HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

24. قربانى کا بیان

الطحاوي

6052

۶۰۵۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ مُوْسَیْ یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، وَابْنُ لَہِیْعَۃَ ، وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ حَدَّثَہُمْ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ فَیْرُوْزَ مَوْلٰی بَنِی شَیْبَانَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ سَأَلَہٗ عَمَّا کَرِہَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَضَاحِیّ ، أَوْ مَا نَہٰی عَنْہُ .فَقَالَ : قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَدِی أَقْصَرُ مِنْ یَدِہٖ، فَقَالَ أَرْبَعٌ لَا یُجْزِئُ فِی الضَّحَایَا ، الْعَوْرَائُ الْبَیِّنُ عَوَرُہَا ، وَالْعَرْجَائُ الْبَیِّنُ عَرَجُہَا ، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُہَا ، وَالْعَجْفَائُ الَّتِیْ لَا تُنْقِی .قَالَ الْبَرَائُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَلَقَدْ رَأَیْتُنِیْ وَاِنِّیْ لَأَرَی الشَّاۃَ وَقَدْ تُرِکَتْ ، فَأَسِیْرُ اِلَیْہَا ، فَاِذَا طَرَفَتْ ، أَخَذْتُہَا فَضَحَّیْتُ بِہَا .فَقُلْتُ لَہٗ : فَاِنِّیْ أَکْرَہُ أَنْ یَکُوْنَ فِی السِّنِّ نَقْصٌ ، أَوْ فِی الْأُذُنِ نَقْصٌ ، أَوْ فِی الْقَرْنِ نَقْصٌ .فَقَالَ : مَا کَرِہْتَ فَدَعْہٗ، وَلَا تُحَرِّمْہُ عَلٰی أَحَدٍ .
٦٠٥٠: عبید بن فیروز مولیٰ بنی شیبان نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ کون سی قربانیاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناپسند تھیں یا کن جانوروں کی قربانیوں سے آپ نے منع فرمایا تو وہ کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے میرے ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے بہت چھوٹے ہیں آپ نے فرمایا قربانی میں چار قسم کے جانور جائز نہیں۔ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ ! لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو۔ " ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔# ایسا دبلا جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو۔
حضرت برائ (رض) فرماتے ہیں کہ تم نے مجھے دیکھا کہ میں ایک بکری کو دیکھتا ہوں حالانکہ میں اسے چھوڑ چکا ہوں پھر میں اس کی طرف جاتا ہوں جب میں اسے چھی طرح دیکھتا ہوں تو اس کی قربانی کرتا ہوں میں نے ان سے کہا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ دانت میں نقصان ہو یا کان میں کوئی عیب ہو یا سینگ میں نقص ہو تو انھوں نے فرمایا جسے تم ناپسند کرتے ہو اسے چھوڑ دو ۔ لیکن اسے کسی دوسرے پر حرام نہ کرو۔
تخریج : ترمذی فی الاضاحی باب ٥‘ نسائی فی الضحایا باب ٧‘ دارمی فی الاضاحی باب ٣‘ مالک فی الضحایا ١‘ مسند احمد ٤؍٣٠١۔
قربانی اور ہدی کے طور پر عیب دار جانور درست نہیں خصوصاً وہ عیوب جو ان روایات میں مذکور ہیں ان چار عیوب میں حصر نہیں ان کے علاوہ بھی کچھ عیوب ایسے ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہدی و قربانی درست نہیں۔
فریق اول : یہی چار عیوب ہوں گے تو قربانی و ہدی درست نہ ہوگی ورنہ درست ہے۔
فریق ثانی : ان کے علاوہ بھی کئی ایسے عیوب ہیں جو جانور کی قیمت میں کمی کردیتے ہیں وہ بھی پائے جائیں تو قربانی نہ ہوگی اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

6053

۶۰۵۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ فَیْرُوْزَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، سُئِلَ : مَاذَا یُتَّقَی مِنْ الضَّحَایَا ؟ فَأَشَارَ بِیَدِہٖ وَقَالَ أَرْبَعًا .وَکَانَ الْبَرَائُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُشِیْرُ بِیَدِہٖ وَیَقُوْلُ : یَدِی أَقْصَرُ مِنْ یَدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْعَرْجَائُ الْبَیِّنُ ضِلْعُہَا وَالْعَوْرَائُ الْبَیِّنُ عَوَرُہَا ، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُہَا ، وَالْعَجْفَائُ الَّتِیْ لَا تُنْقِی .
٦٠٥١: عبید بن فیروز نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ سے پوچھا گیا قربانی کے کن جانوروں سے پرہیز کرنا چاہیے ؟ تو آپ نے اپنے دست اقدس سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا چار۔ حضرت برائ (رض) اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے اور کہتے میرا ہاتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے بہت چھوٹا ہے لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ ایسا بیمار جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور ایسا لاغر جس میں مغز نہ رہا ہو۔

6054

۶۰۵۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، وَحَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ ، ح .وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : سَمِعْت عُبَیْدَ بْنَ فَیْرُوْزَ قَالَ : سَأَلْت الْبَرَائَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٠٥٢: ابراہیم بن مرزوق اور علی بن شیبہ دونوں نے اپنی سند کے ساتھ عبید بن فیروز سے نقل کیا کہ میں نے حضرت برائ (رض) سے پوچھا پھر انھوں نے اسی طرح روایت بیان کی۔

6055

۶۰۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُوَیْدٍ ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ وَالْعَجْفَائُ الَّتِیْ لَا تُنْقِی وَلَمْ یَقُلْ وَالْکَسِیْرَۃُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَالُوْا : لَا تُجْزِئُ شَاۃٌ ، وَلَا بَدَنَۃٌ ، وَلَا بَقَرَۃٌ ، اِذَا کَانَ بِہَا وَاحِدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْعُیُوْبِ الْأَرْبَعِ فِیْ ہَدْیٍ وَلَا أُضْحِیَّۃٍ .قَالُوْا : وَمَا کَانَ سِوَیْ ہٰذِہِ الْأَرْبَعِ ، مِثْلُ قَطْعِ الْأَلْیَۃِ وَالْأُذُنِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ لَا یَمْنَعُ الشَّاۃَ ، وَلَا الْبَقَرَۃَ وَلَا الْبَدَنَۃَ أَنْ تُہْدَی وَلَا أَنْ یُضَحَّی بِہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ،
٦٠٥٣: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ البتہ انھوں نے ” العجفاء التی لاتنقی “ تو کہا مگر الکبیرۃ کا لفظ ساتھ نہیں کہا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگوں نے اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا کہ بکری ‘ اونٹ اور گائے جس میں ان چاروں عیوب میں سے کوئی عیب ہو وہ بطور ہدی اور قربانی کے جائز نہیں ان کے علاوہ جس کی چکی یا کان کٹا ہوا ہو اس کو ہدی کے طور پر دینا منع نہیں انھوں نے مزید دلیل دیتے ہوئے یہ روایت بھی پیش کی جس کو ابو سعید خدری (رض) نے نقل کیا ہے۔

6056

۶۰۵۴: بِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، وَشَرِیْکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَرَظَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : اشْتَرَیْتُ کَبْشًا لِأُضَحِّیَ بِہٖ ، فَعَدَا الذِّئْبُ عَلَیْہٖ، فَقَطَعَ أَلْیَتَہٗ، فَسَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِہٖ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ أَنْ یُضَحِّیَ بِالشَّاۃِ ، وَلَا بِالْبَقَرَۃِ ، وَلَا بِالْبَدَنَۃِ ، وَبِہَا عَیْبٌ مِنْ ہٰذِہِ الْعُیُوْبِ الْأَرْبَعِ ، وَلَا یَجُوْزُ مَعَ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنْ یُضَحِّیَ بِمَقْطُوْعَۃِ الْأُذُنِ ، وَلَا أَنْ یُہْدِیَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، بِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٦٠٥٤: محمد بن قرظہ نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ میں نے قربانی کے لیے ایک دنبہ خریدا۔ بھیڑیا اس پر حملہ آور ہوا اور اس نے چکی کو کاٹ لیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا تم اس کی قربانی کر دو ۔ دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ گائے اونٹ اور بکری کی قربانی جائز نہیں جبکہ اس میں ان چاروں عیبوں میں سے کوئی عیب پایا جاتا ہو یا اس کا کان کٹا ہوا ہو اور نہ ہی ایسے جانور کو بطو ہدی بھیجا جاسکتا ہے دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : مسند احمد جلد ٣ صفحہ ٣٢۔

6057

۶۰۵۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرِ بْنِ مَطَرٍ الْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی زِیَادُ بْنُ خَیْثَمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو اِسْحَاقَ ، عَنْ شُرَیْحِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یُضَحَّی بِمُقَابَلَۃٍ وَلَا مُدَابَرَۃٍ ، وَلَا خَرْقَائَ ، وَلَا شَرْقَائَ ، وَلَا عَوْرَائَ .
٦٠٥٥: شریح بن نعمان نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا کہ اس جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کا کان اگلی جانب سے یا پچھلی جانب سے کٹا ہوا ہو اور نہ ایسے جانور کی جس کا کان پھٹا ہوا یا چرا ہوا ہو اور نہ ہی اس جانور کی جو کانا ہو۔
تخریج : نسائی فی الضحایا باب ١١۔

6058

۶۰۵۶: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو اِسْحَاقَ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ النُّعْمَانِ ، قَالَ : أَبُو اِسْحَاقَ ، وَکَانَ رَجُلَ صِدْقٍ ، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٠٥٦: ابو اسحاق روایت کرتے ہیں کہ شریح بن نعمان نے کہا اور وہ سچے آدمی تھے انھوں نے علی المرتضیٰ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے۔

6059

۶۰۵۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : سَمِعْت جُرَیَّ بْنَ کُلَیْبٍ ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ عَضْبَائِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ .قَالَ قَتَادَۃُ : فَقُلْت لِسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ : مَا عَضْبَائُ الْأُذُنِ ؟ قَالَ : اِذَا کَانَ النِّصْفُ فَأَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ - مَقْطُوْعًا .
٦٠٥٧: جریح بن کلیب کہتے ہیں کہ میں نے علی المرتضیٰ (رض) کو فرماتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عضباء القرن والاذن سے منع فرمایا قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ اس کا کیا معنی ہے تو وہ فرمانے لگے جس کا آدھا سینگ اور کان یا اس سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الاضاحی باب ٦‘ ترمذی فی الاضاحی باب ٩‘ نسائی فی الضحایا باب ١٢‘ ابن ماجہ فی الاضاحی باب ٨‘ مسند احمد جلد ١‘ صفحہ ٨٣‘ ١٠٩‘ ١٢٧۔

6060

۶۰۵۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ شُرَیْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُضَحَّی بِمُقَابَلَۃٍ ، أَوْ مُدَابَرَۃٍ ، أَوْ شَرْقَائَ ، أَوْ خَرْقَائَ ، أَوْ جَدْعَائَ .
٦٠٥٨: شریح بن نعمان ہمدانی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کے کان کا اگلا حصہ یا پچھلا حصہ کٹا ہوا یا پھٹا ہوا یا چرا ہوا ہو یا وہ جانور جس کی ناک کٹی ہو۔
تخریج : نسائی فی الضحایا باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الاضاحی باب ٨‘ مسند احمد جلد ١؍٨٠۔

6061

۶۰۵۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ وَہْبٍ قَالَ .أَخْبَرَنِیْ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ حُجَیَّۃَ بْنِ عَدِیْ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْأُذُنَ .
٦٠٥٩: حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قربانی سے پہلے جانور کے آنکھ ‘ کان اچھی طرح جانچ لیں۔

6062

۶۰۶۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ قَالَا جَمِیْعًا ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ حُجَیَّۃَ بْنِ عَدِی قَالَ : أَتَیْ رَجُلٌ عَلِیًّا فَسَأَلَہٗ عَنِ الْمَکْسُوْرَۃِ الْقَرْنِ فَقَالَ لَا یَضُرُّک قَالَ : عَرْجَائُ ؟ قَالَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَنْسِکَ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْأُذُنَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ النَّہْیُ عَنِ الْأُضْحِیَّۃِ بِمُقَابَلَۃٍ ، أَوْ مُدَابَرَۃٍ ، وَذٰلِکَ فِی الْأُذُنِ ، مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ قُبَالَۃِ الْأُذُنِ ، فَہُوَ مُقَابَلَۃٌ ، وَمَا کَانَ مِنْ أَسْفَلِہَا ، فَہُوَ مُدَابَرَۃٌ .وَبَیَّنَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ عَضْبَائَ الْأُذُنِ الْمَنْہِیَّ عَنْ ذَبْحِہَا فِی الْأُضْحِیَّۃِ فَقَالَ ہِیَ الْمَقْطُوْعَۃُ نِصْفُ أُذُنِہَا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا نَہٰی عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ فِی الْأُذُنِ ، وَلَمْ یَجُزْ لَنَا تَرْکُہٗ، لِأَنَّ حَدِیْثَ الْبَرَائِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، لَا یَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ مُتَقَدِّمًا ، عَلٰی حَدِیْثِ عَلِی ہٰذَا، فَیَکُوْنُ حَدِیْثُ عَلِی ہٰذَا، زَائِدًا عَلَیْہِ أَوْ یَکُوْنُ مُتَأَخِّرًا عَنْہُ، فَیَکُوْنُ نَاسِخًا لَہٗ۔فَلَمَّا لَمْ یُعْلَمْ نَسْخُ حَدِیْثِ عَلِیْ بَعْدَمَا قَدْ عَلِمْنَا ثُبُوْتَہٗ، جَعَلْنَاہُ ثَابِتًا مَعَ حَدِیْثِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَأَوْجَبْنَا الْعَمَلَ بِہِمَا جَمِیْعًا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتَ لَا تَکْرَہُ عَضْبَائَ الْقَرْنِ ، وَفِیْ حَدِیْثِ جُرَیِّ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّہْیُ عَنْہَا .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّمَا تَرَکْنَا ذٰلِکَ ، لِأَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمْ یَرَ بِذٰلِکَ بَأْسًا ، فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ، فِیْ حَدِیْثِ حُجَیَّۃَ بْنِ عَدِی ، فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمْ یَقُلْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خِلَافَ مَا قَدْ سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِلَّا بَعْدَ ثُبُوْتِ نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ .وَأَمَّا حَدِیْثُ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ مِنْ حَدِیْثِ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیِّ ، فَحَدِیْثٌ فَاسِدٌ فِیْ اِسْنَادِہِ وَمَتْنِہٖ، قَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ شُعْبَۃُ .
٦٠٦٠: سلمہ بن کہیل نے حجیہ بن عدی (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے جس کا کچھ سینگ ٹوٹا ہوا ہو آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کچھ نقصان نہیں اس نے کہا لنگڑے کا کیا حکم ہے آپ نے فرمایا جب وہ قربانی کے مقام تک پہنچ سکتا ہو تو ٹھیک ہے البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس کی آنکھ اور کان کو اچھی طرح جانچ لینے کا حکم دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کے کان کا اگلا یا پچھلا حصہ پھٹا یا کٹا ہو اس کی قربانی جائز نہیں مقابلہ کان کے اگلے حصے کے کٹنے کو کہتے ہیں اور اگر نچلی جانب سے کٹا ہو تو اس کے لیے مدابرہ کا لفظ بولتے ہیں اور سعید ابن مسیب نے عضباء الاذن کا معنی جس کا آدھا کان کٹا ہوا ہو بتلایا ہے پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جن جانوروں کے کان کی یہ کیفیت ہو ان کی قربانی بھی منع ہے اور اس حدیث کا چھوڑنا ہمیں جائز نہیں کیونکہ حضرت برائ (رض) کی روایت دو معنی رکھتی ہے۔ نمبر ١ یا تو اس روایت سے مقدم ہوگی تو اس صورت میں اس روایت میں اضافہ ہے (جس کو قبول کیا جائے گا) یا یہ متاخر ہوگئی تو اس صورت میں اس کے لیے ناسخ بن جائے گی پس جبکہ روایت علی (رض) منسوخ نہیں بلکہ حضرت برائ (رض) کی روایت کے ساتھ ثابت ہے تو ہمیں دونوں پر عمل کرنا ہوگا۔ تمہارے نزدیک ٹوٹے ہوئے سینگ والا جانور ناجائز نہیں حالانکہ جریح بن کلیب والی روایت میں اس کی ممانعت ہے۔ ان کو جواب میں کہے کہ ہم نے اس عیب کو نہ ہونے کے برابر اس لیے قرار دیا کیونکہ علی (رض) اس میں حرج نہیں سمجھتے تھے باقی حجیہ بن عدی والی روایت کا جواب یہ ہے کہ علی (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اگر اس کے خلاف کہا ہے تو وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا منسوخ ہونا انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا۔ باقی رہا ابو سعید خدری والی روایت تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام شعبہ نے اس کو سند اور متن کے لحاظ سے فاسد قرار دیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاضاحی باب ٦‘ ترمذی فی الاضاحی باب ٦‘ نسائی فی الضحایا باب ٩‘ ١١‘ مسند احمد ١؍٣٠‘ ٩٥۔

6063

۶۰۶۱: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ رِفَاعَۃَ أَبُوْ عَقِیْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَرَظَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : وَلَمْ نَسْمَعْہُ مِنْہُ أَنَّہٗ اشْتَرٰی کَبْشًا لِیُضَحِّیَ بِہٖ ، فَأُکِلَ ذَنَبُہٗ، أَوْ بَعْضُ ذَنَبِہٖ ، فَسَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ ضَحِّ بِہٖ .فَقَدْ فَسَدَ اِسْنَادُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا ، وَفَسَدَ مَتْنُہٗ، لِأَنَّہٗ قَالَ قُطِعَ ذَنَبُہُ أَوْ بَعْضُ ذَنَبِہٖ .فَاِنْ کَانَ الْبَعْضُ ہُوَ الْمَقْطُوْعَ ، فَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ أَقَلَّ مِنْ رُبْعِہٖ، وَذٰلِکَ لَا یَمْنَعُ أَنْ یُضَحَّی بِہٖ فِی قَوْلِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ .وَلَوْ کَانَ الْحَدِیْثُ ، کَمَا رَوَاہُ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہٗ قَطَعَ أَلْیَتَہٗ، لَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلَی بَعْضِہَا ، لِأَنَّہٗ قَدْ یُقَالُ : قَطَعَ أَلْیَتَہٗ، اِذَا قَطَعَ بَعْضَہَا ، کَمَا یُقَالُ : قَطَعَ اِصْبَعَہٗ، اِذَا قَطَعَ بَعْضَہَا .فَتَصْحِیْحُ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، یَمْنَعُ أَنْ یُضَحِّیَ بِالْأَرْبَعِ ، الَّتِیْ فِیْ حَدِیْثِ الْبَرَائِ ، أَوْ بِالْمُقَابَلَۃِ وَالْمُدَابَرَۃِ ، وَہِیَ الْمَشْقُوْقَۃُ أَکْثَرُ أُذُنِہَا مِنْ قُبُلِہَا أَوْ مِنْ دُبُرِہَا .وَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ لَا یُجْزِئُ فِی الْأَضَاحِیّ ، فَالْمَقْطُوْعَۃُ الْأُذُنِ أَحْرَی أَنْ لَا تُجْزِئَ .وَکَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ عِنْدَنَا ، کُلُّ عُضْوٍ قُطِعَ مِنْ شَاۃٍ ، مِثْلُ ضَرْعِہَا ، أَوْ أَلْیَتِہَا ، فَذٰلِکَ یَمْنَعُ أَنْ یُضَحَّی بِہَا اِذَا قُطِعَ بِکَمَالِہٖ ، فَأَمَّا اِذَا قُطِعَ بَعْضُہٗ ، فَاِنَّ أَصْحَابَنَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ .فَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَرُوِیَ عَنْہُ : الْمَقْطُوْعُ مِنْ ذٰلِکَ ، اِذَا کَانَ رُبْعَ ذٰلِکَ الْعُضْوِ فَصَاعِدًا ، لَمْ یَصِحَّ بِمَا قُطِعَ ذٰلِکَ مِنْہٗ، وَاِنْ کَانَ أَقَلَّ مِنِ الرُّبْعِ ، ضَحَّی بِہٖ .وَقَالَ أَبُو یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ : اِذَا کَانَ الْمَقْطُوْعُ مِنْ ذٰلِکَ ، ہُوَ النِّصْفَ فَصَاعِدًا ، فَلَا یُضَحَّی بِمَا اِذَا قُطِعَ ذٰلِکَ مِنْہُ .وَاِنْ کَانَ أَقَلَّ مِنْ النِّصْفِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ یُضَحَّی بِہَا .اِلَّا أَنَّ أَبَا یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ ذَکَرَ أَنَّہٗ ذَکَرَ ہٰذَا الْقَوْلَ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ فَقَالَ لَہٗ : قَوْلِیْ مِثْلُ قَوْلِک .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ رُجُوْعُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ : رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، عَنْ قَوْلِہِ الَّذِی قَدْ کَانَ قَالَہٗ، اِلٰی مَا حَدَّثَہٗ بِہٖ أَبُوْ یُوْسُفَ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہِمْ ، مَا رَوَیْنَا عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، فِیْ تَفْسِیْرِ الْعَضْبَائِ الَّتِی قَدْ نُہِیَ عَنِ الْأُضْحِیَّۃِ بِہَا ، وَأَنَّہَا الْمَقْطُوْعَۃُ نِصْفُ أُذُنِہَا ، وَکُلُّ مَا کَانَ مِنْ ہٰذَا ، لَا یَکُوْنُ أُضْحِیَّۃً ، لِمَا قَدْ نَقَصَ مِنْہٗ، فَاِنَّہٗ لَا یَکُوْنُ ہَدْیًا .
٦٠٦١: شعبہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی وہ فرماتے ہیں میں نے یہ نہیں سنا کہ ابو سعید نے قربانی کے لیے کوئی دنبہ خریدا ہو اور پھر بھیڑیا اس کی دُم کا بعض یا کچھ حصہ کھا گیا ہو اور انھوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق پوچھا ہو اور آپ نے فرمایا کہ اس کی قربانی کرلو۔ پس اس حدیث کے متن کا بگاڑ واضح ہوگیا کہ کہیں تو کہا گیا کہ اس کی دم کھالی اور کہیں یہ کہا کہ اس کی دم کا کچھ حصہ کھالیا اگر کچھ حصہ کھایا ہو اور وہ چوتھائی عضو سے کم ہو تو کسی کے نزدیک بھی اس کی قربانی ممنوع نہیں اور اگر روایت اسی طرح ہو جیسے ابراہیم بن محمد نے نقل کی ہے کہ ” انہ قطع الیتہ “ تو اس سے بھی بعض دم کا کٹنا مراد ہوسکتا ہے جیسا کہ محاورہ میں کہتے ہیں قطع صبعہ جبکہ وہ انگلی کا کچھ حصہ کاٹے۔ پس ان آثار کی تصحیح کی بہتر شکل یہ ہے کہ حضرت برائ (رض) کی روایت میں جن چار عیوب والے جانوروں کا تذکرہ ہے ان کی بالکل قربانی نہ کی جائے اور مدابرہ اور مقابلہ کی قربانی بھی نہ کرے۔ جب کان کے اکثر حصہ کا کٹنے والا اور پچھلی جانب سے کان پھٹنے والا قربانی میں ممنوع ہوا تو جس جانور کا بالکل کان کٹا ہو وہ بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا۔ نظر کا تقاضا ہمارے ہاں یہ ہے کہ بکری کا جو عضو مثلاً تھن یا چکی (سرین) مکمل کاٹ ڈالی جائے تو اس کی قربانی ممنوع ہے اور جب کچھ حصہ کاٹا گیا تو اس میں ہمارے علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اگر عضو کا چوتھائی یا اس سے زائد کٹا ہو تو قربانی جائز نہ ہوگی اور اگر اس سے کم ہو تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ امام ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کے نزدیک نصف عضو یا اس سے زائد کٹا ہو تو قربانی سے منع کیا جائے گا اگر کم ہو تو اس میں حرج نہیں۔ امام ابو یوسف (رح) کہتے ہیں کہ میں نے اپنا یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کے سامنے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا۔ میرا قول بھی تمہارے ساتھ ہے اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے قول سے امام ابو یوسف (رح) کے قول کی طرف رجوع فرا لیا اور یہ قول سعید بن مسیب کے قول کے موافق ہے جو کہ عضباء کی تفسیر کے ضمن میں ہم نے اسی باب میں ذکر کیا ہے عضباء اسی جانور کو کہا جاتا ہے جس کا نصف کان کٹا ہوا ہو اور جو جانور قربانی پر نہ لگ سکتا ہو وہ ہدی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

6064

۶۰۶۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ الْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُنَیْدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، أَخْبَرَہٗ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّیْ یَوْمَ النَّحْرِ بِالْمَدِیْنَۃِ .فَتَقَدَّمَ رِجَالٌ فَنَحَرُوْا ، فَظَنُّوْا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَحَرَ فَأَمَرَ مَنْ کَانَ نَحَرَ قَبْلَہٗ، أَنْ یُعِیْدَ بِذَبْحٍ آخَرَ ، وَلَا یَنْحَرُ حَتّٰی یَنْحَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا، فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَنْحَرَ ، حَتّٰی یَنْحَرَ الْاِمَامُ ، وَاِنْ نَحَرَ قَبْلَ ذٰلِکَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ أَوْ قَبْلَہَا ، لَمْ یُجْزِہِ ذٰلِکَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَتَأَوَّلُوْا قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَنْ نَحَرَ بَعْدَ صَلَاۃِ الْاِمَامِ أَجْزَأَہُ ذٰلِکَ ، وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَلَمْ یُجْزِہِ ذٰلِکَ ، وَقَالُوْا : قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ قَدْ نَزَلَتْ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَعْنَی .فَذَکَرُوْا۔
٦٠٢٦: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نحر کے دن مدینہ منورہ میں نماز ادا فرمائی تو کچھ لوگوں نے پہلے ہی قربانی کردی ان کا خیال یہ تھا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قربانی کرچکے ہیں تو آپ نے حکم فرمایا کہ جس نے آپ سے پہلے قربانی کی ہے وہ دوسرا جانور بطور قربانی ذبح کرے اور کوئی شخص قربانی کا جانور اس وقت تک ذبح نہ کرے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قربانی نہ کرلیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ کوئی شخص امام کے قربانی کرنے سے پہلے قربانی نہیں کرسکتا اگر اس سے پہلے قربانی کرلی خواہ نماز سے پہلے ہو یا بعد اس کی قربانی جائز نہ ہوگی۔ انھوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے ” یا ایہا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ “ (الحجرات ١) کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش دستی مت کرو۔ دوسروں نے کہا جو آدمی امام کے نماز پڑھانے کے بعد قربانی کرے اس کی قربانی درست ہے اور جو نماز عید سے پہلے قربانی کرے اس کی قربانی جائز نہ ہوگی۔ اس آیت کا شان نزول اور ہے جیسا کہ حضرت ابن زبیر (رض) کی روایت میں وارد ہے۔ (روایت یہ ہے)
تخریج : مسلم فی المساجد ١٤‘ مسند احمد ٣؍٢٩٤‘ ٣٢٤؍٣٤٩۔
ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ امام کے نحر سے پہلے قربانی کرنے والے کی قربانی جائز نہ ہوگی۔
فریق ثانی : عید کے بعد اگر امام کی قربانی سے پہلے یا بعد قربانی کرنے والے کی قربانی درست ہے۔ اس میں کچھ قباحت نہیں البتہ عید سے پہلے قربانی درست نہیں۔ اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

6065

۶۰۶۳: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ أَبِیْ اِسْرَائِیْلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ یُوْسُفَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَنَّ ابْنَ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہُ : أَنَّ رَکْبًا مِنْ بَنِیْ تَمِیْمٍ ، قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنَ زُرَارَۃَ .وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ .فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : مَا أَرَدْتَ بِذٰلِکَ اِلَّا خِلَافِی .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : مَا أَرَدْتُ خِلَافَک .فَتَمَارَیَا حَتّٰی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِی قَوْلِہِمْ ، أَنَّ حَدِیْثَ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَدْ رُوِیَ عَلَی غَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ .
٦٠٦٣: ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن زبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ بنو تمیم قبیلہ کے کچھ سوار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت ابوبکر (رض) کہنے لگے کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا امیر قعقاع بن معبد بن زرارہ کو بنائیں جبکہ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ اقرع بن جابس کو ان پر امیر مقرر فرمائیں حضرت ابوبکر (رض) کہنے لگے آپ نے اس بات سے میری مخالفت کا ارادہ کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا میں آپ کی مخالفت کرنا نہیں چاہتا دونوں کے مابین نزاع ہوا یہاں تک کہ دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اتاری ” یا ایہا الذین امنوا۔۔۔“ (الحجرات : ١) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش دستی مت کرو۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٦٨‘ تفسیر سورة ٤٩‘ باب ٢‘ نسائی فی القضاۃ باب ٦۔
روایت جابر (رض) کا جواب : روایت جابر (رض) دیگر الفاظ سے مروی ہے وہ اس طرح ہے۔

6066

۶۰۶۴: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ رَجُلًا ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَتُوْدًا جَذَعًا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُجْزِئُ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَکَ وَنَہَی أَنْ یَذْبَحُوْا قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّہْیَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا قُصِدَ بِہٖ اِلَی النَّہْیِ عَنْ الذَّبْحِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ ، لَا قَبْلَ ذَبْحِہٖ، وَہُوَ لَا یَجُوْزُ أَنْ یَنْہَاہُمْ عَنْ الذَّبْحِ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ اِلَّا وَہُوَ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ اِعْلَامَہُمْ اِبَاحَۃَ الذَّبْحِ لَہُمْ بَعْدَ مَا یُصَلِّی ، وَاِلَّا لَمْ یَکُنْ لِذِکْرِہٖ الصَّلَاۃَ مَعْنًی .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ غَیْرِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یُوَافِقُ ہٰذَا .
٦٠٦٤: حضرت جابر (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نماز عید ادا کرنے سے پہلے بکری کا چھ ماہ کا بچہ ذبح کرلیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے بعد یہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں اور آپ نے نماز عید سے پہلے ذبح سے ممانعت فرمائی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت سے معلوم ہوا کہ نہی سے مقصود عید کی نماز سے پہلے ذبح کی ممانعت ہے یہ مراد نہیں کہ آپ کے ذبح سے پہلے کوئی جانور ذبح نہ کیا جائے اور نماز پڑھنے سے پہلے ممانعت ذبح کا صاف مطلب یہ ہے نماز عید سے پہلے ذبح جائز نہ ہوگا آپ کے اعلان کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے بعد ذبح کیا جائے ورنہ اس موقعہ پر نماز کے تذکرہ کا کوئی مطلب نہیں اور حضرت جابر (رض) کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی اس معنی کی موافقت منقول ہے۔ (روایت برائ (رض) ملاحظہ ہو)
تخریج : مسند احمد ٣؍٣٦٤۔

6067

۶۰۶۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ ، وَوَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ زُبَیْدٍ الْیَامِیِّ ، قَالَ : سَمِعْت الشَّعْبِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : خَرَجَ اِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْأَضْحَیْ اِلَی الْبَقِیعِ ، فَبَدَأَ ، فَصَلَّیْ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہٖ فَقَالَ اِنَّ أَوَّلَ نُسُکِنَا فِیْ یَوْمِنَا ہٰذَا، أَنْ نَبْدَأَ بِالصَّلَاۃِ ، ثُمَّ نَرْجِعَ ، فَنَنْحَرَ ، فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ ، فَقَدْ وَافَقَ سُنَّتَنَا ، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ ذٰلِکَ ، فَاِنَّمَا ہُوَ لَحْمٌ عَجَّلَہٗ لِأَہْلِہٖ ، لَیْسَ مِنَ النُّسُکِ فِیْ شَیْئٍ .فَقَامَ خَالِیْ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ ذٰبَحْت ، وَعِنْدِی جَذَعَۃٌ خَیْرٌ مِنْ مُسِنَّۃٍ ، فَقَالَ اذْبَحْہَا ، وَلَا تُجْزِئُ ، أَوْ لَا تُوْفِی ، عَنْ أَحَدٍ بَعْدَک .
٦٠٦٥: شعبی نے حضرت برائ (رض) سے روایت کی ہے تو وہ کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدالاضحی کے دن بقیع کی طرف تشریف لائے آپ نے پہلے دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ہماری آج کی اولین عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں گے پھر واپس جا کر قربانی کریں گے پس جس نے ایسا کیا اس نے ہمارے طریقہ کی موافقت کی اور جس نے اس سے پہلے ذبح کیا تو وہ محض گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کیا قربانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے ماموں کھڑے ہوئے اور انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ذبح کرچکا ہوں اور میرے پاس ایک چھ ماہ کا بکری کا بچہ ہے جو ایک سال عمر والے سے بہتر ہے آپ نے فرمایا تم اسے ذبح کر دو اور یہ تمہارے بعد کسی کے لیے جائز نہیں ہے یا فرمایا کسی کے لیے کافی نہیں۔
تخریج : بخاری فی العیدین باب ٣؍٨‘ والاضاحی باب ١؍١١‘ مسلم فی الاضاحی ٧‘ مسند احمد ٤؍٢٨٢۔

6068

۶۰۶۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِی زُبَیْدٌ ، وَمَنْصُوْرٌ ، وَدَاوٗدَ ، وَابْنُ عَوْنٍ ، وَمُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ .وَہٰذَا حَدِیْثُ زُبَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْت الشَّعْبِیَّ ہَاہُنَا یُحَدِّثُ عَنِ الْبَرَائِ ، عِنْدَ سَارِیَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ ، وَلَوْ کُنْتُ قَرِیْبًا مِنْہَا ، لَأَخْبَرْتُکُمْ بِمَوْضِعِہَا ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٠٦٦: زبید نے شعیب سے روایت کی ہے کہ وہ مسجد کے ستون کے پاس حضرت برائ (رض) کی طرف سے بیان کر رہے تھے اگر میں ان سے قریب ہوتا تو تمہیں اس کی جگہ بتا دیتا پھر اس کی مثل روایت بیان کی ہے۔

6069

۶۰۶۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْمُطَرِّفِ بْنُ أَبِی الْوَزِیرِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ اذْبَحْہَا ، وَلَا تُزَکِّی جَذَعَۃً بَعْدُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ أَوَّلَ نُسُکِنَا فِیْ یَوْمِنَا ہٰذَا، أَنْ نُصَلِّیَ ، ثُمَّ نَرْجِعَ ، فَنَنْحَرَ ، فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ ، فَقَدْ وَافَقَ سُنَّتَنَا .فَأَخْبَرَ أَنَّ النُّسُکَ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ ، ہُوَ صَلَاۃٌ ، ثُمَّ الذَّبْحُ بَعْدَہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا یَحِلُّ بِہٖ الذَّبْحُ ، ہُوَ الصَّلَاۃُ ، لَا ذَبْحُ الْاِمَامِ الَّذِیْ یَکُوْنُ بَعْدَہَا ، وَعَلٰی أَنَّ حُکْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ، خِلَافُ حُکْمِ النَّحْرِ قَبْلَہَا .وَقَدْ رَوَی مِثْلَ ہٰذَا أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، غَیْرُ الْبَرَائِ .
٦٠٦٧: زبیر نے شعبی سے انھوں نے حضرت برائ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے مگر اس میں یہ الفاظ مختلف ہیں اب اس کو ذبح کرلو اور آئندہ کوئی چھ ماہ کا بکرا مت ذبح کر کرنا (قربانی کے لئے) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد آج کے دن ہمارا پہلا عبادت کا عمل نماز ادا کرنا اور پھر واپس لوٹنا ہے اور بعد ازیں ہم قربانی کریں گے جس نے اس طرح کیا اس نے ہمارے طریقہ کی موافقت کی۔ اس سے بتلا دیا گیا عیدالاضحی کے دن پہلا عبادت والا کام نماز عید ہے پھر اس کے بعد ذبح ہے اس سے یہ ثبوت مہیا ہوگیا کہ ذبح کو حلال کرنے والی نماز عید ہے امام کا ذبح کرنا نہیں اور نماز سے پہلے ذبح اور بعد ذبح کا فرق ہے اور اس کو دیگر حضرات صحابہ کرام (رض) سے حضرت برائ (رض) کے علاوہ نقل کیا ہے۔

6070

۶۰۶۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جُنْدُبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : شَہِدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ ، فَمَرَّ بِقَوْمٍ قَدْ ذَبَحُوْا قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ فَقَالَ مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَلِیُعِدْ ، فَاِذَا صَلَّیْنَا ، فَمَنْ شَائَ ذَبَحَ، وَمَنْ شَائَ فَلَا یَذْبَحْ .
٦٠٦٨: اسود بن قیس نے حضرت جندب (رض) سے روایت کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قربانی کے دن موجود تھا آپ کا گزر ان لوگوں کے پاس سے ہوا جنہوں نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تھی تو آپ نے فرمایا جس نے نماز سے پہلے قربانی کی ہو وہ قربانی دوبارہ کرے۔ جب ہم نماز ادا کرلیں گے تو جو چاہے ذبح کرے اور جو چاہے ذبح نہ کرے۔

6071

۶۰۶۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جُنْدُبَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ ، فَلْیُعِدْ أُخْرَی مَکَانَہَا ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ ذَبَحَ ، فَلْیَذْبَحْ .
٦٠٦٩: اسود بن قیس نے حضرت جندب بن عبداللہ (رض) سے روایت کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی نماز عید سے پہلے ذبح کرتے وہ وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے ذبح نہ کی ہو وہ ذبح کرے۔
تخریج : بخاری فی الاضاحی باب ١٢‘ والذبائح باب ١٢۔ ١٧‘ والتوحید باب ١٣‘ والمسلم فی الاضاحی روایت ١‘ ٢‘ ٣‘ ترمذی فی الاضاحی باب ١٢‘ نسائی فی الضحایا باب ٤‘ ١٧‘ ابن ماجہ فی الاضاحی باب ١٢۔

6072

۶۰۷۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، سَمِعَ جُنْدُبًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : شَہِدْت الْأَضْحَی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَعَلِمَ أَنَّ نَاسًا ذَبَحُوْا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَقَالَ مَنْ کَانَ ذَبَحَ ، فَلْیُعِدْ ، وَمَنْ لَا ، فَلْیَذْبَحْ ، عَلَی اسْمِ اللّٰہِ .
٦٠٧٠: اسود بن قیس نے حضرت جندب (رض) کو کہتے سنا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عید قربانی میں موجود تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے نماز سے پہلے قربانیاں کرلی ہیں تو آپ نے فرمایا جس نے ذبح کرلیا وہ دوبارہ لوٹائے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کرے۔

6073

۶۰۷۱: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَج قَالَ : أَخْبَرَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْیَانَ قَالَ : شَہِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّی بِالنَّاسِ الْعِیْدَ ، فَاِذَا ہُوَ بِغَنَمٍ قَدْ ذُبِحَتْ فَقَالَ مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ ، فَتِلْکَ شَاۃُ لَحْمٍ ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ ذَبَحَ ، فَلْیَذْبَحْ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ .
٦٠٧١: اسود بن قیس نے جندب بن سفیان (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز عید میں موجود تھا۔ اچانک آپ نے دیکھا کہ ایک بکری ذبح شدہ پڑی ہے تو آپ نے فرمایا جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا وہ صرف گوشت کی بکری ہے یعنی گوشت کھانے کے لیے اس کو ذبح کیا گیا ہے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرے۔

6074

۶۰۷۲: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ حَمَّادٌ : وَلَا أَعْلَمُہُ اِلَّا عَنْ أَنَسٍ ، وَہِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی ، ثُمَّ خَطَبَ ، فَأَمَرَ مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ أَنْ یُعِیْدَ ذَبْحًا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الذَّبْحِ ، یَوْمَ النَّحْرِ ، ہُوَ مِنْ بَعْدِ الصَّلَاۃِ ، لَا مِنْ بَعْدِ ذَبْحِ الْاِمَامِ .فَہٰذَا حُکْمُ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .فَأَمَّا مَا یَدُلُّ عَلَیْہِ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ الْاِمَامَ لَوْ لَمْ یَنْحَرْ أَصْلًا ، لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ بِمُسْقِطٍ عَنِ النَّاسِ النَّحْرَ ، وَلَا بِمَانِعٍ لَہُمْ مِنَ النَّحْرِ فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أُسَیْدٍ أَبِیْ سَرِیحَۃَ ،
٦٠٧٢: محمد نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عید ادا فرمائی پھر خطبہ دیا اور حکم فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہے وہ دوبارہ ذبح کرے۔ محمد نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عید ادا فرمائی پھر خطبہ دیا اور حکم فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہے وہ دوبارہ ذبح کرے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذبح کا وقت نماز کے بعد ہے امام کے ذبح کرنے کے بعد نہیں آثار کو سامنے رکھ کر اس باب کا یہی حکم ہے۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ سب کے نزدیک اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر امام سرے سے قربانی ہی نہ کرے تو اس سے لوگوں کے ذمے سے قربانی ساقط نہ ہوگی اور نہ ہی اس کا ذبح نہ کرنا لوگوں کی قربانی میں اس حال میں رکاوٹ بنے گا اور یہ بات حذیفہ بن اسید ابی شریح کے اثر سے بھی ثابت ہے۔

6075

۶۰۷۳: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَشْہَلُ بْنُ حَاتِمٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مَسْرُوْقٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِیْ سَرِیحَۃَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، کَانَا لَا یُضَحِّیَانِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : أَفَتَرَی مَا ضَحَّی فِی تِلْکَ السِّنِیْنَ أَحَدٌ ، اِذْ کَانَ اِمَامُہُمْ لَمْ یُضَحِّ ، أَوَ لَا تَرَی أَنَّ اِمَامًا لَوْ تَشَاغَلَ یَوْمَ النَّحْرِ بِقِتَالِ عَدُو أَوْ غَیْرِہٖ، فَشَغَلَہٗ ذٰلِکَ عَنِ النَّحْرِ ، أَمَا لِغَیْرِہِ مِمَّنْ أَرَادَ أَنْ یُضَحِّیَ ، فَلَہٗ أَنْ یُضَحِّیَ ؟ فَاِنْ قَالَ : اِنَّہٗ لَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یُضَحِّیَ فِیْ عَامِہِ ذٰلِکَ ، خَرَجَ بِہٰذَا مِنْ قَوْلِ الْأَئِمَّۃِ .وَاِنْ قَالَ : لِلنَّاسِ أَنْ یُضَحُّوْا اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ لِذَہَابِ وَقْتِ الصَّلَاۃِ ، فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا یَحِلُّ بِہٖ النَّحْرُ ، مَا کَانَ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃِ الْعِیْدِ ، فَاِنَّمَا ہُوَ الصَّلَاۃُ ، لَا نَحْرُ الْاِمَامِ ، فَاِذَا صَلَّی الْاِمَامُ ، حَلَّ النَّحْرُ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْحَرَ .أَوَ لَا تَرَی أَنَّ الْاِمَامَ لَوْ نَحَرَ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ لَمْ یُجْزِہِ ذٰلِکَ ، وَکَذٰلِکَ سَائِرُ النَّاسِ .فَکَانَ الْاِمَامُ وَغَیْرُہُ - فِی الذَّبْحِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ - سَوَائً فِیْ أَنْ لَا یُجْزِئَہُمْ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ الْاِمَامُ ، وَسَائِرُ النَّاسِ أَیْضًا ، سَوَائً فِی الذَّبْحِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ .فَکَمَا کَانَ ذَبْحُ الْاِمَامِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ یُجْزِئُہٗ، فَکَذٰلِکَ ذَبْحُ سَائِرِ النَّاسِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ یُجْزِئُہُمْ .ہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٦٠٧٣: شعبی نے ابی شریح سے نقل کیا کہ ابوبکر و عمر (رض) بعض اوقات قربانی نہ کرتے تھے یعنی قربانی کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ جن سالوں میں ان حضرات نے قربانی نہیں کی تو کیا کسی نے بھی قربانی نہیں کی اس لیے کہ ان کے امام نے قربانی نہیں کی یا تم نے کہیں یہ بات پائی ہو کہ امام عید قربان کے دن دشمن کے ساتھ لڑائی وغیرہ میں مشغول رہا جس سے وہ قربانی نہ کرسکا تو کیا ان کے علاوہ دوسرے بھی قربانی نہیں کریں گے۔ اس سال کسی کو بھی قربانی نہ کرنی چاہیے اس سے وہ قربانی نہ کرنے والا امت کے قول سے نکل گیا اور اگر اس نے لوگوں کو کہا کہ وہ قربانی کرلیں جبکہ سورج ڈھل جائے اور نماز کا وقت چلا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جب تک نماز عید کا وقت ہے اس وقت تک قربانی درست نہیں تو درحقیقت نماز عید ہی قربانی کے لیے رکاوٹ ہے امام کا ذبح کرنا نہیں جب امام نے نماز پڑھ لی تو ذبح کرنا جائز ہوگیا جو شخص کہ قربانی کرنا چاہتا ہو ذرا توجہ تو کریں کہ امام اگر نماز پڑھانے سے پہلے خود قربانی کرلے تو اس کی بھی درست نہیں اور دوسرے لوگ بھی حکم میں اسی طرح ہیں۔ میں امام اور غیر امام نماز سے پہلے قربانی کے ناجائز ہونے میں برابر ہیں۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ امام اور دوسرے لوگ نماز کے بعد ذبح میں برابر ہیں پس جس طرح امام کا ذبیحہ نماز کے بعد اس لیے کافی ہے اسی طرح بقیہ لوگوں کا ذبیحہ بھی نماز کے بعد ان کے لیے کافی ہے قیاس کا یہی تقاضا ہے ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

6076

۶۰۷۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ ، قَالَا : خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ یُرِیْدُ زِیَارَۃَ الْبَیْتِ ، وَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ ، وَکَانَ الْہَدْیُ سَبْعِیْنَ بَدَنَۃً ، وَکَانَ النَّاسُ سَبْعَمِائَۃِ رَجُلٍ ، وَکَانَتْ کُلُّ بَدَنَۃٍ عَنْ عَشَرَۃٍ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْبَدَنَۃَ تُجْزِئُ فِی الْہَدَایَا وَالضَّحَایَا عَنْ عَشَرَۃٍ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا تُجْزِئُ الْبَدَنَۃُ اِلَّا عَنْ سَبْعَۃٍ ، وَقَالُوْا : قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَحْرِ الْبُدُنِ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، مَا یُخَالِفُ ہٰذَا .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٦٠٧٤: عروہ بن زبیر نے مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے سال بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے اور اپنے ساتھ ہدی کے جانور بھی لے لیے ہدی کے جانوروں کی تعداد ستر تھی اور لوگوں کی تعداد سات سو تھی اور ہر اونٹ دس کی طرف سے تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قربانی اور ہدی کا اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے ہوسکتا ہے دلیل میں انھوں نے یہ روایت پیش کی۔ دوسروں نے کہا اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ہوسکتا ہے اور اس سلسلے میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیبیہ کے دن اونٹوں کے ذبح کے سلسلے میں اور روایات بھی وارد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قربانی و ہدی کے اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں اس قول کو ابن مسیب (رح) نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی : کا قول یہ ہے کہ قربانی و ہدی کے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ ائمہ احناف نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس قول کو تمام فقہاء اور جلیل القدر تابعین عطائ ‘ طاوس ‘ سالم ‘ حسن ثوری رحمہم اللہ نے اختیار کیا۔
(المغنی ج ٨‘ ص ٦٧٠)

6077

۶۰۷۵: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَہُمْ أَنَّہُمْ نَحَرُوْا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، الْبَدَنَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ ، وَالْبَقَرَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ .
٦٠٧٥: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نے حدیبیہ کے دن گائے اور اونٹ سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کئے۔ تخریج : مسلم فی الحج روایت ٣٥٠‘ ٣٥٢‘ ترمذی فی الاضاحی باب ٨‘ ٩‘ نسائی فی الضحایا باب ١٦‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ٥‘ مالک فی الاضاحی حدیث ٩۔

6078

۶۰۷۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٠٧٦: ابن وہب کہتے ہیں کہ مالک نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

6079

۶۰۷۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، وَأَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : نَحَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَدَنَۃَ عَنْ سَبْعَۃِ نَفَرٍ فَقِیْلَ لِجَابِرٍ : رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : وَالْبَقَرَۃُ ؟ قَالَ ہِیَ مِثْلُہَا .وَحَضَرَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ قَالَ : وَنَحَرْنَا یَوْمئِذٍ سَبْعِیْنَ بَدَنَۃً .
٦٠٧٧: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا حضرت جابر (رض) سے پوچھا گیا گائے کا کیا حکم ہے تو فرمایا وہ اونٹ کی مثل ہے۔ جابر (رض) حدیبیہ والے سال موجود تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس دن ستر اونٹوں کی قربانی کی۔

6080

۶۰۷۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، سَبْعِیْنَ بَدَنَۃً فَأَمَرَنَا أَنْ یَشْتَرِکَ مِنَّا سَبْعَۃٌ فِی الْبَدَنَۃِ .
٦٠٧٨: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ والے سال ستر اونٹ ذبح کئے اور ہمیں حکم دیا کہ اونٹ میں ہم سات آدمی شریک ہوجائیں۔

6081

۶۰۷۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : نَحَرْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْعِیْنَ بَدَنَۃً ، الْبَدَنَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ .
٦٠٧٩: سلیمان بن قیس کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ستر اونٹ قربان کئے ایک اونٹ سات کی طرف سے۔

6082

۶۰۸۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہُدْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَانَ بْنَ یَزِیْدَ ، یُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : الْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَۃٍ .فَہٰذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ذَکَرْنَا ، وَہُوَ کَانَ مَعَہٗ، حِیْنَئِذٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِی ، وَعَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ قَوْلِہِمَا ، مَا یُوَافِقُ ہٰذَا فِی الْبَدَنَۃِ أَنَّہَا عَنْ سَبْعَۃٍ .
٦٠٨٠: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے۔ یہ جابر بن عبداللہ بتا رہے ہیں جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ اس وقت آپ کے ساتھ تھے علی (رض) اور عبداللہ ابن مسعود (رض) کا بھی قول یہی ہے کہ اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ہے۔

6083

۶۰۸۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ عِیْسَی بْنِ أَبِیْ عَزَّۃَ عَنْ عَامِرٍ عَنْ عَلِیْ وَعَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَا : الْبَدَنَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ ، وَالْبَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یَحْکِیْہِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ .
٦٠٨١: عامر نے حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی کہ اونٹ سات کی طرف سے ہے اور گائے بھی سات کی طرف سے ہوگی اور یہی بات حضرت انس (رض) نے اصحاب رسول (رض) کے متعلق بیان کی ہے۔

6084

۶۰۸۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَشْتَرِکُوْنَ سَبْعَۃً فِی الْبَدَنَۃِ مِنَ الْاِبِلِ ، وَالسَّبْعَۃُ فِی الْبَدَنَۃِ مِنَ الْبَقَرِ .فَہٰذَا مَذْہَبُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ عَنْہُمْ ، فِی الْبَدَنَۃِ ، یُوَافِقُ مَا رُوِیَ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَا مَا رُوِیَ عَنِ الْمِسْوَرِ ، وَمَرْوَانَ ، فَہُوَ أَوْلَی مِنْہُ .وَلَمَّا اخْتَلَفُوْا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا ذَکَرْنَا ، رَجَعْنَا اِلٰی مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، مِمَّا سِوَی مَا نَحَرَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ .
٦٠٨٢: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سات سات ایک اونٹ میں شریک ہوجاتے اور سات ہی گائے میں۔ یہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذہب تو حضرت جابر (رض) کی روایت کے مطابق ہے اس طرح نہیں جیسا کہ مسور اور مروان نے نقل کیا حضرت جابر (رض) کی روایت بھی ان کی روایت سے اعلیٰ ہے اب جبکہ اصحاب رسول سے یہ مختلف روایات آگئیں اب ہم ان روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو حدیبیہ کے دن ذبح کے متعلق وارد ہیں۔

6085

۶۰۸۳: فَاِذَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ فَرَّ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنَّ عَلَیَّ نَاقَۃً وَقَدْ غَرَبَتْ عَنِّیْ فَقَالَ اشْتَرِ سَبْعًا مِنَ الْغَنَمِ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِنَّمَا عَدَلَہَا بِسَبْعٍ مِنَ الْغَنَمِ ، مِمَّا یُجْزِئُ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ عَنْ رَجُلٍ ، وَلَمْ یَعْدِلْہَا بِعَشْرٍ مِنَ الْغَنَمِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی تَصْحِیْحِ مَا رَوَی جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ، لَا مَا رَوَی الْمِسْوَرُ ، فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْبَقَرَۃَ لَا تُجْزِئُ فِی الْأُضْحِیَّۃِ ، عَنْ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعَۃٍ وَہِیَ مِنَ الْبُدُنِ بِاتِّفَاقِہِمْ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ تَکُوْنَ النَّاقَۃُ مِثْلَہَا ، وَلَا تُجْزِئُ عَنْ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعَۃٍ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ النَّاقَۃَ وَاِنْ کَانَتْ بَدَنَۃً کَمَا أَنَّ الْبَقَرَۃَ بَدَنَۃٌ ، فَاِنَّ النَّاقَۃَ أَعْلَی مِنَ الْبَقَرَۃِ فِی السَّمَانَۃِ وَالرِّفْعَۃِ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّہَا وَاِنْ کَانَتْ کَمَا ذَکَرْت ، فَاِنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ وَاجِبٍ لَک بِہٖ عَلَیْنَا حُجَّۃٌ .أَلَا تَرَی أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْبَقَرَۃَ الْوُسْطَی ، تُجْزِئُ عَنْ سَبْعَۃٍ وَکَذٰلِکَ مَا ہُوَ دُوْنَہَا ، وَمَا ہُوَ أَرْفَعُ مِنْہَا .وَکَذٰلِکَ النَّاقَۃُ تُجْزِئُ عَنْ سَبْعَۃٍ ، أَوْ عَنْ عَشْرَۃٍ ، رَفِیْعَۃً کَانَتْ أَوْ دُوْنَ ذٰلِکَ .فَلَمْ یَکُنْ السِّمَنُ وَالرِّفْعَۃُ ، مِمَّا یُمَیَّزُ بِہٖ بَعْضُ الْبَقَرِ عَنْ بَعْضٍ ، وَلَا بَعْضُ الْاِبِلِ عَنْ بَعْضٍ ، فِیْمَا تُجْزِئُ فِی الْہَدْیِ وَالْأَضَاحِیّ .بَلْ کَانَ حُکْمُ ذٰلِکَ کُلِّہِ حُکْمًا وَاحِدًا یُجْزِئُ عَنْ عَدَدٍ وَاحِدٍ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، وَکَانَتِ الْاِبِلُ وَالْبَقَرُ بُدُنًا کُلَّہَا ، ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہَا حُکْمٌ وَاحِدٌ ، وَأَنَّ بَعْضَہَا لَا یُجْزِئُ أَکْثَرَ مِمَّا یُجْزِئُ عَنْہُ الْبَعْضُ الْبَاقِی ، وَاِنْ زَادَ بَعْضُہَا عَلَی بَعْضٍ فِی السِّمَنِ وَالرِّفْعَۃِ .فَلَمَّا کَانَتِ الْبَقَرَۃُ لَا تُجْزِئُ عَنْ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعَۃٍ ، کَانَتْ النَّاقَۃُ أَیْضًا کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ لَا تُجْزِئُ عَنْ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعَۃٍ ، قِیَاسًا وَنَظَرًا ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٦٠٨٣: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے یہ سوال کیا کہ اگر مجھ پر ایک اونٹ لازم ہو اور وہ غائب ہوجائے تو کیا میں اس کے بدلے سات بکریاں خرید سکتا ہوں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات بکریاں خرید لو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں ایک اونٹ کو سات بکریوں کے برابر قرار دیا ہے جو کہ ہر ایک آدمی کی طرف سے ایک ہوجائے گی دس بکریوں کے برابر قرار نہیں دیا۔ اس سے جابر (رض) کی روایت کی درستگی ظاہر ہوگئی نہ کہ مسور کی روایت۔ آثار کو سامنے رکھ کر اس باب کا یہی حکم ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ گائے کی قربانی میں سات سے زیادہ شریک نہیں ہوسکتے اور گائے کا بدنہ میں سے ہونا قطعی ہے پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اونٹ جو کہ بدنہ ہے اس کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ سات سے زیادہ کی طرف سے جائز نہ ہو۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ گائے اگرچہ بدنہ میں شامل ہے لیکن اونٹ اس سے اعلیٰ اور موٹاپے میں زیادہ ہے۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کے اس سوال سے ہمارے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ دیکھیں درمیانی قسم کی گائے سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہے اور کم درجہ کی گائے بھی سات کی طرف سے جائز ہے۔ حالانکہ وہ اس سے موٹاپے میں کم ہے اور درمیانی گائے موٹاپے میں زیادہ ہے اسی طرح اونٹنی سات کی طرف سے بالاتفاق اور دس کی طرف سے بقول تمہارے جائز ہے خواہ موٹی یا پتلی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ موٹاپا اور قیمت کی بلندی جب گائے ایک دوسرے سے فرق ہونے کے باوجود حکم کو نہیں بدل سکتی اسی طرح اونٹوں میں بھی خواہ وہ قربانی کے ہوں یا ہدی کے ہوں سب کا حکم ایک ہی ہے کہ اتنی تعداد کے لیے کافی ہوگی جب بدنہ ہونے میں دونوں شریک ہیں تو ان کا حکم بھی ایک ہی ہے اگرچہ ان میں موٹاپے اور قیمت کی بلندی کے اعتبار سے باہمی فرق ہو تو جب گائے سات سے زائد آدمیوں کی طرف سے نہیں ہوسکتی تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اونٹنی بھی سات سے زائد کی طرف نہ ہو۔ یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا ہے۔

6086

۶۰۸۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا عَمِّی ح .
٦٠٨٤: احمد بن عبدالرحمن بن وہب کہتے ہیں میرے چچا نے مجھے بیان کیا۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایک بکری کئی آدمیوں کی طرف سے بطور قربانی ذبح کی جاسکتی ہے خواہ وہ ایک گھر کے افراد ہوں یا کئی گھروں سے متعلق ہوں۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ ایک بکری صرف ایک آدمی کی طرف سے ذبح کی جاسکتی ہے اس قول کو ائمہ احناف رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔

6087

۶۰۸۵: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو زُرْعَۃَ ، قَالَا : ثَنَا حَیْوَۃُ ، عَنْ أَبِیْ صَخْرٍ الْمَدَنِیِّ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُسَیْطٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِکَبْشٍ أَقْرَنَ یَطَأُ فِیْ سَوَادٍ ، وَیَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ ، وَیَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ ، فَأُتِیَ بِہٖ لِیُضَحِّیَ بِہٖ .ثُمَّ قَالَ یَا عَائِشَۃُ ، ہَلُمِّی الْمُدْیَۃَ ثُمَّ قَالَ اشْحَذِیہَا بِحَجَرٍ فَفَعَلَتْ ، ثُمَّ أَخَذَہَا وَأَخَذَ الْکَبْشَ فَأَضْجَعَہٗ، ثُمَّ ذَبَحَہُ وَقَالَ بِسْمِ اللّٰہِ، اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَمِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ ضَحَّی بِہٖ .
٦٠٨٥: ربیع جیزی نے اپنی سند سے عروہ بن زبیر سے اور انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ایک سینگوں والا مینڈھا لایا جائے جو کہ سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہے اور سیاہی میں بیٹھتا ہو۔ چنانچہ وہ مینڈھا قربانی کے لیے لایا گیا پھر فرمایا۔ اے عائشہ (رض) چھری لاؤ پھر فرمایا اس کو پتھر پر تیز کرو میں نے اس کو پتھر پر تیز کردیا تو آپ نے اس چھری کو لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا تو اس کو ذبح کرتے ہوئے یہ دعا پڑھی۔ بسم اللہ اللہم۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے میں اس کو ذبح کرتا ہوں اے اللہ اس کو قبول فرما محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے پھر آپ نے اس کی قربانی دی۔
تخریج : مسلم فی الاضاحی حدیث ١٩‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ٣‘ ترمذی فی الاضاحی باب ٤‘ مسند احمد ٦؍٧٨۔

6088

۶۰۸۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَوْ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا ضَحَّی ، اشْتَرٰی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ أَقَرْنَیْنِ مَوْجُوْئَ یْنِ ، یَذْبَحُ أَحَدَہُمَا عَنْ أُمَّتِہٖ، مَنْ شَہِدَ مِنْہُمْ بِالتَّوْحِیدِ ، وَشَہِدَ لَہٗ بِالْبَلَاغِ ، وَالْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ .
٦٠٨٦: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) یا حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قربانی کرتے تو دو موٹے موٹے بڑے سینگوں والے خصی چتکبرے مینڈھے خریدتے۔ ایک اپنی امت کی طرف سے جو کہ توحید کی گواہی دینے والے ہیں اور آپ کے پیغام پہنچنے کی گواہی دینے والے ہیں ان لوگوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاضاحی باب ٤‘ ابن ماجہ فی الاضاحی باب ١‘ مسند احمد جلد ٦؍٢٢٠۔

6089

۶۰۸۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا ضَحَّی ، اشْتَرٰی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ أَمْلَحَیْنِ ، حَتّٰی اِذَا خَطَبَ النَّاسَ وَصَلَّی أُتِیَ بِأَحَدِہِمَا وَہُوَ قَائِمٌ فِیْ مُصَلَّاہٗ، فَذَبَحَہُ بِیَدِہٖ، ثُمَّ قَالَ اللّٰہُمَّ ہٰذَا عَنْ أُمَّتِی جَمِیْعًا ، مَنْ شَہِدَ لَک بِالتَّوْحِیدِ ، وَشَہِدَ لِیْ بِالْبَلَاغِ .ثُمَّ یُؤْتَی بِالْآخَرِ فَیَذْبَحُہُ ثُمَّ یَقُوْلُ : اللّٰہُمَّ ہٰذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ یَجْمَعُہُمَا جَمِیْعًا ، وَیَأْکُلُ ہُوَ وَأَہْلُہُ مِنْہُمَا .قَالَ فَمَکَثْنَا سِنِیْنَ لَیْسَ رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ یُضَحِّی قَدْ کَفَی اللّٰہُ الْمُؤْنَۃَ وَالْعَزْمَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٠٨٧: علی ابن حسین نے حضرت ابو رافع سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قربانی کرتے تو دو بڑے موٹے چتکبرے مینڈھے خریدتے جب لوگوں کو نماز پڑھا کر اور خطبہ دے کر فارغ ہوتے تو ایک کو لایا جاتا جبکہ آپ ابھی عید گاہ میں تشریف فرما ہوتے اور اپنے دست مبارک سے اس کو ذبح کرتے اور پھر یہ دعا پڑھتے اللہم۔۔۔ اے اللہ یہ میری تمام امت کے ان لوگوں کے لیے ہے جو توحید کی گواہی دینے والے اور میرے پیغام پہنچانے کی گواہی دینے والے ہیں پھر دوسرے کو لایا جاتا اور اس کو آپ ذبح کر کے یوں دعا کرتے اللہم ہذا۔۔۔ اے اللہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے پھر ان دونوں کا گوشت اکٹھا کرتے اور آپ خود اور گھر والے کھاتے تھے ابو رافع کہتے ہیں کہ ہمارے کئی سال ایسے گزرے کہ بنی ہاشم میں سے کوئی بھی قربانی نہیں کرتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مشقت کو ہٹا دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے تاوان سے کفایت کردی۔
تخریج : بنحوہ ابن ماجہ باب ١‘ مسند احمد جلد ٦؍٨۔

6090

۶۰۸۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، ح .
٦٠٨٨: ابراہیم بن مرزوق نے عفان سے روایت کی۔

6091

۶۰۸۹: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ عَظِیْمَیْنِ أَقَرْنَیْنِ مَوْجُوْئَ یْنِ ، فَأَضْجَعَ أَحَدَہُمَا وَقَالَ بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ، اللّٰہُمَّ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِہٖ، مَنْ شَہِدَ لَک بِالتَّوْحِیدِ ، وَشَہِدَ لِیْ بِالْبَلَاغِ .
٦٠٨٩: محمد بن خزیمہ نے اپنی سند کے ساتھ عبدالرحمن بن جابر اور انھوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو بڑے بڑے چتکبرے بڑے سینگوں والے خصی مینڈھے لائے گئے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کو لٹایا اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر یہ دعا پڑھی اللہم۔۔۔ اے اللہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے توحید اور پیغام رسالت پہنچنے کی گواہی دینے والوں کی طرف سے ہے۔

6092

۶۰۹۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَہْبِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِیْ عَیَّاشٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ضَحَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَیْنِ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ .فَقَالَ - حِیْنَ وَجَّہَہُمَا - وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ اِلَی آخِرِ الْآیَۃِ اللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِہٖ ثُمَّ سَمَّی وَکَبَّرَ وَذَبَحَ .
٦٠٩٠: ابو عیاش نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید کے دن دو دنبوں کی قربانی کی جب دونوں کو لٹایا تو زبان پر یہ الفاظ تھے۔ وجہت وجہی۔۔۔ میں نے اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرلیا جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے والی ہے یہ آیت آخر تک پڑھی اور یہ دعا بھی فرمائی۔ اے اللہ یہ تیری طرف سے ہے اور تیری رضامندی کے لیے ہے اس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کی طرف سے قبول فرما پھر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کیا۔

6093

۶۰۹۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، مَوْلَی الْمُطَّلِبِ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، وَعَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ سَلِمَۃَ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ أَخْبَرَہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، صَلَّی لِلنَّاسِ یَوْمَ النَّحْرِ .فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ خُطْبَتِہٖ وَصَلَاتِہٖ، دَعَا بِکَبْشٍ ، فَذَبَحَہُ ہُوَ بِنَفْسِہٖ، وَقَالَ بِسْمِ اللّٰہِ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ، اللّٰہُمَّ عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِی .
٦٠٩١: مطلب بن عبداللہ اور بنی سلمہ کے ایک آدمی نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو عید قربانی کے دن نماز پڑھائی جب آپ نماز اور خطبہ سے فارغ ہوچکے تو آپ نے ایک دنبہ منگوایا تو اس کو اپنے دست اقدس سے ذبح کیا اور ذبح کرتے ہوئے یہ دعا پڑھی اللہ کے نام اللہ بہت بڑے ہیں اے اللہ میری طرف سے قبول فرما اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔

6094

۶۰۹۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا أَبُو اِبْرَاھِیْمَ التَّرْجُمَانِیُّ قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ ، عَنْ رُبَیْحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَحَّی بِکَبْشٍ أَقْرَنَ ، ثُمَّ قَالَ اللّٰہُمَّ ہٰذَا عَنِّیْ ، وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِی .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الشَّاۃَ ، لَا بَأْسَ أَنْ - یُضَحَّی بِہَا عَنِ الْجَمَاعَۃِ ، وَاِنْ کَثُرُوْا ، وَافْتَرَقَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ عَلَی فِرْقَتَیْنِ : فَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : لَا تُجْزِئُ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ الَّذِیْنَ یُضَحَّی بِہَا عَنْہُمْ مِنْ أَہْلِ بَیْتٍ وَاحِدٍ .وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : اِنَّ ذٰلِکَ تُجْزِئُ ، کَانَ الْمُضَحَّی بِہَا عَنْہُمْ مِنْ أَہْلِ بَیْتٍ وَاحِدٍ ، أَوْ مِنْ أَہْلِ أَبْیَاتٍ شَتَّی ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَحَّی بِالْکَبْشِ الَّذِی ضَحَّی بِہٖ عَنْ جَمِیْعِ أُمَّتِہِ ، وَہُمْ أَہْلُ أَبْیَاتٍ شَتَّی ، فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ ثَابِتًا ، لِمَنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَہُوَ یُجْزِئُ عَمَّنْ أَجْزَأَہٗ، بِذَبْحِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَثَبَتَ بِہٰذَا ، قَوْلُ الَّذِیْنَ قَالُوْا : یُضَحَّی بِہَا عَنْ أَہْلِ الْبَیْتِ ، وَعَنْ غَیْرِہِمْ .ثُمَّ کَانَ الْکَلَامُ بَیْنَ أَہْلِ ہٰذَا الْقَوْلِ وَبَیْنَ الْفِرْقَۃِ الَّتِیْ تُخَالِفُ ہٰؤُلَائِ جَمِیْعًا ، وَتَقُوْلُ : اِنَّ الشَّاۃَ لَا تُجْزِئُ عَنْ أَکْثَرَ مِنْ وَاحِدٍ ، وَتَذْہَبُ اِلٰی أَنَّ مَا کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِمَّا احْتَجَّتْ بِہٖ الْفِرْقَتَانِ الْأُوْلَیَانِ لِقَوْلِہِمَا ، مَنْسُوْخٌ أَوْ مَخْصُوْصٌ .فَمَا دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ الْکَبْشَ ، لَمَّا کَانَ یُجْزِئُ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ ، لَا وَقْتَ فِیْ ذٰلِکَ وَلَا عَدَدَ ، کَانَتِ الْبَقَرَۃُ وَالْبَدَنَۃُ أَحْرَی أَنْ تَکُوْنَا کَذٰلِکَ ، وَأَنْ تَکُوْنَا تَجْزِیَانِ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ ، لَا وَقْتَ فِیْ ذٰلِکَ وَلَا عَدَدَ .ثُمَّ قَدْ رَوَیْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ دَلَّ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ ، مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْبَابِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا، مِنْ نَحْرِ أَصْحَابِہٖ مَعَہُ الْجَزُوْرَ عَنْ سَبْعَۃٍ ، وَالْبَقَرَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ ، وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ أَصْحَابِہٖ عَلَی التَّوْقِیفِ مِنْہُ لَہُمْ ، عَلٰی أَنَّ الْبَقَرَۃَ وَالْبَدَنَۃَ ، لَا تُجْزِئُ وَاحِدَۃٌ مِنْہُمَا عَنْ أَکْثَرَ مِمَّا ذُبِحَتْ عَنْہُ - یَوْمَئِذٍ ، وَتَوَاتَرَتْ عَنْہُمْ الرِّوَایَاتُ بِذٰلِکَ .
٦٠٩٢: عبدالرحمن بن ابی سعید خدری نے اپنے والد ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بڑے سینگوں والے مینڈھے کی قربانی کی پھر یہ دعا فرمائی۔ اللہم ہذا عنی۔۔۔ اے اللہ یہ میری طرف سے اور امت کے قربانی نہ کرنے والے لوگوں کی طرف سے ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ کہتے ہیں بکری بھی کئی لوگوں کی طرف سے بطور قربانی دی جاسکتی ہے خواہ کتنے زیادہ ہوں پھر ان کے دو گروہ ہیں۔ نمبر ١ ایک ہی گھر کے افراد ہوں تو تب ایک قربانی ان کی طرف سے کفایت کر جائے گی۔ نمبر ٢ ایک گھر کے ہوں یا کئی گھروں سے تعلق رکھتے ہوں تب بھی جائز ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام امت کی طرف سے قربانی کی اور وہ سب مختلف علاقوں سے متعلق ہیں۔ اگر یہ اسی طرح ثابت ہو تو وہ ان لوگوں کی طرف سے کفایت کرے گی جن کے لیے آپ کے ذبح کرنے سے کافی ہوئی۔ پس اس سے ان لوگوں کی بات ثابت ہوگئی جو کہتے ہیں کہ ایک گھر والوں اور ان کے علاوہ دوسروں کی طرف بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ پھر اس بات والوں کی ان سے بات چیت ہوئی جو ایک بکری کو ایک آدمی سے زائد کی طرف سے نہیں مانتے ہیں وہ ان دو گروہوں کی روایات کو منسوخ قرار دیتے ہیں یا آپ کی خصوصیت قرار دیتے ہیں اور اس پر دلالت یہ ہے کہ جب مینڈھا ایک سے زائد افراد کی طرف سے جائز ہے جو افراد کہ غیر متعین ہیں۔ تو گائے اور اونٹ کا کثیر افراد کے لیے ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوجائے گا۔ پھر ہم نے گزشتہ سطور میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس کے خلاف روایات پائی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اونٹ و گائے سات کی طرف سے ذبح کیا اور آپ کا یہ عمل اس بات کی وضاحت کے لیے تھا کہ اونٹ اور گائے میں ان سات سے ایک فرد بھی اضافی نہیں ہوسکتا۔ جتنوں کی طرف سے ان کو ذبح کیا گیا۔ چنانچہ اس سلسلہ کی متواتر روایات نقل کی جاتی ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الاضاحی باب ٨‘ ترمذی فی الاضاحی باب ١٠؍٠٢‘ مسند احمد ٣‘ ٨؍٣٥٦۔

6095

۶۰۹۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ ، عَنْ حُجَیَّۃَ بْنِ عَدِی ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ تَمَّامٍ ، وَمَالِکِ بْنِ حُوَیْرِثٍ فِیْمَا یَحْسِبُ سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ أَنَّ رَجُلًا اشْتَرٰی بَقَرَۃً أُضْحِیَّۃً فَنَتَجَہَا ، فَسَأَلَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : ہَلْ لَا أُبْدِلُ مَکَانَہَا أُخْرَیْ؟ فَقَالَ لَا ، وَلٰـکِنْ اذْبَحْہَا وَوَلَدَہَا یَوْمَ النَّحْرِ ، عَنْ سَبْعَۃٍ .
٦٠٩٣: سلمہ بن کھیل نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے قربانی کی گائے خریدی اس نے بچہ جن دیا تو اس آدمی نے حضرت علی (رض) سے مسئلہ دریافت کیا۔ کیا میں اس کی جگہ اور نہ بدلوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ لیکن اس گائے اور اس کے بچے دونوں کو قربانی کے دن ذبح کرلو اور یہ سات کی طرف سے کفایت کرے گی۔

6096

۶۰۹۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ رِبْعِی ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَقُوْلُوْنَ : الْبَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ .
٦٠٩٤: ربعی کہتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام یہ کہتے تھے گائے سات کی طرف سے ہے۔

6097

۶۰۹۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیْ حَصِینٍ ، ح .
٦٠٩٥: سفیان نے ابو حصین سے روایت کی ہے۔

6098

۶۰۹۶: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ ثِنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ حَصِینٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : الْبَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ .
٦٠٩٦: ابراہیم بن مرزوق نے اپنی سند سے ابو مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ گائے سات کی طرف سے ہے۔

6099

۶۰۹۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُسَیْطٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَلَمَّا جُعِلَتِ الْبَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ ، وَکَانَ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ وَقَفَ عَلَیْہٖ، وَلَمْ یَجْعَلْ لَنَا أَنْ نَعْدُوَ ذٰلِکَ اِلٰی مَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْہٗ، کَانَتِ الشَّاۃُ أَحْرَی أَنْ لَا تُجْزِئَ عَنْ أَکْثَرَ مِمَّا تُجْزِئُ عَنْہُ الْبَقَرَۃُ مِنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الشَّاۃَ لَا تُجْزِئُ عَنْ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعَۃٍ ، انْتَفَی بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ : اِنَّہَا تُجْزِئُ عَنْ جَمِیْعِ مَنْ ذُبِحَتْ عَنْہُ، مِمَّنْ لَا وَقْتَ لَہُمْ وَلَا عَدَدَ ، وَلَا یُجَاوِزُ اِلَی غَیْرِہٖ، وَثَبَتَ ضِدُّہٗ، وَہُوَ قَوْلُ مَنْ قَالَ : اِنَّ الشَّاۃَ لَا تُجْزِئُ اِلَّا عَنْ وَاحِدٍ .فَقَالَ قَائِلٌ : اِنَّا اِنَّمَا جَعَلْنَا الشَّاۃَ تُجْزِئُ عَنْ أَکْثَرَ مِمَّا تُجْزِئُ عَنْہُ الْبَقَرَۃُ وَالْجَزُوْرُ ، لِأَنَّ الشَّاۃَ أَفْضَلُ مِنْہُمَا .فَقِیْلَ لَہٗ : وَلِمَ قُلْتُ ذٰلِکَ ؟ وَمَا دَلِیْلُک عَلَیْہٖ؟ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٦٠٩٧: محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند اصحاب (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ جب ثابت ہوگیا کہ گائے سات سے زائد حصوں میں تقسیم نہیں ہوسکتی۔ جب ان سے سات پر اکتفا ثابت ہوا تو ہمیں ان سے زائد یا اکثر کی طرف تعدیہ جائز نہیں۔ تو بکری میں سات سے اضافہ نہ ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوا۔ اب جبکہ بکری سات سے زائد کے لیے کافی نہیں تو ان لوگوں کی بات نادرست ہوگئی جو کہتے ہیں کہ یہ ان سب کی طرف سے کافی ہوگئی جن کی طرف سے وہ ذبح کی گئی جن کی تعداد غیر معین ہے اور یہ حکم اس کے علاوہ کی طرف تجاوز نہ کرے گا تو اب اس کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ان لوگوں کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ بکری صرف ایک آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی۔ اگر کوئی معترض کہے کہ بکری کو افضل ہونے کی وجہ سے سات سے زائد افراد و اشخاص کے لیے جائز قرار دیا۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ تمہارے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ بکری سب سے افضل ہے اور اس افضلیت کی وجہ سے تم نے اس کو سات سے بھی زائد افراد کے لیے جائز قرار دے دیا۔ حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان یہ ہے۔

6100

۶۰۹۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُضَحِّی بِالْجَزُوْرِ ، وَبِالْکَبْشِ ، اِذَا لَمْ یَجِدْ جَزُوْرًا .فَأَخْبَرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُضَحِّی بِالْجَزُوْرِ اِذَا وَجَدَہٗ، وَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ یَدَعُ مَا سِوَاہٗ، مِمَّا یُضَحَّی بِہٖ مِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ ، وَہُوَ قَادِرٌ عَلَیْہٖ، وَیُضَحِّی بِالشَّاۃِ اِذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلَی الْجَزُوْرِ ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْجَزُوْرَ کَانَ عِنْدَہٗ أَفْضَلَ مِنِ الشَّاۃِ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْہَدَایَا فِی الْحَجِّ ، جُعِلَ لِلْبَدَنَۃِ فِیْہَا مِنَ الْفَضْلِ ، مَا لَمْ یُجْعَلْ لِلشَّاۃِ ، فَجُعِلَتِ الْبَدَنَۃُ مِمَّا یَشْتَرِکُ فِیْہَا الْجَمَاعَۃُ فَیُہْدُوْنَہَا عَنْ قِرَانِہِمْ وَمُتْعَتِہِمْ ، وَلَمْ تُجْعَلْ الشَّاۃُ کَذٰلِکَ .فَمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اِبَاحَۃِ الشَّرِکَۃِ فِی الْہَدْیِ اِذَا کَانَ جَزُوْرًا ، مَا ۔
٦٠٩٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹوں کی قربانی کرتے اور مینڈھے کی قربانی کرتے جب اونٹ نہ ہوتا۔ نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹوں کی قربانی کرتے اور مینڈھے کی قربانی کرتے جب اونٹ نہ ہوتا۔ اس روایت ابن عمر (رض) نے یہ اطلاع دی کہ جب اونٹ ملتا تو اس وقت آپ اونٹ کی قربانی کرتے اگر وہ نہ ملتا تو تب مینڈھے کی قربانی کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کے علاوہ گائے بکری کی قربانی اونٹ نہ ہونے کی صورت میں فرماتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اونٹ کی قربانی آپ کے ہاں سب سے افضل تھی اور بکری سے افضل تھی۔ حج کے ہدایا میں بدنہ کی افضلیت دی گئی ہے جو کہ بکری کو حاصل نہیں۔ بدنہ کو ایک جماعت کی طرف قربانی اور ہدی کے لیے مقرر کیا گیا جبکہ وہ قران و تمتع کریں اور بکری کو جماعت کی طرف سے قرار نہیں دیا گیا۔ شراکت ہدی کی روایات ملاحظہ ہوں۔

6101

۶۰۹۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْدَی مِائَۃَ بَدَنَۃٍ ، وَأَشْرَکَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی ثُلُثِہَا .
٦٠٩٩: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سو اونٹ بطور ہدی روانہ فرمائے اور اس کے ثلث میں حضرت علی (رض) کو حصہ دار بنایا۔

6102

۶۱۰۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَاقَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْعِیْنَ بَدَنَۃً ، وَأَشْرَکَ بَیْنَہُمْ فِیْہَا .فَلَمَّا کَانَتِ الشَّرِکَۃُ جَائِزَۃً فِی الْجَزُوْرِ ، مُبَاحَۃً فِی الْہَدْیِ ، وَغَیْرَ مُبَاحَۃٍ فِی الشَّاۃِ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الشَّاۃَ اِنَّمَا عَدَلَتْ بِجُزْئٍ مِنَ الْجَزُوْرِ .وَقَدْ ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی الْبَابِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَہٗ : اِنَّ عَلَیَّ نَاقَۃً وَقَدْ غَرَبَتْ عَنِّیْ ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَجْعَلَ مَکَانَہَا سَبْعًا مِنَ الْغَنَمِ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَیْضًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا مَا یُوَافِقُ ہٰذَا الْمَعْنَی .
٦١٠٠: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سات تر بدنہ بطور ہدی روانہ فرمائے اور ان میں صحابہ کرام کو باہمی حصہ دار بنایا۔ پس جب اونٹ میں شرکت جائز ہے تو ہدی میں مباح ہے مگر بکری میں شرکت مباح نہیں اس سے ثابت ہوا کہ بکری کو اونٹ کے ایک حصہ کی برابری حاصل ہے۔ اس سے پہلے باب میں ہم ذکر کرچکے کہ ایک شخص نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میرے ذمہ ایک اونٹنی بنتی تھی مگر وہ مجھ سے بھاگ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو سات بکریوں کا حکم فرمایا۔ پس یہ بھی ہمارے مؤقف کی دلیل ہے۔ ابن عباس (رض) کی روایت بھی اس کے موافق ہے۔

6103

۶۱۰۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : حَدَّثَنَا وَہْبُ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَمَّا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ، فَقَالَ : جَزُوْرٌ وَبَقَرَۃٌ ، أَوْ شِرْکٌ فِیْ دَمٍ .
٦١٠١: ابو حمزہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا ” استیسر من الہدی “ کا کیا معنی ہے تو فرمایا اونٹ یا گائے یا کسی دم میں شریک ہوجائے۔

6104

۶۱۰۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَأَخْبَرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِأَنَّ الْجُزْئَ مِنَ الْجَزُوْرِ ، یَعْدِلُ الشَّاۃَ فِیْمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا ، مَا یَدُلُّ عَلَی فَضْلِ الْجَزُوْرِ عَلَی الْبَقَرَۃِ ، وَعَلَی فَضْلِ الْبَقَرَۃِ عَلَی الشَّاۃِ .
٦١٠٢: ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا وہ اسی طرح فرماتے تھے جیسا پہلے ذکر ہوا۔
ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ اونٹ کا ایک جزء وہ بکری کے برابر ہو کر استیسر من الہدی میں شامل ہے۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایت وارد ہے جو اونٹ کی گائے اور گائے کی بکری پر فضیلت کو ظاہر کرتی ہے۔ (ملاحظہ ہو)

6105

۶۱۰۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ الْأَغَرِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ ، کَانَ عَلَی کُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ مَلَائِکَۃٌ یَکْتُبُوْنَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ ، فَاِذَا جَلَسَ الْاِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ ، وَجَلَسُوْا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ ، فَمَثَلُ الْمُہَجِّرِ ، کَمَثَلِ الَّذِیْ یُہْدِیْ بَدَنَۃً ، ثُمَّ کَاَلَّذِیْ یُہْدِیْ بَقَرَۃً ، ثُمَّ کَاَلَّذِیْ یُہْدِی الْکَبْشَ ، ثُمَّ کَاَلَّذِیْ یُہْدِی الدَّجَاجَۃَ ، ثُمَّ کَاَلَّذِیْ یُہْدِی الْبَیْضَۃَ .
٦١٠٣: ابو عبداللہ اغر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے بیٹھ جاتے ہیں اور سب پہلے اور اس کے بعد آنے والوں کے نام درج کرتے ہیں جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے صحائف لپیٹ کر بیٹھ جاتے اور خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں پس اس آدمی کی مثال جو سب سے پہلے آنے والا ہو اس شخص جیسی ہے جس نے اونٹ کی قربانی دی ہو پھر اس شخص جیسی جس نے گائے کی قربانی دی ہو پھر اس شخص کی طرح جس نے دنبہ کی قربانی کی ہو پھر اس شخص کی طرح جو بکری صدقہ کرنے والا ہو اور پھر اس شخص کی طرح جو انڈا راہ خدا میں دینے والا ہو۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٣‘ مسلم فی الجمعہ ٢٤‘ نسائی فی الامامہ باب ٥٩‘ والجمعہ باب ١٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٩٣‘ مسند احمد ٢؍٢٣٩‘ ٢٨٠‘ ٥٠٥۔

6106

۶۱۰۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَثَلُ الْمُہَجِّرِ اِلَی الصَّلَاۃِ کَمَثَلِ الَّذِیْ یُہْدِیْ بَدَنَۃً ، ثُمَّ الَّذِیْ جَائَ عَلٰی أَثَرِہِ کَمَثَلِ الَّذِیْ یُہْدِی الْبَقَرَۃَ ، ثُمَّ الَّذِیْ عَلٰی أَثَرِہٖ، کَمَثَلِ الَّذِیْ یُہْدِی الْکَبْشَ ، ثُمَّ الَّذِیْ عَلٰی أَثَرِہٖ، کَمَثَلِ الَّذِیْ یُہْدِی الدَّجَاجَۃَ ، ثُمَّ الَّذِیْ عَلٰی أَثَرِہٖ، کَمَثَلِ الَّذِیْ یُہْدِی الْبَیْضَۃَ .
٦١٠٤: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اس آدمی کی مثال جو سب سے پہلے آنے والا ہے اس آدمی جیسی ہے جو کہ اونٹ ہدی کے طور پردے پھر اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو گائے کو ہدی میں دے۔ پھر اس کے بعد آنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کہ دنبہ راہ خدا میں دے پھر اس کے بعد آنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مرغی راہ خدا میں دے پھر آخر میں آنے والے کی مثال اللہ کی راہ میں انڈا قربان کرنے والے جیسی ہے۔
تخریج : سابقہ روایت ٦١٠٣ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔

6107

۶۱۰۵: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
٦١٠٥: سعید بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6108

۶۱۰۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦١٠٦: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6109

۶۱۰۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَلَمَّا جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُہَجِّرَ فِیْ أَفْضَلِ الْأَوْقَاتِ کَالْمُہْدِیْ بَدَنَۃً ، وَالْمُہَجِّرَ فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ بَعْدَہٗ، کَالْمُہْدِیْ بَقَرَۃً ، وَالْمُہَجِّرَ فِی الثَّالِثِ ، کَالْمُہْدِیْ کَبْشًا ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ أَفْضَلَ مَا یُہْدَی الْجَزُوْرُ ، ثُمَّ الْبَقَرَۃُ ، ثُمَّ الْکَبْشُ .فَلَمَّا کَانَتِ الْبَدَنَۃُ أَعْظَمَ مَا یُہْدَی ، ثَبَتَ أَنَّہَا أَعْظَمُ مَا یُضَحَّی بِہٖ .وَلَمَّا انْتَفَی أَنْ تُجْزِئَ الشَّاۃُ عَمَّا فَوْقَ السَّبْعَۃِ ، ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُجْزِئُ اِلَّا عَنْ خَاص مِنَ النَّاسِ .وَلَمَّا کَانَتْ بِاتِّفَاقِہِمْ - لَا تُجْزِئُ فِی الْأُضْحِیَّۃِ عَمَّا فَوْقَ السَّبْعَۃِ ، کَانَتِ الشَّاۃُ أَحْرَی أَنْ لَا تُجْزِئَ عَنْ ذٰلِکَ وَقَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّہَا مُجْزِئَۃٌ عَنِ الْوَاحِدِ ، وَاخْتَلَفُوْا فِیْمَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْہٗ، فَلَا یَدْخُلُ فِیْمَا قَدْ ثَبَتَ لَہٗ حُکْمُ الْخُصُوْصِیَّۃِ اِلَّا مَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَی دُخُوْلِہِ فِیْہِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُضَحَّی بِالشَّاۃِ الْوَاحِدَۃِ عَنْ اثْنَیْنِ ، وَلَا عَنْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٦١٠٧: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے نقل کیا کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افضل اوقات میں پہلے کرنے والے کو ہدی میں اونٹ قربان کرنے والے کی طرح قرار دیا اور اس کے بعد والے وقت میں آنے والے کو گائے ہدی کے طور پر دینے والے کی طرح اور تیسرے نمبر پر آنے والے کو مینڈھا ہدی میں دینے والے کی طرح قرار دیا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ سب سے افضل ہدی اونٹ پھر گائے پھر مینڈھا ہے۔ جبکہ اونٹ سب سے اعلیٰ ہدی ہے تو اس سے ثابت ہوگیا کہ اس کی قربانی سب سے افضل ہے۔ جب اس بات کی نفی ہوگئی کہ بکری سات سے اوپر افراد کی طرف سے جائز نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ صرف خاص لوگوں سے کفایت کرنے والی ہے۔ جب اس پر سب کا اتفاق ہے سات سے اوپر افراد اکٹھے ایک جانور کی قربانی نہیں دے سکتے تو بکری زیادہ مناسب ہے کہ وہ سات سے اوپر کی طرف سے جائز نہ ہو اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ بکری ایک فرد کی طرف سے جائز ہے ایک سے زیادہ میں اختلاف ہوا تو جس کے لیے خصوصیت کا حکم ثابت تو اس میں وہی فرد داخل ہونا چاہیے جس میں اتفاق ہے۔ (اور وہ ایک ہے) پس ثابت ہوا کہ بکری کی قربانی صرف ایک کی طرف سے ہوگی نہ دو اور نہ دو سے زیادہ کی طرف سے۔ یہی ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

6110

۶۱۰۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّازُ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ مَنْ رَأَی مِنْکُمْ ہِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ ، وَأَرَادَ أَنْ یُضَحِّیَ ، فَلَا یَأْخُذْ مِنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہٖ، حَتّٰی یُضَحِّیَ .
٦١٠٨: سعید بن مسیب نے حضرت امّ سلمہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص تم میں سے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بال و ناخن نہ تراشے جب تک کہ قربانی سے فارغ نہ ہوجائے۔
تخریج : مسلم فی الاضاحی باب ٤٢‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ٢‘ ترمذی فی الاضاحی باب ٢‘ نسائی فی الضحایا باب ١‘ ابن ماجہ فی الاضاحی باب ١١۔
قربانی کی نیت والا ذوالحجہ میں بال و ناخن کاٹ سکتا ہے یا نہیں۔ فریق اول کا قول یہ ہے کہ بال و ناخن کاٹنا جائز نہیں ہے۔
فریق ثانی کا کہنا ہے کہ بال و ناخن ترشوانے میں گناہ نہیں البتہ اگر قربانی والا شخص بطور استحباب نہ کٹوائے تو ثواب کا حقدار ہوگا اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) اور صاحبین نے اختیار کیا ہے۔

6111

۶۱۰۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِلَالٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ أَنَّہٗ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالَ اللَّیْثُ : قَدْ جَائَ ہٰذَا، وَأَکْثَرُ النَّاسِ عَلَی غَیْرِہٖ۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَلَّدُوْھُ ، وَجَعَلُوْھُ أَصْلًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِقَصِّ الْأَظْفَارِ وَالشَّعْرِ ، فِیْ أَیَّامِ الْعَشْرِ ، لِمَنْ عَزَمَ عَلٰی أَنْ یُضَحِّیَ ، وَلِمَنْ لَمْ یَعْزِمْ عَلٰی ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِمَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ کِتَابِ الْحَجِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : کُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ ہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَیَبْعَثُ بِہَا ، ثُمَّ یُقِیْمُ فِیْنَا حَلَالًا ، لَا یَجْتَنِبُ شَیْئًا مِمَّا یَجْتَنِبُہُ الْمُحْرِمُ ، حَتّٰی یَرْجِعَ النَّاسُ .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی اِبَاحَۃِ مَا قَدْ حَظَرَہُ الْحَدِیْثُ الْأَوَّلُ .وَمَجِیْئُ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَحْسَنُ مِنْ مَجِیْئِ حَدِیْثِ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، لِأَنَّہٗ جَائَ مَجِیْئًا مُتَوَاتِرًا .وَحَدِیْثُ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، لَمْ یَجِئْ کَذٰلِکَ ، بَلْ قَدْ طُعِنَ فِیْ اِسْنَادِ حَدِیْثِ مَالِکٍ ، فَقِیْلَ : اِنَّہٗ مَوْقُوْفٌ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .
٦١٠٩: سعید بن مسیب نے امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ (رض) سے روایت کی ہے پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام لیث کہتے ہیں یہ حکم تو بہت وارد ہوا مگر اکثر لوگ اس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ بعض نے اس روایت سے استدلال کیا اور اس کو اصل لازم قرار دیا۔ بال و ناخن ایام ذی الحجہ میں ترشوانے میں کوئی حرج نہیں اس میں وہ آدمی جو قربانی کرنا چاہتا ہو اور اس کے لیے بھی جو قربانی کا عزم نہ رکھتا ہو۔ انھوں نے اپنی دلیل میں حضرت عائشہ (رض) کی اس روایت سے استدلال کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدی کے قلادے بناتی تھی آپ ہدی روانہ کرتے پھر گھر میں بلا احرام مقیم رہتے اور جن چیزوں سے محرم پرہیز کرتا ہے ان میں سے کسی چیز سے بھی پرہیز نہ کرتے یہاں تک کہ لوگ لوٹ آتے۔ اس روایت میں اس چیز کو مباح قرار دیا گیا جس کی ممانعت پہلی روایت میں وارد ہے روایت عائشہ (رض) کا لانا روایت امّ سلمہ (رض) سے بہتر ہے کہ کیونکہ یہ روایت متواتر طرق سے وارد ہوئی ہے جبکہ روایت امّ سلمہ (رض) اس طرح نہیں بلکہ مالک کی سند سے آنے والی روایت موقوف ہے مرفوع نہیں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٧‘ مسلم فی الحج ٣٥٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٦‘ ترمذی فی الحج باب ٧٠‘ نسائی فی المناسک باب ٦٥‘ دارمی فی المناسک باب ٨٦‘ مسند احمد ٦‘ ٣٥؍٢١٣‘ ٢١٦؍٢٢٥‘ ٢٣٦؍٢٥٣‘ ٢٦٢۔

6112

۶۱۱۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِکٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، وَلَمْ تَرْفَعْہُ قَالَتْ مَنْ رَأَی ہِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ ، وَأَرَادَ أَنْ یُضَحِّیَ فَلَا یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِہٖ، حَتّٰی یُضَحِّیَ۔
٦١١٠: سعید بن مسیب نے حضرت امّ سلمہ (رض) سے روایت کی ہے اور اس کو مرفوع نقل نہیں کیا۔ اس میں یہ ہے جو ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ اپنے بال و ناخن نہ ترشوائے یہاں تک کہ قربانی کرے۔

6113

۶۱۱۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِثْلَہٗ وَلَمْ تَرْفَعْہُ .فَہٰذَا ہُوَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَہٰذَا حُکْمُ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْاِحْرَامَ یَنْحَظِرُ بِہٖ أَشْیَائُ ، مِمَّا قَدْ کَانَتْ کُلُّہَا قَبْلَہٗ حَلَالًا ، مِنْہَا : الْجِمَاعُ ، وَالْقُبْلَۃُ ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ ، وَحَلْقُ الشَّعْرِ ، وَقَتْلُ الصَّیْدِ ، فَکُلُّ ہٰذِہِ الْأَشْیَائِ تَحْرُمُ بِالْاِحْرَامِ ، وَأَحْکَامُ ذٰلِکَ مُخْتَلِفَۃٌ .فَأَمَّا الْجِمَاعُ فَمَنْ أَصَابَہُ فِیْ اِحْرَامِہٖ، فَسَدَ اِحْرَامُہٗ، وَمَا سِوٰی ذٰلِکَ لَا یُفْسِدُ اِصَابَتُہُ الْاِحْرَامَ فَکَانَ الْجِمَاعُ أَغْلَظَ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ یُحَرِّمُہَا الْاِحْرَامُ .ثُمَّ رَأَیْنَا مَنْ دَخَلَتْ عَلَیْہِ أَیَّامُ الْعَشْرِ ، وَہُوَ یُرِیْدُ أَنْ یُضَحِّیَ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَمْنَعُہٗ مِنَ الْجِمَاعِ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ لَا یَمْنَعُہٗ مِنَ الْجِمَاعِ ، وَہُوَ أَغْلَظُ مَا یَحْرُمُ بِالْاِحْرَامِ ، کَانَ أَحْرَی أَنْ لَا یَمْنَعَ مِمَّا دُوْنَ ذٰلِکَ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَیْضًا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٦١١١: سعید بن مسیب نے حضرت امّ سلمہ (رض) سے اسی طرح روایت کی اور اس کو مرفوع قرار نہیں دیا۔ یہ آثار کے لحاظ سے اس کا حکم ہے۔ البتہ غور و فکر کے لحاظ سے اس طرح ہے کہ احرام سے کئی ایسی چیزیں منع کردی جاتی ہیں جو کہ پہلے حلال تھیں مثلاً جماع ‘ قبلہ (بوسہ) ناخن اتارنا ‘ بال مونڈھنا ‘ شکار مارنا ‘ یہ تمام اشیاء احرام میں حرام ہیں اور ان کے احکام مختلف ہیں مثلاً جو احرام میں جماع کرے اس کا احرام ختم ہوجائے گا ان کے علاوہ اور چیزیں احرام کو فاسد نہیں کرتیں جن چیزوں کو احرام نے حرام کیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ سخت جماع ہے پھر ہم نے غور کیا کہ جب عشرہ ذوالحجہ آجائے اور وہ آدمی قربانی کرنا چاہتا ہو تو اس کو جماع سے کوئی چیز مانع نہیں ہے جب احرام کی سب سے زیادہ سخت چیز عشرہ ذوالحجہ میں ممنوع نہیں تو اس سے کم درجہ کی چیز بدرجہ اولیٰ مانع نہ بنے گی اس باب میں قیاس کا تقاضا یہی ہے اور ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
تابعین (رض) کے اقوال سے تائید :

6114

۶۱۱۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ .ح .
٦١١٢: ابن وہب نے ابن ابی زیب سے روایت نقل کی ہے۔

6115

۶۱۱۳: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُسَیْطٍ أَنَّ عَطَائَ بْنَ یَسَارٍ ، وَأَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، وَأَبَا بَکْرِ بْنَ سُلَیْمَانَ ، کَانُوْا لَا یَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ یَأْخُذَ الرَّجُلُ مِنْ شَعْرِہِ وَیُقَلِّمَ أَظْفَارَہُ فِیْ عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ .وَقَدْ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بَعْضُ أَصْحَابِنَا ،
٦١١٣: ابراہیم بن مرزوق نے اپنی سند کے ساتھ یزید بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ عطاء بن یسار اور ابوبکر بن عبدالرحمن اور ابوبکر بن سلیمان عشرہ ذوالحجہ میں ناخن اور بال کاٹنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ہمارے بعض علماء نے اس روایت کو بھی دلیل بنایا ہے۔

6116

۶۱۱۴: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ہُرْمُزَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، قَالَ : رَآنِیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، طَوِیْلَ الشَّارِبِ ، وَذٰلِکَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ ، وَأَنَا عَلٰی نَاقَتِی ، وَأَنَا أُرِیْدُ الْحَجَّ ، فَأَمَرَنِیْ أَنْ أَقُصَّ مِنْ شَعْرِی ، فَفَعَلْت .وَلَا حُجَّۃَ عِنْدَنَا فِیْ ہٰذَا ، لِأَنَّہٗ لَا یُرِیْدُ أَنْ یُضَحِّیَ، اِذَا کَانَ یُرِیْدُ الْحَجَّ ، فَلَا حُجَّۃَ فِیْ ہٰذَا عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِأَنَّہُمْ اِنَّمَا یَمْنَعُوْنَ مِنْ ذٰلِکَ مَنْ أَرَادَ أَنْ یُضَحِّیَ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی تَدْفَعُ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْہِ حُجَّۃٌ عَلَیْہِمْ ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ فِیْ عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ ، أَوْ قَبْلَ ذٰلِکَ .
٦١١٤: محمد بن ربیعہ کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب نے دیکھا جبکہ میں ذوالحلیفہ میں اپنی اونٹنی پر سوار حج کا ارادہ کررہا تھا اور میری مونچھیں لمبی تھیں مجھے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں اپنے بال کاٹ لوں چنانچہ میں نے اپنے بال کاٹ لئے۔
اس روایت میں ہمارے لیے بھی کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ وہ قربانی کا ارادہ تو رکھتا نہیں جبکہ وہ حج کا ارادہ رکھتا ہے تو فریق اول کے خلاف بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ وہ ناخن کاٹنا وغیرہ اس کے لیے ممنوع قرار دیتے ہیں جو قربانی کرنا چاہتا ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت فریق اول کے خلاف دلیل بھی کیسے بنے۔ جبکہ اس میں یہ مذکور نہیں کہ یہ عشرہ ذی الحجہ کا واقعہ ہے یا اس سے پہلے کا ہے۔

6123

۶۱۲۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ، ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدٍ ، مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ یَوْمَ الْأَضْحَی : أَیُّہَا النَّاسُ ، اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَی أَنْ تَأْکُلُوْا نُسُکَکُمْ بَعْدَ ثَلَاثٍ ، فَلَا تَأْکُلُوْہَا بَعْدَہَا .
٦١٢١: ابو عبید مولیٰ عبدالرحمن نے حضرت علی (رض) کو عیدالاضحی کے دن فرماتے سنا اے لوگو ! جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا گوشت تین کے بعد کھانے سے منع فرمایا پس تم تین دن کے بعد مت کھاؤ۔
تخریج : بخاری فی الاضاحی باب ١٦‘ مسلم فی الاضاحی ٢٤‘ مسند احمد ١؍١٤١۔
قربانی کا گوشت تین دن کے بعد رکھنا اور استعمال کرنا جائز نہیں اس کو اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین دن اور اس سے زائد رکھنا اور استعمال کرنا ہر دو جائز ہیں اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

6124

۶۱۲۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو عُبَیْدٍ ، مَوْلَی أَزْہَرَ ، قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْعِیْدَ ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَحْصُوْرٌ ، فَصَلَّی ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ : لَا تَأْکُلُوْا مِنْ لُحُوْمِ أَضَاحِیکُمْ بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِذٰلِکَ .
٦١٢٢: ابو عبید مولیٰ ازہر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کے ساتھ نماز عید ادا کی جبکہ حضرت عثمان محصور تھے۔ آپ نے پہلے نماز ادا کی پھر خطبہ دیا اور فرمایا اپنی قربانیوں کے گوشت سے تین دن کے بعد مت کھاؤ اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا حکم فرمایا ہے۔

6125

۶۱۲۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ یَحْیَی الْکَلْبِیُّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ کُلُوْا مِنْہَا ثَلَاثًا یَعْنِیْ لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ .
٦١٢٣: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا تم قربانی کے گوشت تین دن کھاؤ۔
تخریج : مسلم فی الاضاحی ٢٦‘ ترمذی فی الاضاحی باب ١٣‘ مسند احمد ٢؍٩۔

6126

۶۱۲۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : أَخْبَرَنَا اللَّیْثُ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : لَا یَأْکُلْ أَحَدُکُمْ مِنْ لَحْمِ أُضْحِیَّتِہِ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا، فَحَرَّمُوْا لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِأَکْلِہَا وَادِّخَارِہَا بَأْسًا. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦١٢٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھائے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : تین دن کے بعد قربانی کا گوشت بعض لوگوں نے حرام قرار دیا اور انھوں نے مندرجہ آثار سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی : تین دن کے بعد گوشت کے کھانے اور ذخیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ دلیل یہ آثار ہیں۔

6127

۶۱۲۵: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسَی : عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : ذَبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُضْحِیَّتَہُ ثُمَّ قَالَ یَا ثَوْبَانُ أَصْلِحْ لَحْمَ ہٰذِہِ الْأُضْحِیَّۃِ فَمَا زِلْتُ أُطْعِمُہُ مِنْہَا ، حَتّٰی قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ .
٦١٢٥: جبیر بن نفیر نے حضرت ثوبان (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قربانی کو ذبح کیا پھر فرمایا اے ثوبان اس قربانی کے گوشت کو درست کرو چنانچہ میں اس کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ مدینہ میں پہنچا۔
تخریج : بنحوہ مسلم فی الاضاحی ٣٥‘ دارمی فی الاضاحی باب ٦۔

6128

۶۱۲۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ یَزِیْدَ عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : اِنَّ کُنَّا لَنَأْکُلُہُ بَعْدَ عِشْرِیْنَ ، نَعْنِیْ لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ .
٦١٢٦: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے ہم قربانی کے گوشت کو بیس دن کے بعد بھی کھاتے تھے۔

6129

۶۱۲۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِی غُر ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْھَاوَعَمِّہِ قَتَادَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کُلُوْا لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ وَادَّخِرُوْا .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ أَحَدُ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا ، حُجَّۃً لِأَحَدِ ہٰذَیْنِ الْقَوْلَیْنِ ، نَاسِخًا الْمَعْنَی الْآخَرَ ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .
٦١٢٧: عبدالرحمن بن ابی سعید خدری نے اپنے والد اور چچا حضرت قتادہ سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قربانی کا گوشت کھاؤ اور ذخیرہ کرو۔ ان دونوں معنوں کا احتمال ہے جن کا ہم نے ذکر کیا دونوں قولوں میں سے ایک دوسرے کے لیے ناسخ بنے تو تب حجت ہوگا چنانچہ ہم نے غور کیا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٨‘ ٤؍١٥‘ ٦؍٣٨٤۔

6130

۶۱۲۸: فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی النَّابِغَۃُ بْنُ مُخَارِقِ بْنِ سُلَیْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنِّیْ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ أَنْ تَدَّخِرُوْہَا فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، فَادَّخِرُوْہَا مَا بَدَا لَکُمْ .
٦١٢٨: مخارق بن سلیم نے بیان کیا کہ حضرت علی (رض) نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میں تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع کرتا تھا اب جتنا چاہو ‘ جب تک چاہو ذخیرہ کرو۔

6131

۶۱۲۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، ح .
٦١٢٩: ربیع المؤذن نے روایت کی کہ مجھے اسد نے بیان کیا۔

6132

۶۱۳۰: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ النَّابِغَۃِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦١٣٠: محمد بن خزیمہ نے نابغہ سے اپنی سند کے ساتھ بیان کی اور انھوں نے حضرت علی (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6133

۶۱۳۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ ہَانِئٍ ، عَنْ مَسْرُوْقِ بْنِ الْأَجْدَعِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦١٣١: مسروق بن اجدع نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی۔

6134

۶۱۳۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ زَیْدٍ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦١٣٢: ابن بریدہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6135

۶۱۳۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، ح .
٦١٣٣: فہد نے ابو نعیم سے۔

6136

۶۱۳۴: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَا : ثَنَا مَعْرُوْفُ بْنُ وَاصِلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦١٣٤: ابن ابی داؤد نے اپنی اسناد کے ساتھ محارب بن دثار سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی۔

6137

۶۱۳۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦١٣٥: ابن بریدہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6138

۶۱۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ وَاسِعَ بْنَ حِبَّانَ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، حَدَّثَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦١٣٦: واسع بن حبان نے بتلایا کہ ابو سعید خدری (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

6139

۶۱۳۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ أُوَیْسٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، سَمِعَہٗ یُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہُمْ کَانُوْا یَأْکُلُوْنَ الضَّحَایَا فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثَلَاثًا ، لَا یَزِیْدُوْنَ عَلَیْہَا ، ثُمَّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَہُمْ بَعْدُ ، أَنْ یَأْکُلُوْا وَیَتَزَوَّدُوْا .
٦١٣٧: عطاء ابن ابی رباح نے حضرت جابر (رض) سے یہ بات بیان کی کہ ہم قربانی کا گوشت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تین دن کے اندر کھالیا کرتے تھے اس سے اضافہ نہیں کرتے تھے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت مرہمت فرمائی کہ تم کھاؤ اور زاد راہ کے طور پر جمع کرو۔

6140

۶۱۳۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، نَحْوَہٗ۔
٦١٣٨: عطاء نے جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی۔

6141

۶۱۳۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، أَنَّ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ أَتَی أَہْلَہٗ، فَوَجَدَ عِنْدَہُمْ قَصْعَۃَ ثَرِیْدٍ ، وَلَحْمٍ مِنْ لَحْمِ الْأَضَاحِیّ ، فَأَبَی أَنْ یَأْکُلَہٗ۔فَأَتَی قَتَادَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ ، أَخُوْھُ ، فَحَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحَجِّ ، قَالَ اِنِّیْ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ أَنْ لَا تَأْکُلُوْا لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، وَاِنِّیْ أُحِلُّہُ لَکُمْ ، فَکُلُوْا مِنْہُ مَا شِئْتُمْ .
٦١٣٩: زبید نے روایت کی کہ مجھے ابو سعید خدری (رض) نے بتلایا کہ میں اپنے گھر آیا تو ان کے ہاں ایک ثرید کا پیالہ پایا اور قربانی کا کچھ گوشت تو میں نے کھانے سے انکار کردیا ادھر سے قتادہ بن نعمان اور ان کے بھائی آگئے انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج والے سال فرمایا کہ میں قربانی کا گوشت تین دن سے زائد کھانے سے تمہیں منع کرتا تھا اب میں اس ممانعت کو اٹھاتا ہوں جب تک چاہو تم اس کو کھاؤ۔

6142

۶۱۴۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیْحِ عَنْ نُبَیْشَۃَ الْخَیْرِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ حَتّٰی تَسَعَکُمْ فَقَدْ جَائَ اللّٰہُ بِالسَّعَۃِ ، فَکُلُوْا ، وَادَّخِرُوْا ، فَاِنَّ ہٰذِہِ الْأَیَّامَ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ ، وَذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی .
٦١٤٠: نبیشہ الخیر سے ابو ملیح نے اور خود نبیشہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا میں تین دن سے زائد قربانی کا گوشت کھانے سے تمہیں منع کرتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی ہے تو اب کھاؤ اور جمع کرو اس لیے کہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الاضاحی باب ١٠‘ دارمی فی الاضاحی باب ٦‘ مسند احمد ٣؍٦٣‘ ٥؍٧٥۔

6143

۶۱۴۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَمَالِکٌ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ أَکْلِ لُحُوْمِ الضَّحَایَا بَعْدَ ثَلَاثٍ ، ثُمَّ أَذِنَ فِیْہِ فَقَالَ کُلُوْا ، وَتَزَوَّدُوْا ، وَادَّخِرُوْا .فَقَالَ عَمْرٌو ، قَالَ أَبُو الزُّبَیْرِ قَالَ : جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَتَزَوَّدْنَا مِنْہَا ، اِلَی الْمَدِیْنَۃِ .
٦١٤١: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا پھر اس کی اجازت مرہمت فرمائی اور فرمایا کھاؤ زاد راہ کے طور پر دو اور جمع کرو عمرو راوی کہتے ہیں کہ ابوالزبیر نے جابر (رض) سے اس طرح نقل کیا ” فتزودون منہا الی المدینۃ “ پس ان میں سے مدینہ تک پہنچنے کا ہمیں زادراہ بھی دو ۔
تخریج : بخاری فی البحر ١٢٤‘ مسلم فی الاضاحی روایت ٢٩۔

6144

۶۱۴۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ قَالَ : ثَنَا اِدْرِیْسُ بْنُ یَحْیَیْ عَنْ بَکْرِ بْنِ مَنْصُوْرٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ خَالِدُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ضَحَّیْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی وَتَزَوَّدْنَا مِنْہَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ .
٦١٤٢: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منی میں قربانی کی اور اس میں سے مدینہ منورہ تک کا زادراہ بھی لیا۔

6145

۶۱۴۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ کَعْبٍ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی أَنْ یُدَّخَرَ لُحُوْمُ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثٍ وَأَمَرَنَا أَنْ نَأْکُلَ مِنْہَا وَنَتَصَدَّقَ مِنْہَا ، وَلَا نَأْکُلُہَا بَعْدَ ثَلَاثٍ ، فَأَقَمْنَا عَلٰی ذٰلِکَ مَا شَائَ اللّٰہٗ، ثُمَّ بَدَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْمُرَنَا بِأَکْلِہَا ، وَالصَّدَقَۃِ مِنْہَا ، وَأَنْ یَدَّخِرَ مَنْ أَحَبَّ ذٰلِکَ .
٦١٤٣: زینب بنت کعب سے حضرت ابو سعید خدری سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم اس میں کھائیں اور صدقہ کریں اور تین دن کے بعد نہ کھائیں ہم اس پر جب تک اللہ نے چاہا قائم رہے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مناسب معلوم ہوا کہ اس کے کھانے کا اور صدقہ دینے کا حکم دیا اور جو پسند کرے اس کو جمع کرنے کی بھی اجازت دی۔

6146

۶۱۴۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَ ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَعْقُوْبَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ یَزِیْدَ ، یَزِیْدَ الْأَنْصَارِیِّ ، عَنْ امْرَأَتِہٖ، أَنَّہَا سَأَلَتْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ فَقَالَتْ قَدِمَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ سَفَرٍ ، فَقَدَّمْنَا اِلَیْہِ مِنْہُ فَقَالَ لَا آکُلُ حَتّٰی أَسْأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ فَقَالَ کُلُوْا مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ اِلَی ذِی الْحِجَّۃِ .
٦١٤٤: ابو یزید انصاری نے اپنی بیوی سے نقل کیا کہ انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے قربانی کے گوشت کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگیں کہ علی (رض) سفر سے واپس آئے تو ہم نے ان کے سامنے اس گوشت میں سے کچھ پیش کیا تو کہنے لگے جب تک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ نہ لوں میں نہ کھاؤں گا انھوں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا اس ذی الحجہ سے اگلے ذی الحجہ تک کھاؤ۔

6147

۶۱۴۵: حَدَّثَنَا بَحْرٌ عَنْ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ یَعْقُوْبَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ یَزِیْدَ ، مَوْلَی الْأَنْصَارِ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی نَسْخِ مَا رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنَ النَّہْیِ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ .فَاِنْ قِیْلَ : فَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْ عَلِیْ فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَبَاحَ لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ بَعْدَمَا قَدْ کَانَ نَہٰی عَنْہَا .ثُمَّ رَوَیْتُمْ عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا الْفَصْلِ ، أَنَّہٗ خَطَبَ النَّاسَ ، وَعُثْمَانُ مَحْصُوْرٌ فَقَالَ لَا تَأْکُلُوْا مِنْ لُحُوْمِ أَضَاحِیکُمْ بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِذٰلِکَ .فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ کَانَ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ ، بَعْدَمَا کَانَ أَبَاحَہٗ، حَتّٰی تَتَّفِقَ مَعَانِیْ مَا رَوَیْتُمُوْھُ ، عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ہٰذَا ، وَلَا یَتَضَادَّ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْت ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ نَہٰی عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، لِشِدَّۃٍ کَانَ النَّاسُ فِیْہَا ثُمَّ ارْتَفَعَتْ تِلْکَ الشِّدَّۃُ ، فَأَبَاحَ لَہُمْ ذٰلِکَ ، ثُمَّ عَادَ ذٰلِکَ ، فِیْ وَقْتِ مَا خَطَبَ عَلِیٌّ النَّاسَ ، فَأَمَرَہُمْ بِمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ بِہٖ فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ہٰذَا
٦١٤٥: حارث بن یعقوب نے یزید بن ابی یزید مولا انصار سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کہ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت منسوخ ہوچکی۔ تم نے علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے گوشت کو ممانعت کے بعد حلال قرار دیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ نے منع تو کیا تھا اس کے بعد کہ اس کو جائز قرار دیا تاکہ روایات کے معانی درست ہو سکیں اور ان میں تضاد نہ ہو۔ ان کو جواب میں کہے کہ جو کچھ آپ نے ذکر کیا اس میں آپ کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں اس لیے ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے اس لیے منع کیا ہو کہ لوگوں پر تنگدستی ہے پھر وہ تنگدستی ختم ہوگئی تو ان کے لیے مباح کردیا پھر دوبارہ لوٹ آئی جس وقت علی المرتضیٰ (رض) نے خطبہ دیا تو انھوں نے لوگوں کو وہی بات فرمائی۔ جس کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے حالات میں حکم دیا تھا اور اس کی دلیل ابن مرزوق کی یہ روایت ہے۔

6148

۶۱۴۶: أَنَّ ابْنَ مَرْزُوْقٍ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا ، أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَابِسٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَقُلْتُ :یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ ، أَحَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُؤْکَلَ لُحُوْمُ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ؟ .فَقَالَتْ اِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ فِیْ عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِیْہٖ، فَأَرَادَ أَنْ یُطْعِمَ الْغَنِیُّ الْفَقِیْرَ .قَالَتْ وَلَقَدْ کُنَّا نَرْفَعُ الْکُرَاعَ ، خَمْسَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَدَلَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ ذٰلِکَ النَّہْیَ ، اِنَّمَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِلْعَارِضِ الْمَذْکُوْرِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .فَلَمَّا ارْتَفَعَ ذٰلِکَ الْعَارِضُ أَبَاحَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا قَدْ کَانَ حَظَرَہُ عَلَیْہِمْ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، الَّتِیْ فِی الْفَصْلِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا .فَلِذٰلِکَ مَا فَعَلَہٗ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ زَمَنِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَمَرَ بِہٖ النَّاسَ بَعْدَ عِلْمِہٖ، بِاِبَاحَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .مَا قَدْ نَہَاہُمْ ہُوَ عَنْہُ، اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ لِضِیقٍ کَانُوْا فِیْہٖ، مِثْلُ مَا کَانُوْا فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ نَہَاہُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ .فَأَمَرَہُمْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَیَّامِہِمْ ، بِمِثْلِ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ فِیْ مِثْلِہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا کَانَ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ مِنْ أَجْلِ دَافَّۃٍ دَفَّتْ عَلَیْہِمْ .
٦١٤٦: عبدالرحمن بن عابس اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا اور میں نے یہ پوچھا اے امّ المؤمنین کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا گوشت تین دن سے زائد کھانے کو حرام قرار دیا ہے تو وہ کہنے لگیں کہ بھوک والے سال ایسا کیا تھا آپ کا مقصد یہ تھا کہ غنی فقیر کو کھلائے وہ کہنے لگیں ہم پندرہ پندرہ راتوں تک پائے کو اٹھائے پھرتی تھیں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : اس حدیث سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ ممانعت اس روایت پس مذکور عارضہ کی وجہ سے تھی جب عارضہ ختم ہوگیا تو آپ نے اس کا جائز قرار دیا اور یہی وہ چیز ہے جس کو حضرت علی (رض) نے حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں رائج کرنے کا حکم دیا اور انھوں نے لوگوں کو اس بات کا حکم دیا اس کے باوجود کہ ممانعت کے بعد اس کی اباحت کو وہ جانتے تھے اور یہ بات ان کے متعلق ہمارے نزدیک ہے (واللہ اعلم) کیونکہ اس وقت اسی طرح تنگی تھی جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تھی جب کہ آپ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا تو علی (رض) کا حکم ان دنوں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی طرح تھا۔ حضرت عائشہ (رض) سے بھی ایسی روایت مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو خانہ بدوشوں کی آمد کی وجہ سے منع کیا تھا۔

6149

۶۱۴۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : دَفَّ النَّاسُ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ ، فَحَضَرْت لِأُضَحِّیَ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوْا الثُّلُثَ ، وَتَصَدَّقُوْا بِمَا بَقِیَ .قَالَتْ : فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ ، قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَدْ کَانَ النَّاسُ یَنْتَفِعُوْنَ بِضَحَایَاہُمْ ، یَحْمِلُوْنَ مِنْہَا الْوَدَکَ وَیَتَّخِذُوْنَ مِنْہَا الْأَسْقِیَۃَ .قَالَ : وَمَا ذَاکَ ؟ قَالَ : نَہَیْتَ عَنْ اِمْسَاکِ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ بَعْدَ ثَلَاثٍ.فَقَالَ: اِنَّمَا کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ لِلدَّافَّۃِ الَّتِی دَفَّتْ ، فَکُلُوْا ، وَتَصَدَّقُوْا ، وَتَزَوَّدُوْا۔
٦١٤٧: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کچھ جنگلی لوگ آگئے ادھر عیدالاضحی کا موقع تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین دن کے لیے گوشت کو جمع کرو اور بقیہ کو صدقہ کرو۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں جب اس کے بعد موقع آیا تو میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتے اور اس سے چربی نکال لیا کرتے اور مشکیزے بناتے تھے آپ نے فرمایا پھر کیا ہوا تو میں نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے منع فرما دیا آپ نے فرمایا میں نے تم کو منع کیا تھا اس قافلہ کی وجہ سے جو اس وقت پہنچا تھا اب تم کھاؤ صدقہ کرو اور زاردراہ کے طور پر لے جاؤ۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٥١۔

6150

۶۱۴۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَأَخْبَرَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ حَرَّمَہَا ، وَلٰـکِنَّہٗ أَرَادَ التَّوْسِعَۃَ عَلَی الدَّافَّۃِ الَّتِی قَدْ دَفَّتْ عَلَیْہِمْ .فَقَدْ عَادَ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا اِلَی مَعْنَیْ حَدِیْثِ عَابِسٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَنْ عَابِسٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَلَی غَیْرِ ذٰلِکَ اللَّفْظِ .
٦١٤٨: ابن وہب نے خبر دی کہ مالک نے ان کو اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح بیان کیا۔ اس روایت میں حضرت عائشہ (رض) نے بتلا دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جمع کرنے کو حرام نہیں کیا تھا بلکہ وقتی طور پر اس قافلے کے لیے وسعت پیدا کرنا مقصود تھا۔ پس اس روایت کا مطلب بھی حضرت عابس عن عائشہ (رض) کی روایت کی طرف لوٹ گیا اور یہ روایت عابس نے اور الفاظ سے بھی نقل کی ہے۔

6151

۶۱۴۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقُلْتُ :یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ ، أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ لُحُوْمَ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثٍ ؟ .فَقَالَتْ : لَا ، وَلٰـکِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ ضَحَّی مِنْہُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ ، فَفَعَلَ ذٰلِکَ ، لِیُطْعِمَ مَنْ ضَحَّی مِنْہُمْ مَنْ لَمْ یُضَحِّ ، وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا نُخَبِّئُ الْکُرَاعَ ، ثُمَّ نَأْکُلُہَا بَعْدَ ثَلَاثٍ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ الدَّافَّۃُ ، قَدْ کَانَتْ کَثِیْرَۃً ، فَکَانَ النَّاسُ الَّذِیْنَ یُضَحُّوْنَ مَعَہَا قَلِیْلًا ، فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا أَمَرَہُمْ بِہٖ مِنِ الصَّدَقَۃِ ، مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ .فَقَدْ عَادَ مَعْنٰی ہٰذَا أَیْضًا اِلَی مَعْنَی مَا قَبْلَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ عَلَی الْعَزِیْمَۃِ ، وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ مِنْہُ عَلَی التَّرْغِیْبِ لَہُمْ فِی الصَّدَقَۃِ .
٦١٤٩: عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے پوچھا اے امّ المؤمنین کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کو رکھنا حرام قرار دیا تھا کہنے لگی نہیں لیکن قربانیاں بہت تھوڑی ہوتی تھیں تو آپ نے اس کا حکم فرمایا تاکہ قربانی کرنے والا اور نہ کرنے والا دونوں کھا سکیں تم نے دیکھا ہوگا کہ ہم بکریوں کے پائے اٹھا رکھتے ہیں پھر ان کو تین دن کے بعد کھاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ قافلے کثرت سے ہوں اور لوگوں میں قربانیاں تھوڑی ہوں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس بناء پر صدقے کا حکم فرمایا ہو پس اس روایت کا معنی بھی پہلی روایت کی طرف لوٹ گیا اور حضرت عائشہ (رض) سے بھی یہ بات مروی ہے اور یہ سارے گوشت کو صدقہ کردینے والا حکم آپ نے بطور عزیمت نہیں دیا (یعنی لازم کے طور پر) بلکہ آپ نے صدقے کی ترغیب کے لیے یہ بات فرمائی روایت یہ ہے۔
تخریج : نسائی فی الضحایا باب ٣٧‘ مسند احمد ٦؍١٠٢۔

6152

۶۱۵۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، أَنَّہَا قَالَتْ فِیْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ : کُنَّا نُمَلِّحُ مِنْہٗ، فَتَقَدَّمَ بِہٖ النَّاسُ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَقَالَ : لَا تَأْکُلُوْا اِلَّا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ لَیْسَتْ بِالْعَزِیْمَۃِ وَلٰـکِنْ أَرَادَ أَنْ یُطْعِمُوْا مِنْہُ .فَلَمْ یَخْلُ نَہْیُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی الْحَضِّ مِنْہُ لَہُمْ ، عَلَی الصَّدَقَۃِ وَالْخَیْرِ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی الْحَضِّ مِنْہُ لَہُمْ فِی الصَّدَقَۃِ ، لَا عَلَی التَّحْرِیْمِ ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا بَأْسَ بِادِّخَارِ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ وَأَکْلِہَا بَعْدَ الثَّلَاثِ .وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی التَّحْرِیْمِ ، فَقَدْ کَانَ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ ، مَا قَدْ نَسَخَ ذٰلِکَ ، وَأَوْجَبَ التَّحْلِیْلَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، اِبَاحَۃُ ادِّخَارِ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیّ وَأَکْلِہَا فِی الثَّلَاثَۃِ وَبَعْدَہَا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی اِبَاحَۃِ أَکْلِ لَحْمِ الضَّبُعِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ عَمَّارٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ہِیَ مِنِ الصَّیْدِ .وَبِحَدِیْثِ اِبْرَاھِیْمَ الصَّائِغِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ ، وَیُؤْکَلُ ، وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِاِسْنَادِہِ فِیْ کُتُبِ مَنَاسِکِ الْحَجِّ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یُؤْکَلُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَ جَابِرٍ ہٰذَا، قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ لَفْظِہٖ، فَرَوَاہُ کُلُّ أَحَدٍ مِنْ جَرِیْرٍ وَاِبْرَاھِیْمَ الصَّائِغِ کَمَا ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ .وَرَوَاہُ ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ ، فَذَکَرَ عَنِ ابْنِ أَبِیْ عَمَّارٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ سَأَلَ جَابِرًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ الضَّبُعِ .فَقَالَ : أَصَیْدٌ ہِیَ ؟ قَالَ : نَعَمْ .قَالَ : وَسَمِعْتَ ذٰلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ .فَأَخْبَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا صَیْدٌ ، وَلَیْسَ کُلُّ الصَّیْدِ یُؤْکَلُ .فَاحْتُمِلَ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ الزِّیَادَۃُ ، عَلٰی ذٰلِکَ الْمَذْکُوْرَۃِ ، فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، مِنْ قَوْلِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : لِأَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمَّاہَا صَیْدًا .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ ، وَوَجَدْنَا السُّنَّۃَ قَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ ، وَالضَّبُعُ ذَاتُ نَابٍ ، لَمْ یَخْرُجْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ، قَدْ عَلِمْنَا أَنَّہٗ دَخَلَ فِیْہِ بِشَیْئٍ لَمْ یُعْلَمْ یَقِینًا أَنَّہٗ أَخْرَجَہُ مِنْہُ .وَمِمَّا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَحْرِیْمِہِ کُلَّ ذِیْ نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ ،
٦١٥٠: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی وہ فرماتی ہیں کہ ہم قربانیوں کے گوشت نمکین کرتے اور مدینہ کی طرف لوگوں کے پاس بھیجتے تو آپ نے فرمایا اس کو تین دن تک کھاؤ آپ کا یہ حکم لزوم کے لیے نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ دوسروں کو بھی اس سے کھلائیں۔ اب قربانی کے گوشت کی تین دن سے زیادہ کھانے کی ممانعت دو صورتوں سے خالی نہیں۔ صدقہ اور خیرات پر آمادہ کرنا مقصود تھا اگر یہ صدقہ پر ابھارنا مان لیا جائے تو ممانعت تحریم کے لیے نہ ہوگی اس سے خود یہ ثابت ہوگیا قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے اور جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر یہ ممانعت تحریم کے لیے ہو تو یہ حکم منسوخ ہوگیا تو پھر آپ نے ایسا حکم دیا جس نے اس کے حلال ہونے کو لازم کردیا تو ان صورت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانا اور جمع کرنا دونوں جائز ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : بخاری فی الاضاحی باب ١٦۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بجو کا گوشت کھانا مباح ہے اور انھوں نے ابن ابی عمارہ کی روایت کو دلیل بنایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ شکار ہے اسی طرح دوسری دلیل حضرت جابر (رض) کی روایت ہے جس کے قریباً یہی الفاظ ہیں اور یہ الفاظ بھی زائد ہیں اس روایت کو ہم کتاب مناسک حج میں ذکر کرچکے ہیں۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ بجو کا گوشت نہ کھایا جائے گا ان کی دلیل یہی حدیث جابر (رض) ہے جو مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے ابن جریج نے اس کے خلاف اس کو روایت کیا ہے انھوں نے بیان کیا کہ ابن ابی عمار (رض) نے جابر (رض) سے بچو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کیا یہ کوئی شکار ہے تو ابن ابی عمار نے کہا ہاں تو جابر نے کہا کیا تم نے یہ بات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے تو انھوں نے کہا۔ جی ہاں۔
حاصل روایات : یہ روایت بتاتی ہے کہ ابن عمار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف یہ خبر دی ہے کہ وہ شکار ہے اور ہر شکار تو نہیں کھایا جاتا پس یہ اضافہ جو حدیث ابن جریج میں پایا جاتا ہے تو اس میں یہ احتمال ہوا کہ یہ جابر (رض) کا قول ہو کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ کو اس کو صید کہا اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہو اب اس احتمال کے بعد آپ کی یہ سنت متواترہ پائی گئی۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر کچلیوں والے درندے کے کھانے سے منع کیا ہے اور بجو کچلیوں والا ہے آپ اس میں کسی کو مستثنیٰ نہیں اور یہ تو ہم جان چکے کہ یہ یقیناً اس میں داخل ہے مگر اس کا مستثنیٰ ہو کر خارج ہونا یقینی طور پر معلوم نہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔