HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

9. غلام آزاد کرنے کا بیان

الطحاوي

4578

۴۵۷۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ دَاوٗدَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ عَبْدًا بَیْنَہُ وَبَیْنَ شُرَکَائِہٖ، قُوِّمَ عَلَیْہِ قِیْمَتُہٗ، وَعَتَقَ
٤٥٧٨: عمرو بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روایت کی ہے کہ جس نے ایسا غلام فروخت کیا جو مشترک ہے تو اس کے ذمہ اس کی قیمت ہوگی اور وہ غلام مکمل آزاد ہوجائے گا۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ٤‘ مسلم فی العتق ١‘ مسند احمد ٢‘ ١٠٥؍١٤٢۔

4579

۴۵۷۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ أَعْتَقَ جُزْئً ا لَہٗ مِنْ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ ، حُمِلَ عَلَیْہِ مَا بَقِیَ فِیْ مَالِہٖ ، حَتّٰی یَعْتِقُ کُلُّہُ جَمِیْعًا قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْعَبْدَ اِذَا کَانَ بَیْنَ رَجُلَیْنِ ، فَأَعْتَقَ أَحَدُہُمَا نَصِیْبَہٗ، ضَمِنَ قِیْمَۃَ نَصِیْبِ شَرِیْکِہِ مُوْسِرًا کَانَ أَوْ مُعْسِرًا وَقَالُوْا : قَدْ جُعِلَ الْعَتَاقُ مِنِ الشَّرِیْکِ ، جِنَایَۃً عَلٰی نَصِیْبِ شَرِیْکِہٖ، یَجِبُ عَلَیْہِ بِہَا ضَمَانُ قِیْمَتِہِ فِیْ مَالِہٖ ، وَکَأَنَّ مَنْ جَنَیْ عَلَی مَالٍ لِرَجُلٍ وَہُوَ مُوْسِرٌ أَوْ مُعْسِرٌ ، وَجَبَ عَلَیْہِ ضَمَانُ مَا أَتْلَفَ بِجِنَایَتِہٖ، وَلَمْ یَفْتَرِقْ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ کَانَ مُوْسِرًا أَوْ مُعْسِرًا ، فِیْ وُجُوْبِ الضَّمَانِ عَلَیْہِ قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ لَمَّا وَجَبَ عَلَی الشَّرِیْکِ ضَمَانُ قِیْمَۃِ نَصِیْبِ شَرِیْکِہِ لِعَتَاقِہٖ، لَمَّا کَانَ مُوْسِرًا ، وَجَبَ عَلَیْہِ ضَمَانُ ذٰلِکَ أَیْضًا اِذَا کَانَ مُعْسِرًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ الضَّمَانُ عَلَیْہِ لِقِیْمَۃِ نَصِیْبِ شَرِیْکِہِ لِعَتَاقِہِ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ مُوْسِرًا وَقَالُوْا : حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ہٰذَا، اِنَّمَا الضَّمَانُ الْمَذْکُوْرُ فِیْہِ، عَلَی الْمُوْسِرِ خَاصَّۃً ، دُوْنَ الْمُعْسِرِ ، قَدْ بُیِّنَ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ غَیْرِ ہٰذِہِ الْآثَارِ فَمَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ،
٤٥٧٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس شخص نے اپنے غلام یا لونڈی کا کوئی حصہ آزاد کردیا اس کا بقیہ مال (یعنی قیمت) اس پر ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ غلام مکمل آزاد ہوجائے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جب ایک غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دے تو وہ اپنے شریک کے حصہ کے مطابق قیمت کا ضامن ہوگا خواہ وہ مالدار ہو یا تنگ دست نیز یہ کہ ایک شریک کی طرف سے غلام کو آزاد کرنا دوسرے شریک کے حصہ میں جنایت و جرم قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے مال میں شریک کے حصہ کے مطابق قیمت کا ضمان ہوتا ہے اور جو آدمی کسی کے مال کو نقصان پہنچاتا ہے وہ مالدار ہو یا تنگدست اس پر اس چیز کی ضمان لازم آتی ہے جس مال کو اس نے جنایت کر کے ضائع کیا اور ان کے ہاں وجوب ضمان کے سلسلہ میں تنگدست اور مالدار میں کوئی فرق نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح جب غلام آزاد کرنے کی وجہ سے ایک شریک پر دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت بطور ضمان اس کے مالدار ہونے کی صورت میں لازم ہوتی ہے تو تنگدستی کی حالت میں بھی اسی طرح واجب ہوتی ہے۔ ان سے اختلاف کرتے ہوئے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ آزادی کی صورت میں شریک کے حصہ کی قیمت اسی صورت میں لازم ہوگی جب وہ خوش حال ہو۔ انھوں نے کہا کہ روایت ابن عمر (رض) میں مذکورہ ضمان خوش حال ہونے کی حالت میں مذکور ہے تنگ دست ہونے کی حالت اس میں داخل نہیں اور یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود ابن عمر (رض) کی دوسری روایت میں مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جب ایک غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دے تو تو وہ اپنے شریک کے حصہ کے مطابق قیمت کا ضامن ہوگا خواہ وہ مالدار ہو یا تنگ دست نیز یہ کہ ایک شریک کی طرف سے غلام کو آزاد کرنا دوسرے شریک کے حصہ میں جنایت و جرم قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے مال میں شریک کے حصہ کے مطابق قیمت کا ضمان ہوتی ہے اور جو آدمی کسی کے مال کو نقصان پہنچاتا ہے وہ مالدار ہو یا تنگدست اس پر اس چیز کی ضمان لازم آتی ہے جس مال کو اس نے جنایت کر کے ضائع کیا اور ن کے ہاں وجوب ضمان کے سلسلہ میں تنگدست اور مالدار میں کوئی فرق نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ اسی طرح جب غلام آزاد کرنے کی وجہ سے ایک شریک پر دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت بطور ضمان اس کے مالدار ہونے کی صورت میں لازم ہوتی ہے تو تنگدستی کی حالت میں بھی اسی طرح واجب ہوتی ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کہتے ہیں کہ آزادی کی صورت میں شریک کے حصہ کی قیمت اسی صورت میں لازم ہوگی جب وہ خوش حال ہو۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : روایت ابن عمر (رض) میں مذکورہ ضمان خوش حال ہونے کی حالت میں مذکور ہے تنگ دست ہونے کی حالت اس میں داخل نہیں اور یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود ابن عمر (رض) کی دوسری روایت میں مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4580

۴۵۸۰: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ شِرْکًا لَہُ فِیْ عَبْدٍ ، فَکَانَ لَہُ مَالٌ یَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ ، قُوِّمَ عَلَیْہِ قِیْمَۃُ الْعَبْدِ ، فَأَعْطَی شُرَکَائَ ہُ حِصَصَہُمْ ، وَعَتَقَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ وَاِلَّا فَقَدْ عَتَقَ عَلَیْہِ مَا عَتَقَ
٤٥٨٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس آدمی نے غلام مشترک میں اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنی رقم ہو جو غلام کی قیمت کو پہنچ سکے تو غلام کی قیمت کا اندازہ کر کے وہ اپنے شرکاء کو ان کا حصہ ادا کرے یہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہوجائے گا ورنہ اس کی طرف سے اتنا ہی آزاد ہوگا جتنا وہ آزاد کرے گا۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ٤‘ واشر کہ باب ٥‘ مسلم فی العتق ١‘ والایمان ٤٧؍٤٨‘ ابو داؤد فی العتاق باب ٦‘ ترمذی فی الاحکام باب ١٤‘ ابن ماجہ فی العتق باب ٧‘ مسند احمد ٢؍١٥‘ ٧٧‘ ١١٢‘ ١٥٦؍١٤٢۔

4581

۴۵۸۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ شِرْکًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ ، وَکَانَ لِلَّذِیْ یَعْتِقُ نَصِیْبُہُ مَا یَبْلُغُ ثَمَنَہٗ، فَہُوَ عَتِیْقٌ کُلُّہُ
٤٥٨١: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اپنے مشترک غلام کو آزاد کیا اور وہ جو اپنا حصہ آزاد کررہا ہے اس کے پاس اگر اتنی رقم ہو جو غلام کی قیمت کو پہنچتی ہو تو وہ غلام تمام کا تمام آزاد ہوجائے گا۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ٤‘ نسائی فی البیوع باب ١٠٦‘ مسند احمد ٢؍١٥۔

4582

۴۵۸۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَعْتَقَ شِرْکًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ ، فَعَلَیْہِ عِتْقُہُ کُلِّہٖ، اِنْ کَانَ لَہُ مَالٌ یَبْلُغُ ثَمَنَہٗ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَالٌ ، فَیُقَوَّمُ قِیْمَۃَ عَدْلٍ عَلَی الْمُعْتِقِ ، وَقَدْ عَتَقَ بِہٖ مَا عَتَقَ
٤٥٨٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اپنا مشترک غلام فروخت کیا تو اس پر لازم ہے کہ اس سارے کو آزاد کرے بشرطیکہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی قیمت کو پہنچ سکتا ہو اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو پھر غلام کی قیمت لگائی جائے اور یہ انصاف والی قیمت آزاد کرنے والے کے ذمہ ہوگی اور جتنا اس نے آزاد کیا وہ اتنا ہی آزاد ہوگا۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ٤؍١٧‘ مسلم فی الایمان ٤٨‘ ابو داؤد فی العتاق باب ٦‘ مسند احمد ٦؍٥٣‘ ١٤٢۔

4583

۴۵۸۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَعْتَقَ شِرْکًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ ، فَقَدْ عَتَقَ کُلُّہٗ، فَاِنْ کَانَ لِلَّذِی أَعْتَقَہٗ مِنَ الْمَالِ مَا یَبْلُغُ ثَمَنَہٗ، فَعَلَیْہِ عِتْقُہُ کُلِّہِ
٤٥٨٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے مشترک غلام آزاد کیا تو گویا وہ تمام آزاد ہوگیا اگر آزاد کرنے والے کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی قیمت کو پہنچ سکتا ہو۔ تو غلام کو پورا آزاد کرنا اس پر لازم ہوگیا۔
سابقہ تخریج کو ملاحظہ فرمائیں۔

4584

۴۵۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُفْتِیْ فِی الْعَبْدِ أَوْ الْأَمَۃِ ، یَکُوْنُ أَحَدُہُمَا بَیْنَ شُرَکَائَ ، فَیُعْتِقُ أَحَدُہُمْ نَصِیْبَہٗ مِنْہٗ، فَاِنَّہٗ یَجِبُ عِتْقُہُ عَلَی الَّذِی أَعْتَقَہُ اِذَا کَانَ لَہٗ مِنَ الْمَالِ مَا یَبْلُغُ ثَمَنَہُ یُقَوَّمُ فِیْ مَالِہِ قِیْمَۃَ عَدْلٍ، فَیَدْفَعُ اِلَی شُرَکَائِہٖ أَنْصِبَائَ ہُمْ ، وَیُخَلِّیْ سَبِیْلَ الْعَبْدِ ، یُخْبِرُ بِذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٤٥٨٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) اس غلام یا لونڈی کے متعلق فتویٰ دیتے جو مشترک ہو اور ایک شریک اپنا حصہ آزاد کر دے۔ تو اب جس نے آزاد کیا اسے سارے غلام کو آزاد کرنا لازم ہوگیا جبکہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی قیمت تک پہنچ سکتا ہو۔ چنانچہ انصاف سے اس کے مال میں قیمت لگائی جائے اور اس کے شرکاء کو ان کے حصہ جات ادا کرے اور غلام کا راستہ چھوڑ دے اور عبداللہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے اسی طرح سنا ہے۔

4585

۴۵۸۵: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا کَانَ الْعَبْدُ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، فَأَعْتَقَ أَحَدُہُمَا نَصِیْبَہٗ، فَاِنْ کَانَ مُوْسِرًا ، فَاِنَّہٗ یُقَوَّمُ عَلَیْہِ بِأَعْلَی الْقِیْمَۃِ ، ثُمَّ یَعْتِقُ قَالَ سُفْیَانُ : وَرُبَّمَا قَالَ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ قِیْمَۃَ عَدْلٍ ، لَا وَکْسَ فِیْہَا وَلَا شَطَطَ .فَثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، أَنَّ مَا رَوَاہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ، اِنَّمَا ہُوَ فِی الْمُوْسِرِ خَاصَّۃً .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ عَتَاقِ الْمُعْسِرِ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَقَالَ قَائِلُوْنَ : قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْہُ مَا عَتَقَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا بَقِیَ مِنَ الْعَبْدِ لَمْ یَدْخُلْہُ عَتَاقٌ ، فَہُوَ رَقِیْقٌ لِلَّذِی لَمْ یُعْتِقْ عَلٰی حَالِہِ وَخَالَفَہُمْ آخَرُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یَسْعَی الْعَبْدُ فِیْ نِصْفِ قِیْمَتِہِ لِلَّذِی لَمْ یُعْتِقْہُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَدْ رَوَیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَمَا رَوَاہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَزَادَ عَلَیْہِ شَیْئًا بَیَّنَ بِہٖ کَیْفَ حُکْمُ مَا بَقِیَ مِنَ الْعَبْدِ بَعْدَ نَصِیْبِ الْمُعْتِقِ
٤٥٨٥: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا جب غلام میں دو شریک ہوں ان میں سے ایک نے اپنا حصہ آزاد کردیا اگر وہ خوش حال ہے تو غلام کی اعلیٰ قیمت لگائی جائے گی پھر وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔ سفیان کہتے ہیں عمرو بن دینار نے بعض اوقات قیمت عدل ” لاوکس فیہا ولا شطط “ کہا کہ انصاف والی قیمت لگائی جائے نہ کم نہ زیادہ کے لفظ استعمال کئے۔ ان روایات نے یہ ثابت کردیا کہ ابن عمر (رض) کی ابتداء باب میں مذکورہ روایات میں عتاق موسر کا تذکرہ ہے۔ اب ہم عتاق معسر کا حکم دیکھنا چاہیں گے کہ وہ کیا ہے تو کہنے والوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر وہ خوشحال نہیں تو اس نے جتنا آزاد کیا آزاد ہوجائے گا اس سے ثابت ہوا کہ غلام کا جو حصہ باقی ہے اس پر آزادی کا اثر نہیں ہوا پس جس نے حصہ آزاد نہیں کیا وہ اس کا اسی طرح غلام رہے گا۔ غلام دوسرے شریک کے لیے جس نے آزاد نہیں کیا سعی کرے گا (اور کما کر قیمت کا بقیہ حصہ ادا کرے گا) اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے جیسا کہ ابن عمر (رض) نے اس کو روایت کیا اور اس میں کچھ اضافہ نقل کیا ہے جس میں آزاد کرنے والے کے آزاد کرنے کے بعد بقیہ حصہ داروں کے حصہ کا حکم واضح بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ٤‘ مسلم فی الایمان ٥‘ ابو داؤد فی العتاق باب ٦‘ ترمذی فی البیوع باب ٦٥‘ مسند احمد ٢؍١١۔
حاصل روایات ان روایات نے یہ ثابت کردیا کہ ابن عمر (رض) کی ابتداء باب میں مذکورہ روایات میں عتاق موسر کا تذکرہ ہے۔
عتاق معسر کا حکم :
اب ہم عتاق معسر کا حکم دیکھنا چاہیں گے۔
فریق اوّل کا مؤقف : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر وہ خوشحال نہیں تو اس نے جتنا آزاد کیا آزاد ہوجائے گا اس سے ثابت ہوا کہ غلام کا جو حصہ باقی ہے اس پر آزادی کا اثر نہیں ہوا پس جس نے حصہ آزاد نہیں کیا وہ اس کا اسی طرح غلام رہے گا۔
فریق ثانی کا مؤقف : غلام دوسرے شریک کے لیے جس نے آزاد نہیں کیا سعی کرے گا (اور کما کر قیمت کا بقیہ حصہ ادا کرے گا) اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے جیسا کہ ابن عمر (رض) نے اس کو روایت کیا اور اس میں کچھ اضافہ نقل کیا ہے جس میں آزاد کرنے والے کے آزاد کرنے کے بعد بقیہ حصہ داروں کے حصہ کا حکم واضح بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4586

۴۵۸۶: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ نَہِیْکٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ نَصِیْبًا أَوْ شِرْکًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ ، فَعَلَیْہِ خَلَاصُہُ کُلِّہِ فِیْ مَالِہٖ ، فَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَالٌ ، اُسْتُسْعِیَ الْعَبْدُ غَیْرُ مَشْقُوْقٍ عَلَیْہِ
٤٥٨٦: بشیر بن نھیک نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس آدمی نے اپنا حصہ یا غلام میں شراکت کو آزاد کردیا تو اس پر لازم ہوگیا کہ وہ تمام کو اپنے مال میں سے آزاد کرائے اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام کمائی کرے مگر اس پر اتنا کام ڈالا جائے جتنا وہ کرسکے۔
لغات : استسعاء۔ کمانا۔ غیر مشقوق علیہ۔ اس پر سخت کام نہ ڈالا جائے۔

4587

۴۵۸۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٥٨٧: ابان بن یزید نے قتادہ سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی۔

4588

۴۵۸۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٥٨٨: جریر بن حازم نے قتادہ سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4589

۴۵۸۹: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٥٨٩: حجاج بن ارطاۃ نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

4590

۴۵۹۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٥٩٠: سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

4591

۴۵۹۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، وَیَحْیَی بْنِ صُبَیْحٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، فِیْہِ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، وَفِیْہِ وُجُوْبُ السِّعَایَۃِ عَلَی الْعَبْدِ ، اِذَا کَانَ مُعْتِقُہُ مُعْسِرًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،
٤٥٩١: سعید بن ابی عروبہ اور یحییٰ بن صبیح نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کا مضمون ابن عمر (رض) کی روایت کے مضمون سے ملتا جلتا ہے اس میں یہ ہے کہ غلام پر کمائی لازم ہے جبکہ اس کا آزاد کرنے والا تنگ دست ہو اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزید روایات بھی ہیں۔
حاصل روایت : اس روایت کا مضمون ابن عمر (رض) کی روایت کے مضمون سے ملتا جلتا ہے اس میں یہ ہے کہ غلام پر کمائی لازم ہے جبکہ اس کا آزاد کرنے والا تنگ دست ہو۔
اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزید روایات بھی ہیں۔

4592

۴۵۹۲: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیْحِ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ شِقْصًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ ، فَأَعْتَقَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّہٗ عَلَیْہِ، وَقَالَ لَیْسَ لِلّٰہِ شَرِیْکٌ ۔
٤٥٩٢: ابوالملیح نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے اپنے غلام کا ایک حصہ آزاد کردیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلام کو مکمل طور پر آزاد کردیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی العتاق باب ٤‘ مسند احمد ٥؍٧٤‘ ٧٥۔

4593

۴۵۹۳: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَدَلَّ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ لِلّٰہِ شَرِیْکٌ عَلٰی أَنَّ الْعَتَاقَ اِذَا وَجَبَ بِہٖ بَعْضُ الْعَبْدِ لِلّٰہٖ، انْتَفَی أَنْ یَکُوْنَ لِغَیْرِہِ عَلَی بَقِیَّتِہِ مِلْکٌ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ اِعْتَاقَ الْمُوْسِرِ وَالْمُعْسِرِ جَمِیْعًا یُبْرِئَانِ الْعَبْدَ مِنَ الرِّقِّ .فَقَدْ وَافَقَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا حَدِیْثَ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَزَادَ حَدِیْثُ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَلَیْہِ، وَعَلٰی حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وُجُوْبَ السِّعَایَۃِ لِلشَّرِیْکِ الَّذِی لَمْ یُعْتِقْ ، اِذَا کَانَ الْمُعْتَقُ مُعْسِرًا فَتَصْحِیْحُ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، یُوْجِبُ الْعَمَلَ بِذٰلِکَ ، وَیُوْجِبُ الضَّمَانَ عَلَی الْمُعْتِقِ الْمُوْسِرِ لِشَرِیْکِہٖ، الَّذِی لَمْ یُعْتِقْ ، وَلَا یُوْجِبُ الضَّمَانَ عَلَی الْمُعْتِقِ الْمُعْسِرِ ، وَلٰـکِنَّ الْعَبْدَ یَسْعَی فِیْ ذٰلِکَ لِلشَّرِیْکِ الَّذِی لَمْ یُعْتِقْ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا ، وَبِہٖ نَأْخُذُ فَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَکَانَ یَقُوْلُ : اِنْ کَانَ الْمُعْتِقُ مُوْسِرًا ، فَالشَّرِیْکُ بِالْخِیَارِ ، اِنْ شَائَ أَعْتَقَ کَمَا أَعْتَقَ وَکَانَ الْوَلَائُ بَیْنَہُمَا نِصْفَیْنِ .وَاِنْ شَائَ اسْتَسْعَی الْعَبْدَ فِیْ نِصْفِ الْقِیْمَۃِ ، فَاِذَا أَدَّاہَا عَتَقَ ، وَکَانَ الْوَلَائُ بَیْنَہُمَا نِصْفَیْنِ وَاِنْ شَائَ ضَمِنَ الْمُعْتِقُ نِصْفَ الْقِیْمَۃِ ، فَاِذَا أَدَّاہَا عَتَقَ وَرَجَعَ بِہَا الْمُضَمَّنُ عَلَی الْعَبْدِ فَاسْتَسْعَاہُ فِیْہَا ، وَکَانَ وَلَاؤُہُ لِلْمُعْتِقِ وَاِنْ کَانَ الْمُعْتِقُ مُعْسِرًا ، فَالشَّرِیْکُ بِالْخِیَارِ ، اِنْ شَائَ أَعْتَقَ ، وَاِنْ شَائَ اسْتَسْعَی الْعَبْدَ فِیْ نِصْفِ قِیْمَتِہٖ، فَأَیُّہُمَا فَعَلَ ، فَالْوَلَائُ بَیْنَہُمَا نِصْفَانِ .وَاحْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ
٤٥٩٣: ابو عمرالحوضی نے ہمام سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” لیس اللہ شریک “ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب عتاق کے ذریعہ غلام کا بعض حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے لازم ہوجائے تو اس کے بقیہ حصہ پر دوسرے کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تنگ دست کا آزاد اور خوشحال کا آزاد دونوں ہی غلام کو غلامی سے بری کردیتے ہیں۔ پس یہ روایت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے موافق ہے اور ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اس پر اضافہ ہے کہ ابن عمر (رض) کی روایت میں تو غلام پر سعی کو لازم قرار دیا گیا تاکہ اس شریک کو وہ رقم ادا کرے جس نے آزاد نہیں کیا یہ اس وقت ہے جبکہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو۔ پس ان آثار کی تصحیح کا تقاضا یہ ہے کہ عمل کو لازم قرار دیا جائے اور خوشحال آزاد کرنے والے پر اپنے شریک کا ضمان لازم کیا جائے جس نے آزاد نہیں کیا اور تنگ دست معتق پر ضمان کو لازم نہ کیا جائے لیکن غلام اس دوران آزاد نہ کرنے والے شریک کے لیے کما کر وہ رقم ادا کرے اور یہ امام ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ اگر آزاد کرنے والا خوشحال ہو تو شریک کو اختیار ہے اگر چاہے تو اس کو آزاد کر دے جیسا دوسرے نے آزاد کیا اور ولاء دونوں میں مشترک رہے گی اور اگر پسند کرے تو نصف قیمت میں غلام کمائی کرے۔ جب وہ قیمت ادا کر دے گا تو وہ آزاد ہوجائے گا اور ولاء دونوں میں نصفا نصف ہوگی۔ اگر آزاد کرنے والا تنگدست ہو تو شریک کو اختیار ہے اگر چاہے تو آزاد کر دے اور اگر چاہے تو غلام سے نصف قیمت میں کمائی کرائے ان میں جو بھی کرے اس کو اختیار ہے اور ولاء دونوں میں نصفا نصف ہوگی اس کی دلیل یہ روایت ہے جس کو عبدالرحمن بن یزید نے نقل کیا۔
حاصل روایت : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” لیس اللہ شریک “ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب عتاق کے ذریعہ غلام کا بعض حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے لازم ہوجائے تو اس کے بقیہ حصہ پر دوسرے کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تنگ دست کا آزاد اور خوشحال کا آزاد دونوں ہی غلام کو غلام سے بری کردیتے ہیں۔ پس یہ روایت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے موافق ہے اور ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اس پر اضافہ ہے کہ ابن عمر (رض) کی روایت میں تو غلام پر سعی کو لازم قرار دیا گیا تاکہ اس شریک کو وہ رقم ادا کرے جس نے آزاد نہیں کیا یہ اس وقت ہے جبکہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو۔
پس ان آثار کی تصحیح کا تقاضا یہ ہے کہ عمل کو لازم قرار دیا جائے اور خوشحال آزاد کرنے والے پر اپنے شریک کا ضمان لازم کیا جائے جس نے آزاد نہیں کیا اور تنگ دست معتق پر ضمان کو لازم نہ کیا جائے لیکن غلام اس دوران آزاد نہ کرنے والے شریک کے لیے کما کر وہ رقم ادا کرے اور یہ امام ابو یوسف و محمر (رح) کا قول ہے اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ (رح) کا قول : اگر آزاد کرنے والا خوشحال ہو تو شریک کو اختیار ہے اگر چاہے تو اس کو آزاد کر دے جیسا دوسرے نے آزاد کیا اور ولاء دونوں میں مشترک رہے گی اور اگر پسند کرے تو نصف قیمت میں غلام کمائی کرے۔ جب وہ قیمت ادا کر دے گا تو وہ آزاد ہوجائے گا اور ولاء دونوں میں نصفا نصف ہوگی۔
اگر آزاد کرنے والا تنگدست ہو تو شریک کو اختیار ہے اگر چاہے تو آزاد کر دے اور اگر چاہے تو غلام سے نصف قیمت میں کمائی کرائے ان میں جو بھی کرے اس کو اختیار ہے اور ولاء دونوں میں نصفا نصف ہوگی اس کی دلیل یہ روایت ہے جس کو عبدالرحمن بن یزید نے نقل کیا۔

4594

۴۵۹۴: بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، قَالَ : کَانَ لَنَا غُلَامٌ قَدْ شَہِدَ الْقَادِسِیَّۃَ فَأَبْلَی فِیْہَا ، وَکَانَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ أُمِّی وَبَیْنَ أَخِی الْأَسْوَدِ ، فَأَرَادُوْا عِتْقَہٗ، وَکُنْتُ یَوْمَئِذٍ صَغِیْرًا ، فَذَکَرَ ذٰلِکَ الْأَسْوَدُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَقَالَ أَعْتِقُوْا أَنْتُمْ ، فَاِذَا بَلَغَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، فَاِنْ رَغِبَ فِیْمَا رَغِبْتُمْ أَعْتَقَ ، وَاِلَّا ضَمِنَکُمْ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بَعْدَ بُلُوْغِہِ أَنْ یُعْتِقَ نَصِیْبَہُ مِنَ الْعَبْدِ الَّذِیْ قَدْ کَانَ دَخَلَہُ عَتَاقُ أُمِّہِ وَأَخِیْہِ قَبْلَ ذٰلِکَ .فَأَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ قَالَ : فَلَمَّا کَانَ لَہٗ أَنْ یُعْتِقَ بِلَا بَدَلٍ ، کَانَ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ الْعَبْدَ بِأَدَائِ قِیْمَۃِ مَا بَقِیَ لَہُ فِیْہِ حَتّٰی یَعْتِقَ بِأَدَائِ ذٰلِکَ اِلَیْہِ وَلَمَّا کَانَ لِلَّذِی لَمْ یُعْتِقْ ، أَنْ یُعْتِقَ نَصِیْبَہُ مِنَ الْعَبْدِ ، فَضَمِنَ الشَّرِیْکُ الْمُعْتِقُ ، رَجَعَ اِلَی ہٰذَا الْمُضَمَّنِ مِنْ ہٰذَا الْعَبْدِ ، مِثْلُ مَا کَانَ الَّذِی ضَمِنَہٗ، فَوَجَبَ لَہٗ أَنْ یَسْتَسْعِیَ الْعَبْدَ فِیْ قِیْمَۃِ مَا کَانَ لِصَاحِبِہٖ فِیْہِ، وَفِیْمَا کَانَ لِصَاحِبِہٖ أَنْ یَسْتَسْعِیَہُ فِیْہِ .فَہٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ الَّذِیْ ذٰہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ أَصَحُّ الْقَوْلَیْنِ عِنْدَنَا ، لِمُوَافَقَتِہِ لِمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٤٥٩٤: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ہمارا ایک غلام تھا وہ قادسیہ میں حاضر ہوا اور وہاں خوب جوہر دکھائے وہ میرے اور میری والدہ اور اسود کے درمیان مشترک تھا۔ انھوں نے آزاد کرنے کا ارادہ کیا میں اس وقت چھوٹا تھا۔ اسود نے یہ بات جناب عمر (رض) کی خدمت میں ذکر کی تو انھوں نے فرمایا تم اس کو آزاد کر دو ۔ جب عبدالرحمن بالغ ہوگا اگر اس کو بھی آزاد کرنے کی رغبت ہوئی تو وہ آزاد ہوجائے گا ورنہ وہ اپنے حصہ کے مطابق قیمت کا ضمان تم سے لے لے گا۔ اس روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بلوغت کے بعد اپنا حصہ غلام سے آزاد کر دے گا جس پر والدہ اور بھائی کی طرف سے عتاق پہلے داخل ہوچکا ہے پس ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں جب اس کو بلابدل آزاد کرنے کا حق ہے تو اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ غلام کو اس قیمت کو ادا کر کے لے لے جو اس کی باقی ہے تاکہ وہ اس قیمت کو ادا کر کے وہ آزاد ہوجائے۔ جبکہ وہ شخص جس نے آزاد نہیں کیا اس کو حق حاصل ہے کہ وہ غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کرے تو آزاد کرنے والا شریک کو ضمان دے گا اور یہ ضمان دینے والا اس مال کے لیے غلام کی طرف رجوع کرے گا جو کہ اس نے بطور ضمان دیا ہے تو اس کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ غلام سے قیمت کے مطابق محنت و مشقت کروائے۔ جو اس کے مالک کے لیے اس پر واجب ہوئی ہے۔ مالک کو قیمت ادا کرنے کے لیے اس غلام سے کمائی کروائے اس سلسلہ میں یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے اور پہلا قول جس کو ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے وہ دونوں میں سے صحیح ترین قول ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہونے والی کثیر روایات کے موافق ہے۔ واللہ اعلم۔
حاصل روایت : اس باب میں عتق موسر اور عتق معسر دونوں مسائل کو ذکر کیا عتق معسر میں صاحبین کے قول کو ترجیح دی اور روایات سے اس کو قریب ترین قرار دیا اور اسی کو طحاوی (رح) نے خود اختیار کیا۔

4595

۴۵۹۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَجْزِی وَلَدٌ وَالِدَہُ اِلَّا أَنْ یَجِدَہُ مَمْلُوْکًا ، فَیَشْتَرِیَہُ فَیُعْتِقَہُ .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسَی ، عَنْ سُفْیَانَ ، ہُوَ الثَّوْرِیُّ .ح
٤٥٩٥: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کوئی لڑکا اپنے والد کا حق ادا نہیں کرسکتا سوائے اس صورت کے کہ اس کو مملوک پائے پھر خرید کر آزاد کر دے۔
تخریج : مسلم فی العتق ٢٥‘ ابو داؤد فی الادب باب ١٢٠‘ ترمذی فی البر باب ٨‘ ابن ماجہ فی الادب باب ١‘ مسند احمد ٢؍٢٣٠‘ ٣٧٦؍٤٤٥۔
فریق اوّل کا مؤقف یہ ہے کہ جو اپنے ذی رحم کا مالک بن جائے وہ آزاد کرنے کے بغیر آزاد نہ ہوگا۔ اس کی دلیل میں مندرجہ روایت کو پیش کیا گیا ہے۔

4596

۴۵۹۶: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٥٩٦: سفیان نے سہیل سے روایت کی پھر اس نے اپنی اسناد سے روایت کو اسی طرح ذکر کیا۔

4597

۴۵۹۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنْ مَلَکَ أَبَاہٗ، لَمْ یَعْتِقْ عَلَیْہِ، حَتَّی یُعْتِقَہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : یَعْتِقُ عَلَیْہِ بِمِلْکِہِ اِیَّاہُ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰذَا، یَحْتَمِلُ مَا قَالُوْا ، وَیَحْتَمِلُ فَیَشْتَرِیَہُ فَیُعْتِقَہُ بِشِرَائِہِ ہَذَا فِی الْکَلَامِ صَحِیْحٌ وَہُوَ أَوْلَی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ، ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، حَتّٰی یَتَّفِقَ ہُوَ وَغَیْرُہٗ، مِمَّا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْمَعْنَی .
٤٥٩٧: زہیر بن معاویہ نے سہیل سے پھر اس نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی جو شخص اپنے باپ کا مالک بن جائے تو وہ اس پر آزاد نہ ہوگا جب تک کہ وہ خود آزاد نہ کرے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالک بنتے ہی وہ خودبخود آزاد ہوجائے گا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” فیشتریہ فیعتقہ “ اس میں دو احتمال ہیں۔ ایک جو آپ نے ذکر کیا۔ دوسرا احتمال یہ ہے پس وہ اس کو خریدے پس وہ اس کے خریدنے سے آزاد ہوجائے گا کلام کے اعتبار سے یہ درست ہے اور اسی معنی پر محمول کرنے سے یہ روایت دیگر روایات کے موافق ہوجائے گی جو اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں۔ اس معنی کی مستدل روایات یہ ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ شخص اپنے باپ کا مالک بن جائے وہ اس پر آزاد نہ ہوگا جب تک کہ وہ خود آزاد نہ کرے۔
فریق ثانی کا مؤقف : مالک بنتے ہی وہ خودبخود آزاد ہوجائے گا۔
فریق اوّل کی دلیل کا جواب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” فیشتریہ فیعتقہ “ اس میں دو احتمال ہیں۔ ایک جو آپ نے ذکر کیا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ اس کو خریدے پس وہ اس کے خریدنے سے آزاد ہوجائے گا کلام کے اعتبار سے یہ درست ہے اور اسی معنی پر محمول کرنے سے یہ روایت دیگر روایات کے موافق ہوجائے گی جو اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں۔
فریق ثانی کی مستدل روایات آگے ملاحظہ ہوں۔

4598

۴۵۹۸: فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَیْرٍ بْنُ النَّحَّاسِ ، قَالَ : ثَنَا ضَمْرَۃُ ، عَنْ سُفْیَانِ الثَّوْرِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَلَکَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَہُوَ حُرٌّ
٤٥٩٨: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی ذی رحم محرم کا مالک بن گیا وہ آزاد ہے۔
لغات : ذارحم۔ قرابت دار۔
تخریج : ابو داؤد فی العتاق باب ٧‘ ترمذی فی الاحکام باب ٢٨‘ ابن ماجہ فی العتق باب ٥۔

4599

۴۵۹۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، وَعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِیَاثٍ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ مَلَکَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَہُوَ حُرٌّ
٤٥٩٩: حسن نے سمرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ذی رحم رشتہ دار کا مالک بن گیا پس وہ آزاد ہے۔
تخریج : تخریج ٤٥٩٨ کو دیکھیں۔

4600

۴۶۰۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ .ح
٤٦٠٠: محمد بن خزیمہ نے حجاج سے روایت کی۔

4601

۴۶۰۱: وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہِ
٤٦٠١: اسد نے حماد بن سلمہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

4602

۴۶۰۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَخْلَدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلْمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ مَلَکَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَہُوَ حُرٌّ فَتَصْحِیْحُ حَدِیْثَیْ سَمُرَۃَ ہٰذَیْنِ ، یُوْجِبُ أَنَّ ذَا الرَّحِمِ الْمَذْکُوْرِ فِیْہِمَا ، ہُوَ ذُو الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ ، وَأَنَّ ذَا الرَّحِمِ الْمَذْکُوْرِ فِیْہِمَا ، ہُوَ ذُو الْمَحْرَمِ مِنَ الرَّحِمِ ، فَیَکُوْنُ مَعْنَاہُمَا لِمَا جُمِعَ مَا فِیْہِمَا ، ہُوَ مِثْلُ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَنْ مَلَکَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ ، فَہُوَ حُرٌّ .وَقَدْ بَلَغَنِیْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ بَکْرٍ الْبُرْسَانِیَّ کَانَ یُحَدِّثُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ مَلَکَ ذَا رَحِمٍ مِنْ ذِیْ مَحْرَمٍ ، فَہُوَ حُرٌّ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ وَقَدْ رُوِیَ عَمَّنْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِہٖ وَتَابِعِیْہِمْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، مَا یُوَافِقُ ہَذَا أَیْضًا
٤٦٠٢: قتادہ نے حسن سے انھوں نے سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ذی رحم رشتہ کا مالک بن گیا وہ آزاد ہے۔ پس حضرت سمرہ (رض) کی ان دونوں روایات کی تصحیح سے یہ لازم آتا ہے کہ ان روایات میں جس ذو رحم کا تذکرہ ہے اس نے ذو رحم محرم مراد ہے (جس سے نکاح حرام ہو) تو جب دونوں روایتوں کے الفاظ کو جمع کیا جائے تو پھر یہ ابن عمر (رض) کی روایت کی طرح بن جائے گی ” من ملک ذورحم محرم فہو حر “ جو شخص ذی رحم محرم کا مالک بن جائے تو وہ مملوک آزاد ہوجائے گا اور مجھے محمد بن بکر برسانی محدث (رح) کی یہ بات پہنچی کہ وہ اس روایت کو عاصم احول عن حسن عن سمرہ (رض) اس طرح بیان کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ من ملک ذا رحم محرم فہو حر “ تو اب اس سند سے روایت سمرہ (رض) بھی بعینہ روایت ابن عمر (رض) کی طرح ہوگئی۔
تشریح امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت سمرہ (رض) کی ان دونوں روایات کی تصحیح سے یہ لازم آتا ہے کہ ان روایات میں جس ذو رحم کا تذکرہ ہے اس نے ذو رحم محرم مراد ہے (جس سے نکاح حرام ہو) تو جب دونوں روایتوں کے الفاظ کو جمع کیا جائے تو پھر یہ ابن عمر (رض) کی روایت کی طرح بن جائے گی ” من ملک ذارحم محرم فہو حر “ جو شخص ذی رحم محرم کا مالک بن جائے تو وہ مملوک آزاد ہوجائے گا اور مجھے محمد بن بکر برسانی محدث (رح) کی یہ بات پہنچی کہ وہ اس روایت کو عاصم احول عن حسن عن سمرہ (رض) اس طرح بیان کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ من ملک ذا رحم محرم فہو حر “ تو اب اس سند سے روایت سمرہ (رض) بھی بعینہ روایت ابن عمر (رض) کی طرح ہوگئی۔
صحابہ (رض) وتابعین (رح) کے اقوال سے توثیق :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ ‘ تابعین سے اس کے موافق اقوال منقول ہیں۔ ملاحظہ ہوں :

4603

۴۶۰۳: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، قَالَ : مَنْ مَلَکَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ ، فَہُوَ حُرٌّ
٤٦٠٣: ابراہیم نے اسود سے انھوں نے عمر (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ” من ملک ذا رحم محرم فہو حر “ جو ذی رحم رشتہ دار کا مالک بنا وہ اس پر آزاد ہوجائے گا۔

4604

۴۶۰۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ ، أَنَّ رَجُلًا زَوَّجَ ابْنَ أَخِیْہِ مَمْلُوْکَتَہٗ، فَوَلَدَتْ أَوْلَادًا ، فَأَرَادَ أَنْ یَسْتَرِقَّ أَوْلَادَہَا ، فَأَتَی ابْنُ أَخِیْہِ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ ، فَقَالَ : اِنَّ عَمِّی زَوَّجَنِیْ وَلِیْدَتَہُ وَاِنَّہَا وَلَدَتْ لِی أَوْلَادًا ، فَأَرَادَ أَنْ یَسْتَرِقَّ وَلَدِی .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : کَذَبَ ، لَیْسَ لَہُ ذٰلِکَ
٤٦٠٤: سلمہ بن کھیل نے مستورد سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے اپنے بھتیجے کا نکاح اپنی لونڈی سے کردیا اس سے اولاد ہوئی تو اس آدمی سے چاہا کہ اس کی اولاد کو غلام بنائے تو اس کا بھتیجا ابن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کردیا اب اس سے میری اولاد ہے۔ میرے چچا ان کو غلام بنانا چاہتے ہیں تو ابن مسعود (رض) نے فرمایا اس نے جھوٹ بولا ہے اس کو غلام بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔

4605

۴۶۰۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، قَالَ : اِذَا مَلَکَ الرَّجُلُ عَمَّتَہٗ، أَوْ خَالَتَہٗ، أَوْ أَخَاہٗ، أَوْ أُخْتَہٗ، فَقَدْ عَتَقُوْا ، وَاِنْ لَمْ یُعْتِقْہُمْ .
٤٦٠٥: اسماعیل بن امیہ نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی پھوپھی کا مالک بن جائے یا خالہ کا مالک بن جائے یا بھائی کا یا بہن کا تو وہ آزاد ہوجائیں گے خواہ وہ ان کو آزاد نہ کرے۔

4606

۴۶۰۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : أَبُوْجَعْفَرٍ ، أَظُنُّہُ عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَالشَّعْبِیِّ مِثْلَہٗ۔قَالَ : وَقَالَ اِبْرَاھِیْمُ لَا یَعْتِقُ اِلَّا الْوَالِدُ وَالْوَلَدُ فَلَمَّا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا ذَکَرْنَا ، وَوَافَقَ ذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا عَمَّنْ ذَکَرْنَا مِنْ أَصْحَابِہٖ وَتَابِعِیْہِمْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَلَمْ نَعْلَمْ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافًا عَنْ مِثْلِہِمْ ، وَجَبَ الْقَوْلُ بِمَا رُوِیَ عَنْہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، وَتَرْکُ خِلَافِہِمْ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٦٠٦: حجاج نے عطاء اور شعبی (رح) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور ابراہیم کا قول یہ ہے کہ صرف والد اور ولد (باپ ‘ بیٹا) آزاد ہوں گے۔ پس جب ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذکورہ بالا روایات نقل کردیں اور صحابہ اور تابعین کے اقوال بھی ذکر کردیئے۔ ہماری معلومات میں تو ان جیسے لوگوں میں سے کسی کا اختلاف بھی نہیں آیا۔ تو لازم ہے کہ ان سے مروی بات کو اختیار کیا جائے اور اس کے خلاف کو ترک کردیا جائے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
جب ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذکورہ بالا روایات نقل کردیں اور صحابہ اور تابعین کے اقوال بھی ذکر کردیئے۔ ہماری معلومات میں تو ان جیسے لوگوں میں سے کسی کا اختلاف بھی نہیں آیا۔ تو لازم ہے کہ ان سے مروی بات کو اختیار کیا جائے اور اس کے خلاف کو ترک کردیا جائے۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں فریق ثانی کے مؤقف کو روایات سے واضح کرنے کے بعد اقوال صحابہ وتابعین سے توثیق کردی جیسا کہ راجح مسلک کے متعلق پہلے بھی امام طحاوی (رح) کی عادت ہے۔ آخر میں اس کی اتباع کو لازم کرنے کی ترغیب دی۔ اس باب میں اور پچھلے باب میں نظر طحاوی (رح) ذکر نہیں کی۔

4607

۴۶۰۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یُؤَدِّی الْمُکَاتَبُ بِحِصَّۃِ مَا أَدَّی دِیَۃَ حُرِّ ، وَمَا بَقِیَ ، دِیَۃُ عَبْدٍ
٤٦٠٧: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ مکاتب اگر مقتول ہوجائے تو اس کے مالک کو اس کی دیت اس طرح دی جائے کہ جتنا حصہ آزاد ہوچکا اتنی آزاد کی دیت اور جتنا ابھی غلامی میں باقی ہے اس کی دیت غلام کی دیت کے مطابق۔
تخریج : ترمذی فی البیوع باب ٣٥‘ مسند احمد ١؍٩٤‘ ١٠٤‘ ٢٩٢؍٣٦٩‘ ٣٦٣؍٢٦٠۔
فریق اوّل کا مؤقف : مکاتب جتنا بدل کتابت دے چکا اتنا آزاد ہوگیا اس میں آزاد کا حکم ہوگا اور جس قدر رقم باقی ہو اس میں غلام کا حکم ہے اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

4608

۴۶۰۸: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ ، وَلَمْ یَذْکُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ .
٤٦٠٨: ایوب نے حضرت عکرمہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ ابن عباس (رض) کا واسطہ درمیان میں ذکر نہیں کیا۔

4609

۴۶۰۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرِ بْنِ حَسَّانَ النَّیْسَابُوْرِیُّ ، قَالَ: ثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مُکَاتَبٍ قُتِلَ بِدِیَۃِ الْحُرِّ ، بِقَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْہُ .قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَیُقَامُ عَلَی الْمُکَاتَبِ ، حَدُّ الْمَمْلُوْکِ
٤٦٠٩: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتول مکاتب کے متعلق جتنا حصہ آزاد ہوچکا تھا آزاد کی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مکاتب پر غلام کی حد قائم کی جائے گی۔
تخریج : ابو داؤد فی الدیات باب ٢٠‘ نسائی فی القسامہ باب ٣٨‘ مسند احمد ١؍٣٦٢۔

4610

۴۶۱۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْحَجَّاجُ الصَّوَافُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْدَی الْمُکَاتَبُ بِقَدْرِ مَا أَدَّی - دِیَۃَ الْحُرِّ ، وَبِقَدْرِ مَا رَقَّ مِنْہُ - دِیَۃَ الْعَبْدِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْمُکَاتَبَ یَعْتِقُ مِنْہٗ، بِقَدْرِ مَا أَدَّی ، وَیَکُوْنُ حُکْمُہٗ فِیْہِ حُکْمَ الْحُرِّ ، وَیَکُوْنُ حُکْمُہٗ فِیْمَا لَمْ یُؤَدِّ ، حُکْمَ الْعَبْدِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَعْتِقُ الْمُکَاتَبُ اِلَّا بِأَدَائِ جَمِیْعِ الْکِتَابَۃِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٦١٠: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مکاتب مقتول کی دیت اس طرح ہوگی کہ جس قدر آزد ہوا اتنی آزاد کی دیت اور جس قدر غلام ہے اسی قدر غلام کی دیت دی جائے گی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مکاتب جس قدر بدل کتابت ادا کرے اس کا اتنا حصہ آزاد ہوجائے گا اور اس حصہ میں اس کا حکم آزاد کی طرح ہوگا اور جس قدر بدل کتابت ادا نہیں کیا گیا اس میں اس کا حکم غلام جیسا ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت کو مستدل بنایا ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مکاتب جب تک بدل کتابت ادا نہ کرے وہ غلام ہے وہ اس وقت آزاد ہوگا جب تمام بدل کتابت ادا کر دے گا اس کی دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے۔
تخریج : روایت ٤٦٠٧ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علامء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مکاتب جس قدر بدل کتابت ادا کرے اس کا اتنا حصہ آزاد ہوجائے گا اور اس حصہ میں اس کا حکم آزاد کی طرح ہوگا اور جس قدر بدل کتابت ادا نہیں کیا گیا اس میں اس کا حکم غلام جیسا ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت کو مستدل بنایا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : مکاتب جب تک بدل کتابت ادا نہ کرے وہ غلام ہے وہ اس وقت آزاد ہوگا جب تمام بدل کتابت ادا کر دے گا اس کی دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے۔

4611

۴۶۱۱: بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْخَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُکَاتَبُ عَبْدٌ ، مَا بَقِیَ عَلَیْہِ مِنْ کِتَابَتِہِ دِرْہَمٌ .فَکَانَتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَظَرْنَا فِیْمَا رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مِنْ ذٰلِکَ .فَاِذَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَدْ
٤٦١١: عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مکاتب پر جب تک بدل کتابت کا ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی العتاق باب ١‘ ترمذی فی البیوع باب ٣٥‘ مالک فی المکاتب ١‘ ٢۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : جب ان روایات میں اختلاف ہے تو ہم فیصلہ تک پہنچنے کے لیے صحابہ کرام کی روایات کو دیکھیں گے۔

4612

۴۶۱۲: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُہَنِیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ الْمُکَاتَبُ عَبْدٌ ، مَا بَقِیَ عَلَیْہِ دِرْہَمٌ .
٤٦١٢: معبد جہنی نے عمر (رض) سے روایت کی کہ مکاتب اس وقت تک غلام شمار ہوگا جب تک اس پر ایک درہم بھی باقی ہے۔

4613

۴۶۱۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِذَا أَدَّی الْمُکَاتَبُ النِّصْفَ فَہُوَ غَرِیْمٌ
٤٦١٣: جابر بن سمرہ نے عمر (رض) سے نقل فرمایا جب مکاتب نے نصف مال ادا کردیا تو وہ مقروض ہے۔

4614

۴۶۱۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، اِنَّکُمْ تُکَاتِبُوْنَ مُکَاتَبِیْنَ ، فَأَیُّہُمْ أَدَّی النِّصْفَ ، فَلَا رَدَّ عَلَیْہِ فِی الرِّقِّ فَہٰذَا خِلَافُ مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ قَبْلَہٗ، عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٤٦١٤: جابر بن سمرہ نے عمر (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا اے لوگو ! تم مکاتب بناتے ہو۔ ان میں سے جو آدھا مال ادا کر دے اس کو غلامی میں واپس نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اثر اس کے خلاف ہے جو ہم نے حضرت عمر (رض) سے پہلے نقل کیا ہے۔
حاصل آثار : یہ اثر عمر (رض) اس روایت کے خلاف ہے جو ہم ابھی نقل کر آئے۔

4615

۴۶۱۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ بَشِیْرٍ ، عَنْ سَالِمٍ سَبَلَانَ أَنَّہٗ قَالَ لِعَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَرَاک أَنْ لَا تَسْتَحِیَ مِنِّیْ ، فَقَالَتْ : مَالَک ؟ فَقَالَ : کَاتَبْتُ ، قَالَتْ : اِنَّک عَبْدٌ مَا بَقِیَ عَلَیْکَ شَیْء ٌ
٤٦١٥: سالم سبلان سے مروی ہے کہ میں نے عائشہ (رض) امّ المؤمنین سے گزارش کی کہ مجھ سے پردہ نہیں کرتیں تو انھوں نے فرمایا تمہیں کیا ہوا سالم کہنے لگے میں نے کہا میں نے آپ سے مکاتبت کرلی ہے تو عائشہ (رض) نے فرمایا جب تک تمہارے ذمہ رقم کا ذرہ بھی باقی ہے تم غلام ہو۔

4616

۴۶۱۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، وَشُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : اسْتَأْذَنْتُ أَنَا عَلَی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ : کَمْ بَقِیَ عَلَیْکَ مِنْ کِتَابَتِک ؟ قُلْتُ :عَشْرُ أَوَاقٍ ، فَقَالَتْ : اُدْخُلْ ، فَاِنَّک عَبْدٌ ، مَا بَقِیَ عَلَیْکَ
٤٦١٦: سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے اجازت طلب کی تو وہ فرمانے لگیں تمہارے ذمہ کتنا بدل کتابت ہے ؟ میں نے کہا دس اوقیہ۔ تو وہ فرمانے لگیں تم داخل ہوجاؤ۔ جب تک تم پر بدل کتابت ہے تم غلام ہو۔

4617

۴۶۱۷: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُوْنٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦١٧: یزید بن ہارون نے عمرو بن میمون سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4618

۴۶۱۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ اِذَا أَدَّی الْمُکَاتَبُ ثُلُثًا ، أَوْ رُبُعًا ، فَہُوَ غَرِیْمٌ
٤٦١٨: ابراہیم کہنے لگے کہ عبداللہ (رض) نے فرمایا۔ جب مکاتب بدل کتابت کا ثلث ادا کر دے یا ربع ادا کر دے تو اب وہ مقروض ہے۔

4619

۴۶۱۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ اِذَا أَدَّی الْمُکَاتَبُ قِیْمَۃَ رَقَبَتِہٖ، فَہُوَ غَرِیْمٌ
٤٦١٩: ابراہیم نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا جب مکاتب اپنی گردن کی قیمت ادا کر دے تو وہ مقروض ہے۔

4620

۴۶۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ وَشُرَیْحٌ یَقُوْلَانِ فِی الْمُکَاتَبُ ، اِذَا أَدَّی الثُّلُثَ ، فَہُوَ غَرِیْمٌ
٤٦٢٠: جابر نے شعبی سے نقل کیا کہ عبداللہ اور شریح دونوں مکاتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جب اس نے ثلث مال مکاتبت دے دیا تو اب وہ مقروض ہے۔

4621

۴۶۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، أَنَّ أُمَّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ ، الْمُکَاتَبُ عَبْدٌ ، مَا بَقِیَ عَلَیْہِ مِنْ کِتَابَتِہِ شَیْء ٌ
٤٦٢١: سعید بن ابو سعید مقبری کہتے ہیں کہ امّ سلمہ کہنے لگیں۔ مکاتب اس وقت تک غلام ہے جب تک اس کے ذمہ کتابت میں سے کچھ بھی باقی ہے۔

4622

۴۶۲۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، وَمَالِکٌ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : الْمُکَاتَبُ عَبْدٌ ، مَا بَقِیَ عَلَیْہِ مِنْ کِتَابَتِہِ شَیْء ٌ
٤٦٢٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ مکاتب غلام ہے جب تک اس پر بدل کتابت میں سے کوئی چیز باقی ہے۔

4623

۴۶۲۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : الْمُکَاتَبُ عَبْدٌ ، مَا بَقِیَ عَلَیْہِ شَیْء ٌ مِنْ کِتَابَتِہٖ۔وَکَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : شُرُوْطُہُمْ جَائِزَۃٌ فِیْمَا بَیْنَہُمْ فَلَمَّا کَانُوْا قَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ ، کَمَا ذَکَرْنَا ، وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ الْمُکَاتَبَ لَا یَعْتِقُ بِعَقْدِ الْمُکَاتَبَۃِ ، وَاِنَّمَا یَعْتِقُ بِحَالٍ ثَانِیَۃٍ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : تِلْکَ الْحَالُ ہِیَ أَدَائُ جَمِیْعِ الْمُکَاتَبَۃِ وَقَالَ بَعْضُہُمْ : ہِیَ أَدَائُ بَعْضِ الْمُکَاتَبَۃِ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : یَعْتِقُ مِنْہُ بِقَدْرِ مَا أَدَّی مِنْ مَالِ الْمُکَاتَبَۃِ .ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ قَدْ خَرَجَ مِنْ حُکْمِ الْمُعْتَقِ عَلَی مَالٍ ، لِأَنَّ الْمُعْتَقَ عَلَی مَالٍ ، یَعْتِقُ بِالْقَوْلِ قَبْلَ أَنْ یُؤَدِّیَ شَیْئًا ، وَالْمُکَاتَبَ لَیْسَ کَذٰلِکَ ، لِاِجْمَاعِہِمْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْمُکَاتَبَ لَا یَسْتَحِقُّ الْعَتَاقَ بِعَقْدِ الْمُکَاتَبَۃِ ، وَاِنَّمَا یَسْتَحِقُّہُ بِحَالٍ ثَانِیَۃٍ ، نَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، وَفِیْ سَائِرِ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ لَا تَجِبُ بِالْعُقُوْدِ ، وَاِنَّمَا تَجِبُ بِحَالٍ أُخْرَیْ بَعْدَہَا ، کَیْفَ حُکْمُہَا ؟ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ یَبِیْعُ الرَّجُلَ الْعَبْدَ بِأَلْفِ دِرْہَمٍ ، فَلَا یَجِبُ لِلْمُشْتَرِی قَبْضُ الْعَبْدِ بِنَفْسِ الْعَقْدِ ، حَتَّی یُؤَدِّیَ جَمِیْعَ الثَّمَنِ وَلَا یَکُوْنُ لَہُ قَبْضُ بَعْضِ الْعَبْدِ بِأَدَائِہِ بَعْضَ الثَّمَنِ وَکَذٰلِکَ الْأَشْیَائُ الَّتِیْ ہِیَ مَحْبُوْسَۃٌ بِغَیْرِہَا ، مِثْلُ الرَّہْنِ الْمَحْبُوْسِ بِالدَّیْنِ ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ الرَّاہِنَ لَوْ قَضَی الْمُرْتَہِنَ بَعْضَ الدَّیْنِ ، فَأَرَادَ أَنْ یَأْخُذَ الرَّہْنَ أَوْ بَعْضَہُ بِقَدْرِ مَا أَدَّی مِنْ الدَّیْنِ ، لَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِأَدَائِہِ جَمِیْعَ الدَّیْنِ .فَکَانَ ہَذَا حُکْمَ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تُمْلَکُ بِأَشْیَائَ اِذَا وَجَبَ احْتِبَاسُہَا ، فَاِنَّمَا تُحْبَسُ حَتَّی یُؤْخَذَ جَمِیْعُ مَا جُعِلَ بَدَلًا مِنْہَا .فَلَمَّا خَرَجَ الْمُکَاتَبُ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ حُکْمِ الْمُعْتَقِ عَلَی الْمَالِ الَّذِیْ یَعْتِقُ بِالْعَقْدِ ، لَا بِحَالٍ ثَانِیَۃٍ ، وَثَبَتَ أَنَّہٗ فِیْ حُکْمِ مَنْ یُحْبَسُ لِأَدَائِ شَیْئٍ ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہُ فِی الْمُکَاتَبَۃِ وَفِی احْتِبَاسِ الْمَوْلٰی اِیَّاہٗ، کَحُکْمِ الْمَبِیْعِ فِی احْتِبَاسِ الْبَائِعِ اِیَّاہُ .فَکَمَا کَانَ الْمُشْتَرِی غَیْرَ قَادِرٍ عَلٰی أَخْذِہِ اِلَّا بَعْدَ أَدَائِ جَمِیْعِ الثَّمَنِ ، کَانَ کَذٰلِکَ الْمُکَاتَبُ أَیْضًا غَیْرَ قَادِرٍ عَلٰی أَخْذِ شَیْئٍ مِنْ رَقَبَتِہٖ، مِنْ مِلْکِ الْمَوْلٰی اِلَّا بِأَدَائِ جَمِیْعِ الْمُکَاتَبَۃِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا قَوْلُ الَّذِیْنَ قَالُوْا : لَا یَعْتِقُ مِنَ الْمُکَاتَبِ شَیْء ٌ اِلَّا بِأَدَائِ جَمِیْعِ الْمُکَاتَبَۃِ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٦٢٣: مجاہد کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) کہا کرتے تھے مکاتب اس وقت تک غلام ہے جب تک بدل کتابت میں سے کوئی چیز اس کے ذمہ باقی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کہتے تھے آقا اور مکاتب کی اپنے مابین شرائط لگانا جائز ہے۔ اب جبکہ اقوال صحابہ وتابعین بھی مختلف ہوئے مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ فقط عقد کتابت سے وہ آزاد نہیں ہوتا دوسری حالت سے آزاد ہوگا اب اس میں بعض نے کہا کہ وہ تمام مال کتابت کی ادائیگی ہے اور دوسروں نے کہا کہ بعض مال کتابت کی ادائیگی اسے آزاد کر دے گی اور بعض نے کہا اسی قدر آزاد ہوگا جتنا اس نے بدل کتابت ادا کیا۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ مکاتب مال پر آزاد کئے جانے والے غلام کے حکم سے خارج ہے کیونکہ مال کی شرط پر آزاد کیا ہوا۔ کسی چیز کی ادائیگی کے بغیر وہ پہلے قول سے آزاد کرتا ہے اور مکاتب کا یہ حال نہیں کیونکہ اس پر تو تمام کا اتفاق ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مکاتب صرف عقد کتابت کرلینے سے عتاق کا حقدار نہیں بن جاتا۔ بلکہ ثابت ہونے والی حالت سے وہ اس کا مستحق بنتا ہے۔ ہم نے ان تمام اشیاء پر غور کیا جو فقط عقد سے واجب نہیں ہوتی بلکہ اس کے بعد طاری ہونے والی حالت سے واجب ہوتی ہیں کہ ان کا کیا حکم ہے ؟ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ آدمی اپنا غلام ایک ہزار درہم میں فروخت کرتا ہے تو فقط عقد سے مشتری کے ذمہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ غلام پر قبضہ کرے جب تک کہ وہ ثمن ادا نہ کرے اور بعض ثمن ادا کر کے بھی وہ غلام کے بعض حصے پر بعض قیمت ادا کر کے قبضہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح وہ اشیاء جو کسی اور وجہ سے اس کے قبضہ میں رکی ہوئی ہوں ان کا حکم بھی یہی ہے۔ مثلاً رہن قرض کی وجہ سے قبضہ میں ہے تو اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر رہن رکھنے والا شخص ہر مقروض کے قرض کا کچھ حصہ ادا کر دے اور رہن رکھی چیز واپس لینا چاہے یا جس قدر قرض ادا کیا گیا اس کی مقدار واپس لینا چاہے تو ایسے کرنے کا اختیار نہیں۔ جب تک کہ تمام قرض ادا نہ کر دے۔ تو یہ ان اشیاء کا حکم ہے جن کی ملکیت دوسری اشیاء کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جب ان کو بھی اس وقت تک روکنا ضروری ہے جب تک کہ ان کا بدل مکمل طور پر نہ لیا جائے تو یہ روکی جائیں گی۔ پس جب مکاتب اس غلام کے حکم سے نکل گیا جس کو مال کے بدلے میں آزاد کیا جاتا ہے کہ وہ محض عقد سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ دوسری حالت میں شامل نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ ان چیزوں کے حکم میں داخل ہوگیا ہے جن کو کسی چیز کی ادائیگی کے بدلے روکا نہیں جاتا تو اس سے خود ثابت ہوگیا کہ مکاتبت اور مالک کے اس کو روک لینے کے سلسلہ میں اس کا حکم اس بیع کی طرح ہے جس کو بائع اپنے پاس روکتا ہے تو جس طرح خریدار تمام قیمت ادا کرنے کے بعد ہی اس چیز کو لینے پر قادر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح مکاتب بھی مالک کی ملک سے اپنی گردن کا کچھ حصہ حاصل کرنے پر اس وقت تک قادر نہیں ہوتا جب تک کہ مکمل بدل کتابت کی ادائیگی نہ کر دے اس تمام گفتگو سے ان لوگوں کا قول ثابت ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ مکاتب کی کوئی چیز تمام مالک کتابت کی ادائیگی کے بغیر آزاد نہ ہوگی اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔
ہم نے ان تمام اشیاء پر غور کیا جو فقط عقد سے واجب نہیں ہوتیں بلکہ اس کے بعد طاری ہونے والی حالت سے واجب ہوتی ہیں کہ ان کا کیا حکم ہے ؟ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ آدمی اپنا غلام ایک ہزار درہم میں فروخت کرتا ہے تو فقط عقد سے مشتری کے ذمہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ غلام پر قبضہ کرے جب تک کہ وہ ثمن ادا نہ کرے اور بعض ثمن ادا کر کے بھی وہ غلام کے بعض حصے پر بعض قیمت ادا کر کے قبضہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح وہ اشیاء جو کسی اور وجہ سے اس کے قبضہ میں رکی ہوئی ہوں ان کا حکم بھی یہی ہے۔ مثلاً رہن قرض کی وجہ سے قبضہ میں ہے تو اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر رہن رکھنے والا شخص ہر مقروض کے قرض کا کچھ حصہ ادا کر دے اور رہن رکھی چیز واپس لینا چاہے یا جس قدر قرض ادا کیا گیا اس کی مقدار واپس لینا چاہے تو ایسے کرنے کا اختیار نہیں۔ جب تک کہ تمام قرض ادا نہ کر دے۔ تو یہ ان اشیاء کا حکم ہے جن کی ملکیت دوسری اشیاء کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جب ان کو بھی اس وقت تک روکنا ضروری ہے جب تک کہ ان کا بدل مکمل طور پر نہ لیا جائے تو یہ روکی جائیں گی۔

4624

۴۶۲۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : کَانَ عُتْبَۃُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، عَہِدَ اِلٰی أَخِیْہِ أَیْ وَصَّیْ اِلَیْہِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِیْدَۃِ زَمْعَۃَ مِنِّیْ ، فَاقْبِضْہُ اِلَیْکَ فَلَمَّا کَانَ عَامَ الْفَتْحِ أَخَذَہُ سَعْدٌ وَقَالَ ابْنُ أَخِی قَدْ کَانَ عَہِدَ اِلَیَّ فِیْہِ .فَقَامَ اِلَیْہِ عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ ، فَقَالَ : أَخِی وَابْنُ وَلِیْدَۃِ أَبِیْ، وُلِدَ عَلَی فِرَاشِہٖ۔ فَتَسَاوَقَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ سَعْدٌ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ابْنُ أَخِی قَدْ کَانَ عَہِدَ اِلَیَّ فِیْہِ .وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ : أَخِی وَابْنُ وَلِیْدَۃِ أَبِیْ وُلِدَ عَلَی فِرَاشِہٖ۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ لَک یَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ، وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَوْدَۃِ بِنْتِ زَمْعَۃَ احْتَجِبِیْ مِنْہُ لِمَا رَأَی بِہٖ مِنْ شَبَہِہِ بِعُتْبَۃَ ، فَأَتَتْ ، فَمَا رَآہَا حَتّٰی لَقِیَ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْأَمَۃَ اِذَا وَطِئَہَا مَوْلَاہَا ، فَقَدْ لَزِمَہُ کُلُّ وَلَدٍ یَجِیْئُ بِہٖ بَعْدَ ذٰلِکَ ، ادَّعَاہُ أَوْ لَمْ یَدَّعِہِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ہُوَ لَک یَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ ثُمَّ قَالَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ، وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ .فَأَلْحَقَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِزَمْعَۃَ ، لَا لِدَعْوَۃِ ابْنِہٖ، لِأَنَّ دَعْوَۃَ الِابْنِ لِلنَّسَبِ لِغَیْرِہِ مِنْ أَبِیْہِ، غَیْرُ مَقْبُوْلَۃٍ .وَلٰـکِنْ لِأَنَّ أُمَّہُ کَانَتْ فِرَاشًا لِزَمْعَۃَ ، بِوَطْئِہِ اِیَّاہَا وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا
٤٦٢٤: عروہ بن زبیر نے عائشہ (رض) سے نقل کیا وہ فرماتی ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی کو وصیت کی یعنی سعد بن ابی وقاص کو کہ زمعہ کی لونڈی کا بچہ مجھ سے ہے۔ پس اس کو اپنے قبضہ میں کرلینا۔ جب مکہ فتح ہوا تو سعد (رض) نے اس پر قبضہ کرلیا اور دعویٰ کیا کہ یہ میرا بھتیجا ہے میرے بھائی نے اس کے متعلق مجھ سے اقرار لیا تھا۔ تو عبد بن زمعہ نے کہا کہ یہ میرے بھائی اور میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے ہاں پیدا ہوا دونوں نے اپنا مقدمہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا عبد بن زمعہ نے کہا یہ میرا بھائی اور میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے عبد بن زمعہ وہ تیرا بھائی ہے۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الولد للفراش وللعاہرالحجر “ پھر آپ نے سودہ بنت زمعہ (رض) کو حکم دیا اس سے پردہ کیا کرو۔ اس لیے کہ اس میں عتبہ کی مشابہت دیکھی۔ پس اس نے سودہ کو نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا قول یہ ہے کہ جب لونڈی کا مالک اس سے وطی کرے۔ تو جو بچہ وہ جنے گی وہ اسی کا شمار ہوگا خواہ وہ اس کو دعویٰ کرے یا نہ کرے۔
انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عبد بن زمعہ وہ تیرا بھائی ہے۔ پھر فرمایا ” الولد للفراش وللعاہرالحجر “ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو زمعہ کے حوالہ کردیا اس وجہ سے نہیں کہ اس کے بیٹے نے دعویٰ کیا تھا کیونکہ باپ کے غیر سے نسبت کے لیے بیٹے کا دعویٰ غیر مقبول ہے۔ لیکن اس کو ملانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی اور اس کی موطوہ تھی۔

4625

۴۶۲۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، قَالَ : مَا بَالُ رِجَالٍ یَطَئُوْنَ وَلَائِدَہُمْ ، ثُمَّ یَعْزِلُوْنَہُنَّ لَا تَأْتِینِیْ وَلِیْدَۃٌ یَعْتَرِفُ سَیِّدُہَا أَنْ قَدْ أَلَمَّ بِہَا اِلَّا قَدْ أَلْحَقْتُ بِہٖ وَلَدَہَا ، فَاعْزِلُوْا أَوْ اُتْرُکُوْا .
٤٦٢٥: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتے تھے لوگوں کا کیا حال ہے جو کہ لونڈیوں سے وطی کرتے ہوئے عزل کرلیتے ہیں میرے پاس جو لونڈی لائی جائے گی جس کا آقا یہ اعتراف کرے گا کہ اس نے اس سے جماع کیا ہے میں اس کے لڑکے کو اس سے ملا دوں گا۔ اب تم عزل کرو یا نہ کرو (تمہاری مرضی ہے)
تخریج : موطا مالک فی اقضیہ ٢٤؍٢٥۔

4626

۴۶۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُوْلُ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٢٦: سالم بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا میں نے عمر (رض) کو فرماتے سنا پھر اسی طرح کی روایت ذکر کی۔

4627

۴۶۲۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِیْ عُبَیْدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ : مَا بَالُ رِجَالٍ یَطَئُوْنَ وَلَائِدَہُمْ ثُمَّ یَدَعُوْنَہُنَّ یَخْرُجْنَ ، لَا تَأْتِینِیْ وَلِیْدَۃٌ یَعْتَرِفُ سَیِّدُہَا أَنْ قَدْ أَلَمَّ بِہَا اِلَّا أَلْحَقْتُ بِہٖ وَلَدَہَا ، فَأَرْسِلُوْھُنَّ بَعْدُ ، أَوْ أَمْسِکُوْھُنَّ
٤٦٢٧: صفیہ بنت ابی عبید (رض) کہتی ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ اپنی لونڈیوں سے جماع کرتے ہیں پھر ان کو باہر نکلنے دیتے ہیں میرے پاس جو لونڈی اس حال میں لائی جائے گی کہ اس کے مالک نے اس سے جماع کیا ہے تو میں اس کے لڑکے کو اس سے ملا دوں گا۔ خواہ تم ان کو کھلا چھوڑو یا روکو (تمہاری مرضی ہے)
تخریج : روایت ٤٦٢٥ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4628

۴۶۲۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : مَنْ وَطِئَ أَمَۃً ثُمَّ ضَیَّعَہَا فَأَرْسَلَہَا تَخْرُجُ ، ثُمَّ وَلَدَتْ ، فَالْوَلَدُ مِنْہٗ، وَالضَّیْعَۃُ عَلَیْہِ. قَالَ نَافِعٌ : فَہٰذَا قَضَائُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَقَوْلُ ابْنِ عُمَرَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا جَائَ تْ بِہٖ ہٰذِہِ الْأَمَۃُ مِنْ وَلَدٍ ، فَلَا یَلْزَمُ مَوْلَاہَا اِلَّا أَنْ یُقِرَّ بِہٖ ، وَاِنْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ یُقِرَّ بِہٖ ، لَمْ یَلْزَمْہُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا قَالَ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَۃَ ہُوَ لَک یَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ وَلَمْ یَقُلْ ہُوَ أَخُوْک فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ ہُوَ لَک أَیْ : ہُوَ مَمْلُوْکٌ لَکَ، لِحَقِّ مَالِکٍ عَلَیْہِ مِنَ الْیَدِ ، وَلَمْ یَحْکُمْ فِیْ نَسَبِہٖ بِشَیْئٍ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ بِالْحِجَابِ مِنْہُ .فَلَوْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَدْ جَعَلَہُ ابْنَ زَمْعَۃَ اِذًا لَمَا حَجَبَ بِنْتَ زَمْعَۃَ مِنْہٗ، لِأَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَأْمُرْ بِقَطْعِ الْأَرْحَامِ بَلْ کَانَ یَأْمُرُ بِصِلَتِہَا ، وَمِنْ صِلَتِہَا ، التَّزَاوُرُ ، فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَأْمُرَہَا وَقَدْ جَعَلَہٗ أَخَاہَا بِالْحِجَابِ مِنْہٗ؟ .ہَذَا لَا یَجُوْزُ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. وَکَیْفَ یَجُوْزُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ، وَہُوَ یَأْمُرُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا أَنْ تَأْذَنَ لِعَمِّہَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ عَلَیْہَا ، ثُمَّ یَحْجُبُ سَوْدَۃَ مِمَّنْ قَدْ جَعَلَہٗ أَخَاہَا وَابْنَ أَبِیْھَا ؟ ، وَلٰـکِنَّ وَجْہَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ حَکَمَ فِیْہِ بِشَیْئٍ غَیْرِ الْیَدِ ، الَّتِیْ جَعَلَہُ بِہَا لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَۃَ ، وَلِسَائِرِ وَرَثَۃِ زَمْعَۃَ دُوْنَ سَعْدٍ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنَی قَوْلِہٖ الَّذِی وَصَلَہُ بِہٰذَا الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ، وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ ؟ قِیْلَ لَہٗ : ذٰلِکَ عَلَی التَّعْلِیْمِ مِنْہُ لِسَعْدٍ ، أَیْ أَنَّک تَدَّعِی لِأَخِیْکَ، وَأَخُوْک لَمْ یَکُنْ لَہُ فِرَاشٌ ، وَاِنَّمَا یَثْبُتُ النَّسَبُ مِنْہُ لَوْ کَانَ لَہُ فِرَاشٌ ، فَاِذَا لَمْ یَکُنْ لَہُ فِرَاشٌ ، فَہُوَ عَاہِرٌ ، وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ .وَقَدْ بَیَّنَ ہٰذَا الْمَعْنَی وَکَشَفَہٗ۔
٤٦٢٨: اسامہ بن زید نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جس نے اپنی لونڈی سے وطی کی پھر اس کو ضائع کیا اور اس کو باہر نکلنے دیا پھر اس نے بچہ جنا تو یہ لڑکا اس کا شمار ہوگا اور ضائع کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ عمر (رض) کا فیصلہ اور ابن عمر (رض) کا قول ہے۔ ان سے اختلاف کرتے ہوئے دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ لونڈی کے ہاں جو بچہ پیدا ہوگا وہ آقا کو لازم نہیں ہوگا البتہ یہ کہ وہ اس کا اقرار کرلے۔ اگر اقرار سے پہلے مرگیا تو وہ بچہ اس سے متعلق نہ کیا جائے گا اس کی دلیل سابقہ روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : ” ہو لک یا عبد بن زمعۃ “ آپ نے یہ نہیں فرمایا وہ تیرا بھائی ہے اور ” ہو لک “ کا سے یہ معنی لینا درست ہے کہ وہ تیرا غلام ہے کیونکہ تم لوگوں نے اپنے مال سے خریدا ہے اس کے نسب میں کچھ فیصلہ نہ کیا جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ بنت زمعہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ابن زمعہ کا بھائی قرار دیا ہوتا تو بنت زمعہ اس سے پردہ نہ کرتیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطع رحمی کا حکم دینے والے نہ تھے بلکہ آپ صلہ رحمی کا حکم دینے والے تھے اور ایک دوسرے کی ملاقات یہ صلہ رحمی کا حصہ ہے پھر یہ کیونکر جائز تھا کہ اس کو اس کا بھائی قرار دے کر پھر اس سے پردے کا حکم دیا گیا ؟ اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ممکن نہیں ہے اور یہ درست کیسے ہوسکتا ہے جبکہ آپ عائشہ (رض) کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنے رضاعی چچا کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دیں پھر سودہ (رض) کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ اپنے بھائی اور باپ کے بیٹے سے پردہ کریں ؟ مگر اس کی اصل وجہ ہمارے ہاں (واللہ اعلم) یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق اور کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ سوائے اس بات کے کہ وہ عبد بن زمعہ کی ملکیت ہے اور زمعہ کے تمام ورثاء کا اس میں حق ہے سعد کا حق نہیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ اگر بات اتنی سی ہے جو آپ نے کہی تو پھر اس ارشاد کو ساتھ ملانے کا کیا مقصد ہے : ” الولد للفراش وللعاہرالحجر ؟ “ اس سے تو نسب کے ساتھ ان سے ملانا عیاں ہو رہا ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات سعد (رض) کو سمجھانے کے لیے کہی کہ تم اس کے متعلق دعویٰ رکھتے ہو کہ وہ تیرے بھائی کا ہے۔ حالانکہ یہ اس کی ذاتی لونڈی نہیں۔ اگر یہ اس کی ذاتی لونڈی ہوتی تو تب نسب ثابت ہوتا جب اس کی لونڈی نہیں تو وہ زانی ہے اور زانی پتھروں کا حقدار ہے۔ یہ روایت اس معنی کی وضاحت کر رہی ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کا قول یہ ہے لونڈی کے ہاں جو بچہ پیدا ہوگا وہ آقا کو لازم نہیں ہوگا البتہ یہ کہ وہ اس کا اقرار کرلے۔ اگر اقرار سے پہلے مرگیا تو وہ بچہ اس سے متعلق نہ کیا جائے گا اس کی دلیل سابقہ روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ” ہو لک یا عبد بن زمعۃ “ آپ نے یہ نہیں فرمایا وہ تیرا بھائی ہے اور ” ہو لک “ کا سے یہ معنی لینا درست ہے کہ وہ تیرا غلام ہے کیونکہ تم لوگوں سے اپنے مال سے خریدا ہے اس کے نسب میں کچھ فیصلہ نہ کیا جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ بنت زمعہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ابن زمعہ کا قرار دیا ہوتا تو بنت زمعہ اس سے پردہ نہ کرتیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطع رحمی کا حکم دینے والے نہ تھے بلکہ آپ صلہ رحمی کا حکم دینے والے تھے اور ایک دوسرے کی ملاقات یہ صلہ رحمی کا حصہ ہے پھر یہ کیونکر جائز تھا کہ اس کو اس کا بھائی قرار دے کر پھر اس سے پردے کا حکم دیا گیا ؟ اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ممکن نہیں ہے۔
اور یہ درست کیسے ہوسکتا ہے جبکہ آپ عائشہ (رض) کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنے رضاعی چچا کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دیں پھر سودہ (رض) کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ اپنے بھائی اور باپ کے بیٹے سے پردہ کریں ؟
اصل وجہ : مگر اس کی اصل وجہ ہمارے ہاں (واللہ اعلم) یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق اور کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ سوائے اس بات کے کہ وہ عبد بن زمعہ کی ملکیت ہے اور زمعہ کے تمام ورثاء کا اس میں حق ہے سعد کا حق نہیں۔
اشکال :
اگر بات اتنی سی ہے جو آپ نے کہی تو پھر اس ارشاد کو ساتھ ملانے کا کیا مقصد ہے ” الولد للفرش وللعاہرالحجر ؟ “ اس سے تو نسب کے ساتھ ان سے ملانا عیاں ہو رہا ہے۔
جواب : یہ بات سعد (رض) کو سمجھانے کے لیے کہ تم اس کے متعلق دعویٰ رکھتے ہو کہ وہ تیرے بھائی کا ہے۔ حالانکہ یہ اس کی ذاتی لونڈی نہیں۔ اگر یہ اس کی ذاتی لونڈی ہوتی تو تب نسب ثابت ہوتا جب اس کی لونڈی نہیں تو وہ زانی ہے اور زانی پتھروں کا حقدار ہے۔ یہ روایت اس معنی کی وضاحت کر رہی ہے۔

4629

۴۶۲۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَۃَ ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ کَانَتْ لِزَمْعَۃَ جَارِیَۃٌ یَطَؤُہَا ، وَکَانَ یَظُنُّ بِرَجُلٍ آخَرَ أَنَّہٗ یَقَعُ عَلَیْہَا ، فَمَاتَ زَمْعَۃُ وَہِیَ حُبْلَی ، فَوَلَدَتْ غُلَامًا ، کَانَ یُشْبِہُ الرَّجُلَ الَّذِیْ کَانَ یُظَنُّ بِہَا ، فَذَکَرَتْہُ سَوْدَۃُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَّا الْمِیْرَاثُ فَلَہٗ، وَأَمَّا أَنْتِ فَاحْتَجِبِیْ مِنْہٗ، فَاِنَّہٗ لَیْسَ لَک بِأَخٍ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ زَمْعَۃَ کَانَ یَطَأُ تِلْکَ الْأَمَۃَ ، وَأَنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِسَوْدَۃِ لَیْسَ ہُوَ لَک بِأَخٍ یَعْنِی ابْنَ الْمَوْطُوْئَ ۃِ .فَدَلَّ ہَذَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یَکُنْ قَضَی فِیْ نَسَبِہٖ عَلَی زَمْعَۃَ بِشَیْئٍ ، وَأَنَّ وَطْئَ زَمْعَۃَ لَمْ یَکُنْ - عِنْدَہُ - بِمُوْجِبٍ أَنَّ مَا جَائَ تْ بِہٖ تِلْکَ الْمَوْطُوْئَ ۃُ مِنْ وَلَدٍ مِنْہُ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَّا الْمِیْرَاثُ فَلَہُ فَہٰذَا یَدُلُّ عَلَی قَضَائِہِ بِنَسَبِہٖ .قِیْلَ لَہٗ : مَا یَدُلُّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْتُ ، لِأَنَّ عَبْدَ بْنَ زَمْعَۃَ قَدْ کَانَ ادَّعَاہٗ، وَزَعَمَ أَنَّہٗ ابْنُ أَبِیْہِ، لِأَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ أَخْبَرَتْ فِیْ حَدِیْثِہَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عَنْہَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّ عَبْدَ بْنَ زَمْعَۃَ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - حِیْنَ نَازَعَہُ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ - أَخِی ابْنُ وَلِیْدَۃِ أَبِیْ، وُلِدَ عَلَی فِرَاشِ أَبِی فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ سَوْدَۃُ قَالَتْ مِثْلَ ذٰلِکَ ، وَہُمَا وَارِثَا زَمْعَۃَ ، فَکَانَا مُقِرَّیْنِ لَہُ بِوُجُوْبِ الْمِیْرَاثِ ، مِمَّا تَرَکَ زَمْعَۃُ .فَجَازَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمَا فِی الْمَالِ الَّذِیْ کَانَ یَکُوْنُ لَہُمَا ، لَوْ لَمْ یُقِرَّ بِمَا أَقَرَّا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَمْ یَجِبْ بِذٰلِکَ ثُبُوْتُ نَسَبٍ ، یَجِبُ بِہٖ حُکْمٌ ، فَیُخَلَّیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ النَّظَرِ اِلَیْ سَوْدَۃَ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّمَا کَانَ أَمْرُہَا بِالْحِجَابِ مِنْہٗ، لِمَا کَانَ رَأَی مِنْ شَبَہِہِ بِ عُتْبَۃَ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قِیْلَ لَہٗ : ہَذَا لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، لِأَنَّ وُجُوْدَ الشَّبَہٖ، لَا یَجِبُ بِہٖ ثُبُوْتُ نَسَبٍ ، وَلَا یَجِبُ بِعَدَمِہِ انْتِفَائُ نَسَبٍ .أَلَا تَرَیْ اِلَی الرَّجُلِ الَّذِیْ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ امْرَأَتِی وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلْ لَک مِنْ اِبِلٍ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ فَمَا أَلْوَانُہَا ؟ فَذَکَرَ کَلَامًا .قَالَ فَہَلْ فِیْہَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ : اِنَّ فِیْہَا لَوَرِقًا .قَالَ مِمَّ تَرَیْ ذٰلِکَ جَائَ ہَا ؟ قَالَ : مِنْ عِرْقٍ نَزَعَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّ ہَذَا مِنْ عِرْقٍ نَزَعَہُ وَقَدْ ذَکَرْنَا ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہٖ، فِی بَابِ اللِّعَانِ فَلَمْ یُرَخِّصْ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَفْیِہٖ، لِبُعْدِ شَبَہِہِ مِنْہٗ، وَلَا مَنَعَہُ مِنْ اِدْخَالِہِ عَلَی بَنَاتِہٖ وَحَرَمِہٖ، بَلْ ضَرَبَہُ لَہُ مَثَلًا ، أَعْلَمَہُ بِہٖ أَنَّ الشَّبَہَ لَا یُوْجِبُ ثُبُوْتَ الْأَنْسَابِ ، وَأَنَّ عَدَمَہُ لَا یَجِبُ بِہٖ انْتِفَائُ الْأَنْسَابِ .فَکَذٰلِکَ ابْنُ وَلِیْدَۃِ زَمْعَۃَ ، لَوْ کَانَ وَطْئُ زَمْعَۃَ لِأُمِّہِ یُوْجِبُ ثُبُوْتَ نَسَبِہٖ مِنْہٗ، اِذًا لَمَا کَانَ لِبُعْدِ شَبَہِہِ مِنْہُ مَعْنًی ، وَلَکَانَ نَسَبُہٗ مِنْہُ ثَابِتُ الدَّخْلِ عَلَی بَنَاتِہٖ، کَمَا یَدْخُلُ عَلَیْہِنَّ غَیْرُہُ مِنْ بَنِیْہِ وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا - فِیْ ذٰلِکَ - مِمَّا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُمَا ، فَاِنَّہٗ قَدْ خَالَفَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ
٤٦٢٩: یوسف بن زبیر نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے نقل کیا کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ وطی کرتے تھے ان کا گمان یہ تھا کہ اور (فلاں) آدمی بھی اس سے قربت کرتا ہے زمعہ کی وفات ہوگئی جبکہ وہ حاملہ تھی اور اس نے ایک بچہ جنا اور وہ بچہ اس آدمی کے مشابہہ تھا جس کے متعلق زمعہ کو گمان تھا حضرت سودہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا۔ یہ زمعہ ہی کی میراث ہے۔ رہا تیرا معاملہ تو تو اس سے پردہ کیا کرو ‘ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ اس روایت میں واضح موجود ہے کہ زمعہ اس سے وطی کرتا تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ (رض) کو صاف فرمایا وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ بلکہ وہ موطوہ کا بیٹا ہے۔ اس سے واضح دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمعہ کے لیے نسب کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور زمعہ کا اس سے وطی کرنا بھی آپ کے ہاں اس بات کو لازم کرنے والا نہ تھا کہ جو بچہ جنا ہے یہ اسی کا ہے۔ اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔ اس حدیث میں ” اما المیراث فلہ “ کے الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نسب کے سلسلہ میں تھا۔ اس حدیث میں یہ بات کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المیراث فلہ یہ جملہ نسبی فیصلے پر دلالت نہیں۔ بلکہ اتنی بات ہے کہ عبد بن زمعہ نے اس کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا خیال یہ تھا کہ وہ اس کا باپ جایا ہے کیونکہ عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ عبد بن زمعہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سعد (رض) کے جھگڑے کے موقعہ پر کہا یہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور میرے والد کے بستر پر پیدا ہوا اور یہ بات سودہ (رض) کے لیے بھی درست ہے کہ وہ ایسی بات کہیں کیونکہ زمعہ کے وہی دونوں وارث تھے۔ تو وہ اس کا اقرار زمعہ کی میراث کے وجوب کے لیے کر رہے تھے۔ تو یہ اقرار دونوں کو اس تمام مال کے متعلق درست تھا جو زمعہ چھوڑ کر مرے تھے۔ جیسا کہ اگر وہ دونوں اقرار نہ بھی کرتے تب بھی وہ وارث تھے مگر اس سے ثبوت نسب نہیں ہوا کہ جس سے کوئی حکم لگ سکے۔ کہ سودہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ سودہ (رض) کو پردہ کا حکم تو اس لیے دیا تھا کہ عتبہ سے اس کی مشابہت پائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ایسی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ فقط مشابہت کے پائے جانے سے نسب ثابت ہوتا اور نہ ہی عدم مشابہت نسب کی نفی کو لازم کرنے والا ہے۔ اس کے لیے آپ اس روایت کو سامنے رکھیں کہ ایک شخص بارگاہ نبوی میں عرض پیرا ہے کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ بچہ جنا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا۔ کس رنگ کے ہیں ؟ اس نے رنگوں کے متعلق بات بتلائی تو آپ نے فرمایا کیا ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں آپ نے فرمایا وہ گندمی رنگ کہاں سے آئے تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے عرض کیا کہ کسی رگ نے اسے کھینچا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی کسی رگ نے کھینچا ہو۔ یہ روایت مکمل تفصیل کے ساتھ باب اللعان میں گزری ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدم مشابہت کی وجہ سے نسبت کی نفی کو جائز قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کو دوسرے بیٹے اور بیٹیوں اور دیگر مس توراۃ کے پاس آنے جانے سے روکا۔ بلکہ ایک مثال دے کر اسے بتلایا کہ محض مشابہت سے نسب ثابت نہیں ہوتا اور عدم مشابہت سے نسب کی نفی نہیں کی جاتی۔ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر زمعہ نے اس کی ماں سے وطی کی ہے تو اس کا اس سے نسب ثابت ہوگا اور اس صورت میں عدم مشابہت کا کوئی مطلب نہ ہوگا اور اس کا نسب اس سے ثابت رہے گا اور یہ اس کی بیٹیوں کے پاس دوسرے بیٹوں کی طرح آ جا اور داخل ہو سکے گا۔ رہی وہ روایت جو عمر فاروق (رض) اور ابن عمر (رض) سے اس سلسلہ میں منقول ہے تو ابن عباس (رض) اور زید بن ثابت (رض) سے اس کے خلاف روایت موجود ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٥۔
حاصل روایت : اس روایت میں واضح موجود ہے کہ زمعہ اس سے وطی کرتا تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ (رض) کو صاف فرمایا وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ بلکہ وہ موطوہ کا بیٹا ہے۔ اس سے واضح دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمعہ کے لیے نسب کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور زمعہ کا اس سے وطی کرنا بھی آپ کے ہاں اس بات کو لازم رنے والا نہ تھا کہ جو بچہ جنا ہے یہ اسی کا ہے۔ اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔
اشکال : اس حدیث میں ” اما المیراث فلہ “ کے الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نسب کے سلسلہ میں تھا۔
جواباس حدیث میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المیراث فلہ یہ جملہ نسبی فیصلے پر دلالت نہیں۔ بلکہ اتنی بات ہے کہ عبد بن زمعہ نے اس کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا خیال یہ تھا کہ وہ اس کا باپ جایا ہے کیونکہ عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ عبد بن زمعہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سعد (رض) کے جھگڑے کے موقعہ پر کہا کہ یہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور میرے والد کے بستر پر پیدا ہوا اور یہ بات سودہ (رض) کے لیے بھی درست ہے کہ وہ ایسی بات کہیں کیونکہ زمعہ کے وہی دونوں وارث تھے۔ تو وہ اس کا اقرار زمعہ کی میراث کے وجوب کے لیے کر رہے تھے۔ تو یہ اقرار دونوں کو اس تمام مال کے متعلق درست تھا جو زمعہ چھوڑ کر مرے تھے۔ جیسا کہ اگر وہ دونوں اقرار نہ بھی کرتے تب بھی وہ وارث تھے مگر اس سے ثبوت نسب نہیں ہو کہ جس سے کوئی حکم لگ سکے۔ کہ سودہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔
ایک اور اشکال :
اگر کوئی یہ کہے کہ سودہ (رض) کو پردہ کا حکم تو اس لیے دیا تھا کہ عتبہ سے اس کی مشابہت پائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے۔
جواباس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ایسی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ فقط مشابہت کے پائے جانے سے نہ نسب ثابت ہوتا اور عدم مشابہت نسب کی نفی کو لازم کرنے والی نہیں ہے۔
اس کے لیے آپ اس روایت کو سامنے رکھیں کہ ایک شخص بارگاہ نبوی میں عرض پیرا ہے کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ بچہ جنا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا۔ کس رنگ کے ہیں ؟ اس نے رنگوں کے متعلق بات بتلائی تو آپ نے فرمایا کیا ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں آپ نے فرمایا وہ گندمی رنگ کہاں سے آئے تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے عرض کیا کہ کسی رگ نے اسے کھینچا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی کسی رگ نے کھینچا ہو۔
یہ روایت مکمل تفصیل کے ساتھ ٤٥٦٨ باب اللعان میں گزری ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدم مشابہت کی وجہ سے نسبت کی نفی کو جائز قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کو دوسرے بیٹے اور بیٹیوں اور دیگر مس توراۃ کے پاس آنے جانے سے روکا۔ بلکہ ایک مثال دے کر اسے بتلایا کہ محض مشابہت سے نسب ثابت نہیں ہوتا اور عدم مشابہت سے نسب کی نفی نہیں کی جاتی۔ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر زمعہ نے اس کی ماں سے وطی کی ہے تو اس کا اس سے نسب ثابت ہوگا اور اس صورت میں عدم مشابہت کا کوئی مطلب نہ ہوگا اور اس کا نسب اس سے ثابت رہے گا اور یہ اس کی بیٹیوں کے پاس دوسرے بیٹوں کی طرح آ جا اور داخل ہو سکے گا۔
فریق اوّل کی دوسری و تیسری دلیل کا جواب :
رہی وہ روایت جو عمر فاروق (رض) اور ابن عمر (رض) سے اس سلسلہ میں منقول ہے تو ابن عباس (رض) اور زید بن ثابت (رض) سے اس کے خلاف روایت موجود ہے۔

4630

۴۶۳۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ أَبِیْ حَفْصَۃَ عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَأْتِیْ جَارِیَۃً لَہٗ، فَحَمَلَتْ ، فَقَالَ : لَیْسَ مِنِّیْ ، اِنِّیْ أَتَیْتُہُا اِتْیَانًا ، لَا أُرِیْدُ بِہٖ الْوَلَدَ
٤٦٣٠: عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) اپنی ایک لونڈی کے ہاں تشریف لے جاتے اسے حمل ٹھہر گیا انھوں نے فرمایا یہ مجھ سے نہیں کیونکہ میں نے تو اس کے پاس اس طریقے سے جاتا تھا کہ بچہ اس سے مقصود نہ تھا یعنی عزل کرتا تھا۔

4631

۴۶۳۱: حَدَّثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْغَافِقِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یَعْزِلُ عَنْ جَارِیَۃٍ فَارِسِیَّۃٍ ، فَحَمَلَتْ بِحَمْلٍ ، فَأَنْکَرَہُ وَقَالَ : اِنِّیْ لَمْ أَکُنْ أُرِیْدُ وَلَدَکَ، وَاِنَّمَا أَسْتَطِیْبُ نَفْسَکَ، فَجَلَدَہَا ، وَأَعْتَقَہَا وَأَعْتَقَ الْوَلَدَ
٤٦٣١: ابوالزناد نے خارجہ بن زید سے روایت کی ہے کہ میرے والد ایک فارسی لونڈی سے عزل کرتے تھے پھر بھی اسے حمل ہوگیا تو انھوں نے اس کا انکار کردیا اور فرمایا میں تو تمہارے سے اولاد کا ارادہ نہ رکھتا تھا میں تو صرف تمہیں خوش کرتا تھا۔ پھر اسے کوڑے مارے اور اس کو آزاد کردیا اور اس کے بچے کو بھی آزاد کردیا۔

4632

۴۶۳۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ فَأَعْتَقَہَا وَأَعْتَقَ وَلَدَہَا .
٤٦٣٢: خارجہ بن زید نے زید بن ثابت (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس روایت میں یہ لفظ نہیں ” فاعتقہا واعتق ولدھا “

4633

۴۶۳۳: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ وَلَدَتْ جَارِیَۃٌ لِزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : اِنَّہٗ لَیْسَ مِنِّیْ ، وَاِنِّیْ کُنْتُ أَعْزِلُ عَنْہَا .فَہٰذَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، قَدْ خَالَفَا عُمَرَ ، وَابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ .فَقَدْ تَکَافَأَتْ أَقْوَالُہُمْ ، وَوَجَبَ النَّظْرُ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ قَوْلًا صَحِیْحًا .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَقَرَّ بِأَنَّ ہَذَا وَلَدُہٗ مِنْ زَوْجَتِہٖ، ثُمَّ نَفَاہُ بَعْدَ ذٰلِکَ ، لَمْ یَنْتِفْ .وَکَذٰلِکَ لَوْ ادَّعَی أَنَّ حَمْلَہَا مِنْہٗ، ثُمَّ جَائَ تْ بِوَلَدٍ مِنْ ذٰلِکَ الْحَمْلِ ، لَمْ یَکُنْ لَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ ، أَنْ یَنْفِیَہُ بِلِعَانٍ وَلَا بِغَیْرِہٖ، لِأَنَّ نَسَبَہُ قَدْ ثَبَتَ مِنْہُ فَہٰذَا حُکْمُ مَا قَدْ وَقَعَتْ عَلَیْہِ الدَّعْوَۃُ ، مِمَّا لَیْسَ لِمُدَّعِیْہِ أَنْ یَنْفِیَہٗ، وَرَأَیْنَاہُ لَوْ أَقَرَّ أَنَّہٗ وَطِئَ امْرَأَتَہٗ، ثُمَّ جَائَ تْ بِوَلَدٍ فَنَفَاہٗ، لَکَانَ الْحُکْمُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ یُلَاعَنَ بَیْنَہُمَا ، وَیَخْرُجَ الْوَلَدُ مِنْ نَسَبِ الزَّوْجِ ، وَیَلْحَقَ بِأُمِّہِ فَلَمْ یَکُنْ اِقْرَارُہُ بِوَطْئِ امْرَأَتِہٖ، یَجِبُ بِہٖ ثُبُوْتُ نَسَبِ مَا یَلِدُ مِنْہٗ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْ حُکْمِ مَا قَدْ لَزِمَہٗ، مِمَّا لَیْسَ نَفْیَہُ .فَلَمَّا کَانَ ہَذَا حُکْمَ الزَّوْجَاتِ ، کَانَ حُکْمُ الْاِمَائِ أَحْرَی أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ فَاِنْ أَقَرَّ رَجُلٌ بِوَلَدِ أَمَتِہِ أَنَّہٗ مِنْہٗ، أَوْ أَقَرَّ وَہِیَ حَامِلٌ ، أَنَّ مَا فِیْ بَطْنِہَا مِنْہٗ، لَزِمَہٗ، وَلَمْ یَنْتِفْ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَبَدًا وَاِنْ أَقَرَّ أَنَّہٗ قَدْ وَطِئَہَا ، لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ فِیْ حُکْمِ اِقْرَارِہِ بِوَلَدِہَا ، أَنَّہٗ مِنْہٗ، بَلْ یَکُوْنُ بِخِلَافِ ذٰلِکَ ، فَیَکُوْنُ لَہٗ أَنْ یَنْفِیَہٗ، وَیَکُوْنُ حُکْمُہُ .وَاِنْ أَقَرَّ بِوَطْئِ أَمَتِہٖ، کَحُکْمِہٖ، لَوْ لَمْ یَکُنْ أَقَرَّ بِوَطْئِہَا ، قِیَاسًا عَلٰی مَا وَصَفْنَا ، مِنَ الْحَرَائِرِ وَہٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٦٣٣: قتادہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ زید بن ثابت (رض) کی لونڈی نے بچہ جنا تو زید فرمانے لگے یہ میرا بچہ نہیں میں تو اس سے عزل کیا کرتا تھا۔ یہ زید بن ثابت اور ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں جناب عمر (رض) اور ابن عمر (رض) کے خلاف بات کہی ہے اب جب کہ ان کے اقوال برابر برابر ہوگئے تو ہمارے لیے ضروری ہوگیا کہ ہم غور و فکر کریں تاکہ صحیح قول کو معلوم کیا جاسکے۔ ہم نے غور کیا کہ اگر آدمی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ اس کا بچہ ہے اور اس کی بیوی سے ہے اس کے بعد اس کی نفی کرتا ہے تو اس سے بچے کی نفی نہ ہوگی اسی طرح اگر وہ دعویٰ کرے کہ عورت کا حمل اس سے ہے پھر اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو لعان وغیرہ کے ذریعہ اس کی نفی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوچکا ہے۔ یہ تو اس کا حکم ہے جس کے متعلق دعویٰ ہے کہ اب مدعی اس کی نفی نہیں کرسکتا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے وطی کا اقرار کرے پھر اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے نفی کردی تو اس کا حکم یہ ہے کہ ان کے درمیان لعان کرایا جائے گا اور بچہ خاوند کے نسب سے خارج ہو کر ماں کے ساتھ مل جائے گا پس بیوی کے ساتھ وطی کا اقرار پیدا ہونے والے بچے کے ثبوت نسب کے لیے ضروری نہ ہوا اور یہ اس کے حکم میں بھی نہیں جس کو اس نے لازم کیا ہے اب اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔ پس جب بیویوں کا یہ حکم ہے تو لونڈیوں کا حکم بدرجہ اولیٰ اسی طرح ہونا چاہیے اور ہوگا کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کے بچے کے متعلق اقرار کرے کہ یہ اسی کا ہے یا اس وقت اقرار کیا جبکہ وہ حاملہ تھی کہ جو کچھ اس لونڈی کے پیٹ میں ہے یہ اسی کا ہے تو یہ بچہ اس کے ساتھ لازم ہوجائے گا اور اگر اس نے اقرار کیا کہ اس نے اس لونڈی سے وطی کی ہے تو یہ اس بات کا اقرار شمار نہ ہوگا کہ یہ اس کا لڑکا ہے اور اسی سے ہے بلکہ اس کے برعکس ہوگا پس وہ اس کی نفی بھی کرسکتا ہے اگر وہ نفی کر دے گا تو اس کا حکم لگ جائے گا اور اگر اس نے اپنی لونڈی سے وطی کا اقرار کیا تو یہ اقرار نہ کرنے کے حکم کی طرح ہے یعنی دونوں کا حکم برابر ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے جو ہم نے آزاد عورتوں کے سلسلہ میں بیان کیا یہ سب امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایت : یہ زید بن ثابت اور ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں جناب عمر (رض) اور ابن عمر (رض) کے خلاف بات کہی ہے اب جب کہ ان کے اقوال برابر برابر ہوگئے تو ہمارے لیے ضروری ہوگیا کہ ہم غور و فکر کریں تاکہ صحیح قول کو معلوم کیا جاسکے۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور کیا کہ اگر آدمی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ اس کا بچہ ہے اور اس کی بیوی سے ہے اس کے بعد اس کی نفی کرتا ہے تو اس سے بچے کی نفی نہ ہوگی اسی طرح اگر وہ دعویٰ کرے کہ عورت کا حمل اس سے ہے پھر اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو لعان وغیرہ کے ذریعہ اس کی نفی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوچکا ہے۔ یہ تو اس کا حکم ہے جس کے متعلق دعویٰ ہے کہ اب مدعی اس کی نفی نہیں کرسکتا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے وطی کا اقرار کرے پھر اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے نفی کردی تو اس کا حکم یہ ہے کہ ان کے درمیان لعان کرایا جائے گا اور بچہ خاوند کے نسب سے خارج ہو کر ماں کے ساتھ مل جائے گا پس بیوی کے ساتھ وطی کا اقرار پیدا ہونے والے بچے کے ثبوت نسب کے لیے ضروری نہ ہوا اور یہ اس کے حکم میں بھی نہیں جس کو اس نے لازم کیا ہے اب اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔
پس جب بیویوں کا یہ حکم ہے تو لونڈیوں کا حکم بدرجہ اولیٰ اسی طرح ہونا چاہیے اور ہوگا کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کے بچے کے متعلق اقرار کرے کہ یہ اسی کا ہے یا اس وقت اقرار کیا جبکہ وہ حاملہ تھی کہ جو کچھ اس لونڈی کے پیٹ میں ہے یہ اسی کا ہے تو یہ بچہ اس کے ساتھ لازم ہوجائے گا۔
اور اگر اس نے اقرار کیا کہ اس نے اس لونڈی سے وطی کی ہے تو یہ اس بات کا اقرار شمار نہ ہوگا کہ یہ اس کا لڑکا ہے اور اسی سے ہے بلکہ اس کے برعکس ہوگا پس وہ اس کی نفی بھی کرسکتا ہے اگر وہ نفی کر دے گا تو اس کا حکم لگ جائے گا اور اگر اس نے اپنی لونڈی سے وطی کا اقرار کیا تو یہ اقرار نہ کرنے کے حکم کی طرح ہے یعنی دونوں کا حکم برابر ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے جو ہم نے آزاد عورتوں کے سلسلہ میں بیان کیا یہ سب امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔