ ہَانِئٍ ، عَنْ فَضَالَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ بِخَیْبَرَ .
٥٦٦٨: حمید بن ہانی نے حضرت فضالہ (رض) سے اور وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں البتہ انھوں نے خیبر کا ذکر نہیں کیا۔

5670

۵۶۶۹: حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ عَنْ أَبِیْ ہَانِئٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، غَیْرُ مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .فِیْ ہٰذَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَزَعَ الذَّہَبَ ، فَجَعَلَہٗ عَلٰی حِدَۃٍ ، ثُمَّ قَالَ الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ ، وَزْنًا بِوَزْنٍ لِیَعْلَمَ النَّاسُ کَیْفَ حُکْمُ الذَّہَبِ بِالذَّہَبِ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَ الذَّہَبَ لِأَنَّ صَلَاحَ الْمُسْلِمِیْنَ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ ، فَفَعَلَ مَا فِیْہِ صَلَاحُہُمْ ، لَا لِأَنَّ بَیْعَ الذَّہَبِ قَبْلَ أَنْ یُنْزَعَ ، مَعَ غَیْرِہٖ، فِیْ صَفْقَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، غَیْرُ جَائِزٍ .وَہٰذَا خِلَافُ مَا رَوَی مَنْ رَوَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُبَاعُ حَتّٰی تُفْصَلَ .وَقَدْ رَوَاہُ آخَرُوْنَ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٦٦٩: حیوہ نے ابو ہانی سے روایت کی انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں جو کچھ ہے وہ پہلی روایت میں مذکور نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود سونے کو اتار کر الگ فرمایا پھر ارشاد فرمایا کہ سونے کے بدلے سونا وزن کے لحاظ سے برابر ہوتا ہے یہ آپ نے اس لیے کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ سونے کا حکم کیا ہوتا ہے۔ اس لیے الگ کیا کہ اس میں مسلمانوں کا فائدہ تھا تو مسلمانوں کی بہتری والا عمل فرمایا یہ وجہ نہیں کہ سونے کو الگ کرنے کے بغیر ایک ہی سودے میں اس کا فروخت کرنا جائز نہ تھا اور یہ بات اس روایت کے خلاف ہے کہ جس میں فرمایا سونے کو جدا کرنے کے بغیر فروخت نہ کیا جائے۔
ایک اور روایت :
جو کہ ان روایات سے مختلف ہے ملاحظہ ہو :

5671

۵۶۷۰: فَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ حَنَشُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الصَّنْعَانِیُّ ، أَنَّہٗ کَانَ فِی الْبَحْرِ ، مَعَ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ حَنَشٌ : فَاشْتَرَیْتُ قِلَادَۃً فِیْہَا تِبْرٌ وَیَاقُوْتٌ ، وَزَبَرْجَدٌ فَأَتَیْتُ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ ، فَذَکَرْتُ لَہُ ذٰلِکَ فَقَالَ لَا تَأْخُذْ التِّبْرَ بِالتِّبْرِ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، فَاِنِّیْ کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ ، فَاشْتَرَیْتُ قِلَادَۃً بِسَبْعَۃِ دَنَانِیْرَ ، فِیْہَا تِبْرٌ وَجَوْہَرٌ ، فَسَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہَا ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَأْخُذْ التِّبْرَ بِالذَّہَبِ ، اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، غَیْرُ مَا تَقَدَّمَہٗ مِنَ الْأَحَادِیْثِ : وَذٰلِکَ أَنَّ مَا حَکَی فَضَالَۃُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہُوَ التِّبْرُ بِالذَّہَبِ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ، وَلَمْ یَذْکُرْ فَسَادَ الْبَیْعِ فِی الْقِلَادَۃِ الْمَبِیْعَۃِ بِذٰلِکَ اِذْ کَانَ فِیْہَا ذَہَبٌ وَغَیْرُہٗ۔ فَہٰذَا خِلَافُ الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ .وَقَدْ رَوَاہُ آخَرُوْنَ أَیْضًا عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ
٥٦٧٠: حنش بن عبداللہ صنعانی کہتے ہیں کہ میں ایک دریائی سفر میں حضرت فضالہ بن عبید (رض) کی معیت میں تھا میں نے ایک ہار خریدا جس میں سونا ‘ یاقوت ‘ زبرجد کا جڑاؤ تھا میں حضرت فضالہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ بات ذکر کی تو انھوں نے فرمایا سونے کو سونے کے بدلے برابر لو۔ میں خیبر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا میں نے ساٹھ دینار میں ایک ہار خریدا جس میں سونا اور جواہرات تھے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا سونے کو سونے کے بدلے برابر ہی لے سکتے ہیں۔ اس روایت میں پہلی احادیث سے مختلف مضمون ہے وہ اس طرح کہ اس روایت میں حضرت فضالہ (رض) نے جو کچھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا وہ یہ ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے برابر لیا جائے اور جس ہار کو سونے کے بدلے فروخت کیا گیا اس کی بیع کے فاسد ہونے کا ذکر نہیں ہے جبکہ اس میں سونا اور دوسری چیزیں بعینہٖ خیبر والے ہار کی طرح تھیں یہ روایت پہلی روایات سے مختلف ہے۔
ایک اور انداز سے روایت :
دیگر حضرات نے اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے :

5672

۵۶۷۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ قُرَّۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ یَحْیَی الْمَعَافِرِیَّ أَخْبَرَہُمَا ، عَنْ حَنَشٍ أَنَّہٗ قَالَ : کُنَّا مَعَ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ فِیْ غَزْوَۃٍ ، فَصَارَتْ لِیْ وَلِأَصْحَابِیْ، قِلَادَۃٌ فِیْہَا ذَہَبٌ ، وَوَرِقٌ ، وَجَوْہَرٌ فَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِیَہَا .فَسَأَلْتُ فَضَالَۃَ ، فَقَالَ : انْزِعْ ذَہَبَہَا ، وَاجْعَلْہُ فِی الْکِفَّۃِ ، وَاجْعَلْ ذَہَبًا فِی الْکِفَّۃِ الْأُخْرَی ، ثُمَّ لَا تَأْخُذَنَّ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاَللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ، فَلَا یَأْخُذَنَّ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ .فَہٰذَا خِلَافٌ لِمَا تَقَدَّمَہٗ مِنَ الْأَحَادِیْثِ ، لِأَنَّ فِیْہِ أَمْرَ فَضَالَۃَ بِنَزْعِ الذَّہَبِ وَبَیْعِہِ وَحْدَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ ذٰکَرَہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہُوَ نَہْیُہُ عَنْ بَیْعِ الذَّہَبِ بِالذَّہَبِ ، اِلَّا وَزْنًا بِوَزْنٍ .فَہٰذَا مَا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ، وَالْأَمْرُ بِالتَّفْصِیلِ مِنْ قَوْلِ فَضَالَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَ بِذٰلِکَ ، عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ عِنْدَہٗ، الْبَیْعُ فِیْہَا ، فِی الذَّہَبِ ، حَتّٰی تُفْصَلَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَ بِذٰلِکَ ، لِاِحَاطَۃِ عِلْمِہِ أَنَّ تِلْکَ قِلَادَۃٌ ، لَا یُوْصَلُ اِلَی عِلْمِ مَا فِیْہَا مِنَ الذَّہَبِ ، وَلَا اِلَی مِقْدَارِہٖ، اِلَّا بَعْدَ أَنْ یُفْصَلَ مِنْہَا .فَقَدْ اضْطَرَبَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، فَلَمْ یُوْقَفْ عَلٰی مَا أُرِیْدَ مِنْہُ .فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْتَجَّ بِمَعْنًی مِنَ الْمَعَانِیْ، الَّتِیْ رُوِیَ عَلَیْہَا ، اِلَّا احْتَجَّ مُخَالِفُہُ عَلَیْہِ، بِالْمَعْنَی الْآخَرِ .وَقَدْ قَدَّمْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، کَیْفَ وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ ، وَأَنَّہٗ عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ الَّذِیْنَ جَعَلُوْا حُکْمَ الذَّہَبِ الْمَبِیْعِ مَعَ غَیْرِہِ بِالْمُذَہَّبِ ، لَا عَلَی قَسْمِ الثَّمَنِ عَلَی الْقِیَمِ ، وَلٰـکِنْ عَلٰی أَنَّ الذَّہَبَ مَبِیْعٌ بِوَزْنِہِ مِنَ الذَّہَبِ الثَّمَنِ ، وَمَا بَقِیَ مَبِیْعٌ بِمَا بَقِیَ مِنَ الثَّمَنِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٦٧١: حضرت حنش سے مروی ہے کہ ہم ایک غزوہ میں حضرت فضالہ (رض) کے ہمراہ تھے تو مجھے اور میرے ساتھیوں کو ایک ہار ملا جس میں سونا اور جواہرات تھے میں نے اس کو خریدنا چاہا تو حضرت فضالہ (رض) سے مسئلہ دریافت کیا انھوں نے فرمایا اس کا سونا الگ کر دو اور اسے ترازو کے ایک پلڑے میں رکھو اور دوسرے پلڑے میں بھی سونا رکھو پھر برابر برابر کر کے لو۔ اس کے علاوہ نہ لو کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ سونے کو سونے کے بدلے برابر کے علاوہ ہرگز نہ لے۔ یہ روایت پہلی روایات کے خلاف ہے کیونکہ اس میں یہ موجود ہے کہ حضرت فضالہ (رض) نے سونا اترانے اور اس کو الگ فروخت کرنے کا حکم فرمایا اور یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل نہیں کی جو کچھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا ہے اس میں سونے کے بدلے سونے کے برابر برابر کے علاوہ فروخت کی ممانعت ہے اس میں تو کسی کو کلام نہیں۔ البتہ سونے کو الگ کرنے کا حکم حضرت فضالہ (رض) کے اپنے قول سے ثابت ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے اس بات کا حکم اس لیے دیا ہو کہ ان کے ہاں ہار میں جڑے ہوئے سونے کا الگ کئے بغیر فروخت کر ان درست نہ ہو یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے اس کا حکم اس لیے دیا کہ وہ جانتے تھے کہ اس ہار میں جڑے ہوئے سونے کی مقدار کا عمل اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو الگ نہ کیا جائے۔ اس روایت میں اضطراب ہوا اور یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس کا مطلب کیا ہے پس جو شخص ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو دلیل بنائے گا مخالف دوسرے معنی والی روایت سے استدلال کرے گا۔ ہم نے اس باب میں قیاس کا طریقہ پہلے ذکر کر دیا ہے اور یہ ان لوگوں کے مسلک کے مطابق ہے جنہوں نے فروخت شدہ سونے کو دوسرے سونے کے مقابلے میں قرار دیا ہو۔ نہ یہ کہ قیمت کو ان دونوں چیزوں کی قیمت پر تقسیم کرنا بلکہ سونا قیمت میں سے اپنے ہم وزن سونے کے مقابل ہوگا اور جو باقی رہے گا وہ اس چیز کی قیمت ہوگی جو سونے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور یہی امام ابوحنیفہ ’ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

5673

۵۶۷۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ السَّبَائِیِّ ، عَنْ أَبِیْ تَمِیْمٍ الْجَیَشَانِیِّ ، قَالَ : اشْتَرٰی مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ قِلَادَۃً ، فِیْہَا تِبْرٌ ، وَزَبَرْجَدٌ ، وَلُؤْلُؤٌ ، وَیَاقُوْتٌ بِسِتِّمِائَۃِ دِیْنَارٍ .فَقَامَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ ، حِیْنَ طَلَعَ مُعَاوِیَۃُ الْمِنْبَرَ ، أَوْ حِیْنَ صَلَّی الظُّہْرَ ، فَقَالَ أَلَا اِنَّ مُعَاوِیَۃَ ، اِشْتَرَی الرِّبَا وَأَکَلَہٗ، أَلَا اِنَّہٗ فِی النَّارِ اِلٰی حَلْقِہٖ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ الْقِلَادَۃُ ، کَانَ فِیْہَا مِنَ الذَّہَبِ أَکْثَرَ ، مِمَّا اُشْتُرِیَتْ بِہٖ ، فَکَانَ مِنْ عُبَادَۃَ مَا کَانَ لِذٰلِکَ .وَیَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ بِیْعَتْ بِنَسِیْئَۃٍ ، فَاِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ مُعَاوِیَۃَ ، أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَرَی بِذٰلِکَ بَأْسًا .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ ، وَفِی السَّبَبِ الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ عُبَادَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْکَرَ عَلَی مُعَاوِیَۃَ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا أَنْکَرَ .
٥٦٧٢: حضرت ابو تمیم جیشانی سے مروی ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے ایک ہار جس میں سونا ‘ زبرجد ‘ جواہرات اور یاقوت جڑا ہوا تھا چھ سو دینار کے بدلے خریدا حضرت معاویہ منبر پر بیٹھے یا انھوں نے نماز ظہر ادا کی تو حضرت عبادہ بن صامت (رض) نے کھڑے ہو کر فرمایا سنو ! معاویہ نے سود کے طور پر سودا کیا اور اسے کھایا سنو ! وہ حلق تک جہنم میں ہوگا۔ یہ ممکن ہے کہ اس ہار میں جڑا ہوا سونا اس چھ سو دینار سے زہادہ ہو جس کے بدلے اس کو خریدا گیا تو حضرت عبادہ نے اسی وجہ سے یہ کلام فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے اسے ادھار کے طور پر خریدا گیا ہو اور حضرت معاویہ (رض) کے متعلق مروی ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے۔

5674

۵۶۷۳: مَا حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ ، عَنْ أَیُّوْبَ السِّخْتِیَانِیِّ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ قَالَ : کُنَّا فِیْ غَزَاۃٍ ، عَلَیْنَا مُعَاوِیَۃُ ، فَأَصَبْنَا ذَہَبًا وَفِضَّۃً ، فَأَمَرَ مُعَاوِیَۃُ رَجُلًا أَنْ یَبِیْعَہَا النَّاسُ فِیْ عَطِیَّاتِہِمْ .قَالَ : فَتَنَازَعَ النَّاسُ فِیْہَا ، فَقَامَ عُبَادَۃُ ، فَنَہَاہُمْ ، فَرَدُّوْہَا ، فَأَتَی الرَّجُلُ مُعَاوِیَۃَ فَشَکَا اِلَیْہِ .فَقَامَ مُعَاوِیَۃُ خَطِیْبًا فَقَالَ مَا بَالُ رِجَالٍ یُحَدِّثُوْنَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَادِیْثَ ، یَکْذِبُوْنَ فِیْہَا عَلَیْہِ، لَمْ نَسْمَعْہَا .فَقَامَ عُبَادَۃُ فَقَالَ : وَاللّٰہِ لَأُحَدِّثَنَّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاِنْ کَرِہَ مُعَاوِیَۃُ ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ ، وَلَا الْفِضَّۃَ بِالْفِضَّۃِ ، وَلَا الْبُرَّ بِالْبُرِّ ، وَلَا الشَّعِیْرَ بِالشَّعِیْرِ ، وَلَا التَّمْرَ بِالتَّمْرِ ، وَلَا الْمِلْحَ بِالْمِلْحِ ، اِلَّا سَوَائً بِسَوَائٍ ، یَدًا بِیَدٍ ، عَیْنًا بِعَیْنٍ .
٥٦٧٣: ابو قلابہ نے ابوالاشعث سے نقل کیا کہ ہم ایک غزوہ میں شامل تھے جس میں حضرت امیر معاویہ (رض) ہمارے سپہ سالار تھے ‘ ہمیں سونا چاندی حاصل ہوا حضرت معاویہ (رض) نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ لوگ اپنے عطیات کو فروخت کرلیں۔ چنانچہ لوگوں نے اس سلسلے میں باہمی نزاع کیا تو حضرت عبادہ (رض) کھڑے ہوئے اور ان کو اس سے منع فرمایا۔ لوگوں نے وہ اشیاء لوٹا دیں تو وہ آدمی حضرت معاویہ (رض) کے پاس آیا اور اس بات کی شکایت کی تو امیر معاویہ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ان لوگوں کا کیا حال ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسیسی احادیث بیان کرتے ہیں جن میں وہ آپ پر بہتان لگاتے ہیں ہم نے وہ نہیں سنی ہیں۔ اس پر حضرت عبادہ (رض) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں ضرور بیان کریں گے اگرچہ وہ معاویہ کو ناپسند ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ سونے کو سونے کے بدلے اور نہ چاندی کو چاندی کے بدلے اور نہ گندم کو گندم کے بدلے اور نہ جو کو جو کے بدلے اور نہ کھجور کو کھجور کے بدلے اور نہ نمک کو نمک کے بدلے فروخت کرومگر جب کہ وہ برابر ہوں اور دست بدست اور نقد بنقد ہوں۔

5675

۵۶۷۴: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ ، أَنَّہٗ قَالَ : قَدِمَ نَاسٌ فِیْ اِمَارَۃِ مُعَاوِیَۃَ ، یَبِیْعُوْنَ آنِیَۃَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ اِلَی الْعَطَائِ .فَقَامَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ ، فَقَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ بَیْعِ الْمُذَہَّبِ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ بِالْفِضَّۃِ ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ ، وَالشَّعِیْرِ بِالشَّعِیْرِ ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ ، اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، سَوَائً بِسَوَائٍ ، فَمَنْ زَادَ ، أَوْ ازْدَادَ ، فَقَدْ أَرْبَی .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ مِنْ اِنْکَارِ عُبَادَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی مُعَاوِیَۃَ ، وَہُوَ بَیْعُ الذَّہَبِ بِالذَّہَبِ ، اِلٰی أَجَلٍ ، لَا غَیْرَ ذٰلِکَ .وَأَمَّا الْقِلَادَۃُ ، الَّتِیْ فِیْہَا الذَّہَبُ الْمَبِیْعَۃُ بِالذَّہَبِ ، أَوْ الْقِلَادَۃُ الَّتِیْ فِیْہَا الْفِضَّۃُ الْمَبِیْعَۃُ بِالْفِضَّۃِ ، فَلَا دَلَالَۃَ فِیْمَا رَوَیْنَا عَنْہُ، عَلٰی حُکْمِ ذٰلِکَ اِذَا بِیْعَ بِأَکْثَرَ مِنْ وَزْنِ ذَہَبِہٖ أَوْ فِضَّتِہٖ، مِنَ الذَّہَبِ أَوْ الْفِضَّۃِ .
٥٦٧٤: ابو قلابہ نے ابوالاشعث صنعانی سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ (رض) کے زمانے میں کچھ لوگ آئے جو سونے اور چاندی کے برتن عطیات کے ملنے تک کے وعدے پر فروخت کرتے تھے حضرت عبادہ (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا بیشک جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کو سونے کے بدلے چاندی کو چاندی کے بدلے گندم کو گندم کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے فروخت کرنے سے منع فرمایا مگر جبکہ وہ دونوں برابر برابر ہوں جس نے زیادہ لیا دیا اس نے سود کھایا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں حضرت عبادہ (رض) کا حضرت معاویہ (رض) پر اعتراض سونے کو (ادھار) میعاد تک فروخت کرنے کی وجہ سے تھا اور کسی وجہ سے نہ تھا۔ جہاں تک اس ہار کا تعلق ہے جس میں جڑا ہوا سونا ‘ سونے کے بدلے فروخت کیا گیا یا وہ ہار جس میں جڑی ہوئی چاندی چاندی کے بدلے فروخت کی گئی ان روایات میں اس سے متعلق حکم پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ جب اس ہار کو اس سے زیادہ سونے یا اس کی چاندی سے زیادہ چاندی کے بدلے فروخت کیا جائے۔ اس مسئلہ میں تابعین کی رائے مختلف ہے

5676

۵۶۷۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلٰی، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : اشْتَرِ السَّیْفَ الْمُحَلَّی بِالْفِضَّۃِ .فَہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ أَجَازَ بَیْعَ السَّیْفِ ، الَّذِی حِلْیَتُہٗ فِضَّۃٌ ، بِفِضَّۃٍ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ التَّابِعِیْنَ ، اِخْتِلَافٌ.
٥٦٧٥: حضرت سعید بن جبیر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا چاندی سے مرصع تلوار کو چاندی کے بدلے خرید لو۔
حاصل : اس روایت میں ابن عباس (رض) اس مرصع تلوار کو چاندی کے بدلے حاصل کرنے کی اجازت فرمائی ہے۔

5677

۵۶۷۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حَیْوَۃُ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِیْ عِمْرَانَ أَنَّہٗ سَأَلَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ اشْتِرَائِ الثَّوْبِ الْمَنْسُوْجِ بِالذَّہَبِ، بِالذَّہَبِ ، فَقَالَا : لَا یَصْلُحُ اشْتِرَاؤُہٗ بِالذَّہَبِ .
٥٦٧٦: قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ سے سونے کے بدلے سونے سے بنا ہوا کپڑا خریدنے کے متعلق یہ دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا اس کو سونے کے بدلے خریدنا درست نہیں۔

5678

۵۶۷۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرٰی بَأْسًا ، أَنْ یَشْتَرِیَ ذَہَبًا بِذَہَبٍ ، أَوْ فِضَّۃً بِفِضَّۃٍ وَذَہَبٍ :
٥٦٧٧: عثمان بن اسود نے حضرت مجاہد (رح) سے نقل کیا ان کے ہاں اس میں حرج نہیں تھا کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے اور سونے کے بدلے فروخت کیا جائے۔

5679

۵۶۷۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرَیْ بَأْسًا ، أَنْ یُبَاعَ السَّیْفُ الْمُفَضَّضُ بِالدَّرَاہِمِ ، بِأَکْثَرَ مِمَّا فِیْہِ، تَکُوْنُ الْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ ، وَالسَّیْفُ بِالْفَضْلِ.
٥٦٧٨: مبارک نے حسن (رح) سے روایت ہے کہ ان کے ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ چاندی سے مرصع تلوار کو دراہم کے بدلے فروخت کیا جائے اس سے زیادہ جتنا اس میں ہو اور چاندی چاندی کے بدلے اور تلوار فضل کے بدلے ہے۔

5680

۵۶۷۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، أَنَّہٗ قَالَ فِیْ بَیْعِ السَّیْفِ الْمُحَلّٰی: اِذَا کَانَتِ الْفِضَّۃُ الَّتِیْ فِیْہِ، أَقَلَّ مِنَ الثَّمَنِ ، فَلَا بَأْسَ بِذٰلِکَ .
٥٦٧٩: ابو معشر نے ابراہیم سے روایت کی ہے انھوں نے چاندی سے مرصع تلوار کو چاندی کے بدلے فروخت میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہ چاندی قیمت والی چاندی سے کم ہو۔

5681

۵۶۸۰: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لَا بَأْسَ بِبَیْعِ السَّیْفِ الْمُحَلّٰی ، بِالدَّرَاہِمِ ؛ لِأَنَّ فِیْہِ حَمَائِلَہٗ وَجَفْنَہٗ وَنَصْلَہٗ۔
٥٦٨٠: حضرت حصین نے حضرت عامر شعبی (رح) سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں دراہم کے بدلے مرصع تلوار کو فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس میں اس کا پرتلہ ‘ میان اور پھل بھی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔