HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

30. کتاب الجمل

الطحاوي

7122

۷۱۱۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الثَّقَفِیُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہَ عَنْ جَدِّہٖ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَبَّرَ فِی الْعِیْدَیْنِ ، اِثْنَتَیْ عَشْرَۃَ تَکْبِیْرَۃً ، سَبْعًا فِی الْأُوْلٰی، وَخَمْسًا فِی الْآخِرَۃِ ، سِوٰی تَکْبِیْرَتِی الصَّلَاۃِ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ التَّکْبِیْرَ فِیْ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ کَذٰلِکَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٧١١٩: عمرو بن شعیب نے اپنے والد انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیدین میں بارہ تکبیرات کہیں سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری رکعت میں نماز کی دو تکبیروں کے علاوہ۔ امام طحاوی (رح) سے مروی ہے کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ عیدین کی نماز میں اتنی ہی تکبیرات ہیں اور انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٦۔
خلاصہ الزام :
نماز عید کی تکبیرات میں اختلاف ہے۔
: ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات نماز کی تکبیرات سے الگ ہیں۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ نماز عید کی پہلی رکعت میں پانچ تکبیرات اور دوسری میں چار تکبیرات ہیں۔

7123

۷۱۲۰: وَبِمَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْ وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ ، وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، صَلّٰی بِالنَّاسِ ، یَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَی ، فَکَبَّرَ فِی الْأُوْلٰی سَبْعًا ، وَقَرَأَ قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ وَفِی الثَّانِیَۃِ ، خَمْسًا ، وَقَرَأَ اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ .
٧١٢٠: عروہ نے حضرت ابو واقد لیثی اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیدالفطر و اضحی کے روز نماز پڑھائی اور پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہیں اور سورة قٓ والقرآن کی تلاوت فرائی اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہیں اور ” سورة اقتربت الساعۃ “ تلاوت فرمائی۔

7124

۷۱۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیْدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْعِیْدَیْنِ سَبْعًا وَخَمْسًا ، سِوٰی تَکْبِیْرَتَیِ الرُّکُوْعِ۔
٧١٢١: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں سات اور پانچ تکبیرات کہتے جو رکوع کی دونوں تکبیرات سے الگ ہوتیں۔ تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٦‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢٢٠‘ مسند احمد ٦‘ ٦٥؍٧٠۔

7125

۷۱۲۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَیْ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧١٢٢: اسد بن موسیٰ نے ابن لہیعہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7126

۷۱۲۳: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ - قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧١٢٣: عقیل نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7127

۷۱۲۴: حَدَّثَنَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا حَرْمَلَۃُ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عُقَیْلِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧١٢٤: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7128

۷۱۲۵: حَدَّثَنَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُوْسٌ الْعَطَّارُ عَنِ الْفَرَجِ بْنِ فَضَالَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ الْأَسْلَمِیِّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ قَالَ فِیْ تَکْبِیْرِ الْعِیْدَیْنِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی سَبْعًا ، وَفِی الثَّانِیَۃِ خَمْسَ تَکْبِیْرَاتٍ۔
٧١٢٥: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ عیدین کی تکبیرات پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات ہیں۔

7129

۷۱۲۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّہٗ قَالَ : شَہِدْت الْأَضْحٰی وَالْفِطْرَ ، مَعَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَبَّرَ فِی الْأُوْلٰی سَبْعَ تَکْبِیْرَاتٍ ، قَبْلَ الْقِرَائَ ۃِ ، وَفِی الْآخِرَۃِ خَمْسَ تَکْبِیْرَاتٍ ، قَبْلَ الْقِرَائَ ۃِ .
٧١٢٦: حضرت نافع کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ عیدالفطر واضحی میں حاضر ہوا تو انھوں نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں قراءت سے قبل اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات قراءت سے پہلے ادا فرمائیں۔

7130

۷۱۲۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ وَصَخْرُ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَبِہٰذِہِ الْآثَارِ نَقُوْلُ ، وَاِلَیْہَا نَذْہَبُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلِ التَّکْبِیْرُ فِی الْعِیْدَیْنِ ، تِسْعُ تَکْبِیْرَاتٍ ، خَمْسًا فِی الْأُوْلٰی، وَأَرْبَعًا فِی الْآخِرَۃِ وَیُوَالِیْ بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ مِنَ الْآثَارِ ، الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، أَنَّ حَدِیْثَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَاِنَّمَا یَدُوْرُ عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَلَیْسَ عِنْدَہُمْ ، بِاَلَّذِیْ یُحْتَجُّ بِرِوَایَتِہٖ۔ ثُمَّ ہُوَ أَیْضًا عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہَ عَنْ جَدِّہٖ، وَذٰلِکَ عِنْدَہُمْ ، أَیْضًا لَیْسَ بِسَمَاعٍ .فَکَیْفَ یَحْتَجُّوْنَ عَلَی خَصْمِہِمْ بِمَا لَوْ احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمْ لَمْ یُسَوِّغُوْھُ ذٰلِکَ ؟ وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ لَہِیْعَۃَ فَبَیِّنُ الْاِضْطِرَابِ ، مَرَّۃً یُحَدِّثُ عَنْ عُقَیْلٍ وَمَرَّۃً عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیْدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ وَمَرَّۃً عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ وَمَرَّۃً عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، وَأَبِیْ وَاقِدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرْنَا ذٰلِکَ کُلَّہٗ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَبَعْدُ فَمَذْہَبُہُمْ فِی ابْنِ لَہِیْعَۃَ مَا قَدْ شَرَحْنَاہُ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعٍ مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَاِنَّمَا یَدُوْرُ عَلٰی مَا رَوَاہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ وَہُوَ ، عِنْدَہُمْ ضَعِیْفٌ .وَاِنَّمَا أَصْلُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ نَفْسِہٖ۔
٧١٢٧: نافع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ فریق اوّل کہتا ہے کہ ان آثار میں بارہ تکبیرات کا تذکرہ ہے ہم یہی کہتے ہیں اور یہی ہمارا قول ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ عیدین میں نو تکبیرات ہیں۔ پانچ پہلی رکعت میں اور چار دوسری رکعت میں اور دونوں قراءتوں کو اکٹھا کرے۔ فریق اوّل کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ آپ نے جو روایت ذکر کی ہے اس کا مدار عبداللہ بن عبدالرحمن پر ہے اور وہ خود فریق اوّل کے ہاں بھی ایسا راوی نہیں کہ جس کی روایت سے استدلال کیا جاسکے۔ دوسرا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ میں دادا سے اس کا سماع ثابت نہیں۔ پھر وہ اس سے اپنے مخالف کے خلاف کس طرح بطور دلیل لاتے جبکہ اگر اسی سند کی روایت ان کے خلاف حجت میں پیش ہو تو قطعاً قبول نہ کریں۔ دوسری دلیل روایت ابن لہیعہ کا جواب یہ ہے کہ اس روایت میں واضح طور پر اضطراب ہے کیونکہ وہ کبھی تو عقیل عن خالد ابن یزید عن ابن شہاب روایت کرتا ہے۔ ! اور کبھی خالد بن یزید عن عقیل عن ابن شہاب روایت کرتا ہے۔ " اور کبھی عن ابن الاسود عن عروہ عن عائشہ (رض) و ابو واقد روایت کرتا ہے اوپر ہم روایات کے سارے طرق ذکر کر آئے ہیں۔ خود ابن لہیعہ جس درجہ کا راوی ہے وہ ہم اسی کتاب میں بیان کرچکے (اس سے یہ ثابت ہوا کہ اضطراب کی وجہ سے روایت قابل استدلال نہیں) روایت ابن عمر (رض) کا جواب یہ ہے کہ اس روایت کا سارا دارومدار عبداللہ بن عامر پر ہے اور وہ خود فریق اوّل کے نزدیک نہایت ضعیف راوی ہے باقی اس روایت کی اصل یہ ہے کہ یہ عبداللہ ابن عمر (رض) پر موقوف ہے چنانچہ ملاحظہ ہو۔
تشریح : فریق اوّل کہتا ہے کہ ان آثار میں بارہ تکبیرات کا تذکرہ ہے ہم یہی کہتے ہیں اور یہی ہمارا قول ہے۔

7131

۷۱۲۸: حَدَّثَنَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِیْ نُعَیْمٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، مِثْلَہٗ وَلَمْ یَرْفَعْہٗ، فَہٰذَا ہُوَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فَاِنَّمَا ہُوَ عَنْ کِتَابِہٖ اِلَی ابْنِ وَہْبٍ وَہُمْ لَا یَجْعَلُوْنَ مَا سَمِعَ مِنْہُ حُجَّۃً ، فَکَیْفَ مَا لَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ .فَلَمَّا انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، شَیْئٌ یَدُلُّ عَلٰی کَیْفِیَّۃِ التَّکْبِیْرِ فِی الْعِیْدَیْنِ ، لِمَا بَیَّنَّا ، مِنْ وَہَائِہَا ، وَسُقُوْطِہَا نَظَرْنَا فِیْ غَیْرِہَا ، ہَلْ فِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟ .
٧١٢٨: نافع ابن ابی نعیم نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے اور اس کو مرفوع قرار نہیں دیا۔ روایت کثیر بن عبداللہ : وہ درحقیقت ابن وہب کی طرف لکھا ہوا ان کا خط ہے اور فریق اوّل ابن وہب کی اس طرح سنی ہوئی روایت کو حجت قرار نہیں دیتے جو روایت سرے سے سنی ہی نہیں وہ کیسے حجت ہو۔ جب ان آثار کی حیثیت معلوم ہوگئی تو اس سے ثابت ہوا کہ ان میں سے کوئی چیز بھی عیدین کی تکبیرات کی کیفیت پر دلالت کے قابل نہیں اب ان کے علاوہ روایات کو ہم دیکھتے ہیں کہ آیا ان میں کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہے جو اس کیفیت پر دلالت کرے چنانچہ یہ قاسم ابو عبدالرحمن کی روایت ہے۔

7132

۷۱۲۹: فَاِذَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَیَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ قَدْ حَدَّثَانَا ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ حَمْزَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْوَضِینُ بْنُ عَطَائٍ أَنَّ الْقَاسِمَ ، أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ حَدَّثَہٗ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : صَلّٰی بِنَا ، النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عِیْدٍ ، فَکَبَّرَ أَرْبَعًا ، وَأَرْبَعًا ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ حِیْنَ انْصَرَفَ ، قَالَ : لَا تَنْسَوْا ، کَتَکْبِیْرِ الْجَنَائِزِ ، وَأَشَارَ بِأَصَابِعِہٖ، وَقَبَضَ اِبْہَامَہٗ۔فَہٰذَا حَدِیْثٌ ، حَسَنُ الْاِسْنَادِ .وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، وَیَحْیٰی بْنُ حَمْزَۃَ ، وَالْوَضِینُ وَالْقَاسِمُ کُلُّہُمْ أَہْلُ رِوَایَۃٍ ، مَعْرُوْفُوْنَ بِصِحَّۃِ الرِّوَایَۃِ لَیْسَ کَمَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ الْآثَارَ الْأُوَلَ .فَاِنْ کَانَ ہٰذَا الْبَابُ مِنْ طَرِیْقِ صِحَّۃِ الْاِسْنَادِ ، یُؤْخَذُ ، فَاِنَّ ہٰذَا أَوْلَی أَنْ یُؤْخَذَ بِہٖ ، مِمَّا خَالَفَہُ .غَیْرَ أَنَّہٗ ذَکَرَ فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَبَّرَ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ أَرْبَعًا، وَأَخْبَرَہُمْ أَنَّ ذٰلِکَ کَتَکْبِیْرِ الْجَنَائِزِ۔فَاحْتَمَلَ بِأَنْ یَکُوْنَ الْأَرْبَعُ ، سِوَیْ تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ قَدْ وَافَقَ قَوْلَ اللَّذِیْنَ احْتَجَجْنَا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ لِقَوْلِہِمْ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی أَرْبَعٍ ، بِتَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ ، فَیَکُوْنُ مُخَالِفًا لِقَوْلِہِمْ .فَنَظَرْنَا فِیْمَا رُوِیَ مِنَ الْآثَارِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، سِوٰی ہٰذَا الْأَثَرِ ، أَیْضًا .
٧١٢٩: وضین بن عطاء کہتے ہیں ابو عبدالرحمن قاسم نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ نے یہ بات ذکر کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز جنازہ کی طرح عید کے دن نماز عید پڑھائی آپ نے چار چار تکبیرات کہیں پھر فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا مت بھولنا یہ جنازہ کی تکبیروں کی طرح ہیں اور اپنے انگوٹھے کو بند کر کے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے حسن ہے اس کے تمام روات عبداللہ بن یوسف ‘ یحییٰ بن حمزہ ‘ وضین اور قاسم صحت روایت میں مشہور ہیں یہ ان روایات کی طرح نہیں جو شروع میں ذکر کی گئی ہیں اگر سند کی صحت کے اعتبار سے لیا جائے تو یہ روایت ان ساری روایات سے بہتر ہے البتہ اس میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ہر رکعت میں چار تکبیرات کہی اور ان کو بتلایا کہ ہر رکعت میں جنازہ کی تکبیروں کی طرح تکبیریں ہیں۔ البتہ اس میں یہ احتمال ہے کہ چار تکبیرات تکبیر افتتاح کے علاوہ ہوں اس صورت میں یہ فریق ثانی کے قول کے موافق ہوگا جن کے لیے ہم نے استدلال پیش کیا ہے۔ ! دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ تکبیر افتتاح سمیت چار ہوں اس صورت میں یہ فریق ثانی کی دلیل نہیں بنے گی چنانچہ ہم نے ایک احتمال کو متعین کرنے کے لیے اس باب کے دیگر آثار پر نگاہ ڈالی۔

7133

۷۱۳۰: فَاِذَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْجُوْزَجَانِیُّ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا غَسَّانُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّہٗ سَمِعَ مَکْحُوْلًا یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ دَعَا أَبَا مُوْسَی الْأَشْعَرِیَّ وَحُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَسَأَلَہُمَا کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ فِی الْأَضْحٰی وَالْفِطْرِ ؟ فَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی: أَرْبَعًا ، کَتَکْبِیْرِہٖ عَلَی الْجَنَائِزِ ، وَصَدَّقَہُ حُذَیْفَۃُ .فَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی : کَذٰلِکَ کُنْتُ أُکَبِّرُ لِأَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، اِذْ کُنْتُ أَمِیْرًا عَلَیْہِمْ۔فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا زِیَادَۃٌ عَلٰی مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا فَاِذَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ۔
٧١٣٠: عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان نے اپنے والد سے روایت کی کہ انھوں نے مکحول کو یہ کہتے سنا کہ مجھے ابو عائشہ نے بیان کیا کہ سعید بن عاص (رض) نے ابو موسیٰ اشعری اور حذیفہ بن یمان (رض) کو بلایا اور ان سے سوال کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں کس طرح تکبیریں کہتے تھے تو حضرت ابو موسیٰ کہنے لگے چار۔ جس طرح کہ جنازہ پر تکبیریں کہی جاتی ہیں حضرت حذیفہ نے اس کی تصدیق کی پھر حضرت ابو موسیٰ کہنے لگے جب میں اہل بصرہ پر امیر تھا تو اسی طرح تکبیرات کہا کرتا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے حسن ہے اس کے تمام روات عبداللہ بن یوسف ‘ یحییٰ بن حمزہ ‘ وضین اور قاسم صحت روایت میں مشہور ہیں یہ ان روایات کی طرح نہیں جو شروع میں ذکر کی گئی ہیں اگر سند کی صحت کے اعتبار سے لیا جائے تو یہ روایت ان ساری روایات سے بہتر ہے البتہ اس میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ہر رکعت میں چار تکبیرات کہی اور ان کو بتلایا کہ ہر رکعت میں جنازہ کی تکبیروں کی طرح تکبیریں ہیں۔ البتہ اس میں یہ احتمال ہے کہ چار تکبیرات تکبیر افتتاح کے علاوہ ہوں اس صورت میں یہ فریق ثانی کے قول کے موافق ہوگا جن کے لیے ہم نے استدلال پیش کیا ہے۔ ! دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ تکبیر افتتاح سمیت چار ہوں اس صورت میں یہ فریق ثانی کی دلیل نہیں بنے گی چنانچہ ہم نے ایک احتمال کو متعین کرنے کے لیے اس باب کے دیگر آثار پر نگاہ ڈالی۔ اس روایت میں بھی پہلی روایت کا سا مفہوم ہے اور اس میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہے اب ہم یحییٰ بن عثمان والی روایت میں غور کرتے ہیں۔

7134

۷۱۳۱: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَیْدٍ الْوَاسِطِیُّ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ الْمُنْذِرِ عَنْ مَکْحُوْلٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَسُوْلُ حُذَیْفَۃَ وَأَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْعِیْدَیْنِ أَرْبَعًا وَأَرْبَعًا ، سِوَیْ تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ۔فَبَیَّنَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، أَنَّ تَکْبِیْرَۃَ الْاِفْتِتَاحِ ، خَارِجَۃٌ مِنْ التَّکْبِیْرَاتِ الْمَذْکُوْرَاتِ فِیْ حَدِیْثِ الْجُوْزَجَانِیِّ وَفِیْ حَدِیْثِ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَیَحْیٰی بْنِ عُثْمَانَ .فَہٰذَا مَا ثَبَتَ ، عِنْدَنَا فِی التَّکْبِیْرِ فِی الْعِیْدَیْنِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ نَعْلَمْ شَیْئًا رُوِیَ عَنْہُ مِمَّا یَثْبُتُ مِثْلُہٗ ، یُخَالِفُ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ ؟ وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ مِنْ حَدِیْثِ نَافِعٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، فَاِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خِلَافُ ذٰلِکَ مِنْہُمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٧١٣١: مکحول کہتے ہیں کہ مجھے حذیفہ اور ابو موسیٰ اشعری کے قاصد نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر افتتاح کے علاوہ عیدین میں چار چار تکبیریں کہتے تھے۔ اس روایت نے وضاحت کردی کہ تکبیر تحریمہ ان مذکورہ تکبیرات سے خارج ہے جن کا تذکرہ جو زجانی اور روایت علی بن عبدالرحمن اور روایت یحییٰ بن عثمان میں پایا جاتا ہے۔ یہی بات ہمارے نزدیک عیدین کی تکبیرات کے سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت شدہ ہے اس کے خلاف کوئی روایت بھی ہمارے علم اس طرح پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ البتہ وہ روایت جو نافع کی سند سے حضرت ابوہریرہ (رض) اور ابن عمر (رض) سے مروی ہے وہ اس بات کے خلاف ہے اس میں بارہ تکبیرات کا تذکرہ ہے۔ یہ روایت صحابہ کی ایک جماعت سے اس کے خلاف الفاظ سے مروی ہے چنانچہ حضرت علی (رض) کی روایت ہم پیش کرتے ہیں۔

7135

۷۱۳۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُکَبِّرُ فِی النَّحْرِ خَمْسَ تَکْبِیْرَاتٍ ثَلَاثًا فِی الْأُوْلٰی ، وَثِنْتَیْنِ فِی الثَّانِیَۃِ ، لَا یُوَالِیْ بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ ، فَہٰکَذَا کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُکَبِّرُ فِی النَّحْرِ ، وَقَدْ کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْفِطْرِ ، خِلَافُ ذٰلِکَ .
١٧٣٢: ابو اسحاق نے علی (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ عیدالاضحی میں پانچ تکبیریں پڑھتے تھے تین پہلی رکعت میں اور دو دوسری میں اور دونوں ق راتوں میں بھی تسلسل نہیں کرتے تھے اسی طرح علی (رض) عیدالاضحی میں تکبیریں کہتے اور عیدالفطر میں اس کے خلاف تکبیریں کہتے۔

7136

۷۱۳۳: حَدَّثَنَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُکَبِّرُ یَوْمَ الْفِطْرِ اِحْدَیْ عَشْرَۃَ تَکْبِیْرَۃً ، یَفْتَتِحُ بِتَکْبِیْرَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، ثُمَّ یَقْرَأُ ، ثُمَّ یُکَبِّرُ خَمْسًا ، یَرْکَعُ بِاِحْدَاہُنَّ ، ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَقْرَأُ ، ثُمَّ یُکَبِّرُ خَمْسًا ، یَرْکَعُ بِاِحْدَاہُنَّ ، ثُمَّ ذُکِرَ عَنْہُ فِیْمَا کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْأَضْحَی ، نَحْوًا مِمَّا ذَکَرَہُ أَبُوْبَکْرَۃَ فَہٰکَذَا کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُکَبِّرُ فِی الْفِطْرِ .وَدَلَّ مَا ذَکَرَ یَحْیَیْ فِیْ حَدِیْثِہِ ہٰذَا عَلٰی أَنَّ تَرْکَ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْمُوَالَاۃَ بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ ، اِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّہٗ کَانَ یُکَبِّرُ بَعْضَ التَّکْبِیْرِ الَّذِیْ کَانَ یُکَبِّرُہُ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی قَبْلَ الْقِرَائَ ۃِ ، وَبَعْضَہٗ بَعْدَ الْقِرَائَ ۃِ ، وَأَنَّہٗ کَانَ یَبْتَدِئُ بِالْقِرَائَ ۃِ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ ، قَبْلَ التَّکْبِیْرِ الَّذِیْ کَانَ یُکَبِّرُہٗ فِیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٧١٣٣: ابو اسحاق نے حارث سے اور انھوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ فطر کے دن گیارہ تکبیریں کہتے ایک تکبیر سے نماز شروع کرتے پھر قراءت کرتے پھر پانچ تکبیرات کہتے جن میں سے ایک کے ساتھ رکوع کرتے پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہوتے تو قراءت کرتی اور پانچ تکبیریں کہتے جن میں سے ایک کے ساتھ رکوع کرتے پھر اسی طرح ذکر کیا گیا جیسا کہ ابو بکرہ کی اوپر والی روایت میں ہے کہ عیدالاضحی میں پانچ تکبیریں کہتے اور عیدالفطر میں گیارہ۔ یحییٰ نے اپنی روایت میں جو ذکر کیا کہ حضرت علی (رض) اپنی دونوں رکعتوں کی قراءت کو ملاتے نہیں اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ اپنی پہلی رکعت میں بعض تکبیریں قراءت سے پہلے کرتے اور کچھ تکبیرات قراءت کے بعد اور دوسری رکعت کی ابتداء ہی آپ قراءت سے کرتے۔ حضرت عمر (رض) سے اس کے خلاف ترتیب منقول ہے (روایت ملاحظہ ہو)

7137

۷۱۳۴: حَدَّثَنَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ طَالِبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ عَامِرٍ أَنَّ عُمَرَ وَعَبْدَ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، اجْتَمَعَ رَأْیُہُمَا فِیْ تَکْبِیْرِ الْعِیْدَیْنِ عَلٰی تِسْعِ تَکْبِیْرَاتٍ ، خَمْسٌ فِی الْأُوْلٰی، وَأَرْبَعٌ فِی الْآخِرَۃِ ، وَیُوَالِیْ بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ .وَقَدْ رُوِیَ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٧١٣٤: عامر نے روایت کی ہے حضرت عمر (رض) اور عبداللہ ابن مسعود (رض) دونوں کی رائے عیدین کی تکبیرات کے متعلق نو تکبیرات پر متفق تھی جن میں سے پانچ تکبیرات پہلی رکعت میں اور چار دوسری رکعت میں ہوتی تھی اور دونوں قراتون کو ملاتے تھے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے بھی اس کے خلاف روایت مروی ہے (ملاحظہ ہو)

7138

۷۱۳۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ وَخَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّہٗ صَلّٰی خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الْعِیْدِ ، فَکَبَّرَ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَرَأَ ، ثُمَّ کَبَّرَ فَرَفَعَ ، ثُمَّ قَامَ فِی الثَّانِیَۃِ فَقَرَأَ ، ثُمَّ کَبَّرَ ثَلَاثًا ، ثُمَّ کَبَّرَ فَرَفَعَ .
٧١٣٥: عبداللہ ابن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز حضرت ابن عباس (رض) کے پیچھے پڑھی انھوں نے چار تکبیرات کہیں پھر قراءت کی اور تکبیر کہی پھر سر اٹھایا پھر دوسری کے لیے اٹھے اور قراءت کی پھر تین تکبیریں کہیں پھر تکبیر کہہ کر اپنا سر رکوع سے اٹھایا۔

7139

۷۱۳۶: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، مِثْلَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا مَا یُخَالِفُ ہٰذَا الْقَوْلَ ، وَقَوْلَ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .
٧١٣٦: عبد ابن حارث نے عبداللہ ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور ابن عباس (رض) سے تو اس قول کے خلاف اور فریق اوّل کے قول کے خلاف بھی قول ملتا ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7140

۷۱۳۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرٌوْ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یُکَبِّرُ یَوْمَ الْفِطْرِ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ تَکْبِیْرَۃً ، سَبْعًا فِی الْأُوْلٰی قَبْلَ الْقِرَائَ ۃِ ، وَسِتًّا فِی الْآخِرَۃِ ، بَعْدَ الْقِرَائَ ۃِ .
٧١٣٧: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فطر کے دن تیرہ تکبیرات کہتے۔ سات قراءت سے پہلے پہلی رکعت میں اور چھ قراءت کے بعد دوسری رکعت میں۔

7141

۷۱۳۸: حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ وَحَجَّاجٌ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرِ الْقِرَائَ ۃَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہِ۔
٧١٣٨: عطاء نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں قراءت کا تذکرہ نہیں کیا۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول بھی منقول ہے (جو کہ اس کے خلاف ہے)

7142

۷۱۳۹: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : مَنْ شَائَ کَبَّرَ سَبْعًا ، وَمَنْ شَائَ کَبَّرَ تِسْعًا ، وَاِحْدٰی عَشْرَۃَ وَثَلَاثَ عَشْرَۃَ۔فَہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رَوٰی عَنْہُ عِکْرِمَۃُ مَا ذَکَرْنَا ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ کَبَّرَ عَلٰی مَا رُوِیَ عَنْہُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ وَعَطَائٍ وَلَہٗ أَنْ یُکَبِّرَ عَلٰی مَا رَوَاہٗ عَنْہُ، الْفَرِیْقُ الْآخَرُ .وَقَدْ اخْتَلَفَا عَنْہُ فِیْ مَوْضِعِ الْقِرَائَ ۃِ فَرَوٰی عَنْہُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ حَدِیْثِہٖ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ الْحُکْمُ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، أَنْ یَفْعَلَ مِنْ ہٰذَیْنِ مَا شَائَ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ الْحُکْمُ عِنْدَہٗ فِیْمَنْ کَبَّرَ تِسْعًا أَنْ یُوَالِیَ بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ ، وَفِیْمَنْ کَبَّرَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ أَنْ یُخَالِفَ بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ .وَقَدْ رُوِیَ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٧١٣٩: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جو آدمی چاہے سات تکبیریں کہے جو چاہے نو تکبیرات کہے اور جو چاہے گیارہ اور جو چاہے تیرہ تکبیرات کہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جن سے عکرمہ نے یہ روایت کی۔ جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ آپ نے وہ سب ہی تکبیریں کہی ہیں جو آپ سے عبداللہ بن حارث اور عطاء نے نقل کی ہیں اب اس کے لیے جائز ہے کہ جس طرح وہ چاہے اپنی روایت کردہ تکبیرات کو کہہ لے یا دوسرے فریق کی اختیار کرلے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے قراءت کے مقام میں دونوں روایتوں میں اختلاف ہے جیسا کہ ہم ان کی روایت ذکر کرچکے اس میں بھی دو احتمال ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے ہاں قراءت میں بھی اسی طرح کا حکم ہو جیسا تکبیرات کہ جس طرح چاہے عمل کرلے۔ کہ ان کے ہاں نو تکبیرات کہنے والا مسلسل قراءت کرے اور تیرہ تکبیریں کہنے والا الگ الگ قراءت کرے۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے اس کے خلاف روایت منقول ہے (ملاحظہ ہو)

7143

۷۱۴۰: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ دَعَاہُمْ یَوْمَ عِیْدٍ ، فَدَعَا الْأَشْعَرِیَّ وَابْنَ مَسْعُوْدٍ وَحُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .فَقَالَ : اِنَّ الْیَوْمَ عِیْدُکُمْ ، فَکَیْفَ أُصَلِّیْ؟ قَالَ حُذَیْفَۃُ : سَلِ الْأَشْعَرِیَّ وَقَالَ الْأَشْعَرِیُّ : سَلْ عَبْدَ اللّٰہِ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : تُکَبِّرُ ، وَذَکَرَ الْحَدِیْثَ ، وَہُوَ یُکَبِّرُ تَکْبِیْرَۃً ، وَیَفْتَتِحُ بِہَا الصَّلَاۃَ ثُمَّ یُکَبِّرُ بَعْدَہَا ثَلَاثًا ، ثُمَّ یَقْرَأُ ثُمَّ یُکَبِّرُ تَکْبِیْرَۃً یَرْکَعُ بِہَا ، ثُمَّ یَسْجُدُ ، ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَقْرَأُ ، ثُمَّ یُکَبِّرُ ثَلَاثًا ، ثُمَّ یُکَبِّرُ تَکْبِیْرَۃً ، یَرْکَعُ بِہَا .
٧١٤٠: ابراہیم بن عبداللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میرے والد نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت سعید بن العاص (رض) نے عید کے دن بلایا اور ابو موسیٰ اشعری اور ابن مسعود اور حذیفہ بن یمان (رض) کو بلایا اور کہنے لگے یہ تمہاری عید کا دن ہے میں کس طرح نماز پڑھاؤں۔ حذیفہ کہنے لگے اشعری کی طرح پڑھاؤ۔ اشعری نے کہا تم عبداللہ (رض) سے دریافت کرلو۔ پھر عبداللہ کہنے لگے تکبیر کہو۔ اور روایت ذکر کی وہ ایک تکبیر کہہ کر نماز شروع کرتے پھر اس کے بعد تین تکبیرات کہتے پھر قراءت کرتے پھر رکوع کی تکبیر کہتے پھر سجدہ کرتے پھر (دوسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوجاتے پھر قراءت کر کے پھر تین تکبیرات کہتے پھر چوتھی تکبیر کہتے جس سے رکوع کرتے۔

7144

۷۱۴۱: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ مُوْسٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی التَّکْبِیْرِ یَوْمَ الْعِیْدِ ، فَذَکَرَ نَحْوَ ذٰلِکَ .
٧١٤١: عبداللہ بن ابو موسیٰ نے حضرت عبداللہ (رض) سے تکبیر عید کے متعلق اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7145

۷۱۴۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : خَرَجَ الْوَلِیْدُ بْنُ عُقْبَۃَ بْنُ أَبِیْ مُعَیْطٍ عَلٰی بْنِ مَسْعُوْدٍ وَحُذَیْفَۃَ وَالْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَقَالَ : اِنَّ الْعِیْدَ غَدًا ، فَکَیْفَ التَّکْبِیْرُ ؟ .فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ نَحْوَ ذٰلِکَ وَزَادَ فَقَالَ الْأَشْعَرِیُّ وَحُذَیْفَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : صَدَقَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ۔فَہٰذَا حُذَیْفَۃُ وَأَبُوْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ وَافَقَا عَبْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنْ التَّکْبِیْرِ ، وَکَیْفِیَّۃِ صَلَاۃِ الْعِیْدِ .وَقَدْ رُوِیَ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ .
٧١٤٢: علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ ولید بن عقبہ بن ابی معبط نکل کر حضرت ابن مسعود ‘ حذیفہ ‘ اشعری (رض) کے ہاں گئے پھر کہنے لگے کل عید ہے تکبیرات کی کیا کیفیت ہوگی۔ تو ابن مسعود (رض) کہنے لگ پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور اس روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اشعری اور حذیفہ (رض) کہنے لگے کہ ابو عبدالرحمن نے سچ کہا ہے۔ یہ حذیفہ ‘ ابو موسیٰ اشعری (رض) ہیں جو عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ تکبیر اور نماز عید کی کیفیت میں اتفاق کر رہے ہیں۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کی روایت اس کے خلاف ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7146

۷۱۴۳: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ مَاہَکَ أَخْبَرَنِیْ أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ لَمْ یَکُنْ یُکَبِّرُ اِلَّا أَرْبَعًا ، سِوٰی تَکْبِیْرَتَیْنِ لِلرَّکْعَتَیْنِ ، سَمْعُ ذٰلِکَ مِنْہُ زَعْمٌ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ الْأَرْبَعُ الَّتِیْ کَانَ یُکَبِّرہُنَّ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی سِوَی تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ ، فَیَکُوْنُ مَا فُعِلَ مِنْ ذٰلِکَ مُوَافِقًا ، لِمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ ابْنُ مَسْعُوْدٍ ، وَحُذَیْفَۃَ ، وَأَبُوْ مُوْسَیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ تَکْبِیْرَۃُ الْاِفْتِتَاحِ دَاخِلَۃً فِیْہِنَّ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ مُخَالِفًا لِمَذْہَبِہِمْ .وَأَوْلٰی بِنَا أَنْ نَحْمِلَہٗ عَلٰی مَا وَافَقَ قَوْلَہُمْ ، لَا عَلٰی مَا خَالَفَہٗ. وَقَدْ رُوِیَ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ.
٧١٤٣: یوسف بن ماھک کہتے ہیں کہ ابن الزبیر (رض) چار تکبیرات کہا کرتے تھے جو دونوں رکوعوں کی تکبیرات سے الگ ہوتیں ان سے یہ بات زعیم نے سنی۔ اس روایت میں دو احتمال ہیں۔ پہلی رکعت کی چار تکبیرات سوائے تکبیر تحریمہ کے مانیں تو اس صورت میں یہ روایت ابن مسعود ‘ حذیفہ ‘ ابو موسیٰ (رض) کی روایت سے موافق ہوجائے گی۔ ! اور اگر تکبیر تحریمہ کو ان میں داخل مانیں تو پھر یہ ان کے مذہب کے مخالف ٹھہرے گی ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ اس کو موافقت والے قول پر محمول کریں نہ کہ عدم موافقت والے پر۔ حضرت انس (رض) سے بھی اس کے خلاف روایت وارد ہے۔

7147

۷۱۴۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا الْأَشْعَثُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : تِسْعُ تَکْبِیْرَاتٍ ، خَمْسٌ فِی الْأُوْلٰی ، وَأَرْبَعٌ فِی الْأَخِیْرَۃِ مَعَ تَکْبِیْرَۃِ الصَّلَاۃِ .
٧١٤٤: محمد بن سیرین نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا نو تکبیرات ہیں پانچ پہلی رکعت میں اور چار پچھلی رکعت میں نماز کی تکبیر سمیت۔

7148

۷۱۴۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ جَدِّہٖ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِذَا کَانَ فِیْ مَنْزِلِہٖ بِالطَّفِّ ، فَلَمْ یَشْہَدْ الْعِیْدَ اِلٰی مِصْرِہٖ جَمَعَ مَوَالِیَہُ وَوَلَدَہٗ، ثُمَّ یَأْمُرُ مَوْلَاہٗ، عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِیْ عُتْبَۃَ فَیُصَلِّیْ بِہِمْ کَصَلَاۃِ أَہْلِ الْمِصْرِ ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، سَوَائً .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٧١٤٥: عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے اپنے دادا حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب وہ اپنے مکان پر مقام طف میں ہوتے تو شہر عید کے لیے نہ جاتے بلکہ اپنے غلاموں اور بیٹوں ‘ پوتوں کو جمع کرتے پھر اپنے غلام عبداللہ بن ابی عتبہ کو حکم فرماتے کہ وہ ان کو شہر والوں جیسی نماز عید پڑھائے۔ پھر اسی طرح کی روایت کی جیسی ہم عبداللہ بن حارث کی سند سے ابن عباس (رض) سے نقل کر آئے ہیں (اسی باب میں) حضرت جابر (رض) سے اس کے خلاف روایت وارد ہے۔

7149

۷۱۴۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، وَمَسْرُوْقٍ وَسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، أَنَّہُمْ قَالُوْا : عَشْرُ تَکْبِیْرَاتٍ مَعَ تَکْبِیْرَۃِ الصَّلَاۃِ ، وَبِہٖ یَأْخُذُ قَتَادَۃُ .وَقَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ غَیْرَہُمْ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٧١٤٦: قتادہ نے حضرت جابر (رض) سے اور اسی طرح مسروق اور سعید بن مسیب رحمہم اللہ کے متعلق نقل کیا کہ وہ سب نماز کی تکبیر افتتاح سمیت عید میں دس تکبیرات کہتے اور قتادہ اس قول کو اختیار کرنے والے تھے۔
ان کے علاوہ دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے خلاف نقل کیا ہے۔

7150

۷۱۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مَکْحُوْلٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَنْ أَرْسَلَہٗ سَعِیْدُ بْنُ الْعَاصِ فَاتَّفَقَ لَہٗ أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ثَمَانِیْ تَکْبِیْرَاتٍ .فَہٰذَا الْحَدِیْثُ ، ہُوَ الْحَدِیْثُ الَّذِیْ قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ ، وَفِی الْأَرْبَعَۃِ ، أَبُوْ مُوْسَی ، وَحُذَیْفَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَقَدْ صَدَّقَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِیْمَا أَفْتٰی بِہٖ الْوَلِیْدُ بْنُ عُقْبَۃَ ، وَفِیْمَا أَفْتٰی بِہٖ أَنَّ تَکْبِیْرَۃَ الْاِفْتِتَاحِ ، سِوٰی ہٰذِہِ الثَّمَانِیْ تَکْبِیْرَاتٍ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ التَّکْبِیْرَاتِ الَّتِیْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَفِیْ حَدِیْثِ الْجُوْزَجَانِیِّ غَیْرُ تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ .فَہٰذَا مَا رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَکْبِیْرِ الْعِیْدَیْنِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ تَابِعِیہِمْ فِیْ ذٰلِکَ اخْتِلَافٌ .فَمَا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧١٤٧: مکحول کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتلایا جس کو حضرت سعید بن العاص (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجا تھا ان میں سے چار اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ تکبیرات پر اتفاق کیا۔ اس سے مراد وہی روایت ہے جو ٧١٤٢ پر ذکر کی گئی ہے اور ان چار میں ابو موسیٰ اور حذیفہ (رض) بھی ہیں ان دونوں نے ابن مسعود (رض) کے فتوے کی تصدیق کی جو انھوں نے ولید بن عقبہ کو دیا تھا کہ افتتاح نماز کی تکبیر ان آٹھ سے الگ ہے پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس روایت میں جن تکبیرات کا تذکرہ ہے اور اسی طرح جو زجانی کی روایت میں جن تکبیرات کا تذکرہ ہے وہ تکبیرات افتتاح کے علاوہ ہیں۔ یہ وہ روایات ہیں جو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تکبیرات کے سلسلہ میں مروی ہیں۔ تابعین سے مختلف روایات مروی ہیں۔
روایات تابعین (رض) :
تابعین سے مختلف روایات مروی ہیں :

7151

۷۱۴۸: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِیْرٍ عَنْ خُصَیْفٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، کَانَ یُکَبِّرُ سَبْعًا وَخَمْسًا .فَقَالَ : أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : فَہٰذَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ قَدْ وَافَقَ مَذْہَبُنَا مَذْہَبَہُ .قِیْلَ لَہُمْ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَکْثَرِ التَّابِعِیْنَ خِلَافُ ہٰذَا .
٧١٤٨: خصیف روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) سات اور پانچ تکبیرات کہتے۔ فریق اوّل کا دعویٰ ہے کہ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) ہیں ان کا قول و عمل ہماری موافقت کررہا ہے۔ اکثر تابعین سے اس کے خلاف نقل وارد ہے۔

7152

۷۱۴۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ أَنَّ مَسْرُوْقَ بْنَ الْأَجْدَعِ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْعِیْدَیْنِ تِسْعَ تَکْبِیْرَاتٍ .
٧١٤٩: ابراہیم نقل کرتے ہیں کہ حضرت مسروق عیدین میں نو تکبیرات کہتے۔

7153

۷۱۵۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ سَمِعْتُ مَنْصُوْرًا یُحَدِّثُ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ وَمَسْرُوْقٍ ، أَنَّہُمَا کَانَا یُکَبِّرَانِ فِی الْعِیْدَیْنِ ، تِسْعَ تَکْبِیْرَاتٍ .
٧١٥٠: ابراہیم نے اسود و مسروق کے متعلق نقل کیا کہ وہ دونوں عیدین میں نو تکبیرات کہتے تھے۔

7154

۷۱۵۱: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا الْأَشْعَثُ عَنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، قَالَ : تِسْعُ تَکْبِیْرَاتٍ ، خَمْسٌ فِی الْأُوْلٰی ، وَأَرْبَعٌ فِی الْآخِرَۃِ ، مَعَ تَکْبِیْرَۃِ الصَّلَاۃِ ..
٧١٥١: اشعث نے حضرت حسن (رح) کے متعلق نقل کیا کہ عیدین میں نو تکبیرات ہیں پانچ پہلی رکعت میں اور چار پچھلی رکعت میں اس میں تکبیر نماز (رکوع و افتتاح کی بھی شامل ہوتی)

7155

۷۱۵۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، قَالَ : تِسْعُ تَکْبِیْرَاتٍ .
٧١٥٢: ابو معشر کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی (رح) نے فرمایا نو تکبیرات ہیں (عیدین میں)

7156

۷۱۵۳: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : سَمِعْتُ حَمْزَۃَ أَبَا عُمَارَۃَ قَالَ : سَمِعْت الشَّعْبِیَّ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ : ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، سِوٰی تَکْبِیْرَۃِ الصَّلَاۃِ .
٧١٥٣: حمزہ ابو عمارہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رح) کو کہتے سنا کہ نماز کی تکبیرات کے علاوہ ہر رکعت میں تین تین تکبیرات ہوں گی۔

7157

۷۱۵۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدٌ وَہُوَ ابْنُ سِیْرِیْنَ فِیْ تَکْبِیْرِ الْعِیْدَیْنِ ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ تَکْبِیْرِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَوَافَقَہُ أَیْضًا عَلَی الْمُوَالَاۃِ ، بَیْنَ الْقِرَائَ تَیْنِ .
٧١٥٤: ابراہیم کہتے ہیں کہ ہمیں ابن سیرین نے تکبیرات عیدین کے متعلق فرمایا۔ پھر تکبیرات ابن مسعود (رض) جیسی روایت نقل کی ہے اور دونوں ق راتوں میں موالات پر بھی انھوں نے ان کی موافقت کی ہے۔

7158

۷۱۵۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ بِنَحْوِہٖ۔ فَہٰذَا أَکْثَرُ مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ مِنْ التَّابِعِیْنَ قَدْ وَافَقَ قَوْلُہٗ قَوْلَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَلَمَّا اُخْتُلِفَ فِی التَّکْبِیْرِ فِیْ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ ، ہٰذَا الْاِخْتِلَافَ ، أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ أَقَاوِیْلِہِمْ ہٰذِہٖ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَلَمْ یُرْوَ عَنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ أَنَّہٗ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ فِی الْفِطْرِ ، وَالْأَضْحٰی، غَیْرُ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَکَانَتْ صَلَاۃُ الْفِطْرِ ، وَصَلَاۃُ النَّحْرِ صَلَاتٰی عِیْدٍ مَفْعُوْلَتَیْنِ ، لِمَعْنًیْ وَاحِدٍ ، وَہُمَا مُسْتَوِیَتَانِ فِیْ رُکُوْعِہِمَا وَسُجُوْدِہِمَا .فَکَانَ النَّظَرُ أَنْ یَکُوْنَا سَوَائً ، لَا اخْتِلَافَ بَیْنَ اِحْدَاہُمَا وَبَیْنَ الْأُخْرٰی فِیْ سَائِرِ حُکْمِہِمَا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا التَّسْوِیَۃُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ ، وَیَوْمِ الْفِطْرِ .ثُمَّ نَظَرْنَا فِیْ عَدَدِ التَّکْبِیْرِ فِیْہِمَا فَرَأَیْنَا سَائِرَ الصَّلَوَاتِ خَالِیَۃً مِنْ ہٰذَا التَّکْبِیْرِ ، وَرَأَیْنَا صَلَاۃَ الْعِیْدَیْنِ قَدْ أُجْمِعَ أَنَّ فِیْہِمَا تَکْبِیْرَاتٍ زَائِدَۃً عَلٰی غَیْرِہِمَا مِنَ الصَّلَوَاتِ .فَکَانَ النَّظَرُ أَنْ لَا یُزَادَ فِی الصَّلَاۃِ لِلْعِیْدَیْنِ عَلٰی مَا فِیْ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ غَیْرِہِمَا ، اِلَّا مَا اُتُّفِقَ عَلَی زِیَادَتِہٖ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ عَلَی زِیَادَۃِ التِّسْعِ تَکْبِیْرَاتٍ عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ ابْنُ مَسْعُوْدٍ ، وَحُذَیْفَۃُ ، وَابْنُ عَبَّاسٍ ، وَأَبُوْ مُوْسٰی، وَمَنْ سَمِعْنَا مَعَہُمْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .وَاخْتَلَفُوْا فِی الزِّیَادَۃِ عَلٰی ذٰلِکَ فَزِدْنَا فِیْ ہٰذِہٖ الصَّلَاۃِ ، مَا اُتُّفِقَ عَلَی زِیَادَتِہِ فِیْہَا ، وَنَفَیْنَا عَنْہَا مَا لَمْ یُتَّفَقْ عَلٰی زِیَادَتِہٖ فِیْہَا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ .ثُمَّ نَظَرْنَا فِیْ مَوْضِعِ الْقِرَائَ ۃِ مِنْہَا فَقَالَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّہَا فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی بَعْدَ التَّکْبِیْرِ ، وَفِی الثَّانِیَۃِ کَذٰلِکَ قَدْ رَأَیْنَاکُمْ قَدْ اتَّفَقْتُمْ ، وَنَحْنُ ، أَنَّ الْقِرَائَ ۃَ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی ، مُؤَخَّرَۃٌ عَنِ التَّکْبِیْرِ ، فَالنَّظَرُ أَنْ تَکُوْنَ فِی الثَّانِیَۃِ کَذٰلِکَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرَی ، أَنَّ التَّکْبِیْرَ ذِکْرٌ یُفْعَلُ فِی الصَّلَاۃِ وَہُوَ غَیْرُ الْقِرَائَ ۃِ .فَنَظَرْنَا فِیْ مَوْضِعِ الذِّکْرِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی مِنِ الصَّلَاۃِ ، وَمِنَ الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ ، أَیْنَ مَوْضِعُہٗ؟ .فَوَجَدْنَا الرَّکْعَۃَ الْأُوْلٰی فِیْہَا الْاِسْتِفْتَاحُ وَالتَّعَوُّذُ عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَا فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَمَّنْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ مِنْ أَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، فَکَانَ ذٰلِکَ فِیْ أَوَّلِ الصَّلَاۃِ قَبْلَ الْقِرَائَ ۃِ. فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ کَذٰلِکَ مَوْضِعُ التَّکْبِیْرِ فِیْ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی، ہُوَ ذٰلِکَ الْمَوْضِعُ مِنْہَا .وَوَجَدْنَا الْقُنُوْتَ فِی الْوِتْرِ ، یُفْعَلُ فِی الرَّکْعَۃِ الْأَخِیْرَۃِ مِنْ صَلَاۃِ الْوِتْرِ ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ بَعْدَ الْقِرَائَ ۃِ ، وَأَنَّ الْقِرَائَ ۃَ مُقَدَّمَۃٌ عَلَیْہِ .وَاِنَّمَا اخْتَلَفُوْا فِیْ تَقْدِیْمِ الرُّکُوْعِ عَلَیْہٖ، وَفِیْ تَقْدِیْمِہٖ عَلَی الرُّکُوْعِ .فَأَمَّا فِیْ تَأْخِیرِہٖ عَنِ الْقِرَائَ ۃِ ، فَلَا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَوْضِعَ التَّکْبِیْرِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ مِنْ صَلَاۃِ الْعِیْدِ ، ہُوَ بَعْدَ الْقِرَائَ ۃِ یَسْتَوِیْ مَوْضِعُ سَائِرِ الذِّکْرِ فِی الصَّلَوَاتِ ، وَیَکُوْنُ مَوْضِعُ کُلِّ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْہٗ، کَمَوْضِعِ مَا قَدْ أُجْمِعَ عَلٰی مَوْضِعِہٖ۔ وَکُلُّ مَا بَیَّنَّا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، فَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ ۔
٧١٥٥: ابن عون نے محمد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اکثر تابعین سے یہی قول منقول ہے اور ان کا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کے موافق ہے۔ اب جبکہ نماز عیدین کی تکبیرات میں اس قدر اختلاف ہے تو اب ان میں سے صحیح ترین نکالنے کی اب ہم کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی صحابی یا تابعی (رض) سے نماز فطر و اضحی میں فرق منقول نہیں سوائے حضرت علی (رض) کے۔ بقیہ تمام نے دونوں نمازوں کو رکوع و سجود میں برابر قرار دیا ہے نظر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں نمازیں تمام احکام میں ایک دوسری کی طرح ہوں۔ پس اس سے عیدین کی نمازوں میں برابری تو ثابت ہوگئی۔ پھر ہم نے تکبیرات کی تعداد میں غور کیا تو تمام نمازوں کو اس تکبیر سے خالی پا یا اور اس پر تو تمام کا اتفاق پایا کہ عیدین کی نماز میں دوسری نمازوں سے تکبیرات زائدہ پائی جاتی ہیں۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ نماز عیدین میں بھی عام نمازوں کی تکبیرات سے اضافہ نہ کیا جائے سوائے ان تکبیرات کے کہ جن کی زیادتی پر سب کا اتفاق ہے۔ اب غور سے معلوم ہوا کہ نو زائد تکبیرات پر سب کا اتفاق ہے جس کی طرف حضرت ابن مسعود ‘ حذیفہ ‘ ابن عباس ‘ ابو موسیٰ (رض) اور ان سے روایات سننے والے تابعین نے جن کو اختیار کیا ہے۔ اس سے زائد پر اختلاف ہے تو ہم نے اس نماز میں ان زائد تکبیرات کو شامل کردیا جن کے اضافہ پر اتفاق تھا اور جن کے اضافہ پر اتفاق نہ تھا ان کی نفی کردی۔ پس اس سے فریق ثانی جس طرف گئے ہیں ان کی بات ثابت ہوگئی۔ پھر ہم نے مقامات قراءت پر نظر ڈالی پہلا قول یہ تھا کہ رکعت اولیٰ میں یہ تکبیر کے بعد ہے اور دوسری میں بھی اسی طرح جس پر وہ متفق ہیں ہمارے ہاں قراءت رکعت اولیٰ میں تو تکبیر سے موخر ہے پس تقاضا نظریہ ہے کہ دوسری رکعت میں بھی اسی طرح ہو۔ دوسرے فریق کے پاس فریق اوّل کے خلاف دلیل یہ ہے کہ تکبیر ایک ذکر ہے جو قراءت نہیں مگر نماز میں کیا جاتا ہے چنانچہ ہم نے نماز کی پہلی رکعت میں ذکر کے موقع پر غور کیا اور اسی طرح دوسری رکعت میں اس کی جگہ تلاش کی۔ تو رکعت اول میں ہم نے استفتاح و تعوذ کو پا لیا جیسا کہ ہم پہلے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے اسی کتاب میں ذکر کر آئے تو وہ نماز کے شروع میں قراءت سے پہلے ہے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ نماز عیدین میں بھی تکبیر کی جگہ پہلی رکعت میں وہی ہے اور ہم نے قنوت وتر کو دیکھا کہ وہ نماز وتر کی آخری رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ قراءت کے بعد ہے قراءت اس سے مقدم ہوگی۔ پس اس پر رکوع کے مقدم کرنے یا اس کو رکوع پر مقدم کرنے میں اختلاف ہے البتہ قراءت سے موخر ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ دوسری رکعت میں تکبیر کا مقام نماز عید میں وہ قراءت کے بعد ہونا چاہیے نمازوں میں ذکر کے تمام مقامات برابر ہیں اور جس ذکر کے موقع سے متعلق اختلاف ہے وہ جگہ میں اس کی طرح ہے جس کے موضع و مقام پر سب کا اتفاق ہے۔ اس باب میں ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

7159

۷۱۵۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَحْیَی الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہٖ، أَنَّ جَدَّتَہٗ أَتَتْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِحُلِیْ لَہَا فَقَالَتْ: اِنِّیْ تَصَدَّقْتُ بِہٰذَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لِلْمَرْأَۃِ فِیْ مَالِہَا أَمْرٌ ، اِلَّا بِاِذْنِ زَوْجِہَا ، فَہَلْ اسْتَأْذَنْت زَوْجَکَ؟ فَقَالَتْ : نَعَمْ .فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ہَلْ أَذِنْت لِامْرَأَتِکَ أَنْ تَتَصَدَّقَ بِحُلِیِّہَا ہٰذَا فَقَالَ : نَعَمْ .فَقَبِلَہٗ مِنْہَا ، رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِلْمَرْأَۃِ ہِبَۃُ شَیْئٍ مِنْ مَالِہَا ، وَلَا الصَّدَقَۃُ بِہٖ ، دُوْنَ اِذْنِ زَوْجِہَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَأَجَازُوْا أَمْرَہَا کُلَّہٗ فِیْ مَالِہَا ، وَجَعَلُوْہَا فِیْ مَالِہَا ، کَزَوْجِہَا فِیْ مَالِہٖ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : وَآتُوْا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْھُ ہَنِیئًا مَرِیْئًا۔فَأَبَاحَ اللّٰہُ لِلزَّوْجِ مَا طَابَتْ لَہٗ بِہٖ نَفْسُ امْرَأَتِہٖ۔وَبِقَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ : وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّا أَنْ یَعْفُوْنَ۔فَأَجَازَ عَفْوَہُنَّ عَنْ مَالِہِنَّ ، بَعْدَ طَلَاقِ زَوْجِہَا اِیَّاہَا بِغَیْرِ اسْتِئْمَارٍ مِنْ أَحَدٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی جَوَازِ أَمْرِ الْمَرْأَۃِ فِیْ مَالِہَا ، وَعَلٰی أَنَّہَا فِیْ مَالِہَا ، کَالرَّجُلِ فِیْ مَالِہٖ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُوَافِقُ ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا .وَہُوَ مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِیْ کِتَابِ الزَّکَاۃِ فِی امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِیْنَ أَخَذَتْ حُلِیَّہَا ، لِتَذْہَبَ بِہٖ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِتَتَصَدَّقَ بِہٖ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہَلُمِّیْ تَتَصَدَّقِیْ بِہٖ عَلَیَّ .فَقَالَتْ : لَا ، حَتّٰی إِسْتَأْذِنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَجَائَ تْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَتْہُ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ : تَصَدَّقِیْ بِہٖ عَلَیْہٖ، وَعَلَی الْأَیْتَامِ الَّذِیْنَ فِیْ حِجْرِہٖ، فَاِنَّہُمْ لَہٗ مَوْضِعٌ۔فَقَدْ أَبَاحَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَۃَ ، بِحُلِیِّہَا ، عَلَی زَوْجِہَا ، وَعَلٰی أَیْتَامِہٖ، وَلَمْ یَأْمُرْہَا بِاسْتِئْمَارِہٖ فِیْمَا تَصَدَّقَ بِہٖ عَلٰی أَیْتَامِہٖ .وَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَظَ النِّسَائَ فَقَالَ : تَصَدَّقْنَ وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْ ذٰلِکَ أَمْرَ أَزْوَاجِہِنَّ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ لَہُنَّ الصَّدَقَۃَ بِمَا أَرَدْنَ مِنْ أَمْوَالِہِنَّ ، بِغَیْرِ أَمْرِ أَزْوَاجِہِنَّ .
٧١٥٦: عبداللہ بن یحییٰ انصاری نے اپنے والد سے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ میری دادی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے پاس چاندی تھی وہ کہنے لگی میں اس کو صدقہ کرنا چاہتی ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورت کو اپنے مال میں کوئی اختیار نہیں جب تک اس کا خاوند اجازت نہ دے کیا تم نے اپنے خاوند سے اجازت لی ہے تو اس نے جواب دیا۔ جی ہاں۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو بھیجا جو معلومات کر کے آئے کہ کیا تم نے اپنی عورت کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے یہ زیورات صدقہ کرے۔ تو اس نے جواب دیا جی ہاں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے قبول فرمالیا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ اس روایت کی طرف گئے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ عورت اپنے مال میں سے کسی چیز کو صدقہ یا ہبہ خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتی۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ عورت کو اپنے تمام مال میں تصرف کی اجازت ہے وہ اپنے مال میں اسی طرح مختار ہے جس طرح خاوند اپنے مال میں پورا اختیار رکھتا ہے انھوں نے اس آیت کو دلیل بنایا ہے ” واتوالنساء صدقاتہن نحلۃ فان طبن لکم عن شیٔ منہ نفسا فکلوہ ہنیئا مریئا “ (النساء ٤) اس آیت میں خاوند کے لیے اس مال کو عورت کے مال مہر میں سے مباح قرار دیا گیا جو وہ خوشدلی سے خاوند کو دے دے (اگر وہ مال کی مختار نہ ہوتی تو ضمیر کی نسبت اس کی طرف نہ ہوتی) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وان طلقتموہن “ (البقرہ ٢٣٧) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مال کے معاف و درگزر کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ اس کا خاوند بلامساس کے اس کو طلاق دے دے اور اس کا مہر مقرر ہو۔ حاصل دلیل یہ ہے کہ اس سے دلالت مل گئی کہ عورت کا حکم اس کے اپنے مال میں چلتا ہے اور وہ اپنے مال میں تصرف کا خاوند کی طرح برابر اختیار رکھتی ہے اور اس معنی کی موافقت میں روایات وارد ہیں۔ ایک روایت تو وہ ہے جو کتاب الزکوۃ میں گزری کہ حضرت ابن مسعود (رض) کی بیوی اپنا زیور لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جانے لگی تاکہ اس کو صدقہ کرے۔ تو عبداللہ کہنے لگے۔ لاؤ یہ مجھ پر صدقہ کر دو ۔ تو انھوں نے کہا نہیں جب تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت نہ کرلوں۔ تو اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا ان پر خرچ کرو اور ان یتیموں پر جو تمہاری پرورش میں ہیں وہ اس صدقہ کے خرچ کا مقام ہیں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے زیور کے صدقہ کو خاوند کے حق میں مباح کردیا اور اسی طرح یتامیٰ پر۔ اور اس میں ان کے خاوند کی اجازت کا حکم نہیں فرمایا۔ ! اس روایت میں یہ بات بھی موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو وعظ فرمایا اور اس میں فرمایا تم صدقہ کرو۔ اس روایت میں خاوندوں کی اجازت کا کہیں تذکرہ موجود نہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورتیں اپنے اموال میں اپنے خاوندوں کے حکم کے بغیر جو چاہیں صدقہ کرسکتی ہیں۔
خلاصہ الزام :
عورت اپنے مال میں سے کوئی چیز ہبہ یا صدقہ خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتی۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ عورت کو اپنے مال میں مکمل تصرف کا حق حاصل ہے اس قول کو ائمہ احناف رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔

7160

۷۱۵۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ وَأَبُو الْوَلِیْدِ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : سَمِعْتُ أَیُّوْبَ یُحَدِّثُ عَطَائً قَالَ : أَشْہَدُ عَلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .أَوْ حَدَّثَ بِہٖ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَشْہَدُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ خَرَجَ یَوْمَ فِطْرٍ ، فَصَلّٰی، ثُمَّ خَطَبَ ، ثُمَّ أَتَی النِّسَائَ ، فَأَمَرَہُنَّ أَنْ یَتَصَدَّقْنَ۔
٧١٥٧: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ عیدالفطر کے دن نکلے اور نماز ادا فرما کر پھر خطبہ دیا پھر عورتوں کے مجمع کے پاس آئے اور ان کو صدقہ کا حکم فرمایا۔

7161

۷۱۵۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، شَہِدْت الْعِیْدَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ .قَالَ : نَعَمْ ، وَلَوْلَا مَکَانِیْ مِنْہُ مَا شَہِدْتُہٗ مِنْ صِغَرِیْ ، خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْعِیْدِ ، فَصَلّٰی ، ثُمَّ خَطَبَ ، ثُمَّ أَتَی النِّسَائَ مَعَ بِلَالٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَوَعَظَہُنَّ فَجَعَلْتِ. الْمَرْأَۃُ تَہْوِیْ بِیَدِہَا اِلٰی رَقَبَتِہَا ، وَالْمَرْأَۃُ تَہْوِیْ بِیَدِہَا اِلَی أُذُنِہَا ، فَتَدْفَعُہُ اِلٰی بِلَالٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَبِلَالٌ یَجْعَلُہُ فِیْ ثَوْبِہٖ ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہٖ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی مَنْزِلِہِ۔
٧١٥٨: عبدالرحمن بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہا کیا تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عید میں موجود تھے ؟ تو انھوں نے کہا ہاں۔ اگر قرب کا وہ مرتبہ جو مجھے حاصل تھا وہ نہ ہوتا تو میں نو عمری کی وجہ سے عید میں حاضر نہ ہوتا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کے روز نکلے اور نماز عید ادا فرما کر پھر خطبہ ارشاد فرمایا پھر عورتوں کے مجمع کے پاس تشریف لائے جبکہ بلال (رض) آپ کے ساتھ تھے پھر ان کو وعظ و ں صیحت فرمائی پھر تو عورتیں اپنے ہاتھ اپنی گردنوں کی طرف لے جانے لگیں اور بعض عورتیں اپنے ہاتھوں کو کانوں تک لے جاتیں تھیں (اور زیور اتار کر) حضرت بلال (رض) کے سپرد کرتی جاتیں اور بلال اسے اپنے کپڑے میں ڈالتے جاتے تھے پھر وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس جمع شدہ مال کو لے کر لوٹے۔

7162

۷۱۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : شَہِدْتُ الصَّلَاۃَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، فَکُلُّہُمْ یُصَلِّیہَا قَبْلَ الْخُطْبَۃِ ، ثُمَّ یَخْطُبُ بَعْدُ .قَالَ : وَنَزَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَأَنِّیْ أَنْظُرُ اِلَیْہِ یُجْلِسُ الرَّجُلَ بِیَدِہٖ، ثُمَّ أَقْبَلَ یَشُقُّہُمْ حَتّٰی أَتَی النِّسَائَ ، وَمَعَہٗ بِلَالٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَائَ ک الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَا یُشْرِکْنَ بِاَللّٰہِ شَیْئًا اِلٰی قَوْلِہٖ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ۔فَقَالَ حِیْنَ فَرَغَ أَنْتُنَّ عَلٰی ذٰلِکَ .فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ وَاحِدَۃٌ لَمْ تُجِبْہُ غَیْرُہَا نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ : فَتَصَدَّقْنَ .فَبَسَطَ بِلَالٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ثَوْبَہٗ، ثُمَّ قَالَ : لَہُنَّ أَلْقِیْنَ فَجَعَلْنَ یُلْقِیْنَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِیْمَ فِیْ ثَوْبِ بِلَالٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔
٧١٥٩: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عید میں موجود تھا اور اسی طرح میں ابوبکر و عمرو عثمان (رض) کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تمام کے تمام خطبہ سے پہلے نماز ادا فرماتے پھر بعد میں خطبہ دیتے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اترے گویا اب بھی وہ منظر میرے سامنے ہے کہ آپ آدمیوں کو اپنے ہاتھ سے بٹھا رہے ہیں پھر آپ ان کو چیرتے ہوئے عورتوں کے مجمع میں تشریف لائے اس وقت بلال (رض) آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا ” یا ایہا النبی اذا جاء ک المومنات “ (الممتحنہ ١٢ تا آخر آیت) پھر فراغت کے بعد فرمایا تم اس پر قائم رہو گی تو ایک عورت کہنے لگی اور اس کے سواء اور کسی نے جواب نہ دیا جی ہاں۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ آپ نے فرمایا پھر تم صدقہ کرو۔ تو حضرت بلال (رض) نے اپنا کپڑا پھیلا دیا پھر آپ نے ان کو فرمایا اس میں ڈالتی جاؤ تو وہ بلال کے کپڑے میں انگوٹھیاں اور چھلے ڈالنے لگیں۔
تخریج : بخاری فی العیدین باب ١٩‘ تفسیر سورة ٦٠‘ باب ٣‘ مسلم فی العیدین روایت ١۔

7163

۷۱۶۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَطَائٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ یَوْمَ الْفِطْرِ ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاۃِ قَبْلَ الْخُطْبَۃِ ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ .فَلَمَّا فَرَغَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَامَ فَأَتَی النِّسَائَ ، فَذَکَّرَہُنَّ وَہُوَ یَتَوَکَّأُ عَلٰی بِلَالٍ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَہٗ، فَجَعَلَ النِّسَائُ یُلْقِیْنَ فِیْہِ صَدَقَاتِہِنَّ۔
٧١٦٠: عطاء نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے ان کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدالفطر کے روز کھڑے ہوئے اور خطبہ سے پہلے نماز ادا فرمائی پھر لوگوں کو خطبہ دیا پھر جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فارغ ہوئے تو آپ اٹھے اور عورتوں کے مجمع میں تشریف لائے اور ان کو وعظ و نصیحت کی اس وقت آپ بلال (رض) سے سہارا لگانے والے تھے بلال (رض) اپنا کپڑا پھیلانے والے تھے تو عورتوں نے اپنے صدقات اس میں ڈالنے شروع کئے۔

7164

۷۱۶۱: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ بْنُ جَنَّادٍ الْحَلَبِیُّ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ عَنْ زَیْدِ بْنِ رَفِیْعٍ عَنْ حَرَامِ بْنِ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النِّسَائَ ذَاتَ یَوْمٍ ، فَأَمَرَہُنَّ بِتَقْوَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَالطَّاعَۃِ لِأَزْوَاجِہِنَّ ، وَأَنْ یَتَصَدَّقْنَ۔فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ النِّسَائَ بِالصَّدَقَاتِ ، وَقَبِلَہَا مِنْہُنَّ ، وَلَمْ یَنْتَظِرْ فِیْ ذٰلِکَ رَأٰی أَزْوَاجِہِنَّ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٧١٦١: زید بن رفع نے حرام بن حکیم بن حزام (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا اور عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا حکم فرمایا اور اپنے خاوندوں کی اطاعت کا فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ وہ صدقہ کریں۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ نے عورتوں کو صدقات کا حکم فرمایا اور ان کی طرف سے ان صدقات کو قبول فرمایا اور اس سلسلہ میں ان کے خاوندوں کی رائے کا انتظار نہیں فرمایا۔
اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات :
اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات وارد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

7165

۷۱۶۲: حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا بُکَیْر بْنُ الْأَشَجِّ عَنْ کُرَیْبِ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : سَمِعْتُ مَیْمُوْنَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَقُوْلُ أَعْتَقْتُ وَلِیْدَۃً عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَوْ أَعْطَیْتُہُا أُخْتَک الْأَعْرَابِیَّۃَ ، کَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِک۔
٧١٦٢: کریب مولیٰ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امّ المؤمنین میمونہ (رض) کو فرماتے سنا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک نو عمر لونڈی آزاد کی۔ پھر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا اگر وہ لونڈی تم اپنی دیہاتی بہن کو دے دیتی تو اس کا اجر زیادہ ملتا۔
تخریج : بنحوہ بخاری فی الہبہ باب ١٥؍١٦‘ مسلم فی الزکوۃ ٤٤۔

7166

۷۱۶۳: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِثْلَہٗ۔فَلَوْ کَانَ أَمْرُ الْمَرْأَۃِ ، لَا یَجُوْزُ فِیْ مَالِہَا بِغَیْرِ اِذْنِ زَوْجِہَا ، لَرَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَتَاقَہَا ، وَصَرَفَ الْجَارِیَۃَ اِلَی الَّذِیْ ھُوَ أَفْضَلُ مِنَ الْعَتَاقِ .فَکَیْفَ یَجُوْزُ لِأَحَدٍ تَرْکُ آیَتَیْنِ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَسُنَنٍ ثَابِتَۃٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مُتَّفَقٌ عَلٰی صِحَّۃِ مَجِیْئِہَا اِلٰی حَدِیْثٍ شَاذ ، وَلَا یَثْبُتُ مِثْلُہٗ ؟ .ثُمَّ النَّظَرُ مِنْ بَعْدُ ، یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِی الْمَرْأَۃِ ، فِیْ وَصَایَاہَا مِنْ ثُلُثِ مَالِہَا أَنَّہَا جَائِزَۃٌ مِنْ ثُلُثِہَا ، کَوَصَایَا الرِّجَالِ ، وَلَمْ یَکُنْ لِزَوْجِہَا عَلَیْہَا فِیْ ذٰلِکَ سَبِیْلٌ وَلَا أَمْرٌ ، وَبِذٰلِکَ نَطَقَ الْکِتَابُ الْعَزِیْزُ .قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمْ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصِیْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ۔فَاِذَا کَانَتْ وَصَایَاہَا فِی ثُلُثِ مَالِہَا ، جَائِزَۃً بَعْدَ وَفَاتِہَا ، فَأَفْعَالُہَا فِیْ مَالِہَا فِیْ حَیَاتِہَا ، أَجْوَزُ مِنْ ذٰلِکَ .فَبِہٰذَا نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٧١٦٣: عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت میمونہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اگر عورت کو اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کا اختیار نہ ہو تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آزاد کردہ لونڈی کو واپس کراتے اور افضل ترین آزادی کی طرف لوٹاتے۔ اب کیونکر کسی کے لیے درست ہے کہ وہ کتاب اللہ کی ان دو آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح ثابت شدہ سنن کو ترک کر کے ایک ایسی روایت کو اختیار کرے جو کہ شاذ و غیر ثابت ہے۔ پھر نظر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اس بارے میں کسی کو اختلاف نہیں کہ عورت اپنے مال کے ثلث میں وصیت کرسکتی ہے اور یہ وصیت تیسرا حصہ مال سے جائز ہے نافذ ہے جیسا کہ مردوں کے سلسلہ میں حکم اسی طرح ہے اس میں نہ تو مرد کو روکنے کا حق ہے اور نہ اس کے حکم کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید نے یہی بات ارشاد فرمائی ہے۔ ” ولکم نصف ماترک ازواجکم “ (الایۃ آیت ١٢) اور اے خاوندو ! تمہیں اپنی بیویوں کے ترکہ سے نصف ملے گا اگر ان کے ہاں اولاد نہ ہو اگر اولاد ہو تو تمہیں اس مال میں سے چوتھائی ملے گا جو وہ چھوڑ جائیں اور یہ تقسیم ترکہ اس وصیت کے بعد نافذ ہوگا جو وہ وصیت کر جائیں یا قرض کے بعد۔ پس جب عورت کو اپنے ثلث مال کی وصیت جائز ہے اور وفات کے بعد وہ نافذ ہوگی تو زندگی کے دوران وہ اپنے مال میں اس سے زیادہ جائز حق رکھتی ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

7167

۷۱۶۴: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الرَّبِیْعِ الزَّہْرَانِیُّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَیُّوْبُ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ ، أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ لِأَصْحَابِہٖ أَلَا أُرِیْکُمْ کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ وَاِنَّ ذٰلِکَ لَفِیْ غَیْرِ حِیْنِ الصَّلَاۃِ .فَقَامَ ، فَأَمْکَنَ الْقِیَامَ ، ثُمَّ رَکَعَ ، فَأَمْکَنَ الرُّکُوْعَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ وَانْتَصَبَ قَائِمًا ہُنَیْہَۃً ، ثُمَّ سَجَدَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ، فَتَمَکَّنَ فِی الْجُلُوْسِ ، ثُمَّ انْتَظَرَ ہُنَیْہَۃً ، ثُمَّ سَجَدَ۔قَالَ أَبُو قِلَابَۃَ : فَصَلّٰی کَصَلَاۃِ شَیْخِنَا ہٰذَا یَعْنِیْ عَمْرَو بْنَ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔قَالَ : فَرَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ سَلَمَۃَ یَصْنَعُ شَیْئًا ، لَا أَرَاکُمْ تَصْنَعُوْنَہٗ، اِنَّہٗ کَانَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ السَّجْدَۃِ الْأُوْلٰی وَالثَّالِثَۃِ الَّتِیْ لَا یَقْعُدُ فِیْہَا ، اسْتَوَیْ قَاعِدًا ، ثُمَّ قَامَ .
٧١٦٤: ابو قلابہ کہتے ہیں کہ حضرت مالک بن حویریث (رض) اپنے دوستوں کو کہنے لگے کیا میں تم کو نہ دکھلاؤں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح نما زادا فرماتے تھے۔ اور یہ نماز کے علاوہ اوقات کی بات ہے پس آپ کھڑے ہوتے اور صحیح طور پر کھڑے ہوتے پھر رکوع کرتے تو وہ بھی پورے اطمینان سے کرتے پھر اپنا سر اٹھاتے اور بالکل سیدھے کھڑے ہوجاتے پھر سجدہ کرتے پھر اپنا سر سجدہ سے اٹھاتے اور اطمینان سے بیٹھ جاتے پھر ذرا سا رک کر دوسرا سجدہ کرتے ابو قلابہ کہتے ہیں انھوں نے ہمارے شیخ حضرت عمرو بن سلمہ (رض) جیسی نماز ادا کی۔ پھر ابو قلابہ کہنے لگے میں نے عمرو بن سلمہ کو ایک چیز کرتے دیکھا اور میں نے تمہیں اس کو کرتے نہیں دیکھا کہ وہ جب سجدہ اولیٰ سے سر اٹھاتے اور تیسرے سجدہ (رکعت) سے سر اٹھاتے جن میں قعدہ نہیں بیٹھا جاتا تو سیدھے بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے۔
خلاصہ الزام :
دوسرے سجدہ کے بعد سیدھا اٹھنے سے پہلے جلسہ استراحت ہے یا نہیں۔
: ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جلسہ استراحت ہر دوسرے سجدہ کے بعد ہے جن کے بعد قیام ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف یہ ہے دوسری یا تیسری رکعت کے سجدہ کرنے کے بعد پنجوں کی قوت سے اٹھے جلسہ استراحت نہ کرے ائمہ احناف نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

7168

۷۱۶۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ رَأٰی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، اِذَا کَانَ فِیْ وِتْرٍ مِنْ صَلَاتِہٖ لَمْ یَنْہَضْ حَتّٰی یَسْتَوِیَ قَاعِدًا۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ السَّجْدَۃِ الثَّانِیَۃِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی وَالثَّالِثَۃِ ، قَعَدَ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ قَاعِدًا ، ثُمَّ یَقُوْمَ بَعْدُ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یَقُوْمُ مِنْہَا ، وَلَا یَنْتَظِرُ أَنْ یَسْتَوِیَ قَاعِدًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧١٦٥: ابو قلابہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت مالک بن حویرث (رض) نے بتلایا کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب اپنی نماز کی تیسری رکعت میں ہوتے تو سجدہ کے بعد سیدھے بیٹھ جاتے پھر چوتھی رکعت کے لیے اٹھتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جب آدمی پہلی رکعت کے دوسرے سجدہ سے سر اٹھائے اور اسی طرح تیسری رکعت کے سجدہ ثانیہ سے جب سر اٹھائے تو اچھی طرح بیٹھ جائے پھر اس کے بعد اٹھے۔ یعنی جلسہ استراحت کرے انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ دوسرے سجدہ سے یا تیسری رکعت کے دوسرے سجدہ سے ظہور قدمین پر اٹھے جلسہ استراحت نہ کرے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٤٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٨‘ نسائی فی التطبیق باب ٩١۔

7169

۷۱۶۶: عَلِیُّ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ بِشْرٍ الرَّازِقُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھَمَّامٍ الْوَلِیْدُ بْنُ شُجَاعٍ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْخَیْثَمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ الْکُوْفِیُّ بْنُ الْحَرِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عِیْسَیْ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ عَیَّاشِ بْنِ سَہْلٍ السَّاعِدِیِّ وَکَانَ فِیْ مَجْلِسٍ فِیْہِ أَبُوْھُ ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَفِی الْمَجْلِسِ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ وَأَبُوْ أُسَیْدٍ وَأَبُوْ حُمَیْدٍ السَّاعِدِیُّ وَالْأَنْصَارُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، أَنَّہُمْ تَذَاکَرُوْا الصَّلَاۃَ . فَقَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اتَّبَعْتُ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا : فَأَرِنَا ، فَقَامَ یُصَلِّیْ وَہُمْ یَنْظُرُوْنَ ، فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ فِیْ أَوَّلِ التَّکْبِیْرِ ، ثُمَّ ذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا ، ذَکَرَ فِیْہِ أَنَّہٗ لَمَّا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ السَّجْدَۃِ الثَّانِیَۃِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی ، قَامَ وَلَمْ یَتَوَرَّکْ۔فَلَمَّا جَائَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، وَخَالَفَ الْحَدِیْثَ الْأَوَّلَ ، احْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ مَا فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، لِعِلَّۃٍ کَانَتْ بِہٖ ، فَقَعَدَ مِنْ أَجْلِہَا ، لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلَاۃِ ، کَمَا قَدْ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَتَرَبَّعُ بِالصَّلَاۃِ فَلَمَّا سُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ قَالَ : اِنْ رِجْلِیْ لَا تَحْمِلَانِیْ. فَکَذٰلِکَ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ الْقُعُوْدِ ، کَانَ لِعِلَّۃٍ أَصَابَتْہٗ، حَتّٰیْ لَا یُضَادَّ ذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِی الْحَدِیْثِ الْآخَرِ ، وَلَا یُخَالِفُہٗ وَہٰذَا أَوْلٰی بِنَا مِنْ حَمْلِ مَا رُوِیَ عَنْہُ عَلَی التَّضَادِّ وَالتَّنَافِی .وَحَدِیْثُ أَبِیْ حُمَیْدٍ أَیْضًا فِیْہِ حِکَایَۃُ أَبِیْ حُمَیْدٍ مَا حُکِیَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أَحَدٌ مِنْہُمْ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا عِنْدَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ غَیْرُ مُخَالِفٍ لِمَا حَکَاہُ لَہُمْ .وَفِیْ حَدِیْثِ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ کَلَامِ أَیُّوْبَ أَنَّ مَا کَانَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَۃَ یَفْعَلُ مِنْ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ یَرَی النَّاسَ یَفْعَلُوْنَہٗ وَہُوَ ، فَقَدْ رَأٰی جَمَاعَۃً مِنْ جُمْلَۃِ التَّابِعِیْنَ .فَذٰلِکَ حُجَّۃٌ فِیْ دَفْعِ مَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ مَالِکٍ أَنْ یَکُوْنَ سُنَّۃً .ثُمَّ النَّظَرُ مِنْ بَعْدِ ہٰذَا یُوَافِقُ مَا رَوَی أَبُوْ حُمَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا خَرَجَ فِیْ صَلَاتِہٖ مِنْ حَالٍ اِلٰی حَالٍ اسْتَأْنَفَ ذِکْرًا .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَاہُ اِذَا أَرَادَ الرُّکُوْعَ کَبَّرَ وَخَرَّ رَاکِعًا ، وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنِ الرُّکُوْعِ ، قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ وَاِذَا خَرَّ مِنَ الْقِیَامِ اِلَی السُّجُوْدِ فَقَالَ : اللّٰہُ أَکْبَرُ وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ السُّجُوْدِ قَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ وَاِذَا عَادَ اِلَی السُّجُوْدِ فَعَلَ ذٰلِکَ أَیْضًا ، وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ لَمْ یُکَبِّرْ مِنْ بَعْدِ رَفْعِہِ رَأْسَہُ اِلٰی أَنْ یَسْتَوِیَ قَائِمًا ، غَیْرَ تَکْبِیْرَۃٍ وَاحِدَۃٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بَیْنَ سُجُوْدِہٖ وَقِیَامِہٖ جُلُوْسٌ .وَلَوْ کَانَ بَیْنَہُمَا جُلُوْسٌ ، لَاحْتَاجَ أَنْ یَکُوْنَ تَکْبِیْرُہُ بَعْدَ رَفْعِہِ رَأْسَہٗ مِنْ السُّجُوْدِ ، لِلدُّخُوْلِ فِیْ ذٰلِکَ الْجُلُوْسِ ، وَلَاحْتَاجَ اِلَی تَکْبِیْرٍ آخَرَ ، اِذَا نَہَضَ لِلْقِیَامِ .فَلَمَّا لَمْ یُؤْمَرْ بِذٰلِکَ ، ثَبَتَ أَنْ لَا قُعُوْدَ بَیْنَ الرَّفْعِ مِنَ السَّجْدَۃِ الْأَخِیْرَۃِ ، وَالْقِیَامِ اِلَی الرَّکْعَۃِ الَّتِیْ بَعْدَہَا ، لِیَکُوْنَ حُکْمُ ذٰلِکَ وَحُکْمُ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ ، مُؤْتَلِفًا غَیْرَ مُخْتَلِفٍ .فَبِہٰذَا نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٧١٦٦: مالک نے ابن عیاش بن سہل الساعدی سے روایت کیا ہے کہ میں اس مجلس میں تھا جہاں میرے والد بھی بیٹھے تھے اور میرے والد اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھے اس مجلس میں حضرت ابوہریرہ ‘ ابو اسید ‘ ابو حمیدالساعدی (رض) اور دیگر انصاری صحابہ تھے انھوں نے باہمی نماز کا مذاکرہ کیا۔ تو ابو حمیدالساعدی کہنے لگے میں تم میں سب سے زیادہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو جاننے والا ہوں۔ میں نے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھی ہے۔ انھوں نے کہا۔ تم ہمیں دکھلاؤ۔ تو وہ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے اور وہ سب دیکھ رہے تھے پس انھوں نے تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی تکبیر میں اٹھایا پھر انھوں نے طویل روایت بیان کی اس میں انھوں نے ذکر کیا کہ جب انھوں نے دوسرے سجدہ سے سر اٹھایا جو کہ رکعت اول کا تھا تو وہ سیدھے کھڑے ہوگئے انھوں نے جلسہ استراحت نہ کیا۔ جب یہ روایت اسی طرح وارد ہے اور گزشتہ روایت کے خلاف ہے تو اب اس روایت میں ایک احتمال یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ کیا جو کہ پہلی روایت میں مذکور ہے وہ کسی سبب کی وجہ سے کیا تھا اسی تکلیف کی وجہ سے وہ بیٹھے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ نماز کی سنت ہے جیسا کہ ابن عمر (رض) چوکڑی مار کر بیٹھتے۔ جب ان سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا میری ٹانگیں میرے جسم کا بوجھ سہار نہیں سکتیں۔ پس اسی طرح اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بیٹھنے والا عمل کسی تکلیف کی وجہ سے ہو جو آپ کو پیش آئی۔ یہ تاویل اس وجہ سے کہی تاکہ دوسری روایت سے اس کا تضاد ختم ہوجائے۔ پس متضاد معنی پر محمول کرنے کی بجائے ایسے معنی پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ حضرت ابو حمید (رض) کی روایت میں بھی ابو حمید (رض) کی حکایت ہے انھوں نے صحابہ کرام (رض) کے مجمع کے سامنے آپ کا یہ عمل نقل کیا تو ان میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ان کا مؤقف ان کے نقل کردہ عمل کے مخالف نہیں ہے۔ روایت مالک (رض) میں جو ایوب سے منقول ہے یہ کہا گیا کہ حضرت عمرو بن سلمہ (رض) نے یہ عمل کیا ہے انھوں نے دوسروں کو یہ عمل کرتے نہیں دیکھا۔ من جملہ تابعین میں سے ایک جماعت نے دیکھا پس یہ ابو قلابہ عن مالک بن حویرث (رض) کی روایت کے سنت بننے کے خلاف حجت ہے۔ قیاس و نظر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ابو حمید ساعدی (رض) کی روایت کی تائید ہو۔ کیونکہ ہم نے غور کیا کہ جب آدمی نماز میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ازسرنو ذکر کرتا ہے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جب رکوع کرنا چاہتا ہے تو تکبیر کہتا ہے اور رکوع میں جاتا ہے جب رکوع سے سر اٹھاتا ہے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتا ہے۔ جب قیام سے سجدے کی طرف جاتا ہے تو اللہ اکبرکہتا ہے جب سجدہ سے سر اٹھاتا ہے تو پھر اللہ اکبر کہتا ہے پھر جب دوسرے سجدہ کی طرف جاتا ہے تو اسی طرح کرتا ہے جب سر اٹھاتا ہے تو سیدھا کھڑا ہونے تک صرف ایک تکبیر کہتا ہے تو یہ سب اس بات پر دلالت ہے کہ اس کے سجدے اور قیام کے درمیان بیٹھنے کا عمل نہیں ہے۔ اگر ان کے مابین بیٹھنا ہوتا تو سجدے سے اٹھنے کے بعد اس بیٹھنے میں داخل ہونے کے لیے تکبیر کی ضرورت ہوتی اور جب قیام کے لیے اٹھتا تو مزید ایک تکبیر کی ضرورت ہوتی تو جب اس بات کا حکم نہیں دیا گیا تو ثابت ہوگیا کہ دوسرے سجدے اور بعد والی رکعت کے قیام کے درمیان بیٹھنا (سنت) نہیں ہے تاکہ اس کا اور باقی تمام نماز کا حکم ایک جیسا ہوجائے اور ان کے درمیان اختلاف نہ ہو۔ ہم اسی بات کو اختیار کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ ١٧٧۔

7170

۷۱۶۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ح .
٧١٦٧: ربیع الموذن نے اسد سے بیان کیا ہے۔
خلاصہ الزام :
مالک کے ذمہ مملوک کے کیا حقوق بنتے ہیں فریق اوّل کے نزدیک مالک و مملوک کے کھانے اور پہننے میں برابری برتنا ضروری ہے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ مالک پر غلام کا بس اتنا حق ہے کہ وہ اسے اپنی وسعت کے مطابق خوراک و پوشاک دے۔ ائمہ احناف رحمہم اللہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

7171

۷۱۶۸: بِمَا حَدَّثَنِیْ بِہٖ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا، مِنْہُمْ وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَا : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ مُجَاہِدٍ الْمَدَنِیُّ ، أَبُوْ حَزْرَۃَ ، عَنِ عَبَادَۃِ ابْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِیْ، نَطْلُبُ ہٰذَا الْعِلْمَ فِیْ ہٰذَا الْحَیِّ مِنَ الْأَنْصَارِ ، قَبْلَ أَنْ یَہْلَکُوْا فَکَانَ أَوَّلُ مَنْ لَقِیْنَا ، أَبُو الْیُسْرِ صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَعَہُ غُلَامٌ لَہٗ، وَعَلَیْہِ بُرْدَۃٌ وَمَعَافِرِیٌّ ، وَعَلَی غُلَامِہِ بُرْدَۃٌ وَمَعَافِرِیٌّ .قَالَ : فَقُلْتُ لَہٗ : یَا عَمُّ ، لَوْ أَخَذْتُ بُرْدَۃَ غُلَامِکَ، وَأَعْطَیْتُہٗ مُعَافِرِیَّکَ ، وَأَخَذْت مُعَافِرِیَّہٗ، وَأَعْطَیْتُہٗ بُرْدَتَکَ، فَکَانَتْ عَلَیْکَ حُلَّۃٌ ، وَعَلَیْہِ حُلَّۃٌ .قَالَ : فَمَسَحَ رَأْسِیْ وَقَالَ : اللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْہِ۔ثُمَّ قَالَ : یَا ابْنَ أَخِیْ بَصُرَتْ عَیْنَایَ ہَاتَانِ ، وَسَمِعَتْہُ أُذُنَایَ ہَاتَانِ ، وَوَعَاہُ قَلْبِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُوْلُ أَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ ، وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ فَکَانَ اِنْ أَعْطَیْتُہٗ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
٧١٦٨: ابو حرزہ یعقوب نے عبادہ بن ولید بن حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تاکہ انصار سے علم حاصل کریں۔ اس سے پہلے کہ وہ دنیا سے رخصت ہوں۔ چنانچہ سب سے پہلے میری ملاقات حضرت ابوالیسر (رض) صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت ہوئی جبکہ ان کا غلام ان کے ساتھ تھا اور انھوں نے ایک چادر اور معافری کپڑا زیب تن کر رکھا تھا اور ان کے غلام نے بھی ایک چادر اور معافری جوڑا زیب تن کر رکھا تھا راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا اے چچا ! اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیتے اور اپنا معافری کپڑا اس کو دے دیتا اور اس کا معافری کپڑا لے لیتا اور اپنی چادر اس کو دے دیتے تو ایک قسم کا جو اڑا اس کا ہوجاتا اور ایک قسم کا جوڑا آپ کا بن جاتا۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا ” اللہم بارک فیہ “ اللہ تمہیں برکت دے۔ پھر فرمایا اے بھتیجے ! میری ان دو آنکھوں نے ملاحظہ کیا اور میرے ان دو کانوں نے سنا اور میرے سل نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محفوظ کیا۔ جبکہ آپ فرما رہے تھے ان غلاموں کو وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور ان کو وہی پہنو جو تم پہنتے ہو۔ پس میرا اس کو سامان دنیا دے دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ قیامت کے روز میری نیکیاں لے جائے۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ١٥‘ مسلم فی الزھد ٧٤‘ والایمان ٣٨‘ ابن ماجہ فی الادب باب ١٠‘ مسند احمد ٤؍٣٦‘ ٥؍١٦٨‘ ١٧٣۔

7172

۷۱۶۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الشِّیْرَازِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ نَجْدَۃَ الْحَوْطِیُّ قَالَ : ثَنَا عِیْسَیْ بْنُ یُوْنُسَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمَعْرُوْرِ بْنِ سُوَیْدٍ قَالَ : خَرَجْنَا حُجَّاجًا ، أَوْ مُعْتَمِرِیْنَ ، فَلَقِیْنَا أَبَا ذَر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالرَّبَذَۃِ ، فَاِذَا عَلَیْہِ بُرْدٌ ، وَعَلَی غُلَامِہٖ بُرْدٌ مِثْلُہٗ .فَقُلْنَا لَہٗ : یَا أَبَا ذَر لَوْ أَخَذْت ہٰذَا الْبُرْدَ اِلٰی بُرْدِکَ، لَکَانَتْ حُلَّۃً وَکَسَوْتہ بُرْدًا غَیْرَہُ .فَقَالَ أَبُو ذَر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِخْوَانُکُمْ جَعَلَہُمْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ تَحْتَ أَیْدِیْکُمْ ، فَمَنْ کَانَ أَخُوْھُ تَحْتَ یَدِہٖ، فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَأْکُلُ ، وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یَلْبَسُ ، وَلَا یُکَلِّفُہٗ مَا یَغْلِبُہٗ، فَاِنْ کَلَّفَہٗ مَا یَغْلِبُہٗ، فَلْیُعِنْہُ۔
٧١٦٩: معرور بن سوید کہتے ہیں کہ ہم حج وعمرہ کی غرض سے نکلے تو ہم نے حضرت ابو ذر (رض) کو مقام ربذہ میں پایا۔ انھوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور اسی طرح کی چادر ان کے غلام پر تھی۔ ہم نے ان سے درخواست کی اگر آپ اس چادر کو اپنی چادر سے ملا لیتے تو ایک جوڑا بن جاتا اور اس کے کپڑے دوسری چادر سے بن جاتے (یہ سن کر) ابو ذر (رض) کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا یہ تمہارے بھائی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنادیا پس جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو (غلام ہو) تو وہ اسے اسی کھانے سے کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اس کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے اور اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو کام اس پر غالب آجائے اگر وہ کام اس کے ذمہ لگا ہی دے تو پھر اس کی اعانت کرے۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ٤٤‘ مسلم فی الایمان ٣٩‘ ابو داؤد فی الادب باب ١٢٤‘ ترمذی فی البر باب ٢٩‘ مسند احمد ٥‘ ١٥٨؍١٦١۔

7173

۷۱۷۰ : قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ عَلَی الرَّجُلِ أَنْ یُسَوِّیَ بَیْنَ مَمْلُوْکِہِ وَبَیْنَ نَفْسِہِ فِی الطَّعَامِ ، وَالْکِسْوَۃِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رَوَیْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَبِمَا رَوَیْنَاہُ مِنْ مَذْہَبِ أَبِی الْیُسْرِ ، وَأَبِیْ ذٰر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، الَّذِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : الَّذِیْ یَجِبُ لِلْمَمْلُوْکِ عَلَی مَوْلَاہُ ہُوَ طَعَامُہُ وَکِسْوَتُہٗ، لَا غَیْرُ ذٰلِکَ مِمَّا یُوَسِّعُ بِہٖ الرَّجُلُ عَلٰی نَفْسِہٖ۔ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧١٧٠ : مجاہد نے مورق سے ‘ انھوں نے حضرت ابوذر (رض) سے ‘ انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ مالک اپنے اور غلام کے درمیان کھانے اور پہننے میں برابری کرے انھوں نے ان روایات سے جو ابوالولید اور ابو ذر (رض) سے نقل ہو کر آئی ہیں ‘ استدلال کیا ہے وسرے فریق کا مؤقف ہے کہ مالک پر غلام کا حق یہ ہے کہ وہ اسے کھانا اور کپڑے دے اور بس اور یہ اپنی وسعت کی حد تک دے۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔

7174

۷۱۷۱ : بِمَا حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ عَجْلَانَ أَبِیْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِلْمَمْلُوْکِ طَعَامُہُ وَکِسْوَتُہٗ، وَلَا یُکَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَا یُطِیقُ۔قَالُوْا : فَہٰذَا الَّذِیْ یَجِبُ لِلْمَمْلُوْکِ عَلٰی سَیِّدِہٖ۔ وَکَانَ أَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا لِمَا رُوِیَ ہٰذَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْمِلَ مَا رَوَیْنَاہُ قَبْلَہٗ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عَلٰی مَا یُوَافِقُہٗ، مَا وَجَدْنَا اِلَی ذٰلِکَ سَبِیْلًا .فَکَانَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ ، وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الْخُبْزَ وَالْأُدْمَ ، وَالثِّیَابَ مِنَ الْکَتَّانِ وَالْقُطْنِ ، فَاِذَا شَرِکُوْا مَوَالِیْہمْ فِیْ ذٰلِکَ فَقَدْ أَکَلُوْا مِمَّا یَأْکُلُوْنَ ، وَلَبِسُوْا مِمَّا یَلْبَسُوْنَ ، فَوَافَقَ ذٰلِکَ مَعْنَیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ .وَاِنَّمَا تَجِبُ الْمُسَاوَاۃُ ، لَوْ کَانَ قَالَ أَطْعِمُوْھُمْ مِثْلَ مَا تَأْکُلُوْنَ ، وَاکْسُوْھُمْ مِثْلَ مَا تَلْبَسُوْنَ۔فَلَوْ کَانَ قَالَ ہٰذَا لَمْ یَجُزْ لِلْمَوَالِی أَنْ یُفَضِّلُوْا عَبِیْدَہُمْ فِیْ طَعَامٍ ، أَوْ کِسْوَۃٍ ، وَلٰـکِنَّہٗ اِنَّمَا قَالَ أَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ ، وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ۔فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ وُجُوْبُ الْمُسَاوَاۃِ بَیْنَہُمْ ، فِی الْکِسْوَۃِ وَالطَّعَامِ ، وَاِنَّمَا فِیْہِ وُجُوْبُ الْکِسْوَۃِ مِمَّا یَلْبَسُوْنَ ، وَوُجُوْبُ الطَّعَامِ مِمَّا یَأْکُلُوْنَ ، وَاِنْ کَانُوْا فِیْ ذٰلِکَ غَیْرَ مُتَسَاوِیَیْنِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٧١٧١: ابو محمد عجلان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مملوک کا اس کا کھانا اور کپڑے ہیں اور اس کو اسی کام کی ذمہ داری سونپے جس کی وہ طاقت رکھتا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جس کا تذکرہ اس روایت میں پایا جاتا ہے غلام کے لیے آقا پر لازم ہے اور ہمارے لیے نہایت مناسب بات یہ ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آمدہ روایات کو باہمی موافقت والے مفہوم پر محمول کریں۔ چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی کہ ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ تو اس میں احتمال یہ ہے کہ آپ کی مراد اس سے روٹی ‘ سالن ‘ اونی ‘ سوتی کپڑے ہوں۔ تو جب وہ ان چیزوں میں اپنے مالکوں کے ساتھ شریک ہوجائیں گے تو گویا انھوں نے اسی چیز سے کھایا جو ان کے مالکوں نے کھائی اور انھوں نے وہی چیز پہنی جو ان کے مالکوں نے پہنی پھر یہ مفہوم حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت کے عین موافق ہے مساوات تو تب واجب ہوتی جبکہ آپ اس طرح فرماتے ان کو اس کی مثل کھلاؤ جو تم نے کھایا اور ان کو اس کی مثل پہناؤ جو تم نے پہنا۔ اگر آپ نے اس طرح فرمایا ہوتا تو پھر مالکوں کے لیے درست نہ تھا کہ وہ کھانے اور لباس میں غلاموں سے بڑھتے۔ مگر آپ کا فرمانا تو یہ ہے کہ ان کو اس چیز سے کھلاؤ جو تم نے جو کھائی اور استعمال کی ہے اور ان کو وہی چیز پہناؤ جو تم نے خود پہنی ہے۔ پس لباس اور کھانے میں مساوات کا وجوب ثابت نہ ہوا بلکہ ان کو اس چیز سے لباس دینا واجب ہے وج وہ خود پہنتے ہیں اور اس چیز سے کھانا کھلانا لازم ہے جو وہ خود کھاتے ہیں خواہ وہ اس میں مساوی اور برابر نہ ہوں اس مدہوم کی تائید مندرجہ ذیل روایات سے ہوتی ہے۔
تخریج : مسلم فی الایمان ٤١‘ مالک فی الاستیذان ٤٠‘ مسند احمد ٢‘ ٢٣٧؍٣٤٢۔
مفہوم کی مؤید روایات :

7175

۷۱۷۲ : حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَفَی أَحَدُکُمْ خَادِمَہٗ، طَعَامَہُ حَرَّہُ وَدُخَانَہٗ فَلْیُجْلِسْہٗ، فَلْیَأْکُلْ مَعَہٗ، فَاِنْ أَبَیْ فَلْیَأْخُذْ لُقْمَۃً ، فَلْیُرَوِّغْہَا ثُمَّ لِیُطْعِمَہَا اِیَّاہُ۔
٧١٧٢: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی ایک کے خادم نے کھانا تیار کیا اور اس نے اس کے لیے گرمی اور دھواں برداشت کیا تو مناسب یہ ہے اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ اور اگر ایسا نہ کرو تو مناسب یہ ہے کہ ایک لقمہ لے کر اسے گھر یا سالن میں تر کر کے اسے کھلا دو ۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٤٥‘ ٢٩٩۔

7176

۷۱۷۳ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَتٰی أَحَدُکُمْ خَادِمَہٗ بِطَعَامِہٖ، فَاِنْ لَمْ یُجْلِسْہُ مَعَہٗ، فَلْیُنَاوِلْہُ أَکْلَۃً أَوْ أَکْلَتَیْنِ أَوْ قَالَ : لُقْمَۃً ، أَوْ لُقْمَتَیْنِ ، فَاِنَّہٗ وَلِیَ حَرَّہُ وَعِلَاجَہٗ۔ أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ وَسَّعَ عَلَی الْمَوْلَی أَنْ یُطْعِمَ عَبْدَہُ مِنْ طَعَامِہِ الَّذِیْ قَدْ وَلِیَ صَنْعَتَہُ لَہٗ عَبْدُہُ لُقْمَۃً وَاحِدَۃً ثُمَّ یَسْتَأْثِرُ ہُوَ بِمَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ الطَّعَامِ بَعْدَ تِلْکَ اللُّقْمَۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَعْنٰی مَا أَرَادَ بِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ اِنَّہٗ لَمْ یُرِدْ الْمُسَاوَاۃَ وَکَذٰلِکَ مَعْنٰی قَوْلِہٖ وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ۔وَأَمَّا مَا فَعَلَ أَبُو الْیُسْرِ فَعَلَی الْاِشْفَاقِ مِنْہُ وَالْخَوْفِ لَا عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ .وَہٰذَا الَّذِیْ صَحَّحْنَا عَلَیْہِ مَعَانِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ.
٧١٧٣: محمد بن زیاد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم کھانا تیار کرے تو اگر وہ اس کو اپنے ساتھ نہ بٹھائے تو وہ اسے ایک دو لقمے دے۔ دے (لقمہ بولا یا اگلا) کیونکہ اس نے گرمی اور مشقت برداشت کی ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالک کو کھلا اختیار دیا کہ وہ اس کھانے میں سے جس کو غلام نے تیار کیا ہے ایک لقمہ دے دے پھر باقی کھانے کو اپنے لیے اختیار کرے تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی کہ ان کو اس چیز سے کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ سے مساوات مراد نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی مساوات مراد نہیں کہ ان کو اس چیز سے پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ جہاں تک حضرت ابوالیسر (رض) کے عمل و فعل کا تعلق ہے تو وہ ان کی خوف خدا تعالیٰ کی وجہ سے احتیاط ہے نہ کچھ اور ۔ ہم نے ان آثار کے معانی کی تصحیح اس انداز سے کی ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ١٨‘ والاطعمہ باب ٥٥‘ مسند احمد ٢‘ ٤٠٩؍٤٣٠۔

7177

۷۱۷۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی أَنْ تُنْشَدَ الْأَشْعَارُ فِی الْمَسْجِدِ ، وَأَنْ یُبَاعَ فِیْہِ السِّلَعُ وَأَنْ یَتَحَلَّقَ فِیْہِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ اِنْشَادِ الشِّعْرِ فِی الْمَسَاجِدِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِاِنْشَادِ الشِّعْرِ فِی الْمَسْجِدِ بَأْسًا اِذَا کَانَ ذٰلِکَ الشِّعْرُ مِمَّا لَا بَأْسَ بِرِوَایَتِہٖ وَاِنْشَادِہٖ فِیْ غَیْرِ الْمَسْجِدِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ ، أَنَّہٗ وَضَعَ لِحَسَّانٍ مِنْبَرًا فِی الْمَسْجِدِ یَنْشُدُ عَلَیْہِ الشِّعْرَ وَبِمَا رَوَیْنَاہُ مَعَ ذٰلِکَ مِنْ حَدِیْثِ حَسَّانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، حِیْنَ مَرَّ بِہٖ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہُوَ یَنْشُدُ الشِّعْرَ فِی الْمَسْجِدِ ، فَزَجَرَہٗ. فَقَالَ لَہٗ حَسَّانٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کُنْتُ أَنْشُدُ فِیْہِ الشِّعْرَ لِمَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْک وَذٰلِکَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ أَحَدٌ ، وَلَا أَنْکَرَہٗ عَلَیْہِ أَیْضًا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَکَانَ حَدِیْثُ یُوْنُسَ الَّذِیْ قَدْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہٖ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الشِّعْرَ الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ أَنْ یُنْشَدَ فِی الْمَسْجِدِ ، ہُوَ الشِّعْرُ الَّذِیْ کَانَتْ قُرَیْشٌ تَہْجُوْھُ بِہٖ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ مِنِ الشِّعْرِ الَّذِیْ تُؤَبَّنُ فِیْہِ النِّسَائُ ، وَتُزْرَأُ فِیْہِ الْأَمْوَالُ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ بَابِ رِوَایَۃِ الشِّعْرِ مِنْ جَوَابِ الْأَنْصَارِ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِابْنِ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذٰلِکَ حِین أَنْکَرَ عَلَیْہِمْ اِنْشَادَ الشِّعْرِ ، حَوْلَ الْکَعْبَۃِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الشِّعْرَ الَّذِیْ یَغْلِبُ عَلَی الْمَسْجِدِ ، حَتّٰی یَکُوْنَ کُلُّ مَنْ فِیْہِ أَوْ أَکْثَرُ مَنْ فِیْہٖ، مُتَشَاغِلًا بِذٰلِکَ کَمَثَلِ مَا تَأَوَّلَ عَلَیْہِ ابْنُ عَائِشَۃَ وَأَبُو عُبَیْدٍ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، حَتّٰی یُرِیَہٗ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ عَنْہُمَا فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ .فَیَکُوْنُ الشِّعْرُ الْمَنْہِیُّ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہُوَ خَاصٌّ مِنِ الشِّعْرِ وَہُوَ الَّذِیْ فِیْہِ مَعْنًیْ مِنْ ہٰذِہِ الْمَعَانِی الثَّلَاثَۃِ ، الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، حَتّٰیْ لَا یُضَادَّ ذٰلِکَ مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اِبَاحَۃِ ذٰلِکَ وَمَا عَمِلَ بِہٖ أَصْحَابُہٗ مِنْ بَعْدِہٖ۔ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِذَا کَانَ کَمَا ذَکَرْتَ، فَلِمَ قَصَدَ اِلَی الْمَسْجِدِ ؟ وَالَّذِیْ ذٰکَرْتَ مِنْ الَّذِیْ ھُجِیَ بِہٖ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالَّذِی أُبِّنَتْ فِیْہِ النِّسَائُ ، وَرُزِئَتْ فِیْہِ الْأَمْوَالُ ، مَکْرُوْہٌ فِیْ غَیْرِ الْمَسْجِدِ ، وَلَوْ کَانَ کَمَا ذَکَرْتُ لَمْ یَکُنْ لِذِکْرِہٖ فِی الْمَسْجِدِ ، مَعْنًی .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجْرِی الْکَلَامُ کَثِیْرًا ، بِذِکْرِ مَعْنًی ، فَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ الْمَعْنَیْ بِذٰلِکَ الْحُکْمِ الَّذِیْ جَرٰی فِیْ ذٰلِکَ الذِّکْرِ ، مَخْصُوْصًا .مِنْ ذٰلِکَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : وَرَبَائِبُکُمُ اللَّاتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمُ اللَّاتِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَاِنْ لَمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ۔فَذَکَرَ الرَّبِیْبَۃَ الَّتِیْ قَدْ کَانَتْ فِیْ حِجْرِ رَبِیْبِہَا ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلَی خُصُوْصِیَّتِہَا ، لِأَنَّہَا کَانَتْ فِیْ حِجْرِہِ بِذٰلِکَ الْحُکْمِ ، وَأَخْرَجَہَا مِنْہُ اِذَا لَمْ تَکُنْ فِیْ حِجْرِہٖ۔ أَلَا تَرَی أَنَّہَا لَوْ کَانَتْ أَسَنَّ مِنْہُ أَنَّہَا عَلَیْہِ حَرَامٌ ، کَحُرْمَتِہَا لَوْ کَانَتْ صَغِیْرَۃً فِیْ حِجْرِہٖ؟ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ أَیْضًا فِی الصَّیْدِ وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَائٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ۔فَأَجْمَعَتِ الْعُلَمَائُ اِلَّا مَنْ شَذَّ مِنْہُمْ أَنَّ قَتْلَہٗ اِیَّاہُ سَاہِیًا ، کَذٰلِکَ فِیْ وُجُوْبِ الْجَزَائِ .فَلَمْ یَکُنْ ذِکْرُہُ مَا ذَکَرْنَا مِنْ ہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ یُوْجِبُ خُصُوْصَ الْحُکْمِ .فَکَذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا مِنْ ذِکْرِہِ الْمَسْجِدَ فِی الشِّعْرِ الْمَنْہِیِّ عَنْ رِوَایَتِہٖ، لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی خُصُوْصِیَّۃِ الْمَسْجِدِ بِذٰلِکَ .وَکَذٰلِکَ أَیْضًا مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنَ الْبَیْعِ فِی الْمَسْجِدِ ، ہُوَ الْبَیْعُ الَّذِیْ یَعُمُّہٗ، أَوْ یَغْلِبُ عَلَیْہِ حَتّٰی یَکُوْنَ کَالسُّوْقِ ، فَذٰلِکَ مَکْرُوْہٌ .فَأَمَّا مَا سِوٰی ذٰلِکَ فَلَا .قَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی اِبَاحَۃِ الْعَمَلِ الَّذِیْ لَیْسَ مِنَ الْقُرَبِ فِی الْمَسْجِدِ .
٧١٧٤: عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے ‘ انھوں نے اپنے دادا (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں اشعار پڑھنے کی ممانعت فرمائی۔ اسی طرح سامان فروخت کرنے کی ممانعت کی اور نماز سے قبل حلقہ بنانے سے منع فرمایا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ مساجد میں اشعار کر پڑھنا مکروہ ہے اور انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہمسجد میں شعر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شعر درست ہو اور اس کو غیر مسجد میں بھی پڑھا جاسکتا ہو۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس روایت سے استدلال کیا کہ حضرت حسان کے لیے مسجد میں منبر رکھا جاتا وہ اس پر بیٹھ کر شعر پڑھتے۔ وہ روایت ہے کہ جب حضرت حسان (رض) مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ڈانٹا تو اس کے جواب میں حضرت حسان (رض) نے کہا میں مسجد میں اس کے شعر پڑھا کرتا تھا جو تم سے بہتر تھے۔ یہ بات اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ہوئی اور ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہ کیا۔ بلکہ حضرت عمر (رض) نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ روایت یونس کا جواب : ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وہ شعر مراد لیا ہو جس کا پڑھنا مسجد میں ممنوع ہے اور وہ آپ کی ہجو کے اشعار تھے جو قریش پڑھتے تھے۔ اس سے وہ اشعار مراد ہوں جن میں عورتوں کو عار دلائی گئی ہو اور اس سے مال بٹورا جائے جیسا کہ وہ باب جو ہم نے روایت شعر کے سلسلہ میں انصاری صحابہ کرام (رض) کی طرف سے حضرت ابن الزبیر (رض) کے جواب میں کہی جو کہ ہم پہلے نقل کر آئے جبکہ انھوں نے کعبۃ اللہ کے گرد شعر گوئی پر ناگواری ظاہر کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اشعار مراد ہوں جو مسجد (کے ماحول) پر غالب آجائیں یہاں تک کہ تمام حاضرین مسجد یا ان کی اکثریت اس میں مشغول ہوجائے جیسا کہ ابن عائشہ اور ابو عبیدہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی تاویل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی ایک کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھرے۔ جیسا کہ ان دونوں سے پیچھے نقل کر آئے ہیں۔ یہ ہے کہ اس روایت میں جس قسم کے شعر کی ممانعت ہے وہ خاص قسم کے اشعار ہیں بعض وہ جس میں ان تینوں معانی میں سے کوئی معنی پایا جائے اور یہ تاویل اس لیے کی گئی ہے تاکہ روایات اباحت کا ان روایات سے تضاد لازم نہ آئے جن میں ممانعت کی گئی ہے۔ اگر بات اسی طرح ہو جیسا کہ تم نے تاویل کی ہے تو مسجد کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں اس قسم کے اشعار جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو گوئی اور عورتوں کی عیب جوئی اور مال بٹورنے کی غرض سے پڑھے جائیں وہ تو مسجد سے باہر بھی ممنوع ہے تو مسجد کے تذکرہ کی ضرورت نہیں تھی۔ بعض اوقات کسی معنی کا تذکرہ کرنے کے لیے کلام جاری ہوتا ہے مگر وہ معنی جس کے سلسلہ میں تذکرہ ہوا وہ اس حکم کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ” وربائبکم التی فی حجورکم “ (النساء : ٢٣) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ربیبہ بچیوں کا ذکر فرمایا جو کہ ان عورتوں کی گود میں ہوں جن سے قربت کی ہو یہاں فی حجورکم کی قید سے ان کی گودی میں موجود بچی کی صرف حرمت کا بیان مقصود نہیں بلکہ جو اس سے پہلی بڑی بچیاں ہیں وہ بھی مدخول بہا کی حرام ہیں تو یہاں یہ بتلایا گیا کہ جس طرح گود والی حرام ہے اسی طرح اس سے پہلے والی بھی حرام ہے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ” ومن قتلہ منکم متعمدا “ (المائدہ : ٩٥) تو آیت میں صید حرم کے عمداً قتل کرنے پر جزا کا ذکر ہے اور اس پر تمام کا اتفاق ہے کہ بھول کر حرم کے جانوروں کو قتل کرنے پر بھی اسی طرح سزا لازم ہوگی تو ان آیتوں میں جو قیود مذکور ہیں ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنا مراد نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح ممنوعہ شعروں والی روایت میں مسجد کا تذکرہ مسجد کی خصوصیت کو ظاہر کرنے کے لیے نہیں۔ اسی طرح مسجد میں جس بیع کی ممانعت ہے وہ وہی جو اس میں ایسی عام ہو کہ بازار کا سا منظر ہو تو ایسی بیع ممنوع ہے اکا دکا چیز کے متعلق بیع کی بات کرلینا ممانعت میں شامل نہیں ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات وارد ہیں جو قربت کا باعث تو نہیں مگر ان کو مسجد میں کرنا مباح ہے۔ (ملاحظہ ہو)
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢١٤‘ مسند احمد ١٧٩۔
خلاصہ الزام :
مساجد میں اشعار کے پڑھنے کو بعض لوگوں نے مکروہ قرار دیا ہے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے : اگر اشعار درست ہوں تو ان کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ مسجد کے علاوہ مقام میں۔

7178

۷۱۷۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، لَیَبْعَثَن اللّٰہُ عَلَیْکُمْ رَجُلًا ، امْتَحَنَ اللّٰہُ بِہٖ الْاِیْمَانَ ، یَضْرِبُ رِقَابَکُمْ عَلَی الدِّیْنِ .فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنَا ہُوَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ لَا .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنَا ہُوَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ لَا وَلٰـکِنَّہٗ خَاصِفُ النَّعْلِ فِی الْمَسْجِدِ .قَالَ : وَکَانَ قَدْ أَلْقَیْ اِلٰی عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَعْلَہٗ یَخْصِفُہَا۔أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَنْہَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ خَصْفِ النَّعْلِ فِی الْمَسْجِدِ ، وَأَنَّ النَّاسَ لَوْ اجْتَمَعُوْا حَتّٰی یَعُمُّوْا الْمَسْجِدَ بِخَصْفِ النِّعَالِ ، کَانَ ذٰلِکَ مَکْرُوْہًا .فَلَمَّا کَانَ مَا لَا یَعُمُّ الْمَسْجِدَ مِنْ ہٰذَا غَیْرُ مَکْرُوْہٍ وَمَا یَعُمُّہُ مِنْہٗ، أَوْ یَغْلِبُ عَلَیْہِ مَکْرُوْہًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْبَیْعِ ، وَاِنْشَادُ الشِّعْرِ ، وَالتَّحَلُّقُ فِیْہِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ مِمَّا عَمَّہٗ مِنْ ذٰلِکَ فَہُوَ مَکْرُوْہٌ ، وَمَا لَمْ یَعُمَّہٗ مِنْہٗ، وَلَمْ یَغْلِبْ عَلَیْہٖ، فَلَیْسَ بِمَکْرُوْہٍ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ .
٧١٧٥: ربعی بن حراش نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اے گروہ قریش ! اللہ تعالیٰ تم پر ایک آدمی کو مقرر کریں گے جس سے تمہارے ایمان کو پرکھیں گے۔ وہ ایمان پر تمہاری گردنوں کو مارے گا۔ حضرت ابوبکر (رض) کہنے لگے کیا وہ میں ہوں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فرمایا نہیں حضرت عمر (رض) نے کہا کیا وہ میں ہوں فرمایا نہیں۔ بلکہ وہ مسجد میں جوتے گانٹھنے والا ہوگا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا جوتا حضرت علی (رض) کی طرف پھینکا تاکہ وہ اس کو گانٹھ دیں۔ کیا آپ غور نہیں فرماتے کہ آپ نے اپنا نعل مبارک خود حضرت علی (رض) کی طرف پھینکا اور اس کو مرمت کرنے کا حکم فرمایا ان کو مسجد میں مرمت کرنے سے نہیں روکا۔ اگر لوگ جوتے گانٹھنے کا اپنا طرز عمل بنالیں اور کثرت سے کرنے لگیں تو یہ مکروہ ہے جس کی روایت میں مذمت کی گئی ہے۔ پس جب کبھی کبھی گانٹھنا کراہت والے عمومی حکم میں داخل و شامل نہیں فرمایا بلکہ اس فعل کی کثرت یا عام لوگوں کے شروع کردینے کو مکروہ قرار دیا تو یہی حکم اشعار و بیع کے متعلق بھی ہوگا اور نماز سے پہلے حلقہ بندی کا بھی یہی حکم ہے۔ اور اگر کبھی اور اتفاقی ہو یا بعض لوگوں کی ہو تو مکروہ نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تخریج : ترمذی فی المناقب باب ١٩‘ مسند احمد ٣‘ ٣٣؍٨٢‘ ٦‘ ١٠٦؍١٢١‘ ١٦٧؍٢٤٢۔
حاصل کلام : کیا آپ غور نہیں فرماتے کہ آپ نے اپنا نعل مبارک خود حضرت علی (رض) کی طرف پھینکا اور اس کو مرمت کرنے کا حکم فرمایا ان کو مسجد میں مرمت کرنے سے نہیں روکا۔ اگر لوگ جوتے گانٹھنے کا اپنا طرز عمل بنالیں اور کثرت سے کرنے لگیں تو یہ مکروہ ہے جس کی روایت میں مذمت کی گئی ہے۔ پس جب کبھی کبھی گانٹھنا کراہت والے عمومی حکم میں داخل و شامل نہیں فرمایا بلکہ اس فعل کی کثرت یا عام لوگوں کے شروع کردینے کو مکروہ قرار دیا تو یہی حکم اشعار و بیع کے متعلق بھی ہوگا اور نماز سے پہلے حلقہ بندی کا بھی یہی حکم ہے۔ اور اگر کبھی اور اتفاقی ہو یا بعض لوگوں کی ہو تو مکروہ نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

7179

۷۱۷۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ بْنِ الْقَاسِمِ الْیَمَامِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُلَامَسَۃِ وَالْمُنَابَذَۃِ۔
٧١٧٦: اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٠‘ والمواقیت باب ٣٠‘ الصوم باب ٦٧‘ البیوع باب ٦٢‘ واللباس باب ٢‘ والاستیذان باب ٤٢‘ مسلم فی البیوع روایت ١‘ ٢‘ ٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٦٩‘ نسائی فی البیوع باب ٢٣‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ١٢‘ دارمی فی الرقاق باب ٢٨‘ مالک فی البیوع روایت ٨٦‘ واللبس ١٧‘ مسند احمد ٢؍٣٧٩‘ ٤١٩‘ ٤٩٦‘ ٥٢١۔
خلاصہ الزام :
غیر موجود کی خریداری جس کو دیکھا نہ ہو علماء کی ایک جماعت نے اس کا ناجائز قرار دیا ہے۔
فریق ثانی : جو شخص کسی غائب چیز کو خریدے گا تو یہ درست ہے البتہ خیار رویت حاصل رہے گا۔

7180

۷۱۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧١٧٧: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7181

۷۱۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧١٧٨: عامر بن سعد نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7182

۷۱۷۹ : حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧١٧٩: عطاء بن یزید نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7183

۷۱۸۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ وَیَحْیٰی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَا : حَدَّثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْقَارِیّ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا ابْتَاعَ مَا لَمْ یَرَہُ لَمْ یَجُزِ ابْتِیَاعُہُ اِیَّاہٗ، وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ اِلَی تَأْوِیْلٍ ، تَأَوَّلُوْھُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .فَقَالَ : الْمُلَامَسَۃُ مَا لَمَسَہُ مُشْتَرِیْہِ بِیَدِہٖ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْظُرَ اِلَیْہِ بِعَیْنِہٖ۔ قَالُوْا : وَالْمُنَابَذَۃُ ہِیَ : مِنْ ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا وَہُوَ قَوْلُ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ انْبِذْ اِلَیَّ ثَوْبَکَ، وَأَنْبِذُ اِلَیْکَ ثَوْبِی عَلٰی أَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَبِیْعٌ لِصَاحِبِہٖ مِنْ غَیْرِ نَظَرٍ مِنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الْمُشْتَرِیَیْنِ اِلَی ثَوْبِ صَاحِبِہٖ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلٰی ھٰذَا التَّأْوِیْلِ ، مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَنْ اشْتَرَی شَیْئًا غَائِبًا عَنْہُ، فَالْبَیْعُ جَائِزٌ ، وَلَہٗ فِیْہِ خِیَارُ الرُّؤْیَۃِ ، اِنْ شَائَ أَخَذَہٗ، وَاِنْ شَائَ تَرَکَہُ وَذَہَبُوْا فِیْ تَأْوِیْلِ الْحَدِیْثِ .الْأَوَّلِ اِلٰی أَنَّ الْمُلَامَسَۃَ الْمَنْہِیَّ عَنْہَا فِیْہِ ہِیَ : بَیْعٌ کَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَتَبَایَعُوْنَہٗ فِیْمَا بَیْنَہُمْ فَکَانَ الرَّجُلَانِ یَتَرَاوَضَانِ عَلَی الثَّوْبِ ، فَاِذَا لَمَسَہُ الْمُسَاوِمُ بِہٖ ، کَانَ بِذٰلِکَ مُبْتَاعًا لَہٗ، وَوَجَبَ عَلٰی صَاحِبِہٖ تَسْلِیْمُہٗ اِلَیْہِ .وَکَذٰلِکَ الْمُنَابَذَۃُ ، کَانُوْا أَیْضًا یَتَقَاوَلُوْنَ فِی الثَّوْبِ ، وَفِیْمَا أَشْبَہَہٗ، ثُمَّ یَرْمِیْہِ رَبُّہُ اِلَی الَّذِیْ قَاوَلَہٗ عَلَیْہِ .فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ بَیْعًا مِنْہُ اِیَّاہُ ثَوْبَہٗ، وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ نَقْضُہٗ. فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ ذٰلِکَ وَجَعَلَ الْحُکْمَ فِی الْبِیَاعَاتِ أَنْ لَا یَجِبَ اِلَّا بِالْمُعَاقَدَاتِ الْمُتَرَاضَیْ عَلَیْہَا .فَقَالَ : الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا۔فَجَعَلَ اِلْقَائَ أَحَدِہِمَا اِلٰی صَاحِبِہٖ الثَّوْبَ ، قَبْلَ أَنْ یُفَارِقَہٗ، غَیْرَ قَاطِعٍ لِخِیَارِہٖ۔ ثُمَّ اخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ کَیْفِیَّۃِ تِلْکَ الْفُرْقَۃِ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلٰی ھٰذَا التَّأْوِیْلِ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا سِوٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنَ الْأَحَادِیْثِ ، ہَلْ فِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَحَدِ الْقَوْلَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .
٧١٨٠: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کسی آدمی نے اس چیز کو فروخت کیا جس کو اس نے نہیں دیکھا تو اس کی فروخت جائز نہیں اور انھوں نے اس روایت میں تاویل کی ہے۔ الملامست : جس چیز کو خریدار اپنے ہاتھ سے چھوئے البتہ اس کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے۔ المنابذۃ : ایک آدمی دوسرے سے کہے تو اپنا کپڑا میری طرف پھینک اور میں اپنا کپڑا تیری طرف پھینکتا ہوں اور یہ پھینکنا اس طور پر ہوگا کہ میں اس کپڑے کا خریدار ہوں اور تو میرے کپڑے کا بغیر دیکھے خریدار بن جائے۔ یہ تاویل امام مالک (رح) نے کی ہے۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ جو شخص کوئی غائب چیز خریدے گا تو بیع جائز ہے اور اس کو خیار رویت حاصل ہوگا اگر چاہے تو چھوڑ دے اور اگر مرضی ہو تو لے لے۔ جس ملامست کی ممانعت فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنے مابین خریدو فروخت کرتے تو وہ آدمی ایک کپڑے کے متعلق جھگڑا کرتے جب سودا کرنے والا اس کپڑے کو چھو لیتا تو وہ اس کا خریدار خیال کیا جاتا اور فروخت کرنے والے پر اس چیز کو دینا لازم ہوجاتا تھا (خواہ وہ راضی ہو یا نہ) اسی طرح منابذہ زمانہ جاہلیت میں یہ تھا کہ ایک کپڑے یا اس قسم کی کسی چیز سے متعلق وہ باہم گفتگو کرتے پھر مالک اس چیز کو گفتگو کرنے والے کی طرف پھینکتا تھا تو یہ پھینکنا اس کی وجہ سے اس کپڑے کا سودا خیال کیا جاتا تھا اس کے بعد وہ اس بیع کو توڑ نہیں سکتا تھا ۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور سودے کے متعلق حکم دیا کہ جب تک عقد بیع رضامندی سے نہ ہو تو سودا جائز نہ ہوگا سودے کرنے والے دونوں فریقوں کو اختیار ہے کہ جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں تو ان کا ایک دوسرے کی طرف کپڑا پھینک دینا اختیار کو ختم نہ کرے گا ۔ پھر اس تفریق کے متعلق اختلاف ہے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے تفصیل سے ذکر کیا ہے امام ابوحنیفہ (رح) اس مفہوم کے قائل ہیں۔ اب جبکہ ان دونوں میں اختلاف ہے تو ہم نے ارادہ کیا کہ اس کے علاوہ دیگر احادیث پر نظر ڈالیں تاکہ ان دونوں اقوال میں سے کسی کی دلالت مل جائے۔ چنانچہ حضرت انس (رض) کی یہ روایت مل گئی ۔ (ملاحظہ ہو)

7184

۷۱۸۱ : فَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْعِنَبِ حَتّٰی یَسْوَدَّ ، وَعَنْ بَیْعِ الْحَبِّ حَتّٰی یَشْتَدَّ۔فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اِبَاحَۃِ بَیْعِہِ بَعْدَمَا یَشْتَدُّ وَہُوَ فِیْ سُنْبُلِہٖ ، لِأَنَّہٗ لَوْ لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ لَقَالَ حَتّٰی یَشْتَدَّ وَیَبْرَأَ مِنْ سُنْبُلِہِ۔فَلَمَّا جَعَلَ الْغَایَۃَ فِی الْبَیْعِ الْمَنْہِیِّ عَنْہُ، ہِیَ شِدَّتُہُ وَیُبُوْسَتُہٗ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْبَیْعَ بَعْدَ ذٰلِکَ بِخِلَافِ مَا کَانَ عَلَیْہِ فِی الْبَدْئِ .فَلَمَّا جَازَ بَیْعُ الْحَبِّ الْمُغَیَّبِ فِی السُّنْبُلِ ، الَّذِیْ لَمْ یَبِعْ ، دَلَّ ہٰذَا عَلٰی جَوَازِ بَیْعِ مَا لَا یَرَاہُ الْمُتَبَایِعَانِ ، اِذَا کَانَا یَرْجِعَانِ مَعَہٗ اِلٰی مَعْلُوْمٍ ، کَمَا یَرْجِعَانِ مِنَ الْحِنْطَۃِ الْمَبِیْعَۃِ الْمُغَیَّبَۃِ فِی السُّنْبُلِ اِلَی حِنْطَۃٍ مَعْلُوْمَۃٍ .وَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا فِیْ مِثْلِ ہٰذَا اِذْ کُنَّا قَدْ وَقَفْنَا عَلَی تَأْوِیْلِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَاحْتَمَلَ الْحَدِیْثُ الْآخَرُ ، مُوَافَقَتَہٗ، أَوْ مُخَالَفَتَہٗ أَنْ نَحْمِلَہٗ عَلٰی مُوَافَقَتِہٖ، لَا عَلٰی مُخَالَفَتِہٖ۔
٧١٨١: حمید نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگور کی بیع سے اس وقت تک منع فرمایا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوجائیں اور دانے کی بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ سخت ہوجائے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ دانے کی بیع سخت ہوجانے کے بعد درست ہے اگرچہ وہ اپنے سٹے میں ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو اس طرح کہنا چاہیے :” حتی یشتد ویبراء من سنبلہ “ تھا کہ دانے سخت ہو کر اپنے سٹے سے باہر نکل آئے۔ اب ممنوعہ بیع کی انتہاء دانے کی سختی اور خشک ہوجانے کو قرار دیا تو اس سے یہ صاف دلالت مل گئی کہ اس کے بعد والے سودے کو اس کے بدء صلاح والے سودے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ تو جب سٹے کے اندر چھپے ہوئے دانے کی بیع سٹے کے بغیر جائز ہے تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ جس چیز کو بائع و مشتری نے نہ دیکھا ہو اس کی بیع جائز ہے بشرطیکہ وہ چیز اسی طرح معلوم و معین ہو جس طرح سٹے میں پوشیدہ دانہ معلوم و معین ہے اور وہ گندم ہے۔ اب جبکہ ہم اس روایت کی تاویل جان چکے اور دوسری روایت میں موافقت و مخالفت دونوں کا احتمال ہے تو ہم موافقت پر محمول کریں گے نہ کہ مخالفت پر (کیونکہ اصل مقصود تو روایات پر زیادہ سے زیادہ عمل ہے)
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢‘ ترمذی فی البیوع باب ١٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٣٢‘ مسند احمد ٣؍٢٢١‘ ٢٥٠۔

7185

۷۱۸۲ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فِیْ تَفْسِیْرِ الْمُلَامَسَۃِ ، وَالْمُنَابَذَۃِ .قَالَ کَانَ الْقَوْمُ یَتَبَایَعُوْنَ السِّلَعَ ، لَا یَنْظُرُوْنَ اِلَیْہَا ، وَلَا یُخْبِرُوْنَ عَنْہَا۔وَالْمُنَابَذَۃُ : أَنْ یَتَنَابَذَ الْقَوْمُ السِّلَعَ ، لَا یَنْظُرُوْنَ اِلَیْہَا ، وَلَا یُخْبِرُوْنَ عَنْہَا ، فَہٰذَا مِنْ أَبْوَابِ الْقِمَارِ۔
٧١٨٢: یونس نے ابن شہاب سے ملامست اور منابذہ کی تفسیر اس طرح نقل کی ہے کہ لوگ سامان باہمی فروخت کرتے مگر اس کو نہ تو دیکھتے اور نہ اس کی اطلاع دیتے اس کی ملامسۃ کہا جاتا تھا اور منابذہ یہ ہے کہ لوگ سامان ایک دوسرے کی طرف بلا دیکھے پھینک دیتے اور نہ سامان دیکھتے اور نہ اس کی اطلاع دیتے یہ دونوں جوئے کی صورتوں میں سے ہیں۔

7186

۷۱۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنْ رَبِیْعَۃَ قَالَ : کَانَ ہٰذَا مِنْ أَبْوَابِ الْقِمَارِ ، فَنَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔فَہٰذَا الزُّہْرِیُّ وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ ہٰذَا الْحَدِیْثُ قَدْ أَجَازَ لِلرَّجُلِ أَنْ یَشْتَرِیَ مَا قَدْ أُخْبِرَ عَنْہُ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ عَایَنَہٗ. فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی جَوَازِ ابْتِیَاعِ الْغَائِبِ .فَقَالَ قَائِلٌ : مِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی التَّأْوِیْلِ الَّذِیْ قَدَّمْنَا ذِکْرَہٗ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ : مِنْ أَیْنَ أَجَزْتُمْ بَیْعَ الْغَائِبِ وَہُوَ مَجْہُوْلٌ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : مَا ہُوَ بِمَجْہُوْلٍ فِیْ نَفْسِہٖ، لِأَنَّہٗ مَتٰی رَجَعَ اِلَیْہٖ، رَجَعَ اِلٰی مَعْلُوْمٍ ، فَہُوَ کَبَیْعِ الْحِنْطَۃِ فِیْ سُنْبُلِہَا ، الْمَرْجُوْعِ مِنْہَا اِلَی حِنْطَۃٍ مَعْلُوْمَۃٍ .وَاِنَّمَا الْجَہْلُ فِیْ ہٰذَا ہُوَ جَہْلُ الْبَائِعِ وَالْمُشْتَرِی ، فَأَمَّا الْبَیْعُ فِیْ نَفْسِہِ فَغَیْرُ مَجْہُوْلٍ .وَاِنَّمَا الْمَجْہُوْلُ الَّذِیْ لَا یَجُوْزُ بَیْعُہٗ، ہُوَ الْمَجْہُوْلُ فِیْ نَفْسِہِ الَّذِیْ لَا یَرْجِعُ مِنْہُ اِلٰی مَعْلُوْمٍ ، کَبَعْضِ طَعَامٍ غَیْرِ مُسَمًّی ، بَاعَہُ رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ .فَذٰلِکَ الْبَعْضُ ، غَیْرُ مَعْلُوْمٍ ، وَغَیْرُ مَرْجُوْعٍ مِنْہُ اِلٰی مَعْلُوْمٍ ، فَالْعَقْدُ عَلٰی ذٰلِکَ غَیْرُ جَائِزٍ .وَقَدْ وَجَدْنَا الْبَیْعَ یَجُوْزُ عَقْدُہُ عَلَی طَعَامٍ بِعَیْنِہٖ عَلٰی أَنَّہٗ کَذَا وَکَذَا قَفِیزًا ، وَالْبَائِعُ وَالْمُشْتَرِی ، لَا یَعْلَمَانِ حَقِیْقَۃَ کَیْلِہٖ .فَیَکُوْنُ مِنْ حُقُوْقِ الْبَیْعِ وُجُوْبُ الْکَیْلِ لِلْمُشْتَرِیْ عَلَی الْبَائِعِ ، وَلَا یَکُوْنُ جَہْلُہُمَا بِہٖ ، وَیُوْجِبُ وُقُوْعَ الْبَیْعِ عَلٰی کَیْلٍ مَجْہُوْلٍ ، اِذَا کَانَا یَرْجِعَانِ مِنْ ذٰلِکَ اِلٰی کَیْلٍ مَعْلُوْمٍ .فَذٰلِکَ الطَّعَامُ الْغَائِبُ اِذَا بِیْعَ ، وَالْمُشْتَرِیْ وَالْبَائِعُ بِہٖ جَاہِلَانِ ، لَا یَکُوْنُ جَہْلُہُمَا بِہٖ یُوْجِبُ وُقُوْعَ الْعَقْدِ عَلٰی شَیْئٍ مَجْہُوْلٍ ، اِذَا کَانَا یَرْجِعَانِ مِنْہُ اِلٰی طَعَامٍ مَعْلُوْمٍ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ رَوَیْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا أَنَّ عُثْمَانَ وَطَلْحَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تَبَایَعَا مَالًا بِالْکُوْفَۃِ .فَقَالَ عُثْمَانُ : لِیَ الْخِیَارُ ، لِأَنِّیْ بِعْتُ مَا لَمْ أَرَ .وَقَالَ طَلْحَۃُ : لِی الْخِیَارُ ، لِأَنِّیْ ابْتَعْتُ مَا لَمْ أَرَ .فَحَکَّمَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، بَیْنَہُمَا جُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ ، فَقَضٰی الْخِیَارَ لِطَلْحَۃَ وَلَا خِیَارَ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَاتَّفَقَ ہٰؤُلَائِ الثَّلَاثَۃُ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی جَوَازِ بَیْعِ شَیْئٍ غَائِبٍ مِنْ بَائِعِہٖ، وَعَنْ مُشْتَرِیْہِ۔
٧١٨٣: یونس نے ربیعہ سے نقل کیا کہ یہ (منابذہ اور ملامسہ دونوں) جوئے کی اقسام سے ہیں پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا۔ روایت بالا میں امام زہری جو کہ روایت اول کے روات سے ہیں خود آدمی کو اس چیز کی خریداری کی اجازت دے رہے ہیں جس کے متعلق خبر دے دی جائے اگرچہ اسے آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ اس میں صاف دلیل ہے سامان غائب کی فروخت (جب کہ معین و مقرر ہو) جائز ہے۔ تم نے یہ تاویل کر کے غائب کی بیع کو کہاں سے جائز کرلیا جبکہ یہ مجہول ہے۔ یہ اگرچہ فی نفسہ مجہول ہے کیونکہ جب اس کی طرف رجوع کرے گا تو وہ معلوم کی طرف رجوع کرے گا یہ اسی طرح ہے جیسا کہ گندم کو سٹے میں فروخت کیا جاتا ہے جس سٹے سے معلوم گندم کی طرف لوٹتے ہیں یہاں جہل تو بائع و مشتری کا ہے رہی بیع تو وہ فی نفسہ غیر مجہول یعنی معلوم ہے باقی جس مجہول کی بیع جائز نہیں وہ وہ مجہول ہے جو اپنی ذات کے لحاظ سے مجہول ہو۔ اور اس سے معلوم کی طرف نہ لوٹا جاسکے۔ جیسا بعض غلے کی بیع جو غیر معین ہے اور اس کو ایک آدمی دوسرے کے ہاتھ فروخت کرتا ہے پس یہ بعض غلہ غیر معلوم ہے اور اس معلوم کی طرف لوٹنے کی امید بھی نہیں اس لیے اس کا عقد جائز نہ ہوگا اور ہم ایسی بیع جانتے ہیں جس کا عقد معین غلے کے بدلے جائز ہے اس طور پر کہ وہ اتنے اتنے قفیز ہے۔ حالانکہ بائع و مشتری دونوں اس کے کیل کی حقیقی مقدار کو نہیں جانتے۔ پس بیع کے حقوق سے یہ ہے کہ بائع پر لازم ہے کہ مشتری کو کیل کر کے دے۔ اور اس ماپ سے دونوں کا ناواقف ہونا مجہول ماپ پر بیع کو واقع نہیں کرتا جبکہ وہ اس سے معلوم ماپ کی طرف رجوع کرسکتے ہوں جب یہی غائب غلہ فروخت کیا جائے تو فروخت کرنے اور خریدنے والا اگر اس سے ناواقف ہوں تو ان کی ناواقفی سے شئی مجہول پر عقد کرنا لازم نہیں آئے گا بشرطیکہ وہ معلوم غلہ کی طرف رجوع کرسکتے ہوں اس باب میں قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول بھی یہی ہے۔ اس سے قبل ہم اسی کتاب میں روایت نقل کرچکے کہ حضرت عثمان ‘ طلحہ (رض) نے کوفہ میں موجود مال کا سودا کیا حضرت عثمان (رض) نے فرمایا مجھے اختیار ہے کیونکہ میں نے ایک ایسی چیز فروخت کی ہے جس کو میں نے نہیں دیکھا حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا خیار تو مجھے حاصل ہے کیونکہ میں نے ایسی شئی کی خریداری کی ہے جو میں نے دیکھی نہیں۔ تو دونوں نے اپنے اس معاملہ میں حضرت جبیر بن مطعم (رض) کو حکم بنایا۔ تو انھوں نے حضرت طلحہ (رض) (مشتری) کے لیے خیار کو ثابت کیا اور حضرت عثمان (رض) سے خیار کی نفی کردی۔ صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں ان تینوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غائب کی بیع جائز ہے وہ شئی بائع و مشتری کسی نے بھی نہ دیکھی تھی۔

7187

۷۱۸۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، رَکِبَ یَوْمًا مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ وَہُوَ رَجُلٌ مِنْ أَزْدِ شَنُوْئَ ۃَ ، حَلِیْفٌ لِبَنِی الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی أَرْضٍ لَہٗ بِرِیْمٍ .فَابْتَاعَہَا مِنْہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی أَنْ یَنْظُرَ اِلَیْہَا وَرِیْمٌ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ عَلَی قَرِیْبٍ مِنْ ثَلَاثِیْنَ مِیْلًا .فَہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْن بُحَیْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَدْ تَبَایَعَا مَا ہُوَ غَائِبٌ عَنْہُمَا ، وَرَأَیَا ذٰلِکَ جَائِزًا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّمَا جَازَ ذٰلِکَ لِاشْتِرَاطِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، الْخِیَارَ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّ ذٰلِکَ الْخِیَارَ لَمْ یَجِبْ لِابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ جِہَۃِ الْاِشْتِرَاطِ ، وَلَوْ کَانَ مِنْ جِہَۃِ الْاِشْتِرَاطِ وَجَبَ ، لَکَانَ الْبَیْعُ فَاسِدًا .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوِ اشْتَرٰی مِنْ رَجُلٍ عَبْدًا ، أَوْ أَرْضًا عَلٰی أَنَّہٗ بِالْخِیَارِ فِیْہَا لَا اِلٰی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ ، أَنَّ الْبَیْعَ فَاسِدٌ .وَابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ لَمْ یَشْتَرِطْ خِیَارَ الرُّؤْیَۃِ اِلٰی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ الْخِیَارَ الَّذِی اشْتَرَطَہٗ، ہُوَ خِیَارٌ یَجِبُ لَہٗ بِحَقِّ الْعَقْدِ وَہُوَ خِیَارُ الرُّؤْیَۃِ الَّذِیْ ذٰہَبَ اِلَیْہِ طَلْحَۃُ وَجُبَیْرٌ فِیْمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْہُمَا ، لَا خِیَارُ شَرْطٍ .
٧١٨٤: سالم کہتے ہیں کہ ایک دن عبداللہ بن عمر (رض) ‘ عبداللہ بن بحینہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ان کا تعلق قبیلہ ازدشنوہ سے ہے حضرت عبداللہ نے ان سے وہ زمین اس شرط پر خریدی کہ وہ اس کو دیکھ لیں یہ ریم مدینہ منورہ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ عبداللہ بن عمر (رض) اور عبداللہ بن بحینہ (رض) ہیں جنہوں نے آپس میں غائب (زمین) کا سودا کیا اور اس کو جائز قرار دیا تبھی خریدا۔ یہ غائب کی بیع تو اس لیے جائز ہوگئی کہ ابن عمر (رض) نے خیار شرط رکھا تھا۔ یہ خیار بطور اشتراط کے ابن عمر (رض) کے لیے لازم نہ تھا اگر یہ بطور شرط واجب ہوتا تو بیع فاسد ہوتی۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی آدمی دوسرے آدمی سے کوئی غلام خریدے یا زمین خریدے اور یہ شرط لگائے اس کو غیر معین وقت تک خیار حاصل ہے تو یہ بیع فاسد ہے اور اس روایت میں تو ابن عمر (رض) نے وقت معلوم تک کا بھی خیار بطور شرط مقرر نہ فرمایا تھا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ خیار جس کی انھوں نے شرط لگائی وہ وہی خیار ہے جو عقد کے حق کی وجہ سے لازم ہوتا ہے اور وہ وہی خیار رویت ہے جس کی طرف حضرت طلحہ و زبیر (رض) گئے ہیں جیسا کہ ہم نے ان کی روایت پہلے نقل کی ہے وہ خیار شرط ہرگز نہیں ہے۔

7188

۷۱۸۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : کُنَّا اِذَا تَبَایَعْنَا ، کَانَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقْ الْمُتَبَایِعَانِ .قَالَ : فَتَبَایَعْتُ، أَنَا وَعُثْمَانُ ، فَبِعْتُہٗ مَالًا لِیْ بِالْوَادِی ، بِمَا لَہٗ بِخَیْبَرَ .قَالَ : فَلَمَّا بَایَعْتُہٗ ، طَفِقْتُ أَنْکُصُ عَلٰی عَقِبِیْ نَکْصَ الْقَہْقَرَی ، خَشْیَۃَ أَنْ یَتَرَادَنِیَ الْبَیْعَ عُثْمَانُ قَبْلَ أَنْ أُفَارِقَہٗ .فَہٰذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَدْ تَبَایَعَا مَا ہُوَ غَائِبٌ عَنْہُمَا ، وَرَأَیَا ذٰلِکَ جَائِزًا ، وَذٰلِکَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِمَا مُنْکِرٌ .
٧١٨٥: سالم کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) فرمانے لگے کہ جب ہم آپس میں خریدو فروخت کرتے تو ہم میں سے ہر ایک کو سودے کے باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہوتا جب تک کہ بائع و مشتری جدا نہ ہوتے۔ کہنے لگے ایک دفعہ میں اور عثمان (رض) نے آپس میں سودا کیا میں نے ان کو اپنا وہ مال جو وادی (القریٰ ) میں تھا ان کے خیبر کے مال کے بدلے فروخت کیا۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے بیع کرلی تو میں اپنے پچھلے قدموں واپس مڑا۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ عثمان (رض) جدا ہونے سے پہلے مجھ سے یہ سودا واپس نہ لے لیں۔ یہ حضرت عثمان (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) ہیں۔ دونوں نے باہمی اس چیز کا سودا کیا جو کہ دونوں سے غائب تھی اور اس کو درست قرار دیا اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوا اور ان کے متعلق کسی نے تنقید و انکار نہیں کیا۔

7189

۷۱۸۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعَتَیْنِ أَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ انْبِذْ اِلَیَّ ثَوْبَکَ، وَأَنْبِذُ اِلَیْکَ ثَوْبِیْ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَقْلِبَا أَوْ یَتَرَاضَیَا .وَیَقُوْلُ دَابَّتِیْ بِدَابَّتِک مِنْ غَیْرِ أَنْ یَقْلِبَا ، أَوْ یَتَرَاضَیَا۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، اِجَارَۃُ الْبَیْعِ بِالتَّرَاضِی ، وَدَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْمُنَابَذَۃَ الْمَنْہِیَّ عَنْہَا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مُخَالِفُہٗ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ .
٧١٨٦: محمد بن عمیر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بیعوں سے منع فرمایا۔ ایک آدمی کو تم کہو کہ تم میری طرف اپنا کپڑا پھینکو اور میں تمہاری طرف اپنا کپڑا پھینکوں گا۔ بغیر اس بات کے کہ وہ دونوں کپڑوں کو پلٹیں یا ایک دوسرے کو باہمی راضی کریں۔ اور وہ کہتے میرا جانور تیرے جانور کے بدلے بغیر واپس کرنے کے یا ایک دوسرے کو راضی کرنے کے (وہ اس کو بیع قرار دیتے) ۔ اس روایت میں باہمی رضامندی سے بیع کا جواز اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ممنوعہ منابذہ وہی ہے جس کو امام ابوحنیفہ (رح) نے منابذہ قرار دیا ہے نہ کہ وہ جس کو ان کے مخالفین سے منابذہ قرار دیا ہے۔ والحمدللہ رب العالمین۔

7190

۷۱۸۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْزَرٍّ ، عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ أَبِیْ مُرْسِیْ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیْمَۃُ فِیْ نَفْسِہَا ، فَاِنْ سَکَتَتْ فَقَدْ أَذِنَتْ ، وَاِنْ أَنْکَرَتْ ، لَمْ تُکْرَہْ۔
٧١٨٧: یونس بن ابو اسحاق نے ابو بردہ بن حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت کی انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یتیم لڑکی سے اس کی ذات کے متعلق دریافت کیا جائے گا پس اگر وہ خاموش رہی تو گویا اس نے اجازت دے دی اور اگر اس نے انکار کردیا تو اس کو مجبور نہ کیا جائے گا۔
تخریج : دارمی فی النکاح باب ١٢‘ مسند احمد ٤‘ ٣٩٤؍٤١١۔
خلاصہ الزام :
فریق اوّل : بالغہ باکرہ لڑکی کا نکاح اس کا والد اس کی اجازت کے بغیر کرسکتا ہے اس سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہ امام مالک (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
باکرہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کا ولی اس سے اجازت لیے بغیر نہیں کرسکتا۔
فریق اوّل کی مستدلات :

7191

۷۱۸۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْیَتِیْمَۃُ تُسْتَأْمَرُ ، فَاِنْ رَضِیَتْ ، فَلَہَا رِضَاہَا ، وَاِنْ أَنْکَرَتْ ، فَلَا جَوَازَ عَلَیْہَا۔
٧١٨٨: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یتیم بچی سے اجازت طلب کی جائے گی پس اگر وہ راضی ہوجائے تو اس کی رضامندی اس کے لیے ہے اور اگر انکار کرے تو اس پر کوئی تجاوز نہیں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی النکاح باب ٢٣‘ ترمذی فی النکاح باب ١٩‘ مسند احمد ٢؍٢٥٩‘ ٣٨٤‘ ٤٧٥۔

7192

۷۱۸۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُزَوِّجَ ابْنَتَہٗ الْبِکْرَ الْبَالِغَۃَ بِغَیْرِ أَمْرِہَا ، وَلَا اسْتِئْذَانِہَا ، مِمَّنْ رَأٰیْ وَلَا رَأٰیَ لَہَا فِیْ ذٰلِکَ مَعَہٗ عِنْدَہُمْ .قَالُوْا : وَلَمَّا قَصَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَثَرَیْنِ الْمَذْکُوْرَیْنِ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ بِمَا ذُکِرَ فِیْہِمَا مِنِ الصُّمَاتِ ، وَالْمَحْکُوْمُ لَہٗ بِحُکْمِ الْاِذْنِ اِلَی الْیَتِیْمَۃِ ، وَہِیَ الَّتِیْ لَا أَبَ لَہَا دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ذَاتَ الْأَبِ فِیْ ذٰلِکَ بِخِلَافِہَا ، وَأَنَّ أَمْرَ أَبِیہَا عَلَیْہَا أَوْکَدُ مِنْ أَمْرِ سَائِرِ أَوْلِیَائِہَا بَعْدَ أَبِیہَا .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ ، مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَیْسَ لِوَلِیِّ الْبِکْرِ أَبًا کَانَ أَوْ غَیْرَہٗ أَنْ یُزَوِّجَہَا اِلَّا بَعْدَ اسْتِئْمَارِہِ اِیَّاہَا فِیْ ذٰلِکَ وَبَعْدَ صُمَاتِہَا عِنْدَ اسْتِئْمَارِہِ اِیَّاہَا .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ قَصْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَثَرَیْنِ الْمَرْوِیَّیْنِ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ اِلَی الْیَتِیْمَۃِ مَا یَدُلُّ أَنَّ غَیْرَ الْیَتِیْمَۃِ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی خِلَافِ حُکْمِ الْیَتِیْمَۃِ .اِذْ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ سَائِرَ الْأَبْکَارِ الْیَتَامَیْ وَغَیْرَہُنَّ .وَخَصَّ الْیَتِیْمَۃَ بِالذِّکْرِ ، اِذْ کَانَ لَا فَرْقَ بَیْنَہَا فِیْ ذٰلِکَ وَبَیْنَ غَیْرِہَا ، وَلِأَنَّ السَّامِعَ ذٰلِکَ مِنْہُ فِی الْیَتِیْمَۃِ الْبِکْرِ ، یُسْتَدَلُّ بِہٖ عَلٰی حُکْمِ الْبِکْرِ غَیْرِ الْیَتِیْمَۃِ .وَقَدْ رَأَیْنَا مِثْلَ ہٰذَا فِی الْقُرْآنِ ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْمَا حَرُمَ مِنْ النِّسَائِ وَرَبَائِبُکُمُ اللَّاتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمُ اللَّاتِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ۔فَذَکَرَ الرَّبِیْبَۃَ الَّتِیْ فِیْ حِجْرِ الزَّوْجِ ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلَی تَحْرِیْمِ الرَّبِیْبَۃِ الَّتِیْ فِیْ حِجْرِ الزَّوْجِ دُوْنَ الرَّبِیْبَۃِ الَّتِیْ ھِیَ أَکْبَرُ مِنْہُ .بَلْ کَانَ التَّحْرِیْمُ عَلَیْہِمَا جَمِیْعًا .فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْبِکْرِ الْیَتِیْمَۃِ لَیْسَ عَلَی الْیَتِیْمَۃِ الْبِکْرِ خَاصَّۃً بَلْ ہُوَ عَلَی الْبِکْرِ الْیَتِیْمَۃِ وَغَیْرِ الْیَتِیْمَۃِ .وَکَانَ مَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِی الْیَتِیْمَۃِ الْبِکْرِ دَلِیْلًا لَہُمْ أَنَّ ذَاتَ الْأَبِ فِیْہِ کَذٰلِکَ اِذْ کَانُوْا قَدْ عَلِمُوْا أَنَّ الْبِکْرَ قَبْلَ بُلُوْغِہَا اِلٰی أَبِیہَا عَقْدُ الْبِیَاعَاتِ عَلٰی أَمْوَالِہَا ، وَعَقْدُ النِّکَاحِ عَلٰی بُضْعِہَا .وَرَأَوْا بُلُوْغَہَا ، یَرْفَعُ وِلَایَۃَ أَبِیہَا عَلَیْہَا فِی الْعُقُوْدِ عَلٰی أَمْوَالِہَا ، فَکَذٰلِکَ یَرْفَعُ عَنْہَا الْعُقُوْدَ عَلٰی بُضْعِہَا .وَمَعَ ہٰذَا فَقَدْ رَوَی أَہْلُ ہٰذَا الْمَذْہَبِ لِمَذْہَبِہِمْ آثَارًا ، احْتَجُّوْا لَہٗ بِہَا ، غَیْرَ أَنَّ فِیْ بَعْضِہَا طَعْنًا عَلٰی مَذْہَبِ أَہْلِ الْآثَارِ ، وَأَکْثَرُہَا سَلِیْمٌ مِنْ ذٰلِکَ وَسَنَأْتِیْ بِہَا کُلِّہَا ، وَبِعِلَلِہَا وَفَسَادِ مَا یُفْسِدُہٗ أَہْلُ الْآثَارِ مِنْہَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مِمَّا طَعَنَ فِیْہِ أَہْلُ الْآثَارِ ،
٧١٨٩: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ بالغہ باکرہ لڑکی کا نکاح والد اس کی اجازت کے بغیر کرسکتا ہے اس کی اجازت و حکم کی حاجت نہیں۔ جنہوں نے یہ رائے ظاہر کی ان کے ہاں لڑکی کی رائے کی والد کے ساتھ کوئی حیثیت نہیں۔ ان دونوں روایات میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی اور یتیمہ سے اجازت کا حکم فرمایا اور یتیمہ وہ لڑکی ہے جس کا والد نہ ہو تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس کا والد ہو اس لڑکی کا حکم اس سے مختلف ہے۔ اور والد کا حکم دوسرے تمام اولیاء سے زیادہ مؤکد ہے بقیہ اولیاء تو والد کے بعد ہیں۔ اس قول کو امام مالک (رح) نے اختیار فرمایا ہے۔ دوسرے فریق کا مؤقف ہے کہ باکرہ بالغہ لڑکی کے ولی یا غیر ولی کو اس کی اجازت طلب کئے بغیر نکاح کا حق حاصل نہیں ہے اور جب اس سے اجازت طلب کی جائے تو اس کی خاموشی رضا تسلیم کی جائے گی۔ سابقہ مؤقف کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں آثار میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے اشارہ ملتا ہو کہ یتیمہ اور غیر یتیمہ کا حکم مختلف ہے۔ اس لیے کہ اس کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ آپ نے اس سے مراد باکرہ لڑکیاں مراد لی ہوں خواہ وہ یتیم ہوں یا غیر یتیم۔ یتیمہ کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تاکہ یہ بتلایا جائے کہ یتیمہ اور غیر یتیمہ کا اس سلسلہ میں حکم برابر ہے تاکہ آپ سے یتیمہ باکرہ کا حکم سننے والا غیر یتیمہ باکرہ کے حکم پر استدلال کرے۔ ہم نے دیکھا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا ایک حکم ذکر فرمایا ہے : ” وربائبکم اللاتی فی حجورکم من نسائکم “ الایۃ اب اس آیت میں پرورش کے اندر پلنے والی اس لڑکی کا ذکر کیا جو اس عورت کے پاس ہو جس سے اس نے جماع کیا ہو۔ اب ربیبہ کا یہی مطلب نہیں ہے کہ جو پرورش میں اسی منکوحہ کی بیٹی موجود ہے وہ تو حرام ہے اور وہ جو اس سے پہلے بڑی عمر کی ہے وہ حرام نہیں بلکہ ہر دو حرام ہیں۔ بالکل اسی طرح یتیمہ باکرہ لڑکی کے متعلق ہم نے جو ذکر کیا ہے وہ خاص یتیمہ باکرہ کے بارے میں نہیں بلکہ غیر یتیمہ باکرہ کا حکم بھی یہی ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے جو کچھ یتیمہ باکرہ کے متعلق سنا وہ ان کے لیے اس بات پر دلیل تھی کہ اس سلسلے میں باپ ولی کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ بالغ ہونے سے پہلے اس کے مال میں تصرف کا حق والد کو حاصل ہے۔ اسی طرح اس کے نکاح کا حق بھی اسی کو ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کو بلوغ کے بعد اس کے تمام مالی تصرفات سے والد کی ولالت اٹھ جاتی ہے بالکل اسی طرح عقد بضع پر تصرف کی ولایت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود فریق اوّل نے اپنے مذہب کے حق میں کچھ روایات نقل کی ہیں اور ان سے استدلال بھی کیا ہے لیکن ان میں سے بعض کے سلسلہ میں ان روایات والوں پر طعن بھی کیا گیا ہے جبکہ اکثر روایات اس سے محفوظ ہیں ہم ان تمام روایات کو علتوں سمیت اور جن کو اہل آثار نے فاسد قرار دیا ہم ان کو اسی باب میں ان شاء اللہ ذکر کریں گے۔ وہ روایات جن میں اہل آثار نے طعن کی ہے۔

7193

۷۱۹۰ : مَا حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِیُّ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَجُلًا زَوَّجَ ابْنَتَہُ وَہِیَ بِکْرٌ ، وَہِیَ کَارِہَۃٌ ، فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَخَیَّرَہَا۔فَکَانَ مَنْ طَعَنَ مَنْ یَذْہَبُ اِلَی الْآثَارِ ، وَالتَّمْیِیزِ بَیْنَ رُوَاتِہَا وَتَثْبِیتِ مَا رَوَی الْحُفَّاظُ مِنْہُمْ ، وَاِسْقَاطِ مَا رَوٰی مَنْ ہُوَ دُوْنَہُمْ أَنْ قَالُوْا : ہٰکَذَا رَوٰی ہٰذَا الْحَدِیْثَ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ وَہُوَ رَجُلٌ کَثِیْرُ الْغَلَطِ .وَقَدْ رَوَاہُ الْحُفَّاظُ عَنْ أَیُّوْبَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ مِنْہُمْ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ وَاِسْمَاعِیْلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧١٩٠: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی باکرہ بیٹی کا نکاح کیا مگر اس لڑکی کو پسند نہ تھا تو وہ لڑکی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی پس آپ نے اس کو اختیار دیا۔ حفاظ حدیث نے کہا کہ اس روایت کا راوی جریر بن حازم ہے اور وہ کثیرالاغلاط ہے۔ جبکہ اس روایت کو حفاظ نے ایوب سے اور طرح نقل کیا ہے۔ اور ایوب نے جن سے روایت نقل کی ان میں سفیان ثوری ‘ حماد بن زید اور اسماعیل بن علیہ جیسے لوگ ہیں۔ روایت اس طرح ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی النکاح باب ٢٤؍٢٥‘ ابن ماجہ فی الناکح باب ١٢‘ مالک فی انکاح ٢٥‘ مسند احمد ١؍١٧٣۔

7194

۷۱۹۱ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَیُّوْبَ السِّخْتِیَانِیِّ عَنْ عِکْرَمَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَّقَ بَیْنَ رَجُلٍ وَبَیْنَ امْرَأَۃٍ ، زَوَّجَہَا أَبُوْہَا ، وَہِیَ کَارِہَۃٌ ، وَکَانَتْ ثَیِّبًا۔فَثَبَتَ بِذٰلِکَ عِنْدَہُمْ ، خَطَأُ جَرِیْرٍ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ وَجْہَیْنِ .أَمَّا أَحَدُہُمَا ، فَاِدْخَالُہُ ابْنَ عَبَّاسٍ فِیْہِ .وَأَمَّا الْآخَرُ ، فَذَکَرَ فِیْہِ أَنَّہَا کَانَتْ بِکْرًا ، وَاِنَّمَا کَانَتْ ثَیِّبًا .وَمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٧١٩١: ایوب نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرد و عورت کے مابین تفریق کرا دی جس عورت کے والد نے اس کا نکاح اس حالت میں کیا تھا کہ وہ عورت ناپسند کرتی تھی اور یہ عورت پہلے شادی شدہ تھی۔ اس روایت نے جریر کی دو غلطیاں ثابت کی ہیں۔ روایت کو موقوف تابعی کی بجائے مرفوع بیان کیا ہے۔ جریر نے اس کا باکرہ ہونا ذکر کیا جبکہ وہ ثیبہ تھی۔
حاصل یہ ہے : اس روایت نے جریر کی دو غلطیاں ثابت کی ہیں۔

7195

۷۱۹۲ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالُوْا : أَخْبَرَنَا أَبُوْ صَالِحٍ الْحَکَمُ بْنُ أَبِیْ مُوْسَیْ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اِسْحَاقَ الدِّمَشْقِیُّ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا زَوَّجَ ابْنَتَہُ وَہِیَ بِکْرٌ بِغَیْرِ أَمْرِہَا ، فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ یَذْہَبُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی تَتَبُّعِ الْأَسَانِیدِ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ لَا یُعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا مِمَّنْ رَوَاہٗ عَنْ شُعَیْبٍ ذَکَرَ فِیْہِ جَابِرًا غَیْرَ أَبِیْ صَالِحٍ ہٰذَا .فَمِمَّنْ رَوَاہُ وَأَسْقَطَ مِنْہُ جَابِرًا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ .
٧١٩٢: عطاء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی باکرہ بیٹی کا نکاح اس کی بلااجازت کردیا وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی تو آپ نے ان کے مابین تفریق کرا دی۔ جنہوں نے اس روایت کو شعیب (رح) سے روایت کیا ہے کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ انھوں نے جابر کا تذکرہ کیا ہو صرف ایک ابو صالح نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے۔ علی بن معبد وغیرہ نے اس روایت میں جابر (رض) کو ساقط کیا ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

7196

۷۱۹۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ شُعَیْبِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ عَطَائٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرْ جَابِرًا .وَقَدْ رَوَاہٗ عَمْرُو بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، فَبَیَّنَ مِنْ فَسَادِہٖ مَا ہُوَ أَکْبَرُ مِنْ ہٰذَا .
٧١٩٣: عطاء نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے مگر جابر کا تذکرہ نہیں کیا۔

7197

۷۱۹۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ابْنِ مُرَّۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَصَارَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ عَطَائٍ وَاِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُرَّۃَ ہٰذَا فَضَعِیْفُ الْحَدِیْثِ ، لَیْسَ عِنْدَ أَہْلِ الْآثَارِ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَصْلًا .وَمِمَّا رَوَوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، مِمَّا لَا طَعْنَ لِأَحَدٍ فِیْہِ۔
٧١٩٤: عطاء بن ابی رباح نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو روایت کیا ہے۔ یہ روایت اوزاعی نے ابراہیم بن مرہ عن عطاء ہے اور یہ ابراہیم بن مرہ ضعیف الحدیث ہے۔ یہ علماء آثار کے ہاں تو یہ اہل علم سے ہی نہیں ہے۔ سات غیر مطعون روایات ابن عباس (رض) :

7198

۷۱۹۵ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہُ ۔
٧١٩٥: ابن وہب نے مالک سے روایت کی ہے۔

7199

۷۱۹۶ : ح وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَا ، أَخْبَرَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ ح .
٧١٩٦: صالح بن عبدالرحمن اور ابراہیم بن مرزوق دونوں نے قعنبی اور عبداللہ بن مسلمہ سے۔

7200

۷۱۹۷ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ مَسْلَمَۃَ قَالَا : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَیِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا ، وَالْبِکْرُ تُسْتَأْمَرُ فِیْ نَفْسِہَا ، وَاِذْنُہَا صُمَاتُہَا۔
٧١٩٧: نافع بن جبیر بن مطعم نے ابن عباس (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ عورت اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور باکرہ سے اس کی ذات کے متعلق پوچھا جائے گا اور اس کا اذن اس کی خاموشی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی النکاح باب ٢٥‘ ترمذی فی النکاح باب ١٨‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ١١‘ دارمی فی النکاح باب ١٣‘ مالک فی النکاح ٤‘ مسند احمد ١؍٢١٩‘ ٣٥٥‘ ٣٦٢۔

7201

۷۱۹۸ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧١٩٨: نافع بن جبیر بن مطعم نے حضرت ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7202

۷۱۹۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَیْ قَالَ : ثَنَا عِیْسَیْ بْنُ یُوْنُسَ عَنِ ابْنِ مَوْہَبٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧١٩٩: عیسیٰ بن یونس نے ابن موہب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7203

۷۲۰۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ زِیَادِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الثَّیِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا ، وَالْبِکْرُ تُسْتَأْمَرُ۔فَلَمَّا کَانَتِ الْأَیِّمُ الْمَذْکُوْرَۃُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ہِیَ الَّتِیْ وَلِیُّہَا أَیُّ وَلِیْ کَانَ ، مِنْ أَبٍ أَوْ غَیْرِہٖ، کَانَ کَذٰلِکَ الْبِکْرُ الْمَذْکُوْرَۃُ فِیْہٖ، ہِیَ الْبِکْرُ الَّتِیْ وَلِیُّہَا أَیُّ وَلِیْ کَانَ مِنْ أَبٍ أَوْ غَیْرِہٖ۔ أَیْ : لَمْ یَکُنْ غَایَۃً فِیْہِ وَقِیَاسُہٗ أَنْ یَکُوْنَ غَایَۃً فَکَذٰلِکَ الْبِکْرُ الْمَقْرُوْنَۃُ اِلَیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ بِلَفْظٍ ، غَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ۔
٧٢٠٠: نافع بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ عورت اپنے نفس پر ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور باکرہ عورت سے اجازت طلب کی جائے گی۔ جب اس روایت میں مذکور بیوہ سے ایسی بیوہ عورت مراد ہے جس کا ولی والد یا کوئی دوسرا شخص ہو۔ گویا اس میں کسی کی حد بندی نہیں ہے اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جو آخری حد تک ولی ہوسکتا ہو وہ مراد ہو پس اسی طرح وہ باکرہ جس کو اس کے ساتھ ملا کر ذکر کیا گیا ہے جس کا کہ اس میں تذکرہ موجود ہے اس سے بھی وہی باکرہ مراد ہو جس کا ولی موجود ہو خواہ جو بھی ولی ہو والد یا دیگر آخری حد تک مراد ہے۔ یہ روایت دوسری سند صالح بن کیسان عن نافع سے ان الفاظ کے علاوہ دیگر الفاظ سے مروی ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7204

۷۲۰۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ لِلْأَبِ مَعَ الثَّیِّبِ أَمْرٌ ، وَالْبِکْرُ تُسْتَأْذَنُ ، وَاِذْنُہَا صُمَاتُہَا۔فَہٰذَا مَعْنَاہٗ، مَعْنَی الْأَوَّلِ ، سَوَائٌ .وَالْبِکْرُ الْمَذْکُوْرَۃُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ہِیَ الْبِکْرُ ذَاتُ الْأَبِ ، کَمَا أَنَّ الثَّیِّبَ الْمَذْکُوْرَۃَ فِیْہٖ، کَذٰلِکَ .فَہٰذَا مَا رُوِیَ لَنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَأَمَّا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَرُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٧٢٠١: صالح بن کیسان نے نافع بن جبیر سے انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ والد کو بیوہ کے معاملے میں کچھ اختیار نہیں اور باکرہ سے اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔ اس روایت اور پہلی روایت کا مفہوم ایک جیسا ہے اور وہ باکرہ جس کا تذکرہ اس روایت میں وارد ہے وہ والد والی ہے جیسا کہ اس روایت میں مذکورہ ثیبہ والد والی ہے۔ یہ اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس (رض) کی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سات روایات ہیں۔
حاصل روایت :
اس روایت اور پہلی روایت کا مفہوم ایک جیسا ہے اور وہ باکرہ جس کا تذکرہ اس روایت میں وارد ہے وہ والد والی ہے جیسا کہ اس روایت میں مذکورہ ثیبہ والد والی ہے۔
یہ اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس (رض) کی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سات روایات ہیں۔
روایات حضرت عائشہ (رض) :

7205

۷۲۰۲ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ یَقُوْلُ : قَالَ ذَکْوَانُ ، مَوْلٰی عَائِشَۃَ : سَمِعْت عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَقُوْلُ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَارِیَۃِ یَنْکِحُہَا أَہْلُہَا : أَتُسْتَأْمَرُ أَمْ لَا ؟ قَالَ نَعَمْ ، تُسْتَأْمَرُ .فَقُلْتُ :اِنَّہَا تَسْتَحْیِیْ فَتَسْکُتُ قَالَ فَذَاکَ اِذْنُہَا اِذَا ہِیَ سَکَتَتْ۔فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ سَوَّیْ بَیْنَ أَہْلِ الْبِکْرِ جَمِیْعًا فِیْ تَزْوِیْجِہَا ، وَلَمْ یَفْصِلْ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ حُکْمِ أَبِیہَا ، وَلَا حُکْمِ غَیْرِہِ مِنْ سَائِرِ أَہْلِہَا .وَأَمَّا أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَرُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٧٢٠٢: ذکوان مولیٰ عائشہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس لڑکی کے متعلق دریافت کیا جس کے گھر والے اس کا نکاح کرنا چاہتے ہوں اس سے اجازت طلب کی جائے گی یا نہیں۔ آپ نے فرمایا جی ہاں۔ اس سے اجازت طلب کی جائے گی میں نے کہا وہ حیاء سے خاموش رہے گی فرمایا تو خاموشی اس کی اجازت ہے۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں آپ نے کنواری لڑکی کے گھر والوں کے لیے ان کے نکاح کے سلسلہ میں ایک جیسا حکم بیان فرمایا اور اس سلسلہ میں اس کے والد اور دیگر گھر والوں کے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایات اس طرح ہیں۔
روایات حضرت ابوہریرہ (رض) :

7206

۷۲۰۳ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِیُّ عَنْ یَحْیٰی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تُنْکَحُ الثَّیِّبُ حَتّٰی تُسْتَأْمَرَ ، وَلَا الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ .قَالُوْا : وَکَیْفَ اِذْنُہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ الصَّمْتُ۔
٧٢٠٣: حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ثیبہ کا نکاح اس سے اجازت طلب کرنے کے بغیر نہ کیا جائے اور باکرہ کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ مانگی جائے صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی اجازت کیسے ہوگی فرمایا خاموشی۔ تخریج : بخاری فی الحیل باب ١٢‘ ابو داؤد فی النکاح باب ٢٣‘ ترمذی فی النکاح باب ١٨‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ١١‘ دارمی فی لانکاح باب ١٣‘ ١٤‘ مسند احمد ٢؍٢٢٩‘ ٢٥٠‘ ٤٢٥‘ ٢٧٩۔

7207

۷۲۰۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ عَنْ وَکِیْعٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ یَحْیٰی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٢٠٤: علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

7208

۷۲۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ح .
٧٢٠٥: عبداللہ ابن میمون نے ولید ابن مسلم سے روایت کی ہے۔

7209

۷۲۰۶ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَرَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَا : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَقَدْ جَمَعَ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ سَائِرِ الْأَوْلِیَائِ ، وَلَمْ یَجْعَلْ لِلْأَبِ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمًا زَائِدًا عَنْ حُکْمِ مَنْ سِوَاہُ مِنْہُمْ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، کَمَا ذَکَرْنَا ، لِیُوَافِقَ مَعْنَاہُ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَلَا یُضَادُّہُ .وَلَئِنْ کَانَ ہٰذَا الْأَمْرُ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ فَضْلِ بَعْضِ الرُّوَاۃِ عَلَی بَعْضٍ فِی الْحِفْظِ ، وَالْاِتْقَانِ ، وَالْجَلَالَۃِ ، فَاِنَّ یَحْیٰی بْنَ أَبِیْ کَثِیْرٍ أَجَلُّ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو وَأَتْقَنُ ، وَأَصَحُّ رِوَایَۃً ، لَقَدْ فَضَّلَہٗ أَیُّوْبُ السِّخْتِیَانِیُّ عَلٰی أَہْلِ زَمَانِ ذِکْرِہٖ فِیْہِ .
٧٢٠٦: یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ان روایات میں تمام اولیاء کو جمع کیا گیا اور باپ کے لیے دیگر اولیاء کا کوئی زائد حکم بیان نہیں کیا گیا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ہم نے باب کی ابتداء میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کا جو معنی بیان کیا ہے وہ اس حدیث کے معنی کے موافق ہے متضاد نہیں اور اگر اس حدیث کو روات کے باہمی حفظ ‘ پختگی اور جلالت شان کے اعتبار سے لینا ہو تو تب بھی یحییٰ ابن کثیر کو محمد ابن عمرو کے مقابلے میں اتقان اور صحت روایت کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے بلکہ ابو ایوب سختیانی نے تو ان کو اپن زمانے کے تمام ہم عصر محدثین سے افضل قرار دیا ہے (ابو ایوب کا یہ بیان ملاحظہ ہو) ۔

7210

۷۲۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْمُنْقِرِیُّ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَیُّوْبَ یَقُوْلُ : مَا بَقِیَ عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ مِثْلُ یَحْیٰی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَلَیْسَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو فِیْ ہٰذِہِ الْمَرْتَبَۃِ ، وَلَا فِیْ قَرِیْبٍ مِنْہَا ، بَلْ قَدْ تَکَلَّمَ فِیْہِ جَمَاعَۃٌ مِنْہُمْ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ .فَرَوٰی عَنْہُ۔
٧٢٠٧: وہیب بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے ایوب کو کہتے سنا کہ میں نے سطح زمین پر اس وقت یحییٰ ابن کثیر جیسا محدث نہیں پایا۔
محمد بن عمرو درجے میں ان جیسے تو درکنار ان کے قریب بھی نہیں بلکہ امام مالک نے تو اس پر جرح کی ہے (ملاحظہ فرمائیں)

7211

۷۲۰۸ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ الْمُنْقِرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عُثْمَانَ الْبَدْرَاوِیُّ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ فَذُکِرَ عِنْدَہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو .فَقَالَ : حَمَلَہٗ - یَعْنِی الْحَدِیْثَ- فَتَحَمَّلَ .ؓوَأَمَّا عَدِیٌّ الْکِنْدِیُّ فَرَوٰی عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٧٢٠٨: عبدالرحمن بن عثمان بدراوی کہتے ہیں کہ میں امام مالک کے پاس بیٹھا تھا تو کسی نے محمد بن عمرو کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا لوگوں نے اس کو حدیث کا حامل بنایا تو وہ حدیث کا حامل بن گیا یعنی وہ خود محدث نہیں ہے باقی رہے عدی کندی تو ان کی وساطت سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت مروی ہے ملاحظہ ہو۔

7212

۷۲۰۹ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ حُسَیْنٍ عَنْ عَدِیِّ بْنِ عَدِی الْکِنْدِیِّ عَنْ أَبِیْہَ عَدِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الثَّیِّبُ تُعْرِبُ عَنْ نَفْسِہَا ، وَالْبِکْرُ رِضَاہَا صَمْتُہَا۔
٧٢٠٩: عدی بن عدی کندی نے اپنے والد عدی (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا کہ شادی شدہ عورت اپنی ذات کے بارے میں بول کر بتلائے اور کنواری کی رضامندی اس کی خاموشی میں ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی النکاح باب ١١‘ مسند احمد ٤؍١٩٢۔

7213

۷۲۱۰ : حَدَّثَنَا بَحْرٌ عَنْ شُعَیْبٍ عَنِ اللَّیْثِ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٢١٠: بحر بن شعیب نے لیث سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7214

۷۲۱۱ : حَدَّثَنَا یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ الرَّبِیْعِ بْنِ طَارِقٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَدِیِّ بْنِ عَدِیْ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ الْفَرَسِ وَہُوَ ابْنُ عَمِیْرَۃَ وَقَدْ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَہٰذَا کَنَحْوِ مَا رَوَیْ یَحْیٰی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہٰذَا تَصْحِیْحُ الْآثَارِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، قَدْ دَلَّ أَنَّ أَبَا الْبِکْرِ ، لَا یُزَوِّجُہَا بَعْدَ بُلُوْغِہَا ، اِلَّا کَمَا یُزَوِّجُہَا سَائِرُ أَوْلِیَائِہَا بَعْدَہٗ. وَقَدْ قَدَّمْنَا مِنْ ذِکْرِ النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ مَا یُغْنِیْنَا عَنْ اِعَادَتِہِ ہَاہُنَا فَبِذٰلِکَ کُلِّہِ نَأْخُذُ .نَرَی أَنْ لَا یُزَوِّجَ أَبُ الْبِکْرِ ابْنَتَہُ الْبِکْرَ الْبَالِغَۃَ اِلَّا بَعْدَ اسْتِئْمَارِہٖ اِیَّاہَا فِیْ ذٰلِکَ وَعِنْدَ صُمَاتِہَا عِنْدَ ذٰلِکَ الْاِسْتِئْمَارِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ احْتَجَّ قَوْمٌ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ فِیْ بِنْتِ نُعَیْمِ بْنِ النَّحَّامِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٧٢١١: عدی ابن عدی نے اپنے والد سے انھوں نے الفرس سے جو کہ ابن عمیرہ ہیں اور یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ہیں اسی طرح روایت نقل کی۔ پس یہ روایت اسی طرح ہے جس طرح یحییٰ بن کثیر نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی۔ اس باب میں روایات کی تصحیح اس پر دلالت کر رہی ہے کہ کنواری لڑکی کے بلوغ کے بعد اس کا والد اسی طرح اس کا نکاح کرے گا (یعنی اجازت لے کر) جیسا کہ دوسرے اولیاء کرتے ہیں جبکہ والد موجود نہ ہو اور قیاس کا تقاضا ہم پہلے شروع باب میں ہی نقل کرچکے دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں اس سلسلے میں ہمارا مؤقف یہی ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ کنواری لڑکی کا باپ کنواری بالغہ سے اجازت طلب کرنے کے بعد اس کا نکاح کرے اور طلب اجازت کے بعد اس کی خاموشی پر اس کا نکاح کرے یہی ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ بعض لوگوں نے بنت نعیم بن نحام (رض) کی روایت سے دلیل پکڑی ہے روایت یہ ہے۔ ملاحظہ ہو۔

7215

۷۲۱۲ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ نُعَیْمٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ النَّحَّامِ أَخْبَرَہٗ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہٗ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اُخْطُبْ عَلٰی ابْنَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ النَّحَّامِ فَقَالَ لَہٗ : اِنَّ لَہٗ ابْنَ أَخٍ وَلَمْ یَکُنْ لِیَنْکِحَکَ وَیَتْرُکَہُمْ .فَذَہَبَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِلَی زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ فَکَلَّمَہٗ، فَخَطَبَ عَلَیْہِ .فَقَالَ ابْنُ النَّحَّامِ مَا کُنْتُ لِأُتَرِّبَ لَحْمِیْ وَدَمِیْ، وَأَرْفَعَ لَحْمَکُمْ فَأَنْکَحَہَا ابْنَ أَخِیْہِ وَکَانَ ہَوَی الْجَارِیَۃِ وَأُمِّہَا فِی ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَذَہَبَتِ الْمَرْأَۃُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّ أَبَاہَا أَنْکَحَہَا وَلَمْ یُؤَامِرْہَا ، فَأَجَازَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِکَاحَہَا .وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشِیْرُوْا عَلَی النِّسَائِ فِیْ أَنْفُسِہِنَّ فَکَانَتِ الْجَارِیَۃُ بِکْرًا .فَقَالَ ابْنُ النَّحَّامِ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّمَا یَکْرَہُوْنَہُ مِنْ أَجْلِ أَنَّہٗ لَا مَالَ لَہٗ، فَاِنَّ لَہٗ فِیْ مَالِیْ مِثْلَ مَا أَعْطَاہُمُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔قَالُوْا : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَجَازَ عَلَیْہَا نِکَاحَ أَبِیہَا وَہِیَ کَارِہَۃٌ لَہٗ، اِذْ کَانَتْ بِکْرًا ، وَلَمْ یَجْعَلْ لَہَا مَعَ أَبِیہَا رَأْیًا فِیْ عَقْدِ النِّکَاحِ عَلَیْہِ قِیْلَ لَہٗ : لَوْ کَانَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ صَحِیْحًا ثَابِتًا عَلٰی مَا رَوَیْنَا ، وَکَیْفَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ وَقَدْ رَوَاہُ اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ فَخَالَفَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ لَہِیْعَۃَ فِیْ اِسْنَادِہٖ وَفِیْ مَتْنِہٖ۔
٧٢١٢: عبداللہ ابن نحام نے بتلایا کہ میرے والد نے عبداللہ ابن عمر (رض) کے واسطہ سے یہ بات نقل کی کہ انھوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ میرے لیے عبداللہ بن نحام کی بیٹی کے نکاح کا پیغام دیں تو حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ ان کا اپنا بھتیجا موجود ہے وہ انھیں چھوڑ کر تیرے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا چنانچہ ابن عمر زید بن خطاب کے پاس گئے اور ان سے بات چیت کی تو انھوں نے عبداللہ ابن نحام کو پیغام بھیجا تو ابن نحام نے جواب دیا میں اپنے خون اور گوشت کو مٹی میں لت پت کر کے تمہارے گوشت کو کیسے بلند کرسکتا ہوں چنانچہ ابن نحام نے اپنے بھتیجے سے نکاح کردیا مگر لڑکی اور اس کی والدہ کا میلان ابن عمر (رض) سے نکاح کی طرف تھا چنانچہ لڑکی کی والدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس لڑکی کے والد نے اس کا نکاح کردیا اور لڑکی سے اجازت طلب نہیں کی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نکاح کو برقرار رکھا اور آپ نے ارشاد فرمایا عورتوں سے ان کی ذات کے معاملہ میں مشورہ کرلیا کرو یہ لڑکی کنواری تھی ابن نحام کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر والے اس نکاح کو اس لیے برا جانتے ہیں کہ اس لڑکے کے پاس مال نہیں ہے پس اس لڑکے کے لیے میرا مال اسی طرح جیسے ان کو ابن عمر (رض) نے دینا تھا۔ معترضین کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں والد کے نکاح کو لڑکی کے ناپسند کرنے کے باوجود جائز قرار دیا حالانکہ وہ لڑکی کنواری تھی اور والد کے ساتھ عقد نکاح میں اس کو کوئی حق نہیں دیا گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ اصل اختیار والد ہی کو ہے۔ اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہو جس طرح کہ نقل کی گئی ہے تو یہ بات اسی طرح ہوگی جبکہ اس کی سند میں عبداللہ ابن لہیعہ ہے جو کہ کمزور راوی ہے جبکہ اس کے بالمقابل لیث بن سعد نے اس روایت کو اس کے خلاف نقل کیا ہے روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٩٧۔

7216

۷۲۱۳ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، وَاسْمُہُ الَّذِیْ یُعْرَفُ بِہٖ نُعَیْمُ بْنُ النَّحَّامِ وَلٰـکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمَّاہُ صَالِحًا أَنَّہٗ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اُخْطُبْ عَلَیَّ ابْنَۃَ صَالِحٍ ؟ فَقَالَ لَہٗ اِنَّ : لَہٗ یَتَامَی ، وَلَمْ یَکُنْ لِیُؤْثِرَنَا عَلَیْہِمْ .فَانْطَلَقَ عَبْدُ اللّٰہِ اِلٰی عَمِّہِ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ لِیَخْطُبَ عَلَیْہٖ، فَانْطَلَقَ زَیْدُ بْنُ الْخَطَّابِ اِلٰی صَالِحٍ فَقَالَ : اِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَرْسَلَنِیْ اِلَیْکَ یَخْطُبُ ابْنَتَک .فَقَالَ : لِیْ یَتَامٰی وَلَمْ أَکُنْ لِأُتَرِّبَ لَحْمِی ، وَأَرْفَعَ لَحْمَکُمْ اِنِّیْ أُشْہِدُک أَنِّیْ قَدْ أَنْکَحْتُہَا فُلَانًا ، وَکَانَ ہَوٰی أُمِّہَا فِیْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَأَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ خَطَبَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ابْنَتِیْ، فَأَنْکَحَہَا أَبُوْہَا یَتِیْمًا فِیْ حِجْرِہٖ، وَلَمْ یُؤَامِرْہَا .فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی صَالِحٍ فَقَالَ أَنْکَحْتُ ابْنَتَکَ وَلَمْ تُؤَامِرْہَا فَقَالَ : نَعَمْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشِیْرُوْا عَلَی النِّسَائِ فِیْ أَنْفُسِہِنَّ وَہِیَ بِکْرٌ فَقَالَ صَالِحٌ : اِنَّمَا فَعَلْت ہٰذَا لَمَّا أَصْدَقَہَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَاِنَّ لَہَا فِیْ مَالِیْ مِثْلَ مَا أَعْطَاہَا۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ خِلَافُ مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ مِنَ الْاِسْنَادِ وَمِنَ الْمَتْنِ جَمِیْعًا ، لِأَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِنَّمَا ہُوَ مَوْقُوْفٌ عَلَی اِبْرَاھِیْمَ بْنِ صَالِحٍ وَالْأَوَّلُ قَدْ جَوَّزَ بِہٖ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ صَالِحٍ اِلٰی أَبِیْھَاوَاِلَی ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : فَقَدْ کَانَ یَنْبَغِیْ عَلَی مَذْہَبِ ہٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا أَنْ یَجْعَلَ مَا رَوَی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ فِیْ ہٰذَا أَوْلٰی مِمَّا رَوَاہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ ، لِثَبْتِ اللَّیْثِ وَضَبْطِہٖ، وَقِلَّۃِ تَخْلِیطِ حَدِیْثِہٖ، وَلِمَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ لَہِیْعَۃَ مِنْ ضِدِّ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا فِیْ مَتْنِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِمَّا یُخَالِفُ حَدِیْثَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ لَہِیْعَۃَ ، فَاِنَّ فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِنُعَیْمٍ لَمَّا بَلَغَہُ مَا عَقَدَ عَلَی ابْنَتِہِ مِنَ النِّکَاحِ بِغَیْرِ رِضَاہَا أَشِیْرُوْا عَلَی النِّسَائِ فِیْ أَنْفُسِہِنَّ فَکَانَ بِذٰلِکَ رَدًّا عَلَی نُعَیْمٍ لِأَنَّ نُعَیْمًا لَمْ یُشَاوِرْ ابْنَتَہُ فِیْ نَفْسِہَا .فَہٰذَا اخْتِلَافُ مَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ لَہِیْعَۃَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَخَ النِّکَاحَ .قِیْلَ لَہٗ : ذٰلِکَ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنَّ ابْنَۃَ نُعَیْمٍ لَمْ تَحْضُرْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَسْأَلُہُ ذٰلِکَ .وَاِنَّمَا کَانَتْ حَضَرَتْہُ أُمُّہَا ، لَا عَنْ تَوْکِیلٍ مِنْہَا اِیَّاہَا بِذٰلِکَ حَتّٰی کَانَتْ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجِبُ لَہَا بِہٖ الْکَلَامُ عَنْہَا .فَکَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا کَانَ ، مِنَ الْکَلَامِ لِنُعَیْمٍ عَلَی جِہَۃِ التَّعْلِیْمِ .وَلَمْ یَفْسَخْ النِّکَاحَ ، اِذْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ جِہَۃِ الْقَضَائِ وَاِنْ کَانَ الْقَضَائُ لَا یَجِبُ اِلَّا لِحَاضِرٍ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ جَمِیْعًا .وَلَقَدْ رَوَی الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، أَنَّ رَجُلًا زَوَّجَ ابْنَتَہُ وَہِیَ بِکْرٌ ، وَہِیَ کَارِہَۃٌ ، فَرَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِکَاحَہُ عَنْہَا۔فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُجْعَلَ حَدِیْثُ نُعَیْمِ بْنِ النَّحَّامِ عَلٰی مَا رَوَاہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ اِذْ کَانَ قَدْ رَدَّہٗ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَہٰذَا وَاقِعٌ ، فَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا خِلَافُ ذٰلِکَ .ثُمَّ قَدْ وَجَدْنَا حَدِیْثًا قَدْ رُوِیَ فِیْ أَمْرِ ابْنَۃِ نُعَیْمِ بْنِ النَّحَّامِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہَا کَانَتْ أَیِّمًا .
٧٢١٣: ابراہیم بن صالح بن عبداللہ یہ صالح بن عبداللہ وہی ہیں جو نعیم بن نحام کے نام سے مشہور ہیں لیکن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام صالح رکھا وہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو کہا کہ میرے لیے صالح کی بیٹی کے نکاح کا پیغام دیں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا ان کے پاس یتیم بھتیجے ہیں وہ ان پر تجھے ترجیح نہیں دے سکتا عبداللہ اپنے چچا زید بن خطاب کی طرف گئے تاکہ وہ ان کی طرف سے پیغام دیں حضرت زید صالح کی طرف گئے اور کہا کہ عبداللہ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے کہ میں ان کے لیے تمہاری بیٹی کے متعلق پیغام دوں تو صالح کہنے لگے میرے پاس یتیم ہیں میں اپنے گوشت کو خاک الود کر کے تمہارے گوشت کو بلند نہیں کرسکتا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس لڑکے کا نکاح فلاں سے کردیا لڑکی کی والدہ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ابن عمر (رض) سے نکاح کرے پس وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن عمر (رض) نے میری بیٹی کے لیے پیغام نکاح دیا تو اس کے والد نے اپنی پرورش میں ایک یتیم سے اس کا نکاح کردیا اور بچی سے مشورہ بھی نہیں کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صالح کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا تم نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر کردیا انھوں نے عرض کی جی ہاں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورتوں کی ذات معاملے میں ان سے مشورہ کرلیا کرو جبکہ وہ کنواری ہوں حضرت صالح نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ جب ابن عمر (رض) نے اس کو مہر دے دیا (تو میں نے اس کا نکاح کردیا) پس اس لڑکی کا میرے مال میں سے اتنا ہی مال ہوگا جتنا انھوں نے اس کو دیا ہے۔ اس روایت کی سند اور متن دونوں مجروح ہیں۔ سند کے لحاظ سے یہ روایت ابراہیم بن صالح پر موقوف ہے جبکہ اس کے بالمقابل پہلی روایت ابراہیم سے تجاوز کر کے والد تک پہنچتی اور ابن عمر (رض) تک پہنچتی ہے تو ہمارے مخالف کے مذہب پر مناسب یہ ہے کہ اس روایت میں جو کچھ حضرت لیث نے روایت کیا ہے اسے عبداللہ بن لہیعہ کی روایت سے اولیٰ قرار دیا جائے۔ کیونکہ لیث ثبت و ضبط کے لحاظ سے اس سے بہت بڑھ کر ہیں اور ان کی روایت میں خلط کم پایا جاتا ہے جبکہ عبداللہ بن لہیعہ کی روایت اس کے برعکس اور الٹ ہے۔ اس روایت کے متن میں ابن لہیعہ کی روایت کے خلاف یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطلاع ملی کہ حضرت نعیم نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کردیا ہے تو آپ نے ان کو فرمایا کہ عورتوں سے ان کے نفوس کے متعلق مشورہ کرلیا کرو۔ تو یہ بات حضرت نعیم (رض) کے طرز عمل کی تردید ہے کیونکہ انھوں نے اپنی بیٹی کے معاملے میں اس سے مشورہ نہیں کیا تھا تو یہ ابن لہیعہ کی روایت کے متن میں نہیں ہے۔ اس روایت میں یہ بات کہیں موجود نہیں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نکاح کو فسخ کردیا۔ ہمارے نزدیک اس روایت کا مطلب یہ ہے واللہ اعلم۔ کہ حضرت نعیم (رض) کی لڑکی نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر فسخ نکاح کا مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ اس کی والدہ حاضر ہوئی اور وہ بھی اس کی وکالت کے طور پر نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس توکیل کی وجہ سے اس کے ساتھ کلام لازم ہوجاتا۔ فلہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت نعیم (رض) کو جو کچھ فرمایا وہ بطور تعلیم تھا اور آپ نے اس سے نکاح کو فسخ نہ کیا تھا کیونکہ فسخ کا تعلق فیصلے سے ہے۔ اور اس بات پر سب کو اتفاق ہے کہ فیصلہ کے لیے فریقین کی موجودگی لازم ہوتی ہے۔ ولید بن مسلم نے ابن ابی ذئب سے انھوں نے نافع سے انھوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی کنواری لڑکی کا نکاح اس کی ناپسندیدگی کے باوجود کردیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نکاح کو رد کردیا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ روایت نعیم بن نحام (رض) کو اس پر محمول کریں جس طرح کہ اس کو ابن لہیعہ نے روایت کیا ہے کیونکہ اس نے اس روایت کو ابن عمر (رض) کی طرف لوٹایا ہے جبکہ حضرت ابن عمر (رض) سے اس کے خلاف مروی ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر ہم کہتے ہیں کہ حضرت نعیم بن نحام (رض) کی بیٹی کے سلسلہ میں ایسی روایت موجود ہے جو یہ دلالت کرتی ہے کہ وہ کنواری نہیں بلکہ بیوہ تھی۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٩٧‘ ٤؍١٩٢۔

7217

۷۲۱۴ : حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَہْدِیْ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ الزُّہْرِیُّ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَتٰی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : اِنِّیْ قَدْ خَطَبْتُ ابْنَۃَ نُعَیْمِ بْنِ النَّحَّامِ وَأُرِیْدُ أَنْ تَمْشِیَ مَعِیْ فَتُکَلِّمَہُ لِی .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : اِنِّیْ أَعْلَمُ بِنُعَیْمٍ مِنْکَ، اِنَّ عِنْدَہُ ابْنَ أَخٍ لَہٗ یَتِیْمًا وَلَمْ یَکُنْ لِیَقْضِ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیُتَرِّبَ لَحْمَہٗ فَقَالَ : اِنَّ أُمَّہَا قَدْ خَطَبَتْ اِلَیَّ ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : اِنْ کُنْتُ فَاعِلًا .فَاذْہَبْ مَعَک بِعَمِّک زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ .قَالَ : فَذَہَبْنَا اِلَیْہِ فَکَلَّمَاہٗ، قَالَ : فَکَأَنَّمَا یَسْمَعُ مَقَالَۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : مَرْحَبًا بِکَ وَأَہْلًا وَذَکَرَ مِنْ مَنْزِلَتِہٖ وَشَرَفِہٖ۔ثُمَّ قَالَ اِنَّ عِنْدِی ابْنَ أَخٍ لِیْ یَتِیْمٌ ، وَلَمْ أَکُنْ لِأَنْقُضَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَأُتَرِّبَ لَحْمِی .فَقَالَتْ أُمُّہَا مِنْ نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ : وَاللّٰہِ لَا یَکُوْنُ ہٰذَا حَتّٰی یَقْضِیَ بِہٖ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْبِسُ أَیِّمًا مِنْ بَنِیْ عَدِی ، ، عَلٰی ابْنِ أَخِیْک سَفِیْہٍ ؟ قَالَتْ أَوْ ضَعِیْفٍ .قَالَ : ثُمَّ خَرَجَتْ حَتّٰی أَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرَتْہُ الْخَبَرَ .فَدَعَا نُعَیْمًا فَقَصَّ عَلَیْہِ کَمَا قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنُعَیْمٍ صِلْ رَحِمَکَ، وَأَرْضِ أَیِّمَکَ وَأُمَّہَا ، فَاِنَّ لَہُمَا مِنْ أَمْرِہَا نَصِیْبًا۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ بِنْتَ نُعَیْمِ بْنِ النَّحَّامِ کَانَتْ أَیِّمًا ، فَذٰلِکَ أَبْعَدُ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجَازَ نِکَاحَ أَبِیہَا عَلَیْہَا وَہِیَ کَارِہَۃٌ ، وَبِاَللّٰہِ التَّوْفِیْقُ .
٧٢١٤: عروہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس گیا اور عرض کیا کہ میں نے نعیم بن نحام (رض) کی بیٹی کو پیغام نکاح دیا ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چل کر ان سے بات کریں تو مجھے عمر (رض) نے کہا میں نعیم کو تم سے بہتر جانتا ہوں اس کے ہاں اس کا بھتیجا یتیم موجود ہے وہ اپنے گوشت کو مٹی میں ڈال کر لوگوں کے گوشت کے لیے فیصلہ نہ کرے گا۔ ابن عمر (رض) کہنے لگے اس کی والدہ نے میری طرف پیغام نکاح بھیجا ہے تو حضرت عمر (رض) کہنے لگے اگر تم نے ضرور کرنا ہے تو پھر اپنے ساتھ اپنے چچا زید کو لے جاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس نے وہی بات کی گویا کہ اس نے عمر (رض) کی بات سن رکھی ہے۔ نعیم کہنے لگے تمہارے آنے پر خوش آمدید تم بڑے مرتبے اور شرف والے ہو پھر کہنے لگے۔ میرا ایک یتیم بھتیجا ہے اور میں اپنے گوشت کو مٹی میں ملا کر دوسروں کے گوشت کو معزز کروں تو اس پر گھر کی جانب سے بچی کی والدہ بول اٹھیں یہ ہرگز نہ ہوگا جب تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے متعلق فیصلہ نہ فرمائیں گے کیا تم بنی عدی کی ایک بیوہ لڑکی کو اپنے کم عقل بھتیجے کے لیے روک کر رکھتا ہے ؟ انھوں نے سفیہ یا ضعیف کا لفظ بولا۔ راوی کہتے ہیں پھر وہ نکل کر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئیں اور ان کو ساری بات کی اطلاع دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نعیم کو بلایا تو انھوں نے اس طرح تمام واقعہ سنایا جو انھوں نے ابن عمر (رض) کو کہا تھا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے نعیم۔ صلہ رحمی کرو۔ بیوہ اور اس کی ماں کو راضی کرو کیونکہ ان کے معاملہ میں ان کا حصہ ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نعیم کی بیٹی بیوہ تھی اور یہ بات بہت بعید ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی مرضی کے بغیر اس کے والد کے کئے ہوئے نکاح کو جائز رکھیں۔

7218

۷۲۱۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُوَیْد عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْ کَبْشَۃَ السَّلُوْلِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَہْلُ بْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی ، فَاِنَّمَا یَسْتَکْثِرُ مِنْ جَمْرِ جَہَنَّمَ .قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَمَا ظَہْرُ غِنًی؟ قَالَ أَنْ یَعْلَمَ أَنَّ عِنْدَ أَہْلِہٖ مَا یُغَدِّیہِمْ وَمَا یُعَشِّیہِمْ۔
٧٢١٥: ابو کبشہ سلولی نے سہل بن حنظلیہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس آدمی نے مالداری کے باوجود لوگوں سے سوال کیا وہ اپنے پاس جہنم کے انگارے زیادہ کررہا ہے میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ظہر غنیٰ کیا ہے آپ نے فرمایا اس کے گھر والوں کے ہاں صبح و شام کا کھانا ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ مسند احمد ٤؍١٨١۔
خلاصہ الزام :
فریق اوّل : صبح و شام کے کھانے کا جو مالک ہو اس پر صدقہ حرام ہے اور اس کو سوال درست نہیں۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے : اگر کوئی ایک اوقیہ چاندی (٤٠ درہم کے برابر) کا مالک ہو تو اس پر صدقہ حرام ہے اور اس کو سوال کرنا جائز نہیں ہے۔
فریق ثالث : پچاس درہم کے مالک پر صدقہ حرام ہے۔
فریق رابع : دو سو درہم کے مالک پر صدقہ وسوال حرام ہیں یہ ائمہ احناف کا قول ہے۔
فریق اوّل کی مستدلات :

7219

۷۲۱۶ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُرَادِیُّ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ بِاِسْنَادِہٖ۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنْ مَلَکَ ہٰذَا الْمِقْدَارَ ، حُرِّمَتْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ ، وَلَمْ تَحِلَّ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَنْ مَلَکَ أُوْقِیَّۃً مِنَ الْوَرِقِ ، وَہِیَ أَرْبَعُوْنَ دِرْہَمًا ، أَوْ عِدْلَہَا مِنَ الذَّہَبِ حُرِّمَتْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ ، وَلَمْ تَحِلَّ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ ، وَمَنْ مَلَکَ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ ، لَمْ تُحَرَّمْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢١٦: عبدالرحمن بن یزید نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے پھر اسی طرح ان کی اسناد والی روایت کی گئی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جو اتنی مقدار یعنی صبح و شام کے کھانے کا مالک ہوگا اس پر صدقہ حرام ہے اور اس کو سوال درست نہیں اور انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ جو شخص ایک اوقیہ چاندی کا مالک ہو کہ جس کی مقدار چالیس درہم ہے یا اس کے برابر سونا ہو تو اس پر صدقہ حرام ہے اور اس کو سوال جائز نہیں اور جو اس سے کم کا مالک ہو اس پر صدقہ حرام نہیں ہے انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔

7220

۷۲۱۷ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ : أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ قَالَ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ یَسْأَلُ مَنْ سَأَلَ مِنْکُمْ وَعِنْدَہٗ أُوْقِیَّۃٌ أَوْ عِدْلُہَا ، فَقَدْ سَأَلَ اِلْحَافًا وَالْأُوْقِیَّۃُ یَوْمَئِذٍ أَرْبَعُوْنَ دِرْہَمًا .
٧٢١٧: عطاء بن یسار نے بنی اسد کے ایک آدمی سے وہ کہتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ ایک آدمی کو فرما رہے تھے کہ جس نے اس حالت میں سوال کیا جبکہ اس کے پاس ایک اوقیہ یا اس کا بدل (سونا وغیرہ) ہو تو اس نے گویا اصرار سے سوال کیا ان دنوں اوقیہ چالیس دراہم کے برابر ہوا کرتی تھی۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤٣٠۔

7221

۷۲۱۸ : وَبِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٢١٨: بشر بن عمر نے مالک بن انس سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7222

۷۲۱۹ : وَبِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَسْلَمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَنْ مَلَکَ خَمْسِیْنَ دِرْہَمًا أَوْ عِدْلَہَا مِنَ الذَّہَبِ ، حُرِّمَتْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ ، وَلَمْ تَحِلَّ لَہُمُ الْمَسْأَلَۃُ ، وَمَنْ مَلَکَ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ ، لَمْ تُحَرَّمْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢١٩: سفیان نے زید بن اسلم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ فریق ثالث کا مؤقف ہے کہ جو پچاس دراہم یا اس کے برابر سونے کا مالک ہو اس پر صدقہ حرام ہے اور اس کو سوال درست نہیں اور جو اس سے کم کا مالک ہو اس پر صدقہ حرام نہیں ہے انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا ہے۔

7223

۷۲۲۰ : بِمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، ح .وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَسْأَلُ عَبْدٌ مَسْأَلَۃً، وَلَہٗ مَا یُغْنِیْہِ اِلَّا جَائَ تْ شَیْنًا ، أَوْ کُدُوْحًا ، أَوْ خُدُوْشًا ، فِیْ وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَمَاذَا غِنَاہٗ؟ قَالَ : خَمْسُوْنَ دِرْہَمًا أَوْ حِسَابُہَا مِنَ الذَّہَبِ۔
٧٢٢٠: سفیان ثوری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بندہ جو سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کفایت والی چیز ہوتی ہے تو وہ قیامت کے دن کسی چیز یا بدنمائی یا خراشوں والے چہرے کے ساتھ اٹھایا جائے گا آپ سے پوچھا گیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! غناء کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا پچاس دراہم یا اس کے حساب سے سونا۔
تخریج : بنحوہ فی الدارمی فی الزکوۃ باب ١٧‘ مسند احمد ٤؍٤٢٦‘ ٤٣٦۔

7224

۷۲۲۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھُشَیْمٍ الرِّفَاعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ کُدُوْحًا فِیْ وَجْہِہٖ وَلَمْ یَشُکَّ ، وَزَادَ فَقِیْلَ لِسُفْیَانَ : وَلَوْ کَانَ عَنْ غَیْرِ حَکِیْمٍ ؟ فَقَالَ : حَدَّثَنَاہٗ زُبَیْدٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ۔ اَوَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَنْ مَلَکَ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، حُرِّمَتْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ وَالْمَسْأَلَۃُ ، وَمَنْ مَلَکَ دُوْنَہَا لَمْ تُحَرَّمْ عَلَیْہِ الْمَسْأَلَۃُ ، وَلَمْ تُحَرَّمْ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ أَیْضًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٧٢٢١: یحییٰ بن آدم نے سفیان ثوری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ کدو حاً کے بعد فی وجہہٖ کے الفاظ زائد ہیں سفیان سے کہا گیا کہ غیر حکیم سے روایت کس طرح ہے۔ تو انھوں نے کہا زبید نے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کی ہے۔ جو شخص دو سو دراہم کا مالک ہو اس پر صدقہ اور سوال حرام ہے اور جو اس کم مقدار کا مالک ہو اس پر سوال حرام نہیں اور نہ ہی اس پر صدقہ حرام ہے ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔

7225

۷۲۲۲ : بِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ أَنَّہٗ أَتَی أُمَّہُ فَقَالَتْ : یَا بُنَیَّ لَوْ ذَہَبْت اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلْتُہٗ .قَالَ : فَجِئْت اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ قَائِمٌ یَخْطُبُ النَّاسَ ، وَہُوَ یَقُوْلُ : مَنِ اسْتَغْنَی أَغْنَاہُ اللّٰہٗ، وَمَنِ اسْتَعَفَّ ، أَعَفَّہُ اللّٰہٗ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَہٗ عِدْلُ خَمْسِ أَوَاقٍ ، سَأَلَ اِلْحَافًا۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ ، وَجَبَ الْکَشْفُ عَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ؛ لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ ہٰذِہِ الْأَقْوَالِ ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَرَأَیْنَا الصَّدَقَۃَ لَا تَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ : اِمَّا أَنْ تَکُوْنَ حَرَامًا لَا تَحِلُّ مِنَ الْأَشْیَائِ الْمُحَرَّمَاتِ عِنْدَ الضَّرُوْرَاتِ اِلَیْہَا .أَوْ تَکُوْنُ تَحِلُّ لَہٗ أَنْ یَمْلِکَ مِقْدَارًا مِنَ الْمَالِ ، فَتَحْرُمُ عَلٰی مَالِکِہٖ۔ فَرَأَیْنَا مَنْ مَلَکَ دُوْنَ مَا یُغَدِّیْہٖ، أَوْ دُوْنَ مَا یُعَشِّیْہٖ، کَانَتِ الصَّدَقَۃُ لَہٗ حَلَالًا ، بِاتِّفَاقِ الْفِرَقِ کُلِّہَا .فَخَرَجَ بِذٰلِکَ حُکْمُہَا ، مِنْ حُکْمِ الْأَشْیَائِ الْمُحَرَّمَاتِ الَّتِیْ تَحِلُّ عِنْدَ الضَّرُوْرَۃِ .أَلَا تَرَی أَنَّ مَنْ اُضْطُرَّ اِلَی الْمَیْتَۃِ ، أَنَّ الَّذِیْ یَحِلُّ لَہٗ مِنْہَا ، ہُوَ مَا یُمْسِکُ بِہٖ نَفْسَہٗ، لَا مَا یُشَجِّعُ ، حَتّٰی یَکُوْنَ لَہٗ غَدَائٌ ، أَوْ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہٗ عَشَائٌ .فَلَمَّا کَانَ الَّذِیْ یَحِلُّ مِنِ الصَّدَقَۃِ ، ہُوَ بِخِلَافِ مَا یَحِلُّ مِنَ الْمَیْتَۃِ عِنْدَ الضَّرُوْرَۃِ ، ثَبَتَ أَنَّہَا اِنَّمَا تَحْرُمُ عَلَی مَنْ مَلَکَ مِقْدَارًا مَا .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ الْمِقْدَارِ مَا ہُوَ ؟ فَرَأَیْنَا مَنْ مَلَکَ دُوْنَ مَا یُغَدِّی ، أَوْ دُوْنَ مَا یُعَشِّی ، لَمْ یَکُنْ بِذٰلِکَ غَنِیًّا .وَکَذٰلِکَ مَنْ مَلَکَ أَرْبَعِیْنَ دِرْہَمًا ، أَوْ خَمْسِیْنَ دِرْہَمًا ، أَوْ مَا ہُوَ دُوْنَ الْمِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، فَاِذَا مَلَکَ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، کَانَ بِذٰلِکَ غَنِیًّا ؛ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الزَّکَاۃِ خُذْہَا مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ ، وَاجْعَلْہَا فِیْ فُقَرَائِہِمْ۔فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ مَالِکَ الْمِئَتَیْنِ ، غَنِیٌّ ، وَأَنَّ مَا دُوْنَہَا ، غَیْرُ غَنِی .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّدَقَۃَ حَرَامٌ عَلٰی مَالِکِ الْمِئَتَیْ دِرْہَمٍ فَصَاعِدًا ، وَأَنَّہَا حَلَالٌ لِمَنْ یَمْلِکُ مَا ہُوَ دُوْنَ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٧٧٢٢: عبدالحمید بن جعفر نے اپنے والد سے انھوں نے مزینہ کے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ وہ اپنی والدہ کے ہاں آیا تو اس نے کہا بیٹا اگر تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جا کر سوال کرتا وہ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جبکہ آپ کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ جو اللہ تعالیٰ سے غناء کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کو غنی بنا دیتا ہے اور جو سوال سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے بچا لیتے ہیں اور جو لوگوں سے اس حالت میں سوال کرے گا کہ اس کے پاس پانچ اوقیہ چاندی کے برابر چیز ہو تو وہ اصرار سے سوال کرنے والوں میں شمار ہوگا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : جب لوگوں کا اس سلسلہ میں اختلاف ہوا تو ضروری ہے کہ اختلاف کی حقیقت کو کھولا جائے تاکہ صحیح تر قول سامنے آئے۔ صدقہ دو حال سے خالی نہیں یا حرام ہوگا اور اس میں سے کچھ بھی حلال نہ ہوگا مگر اضطرار کے وقت جبکہ دوسری اشیاء کی طرح حلال ہوجائے یا پھر وہ مال کی ایک خاص مقدار کا مالک بننے تک حلال ہوگا پھر اس مال کے مالک پر حرام ہوجائے گا۔ تو ہم نے غور کیا کہ جو شخص ایک دن رات کے کھانے سے کم مقدار کا مالک ہو تو سب کا اتفاق ہے کہ اسے صدقہ حلال ہے تو اس سے اس کا وہ حکم نکل آیا جو ضرورت کے وقت حرام چیزوں کا ہوتا ہے۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ جو شخص مردار کھانے پر مجبور ہوجائے تو اس کو اس حرام چیز میں سے صرف اس قدر کھانا جائز ہوگا جس سے اس کے نفس کو بقامیسر ہو سکے اس کو سیر ہو کر کھانا درست نہیں ہے یہاں تک کہ اس کے پاس ایک صبح اور ایک شام کا کھانا آجائے۔ پس جب یہ بات جس کی وجہ سے صدقہ لینا حلال ہوتا ہے اس کے مخالف ہے جس کے تحت بوقت ضرورت مردار کا کھانا حلال ہوجاتا ہے تو اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ اس پر حرام ہوگا جو کسی مقدار کا مالک ہو۔ اب ہم مقدار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں ہم نے یہ جاننا کہ جو آدمی ایک دن رات کے کھانے سے کم مقدار کا مالک ہو تو وہ اس کی بدولت مالدار نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص چالیس پچاس درہموں یا دو سو سے کم درہموں کا مالک ہو تو وہ بھی غنی نہیں ہوتا۔ اور جب دو سو درہموں کا مالک ہوجاتا ہے تو اس سے غنی بن جاتا ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے زکوۃ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے مالداروں سے لے کر ان کے فقراء کو دی جائے۔ تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دو سو درہموں کا مالک غنی شمار ہوتا ہے اور اس سے کم مقدار کا مالک غنی نہیں ہوتا پس اس سے ثابت ہوگیا کہ دو سو درہم اور اس سے زائد کے مالک پر صدقہ حرام ہے اور جو اس سے کم کا مالک ہو اس کے لیے حلال ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٣٨۔

7226

۷۲۲۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ أَخْبَرَنَا حَبِیْبُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ ہَرِمٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : لَمَّا اُسْتُخْلِفَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ أَرْسَلَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ ، یَلْتَمِسُ کِتَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فِی الصَّدَقَاتِ ، وَکِتَابَ عُمَرَ .فَوَجَدَ عِنْدَ آلِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، کِتَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فِی الصَّدَقَاتِ .وَوَجَدَ عِنْدَ آلِ عُمَرَ کِتَابَ عُمَرَ فِی الصَّدَقَاتِ ، مِثْلَ کِتَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنُسِخَا .فَحَدَّثَنِیْ عَمْرٌو ، أَنَّہٗ طَلَبَ آلُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنْ یَنْسَخَہُ مَا فِیْ ذٰیْنِک الْکِتَابَیْنِ ، فَیَنْسَخَ لَہٗ مَا فِیْ ہٰذَا الْکِتَابِ فَکَانَ مِمَّا فِیْ ذٰلِکَ الْکِتَابِ أَنَّ الْاِبِلَ اِذَا زَادَتْ عَلٰی تِسْعِیْنَ وَاحِدَۃً ، فَفِیْہَا حِقَّتَانِ طَرُوْقَتَا الْفَحْلِ اِلٰی أَنْ یَبْلُغَ عِشْرِیْنَ وَمِائَۃً .فَاِذَا بَلَغَتِ الْاِبِلُ عِشْرِیْنَ وَمِائَۃً ، فَلَیْسَ فِیْمَا زَادَ مِنْہَا دُوْنَ الْعَشْرِ شَیْئٌ .فَاِذَا بَلَغَتْ ثَلَاثِیْنَ وَمِائَۃً ، فَفِیْہَا بِنْتَا لَبُوْنٍ وَحِقَّۃٌ ، اِلٰی أَنْ تَبْلُغَ أَرْبَعِیْنَ وَمِائَۃً .فَاِذَا کَانَتْ أَرْبَعِیْنَ وَمِائَۃً ، فَفِیْہَا حِقَّتَانِ ، وَابْنَۃُ لَبُوْنٍ ، اِلٰی أَنْ تَبْلُغَ خَمْسِیْنَ وَمِائَۃً .فَاِذَا کَانَتْ خَمْسِیْنَ وَمِائَۃً ، فَفِیْہَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ ، ثُمَّ أَجْرٰی الْفَرِیْضَۃَ کَذٰلِکَ ، حَتّٰی یَبْلُغَ ثَلَاثَمِائَۃٍ .فَاِذَا بَلَغَتْ ثَلَثَمِائَۃٍ ، فَفِیْہَا مِنْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ ، وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ، بِنْتُ لَبُوْنٍ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ اِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ قَوْمٌ فَقَالُوْا بِہٖ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا زَادَ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، فَفِیْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ ، وَفِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ، بِنْتُ لَبُوْنٍ . وَتَفْسِیْرُ ذٰلِکَ ، أَنَّہٗ لَوْ زَادَتِ الْاِبِلُ بَعِیْرًا وَاحِدًا ، عَلَی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ، وَجَبَ بِزِیَادَۃِ ہٰذَا الْبَعِیْرِ حُکْمٌ ثَانٍ ، غَیْرُ حُکْمِ الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ .فَوَجَبَ فِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتُ لَبُوْنٍ ثُمَّ یُجْرُوْنَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، حَتّٰی تَبْلُغَ الزِّیَادَۃُ تَمَامَ الْمِائَۃِ وَالثَّلَاثِیْنَ ، فَیَجْعَلُوْنَ فِیْہَا حِقَّۃً وَبِنْتَیْ لَبُوْنٍ .ثُمَّ یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، حَتّٰی یَتَنَاہَی الزِّیَادَۃُ اِلٰی أَرْبَعِیْنَ وَمِائَۃٍ ، فَاِذَا کَانَتْ أَرْبَعِیْنَ وَمِائَۃً ، کَانَ فِیْہَا حِقَّتَانِ ، وَبِنْتُ لَبُوْنٍ ، اِلٰی خَمْسِیْنَ وَمِائَۃٍ .فَاِذَا کَانَتْ خَمْسِیْنَ وَمِائَۃً ، کَانَ فِیْہَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ ، ثُمَّ یُجْرُوْنَ الْفَرْضَ فِی الزِّیَادَۃِ عَلٰی ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، أَبَدًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ۔
٧٢٢٣: محمد بن عبدالرحمن انصاری بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) خلیفہ بنے تو انھوں نے مدینہ منورہ میں پیغام بھیجا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ خط تلاش کر رہے تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن حزم کو صدقات کے سلسلہ میں لکھا اور حضرت عمر (رض) کا خط۔ چنانچہ حضرت عمرو بن حزم کے نام خط کو ان کی اولاد میں اور حضرت عمر (رض) کے خط کو ان کی اولاد کے ہاں پا لیا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات والے مکتوب گرامی کی طرح تھا پھر وہ دونوں نقل کئے گئے حبیب بن ابی حبیب کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمرو (رض) نے بیان کیا کہ انھوں نے محمد بن عبدالرحمن کی آل کو بلایا تاکہ جو کچھ ان دونوں تحریروں میں ہے اسے لکھ دیں چنانچہ انھوں نے جو کچھ ان تحریروں میں تھا اس کو لکھ دیا تو اس خط میں یہ تھا۔ ٩٠ اونٹوں پر ایک کا اضافہ ہو تو دو حقے تین سال کا اونٹ پھر جب ١٢٠ تک ہوجائیں تو یہی حکم ہے جب اس سے زائد ہوں تو نو تک کچھ نہیں پھر ١٣٠ ہوجائیں تو دو بنت لبون اور ایک حقہ کہ ١٣٩ تک یہی حکم ہے ١٤٠ ہوجائیں تو دو حقے اور ایک بنت لبون۔ ١٤٩ تک یہی حکم ہے۔ ١٥٠ ہوجائیں تو تین حقے لازم ہوں گے پھر فریضہ اسی طرح جاری رہے گا (کہ دس کے اضافہ سے بنت لبون سے حقہ کی طرف لوٹتے رہیں گے) یہاں تک کہ ان کی تعداد تین سو تک پہنچ جائے جب تین سو ہوجائے تو پھر ہر پچاس پر ایک حقہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس روایت کو اختیار کیا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ جب ١٢٠ سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں ایک حقہ ہے اور ہر چالیس میں بنت لبون۔ اور اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اگر ایک سو بیس پر ایک اونٹ کا اضافہ ہوجائے تو اس سے ایک بیس سو والے حکم کی بجائے دوسرا حکم لگے گا۔ پس ہر چالیس پر ایک بنت لبون پھر یہ اسی طرح چلائیں گے یہاں تک کہ اضافہ ایک سو تیس تک پہنچے۔ اس میں ایک حقہ اور دو بنت لبون ہوں گے پھر اسی طرح رہے گا یہاں تک کہ اضافہ ایک سو چالیس تک پہنچے پھر جب ایک سو چالیس ہوجائیں تو اس میں دو حقے اور ایک بنت لبون اور یہ ایک سو پچاس تک اسی طرح ہوگا۔ جب گنتی ایک سو پچاس ہوجائے گی تو اس میں تین حقے ہوں گے پھر اضافے میں فریضہ کو ہمیشہ اسی طرح چلاتے جائیں گے۔ انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٣٨‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٥؍٨‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٥؍١٠‘ مالک فی الزکوۃ روایت ٢٣‘ مسند احمد ١؍١٢۔
امام طحاوی (رض) کہتے ہیں : کہ بعض لوگوں نے اس روایت کو اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : جب ١٢٠ سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں ایک حقہ ہے اور ہر چالیس میں بنت لبون۔ اور اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اگر ایک سو بیس پر ایک اونٹ کا اضافہ ہوجائے تو اس سے ایک بیس سو والے حکم کی بجائے دوسرا حکم لگے گا۔ پس ہر چالیس پر ایک بنت لبون پھر یہ اسی طرح چلائیں گے یہاں تک کہ اضافہ ایک سو تیس تک پہنچے۔ اس میں ایک حقہ اور دو بنت لبون ہوں گے پھر اسی طرح رہے گا یہاں تک کہ اضافہ ایک سو چالیس تک پہنچے پھر جب ایک سو چالیس ہوجائیں تو اس میں دو حقے اور ایک بنت لبون اور یہ ایک سو پچاس تک اسی طرح ہوگا۔ جب گنتی ایک سو پچاس ہوجائے گی تو اس میں تین حقے ہوں گے پھر اضافے میں فریضہ کو ہمیشہ اسی طرح چلاتے جائیں گے۔ انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا۔
خلاصہ الزام :
اول : چالیس سے پچاس بن جانے کی صورت میں دس پر فریضہ بدلتا جائے گا تاآنکہ تین سو ہوجائیں پھر فریضہ لوٹے گا۔
ثانی : ایک سو بیس پر فریضہ چالیس سے پچاس کی صورت میں بدلتا رہے گا۔
فریق ثالث کے ہاں ١٢٠ پر فریضہ لوٹایا جائے گا پانچ سے شروع ہوں گے یہ احناف ائمہ کرام (رض) کا قول ہے۔

7227

۷۲۲۴ : بِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ لَمَا اُسْتُخْلِفَ ، وَجَّہَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِلَی الْبَحْرَیْنِ ، فَکَتَبَ لَہٗ ہٰذَا الْکِتَابَ .ہٰذِہٖ فَرِیْضَۃُ الصَّدَقَۃِ ، الَّتِیْ فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، الَّتِی أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا رَسُوْلَہٗ، فَمَنْ سُئِلَہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی وَجْہِہَا ، فَلْیَعْلَمْہَا ، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَہَا ، فَلَا یُعْطِہٖ۔ کَانَ فِیْ کِتَابِہٖ ذٰلِکَ ، أَنَّ الْاِبِلَ اِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ، فَفِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتُ لَبُوْنٍ ، وَفِیْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ .
٧٢٢٤: ثمامہ بن عبداللہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت صدیق (رض) نے جب خلافت کی باگ سنبھالی تو حضرت انس (رض) کو بحرین کی طرف روانہ فرما کر یہ خط تحریر فرمایا یہ فرض زکوۃ ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں پر لازم کیا ہے۔ اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیا ہے۔ جو اس کو مسلمانوں سے اس کے طریقہ کے مطابق مانگے تو وہ اس کو ادا کرے اور جس سے اضافہ کے ساتھ سوال کیا جائے وہ نہ دے۔ اور ان کے خط میں یہ بھی تھا کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے بڑھ جائے تو پھر ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں حقہ دیا جائے گا۔

7228

۷۲۲۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : أَرْسَلَنِیْ ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ اِلَی ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَنَسِ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ؛ لِیَبْعَثَ اِلَیْہِ بِکِتَابِ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، الَّذِیْ کَتَبَہُ ؛ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِیْنَ بَعَثَہُ مُصَدِّقًا . قَالَ حَمَّادُ : فَدَفَعَہٗ اِلَیَّ ، فَاِذَا عَلَیْہِ خَاتَمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاِذَا فِیْہِ ذِکْرُ فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ ابْنِ مَرْزُوْقٍ .
٧٢٢٥: حماد کہتے ہیں کہ مجھے ثابت بنانی نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس انصاری (رض) کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کی طرف ابوبکر (رض) کا وہ خط بھیجیں جو انھوں نے حضرت انس (رض) کی طرف بھیجا تھا جبکہ ان کو بحرین کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا۔ حماد کہتے ہیں وہ خط انھوں نے میرے حوالے کیا میں نے دیکھا کہ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہر ہے اور اس میں فرض صدقات کا تذکرہ ہے پھر انھوں نے ابن مرزوق جیسی روایت نقل کی ہے۔

7229

۷۲۲۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مُوْسٰی أَبُوْ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ حَمْزَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوٗدَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ اِلٰی أَہْلِ الْیَمَنِ بِکِتَابٍ، فِیْہِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ ، وَالدِّیَاتُ ، وَبَعَثَ بِہٖ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ فِیْمَا زَادَ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ مِنَ الْاِبِلِ کَذٰلِکَ أَیْضًا .
٧٢٢٦: زہری نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف ایک خط لکھا جس میں فرائض ‘ سنن اور دیات تھیں اور عمرو بن حزم کے ہاتھ روانہ فرمایا پھر اس میں یہ بھی ذکر کیا جب اونٹ ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ان کا حکم اسی طرح ہے۔

7230

۷۲۲۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ الْأَنْصَارِیِّ ، أَخْبَرَہٗ أَنَّ ہٰذَا کِتَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمِ فِی الصَّدَقَاتِ .فَذَکَرَ فِیْمَا زَادَ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، کَذٰلِکَ أَیْضًا .
٧٢٢٧: عمارہ بن غزیہ انصاری نے عبداللہ بن ابی بکر انصاری سے نقل کیا ہے کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط ہے جو عمرو بن حزم کی خاطر صدقات کے سلسلے میں لکھا اور اس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے زیادہ ہوجائے تو پھر بھی حکم یہی ہے۔

7231

۷۲۲۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، بْنِ مُوْسٰی قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، فَرَائِضَ الْاِبِلِ ، ثُمَّ ذَکَرَ فِیْمَا زَادَ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، کَذٰلِکَ أَیْضًا .
٧٢٢٨: محمد بن ابی بکر بن حزم نے اپنے والد سے ‘ انھوں نے اپنے دادا (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن حزم کو اونٹوں کی زکوۃ لکھ کردی پھر اس میں فرمایا جب ایک سو بیس ہوجائیں تو حکم اسی طرح رہے گا۔

7232

۷۲۲۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : نَسَخْتُ کِتَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کُتِبَ فِی الصَّدَقَۃِ ، وَہِیَ عِنْدَ آلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَقْرَأَنِیْہَا سَالِمٌ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ، ابْنَا ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَوَعَیْتُہُا عَلَی وَجْہِہَا ، وَہِیَ الَّذِیْ نَسَخَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ رَحِمَہُ اللّٰہُ مِنْ سَالِمٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، اِلَی حِینِ أُمِّرَ عَلَی الْمَدِیْنَۃِ وَأَمَرَ عُمَّالَہٗ بِالْعَمَلِ بِہَا ، ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ .قَالُوْا : وَقَدْ عَمِلَ بِذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٢٩: ابن شہاب کہتے ہیں کہ صدقہ کے سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط آل عمر بن خطاب کے پاس ہے سالم اور عبداللہ دونوں نے مجھے پڑھایا تو میں نے اسی طریقے سے اس کو یاد کرلیا اور وہ وہی خط ہے جس کو عمر بن عبدالعزیز (رح) نے سالم اور عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کروایا جب کہ وہ مدینہ کے امیر بنائے گئے اور انھوں نے اپنے عمال کو اس پر عمل کا حکم دیا پھر یہ روایت بیان کی۔ فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ اسی خط پر عمر بن خطاب (رض) نے عمل کیا اور وہ بطور ثبوت یہ روایت بھی ذکر کرتے ہیں۔

7233

۷۲۳۰ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مُوْسَیْ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ یَأْخُذُ عَلَی ھٰذَا الْکِتَابِ ، فَذَکَرَ فَرَائِضَ الْاِبِلِ .وَفِیْہَا ذِکْرٌ مِنْہَا أَنَّ مَا زَادَ عَلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ، فَفِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتُ لَبُوْنٍ ، وَفِیْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا زَادَ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ مِنَ الْاِبِلِ اُسْتُؤْنِفَتْ فِیْہِ الْفَرِیْضَۃُ .فَکَانَ فِیْ کُلِّ خَمْسٍ مِنْہَا شَاۃٌ ، حَتّٰی تَتَنَاہَی الزِّیَادَۃُ اِلَی خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ ، فَیَکُوْنُ فِیْہَا بِنْتُ مَخَاضٍ اِلَی تِسْعٍ وَأَرْبَعِیْنَ وَمِائَۃٍ .فَاِذَا کَانَتْ خَمْسِیْنَ وَمِائَۃً ، فَفِیْہَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ ، ثُمَّ کَذٰلِکَ الزِّیَادَۃُ ، مَا کَانَ دُوْنَ الْخَمْسِیْنَ ، فَفِیْہَا فَرَائِضُ مُسْتَأْنَفَاتٌ عَلٰی حُکْمِ أَوَّلِ فَرَائِضِ الْاِبِلِ ، فَاِذَا کَمُلَتْ خَمْسِیْنَ ، فَفِیْہَا حِقَّۃٌ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ۔
٧٢٣٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اس خط پر عمل کرتے تھے پھر اس میں اونٹوں کی زکوۃ کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یہ بات بھی ہے جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے بڑھ جائے تو ہر چالیس میں بنت لبون اور پچاس میں حقہ ہوگا۔ فریق ثالث : جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے زیادہ ہو تو پھر فریضہ نئے سرے سے لوٹایا جائے گا پس ہر پانچ میں ایک بکری ہوگی یہاں تک کہ اضافے کی مقدار پچیس تک پہنچ جائے تو اس میں ایک بنت مخاض لازم ہوگا اور یہ اسی طرح ایک سو انچاس تک چلیں پھر جب ان کی تعداد ایک سو پچاس ہوجائے گی تو اس میں تین حقے ہوں گے پھر اضافے کا یہی حکم ہوگا جب تک وہ پچاس سے کم ہو ان میں فرائض دوبارہ لوٹائے جاتے رہیں گے اونٹوں کے پہلے فرائض کی طرح (یعنی پانچ میں بکری وغیرہ) جب پچاس مکمل ہوجائیں گے تو اس میں ایک حقہ ہوگا انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا۔

7234

۷۲۳۱ : بِمَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : قُلْت لِقَیْسِ بْنِ سَعْدٍ : اُکْتُبْ لِیْ کِتَابَ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَکَتَبَہٗ لِیْ فِیْ وَرَقَۃٍ ثُمَّ جَائَ بِہَا وَأَخْبَرَنِیْ أَنَّہٗ أَخَذَہٗ مِنْ کِتَابِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَأَخْبَرَنِیْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَہُ لِجَدِّہِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی ذِکْرِ مَا یُخْرَجُ مِنْ فَرَائِضِ الْاِبِلِ فَکَانَ فِیْہِ أَنَّہَا اِذَا بَلَغَتْ تِسْعِیْنَ ، فَفِیْہَا حِقَّتَانِ ، اِلٰی أَنْ تَبْلُغَ عِشْرِیْنَ وَمِائَۃً .فَاِذَا کَانَتْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ ، فَفِیْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ ، فَمَا فَضَلَ ، فَاِنَّہٗ یُعَادُ اِلٰی أَوَّلِ فَرِیْضَۃِ الْاِبِلِ ، فَمَا کَانَتْ أَقَلَّ مِنْ خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ ، فَفِیْہِ الْغَنَمُ ، فِیْ کُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاۃٌ۔
٧٢٣١: حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے قیس بن سعد کو کہا کہ تم مجھے ابوبکر بن حزم والا خط نقل کر کے دو چنانچہ انھوں نے ایک کاغذ پر وہ نقل کیا اور پھر وہ مجھے لا کردیتے ہوئے یہ فرمایا یہ میں نے ابوبکر بن حزم کے خط سے نقل کیا ہے اور ابوبکر نے مجھے بتلایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خط ان کے دادا عمرو بن حزم (رض) کو اونٹوں کی زکوۃ کے سلسلے میں لکھ کردیا تھا اس خط میں یہ درج تھا جب اونٹوں کی تعداد نوے تک پہنچ جائے تو اس میں ایک سو بیس تک دو حقے لازم رہیں گے جب اس سے زیادہ بڑھ جائیں گے تو ہر پچاس میں ایک حقہ ہوگا اور جو زائد ہوں گے ان کو ابتدائے فریضہ کی طرف لوٹایا جائے گا پس جو پچیس سے کم ہوں گے ان کی بکریاں ہوں گی ہر پانچ میں ایک بکری۔

7235

۷۲۳۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ ، وَجَبَ النَّظَرُ‘ لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ ہٰذِہِ الثَّلَاثَۃِ الْأَقْوَالِ قَوْلًا صَحِیْحًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَاہُمْ جَمِیْعًا ، قَدْ جَعَلُوْا الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃَ نِہَایَۃً لِمَا وَجَبَ ، فِیْمَا زَادَ عَلَی التِّسْعِیْنَ .وَقَدْ رَأَیْتُ مَا جُعِلَ نِہَایَۃً فِیْمَا قَبْلَ ذٰلِکَ ، اِذَا زَادَتِ الْاِبِلُ عَلَیْہِ شَیْئًا ، وَجَبَ بِزِیَادَتِہَا فَرْضُ غَیْرِ الْفَرْضِ الْأَوَّلِ .مِنْ ذٰلِکَ : أَنَّا وَجَدْنَاہُمْ جَعَلُوْا فِیْ خَمْسٍ مِنَ الْاِبِلِ شَاۃً ، ثُمَّ بَیَّنُوْا لَنَا أَنَّ الْحُکْمَ کَذٰلِکَ ، فِیْمَا زَادَ عَلَی الْخَمْسِ اِلَی تِسْعٍ .فَاِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ ، أَوْجَبُوْا بِہَا حُکْمًا مُسْتَقْبَلًا فَجَعَلُوْا فِیْہَا شَاتَیْنِ .ثُمَّ بَیَّنُوْا لَنَا أَنَّ الْحُکْمَ کَذٰلِکَ ، فِیْمَا زَادَ اِلٰی أَرْبَعَ عَشْرَۃَ ، فَاِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ أَوْجَبُوْا بِہَا حُکْمًا مُسْتَقْبَلًا فَجَعَلُوْا فِیْہَا ثَلَاثَ شِیَاہٍ .ثُمَّ بَیَّنُوْا لَنَا أَنَّ الْحُکْمَ کَذٰلِکَ ، فِیْمَا زَادَ اِلَی الْعِشْرِیْنَ ، فَاِذَا کَانَتْ عِشْرِیْنَ ، فَفِیْہَا أَرْبَعُ شِیَاہٍ .ثُمَّ أَجْرُوْا الْفَرْضَ کَذٰلِکَ ، فِیْمَا زَادَ اِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ، کُلَّمَا أَوْجَبُوْا شَیْئًا بَیَّنُوْا أَنَّہٗ الْوَاجِبُ فِیْمَا أَوْجَبُوْھُ فِیْہٖ، اِلٰی نِہَایَۃٍ مَعْلُوْمَۃٍ .فَکُلُّ مَا زَادَ عَلَی تِلْکَ النِّہَایَۃِ شَیْئٌ ، اُنْتُقِضَ بِہٖ الْفَرْضُ الْأَوَّلُ اِلٰی غَیْرِہٖ، أَوْ اِلَی زِیَادَۃٍ عَلَیْہِ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَکَانَتِ الْعِشْرُوْنَ وَالْمِائَۃُ ، قَدْ جَعَلُوْہَا نِہَایَۃً لَمَا أَوْجَبُوْھُ فِی الزِّیَادَۃِ عَلَی التِّسْعِیْنَ ، ثَبَتَ أَنَّ مَا زَادَ عَلَی الْعِشْرِیْنَ ، یَجِبُ بِہٖ شَیْئٌ ، اِمَّا زِیَادَۃٌ عَلَی الْفَرْضِ الْأَوَّلِ ، وَاِمَّا غَیْرُ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، فَسَادُ قَوْلِ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، وَثَبَتَ تَغَیُّرُ الْحُکْمِ بِزِیَادَۃٍ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ .ثُمَّ نَظَرْنَا بَیْنَ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ وَالْمَقَالَۃِ الثَّالِثَۃِ .فَوَجَدْنَا الَّذِیْنَ یَذْہَبُوْنَ اِلَی الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ ، یُوْجِبُوْنَ بِزِیَادَۃِ الْبَعِیْرِ الْوَاحِدِ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، رَدَّ حُکْمِ جَمِیْعِ الْاِبِلِ اِلٰی مَا یَجِبُ فِیْہِ بَنَاتُ اللَّبُوْنِ فِیْ قَوْلِہِمْ ، وَہُوَ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُمْ أَنَّ فِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتَ لَبُوْنٍ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّالِثَۃِ ، أَنَّا رَأَیْنَا جَمِیْعَ مَا یَزِیْدُ عَلَی النِّہَایَاتِ الْمُسَمَّاۃِ فِیْ فَرَائِضِ الْاِبِلِ ، فِیْمَا دُوْنَ الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، یَتَغَیَّرُ بِتِلْکَ الزِّیَادَۃِ الْحُکْمُ ، وَأَنَّ لِتِلْکَ الزِّیَادَۃِ حِصَّۃً ، فِیْمَا وَجَبَ بِہَا .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ فِیْ أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ ، أَرْبَعًا مِنَ الْغَنَمِ ، فَاِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ ، کَانَ فِیْہَا بِنْتُ مَخَاضٍ اِلَی خَمْسِیْنَ وَثَلَاثِیْنَ .فَاِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ ، فَفِیْہَا بِنْتُ لَبُوْنٍ ، فَکَانَتْ بِنْتُ الْمَخَاضِ وَاجِبَۃً فِی الْخَمْسِ وَالْعِشْرِیْنَ ، لَا فِیْ بَعْضِہَا .وَکَذٰلِکَ بِنْتُ اللَّبُوْنِ وَاجِبَۃٌ فِی السِّتَّۃِ وَالثَّلَاثِیْنَ کُلِّہَا ، لَا فِیْ بَعْضِہَا وَکَذٰلِکَ سَائِرُ الْفُرُوْضِ فِی الْاِبِلِ ، حَتّٰی تَتَنَاہَیْ اِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ، لَا یَنْتَقِلُ الْفَرْضُ بِزِیَادَۃٍ لَا شَیْئَ فِیْہَا ، بَلْ یَنْتَقِلُ بِزِیَادَۃٍ فِیْہَا شَیْئٌ .أَلَا تَرَی أَنَّ فِیْ عَشْرٍ مِنَ الْاِبِلِ شَاتَیْنِ ، فَاِذَا زَادَتْ بَعِیْرًا ، فَلَا شَیْئَ فِیْہٖ، وَلَا تَتَغَیَّرُ زِیَادَتُہٗ، حُکْمُ الْعَشَرَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ قَبْلَہٗ۔فَاِذَا کَانَتِ الْاِبِلُ خَمْسَ عَشْرَۃَ ، کَانَ فِیْہَا ثَلَاثُ شِیَاہٍ ، فَکَانَتِ الْفَرِیْضَۃُ وَاجِبَۃً فِی الْبَعِیْرِ الَّذِیْ کَمُلَ بِہٖ مَا یَجِبُ فِیْہِ ثَلَاثُ شِیَاہٍ وَفِیْمَا قَبْلَہٗ۔فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، وَکَانَتِ الْاِبِلُ اِذَا زَادَتْ بَعِیْرًا وَاحِدًا عَلَی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃِ بَعِیْرٍ فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ لَا شَیْئَ فِیْ ہٰذَا الْبَعِیْرِ ؛ لِأَنَّ الَّذِیْنَ أَوْجَبُوْا اسْتِئْنَافَ الْفَرِیْضَۃِ ، لَمْ یُوْجِبُوْا فِیْہِ شَیْئًا ، وَلَمْ یُغَیِّرُوْا بِہٖ حُکْمًا .وَالَّذِیْنَ لَمْ یُوْجِبُوْا اسْتِئْنَافَ الْفَرِیْضَۃِ مِنْ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ ، جَعَلُوْا فِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ مِنَ الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، بِنْتَ لَبُوْنٍ ، وَلَمْ یَجْعَلُوْا فِی الْبَعِیْرِ الزَّائِدِ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْفَرْضَ فِیْمَا قَبْلَ الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، لَا یَنْتَقِلُ اِلَّا بِمَا یَجِبُ فِیْہِ جَزْئٌ مِنَ الْفَرْضِ الْوَاجِبِ بِہٖ ، وَکَانَ الْبَعِیْرُ الزَّائِدُ عَلَی الْعِشْرِیْنَ وَالْمِائَۃِ ، لَا یَجِبُ فِیْہِ شَیْئٌ مِنْ فَرْضٍ وَجَبَ بِہٖ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ غَیْرُ مُغَیِّرٍ فَرْضَ غَیْرِہٖ، عَمَّا کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ حُدُوْثِہٖ۔ فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ اِلَی الْمَقَالَۃِ الثَّالِثَۃِ ، وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَیْہَا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔
٧٢٣٢: ابو عمر ضریر نے حماد بن سلمہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : جب علماء کے مابین اس سلسلے میں اختلاف ہوا تو اب اس بات کو دیکھنا ضروری ہوگیا تاکہ ان تین اقوال میں سے صحیح تر قول نکالا جائے۔ ہم نے جب غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ سب نے فرائض کے لیے انتہاء ایک سو بیس قرار دی ہے اور جو اس کے ذمے لازم ہے وہ نوے سے زائد ہے اور تم نے یہ بھی دیکھا کہ جس کو اس سے پہلے انتہاء بنایا گیا جب اس میں اونٹوں کی تعداد تھوڑی سی بڑھ جائے تو اس کے اضافے پر فرض اول کے علاوہ فرض لازم کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے ان کو دیکھا کہ انھوں نے پانچ اونٹوں پر ایک بکری لازم کی ہے پھر انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ حکم پانچ سے نو تک اسی طرح رہے گا پھر جب ایک اور بڑھ جائے تو انھوں نے ان اونٹوں پر آئندہ والا حکم لازم کردیا یعنی دو بکریاں ہوں گی جب کہ اونٹ دس ہوجائیں گے اور یہ حکم اسی طرح چلتا رہے گا یہاں تک کہ یہ زائد چودہ ہوجائیں جب چودہ سے ایک بڑھ جائے تو انھوں نے اس پر آنے والا حکم لگا دیا یعنی تین بکریاں پندرہ اونٹوں پر۔ پھر انھوں نے ہمیں یہ بھی وضاحت دی کہ زائد میں یہ حکم بیس تک اسی طرح رہے گا جب بیس ہوجائیں گی تو ان میں چار بکریاں ہوں گی پھر انھوں نے فرض کو ایک سو بیس سے زائد میں جاری رکھا جب بھی انھوں نے کوئی چیز لازم کی تو انھوں نے وضاحت کی کہ یہ اتنی مقدار میں فلاں مقررہ مقدار تک لازم رہے گی پھر اس انتہاء سے جب بھی کوئی اضافہ ہوا تو پہلا فرض ٹوٹ کر اگلے سے جا ملا۔ یا پہلا فرض ٹوٹ کر اضافے کے ساتھ مل گیا پس جب یہ اسی طرح رہا تو ایک سو بیس کی مقدار کو نوے کی مقدار سے اضافے کے لیے انتہاء قرار دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگی کہ بیس پر جو اضافہ ہوتا ہے اس سے کوئی چیز لازم ہوتی ہے خواہ وہ اضافہ فرض اول پر ہو یا پہلے فرض کے علاوہ پر ہو۔ اس بات سے پہلے قول والوں کی غلطی ظاہر ہوئی اور ایک سو بیس پر اضافے سے حکم کی تبدیلی ثابت رہی۔ اب دوسرے اور تیسرے قول کے متعلق ہم غور کرتے ہیں۔ فریق ثانی کا قول : یہ ہے کہ ایک سو بیس پر ایک اونٹ کے اضافہ کی صورت میں تمام اونٹوں کے حکم کو اس کی طرف لوٹانا واجب ہوگا جن میں ان کے نزدیک بنت لبون واجب ہے کہ ہر چالیس پر بنت لبون ہے۔ فریق ثالث کا قول : یہ ہے کہ ایک سو بیس اونٹوں سے کم مقدار میں معینہ حدود پر جو کچھ اضافہ ہوتا ہے اس کی وجہ سے حکم بدل جاتا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اس اضافہ کے لیے صدقہ واجب میں کوئی حصہ ہے۔ چنانچہ چوبیس میں چار بکریاں جب اس پر ایک زائد ہوجائے تو اس میں ایک بنت محاض ہے اور یہ پینتیس تک ہے جب اس پر ایک کا اضافہ ہوجائے گا تو اس میں ایک بنت لبون ہے تو بنت مخاض پچیس میں لازم ہے اس کے بعض میں واجب نہیں اسی طرح بنت لبون مکمل پینتیس پر لازم ہے اس کے بعض پر نہیں۔ اونٹوں میں تمام فرائض کا یہی حال ہے یہاں تک کہ ایک سو بیس ہوجائیں اس میں فریضہ ان کے اضافہ سے منتقل نہ ہوگا جس میں کچھ بھی لازم نہیں ہوتا بلکہ اس اضافہ سے فریضہ منتقل ہوگا جس میں کوئی چیز لازم ہوتی ہے۔ ذرا غور تو فرمائیں کہ دس اونٹوں میں دو بکریاں اگر ایک اونٹ کا اضافہ ہو تو اس میں کچھ بھی لازم نہیں اور یہ اضافہ دس کے حکم نہ بدلے گا پھر جب پندرہ ہوجائیں تو اس میں تین بکریاں ہیں پھر فریضہ اس پندرھویں اونٹ سے واجب ہو کر اس تک پہنچا جس میں تین بکریاں لازم ہوئیں اور اس میں لازم ہوا جو اس سے پہلے ہے (یعنی گیارہ سے چودہ تک) پس جب یہ اسی طرح ہے اور ادھر اونٹوں کی گنتی جب ایک سو بیس ہوجائے اور اس پر ایک اونٹ کا اضافہ ہوا تو سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس اونٹ پر کوئی چیز لازم نہیں۔ کیونکہ استیناف کو لازم کرنے والوں نے بھی اس اونٹ میں کوئی چیز واجب قرار دی اور نہ اس سے حکم کو بدلا اور فریق ثانی جو استیناف فریضہ کے قائل نہیں ہیں انھوں نے ایک سو بیس میں سے ہر چالیس پر بنت لبون لازم کیا ہے مگر اس زائد اونٹ پر انھوں نے بھی کوئی چیز لازم نہیں کی۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک سو بیس سے پہلے کا فرض اسی صورت میں منتقل ہوتا ہے جبکہ اس کے ساتھ واجب فریضہ کی کوئی جز واجب ہو۔ اور ایک سو بیس پر زائد ہونے والے اونٹ میں فریضہ واجبہ کا کوئی جز واجب نہیں ہوتا تو اس سے خود یہ ثابت ہوا کہ وہ دوسرے کے فریضہ کو بھی بدلنے والا نہ ہوگا جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے لازم ہوچکا تھا۔ اس مذکورہ بیان سے فریق ثالث کی بات ثابت ہوگئی اور ان کی بات ثابت ہوئی جس کی طرف امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ گئے ہیں۔
حضرت ابن مسعود (رض) سے اس کی تائید :

7236

۷۲۳۳ : حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِسْحَاقَ بْنِ سَہْلٍ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ ، وَزِیَادُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ فَرَائِضِ الْاِبِلِ اِذَا زَادَتْ عَلَی تِسْعِیْنَ ، فَفِیْہَا حِقَّتَانِ اِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ. فَاِذَا بَلَغَتِ الْعِشْرِیْنَ وَمِائَۃً ، اُسْتُقْبِلَتِ الْفَرِیْضَۃُ بِالْغَنَمِ ، فِیْ کُلِّ خَمْسٍ شَاۃٌ ، فَاِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ ، فَفَرَائِضُ الْاِبِلِ .فَاِذَا کَثُرَتِ الْاِبِلُ ، فَفِیْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٧٢٣٣: زیاد بن ابی مریم نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ اونٹوں کی زکوۃ کے سلسلہ میں انھوں نے فرمایا جب ان کی تعداد نوے سے بڑھ جائے تو اس میں دو حقے ایک سو بیس تک لازم رہیں گے پھر جب ایک سو بیس تک تعداد پہنچ جائے تو بکریوں سے فریضہ لوٹے گا کہ ہر پانچ میں ایک بکری ہوگی جب ان کی تعداد پچیس تک ہوجائے گی تو پھر اونٹوں سے زکوۃ لازم ہوگی۔
ابراہیم نخعی (رح) کے قول سے تائید :

7237

۷۲۳۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ : قَالَ اِبْرَاھِیْمُ النَّخَعِیُّ : اِذَا زَادَتِ الْاِبِلُ عَلَی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ، رُدَّتْ اِلٰی أَوَّلِ الْفَرْضِ .فَاِنْ احْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ لِمَذْہَبِہِمْ ، فَقَالُوْا : مَعْنَی الْآثَارِ الْمُتَّصِلَۃِ شَاہِدَۃٌ لِقَوْلِنَا ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ مَعَ مُخَالِفِنَا. قِیْلَ لَہُمْ : أَمَّا عَلَی مَذْہَبِکُمْ فَأَکْثَرُہَا لَا یَجِبُ لَکُمْ بِہٖ الْحُجَّۃُ عَلَی مُخَالِفِکُمْ ؛ لِأَنَّہٗ لَوِ احْتَجَّ عَلَیْکُمْ بِمِثْلِ ذٰلِکَ ، لَمْ تُسَوِّغُوْھُ اِیَّاہٗ، وَلَجَعَلْتُمُوْھُ بِاحْتِجَاجِہٖ بِذٰلِکَ عَلَیْکُمْ ، جَاہِلًا بِالْحَدِیْثِ .فَمِنْ ذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، اِنَّمَا وَصَلَہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُثَنَّیْ وَحْدَہٗ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا وَصَلَہٗ غَیْرُہٗ۔ وَأَنْتُمْ لَا تَجْعَلُوْنَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْمُثَنّٰی حُجَّۃً .ثُمَّ قَدْ جَائَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، وَقَدْرُہٗ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِی الْعِلْمِ أَجَلُّ مِنْ قَدْرِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُثَنَّی ، وَہُوَ مِمَّنْ یُحْتَجُّ بِہٖ ، فَرَوٰی ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ ثُمَامَۃَ مُنْقَطِعًا .فَکَانَ یَجِیْئُ عَلٰی أُصُوْلِکُمْ ، أَنْ یَکُوْنَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، یَجِبُ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ مَعْنَی الْمُنْقَطِعِ ، وَیَخْرُجَ مِنْ مَعْنَی الْمُتَّصِلِ ؛ لِأَنَّکُمْ تَذْہَبُوْنَ اِلٰی أَنَّ زِیَادَۃَ غَیْرِ الْحَافِظِ عَلَی الْحَافِظِ ، غَیْرُ مُلْتَفَتٍ اِلَیْہَا .وَأَمَّا حَدِیْثُ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، فَاِنَّمَا رَوَاہٗ عَنِ الزُّہْرِیِّ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ .وَقَدْ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ ، یَقُوْلُ : سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ ، ہٰذَا وَسُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ الْحَرَّانِیُّ عِنْدَہُمْ ، ضَعِیْفَانِ جَمِیْعًا .وَسُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ ، الَّذِیْ یَرْوِیْ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ عِنْدَہُمْ ، ثَبْتٌ .وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا عَلَی وَہَائِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ أَصْحَابَ الزُّہْرِیِّ الْمَأْخُوْذُ عِلْمُہُ عَنْہُمْ ، مِثْلِ یُوْنُسَ بْنِ یَزِیْدَ ، وَمَنْ رَوٰی عَنِ الزُّہْرِیِّ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا ، اِنَّمَا رَوٰی عَنْہُ الصَّحِیْفَۃَ ، الَّتِیْ عِنْدَ آلِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .أَفَتَرَی الزُّہْرِیَّ ، یَکُوْنُ فَرَائِضُ الْاِبِلِ عِنْدَہٗ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ، وَہُمْ جَمِیْعًا أَئِمَّۃٌ وَأَہْلُ عِلْمٍ مَأْخُوْذٌ عَنْہُمْ - فَیَسْکُتُ عَنْ ذٰلِکَ ، وَیَضْطَرُّہُ الْأَمْرُ اِلَی الرُّجُوْعِ اِلٰی صَحِیْفَۃِ عُمَرَ غَیْرِ مَرْوِیَّۃٍ ، فَیُحَدِّثُ النَّاسَ بِہَا ؟ ہٰذَا عِنْدَنَا ، مِمَّا لَا یَجُوْزُ عَلَی مِثْلِہٖ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ حَدِیْثَ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، حَدِیْثٌ مُتَّصِلٌ ، لَا مَطْعَنَ لِأَحَدٍ فِیْہِ .قِیْلَ لَہٗ : مَا ہُوَ بِمُتَّصِلٍ ؛ لِأَنَّ مَعْمَرًا اِنَّمَا رَوَاہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ، وَجَدُّہُ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، وَہُوَ لَمْ یَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَا وُلِدَ اِلَّا بَعْدَ أَنْ کَتَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰذَا الْکِتَابَ ، لِأَبِیْھَا؛ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا وُلِدَ بِنَجْرَانَ ، قَبْلَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَنَۃَ عَشْرٍ مِنَ الْہِجْرَۃِ ، وَلَمْ یَنْقُلْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَیْنَا أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، رَوٰی ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ أَبِیْھَا.فَقَدْ ثَبَتَ انْقِطَاعُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا ، وَالْمُنْقَطِعُ أَنْتُمْ لَا تَحْتَجُّوْنَ بِہٖ .فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ کُلَّ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ مُنْقَطِعٌ .فَاِنْ کُنْتُمْ لَا تُسَوِّغُوْنَ لِمُخَالِفِکُمْ الْاِحْتِجَاجَ بِالْمُنْقَطِعِ ، فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْبَابِ ، فَلِمَ تَحْتَجُّوْنَ عَلَیْہٖ، فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ؟ فَلَئِنْ وَجَبَ أَنْ یَکُوْنَ عَدَمُ الْاِتِّصَالِ فِیْ مَوْضِعٍ مِنَ الْمَوَاضِعِ ، یُزِیلُ قَبُوْلَ الْخَیْرِ ، اِنَّہٗ لَیَجِبُ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ہُوَ ، فِیْ کُلِّ الْمَوَاضِعِ .وَلَئِنْ وَجَبَ أَنْ یُقْبَلَ الْخَبَرُ ، وَاِنْ لَمْ یَتَّصِلْ اِسْنَادُہُ ؛ لِثِقَۃِ مَنْ صَمَدَ بِہٖ اِلَیْہِ فِیْ بَابٍ وَاحِدٍ ، اِنَّہٗ لَیَجِبُ أَنْ یُقْبَلَ فِیْ کُلِّ الْأَبْوَابِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَمَّا حَدِیْثُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، فَقَدْ اضْطَرَبَ وَاخْتُلِفَ فِیْہٖ، فَلَا حُجَّۃَ فِیْہِ لِوَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَاتِ ، وَغَیْرُہُ مِمَّا رُوِیَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَوْلٰی مِنْہُ .قِیْلَ لَہٗ : وَمِنْ أَیْنَ اضْطَرَبَ حَدِیْثُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ؟ أَمَّا قَیْسُ بْنُ سَعْدٍ ، قَدْ رَوَاہٗ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا عَنْہُ، وَقَیْسٌ ، حُجَّۃٌ حَافِظٌ .وَأَمَّا حَدِیْثُ الزُّہْرِیِّ الَّذِی خَالَفَہٗ، فَاِنَّمَا رَوَاہٗ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، مَنْ لَا تَقْبَلُوْنَ أَنْتُمْ رِوَایَتَہُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ لِضَعْفِہٖ، عِنْدَکُمْ .وَأَمَّا حَدِیْثُ مَعْمَرٍ ، فَاِنَّمَا رَوَاہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، فَلَیْسَ فِی الثَّبْتِ وَالْاِتْقَانِ کَقَیْسِ بْنِ سَعْدٍ .
٧٢٣٤: منصور بن معتمر کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی (رح) نے فرمایا جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس ہوجائے تو فریضہ کو ابتداء کی طرف لوٹائیں گے۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ متصل آثار تو ہمارے مؤید ہیں جبکہ ہمارے مخالف کے پاس ایسے آثار موجود نہیں۔ تمہارے منقولہ آثار میں اکثر ایسے آثار ہیں جن سے تمہارے مخالف پر حجت قائم ہی نہیں ہوتی کیونکہ اگر اسی طرح کے آثار تمہارے خلاف پیش کئے جائیں تم کبھی ان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو گے بلکہ ان کو دلیل میں پیش کرنے والے کو حدیث سے جاہل قرار دو گے۔ مثال کے لیے ہم عرض کرتے ہیں۔ ثمامہ بن عبداللہ کی روایت کو صرف عبداللہ بن مثنیٰ نے اتصال سے بیان کیا ہے ہمارے علم میں اور کسی راوی نے اس کا اتصال ذکر نہیں کیا اور تمہارے ہاں عبداللہ بن مثنیٰ حجت کے قابل نہیں۔ پھر حماد بن سلمہ کو اہل علم نے عبداللہ بن مثنیٰ سے بہت بلند قرار دیا ہے اور وہ مسلمہ قابل حجت روات سے ہیں چنانچہ انھوں نے اس روایت کو ثمامہ سے انقطاع کے ساتھ روایت کیا ہے تو اب تمہارے اصول کے مطابق یہ منقطع میں داخل ہو کر متصل سے نکل جانی چاہیے۔ کیونکہ تمہارے ہاں غیر حفاظ کا اضافہ حفاظ کی روایت پر ناقابل التفات ہے۔ فتدبر۔ دوسری روایت زہری کی ہے جس کو انھوں نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے اور زہری سے سلیمان بن داؤد نے روایت لی ہے اور تم نے سنا کہ ابن ابی داؤد کہا کرتے تھے کہ یہ سلیمان بن داؤد اور سلیمان بن داؤد حرانی محدثین کے ہاں دونوں ضعیف ہیں اور وہ سلیمان بن داؤد جو عمر بن عبدالعزیز سے روایت کرتے ہیں وہ محدثین کے ہاں پختہ راوی ہیں۔ اس روایت کے کمزور ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زہری کے وہ شاگرد جن سے ان کا علم منقول ہے مثلاً یونس بن یزید ہے اور جنہوں نے زہری سے اس سلسلہ میں کچھ روایت کیا ہے انھوں نے ان سے وہ صحیفہ روایت کیا جو آل عمر (رض) کے پاس تھا کیا آپ نے غور کیا کہ زہری کے پاس اونٹوں کی زکوۃ کے احکام ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن ابیہ عن جدہ سے ہیں اور وہ تمام ائمہ اور اہل علم ہیں جن سے روایت لی جاتی ہے مگر زہری اس کے متعلق خاموشی اختیار کرتے ہیں اور صحیفہ عمر کی طرف مجبور ہوجاتے ہیں جو کہ مروی ہی نہیں اور اس صحیفے کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک یہ اضافہ اس جیسی روایت پر جائز نہیں۔ حدیث معمر عن عبداللہ بن ابی بکر تو متصل روایت ہے جس میں کسی کو کسی قسم کا طعن نہیں ہے۔ یہ روایت بھی متصل نہیں ہے کیونکہ معمر نے اس کو عبداللہ بن ابی بکر عن ابیہ عن جدہ سے روایت کی ہے اور اس کا دادا محمد بن ابی بکر ہے اور وہ صحابی نہیں اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھا بلکہ اس کی ولادت بھی اس خط کے لکھے جانے کے بعد ہوئی جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے والد کو لکھا تھا اس کی ولادت نجران میں وفات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے دس ہجری میں ہوئی اور اس روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ محمد بن عمرو نے اس روایت کو اپنے والد سے روایت کیا ہو۔ پس اس حدیث کا انقطاع بھی ثابت ہوگیا اور منقطع روایت کو تم قابل حجت نہیں سمجھتے ہو۔ پس ثابت ہوا کہ اس باب میں جو کچھ آپ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا وہ منقطع ہے اگر تم اپنے مخالف کا منقطع سے دلیل لانا قبول نہیں کرتے تو یہاں تم منقطع کو کیوں دلیل بناتے ہو (ماہو جوابکم) اگر کسی ایک جگہ کا عدم اتصال خبر کے مقبول ہونے کو ختم کردیتا ہے تو پھر ضروری ہے کہ ہر جگہ سے منقطع کو غیر مقبول مانا جائے۔ اور اگر غیر متصل خبر کو قبول کرنا واجب ہے کیونکہ اس کا راوی ثقہ ہے تو پھر تمام ابواب میں اس کا اسی طرح قبول کرنا ہوگا (جو کہ آپ نہیں مانتے) روایت عمرو بن حزم مختلف اور مضطرب ہے تو پھر کسی کو اس سے حصبت کا حق نہیں بنتا حق تو اسی طرح ہے۔ (تم کیوں اس سے استدلال کرتے ہو) حضرت عمرو بن حزم کہاں مضطرب ہے ؟ اس کو قیس بن سعد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے اور قیس حافظ حدیث اور حجت بھی ہے۔ اور روایت زہری جو اس کے مخالف ہے وہ اس کو زہری سے نقل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو تمہارے ہاں بھی ضعیف ہیں۔ روایت روایت معتمر تو اس کو عبداللہ بن ابی بکر عن ابن عن جدہ سے روایت کیا ہے یہ اتقان و پختگی میں قیس بن سعد جیسا نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو۔

7238

۷۲۳۵ : وَلَقَدْ حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ الْوَزِیرِ یَقُوْلُ : سَمِعْت الشَّافِعِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ بْنَ عُیَیْنَۃَ یَقُوْلُ : کُنَّا اِذَا رَأَیْنَا الرَّجُلَ یَکْتُبُ الْحَدِیْثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنْ أَرْبَعَۃٍ ، ذَکَرَ فِیْہِمْ ، عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِیْ بَکْرٍ ، سَخِرْنَا مِنْہُ ؛ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا ، لَا یَعْرِفُوْنَ الْحَدِیْثَ .فَلَمَّا لَمْ یُکَافِئْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، قَیْسًا ، فِی الضَّبْطِ ، وَالْحِفْظِ ، صَارَ الْحَدِیْثُ عِنْدَنَا ، عَلٰی مَا رَوَاہُ قَیْسٌ ، لَا سِیَّمَا ، وَقَدْ ذَکَرَ قَیْسٌ أَنَّ أَبَا بَکْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ ، کَتَبَہُ لَہٗ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٧٢٣٥: ابن الوزیر کہتے ہیں کہ میں نے شافعی کو کہتے سنا کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے سنا کہ جب ہم کسی آدمی کو چار آدمیوں سے لکھتا دیکھتے ہیں جن میں سے ایک عبداللہ بن ابی بکر بھی ہے تو ہم اس سے مذاق کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ حدیث کی معرفت نہیں رکھتے۔ پس جب عبداللہ بن ابی بکر ضبط و حفظ میں قیس بن سعد کے برابر نہیں تو ہمارے ہاں یہ روایت قیس ہی ہے جس کو حضرت قیس نے روایت کیا اور یہ خاص طور پر ذکر کیا کہ ابوبکر بن محمد نے اس کو لکھا ہے۔ واللہ اعلم۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔