HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

6. حج کا بیان۔

الطحاوي

3439

۳۴۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ نَجْدٍ قَرْنَ وَلِأَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ) وَلَمْ أَسْمَعْہُ مِنْہُ قِیْلَ لَہٗ : فَالْعِرَاقُ؟ قَالَ : لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ عِرَاقٌ۔
٣٤٣٩: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل نجد کے لیے قرن ‘ اور اہل یمن کے لیے یلملم اور یہ میں نے ان سے نہیں سنا۔ ان سے پوچھا گیا کہ اہل عراق کے لیے تو انھوں نے فرمایا ان دنوں عراق (کا علاقہ اسلام میں) نہ تھا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٧‘ ٩‘ والصید باب ١٨‘ مسلم فی الحج ١١؍١٢‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨‘ نسائی فی المناسک باب ١٩؍٢٠‘ ٢١؍٢٢‘ دارمی فی المناسک باب ٥‘ مسند احمد باب ١؍٢٣٨‘ ٢؍٤٦‘ ٥٨‘ ١٨١‘ ٨١‘ ١٠٧۔
حاصل روایات : مواقیت یہ میقات کی جمع ہے۔ احرام باندھنے کا وقت یا جگہ کو کہا جاتا ہے حج میں ارکان امام شافعی (رح) کے ہاں احرام وقوف عرفات سعی صفا مروہ طواف و حلق۔ مگر امام مالک (رح) نے حلق کے بغیر چار ارکان بتلائے امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں احرام شرط اور سعی واجب ہے اور ارکان حج وقوف عرفات اور طواف زیارت ہیں۔ میقات احادیث کی رو سے چھ ہیں۔
نمبر 1: اہل مدینہ اور اس طرف سے آنے والے تبوک اردن ینبوع وغیرہ کے لوگوں کا میقات ذوالحلیفہ ہے۔
نمبر 2: جبل قرن یہ عرفات سے طائف کی طرف پڑتا ہے ریاض اور خلیجی ممالک سے آنے والوں کا میقات ہے۔
نمبر 3: جحفہ اس کو رابع بھی کہا جاتا ہے یہ شام ‘ مصر ‘ الجزائر ‘ سوڈان ‘ افریقی ممالک کا میقات ہے۔ براعظم یورپ کا میقات بھی یہی ہے۔
نمبر$: یلملم بحری راستہ سے جدہ جہاز جو پاکستان ‘ ہند ‘ برما ‘ بنگلہ دیش ‘ ملائشیا ‘ انڈونیشیاء ‘ آسٹریلیائی علاقوں اور اہل یمن کا میقات ہے۔
نمبر%: اہل مدین کا میقات وادی عقیق ہے۔
نمبر &: ذات عرق اس کے متعلق اختلاف ہے۔ ! امام شافعی ‘ سفیان ‘ ابن سیرین کے ہاں اہل عراق وادی عقیق سے احرام باندھیں افضل یہی ہے ان کا میقات مقرر نہیں ہے مگر " امام ابوحنیفہ ‘ مالک ‘ احمد اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ ذات عرق کو متعین میقات مانتے ہیں۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اس باب میں اسی سے متعلق بحث کی گئی ہے یہی چائنا ‘ خراسان ‘ ازبکستان ‘ روس وغیرہ ممالک کا میقات ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : اہل عراق وغیرہ کا میقات مقرر نہیں ان کو وادی عقیق سے احرام باندھنا افضل ہے البتہ وہ جس میقات سے گزریں ان کے لیے وہی میقات ہے دلیل یہ روایات ہیں۔

3440

۳۴۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ عَلٰی أَنَّ أَہْلَ الْعِرَاقِ لَا وَقْتَ لَہُمْ فِی الْاِحْرَامِ کَوَقْتِ سَائِرِ الْبُلْدَانِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَقَالُوْا : کَذٰلِکَ سَائِرُ الْأَحَادِیْثِ الْأُخَرُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذِکْرِ مَوَاقِیْتِ الْاِحْرَامِ لَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْہَا لِلْعِرَاقِ ذِکْرٌ ثُمَّ ذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٤٤٠: جریر بن عبدالحمید نے صدقہ بن یسار سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا وہ اسی طرح بیان کرتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا کہنا ہے کہ اہل عراق کا کوئی میقات نہیں جیسا دیگر شہروں کے میقات مقرر ہیں اور انھوں نے دلیل میں اس روایت کو پیش کیا ۔ اسی طرح دیگر احادیث جن میں مواقیت کا تذکرہ ان میں عراق کا کہیں تذکرہ نہیں پایا جاتا ۔ پھر ذیل کی روایات ذکر کیں۔

3441

۳۴۴۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَرَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَا : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوٗسٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ نَجْدٍ قَرْنَ وَلِأَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ ثُمَّ قَالَ : فَہِیَ لَہُنَّ وَلِکُلِّ مَنْ أَتَیْ عَلَیْہِنَّ مِنْ غَیْرِہِنَّ فَمَنْ کَانَ أَہْلُہٗ دُوْنَ الْمِیْقَاتِ فَمِنْ حَیْثُ یَشَائُ حَتّٰی یَأْتِیَ ذٰلِکَ عَلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ) .
٣٤٤١: عبداللہ بن طاؤس نے اپنے والد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل نجد کے لیے قرن اور اہل یمن کے لیے یلملم مقرر فرمایا پھر فرمایا کہ یہ ہر اس شخص کے لیے میقات ہیں جس کا ان پر گزر ہو جو آدمی میقات کے اندر کا رہنے والا ہو وہ جہاں سے چاہے احرام باندھے یہاں تک کہ اہل مکہ پر آئے یعنی حرم سے باہر تک۔

3442

۳۴۴۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا کَثِیْرُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ قَالَ : سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ دِیْنَارٍ عَنْ امْرَأَۃٍ حَاجَّۃٍ مَرَّتْ بِالْمَدِیْنَۃِ فَأَتَتْ (ذَا الْحُلَیْفَۃِ) وَہِیَ حَائِضٌ فَقَالَ لَہَا یُجْزِئُہَا لَوْ تَقَدَّمَتْ إِلَی الْجُحْفَۃِ فَأَحْرَمَتْ مِنْہَا فَقَالَ عَمْرٌو : نَعَمْ حَدَّثَنَا طَاوُسٌ وَلَا تَحْسَبَنَّ فِیْنَا أَحَدًا أَصْدَقَ لَہْجَۃً مِنْ طَاوٗسٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ مِنْ قَوْلِہٖ (فَمَنْ کَانَ أَہْلُہٗ) إِلَی آخِرِ الْحَدِیْثِ قَالُوْا فَکَذٰلِکَ أَہْلُ الْعِرَاقِ مَا أَتَوْا عَلَیْہِ مِنْ ھٰذِہِ الْمَوَاقِیْتِ فَہُوَ وَقْتٌ لَہُمْ وَمَا سِوَاہَا فَلَیْسَ بِوَقْتٍ لَہُمْ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا
٣٤٤٢: جعفر بن برقان کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ اس عورت کا کیا حکم ہے جو ذوالحلیفہ سے گزرے تو وہ حج کا احرام باندھے یا نہیں تو انھوں نے کہا اس کو گزر جانا چاہیے اگر وہ جحفہ سے گزرے تو وہاں سے احرام باندھ لے عمرو کہنے لگے ہمیں طاؤس نے بیان کیا اور طاؤس سے زیادہ سچی بات والا کوئی نہیں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میقات مقرر فرمائے پھر اسی طرح روایت نقل کی البتہ انھوں نے فمن کان اھلہ سے لیکر آخر تک جملہ نقل نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ اہل عراق کا گزر ان مذکورہ مواقیت میں سے جس سے ہو تو وہی ان کی میقات ہوگی دوسری نہ ہوگی۔ اس سلسلہ میں یہ روایت بھی ذکر کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩۔

3443

۳۴۴۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (یُہِلُّ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ وَأَہْلُ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَۃِ وَأَہْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : وَبَلَغَنِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : " (یُہِلُّ أَہْلُ الْیَمَنِ مِنْ یَلَمْلَمَ)
٣٤٤٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے اہل شام جحفہ سے اور اہل نجد قرن سے احرام باندھیں عبداللہ کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٨‘ مسلم فی الحج ١٣‘ ترمذی فی الحج باب ١٧‘ نسائی فی المناسک باب ١٧‘ ١٨؍٢١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٣‘ مالک فی الموطا الحج باب ٢٢‘ مسند احمد ١؍٣٣٢‘ ٢؍٤٨‘ ٥٥‘ ٦٥۔

3444

۳۴۴۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح .
٣٤٤٤: ابن مرزوق نے وہب سے انھوں نے شعبہ سے روایت نقل کی ہے۔

3445

۳۴۴۵ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ .ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : (وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ نَجْدٍ قَرْنَ وَلِأَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ) .
٣٤٤٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفیان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن دینار سے سنا انھوں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل نجد کے لیے قرن اور اہل یمن کے لیے یلملم میقات مقرر فرمایا۔
تخریج : روایت نمبر ٣٤٤٠ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

3446

۳۴۴۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ مِیْقَاتُ أَہْلِ الْعِرَاقِ ذَاتُ عِرْقٍ وَقَّتَ ذٰلِکَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا وَقَّتَ سَائِرَ الْمَوَاقِیْتِ لِأَہْلِہَا وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٤٤٦: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا اہل عراق کا میقات نے ذات عرق ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس کے لیے دیگر مواقیت کی طرح مقرر فرمایا ‘ روایات ذیل ملاحظہ ہوں۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے کوئی میقات مقرر نہیں جس میقا ت پر ان کا گزر ہوگا وہی ان کا میقات ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
اہل عراق کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میقات مقرر فرمایا ہے جس طرح دیگر میقات مقرر فرمائے ہیں اور وہ ذات عرق ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔

3447

۳۴۴۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ یَزِیْدَ الْقُطْرُبُلِّیُّ وَہِشَامُ بْنُ بَہْرَامَ الْمَدَائِنِیُّ قَالَا : ثَنَا الْمُعَافَی بْنُ عِمْرَانَ عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَیْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (وَقَّتَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ وَمِصْرَ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ الْعِرَاقِ ذَاتِ عِرْقٍ وَلِأَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ)
٣٤٤٧: قاسم نے عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ ‘ اہل شام و مصر کے لیے جحفہ اور اہل عراق کے لیے ذات عرق اور اہل یمن کے لیے یلملم میقات مقرر فرمائے۔
تخریج : مسلم فی الحج باب ١٦‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨۔

3448

۳۴۴۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْہَیْثَمِ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : وَأَخْبَرَنِیْ أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یَسْأَلُ عَنِ الْمُہَلِّ فَقَالَ : سَمِعْتُ ثُمَّ انْتَہٰی أَرَاہُ یُرِیْدُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (یُہِلُّ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ وَالطَّرِیْقُ الْآخَرُ مِنَ الْجُحْفَۃِ وَیُہِلُّ أَہْلُ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ وَیُہِلُّ أَہْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَیُہِلُّ أَہْلُ الْیَمَنِ مِنْ یَلَمْلَمَ)
٣٤٤٨: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی کہ انھوں نے سنا کہ احرام باندھنے والے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میں نے سنا پھر آخر تک روایت بیان کی میرا خیال ہے کہ اس سے مراد جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے کہ اہل مدینہ ذوالحلیفہ اور دوسرے راستے سے جائیں تو جحفہ اور اہل عراق ذات طرق سے احرام باندھیں اور اہل نجد قرن سے اور اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں۔

3449

۳۴۴۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ ہُوَ ابْنُ غِیَاثٍ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ وَلِأَہْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ) .
٣٤٤٩: عطاء نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل یمن کے لیے یلملم اور اہل عراق کے لیے ذات عرق میقات مقرر کیا۔

3450

۳۴۵۰ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنِی اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سُوَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہِلَالُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّہٗ سَمِعَ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ الْبَصْرَۃِ ذَاتَ عِرْقٍ وَلِأَہْلِ الْمَدَائِنِ الْعَقِیْقَ مَوْضِعٌ قُرْبَ ذَاتِ عِرْقٍ) فَقَدْ ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ وَقْتِ أَہْلِ الْعِرَاقِ کَمَا ثَبَتَ مِنْ وَقْتِ مَنْ سِوَاہُمْ بِالْآثَارِ الَّتِیْ قَبْلَہَا .وَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَوْقِیْتِہِ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا ثُمَّ قَدْ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ بَعْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٤٥٠: ہلال بن زید کہتے ہیں کہ مجھے انس بن مالک نے بتلایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل بصرہ کے لیے ذات عرق اور اہل مدائن کے لیے عقیق (یہ ذات عرق کے قریب جگہ ہے) کو میقات مقرر فرمایا۔ ان روایات سے اہل عراق کے لیے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے میقات کا مقرر ہونا دیگر مواقیت کی طرح ثابت ہوگیا ۔ یہ ابن عمر (رض) ہیں۔ جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل عراق کیلئے مقررہ میقات کا ذکر فرما رہے ہیں اور آپ کے بعد وہ نقل کر رہے ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات سے اہل عراق کے لیے ذات عرق کا میقات ثابت ہوگیا جیسا کہ دیگر مواقیت ثابت ہیں۔
ابن عمر (رض) والی روایت : اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ ابن عمر (رض) خود ذات عرق کو اہل عراق کا میقات تسلیم کر رہے ہیں جیسا کہ اس روایت میں موجود ہے۔

3451

۳۴۵۱ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ ثَنَا وَکِیْعٌ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (وَقَّتَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ وَلِأَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃَ وَلِأَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ وَلِأَہْلِ الطَّائِفِ قَرْنَ) قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : وَقَالَ النَّاسُ لِأَہْلِ الْمَشْرِقِ ذَاتِ عِرْقٍ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ یُخْبِرُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ قَالُوْا ذٰلِکَ وَلَا یُرِیْدُ ابْنُ عُمَرَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا أَہْلَ الْحُجَّۃِ وَالْعِلْمِ بِالسُّنَّۃِ وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنُوْا قَالُوْا ذٰلِکَ بِآرَائِہِمْ لِأَنَّ ھٰذَا لَیْسَ مِمَّا یُقَالُ مِنْ جِہَۃِ الرَّأْیِ وَلٰـکِنَّہُمْ قَالُوْا بِمَا أَوْقَفَہُمْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَہْلِ الْعِرَاقِ یَوْمَئِذٍ مَا وَقَّتَ وَالْعِرَاقُ إِنَّمَا کَانَتْ بَعْدَہٗ؟ قِیْلَ لَہٗ : کَمَا وَقَّتَ لِأَہْلِ الشَّامِ مَا وَقَّتَ وَالشَّامُ إِنَّمَا فُتِحَتْ بَعْدَہٗ‘ فَإِنْ کَانَ یُرِیْدُ بِمَا وَقَّتَ لِأَہْلِ الشَّامِ مَنْ کَانَ فِی النَّاحِیَۃِ الَّتِی اُفْتُتِحَتْ حِیْنَئِذٍ مِنْ قِبَلِ الشَّامِ فَکَذٰلِکَ یُرِیْدُ بِمَا وَقَّتَ لِأَہْلِ الْعِرَاقِ مَنْ کَانَ فِی النَّاحِیَۃِ الَّتِی اُفْتُتِحَتْ حِیْنَئِذٍ مِنْ قِبَلِ الْعِرَاقِ مِثْلَ جَبَلِ طَیِّئٍ وَنَوَاحِیْہَا .وَإِنْ کَانَ مَا وَقَّتَ لِأَہْلِ الشَّامِ إِنَّمَا ہُوَ لَمَا عَلِمَ بِالْوَحْیِ أَنَّ الشَّامَ سَتَکُوْنُ دَارَ إِسْلَامٍ فَکَذٰلِکَ مَا وَقَّتَ لِأَہْلِ الْعِرَاقِ إِنَّمَا ہُوَ لَمَا عَلِمَ بِالْوَحْیِ أَنَّ الْعِرَاقَ سَتَکُوْنُ دَارَ إِسْلَامٍ فَإِنَّہٗ قَدْ کَانَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ مَا سَیَفْعَلُہٗ أَہْلُ الْعِرَاقِ فِیْ ذَکَوَاتِہِمْ مَعَ ذِکْرِہٖ مَا سَیَفْعَلُہٗ أَہْلُ الشَّامِ فِیْ زَکَوَاتِہِمْ
٣٤٥١: میمون بن مہران نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ ‘ اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل یمن کے لیے یلملم اور اہل طائف کے لیے قرن کو میقات مقرر فرمایا۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل مشرق کے لیے ذات عرق ہے۔ یہ ابن عمر (رض) کہہ رہے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اور ابن عمر (رض) کی مراد لوگوں سے یہاں اہل علم وتقویٰ ہیں اور یہ بات ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ اپنی رائے سے کہی ہے۔ کیونکہ یہ اجتہادی چیزوں سے نہیں ‘ بلکہ انھوں نے وہی بات کہی جس کی اطلاع جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دی۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے اہل عراق کے لیے میقات مقرر کیا جب کہ عراق اس وقت تک اہل اسلام کے پاس نہ تھا۔ اس جواب یہ ہے کہ اہل شام کے لیے میقات مقرر فرمایا حالانکہ شام دور صدیقی میں فتح ہوا ۔ اصل مقصد اہل شام کے میقات کا یہ تھا کہ جو اس جانب بسنے والے لوگ ہیں۔ اسی طرح عراق کے میقات سے جانب عراق مراد ہے۔ مثلاً طی کے پہاڑ اور ان کے اطراف اور اگر اہل شام کے لیے میقات کی تقریری وحی الٰہی سے ہوئی تو وحی سے یہ علم ہوا کہ عنقریب شام دارالاسلام ہوگا ۔ پس اہل عراق کے میقات کا بھی یہی حال ہے کہ آپ کو وحی سے معلوم ہوا کہ عراق عنقریب اہل عراق اپنی زکوۃ میں وہ کچھ کریں گے جو اہل شام اپنی زکوۃ کے سلسلہ میں کریں گے ۔ ذیل کی روایت ملاحظہ ہو۔
حاصل روایت : یہ ابن عمر (رض) خود بتلا رہے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل مشرق کے لیے ذات عرق ہے۔ الناس سے یہاں عام لوگ ہرگز مراد نہیں یہ توقیفی چیز ہے اور اہل علم ہی اس سے مراد ہیں تو وہ اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتلانے پر موقوف ہے۔
ایک اعتراض :
یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عراق کے لیے میقات مقرر کردیا حالانکہ اس وقت اہل عراق مسلمان ہی نہ تھے۔
جواب : اس وقت اہل شام بھی مسلمان نہ تھے جیسا ان کے لیے میقات مقرر کیا اسی طرح اہل عراق کے لیے میقات مقرر فرمایا ممالک کی وہ اطراف اہل جزیرۃ العرب کے لیے تو موجود تھیں تمام لوگ جزیرہ عرب کے میقات کے اندر تو نہیں رہتے تھے۔ اہل شام سے مراد شام والی جانب مراد ہے اور اہل عراق والی جانب کا کچھ علاقہ آپ کے زمانے میں فتح ہوا تھا مثلاً جبل طیی اور ان کے اطراف ‘ اہل شام کے لیے میقات اس لیے اگر مقرر فرمایا کہ وہ عنقریب مسلمان ہوں گے تو اہل عراق کے لیے بھی ان کے مسلمان ہونے کی خوشخبری وحی سے مل چکی تھی اسی طرح زکوۃ کے سلسلہ میں بھی انھوں نے اسی طرح کرنا تھا جس طرح کہ اہل شام نے کرنا تھا۔ ان روایات کو ملاحظہ کریں۔

3452

۳۴۵۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ .ح
٣٤٥٢: عبدالعزیز بغدادی نے احمد بن یونس سے روایت نقل کی ہے۔

3453

۳۴۵۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ .ح
٣٤٥٣: ابن ابی داؤد نے وحاظی سے روایت کی ۔

3454

۳۴۵۴ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالُوْا : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنَعَتِ الْعِرَاقُ قَفِیْزَہَا وَدِرْہَمَہَا وَمَنَعَتِ الشَّامُ مُدَّہَا وَدِیْنَارَہَا وَمَنَعَتْ مِصْرُ إرْدَبَّہَا وَدِیْنَارَہَا وَعُدْتُمْ کَمَا بَدَأْتُمْ وَعُدْتُمْ کَمَا بَدَأْتُمْ وَعُدْتُمْ کَمَا بَدَأْتُمْ) " ثُمَّ یَشْہَدُ عَلٰی ذٰلِکَ لَحْمُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَدَمُہُ یَزِیْدُ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِیْ قِصَّۃِ الْحَدِیْثِ فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَکَرَ مَا سَیَفْعَلُہٗ أَہْلُ الْعِرَاقِ مِنْ مَنْعِ الزَّکٰوۃِ قَبْلَ أَنْ یَّکُوْنَ عِرَاقٌ وَذَکَرَ مِثْلَ ذٰلِکَ فِیْ أَہْلِ الشَّامِ وَأَہْلِ مِصْرَ قَبْلَ أَنْ یَّکُوْنَ الشَّامُ وَمِصْرُ لِمَا أَعْلَمُہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ کَوْنِہِمَا مِنْ بَعْدِہٖ فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرَہٗ مِنَ التَّوْقِیْتِ لِأَہْلِ الْعِرَاقِ مَعَ ذِکْرِہِ التَّوْقِیْتَ لِغَیْرِہِمَ الْمَذْکُوْرِیْنَ ہُوَ لِمَا أَخْبَرَہٗ اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَّہٗ سَیَکُوْنُ مِنْ بَعْدِہِ وَھٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ مِنْ تَثْبِیْتِ ھٰذِہِ الْمَوَاقِیْتِ الَّتِی وَصَفْنَاہَا لِأَہْلِ الْعِرَاقِ وَلِمَا ذَکَرْنَا مَعَہُمْ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٤٥٤: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل عراق اپنے قفیز اور درہم کو روک لیں گے اہل شام اپنے مد اور دینار کو روک لیں گے اور اہل مصر اپنے اردب اور دینار کو روک لیں گے اور تم لوگ لوٹ جاؤ گے جیسا تمہاری ابتداء ہوئی اور تم لوٹ جاؤ گے جیسا تمہاری ابتداء ہوئی اور تم لوٹ جاؤ گے جیسے تمہاری ابتداء ہوئی پھر اس پر ابوہریرہ (رض) کا گوشت و خون گواہ ہے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں گے۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تذکرہ فرمایا کہ عنقریب اہل عراق زکوۃ کا انکار کریں گے ۔ حالانکہ اس وقت عراق مسلمانوں کے پاس نہ تھا اور اسی طرح اہل شام کے اور اہل مصر کے متعلق آپ نے ان کے مسلمانوں کے پاس ہونے سے پہلے خبردی اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلایا کہ یہ آپ کے بعد (آپ کی امت کے پاس) ہوں گے اور اہل عراق کے لیے آپ نے میقات کا دیگر مواقیت کے ساتھ ذکر فرمایا اور وہ اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے تھا کہ وہ عنقریب ہوگا ۔ یہ اہل عراق کے لیے میقات کا ثبوت دیگر مواقیت سمیت یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم للہ کا قول ہے۔
حاصل روایت : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عراق کے طرز عمل کے بارے میں وحی سے بتلایا کہ وہ زکوۃ کو روک لیں گے۔ حالانکہ اس وقت تک اہل عراق نہ تھے اسی طرح اہل شام ‘ مصر کا تذکرہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے فرمایا کیونکہ ان کا حلقہ اسلام میں آنا آپ کو وحی سے بتلا دیا گیا تھا۔ بالکل میقات کا معاملہ اسی طرح ہے کہ وہ وحی الٰہی سے ان کے مسلمان ہونے سے پہلے بتلا دیا۔ ان مواقیت کا ثبوت اہل عراق سمیت جس کا ہم نے تذکرہ کیا یہ ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔
حاصل کلام : اس باب میں بھی نظر کا دخل نہیں کیونکہ میقات کی تقرری وحی الٰہی سے ہوئی ہے ایک بھی روایت ثبوت مدعا کے لیے کافی جبکہ دوسری طرف انکار ہے روایت نہیں۔ اس زمانہ میں اہل عراق کا پیمانہ جو قفیز تھا جس کی مقدار آٹھ مُد کے برابر تھی اور سکے کے طور پر درہم استعمال ہوتا تھا اہل شام کا پیمانہ مُدیٰ کہلاتا تھا جو پندرہ مُد کے برابر تھا اور رائج الوقت سکہ دینار کہلاتا تھا اور اہل مصر کے پیمانے کا نام اردب تھا جو چوبیس صاع کے برابر تھا اور سکے کو وہ بھی دینار کہتے تھے۔
میقات : احرام باندھنے کے مقامات۔ ان مقامات سے بلا احرام تجاوز کرنے والے پر دم لازم ہے اگر آگے دوسرا میقات ہے تب تو مکروہ تحریمی ہے احرام عظمت حرم کے لیے باندھا جاتا ہے۔

3455

۳۴۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ حَسَّانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِذِی الْحُلَیْفَۃِ ثُمَّ أُتِیَ بِرَاحِلَتِہٖ فَرَکِبَہَا فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِہٖ عَلَی الْبَیْدَائِ أَہَلَّ) .
٣٤٥٥: ابو حسان نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالحلیفہ میں نماز ادا فرمائی پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے جب وہ بیداء مقام پر چڑھ گئی تو آپ نے تلبیہ کہا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٢٣‘ ٢٤‘ والجہاد باب ٥٣‘ مسلم فی الحج ٢٠؍٢١‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٤؍٢١‘ نسائی فی المناسک باب ٥٤؍٥٦‘ دارمی فی المناسک باب ٨٢‘ مالک فی الحج ٢٩؍٣٣‘ مسند احمد ١؍٢٦٠‘ ٢؍١٨‘ ٣؍٣٢٠۔

احرام میقات یا اس سے پہلے گھر سے باندھ لیا جائے بلا کراہت درست ہے اس کو امام ابوحنیفہ (رح) و شافعی (رح) نے اختیار کیا مگر امام مالک کے ہاں میقات پر احرام افضل ہے اہل مدینہ کا میقات بالاتفاق ذوالحلیفہ ہے مگر اس میں کون سی جگہ افضل ہے امام عطاء و اوزاعی رحمہم اللہ جبل بیداء پر احرام باندھنے کو افضل گنتے ہیں۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ (رح) و احمد (رح) اور مالک (رح) و شافعی (رح) کے ہاں مسجد ذوالحلیفہ سے احرام افضل ہے۔
نمبر 3: امام مالک (رح) و شافعی (رح) کا قول ثانی یہ ہے کہ اونٹنی پر سوار ہو کر احرام افضل ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
جبل بیداء سے احرام باندھنا افضل ہے جیسا کہ آپ نے سواری پر سوار ہو کر جبل بیداء پر چڑھ کر احرام باندھا۔ ذہب قوم الی ہذا سے اس قول کی طرف اشارہ ہے۔

3456

۳۴۵۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ رَکِبَ نَاقَتَہُ الْقَصْوَائَ فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِہٖ عَلَی الْبَیْدَائِ أَہَلَّ) .
٣٤٥٦: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر (رض) کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے جب وہ بیداء پر چڑھ گئی تو آپ نے تلبیہ کہا۔

3457

۳۴۵۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَمْرٍو وَہُوَ الْأَوْزَاعِیُّ عَنْ عَطَائٍ ہُوَ ابْنُ أَبِیْ رَبَاحٍ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یُحَدِّثُ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَعْنِیْ سَمِعَہٗ یُخْبِرُ عَنْ (إہْلَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ حِیْنَ اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَاسْتَحَبُّوا الْاِحْرَامَ مِنَ الْبَیْدَائِ لِاِحْرَامِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہَا وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ مِنْہَا لَا لِأَنَّہٗ قَصَدَ أَنْ یَّکُوْنَ إِحْرَامُہٗ مِنْہَا خَاصَّۃً لِفَضْلٍ فِی الْاِحْرَامِ مِنْہَا عَلَی الْاِحْرَامِ مِمَّا سِوَاہَا وَقَدْ رَأَیْنَاہُ فَعَلَ أَشْیَائَ فِیْ حَجَّتِہٖ فِیْ مَوَاضِعَ لَا لِفَضْلٍ قَصَدَہٗ فِیْ تِلْکَ الْمَوَاضِعِ مِمَّا یَفْضُلُ بِہٖ غَیْرُہَا مِنْ سَائِرِ الْمَوَاضِعِ مِنْ ذٰلِکَ نُزُوْلُہٗ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنًی فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ سُنَّۃٌ وَلٰکِنَّہٗ لِمَعْنًی آخَرَ قَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْہِ مَا ہُوَ ؟ فَرُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٤٥٧: عطاء بن ابی رباح نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ وہ ذوالحلیفہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تلبیہ کو بیان کر رہے تھے کہ جب آپ اونٹنی پر درست ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مقام بیداء میں احرام باندھنے کو پسند کرتے ہیں کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہیں سے احرام باندھا۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ۔ کہ یہ عین ممکن ہے۔ کہ آپ نے احرام اس نیت سے نہ باندھا ہوا کہ وہاں سے احرام باندھنا دوسرے مقامات سے زیادہ افضل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں بعض مقامات پر بعض امور انجام دیے مگر ان کا مقصد یہ نہ تھا کہ وہ مقامات دوسرے مقامات سے افضل ہیں ان میں ایک منی کی وادی محصب میں اترنا بھی ہے۔ لوگوں نے اس کی حقیقت کے متعلق مختلف کلام کیا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام بیداء پر تلبیہ کہا ہے اس لیے وہاں سے احرام کے لیے تلبیہ کہنا افضل ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
مسجد ذوالحلیفہ سے احرام افضل ہے نوافل پڑھنے کے فوراً بعد تلبیہ کہے۔ خالفہم فی ذلک سے اسی طرف اشارہ ہے۔
فریق اوّل کی دلیل کا جواب :
مقام بیداء پر تشریف لے جا کر آپ نے اگر احرام باندھا بھی ہے تو اس بنا پر نہیں کہ وہ احرام کی افضل جگہ ہے بلکہ اس کی مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بلند مقام سے زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے احرام اور تلبیہ کو دیکھ سکیں اس کی بہت سی نظیریں افعال حج میں ملتی ہیں مثلاً طواف زیارت کے لیے جب آپ منیٰ سے مکہ تشریف لائے تو آپ نے بطن محصب میں نزول اجلال فرمایا تاکہ طواف زیارت کے لیے سامان کو ہلکا کرلیا جائے۔ چنانچہ ابو رافع کو آپ نے خیمہ لگانے کا حکم دیا تو انھوں نے بطن محصب میں خیمہ لگا دیا چنانچہ آپ وہیں اتر پڑے تو جس طرح وادی محصب میں اترنا اس بناء پر نہیں تھا کہ یہاں اترنا مسنون ہے بلکہ دوسری مصلحت کی خاطر تھا بالکل اسی طرح مقام بیداء پر تلبیہ کی بھی اور مصلحت تھی نہ کہ افضلیت۔ جیسا کہ یہ روایات اس کو ثابت کرتی ہیں۔

3458

۳۴۵۸ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ لَہٗ إِنَّمَا کَانَ مَنْزِلًا نَزَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّہٗ کَانَ أَسْمَحَ لِلْخُرُوْجِ وَلَمْ یَکُنْ عُرْوَۃُ یَحْسَبُ وَلَا أَسْمَائُ بِنْتُ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) وَرُوِیَ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ أَنَّہٗ قَالَ : إِنَّمَا أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أَضْرِبَ لَہُ الْخَیْمَۃَ وَلَمْ یَأْمُرْنِیْ بِمَکَانٍ بِعَیْنِہٖ فَضَرَبْتُہَا بِالْمُحَصَّبِ۔
٣٤٥٨: ہشام بن عروہ نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتی تھیں کہ یہ ایک اترنے کا ٹھکانا تھا جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لیے اترے کیونکہ (طواف زیارت سے فراغت کے بعد منیٰ کی طرف) نکلنے کے لیے یہ آسان ترین راستہ ہے عروہ اور اسماء بنت ابی بکر (رض) بطن محصب میں نہ ٹھہرتے تھے۔ اور ابو رافع سے روایت ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیمہ لگانے کا حکم دیا اور کسی مقام کو معین نہیں فرمایا۔ میں نے محصب میں خیمہ لگا دیا تو آپ وہیں فروکش ہوگئے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٤٨‘ مسلم فی الحج نمبر ٣٣٩۔

3459

۳۴۵۹ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ صَالِحِ ابْنِ کَیْسَانَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ وَرُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔
٣٤٥٩: صالح بن کیسان نے سلیمان بن یسار سے انھوں نے ابو رافع (رض) سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٤٢۔

3460

۳۴۶۰ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ شُعْبَۃَ یَعْنِیْ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ (إِنَّمَا کَانَتِ الْمُحَصَّبُ لِأَنَّ الْعَرَبَ کَانَتْ تَخَافُ بَعْضُہَا بَعْضًا فَیَرْتَادُوْنَ فَیَخْرُجُوْنَ جَمِیْعًا فَجَرَی النَّاسُ عَلَیْہَا) .
٣٤٦٠: شعبہ مولیٰ ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ کہ مقام محصب کو اس لیے منتخب فرمایا گیا کیونکہ عرب کے بعض قبائل کو ایک دوسرے سے خطرہ تھا وہ رائدروانہ کرتے پھر اکٹھے ہو کر نکلتے۔ لوگوں کی یہ عادت تھی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٤١۔

3461

۳۴۶۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : " قَدْ کَانَتْ تَمِیمٌ وَرَبِیْعَۃُ یَخَافُ بَعْضُہَا بَعْضًا " .
٣٤٦١: صالح مولی التؤمہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی اور اس میں بھی ذکر کیا کہ بنو تمیم اور ربیعہ ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کرتے تھے۔

3462

۳۴۶۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (لَیْسَ الْمُحَصَّبُ بِشَیْئٍ إِنَّمَا ہُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ حَصَّبَ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ التَّحْصِیْبُ لِأَنَّہٗ سُنَّۃٌ فَکَذٰلِکَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَحْرَمَ حِیْنَ صَارَ عَلَی الْبَیْدَائِ لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ سُنَّۃٌ وَقَدْ أَنْکَرَ قَوْمٌ أَنْ یَّکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ مِنَ الْبَیْدَائِ وَقَالُوْا : مَا أَحْرَمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ وَرَوَوْا ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٤٦٢: عطاء نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ محصب میں اترنا کوئی ثواب کی چیز نہیں یہ اترنے کی جگہ ہے جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول اجلال فرمایا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وادی محصب میں قیام فرمایا اور یہ قیام محصب اس کے سنت ہونے کی بناء پر نہ تھا۔ پس اسی طرح جائز ہے کہ آپ نے بیداء میں پہنچ کر احرام باندھا ہو۔ دیگر جماعت علماء نے مقام بیداء کے احرام کا انکار کیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے مسجد کے پاس سے احرام باندھا اور حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے اسے روایت کیا ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایت : جب آپ کا محصب میں اترنا خود محصب کے اترنے کی سنیت کے لیے نہ تھا پس اسی طرح درست ہے کہ آپ نے احرام اس وقت باندھا جبکہ بیداء پر چڑھے اس وجہ سے نہیں کہ وہ مسنون تھا۔
فریق ثانی کی مزید دلیل :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد ذوالحلیفہ سے احرام باندھا۔ وقد انکر قوم سے انہی کی طرف اشارہ ہے۔ دلیل یہ روایت ہے۔

3463

۳۴۶۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ قَالَ : قَرَأْتُ عَلٰی مَالِکٍ عَنْ مُوْسَی ابْنِ عُقْبَۃَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ قَالَ (بَیْدَاؤُکُمْ ھٰذِہِ الَّتِیْ تَکْذِبُوْنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا مَا أَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ) یَعْنِیْ مَسْجِدَ ذِی الْحُلَیْفَۃِ۔
٣٤٦٣: موسیٰ بن عقبہ نے سالم سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ تمہارا یہ بیداء جس سے تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ بولتے ہو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد سے احرام باندھا ہے یعنی مسجد ذوالحلیفہ سے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٣‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢١‘ ترمذی فی الحج باب ٨۔

3464

۳۴۶۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ مُوْسٰی فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٤٦٤: مالک نے بتلایا کہ مجھے موسیٰ نے خبر دی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح ذکر کیا۔

3465

۳۴۶۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ مُوْسٰی فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ قَالُوْا : وَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ بَعْدَمَا رَکِبَ رَاحِلَتَہٗ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٤٦٥: وہیب بن خالد نے موسیٰ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ اور آپ نے یہ اس کے بعد کیا کہ جب آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے اور اس کی دلیل مندرجہ روایات ہیں۔
فریق ثالث کا مؤقف : اونٹنی پر درست طور پر سوار ہو کر تلبیہ کہنا افضل ہے اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

3466

۳۴۶۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ صَالِحُ بْنُ کَیْسَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ حِیْنَ اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ قَائِمَۃً) .
٣٤٦٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت تلبیہ کہا جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٨۔

3467

۳۴۶۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ کَانَ یُہِلُّ اِذَا اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہُ قَائِمَۃً) قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُہٗ .
٣٤٦٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ اس وقت تلبیہ کہتے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوجاتی اور ابن عمر (رض) کا عمل بھی اسی پر تھا۔

3468

۳۴۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : (بَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ حَتّٰی أَصْبَحَ فَلَمَّا رَکِبَ رَاحِلَتَہٗ وَاسْتَوَتْ بِہٖ أَہَلَّ)
٣٤٦٨: محمد بن منکدر نے انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالحلیفہ میں رات گزاری جب صبح ہوگئی اور آپ اپنی اونٹنی پر درست ہو کر بیٹھ گئے تو آپ نے تلبیہ کہا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢١۔

3469

۳۴۶۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْأَزْرَقُ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالُوْا : وَیَنْبَغِیْ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ بَعْدَمَا تَنْبَعِثُ بِہِ نَاقَتُہُ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٤٦٩: ابن شہاب نے انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اور انھوں نے کہا مناسب یہ ہے کہ یہ اس کے بعد ہو کہ آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر اٹھ کھڑی ہو اور انھوں نے مندرجہ روایات کو ذکر کیا ہے۔

3470

۳۴۷۰ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (لَمْ أَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُہِلُّ حَتّٰی تَنْبَعِثَ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ)
٣٤٧٠: عبید بن جریج نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلبیہ کہتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ کی اونٹنی سیدھی کھڑی نہ ہوجاتی۔

3471

۳۴۷۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا وَضَعَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ وَانْبَعَثَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہُ قَائِمَۃً أَہَلَّ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ) فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ مِنْ أَیْنَ جَائَ اخْتِلَافُہُمْ ؟
٣٤٧١: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکاب میں پاؤں مبارک رکھا اور اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی تو ذوالحلیفہ سے آپ نے احرام باندھا۔ پس جب وہ اس سلسلہ میں مختلف ہیں تو اب ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اختلاف کس جگہ سے آیا ہے۔
لغات : الغرز۔ اونٹنی کی رکاب۔ جو چمڑے یا بالوں کی رسی سے بنی ہو۔ انبعث۔ اٹھنا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٧۔
مقامِ اختلاف کی تلاش :
اب ہم نے غور کیا تو تین باتیں سامنے آئیں ایک جماعت نے کہا مسجد ذوالحلیفہ سے آپ نے احرام باندھا۔
نمبر 2: اونٹنی پر پورے طور پر بیٹھ گئے تب احرام باندھا۔
نمبر 3: بیداء پہاڑی پر چڑھ کر احرام باندھا۔
اس سلسلے میں ابن عباس (رض) کا بیان پڑھئے۔

3472

۳۴۷۲ : فَإِذَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ سَہْلٍ الْکُوْفِیُّ قَدْ حَدَّثَنَا إِمْلَائً قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَیْفٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : قِیْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : کَیْفَ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ إہْلَالِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ طَائِفَۃٌ : أَہَلَّ فِیْ مُصَلَّاہُ وَقَالَتْ طَائِفَۃٌ : حِیْن اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ. وَقَالَتْ طَائِفَۃٌ : حِیْنَ عَلَا عَلَی الْبَیْدَائِ فَقَالَ : سَأُخْبِرُکُمْ عَنْ ذٰلِکَ (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ فِیْ مُصَلَّاہُ فَشَہِدَہٗ قَوْمٌ فَأَخْبَرُوْا بِذٰلِکَ فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتَہٗ أَہَلَّ فَشَہِدَہُ قَوْمٌ لَمْ یَشْہَدُوْہُ فِی الْمَرَّۃِ الْأُوْلٰی فَقَالُوْا : أَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّاعَۃَ فَأَخْبَرُوْا بِذٰلِکَ فَلَمَّا عَلَا عَلَی الْبَیْدَائِ أَہَلَّ فَشَہِدَہُ قَوْمٌ لَمْ یَشْہَدُوْہُ فِی الْمَرَّتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ فَقَالُوْا : أَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّاعَۃَ فَأَخْبَرُوْا بِذٰلِکَ وَإِنَّمَا کَانَ إہْلَالُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مُصَلَّاہٗ) فَبَیَّنَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الْوَجْہَ الَّذِیْ مِنْہُ جَائَ اخْتِلَافُہُمْ وَأَنَّ إہْلَالَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی ابْتَدَأَ الْحَجَّ وَدَخَلَ بِہٖ فِیْہِ کَانَ فِیْ مُصَلَّاہُ .فَبِھٰذَا نَأْخُذُ وَیَنْبَغِی لِلرَّجُلِ اِذَا أَرَادَ الْاِحْرَامَ أَنْ یُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ یُحْرِمُ فِیْ دُبُرِہِمَا کَمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ فِیْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ مِمَّا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا
٣٤٧٢: خصیف نے سعید بن جبیر سے انھوں نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احرام باندھنے کے متعلق اختلاف کیا ہے بعض نے کہا مسجد سے باندھا بعض نے کہا جب اونٹنی پر سیدھے بیٹھ گئے اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بعض نے کہا جب آپ مقام بیداء پر پہنچے اس وقت احرام باندھا تو ابن عباس (رض) فرمانے لگے آؤ میں تمہیں وجہ اختلاف کی نشاندہی کرتا ہوں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد سے احرام باندھا جن لوگوں نے آپ کو اس وقت دیکھا انھوں نے اس کو بیان کردیا۔ پھر جب آپ اونٹنی پر برابر بیٹھ گئے تو اس وقت تلبیہ کہا تو اس موقعہ پر جن لوگوں نے دیکھا انھوں نے پہلے آپ کا تلبیہ نہ سنا تھا تو انھوں نے بیان کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی احرام باندھا ہے پھر جب آپ بیداء پہاڑی پر چڑھے تو تلبیہ کہا اس وقت ان لوگوں نے دیکھا جنہوں نے پہلی دو مرتبہ نہ دیکھا تھا تو انھوں نے مقام بیداء سے احرام کی خبر دی درحقیقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احرام باندھنا وہ مسجد ہی سے تھا۔ تو حضرت ابن عباس (رض) نے وہ وجہ بیان کردی جس سے ان میں اختلاف پیدا ہوا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احرام باندھنا جس سے حج کی ابتداء ہوتی ہے اور آدمی حج میں داخل ہوجاتا ہے وہ مسجد ہی سے تھا ۔ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں ہم اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں آدمی کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ احرام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نماز ادا کرے پھر ان کے بعد وہ احرام باندھے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے اور حسن بن محمد (رح) نے اس سلسلہ میں کچھ روایت کیا ہے جو ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢١۔
حاصل روایات : حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں یہ بتلا دیا گیا کہ اصل اختلاف کا سبب کیا تھا اور آپ نے احرام دراصل مسجد ہی سے باندھا تھا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب آدمی احرام باندھے تو دو رکعت نماز ادا کرے پھر ان کے بعد تلبیہ کہے یہی مسنون طریق احرام ہے۔
یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا ہے۔
تائیدی قول :
امام حسن بن محمد بن علی (رح) نے ابن عباس (رض) جیسی بات کہی ہے۔

3473

۳۴۷۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْہَیْثَمِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حَبِیْبُ بْنُ أَبِیْ ثَابِتٍ أَنَّہٗ سَمِعَ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ یَقُوْلُ : (کُلُّ ذٰلِکَ قَدْ فَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَہَلَّ حِیْنَ اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتَہٗ وَقَدْ أَہَلَّ حِیْنَ جَائَ الْبَیْدَائَ) .
٣٤٧٣: حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد بن علی (رح) کو کہتے سنا یہ سب آپ نے کیا آپ نے اس وقت بھی تلبیہ کہا جب اونٹنی آپ کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اس وقت بھی تلبیہ کہا جب آپ مقام بیداء پر بلند ہوئے۔

3474

۳۴۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیْ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (کَانَتْ تَلْبِیَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَک لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَک) ۔
٣٤٧٤: عبدالرحمن بن یزید نے عبداللہ سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلبیہ یہ تھا ” لبیک اللہم لبیک ‘ لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک “
تخریج : بخاری فی الحج باب ٢٦‘ مسلم فی الحج نمبر ١٤٧‘ ٢٦٩‘ ٢٧١‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٢‘ ترمذی فی الحج باب ٩٧‘ نسائی فی المناسک باب ٥٤‘ ٦٠‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٥‘ ٨٤‘ دارمی فی المناسک باب ١٣‘ ١٥‘ مسند احمد ١؍٣٠٢‘ ٣٧٤‘ ٢؍٣‘ ٧٦‘ ٥؍١٩١‘ ٦؍٣٦٠۔
تلبیہ کو امام ابوحنیفہ (رح) نے شرط و فرض احرام قرار دیا اور امام مالک نے واجب کہا جبکہ شافعی (رح) و احمد (رح) نے سنت قرار دیا اور اہل ظواہر نے رکن حج قرار دیا ہے۔ ! الفاظ تلبیہ میں امام ابوحنیفہ ‘ شافعی و احمد رحمہم اللہ کے ہاں تعظیم باری کے الفاظ سے اضافہ درست ہے۔
نمبر 2: امام مالک و ابو یوسف و طحاوی رحمہم اللہ ان منصوص الفاظ پر اضافے کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف :
تلبیہ کے الفاظ پر تعظیم باری تعالیٰ کے الفاظ سے اضافہ درست ہے اس قول کی نسبت امام طحاوی (رح) امام محمد (رح) اور ثور (رح) و اوزاعی (رح) کی طرف درست مانتے ہیں۔

3475

۳۴۷۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَۃَ عَنْ أَبِیْ عَطِیَّۃَ قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (إِنِّیْ لَأَحْفَظُ کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُلَبِّی) فَذَکَرَ ذٰلِکَ أَیْضًا
٣٤٧٥: ابو عطیہ کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح تلبیہ کہتے پھر انھوں نے اسی طرح ذکر کیا۔

3476

۳۴۷۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ تَلْبِیَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ کَذٰلِکَ وَزَادَ (وَالْمُلْکُ لَا شَرِیْکَ لَک) ۔
٣٤٧٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلبیہ اسی طرح تھا۔ البتہ ” والملک لاشریک لک “ کا اضافہ ہے۔

3477

۳۴۷۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ قَالَ : أَنَا أَیُّوْبُ وَعُبَیْدُ اللّٰہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٣٤٧٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔

3478

۳۴۷۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْمَدِیْنِیُّ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَبَّیْ فِیْ حَجَّتِہِ کَذٰلِکَ أَیْضًا)
٣٤٧٨: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں اسی طرح تلبیہ کہا۔

3479

۳۴۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِیَادٍ عَنْ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شَرْقِیُّ بْنُ قَطَامِیٍّ قَالَ : أَنَا أَبُوْ طَلْقٍ الْعَائِذِیُّ قَالَ : سَمِعْتُ شُرَحْبِیْلَ بْنَ الْقَعْقَاعِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَعْدِ یَکْرِبَ یَقُوْلُ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا مُنْذُ قَرِیْبٍ وَنَحْنُ اِذَا حَجَجْنَا نَقُوْلُ : لَبَّیْکَ تَعْظِیْمًا إِلَیْکَ عُذْرًا ہَذِی زَبِیْدُ قَدْ أَتَتْکَ قَسْرًا تَغْدُوْا بِہِمْ مُضْمَرَاتٌ شَزَرًا یَقْطَعْنَ حِیْنًا وَحَیَالًا وَعْرَا قَدْ خَلَّفُوا الْأَنْدَادَ خِلْوًا صِفْرَا وَنَحْنُ الْیَوْمَ نَقُوْلُ کَمَا عَلَّمْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : قُلْت کَیْفَ عَلَّمَکُمْ ؟ فَذَکَرَ التَّلْبِیَۃَ عَلَی مِثْلِ مَا فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .فَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ جَمِیْعًا عَلٰی أَنَّہٗ ہٰکَذَا یُلَبَّیْ بِالْحَجِّ غَیْرَ أَنَّ قَوْمًا قَالُوْا : لَا بَأْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یَزِیْدَ فِیْہَا مِنَ الذِّکْرِ لِلّٰہِ مَا أَحَبَّ وَہُوَ قَوْلُ مُحَمَّدٍ وَالثَّوْرِیِّ وَالْأَوْزَاعِیِّ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٤٧٩: ابو طلق عائذی کہتے ہیں کہ میں نے شرحبیل بن قعقاع سے کہتے سنا کہ میں نے عمرو بن معدیکرب کو کہتے سنا کہ زمانہ قریب (جاہلیت) میں جب ہم حج کرتے تو اس طرح کہتے۔ !: ہم تیری عظمت کے لیے تیری دعوت بار بار قبول کرتے ہیں اور یہ قبیلہ زبید تیری بارگاہ میں مجبور ہو کر حاضر ہوا ہے۔ ": ان کو پتلی کمر والے گھوڑے سختی کے ساتھ ان کو صبح سویرے لے کر چلے ہیں وہ گھوڑے ہلاکتوں اور دشوار گزار گھاٹیوں کو طے کرنے والے ہیں۔#: انھوں نے اپنے معبودوں کو بالکل خالی چھوڑ دیا ہے۔ اب ہم وہی کہتے ہیں جو ہمیں سکھایا گیا ہے۔ شرحبیل کہتے ہیں کہ میں نے کہا کس طرح تم کو سکھایا چنانچہ انھوں نے اس طرح بیان کیا جس طرح حدیث میں آیا ہے مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ حج کا تلبیہ اسی طرح کہتے تھے۔ البتہ بعض لوگوں نے کہا کہ آدمی کے لیے کچھ حرج نہیں کہ اس میں ذکر کے کچھ الفاظ کا اضافہ کرے جو اسے پسند ہوں یہ امام محمد ‘ ثوری ‘ اوزاعی رحمہم اللہ کا قول ہے اور انھوں نے مندرجہ روایت سے استدلال کیا۔

3480

۳۴۸۰ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ .ح .وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ قَالَ ابْنُ وَہْبٍ : إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْفَضْلِ حَدَّثَہٗ۔ وَقَالَ أَبُوْ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : کَانَ مِنْ تَلْبِیَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَبَّیْکَ إِلٰـہَ الْحَقِّ لَبَّیْکَ) .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔
٣٤٨٠: عبداللہ بن فضل نے عبدالرحمن اعرج سے اور انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلبیہ یہ تھا۔ ” لبیک الہ الحق لبیک “ اور انھوں نے اس سلسلہ میں حضرت ابن عمر (رض) سے بھی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی فی المناسک باب ٥٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٥۔

3481

۳۴۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَصَبْغُ بْنُ الْفَرْجِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ سَمِعَ رَجُلًا یُلَبِّیْ یَقُوْلُ (لَبَّیْکَ ذَا الْمَعَارِجِ لَبَّیْکَ) قَالَ سَعْدٌ : مَا ہٰکَذَا کُنَّا نُلَبِّیْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَھٰذَا سَعْدٌ قَدْ کَرِہَ الزِّیَادَۃَ عَلٰی مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُمْ مِنَ التَّلْبِیَۃِ فَبِھٰذَا نَأْخُذُ۔
٣٤٨٢: عبداللہ بن ابی سلمہ نے عامر بن سعد عن ابیہ سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو تلبیہ کے یہ الفاظ کہتے سنا : لبیکَ ذا المعارج لبیک ‘ تو سعد (رض) نے اس کو فرمایا ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اس طرح تلبیہ نہ کہتے تھے۔ حضرت سعد (رض) ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سکھائے ہوتے تلبیہ پر اضافے کو ناپسند فرمایا ۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
حاصل روایات : حضرت سعد (رض) کا اس کی اس حرکت کو ناپسند کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس تلبیہ پر اضافہ درست نہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھایا ہے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) نے قول ثانی کو راجح قرار دیا اور یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے اور احتیاط اسی میں ہے۔

3482

۳۴۸۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : سَمِعْتُ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَطَائٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَۃِ وَعَلَیْہِ جُبَّۃُ صُوْفٍ وَہُوَ مُصْفِرٌ لِحْیَتَہٗ وَرَأْسَہٗ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ قَدْ أَحْرَمْتُ وَأَنَا کَمَا تَرٰی فَقَالَ (انْزِعْ عَنْکَ الْجُبَّۃَ وَاغْسِلْ عَنْکَ الصُّفْرَۃَ وَمَا کُنْتُ صَانِعًا فِیْ حَجِّک فَاصْنَعْہُ فِیْ عُمْرَتِکَ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَکَرِہُوْا بِہِ التَّطَیُّبَ عِنْدَ الْاِحْرَامِ وَقَالُوْا بِمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٤٨٣: عطاء نے صفوان بن یعلی بن امیہ سے انھوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اس وقت آیا جب آپ جعرانہ میں تھے اس نے اونی جبہ پہن رکھا تھا اور اس کی داڑھی اور سر پر زرد رنگ تھا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں احرام باندھنا چاہتا ہوں اور میری حالت آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا جبہ اتارو اور زردی کو دھو ڈالو اور جو حج میں کیا جاتا ہے وہی عمرہ میں کرو یعنی احرام باندھ کر طواف و سعی۔ بعض علماء نے اس روایت کو اختیار کرتے ہوئے احرام کے وقت خوشبو کو مکروہ قرار دیا ہے اور انھوں نے حضرت عمر اور عثمان (رض) کی روایات کو اختیار کرتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٧‘ مسلم فی الحج ٩؍١٠‘ نسائی فی المناسک باب ٤٤‘ مسند احمد ٤؍٢٢٤۔
احرام باندھتے وقت خوشبو لگانے میں تو کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ اختلاف اس میں ہے کہ ایسی خوشبو جس کا رنگ و اثر باقی رہے وہ درست ہے یا نہیں امام مالک ‘ عطاء رحمہم اللہ کے ہاں احرام کے وقت ایسی خوشبو کا استعمال جس کا رنگ بعد میں باقی رہے اس کا استعمال مکروہ ہے۔
نمبر 2: ائمہ ثلاثہ اور ابن عباس و عبداللہ بن زبیر ‘ امّ المؤمنین عائشہ ] کے ہاں مطلقاً خوشبو لگانا درست ہے کچھ حرج نہیں۔

3483

۳۴۸۴ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَجَدَ رِیْحَ طِیْبٍ وَہُوَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ فَقَالَ : مِمَّنْ ھٰذِہِ الرِّیْحُ الطَّیِّبَۃُ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ (مِنِّیْ) فَقَالَ عُمَرُ : مِنْکَ لَعَمْرِیْ مِنْکَ لَعَمْرِیْ .فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ (لَا تُعَجِّلْ عَلَیَّ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِنَّ أُمَّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا طَیَّبَتْنِیْ وَأَقْسَمَتْ عَلَیَّ) .فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : (وَأَنَا أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ لَتَرْجِعَنَّ إِلَیْہَا فَتَغْسِلَہٗ عِنْدَہَا فَرَجَعَ إِلَیْہَا فَغَسَلَہٗ فَلَحِقَ النَّاسَ بِالطَّرِیْقِ)
٣٤٨٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے ذوالحلیفہ میں خوشبو کی مہک محسوس کی آپ نے فرمایا یہ پاکیزہ خوشبو کدھر سے آرہی ہے تو معاویہ کہنے لگے مجھ سے آرہی ہے تو عمر کہنے لگے میری عمر کی قسم تجھ سے ‘ تجھ سے۔ تو معاویہ کہنے لگے۔ اے امیرالمؤمنین (رض) ! جلدی مت کرو۔ ام حبیبہ (رض) امّ المؤمنین نے مجھے خوشبو لگائی ہے اور مجھے قسم دی ہے عمر (رض) نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم ضرور واپس لوٹ کر انہی کے ہاں اس کو دھو کر آؤ جناب معاویہ ان کے پاس لوٹ کر گئے اور اس کو دھو کر پھر لوگوں سے راستہ میں آ ملے۔

3484

۳۴۸۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ.
٣٤٨٥: حجاج نے حماد سے انھوں نے ایوب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3485

۳۴۸۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٣٤٨٦: مالک نے نافع سے انھوں نے اسلم سے انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3486

۳۴۸۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ۔
٣٤٨٧: نافع نے اسلم سے انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3487

۳۴۸۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : کُنْتُ مَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ فَرَأٰی رَجُلًا یُرِیْدُ أَنْ یُحْرِمَ وَقَدْ دَہَنَ رَأْسَہٗ فَأَمَرَ بِہِ فَغَسَلَ رَأْسَہٗ بِالطِّیْنِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَلَمْ یَرَوْا بِالتَّطَیُّبِ عِنْدَ الْاِحْرَامِ بَأْسًا .فَقَالُوْا : أَمَّا حَدِیْثُ یَعْلٰی فَلاَ حُجَّۃَ فِیْہِ لِمَنْ خَالَفَتَنَا وَذٰلِکَ أَنَّ الطِّیْبَ الَّذِیْ کَانَ عَلٰی ذٰلِکَ الرَّجُلِ إِنَّمَا کَانَ صُفْرَۃً وَہُوَ خَلُوْقٌ فَذٰلِکَ مَکْرُوْہٌ لِلرَّجُلِ لَا لِلْاِحْرَامِ وَلٰـکِنَّہٗ لِأَنَّہٗ مَکْرُوْہٌ فِیْ نَفْسِہٖ فِیْ حَالِ الْاِحْلَالِ وَفِیْ حَالِ الْاِحْرَامِ وَإِنَّمَا أُبِیْحَ مِنَ الطِّیْبِ عِنْدَ الْاِحْرَامِ مَا ہُوَ حَلَالٌ فِیْ حَالِ الْاِحْلَالِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ یَعْلٰی مَا بَیَّنَ أَنَّ ذٰلِکَ الَّذِیْ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ الرَّجُلَ بِغَسْلِہٖ کَانَ خَلُوْقًا .
٣٤٨٨: اعد بن ابراہیم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں عثمان (رض) کے ساتھ ذوالحلیفہ میں تھا انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ سر پر تیل لگائے ہوئے احرام باندھنے کا ارادہ کررہا ہے۔ حضرت عثمان نے اس کو مٹی کے ساتھ سر دھونے کا حکم دیا (تاکہ چکناہٹ کے اثرات ختم ہوجائیں) اس نے مٹی سے اپنا سر دھویا۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے احرام کے وقت خوشبو میں کوئی حرج قرار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت یعلی (رض) والی روایت میں قول اول کے قائلین کے حق میں کوئی دلیل نہیں ۔ کیونکہ اس شخص نے تو زرد رنگ کی خلوق نامی خوشبو لگا رکھی تھی۔ اور وہ مرد کے لیے ویسے ہی حرام ہے۔ احرام کی وجہ سے ممنوع نہیں وہ مطلق طور پر مرد کے لیے ناجائز ہے خواہ حالت احرام ہو یا نہ۔ احرام کے وقت وہ خوشبو درست ہے جو غیر احرام کی حالت میں جائز ہو ۔ حضرت یعلی (رض) کی روایت میں ہے کہ وہ خوشبو جس کو دھونے کا حکم دیا وہ خلوق تھی۔ جیسا ذیل کی روایات میں ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جوابات : احرام باندھتے وقت خوشبو لگانے میں کچھ قباحت نہیں ہے۔ احرام باندھنے کے بعد خوشبو حرام ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب : یعلی بن امیہ والی روایت میں جس خوشبو کا ذکر ہے وہ زرد رنگ کی خوشبو ہے جو عورتوں کے ساتھ خاص ہے مردوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ ہے۔ اس کا نام خلوق ہے تو ممانعت اس کی وجہ سے فرمائی احرام کی وجہ سے نہ فرمائی۔ جب بلا احرام وہ درست نہیں تو احرام باندھتے وقت بدرجہ اولیٰ درست نہ ہوگی احرام کے وقت وہ خوشبو لگانا درست ہے جو بلا احرام لگائی جاسکتی ہے اور یعلیٰ بن امیہ کی روایت میں یہ بات واضح ہوتی ہے۔ روایت یہ ہے۔

3488

۳۴۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ مَطَرِ الْوَرَّاقِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُنْیَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی رَجُلًا لَبّٰی بِعُمْرَۃٍ وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ وَشَیْء ٌ مِنْ خَلُوْقٍ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَنْزِعَ الْجُبَّۃَ وَیَمْسَحَ خَلُوْقَہٗ وَیَصْنَعَ فِیْ عُمْرَتِہِ مَا یَصْنَعُ فِیْ حَجَّتِہٖ) .
٣٤٨٩ : عطاء نے یعلیٰ بن منیہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ عمرے کا تلبیہ کہہ رہا ہے اور اس نے جبہ بھی پہن رکھا ہے اور کچھ خلوق بھی لگا رکھی ہے پس آپ نے اسے جبہ اتارنے اور خلوق کو پونچھنے کا حکم فرمایا اور یہ حکم فرمایا وہ اپنے عمرہ میں اسی طرح کرے جیسا حج میں کرتے ہیں یعنی احرام وغیرہ باندھے جیسے حج میں باندھتے ہیں۔
تخریج : مسلم فی الحج ٧۔

3489

۳۴۹۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ أَنَّ عَطَائَ بْنَ أَبِیْ رَبَاحٍ حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ یَعْلَی بْنِ مُنْیَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٤٩٠: عطاء نے یعلیٰ بن منیہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3490

۳۴۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا عَطَاء ٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (وَاغْسِلْ عَنْکَ أَثَرَ الْخَلُوْقِ أَوِ الصُّفْرَۃِ) .
٣٤٩١: عطاء نے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ یہ الفاظ زائد ہیں اپنے سے زردی یا خلوق کا اثر دھو ڈال۔

3491

۳۴۹۲ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ وَمَنْصُوْرٌ وَابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی عَنْ عَطَائٍ عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ (أَنَّ رَجُلًا جَائَ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ أَحْرَمْتُ وَعَلَیَّ جُبَّتِی ھٰذِہِ وَعَلَی جُبَّتِہِ رَدُوعٌ مِنْ خَلُوْقٍ وَالنَّاسُ یَسْخَرُوْنَ مِنِّیْ فَأَطْرَقَ عَنْہُ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَ اخْلَعْ عَنْکَ ھٰذِہِ الْجُبَّۃَ وَاغْسِلْ عَنْکَ ھٰذَا الزَّعْفَرَانَ وَاصْنَعْ فِیْ عُمْرَتِک مَا کُنْتُ صَانِعًا فِیْ حَجَّتِک) فَبَیَّنَتْ لَنَا ھٰذِہِ الْآثَارُ أَنَّ ذٰلِکَ الطِّیْبَ الَّذِیْ أَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَسْلِہِ کَانَ خَلُوْقًا وَذٰلِکَ مَنْہِیٌّ عَنْہُ فِیْ حَالِ الْاِحْلَالِ وَحَالِ الْاِحْرَامِ فَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِأَمْرِہِ إِیَّاہُ بِغَسْلِہِ لَمَا کَانَ مِنْ نَہْیِہِ أَنْ یَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ لَا لِأَنَّہٗ طِیْبٌ تَطَیَّبَ بِہٖ قَبْلَ الْاِحْرَامِ ثُمَّ حَرَّمَہٗ عَلَیْہِ الْاِحْرَامُ .فَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَہْیِہِ الرِّجَالَ عَنِ التَّزَعْفُرِ۔
٣٤٩٢: عطاء نے یعلیٰ بن امیہ سے نقل کیا کہ ایک شخص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے احرام باندھنا ہے اور میں نے یہ جبہ پہن رکھا ہے اور میرا جبہ زعفران سے لت پت ہے اور لوگ مجھ سے تمسخر کرتے ہیں آپ نے اس سے تھوڑی دیر کے لیے سر جھکایا پھر فرمایا اپنے جبہ کو اتار دو اور اپنے سے یہ زعفران دھو ڈالو اور اپنے عمرہ میں وہی کچھ کرو جو تم اپنے حج میں کرتے ہو (یعنی احرام ‘ طواف ‘ سعی) ہمیں ان آثار نے واضح کردیا کہ وہ خوشبو جس کو دھونے کا حکم فرمایا وہ خلوق تھی ۔ یہ خوشبو تو احرام اور غیر احرام ہر دو حالت میں ممنوع ہے۔ تو یہ عین ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دھونے کا حکم اس لیے دیا ہو کہ مرد کو زعفران لگانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس بناء پر نہیں کہ یہ وہ خوشبو تھی جو احرام سے پہلے لگائی جاتی ہے پھر احرام نے اس کو ناجائز بنادیا ۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو لگانے سے اس طرح منع فرمایا جیسا مندرجہ روایات میں ہے۔
حاصل روایات : ردعہ۔ زعفران میں لت پت ہونا۔
تخریج : بخاری فی العمرہ باب ٥٠‘ مسند احمد ٤؍٢٢٤‘ مسلم فی الحج ٦‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٣٠‘ نسائی فی الحج باب ٥٠۔
حاصل رویا ات : ان روایات سے ثابت ہوا کہ جس خوشبو کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دھونے کا حکم دیا وہ خلوق تھی اور خلوق کو احرام کے بغیر بھی استعمال کرنا جائز نہیں احرام میں کیونکر جائز ہوتا۔
دوسرا جواب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دھونے کا اس لیے حکم فرمایا کیونکہ آپ نے مردوں کو زعفران کا رنگ لگانے سے منع فرمایا ہے اس وجہ سے نہیں کہ وہ خوشبو ہے جس کو بطور خوشبو استعمال کریں تو بلا احرام جائز ہے بلکہ مردوں کو اس کا استعمال بلا احرام بھی درست نہیں پس دھونے کا حکم زعفرانی رنگ میں لت پت ہونے کی وجہ سے تھا اس وجہ سے نہیں کہ وہ خوشبو ہے جس کا احرام کے وقت لگانا درست نہ ہو مندرجہ ذیل روایات مرد کے لیے زعفران میں لت پت ہونے کا ثبوت ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

3492

۳۴۹۳ : فَإِنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ)
٣٤٩٣: عبدالعزیز بن صہیب نے انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ مرد اپنے آپ کو زعفران کے رنگ میں رنگ لے۔

3493

۳۴۹۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّزَعْفُرِ لِلرِّجَالِ) .
٣٤٩٤: عبدالعزیز بن صہیب نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو زعفران میں لت پت ہونے سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٣٣‘ مسلم فی اللباس ٧٧‘ ابو داؤد فی الترجل باب ٨‘ ترمذی فی الادب باب ٥١‘ نسائی فی الزینہ باب ٧٣۔

3494

۳۴۹۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٤٩٥: حجاج نے حماد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3495

۳۴۹۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ ابْنِ عُلَیَّۃَ قَالَ (أَرَاہُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ) عَنْ أَنَسٍ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ أَنْ یَتَزَعْفَرَ)
٣٤٩٦: عبدالعزیز بن صہیب نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی کو زعفران میں لت پت ہونے سے منع فرمایا۔

3496

۳۴۹۷ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ عَنِ التَّزَعْفُرِ)
٣٤٩٧: عبدالعزیز بن صہیب نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زعفران میں لت پت ہونے سے منع فرمایا۔

3497

۳۴۹۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ قَالَ حَدَّثَنِیْ إِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّزَعْفُرِ) قَالَ عَلِیٌّ : فِیْمَا ذَکَرَ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ خَاصَّۃً ثُمَّ لَقِیْتُ إِسْمَاعِیْلَ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ وَأَخْبَرْتُہٗ أَنَّ شُعْبَۃَ حَدَّثَنَا بِہٖ عَنْہُ فَقَالَ لِیْ : لَیْسَ ہٰکَذَا حَدَّثْتہ إِنَّمَا حَدَّثْتُہٗ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی أَنْ یَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ) قَالَ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ : أَرَادَ بِذٰلِکَ أَنَّ النَّہْیَ الَّذِیْ کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ وَقَعَ عَلَی الرِّجَالِ خَاصَّۃً دُوْنَ النِّسَائِ .
٣٤٩٨: عبدالعزیز بن صہیب نے انس (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زعفران میں لت پت سے منع فرمایا۔ علی بن جعد کہتے ہیں جیسا کہ ابن ابی عمران نے خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ پھر میں اسماعیل بن ابراہیم سے ملا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا اور میں نے ان کو بتلایا کہ شعبہ نے ہمیں اس طرح بیان کیا ہے۔ تو وہ مجھے کہنے لگے میں نے تو ان کو اس طرح بیان نہیں کیا میں نے ان کو اس طرح بیان کیا : ان رسول اللہ ا نہٰیان یتزعفرالرجل “ ابن ابی عمران کہنے لگے اسماعیل کی مراد یہ تھی کہ میں نے جو روایت نقل کی تھی اس کا مفہوم یہ تھا کہ زعفران میں لت پت ہونے کی ممانعت مردوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ عورتوں سے اس کا تعلق نہیں جیسا کہ پہلی روایت کے عموم سے ممانعت کا ثبوت سب کے لیے ہو رہا ہے۔

3498

۳۴۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیْ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حَفْصِ بْنِ عَمْرٍو یُحَدِّثُ (عَنْ یَعْلٰی أَنَّہٗ مَرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُتَخَلِّقٌ فَقَالَ : إِنَّکَ امْرَأَۃٌ ؟ فَقَالَ : لَا قَالَ : اذْہَبْ فَاغْسِلْہٗ)
٣٤٩٩: ابو حفص بن عمرو نے یعلیٰ سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے میرا گزر ہوا اور میں نے خلوق لگا رکھی تھی۔ آپ نے فرمایا کیا تو عورت ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا جا کر خلوق کو دھو ڈالو۔
تخریج : ترمذی فی الادب باب ٥١‘ نسائی فی الزینہ باب ٣٤۔
مگر اس میں الفاظ یہ ہیں ” ان النبی ابصر رجلا متخلقا فقال اذہب فاغسلہ “

3499

۳۵۰۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ .ح .
٣٥٠٠: ابوبکر نے ابو عامر سے روایت نقل کی ہے۔

3500

۳۵۰۱ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیْفٍ عَنْ یَعْلٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .ہٰکَذَا قَالَ أَبُوْ بَکْرَۃَ فِیْ حَدِیْثِہٖ وَقَالَ عَلِیٌّ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حَفْصِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبَا عَمْرِو بْنِ حَفْصٍ الثَّقَفِیَّ .
٣٥٠١: شعبہ نے عطاء بن سائب سے انھوں نے ثقیف کے ایک آدمی سے اس نے یعلیٰ بن امیہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ابو بکرہ نے اپنی روایت میں اسی طرح کہا ہے۔ اور علی بن جعد نے عطاء بن سائب سے اپنی روایت کو ابو حفص بن عمرو سے نقل کیا ہے اور ابو عمرو بن حفص ثقفی ہے۔ (دوسرا نسخہ او ابا عمرو بن حفص کا ہے)

3501

۳۵۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ أَوْ مَطَرٌ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَلَا وَطِیْبُ الرِّجَالِ رِیْحٌ لَا لَوْنٌ أَلَا وَطِیْبُ النِّسَائِ لَوْنٌ لَا رِیْحٌ)
٣٥٠٢: سعید نے قتادہ یا مطر سے انھوں نے حسن سے انھوں نے عمران بن حصین (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ خبردار ! مردوں کی خوشبو وہ ہے جس میں خوشبو ہو مگر رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس میں رنگ ہو مہک نہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الترجل باب ٨۔

3502

۳۵۰۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُجَّاجِ الْحَضْرَمِیُّ قَالَ : ثَنَا صَاعِدُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ
٣٥٠٣: حمید نے انس بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3503

۳۵۰۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سَالِمٍ الْعَلَوِیِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْہِ صُفْرَۃٌ فَلَمَّا قَامَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ أَمَرْتُمْ ھٰذَا یَدَعُ ھٰذِہٖ الصَُّفْرَۃَ) قَالَ : (وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُوَاجِہُ الرَّجُلَ لِشَیْئٍ فِیْ وَجْہِہِ)
٣٥٠٤: سالم علوی نے انس بن مالک (رض) سے کہ ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس پر زردی کا نشان تھا جب وہ اٹھ کر چل دیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اس آدمی کو کہتے کہ یہ اس زردی کو چھوڑ دیتا تو مناسب تھا راوی کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (حیاء کی وجہ سے) اس آدمی کو آمنے سامنے کچھ نہ فرماتے۔

3504

۳۵۰۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ جَعْفَرٍ الرَّازِیّ عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ جَدَّیْہِ قَالَا : سَمِعْنَا أَبَا مُوْسَیْ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تُقْبَلُ صَلَاۃُ رَجُلٍ وَفِیْ جَسَدِہِ شَیْء ٌ مِنْ خَلُوْقٍ) ..
٣٥٠٥: ربیع بن انس نے اپنے دونوں دادوں سے بیان کیا دونوں نے ابو موسیٰ (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی جس کے جسم پر خلوق کا کچھ بھی اثر ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الترجل باب ٨‘ مسند احمد ٤؍٤٠٣۔

3505

۳۵۰۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِیْ کَانَ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَاجَۃٍ وَأَنَا مُتَخَلِّقٌ فَقَالَ : اذْہَبْ فَاغْتَسِلْ فَذَہَبْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ اذْہَبْ فَاغْتَسِلْ فَذَہَبْتُ فَأَخَذْتُ شَیْئًا فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ بِہٖ وَضَرَہٗ) .فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّجَالَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا عَنِ التَّزَعْفُرِ فَإِنَّمَا أَمَرَ الرَّجُلَ الَّذِیْ أَمَرَہٗ بِغَسْلِ طِیْبِہٖ الَّذِیْ کَانَ عَلَیْہِ فِیْ حَدِیْثِ یَعْلَی لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ مِنْ طِیْبِ الرِّجَالِ وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَیْ حُکْمِ مَنْ أَرَادَ الْاِحْرَامَ ہَلْ لَہٗ أَنْ یَتَطَیَّبَ بِطِیْبٍ یَبْقَیْ عَلَیْہِ بَعْدَ الْاِحْرَامِ أَمْ لَا ؟ وَأَمَّا مَا رَوَوْہُ عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِنَّہٗ قَدْ خَالَفَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔
٣٥٠٦: اسحق بن سوید نے ام حبیبہ (رض) سے اس شخص کے متعلق نقل کیا ہے جو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک غرض سے اس حالت میں آیا کہ خلوق لگائے ہوئے تھا آپ نے اسے فرمایا جاؤ اور اسے دھوؤ۔ چنانچہ وہ گیا اور اسے دھو کر واپس آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اور اسے دھو ڈالو۔ وہ گیا اور اس کی چکناہٹ اور میل کچیل کا پیچھا کرنے لگا۔ ان تمام روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو زعفران کے لگانے کی ممانعت فرمائی ‘ حضرت یعلی (رض) کی روایت کے مطابق آپ نے ایک آدمی کو خوشبو دھونے کا حکم فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مردوں کی خوشبو نہ تھی۔ ان کی اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شخص احرام باندھنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اس قسم کی خوشبو جس کا اثر باقی رہ سکتا ہے لگا سکتا ہے یا نہیں ۔ رہی وہ روایات جن کو انھوں نے حضرت عمرو عثمان (رض) سے نقل کیا ہے۔ تو حضرت ابن عباس (رض) نے اس سلسلہ میں ان سے اختلاف کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الترجل باب ٨۔
حاصل روایات : ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زعفران میں مرد کو لت پت ہونے سے منع فرمایا اور یعلیٰ والی روایت میں ممانعت کی وجہ مردوں کے لیے اس کے استعمال کا درست نہ ہونا ہے یہ وجہ نہیں کہ احرام باندھتے ہوئے احرام میں لگا سکتا ہے یا نہیں لگا سکتا خواہ اس کا اثر اس کے بعد باقی رہنے والا ہو یا نہ رہنے والا ہو پس یعلیٰ والی روایت فریق اوّل کا مستدل بننے کے مناسب نہیں ہے اب روایات عمرو عثمان (رض) کی روایات تو وہ عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کے خلاف ہیں جیسا کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

3506

۳۵۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا عُیَیْنَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ قَالَ : انْطَلَقْتُ حَاجًّا فَرَافَقَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ فَلَمَّا کَانَ عِنْدَ الْاِحْرَامِ قَالَ : (اغْسِلُوْا رُئُ وْسَکُمْ بِھٰذَا الْخِطْمِیِّ الْأَبْیَضِ وَلَا یَمَسَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ غَیْرَہٗ) فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِی مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ .فَقَدِمْتُ مَکَّۃَ فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ وَابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَأَمَّا ابْنُ عُمَرَ فَقَالَ : " مَا أُحِبُّہُ " .وَأَمَّا ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَأُضَمِّخُ بِہٖ رَأْسِیْ ثُمَّ أُحِبُّ بَقَائَ ہُ فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ خَالَفَ عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَابْنَ عُمَرَ وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی اِبَاحَتِہٖ۔
٣٥٠٧: عیینہ بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں حج کو گیا میرے ساتھ عثمان بن ابی العاص (رض) تھے جب احرام کا وقت آیا تو وہ کہنے لگے تم لوگ اپنے سروں کو سفید خطمی سے دھو لو اور اس کے علاوہ تم کسی چیز کو مت چھونا۔ مجھے اس کے متعلق اشکال ہوا چنانچہ میں مکہ پہنچا تو میں نے ابن عمر ‘ ابن عباس ] سے پوچھا ابن عمر کا جواب یہ تھا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا باقی ابن عباس (رض) کہنے لگے میں تو اس کو خوب سر پر ملوں گا پھر میں چاہوں گا کہ یہ میرے سر پر باقی رہے۔ تو یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے حضرت عمر ‘ عثمان اور ابن عمر اور عثمان بن ابی العاص (رض) کی مخالفت کی ہے اور اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اباحت و جواز پر روایات وارد ہیں۔
حاصل روایات : اس میں ابن عباس (رض) نے ابن عمر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ عثمان بن ابی العاص ] کی مخالفت کی ہے اور ان کی یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کے موافق ہے۔
روایات ملاحظہ ہوں۔

3507

۳۵۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ یَعْنِیْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کَأَنِّیْ أَنْظُرُ إِلَی وَبِیْصِ الطِّیْبِ فِیْ مَفْرِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُحْرِمٌ)
٣٥٠٨: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ گویا میں اس وقت بھی اس منظر کو دیکھ رہی ہوں کہ آپ نے احرام باندھا ہوا ہے اور خوشبو کی چمک ابھی تک آپ کی مانگ میں دکھائی دے رہی ہے۔ (جو احرام باندھنے سے پہلے لگائی تھی)
تخریج : بخاری فی الغسل باب ١٩‘ والحج باب ١٨‘ واللباس باب ٧٠‘ معم فی الحج ٣٩؍٤٠‘ ٤١؍٤٢‘ ٤٣‘ ابو داؤد فی المناجات باب ١٠‘ نسائی فی المناسک باب ٤١؍٤٢‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٨‘ مسند احمد ٦؍٤١‘ ١٠٩؍٢٥٠‘ ٢٥٤؍٢٠٩‘ ٢٢٤؍٣٢٠‘ ٢٥٤؍٢٦٤‘ ٢٦٧؍٢٨٠۔

3508

۳۵۰۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ۔
٣٥٠٩: عبداللہ بن رجاء نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3509

۳۵۱۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ وَأَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَا : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥٠٩: عبداللہ بن رجاء نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3510

۳۵۱۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ وَأَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَا : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥١٠: ہشام بن ابو عبداللہ نے حماد سے انھوں نے ابراہیم سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3511

۳۵۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حَمَّادٍ وَعَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥١١: حماد نے عطاء بن سائب سے انھوں نے ابراہیم سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3512

۳۵۱۲ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥١٢: عبدالرحمن بن اسود نے اپنے والد سے انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3513

۳۵۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تُطَیِّبُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَطْیَبِ مَا تَجِدُ مِنَ الطِّیْبِ قَالَتْ : حَتّٰی إِنِّیْ لَأَرٰی وَبِیْصَ الطِّیْبِ فِیْ رَأْسِہٖ وَلِحْیَتِہٖ) .
٣٥١٣: عبدالرحمن بن اسود نے اپنے والد سے انھوں نے عائشہ (رض) سے وہ فرماتی ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمدہ ترین قسم کی خوشبو لگایا کرتی تھی یہاں تک کہ میں خوشبو کی چمک آپ کی مانگ اور داڑھی کے بالوں میں نمایاں پاتی۔

3514

۳۵۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زَیْدٍ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الْعُمْرِ قَالَ : أَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الزُّہْرِیُّ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ أُطَیِّبُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعَالِیَۃِ الْجَیِّدَۃِ عِنْدَ إِحْرَامِہٖ) .
٣٥١٤: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام باندھنے کے وقت غالیہ نامی عمدہ خوشبو لگایا کرتی تھی۔

3515

۳۵۱۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَخِیْہِ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْرَامِہٖ بِأَطْیَبَ مَا أَجِدُ .
٣٥١٥: عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ہاں کی عمدہ ترین خوشبو لگایا کرتی تھی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٧‘ مسند احمد ٦؍١٣‘ ١٦٢‘ ٢٠٧‘ ٢٠٩؍٢٤٥‘ ٢٥٤؍٢٥٨۔

3516

۳۵۱۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیَّ لِاِحْرَامِہِ قَبْلَ أَنْ یُحْرِمَ) .
٣٥١٦: قاسم نے عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام سے پہلے خود خوشبو اپنے ہاتھ سے لگائی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٨‘ مسلم فی الحج ٣٢؍٥٣۔

3517

۳۵۱۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ أَنَّ الْقَاسِمَ حَدَّثَہٗ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَرَمِہٖ حِیْنَ أَحْرَمَ) قَالَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ : وَحَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ حَزْمٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٣٥١٧: قاسم نے عائشہ صدیقہ (رض) سے بیان کیا کہ وہ فرماتی تھیں جب آپ نے احرام باندھا تو میں نے خود آپ کو خوشبو لگائی۔ اور حضرت اسامہ بن زید (رض) نے کہا مجھے ابوبکر بن حزم سے عمرہ نے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو بیان فرمایا ہے۔

3518

۳۵۱۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥١٨: قاسم نے عائشہ صدیقہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3519

۳۵۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥١٩: شعبہ نے عبدالرحمن بن قاسم سے انھوں نے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3520

۳۵۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ ہُوَ ابْنُ حُمَیْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٢٠: قاسم نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3521

۳۵۲۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٢١: عبدالرحمن بن القاسم نے اپنے والد سے انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3522

۳۵۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَرَمِہٖ وَلِحِلِّہِ) .
٣٥٢٢: قاسم نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام کی تیاری کے موقعہ پر احرام سے فراغت کے وقت خوشبو لگائی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣١۔

3523

۳۵۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِأَیِّ شَیْئٍ طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ : بِأَطْیَبِ الطِّیْبِ عِنْدَ إِحْلَالِہِ وَقَبْلَ أَنْ یُحْرِمَ) .
٣٥٢٣: عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی کہ میں نے ان سے دریافت کیا تم نے کس چیز سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشبو لگائی تو فرمانے لگیں ! آپ کو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام سے فراغت کے بعد عمدہ قسم کی خوشبو لگائی۔

3524

۳۵۲۴ : حَدَّثَنَا نَصْرٌ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَرَمِہٖ وَلِحِلِّہٖ)
٣٥٢٤: عطاء نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام کھولنے کے بعد خود خوشبو لگائی۔

3525

۳۵۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : (قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْحِلِّ وَالْاِحْرَامِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِبَاحَتِہِ الطِّیْبَ عِنْدَ الْاِحْرَامِ وَأَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَبْقٰی فِیْ مَفَارِقِہٖ بَعْدَ الْاِحْرَامِ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِمَّا رَوَیْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٣٥٢٥: عطاء نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام سے پہلے اور احرام کھولنے کے بعد خوشبو لگایا کرتی تھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات سے احرام کے وقت میں خوشبو کے لگانے کا جواز و اباحت ثابت ہو رہی ہے اور احرام کے باندھنے کے بعد بھی آپ کی چوٹی پر باقی رہتی تھی اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی بات مروی ہے جیسا کہ ہم نے اس باب میں روایت کیا ہے اور دیگر اصحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس سلسلہ میں روایات آئی ہیں۔
حاصل روایات : ان کثیر روایات سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگائی ہے اور احرام کے بعد بھی خوشبو کی چمک آپ کے سر مبارک کی مانگ میں باقی رہتی تھی اور یہی بات پہلے ابن عباس (رض) کے حوالہ سے نقل کر آئے ہیں۔

3526

۳۵۲۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ تَمَّامٍ أَبُوَ الْکَرَوَّسِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَیْمُوْنُ بْنُ یَحْیٰی بْنُ مُسْلِمِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ بُکَیْرٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَمِعْتُ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَائِشَۃَ بِنْتَ سَعْدٍ تَقُوْلُ : (کُنْتُ أُشْبِعُ رَأْسَ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ لِحَرَمِہٖ بِالطِّیْب) .
٣٥٢٦: مخرمہ بن بکیر نے اپنے والد سے انھوں نے اسامہ بن زید (رض) سے نقل کیا وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے عائشہ بنت سعد کو کہتے سنا کہ میں سعد بن ابی وقاص (رض) کا سر خوشبو سے خوب رنگ دیا کرتی تھی جبکہ وہ احرام باندھنا چاہتے تھے۔

3527

۳۵۲۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ دُرَّۃٌ قَالَتْ : (کُنْتُ أُشْبِعُہٗ بِالْغَالِیَۃِ أُغَلِّقُ رَأْسَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِالْمِسْکِ وَالْعَنْبَرِ عِنْدَ إِحْرَامِہَا) .
٣٥٢٧: درہ بیان کرتی ہیں کہ میں احرام کے وقت حضرت عائشہ (رض) کا سر غالیہ نامی خوشبو سے پر کردیتی تھی اور کستوری اور عنبر سے ان کا سر احرام کے وقت چپکا دیتی۔

3528

۳۵۲۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیِّ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ .ح .
٣٥٢٨: ابوالبرالبرقی نے حجاج بن محمد سے۔

3529

۳۵۲۹ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَتْنِیْ حَکِیْمَۃٌ قَالَ أَبُوْ عَاصِمٍ ابْنَۃُ أَبِیْ حَکِیْمٍ عَنْ أُمِّہَا ابْنَۃِ النَّجَّارِ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُنَّ یَجْعَلْنَ عَصَائِبَ فِیْہِنَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ فَیَعْصِبْنَ بِہَا أَسَافِلَ شُعُوْرِہِنَّ عَلَی جِبَاہِہِنَّ قَبْلَ أَنْ یُحْرِمْنَ ثُمَّ یُحْرِمْنَ کَذٰلِکَ یَزِیْدُ أَحَدُہُمَا عَلٰی صَاحِبِہٖ فِیْ قِصَّۃِ الْحَدِیْثِ
٣٥٢٩: ابی حکیم کی بیٹی حکیمہ اپنی والدہ ابنۃ النجار سے بیان کیا کہ ازواج مطہرات ایسی پٹیاں باندھتیں جن میں ورس اور زعفران ہوتی وہ ان کو اپنے بالوں کے نیچے پیشانیوں پر احرام سے پہلے باندھ لیتیں۔ پھر احرام باندھتیں۔ حدیث کے واقعہ میں روات میں سے ہر ایک دوسرے پر اضافہ کرتا ہے۔

3530

۳۵۳۰ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّہٗ کَانَ یَتَطَیَّبُ بِالْغَالِیَۃِ الْجَیِّدَۃِ عِنْدَ الْاِحْرَامِ فَھٰذَا قَدْ جَائَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُوَافِقُ مَا قَدْ رَوَتْہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَطْیِیْبِہٖ عِنْدَ الْاِحْرَامِ وَبِھٰذَا کَانَ یَقُوْلُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَإِنَّہٗ کَانَ یَذْہَبُ فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ وَابْنِ عُمَرَ مِنْ کَرَاہَتِہٖ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ مَا ذُکِرَ فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ تَطْیِیْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْاِحْرَامِ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّہَا کَانَتْ تُطَیِّبُہُ اِذَا أَرَادَ أَنْ یُحْرِمَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَتْ تَفْعَلُ بِہِ ھٰذَا ثُمَّ یَغْتَسِلُ اِذَا أَرَادَ الْاِحْرَامَ فَیَذْہَبُ بِغَسْلِہٖ عَنْہُ مَا کَانَ عَلٰی بَدَنِہِ مِنْ طِیْبٍ وَیَبْقَیْ فِیْہِ رِیْحُہٗ. فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ (قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ حَدِیْثٍ کُنْتُ أَرَی وَبِیْصَ الطِّیْبِ فِیْ مَفَارِقِہِ بَعْدَمَا أَحْرَمَ) قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ وَقَدْ غَسَلَہٗ کَمَا ذَکَرْنَا وَھٰکَذَا الطِّیْبُ رُبَّمَا غَسَلَہُ الرَّجُلُ عَنْ وَجْہِہِ أَوْ عَنْ یَدِہٖ فَیَذْہَبُ وَیَبْقَی وَبِیْصُہُ .فَلَمَّا احْتَمَلَ مَا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا نَظَرْنَا ہَلْ فِیْمَا رُوِیَ عَنْہَا شَیْء ٌ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ ؟
٣٥٣٠: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے پھر انھوں نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے نقل کیا ہے کہ وہ غالیہ نامی عمدہ خوشبو احرام باندھنے کے وقت لگاتے تھے۔ یہ آثار جن کا ہم نے تذکرہ کیا جن کو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقل کیا وہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کے موافق ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگاتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف جواب کا قول یہی ہے۔ البتہ امام محمد (رح) نے اس سلسلہ میں حضرت عمرو عثمان ‘ عثمان بن ابی العاص اور ابن عمر (رض) کی روایات کو اپنا کر اس کو مکروہ قرار دیا اس سلسلہ میں ان کی دلیل یہ ہے کہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں آپ کو خوشبو لگانے کا تذکرہ ہے وہ ارادہ احرام کے موقعہ کی بات ہے ‘ عین ممکن ہے کہ ام المؤمنین (رض) ایسا کرتی ہوں پھر احرام باندھتے وقت آپ اس کو دھوڈالتے ہوں اور دھونے سے خوشبو چلی جاتی اور صرف مہک باقی رہ جاتی ہو۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ روایت عائشہ صدیقہ (رض) میں یہ ہے کنت اری و بیص الطیب فی مفارقہ بعد ما احرم ‘ ‘ کہ میں آپ کے سر مبارک پر خوشبو کی چمک پائی تھی۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ممکن ہے کہ دھونے کے بعد وہ باقی رہتی ہو جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور خوشبو کا معاملہ یہی ہے کہ بسا اوقات آدمی اس کو اپنے چہرے یا ہاتھ سے دھو ڈالتا ہے وہ زائل ہوجاتی ہے مگر اس کی چمک باقی رہتی ہے۔ پس جب روایت میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا تو اب ہم یہ جا نچنا چاہتے ہیں کہ آیا اس پر دلالت کرنے والی بات ان سے مروی ہے۔ چنانچہ روایت ” فھر “ مل گئی۔
حاصل آثار : یہ تمام آثار حضرت عائشہ (رض) کی روایت کے موافق ہیں جو انھوں نے آپ کے احرام باندھنے کے وقت خوشبو کے سلسلہ میں نقل کی ہے۔ اور اس قول کو امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔
امام محمد (رح) کا قول : فریق اوّل کی طرف سے فریق ثانی کے دلائل کا جواب دیا جا رہا ہے۔
فتاویٰ صحابہ کا جواب : امام محمد (رح) کا قول حضرت عمر ‘ عثمان اور عثمان بن ابی العاص اور ابن عمر ] کے مطابق ہے کہ وہ سب احرام کے وقت خوشبو کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ کراہت والے قول میں زیادہ احتیاط ہے تاکہ یہ اپنے احرام کو خطرے کے مقام پر کھڑا کرنے والا نہ ہو۔
روایت عائشہ صدیقہ (رض) کا جواب : حدیث عائشہ (رض) میں احرام کے وقت خوشبو لگانا مذکور ہے تو اس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ احرام سے پہلے ہوا اور احرام سے پہلے عین ممکن ہے کہ آپ غسل کرلیتے ہوں اور اس غسل کی وجہ سے بدن سے تمام خوشبو اتر جاتی ہو اور فقط خوشبو رہ جاتی ہو۔
اس جواب پر اشکال :
روایت میں تو صاف لفظ موجود ہے کہ میں آپ کی مانگ پر خوشبو کی چمک دیکھتی تھی تو یہ صرف خوشبو نہ ہوئی بلکہ خوشبو کا بقیہ اثر ہوا اس سے اس تاویل کا غلط ہونا ثابت ہوا۔
جواب اشکال :
یہ عین ممکن ہے کہ اس کو دھو ڈالا ہو اور یہ پانی کا اثر ہو بسا اوقات آدمی اپنے چہرے یا ہاتھ سے خوشبو کو دھو ڈالتا ہے اور اس کی چمک پھر بھی باقی رہتی ہے۔ اب روایت عائشہ (رض) میں جب احتمال پیدا ہوگیا تو ہم نے روایات میں تلاش کیا جو کہ ان دونوں احتمالات میں ایک کو متعین کر دے۔ چنانچہ یہ روایت ہے۔

3531

۳۵۳۱ : فَإِذَا فَہْدٌ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنَ الطِّیْبِ عِنْدَ الْاِحْرَامِ فَقَالَ : مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا یَنْضَحُ مِنِّیْ رِیْحُ الطِّیْبِ .فَأَرْسَلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بَعْضَ بَنِیْہِ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لِیُسْمِعَ أَبَاہُ مَا قَالَتْ قَالَ : (فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَا طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ طَافَ فِیْ نِسَائِہِ فَأَصْبَحَ مُحْرِمًا) فَسَکَتَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَدَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ بَیْنَ إِحْرَامِہٖ وَبَیْنَ تَطْیِیْبِہَا إِیَّاہُ غُسْلٌ لِأَنَّہٗ لَا یَطُوْفُ عَلَیْہِنَّ إِلَّا اغْتَسَلَ .فَکَأَنَّہَا إِنَّمَا أَرَادَتْ بِھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ الِاحْتِجَاجَ عَلٰی مَنْ کَرِہَ أَنْ یُوْجَدَ مِنَ الْمُحْرِمِ بَعْدَ إِحْرَامِہِ رِیْحُ الطِّیْبِ کَمَا کَرِہَ ذٰلِکَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَأَمَّا بَقَائُ نَفْسِ الطِّیْبِ عَلٰی بَدَنِ الْمُحْرِمِ بَعْدَمَا أَحْرَمَ وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا تَطَیَّبَ بِہٖ قَبْلَ الْاِحْرَامِ فَلاَ نَتَفَہَّمُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ فَإِنَّ مَعْنَاہُ مَعْنًی لَطِیْفٌ .فَقَدْ بَیَّنَّا وُجُوْہَ ھٰذِہِ الْآثَارِ فَاحْتَجْنَا بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ نَعْلَمَ کَیْفَ وَجْہُ مَا نَحْنُ فِیْہِ مِنَ الِاخْتِلَافِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْاِحْرَامَ یَمْنَعُ مِنْ لُبْسِ الْقَمِیْصِ وَالسَّرَاوِیْلَاتِ وَالْخِفَافِ وَالْعَمَائِمِ وَیَمْنَعُ مِنَ الطِّیْبِ وَقَتْلِ الصَّیْدِ وَإِمْسَاکِہٖ۔ ثُمَّ رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا لَبِسَ قَمِیْصًا أَوْ سَرَاوِیْلًا قَبْلَ أَنْ یُحْرِمَ ثُمَّ أَحْرَمَ وَہُوَ عَلَیْہِ أَنَّہٗ یُؤْمَرُ بِنَزْعِہِ وَإِنْ لَمْ یَنْزِعْہُ وَتَرَکَہُ عَلَیْہِ کَانَ کَمَنْ لَبِسَہُ بَعْدَ الْاِحْرَامِ لُبْسًا مُسْتَقْبَلًا فَیَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْہِ لَوِ اسْتَأْنَفَ لُبْسَہُ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ .کَذٰلِکَ لَوْ صَادَ صَیْدًا فِی الْحِلِّ وَہُوَ حَلَالٌ فَأَمْسَکَہُ فِیْ یَدِہِ ثُمَّ أَحْرَمَ وَہُوَ فِیْ یَدِہِ أَمَرَ بِتَخْلِیَتِہٖ وَإِنْ لَمْ یُخَلِّہِ کَانَ إِمْسَاکُہُ إِیَّاہُ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ بِصَیْدٍ کَانَ مِنْہُ بَعْدَ إِحْرَامِہِ الْمُتَقَدِّمِ کَإِمْسَاکِہِ إِیَّاہُ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ بِصَیْدٍ کَانَ مِنْہُ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ وَکَانَ الطِّیْبُ مُحَرَّمًا عَلَی الْمُحْرِمِ بَعْدَ إِحْرَامِہِ کَحُرْمَۃِ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ کَانَ ثُبُوْتُ الطِّیْبِ عَلَیْہِ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ وَإِنْ کَانَ قَدْ تَطَیَّبَ قَدْ قَبِلَ إِحْرَامَہٗ کَتَطْیِیْبِہٖ بِہِ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَبِہٖ نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٣٥٣١: ابراہیم بن محمد بن المنتشر نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے خوشبو کے متعلق سوال کیا کہ آیا احرام کے وقت لگانا درست ہے تو انھوں نے فرمایا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں صبح کے وقت احرام باندھوں اور مجھ سے خوشبو مہک رہی ہو۔ پھر ابن عمر (رض) نے اپنے کسی بیٹے کو عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان کا ارشاد معلوم ہو تو اس بیٹے نے نقل کیا کہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشبو لگائی پھر آپ نے اپنی ازواج کے ہاں چکر لگایا پھر صبح کو احرام باندھا تو یہ سن کر ابن عمر (رض) خاموش ہوگئے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں اس بات کی دلالت موجود ہے کہ آپ کے احرام باندھنے اور خوشبو لگانے کے مابین غسل کا فاصلہ پایا گیا کیونہ آپ اپنی ازواج مطہرات (رض) کے پاس غسل کے بغیر نہ جاتے تھے ۔ تو گویا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے ان روایات سے ان لوگوں کے خلاف استدلال کیا ہے جو اس بات کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ احرام کے بعد اس سے خوشبو آئے جیسا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے بھی اس کو پسند نہ فرمایا۔ باقی احرام کے بعد محرم کے جسم پر خوشبو کا باقی رہنا جب کہ اس نے احرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو۔ پس اس روایت کا معنیٰ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لیے کہ اس کا معنیٰ نہایت لطیف ہے۔ ہم ان آثار کی وجوہ بیان کرچکے پس ہمیں اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ہم بطریق نظر اس اختلاف کی صورت معلوم کریں پس ہم نے پڑتال کی تو ہم نے احرام کو قمیص ‘ پاجامہ ‘ موزہ ‘ پگڑی کا مانع پایا اور خوشبو ‘ شکار کرنے اور اس کے قتل سے بھی مانع پایا۔ پھر ہم نے جانا کہ اگر آدمی قمیص ‘ پاجامہ احرام سے پہلے پہن لے پھر احرام باندھے اور وہ پاجامہ پہنے ہو توا سے اس کے اتار ڈالنے کا کہا جائے گا۔ اگر وہ اسے نہ اتارے اور اپنے جسم پر باقی رہنے دے تو اس کا حال اسی طرح شمار ہوگا جیسا اس نے احرام کے بعد مستقبل کے لباس کے طور پر پہن رکھا ہے۔ اس پر وہ چیز لازم ہوگی جو بعد میں پہننے سے لازم آتی ہے جب کہ وہ احرام کے بعد دوبارہ سلے ہوئے کپڑے پہن لے۔ اسی طرح اگر اس نے شکار کرلیا جب کہ وہ حِلّ میں تھا اور وہ اس وقت حلال تھا پھر اسے تھامے رکھا۔ پھر اس نے احرام باندھ لیا تو اس شکار کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے کا کہا جائے گا ۔ اگر اس نے شکار نہ چھوڑا تو اس کا حکم احرام کے بعد شکار کرنے والے کی طرح ہے۔ جس شکار کو احرام باندھنے کی حالت میں پکڑا ۔ اسی طرح خوشبو محرم کے لیے حرام ہے جیسا یہ چیزیں حرام ہیں تو اس پر خوشبو کا باقی رہنا خواہ اس نے احرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو وہ احرام کے بعد خوشبو لگانے کی طرح ہے۔ قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے۔ جیسا کہ ہم نے وضاحت کردی ۔ اس باب میں قیاس یہی ہے ‘ اور اسی کو ہم ( طحاوی (رح) ) نے اختیار کیا اور یہ امام محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے ۔
تخریج : مسلم فی الحج ٤٧؍٤٩۔
حاصل روایت : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے احرام اور خوشبو کے درمیان غسل کا فاصلہ ہے کیونکہ جب آپ عورتوں کے ہاں جاتے تو پھر غسل جنابت بھی ضرور کرتے تھے (مگر عورتوں کے ہاں جانے سے ان سے قربت کرنا کیسے لازم ہوا کہ غسل کو لازم مان لیا جائے) اس اعتبار سے یہ تمام روایات اس کے خلاف حجت ہیں جو احرام کے بعد محرم سے خوشبو کے آنے کو بھی مکروہ خیال کرتے ہیں جیسا کہ ابن عمر (رض) مکروہ خیال کرتے تھے۔ احرام کے بعد نفس خوشبو کا رہ جانا اگرچہ اس نے احرام سے پہلے لگائی ہو وہ ہم اس حدیث سے نہیں سمجھتے اس کا معنی ایک لطیف معنی ہے ان آثار کی وجوہ تو ہم بیان کرچکے ہیں۔
نظر طحاوی (رض) :
ہم دیکھتے ہیں کہ احرام میں قمیص ‘ پاجامہ ‘ موزہ ‘ پگڑی ‘ خوشبو ‘ شکار کرنا اور اس کو روک کر رکھنا سب ناجائز ہیں۔
پھر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی قمیص یا پاجامہ احرام سے پہلے پہن لے اور پھر وہ احرام اسی طرح باندھ لے کہ وہ پاجامہ پہنے ہوئے ہو تو اس کو پاجامہ اتارنے کے لیے کہا جائے گا اگر وہ اتار دے تو ٹھیک ورنہ پاجامہ کو اسی طرح باقی رکھنے کی صورت میں اس کا حکم اسی طرح ہوگا جیسا کسی نے احرام باندھ کر پاجامہ پہن لیا ہو اس صورت میں اس پر دم لازم آتا ہے تو اس حالت کو باقی رکھنے سے بھی دم لازم ہوگا جیسا کہ نئے سرے سے پہننے سے لازم آتا ہے۔
بالکل اسی طرح اگر اس نے حلال ہونے کی حالت میں حرم سے باہر شکار کیا پھر اس کو اس نے اپنے پاس محبوس رکھا پھر احرام باندھ لیا۔ جبکہ وہ شکار زندہ اس کے پاس محبوس تھا تو اس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ شکار کو چھوڑ دے اگر اس نے نہ چھوڑا تو اس کا احرام کے بعد شکار کو پکڑنا جو حکم رکھتا وہی حکم اس پکڑے ہوئے شکار کو اپنے ہاں محبوس رکھنے کا ہے ان میں کوئی تفاوت نہیں بلکہ ہر دو حالتوں میں دم لازم ہوگا۔
پس اس کو سامنے رکھتے ہوئے احرام کے بعد احرام سے پہلے لگائی ہوئی خوشبو کا باقی رکھنا احرام کے بعد خوشبو لگانے کی طرح ہے۔ قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے اور یہ امام محمد (رح) کا قول ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
نوٹ : : اس موقعہ پر بھی طحاوی (رح) کا قول جمہور احناف کے خلاف ہے روایات کی تاویلات میں کچھ زبردستی نظر آتی ہے۔ روایت کے اعتبار سے شیخین کا قول زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ واللہ اعلم۔
وللناس فیما یعشقون مذاہب۔

3532

۳۵۳۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ وَسُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ .ح
٣٥٣٢: ابن مرزوق نے ابوالولید اور سلیمان بن حرب سے روایت کی ہے۔
حاصل روایات : احرام کی حالت میں ضرورت شدیدہ کی بناء پر اگر کسی حاجی نے سلا ہو اکپڑا پہن لیا تو کفارہ لازم ہوگا یا نہیں۔ ! امام شافعی احمد رحمہم اللہ کے ہاں ضرورت شدیدہ سے کپڑا پہننا جائز ہے اور اس پر کچھ کفارہ لازم نہیں۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ (رح) ومالک رحمہم اللہ کے ہاں ضرورت شدیدہ کی وجہ سے کپڑا ور موزہ استعمال تو کرسکتے ہیں مگر اس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
ضرورت شدیدہ کی وجہ سے سلا ہوا کپڑا اور موزہ پہنا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ سے کسی قسم کا کفارہ لازم نہ ہوگا۔
جیسا کہ یہ روایات ثابت کرتی ہیں۔

3533

۳۵۳۳ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَۃَ یَقُوْلُ (مَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَارًا لَبِسَ سَرَاوِیْلًا وَمَنْ لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ لَبِسَ خُفَّیْنِ)
٣٥٣٣: جابر بن زید نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میدان عرفات میں یہ فرماتے سنا جس کو تہبند میسر نہ ہو وہ شلوار پہن لے اور جس کے پاس جوتا نہ ہو وہ موزے پہن لے۔
تخریج : باختلاف یسیر من اللفظ۔ بخاری فی اللباس باب ١٤؍٣٧‘ والصید باب ١٥؍١٦‘ مسلم فی الحج ٤؍٥‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٣١‘ نسائی فی المناسک باب ٣٢‘ والزینہ باب ٩٩‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٩‘ دارمی فی المناسک باب ٩‘ مسند احمد ١‘ ٢١٥؍٢٢١‘ ٢٧٩؍٢٨٥۔

3534

۳۵۳۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ وَلَمْ یَذْکُرْ (عَرَفَۃَ) .
٣٥٣٤: جابر بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی مگر عرفہ کا ذکر نہیں کیا۔

3535

۳۵۳۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥٣٥: سعید بن منصور نے ہشیم سے انھوں نے عمرو بن دینار سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3536

۳۵۳۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ وَسُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَخْطُبُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٥٣٦: جابر بن زید نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے کہا کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبہ دیتے سنا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3537

۳۵۳۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَذَکَرَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ (وَہُوَ یَخْطُبُ) .
٣٥٣٧: جابر بن زید نے ابن عباس (رض) پھر انھوں نے اسی طرح روایت ذکر کی ہے البتہ انھوں نے ہویخطب کے الفاظ نقل نہیں کئے۔

3538

۳۵۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : أَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔قُلْتُ (وَلَمْ یَقُلْ یُقَطِّعُہُمَا ؟) قَالَ (لَا) .
٣٥٣٨: ابوالشعثاء نے ابن عباس (رض) انھوں نے اسی طرح روایت بیان کی ہے کہ میں نے آپ کو خطبہ دیتے سنا میں نے ابن عباس (رض) سے کہا ! کیا آپ نے یقطعھما نہیں کہا۔ انھوں نے کہا نہیں۔

3539

۳۵۳۹ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْجِیْزِیُّ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ مَالِکُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ لَمْ یَجِدَ النَّعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسَ الْخُفَّیْنِ وَمَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَارًا فَلْیَلْبَسْ سَرَاوِیْلًا) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ قَوْمٌ فَقَالُوْا : مَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَارًا وَہُوَ مُحْرِمٌ لَبِسَ سَرَاوِیْلًا وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ وَمَنْ لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ لَبِسَ خُفَّیْنِ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : أَمَّا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ لُبْسِ الْمُحْرِمِ الْخُفَّ وَالسَّرَاوِیْلَ عَلَی الضَّرُوْرَۃِ فَنَحْنُ نَقُوْلُ بِذٰلِکَ وَنُبِیْحُ لَہٗ لُبْسَہُ لِلضَّرُوْرَۃِ الَّتِی ہِیَ بِہٖ۔ وَلٰـکِنَّا نُوْجِبُ عَلَیْہِ مَعَ ذٰلِکَ الْکَفَّارَۃَ وَلَیْسَ فِیْمَا رَوَیْتُمُوْہٗ نَفْیٌ لِوُجُوْبِ الْکَفَّارَۃِ وَلَا فِیْہِ وَلَا فِیْ قَوْلِنَا خِلَافٌ لِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .لِأَنَّا لَمْ نَقُلْ : لَا یَلْبَسُ الْخُفَّیْنِ اِذَا لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ وَلَا السَّرَاوِیْلَ اِذَا لَمْ یَجِدْ إِزَارًا .وَلَوْ قُلْنَا ذٰلِکَ کُنَّا مُخَالِفِیْنَ لِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَلٰـکِنَّا قَدْ أَبَحْنَا لَہٗ اللِّبَاسَ کَمَا أَبَاحَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَوْجَبْنَا عَلَیْہِ مَعَ ذٰلِکَ الْکَفَّارَۃَ بِالدَّلَائِلِ الْقَائِمَۃِ الْمُوْجِبَۃِ لِذٰلِکَ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ) عَلٰی أَنْ یَقْطَعَہُمَا مِنْ تَحْتِ الْکَعْبَیْنِ فَیَلْبَسُہُمَا کَمَا یَلْبَسُ النَّعْلَیْنِ .وَقَوْلُہٗ (مَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَارًا فَیَلْبَسُ سَرَاوِیْلًا) عَلٰی أَنْ یَشُقَّ السَّرَاوِیْلَ فَیَلْبَسُہٗ کَمَا یَلْبَسُ الْاِزَارَ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أُرِیْدَ بِہِ ھٰذَا الْمَعْنٰی فَلَسْنَا نُخَالِفُ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ وَنَحْنُ نَقُوْلُ بِذٰلِکَ وَنُثْبِتُہُ .وَإِنَّمَا وَقَعَ الْخِلَافُ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ فِی التَّأْوِیْلِ لَا فِیْ نَفْسِ الْحَدِیْثِ لِأَنَّا قَدْ صَرَفْنَا الْحَدِیْثَ إِلَی وَجْہٍ یَحْتَمِلُہٗ فَاعْرِفُوْا مَوْضِعَ خِلَافِ التَّأْوِیْلِ مِنْ مَوْضِعِ خِلَافِ الْحَدِیْثِ فَإِنَّہُمَا مُخْتَلِفَانِ وَلَا تُوْجِبُوْا عَلٰی مَنْ خَالَفَ تَأْوِیْلَکُمْ خِلَافًا لِذٰلِکَ الْحَدِیْثِ .وَقَدْ بَیَّنَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْضَ ذٰلِکَ .
٣٥٣٩: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو جوتا نہ پائے وہ موزے پہن لے اور جس کو تہبند میسر نہ ہو وہ پاجامہ پہن لے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء نے اس بات کو اختیار کیا جس شخص کو چادر مسیر نہ ہو اور وہ احرام باندھنا چاہتا ہو تو وہ پاجامہ پہن لے اس پر کچھ لازم نہ آئے گا اور جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن لے اس کے ذمہ کوئی ضمان لازم نہ ہوگا مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کچھ تم نے محرم کی مجبوری کے سلسلہ میں شلوارا ور موزے کے پہننے کا ذکر کیا ہے ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں اور تمہاری پیش کردہ روایت میں کفارے کی نفی نہیں ہے۔ اور اس میں اور ہمارے قول میں کوئی باہمی تضاد نہیں پایا جاتا کیونکہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ جوتے اور ازار کے نہ ملنے کی صورت میں وہ موزے اور پاجامہ نہ پہنے۔ اگر ہم یہ بات کہتے تو تب ہماری بات روایت کے مخالف ہوتی ۔ مگر ہم نے اس کے لیے اس لباس کو جائز رکھا ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہننا درست قرار دیا ہے۔ پھر دیگر دلائل سے اس پر کفارے کو لازم قرار دیا ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کہ جو شخص جوتے نہ پائے وہ موزے پہننے میں یہ احتمال ہے کہ جو ان کو استعمال کرے وہ ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر جوتے کی طرح بنا لے اور استعمال کرے۔ اور آپ کے ارشاد گرامی کہ جس کو ازار میسر نہ ہو وہ پاجامہ پہن لے اس میں بھی احتمال ہے کہ وہ اسے کاٹ کر ازار کی طرح بنا لے اگر اس حدیث کا یہ مفہوم لیا جائے تو یہ ہمارے ذرہ بھر خلاف نہیں ہے ہم تو اس کے قائل اور اس کو ثابت کرنے والے ہوں گے ‘ تو ہمارے اور تمہارے درمیان صرف تاویل میں فرق ہوا ‘ نفس روایت میں اختلاف نہ ہوا کیونکہ ہم نے اس کا وہ مفہوم لیا جس کا اس میں احتمال ہے تمہیں چاہے کہ حدیث سے اختلاف اور تاویل سے اختلاف میں واضح فرق کو پہچانو۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں جو تمہاری تاویل سے اختلاف کرتا ہے تو اسے حدیث کا مخالف قرار دیتے ہو۔ ہماری تائید کی بعض باتیں حضرت ابن عمر (رض) کی ان روایات میں ملاحظہ کرلیں۔
تخریج : مسلم فی الحج ٥۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کو تہبند میسر نہ ہو اور وہ احرام باندھنا چاہتا ہو تو وہ پاجامہ پہن لے اسی طرح جس کو جوتا مہیا نہ ہو تو وہ احرام کی حالت میں موزے پہن لے اس کو کچھ بھی کفارہ اد انہ کرنا پڑے گا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جوابات : محرم اگر ازار اور نعل میسر نہ آنے کی وجہ سے پاجامہ اور موزہ استعمال کرے تو جائز اور درست ہے اور ضرورت کا تقاضا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر کفارہ لازم ہوگا۔
مؤقف اول کا جواب نمبر 1: سابقہ تمام روایات میں کوئی ایسی روایت نہیں جو کفارہ کی نفی کرتی ہو ان میں صرف مجبوری کی حالت میں ان کے استعمال کا جواز مذکور ہے اور ہمارے مؤقف کی نفی نہیں پس ہمارے ثبوت کفارہ کی روایات اپنے مقام پر ثابت رہیں گی۔
جواب نمبر 2: من لم یجد نعلین فلیلبس خفین کہ جس کے پاس جوتا نہ ہو وہ موزے کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر جوتے کی طرح بنا لے اور پہنے رکھے اور اسی طرح سراویل کو چیر کر ازار کی طرح بنا لے اور پہنے رکھے اس میں کفارہ بھی نہ ہوگا اور اس کا کام بھی بن جائے گا اب روایات ہمارے مؤقف کے عین مطابق بن گئی گویا اصل اختلاف نفس روایت میں نہیں بلکہ تاویل روایت میں ہے ہم نے حدیث کو محتمل معانی کی طرف پھیر کر روایات میں موافقت پیدا کرلی اور تمہاری تاویل کو تسلیم کرنے کی صورت میں ان روایات کی کھلی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔
ہمارے اس دوسرے جواب کی تائید عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت سے ہو رہی ہے۔

3540

۳۵۴۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : قَالَ أَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا نَلْبَسُ مِنَ الثِّیَابِ اِذَا أَحْرَمْنَا ؟ فَقَالَ لَا تَلْبَسُوْا السَّرَاوِیْلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ أَحَدٌ لَیْسَتْ لَہٗ نَعْلَانِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ)
٣٥٤٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جب ہم احرام باندھیں تو کیا پہنیں تو آپ نے فرمایا پگڑیاں ‘ پاجامے ‘ ٹوپیاں ‘ موزے مت پہنو البتہ وہ آدمی جس کے ہاں جوتے نہ ہوں وہ اپنے موزے ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ١٣؍١٥‘ والحج باب ٢١‘ باب ٩‘ موطا مالک فی الحج ٨‘ مسند احمد ٢؍٢٩‘ ٣٢؍٣٤‘ ٧٧؍١١٩۔

3541

۳۵۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٤١: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3542

۳۵۴۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ أَیُّوْبَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥٤٢: حماد بن سلمہ نے ایوب سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3543

۳۵۴۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٤٣: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3544

۳۵۴۴ : حَدَّثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْغَافِقِیِّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ہُوَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٤٤: زہری نے سالم سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3545

۳۵۴۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٥٤٥: ابن ابی ذئب نے زہری سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3546

۳۵۴۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ .ح .
٣٥٤٦: حجاج نے عبدالعزیز بن مسلم سے روایت نقل کی ہے۔

3547

۳۵۴۷ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ قَالَا جَمِیْعًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٣٥٤٧: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3548

۳۵۴۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ دِیْنَارٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (مَنْ لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ وَلْیَشُقَّہُمَا مِنْ عِنْدِ الْکَعْبَیْنِ) فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلُبْسِ الْخُفَّیْنِ الَّذِیْ أَبَاحَہٗ لِلْمُحْرِمِ کَیْفَ ہُوَ وَأَنَّہٗ بِخِلَافِ مَا یَلْبَسُ الْحَلَالُ .وَلَمْ یُبَیِّنِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِہٖ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَحَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أُوْلَاہُمَا .وَإِذَا کَانَ مَا أَبَاحَ لِلْمُحْرِمِ مِنْ لُبْسِ الْخُفَّیْنِ ہُوَ بِخِلَافِ مَا یَلْبَسُ الْحَلَالُ فَکَذٰلِکَ مَا أَبَاحَ لَہٗ مِنْ لُبْسِ السَّرَاوِیْلِ ہُوَ بِخِلَافِ مَا یَلْبَسُ الْحَلَالُ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ فَإِنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْمَنْ وَجَدَ إِزَارًا أَنَّ لُبْسَ السَّرَاوِیْلِ لَہٗ غَیْرُ مُبَاحٍ لِأَنَّ الْاِحْرَامَ قَدْ مَنَعَہٗ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَذٰلِکَ مَنْ وَجَدَ نَعْلَیْنِ فَحَرَامٌ عَلَیْہِ لُبْسُ الْخُفَّیْنِ مِنْ غَیْرِ ضَرُوْرَۃٍ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ لُبْسِ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ الضَّرُوْرَۃِ کَیْفَ ہُوَ ؟ وَہَلْ یُوْجِبُ کَفَّارَۃً أَوْ لَا یُوْجِبُہَا ؟ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْاِحْرَامَ یُنْہِیْ عَنْ أَشْیَائَ قَدْ کَانَتْ مُبَاحَۃً قَبْلَہٗ مِنْہَا : لُبْسُ الْقَمِیْصِ وَالْعَمَائِمِ وَالْخِفَافِ وَالسَّرَاوِیْلَاتِ وَالْبَرَانِسِ .وَکَانَ مَنْ اُضْطُرَّ فَوَجَدَ الْحَرَّ فَغَطّٰی رَأْسَہٗ وَوَجَدَ الْبَرْدَ فَلَبِسَ ثِیَابُہٗ أَنَّہٗ قَدْ فَعَلَ مَا ہُوَ مُبَاحٌ لَہٗ فِعْلُہٗ وَعَلَیْہِ الْکَفَّارَۃُ مَعَ ذٰلِکَ وَحَرُمَ عَلَیْہِ الْاِحْرَامُ أَیْضًا حَلْقُ الرَّأْسِ إِلَّا مِنْ ضَرُوْرَۃٍ .وَکَانَ مَنْ حَلَقَ رَأْسَہٗ مِنْ ضَرُوْرَۃٍ فَقَدْ فَعَلَ مَا ہُوَ لَہٗ مُبَاحٌ وَالْکَفَّارَۃُ عَلَیْہِ وَاجِبَۃٌ .فَکَانَ حَلْقُ الرَّأْسِ لِلْمُحْرِمِ - فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ - اِذَا أُبِیْحَ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ لَمْ یَکُنْ اِبَاحَتُہُ تُسْقِطُ الْکَفَّارَۃَ بَلَ الْکَفَّارَۃُ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہِ وَاجِبَۃٌ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ کَہِیَ فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ .وَکَذٰلِکَ لُبْسُ الْقَمِیْصِ الَّذِیْ حَرُمَ عَلَیْہِ فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ .فَإِذَا کَانَتْ الضَّرُوْرَۃُ فَأُبِیْحَ ذٰلِکَ لَہٗ لَمْ یَسْقُطْ بِذَلک الضَّمَانُ فَکَانَتِ الْکَفَّارَۃُ عَلَیْہِ وَاجِبَۃً فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ فَلَمْ یَکُنْ الضَّرُوْرَۃُ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا تُسْقِطُ کَفَّارَۃً کَانَتْ تَجِبُ فِیْ شَیْئٍ فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ وَإِنَّمَا تُسْقِطُ الْآثَامَ خَاصَّۃً .فَکَذٰلِکَ الضَّرُوْرَاتُ فِیْ لُبْسِ الْخِفَافِ وَالسَّرَاوِیْلَاتِ لَا تُوْجِبُ سُقُوطَ الْکَفَّارَاتِ الَّتِیْ کَانَتْ تَجِبُ لَوْ لَمْ تَکُنْ تِلْکَ الضَّرُوْرَاتُ وَلٰـکِنَّہَا تَرْفَعُ الْآثَامَ خَاصَّۃً .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ أَیْضًا وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ۔ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی - .
٣٥٤٨: عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو جوتے نہ پائے وہ ٹخنوں کی جگہ سے ان کو چیر دے۔ تو حضرت ابن عمر (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے موزے پہننے کی خبر دے رہے ہیں کہ محر م ان کو کس طرح استعمال کرے اور یہ طریقہ غیر محرم کے پہننے کے طریقہ کے خلاف ہے اور ابن عباس (رض) نے اپنی روایت میں اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں فرمائی ۔ پھر حضرت عمر (رض) والی روایت ابن عباس (رض) ہر وایت سے اولیٰ ہے۔ تو جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موزوں کو محرم کے لیے پہننے کا طریقہ بتلادیا جو غیر محرم سے مختلف ہے۔ تو بالکل اسی طرح اس کے لیے پاجامہ پہننے کا جو طریقہ بتلایا گیا ہے وہ غیر محرم سے مختلف ہے۔ روایات کی تصحیح کے طریقہ پر یہ بیان و وضاحت ہے جہاں تک قیاس و نظر کا تعلق ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ ازار پہننے والے کو پاجامہ کا استعمال جائز نہیں ۔ کیونکہ یہ احرام کے خلاف ہے اسی طرح جس کو جوتا میسر ہو اس کے لیے موزوں کا استعمال درست نہیں ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بوقت ضرورت ان کے پہننے کا طریق کار کیا ہے اور کیا اس سے کفارہ لازم ہوگا یا نہیں ؟ ہم نے پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ احرام کی وجہ سے بعض چیزیں ممنوع تھیں ۔ ان میں قمیص ‘ پگڑیاں ‘ موزے دستانے ‘ پاجامہ ‘ شلوار وغیرہ شامل ہیں۔ اب جو شخص گرمی سے مجبوری ہو کر سر کو ڈھانپ لے یا سردی کی وجہ سے کپڑے پہن لے ۔ اس نے ایسا کام کیا ہے جو اس کے لیے جائز مگر اسپر کفارہ تو لازم ہوگا۔ اور احرام کے پیش نظر اس پر سر کا مونڈوانا بھی حرام ہے۔ اب جو شخص ضرورت کی وجہ سے سرمنڈوائے گا وہ ایک جائز کام کرتا ہے۔ مگر اس پر کفارہ لازم ہوتا ہے۔ محرم کے لیے ضرورت میں جو چیز جائز ہوگی تو عدم ضرورت میں وہ عدم جواز کی طرف لوٹے گی۔ تو اس محرم سے یہ چیز کفارے کو ساقط نہ کرے گی۔ بلکہ عدم ضرورت کی طرح سرمنڈانے میں جو کفارہ آتا ہے۔ وہ ضرورت کے وقت منڈانے میں اسی طرح لازم رہے گا۔ قمیص کے متعلق بھی یہی احتمال ہے کہ بلا ضرورت اس کا پہننا ناجائز ہے جب ضرورت میں اس کو جائز قرار دیا جائے گا تو اس سے ضمان ساقط نہ ہوگی اور یہ سب صورتیں اس پر کفارے کو واجب قرار دیں گی۔ پس جب کفارہ ضرورت کے بغیر کسی عمل سے لازم آتا ہے۔ تو وہ ضرورت کی بناء پر ساقط نہ ہوگا ۔ صرف ان کا گناہ نہ ہوگا ۔ اسی طرح موزوں ‘ پاجاموں کے پہننے کی صورت ان سے کفارے کو ساقط نہ کرے گی ۔ جو کفارہ کو بلا ضرورت استعمال سے لازم آتا ہے۔ یہ اس سے گناہ کو زائل کردیتی ہے۔ اس باب میں نظر کا تقاضہ ہے یہی امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤٧۔
حاصل روایات : ابن عمر (رض) نے اپنی روایت میں محرم کے لیے موزے پہننے کی کیفیت ذکر کی ہے جبکہ اس کے بالمقابل روایت ابن عباس (رض) اس وضاحت سے خالی ہے جب ان چیزوں کو محرم کے لیے پہننا درست قرار دیا گیا تو ان کے پہننے کا طریق کار بھی بتلا دیا اور وہ حلال کی صورت میں پہننے کا جو طریق کار ہے اس کے خلاف ہے اسی طرح جو سراویل پہننے کی اجازت دی وہ حلال ہونے کی صورت میں پہنے جانے والے سراویل سے مختلف ہے۔
آثار کے طریقہ سے یہ بات اسی طرح ثابت ہو رہی ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
ہم نے غور و فکر کیا تو اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ پایا کہ جس آدمی کو ازار میسر ہو وہ سراویل نہیں پہن سکتا نہ اس کے لیے جائز ہے اس میں اس کا احرام مانع ہے۔
اسی طرح جس کو جوتے میسر ہوں اسے بلاضرورت موزوں کا استعمال جائز نہیں ہے۔ اب ہم نے ضرورۃً اس کے استعمال پر غور کیا کہ آیا اس سے کفارہ لازم آنا چاہیے یا نہیں۔
چنانچہ ہم نے دیکھا احرام نے کئی ایسی چیزوں سے منع کردیا ہے جو پہلے مباح تھیں مثلاً قمیص ‘ پگڑی ‘ ٹوپی ‘ موزے ‘ شلوار ‘ پاجامہ وغیرہ اب جو شخص گرمی یا سردی سے مجبور ہوگیا اور اس نے مجبوری میں ان چیزوں کو استعمال کیا تو اس نے مباح فعل کیا مگر اس کے باوجود اس پر کفارہ ہوگا۔ اسی طرح احرام کی حالت میں سر کا منڈوانا بھی حرام ہے ہاں اگر اس سے ضرورۃً سر منڈوایا تو اس پر کفارہ واجبہ ہوگا اگرچہ اس نے فعل مباح کو اختیار کیا۔
حاصل ضرورت : اب اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ سر کا منڈوانا جو محرم کے لیے ضرورۃً جائز قرار دیا گیا وہ کفارے کو ساقط نہیں کرتا بلکہ بہر صورت کفارہ لازم آتا ہے خواہ ضرورت کی حالت ہو یا بلاضرورت۔
بالکل اسی طرح قمیص کا پہننا بلاضرورت حرام ہے جب ضرورت نے اس کے لیے اس کا استعمال مباح قرار دیا تو کفارہ اس سے ساقط نہ ہو بلکہ ہر صورت میں کفارہ لازم رہا۔ ضرورت سے صرف گناہ کو ساقط کیا۔ اسی طرح شلوار ‘ موزہ کے سلسلہ میں ان کا ضرورۃً استعمال کفارات کو ساقط نہ کرے گا جو کفارات عدم ضرورت کے استعمال سے لازم آئے بلکہ صرف ضرورت گناہ کو ساقط کرے گی۔
اس باب میں نظر کا بھی یہی تقاضہ ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

3549

۳۵۴۹ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ وَأَبُوْ صَالِحٍ کَاتِبُ اللَّیْثِ قَالَا : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَلْبَسُوْا ثَوْبًا مَسَّہٗ وَرْسٌ أَوْ زَعْفَرَانٌ) یَعْنِیْ فِی الْاِحْرَامِ .
٣٥٤٩: سالم نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا احرام میں اس کپڑے کو مت استعمال کرو جس کو ورس و زعفران نے چھوا ہو۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٥٣‘ والصلاۃ باب ٩‘ الحج باب ٢١‘ ٢٣‘ واللباس باب ١٣‘ ١٤‘ ١٥٠‘ مسلم فی الحج ١‘ ٢‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٣١‘ ترمذی فی الحج باب ١٨‘ نسائی فی المناسک باب ٢٨؍٣٠‘ ٣١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٩‘ دارمی فی المناسک باب ٩‘ موطا مالک ٨‘ مسند احمد ٢؍٨٠٤‘ ٥٤‘ ٥٦‘ ٥٩‘ ٦٣‘ ٦٥‘ ٧٧۔
نمبر 1: عروہ اور مجاہد رحمہم اللہ اور ابن حزم (رح) کے ہاں ورس و زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کا استعمال مطلقاً ناجائز ہے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے ہاں اگر اس کپڑے کو دھو کر صاف کرلیا تو محرم کو بلاکراہت پہننا جائز اور درست ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : ورس و زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کا استعمال محرم کے لیے خواہ اس کو دھو لیا جائے تب بھی جائز نہیں ہے۔ جیسا ان روایات سے ثابت ہوتا ہے۔

3550

۳۵۵۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٥٠ : عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3551

۳۵۵۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٣٥٥١: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3552

۳۵۵۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : کُلُّ ثَوْبٍ مَسَّہٗ وَرْسٌ أَوْ زَعْفَرَانٌ فَلاَ یَحِلُّ لُبْسُہٗ فِی الْاِحْرَامِ وَإِنْ غُسِلَ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُبَیِّنْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا غُسِلَ مِنْ ذٰلِکَ مِمَّا لَمْ یُغْسَلْ فَنَہْیُہُ عَلٰی ذٰلِکَ کُلِّہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا غُسِلَ مِنْ ذٰلِکَ حَتَّی صَارَ لَا یَنْفَضُّ فَلاَ بَأْسَ بِلُبْسِہِ فِی الْاِحْرَامِ لِأَنَّ الثَّوْبَ الَّذِی صُبِغَ إِنَّمَا نُہِیَ عَنْ لُبْسِہِ فِی الْاِحْرَامِ لَمَّا کَانَ قَدْ دَخَلَہٗ مِمَّا ہُوَ حَرَامٌ عَلَی الْمُحْرِمِ فَإِذَا غُسِلَ فَخَرَجَ ذٰلِکَ مِنْہُ ذَہَبَ الْمَعْنَی الَّذِیْ کَانَ لَہُ النَّہْیُ وَعَادَ الثَّوْبُ إِلٰی أَصْلِہِ الْأَوَّلِ قَبْلَ أَنْ یُصِیْبَہُ ذٰلِکَ الَّذِیْ غُسِلَ مِنْہُ .وَقَالُوْا : ھٰذَا کَالثَّوْبِ الطَّاہِرِ یُصِیْبُہٗ النَّجَاسَۃُ فَیَنْجُسُ بِذَلک فَلاَ تَجُوْزُ الصَّلَاۃُ فِیْہِ فَإِذَا غُسِلَ حَتّٰی یَخْرُجَ مِنْہُ النَّجَاسَۃُ طَہُرَ وَحَلَّتِ الصَّلَاۃُ فِیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ اسْتَثْنٰی مِمَّا حَرَّمَہٗ عَلَی الْمُحْرِمِ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالَ (إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ غَسِیْلًا) .
٣٥٥٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اس آثار کو اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کپڑے میں ورس و زعفران لگی ہو اس کا استعمال احرام میں درست نہیں ہے۔ خواہ اسے دھو ڈالا جائے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار میں دھوئے جانے والا کپڑے کو نہ دھوئے جانے والے سے الگ ذکر نہیں فرمایا پس ممانعت دونوں ہی قسموں سے متعلق ہوگئی۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا جس کپڑے کو دھولیں اور اس سے مہک ختم ہوجائے اسے حالت احرام میں استعمال کرنا چنداں حرج نہیں رکھتا اور ورس و زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کی ممانعت کا سبب یہ کہ وہ ایسا کپڑا پہن کر احرام میں داخل ہو رہا ہے۔ جس کا استعمال محرم پر حرام ہے۔ جب وہ دھوڈالا گیا تو وہ اس حکم سے نکل گیا اور وجہ ممانعت جاتی رہی اور کپڑا اپنی اصل حالت میں لوٹ آیا جو کہ اس سے پہنچنے سے پہلے کی حالت تھی ۔ اس کپڑے کا حال اس پاک کپڑے جیسا ہے کہ جس کو نجاست لگ گئی تو اس کے ساتھ نماز جائز نہ رہی جب نجاست سے پاک کردیا گیا اور نجاست کو زائل کردیا تو وہ پاک ہوگیا۔ اس کے ساتھ نماز جائز ہوگی ۔ اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہے کہ آپ نے محرم پر حرام ہونے والی صورت سے اس کو مستثنیٰ کر کے بیان فرمایا اور فرمایا مگر اس صورت میں کہ اسے دھوڈالا جائے۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر وہ کپڑا جس کو زعفران یا ورس نے چھوا ہو خواہ اسے دھو لیا جائے یا نہ دھویا جائے ہر صورۃ میں اس کا استعمال ناجائز ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کپڑے کے مغسول و غیر مغسول ہونے میں کوئی فرق نہیں فرمایا۔
فریق ثانی کا مؤقف :
ورس و زعفران جس کپڑے کو لگ جائے اور اس کو دھو ڈالا جائے یہاں تک کہ وہ نہ جھڑے تو محرم کو اسے احرام میں استعمال کرنا درست ہے کیونکہ دھو ڈالنے کی وجہ سے وہ ممانعت والی وجہ ختم ہوگئی اور کپڑا اپنی اس حالت پر آگیا جو زعفران سے پہلے تھی اور اس کی مثال اس پاک کپڑے جیسی ہے جس کو نجاست پہنچنے سے وہ نجس ہوگیا اس میں نماز ناجائز ہوگئی پھر جب اسے دھو لیا گیا اور نجاست کا اثر اس سے جاتا رہا تو وہ کپڑا پاک ہوگیا اور اس میں نماز بھی درست و جائز ہوگئی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس کے استثناء کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ ” الا ان یکون غسیلًا “

3553

۳۵۵۳ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْأَزْدِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ .ح .
٣٥٥٣: یحییٰ بن عبدالحمید ازدی نے ابو معاویہ سے نقل کیا۔

3554

۳۵۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ وَزَادَ (إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ غَسِیْلًا) .قَالَ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ : وَرَأَیْتُ یَحْیٰی بْنَ مَعِیْنٍ وَہُوَ یَتَعَجَّبُ مِنَ الْحِمَّانِیِّ أَنْ یُحَدِّثَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالَ لَہٗ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ (ھٰذَا عِنْدِی) .ثُمَّ وَثَبَ مِنْ فَوْرِہِ فَجَائَ بِأَصْلِہِ فَأَخْرَجَ مِنْہُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ أَبِیْ مُعَاوِیَۃَ کَمَا ذَکَرَہُ یَحْیَی الْحِمَّانِیُّ فَکَتَبَہٗ عَنْہُ یَحْیٰی بْنُ مَعِیْنٍ فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا اسْتِثْنَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْغُسْلَ مِمَّا قَدْ مَسَّہٗ وَرْسٌ أَوْ زَعْفَرَانٌ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی - وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ نَفَرٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٣٥٥٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے جو ہم اس باب کے شروع میں ذکر کر آئے مگر اس میں یہ اضافہ موجود ہے۔ ” الا ان یکون غسیلًا “ تو جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس سے ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے سے دھلے ہوئے کپڑے کو مستثنیٰ فرمایا۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ متقدمین کی ایک جماعت سے بھی یہ قول مروی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تحقیق : ابن ابی عمران کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو دیکھا کہ وہ حمانی سے تعجب کر رہے تھے جبکہ وہ اس روایت کو بیان کررہا تھا تو عبدالرحمن بن صالح ان کو کہنے لگے یہ روایت تو میرے پاس بھی موجود ہے پھر فوراً اٹھ کر گئے اور اپنے اصل مخطوطہ کو لے آئے اور اس سے یہ حدیث نکال کر ان کو دکھائی جس کی سند یہ تھی۔ یحیٰی حمانی عن ابی معاویہ الی آخر الحدیث تو یحییٰ بن معین نے اس سے یہ روایت لکھ لی۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤١۔
اس روایت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورس و زعفران والے دھوئے ہوئے کپڑے کو مستثنیٰ کرنا ثابت ہوگیا۔
یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے۔

3555

۳۵۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّہٗ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ لَہٗ : إِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُحْرِمَ وَلَیْسَ لِی إِلَّا ھٰذَا الثَّوَابُ ثَوْبٌ مَصْبُوغٌ بِزَعْفَرَانٍ. قَالَ : آللّٰہُ مَا تَجِدُ غَیْرَہٗ ؟ فَحَلَفَ فَقَالَ : (اغْسِلْہُ وَأَحْرِمْ فِیْہِ) .
٣٥٥٥: ابو بشر نے سعید بن المسیب کے متعلق نقل کیا کہ ان کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا میں احرام باندھنا چاہتا ہوں اور میرے پاس صرف یہ زعفران سے رنگا ہوا کپڑا ہے انھوں نے قسم دے کر کہا کیا تم اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کہتے ہو کہ تمہارے پاس اس کے سوا کوئی کپڑا نہیں ہے تو اس نے قسم اٹھائی تو آپ نے فرمایا اس کو دھو ڈالو اور پھر اسے احرام میں استعمال کرو۔

3556

۳۵۵۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ لَیْثٍ عَنْ طَاوٗسٍ قَالَ : اِذَا کَانَ فِی الثَّوْبِ زَعْفَرَانٌ أَوْ وَرْسٌ فَغُسِلَ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یُحْرِمَ فِیْہِ .
٣٥٥٦: لیث نے طاوس سے نقل کیا کہ جب کپڑے پر ورس و زعفران ملا جلا لگ گیا پھر اس نے اسے دھو ڈالا تو اس کپڑے کو احرام میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

3557

۳۵۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فِی الثَّوْبِ یَکُوْنُ فِیْہِ وَرْسٌ أَوْ زَعْفَرَانٌ فَغُسِلَ (إِنَّہٗ لَمْ یَرَ بَأْسًا أَنْ یُحْرِمَ فِیْہِ) .
٣٥٥٧: مغیرہ نے ابراہیم نخعی (رح) سے ایسے کپڑے کے متعلق دریافت کیا گیا جس میں زعفران یا ورس لگ گیا ہو اور پھر اس کو دھو لیا گیا۔ تو اس کو احرام کے لیے استعمال کرلینے میں حرج نہیں ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں بھی جواز اور عدم جواز کا اختلاف ہے اس باب میں روایات و آثار پر اکتفا کیا گیا یہ باب بھی نظر سے خالی ہے استثناء والی روایت کے بعد مجمل روایات کی تفصیل ہوجانے سے تمام روایات میں شاندار تطبیق ہوگئی۔

3558

۳۵۵۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَطَائٍ بْنِ لَبِیْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ (جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِی الْمَسْجِدِ فَقَدَّ قَمِیْصَہٗ مِنْ جَیْبِہٖ حَتّٰی أَخْرَجَہٗ مِنْ رِجْلَیْہِ فَنَظَرَ الْقَوْمُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّیْ أُمِرْتُ بِبُدُنِی الَّتِیْ بَعَثْتُ بِہَا أَنْ یُقَلَّدَ الْیَوْمَ وَیُشْعَرَ عَلٰی کَذَا وَکَذَا فَلَبِسْتُ قَمِیْصِیْ وَنَسِیْتُ لَمْ أَکُنْ لِأُخْرِجَ قَمِیْصِیْ مِنْ رَأْسِیْ) وَکَانَ بَعَثَ بِبُدُنِہِ وَأَقَامَ بِالْمَدِیْنَۃِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لِلْمُحْرِمِ أَنْ یَخْلَعَہٗ کَمَا یَخْلَعُ الْحَلَالُ قَمِیْصَہُ لِأَنَّہٗ اِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ غَطّٰی رَأْسَہٗ وَذٰلِکَ عَلَیْہِ حَرَامٌ فَأَمَرَ بِشَقِّہٖ لِذٰلِکَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یَنْزِعُہٗ نَزْعًا وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ (یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ الَّذِیْ أَحْرَمَ وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ فَأَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَنْزِعَہَا نَزْعًا) وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ بَابِ التَّطْیِیْبِ عِنْدَ الْاِحْرَامِ .فَقَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ حَدِیْثُ جَابِرٍ الَّذِیْ ذَکَرْنَا وَإِسْنَادُہٗ أَحْسَنُ مِنْ إِسْنَادِہٖ۔ فَإِنْ کَانَتْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائُ تُثْبِتُ الْاِسْنَادَ فَإِنَّ حَدِیْثَ یَعْلٰی مَعَہُ مِنْ صِحَّۃِ الْاِسْنَادِ مَا لَیْسَ مَعَ حَدِیْثِ جَابِرٍ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طُرُقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا الَّذِیْنَ کَرِہُوْا نَزْعَ الْقَمِیْصِ إِنَّمَا کَرِہُوْا ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ یُغَطِّی رَأْسَہٗ اِذَا نَزَعَ قَمِیْصَہٗ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ ہَلْ یَکُوْنُ تَغْطِیَۃُ الرَّأْسِ فِی الْاِحْرَامِ عَلٰی کُلِّ الْجِہَاتِ مَنْہِیًّا عَنْہَا أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ نُہِیَ عَنْ لُبْسِ الْقَلَانِسِ وَالْعَمَائِمِ وَالْبَرَانِسِ فَنُہِیَ أَنْ یُلْبِسَ رَأْسَہٗ شَیْئًا کَمَا نُہِیَ أَنْ یُلْبِسَ بَدَنَہُ الْقَمِیْصَ .وَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ لَوْ حَمَلَ عَلٰی رَأْسِہِ شَیْئًا ثِیَابًا أَوْ غَیْرَہَا لَمْ یَکُنْ بِذٰلِکَ بَأْسًا وَلَمْ یَدْخُلْ ذٰلِکَ فِیْمَا قَدْ نُہِیَ عَنْ تَغْطِیَۃِ الرَّأْسِ بِالْقَلَانِسِ وَمَا أَشْبَہَہَا لِأَنَّہٗ غَیْرُ لَابِسٍ مَکَانَ النَّہْیِ إِنَّمَا وَقَعَ مِنْ ذٰلِکَ عَلَی تَغْطِیَۃِ مَا یُلْبِسُہُ الرَّأْسَ لَا عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّا یُغَطَّیْ بِہٖ۔ وَکَذٰلِکَ الْأَبْدَانُ نُہِیَ عَنْ إِلْبَاسِہَا الْقَمِیْصَ وَلَمْ یُنْہَ عَنْ تَحْلِیْلِہَا بِالْأُزُرِ .فَلَمَّا کَانَ مَا وَقَعَ عَلَیْہِ النَّہْیُ مِنْ ھٰذَا فِی الرَّأْسِ إِنَّمَا ہُوَ الْاِلْبَاسُ لَا لِتَغْطِیَۃِ الَّتِیْ لَیْسَتْ بِإِلْبَاسٍ وَکَانَ اِذَا نَزَعَ قَمِیْصَہُ فَلاَقَیْ ذٰلِکَ رَأْسَہُ فَلَیْسَ ذٰلِکَ بِإِلْبَاسٍ مِنْہُ لِرَأْسِہٖ شَیْئًا إِنَّمَا ذٰلِکَ تَغْطِیَۃٌ مِنْہُ لِرَأْسِہٖ .وَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ النَّہْیَ عَنْ لُبْسِ الْقَلَانِسِ لَمْ یَقَعْ عَلَی تَغْطِیَۃِ الرَّأْسِ وَإِنَّمَا وَقَعَ عَلَی إِلْبَاسِ الرَّأْسِ فِیْ حَالِ الْاِحْرَامِ مَا یَلْبَسُ فِیْ حَالِ الْاِحْلَالِ .فَلَمَّا خَرَجَ بِذٰلِکَ مَا أَصَابَ الرَّأْسَ مِنَ الْقَمِیْصِ الْمَنْزُوْعِ مِنْ حَالِ تَغْطِیَۃِ الرَّأْسِ الْمُنْہَیْ عَنْہَا ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَدْ اخْتَلَفَ الْمُتَقَدِّمُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ .
٣٥٥٨: عبدالملک بن جابر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ‘ آپ نے اپنا قمیص گریبان سے پھاڑ ڈالا یہاں تک کہ اس کو اپنے پاؤں کی طرف سے نکالا تو لوگوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھا تو آپ نے فرمایا میں نے اپنی قربانی کے اونٹوں سے متعلق ان کو حکم دیا ہے جن کو آج قلادہ ڈالنے کے لیے بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا تاکہ ان کو اس طرح اشعار کیا جائے تو میں نے اپنا قمیص پہنا اور میں اسے اتارنا بھول گیا اب میں اپنا قمیص سر کی جانب سے نہ نکالوں گا۔ آپ اس وقت اپنی قربانی کے جانور بھیج چکے تھے اور مدینہ منورہ میں ہی اقامت اختیار کرنے والے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ محرم کو قمیص اس طرح نہ اتارنی چاہیے جس طرح غیر محرم اتارتا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا سرڈھانکا جائے گا اور یہ ناجائز ہے۔ پس اس کو کہا جائے گا کہ وہ اسے پھاڑ ڈالے۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اسے جس طرح چاہے اتارلے ان کی دلیل حضرت یعلی بن امیہ (رض) کی روایت ہے۔ کہ انھوں نے احرام باندھا اور اس وقت وہ جبہ پہنے ہوئے تھے پھر وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے ان کو اتارنے کا حکم فرمایا اور یہ بات ہم باب التطیب عند الا حرام میں ذکر کر آئے ہیں مگر حضرت جابر (رض) کی روایت اس کے خلاف ہے اور اس کی سند بھی اس سے مضبوط وقوی ہے۔ اگر دونوں روایات کا صحت کے لحاظ سے توازن کریں تو حضرت یعلی (رض) کی روایت کو وہ مقام حاصل ہے جو حضرت جابر (رض) کی روایت کو حاصل نہیں ہے۔ اور نظر وفکر کے لحاظ سے اس کی وضاحت اس طرح کہ جو لوگ قمیص کو اتارنا ناپسند کرتے ہیں ان کے ہاں اس کی وجہ یہ ہے کہ قمیص اتارتے وقت وہ سر کو ڈھانپ لے گی ‘ اب ہم اس بات کو جانچتے ہیں کہ آیا احرام کی ہر صورت میں سر ڈھانپنا ممنوع ہے یا نہیں چنانچہ غور سے معلوم ہوا کہ محرم کو ٹوپی ‘ پگڑی ‘ اور کوٹ وغیرہ کے ذریعہ ڈھانپنے سے تو منع کیا گیا ہے اور اس پر کوئی چیزیں پہن لینے کی بھی ممانعت کی گئی ۔ جس طرح بدن پر قمیص کے پہننے سے منع کیا گیا اور ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر محرم سر پر کوئی کپڑا رکھے تو اس میں کچھ حرج نہیں اور یہ سر کو ٹوپی کے ساتھ ڈھانپنے کے حکم میں نہیں کیونکہ وہ اسے پہننے والا نہیں ہے۔ تو ممانعت کی صورت یہ ہوگئی کہ جو شخص اس کو پہن کر سر کو ڈھانپے محض ڈھانپنا تاوان کا سبب نہیں ۔ بالکل اسی طرح جسم پر قمیص پہننے کی ممانعت ہے ڈھانپنے کی نہیں احرام کی چادر سے جسم ڈھانپنے میں کچھ حرج نہیں ۔ تو جب ممانعت پہننے کی ہے اس ڈھانپنے کی نہیں ہے جس کو پہننا قرار نہ دیا جائے جب قمیص اتاری جائے گی تو وہ سر کو ملے گی تو اس کو پہننا کوئی شمار نہیں کرتا بلکہ یہ تو سر کو ڈھانپنا ہے۔ پس یہ ممنوع نہ ہوگا۔ اس تمام بحث سے یہ بات ہوئی کہ ٹوپی پہننے کی ممانعت میں سر کا کپڑے سے ڈھانپ شامل نہیں ہے۔ سر پر ایسی چیز پہننا ممنوع ہے جو احرام کے علاوہ حالت میں پہنی جاتی ہے۔ جبکہ قمیص اتارتے وقت سر سے ٹکرانے کی صورت ڈھانپنے کا اطلاق نہیں ہوتا جو کہ ممانعت میں شامل ہو ۔ پس قیاس کے لحاظ سے بھی اس میں کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا ۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ البتہ متقدمین کے اقوال اس سلسلہ میں مختلف منقول ہیں۔ ذیل میں ملاحظہ ہوں۔
نوٹ : قدقمیصہ۔ پھاڑنا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٠٠۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر محرم احرام باندھتے وقت قمیص اتارنا بھول گیا تو اب وہ قمیص کو معتاد طریقہ سے نہ اتارے بلکہ اسے پھاڑ کر پاؤں کی جانب سے نکالے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و اجوبہ :
قمیص کو معتاد طریقہ سے اتارنے میں چنداں قباحت نہیں ہے اور اس کی دلیل باب التطیب عندالاحرام میں یعلیٰ بن امیہ (رض) والی روایت گزری ہے کہ انھوں نے احرام باندھا اور جبہ زیب تن رہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا تو آپ نے اسے اتارنے کا حکم فرمایا پھاڑنے کا حکم نہیں فرمایا۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
یہ روایت یعلی سند کے اعتبار سے روایت جابر (رض) سے بدرجہا بہتر ہے پس مضبوط روایت کو چھوڑ کر کمزور روایت کو اختیار کرنا درست نہیں۔
دوسرا جواب :۔۔۔ نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور کیا کہ سر کا ڈھانپنا ہر اعتبار سے ممنوع ہے یا نہیں۔ چنانچہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ محرم کو ٹوپی ‘ پگڑی وغیرہ پہننا ممنوع ہے اور سر پر کسی ایک بھی چیز کا پہننا اسی طرح ممنوع ہے جیسا کہ بدن پر قمیص کا استعمال ممنوع ہے محرم کے متعلق جب سوچ و فکر کی تو اس طرح معلوم ہوا کہ اگر محرم اپنے سر پر کپڑوں کی گٹھڑی یا اور کوئی چیز اٹھاتا ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں اور یہ اس میں شامل نہیں جو کہ سر کو ٹوپی رومال وغیرہ سے ڈھانپا جاتا ہے کیونکہ اس کو کوئی بھی پہننے والا نہیں کہتا تو ممانعت کا حکم اس سے متعلق ہے جو چیز پہننے میں شمار ہوئی کسی دوسری چیز پر یہ حکم نہیں لگتا جو کہ سر کو ڈھانپے۔
بالکل اسی طرح قمیص کا پہننا ممنوع ہے ازار بنا کر اس کے کھولنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
نوٹ : یہ ہوا کہ سر کے سلسلہ میں احرام کے وقت کسی چیز کا پہننا ممنوع ہے اور قمیص اتارتے ہوئے سر کو ڈھانپنے کی صورت پیش آئے گی پہننے کی نہ ہوگی اور یہ بات پہلے ثابت ہوچکی ہے کہ ٹوپیاں پہننے کی تو ممانعت ہے سر ڈھانپے یا اس پر سایہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے اور سر پر پہننے والی وہی چیز حالت احرام میں پہننے میں شمار ہوگی جو حالت احرام میں پہننے کے دائرہ میں شامل ہے۔
سر سے کھینچی جانے والی قمیص جب احلال کی صورت میں پہننے میں شامل نہیں تو حالت احرام میں بھی وہ پہننے والی چیزوں میں شمار نہ ہوگی پس اس سے ثابت ہوا کہ قمیص کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں قیاس و نظر بھی اسی طرح کہتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

3559

۳۵۵۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ .وَأَخْبَرَا مُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ وَالشَّعْبِیِّ أَنَّہُمْ قَالُوْا : اِذَا أَحْرَمَ الرَّجُلُ وَعَلَیْہِ قَمِیْصٌ فَلْیَخْرِقْہُ عَلَیْہِ حَتّٰی یَخْرُجَ مِنْہُ .
٣٥٥٩: یونس نے حسن بن محمد بن علی (رح) سے اسی طرح روایت کی ہے اور مغیرہ نے ابراہیم و شعبی دونوں سے نقل کیا کہ جب آدمی احرام باندھ لے اور وہ قمیص پہننے والا ہو تو اسے چاہیے کہ اسے پھاڑ کر اس سے نکل جائے۔

3560

۳۵۶۰ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرْجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ سَالِمٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ ..
٣٥٦٠: شریک نے سالم سے انھوں نے سعید بن جبیر (رح) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3561

۳۵۶۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ وَحَمَّادٌ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : اِذَا أَحْرَمَ الرَّجُلُ وَعَلَیْہِ قَمِیْصٌ قَالَ أَحَدُہُمَا : یَشُقُّہٗ وَقَالَ الْآخَرُ : یَخْلَعُہٗ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ ..
٣٥٦١: مغیرہ و حماد دونوں نے ابراہیم سے نقل کیا کہ جب کسی نے اس حالت میں احرام باندھ لیا کہ اس کے جسم پر قمیص موجود تھی تو ایک نے کہا اس کو پھاڑ ڈالے دوسرے نے کہا اس کو پاؤں کی جانب سے اتار دے۔

3562

۳۵۶۲ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ (أَنَّ رَجُلًا یُقَالُ لَہٗ یَعْلَی بْنُ أُمَیَّۃَ أَحْرَمَ وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ فَأَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْزِعَہَا) قَالَ قَتَادَۃُ : قُلْت لِعَطَائٍ : إِنَّمَا کُنَّا نَرٰی أَنْ یَشُقَّہَا فَقَالَ عَطَاء ٌ (إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ)
٣٥٦٢: قتادہ نے عطاء بن ابی رباح سے نقل کیا کہ ایک آدمی جس کا نام یعلیٰ بن امیہ تھا انھوں نے اس حالت میں احرام باندھا کہ ان پر جبہ تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے جبہ اتارنے کا حکم فرمایا قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا ہمارے خیال میں تو اسے قمیص پھاڑ دینا چاہیے تو عطاء کہنے لگے : ” ان اللہ لا یحب الفساد “ اللہ تعالیٰ بلاوجہ بگاڑ کو پسند نہیں فرماتے۔

3563

۳۵۶۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ الْأَزْدِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرَمَۃَ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَحْرَمَ وَعَلَیْہِ قَبَاء ٌ قَالَ : یَخْلَعُہٗ فَھٰذَا عَطَاء ٌ وَعِکْرِمَۃُ قَدْ خَالَفَ اِبْرَاہِیْمَ وَالشَّعْبِیَّ وَسَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ وَذَہَبَا إِلٰی مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ مِنْ حَدِیْثِ یَعْلٰی۔
٣٥٦٣: ابو سلمہ ازدی کہتے ہیں کہ میں نے عکرمہ کو فرماتے سنا جبکہ ان سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو اس حالت میں احرام باندھے کہ اس نے قباء پہن رکھی ہو تو وہ کہنے لگے اسے اتار دے۔ یہ عطاء ‘ عکرمہ کے اقوال ابراہیم ‘ شعبی ‘ ابن جبیر (رح) سے مختلف ہیں۔ اول دوکا رحجان روایت یعلی بن امیہ (رض) کی طرف ہے جو کہ ہمارا مؤقف ہے۔
عطاء و عکرمہ کا قول ابراہیم ‘ شعبی اور سعید بن جبیر کے خلاف ہے اور وہ دونوں اسی طرف گئے ہیں جو روایت یعلیٰ بن امیہ میں وارد ہے۔

3564

۳۵۶۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ)
٣٥٦٤: قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد فرمایا ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج باب ١٢٢‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣۔
زمانہ اسلام سے پہلے حج کے مہینوں میں عمرہ کو افجرالفجور کہا جاتا تھا اسلام نے اس کو باطل کردیا ۔ ! امام مالک کے ہاں تو اب بھی حج کے مہینوں میں عمرہ مکروہ ہے " مگر شافعی و احمد رحمہم اللہ نے سال کی ہر گھڑی میں بلاکراہت جواز ثابت کیا ہے۔ #امام ابوحنیفہ صرف یوم عرفہ ‘ یوم نحر اور ایام تشریق میں عمرے کو ارکان حج میں امکان خلل کی وجہ سے مکروہ قرار دیتے ہیں حج کی اول قسم کو افراد کہا جاتا ہے مکہ سے باہر والے لوگ کسی بھی میقات سے فقط حج کا احرام باندھیں اور طواف قدوم کے بعد احرام میں رہیں یوم نحر میں رمی جمرہ عقبہ کے بعد احرام کھولیں۔ اس پر قربانی لازم نہیں ایک طواف اور ایک سعی لازم ہے۔
نمبر 2: دوسری قسم حج تمتع ہے میقات سے عمرہ کا احرام باندھ لیں افعال عمرہ کے بعد حلال ہوجائیں پھر ایام حج میں گھر یا بیت اللہ شریف سے حج کا احرام باندھیں یوم نحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دم تمتع ادا کر کے حلال ہوں۔
نمبر 3: تیسری قسم قران ہے حج وعمرہ کا اکٹھا احرام میقات سے باندھیں افعال عمرہ کر کے احرام نہ کھولیں اسی احرام سے حج ادا کریں پھر یوم نحر میں رمی کے بعد دم شکر سے فارغ ہو کر احرام کھولیں اس پر دو طواف اور دو سعی لازم ہوتی ہیں ان میں سب سے افضل یہ تیسری قسم ہے اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ باب قائم کیا گیا ہے اس مسئلہ سے متعلق علماء کے تین مذاہب معروف ہیں۔
نمبر 1: امام مالک ابراہیم نخعی ‘ مجاہد رحمہم اللہ حج افراد کو سب سے افضل قرار دیتے ہیں۔
نمبر 2: امام احمد ‘ شافعی اور حسن بصری رحمہم اللہ کے ہاں تمتع سب سے افضل ہے۔ #ائمہ احناف اور سفیان ثوری قران کو افضل قرار دیتے ہیں۔ تفصیلی روایات ملاحظہ ہوں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
حج افراد سب سے افضل ہے جیسا کہ ان روایات سے ثابت ہو رہا ہے ذہب قوم سے یہی لوگ مراد ہیں۔

3565

۳۵۶۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ہُوَ ابْنُ مُوْسٰی - قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ خَرَجْنَا وَلَا نَرٰی إِلَّا أَنَّہٗ الْحَجُّ)
٣٥٦٥: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم مدینہ منورہ سے نکلے اور ہمارا خیال یہی تھا کہ آپ فقط حج کریں گے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣۔

3566

۳۵۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ نَوْفَلٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ‘ وَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَۃٍ‘ وَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ وَأَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ فَأَمَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ‘ فَحَلَّ‘ وَأَمَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ أَوْ جَمَعَ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ فَلَمْ یُحِلَّ‘ حَتّٰی یَوْمِ النَّحْرِ) .
٣٥٦٦: عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں حجۃ الوداع کے سال نکلے ہم میں بعض وہ تھے جو عمرہ کا احرام باندھنے والے تھے اور دوسرے حج وعمرہ کا احرام باندھنے والے تھے اور بعض نے صرف حج کا احرام باندھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج ہی کا احرام باندھا پھر جنہوں نے فقط عمرہ کا احرام باندھا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئے اور جنہوں نے حج کا احرام باندھا یا حج وعمرہ کا اکٹھا احرام باندھا وہ حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ یوم نحر آیا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ مسلم فی الحج ١١٨۔

3567

۳۵۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَلْقَمَۃُ بْنُ أَبِیْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ أُمِّہٖ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَبْدَأَ بِالْعُمْرَۃِ قَبْلَ الْحَجِّ فَلْیَفْعَلْ‘ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ)
٣٥٦٧: علقمہ بن ابی علقمہ نے اپنی والدہ سے انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے دن حکم فرمایا جو شخص عمرے کی ابتداء حج سے پہلے چاہتا ہو وہ کرے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کیا۔
تخریج : مسلم فی الحج ١١٤۔

3568

۳۵۶۸ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أُمِّہٖ‘ عَنْ أَسْمَائَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ مُہَلِّیْنَ بِالْحَجِّ)
٣٥٦٨: منصور بن عبدالرحمن نے اپنی والدہ سے انھوں نے اسماء (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج کا احرام باندھنے والے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣٥٠۔

3569

۳۵۶۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِہِ الطَّوِیْلِ‘ فَقَالَ (فَأَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالتَّوْحِیْدِ‘ وَلَمْ یَزِدْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی النَّاسِ شَیْئًا‘ وَلَسْنَا نَنْوِیْ إِلَّا الْحَجَّ‘ وَلَا نَعْرِفُ الْعُمْرَۃَ)
٣٥٦٩: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے طویل روایت میں ذکر کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیلا حج کا احرام باندھا اور اس پر کچھ بھی اضافہ نہیں فرمایا ہم صرف حج ہی کی نیت کرتے تھے اور عمرہ کو نہ جانتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٤٧۔

3570

۳۵۷۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ (جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُہَلِّیْنَ بِالْحَجِّ مُفْرِدًا) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : الْاِفْرَادُ أَفْضَلُ مِنَ التَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ‘ وَقَالُوْا : بِہٖ کَانَ أَحْرَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : اَلتَّمَتُّعُ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ أَفْضَلُ مِنَ الْاِفْرَادِ وَالْقِرَانِ‘ وَقَالُوْا : ہُوَ الَّذِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہٗ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٥٧٠: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج افراد کا حرام باندھنے والے تھے۔ امام طحاوی (رح) نے فرمایا بعض علماءؒ نے اس بات کو اختیار کیا کہ حج افراد تمتع اور قران سے افضل ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں اس کا احرام باندھا تھا۔ علماء کی دوسری جماعت نے فرمایا تمتع اس عمرہ کے ساتھ حج سے ملا ہو ہے۔ یہ افراد قران سے افضل ہے ‘ اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ حجۃ الوداع میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی اختیار فرمایا اور ذیل کی روایات پیش کی جاتی ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کا احرام باندھا اور افضلیت اسی قسم میں ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار فرمایا پس حج افراد کا سب سے افضل ہونا ثابت ہوگیا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل و جواب :
حج تمتع سب سے افضل ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج تمتع فرمایا جیسا کہ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے۔

3571

۳۵۷۱ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ : اجْتَمَعَ عَلِیٌّ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِ (عُسْفَانَ) وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَنْہَیْ عَنِ الْمُتْعَۃِ فَقَالَ لَہٗ عَلِیٌّ : مَا تُرِیْدُ إِلٰی أَمْرٍ قَدْ فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَنْہٰی عَنْہُ فَقَالَ : دَعْنَا مِنْک‘ فَقَالَ : إِنِّیْ لَا أَسْتَطِیْعُ أَنْ أَدَعَک‘ ثُمَّ أَہَلَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِہِمَا جَمِیْعًا۔
٣٥٧١: سعید بن المسیب روایت کرتے ہیں کہ علی و عثمان (رض) مقام عسفان میں جمع ہوئے جبکہ عثمان (رض) حج تمتع سے روک رہے تھے تو علی (رض) نے ان سے کہا تمہارا اس بات سے منع کرنے کا کیا مقصد ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود کیا تو انھوں نے کہا تم ہمیں مت کچھ کہو تو علی (رض) نے کہا میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ نہیں سکتا پھر علی (رض) نے دونوں کا اکٹھا احرام باندھا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤۔

3572

۳۵۷۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ : (حَجَّ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہٗ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ ؟ قَالَ : بَلٰیْ)
٣٥٧٢: سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ عثمان (رض) نے حج کیا تو ان کو علی (رض) نے کہا کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں سنا ؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں !

3573

۳۵۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِیْ وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ‘ عَامَ حَجَّ مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ وَہُمَا یَذْکُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ الضَّحَّاکُ : (لَا یَصْنَعُ ذٰلِکَ إِلَّا مَنْ جَہِلَ أَمْرَ اللّٰہِ) فَقَالَ سَعْدٌ (بِئْسَ مَا قُلْتُ یَا ابْنَ أَخِیْ) فَقَالَ الضَّحَّاکُ (فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ) فَقَالَ سَعْدٌ (قَدْ صَنَعَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَنَعْنَاہَا مَعَہٗ)
٣٥٧٣: محمد بن عبداللہ بن حارث نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) اور ضحاک بن قیس (رض) سے اسی وقت سنا جبکہ معاویہ بن ابی سفیان نے حج کروایا وہ دونوں حج تمتع کا ذکر کر رہے تھے۔ تو ضحاک کہنے لگے حج وعمرہ تو وہی جمع کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ناواقف ہو۔ اس پر سعد کہنے لگے۔ اے بھتیجے تم نے بہت غلط بات کی۔ تو ضحاک نے سن کر کہا عمر (رض) نے اس سے منع فرمایا ہے تو اس کے جواب میں سعد کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود تمتع کیا تو ہم نے آپ کے ساتھ تمتع کیا ہے۔
تخریج : ترمذی فی الحج باب ١٢‘ نسائی فی المناسک باب ٥٠۔

3574

۳۵۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٥٧٤: بشر بن عمر کہتے ہیں کہ ہمیں مالک نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3575

۳۵۷۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ‘ عَنْ غُنَیْمِ بْنِ قَیْسٍ‘ قَالَ : سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ عَنْ مُتْعَۃِ الْحَجِّ فَقَالَ : فَعَلْنَاہَا وَہُوَ یَوْمَئِذٍ مُشْرِکٌ بِالْعَرْشِ یَعْنِیْ مُعَاوِیَۃَ‘ یَعْنِیْ (عُرُوشَ بُیُوْتِ مَکَّۃَ)
٣٥٧٥: غنیم بن قیس نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن مالک سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا ہم نے یہ کیا ہے۔ جبکہ معاویہ بیوت مکہ میں شرک کی حالت میں تھا (ابھی اسلام نہ لائے تھے)
تخریج : مسلم فی الحج ١٦٤‘ مسند احمد ١؍١٨١۔

3576

۳۵۷۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مُسْلِمٍ وَہُوَ الْقَرِّیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ (أَہَلَّ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ‘ وَأَہَلَّ ہُوَ بِالْعُمْرَۃِ‘ فَمَنْ کَانَ مَعَہٗ ہَدْیٌ لَمْ یُحِلَّ‘ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ ہََدْیٌ أَحَلَّ‘ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَۃُ‘ مِمَّنْ مَعَہُمَا الْہَدْیُ‘ فَلَمْ یُحِلَّا)
٣٥٧٦: شعبہ نے مسلم القری سے بیان کیا انھوں نے ابن عباس (رض) کو فرماتے سنا کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا احرام باندھا اور آپ نے خود عمرہ کا احرام باندھا پس جن کے ساتھ ہدی تھے وہ حلال نہ ہوئے اور جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہ تھا وہ حلال ہوگئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور طلحہ (رض) ان لوگوں سے تھے جن کے ساتھ ہدی تھی اس لیے آپ نے احرام نہیں کھولا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢٤‘ باختصار۔

3577

۳۵۷۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنَ الْمَرْوَزِیِّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَمْزَۃَ‘ عَنْ لَیْثٍ ہُوَ ابْنُ أَبِیْ سُلَیْمٍ ح
٣٥٧٧: ابو حمزہ نے لیث سے انھوں نے ابن ابی سلیم سے روایت نقل کی ہے۔

3578

۳۵۷۸ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ لَیْثٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (تَمَتَّعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی مَاتَ‘ وَأَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی مَاتَ‘ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی مَاتَ‘ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی مَاتَ) قَالَ سُلَیْمَانُ فِیْ حَدِیْثِہٖ (وَأَوَّلُ مَنْ نَہٰی عَنْہَا مُعَاوِیَۃُ)
٣٥٧٨: لیث نے طاؤس سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی اور ابوبکر نے تمتع کیا یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی اور عمر (رض) نے وفات تک تمتع کیا اور عثمان (رض) نے وفات تک تمتع کیا۔
سلیمان نے اپنی روایت میں ذکر کیا کہ سب سے پہلا شخص جس نے تمتع سے منع کیا وہ معاویہ (رض) ہیں۔
تخریج : ترمذی فی الحج باب ١٢‘ نسائی فی المناسک باب ٥٠۔

3579

۳۵۷۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَرِیْکٍ‘ قَالَ : تَمَتَّعْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ وَابْنَ عَبَّاسٍ وَابْنَ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ فَقَالُوْا (ہُدِیْتُ لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ‘ تَقَدَّمَ ثُمَّ تَطُوْفُ ثُمَّ تُحِلُّ)
٣٥٧٩: عبداللہ بن شریک روایت کرتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کیا تو میں نے ابن عمر ‘ ابن عباس ‘ ابن الزبیر ] سے دریافت کیا تو سب نے کہا تم نے سنت نبوت کو پا لیا آگے بڑھو پھر طواف کرو (اور سعی کر کے) احرام کھول دو ۔

3580

۳۵۸۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ نَحْوَہٗ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ قَالَ أَبُوْ غَسَّانَ : أَظُنُّہٗ قَالَ (لِسُنَّۃِ نَبِیِّک افْعَلْ کَذَا‘ ثُمَّ أَحْرَمَ یَوْمَ التَّرْوِیَۃِ وَافْعَلْ کَذَا‘ وَافْعَلْ کَذَا)
٣٥٨٠: ابو عثمان نے شریک سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی بس اتنا فرق ہے کہ ابو غسان نے بیان کیا کہ میرے خیال میں ان کے الفاظ یہ تھے : ” لسنۃ نبیک افعل کذا ثم احرم یوم الترویہ “ اور یہ کرو اور یہ کرو۔ (انہوں نے عمرہ اور حج کے افعال کی وضاحت کردی) ۔

3581

۳۵۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ‘ قَالَ : تَمَتَّعْتُ فَنَہَانِیْ نَاسٌ عَنْہَا فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَأَمَرَ لِیْ بِہَا فَتَمَتَّعْتُ فَنِمْتُ فَأَتَانِی آتٍ فِی الْمَنَامِ فَقَالَ (عُمْرَۃٌ مُتَقَبَّلَۃٌ‘ وَحَجٌّ مَبْرُوْرٌ) فَأَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَتْہُ فَقَالَ (اللّٰہُ أَکْبَرُ سُنَّۃُ أَبِی الْقَاسِمِ‘ أَوْ سُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٥٨١: شعبہ ابو حمزہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کا ارادہ کیا تو مجھے کچھ لوگوں نے روکا تو میں نے ابن عباس (رض) سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو انھوں نے مجھے تمتع کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے تمتع کیا اور مجھے نیند آگئی تو مجھے خواب آیا تو کسی کہنے والے نے آواز دی۔ تمہارا عمرہ مقبول اور حج حج مبرور کی بشارت ہو۔ اس کے بعد بیدار ہو کر میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی تو کہنے لگے اللہ اکبر یہ جناب ابوالقاسم یا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔

3582

۳۵۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ہُوَ أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ قَالَ (إِنِّیْ لَجَالِسٌ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الْمَسْجِدِ اِذْ جَائَ ہٗ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ‘ فَسَأَلَہٗ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ) فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ (حَسَنٌ جَمِیْلٌ) فَقَالَ : فَإِنَّ أَبَاک کَانَ یَنْہٰی عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ (وَیْلَکَ‘ فَإِنْ کَانَ أَبِیْ قَدْ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَأَمَرَ بِہٖ، فَبِقَوْلِ أَبِیْ تَأْخُذُ‘ أَمْ بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟) قَالَ : بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالَ (قُمْ عَنِّیْ) ۔
٣٥٨٢: زہری نے سالم سے روایت کی ہے کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ مسجد میں بیٹھا تھا جبکہ ان کے پاس ایک شامی آدمی آیا اور ان سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو ابن عمر (رض) نے فرمایا۔ بہت خوب اور عمدہ ہے اس نے کہا تمہارے والد تو اس سے منع کرتے تھے۔ تو انھوں نے کہا تم پر افسوس ! اگر بالفرض میرے والد نے منع کیا ہو اور ادھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کیا ہو تو تو کس کی بات کو لے گا۔ اس نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو اختیار کروں گا اس پر ابن عمر (رض) نے فرمایا بس یہاں سے چلے جاؤ!
تخریج : ترمذی فی الحج باب ١٢۔

3583

۳۵۸۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہَ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (تَمَتَّعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَأَہْدٰی وَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ‘ وَبَدَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَأَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ)
٣٥٨٣: سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا اور ہدی کے جانوروں کو ذوالحلیفہ سے روانہ کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ سے ابتداء کی پھر حج کا احرام باندھا اور لوگوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کو عمرہ کے ساتھ ملا کر کرنے کا نفع اٹھایا۔

3584

۳۵۸۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَخْبَرَتْہُ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَمَتُّعِہِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ‘ وَتَمَتُّعِ النَّاسِ مَعَہٗ بِمِثْلِ الَّذِیْ أَخْبَرَنِیْ بِہِ) سَالِمٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ خِلَافَ ھٰذَا فَرَوَیْتُمْ عَنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ) وَرَوَیْتُمْ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ نَوْفَلٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ فَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ‘ وَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِحَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ‘ وَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ وَأَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ) وَرَوَیْتُمْ عَنْ أُمِّ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ أَفْرَدَ الْحَجَّ وَلَمْ یَعْتَمِرْ) قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْاِفْرَادُ الَّذِیْ ذَکَرَہُ ھٰذَا‘ عَلٰی مَعْنٰی لَا یُخَالِفُ مَعْنٰی مَا رَوَی الزُّہْرِیُّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْاِفْرَادُ الَّذِیْ ذَکَرَہُ الْقَاسِمُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ إِنَّمَا أَرَادَتْ بِہِ إِفْرَادَ الْحَجِّ فِیْ وَقْتِ مَا أَحْرَمَ‘ وَإِنْ کَانَ قَدْ أَحْرَمَ بَعْدَ خُرُوْجِہِ مِنْہُ بِعُمْرَۃٍ فَأَرَادَتْ أَنَّہٗ لَمْ یَخْلِطْہُ فِیْ وَقْتِ إِحْرَامِہٖ بِہٖ، بِإِحْرَامٍ بِعُمْرَۃٍ‘ کَمَا فَعَلَ غَیْرُہٗ، مِمَّنْ کَانَ مَعَہٗ وَأَمَّا حَدِیْثُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَإِنَّہَا أَخْبَرَتْ أَنَّ مِنْہُمْ‘ مَنْ أَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ لَا حَجَّۃَ مَعَہَا‘ وَمِنْہُمْ مَنْ أَہَلَّ بِحَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ‘ یَعْنِیْ مَقْرُوْنَتَیْنِ‘ وَمِنْہُمْ مَنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْ ذٰلِکَ التَّمَتُّعَ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الَّذِیْ قَدْ کَانُوْا أَحْرَمُوْا بِالْعُمْرَۃِ‘ أَحْرَمُوْا بَعْدَہَا بِحَجَّۃٍ‘ لَیْسَ حَدِیْثُہَا ھٰذَا‘ یَنْفِیْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا وَأَنَّہَا قَالَتْ (وَأَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ مُفْرِدًا) ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ الْحَجُّ الْمُفْرَدُ‘ بَعْدَ عُمْرَۃٍ قَدْ کَانَتْ تَقَدَّمَتْ مِنْہُ مُفْرَدَۃً فَیَکُوْنُ قَدْ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ الْقَاسِمِ‘ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عُرْوَۃَ ثُمَّ أَحْرَمَ بَعْدَ ذٰلِکَ بِحَجَّۃٍ‘ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ حَتّٰی تَتَّفِقَ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ وَلَا تَتَضَادَّ فَأَمَّا مَعْنٰی مَا رَوَتْ أُمُّ عَلْقَمَۃُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ وَلَمْ یَعْتَمِرْ) ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ تُرِیْدُ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یَعْتَمِرْ فِیْ وَقْتِ إِحْرَامِہٖ بِالْحَجِّ کَمَا فَعَلَ بَعْضُ مَنْ کَانَ مَعَہٗ، وَلٰکِنَّہٗ اعْتَمَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ
٣٥٨٤: عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج تمتع کی خبر دی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا جیسا کہ مجھے سالم نے عبداللہ عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبر دی۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم نے اس باب کی ابتداء میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس کے خلاف روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد فرمایا ہے اور دوسری روایت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس طرح نقل کی کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع والے سال نکلے ہم میں سے بعض نے عمرے اور بعض نے حج وغیرہ اور بعض نے فقط حج کا احرام باندھا ہوا تھا۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فقط حج کا احرام باندھا۔ “ اسی طرح تیسری روایت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس طرح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع والے سال حج افراد کا احرام باندھا اور عمرہ نہیں کیا۔ “ اس کو جواب میں یہ کہا جائے گا وہ افراد جس کا تذکرہ ان روایات مذکورہ بالا میں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ افراد اس طرح کا ہو جو زہری (رح) کی اس روایت کے مفہوم کے مخالف نہ ہو۔ جو انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کی ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ اس طرح ہو کہ جس افراد کو قاسم نے پہلی روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ذکر کیا ہے اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ جب آپ نے احرام باندھا تو حج افراد کا باندھا اگرچہ اس سے فراغت کے بعد عمرہ کا احرام باندھا ہو بلکہ ان کی مراد یہ کہ حج کے احرام کے ساتھ عمرے کے احرام کو نہیں ملایا جیسا کہ آپ کے کئی صحابہ کرام (رض) نے کہا۔ رہی دوسری روایت عائشہ صدیقہ (رض) اس میں انھوں نے یہ خبر دی ہے ‘ کہ ان میں سے بعض نے فقط عمرے کا احرام باندھا اور بعض نے فقط حج کا احرام باندھا ۔ اس روایت میں تمتع کا تذکرہ نہیں ہے تو عین ممکن ہے۔ کہ جنہوں نے پہلے عمرے کا احرام باندھا انھوں نے اس کے بعد حج کا احرام بھی باندھا ہو ‘ ان کی اس روایت میں اس بات کی کچھ بھی نفی نہیں ہے اور حضرت صدیقہ (رض) تو یہ فرما رہی ہیں واھل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالحج مفرداً ‘ ‘ تو یہ کہنا ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ حج مفرد ہو ۔ اس عمرہ کے بعد جو آپ نے پہلے فقط عمرے ہی کا احرام باندھا جیسا کہ قاسم ومحمد بن عبد الرحمن کی روایات میں ہے کہ پھر آپ نے اس کے بعد حج کا احرام باندھا۔ جیسا کہ زہری والی روایت میں عروہ سے منقول ہے۔ ( یہ اس لیے کہا) تاکہ آثار متفق ہوجائیں اور ان میں تضاد نہ رہے۔ رہی ام علقمہ نے جو حضرت صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ : (ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افرد الحج ولم یعتمر) تو عین ممکن ہے کہ اس سے حضرت صدیقہ (رض) کی مراد یہ ہو کہ آپ نے حج کا احرام باندھتے وقت عمرہ نہیں کیا جیسا کہ آپ کے ساتھ بعض صحابہ کرام (رض) نے کیا ۔ بلکہ اس کے بعد عمرہ کیا۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حج حج تمتع تھا۔
ایک اشکال :
شروع باب میں تم نے عائشہ (رض) کی روایت جس کو قاسم نے نقل کیا اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کیا۔
نمبر 2: اسی طرح عروہ عن عائشہ (رض) کی روایت۔
نمبر 3: ام علقمہ عن عائشہ (رض) کی روایات ان تمام رویا ات میں تو حج افراد کا واضح تذکرہ ہے۔ اور عمرہ نہ کرنے کا صاف ذکر ہے۔
حاصل کلام :
نمبر 1: حضرت عائشہ (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حج کے احرام کے ساتھ ملا کر عمرے کا احرام نہیں باندھا حج کا پہلے احرام باندھا پھر عمرے کا احرام باندھا دوسروں کی طرح نہیں کیا کہ جنہوں نے دونوں کا احرام ملا کر باندھا تھا فقط حج کے احرام کو افرد الحج سے تعبیر کیا۔ ارکان عمرہ کی ادائیگی کے بعد حج کا احرام باندھنا یا حج کا احرام باندھ کر پھر عمرہ کا احرام باندھنا یہ تمتع کے منافی نہیں ہے۔
نمبر 2: روایت عروہ میں حضرت عائشۃ (رض) سے یہ بتلایا کہ بعض نے فقط عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا حج کا احرام ساتھ نہ تھا اور بعض نے حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھ رکھا تھا یعنی دونوں کا اکٹھا احرام باندھا اور بعض نے فقط حج کا احرام تمتع کے تذکرہ کے بغیر باندھا اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا انھوں نے اس کے بعد حج کا احرام فراغت عمرہ کے بعد باندھ لیا تو یہ روایت حج تمتع کی بالکل نفی نہیں کرتی۔
نمبر 3: عائشہ صدیقہ (رض) کی یہ روایت اہل رسول اللہ ا بالحج مفردًا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عمرہ الگ سے مکمل کرنے کے بعد اس حج کا احرام باندھا اس لیے اس کو مفرد د سے تعبیر کیا ‘ مفرد عمرے کا تذکرہ روایت قاسم اور محمد عن عروہ میں موجود ہے پھر حج کا احرام مفرد باندھا جیسا کہ روایت زہری میں وارد ہے۔ اس سے ان روایات کے مابین اختلاف نہ رہا۔
نمبر 4: روایت ام علقمہ : ان رسول اللہ افرد بالحج ولم یعتمر “ اس کا معنی یہ ہے کہ حج کے احرام کے وقت آپ نے عمرہ نہیں کیا جیسا کہ آپ کے بعض اصحاب نے کیا بلکہ پہلے عمرہ الگ احرام سے آپ کرچکے تھے تو حج کے ساتھ عمرہ نہیں کیا۔ یا مطلب یہ ہے۔ حج کے احرام سے آپ نے عمرہ نہیں کیا بلکہ حج کے بعد عمرہ کیا جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

3585

۳۵۸۵ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہَیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ مَوْلٰی أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَدَّثَہٗ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَسْمَائَ لَمَّا مَرَّتْ بِالْحَجُوْنِ تَقُوْلُ (صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَہٗ ہٰہُنَا وَنَحْنُ خِفَافُ الْحَقَائِبِ‘ قَلِیْلٌ ظُہُوْرُنَا قَلِیْلَۃٌ أَزْوَادُنَا فَاعْتَمَرْتُ أَنَا وَأُخْتِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَالزُّبَیْرُ‘ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ‘ فَلَمَّا مَسَحْنَا الْبَیْتَ‘ أَحْلَلْنَا‘ ثُمَّ أَہْلَلْنَا مِنَ الْعَشِیِّ بِالْحَجِّ) فَھٰذِہٖ أَسْمَائُ تُخْبِرُ أَنَّ مَنْ کَانَ حِیْنَئِذٍ اِبْتَدَأَ بِعُمْرَۃٍ‘ فَقَدْ أَحْرَمَ بَعْدَہَا بِحَجَّۃٍ‘ فَصَارَ بِہَا مُتَمَتِّعًا
٣٥٨٥: ابوالاسود سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر (رض) کے مولیٰ عبداللہ نے بیان کیا کہ اس نے اسماء سے سنا جبکہ ان کا گزر وادی حجون سے ہوا تو وہ کہنے لگیں اللہ تعالیٰ کے رسول پر رحمتیں نازل ہوں۔ ہم آپ کے ساتھ یہاں اترے ہمارے پاس سامان کم اور سواریاں تھوڑی تھیں۔ زاد راہ بھی تھوڑا تھا میں اور میری بہن عائشہ (رض) نے عمرے کا احرام باندھا اور زبیر اور فلاں فلاں ہمارے ساتھ تھے جب ہم نے بیت اللہ کا طواف کرلیا تو ہم نے احرام کھول دیا پھر شام کو حج کا احرام باندھ لیا۔ یہ حضرت اسماء (رض) اس بات کی خبر دے رہی ہیں کہ جن حضرات نے اس وقت عمرہ سے ابتداء کی تھی انھوں نے اس کے بعد حج کا حرام باندھا تو اس کے ذریعہ وہ متمتع ہوگئے ۔ روایات ذیل میں ہیں۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٩٣‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٤١۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اسماء خبر دے رہی ہیں کہ جنہوں نے عمرہ سے ابتداء کی تھی انھوں نے اس کے بعد حج کا احرام باندھا اس سے وہ متمتع بن گئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی طرح کیا۔

3586

۳۵۸۶ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ مُطَرِّفٍ‘ عَنْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : (تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَزَلَ فِیْہَا الْقُرْآنُ‘ فَلَمْ یَنْہَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَمْ یَنْسَخْہَا شَیْء ٌ‘ ثُمَّ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْیِہٖ مَا شَائَ)
٣٥٨٦: مطرف نے عمران سے روایت کی کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمتع کیا اور اس دوران قرآن مجید اترا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں تمتع سے منع نہیں کیا اور نہ اس میں سے کوئی چیز منسوخ کی اب اس کے بعد جو آدمی اپنی رائے سے جو کہتا ہے کہتا رہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٦۔

3587

۳۵۸۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ‘ قَالَ (تَمَتَّعْنَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتْعَۃَ الْحَجِّ‘ فَلَمْ یَنْہَنَا عَنْہَا وَلَمْ یُنْزِلِ اللّٰہُ فِیْہَا نَہْیًا)
٣٥٨٧: حسن نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں حج تمتع کیا اور آپ نے ہمیں اس سے نہ روکا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اس میں کوئی وحی اتاری۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٤٠۔

3588

۳۵۸۸ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : (تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ‘ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ إِنَّ الْقُرْآنَ ہُوَ الْقُرْآنُ‘ وَإِنَّ الرَّسُوْلَ ہُوَ الرَّسُوْلُ‘ وَإِنَّہُمَا کَانَتَا مُتْعَتَانِ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مُتْعَۃُ الْحَجِّ‘ فَافْصِلُوْا بَیْنَ حَجِّکُمْ وَعُمْرَتِکُمْ‘ فَإِنَّہٗ أَتَمُّ لِحَجِّکُمْ‘ وَأَتَمُّ لِعُمْرَتِکُمْ‘ وَالْأُخْرٰی مُتْعَۃُ النِّسَائِ ‘ فَأُنْہِیْ عَنْہَا وَأُعَاقِبُ عَلَیْہَا)
٣٥٨٨: ابو نضرہ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تمتع کیا جب عمر (رض) والی بنے تو لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا قرآن قرآن ہے اور رسول رسول ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں دو متعے تھے ایک متعۃ الحج پس تم اپنے حج وعمرہ میں فصل کرو۔ وہ تمہارے حج کے لیے تکمیل کا باعث ہے اور عمرہ زیادہ مکمل کرنے والا ہے اور دوسرا عورتوں کا متعہ ہے پس میں اس سے روکتا ہوں اور اس پر سزا دوں گا۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٤٥۔

3589

۳۵۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (مُتْعَتَانِ فَعَلْنَاہُمَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا عَنْہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمْ نَعُدْ إِلَیْہِمَا) وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا
٣٥٨٩: ابو نضرہ نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ دو متعے ایسے ہیں جن کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کیا ہمیں عمر (رض) نے ان سے روک دیا اب ہم ان کی طرف لوٹ نہیں سکتے۔ اور جناب رسول اللہ سے بھی ایسی روایات ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ بھی اسی حالت میں تھے۔

3590

۳۵۹۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ (حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّہَا قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوْا بِعُمْرَۃٍ‘ وَلَمْ تَحْلِلْ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِک ؟ فَقَالَ : إِنِّیْ لَبَّدْتُ رَأْسِیْ، وَقَلَّدْت ہَدْیِیْ، فَلاَ أَحِلُّ حَتّٰی أَنْحَرَ) فَدَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّہٗ کَانَ مُتَمَتِّعًا لِأَنَّ الْہَدْیَ الْمُقَلَّدَ‘ لَا یَمْنَعُ مِنَ الْحِلِّ إِلَّا فِی الْمُتْعَۃِ خَاصَّۃً ھٰذَا إِنْ کَانَ ذٰلِکَ الْقَوْلُ مِنْہُ بَعْدَ طَوَافِہِ لِلْعُمْرَۃِ وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ ھٰذَا الْقَوْلُ کَانَ مِنْہُ‘ قَبْلَ أَنْ یُحْرِمَ بِالْحَجِّ‘ وَقَبْلَ أَنْ یَطُوْفَ لِلْعُمْرَۃِ‘ فَکَانَ ذٰلِکَ حُکْمَہٗ، لَوْلَا سِیَاقُہُ الْہَدْیَ‘ یَحِلُّ کَمَا یَحِلُّ النَّاسُ‘ بَعْدَ أَنْ یَطُوْفَ فَلَمْ یَطُفْ‘ حَتّٰی أَحْرَمَ بِالْحَجِّ‘ فَصَارَ قَارِنًا فَلَیْسَ یَخْلُو حَدِیْثُ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ مِنْ أَحَدِ ہٰذَیْنِ التَّأْوِیْلَیْنِ وَعَلٰی أَیِّہِمَا کَانَ فِی الْحَقِیْقَۃِ‘ فَإِنَّہٗ قَدْ نَفٰی قَوْلَ مَنْ قَالَ (إِنَّہٗ کَانَ مُفْرِدًا بِحَجَّۃٍ لَمْ یَتَقَدَّمْہَا عُمْرَۃٌ‘ وَلَمْ یَکُنْ مَعَہَا عُمْرَۃٌ) وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : بَلِ الْقِرَانُ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ الْعُمْرَۃِ وَالْحَجَّۃِ أَفْضَلُ مِنْ إِفْرَادِ الْحَجِّ‘ وَمِنَ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَقَالُوْا : کَذٰلِکَ فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٥٩٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے حفصہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گزارش کی لوگ تو عمرہ کر کے حلال ہوگئے مگر آپ نے اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا تو آپ نے فرمایا۔ میں نے بالوں کو تلبید کردی ہے (ذرا سی گوند وغیرہ لگانا تاکہ بال جمے رہیں منتشر نہ ہوں اس کو تلبید کہتے ہیں) اور میں نے اپنے ہدی کو قلادہ ڈال دیا (قلادہ۔ ہدی کے گلے میں ڈالا جانے والا پٹا یا چمڑہ وغیرہ) میں اس وقت تک حلال نہ ہوں گا یہاں تک کہ میں قربانی کو ذبح نہ کرلوں۔ تو یہ روایت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ آپ تمتع کرنے والے تھے ۔ اس لیے کہ قلادہ والا ہدی حلال ہونے سے صرف تمتع کی صورت میں مانع ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات عمرے کا طواف کرلینے کے بعد فرمائی اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کا یہ ارشاد احرام حج سے پہلے کا ہو اور عمرے کا طواف کرنے سے بھی پہلے فرمایا ہو۔ پس یہی اس کا حکم تھا۔ اگر آپ نے ہری روانہ نہ کی ہوتی تو آپ دوسرے حضرات کی طرح احرام کو طواف کے بعد کھول دیتے ۔ تو آپ نے طواف نہ کیا بلکہ اس سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا پس اس سے آپ قارن بن گئے۔ حضرت حفصہ (رض) والی مذکورہ روایت میں ان دو میں سے ایک تاویل پائی جاتی ہے خواہ حقیقت میں جو صورت بھی ہو۔ پس اس سے ان لوگوں کے قول کی تو نفی ہوگئی کہ جنہوں نے یہ کہا کہ آپ نے حج افراد کیا اور اس سے پہلے عمرہ نہیں کیا اور نہ اس کے ساتھ عمرہ کیا جب کہ دیگر علماء کی جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا قران یعنی حج وغیرہ کو ملانا افضل ہے۔ یہ حج افراد تمتع دونوں سے افضل ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جناب رسول اللہ نے حجۃ الوداع میں اسی طرح کیا تھا۔ انھوں نے مندرجہ روایات کو ذکر کیا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ ١٠٧؍١٢٦‘ المغازی باب ٧٧‘ واللباس باب ٦٩‘ مسلم فی الحج ٢٧٥؍١٧٧‘ ١٧٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٤‘ نسائی فی المناسک باب ٤٠؍٦١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧٢‘ مالک فی الحج ١٨٠‘ مسند احمد ٦؍٢٨٣۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ تمتع کرنے والے تھے کیونکہ متمتع اگر ہدی روانہ کر دے تو وہ افعال عمرہ کے بعد بھی احرام نہیں کھول سکتا اور اگر یہ بات طواف عمرہ کے بعد فرمائی ہو یا احرام بالحج سے پہلے فرمائی ہو یا طواف عمرہ سے پہلے فرمائی ہو بہر صورت حکم یہی ہوگا اگر آپ ہدی روانہ فرماتے تو آپ اسی طرح عمرہ کے بعد احرام کھول دیتے جیسے دوسرے لوگوں نے کیا اور آپ حج کا احرام باندھنے تک طواف نہ کرتے تو آپ قارن بن جاتے۔ (قارن حج وعمرہ اکٹھا کرنے والا) اب دونوں تاویلات میں جو بھی اختیار کی جائے اس سے حج افراد والی بات تو ختم ہوگئی۔
فریق ثالث کا مؤقف اور دلائل و جوابات :
حج افراد و تمتع سے افضل قران ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں قران ہی کیا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

3591

۳۵۹۱ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدَۃُ بْنُ أَبِیْ لُبَابَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شَقِیْقُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِنْ تَغْلِبَ یُقَالُ لَہُ‘ ابْنُ مَعْبِدٍ‘ قَالَ (أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ جَمِیْعًا) ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذَکَرْتُ لَہٗ إہْلَالِیْ فَقَالَ : (ہُدِیْتُ لِسُنَّۃِ نَبِیِّک أَوْ لِسُنَّۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٥٩١: شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بنی تغلب کے ایک آدمی نے بیان کیا جس کو ابن معبد کہتے تھے کہ میں نے حج وعمرہ کا اکٹھا احرام باندھا جب میں عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے ان کو اپنا احرام بتلایا تو انھوں نے فرمایا تو اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راستہ پانے والا ہے یا کہا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو پانے والا ہے۔

3592

۳۵۹۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ وَالْأَعْمَشِ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ‘ مِثْلُہٗ
٣٥٩٢: منصور و اعمش نے ابو وائل سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

3593

۳۵۹۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَنَا مَنْصُوْرٌ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ یُحَدِّثُ أَنَّ الصَّبِیَّ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٥٩٣: شعبہ نے منصور سے انھوں نے ابو وائل سے نقل کیا کہ وہ اس طرح بیان کرتے تھے کہ الصبی نے اسی طرح روایت نقل کی۔

3594

۳۵۹۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : أَنَا سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ مِثْلَہٗ۔
٣٥٩٤: حماد نے سلمہ بن کھیل سے انھوں نے ابو وائل سے اسی طرح روایت بیان کی۔

3595

۳۵۹۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ مِثْلَہٗ۔
٣٥٩٥: حماد نے عاصم بن بھدلہ عن ابی وائل سے اسی طرح روایت نقل کی۔

3596

۳۵۹۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٥٩٦: شعبہ نے حکم سے انھوں نے ابو وائل سے سنا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔

3597

۳۵۹۷ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ مِثْلَہٗ۔
٣٥٩٧: شعبہ نے حکم سے انھوں نے ابو وائل سے اسی طرح روایت کی۔

3598

۳۵۹۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ قَالَ : قَالَ الصُّبَیّ بْنُ مَعْبَدٍ فَذَکَرَ نَحْوَہُ فَقَالَ الَّذِیْنَ أَنْکَرُوا الْقِرَانَ‘ إِنَّمَا قَوْلُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہُدِیْتُ لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ عَلَی الدُّعَائِ مِنْہُ لَہٗ لَا عَلَی تَصْوِیْبِہِ إِیَّاہُ فِیْ فِعْلِہٖ إِیَّاہُ فِیْ فِعْلِہٖ فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ مِمَّا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ مِنْ عُمَرَ عَلٰی جِہَۃِ الدُّعَائِ ۔
٣٥٩٨: ابوالاحوص نے اعمش سے انھوں نے ابو وائل سے وہ کہتے ہیں کہ صبی بن معبد نے کہا پھر اسی طرح بیان کیا۔ پس وہ لوگ جنہوں نے حج قران کا انکار کیا وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کا قول : ” ھدیت ِسنۃ نبیک “ اس سے اس کے لیے دعا مقصود ہے فعل کو درست قرار دینا نہیں ۔ ان کے خلاف یہ دلیل موجود ہے کہ یہ بطور دعا نہیں (بلکہ تصویب فعل مراد تھی) روایت ذیل میں ہے۔
حدیث لِسُنَّۃِ نَبِیِّک کا معنی :
اس جملہ کا معنی تمتع و افراد کو افضل کہنے والوں نے یہ لے لیا کہ یہ دعائیہ جملہ ہے کہ تم نے اچھا نہیں کیا اللہ تعالیٰ تمہیں سنت نبوی کی ہدایت فرمائے مگر زیادہ درست یہ ہے کہ یہ جملہ آپ نے ان کے فعل کی تصدیق و تحسین کے لیے فرمایا۔
اس کی دلیل یہ روایت ہے۔

3599

۳۵۹۹ : أَنَّ فَہْدًا حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شَقِیْقٌ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الصُّبَیّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ (کُنْتُ حَدِیْثَ عَہْدٍ بِنَصْرَانِیَّۃٍ فَلَمَّا أَسْلَمْتُ لَمْ آلُ أَنْ أَجْتَہِدَ فَأَہْلَلْتُ بِعُمْرَۃٍ وَحَجَّۃٍ جَمِیْعًا فَمَرَرْتُ بِالْعُذَیْبِ بِسَلْمَانَ بْنِ رَبِیْعَۃَ‘ وَزَیْدِ بْنِ صُوحَانَ‘ فَسَمِعَانِیْ وَأَنَا أُہِلُّ بِہِمَا جَمِیْعًا فَقَالَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہٖ : أَیُّہُمَا جَمِیْعًا ؟ وَقَالَ الْآخَرُ دَعْہُ فَہُوَ أَضَلُّ مِنْ بَعِیْرِہِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ وَکَانَ بَعِیْرِیْ عَلٰی عُنُقِی فَقَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَلَقِیَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَصَصْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ إِنَّہُمَا لَمْ یَقُوْلَا شَیْئًا ہُدِیْتُ لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ) .
٣٥٩٩: شقیق نے صبی بن معبد سے نقل کیا کہ میں نیا نیا مسلمان ہوا اور نصرانیت کو چھوڑا۔ میں نے دین میں کوشش سے کوئی کمی نہ چھوڑی پس میں نے حج وعمرہ کا اکٹھا احرام باندھا۔ میں مقام عذیب میں سلیمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے پاس سے گزرا انھوں نے مجھ سے سنا کہ میں حج وعمرہ کا اکٹھا تلبیہ کہتا ہوں۔ تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ ان دونوں میں کون ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے والا ہے ؟ دوسرے نے کہا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو یہ تو اپنے اونٹ سے زیادہ گمراہ ہے۔ صبی کہتے ہیں یہ بات سن کر میں چل دیا۔ میرا اونٹ بڑا تیز رفتار تھا چنانچہ میں مدینہ منورہ پہنچا اور عمر بن خطاب (رض) سے ملا اور ان سے سارا ماجرا کہہ سنایا تو انھوں نے فرمایا۔ ان دونوں نے کسی کام کی بات نہیں کہی تو نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو پا لیا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٣٨۔

3600

۳۶۰۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْحَنْظَلِیُّ‘ قَالَ : أَنَا وَکِیْعٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ عَنْ شَقِیْقٍ‘ عَنِ الصُّبَیّ بْنِ مَعْبَدٍ قَالَ (أَہْلَلْتُ بِہِمَا جَمِیْعًا فَمَرَرْتُ بِسَلْمَانَ بْنِ رَبِیْعَۃَ وَزَیْدِ بْنِ صُوحَانَ‘ فَعَابَا ذٰلِکَ عَلَیَّ) فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ (إِنَّہُمَا لَمْ یَقُوْلَا شَیْئًا ہُدِیْتُ لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فَدَلَّ قَوْلُہٗ (ہُدِیْتُ لِسُنَّۃِ نَبِیِّک) بَعْدَ قَوْلِہٖ (إِنَّہُمَا لَمْ یَقُوْلَا شَیْئًا) أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ عَلَی التَّصْوِیْبِ مِنْہُ‘ لَا عَلَی الدُّعَائِ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا
٣٦٠٠: شقیق نے صبی بن معبد سے نقل کیا کہ میں نے حج وعمرہ کا اکٹھا احرام باندھا تو میرا گزر سلیمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے پاس سے ہوا ان دونوں نے اس سلسلے میں مجھے قصور وار گردانا جب میں عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور ان کو میں نے سارا واقعہ سنایا تو انھوں نے فرمایا ان دونوں نے غلط بات کہی ہے تم نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو پا لیا ہے۔ تو آپ کے ھدیت لسنۃ نبیک “ سے جو کہ آپ نے (انھما لم یقولا شیًٔا) بعد فرمایا یہ درحقیقت ان کے فعل کی تصویب ولصدیق تھی دعا مقصود نہ تھی ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت عمر (رض) سے جو روایت نقل کی ہے وہ بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ ذیل میں روایات ملاحظہ ہوں۔
حاصل روایات : انہما لا یقولا شیئًا کے بعد ہدیت لسنۃ نبیک ان کے قول کی تصدیق ہے نہ کہ کلمہ دعائیہ جیسا کہ دوسرے فریق نے سمجھا۔

3601

۳۶۰۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِالْعَقِیْقِ یَقُوْلُ أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتٍ مِنْ رَبِّیْ فَقَالَ صَلِّ فِیْ ھٰذَا الْوَادِی الْمُبَارَکِ وَقُلْ : عُمْرَۃٌ فِیْ حَجَّۃٍ)
٣٦٠١: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ عمر (رض) نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مقام عقیق میں سنا کہ آج رات میرے رب کی طرف سے آنے والے میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے کہا تم اس وادی مبارک میں نماز نفل ادا کرو اور اس طرح کہو میں عمرہ کو حج میں داخل کرتا ہوں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٤۔

3602

۳۶۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَأَخْبَرَ عُمَرُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَتَاہُ آتٍ مِنْ رَبِّہٖ فَقَالَ لَہٗ قُلْ (عُمْرَۃٌ فِیْ حَجَّۃٍ) فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ أَمِرَ أَنْ یَجْعَلَ عُمْرَۃً فِیْ حَجَّۃِ‘ اسْتَحَالَ أَنْ یَّکُوْنَ مَا فَعَلَ خِلَافًا لِمَا أَمَرَ بِہِ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُنْقَلَ ھٰذَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ نَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ ؟ وَقَدْ ذَکَرْتُمْ ذٰلِکَ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثٍ مَالِکٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ؟ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٦٠٢: علی بن المبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تو اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے آپ سے کہا کہ آپ کہہ دیں ” عمرۃ فی حجۃ ‘ ‘ کہ عمرہ حج میں داخل ہے پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے کا حکم دیا گیا تو یہ ناممکن ہے کہ آپ اس کے خلاف کریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) سے یہ بات کیسے منقول ہوسکتی ہے جب کہ آپ نے تمتع سے منع فرمایا ؟ اور تم یہ بات ان سے مالک والی روایت میں ذکر کی ہے اور انھوں نے اس سلسلہ میں یہ روایات بھی ذکر کی ہیں۔
اس روایت میں عمر (رض) نے بتلایا کہ وادی عقیق میں آپ کو فرشتہ نے خواب میں آ کر کہا کہ تم کہو کہ عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حج کے ساتھ عمرے کا حکم فرمایا گیا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی خلاف ورزی فرمائیں۔
ایک اشکال :
اس روایت کا عمر (رض) سے نقل ہونا ممکن نہیں۔ حالانکہ انھوں نے متعہ سے روک دیا اور مالک عن زہری عن محمد بن عبداللہ کی روایت گزری کہ عمر (رض) ان سے روکتے تھے اور یہ روایت بھی موجود ہے۔

3603

۳۶۰۳ : مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : (قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مُتْعَتَانِ کَانَتَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْہٰی عَنْہُمَا وَأُعَاقِبُ عَلَیْہِمَا‘ مُتْعَۃُ النِّسَائِ ‘ وَمُتْعَۃُ الْحَجِّ)
٣٦٠٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ عمر (رض) فرماتے تھے دو قسم کے متعے جناب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں پائے جاتے تھے میں ان دونوں سے روکتا ہوں اور ان پر سزا دوں گا۔ ان میں ایک متعہ النساء اور دوسرا متعۃ الحج ہے۔

3604

۳۶۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَنْہَیْ عَنْ مُتْعَۃِ النِّسَائِ وَمُتْعَۃِ الْحَجِّ قَالُوْا : فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُعَاقِبَ أَحَدًا عَلٰی أَمْرٍ قَدْ عُلِمَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَمَرَ بِہٖ رَسُوْلَہُ؟ قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَتْ ھٰذِہِ الْمُتْعَۃُ الَّتِیْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ ہِیَ الْمُتْعَۃُ الَّتِی اِسْتَحَبَّہَا أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا وَلٰـکِنَّ ھٰذِہِ الْمُتْعَۃَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ- ہِیَ الْاِحْرَامُ الَّذِیْ کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْرَمُوْہُ بِحَجَّۃٍ‘ ثُمَّ طَافُوْا لَہَا‘ وَسَعَوْا قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ وَحَلَقُوْا وَحَلُّوْا‘ فَتِلْکَ مُتْعَۃٌ قَدْ کَانَتْ تُفْعَلُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ نُسِخَتْ‘ وَسَنَذْکُرُہَا وَمَا رُوِیَ فِیْہَا وَفِیْ نَسْخِہَا‘ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ فِیْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَھٰذِہِ الْمُتْعَۃُ الَّتِیْ نَہٰی عَنْہَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَتَوَعَّدَ مَنْ فَعَلَہَا بِالْعُقُوْبَۃِ فَأَمَّا مُتْعَۃٌ قَدْ ذَکَرَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہٖ بِقَوْلِہٖ (فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ) الْآیَۃُ وَفَعَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ، فَمُحَالٌ أَنْ یَنْہٰی عَنْہَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَلْ قَدْ رَوَیْنَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ اسْتَحَبَّہَا وَحَضَّ عَلَیْہَا
٣٦٠٤: سعید بن المسیب کہتے ہیں عمر (رض) متعہ النساء اور متعۃ الحج سے منع کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کس طرح درست ہے کہ آپ کسی سخص کو کسی ایسے فعل پر سزا دیں جس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اس صاحب اعتراض کریں گے ۔ اس روایت میں تمتع سے وہ مراد نہیں ہے جس کو پہلے فیق نے مستحب قرار دیا ہے اور پہلی فضل میں اس کا تذکرہ ہوا بلکہ اس تمتع سے مراد ایسا احرام ہے جو کہ صحابہ کرام نے حج کے لیے باندھا پھر اٹھ ذوالحجہ سے پہلے اس کے لیے طواف وسعی کی سر منڈایا اور احرام نے فارغ ہوگئے ۔ یہی متعہ ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کیا جاتا تھا بعد میں یہ منسوخ ہوا ( واللہ اعلم) اس متعہ کا تذکرہ اپنی اس کتاب کے دوسرے مقام میں کریں گے۔ یہ وہ متعہ ہے جس کو جناب عمر (رض) منع فرماتے تھے اور اس پر عمل کرنے والے کو سزا سے خبردار کیا ۔ باقی اس تمتع کا جہاں تک تعلق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے اس قول میں ذکر فرمایاـفمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما س تیسری من الھدی) اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے اسے اختیار کیا تو یہ ناممکن ہے کہ اس سے حضرت عمر (رض) اس سے منع کریں بلکہ ہم نے حضرت عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ اس پر ابھار اور اس کو مستحب قرار دیا ۔ روایت ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوا کہ عمر (رض) متعۃ النساء اور متعۃ الحج سے صرف منع ہی نہ کرتے بلکہ اس پر سزا دیتے تھے تو یہ کیونکر جائز ہے کہ جس چیز کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا ہو اور اس پر سزا دی جائے۔
حل اشکال :
یہ اعتراض درست نہیں اس کو لے کر عمر (رض) پر اعتراض بےجا ہے حضرت عمر (رض) نے جس متعہ سے منع کیا وہ اور ہے اور جس کا حکم آیت میں ثابت ہے۔ وہ متعہ اور ہے تفصیل ملاحظہ ہو۔
متعۃ النساء کی حرمت والی بات تو واضح ہے۔ متعۃ الحج سے حج تمتع ہرگز مراد نہیں بلکہ اس سے مراد وہ متعہ ہے جس کی صورت یہ تھی کہ احرام حج باندھ کر پھر طواف و سعی کر کے عرفہ سے پہلے ہی سر منڈوا دیتے اور احرام کھول دیتے یہ متعہ زمانہ نبوت میں کیا جاتا رہا پھر منسوخ ہوگیا عنقریب ہم اس کے نسخ کی روایات کا ذکر کریں گے۔ اسی کو عمر (رض) نے قانونی شکل دے کر اس کے کرنے والوں کو باز رہنے کے لیے سزا مقرر فرمائی۔
البتہ وہ متعۃ الحج جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج الایۃ البقرہ ١٩٦) اس کو جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف خود کیا بلکہ آپ کے صحابہ کرام نے بھی کیا اس سے عمر (رض) کا روکنا ناممکن ہے بلکہ عمر (رض) نے اس کو مستحب قرار دے کر اس پر لوگوں کو آمادہ کیا ہے۔
استحباب تمتع کی روایات کا عمر (رض) سے ثبوت ملاحظہ ہو۔

3605

۳۶۰۵ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ قَالَ : سَمِعْت طَاوٗسًا یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : یَقُوْلُوْنَ : إِنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ‘ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (لَوِ اعْتَمَرْتُ فِیْ عَامٍ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ حَجَجْتُ لَجَعَلْتُہَا مَعَ حَجَّتِیْ)
٣٦٠٥: طاوس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے تمتع سے منع کردیا ہے۔ حالانکہ عمر (رض) نے فرمایا ہے اگر میں ایک سال میں دو مرتبہ عمرہ کرلوں پھر میں اسی سال حج بھی کروں تو میں عمرے کو حج کے ساتھ بھی ملا لوں گا۔

3606

۳۶۰۶ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ أَنْکَرَ أَنْ یَّکُوْنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَہٰی عَنِ التَّمَتُّعِ‘ وَذَکَرَ عَنْہُ أَنَّہٗ اِسْتَحَبَّ الْقِرَانَ‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْمُتْعَۃَ الَّتِیْ تَوَعَّدَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَنْ فَعَلَہَا بِالْعُقُوْبَۃِ‘ ہِیَ الْمُتْعَۃُ الْأُخْرَی فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ أَمَرَ بِإِفْرَادِ الْحَجِّ‘ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٦٠٦: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ عمر (رض) نے فرمایا پھر انھوں نے اسی طرح ذکر کیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) ہیں جو حضرت عمر (رض) کے متعلق تمتع کی ممانعت کا انکار فرماتے ہیں اور ان کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ انھوں نے قران کو ناپسند فرمایا ۔ تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ جس تمتع کے متعلق عمر (رض) نے لوگوں کو دھمکا یا اور ڈرایا وہ دوسرا تمتع ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ آپ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور یہ روایت پیش کرے۔
حاصل روایات : یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے فصل اول کی روایت میں متعہ کی نفی کرنے پر عمر (رض) اپر تعجب کیا مگر اس روایت میں وہی ان سے قران یا تمتع کو مستحب قرار دے رہے ہیں معلوم ہوا کہ جس متعہ سے عمر (رض) نے منع فرمایا اور کرنے والوں کو سزا کی دھمکی دی وہ تمتع وہ نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ بلکہ وہ اور چیز ہے۔ جس کو منسوخ کردیا گیا۔ لفظی تشابہ سے بعض لوگوں نے وہی سمجھ لیا۔
اشکال ثانی :
حضرت عمر (رض) کی طرف حج تمتع کے استحباب کی نسبت کس طرح درست ہے جبکہ عمر (رض) تو لوگوں کو حج افراد کی ترغیب و تحریص دلاتے تھے جیسا کہ یہ روایات ثابت کر رہی ہیں۔

3607

۳۶۰۷ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلٰی‘ قَالَ : سَمِعْتُ سُوَیْدًا یَقُوْلُ : سَمِعْت عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ (أَفْرِدُوْا بِالْحَجِّ) قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا ۔ عَلٰی کَرَاہَتِہٖ‘ لِمَا سِوَی الْاِفْرَادِ مِنَ التَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ‘ وَلٰکِنَّہٗ لِاِرَادَتِہٖ مَعْنًی آخَرَ سِوٰی ذٰلِکَ‘ قَدْ بَیَّنَہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٦٠٧: ابراہیم بن عبدالاعلی کہتے ہیں کہ میں نے سوید سے سنا وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے عمر (رض) کو فرماتے سنا ہے کہ حج افراد کیا کرو۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا ۔ ہمارے ہاں اس کا مطلب افراد کے علاوہ یعنی تمتع و قران کو ناپسند کرنا نہیں بلکہ آپ نے ایک دوسرا مفہوم مراد لیا ہے جس کو ابن عمر (رض) اس طرح بیان کرتے ہیں۔
حاصل کلام : حج افراد کا حکم دینا اس بنیاد پر ہرگز نہ تھا کہ وہ قران و تمتع کو ناپسند قرار دیتے تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے لوگ سال کے بقیہ ایام میں بھی بیت اللہ میں آئیں اور وہاں لوگوں کی ہر زمانہ میں کثرت رہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی روایات میں یہ بات بیان کی ہے۔

3608

۳۶۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ح
٣٦٠٨: ابن مرزوق نے بشر بن عمر سے انھوں نے مالک سے روایت نقل کی ہے۔

3609

۳۶۰۹ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (افْصِلُوْا بَیْنَ حَجِّکُمْ وَعُمْرَتِکُمْ‘ فَإِنَّہٗ أَتَمُّ لِحَجِّ أَحَدِکُمْ‘ وَأَتَمُّ لِعُمْرَتِہٖ أَنْ یَعْتَمِرَ فِیْ غَیْرِ أَشْہُرِ الْحَجِّ)
٣٦٠٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ عمر (رض) فرماتے تھے اپنے حج وعمرہ کو الگ کیا کرو یہ چیز تمہارے عمرے کو اور حج کو زیادہ مکمل کرنے والی ہے اور عمرے کو زیادہ مکمل کرنے والی ہے کہ اگر وہ اشہر حج کے علاوہ میں عمرہ کرے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٤٥۔

3610

۳۶۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : قُلْت لِسَالِمٍ‘ لِمَ نَہٰی عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الْمُتْعَۃِ‘ وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَفَعَلَہَا النَّاسُ مَعَہٗ؟ فَقَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (إِنَّ أَتَمَّ الْعُمْرَۃِ أَنْ تُفْرِدُوْہَا مِنْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ وَالْحَجُّ أَشْہُرٌ مَعْلُوْمَاتٌ‘ فَأَخْلِصُوْا فِیْہِنَّ الْحَجَّ‘ وَاعْتَمِرُوْا فِیْمَا سِوَاہُنَّ مِنَ الشُّہُوْرِ) فَأَرَادَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذٰلِکَ تَمَامَ الْعُمْرَۃِ‘ لِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ‘ ) وَذٰلِکَ أَنَّ الْعُمْرَۃَ الَّتِیْ یَتَمَتَّعُ فِیْہَا الْمَرْئُ بِالْحَجِّ‘ لَا تَتِمُّ إِلَّا بِأَنْ یُہْدِیَ صَاحِبُہَا ہَدْیًا‘ أَوْ یَصُوْمَ إِنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا‘ وَإِنَّ الْعُمْرَۃَ فِیْ غَیْرِ أَشْہُرِ الْحَجِّ تَتِمُّ بِغَیْرِ ہَدْیٍ وَلَا صِیَامٍ‘ فَأَرَادَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالَّذِیْ أَمَرَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ‘ أَیْ یُزَارُ الْبَیْتُ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّتَیْنِ‘ وَکَرِہَ أَنْ یَتَمَتَّعَ النَّاسُ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ‘ فَیَلْزَمُ النَّاسَ ذٰلِکَ‘ فَلاَ یَأْتُوْنَ الْبَیْتَ إِلَّا مَرَّۃً وَاحِدَۃً فِی السَّنَۃِ فَأَخْبَرَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ إِنَّمَا أَمَرَ بِإِفْرَادِ الْعُمْرَۃِ مِنَ الْحَجِّ‘ لِئَلَّا یَلْزَمَ النَّاسَ ذٰلِکَ فَلاَ یَأْتُوْنَ الْبَیْتَ إِلَّا مَرَّۃً وَاحِدَۃً فِی السَّنَۃِ لَا لِکَرَاہَۃِ التَّمَتُّعِ لِأَنَّہٗ لَیْسَ مِنَ السُّنَّۃِ فَأَمَّا قَوْلُہٗ : إِنَّہُ أَتَمُّ لِعُمْرَۃِ أَحَدِکُمْ وَحَجَّتِہِ أَنْ یُفْرِدَ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْ صَاحِبَتِہَا‘ فَإِنَّ مَا رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْہُ یَدُلُّ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ وَقَدْ رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ رَأْیِہٖ خِلَافًا لِذٰلِکَ أَیْضًا
٣٦١٠: ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سالم سے کہا عمر (رض) نے تمتع سے کیوں منع کیا جبکہ اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود کیا اور دوسرے لوگوں نے ان کے ساتھ کیا ؟ تو سالم کہنے لگے مجھے عبداللہ نے بتلایا کہ عمر (رض) نے فرمایا کامل ترین عمرہ یہ ہے کہ تم اسے حج کے مہینوں سے الگ کر کے ادا کرو۔ اور حج کے مہینے تو معلوم و معروف ہیں ان میں صرف حج کرو اور ان کے علاوہ دیگر مہینوں میں عمرہ کیا کرو۔ پس حضرت عمر (رض) کی مراد اس سے تکمیل عمرہ کی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { واتموا الحج والعمرۃ للہ۔۔۔} کہ حج وعمرہ کو اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل کرو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عمرہ جس کے ساتھ آدمی اپنے حج کو ملا کرتا ہے وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ھدی کو روانہ نہ کیا جائے یا پھر ہدی کی بجائے وہ روزہ رکھے اور حج کے علاوہ مہینوں میں عمرہ بغیر ہدی اور روزے کے مکمل ہوجاتا ہے۔ پس حضرت عمر (رض) کا مقصد یہ تھا ۔ کہ بیت اللہ کی زیارت ہر سال میں دو مرتبہ کی جائے۔ اسی وجہ سے آپ نے حج کے ساتھ عمرہ کے ملا کرنے کو ناپسند کیا تاکہ لوگ اس کو لازم سمجھ کر بیت اللہ میں صرف ایک مرتبہ ہی نہ آئیں بلکہ سال بار بار آئیں ۔ تو حضرت ابن عمر (رض) نے اس روایت میں حضرت عمر (رض) کی طرف سے وضاحت کی کہ انھوں نے حج وعمرہ الگ الگ سے کرنے کا حکم دیا تاکہ لوگ اس کو لازم قرار نہ دے لیں اور پھر وہ سا ل میں صرف ایک بار بیت اللہ شریف میں حاضری دیں تمتع کو اس بناء پر ناپسند نہیں کیا کہ وہ سنت نہیں رہا آپ کا یہ قول ” انہ اتم لعمرۃ احد کم و حجتہ ‘ ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو الگ کیا جائے ۔ پس جو کچھ ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے وہ اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور حضرت ابن عمر (رض) سے بھی ان کی رائے اس کے خلاف ہم نقل کرچکے ‘ ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ عمر (رض) نے تمام عمرہ کے لفظ سے : وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیونکہ جو عمرہ متمتع کرے گا تو وہ اس وقت پورا ہوگا جبکہ اس کے ساتھ ہدی روانہ کرے گا یا نہ ہونے کی صورت میں روزہ رکھے گا حج کے علاوہ مہینوں میں عمرہ کرنے والے کو ہدی یا صیام میں سے کسی کی حاجت نہیں۔ پس عمر (رض) کا مقصد یہ تھا کہ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیے حج کے علاوہ بھی دو مرتبہ آئیں یہ نہیں کہ حج کے ساتھ ملا کر عمرہ کرلیا اور بس۔ اس سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کی سال کے بقیہ ایام میں کمی ہو۔ اس روایت سے ابن عمر (رض) نے یہ اطلاع دی کہ عمر (رض) کے افراد حج کا حکم دینے سے مقصد کراہت تمتع نہیں بلکہ بیت اللہ کی حاضری کی بار بار عمرہ کے ذریعہ دوران سال ترغیب تھی۔
روایت کا جملہ : ” انہ اتم لحج احدکم واتم لعمرتہ “ پر اشکال۔
اس روایت میں عمر (رض) سے ابن عمر (رض) نے اس حج و عمرے کو جو الگ کیا جائے اور اشہر حج کے علاوہ میں کیا جائے زیادہ کامل قرار دے رہے ہیں حالانکہ ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) نے عمر (رض) سے اس کے خلاف روایت نقل کی ہے۔ ابن عباس (رض) کی روایت گزشتہ سطور میں گزری ‘ روایت ابن عمر (رض) ذیل میں درج کر رہے ہیں۔

3611

۳۶۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ یَسَارٍ وَأَبُوْ یَعْفُوْرٍ‘ سَمِعَا ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ (لَأَنْ أَعْتَمِرَ فِی الْعَشْرِ الْأُوَلِ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ‘ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَمِرَ فِی الْعَشْرِ الْبَوَاقِیْ)
٣٦١١: صدقہ بن یسار اور ابو یعفور دونوں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے۔ ذوالحجہ کے عشرہ اول میں عمرہ کرنا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ذوالحجہ کے بقیہ ایام میں عمرہ کروں۔

3612

۳۶۱۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ یَسَارٍ‘ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ (عُمْرَۃٌ فِی الْعَشْرِ الْأُوَلِ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَمِرَ فِی الْعَشْرِ الْبَوَاقِیْ) فَحَدَّثْتُ بِہٖ نَافِعًا فَقَالَ : نَعَمْ‘ عُمْرَۃٌ فِیْہَا ہَدْیٌ أَوْ صِیَامٌ أَحَبُّ إِلَیْہِ مِنْ عُمْرَۃٍ‘ لَیْسَ فِیْہَا ہَدْیٌ وَلَا صِیَامٌ۔
٣٦١٢: صدقہ بن یسار کہتے ہیں کہ ذوالحجہ کے عشرہ اول میں عمرہ کرنا مجھے بقیہ ذوالحجہ کے دنوں میں عمرہ سے زیادہ محبوب ہے۔ میں نے یہ بات نافع کو بیان کی تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی اور فرمایا وہ عمرہ جس میں ہدی اور روزہ ہو وہ بغیر ہدی اور بغیر روزے والے عمرے سے بہتر ہے۔

3613

۳۶۱۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ جُمْہَانِ‘ قَالَ (حَجَجْنَا وَفِیْنَا رَجُلٌ أَعْجَمِیٌّ‘ فَلَبّٰی بِالْعُمْرَۃِ وَالْحَجِّ‘ فَعِبْنَا ذٰلِکَ عَلَیْہِ فَسَأَلَنَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقُلْنَا : إِنَّ رَجُلًا مِنَّا لَبَّیْ بِالْعُمْرَۃِ وَالْحَجِّ فَمَا کَفَّارَتُہٗ؟ قَالَ رَجَعَ بِأَجْرَیْنِ‘ وَتَرْجِعُوْنَ بِأَجْرٍ وَاحِدٍ)
٣٦١٣: عطاء بن سائب نے کثیربن جمہان سے نقل کیا کہ ہم نے حج کیا اور ہم میں ایک غیر فصیح آدمی تھا اس نے حج وعمرہ دونوں کا تلبیہ کہا ہم نے اسے عار دلائی پھر ہم نے جناب ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے ہمارے قافلہ میں حج وعمرہ دونوں کا تلبیہ کہا ہے اس پر کیا کفارہ لازم ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا اس کو دو اجر ملیں گے اور تم ایک اجر لے کر لوٹو گے۔

3614

۳۶۱۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (وَاللّٰہِ لَأَنْ أَعْتَمِرَ قَبْلَ الْحَجِّ وَأُہْدِیَ‘ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَمِرَ بَعْدَ الْحَجِّ فِیْ ذِی الْحِجَّۃِ) فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا‘ قَدْ فَضَّلَ الْعُمْرَۃَ الَّتِیْ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ عَلَی الْعُمْرَۃِ الَّتِیْ فِیْ غَیْرِ أَشْہُرِ الْحَجِّ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی صِحَّۃِ مَا رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَوْ کَانَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ اِذًا‘ لَمَا قَالَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ سَمِعَ أَبَاہُ قَالَہٗ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَا یُنْکِرُہٗ عَلَیْہِ مُنْکِرٌ‘ وَلَا یَدْفَعُہٗ عَنْہُ دَافِعٌ‘ وَہُوَ أَیْضًا‘ فَلاَ یَدْفَعُہُ عَنْہُ وَلَا یَقُوْلُ لَہٗ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ فَعَلَ ھٰذَا وَلٰـکِنَّ الْمَحْکِیَّ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہُوَ إرَادَۃُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ یُزَارَ الْبَیْتُ‘ وَبَاقِی الْکَلَامِ بَعْدَ ذٰلِکَ فَکَلَامُ سَالِمٍ‘ خَلَطَہُ الزُّہْرِیُّ بِرِوَایَتِہٖ، فَلَمْ یَتَمَیَّزْ فَأَمَّا قَوْلُہٗ (إِنَّ الْعُمْرَۃَ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ لَا تَتِمُّ إِلَّا بِالْہَدْیِ لِمَنْ یَجِدُ الْہَدْیَ‘ أَوْ بِالصِّیَامِ لِمَنْ لَا یَجِدُ الْہَدْیَ) فَثَبَتَ بِذٰلِکَ تَمَامُ الْعُمْرَۃِ فِیْ غَیْرِ أَشْہُرِ الْحَجِّ اِذَا کَانَ ذٰلِکَ غَیْرَ وَاجِبٍ فِیْہَا‘ وَأَوْجَبَ النُّقْصَانَ فِی الْعُمْرَۃِ الَّتِیْ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ اِذَا کَانَ وَاجِبًا فِیْہَا‘ وَھٰذَا کُلُّہُ اِذَا کَانَ الْحَجُّ یَتْلُوْہَا فَإِنَّ الْحَجَّۃَ عَلٰی مَنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّا رَأَیْنَا الْہَدْیَ الَّذِیْ یَجِبُ فِی الْمُتْعَۃِ وَالْقِرَانِ‘ یُؤْکَلُ بِاتِّفَاقِ الْمُتَقَدِّمِیْنَ جَمِیْعًا‘ وَرَأَیْنَا الْہَدْیَ الَّذِیْ یَجِبُ لِنُقْصَانٍ فِی الْعُمْرَۃِ أَوْ فِی الْحَجَّۃِ‘ لَا یُؤْکَلُ مِنْہُ بِاتِّفَاقِہِمْ جَمِیْعًا فَلَمَّا کَانَ الْہَدْیُ الْوَاجِبُ فِی الْمُتْعَۃِ وَالْقِرَانِ یُؤْکَلُ مِنْہُ‘ ثَبَتَ أَنَّہٗ غَیْرُ وَاجِبٍ‘ لِنُقْصَانٍ فِی الْعُمْرَۃِ‘ أَوْ فِی الْحَجَّۃِ الَّتِیْ بَعْدَہَا‘ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ لِنُقْصَانٍ‘ لَکَانَ مِنْ أَشْکَالِ الدِّمَائِ الْوَاجِبَۃِ لِلنُّقْصَانِ‘ وَلَکَانَ لَا یُؤْکَلُ مِنْہُ‘ کَمَا لَا یُؤْکَلُ مِنْہَا‘ وَلٰکِنَّہٗ دَمُ فَضْلٍ‘ وَإِصَابَۃُ خَیْرٍ۔
٣٦١٤: صدقہ بن یسار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ کی قسم حج سے پہلے میں عمرہ کروں اور ہدی روانہ کروں یہ مجھے ذوالحجہ میں حج کے بعد عمرے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ تو یہ ابن عمر (رض) ہیں جو حج کے مہینوں میں عمرے کو دوسرے مہینوں سے افضل قرار دے رہے ہیں۔ پس یہ اس بات کے درست ہونے کی دلالت ہے جو حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ کیونکہ اگر حضرت ابن عمر (رض) حضرت عمر (رض) سے وہ بات سنتے جو عقیل والی روایت میں بواسطہ زہری نقل کی گئی ہے۔ تو وہ قطعا اس کے خلاف نہ فرماتے کیونکہ انھوں نے اپنے والد سے سنا ہوتا جو بات آپ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں ارشاد فرمائی اور کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا اور نہ رد کیا اور وہ اس کی تردید کرتے ہوئے یہ نہ فرماتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کیا ۔ بلکہ حضرت عمر (رض) سے جو کچھ بیان کیا گیا وہ اسی وجطہ سے تھا کہ آپ کا یہ ارادہ تھا کہ بیت اللہ شریف کی بار بار زیارت کی جائے اور باقی کلام تو حضرت سالم کا کلام ہے جس کو زہری نے اپنی روایت میں مخلوط کر کے ذکر کردیا اور دونوں کے مابین اس نے امتیاز نہیں کیا۔ رہا ان کا قول ان العمرۃ فی اشھر الحج لا تتم الا بالھدی الحدیث کہ عمرہ تو حج کے زمانہ میں ھدی کے ساتھ یا اس کے بدل روزے سے مکمل ہوتا ہے کہ ہدی کی طاقت نہ رکھتا ہو ۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایام حج کے علاوہ میں عمرہ مکمل ہوجاتا ہے جب کہ وہ (ہدی) اس میں واجب نہ ہو اور اس عمرہ میں نقص رہ جاتا ہے جو اشہر حج میں ہو اور اس میں اس نے ہدی کو اپنے اوپر واجب کیا ہو ۔ یہ تمام صورتیں تب ہیں جب کہ حج عمرے کے بعد ہو۔ جو لوگ اس قول کے قائل ہیں ہمارے ہاں ان کے خلاف دلیل یہ ہے ( واللہ اعلم) ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ تمتع اور قرا ن کی واجب ہدی کا گوشت بالا تفاق کھایا جاتا ہے متقدمین اس پر متفق ہیں۔ دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہدی جو حج یا عمرہ میں کسی کوتاہی کی بناء پر لازم آتی ہے اسے بالا تفاق محرم نہیں کھا سکتا ۔ پس جب یہ ھدی متعہ وقرآن والی کھائی جاتی ہے تو معلوم ہوا یہ حج وعمرہ کے کسی نقصان کی وجہ سے ھدی نہیں دی جا رہی اگر یہ نقصان کی وجہ سے ہوتی تو یہ ان واجب خونوں کی طرح ہوتا اور اس کو متمتع کیلئے کھانا درست نہ ہوتا جیسا دوسرے ہدایا کو کھایا نہیں جاسکتا بلکہ یہ شکرانے کا دم ہے جو خیر کے میسر آنے کی وجہ سے ہے۔
حاصل روایات : کہ ابن عمر (رض) کے ہاں بھی اشہر حج میں عمرہ کرنا اشہر حج کے علاوہ مہینوں میں عمرہ کرنے سے افضل ہے۔ اس سے ابن عباس (رض) کے قول کی صحت پر بھی تصدیقی مہر ثبت ہوگئی۔
نوٹ :
کلام میں اختلاط ہے : اب یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ ابن عمر (رض) کی طرف اس روایت میں جو بات منسوب کی گئی وہ ان کا اپنا کلام نہیں ورنہ وہ اس کے خلاف فتویٰ نہ دیتے اور انھوں نے عمر (رض) سے بھی نہیں سنا۔ تو یہ روایت ان تمام روایات کے خلاف ہے جو زہری کے علاوہ دوسروں نے نقل کی ہیں۔ وہ ابن عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں کہیں ان پر کسی نے انکار نہیں کیا کہ یہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی اگر وہ بات جو حدیث زہری میں منقول ہے ابن عمر (رض) نے عمر (رض) سے سنی ہوتی تو اس کے خلاف نہ کہتے۔ اب حاصل کلام یہ ہوا کہ عمر (رض) کی بات تو اتنی تھی کہ بیت اللہ کی زیارت سال میں بار بار ہو بس۔ باقی کلام سالم کا ہے جس کو زہری نے اپنی روایت میں بلا امتیاز کلام عمر (رض) سے ملا دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ حج وعمرہ یعنی (تمتع و قران) میں واجب ہونے والی قربانی دم شکر ہے دم جبر نقصان نہیں کیونکہ دونوں میں واضح فرق موجود ہے دم شکر کو قارن و متمتع خود کھا سکتا ہے دم جبر کو خود استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اس روایت میں ابن شہاب نے ہدی کو تتمہ حج قرار دیا ہے اور حج والے عمرے کو نقصان والا عمرہ قرار دیا۔ حالانکہ یہ درست نہیں حضرت عمر (رض) کے بقیہ ارشادات اس کے خلاف ہیں۔

3615

۳۶۱۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ ح
٣٦١٥ : یعقوب بن حمید نے وکیع سے انھوں نے اپنی سند سے روایت کی ہے۔

3616

۳۶۱۶ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَرَّانِیُّ‘ قَالَ : أَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ وَأَبُوْ أُسَامَۃَ‘ قَالُوْا جَمِیْعًا : عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِیْنِ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ‘ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ قَالَ (کُنَّا نَسِیْرُ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَإِذَا رَجُل یُلَبِّیْ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَنْ ھٰذَا ؟) فَقَالُوْا : عَلِیٌّ فَأَتَاہُ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ (أَلَمْ تَعْلَمْ أَنِّیْ نَہَیْتُ عَنْ ھٰذَا) فَقَالَ بَلَی وَلٰـکِنِّیْ لَمْ أَکُنْ لِأَدَعَ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِک "
٣٦١٦: مسلم البطین نے علی بن حسین سے انھوں نے مروان بن حکم سے نقل کیا کہ ہم عثمان (رض) کے ساتھ جا رہے تھے اچانک ایک آدمی سامنے آیا حج وعمرہ دونوں کا اکٹھا تلبیہ کہہ رہا تھا تو عثمان (رض) نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے بتلایا یہ علی (رض) ہیں اس پر عثمان (رض) ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں نے حج وعمرہ اکٹھا کرنے سے منع کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کیوں نہیں۔ لیکن میں تمہارے قول کی وجہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول چھوڑ نہیں سکتا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤۔

3617

۳۶۱۷ : حَدَّثَنَا عَلَیَّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا خَلَّادُ بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَطَائٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُرَیْثُ بْنُ سُلَیْمٍ الْعُذْرِیُّ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ لَبّٰی بِہِمَا جَمِیْعًا‘ فَنَہَاہُ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَمَا إِنَّک قَدْ رَأَیْتُ فَھٰذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَخْبَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخِلَافِ النَّہْیِ عَنْ قِرَانِ الْعُمْرَۃِ وَالْحَجِّ وَفَعَلَ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافِ مَا أَمَرَ بِہِ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَنْکَرَ عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا أَمَرَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَدَلَّ ھٰذَا مِنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ عِنْدَہٗ تَفْضِیْلُ الْقِرَانِ عَلَی الْاِفْرَادِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ‘ لَمَا أَنْکَرَ عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا رَأَی‘ وَلَا فَضَّلَ رَأْیَہٗ عَلٰی رَأٰیِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ اِذْ کَانَا کِلَاہُمَا‘ إِنَّمَا أَمَرَا بِمَا أُمِرَا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ عَنْ شَیْئٍ وَاحِدٍ‘ وَہُوَ الرَّأْیُ وَلٰـکِنْ خِلَافُہٗ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ دَلِیْلٌ - عِنْدَنَا - عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ عَلِمَ فَضْلَ الْقِرَانِ عَلٰی مَا سِوَاہُ‘ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَرَنَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ
٣٦١٧: حریث بن سلیم الغدری نے علی (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے حج وعمرہ کا تلبیہ اکٹھا پڑھا تو ان کو عثمان (رض) نے اس سے منع کیا اس پر علی (رض) نے فرمایا سنو ! تم نے خود یہ دیکھا ہے۔ یہ حضرت علی (رض) ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حج وعمرہ کرنے کی ممانعت کے خلاف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر رہے ہیں اور انھوں نے حضرت عثمان (رض) کے حکم کے خلاف کیا اور جو حضرت عثمان (رض) نے حکم دیا انھوں نے اس کا انکار کیا ۔ اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ ان کے ہاں قران افراد سے افضل تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح ثابت تھا۔ اگر اس طرح نہ ہوتا تو وہ حضرت عثمان (رض) کی رائے کا انکار نہ کرتے اور نہ اپنی رائے کو عثمان (رض) کی رائے سے افضل قرار دیتے ۔ اس لیے کہ دونوں نے جو کچھ حکم دیا تھا وہ اپنی رائے اور راجتھاد سے تھا مگر ان کا اس سلسلہ میں حضرت عثمان (رض) کی رائے کے خلاف کرنا ہمارے ہاں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کو بقیہ دو اقسام سے افضل گردانتے تھے اور ان کے ہاں یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت تھا اور حضرت ابن عباس (رض) نے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوادع میں قرآن کیا تھا۔ روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں حضرت علی (رض) نے حضرت عثمان (رض) کی ممانعت کے خلاف خبر دی اور اس طرح کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (رض) قران کو افراد سے افضل سمجھتے تھے اور یہ بات ان کے ہاں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت تھی اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ عثمان (رض) کی رائے کا انکار کر کے اپنی رائے کو قطعاً فضیلت نہ دیتے کیونکہ دونوں کو اس سلسلہ میں اجتہاد کی اجازت تھی ان کا اپنے اجتہاد کو اجتہاد عثمان پر ترجیح دینا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ قران کی فضیلت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت جانتے تھے۔

3618

۳۶۱۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (اعْتَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عُمَرَ‘ عُمْرَۃَ الْجُحْفَۃِ‘ وَعُمْرَتَہُ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ‘ وَعُمْرَتَہُ مِنَ الْجِعْرَانَۃِ‘ وَعُمْرَتَہٗ مَعَ حَجَّتِہٖ‘ وَحَجَّ حَجَّۃً وَاحِدَۃً) فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ‘ فَکَیْفَ تَقْبَلُوْنَ ھٰذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ ؟) قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ فِیْ بَدْئِ أَمْرِہِ بِعُمْرَۃٍ‘ فَمَضٰی فِیْہَا مُتَمَتِّعًا بِہَا‘ ثُمَّ أَحْرَمَ بِحَجَّۃٍ قَبْلَ طَوَافِہٖ‘ فَکَانَ فِیْ بَدْئِ أَمْرِہِ مُتَمَتِّعًا‘ وَفِیْ آخِرِہٖ قَارِنًا فَأَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ بِتَمَتُّعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لِیَنْفِیَ قَوْلَ مَنْ کَرِہَ الْمُتْعَۃَ‘ وَأَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الثَّانِیْ بِقِرَانِہِ عَلٰی مَا کَانَ صَارَ إِلَیْہِ أَمْرُہٗ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ بِالْحَجَّۃِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ مُتَمَتِّعًا بَعْدَ إِحْرَامِہٖ بِالْعُمْرَۃِ‘ إِلٰی أَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ‘ فَصَارَ بِذٰلِکَ قَارِنًا۔
٣٦١٨: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار عمرے کئے نمبر ایک عمرۃ جحفہ نمبر ٢ عمرۃ القضاۃ نمبر ٣ عمرہ جعرانہ نمبر ٤ حجۃ الوداع کا عمرہ جو حج کے ساتھ کیا اور حج ایک ہی فرمایا یعنی حجۃ الوداع۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ابن عباس (رض) کی یہ روایت تم نے کس طرح قبول کرلی جبکہ تم فصل اول میں ان سے یہ نقل کرچکے ہو (ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمتع) کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ۔ تو اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ کہنا درست ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج کی ابتداء میں عمرہ کا احرام باندھا اور اس میں متمتع کی حیثیت سے چلتے رہے پھر آپ نے طواف سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا تو آپ اپنے معاملے کی ابتداء میں متمتع تھے اور حج کے سلسلہ میں اختتام کے اعتبار سے آپ قارن تھے ۔ پس ابن عباس (رض) نے اپنی فصل اول والی روایت میں یہ خبر دی کہ آپ نے تمتع کیا تاکہ ان لوگوں کے قول کی نفی ہوجائے جو تمتع کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس دوسری روایت میں اس بات کی اطلاع دی کہ آپ نے قران کیا اس لیے کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد آپ قارن بن گئے تھے ۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتداء امر میں احرام عمرہ کے بعد متمتع تھے اور جب آپنے حج کا احرام باندھا تو آپ اس سے قارن بن گئے۔
تخریج : بخاری فی الغازی باب ٣٥‘ مسلم فی الحج ٢١٧؍٢٢٠‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٧٩‘ ترمذی فی الحج باب ٦‘ ٧‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٥٠‘ مسند احمد ١؍٢٤٦‘ ٣٢١۔
ایک اشکال :
ابن عباس (رض) کی یہ روایت کس طرح قران پر محمول کرتے ہو جبکہ تم نے فصل اول میں ابن عباس (رض) سے تمتع کی روایت نقل کی ہے۔
نوٹ :
فصل اول کی روایات میں ابتداء کا تذکرہ ہے جبکہ آپ نے احرام باندھا اور اسی حالت پر چلتے رہے پھر آپ نے طواف سے قبل حج کا احرام باندھ لیا تو آپ ابتداء میں متمتع تھے اور انتہا میں قارن تھے گویا روایت اول میں تمتع کی خبر دے کر ابن عباس (رض) نے ان لوگوں کی بات کی نفی کی جو تمتع کو ناپسند کرتے تھے اور اس روایت ثانیہ سے آپ کے قران کی خبر دی کہ احرام کی یہ اختتامی حالت تھی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں ابتدائً احرام عمرہ کے بعد متمتع تھے پھر جب حج کا احرام باندھ لیا تو آپ قارن بن گئے۔

3619

۳۶۱۹ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا النُّفَیْلِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : (سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ : کَمِ اعْتَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : مَرَّتَیْنِ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ اعْتَمَرَ ثَلاَثًا سِوٰی عُمْرَتِہِ الَّتِیْ قَرَنَہَا بِحَجَّتِہِ) فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَکَیْفَ تَقْبَلُوْنَ مِثْلَ ھٰذَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ؟ وَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْہَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ مَا قَدْ رَوَیْتُمْ‘ مِنْ إِفْرَادِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَمَتُّعِہٖ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ ؟ قِیْلَ لَہٗ : ذٰلِکَ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - عَلٰی نَظِیْرِ مَا صَحَّحْنَا عَلَیْہِ حَدِیْثَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَیَکُوْنُ مَا عَلِمَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ ابْتَدَأَ فَأَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ وَلَمْ یَقْرُنْہَا حِیْنَئِذٍ بِحَجَّۃٍ‘ فَمَضٰی فِیْہَا عَلٰی أَنْ یَحُجَّ وَقْتَ الْحَجِّ‘ فَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ مُتَمَتِّعًا بِہَا ثُمَّ أَحْرَمَ بِحَجَّۃٍ مُفْرَدَۃٍ فِیْ إِحْرَامِہٖ بِہَا لَمْ یَبْتَدِئْ مَعَہَا إِحْرَامًا بِعُمْرَۃٍ‘ فَصَارَ بِذٰلِکَ قَارِنًا لَہَا إِلٰی عُمْرَتِہِ الْمُتَقَدِّمَۃِ فَقَدْ کَانَ فِیْ إِحْرَامِہِ عَلٰی أَشْیَائَ مُخْتَلِفَۃٍ‘ کَانَ فِیْ أَوَّلِہٖ مُتَمَتِّعًا‘ ثُمَّ صَارَ مُحْرِمًا بِحَجَّۃٍ أَفْرَدَہَا فِیْ إِحْرَامِہٖ، فَلَزِمَتْہُ مَعَ الْعُمْرَۃِ الَّتِیْ کَانَ قَدَّمَہَا‘ فَصَارَ فِیْ مَعْنَی الْمُقَارِنِ وَالْمُتَمَتِّعِ وَأَرَادَتْ - یَعْنِیْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا - بِذِکْرِہَا الْاِفْرَادَ‘ خِلَافًا لِلَّذِیْنَ یَرَوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ بِہِمَا جَمِیْعًا۔
٣٦١٩: مجاہد نے نقل کیا کہ ابن عمر (رض) سے پوچھا گیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنے عمرے کئے تو ابن عمر (رض) نے کہا دو عمرے کئے۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تین عمرے کئے جو اس عمرے کے علاوہ تھے جو آپ نے حج کے ساتھ ملا کر کیا۔ باقی ابن عمر (رض) نے اپنے علم کے مطابق بات کہی ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے تم کس طرح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس روایت کو درجہ قبولیت دے رہے ہو جب کہ تم نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے آپ کا حج افراد اور تمتع اس باب کی ابتداء میں نقل کیا ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا ۔ (یہ جواب ہماری طرف سے ہے واللہ اعلم) اس روایت کی تصحیح بھی ابن عباس (رض) کی روایت جیسی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابتداء احرام عمرہ کے سلسلہ میں جو معلوم ہوا وہ انھوں نے بیان کردیا ۔ آپ نے اس وقت اسے حج کے ساتھ نہ ملایا تھا ۔ پس اس احرام عمرہ میں آپ نے اسے جاری رکھا اس طرح کہ حج کے وقت اسی سے حج کیا تو اس لحاظ سے آپ متمتع ہوئے پھر آپ نے اپنے احرام کے دروان مفرد حج کا احرام باندھا اور اس کے ساتھ نئے سرے سے عمرے کا احرام شروع نہ فرمایا تو آپ اس حج مفرد کے احرام سے پہلے عمرہ کے احرام کے ساتھ ملانے والے ہوئے ۔ تو آپ کے اس احرام میں مختلف چیزیں پیش آئیں ۔ کہ آپ ابتداء میں متمع تھے پھر آپ اکیلے حج کا احرام باندھنے کی وجہ سے محرم افراد بن گئے ۔ آپ نے اس حج مفرد کو اس عمرہ کے ساتھ لازم کرلیا جس کا پہلے احرام باندھا ہوا تھا ۔ تو اس طرح آپ مقارن اور متمتع کے معنیٰ میں بن گئے یعنی دونوں کی تعریف آپ پر صادق آتی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت افراد درحقیقت ان لوگوں کے خلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کا اکٹھا احرام باندھا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٧٩۔
ایک ضمنی اشکال :
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی یہ روایت ثبوت قران کے لیے کیونکر پیش کی جاسکتی ہے جبکہ حضرت عائشہ (رض) کی روایات حج افراد اور تمتع میں تم پیش کر آئے۔
u: یہ روایت بھی روایت ابن عباس (رض) کی نظیر ہے کہ ابتداء میں تو انھوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور قران نہیں کیا اور اسی کو اختیار کئے رکھا اور عمرہ کے افعال کی ابتداء سے پہلے حج مبرور کا احرام باندھ کر اس کو قران بنا لیا تو اس سے آپ عمرہ کے ساتھ ملانے کی بنا پر قارن بن گئے آپ کے اس احرام میں مختلف حالتیں پیش آئیں۔ ابتداء میں آپ متمتع تھے پھر آپ نے فقط حج کا احرام باندھا اور اس کو اس عمرہ سے ملا دیا جس کو پہلے باندھا تھا تو آپ قارن و متمتع کے مصداق بن گئے حضرت عائشہ (رض) نے افراد کا تذکرہ کر کے دراصل ان لوگوں کی تردید کی ہے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے دونوں کا اکٹھا احرام باندھا ہے تو افرد الحج کہہ کر بتلایا کہ حج کا احرام الگ سے باندھا ہے۔

3620

۳۶۲۰ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ (ابْنَ عُمَرَ خَرَجَ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ إِلٰی مَکَّۃَ مُہِلًّا بِالْعُمْرَۃِ‘ مَخَافَۃَ الْحَصْرِ‘ ثُمَّ قَالَ مَا شَأْنُہُمَا إِلَّا وَاحِدًا‘ أُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَوْجَبْتُ إِلٰی عُمْرَتِیْ ھٰذِہٖ حَجَّۃً ثُمَّ قَدِمَ فَطَافَ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا وَقَالَ ہٰکَذَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٦٢٠: نافع نے ابن عمر (رض) کے متعلق بیان کیا کہ وہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے اس وقت خطرہ تھا کہ ان کو حج سے روک لیا جائے گا پھر کہنے لگے حج وعمرہ دونوں کی حالت احصار میں یکساں ہے اس لیے تم گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اپنے اس عمرہ کے ساتھ حج کو لازم کرلیا ہے پھر مکہ پہنچ کر دونوں کے لیے طواف قدوم کیا اور فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔
تخریج : ترمذی فی الحج باب ١٠٢۔

3621

۳۶۲۱ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ہُوَ ابْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ أَنَّ (ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَیْرِ‘ فَأَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ فَقِیْلَ لَہٗ إِنَّ النَّاسَ کَائِنٌ بَیْنَہُمْ قِتَالٌ‘ وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ نَصُدَّ عَنِ الْبَیْتِ فَقَالَ (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) اِذًا أَصْنَعُ کَمَا صَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أُشْہِدُکُمَا أَنِّیْ قَدْ أَوْجَبْت عُمْرَۃً ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِظَہْرِ الْبَیْدَائِ قَالَ مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ إِلَّا وَاحِدًا أُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِیْ فَانْطَلَقَ یُہِلُّ بِہِمَا جَمِیْعًا حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ‘ فَطَافَ بِالْبَیْتِ‘ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَلَمْ یَزِدْ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَنْحَرْ‘ وَلَمْ یَحْلِقْ‘ وَلَمْ یَحِلَّ مِنْ شَیْئٍ حُرِّمَ عَلَیْہٖ‘ حَتّٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ فَحَلَقَ وَرَأٰی أَنْ قَدْ قَضٰی طَوَافَ الْحَجِّ بِطَوَافِہٖ ذٰلِکَ الْأَوَّلِ‘ ثُمَّ قَالَ ہٰکَذَا صَنَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٦٢١: نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے اس سال حج کا ارادہ کیا یہ اس سال کی بات ہے جب حجاج ابن زبیر پر حملہ آور ہوا۔ انھوں نے عمرے کا احرام باندھا تو ان کو کہا گیا کہ لوگوں کے مابین لڑائی کا خطرہ ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ ہم بیت اللہ سے روک لیے جائیں گے تو انھوں نے فرمایا : { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} [الاحزاب : ٢١] میں وہی کروں گا جو ایسے موقعہ پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا۔ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو اپنے اوپر لازم کرلیا پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب بیداء کے اوپر چڑھ گئے تو کہنے لگے حج وعمرہ کا معاملہ یکساں ہے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے حج کو عمرہ کے ساتھ لازم کرلیا۔ پھر وہاں سے حج و عمرے کا تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ‘ مروہ کے درمیان سعی کی۔ اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کیا اور نہ قربانی کی اور نہ حلق کرایا۔ اور جو چیزیں احرام میں حرام ہیں ان میں سے کسی چیز کو حلال نہیں کیا یہاں تک کہ یوم النحر آگیا (افعال حج ادا کئے) پھر حلق کیا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھوں نے طواف حج کو اپنے پہلے طواف میں پورا کردیا ہے۔ پھر انھوں نے فرمایا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔ (ابن عمر (رض) کا اجتہاد یہی ہے کہ قران میں ایک طواف و سعی ہے ‘ احناف کے ہاں اس میں دو طواف اور دو سعی ہیں)
٣٦٢٢: نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سال حج کا ارادہ کیا جس سال حجاج نے ابن الزبیر پر حملہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ لڑائی کا خطرہ ہے اور وہ لوگ تمہیں بیت اللہ سے روک دیں گے۔ تو انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی میں میرے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ میں اس طرح کروں گا جیسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو لازم کرلیا پھر وہاں سے نکلے یہاں تک کہ بیداء ٹیلے کی پشت پر پہنچے تو کہنے لگے حج وعمرہ کا معاملہ تو یکساں ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو لازم کرلیا۔ اور مقام قدید سے ہدی کو خرید کر ساتھ چلایا۔ پھر دونوں کا تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے مابین سعی کی اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا اور نہ قربانی کی نہ سر منڈایا اور نہ قصر کیا۔ اور احرام کے خلاف کوئی چیز اختیار نہ کی احرام پر قائم رہے (افعال حج ادا کئے) یہاں تک کہ یوم نحر آگیا تو قربانی ذبح کی اور سر منڈایا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھوں نے طواف قدوم کر کے حج وعمرہ دونوں کے طواف کو پورا کرلیا ہے اور کہنے لگے اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ابن عمر (رض) کی روایت تم نے کیونکر قبول کرلی جب کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی سند سے یہ روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے۔ ‘ تو اس کے جواب میں ہم وہی کہیں گے جو پہلے روایت حضرت ابن عباس ‘ عائشہ صدیقہ (رض) کے سلسلہ میں ہم کہہ آئے ہیں۔
اس روایت پر ضمنی اعتراض :
ابن عمر (رض) کی روایت قران کے سلسلہ میں کس طرح قبول کی جاسکتی ہے جبکہ ان سے تمتع کی روایات ابھی چند صفحات پہلے گزریں۔
الجواب : اس موقعہ پر ہم تو وہی جواب عرض کریں گے جو روایت ابن عباس (رض) کا دے آئے اور عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں ذکر کردیا گیا جس کا حاصل یہی ہے کہ پہلے تو انھوں نے افراد کا تذکرہ ان لوگوں کے لیے کردیا جو شروع میں حج وعمرہ کا احرام باندھنے کے قائل تھے پھر تمتع کا سلسلہ چلتا رہا تاآنکہ اکیلے حج کا احرام باندھا اور یہ احرام افعال عمرہ کی ادائیگی سے پہلے باندھنے کی وجہ سے قران بن گیا۔
روایت عمران بن حصین (رض) سے قران کا ثبوت :
عبداللہ بن شخیر نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حج وعمرہ دونوں کا تلبیہ کہتے سنا۔
سرسری اشکال :
یہ روایت کس طرح قابل قبول ہوگی جبکہ خود عمران (رض) فصل ثانی میں تمتع کی روایت نقل کر آئے۔
جواب : اس روایت کا جواب وہی ہے جو حدیث ابن عباس (رض) کی روایت میں دیا جا چکا کہ ابتداء میں آپ متمتع تھے انتہاء میں آپ قارن بن گئے۔

3622

۳۶۲۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ عَنْ نَافِعٍ (أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَیْرِ فَقِیْلَ لَہٗ : إِنَّ النَّاسَ کَائِنٌ بَیْنَہُمْ قِتَالٌ‘ وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ یَصُدُّوک عَنِ الْبَیْتِ فَقَالَ (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) اِذًا أَصْنَعُ کَمَا صَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ إِنِّیْ أُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَوْجَبَتْ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِیْ‘ ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِظَہْرِ الْبَیْدَائِ قَالَ مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ إِلَّا وَاحِدًا‘ أُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِی وَأَہْدٰی ہَدْیًا اشْتَرَاہُ بِقُدَیْدٍ فَانْطَلَقَ یُہِلُّ بِہِمَا جَمِیْعًا‘ حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ‘ فَطَافَ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَلَمْ یَزِدْ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَنْحَرْ‘ وَلَمْ یَحْلِقْ‘ وَلَمْ یُقَصِّرْ‘ وَلَمْ یُحِلَّ مِنْ شَیْئٍ حُرِّمَ عَلَیْہٖ‘ حَتّٰی کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ‘ فَنَحَرَ‘ وَحَلَقَ وَرَأٰی أَنْ قَدْ قَضٰی طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ بِطَوَافِہِ الْأَوَّلِ وَکَذٰلِکَ فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ) صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَکَیْفَ تَقْبَلُوْنَ مِثْلَ ھٰذَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ ؟ فَجَوَابُنَا لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ‘ مِثْلُ جَوَابِنَا لَہٗ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا۔
٣٦٢٢: نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سال حج کا ارادہ کیا جس سال حجاج نے ابن الزبیر پر حملہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ لڑائی کا خطرہ ہے اور وہ لوگ تمہیں بیت اللہ سے روک دیں گے۔ تو انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی میں میرے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ میں اس طرح کروں گا جیسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو لازم کرلیا پھر وہاں سے نکلے یہاں تک کہ بیداء ٹیلے کی پشت پر پہنچے تو کہنے لگے حج وعمرہ کا معاملہ تو یکساں ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو لازم کرلیا۔ اور مقام قدید سے ہدی کو خرید کر ساتھ چلایا۔ پھر دونوں کا تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے مابین سعی کی اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا اور نہ قربانی کی نہ سر منڈایا اور نہ قصر کیا۔ اور احرام کے خلاف کوئی چیز اختیار نہ کی احرام پر قائم رہے (افعال حج ادا کئے) یہاں تک کہ یوم نحر آگیا تو قربانی ذبح کی اور سر منڈایا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھوں نے طواف قدوم کر کے حج وعمرہ دونوں کے طواف کو پورا کرلیا ہے اور کہنے لگے اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ابن عمر (رض) کی روایت تم نے کیونکر قبول کرلی جب کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی سند سے یہ روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے۔ ‘ تو اس کے جواب میں ہم وہی کہیں گے جو پہلے روایت حضرت ابن عباس ‘ عائشہ صدیقہ (رض) کے سلسلہ میں ہم کہہ آئے ہیں۔
اس روایت پر ضمنی اعتراض ابن عمر (رض) کی روایت قران کے سلسلہ میں کس طرح قبول کی جاسکتی ہے جبکہ ان سے تمتع کی روایات ابھی چند صفحات پہلے گزریں۔
اس موقعہ پر ہم تو وہی جواب عرض کریں گے جو روایت ابن عباس (رض) کا دے آئے اور عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں ذکر کردیا گیا جس کا حاصل یہی ہے کہ پہلے تو انھوں نے افراد کا تذکرہ ان لوگوں کے لیے کردیا جو شروع میں حج وعمرہ کا احرام باندھنے کے قائل تھے پھر تمتع کا سلسلہ چلتا رہا تاآنکہ اکیلے حج کا احرام باندھا اور یہ احرام افعال عمرہ کی ادائیگی سے پہلے باندھنے کی وجہ سے قران بن گیا۔

3623

۳۶۲۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشِّخِّیْرِ‘ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ أَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُلَبِّیْ بِعُمْرَۃٍ وَحَجَّۃٍ) فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْ عِمْرَانَ أَیْضًا فِیْمَا تَقَدَّمَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ‘) فَکَیْفَ تَقْبَلُوْنَ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَنَ ؟ فَجَوَابُنَا لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ‘ مِثْلُ جَوَابِنَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا
٣٦٢٣: عبداللہ بن شخیر نے عمران بن حصین (رض) سے روایت نقل کی ہے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حج وعمرہ کا تلبیہ کہتے سنا ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ عمران بن حصین (رض) سے شروع باب میں یہ روایت کی ہے۔ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمتع ‘ ‘ الحدیث کہ آپ نے حج تمتع کیا تو اب یہ روایت قران کیسے قابل قبول ہوگی۔ اس کے جواب میں وہی کہا جائے گا جو حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے سلسلہ میں مذکورہوا۔

3624

۳۶۲۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَبّٰی بِعُمْرَۃٍ وَحَجَّۃٍ وَقَالَ لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَحَجَّۃٍ) فَذَکَرَ بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزَنِیّ لِابْنِ عُمَرَ قَوْلَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ذَہَلَ أَنَسٌ ، (إِنَّمَا أَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ‘ وَأَہْلَلْنَا بِہٖ مَعَہٗ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ قَالَ مَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ ہََدْیٌ فَلْیُحْلِلْ) قَالَ بَکْرٌ : فَرَجَعْتُ إِلٰی أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبَرْتُہٗ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَلَمْ یَزَلْ یَذْکُرُ ذٰلِکَ حَتّٰی مَاتَ۔
٣٦٢٤: حمید نے انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ اور حج کا تلبیہ کہا اور اس طرح کہا لبیک بعمرہ و حجۃ۔ بکر بن عبداللہ مزنی نے ابن عمر (رض) کے سامنے انس (رض) کا یہ قول بیان کیا تو انھوں نے کہا انس (رض) کو ذھول ہوگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا احرام باندھا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ احرام حج باندھا۔ جب ہم مکہ میں پہنچے تو آپ نے فرمایا جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ (افعال عمرہ کر کے) حلال ہوجائے۔
بکر مزنی کہتے ہیں کہ میں نے واپس لوٹ کر اس کا تذکرہ انس (رض) کے سامنے کیا وہ وفات تک اس قول کا تذکرہ کرتے رہے۔

3625

۳۶۲۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ‘ قَالَ : وَحَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ قَالَ : بَکْرٌ‘ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِابْنِ عُمَرَ فَقَالَ ((ذَہَلَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا أَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ‘ وَأَہْلَلْنَا بِہِ)
٣٦٢٥: بکر بن عبداللہ نے انس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے بکر کہتے ہیں کہ میں نے اس بات کا تذکرہ ابن عمر (رض) کے پاس کیا تو انھوں نے کہا انس کو ذھول ہوا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا احرام باندھا اور ہم نے بھی حج کا احرام باندھا۔

3626

۳۶۲۶ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ ہُوَ ابْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا حُمَیْدٌ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ وَزَادَ (فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ ہََدْیٌ فَلْیُحْلِلْ وَکَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَدْیٌ فَلَمْ یَحِلَّ)
٣٦٢٦: یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ہمیں حمید نے خبر دی پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مکہ) تشریف لے آئے تو آپ نے فرمایا جن کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہوجائے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہدی تھی اس لیے وہ حلال نہیں ہوئے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے حضرت انس (رض) کی اس بات کا انکار کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج وعمرہ کا اکٹھا احرام باندھا “ ابن عمر (رض) کے ہاں یہی تھا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا احرام باندھا پھر بعد میں اس کو عمرہ بنا لیا اور اس کے ساتھ حج کو ملایا پس آپ اس وقت قارن بن گئے تو ان کے نزدیک ابتداء احرام میں آپ مفرد تھے۔ پھر دوسری طرف حضرت انس (رض) سے متواتر روایات ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کا احرام اکٹھا باندھا۔

3627

۳۶۲۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ بَکْرٍ قَالَ : أَخْبَرْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِقَوْلِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ (نَسِیَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ بَکْرٌ لِأَنَسٍ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ نَسِیَ فَقَالَ أَنْ یَعُدُّوْنَا إِلَّا صِبْیَانًا‘ بَلْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَحَجَّۃٍ مَعًا) أَفَلاَ تَرٰی أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا إِنَّمَا أَنْکَرَ عَلٰی أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَوْلَہُ (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ بِہِمَا جَمِیْعًا ؟) وَإِنَّمَا کَانَ الْأَمْرُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ بِحَجَّۃٍ‘ ثُمَّ صَیَّرَہَا عُمْرَۃً بَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَأَضَافَ إِلَیْہَا حَجَّۃً‘ فَصَارَ حِیْنَئِذٍ قَارِنًا فَأَمَّا فِیْ بَدْئِ إِحْرَامِہٖ، فَإِنَّہٗ کَانَ- عِنْدَہُ- مُفْرِدًا‘ ثُمَّ قَدْ تَوَاتَرَتْ الرِّوَایَاتُ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِدُخُوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمَا جَمِیْعًا
٣٦٢٧: حمید نے بکر مزنی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو انس (رض) کے قول کی اطلاع دی تو انھوں نے کہا کہ انس (رض) کو بھول لگی ہے۔ بکر نے واپس لوٹ کر انس (رض) کو بتلایا کہ ابن عمر (رض) تو یہ کہتے ہیں کہ انس بھول گئے تو انس کہنے لگے وہ بچے ہونے کی وجہ سے ہم پر تجاوز کرتے ہیں بلکہ میں نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود فرماتے سنا ” لبیک بعمرۃ و حجۃ معا “۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٨٥۔
حاصل روایات : ابن عمر (رض) نے انس (رض) کی اس بات کا انکار کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کا اکٹھا احرام باندھا۔ ابن عمر (رض) کے ہاں بات یہ تھی کہ پہلے آپ مفرد تھے پھر اس کو عمرہ بنا لیا اور اس کے ساتھ حج کو ملا لیا تو آپ اس وقت قارن بن گئے ابن عمر (رض) کے نزدیک شروع میں آپ حج افراد والے تھے۔ حضرت انس (رض) کی بہت سی روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کا احرام باندھا ۔

3628

۳۶۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا اسْتَوَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ عَلَی الْبَیْدَائِ ‘ جَمَعَ بَیْنَہُمَا) .
٣٦٢٨: ابو قلابہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اونٹنی پر بیٹھ کر مقام بیداء میں پہنچے تو آپ نے حج وعمرہ دونوں کو جمع کیا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٢٧۔

3629

۳۶۲۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ح
٣٦٢٩: حمید نے انس (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3630

۳۶۳۰ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ قَزَعَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَحَجَّۃٍ)
٣٦٣٠: ابو قرعۃ نے انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا۔ ” لبیک بعمرۃ و حجۃ “
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢٤۔

3631

۳۶۳۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٣١: ثابت بنانی نے انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3632

۳۶۳۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٣٢: حماد نے حمید سے انھوں نے انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3633

۳۶۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ہُوَ الرَّقِّیُّ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ وَحُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ‘ عَنْ (أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ رَدِیْفَ أَبِیْ طَلْحَۃَ وَرُکْبَتِیْ تَمَسُّ رُکْبَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَزَالُوْا یَصْرُخُوْنَ بِہِمَا جَمِیْعًا بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ)
٣٦٣٣: حمید بن ہلال نے انس (رض) روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابو طلحہ (رض) کا پیچھے بیٹھنے والا سوار تھا اور میرا گھٹنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنے کو چھونے والا تھا اور تمام زور زور سے حج وعمرہ کا اکٹھا تلبیہ پڑھ رہے تھے۔

3634

۳۶۳۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَبِحَجَّۃٍ مَعًا)
٣٦٣٤: یحییٰ بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) کو فرماتے سنا : ” لبیک بعمرۃ و بحجۃ معا “ ۔

3635

۳۶۳۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْکِلَابِیُّ ح
٣٦٣٥: ابو امیہ کہتے ہیں میں نے عمرو بن عاصم کلابی سے بیان کیا۔

3636

۳۶۳۶ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ الْکَیْسَانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَا : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ ( : اعْتَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمْرَۃً مِنَ الْجُحْفَۃِ‘ وَعُمْرَۃً مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ‘ وَعُمْرَۃً مِنَ الْجِعْرَانَۃِ‘ وَعُمْرَۃً حَیْثُ قَسَّمَ غَنَائِمَ حُنَیْنٍ‘ وَعُمْرَۃً مَعَ حَجَّتِہٖ‘ وَحَجَّ حَجَّۃً وَاحِدَۃً)
٣٦٣٦ : قتادہ نے انس (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام جحفہ سے عمرے کا احرام باندھا اور ایک عمرہ القضاۃ کیا ایک عمرہ جعرانہ سے ادا فرمایا ایک عمرہ جہاں حنین کی غنیمتیں تقسیم فرمائیں اور ایک عمرہ حج کے ساتھ کیا اور آپ نے ایک ہی حج ادا فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٧٩۔

3637

۳۶۳۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوْسَی وَابْنُ نُفَیْلٍ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ خَیْثَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبِیْ أَسْمَائَ ‘ عَنْ (أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجْنَا نَصْرُخُ بِالْحَجَّۃِ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَہَا عُمْرَۃً وَقَالَ لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ‘ لَجَعَلْتُہَا عُمْرَۃً‘ وَلٰـکِنِّیْ سُقْتُ الْہَدْیَ‘ وَقَرَنْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ‘ فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی صِحَّۃِ قَوْلِ مَنْ أَخْبَرَ مَنْ فَعَلَہٗ بِمَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ۔
٣٦٣٧: ابو اسماء نے انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم (مدینہ سے) نکلے اور ہم صرف حج کا تلبیہ کہہ رہے تھے جب ہم مکہ پہنچے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو عمرہ بنانے کا حکم دیا اور فرمایا۔ اگر مجھے اس بات کا پہلے علم ہوتا جو اب مجھے معلوم ہوئی (کہ تم سب پریشان ہو گے) تو میں بھی اس کو عمرہ بنا لیتا لیکن میں نے ہدی روانہ کی ہے اور حج وعمرہ کو جمع کرلیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ آپ نے حج وعمرہ ملا کر کیا اس سے اس بات کی صحت کی دلالت مل گئی جنہوں نے اس کے موافق قول کیا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات اور خصوصاً اس آخری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج وعمرہ ملا لیا تھا اس سے ان لوگوں کے قول کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ کے حج کو حج قران مانتے ہیں۔

3638

۳۶۳۸ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ح
٣٦٣٨: یونس نے عبداللہ بن یوسف سے بیان کیا۔

3639

۳۶۳۹ : وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ أَسْلَمَ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ أَنَّہٗ قَالَ : حَجَجْتُ مَعَ مَوَالِیْ فَدَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ فَسَمِعْتُہَا تَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (أَہِّلُوْا‘ یَا آلَ مُحَمَّدٍ‘ بِعُمْرَۃٍ فِیْ حَجَّۃٍ) وَھٰذَا أَیْضًا مِثْلُ ذٰلِکَ۔
٣٦٣٩: اسلم ابی عمران کہتے ہیں کہ میں نے اپنے موالی کے ساتھ حج ادا کی تو میں امّ سلمہ (رض) کی خدمت میں آیا اور ان کو یہ کہتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والو ! تو اس طرح احرام باندھو حج وعمرہ کی ساتھ نیت کرتے ہیں یہ بھی سابقہ روایت کی طرح ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٩٧۔

3640

۳۶۴۰ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدٍ‘ وَأَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ح
٣٦٤٠: حمانی نے ابو خالد سے انھوں نے ابو معاویہ سے روایت نقل کی ہے۔

3641

۳۶۴۱ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ‘ قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ‘ قَالُوْا جَمِیْعًا : عَنِ الْحَجَّاجِ‘ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ أَبِیْ طَلْحَۃَ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَرَنَ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ)
٣٦٤١: حسن بن سعد نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے ابو طلحہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بیان کیا کہ آپ نے حج وعمرہ میں قران کیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٣٨۔

3642

۳۶۴۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَعَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَا : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ یَزِیْدَ الْأَوْدِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَیْسَرَۃَ الزَّرَّادَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَۃَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ سُرَاقَۃَ بْنَ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (دَخَلَتَ الْعُمْرَۃُ فِی الْحَجِّ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) قَالَ : وَقَرَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَدْ اخْتَلَفُوْا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ إِحْرَامِہٖ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ مَا کَانَ فَقَالُوْا : مَا رَوَیْنَا‘ وَتَنَازَعُوْا فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا وَقَدْ أَحَاطَ عِلْمُنَا أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ إِلَّا عَلٰی أَحَدِ تِلْکَ الْمَنَازِلِ الثَّلَاثَۃِ‘ إِمَّا مُتَمَتِّعٌ‘ وَإِمَّا مُفْرِدٌ‘ وَإِمَّا قَارِنٌ فَأَوْلٰی بِنَا أَنْ نَنْظُرَ إِلٰی مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ وَنَکْشِفَہَا‘ لِنَعْلَمَ مِنْ أَیْنَ جَائَ اخْتِلَافُہُمْ فِیْہَا‘ وَنَقِفَ مِنْ ذٰلِکَ عَلَی إِحْرَامِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا کَانَ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ : إِنَّہُ أَفْرَدَ یَقُوْلُوْنَ : کَانَ إِحْرَامُہُ بِالْحَجِّ مُفْرِدًا‘ لَمْ یَکُنْ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ إِحْرَامٌ بِغَیْرِہِ وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ قَدْ کَانَ قَبْلَ إِحْرَامِہٖ بِتِلْکَ الْحَجَّۃِ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ ثُمَّ أَضَافَ إِلَیْہَا ھٰذِہِ الْحَجَّۃَ‘ ہٰکَذَا یَقُوْلُ الَّذِیْنَ قَالُوْا : قَرَنَ وَقَدْ أَخْبَرَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِہٖ، وَہُوَ أَحَدُ الَّذِیْنَ قَالُوْا : (إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ) ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ حِیْنَ اسْتَوَتْ بِہِ نَاقَتُہُ عَلَی الْبَیْدَائِ) وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ‘ وَہُوَ أَیْضًا مِمَّنْ قَالَ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ بِالْحَجِّ فِیْ أَوَّلِ إِحْرَامِہِ) فَکَانَ بَدْئُ إِحْرَامِہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ‘ وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بَعْدَ خُرُوْجِہِ مِنَ الْمَسْجِدِ وَقَدْ بَیَّنَّا عَنْہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا أَنَّہٗ قَدْ کَانَ أَحْرَمَ فِیْ دُبُرِ الصَّلَاۃِ فِی الْمَسْجِدِ فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّہٗ قَرَنَ‘ سَمِعُوْا تَلْبِیَتَہُ فِی الْمَسْجِدِ بِالْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ سَمِعُوْا بَعْدَ ذٰلِکَ تَلْبِیَتَہُ الْأُخْرَی‘ خَارِجًا مِنَ الْمَسْجِدِ بِالْحَجِّ خَاصَّۃً فَعَلِمُوْا أَنَّہٗ قَرَنَ‘ وَسَمِعَہُ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّہُ أَفْرَدَ وَقَدْ لَبَّیْ بِالْحَجِّ خَاصَّۃً‘ وَلَمْ یَکُوْنُوْا سَمِعُوْا تَلْبِیَتَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ بِالْعُمْرَۃِ‘ فَقَالُوْا أَفْرَدَ وَسَمِعَہُ قَوْمٌ أَیْضًا وَقَدْ لَبَّیْ فِی الْمَسْجِدِ بِالْعُمْرَۃِ‘ وَلَمْ یَسْمَعُوْا تَلْبِیَتَہُ بَعْدَ خُرُوْجِہِ مِنْہُ بِالْحَجِّ‘ ثُمَّ رَأَوْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ یَفْعَلُ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ‘ مِنَ الْوُقُوْفِ بِعَرَفَۃَ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ‘ وَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَہُمْ - بَعْدَ خُرُوْجِہِ مِنَ الْعُمْرَۃِ فَقَالُوْا تَمَتُّعٌ فَرَوَی کُلُّ قَوْمٍ مَا عَلِمُوْا وَقَدْ دَخَلَ جَمِیْعُ مَا عَلِمَہُ الَّذِیْنَ قَالُوْا أَفْرَدَ‘ وَمَا عَلِمَہُ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّہُ تَمَتَّعَ فِیْمَا عَلِمَ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّہٗ قَرَنَ‘ لِأَنَّہُمْ أَخْبَرُوْا عَنْ تَلْبِیَتِہٖ بِالْعُمْرَۃِ ثُمَّ عَنْ تَلْبِیَتِہٖ بِالْحَجَّۃِ بِعَقِبِ ذٰلِکَ فَصَارَ مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ وَمَا رَوَوْا‘ أَوْلَی مِمَّا ذَہَبَ إِلَیْہِ مَنْ خَالَفَہُمْ وَمَا رَوَوْا ثُمَّ قَدْ وَجَدْنَا بَعْدَ ذٰلِکَ أَفْعَالَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ قَارِنًا‘ وَذٰلِکَ أَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَا یَخْتَلِفُ عَنْہُ أَنَّہٗ لَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ أَمَرَ أَصْحَابَہٗ أَنْ یُحِلُّوْا إِلَّا مَنْ کَانَ سَاقَ مِنْہُمْ ہَدْیًا وَثَبَتَ ہُوَ عَلَی إِحْرَامِہِ فَلَمْ یَحِلَّ مِنْہُ إِلَّا فِیْ وَقْتِ مَا یَحِلُّ الْحَاجُّ مِنْ حَجِّہِ وَقَالَ (لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْہَدْیَ وَلَجَعَلْتُہَا عُمْرَۃً فَمَنْ کَانَ لَیْسَ مَعَہٗ ہََدْیٌ‘ فَلِیَحْلِلْ‘ وَلْیَجْعَلْہَا عُمْرَۃً) ہٰکَذَا حَکَاہُ عَنْہُ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ وَہُوَ مِمَّنْ یَقُوْلُ : إِنَّہُ أَفْرَدَ‘ وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ وَمَا رُوِیَ فِیْہِ فِیْ بَابِ فَسْخِ الْحَجِّ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَلَوْ کَانَ إِحْرَامُہٗ ذٰلِکَ کَانَ بِحَجَّۃٍ‘ لَکَانَ ہَدْیُہُ الَّذِی سَاقَہُ تَطَوُّعًا‘ فَہَدْیُ التَّطَوُّعِ لَا یَمْنَعُ مِنَ الْاِحْلَالِ الَّذِیْ یَحِلُّہُ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ ہََدْیٌ وَلَکَانَ حُکْمُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - وَإِنْ کَانَ قَدْ سَاقَ ہَدْیًا - کَحُکْمِ مَنْ لَمْ یَسُقْ ہَدْیًا‘ لِأَنَّہٗ لَمْ یَخْرُجْ عَلٰی أَنْ یَتَمَتَّعَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ الْہَدْیُ لِلْمُتْعَۃِ‘ فَتَمْنَعُہٗ مِنَ الْاِحْلَالِ الَّذِیْ کَانَ یَحِلُّہٗ‘ لَوْ لَمْ یَسُقْ ہَدْیًا أَلَا تَرٰی أَنَّ رَجُلًا لَوْ خَرَجَ یُرِیْدُ التَّمَتُّعَ فَأَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ أَنَّہٗ اِذَا طَافَ لَہَا‘ وَسَعٰی‘ وَحَلَقَ‘ حَلَّ مِنْہَا‘ وَلَوْ کَانَ سَاقَ ہَدْیًا لِمُتْعَتِہِ لَمْ یَحِلَّ حَتّٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ وَلَوْ سَاقَ ہَدْیًا تَطَوُّعًا‘ حَلَّ قَبْلَ یَوْمِ النَّحْرِ بَعْدَ فَرَاغِہٖ مِنَ الْعُمْرَۃِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ہَدْیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمَّا کَانَ قَدْ مَنَعَہُ مِنَ الْاِحْلَالِ‘ وَأَوْجَبَ ثُبُوْتَہُ عَلَی الْاِحْرَامِ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ أَنَّ حُکْمَہٗ، غَیْرُ حُکْمِ ہَدْیِ التَّطَوُّعِ‘ فَانْتَفٰی بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ : إِنَّہُ کَانَ مُفْرَدًا وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ‘ (عَنْ حَفْصَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوْا‘ وَلَمْ تَحِلَّ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِک ؟ فَقَالَ إِنِّیْ قَلَّدْت ہَدْیِی وَلَبَّدْتُ رَأْسِیْ، فَلاَ أَحِلُّ حَتّٰی أَنْحَرَ) فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَعَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْہَدْیَ‘ کَانَ ہَدْیًا بِسَبَبِ عُمْرَۃٍ یُرَادُ بِہَا قِرَانٌ أَوْ مُتْعَۃٌ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا حَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ دَلَّ حَدِیْثُہَا ھٰذَا‘ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ بِمَکَّۃَ‘ لِأَنَّہٗ کَانَ مِنْہُ‘ بَعْدَمَا حَلَّ النَّاسُ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ طَافَ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ أَوْ لَمْ یَطُفْ فَإِنْ کَانَ قَدْ طَافَ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ مِنْ بَعْدُ‘ فَإِنَّمَا کَانَ مُتَمَتِّعًا‘ وَلَمْ یَکُنْ قَارِنًا‘ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ بَعْدَ فَرَاغِہٖ مِنْ طَوَافِ الْعُمْرَۃِ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ طَافَ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ حَتّٰی أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ‘ فَقَدْ کَانَ قَارِنًا‘ لِأَنَّہٗ قَدْ لَزِمَتْہُ الْحَجَّۃُ قَبْلَ طَوَافِہٖ لِلْعُمْرَۃِ فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا‘ کَانَ أَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَحْمِلَ ھٰذِہِ الْآثَارَ‘ عَلٰی مَا فِیْہِ اتِّفَاقُہَا‘ لَا عَلٰی مَا فِیْہِ تَضَادُّہَا فَکَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ‘ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ‘ وَرَوَیْنَا عَنْہُمْ أَنَّہٗ قَرَنَ‘ وَقَدْ ثَبَتَ مِنْ قَوْلِہٖ مَا یَدُلُّ‘ عَلٰی أَنَّہٗ قَدِمَ مَکَّۃَ‘ وَلَمْ یَکُنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ قَبْلَ ذٰلِکَ فَإِنْ جَعَلْنَا إِحْرَامَہُ بِالْحَجَّۃِ‘ کَانَ قَبْلَ الطَّوَافِ لِلْعُمْرَۃِ‘ ثَبَتَ الْحَدِیْثَانِ جَمِیْعًا‘ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ مُتَمَتِّعًا إِلٰی أَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ‘ فَصَارَ قَارِنًا وَإِنْ جَعَلْنَا إِحْرَامَہُ بِالْحَجَّۃِ‘ کَانَ بَعْدَ طَوَافِہِ لِلْعُمْرَۃِ‘ جَعَلْنَاہُ مُتَمَتِّعًا‘ وَنَفَیْنَا أَنْ یَّکُوْنَ قَارِنًا‘ فَجَعَلْنَاہُ مُتَمَتِّعًا فِیْ حَالٍ‘ وَقَارِنًا فِیْ حَالٍ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ طَوَافَہُ لِلْعُمْرَۃِ‘ کَانَ بَعْدَ إِحْرَامِہٖ بِالْحَجَّۃِ‘ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ کَانَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ قَارِنًا فَقَالَ قَائِلٌ : مِمَّنْ کَرِہَ الْقِرَانَ وَالتَّمَتُّعَ‘ لِمَنِ اسْتَحَبَّہُمَا : اعْتَلَلْتُمْ عَلَیْنَا بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ) فِیْ اِبَاحَۃِ الْمُتْعَۃِ‘ وَلَیْسَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ‘ وَإِنَّمَا تَأْوِیْلُ ھٰذِہِ الْآیَۃِ‘ مَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ۔
٣٦٤٢: نزال بن سبرہ کہتے تھے کہ میں نے سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) کو یہ کہتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہوگیا اور یہ بھی کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں قران کیا۔ علماء نے جناب رسول اللہ کے احرام سے متعلق جو حجۃ الوداع میں آپ نے باندھا اختلاف کیا ہے کہ وہ کیسا تھا جو ہم نے گزشتہ سطور میں بیان کیا وہ انھوں نے کہا اور باہمی اختلاف کیا جو مذکور ہوا مگر ہمارے علم کی حد تک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آپ تین میں سے کسی ایک حالت پر تھے ۔ خواہ وہ تمتع کی ہو یا افراد یا قران کی ہو۔ ہمارے لیے مناسب ترین بات یہی ہے کہ پہلے ہم روایات کے معانی کو واضح کریں تاکہ موقعہ اختلاف کی تعین ہو اور آپ کے احرام سے متعلق معلوم ہوجائے کہ کون سا تھا ۔ پس ہم نے پڑتال کی تو معاملے کو اس طرح پایا ! جو حضرات حج افراد کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں آپ نے حج افراد کا احرام باندھا اس سے پہلے اور کوئی احرام نہ تھا۔ " آپ نے اس احرام حج سے قبل عمرے کا احرام باندھا پھر اس کے ساتھ اس حج کو ملایا ۔ اسی طرح وہ لوگ کہتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ آپ نے قران کیا۔ چنانچہ حضرت جابر (رض) جو افراد کے قائلین سے ہیں کہتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی مقام بیداء میں سیدھی کھڑی ہوگئی تو آپ نے حج کا احرام باندھا ۔ اسی طرح ابن عمر (رض) جو کہتے ہیں کہ آپ نے حج افراد کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا پہلا احرام مسجد کے قریب سے باندھا ۔ تو حاصل یہ ہے کہ حضرات ابن عمر اور جابر (رض) کے بیان کے مطابق آپ کے احرام کی ابتداء مسجد سے باہر آجانے کے بعد ہوئی۔ ان حضرات سے ہم اپنی اس کتاب میں ثابت کرچکے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے بعد مسجد میں احرام باندھا۔ تو اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ جن لوگوں نے قران کا قول کیا انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عمرے کا تلبیہ سنا۔ پھر انھوں نے مسجد کے باہر دوسرا تلبیہ حج کے لیے سنا ۔ پس انھوں نے اس سے جان لیا کہ آپ نے قران فرمایا اور جن لوگوں نے افراد کا قول اختیار کیا ۔ انھوں نے فقط حج کا تلبیہ سنا ۔ انھوں نے اس سے پہلے والا عمرے کا تلبیہ نہیں سنا تھا ۔ اس لیے انھوں نے حج افراد کا قول کردیا۔ اور ایک اور جماعت نے مسجد میں آپ کو عمرے کا تلبیہ کہتے سنا اور نکلنے کے بعد حج کا تلبیہ آپ کی زبان سے نہ سنا پھر انھوں نے اس کے بعد دیکھا کہ آپ نے حجاج کی طرح میدان عرفات میں وقوف فرمایا وغیرہ اور دیگر اعمال ادا فرمائے ۔ تو ان کے ہاں آپ کا یہ عمل عمرے سے فراغت کے بعد تھا ۔ پس انھوں نے تمتع کا قول کردیا۔ گویا جس جماعت نے جو جانا وہ روایت کردیا ۔ پس ان لوگوں کی بات جنہوں نے افراد وتمتع کہا ان لوگوں کی بات میں شامل ہوگئی جنہوں نے قرآن کا قول کیا ۔ کیونکہ انھوں نے پہلے عمرے اور اس کے بعد حج کے تلبیہ کی اطلاع دی۔ پس انھوں نے اپنے مؤقف سے متعلق جو روایت کی وہ ان کے مخالف روایت کرنے والوں سے اولیٰ و اعلیٰ قرار پائی۔ " پھر ہم نے یہ دیکھا کہ آپ کے افعال قارن ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جب اس سب کا اتفاق ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ جو لوگ ہدی لانے والے ہیں ان کے علاوہ باقی لوگ (عمرہ کر کے) احرام کھول دیں آپ نے بھی اپنا احرام برقرار رکھا اور اسے صرف اس وقت کھولا جب حج کرنے والا حج کا احرام کھولتا ہے۔ اور یہ بات ارشاد فرمائی : لو استقبلت من امری ماستدبرت ماسقت الھدی۔۔۔ اگر مجھ پر یہ بات پہلے ظاہر ہوتی جو بعد کو ظاہر ہوئی تو میں اس کو عمرہ بنا لیتا ۔ پس جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دے اور اس کو عمرہ بنا لے ‘ ‘ حضرت جابر (رض) نے یہ روایت آپ سے اسی طرح نقل کی ہے حالانکہ وہ تو حج افراد کے قائلین سے ہیں۔ ہم عنقریب اس روایت کو اور جو روایات فسخ حج کے سلسلہ میں مروی ہیں ذکر کریں گے۔ اگر آپ کا یہ احرام فقط حج کا ہوتا تو پھر ہدی کا لے جانا نفلی تھا اور نفلی ھدی احرام عمرہ کے کھولنے سے مانع نہیں ہے جس طرح ہدی نہ لے جانے والا کھولتا ہے اور آپ کا حکم بھی ھدی نہ لے جانے والے کی طرح ہوتا خواہ آپ ھدی اپنے ساتھ لائے تھے ۔ کیونکہ اس طرح وہ متمتع ہونے سے نہ نکلے گا ۔ پس اس کی یہ ھدی متعہ کی بن جائے گی اور اسے حلال ہونے سے مانع بن جائے گی جو کہ اس کے لیے حلال تھا اگر وہ ہدی نہ لاتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص تمتع کا ارادہ کر کے جائے اور عمرے کا احرام باندھے۔ جب وہ عمرے کا طواف کرتا اور سعی کرلیتا ہے اور حلق کروا کر حلال ہوجاتا ہے۔ اگر وہ اپنے ساتھ ہدی لایا ہو تو یوم نحر سے پہلے حلال نہ ہوگا اور اگر اس نے نفلی ھدی چلائی تھی تو عمرہ سے فراغت کے بعد یوم نحر سے پہلے ہی وہ حلال ہوجائے گا۔ پس اس سے بات ثابت ہوئی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ھدی احرام کے کھولنے میں رکاوٹ تھی اور اس نے آپ پر احرام کو یوم نحر تک کے لیے لازم کردیا تو اس کا حکم نفلی ھدی کے حکم جیسا نہ تھا۔ پس اس سے ان لوگوں کے قول کی نفی ہوگئی جو کہتے ہیں کہ آپ حج افراد کے کرنے والے تھے اور ہم نے اس باب میں پہلے حضرت حفصہ (رض) کی روایت نقل کی ہے۔ کہ میں نے دریافت کیا کہ لوگوں کا کیا معاملہ ہے کہ انھوں نے احرام کھول دیے اور آپ نے عمرے کا احرام نہیں کھولا ؟ آپ نے فرمایا میں نے تو اپنی ھدی کو قلادہ ڈالا اور اپنے سر کو تلبید کی ہے۔ پس میں قربانی کرنے تک احرام نہ کھولوں گا۔ پس اس سے وہ دلالت مل گئی جو ہم نے ذکر کی نیز یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ ہدی عمرے کی وجہ سے تھی خواہ حج سے قران مراد میں یا تمتع۔ پس اس سلسلہ میں غور کیا تو حضرت حفصہ (رض) کی رایت اس کا ثبوت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جواب مکہ میں دیا ۔ کیونکہ یہ بات آپ کے احرام کھولنے کے بعد فرمائی اور یہ بھی ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پہلے طواف کرلیا پھر احرام حج باندھا تو آپ تمتع تھے قارن نہ تھے کیونکہ آپ نے عمرہ کے طواف سے فراغت پا کر پھر حج کا احرام باندھا اور اگر آپ نے حج کا احرام باندھنے سے پہلے طواف نہ کیا تھا ۔ تو آپ قارن تھے کیونکہ آپ پر طواف عمرہ سے پہلے حج لازم ہوچکا تھا۔ پس جب اس بات کا احتمال ہوا تو ہمیں سب سے اول یہ چاہیے کہ ان روایات کو متفق علیہ بات پر حمل کریں نہ کہ متضاد قول پر۔ پس ہم نے حضرت علی ‘ ابن عباس ‘ عمران بن حصین عائشہ صدیقہ (رض) عنہم سے روایت کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا اور انہی سے ہم نے روایات نقل کیں کہ آپ نے قرآن کیا۔ اور یہ بات تو آپ کے ارشاد سے ثابت ہوتی ہے۔ کہ آپ جب مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تو اس سے پہلے آپ نے حج کا احرام نہ باندھا تھا۔ پس اگر ہم آپ کے احرام حج کو عمرہ سے پہلے قراردیں تو وہ احادیث جمع ہوجائیں گی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احرام حج تک متمتع تھے پھر آپ قارن ہوئے اور اگر ہم آپ کے احرام حج کو طواف عمرہ کے بعد قرار دیں تو آپ کو متمتع قرار دیں گے اور آپ کے قارن ہونے کی نفی کریں گے۔ پس اس طرح آپ کو ایک حالت میں متمتع اور دوسری حالت میں قارن قرار دیں گے ۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ کا عمرہ کے لیے طواف احرام حج باندھنے کے بعد تھا اور اس سے ثابت ہوجائے گا کہ آپ حجۃ الوداع میں قارن تھے۔ قرآن و تمتع کو جن حضرات نے مکروہ قرار دیا انھوں نے ان کے پسند کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ تم نے آیت فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی۔۔۔ کو اباحت تمتع کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے حالانکہ یہ اس طرح نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر تو ابن زبیر (رض) سے اس طرح مروی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان صحابہ کی روایات سے بھی آپ کا حج قران ہی ثابت ہوتا ہے۔
آپ نے کونسا احرام باندھا ؟
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجۃ الوداع کے موقعہ پر احرام میں اختلاف ہے چنانچہ کسی نے فقط عمرہ کسی نے حج مفرد کسی نے حج وعمرہ کا ذکر کیا ہے جیسا کہ تفصیل سے روایات ملاحظہ کرلی گئیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی تینوں میں سے ایک حالت تھی۔ نمبر ١ مفرد نمبر ٢ متمتع نمبر ٣ قارن۔ پس زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان آثار کی چھان بین کر کے اختلافی مقام کو واضح کریں کہ یہ اختلاف کہاں سے پیدا ہوا تاکہ آپ کے احرام کے متعلق صحیح بات پر مطلع ہوں۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا اور آپ کا اس کے علاوہ اس سے پہلے احرام نہ تھا۔
دوسروں نے کہا آپ نے حج کا احرام باندھنے سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا پھر حج کے احرام کو اضافی ملایا ہے اسی طرح وہ لوگ کہتے ہیں جو قران کے قائل ہیں۔
حالانکہ جابر (رض) نے اپنی روایت میں بتلایا اور وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فقط حج کا احرام باندھا جب آپ کی اونٹنی بیداء ٹیلہ پر بلند ہوئی۔ اور ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ابتداء حج مفرد کا احرام باندھا۔ اور اس وقت تلبیہ کہا جب آپ مسجد کے پاس تھے تو ابن عمر (رض) اور جابر (رض) کے ہاں آپ کے احرام کی ابتداء مسجد سے نکلنے کے بعد ہوئی۔ ہم پہلے واضح کر آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں نماز کے بعد احرام باندھ لیا۔
پس اب اس میں یہ احتمال پیدا ہوا کہ جن لوگوں نے قران کا قول کیا ہے انھوں نے آپ کا تلبیہ مسجد کے اندر سنا پھر انھوں نے آپ کا تلبیہ دوسری بار مسجد سے باہر خاص طور پر حج کے بارے میں سنا۔
حاصل روایات : تو انھوں نے اس سے نتیجہ نکالا کہ آپ نے قران کیا ہے اور جنہوں نے حج کو مفرد قرار دیا انھوں نے صرف حج کا تلبیہ سنا انھوں نے اس سے پہلے فقط عمرہ والا تلبیہ نہ سنا تھا تو انھوں نے حج کے متعلق کہہ دیا کہ آپ نے حج افراد کیا ہے۔
کچھ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسجد میں آپ کا فقط عمرے والا تلبیہ سنا اور مسجد سے باہر نکل کر آپ کے تلبیہ حج کو نہ سنا تھا۔ پھر انھوں نے آپ کو افعال حج ادا کرتے پایا مثلاً وقوف عرفات وغیرہ تو ان کے ہاں آپ کے یہ افعال ‘ عمرہ سے فراغت کے بعد تھے۔ اس لیے انھوں نے تمتع کا قول کردیا گویا جو کسی نے جانا اپنے علم کے مطابق روایت کردیا جن لوگوں نے قران کا قول کیا تھا۔ ان کی بات میں افراد و تمتع دونوں داخل و شامل ہوگئے کیونکہ ان کو آپ کے پہلے تلبیہ عمرہ اور اس کے بعد تلبیہ حج کا علم تھا پس یہ ان لوگوں کا قول ان تمام اقوال کا جامع ہونے کی وجہ سے افراد و تمتع والوں سے بہتر و اولیٰ ٹھہرا۔
ایک اور انداز سے نظر دوڑائیں : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال حج پر غور کیا تو وہ قران والے نظر آئے اس میں تمام روات متفق ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ پہنچ کر اپنے صحابہ کرام کو فرمایا کہ وہ احرام کو کھول دیں صرف وہ احرام میں رہے جو ہدی لایا ہو۔ آپ ہدی لائے تھے اس لیے آپ اپنے احرام پر قائم رہے اس احرام کو اسی وقت کھولا جب یوم نحر کو حجاج کھولتے ہیں اور آپ نے فرمایا۔ اگر مجھے اپنے معاملے کا انجام پہلے معلوم ہوتا جو بعد کو معلوم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا اور میں اس کو عمرہ بنا کر احرام سے فارغ ہوجاتا پس جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دے اور اس کو عمرہ بنا لے جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت میں اسی طرح وارد ہیں حالانکہ جابر (رض) ہی آپ کے بارے میں حج افراد کی روایت نقل کر رہے ہیں۔ ہم مزید فسخ حج میں ذکر کریں گے۔
پس اگر یہ آپ کا احرام فقط حج ہی کا ہوتا تو آپ کا ہدی تطوع تھا اور ہدی تطوع کا اصول یہ ہے کہ وہ احلال سے مانع نہیں بنتا جبکہ وہ اس کے ساتھ نہ ہو۔ اگر ہدی روانہ کر بھی دیا ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو ہدی روانہ نہ کرنے والے کا ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہدی کو تمتع کے لیے نہیں نکالا پس یہ ہدی تمتع بن کر اسے احلال سے روک دے گی جو احلال ہدی نہ لے جانے کی صورت میں درست تھا۔
غور فرمائیں اگر کوئی آدمی تمتع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو پھر اس نے عمرے کا احرام باندھ لیا جب وہ اس کا طواف و سعی کرچکا تو حلق کروا کر اس سے حلال ہوگیا اور اگر اس نے قربانی کا جانور ساتھ لیا تھا تو پھر حلال نہیں ہوسکتا یوم نحر کو حلق کرا کر حلال ہو سکے گا اور اگر اس نے نفلی ھدی روانہ کی ہے تو پھر یوم نحر سے پہلے ہی افعال عمرہ کے بعد احرام سے فارغ ہوسکتا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ کے ہدایا نے آپ کو احلال سے روک دیا اور یوم نحر تک احرام پر قائم رہنے کو ثابت کردیا تو آپ کے ان ہدایا کا حکم ہدی تطوع سے الگ ہوگیا اس سے ان لوگوں کا قول نا درست ہوگیا جو کہتے ہیں کہ آپ کا حج مفرد تھا۔ نیز ہم حضرت حفصہ (رض) کی روایت ذکر کرچکے کہ انھوں نے احرام کھول دیئے اور آپ نے اپنے عمرہ کا احرام نہیں کھولا تو آپ نے ان کو جواباً فرمایا میں نے اپنے ہدی کو قلادہ ڈالا اور سر کے بالوں میں تلبیہ کی ہوئی ہے پس میں ہدایا کو نحر کرنے کے بغیر احرام سے فارغ نہ ہوں گا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ ہدی اس عمرہ کے باعث ہے جس سے قران مراد لیا جائے یا متعہ۔
ہم نے مزید غورفکر کیا تو ان کی روایت میں یہ بات مل گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات مکہ پہنچ کر فرمائی اور یہ ارشاد اس وقت فرمایا جبکہ لوگ عمرہ سے فارغ ہوگئے۔
اب ایک اور قابل غور پہلو ملاحظہ ہو۔
یہ دونوں احتمال ہیں کہ آپ نے پہلے طواف کرلیا ہو اور پھر یہ فرمایا ہو یا طواف سے پہلے یہ بات فرمائی ہو۔
اگر طواف کی ادائیگی کے بعد حج کا احرام باندھا تو پھر آپ کا متمتع ہونا واضح ہوگیا اور قران ثابت نہ ہوسکا کیونکہ آپ نے عمرہ کے ارکان سے فراغت کے بعد احرام حج باندھا۔
اور اگر ارکان عمرہ کی ادائیگی سے پہلے آپ نے حج کا احرام باندھ لیا ہو تو آپ کا قران ثابت ہوگیا کیونکہ آپ نے عمرہ کی ادائیگی سے پہلے حج کو لازم کرلیا۔
ان دو احتمالات کی موجودگی میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم آثار کو تضاد کی بجائے تطبیق کی طرف لائیں۔
فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی : پس علی بن ابی طالب ‘ ابن عباس ‘ عمران بن حصین اور عائشہ صدیقہ ] کی روایات گزریں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج تمتع کیا اور ہم نے ان کی روایات قران کے سلسلہ میں بھی نقل کی ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اپنے مقام پر ثابت ہوچکا کہ آپ مکہ تشریف لائے اور اس وقت تک آپ نے حج کا احرام نہ باندھا تھا۔
تو ہم نے صورت تطبیق یہ دی کہ آپ نے جو احرام باندھا وہ عمرہ کے لیے تھا اس طرح دونوں احادیث اپنے اپنے مقام پر ثابت رہیں گی آپ اس وقت تک متمتع تھے یہاں تک کہ آپ نے حج کا احرام باندھا تو آپ قارن بن گئے ہم نے آپ کے احرام حج کو عمرہ کے احرام کے بعد قرار دیا ہے اور آپ کو متمتع قرار دیا ہے اور آپ سے قران کی ایک حالت میں نفی کی ہے پس ایک حالت میں آپ کو متمتع اور ایک حال میں قارن قرار دیا ہے۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ آپ کا پہلا طواف عمرہ کا تھا اور احرام کے بعد آپ کا طواف وہ حج کا تھا اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ آپ حجۃ الوداع میں قارن تھے۔
ایک اہم ترین اشکال :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں : فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ [البقرہ ١٩٦ ] فرمایا اس سے تم نے تمتع کے مباح اور درست ہونے کا استدلال کیا ہے حالانکہ اس سے وہ تمتع مراد نہیں جو تم مراد لے رہے ہو بلکہ اس سے مراد وہ ہے جو عبداللہ بن زبیر نے قسم کھا کر بیان کیا۔ کہ احرام حج باندھ کر چل دیا راستہ میں دشمن نے روکا یہاں تک کہ ایام حج گزر گئے دشمن سے چھوڑا یہ اسی احرام سے عمرہ کر کے حلال ہوا گویا اس احصار والے احرام سے عمرے کا فائدہ اٹھایا یہ تمتع آیت میں مراد ہے۔ ” کما قال ابن الزبیر (رض) “ روایت ملاحظہ ہو۔

3643

۳۶۴۳ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَنَضْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ‘ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْدٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ وَہُوَ یَخْطُبُ یَقُوْلُ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ‘ أَلَا إِنَّہُ وَاللّٰہِ مَا التَّمَتُّعُ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ‘ کَمَا تَصْنَعُوْنَ‘ وَلٰـکِنَّ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ أَنْ یَخْرُجَ الرَّجُلُ حَاجًّا‘ فَیَحْبِسَہٗ عَدُوٌّ‘ أَوْ مَرَضٌ‘ أَوْ أَمْرٌ یُعْذَرُ بِہٖ حَتّٰی تَذْہَبَ أَیَّامُ الْحَجِّ فَیَأْتِیَ الْبَیْتَ فَیَطُوْفَ بِہِ سَبْعًا‘ وَیَسْعَیْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَیَتَمَتَّعَ بِحِلِّہِ إِلَی الْعَامِ الْمُقْبِلِ‘ فَیَحُجَّ وَیُہْدِیَ)
٣٦٤٣: اسحاق بن سوید نقل کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو خطبہ دیتے سنا وہ کہہ رہے تھے اے لوگو ! تمتع وہ نہیں جو تم عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر کرتے ہو بلکہ تمتع بالعمرہ الی الحج کا مصداق یہ ہے کہ آدمی حج کا احرام باندھ کر روانہ ہو پھر اسے دشمن یا مرض یا عذر روک دے تآنکہ ایام حج گزر جائیں۔ پھر وہ آزاد ہو کر بیت اللہ میں آئے اور اس کا طواف و سعی کر کے حلال ہوجائے اور آئندہ سال وہ حج بھی کرے اور دم احصار کی ہدی بھی روانہ کرے۔

3644

۳۶۴۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : أَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُوَیْدٍ‘ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ قَالَ فَھٰذَا تَأْوِیْلُ ھٰذِہِ الْآیَۃِ قِیْلَ لَہُمْ : لَئِنْ وَجَبَ أَنْ یَّکُوْنَ تَأْوِیْلُہَا کَذٰلِکَ لِقَوْلِ ابْنِ الزُّبَیْرِ‘ فَإِنَّ تَأْوِیْلَہَا أَحْرٰی أَنْ لَا یَکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ لِمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ‘ مِثْلِ عُمَرَ‘ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَمَنْ ذَکَرْنَا مَعَہُمَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ۔
٣٦٤٤: حماد نے اسحاق بن سویف سے روایت نقل کی انھوں نے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ جب اس آیت کا مصداق اس قسم کا تمتع ہے تو اس کو تمتع حج بالعمرہ کی دلیل بنا کر پیش کرنا درست نہ ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس آیت کی تفسیر یہ ہے تو ان کو جواب میں عرض کیا جائے گا کہ اگر اس آیت کی یہ تفسیر ابن زبیر (رض) کے قول کے مطابق لازم ہے تو جناب وہ روایات جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائیں اور آپ کے صحابہ کرام (رض) نے روایت کی ہیں جیسے حضرت عمر (رض) اور دیگر اصحاب تو ان روایات کی روشنی میں اس تاویل کا نہ ہونا زیادہ مناسب ہے۔ ذیل کی روایات ملاحظہ ہیں۔
نوٹ :
حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کی طرف منسوب توجیہ اکابر صحابہ کی توجیہ کے خلاف ہے اور خود سیاق آیت کے بھی خلاف ہے جیسا کہ ہم عنقریب ثابت کریں گے۔
روایات صحابہ کرام ملاحظہ ہوں۔

3645

۳۶۴۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ أَوْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ أَبِیْ نَصْرٍ قَالَ (أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ‘ فَأَدْرَکْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقُلْتُ : إِنِّیْ أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ‘ أَفَأَسْتَطِیْعُ أَنْ أَضُمَّ إِلَیْہٖ؟) فَقَالَ (لَا‘ لَوْ کُنْتُ أَہْلَلْتُ بِالْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ تُضِیْفَ إِلَیْہَا الْحَجَّ‘ فَعَلْتُ)
٣٦٤٥: مالک بن حارث نے ابو نصر سے نقل کیا کہ میں نے حج کا احرام باندھا پھر مجھے علی مرتضیٰ (رض) مل گئے میں نے ان سے دریافت کیا میں نے حج کا احرام باندھ لیا ہے۔ کیا میں اس کے ساتھ عمرے کو ملا سکتا ہوں تو انھوں نے فرمایا نہیں۔ البتہ اگر تو نے عمرے کا احرام باندھا ہوتا پھر تیرا ارادہ حج کو اس کے ساتھ ملانے کا ہوتا تو تو کرسکتا تھا۔

3646

۳۶۴۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ‘ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ‘ قَالَ : کُنَّا مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَسَمِعْنَا رَجُلًا یَہْتِفُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (مَنْ ھٰذَا ؟) قَالُوْا : عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَکَتَ
٣٦٤٦: علی بن حسین نے مروان بن حکم سے نقل کیا کہ ہم عثمان (رض) کے ساتھ ہم نے ایک آدمی کی آواز سنی جو بلند آواز سے حج و عمرے کا تلبیہ کہہ رہا ہے۔ عثمان نے پوچھا یہ کون ہے ؟ انھوں نے بتلایا یہ علی (رض) ہیں تو عثمان (رض) خاموش ہوگئے۔

3647

۳۶۴۷ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ جَرِیِّ بْنِ کُلَیْبٍ‘ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ أَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَبَ‘ فَنَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ فَقَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَبٰی بِہِمَا‘ فَأَنْکَرَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ‘ فَقَالَ لَہٗ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (إِنَّ أَفْضَلَنَا فِیْ ھٰذَا الْأَمْرِ‘ أَشَدُّنَا اتِّبَاعًا لَہٗ)
٣٦٤٧: جری بن کلیب اور عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ عثمان (رض) نے خطبہ دیا انھوں نے تمتع سے منع کیا تو علی (رض) کھڑے ہوئے اور حج وعمرہ دونوں کا تلبیہ کہا اس کو عثمان (رض) نے ناپسند کیا تو علی (رض) نے فرمایا اس معاملے میں ہم میں افضل وہ ہے جو آپ کی اتباع میں زیادہ مضبوط ہے۔

3648

۳۶۴۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ الْیَشْکُرِیِّ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (لَوْ أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ طُفْتُ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا‘ وَلَکُنْتُ مُہْدِیًا) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا مَنْ ذَکَرْنَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ صَرَفَ تَأْوِیْلَ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ) إِلَی خِلَافِ مَا صَرَفَہٗ إِلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ‘ وَہُوَ أَصَحُّ التَّأْوِیْلَیْنِ عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ‘ لِأَنَّ فِی الْآیَۃِ مَا یَدُلُّ عَلَی فَسَادِ تَأْوِیْلِ ابْنِ الزُّبَیْرِ‘ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ (فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ‘ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ) وَالصِّیَامُ فِی الْحَجِّ‘ لَا یَکُوْنُ بَعْدَ فَوْتِ الْحَجِّ‘ وَلٰکِنَّہٗ قَبْلَ فَوْتِہٖ ثُمَّ قَالَ (وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشْرَۃٌ کَامِلَۃٌ‘ ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ أَہْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) فَکَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا جَعَلَ الْمُتْعَۃَ‘ وَأَوْجَبَ فِیْہَا مَا أَوْجَبَ عَلٰی مَنْ فَعَلَہَا اِذَا لَمْ یَکُنْ أَہْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَقَدْ أَجْمَعَتَ الْأُمَّۃُ أَنَّ مَنْ کَانَ أَہْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘ أَوْ غَیْرَ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ‘ فَفَاتَہُ الْحَجُّ‘ أَنَّ حُکْمَہُ فِیْ ذٰلِکَ وَحُکْمَ غَیْرِہِ سَوَاء ٌ‘ وَأَنَّ بِحُضُوْرِ أَہْلِہِ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘ لَا یُخَالِفُ بِبُعْدِہِمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْمُتْعَۃَ الَّتِیْ ذَکَرَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ‘ ہِیَ الَّتِیْ یَفْتَرِقُ فِیْہَا مَنْ کَانَ أَہْلُہٗ بِحَضْرَۃِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘ وَمَنْ کَانَ أَہْلُہٗ بِغَیْرِ حَضْرَۃِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘ وَذٰلِکَ فِی التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ الَّتِیْ کَرِہَہَا مُخَالِفُنَا وَقَدْ رَوٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٣٦٤٨: سلیمان یشکری نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے۔ اگر میں حج وعمرہ کا احرام باندھوں اور ان کے لیے میں ایک طواف کروں تو میں ضرور سیدھی راہ پانے والا ہوں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جن صحابہ کرام (رض) کا ہم نے تذکرہ کیا انھوں نے آیت : { فمن تمتع بالعمرہ۔۔۔} کی تاویل و تفسیر حضرت ابن زبیر (رض) کی تفسیر سے مختلف کی ہے ہمارے ہاں یہ تاویل اس سے بدرجہ اولیٰ ہے ( واللہ اعلم) کیونکہ خود آیت کریمہ میں ہی تفسیر ابن زبیر (رض) کے درست نہ ہونے کی دلیل موجود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھائے وہ جو جانور میسر ہو وہ لے جائے اور جس کو میسر نہ ہو وہ ایام حج میں تین دن کے روزے رکھے اور وہ روزے حج کے فوت ہونے کے بعد نہیں بلکہ پہلے رکھے جاتے ہیں پھر ارشاد فرمایا کہ سات روزے گھر لوٹ کر رکھو یہ کل دس مکمل ہوئے یہ اس شخص کے لیے اجازت ہے جس کا گھر مسجد حرام کے پاس نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ تمتع اور اس کے کرنے والے پر جو چیز لازم ہوتی ہے اس کو ان لوگوں کے لیے مقرر فرمایا جو مکہ مکرمہ کے رہائشی نہ ہوں اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مکی اور غیر مکی سے اگر حج فوت ہوجائے تو ان کا ایک ہی حکم ہے۔ مسجد حرام سے قرب کی بناء پر اس کا حکم اس حکم کے خلاف نہ ہوگا جو مسجد حرام سے دور رہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ میں جس تمتع کا تذکرہ ہے۔ یہ وہی ہے جس میں حرم اور غیر اہل حرم سے مختلف ہے۔ اور یہ حج کے ساتھ عمرہ ملا کر کرنے والا تمتع ہے جس کو فریق معترض مکروہ قرار دیتے ہیں روایت ابن عباس ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان تمام اصحاب کرام نے فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ کی تفسیر وہی قرار دی جو اس کے الفاظ کے قریب تر ہے کہ اس سے حج تمتع ہی مراد ہے یہ دونوں میں اعلیٰ تاویل ہے جو سیاق آیت کے مطابق ہے۔ کیونکہ تمتع کرنے والے کو ہدی نہ ہونے کی صورت میں حج کے دنوں میں تین روزے اور گھر آ کر سات روزے رکھنے کا حکم ہے اور حج کو فوت ہونے کی صورت میں تو یہ ممکن ہی نہیں رہتا۔ دوسرا تمتع کی اجازت باہر والے شخص کو دی گئی۔ مسجد حرام کے رہنے والے کو نہیں دی گئی۔
اور پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس سے حج فوت ہوجائے خواہ وہ حرم مکہ کا مقیم ہو یا باہر سے آنے والا مسافر ہو دونوں کا حکم یکساں ہے۔ دونوں کے حکم میں کوئی فرق نہیں۔ اگلے سال ان کو حج کرنا ہوگا۔ اور اس آیت میں تمتع کا حق صرف ان کو دیا گیا جو باہر سے آنے والے ہوں مسجد حرام کے پاس ہونے والے مراد نہیں اور یہ صورت حج تمتع میں ہوسکتی ہے جس کو اکابر صحابہ کرام نے بیان کیا۔ ابن زبیر (رض) کی بیان کردہ تاویل میں ممکن نہیں۔
ایّام حج میں عمرہ کرنے کی وجہ :
اہل جاہلیت محرم کو صفر قرار دیتے اور کہتے اذا برأ الدبر و عفا الاثرو انسلخ صفر۔ حلت العمرۃ لمن اعتمر “ جب سواری کا زخم درست ہوجائے اور نشان مٹ جائے صفر گزر جائے تو تب عمرہ حلال ہے۔ حج کے مہینوں میں عمرے کو بڑا گناہ قرار دیتے جیسا کہ روایت ابن عباس (رض) میں ہے۔

3649

۳۶۴۹ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوٗسٍ‘ عَنْ (ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانُوْا یَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَۃَ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُوْرِ قَالَ : وَکَانُوْا یُسَمُّوْنَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا وَیَقُوْلُوْنَ : اِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ‘ وَعَفَا الْأَثَرْ‘ وَانْسَلَخَ صَفَرْ حَلَّتَ الْعُمْرَۃُ لِمَنْ اعْتَمَرْ فَقَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ صَبِیْحَۃَ رَابِعِہِ وَہُمْ مُلَبُّوْنَ بِالْحَجِّ‘ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوْہَا عُمْرَۃً قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ حِلٍّ نَحِلُّ ؟ قَالَ الْحِلُّ کُلُّہُ) فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا فَسَخَ الْحَجَّ إِلَی الْعُمْرَۃِ‘ لِیُعَلِّمَ النَّاسَ خِلَافَ مَا کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ‘ وَلِیَعْلَمُوْا أَنَّ الْعُمْرَۃَ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ مُبَاحَۃٌ‘ کَہِیَ فِیْ غَیْرِ أَشْہُرِ الْحَجِّ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ ثَبَتَ بِھٰذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ إِحْرَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ بِحَجَّۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ فَقَدْ خَالَفَ ھٰذَا مَا رَوَیْتُمْ عَنْہُ مِنْ تَمَتُّعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقِرَانِہِ قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ھٰذَا خِلَافٌ لِذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ إِحْرَامُہٗ أَوَّلًا‘ کَانَ بِحَجَّۃٍ حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ فَفَسَخَ ذٰلِکَ بِعُمْرَۃٍ‘ ثُمَّ أَقَامَ عَلَیْہَا عَلٰی أَنَّہَا عُمْرَۃٌ‘ وَقَدْ عَزَمَ أَنْ یُحْرِمَ بَعْدَہَا بِحَجَّۃٍ‘ فَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ مُتَمَتِّعًا‘ ثُمَّ لَمْ یَطُفْ لِلْعُمْرَۃِ حَتّٰی أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ‘ فَصَارَ بِذٰلِکَ قَارِنًا فَھٰذِہِ وُجُوْہُ أَحَادِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ صَحَّتْ وَالْتَأَمَتْ‘ عَلٰی أَنَّ الْقِرَانَ کَانَ قَبْلَہُ التَّمَتُّعُ وَالْاِفْرَادُ‘ فَلَمْ تَتَضَادَّ إِلَّا أَنَّ فِیْ قَوْلِہٖ (لَوْلَا أَنِّیْ سُقْتُ الْہَدْیَ لَحَلَلْت کَمَا حَلَّ أَصْحَابِیْ) دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّ سِیَاقَہُ الْہَدْیِ قَدْ کَانَتْ فِیْ وَقْتٍ قَدْ أَحْرَمَ فِیْہِ بِعُمْرَۃٍ‘ یُرِیْدُ بِہَا التَّمَتُّعَ إِلَی الْحَجَّۃِ‘ لِأَنَّہٗ لَوْ لَمْ یَکُنْ فَعَلَ ذٰلِکَ‘ لَکَانَ ہَدْیُہُ ذٰلِکَ تَطَوُّعًا‘ وَالتَّطَوُّعُ مِنَ الْہَدْیِ غَیْرُ مَانِعٍ مِنَ الْاِحْلَالِ الَّذِیْ یَکُوْنُ لَوْ لَمْ یَکُنِ الْہَدْیُ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ إِحْرَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَوَّلًا بِعُمْرَۃٍ‘ ثُمَّ أَتْبَعَہَا حَجَّۃً‘ عَلَی السَّبِیْلِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ وَلِمَا ثَبَتَ بِمَا وَصَفْنَا اِبَاحَۃَ الْعُمْرَۃِ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ‘ ہَلِ الْہَدْیُ الْوَاجِبُ فِی الْقِرَانِ کَانَ لِنُقْصَانٍ دَخَلَ الْعُمْرَۃَ‘ أَوَ الْحَجَّۃَ اِذَا قُرِنَتَا أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا ذٰلِکَ الْہَدْیَ یُؤْکَلُ مِنْہُ‘ وَکَذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہٗ۔
٣٦٤٩: عبداللہ بن طاؤس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ (اہل جاہلیت) عمرے کو حج کے مہینوں میں عظیم ترین گناہ قرار دیتے تھے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کو فسخ کر کے عمرہ کے ساتھ ملالیا تاکہ وہ لوگوں کو جاہلیت کے طرز عمل کے خلاف بات سکھلائیں اور لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ حج کے مہینوں میں اسی طرح مباح ہے جیسا کہ حج کے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں مباح ہے اگر کوئی معترض یہ کہے کہ جناب اس روایت نے تو ثابت کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حج ‘ حج افراد تھا اور یہ بات تو اس روایت کے خلاف ہے جو تم پہلے ثابت کرچکے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حج تمتع اور قران تھا۔ اس کے جواب میں یہ عرض کیا جائے گا ۔ کہ اس میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احرام ابتداء میں حج افراد کا ہو جب آپ مکہ تشریف لائے تو آپ نے اس کو فسخ کر کے عمرہ میں تبدیل کرلیا پھر اس احرام عمرہ میں قائم رہے اور آپ عمرہ کے بعد حج کا پختہ ارادہ فرما چکے تھے تو آپ اس میں تمتع بن گئے ۔ پھر آپ نے عمرہ کا طواف اس وقت تک نہ کیا یہاں تک کہ حج کا احرام باندھا پس اس سے آپ قارن بن گئے ۔ یہ روایت ابن عباس (رض) کی صورتیں ہیں جو کہ صحیح ہوگئیں اور آپس میں موافق ہوگئیں اس طرح کہ قران سے پہلے تمتع اور افراد تھا ۔ پس ان روایات میں تضاد نہ رہا البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ آپ نے فرمایا :” لو لا انی سقت الھدی لحللت کھا حل اصحابی “ اگر میں نے ہدی روانہ نہ کی ہوتی تو میں بھی عمرے سے حلال ہوجاتا جیسا کہ میرے اصحاب نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا “ یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا ہدی روانہ کرنا ایسے وقت میں تھا جب کہ آپ کا عمرہ کا احرام باندھنے والے تھے اور آپ کا ارادہ اس سے حج تمتع کا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر آپ کی ہدی نفلی ٹھہرتی ہے اور نفلی ہدی عمرے سے حلال ہونے کے لیے رکاوٹ نہیں ہے جیسا اس کے لیے کوئی مانع نہیں جو ہدی نہ رکھتا ہو۔ پس اس سے دلالت میسر آگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احرام پہلے تو عمرہ کے لیے تھا پھر حج کے لیے اس طریق سے ہوگیا جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں بیان کیا اور ہمارے اس بیان سے حج کے مہینوں میں عمرہ کی اباحت بھی ثابت ہوگئی ۔ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم غورکریں کہ آیا قران میں جو قربانی واجب ہوتی ہے وہ اس نقصان کی بناء پر ہے جو نقصان حج وعمرہ کو ملانے کی وجہ سے ہوایا کچھ اور۔ پس ہم جانتے ہیں کہ اس ھدی کا گوشت کھایا جاتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح اپنے ہدایا کا گوشت کھایا تھا روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ مناقب الانصار باب ٢٦‘ مسلم فی الحج ١٩٨‘ نسائی فی المناسک باب ٧٧‘ مسند احمد ١؍٢٥٢۔
اس رسم بد کو باطل کرنے کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٤ ذوالحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کرام کو اسے فسخ کر کے عمرہ بنانے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کون سے حل میں اہم اتریں گے ؟ آپ نے فرمایا۔ حل تمام کا تمام اترنے کی جگہ ہے۔
حاصل روایات : یہ ہوا کہ ابن عباس (رض) نے یہ خبر دی کہ آپ نے حج کو فسخ کر کے عمرے کو اختیار کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ایام حج میں عمرہ نہ ممنوع ہے اور نہ گناہ ہے۔ بلکہ حج کے مہینوں کے علاوہ دنوں کی طرح ایام حج میں بھی عمرہ درست ہے۔
اس پر ایک اشکال :
ابن عباس (رض) کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حج حج مفرد تھا۔ حالانکہ یہ بات ان روایات کے خلاف ہے جو ابن عباس (رض) سے حج تمتع کے متعلق مذکور ہو چکیں۔
u: یہ بات اس کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ جائز ہے کہ پہلے آپ کا احرام حج کا ہو اور اسی حالت میں آپ مکہ تشریف لائے۔ پھر آپ نے اس رسم کے ابطال کے لیے حج کو فسخ کر کے عمرے کا احرام باندھ لیا ہو۔ پھر عمرے کی حالت میں اقامت اختیار کی ہو اور اس کے بعد حج کا پختہ ارادہ کیا ہو۔ تو اس حالت میں آپ متمتع ہوئے پھر عمرہ کا طواف کرنے سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا تو اس سے قارن بن گئے۔ اس طرح سے ابن عباس (رض) کی تمام روایات باہمی مل گئیں اور درست ہوگئیں اور ان میں کوئی تضاد باقی نہ رہا۔ کہ قران ہی پہلے تمتع اور افراد تھا۔
البتہ لولا انی سقت الہدی لحللت الحدیث یہ جملہ دلالت کررہا ہے کہ ہدی اس وقت روانہ فرمائی جب آپ عمرے کا احرام باندھ چکے تھے اس سے مراد حج تمتع ہے اگر آپ احرام کھول دیتے تو پھر یہ نفلی ہدی کہلاتی۔ نفلی ہدی حلال ہونے سے مانع نہیں ہے جیسا ہدی نہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احرام پہلے عمرے کا تھا پھر اس کے بعد حج کا احرام باندھا ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے حج کے مہینوں میں عمرہ کا جواز ثابت ہوگیا۔
دم قران پر ایک نظر :
قران میں واجب ہونے والی ہدی پر ہم نے غور کیا کہ یہ جبر نقصان کی ہدی ہے جو حج وعمرہ کو ملانے کی وجہ سے لازم آیا یا یہ دم شکر ہے جو دو عبادات کی اکٹھی توفیق میسر آنے کی وجہ سے ادا کیا گیا ہے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ یہ ہدی کھائی جاتی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا ہے۔
جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

3650

۳۶۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْحَدِیْثِ الطَّوِیْلِ قَالَ : (وَکَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدِمَ مِنَ الْیَمَنِ بِہَدْیٍ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَکَانَ جَمَاعَۃُ الْہَدْیِ الَّذِیْ قَدِمَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلِیٌّ مِنَ الْیَمَنِ‘ مِائَۃَ بَدَنَۃٍ‘ فَنَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہَا ثَلاَثًا وَسِتِّیْنَ بِیَدِہٖ، وَنَحَرَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَبْعَۃً وَثَلاَثِیْنَ‘ فَأَشْرَکَ عَلِیًّا فِیْ ہَدْیِہٖ ثُمَّ أَخَذَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃٍ بِضْعَۃً فَجُعِلَتْ فِیْ قِدْرٍ فَطُبِخَتْ‘ فَأَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ لَحْمِہَا وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِہَا) فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ ثَبَتَ عَنْہُ بِمَا ذَکَرْنَا قَبْلَ ھٰذَا الْفَصْلِ‘ أَنَّہٗ قَرَنَ وَأَنَّہٗ کَانَ عَلَیْہِ لِذٰلِکَ ہَدْیٌ‘ ثُمَّ أَہْدَی ھٰذِہِ الْبُدُنَ الَّتِیْ ذَکَرْنَا‘ فَأَکَلَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃٍ مَا وَصَفْنَا‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ اِبَاحَۃُ الْأَکْلِ مِنْ ہَدْیِ الْمُتْعَۃِ وَالْقِرَانِ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ الْہَدْیُ‘ مِمَّا یُؤْکَلُ مِنْہُ‘ اعْتَبَرْنَا حُکْمَ الدِّمَائِ الْوَاجِبَۃِ لِلنُّقْصَانِ‘ ہَلْ ہِیَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا الدَّمَ الْوَاجِبَ مِنْ قَصِّ الْأَظَافِرِ‘ وَحَلْقِ الشَّعْرِ‘ وَالْجِمَاعِ‘ وَکُلُّ دَمٍ یَجِبُ لِتَرْکِ شَیْئٍ مِنَ الْحَجَّۃِ‘ لَا یُؤْکَلُ شَیْء ٌ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَکَانَ کُلُّ دَمٍ وَجَبَ لِاِسَائَ ۃٍ أَوْ لِنُقْصَانٍ‘ لَا یُؤْکَلُ مِنْہُ‘ وَکَانَ دَمُ الْمُتْعَۃِ وَالْقِرَانِ‘ یُؤْکَلُ مِنْہُمَا فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہُمَا وَجَبَا لِمَعْنًی‘ خِلَافِ الْاِسَائَ ۃِ وَالنُّقْصَانِ فَھٰذِہِ حُجَّۃٌ قَاطِعَۃٌ عَلٰی مَنْ کَرِہَ الْقِرَانَ وَالتَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ ثُمَّ الْکَلَامُ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ بَیْنَ الَّذِیْنَ جَوَّزُوْا التَّمَتُّعَ وَالْقِرَانَ‘ فِیْ تَفْضِیْلِ بَعْضِہِمَ الْقِرَانَ عَلَی التَّمَتُّعِ‘ وَفِیْ تَفْضِیْلِ الْآخَرِیْنَ التَّمَتُّعَ عَلَی الْقِرَانِ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَکَانَ فِی الْقِرَانِ تَعْجِیْلُ الْاِحْرَامِ بِالْحَجِّ‘ وَفِی التَّمَتُّعِ تَأْخِیْرُہٗ، فَکَانَ مَا عُجِّلَ مِنَ الْاِحْرَامِ بِالْحَجِّ‘ فَہُوَ أَفْضَلُ وَأَتَمُّ لِذٰلِکَ الْاِحْرَامِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ‘ ) قَالَ (إِتْمَامُہَا أَنْ تُحْرِمَ بِہِمَا مِنْ دُوَیْرَۃِ أَہْلِک)
٣٦٥٠: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے طویل حدیث میں بیان کیا کہ جناب علی (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یمن سے ہدی کے جانور لائے ان کی تعداد ایک سو اونٹ تھی پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست اقدس سے نحر فرمائے اور علی (رض) نے سینتیس ذبح کئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنی ہدی میں شریک فرمایا پھر ان میں سے ہر ایک اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا لیا اور اس کو ایک ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور علی (رض) نے اس گوشت میں سے کچھ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ جب ہماری سابقہ گفتگو سے آپ کا قارن ہونا ثابت ہوگیا اور آپ پر یہ ھدی اسی بناء پر تھی ۔ پھر آپ نے اپنے مذکورہ ہدایاذبح کیے اور ہراونٹ کے گوشت سے تھوڑا تھوڑا گوشت تناول فرمایا ۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ تمتع و قران کی ہدی کا گوشت کھانا جائز ہے۔ پس جب یہ ہدی ان قربانیوں میں سے تھی جن کا گوشت کھایا جاتا ہے تو ہم نے نقصان کی بناء پر لازم ہونے والی قربانیوں پر غور کیا کہ ان کا حکم اس طرح ہے یا اس سے مختلف تو ہم نے یہ بات پائی کہ ناخن تر شوانے ‘ بال کاٹنے اور جماع کی وجہ سے واجب شدہ قربانی اور ہر وہ قربانی جو کسی عمل کے ترک پر لازم ہوئی ہو اس میں سے کھانا جائز نہیں۔ جب قربانی کسی گناہ کے ارتکاب یا کسی باعث لازم ہو تو سے کھانا جائز نہیں۔ اور تمتع وقران کی قربانی سے کھایا جاسکتا ہے۔ تو اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ قربانیاں گناہ یا ترک عمل کے علاوہ اور کسی وجہ سے لازم ہوتی ہیں۔ پس یہ ان لوگوں کے خلاف پختہ دلیل ہے۔ جو حج وعمرہ کے قران و تمتع کو مکروہ جانتے ہیں۔ اب اس کے بعد تمتع و قران کو جائز قرار دینے والوں کے مابین اختلاف ہے۔ بعض علماء نے قران کو تمتع پر اور دوسروں نے تمتع کو قران پر فضیلت دی ہے۔ ہم نے اس سلسلہ میں غور کر کے دیکھا کہ قران کی صورت میں حج کا احرام جلد باندھا جاتا ہے اور تمتع کی صورت میں اس احرام میں تاخیر ہوتی ہے۔ وہ حج جس کا احرام جلد باندھا جائے وہ افضل اور زیادہ کامل ہے اور حضرت عملی (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد واتمع الحج والعمرۃ للہ۔۔۔ کے متعلق اس طرح تفسیر وارد ہے کہ اس کا اتمام یہ ہے کہ اپنے گھر سے احرام باندھ لے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٥٦‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٨٤‘ دارمی فی المناسک باب ٣٤۔
نوٹ : جب پہلے آپ کے حج سے متعلق ثابت ہوچکا کہ وہ قران تھا اور یہ ہدایا دم قران تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر اونٹ سے گوشت لے کر استعمال فرمایا۔ تو اس سے ہدی تمتع اور قران کے گوشت کو کھانے کی اباحیت ثابت ہوئی جب یہ ان ہدایا میں سے ہوا کہ جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ تو اب دم جبر پر غور کیا کہ ان کو کھانا درست ہے یا نہیں چنانچہ ناخن اتارنے ‘ بال مونڈنے ‘ جماع کرنے ‘ حج کی کسی ضروری چیز کو چھوڑ دینے پر جتنے دم دیئے جاتے ہیں ان کا کھانا درست نہیں۔ اور دم تمتع و قران کو کھانا جائز ہے۔ تو اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ دونوں دم جبر نہیں ہیں بلکہ دم شکر ہیں اس سے ان لوگوں کی بات نادرست ثابت ہوئی جو قران و تمتع کو جائز قرار نہیں دیتے۔
قران و تمتع میں افضلیت کا فیصلہ نظری دلیل سے :
تمتع و قران میں افضل کون ہے روایات سے ہم ثبوت دے چکے اب دلیل سے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قران میں حج کا احرام جلد باندھا جاتا ہے جبکہ تمتع میں آٹھویں کو باندھا جاتا ہے تو وہ حج جس میں احرام جلد باندھا جائے وہ اس حج سے افضل ہے جس میں احرام تاخیر سے باندھا جائے علی (رض) کا قول اس آیت کی تفسیر ” واتموا الحج والعمرۃ اللہ “ (البقرہ۔ ١٩٦) میں وارد ہے کہ اتمام سے مراد یہ ہے کہ ان کا احرام اپنے گھر سے ہی باندھ لے۔

3651

۳۶۵۱ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلْمَۃَ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمَّا کَانَ فِی الْقِرَانِ تَقْدِیْمُ الْاِحْرَامِ بِالْحَجِّ عَلَی الْوَقْتِ الَّذِیْ یُحْرِمُ بِہٖ فِی التَّمَتُّعِ‘ کَانَ الْقِرَانُ أَفْضَلَ مِنَ التَّمَتُّعِ وَکُلَّمَا أَثْبَتْنَا وَصَحَّحْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٦٥١: شعبہ نے عمرو بن مرہ سے انھوں نے عبداللہ بن سلمہ سے انھوں نے علی (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ جب قران میں احرام حج تمتع کے احرام سے مقدم ہے تو قران افضل ہے اور جو کچھ ہم نے اس باب میں ثابت و صحیح قراردیا وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
حاصل روایات : جب قران میں احرام حج اس وقت سے پہلے باندھ لیا جاتا ہے جو کہ حج تمتع میں ہوتا ہے تو قران تمتع سے افضل ہوا یہ جن روایات کو ہم نے تطبیق سے ترجیح دی اور دلائل ترجیح وافر مقدار میں ذکر کردیئے یہ ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
اس باب میں جہاں جہاں اشکال پیش کر کے جوابات دیئے گئے ہیں دراصل یہ ان صحابہ کرام سے وارد ہونے والی ان روایات کا روایات سے جواب ہے اور پھر اشکال کی صورت میں ذکر کر کے مزید روایات سے تائید کر کے جواب یہ سونے پر سہاگہ امام طحاوی (رح) کی کوشش کا محور یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ روایات میں تطبیق پیدا ہو کر موافقت پیدا ہوجائے تاکہ کسی روایت کا قصداً ترک لازم نہ آئے۔ بہت کم محدثین اس گھاٹی کو اپنانے والے ہیں۔ اللہ درہ ما احسن طریقہ۔ اس باب میں قران و تمتع کو افراد پر فضیلت اور قران و تمتع کا جواز اور اشہر حج میں عمرے کا جواز اور ہدی تمتع و قران کے کھانے کا جواز جیسے اہم مسائل پر بحث کر کے آخر میں قران کی تمتع پر افضلیت کو ثابت کر کے باب ختم کیا لفظ متعہ کا استعمال نمبر ١ حج کا احرام باندھ کر پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف و سعی کر کے حلق کے بعد احرام کھول دیا جائے یہ پہلے جائز تھا پھر منسوخ ہوچکا۔
نمبر 2: حج کا احرام باندھ کر پھر اسے فسخ کر کے عمرہ کا احرام باندھ کر سعی و حلق کے بعد احرام کھول دیا جائے یہ بھی پہلے جائز تھا پھر منسوخ ہوا۔
نمبر 3: موسم حج میں احرام باندھے پھر روک لیا جائے تآنکہ ایام حج گزر جائیں پھر چھوٹنے پر عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے۔
نمبر 4: میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کے افعال ادا کرے پھر حلال ہوجائے اور ایام حج میں حج کا احرام باندھے۔
نمبر 5: متعہ النساء یہ بھی حرام ہے۔ حضرت عمر (رض) کی روایت میں جس متعہ پر وعید ہے وہ پہلی تینوں منسوخ اقسام اور یہ پانچویں قسم مراد ہے۔ چوتھی قسم ہرگز مراد نہیں ہے۔

3652

۳۶۵۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ‘ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی رَجُلًا یَسُوْقُ بَدَنَۃً قَالَ ارْکَبْہَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّہَا بَدَنَۃٌ‘ قَالَ ارْکَبْہَا وَیْلَک)
٣٦٥٢: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ہدی کے جانور کو ہانک رہا ہے آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ۔ وہ کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہدی کا اونٹ ہے آپ نے فرمایا۔ تم اس پر سوار ہوجاؤ! تم پر افسوس ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٣؍١١٢‘ والوصایاباب ١٢‘ الادب باب ٩٥‘ مسلم فی الحج ٣٧١؍٣٧٣‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٧‘ ترمذی فی الحج باب ٧٢‘ نسائی فی الحج باب ٧٣؍٧٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٠٠‘ دارمی فی المناسک باب ٦٩‘ مالک فی الحج ١٣٥‘ مسند احمد ٢؍٢٤٥‘ ٤٧٣‘ ٤٧٨‘ ٣؍٩٩‘ ١٠٦‘ ٢٣٤‘ ٢٥١‘ ٢٧٦‘ ٢٩١۔
ہدی کے جانور کا دودھ استعمال کرنا بلاکراہت جائز ہے کذا قال احمد (رح) ۔ " مگر ائمہ ثلاثہ کے ہاں دودھ کا استعمال درست نہیں اگر کرلیا تو تاوان لازم ہوگا البتہ امام مالک تاوان کے قائل نہیں۔ ! ہدی کے جانور پر سواری اسحاق بن راہویہ کے ہاں بلاکراہت جائز ہے " جبکہ ائمہ اربعہ کے ہاں بلاضرورت سواری کرنا جائز نہیں۔ ضرورت شدیدہ کی صورت میں جائز ہے۔ اگر اس سے جانور میں کمزوری آئی تو تاوان ادا کرے گا۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
ہدی قران و تمتع پر بلاکراہت سواری درست ہے اس میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے۔ دلیل اگلی روایات ہیں۔

3653

۳۶۵۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٥٣: ابن عجلان نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3654

۳۶۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَمِّہِ مُوْسٰی بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ لَہٗ فِی الثَّالِثَۃِ أَوْ الرَّابِعَۃِ " ارْکَبْہَا وَیْحَک "
٣٦٥٤: موسیٰ بن یسار نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ نے اس کو تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا تم پر تعجب ہے سوار ہوجاؤ۔

3655

۳۶۵۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ ہُوَ ابْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ یَسُوْقُ بَدَنَۃً‘ قَالَ ارْکَبْہَا قَالَ : إِنَّہَا بَدَنَۃٌ‘ قَالَ ارْکَبْہَا)
٣٦٥٥: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک آدمی کے پاس سے ہوا جو ہدی کو ہانک رہا تھا آپ نے اسے فرمایا سوار ہوجاؤ۔ اس نے کہا یہ ہدی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا تب بھی سوار ہوجاؤ۔

3656

۳۶۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عُثْمَانَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٥٦: موسیٰ بن ابو عثمان نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3657

۳۶۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُعْتَمِرٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ رَأٰی رَجُلًا یَسُوْقُ بَدَنَۃً قَالَ ارْکَبْہَا قَالَ : إِنَّہَا بَدَنَۃٌ‘ قَالَ ارْکَبْہَا بِسَیْرِہَا الَّذِیْ فِیْ عُنُقِہَا قَالَ : فَلَقَدْ رَأَیْتُہٗ یُسَایِرُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِیْ عُنُقِہَا نَعْلٌ) .
٣٦٥٧: عکرمہ نے ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دیکھا وہ ہدی کو چلا رہا ہے آپ نے اسے فرمایا تو سوار ہوجا اس نے کہا وہ تو ہدی کا جانور ہے آپ نے فرمایا تو اس کی گردن والی علامت کے باوجود سوار ہوجا۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں میں نے اس کو دیکھا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس کو چلا رہا تھا اس حال میں کہ اس کی گردن میں ہدی کی علامت ” نعل “ پڑی ہوئی تھی۔

3658

۳۶۵۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَأٰی رَجُلًا یَسُوْقُ بَدَنَۃً‘ قَالَ (ارْکَبْہَا‘ وَمَا أَنْتُمْ بِمُسْتَنِّیْنَ سَنَۃً أَہْدَی مِنْ سُنَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٦٥٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اس پر سوار ہوجاؤ۔ تمہیں سنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر اپنانے کی راہ نہ ملے گی۔

3659

۳۶۵۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَہُوَ یَسُوْقُ بَدَنَۃً قَالَ ارْکَبْہَا قَالَ : إِنَّہَا بَدَنَۃٌ‘ قَالَ ارْکَبْہَا)
٣٦٥٩: حمیدالطویل نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو ہدی کے ایک اونٹ کو چلا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا تم اس پر سوار ہوجاؤ اس نے کہا یہ تو ہدی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اس کے باوجود اس پر سوار ہوجاؤ۔

3660

۳۶۶۰ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَشِیْشٍ الْبَصْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ وَشُعْبَۃُ‘ قَالَا : ثَنَا قَتَادَۃُ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا سَاقَ بَدَنَۃً لِمُتْعَۃٍ أَوْ قِرَانٍ أَنَّ لَہٗ أَنْ یَرْکَبَہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : إِنَّمَا کَانَ ھٰذَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِضُرٍّ رَآہٗ مِنَ الرَّجُلِ‘ فَأَمَرَہٗ بِمَا أَمَرَہٗ بِہِ لِذٰلِکَ وَہٰکَذَا نَقُوْلُ نَحْنُ : لَا بَأْسَ بِرُکُوْبِہَا فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ‘ وَلَا یَجُوْزُ فِیْ حَالِ الْوُجُوْدِ فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِذٰلِکَ لِلضَّرُوْرَۃِ کَمَا قَالُوْا‘ وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ لَا لِلضَّرُوْرَۃِ‘ وَلٰـکِنْ لِأَنَّ حُکْمَ الْبُدْنِ کُلِّہَا کَذٰلِکَ‘ تُرْکَبُ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ‘ وَفِیْ حَالِ الْوُجُوْدِ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘
٣٦٦٠: ہشام شعبہ دونوں نے قتادہ سے انھوں نے انس (رض) سے روایت نقل کی ہے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام طحاوی کہتے ہیں کہ جب ایک آدمی تمتع یا قران کی ھدی روانہ کرے تو وہ اس پر سواری کرسکتا ہے اس قول کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اور انھوں نے اس سلسلہ میں ان آثار کو بطور دلیل کے پیش کیا۔ اور دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس آدمی کی شدید حاجت کو دیکھ کر خاص اجازت تھی اور اس کو یہ حکم دیا اور ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں کہ ضرورت کے وقت اس پر سواری کرنے میں کچھ حرج نہیں مگر دوسری سواری کی موجودگی میں یہ درست نہیں ہے پس اس روایت میں یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ یہ حکم آپ نے ضرورت کے پیش نظر دیا جیسا کہ دوسرے قول والوں نے کہا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ضرورت کی وجہ سے نہ ہو ۔ لیکن تمام ہدیا کے جانوروں کا حکم ہے کہ ضرورت کے وقت ان پر سواری کی جاسکتی ہے۔ پس اب ہم اس میں غور کرتے ہیں۔
ان روایات میں ہدی پر سواری کا آپ حکم فرما رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سوار ہونے میں کوئی حرج نہیں خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو۔
فریق ثانی کا مؤقف :
ہدی کے جانور پر سواری بلاضرورت ناجائز ہے ضرورت شدیدہ ہو تو تب جائز ہے۔ اور اگر سوار ہونے سے جانور کو نقصان ہوا تو اس کا ضمان لازم ہوگا۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
ان روایات میں جس شخص کو آپ نے سواری کا حکم دیا وہ ضرورۃً ہے۔ ضرورت کو عام قانون کے طور پر استعمال نہیں کرسکتے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ضرورت کی خاطر نہ ہو۔ اب اس کے لیے روایات پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ کس جانب کی تصدیق کرتی ہیں۔

3661

۳۶۶۱ : فَإِذَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی رَجُلًا یَسُوْقُ بَدَنَۃً وَقَدْ جَہِدَ‘ قَالَ ارْکَبْہَا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّہَا بَدَنَۃٌ‘ قَالَ ارْکَبْہَا)
٣٦٦١: حمید نے انس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے ایک آدمی کو ہدی کا جانور ہانکتے دیکھا وہ آدمی تھکاوٹ سے چور چور تھا۔ آپ نے فرمایا۔ سوار ہوجاؤ۔ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہدی کا جانور ہے۔

3662

۳۶۶۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ وَالنُّفَیْلِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ‘ عَنْ ثَابِتٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی رَجُلًا یَسُوْقُ بَدَنَۃً‘ فَکَأَنَّہٗ رَأٰی بِہٖ جَہْدًا فَقَالَ ارْکَبْہَا فَقَالَ : إِنَّہَا بَدَنَۃٌ‘ قَالَ ارْکَبْہَا‘ وَإِنْ کَانَتْ بَدَنَۃً) وَقَدْ رُوِیَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَرْفٌ یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی أَیْضًا۔
٣٦٦٢: ثابت نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ہدی کا جانور ہانک رہا ہے آپ نے اس آدمی کو سخت مشقت میں پایا۔ تو اسے فرمایا سوار ہوجاؤ۔ اس نے کہا وہ ہدی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا سوار ہوجاؤ۔ اگرچہ وہ ہدی کا جانور ہے۔ اور حدیث ابن عمر (رض) ایسے الفاظ موجود ہیں جو اسی مفہوم کو ظاہر کرتے ہیں۔ روایت ابن عمر (رض) ملاحظہ ہو۔

3663

۳۶۶۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنِ الْحَجَّاجِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ فِی الرَّجُلِ اِذَا سَاقَ بَدَنَۃً فَأُعْیِیَ (ارْکَبْہَا‘ وَمَا أَنْتُمْ بِمُسْتَنِّیْنَ سُنَّۃً أَہْدٰی مِنْ سُنَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ مَا أَمَرَ بِہِ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَخْبَرَ أَنَّہٗ سُنَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ رُکُوْبُ الْبَدَنَۃِ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ ثُمَّ الْتَمَسْنَا حُکْمَ رُکُوْبِ الْہَدْیِ فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ‘ ہَلْ نَجِدُ لَہٗ ذِکْرًا فِیْ غَیْرِ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘
٣٦٦٣ : نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اس آدمی کے بارے میں جو ہدی بھیجے اور وہ تھکاوٹ سے عاجز آجائے تو وہ اس پر سوار ہوجائے اور تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ سے بہتر طریقہ نہ ملے گا۔ اس روایت سے یہ دلالت مل گئی کہ ابن عمر (رض) نے جس بات کا حکم دیا اور جس کے متعلق یہ اطلاع دی کہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ وہ یہی ہے کہ ضرورت کے وقت ھدی کے جانور پر سواری درست ہے۔ اب ہم بلا ضرورت ھدی کے جانور پر سواری کا حکم تلاش کرتے ہیں کیا دوسرے آثار میں اس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔

3664

۳۶۶۴ : فَإِذَا فَہْدٌ قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدٍ الْأَحْمَرُ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ارْکَبُوا الْہَدْیَ بِالْمَعْرُوْفِ‘ حَتّٰی تَجِدُوْا ظَہْرًا)
٣٦٦٤: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہدی پر مناسب انداز سے سواری کرتے رہو یہاں تک کہ تم سواری پالو۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٧٥۔

3665

۳۶۶۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ح
٣٦٦٥: یزید بن سنان کہتے ہیں کہ ہمیں ابن ابی مریم نے بیان کیا۔

3666

۳۶۶۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَا : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ (عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ رُکُوْبِ الْہَدْیِ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ارْکَبْہَا بِالْمَعْرُوْفِ اِذَا أُلْجِئْتُ إِلَیْہَا‘ حَتّٰی تَجِدَ ظَہْرًا) فَأَبَاحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ رُکُوْبَہَا فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ‘ وَمَنَعَ مِنْ ذٰلِکَ اِذَا ارْتَفَعَتْ الضَّرُوْرَۃُ وَوُجِدَ غَیْرُہَا فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ھٰذَا حُکْمُ الْہَدْیِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ‘ تُرْکَبُ لِلضَّرُوْرَاتِ‘ وَتُتْرَکُ لِارْتِفَاعِ الضَّرُوْرَاتِ ثُمَّ اعْتَبَرْنَا حُکْمَ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَرَأَیْنَا الْأَشْیَائَ عَلَی ضَرْبَیْنِ فَمِنْہَا مَا الْمِلْکُ فِیْہِ مُتَکَامِلٌ‘ لَمْ یَدْخُلْہُ شَیْء ٌ یُزِیْلُ عَنْہُ شَیْئًا مِنْ أَحْکَامِ الْمِلْکِ‘ کَالْعَبْدِ الَّذِیْ لَمْ یُدَبِّرْہُ مَوْلَاہُ‘ وَکَالْأَمَۃِ الَّتِیْ لَمْ تَلِدْ مِنْ مَوْلَاہَا‘ وَکَالْبَدَنَۃِ الَّتِیْ لَمْ یُوْجِبْہَا صَاحِبُہَا فَکُلُّ ذٰلِکَ جَائِزٌ بَیْعُہُ‘ وَجَائِزٌ الِانْتِفَاعُ بِہٖ، وَجَائِزٌ تَمْلِیکُ مَنَافِعِہِ بِإِبْدَالٍ‘ وَبِلَا اِبْدَالٍ وَمِنْہَا مَا قَدْ دَخَلَہُ شَیْء ٌ مَنَعَ مِنْ بَیْعِہِ وَلَمْ یَزُلْ عَنْہُ حُکْمُ الِانْتِفَاعِ بِہٖ، مِنْ ذٰلِکَ أُمُّ الْوَلَدِ الَّتِیْ لَا یَجُوْزُ لِمَوْلَاہَا بَیْعُہَا‘ وَالْمُدَبَّرُ فِیْ قَوْلِ مَنْ لَا یَرَیْ بَیْعَہُ فَذٰلِکَ لَا بَأْسَ بِالِانْتِفَاعِ بِہٖ وَبِتَمْلِیکِ مَنَافِعِہِ لِلَّذِیْ یُرِیْدُ أَنْ یَنْتَفِعَ بِہَا بِبَدَلٍ‘ أَوْ بِلَا بَدَلٍ فَکَانَ مَالُہٗ أَنْ یَنْتَفِعَ بِہٖ، فَلَہُ أَنْ یَمْلِکَ مَنَافِعَہُ مَنْ شَائَ بِإِبْدَالٍ‘ وَبِلَا اِبْدَالٍ ثُمَّ رَأَیْنَا الْبَدَنَۃَ اِذَا أَوْجَبَہَا رَبُّہَا‘ فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَع أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یُؤَاجِرَہَا وَلَا یَتَعَوَّضَ بِمَنَافِعِہَا بَدَلًا فَلَمَّا کَانَ لَیْسَ لَہٗ تَمْلِیکُ مَنَافِعِہَا بِبَدَلٍ‘ کَانَ کَذٰلِکَ لَیْسَ لَہٗ الِانْتِفَاعُ بِہَا‘ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ الِانْتِفَاعُ بِشَیْئٍ إِلَّا شَیْئٍ لَہٗ التَّعَوُّضُ بِمَنَافِعِہٖ اِبْدَالًا مِنْہَا فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ
٣٦٦٦: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے رکوب ہدی کے سلسلہ میں روایت کیا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ اس پر خوش اسلوبی سے سواری کرو جب کہ تم مجبور ہوجاؤ۔ یہاں تک کہ تمہیں اور سواری میسر ہوجائے۔ پس اس روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرورت کے وقت سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور ضرورت پورا ہونے پر روک دیا۔ اور دوسری بات پائی گئی پس آثار کے پیش نظر تو ھدی کا حکم یہی ہے۔ کہ ان پر ضرورت کے لیے سواری کی جاسکتی ہے اور اختتام ضرورت پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب بطور نظر وفکر اس کا حکم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا ہوگا۔ ہم نے اشیاء کو دو قسم پر پایا بعض اشیاء وہ ہیں جن میں ملک کامل ہے۔ اور اس میں کوئی چیز ملک کے حکم کو زائل نہیں کرسکتی مثلاً وہ غلام جس کو آقا نے مدبر نہ بنایا ہو۔ اور وہ لونڈی جس سے آقا کی اولاد نہ ہوئی ہو۔ اسی طرح وہ ہدی کا جانور جس کی قربانی کو ھدی روانہ کرنے والے نے اپنے اوپر لازم نہ کیا ہو۔ ان سب کا فروکت کرنا اور ان سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے اور تبادلے میں ان کے منافع کا کسی کو مالک بنانا بھی جائز ہے اور بلا بدل بھی مالک منافع بنایا جاسکتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے کہ جس میں کسی ایسی چیز کی مداخلت کی وجہ سے اس کی بیع کو ناجائز قرارد یا مگر اس سے مالک کی ملک زائل نہیں ہوئی ‘ اور نہ اس سے نفع اٹھانے کا حکم زائل ہوا ان میں سے ام والد ہے کہ اس کے آقا کو اس کی فروخت درست نہیں ہے۔ اسی طرح مدبر ان لوگوں کے بقول جو اس کی بھی بیع کے قائل نہیں ۔ ان سے انتفاع میں کچھ حرج نہیں جو شخص ان چیزوں سے نفع حاصل کرنا چاہے خواہ بدل کے ذریعہ یا بلا بدل وہ ان کے منافع کا مالک بن جائے گا اور ان سے نفع اٹھانے میں کچھ حرج نہیں وہ اس کا مال ہے وہ اس سے نفع اٹھاسکتا ہے اور اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کے منافع کا مالک بدلے کے ساتھ یا بلا بدل کے جس کو چاہے بنائے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں ہدی کو اس کے مالک نے اپنے اوپر لازم کیا پس سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ اس کو اجرت پر نہیں دے سکتا اور نہ اس کے منافع کا بدل لے سکتا ہے۔ پس جب بدل کے ساتھ اس کے منافع کا مالک بنانا جائز نہیں تو ان سے نفع اٹھانا بھی جائز نہیں پس اس چیز سے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جس کے منافع کے عوض و بدلہ کا لین دین جائز ہو ۔ قیاس کا یہی تقاضہ ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٧٥‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٧‘ نسائی فی المناسک باب ٧٦۔
ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ ضرورت شدیدہ کی صورت میں تو جائز ہے اور جب ضرورت ختم ہوجائے اور دوسری سواری مل جائے تو پھر سواری کرنا منع ہے۔
پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ہدی کا یہ حکم آثار کے طریقہ پر ہے۔ ضرورت کے وقت سواری ‘ بلاضرورت سواری درست نہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
دلیل نمبر 1: غور کرنے سے معلوم ہوا کہ مملوکہ اشیاء کی دو قسمیں ہیں۔ نمبر ١ وہ اشیاء جن کی ملک کامل ہے اور کوئی چیز ایسی داخل نہیں کی جو احکام ملک میں سے کسی چیز کو زائل کرسکے جیسے مطلق غلام جو مدبر نہ ہو ‘ لونڈی جو ام ولد نہ ہو اور ہدی کا جانور جس کو نذر وغیرہ سے واجب نہ کیا ہو۔ ان سب کی فروخت بھی جائز اور ان سے فائدہ حاصل کرنا بھی جائز ہے۔ اور کرایہ بھی دینا جائز ہے اور بغیر عوض کے استعمال کے لیے دینا بھی درست ہے۔ نمبر ٢ دوسری قسم وہ اشیاء جس پر کوئی ایسی چیز داخل ہوگئی جس نے اس کی بیع کو روک دیا مگر انتفاع کو برقرار رکھا جیسے ام ولد کے کو آقا کو اس کی فروخت درست نہیں اسی طرح بعض علماء کے ہاں مدبر کی بیع بھی جائز نہیں۔ ان سے انتفاع بھی درست ہے اور ان کے منافع کا کسی کو مالک بنانا جو ان سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہو خواہ تملیک منافع بالبدل ہوں یا بلابدل ہوں جائز ہے۔
اب اصول یہ نکل آیا جس چیز سے پورے طور پر انتفاع کرسکتا ہے تو اس کے منافع کا بالبدل یا بلابدل مالک بھی بنا سکتا ہے۔ وہ مملوک اشیاء جن کو اجارہ پردے کر ان کے عوض سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ان سے بلاضرورت خود خدمت لینا بھی جائز نہیں۔ پھر جب ہدی کے جانور کو اجارہ پردے کر اس کے بدل سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے تو اس سے ازخود فائدہ اٹھانا بھی بلاضرورت جائز نہ ہونا چاہیے۔ پس بلاضرورت ہدی کے جانور سے سواری کا کام لینا درست نہ ہوگا نظر کا تقاضا یہی ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

3667

۳۶۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ أَرَاہُ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : لَا یَشْرَبُ لَبَنَ الْبُدْنَۃِ‘ وَلَا یَرْکَبُہَا إِلَّا أَنْ یَضْطَرَّ إِلٰی ذٰلِکَ۔
٣٦٦٧ : شعبہ نے بیان کیا میرے خیال میں اس نے مغیرہ سے اور اس نے ابراہیم سے نقل کیا کہ ہدی کی اونٹنی کا دودھ نہ پیا جائے اور نہ اس پر سواری کرے مگر اس صورت میں جبکہ مجبور ہوجائے۔

3668

۳۶۶۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : الْبَدَنَۃُ اِذَا احْتَاجَ إِلَیْہَا سَائِقُہَا‘ رَکِبَہَا رُکُوْبًا غَیْرَ قَادِحٍ
٣٦٦٨: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جب ہدی کے جانور کا چلانے والا سواری کے لیے ضرورت محسوس کرے تو اس پر اس طرح کی سواری کرسکتا ہے جو تکلیف دہ نہ ہو۔

3669

۳۶۶۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ مِثْلَہٗ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْمُتَقَدِّمِیْنَ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی)
٣٦٦٩: حجاج نے کہا ہمیں حماد نے قیس سے انھوں نے عطاء سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
{ لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی } [الحج : ٣٣]

3670

۳۶۷۰ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ ح
٣٦٧٠: ابن ابی نجیح نے مجاہد سے لکم فیہا منافع ۔۔۔کی تفسیر میں نقل کیا کہ منافع میں ان کی پشت اور دودھ اور اون بال ہیں جن کا استعمال ہدی بنا لینے سے پہلے پہلے جائز ہے۔

3671

۳۶۷۱ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ عَنْ سُفْیَانَ وَحِبَّانَ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ کِلَیْہِمَا‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ (لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی) قَالَ : فِیْ ظُہُوْرِہَا وَأَلْبَانِہَا‘ وَأَصْوَافِہَا‘ وَأَوْبَارِہَا‘ حَتّٰی تَصِیْرَ بُدْنًا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ (لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی) قَالَ : ہِیَ الْاِبِلُ یُنْتَفَعُ بِہَا حَتّٰی تُقَلَّدَ
٣٦٧١: ابن ابی نجیح نے مجاہد سے لکم فیہا منافع الایہ کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد اونٹ ہیں جن سے منافع کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک ان کو ہدی نہ بنایا جائے۔

3672

۳۶۷۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ (لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی) قَالَ : إِنْ احْتَاجَ إِلَی ظَہْرِہَا رَکِبَ وَإِنْ احْتَاجَ إِلٰی لَبَنِہَا شَرِبَ‘ یَعْنِی الْبُدْنَ
٣٦٧٢: منصور نے ابراہیم سے لکم فیہا منافع۔۔۔ کے متعلق نقل کیا ہے۔ کہ اگر ضرورت ہو تو ان پر سواری درست ہے اسی طرح اگر ضرورت پڑجائے تو دودھ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

3673

۳۶۷۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَجْلَانِ‘ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِیْثِ مَالِکٍ وَاللَّیْثِ‘ یَعْنِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ یُقْتَلْنَ فِی الْحَرَمِ : الْعَقْرَبُ‘ وَالْحِدَأُ‘ وَالْغُرَابُ‘ وَالْفَأْرَۃُ‘ وَالْکَلْبُ الْعَقُوْرُ) إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ فِیْ حَدِیْثِہٖ (وَالْحَیَّۃُ وَالذِّئْبُ وَالْکَلْبُ الْعَقُوْرُ)
٣٦٧٣: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے۔ جو کہ حدیث مالک و لیث کی طرح ہے۔ یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پانچ جانوروں کو حرم میں بھی قتل کر دو ۔
بچھو ‘ چیل ‘ کو ّا ‘ چوہا ‘ کاٹنے والا کتا۔ البتہ انھوں نے اپنی روایت میں ساپ ‘ بھیڑیا اور کاٹنے والا کتا کہا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ٧‘ مسلم فی الحج ٦٧؍٧٣‘ ٧٦؍٧٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٣٩‘ نسائی فی الحج باب ٨٢؍٨٣‘ ١١٣؍١١٤‘ ١١٦؍١١٩‘ مالک فی الحج ٨٨؍٨٩‘ ٩٠‘ مسند احمد ٢‘ ٨؍٣٢‘ ٦٥؍٧٧۔
محرم کے لیے حالت احرام میں اور حلال کے لیے حدود حرم میں ان جانوروں کے قتل کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ ١: سانپ ٢: چوہا ٣: بچھو ٤: گرگٹ ٥: چیل ٦: گندگی کھانے والا کوا ٧: کاٹنے والا کتا۔ (کذا فی مسلم ج ١‘ نسائی جلد نمبر ٢) کلب عقور سے کیا مراد ہے۔
نمبر 2: امام مالک و شافعی (رح) کے ہ ‘ اس سے ہر کاٹنے والا درندہ مراد ہے۔
نمبر 3: امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد رحمہم اللہ کے ہاں اس سے کاٹنے والا کتا مراد ہے مگر ذئب و بھیڑیا بھی اس کی طرح ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
کلب عقور سے مراد کوئی خاص حیوان نہیں بلکہ ہر قسم کے ایذا دینے اور کاٹنے والے جانور شیر وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں مندرجہ ذیل روایات اس کی دلیل ہیں۔

3674

۳۶۷۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (الْکَلْبُ الْعَقُوْرُ : الْأَسَدُ)
٣٦٧٤: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کاٹنے والا کتا سے شیر مراد ہے۔

3675

۳۶۷۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ‘ عَنِ ابْنِ سِیْلَانَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : الْکَلْبُ الْعَقُوْرُ الَّذِیْ أَبَاحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتْلَہٗ، ہُوَ الْأَسَدُ‘ وَکُلُّ سَبُعٍ عَقُوْرٍ‘ فَہُوَ دَاخِلٌ فِیْ ذٰلِکَ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : الْکَلْبُ الْعَقُوْرُ‘ ہُوَ الْکَلْبُ الْمَعْرُوْفُ‘ وَلَیْسَ الْأَسَدُ مِنْہُ فِیْ شَیْئٍ وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْکَلْبَ الْعَقُوْرَ ہُوَ الْأَسَدُ‘ وَإِنَّمَا ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ وَجَدْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا‘ مَا یَدْفَعُ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ مَا
٣٦٧٥: ابن سیلان نے ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ کاٹنے والا کتا جس کے قتل کو محرم کے لیے جائز قرار دیا وہ شیر ہے بلکہ ہر درندہ عقور (کاٹنے والا) ہونے کی وجہ سے اس میں داخل ہے۔ مگر دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ” الکلب العقور “ سے وہ یہی مشہور کتا مراد ہے۔ شیر کا اس سے کچھ تعلق نہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے اس میں یہ آپ نے کہیں نہیں فرمایا کہ کاٹنے والے کتے سے شیر مراد ہے بلکہ یہ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے اور ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات پائی ہیں جو اس کی تردید کر رہی ہیں۔ روایات ذیل میں ہیں۔
کلب عقور جس کے قتل کو محرم کے لیے مباح کیا اس سے مراد شیر ہے۔ اور ہر درندہ کاٹنے والا ہے اور وہ اس حکم میں داخل ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
کلب معقر سے معروف کاٹنے والا کتا ہی مراد ہے اس سے اسد مراد نہیں۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
روایت ابوہریرہ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نہیں کہ کلب عقور شیر ہے بلکہ یہ ابوہریرہ (رض) کا کلام ہے۔ اور خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام میں بھی ایسی چیزیں موجود ہیں جو اس بات کی تردید کرتی ہیں۔
روایات ملاحظہ ہوں :

3676

۳۶۷۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ الْبُرْسَانِیُّ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِیْ عَمَّارٍ أَخْبَرَہٗ، قَالَ : (سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ الضَّبُعِ فَقُلْتُ : آکُلُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ قُلْتُ : أَصَیْدٌ ہِیَ ؟ قَالَ : نَعَمْ‘ فَقُلْتُ : وَسَمِعْتُ ذٰلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ) .
٣٦٧٦: عبدالرحمن بن ابی عمار نے بتلایا کہ میں نے جابر (رض) سے بجو ّ کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے کہا کیا میں اس کو کھا سکتا ہوں ؟ انھوں نے کہا ہاں میں نے کہا کیا وہ شکار ہے انھوں نے کہا ہاں۔ میں نے کہا کیا تم نے یہ بات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے تو انھوں نے کہا ہاں۔
تخریج : ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٣١۔

3677

۳۶۷۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ وَشَیْبَانُ وَہُدْبَۃُ‘ قَالُوْا : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ح
٣٦٧٧: حبان ‘ شیبان اور ہدیہ سب نے بیان کیا کہ ہمیں جریر بن حازم نے بیان کیا۔

3678

۳۶۷۸ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ح
٣٦٧٨: علی بن شیبہ نے ابو غسان سے روایت کی ہے۔

3679

۳۶۷۹ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَمَّارٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ الضَّبُعِ فَقَالَ ہِیَ مِنَ الصَّیْدِ وَجَعَلَ فِیْہَا اِذَا أَصَابَہَا الْمُحْرِمُ کَبْشًا‘) .
٣٦٧٩: ابن ابی عمار نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بجو کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا یہ شکار میں سے ہے اور اس کو قتل کرنے کی صورت میں آپ نے ایک مینڈھا ذبح کرنے کا حکم دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٣١‘ ترمذی فی الاطعمہ باب ٤‘ ابن ماجہ فی العید باب ١٥‘ دارمی فی المناسک باب ٩٠۔

3680

۳۶۸۰ : حَدَّثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ کَامِلٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أُمَیَّۃَ وَابْنُ جُرَیْجٍ‘ وَجَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَیْرٍ حَدَّثَہُمْ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ عَمَّارٍ‘ أَنَّہٗ (سَأَلَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الضَّبُعِ‘ فَقَالَ : آکُلُہَا ؟ فَقَالَ : نَعَمْ قُلْتُ : أَصَیْدٌ ہِیَ ؟ قَالَ : نَعَمْ‘ قُلْتُ : أَسَمِعْتُ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ)
٣٦٨٠: عبدالرحمن بن ابی عمار نے جابر (رض) سے بجو کے متعلق سوال کیا کہ کیا میں اسے کھا سکتا ہوں انھوں نے کہا ہاں۔ میں نے کہا کیا وہ شکار ہے ؟ انھوں نے کہا ہاں۔ میں نے کہا کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی ہے ؟ انھوں نے کہا ہاں۔
تخریج : ترمذی فی الاطعمہ باب ٤۔

3681

۳۶۸۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ ح
٣٦٨١: یزید بن سنان نے حبان سے روایت کی ہے۔

3682

۳۶۸۲ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الصَّائِغِ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ وَجَعَلَ فِیْہَا اِذَا أَصَابَہَا الْمُحْرِمُ کَبْشًا مُسِنًّا‘ وَتُؤْکَلُ
٣٦٨٢: عطاء نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے آپ نے اس میں مقرر فرمایا کہ جب محرم اس کو قتل کر دے تو وہ جرمانہ میں ایک دنبہ دے اور اس کو کھایا جائے گا۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٩٠۔

3683

۳۶۸۳ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ زَاذَانَ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قُضِیَ فِی الضَّبُعِ - اِذَا قَتَلَہَا الْمُحْرِمُ - بِکَبْشٍ فَلَمَّا کَانَتْ الضَّبُعُ ہِیَ سَبُعٌ‘ وَلَمْ یُبِحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتْلَہَا‘ وَجَعَلَہَا صَیْدًا‘ وَجَعَلَ عَلٰی قَاتِلِہَا الْجَزَائَ ‘ دَلَّنَا ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْکَلْبَ الْعَقُوْرَ‘ لَیْسَ ہُوَ السَّبُعَ‘ وَبَطَلَ بِذٰلِکَ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ‘ وَکَانَ الْکَلْبُ الْعَقُوْرُ‘ ہُوَ الْکَلْبُ الَّذِیْ تَعْرِفُہُ الْعَامَّۃُ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَلِمَ لَا تُبِیْحُوْنَ قَتْلَ الذِّئْبِ ؟ قِیْلَ لَہٗ : لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ یُقْتَلْنَ فِی الْحِلِّ وَالْحَرَمِ) فَذَکَرَ الْخَمْسَ مَا ہُنَّ فَذِکْرُ الْخَمْسِ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ غَیْرَ الْخَمْسِ‘ حُکْمُہُ غَیْرُ حُکْمِہِنَّ‘ وَإِلَّا لَمْ یَکُنْ لِذِکْرِہِ الْخَمْسَ مَعْنًی فَاَلَّذِیْنَ أَبَاحُوْا قَتْلَ الذِّئْبِ أَبَاحُوْا قَتْلَ جَمِیْعِ السِّبَاعِ‘ وَاَلَّذِیْنَ مَنَعُوْا قَتْلَ الذِّئْبِ حَظَرُوْا قَتْلَ سَائِرِ السِّبَاعِ‘ غَیْرَ الْکَلْبِ الْعَقُوْرِ خَاصَّۃً وَقَدْ ثَبَتَ خُرُوْجُ الضَّبُعِ مِنَ الْقَتْلِ‘ وَلَمْ یَکُنْ کَلْبًا عَقُوْرًا‘ وَثَبَتَ أَنَّ الْکَلْبَ الْعَقُوْرَ‘ ہُوَ الْکَلْبُ الَّذِیْ تَعْرِفُہُ الْعَامَّۃُ فَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا یُقْتَلُ فِی الْاِحْرَامِ وَالْحَرَمِ۔
٣٦٨٣: عطاء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجو کے سلسلہ میں اس وقت ایک دنبہ دینے کا فیصلہ فرمایا جبکہ ایک محرم نے اس کو قتل کردیا۔ جب بجو درندہ ہونے کے باوجود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کو مباح قرار نہیں دیا بلکہ اس کو شکار قرار دیا اور اس کے قاتل پر ضمان واجب کردی تو اس سے یہ دلالت میسر آئی کہ کٹ کھنا درندہ نہیں ہے اور اس سے اس بات کا نادرست ہونا ثابت ہوا جو حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہی ہے اور اس کتے سے یہی معروف کتا مراد ہوگا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ تم پھر بھیڑیئے کے قتل کو کیونکہ جائز قرار نہیں دیتے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پانچ جانور ایسے ہیں جو حل وحرم دونوں میں قتل کیے جائیں گے ۔ آپ نے ان پانچ کا ذکر فرمایا کہ وہ کیا ہیں پس انہی پانچ کا تذکرہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پانچ کے علاوہ کا حکم ان سے مختلف ہے ورنہ پانچ کے تذکرہ کا کوئی فائدہ نہیں رہے وہ لوگ جنہوں نے بھیڑ یے کے قتل کو مباح قرار دیا انھوں نے تمام درندوں کا مارنا جائز قرار دیا اور وہ لوگ جنہوں نے بھیڑیئے کے قتل کو ناجائز قرار دیا ‘ انھوں نے تمام درندوں کے قتل سے روکا ہے سوائے کاٹنے والے کتے کے اور بجو کے قتل کا حکم سے خارج ہونا ثابت ہوچکا وہ کاٹنے والا کتا نہیں اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کاٹنے والے کتے سے معروف کتا مراد ہے۔ باقی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم اور احرام میں قتل کیے جانے والے جانوروں کا خود ذکر فرمایا ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
تخریج : مالک فی الحج ٢٣٠۔
نوٹ : بجو درندہ ہے مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کو جائز قرار نہیں دیا اور اس کو شکار قرار دیا اور اس کے قاتل پر جرمانہ مقرر فرمایا۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ کلب عقور وہ درندوں میں شمار نہیں۔ جبکہ بجو درندہ ہو کر شکار کے حکم میں داخل ہوگیا تو پھر کلب عقور بول کر تمام درندے کس طرح مراد ہوسکتے ہیں۔ پس کلب عقور سے وہی معروف کتا ہی مراد ہوگا نہ کہ کچھ اور۔ کیونکہ درندوں کے قتل کے حلال ہونے کا مسئلہ قیاسی نہیں بلکہ توقیفی ہے۔
ایک اشکال : لِمَ لا تبیحون قتل الذئب سے :
بھیڑیئے کے قتل کو کیوں حلال نہیں کیا گیا جبکہ یہ انتہائی خطرناک ہے۔
الجواب : لانّ النبی اسے :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خمسٌ من الدواب الحدیث آپ نے خاص طور پر پانچ کا نام لیا اس سے ظاہر فرما دیا کہ ان کا حکم اور دوسروں کا حکم مختلف ہے۔ ورنہ پانچ کے عدد کو ذکر کا کوئی مطلب نہیں۔ پس وہ لوگ جنہوں نے بھیڑیئے کے قتل کو مباح قرار دیا تو انھوں نے تمام درندوں کے قتل کو مباح کہا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے بھیڑیئے کے قتل سے ممانعت کی ہے انھوں نے تمام درندوں سے سوائے کاٹنے والے کتے کے ممانعت کی ہے اور سابقہ روایات سے بجو کا اس سے مستثنیٰ ہونا ثابت ہوچکا۔ کلب عقور اس استثناء میں شامل نہیں اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ کلب عقور سے یہی معروف کتا مراد ہے۔
حرم اور احرام میں قتل کئے جانے والے جانوروں کی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نشان دہی خود فرمائی ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

3684

۳۶۸۴ : فَمَا حَدَّثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْغَافِقِیُّ‘ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : قَالَتْ حَفْصَۃُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ یَقْتُلُہُنَّ الْمُحْرِمُ‘ الْغُرَابُ‘ وَالْحِدَأُ‘ وَالْفَأْرَۃُ‘ وَالْعَقْرَبُ‘ وَالْکَلْبُ الْعَقُوْرُ)
٣٦٨٤: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے کہا کہ حفصہ (رض) نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چار جانور ایسے ہیں جو محرم بھی قتل کرسکتا ہے کوا ‘ چیل ‘ چوہا ‘ بچھو ‘ کاٹنے والاکتا۔
تخریج : نمبر ٣٦٧٤ ملاحظہ کریں۔

3685

۳۶۸۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہَ بْنَ عُمَرَ قَالَ : قَالَتْ حَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٦٨٥: سالم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے انھوں نے حفصہ (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔

3686

۳۶۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَمَّا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ فَقَالَ : أَخْبَرَتْنِیْ إِحْدٰی نِسْوَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَأْمُرُ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٦٨٦: ابو عوانہ نے بیان کیا کہ ہمیں زید بن جبیر (رض) نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ محرم کون سے جانوروں کو قتل کرسکتا ہے تو انھوں نے فرمایا مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک زوجہ محترمہ نے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا حکم فرماتے تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3687

۳۶۸۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٦٨٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ محرم کن جانوروں کو قتل کرسکتا ہے۔ پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3688

۳۶۸۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ حَمَّادٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ ح
٣٦٨٨: عبدالاعلیٰ بن حماد نے وہیب سے انھوں نے ایوب سے روایت نقل کی ہے۔

3689

۳۶۸۹ : وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ : قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٦٨٩ : حماد بن سلمہ نے ایوب سے انھوں نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3690

۳۶۹۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٩٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3691

۳۶۹۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٩١: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3692

۳۶۹۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٦٩٢: نافع اور عبداللہ بن دینار دونوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3693

۳۶۹۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٩٣: ایوب نے نافع عن ابن عمر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3694

۳۶۹۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : قَرَأْتُ عَلٰی مَالِکٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٩٤: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3695

۳۶۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ شُعْبَۃُ : قُلْتُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ (نَعَمْ‘ وَہُوَ مُتَنَاقَلٌ مِثْلُہٗ)
٣٦٩٥: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے شعبہ کہتے ہیں میں نے ان سے سوال کیا تم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات بیان کی ہے۔ انھوں نے کہا۔ جی ہاں۔ وہ اس طرح نقل کرنے والے ہیں۔

3696

۳۶۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٦٩٦: سعید بن المسیب نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3697

۳۶۹۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (الْغُرَابُ الْأَبْقَعُ)
٣٦٩٧: مسلم بن ابراہیم نے کہا ہمیں شعبہ نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے البتہ غراب کے ساتھ الابقع کی قید بھی لگی ہوئی ہے۔

3698

۳۶۹۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (خَمْسُ فَوَاسِقَ یُقْتَلْنَ فِی الْحِلِّ وَالْحَرَمِ : الْکَلْبُ الْعَقُوْرُ‘ وَالْفَأْرَۃُ‘ وَالْحِدَأُ وَالْغُرَابُ‘ وَالْعَقْرَبُ)
٣٦٩٨: ہشام نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانچ فاسق جاندار ہیں جن کو حل و حرم میں قتل کیا جائے گا۔ کاٹنے والا کتا ‘ چوہا ‘ چیل ‘ بچھو ‘ کوا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٦٧؍٦٨‘ ٦٩‘ نسائی فی المناسک باب ١١٣؍١١٤‘ ١١٨؍١١٩‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٩١‘ مالک فی الحج ٩٠‘ مسند احمد ٦؍٣٣‘ ٨٧؍٩٧‘ ٢٥٩؍٢٦١۔

3699

۳۶۹۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمِیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَعْیَنَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نُعَیْمٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ‘ الْحَیَّۃَ‘ وَالْعَقْرَبَ‘ وَالْفَأْرَۃَ الْفُوَیْسِقَۃَ) قَالَ یَزِیْدُ : وَعَدَّ غَیْرَ ھٰذَا‘ فَلَمْ أَحْفَظْ قَالَ قُلْتُ : وَلِمَ سُمِّیَتَ الْفَأْرَۃُ (الْفُوَیْسِقَۃُ ؟) قَالَ : (اسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ‘ وَقَدْ أَخَذَتْ فَأْرَۃٌ فَتِیْلَۃً‘ لِتُحْرِقَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیْتَ فَقَامَ إِلَیْہَا فَقَتَلَہَا‘ وَأَحَلَّ قَتْلَہَا لِکُلِّ مُحْرِمٍ‘ أَوْ حَلَالٍ) فَھٰذَا مَا أَبَاحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْمُحْرِمِ قَتْلَہٗ فِیْ إِحْرَامِہٖ، وَأَبَاحَ لِلْحَلَالِ قَتْلَہٗ فِی الْحَرَمِ‘ وَعَدَّ ذٰلِکَ خَمْسًا فَذٰلِکَ یَنْفِیْ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ أَشْکَالِ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ‘ کَحُکْمِ ھٰذِہِ الْخَمْسِ ھٰذِہٖ إِلَّا مَا اتَّفَقَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنَاہُ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا الْحَیَّۃَ مُبَاحًا قَتْلُہَا فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘ کَذٰلِکَ جَمِیْعُ الْہَوَامِّ‘ فَإِنَّمَا ذَکَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ الْعَقْرَبَ خَاصَّۃً‘ فَجَعَلْتُمْ کُلَّ الْہَوَامِّ کَذٰلِکَ‘ فَمَا تُنْکِرُوْنَ أَنْ یَّکُوْنَ السِّبَاعُ کَذٰلِکَ أَیْضًا‘ فَیَکُوْنُ مَا ذُکِرَ اِبَاحَۃُ قَتْلِہِ مِنْہُنَّ اِبَاحَۃَ مِثْلِہِ لِقَتْلِ جَمِیْعِہِنَّ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ أَوْجَدْنَاک عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَصًّا فِی الضَّبُعِ‘ وَہِیَ مِنَ السِّبَاعِ‘ أَنَّہَا غَیْرُ دَاخِلَۃٍ فِیْمَا أَبَاحَ قَتْلَہٗ مِنَ الْخَمْسِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُرِدْ قَتْلَ سَائِرِ السِّبَاعِ بِإِبَاحَتِہِ قَتْلَ الْکَلْبِ الْعَقُوْرِ‘ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِذٰلِکَ خَاصًّا مِنَ السِّبَاعِ ثُمَّ قَدْ رَأَیْنَاہُ أَبَاحَ مَعَ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ قَتْلَ الْغُرَابِ وَالْحِدَأِ‘ وَہُمَا مِنْ ذَوِی الْمِخْلَبِ مِنَ الطَّیْرِ‘ وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَمْ یُرِدْ بِذٰلِکَ کُلَّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ‘ لِأَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْعَقَارِبَ وَالصَّقْرَ وَالْبَازِیَ‘ ذُو مِخْلَبٍ‘ وَأَنَّہُمْ غَیْرُ مَقْتُوْلِیْنَ فِی الْحَرَمِ‘ کَمَا یُقْتَلُ الْغُرَابُ وَالْحِدَأُ وَإِنَّمَا الْاِبَاحَۃُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَتْلِ الْغُرَابِ وَالْحِدَأِ عَلَیْہِمَا خَاصَّۃً‘ لَا عَلٰی مَا سِوَاہُمَا مِنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ وَأَجْمَعُوْا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَاحَ قَتْلَ الْعَقْرَبِ فِی الْاِحْرَامِ وَالْحَرَمِ وَأَجْمَعُوْا أَنَّ جَمِیْعَ الْہَوَامِّ مِثْلُہَا وَأَنَّ مُرَادَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِبَاحَۃِ قَتْلِ الْعَقْرَبِ‘ اِبَاحَۃُ قَتْلِ جَمِیْعِ الْہَوَامِّ فَذُو النَّابِ مِنَ السِّبَاعِ بِذِی الْمِخْلَبِ مِنَ الطَّیْرِ أَشْبَہَ مِنْہُ بِالْہَوَامِّ مَعَ مَا قَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ‘ وَشَدَّہُ مَا رَوَاہٗ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ الضَّبُعِ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُکْمَ الضَّبُعِ کَمَا ذَکَرْتُ، لِأَنَّہَا تُؤْکَلُ‘ فَأَمَّا مَا کَانَ لَا یُؤْکَلُ مِنَ السِّبَاعِ‘ فَہُوَ کَالْکَلْبِ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ غَلِطْتُ فِی التَّشْبِیْہٖ‘ لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَبَاحَ قَتْلَ الْغُرَابِ وَالْحِدَأَۃِ وَالْفَأْرَۃِ‘ وَأَکْلُ لُحُوْمِ ہٰؤُلَائِ مُبَاحٌ عِنْدَکُمْ‘ فَلَمْ یَکُنْ اِبَاحَۃُ أَکْلِہِنَّ مِمَّا یُوْجِبُ حُرْمَۃَ قَتْلِہِنَّ فَکَذٰلِکَ الضَّبُعُ لَیْسَ اِبَاحَۃُ أَکْلِہَا أَوْجَبَ حُرْمَۃَ قَتْلِہَا‘ وَإِنَّمَا مَنَعَ مِنْ قَتْلِہَا أَنَّہَا صَیْدٌ‘ وَإِنْ کَانَتْ سَبُعًا فَکُلُّ السِّبَاعِ کَذٰلِکَ إِلَّا الْکَلْبَ الَّذِی خَصَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ بِمَا خَصَّہُ بِہٖ۔ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَکَیْفَ تَکُوْنُ سَائِرُ السِّبَاعِ کَذٰلِکَ‘ وَہِیَ لَا تُؤْکَلُ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَکُوْنُ مِنَ الصَّیْدِ مَا لَا یُؤْکَلُ‘ وَمُبَاحٌ لِلرَّجُلِ صَیْدُہُ لِیُطْعِمَہٗ کِلَابَہٗ‘ اِذَا کَانَ فِی الْحِلِّ حَلَالًا وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قَتْلِ الْحَیَّۃِ أَیْضًا فِی الْحَرَمِ
٣٦٩٩: ابن ابی نعیم نے ابو سعیدالخدری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا محرم سانپ ‘ بچھو ‘ چوہا ‘ چوہیا کو قتل کرسکتا ہے۔ یہ وہ حیوانات ہیں جن کے قتل کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محرم کے لیے ان کا قتل مباح قرار دیا اور حرم میں بھی ان کے قتل کو مباح قرار دیا اور پانچ کو آپ نے شمار کیا ۔ پس اس سے ان کے ہم شکل کے حکم کا یہی ہونے کی نفی ہوگئی مگر یہ کہ جس کے متعلق اتفاق ہوجائے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہی ہے۔ اگر معترض کہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ان تمام صورتوں میں سانپ کا قتل جائز ہے۔ اسی طرح تمام حشرات ارضی کا حکم ہے۔ باقی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے صرف خصوصیت سے بچھو کو ذکر کیا اور تم نے حشرات الارض کے متعلق یہی قول کیا پھر تم اس بات کا کیوں انکار کرتے ہو کہ درندوں کے لیے یہ حکم نہیں ۔ جن جانوروں کے قتل کو مباح قرار دیا گیا تو ان کے مثل جانوروں کے قتل کا حکم انہی جیسا ہونا چاہیے ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا۔ ہم نے تو آپ کے سامنے بجو کے متعلق نص پیش کی حالانکہ وہ درندہ ہے اور وہ ان پانچ میں داخل نہیں جن کے قتل کو آپ نے جائز قرار دیا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاٹنے والے کتے کا ذکر کرتے وقت دیگر تمام درندے مراد نہیں لیے بلکہ خاص درندے مراد لیے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ آپ نے کوے اور چیل کا قتل جائز قرار دیا اور یہ دونوں پنجے سے شکار کرنے والے پرندوں سے ہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ نے تمام پنجے والے پرندے مراد نہیں ہیں کیونکہ اس پر سب متفق ہیں کہ عقاب ‘ شکرا اور باز باوجودیکہ پنجے والے پرندے ہیں مگر ان کے حرم میں قتل کا حکم نہیں جیسا کہ کوے اور چیل کو قتل کیا جائے گا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف کوے اور چیل کے قتل کو خصوصا مباح قرار دیا ان کے علاوہ ہر پنجے والا پرندہ مراد نہیں ہے۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ بچھو کا قتل حرم و احرام دونوں میں جائز ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ تمام حشرات اس کی مثل ہیں اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بچھو کے قتل کی اباحت سے تمام حشرات الارض کے قتل کو مباح کرنا ہے اور کچلیوں والے درندے پنجے والے پرندوں کے ساتھ حشرات کی بنسبت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے اس کو واضح کیا اور حضرت جابر (رض) کی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ضبع نے اس بات کو اور زیادہ پختہ کردیا ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اس میں بجو کا حکم بیان فرمایا ۔ کیونکہ اسے کھایا جاتا ہے ‘ باقی رہے وہ درندے جن کو کھایا نہیں جاتا ان کا حکم کتے جیسا ہے اس کے جواب میں یہ کہیں گے ۔ کہ تم نے تشبیہ میں غلطی کی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چیل ‘ کوے اور چوہیا کا قتل جائز قرارد یا اور تمہارے ہاں تو ان کے گوشت کا کھانا جائز ہے تو ان کے کھانے کی اباحت نے ان کے قتل کی حرمت کو لازم نہیں کیا پس اسی طرح بجو کے کھانے کا جواز بھی اس کے حرمت قتل کو واجب نہیں کرتا ۔ بلکہ اس کے قتل کی ممانعت شکار ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگرچہ وہ درندہ ہے۔ پس ہر درندے کا حکم سوائے کتے کے یہی ہے۔ کتے کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم میں سے خاص فرمایا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے تمام درندے اس کی مثل کس طرح ہوگئے حالانکہ وہ تو کھائے نہیں جاتے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا۔ بعض اوقات ایسی چیزیں بھی شکار ہوتی ہیں جن کو کھایا نہیں جاتا مگر آدمی کو ان کا شکار اپنے کتوں کو کھلانے کے لیے حلال ہے۔ جب کہ وہ حل میں احرام سے باہر ہو اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سانپ کے قتل میں روایت وارد ہے ذیل میں ملاحظہ ہوں۔ اور یزید بن ابی زیاد کہتے ہیں کہ ابن ابی نعیم نے ان کے علاوہ بھی شمار کئے مگر وہ مجھے یاد نہ رہے۔ میں نے ابن ابی نعیم سے پوچھا (فأرہ) چوہیا کو فویسقہ کیوں کہا گیا انھوں نے جواب دیا کہ ایک دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے تو دیکھا کہ چوہیا چراغ کی بتی کو تھامے ہوئے ہے تاکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کو آگ لگائے آپ جلدی سے اٹھے اور اس کو ہلاک کردیا اور اس کے قتل کو محرم و غیر محرم کے لیے جائز قرار دیا۔
تخریج : نسائی فی المناسک باب ٨٨‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٩١‘ مسند احمد ٣؍٨٠۔
حاصل روایات : یہی وہ وجہ ہے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محرم کو احرام کی حالت میں ان کے قتل کو جائز کردیا اور حرم میں حلال کے لیے ان کا قتل درست قرار دیا اور ان کی تعداد پانچ بتلائی اس سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ ان کے ہم شکلوں کا یہی حکم ہو۔ البتہ جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد لے کر ان میں شامل فرمائیں۔
ایک اشکال : قد رأینا الحیۃ مباحًا :
جب سانپ کا قتل بھی مباح ہے اور دوسرے حشرات الارض کا قتل بھی جائز ہے حالانکہ روایت میں صرف بچھو کا تذکرہ ہے۔ تو بقیہ کا قتل مثلیت کی وجہ سے ثابت ہوا۔ یہاں مثلیت درست ہے۔ درندوں میں مثلیت کیوں نہیں چل سکتی ؟ وجہ فرق کیا ہے ؟
الجواب : قدا وجدنا۔۔۔:
نمبر 1: بجو جا سباع سے ہے اس کو درندہ ہونے کے باوجود سباع میں شمار نہیں فرمایا بلکہ اس کے قتل پر جرمانہ رکھا گیا وہ ان پانچ میں بھی شامل نہیں جن کا قتل مباح ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمام درندوں کا قتل مقصود نہیں بعض درندوں کا قتل مراد ہے جن سے عموماً واسطہ پڑتا ہے۔
نمبر 2: پھر ہم نے دیکھا کہ کوے ‘ چیل کے قتل کا خاص طور پر حکم فرمایا حالانکہ یہ دونوں پنچے سے نوچنے والے پرندے ہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس سے تمام پنچے سے نوچنے والے پرندے مراد نہیں ہیں اور نہ حل و حرم میں ان کا قتل درست ہے۔ اور اس پر اجماع ہے کہ پنچے سے نوچنے والے پرندوں میں باز اور شکرہ شامل ہیں مگر ان کو حرم میں قتل نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ کوا اور چیل۔
بلاشبہ کوے اور چیل کو خاص طور پر قتل کا حکم ان کے ساتھ خاص ہے ہر پنجے والے پرندے پر یہ حکم نہ لگے گا۔
نمبر 3: اس پر بھی اتفاق ہے کہ بچھو کو احرام اور حرم میں قتل کا حکم ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ تمام کیڑے مکوڑے اس کی مثل ہیں اور آپ کا اس کے قتل کو مباح قرار دینا ان کے قتل کی اجازت دینا ہے اور کچلیوں والے درندے ‘ پنجے سے نوچنے والے پرندوں کے ساتھ کیڑوں مکوڑوں کی بنسبت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کہ جو ان کے متعلق بیان کردیا اور اس کو جابر (رض) کی روایت نے جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بجو کے متعلق ذکر کی ہے اور پختہ کردیا۔
اشکال۔ جعل النبی ا۔۔۔ :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجو کا جو حکم بیان فرمایا ہے اس پر دوسرے درندوں کو قیاس نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مأکول اللحم ہے اور دوسرے درندے اس طرح نہیں ہیں۔
الجواب۔ قد غلطت۔۔۔ :
تم نے تشبیہ کا غلط پہلو اختیار کیا کیونکہ ہم نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوے ‘ چیل ‘ چوہا کے قتل کو مباح قرار دیا۔ حالانکہ ان کا گوشت تم اہل ظواہر کے ہاں کھانا درست ہے تو ان کے گوشت کی اباحت ان کے قتل کی حرمت کو لازم نہیں کرتی۔ بالکل اسی طرح بجو کے گوشت کو کھانے کی اباحت اس کے قتل کی حرمت کو لازم کرنے والی نہیں۔ بلکہ اس کو شکار قرار دے کر اس کے قتل کی ممانعت کردی گئی۔ اگر یہ درندہ ہے تو تمام درندوں کا حکم یہی ہے۔ سوائے اس کلب عقور کے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص کردیا۔
اشکال : کیف تکون سائرالسباع :
تمام درندے بجو کی طرح کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ وہ مأکول اللحم ہے باقی درندے حکم میں اس کے ساتھ مشابہت رکھنے والے کس طرح ہوئے جبکہ اس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور وہ غیر مأکول ہیں۔
الجواب : قد یکون من الصید :
بعض شکار ایسے ہوتے ہیں جو ماکول اللحم نہیں مگر مسلمان کو ان کا شکار اس لیے حلال کیا گیا تاکہ وہ اپنے کتوں کو کھلائے۔ جبکہ وہ حل میں حلال ہو۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سانپ کے متعلق روایت ثابت ہے کہ اس کو حرم میں بھی قتل کیا جائے۔ اگلی روایت دیکھیے

3700

۳۷۰۰ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْحَیَّۃِ‘ وَنَحْنُ بِمِنًی) فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ سَائِرَ الْہَوَامِّ‘ مُبَاحٌ قَتْلُہٗ فِی الْاِحْرَامِ وَالْحَرَمِ وَجَمِیْعُ مَا صَحَّحْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی‘ غَیْرَ الذِّئْبِ فَإِنَّہُمْ جَعَلُوْہُ فِیْ ذٰلِکَ کَالْکَلْبِ سَوَائً .
٣٧٠٠: اسود نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سانپ کو قتل کا حکم دیا جبکہ ہم منی میں تھے۔ اس سے اس بات پر دلالت مل گئی کہ حالت احرام اور حرم میں بھی تمام حشرات کو مارنا جائز ہے۔ اس باب میں جن روایات کی تصحیح بیان کی ہے وہ ایام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ ا لبتہ انھوں نے بھیڑیئے کو کتے کی طرح قرار دیا ہے
تخریج : بخاری فی الصید باب ٧۔
اس سے ثابت ہوا کہ تمام کیڑے مکوڑے بچھو کے حکم میں داخل ہیں اور ان کا قتل مباح ہے۔
اس باب میں وہ تمام روایات جن کو بیان کیا ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ البتہ بھیڑیئے کے علاوہ کو انھوں نے کلب عقور کی طرح قرار دیا ہے۔

3701

۳۷۰۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ح
٣٧٠١: ربیع الموذن نے اسد سے روایت بیان کی ہے۔
حدود حرم کا شکار محرم و غیر محرم ہر ایک کے لیے مردار کے حکم میں ہے اسی طرح محرم کا حالت احرام میں شکار خواہ کسی صورت کا ہو مردار کا حکم رکھتا ہے۔
پھر شکار کا بدلہ لازم ہے۔ البتہ ائمہ ثلاثہ مثل صوری میں صوری کو اور بقیہ میں معنوی کو لازم کہتے ہیں جبکہ امام ابوحنیفہ بہر طور مثل معنوی کے قائل ہیں۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ اگر غیر محرم حدود حرم سے باہر شکار کر کے لائے تو محرم کے لیے اس کا استعمال درست ہے یا نہیں اس میں امام شعبی ‘ لیث و مجاہد رحمہم اللہ شکار کا گوشت محرم کے لیے کھانا ناجائز قرار دیتے ہیں خواہ اس کا اس میں دخل ہو یا نہ۔
نمبر 2: امام مالک و شافعی ‘ احمد رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ جو شکار محرم کی خاطر کیا جائے وہ بھی مردار ہے۔ اگر وہ اس کے لیے نہ ذبح کیا جائے تو اس کا گوشت اس کے لیے حلال ہے۔
نمبر 3: ائمہ احناف کے ہاں جس شکار میں محرم کا دخل نہ ہو خواہ محرم کی خاطر ہو اس کا کھانا حلال ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف :
محرم کے لیے کسی قسم کے شکار کا گوشت استعمال کرنا درست نہیں خواہ اس کی خاطر ذبح کیا جائے یا نہ۔ قالوا لا یحل سے یہی لوگ مراد ہیں۔
دلائل ملاحظہ ہوں

3702

۳۷۰۲ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ (أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَزَلَ قُدَیْدًا‘ فَأُتِیَ بِالْحَجَلِ فِی الْجِفَانِ شَائِلَۃً بِأَرْجُلِہَا‘ فَأَرْسَلَ إِلٰی عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَجَائَ ہٗ وَالْخَبَطُ یَتَحَاتُّ مِنْ یَدَیْہٖ‘ فَأَمْسَکَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَمْسَکَ النَّاسُ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَنْ ہَاہُنَا مِنْ أَشْجَعَ ؟ ہَلْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ ہُ أَعْرَابِیٌّ بِبَیْضَاتٍ وَتَتْمِیْرٍ‘ أَیْ بِحَمِیْرِ وَحْشٍ فَقَالَ أَطْعِمْہُنَّ أَہْلَک‘ فَإِنَّا حُرُمٌ قَالُوْا : نَعَمْ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالُوْا : لَا یَحِلُّ لِلْمُحْرِمِ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ صَیْدٍ قَدْ ذَبَحَہٗ حَلَالٌ‘ لِأَنَّ الصَّیْدَ نَفْسَہٗ حَرَامٌ عَلَیْہٖ‘ فَلَحْمُہٗ أَیْضًا حَرَامٌ عَلَیْہِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٧٠٢: عبداللہ بن حارث بن نوفل بیان کرتے ہیں کہ عثمان (رض) مقام قدید میں اترے تو ان کے پاس چکور ایک بڑے برتن میں لائے گئے جبکہ ان پرندوں کے پاؤں اوپر کو اٹھ رہے تھے انھوں نے علی (رض) کی طرف پیغام بھیجا وہ جب آئے تو ان کے ہاتھوں سے پتے گر رہے تھے۔ پس علی (رض) (اس کے کھانے سے) رک گئے اور لوگ بھی رک گئے تو علی (رض) نے کہا۔ یہاں قبیلہ اشجع کا کوئی شخص موجود ہے ؟ کیا تم جانتے ہو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک بدو چند انڈے اور کچھ کھجوریں یا حمار وحشی کا چھوٹا بچہ شکار کر کے لایا تھا آپ نے فرمایا یہ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ ہم تو احرام کی حالت میں ہیں۔ اشجع کے لوگوں نے کہا یہ بات بالکل درست ہے۔ امام طحاوی ـ (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اس روایت کو اختیار کرتے ہوئے کہا کسی محرم کو شکار کا گوشت دوست نہیں خواہ اسے غیر محرم نے ذبح کیا ہو کیونکہ اس پر حرام ہے اور انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٤٠‘ مسند احمد ١؍١٠٤۔
لغات : الحجل۔ یہ حجلہ کی جمع ہے۔ چکور ‘ کو نج ‘ الجفان جمع جفنۃ بڑا پیالہ۔ شائلۃ بارجلھا۔ اوپر کو پاؤں اٹھانا۔ الخبط۔ جھڑنے والے پتے ‘ یتحات۔ گرناعبداللہ بن حارث۔ یہ حضرت عثمان کی طرف سے طائف کے گورنر تھے۔ امسک۔ کھانے سے رکنا۔ حمیرۃ الوحش۔ جنگلی گدھے کا بچہ۔

3703

۳۷۰۳ : بِمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِلَحْمِ صَیْدٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ فَلَمْ یَأْکُلْہُ)
٣٧٠٣: ابن عباس (رض) نے علی (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکار کا گوشت لایا گیا جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے آپ نے اس کو استعمال نہ فرمایا۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٩٢‘ مسند احمد ١؍١٠٥۔

3704

۳۷۰۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ الْجَدَلِیِّ‘ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُہْدِیَ لَہٗ وَشِیْقَۃُ ظَبْیٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ فَرَدَّہٗ) قَالَ یُوْنُسُ : سَمِعْتُہٗ کُلَّہٗ مِنْ سُفْیَانَ غَیْرَ قَوْلِہٖ (وَشِیْقَۃُ) فَإِنِّیْ لَمْ أَفْہَمْ ذٰلِکَ مِنْہُ‘ وَحَدَّثَنِیْہِ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْہُ وَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ذِکْرُ عِلَّۃِ رَدِّہِ لَحْمَ الصَّیْدِ مَا ہِیَ ؟ فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ لِعِلَّۃِ الْاِحْرَامِ‘ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ لِغَیْرِ ذٰلِکَ‘ فَلاَ دَلَالَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ لِأَحَدٍ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ رَأْیِہَا فِی الصَّیْدِ یَصِیْدُہُ الْحَلَالُ فَیَذْبَحُہُ‘ أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِأَکْلِہِ لِلْمُحْرِمِ
٣٧٠٤: حسن بن علی (رض) نے عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام کی حالت میں ہرن کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہدیہ کیا گیا تو آپ نے اسے واپس فرما دیا۔ اس روایت میں آپ کے گوشت کو رد کرنے کی علت مذکور نہیں ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ احرام کی علت سے ہو دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس کے علاوہ اور وجہ ہو ۔ اس روایت میں کسی ایک مؤقف پر دلالت نہیں ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے شکار کے متعلق مروی ہے کہ جس شکار کو غیر محرم شکار کرے اور وہی ذبح کرے محرم کو اس کے کھانے میں چنداں حرج نہیں۔
یونس راوی کہتے ہیں کہ میں نے سفیان سے یہ تمام روایت سنی ہے البتہ وشیقہ کا لفظ مجھے سمجھ نہ آیا ہمارے بعض دیگر دوستوں نے مجھے ان کی طرف سے نقل کیا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٤٠‘ ٢٢٥۔
لغات : وشیقہ۔ گوشت کا وہ ٹکڑا جس کو خرابی سے بچانے کے لیے آدھا بھون کر سفر میں ساتھ لیا جائے تاکہ موقعہ بموقعہ استعمال ہو سکے۔ بعض نے خشک گوشت کا ٹکڑا مراد لیا ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب : لیس فی ہذا الحدیث۔۔۔ اس روایت میں گوشت کو واپس کرنے کی علت مذکور نہیں کہ اسے شکار ہونے کی وجہ سے مسترد کیا اور احرام کی وجہ سے واپس کیا یا کسی اور وجہ سے۔ پس شکار کے گوشت کے محرم کے لیے حرام ہونے کی اس میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ حضرت عائشہ (رض) کا عمل اس کے خلاف موجود ہے۔
روایات عائشہ (رض) آگے ملاحظہ ہوں

3705

۳۷۰۵ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شَیْخٌ کَخَیْرِ الشُّیُوْخِ‘ یُقَالُ لَہٗ (عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عِمْرَانَ الْفُرَیْعِیُّ) قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شِمَاسٍ یَقُوْلُ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلْتُہَا عَنْ لَحْمِ الصَّیْدِ یَصِیْدُہُ الْحَلَالُ ثُمَّ یَہْدِیْہِ لِلْمُحْرِمِ فَقَالَتْ اخْتَلَفَ فِیْہِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَمِنْہُمْ مَنْ حَرَّمَہٗ، وَمِنْہُمْ مَنْ أَحَلَّہٗ، وَمَا أَرَیْ بِشَیْئٍ مِنْہُ بَأْسًا
٣٧٠٥: عبداللہ بن شماس کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں آیا اور ان سے شکار کے اس گوشت کو حکم دریافت کیا جو حلال آدمی محرم کو بطور ہدیہ بھیجے تو انھوں نے فرمایا اس میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختلاف کیا ہے بعض نے اس کو حلال کہا اور میرے ہاں بھی اس میں کوئی حرج نہیں۔

3706

۳۷۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ أَوْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عِمْرَانَ‘ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ تَمِیمٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شِمَاسٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ لَمْ یَکُنْ رَدُّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَحْمَ الصَّیْدِ عَلَی الْحَلَالِ عِنْدَہَا عَلٰی مَا قَدْ دَلَّہَا عَلَیْ حُرْمَتِہٖ عَلَی الْمُحْرِمِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٧٠٦: عبداللہ بن شماس نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ حضرت صدیقہ (رض) فرما رہی ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شکار کا گوشت حلال کو اس لیے رد نہ کیا تھا کہ جو اس کی محرم کے لیے حرمت پر دلالت کرے۔ البتہ انھوں اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے۔
یہ عائشہ صدیقہ (رض) ہیں وہ بیان کر رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شکار کا گوشت واپس نہیں فرمایا چہ جائیکہ وہ اسے محرم کے لیے حرام قرار دیں۔

3707

۳۷۰۷ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ لِزَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ (حَدَّثْتَنِیْ أَنْتَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُہْدِیَ لَہٗ عُضْوُ صَیْدٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ فَلَمْ یَقْبَلْہُ)
٣٧٠٧: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے زید بن ارقم (رض) کو کہا تم نے مجھے بیان کیا تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکار کا ایک عضو پیش کیا گیا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت احرام میں تھے آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا۔

3708

۳۷۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ أَتَاہُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ : (أَہْدَی رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَحْمَ صَیْدٍ فَرَدَّہُ وَقَالَ إِنِّیْ حَرَامٌ) .
٣٧٠٨: طاؤس سے روایت ہے کہ جب زید بن ارقم (رض) آئے تو ان کے پاس ابن عباس (رض) آئے اور کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکار کا گوشت بطور ہدیہ لایا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مسترد فرمایا اور فرمایا میں احرام کی حالت میں ہوں۔
تخریج : مسلم فی الحج ٥٥۔

3709

۳۷۰۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ أَنَّ (ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لِزَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ہَلْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُہْدِیَ لَہٗ عُضْوُ صَیْدٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ فَلَمْ یَقْبَلْہٗ؟ قَالَ نَعَمْ) فَھٰذَا أَیْضًا مِثْلُ حَدِیْثِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَفِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا رَدَّ ذٰلِکَ الْعُضْوَ عَلَی الَّذِیْ أَہْدَاہُ إِلَیْہٖ‘ لِأَنَّہٗ حَرَامٌ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٧٠٩: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ انھوں نے زید بن ارقم (رض) کو کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکار کا ایک عضو پیش کیا گیا جبکہ آپ حالت احرام میں تھے۔ مگر آپ نے اسے قبول نہ فرمایا تو زید کہنے لگے : جی ہاں۔ (یہ روایت بھی پہلی روایت کی طرح ہے) ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس گوشت کو ہدیہ دینے والے کی طرف واپس کردیا کیونکہ وہ حرام تھا۔ ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ مضطرب روایت ہے۔ بعض رواۃ نے تو اسے مذکورہ صورت میں روایت کیا جب کہ دوسروں نے اس کو اس طرح روایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی طرف حمار وحشی ھدیہ میں بھیجا گیا تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٤٠۔

3710

۳۷۱۰ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ (الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ‘ قَالَ : مَرَّبِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِالْأَبْوَائِ وَبِوَدَّانَ‘ فَأَہْدَیْتُ لَہٗ لَحْمَ حِمَارِ وَحْشٍ‘ فَرَدَّہٗ عَلَیَّ‘ فَلَمَّا رَأَی الْکَرَاہَۃَ فِیْ وَجْہٰی‘ قَالَ لَیْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَیْک‘ وَلٰـکِنَّا حُرُمٌ)
٣٧١٠: ابن عباس (رض) نے صعب بن جثامہ (رض) سے روایت کی کہ میں مقام ابواء اور ودان میں تھا میرے پاس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا آپ کو حمار وحشی کا گوشت ہدیہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے مجھے واپس کردیا جب واپس کرنے کی کراہت میرے چہرے پر محسوس فرمائی تو فرمایا۔ ہم واپس نہ کرے اگر احرام میں نہ ہوتے۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٩٢۔

3711

۳۷۱۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَقِیْلَ لَہُمْ : ھٰذَا حَدِیْثٌ مُضْطَرِبٌ‘ قَدْ رَوَاہُ قَوْمٌ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَرَوَاہُ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : إِنَّمَا أُہْدِی إِلَیْہِ حِمَارًا وَحْشِیًّا
٣٧١١: اسحاق بن راشد نے زہری سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3712

۳۷۱۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَۃَ أَہْدَی لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِیًّا‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِہِ عَنْ سُفْیَانَ
٣٧١٢: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ صعب بن جثامہ (رض) نے ایک حمار وحشی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا پھر سفیان کی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ٦‘ مسلم فی الحج ٥٠۔

3713

۳۷۱۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٧١٣: ابن ابی ذئب نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3714

۳۷۱۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَفِیْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ‘ أَنَّ الْہَدِیَّۃَ الَّتِیْ رَدَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الصَّعْبِ مِنْ أَجْلِ أَنَّہٗ حَرَامٌ‘ کَانَتْ حِمَارًا وَحْشِیًّا فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ‘ فَإِنَّ ھٰذَا لَا یَخْتَلِفُ أَحَدٌ فِیْ حُرْمَتِہٖ عَلَی الْمُحْرِمِ‘ غَیْرَ أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَزَادَ فِیْہِ حَرْفًا‘ عَلٰی مَا رَوَاہُ عُبَیْدُ اللّٰہِ‘ بَیَّنَ بِذٰلِکَ الْحَرْفِ أَنَّ الْحِمَارَ کَانَ مَذْبُوحًا۔
٣٧١٤: شعیب بن لیث نے اپنے والد سے انھوں نے ابن شہاب زہری سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہورہا ہے کہ وہ ہدیہ جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صعب (رض) کی طرف محرم ہونے کی وجہ سے واپس فرمایا ۔ وہ گورخر تھا اگر یہ اسی طرح ہو تو پھر اس کے محرم پر حرام ہونے میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔ البتہ ابن جبیر ـ (رح) نے ابن عباس (رض) سے اس طرح روایت کیا کہ عبید اللہ نے ایک حرف کا اضافہ کردیا اور اس حرف سے واضح کردیا کہ وہ گورخر ذبح کیا ہوا تھا ۔ روایات ذیل میں ہیں۔

3715

۳۷۱۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِی الْہُذَیْلِ‘ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ (الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَۃَ أَہْدَی لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِیًّا فَرَدَّہٗ‘ وَکَانَ مَذْبُوحًا) .
٣٧١٥: ابوالہذیل نے معبد بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ صعب بن جثامہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حمار وحشی بطور ہدیہ پیش کیا آپ نے اس کو واپس کردیا اور وہ ذبح شدہ تھا ۔

3716

۳۷۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَۃَ أَہْدَی لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِیًّا یَقْطُرُ دَمًا‘ فَرَدَّہٗ عَلَیْہٖ‘ وَقَالَ إِنِّیْ حَرَامٌ) فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مَذْبُوحًا‘ وَقَدْ رَدَّہٗ رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّہٗ حَرَامٌ وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ عَجُزَ حِمَارِ وَحْشٍ أَوْ فَخِذَ حِمَارٍ ۔
٣٧١٦: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ صعب بن جثامہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک حمار وحشی پیش کیا جس سے خون کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واپس کردیا اور فرمایا میں حالت احرام میں ہوں۔ اس روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ ذبح کیا ہوا تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محرم ہونے کی وجہ سے واپس کردیا اور ابن جبیر (رض) نے ابن عباس (رض) سے یہ بھی روایت کی ہے۔ کہ وہ گورخر کی سرین یا ران تھی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٥٣۔

3717

۳۷۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ عَامِرٍ‘ وَوَہْبٌ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَۃَ أَہْدَی لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَجُزَ حِمَارِ وَحْشٍ‘ وَہُوَ بِقُدَیْدٍ‘ یَقْطُرُ دَمًا‘ فَرَدَّہٗ)
٣٧١٧: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ صعب بن جثامہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حمار وحشی کی ایک ران بطور ہدیہ بھیجی جبکہ آپ مقام قدید میں تھے اس ران سے خون ٹپک رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واپس فرما دی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٥٤۔

3718

۳۷۱۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُوْرًا عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (رِجْلُ حِمَارٍ) .
٣٧١٨: منصور نے حکم بن عتیبہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت کی البتہ اس میں رِجْلُ حِمَار کے لفظ لائے ہیں۔

3719

۳۷۱۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ وَحَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَۃَ أَہْدٰی إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَالَ أَحَدُہُمَا عَجُزُ حِمَارٍ وَقَالَ الْآخَرُ فَخِذُ حِمَارِ وَحْشٍ‘ یَقْطُرُ دَمًا‘ فَرَدَّہٗ) فَقَدْ اتَّفَقَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ الصَّعْبِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَدِّہِ الْہَدِیَّۃَ عَلَیْہِ‘ أَنَّہَا کَانَتْ فِیْ لَحْمِ صَیْدٍ غَیْرِ حَیٍّ‘ فَذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِمَنْ کَرِہَ لِلْمُحْرِمِ أَکْلَ لَحْمِ الصَّیْدِ‘ وَإِنْ کَانَ الَّذِیْ تَوَلَّی صَیْدَہٗ وَذَبَحَہٗ‘ حَلَالًا وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ
٣٧١٩: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت صعب بن جثامہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حمار وحشی کی ران بھیجی جس سے خون ٹپک رہا تھا آپ نے واپس کردی ایک راوی نے عجز حمار اور دوسرے نے فخذ حمار کہا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے حدیث صعب (رض) میں روایات اس پر متفق ہیں کہ آپ نے ھدیہ واپس فرمایا اور وہ ھدیہ اس شکار کا گوشت تھا نہ کہ زندہ حیوان۔ پس اس میں ان حضرات کی دلیل نکل رہی ہے جنہوں نے شکار کا گوشت محرم کے لیے مکروہ قرار دیا ہے خواہ اس شکار کا کرنے والا اور ذبح کرنے والا غیر محرم ہو اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایات وارد ہیں روایات ملاحظہ ہوں۔ علماء کی ایک جماعت نے اس بات کو اختیار کر کے کہا کہ ہر وہ شکار جو محرم کی خاطر کیا جائے خواہ اس کا شکار کرنے والا غیر محرم ہو مگر وہ شکار محرم کے لیے حرام ہے جیسا کہ وہ شکار حرام ہے جس کو محرم خود شکار کرے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہر وہ شکار جس کو غیر محرم نے شکار کیا ہو اس کا گوشت غیر محرم و محرم کے لیے حلال ہے۔ ان کی دلیل مطلب کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : ” اویصادلکم “ اس میں ایک احتمال یہ ہے ” او یصادلکم بامر لکم “ وہ تمہارے لیے تمہارے حکم سے شکار کیا جائے۔ پس اگر یہ اسی طرح ہے تو ان کے ہاں اس کا حکم یہی ہے کہ ہر وہ شکار جس کو غیر محرم شکار کرے مگر محرم کے حکم سے اس کی خاطر کرے تو وہ بھی محرم کے لیے حرام ہے۔ حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی احادیث آئی ہیں جو شکار کے گوشت کو محرم کیلئے حلال ثابت کرتی ہیں جس شکار کو غیر محرم نے شکار کیا ہو اور اس میں محرم کا حکم شامل نہ ہو اور اس کی اعانت سے شکار کیا گیا ہو۔
حاصل روایات : ان روایات کو ملاحظہ کرلیا۔ زید بن ارقم (رض) کی روایت مجمل ہے اس میں واضح نہیں کہ کیوں مسترد فرمایا۔ ممکن ہے رد کرنے کی وجہ دوسری ہو۔ پس وہ بھی فریق اوّل کی مستدل نہیں اور حضرت صعب بن جثامہ (رض) کی روایت سے بھی استدلال درست نہیں کیونکہ وہ مضطرب ہے۔ اضطراب ملاحظہ ہو۔
اس روایت کو نقل کرنے والے ابن عباس (رض) ہیں ان سے ان کے دو شاگرد عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن جبیر نقل کرنے والے ہیں۔ اور ان دونوں کی روایت کا مدار ابن شہاب پر ہے ابن شہاب کے چار شاگرد سفیان بن عیینہ ‘ اسحاق بن راشد ‘ مالک ‘ ابن ابی ذئب رحمہم اللہ ہیں۔ ان میں سفیان و اسحاق کے الفاظ لحم حمار فردہ کے الفاظ ہیں۔ اور مالک و ابن ابی ذئب کے الفاظ حمارً ا وحشا یعنی زندہ شکاری جانور ہے۔
دوسرا اضطراب : سعید کے تین شاگرد ابوالہذیل ‘ حبیب بن ابی ثابت ‘ حکم بن عتیبہ ہیں۔ ان میں پہلے دو ابوالہذیل اور حبیب نے پورا جانور ہدیہ کرنے کو بیان کیا گویا آپ کے لیے ذبح کیا گیا۔
تیسرا اضطراب : حکم نے سرین یا ران کا تذکرہ کیا۔ ان شدید اضطرابات کی وجہ سے یہ متعین نہیں ہوسکتا ہے۔ زندہ شکار پیش ہوا یا ذبح شدہ۔ پس یہ روایت بھی قابل استدلال نہ رہی۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل :
محرم کے لیے اگر شکار کیا جائے تو اس کا استعمال حرام ہے۔ البتہ ویسے شکار کا گوشت کھانا جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں ہے۔ دلیل آگے روایات ہیں۔

3720

۳۷۲۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ‘ عَنْ عَمْرٍو مَوْلَی الْمُطَّلِبِ‘ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَنْطَبٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَحْمُ الصَّیْدِ حَلَالٌ لَکُمْ‘ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ‘ مَا لَمْ تَصِیْدُوْہُ‘ أَوْ یُصَدْ لَکُمْ)
٣٧٢٠: مطلب بن عبداللہ بن حنطب نے جابر (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا شکار کا گوشت تمہارے لیے حلال ہے جبکہ تم حالت احرام میں ہو۔ جب کہ تم نے شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٤٠‘ ترمذی فی الحج باب ٣٥‘ نسائی فی المناسک باب ٨١‘ مسند احمد ٣؍٣٦٢‘ ٣٨٧۔

3721

۳۷۲۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِیُّ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو‘ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٧٢١: عمرو بن ابی عمرو نے ایک انصاری سے روایت کی ہے انھوں نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3722

۳۷۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سُوَیْدٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ أَبِیْ عَمْرٍو‘ عَنِ الْمُطَّلِبِ‘ عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا‘ فَقَالُوْا : کُلُّ صَیْدٍ صِیْدَ مِنْ أَجْلِ مُحْرِمٍ‘ وَإِنْ کَانَ الَّذِیْ صَادَہُ حَلَالٌ‘ فَہُوَ حَرَامٌ عَلٰی ذٰلِکَ الْمُحْرِمِ‘ کَمَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ مَا تَوَلَّیْ ھُوَ صَیْدَہُ بِنَفْسِہِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : کُلُّ صَیْدٍ صَادَہٗ حَلَالٌ‘ فَلَحْمُہٗ حَلَالٌ لِکُلِّ مُحْرِمٍ وَحَلَالٌ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ حَدِیْثِ الْمُطَّلِبِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَوْ یُصَادَ لَکُمْ) یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِہِ " أَوْ یُصَادَ لَکُمْ بِأَمْرِکُمْ " فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ‘ فَإِنَّہُمْ أَیْضًا کَذٰلِکَ یَقُوْلُوْنَ : کُلُّ صَیْدٍ صَادَہُ حَلَالٌ لِمُحْرِمٍ بِأَمْرِہِ‘ فَہُوَ حَرَامٌ عَلٰی ذٰلِکَ الْمُحْرِمِ‘ وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَادِیْثُ جَائَ تْ مَجِیْئًا مُتَوَاتِرًا فِیْ اِبَاحَۃِ لَحْمِ الصَّیْدِ الَّذِیْ قَدْ صَادَہٗ الْحَلَالُ لِلْمُحْرِمِ اِذَا لَمْ یَکُنْ صَادَہٗ بِأَمْرِہٖ‘ وَلَا بِمَعُوْنَتِہٖ إِیَّاہٗ عَلَیْہِ۔
٣٧٢٢: مطلب نے ابو موسیٰ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : ہر وہ شکار جو محرم کی خاطر شکار نہ کیا جائے یا اس کے شکار کرنے میں اس کا اشارہ کنایہ شامل نہ ہو وہ حلال ہے ‘ تائید مزید۔۔۔
ور جو محرم کی خاطر کیا جائے وہ حلال نہیں جیسا کہ روایات بالا سے ثابت ہو رہا ہے۔
فریق ثالث کا مؤقف اور دلائل و جوابات :
ہر وہ شکار جس کو غیر محرم نے شکار کیا ہو وہ محرم و غیر محرم ہر ایک کے لیے حلال ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
ان یصاد لکم کی روایت دو احتمال رکھتی ہے یعنی تمہارے حکم اور مشورہ سے شکار کیا جائے تو اس کے حرام ہونے میں کسی کو کلام نہیں ۔
کیونکہ اس میں اس کا دخل ہوگیا اور وہ احتمال بھی ہے مگر ضعیف ہے کیونکہ پہلے احتمال کی تائید میں بہت سی روایات وارد ہیں۔

3723

۳۷۲۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ‘ عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ التَّیْمِیِّ عَنْ أَبِیْہِ (عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : کُنَّا مَعَ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ وَنَحْنُ حُرُمٌ فَأُہْدِیَ لَہٗ طَیْرٌ‘ وَطَلْحَۃُ رَاقِدٌ‘ فَمِنَّا مَنْ أَکَلَ وَمِنَّا مَنْ تَوَرَّعَ فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ طَلْحَۃُ‘ وَقُدِّمَ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ أَکَلَہٗ فِیْمَنْ أَکَلَہٗ وَقَالَ أَکَلْتُہٗ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٧٢٣: عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ہم طلحہ بن عبیداللہ کے ساتھ تھے ہم احرام کی حالت میں تھے۔ ہمارے لیے پرند ہدیہ کئے گئے اس وقت طلحہ (رض) سو رہے تھے ہم میں سے بعض نے کھایا اور دوسروں نے پرہیز کیا۔ جب وہ بیدار ہوئے اور وہ ان کے سامنے رکھے گئے تو انھوں نے کھانے والوں کی طرح کھایا۔ اور فرمایا میں نے یہ گوشت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں بھی کھایا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٦٥۔

3724

۳۷۲۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ‘ عَنْ عِیْسَی بْنِ طَلْحَۃَ‘ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَلْمَۃَ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَہْزٍ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالرَّوْحَائِ فَإِذَا ہُوَ بِحِمَارِ وَحْشٍ عَقِیْرٍ فِیْہِ سَہْمٌ قَدْ مَاتَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعُوْہُ حَتّٰی یَجِیْئَ صَاحِبُہٗ فَجَائَ الْبَہْزِیُّ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : ہِیَ رَمْیَتِیْ فَکُلُوْہُ‘ فَأَمَرَ أَبَا بَکْرٍ أَنْ یَقْسِمَہٗ بَیْنَ الرِّفَاقِ وَہُمْ مُحْرِمُوْنَ‘ ثُمَّ سَارَ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِالْأُثَایَۃِ اِذَا ہُوَ بِظَبْیٍ مُسْتَظِلٍّ فِیْ حُقْفِ جَبَلٍ فِیْہِ سَہْمٌ وَہُوَ حَیٌّ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ قِفْ ہَاہُنَا لَا یَرَاہُ أَحَدٌ حَتّٰی تَمْضِیَ الرِّفَاقَ)
٣٧٢٤: عمیر بن سلمہ نے بنو بہز کے ایک آدمی سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام روحاء کے پاس سے گزرے۔ اچانک ایک حمار وحشی جو کہ لنگڑا ہوچکا تھا اور تیر اس کی ٹانگ میں موجود تھا اس کی جان نکل چکی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اس وقت چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا شکاری آجائے۔ اسی وقت ایک بہزی آ نکلا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میرے تیر سے شکار ہوا ہے۔ آپ اس کو استعمال فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ اپنے رفقاء میں تقسیم کردیں اس وقت وہ تمام احرام کی حالت میں تھے پھر آپ روانہ ہوگئے اور مقام اثابہ میں پہنچے تو ایک ہرن پہاڑی کے غار میں سایہ لے رہا تھا تیر اس کو لگا ہوا تھا اور وہ ابھی زندہ تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو فرمایا تم یہاں کھڑے ہوجاؤ تاکہ اس کو کوئی نہ دیکھے اور قافلہ کے ساتھی گزر جائیں (کیونکہ اگر کوئی محرم اس پر تعرض کرے گا تو کسی کے لیے حلال نہ رہے گا)

3725

۳۷۲۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٧٢٥: یحییٰ بن سعید نے محمد بن ابراہیم سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3726

۳۷۲۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ قَالَ : أَنَا نَافِعُ بْنُ یَزِیْدَ‘ عَنِ ابْنِ الْہَادِ‘ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ اِبْرَاہِیْمَ حَدَّثَہٗ عَنْ عِیْسَی بْنِ طَلْحَۃَ‘ عَنْ (عُمَیْرِ بْنِ سَلْمَۃَ الضَّمْرِیِّ قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ نَسِیْرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَفْنَائِ الرَّوْحَائِ وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ اِذَا حِمَارٌ مَعْقُوْرٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعُوْہُ‘ فَیُوشِکُ صَاحِبُہٗ أَنْ یَأْتِیَہٗ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ بَہْزٍ‘ ہُوَ الَّذِیْ عَقَرَ الْحِمَارَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ شَأْنُکُمْ بِھٰذَا الْحِمَارِ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَسَّمَہُ بَیْنَ النَّاسِ) ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ مَا فِیْ حَدِیْثِ یَزِیْدَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہَارُوْنَ
٣٧٢٦: عیسیٰ بن طلحہ نے عمیر بن سلمہ ضمیری (رض) سے روایت کی ہے کہ اسی دوران کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ روحاء کے میدان میں جا رہے تھے اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احرام سے تھے۔ اچانک آپ کی نگاہ ایک وحشی گدھے پر پڑی جس کی کھونچیں کٹی ہوئیں تھیں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اسی حال میں چھوڑ دو شاید اس کا مالک شکاری آجائے۔ اچانک ایک بہزی آدمی آ نکلا اسی نے اس کی کھونچیں کاٹی تھیں۔ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حمار وحشی آپ کو ہدیہ ہے۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا تو انھوں نے لوگوں میں تقسیم کردیا۔ پھر انھوں نے اسی طرح روایت کی ہے جیسا کہ یزید بن ہارون سے یزید نے روایت کی ہے۔
تخریج : ٣٧٢٥ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

3727

۳۷۲۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ‘ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَفِیْ حَدِیْثِ طَلْحَۃَ وَعُمَیْرِ بْنِ سَلْمَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّہٗ أَبَاحَ لِلْمُحْرِمِیْنَ أَکْلَ لَحْمِ الصَّیْدِ الَّذِیْ تَوَلّٰی صَیْدَہٗ الْحَلَالُ فَقَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ حَدِیْثَ عَلِیٍّ وَزَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَالصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ أَنَّ حَدِیْثَ طَلْحَۃَ‘ وَحَدِیْثَ عُمَیْرِ بْنِ سَلْمَۃَ ہَذَیْنِ‘ لَیْسَ فِیْہِمَا دَلِیْلٌ عَلَیْ حُکْمِ الصَّیْدِ اِذَا أَرَادَ الْحَلَالُ بِہِ الْمُحْرِمَ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ
٣٧٢٧: لیث نے ابن الہاد سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ حضرت طلحہ اور عمیر بن سلمہ (رض) کی وہ روایت جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی اس میں محرم کے لیے شکار کے گوشت کا کھانا حلال قرار دیا گیا جس شکار کو کسی حلال نے کیا ہو اور یہ روایت حضرت علی ‘ زید بن ارقم اور صعب بن جثامہ (رض) کی ان روایات کے خلاف ہے جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہیں البتہ روایت طلحہ اور عمیربن سلمہ (رض) میں اس بات کا کوئی حکم موجود نہیں جب کہ کوئی شکار غیرمحرم نے محرم کی نیت سے کیا ہو ۔ پس اس میں ہم نے جانچ پڑتال کی تو یہ روایات مل گئیں جو ذیل میں درج ہیں۔
حاصل روایات : طلحہ اور عمیر بن سلمہ (رض) کی روایات میں اتنی بات ثابت ہوچکی ہے کہ حلال کا کیا ہوا شکار محرم کو کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور یہ روایتیں حضرت ‘ زید بن ارقم اور صعب بن جثامہ (رض) کی روایات کے خلاف ہیں۔ البتہ اس بات کی دلیل چاہیے کہ اگر حلال محرم کا ارادہ کر کے شکار کرے تو وہ اس کے لیے حلال ہوگا یا نہیں۔ چنانچہ آئندہ سطور میں ہم اس کی دلیل پیش کریں گے۔

3728

۳۷۲۸ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَیَّاشُ بْنُ الْوَلِیْدِ الرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : (بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا قَتَادَۃَ الْأَنْصَارِیَّ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ، وَہُمْ مُحْرِمُوْنَ حَتّٰی نَزَلُوْا عُسْفَانَ‘ فَإِذَا ہُمْ بِحِمَارِ وَحْشٍ قَالَ : وَجَائَ أَبُوْ قَتَادَۃَ وَہُوَ حِلٌّ فَنَکَّسُوْا رُئُ وْسَہُمْ کَرَاہِیَۃَ أَنْ یَحُدُّوْا أَبْصَارَہُمْ‘ فَیَفْطِنَ‘ فَرَآہُ فَرَکِبَ فَرَسَہٗ وَأَخَذَ الرُّمْحَ‘ فَسَقَطَ مِنْہُ فَقَالَ نَاوَلُوْنِیْہِ فَقَالُوْا: مَا نَحْنُ بِمُعِیْنَیْکَ عَلَیْہِ بِشَیْئٍ فَحَمَلَ عَلَیْہِ فَعَقَرَہٗ فَجَعَلُوْا یَشْوُوْنَ مِنْہُ ثُمَّ قَالُوْا : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا قَالَ : وَکَانَ تَقَدَّمَہُمْ‘ فَلَحِقُوْہٗ‘ فَسَأَلُوْہٗ‘ فَلَمْ یَرَ بِذٰلِکَ بَأْسًا) ۔
٣٧٢٨: عبیداللہ بن عیاض بن عبداللہ نے ابو سعید انصاری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو قتادہ انصاری (رض) کو صدقات پر عامل مقرر فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ مقام عسفان میں پہنچ گئے اچانک ایک وحشی گدھا سامنے آیا۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ ابو قتادہ (رض) آئے وہ غیر محرم تھے صحابہ کرام نے شکار کی طرف نگاہ دوڑانے سے اپنی نگاہیں ہٹالیں کہ ابو قتادہ کو خبر کا ذریعہ نہ بنے۔ ابو قتادہ تو شکار کو پہلے دیکھ چکے تھے وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنا نیزہ لیا وہ گرپڑا انھوں نے کہا مجھے پکڑا دو ۔ انھوں نے کہا ہم اس سلسلہ میں تیری کوئی مدد کرنے والے نہیں انھوں نے شکار پر حملہ کر کے اس کو شکار کرلیا بعض اس میں سے گوشت لے کر بھوننے لگے۔ پھر کہنے لگے ہمارے درمیان جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کچھ آگے بڑھ گئے تھے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا ملے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں کوئی حرج قرار نہ دیا۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ٢‘ مسلم فی الحج ٥٦۔
حاصل روایات : حضرت ابو قتادہ (رض) کو عامل مقرر فرمایا تھا وہ اس علاقہ کی طرف جا رہے تھے اور راستہ اکٹھا تھا یا عمرۃ القضاۃ کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود دشمنوں کی شرارتوں کے خطرے کے پیش نظر ان کو اس بات کی نگرانی پر مقرر کیا تھا۔ مسلم جلد ایک کی روایت سے عمرۃ الحدیبیہ کا واقعہ لگتا ہے واللہ اعلم۔

3729

۳۷۲۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : أَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی‘ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ‘ (عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ أَنَّہٗ کَانَ عَلَی فَرَسٍ وَہُوَ حَلَالٌ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ مُحْرِمُوْنَ فَبَصُرَ بِحِمَارِ وَحْشٍ فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعِیْنُوْہُ‘ فَحَمَلَ عَلَیْہِ فَصُرِعَ أَتَانَا فَأَکَلُوْا مِنْہُ) .
٣٧٢٩: عباد بن تمیم نے ابو قتادہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا میں نے احرام نہیں باندھا تھا اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام احرام سے تھے۔ ابو قتادہ نے ایک حمار وحشی دیکھا آپ نے صحابہ کرام کو ان کی کسی قسم کی اعانت سے منع فرما دیا۔ انھوں نے حملہ کر کے اس کو بچھا لیا اور وہ شکار ہمارے پاس لائے سب نے اس میں سے کھایا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٦٠۔

3730

۳۷۳۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ وَہْبٍ‘ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ کَانَ فِیْ قَوْمٍ مُحْرِمِیْنَ‘ وَلَیْسَ ہُوَ مُحْرِمًا وَہُمْ یَسِیْرُوْنَ‘ فَرَأٰی حِمَارًا‘ فَرَکِبَ فَرَسَہٗ فَصَرَعَہٗ‘ فَأَتَوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوْہُ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ أَشَرْتُمْ أَوْ صِدْتُمْ أَوْ قَتَلْتُمْ ؟ قَالُوْا : لَا‘ قَالَ فَکُلُوْا) .
٣٧٣٠: عبداللہ بن ابو قتادہ نے اپنے والد ابو قتادہ (رض) سے بیان کیا کہ میں محرمین کے ساتھ چل رہا تھا اور احرام باندھے ہوئے نہیں تھا۔ ہم چلے جا رہے تھے ابو قتادہ نے ایک حمار وحشی دیکھا وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اسے شکار کر لائے صحابہ کرام اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اشارہ کیا یا شکار کیا یا قتل کیا ؟ انھوں نے کہا۔ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس اس کو کھاؤ۔
تخریج : مسلم فی الحج ٦١‘ نسائی فی المناسک باب ٨١‘ دارمی فی المناسک باب ٢٢‘ مسند احمد ٥؍٣٠٢۔

3731

۳۷۳۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِی النَّضْرِ‘ عَنْ نَافِعٍ مَوْلٰی أَبِیْ قَتَادَۃَ‘ (عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِیٍّ أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِبَعْضِ طَرِیْقِ مَکَّۃَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَہٗ مُحْرِمِیْنَ وَہُوَ غَیْرُ مُحْرِمٍ فَرَأَی حِمَارًا وَحْشِیًّا فَاسْتَوٰی عَلٰی فَرَسِہٖ‘ ثُمَّ سَأَلَ أَصْحَابَہٗ أَنْ یُنَاوِلُوْہُ سَوْطَہٗ‘ فَأَبَوْا‘ فَسَأَلَہُمْ رُمْحَہٗ‘ فَأَبَوْا‘ فَأَخَذَہُ ثُمَّ شَدَّ عَلَی الْحِمَارِ فَقَتَلَہٗ فَأَکَلَ مِنْہُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَیْ بَعْضُہُمْ فَلَمَّا أَدْرَکُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ سَأَلُوْہُ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ إِنَّمَا ہِیَ طُعْمَۃٌ أَطْعَمَکُمُوْہَا اللّٰہُ)
٣٧٣١: نافع مولیٰ ابو قتادہ نے ابو قتادہ بن ربعی (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا مکہ کے کسی راستہ میں وہ اپنے محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے۔ یہ غیر محرم تھے چنانچہ انھوں نے ایک حمار وحشی دیکھا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ ان کو ان کا کوڑا پکڑا دیں انھوں نے انکار کردیا پھر اپنے نیزے کے متعلق سوال کیا انھوں نے اس سے بھی انکار کردیا۔ انھوں نے اپنا نیزہ اور کوڑا خود لے کر شکار پر حملہ کیا اور اس کو قتل کردیا۔ اس شکار میں سے بعض نے کھایا اور بعض نے انکار کردیا جب یہ حضرات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جا ملے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا آپ نے فرمایا وہ تو تمہارا لقمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا ہے۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٨٨‘ والذبائح باب ١٠؍١١‘ مسلم فی الحج ٥٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٤٠‘ ترمذی فی الحج باب ٢٥‘ نسائی فی المناسک باب ٧٨‘ دارمی فی الفرائض باب ٢١‘ مالک فی الحج ٧٦‘ مسند احمد ٥؍٣٠١۔

3732

۳۷۳۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ہَلْ مَعَکُمْ مِنْ لَحْمِہِ شَیْء ٌ ؟ فَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ أَبَا قَتَادَۃَ لَمْ یَصِدْہُ فِیْ وَقْتِ مَا صَادَہٗ إرَادَۃً مِنْہُ أَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ خَاصَّۃً‘ وَإِنَّمَا أَرَادَ أَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلِأَصْحَابِہِ الَّذِیْنَ کَانُوْا مَعَہٗ) فَقَدْ أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ لَہٗ وَلَہُمْ‘ وَلَمْ یُحَرِّمْہُ عَلَیْہِمْ لِاِرَادَتِہٖ أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمْ مَعَہٗ وَفِیْ حَدِیْثِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ وَہْبٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَہُمْ فَقَالَ (أَشَرْتُمْ‘ أَوْ صِدْتُمْ‘ أَوْ قَتَلْتُمْ ؟ قَالُوْا : لَا‘ قَالَ فَکُلُوْا) فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ إِنَّمَا یَحْرُمُ عَلَیْہِمْ اِذَا فَعَلُوْا شَیْئًا مِنْ ھٰذَا‘ وَلَا یَحْرُمُ عَلَیْہِمْ بِمَا سِوٰی ذٰلِکَ وَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ مَعْنٰی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ عَمْرٍو مَوْلَی الْمُطَّلِبِ (أَوْ یُصَادَ لَکُمْ) أَنَّہٗ عَلٰی مَا صِیْدَ لَہُمْ بِأَمْرِہِمْ فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَقَدْ قَالَ بِھٰذَا الْقَوْلِ أَیْضًا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
٣٧٣٢: عطاء بن یسار نے ابی قتادہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت موجود ہے ؟ ہم جان چکے تھے کہ ابو قتادہ (رض) نے ایسے وقت میں فقط آپ کے لیے شکار نہیں کیا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ان اصحاب (رض) کے لیے کیا جو آپ کے ساتھ تھے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شکار کو اپنے اور اپنے اصحاب کے لیے مباح قرار دیا اور ابو قتادہ کے اس ارادہ کی وجہ سے کہ یہ آپ اور آپ کے اصحاب کے لیے ہوگا آپ نے اس کو حرام قرار نہیں دیا اور عثمان بن عبداللہ کی روایت میں یہ لفط ہیں ( اشرتم او صدتم او قتلتم قالوا لا قال فکلوا) کیا تم نے شکار کے لیے اشارہ کیا یا خود شکار کیا یا تم نے شکار خود قتل کیا تو انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا اسے کھاؤ اس سے یہ دلالت میسر آئی کہ ان کے لیے حرام اس وقت ہوگا جب کہ وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی ایک کریں ۔ اس کے علاوہ وہ شکار ان کے لیے حرام نہ ہوگا ۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کا مطلب جو حدیث عمرو مولیٰ مطلب میں آیا ہے (اویصا دلکم) کہ اس سے محرم کے حکم سے شکار کرنا مراد ہے۔ آثار کو سامنے رکھتے ہوئے اس باب کا یہی حکم ہے اور حضرت عمر (رض) کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٣۔ حاصل روایات : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شکار اپنے اور ان کے لیے مباح قرار دیا اور ان پر حرام قرار نہیں دیا باوجودیکہ حضرت ابو قتادہ (رض) نے عبداللہ بن موہب کی روایت میں تو یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت کیا کہ کیا تم نے شکار کی طرف اشارہ کیا ‘ شکار کیا یا شکار کو قتل کیا ؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس اس کو کھاؤ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان پر حرام ہونے کی صورت یہ ہے کہ جب وہ ان تینوں کاموں میں سے کسی ایک کا ارتکاب کریں اس کے علاوہ ان پر حرام نہ ہوگا۔
اس میں یہ دلیل مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا مطلب جو کہ روایت عمرو مولیٰ المطلب میں موجود ” اویصادلکم “ یعنی ان کے کہنے پر ان کے لیے شکار کیا گیا ہو۔
آثار مرویہ کے لحاظ سے تو یہی مفہوم ہوگا اس قول کو حضرت عمر (رض) نے بھی اختیار فرمایا ہے۔

3733

۳۷۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الشَّامِ اسْتَفْتَاہٗ فِیْ لَحْمِ الصَّیْدِ وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ فَأَمَرَہٗ بِأَکْلِہِ قَالَ : فَلَقِیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبَرْتُہٗ بِمَسْأَلَۃِ الرَّجُلِ فَقَالَ : بِمَا أَفْتَیْتُہٗ ‘ فَقُلْتُ : بِأَکْلِہٖ فَقَالَ : وَاَلَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَفْتَیْتُہٗ بِغَیْرِ ذٰلِکَ‘ لَعَلَوْتُک بِالدِّرَّۃِ إِنَّمَا نَہَیْتُ أَنْ تَصْطَادَہٗ۔
٣٧٣٣: یحییٰ بن ابی سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ایک شامی آدمی نے مجھ سے احرام کی حالت میں شکار کے گوشت سے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اسے استعمال کرنے کا حکم دیا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں پھر میں عمر (رض) سے ملا اور میں نے ان کو اس مسئلہ کی خبر دی تو انھوں نے فرمایا تم نے پھر کیا فتویٰ دیا تو میں نے کھانے کا کہا۔ اس پر وہ فرمانے لگے مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تو اس کے علاوہ فتویٰ دیتا تو میں درہ سے تمہاری خدمت کرتا۔ بلاشبہ تمہیں اس کے شکار سے روکا گیا ہے۔

3734

۳۷۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّہٗ سَمِعَ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (لَفَعَلْتُ بِکَ) یَتَوَعَّدُہٗ۔
٣٧٣٤: سعید بن المسیب نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے اسی طرح روایت بیان کی۔ البتہ یہ الفاظ زائد ہیں۔ اگر تو اس کے خلاف فتویٰ دیتا تو میں تمہیں سمجھ لیتا (ڈرایا)

3735

۳۷۳۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٧٣٥: ابن شہاب نے سالم سے روایت ہے کہ انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ عمر (رض) کے متعلق بیان کرتے پھر اسی طرح کی روایت ذکر کی ہے۔

3736

۳۷۳۶ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَلَمْ یَکُنْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِیُعَاقِبَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ فُتْیَاہُ فِیْ ھٰذَا‘ بِخِلَافِ مَا یَرَی‘ وَاَلَّذِیْ عِنْدَہٗ فِیْ ذٰلِکَ مِمَّا یُخَالِفُ مَا أَفْتٰی بِہٖ رَأْیًا وَلٰـکِنَّ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - لِأَنَّہٗ قَدْ کَانَ أَخَذَ عِلْمَ ذٰلِکَ مِنْ غَیْرِ جِہَۃِ الرَّأْیِ
٣٧٣٦: لیث نے عقیل سے انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔
حضرت عمر (رض) کسی صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے ذاتی فتویٰ پر سزا نہ دیتے تھے۔ بس اس رائے پر سزا دیتے جس میں وہ سمجھتے کہ یہ رائے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و فعل کے خلاف جا رہی ہے۔ (اور اس رائے دینے والے کو وہ معلوم نہیں اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول و فعل دیکھا اور سنا ہے) بقیہ اجتہادی مسائل میں وہ کبھی سزا نہ دیتے۔

3737

۳۷۳۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ کَعْبًا سَأَلَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الصَّیْدِ یَذْبَحُہُ الْحَلَالُ فَیَأْکُلُہٗ الْحَرَامُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (لَوْ تَرَکْتہ لَرَأَیْتُک لَا تَفْقَہُ شَیْئًا) وَقَدْ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ الْمُخَالِفُوْنَ لِھٰذَا الْقَوْلِ۔
٣٧٣٧: اسود سے روایت ہے کہ کعب (رض) نے عمر (رض) سے اس شکار کے متعلق پوچھا جس کو حلال ذبح کرے اور محرم اس کو کھائے یا نہیں تو آپ نے فرمایا اگر تم اس کو چھوڑ دو گے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں کچھ سمجھ بوجھ نہیں۔ اس قول کے مخالف حضرات نے حضرت علی (رض) والی اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
ایک اشکال :
حرم علیکم صیدالبر مادمتم حرمًا (المائدہ۔ ٩٦) حضرت علی (رض) نے شکار اور اس کے گوشت کو محرم کے لیے حرام قرار دینے میں اس آیت سے استدلال کیا تو اب آیت کے مطلق حکم کو احادیث سے کیوں کر مقید کیا جاسکتا ہے۔ تفصیلی روایت پہلے بھی گزری دوبارہ درج کی جا رہی ہے۔

3738

۳۷۳۸ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : کُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا‘ قُرِّبَ إِلَیْہِمْ طَعَامٌ قَالَ : فَرَأَیْتُ جَفْنَۃً کَأَنِّیْ أَنْظُرُ إِلٰی عَرَاقِیْبِ الْیَعَاقِیْبِ‘ فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَامَ‘ فَقَامَ مَعَہٗ نَاسٌ قَالَ فَقِیْلَ : وَاللّٰہِ مَا أَشَرْنَا‘ وَلَا أَمَرْنَا‘ وَلَا صِدْنَا فَقِیْلَ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا قَامَ ھٰذَا وَمَنْ مَعَہٗ إِلَّا کَرَاہِیَۃً لِطَعَامِک فَدَعَاہٗ فَقَالَ : مَا کَرِہْتُ مِنْ ھٰذَا ؟ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعًا لَکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ‘ وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا) ثُمَّ انْطَلَقَ قَالَ : فَذَہَبَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی أَنَّ الصَّیْدَ وَلَحْمَہُ حَرَامٌ عَلَی الْمُحْرِمِ قِیْلَ لَہُمْ : فَقَدْ خَالَفَہُ فِیْ ذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَطَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَأَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ تَوَاتَرَتْ الرِّوَایَاتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا یُوَافِقُ مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ وَقَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا) یَحْتَمِلُ مَا حُرِّمَ عَلَیْہِمْ مِنْہُ‘ ہُوَ أَنْ یَصِیْدُوْہُ أَلَا تَرَی إِلٰی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَقْتُلُوْا الصَّیْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاء ٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ) فَنَہَاہُمْ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ عَنْ قَتْلِ الصَّیْدِ وَأَوْجَبَ عَلَیْہِمَ الْجَزَائَ فِیْ قَتْلِہِمْ إِیَّاہُ فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَی الْمُحْرِمِیْنَ مِنَ الصَّیْدِ‘ ہُوَ قَتْلُہٗ وَقَدْ رَأَیْنَا النَّظَرَ أَیْضًا یَدُلُّ عَلَی ھٰذَا‘ وَذٰلِکَ أَنَّہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الصَّیْدَ یُحَرِّمُہُ الْاِحْرَامُ عَلَی الْمُحْرِمِ‘ وَیُحَرِّمُہُ الْحَرَمُ عَلَی الْحَلَالِ وَکَانَ مَنْ صَادَ صَیْدًا فِی الْحِلِّ فَذَبَحَہُ فِی الْحِلِّ‘ ثُمَّ أَدْخَلَہُ الْحَرَمَ‘ فَلاَ بَأْسَ بِأَکْلِہٖ إِیَّاہُ فِی الْحَرَمِ وَلَمْ یَکُنْ إِدْخَالُہٗ لَحْمَ الصَّیْدِ الْحَرَمَ کَإِدْخَالِہٖ الصَّیْدَ نَفْسَہٗ وَہُوَ حَیُّ الْحَرَمِ‘ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ کَذٰلِکَ‘ لَنَہٰی عَنْ إِدْخَالِہِ وَلَصَنَعَ مِنْ أَکْلِہٖ إِیَّاہُ فِیْہِ کَمَا یُمْنَعُ مِنَ الصَّیْدِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘ وَلَکَانَ اِذَا أَکَلَہُ فِی الْحَرَمِ‘ وَجَبَ عَلَیْہِ مَا وَجَبَ فِیْ قَتْلِ الصَّیْدِ فَلَمَّا کَانَ الْحَرَمُ لَا یَمْنَعُ مِنْ لَحْمِ الصَّیْدِ الَّذِیْ صِیْدَ فِی الْحِلِّ‘ کَمَا یَمْنَعُ مِنَ الصَّیْدِ الْحَیِّ‘ کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الْاِحْرَامُ أَیْضًا‘ یَحْرُمُ عَلَی الْمُحْرِمِ الصَّیْدُ الْحَیُّ‘ وَلَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ لَحْمُہُ اِذَا تَوَلَّی الْحَلَالُ ذَبْحَہٗ‘ قِیَاسًا‘ وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ حُکْمِ الْمُحْرِمِ فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٧٣٨: عبداللہ بن حارث (رض) نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ہم عثمان و علی (رض) کے ساتھ تھے جب ہم فلاں فلاں مقام پر پہنچے تو ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا۔ عبداللہ کہتے ہیں میں نے ایک بڑا پیالہ دیکھا گویا اس کا منظر اب بھی میرے سامنے ہے کہ نرچکوروں کی ایڑیاں نظر آرہی ہیں۔ جب علی (رض) نے یہ حال دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ تھوڑے سے لوگ اٹھ گئے ان سے کہا گیا اللہ کی قسم ہم نے نہ اشارہ کیا اور نہ ہم نے شکار کیا حضرت عثمان (رض) کو کہا گیا کہ یہ لوگ تمہارے کھانے سے نفرت کی وجہ سے اٹھ گئے ہیں۔ حضرت عثمان (رض) نے ان کو بلا بھیجا اور پوچھا آپ نے کھانے میں سے کون سی چیز ناپسند کی ؟ تو علی (رض) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : احل لکم صیدالبحر وطعامہ الی حرم علیکم صیدالبر مادمتم حرما (المائدہ : ٩٦) یہ آیت پڑھ کر چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علی (رض) کے ہاں محرم پر شکار کا گوشت بہرصورت حرام تھا۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا ۔ کہ ان کی اس رائے کے خلاف حضرت عمر طلحہ ‘ عائشہ صدیقہ ‘ ابوہریرہ (رض) ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں جو ان حضرات کے قول کے موافق ہیں۔ رہی آیت و حرم علیکم صید البر مادمتم حرمًا) اس میں احتمال ہے کہ شکار میں سے جو ان پر حرام ہوا وہ خود ان کا اپنے طور پر شکار کرنا ہو۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں نظر نہیں ڈالتے : یٰٓایھا الذین امنوا تقتلوا الصید۔۔۔ اے ایمان والو ! تم احرام کی حالت میں شکا رمت کرو ۔ جو شخص تم میں سے جان بوجھ کر شکار کرے گا تو وہ اس کا بدلہ اسی جیسے جو پائے سے دے “ تو اللہ تعالیٰ نے شار کے قتل سے محرم کو منع فرمایا اور اس کے قتل میں ان پر جزاء کو لازم کیا ۔ اس بات سے یہ دلالت میسر ہوئی کہ محرم پر شکار کا قتل حرام ہے اور نظر کا بھی یہی تقاضا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ احرام کی وجہ سے محرم پر شکار حرام ہوا ہے اور غیر محرم پر شکار کو حرم کی حدود حرام کرنے والی ہیں۔ وہ شخص جس نے حرم سے باہر میں شکار کیا اور پھر اسے حرم کی حدود سے باہر ہی ذبح کیا پھر اس گوشت کو حرم میں داخل کیا تو حرم کے اندر اس گوشت کے کھانے میں کچھ حرج نہیں اور اس کا حرم میں شکار کے گوشت کو لانا حرم کے اندر شکار کو بنفس نفیس لانے کی طرح نہیں ہے جب کہ وہ شکار زندہ ہو اگر شکار زندہ ہو تو اس کا حرم میں داخلہ بھی ممنوع ہے اور حرم میں اس کے گوشت کا کھانا بھی ممنوع ہے اور حرم میں اس کے کھانے سے وہی واجب ہوتا ہے جو شکار کے قتل میں واجب ہوتا ہے۔ پس جب حرم اس شکار کے گوشت سے منع نہیں کرتا جو غیر حرم میں شکار کیا گیا ہو ۔ جیسا کہ زندہ شکار سے روکا جاتا ہے تو اس میں نظر وفکر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ احرام کا حکم بھی یہی ہو کہ محرم پر زندہ شکار تو حرام ہو اور شکار کا گوشت حرام نہ ہو بشرطیکہ اس کو غیر محرم نے شکار کر کے ذبح کیا ہو قیاس و نظر یہی چاہتے ہیں۔ اس باب میں نظر یہی ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
جواب : حضرت علی (رض) کی اس اجتہادی تفسیر کے بالمقابل حضرت عمر ‘ طلحہ ‘ عائشہ ‘ ابوہریرہ ] کی تفسیر اس کے خلاف ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کثیر روایات ان کی موافقت کر رہی ہیں آیت کو روایت سے مقید نہیں کیا بلکہ دوسری آیت سے مقید ہے۔
یا ایھا الذین امنوا لاتقتلوا الصید وانتم حرم ۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکار کرنے کی ممانعت مراد ہے جس کے ارتکاب پر جزاء لازم کی گئی ہے روایات حدیث نے آیت کے اس مفہوم کو مزید صاف کردیا اب محرم کے لیے قتل صید تو حرام ہی رہا۔
نظر طحاوی (رح) :
جب غور کیا تو اس بات پر اتفاق نظر آیا کہ شکار کو محرم پر حرام کرنے والا احرام ہے اور حلال پر شکار کو حرام کرنے والا حرم ہے۔ جس شخص نے حلال ہونے کی حالت میں حل میں شکار کیا پھر اس کو حرم کی سرزمین میں لے آیا اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں خواہ حل میں کھائے یا حرم میں شکار کے گوشت کو حرم میں داخل کرنے کا وہ حکم نہ ہوا جو شکار کو زندہ حرم میں داخل کرنے کا ہے کیونکہ اس کو زندہ داخل کرنے کی صورت میں اس کا کھانا بھی اسی طرح ممنوع ہوگا جیسا کہ اس کو حرم میں شکار کرنا ممنوع ہے اگر اس نے اس کو حرم میں کھایا تو اس پر وہی ضمان لازم ہوگا جو شکار کرنے پر لازم آتا ہے۔
حاصل کلام : پس نتیجہ یہ نکلا کہ جب حل میں کئے جانے والے شکار کے گوشت کو حرم استعمال سے نہیں روکتا جیسا کہ زندہ شکار سے روکتا ہے تو نظر کا تقاضا یہ ہے کہ احرام کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے کہ اسے گوشت کھانا ممنوع نہ ہو مگر زندہ کا شکار کرنا ممنوع رہے بشرطیکہ وہ شکار اس نے خود ذبح نہ کیا ہو بلکہ کسی حلال نے کیا ہو۔ نظر و قیاس کا یہی تقاضا ہے۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
اس میں طحاوی (رح) نے فریق ثالث کو ترجیح دیتے ہوئے بہت سی روایات مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے پیش کیں آخر میں نظر سے کام لیا اس باب کا اختلاف بھی جواز اور عدم جواز کا ہے۔

3739

۳۷۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عَمْرٍو عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مِقْسَمٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (تُرْفَعُ الْأَیْدِیْ فِیْ سَبْعِ مَوَاطِنَ‘ فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ‘ وَعِنْدَ الْبَیْتِ‘ وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَبِعَرَفَاتٍ وَبِالْمُزْدَلِفَۃِ‘ وَعِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ)
٣٧٣٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے حکم عن مقسم سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات مقامات پر ہاتھ اٹھائے جائیں گے نماز کی افتتاحی تکبیر میں ‘ بیت اللہ کے پاس ‘ صفاپر ‘ مروہ پر ‘ عرفات میں ‘ مزدلفہ میں ‘ رمی حمر تین کے بعد۔
بارہ مواقع میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے ان میں چار مواقع پر صرف ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں بقیہ سات مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کی جاتی ہے۔
چار مواقع : تکبیر تحریمہ ‘ تکبیرات عیدین ‘ تکبیر قنوت ‘ استلام حجر اسود کے وقت۔
سات مواقع : صفا پر ‘ مروہ پر ‘ وقوف عرفات کے دن ‘ وقوف مزدلفہ کے وقت ‘ جمرہ اولیٰ اور وسطیٰ کی رمی کے بعد ‘ نماز استسقاء کے بعد ‘ نماز کسوف کے بعد۔
مختلف فیہ موقعہ : بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑتے وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا۔ ابراہیم نخعی (رض) اور سعید (رح) کے ہاں بیت اللہ شریف پر نگاہ کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون اور مستجاب ہے۔ ائمہ احناف اور مالک و حنبل کے ہاں اٹھا کر دعا کرنا مکروہ ہے۔ مگر صاحب بذل نے امام ابوحنیفہ و شافعی رحمہم اللہ کی طرف کراہت کی نسبت کا انکار کیا بلکہ قول اول کی تائید کی ہے۔ واللہ اعلم۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑنے کا موقعہ قبولیت دعا کا موقعہ ہے اس لیے یہاں دعا اور ہاتھ اٹھانا مسنون و مستجاب ہے۔ دلیل یہ روایات ہیں۔

3740

۳۷۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُحَارِبِیُّ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَانَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مَأْخُوْذًا بِہٖ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا خَالَفَ شَیْئًا مِنْہُ‘ غَیْرَ رَفْعِ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الْبَیْتِ‘ فَإِنَّ قَوْمًا ذَہَبُوْا إِلٰی ذٰلِکَ‘ وَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَکَرِہُوْا رَفْعَ الْیَدَیْنِ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْبَیْتِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٣٧٤٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو اپنایا گیا ہے ہمارے علم میں نہیں کہ کسی نے اس کے جزء سے اختلاف کیا سوائے بیت اللہ کے پاس ہاتھ اٹھانے کے۔ اس میں بعض علماء کہتے ہیں کہ ہاتھ اٹھاتے جائیں گے۔ اور ان کی دلیل یہ روایت ہے اور دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جب بیت اللہ کو دیکھیں تو اس وقت ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے اور انھوں نے مندرجہ ذیل سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل :
بیت اللہ کو دیکھنے کے وقت ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے۔ دلیل یہ ہے۔

3741

۳۷۴۱ : بِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ قَزَعَۃَ الْبَاہِلِیِّ‘ عَنِ الْمُہَاجِرِ‘ عَنْ (جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ سُئِلَ‘ عَنْ رَفْعِ الْأَیْدِیْ عِنْدَ الْبَیْتِ فَقَالَ : ذَاکَ شَیْء ٌ یَفْعَلُہٗ الْیَہُوْدُ‘ قَدْ حَجَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ) فَھٰذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِ الْیَہُوْدِ‘ وَلَیْسَ مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْاِسْلَامِ‘ وَأَنَّہُمْ قَدْ حَجُّوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَإِنْ کَانَ ھٰذَا الْبَابُ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ الْاِسْنَادِ‘ فَإِنَّ ھٰذَا الْاِسْنَادَ أَحْسَنُ مِنْ إِسْنَادِ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ‘ فَإِنَّ جَابِرًا قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِ الْیَہُوْدِ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِہٖ عَلَی الِاقْتِدَائِ مِنْہُ بِہِمْ‘ اِذْ کَانَ حُکْمُہٗ أَنْ یَّکُوْنَ عَلَی شَرِیْعَتِہِمْ لِأَنَّہُمْ أَہْلُ کِتَابٍ‘ حَتّٰی یُحْدِثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہٗ شَرِیْعَۃً تَنْسَخُ شَرِیْعَتَہُمْ‘ ثُمَّ حَجَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَالَفَہُمْ‘ فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِذًا مِنْ مُخَالَفَتِہِمْ فَحَدِیْثُ جَابِرٍ أَوْلَی‘ لِأَنَّ فِیْہِ مَعَ تَصْحِیْحِ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ النَّسْخَ لِحَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَإِنْ کَانَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الرَّفْعَ الْمَذْکُوْرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ عَلَی ضَرْبَیْنِ‘ فَمِنْہُ رَفْعٌ لِتَکْبِیْرِ الصَّلَاۃِ‘ وَمِنْہُ رَفْعٌ لِلدُّعَائِ فَأَمَّا مَا لِلصَّلَاۃِ‘ فَرَفْعُ الْیَدَیْنِ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ وَأَمَّا مَا لِلدُّعَائِ ‘ فَرَفْعُ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَبِجُمْعٍ وَ (عَرَفَۃُ) وَعِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ فَھٰذَا مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ بِعَرَفَۃَ۔
٣٧٤١: مہاجر نے جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ان سے بیت اللہ کے پاس ہاتھ اٹھانے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا یہ وہ چیز ہے جو یہود کرتے تھے ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا آپ نے یہ نہیں کیا۔ یہ جابر (رض) ہیں جو اس بات کی نشاندہی فرما رہے ہیں کہ یہ یہود کا فعل ہے۔ اہل اسلام کا فعل نہیں ہے۔ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا اور آپ نے یہ فعل نہیں کیا اور اس باب کو سند کے لحاظ سے لیا جائے۔ تو اس روایت کی سند شروع باب میں مذکورروایت کی سند سے اعلیٰ ہے اور اگر اس کو آثار کے معانی کی تصحیح کے طور پر لیا جائے تو جابر (رض) سے یہ اطلاع دی کہ یہ یہود کا فعل اور طرز عمل ہے۔ عین ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اقتداء کے طورپر شروع میں حکم فرمایا ہو ۔ اس لیے کہ آپ ان کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کے طریقے کا حکم فرماتے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی شریعت کو منسوخ کرنے والا حکم نہ ملتا۔ پھر آپ نے حج کیا اور ان کی مخالفت فرمائی اور ہاتھ نہیں اٹھائے ۔ پس جابر (رض) کی روایت اولیٰ ہے کیونکہ اس میں ان دونوں روایات کی تصحیح کے ساتھ ساتھ ابن عمر اور ابن عباس (رض) کی روایات کی تنسیخ بھی پائی جاتی ہے۔ اور اگر فکر و نظر کے لحاظ سے لیں ۔ تو ہم یہ بات پاتے ہیں کہ اس حدیث میں مذکور ہاتھ اٹھانا دو قسم پر ہے۔ ! نماز کی تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے۔ " دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے۔ جس رفع یدین کا تعلق نماز سے ہے تو وہ ابتداء نماز میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں اور جس رفع یدین کا تعلق دعا سے ہے تو اس کا تعلق صفا ‘ مروہ مزدلفہ ‘ عرفات اور دونوں جمرات کے پاس ہاتھ اٹھانا ہے اور یہ سب کے ہاں متفق علیہ ہے۔ جیسا اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میدان عرفات میں ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔
تتمہ دلیل : اگر اس بات کو اسناد کے لحاظ سے جانچا جائے تو حدیث ثانی کی سند پہلی سے اعلیٰ ہے اور اگر معانی آثار کی تصحیح کا لحاظ کیا جائے تب بھی یہ روایت بہتر ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ابتدائً اس کا حکم ملا ہو کیونکہ یہ ان کی شریعت کے مطابق ہے جب اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدیہ کے احکام اتار دیئے تو دوسرے احکام کی طرح یہ بھی منسوخ ہوگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ١٠ ہجری میں وفات سے ٨٠ روز پہلے حج کیا ہے جبکہ شریعت کی تکمیل کا اعلان کردیا گیا اور آپ نے ہاتھ نہیں اٹھائے تو معلوم ہوا کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا پس جابر (رض) کی روایت کو لیا جائے تو تینوں روایات میں تطبیق ہوجاتی ہے۔
نظر طحاوی (رح) یا دلیل ثانی :
مذکورہ روایت میں جس ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے اس کی دو قسمیں ہیں تکبیر صلوۃ کے لیے ‘ دعا کے لئے۔
پس ان میں سے جس کا تعلق نماز سے ہے وہ افتتاح نماز کے لیے رفع یدین ہے اور جو دعا کے لیے تو وہ صفاء ‘ مروہ ‘ عرفات ‘ مزدلفہ ‘ جمرتین کے پاس ہاتھ اٹھانا متفق علیہ ہے۔ عرفات کے رفع یدین کے سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بھی ثابت ہے۔ روایت یہ ہے۔

3742

۳۷۴۲ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : أَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو بِعَرَفَۃَ وَکَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ نَحْوَ ثُنْدُوَتِہِ) فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْبَیْتِ ہَلْ ہُوَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا‘ فَرَأَیْنَا الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی ذٰلِکَ‘ ذَہَبُوْا أَنَّہٗ لَا لَعَلَّہٗ الْاِحْرَامُ‘ وَلٰـکِنْ لِتَعْظِیْمِ الْبَیْتِ وَقَدْ رَأَیْنَا الرَّفْعَ بِعَرَفَۃَ وَالْمُزْدَلِفَۃِ‘ وَعِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ‘ وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ إِنَّمَا أَمَرَ بِذٰلِکَ مِنْ طَرِیْق الدُّعَائِ فِی الْمَوْطِنِ الَّذِیْ جَعَلَ ذٰلِکَ الْوُقُوْفَ فِیْہِ لِعِلَّۃِ الْاِحْرَامِ وَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ صَارَ إِلٰی عَرَفَۃَ‘ أَوْ مُزْدَلِفَۃَ‘ مَوْضِعِ رَمْیِ الْجِمَارِ‘ أَو الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَہُوَ غَیْرُ مُحْرِمٍ‘ أَنَّہٗ لَا یَرْفَعُ یَدَیْہِ لِتَعْظِیْمِ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ رَفْعَ الْیَدَیْنِ لَا یُؤْمَرُ بِہٖ فِیْ ھٰذِہِ الْمَوَاطِنِ إِلَّا لِعِلَّۃِ الْاِحْرَامِ‘ وَلَا یُؤْمَرُ بِہٖ فِیْ غَیْرِ الْاِحْرَامِ‘ کَانَ کَذٰلِکَ‘ لَا یُؤْمَرُ بِرَفْعِ الْیَدَیْنِ لِرُؤْیَۃِ الْبَیْتِ فِیْ غَیْرِ الْاِحْرَامِ فَإِذَا ثَبَتَ أَنْ لَا یُؤْمَرَ بِذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ الْاِحْرَامِ‘ ثَبَتَ أَنْ لَا یُؤْمَرَ بِہٖ أَیْضًا فِی الْاِحْرَامِ وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا مَا یُؤْمَرُ بِرَفْعِ الْیَدَیْنِ عِنْدَہٗ فِی الْاِحْرَامِ‘ مَا کَانَ مَأْمُوْرًا بِالْوُقُوْفِ عِنْدَہٗ‘ مِنَ الْمَوَاطِنِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا وَقَدْ رَأَیْنَا جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ جَمْرَۃً کَغَیْرِہَا مِنَ الْجِمَارِ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَا یُوقَفُ عِنْدَہَا‘ فَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ رَفْعٌ فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ الْبَیْتُ‘ لَمَّا لَمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ وُقُوْفٌ‘ أَنْ لَا یَکُوْنَ عِنْدَہٗ رَفْعٌ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ وَھٰذَا الَّذِیْ أَثْبَتْنَاہٗ بِالنَّظَرِ‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ۔
٣٧٤٢: بشر بن حرب نے جناب ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات میں دعا فرما رہے تھے اور آپ کے دست مبارک سینہ تک اٹھے تھے۔ اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ بیت اللہ شریف کے دیدار کے وقت ہاتھ اٹھانا آیا وہ اسی طرح ہے یا نہیں جن حضرات نے اس کو اختیار کیا ہے وہ اس کو احرام کی وجہ سے نہیں بلکہ بیت اللہ کی تعظیم کی خاطر مانتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ میدان عرفات اور مزدلفہ اور منیٰ میں جمرتین کے پاس اسی طرح صفا اور مروہ پر جہاں وقوف کیا جاتا ہے۔ وہاں ہاتھ اٹھانے کا حکم احرام کی وجہ سے دیا گیا ہے کیونکہ ان مقامات میں وقوف احرام کی ہی وجہ سے ہے۔ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ اگر کوئی غیر محرم عرفات یا مزدلفہ جمرتین ‘ صفاو مروہ کے پاس جائے تو وہ کسی چیز کی تعظیم کے لیے وہاں ہاتھ نہ اٹھائے گا ۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان مقامات پر ہاتھوں کے اٹھانے کا حکم صرف احرام کی وجہ سے دیا گیا ۔ یہ حکم غیر احرام میں نہ ہوگا۔ اسی طرح بیت اللہ کو دیکھتے وقت بھی رفع یدین کا حکم نہ دیا جائے گا جب کہ آدمی احرام میں نہ ہو ۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ احرام کے علاوہ میں یہ حکم نہ دیا جائے گا تو اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ احرام کی حالت میں بھی اس کا حکم بھی نہ دیا جائے گا۔ ایک اور دلیل یہ ہے۔ کہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن مقامات پر رفع یدین کا حکم ہوا ہے ان مقامات پر وقوف کا حکم بھی ملا ہے ان مقامات کا تذکرہ ہم کرچکے ۔ ہم یہ بات بھی پاتے ہیں کہ جمرہ عقبہ بھی بقیہ جمرتین کی طرح ہے ‘ مگر اس کے پاس وقوف نہیں پس وہاں رفع یدین نہیں۔ پس اس پر غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ جب بیت اللہ کے پاس وقف نہیں تو اس کے پاس رفع یدین بھی نہیں قیاس ونظر اسی کو چاہتے ہیں اور یہ جو چیز ہم نے نظر سے پیش کی یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے اور ابراہیم نخعی (رح) سے بھی یہ منقول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٣۔
حاصل روایات : مندرجہ بالا دونوں قسم کے رفع یدین کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ آیا بیت اللہ کے پاس ہاتھوں کا اٹھانا ان میں سے کون سی قسم سے متعلق ہے جو لوگ اس رفع یدین کے قائل ہیں وہ یہ مانتے ہیں کہ یہ رفع یدین تعظیم بیت اللہ کے لیے ہے احرام کی وجہ سے نہیں۔ عرفات میں ہاتھ اٹھانا اسی طرح مزدلفہ میں اور جمردتین کے پاس اور صفا اور مروہ پر یہ تمام وہ مقامات ہیں جن کا وقوف احرام کی وجہ سے مقرر ہوا اور وہاں دعا کا حکم بھی اسی وجہ سے ہوا۔
ہم نے غور کیا کہ اگر کوئی غیر محرم صفا ‘ مروہ ‘ رمی جمار ‘ مزدلفہ و عرفات میں جائے تو ان مقامات پر ان کی تعظیم کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا نہ کرے گا۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان مقامات میں رفع یدین کا سبب احرام ہے۔ غیر احرام میں اس کا حکم نہ ہوگا بلکہ اسی طرح رویت بیت اللہ کے وقت غیر احرام میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں گے جب غیر حرام میں اس کا حکم نہ دیا جائے گا تو احرام میں بھی حکم نہ دیا جائے گا۔

نظر کا دوسرا انداز :
جن مقامات پر رفع یدین کا حکم ہوا وہ احرام کی وجہ سے ہے اور وہ مواقع مخصوص ہیں۔ قیاس کا دخل نہیں دیکھیں کہ جمرہ عقبہ بھی دوسرے جمرات کی طرح ہے البتہ اس کے پاس کھڑا نہیں ہوا جاتا مگر وہاں رفع یدین کا حکم نہیں ہے۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ بیت اللہ کے پاس بھی وقوف نہیں تو اس کے پاس رفع بھی نہیں۔ یہ بات جو ہم نے نظر سے ثابت کی ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے مگر طحاوی (رح) نے رویت بیت اللہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کو مستحب لکھا ہے۔

3743

۳۷۴۳ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ بْنِ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ قَالَ (تُرْفَعُ الْأَیْدِیْ فِیْ سَبْعِ مَوَاطِنَ : فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ‘ وَفِی التَّکْبِیْرِ لِلْقُنُوْتِ فِی الْوِتْرِ‘ وَفِی الْعِیْدَیْنِ‘ وَعِنْدَ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ‘ وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَبِجُمْعٍ وَعَرَفَاتٍ‘ وَعِنْدَ الْمَقَامَیْنِ عِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ) قَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَأَمَّا فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ فِی الْعِیْدَیْنِ‘ وَفِی الْوِتْرِ‘ وَعِنْدَ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ‘ فَیَجْعَلُ ظَہْرَ کَفَّیْہِ إِلٰی وَجْہِہٖ‘ وَأَمَّا فِی الثَّلَاثِ الْأُخَرِ‘ فَیَسْتَقْبِلُ بِبَاطِنِ کَفَّیْہِ وَجْہَہٗ فَأَمَّا مَا ذَکَرْنَا فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ‘ فَقَدْ اِتَّفَقَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ جَمِیْعًا وَأَمَّا التَّکْبِیْرَۃُ فِی الْقُنُوْتِ فِی الْوِتْرِ‘ فَإِنَّہَا تَکْبِیْرَۃٌ زَائِدَۃٌ فِیْ تِلْکَ الصَّلَاۃِ‘ وَقَدْ أَجْمَعَ الَّذِیْنَ یَقْنُتُوْنَ قَبْلَ الرُّکُوْعِ عَلَی الرَّفْعِ مَعَہَا فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ کُلُّ تَکْبِیْرَۃٍ زَائِدَۃٍ فِیْ کُلِّ صَلَاۃٍ‘ فَتَکْبِیْرُ الْعِیْدَیْنِ الزَّائِدُ فِیْہَا عَلٰی سَائِرِ الصَّلَاۃِ‘ کَذٰلِکَ أَیْضًا وَأَمَّا عِنْدَ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ جُعِلَ تَکْبِیْرًا یُفْتَتَحُ بِہِ الطَّوَافُ‘ کَمَا یُفْتَتَحُ بِالتَّکْبِیْرِ الصَّلَاۃُ وَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا۔
٣٧٤٣: طلحہ بن مصرف نے ابراہیم نخعی (رح) کے متعلق بیان کیا کہ انھوں نے فرمایا سات مقام پر ہاتھ اٹھائے جائیں گے۔ تکبیر افتتاح ‘ تکبیر قنوت وتر ‘ عیدین ‘ استلامِ حجر کے وقت ‘ صفا مروہ پر ‘ عرفات میں ‘ جمرتین کے پاس۔ امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں عیدین میں یا وتر یا استلام حجر کے وقت تو اپنی ہتھیلیوں کی پشت اپنے چہرے کی طرف کرے اور تین دوسرے مقامات پر اپنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصے کو اپنے چہرے کی طرف کرے۔ افتتاح نماز میں تو تمام مسلمانوں کا رفع یدین پر اتفاق ہے اور تکبیر قنوت وتر میں یہ تکبیر زائد ہے جو لوگ رکوع سے پہلے قنوت مانتے ہیں وہ اس کے ساتھ رفع یدین کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نماز جس میں زائد تکبیرات ہوں اس میں رفع یدین ہو ۔ تکبیرات عیدین زائد ہیں جو بقیہ نمازوں سے زائد ہیں۔ ان میں حکم اسی طرح ہے۔ باقی حجر اسود کو بوسہ دینے کے وقت پس یہ تکبیر افتتاح طواف کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ جیسا کہ تکبیر سے نماز کا افتتاح کیا جاتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کا حکم فرمایا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
نظر کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ تکبیر جو نماز میں زائد ہو اس کا یہی حکم ہے کہ اس کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں گے تکبیر عیدین وہ تمام نمازوں کی تکبیر سے زائد ہے اس لیے اس میں بھی ہاتھ اٹھائے جائیں گے۔ باقی رہا استلام حجر تو اس کو تکبیر افتتاح نماز کی طرح قرار دیا جس طرح کہ تکبیر سے طواف شروع کرتے ہیں جیسا کہ تکبیر سے نماز کو شروع کیا جاتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ روایت آگے ملاحظہ ہو۔

3744

۳۷۴۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِیْ یَعْفُوْرٍ الْعَبْدِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ أَمِیْرًا کَانَ عَلٰی مَکَّۃَ‘ مِنْ طَرَفِ الْحَجَّاجِ عَنْہَا سَنَۃَ ثَلاَثٍ وَسَبْعِیْنَ یَقُوْلُ (کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَجُلًا قَوِیًّا‘ وَکَانَ یُزَاحِمُ عَلَی الرُّکْنِ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا أَبَا حَفْصٍ‘ أَنْتَ رَجُلٌ قَوِیٌّ‘ وَإِنَّک تُزَاحِمُ عَلَی الرُّکْنِ‘ فَتُؤْذِی الضَّعِیْفَ‘ فَإِذَا رَأَیْتَ خَلْوَۃً فَاسْتَلِمْہُ‘ وَإِلَّا فَکَبِّرْ وَامْضِ)
٣٧٤٤: ابو یعفور عبدی کہتے ہیں کہ میں نے مکہ کے گورنر سے سنا جو کہ ٧٣ ھ میں حجاج کی طرف سے حاکم تھا وہ کہتے ہیں عمر (رض) ایک طاقتور آدمی تھے اور وہ رکن حجر پر لوگوں سے مزاحمت کرتے تھے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کہا اے ابو حفص ! تم طاقت ور آدمی ہو تم رکن کے پاس بھیڑ بناؤ گے پس اس طرح تم کمزور کو ایذا دو گے پس اگر خالی جگہ پاؤ تو استلام کرلو ورنہ تکبیر کہہ کر آگے روانہ ہوجاؤ۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٨۔

3745

۳۷۴۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ یَعْفُوْرٍ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْ خُزَاعَۃَ قَالَ : وَکَانَ الْحَجَّاجُ اسْتَعْمَلَہٗ عَلٰی مَکَّۃَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ فَلَمَّا جَعَلَ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرَ یَفْتَتِحُ بِہِ الطَّوَافَ‘ کَالتَّکْبِیْرِ الَّذِی جُعِلَ یُفْتَتَحُ بِہٖ الصَّلَاۃُ أُمِرَ بِالرَّفْعِ فِیْہِ‘ کَمَا یُؤْمَرُ بِالرَّفْعِ فِی التَّکْبِیْرِ لِاِفْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ‘ وَلَا سِیَّمَا اِذْ قَدْ جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلطَّوَافَ بِالْبَیْتِ صَلَاۃً
٣٧٤٥: ابو یعفور نے خزاعہ کے ایک آدمی سے بیان کیا جس کو حجاج نے مکہ پر عامل بنایا تھا پھر اس نے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ پس جب یہ تکبیر افتتاح طواف کے لیے مقرر کی گئی ہے اس تکبیر کی طرح جو نماز کو شروع کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے تو اس میں ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے جیسا کہ نماز کو شروع کرنے والی تکبیر میں رفع یدین کا حکم ہے۔ خصوصاً جب کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کے طواف کو بمنزلہ نماز قرار دیا ہے۔
نوٹ : سابقہ روایات سے معلوم ہو رہا ہے کہ طواف کی ابتداء بھی تکبیر سے ہوگی اور اس کی ابتداء میں افتتاح نماز کی طرح تکبیر کہی جائے گی تو اس میں تکبیر صلوۃ کی طرح ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور خاص طور پر اس وجہ سے بھی اٹھائے جائیں کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف بیت اللہ کو نماز قرار دیا۔

3746

۳۷۴۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ح
٣٧٤٦: ربیع الموذن سے اسد سے روایت کی ہے۔

3747

۳۷۴۷ : وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَا : ثَنَا الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (الطَّوَافُ بِالْبَیْتِ صَلَاۃٌ‘ إِلَّا أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحَلَّ لَکُمْ النُّطْقَ‘ فَمَنْ نَطَقْ فَلاَ یَنْطِقْ إِلَّا بِخَیْرٍ) فَھٰذِہِ الْعِلَّۃُ الَّتِیْ لَہَا وَجَبَ الرَّفْعُ فِیْمَا زَادَ عَلٰی مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ وَأَمَّا الرَّفْعُ عَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَبِجَمْعٍ‘ وَ (عَرَفَاتٍ) وَعِنْدَ الْمَقَامَیْنِ عِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ قَدْ جَائَ مَنْصُوْصًا فِی الْخَبَرِ الْأَوَّلِ وَھٰذَا الَّذِی وَصَفْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْمَعَانِی الَّتِی ثَبَّتْنَاہَا‘ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٧٤٧: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ طواف بیت اللہ نماز کی طرح ہے بس فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں گفتگو کو حلال قرار دیا ہے پس جو شخص گفتگو کرے وہ بھلائی کی بات کرے۔ یہ وہ علت ہے جس کی بناء پر حدیث اول سے زائد مذکورہ مقامات پر ہاتھ اٹھانا واجب ہے۔ باقی صفا ‘ مروہ ‘ مزدلفہ و عرفات اور جمرتین کے پاس کے ہاتھوں کا اٹھانا یہ خبر اول کی نص میں موجود ہے۔ یہ اس روایت کا معنی ہے جس کو ہم کھول دیا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
تخریج : دارمی فی المناسک باب ٣٢۔
نوٹ : یہ ہے کہ اس علت کی وجہ سے ہاتھ اٹھانے کا حکم اس مقام پر لازم ہوا دوسرے مقامات پر ہاتھ اٹھانا جیسے صفا ‘ مروہ ‘ عرفات ‘ جمرتین کے پاس ‘ تو یہ نص میں وارد ہیں۔
ان آثار کے یہ معانی جن کو ہم نے ثابت کیا ہے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
رمل سینہ تان کر تیز چلنے کو کہتے ہیں اس کا حکم عمرۃ القضاۃ کے موقعہ پر مشرکین کے اعتراض کے ازالہ کے لیے ہوا بعد میں اس کو ہمیشہ کے لیے باقی رکھا گیا عمرۃ القضاۃ کے موقع پر مشرکین کا قیام جبل قیقعان پر تھا جو باب مدینہ اور باب حدیبیہ کے مقابل رکن شامی و عراقی کی طرف واقع ہے رمل کا حکم مکی اور آفاتی ہر ایک کے لیے ہر اس طواف میں ہے جس کے بعد سعی ہو رمل کا حکم عبداللہ بن عباس (رض) اور ان کے شاگردوں کے ہاں زمانہ نبوت کے ساتھ خاص تھا مگر ائمہ اربعہ اور جمہور کے ہاں قیامت تک باقی ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
رمل کا حکم زمانہ نبوت کے ساتھ خاص تھا جو وقتی علت کے پیش نظر تھا علت جانے سے حکم بھی جاتا رہا دلیل یہ ہے۔

3748

۳۷۴۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ عَاصِمٍ الْغَنَوِیِّ‘ (عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ‘ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : زَعَمَ قَوْمُک أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رَمَلَ بِالْبَیْتِ‘ وَأَنَّ ذٰلِکَ سُنَّۃٌ قَالَ : صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا قُلْتُ : مَا صَدَقُوْا وَمَا کَذَبُوْا ؟ قَالَ صَدَقُوْا‘ رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ‘ وَکَذَبُوْا‘ لَیْسَتْ بِسُنَّۃٍ‘ إِنَّ قُرَیْشًا قَالَتْ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ : دَعُوْا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَہُ حَتّٰی یَمُوْتُوْا مَوْتَ النَّغَفِ‘ فَلَمَّا صَالَحُوْہُ عَلٰی أَنْ یَجِیْئَ فِی الْعَامِ الْمُقْبِلِ‘ فَیُقِیْمَ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ بِمَکَّۃَ‘ فَقَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ، وَالْمُشْرِکُوْنَ عَلٰی جَبَلِ قُعَیْقِعَانَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہِ اُرْمُلُوْا بِالْبَیْتِ ثَلاَثًا وَلَیْسَتْ بِسُنَّۃٍ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّمَلَ فِی الطَّوَافِ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَقَالُوْا إِنَّمَا کَانَ الرَّمَلُ لِیَرَی الْمُشْرِکُوْنَ أَنَّ بِہِمْ قُوَّۃً‘ وَأَنَّہُمْ لَیْسُوْا بِضُعَفَائَ ‘ لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ سُنَّۃٌ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٧٤٨: ابوالطفیل کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) سے دریافت کیا آپ کی قوم کا خیال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں رمل کیا اور یہ سنت ہے انھوں نے کہا انھوں نے سچ کہا اور جھوٹ بولا۔ میں نے کہا کون سی بات انھوں نے درست کہی اور کون سی جھوٹی کہی۔ انھوں نے جواب دیا کہ اتنی بات تو درست ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف بیت اللہ میں رمل کیا اور اس بات میں جھوٹ بولا کہ یہ سنت ہے ‘ یہ سنت نہیں ہے۔ قریش نے حدیبیہ کے زمانہ میں کہا تھا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کو چھوڑ دو یہاں تک کہ نتھنوں کے کیڑے کی طرح مرجائیں۔ جب انھوں نے صلح کرلی کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لیے آئیں اور تین روز تک وہ مکہ میں قیام کریں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام آئے اس وقت مشرکین جبل قیقعان پر چڑھ گئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو فرمایا بیت اللہ کے پہلے تین چکروں میں رمل کرو اور یہ ہمیشہ کی سنت نہیں ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء اس طرف گئے کہ طواف میں رمل سنت نہیں ہے اور انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے اور کہا کہ یہ صرف مشرکین کے سامنے قوت کے مظاہرہ کے لیے تھا کہ ہم کمزور نہیں ہیں۔ اس بنا پر نہیں کہ یہ ایک مستقل طریقہ ہے اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٣٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٥٠۔

3749

۳۷۴۹ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ وَأَصْحَابُہٗ فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : إِنَّہُ یَقْدَمُ عَلَیْکُمْ قَوْمٌ قَدْ وَہَنَتْہُمْ حُمَّیْ یَثْرِبَ‘ فَلَمَّا قَدِمُوْا قَعَدَ الْمُشْرِکُوْنَ مِمَّا یَلِی الْحَجَرَ فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَہٗ أَنْ یَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَۃَ‘ وَأَنْ یَمْشُوْا مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَلَمْ یَمْنَعْہٗ أَنْ یَأْمُرَہُمْ بِأَنْ یَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الْأَرْبَعَۃَ إِلَّا اِبْقَائً عَلَیْہِمْ)
٣٧٤٩: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام سمیت مکہ میں تشریف لائے مشرکین نے کہا کچھ لوگ آ رہے ہیں جن کو یثرب کے بخاروں نے کمزور کردیا ہے جب وہ آگئے تو مشرکین مقام حجر کے قریب بیٹھ گئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو پہلے تین چکروں میں رمل کا حکم فرمایا اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آرام سے چلنے کا حکم فرمایا اور ابن عباس (رض) کہنے لگے ان کو چار چکروں میں رمل کا حکم بطور شفقت نہیں فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٥٥‘ والمغازی باب ٤٣‘ مسلم فی الحج ٤٠‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٥٠‘ نسائی فی المناسک باب ١٥٥‘ مسند احمد ١‘ ٢٩٠؍٢٩٥‘ ٣٠٦؍٣٧٣۔

3750

۳۷۵۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُضَیْرٍ قَالَ : ثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیْفَۃَ‘ عَنْ (أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ : قُلْت لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا زَعَمَ قَوْمُک أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَلَ بِالْبَیْتِ وَأَنَّہَا سُنَّۃٌ قَالَ : صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا‘ قَدْ رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ‘ وَلَیْسَتْ بِسُنَّۃٍ‘ وَلٰـکِنْ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ وَالْمُشْرِکُوْنَ عَلٰی قُعَیْقِعَانَ‘ وَبَلَغَہٗ أَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ : إِنَّ بِہٖ وَبِأَصْحَابِہِ ہُزَالًا فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ اُرْمُلُوْا‘ أَرُوْہُمْ أَنَّ بِکُمْ قُوَّۃً فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْمُلُ مِنَ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ إِلَی الرُّکْنِ الْیَمَانِیِّ‘ فَإِذَا تَوَارٰی عَنْہُمْ‘ مَشٰی) قَالُوْا : فَلاَ تَرٰی أَنَّہٗ أَمَرَہُمْ أَنْ یَمْشُوْا فِی الْأَشْوَاطِ الثَّلَاثَۃِ‘ فِیْمَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ حَیْثُ لَا یَرَاہُمَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ وَأَمَرَہُمْ أَنْ یَرْمُلُوْا فِیْمَا بَقِیَ مِنْ ھٰذِہِ الْأَشْوَاطِ لِیُرُوْہُمْ فَلَمَّا کَانَ قَدْ أَمَرَہُمْ بِالرَّمَلِ حَیْثُ یَرَوْنَہُمْ‘ وَبِتَرْکِہٖ حَیْثُ لَا یَرَوْنَہُمْ‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الرَّمَلَ کَانَ مِنْ أَجْلِہِمْ‘ لَا مِنْ أَجْلِ أَنَّہٗ سُنَّۃٌ قَالُوْا : وَمِمَّا دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ لَمَّا حَجَّ‘ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٧٥٠: ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا تمہاری قوم کا خیال یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں رمل کیا اور یہ سنت ہے انھوں نے جواب دیا انھوں نے کچھ سچ اور کچھ جھوٹ بولا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں رمل کیا مگر یہ سنت نہیں ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تشریف لائے ‘ مشرکین جبل قیقعان پر چڑھ گئے آپ کو یہ اطلاع ملی کہ مشرکین کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو کمزوری نے آلیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو رمل کا حکم فرمایا کہ مشرکین کو دکھاؤ کہ ہم میں کوئی کمی نہیں آئی پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود سے رکن یمانی تک رمل فرماتے۔ پھر جب ان سے چھپ جاتے تو اپنی حالت پر چلتے۔ اول فریق کے علماء کہتے ہیں کہ کیا تم یہ بات نہیں پاتے کہ آپ نے ان کو پہلے تین چکروں دوار کان کے درمیان معمول کے مطابق چلنے کا حکم فرمایا جہاں مشرکین ان کو نہ دیکھتے تھے اور چکر کے بقیہ حصہ میں ان کو رمل کا حکم فرمایا تاکہ کفار کو (قوت) دکھائیں پس جب ان کو رمل کا حکم صرف اسی جانب تھا جہاں مشرکین ان کو دیکھتے تھے اور جہاں نہ دیکھتے وہاں رمل کو ترک کرتے تھے تو اس سے یہ بات پا یہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ رمل ان کفار کی وجہ سے تھا ۔ اس طور پر نہ تھا کہ یہ طواف کا ایک مستقل طریقہ ہے۔ انھوں نے دوسری دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے حج کے موقعہ پر ایسا نہیں کیا اور اس میں انھوں نے یہ روایات ذکر کیں۔
تخریج : فی الحج ٢٣٧‘ مسند احمد ١‘ ٢٢٩؍٢٣٨۔
غور کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تین چکروں میں رکن یمانی اور رکن حجر کے درمیان جہاں مشرکین ان کو نہ دیکھتے تھے چلنے کا حکم فرمایا اور ان چکروں کے بقیہ حصہ میں مشرکین کو دکھانے کے لیے رمل کا حکم فرمایا پس جب رمل کا حکم ان کو دکھانے کے لیے کیا اور جہاں وہ نہ دیکھتے تھے وہاں رمل کو چھوڑ دیا تو اس سے ثابت ہوا رمل انہی کی وجہ سے تھا اس وجہ سے نہ تھا کہ یہ سنت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے۔ کہ حج کے موقعہ پر آپ نے رمل نہیں کیا جیسا اس روایت میں ہے۔

3751

۳۷۵۱ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْحِمَّانِیِّ قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَلَ فِی الْعُمْرَۃِ‘ وَمَشٰی فِی الْحَجِّ) أَفَلاَ تَرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَرْمُلْ فِیْ حَجِّہِ حَیْثُ عُدِمَ الَّذِیْنَ مِنْ أَجْلِہِمْ رَمَلَ فِیْ عُمْرَتِہٖ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : الرَّمَلُ فِی الْأَشْوَاطِ الثَّلَاثَۃِ الْأُوَلِ سُنَّۃٌ‘ لَا یَنْبَغِی تَرْکُہَا فِی الْحَجِّ‘ وَلَا فِی الْعُمْرَۃِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٧٥١: مجاہد نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ میں رمل کیا اور حج میں عام معمول کے مطابق چلے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٥١‘ کی طرح روایت ہے۔
حاصل روایات : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں رمل نہیں کیا کیونکہ یہ مشرکین کی وجہ سے کیا اور اب مکہ دارا الاسلام بن چکا تھا اور مشرک مسلمان بن چکے تھے۔ پس اس کا مسنون ہونا ثابت نہ ہوا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل :
پہلے تین چکروں میں رمل سنت ہے حج میں اس کو چھوڑنا جائز نہیں اور نہ ہی عمرہ میں اس کو چھوڑنا درست ہے دلائل یہ ہیں اور یہ سابقہ روایات ابن عباس (رض) اور ابن عمر (رض) کا جواب بھی ہیں۔

3752

۳۷۵۲ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَیْثَمٍ‘ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ مِنَ الْجِعْرَانَۃِ‘ فَرَمَلَ بِالْبَیْتِ ثَلاَثًا‘ وَمَشٰی أَرْبَعَۃَ أَشْوَاطٍ) فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَلَ الْأَشْوَاطَ کُلَّہَا‘ وَقَدْ کَانَ فِیْ بَعْضِہَا حَیْثُ یَرَاہُ الْمُشْرِکُوْنَ‘ وَفِیْ بَعْضِہَا حَیْثُ لَا یَرَوْنَہٗ فَفِیْ رَمْلِہٖ حَیْثُ لَا یَرَونَہٗ، دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ مِنْ أَجْلِہِمْ رَمَلَ‘ وَلٰـکِنْ لِمَعْنًی آخَرَ۔
٣٧٥٢: ابوالطفیل نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعرانہ سے عمرہ کیا تو بیت اللہ کے طواف میں رمل فرمایا یہ رمل پہلے تین چکروں میں تھا اور بقیہ چار چکروں میں اپنی رفتار سے چلے۔ یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام چکروں میں رمل فرمایا اور بعض میں تو اس جگہ جہاں مشرکین دیکھ لیں اور بعض میں اس جگہ جہاں وہ نہ دیکھتے تھے۔ آپ کے اس مقام پر رمل میں جہاں مشرکین نہ دیکھتے تھے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کی وجہ سے نہ تھا بلکہ کسی اور مقصد کی کا خاطر تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٥٠۔
حاصل روایت : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام چکروں میں رمل فرمایا بعض میں ایسی جگہ ہیں کہ مشرکین دیکھ لیں اور بعض میں ہے کہ جہاں مشرکین نہ بھی دیکھتے ہوں آپ کے اس جگہ رمل کرنے میں جہاں مشرکین نہ دیکھتے تھے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمل فقط انہی کی خاطر نہ تھا بلکہ اس کی اور وجہ بھی تھی۔

3753

۳۷۵۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ (رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحَجَرِ إِلَی الْحَجَرِ) ، فَھٰذَا الْحَدِیْثُ مِثْلُ الَّذِیْ قَبْلَہٗ۔
٣٧٥٣: ابوالطفیل کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرے حجر تک رمل کیا یہ روایت پہلی روایت کی طرح ہے۔

3754

۳۷۵۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ قَالَ (کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَرْمُلُ مِنَ الْحَجَرِ إِلَی الْحَجَرِ ثَلاَثًا‘ وَیَمْشِیْ أَرْبَعًا عَلَی ہَیِّنَتِہِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ)
٣٧٥٤: نافع نے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) تین چکروں میں حجر سے حجر تک رمل کرتے تھے اور چار چکروں میں اپنے انداز سے چلتے تھے اور ابن عمر (رض) فرماتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٣٣۔

3755

۳۷۵۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمٌ بْنُ أَخْضَرَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَرْمُلُ مِنَ الْحَجَرِ إِلَی الْحَجَرِ) فَھٰذَا مِثْلُ الَّذِیْ قَبْلَہٗ أَیْضًا وَقَدْ اسْتَدَلَّ بِذٰلِکَ‘ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ فَفَعَلَہٗ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہٗ، إِلَّا أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّہٗ فَعَلَہٗ فِیْ حَجٍّ وَلَا فِیْ عُمْرَۃٍ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ وَہُوَ حَاجٌّ‘ فَخَالَفَ ذٰلِکَ مَا رَوٰی عَنْہُ مُجَاہِدٌ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ فِیْ عُمْرَۃٍ‘ فَیَکُوْنُ مَذْہَبُہُ کَانَ أَنْ یَرْمُلَ فِی الْعُمْرَۃِ‘ وَلَا یَرْمُلَ فِی الْحَجَّۃِ وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا عَلَی ثُبُوْتِ الرَّمَلِ‘ وَأَنَّہٗ سُنَّۃٌ مَاضِیَۃٌ فِی الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَہُ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ حَیْثُ لَا عَدُوَّ یُرِیْہِ قُوَّتَہٗ فَمَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا
٣٧٥٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر سے حجرتک رمل کرتے یہ روایت بھی پہلی روایت کی طرح ہے۔ اس روایت سے ابن عمر (رض) نے استدلال کیا ہے۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسی طرح کیا جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا ہاں اتنی بات ہے کہ روایت میں یہ مذکور نہیں کہ آپ نے یہ حج میں کیا یا عمر میں ۔ یہ ممکن ہے کہ حج کی حالت میں کیا ہو۔ اس صورت میں یہ مجاہد والی روایت کے خلاف ہوگا۔ اور عین ممکن ہے کہ یہ عمرہ میں کیا ہو تو اس صورت میں ان کا مذہب عمرہ میں رمل ہ تھا اور حج میں رمل کا نہ تھا اور جو بات ثبوت رمل پر دلالت کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ حج وعمرہ میں پہلے سے چلا آرہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں بھی اسے کیا جب کہ وہاں کوئی دشمن نہ تھا جس کے سامنے قوت کا مظاہرہ کرنا ہو۔ اس سلسلہ میں یہ روایات ملاحظہ ہوں۔
حاصل روایات : ابن عباس (رض) کی روایت میں عمرہ جعرانہ کا تذکرہ ہے اور مؤقف اول میں مذکورہ روایت کا تعلق عمرۃ القضاۃ یا حدیبیہ سے ہے حنین کے غنائم کے بعد والا یہ عمرہ سابقہ علت کے ختم ہونے کے باوجود رمل کو ثابت کررہا ہے۔ پس ابن عباس (رض) کی پہلی روایت سے استدلال درست نہیں اسی طرح روایت ابن عمر (رض) میں مجاہد (رح) والی روایت کے خلاف خود ابن عمر (رض) کا فعل مذکور ہے راوی کا عمل روایت کے خلاف اس کے سابقہ روایت پر اعتماد کو ختم کردیتا ہے اور اگر ابن عمر (رض) سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں رمل فرمایا تو سرے سے وہ روایت باطل ہوجائے گی۔ چنانچہ یہ روایت اس کو ثابت کرتی ہے۔

3756

۳۷۵۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَعٰی ثَلاَثَۃً وَمَشٰی أَرْبَعَۃً‘ حِیْنَ قَدِمَ فِی الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ حِیْنَ کَانَ اعْتَمَرَ)
٣٧٥٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین میں سعی کی (رمل کیا) اور چار چکروں میں اپنی حالت کے مطابق چلے جبکہ آپ نے حج وعمرہ کیا اور جب آپ نے عمرہ کیا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٣١۔

3757

۳۷۵۷ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ عِیَاضٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ بِمِثْلِ مَعْنَاہُ فَھٰذَا خِلَافُ مَا رَوَیْ مُجَاہِدٌ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّہٗ رَمَلَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ)
٣٧٥٧: نافع نے ابن عمر (رض) اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : ابن عمر (رض) کی اس روایت نے ثابت کردیا کہ حج وعمرہ دونوں میں رمل سنت ہے اور آپ نے خود کیا ہے پس مجاہد والی روایت سے استدلال کرنا باطل ہے۔

3758

۳۷۵۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی الْہَادِ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (طَافَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ سَبْعًا‘ رَمَلَ مِنْہَا ثَلاَثًا‘ وَمَشٰی أَرْبَعًا)
٣٧٥٨: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں سات چکر لگائے ان میں سے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور چار میں اپنی حالت کے مطابق چلتے رہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٥٠۔

3759

۳۷۵۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٧٥٩: حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ اور اسی طرح روایت کی ہے۔

3760

۳۷۶۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَافَ سَبْعًا رَمَلَ فِیْ ثَلاَثَۃٍ مِنْہُنَّ‘ مِنَ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ) فَلَمَّا ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّہٗ رَمَلَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ وَلَا عَدُوَّ‘ ثَبَتَ أَنَّہٗ لَمْ یَفْعَلْہُ، اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ مِنْ أَجْلِ الْعَدُوِّ وَلَوْ کَانَ فَعَلَہُ اِذْ کَانُوْا مِنْ أَجْلِہِمْ‘ لَمَا فَعَلَہٗ فِیْ وَقْتِ عَدَمِہِمْ‘ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الرَّمَلَ فِی الطَّوَافِ‘ مِنْ سُنَنِ الْحَجِّ الْمَفْعُوْلَۃِ فِیْہٖ‘ الَّتِیْ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہَا وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ أَیْضًا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ۔
٣٧٦١: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کے سات چکر لگائے ان میں سے تین میں رمل کیا جو کہ حجر سے حجر تک تھا۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے حجۃ الوداع میں رمل کیا جب کہ اس وقت کوئی دشمن نہ تھا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جب آپ نے پہلے کیا تو دشمن کی وجہ سے نہیں کیا اگر ان کی وجہ سے کیا ہو تاتو ان کے نہ ہونے کی حالت میں آپ اس کو اختیار نہ فرماتے پس اس سے یہ بات پا یہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ طواف میں رمل ہے اور یہ حج کے اندر کیے جانے والے ان اعمال سے ہے جن کا ترک کرنا مناسب نہیں ہے اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے بعد اسے کیا ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٣٥‘ ترمذی فی الحج باب ٣٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٢٩۔
حاصل روایات : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجۃ الوداع میں رمل کرنا ثابت ہوگیا جبکہ اس وقت دشمن کا کوئی نام و نشان نہ تھا تو اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ دشمن کی موجودگی میں جو کیا وہ فقط دشمن کی وجہ سے نہ تھا اگر یہ فقط کفار کی خاطر کیا جانے والا فعل ہوتا تو ان کی عدم موجودگی میں اس کو انجام دینے کی چنداں حاجت نہ تھی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ رمل طواف میں کرنا سنن حج سے ہے اور اس کا کرنا بہرصورت ضروری ہے۔

3761

۳۷۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْحُنَیْنِیُّ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُمَرَ قَالَ (فِیْمَا الرَّمَلُ الْآنَ‘ وَالْکَشْفُ عَنِ الْمَنَاقِبِ) وَقَدْ نَفَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الشِّرْکَ وَأَہْلَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَا نَدَعُ شَیْئًا عَمِلْنَاہُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٣٧٦١: زید بن اسلم نے اپنے والد سے انھوں نے عمر (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا اب رمل کیوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے شرک اور اہل شرک کی بیخ کنی کردی یعنی عملی طور پر اس کی عقلی وجہ کوئی نہیں مگر ہم کسی ایسے عمل کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں جس کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرتے دیکھا اور آپ کے ساتھ کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٥٠۔

3762

۳۷۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ (لَمَّا حَجَّ عُمَرُ‘ رَمَلَ ثَلاَثًا) وَھٰذَا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَا یُنْکِرُہُ عَلَیْہِ مِنْہُمْ أَحَدٌ
٣٧٦٢: عطاء نے یعلی بن امیہ (رض) سے نقل کیا کہ جب عمر (رض) نے حج کیا تو تین چکروں میں رمل کیا۔
حاصل روایات : حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ عمل کیا اور کسی نے نکیر نہیں کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ رمل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی ثابت ہے اور یہ سنت مستمرہ ہے پس اس سے اس کی سنیت کا ثبوت مل گیا۔

3763

۳۷۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ‘ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ‘ عَنْ شَقِیْقٍ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ (قَدِمْتُ مَکَّۃَ مُعْتَمِرًا‘ فَتَبِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ‘ فَرَمَلَ ثَلاَثًا‘ وَمَشٰی أَرْبَعًا)
٣٧٦٣: شقیق سے مسروق سے نقل کیا کہ میں مکہ میں عمرہ کے لیے آیا پس میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے پیچھے چل دیا وہ مسجد میں داخل ہوئے اور طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں اپنی رفتار سے چلے۔

3764

۳۷۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ اِذَا قَدِمَ مَکَّۃَ‘ طَافَ بِالْبَیْتِ‘ وَرَمَلَ‘ ثُمَّ طَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَإِذَا لَبَّیْ بِہَا مِنْ مَکَّۃَ‘ لَمْ یَرْمُلْ بِالْبَیْتِ‘ وَأَخَّرَ الطَّوَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ وَکَانَ لَا یَرْمُلُ یَوْمَ النَّحْرِ فَفِیْ ھٰذَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَرْمُلُ فِی الْحَجَّۃِ اِذَا کَانَ إِحْرَامُہٗ بِہَا مِنْ غَیْرِ مَکَّۃَ فَھٰذَا خِلَافُ مَا رَوَاہٗ عَنْہُ مُجَاہِدٌ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلاَ یَخْلُوْمَا رَوَاہٗ عَنْہُ مُجَاہِدٌ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ‘ إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ مَنْسُوْخًا‘ فَمَا نَسَخَہُ فَہُوَ أَوْلَی مِنْہُ أَوْ یَکُوْنُ غَیْرَ صَحِیْحٍ عَنْہُ‘ فَہُوَ أَحْرٰی أَنْ لَا یَعْمَلَ بِہٖ، وَأَنْ یَجِبَ الْعَمَلُ بِخِلَافِہِ وَلَمَّا ثَبَتَ مَا ذَکَرْنَا مِنَ الرَّمَلِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ عَدَمِ الْمُشْرِکِیْنَ‘ وَعَنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ فِی الْأَشْوَاطِ الْأُوَلِ الثَّلَاثَۃِ‘ ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ مِنْ سُنَّۃِ الطَّوَافِ عِنْدَ الْقُدُوْمِ‘ وَأَنَّہٗ لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنَ الرِّجَالِ تَرْکُہٗ اِذَا کَانَ قَادِرًا عَلَیْہِ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٧٦٤: نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) جب مکہ تشریف لائے تو بیت اللہ کا طواف کرتے اور رمل کرتے پھر صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے اور جب مکہ سے احرام باندھتے تو پھر رمل نہ کرے اور صفا ومروہ کی سعی کو یوم نحر پر مؤخر کرتے اور نحر کے دن طواف زیارت میں رمل نہ کرتے تھے۔ اس روایت میں ابن عمر (رض) سے یہ ثبوت مل رہا ہے کہ وہ حج میں اس وقت رمل نہ کرتے تھے جب کہ ان کا احرام غیر مکی ہوتا ۔ یہ روایت اس کے خلاف ہے جو مجاہد (رح) نے ان کے واسطہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ مجاہد (رح) نے جو بات نقل کی وہ دو حال سے خالی نہیں نمبر ١ وہ منسوخ ہے اور اس کی ناسخ اس سے اولیٰ ہے نمبر ٢ یہ ان سے صحیح سند سے ثابت نہیں پس ایسی روایت قابل عمل نہ ہوئی اور اس کے خلاف روایت پر عمل واجب ہوا۔ جب مذکور رمل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین کے نہ ہونے کی حالت میں ثابت ہوگیا اور وہ بھی پہلے تین چکروں میں تو اس سے یہ بات پختہ ہوگئی کہ یہ طواف قدوم میں سنت ہے اور کسی مرد کو اس کا ترک مناسب نہیں جب کہ اسے اس کی قدرت ہو یہی امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں ابن عمر (رض) کا یہ طرز عمل معلوم ہو رہا ہے کہ جب مکہ کے باہر سے احرام باندھتے تو طواف میں رمل کرتے اور جب مکہ سے احرام حج باندھتے تو اس کے طواف میں رمل نہ کرتے۔
یہ روایت اس کے خلاف ہے جو فصل اول میں ان سے مجاہد (رح) نے نقل کی ہے اب روایت مجاہد کی دو صورتیں ہیں۔
نمبر 1: اس کو منسوخ تسلیم کیا جائے پس ناسخ روایت اس سے اولیٰ و اعلیٰ ہے۔
نمبر 2: سرے سے وہ روایت ہی درست نہیں پس اس پر عمل کرنا مناسب نہیں اس کے مخالف روایت جو کہ ثابت ہے اس پر عمل لازم ہے۔
جب سال مشرکین کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام سے رمل ثابت ہے اور پہلے تین چکروں میں ثابت ہے اور طواف قدوم کی سنت ہے تو اب کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ قدرت کے باوجود اس کو ترک کرے۔
یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

3765

۳۷۶۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (کُنَّا نَسْتَلِمُ الْأَرْکَانَ کُلَّہَا) .
٣٧٦٥: ابوالزبیر نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا کہ ہم تمام ارکان کا استلام کیا کرتے تھے۔
استلام ہاتھ سے چھونے اور ہاتھ پھیرنے کو کہتے ہیں اور تقبیل بوسہ دینے کو کہا جاتا ہے۔ حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام ہے اور تقبیل فقط حجر اسود کی ہے یا چاروں ارکان کا استلام ہے۔ ! حضرت معاویہ ‘ حضرت حسن و حسین (رض) اور عروہ و سوید رحمہم اللہ چاروں ارکان کا استلام مسنون قرار دیتے ہیں۔
نمبر 2: حضرت عمر ‘ ابن عباس (رض) اور ائمہ اربعہ ‘ جمہور فقہاء ‘ حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام مسنون مانتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
بیت اللہ شریف کے طواف کے وقت چاروں ارکان کا استلام کیا جائے گا۔ دلیل یہ ہے۔

3766

۳۷۶۶ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ طَہْمَانَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ‘ فَیَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَسْتَلِمَ أَرْکَانَہُ کُلَّہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَسْتَلِمَ مِنَ الْأَرْکَانِ فِی الطَّوَافِ غَیْرَ الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٣٧٦٦: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ جو شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرے ۔ اسے چاہیے کہ وہ اس کے تمام ارکان کو بوسہ دیا اور انھوں نے اس کی دلیل میں مذکورہ بالا روایت کو پیش کیا ۔ مگر علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا طواف میں دویمانی ارکان کو بوسہ دے جائے گا اور انھوں نے ذیل کی روایات سے استدلال کیا ہے۔
اس اثر سے حضرت جابر (رض) کا تمام ارکان کو استلام کرنا ثابت ہو رہا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : صرف رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام درست اور مسنون ہے بقیہ کا نہیں۔ یہ اگلی روایات ثبوت ہیں۔

3767

۳۷۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یَکُنْ یَمُرُّ بِہٰذَیْنِ الرُّکْنَیْنِ‘ الْأَسْوَدِ‘ وَالْیَمَانِیِّ‘ إِلَّا اسْتَلَمَہُمَا فِی الطَّوَافِ‘ وَلَا یَسْتَلِمُ ہٰذَیْنِ الْآخَرَیْنِ) .
٣٧٦٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر طواف میں جب رکن حجر اور یمانی کے پاس سے ہوتا تو آپ ان کا استلام فرماتے اور دوسرے دو ارکان کا استلام نہ فرماتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٤٧۔

3768

۳۷۶۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٧٦٨: یزید بن سنان نے ابو عاصم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت ذکر کی ہے۔

3769

۳۷۶۹ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ .ح .
٣٧٦٩: یزید اور ابن مرزوق دونوں نے ابوالولید طیالسی سے روایت کی ہے۔

3770

۳۷۷۰ : وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ (لَمْ أَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ مِنَ الْبَیْتِ إِلَّا الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ) ) .
٣٧٧٠: ابن شہاب نے سالم سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ شریف کے دو ارکان یمانی کے علاوہ کسی رکن کو ہاتھ لگاتے نہیں دیکھا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٥٩‘ مسلم فی الحج ٢٤٢۔

3771

۳۷۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنْ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَلِمُ مِنْ أَرْکَانِ الْبَیْتِ إِلَّا الرُّکْنَ الْأَسْوَدَ‘ وَاَلَّذِیْ یَلِیْہِ مِنْ نَحْوِ دَارِ الْجُمَحِیِّیْنَ) .
٣٧٧١: سالم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارکان بیت اللہ میں سے رکن اسود اور جو رکن دارجمحیین کے قریب ہے (رکن یمانی) ان کا استلام فرماتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٤٣۔

3772

۳۷۷۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنِ اللَّیْثِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ . فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٧٧٢: لیث نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3773

۳۷۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ أَنَّہٗ قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (رَأَیْتُک لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْکَانِ إِلَّا الْیَمَانِیَّیْنِ) .فَقَالَ (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَا یَمَسُّ مِنَ الْأَرْکَانِ إِلَّا الْیَمَانِیَیْنِ).
٣٧٧٣: عبید بن جریج نے عبداللہ بن عمر (رض) کو کہا تم صرف دو یمانی ارکان کا استلام کرتے ہو تو انھوں نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دونوں ارکان کے علاوہ اور کسی رکن کو چھوتے نہیں دیکھا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٤٥۔

3774

۳۷۷۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ : ثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِیْرٍ الْجَزَرِیُّ‘ عَنْ خُصَیْفٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ (مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ طَافَ بِالْبَیْتِ الْحَرَامِ‘ فَجَعَلَ یَسْتَلِمُ الْأَرْکَانَ کُلَّہَا .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لِمَ تَسْتَلِمُ ہٰذَیْنِ الرُّکْنَیْنِ‘ وَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَلِمُہُمَا ؟ .فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ لَیْسَ مِنَ الْبَیْتِ شَیْء ٌ مَہْجُوْرٌ .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) قَالَ : صَدَقَتْ) .فَھٰذِہِ الْآثَارُ کُلُّہَا‘ تُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَسْتَلِمُ فِیْ طَوَافِہٖ غَیْرَ الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ .وَمَعَ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنَ التَّوَاتُرِ‘ مَا لَیْسَ مَعَ الْأَثَرِ الْأَوَّلِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ لِمَنْ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ أَیْضًا‘ عَلٰی مَنْ ذَہَبَ إِلٰی مَنْ خَالَفَہَا - أَنَّ الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ‘ ہُمَا مَبْنِیَّانِ عَلٰی مُنْتَہَی الْبَیْتِ مِمَّا یَلِیْہِمَا‘ وَالْآخَرَانِ لَیْسَا کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّ الْحِجْرَ وَرَائَ ہُمَا‘ وَہُوَ مِنَ الْبَیْتِ‘ وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ لَا یُسْتَلَمُ‘ لِأَنَّہٗ لَیْسَ بِرُکْنٍ لِلْبَیْتِ .فَکَانَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الرُّکْنَانِ الْآخَرَانِ‘ لَا یُسْتَلَمَانِ‘ لِأَنَّہُمَا لَیْسَا بِرُکْنَیْنِ لِلْبَیْتِ . وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحِجْرِ‘ أَنَّہٗ مِنَ الْبَیْتِ۔
٣٧٧٤: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے بیت اللہ کا طواف کیا اور تمام ارکان کو بوسہ دینے لگے۔ تو ابن عباس (رض) نے فرمایا ان دو عراقی ارکان کا تم کیوں استلام کرتے ہو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا استلام نہ کرتے تھے۔ تو معاویہ (رض) نے جواب دیا بیت اللہ کا کوئی حصہ مہجور و متروک نہیں ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔۔۔ امیر معاویہ (رض) نے کہا کہ تم نے درست کہا۔ (یعنی غلطی کو تسلیم کرلیا) یہ تمام آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے طواف دو یمانی ارکان کے علاوہ کسی رکن کا استلام نہ فرماتے تھے دوسری بات یہ ہے کہ ان آثار میں وہ تواتر ہے جو پہلے اثر کو حاصل نہیں اور ہمارے ہاں ایک دلیل (واللہ اعلم) یہ بھی ہے جس کو اس قول ثانی کے قائلین اول قول والے کے خلاف اختیار کرتے ہیں۔ کہ یمانی ارکان بیت اللہ کی اصل حد پر تعمیر کیے گئے ہیں جب کہ دوسرے دونوں ارکان اس طرح نہیں کیونکہ مقام حجر ان کے پچھلی جانب ہے حالانکہ وہ بیت اللہ کا حصہ ہے اور اس پر اس کا اتفاق ہے کہ ارکان یمانی کے مابین بیت اللہ کے حصہ کا استلام نہ کیا جائے گا کیونکہ وہ بیت اللہ کے ارکان نہیں ۔ پس نظر وفکر میں یہ بات آتی ہے کہ دوسرے ارکان کا بھی یہی حکم ہو کہ ان کا استلام نہ ہو کیونکہ وہ بیت اللہ شریف کے ارکان نہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجر (حطیم) کے متعلق مروی ہے کہ وہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔
حاصل روایات : یہ تمام آثار اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ استلام صرف دو ارکان کا ہے اور وہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اور پھر ان آثار کے ساتھ امت کا متواتر عمل ایک مستقل دلیل ہے جس کی پشتی بانی دلیل اول کو قطعاً حاصل نہیں ہے۔
نظر طحاوی (رح) یا دلیل ثانی :
غور سے دیکھا جائے تو یہ بات صاف معلوم ہوگی کہ رکن حجر اور یمانی دونوں اپنی اصل جگہ پر قائم ہیں جو کہ بیت اللہ کے مشرقی جانب آخری کونے ہیں مگر اس کے برخلاف ارکان عراقی و شامی وہ دیوار کا حصہ ہیں بیت اللہ شریف کی حدود اس سے آگے حطیم سمیت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ استلام ارکان کا ہے۔ دیوار کا نہیں ہے اسی وجہ سے ارکان یمانی کے درمیان دیوار کے حصہ کو استلام کرنے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ تو جب وہ رکن اصل نہیں بلکہ دیوار کا حصہ ہیں ان کا استلام نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ ارکان بیت حقیقۃً نہیں۔ اور حجر اسود کے رکن بیت ہونے کا ثبوت بہت سی روایات سے ملتا ہے ہم ان کو یہاں درج کرتے ہیں۔

3775

۳۷۷۵ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ‘ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجْرِ‘ فَقَالَ : ہُوَ مِنَ الْبَیْتِ .فَقُلْتُ : مَا مَنَعَہُمْ أَنْ یُدْخِلُوْہُ فِیْہٖ؟ قَالَ عَجَزَتْ بِہِمَ النَّفَقَۃُ) .
٣٧٧٥: اسود بن یزید نے عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجر اسود کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے میں نے پوچھا پھر انھوں نے اس کو بیت اللہ میں کیوں شامل نہیں کیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرچہ کی تنگی نے ان کو اس سے عاجز کردیا کہ وہ اس کو تعمیر میں شامل کریں۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٣١۔

3776

۳۷۷۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ‘ عَنِ الْأَشْعَثِ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : (قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجْرِ أَمِنَ الْبَیْتِ ہُوَ ؟ قَالَ نَعَمْ .قُلْتُ : مَا لَہُمْ لَمْ یُدْخِلُوْہُ فِی الْبَیْتِ .قَالَ إِنَّ قَوْمَک قَصَّرَتْ بِہِمَ النَّفَقَۃُ .فَقُلْتُ : مَا شَأْنُ بَابِہِ مُرْتَفِعٌ ؟ قَالَ فَعَلَ قَوْمُکَ لِیُدْخِلُوْا مَنْ شَائُ وْا‘ وَیَمْنَعُوْا مَنْ شَائُ وْا‘ وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَکَ حَدِیْثٌ عَہْدُہُمْ بِجَاہِلِیَّۃٍ‘ فَأَخَافُ أَنْ تُنْکِرَ قُلُوْبُہُمْ ذٰلِکَ‘ لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْحِجْرَ فِی الْبَیْتِ‘ وَأَنْ أَلْزَقَ بَابَہٗ بِالْأَرْضِ) .
٣٧٧٦: اسود بن یزید سے روایت ہے کہ عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حطیم کے متعلق دریافت کیا کہ کیا وہ بیت اللہ کا حصہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے کہا پھر انھوں نے اسے بیت اللہ کی عمارت میں کیونکر داخل نہ کیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا۔ تمہاری قوم کے پاس رقم ختم ہوگئی میں نے پوچھا بیت اللہ کا دروازہ اتنا بلند کیوں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہاری قوم نے اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے کیا تاکہ جس کو وہ چاہیں داخل ہونے دیں جس کو وہ نہ چاہیں داخل نہ ہونے دیں اگر تمہاری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی جس سے مجھے خطرہ ہے کہ ان کے دل اسلام سے برگشتہ ہوجائیں گے تو میرا خیال تھا کہ میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کردیتا اور دروازہ کو زمین کے برابر کردیتا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٤٢‘ والمتنی باب ٩‘ مسلم فی الحج ٤٠٥‘ دارمی فی المناسک باب ٤٤۔

3777

۳۷۷۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمُ بْنُ حِبَّانَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مِیْنَائَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ قَالَ : حَدَّثَتْنِی (عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہَا لَوْلَا أَنَّ قَوْمَکَ حَدِیْثُو عَہْدٍ بِالْجَاہِلِیَّۃِ‘ لَہَدَمْتُ الْکَعْبَۃَ وَأَلْزَقَتْہَا بِالْأَرْضِ‘ وَجَعَلَتْ لَہَا بَابَیْنِ‘ بَابًا شَرْقِیًّا‘ وَبَابًا غَرْبِیًّا‘ وَلَزِدْت سِتَّۃَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ فِی الْبَیْتِ‘ إِنَّ قُرَیْشًا اسْتَقْصَرَتْہُ لَمَّا بَنَتَ الْبَیْتَ) .
٣٧٧٧: عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے ارشاد فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اگر تمہاری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی۔ تو میں کعبہ کو گرا کر اس کا دروازہ زمین سے چمٹا دیتا اور اس کے دو دروازے مشرقی اور مغربی جانب بنا دیتا اور چھ ہاتھ حصہ جو بیت اللہ سے چھوٹ گیا ہے وہ اس میں شامل کردیتا۔ جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو ان کے ہاں خرچہ کم ہوگیا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٢‘ مسلم فی الحج ٤٠١‘ نسائی فی المناسک باب ١٢٥‘ دارمی فی المناسک باب ٤٤‘ مسند احمد ٦؍١٧٩‘ ٢٣٩۔

3778

۳۷۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِیْ صَغِیْرَۃَ‘ عَنْ أَبِی قَزَعَۃَ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَرْوَانَ‘ بَیْنَمَا ہُوَ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ‘ اِذْ قَالَ قَائِلٌ : عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ حَیْثُ یَکْذِبُ عَلٰی أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُہَا وَہِیَ تَقُوْلُ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَا عَائِشَۃُ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِک بِالْکُفْرِ‘ لَنَقَضْتُ الْبَیْتَ حَتَّی أُزِیْدَ فِیْہِ مِنَ الْحِجْرِ) .فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ (لَا تَقُلْ ذٰلِکَ یَا أَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ‘ فَأَنَا سَمِعْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ تَقُوْلُہٗ) قَالَ : وَدِدْتُ أَنَّی کُنْتُ سَمِعْت ھٰذَا مِنْکَ قَبْلَ أَنْ أَہْدِمَہٗ فَتَرَکْتہ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْحِجْرَ مِنَ الْبَیْتِ‘ وَأَنَّ الرُّکْنَیْنِ اللَّذَیْنِ یَلِیَانِہِ‘ لَیْسَا بِرُکْنَیْنِ لِلْبَیْتِ‘ ثَبَتَ أَنَّہُمَا کَمَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ .فَکَمَا کَانَ بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ لَا یُسْتَلَمُ‘ فَکَذٰلِکَ ھٰذَانِ أَیْضًا - فِی النَّظَرِ - لَا یُسْتَلَمَانِ .وَقَدْ اسْتَدَلَّ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِمَا اسْتَدْلَلْنَا بِہٖ مِنْ ھٰذَا فِیْ تَرْکِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتِلَامَ ذَیْنِک الرُّکْنَیْنِ .
٣٧٧٨: ابو قزعہ سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کررہا تھا اس نے کہا ابن زبیر کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرے کہ وہ امّ المؤمنین (رض) کے متعلق جھوٹ بولتا تھا کہ میں نے امّ المؤمنین سے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے عائشہ (رض) اگر تمہاری قوم کفر کے قریب زمانہ والی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کو توڑتا اور اس میں حطیم کو داخل کردیتا۔ حارث بن عبدالرحمن بن ربیعہ نے کہا اے امیرالمؤمنین آپ اس طرح نہ کہیں یہ بات تو میں نے خود امّ المؤمنین سے سنی ہے۔ اس پر عبدالملک کہنے لگا۔ کاش یہ بات میں تم سے اس سے پہلے سن لیتا تو میں اسے نہ گراتا۔ جب یہ بات ثابت شدہ حقیقت بن گئی کہ مقام حجر یہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہے اس سے متصل دونوں ارکان بیت اللہ کے اصل ارکان نہیں تو یہ خود ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں ارکان یمانی ارکان کے مابین دیوار کی طرح ہیں جیسا کہ اس کا استلام نہیں اسی طرح اس کا بھی استلا م نہیں نظر وفکر اسی کے متقاضی ہیں کہ ان کا استلام نہ کیا جائے۔ ان دو ارکان کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استلام نہ کرنے سلسلہ میں حضرت ابن عمر (رض) نے اسی طرح سے ہمارے والا استدلال کیا۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٤٨‘ الحج باب ٤٢‘ مسلم فی الحج ٤٠٤‘ نسائی فی المناسک باب ١٢٥‘ دارمی فی المناسک باب ٤٤‘ مسند احمد ٦‘ ٥٧؍١٠٢‘ ٢٥٣؍٢٦٢۔
حاصل روایت : جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے اور رکن شامی و عراقی یہ حقیقی رکن نہیں ہیں۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ اسی طرح ہیں جیسا کہ ارکان یمانیہ کے درمیان کا حصہ ہے جس طرح وہ حصہ کسی کے نزدیک قابل استلام نہیں اسی طرح یہ بھی قابل استلام نہیں۔ نظر کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا استلام نہ کیا جائے۔ ان دونوں ارکان کا استلام چھوڑنے پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اسی طرح استدلال کیا ہے۔

3779

۳۷۷۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (أَلَمْ تَرٰی أَنَّ قَوْمَک حِیْنَ بَنَوا الْکَعْبَۃَ‘ اقْتَصَرُوْا عَنْ قَوَاعِدِ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ .قَالَتْ : فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَفَلاَ تَرُدَّہَا عَلٰی قَوَاعِدِ اِبْرَاہِیْمَ .قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِک بِالْکُفْرِ) .قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (لَئِنْ کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا سَمِعْتُ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَرٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرَکَ اسْتِلَامَ الرُّکْنَیْنِ اللَّذَیْنِ یَلِیَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَیْتَ لَمْ یَتِمَّ عَلٰی قَوَاعِدِ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ) .فَثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ مَا ذَکَرْنَا‘ وَأَنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَسْتَلِمَ مِنْ أَرْکَانِ الْبَیْتِ إِلَّا الرُّکْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٧٧٩: عبداللہ بن محمد بن ابی بکر (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے عائشہ صدیقہ (رض) سے خبر دی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تو نہیں دیکھتی کہ جب تمہاری قوم قریش نے کعبہ تعمیر کیا تو انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں سے اسے کم کردیا۔ عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم اس کو ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر نہ لوٹا دیں ؟ آپ نے فرمایا۔ اگر وہ (قریش) نئے نئے مسلمان نہ ہوئے اور ان کا کفر والا زمانہ قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا کردیتا) اس پر عبداللہ بن عمر (رض) کہنے لگے اگر عائشہ صدیقہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن رکھی ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ حطیم کے قریب والے ارکان کا استلام جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وجہ سے ترک فرمایا کیونکہ بیت اللہ شریف ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر نہیں (اور یہ رکن اپنے مقام پر نہیں ہیں پس قابل استلام نہیں) ۔ ان آثار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بیت اللہ کے ارکان میں سے صرف دو یمانی ارکان کا استلام ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ پس آثار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صرف ارکان یمانیہ کا استلام کیا جائے گا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ اور تمام فقہاء کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب کا اختلاف بھی جائز ناجائز کا ہے ارکان یمانیہ کے سوا دوسرے ارکان کا استلام جائز نہیں ہے۔

3780

۳۷۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی‘ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنِ ابْنِ بَابَاہُ‘ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعَمٍ رَفَعَہُ أَنَّہٗ قَالَ : (یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‘ لَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا یَطُوْفُ بِھٰذَا الْبَیْتِ وَیُصَلِّیْ أَیَّ سَاعَۃٍ شَائَ ‘ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ) .
٣٧٨٠: ابن باباہ نے جبیر بن مطعم (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنی عبدالمطلب ! تم تو کسی کو اس بیت اللہ کا طواف کرنے سے مت روکو اور نہ نماز سے روکو خواہ وہ کسی وقت نماز ادا کرے رات کا وقت ہو یا دن کا۔
ہر طواف کے بعد دو رکعت امام احمد ومالک کے ہاں مسنون اور احناف کے نزدیک واجب ہیں۔ مسلسل کئی طواف کی نماز اکٹھی کراہت تنزیہی کے ساتھ درست ہے یہ دو رکعت حطیم کعبہ یا مقام ابراہیم کے پاس یا مسجد میں جہاں جگہ ملے جائز ہیں۔ سعی کے بعد دو نفل مستحب ہیں اور مطلب بن ابی وداعہ کی روایت سے ثابت ہیں۔ طواف میں نمازی کے آگے سے گزرنا گناہ نہیں طواف کی رکعات فجر و عصر کے بعد ! امام احمد و شافعی رحمہم اللہ کے ہاں بلاکراہت درست ہیں اور " احناف کے معروف مسلک کے مطابق مکروہ تحریمی ہیں #اور ابراہیم نخعی اور سفیان وعطاء ‘ خود طحاوی رحمہم اللہ کے ہاں اصفرار سے پہلے تک بلاکراہت جائز ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف و دلیل :
طواف کی دو رکعات عصر و فجر کے بعد بلاکراہت درست ہیں دلیل یہ ہے۔

3781

۳۷۸۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی الشَّوَارِب‘ قَالَ : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ مَرْدَانُبَۃَ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (یَا بَنِیْ عَبْدَ مَنَافٍ إِنْ وَلِیْتُمْ ھٰذَا الْأَمْرَ‘ فَلاَ تَمْنَعُوْا أَحَدًا طَافَ بِھٰذَا الْبَیْتِ وَصَلّٰی أَیَّ سَاعَۃٍ شَائَ ‘ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی اِبَاحَۃِ الصَّلَاۃِ لِلطَّوَافِ فِی اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ‘ فَلاَ یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ‘ عِنْدَہُمْ‘ وَقْتٌ مِنَ الْأَوْقَاتِ الْمَنْہِیِّ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ لِأَنَّ مَا أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا‘ وَأَمَرَ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‘ أَوْ بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ أَنْ لَا یَمْنَعُوْا أَحَدًا مِنْہُ مِنَ الطَّوَافِ وَالصَّلَاۃِ‘ ہُوَ الطَّوَافُ عَلٰی سَبِیْلِ مَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُطَافَ‘ وَالصَّلَاۃُ عَلٰی سَبِیْلِ مَا یَنْبَغِیْ أَنْ تُصَلَّی‘ فَأَمَّا عَلٰی مَا سِوٰی ذٰلِکَ فَلاَ .أَلَا تَرٰی أَنَّ رَجُلًا لَوْ طَافَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانًا‘ أَوْ عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ ‘ أَوْ جُنُبًا‘ أَنَّ عَلَیْہِمْ أَنْ یَمْنَعُوْہُ مِنْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ طَافَ عَلٰی غَیْرِ مَا یَنْبَغِی الطَّوَافُ عَلَیْہِ .وَلَیْسَ ذٰلِکَ بِدَاخِلٍ فِیْمَا أَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا یَمْنَعُوْا مِنْہُ مِنَ الطَّوَافِ .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (لَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا یُصَلِّی) ہُوَ عَلٰی مَا قَدْ أُمِرَ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ مِنَ الطَّہَارَۃِ‘ وَسَتْرِ الْعَوْرَۃِ‘ وَاسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ فِی الْأَوْقَاتِ الَّتِیْ قَدْ أُبِیْحَتِ الصَّلَاۃُ فِیْہَا‘ فَأَمَّا مَا سِوٰی ذٰلِکَ‘ فَلاَ .وَقَدْ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہْیًا عَامًّا‘ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ وَعِنْدَ غُرُوْبِہَا‘ وَنِصْفَ النَّہَارِ‘ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغِیْبَ الشَّمْسُ‘ وَتَوَاتَرَتْ بِذٰلِکَ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ ذُکِرَتْ بِأَسَانِیْدِہَا فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ .فَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٧٨١: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنی عبد مناف ! اگر تم اس معاملے کے ذمہ دار ہو تو کسی کو اس گھر کا طواف کرنے اور کسی بھی وقت میں نماز پڑھنے سے مت روکو۔ خواہ وہ دن رات کی کوئی سی گھڑی ہو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ طواف کی نماز دن اور رات کے کسی وقت میں پڑھی جاسکتی ہے اس کے لیے کوئی ممنوع وقت نہیں خواہ وہ ممنوعہ اوقات سے ہو۔ ان کی دلیل یہ مذکورہ بالا آثار ہیں۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ ان آثار میں کوئی اثر بھی آپ کی دلیل نہیں بن سکتا ۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی عبد المطلب اور بنی عبد مناف کو یہ فرمایا اے بنی عبد المطلب و بنی عبد مناف تم کسی کو طواف اور نماز سے مت منع کرو۔ اس نماز و طواف سے مراد وہ نماز و طواف ہے جو اس طریق پر ہو جو مناسب ہے کہ نماز پڑھی جائے اور جیسا مناسب ہے طواف کیا جائے ۔ باقی جو اس کے علاوہ ہے وہ درست نہیں۔ کیا تم یہ بات نہیں پاتے کہ اگر کوئی شخص بیت اللہ شریف کا ننگا طواف کرلے یا بلاوضو کرلے یا جنابت کے ساتھ طواف کرے تو ان متولیوں کو لازم ہے کہ اسے منع کریں کیونکہ وہ غیر مناسب انداز سے طواف کررہا ہے اور یہ اس ممانعت میں داخل نہیں کہ جس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ترک کا حکم فرمایا۔ پس اسی طرح آپ کا ارشاد (لا تمنعوا احداً یصلی) کی مراد بھی یہی ہے کہ جو اس طریقے سے نماز ادا کررہا ہو جس شرائط و آداب سے ادائیگی کا حکم ہے مثلاً طہارت ‘ ستر عورت اور استقبال قبلہ نماز کے اوقات مباحہ کا لحاظ کر کے نماز پڑھی جائے ۔ باقی جو ان کا لحاظ کیے بغیر ادا کرے وہ مراد نہیں ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلوع و غروب اور نصف النھار کے اوقات میں نماز کی عمومی نفی فرمائی اسی طرح نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز (نفل) سے روکا گیا اور یہ کثیر و متواتر روایات ہیں جو اسی کتاب میں اپنے موقعہ پر مذکور ہیں اہل مقالہ اول نے اپنے استدلال کے لیے ان روایات کا سہارا لیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٥٢‘ ترمذی فی الحج باب ٤٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٤١‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٤٩‘ دارمی فی المناسک باب ٩۔
حاصل روایات : ان دونوں روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف میں جس طرح طواف کی دن رات کی ہر گھڑی میں اجازت ہے اسی طرح نماز کی بھی ہر وقت اجازت ہے نماز فرض و نفل ‘ واجب میں سے کوئی ہو۔ طواف کی دو رکعت کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں خواہ کسی وقت فارغ ہوں۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل :
نماز عصر و فجر کے بعد طلوع و غروب تک طواف کی دو رکعات پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
ان دونوں روایات میں تمہارے استدلال کی کوئی بات نہیں بلکہ اس سے مراد طواف کا جو طریق کار مناسب ہے اس کے مطابق اور نماز کا جو طریق کار مقرر ہے اس کے مطابق ادا کرنا مراد ہے جن اوقات میں دوسرے مقامات میں نماز درست ہے ان میں یہاں بھی درست ہے اور جن اوقات میں دوسرے مقام پر نماز ممنوع ہے یہاں بھی ممنوع ہے اور ان اوقات ممنوعہ میں روکنا یہ اس ممانعت میں داخل نہیں۔ ذرا غور کرو کہ بیت اللہ کا بغیر کپڑوں کے ننگے طواف کرنا حرام ہے۔ اسی طرح بلاوضو یا جنابت کی حالت میں ناجائز ہے ان چیزوں کے پیش آنے کی صورت میں وہ طواف کرنے والے کو روک سکتے ہیں یہ ممانعت میں شامل نہیں ہے اسی طرح نماز کے لیے طہارت ‘ ستر عورت ‘ استقبال قبلہ اور اوقات مباحہ کا ہونا جس طرح دوسری جگہ شرط ہے یہاں بھی شرط ہے اگر کوئی بلااستقبال قبلہ نماز پڑھے تو اسے روکا جائے گا یہ اس نہی میں داخل نہ ہوگا۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز سے اور اسی طرح نصف النہار کے وقت اور صبح کے بعد طلوع تک اور عصر کے بعد غروب تک نماز سے منع فرمایا ہے پس یہ طواف کی رکعات اس ممانعت میں شامل ہوں گی اور ان کی ادائیگی ان اوقات خمسہ میں نہ ہوگی۔
فریق اوّل کی ایک اور مستدل روایت آگے ملاحظہ ہو۔

3782

۳۷۸۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِیِّ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ طَہْمَانَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَابَاہُ‘ قَالَ : طَافَ أَبُو الدَّرْدَائِ بَعْدَ الْعَصْرِ‘ وَصَلّٰی قَبْلَ مَغَارِبِ الشَّمْسِ .فَقُلْتُ : أَنْتُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَقُوْلُوْنَ (لَا صَلَاۃَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ) .فَقَالَ : إِنَّ ھٰذَا الْبَلَدَ‘ لَیْسَ کَسَائِرِ الْبُلْدَانِ .فَقَالُوْا : فَقَدْ دَلَّ قَوْلُ أَبِی الدَّرْدَائِ عَلٰی أَنَّ الصَّلَاۃَ لِلطَّوَافِ لَمْ یَدْخُلْ فِیْہَا نَہْیٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاۃِ فِی الْأَوْقَاتِ الَّتِیْ ذَکَرْتُمْ .قِیْلَ لَہُمْ : فَأَنْتُمْ لَا تَقُوْلُوْنَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَاکُمْ تَکْرَہُوْنَ الصَّلَاۃَ بِمَکَّۃَ فِی الْأَوْقَاتِ الْمَنْہِیِّ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا لِغَیْرِ الطَّوَافِ‘ لِنَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ تِلْکَ الْأَوْقَاتِ‘ وَلَا تُخْرِجُوْنَ حُکْمَ مَکَّۃَ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ سَائِرِ الْبُلْدَانِ وَأَبَا الدَّرْدَائِ فَقَدْ أَخْرَجَ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِی احْتَجَجْتُمْ بِہِ حُکْمَ مَکَّۃَ مِنْ حُکْمِ سَائِرِ الْبُلْدَانِ سِوَاہَا فِی الْمَنْعِ مِنَ الصَّلَوَاتِ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَأَخْبَرَ أَنَّ النَّہْیَ لَمْ یَدْخُلْ حُکْمُہَا فِیْہٖ‘ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا أُرِیْدَ بِہٖ مَا سِوَاہَا مَعَ أَنَّہٗ قَدْ خَالَفَ أَبَا الدَّرْدَائِ فِیْ ذٰلِکَ‘ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٣٧٨٢ : ابوالزبیر نے عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے کہ ابوالدرداء (رض) نے عصر کے بعد طواف کیا اور غروب آفتاب سے پہلے طواف کی دو رکعت ادا کرلیں میں نے کہا تم اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہو کہ عصر کے بعد غروب تک کوئی نماز نہیں ہوتی۔ تو انھوں نے فرمایا۔ اس شہر مکہ کا حکم عام شہروں والا نہیں ہے۔ قول اول کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ حضرت ابو الدرداء (رض) کی روایت اس پر دلالت کر رہی ہے کہ طواف والی نماز اس نہی میں داخل ہی نہیں جس میں اوقات مذکورہ میں نماز ممنوع ہے۔ ان کے جواب میں ہم عرض کریں گے ۔ کہ تم بھی اس حدیث کے مطابق عمل پیرا نہیں ہو کیونکہ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ تم از خود مکہ شریف میں ان ممنوعہ اوقات میں دیگر نمازوں کی ادائیگی مکروہ جانتے ہو اس لیے کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اوقات میں نماز کی ممانعت فرمائی ہے اور اس سلسلہ میں تم مکہ مکرمہ کا حکم دوسرے شہروں سے الگ قرار نہیں دیتے ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابو الدرد اء (رض) نے تو اسی روایت سے تمام نمازوں کے سلسلہ میں مکہ کے حکم کو دوسرے شہروں سے الگ قرار دیا ہے اور یہ صاف بتلایا کہ نہی میں مکہ مکرمہ شامل و داخل نہیں ہے۔ بلکہ ممانعت میں دوسرے شہر مراد ہیں۔ اور ایک بات یہ بھی ہے۔ حضرت ابو الدرد (رض) کے ساتھ اس معاملے میں حضرت عمر (رض) نے اختلاف کیا ہے۔
حاصل کلام ابوالدرداء (رض) کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی رکعات ان اوقات کی نہی میں داخل نہیں ہیں۔
اس روایت کا جواب : حضرت ابوالدرداء (رض) کی روایت میں تو رکعات طواف کے علاوہ دیگر تمام نمازوں کے سلسلہ میں کسی بھی وقت طلوع و غروب وزوال میں پڑھنے کا جواز نکل رہا ہے۔ حالانکہ فریق اوّل تو اس کا قائل نہیں۔ صرف طواف کی رکعات کے سلسلہ میں اس بات کا قائل ہوا ہے تو ان نمازوں کے استثنا کی وجہ بتلائیں یا پھر اس روایت سے استدلال چھوڑ دیں اس روایت کے بالمقابل حضرت عمر ‘ معاذ بن عفراء ابن عمر (رض) کا عمل موجود ہے جو عصر و فجر کے بعد طواف کی رکعات کی ممانعت ثابت کررہا ہے پس طواف کی رکعات کے لیے مکہ مکرمہ کا اس حکم سے استثناء روایت ابوالدرداء سے ثابت نہیں ہوسکتا۔

3783

۳۷۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِیْ قَالَ : طَافَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالْبَیْتِ بَعْدَ الصُّبْحِ فَلَمْ یَرْکَعْ‘ فَلَمَّا صَارَ بِذِی طُوًی وَطَلَعَتِ الشَّمْسُ‘ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ .
٣٧٨٣: عبدالرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے صبح کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا اور رکعات طواف ادا نہ کیں روانہ ہو کر جب مقام ذی طویٰ میں پہنچ گئے اور سورج طلوع ہوچکا تو دو رکعت نماز ادا کی۔

3784

۳۷۸۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِیْ، مِثْلَہٗ .فَھٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَرْکَعْ حِیْنَئِذٍ‘ لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ وَقْتَ صَلَاۃٍ‘ وَأَخَّرَ ذٰلِکَ إِلٰی أَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ وَقْتُ الصَّلَاۃِ فَصَلَّی‘ وَھٰذَا بِحَضْرَۃِ سَائِرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ‘ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ الْوَقْتُ عِنْدَہٗ‘ وَقْتَ صَلَاۃٍ لِلطَّوَافِ‘ لَصَلَّی‘ وَلَمَا أَخَّرَ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ طَافَ بِالْبَیْتِ أَنْ لَا یُصَلِّیَ حِیْنَئِذٍ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ مُعَاذِ ابْنِ عَفْرَائَ مِثْلُ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٧٨٤ : ابن شہاب نے حمید بن عبدالرحمن بن عبدالقاری سے اسی طرح روایت کی ہے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے اس وقت نماز ادا نہ کی کیونکہ وہ ان کے ہاں نماز کا وقت نہ تھا اور اس کو مؤخر کیا یہاں تک کہ ان کے ہاں نماز کا وقت ہوگیا اور یہ فعل حضرت عمر (رض) اصحابِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک بڑی جماعت کی موجودگی میں انجام دیا اور ان میں سے کسی نے انکار نہ کیا ۔ اگر وہ ان کے ہاں رکعات طواف کا وقت ہوتا تو آپ اس وقت میں ادا فرماتے اور مؤخر نہ کرتے کیونکہ جو شخص طواف کرے تو اس کے بلا عذر نماز طواف کو مؤخر نہ کرنا چاہیے ۔ حضرت معاذ بن عفراء اور ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح منقول ہے اور اسی کتاب میں ہم یہ پہلے بیان کر آئے ہیں۔
حاصل روایات : یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے اس وقت رکعات طواف ادا نہیں کیں کیونکہ ان کے ہاں وہ نماز کا وقت نہ تھا اور اس کو مؤخر کیا یہاں تک کہ نماز کا وقت آیا تو انھوں نے نماز ادا کی اور یہ بہت سے صحابہ کرام کی موجودگی میں کیا لیکن کسی نے ان پر نکیر نہیں کی اگر وہ وقت طواف کی نماز کا ہوتا تو وہ ضرور نماز ادا کرلیتے اور مقام ذی طویٰ تک مؤخر نہ کرتے کیونکہ جو بیت اللہ کا طواف کرے اسے کسی عذر کے بغیر اس نماز کو مؤخر کرنا درست نہیں ہے اور اسی طرح کی روایت حضرت معاذ بن عفراء (رض) سے بھی منقول گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے۔ اسی طرح ابن عمر (رض) کی روایت ہم یہاں درج کرتے ہیں۔

3785

۳۷۸۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : أَنَا نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدِمَ مَکَّۃَ عِنْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ فَطَافَ وَلَمْ یُصَلِّ إِلَّا بَعْدَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ .وَالنَّظْرُ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا‘ لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (نَہٰی عَنْ صِیَامِ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ النَّحْرِ) ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ ذٰلِکَ فِیْ سَائِرِ الْبُلْدَانِ سَوَاء ٌ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ مَا نَہٰی عَنْہُ مِنَ الصَّلَوَاتِ‘ فِی الْأَوْقَاتِ الَّتِیْ نَہٰی عَنِ الصَّلَوَاتِ فِیْہَا‘ فِیْ سَائِرِ الْبُلْدَانِ کُلِّہَا عَلَی السَّوَائِ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ إِلَی اِبَاحَۃِ الصَّلَاۃِ لِلطَّوَافِ فِی الْأَوْقَاتِ الْمَنْہِیِّ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا .ثُمَّ افْتَرَقَ الَّذِیْنَ خَالَفُوْا أَہْلَ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی فِرْقَتَیْنِ .فَقَالَتْ فِرْقَۃٌ مِنْہُمْ : لَا یُّصَلِّی فِیْ شَیْئٍ مِنْ ھٰذِہِ الْخَمْسَۃِ الْأَوْقَاتِ لِلطَّوَافِ‘ کَمَا لَا یُّصَلِّی فِیْہَا لِلتَّطَوُّعِ‘ وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ وَافَقَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا رَوَیْنَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَمُعَاذِ ابْنِ عَفْرَائَ ‘ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : یُصَلَّی لِلطَّوَافِ بَعْدَ الْعَصْرِ‘ قَبْلَ اصْفِرَارِ الشَّمْسِ‘ وَبَعْدَ الصُّبْحِ‘ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ وَلَا یُصَلَّی لِذٰلِکَ فِی الْأَوْقَاتِ الثَّلَاثَۃِ الْبَوَاقِی الْمَنْہِیِّ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا‘ وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ‘ مُجَاہِدٌ‘ وَإِبْرَاہِیْمُ النَّخَعِیُّ‘ وَعَطَاء ٌ .
٣٧٨٥: حضرت نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) نماز صبح کے وقت مکہ میں آئے اور بیت اللہ کا طواف کیا مگر نماز طواف اس وقت ادا نہ کی یہاں تک کہ سورج طلوع ہوا۔ اس پر نظر کا تقاضا یہ ہے کہ ان اوقات ممنوعہ میں نمازوں کی ممانعت کا تعلق تمام شہروں سے برابر ہو ۔ اس سے ان لوگوں کا قول نادرست ثابت ہوا جو رکعات طواف کی ادائیگی کو اوقات ممنوعہ میں جائز قرار دیتے ہیں۔ پھر وہ حضرات جنہوں نے قول اول کے قائلین سے اختلاف کیا ان کی دو جماعتیں ہوگئیں۔ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ طواف کی ان رکعات کو ان پانچوں اوقات میں سے کسی میں بھی ادا نہ کیا جائے گا جیسا کہ نوافل کو ان پانچ اوقات میں پڑھا نہیں جاتا اور یہ قول امام ابوحنیفہ ابویوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے اور حضرت عمر ‘ معاذ بن عفراء اور ابن عمر (رض) کا قول بھی روایات میں اسی طرح ہے۔ ان میں سے دوسری جماعت نے کہا کہ طواف کی رکعات کو عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے سے پہلے ادا کرسکتے ہیں اور اسی طرح صبح کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں البتہ باقی تین اوقات میں ان کی ادائیگی نہیں کی جاسکتی یہ مجاہد ‘ ابراہیم نخعی ‘ عطاء اور تابعین (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : اس روایت سے بھی ثابت ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد اوقات ممنوعہ عن النفل میں نماز طواف درست نہیں۔
نظری دلیل :
نظر کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے یوم فطر و نحر کے روزوں سے منع فرمایا اور سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حکم مکہ سمیت تمام شہروں کا ہے پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ جن ا وقات میں نمازوں سے منع کیا گیا ہے یہ ممانعت بھی تمام شہروں کو شامل ہو۔ اس سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہوگئی جو نماز طواف کو اوقات ممنوعہ میں جائز قرار دینے والے ہیں۔
اب فریق ثانی میں دو جماعتیں بن گئیں ایک جماعت جس میں ائمہ احناف رحمہم اللہ ہیں کہ ان پانچ اوقات میں رکعات طواف بھی ادا نہیں کی جا سکتیں جیسا کہ نوافل ادا نہیں کئے جاسکتے اس کی دلیل میں حضرت عمر ‘ معاذ بن عفراء اور ابن عمر ] کی روایات ہیں۔
جبکہ دوسری جماعت جس میں امام مجاہد ‘ ابراہیم نخعی ‘ عطاء رحمہم اللہ شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ اوقات ثلاثہ میں تو ان رکعات کو ادا نہیں کیا جاسکتا البتہ عصر کے بعد اصفرار آفتاب سے پہلے اور فجر کے بعد طلوع سے پہلے تک رکعات طواف کو ادا کیا جاسکتا ہے۔

3786

۳۷۸۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ (طُفْ وَصَلِّ مَا کُنْتُ فِیْ وَقْتٍ‘ فَإِذَا ذَہَبَ الْوَقْتُ فَأَمْسِکْ) .
٣٧٨٦: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا طواف کرو اور نماز پڑھو جب تک وقت کی حدود میں ہو جب وقت چلا جائے تو رک جاؤ۔

3787

۳۷۸۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ غُنَیَّۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ مِثْلَہٗ .
٣٧٨٧: عبدالملک بن ابی سلیمان نے عطاء سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3788

۳۷۸۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ قَالَ (طُفْ) .قَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ (بَعْدَ الصُّبْحِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ‘ وَصَلِّ مَا کُنْتُ فِیْ وَقْتٍ) وَقَالَ ابْنُ رَجَائٍ : فِیْ وَقْتِ صَلَاۃِ .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٧٨٨: عثمان بن اسود نے مجاہد سے نقل کیا انھوں نے فرمایا طواف کرو عبیداللہ نے پوچھا صبح کے بعد اور عصر کے بعد اور جب تک وقت ہو نماز پڑھو۔ اور ابن رجاء نے نماز کے وقت کے اندر۔ اور اسی طرح کی روایت ابن عمر (رض) سے بھی ہے۔

3789

۳۷۸۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ غُنَیَّۃَ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَطُوْفُ بَعْدَ الْعَصْرِ‘ وَیُصَلِّیْ مَا کَانَتِ الشَّمْسُ بَیْضَائَ حَیَّۃً‘ فَإِذَا اصْفَرَّتْ وَتَغَیَّرَتْ‘ طَافَ طَوَافًا وَاحِدًا‘ حَتّٰی یُصَلِّیَ الْمَغْرِبَ‘ ثُمَّ یُصَلِّیْ وَیَطُوْفُ بَعْدَ الصُّبْحِ‘ وَیُصَلِّیْ مَا کَانَ فِیْ غَلَسٍ‘ فَإِذَا أَسْفَرَ‘ طَافَ طَوَافًا وَاحِدًا‘ ثُمَّ یَجْلِسُ حَتّٰی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ‘ وَیُمْکِنَ الرُّکُوْعُ .
٣٧٨٩: مجاہد سے مروی ہے کہ ابن عمر (رض) عصر کے بعد طعاف کرتے اور جب تک سورج سفید درست رہتا نماز پڑھتے رہتے جب زرد پڑجاتا اور اس میں تبدیلی پیدا ہوجاتی تو وہ ایک طواف کرتے یہاں تک کہ نماز مغرب ادا کرتے پھر نماز طواف ادا کرتے اور پھر صبح کے بعد طواف کرتے اور اندھیرے میں فجر کی نماز ادا کرتے جب روشنی ہوجاتی تو ایک طواف کرتے پھر طلوع آفتاب تک بیت اللہ میں بیٹھتے یہاں تک کہ نماز ممکن ہوجاتی۔

3790

۳۷۹۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : أَنَا مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ‘ عَنْ سَالِمٍ وَعَطَائٍ ‘ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَطُوْفُ بَعْدَ الصُّبْحِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ أُسْبُوعًا‘ وَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ‘ مَا کَانَ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ .فَھٰذَا عَطَاء ٌ‘ قَدْ قَالَ بِرَأْیِہٖ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (لَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا یَطُوْفُ بِھٰذَا الْبَیْتِ وَیُصَلِّیْ أَیَّ سَاعَۃٍ شَائَ ‘ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ) .فَقَدْ حُمِلَ ذٰلِکَ‘ عَلَی خِلَافِ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .وَکَانَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ - لَمَّا اخْتَلَفُوْا ھٰذَا الِاخْتِلَافَ - أَنَّا رَأَیْنَا طُلُوْعَ الشَّمْسِ وَغُرُوْبَہَا‘ وَنِصْفَ النَّہَارِ‘ یَمْنَعُ مِنْ قَضَائِ الصَّلَوَاتِ الْفَائِتَاتِ‘ وَبِذٰلِکَ جَائَ تِ السُّنَّۃُ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَرْکِہِ قَضَائَ الصُّبْحِ الَّتِیْ نَامَ عَنْہَا إِلَی ارْتِفَاعِ الشَّمْسِ وَبَیَاضِہَا) .فَإِذَا کَانَ مَا ذَکَرْنَا یَنْہَیْ عَنْ قَضَائِ الْفَرَائِضِ الْفَائِتَاتِ‘ فَہُوَ عَنِ الصَّلَوَاتِ لِلطَّوَافِ أَنْہَی .وَقَدْ قَالَ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ (ثَلاَثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَانَا أَنْ نُصَلِّیَ فِیْہِنَّ‘ وَأَنْ نَقْبُرَ فِیْہِنَّ مَوْتَانَا‘ حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَۃً حَتّٰی تَرْتَفِعَ‘ وَحِیْنَ یَقُوْمُ قَائِمُ الظَّہِیْرَۃِ حَتّٰی تَمِیْلَ‘ وَحِیْنَ تَضَیَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوْبِ حَتّٰی تَغْرُبَ) وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا .فَإِذَا کَانَتْ ھٰذِہِ الْأَوْقَاتُ تَنْہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ‘ فَالصَّلَاۃُ لِلطَّوَافِ أَیْضًا کَذٰلِکَ‘ وَکَذٰلِکَ کَانَتِ الصَّلَاۃُ بَعْدَ الْعَصْرِ قَبْلَ تَغَیُّرِ الشَّمْسِ‘ وَبَعْدَ الصُّبْحِ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ مُبَاحَۃً عَلَی الْجَنَائِزِ‘ وَمُبَاحَۃً فِیْ قَضَائِ الصَّلَاۃِ الْفَائِتَۃِ‘ وَمَکْرُوْہَۃً فِی التَّطَوُّعِ‘ وَکَانَ الطَّوَافُ یُوْجِبُ الصَّلَاۃَ حَتّٰی یَکُوْنَ وُجُوْبُہَا کَوُجُوْبِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُہَا بَعْدَ وُجُوْبِہَا‘ کَحُکْمِ الْفَرَائِضِ الَّتِیْ قَدْ وَجَبَتْ‘ وَحُکْمِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ الَّتِیْ قَدْ وَجَبَتْ .فَتَکُوْنُ الصَّلَاۃُ لِلطَّوَافِ‘ تُصَلَّیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ یُّصَلِّی فِیْہِ عَلَی الْجَنَائِزِ‘ وَتُقْضَیْ فِیْہِ الصَّلَاۃُ الْفَائِتَۃُ‘ وَلَا تُصَلَّیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ لَا یُّصَلِّی فِیْہِ عَلَی الْجَنَازَۃِ‘ وَلَا تُقْضَیْ فِیْہِ صَلَاۃٌ فَائِتَۃٌ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا‘ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ عَلٰی مَا قَالَ عَطَاء ٌ‘ وَإِبْرَاہِیْمُ‘ وَمُجَاہِدٌ‘ وَعَلٰی مَا قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَإِلَیْہِ نَذْہَبُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ .وَہُوَ خِلَافُ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٧٩٠: سالم وعطاء بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) صبح کے بعد طواف کرتے اور عصر کے بعد ایک ہفتہ طواف کرتے اور جب تک نماز کا وقت ہوتا طواف کی دو رکعت ادا کرتے یہ عطاء ہیں انھوں نے یہ اپنے اجتہاد سے کہا جو ہم نے بیان کیا ہے حالانکہ انھوں نے ابن عباس (رض) سے فصل اول میں روایت نقل کی ہے۔ جو اس کے خلاف ہے مگر ان کی رائے اس کے خلاف تھی جس کا اظہار انھوں نے مندرجہ بالا اثر میں کردیا۔
نظر طحاوی (رح) :
جناب رکعات طواف کے سلسلہ میں اختلاف ہوا تو ہم نے اس کو پاٹنے کے لیے غور کیا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب اور نصف النہار ‘ فوت شدہ نمازوں کو ادائیگی سے روک دیتے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ نماز فجر کی قضا میں یہی منقول ہے کہ آپ ارتفاع آفتاب تک رکے رہے جب قضا فرائض ممنوع ہوئے تو طواف کی رکعات بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوں گی اور عقبہ بن عامر (رض) کی روایت تین اوقات کے متعلق گزر چکی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں نماز پڑھنے اموات کو دفن کرنے (نمازِ جنازہ پڑھنا مراد ہے کیونکہ نماز کے بعد دفن ہوگا) جبکہ سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہوجائے اور جب دوپہر کا وقت یہاں تک کہ زوال ہوجائے اور جب سورج غروب کی طرف جھک رہا ہو یہاں تک کہ غروب ہوجائے۔ (مسلم فی المسافرین ٢٩٣) گزشتہ صفحات میں اوقات مکروہ کے باب میں یہ روایت ذکر ہوچکی۔
جب ان تین اوقات میں نماز جنازہ سے بھی روک دیا گیا تو طواف کی رکعات بھی لازماً ممنوع ہوں گی اسی طرح عصر کے بعد اصفرار آفتاب سے پہلے نماز اور صبح کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے نماز۔ ان دو اوقات میں نوافل کی ممانعت کردی گئی مگر جنائز کو مباح کردیا گیا اور فوت شدہ نمازوں کو بھی مباح قرار دیا گیا طواف کی رکعات نفل نہیں بلکہ واجب ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا وجوب نماز جنازہ کی طرح ہے۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ وجوب کے بعد ان کا حکم فرائض کی طرح ہو جو کہ لازم ہیں اور نماز جنازہ کی طرح ہو جو کہ واجب و لازم ہے۔ پس نماز طواف ہر اس وقت میں پڑھی جاسکتی ہے جس میں جنازہ جائز ہوسکتا ہے اور فوت شدہ نماز قضاء کی جاسکتی ہے اور ان اوقات میں نہیں پڑھ سکتے جن میں نہ جنازہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ نماز فائتہ ادا ہوسکتی ہے نظر کا یہی تقاضا ہے اس کو عطاء ابراہیم و مجاہد نے اختیار کیا اور ابن عمر (رض) کا قول ہے اور ہمارا اپنا رجحان بھی یہی ہے اور سفیان ثوری کا قول یہی ہے اور یہ ائمہ احناف کے قول کے خلاف ہے ہمارے متاخرین علماء میں علامہ عبدالحی (رح) نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
امام طحاوی (رح) نے اب تک جہاں اپنا رجحان ظاہر کیا وہاں صرف اشارہ اور کنایہ استعمال کیا مگر یہ پہلا موقعہ ہے کہ انھوں نے ” الیہ تذہب “ کہہ کر اپنے رجحان کی ترجمانی کی۔ کعات طواف کا وجوب بھی اسی کا متقاضی ہے۔

3791

۳۷۹۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْہَیْثَمِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَطَاء ٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَقُوْلُ : (لَا یَطُوْفُ أَحَدٌ بِالْبَیْتِ حَاجٌّ وَلَا غَیْرُہٗ إِلَّا حَلَّ بِہِ) .قُلْتُ لَہٗ : مِنْ أَیْنَ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَأْخُذُ ذٰلِکَ ؟ .قَالَ : مِنْ قِبَلَ قَوْلِہٖ تَعَالٰی (ثُمَّ مَحِلُّہَا إِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ) .فَقُلْتُ لَہٗ : (فَإِنَّمَا ذٰلِکَ بَعْدَ الْمُعَرَّفِ) قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَرَاہُ قَبْلَ الْمُعَرَّفِ وَبَعْدَہٗ.قَالَ : (وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَأْخُذُہَا مِنْ (أَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَہٗ أَنْ یُحِلُّوْا فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ قَالَہَا فِیْ غَیْرِ مَرَّۃٍ) .
٣٧٩١: عطاء نے خبر دی کہ ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے جو حاجی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا وہ اس سے حلال ہوسکتا ہے میں نے ان کو کہا ابن عباس (رض) نے یہ کہاں سے اخذ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے قول ثم محلھا الی البیت العتیق الحج۔ ٣٣) میں نے کہا یہ تو عرفات کے بعد کا تذکرہ ہے تو کہنے لگے ابن عباس (رض) کا خیال تھا کہ یہ عرفات سے پہلے اور بعد دونوں طرح درست ہے اور کہنے لگے ابن عباس (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس امر سے اخذ کرتے تھے جو آپ نے حجۃ الوداع میں حلال ہونے کا حکم دیا اور آپ نے یہ بات مجھے کئی مرتبہ فرمائی۔
احرام حج باندھ کر پھر اس احرام کو فسخ کر کے عمرہ کا احرام باندھ کر ارکان عمرہ ادا کرنا جائز ہے یا نہیں۔ ! امام احمد ‘ عطاء رحمہم اللہ احرام کو فسخ کر کے عمرے کا احرام باندھنا درست ہے " جبکہ امام ابوحنیفہ مالک ‘ شافعی رحمہم اللہ کے ہاں فسخ حج الی العمرہ کسی حال میں جائز نہیں۔ احرام حج کو باقی رکھ کر یوم نحر کی رمی کے بعد احرام کھولنا واجب ہے۔
یہ عطاء (رح) نے مذکورہ بات اپنے اجتہاد سے کہی ہے اور ابن عباس (رض) نے جناب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا :( لا تمنعوا احد اً یطوف بھذا البیت ویصلی ای ساعۃ شاء من لیل ونھار) کسی کو بھی اس گھر کے طواف اور نماز سے دن اور رات کی کسی گھڑی میں مت منع کرو ‘ اور اس ارشاد نبوت کو اول قول والوں کے خلاف محمول کیا گیا ہے۔ جب کہ ان کے مابین یہ اختلاف پایا جاتا ہے تو اس میں ہم نظر و فکر سے جانچتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب اور نصف النہار یہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء سے بھی مانع ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل نماز فجر کی قضاء کے سلسلہ میں یہی ہے کہ آپ نے سورج کے بلند اور سفید ہونے کا انتظار کیا جب فوت شدہ فرائض ممنوع ہیں تو طواف کی نماز تو ان اوقات میں بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگی اور حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں ہمیں نماز ادا کرنے اور مردوں کو دفن کرنے (یعنی نماز جنازہ پڑھنے ( سے منع فرمایا جب ! کہ سورج طلوع ہورہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے اور جب دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے اور جب سورج غروب کی طرف جھک رہا ہو یہاں تک کہ وہ غروب جائے۔ ہم نے یہ روایت اسناد کے ساتھ اسی کتاب میں ذکر کی ہے۔ جب ان اوقات میں نماز جنازہ بھی ممنوع ہے۔ تو رکعات طواف بھی اسی طرح ہیں اور اس طرح نماز عصر کے بعد سورج کی زردی سے پہلے اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے نماز جنازہ ‘ فوت شدہ نماز فجر جائز ہے اور نوافل مکروہ ہیں طواف کی وجہ سے نماز اسی طرح واجب ہے جیسا کہ نماز جنازہ۔ پس نظر وفکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا حکم وجوب کے بعد ان فرائض جیسا ہو جو لازم ہوچکے اور نماز جنازہ جیسا حکم ہو جو واجب ہوچکی پس طواف کی رکعات ان تمام اوقات میں پڑھی جاسکتی ہیں جن میں جنازہ کی نماز پڑھی جاسکتی ہے اور فوت شدہ نماز ان میں ادا ہوسکتی ہے اور ان اوقات میں درست نہیں جن میں نماز جنازہ نہیں پڑھی جاسکتی اور نہ اس میں فوت شدہ نماز ادا ہوسکتی ہو ۔ اس باب میں ہمارے ہاں نظر کا یہی تقاضا ہے۔ جیسا کہ عطاء اور ابراہیم اور مجاہد رحمہم اللہ کا قول ہے اور حضرت ابن عمر (رض) سے یہ مروی ہے اور اسی کی طرف میرا (طحاوی) رجحان ہے اور یہ سفیان ثوری (رح) کا قول ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
حج کے احرام کو اپنی مرضی سے فسخ کرنا اور اس پر عمرے کا احرام باندھنا درست ہے اس میں کچھ قباحت نہیں دلیل یہ مندرجہ بالا حدیث ہے۔

3792

۳۷۹۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ أَنَّ عُرْوَۃَ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : أَضْلَلْتُ النَّاسَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ : وَمَا ذَاکَ یَا عُرَیَّۃُ ؟ قَالَ : تُفْتِی النَّاسَ أَنَّہُمْ اِذَا طَافُوْا بِالْبَیْتِ فَقَدْ حَلُّوْا‘ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَجِیْئَانِ مُلَبِّیَیْنِ بِالْحَجِّ فَلاَ یَزَالَانِ مُحْرِمَیْنِ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ .قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : بِھٰذَا ضَلَلْتُمْ ؟ أُحَدِّثُکُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُوْنِیْ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ؟ فَقَالَ عُرْوَۃُ : (إِنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَا أَعْلَمَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْک) .
٣٧٩٢: ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عروہ نے ابن عباس (رض) سے کہا اے ابن عباس (رض) ! تم نے لوگوں کو گمراہ کردیا انھوں نے کہا اے عریۃ وہ کیا ہے ؟ عروہ نے کہا تم لوگوں کو فتویٰ دیتے ہو کہ جب وہ بیت اللہ کا طواف کرلیں تو حلال ہوجائیں گے حالانکہ ابوبکر و عمر (رض) حج کا تلبیہ کہتے ہوئے ائے اور یوم نحر تک احرام میں رہتے ابن عباس (رض) کہنے لگے اس سے تو تم گمراہ ہوئے میں تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کرتا ہوں اور تم مجھے ابوبکر و عمر ] کی بات کرتے ہو۔
عروہ کہنے لگے ابوبکر و عمر ] کو تم سے زیادہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق واقفیت تھی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤۔

3793

۳۷۹۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ أَخْبَرَنِیْ قَتَادَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ الرَّقَاشِیَّ‘ أَنَّ (رَجُلًا قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : یَا ابْنَ عَبَّاسٍ‘ مَا ھٰذِہِ الْفُتْیَا الَّتِیْ قَدْ تَفَشَّتْ عَنْکَ ؟ أَنَّ مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ فَقَدْ حَلَّ ؟ قَالَ : سُنَّۃُ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنْ رَغِمْتُمْ) .
٣٧٩٣: ابو حسان رقاشی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) کو کہا اے ابن عباس (رض) یہ کیا فتویٰ ہے جو تیری طرف سے مشہور ہوا کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کرلیا وہ حلال ہوگیا۔ وہ کہنے لگے یہ تمہارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے اگرچہ تم کو ناپسند ہو۔

3794

۳۷۹۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ .ح .
٣٧٩٤: علی بن معبد نے شبابہ بن سوار سے روایت نقل کی۔

3795

۳۷۹۵ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ .ح .
٣٧٩٥: حسین بن نصر نے عبدالرحمن بن زیاد سے روایت نقل کی ہے۔

3796

۳۷۹۶ : وَحَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : سَمِعْت طَارِقَ بْنَ شِہَابٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُنِیْخٌ بِالْبَطْحَائِ فَقَالَ لِیْ : بِمَ أَہْلَلْتُ؟ قَالَ قُلْتُ : أَہْلَلْت کَإِہْلَالِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَدْ أَحْسَنْتُ، طُفْ بِالْبَیْتِ‘ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ ثُمَّ أَحْلِلْ) فَفَعَلْت .فَأَتَیْتُ امْرَأَۃً مِنْ قَیْسٍ فَفَلَّتْ رَأْسِی فَکُنْتُ أُفْتِی النَّاسَ بِذٰلِکَ‘ حَتّٰی کَانَ زَمَانُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَقَالَ رَجُلٌ : یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ‘ رُوَیْدًا بَعْضَ فُتْیَاک‘ فَإِنَّک لَا تَدْرِیْ مَا أَحْدَثَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی النُّسُکِ بَعْدَک فَقُلْتُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ مَنْ کُنَّا أَفْتَیْنَاہُ فُتْیَا فَلْیَتَّئِدْ‘ فَإِنَّ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ قَادِمٌ فَبِہٖ فَائْتَمُّوْا .فَلَمَّا قَدِمَ عُمَرُ أَتَیْتُہٗ ‘ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ‘ فَقَالَ لِیْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : (إِنْ نَأْخُذْ بِکِتَابِ اللّٰہِ‘ فَإِنَّ کِتَابَ اللّٰہِ یَأْمُرُنَا بِالْاِتْمَامِ وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَحِلَّ حَتّٰی بَلَغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ) .
٣٧٩٦: ابن شہاب نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی بطحاء میں بٹھانے والے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے کیا کیا احرام باندھا ؟ میں نے کہا میں نے وہی احرام باندھا جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے خوب کیا۔ بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا مروہ کی سعی کر کے حلال ہوجاؤ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر میں قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اس نے میرے تھوڑے سے بال لیے (کاٹے) میں لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا کہ حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ عمر (رض) کا زمانہ آیا تو ایک شخص نے کہا اے عبداللہ بن قیس اپنے فتویٰ کو چھوڑ دو تمہیں معلوم نہیں کہ امیرالمؤمنین نے تیرے بعد کون سی نئی بات پیدا کی چنانچہ میں نے کہا اے لوگو ! میں نے جن کو فتویٰ دیا سو دیا اب امیرالمؤمنین تشریف لا رہے ہیں ان کی اقتداء کرو پس جب عمر (رض) آگئے تو میں ان کی خدمت میں آیا اور اس بات کا ان کے سامنے تذکرہ کیا تو عمر (رض) فرمانے لگے ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں تکمیل کا حکم دیا ہے اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنانا چاہیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ ہدی اپنے حلال کے مقام تک نہیں پہنچی یعنی نحر کے دن رمی کے بعد۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٢‘ مسلم فی الحج ١٥٤۔

3797

۳۷۹۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْمَدِیْنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : دَخَلْنَا عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فَسَأَلْتُہٗ عَنْ حَجَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَثَ تِسْعَ سِنِیْنَ لَمْ یَحُجَّ‘ ثُمَّ أُذِّنَ فِی النَّاسِ فِی الْعَاشِرَۃِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ .فَقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ بَشَرٌ کَثِیْرٌ یَلْتَمِسُ أَنْ یَأْتَمَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَرَجْنَا حَتّٰی اِذَا أَتَیْنَا ذَا الْحُلَیْفَۃِ‘ فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ رَکِبَ الْقَصْوَائَ ‘ حَتّٰی اِذَا اسْتَوَتْ بِہٖ عَلَی الْبَیْدَائِ ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا وَیَنْزِلُ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ وَہُوَ یَعْرِفُ تَأْوِیْلُہُ‘ مَا عَمِلَ مِنْ شَیْئٍ عَمِلْنَا بِہٖ، فَأَہَلَّ بِالتَّوْحِیْدِ وَأَہَلَّ النَّاسُ بِھٰذَا الَّذِیْ یُہِلُّوْنَ بِہٖ، وَلَمْ یَرُدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ شَیْئًا‘ وَلَزِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَلْبِیَتَہٗ۔ قَالَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : لَسْنَا نَنْوِی إِلَّا الْحَجَّ‘ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَۃَ‘ حَتّٰی اِذَا کُنَّا آخِرَ طَوَافٍ عَلَی الْمَرْوَۃِ قَالَ إِنِّیْ لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا سُقْتُ الْہَدْیَ‘ وَلَجَعَلْتُہَا عُمْرَۃً‘ فَمَنْ کَانَ لَیْسَ مَعَہٗ ہََدْیٌ فَلْیَحْلِلْ وَلْیَجْعَلْہَا عُمْرَۃً .فَحَلَّ النَّاسُ‘ وَقَصَّرُوْا إِلَّا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَمَنْ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ .فَقَامَ سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جَعْشَمٍ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ عُمْرَتُنَا ھٰذِہِ لِعَامِنَا ھٰذَا‘ أَمْ لِلْأَبَدِ ؟ فَقَالَ : فَشَبَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَہُ فِی الْأُخْرَی فَقَالَ دَخَلَتَ الْعُمْرَۃُ‘ ہَکَذَا‘ فِی الْحَجِّ مَرَّتَیْنِ .فَحَلَّ النَّاسُ کُلُّہُمْ وَقَصَّرُوْا‘ إِلَّا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَمَنْ کَانَ مَعَہٗ ہََدْیٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَقَوْلُ سُرَاقَۃَ ھٰذَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَجَوَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ‘ یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِہِ عُمْرَتَنَا ھٰذِہٖ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ لِلْأَبَدِ‘ أَوْ لِعَامِنَا ھٰذَا‘ لِأَنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْرِفُوْنَ الْعُمْرَۃَ فِیْمَا مَضَیْ فِیْ أَشْہُرِ الْحَجِّ‘ وَیَعُدُّوْنَ ذٰلِکَ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُوْرِ .فَأَجَابَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ " ہِیَ لِلْأَبَدِ " .
٣٧٩٧: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے ہاں گئے اور ان سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کے سلسلہ میں پوچھا تو کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو سال مدینہ منورہ میں ٹھہرے اور آپ نے حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں حج کا اعلان کردیا کہ میں حج کو جا رہا ہوں یہ خبر سن کر بہت سے لوگ مدینہ منورہ پہنچے ان کی طلب یہ تھی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہنمائی میں حج کریں چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ میں پہنچے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں نماز ادا فرمائی۔ پھر آپ قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مقام بیداء پر بلند ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے اور ان پر قرآن مجید اترتا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تفسیر جانتے تھے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمل کیا ہم نے اس پر عمل کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیلا احرام باندھا اور لوگوں نے یہی احرام باندھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی کسی چیز کی تردید نہیں فرمائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلبیہ لازم کرلیا۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم صرف حج کی نیت کرنے والے تھے ہم عمرہ کو نہ جانتے تھے یہاں تک کہ جب ہم نے مروہ کا آخری چکر لگایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر مجھے اپنی اس بات کا پہلے علم ہوتا جو بعد کو معلوم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا اور میں اس کو عمرہ بنا لیتا پس جس کے ساتھ ہدی موجود نہیں وہ حلال ہوجائے اور اس کو عمرہ بنا لے پھر لوگوں نے احرام کھول لیے اور قصر کرلیا سوائے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی موجود تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ حضرت سراقہ (رض) کا جناب اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کو جواب یک یہ احتمال رکھتا ہے کہ ہمارا یہ عمرہ حج کے مہینوں میں ہمیشہ کے لیے ہو یا ہمارے اسی سال کے لیے ہو ۔ کیونکہ وہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرے کو درست قرار نہ دیتے تھے بلکہ اس کو افجر الفجرر قرار دیتے تھے ۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو جواب دیا کہ یہ ہمیشہ کے لیے اشہر حج میں ہے۔
اس وقت سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) نے کھڑے ہو کر کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارا یہ عمرہ فقط ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لئے۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور فرمایا عمرہ حج میں اس طرح داخل ہوچکا۔ یہ بات دو مرتبہ فرمائی پس تمام لوگوں نے احرام کھول دیئے اور قصر کرا لیے سوائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور وہ جن کے پاس ہدی کے جانور موجود تھے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٤٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣۔
طحاوی (رح) کا قول :
سراقہ کا سوال اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہمارا یہ عمرہ ہمیشہ کے لیے یا صرف ہمارے اس سال کے لیے حج میں داخل ہوا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمیشہ کے لئے۔ کیونکہ وہ لوگ عمرے کو حج کے مہینوں میں گناہ کا کام سمجھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی مذمت فرمائی۔

3798

۳۷۹۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنِ ابْنِ الْہَادِ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ سُؤَالَ سُرَاقَۃَ وَلَا جَوَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ .
٣٧٩٨: ابن الہاد نے جعفر بن محمد سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت ذکر کی البتہ اس میں سراقہ کا سوال اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب مذکور نہیں ہے۔

3799

۳۷۹۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ لِأَرْبَعٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ .فَلَمَّا طَافُوْا بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِجْعَلُوْہَا عُمْرَۃً) فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ لَبَّوْا‘ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ‘ قَدِمُوْا فَطَافُوْا بِالْبَیْتِ‘ وَلَمْ یَطُوْفُوْا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ .
٣٧٩٩: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ تشریف لائے جبکہ ذی الحجہ کے چار دن گزر چکے تھے جب آپ نے طواف اور سعی کرلی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو عمرہ بنا لو جب ترویہ کا دن آیا تو انھوں نے حج کا تلبیہ کہا۔ جب نحر کا دن آیا وہ آئے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی نہ کی۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣۔

3800

۳۸۰۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ حَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ‘ صَبِیْحَۃَ رَابِعَۃٍ‘ فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ‘ قُلْنَا : أَیُّ حِلٍّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .قَالَ الْحِلُّ کُلُّہٗ، فَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَصَنَعْتُ مِثْلَ الَّذِیْ تَصْنَعُوْنَ) .
٣٨٠٠: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ آئے یہ ٤ ذی الحجہ تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حلال ہونے کا حکم دیا ہم نے کہا کیسا حلال ہوں ؟ آپ نے فرمایا مکمل طور پر حلال ہوجاؤ۔ اگر مجھے اس معاملے کا پہلے علم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا تو میں اسی طرح کرتا جیسا تم کرنے والے ہو۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ مسلم فی الحج ١٣٦؍١٣٨‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣‘ نسائی فی الحج باب ٥٨؍٧٧‘ مسند احمد ٣؍٢٩٢۔

3801

۳۸۰۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ الرُّعَیْنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَعْیَنَ‘ عَنْ خُصَیْفٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (لَمَّا قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ سَأَلَ النَّاسَ بِمَا أَحْرَمْتُمْ ؟ فَقَالَ أُنَاسٌ أَہْلَلْنَا بِالْحَجِّ وَقَالَ آخَرُوْنَ قَدِمْنَا مُتَمَتِّعِیْنَ وَقَالَ آخَرُوْنَ أَہْلَلْنَا بِإِہْلَالِک یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ قَدِمَ وَلَمْ یَسُقْ ہَدْیًا فَلِیَحْلِلْ‘ فَإِنِّیْ لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقَ الْہَدْیَ‘ حَتّٰی أَکُوْنَ حَلَالًا .فَقَالَ سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنُ جَعْشَمٍ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ عُمْرَتُنَا ھٰذِہٖ لِعَامِنَا‘ أَمْ لِلْأَبَدِ ؟ فَقَالَ بَلْ لِأَبَدِ الْأَبَدِ) .
٣٨٠١: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع میں مکہ پہنچے تو لوگوں سے سوال کیا تم نے کیا احرام باندھا ؟ کچھ لوگوں نے کہا ہم نے حج کا احرام باندھا ہے دوسروں نے کہا ہم نے تمتع کا ارادہ کیا اور کچھ لوگوں نے کہا ہم نے وہی احرام باندھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا جو حج کے لیے آیا اور اس نے ہدی روانہ نہیں کی وہ حلال ہوجائے میں اگر اپنے معاملے کو پہلے جانتا ہوتا جو مجھے بعد میں معلوم ہوا تو میں بھی ہدی روانہ نہ کرتا یہاں تک کہ میں حلال ہوجاتا اس پر سراقہ بن مالک نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہمارا یہ عمرہ ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے (حج کے ساتھ ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٤١۔

3802

۳۸۰۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ (أَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَہْلَلْنَا مَعَہٗ بِالْحَجِّ خَالِصًا‘ حَتّٰی اِذَا قَدِمْنَا مَکَّۃَ رَابِعَۃَ ذِی الْحِجَّۃِ‘ فَطُفْنَا بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ ثُمَّ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَکُنْ سَاقَ ہَدْیًا أَنْ یَحِلَّ‘ قَالَ : وَلَمْ یَعْزِمْ فِیْ أَمْرِ النِّسَائِ .قَالَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَقُلْنَا تَرَکَنَا‘ حَتّٰی اِذَا لَمْ یَکُنْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ عَرَفَۃَ إِلَّا خَمْسُ لَیَالٍ‘ أَمَرَنَا نَحِلُّ‘ فَنَأْتِیَ عَرَفَاتٍ وَالْمَذْیُ یَقْطُرُ مِنْ مَذَاکِیْرِنَا‘ وَلَمْ یَحْلِلْ ہُوَ‘ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ سَاقَ الْہَدْیَ .فَبَلَغَ قَوْلُنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ‘ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہٖ‘ ثُمَّ ذَکَرَ الَّذِیْ بَلَغَہٗ مِنْ قَوْلِہِمْ فَقَالَ لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّیْ أَصْدَقُکُمْ وَأَتْقَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَبَرُّکُمْ‘ وَلَوْلَا أَنِّیْ سُقْتُ الْہَدْیَ لَحَلَلْتُ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا أَہْدَیْتُ) .قَالَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا فَحَلَلْنَا .
٣٨٠٢: عطاء بن ابی رباح نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام باندھا اور ہم نے آپ کے ساتھ خالص حج کا احرام باندھا یہاں تک کہ جب ہم مکہ پہنچے تو چار ذی الحجہ تھی ہم نے طواف اور سعی صفاء مروہ کی۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا جس نے ہدی روانہ نہیں کی وہ حلال ہوجائے۔ جابر (رض) کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کے متعلق کوئی مستقل بات نہیں فرمائی۔ جابر (رض) کہتے ہیں ہم نے کہا ہم تو چھوڑ دیئے گئے جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہوجائیں ہم نے کہا ہم عرفات میں آئیں گے اس حال میں کہ مذی ہمارے مذاکیر سے ٹپک رہی ہوگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام نہ کھولا اس لیے کہ آپ ہدی روانہ کرچکے تھے۔
ہماری بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا تذکرہ کیا جو ہماری طرف سے پہنچی تھی آپ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ میں تم میں سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ تقویٰ والا ہوں اور سب سے زیادہ نیکی والا ہوں اگر میں نے ہدی روانہ نہ کی ہوتی تو میں ضرور حلال ہوجاتا۔ اور اگر مجھے اپنے اس معاملے کا پہلے علم ہوتا جو بعد کو علم ہوا تو میں ہدی روانہ ہی نہ کرتا۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم سنا اور مان لیا اور احرام کھول دیا۔

3803

۳۸۰۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَکِّیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرًا وَہُوَ یُخْبِرُ عَنْ حَجَّۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (أَمَرَنَا بَعْدَمَا طُفْنَا أَنْ نَحِلَّ‘ وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تَنْطَلِقُوْا إِلَی مِنًی‘ فَأَہِّلُوْا) فَأَہْلَلْنَا مِنَ الْبَطْحَائِ) .
٣٨٠٣: ابوالزبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) سے سنا وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کے متعلق اطلاع دے رہے تھے۔ جابر (رض) کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں طواف کے بعد حلال ہونے کا حکم فرمایا۔ اور ارشاد فرمایا۔ جب تم منیٰ کا ارادہ کرو تو احرام باندھ لو چنانچہ ہم نے بطحاء سے احرام باندھا۔
تخریج : مسلم فی الحج ١٣٩۔

3804

۳۸۰۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ عَطَائٍ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (أَہْلَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ بِالْحَجِّ خَالِصًا‘ لَا نَخْلِطُہٗ بِعُمْرَۃٍ .فَقَدِمْنَا مَکَّۃَ لِأَرْبَعِ لَیَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ‘ فَلَمَّا طُفْنَا بِالْبَیْتِ‘ وَسَعَیْنَا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَہَا عُمْرَۃً‘ وَأَنْ نَخْلُوَ إِلَی النِّسَائِ .فَقُلْنَا : لَیْسَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ عَرَفَۃَ إِلَّا خَمْسُ لَیَالٍ‘ فَنَخْرُجُ إِلَیْہَا وَذَکَرُ أَحَدِنَا یَقْطُرُ مَنِیًّا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنِّیْ لَأَبَرُّکُمْ وَأَصْدَقُکُمْ‘ فَلَوْلَا الْہَدْیُ‘ لَحَلَلْت .فَقَامَ سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جَعْشَمٍ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مُتْعَتُنَا ھٰذِہِ‘ لِعَامِنَا ھٰذَا أَمْ لِلْأَبَدِ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ بَلْ لِأَبَدِ الْأَبَدِ) .فَکَانَ سُؤَالُ سُرَاقَۃَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَذْکُوْرُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ إِنَّمَا ہُوَ عَلَی الْمُتْعَۃِ‘ أَیْ : إِنَّا قَدْ صَارَتْ حَجَّتُنَا الَّتِیْ کُنَّا دَخَلْنَا أَوَّلًا‘ عُمْرَۃً‘ ثُمَّ قَدْ أَحْرَمْنَا بَعْدَ حِلِّنَا مِنْہَا بِحَجَّۃٍ فَصِرْنَا مُتَمَتِّعِیْنَ‘ فَمُتْعَتُنَا ھٰذِہِ لِعَامِنَا ھٰذَا خَاصَّۃً‘ فَلاَ نَفْعَلُ ذٰلِکَ فِیْمَا بَعْدُ أَمْ لِلْأَبَدِ ؟ فَنَتَمَتَّعُ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ‘ کَمَا تَمَتَّعْنَا فِیْ عَامِنَا ھٰذَا ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلْ لِلْأَبَدِ " .وَلَیْسَ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ لَہُمْ فِیْمَا بَعْدُ أَنْ یَحِلُّوْا مِنْ حَجَّۃٍ قَبْلِ عَرَفَۃَ‘ لِطَوَافِہِمْ بِالْبَیْتِ‘ وَلِسَعْیِہِمْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ .وَسَنَذْکُرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا بَعْدَ ھٰذَا مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْاِحْلَالَ الَّذِیْ کَانَ مِنْہُمْ قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ خَاصًّا لَہُمْ‘ لَیْسَ لِمَنْ بَعْدَہُمْ‘ وَنَضَعُہٗ فِیْ مَوْضِعِہٖ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٣٨٠٤: عطاء نے جابر (رض) کو بیان کرنے سنا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ذوالحلیفہ سے فقط حج کا احرام باندھا اس میں ہم نے عمرہ کی ملاوٹ نہ کی۔ ذی الحجہ کی چار تاریخ کو ہم مکہ پہنچے جب ہم طواف سے فارغ ہوچکے اور صفاء ومروہ کے مابین سعی بھی کرلی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ ہم اس کو عمرہ بنالیں اور عورتوں سے خلوت کی بھی اجازت دی۔ ہم نے کہا ہمارے اور عرفہ کے درمیان اب صرف پانچ راتیں باقی ہیں تو کیا ہم عرفات اس حالت میں جائیں گے کہ ہمارے مذاکیر سے منی کے قطرات ٹپک رہے ہوں گے اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تم میں سب سے زیادہ نیک اور سچا ہوں۔ اگر ہدی نہ ہوتی تو میں بھی حلال ہوجاتا۔ یہ بات سن کر سراقہ بن مالک کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اس کو ہمارے اس سال کے لیے تمتع بنادیا یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ تو حضرت سراقہ (رض) کا وہ سوال جو اس روایت میں مذکور ہے۔ وہ حج تمتع سے متعلق تھا یعنی ہم اپنے اس حج میں سے پہلے عمرہ میں داخل ہوئے پھر اس سے حلال ہونے کے بعد ہم نے حج کا احرام باندھا اس سے ہم متمتع بن گئے تو کیا یہ ہمارا تمتع اس سال کے ساتھ خاص ہے کہ اسے آئندہ نہ کریں یا ہمیشہ کے لیے ہے ہم عمرہ کو حج کے ساتھ کریں گے جیسا اس سال ہم نے تمتع کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ ہمیشہ کے لیے یہ اسی طرح ہے۔ یہ بات اس طرح نہ تھی کہ ان کے لیے جائز ہے کہ وہ حج سے عرفات سے پہلے ہی طواف بیت اللہ سعی صفاومروہ کر کے فارغ ہوجائیں عنقریب ہم اپنی اسی کتاب میں یہ ذکر کریں گے کہ ان کا یہ حلال ہونا جو عرفہ سے پہلے پیش آیا یہ انہی کے ساتھ خاص تھا یہ بعد والوں کے لیے درست نہیں ہم اسے اس کے موقعہ پر بیان کریں گے۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٤١۔
قول طحاوی (رح) :
اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ سراقہ (رض) کا سوال متعہ حج کے سلسلہ میں تھا کہ ہمارا یہ حج جس کی ابتداء ہم نے عمرہ سے کی پھر ہم اس سے حلال ہو کر حج کا احرام باندھیں گے تو اس سے ہم متمتع ہوجائیں گے کیا یہ تمتع ہمارے اسی سال کے ساتھ خاص ہے کہ بعد میں ہم نہیں کرسکتے یا ہمیشہ کے لیے ہے کیا ہم عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کریں جیسا کہ ہم نے اس سال تمتع کیا ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے لیے بعد میں یہ حکم ہے کہ حج کے احرام سے عرفہ سے پہلے طواف بیت اللہ اور سعی صفا سے حلال ہوں۔ عنقریب ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کریں گے کہ حکم انہی کے لیے خاص تھا بعد والوں کے لیے نہ تھا۔ ہم یہ اپنے موقعہ پر ذکر کریں گے۔

3805

۳۸۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ‘ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ وَأَصْحَابَہُ قَدِمُوْا مَکَّۃَ مُلَبِّیْنَ بِالْحَجِّ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ شَائَ أَنْ یَجْعَلَہَا عُمْرَۃً‘ إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ) .
٣٨٠٥: بکر بن عبداللہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام مکہ میں حج کا تلبیہ کہتے ہوئے آئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جو چاہے اس کو عمرہ بنا لے البتہ وہ شخص عمرہ نہیں بنا سکتا جس کے ساتھ ہدی ہو۔

3806

۳۸۰۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : خَرَجْنَا وَلَا نَرَی إِلَّا أَنَّہٗ الْحَجُّ‘ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ‘ طَافَ وَلَمْ یَحِلَّ‘ وَکَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ‘ فَطَافَ مَنْ مَعَہُ مِنْ نِسَائِہِ وَأَصْحَابِہٖ، فَحَلَّ مِنْہُمْ مَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ الْہَدْیُ) .
٣٨٠٦: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے ہم مدینہ سے نکلے ہمارے خیال میں صرف حج تھا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ پہنچے اور طواف کر کے آپ نے احرام نہ کھولا اور آپ کے ساتھ ہدی تھی آپ کے ساتھ جو اصحاب اور ازواج تھیں انھوں نے بھی طواف کیا پس وہ تو حلال ہوگئے جن کے ساتھ ہدی نہ تھی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤۔

3807

۳۸۰۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : خَرَجْنَا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ نَصْرُخُ بِالْحَجِّ صُرَاخًا‘ فَلَمَّا قَدِمْنَا طُفْنَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اجْعَلُوْہَا عُمْرَۃً‘ إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ فَلَمَّا کَانَ عَشِیَّۃُ عَرَفَۃَ‘ أَہْلَلْنَا بِالْحَجِّ) .
٣٨٠٧: ابو نضرہ نے ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت کی کہ ہم مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے حج کا تلبیہ کہہ رہے تھے جب ہم مکہ پہنچ گئے اور طواف کرلیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو عمرہ بنا لو۔ سوائے اس شخص کے کہ جس کے پاس ہدی ہو۔ جب عرفہ کی رات ہوئی تو ہم نے حج کا احرام باندھا۔

3808

۳۸۰۸ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أُمِّہِ‘ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ مُہِلِّیْنَ بِالْحَجِّ‘ وَکَانَ مَعَ الزُّبَیْرِ الْہَدْیُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہٖ مَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ الْہَدْیُ فَلِیَحْلِلْ) .قَالَتْ : فَلَمْ یَکُنْ مَعِیْ عَامَئِذٍ‘ ہَدْیٌ‘ فَأَحْلَلْت .
٣٨٠٨: عبدالرحمن نے اپنی والدہ سے انھوں نے اسماء بنت ابی بکر (رض) سے کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ حج کا تلبیہ کہتے آئے اور حضرت زبیر (رض) کے ساتھ ہدی تھی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام کو فرمایا۔ جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ حلال ہوجائے۔ اسماء کہتی ہیں کہ میرے پاس اس سال ہدی نہ تھی اس لیے میں نے احرام کھول دیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٤١۔

3809

۳۸۰۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ بِالْمَدِیْنَۃِ أَرْبَعًا‘ وَصَلَّی الْعَصْرَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ رَکْعَتَیْنِ‘ وَبَاتَ بِہَا حَتّٰی أَصْبَحَ‘ فَلَمَّا صَلَّی الصُّبْحَ‘ رَکِبَ رَاحِلَتَہٗ‘ فَلَمَّا انْبَعَثَتْ بِہٖ، سَبَّحَ وَکَبَّرَ‘ حَتّٰی اِذَا اسْتَوَتْ بِہٖ عَلَی الْبَیْدَائِ جَمَعَ بَیْنَہُمَا فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ أَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَحِلُّوْا) ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ أَہَلُّوْا بِالْحَجِّ .
٣٨٠٩: ابو قلابہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز مدینہ منورہ میں چار رکعت ادا فرمائی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں دو رکعت ادا کی اور وہیں رات گزاری جب صبح ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز ادا فرما چکے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے جب اونٹنی آپ کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تسبیح اور تکبیر کہی جب اونٹنی مقام بیداء پر بلند ہوئی تو تسبیح و تکبیر کو اکٹھا کہا جب ہم مکہ پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ وہ احرام کھول دیں اور جب ترویہ کا دن آئے تو احرام حج باندھ لیں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٢٧۔

3810

۳۸۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ مَلِیْحٍ‘ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : (حَجَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْنَا عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَنْزِعُ ثِیَابَہَا .فَقَالَ لَہَا مَا لَک قَالَتْ : أُنْبِئْتُ أَنَّک قَدْ أَحْلَلْتُ وَأَحْلَلْتُ أَہْلَک .فَقَالَ : أَحَلَّ مَنْ لَیْسَ مَعَہٗ ہََدْیٌ‘ فَأَمَّا نَحْنُ فَلَمْ نَحْلِلْ لِأَنَّ مَعَنَا ہَدْیًا حَتّٰی نَبْلُغَ عَرَفَاتٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَقَلَّدُوْہَا‘ وَقَالُوْا : مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ قَبْلَ وُقُوْفِہِ بِعَرَفَۃَ‘ وَلَمْ یَکُنْ سَاقَ ہَدْیًا‘ فَقَدْ حَلَّ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَیْسَ لِأَحَدٍ دَخَلَ فِیْ حَجَّۃٍ أَنْ یَخْرُجَ مِنْہَا إِلَّا بِتَمَامِہَا‘ وَلَا یُحِلُّہُ مِنْہَا شَیْء ٌ قَبْلَ یَوْمِ النَّحْرِ‘ مِنْ طَوَافٍ وَلَا غَیْرِہٖ۔ وَقَالُوْا : أَمَّا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (ثُمَّ مَحِلُّہَا إِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ) فَھٰذَا فِی الْبُدْنِ لَیْسَ فِی الْحَاجِّ‘ وَمَعْنَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ہَاہُنَا‘ ہُوَ الْحَرَمُ کُلُّہٗ، کَمَا قَالَ فِی الْآیَۃِ الْأُخْرَی : (حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ) فَالْحَرَمُ ہُوَ مَحِلُّ الْہَدْیِ‘ لِأَنَّہٗ یُنْحَرُ فِیْہٖ‘ فَأَمَّا بَنُو آدَمَ‘ فَإِنَّمَا مَحِلُّہُمْ فِیْ حَجِّہِمْ یَوْمُ النَّحْرِ .وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ مِنَ الْآثَارِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَمْرِہِ أَصْحَابَہٗ بِالْحِلِّ مِنْ حَجِّہِمْ‘ بِطَوَافِہِمْ الَّذِیْ طَافُوْہُ قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - کَانَ خَاصًّا لَہُمْ فِیْ حَجَّتِہِمْ تِلْکَ‘ دُوْنَ سَائِرِ النَّاسِ بَعْدَہُمْ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ مَا۔
٣٨١٠: ابو ملیح نے معقل بن یسار (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا ہم نے عائشہ (رض) کو احرام کے کپڑے اتارتے ہوئے پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تجھے کیا ہوا ؟ انھوں نے جواب دیا۔ مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے احرام کھول دیا اور آپ کے گھروالوں نے بھی احرام کھول دیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ وہ حلال ہوئے ہیں جن کے پاس ہدی کا جانور نہیں ہے باقی ہم حلال نہ ہوں گے کیونکہ ہمارے پاس ہدی ہیں۔ ہم تو عرفات پہنچ کر (یعنی یوم نحر کو ہدی نحر کر کے احرام کھولیں گے) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض نے ان آثار کو اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جس نے وقوف عرفات سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرلیا اور اس نے ہدی روانہ نہ کیا تھا وہ احرام سے فارغ ہوگیا۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ۔ جو شخص حج کا احرام باندھ لے اسے تکمیل کے بغیر اس سے نکلنا جائز نہیں اور نحر کے دن سے پہلے اس کو طواف وغیرہ کوئی چیز بھی احرام سے فارغ نہیں کرسکتی اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ تم نے جو اللہ تعالیٰ کا ارشاد (ثم محلھا الی البیت العتیق) ذکر کیا ہے ‘ یہ تو ہدایا سے متعلق ہے نہ کہ حجاج سے اور البیت العتیق سے مراد مکمل سرزمین حرم ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں آیا ہے۔ (حتی یبلغ الھدی محلہ) پس سرزمین حرم وہ ھدی کے ذبح ہونے کی جگہ ہے کیونکہ وہیں اس کو نحر کیا جائے گا۔ البتہ انسان (حجاج) کے حج سے حلال ہونے کی جگہ نحر کا دن ہے۔ رہے وہ آثار جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام کے سلسلہ میں ہم نے ذکر فرمایا کہ وہ طواف کے ذریعہ اپنے حج سے حلال ہوگئے وہ طواف جو انھوں نے عرفہ سے قبل کیا تھا ہمارے نزدیک یہ ان کی خصوصیت صرف اس حج کے لیے تھی ۔ بعد والے لوگوں کے لیے یہ حکم نہیں اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے احرام حج یا عمرہ باندھا ہو اور ساتھ ہدی نہ ہو تو طواف و سعی کے بعد وہ اپنے احرام کو کھول سکتا ہے۔ یعنی حج کے احرام کو تبدیل کر کے عمرہ بنا سکتا ہے جیسا کہ یہاں ان سب لوگوں نے کیا جن کے پاس ہدی نہ تھی۔
مؤقف فریق ثانی :
حج کا احرام باندھ لینے کے بعد اس کو مکمل کرنے سے پہلے بدلنے کا حق نہیں یوم نحر سے پہلے اس کے لیے کوئی صورت حلال ہونے کی نہیں خواہ ہدی ساتھ ہو یا نہ ہو۔ البتہ عمرہ والا اپنے احرام سے فارغ ہو سکت ا ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب نمبر 1:
باقی تم نے : ثم محلہا الی البیت العتیق۔ (الحج : ٣٣) اس آیت کو پیش کیا تو اس سے استدلال درست نہیں کیونکہ یہ قربانی کے جانوروں کے متعلق ہے حجاج کے متعلق نہیں ہے اور بیت عتیق سے سارا حرم مراد ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا حتی یبلغ الہدی محلہ (البقرہ : ١٩٦) تو یہاں بالاتفاق حرم مراد ہے کیونکہ ہدی حرم میں نحر کی جاتی ہے البتہ انسان کا حلال ہونا تو یوم نحر ہی کو ہے۔
نمبر 2: جو روایات ذکر کی گئی ہیں کہ صحابہ کرام (رض) اپنے حج سے حلال ہوئے اور اس کا سبب وہ طواف تھا جو انھوں نے عرفہ سے پہلے ادا کیا تو یہ صحابہ کرام کے لیے خصوصی حکم اس موقعہ پر نازل ہوا بعد والے لوگوں کے لیے نہیں اور اس کی دلیل ملاحظہ ہو۔

3811

۳۸۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ أَبِیْ إِسْرَائِیْلَ‘ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنِ ابْنِ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَرَأَیْتُ فَسْخَ حَجِّنَا ھٰذَا‘ لَنَا خَاصَّۃً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّۃً .قَالَ : بَلْ لَکُمْ خَاصَّۃً) .
٣٨١١: ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے ابن بلال بن حارث سے انھوں نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ہمارا یہ حج فسخ ہوجائے گا اور یہ فسخ ہمارے ساتھ خاص ہوگا یا عام لوگوں کے لیے یہی حکم ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ تمہارے ساتھ خاص ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٤٢۔

3812

۳۸۱۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَبِیْعَۃَ بْنَ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُحَدِّثُ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ مِثْلَہٗ .
٣٨١٢: ربیعہ بن ابو عبدالرحمن نے حارث بن بلال بن حارث مزنی سے انھوں نے اپنے والد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3813

۳۸۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِیْ إِسْرَائِیْلَ‘ قَالَ : أَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنِ الْمُرَقِّعِ بْنِ صَیْفِیٍّ‘ عَنْ (أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ : إِنَّمَا کَانَ فَسْخُ الْحَجِّ لِلرَّکْبِ الَّذِیْنَ کَانُوْا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٣٨١٣: عیسیٰ بن یونس نے یحییٰ بن سعید انصاری (رح) سے انھوں نے مرقع بن صیفی انھوں نے ابو ذر (رض) سے روایت کی ہے کہ حج کا فسخ صرف ان سواروں کے ساتھ خاص تھا جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں حج کیا تھا۔

3814

۳۸۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنِ الْمُرَقِّعِ الْأَسَدِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : (کَانَ مَا أَمَرَنَا بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَخَلْنَا مَکَّۃَ‘ أَنْ نَجْعَلَہَا عُمْرَۃً‘ وَنَحِلَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ أَنَّ تِلْکَ کَانَتْ لَنَا خَاصَّۃً رُخْصَۃً مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنَ النَّاسِ) .
٣٨١٤: مرقع اسدی نے ابو ذر غفاری (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اس حج کو عمرہ بنالیں اور ہم حلال ہوجائیں اور یہ رخصت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے خاص ہمارے لیے تھی بعد والے لوگوں کے لیے نہ تھی۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٤٢۔

3815

۳۸۱۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ‘ ہُوَ ابْنُ غِیَاثٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْمُرَقِّعُ الْأَسَدِیُّ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ (لَا وَاَلَّذِیْ لَا إِلَہَ غَیْرُہٗ، مَا کَانَ لِأَحَدٍ أَنْ یُہِلَّ بِحَجَّۃٍ ثُمَّ یَفْسَخَہَا بِعُمْرَۃٍ إِلَّا الرَّکْبُ الَّذِیْنَ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٣٨١٥: مرقع اسدی کہتے ہیں کہ ابو ذر غفاری (رض) نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ حج کا احرام باندھے پھر اس کو فسخ کر کے اس کو عمرہ بنا لے یہ ان سواریوں اور قافلے کے لیے خاص حکم تھا جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں حج ادا کیا تھا۔

3816

۳۸۱۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْمُرَقِّعُ‘ عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ : (مَا کَانَ لِأَحَدٍ بَعْدَنَا أَنْ یُحْرِمَ بِالْحَجِّ‘ ثُمَّ یَفْسَخَہُ بِعُمْرَۃٍ) .
٣٨١٦: مرقع نے ابو ذر غفاری (رض) سے بیان کیا کہ ہمارے بعد کسی کو اجازت نہیں کہ وہ حج کا احرام باندھے پھر اس کو فسخ کر کے عمرہ بنا لے۔

3817

۳۸۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ الْأَکْرَمِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ مُتْعَۃِ الْحَجِّ (لَیْسَتْ لَکُمْ وَلَسْتُمْ مِنْہَا فِیْ شَیْئٍ) .
٣٨١٧: ابراہیم تیمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے متعہ حج کے سلسلہ میں فرمایا یہ تم لوگوں کے لیے نہیں اور نہ تم اس میں سے کچھ اختیار کرسکتے ہو۔

3818

۳۸۱۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ہُوَ ابْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اِبْرَاہِیْمُ التَّیْمِیُّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ : (إِنَّمَا کَانَتَ الْمُتْعَۃُ لَنَا خَاصَّۃً‘ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتْعَۃَ الْحَجِّ) .
٣٨١٨: ابراہیم تیمی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ابو ذر (رض) نے فرمایا کہ متعہ حج ہمارے لیے خاص تھا یعنی اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت تھی (متعہ حج سے مراد حج کا احرام باندھ کر پھر اس کو عمرہ بنا لینا اور پھر ترویہ کے دن حج کا احرام باندھنا)

3819

۳۸۱۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مِہْرَانَ‘ وَہُوَ الْأَعْمَشُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .وَزَادَ (یَعْنِی الْفَسْخَ) .
٣٨١٩: شجاع بن الولید نے سلیمان بن مہران سے انہی کو اعمش کہتے ہیں پھر اعمش نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے البتہ اس روایت میں فسخ کے لفظ کا اضافہ ہے۔

3820

۳۸۲۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (سُئِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ مُتْعَۃِ الْحَجِّ‘ فَقَالَ : کَانَتْ لَنَا‘ لَیْسَتْ لَکُمْ)
٣٨٢٠: ابراہیم تیمی نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان (رض) سے منعۃ الحج کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا یہ ہمارے ساتھ خاص تھا تمہارے لیے یہ حکم نہیں۔

3821

۳۸۲۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ وَصَالِحُ بْنُ مُوْسٰی الطَّلْحِیُّ‘ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (سُئِلَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ أَوْ سَالْتُہٗ) .
٣٨٢١: صالح بن موسیٰ طلحی نے معاویہ بن اسحاق سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ انھوں نے اتنا فرق کیا ہے۔ ” سئل عثمان (رض) یا سألتہ “

3822

۳۸۲۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نَضْرَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ یَقُوْلُ : " قَامَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَطِیْبًا حِیْنَ اسْتَخْلَفَ‘ فَقَالَ : (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ کَانَ رَخَّصَ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا شَائَ ‘ أَلَا وَإِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ بِہٖ، فَأَحْصِنُوْا فُرُوْجَ ھٰذِہِ النِّسَائِ ‘ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ‘ ‘ کَمَا أَمَرَکُمْ) .
٣٨٢٢: ابو نضرہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو فرماتے سنا کہ عمر (رض) خطبہ دینے کھڑے ہوئے جبکہ وہ خلافت پر متمکن ہوئے تو انھوں نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہی رخصت عنایت فرمائی۔ سنو ! خبردار۔ اب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تم ان عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو اور اپنے حج وعمرہ کو اسی طرح پورا کرو جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے۔

3823

۳۸۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدَ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : (قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَصْرُخُ بِالْحَجِّ صُرَاخًا‘ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ‘ طُفْنَا بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ‘ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ) ، فَلَمَّا کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ کَانَ رَخَّصَ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا شَائَ ‘ فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَیَدْخُلُ فِیْ ھٰذَا أَیْضًا‘ حَدِیْثُ أَبِیْ مُوْسٰی الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .
٣٨٢٣: ابو نضرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کا تلبیہ کہتے آئے جب ہم مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ سے فارغ ہوئے (تو ہم نے احرام کھول دیئے) پھر جب ترویہ کا دن آیا تو ہم نے حج کا احرام باندھا پھر جب عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جو چاہا رخصت دی اور جس موقعہ پر چاہا دی۔ اب تم اپنے حج وعمرہ کی تکمیل کرو یعنی ان کو فسخ کرنے کا تمہیں اختیار نہیں ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس حکم میں حضرت ابو موسیٰ (رض) والی روایت بھی داخل ہے۔ جس کو اس باب کے شروع میں ہم ذکر کر آئے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢١١؍٢١٢‘ مسند احمد ٣؍٥‘ ٧١‘ ٧٥‘ ١٤٨؍٢٦٦۔
طحاوی (رح) کا قول :
اس رخصت کو خاص کرنے کے لیے بطور ثبوت وہ روایت بھی دلیل ہے جس کو ابو موسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا اور ہم نے اس باب کی فصل اول میں بیان کی ہے۔

3824

۳۸۲۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ (عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : مُتْعَتَانِ فَعَلْنَاہُمَا‘ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَلَنْ نَعُوْدَ إِلَیْہِمَا) .
٣٨٢٤: ابو نضرہ نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ دو ایسے متعے ہیں جن کو زمانہ نبوت میں ہم نے کیا اور ان سے عمر (رض) نے منع کیا پس ہم ہرگز ان کی طرف نہ لوٹیں گے۔

3825

۳۸۲۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ کَثِیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَجُلٌ مِنْ مُزَیْنَۃَ‘ عَنْ بَعْضِ أَجْدَادِہٖ، أَوْ أَعْمَامِہٖ، أَنَّہٗ قَالَ : (مَا کَانَ لِأَحَدٍ بَعْدَنَا أَنْ یُحْرِمَ بِالْحَجِّ‘ ثُمَّ یَفْسَخَہُ بِعُمْرَۃٍ)
٣٨٢٥: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں مجھے کثیر بن عبداللہ نے خبر دی یہ مزینہ سے ہیں انھوں نے اپنے کسی دادا سے یا چچاؤں سے بیان کیا کہ ہمارے بعد کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ حج کا احرام باندھے پھر اس کو فسخ کر کے عمرہ بنا لے۔

3826

۳۸۲۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَرَوِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ہِلَالٍ صَاحِبِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَقَدْ بَیَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا ذَکَرْنَا عَنْہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ ذٰلِکَ الْفَسْخَ الَّذِیْ کَانَ أَمَرَ بِہٖ أَصْحَابَہُ خَاصًّا لَہُمْ‘ لَیْسَ لِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ بَعْدَہُمْ‘ وَخَلَطْنَا بِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ مَا رَوَیْنَاہُ‘ عَمَّنْ ذَکَرْنَا فِیْ ھٰذَا الْفَصْلِ مِنْ أَصْحَابِہِ لِأَنَّ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - مِمَّا لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا قَالُوْہُ بِآرَائِہِمْ‘ وَإِنَّمَا قَالُوْہُ مِنْ جِہَۃِ مَا وَقَفُوْا عَلَیْہٖ‘ فَہُمْ فِیْمَا قَالُوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ کَمَنْ أَضَافَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ أَنَّ الْخُرُوْجَ بِالْحَجِّ‘ لَا یَکُوْنُ إِلَّا بِالطَّوَافِ بِالْبَیْتِ .وَقَدْ أَنْکَرَ قَوْمٌ فَسْخَ الْحَجِّ‘ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٨٢٦: کثیر بن عبداللہ نے بکر بن عبدالرحمن سے انھوں نے عبداللہ بن ہلال (رض) سے اسی طرح روایت بیان کی (گزشتہ سند کا اجمال دور کردیا) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار میں واضح فرما دیا ۔ کہ فسخ جس کا آپ نے اپنے صحابہ کرام کو حکم فرمایا یہ ان کے ساتھ خاص تھا۔ ان کے بعد کسی کے لیے یہ درست نہیں ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات میں صحابہ کرام کے آثار کو بھی ملا دیا ہے کیونکہ یہ بات اپنی رائے سے کہنا ممکن نہیں ۔ وہ روایات اس باب کی ابتداء میں ہم ذکر کر آئے ہیں صحابہ کرام نے یہ باتیں آپ سے اطلاع پانے کے بعد ذکر کی ہیں۔ گویا انھوں نے آپ ہی کی طرف نسبت کر کے یہ بات بیان کی ہے۔ ان آثار کی تصحیح سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حج سے خروج طواف بیت اللہ ہی سے ہوسکتا ہے۔ بعض حضرات نے حج کے فسخ کا انکار کیا اور یہ روایات اپنی دلیل میں ذکرکیں۔
حاصل روایات : ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح فرما دیا کہ یہ فسخ کا حکم صحابہ کرام کے ساتھ خاص تھا بعد والے لوگوں کے لیے درست نہیں ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور صحابہ کرام کے آثار اس سلسلہ میں ملا کر بیان کئے کیونکہ یہ توقیفی چیز ہے جس کو اپنی رائے سے کہنا ممکن نہیں اور اجتہاد کا اس میں کوئی دخل نہیں پس ان کا قول اس سلسلہ میں اسی روایت کی طرح ہے جس کی نسبت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کر کے بیان کی جائے۔
ان آثار سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ حج سے خروج طواف بیت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔ بعض نے فسخ حج کا انکار کیا اور انھوں نے اپنے استدلال میں مندرجہ ذیل روایات کو پیش کیا ہے۔
استدلال : فسخ حج کا قول درست نہیں یوم نحر تک سب بدستور سابقہ احرام میں رہے یہ روایات اس کی مؤید ہیں۔

3827

۳۸۲۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا‘ فَمَا حَلَلْنَا مِنْ شَیْئٍ أَحْرَمْنَا بِہٖ، حَتّٰی کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ) .فَمِنَ الْحُجَّۃِ عَلٰی مَنْ احْتَجَّ بِھٰذَا أَنَّ بَکْرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ قَدْ رَوٰی عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَہُ قَدِمُوْا مَکَّۃَ مُلَبِّیْنَ بِالْحَجِّ‘ فَقَالَ : مَنْ شَائَ أَنْ یَجْعَلَہَا عُمْرَۃً فَلْیَفْعَلْ‘ إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ) وَقَدْ ذُکِرَ ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .فَفِیْ ھٰذَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لَہُمْ أَنْ یَحِلُّوْا إِنْ شَائُ وْا‘ إِلَّا أَنَّہٗ عَزَمَ عَلَیْہِمْ بِذٰلِکَ .فَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا لَمْ یَحِلُّوْا‘ وَقَدْ کَانَ لَہُمْ أَنْ یَحِلُّوْا‘ فَقَدْ عَادَ ذٰلِکَ إِلَی فَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ شَائَ أَنْ یَفْسَخَہُ إِلٰی عُمْرَۃٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ مَا ٍ
٣٨٢٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں نکلے ہم حج کا ارادہ رکھتے تھے ہم نے کوئی احرام نہیں کھولا یہاں تک کہ نحر کا دن آیا۔ جن حضرات نے روایت بالا کو اپنے استدلال میں پیش کیا ان کے خلاف دلیل یہ ہے کہ عبداللہ (رض) نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مکہ میں حج کا تلبیہ کہتے ہوئے داخل ہوئے ۔ تو آپ نے فرمایا جو پسند کرے اس کو عمرہ بنالے البتہ وہ شخص جس کے ساتھ ہدی کا جانور ہو۔ اور یہ روایت اپنی اسناد کے ساتھ اسی باب میں مذکور ہوچکی۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے یہ مقرر فرمایا کہ اگر وہ پسند کریں تو حلال ہوجائیں بلکہ آپ نے ان پر یہ بات مؤکد کردی ۔ پس یہ کہنا بھی درست ہے کہ انھوں نے احرام نہ کھولا اور ان کے لیے احرام کھولنا درست تھا۔ تو یہ بات حج کے فسخ ہی کی طرف لوٹی کہ جو چاہے اسے فسخ کرے اور عمرہ بنالے اور اس سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت آئی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
اس روایت کو عبداللہ بن رجاء نے انہی عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرمایا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو چاہے اس کو عمرہ بنا لے البتہ وہ آدمی عمرہ بنا کر احرام نہیں کھول سکتا جس کے پاس ہدی ہو۔ یہ دونوں روایات میں تعارض ہوا تو اب تطبیق کی صرف ایک شکل ہے وہ یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کو عمرہ بنا کر حلال ہونے کو لازم نہیں فرمایا بلکہ رخصت کے درجہ میں رکھا کہ جو چاہے ایسا کرے اور جو چاہے اپنے احرام پر قائم رہے اور یوم نحر کے دن حلال ہو چنانچہ ابن عمر (رض) ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے رخصت کو استعمال نہیں کیا بلکہ احرام پر قائم رہے تو پہلی روایت میں بیان واقعہ ہے اور اشکال والی روایت میں ابن عمر (رض) کا اپنا عمل مذکور ہے۔ اب تضاد روایات ختم ہوگیا۔

3828

۳۸۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ نَوْفَلٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : (خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ فَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ‘ وَمِنَّا مِنْ أَہَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَۃٍ‘ وَمِنَّا مِنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ وَأَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ) .فَأَمَّا مَنْ أَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ‘ فَحَلَّ‘ وَأَمَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ‘ فَلَمْ یَحِلُّوْا حَتّٰی کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ عِنْدَہَا کَمَا کَانَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا الْأَصْلَ أَنَّ مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ وَطَافَ لَہَا وَسَعَی‘ أَنَّہٗ قَدْ فَرَغَ مِنْہَا وَلَہٗ أَنْ یَحْلِقَ وَیَحِلَّ‘ ھٰذَا اِذَا لَمْ یَکُنْ سَاقَ ہَدْیًا .وَرَأَیْنَاہُ اِذَا کَانَ قَدْ سَاقَ ہَدْیًا لِمُتْعَۃٍ فَطَافَ لِعُمْرَتِہٖ وَسَعَی‘ لَمْ یَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِہٖ‘ حَتّٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ فَیَحِلُّ مِنْہَا وَمِنْ حَجَّتِہِ إِحْلَالًا وَاحِدًا‘ وَبِذٰلِکَ جَائَ تِ السُّنَّۃُ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَوَابًا لِحَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَمَّا قَالَتْ لَہٗ مَا بَالُ النَّاسِ حَلُّوْا وَلَمْ تَحِلَّ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِک .قَالَ : إِنِّیْ لَبَّدْتُ رَأْسِیْ، وَقَلَّدْت ہَدْیِیْ، فَلاَ أَحِلُّ حَتّٰی أَنْحَرَ) فَکَانَ الْہَدْیُ الَّذِی سَاقَہُ لِمُتْعَتِہِ الَّتِیْ لَا یَکُوْنُ عَلَیْہِ فِیْہَا ہَدْیٌ إِلَّا بِأَنْ یَحُجَّ بَعْدَہَا‘ یَمْنَعُہٗ مِنْ أَنْ یَحِلَّ بِالطَّوَافِ حَتّٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ لِأَنَّ عَقْدَ إِحْرَامِہِ ہٰکَذَا کَانَ‘ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ عُمْرَۃٍ فَیُتِمَّہَا‘ فَلاَ یَحِلَّ مِنْہَا حَتّٰی یُحْرِمَ بِحَجَّۃٍ ثُمَّ یَحِلَّ مِنْہَا وَمِنَ الْعُمْرَۃِ الَّتِیْ قَدَّمَہَا قَبْلَہَا مَعًا .وَکَانَتَ الْعُمْرَۃُ لَوْ أَمَرَہُمْ بِہَا مُنْفَرِدَۃً‘ حَلَّ مِنْہَا بِفَرَاغِہٖ مِنْہَا اِذَا حَلَقَ‘ وَلَمْ یَنْتَظِرْ بِہِ یَوْمَ النَّحْرِ .وَکَانَ اِذَا سَاقَ الْہَدْیَ لِحَجَّۃٍ‘ یُحْرِمُ بِہَا بَعْدَ فَرَاغِہٖ مِنْ تِلْکَ الْعُمْرَۃِ‘ بَقِیَ عَلَی إِحْرَامِہٖ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ .فَلَمَّا کَانَ الْہَدْیُ الَّذِیْ ھُوَ مِنْ سَبَبِ الْحَجِّ‘ یَمْنَعُہُ الْاِحْلَالَ بِالطَّوَافِ بِالْبَیْتِ قَبْلَ یَوْمِ النَّحْرِ‘ کَانَ دُخُوْلُہٗ فِی الْحَجِّ أَحْرٰی أَنْ یَمْنَعَہُ مِنْ ذٰلِکَ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا عِنْدَنَا‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٨٢٨: عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں روانہ ہوئے یہ حجۃ الوداع والے سال کی بات ہے ہم میں سے بعض تو عمرے کا احرام باندھنے والے تھے اور بعض حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھنے والے تھے اور بعض صرف حج کا احرام باندھنے والے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا احرام باندھا۔ تو جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا وہ طواف و سعی کے بعد حلال ہوگئے اور جنہوں نے حج کا احرام باندھا یا حج وعمرہ کو جمع کیا وہ یوم نحر تک حلال نہ ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ام المؤمنین (رض) بھی اس کو ابن عمر (رض) کی طرح قرار دیتی ہوں۔ جیسا کہ ہم نے بیان کردیا۔ روایات کے معانی کی تصحیح کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی تو جیہ یہی ہے۔ اب غور و فکر کے لحاظ سے جانچتے ہیں۔ ہم نے یہ قاعدہ پایا کہ جس آدمی نے احرام عمرہ باندھا اور اس کے لیے اس نے طواف وسعی کی تو وہ اس سے فارغ ہوگیا اسے سرمنڈانا اور احرام کھولنا دونوں درست ہیں شرط یہ ہے کہ اس نے ہدی روانہ نہ کی ہو اور ہم یہ بات بھی پاتے ہیں کہ عمرہ کے لیے طواف وسعی کرنے کے بعد ہدی بھیجنے والا شخص نحر کے دن تک اپنے احرام سے فارغ نہیں ہوسکتا وہ حج وعمرہ کے دونوں احرام سے بیک وقت نکلے گا۔ جب حضرت حفصہ (رض) نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے تو احرام عمرہ کھول دیا اور آپ نے نہیں کھولا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا ۔ میں نے سر پر گوند لگا رکھی ہے اور میں نے ہدی کو قلادہ ڈالا ہے۔ پس میں نحر کرنے تک احرام نہ کھولوں گا ۔ آپ نے تمتع کے لیے ہدی چلائی تھی جو حج کے علاوہ آپ پر لازم نہ تھی اسی وجہ سے آپ نے حج کے بعد احرام نہ کھولا۔ یہاں تک کہ نحر کا دن آیا۔ کیونکہ اس طرح احرام باندھنے سے آپ پر لازم ہوچکا تھا کہ عمرہ کے احرام کو مکمل کریں یہاں تک کہ حج کا احرام باندھیں۔ پھر اس سے اور پہلے والے احرام عمرہ سے بیک وقت باہر آئیں اور اگر آپ صرف عمرہ ہی کا احرام باندھے ہوتے تو اس سے فراغت کے بعد سر منڈواکر آپ احرام کھول دیتے۔ اور قربانی کے دن کا انتظار نہ کرتے اور حج کے لیے ہدی چلانے کی صورت میں اس عمرہ سے فراغت کے بعد اس حج کا احرام باندھتے تو نحر کے دن تک احرام اسی طرح برقرار رہتا پس جب حج کی وجہ سے ہدی ہے تو حج شروع کرنے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے کہ یوم نحر سے پہلے احرام نہ کھولا جائے۔ ہمارے ہاں قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١١٨‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٣٧۔
طریق استدلال :
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فسخ حج بالعمرہ کا حکم نہیں دیا گیا۔
u: حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت گزشتہ اوراق میں گزر چکی کہ جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا اور ہدی روانہ نہ کی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو طواف و سعی کے بعد احرام کھولنے کا حکم فرمایا۔ یہ روایت جو اشکال میں پیش کی گئی مجمل ہے اس میں ہدی روانہ نہ کرنے والوں کا حکم واضح نہیں کیا گیا۔ مجمل کو تفصیلی روایت پر پیش کیا جائے گا اس سے اشکال پیش ہی نہ آئے گا۔
معانی آثار کے پیش نظر اس باب میں یہ بات ثابت ہوئی۔
نظر طحاوی (رح) :
نظر کے طریقہ سے اس کی توجیہ یہ ہے کہ ہم نے یہ قانون اور اصول پایا ہے کہ جو شخص عمرہ کا احرام باندھ لیتا ہے اس کے لیے طواف و سعی کر کے حلال ہوجانا جائز ہے جبکہ ہدی کا جانور ساتھ نہ لایا ہو جب اپنے ساتھ دم تمتع کا جانور لائے تو یوم النحر سے پہلے طواف و سعی کے بعد احرام کھول دینا جائز نہیں ہے۔ بلکہ یوم النحر میں حج وعمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ کھول دے گا اور اسی کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث مروی ہے جو حضرت حفصہ کے سوال کے جواب میں واقع ہوئی ہے اس وقت حضرت حفصہ نے عرض کیا کہ حضرت تمام لوگوں نے احرام کھول دیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام کیوں نہیں کھولا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا کہ میں نے سر پر تلبیہ کر رکھی ہے اور قربانی کے ہدی کو قلادہ ڈالا ہے (جو اس کے روانہ کرنے کی علامت ہے) اس لیے میں قربانی کرنے تک حلال نہیں ہوسکتا۔ فلہذا اس نیت سے تمتع کی قربانی کو ساتھ لانا کہ اس کے لانے کے بعد حج کرنا ہے یہی چیز اس کو یوم نحر تک حلال ہونے سے روک دے گی کیونکہ اس طرح کے احرام سے عمرہ میں داخل ہو کر ارکان عمرہ ادا کرنے کے بعد حلال ہونا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ حج کا احرام باندھ لے اور حج وعمرہ دونوں کے احرام سے ایک ساتھ حلال ہو۔ اور اگر تنہا عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو تو صرف ارکان عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کو کھول دینا جائز ہے اس صورت میں یوم نحر کا انتظار کرنے کی حاجت نہیں ہے اور اگر اپنے ساتھ حج کے لیے ہدی کا جانور بھی لائے تو اس عمرہ کے ارکان ادا کر کے احرام کی حالت میں یوم نحر تک قائم رہنا ضروری ہے اور جب ہدی جو کہ اسباب حج سے ہے وہ یوم نحر سے پہلے طواف کرلینے کے باوجود حلال ہونے میں رکاوٹ بن جاتی ہے تو باقاعدہ احرام کے ذریعہ حج میں داخل ہوجانے کی صورت میں یوم نحر سے پہلے احرام کھولنے کی ممانعت بدرجہ اولیٰ ثابت ہوجائے گی۔
نظر و قیاس اسی کے متقاضی ہیں۔
ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
حاصل روایات : اگرچہ امام طحاوی (رح) نے اس باب کو طویل کیا مگر اصل مسئلہ کی تنقیح اس کے بغیر ممکن نہ تھی اس تطویل پر تعریض بےجا ہے۔ فقط حج کا احرام اس کی روایات عمرہ و حج تمتع کی روایات فسخ حج کا ثبوت اس پر روایات سے اشکالات اور روایات سے ان کے جوابات دینے کے بعد اب ابتدائً آپ نے احرام عمرہ باندھا ہو یا حج آپ کی خصوصیت فسخ حج والی بات سے حج قران والا معاملہ بالکل واضح کردیا۔ واللہ اعلم۔

3829

۳۸۲۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ‘ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الْمَکِّیُّ‘ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ کَفَاہُ لَہُمَا طَوَافٌ وَاحِدٌ‘ وَسَعْیٌ وَاحِدٌ‘ ثُمَّ لَا یَحِلُّ حَتّٰی یَحِلَّ مِنْہُمَا جَمِیْعًا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَقَالُوْا : عَلَی الْقَارِنِ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ طَوَافٌ وَاحِدٌ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ مِنَ الطَّوَافِ غَیْرُہٗ۔ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : بَلْ یَطُوْفُ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا‘ وَیَسْعَیْ لَہُمَا سَعْیًا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِیْہِ الدَّرَاوَرْدِیُّ‘ فَرَفَعَہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَإِنَّمَا أَصْلُہٗ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَفْسِہِ‘ ہٰکَذَا رَوَاہُ الْحُفَّاظُ‘ وَہُمْ‘ مَعَ ھٰذَا‘ فَلاَ یَحْتَجُّوْنَ بِالدَّرَاوَرْدِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ أَصْلًا فَکَیْفَ یَحْتَجُّوْنَ بِہٖ فِیْ ھٰذَا .فَأَمَّا مَا رَوَاہُ الْحُفَّاظُ مِنْ ذٰلِکَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ فَمَا
٣٨٢٩ : حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص حج اور عمرہ کو جمع کرے تو اسے ایک طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے ‘ پھر وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوگا جب تک کہ وہ دونوں کے افعال سے فارغ نہ ہوجائے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ قارن پر حج وعمرہ کا طرف ایک طواف ہے اس سے زائد طواف نہیں دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ ہر ایک کیلئے ایک ایک طواف لازم ہے اور ہر ایک کی ایک ایک سعی کرے ۔ ان کی دلیل یہ ہے۔ کہ اس حدیث میں در اور دی راوی سے خطاء واقع ہوئی ہے کہ اس نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مرفوع کردیا حالانکہ اصل یہ ابن عمر (رض) کا اثر ہے حفاظ نے اس کو اسی طرح بتلایا ہے اور دوسری بات دراوردی ان کے ہاں قابل حجت نہیں ہے خصوصا جو وہ عبید اللہ (رح) کی روایت سے نقل کرے۔ پس اس سے ان کا استدلال نہایت کمزور ہے ‘ عبداللہ (رح) سے حفاظ نے اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے۔

3830

۳۸۳۰ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ .عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ (اِذَا قَرَنَ‘ طَافَ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا‘ فَإِذَا فَرَّقَ‘ طَافَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا طَوَافًا وَسَعْیًا) .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَوٰی أَیُّوْبُ بْنُ مُوْسٰی، وَمُوْسَی بْنُ عُقْبَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یَعُوْدُ مَعْنَاہُ إِلٰی مَعْنٰی مَا رَوَی الدَّرَاوَرْدِیُّ .وَقَدْ ذُکِرَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٨٣٠: عبیداللہ نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے وہ فرمایا کرتے تھے جب حج قران کرے تو وہ ان دونوں کے لیے ایک طواف کرے اور جب جدا جدا کرے تو ہر ایک کیلئے ایک طواف اور سعی الگ الگ کرے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایوب بن موسیٰ بن عقبہ نے ابن عمر (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے جس کا معنیٰ در اور دی والی روایت کی طرف لوٹتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ روایت ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسک باب ٣٩۔
حاصل کلام : یہ ہوا کہ در اور دی نے روایت میں غلطی کی ہے۔ جبکہ حفاظ دوسری طرح روایت کرتے ہیں۔
ایک اشکال :
آپ تو دراوردی کی غلطی بتلا رہے ہیں جبکہ موسیٰ بن عقبہ اور ایوب بن موسیٰ نے بھی نافع عن ابن عمر (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کے ہم معنی روایت نقل کی ہے تو در اور دی کی خطاء ثابت نہ ہوئی۔ موسیٰ بن عقبہ اور ایوب بن موسیٰ کی روایت یہ ہے۔

3831

۳۸۳۱ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی، عَنْ نَافِعٍ‘ (أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا خَرَجَ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ إِلٰی مَکَّۃَ مُہِلًّا بِعُمْرَۃٍ‘ مَخَافَۃَ الْحَصْرِ‘ ثُمَّ قَالَ مَا شَأْنُہُمَا إِلَّا وَاحِدًا‘ أُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ قَرَنْتُ إِلٰی عُمْرَتِیْ حَجَّۃً‘ ثُمَّ قَدِمَ فَطَافَ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا وَقَالَ : ہٰکَذَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٣٨٣١: ایوب بن موسیٰ نے نافع سے ‘ انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے احصار کا خطرہ تھا پھر فرمانے لگے عمرے اور حج کا معاملہ تو یکساں ہے۔ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو ملا لیا ہے پھر مکہ پہنچے تو ان کے لیے ایک طواف کیا پھر کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔

3832

۳۸۳۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ نَحْوَہٗ۔قَالُوْا : فَقَدْ وَافَقَ ھٰذَا مَا رَوَی الدَّرَاوَرْدِیُّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قِیْلَ لَہُمْ : فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ تَقْبَلُوْا ھٰذَا‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ؟
٣٨٣٢: موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ انھوں نے کہا در اور دی کی روایت کے یہ روایت موافق ہوگئی ہے ان سے کہا جائے گا کہ تمہارا اسے ابن عمر (رض) سے قبول کرنا کس طرح درست ہوا جب کہ ان کی روایت موجود ہے ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ در اور دی کی بات درست ہے۔

3833

۳۸۳۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (تَمَتَّعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ‘ وَأَہْدَی وَسَاقَ الْہَدْیَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ‘ وَبَدَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ أَہَلٌَ بِالْحَجِّ‘ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ) .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ مُتَمَتِّعًا‘ وَأَنَّہٗ بَدَأَ فَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَۃِ .
٣٨٣٣: ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سالم نے بتلایا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا یعنی حجۃ الوداع میں عمرہ کے ساتھ حج کو ملایا اور ذوالحلیفہ سے ہدی روانہ کی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرے کے تلبیہ سے ابتداء کی پھر حج کا احرام باندھا اور لوگوں نے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عمرے کے ساتھ حج کو ملایا۔ یہ ابن عمر (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خبر دے رہے ہیں کہ آپ حجۃ الوادع میں تمتع کرنے والے تھے اور آپ نے ابتداء میں عمرہ کا احرام باندھا۔
حاصل روایت : یہ ابن عمر (رض) خبر دے رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں متمتع تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء عمرے کے احرام سے کی۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢٤۔

3834

۳۸۳۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا حُمَیْدٌ‘ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَہُ قَدِمُوْا مَکَّۃَ مُلَبِّیْنَ بِالْحَجِّ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ شَائَ فَلْیَجْعَلْہَا عُمْرَۃً إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ) .فَأَخْبَرَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ بَکْرٍ ھٰذَا‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مَکَّۃَ‘ وَہُوَ مُلَبٍّ بِالْحَجِّ .وَقَدْ أَخْبَرَ فِیْ حَدِیْثِ سَالِمٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدَأَ‘ فَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَۃِ .فَھٰذَا مَعْنَاہُ - عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّہٗ کَانَ أَحْرَمَ أَوَّلًا بِحَجَّۃٍ‘ عَلٰی أَنَّہَا حَجَّۃٌ‘ ثُمَّ فَسَخَہَا فَصَیَّرَہَا عُمْرَۃً‘ فَلَبَّیْ بِالْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ تَمَتَّعَ بِہَا إِلَی الْحَجِّ‘ حَتّٰی یَصِحُّ حَدِیْثُ سَالِمٍ وَبَکْرٍ ہَذَیْنِ‘ وَلَا یَتَضَادَّانِ .وَفَسْخُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ الَّذِیْ کَانَ فَعَلَہُ وَأَمَرَ بِہٖ أَصْحَابَہٗ، ہُوَ بَعْدَ طَوَافِہِمْ بِالْبَیْتِ‘ قَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ بَابِ فَسْخِ الْحَجِّ‘ فَأَغْنَانَا ذٰلِکَ عَنْ إعَادَتِہِ ہَاہُنَا .فَاسْتَحَالَ بِذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ الطَّوَافُ الَّذِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہُ لِلْعُمْرَۃِ‘ الَّتِی انْقَلَبَتْ إِلَیْہَا حَجَّتُہُ مُجْزِیًا عَنْہُ‘ مِنْ طَوَافِ حَجَّتِہِ الَّتِیْ أَحْرَمَ بِہَا بَعْدَ ذٰلِکَ .وَلٰـکِنَّ وَجْہَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّہٗ لَمْ یَطُفْ لِحَجَّتِہٖ قَبْلَ یَوْمِ النَّحْرِ‘ لِأَنَّ الطَّوَافَ الَّذِیْ یُفْعَلُ قَبْلَ یَوْمِ النَّحْرِ فِی الْحَجَّۃِ‘ إِنَّمَا یُفْعَلُ لِلْقُدُوْمِ‘ لَا لِأَنَّہٗ مِنْ صُلْبِ الْحَجَّۃِ .فَاکْتَفَی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِالطَّوَافِ الَّذِیْ کَانَ فَعَلَہٗ بَعْدَ الْقُدُوْمِ فِیْ عُمْرَتِہِ عَنْ إعَادَتِہِ فِیْ حَجَّتِہٖ۔وَھٰذَا مِثْلُ مَا قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا مِنْ فِعْلِہٖ .
٣٨٣٤: بکر بن عبداللہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مکہ میں حج کا تلبیہ کہتے ہوئے پہنچے اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو چاہے وہ اس کو عمرہ بنا لے البتہ جس کے ساتھ ہدی ہو وہ عمرہ نہیں بنا سکتا۔ حضرت ابن عمر (رض) نے بکر بن عبداللہ کی روایت میں خبر دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ تشریف لائے تو آپ حج کا تلبیہ کہنے والے تھے اور سالم (رح) والی روایت میں انھوں نے خبر دی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء عمرہ کے احرام سے فرمائی۔ ہمارے ہاں اس روایت کا معنیٰ (واللہ اعلم) یہ ہے کہ پہلے آپ حج کا احرام باندھنے والے تھے کہ وہ مطلق حج ہے پھر اس کو فسخ کردیا اسے عمرہ بنا لیا اور عمرے کا تلبیہ کہا ۔ پھر آپ نے اس کے ساتھ حج کا فائدہ حاصل کیا تاکہ سالم و بکر کی دونوں روایات درست ہوجائیں اور ان میں باہمی تضاد نہ رہے ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس حج کا ارادہ کیا تھا اس کو فسخ کردیا اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اسی کا حکم فرمایا اور یہ ان کے طواف بیت اللہ کے بعد کی بات ہے۔ ہم نے فسخ حج میں اس کی تفصیل کر کے دوبارہ تذکرہ سے بےنیاز کردیا ہے۔ یہ بات تو ناممکن ہے کہ آپ کا وہ طواف جسے آپ نے عمرہ کے لیے کیا جس کو آپ نے حج میں تبدیل کرلیا وہ اس کیلئے بھی کافی ہو اور اس حج کے لیے بھی مکتفی بنے جس کا احرام آپ نے بعد کو باندھا لیکن ہمارے ہاں اس کی وجہ (واللہ اعلم) یہ ہے کہ آپ نے یوم نحر سے قبل اپنے حج کا طواف نہیں کیا کیونکہ وہ طواف جو یوم نحر سے پہلے حج میں کیا جاتا ہے وہ تو طواف قدوم ہے اور اسی لیے کیا جاتا ہے۔ وہ حج کا رکن نہیں ہے۔ پس ابن عمر (رض) نے اس طواف پر اکتفاء کیا جو آپ نے قدوم کے بعد اس عمرہ کے لیے کیا جس کو آپ نے حج سے بدل لیا اور یہ اسی طرح ہے جیسا ابن عمر (رض) کا اپنا فعل مروی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٨۔
حاصل روایت : اب اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تلبیہ حج کے ساتھ داخل ہوئے جبکہ روایت سالم میں یہ آیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام کی ابتداء عمرہ سے فرمائی۔
طریق تطبیق : ہمارے ہاں ان کا مفہوم یہ ہے کہ ابتداء میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا احرام باندھا اس طور پر کہ وہ فقط حج ہے پھر اس کو فسخ کیا اور اس کو عمرہ بنا لیا اور عمرہ کا تلبیہ کہا پھر اس کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع بنایا اب اس طرح دونوں روایات کا تضاد ختم ہوگیا۔ مندرجہ بالا صورت سے یہ بات ناممکن ہوجاتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پہنچ کر جو طواف و سعی فرمائی وہ اس حج کے لیے کافی تھی جس کا احرام ہی بعد میں باندھا اور یہ اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اس بات کو مان لیا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا طواف و سعی یوم نحر کو ادا فرمایا رہا وہ طواف و سعی جو یوم نحر سے پہلے کی وہ طواف قدوم سے تھی حج کے لیے نہ تھی اور یہاں انھوں نے صرف طواف قدوم پر اکتفا فرمایا اور حج میں طواف کا اعادہ نہیں کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اشکال میں پیش کردہ روایت میں صرف ابن عمر (رض) کا عمل ثابت ہو رہا ہے اور انھوں نے اپنے عمل کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے تشبیہہ دی تو وہ صرف عمرے کو حج کے ساتھ ملانے والے عمل میں موافقت کا بیان ہے۔ اور اس کی مثال ابن عمر (رض) کے عمل میں ایوب بن موسیٰ کی روایت میں موجود ہے۔

3835

۳۸۳۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ اِذَا قَدِمَ مَکَّۃَ رَمَلَ بِالْبَیْتِ‘ ثُمَّ طَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَإِذَا لَبّٰی مِنْ مَکَّۃَ بِہَا‘ لَمْ یَرْمُلْ بِالْبَیْتِ وَأَخَّرَ الطَّوَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ‘ وَکَانَ لَا یَرْمُلُ یَوْمَ النَّحْرِ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ اِذَا أَحْرَمَ بِالْحَجَّۃِ مِنْ مَکَّۃَ‘ لَمْ یَطُفْ لَہَا إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ .فَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِحْرَامِہٖ بِالْحَجَّۃِ الَّتِیْ أَحْرَمَ بِہَا بَعْدَ فَسْخِ حَجَّتِہِ الْأُوْلٰی‘ لَمْ یَکُنْ طَافَ لَہَا إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ .فَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ حُکْمِ طَوَافِ الْقَارِنِ لِعُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہٖ‘ شَیْء ٌ .وَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَیْضًا‘ خَطَأُ الدَّرَاوَرْدِیِّ فِیْ حَدِیْثِ عُبَیْدِ اللّٰہِ الَّذِی وَصَفْنَاہُ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا بِمَا
٣٨٣٥: ایوب نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جب آپ مکہ آتے تو طواف میں رمل کرتے پھر سعی صفا مروہ کرتے اور جب مکہ سے احرام باندھتے تو تم طواف میں رمل نہ کرتے اور سعی صفا ومروہ کو موخر کرتے تآنکہ نحر کا دن آتا تو سعی کرتے اور یوم نحر کے طواف میں رمل نہ کرتے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ جب ابن عمر (رض) مکہ سے احرام باندھتے تو یوم نحر تک طواف نہ کرتے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی طرح اپنے اس حج کے سلسلہ میں روایت وارد ہوئی ہے جس کا آپ نے پہلے حج کو فسخ کرنے کے بعد احرام باندھا ۔ آپ نے اس کے لیے یوم نحر تک طواف نہ کیا ۔ پس روایت ابن عمر (رض) اس طواف کا کوئی حکم موجود نہیں ہے جو قارن اپنے حج وعمرہ کے لیے کرے۔ جو کچھ ہم نے سابقہ سطور میں ذکر کیا اس سے در اور دی نے عبید اللہ (رح) کی روایت میں جو خطاء کی ہے وہ ثابت ہوگئی اور قول کے قائلین نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کو بھی دلیل میں نے پیش کیا۔
حاصل روایات : اس روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عمر (رض) جب مکہ سے حج کا احرام باندھتے تو یوم نحر تک طواف کو مؤخر کرتے اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا جو احرام باندھا جو کہ عمرے کے بعد اور پہلے حج کو فسخ کرنے کے بعد تھا تو اس کا طواف نحر کے دن فرمایا۔
پس ابن عمر (رض) کی روایت میں قارن کے عمرہ اور حج کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں ہے اس بات سے در اور دی کی وہ غلطی جو اس سے روایت عبیداللہ میں کی ہے واضح ہوگئی۔

3836

۳۸۳۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ .ح .
٣٨٣٦: ابن مرزوق نے بشر بن عمر سے انھوں نے مالک سے روایت کی ہے۔

3837

۳۸۳۷ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ فَأَہْلَلْنَا بِعُمْرَۃٍ‘ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ مَعَہٗ ہََدْیٌ‘ فَلْیُہْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ لَا یَحِلَّ حَتّٰی یَحِلَّ مِنْہُمَا جَمِیْعًا .فَقَدِمْتُ مَکَّۃَ وَأَنَا حَائِضٌ لَمْ أَطُفْ بِالْبَیْتِ‘ وَلَا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ فَشَکَوْتُ ذٰلِکَ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالَ اُنْقُضِی رَأْسَکَ وَامْتَشِطِیْ وَأَہِلِّیْ بِالْحَجِّ‘ وَدَعِی الْعُمْرَۃَ .فَلَمَّا قَضَیْتُ الْحَجَّ أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی التَّنْعِیمِ فَاعْتَمَرْتُ فَقَالَ ھٰذِہِ مَکَانُ عُمْرَتِک) .قَالَتْ (فَطَافَ الَّذِیْنَ أَہَلُّوْا بِالْعُمْرَۃِ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ ثُمَّ حَلُّوْا‘ ثُمَّ طَافُوْا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوْا مِنْ مِنًی لِحَجِّہِمْ .وَأَمَّا الَّذِیْنَ جَمَعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ فَإِنَّمَا طَافُوْا لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا) .قَالُوْا : فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ قَالَتْ (وَأَمَّا الَّذِیْنَ جَمَعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ فَإِنَّمَا طَافُوْا طَوَافًا وَاحِدًا) وَہُمْ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَبِأَمْرِہِ کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ .فَفِیْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ‘ عَلٰی أَنَّ عَلَی الْقَارِنِ لِحَجَّتِہٖ وَعُمْرَتِہِ طَوَافًا وَاحِدًا‘ لَیْسَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِمْ لِمُخَالِفِہِمْ‘ أَنَّا قَدْ رَوَیْنَا عَنْ عُقَیْلٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ تَمَتَّعَ‘ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَہٗ) .وَالْمُتَمَتِّعُ قَدْ عَلِمْنَا أَنَّہٗ الَّذِیْ یُہِلُّ بِحَجَّۃٍ بَعْدَ طَوَافِہِ لِلْعُمْرَۃِ .ثُمَّ قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ حَدِیْثِ مَالِکٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ‘ فَأَہْلَلْنَا بِعُمْرَۃٍ فَأُخْبِرْتُ أَنَّہُمْ دَخَلُوْا فِیْ إِحْرَامِہِمْ کَمَا یَدْخُلُ الْمُتَمَتِّعُوْنَ .قَالَتْ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ مَعَہٗ ہََدْیٌ فَلْیُہْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ لَا یَحِلَّ حَتّٰی یَحِلَّ مِنْہُمَا) .وَلَمْ یُبَیِّنْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ الْمَوْضِعَ الَّذِیْ قَالَ لَہُمْ ھٰذَا الْقَوْلَ فِیْہِ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ قَالَہُ لَہُمْ قَبْلَ دُخُوْلِ مَکَّۃَ‘ أَوْ بَعْدَ دُخُوْلِ مَکَّۃَ قَبْلَ الطَّوَافِ‘ فَیَکُوْنُوْنَ قَارِنِیْنَ بِتِلْکَ الْحَجَّۃِ الْعُمْرَۃَ‘ الَّتِیْ کَانُوْا أَحْرَمُوْا بِہَا قَبْلَہَا .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ قَالَ لَہُمْ ذٰلِکَ بَعْدَ طَوَافِہِمْ لِلْعُمْرَۃِ‘ فَیَکُوْنُوْنَ مُتَمَتِّعِیْنَ بِتِلْکَ الْحَجَّۃِ الَّتِیْ أَمَرَہُمْ بِالْاِحْرَامِ بِہَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَأَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ أَخْبَرَا فِیْ حَدِیْثَیْہِمَا‘ اللَّذَیْنِ رَوَیْنَاہُمَا عَنْہُمَا‘ فِیْ بَابِ فَسْخِ الْحَجِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ذٰلِکَ الْقَوْلَ فِیْ آخِرِ طَوَافٍ عَلَی الْمَرْوَۃِ .فَعَلِمْنَا أَنَّ قَوْلَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ حَدِیْثِ مَالِکٍ .وَأَمَّا الَّذِیْنَ جَمَعُوْا بَیْنَ الْعُمْرَۃِ وَالْحَجِّ أَنَّہَا تَعْنِیْ جَمْعَ مُتْعَۃٍ‘ لَا جَمْعَ قِرَانٍ‘ قَالَتْ (فَإِنَّمَا طَافُوْا طَوَافًا وَاحِدًا) أَیْ : فَإِنَّمَا طَافُوْا طَوَافًا بَعْدَ جَمْعِہِمْ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ الَّتِیْ کَانُوْا قَدْ طَافُوْا لَہَا طَوَافًا وَاحِدًا‘ لِأَنَّ حَجَّتَہُمْ تِلْکَ الْمَضْمُوْمَۃَ مَعَ الْعُمْرَۃِ‘ کَانَتْ مَکِّیَّۃً‘ وَالْحَجَّۃُ الْمَکِّیَّۃُ لَا یُطَافُ لَہَا قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ إِنَّمَا یُطَافُ لَہَا بَعْدَ عَرَفَۃَ‘ عَلٰی مَا کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَفْعَلُ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ .فَقَدْ عَادَ مَعْنٰی مَا رَوَیْنَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَمَا صَحَّحْنَا مِنْ ذٰلِکَ لِنَفْیِ التَّضَادِّ عَنْہُ‘ إِلٰی مَعْنٰی مَا رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَمَا صَحَّحْنَا مِنْ ذٰلِکَ .فَلَیْسَ شَیْء ٌ مِنْ ھٰذَا یَدُلُّ عَلَیْ حُکْمِ الْقَارِنِ حَجَّۃً کُوْفِیَّۃً‘ مَعَ عُمْرَۃٍ کُوْفِیَّۃٍ کَیْفَ طَوَافُہُ لَہُمَا‘ ہَلْ ہُوَ طَوَافٌ وَاحِدٌ‘ أَوْ طَوَافَانِ ؟ وَاحْتَجَّ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّ الْقَارِنَ یَجْزِیْہِ لِعُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہِ طَوَافٌ وَاحِدٌ أَیْضًا‘ بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ .ح .
٣٨٣٧: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے پاس ہدی ہو وہ حج کا احرام باندھے پھر اس سے اسی وقت حلال ہو جب دونوں سے حلال ہوتے ہیں۔ میں مکہ میں پہنچی تو ایام حیض شروع ہوگئے اور میں بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی اور نہ صفا مروہ کرسکی۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس کی شکایت کی آپ نے فرمایا اپنا سر کھول دو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لینا اور عمرہ کو ترک کر دو ۔ پس جب میں نے حج ادا کرلیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے جناب عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا چنانچہ میں نے عمرے کا احرام باندھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تیرے عمرے کی جگہ عمرہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں جنہوں نے کہا ہے۔ واما الذین جمعوابین الحج والعمرۃ۔۔۔ اور وہ لوگ جنہوں نے حج وعمرہ کو اکٹھا کیا وہ ایک طواف کریں گے صحابہ کرام جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تھے اور وہ آپ کے حکم سے یہ افعال کر رہے تھے ۔ اس روایت سے یہ دلالت مل رہی ہے کہ قارن پر اپنے حج وعمرہ کی وجہ سے ایک طواف لازم ہے اس کے علاوہ اس پر کوئی طواف نہیں ہے۔ پس ہماری ان کے خلاف دلیل یہ ہے۔ کہ عقیل نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا۔ اور تمتع کرنے والے اپنے عمرہ سے فارغ ہو کر حج کا تلبیہ کہے مالک کی سند سے مروی روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معیت میں حجۃ الوداع کے لیے روانہ ہوئے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے خبر دی کہ وہ احرام میں تمتع کرنے والے کی طرح داخل ہوئے ۔ وہ کہتی ہیں پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کے پاس ھدی ہو وہ حج کا تلبیہ عمرہ کے ساتھ ہی کہے پھر وہ اس احرام سے باہر نہیں ہوسکتا جب تک کہ دو احراموں سے حلال نہ ہوجائے۔ اس روایت میں اس جگہ کی نشاندہی نہیں فرمائی کہ آپ نے یہ بات کس وقت فرمائی ۔ یہ ممکن ہے کہ آپ نے یہ بات داخلہ مکہ سے پہلے فرمائی یا داخلہ کے بعد اور طواف سے پہلے فرمائی پس اس صورت میں وہ اس حج کو عمرہ کے ساتھ ملانے والے ہوں گے جس کا پہلے احرام باندھا تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے ان کو طواف عمرہ کے بعد ارشاد فرمایا ہو ۔ پس اس صورت میں اس حج کی وجہ سے تمتع کرنے والے ہوں گے وہ حج کہ جس کے احرام کا آپ نے ان کو حکم فرمایا پس اس میں ہم نے غور کیا تو حضرت ابو سعید اور جابر (رض) کی روایت مل گئیں جن کو باب فسخ الحج میں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات مروہ کی سعی کے آخری چکر میں فرمائی ۔ پس اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں جو مالک نے نقل کی ہے : اما الذین جمعوا بین العمرۃ الحج “ پھر وہ لوگ جنہوں عمرہ اور حج کو جمع کیا تو ان کی مراد جمع سے تمتع سے جمع کرنا ہے قران سے جمع کرنا نہیں ہے۔ حضرت صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ انھوں نے ایک طواف کیا یعنی حج وعمرہ جمع کرنے کے بعد انھوں نے ایک طواف کیا کیونکہ ان حج عمرہ کے ساتھ ملا ہوا تھا اور وہ حج بھی مکی تھا اور مکی حج کے لیے عرفہ سے پہلے کوئی طواف نہیں ہے اس کے لیے عرفہ کے بعد اسی طرح طواف کیا جائے گا جیسا کہ ابن عمر (رض) کرتے تھے جیسا کہ ہم نے ان سے روایات ذکر کیں ۔ پس روایت عائشہ صدیقہ (رض) کا معنیٰ بھی اسی طرف لوٹ آیا جو تصحیح آثار اور نفی تضاد کے لیے ہم نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے۔ تو اس میں اس قارن کا کوئی حکم موجود نہیں جو کہ کوفہ وغیرہ سے حج قران کرے کہ وہ ایک طواف کرے یا دو ۔ وہ لوگ جو قارن کے لیے حج وعمرہ کا ایک طواف قرارد تے ہیں۔ انھوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے۔ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا انھوں نے طواف سعی کر کے احرام کھول دیا پھر انھوں نے ایک اور طواف کیا جبکہ وہ منی سے حج کر کے لوٹے (طواف زیارت) البتہ وہ لوگ جنہوں نے حج وعمرہ کو جمع کیا تو انھوں نے ایک ہی طواف کیا۔
تخریج : بخاری فی الحیض باب ١٥؍١٦‘ والحج باب ٣١‘ والعمرہ باب ٥؍٧‘ المغازی باب ٧٧‘ مسلم فی الحج ١١١؍١١٣‘ ١١٥‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٥٠‘ والمناسک ٢٢٣‘ مسند ٦؍١٦٤‘ ١٧٧‘ ١٩١‘ ٢٤٦۔
حاصل روایت : اس روایت میں دونوں فریق تمتع کرنے والے ہیں مگر انھوں نے ایک طواف کیا ہے حالانکہ وہ حج وعمرہ کو جمع کرنے والے ہیں اور یہ وہ لوگ تھے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو جو حکم فرماتے وہ وہی کرتے اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ قارن پر اس کے حج وعمرہ کی وجہ سے ایک طواف لازم ہوتا ہے۔
الجواب :
ہم اس سے پہلے ذکر کر آئے کہ زہری عن عروہ عن عائشہ (رض) روایت میں یہ مذکور ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں متمتع تھے اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا اور تمتع کے متعلق تو سب کو معلوم ہے کہ جو شخص حج کا احرام اس وقت باندھے جبکہ وہ عمرے کا طواف کرچکا ہو تو اس کو ایک طواف یوم نحر کو کرنا ہوگا۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مالک عن زہری عن عروہ عن عائشہ (رض) کی روایت میں ہے کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر نکلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا اس میں انھوں نے یہ خبر دی کہ وہ احرام میں تمتع کرنے والوں کی طرح داخل ہوئے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے ساتھ ہدی ہو وہ حج مع العمرہ کا احرام باندھ لے پھر اس سے حلال نہ ہو جب تک کہ دونوں سے حلال نہ ہوجائے (یوم نحر کو)
اس روایت میں یہ واضح نہیں فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ بات کس مقام پر فرمائی۔
نمبر 1: یہ بھی عین ممکن ہے کہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے فرمایا ہو۔
نمبر 2: مکہ مکرمہ میں داخلہ کے بعد مگر طواف سے قبل ان دونوں صورتوں میں وہ قارن بن جائیں گے کیونکہ عمرہ کے احرام سے انھوں نے حج کو ملا لیا۔
نمبر 3: اور یہ بھی ممکن ہے کہ طواف عمرہ کرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ بات فرمائی ہو۔ اس صورت میں وہ متمتع ہوں گے کیونکہ عمرہ سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھا ہے اب ہم نے روایات پر غور کیا کہ کون سا احتمال ان میں درست ہے تو ہم نے جابر بن عبداللہ اور ابو سعید خدری (رح) (رض) کی روایت پائی جن کو باب فسخ الحج میں ذکر کیا گیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات طواف مروہ سے فراغت کے بعد فرمائی۔
اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ روایت مالک میں حضرت عائشہ (رض) کے قول اور وہ لوگ کہ جنہوں نے حج وعمرہ کو جمع کیا ہے اس جمع سے ان کی مراد جمع تمتع ہے جمع قران نہیں ہے پس انما طافوا طوافا واحدا کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے صفا ومروہ کی سعی کے بعد جمع کر کے پھر ایک طواف اور ایک سعی کی اس لیے کہ اس اعلان اور حکم کے بعد جس حج کا احرام باندھا تھا وہ حج مکی ہے حج مدنی نہیں اور حج مکی کے متعلق اتفاق ہے کہ وقوف عرفات کے بعد ہوتا ہے جیسا کہ ایوب بن موسیٰ کی روایت میں گزرا ہے۔ اب ابن عمر (رض) اور عائشہ صدیقہ (رض) کی روایات کا حاصل یہ ہوا کہ قارن کا تذکرہ ہی نہیں کیونکہ آقافی جب حدود مکہ میں داخلے سے پہلے عمرے کے ساتھ حج کو ملا لے گا تو اس کے اوپر کتنے طواف و سعی ہیں اسی میں اختلاف ہے جبکہ ان روایات میں اس کا کچھ ذکر ہی نہیں اس لیے ان سے قارن کے طواف پر استدلال ہی درست نہیں اور حج کوفی سے مراد آفاقی یعنی باہر سے آنے والا ہی مراد ہے۔

3838

۳۸۳۸ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَا : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ عَطَائٍ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہَا اِذَا رَجَعْتُ إِلٰی مَکَّۃَ‘ فَإِنَّ طَوَافَک یَکْفِیْکَ لِحَجِّکَ وَعُمْرَتِک) .قَالُوْا : فَقَدْ أَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الَّذِیْ عَلَیْہَا لِحَجَّتِہَا وَعُمْرَتِہَا‘ طَوَافٌ وَاحِدٌ .قِیْلَ لَہُمْ : لَیْسَ ہٰکَذَا لَفْظُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَیْتُمُوْہُ‘ إِنَّمَا لَفْظُہُ أَنَّہٗ قَالَ (طَوَافُک لِحَجِّک یَجْزِیک لِحَجِّکَ وَعُمْرَتِک) فَأَخْبَرَ أَنَّ الطَّوَافَ الْمَفْعُوْلَ لِلْحَجِّ یَجْزِیْکَ عَنِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ وَأَنْتُمْ لَا تَقُوْلُوْنَ ھٰذَا‘ إِنَّمَا تَقُوْلُوْنَ إِنَّ طَوَافَ الْقَارِنِ‘ طَوَافٌ لِقِرَانِہٖ لَا لِحَجَّتِہٖ دُوْنَ عُمْرَتِہٖ‘ وَلَا لِعُمْرَتِہٖ دُوْنَ حَجَّتِہٖ‘ مَعَ أَنَّ غَیْرَ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ مِنْ أَصْحَابِ عَطَائٍ ‘ قَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ بِعَیْنِہِ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَلٰی مَعْنَیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَعْنَی .
٣٨٣٨: عطاء نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا جب تم مکہ لوٹ جاؤ تمہارا یہ طواف تمہارے حج وعمرہ کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اس کے حج وعمرہ کی وجہ سے اس پر ایک طواف لازم ہوگا اس کے جواب میں ان کو کہا جائے گا ۔ اس روایت کے الفاظ اس طرح نہیں جیسا کہ تم نے روایت پیش کی اس کے الفاظ اس طرح ہیں طوافک لحجک یجز یک لحجک وعمر تک) کہ تمہارا حج کا طواف تمہارے حج وعمرہ کے لیے کافی ہوجائے گا ۔ اس میں اس بات کی اطلاع دی ہے کہ وہ حج کے لیے کیا جانے والا طواف تمہارے حج وعمرہ کے لیے کفایت کرے گا اور تمہارے ہاں یہ بات نہیں بلکہ تم تو کہتے ہو کہ قارن کا طواف اس کے حج وعمرہ کے لیے کافی ہے۔ مگر تم یہ نہیں کہتے بلکہ تم کہتے ہو کہ قارن کا طواف اس کے حج کے لیے نہیں عمرے کے بغیر اور نہ فقط عمرہ کا بغیر حج کے ہے اور یہ بات بھی ہے کہ ابن ابی نجیح جو عطاء کے شاگردوں سے ہیں کے علاوہ دیگر نے اس روایت کو علماء سے بعینہ اس کے علاوہ مفہوم میں ذکر کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٥٣‘ مسند احمد ٦؍١٢٣‘ ٢٥٣۔
طریق استدلال : اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے حج وعمرہ کرنے والے پر ایک طواف ہے۔
الجواب :
جن الفاظ سے آپ عائشہ (رض) کی روایت نقل کر رہے ہیں وہ اس روایت کے الفاظ نہیں بلکہ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ” طوافک لحجک یجزیک و عمرتک “ یعنی تمہارے حج کا طواف تمہارے حج وعمرہ کے لیے کافی ہے حالانکہ تم بھی اس کے قائل نہیں ہو بلکہ تم کہتے ہو قارن کا طواف تو حج قران ہی کے لیے ہوگا یعنی ایک طواف ہوگا یہ مطلب نہیں کہ عمرہ کی نیت نہ ہو بلکہ صرف حج کی۔ اور یہ بھی نہیں کہ طواف حج کی نیت تو نہیں مگر صرف عمرے کی نیت سے طواف کیا جائے تو وہ دونوں کو کافی ہوجائے۔ عطاء بن ابی رباح کے دو شاگرد اس روایت کو نقل کر رہے ہیں مذکور بالا اشکال والی روایت عبداللہ بن ابی نجیح نے نقل کی یہ بہت مختصر روایت ہے دوسرے شاگرد عبدالملک ہیں ان کی روایت مفصل ہے اس کو ملاحظہ کرلینے کے بعد کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔ روایت یہ ہے۔

3839

۳۸۳۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا حَجَّاجٌ‘ وَأَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَکُلُّ أَہْلِک یَرْجِعُ بِحَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ غَیْرَیْ؟ قَالَ انْفِرِی فَإِنَّہُ یَکْفِیْکَ) .قَالَ حَجَّاجٌ فِیْ حَدِیْثِہِ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : أَلَحَّتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَأَمَرَہَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَی التَّنْعِیمِ‘ فَتُہِلَّ مِنْہُ بِعُمْرَۃٍ‘ وَبَعَثَ مَعَہَا أَخَاہَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِیْ بَکْرٍ‘ فَأَہَلَّتْ مِنْہُ بِعُمْرَۃٍ‘ ثُمَّ قَدِمَتْ فَطَافَتْ وَسَعَتْ وَقَصَّرَتْ‘ وَذَبَحَ عَنْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ : ذَبَحَ عَنْہَا بَقَرَۃً فَأَخْبَرَ عَبْدُ الْمَلِکِ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِقِصَّتِہَا بِطُوْلِہَا‘ وَأَنَّہَا إِنَّمَا أَحْرَمَتْ بِالْعُمْرَۃِ فِیْ وَقْتِ مَا کَانَ لَہَا أَنْ تَنْفِرَ بَعْدَ فَرَاغِہَا مِنَ الْحَجَّۃِ وَالْعُمْرَۃِ‘ وَأَنَّ الَّذِیْ ذُکِرَ أَنَّہٗ یَکْفِیْہَا‘ ہُوَ الْحَجُّ مِنَ الْحَجَّۃِ وَالْعُمْرَۃِ‘ لَا الطَّوَافُ .فَقَدْ بَطَلَ أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ حَدِیْثِ عَطَائٍ ھٰذَا حُجَّۃٌ‘ فِیْ حُکْمِ طَوَافِ الْقَارِنِ کَیْفَ ہُوَ .وَاحْتَجَّ مَنْ ذَہَبَ أَیْضًا فِی الْقَارِنِ أَنَّہٗ یَطُوْفُ لِعُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہِ طَوَافًا وَاحِدًا۔
٣٨٣٩: عبدالملک نے عطاء سے ‘ انھوں نے عائشہ (رض) روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گزارش کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی تمام ازواج حج وعمرہ دونوں کی سعادت سے بہرہ ور ہو کر لوٹیں گی مگر میں اس سے محروم رہوں گی تو اس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کوچ کرو تمہارے لیے حج ہی دونوں کی جگہ کافی ہے اس پر عائشہ (رض) نے اصرار کیا جیسا کہ حجاج راوی نے عطاء سے اپنی روایت میں الحت علی رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مقام تنعیم سے احرام عمرہ باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو ان کے ساتھ بھیجا وہاں سے انھوں نے عمرہ کا احرام باندھا پھر انھوں نے آ کر طواف و سعی کی اور قصر کی۔ ان کی طرف سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دم شکر دیا۔ عبدالملک کی روایت میں گائے ذبح کرنے کا ذکر ہے۔ پس عبد الملک نے اپنی روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ان کا واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے عمرہ کا احرام اس وقت باندھا جب کہ وہ حج وعمرہ سے فارغ ہو کر کوچ کرنے والی تھیں اور یہ بھی ذکر کیا گیا کہ ان کو یہی کافی ہے تو مطلب حج ہے جو حج وعمرہ کی طرف سے کافی تھا نہ کہ طواف ۔ پس روایت عطاء میں طواف قارن کے حکم سے متعلق اس سے استدلال باطل ہوگیا کہ اس کی کیفیت کیا تھی اور وہ لوگ جو حج وعمرہ کا ایک طواف مانتے ہیں انھوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ مسلم فی الحج ١٢٨‘ مسند احمد ٦؍١٢٢۔
حاصل روایات : اس روایت سے ثابت ہوا کہ حج سے فراغت کے بعد یہ بات آپ نے فرمائی کہ تمہارا یہ حج تمہارے حج وعمرہ کی طرف سے کافی ہے اس سے طواف ہرگز مراد نہیں۔ پس قارن کے طواف کے سلسلہ میں اس کو دلیل بنانا باطل ہے۔
فریق اوّل کی دلیل رابع :
قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔

3840

۳۸۴۰ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْہَیْثَمِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : وَأَخْبَرَنِیْ أَبُو الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی عَائِشَۃَ وَہِیَ تَبْکِیْ، فَقَالَ مَا لَک تَبْکِیْنَ .قَالَتْ : أَبْکِی لِأَنَّ النَّاسَ حَلُّوْا‘ وَلَمْ أَحْلِلْ‘ وَطَافُوْا بِالْبَیْتِ وَلَمْ أَطُفْ‘ وَھٰذَا الْحَجُّ قَدْ حَضَرَ کَمَا تَرَی فَقَالَ ھٰذَا أَمْرٌ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ‘ فَاغْتَسِلِیْ وَأَہِلِّیْ بِالْحَجِّ‘ ثُمَّ حُجِّی‘ وَاقْضِیْ مَا یَقْضِی الْحَاجُّ‘ غَیْرَ أَنْ لَا تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ‘ وَلَا تُصَلِّیْ قَالَتْ : فَفَعَلْتُ ذٰلِکَ‘ فَلَمَّا طَہُرْت قَالَ طُوْفِیْ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ ثُمَّ قَدْ حَلَلْتُ مِنْ حَجِّکَ وَعُمْرَتِک .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ إِنِّیْ أَجِدُ فِیْ نَفْسِی مِنْ عُمْرَتِیْ‘ أَنِّیْ لَمْ أَکُنْ طُفْتُ حَتّٰی حَجَجْتُ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ‘ فَأَعْمَرَہَا مِنَ التَّنْعِیمِ) .
٣٨٤٠: ابوالزبیر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عائشہ (رض) کے پاس آئے تو وہ رو رہی تھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کیوں رو رہی ہو ؟ کہنے لگیں میں اس لیے رو رہی ہوں کہ لوگوں نے احرام کھول دیئے اور میں نے احرام نہیں کھولا۔ انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور میں نے طواف نہیں کیا۔ اور یہ حج کا موقعہ سر پر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو بنات آدم کو لازم ہے۔ تم غسل کر کے حج کا احرام باندھ لو۔ پھر حج کرو اور جو حجاج عمل انجام دیتے ہیں تم بھی کرتی رہو۔ بس کہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور نہ نماز پڑھنا۔ عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں میں نے اسی طرح کیا جب میں پاک ہوگئی تو آپ نے فرمایا تم بیت اللہ کا طواف اور سعی کرلو پھر تم اپنے حج وعمرہ سے حلال ہوچکی میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنے دل میں اپنے عمرے کے متعلق تکلیف محسوس کرتی ہوں اس لیے کہ میں نے حج تک طواف نہ کیا تھا۔ (پھر آپ نے عبدالرحمن کو حکم فرمایا اس نے تنعیم کے مقام سے عمرہ کرایا۔
تخریج : بخاری فی الحیض باب ١‘ ٧‘ الحج باب ٨١‘ مسلم فی الحج ١١٩؍١٢٠‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٨٢‘ المناسک باب ٥١‘ والحیض باب ١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٣٦‘ دارمی فی المناسک باب ٣١‘ مالک فی الحج ٢٢٤‘ مسند احمد ٦؍٣٩‘ ٢١٩‘ ٢٧٣۔

3841

۳۸۴۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .قَالُوْا : فَقَدْ أَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِیَ مُحْرِمَۃٌ بِالْعُمْرَۃِ وَالْحَجَّۃِ‘ أَنْ تَطُوْفَ بِالْبَیْتِ وَتَسْعَیْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ثُمَّ تَحِلَّ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ الْقَارِنِ فِیْ طَوَافِہِ لِحَجَّتِہٖ وَعُمْرَتِہٖ‘ ہُوَ کَذٰلِکَ‘ وَأَنَّہٗ طَوَافٌ وَاحِدٌ‘ لَا شَیْئَ عَلَیْہِ مِنَ الطَّوَافِ غَیْرُہٗ۔ فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلٰی أَہْلِ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرٰی أَنَّ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ھٰذَا‘ قَدْ رُوِیَ عَلٰی غَیْرِ مَا ذَکَرْنَا ..
٣٨٤١: ابوالزبیر (رض) نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو حکم فرمایا جب کہ وہ عمرہ وحج کا احرام باندھے ہوئے تھیں کہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفاء مروہ کے مابین سعی کرے پھر حلال ہو۔ “ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ طواف میں قارن کا حکم حج وعمرہ دونوں کے لیے ہے اور وہ اسی طرح ایک طواف ہے۔ اس طواف کے علاوہ اس پر اور کوئی چیز نہیں ہے۔ اس قول کے قائلین کے خلاف دلیل یہ ہے کہ یہ روایت اس مذکورہ طریق کے علاوہ دوسرے انداز سے بھی روایت کی گئی ہے۔
حاصل روایت : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عائشہ (رض) کو احرام کی حالت میں عمرے اور حج کا حکم دیا اور بیت اللہ کے طواف و سعی کرنے کے بعد حلال ہونے کا حکم فرمایا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قارن کو اپنے حج وعمرہ کی طرف سے ایک طواف و سعی کافی ہے دوسرا کوئی طواف اس کے ذمہ نہیں ہے۔
الجواب :
اس روایت کو دوسری اسناد سے اس طرح بیان کیا گیا ہے تاکہ اس سند کی کمزوری ظاہر ہوجاؤ۔ روایت عروہ عن عائشہ (رض) ۔ آگے ملاحظہ فرمائیں۔

3842

۳۸۴۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَا : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْہَیْثَمِ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : أَمَرَنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ شَائَ أَنْ یُہِلَّ بِالْحَجِّ‘ وَمَنْ شَائَ فَلْیُہْلِلْ بِالْعُمْرَۃِ .قَالَتْ کُنْتُ مِمَّنْ أَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ‘ فَحِضْتُ، وَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنِیْ أَنْ أَنْقُضَ رَأْسِیْ، وَأَمْتَشِطَ‘ وَأَدَعَ عُمْرَتِی) .
٣٨٤٢: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ جو چاہے حج کا احرام باندھے اور جو چاہے عمرے کا احرام باندھے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں ان میں سے تھی جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا۔ مگر مجھے حیض شروع ہوا اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے حکم فرمایا کہ اپنا سر کھول لوں اور کنگھی کروں اور اپنے عمرے کو چھوڑ دوں۔
تخریج : مسلم فی الحج ١١٥۔

3843

۳۸۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ‘ عَنْ إِسْرَائِیْلَ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٨٤٣: عکرمہ نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3844

۳۸۴۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ‘ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا- حِیْنَ حَاضَتْ ۔ أَنْ تَدَعَ عُمْرَتَہَا‘ وَذٰلِکَ قَبْلَ طَوَافِہَا لَہَا .فَکَیْفَ یَکُوْنُ طَوَافُہَا فِیْ حَجَّتِہَا الَّتِیْ أَحْرَمَتْ بِہَا بَعْدَ ذٰلِکَ‘ یُجْزِئُ عَنْہَا مِنْ حَجَّتِہَا تِلْکَ‘ وَمِنْ عُمْرَتِہَا الَّتِیْ قَدْ رَفَضَتْہَا ؟ ھٰذَا مُحَالٌ .وَقَدْ رَوَی الْأَسْوَدُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٨٤٤: ابن ابی ملیکہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیض آنے پر اسے حکم دیا کہ وہ اپنا عمرہ چھوڑ دے اور یہ اس کے طواف سے پہلے کی بات ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس حج کا طواف پہلے کرلیں جس کا احرام بعد میں باندھا اور وہ طواف اس کے حج وعمرہ کی طرف سے کافی ہوجائے جس عمرہ کو اس نے مجبوراً چھوڑ دیا۔ یہ ناممکن بات ہے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو حکم فرمایا جب کہ ان کو ایام حیض پیش آگئے کہ وہ عمرہ کو ترک کردے اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے طواف سے پہلے کی بات ہے۔ پس کس طرح ان کا وہ طواف جو انھوں نے حج کے لیے کرنا تھا اور اس کا احرام بعد میں باندھا وہ اس حج کے طواف اور اس عمرہ کے طواف کی جگہ کام دے گا جس عمرہ کو انھوں نے فسخ کردیا۔ یہ بات ناممکن ہے اور اسود (رح) نے بھی ان سے اس سلسلہ میں روایت نقل کی ہے۔ روایت اسود (رح) ذیل میں ہے۔

3845

۳۸۴۵ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ خَرَجْنَا وَلَا نُرَی إِلَّا أَنَّہٗ الْحَجُّ‘ فَلَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ‘ طَافَ وَلَمْ یَحِلَّ‘ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ‘ فَطَافَ مَنْ مَعَہُ مِنْ نِسَائِہِ وَأَصْحَابِہٖ، فَحَلَّ مِنْہُمْ مَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ الْہَدْیُ .قَالَ : وَحَاضَتْ ہِیَ قَالَتْ فَقَضَیْنَا مَنَاسِکَنَا مِنْ حَجَّتِنَا‘ فَلَمَّا کَانَتْ لَیْلَۃُ الْحَصْبَۃِ لَیْلَۃُ النَّفْرِ‘ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَیَرْجِعُ أَصْحَابُک بِحَجٍّ وَعُمْرَۃٍ‘ وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجٍّ ؟ .قَالَ أَمَا کُنْتُ طُفْتُ بِالْبَیْتِ لَیَالِیَ قَدِمْنَا ؟ قَالَتْ : قُلْتُ لَا قَالَ انْطَلِقِیْ مَعَ أَخِیْکَ إِلَی التَّنْعِیمِ‘ فَأَہِلِّیْ بِعُمْرَۃٍ‘ ثُمَّ مَوْعِدُک مَکَانُ کَذَا وَکَذَا) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہَا قَدْ کَانَتْ خَرَجَتْ مِنْ عُمْرَتِہَا الَّتِیْ صَارَتْ‘ مَکَانَ حَجَّتِہَا بِفَسْخِ الْحَجِّ بِحَیْضَتِہَا إِلٰی عَرَفَۃَ‘ قَبْلَ طَوَافِہَا لَہَا .لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہَا " أَمَا کُنْتُ طُفْتُ لَیَالِیَ قَدِمْنَا ؟ " أَیْ : لَوْ کُنْتُ طُفْتُ، کَانَتْ قَدْ تَمَّتْ لَک عُمْرَتُک مَعَ حَجَّتِک الَّتِیْ قَدْ فَرَغْتُ مِنْہَا .فَلَمَّا أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا لَمْ تَکُنْ طَافَتْ لَیَالِیَ قَدِمُوْا‘ جَعَلَہَا - بِمَا فَعَلَتْ بَعْدَ ذٰلِکَ لِحَجِّہَا‘ مِنْ وُقُوْفِہَا بِعَرَفَۃَ‘ أَوْ تَوَجُّہِہَا إِلَیْہَا - خَارِجَۃً مِنْ عُمْرَتِہَا فَأَمَرَہَا أَنْ تَعْتَمِرَ أُخْرَیْ مَکَانَہَا مِنَ التَّنْعِیمِ .فَکَیْفَ یَجُوْزُ لِقَائِلٍ أَنْ یَقُوْلَ إِنَّ طَوَافَہَا بِالْبَیْتِ لِحَجَّۃٍ ہِیَ فِیْہَا‘ یَکُوْنُ لِتِلْکَ الْحَجَّۃِ‘ وَلِعُمْرَۃٍ أُخْرَیْ قَدْ خَرَجَتْ مِنْہَا قَبْلَ ذٰلِکَ ؟ ھٰذَا عِنْدَنَا مُحَالٌ .وَقَدْ رَوَی الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا
٣٨٤٥: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم مدینہ منورہ سے نکلے اور ہمارا خیال فقط حج ہی کا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ تشریف لائے اور طواف کر کے حلال نہ ہوئے آپ کے پاس ہدی تھی پس آپ کے ساتھ ازواج اور اصحاب نے طواف کیا۔ وہ حلال ہوگئے جن کے پاس ہدی نہیں تھی اور حضرت عائشہ (رض) کو حیض کے ایام شروع ہوئے پس ہم نے اپنے حج کے احکام ادا کئے جب ایام تشریق کے بعد والی رات آئی (لیلۃ الحصبہ اس رات کو منیٰ سے واپسی پر محصب میں اترتے ہیں) تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کے اصحاب تو حج وعمرہ کے ساتھ واپس جائیں اور میں فقط حج کے ساتھ لوٹ جاؤں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا تم نے ان راتوں میں طواف نہیں کیا جب ہم مکہ آئے۔ عائشہ (رض) نے کہا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم جاؤ اور عمرہ کا احرام باندھو پھر تم فلاں فلاں جگہ پہنچ جاؤ۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کر رہی ہے۔ کہ حضرت صدیقہ (رض) اپنے عمرہ سے نکل گئیں جو فسخ حج کے سبب ان کے حج کی جگہ حیض کے پیش آنے کی بناء پر آیا تھا اس لیے کہ وہ اس عمرے کا طواف کیے بغیر عرفات کی طرف گئیں ۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا کہ تو اس عمرے سے فارغ ہوگئی ہے جب کہ اس نے اطلاع دی کہ میں نے مکہ پہنچنے کی راتوں میں طواف نہیں کیا تھا آپ نے ان کے ان افعال کو جو حضرت صدیقہ (رض) نے اپنے حج کے لیے کیے مثلاً وقوف عرفات یا اس کی طرف روانہ ہونا وغیرہ ان کو عمرہ سے نکالنے والا قرار دیا ۔ اسی وجہ سے آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اس کی جگہ مقام تنعیم سے احرام عمرہ باندھے۔ اب اس قائل کو کس طرح یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ ان کا طواف حج کے لیے تھا۔ اور وہ اس بعد والے حج اور دوسرے عمرے کے لیے کافی ہوجائے گا حالانکہ وہ اس عمرے سے تو وہ پہلے نکل چکیں ۔ ہمارے ہاں یہ بات ناممکن ہے اور قاسم بن محمد نے بھی اس سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٣٤‘ مسلم فی الحج ١٢٨‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣۔
حاصل روایت : یہ روایت دلالت کر رہی ہے کہ وہ اپنے اس عمرہ سے نکل گئی تھیں جو حج کے فسخ کے بعد انھوں نے باندھا تھا اور نکلنے کا سبب حیض تھا۔ حیض عرفات سے پہلے پیش آیا اور عمرہ کا طواف بھی ابھی نہ کیا تھا کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عائشہ (رض) کو فرمایا : اما کنت طفت بالبینتِ لیالی قدمنا ؟ یعنی اگر تو نے حیض سے قبل طواف کرلیا ہوتا تو تیرا عمرہ تیرے حج کے ساتھ پورا ہوجاتا جس سے تو فارغ ہوچکی۔
جب عائشہ (رض) نے آپ کو اطلاع دی کہ ان راتوں میں ‘ میں نے طواف نہیں کیا تو حج کے لیے کئے جانے والے افعال وقوف عرفات وغیرہ کو عمرہ سے خارج قرار دیا اور تنعیم سے الگ عمرہ کرنے کا حکم دیا۔
اب اس کے باوجود پھر کسی کو کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ ان کا حج والا طواف حج کا بھی تھا اور اس عمرے کا بھی تھا جس کو حیض کی وجہ سے وہ فسخ کرچکی تھیں اور نکل چکی تھیں ہمارے ہاں تو یہ ناممکن بات ہے۔ عبدالرحمن بن قاسم عن ابیہ عن عائشہ (رض) کی روایت ملاحظہ ہو۔

3846

۳۸۴۶ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَا نَذْکُرُ إِلَّا الْحَجَّ‘ فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْکِی فَقَالَ مَا یَبْکِیْکَ ؟ فَقُلْتُ : لَوَدِدْتُ أَنِّیْ لَمْ أَحُجَّ الْعَامَ‘ أَوْ لَمْ أَخْرُجَ الْعَامَ‘ قَالَ لَعَلَّک نُفِسْتِ ؟ .قُلْتُ : نَعَمْ‘ قَالَ فَإِنَّ ھٰذَا أَمْرٌ کَتَبَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ‘ فَافْعَلِیْ مَا یَفْعَلُ الْحُجَّاجُ‘ غَیْرَ أَنْ لَا تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ .قَالَتْ : فَلَمَّا جِئْنَا مَکَّۃَ‘ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہٖ اجْعَلُوْہَا عُمْرَۃً فَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہٗ ہََدْیٌ فَکَانَ الْہَدْیُ مَعَہٗ، وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ‘ وَعُمَرَ‘ وَعُثْمَانَ‘ وَذِی الْیَسَارَۃِ‘ ثُمَّ أَہَلُّوْا بِالْحَجِّ .فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ‘ طَہُرْتُ، فَأَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ فَأَتَیْ بِلَحْمِ بَقَرٍ‘ فَقُلْتُ مَا ھٰذَا ؟ فَقَالُوْا : أَہْدَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِہِ الْبَقَرَ‘ حَتّٰی اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ الْحَصْبَۃِ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّۃِ‘ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِیْ بَکْرٍ فَأَرْدَفَنِیْ خَلْفَہٗ‘ فَإِنِّیْ أَذْکُرُ أَنِّیْ کُنْتُ أَنْعَسُ‘ فَیَضْرِبَ وَجْہِیْ مُؤْخِرَۃَ الرَّحْلِ‘ حَتَّی جِئْنَا التَّنْعِیْمَ فَأَہْلَلْتُ بِعُمْرَۃٍ‘ جَزَائَ عُمْرَۃِ النَّاسِ الَّتِی اعْتَمَرُوْا بِہَا) فَھٰذَا مِثْلُ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ قَبْلَہٗ، وَقَدْ رَوَاہُ عُرْوَۃُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَبَیْنَ مِنْ ذٰلِکَ .
٣٨٤٦: عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے والد سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے اور ہم حج ہی کا تذکرہ کرنے والے تھے جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آنے لگا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا کیوں روتی ہو میں نے کہا میں تو خواہش رکھتی ہوں کاش کہ میں اس سال حج نہ کرتی یا اس سال حج کے لیے نہ نکلتی آپ نے فرمایا شاید تمہیں ایام آگئے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنات آدم کی مجبوری ہے۔ تم وہی کرو جو حجاج کرتے ہیں البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا عائشہ صدیقہ کہتی ہیں جب ہم مکہ پہنچ گئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو فرمایا اس کو عمرہ بنا لو تو سب لوگوں نے احرام کھول دیا سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی ہدی کے جانور تھے اسی طرح ابوبکر و عمر ‘ عثمان ] اور صاحب وسعت اصحاب ] کے پاس بھی پھر انھوں نے حج کا احرام باندھا جب یوم نحر آیا میں نے غسل طہارت کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے مکہ بھیجا میں نے طواف زیارت کیا تو گائے کا گوشت لایا گیا میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی ہدی دی ہے جب واپسی کی رات آئی میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ حج وعمرہ کے ساتھ لوٹیں گے اور میں صرف حج کے ساتھ لوٹوں گی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو حکم فرمایا انھوں نے مجھے اپنے پیچھے بٹھایا مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ میں سانس لیتی تو وہ میرا چہرہ کجاوے کی پچھلی جانب مارتے۔ (مراد تیز رفتاری سے سواری کو چلانا ہے) یہاں تک کہ ہم تنعیم میں آئے پس میں نے عمرے کا احرام باندھا یہ اس عمرے کی جگہ تھا جو لوگوں نے عمرہ کیا تھا یہ روایت پہلی روایت کی طرح ہے۔
تخریج : بخاری فی الحیض باب ٧‘ مسلم فی الحج ١٢٠‘ دارمی فی المناسک باب ٨٢‘ مسند احمد ٦؍٢٧٣۔
عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے یہ روایت اور زیادہ وضاحت سے بیان کی ہے۔ روایت عروہ یہ ہے۔

3847

۳۸۴۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ : خَرَجْنَا مُوَافِیْنَ لِلْہِلَالِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ شَائَ أَنْ یُہِلَّ بِالْحَجِّ‘ فَلْیُہْلِلْ‘ وَمَنْ شَائَ أَنْ یُہِلَّ بِالْعُمْرَۃِ‘ فَلْیُہْلِلْ‘ فَأَمَّا أَنَا فَإِنِّیْ أُہِلُّ بِالْحَجِّ‘ لِأَنَّ مَعِی الْہَدْیَ .قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْحَجِّ‘ وَمِنَّا مَنْ أَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ‘ وَأَمَّا أَنَا فَإِنِّیْ أَہْلَلْتُ بِالْعُمْرَۃِ‘ فَوَافَانِیْ یَوْمُ عَرَفَۃَ وَأَنَا حَائِضٌ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعِیْ عَنْکَ عُمْرَتَک‘ وَانْقُضِی شَعْرَک‘ وَامْتَشِطِیْ، ثُمَّ لَبِّیْ بِالْحَجِّ فَلَبَّیْتُ بِالْحَجِّ .فَلَمَّا کَانَتْ لَیْلَۃُ الْحَصْبَۃِ وَطَہُرْتُ، أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِیْ بَکْرٍ‘ فَذَہَبَ بِیْ إِلَی التَّنْعِیمِ‘ فَلَبَّیْتُ بِالْعُمْرَۃِ) ، قَضَائً لِعُمْرَتِہَا .فَبَیَّنَتْ عَائِشَۃُ أَنَّ حَجَّتَہَا کَانَتْ مَفْصُوْلَۃً مِنْ عُمْرَتِہَا‘ قَدْ کَانَتْ فِیْمَا بَیْنَہُمَا‘ نَقَضَتْ شَعْرَہَا وَامْتَشَطَتْ .فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ طَوَافُہَا لِحَجَّتِہَا‘ الَّتِیْ بَیْنَہَا وَبَیْنَ عُمْرَتِہَا مَا ذَکَرْنَا مِنَ الْاِحْلَالِ یُجْزِئُ عَنْہَا لِعُمْرَتِہَا وَلِحَجَّتِہَا ؟ ھٰذَا مُحَالٌ‘ وَہُوَ أَوْلَی مِنْ حَدِیْثِ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ إِنَّمَا أَخْبَرَ فِیْہِ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِقِصَّۃِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَأَنَّہَا لَمْ تَکُنْ حَلَّتْ بَیْنَ عُمْرَتِہَا وَحَجَّتِہَا‘ وَأَخْبَرَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ھٰذَا بِأَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہَا قَبْلَ دُخُوْلِہَا فِیْ حَجَّتِہَا‘ أَنْ تَدَعَ عُمْرَتَہَا‘ وَأَنْ تَفْعَلَ مَا یَفْعَلُ الْحَلَالُ‘ بِمَا ذَکَرَتْ فِیْ حَدِیْثِہَا .وَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ حَدِیْثَ عَطَائٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ کَمَا رَوَاہٗ عَنْہُ الْحَجَّاجُ‘ وَعَبْدُ الْمَلِکِ‘ لَا کَمَا رَوَاہٗ عَنْہُ ابْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ .وَاحْتَجَّ أَیْضًا الَّذِیْنَ قَالُوْا : یَطُوْفُ الْقَارِنُ لِحَجَّتِہٖ وَعُمْرَتِہِ طَوَافًا وَاحِدًا۔
٣٨٤٧: ہشام بن عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے بیان کیا کہ ہم چاند کی تاریخ کے مطابق نکلے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا جو چاہے حج کا احرام باندھے اور جو چاہے عمرہ کا احرام باندھے باقی میں تو حج کا احرام باندھوں گا اس لیے کہ میرے ساتھ ہدی ہے عائشہ (رض) فرماتی ہیں ہم میں سے بعض لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور بعض نے عمرے کا اور میں نے عمرے کا احرام باندھا۔ مگر عرفہ کے دنوں میں مجھے حیض آنے لگا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے عمرہ کو ترک کر دو اور اپنے بالوں کو کھول ڈالو۔ اور کنگھی کرلو پھر حج کا تلبیہ کہو پس میں نے حج کا تلبیہ کہا۔ جب منی سے واپسی کی رات آئی اور میں حیض سے پاک ہوگئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو حکم دیا وہ مجھے تنعیم لائے پس میں نے عمرہ کا تلبیہ اپنے عمرے کی قضا کے لیے کہا۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کردیا کہ میرا حج عمرہ سے الگ تھا اور ان دونوں کے مابین انھوں نے اپنے بالوں کو کنگھی کی اور کھولا۔ تو اب آپ ہی فرمائیں کہ یہ کس طرح جائز ہے کہ حضرت صدیقہ (رض) کا طواف ان کے حج کے لیے تھا وہ حج جو کہ اس حج اور ان کے عمرے کے مابین تھا کہ وہ طواف ان کے حج وعمرہ دونوں کے لیے کافی ہو یہ بالکل ناممکن ہے اور یہ روایت ابو الزبیر کی روایت سے اولیٰ ہے جو انھوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے۔ کیونکہ اس میں حضرت جابر (رض) نے صرف حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا واقعہ ذکر کیا ہے اور عمرہ اور حج کے مابین احرام کھولنے کا تذکرہ نہیں ہے۔ جب کہ اس روایت میں حضرت صدیقہ (رض) کا بیان ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج شروع کرنے سے قبل ترک عمرہ اور احرام سے خارج لوگوں والے افعال کا حکم فرمایا اور میں نے اسی طرح کیا جیسا کہ روایت میں مذکور ہے اور اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے عطا والی روایت تو حجاج وعبد الملک والی روایت کی طرح ہے ابن ابی نجیح کی طرح نہیں۔ جو لوگ قارن کے لیے حج وعمرہ کا ایک ہی طواف مانتے ہیں ان کی مستدل روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج ١١٥‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣‘ نسائی فی المناسک باب ٤٨‘ مسند احمد ٦؍١٩١۔
حاصل روایت : اس روایت میں جناب عائشہ (رض) نے واضح کیا ہے کہ میں نے عمرے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور حج اور سابقہ احرام عمرہ کے درمیان بالوں کو کھول کر کنگھی بھی کی تھی۔
پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا یہ طواف حج کے لیے تھا جس کے اور عمرے کے درمیان بالکل بال کھول کر کنگھی کرنے کا بھی معاملہ ہوا ہے کیا یہ طواف ان کے حج وعمرہ دونوں کے لیے کفایت کرسکتا ہے ؟ یہ ناممکن بات ہے یہ ابوالزبیر عن جابر (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے اس لیے کہ اس میں جابر (رض) کہتے ہیں کہ وہ اپنے عمرہ اور حج کے درمیان حلال نہیں ہوئیں اور عائشہ (رض) نے اس روایت میں اطلاع دی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس کو حج میں داخلے سے پہلے اپنے سابقہ عمرہ کو چھوڑنے کا حکم فرمایا تھا اور ان افعال کا حکم فرمایا جو حلال کرتا ہے اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ روایت عائشہ (رض) وہ درست ہے جس کو حجاج و عبدالملک نے عطاء عن عائشہ (رض) بیان کیا ہے نہ کہ وہ جس کو ابو نجیح نے بیان کیا اب حاصل یہ ہوا کہ حضرت عائشہ (رض) کا طواف حج فسخ شدہ عمرہ کی طرف سے کفایت کرنے والا نہیں کیونکہ عمرہ حج سے بالکل الگ ہے پس اس روایت سے استدلال درست نہیں۔
فریق اوّل کی دلیل خامس : اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حج قران کرنے والے کو ایک طواف و سعی کافی ہے۔

3848

۳۸۴۸ : بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَازِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَنَ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘ فَطَافَ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا) .قِیْلَ لَہُمْ : مَا أَعْجَبَ ھٰذَا‘ إِنَّکُمْ تَحْتَجُّوْنَ بِمِثْلِ ھٰذَا‘ وَقَدْ رَوَیْتُمْ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ) .(وَعَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ وَالْأَوْزَاعِیِّ‘ وَعَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ وَقَیْسِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ عَطَائٍ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہُمْ قَدِمُوْا صَبِیْحَۃَ رَابِعَۃٍ مُہِلِّیْنَ بِالْحَجِّ‘ فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَجْعَلُوْہَا عُمْرَۃً‘ وَہُوَ عَلَی الصَّفَا فِیْ آخِرِ طَوَافٍ) ، فَکَیْفَ تَقْبَلُوْنَ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ وَتَدَّعُوْنَ مِثْلَ ھٰذَا ؟ فَإِنْ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٨٤٨: ابوالزبیر (رض) نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج وعمرہ میں قران کیا اور ان کے لیے ایک طواف کیا۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا ۔ نہایت عجیب بات ہے کہ تم اس جیسی روایت سے استدلال کرتے ہو ۔ حالانکہ تم جعفر کی سند سے حضرت جابر (رض) کی یہ روایت ذکر کرچکے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کیا اور ابن جریج اور اوزاعی اور عمر وبن دینار اور قیس بن سعد کی جابر (رض) سے یہ روایت ذکر کرچکے کہ وہ چوتھی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو جناب رسول اللہ نے اسے عمرہ بنانے کا حکم دیا اس وقت آپ صفا پر طواف کے آخری چکر میں تھے ‘ ‘ تم اس جیسی روایت کس طرح قبول کرتے ہو اور اس جیسا دعویٰ کر رہے ہو۔ فریق اوّل سے اس روایت کو بھی فریق ثانی کے خلاف دلیل میں پیش کیا۔
تخریج : ترمذی فی الحج باب ١٠٢۔
نوٹ :: عجیب بات ہے کہ تم اس قسم کی روایت سے استدلال کرتے ہو حالانکہ تم جعفر بن محمد عن جابر (رض) روایت کرچکے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج میں افراد کیا۔
نمبر 2: ابن جریج و اوزاعی ‘ عمرو بن دینار کی روایت سے جواب ابن جریج ‘ اوزاعی ‘ عمرو بن دینار ‘ قیس بن سعد ان سب نے عطاء عن جابر (رض) روایت کی ہے کہ ہم چار ذی الحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے مکہ پہنچے ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کو عمرہ بنا لینے کا حکم فرمایا اور یہ اس وقت فرمایا جب آپ صفا پر اپنا آخری چکر مکمل فرما رہے تھے۔ آپ ابوالزبیر کی روایت ان اساطین علم کے مقابلے میں قبول کر رہے ہیں۔ دلیل میں تعارض کی وجہ سے استدلال درست نہیں۔
ایک اور اشکال : یہ روایت فریق ثانی کے خلاف ہے :

3849

۳۸۴۹ : بِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِیْ مَعْرُوْفٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَزِیْدُوْا عَلٰی طَوَافٍ وَاحِدٍ .قِیْلَ لَہُمْ : إِنَّمَا یَعْنِیْ جَابِرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِھٰذَا الطَّوَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ عَنْہُ أَبُو الزُّبَیْرِ .
٣٨٤٩: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ایک طواف سے زیادہ طواف نہ کرتے تھے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا ۔ اس طواف سے حضرت جابر (رض) کی مراد صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا ہے اور یہ بات ان سے ابو النربیر (رح) نے بیان کی ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایت : ابوالزبیر کی روایت خود اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ اس سے مراد صفا مروہ کے مابین سعی مراد ہے۔ ملاحظہ ہو۔

3850

۳۸۵۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْلُ (لَمْ یَطُفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا أَصْحَابُہُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ إِلَّا طَوَافًا وَاحِدًا) .وَإِنَّمَا أَرَادَ جَابِرًا بِھٰذَا‘ أَنْ یُخْبِرَہُمْ أَنَّ السَّعْیَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ لَا یُفْعَلُ فِیْ طَوَافِ یَوْمِ النَّحْرِ‘ وَلَا فِیْ طَوَافِ الصَّدْرِ‘ کَمَا یُفْعَلُ فِیْ طَوَافِ الْقُدُوْمِ .وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ھٰذَا‘ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا عَلَی الْقَارِنِ مِنَ الطَّوَافِ لِعُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہٖ‘ ہُوَ طَوَافٌ وَاحِدٌ‘ أَوْ طَوَافَانِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ صَحَّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ قَوْلِہِ فِی الْقَارِنِ‘ أَنَّہٗ یَطُوْفُ لِعُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہِ طَوَافًا وَاحِدًا‘ فَإِلٰی قَوْلِ مَنْ تُخَالِفُوْنَ قَوْلَہُ فِیْ ذٰلِکَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : إِلٰی قَوْلِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَعَبْدِ اللّٰہِ .
٣٨٥٠: ابوالزبیر (رض) نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب نے صفا ومروہ کے درمیان ایک طواف کیا ہے۔ اس سے حضرت جابر (رض) کا مقصد یہ ہے کہ ان کو بتلانا چاہتے ہیں صفا ومروہ کی سعی یوم نحر کے طواف میں نہیں کی جاتی اور نہ طواف صدر میں کی جاتی ہے۔ جیسا طواف قدوم میں کی جاتی ہے مگر اس روایت کے کسی حصہ میں یہ ثبوت نہیں ہے کہ قارن پر اس کے حج وعمرہ کا ایک طواف ہے یا دو طواف ہیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے قارن کے متعلق صحیح روایت میں ثابت ہے کہ وہ اپنے حج وعمرہ میں ایک طواف کرتے تھے ۔ تو اس سلسلہ میں ان کا قول ترک کر کے ان کے خلاف کس کا قول لیتے ہو۔ تو ان کو جواب میں کہا جائے گا۔ ہم ان کا قول چھوڑ کر حضرت علی اور ابن مسعود (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ جو کہ ذیل میں مذکور ہے۔
حاصل روایات : اس روایت سے جابر (رض) یہ خبر دینا چاہتے ہیں کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی یوم نحر والے طواف میں نہیں کی جاتی اور نہ طواف صدر میں کی جاتی ہے جیسا کہ طواف قدوم میں کی جاتی ہے۔
پس اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ قارن پر اس کے حج وعمرہ کا ایک طواف یا دو طواف لازم ہیں۔ پس یہ اشکال بھی بےحقیقت ہے۔
اشکال دوم : حضرت عمر (رض) سے ثابت ہے کہ قارن اپنے حج قران میں ایک طواف کرے گا اس میں ان کے قول کو کس کے مخالف قرار دو گے۔
حج قران میں دو طواف اور دو سعی کے لیے ہم حضرت علی اور ابن مسعود (رض) کے قول کو اختیار کریں گے چنانچہ قول علی (رض) ملاحظہ ہو۔

3851

۳۸۵۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ أَوْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ أَبِیْ نَصْرٍ‘ قَالَ : أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ‘ فَأَدْرَکْتُ عَلِیًّا فَقُلْتُ لَہٗ : إِنِّیْ أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ‘ أَفَأَسْتَطِیْعُ أَنْ أُضِیْفَ إِلَیْہِ عُمْرَۃً .قَالَ (لَا‘ لَوْ کُنْتُ أَہْلَلْتُ بِالْعُمْرَۃِ‘ ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ تَضُمَّ إِلَیْہَا الْحَجَّ‘ ضَمَمْتُہٗ) .قَالَ : قُلْتُ، کَیْفَ أَصْنَعُ اِذَا أَرَدْتُ ذٰلِکَ ؟ قَالَ : تَصُبُّ عَلَیْکَ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ ‘ ثُمَّ تُحْرِمُ بِہِمَا جَمِیْعًا‘ وَتَطُوْفُ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا طَوَافًا .
٣٨٥١: ابو نصر کہتے ہیں کہ میں نے حج کا احرام باندھنے کا ارادہ کیا میری حضرت علی (رض) سے ملاقات ہوگئی میں نے ان سے مسئلہ دریافت کیا۔ کیا میں اس کے ساتھ عمرہ کو ملا سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ ہاں اگر تو نے عمرے کا احرام باندھا ہوتا پھر تم حج کا ارادہ کرلیتے تو یہ ملا ناجائز تھا۔ میں نے پوچھا۔ اگر میرا یہ ارادہ بن جائے تو میں کس طرح ادا کروں ؟ آپ نے فرمایا۔ اپنے اوپر پانی کا لوٹا بہا کر غسل کرلو پھر دونوں کا اکٹھا احرام باندھ لو اور ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک ایک طواف کرو۔

3852

۳۸۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَنْصُوْرٌ‘ عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ أَبِیْ نَصْرٍ السُّلَمِیِّ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ مَنْصُوْرٌ‘ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُجَاہِدٍ‘ فَقَالَ : مَا کُنَّا نُفْتِی النَّاسَ إِلَّا بِطَوَافٍ وَاحِدٍ‘ فَأَمَّا الْآنَ‘ فَلاَ .
٣٨٥٢: ابو نصر سلمی نے حضرت علی (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3853

۳۸۵۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَطَائٍ ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ وَمَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أُذَیْنَۃَ‘ قَالَ : سَأَلْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٨٥٣: عبدالرحمن بن اذینہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے اسی طرح روایت بیان کی۔

3854

۳۸۵۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٨٥٤: ابو عوانہ نے سلیمان سے انھوں نے پھر اپنی اسناد سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔

3855

۳۸۵۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنْ أَبِیْ نَصْرٍ‘ مِثْلَہٗ .قَالَ مَنْصُوْرٌ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُجَاہِدٍ فَقَالَ : مَا کُنْتُ أُفْتِی النَّاسَ إِلَّا بِطَوَافٍ وَاحِدٍ‘ فَأَمَّا الْآنَ‘ فَلاَ .
٣٨٥٥: ابو عوانہ نے منصور سے ‘ انھوں نے ابراہیم سے ‘ انھوں نے مالک سے ‘ انھوں نے ابونصر سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔
منصور کہتے ہیں میں نے مجاہد کو یہ بات بیان کی تو کہنے لگے میں تو لوگوں کو ایک طواف کا فتویٰ دیتا تھا اب میں وہ فتویٰ نہ دوں گا (یعنی اس سے رجوع کرتا ہوں)

3856

۳۸۵۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ .ح .
٣٨٥٦: ابو عمران نے شجاع بن مخلد سے روایت نقل کی ہے۔

3857

۳۸۵۷ : وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَا : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ زَاذَانَ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ مَالِکٍ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَعَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَا (الْقَارِنُ یَطُوْفُ طَوَافَیْنِ‘ وَیَسْعَی سَعْیَیْنِ) .فَھٰذَا عَلِیٌّ وَعَبْدُ اللّٰہِ‘ قَدْ ذَہَبَا فِیْ طَوَافِ الْقَارِنِ إِلَی خِلَافِ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَحْرَمَ بِحَجَّۃٍ‘ وَجَبَتْ عَلَیْہِ بِمَا فِیْہَا مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ‘ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَوَجَبَ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ مَا قَدْ حُرِّمَ عَلَیْہِ بِإِحْرَامِہٖ بِہَا‘ مِنَ الْکَفَّارَاتِ‘ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ .کَذٰلِکَ اِذَا أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ وَجَبَتْ عَلَیْہِ أَیْضًا بِمَا فِیْہَا مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَوَجَبَ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ مَا حُرِّمَ عَلَیْہِ بِإِحْرَامِہٖ بِہَا مِنَ الْکَفَّارَاتِ‘ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ .وَکَانَ اِذَا جَمَعَہُمَا‘ فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ فِیْ حُرْمَتَیْنِ‘ حُرْمَۃِ حَجٍّ‘ وَحُرْمَۃِ عُمْرَۃٍ .فَکَانَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَنْ یَجِبَ عَلَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا‘ مِنَ الطَّوَافِ وَالسَّعْیِ‘ وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِنَ الْکَفَّارَاتِ‘ فِی انْتِہَاکِ الْحُرُمِ‘ الَّتِیْ حُرِّمَتْ عَلَیْہِ فِیْہَا‘ مَا کَانَ یَجِبُ عَلَیْہِ لَہَا‘ لَوْ أَفْرَدَہَا .فَأُدْخِلَ عَلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ فَقِیْلَ : فَقَدْ رَأَیْنَا الْحَلَالَ یُصِیْبُ الصَّیْدَ فِی الْحَرَمِ‘ فَیَجِبُ عَلَیْہِ الْجَزَائُ ‘ لِحُرْمَۃِ الْحَرَمِ‘ وَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ یُصِیْبُ صَیْدًا فِی الْحِلِّ‘ فَیَجِبُ عَلَیْہِ الْجَزَائُ لِحُرْمَۃِ الْحَرَامِ .وَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ اِذَا أَصَابَ صَیْدًا فِی الْحَرَمِ‘ وَجَبَ عَلَیْہِ جَزَاء ٌ وَاحِدٌ‘ لِحُرْمَۃِ الْاِحْرَامِ‘ وَدَخَلَ فِیْہِ حُرْمَۃُ الْجَزَائِ ‘ لِحُرْمَۃِ الْحَرَمِ .وَہُوَ فِیْ وَقْتِ مَا أَصَابَ ذٰلِکَ الصَّیْدَ فِیْ حُرْمَتَیْنِ‘ فِیْ حُرْمَۃِ إِحْرَامٍ‘ وَحُرْمَۃِ حُرُمٍ‘ فَلِمَ یَجِبُ عَلَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنَ الْحُرْمَتَیْنِ‘ مَا کَانَ یَجِبُ عَلَیْہِ لَہَا لَوْ أَفْرَدَہَا .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ الْقَارِنُ‘ فِیْمَا کَانَ یَجِبُ عَلَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْ عُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہٖ‘ لَوْ أَفْرَدَہَا‘ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ لَمَّا جَمَعَہُمَا إِلَّا مِثْلُ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ أَحَدَیْہِمَا‘ وَیَدْخُلُ مَا کَانَ یَجِبُ عَلَیْہِ لِلْأُخْرَی‘ لَوْ کَانَتْ مُفْرَدَۃً فِیْ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّکُمْ لَمْ تَقْطَعُوْا أَنَّ مَا یَجِبُ عَلَی الْمُحْرِمِ فِیْ قَتْلِہٖ الصَّیْدَ فِی الْحَرَمِ‘ جَزَاء ٌ وَاحِدٌ .وَقَدْ قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ : إِنَّ الْقِیَاسَ کَانَ عِنْدَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّہٗ یَجِبُ عَلَیْہِ جَزَائَ انِ جَزَاء ٌ لِحُرْمَۃِ الْاِحْرَامِ‘ وَجَزَاء ٌ لِحُرْمَۃِ الْحَرَمِ‘ وَأَنَّہُمْ إِنَّمَا خَالَفُوْا ذٰلِکَ اسْتِحْسَانًا .وَلٰـکِنَّا‘ لَا نَقُوْلُ فِیْ ذٰلِکَ‘ کَمَا قَالُوْا‘ بَلَ الْقِیَاسُ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا ذَکَرُوْا أَنَّہُمْ اسْتَحْسَنُوْہُ .وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ‘ أَنَّہٗ یَجُوْزُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَجْمَعَ بَیْنَ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ‘ وَلَا یَجْمَعَ بَیْنَ حَجَّتَیْنِ‘ وَلَا بَیْنَ عُمْرَتَیْنِ .فَکَانَ لَہٗ أَنْ یَجْمَعَ بِإِحْرَامٍ وَاحِدٍ‘ بَیْنَ شَکْلَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ‘ فَیَدْخُلَ بِذٰلِکَ فِیْہِمَا‘ وَلَا یَجْمَعَ بَیْنَ شَیْئَیْنِ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ‘ کَانَ لَہٗ أَنْ یَجْمَعَ أَیْضًا بِأَدَائِہِ جَزَائً وَاحِدًا‘ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ بِحُرْمَتَیْنِ مُخْتَلِفَتَیْنِ‘ وَحُرْمَۃِ الْحَرَمِ‘ الَّتِیْ لَا یُجْزِئُ فِیْہَا الصَّوْمُ‘ وَحُرْمَۃِ الْاِحْرَامِ الَّتِیْ یُجْزِئُ فِیْہَا الصَّوْمُ‘ وَیَکُوْنُ بِذٰلِکَ الْجَزَائِ الْوَاحِدِ مُؤَدِّیًا‘ عَمَّا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْہِمَا .فَلَمْ یَکُنْ لَہٗ أَنْ یَجْمَعَ بِأَدَائِہِ جَزَائً وَاحِدًا‘ عَمَّا یَجِبُ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَتَیْنِ مُؤْتَلِفَتَیْنِ مِنْ شَکْلٍ وَاحِدٍ‘ وَہُمَا حُرْمَۃُ الْعُمْرَۃِ‘ وَحُرْمَۃُ الْحَجِّ .کَمَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ أَنْ یَدْخُلَ بِإِحْرَامٍ وَاحِدٍ فِیْ حُرْمَۃِ شَیْئَیْنِ مُؤْتَلِفَیْنِ .وَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا أَیْضًا کَذٰلِکَ وَکَانَ الطَّوَافُ لِلْحَجَّۃِ‘ وَالطَّوَافُ لِلْعُمْرَۃِ‘ مِنْ شَکْلٍ وَاحِدٍ‘ لَمْ یَکُنْ بِطَوَافٍ وَاحِدٍ دَاخِلًا فِیْہِمَا‘ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ الطَّوَافُ مُجْزِئًا عَنْہُمَا‘ وَاحْتَاجَ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا دُخُولًا عَلَی حِدَۃٍ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ مِمَّا یَجْمَعُہُ بِإِحْرَامٍ وَاحِدٍ‘ مِنَ الْحَجَّۃِ وَالْعُمْرَۃِ الْمُخْتَلِفَیْنِ‘ وَمِمَّا ذَکَرْنَا‘ مِمَّا لَا یَجْمَعُہُ مِنَ الْحَجَّتَیْنِ الْمُؤْتَلَفَتَیْنِ‘ وَالْعُمْرَتَیْنِ الْمُؤْتَلَفَتَیْنِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَاہُ یَحِلُّ مِنْ حَجَّتِہٖ وَعُمْرَتِہِ بِحَلْقٍ وَاحِدٍ‘ وَلَا یَکُوْنُ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ‘ فَکَذٰلِکَ أَیْضًا یَطُوْفُ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا‘ وَیَسْعَیْ لَہُمَا سَعَیَا وَاحِدًا‘ لَیْسَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رَأَیْنَاہُ یَحِلُّ بِحَلْقٍ وَاحِدٍ مِنْ إِحْرَامَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ‘ لَا یَجْزِیْہِ فِیْہِمَا إِلَّا طَوَافَانِ مُخْتَلِفَانِ .وَذٰلِکَ أَنَّ رَجُلًا لَوْ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ فَطَافَ لَہَا وَسَعَی‘ وَسَاقَ الْہَدْیَ‘ ثُمَّ حَجَّ مِنْ عَامِہٖ، فَصَارَ بِذٰلِکَ مُتَمَتِّعًا‘ أَنَّہٗ کَانَ حُکْمُہُ یَوْمَ النَّحْرِ‘ أَنْ یَحْلِقَ حَلْقًا وَاحِدًا‘ فَیَحِلَّ بِذٰلِکَ مِنْہُمَا جَمِیْعًا .فَکَانَ یَحِلُّ بِحَلْقٍ وَاحِدٍ مِنْ إِحْرَامَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ‘ قَدْ کَانَ دَخَلَ فِیْہِمَا دُخُولًا مُتَفَرِّقًا .وَلَمْ یَکُنْ مَا وَجَبَ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ الْحَلْقِ‘ مُوْجِبًا أَنَّ حُکْمَ الطَّوَافِ لَہُمَا کَانَ کَذٰلِکَ‘ وَأَنَّہٗ طَوَافٌ وَاحِدٌ‘ بَلْ ہُوَ طَوَافَانِ .فَکَذٰلِکَ مِمَّا ذَکَرْنَا مِنْ حَلْقِ الْقَارِنِ لِعُمْرَتِہٖ وَحَجَّتِہِ حَلْقًا وَاحِدًا‘ لَا یَجِبُ بِہٖ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ لِحُکْمِ طَوَافِہِ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا .وَلَمَّا کَانَ قَدْ یَحِلُّ فِی الْاِحْرَامَیْنِ اللَّذَیْنِ قَدْ دَخَلَ فِیْہِمَا دُخُولًا مُتَفَرِّقًا‘ بِحَلْقٍ وَاحِدٍ‘ کَانَ فِی الْاِحْرَامَیْنِ اللَّذَیْنِ قَدْ دَخَلَ فِیْہِمَا دُخُولًا وَاحِدًا‘ أَحْرٰی أَنْ یَحِلَّ مِنْہُمَا کَذٰلِکَ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ عَلٰی مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعَبْدِ اللّٰہِ‘ مِنْ وُجُوْبِ الطَّوَافِ لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنَ الْعُمْرَۃِ وَالْحَجَّۃِ‘ وَعَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنَ النَّظَرِ عَلٰی ذٰلِکَ‘ مِنْ وُجُوْبِ الْجَزَائِ لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فِی انْتِہَاک حُرْمَتِہِمَا .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٨٥٧: زیاد بن مالک نے علی (رض) اور ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ قارن دو طواف اور دو سعی کرے گا۔ یہ حضرت علی وابن مسعود (رض) ہیں جو قارن کے متعلق اس بات کے قائل ہیں کہ وہ دو طواف کرے گا اور دو سعی اس پر لازم ہوگی۔ بحث ونظر کے لحاظ سے اس کی صورت یہ ہوگی کہ ہم اس بات کو پاتے ہیں کہ جب اس نے اپنے حج کا احرام باندھا تو اس پر طواف بیت اللہ اور سعی صفا ومروہ واجب ہوگئی اور احرام کی وجہ سے جو چیزیں اس پر لازم ہوئی ہیں ان کی خلاف ورزی سے اس پر کفارات بھی لازم ہوگئے ۔ جیسا کہ عمرے کا احرام باندھنے والے پر لازم ہوتے ہیں اور اس پر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی بھی لازم ہوگئی اور احرام کی بےحرمتی میں جو چیزیں لازم آتی ہیں وہ کفارات اس پر لازم ہوگئے ہیں جو حج وعمرہ کرنے والے پر لازم ہوتے ہیں ‘ اور جب اس نے دونوں کو جمع کرلیا تو سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ دو احراموں میں ہے۔ ایک احرام حج اور دوسرا احرام عمرہ ‘ اور قیاس و نظر تو یہی کہتے ہیں کہ اس پر ان میں سے ہر ایک کی وجہ سے طواف وسعی لازم ہو اور اسی طرح دیگر بےحرمتی کے کفارات نے اسے بچنا ضروری تھا اور اگر وہ حج افراد کرتا تو اس پر یہ لازم ہوتے۔ اس قول پر اعتراض کیا گیا ہے کہ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ اگر غیر محرم حرم میں شکار کرے تو حرم کی بےحرمتی سے اس پر بدلہ لازم ہوتا ہے اور یہ بات بھی پاتے ہیں کہ محرم اگر حرم میں شکار کرے تو اس پر ایک جزاء احرام کی بےحرمتی کی وجہ سے لازم آتی ہے۔ تو احرام کی بےحرمتی اور حرم کی بےحرمتی میں ایک سزا لازم ہوتی ہے یہاں ہر حرمت کی وجہ سے اس پر دو سزائیں لازم نہ ہوں گی جو ان کے الگ ہونے کی وجہ سے لازم ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قارن کا بھی یہی حکم ہے۔ کہ اس کے مفرد حج پر جو چیز لازم آتی ہے دونوں کو جمع کرنے کی صورت میں بھی وہی واجب ہوگا جو ایک میں واجب ہوتا تھا اور وہ ایک دوسرے میں داخل ہوجائیں گے جیسا کہ اگر وہ مفرد ہونے کی صورت میں تھا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا ۔ کہ تم کیے قطعی طور پر کہتے ہو کہ محرم کے حرم میں شکار کرنے پر ایک بدلہ لازم ہوتا ہے جب کہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ نے فرمایا ہے۔ ان کے ہاں قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر دو جزاء لازم ہوں ایک حرمت احرام کی وجہ سے اور دوسری حرمت حرم کی بناء پر مگر انھوں نے بطور استحسان اس کی مخالفت کی ہے۔ مگر ہم اس سلسلہ میں ان کی طرح نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمارے ہاں قیاس وہ ہے جس کو انھوں نے خلاف قیاس قرار دیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قاعدہ اتفاقی ہے کہ انسان کو حج وعمرہ کو اکٹھا کرنا درست ہے ‘ مگر دو حج یا دو عمرے جمع نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے یہ تو جائز ہے کہ ایک احرام میں دو مختلف شکلوں کو جمع کرے۔ اور اس صورت میں وہ دونوں میں داخل ہو سکے گا مگر ایک قسم کی دو عبادتوں کوا سے جمع کرنا درست نہیں جب یہ بات اسی طرح ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کی ہے۔ تو اس کے لیے جائز ہے کہ اپنی ادائیگی میں دو مختلف حرمتوں سے لازم ہونے والا کفارہ ایک بدلے میں جمع کرے۔ ایک حرم کی حرمت ہے کہ جس میں روزہ رکھنا درست نہیں اور دوسری حرمت احرام ہے جس میں روزہ درست ہے۔ اور وہ حرمت احرام جس میں روزہ جائز ہے تو اس جزاء سے وہ ان دونوں کی وجہ سے لازم ہونے والی جزاء کو ادا کرنے والا شمار ہوگا ۔ مگر اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔ کہ دو ملی ہوئی حرمتوں پر ایک ہی بدلہ ادا کرے ایک حرمت عمرہ اور دوسری حرمت حج جیسا کہ وہ ایک احرام کے ساتھ دو ملی ہو حرمتوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ جب یہ مذکورہ بات اسی طرح ہے۔ تو حج کا طواف اور عمرہ کا طواف ایک شکل کی وجہ سے ایک دوسرے کے طواف میں داخل نہ ہوگا اور یہ طواف دونوں کی طرف سے کفایت کرنے والا ہوگا ۔ بلکہ اس بات کی ضرورت ہوگی کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں الگ الگ داخل ہوگا ۔ قیاس و نظر کا تقاضا یہی ہے جس کو ہم نے ذکر کیا ہے۔ کہ ایک احرام سے حج وعمرہ جو باہم مختلف ہیں دونوں کو جمع کرسکتا ہے۔ یہ ان میں سے ہے جن کو وہ جمع کرسکتا ہے اور دو حج اور دو عمرے ملا کر ایک احرام میں جمع نہیں کیے جاسکتے۔ اگر کوئی اعتراض کرے ہم یہ بات تو پاتے ہیں حج وعمرہ کے احرام سے ایک حلق کے ذریعہ باہر آجاتا ہے اور اس پر ایک حلق کے علاوہ کچھ لازم نہیں پس اسی طرح یہاں بھی طواف وسعی ایک ایک مرتبہ ہو اور چیز لازم نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو مختلف احراموں سے ایک حلق سے باہر آجاتا ہے۔ جن میں اس پر دو مختلف طواف لازم ہیں اور اس کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عمرے کا احرام باندھے اور اس کے لیے طواف و سعی کرے اور ہدی بھی روانہ کرے پھر اسی سال حج بھی کرے تو اس سے وہ متمتع بن جائے گا۔ اور اس کو نحر کے دن ایک مرتبہ سرمنڈانا لازم ہے اور اس کی وجہ سے وہ دونوں مختلف احراموں سے فارغ ہوجائے گا۔ حالانکہ ان میں وہ الگ الگ داخل ہوا اور اس پر ایک حلق کا حکم اس پر ایک طواف کو لازم کرنے والا نہ ہوگا بلکہ اس پر دو طواف آئیں گے۔ پس اسی طرح قارن کا حلق بھی ایک دفعہ حج عمرہ دونوں کے لیے ہوگا مگر اس سے یہ لازم نہ آئے گا کہ اس کے ذمہ ایک طواف لازم ہو۔ جب دونوں احرام جن میں متفرق طور پر داخل ہوا ایک حلق سے باہر آسکتا ہے۔ تو پھر وہ دونوں احرام جن میں ایک ہی مرتبہ داخل ہوا اس میں بدرجہ اولیٰ ایک حلق سے باہر آسکتا ہے۔ اس باب میں تقاضائے قیاس یہی ہے جیسا کہ حضرت علی (رض) ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ ہر ایک یعنی عمرہ اور حج کے لیے ایک ایک طواف لازم ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے قیاس میں وجوب جزاء کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے اور ان کی حرمت توڑنے میں جزاء الگ الگ ہوگی اور یہی امام ابوحنیفہ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
حاصل روایت : یہ حضرت علی (رض) اور ابن مسعود (رض) جو طواف قارن میں ابن عمر (رض) کے خلاف فتویٰ دے رہے ہیں۔ پس ان دو حضرات کا فتویٰ راجح ہوگا۔
فریق اوّل کی آخری نظری دلیل :
جب کوئی آدمی حج وعمرہ کا احرام باندھ لے تو اس پر طواف و سعی واجب ہوجاتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ جو چیزیں احرام سے حرام کی ہیں ان کا ارتکاب نہ کرے اگر وہ ارتکاب کرے تو اس پر کفارہ لازم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح جب اس نے عمرے کا احرام باندھا تو اس پر طواف و سعی لازم ہوئے اور احرام کی خلاف ورزی میں کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ اور جب اس نے ان دونوں کو جمع کرلیا تو سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ دو احراموں میں ہے۔ نمبر ١: ایک حرمت حج اور دوسرا حرمت عمرہ۔ تقاضا نظر تو یہی ہے کہ ہر ایک کی وجہ سے ایک ایک طواف و سعی لازم ہو اور کفارات والے افعال کے ارتکاب سے الگ الگ جرمانہ لازم ہو۔ جیسا اگر الگ صرف حج کا احرام باندھا جاتا یا فقط عمرہ کا احرام باندھا جاتا تو ہر ایک کی طرف سے الگ الگ طواف و سعی اور الگ الگ جرمانہ لازم ہوتا مگر جرمانہ کے حق میں ایک کو دوسرے میں داخل تسلیم کیا مفرد بالحج کی طرح ایک کفارہ لازم کیا گیا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر حلال نے حدود حرم کے شکار کو مار ڈالا تو حرمت حرم کی وجہ سے اس پر ایک جرمانہ لازم آئے گا اور اسی طرح اگر محرم حج یا عمرہ نے حرم سے باہر شمکار مار ڈالا تو حرمت احرام کی وجہ سے اس پر ایک جرمانہ لازم ہوگا لیکن اگر محرم نے حدود حرم کے شکار کو قتل کردیا تو حرمت حرم اور احرام کی وجہ سے بظاہراًتو دو جرمانے لازم ہونے چاہئیں مگر دو لازم نہیں بلکہ حرمت حرم اور احرام دونوں کے جرم میں تداخل مان کر ایک ہی جرمانہ لازم کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح قارن جو حج وعمرہ کو جمع کرنے والا ہے اس کے اعمال میں تداخل مان کر ایک طواف و سعی لازم ہوگی۔ جیسا کہ جرم کی صورت میں ایک جرمانہ لازم آتا ہے۔ پس اس نظر سے ثابت ہوا کہ طواف و سعی بھی قارن کے ذمہ ایک ہی لازم ہوگی۔
الجواب للنظر :
جناب یہ تم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ قارن پر ایک جرمانہ لازم آتا ہے بلکہ ائمہ احناف کے ہاں تو دو جزائیں آنی چاہیں البتہ اس قیاس کی مخالفت بطور استحسان کی ہے اور استحسان کے طور پر ایک جرمانہ لازم کیا گیا ہے۔
مگر ہم اس سے فروتر کہتے ہیں کہ اس میں ایک قاعدہ کلیہ کو سامنے رکھو کہ حج وعمرہ کو جمع کرنا جائز ہے مگر دو حج یا دو عمرے کو جمع کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ مختلف شکلوں کو ایک احرام میں جمع کرسکتے ہیں۔ مگر دو متحد شکلوں کو ایک احرام میں جمع کرنا درست نہیں ہے۔ فلہذا جس طرح ایک احرام میں دو متحد شکلوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا اسی طرح دو مختلف شکلوں کو ایک احرام میں جمع کرنا جائز ہے تو بالکل اسی طرح دو مختلف حرمتوں کی حالت میں لازم ہونے والا جرمانہ جرم کی وجہ سے ایک جرم شمار ہو کر ایک ہوگا اور حرمت احرام اور حرمت حرم میں باہمی فرق ہے۔
نمبر 1: حرمت حرم کی وجہ سے جو جرمانہ لازم ہوتا ہے وہ روزے کی صورت میں ادا نہیں کیا جاسکتا مگر حرمت احرام کا جرمانہ روزے کی صورت میں ادا کرنا درست ہے۔
اس کے بالمقابل حرمت عمرہ اور حرمت حج دونوں دو متحد حرمتیں ہیں یعنی دونوں میں حرمت کا باعث احرام ہے۔ تو جس طرح ایک صنف کی دو متحد شکلوں کو ایک احرام میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ دو حج یا دو عمرے کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ اور دو الگ اصناف کے دو مختلف معاملوں کو ایک احرام میں جمع کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ عمرہ اور حج کو ایک ساتھ ایک احرام سے بھی ادا کرنا جائز ہے تو اسی طرح دو مختلف حرمتیں یعنی حرمت احرام اور حرمت حرم کے تاوان کو بھی ایک دوسرے میں داخل کر کے جمع کرنا تو جائز ہوگا مگر دو متحد حرمتوں یعنی احرام حج اور حرمت احرام عمرہ کے تاوان کو ایک دوسرے میں داخل کر کے جمع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ جب یہ ضابطہ اسی طرح ثابت ہوا تو اب طواف حج اور طواف عمرہ جو کہ شکل واحد کی قسم سے ہیں دونوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے ایک ہی طواف کرنا دونوں کی طرف سے کفایت نہ کرے گا پس اصل قیاس یہ ہے کہ جو ہم نے عرض کیا نہ کہ وہ جو تم پیش کر رہے ہو۔
آخری اشکال :
قارن کے لیے حج وعمرہ میں ایک حلق کافی ہے تو اسی طرح طواف و سعی بھی ایک کافی ہونی چاہیے۔

حل اشکال :
آپ نے طواف کو حلق پر قیاس کیا یہ قیاس ہی درست نہیں قارن کو حج وعمرہ میں ایک حلق بلاشبہ کافی ہے مگر طواف کا یہ حکم نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص ایام حج میں عمرہ کا احرام باندھ لیتا ہے اور ہدی بھی روانہ کرتا ہے تو ارکان عمرہ کی ادائیگی کے بعد وہ احرام نہیں کھول سکتا۔ بلکہ اسی حالت میں حج کا احرام باندھ کر ارکان حج ادا کرنے کے بعد نحر کے دن حج وعمرہ دونوں کی طرف سے ایک حلق کرا کر احرام کھول دے گا۔ حالانکہ اس پر عمرہ اور حج میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ طواف اور الگ الگ سعی کرنا ضروری تھی تو جب دونوں کے لیے ایک حلق وہاں کافی ہوا یہاں بھی کافی ہوا مگر وہ دو طواف لازم ہوئے تو یہاں ایک طواف پر اکتفاء کیسے درست ہوا۔
نوٹ : یہ ہوا کہ جس طرح تمتع بالہدی میں ایک حلق کی وجہ سے ایک طواف کافی نہیں ہوسکتا بلکہ دو ہی لازم ہوں گے اسی طرح قارن کے لیے بھی ایک حلق کی وجہ سے ایک طواف کافی نہ ہوگا بلکہ دو طواف و سعی کرنا لازم ہوں گے اور اسی طرح ایک جنایت میں دو جرمانے لازم ہوں گے۔ نمبر ایک حرمت عمرہ کو خراب کرنے کا اور دوسرا حرمت حج کو توڑنے کا ہمارے ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
نوٹ : یہ باب ایسا ہے کہ جس میں طحاوی (رح) نے اپنے دلائل ذکر نہیں کئے بس ان کے دلائل کے جوابات پر اکتفا کیا درحقیقت ان کے اعتراضات کے جوابات ہی دفاعی اور الزامی دلائل ہیں۔ اب تک کتاب میں اس طرح کا کوئی باب نہیں گزرا جس میں فریق ثانی کی طرف سے کوئی دلیل ذکر نہ کی گئی بلکہ پیش آنے والے اعتراضات کے جوابات ہوں۔ واللہ اعلم۔

3858

۳۸۵۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ (عُرْوَۃَ بْنِ مُضَرِّسٍ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجَمْعٍ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ ہَلْ لِیْ مِنْ حَجٍّ وَقَدْ أَنْضَیْتُ رَاحِلَتِیْ؟ فَقَالَ : مَنْ صَلَّیْ مَعَنَا ھٰذِہٖ الصَّلَاۃَ‘ وَقَدْ وَقَفَ مَعَنَا قَبْلَ ذٰلِکَ وَأَفَاضَ مِنْ عَرَفَۃَ لَیْلًا أَوْ نَہَارًا فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ وَقَضٰی تَفَثَہٗ) .
٣٨٥٨: شعبی نے عروہ بن مصرس (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جبکہ آپ مزدلفہ میں تھے میں نے سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میرا حج قبول ہوگا جب کہ میں نے چلا چلا کر اپنی اونٹنی کو کمزور کر ڈالا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہمارے ساتھ یہ نماز (نماز فجر) ادا کی اور اس سے پہلے اس نے ہمارے ساتھ وقوف مزدلفہ کیا اور وہ عرفات سے ہو کر لوٹا خواہ دن رات کی کسی گھڑی میں ہو اس کا حج پورا ہوگیا اور اس نے اپنے میل کچیل کو دور کرلیا یعنی احرام کھول کر مونچھیں ناخن بال وغیرہ لے لیے اور میل کچیل دور کرلی۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٦٨‘ ترمذی فی الحج باب ٥٧‘ نسائی فی الحج باب ٢١١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٥٧‘ مسند احمد ٤‘ ١٥؍٢‘ ٢٦١۔
مزدلفہ میں وقوف کے سلسلہ میں تین مسالک منقول ہیں :
نمبر 1: حسن بصری ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کے ہاں وقوف مزدلفہ رکن اور فرض ہے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا و محدثین کے ہاں وقوف مزدلفہ واجب یا سنت مؤکدہ ہے۔
نمبر 3: عطاء و اوزاعی رحمہم اللہ کے ہاں وقوف مزدلفہ سنت مؤکدہ ہے۔

3859

۳۸۵۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : أَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ ابْنِ أَبِی السَّفَرِ وَإِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ .وَزَکَرِیَّا عَنِ الشَّعْبِیِّ وَدَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدَ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ مُضَرِّسٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٨٥٩: ابن ابی السفر اور اسماعیل بن ابی خالد نے شعبی سے اور انھوں نے عروہ بن مضرس عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3860

۳۸۶۰ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ وَابْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ وَزَکَرِیَّا عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ وَدَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدَ قَالَ : سَمِعْتُ (عُرْوَۃَ بْنَ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَۃَ بْنِ لَائِمٍ الطَّائِیَّ یَقُوْلُ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمُزْدَلِفَۃَ‘ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ جِئْتُ مِنْ جَبَلَیْ طَیِّئٍ‘ وَوَاللّٰہِ مَا جِئْتُ حَتّٰی أَتْعَبْتُ نَفْسِیْ وَأَنْضَیْتُ رَاحِلَتِیْ‘ وَمَا تَرَکْتُ جَبَلًا مِنْ ھٰذِہِ الْجِبَالِ إِلَّا وَقَدْ وَقَفْتُ عَلَیْہٖ‘ فَہَلْ لِیْ مِنْ حَجٍّ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ شَہِدَ مَعَنَا ھٰذِہٖ الصَّلَاۃَ‘ صَلَاۃَ الْفَجْرِ بِالْمُزْدَلِفَۃِ‘ وَقَدْ کَانَ وَقَفَ بِعَرَفَۃَ قَبْلَ ذٰلِکَ لَیْلًا أَوْ نَہَارًا‘ فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ‘ وَقَضَی تَفَثَہٗ) .قَالَ سُفْیَانُ‘ وَزَادَ زَکَرِیَّا فِیْہٖ‘ وَکَانَ أَحْفَظَ الثَّلَاثَۃِ لِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ قَالَ : (فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَتَیْتُ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ مِنْ جَبَلَیْ طَیِّئٍ‘ قَدْ أَکَلَلْتُ رَاحِلَتِیْ‘ وَأَتْعَبْتُ نَفْسِیْ، فَہَلْ لِیْ مِنْ حَجٍّ ؟ فَقَالَ : مَنْ شَہِدَ مَعَنَا ھٰذِہٖ الصَّلَاۃَ‘ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّی نُفِیْضَ‘ وَقَدْ کَانَ وَقَفَ قَبْلَ ذٰلِکَ بِعَرَفَۃَ‘ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ‘ وَقَضَی تَفَثَہٗ) .قَالَ سُفْیَانُ : وَزَادَ دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدَ‘ قَالَ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنِ بَرَقَ الْفَجْرُ‘ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْوُقُوْفَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ فَرْضٌ‘ لَا یَجُوْزُ إِلَّا بِإِصَابَتِہٖ۔وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ) وَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ .وَقَالُوْا ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہِ الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ‘ کَمَا ذَکَرَ عَرَفَاتٍ‘ وَذَکَرَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سُنَّتِہٖ‘ فَحُکْمُہَا وَاحِدٌ‘ لَا یُجْزِئُ الْحَجُّ إِلَّا بِإِصَابَتِہَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : أَمَّا الْوُقُوْفُ بِعَرَفَۃَ‘ فَہُوَ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ الَّذِیْ لَا یُجْزِئُ الْحَجُّ إِلَّا بِإِصَابَتِہٖ‘ وَأَمَّا الْوُقُوْفُ بِمُزْدَلِفَۃَ‘ فَلَیْسَ کَذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ) لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ عَلَی الْوُجُوْبِ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا ذَکَرَ الذِّکْرَ‘ وَلَمْ یَذْکُرَ الْوُقُوْفَ‘ وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ لَوْ وَقَفَ بِمُزْدَلِفَۃَ‘ وَلَمْ یَذْکُرْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ حَجَّہُ تَامٌّ .فَإِذَا کَانَ الذِّکْرُ الْمَذْکُوْرُ فِی الْکِتَابِ‘ لَیْسَ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ‘ فَالْمَوْطِنُ الَّذِیْ یَکُوْنُ ذٰلِکَ الذِّکْرُ فِیْہٖ‘ الَّذِیْ لَمْ یُذْکَرْ فِی الْکِتَابِ‘ أَحْرٰی أَنْ لَا یَکُوْنَ فَرْضًا .وَقَدْ ذَکَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَشْیَائَ فِیْ کِتَابِہِ مِنَ الْحَجِّ‘ وَلَمْ یُرِدْ بِذِکْرِہَا إِیْجَابَہَا‘ حَتّٰی لَا یُجْزِئَ الْحَجُّ إِلَّا بِإِصَابَتِہَا فِیْ قَوْلِ أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .مِنْ ذٰلِکَ قَوْلِہٖ تَعَالٰی (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا) وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ لَوْ حَجَّ وَلَمْ یَطُفْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ أَنَّ حَجَّہُ قَدْ تَمَّ‘ وَعَلَیْہِ دَمٌ مَکَانَ مَا نَزَلَ مِنْ ذٰلِکَ .فَکَذٰلِکَ ذِکْرُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ فِیْ کِتَابِہٖ لَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی إِیْجَابِہٖ حَتّٰی لَا یُجْزِئَ الْحَجُّ إِلَّا بِإِصَابَتِہٖ۔وَأَمَّا مَا فِیْ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ بْنِ مُضَرِّسٍ‘ فَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ أَیْضًا عَلٰی مَا ذَکَرُوْا لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّمَا قَالَ فِیْہِ : (مَنْ صَلَّیْ مَعَنَا صَلَاتَنَا ھٰذِہِ‘ وَقَدْ کَانَ أَتَیْ عَرَفَۃَ قَبْلَ ذٰلِکَ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ وَقَضَی تَفَثَہٗ) .فَذَکَرَ الصَّلَاۃَ‘ وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ عَلٰی أَنَّہٗ لَوْ بَاتَ بِہَا‘ وَوَقَفَ وَنَامَ عَنِ الصَّلَاۃِ فَلَمْ یُصَلِّہَا مَعَ الْاِمَامِ حَتَّی فَاتَتْہُ‘ أَنَّ حَجَّہُ تَامٌّ .فَلَمَّا کَانَ حُضُوْرُ الصَّلَاۃِ مَعَ الْاِمَامِ الْمَذْکُوْرُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لَیْسَ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ الَّذِیْ لَا یُجْزِئُ الْحَجُّ إِلَّا بِإِصَابَتِہٖ‘ کَانَ الْمَوْطِنُ الَّذِیْ تَکُوْنُ فِیْہِ تِلْکَ الصَّلَاۃُ‘ الَّذِیْ لَمْ یُذْکَرْ فِی الْحَدِیْثِ‘ أَحْرٰی أَنْ لَا یَکُوْنَ کَذٰلِکَ .فَلَمْ یَتَحَقَّقْ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ ذِکْرُ الْفَرْضِ إِلَّا لِعَرَفَۃَ خَاصَّۃً .وَقَدْ رَوٰی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَعْمُرَ الدِّیْلِیُّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .
٣٨٦٠: داؤد بن ابی ہند نے عروہ بن مضرس بن روس بن حارثہ بن لائم الطائی کہتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مزدلفہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جبال طے سے آیا ہوں میں اس حالت میں پہنچا ہوں کہ میں نے اپنی اونٹنی کو تھکا دیا اور سواری کو کمزور کر ڈالا اور میں نے ان پہاڑوں میں سے ہر ایک پر وقوف کیا ہے کیا میرا حج ہوگیا ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آدمی نے ہماری اس نماز میں شرکت کی یعنی مزدلفہ میں نماز فجر پڑھی اور اس سے پہلے عرفات سے ہو کر لوٹا ہو خواہ دن میں یا رات میں تو اس کا حج پورا ہوا اور اس کی میل کچیل دور ہوئی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ بعض علماء نے اس قول کو اختیار کیا کہ وقوف مزدلفہ فرض ہے اور جب تک وہاں قیام نہ کرے حج درست نہ ہوگا ۔ انھوں نے اپنی دلیل اس آیت فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعرالحرام) اور اس مذکورۃ الصدر روایت سے لی۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مشعر حرام کا ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ عرفات کا تذکرہ فرمایا ہے اور آپ نے حدیث میں اس کا تذکرہ فرمایا اور دونوں کا حکم تو ایک جیسا ہے۔ حج دونوں کو پانے کے بغیر درست نہ ہوگا۔ دوسرے حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ وقوف عرفات تو حج کا اصل رکن ہے۔ اس کو پالینے کے بغیر حج درست نہیں رہا وقوف مزدلفہ وہ اس حکم میں نہیں ہے اور اس سلسلہ میں ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے : فاذا افضتم من عرفات فاذکرو اللہ عند المشعر الحرام۔۔۔ اس آیت میں مزدلفہ کے وجوب کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو آیت ذکر کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وقوف کا تو تذکرہ بھی نہیں اور سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر وہ مزدلفہ میں وقوف کرے مگر اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کرے تو اس کا حج پھر بھی پورا ہے۔ اس لیے کہ آیت میں مذکورہ ذکر یہ حج کے فرائض سے نہیں ہے۔ جب وہ مقام کہ جہاں یہ ذکر کیا جانا ہے۔ وہ کتاب اللہ میں مذکور نہیں تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ وہاں کا وقوف فرض نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی اشیاء کا تذکرہ حج کے سلسلہ میں فرمایا مگر ان کے تذکرہ سے ثبوت فرضیت مراد نہیں کہ اس کے پالینے کے بغیر حج ہی درست نہ ہو۔ یہ کسی عالم کا قول تو کجا کسی معان کو بھی یہ قول نہیں کہ اس کا حج نہ ہو۔ ان میں سے یہ آیت ہے : ” ان الصفا والمروہ من شعائر اللہ فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما “ اس میں صفا مروہ کی سعی کا تذکرہ فرمایا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص نے حج کیا اور صفاو مروہ کا طواف نہ کیا تو اس کا حج تام ہوجائے گا اور ترک سعی کی وجہ سے اس پر دم لازم ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مشعر حرام کا تذکرہ فرمایا یہ اس کے وجوب کی دلیل نہیں ہے کہ اس کا حج ہی اس کے بغیر درست نہ ہو۔ رہی روایت عروہ بن مضرس (رح) تو اس میں بھی اوّل قول والوں کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق فرمایا جس نے ہمارے ساتھ ہماری یہ نماز ادا کی اور وہ اس سے پہلے دن اور رات کی کسی گھڑی میں عرفات میں حاضر ہوا اس کا حج مکمل ہوگیا ۔ وہ اپنی میل کچیل اتارے ۔ آپ نے نماز کا تذکرہ فرمایا اور اس پر تمام کا اتفاق ہے کہ اگر وہ مزدلفہ میں رات گزارے اور نماز سے سو رہا اور امام کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہوا یہاں تک کہ وہ نماز فوت ہوگئی تو اس کا حج کامل ہے۔ پس جب امام کے ساتھ مزدلفہ والی نماز میں حاضری حج کا رکن نہیں ہے کہ اس کے بغیر حج نہ ہوتا ہو۔ تو وہ مقام جہاں یہ نماز پڑھی جاتی ہے اس کا حدیث میں تذکرہ بھی نہیں وہ زیادہ مناسب ہے کہ اس کا وقوف رکن حج نہ ٹھہرے۔ پس اس روایت سے مزدلفہ کی فرضیت ثابت نہ ہوسکی صرف عرفہ کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور عبد الرحمن بن یعمر دیلی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس طرح روایت نقل کی ہے۔ جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔ سفیان (رح) کہتے ہیں کہ زکریا نے جو کہ اس حدیث کے تینوں روات میں زیادہ حافظہ والے راوی ہیں یہ بھی ذکر کیا۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس وقت جبال طے سے آیا ہوں میں نے اپنی اونٹنی کو تھکا دیا اور اپنے نفس کو بھی عاجز کردیا کیا میرا حج مقبول ہوگا آپ نے فرمایا جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں حاضر ہوا اور ہمارے لوٹنے تک اس نے ہمارے ساتھ وقوف کیا اور وہ اس سے پہلے عرفات میں وقوف کرچکا تھا خواہ رات یا دن کی کسی گھڑی میں ہو پس اس کا حج مکمل ہوا اور اس نے اپنی میل کچیل کو دور کیا۔ سفیان (رح) کہتے ہیں داؤد بن ابی ہند نے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جب کہ فجر چمک اٹھی تھی پھر اسی طرح باقی روایت بیان کی۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢٨: ترمذی فی الحج باب ٥٧‘ نسائی فی المناسک باب ٢١١‘ دارمی فی المناسک باب ٥٤‘ مسند احمد ٤؍٢٦١۔
لغات : انضیت راحلتی۔ میں نے سواری کو کمزور کردیا۔ قضی تفثہ۔ میل کچیل دور کرنا۔ اکللت راحلتی۔ عاجز و ماندہ کرنا۔ برق الفجر۔ فجر کا روشن ہونا۔ اتعبت۔ تھکانا۔
نوٹ : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وقوف عرفات کی طرح وقوف مزدلفہ بھی لازم ہے ان دونوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکمیل حج کا حصہ بتلایا۔ دونوں کو ایک ہی انداز میں ذکر فرمایا۔ نیز قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عندالمشعرالحرام (البقرہ آیت ١٩٨) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عرفات کی طرح مشعر حرام کا بھی اسی طرح ذکر فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں رکن ہیں ان دونوں کو پالینے کے بغیر حج نہ ہوگا جس طرح وقوف عرفات کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے اسی طرح وقوف مزدلفہ کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جوابات :
وقوف مزدلفہ واجب یا کم از کم سنت مؤکدہ ہے۔ خالفہم فی ذلک آخرون سے یہی مراد ہیں۔ امام مالک کے ہاں یہاں لمحہ بھر اترنے کے بغیر گزرا تو دم لازم ‘ امام شافعی نصف رات سے پہلے منیٰ چلا گیا تو دم لازم بعد میں گیا تو دم نہ آئے گا امام ابوحنیفہ کے ہاں رات گزارنا سنت اور طلوع فجر کے بعد طلوع آفتاب سے ذرا پہلے تک وقوف واجب ہے۔ اس کے فوت ہونے پر دم لازم ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب : آیت جس کو استدلال میں پیش کیا گیا اس میں وقوف مزدلفہ کی فرضیت پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لیے کہ آیت کریمہ میں صرف تذکرہ فرمایا گیا ہے وقوف کا تو ذکر بھی نہیں اور اس میں ذکر کا حکم فرمایا گیا ہے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی نے مزدلفہ میں وقوف کیا اور اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کیا تب بھی اس کا حج تام ہے۔ تو ذکر کا ذکر موجود ہے مگر وہ فرض نہیں تو وقوف جس کا ذکر بھی نہیں وہ کیسے فرض ہوگیا اللہ تعالیٰ نے حج کے اور کئی مناسک کا تذکرہ قرآن مجید میں فرمایا ہے مگر ان کے تذکرہ سے بالاتفاق ان کا وجوب مراد نہیں ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ان الصفا والمروہ من شعائر اللہ فمن حج البیت اواعتمر الایہ (البقرہ آیت ١٥٨) تو کسی کے ہاں بھی صفا مروہ ایسا رکن نہیں کہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجاتا ہو بلکہ اس کے بغیر حج تام ہوجاتا ہے۔ البتہ اس کے ترک سے ایک دم لازم ہے تو جس طرح صفا ومروہ کی سعی قرآن مجید میں مذکور ہونے کے باوجود فرض نہیں ہے۔ وقوف مزدلفہ بھی فرض نہ ہوگا اگرچہ مشعرحرام کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔
روایت عروہ بن مضرس (رض) کا جواب : اس روایت میں بھی وقوف مزدلفہ کی فرضیت پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے ہمارے ساتھ نماز فجر پڑھتی اور اس سے پہلے وہ عرفات سے ہو کر آیا تھا خواہ دن کے کسی حصہ میں یا اس رات کے کسی حصہ میں تو اس کا حج تمام ہوا اور اس نے اپنی میل کچیل کو دور کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں نماز فجر کا ذکر فرمایا ہے حالانکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی نے مزدلفہ میں رات گزاری اور وقوف کیا مگر نماز سے سویا رہا اور امام کے ساتھ نماز ادا نہیں کی یہاں تک کہ نماز فوت ہوگئی تو اس کا حج کامل ہوگیا جب وہ نماز جس کا تذکرہ روایت میں موجود ہے جب امام کے ساتھ فوت ہوجانے کی حالت میں تب بھی حج کامل ہوجاتا ہے تو روایت مذکورہ میں مذکور نماز جب حج کا رکن نہیں تو وہ مقام جہاں یہ نماز پڑھی جاتی ہے اس کا رکن حج نہ ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگا۔
اس حدیث سے تو صرف وقوف عرفات کا رکن حج ہونا ثابت ہو رہا ہے اور عبدالرحمن بن یعمر دیلی (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے۔ جو اس پر دلالت کرتی ہے۔

3861

۳۸۶۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَطَائٍ ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَعْمُرَ الدِّیْلِیِّ قَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفَاتٍ‘ فَأَقْبَلَ أُنَاسٌ مِنْ أَہْلِ نَجْدٍ فَسَأَلُوْہُ عَنِ الْحَجِّ .فَقَالَ : الْحَجُّ یَوْمُ عَرَفَۃَ‘ وَمَنْ أَدْرَکَ جَمْعًا قَبْلَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ أَیَّامَ مِنًی ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ‘ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ (فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْہِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْہِ) ثُمَّ أَرْدَفَ خَلْفَہٗ رَجُلًا یُنَادِیْ بِذٰلِکَ) .
٣٨٦١: بکیر بن عطاء نے عبدالرحمن بن دیلی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرفات میں وقوف کی حالت میں دیکھا کچھ نجد کے لوگ آگے بڑھے اور انھوں نے حج کے سلسلہ میں سوالات کئے آپ نے فرمایا۔ حج یوم عرفہ ہے جس نے دسویں کی نماز صبح سے پہلے پہلے مزدلفہ کو پا لیا اس نے حج کو پا لیا۔ منیٰ تین دن ایام تشریق ہیں جس نے پہلے دو دنوں میں جلدی کی (یعنی ١١‘ ١٢ کو رمی کرلی اور پھر مکہ لوٹ گیا) تو اس پر کچھ گناہ نہیں جو تیسرے دن بھی ٹھہرا اس پر بھی کچھ گناہ نہیں (البقرہ ٢٠٣) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیچھے ایک آدمی کو بٹھایا جو لوگوں میں اس کا اعلان کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٦٨‘ ترمذی فی الحج باب ٥٧‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٥٧۔

3862

۳۸۶۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَطَائٍ ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَعْمُرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ ، وَلَمْ یَذْکُرْ سُؤَالَ أَہْلِ نَجْدٍ‘ وَلَا إرْدَافَہُ الرَّجُلَ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ أَہْلَ نَجْدٍ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَجِّ‘ فَکَانَ جَوَابُہٗ لَہُمْ (الْحَجُّ یَوْمُ عَرَفَۃَ) وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ جَوَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ الْجَوَابُ التَّامُّ‘ الَّذِیْ لَا نَقْصَ فِیْہٖ‘ وَلَا فَضْلَ‘ لِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ آتَاہُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَخَوَاتِمَہٗ فَلَوْ کَانَ عِنْدَمَا سَأَلُوْہُ عَنِ الْحَجِّ أَرَادُوْا بِذٰلِکَ مَا لَا بُدَّ مِنْہُ فِی الْحَجِّ‘ لَکَانَ یَذْکُرُ عَرَفَۃَ‘ وَالطَّوَافَ‘ وَمُزْدَلِفَۃَ‘ وَمَا یُفْعَلُ مِنَ الْحَجِّ .فَلَمَّا تَرَکَ ذٰلِکَ فِیْ جَوَابِہِ إِیَّاہُمْ‘ عَلِمْنَا أَنَّ مَا أَرَادُوْا بِسُؤَالِہِمْ إِیَّاہُ عَنِ الْحَجِّ‘ ہُوَ مَا اِذَا فَاتَ‘ فَاتَ الْحَجُّ‘ فَأَجَابَہُمْ بِأَنْ قَالَ (الْحَجُّ یَوْمُ عَرَفَۃَ) .فَلَوْ کَانَتْ مُزْدَلِفَۃُ کَعَرَفَۃَ‘ لَذَکَرَ لَہُمْ مُزْدَلِفَۃَ‘ مَعَ ذِکْرِہِ عَرَفَۃَ‘ وَلٰکِنَّہٗ ذَکَرَ عَرَفَۃَ خَاصَّۃً‘ لِأَنَّہَا صُلْبُ الْحَجِّ‘ الَّذِی اِذَا فَاتَ‘ فَاتَ الْحَجُّ .ثُمَّ قَالَ کَلَامًا مُسْتَأْنَفًا‘ لِیَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ مَنْ أَدْرَکَ جَمْعًا‘ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ‘ لَیْسَ عَلٰی مَعْنٰی أَنَّہٗ أَدْرَکَ جَمِیْعَ الْحَجِّ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ فِیْ أَوَّلِ کَلَامِہِ (الْحَجُّ عَرَفَۃَ) فَأَوْجَبَ بِذٰلِکَ أَنَّ فَوْتَ عَرَفَۃَ‘ فَوْتُ الْحَجِّ .ثُمَّ قَالَ (وَمَنْ أَدْرَکَ جَمْعًا قَبْلَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ) لَیْسَ عَلٰی مَعْنٰی أَنَّہٗ لَمْ یَبْقَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَجِّ شَیْء ٌ‘ لِأَنَّ بَعْدَ ذٰلِکَ طَوَافُ الزِّیَارَۃِ‘ وَہُوَ وَاجِبٌ لَا بُدَّ مِنْہُ‘ وَلٰـکِنْ فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ‘ بِمَا تَقَدَّمَ لَہٗ مِنَ الْوُقُوْفِ بِعَرَفَۃَ .فَھٰذَا أَحْسَنُ مَا خُرِّجَ مِنْ مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ وَصُحِّحَتْ عَلَیْہِ وَلَمْ تَتَضَادَّ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ لِلضَّعَفَۃِ أَنْ یَتَعَجَّلُوْا مِنْ جَمْعٍ بِلَیْلٍ .وَکَذٰلِکَ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُغَیْلِمَۃَ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‘ وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَرَخَّصَ لِسَوْدَۃِ فِیْ تَرْکِ الْوُقُوْفِ بِہَا .
٣٨٦٢: بکیر بن عطاء نے عبدالرحمن بن یعمر سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر اس میں اہل نجد کے سوال کا تذکرہ نہیں اور نہ اس بات کا تذکرہ ہے کہ اعلان کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو پیچھے بٹھایا۔ اس روایت میں ہم یہ بات پاتے ہیں کہ اہل نجد نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حج کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حج عرفہ کا نام ہے اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب ایسا کامل جواب ہے جس میں کسی کمی اور اضافے کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو امع الکلم کا معجز عنایت فرمایا تھا۔ اور شاندار اختتام بھی۔ اگر ان حضرات کا سوال حج کے وقت یہ ارادہ ہو تاکہ حج میں کیا کیا ضروری امور ہیں تو آپ عرفہ ‘ طواف ‘ مزدلفہ کا ذکر فرماتے اور جو دیگر افعال حج میں ادا کیے جاتے ہیں جب آپ نے ان تمام کا تذکرہ ترک فرمایا تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ ان لوگوں کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے رہ جانے سے حج رہ جاتا ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب دیا : الحج یوم عرفۃ ۔ کہ حج یوم عرفہ کی حاضری ہے۔ اگر مزدلفہ عرفہ کی طرح ہوتا تو آپ لازماً اس کی طرح اس کا بھی تذکرہ فرماتے ۔ آپ نے خصوصا عرفہ کا تو ذکر فرمایا مگر مزدلفہ کا نہیں کیونکہ حج کا اصل رکن یہی ہے کہ جس کے رہ جانے سے حج رہ جاتا ہے۔ پھر آپ نے بطور جملہ مستانفہ کلام فرمایا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے ۔ کہ جس نے مزدلفہ کو طلوع فجر سے پہلے پہلے پالیا۔ اس نے گویا حج کو پالیا اس ادراک کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ اس نے تمام حج کو پالیا کیونکہ شروع کلام میں یہ ثابت ہوچکی ” الحج عرفۃ “ تو اس کلام سے آپ نے فوات عرفہ کو فوت حج قرار دیا پس اس سے یہ لازم آیا کہ عرفات کا فوت ہوجانا حج کے رہ جانے کا باعث ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جس نے مزدلفہ کو نماز صبح سے پہلے پالیا تو اس نے حج کو پالیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب اس کا کوئی فرض حج باقی نہیں رہا۔ کیونکہ ابھی تو طواف زیارت باقی ہے جو کہ واجب ہے اور اس کا کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس نے حج کو پالیا یعنی جو پہلے وقوف عرفات کرلیا اس نے اس سے حج کو تو پالیا۔ ان آثار کے معانی کو اس انداز سے اختیار کرنا نہایت شاندار ہے۔ اس سے تضاد باقی نہیں رہتا۔ باقی نظر وفکر کے انداز سے اس کی صورت یہ ہے۔ کہ یہ بات پاتے ہیں کہ اس پر تمام متفق ہیں کہ کمزور لوگوں کو مزدلفہ سے رات ہی کو روانہ کردیا جائے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلمان بنی عبد المطلب کے متعلق یہی حکم فرمایا ہم ان شاء اللہ اس روایت کو اپنے موقعہ لائیں گے اور حضرت سودہ (رض) کو ترک وقوف کی رخصت مرحمت فرمائی جیسا اس روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایات : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل نجد نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حج کے متعلق سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا ” الحج یوم عرفۃ “ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کا جواب کامل جواب ہے جس میں نہ کمی ہے اور نہ اضافہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوامع الکلم سے نوازا تھا اگر حج کے متعلق سوال کرتے ہوئے وہ ان تمام چیزوں کا سوال کرتے جو حج کی ضروریات ہیں تو آپ ان کے سامنے عرفات ‘ طواف ‘ مزدلفہ اور دیگر مناسک حج کا ذکر فرماتے۔
مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جواب میں تمام باتوں کو چھوڑ کر صرف عرفات کا ذکر فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سوال حج کی ایسی چیز سے متعلق تھا جس کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب مرحمت فرمایا ” الحج یوم عرفۃ “ اگر مزدلفہ بھی عرفات کی طرح ہوتا تو آپ مزدلفہ کا ذکر بھی ساتھ فرماتے مگر آپ نے عرفہ کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ وہ حج کا اصل رکن ہے جس کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے پھر آپ نے الگ سے فرمایا نماز صبح سے پہلے مزدلفہ کو پا لیا تو اس نے حج کو پا لیا اس کا یہ معنی نہیں کہ اب حج کا کوئی عمل اس کے ذمہ باقی نہیں رہا کیونکہ اس کے بعد طواف زیارت باقی ہے جو کہ واجبات حج سے ہے لیکن اس نے حج کو پا لیا اس وجہ سے کہ اس کا مرکزی رکن وقوف عرفات ادا کرچکا۔
بلکہ روایت میں ایک جملہ خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ مزدلفہ کے وقوف کے لیے عرفات کا وقوف تلازم کے طور پر ذکر کیا۔ کہ اگر وہ وقوف عرفات نہ پائے اور مزدلفہ کا وقوف پالے تب بھی حج نہیں ملے گا ارشاد یہ ہے : وقف معنا حتی نفیض وقد کان وقف قبل ذلک لعرفۃ من لیل اونہار فقدتم حجہ “ قد کان وقف جملہ حالیہ ہے گویا وقوف مزدلفہ کے ساتھ یہ حال نہ ہوگا تو پھر حج تمام نہ ہوگا فتدبر۔ مذکورہ بالا توجیہ سے آثار کا تعارض و تضاد جاتا رہے گا۔
نظر طحاوی (رض) :
اس بات پر سب متفق ہیں کہ ضعیف و کمزور لوگ بوڑھے عورتیں بچے رات ہی جلدی کر کے منی پہنچ جائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو منیٰ کی طرف رات ہی روانہ فرما دیا تھا۔ عنقریب وہ روایات آئیں گی۔ اسی طرح سودہ (رض) کو بھاری جسم ہونے کی وجہ سے وقوف مزدلفہ ترک کر کے منی آنے کی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ روایت یہ ہے۔

3863

۳۸۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَتْ سَوْدَۃُ الْمَرْأَۃُ ثَبِطَۃً‘ ثَقِیْلَۃً‘ فَاسْتَأْذَنَتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُفِیْضَ مِنْ جَمْعٍ‘ قَبْلَ أَنْ تَقِفَ فَأَذِنَ لَہَا‘ وَلَوَدِدْتُ أَنِّیْ کُنْتُ اسْتَأْذَنْتہ فَأَذِنَ لِی) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَسَقَطَ عَنْہُمَ الْوُقُوْفُ بِمُزْدَلِفَۃَ لِلْعُذْرِ‘ وَرَأَیْنَا عَرَفَۃَ‘ لَا بُدَّ مِنَ الْوُقُوْفِ بِہَا‘ وَلَا یَسْقُطُ ذٰلِکَ لِعُذْرٍ .فَمَا سَقَطَ بِالْعُذْرِ‘ فَہُوَ الَّذِیْ لَیْسَ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ‘ وَمَا لَا بُدَّ مِنْہُ‘ فَلاَ یَسْقُطُ بِعُذْرٍ وَلَا بِغَیْرِہِ‘ فَہُوَ الَّذِیْ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ .أَلَا تَرٰی أَنَّ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ ہُوَ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ‘ وَأَنَّہٗ لَا یَسْقُطُ عَنِ الْحَائِضِ بِالْعُذْرِ‘ وَأَنَّ طَوَافَ الصَّدْرِ لَیْسَ مِنْ صُلْبِ الْحَجِّ‘ وَہُوَ یَسْقُطُ عَنِ الْحَائِضِ بِالْعُذْرِ‘ وَہُوَ الْحَیْضُ .فَلَمَّا کَانَ الْوُقُوْفُ بِمُزْدَلِفَۃَ مِمَّا یَسْقُطُ بِالْعُذْرِ‘ کَانَ مِنْ شَکْلِ مَا لَیْسَ بِفَرْضٍ‘ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا وَصَفْنَا .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٣٨٦٣: قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے سودہ (رض) نے بھاری بھر کم جسامت کی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزدلفہ سے منیٰ لوٹنے کی اجازت طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت مرحمت فرما دی اور میری بھی تمنا تھی کہ کاش میں بھی اجازت طلب کرلیتی تو مجھے بھی اجازت مل جاتی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے عذر کی وجہ سے وقوف مزدلفہ کو ساقط کردیا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وقوف عرفہ کسی سے بھی عذر کی وجہ سے بھی ساقط نہیں۔ پس جس کو ساقط کیا گیا معلوم ہوا وہ رکن حج نہیں اور جس کو ساقط نہیں کیا وہ رکن حج ہوا اسی وجہ سے کسی بھی عذر سے وہ ساقط نہ ہو اور نہ بلا عذر ساقط ہوا ذرا توجہ تو کرو ۔ کہ طواف زیادہ بھی ارکان حج سے ہے ‘ اسی لیے وہ حائض سے بھی باوجود عذر کے ساقط نہیں اور طواف ساقط ہوجاتا ہے۔ پس جب یہ بات دیکھی کہ وقوف مزدلفہ تو عذر سے ساقط ہوجاتا ہے اور یہ اس کی صورت ہے جو فرض نہیں پس اس سے یہ ثابت ہوگیا جو ہم نے بیان کیا اور وہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ومحمدرحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٨‘ مسلم فی الحج ٢٩٣؍٢٩٤‘ نسائی فی الحج باب ٢٠٩؍٢١٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦٢‘ دارمی فی المناسک باب ٥٣‘ مسند احمد ٦‘ ٣٠؍٩٤‘ ٩٤؍١٣٣‘ ١٦٤؍٢١٤۔
قول طحاوی (رح) :
عذر کی وجہ سے ان سے وقوف مزدلفہ کو ساقط فرما دیا اور عرفات کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا وقوف کسی سے بھی ساقط نہیں فرمایا نہ بچے سے نہ عورت سے نہ لنگڑے نہ اپاہج سے معلوم ہوا عرفات عذر کی وجہ سے ساقط بھی نہیں ہوسکتا اور جو عذر کی وجہ سے ساقط ہوجائے وہ حج کا بنیادی رکن نہیں کہ جس کے بغیر چارہ کار نہ ہو وہ عذر و بلاعذر کسی صورت سے ساقط نہیں ہوتا پس وہی حج کا بنیادی رکن ہے غور کرو کہ طواف زیارت وہ حج کا رکن ہے وہ حائضہ عورت سے بھی ساقط نہیں ہوتا بہرصورت کرنا پڑتا ہے۔ اور طواف صدر وہ ارکان حج سے نہیں وہ عذر حیض کی وجہ سے ساقط ہوجاتا ہے۔
پس جب وقوف مزدلفہ عذر کمزوری کی وجہ سے ساقط ہوا تو یہ ان کے ساتھ ہوا جو کہ فرض نہیں۔ گویا تقاضائے نظر سے بھی مزدلفہ کا وقوف فرض ثابت نہیں ہوتا یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ ‘ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں وقوف مزدلفہ کی عدم فرضیت پر دو دلیلیں پیش کی گئی ہیں اور فریق اوّل کے جوابات دے کر اس بات کو بےغبار ثابت کیا ہے۔

3864

۳۸۶۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ (خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی مَکَّۃَ‘ فَلَمَّا أَتَیْ جَمْعًا‘ صَلَّی الصَّلَاتَیْنِ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ‘ وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَہُمَا) .
٣٨٦٤: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود (رض) کے ساتھ مکہ کی طرف نکلا جب ہم مزدلفہ میں آئے آپ نے دو نمازیں پڑھائیں ہر ایک ایک اذان اور اقامت سے ادا فرمائی اور ان کے درمیان کوئی نماز (نفلی) نہیں پڑھی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٨۔
باب کے عنوان سے تو صرف مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع کا مسئلہ بیان کرنا مقصود ہے مگر ضمناً اس عنوان کے تحت جمع بین الصلاتین فی العرفات بھی ذکر کردیا جائے گا اسی طرح منیٰ میں قصر صلوۃ کا مسئلہ بھی مذکور ہوگا عرفات کے میدان میں مسافر امام تو بالاتفاق دو رکعت پڑھائے گا اور اس کی اقتداء میں مسافر تو قصر کریں گے مقیمین کے متعلق امام مالک قصر کے قائل ہیں البتہ ائمہ ثلاثہ قصر کی بجائے اتمام کو لازم کہتے ہیں موجودہ زمانہ میں امام حج مسافر ہے اس لیے مسافروں کو جماعت کے ساتھ قصر لازم ہے۔ عرفات میں عصر کو ظہر کے وقت میں جمع تقدیم کے ساتھ امام ابوحنیفہ احمد ‘ مالک کے ہاں ایک اذان اور دو اق امتوں سے ادا کریں گے۔ امام مالک کے مشہور قول میں دو اذان اور دو اقامت کے ساتھ ادا کی جائیں گی۔ اب رہا مزدلفہ میں جمع تاخیر ہوگی مغرب کو عشاء کے وقت ادا کریں گے ۔ ! امام مالک دو اذان اور دو اقامت سے نماز کو واجب کہتے ہیں۔
نمبر 1: احناف کے ہاں ایک اذان اور ایک اقامت سے دونوں نمازیں ادا کی جائیں گی۔
نمبر 2: امام احمد ‘ شافعی کے ہاں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ دونوں نمازیں ادا کی جائیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : مغرب و عشاء کو جمع تاخیر کے ساتھ دو اذان اور دو اقامت سے ادا کریں ذہب قوم الی ہذین سے یہی مراد ہیں۔ دلائل یہ ہیں۔

3865

۳۸۶۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّہٗ صَلّٰیْ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاتَیْنِ مَرَّتَیْنِ بِجَمْعٍ‘ کُلُّ صَلَاۃٍ بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ‘ وَالْعَشَائُ بَیْنَہُمَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ فَزَعَمُوْا أَنَّ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ ‘ یُجْمَعُ بَیْنَہُمَا بِمُزْدَلِفَۃَ بِأَذَانَیْنِ وَإِقَامَتَیْنِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : أَمَّا الْأُوْلٰی مِنْہُمَا‘ فَتُصَلّٰی بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ‘ وَأَمَّا الثَّانِیَۃُ‘ فَتُصَلّٰی بِلَا أَذَانٍ وَلَا إقَامَۃٍ .وَقَالُوْا : أَمَّا مَا کَانَ مِنْ فِعْلِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمِنْ تَأْذِیْنِہٖ لِلثَّانِیَۃٖ،فَإِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّ النَّاسَ قَدْ کَانُوْا تَفَرَّقُوْا لِعَشَائِہِمْ‘ فَأَذَّنَ لِیَجْمَعَہُمْ .وَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ نَحْنُ اِذَا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنِ الْاِمَامِ لِعَشَائٍ أَوْ لِغَیْرِہِ‘ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَذَّنَ لِیَجْتَمِعُوْا لِأَذَانِہٖ۔ فَھٰذَا مَعْنٰی مَا رُوِیَ فِیْ ھٰذَا عَنْ عُمَرَ‘ وَاَلَّذِی رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ فَہُوَ مِثْلُ ھٰذَا أَیْضًا .
٣٨٦٥: اسود نے روایت کی ہے کہ میں نے جناب عمر (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں دو مرتبہ دو نمازیں پڑھیں۔ ہر نماز اذان و اقامت کے ساتھ پڑھی مگر شام کا کھانا ان دونوں کے درمیان تناول کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے ان روایات کو سامنے رکھ کر یہ خیال کیا کہ مغرب و عشاء مزدلفہ میں دو اذان اور دو اقامت سے جمع کی جائیں گی ۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ان میں سے پہلی نماز تو ایک اذان اور اقامت پڑھی جائے گی۔ باقی حضرت عمر (رض) کا عشاء کے لیے اذان دلانا اس لیے تھا کہ لوگ کھانا کھانے کے لیے منتشر ہوگئے تو ان کو جمع کرنے کے لیے اذان دلوائی اور ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جب لوگ امام سے منتشر ہوجائیں تو ان کے جمع کرنے کے لیے اذان دی جاسکتی ہے۔ خواہ کھانے یا کسی دوسری ضرورت کے لیے منتشر ہوں۔ پس آپ نے موذن کو حکم دیا تاکہ اذان کی وجہ سے وہ جمع ہوجائیں اور اسی طرح کی روایت حضرت عمر (رض) سے مروی ہے اور ابن مسعود (رض) سے بھی اس کی مثل مروی ہے روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایات : ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مزدلفہ میں مغرب و عشاء الگ الگ اذان و اقامت سے ادا کی جائیں گی۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل و جواب : ایک اذان اور ایک اقامت سے دونوں نمازوں کو ادا کیا جائے گا ان دونوں نمازوں میں سنن سے بھی فاصلہ نہ کیا جائے گا۔
فریق اوّل کا جواب : حضرت عمر (رض) کے فعل کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے کھانے کا فاصلہ فرمایا اور لوگ اس کے لیے منتشر ہوگئے تھے تو ان کو جمع کرنے کے لیے اذان دوبارہ دلوائی اور اب بھی اگر لوگ حاجات کے لیے منتشر ہوجائیں تو ان کو جمع کرنے کے لیے اذان دی جاسکتی ہے۔ اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے فعل کی تاویل یہی ہے کہ انھوں نے عشاء کا کھانا مغرب کے بعد تناول فرمایا تو لوگوں کے منتشر ہونے کی وجہ سے اذان دلوائی گئی۔ اس لیے ان دونوں افعال سے ہر ایک نماز کے لیے اذان و اقامت کے ضروری ہونے پر استدلال درست نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ روایت ہے۔

3866

۳۸۶۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ: کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَادَ یَجْعَلُ الْعَشَائَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ .فَقَدْ عَادَ مَعْنٰی مَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ ھٰذَا‘ إِلٰی مَعْنٰی مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا .ثُمَّ نَظَرْنَا مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ اِذَا صَلَّیْنَا مَعًا‘ کَیْفَ نَفْعَلُ فِیْہِمَا۔
٣٨٦٦: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) عشاء کی نماز مزدلفہ میں ادا کرتے مگر دونوں نمازوں کے درمیان کھانا تناول فرماتے تو اس روایت کا مفہوم بھی فعل عمر (رض) کی طرح ہوگیا۔ حضرت ابن مسعود (رض) والی روایت کا معنیٰ لوٹ کر حضرت عمر (رض) کی روایت کی طرح ہوگیا ۔ پھر ہم نے ان دونوں کو اکٹھا پڑھنے کے سلسلہ میں مروی روایات میں غور کیا کہ ان کو اکٹھا پڑھنے کا کیا طریقہ ہوگا ۔ روایات ذیل میں ہیں۔

3867

۳۸۶۷ : فَإِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ أَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ بِجَمْعٍ الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا‘ وَالْعِشَائَ رَکْعَتَیْنِ‘ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ .ثُمَّ حَدَّثَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ وَحَدَّثَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ .
٣٨٦٧: حکم کہتے ہیں میں نے سعید بن جبیر کے ساتھ مزدلفہ میں نماز مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت ادا کی انھوں نے (ایک اذان) ایک اقامت سے دونوں نمازیں ادا کیں پھر کہنے لگے ابن عمر (رض) اسی طرح کرتے تھے اور ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام پر اسی طرح کیا۔ یہ ابن عمر (رض) جناب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بتلا رہے ہیں کہ آپ نے ان دونوں نمازوں کو ادا کیا اور ان کے مابین اذان نہیں کہی اور نہ اقامت کہی اور ابن عمر (رض) سے ان الفاظ کے علاوہ الفاظ سے بھی روایت آئی ہے۔

3868

۳۸۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ أَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ سَعِیْدِ ابْنِ جُبَیْرٍ بِجَمْعٍ الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا‘ وَالْعِشَائَ رَکْعَتَیْنِ‘ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ .ثُمَّ حَدَّثَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ وَحَدَّثَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ .
٣٨٦٨: حکم بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن حبیبہ (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت ادا فرمائی۔ اور اقامت ایک ہی کہی پھر انھوں نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے اسی طرح کیا اور ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ اسی طرح کیا۔

3869

۳۸۶۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْحَکَمُ بْنُ عُتَیْبَۃَ‘ وَسَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ قَالَا : صَلّٰی بِنَا سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ بِإِقَامَۃٍ الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا‘ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیَ الْعِشَائِ ‘ ثُمَّ حَدَّثَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ صَنَعَ بِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ وَحَدَّثَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَنَعَ بِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ مِثْلَ ذٰلِکَ .
٣٨٦٩: سلمہ بن کھیل اور حکم بن عتیبہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر نے ہمیں نماز مغرب تین رکعت ایک اقامت کے ساتھ پڑھائی جب سلام پھیرا تو اٹھ کر عشاء دو رکعت پڑھائی پھر ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ انھوں نے اس مقام پر اسی طرح کیا اور ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ ہمیں اسی طرح نماز پڑھائی۔
تخریج : ترمذی فی حج باب ٥٦۔

3870

۳۸۷۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : شَہِدْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ أَقَامَ بِجَمْعٍ الصَّلَاۃَ وَأَحْسَبُہٗ قَالَ (أَذَّنَ) فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا‘ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ رَکْعَتَیْنِ بِالْاِقَامَۃِ الْأُوْلٰی‘ وَحَدَّثَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا صَنَعَ فِیْ ھٰذَا الْمَکَانِ ھٰذَا‘ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ .
٣٨٧٠: حکم بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں موجود تھا انھوں نے جماعت کرائی اور میرا خیال ہے کہ انھوں نے فرمایا اذان دو پھر مغرب تین رکعت پھر اٹھے اور عشاء دو رکعت پڑھائی نئی اقامت نہیں کہی سابقہ اقامت پر اکتفار کیا۔ اور انھوں نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے اس جگہ اسی طرح کیا اور ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ اسی طرح کیا۔

3871

۳۸۷۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِجَمْعٍ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ) .
٣٨٧١: سعید بن جبیر نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب و عشاء کی نماز مزدلفہ میں ایک اقامت سے پڑھائی۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٦‘ مسلم فی الحج ٢٨٨۔

3872

۳۸۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٨٧٢: عبداللہ بن مالک نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3873

۳۸۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ .ح .
٣٨٧٣: ابن مرزوق نے ابو عامر انھوں نے سفیان سے روایت نقل کی ہے۔

3874

۳۸۷۴ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیْدٍ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا‘ وَالْعِشَائَ رَکْعَتَیْنِ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ .فَقِیْلَ لَہٗ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ مَا ھٰذَا .فَقَالَ : صَلَّیْتُہٗ مَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْمَکَانِ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ) .
٣٨٧٤: عبداللہ بن مالک نے کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) کے پیچھے نماز مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت ایک اقامت سے ادا کیں۔ ان سے سوال ہوا کہ اے ابو عبدالرحمن ! یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا میں نے یہ دونوں نمازیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس جگہ ایک اقامت سے ادا کیں۔

3875

۳۸۷۵ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ .ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ (عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ بِإِقَامَۃٍ لَیْسَ مَعَہَا أَذَانٌ ثَلاَثَ رَکَعَاتٍ‘ ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ قَالَ : الصَّلَاۃَ‘ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ .فَقَالَ لَہٗ مَالِکُ بْنُ الْحَارِثِ مَا ھٰذِہٖ الصَّلَاۃَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ؟ قَالَ صَلَّیْتُ ہَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْمَکَانِ‘ لَیْسَ مَعَہُمَا أَذَانٌ) .
٣٨٧٥: مالک بن حارث کہتے ہیں کہ ہمیں ابن عمر (رض) نے مزدلفہ میں نماز مغرب تین رکعت صرف اقامت سے پڑھائی اذان نہ دی پھر سلام پھیر کر فرمایا نماز حاضر ہے پھر کھڑے ہو کر عشاء دو رکعت پڑھائی پھر سلام پھیرا ان کو مالک بن حارث نے کہا اے ابو عبدالرحمن یہ کیسی نماز ہے ؟ انھوں نے کہا میں نے یہ دونوں نمازیں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس جگہ اد اکیں ان کے ساتھ اذان نہ تھی۔

3876

۳۸۷۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَرْبَعَۃٌ کُلُّہُمْ ثِقَۃٌ‘ مِنْہُمْ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ‘ وَعَلِیٌّ الْأَزْدِیُّ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ صَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَلَّاہُمَا‘ وَلَمْ یُؤَذِّنْ بَیْنَہُمَا‘ وَلَمْ یُقِمْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ھٰذَا شَیْء ٌ بِلَفْظٍ‘ غَیْرِ ھٰذَا اللَّفْظِ .
٣٨٧٦: مجاہد کہتے ہیں کہ مجھے چار آدمیوں نے بیان کیا ان میں سعید بن جبیر اور علی ازدی رحمہم اللہ ہیں کہ ابن عمر (رض) نے مزدلفہ میں نماز مغرب و عشاء ایک اقامت سے ادا کیں۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٨٨۔
حاصل روایات : یہ ابن عمر (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق خبر دے رہے ہیں کہ انھوں نے یہ نمازیں اسی طرح ادا کیں ان کے درمیان اذان نہیں دی اور نہ اقامت کہی۔

3877

۳۸۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ جَمِیْعًا‘ لَمْ یُنَادِ فِیْ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا إِلَّا بِالْاِقَامَۃِ‘ وَلَمْ یُسَبِّحْ بَیْنَہُمَا‘ وَلَا عَلٰی إِثْرِ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا) .
٣٨٧٧: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب و عشاء کی نماز مزدلفہ میں اکٹھی پڑھائی ان دونوں میں سے کسی کے لیے اذان نہیں دی فقط اقامت کہی اور ان کے مابین تسبیح (نوافل) سے بھی فاصلہ نہیں کیا اور نہ ان کے بعد نوافل ادا کئے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٨٧‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦٠۔

3878

۳۸۷۸ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (لَمْ یُنَادِ بَیْنَہُمَا‘ وَلَا عَلٰی إِثْرِ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا إِلَّا بِإِقَامَۃٍ) .وَہٰکَذَا حِفْظِیْ عَنْ یُوْنُسَ‘ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ‘ غَیْرَ أَنِّیْ وَجَدْتُہٗ فِیْ کِتَابِیْ نَصَصْتُہٗ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .
٣٨٧٨: عبداللہ بن نافع نے ابن ابی ذئب سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ اتنا فرق ہے۔ یہ کہا کہ ان کے درمیان اذان نہیں دی اور نہ ان میں سے کسی ایک کے بعد سوائے اقامت کے اور کچھ نہیں کہا۔
قول طحاوی (رح) :
یونس عن ابن وہب کی روایت میری یاد داشت میں اسی طرح ہے البتہ مخطوطہ میں پہلی روایت کی طرح ہے۔

3879

۳۸۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِجَمْعٍ‘ لَمْ یُنَادِ فِیْ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا إِلَّا بِإِقَامَۃٍ‘ وَلَمْ یُسَبِّحْ بَیْنَہُمَا) .فَقَوْلُہٗ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ (وَلَمْ یُنَادِ فِیْ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا إِلَّا بِإِقَامَۃٍ) فَذٰلِکَ مُحْتَمِلٌ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الْاِقَامَۃَ الَّتِیْ أَقَامَہَا لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا .وَیَحْتَمِلُ‘ الْاِقَامَۃَ الَّتِیْ أَقَامَہَا لَہُمَا‘ غَیْرَ أَنَّ أَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَحْمِلَ ذٰلِکَ عَلَی الْاِقَامَۃِ الَّتِیْ أَقَامَہَا‘ لِیَتَّفِقَ مَعْنٰی ذٰلِکَ‘ وَمَعْنٰی مَا رَوَیْنَاہُ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ‘ وَعَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ‘ مَا یُوَافِقُ مِنْ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٣٨٧٩: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع کیا ان میں سے ہر ایک میں اذان نہیں دی فقط اقامت کہی۔ اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز ادا نہیں کی۔ اس روایت میں ان کا یہ قول (ولم یناد فی کل واحدۃ منھما الا باقامۃ) کہ اقامت کے علاوہ ان میں سے کسی میں بھی اذان نہیں دی گئی ” اس میں دو احتمال ہیں نمبر ١ اس سے مراد وہ اقامت ہے جو ہر ایک کے لیے کہی گئی نمبر ٢ اس سے وہ اقامت مراد ہو جو دونوں کے لیے کہی گئی۔ البتہ ہمارے ہاں اس کا بہتر مطلب یہ ہے کہ اس سے وہ اقامت مراد لیجائے جس سے دونوں نمازوں کو قائم کیا گیا تاکہ اس روایت اور اس قبل منقولہ روایات کا معنی متضاد نہ ہو۔ ابن جبیر نے ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور ابو ایوب انصاری اور براء بن عازب (رض) سے اس کے موافق روایت نقل کی ہے۔
الم یناد فی کل واحدۃ منہما الا باقامۃ اس جملے میں دو احتمال ہیں نمبر ایک ہر ایک کے لیے اقامت کہی۔ نمبر دو دونوں کے لیے ایک اقامت کہی۔ ہم دوسرا معنی لیتے ہیں تاکہ سعید بن جبیر نے ابن عمر (رض) سے جو روایت نقل کی ہے اس کے ساتھ اس کی موافقت ہوجائے۔
اور ابو ایوب انصاری (رض) براء بن عازب (رض) سے اس کے موافق روایات وارد ہیں۔ روایت ابو ایوب انصاری (رض) ۔

3880

۳۸۸۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الرُّوْمِیُّ قَالَ : أَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : أَنَا غَیْلَانُ‘ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ (صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ) .
٣٨٨٠: عبداللہ بن یزید انصاری نے ابو ایوب انصاری (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مغرب و عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ایک اقامت سے پڑھیں۔

3881

۳۸۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یُّصَلِّی الْأُوْلٰی مِنْہُمَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ‘ وَالثَّانِیَۃَ بِإِقَامَۃٍ بِلَا أَذَانٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٣٨٨١: عبداللہ بن یزید نے براء بن عازب (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا بلکہ پہلی اذان و اقامت اور دوسری نماز فقط اقامت سے ادا کی جائے گی اور انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب و عشاء کی نماز ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی جائیں گی۔
فریق ثالث کا مؤقف : ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھی جائیں گی۔ دلیل یہ روایات ہیں۔

3882

۳۸۸۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ فَقَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَتَی الْمُزْدَلِفَۃَ صَلّٰی بِہَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ ‘ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَیْنِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَیْنِ‘ وَھٰذَا خِلَافُ مَا رَوَیْ مَالِکُ بْنُ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْأَوَّلَ مِنَ الصَّلَاتَیْنِ اللَّتَیْنِ تُجْمَعَانِ بِعَرَفَۃَ‘ یُؤَذَّنُ لَہَا وَیُقَامُ‘ فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ الْأُوْلٰی مِنَ الصَّلَاتَیْنِ اللَّتَیْنِ تُجْمَعَانِ بِجَمْعٍ .
٣٨٨٢: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مزدلفہ میں تشریف لائے تو وہاں مغرب و عشاء ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کیں۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز مغرب و عشاء ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ کے ساتھ ادا کیں اور یہ روایت مالک بن حارث نے جو ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے اس کے خلاف ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ دونوں نمازیں جن کو عرفہ میں جمع کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک اذان اور اقامت کہی جاتی ہے۔ پس نظر وفکر کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں نمازیں جن کو مزدلفہ میں جمع کیا جاتا ہے۔ ان کا حکم پہلی نمازوں جیسا ہو۔
حاصل روایت : یہ روایت مالک بن حارث نے ابن عمر (رض) سے جو روایت کی ہے اس کے خلاف ہے اس میں ایک اذان اور دو اقامت کا تذکرہ ہے اور اس بات پر اتفاق ہے کہ عرفات میں جو نمازیں اکٹھی پڑھی جاتی ہیں ان کے لیے ایک اذان اور اقامت کہی جاتی ہے پس اسے سامنے رکھتے ہوئے مزدلفہ میں جمع کی جانے والی نمازوں کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔

3883

۳۸۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ کُرَیْبٍ مَوْلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یَقُوْلُ : (دَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَۃَ‘ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ‘ ثُمَّ تَوَضَّأَ‘ فَلَمْ یُسْبِعَ الْوُضُوْئَ ‘ فَقُلْتُ لَہٗ : الصَّلَاۃَ‘ فَقَالَ : الصَّلَاۃُ أَمَامَک .فَرَکِبَ حَتّٰی جَائَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ‘ فَنَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوْئَ ‘ ثُمَّ أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ‘ ثُمَّ أَنَاخَ کُلُّ إِنْسَانٍ بَعِیْرَہُ فِیْ مَنْزِلِہٖ، ثُمَّ أُقِیْمَتَ الْعِشَائُ ‘ فَصَلَّاہَا‘ وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَہُمَا شَیْئًا) .فَقَدْ اُخْتُلِفَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّلَاتَیْنِ بِمُزْدَلِفَۃَ‘ ہَلْ صَلَّاہُمَا مَعًا ؟ أَوْ عَمِلَ بَیْنَہُمَا عَمَلًا ؟ فَرُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأُسَامَۃَ .وَاخْتُلِفَ عَنْہُ کَیْفَ صَلَّاہُمَا ؟ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ‘ وَقَالَ بَعْضُہُمْ : بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَیْنِ‘ وَقَالَ بَعْضُہُمْ : بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ لَیْسَ مَعَہُمَا أَذَانٌ فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَکَانَتِ الصَّلَاتَانِ یُجْمَعُ بَیْنَہُمَا بِمُزْدَلِفَۃَ‘ وَہُمَا الْمَغْرِبُ وَالْعِشَائُ ‘ کَمَا یُجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِعَرَفَۃَ‘ وَہُمَا الظُّہْرُ وَالْعَصْرُ‘ فَکَانَ ھٰذَا الْجَمْعُ فِیْ ہٰذَیْنِ الْمَوْطِنَیْنِ جَمِیْعًا لَا یَکُوْنُ إِلَّا لِمُحْرِمٍ فِیْ حُرْمَۃِ الْحَجِّ‘ فَلاَ یَکُوْنُ لِحَلَالٍ وَلَا لِمُعْتَمِرٍ غَیْرِ حَاجٍّ‘ وَکَانَتِ الصَّلَاتَانِ بِعَرَفَۃَ تُصَلّٰی أَحَدُہُمَا فِیْ إِثْرِ صَاحِبَتِہَا‘ وَلَا یُعْمَلُ بَیْنَہُمَا عَمَلٌ‘ وَکَانَتَا یُؤَذَّنُ لَہُمَا أَذَانًا وَاحِدًا‘ وَیُقَامُ لَہُمَا إقَامَتَیْنِ کَمَا یُفْعَلُ بِعَرَفَۃَ سَوَائً .ھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَہُوَ خِلَافُ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَذٰلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَذْہَبُوْنَ فِی الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِعَرَفَۃَ إِلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَیَذْہَبُوْنَ فِی الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِمُزْدَلِفَۃَ إِلٰی أَنْ یَجْعَلُوْا ذٰلِکَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ‘ وَیَحْتَجُّوْنَ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ .وَکَانَ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ یَذْہَبُ فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی أَنْ یُصَلِّیَہُمَا بِإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍ لَا أَذَانَ مَعَہُمَا‘ عَلٰی مَا رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَلَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ جَابِرٍ مِنْ ھٰذَا‘ أَحَبُّ إِلَیْنَا‘ لِمَا شَہِدَ لَہُ النَّظْرُ‘ ثُمَّ وَجَدْنَا بَعْدَ ذٰلِکَ حَدِیْثَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَدْ عَادَ إِلٰی مَعْنَیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٣٨٨٣: کریب مولیٰ ابن عباس (رض) سے انھوں نے اسامہ بن زید (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ کریب نے اسامہ کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ سے روانہ ہوئے جب گھاٹی میں پہنچے تو سواری سے اتر کر پیشاب سے فراغت حاصل کی پھر پورا وضو نہیں کیا صرف ہاتھ دھوئے میں نے کہا نماز قریب ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز تمہارے آگے یعنی مزدلفہ میں پڑھی جائے گی پھر آپ سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ میں تشریف لائے اور اتر کر پورا وضو فرمایا پھر نماز پڑھائی مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد ہر آدمی نے اپنے اونٹ کو اپنے ٹھکانے پر بٹھایا پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھائی۔ ان کے درمیان کوئی چیز (نماز نفل) نہیں پڑھی گئی۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزدلفہ کی نماز کے سلسلہ میں مختلف روایات وارد ہیں کہ آیا آپ نے ان کو اکٹھا ادا فرمایا یا ان کے مابین بھی کوئی عمل کیا اس سلسلہ میں روایت ابن عمر (رض) مذکورہ اور روایت اسامہ (رض) آتی ہیں ان سے بھی مختلف روایت ہے کہ آپ نے ان دونوں نمازوں کو کس طرح پڑھا ۔ نمبر ١ بعض نے کہا ایک اذان و اقامت کے ساتھ نمبر ٢ ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ نمبر ٣ بعض نے کہا ایک اقامت سے بغیر اذان ادا فرمائیں ۔ جب ان روایات میں اس قدر اختلاف ہے۔ تو دونوں نمازیں مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں اکٹھا پڑھا جائے ۔ جیسا کہ عرفہ میں ظہر و عصر کو جمع کرتے ہیں۔ یہ دونوں جمع ان دونوں مقامات میں حرمت حج کے لیے صرف محرم کے لیے ہے۔ یہ کسی عمرہ کرنے والے یا حلال کے لیے جائز نہیں اور دونوں کے لیے ایک اذان دی جائے گی اور دو اقامتیں کہی جائیں گی۔ جیسا کہ عرفہ میں کیا جاتا ہے۔ اس باب میں باب نظر وفکر کا یہی تقاضا ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کے قول کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عرفات میں دونوں نمازوں کو مذکورہ صورت میں جمع کرتے ہیں اور مزدلفہ میں دونوں نمازوں کی جمع اس طرح مانتے ہیں کہ اذان اور اقامت ایک کہی جائے گی۔ اور ان کی دلیل حضرت ابن عمر (رض) کی روایت ہے اور سفیان ثوری (رح) کہتے ہیں کہ ان دونوں نمازوں کو بلا اذان مگر ایک اقامت سے پڑھا جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی اور وہ روایت جو ہم نے حضرت جابر (رض) سے نقل کی ہے۔ یہ قول ہمیں پسند ہے اس لیے کہ نظر وفکر اس کے لیے شاہد ہے پھر ہم نے ابن عمر (رض) کی روایت پالی اور اس کا مفہوم بھی روایت جابر (رض) کی طرف لوٹ آیا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٧٦۔
نظر طحاوی (رض) :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزدلفہ کی نمازوں کے متعلق مختلف روایات وارد ہوئی ہیں کہ آیا ان دونوں کو اکٹھا ادا کیا گیا یا ان کے درمیان کوئی اور عمل کیا۔ ہم نے اس سلسلہ میں یہ اسامہ اور ابن عمر (رض) کی روایات ذکر کی ہیں۔ جن سے دونوں کے درمیان کوئی نہ کوئی ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کے پڑھنے کی کیفیت کیا ہے۔ بعض نے اذان و اقامت نقل کی۔ بعض نے ایک اذان اور دو اقامتیں نقل کیں بعض نے فقط اقامت نقل کی جس کے ساتھ اذان بھی نہ تھی۔ جب اس قدر اختلاف پایا گیا تو ہم نے غور کیا کہ دو نمازیں عرفات اور مزدلفہ میں جمع کی جاتی ہیں۔ عرفات میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ دونوں نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ تو مزدلفہ میں جمع تاخیر ہے تو مغرب و عشاء کو اسی طرح ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کرنا مسنون ہوگا تاکہ دو جمعوں کی کیفیت ایک رہے۔ کیونکہ یہ دونوں جمعیں محرم بالحج کے لیے خاص ہیں۔ عمرہ کرنے والا یا حلال ان کو جمع نہیں کرسکتا۔ ان کو ادا کرتے ہوئے جس طرح عرفات میں درمیان میں کوئی عمل نہیں کیا جاتا اسی طرح مزدلفہ میں بھی ادائیگی کے وقت کوئی عمل درمیان میں انجام نہ دیا جائے۔
نظر کا تقاضا یہی ہے۔ یہ نظر امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کے خلاف ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں عرفات میں تو ایک اذان اور دو اقامت ہیں مگر مزدلفہ میں وہ اس کے قائل نہیں بلکہ ایک اذان اور ایک اقامت کے قائل ہیں ان کے ہاں اس کے ثبوت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت ہے جس کو سفیان ثوری (رح) نے نقل کیا ہے کہ مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو صرف ایک اذان اور ایک اقامت سے ادا کیا جائے گا۔
حالانکہ سفیان ثوری (رح) تو صرف ایک اقامت کے قائل ہیں اذان کو بھی ضروری قرار نہیں دیتے اس کے ثبوت میں بھی ابن عمر (رض) کی روایت پیش کرتے ہیں جو فصل ثانی میں گزری ہے۔ اور ہم فصل ثالث میں بیان کردہ حضرت جابر (رض) کی روایت سے استدلال کرتے ہیں اور یہ روایت موافق قیاس ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہوگئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ابن عمر (رض) کی ایک روایت جابر (رض) کی روایت کے موافق ہے۔ روایت ابن عمر (رض)۔

3884

۳۸۸۴ : وَذٰلِکَ أَنَّ ہَارُوْنَ بْنَ کَامِلٍ وَفَہْدًا‘ حَدَّثَانَا قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (جَمَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِجَمْعٍ‘ وَہِیَ الْمُزْدَلِفَۃُ صَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا‘ ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَائَ فَصَلَّاہَا رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ‘ لَیْسَ بَیْنَہُمَا سَجْدَۃٌ) فَھٰذَا یُخْبِرُ أَنَّہٗ صَلَّاہُمَا بِإِقَامَتَیْنِ .وَقَدْ وَجَدْنَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا نَفْسِہِ مِمَّا لَمْ یَرْفَعْہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَذَّنَ لَہُمَا . ۳۸۸۴: سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرi نے فرمایا کہ جناب نبی اکرمﷺ نے مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں جمع فرمایا مغرب تین رکعت ادا فرمائی پھر سلام پھیرا پھر عشاء کی اقامت کہی اور اس کو دو رکعت ادا کیا پھر سلام پھیرا ان کے درمیان کوئی نماز نہ تھی۔یہ روایت خبر دے رہی ہے کہ آپ نے دو اقامتوں سے دونوں نمازوں کو ادا کیا اور ہمیں یہ روایت بھی ملی ہے جس کو انہوں نے مرفوع قرار نہیں دیا کہ ان دونوں نمازوں کے لئے ابن عمرiنے اذان کہی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس نماز کو دو قافلوں سے ادا کیا۔ ابن عمر (رض) نے اس میں یہ بھی بیان نہیں کیا کہ آپ نے ان دونوں کے لیے اذان دی گئی ہو۔

3885

۳۸۸۵ : حَدَّثَنَا یُوْسُفُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا بِشْرٌ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِجَمْعٍ‘ بِأَذَانٍ وَإِقَامَۃٍ‘ وَلَمْ یَجْعَلْ بَیْنَہُمَا شَیْئًا .فَکَانَ مُحَالًا أَنْ یَّکُوْنَ أَدْخَلَ فِیْ ذٰلِکَ أَذَانًا إِلَّا وَقَدْ عَلِمَہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَلَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ھٰذَا أَحَبُّ إِلَیْنَا‘ لِمَا شَہِدَ لَہٗ مِنَ النَّظَرِ .
٣٨٨٥: سعید بن جبیر نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا اور ایک اذان اور اقامت کہی ان کے درمیان اور کوئی چیز نہیں کی۔ اور یہ بات ناممکن ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھے بغیر اذان کہی ہو اور جو کچھ ہم نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے وہ ہمارے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے اس لیے کہ قیاس اس کا مؤید ہے۔
یہ بات ناممکن ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے اس میں اذان داخل کردی ہو سوائے اس کے کہ انھوں نے اسے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو جانا ہو۔ حاصل یہ ہوا کہ ابن عمر (رض) کی روایات میں باہمی تعارض پایا جاتا ہے۔ مگر جابر (رض) کی روایت میں موجود نہیں اسی لیے ہم نے اس کو راجح قرار دیا ہے۔ اور نظر کا تقاضا بھی یہی ہے۔
نوٹ : اس باب میں طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثالث کی طرف ہے اسی وجہ سے اس کی ترجیح کے لیے آخری دم تک زور لگایا اور آخر میں ابن عمر (رض) کی روایت میں تعارض والی بات کی وجہ سے اس کو مرجوع قرار دیا حالانکہ کثرت طرق سے فریق ثانی کا مؤقف مضبوط ہے۔ واللہ اعلم۔

3886

۳۸۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ .
٣٨٨٦: ابن مرزوق نے ابو عامر سے روایت نقل کی ہے۔
جمرہ عقبہ کی رمی میں ضعیف مردوں عورتوں بچوں کو کس حد تک گنجائش ہے۔ منیٰ کی طرف مزدلفہ سے انھیں رات کو آنے کی اجازت ہے مگر طلوع فجر سے پہلے رمی میں اختلاف ہے۔
نمبر !: امام شافعی (رح) درست قرار دیتے ہیں۔
نمبر ": ائمہ ثلاثہ کے ہاں طلوع فجر سے پہلے جائز نہیں بعد میں طلوع آفتاب سے پہلے مکروہ ہے۔ طلوع آفتاب کے بعد مسنون ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : معذور اور کمزور عورتوں کو طلوع آفتاب سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی جائز ہے۔ دلیل یہ روایات ہیں۔

3887

۳۸۸۷ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ وَہْبٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ‘ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کُنْتُ فِیْمَنْ بَعَثَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ فَرَمَیْنَا الْجَمْرَۃَ مَعَ الْفَجْرِ) .
٣٨٨٧: شعبہ مولیٰ ابن عباس نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں بھی ان میں شامل تھا جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر (کی رات کو مزدلفہ سے منیٰ بھیج دیا) پس ہم نے جمرہ عقبہ کی رمی فجر کے ساتھ ہی کرلی۔

3888

۳۸۸۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا خَلَّادُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی الصَّفِیْرِ‘ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ لَیْلَۃَ الْمُزْدَلِفَۃِ اذْہَبْ بِضُعَفَائِنَا وَنِسَائِنَا‘ فَلْیُصَلُّوْا الصُّبْحَ بِمِنًی‘ وَلْیَرْمُوْا جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ قَبْلَ أَنْ یُصِیْبَہُمْ دَفْعَۃُ النَّاسِ) .قَالَ : فَکَانَ عَطَاء ٌ یَفْعَلُہٗ بَعْدَمَا کَبِرَ‘ وَضَعُفَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ لِلضَّعَفَۃِ أَنْ یَرْمُوْا جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لَہُمْ أَنْ یَرْمُوْہَا حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ فَإِنْ رَمَوْہَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘ أَجْزَأَتْہُمْ وَقَدْ أَسَائُ وْا .وَقَالُوْا : لَمْ یَذْکُرْ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ مَوْلَاہُ‘ أَنَّہُمْ رَمَوا الْجَمْرَۃَ عِنْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُمْ بِذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا فَعَلُوْا ذٰلِکَ بِالتَّوَہُّمِ مِنْہُمْ أَنَّہٗ وَقْتُ الرَّمْیِ لَہَا‘ وَوَقْتُہُ فِی الْحَقِیْقَۃِ غَیْرُ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رَوَاہٗ عَطَاء ٌ عَنْہُ‘ فَإِنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ فِیْہِ وَقْتَ رَمْیِ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ‘ ہَلْ ہُوَ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ ؟ أَوْ قَبْلَ ذٰلِکَ؟ وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا۔
٣٨٨٨: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباس (رض) کو مزدلفہ کی رات فرمایا تم ہمارے کمزوروں اور عورتوں کو لے جاؤ تاکہ وہ صبح کی نماز منیٰ میں ادا کریں اور جمرہ عقبہ کی رمی اس سے پہلے پہلے ادا کرلیں کہ لوگوں کی بھیڑ ان کو پہنچے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ کمزور لوگ طلوع صبح صادق کے بعد جمرہ عقبہ کو کنکریاں مار سکتے ہیں اور انھوں نے مذکورۃ الصدر روایت کو اپنا مستدل بنایا ہے۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ طلوع آفتاب تک کنکریاں مارنا مناسب نہیں ہے اگر انھوں نے اس سے پہلے کنکریاں ماردیں تو وہ کافی ہوجائیں گی مگر وہ غلطی کرنے والے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ روایت شعبہ میں حضرت ابن عباس (رض) نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ انھوں نے طلوع صبح صادق کے وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے کنکریاں ماری تھیں۔ عین ممکن ہے کہ انھوں نے یہ خیال کر کے کنکریاں ماریں کہ یہ مارنے کا وقت ہے۔ جب کہ حقیقت میں اس کا وقت اس کے علاوہ ہو اور عطاء (رح) نے ابن عباس (رض) سے جو روایت کیا ہے اس میں بھی جمرہ عقبہ کی کنکریوں کا وقت مذکور نہیں کہ آیا وہ طلوع آفتاب سے پہلے تھا یا بعد اول قول کے قائلین نے اپنے مؤقف کے لیے اس روایت کو بھی اپنا مستدل بنایا ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ عطاءؒ کبروضعف کی عمر میں اسی طرح کرتے تھے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور جوابات و دلائل :
طلوعِ آفتاب سے پہلے رمی درست نہیں اگر رمی کرلی تو کفایت کر جائے گی مگر مکروہ ہے طلوع فجر سے قبل تو جائز ہی نہیں۔
سابقہ مؤقف کا جواب : ابن عباس (رض) کی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے جمرہ عقبہ کی رمی کی اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے طلوع فجر سمجھ کر رمی کی ہو اور فجر اس وقت تک طلوع نہ ہوئی ہو احتمال کی وجہ سے حجت نہ بنی۔
روایت عطاء میں سرے سے رمی جمرہ عقبہ کا وقت مذکور ہی نہیں کہ آیا وہ طلوع آفتاب کے بعد تھی یا پہلے۔ پس یہ روایت مستدل ہی نہیں۔

3889

۳۸۸۹ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یُقَدِّمُ ضَعَفَۃَ أَہْلِہِ فَیَقِفُوْنَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَالْمُزْدَلِفَۃِ بِلَیْلٍ‘ فَیَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ مَا بَدَا لَہُمْ‘ ثُمَّ یَدْفَعُوْنَ قَبْلَ أَنْ یَقِفَ الْاِمَامُ‘ وَقَبْلَ أَنْ یَدْفَعَ .فَمِنْہُمْ مَنْ یَقْدَمُ مِنًی لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ‘ وَمِنْہُمْ مِنْ یَقْدَمُ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا قَدِمُوْا رَمَوا الْجَمْرَۃَ .وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : رَخَّصَ لِأُوْلَئِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرَی‘ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لَہُمْ فِیْ رَمْیِ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ حِیْنَئِذٍ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ الرُّخْصَۃُ الَّتِیْ کَانَ رَخَّصَہَا لَہُمْ ہِیَ الدَّفْعُ‘ مِنْ مُزْدَلِفَۃَ بِلَیْلٍ خَاصَّۃً .وَاحْتَجُّوْا أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٣٨٨٩: سالم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اپنے اہل میں عورتوں اور بچوں کو پہلے بھیج دیتے کہ وہ مشعر حرام و مزدلفہ میں وقوف کرتے اور اللہ تعالیٰ کا تھوڑی دیر ذکر کرتے پھر امام حج کے وقوف سے پہلے منیٰ کو روانہ ہوجاتے اور اس کے چلنے سے پہلے جاتے۔ ان میں بعض تو نماز فجر کے وقت منیٰ پہنچ جاتے اور بعض اس سے کچھ دیر بعد اور جب وہ آجاتے اسی وقت جمرہ کی رمی کرلیتے۔ اور ابن عمر (رض) فرماتے کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخصت دی ہے۔ قول اول کے قائلین کے خلاف دوسرے قول والوں کی دلیل یہ ہے۔ کہ روایت ابن عمر (رض) میں یہ بات قطعا مذکور نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جمرو عقبہ کی کنکریاں مارنے کی رخصت دی۔ عین ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو صرف مزدلفہ سے رات کے جانے کی اجازت دی ہو۔ انھوں نے اس سلسلہ میں ذیل کی روایت سے استدلال کیا ہے۔
بخاری فی الحج باب ٩٨‘ مسلم فی الحج مسلم فی الحج ٣٠٤‘ ترمذی فی الحج باب ٥٨‘ مسند احمد ١؍٣٢٦۔
u: اس میں رخصت کی وضاحت نہیں کہ اسے سے کیا مراد ہے منیٰ رات کو آنے یا رمی جمرہ عقبہ کی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس سے مزدلفہ سے پہلے منیٰ آنے کی رخصت مراد ہو۔ (ویسے سیاق روایت سے رمی جمرہ ہی مراد معلوم ہوتی ہے)

3890

۳۸۹۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سَالِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ مَوْلَی (أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : أَیْ بُنَیَّ‘ ہَلْ غَابَ الْقَمَرُ لَیْلَۃَ جَمْعٍ ؟ وَہِیَ تُصَلِّی‘ وَنَزَلَتْ عِنْدَ الْمُزْدَلِفَۃِ .قَالَ : قُلْتُ لَا فَصَلَّتْ سَاعَۃً‘ ثُمَّ قَالَتْ : أَیْ بُنَیَّ‘ ہَلْ غَابَ الْقَمَرُ ؟ أَوْ قَدْ غَابَ‘ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ : فَارْتَحِلُوْا اِذًا‘ فَارْتَحَلْنَا بِہَا حَتّٰی رَمَتَ الْجَمْرَۃَ‘ ثُمَّ رَجَعَتْ فَصَلَّتِ الصُّبْحَ فِیْ مَنْزِلِہَا .فَقُلْتُ لَہَا : أَیْ ہَنَتَاہُ لَقَدْ غَلَّسْتِنَا قَالَتْ : کَلًّا یَا بُنَیَّ‘ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ) .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ التَّغْلِیسَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الدَّفْعِ مِنْ مُزْدَلِفَۃَ‘ وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ التَّغْلِیسَ فِی الرَّمْیِ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَہُمْ فِی التَّغْلِیسِ لَمَّا سَأَلَہَا عَنِ التَّغْلِیسِ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّ وَقْتَ رَمْیِہِمْ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ۔
٨٩٠: عبداللہ مولیٰ اسماء بنت ابی بکر (رض) روایت کرتے ہیں کہ اسماء فرماتیں اے بیٹے ! کیا مزدلفہ کی رات کا چاند غروب ہوگیا ہے وہ اس وقت نماز ادا فرما رہی تھیں وہ مزدلفہ میں اتریں۔ عبداللہ کہتے ہیں میں نے کہا۔ نہیں۔ پھر انھوں نے کچھ دیر نماز پڑھی پھر کہنے لگیں۔ اے بیٹے۔ کیا چاند غروب ہوگیا یا قریب الغروب ہے میں نے کہا جی ہاں تو فرمانے لگیں۔ پھر تم کوچ کرو۔ ہم نے ان کے ساتھ کوچ کیا یہاں تک (منیٰ پہنچ کر) انھوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی۔ عبداللہ کہتے ہیں میں نے ان سے کہا اے محترمہ ! تو نے بہت اندھیرے میں روانگی اختیار کی۔ وہ کہنے لگیں اے بیٹے ایسا نہیں ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کوچ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس روایت میں یہ احتمال بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندھیرے میں مزدلفہ سے واپسی کا حکم فرمایا ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ کنکریاں مارنے کے وقت اندھیرا مراد ہو۔ اس لیے کہ حضرت اسماء (رض) نے ان کے پوچھنے پر بتلایا کہ آپ نے ان کو اندھیرے میں کنکریاں مارنے کی اجازت دی ہے۔ اور ان لوگوں کی دلیل جن کے ہاں طلوع آفتاب کے بعد جمرہ کی رمی ہے۔ انھوں نے اس روایت ذیل سے استدلال کیا ہے۔
: تغلیس کے متعلق دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: مزدلفہ سے روانگی میں تغلیس مراد ہو۔
نمبر 2: رمی میں تغلیس مراد ہو کہ جب انھوں نے سوال کیا تو آپ نے اجازت مرحمت فرما دی ہو۔ جب احتمال پیدا ہوا تو استدلال درست نہ رہا۔

3891

۳۸۹۱ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا فُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُوْسَی بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ : أَنَا کُرَیْبٌ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ نِسَائَ ہٗ وَثَقَلَہُ صَبِیْحَۃَ جَمْعٍ أَنْ یُفِیضُوْا مَعَ أَوَّلِ الْفَجْرِ بِسَوَادٍ‘ وَلَا یَرْمُوا الْجَمْرَۃَ إِلَّا مُصْبِحِیْنَ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ بِالْاِفَاضَۃِ مَعَ أَوَّلِ الْفَجْرِ‘ وَأَنْ لَا یَرْمُوْا حَتّٰی یُصْبِحُوْا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ أَمَرَہُمْ بِالرَّمْیِ فِیْہٖ‘ لَیْسَ أَوَّلُہٗ طُلُوْعَ الْفَجْرِ‘ وَلٰـکِنَّ أَوَّلَہُ الْاِصْبَاحُ الَّذِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ .
٣٨٩١: کریب نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عورتوں اور بوجھ کے متعلق مزدلفہ کی صبح کو حکم فرماتے کہ وہ اندھیرے میں فجر کے پہلے وقت میں روانہ ہوجائیں مگر رمی جمرہ صبح کے وقت کریں۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فجر کی ابتداء میں لوٹنے اور صبح کے وقت رمی کا حکم فرمایا تھا۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ کنکریاں مارنے کا یہ وقت طلوع فجر نہیں بلکہ صبح کا ابتدائی حصہ ہے جو صبح صادق کے بعد ہوتا ہے۔ روایت ذیل ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : اس روایت میں بتلا دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اول فجر کے وقت روانگی کی اجازت کے ساتھ رمی جمرہ میں صبح کی قید کا اضافہ فرما دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ طلوع فجر کے جس پہلے وقت میں ان کو رمی کا حکم دیا اس کی ابتداء صبح ہے جو کہ فجر کے بعد ہوتی ہے۔

3892

۳۸۹۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : أَنَا الْحَجَّاجُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مِقْسَمٍ‘ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہٗ فِی الثَّقَلِ وَقَالَ : لَا تَرْمُوا الْجِمَارَ حَتّٰی تُصْبِحُوْا) .فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ الْاِصْبَاحُ‘ ہُوَ طُلُوْعُ الشَّمْسِ‘ وَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .
٣٨٩٢: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سامان کے ساتھ بھیج دیا اور فرمایا صبح سے پہلے رمی جمار مت کرو۔ عین ممکن ہے کہ اس سے طلوع آفتاب مراد ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے پہلے کا وقت ہو ۔ پس ہم نے اس کے متعلق بحث و کرید کی۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ٦٥‘ مسلم فی الحج ٣٠٣‘ ترمذی فی الحج باب ٥٨‘ مسند احمد ١‘ ٢٤٥؍٢٧٢‘ ٣٣٤؍٣٤٦۔
الاصباح اس میں دو احتمال ہیں طلوع آفتاب ‘ طلوع فجر کے بعد کا وقت۔ اب ان دونوں احتمالوں میں تعیین کی ضرورت ہے چنانچہ روایت ملاحظہ ہو۔

3893

۳۸۹۳ : فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مِقْسَمٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ یَا بَنِیْ أَخِی تَعَجَّلُوْا قَبْلَ حَازِمِ النَّاسِ‘ وَلَا تَرْمُوا الْجَمْرَۃَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ) .
٣٨٩٣: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنی ہاشم ! اے میرے بھائی کی اولاد لوگوں کے تنگ باندھنے (کوچ کرنے) سے پہلے کوچ کرو مگر طلوع آفتاب سے پہلے رمی مت کرو۔

3894

۳۸۹۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَدَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَعَفَۃَ أَہْلِہٖ، لَیْلَۃَ جَمْعٍ .قَالَ : فَأَتَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنْسَانًا مِنْہُمْ‘ فَحَرَّکَ فَخِذَہُ وَقَالَ لَا تَرْمِیَنَّ جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ‘ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ) .
٣٨٩٤: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مزدلفہ کی رات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کمزوروں کو پہلے بھیج دیا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے ایک انسان کے پاس آئے اور اس کے ران کو حرکت دی اور فرمایا جمرہ عقبہ کو ہرگز رمی نہ کرنا جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوچکے۔
تخریج : بخاری فی الحج ٩٨‘ مسلم فی الحج ٣٠٤‘ ترمذی فی الحج باب ٥٨‘ مسند احمد ١‘ ٣٢٦؍٣٤٤۔

3895

۳۸۹۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسَی .ح .
٣٨٩٥: عمرو بن یونس نے یحییٰ بن عیسیٰ سے روایت نقل کی ہے۔

3896

۳۸۹۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ .ح .
٣٨٩٦: ابن مرزوق نے محمد بن کثیر سے روایت نقل کی ہے۔

3897

۳۸۹۷ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالُوْا : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیُّ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَدَّمَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُغَیْلِمَۃَ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‘ مِنْ جَمْعٍ بِلَیْلٍ‘ فَجَعَلَ یَلْطَخُ أَفْخَاذَنَا وَیَقُوْلُ : أَیْ بَنِیَّ لَا تَرْمُوْا جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ) .
٣٨٩٧: سلمہ بن کھیل نے حسن عرنی سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بنی عبدالمطلب کے چھوٹے بچے مزدلفہ کی رات ہی کو آگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری رانوں کو تھپکی دینے لگے۔ اور فرمانے لگے۔ اے بچو ! جمرہ عقبہ کی رمی طلوع آفتاب سے پہلے مت کرنا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٦٥‘ نسائی فی المناسک باب ٢٢٢‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦٢‘ مسند احمد ١‘ ٢٣٤؍٣١١۔
نوٹ : یلطخ۔ تھپکی لگانا۔

3898

۳۸۹۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ أَنَّ ابْنَ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : فَکَانَ یَأْخُذُ بِعَضُدِ کُلِّ إِنْسَانٍ مِنَّا .
٣٨٩٨: مقسم نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اتنا فرق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ہر انسان کے بازو سے پکڑ کر فرماتے۔

3899

۳۸۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیِّ‘ عَنْ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَفَضْنَا مِنْ جَمْعٍ‘ فَلَمَّا أَنْ صِرْنَا بِمِنًی‘ قَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَرْمُوْا جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ) .فَبَیَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُمْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ وَقْتَ الْاِصْبَاحِ الَّذِیْ أَمَرَہُمْ بِالرَّمْیِ فِیْہٖ‘ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا‘ وَأَنَّہٗ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ ہُوَ أَوْلَی مِنْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ‘ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ لِأَنَّ ھٰذَا قَدْ تَوَاتَرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ إِیَّاہُمْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَلِأَنَّ الْاِفَاضَۃَ مِنْ مُزْدَلِفَۃَ إِنَّمَا رَخَّصَ لِلضُّعَفَائِ فِیْہَا لَیْلًا‘ لِئَلَّا یُصِیْبَہُمْ حُطَمَۃُ النَّاسِ فِیْ وَقْتِ إِفَاضَتِہِمْ فَإِذَا صَارُوْا إِلَی " مِنًی " أَمْکَنَہُمْ مِنْ رَمْیِ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ‘ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ قَبْلَ مَجِیْئِ النَّاسِ‘ مَا یُمْکِنُ غَیْرَ الضُّعَفَائِ اِذَا جَائُ وْا وَلِأَنَّ غَیْرَ الضُّعَفَائِ ‘ إِنَّمَا یَأْتُوْنَہُمْ فِیْ وَقْتِ مَا یُفِیضُوْنَ‘ وَذٰلِکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ ہٰکَذَا أَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٣٨٩٩: حسن عرنی نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم مزدلفہ سے لوٹے۔ جب ہم منیٰ سے روانہ ہونے لگے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلوع آفتاب سے پہلے رمی مت کرو۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کے وقت کی وضاحت فرمائی جس میں ان کو کنکریاں مارنے کی اجازت مر حمت فرمائی تھی اور ہم اس روایت کو اسی فصل میں پہلے ذکر کر آئے اور وہ وقت طلوع آفتاب کے بعد کا وقت ہے۔ پس یہ روایت شعبہ مولیٰ ابن عباس (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے ان کو مذکورہ بات کا حکم فرمایا اور مزدلفہ سے واپسی کا اجازت نامہ تو کمزور لوگوں کے لیے تھا تاکہ بھیڑ بھاڑ سے بچ جائیں ۔ پس منی میں پہنچ جانے کے بعد ان کو لوگوں کے پہنچنے سے پہلے طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں مارنا ممکن ہوجاتا ہے۔ جب طاقت ور آجائیں تو پھر ضعفاء کو کنکریاں مارنا ممکن نہیں رہتا اور طاقتور لوگ طلوع کے بعد آتے ہیں اور یہ وقت تو طلوع آفتاب سے پہلے کا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسی طرح حکم فرمایا۔
نوٹ : اس سے معلوم ہوا کہ اس الاصباح سے مراد جس میں رمی کا حکم فرمایا وہ طلوع آفتاب کے بعد کا وقت ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٠‘ مسلم فی المساجد ٢٨٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٤‘ ترمذی فی الحج باب ٥٨؍٦٠‘ نسائی فی الحج باب ٢١٣۔
نوٹ : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح سے مراد طلوع آفتاب ہے یہ روایت شعبہ مولیٰ ابن عباس (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ بات ابن عباس (رض) سے تواتر سے پہنچی ہے۔
نمبر 2: کمزوروں کو تو رات لوٹنے کی اس لیے اجازت مرحمت فرمائی تاکہ وہ لوگوں کی بھیڑ سے بچ جائیں جب وہ رات کو منیٰ پہنچ چکیں گے تو وہ جمرہ عقبہ کی رمی لوگوں کے پہنچنے سے پہلے کرلیں گے کیونکہ لوگوں کی آمد پر ان کو رمی ممکن نہیں۔ یہ ضعفاء کے علاوہ دوسروں کے لیے نہیں کیونکہ وہ تو طلوع آفتاب سے پہلے لوٹیں گے ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح حکم فرمایا۔ یہ روایات اس کی دلیل ہیں۔

3900

۳۹۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ‘ ح .
٣٩٠٠: وہب نے شعبہ سے انھوں نے ابن اسحاق سے روایت نقل کی ہے۔

3901

۳۹۰۱ : وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : کُنَّا وُقُوْفًا مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِجَمْعٍ‘ فَقَالَ : (إِنَّ أَہْلَ الْجَاہِلِیَّۃِ کَانُوْا لَا یُفِیضُوْنَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ وَیَقُوْلُوْنَ أَشْرِقْ ثَبِیْرُ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالَفَہُمْ‘ فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ) .
٣٩٠١: ابو اسحاق نے عمرو بن میمون سے روایت نقل کی ہے کہ ہم عمر فاروق (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں وقوف کرنے والے تھے۔ انھوں نے فرمایا اہل جاہلیت طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے نہ لوٹتے تھے اور وہ کہا کرتے تھے۔ اے جبل ثبیر تو سورج کی چمک دکھا۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے لوٹے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٠‘ ترمذی فی الحج باب ٦٠‘ نسائی فی المناسک باب ٢١٣‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦١‘ دارمی فی المناسک باب ٥٥‘ مسند احمد ١‘ ٣٩؍٤٢‘ ٥٠؍٥٢۔

3902

۳۹۰۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ .ح .
٣٩٠٢: ربیع الموذن سے کہا ہمیں اسد نے بیان کیا۔

3903

۳۹۰۳ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : کُنَّا وُقُوْفًا مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِجَمْعٍ‘ فَقَالَ : إِنَّ أَہْلَ الْجَاہِلِیَّۃِ کَانُوْا لَا یُفِیضُوْنَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ وَیَقُوْلُوْنَ " أَشْرِقْ ثَبِیْرُ کَمَا نُغِیْرُ " وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالَفَہُمْ فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ بِقَدْرِ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِ‘ صَلَاۃَ الصُّبْحِ .فَلَمَّا کَانَ غَیْرُ الضُّعَفَائِ إِنَّمَا یُفِیضُوْنَ مِنْ مُزْدَلِفَۃَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ بِھٰذِہِ الْمُدَّۃِ الْیَسِیْرَۃِ أَمْکَنَ الضُّعَفَائَ الَّذِیْنَ قَدْ تَقَدَّمُوْہُمْ إِلَی " مِنًی " أَنْ یَرْمُوا الْجَمْرَۃَ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ قَبْلَ مَجِیْئِ الْآخَرِیْنَ إِلَیْہِمْ فَلَمْ یَکُنْ لِلرُّخْصَۃِ لِلضُّعَفَائِ أَنْ یَرْمُوْا قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ مَعْنًی‘ لِأَنَّ الرُّخْصَۃَ إِنَّمَا تَکُوْنُ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا لِلضَّرُوْرَۃِ‘ وَھٰذَا لَا ضَرُوْرَۃَ فِیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ فِیْ تَأْخِیْرِ رَمْیِ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ إِلَی طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٩٠٣: ابو اسحاق نے عمرو بن میمون سے روایت کی ہے کہ ہم عمر (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں وقوف کرنے والے تھے تو آپ نے فرمایا اہل جاہلیت طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے نہ لوٹتے تھے اور ان کا مقولہ یہ تھا۔ اے جبل ثبیر چمک دکھاتا کہ ہم کوچ کریں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت فرمائی اور طلوع آفتاب سے پہلے روانہ ہوئے۔ جتنی دیر میں مسافر نماز صبح پڑھتا ہے۔ جب کہ لوگ مزدلفہ سے طلوع آفتاب سے تھوڑی دیر پہلے لوٹتے تھے تو کمزور لوگ جو پہلے منی میں آجاتے تو ان کے لیے دوسرے لوگوں کے آنے سے پہلے کنکریاں مارنا ممکن ہوجاتا فلہذا کمزور لوگوں کو طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں مارنے کی اجازت کا کوئی مطلب نہیں۔ کیونکہ ایسے مواقع میں کسی خاص ضرورت کی بناء پر اجازت دی جاتی ہے اور یہاں چنداں حاجت نہیں ۔ اس سے وہ بات ثابت ہوگئی جو ہم نے حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے دوران ذکر کی ہے۔ کہ جمرہ عقبہ کی کنکریاں کو طلوع آفتاب تک مؤخر کیا جائے اور یہی امام ابو حینفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ مزدلفہ سے واپسی طلوع آفتاب سے پہلے ہوگی اور دوسروں کی آمد سے پہلے منیٰ پہنچنے کی اجازت ہے مگر رمی کرنے کی اجازت نہیں کہ وہ طلوع آفتاب سے پہلے کرلیں کیونکہ اس موقعہ کی رخصت ضرورت کے لیے ہے اور رمی میں چنداں ضرورت نہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عباس (رض) کی روایت جس میں طلوع آفتاب کے بعد رمی کا ذکر ہے وہی درست ہے۔ اور ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

3904

۳۹۰۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ التَّیْمِیُّ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ عُرْوَۃَ (أَنَّ یَوْمَ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا دَارَ إِلٰی یَوْمِ النَّحْرِ فَأَمَرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ جَمْعٍ أَنْ تُفِیْضَ‘ فَرَمَتْ جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ‘ وَصَلَّتَ الْفَجْرَ بِمَکَّۃَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ رَمْیَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ‘ لَیْلَۃَ النَّحْرِ‘ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ جَائِزٌ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ صَلَّتَ الصُّبْحَ بِمَکَّۃَ إِلَّا وَقَدْ کَانَ رَمْیُہَا جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ لِبُعْدِ مَا بَیْنَ الْمَوْضِعَیْنِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَرْمِیَہَا قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ وَمَنْ رَمَاہَا قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ فَہُوَ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَرْمِ‘ وَعَلَیْہِ أَنْ یُعِیْدَ الرَّمْیَ فِیْ وَقْتِ الرَّمْیِ‘ فَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ‘ کَانَ عَلَیْہِ لِذٰلِکَ دَمٌ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ فَرُوِیَ عَنْہُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَرُوِیَ عَنْہُ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ .
٣٩٠٤: عروہ بیان کرتے ہیں کہ امّ سلمہ (رض) کی باری کا دن یوم نحر والا تھا چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ مزدلفہ کی رات لوٹ جائے جمرہ عقبہ کی رمی کو انھوں نے رات کو انجام دیا اور نماز فجر مکہ میں ادا کی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ نحر کی رات جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا طلوع آفتاب سے پہلے جائز ہے اور انھوں نے اس سلسلہ میں اس روایت کو اپنا مستدل بنایا ہے اور یہ فرمایا کہ حج کی نماز مکہ مکرمہ میں اسی صورت میں پڑھی جاسکتی ہے کہ انھوں نے طلوع فجر سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری ہوں۔ اس لیے کہ دونوں مقامات کے مابین فاصلہ پایا جاتا ہے مگر دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی شخص کو طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارنا درست نہیں ہے اور جس نے کنکریاں مارلیں وہ ایسا ہے کہ اس نے سرے سے کنکریاں نہیں ماریں۔ اور اسے ضروری ہے کہ وہ کنکریوں کے وقت میں دو بارہ کنکریاں مارے۔ اور اگر اس نے دو بارہ کنکریاں نہ ماریں تو اس پر دم لازم ہوگا ۔ ان کی دلیل اس کے متعلق یہ ہے کہ اس حدیث میں حضرت ہشام بن عروہ (رح) سے مختلف الفاظ مروی ہیں۔ ان سے وہ الفاظ بھی مروی ہیں جو ہم نے ابھی ذکر کیے مگر اس کے خلاف بھی روایت انہی سے وارد ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں فجر کی نماز تبھی ممکن ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی رات کو کرلی جائے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طلوع فجر سے قبل رمی جمرہ عقبہ درست ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور جوابات و دلائل : طلوع فجر سے پہلے کسی کو رمی جمرہ عقبہ کی اجازت نہیں اگر کرلی تو اعادہ ضروری اگر اعادہ نہ کیا تو دم لازم ہے اس روایت کا جواب یہ ہے۔
اس روایت کے راوی ہشام بن عروہ ہیں۔ ان کی دونوں روایات میں تعارض ہے دوسری روایت یہ ہے۔

1: طلوع فجر سے پہلے رات ہی کو معذور لوگ جمرہ عقبہ کی رمی کرسکتے ہیں یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے۔
3: ائمہ ثلاثہ (رح) کے ہاں معذورین کے لیے جمرہ عقبہ کی رمی طلوع فجر سے پہلے جائز نہیں اگر انھوں نے کرلی تو اعادہ نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
طلوعِ فجر سے پہلے رمی جمرہ عقبہ کرلینے میں معذورین کو کچھ حرج نہیں ان پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔ دلیل یہ ہے۔

3905

۳۹۰۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ (عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : أَمَرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ أَنْ تُوَافِیَ مَعَہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ بِمَکَّۃَ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِمَا أَمَرَہَا بِہٖ مِنْ ھٰذَا‘ یَوْمَ النَّحْرِ فَذٰلِکَ عَلٰی صَلَاۃِ الصُّبْحِ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ وَھٰذَا خِلَافُ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ وَقَدْ عَجَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مِنْ أَزْوَاجِہِ أُمَّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَکَانَ مُضِیُّہُمْ إِلَی " مِنًی " وَبِہَا صَلَّوْا صَلَاۃَ الصُّبْحِ‘ وَلَمْ یَتَوَجَّہُوْا‘ حِیْنَئِذٍ‘ إِلٰی مَکَّۃَ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا
٣٩٠٥: عروہ نے زینب بنت ابی سلمہ عن امّ سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم نحر کو حکم فرمایا کہ وہ آپ کے ساتھ صبح کی نماز مکہ میں ادا کرے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امّ سلمہ (رض) کو جو حکم دیا سو دیا۔ یہ صبح کی نماز یوم نحر سے اگلے روز کی ہے اور یہ پہلی روایت کے خلاف ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امّ سلمہ (رض) سمیت اپنی ازواج مطہرات منی کی طرف جلدی جانے کا حکم فرمایا تھا اور وہاں ان تمام نے نماز فجر ادا فرمائی اور اسی وقت وہ مکہ کی طرف روانہ نہ ہوتے ۔ ذیل کی روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٩١۔
تو ان دونوں روایات میں تضاد ہے کہ ایک میں فجر کی نماز دسویں صبح کو مکہ میں پڑھنے کا حکم ہے اور دوسری میں گیارہ تاریخ کی فجر مکہ مکرمہ میں پڑھنے کا حکم ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کو امّ سلمہ (رض) سمیت منیٰ کی طرف جانے کا حکم فرمایا تھا اور ان تمام نے فجر کی نماز منیٰ میں ادا فرمائی ہے اور اسی وقت وہ مکہ کی طرف روانہ نہیں ہوئے۔ اس کی موید یہ روایتیں بھی ہیں۔

3906

۳۹۰۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ (سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ‘ اسْتَأْذَنَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُصَلِّیَ یَوْمَ النَّحْرِ الصُّبْحَ بِ مِنًی فَأَذِنَ لَہَا) وَکَانَتَ الْمَرْأَۃُ ثَبِطَۃً‘ فَوَدِدْتُ أَنِّیْ اسْتَأْذَنْتہ کَمَا اسْتَأْذَنَتْہُ .
٣٩٠٦: عبدالرحمن بن القاسم نے اپنے والد سے روایت نقل کی انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ سودہ بنت زمعہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ وہ صبح کی نماز منیٰ میں پڑھ لیں تو آپ نے اجازت دیدی وہ بھاری جسامت والی عورت تھیں میرا بھی دل چاہا کہ میں بھی آپ سے اجازت لے لوں جیسا انھوں نے اجازت لی ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٨‘ مسلم فی الحج ٢٩٣؍٢٩٤‘ نسائی فی الحج باب ٢٠٩؍٢١٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦٢‘ دارمی فی المناسک باب ٥٣‘ مسند احمد ٦‘ ٣٠؍٩٤‘ ٩٩؍١٣٣۔

3907

۳۹۰۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ شَوَّالٍ أَنَّہٗ سَمِعَ (أُمَّ حَبِیْبَۃَ تَقُوْلُ : کُنَّا نُغَلِّسُ عَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ إِلَی مِنًی) .فَفِیْ ھٰذَا أَنَّہُمْ کَانُوْا یُفِیضُوْنَ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ فَھٰذَا أَبْعَدُ لَہُمْ مِمَّا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا الْبَابِ فِیْ حَدِیْثِ أَسْمَائَ أَنَّہَا رَمَتْ‘ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلٰی مَنْزِلِہَا فَصَلَّتَ الْفَجْرَ‘ فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللّٰہِ : لَقَدْ غَلَّسْتِنَا فَقَالَتْ : (رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلظُّعُنِ) .فَأَخْبَرَتْ أَنَّ مَا قَدْ کَانَ رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ لِلظُّعُنِ‘ ہُوَ الْاِفَاضَۃُ مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ‘ فِیْ وَقْتِ مَا یَصِیْرُوْنَ إِلَی " مِنًی " فِیْ حَالِ مَا لَہُمْ أَنْ یُصَلُّوْا صَلَاۃَ الصُّبْحِ .وَلَمَّا اضْطَرَبَ حَدِیْثُ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ لَمْ یَکُنَ الْعَمَلُ بِمَا رَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ أَوْلَی مِمَّا رَوَاہُ‘ مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ .وَقَدْ ذَکَرَ حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ فِیْ حَدِیْثِہٖ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِتَعْجِیْلِہِ أُمَّ سَلْمَۃَ إِلٰی حَیْثُ عَجَّلَہَا‘ لِأَنَّہٗ یَوْمُہَا أَیْ لِیُصِیْبَ مِنْہَا فِیْ یَوْمِہَا ذٰلِکَ‘ مَا یُصِیْبُ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ‘ فَلَمْ یَبْرَحْ بِ " مِنًی " ، وَلَمْ یَطُفْ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ إِلَی اللَّیْلِ .
٣٩٠٧: سالم بن شوال نے ام حبیبہ (رض) سے سنا کہ وہ فرماتی تھیں ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اندھیرے میں مزدلفہ سے منیٰ چلی جاتیں تھیں۔ اس روایت میں یہ ہے کہ وہ لوگ طلوع فجر کے بعد منیٰ کی طرف واپس آتے تھے اور یہ روایت اول کے مخالف ہے اور اس سے پہلے باب میں حضرت اسماء (رض) کی روایت کے ضمن میں ذکر کیا کہ انھوں نے کنکریاں ماریں اور پھر وہ اپنی منزل کی طرف لوٹ آئیں پھر نماز فجر ادا کی تو ان کو عبداللہ نے کہا کہ آپ نے ہمیں اندھیرے میں اٹھا دیا تو انھوں نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو کوچ کی اجازت دی ہے۔ تو حضرت اسماء (رض) نے بتلادیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو جس بات کی اجازت دی وہ مزدلفہ سے واپسی تھی تاکہ وہ منیٰ پہنچ کر صبح کی نماز ادا کرسکیں۔ جب ہشام (رح) کی روایت میں یہ اضطراب مذکورہ پایا گیا تو پھر حماد بن سلمہ کی روایت پر عمل محمد بن حازم (رح) کی روایت سے اولیٰ نہ ہوگا ۔ حالانکہ حماد بن سلمہ (رح) نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امّ سلمہ (رض) کو اس لیے جلد جانے کا حکم فرمایا کہ وہ ان کی باری کا دن تھا اور آپ ان سے ازدواجی تعلق چاہتے تھے ‘ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن ابھی منیٰ سے کوچ نہیں فرمایا تھا اور نہ ہی آپ نے رات تک طواف زیارت کیا تھا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٩٩۔
یہ روایت بتلا رہی ہے کہ وہ طلوع فجر کے بعد روانہ ہوتے اور شروع باب والی روایت اس کے خلاف ہے اور اس سے پہلے باب میں اسماء (رض) کی روایت بیان کرچکے ہیں کہ انھوں نے رمی کی پھر اپنے ٹھکانا پر لوٹ کر نماز فجر ادا کی تو ان کو عبداللہ (رض) نے کہا (اماں جان ! ) آپ نے اندھیرے میں جلد روانگی اختیار کی ہے تو اسماء (رض) نے جواب دیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کی ہمیں رخصت دی ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان کو ایسے وقت کوچ کی اجازت دی تھی کہ وہ نماز صبح منیٰ میں ادا کریں۔ اب روایت ہشام بن عروہ میں اضطراب ثابت ہوا تو حماد بن سلمہ کی روایت پر عمل کرنا محمد بن حازم کی روایت پر عمل سے بہتر نہ رہا۔ اور حماد بن سلمہ کی روایت میں یہ ہے کہ امّ سلمہ (رض) کی تعجیل کا مقصد یہ تھا کہ وہ یوم نحر سے اگلے دن مکہ پہنچ جائیں۔ تاکہ ان کی باری کا حق ادا ہو اور اس کی ادائیگی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منیٰ جانے رمی کرنے اور پھر نحر کر کے طواف زیارت کرنے پر موقوف ہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ابھی مزدلفہ میں ہی تشریف فرما تھے۔ نہ منیٰ گئے نہ نحر کیا نہ طواف زیارت۔
یہ روایت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف زیارت رات کو کیا۔

3908

۳۹۰۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ طَارِقٍ عَنْ طَاوٗسٍ‘ وَأَبُو الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّیَادَۃِ إِلَی اللَّیْلِ) .
٣٩٠٨: ابوالزبیر (رض) نے عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٢٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٢‘ ترمذی فی الحج باب ٨٠‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧٧‘ مسند احمد ١؍٢٨٨‘ ٣٠٩‘ ٢١٥؍٢٤٣۔

3909

۳۹۰۹ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدٍ الْأَحْمَرُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : (أَفَاضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ یَوْمِہٖ) ، فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَطُفْ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ یَوْمَ النَّحْرِ إِلَی اللَّیْلِ‘ اسْتَحَالَ أَنْ یَّکُوْنَ بِہِ - إِلٰی حُضُوْرِ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا إِلٰی مَکَّۃَ قَبْلَ ذٰلِکَ - حَاجَۃٌ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا یُرِیْدُہَا لِأَنَّہٗ فِیْ یَوْمِہَا‘ وَلِیُصِیْبَ مِنْہَا مَا یُصِیْبُ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِہٖ، وَذٰلِکَ لَا یَحِلُّ لَہٗ مِنْہَا إِلَّا بَعْدَ الطَّوَافِ .فَأَشْبَہَ الْأَشْیَائِ - عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنْ یَّکُوْنَ أَمَرَہَا أَنْ تُوَافِیَ صَلَاۃَ الصُّبْحِ بِمَکَّۃَ فِیْ غَدٍ یَوْمِ النَّحْرِ‘ فِیْ وَقْتِ یَکُوْنُ فِیْہِ حَلَالًا بِمَکَّۃَ‘ وَقَدْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ وَقْتَ رَمْیِ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ‘ بِفِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٣٩٠٩: عبدالرحمن بن القاسم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن کے آخر میں (مکہ) کی طرف لوٹے۔ جب کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم نحر کی رات تک طواف زیارت بھی نہ کیا تھا ۔ تو بات ناممکن ہے کہ آپ کو اس طواف سے قبل حضرات امّ سلمہ (رض) سے کوئی حاجت ہو ۔ کیونکہ یہ ان کی باری کا دن تھا اور آپ نے ان سے وہی بات چاہی جو ایک مرد اپنی بیوی سے چاہتا ہے اور یہ طواف زیارت کے بعد ہی حلال ہوسکتا تھا ہمارے ہاں سب سے بہتر یہی معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) کہ آپ نے ان کو یہ حکم فرمایا کہ وہ یوم نحر کے دوسرے دن مکہ مکرمہ میں نماز فجر ادا کریں ‘ جب کہ آپ مکہ میں احرام سے فارغ ہوچکے ہوں گے۔ اور مسلمانوں نے آپ کے کنکریاں مارنے کا عمل جمرہ عقبہ کی رمی سے معلوم کرلیا تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٧٧‘ مسند احمد ٦؍٩٠۔
جب اس روایت سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم نحر رات تک ابھی طواف زیارت نہ کیا تھا تو یہ ناممکن بات ہے کہ یوم نحر کی صبح آپ امّ سلمہ (رض) کے ساتھ مکہ میں موجود ہوں کیونکہ ان کو فرمانے کا مقصد ان کے حق کی ادائیگی تھی جو طواف زیارت سے قبل ممکن ہی نہیں۔
پس اس کی سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یوم سے اگلے دن مکہ میں ملاقات کا وعدہ فرمایا جبکہ آپ احرام سے فارغ ہوجائیں گے اور مسلمانوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت یوم نحر کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل سے معلوم کرلیا۔ جیسا کہ یہ روایات اس کی تائید کر رہی ہیں۔

3910

۳۹۱۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ یَوْمَ النَّحْرِ ضُحًی‘ وَمَا سِوَاہَا بَعْدَ الزَّوَالِ) .
٣٩١٠: ابوالزبیر (رض) نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوم نحر چاشت کے وقت جمرہ عقبہ کی رمی فرمائی اور ان کے علاوہ جمرات کی رمی زوال کے بعد فرمائی۔

3911

۳۹۱۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩١١: ابوالزبیر (رض) نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3912

۳۹۱۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .فَعَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ رَمَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ الْجِمَارَ‘ ہُوَ وَقْتُہَا .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ‘ ہَلْ رَخَّصَ لِلضَّعَفَۃِ فِی الرَّمْیِ قَبْلَ ذٰلِکَ أَمْ لَا ؟ فَوَجَدْنَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ تَقَدَّمَ إِلَی ضَعَفَۃِ بَنِیْ ہَاشِمٍ‘ حِیْنَ قَدَّمَہُمْ إِلَی " مِنًی " أَنْ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَۃَ إِلَّا بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ .فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ الضَّعَفَۃَ لَمْ یُرَخِّصْ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنْ یَتَقَدَّمُوْا عَلٰی غَیْرِ الضَّعَفَۃِ‘ وَأَنَّ وَقْتَ رَمْیِہِمْ جَمِیْعًا‘ وَقْتٌ وَاحِدٌ‘ وَہُوَ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ .فَھٰذَا ہُوَ وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ رَمْیَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ لِلْیَوْمِ الثَّانِیْ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ فِی اللَّیْلِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَجْزِیْہِ حَتّٰی یَکُوْنَ رَمْیُہُ لَہَا فِیْ یَوْمِہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ ہِیَ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ‘ لَا یَجُوْزُ أَنْ تُرْمَی إِلَّا فِیْ یَوْمِہَا‘ وَإِنْ کَانَ بَعْضُ یَوْمِہَا فِیْ ذٰلِکَ أَفْضَلَ مِنْ بَعْضِ الْیَوْمِ الثَّانِی الرَّمْیُ فِیْہِ أَفْضَلُ مِنَ الرَّمْیِ فِیْ بَعْضِہِ‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ وَجَدْتُ فِیْ کِتَابِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سُوَیْدٍ بِخَطِّہِ عَنِ الْأَثْرَمِ‘ مِمَّا ذَکَرَ لَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سُوَیْدٍ أَنَّ الْأَثْرَمَ أَجَازَہُ لِمَنْ کَتَبَہٗ مِنْ خَطِّہٖ ذٰلِکَ‘ وَأَجَازَہُ لَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سُوَیْدٍ عَنِ الْأَثْرَمِ‘ یَعْنِیْ (أَبَا بَکْرٍ) قَالَ : قَالَ لِیْ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ یَعْنِیْ (أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ) رَحِمَہُ اللّٰہُ حَدَّثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ زَیْنَبَ‘ (عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا أَنْ تُوَافِیَہُ یَوْمَ النَّحْرِ بِمَکَّۃَ) ، وَلَمْ یُسْنِدْ ذٰلِکَ‘ غَیْرُ أَبِیْ مُعَاوِیَۃَ‘ وَہُوَ خَطَأٌ .قَالَ أَحْمَدُ : وَقَالَ وَکِیْعٌ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ مُرْسَلًا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا أَنْ تُوَافِیَہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ یَوْمَ النَّحْرِ بِمَکَّۃَ) ، أَوْ نَحْوَ ھٰذَا .قَالَ : وَھٰذَا أَیْضًا عَجَبٌ قَالَ أَبُوْ عُبَیْدِ اللّٰہِ : وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یَصْنَعُ بِمَکَّۃَ یَوْمَ النَّحْرِ ؟ کَأَنَّہٗ یُنْکِرُ ذٰلِکَ .قَالَ : فَجِئْتُ إِلٰی یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ : عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا أَنْ تُوَافِیَ لَیْسَ شَأْنَہُ قَالَ : وَفَرْقٌ بَیْنَ ذِی وَیَوْمِ النَّحْرِ صَلَاۃُ الْفَجْرِ بِالْأَبْطُحِ .قَالَ : وَقَالَ لِیْ یَحْیٰی : سَلْ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ‘ ہُوَ ابْنُ مَہْدِیٍّ فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ : ہٰکَذَا عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ (تُوَافِی) .ثُمَّ قَالَ لِیْ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ : رَحِمَ اللّٰہُ یَحْیَی‘ مَا کَانَ أَضْبَطَہٗ‘ وَأَشَدَّہُ (کَانَ مُحَدِّثًا) وَأَثْنَیْ عَلَیْہٖ‘ فَأَحْسَنَ الثَّنَائَ عَلَیْہِ .
٣٩١٢: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ پس مسلمانوں کو معلوم ہوگیا کہ وہ وقت جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمرہ عقبہ کی رمی کی ہے وہی اس کا وقت ہے۔ اب ہم اس پر غور کرنا چاہیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضعفاء کو رمی کی پہلے اجازت مرحمت فرمائی ہے یا نہیں ۔ پس ہم آپ کی طرف سے یہ پیش رفت ان کو روانہ کرنے سے پہلے فرماتے ہیں کہ تم منیٰ میں جمرہ کی رمی طلوع آفتاب سے پہلے نہ کرنا پس اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ ان کو رمی کی رخصت نہ دی تھی۔ البتہ وہ طاقتور لوگوں سے آگے بڑھ جائیں مگر رمی کا وقت ان کا اور ان کا ایک ہے اور وہ طلوع آفتاب ہے۔ آثار کو سامنے رکھیں تو اس باب کی یہی صورت ہے۔ البتہ بطریق نظر وفکر دیکھتے ہیں۔ کہ اس بات پر تمام کا اتفاق ہے کہ دوسرے دن جمرہ عقبہ کی رمی یوم نحر سے اگلے روز طلوع آفتاب سے پہلے رات کے وقت میں ہے اور یہ اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ آپ کی رمی جمرہ عقبہ کی رمی کے دن میں ہی ہو۔ اگرچہ اس دن کا بعض حصہ یوم ثانی کے بعض حصہ سے افضل ہے اور اس میں رمی کرنا بعض دن میں رمی سے افضل ہے۔ میں نے عبداللہ بن سوید کی کتاب میں خود ان کے خط سے اثرم ( ابو بکر) سے یہ منقول دیکھا کہ اثرم نے اس لکھنے والے کو بھی اجازت دی ہے اور عبداللہ نے اسی وساطت سے ہمیں میں اجازت دی۔ کہ مجھے امام احمد بن حنبل (رح) ابو معاویہ کی سند سے حضرت امّ سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا کہ وہ نحر کے دن مکہ میں ملاقات کرے ‘ ‘ اس روایت کو ابو معاویہ کے علاوہ کسی نے مرفوع قرار نہیں دیا امام احمد ہیں یہ روایت درست نہیں۔ وکیع نے اس کو مرسل نقل کیا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نحر کے روز مکہ میں ملاقات کرے یا اسی طرح کے الفاظ ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نحر کے روز مکہ میں کیا کرنا تھا یا اسی طرح کے الفاظ فرمائے ۔ گویا امام احمد (رح) نے اس کا انکار کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر میں یحییٰ بن سعید سے ملا اور ان سے یہ سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ہشام والی یہ روایت آپ کی شان کے مناسب نہیں اور آپ نے تو نحر کے روز مقام ابطح میں نماز فجر ادا کی۔ پھر یحییٰ مجھے کہنے لگے اس کے متعلق عبد الرحمن بن مہدی سے بھی پوچھ لو۔ تو میں نے عبد الرحمن سے پوچھا تو انھوں یحییٰ کی موافقت کرتے ہوئے کہا سفیان سے روایت اسی طرح ہے۔ پھر میں ابو عبداللہ امام احمد (رح) کے پاس آیا تو انھوں نے یحییٰ کے حفظ و ضبط کی تعریف فرمائی اور خوب تعریف فرمائی۔
مسلمانوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل مبارک سے معلوم ہوگیا کہ جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے۔ آثار سے اب تک جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ثابت ہوا۔ یہ فریق ثانی کی گویا دلیل اول ہے۔
دلیل ثانی۔ نظر طحاوی (رض) :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی دوسرے دن رات کو طلوع فجر سے پہلے پہلے ہے اور یہ رمی اس وقت درست ہے جبکہ یہ رمی اپنے وقت مقررہ پر ہو۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ یوم نحر کی رمی بھی اسی طرح اپنے مقررہ وقت پر ہونی چاہیے اور وہ یوم نحر ہے۔ اور یوم نحر کے کسی حصہ میں اس کی رمی اگلے دن اس کی رمی کرنے سے افضل ہے۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
استدراک :
میں نے عبداللہ بن سوید کی کتاب میں ان کے اپنے خط سے اثرم سے منقول پایا کہ ابو عبداللہ یعنی احمد بن حنبل (رح) نے مجھے فرمایا۔ ہمیں ابو معاویہ نے ہشام بن عروہ عن ابیہ عن زینب عن امّ سلمہ (رض) روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یوم نحر کے دن مکہ میں ملاقات کا وعدہ فرمایا۔ یہ روایت ابو معاویہ کے علاوہ اور کسی نے مرفوع بیان نہیں کی۔ یہ روایت خطاء پر محمول ہے اس کو وکیع نے مرسل ذکر کیا ہے اور یہ بھی عجیب ہے امام احمد فرمانے لگے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم نحر کو مکہ میں صبح کے وقت کیا کرنا تھا۔
اثرم کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید سے ملاقات کی تو انھوں نے فرمایا روایت میں واضح فرق ہے۔ کیونکہ یوم نحر کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز فجر مقام ابطح (مزدلفہ) میں ادا فرمائی۔ پھر یحییٰ کہنے لگے تم عبدالرحمن بن مہدی سے بھی دریافت کرو۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے یحییٰ بن سعید کی موافقت فرماتے ہوئے کہا سفیان نے ہشام عن ابیہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ابوبکر اثرم کہتے ہیں میں امام احمد (رح) کی خدمت میں لوٹا اور اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے یحییٰ کے ضبط کی تحسین و تعریف فرمائی۔
اس باب کا زیادہ تر مضمون گزشتہ باب میں بیان ہوچکا تھا ان روایات کو دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ تائیدی روایات اور نظری دلیل پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ آخر میں سند کی تحقیق نے بات کو صاف کردیا کہ وہ روایت ہی سرے سے قابل اعتبار نہیں۔ اس لیے جواب کی ضرورت نہیں۔

3913

۳۹۱۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ " (الرَّاعِیْ یَرْعٰی بِالنَّہَارِ وَیَرْمِیْ بِاللَّیْلِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ إِلٰی أَنَّ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ دَلَالَۃً عَلٰی أَنَّ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ‘ وَقْتٌ وَاحِدٌ لِلرَّمْیِ فَقَالَ (إِنْ تَرَکَ رَجُلٌ رَمْیَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ‘ ثُمَّ رَمَاہَا بَعْدَ ذٰلِکَ فِی اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ بَعْدَہٗ‘ فَلاَ شَیْئَ عَلَیْہٖ‘ وَإِنْ لَمْ یَرْمِہَا‘ حَتّٰی أَصْبَحَ مِنْ غَدِہٖ، رَمَاہَا‘ وَعَلَیْہِ دَمٌ‘ لِتَأْخِیْرِہِ إِیَّاہَا إِلَی خُرُوْجِ وَقْتِہَا‘ وَہُوَ طُلُوْعُ الْفَجْرِ مِنْ یَوْمِئِذٍ) .وَخَالَفَہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ فَقَالَا : اِذَا ذَکَرَہَا فِیْ شَیْئٍ مِنْ أَیَّامِ الرَّمْیِ‘ رَمَاہَا وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ‘ مِنْ دَمٍ وَلَا غَیْرِہِ‘ وَإِنْ لَمْ یَذْکُرْہَا حَتّٰی مَضَتْ أَیَّامُ الرَّمْیِ فَذَکَرَہَا‘ وَلَمْ یَرْمِہَا کَانَ عَلَیْہِ فِیْ تَرْکِہَا دَمٌ .وَاحْتَجَّ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ۔
٣٩١٣: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چرواہے دن کو اونٹ چرائیں اور رات کو رمی کریں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں۔ کہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ دلالت میسر آرہی ہے کہ دن اور رات یہ رمی کا وقت ہے۔ اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص جمرہ عقبہ کی رمی یوم نحر کو ترک کر دے پھر اس نے گیارہ کی رات کو رمی کرلی تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں اور اگر اس نے رات کو رمی نہ کی یہاں تک کہ گیارہ کی صبح ہوگئی تو اس پر ایک قربانی لازم ہوگی کیونکہ اس نے خروج وقت تک اس کو مؤخر کردیا اور وہ گیارہ تاریخ کی طلوع فجر ہے۔ امام ابو یوسف و محمد (رح) نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جب اسے یہ رمی ایام رمی میں سے کسی دن میں یاد آگئی اور اس نے کنکریاں مارلیں تو اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی بعد میں یاد آئی تو اب کنکریاں نہ مارے اس پر رمی کے ترک کی وجہ سے دم کفارہ لازم ہے۔ انھوں نے امام ابوحنیفہ (رح) کے خلاف اس روایت کو دلیل بنایا ہے۔
جب چرواہوں کو غروب کے بعد اجازت دی گئی تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے دن کی صبح صادق تک اس پر کوئی چیز نہیں۔ البتہ دوسرے دن کی صبح جانے پر تاخیر کا دم لازم ہوگا۔
جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے غروب کے بعد کیا حکم ہے اس میں تین قول ہیں۔
نمبر 1: نحر کے دن غروب آفتاب کے بعد رمی سے ایک دم بھی لازم ہوجائے گا اس کو امام مالک و سفیان رحمہم اللہ نے اختیار کیا۔
نمبر 2: غروبِ آفتاب کے بعد گیارہ کی صبح صادق تک کراہت کے ساتھ رمی درست ہے اگر اس سے بھی مؤخر کیا تو دم لازم ہوگا اور یوم ثالث کے غروب سے پہلے تک یہی حکم ہے بعد میں صرف دم لازم ہوگا اس کو امام ابوحنیفہ ‘ نے اختیار کیا۔
نمبر 3: امام شافعی ‘ احمد ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کے ہاں یوم ثانی کی صبح صادق سے لے کر یوم ثالث کے غروب آفتاب تک رمی میں کراہت تو ہے مگر دم نہیں البتہ یوم ثالث کے غروب آفتاب پر دم لازم ہوگا۔
فریق اوّل و ثانی کا مؤقف اور دلیل : یوم نحر کے غروب آفتاب سے صبح صادق تک امام مالک (رح) کے ہاں دم لازم نہ ہوگا البتہ یوم ثانی کی صبح صادق سے یوم ثالث کے غروب تک بالاتفاق رمی کے ساتھ دم بھی لازم ہوگا۔ دلیل یہ روایت ہے۔
فریق ثالث کا مؤقف اور دلیل :
یوم ثالث تک ایام رمی ہیں اس تک رمی کو مؤخر کرنے سے اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی البتہ ایام رمی گزرنے سے اس پر دم لازم ہوگا دلیل یہ روایت ہے۔

3914

۳۹۱۴ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِی الْبَدَّاحِ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِیٍّ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِلرِّعَائِ أَنْ یَتَعَاقَبُوْا‘ فَکَانُوْا یَرْمُوْنَ غَدْوَۃَ یَوْمِ النَّحْرِ وَیَدَعُوْنَ لَیْلَۃً وَیَوْمًا‘ ثُمَّ یَرْمُوْنَ مِنَ الْغَدِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَرْمُوْنَ غَدْوَۃَ یَوْمِ النَّحْرِ ثُمَّ یَدَعُوْنَ یَوْمًا وَلَیْلَۃً‘ ثُمَّ یَرْمُوْنَ الْغَدَ .فَقَدْ کَانُوْا یَرْمُوْنَ رَمْیَ الْیَوْمِ الثَّانِیْ فِی الْیَوْمِ الثَّالِثِ‘ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ بِمُوْجِبٍ عَلَیْہِمْ دَمًا‘ وَلَا بِمُوْجِبٍ أَنَّ حُکْمَ الْیَوْمِ الثَّالِثِ فِی الرَّمْیِ لِلْیَوْمِ الثَّانِیْ‘ خِلَافُ حُکْمِ الْیَوْمِ الرَّابِعِ .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ مَنْ تَرَکَ رَمْیَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ‘ فَذَکَرَہَا فِیْ شَیْئٍ مِنْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ أَنَّہٗ رَمْیٌ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ .ثُمَّ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ یَشْہَدُ لِھٰذَا قَوْلٌ أَیْضًا‘ وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا أَشْیَائَ تُفْعَلُ فِی الْحَجِّ‘ الدَّہْرُ کُلُّہُ وَقْتٌ لَہَا‘ مِنْہَا السَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَطَوَافُ الصَّدْرِ‘ وَمِنْہَا أَشْیَائُ تُفْعَلُ فِیْ وَقْتٍ خَاصٍّ‘ ہُوَ وَقْتُہَا خَاصَّۃً‘ مِنْہَا رَمْیُ الْجِمَارِ .فَکَانَ مَا الدَّہْرُ وَقْتٌ لَہٗ مِنْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ مَتَی فُعِلَ‘ فَلاَ شَیْئَ عَلَی فَاعِلِہِ مَعَ فِعْلِہِ إِیَّاہُ‘ مِنْ دَمٍ وَلَا غَیْرِہٖ۔ وَمَا کَانَ مِنْہَا لَہٗ وَقْتٌ خَاصٌّ مِنَ الدَّہْرِ اِذَا لَمْ یُفْعَلْ فِیْ وَقْتِہٖ، وَجَبَ عَلَی تَارِکِہِ الدَّمُ .فَکَانَ مَا کَانَ مِنْہَا یُفْعَلُ لِبَقَائِ وَقْتِہٖ، فَلاَ شَیْئَ عَلَی فَاعِلِہٖ غَیْرُ فِعْلِہِ إِیَّاہُ‘ وَمَا کَانَ مِنْہَا لَا یُفْعَلُ لِعَدَمِ وَقْتِہٖ، وَجَبَ مَکَانَہُ الدَّمُ .وَکَانَتْ جَمْرَۃُ الْعَقَبَۃِ اِذَا رُمِیَتْ مِنْ غَدِ یَوْمِ النَّحْرِ قَضَاء ٌ عَنْ رَمْیِ یَوْمِ النَّحْرِ‘ فَقَدْ رُمِیَتْ فِیْ یَوْمٍ ہُوَ مِنْ وَقْتِہَا‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا أَمَرَ بِرَمْیِہَا کَمَا لَا یُؤْمَرُ تَارِکُہَا إِلَّا بَعْدَ انْقِضَائِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ بِرَمْیِہَا بَعْدَ ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّانِیْ مِنْ أَیَّامِ النَّحْرِ‘ ہُوَ وَقْتٌ لَہَا‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا مِمَّا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ أَنَّ مَا فُعِلَ فِیْ وَقْتِہٖ منْ أُمُوْرِ الْحَجِّ‘ فَلاَ شَیْئَ عَلَی فَاعِلِہٖ، وَکَانَ کَذٰلِکَ ھٰذَا الرَّامِیْ لَہَا‘ لَمَّا رَمَاہَا فِیْ وَقْتِہَا‘ فَلاَ شَیْئَ عَلَیْہِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا أَوْجَبْنَا عَلَیْہِ الدَّمَ بِتَرْکِہِ رَمْیَہَا یَوْمَ النَّحْرِ وَفِی اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ بَعْدَہُ لِلْاِسَائَ ۃِ الَّتِیْ کَانَتْ مِنْہُ فِیْ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : فَقَدْ رَأَیْنَا تَارِکَ طَوَافِ الصَّدْرِ حَتّٰی یَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِہٖ، وَتَارِکَ السَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ حَتّٰی یَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِہٖ مَسْأَلَتَیْنِ وَأَنْتَ تَقُوْلُ : إِنَّہُمَا اِذَا رَجَعَا فَفَعَلَا مَا کَانَا تَرَکَا مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ إِسَائَ تَہُمَا لَا تُوْجِبُ عَلَیْہِمَا دَمًا‘ لِأَنَّہُمَا قَدْ فَعَلَا مَا فَعَلَا مِنْ ذٰلِکَ فِیْ وَقْتِہٖ۔فَکَذٰلِکَ الرَّامِی الْیَوْمَ الثَّانِیَ مِنْ أَیَّامِ مِنًی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ‘ لَمَا کَانَ وَجَبَ عَلَیْہِ فِیْ یَوْمِ النَّحْرِ رَامِیًا لَہَا فِیْ وَقْتِہَا فَلاَ شَیْئَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ غَیْرُ رَمْیِہَا .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٣٩١٤: ابوالبداح نے عاصم بن عدی (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چرواہوں کو رخصت دی کہ وہ باری باری آئیں وہ یوم نحر کی صبح کو رمی کر رہے تھے اور ایک دن رات چھوڑ کر پھر وہ اگلے روز رمی کر رہے تھے۔ اس روایت میں غدوۃ یوم النحر کہ انھوں نے یوم نحر کی صبح کو کنکریاں مارلیں پھر ایک دن چھوڑ کر اگلی صبح کو کنکریاں مارتے تھے۔ گویا انھوں نے دوسرے دن کی رمی تیسرے دن کی اور اس سے ان پر دم لازم نہ ہوا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں کہ دوسرے دن کی کنکریوں کو اگر تیسرے دن مار لیا یا چوتھے دن مارلیا تو اس سے کچھ لازم نہیں آتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس شخص نے جمرہ عقبہ کی کنکریاں نحر کے دن ترک کردیں اور اسے پھر ایام تشریق میں یاد آیا کہ اس پر کنکریاں ابھی رہ گئی ہیں تو اس پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔ نظر و فکر بھی اس قول کی تائید کرتے ہیں اور اس کی صورت یہ ہے کہ ہم دیکھتے کہ حج میں بعض اعمال ایسے ہیں جو ایّام حج میں ہر گھڑی کیے جاسکتے ہیں ان میں سے سعی صفا اور مروہ اور طواف صدر ہیں۔ اور بعض وہ اعمال ہیں جو مخصوص اوقات میں کیے جاسکتے ہیں ان میں جمرات کی کنکریاں ہیں۔ پس ان میں سے وہ اشیاء جن کا زمانہ مقرر ہے وہ اگر اس وقت سے ہٹائیں گے تو اس کے تارک پر قربانی لازم ہوگی اور جس کا وقت مقرر نہیں اسے کسی وقت میں کرلینے سے کچھ بھی لازم نہ آئے گا۔ اور ان میں سے جو افعال اپنے باقی وقت میں کیے جاسکتے ہوں ان افعال میں ان افعال کی بقیہ وقت میں ادائیگی کے علاوہ اور کچھ لازم نہ ہوگا اور وہ افعال جو اس طرح ہوں کہ وقت نہ ہونے کی وجہ سے ادا نہ کیے جاسکتے ہوں تو ان کی جگہ قربانی لازم ہوگی۔ جمرہ عقبہ کو جب یوم نحر سے اگلی صبح کنکریاں یوم نحر کے بدلے میں مار لی گئیں تو گویا یہ کنکریاں اپنے وقت میں ماری گئیں اگر یہ کنکریاں درست نہ ہوتیں تو چرواہوں کو اگلے روز میں مارنے کا حکم نہ ہوتا ۔ جیسا کہ ان کنکریوں کے چھوڑنے والے کو ایام تشریق کے بعد کنکریاں مارنے کا حکم نہ دیا جائے گا۔ پس جب دوسرا دن ایام نحر میں وہ رمی کا وقت ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔ کہ امور حج میں جو چیز اپنے وقت میں انجام دیجائے گی تو اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔ اور یہ کنکریاں مارنے والا اسی طرح ہے کہ اس نے کنکریاں اس کے وقت میں ماری ہیں۔ پس اس پر کچھ لازم نہ ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم نے اس پر دم اس لیے لازم کیا ہے کیونکہ اس نے نحر کے دن رمی کو ترک کیا ہے اور بعد والی رات کو بھی اس نے کنکریاں ترک کر کے گناہ کیا ہے اس لیے دم لازم ہوا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا ۔ ہم جانتے ہیں کہ جس آدمی نے طواف صدر چھوڑ دیا اور وہ اپنے گھر لوٹ آیا۔ اسی طرح صفا مروہ کی سعی ترک کی اور گھر لوٹ آیا۔ ان دونوں مسائل میں اس کا ترک گناہ ہے۔ مگر آپ ان پر دم کو لازم نہیں کرتے کیونکہ ان دونوں نے جو فعل کیا وہ اپنے وقت میں کیا ۔ پس اسی طرح دوسرے دن کنکریاں مارنے والا اگرچہ وہ یوم نحر کی کنکریاں مارنے والا ہو اپنے وقت میں کنکریاں مارنے والا ہے اس لیے اس پر کچھ لازم نہ آئے گا۔ پس فقط کنکریاں ہی لازم ہوں گی ۔ نظر وفکر اسی کو چاہتے ہیں اور یہی امام ابو یوسف ومحمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤٥٠۔
اس روایت میں غدوۃ یوم النحر ثابت کررہا ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی انھوں نے وقت پر کرلی البتہ اس کے بعد کی رمی ایک دن رات چھوڑ کر کی۔ یوم ثانی کی رمی یوم ثالث میں کی۔ اور اس میں کوئی دم لازم نہیں دوسرے اور تیسرے دن کی رمی میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ یوم رابع کا حکم مختلف ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمرہ عقبہ کی رمی اگر یوم نحر کو نہ کی جائے پھر اس کو ایام تشریق میں یاد آنے پر کرلی تو اس پر بھی کچھ لازم نہیں۔
دلیل ثانی۔ نظر طحاوی (رض) :
حج میں کئی کام ایسے ہیں جن کے لیے وقت کی کھلی چھٹی ہے کہ ان کو کسی وقت انجام دینے سے وہ ادا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً صفا ومروہ کی سعی ‘ طواف صدر۔ دوسرے نمبر پر وہ کام ہیں جن کا خاص وقت مقرر ہے ان میں رمی جمار ہے۔ پس جس فعل کا کوئی خاص وقت نہیں اس کے کسی وقت کرلینے میں کوئی دم لازم نہیں آتا۔ اور اس کے بالمقابل جن کا وقت مقرر ہے۔ جب ان کو وقت پر نہ کیا جائے تو دم لازم آتا ہے۔ پھر ان میں سے جن کا وقت باقی ہوتا ہے تو بقاء وقت کی وجہ سے تاخیر کے باوجود ان پر کوئی چیز لازم نہیں آتی اب اس فعل کو انجام دینا ضروری ہوتا ہے اور اگر ان کا وقت ہی باقی نہ رہے تو پھر اس کی جگہ دم لازم ہوجاتا ہے۔
اب یہاں جمرہ عقبہ کی رمی جب اگلے روز یوم نحر کی قضاء کے طور پر کرلی گئی تو رمی کا وقت باقی ہونے کی وجہ سے گویا وہ اپنے وقت پر ہوگئی۔ اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر اس کی رمی کی اجازت نہ دی جانی جیسا کہ ایام تشریق کے ختم ہونے پر اس کی رمی کا حکم نہیں دیا جاتا بلکہ رمی کا حکم ہوتا ہے۔
پس جب ایام نحر کا دوسرا دن رمی کا وقت ہے تو سابقہ قاعدہ کے مطابق جو امور اپنے وقت میں کر لیے جائیں ان پر کوئی ضمان لازم نہیں۔ یہ رمی کرنے والے بھی انہی میں شامل ہیں۔ اس لیے کہ اس نے اپنے وقت میں رمی کی ہے پس اس پر کچھ لازم نہیں۔
ایک اشکال :
یوم نحر کی رمی چھوڑ دینے کی وجہ سے اس پر دم لازم کیا گیا کیونکہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ رمی کا وقت نکل گیا۔
الجواب :
اگر کسی شخص نے طواف صدر چھوڑ دیا یا صفا ومروہ کے درمیان سعی چھوڑ دی اور وہ اپنے گھر واپس لوٹ آیا تو یہ دونوں گناہ گار تو ہوں گے مگر ان کے ارتکاب کراہت کی وجہ سے ان پر کچھ جرمانہ لازم نہ آئے گا۔ اور اگر وہ لوٹ کر طواف صدر اور سعی صفا ومروہ کرلیں تو تب بھی تاخیر کی وجہ سے ان پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔ کیونکہ انھوں نے اس وقت کے اندر اس کو ادا کرلیا۔ تو جس طرح طواف صدر اور سعی میں تاخیر سے گناہ تو ہوگا مگر کوئی جرمانہ لازم نہ ہوگا یہی حکم یوم نحر کی رمی کو ایام تشریق تک مؤخر کرنے کا ہے۔ کہ تاخیر سے لازم تو کچھ نہ ہوگا البتہ تاخیر کا گناہ ہوگا۔
امام ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) نے بھی اسی دوسرے قول کو اختیار کر کے راجح قرار دیا ہے اور آج کل کے حالات میں اسی قول پر فتویٰ دینا چاہیے کیونکہ رمی جمرہ عقبہ کے ہجوم میں ہر سال کئی جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔
نمبر 1: احناف ‘ شوافع و حنابلہ سب کے ہاں استلام حجراسود یعنی ابتداء طواف کے وقت تلبیہ منقطع کر دے۔
نمبر 2: امام مالک (رح) کے ہاں حدود حرم میں داخل ہوتے ہی تلبیہ ختم کر دے یہ عمرہ کا احرام باندھنے والے کا حکم ہے۔ البتہ محرم بالحج کے متعلق تین قول معروف ہیں۔
نمبر 3: امام مالک (رح) و حسن بصری (رح) کے ہاں جب منیٰ سے عرفات جائے تو تلبیہ بند کر دے۔
نمبر 4: اوزاعی (رح) اور ابن شہاب (رح) کے ہاں عرفات میں زوال کے بعد وقوف کے وقت تلبیہ ختم کرے۔
نمبر 5: امام ابوحنیفہ و شافعی ‘ احمد رحمہم اللہ کے ہاں جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ جاری رکھے گا۔ رمی سے ختم کر دے گا۔
فریق اوّل و ثانی کا مؤقف :
وقوف عرفات کے وقت یا اس کی طرف روانگی سے تلبیہ ختم کردیا جائے گا۔ ان کو فقال قوم سے ذکر کیا گیا ہے۔ دلائل یہ ہیں۔

3915

۳۹۱۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ ہُوَ الْمَاجِشُوْنِ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ حُسَیْنٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَبِیْحَۃَ عَرَفَۃَ‘ فَمِنَّا الْمُہِلُّ‘ وَمِنَّا الْمُکَبِّرُ‘ فَأَمَّا نَحْنُ فَکُنَّا نُکَبِّرُ‘ وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ : الْعَجَبُ لَکُمْ‘ کَیْفَ لَمْ تَسْأَلُوْہُ مَا قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ فِیْ ذٰلِکَ)
٣٩١٥: عبداللہ بن عبداللہ نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں عرفہ کی صبح کے وقت موجود تھے۔ ہم میں بعض لاالہ الا اللہ اور بعض اللہ اکبر پڑھنے والے تھے البتہ ہم تکبیر کہتے تھے جبکہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان سے کہا تم پر تعجب ہے کہ تم نے یہ کیوں نہ پوچھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کر رہے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٠‘ ١٤٧۔

3916

۳۹۱۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : أَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ رِدْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ‘ فَکَانَ لَا یَزِیْدُ عَلَی التَّکْبِیْرِ وَالتَّہْلِیْلِ‘ وَکَانَ اِذَا وَجَدَ فَجْوَۃً نَصَّ) .
٣٩١٦: ہشام نے عروہ سے روایت کی انھوں نے اسامہ بن زید (رض) سے روایت کی۔ کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے سوار تھا۔ یہ عرفہ کی شام کی بات ہے آپ صرف تکبیر و تہلیل پڑھتے تھے۔ اور جب وہ راستے میں وسعت پاتے تو تیز چلتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٢‘ مسلم فی الحج ٢٨٣‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٦٣‘ نسائی فی المناسک باب ٢٠٥؍٢١٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٥٨‘ مالک فی الحج ١٧٦‘ مسند احمد ٥‘ ٢٠٢؍٢٠٥‘ ٢١٠۔

3917

۳۹۱۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ (مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ الثَّقَفِیِّ أَنَّہٗ سَأَلَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَہُمَا غَادِیَانِ إِلٰی عَرَفَۃَ - کَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ‘ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہٖ؟ قَالَ : کَانَ یُہِلُّ الْمُہِلُّ مِنَّا‘ فَلاَ یُنْکِرُ عَلَیْہٖ‘ وَیُکَبِّرُ الْمُکَبِّرُ‘ فَلاَ یُنْکِرُ عَلَیْہِ) .
٣٩١٧: محمد بن ابی بکر ثقفی نے انس بن مالک (رض) سے سوال کیا جبکہ یہ دونوں عرفات کی طرف جا رہے تھے۔ تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں آج کے دن کیا کرتے تھے۔ تو انھوں نے جواب میں فرمایا۔ تہلیل کہنے والا تہلیل اور تکبیر والا تکبیر پڑھتا آپ کسی کو نہ روکتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٨٦‘ مسلم فی الحج ٢٧٤‘ مالک فی الحج ٤٣‘ مسند احمد ٣؍١١٠‘ ٢٤٠۔

3918

۳۹۱۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ قَالَ : حَدَّثَنِی (عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ قَالَ : أَدْرَکْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَنَحْنُ غَادِیَانِ مِنْ مِنًی إِلٰی عَرَفَاتٍ فَقُلْتُ لَہٗ : کَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ فِیْ ھٰذِہِ الْغَدَاۃِ ؟ فَقَالَ : سَأُخْبِرُک‘ کُنْتُ فِیْ رَکْبٍ‘ فِیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَکَانَ یُہِلُّ الْمُہِلُّ‘ فَلاَ یُنْکِرُ عَلَیْہٖ‘ وَیُکَبِّرُ الْمُکَبِّرُ‘ فَلاَ یُنْکِرُ عَلَیْہٖ‘ وَلَسْتُ أُثْبِتُ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ) .
٣٩١٨: عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو پا لیا جبکہ ہم منیٰ سے عرفات جا رہے تھے میں نے کہا آپ آج کی صبح کیا کرتے تھے انس کہنے لگے میں تمہیں ابھی بتلاتا ہوں۔ میں اس قافلہ میں تھا جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے آپ تہلیل و تکبیر کہنے والے کو منع نہ فرماتے۔ مگر مجھے پختہ یاد نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے۔
تخریج : ٣٩١٨ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔

3919

۳۹۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ الْاِہْلَالِ یَوْمَ عَرَفَۃَ فَقَالَ : کُنَّا نُہِلُّ مَا دُوْنَ عَرَفَۃَ‘ وَنُکَبِّرُ یَوْمَ عَرَفَۃَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْحَاجَّ لَا یُلَبِّیْ بِعَرَفَۃَ‘ وَاخْتَلَفُوْا فِیْ قَطْعِہِ لِلتَّلْبِیَۃِ مَتَیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یَّکُوْنَ ؟ فَقَالَ قَوْمٌ : حِیْنَ یَتَوَجَّہُ إِلٰی عَرَفَاتٍ‘ وَقَالَ قَوْمٌ : حِیْنَ یَقِفُ بِعَرَفَاتٍ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یُلَبِّی الْحَاجُّ حَتّٰی یَرْمِیَ جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ وَقَالُوْا : لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِی احْتَجَجْتُمْ بِہَا عَلَیْنَا‘ لِأَنَّ الْمَذْکُوْرَ فِیْہَا أَنَّ بَعْضَہُمْ کَانَ یُکَبِّرُ‘ وَبَعْضَہُمْ کَانَ یُہِلُّ لَا یَمْنَعُ أَنْ یَکُوْنُوْا فَعَلُوْا ذٰلِکَ وَلَہُمْ أَنْ یُلَبُّوْا فَإِنَّ الْحَاجَّ - فِیْمَا قَبْلَ یَوْمِ عَرَفَۃَ - لَہُ أَنْ یُکَبِّرَ‘ وَلَہٗ أَنْ یُہِلَّ‘ وَلَہٗ أَنْ یُلَبِّیَ‘ فَلَمْ یَکُنْ تَکْبِیْرُہٗ وَتَہْلِیْلُہٗ‘ یَمْنَعَانِہِ مِنَ التَّلْبِیَۃِ .فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ تَہْلِیْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَکْبِیْرِہٖ یَوْمَ عَرَفَۃَ‘ لَا یَمْنَعُ ذٰلِکَ مِنَ التَّلْبِیَۃِ .وَقَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ مُتَوَاتِرَۃٌ‘ بِتَلْبِیَتِہٖ بَعْدَ عَرَفَۃَ إِلٰی أَنْ رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ۔
٣٩١٩: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا کہ عرفہ کے دن تہلیل کا کیا حکم ہے تو انھوں نے فرمایا ہم عرفات سے ادھر تک تہلیل اور عرفہ کے دن تکبیر کہتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء کا رجحان یہ ہے کہ حاجی عرفہ میں تلبیہ نہ کہے۔ اس بارے میں اختلاف کیا گیا کہ تلبیہ کب منقطع کیا جائے ؟ نمبر ١ بعض لوگ کہتے ہیں جب عرفات کی طرف روانہ ہو ۔ نمبر ٢ وقوف عرفات کے وقت انھوں نے مندرجہ بالا آثار سے استدلال کیا دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا حاجی جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہے اور ان آثار کے جواب میں یہ کہا کہ ان آثار میں تمہارے حق میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ اس لیے کہ ان آثار میں تو صرف اس قدر بات ہے کہ بعض لوگ تکبیر کہتے اور بعض لوگ لا الہ الا اللہ پڑھتے تھے اور یہ بات اس سے مانع نہیں کہ انھوں نے یہ بھی کہا ہو اور تلبیہ بھی پڑھا ہو۔ کیونکہ حجاج تکبیر ‘ تہلیل اور تلبیہ نویں ذی الحجہ سے پہلے کہہ سکتا تھا ۔ اس کی تکبیر و تہلیل تلبیہ سے مانع نہ تھے۔ اسی طرح تم نے جو نوویں ذوالحجہ کو جو تکبیر و تہلیل کا ذکر کیا وہ تلبیہ سے مانع نہیں جبکہ نو ذوالحجہ کے بعد کنکریاں مارنے تک تلبیہ کے متعلق جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر روایات مروی ہیں۔ روایات ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجی عرفہ میں تلبیہ نہ پڑھے۔ البتہ اس کو ترک کے متعلق بعض نے روانگی عرفات کا وقت اور بعض نے وقوف عرفات بتلایا ہے۔
فریق ثالث کا مؤقف :
رمی جمرہ عقبہ کے وقت تلبیہ منقطع کیا جائے گا۔ اس سے پہلے تلبیہ تکبیر و تہلیل سب درست ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب : ان روایات میں انقطاع کا وقت وقوف عرفات یا روانگی عرفات ہے اس کی کوئی دلیل موجود نہیں تکبیر و تہلیل کا پڑھنا جس کا تذکرہ روایات بالا میں پایا جاتا ہے وہ تلبیہ کے خلاف نہیں۔ اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلبیہ و تہلیل وہ بھی تلبیہ سے قطعاً مانع نہیں ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرفات کے بعد تلبیہ کے ثبوت کی کثرت سے روایات وارد ہیں۔ چند مذکور ذیل ہیں۔

3920

۳۹۲۰ : .فَمِنْ ذٰلِک مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ‘ عَنْ (عِکْرَمَۃَ قَالَ : وَقَفْتُ مَعَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَکَانَ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ مَا ھٰذَا ؟ فَقَالَ : کَانَ أَبِیْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ‘ وَأَخْبَرَنِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .قَالَ : فَرَجَعْتُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَأَخْبَرْتُہٗ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : صَدَقَ‘ أَخْبَرَنِی الْفَضْلُ أَخِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبَّیْ حَتَّی انْتَہَی‘ أُوْلَاہَا‘ وَکَانَ رَدِیْفَہٗ) .
٣٩٢٠: عکرمہ کہتے ہیں کہ میں حسین بن علی (رض) کے ساتھ وقوف کررہا تھا وہ جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہے۔ میں نے پوچھا۔ اے عبداللہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا میرے والد ایسا کرتے تھے اور انھوں نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے ان کو اس کی اطلاع دی تو انھوں نے فرمایا۔ حسین (رض) نے سچ کہا مجھے میرے بھائی فضل (رض) نے اطلاع دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر تک تلبیہ کہتے رہے۔ اور ان کی بات اولیٰ ہے کیونکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے اونٹنی پر سوار تھے۔

3921

۳۹۲۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْفَضْلِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبَّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ) .
٣٩٢١: معبد بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی انھوں نے فضل (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہا۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢٧‘ نسائی فی المناسک باب ٢١٦‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦٩‘ مسند احمد ١‘ ٢١٠؍٢١٦‘ ٢٨٣؍٣٤٤۔

3922

۳۹۲۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ بْنِ مَالِکٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنِ الْفَضْلِ قَالَ : کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٩٢٢: سعید بن جبیر (رض) نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے فضل (رض) سے انھوں نے بیان کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پر پیچھے سوار تھا۔ پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3923

۳۹۲۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی ح .
٣٩٢٣: محمد بن عمرو نے یحییٰ بن عیسیٰ سے۔

3924

۳۹۲۴ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبَّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ) .
٣٩٢٤: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہا۔
تخریج : روایت ٣٩٢٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

3925

۳۹۲۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْفَضْلِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٣٩٢٥: عطاء نے ابن عباس (رض) انھوں نے فضل (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3926

۳۹۲۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ (ثُوَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : حَجَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ‘ فَلَمْ یَزَلْ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ .قَالَ : وَلَمْ یَسْمَعِ النَّاسَ یُلَبُّوْنَ عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ أَنَسِیْتُمْ ؟ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ، لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ) .
٣٩٢٦: ثویر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے عبداللہ کے ساتھ حج کیا آپ جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔ عبداللہ نے لوگوں کا عرفہ کی شام تلبیہ نہ سنا تو انھوں نے فرمایا اے لوگو ! کیا تم بھول گئے مجھے اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے دیکھا۔

3927

۳۹۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْحَکَمُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ‘ فَلَمَّا أَفَاضَ إِلَی جَمْعٍ‘ جَعَلَ یُلَبِّی فَقَالَ رَجُلٌ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : أَنَسِیَ النَّاسُ أَمْ ضَلُّوْا ؟ ثُمَّ لَبَّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ .
٣٩٢٧: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ کے ساتھ حج کیا جب وہ مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے تو تلبیہ پڑھنے لگے۔ ایک بدو نے کہا تو عبداللہ کہنے لگے کیا لوگ بھول گئے یا گمراہ ہوگئے ۔ پھر انھوں نے تلبیہ کہا یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی۔

3928

۳۹۲۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَیْدٍ الْکُوْفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِیْ ذَہَابٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَخْبَرَۃَ قَالَ : (لَبَّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَہُوَ مُتَوَجِّہٌ إِلٰی عَرَفَاتٍ .فَقَالَ أُنَاسٌ : مَنْ ھٰذَا الْأَعْرَابِیُّ .فَالْتَفَتَ إِلَیَّ عَبْدُ اللّٰہِ فَقَالَ : أَضَلَّ النَّاسُ أَمْ نَسُوْا ؟ وَاللّٰہِ مَا زَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمَی الْجَمْرَۃَ إِلَّا أَنْ یَخْلِطَ ذٰلِکَ بِتَہْلِیْلٍ أَوْ بِتَکْبِیْرٍ) .
٣٩٢٨: مجاہد نے عبداللہ بن سخبرہ سے روایت کی کہ عبداللہ نے اس وقت تلبیہ کہا جب کہ وہ عرفات کی طرف جا رہے تھے۔
کچھ لوگوں نے کہا یہ بدو کون ہے ؟ میں عبداللہ کی طرف متوجہ ہوا تو انھوں نے کہا کیا لوگ بھول گئے یا گمراہ ہوگئے ؟ اللہ کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔ البتہ کبھی تہلیل اور تکبیر بھی ملا لیتے تھے۔

3929

۳۹۲۹ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ‘ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِیْ ذَہَابٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ الْمَکِّیِّ‘ عَنْ (ابْنِ سَخْبَرَۃَ قَالَ : غَدَوْتُ مَعَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ غَدَاۃَ جَمْعٍ‘ وَہُوَ یُلَبِّی فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَضَلَّ النَّاسُ أَمْ نَسُوْا ؟ أَشْہَدُ لَکُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلَبَّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ) .
٣٩٢٩: مجاہد مکی نے ابن سخبرہ سے روایت کی ہے کہ میں صبح سویرے مزدلفہ کی صبح کو عبداللہ (رض) کے پاس گیا تو تہ تلبیہ پڑھ رہے تھے اس پر ابن مسعود (رض) نے فرمایا کیا لوگ بھول گئے یا گمراہ ہوگئے میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے۔

3930

۳۹۳۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ‘ عَنْ حُصَیْنٍ‘ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ مُدْرِکٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ قَالَ : قَالَ (عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَنَحْنُ بِجَمْعٍ سَمِعْت الَّذِی أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ یُلَبِّیْ فِیْ ھٰذَا الْمَکَانِ لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ) .
٣٩٣٠: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہنے لگے جبکہ ہم مزدلفہ میں تھے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس جگہ لبیک اللہم لبیک کہتے سنا۔ اس وقت سورة بقرہ کی بعض آیات اتاری گئیں۔
تخریج : مسلم فی الحج ٢٦٩؍٢٧٠‘ ٢٧١‘ نسائی فی المناسک باب ٢١٢‘ مسند احمد ١؍٣٧٤۔

3931

۳۹۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ الْأَوَّلِ الْأَحْوَلُ‘ قَالَا : ثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ حُصَیْنٍ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ ۔
٣٩٣١: یحییٰ بن آدم نے سفیان سے انھوں نے حصین سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3932

۳۹۳۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : سَمِعْتُ یُوْنُسَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ رِدْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَۃَ إِلَی الْمُزْدَلِفَۃِ‘ ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ مُزْدَلِفَۃَ إِلَی مِنًی‘ فَکِلَاہُمَا قَالَا لَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ) .فَقَدْ جَائَ تْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّہٗ کَانَ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ‘ وَصَحَّ مَجِیْئُہَا‘ وَلَمْ یُخَالِفْہَا‘ عِنْدَنَا‘ مَا قَدَّمْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ‘ لِمَا قَدْ شَرَحْنَا وَبَیَّنَّا .وَھٰذَا (الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَقَدْ کَانَ رَدِیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ حِیْنَ دَفَعَ مِنْ عَرَفَۃَ‘ وَقَدْ رَأٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَۃَ یُلَبِّی حِیْنَئِذٍ‘ وَبَعْدَ ذٰلِکَ) .وَقَدْ ذَکَرْنَا عَنْ (أُسَامَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ رَدِیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَۃَ‘ فَلَمْ یَکُنْ یَزِیْدُ التَّہْلِیْلَ وَالتَّکْبِیْرَ فَدَلَّتْ تَلْبِیَتُہُ بِعَرَفَۃَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ لَہٗ أَنْ یُلَبِّیَ أَیْضًا بِعَرَفَۃَ‘ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا کَانَ تَکْبِیْرُہُ وَتَہْلِیْلُہٗ بِعَرَفَۃَ‘ کَمَا کَانَ لَہٗ قَبْلَہَا‘ لَا أَنْ یَجْعَلَ مَکَانَ التَّلْبِیَۃِ تَہْلِیْلًا وَتَکْبِیْرًا) .أَلَا تَرَی إِلٰی قَوْلِ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ حَدِیْثِ مُجَاہِدٍ : (لَبَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ) ، إِلَّا أَنَّہٗ رُبَّمَا کَانَ خَلَطَ ذٰلِکَ بِتَکْبِیْرٍ وَتَہْلِیْلٍ .فَأَخْبَرَ عَبْدُ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ کَانَ یَخْلِطُ التَّکْبِیْرَ بِالتَّہْلِیْلِ‘ وَکَانَ التَّہْلِیْلُ وَالتَّکْبِیْرُ‘ لَا یَدُلَّانِ عَلٰی أَنْ لَا تَلْبِیَۃَ فِیْ وَقْتِہَا‘ وَالتَّلْبِیَۃُ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ‘ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْوَقْتَ کَانَ وَقْتَ تَلْبِیَتِہٖ۔ فَثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ وَقْتَ التَّلْبِیَۃِ إِلٰی أَنْ یَرْمِیَ جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ یَوْمَ النَّحْرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ مَا صَحَّحْتُمْ عَلَیْہِ ھٰذِہِ الْآثَارَ‘ وَذَکَرَ۔
٣٩٣٢: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ اسامہ بن زید (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے تھے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات سے مزدلفہ تشریف لے جا رہے تھے۔ پھر آپ نے فضل بن عباس (رض) کو مزدلفہ سے منیٰ تک پیچھے بٹھا لیا۔ دونوں نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک آپ تلبیہ پڑھتے رہے اور یہ روایات صحیح و درست ہیں اور وہ روایات جو شروع باب میں آئی ہیں اور ہم نے ان کی وضاحت کی ہے۔ وہ اس کے خلاف نہیں ۔ یہ فضل بن عباس (رض) ہیں جو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھے جب کہ آپ عرفات سے روانہ ہوئے۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرفات کے اس موقعہ پر اور بعد میں بھی تلبیہ کہتے سنا اور ہم نے حضرت اسامہ (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ میں عرفات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ اس وقت صرف تکبیر و تہلیل کہہ رہے تھے اور عرفہ کے بعد آپ کا تلبیہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ عرفات میں بھی تلبیہ کہہ سکتے تھے اور آپ کا عرفات میں تکبیر و تہلیل اسی طرح تھا جیسا کہ آپ سے پہلے کہتے تھے ایسا نہیں کہ آپ نے تکبیر و تہلیل تلبیہ کی جگہ کہی۔ کیا تم دیکھتے کہ وہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمرہ عقبہ کی کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ البتہ بعض اوقات درمیان میں تکبیر و تہلیل کہتے تھے۔ تو اس میں حضرت عبداللہ (رض) نے اس بات کی اطلاع دی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی تکبیر کو تہلیل سے ملا دیتے تھے اور یہ اس بات کی دلالت نہیں کہ اس وقت میں تلبیہ نہیں ہے اور تلبیہ کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ تلبیہ کا وقت ہے۔ پس ان آثار کی تصحیح سے معلوم ہوگیا کہ یوم نحر کو جمرہ عقبہ کنکریاں مارنے تک تلبیہ کا وقت ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان روایات کے خلاف روایات بھی وارد ہیں جو ذیل میں درج ہیں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٢٢‘ ٩٣‘ ٩٩‘ ١٠١‘ مسلم فی الحج ٢٦٦؍٢٦٧‘ ترمذی فی الحج باب ٧٨‘ نسائی فی المناسک باب ٢٠٤؍٢٢٩‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٦٩‘ دارمی فی المناسک باب ٦٠‘ مسند احمد ١؍١١٤‘ ٢١٠؍٢١٤‘ ٢٢٦۔
حاصل روایات : ان آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہا سابقہ روایات فصل اول اس کے خلاف نہیں کیونکہ ان میں تہلیل و تکبیر کا تذکرہ ہے۔ اور وہ تلبیہ کے خلاف نہیں جیسا پہلے ذکر کر آئے۔ یہ فضل (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزدلفہ سے منیٰ واپسی تک ردیف تھے وہ بھی عرفہ سے بعد تلبیہ کو بیان کر رہے ہیں۔ اور اسامہ (رض) کی روایت عرفات میں تلبیہ کو ثابت کرتی ہے۔ کبھی آپ تلبیہ کبھی تہلیل اور کبھی تکبیر کہتے تھے یہ نہیں کہ تلبیہ کی جگہ تہلیل و تکبیر کہتے تھے۔ بلکہ ابن مسعود (رض) کی روایت میں اور صاف فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر و تہلیل سے ملا کر اور کبھی الگ تلبیہ رمی جمرہ عقبہ تک کرتے رہے۔ معلوم ہوا کہ یہ تمام وقت تلبیہ تکبیر و تہلیل کا ہے۔
پس ثابت ہوگیا کہ جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہنا چاہیے۔
سرسری اشکال :
بعض صحابہ کرام (رض) کا عمل اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہ روایات ذکر کی جا رہی ہیں۔

3933

۳۹۳۳ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا مُوْسَی بْنُ یَعْقُوْبَ‘ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَمِّہٖ‘ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یُہِلُّ یَوْمَ عَرَفَۃَ حَتّٰی یَرُوحَ .
٣٩٣٣: عامر بن عبداللہ بن زبیر نے اپنے والد سے نقل کیا کہ عمر (رض) لاالہ الا اللہ عرفہ کے دن پڑھتے رہتے یہاں تک کہ وہاں سے لوٹتے۔

3934

۳۹۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تَتْرُکُ التَّلْبِیَۃَ اِذَا رَاحَتْ إِلَی الْمَوْقِفِ .فَمِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرٰی أَنَّ الْقَاسِمَ‘ لَمْ یُخْبِرْ فِیْ حَدِیْثِہِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : إِنَّ التَّلْبِیَۃَ تَنْقَطِعُ قَبْلَ الْوُقُوْفِ بِعَرَفَۃَ .وَإِنَّمَا أَخْبَرَ عَنْ فِعْلِہَا فَقَالَ : کَانَتْ تَتْرُکُ التَّلْبِیَۃَ اِذَا رَاحَتْ إِلَی الْمَوْقِفِ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ کَانَتْ تَفْعَلُ ذٰلِکَ‘ لَا عَلٰی أَنَّ وَقْتَ التَّلْبِیَۃِ قَدِ انْقَطَعَ‘ وَلٰـکِنْ لِأَنَّہَا تَأْخُذُ فِیْمَا سِوَاہَا مِنَ الذِّکْرِ‘ مِنَ التَّکْبِیْرِ وَالتَّہْلِیْلِ‘ کَمَا لَہَا أَنْ تَفْعَلَ ذٰلِکَ قَبْلَ یَوْمِ عَرَفَۃَ أَیْضًا‘ وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلَی انْقِطَاعِ التَّلْبِیَۃِ‘ وَخُرُوْجِ وَقْتِہَا. وَکَذٰلِکَ مَا رَوَاہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ وَہُوَ مِثْلُ ھٰذَا .
٣٩٣٤: عبدالرحمن بن قاسم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ جب مؤقف عرفات کی طرف روانہ ہوتیں تو تلبیہ چھوڑ دیتیں۔ ان کے خلاف دوسرے قول والوں کی دلیل یہ ہے کہ قاسم (رح) نے اپنی اس روایت میں یہ بات نہیں بتلائی کہ ” وقوف عرفات سے پہلے تلبیہ قطع کردیا جائے ۔ صرف حضرت صدیقہ (رض) کے فعل کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا کہ جب حضرت صدیقہ (رض) مؤقف کی طرف جاتیں تو تلبیہ ترک کر دیتیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ یہ عمل اس لیے نہ کرتی ہوں کہ تلبیہ کا وقت ختم ہوگیا بلکہ اس کے علاوہ تکبیر و تہلیل اذکار کو اختیار کرتی تھیں جیسا کہ عرفہ کے دن سے پہلے آپ کرسکتی تھیں۔ پس یہ ترک تلبیہ اور اس کے وقت چلے جانے کا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح ابن زبیر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے جو نقل کیا وہ بھی اس کیمثل ہے۔ ملاحظہ ہو۔
اس روایت میں تو ان کے قول کی نہیں بلکہ فعل کی خبر دی گئی اس لیے اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ اسے وقتی طور پر کرتی ہوں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ وہ اسے اس لیے ترک کرتی تھیں کہ تلبیہ کا وقت ختم ہوگیا اور عبداللہ بن زبیر کی روایت جو عمر (رض) سے متعلق ہے اس کی یہی تاویل مناسب ہے کہ وہ وقتی طور پر اسی کو پڑھتے یہ نہیں کہ تلبیہ کا وقت جاتا رہا۔ واللہ اعلم۔

3935

۳۹۳۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : حَجَجْتُ مَعَ الْأَسْوَدِ .فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ عَرَفَۃَ وَخَطَبَ ابْنُ الزُّبَیْرِ بِعَرَفَۃَ‘ فَلَمَّا لَمْ یَسْمَعْہُ یُلَبِّی‘ صَعِدَ إِلَیْہِ الْأَسْوَدُ فَقَالَ : مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تُلَبِّیَ ؟ فَقَالَ : أَوَ یُلَبِّی الرَّجُلُ اِذَا کَانَ فِیْ مِثْلِ مَقَامِک ھٰذَا .قَالَ الْأَسْوَدُ : نَعَمْ‘ سَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُلَبِّیْ فِیْ مِثْلِ مَقَامِکَ ھٰذَا‘ ثُمَّ لَمْ یَزَلْ یُلَبِّیْ حَتَّی صَدَرَ بَعِیْرُہُ عَنِ الْمَوْقِفِ‘ قَالَ : فَلَبَّی ابْنُ الزُّبَیْرِ .
٣٩٣٥: عبدالرحمن بن اسود کہتے ہیں کہ میں نے اسود کے ساتھ حج کیا جب عرفہ کا دن آیا اور ابن زبیر (رض) نے عرفات میں خطبہ دیا جب اسود نے ان سے تلبیہ نہ سنا تو اسود ان کی طرف گئے اور کہنے لگے تلبیہ کیوں نہیں کہتے ؟ تو انھوں نے کہا کیا آدمی اس مقام پر بھی تلبیہ کہے گا ؟ تو اسود کہنے لگے جی ہاں۔ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو اس مقام پر تلبیہ کہتے سنا پھر وہ مؤقف سے لوٹنے تک تلبیہ کہتے رہتے۔ یہ بات سن کر ابن زبیر تلبیہ پڑھنے لگے۔

3936

۳۹۳۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ عَنْ صَخْرِ بْنِ جُوَیْرِیَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ یَوْمَ عَرَفَۃَ فَقَالَ (إِنَّ ھٰذَا یَوْمُ تَسْبِیْحٍ وَتَکْبِیْرٍ وَتَہْلِیْلٍ‘ فَسَبِّحُوْا وَکَبِّرُوْا‘ فَجَدَّ إِلَیَّ یَعْنِی الْأَسْوَدَ یُحَرِّشُ النَّاسَ‘ حَتَّی صَعِدَ إِلَیْہٖ‘ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ أَشْہَدُ عَلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ لَبَّیْ عَلَی الْمِنْبَرِ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ) فَقَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ (لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ) .أَفَلاَ تَرٰی أَنَّ الْأَسْوَدَ لَمَّا أَخْبَرَ ابْنَ الزُّبَیْرِ بِتَلْبِیَۃِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ مِثْلِ یَوْمِہِ ذٰلِکَ‘ قُبِلَ ذٰلِکَ مِنْہُ وَأُخِذَ بِہِ فَلَبَّی‘ وَلَمْ یَقُلْ لَہٗ ابْنُ الزُّبَیْرِ (إِنِّیْ قَدْ رَأَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا یُلَبِّیْ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ) عَلٰی مَا قَدْ رَوَاہٗ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَلٰـکِنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ إِنَّمَا حَضَرَ مِنْ عُمَرَ تَرْکَ التَّلْبِیَۃِ یَوْمَئِذٍ‘ وَلَمْ یُخْبِرْہُ عُمَرُ أَنَّ ذٰلِکَ التَّرْکَ إِنَّمَا کَانَ مِنْہُ لِخُرُوْجِ وَقْتِ التَّلْبِیَۃِ فَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ ابْنِ الزُّبَیْرِ لِخُرُوْجِ وَقْتِ التَّلْبِیَۃِ .فَلَمَّا أَخْبَرَہُ الْأَسْوَدُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِأَنَّہٗ لَبَّیْ یَوْمَئِذٍ‘ عَلِمَ ابْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ ذٰلِکَ الْوَقْتَ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَبَّیْ فِیْہٖ‘ وَقْتٌ لِلتَّلْبِیَۃِ‘ وَأَنَّ ذٰلِکَ التَّرْکَ الَّذِیْ کَانَ مِنْ عُمَرَ إِنَّمَا کَانَ لِغَیْرِ خُرُوْجِ وَقْتِ التَّلْبِیَۃِ‘ فَتَوَہَّمَ ابْنُ الزُّبَیْرِ ہُوَ أَنَّہٗ لِخُرُوْجِ وَقْتِ التَّلْبِیَۃِ‘ وَلَیْسَ کَذٰلِکَ فَلَبَّی وَرَأَیْ أَنَّ مَا أَخْبَرَہٗ بِہِ الْأَسْوَدُ عَنْ عُمَرَ‘ مِنْ تَلْبِیَتِہِ أَوْلَی مِمَّا رَآہٗ ہُوَ مِنْہُ فِیْ تَرْکِ التَّلْبِیَۃِ .
٣٩٣٦: عبدالرحمن بن اسود کہتے ہیں کہ میں نے ابن الزبیر کو سنا کہ وہ عرفہ کے دن خطبہ دے رہے ہیں اس میں فرمانے لگے یہ تسبیح تہلیل کا دن ہے اس میں تسبیح و تہلیل خوب کرو۔ لوگوں کو چیرتے ہوئے جلدی سے اسود میری طرف بڑھے یہاں تک کہ منبر پر چڑھ گئے اس وقت ابن زبیر (رض) بھی منبر پر تھے اور کہنے لگے۔ میں عمر (رض) کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ وہ آج کے دن منبر پر بھی تلبیہ کہتے تھے۔ ابن الزبیر (رض) یہ سن کر کہنے لگے لبیک اللہم لبیک۔ کیا تم یہ معلوم نہیں کررہے کہ جب اسود (رح) نے ابن زبیر (رض) کو صرف عمر (رض) کے متعلق بتلایا کہ اس جیسے دن میں حضرت عمر (رض) تلبیہ کہتے تھے اور ابن زبیر (رض) نے ان کی بات کو قبول کرلیا اور تلبیہ کہا ‘ ابن زبیر (رض) نے اسود کو یہ نہیں کہا کہ میں حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے تلبیہ نہیں کہا۔ جیسا کہ عامر بن عبداللہ نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا مگر ابن زبیر (رض) حضرت عمر (رض) کے پاس اس وقت حاضر ہوئے جب انھوں نے تلبیہ ترک کیا اور حضرت عمر (رض) نے ان کو یہ نہیں بتلایا کہ میں نے اس کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے تلبیہ ترک کیا ہے۔ ابن زبیر (رض) کے ہاں یہ تلبیہ کا وقت نکل جانے کے سبب ترک تھا ۔ پس جب اسود (رح) نے حضرت عمر (رض) کے متعلق یہ اطلاع دی کہ آپ نے اس دن بھی تلبیہ کہا ہے۔ تو ابن زبیر (رض) کو معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر (رض) نے اس وقت تلبیہ نہیں کہا یہ وقت تلبیہ کا ہے اور ان کے ترک تلبیہ کی وجہ خروج وقت نہیں بلکہ دوسری وجہ تھی۔ ابن زبیر (رض) کو وقتی طور پر نہ پڑھنے سے یہ خیال ہوا کہ وہ ترک وقت تلبیہ کے نکل جانے کی بناء پر ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا پس انھوں نے تلبیہ کہا انھوں نے سمجھ لیا کہ اسود (رح) نے جو عمر (رض) کے تلبیہ سے متعلق فرمایا ہے۔ وہ اس روایت سے جو ترک تلبیہ سے متعلق اسود (رح) کا قول اولیٰ ہے۔ روایت ذیل میں ملاحظہ ہو۔
ذرا غور کرو کہ اسود نے جب ابن زبیر (رض) کو اطلاع دی کہ عمر (رض) یہاں تلبیہ کہتے تھے تو انھوں نے تلبیہ کہنا شروع کردیا۔ ابن الزبیر (رض) نے انکار نہیں کیا کہ میں نے تو عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ تلبیہ نہ کہتے تھے۔ جیسا کہ عامر بن عبداللہ بن زبیر کی روایت میں عمر (رض) کے متعلق گزرا لیکن ابن الزبیر (رض) جس وقت عمر (رض) کے پاس گئے تو انھوں نے تلبیہ ترک کردیا مگر عمر (رض) نے ان کو یہ تو نہیں بتلایا کہ یہ تلبیہ کا وقت نہیں یا اس کا وقت جاتا رہا۔ حالانکہ ابن الزبیر (رض) کو ان کے ترک سے یہ بات سمجھ آئی مگر جب اسود نے ان کو فعل عمری سے خبردار کیا تو انھوں نے فوراً قبول کرلیا اور سمجھ لیا کہ میرا علم ان کے متعلق درست نہ تھا۔ وہ ترک وقت تلبیہ کے خروج کی وجہ سے نہیں تھا۔ اسی لیے انھوں نے قبول کر کے تلبیہ کہنا شروع کردیا پس یہ اسود والی روایت اس سے اولیٰ و اعلیٰ ہے بلکہ ابن الزبیر (رض) کے فعل سے خود اس کا شافی و کافی جواب ہے۔

3937

۳۹۳۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنْ وَبَرَۃَ قَالَ : صَعِدَ الْأَسْوَدُ بْنُ یَزِیْدَ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَوْمَ عَرَفَۃَ‘ فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ ‘ ثُمَّ نَزَلَ الْأَسْوَدُ وَلَبَّی ابْنُ الزُّبَیْرِ‘ فَظَنَّ النَّاسُ أَنَّ الْأَسْوَدَ أَمَرَہٗ بِذٰلِکَ .
٣٩٣٧: وبرہ کہتے ہیں کہ اسود بن یزید ابن الزبیر کے منبر پر بیٹھنے کی حالت میں منبر پر چڑھے اور یہ عرفہ کے دن کی بات ہے اور ان کے کان میں کوئی بات کہی پھر اسود نیچے اترے اور ابن الزبیر (رض) نے تلبیہ شروع کردیا لوگوں نے خیال کیا کہ اسود نے ان کو اس بات کا حکم دیا ہے۔

3938

۳۹۳۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : سَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُلَبِّیْ غَدَاۃَ الْمُزْدَلِفَۃَ .
٣٩٣٨: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے عمر ابن الخطاب (رض) کو مزدلفہ کی صبح تلبیہ پڑھتے دیکھا۔

3939

۳۹۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ قَالَ : کُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بِعَرَفَۃَ فَلَبَّیْ عَبْدُ اللّٰہِ‘ فَلَمْ یَزَلْ عَبْدُ اللّٰہِ یُلَبِّیْ حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ .فَقَالَ رَجُلٌ : مَنْ ھٰذَا الَّذِیْ یُلَبِّیْ فِیْ ھٰذَا الْمَوْضِعِ ؟ قَالَ : وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فِیْ تَلْبِیَتِہِ شَیْئًا مَا سَمِعْتُہٗ مِنْ أَحَدٍ (لَبَّیْکَ عَدَدَ التُّرَابِ) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یُلَبِّیْ بِعَرَفَۃَ‘ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ فَعَلَ ذٰلِکَ مِنْ بَعْدِہِ لَمَّا أَخْبَرَہُ الْأَسْوَدُ بِہٖ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الْآفَاقِ‘ فَذٰلِکَ إِجْمَاعٌ وَحُجَّۃٌ‘ وَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِفِعْلِ مَنْ ذَکَرْنَا‘ لِمُوَافَقَتِہِمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ فِعْلِہِ ذٰلِکَ - أَنَّ التَّلْبِیَۃَ فِی الْحَجِّ لَا تَنْقَطِعُ‘ حَتّٰی تُرْمَیْ جَمْرَۃُ الْعَقَبَۃِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٩٣٩: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں عبداللہ کے ساتھ عرفات میں موجود تھا عبداللہ نے تلبیہ کہا اور وہ تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے ایک آدمی کہنے لگا یہاں یہ تلبیہ پڑھنے والا کون ہے ؟ عبداللہ نے اپنے تلبیہ میں ایسی چیز کہی جو میں نے کسی سے نہیں سنی وہ یہ کلمات تھے : لبیک عدد التراب ان روایات میں یہ بات موجود ہے کہ جناب عمر (رض) عرفہ میں منبر پر تلبیہ کہتے تھے اور ابن زبیر (رض) نے بھی معلوم ہونے پر اس عمل کو اپنایا جب کہ حضرت اسود (رح) نے ابن زبیر (رض) کو یہ بتلایا تو اطراف والوں میں سے کسی شخص نے ان پر اعتراض نہ کیا پس یہ اجماع اور مستقل دلیل ہے۔ یہ ابن مسعود (رض) ہیں جنہوں نے یہی طرز اختیار کیا۔ تو جن لوگوں کا ہم نے تذکرہ کیا تو چونکہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موافقت کی ہے۔ پس ان کے عمل نے یہ ثابت کردیا کہ جمرہ عقبہ کی کنکریاں یوم نحر کے دن مارنے تک تلبیہ کو ترک نہ کیا جائے۔ چنانچہ امام بو حنیفہ ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
حاصل آثار : ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عرفات میں عمر (رض) تلبیہ پڑھتے تھے اس حال میں کہ وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے بعد ابن الزبیر (رض) نے بھی اسی طرح کیا جب ان کو اسود نے عمر (رض) کے متعلق اطلاع دی۔ اس بات کو کسی نے ناپسند نہیں کیا یہ اجماع اور حجت ہے اور ابن مسعود (رض) بھی اس کو کر رہے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ ان کا فعل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کے موافق ہے حج میں رمی جمرہ عقبہ تک تلبیہ روکا نہ جائے گا یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

3940

۳۹۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ جُدَافَۃَ بِنْتِ وَہْبٍ أُخْتِ عَکَاشَۃَ بْنِ وَہْبٍ (أَنَّ عَکَاشَۃَ بْنَ وَہْبٍ صَاحِبَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَإِخَالُہٗ آخَرَ‘ جَائَ اہَا حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ یَوْمَ النَّحْرِ فَأَلْقَیَا قَمِیْصَہَا فَقَالَتْ : مَالَکُمَا ؟ فَقَالَا : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَمْ یَکُنْ أَفَاضَ مِنْ ہُنَا فَلْیُلْقِ ثِیَابَہٗ) وَکَانُوْا تَطَیَّبُوْا وَلَبِسُوْا الثِّیَابَ .
٣٩٤٠: عروہ نے جدافہ بنت وہب جو کہ عکاشہ بن وہب کی (ماں شریک) بہن ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ عکاشہ بن وہب صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کا دوسرا بھائی عکاشہ بن محصن (ماں شریک بھائی) میرے خیمے میں آئے جبکہ یوم نحر کا سورج ڈوب چکا تھا اور انھوں نے اپنے قمیص نکال رکھے تھے۔ میں نے پوچھا تمہیں کیا ہوا ؟ دونوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو یہاں سے مکہ طواف زیارت (شام سے پہلے) نہ کرسکا وہ اپنے سلے کپڑے اتار دے حالانکہ یہ اپنے قمیصوں کو خوشبو لگا کر پہن چکے تھے۔
طواف زیارت سے پہلے سلا ہوا کپڑا اور خوشبو دونوں کا استعمال درست نہیں اس کو ابن الزبیر (رض) نے اختیار کیا۔
نمبر 1: امام مالک و حسن بصری رحمہم اللہ سلا ہوا کپڑا تو حلق کے بعد جائز مگر خوشبو طواف زیارت سے پہلے جائز نہیں۔
نمبر 2: ائمہ ثلاثہ جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ رمی و حلق کے بعد سلا کپڑا اور خوشبو دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں البتہ جماع طواف زیارت کے بعد درست ہے۔

3941

۳۹۴۱ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْأَسْوَد‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ (أُمِّ قَیْسٍ بِنْتِ مُحْصَنٍ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ عَکَاشَۃُ بْنُ مُحْصَنٍ وَآخَرُ فِیْ مِنًیْ مَسَائَ یَوْمِ الْأَضْحَی فَنَزَعَا ثِیَابَہُمَا‘ وَتَرَکَا الطِّیْبَ .فَقُلْتُ : مَالَکُمَا ؟ فَقَالَا : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا مَنْ لَمْ یُفِضْ إِلَی الْبَیْتِ مِنْ عَشِیَّۃِ ھٰذِہِ‘ فَلْیَدَعْ الثِّیَابَ وَالطِّیْبَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا قَوْمٌ فَقَالُوْا : لَا یَحِلُّ اللِّبَاسُ وَالطِّیْبُ لِأَحَدٍ‘ حَتّٰی یَحِلَّ لَہٗ النِّسَائُ ‘ وَذٰلِکَ حِیْنَ یَطُوْفُ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : اِذَا رَمَی وَحَلَقَ‘ حَلَّ لَہٗ اللِّبَاسُ .وَاخْتَلَفُوْا فِی الطِّیْبِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : حُکْمُہٗ حُکْمُ اللِّبَاسِ‘ فَیَحِلُّ کَمَا یَحِلُّ اللِّبَاسُ‘ وَقَالَ آخَرُوْنَ : حُکْمُہٗ حُکْمُ الْجِمَاعِ‘ فَلاَ یَحِلُّ حَتّٰی یَحِلَّ الْجِمَاعُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٩٤١: عروہ نے ام قیس بنت محصن (یہ عکاشہ کی حقیقی بہن ہیں) کہتی ہیں کہ میرے ہاں عکاشہ بن محصن آئے اور ان کے ساتھ دوسرا صاحب بھی تھا۔ یہ یوم نحر کو منیٰ میں شام کا وقت تھا (ان دونوں نے سلے کپڑے پہن رکھے تھے) ان کو اتارا ہوا تھا اور خوشبو کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے ان کو کہا تم دونوں کو کیا ہوا دونوں کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں فرمایا ہے کہ جو شام تک طواف زیارت کے لیے مکہ نہیں گیا وہ سلے کپڑے اتار دے اور خوشبو ترک کر دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ لباس اور خوشبو کسی شخص کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ اس کے لیے عورتیں حلال نہ ہوجائیں اور یہ اس وقت حلال ہے جب وہ طواف زیارت سے فارغ ہوجائے ۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت کو استدلال میں پیش کیا ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ۔ کہ جب وہ کنکریاں مار کر حلق کرے تو اس کو لباس پہننا جائز ہے۔ البتہ خوشبو کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ لباس کا حکم رکھتی ہے اور لباس کی طرح اس کا لگانا بھی جائز ہے۔ جبکہ دوسرے علماء نے کہا کہ اس کا حکم جماع کی طرح ہے پس جماع کے حلال ہونے تک خوشبو حلال نہیں ان کی دلیل ذیل کی روایات ہیں۔
فریق ثانی و ثالث کا مؤقف اور دلیل :
رمی و حلق کے بعد اس کو لباس درست ہے البتہ خوشبو میں فریق ثانی اس کو ناجائز قرار دیتا ہے اور فریق ثالث لباس کی طرح قرار دے کر جائز کہتا ہے۔
فریق ثالث کی دلیل یہ روایت ہے۔

3942

۳۹۴۲ : بِمَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا الْحُجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا رَمَیْتُمْ وَحَلَقْتُمْ‘ فَقَدْ حَلَّ الطِّیْبُ وَالثِّیَابُ وَکُلُّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ).
٣٩٤٢: عمرہ نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب رمی اور حلق کر چکو تو تمہارے لیے سلے کپڑے اور خوشبو حلال اور ہر چیز حلال ہے سوائے عورتوں کے۔

3943

۳۹۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا الْحُجَّاجُ بْنِ أَرْطَاۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩٤٣: زہری نے عمرہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3944

۳۹۴۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَہٗ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : طَیَّبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحِلِّہِ حِیْنَ حَلَّ‘ قَبْلَ أَنْ یَطُوْفَ بِالْبَیْتِ) .قَالَ أُسَامَۃُ : وَحَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ حَزْمٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩٤٤: قاسم بن محمد نے رائشہ (رض) سے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حلال ہونے پر خوشبو لگائی۔ اور یہ طواف زیارت سے پہلے کی بات ہے اسامہ کہنے لگے مجھے ابوبکر بن حزم عن عمرہ عن عائشہ ] انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل فرمائی۔

3945

۳۹۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩٤٥: عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان فرمائی۔

3946

۳۹۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ عَنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩٤٦: قاسم نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل فرمائی۔

3947

۳۹۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح .
٣٩٤٧: ابن مرزوق نے بشر بن عمر سے انھوں نے شعبہ سے روایت کی ہے۔

3948

۳۹۴۸ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٩٤٨: سفیان نے عبدالرحمن بن قاسم سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت کی ہے۔

3949

۳۹۴۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩٤٩: قاسم نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3950

۳۹۵۰ : حَدَّثَنَا فَہْد قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٩٥٠: زہیر نے عبیداللہ بن عمر سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3951

۳۹۵۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ. فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّطَیُّبِ بَعْدَ الرَّمْیِ وَالْحَلْقِ‘ قَبْلَ طَوَافِ الزِّیَارَۃِ‘ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ .فَقَدْ عَارَضَ ذٰلِکَ حَدِیْثَ ابْنِ لَہِیْعَۃِ الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذَکَرِہِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ فَھٰذِہٖ أَوْلٰی لِأَنَّ مَعَہَا مِنَ التَّوَاتُرِ وَصِحَّۃِ الْمَجِیْئِ ‘ مَا لَیْسَ مَعَ غَیْرِہَا مِثْلُہٗ. ثُمَّ قَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ ذٰلِکَ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ زَادَ عَلَیْہِ مَعْنًی آخَرَ
٣٩٥١: سالم بن عبداللہ نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں جو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اطلاع دے رہی ہیں کہ آپ نے کنکریاں مارنے اور حلق کے بعد طواف زیارت سے قبل خوشبو لگائی ‘ جیسا مذکور ہے۔ یہ روایت ابن لہیعہ کی روایت کے خلاف جس کو ابتداء میں ذکر کیا گیا۔ مگر یہ روایت اولیٰ ہے کیونکہ تو اتر صحت میں دوسری روایت اس کی مماثل نہیں۔ پھر حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت وارد ہے۔ مگر انھوں نے ایک اور مفہوم کا اضافہ کیا ہے۔ روایت ملاحظہ کریں۔
حاصل روایت : یہ عائشہ (رض) ہیں جو خود رمی و حلق کے بعد طواف زیارت سے پہلے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشبو لگا رہی ہیں۔
سابقہ مؤقف کا جواب : فصل اول کی روایت جس کو ابن لہیعہ کی سند سے مؤقف اول میں پیش کیا گیا یہ روایت اس سے سند کے اعتبار سے قوی تر ہے یہ جس تواتر سند سے ثابت ہے وہ نہیں پس اس کو ترجیح ہوگی۔

3952

۳۹۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ ح .
٣٩٥٢: ابو بکرہ نے مومل سے روایت نقل کی ہے۔

3953

۳۹۵۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیِّ‘ عَنِ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اِذَا رَمَیْتُمَ الْجَمْرَۃَ‘ فَقَدْ حَلَّ لَکُمْ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ .فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : وَالطِّیْبُ .فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُضَمِّخُ رَأْسَہٗ بِالْمِسْکِ‘ أَفَطِیْبٌ ہُوَ) ؟ فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا قَدْ ذَکَرْنَا مِنْ اِبَاحَۃِ کُلِّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ ‘ اِذْ رَمَیْتُ الْجَمْرَۃَ‘ وَلَا یَذْکُرُ فِیْ ذٰلِکَ الْحَلْقَ .وَفِیْہِ أَنَّہٗ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُضَمِّخُ رَأْسَہُ بِالْمِسْکِ وَلَمْ یُخْبِرْ بِالْوَقْتِ الَّذِیْ فَعَلَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الْحَلْقِ‘ وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ بَعْدَہُ إِلَّا أَنَّ أَوْلَی الْأَشْیَاء بِنَا‘ أَنْ نَحْمِلَ ذٰلِکَ‘ عَلٰی مَا یُوَافِقُ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَا عَلٰی مَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ .فَیَکُوْنُ مَا رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ مِنْ ذٰلِکَ کَانَ بَعْدَ رَمْیِہِ الْجَمْرَۃَ وَحَلْقِہِ‘ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُعَدُّ بِرَأْیِہِ اِذَا رَمَی فَقَدْ حَلَّ لَہٗ بِرَمْیِہِ أَنْ یَحْلِقَ‘ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَلْبَسَ وَیَتَطَیَّبَ .وَھٰذَا مَوْضِعٌ یَحْتَمِلُ النَّظَرَ‘ وَذٰلِکَ أَنَّ الْاِحْرَامَ یَمْنَعُ مِنْ حَلْقِ الرَّأْسِ وَاللِّبَاسِ وَالطِّیْبِ‘ فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ حَلْقُ الرَّأْسِ اِذَا حَلَّ‘ حَلَّتْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائُ ‘ وَاحْتُمِلَ أَنْ لَا یَحِلَّ حَتّٰی یَکُوْنَ الْحَلْقُ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَرَأَیْنَا الْمُعْتَمِرَ‘ یَحْرُمُ عَلَیْہِ بِإِحْرَامِہٖ فِیْ عُمْرَتِہٖ‘ مَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ بِإِحْرَامِہٖ فِیْ حَجَّتِہٖ۔ثُمَّ اِذَا رَأَیْنَاہُ اِذَا طَافَ : بِالْبَیْتِ وَسَعَیْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ فَقَدْ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ وَلَا یَحِلُّ لَہٗ النِّسَائُ ‘ وَلَا الطِّیْبُ‘ وَلَا اللَّبَائِسُ حَتّٰی یَحْلِقَ .فَلَمَّا کَانَتْ حُرْمَۃُ الْعُمْرَۃِ قَائِمَۃً حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ‘ وَلَا یَکُوْنُ اِذَا حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ فِیْ حُکْمِ مَنْ حَلَّ لَہٗ‘ مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ اللِّبَاسِ وَالطِّیْبِ‘ کَانَ کَذٰلِکَ فِی الْحَجَّۃِ‘ لَا یَجِبُ لِمَا حَلَّ لَہُ الْحَلْقُ فِیْہَا أَنْ یَحِلَّ لَہٗ شَیْء ٌ مِمَّا سِوَاہُ‘ مِمَّا کَانَ حَرُمَ عَلَیْہِ بِہَا حَتّٰی یَحْلِقَ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ فِی الْعُمْرَۃِ .ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی النَّظَرِ بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْفَرِیْقَیْنِ جَمِیْعًا وَبَیْنَ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی حَدِیْثِ عُکَّاشَۃَ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ قَبْلَ أَنْ یُحْرِمَ یَحِلُّ لَہٗ النِّسَائُ ‘ وَالطِّیْبُ‘ وَاللِّبَاسُ‘ وَالصَّیْدُ‘ وَالْحَلْقُ‘ وَسَائِرُ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ بِالْاِحْرَامِ‘ فَإِذَا أَحْرَمَ‘ حَرُمَ عَلَیْہِ ذٰلِکَ کُلُّہُ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ‘ وَہُوَ الْاِحْرَامُ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ کَمَا حَرُمَتْ عَلَیْہِ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ أَنْ یَحِلَّ مِنْہَا أَیْضًا‘ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ‘ وَاحْتُمِلَ أَنْ یَحِلَّ مِنْہَا بِأَشْیَائَ مُخْتَلِفَۃٍ‘ إِحْلَالًا بَعْدَ إِحْلَالٍ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَرَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ اِذَا رَمَی‘ فَقَدْ حَلَّ لَہُ الْحَلْقُ‘ ھٰذَا مِمَّا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ وَأَجْمَعُوْا أَنَّ الْجِمَاعَ حَرَامٌ عَلَیْہِ عَلٰی حَالَتِہِ الْأُوْلٰی‘ فَثَبَتَ أَنَّہٗ حَلَّ مِمَّا قَدْ کَانَ حَرُمَ عَلَیْہِ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ بِأَسْبَابٍ مُخْتَلِفَۃٍ .فَبَطَلَ بِھٰذِہِ الْعِلَّۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْحَلْقَ یَحِلُّ لَہٗ اِذَا رَمَی‘ وَأَنَّہٗ مُبَاحٌ لَہٗ بَعْدَ حَلْقِ رَأْسِہِ أَنْ یَحْلِقَ مَا شَائَ مِنْ شَعْرِ بَدَنِہِ‘ وَیَقُصَّ أَظْفَارَہٗ‘ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ‘ ہَلْ حُکْمُ اللِّبَاسِ حُکْمُ ذٰلِکَ أَوْ حُکْمُہٗ حُکْمُ الْجِمَاعِ‘ فَلاَ یَحِلُّ حَتّٰی یَحِلُّ الْجِمَاعُ ؟ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ بِالْحَجِّ اِذَا جَامَعَ قَبْلَ أَنْ یَقِفَ بِعَرَفَۃَ‘ فَسَدَ حَجَّہٗ‘ وَرَأَیْنَاہُ اِذَا حَلَقَ شَعْرَہٗ أَوْ قَصَّ أَظْفَارَہٗ‘ وَجَبَتْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ فِدْیَۃٌ‘ وَلَمْ یَفْسُدْ بِذٰلِکَ حَجُّہٗ۔ وَرَأَیْنَا لَوْ لَبِسَ ثِیَابًا قَبْلَ وُقُوْفِہِ بِعَرَفَۃَ‘ لَمْ یَفْسُدْ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ إِحْرَامُہٗ، وَوَجَبَتْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ فِدْیَۃٌ .فَکَانَ حُکْمُ اللِّبَاسِ‘ قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ مِثْلَ حُکْمِ قَصِّ الشَّعْرِ وَالْأَظْفَارِ‘ لَا مِثْلَ حُکْمِ الْجِمَاعِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُہٗ أَیْضًا بَعْدَ الرَّمْیِ وَالْحَلْقِ کَحُکْمِہَا‘ لَا کَحُکْمِ الْجِمَاعِ فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا الْقُبْلَۃَ حَرَامًا عَلَی الْمُحْرِمِ‘ بَعْدَ أَنْ یَحْلِقَ‘ وَہِیَ قَبْلَ الْوُقُوْفِ بِعَرَفَۃَ‘ فِیْ حُکْمِ اللِّبَاسِ‘ لَا فِیْ حُکْمِ الْجِمَاعِ‘ فَلِمَ لَا کَانَ اللِّبَاسُ بَعْدَ الْحَلْقِ أَیْضًا کَہِیَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ اللِّبَاسَ بِالْحَلْقِ‘ أَشْبَہَ مِنْہُ بِالْقُبْلَۃِ‘ لِأَنَّ الْقُبْلَۃَ ہِیَ بَعْضُ أَسْبَابِ الْجِمَاعِ‘ وَحُکْمُہَا حُکْمُہٗ، تَحِلُّ حَیْثُ یَحِلُّ‘ وَتَحْرُمُ حَیْثُ یَحْرُمُ‘ فِی النَّظَرِ فِی الْأَشْیَائِ کُلِّہَا .وَالْحَلْقُ وَاللِّبَاسُ لَیْسَا مِنْ أَسْبَابِ الْجِمَاعِ إِنَّمَا ہُمَا مِنْ أَسْبَابِ إِصْلَاحِ الْبَدَنِ‘ فَحُکْمُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِحُکْمِ صَاحِبِہٖ، أَشْبَہٗ مِنْ حُکْمِہٖ بِالْقُبْلَۃِ‘ فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِاللِّبَاسِ بَعْدَ الرَّمْیِ وَالْحَلْقِ .وَقَدْ قَالَ ذٰلِکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہٗ.
٣٩٥٣: حسن عرنی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب تم جمرہ عقبہ کی رمی کرلو تو عورتوں کے علاوہ تمہارے لیے ہر چیز حلال ہوجاتی ہے ان کو ایک آدمی نے پوچھا کیا خوشبو بھی۔ تو انھوں نے فرمایا میں نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ کا سر مبارک کستوری سے لت پت تھا۔ تم بتلاؤ کیا وہ خوشبو ہے ؟ اس روایات حضرت ابن عباس (رض) کا قول کہ عورتوں کے سواء ہر چیز حلال ہوگئی جب کہ جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری ہیں “ ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اس روایت سر منڈانے کا تذکرہ نہیں کیا اور اس روایت یہ بات بھی موجود ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ نے سر مبارک پر کستوری لگائی مگر اس روایت میں یہ اطلاع موجود نہیں کہ آپ نے یہ عمل کس وقت کیا ۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے سرمنڈانے سے پہلے یہ فعل کیا ہو اور عین ممکن ہے کہ حلق کے بعد ایسا کیا ہو ۔ زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اس اجمال کو اسی وضاحت پر محمول کریں جو اس روایت عائشہ صدیقہ (رض) میں ہے۔ نہ کہ اس کے خلاف۔ پس اس صورت میں یہ جمرہ کی کنکریوں اور حلق کے بعد ہوگا جیسا حضرت صدیقہ (رض) نے ذکر کیا۔ پھر ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ جب رمی کرلی تو رمی سے ہی یہ حلال ہوگیا کہ وہ حلق کروائے اور اس کے لیے لباس و خوشبو درست ہوگئے۔ یہ موقعہ غور وفکر کا ہے۔ کہ احرام تو سرمنڈانے اور لباس پہننے اور خوشبو سے روکتا ہے۔ پس یہ اس بات پر محمول کیا جائے کہ جب سرمنڈانا جائز ہوگیا تو تمام چیزیں اسے جائز ہوگئیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اس وقت تک حلال نہیں جب تک حلق کروا نہیں لیتا۔ جب اس بات کو جانچا تو یہ معلوم ہوا کہ عمرہ کرنے والے پر وہی چیزیں حرام ہوتی ہیں ‘ جو احرام حج سے حرام ہوتی ہیں۔ پھر دوسری بات یہ بھی پائی کہ جب اس نے طواف اور سعی صفا ومروہ کرلیا توا سے سرمنڈانا درست ہوجاتا ہے مگر عورتیں اس کے لیے حلال نہیں ہو تیں اور نہ خوشبو لگانا اور نہ لباس پہننا جائز ہوتا ہے جب تک سرنہ منڈوا لے۔ پس جب عمرہ کی حرمت قائم ہے تو حلق حلال ہوگیا ۔ مگر جواز حلق سے وہ اس آدمی کے حکم میں نہیں جس کو لباس اور خوشبو جائز ہو اور حج میں بھی اسی طرح ہے۔ کہ جب حلق جائز ہوا تو اس کی وجہ سے احرام کی وجہ سے جو امور حرام ہوتے تھے وہ سب جائز نہیں ہوجاتے ۔ وہ تب حلال ہوتے ہیں جب سرمنڈالے۔ یہ اس بات پر قیاس کیا ہے جو سب کے ہاں عمرہ میں اتفاقی ہے۔ اب ہم ان دونوں اول قول والے لوگوں کے اقوال کی طرف لوٹتے ہیں جنہوں نے حضرت عکاشہ (رض) کی روایت اختیار کی ہے۔ پس ہم نے یہ بات پائی کہ احرام سے پہلے آدمی کے لیے عورتوں کے پاس جانا ‘ خوشبو ملنا ‘ لباس پہننا اور شکار کرنا ‘ سرمنڈانا اور وہ تمام اشیاء کرنا جائز ہے۔ جو احرام کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں۔ پھر جب وہ احرام باندھ لیتا ہے تو ایک سبب سے اس پر یہ تمام کام حرام ہوجاتے ہیں۔ اور وہ احرام ہے۔ پس یہ احتمال ہے کہ جیسا ایک سبب سے حرام ہوتے تو ایک سبب سے حلال ہوجاتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ مختلف چیزوں سے حلال ہوں ہم نے اسے جانچا تو اس پرا جماع پایا کہ جب اس نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی تو اس کے لیے حلق جائز ہوگیا اس پر تو کسی بھی فرد مسلمان کو اختلاف نہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ پہلی حالت میں اس کے لیے جماع حرام ہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ امور جو اس پر ایک سبب سے حرام ہوتے ہیں مختلف اسباب سے وہ ان سے حلال ہوجاتا ہے۔ اس سے مذکورہ علت باطل ہوگئی۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ رمی سے حلق درست ہوجاتا ہے تو سرمنڈانے کے بعد جسم کے ہر حصہ کے بال مونڈنا جائز ہوجاتے ہیں۔ اور اسی طرح ناخن ترشوانا بھی۔ اب ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا لباس کا حکم یہی ہے یا اس سے مختلف جماع کی طرح ہے۔ کہ وہ جماع کے جواز تک جائز نہ ہوگا۔ ہم نے غور کیا کہ حج کا احرام باندھنے والا اگر عرفات سے قبل جماع کرے تو اس کا حج فاسد ہوجاتا ہے اور یہ بھی معلوم و معروف ہے کہ اگر وہ اپنے بال ‘ ناخن ترشوائے تو اس پر فدیہ ضروری ہوجائے گا مگر حج فاسد نہ ہوگا۔ اگر اس نے وقوف عرفات سے پہلے کپڑے پہن لیے تو اس سے اس کا احرام فاسدنہ ہوگا البتہ فدیہ لازم ہوجائے گا پس معلوم ہوگیا کہ لباس کا حکم وقوف عرفات سے پہلے پہلے بال کاٹنے اور ناخن تراشنے کی طرح ہے۔ جماع جیسا نہیں تو قیاس اس بات کا متقاضی ہے کہ رمی و حلق کے بعد اس کا حکم ان دونوں جیسا ہو جماع جیسا نہ ہو قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ہم جانتے ہیں کہ محرم کو حلق کے بعد بوسہ حرام ہے اور وقوف سے پہلے یہ لباس کی طرح ہے جماع کی طرح نہیں تو حلق کے بعد بھی مناسب یہ ہے کہ لباس بوسہ کے حکم جیسا ہو۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا۔ کہ لباس بوسہ کے مقابلے میں سرمنڈانے کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ کیونکہ بوسہ اسباب جماع سے شمار ہوتا ہے تو اس کا حکم جماع کے حکم کی طرح ہوگا ۔ جب وہ حلال ہوگا تو یہ بھی حلال ہوگا ۔ جب وہ حرام ہوگا تو یہ بھی حرام ہوگا اور غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حلق اور لباس دونوں جماع کے اسباب سے نہیں بلکہ وہ درستی بدن کے من جملہ اسباب سے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کا حکم ایک دوسرے سے ملانا زیادہ مناسب ہے ‘ بجائے اس کے کہ اسے بوسہ کے ساتھ ملائیں ۔ اس تمام بحث سے ثابت ہوگیا کہ کنکریاں مارنے اور سرمنڈانے کے بعد لباس زیب تن کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔ کئی صحابہ کرام (رض) سے بھی یہ منقول ہے ملاحظہ ہو۔
حاصل روایت : اس روایت میں رمی جمرہ کا تذکرہ ہے اور اس کے بعد ہر چیز سوائے عورتوں کے حلال ہونے کا ذکر ہے مگر حلق کا تذکرہ نہیں۔ اسی طرح آپ کے سر مبارک کے خوشبو سے لت پت ہونے کا ذکر کیا مگر اس کا وقت نہیں بتلایا۔ یہ حلق سے پہلے اور بعد دونوں امکان رکھتا ہے البتہ سابقہ روایت کی موافقت کا تقاضا یہ ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی اور حلق کے بعد کی بات ہے جیسا کہ روایت عائشہ (رض) میں مذکور ہے پھر ابن عباس (رض) نے اپنے خیال اور رائے سے یہ فرمایا کہ رمی کے بعد حلق درست ہے اور اس کے لیے لباس پہننا اور خوشبو لگانا جائز ہے۔
نظر کا تقاضا :
غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ احرام نے حلق سر ‘ لباس ‘ خوشبو سب کو حرام کردیا۔ پس یہ قرین قیاس ہے کہ جب سر منڈوانا جائز ہوجائے تو یہ سب جائز ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ حلق تک حلال نہ ہوں۔ ہم نے اعتبار کرتے ہوئے دیکھا کہ معتمر پر اس کے احرام سے وہ تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو حج کے احرام سے حرام ہوتی ہیں عمرے میں غور کیا کہ سعی صفا ومروہ کے بعد حلق بھی حلال ہوگیا مگر عورتیں ‘ خوشبو ‘ لباس حلق کے بعد حلال ہوتا ہے۔
پس جب عمرہ کی حرمت باقی ہے تو اس کے لیے حلق کروانا تو حلال ہے مگر حلق کے حلال ہونے سے وہ حلال کے حکم میں نہیں ہوا کہ اس کو لباس و خوشبو حلال ہو۔ اسی طرح یہ بھی پسندیدہ نہیں کہ اب اس کو حلق درست ہوگیا اور اس کے ماسواء چیزیں بھی حلال ہوگئیں جب تک کہ وہ حلق نہ کر والے۔ نظر کا تقاضا یہی ہے۔
نظر ثانی : احرام سے پہلے اس کو عورتیں ‘ خوشبو ‘ لباس ‘ شکار ‘ حلق یہ سب چیزیں حلال تھیں جب احرام باندھ لیا تو احرام سے سب حرام ہوگئیں۔ اب احرام کھولتے وقت دو احتمال ہیں۔ نمبر ایک کہ تمام یکبارگی حلال ہوجائیں۔ نمبر دو یکے بعد دیگرے حلال ہوں۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ جب وہ رمی کرے تو اس کو حلق حلال ہوجاتا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ جماع حرام ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایک سبب کے حرام ہونے والی اشیاء مختلف طور پر حلال ہوئیں پس یکبارگی حلال ہونے کا احتمال باطل ہوا۔
اب جبکہ رمی سے اس کو حلق حلال ہوا ہے تو اسے جسم کے تمام بال مونڈنے درست ہیں۔ اسی طرح ناخن کاٹنا نہانا وغیرہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کا حکم جماع کی طرح ہے یا نہیں کہ جب جماع حلال ہو تو یہ حلال ہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوا کہ محرم بالحج وقوف عرفات سے پہلے جماع کرے تو اس کا حج فاسد ہوجاتا ہے مگر بال کاٹنے یا ناخن کاٹنے سے حج فاسد نہیں ہوتا صرف فدیہ لازم آتا ہے اسی طرح اگر اس نے کپڑا پہن لیا پھر بھی حج فاسد نہ ہوگا اور نہ احرام۔ البتہ فدیہ لازم ہوگا۔
حاصل روایت : اب نتیجہ یہ نکلا کہ لباس اور بال کاٹنے کا حکم وقوف عرفات سے پہلے برابر ہے مگر جماع کا حکم ان دونوں سے مختلف ہے۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ رمی و حلق کے بھی ایک جیسا رہے گا جماع کی طرح نہ ہوگا۔ پس رمی و حلق کے بعد لباس و طیب کا ایک حکم ہوگا۔
ایک اشکال بارد :
محرم کو بیوی کا بوسہ حرام ہے اور حلق کے بعد بھی حرام ہے وقوف عرفات سے پہلے یہ لباس کے حکم میں تھا جماع کے حکم میں نہ تھا پس حلق کے بعد بھی لباس جائز نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ بوسے کی طرح حرام ہونا چاہیے۔
لباس کی مشابہت حلق کے ساتھ بوسے کی بنسبت زیادہ ہے اور قبلہ کی مشابہت لباس کے مقابلہ میں جماع سے زیادہ ہے کیونکہ : قبلہ اسباب جماع سے ہے تو جب جماع حرام ہے تو اسباب جماع بھی حرام ہونے چاہئیں اور جہاں جماع حلال ہوگا وہاں قبلہ بھی حلال ہوگا۔ لباس و حلق یہ اسباب جماع سے نہیں ہے بلکہ اصلاح بدن کے اسباب سے ہے فلہذا لباس کو حلق کے ساتھ زیادہ مشابہت کی وجہ سے حلق کے بعد پہننے کا جواز ہونا چاہیے پس ثابت ہوا کہ حلق کے بعد لباس میں حرج نہیں بوسہ میں حرج ہے۔

3954

۳۹۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ مُوْسَی بْنُ مَسْعُوْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِذَا حَلَقْتُمْ وَرَمَیْتُمْ‘ فَقَدْ حَلَّ لَکُمْ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ وَالطِّیْبَ .
٣٩٥٤: طاؤس نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا جب تم حلق و رمی کرلو تو ہر چیز حلال ہوگئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے۔

3955

۳۹۵۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مِثْلَہٗ .
٣٩٥٥: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3956

۳۹۵۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَبَ النَّاسَ بِعَرَفَۃَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٩٥٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ عمر (رض) نے لوگوں کو عرفات میں خطبہ دیا اور پھر اسی طرح روایت بیان فرمائی۔

3957

۳۹۵۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ وَمُوْسٰی، عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّہٗ کَانَ یَأْخُذُ مِنْ أَظْفَارِہٖ وَشَارِبِہٖ وَلِحْیَتِہٖ، یَعْنِیْ قَبْلَ أَنْ یَزُوْرَ .فَھٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَبَاحَ لَہُمْ اِذَا رَمَوْا وَحَلَقُوْا‘ کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ وَالطِّیْبَ‘ وَقَدْ خَالَفَتْہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَابْنُ الزُّبَیْرِ فِی الطِّیْبِ خَاصَّۃً .فَأَمَّا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَابْنُ عَبَّاسٍ‘ فَقَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ عَنْہُمَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا ابْنُ الزُّبَیْرِ‘
٣٩٥٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اپنے ناخن کاٹتے اور مونچھوں کو کاٹتے اور داڑھی کے (زائد) بال طواف زیارت سے پہلے کاٹتے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جو ان کے لیے رمی جمرہ عقبہ اور حلق کے بعد عورتوں اور خوشبو کے علاوہ ہر چیز کو حلال قرار دے رہے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ‘ ابن زبیر اور ابن عباس (رض) خوشبو کے سلسلہ میں ان سے اختلاف کیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ اور ابن عباس (رض) کی روایات گزر چکیں۔ ابن زبیر (رض) کی روایت ذیل میں ہے۔
حضرت عمر (رض) نے رمی و حلق کے بعد ان کے لیے تمام چیزوں کے حلال ہونے کا اعلان کرنے کے لیے صرف عورتوں اور خوشبو کو مستثنیٰ کیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ خوشبو بھی طواف زیارت سے پہلے درست نہیں۔
مؤقف فریق ثانی کا جواب : حضرت عائشہ (رض) ‘ ابن عباس (رض) اور ابن الزبیر (رض) نے اس کی مخالفت کی ہے جیسا کہ پہلے روایات فصل ثانی میں گزر چکی ہیں اس روایت کو فعل و قول عمر (رض) پر ترجیح ہوگی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف جماع کو مستثنیٰ فرمایا۔ پس مرفوع روایت بالمقابل اس قول کو چھوڑا جائے گا۔

3958

۳۹۵۸ : فَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ : اِذَا رَمَی الْجَمْرَۃَ الْکُبْرَی فَقَدْ حَلَّ لَہٗ مَا حَرُمَ عَلَیْہِ إِلَّا النِّسَائَ ‘ حَتّٰی یَطُوْفَ بِالْبَیْتِ‘ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا أَیْضًا .
٣٩٥٨: قاسم بن محمدنے عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کی ہے جب جمرہ عقبہ کی رمی کرلی گئی تو عورتوں کے علاوہ ہر چیز اس کو حلال ہوگئی اور وہ طواف زیارت کے بعد حلال ہوں گی اور ابن عمر (رض) سے ایسی باتیں مروی ہیں جو اس پر بھی دلالت کرتی ہیں۔

3959

۳۹۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا : قَالَ : (فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کُنْتُ أُطَیِّبُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ قَبْلَ أَنْ یُفِیْضَ) .فَسُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَحَقُّ أَنْ یُؤْخَذَ بِہَا مِنْ سُنَّۃِ عُمَرَ .وَالنَّظْرُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ ھٰذَا‘ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا لِأَنَّ حُکْمَ الطِّیْبِ بِحُکْمِ اللُّبَابِ أَشْبَہٗ مِنْ حُکْمِہٖ بِحُکْمِ الْجِمَاعِ‘ لَمَا قَدْ فَسَّرْنَا مِمَّا تَقَدَّمَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ التَّابِعِیْنَ .
٣٩٥٩: طاؤس نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ عمر (رض) نے فرمایا پھر جو پہلے اوپر روایت گزری اسی طرح انھوں نے فرمایا : تو یہ سن کر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رمی جمرہ عقبہ کے بعد اور مکہ کی طرف روانگی سے پہلے خوشبو لگاتی تھی۔ تو ابن عمر (رض) کہنے لگے کہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ جناب عمر (رض) کے فعل سے زیادہ اتباع کی حقدار ہے۔ اس سلسلہ میں نظر وفکر بھی دلالت کرتے ہیں کیونکہ خوشبو کا حکم لباس کے ساتھ جماع کی نسبت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اسی باب میں پہلے تفسیر کی ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ کا قول ہے اور یہ قول تابعین کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے۔
اور تقاضائے نظر میں بھی خوشبو کا لباس کے ساتھ زیادہ مشابہ ہونا ہم بیان کرچکے ہیں۔
یہی قوم ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ اور تابعین کی ایک جماعت کا قول بھی یہی ہے۔

3960

۳۹۶۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ حَزْمٍ‘ قَالَ : دَعَانَا سُلَیْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ یَوْمَ النَّحْرِ‘ أَرْسَلَ إِلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ وَخَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ‘ وَابْنِ شِہَابٍ‘ فَسَأَلَہُمْ عَنِ الطِّیْبِ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ قَبْلَ أَنْ یُفِیْضَ .فَقَالُوْا (أَتَتَطَیَّبُ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؟) إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَجُلًا قَدْ رَأٰی مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَکَانَ اِذَا رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ أَنَاخَ‘ فَنَحَرَ‘ وَحَلَقَ‘ ثُمَّ مَضٰی مَکَانَہٗ فَأَفَاضَ إِلَی الْبَیْتِ .
٣٩٦٠: ابوبکر بن حزم کہتے ہیں کہ ہمیں سلیمان بن عبدالملک نے یوم نحر کو بلایا اور عمر بن عبدالعزیز ‘ قاسم بن محمد ‘ سالم بن عبداللہ ‘ عبداللہ بن عبداللہ عبداللہ بن عمر اور خارجہ بن زید ‘ ابن شہاب رحمہم اللہ کو بلایا اور ان سب سے دریافت کیا کہ طواف زیارت کے لیے جانے سے قبل خوشبو کا کیا حکم ہے انھوں نے کہا۔ سب نے کہا آپ خوشبو لگائیں یعنی یعنی سب نے اثبات میں جواب دیا مگر عبداللہ بن عبداللہ نے کہا عبداللہ بن عمر (رض) وہ آدمی تھے جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی تو اپنی سواری کو بٹھایا۔ پھر آپ نے قربانی کی اور حلق کرایا پھر اپنی جگہ تشریف لے گئے اور بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یعنی خوشبو نہیں لگائی۔

3961

۳۹۶۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ وَرَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ الْوَلِیْدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِکِ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ وَخَارِجَۃَ بْنَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ - بَعْدَ أَنْ رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ وَحَلَقَ - عَنِ الطِّیْبِ فَنَہَاہُ سَالِمٌ‘ وَرَخَّصَ لَہٗ خَارِجَۃُ .
٣٩٦١: ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ولید بن عبدالملک نے سالم بن عبداللہ ‘ خارجہ بن زید بن ثابت سے پوچھا کہ حلق و رمی جمرہ عقبہ کے بعد خوشبو کا کیا حکم ہے تو سالم نے منع کیا اور خارجہ نے اجازت دی مگر سالم کا یہ فتویٰ اوپر والے سالم کے فتویٰ کے خلاف ہے البتہ خارجہ کا اس کے مطابق ہے۔
اس باب میں فریق ثالث کا مؤقف دلیل و نظر دونوں کے لحاظ سے مضبوط ہے۔ طحاوی (رح) نے اس کو دو نظروں اور تابعین کے فتاویٰ سے مزید پختہ کیا ہے۔

3962

۳۹۶۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ‘ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الزَّجَّاجِ‘ عَنْ (الْحَارِثِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِیِّ قَالَ : سَأَلْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ امْرَأَۃٍ حَاضَتْ قَبْلَ أَنْ تَطُوْفَ قَالَ : تَجْعَلُ آخِرَ عَہْدِہَا الطَّوَافَ‘ قَالَ : ہٰکَذَا حَدَّثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ سَأَلْتُہٗ .فَقَالَ لِیْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : رَأَیْتُ تَکْرِیْرَک لِحَدِیْثِ سَأَلْتَنِیْ عَنْ شَیْئٍ سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَیْمَا أُخَالِفَہٗ) .
٣٩٦٢: حارث بن اوس ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جس کو طواف سے پہلے حیض آجائے تو انھوں نے فرمایا اس کو طواف وداع کرنا ہوگا اور کہنے لگے مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کرنے پر اسی طرح جواب مرحمت فرمایا پھر مجھے عمر (رض) فرمانے لگے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تو مجھ سے بار بار وہ چیز پوچھتا ہے جس کو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ہے تاکہ کہیں میں اس کی مخالفت کروں (مگر یہ ممکن نہیں) ۔
عارضہ حیض کی وجہ سے طواف صدر کا ترک جائز نہیں دم لازم ہوگا اس کو سالم بن عبداللہ نے اختیار کیا ہے۔
نمبر 1: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین نے عارضہ حیض کی وجہ سے طواف وداع کو بلادم ساقط قرار دیا۔

3963

۳۹۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ‘ قَالَ ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ نَحْوَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَوْسٍ " .
٣٩٦٣: عفان نے ابو عوانہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ انھوں نے سند میں حارث بن عبداللہ بن اوس کا نام لیا ہے۔

3964

۳۹۶۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ نَحْوَ حَدِیْثِ ابْنِ مَرْزُوْقٍ فِیْ إِسْنَادِہِ وَمَتْنِہِ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : سَأَلْت عُمَرَ‘ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَطُوْفُ بِالْبَیْتِ ثُمَّ تَحِیْضُ. قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَقَالُوْا : لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یَنْفِرَ حَتّٰی یَطُوْفَ طَوَافَ الصَّدْرِ‘ وَلَمْ یَعْذِرُوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ حَائِضًا بِحَیْضِہَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَہَا أَنْ تَنْفِرَ‘ وَإِنْ لَمْ تَطُفْ بِالْبَیْتِ وَعَذَرُوْہَا بِالْحَیْضِ .ھٰذَا اِذَا کَانَتْ قَدْ طَافَتْ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ‘ قَبْلَ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٣٩٦٤: ولید نے ابو عوانہ سے پھر اپنی اسناد سے ابن مرزوق کی طرح اپنی سند و متن سے روایت نقل کی صرف فرق یہ ہے کہ ” سالت عمر (رض) عن المرأۃ تطوف بالبیت ثم تحیض “ کے الفاظ ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء اس روایت کو اختیار کرنے والے ہیں وہ فرماتے ہیں۔ اس وقت تک کسی کو واپس گھر لوٹنے کی اجازت نہیں جب تک طواف صدر نہ کرلے اور انھوں نے حائضہ کو حیض کی وجہ سے معذور قرار نہیں دیا۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ۔ عورت حائضہ کو کوچ کی اجازت ہے۔ اگرچہ طواف صدر نہ کیا ہو اور اس عورت کو عذر حیض ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ وہ طواف زیارت سے فارغ ہوچکی ہو۔ ان کی دلیل ذیل کی روایات ہیں۔
حاصل روایات : اگر کوئی عورت حائضہ ہونے کی وجہ سے طواف صدر چھوڑ دے تو اس پر دم لازم ہوگا۔

3965

۳۹۶۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ‘ وَہُوَ ابْنُ أَبِیْ مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ النَّاسُ یَنْفِرُوْنَ مِنْ کُلِّ وَجْہٍ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتّٰی یَکُوْنَ آخِرُ عَہْدِہِ الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ)
٣٩٦٥: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی لوگ حج کے بعد ہر طرف سے کوچ کر جاتے تھے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی آدمی اس وقت تک کوچ نہ کرے جب تک بیت اللہ کے ساتھ اس کا آخری عہد نہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٧٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٣‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٨٢‘ دارمی فی المناسک باب ٨٥‘ مسند احمد ٢٢٢۔

3966

۳۹۶۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ ابْنِ طَاوٗسٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أُمِرَ النَّاسُ أَنْ یَّکُوْنَ آخِرَ عَہْدِہِمْ بِالْبَیْتِ إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ خُفِّفَ عَنِ الْمَرْأَۃِ الْحَائِضِ .
٣٩٦٦: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا گھر لوٹنے سے پہلے بیت اللہ کے ساتھ آخری عہد ہو ہاں حائضہ عورت کے لیے اس میں تخفیف کردی گئی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٤٤‘ مسلم فی الحج ٣٨٠۔

3967

۳۹۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ قَالَ : قَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنْتَ الَّذِیْ تُفْتِی الْحَائِضَ أَنْ تَصْدُرَ قَبْلَ أَنْ یَّکُوْنَ آخِرُ عَہْدِہَا الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ قَالَ " نَعَمْ " .قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ فَقَالَ : سَلْ فُلَانَۃَ الْأَنْصَارِیَّۃَ ہَلْ أَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَصْدُرَ ؟ فَسَأَلَ الْمَرْأَۃَ‘ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیْہِ فَقَالَ " مَا أَرَاک إِلَّا قَدْ صَدَقْت " .
٣٩٦٧: طاؤس سے روایت ہے کہ زید بن ثابت (رض) نے ابن عباس (رض) کو کہا تم فتویٰ دیتے ہو کہ تم لوٹ جاؤ اس سے پہلے کہ تم نے طواف وداع کیا ہو۔ ابن عباس (رض) نے کہا ہاں میں نے کہا ہے زید (رض) کہنے لگے ایسا مت کرو۔ تو ابن عباس (رض) کہنے لگے فلاں انصاریہ سے پوچھو ‘ کیا اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوٹنے کا حکم فرمایا تھا یا نہیں ؟ زید (رض) نے اس عورت سے پوچھا پھر واپس لوٹ کر کہنے لگے تم نے بالکل سچ کہا ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٢٦‘ ٣٤٨۔

3968

۳۹۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ رَزِیْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ أَنَّ (زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اخْتَلَفَا فِی الْمَرْأَۃِ تَحِیْضُ بَعْدَمَا تَطُوْفُ بِالْبَیْتِ یَوْمَ النَّحْرِ .فَقَالَ زَیْدٌ : یَکُوْنُ آخِرُ عَہْدِہَا الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ‘ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : تَنْفِرُ اِذَا شَائَ تْ .فَقَالَتَ الْأَنْصَارُ : لَا نُتَابِعُک یَا ابْنَ عَبَّاسٍ‘ وَأَنْتَ تُخَالِفُ زَیْدًا .فَقَالَ : سَلُوْا صَاحِبَتَکُمْ أُمَّ سُلَیْمٍ فَسَأَلُوْہَا فَقَالَتْ : حِضْتُ بَعْدَمَا طُفْتُ یَوْمَ النَّحْرِ‘ فَأَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أَنْفِرَ‘ وَحَاضَتْ صَفِیَّۃُ فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا الْخَیْبَۃُ لَک‘ حَبَسْتُ أَہْلَنَا .فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہَا أَنْ تَنْفِرَ) .
٣٩٦٨: عکرمہ کہتے ہیں کہ زید بن ثابت اور ابن عباس (رض) نے طواف زیارت کے بعد جس عورت کو حیض آجائے اس کے متعلق اختلاف کیا تو زید (رض) کہنے لگے اسے طواف وداع ضروری ہے ابن عباس (رض) کہنے لگے۔ اگر وہ پسند کرے تو کوچ کرسکتی ہے۔ انصار کہنے لگے۔ اے ابن عباس (رض) ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے کیونکہ تم زید کی مخالفت کر رہے ہو۔ ابن عباس (رض) کہنے لگے تم امّ سلیم انصاریہ (رض) سے دریافت کرلو۔ انھوں نے امّ سلیم (رض) سے سوال کیا تو کہنے لگیں طواف زیارت کے بعد مجھے حیض شروع ہوا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ تم کوچ کرو۔ حضرت صفیہ (رض) کو حیض شروع ہوگیا تو عائشہ (رض) کہنے لگیں تمہارا برا ہو تم نے ہمارے گھر والوں کو روک لیا۔ اس بات کا تذکرہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوا تو آپ نے کوچ کا حکم فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٤٣١۔

3969

۳۹۶۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ‘ عَنْ (أُمِّ سُلَیْمٍ أَنَّہَا حَاضَتْ بَعْدَمَا أَفَاضَتْ یَوْمَ النَّحْرِ‘ فَأَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَنْفِرَ) .
٣٩٦٩: قتادہ نے انس (رض) سے انھوں نے امّ سلیم (رض) سے روایت کی کہ ان کو طواف زیارت کے بعد حیض شروع ہوا تو ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٥٤۔

3970

۳۹۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ‘ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (لَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْفِرَ‘ رَأَیْ صَفِیَّۃَ عَلٰی بَابِ خِبَائِہَا‘ کَئِیْبَۃً حَزِیْنَۃً وَقَدْ حَاضَتْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّک لَحَابِسَتُنَا‘ أَکُنْتُ أَفَضْتُ یَوْمَ النَّحْرِ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ قَالَ فَانْفِرِیْ اِذًا) .
٣٩٧٠: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا ارادہ فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خیمہ کے دروازے پر دیکھا کہ وہ غم گین ‘ پریشان تھیں اس حال میں کہ وہ حالت حیض میں تھیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تو ہمیں روکے گی ! کیا تم طواف زیارت کرچکی ہو ؟ انھوں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر کوچ کرو۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٥١‘ مسلم فی الحج ٣٨٧‘ مسند احمد ٦؍١٧٥۔
لغات : الجباء خیمہ خواہ وہ چمڑے ‘ اون ‘ بالوں کا بنا ہو۔

3971

۳۹۷۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ: ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ.
٣٩٧١: عبداللہ بن رجاء نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3972

۳۹۷۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرُو بْنُ یُوْنُسَ التَّغْلِبِیُّ الْکُوْفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ مَعْنَاہُ .
٣٩٧٢: اسود نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کی ہم معنی روایت نقل کی ہے۔

3973

۳۹۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَعُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ نَحْوَہٗ۔
٣٩٧٣: عروہ بن زبیر (رض) نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3974

۳۹۷۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ‘ وَہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٣٩٧٤: ہشام بن عروہ نے عائشہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3975

۳۹۷۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٩٧٥: مالک نے ہشام بن عروہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3976

۳۹۷۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجُ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ نَحْوَہٗ۔
٣٩٧٦ : ابو سلمہ نے عائشہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3977

۳۹۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ أَنَّ (صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاضَتْ‘ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ فَقَالَ : أَحَابِسَتُنَا ہِیَ فَقُلْتُ : إِنَّہَا قَدْ أَفَاضَتْ .فَقَالَ فَلاَ اِذًا) .
٣٩٧٧: قاسم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ صفیہ بنت حیی ام المؤمنین (رض) کو حیض آنے لگا تو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ بات ذکر فرمائی تو آپ نے فرمایا کیا وہ ہمیں روکے گی۔ میں نے کہا۔ وہ طواف زیارت کرچکی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر کوئی بات نہیں۔ یعنی کوچ کرسکتی ہیں۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٢٩؍١٣٤‘ ١٤٥؍١٥١‘ مسلم فی الحج ١٢٨؍٣٨٤‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٤‘ ترمذی فی الحج باب ٩٧‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٨٣‘ مالک فی الحج ٢٢٥؍٢٢٦‘ ٢٢٨‘ مسند احمد ٦‘ ٣٨؍٣٩‘ ١٧٥؍١٩٣‘ ١٢٣؍٢٢٤‘ ٢٥٣؍٣٤١۔
لغات : : أحابستنا۔ کیا تو ہمیں روکے گی۔

3978

۳۹۷۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ‘ عَنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ نَحْوَہٗ۔
٣٩٧٨: قاسم نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3979

۳۹۷۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ نَحْوَہٗ۔
٣٩٧٩: عمرہ نے عائشہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3980

۳۹۸۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ‘ وَسُلَیْمَانَ خَالِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ عَنْ طَاوٗسٍ‘ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ قَرِیْبًا مِنْ سَنَتَیْنِ‘ یَنْہٰی أَنْ تَنْفِرَ الْحَائِضُ‘ حَتّٰی یَکُوْنَ آخِرَ عَہْدِہَا بِالْبَیْتِ .ثُمَّ قَالَ : نُبِّئْتُ أَنَّہٗ قَدْ رَخَّصَ لِلنِّسَائِ .
٣٩٨٠: طاوس کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) قریباً دو سال سے حائضہ کو طواف صدر کرنے کے بغیر لوٹنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ پھر کہنے لگے مجھے بتلایا گیا ہے کہ عورتوں کو رخصت دی گئی ہے۔

3981

۳۹۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ طَاوٗسٌ الْیَمَانِیُّ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ‘ یَسْأَلُ عَنْ حَبْسِ النِّسَائِ ‘ عَنِ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ اِذَا حِضْنَ قَبْلَ النَّفْرِ وَقَدْ أَفَضْنَ یَوْمَ النَّحْرِ .فَقَالَ : إِنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَذْکُرُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُخْصَۃً لِلنِّسَائِ ‘ وَذٰلِکَ قَبْلَ مَوْتِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِعَامٍ) .
٣٩٨١: طاوس یمانی سے روایت ہے کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا کہ ان سے آخری طواف بیت اللہ یعنی طواف صدر کے متعلق پوچھا گیا جبکہ وہ طواف زیارت کرچکی ہوں تو کہنے لگے عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کو رخصت دی ہے۔ یہ عبداللہ بن عمر (رض) کی وفات سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے۔

3982

۳۹۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَہٗ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنِ ابْنِ طَاوٗسٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یُرَخِّصُ لِلْحَائِضِ اِذَا أَفَاضَتْ أَنْ تَنْفِرَ .قَالَ طَاوٗسٌ : وَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ لَا تَنْفِرُ ثُمَّ سَمِعْتُہٗ بَعْدُ یَقُوْلُ تَنْفِرُ‘ رَخَّصَ لَہُنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٣٩٨٢: طاوس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ حائضہ عورتوں کو طواف افاضہ کے لیے رخصت دیتے تھے۔ طاوس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ وہ کوچ نہ کرے پھر ان سے سنا کہ وہ کہتے تھے وہ کوچ کر جائے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اجازت دی ہے۔

3983

۳۹۸۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أَیُّوْبَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَیُّوْبَ الْمَعْرُوْفُ بِابْنِ خَلَفٍ الطَّبَرَانِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ‘ قَالَ : ثَنَا عِیْسٰی بْنُ یُوْنُسَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنْ (ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَنْ حَجَّ ھٰذَا الْبَیْتَ‘ فَلْیَکُنْ آخِرُ عَہْدِہِ الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ إِلَّا الْحُیَّضَ‘ رَخَّصَ لَہُنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .فَھٰذِہِ الْآثَارُ‘ قَدْ ثَبَتَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّ الْحَائِضَ لَہَا أَنْ تَنْفِرَ قَبْلَ أَنْ تَطُوْفَ طَوَافَ الصَّدْرِ اِذَا کَانَتْ قَدْ طَافَتْ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ‘ قَبْلَ ذٰلِکَ طَاہِرًا .وَرَجَعَ قَوْمٌ إِلٰی ذٰلِکَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِمَّنْ قَدْ کَانَ قَالَ بِخِلَافِہٖ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ‘ وَابْنُ عُمَرَ‘ وَجَعَلَا مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّخْصَۃِ فِیْ ذٰلِکَ لِلْحَائِضِ‘ رُخْصَۃً وَإِخْرَاجًا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحُکْمِہَا‘ مِنْ حُکْمِ سَائِرِ النَّاسِ فِیْمَا کَانَ أَوْجَبَ عَلَیْہِمْ مِنْ ذٰلِکَ .بِذٰلِکَ نَسْخُ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ لِحَدِیْثِ الْحَارِثِ بْنِ أَوْسٍ‘ وَمَا کَانَ ذَہَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ مِنْ ذٰلِکَ .وَھٰذَا الَّذِیْ بَیَّنَّا‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٣٩٨٣: عیسیٰ بن یونس نے عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر (رض) روایت کی ہے کہ جس نے اس بیت اللہ کا حج کیا تو اس کو طواف وداع کرنا چاہیے۔ سوائے حائضہ عورتوں کے ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخصت دی ہے کہ وہ لوٹ جائیں۔ یہ آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت کر رہے ہیں کہ حائضہ طواف صدر سے پہلے کوچ کرسکتی ہے۔ جب کہ طہارت کی حالت میں وہ طواف زیارت کرچکی ہو اور حضرت زید بن ثابت اور ابن عمر (رض) جو کہ پہلے اس کے خلاف رائے رکھتے تھے انھوں نے اس طرف رجوع کیا اور حائض کے لیے رخصت کو تسلیم کیا ہے اور جو چیز دوسروں پر واجب ہوتی تھی ‘ اس سے ان عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت حارث بن اوس (رض) کی روایت اور قول عمر (رض) سے ان روایات کا منسوخ ہونا معلوم ہوگیا۔ یہ جس قول کی ہم نے وضاحت کی ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حائضات کو طواف صدر سے لوٹنے کی اجازت مرحمت فرمائی مگر اس کی شرط یہ ہے کہ وہ طواف زیارت کرچکی ہوں۔
اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ جماعت جو اس بات کے معلوم ہونے سے پہلے اس کے خلاف فتویٰ دیتے تھے مثلاً زید بن ثابت (رض) ابن عمر (رض) انھوں نے رجوع فرما لیا جیسا ابن عمر (رض) کا فتویٰ نقل کرچکے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ یہ آثار حدیث حارث بن اوس (رض) اور حضرت عمر (رض) کی رائے کو منسوخ کرنے والے ہیں۔
یہ جو اوپر بیان کیا کہ حائضہ کو طواف صدر کئے بغیر لوٹنے کی رخصت ہے یہ ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

3984

۳۹۸۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ مَسْرُوْقٍ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ‘ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ قَالَ : احْلِقْ‘ وَلَا حَرَجَ .قَالَ : وَجَائَ ہٗ آخَرُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ ذَبَحْت قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ) " .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الطَّوَافِ قَبْلَ الْحَلْقِ فَقَالَ : (احْلِقْ وَلَا حَرَجَ) .فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ اِبَاحَۃً مِنْہُ لِلطَّوَافِ قَبْلَ الْحَلْقِ‘ وَتَوْسِعَۃً مِنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَجَعَلَ لِلْحَاجِّ أَنْ یُقَدِّمَ مَا شَائَ مِنْ ہٰذَیْنِ عَلٰی صَاحِبِہٖ وَفِیْہِ أَیْضًا أَنَّ آخَرَ جَائَ ہُ فَقَالَ : إِنِّیْ ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ‘ فَقَالَ : (ارْمِ وَلَا حَرَجَ) .فَذٰلِکَ أَیْضًا یَحْتَمِلُ مَا ذَکَرْنَا فِیْ جَوَابِہٖ فِی السُّؤَالِ الْأَوَّلِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ .
٣٩٨٤: عبیداللہ بن ابی رافع نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے طواف زیارت حلق سے پہلے کرلیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حلق کراؤ اور اس میں کچھ گناہ نہیں علی (رض) کہتے ہیں کہ دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے رمی جمرہ سے پہلے ذبح کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمی کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حلق سے پہلے طواف کے متعلق پوچھا گیا۔ تو فرمایا حلق کرلو اور اس میں کچھ حرج نہیں۔ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ حلق سے پہلے طواف کرنا جائز ہو اور اس سلسلے میں آپ کی طرف سے وسعت دی گئی ہو اور آپ نے حاجی کو اجازت دی ہو کہ ان دو افعال میں سے جس کو چاہے دوسرے پر مقدم کرے اور اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ دوسرے نے آکر کہا کہ میں نے رمی سے پہلے جانور ذبح کرلیا تو آپ نے فرمایا رمی کرلو اور کچھ حرج نہیں اور اس میں وہ احتمال بھی ہے جو ہم نے اس کے جواب میں سوال اول میں ذکر کیا اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی کچھ مروی ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٢٥؍١٣١‘ مسلم فی الحج ٣٢٧؍٣٣١‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٧‘ ترمذی فی الحج باب ٤٥؍٧٦‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧٤‘ دارمی فی المناسک باب ٦٥‘ مالک فی الحج ٢٤٢‘ مسند احمد ١‘ ٢١٦؍٢٥٨‘ ٢‘ ١٥٩؍١٩٢‘ ٣‘ ٣٢٦؍٣٨٥۔
رمی جمرہ عقبہ ‘ قربانی ‘ حلق ‘ طواف زیارت میں ترتیب امام شافعی ‘ احمد ‘ صاحبین ‘ جمہور علماء رحمہم اللہ کے ہاں واجب نہیں مسنون ہے۔
نمبر 1: امام ابوحنیفہ اور مالک رحمہم اللہ کے ہاں تینوں میں ترتیب واجب ہے خلاف ورزی سے دم لازم آئے گا۔
فریق اوّل کا مؤقف : جمرہ عقبہ کی رمی ‘ قربانی ‘ حلق ان تینوں میں ترتیب نہ مفرد بالحج کے لیے لازم ہے اور نہ قارن کے لیے امام شافعی ‘ ‘ احمد ‘ صاحبین ‘ جمہور علماء رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں۔
حاصل روایت : امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حلق سے پہلے طواف کے متعلق سوال ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حلق کرا لو اور کوئی حرج نہیں۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ حلق سے پہلے طواف کا مباح ہونا ظاہر فرمایا گیا ہو اور اس میں وسعت دینا مقصود ہو کہ جس کو چاہیں ایک دوسرے سے مقدم کریں۔
اور روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ دوسرا آیا اور کہنے لگا میں نے رمی سے پہلے ذبح کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا رمی کرو اور کوئی گناہ نہیں۔
اس میں بھی وہی احتمال ممکن ہے کہ حجاج پر توسع مقصود ہو تاکہ جس کو چاہیں مقدم و مؤخر کریں ابن عباس (رض) کی روایت جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے وہ اس کی تائید کرتی ہے۔

3985

۳۹۸۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّنْ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ أَوْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یَحْلِقَ فَقَالَ : لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ) .
٣٩٨٥: عطاء نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا جو ذبح سے پہلے حلق کرے یا حلق سے پہلے ذبح کرے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ حرج نہیں کچھ حرج نہیں۔

3986

۳۹۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنِ ابْنِ طَاوٗسٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قِیْلَ لَہٗ یَوْمَ النَّحْرِ وَہُوَ بِمِنًیْ فِی النَّحْرِ‘ وَالْحَلْقِ‘ وَالرَّمْیِ‘ وَالتَّقْدِیْمِ‘ وَالتَّأْخِیْرِ ، فَقَالَ لَا حَرَجَ) :
٣٩٨٦: طاوس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منیٰ میں عرض کیا گیا کہ نحر ‘ حلق ‘ رمی میں تقدیم و تاخیر کا کیا حکم ہے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

3987

۳۹۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ‘ عَنِ ابْنِ طَاوٗسٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ عَمَّنْ قَدَّمَ شَیْئًا قَبْلَ شَیْئٍ إِلَّا قَالَ (لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ) فَذٰلِکَ یَحْتَمِلُ‘ مَا یَحْتَمِلُہٗ الْحَدِیْثُ الْأَوَّلُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ .
٣٩٨٧: طاوس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوم نحر کو کسی چیز کی تقدیم و تاخیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لاحرج سے جواب مرحمت فرمایا۔ پس اس روایت میں پہلی روایت والا احتمال ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت جابر (رض) سے کچھ مروی ہے۔

3988

۳۹۸۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ذَبَحْت قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ‘ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ .قَالَ آخَرُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ حَلَقْت قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ‘ قَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ .قَالَ آخَرُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ طُفْتُ بِالْبَیْتِ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ قَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ) .فَھٰذَا أَیْضًا مِثْلُ مَا قَبْلَہٗ، وَالْکَلَامُ فِیْہِ مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْمَا قَبْلَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیْکٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ.
٣٩٨٨: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے کہا۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمی سے پہلے میں ذبح کر بیٹھا فرمایا رمی کرلو کوئی حرج نہیں۔ دوسرے نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذبح سے پہلے میں نے حلق کروا لیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذبح کرلو کوئی حرج نہیں۔ تیسرے نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذبح سے پہلے میں نے طواف زیارت کرلیا ہے فرمایا ذبح کرو کوئی حرج نہیں۔ یہ روایت بھی ماقبل کی طرح ہے اور اس کے متعلق بھی وہی بات کہی جائے گی۔ حضرت اسامہ بن شریک (رض) نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں روایت کی ہے۔

3989

۳۹۸۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ‘ ہُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ الْکُوْفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیُّ‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ‘ عَنْ (أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیْکٍ قَالَ : حَجَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَسُئِلَ عَمَّنْ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ أَوْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یَحْلِقَ فَقَالَ لَا حَرَجَ .فَلَمَّا أَکْثَرُوْا عَلَیْہِ قَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ‘ قَدْ رُفِعَ الْحَرَجُ إِلَّا مَنِ اقْتَرَضَ مِنْ أَخِیْہِ شَیْئًا ظُلْمًا‘ فَذٰلِکَ الْحَرَجُ) فَھٰذَا أَیْضًا مِثْلُ مَا قَبْلَہٗ۔وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ قَوْلُہٗ (لَا حَرَجَ) ہُوَ عَلَی الْاِثْمِ‘ أَیْ لَا حَرَجَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْتُمُوْہُ مِنْ ھٰذَا‘ لِأَنَّکُمْ فَعَلْتُمُوْہُ عَلَی الْجَہْلِ مِنْکُمْ بِہٖ، لَا عَلَی التَّعَمُّدِ‘ بِخِلَافِ السُّنَّۃِ‘ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ ذٰلِکَ مُبَیَّنًا وَمَشْرُوْحًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٣٩٨٩: زیاد بن علاقہ نے اسامہ بن شریک (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا ذبح سے پہلے حلق یا حلق سے پہلے ذبح کا کیا حکم ہے فرمایا کچھ مضائقہ نہیں۔ جب لوگوں نے سوالات کی کثرت کردی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے لوگو ! تنگی اٹھالی گئی۔ البتہ جو شخص اپنے بھائی سے زبردستی قرض لے اس میں حرج ہے۔ یہ روایت بھی ماقبل کی طرح ہے۔ ہوسکتا ہے کہ لا حرج کا معنیٰ گناہ نہ ہو نامراد ہو یعنی جو تم نے کیا اس پر کچھ گناہ نہیں ۔ کیونکہ تم نے ناواقفی میں کیا ‘ جان بوجھ کر خلاف سنت نہیں کیا پس اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں اس سلسلہ میں واضح اور کھلی روایات بھی مروی ہیں۔
سابقہ روایت کا جواب :
جہاں ان روایات میں وہ احتمال ہے جو فریق اوّل نے لیا وہاں دوسرا احتمال بھی ہے کہ حرج گناہ کے معنی میں ہو۔ اس کا تم پر گناہ نہیں کیونکہ تم نے ناواقفی سے کیا جان بوجھ کر نہیں کیا گناہ جان بوجھ کر کرنے والے پر ہے اور ناواقفیت سے کرنے میں نفی اثم کے ساتھ نفی جرمانہ لازم نہیں۔

3990

۳۹۹۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ثَابِتٍ‘ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ أَرَاہُ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَہٗ رَجُلٌ فِیْ حَجَّتِہِ فَقَالَ إِنِّیْ رَمَیْتُ وَأَفَضْتُ، وَنَسِیْتُ وَلَمْ أَحْلِقْ قَالَ : فَاحْلِقْ وَلَا حَرَجَ .ثُمَّ جَائَ ہٗ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ إِنِّیْ رَمَیْتُ وَحَلَقْتُ، وَنَسِیْتُ أَنْ أَنْحَرَ قَالَ فَانْحَرْ وَلَا حَرَجَ) .
٣٩٩٠: عبیداللہ بن ابی رافع نے علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے اپنے حج کے متعلق سوال کیا کہ میں نے رمی کی اور طواف زیارت کرلیا اور حلق کرانا بھول گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حلق کروالو اور کچھ مضائقہ نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اور وہ کہنے لگا میں نے رمی ‘ حلق کرلیا مگر نحر کرنا بھول گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نحر کرو اور کچھ مضائقہ نہیں۔

3991

۳۹۹۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا وَیُوْنُسَ حَدَّثَاہُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عِیْسَی بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو‘ أَنَّہٗ قَالَ : (وَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ یَسْأَلُوْنَہٗ. فَجَائَ ہٗ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ لَمْ أُشْعِرْ فَحَلَقْت قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ‘ فَقَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ .فَجَائَ ہٗ آخَرُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْت قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ‘ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ فَمَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ عَنْ شَیْئٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ‘ إِلَّا قَالَ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ) .
٣٩٩١: عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں لوگوں کے لیے رکے تاکہ لوگ پوچھ لیں تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے پتہ بھی نہ چلا اور میں نے ذبح سے پہلے حلق کروا لیا آپ نے فرمایا ذبح کرو اور کچھ گناہ نہیں۔ ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے شعور بھی نہیں ہوا کہ میں نے رمی سے پہلے نحر کرلیا ہے آپ نے فرمایا۔ رمی کرلو اور کچھ حرج نہیں اس دن کسی بھی چیز کی تقدیم و تاخیر سے متعلق جو سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کر ڈالو اور کوئی حرج نہیں۔

3992

۳۹۹۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عِیْسَی بْنِ طَلْحَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو‘ قَالَ : (سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : حَلَقْت قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ‘ قَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ .قَالَ آخَرُ : ذَبَحْت قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ‘ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ) .
٣٩٩٢: عیسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا میں نے ذبح سے پہلے حلق کروا لیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذبح کرو اور کچھ حرج نہیں۔ دوسرے نے کہا میں نے رمی سے پہلے ذبح کرلیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمی کرلو اور کچھ حرج نہیں۔

3993

۳۹۹۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ‘ أَنَّ عَطَائَ بْنَ أَبِیْ رَبَاحٍ‘ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، یَعْنِیْ : (أَنَّہٗ وَقَفَ لِلنَّاسِ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ یَسْأَلُوْنَہٗ، فَجَائَ رَجُلٌ فَقَالَ : لَمْ أُشْعِرْ فَنَحَرْت قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ‘ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ .قَالَ آخَرُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ لَمْ أُشْعِرْ فَحَلَقْت قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ‘ قَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ قَالَ : فَمَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْئٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ : افْعَلْ وَلَا حَرَجَ) .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلٰی أَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَسْقَطَ الْحَرَجَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ لِلنِّسْیَانِ‘ لَا أَنَّہٗ أَبَاحَ ذٰلِکَ لَہُمْ‘ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُمْ مُبَاحٌ أَنْ یَفْعَلُوْا ذٰلِکَ فِی الْعَمْدِ .وَقَدْ رَوٰی أَبُوْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیُّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٣٩٩٣: عطاء بن ابی رباح نے جابر (رض) کو سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے لیے رکے تو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرنے لگے۔ ایک آدمی نے آ کر پوچھا مجھے علم نہیں تھا اور میں نے رمی سے پہلے نحر کرلیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمی کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ دوسرے نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے یاد بھی نہ رہا اور میں ذبح سے پہلے حلق کرلیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذبح کرو اور کوئی حرج نہیں۔ جابر (رض) کہتے ہیں اس دن جس نے کسی چیز کے مقدم و مؤخر کرنے کا سوال کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو افعل ولاحرج سے جواب دیا۔ تو یہ مذکورہ بیان اس بات پر دال ہے کہ آپ نے بھول کی وجہ سے ان سے گناہ کو دور فرمایا۔ یہ مطلب نہیں کہ یہ ان کے لیے مباح و جائز ہو کہ اگر جان بوجھ کرلیں تو جائز ہوجائے اور حضرت ابو سعید خدری (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں دو آیت کی جو اس پر دلالت کرتی ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان تمام روایات میں حرج کی نفی فرمائی اس کی وجہ بھول جانا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کو ایسا کرنا مباح ہے کہ جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ جان بوجھ کر بھی ایسا کرنا درست ہے۔
روایت ابو سعید خدری (رض) کی دلالت بھی یہی ہے۔

3994

۳۹۹۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِیٍّ‘ عَنِ الْحَجَّاجِ‘ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ زُبَیْدٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ قَالَ : (سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بَیْنَ الْجَمْرَتَیْنِ‘ عَنْ رَجُلٍ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ‘ قَالَ لَا حَرَجَ وَعَنْ رَجُلٍ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ‘ قَالَ لَا حَرَجَ ثُمَّ قَالَ عِبَادَ اللّٰہِ‘ وَضَعَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْحَرَجَ وَالضِّیْقَ‘ وَتَعَلَّمُوْا مَنَاسِکَکُمْ فَإِنَّہَا مِنْ دِیْنِکُمْ) .أَفَلاَ تَرٰی أَنَّہٗ أَمَرَہُمْ بِتَعَلُّمِ مَنَاسِکِہِمْ‘ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یُحْسِنُوْنَہَا‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْحَرَجَ وَالضِّیْقَ الَّذِیْ رَفَعَہُ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ ہُوَ لِجَہْلِہِمْ بِأَمْرِ مَنَاسِکِہِمْ‘ لَا لِغَیْرِ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ حَدِیْثِ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیْکٍ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی أَیْضًا .
٣٩٩٤: ابو زبید نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت سوال کیا گیا جب کہ آپ دونوں جمروں کے درمیان تھے کہ رمی سے پہلے حلق کرلیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ گناہ نہیں۔ اور اس آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا جس نے رمی سے پہلے ذبح کرلیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ گناہ نہیں پھر فرمایا۔ اے اللہ تعالیٰ کے بندو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے تنگی اور گناہ ہٹایا ہے (جو کام بھول چوک سے ہوجائے) مگر اپنے حج کے احکام سیکھو وہ تمہارے دین کا حصہ ہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ آپ نے ان کو احکام حج سیکھنے کا حکم فرمایا کیونکہ وہ ان کو اچھی طرح ادا نہ کرتے تھے ۔ تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ جو تنگی اور گناہ اللہ تعالیٰ نے ان سے دور کی ہے وہ احکام حج سے ناواقفی کی وجہ سے تھا کسی اور وجہ سے نہیں اور حضرت اسامہ بن شریک (رض) کی مذکورۃ الصدر روایت اس پر دال ہے۔
تخریج : ابن ماجہ باب الطلب ١۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو مناسک حج سیکھنے کی بھی تاکید فرما رہے ہیں کیونکہ وہ ان کو اچھی طرح نہ جانتے تھے اس سے یہ ثابت ہوا کہ حرج و تنگی جس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی ہوئی وہ مناسک سے ناواقفیت کی وجہ سے تھی اس کی دیگر کوئی وجہ نہ تھی۔ اس سے پہلے اسامہ بن شریک (رض) کی روایت بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ روایت یہ ہے۔

3995

۳۹۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ وَسَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ‘ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیْکٍ (أَنَّ الْأَعْرَابَ‘ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَنْ أَشْیَائَ ‘ ثُمَّ قَالُوْا : ہَلْ عَلَیْنَا حَرَجٌ فِیْ کَذَا ؟ وَہَلْ عَلَیْنَا حَرَجٌ فِیْ کَذَا ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ رَفَعَ الْحَرَجَ عَنْ عِبَادِہٖ، إِلَّا مَنِ اقْتَرَضَ مِنْ أَخِیْہِ شَیْئًا مَظْلُوْمًا‘ فَذٰلِکَ الَّذِیْ حَرِجَ وَہَلَکَ) .أَفَلاَ تَرٰی أَنَّ السَّائِلِیْنَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانُوْا أَعْرَابًا‘ لَا عِلْمَ لَہُمْ بِمَنَاسِکِ الْحَجِّ ؟ فَأَجَابَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہِ " لَا حَرَجَ " عَلَی الْاِبَاحَۃِ مِنْہُ لَہُمْ‘ التَّقْدِیْمُ فِیْ ذٰلِکَ وَالتَّأْخِیْرُ فِیْمَا قَدَّمُوْا مِنْ ذٰلِکَ وَأَخَّرُوْا .ثُمَّ قَالَ لَہُمْ مَا ذَکَرَ أَبُوْ سَعِیْدٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ " وَتَعَلَّمُوْا مَنَاسِکَکُمْ " .ثُمَّ قَدْ جَائَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی أَیْضًا .
٣٩٩٥: زیاد بن علاقہ نے اسامہ بن شریک (رض) سے نقل کی کہ بدو لوگوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوالات کئے پھر کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی وجہ سے ہمیں کیا گناہ بھی ہوگا کیا اس میں گناہ ہوگا ؟ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے تنگی کو اٹھا دیا (بھول کر ہونے والی غلطی کا گناہ) مگر وہ شخص جو اپنے مسلمان بھائی سے ظلم کے طور پر قرض لے اس میں گناہ اور ہلاکت ہے۔ کیا یہ تمہارے علم میں نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرنے والے دیہاتی تھے ان کو حج کے احکام کا علم نہ تھا ۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو لا حرج کا جواب مرحمت فرمایا۔ کہ کچھ گناہ نہیں ۔ یعنی تمہاری تقدیم و تاخیر درست ہے۔ پھر ان کو وہ بات فرمائی جس کو حضرت ابو سعید (رض) نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے۔ فرمایا حج کے احکام سیکھو ۔ پھر حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اس مفہوم کی روایت ہے۔
تخریج : ٣٩٩١ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔
ذرا غور فرمائیں : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرنے والے لوگ دیہاتی تھے جن کو مناسک حج کا پورا علم نہ تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لاحرج کے ساتھ جواب دیا کہ جو تقدیم و تاخیر کی وہ ان کے لیے معاف ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بقول ابو سعید (رض) فرمایا تم اپنے مناسک حج کا علم حاصل کرو۔ ابن عباس (رض) کی روایت بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے۔

3996

۳۹۹۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مُہَاجِرٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (مَنْ قَدَّمَ شَیْئًا مِنْ حَجِّہِ أَوْ أَخَّرَہٗ‘ فَلْیُہْرِقْ لِذٰلِکَ دَمًا) .
٣٩٩٦: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کوئی چیز مقدم و مؤخر کی ہو وہ ایک جانور ذبح کرے۔

3997

۳۹۹۷ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ‘ یُوْجِبُ عَلٰی مَنْ قَدَّمَ شَیْئًا مِنْ نُسُکِہٖ أَوْ أَخَّرَہٗ دَمًا‘ وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ مَا سُئِلَ یَوْمَئِذٍ عَنْ شَیْئٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ مِنْ أَمْرِ الْحَجِّ إِلَّا قَالَ " لَا حَرَجَ " .فَلَمْ یَکُنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَہٗ مَعْنَی الْاِبَاحَۃِ فِیْ تَقْدِیْمِ مَا قَدَّمُوْا‘ وَلَا فِیْ تَأْخِیْرِ مَا أَخَّرُوْا‘ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ اِذْ کَانَ یُوْجِبُ فِیْ ذٰلِکَ دَمًا .وَلٰـکِنْ کَانَ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَہٗ‘ عَلٰی أَنَّ الَّذِیْ فَعَلُوْہُ فِیْ حَجَّۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ عَلَی الْجَہْلِ مِنْہُمْ بِالْحُکْمِ فِیْہِ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَعَذَرَہُمْ بِجَہْلِہِمْ وَأَمَرَہُمْ فِی الْمُسْتَأْنَفِ أَنْ یَتَعَلَّمُوْا مَنَاسِکَہُمْ .وَتَکَلَّمَ النَّاسُ بَعْدَ ھٰذَا فِی الْقَارِنِ اِذَا حَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ .فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ (عَلَیْہِ دَمٌ) وَقَالَ زَفَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (عَلَیْہِ دَمَانِ) .وَقَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ (لَا شَیْئَ عَلَیْہِ) وَاحْتَجَّا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلَّذِیْنَ سَأَلُوْہُ عَنْ ذٰلِکَ‘ عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَا فِی الْآثَارِ الْمُتَقَدِّمَۃِ‘ وَبِجَوَابِہٖ لَہُمْ أَنْ لَا حَرَجَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمَا فِیْ ذٰلِکَ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَزَفَرَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ مَا ذَکَرْنَا مِنْ شَرْحِ مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ .وَحَجَّۃٌ أُخْرَی‘ وَہِیَ أَنَّ السَّائِلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یَعْلَمْ‘ ہَلْ کَانَ قَارِنًا أَوْ مُفْرِدًا‘ أَوْ مُتَمَتِّعًا فَإِنْ کَانَ مُفْرِدًا فَأَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ وَزَفَرُ‘ لَا یُنْکِرَانِ أَنْ یَّکُوْنَ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ دَمٌ‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ الذَّبْحَ الَّذِیْ قَدَّمَ عَلَیْہِ الْحَلْقَ‘ ذَبْحٌ غَیْرُ وَاجِبٍ‘ وَلٰـکِنْ کَانَ أَفْضَلَ لَہٗ أَنْ یُقَدِّمَ الذَّبْحَ قَبْلَ الْحَلْقِ‘ وَلٰکِنَّہٗ اِذَا قَدَّمَ الْحَلْقَ أَجْزَأَہٗ‘ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ .وَإِنْ کَانَ قَارِنًا‘ أَوْ مُتَمَتِّعًا‘ فَکَانَ جَوَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَقَدْ ذَکَرْنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی التَّقْدِیْمِ فِی الْحَجِّ وَالتَّأْخِیْرِ‘ أَنَّ فِیْہِ دَمًا‘ وَأَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَرَجَ " لَا یَدْفَعُ ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ " لَا حَرَجَ " لَا یَنْفِیْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وُجُوْبَ الدَّمِ‘ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا لَا بِنَفْیِہِ‘ عِنْدَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَزَفَرَ‘ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ وَکَانَ الْقَارِنُ ذَبْحُہُ ذَبْحٌ وَاجِبٌ عَلَیْہٖ‘ یَحِلُّ بِہٖ۔ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْأَشْیَائِ الَّتِیْ یَحِلُّ بِہَا الْحَاجُّ اِذَا أَخَّرَہَا‘ حَتّٰی یَحِلَّ‘ کَیْفَ حُکْمُہَا .فَوَجَدْنَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَالَ (وَلَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ) فَکَانَ الْمُحْصَرُ یَحْلِقُ بَعْدَ بُلُوْغِ الْہَدْیِ مَحِلَّہٗ، فَیَحِلُّ بِذٰلِکَ‘ وَإِنْ حَلَقَ قَبْلَ بُلُوْغِہِ مَحِلَّہٗ، وَجَبَ عَلَیْہِ دَمٌ وَھٰذَا إِجْمَاعٌ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ عَلٰی أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ الْقَارِنُ اِذَا قَدَّمَ الْحَلْقَ قَبْلَ الذَّبْحِ‘ الَّذِیْ یَحِلُّ بِہٖ أَنْ یَّکُوْنَ عَلَیْہِ دَمٌ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .فَبَطَلَ بِھٰذَا مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ وَثَبَتَ مَا قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ أَوْ مَا قَالَ زَفَرُ رَحِمَہُ اللّٰہُ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا ھٰذَا الْقَارِنُ قَدْ حَلَقَ رَأْسُہٗ فِیْ وَقْتٍ‘ الْحَلْقُ عَلَیْہِ حَرَامٌ‘ وَہُوَ فِیْ حُرْمَۃِ حَجَّۃٍ‘ وَفِیْ حُرْمَۃِ عُمْرَۃٍ .وَکَانَ الْقَارِنُ مَا أَصَابَ فِیْ قِرَانَہٗ‘ مِمَّا لَوْ أَصَابَہُ وَہُوَ فِیْ حَجَّۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ أَوْ عُمْرَۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ وَجَبَ عَلَیْہِ دَمٌ‘ فَإِذَا أَصَابَہُ وَہُوَ قَارِنٌ‘ وَجَبَ عَلَیْہِ دَمَانِ‘ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ حَلْقُہُ أَیْضًا قَبْلَ وَقْتِہٖ، یُوْجِبُ عَلَیْہِ أَیْضًا دَمَیْنِ‘ کَمَا قَالَ زَفَرُ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا الْأَشْیَائَ الَّتِیْ تُوْجِبُ عَلَی الْقَارِنِ دَمَیْنِ‘ فِیْمَا أَصَابَ فِیْ قِرَانِہِ ہِیَ الْأَشْیَائَ الَّتِیْ لَوْ أَصَابَہَا وَہُوَ فِیْ حُرْمَۃِ حَجَّۃٍ‘ أَوْ فِیْ حُرْمَۃِ عُمْرَۃٍ وَجَبَ عَلَیْہِ دَمٌ .فَإِذَا أَصَابَہَا فِیْ حُرْمَتِہِمَا وَجَبَ عَلَیْہِ دَمَانِ‘ کَالْجِمَاعِ‘ وَمَا أَشْبَہَہُ وَکَانَ حَلْقُہُ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ‘ لَمْ یَحْرُمْ عَلَیْہِ بِسَبَبِ الْعُمْرَۃِ خَاصَّۃً‘ وَلَا بِسَبَبِ الْحَجِّ خَاصَّۃً‘ إِنَّمَا وَجَبَ عَلَیْہِ بِسَبَبِہِمَا‘ وَبِحُرْمَۃِ الْجَمْعِ بَیْنَہُمَا‘ لَا بِحُرْمَۃِ الْحَجَّۃِ خَاصَّۃً‘ وَلَا بِحُرْمَۃِ الْعُمْرَۃِ خَاصَّۃً .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ مَا یَجِبُ بِالْجَمْعِ‘ ہَلْ ہُوَ شَیْئَانِ أَوْ شَیْء ٌ وَاحِدٌ ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَحْرَمَ بِحَجَّۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ أَوْ بِعُمْرَۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ شَیْء ٌ‘ وَإِذَا جَمَعَہُمَا جَمِیْعًا‘ وَجَبَ عَلَیْہِ لِجَمْعِہِ بَیْنَہُمَا شَیْء ٌ لَمْ یَکُنْ یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ إِفْرَادِہِ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا‘ فَکَانَ ذٰلِکَ الشَّیْئُ دَمًا وَاحِدًا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الْحَلْقُ‘ قَبْلَ الذَّبْحِ الَّذِیْ مَنَعَ مِنْہُ الْجَمْعُ بَیْنَ الْعُمْرَۃِ وَالْحَجِّ‘ فَلاَ یَمْنَعُ مِنْہُ وَاحِدَۃٌ مِنْہُمَا‘ لَوْ کَانَتْ مُفْرَدَۃً أَنْ یَّکُوْنَ الَّذِیْ یَجِبُ بِہٖ فِیْہِ دَمٌ وَاحِدٌ .فَیَکُوْنُ أَصْلُ مَا یَجِبُ عَلَی الْقَارِنِ فِی انْتِہَاکِہِ الْحَرَمَ فِیْ قِرَانِہِ‘ أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا کَانَ مِنْ تِلْکَ الْحُرُمِ‘ تُحَرَّمُ بِالْحَجَّۃِ خَاصَّۃً‘ وَبِالْعُمْرَۃِ خَاصَّۃً .فَإِذَا جُمِعَتَا جَمِیْعًا‘ فَتِلْکَ الْحُرْمَۃُ مُحَرَّمَۃٌ لِشَیْئَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ‘ فَیَکُوْنُ عَلٰی مَنْ انْتَہَکَہُمَا کَفَّارَتَانِ .وَکُلُّ حُرْمَۃٍ لَا تُحَرِّمُہَا الْحَجَّۃُ عَلَی الِانْفِرَادِ‘ وَلَا الْعُمْرَۃُ عَلَی الِانْفِرَادِ‘ یُحَرِّمُہَا الْجَمْعُ بَیْنَہُمَا‘ فَإِذَا اُنْتُہِکَتْ‘ فَعَلَی الَّذِی انْتَہَکَہَا دَمٌ وَاحِدٌ‘ لِأَنَّہٗ انْتَہَکَ حُرْمَۃً حَرُمَتْ عَلَیْہِ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَبِہٖ نَأْخُذُ۔
٣٩٩٧: ایوب نے سعید بن جبیر (رض) سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو اس آدمی پر قربانی کو لازم کر رہے ہیں جس نے حج کے اعمال میں تقدیم و تاخیر کرے اور آپ ان حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ اس حجۃ الوداع کے دن اگر آپ سے کسی حکم حج کی تاخیر و تقدیم کا پوچھا گیا تو یہی جواب دیا لا حرج “ تو گویا ان کے ہاں اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ تقدیم و تاخیر مباح ہے۔ اس لیے کہ وہ فتوی میں اس پر قربانی لازم کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے ہاں اس کا مطلب یہ تھا کہ جن حضرات نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایسا کیا وہ حکم سے ناواقف تھے آپ نے علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کو معذور قرار دیا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ مناسک کو آئندہ سیکھ لیں۔ لوگوں نے قارن سے متعلق گفتگو کی ہے جو کہ ذبح سے پہلے سرمنڈائے۔ ! امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اس پر ایک قربانی ہوگی ۔ " امام زفر (رح) اس پر دو قربانی لازم کرتے ہیں ۔# ابو یوسف ومحمد (رح) فرماتے ہیں اس پر کچھ بھی لازم نہیں۔ امام ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے استدلال کیا ہے جو آپ نے سائلین سے لا حرج ‘ ‘ فرمایا ۔ گزشتہ سطور میں ہم اس کو ذکر کر آئے۔ امام ابوحنیفہ اور زفر (رح) کی طرف سے ان کے خلاف وہ دلیل ہے جو ہم نے آثار کی تشریح میں ذکر کی ہے ‘ اور مزید دلیل یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرنے والے کے متعلق یہ علم نہیں ہے کہ وہ قارن ‘ متمتع ‘ مفرد میں سے کون سا تھا۔ اگر مفرد تھا تو امام ابوحنیفہ وزفر اس پر عدم وجوب قربانی کے منکر نہیں کیونکہ جس قربانی پر اس نے حلق کو مقدم کیا وہ لازم نہ تھی بلکہ اسے افضل یہ تھا کہ وہ ذبح کے بعد حلق کرے مگر جب اس نے حلق کو پہلے کرایا تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اس پر کچھ ازم نہ ہوگا اور اگر وہ قارن یا متمتع ہے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب وہی معنیٰ رکھتا ہے جو ہم پہلے ذکر کر آئے کہ تقدیم و تاخیر احکام حج میں ابن عباس (رض) دم کو لازم فرماتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان لا حرج میں اس کی نفی نہیں جب ابن عباس (رض) کے ہاں آپ کا قول ” لا حرج “ وجوب قربانی کی نفی نہیں کرتا ۔ تو امام ابوحنیفہ وزفر کے ہاں بھی وہ نفی نہ کرے گا۔ اور قارن کا ذبیحہ واجب ذبیحہ تھا وہ اس کے ذریعہ احرام سے نکلتا ہے۔ اب ہم اس پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا امور ہیں۔ جن کے ذریعہ حاجی احرام سے باہر آتا ہے۔ کہ اگر وہ ان کو مؤخر کرے اور احرام سے نکل گیا تو پھر اس کا کیا حکم ہوگا ۔ ہم نے قرآن میں فرمان الٰہی پایا ولا تحلقوا رء وْسکم حتی یبلغ الھدی محلہ۔۔۔ کہ قربانی کے قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے تم سر نہ منڈواؤ۔ پس وہ شخص جس کو حج میں رکاوٹ آجائے وہ ھدی کے قربان گاہ تک پہنچنے پر حلق کرواتا ہے اور اس کے ساتھ وہ احرام سے فارغ ہوجاتا ہے اور اگر اس نے قربانی کے حرم تک پہنچنے سے پہلے حلق کروالیا تو اس پر دم لازم ہے اور اس پر تمام کا اتفاق ہے۔ پس ہم نے اس میں غور وفکر کیا تو معلوم ہوا کہ اس قارن نے ایسے وقت سرمنڈوایا ہے جب سر منڈوانا اس پر حرام تھا یعنی وہ حج یا عمرہ کے احرام کی حالت میں ہو۔ قارن جب ایسا عمل کرے کہ اگر وہ حج مفرد والا کرتا تو اس پر ایک قربانی لازم ہوتی یا فقط عمرہ کرتا تو ایک دم آتا جب وہ قارن اس کا مرتکب ہوا تو اس پر دو قربانیاں لازم ہوں گی ۔ اب اس میں یہ احتمال ہوا کہ وقت سے پہلے حلق پر بھی اسے دو قربانیاں لازم ہونی چاہئیں۔ جیسا کہ امام زفر (رح) کا قول ہے اب ہم نے اس میں غور وفکر کیا کہ بعض امور میں قارن پر دو قربانیاں لازم کرتے ہیں جبکہ وہ قران کے احرام میں کرے اور اگر وہ اشیاء احرام حج یا فقط عمرہ والا کرے تو اس پر ایک قربانی لازم ہے۔ پس اب قارن نے اس کا ارتکاب دونوں احراموں میں کیا تو اس پر دو دم ہیں مثلاً جماع اور اس کے مشابہ امور اور اس کا حلق ذبح سے پہلے عمرہ کی وجہ سے حرام نہیں ہوتا اور نہ حج کی وجہ سے حرام ہوتا ہے۔ بلکہ یہ دونوں کی وجہ سے لازم ہوا بلکہ جمع کرنے کی حرمت سے حرام ہوا ۔ فقط حج یا فقط عمرہ اس کو حرام نہیں کرتے۔ اب ہم حج وعمرہ کے جمع کرنے کی صورت میں کیا چیز لازم آتی ہے۔ اس پر غور کرنا چاہتے ہیں ‘ کیا یہ دو چیزیں ہیں یا ایک ہی ہے۔ غور سے معلوم ہوا کہ جب کوئی حج یا عمرہ کا صرف احرام باندھے تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے اور جب اس نے دونوں کو جمع کرلیا۔ تو اس کے جمع کی وجہ سے وہ چیز لازم آتی ہے جو انفرادی طور پر ان کی ادائیگی نے لازم نہیں ہے۔ اور وہ ایک قربانی ہے۔ پس نظر و فکر چاہتے ہیں کہ حلق جو ذبح سے پہلے ہو جس کو حج وعمرہ کے اکٹھ نے منع کیا ہے۔ اگر ان میں سے ایک ہوتا تو وہ اس سے منع نہ کرتا۔ اگر وہ افراد ہوتا تو اس پر ایک دم لازم ہوتا ۔ تو وہ اصل جس کی بےحرمتی پر قران میں جو چیز لازم ہوتی ہے۔ تو اس پر غور کرنا ہوگا کہ وہ حرمت حج اور عمرہ جب جمع ہوں تو ان کی وجہ سے خاص ہے۔ اور یہ حرمت دو مختلف چیزوں کی وجہ سے ہوئی پس ان دونوں کی خلاف ورزی پر دو کفارے لازم ہوں گے ‘ اور ہر وہ حرمت جو صرف حج یا صرف عمرہ سے نہیں ہوتی وہ ان دونوں کے اجتماعی طور پر کرنے سے پیدا ہوتی ہے ‘ پس جو شخص اسے توڑ دے گا اس پر ایک قربانی لازم ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے ایسی حرمت کو پائمال کیا ہے جو ایک سبب سے حرام ہوتی تھی۔ نظر کا اس باب میں یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
یہ ابن عباس (رض) ہیں جو تقدیم و تاخیر کرنے والے پر دم کو لازم قرار دے رہے ہیں اور یہ بھی ان روات میں سے ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر پوچھی جانے والی چیز کا جواب ” لاحرج “ نقل کرنے والے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” لاحرج “ کا معنی ان کے ہاں مباح کرنے کا نہ تھا بلکہ گناہ کی نفی کا تھا اور جرمانے کا لازم ہونا گناہ کے اٹھائے جانے کے خلاف نہیں ہے ورنہ وہ اس میں دم کو لازم قرار نہ دیتے اسی لیے تو ان کی ناواقفی کی بناء پر گناہ کو اٹھا لیا گیا اور لوٹاتے ہوئے فرمایا اپنے حج کے احکام سیکھو۔
قارن کے متعلق اختلاف کی وضاحت :
نمبر 1: امام ابوحنیفہ (رح) نے قارن کے مناسک کو آگے پیچھے کرنے کی صورت میں اس پر ایک دم لازم کیا ہے یعنی ایک دم جرمانہ دوسرا دم شکرانہ۔
نمبر 2: امام زفر (رح) اس پر جرمانے کے دو دم لازم قرار دیتے ہیں۔
نمبر 3: امام ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ اس پر کسی چیز کو لازم قرار نہیں دیتے ان کے دلائل فصل اول میں مندرج ” لاحرج “ والی روایات ہیں۔
مگر امام ابوحنیفہ اور زفر رحمہم اللہ کی جانب سے ایک روایت ابن عباس (رض) ہی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ جس میں انھوں نے دم کو لازم قرار دیا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے ماقبل جو روایات گزریں ان میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کرنے والے لوگوں کے متعلق یہ قطعاً وضاحت نہیں ہے کہ وہ مفرد ‘ متمتع ‘ قارن میں سے کس قسم میں ہیں۔
پس اگر وہ مفرد بالحج ہے تو ابوحنیفہ (رح) اور زفر (رح) اس کے منکر نہیں ہیں کہ ان پر دم لازم نہیں ہوتا کیونکہ جس قربانی پر حلق کو مقدم کیا گیا وہ غیر واجب قربانی ہے البتہ اس کو بھی افضل یہی ہے کہ وہ حلق سے پہلے ذبح کرے اور اگر اس نے مقدم کر ہی لیا تو کفایت کر جائے گا اور اس پر دم لازم نہ ہوگا۔
اور اگر وہ قارن یا متمتع ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب ” لاحرج “ اس سے گناہ کی نفی کرنا مقصود ہوگی اور رہا جرمانہ اس کا تذکرہ ان روایات میں نہیں بلکہ ابن عباس (رض) کی روایات میں ہے اور یہ دونوں روایات ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔ پس ” لاحرج “ دم کی نفی نہیں کرنا اور وجوب دم سے ” لاحرج “ کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ پس قارن پر دم لازم ہوگا۔
نظر اوّل :
ہم جب ان اشیاء پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ جن سے حاجی حلال ہوجاتا ہے اگر ان کو مؤخر کر دے کہ ان کا حکم کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ : ” ولا تحلقو رؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ “ (البقرہ : ١٩٦) اس آیت میں دم احصار کا ذکر ہے کہ محصر اس وقت تک حلق نہیں کرسکتا جب تک کہ ہدی حدود حرم میں نہ پہنچ جائے جب پہنچ گیا تو وہ حلال ہوجائے اور اگر اس نے ہدی کے حرم میں پہنچنے سے پہلے حلق کروا دی تو اس پر دم لازم ہوجائے گا اس پر سب کا اتفاق ہے۔
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ قارن کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے جبکہ وہ حلق کو ذبح پر مقدم کر دے پس بتقاضائے نظر فریق ثالث یعنی صاحبین کا دعویٰ درست نہ رہے گا اور فریق اوّل و دوم کا دعویٰ قائم و ثابت ہوجائے گا۔
نظرثانی۔ فنظرنا فی ذلک سے اسی کو ذکر کیا :
جب قارن ایسے وقت میں حلق کرے گا جس میں حلق کرنا اس پر حرام ہے تو ارتکاب حرمت کی وجہ سے اس پر جرمانہ لازم ہوگا مگر جب وہ حرام کا ارتکاب کررہا تھا اس وقت وہ دو حرمتوں کے دائرہ میں داخل تھا۔ ایک حرمت حج اور دوسرا حرمت عمرہ۔ پس اکیلے حج یا عمرہ کرنے والے پر جب ایک دم لازم ہوتا ہے تو قارن پر دو حرمتوں کی وجہ سے دو دم لازم ہوں گے۔ اب توجہ طلب یہ ہے کہ وقت سے پہلے حلق کرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہوگا یا دو ۔ تو جب حرمتیں دو ہیں تو دم بھی دو ہوں گے۔ حج کے اعمال پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کاموں میں مفرد بالحج یا معتمر پر ایک دم لازم ہوتا ہے مثلاً جماع وغیرہ تو قارن پر ان صورتوں میں دو دم لازم آتے ہیں کیونکہ وہ تو ایک حرمت کی مخالفت کرنے والا ہے اور یہ دو حرمتوں کی مخالفت کرنے والا ہے اور قارن نے ذبح سے پہلے حلق کر کے حرمت عمرہ اور حرمت حج دونوں کو پامال کیا اس لیے اس پر دو دم ہی لازم ہونے چاہئیں۔
نظر ثالث ‘ فاردنا ان ننظر سے اسی کو بیان فرمایا :
غور فرمائیں کہ حج وعمرہ اکٹھا ایک چیز ہے یا الگ الگ دو چیزیں ہیں معلوم ہوا کہ اگر فقط حج کا احرام باندھتا یا فقط عمرہ کا احرام باندھتا تو اس پر کوئی قربانی لازم نہ تھی اور اگر دونوں کو جمع کرلیا خواہ ایک احرام میں یا دو احراموں میں تو اس پر ایک قربانی واجب ہوجاتی ہے اور اس کا سبب دونوں کو جمع کرنا ہے۔ پس معلوم ہوا حج وعمرہ کو جمع کرنا سبب ہے اور جمع کی وجہ سے قارن پر ایک دم شکر ضروری ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ذبح سے پہلے حلق کرنے میں حرمت بھی جمع ہوگئی اس لیے ایک دم ہی لازم ہوگا کیونکہ مفرد بالحج یا معتمر پر تو حلق و ذبح میں تقدیم و تاخیر سے کوئی چیز لازم نہیں آتی۔ تو قارن پر دو تاوان کیسے لازم کردیئے جائیں گے حرمت جمع کی وجہ سے اس پر صرف ایک ہی جرمانہ لازم آئے گا۔
ایک کلیہ : ہر وہ حرمت جس کی مخالفت کی وجہ سے مفرد یا معتمر پر ایک دم واجب ہوتا ہے اس کو خراب کرنے اور اس کی مخالفت کی وجہ سے قارن پر دو مختلف حرمتوں کی وجہ سے دو کفارے واجب ہوں گے۔ اور ہر وہ حرمت جس کو صرف حج یا صرف عمرہ حرام نہیں کرتا اس کی مخالفت کی وجہ سے مفرد یا معتمر پر کوئی جرمانہ لازم نہیں ہوتا ہے مگر حج وعمرہ کو جمع کرنا اس کو حرام کررہا ہے تو اس کی مخالفت کی وجہ سے جمع بین الحج والعمرہ کرنے والے قارن پر صرف ایک جرمانہ اور ایک دم لازم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جمع کا سبب ایک سبب ہے اس لیے جرمانہ بھی ایک ہی ہونا چاہیے اور حلق کو ذبح پر مقدم کرنے میں مفرد بالحج پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوتا ہے اس وجہ سے قارن پر صرف ایک جرمانہ لازم ہوسکتا ہے۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے۔
اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔
حاصل کلام : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے ابوحنیفہ (رح) کے قول کو پہلے ذکر کیا اور دلائل میں اپنے سابقہ طرز سے امام صاحب کے مسلک کی ترجیح کے لیے آخر میں لا کر اس کو راجح قرار دیا۔

3998

۳۹۹۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ أَخْبَرَہٗ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی (عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ابْنُ أَبِیْ بَکْرٍ‘ قَالَ : أَمَرَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أُرْدِفَ عَائِشَۃَ إِلَی التَّنْعِیْمِ فَأَعْمَرَہَا) .
٣٩٩٨: عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) نے بتلایا کہ مجھے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں عائشہ (رض) کو پیچھے بٹھا کر تنعیم کی طرف لے جاؤں اور ان کو وہاں سے عمرہ کراؤں۔
مکی کو عمرہ کا احرام باندھنا ہو تو بالاتفاق اس کا حل میں جانا لازم ہے۔ البتہ مقام میں اختلاف ہے۔
نمبر 1: عمرو بن دینار اور بعض فقہاء مکی کے لیے تنعیم سے احرام کو لازم قرار دیتے ہیں کسی اور جگہ سے ممنوع ہے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء اور محدثین حل کے کسی بھی مقام سے احرام کو جائز قرار دیتے ہیں اس میں کسی قسم کی کراہت بھی نہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : مکی کو احرام عمرہ کے لیے صرف تنعیم سے احرام باندھنا ضروری ہے اور کسی مقام سے مکروہ ہوگا جیسا کہ آفاقی کو بلا احرام میقات سے تجاوز درست نہیں ہے۔

3999

۳۹۹۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَیْثَمٍ‘ عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَاہِکٍ‘ عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ أَرْدِفْ أُخْتَک فَأَعْمِرْہَا مِنَ التَّنْعِیْمِ‘ فَإِذَا ہَبَطْتُ بِہَا مِنَ الْأَکَمَۃِ‘ فَمُرْہَا فَلْتُحْرِمْ‘ فَإِنَّہَا عُمْرَۃٍ مُتَقَبَّلَۃٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْعُمْرَۃَ لِمَنْ کَانَ بِمَکَّۃَ‘ لَا وَقْتَ لَہَا غَیْرُ التَّنْعِیْمِ‘ وَجَعَلُوْا التَّنْعِیْمَ خَاصَّۃً‘ وَقْتًا لَعُمْرَۃِ أَہْلِ مَکَّۃَ‘ وَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لَہُمْ أَنْ یُجَاوِزُوْہُ‘ کَمَا لَا یَنْبَغِی لِغَیْرِہِمْ أَنْ یُجَاوِزُوْا مِیْقَاتًا‘ مِمَّا وَقَّتَہُ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَہُوَ یُرِیْدُ الْاِحْرَامَ إِلَّا مُحْرِمًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : وَقْتُ أَہْلِ مَکَّۃَ الَّذِیْ یُحْرِمُوْنَ مِنْہُ بِالْعُمْرَۃِ‘ الْحِلُّ‘ فَمِنْ أَیِّ الْحِلِّ أَحْرَمُوْا بِہَا أَجُزْأَہُمْ ذٰلِکَ‘ وَالتَّنْعِیْمُ وَغَیْرُہُ مِنَ الْحِلِّ - عِنْدَہُمْ - فِیْ ذٰلِکَ‘ سَوَاء ٌ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصَدَ إِلَی التَّنْعِیْمِ فِیْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ کَانَ أَقْرَبَ الْحِلِّ مِنْہَا‘ لَا لِأَنَّ غَیْرَہٗ مِنَ الْحِلِّ لَیْسَ ہُوَ فِیْ ذٰلِکَ‘ کَہُوَ .وَیُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِہِ التَّوْقِیْتَ لِأَہْلِ مَکَّۃَ فِی الْعُمْرَۃِ وَأَنْ لَا یُجَاوِزُوْہُ لَہَا إِلٰی غَیْرِہٖ۔ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٩٩٩: حفصہ بنت عبدالرحمن نے اپنے والد سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو فرمایا تم اپنی بہن کو پیچھے سوار کرو اور تنعیم سے عمرہ کراؤ۔ جب تم ان کے ساتھ ٹیلوں سے اتر جاؤ تو ان کو حکم دو کہ وہ احرام باندھ لے یہ مقبول عمرہ ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے اس بات کو اختیار کیا کہ مکی کے لیے تنعیم کے علاوہ میقات نہیں مکہ والوں کے لیے تنعیم ہی میقات ہے۔ وہ لوگ جو احرام کا ارادہ رکھتے ہوں ان کو اس مقام سے بلا احرام گزرنا اسی طرح جائز نہیں جس طرح دیگر مواقیت سے بلا احرام گزرنے درست نہیں مگر دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اہل مکہ کی میقات احرام کے لیے حل ہے۔ حرم کے باہر جس جگہ سے بھی احرام باندھے اس کے لیے کافی ہے اس سلسلہ میں تنعیم اور دیگر مقامات برابر ہیں۔ ان کے ہاں اس کی دلیل یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تنعیم کا نام قریب ہونے کی وجہ سے لیا اس کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ دیگر مقامات اس کی طرح نہیں نمبر ٢ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آپ نے اہل مکہ اس میقات بنانے کا ارادہ فرمایا ہو تاکہ وہ اللہ سے دوسری جگہوں کی طرف تجاوز نہ کریں پس اس میں غور کیا تو یزید بن سنان کی روایت سامنے آئی۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٨٠‘ دارمی فی المناسک باب ٤١‘ مسند احمد ١؍١٩٨۔
حاصل روایات : ان دونوں روایات میں عمرہ کے لیے تنعیم کا حکم فرمایا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مکی کو تنعیم سے عمرہ کرنا لازم ہے اور کسی جگہ سے اس کو عمرہ کرنا درست نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف :
مکی کو حل کے کسی بھی مقام سے عمرہ درست ہے اس میں کسی قسم کی کراہت لازم نہیں آتی۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
تنعیم کا نام اس وقت اس لیے لیا گیا کیونکہ قریب ترین حل یہی ہے اس وجہ سے نہیں کہ دوسرے کسی حل سے عمرہ جائز نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مکہ والوں کے لیے یہ مقرر کرنا ہو کہ اس سے آگے وہ احرام کے لیے اور کسی مقام کی طرف تجاوز نہ کریں اب ان دونوں باتوں کو روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

4000

۴۰۰۰ : فَإِذَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ‘ عَنْ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَرِفٍ‘ وَأَنَا أَبْکِیْ فَقَالَ مَا ذَاکَ ؟ قُلْتُ : حِضْت قَالَ فَلاَ تَبْکِیْ، اِصْنَعِیْ مَا یَصْنَعُ الْحَاجُّ .فَقَدِمْنَا مَکَّۃَ‘ ثُمَّ أَتَیْنَا مِنًی ثُمَّ غَدَوْنَا إِلٰی عَرَفَۃَ‘ ثُمَّ رَمَیْنَا الْجَمْرَۃَ تِلْکَ الْأَیَّامَ‘ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ النَّفْرِ ارْتَحَلَ فَنَزَلَ الْحَصْبَۃَ .قَالَتْ : وَاللّٰہِ مَا نَزَلَہَا إِلَّا مَنْ أَجْلَی‘ فَأَمَرَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ‘ فَقَالَ احْمِلْ أُخْتَک فَأَخْرِجْہَا مِنَ الْحَرَمِ .قَالَتْ‘ وَاللّٰہِ مَا ذَکَرَ الْجِعْرَانَۃَ‘ وَلَا التَّنْعِیْمَ فَلْتُہْلِلْ بِعُمْرَۃٍ فَکَانَ أَدْنَانَا مِنَ الْحَرَمِ‘ التَّنْعِیْمَ‘ فَأَہْلَلْتُ بِعُمْرَۃٍ‘ فَطُفْنَا بِالْبَیْتِ‘ وَسَعَیْنَا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ ثُمَّ أَتَیْنَاہُ‘ فَارْتَحَلَ .فَأَخْبَرْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقْصِدْ لَمَّا أَرَادَ أَنْ یُعَمِّرَہَا إِلَّا إِلَی الْحِلِّ‘ لَا إِلٰی مَوْضِعٍ مِنْہُ بِعَیْنِہٖ خَاصًّا)، وَأَنَّہٗ إِنَّمَا قَصَدَ بِہَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ التَّنْعِیْمَ‘ لِأَنَّہٗ کَانَ أَقْرَبَ الْمَحَلِّ إِلَیْہِمْ‘ لَا لِمَعْنًی فِیْہِ یَبِیْنُ بِہٖ مِنْ سَائِرِ الْحِلِّ غَیْرُہٗ۔ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ وَقْتَ أَہْلِ مَکَّۃَ لِعُمْرَتِہِمْ‘ ہُوَ الْحِلُّ‘ وَأَنْ التَّنْعِیْمَ فِیْ ذٰلِکَ وَغَیْرَہٗ سَوَاء ٌ‘ وَھٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٤٠٠٠: ابو ملیکہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جبکہ مقام سرف میں ‘ میں رو رہی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے کہا حیض آگیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مت روؤ۔ تم وہ تمام اعمال کرو جو حاجی کرتا ہے چنانچہ ہم مکہ میں پہنچے پھر منیٰ میں آئے۔ پھر صبح عرفات کی طرف روانہ ہوئے پھر ہم نے جمرہ کی ان ایام میں رمی کی جب روانگی کا دن آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وادی محصب میں نزول فرمایا عائشہ (رض) کہتی ہیں اس مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری وجہ سے اترے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو حکم دیا اپنی بہن کو سواری پر حرم سے باہر لے جاؤ۔ اللہ کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعرانہ کا ذکر نہیں فرمایا اور نہ تنعیم کا۔ اور یہ عمرہ کا احرام باندھ لے۔ مقام تنعیم حرم کے سب سے قریب تھا پس میں نے عمرہ کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی کی پھر ہم آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا۔ تو حضرت صدیقہ (رض) نے بتلایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو عمرہ کرانے کا ارادہ فرمایا تو فقط حل کا ارادہ فرمایا کسی مقام معین کا قصد نہیں فرمایا ۔ حضرت عبد الرحمن (رض) نے تنعیم کا قصد کیا کہ وہ حل میں سب سے قریب ترین جگہ ہے۔ اس بناء پر نہیں کہ وہ کسی بناء پر دوسرے مقامات سے ممتاز ہے۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ مکی کے لیے عمرہ کی میقات حل ہے اور اس سلسلہ میں تنعیم اور دیگر مقامات میں کچھ فرق نہیں اور یہ تمام امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : بخاری فی الحیض باب ١‘ ٧‘ والحج باب ٣٣‘ والعمرہ باب ٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢٣‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٨٢‘ والحیض باب ١‘ والحج باب ٥١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٣٦‘ مسند احمد ٦‘ ٢١٩؍٢٤٥‘ ٢٧٣۔
حاصل روایت : اس روایت میں عائشہ (رض) نے بتلایا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کے لیے کسی معینہ جگہ کا تذکرہ نہیں فرمایا بس حل کا ارادہ فرمایا عبدالرحمن مجھے تنعیم لائے کیونکہ یہ جگہ حل میں حرم سے سب سے زیادہ قریب ہے یہ مطلب نہیں کہ عمرے کے لیے تنعیم کی خصوصیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہل مکہ کا میقات احرام حل ہے۔ اس میں تنعیم یا دیگر مقامات حل برابر ہیں۔
یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا مؤقف ہے۔

4001

۴۰۰۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ یَزِیْدَ‘ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ‘ عَنْ (أُمِّ کُرْزٍ قَالَتْ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ أَسْأَلُہٗ عَنْ لُحُوْمِ الْہَدْیِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْہَدْیَ اِذَا صُدَّ عَنِ الْحَرَمِ‘ نُحِرَ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَقَالُوْا : لَمَّا (نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْہَدْیَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ اِذْ صُدَّ عَنِ الْحَرَمِ) ، دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ لِمَنْ مُنِعَ مِنْ إِدْخَالِ ہَدْیِہِ الْحَرَمَ أَنْ یَذْبَحَہُ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ نَحْرُ الْہَدْیِ إِلَّا فِی الْحَرَمِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (ہَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَۃِ) فَکَانَ الْہَدْیُ قَدْ جَعَلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَا بَلَغَ الْکَعْبَۃَ فَہُوَ کَالصِّیَامِ الَّذِیْ جَعَلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مُتَتَابِعًا فِیْ کَفَّارَۃِ الظِّہَارِ‘ وَکَفَّارَۃِ الْقَتْلِ‘ فَلاَ یَجُوْزُ غَیْرَ مُتَتَابِعٍ‘ وَإِنْ کَانَ الَّذِی وَجَبَ عَلَیْہِ غَیْرُ مُنْطَبِقِ الْاِتْیَانِ بِہِ مُتَتَابِعًا‘ فَلاَ تُبِیْحُہُ الضَّرُوْرَۃُ أَنْ یَصُوْمَہُ مُتَفَرِّقًا .فَکَذٰلِکَ الْہَدْیُ الْمَوْصُوْفُ بِبُلُوْغِ الْکَعْبَۃِ‘ لَا یُجْزِئُ الَّذِیْ ھُوَ عَلَیْہِ کَذٰلِکَ‘ وَإِنْ صُدَّ عَنْ بُلُوْغِ الْکَعْبَۃِ لِلضَّرُوْرَۃِ‘ أَنْ یَذْبَحَہُ فِیْمَا سِوٰی ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ نَحْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ الْہَدْیِ الَّذِیْ نَحَرَہٗ بِالْحُدَیْبِیَۃِ‘ لَمَّا صُدَّ عَنِ الْحَرَمِ‘ وَتَصَدَّقَ بِلَحْمِہٖ بِقَدِیْدٍ أَنَّ قَوْمًا زَعَمُوْا أَنَّ نَحْرَہُ إِیَّاہُ کَانَ فِی الْحَرَمِ .
دَم پانچ قسم کے ہوتے ہیں : ! کسی زمانہ اور مکان سے خاص نہیں مثلاً " دم نذر ‘ وہ دم جو زمانہ کے ساتھ خاص ہو مثلاً قربانی کا دم ‘ #وہ دم جو مکان و زمان دونوں سے خاص ہے مثلاً دم تمتع و قران ‘ $وہ دم جو مکان سے خاص ہو دم جنایات ‘ %بعض کے ہاں مکان سے خاص بعض کے ہاں نہیں۔ دم احصار کے متعلق ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے ہاں جہاں احصار ہو وہیں ذبح کرسکتے ہیں۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ ‘ حسن بصری ‘ عطاء رحمہم اللہ کے ہاں حدود حرم میں لے جا کر ذبح کرنا ضروری ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف : دم احصار کو حدود حرم میں داخل کر کے ذبح کی ضرورت نہیں جہاں احصار ہو وہیں ذبح کرسکتے ہیں دلیل یہ روایات ہیں۔
٤٠٠١: سباع بن ثابت نے ام کرز سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حدیبیہ میں حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ہدایا کے گوشت کا حکم کیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ہدی روک لیے جانے کے بعد حرم سے باہر ذبح کریں گے۔ انھوں نے مذکورۃ الصدر روایت کو مستدل بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ہدایا کو حدیبیہ میں نحر کیا تو یہ اس بات کی دلالت ہے کہ جس کو روکا جائے وہ ہدی کو غیر حرم میں ہی ذبح کردے ۔ مگر دیگر جماعت علماء نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ ہدایا کو حرم کی حدود میں ہی ذبح کیا جاسکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ھدیا بالغ الکعبہ کہ وہ ہدی کعبہ تک پہنچنے والی ہو ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ھدی فرمایا جو کعبہ تک پہنچتی ہو وہ ان دونوں کی طرح ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کفارہ قتل و ظہار میں تسلسل کے ساتھ رکھنے کا حکم فرمایا ہے اگر ان کو بلا تسلسل رکھا جائے تو جائز نہ ہوں گے ۔ اگر وہ شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے ضرورت کے طور پر متفرق رکھنا درست نہیں۔ اسی طرح وہ ہدی جو بیت اللہ تک پہنچنے کے ساتھ متصف ہے اگر اس کو روک دیا جائے تو جس شخص پر وہ ہدی لازم ہوئی وہ ضرورت کے طور پر بھی اسے دوسری جگہ ذبح نہیں کرسکتا۔ پس وہ ہدی جو روک لی گئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حدیبیہ میں ذبح کر قدید کے مقام پر اس کا گوشت صدقہ کیا اس کے متعلق قول اول کے قائلین کے خلاف دلیل یہ ہے کہ ایک جماعت کے خیال میں آپ نے اسے حدو دحرم میں ذبح کیا تھا ۔ روایت ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : نسائی فی العقبہ باب ٤۔
حاصل روایت : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہدایا کو حدیبیہ میں ذبح کردیا تھا جبکہ آپ کو مشرکین نے حرم میں داخلہ سے روک دیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ ہدی کو احصار کے بعد وہیں ذبح کردینا کافی ہے حرم کی حدود میں داخل کرنا ضروری نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل و جوابات :
دم احصار کا حرم میں داخل کر کے ذبح کرنا ضروری ہے اس کی دلیل یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” ہدیًا بالغ الکعبۃ “ (المائدہ : ٩٥) اللہ تعالیٰ نے ہدی کو مسلسل روزوں کی طرح قرار دیا ہے جو کہ کفارہ ظہار میں رکھے جائیں اسی طرح کفارہ قتل کے روزے۔ ان میں تتابع شرط ہے۔ بلاتسلسل وہ روزے جائز اور مشروع نہیں خواہ وہ کسی ایسے شخص پر کفارہ لازم ہوا ہو جو پے در پے روزے کی طاقت نہیں رکھتا اس کو عذر اور ضرورت کی وجہ سے متفرق روزے رکھنے جائز نہیں ہیں تو ہدی احصار کا حکم بھی یہی ہے کہ اس میں احصار کی وجہ حدود حرم سے باہر ذبح کرنا جائز نہ ہوگا بلکہ حدود حرم میں داخل کرنا ضروری ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : ” کان من الحجۃ علی اہل المقالۃ “ سے بیان کیا یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدایا کو وہیں ذبح کر کے ان کا گوشت مقام قدید کے لوگوں کو صدقہ کردیا تھا کیونکہ اس کے بالمقابل حضرت ناجیہ بن جندب اسلمی (رض) کی روایت موجود ہے جس سے ان کا حرم کے اندر لے جا کر ذبح کرنا ثابت ہوتا ہے۔ روایت یہ ہے۔

4002

۴۰۰۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مِخْوَلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مِخْوَلِ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنْ إِسْرَائِیْلَ‘ عَنْ مَجْزَأَۃَ بْنِ زَاہِرٍ‘ عَنْ (نَاجِیَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ الْأَسْلَمِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ صُدَّ الْہَدْیُ‘ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ابْعَثْ مَعِیْ بِالْہَدْیِ فَلْأَنْحَرْہُ فِی الْحَرَمِ .قَالَ وَکَیْفَ تَأْخُذُ بِہٖ؟ قُلْت آخُذُ بِہٖ فِیْ أَوْدِیَۃٍ‘ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلَیَّ فِیْہَا فَبَعَثَہُ مَعِیْ حَتّٰی نَحَرْتُہٗ فِی الْحَرَمِ) .فَقَدْ دَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ ہَدْیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ‘ نُحِرَ فِی الْحَرَمِ. وَقَالَ آخَرُوْنَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ‘ وَہُوَ یَقْدِرُ عَلٰی دُخُوْلِ الْحَرَمِ. قَالُوْا : وَلَمْ یَکُنْ صُدَّ إِلَّا عَنِ الْبَیْتِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٤٠٠٢ مجزاۃ بن زاہر بیان کرتے ہیں کہ ناجیہ بن جندب اسلمی (رض) نے (اپنے والد سے) روایت نقل کی ہے کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کے ہدایا کو روک لیا گیا تھا میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ ہدایا روانہ کردیں میں ان کو حرم میں ضرور نحر کروں گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم یہ کس طرح کرو گے میں نے کہا میں ان کو ایسی وادیوں میں سے لے جاؤں گا جن میں وہ مجھ پر قابو نہ پاسکیں گے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدایا ان کے ساتھ بھیج دیئے انھوں نے لے جا کر حرم میں ذبح کردیئے۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھدی حرم میں ذبح کی گئی ۔ بعض دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ آپ حدیبیہ میں تھے اور حرم میں داخلے کی قدرت تھی اور آپ کو رکاوٹ تو کعبہ اللہ سے تھی ۔ ان کا استدلال اس طرح ہے ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایت : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہدایا کو حرم میں لے جا کر ذبح کرنا ضروری ہے ورنہ ناجیہ بن جندب کے لے جانے کی چنداں ضرورت نہ تھی معلوم ہوگیا کہ آپ کے ہدایا حرم میں ذبح کئے گئے۔
(روایت میں عن ابیہ کا لفظ یا مجزاۃ کے بعد ہے یا وہم راوی سے زائد لکھا گیا ہے۔ ناجیہ خود صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں)
دوسرا جواب : جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ میں حدود حرم سے متصل تھے اور آپ کو تو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا حدود حرم سے نہیں جیسا کہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے ملاحظہ ہو۔

4003

۴۰۰۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ بِشْرٍ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَائِدَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃ‘ عَنِ الْمِسْوَرِ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ‘ خِبَاؤُہٗ فِی الْحِلِّ‘ وَمُصَلَّاہُ فِی الْحَرَمِ) .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یَکُنْ صُدَّ عَنِ الْحَرَمِ‘ وَأَنَّہٗ کَانَ یَصِلُ إِلٰی بَعْضِہٖ۔ وَلَا یَجُوْزُ فِیْ قَوْلِ أَحَدٍ مِنَ الْعُلَمَائِ ‘ لِمَنْ قَدَرَ عَلٰی دُخُوْلِ شَیْئٍ مِنَ الْحَرَمِ‘ أَنْ یَنْحَرَ ہَدْیَہٗ دُوْنَ الْحَرَمِ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِالْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یَصِلُ إِلٰی بَعْضِ الْحَرَمِ اسْتَحَالَ أَنْ یَّکُوْنَ نَحْرُ الْہَدْیِ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ لِأَنَّ الَّذِیْ أَبَاحَ نَحْرَ الْہَدْیِ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ إِنَّمَا یُبِیْحُہُ فِیْ حَالِ الصَّدِّ‘ عَنِ الْحَرَمِ فِیْ حَالِ الْقُدْرَۃِ عَلٰی دُخُوْلِہٖ. فَانْتَفٰی بِمَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْرَ الْہَدْیَ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی. وَقَدْ احْتَجَّ قَوْمٌ فِیْ تَجْوِیْزِ نَحْرِ الْہَدْیِ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ بِمَا
٤٠٠٠٣: عروہ نے مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ میں تھے اور آپ کا خیمہ تو حل میں تھا مگر مصلیٰ نماز حرم کی حدود میں تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم سے نہ روکے گئے تھے کسی بھی عالم نے آج تک نہیں کہا کہ جو شخص حرم میں مطلقاً داخل ہو سکے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی ہدی حرم کے علاوہ نحر کرے۔ مذکورہ بیان سے ثابت ہوا کہ آپ کو حرم سے رکاوٹ نہیں ہوئی تھی ۔ حرم کے کچھ حصہ تک آپ پہنچ چکے تھے اور کسی بھی فقیہ کے ہاں کسی شخص کے لیے حرم سے باہر ھدی کا ذبح کرنا درست نہیں جو حرم کے کسی بھی حصہ میں داخلہ کی قدرت رکھتا ہو۔ جب مذکورہ روایت نے ثابت کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم کے بعض حصے تک پہنچ چکے تھے تو یہ بات ناممکن ہے کہ آپ نے حرم سے باہر قربانی کی ہو۔ کیونکہ حرم سے باہر ھدی کے نحر کا جواز اس صورت میں ہے جب حرم سے رکاوٹ ہو۔ حرم میں داخلہ کی طاقت میسر ہونے کی صورت میں جائز نہیں ۔ پس اس بیان سے اس چیز کی نفی ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم سے باہر ھدی ذبح کی یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے اور بعض حضرات نے غیر محرم میں ھدی کے ذبح پر اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم کے بعض حصہ میں داخل ہوئے تو یہ ناممکن ہے کہ ہدی کو غیر حرم میں ذبح کیا ہو کیونکہ جو لوگ ہدی کو حرم کے علاوہ جگہ میں ذبح کرنا جائز قرار دیتے ہیں وہ تو احصار کی حالت میں جائز کہتے ہیں اور یہاں تو حرم میں دخول کی قدرت تھی بیت اللہ میں داخلہ کی رکاوٹ تھی۔
اس سے وہ بات غلط ثابت ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدی کو غیر حرم میں ذبح کیا تھا۔
یہ ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
ایک اشکال : قد احتج قوم سے ذکر کیا :
بعض لوگوں نے اس روایت کو غیر حرم میں ہدایا کے ذبح پر بطور دلیل پیش کیا ہے۔

4004

۴۰۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ یَعْقُوْبَ بْنِ خَالِدٍ‘ عَنْ أَبِیْ أَسْمَائَ ‘ مَوْلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عُثْمَانَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَاشْتَکَی الْحَسَنُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالسُّقْیَا وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ فَأَصَابَہٗ بِرْسَامٌ فَأَوْمٰی إِلٰی رَأْسِہٖ فَحَلَقَ عَلٰی رَأْسِہٖ وَنَحَرَ عَنْہُ جَزُوْرًا فَأَطْعَمَ أَہْلَ الْمَائِ .
٤٠٠٤: یعقوب بن خالد نے ابو اسماء مولیٰ عبداللہ بن جعفر (رض) سے نقل کیا کہ میں عثمان و علی ] کے ساتھ نکلا حسن (رض) مقام سقیاء میں احرام کی حالت میں بیمار ہوگئے ان کو برسام ہوگئی انھوں نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا تو علی (رض) نے ان کے سر کو مونڈ دیا اور ان کے صدقہ کے طور پر اونٹ ذبح کر کے مقام سقیاء کے لوگوں کو کھلائے۔

4005

۴۰۰۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَلِأَنَّ الْحَسَنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ مُحْرِمًا .فَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّ عَلِیًّا نَحَرَ الْجَزُوْرَ‘ دُوْنَ الْحَرَمِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّہُمْ لَا یُبِیْحُوْنَ لِمَنْ کَانَ غَیْرَ مَمْنُوعٍ مِنَ الْحَرَمِ‘ أَنْ یَذْبَحَ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ وَإِنَّمَا یَخْتَلِفُوْنَ اِذَا کَانَ مَمْنُوعًا عَنْہُ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا‘ عَلٰی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ لَمَّا نَحَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ‘ وَہُوَ وَاصِلٌ إِلَی الْحَرَمِ‘ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ أَرَادَ بِہِ الْہَدْیَ‘ وَلٰکِنَّہٗ أَرَادَ بِہٖ مَعْنًی آخَرَ مِنَ الصَّدَقَۃِ عَلٰی أَہْلِ ذٰلِکَ الْمَائِ وَالتَّقَرُّبِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی بِذٰلِکَ‘ مَعَ أَنَّہٗ لَیْسَ فِی الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَرَادَ بِہِ الْہَدْیَ .فَکَمَا یَجُوْزُ لِمَنْ حَمَلَہٗ عَلٰی أَنَّہٗ ہَدْیٌ‘ مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَکَذٰلِکَ یَجُوْزُ لِمَنْ حَمَلَہٗ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ بِہَدْیٍ‘ مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ .وَقَدْ بَدَأْنَا بِالنَّظْرِ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ‘ فَأَغْنَانَا ذٰلِکَ عَنْ إعَادَتِہٖ ہٰہُنَا۔
٤٠٠٥: مالک نے یحییٰ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے البتہ اس میں عثمان (رض) کا ذکر نہیں کیا اور نہ اس بات کا تذکرہ ہے کہ حسن (رض) محرم تھے۔ انھوں نے اس روایت کو اپنی دلیل بنایا ہے کیونکہ اس میں مذکور ہے کہ حضرت علی (رض) نے اونٹ کو ذبح کیا اور وہ علاقہ حرم کا نہ تھا۔ جو اب یہ ہے کہ جس کو حرم میں پہنچانے کی ممانعت نہ ہو وہ اس کے لیے غیر حرم میں ذبیحہ کو مباح قرار نہ دیتے تھے ۔ جب حرم میں پہنچنا اس کے لیے منع ہو تو اس میں ان کا اختلاف تھا ۔ مذکورہ بات سے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت علی (رض) نے جب اس اونٹ کو غیر حرم میں ذبح کردیا جیسا کہ روایت میں ہے حالانکہ وہ حرم میں پہنچ سکتے تھے ۔ تو معلوم ہوا ان کا مقصود اس سے ھدی نہ تھا ۔ بلکہ وہ صدقہ کی قسم تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں کہیں نہیں کہ اس سے ھدی مراد تھی ۔ جس طرح اس سے ھدی مراد لینا درست ہے جنہوں نے ھدی مراد لی اسی طرح اس کا اس پر حمل کرنا بھی درست ہے کہ وہ ہدی نہ تھی اس سلسلہ میں شروع باب میں بیان کردہ نظر اعادہ سے ہمیں بےنیاز کرنے والی ہے۔
حاصل روایت : ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ علی (رض) نے اونٹ ذبح کیا اور حرم کے علاوہ ذبح کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دم احصار کا حرم میں پہنچانا ضروری نہیں۔
نوٹ : تمہارے ہاں جب حرم تک پہنچا جاسکتا ہو تو حرم میں ذبح کرنا چاہیے اور جب ممکن نہ ہو تو پھر تم اختلاف کرتے ہو اور یہاں تو پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی احصار نہ تھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی (رض) نے جب غیر حرم میں ذبح کردیا حالانکہ وہ حرم تک پہنچ سکتے تھے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہدی نہ تھی انھوں نے صدقہ کیا تھا تاکہ وہاں کے غرباء کھائیں اور اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو صدقہ بلاء کو دفع کرتا ہے۔ اس روایت میں تو یہ کہیں نہیں ہے کہ وہ مذبوحہ جانور ہدی تھی اگر تم ہدی پر محمول کرو گے تو ہم اس کو غیر ہدی پر محمول کریں گے۔ یہاں نظری دلیل کی ضرورت نہیں۔ جو پہلے ذکر کیا وہ کفایت کرنے والا ہے۔
اس روایت کو سنن بیہقی نے اس طرح نقل کیا کہ عبداللہ بن جعفر (رض) حضرت عثمان (رض) کے قافلہ میں حج کو جا رہے تھے حضرت حسین (رض) بھی ساتھ تھے وہ راستہ میں بیمار ہوئے ان کو غشی اور دوران سر کی تکلیف ہوئی تو حضرت عثمان (رض) نے ان کو مقام عرج تک پہنچایا وہاں بیماری سے شدت اختیار کی عبداللہ تیمارداری کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور مدینہ منورہ اطلاع بھجوائی حضرت علی (رض) اور اسماء بنت عمیس (رض) وہاں پہنچے حضرت عثمان (رض) حج کے لیے مکہ روانہ ہوگئے حضرت علی (رض) نے پہنچ کر ایک اونٹ ذبح کر کے حضرت حسین (رض) کا سر منڈوا دیا۔
(سنن بیہقی)

4006

۴۰۰۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ قَالَ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَلَامٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الْمُتَمَتِّعِ اِذَا لَمْ یَجِدَ الْہَدْیَ‘ وَلَمْ یَصُمْ فِی الْعَشْرِ أَنَّہٗ یَصُوْمُ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ) .
٤٠٠٦: سالم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر متمتع ہدی نہ پائے اور عشرہ ذی الحجہ میں روزے بھی نہ رکھے تو ایام تشریق میں روزے رکھ لے۔
حاصل روایت : جس کو دم شکر میسر نہ ہو اور اس نے عشرہ ذی الحجہ میں تین روزے بھی نہ رکھے ہوں تو ایام تشریق میں وہ روزے رکھ سکتا ہے یا اس پر دم ہی ضروری ہوگا۔ امام مالک و احمد و شافعی رحمہم اللہ کے ہاں اگر دم شکر نہ پانے کی وجہ سے عشرہ ذی الحجہ میں تین روزے نہیں رکھے وہ امیر غریب ایام تشریق میں روزے رکھ سکتا ہے اور اگر وہ بھی گزر گئے تو امیر پر دم لازم ہوگا اور غریب بعد میں بھی رکھ سکتا ہے۔
نمبر 2: دم شکر کے روزے اگر عشرہ ذی الحجہ میں نہیں رکھے تو ایام تشریق میں نہیں رکھ سکتا تو حلق سے پہلے قربانی لازم اگر وہ بھی نہیں کی تو اس پر دو دم لازم ہوں گے ایک دم جرمانہ دوسرا دم شکرانہ۔ یہ ائمہ احناف کا قول ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : قارن و متمتع نے عشرہ ذی الحجہ میں تین روزے دم سے عاجز ہونے کی وجہ سے نہیں رکھے تو ایام تشریق میں رکھے اور اگر اس وقت بھی نہیں رکھے تو اگر امیر ہے تو دم لازم ہوگا اور غریب بعد میں رکھ سکتا ہے۔ دلیل یہ ہے فذہب قوم سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
لغات : ایام تشریق۔ گیارہ ‘ بارہ ‘ تیرہ ذی الحجہ کو ایام تشریق کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانیوں کا گوشت دھوپ میں ڈال کر سکھایا جاتا تھا۔

4007

۴۰۰۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ کَامِلٍ فُضَیْلُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْجَحْدَرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسٰی‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَعَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ (ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَا : لَمْ یُرَخِّصْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَوْمِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ إِلَّا لِمُحْصَرٍ أَوْ مُتَمَتِّعٍ) .
٤٠٠٧: سالم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایام تشریق کے دنوں میں صرف محصر اور متمتع کو روزہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

4008

۴۰۰۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ السَّقَطِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأُوَیْسِیُّ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَعَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہُمَا کَانَا یُرَخِّصَانِ لِلْمُتَمَتِّعِ اِذَا لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا‘ وَلَمْ یَکُنْ صَامَ قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ أَنْ یَصُوْمَ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا‘ وَأَبَاحُوْا صِیَامَ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ لِلْمُتَمَتِّعِ‘ وَالْقَارِنِ‘ وَالْمُحْصَرِ اِذَا لَمْ یَجِدُوْا ہَدْیًا‘ وَلَمْ یَکُوْنُوْا صَامُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ‘ صَامُوْا ھٰذِہِ الْأَیَّامَ‘ وَمَنَعُوْا مِنْہَا مَنْ سِوَاہُمْ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَیْسَ لِہٰؤُلَآئِ وَلَا لِغَیْرِہِمْ مِنَ النَّاسِ أَنْ یَصُوْمُوْا ھٰذِہِ الْأَیَّامَ عَنْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ وَلَا عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْکَفَّارَاتِ‘ وَلَا فِیْ تَطَوُّعٍ لِنَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ .وَلٰـکِنْ عَلَی الْمُتَمَتِّعِ وَالْقَارِنِ الْہَدْیُ لِمُتْعَتِہِمَا وَقِرَانِہِمَا‘ وَہَدْیٌ آخَرُ‘ لِأَنَّہُمَا حَلَّا بِغَیْرِ ہَدْیٍ وَلَا صَوْمٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٤٠٠٨: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے اور سالم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ دو عائشہ صدیقہ (رض) اور ابن عمر (رض) اس متمتع کو ایام تشریق میں روزے کی اجازت دیتے تھے جو ہدی نہ رکھتا ہو اور پہلے دس دنوں میں روزے نہ رکھ سکا ہو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء نے ان روایات کو اختیار کرتے ہوئے متمتع ‘ قارن اور محصر کے لیے ایام تشریق کے روزوں کو جائز قرار دیا ۔ جب کہ ان کے پاس ھدی نہ ہو اور انھوں نے حج سے پہلے والا روزہ بھی نہ رکھا ہو۔ ان کے علاوہ لوگوں کو ان دنوں میں روزے کی ممانعت ہے۔ ان کا استدلال ان روایات سے ہے۔ مگر دیگر حضرات نے ان سے مخالفت کرتے ہوئے فرمایا ۔ ان لوگوں اور دیگرلوگوں کو ایام تشریق میں کفارہ یا نفلی یا قضاء کسی قسم کا روزہ رکھنا درست نہیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ البتہ متمتع وقارن پر دو ‘ دو قربانیاں لازم ہوں گی ایک قرآن و تمتع کی وجہ سے ١ وروسری ہدی اور روزے کے بغیر احرام سے باہر آنے کی وجہ سے واجب ہوگی ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات سے استدلال کیا ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
حاصل روایت : متمتع اگر دم شکر نہ رکھتا ہو اور عشرہ ذی الحجہ میں روزے بھی نہ رکھے ہوں تو ایام تشریق میں اس کو تین دن روزے کی اجازت ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل و جواب : جس متمتع کو دم شکر کی توفیق نہ ہو اور وہ ایام عشرہ میں تین روزے بھی نہیں رکھ سکا تو اب وہ ایام تشریق میں روزے نہیں رکھ سکتا بلکہ حلق سے پہلے اس پر دم لازم ہے اگر اس نے حلق کروا لیا تو پھر دو دم لازم ہوجائیں گے۔ ایام تشریق میں کفارات و تطوع ہر قسم کے روزے ممنوع ہیں۔ دلائل یہ ہیں۔

4009

۴۰۰۹ : بِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ ثَابِتٍ‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ بِشْرِ بْنِ سُحَیْمٍ الْأَسْلَمِیِّ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (خَرَجَ مُنَادِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ فَقَالَ إِنَّ ھٰذِہِ الْأَیَّامَ‘ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ) .
٤٠٠٩: بشر بن سحیم اسلمی نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منادی ایام تشریق میں نکل کر یہ اعلان کرنے لگا کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

4010

۴۰۱۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حُمَیْدٍ الْمَدَنِیُّ قَالَ : ثَنَا (إِسْمَاعِیْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِیَ أَیَّامَ مِنًی‘ أَنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ‘ فَلاَ صَوْمَ فِیْہَا) یَعْنِیْ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ .
٤٠١٠: اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنے والد ‘ اپنے دادا سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا کہ منیٰ کے دنوں میں ‘ میں اعلان کر دوں کہ یہ کھانے پینے اور جماع کے دن ہیں ان میں روزہ نہیں ہے یعنی ایام تشریق میں۔

4011

۴۰۱۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ‘ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ وَذِکْرٍ لِلّٰہِ تَعَالٰی عَزَّ وَجَلَّ) .
٤٠١١: عطاء نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے دن ہیں۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٤٣٢‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ١٠‘ ترمذی فی الصوم باب ٥٨‘ نسائی فی الحج باب ١٩٣‘ والفرع والعتیرۃ باب ٢‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٣٥‘ دارمی فی الصوم باب ٤٧؍٤٨‘ مالک فی الحج ١٣٥‘ مسند احمد ٢؍٢٢٩‘ ٣؍٤٥٢‘ ٤٨‘ ٣٣٥‘ ٥‘ ٧٥‘ ٧٦۔

4012

۴۰۱۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنِ ابْنِ الْہَادِ‘ عَنْ (أَبِیْ مُرَّۃَ‘ مَوْلٰی عَقِیْلِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ دَخَلَ ہُوَ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ‘ عَلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ‘ وَذٰلِکَ الْغَدَ أَوْ بَعْدَ الْغَدِ مِنْ یَوْمِ الْأَضْحٰی‘ فَقَرَّبَ إِلَیْہِمْ عَمْرٌو‘ طَعَامًا .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ إِنِّیْ صَائِمٌ فَقَالَ لَہٗ عَمْرٌو أَفْطِرْ فَإِنَّ ھٰذِہِ الْأَیَّامَ‘ الَّتِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا بِفِطْرِہَا ، أَوْ یَنْہَانَا عَنْ صِیَامِہَا فَأَفْطَرَ عَبْدُ اللّٰہِ‘ فَأَکَلَ‘ وَأَکَلْتُ) .
٤٠١٢: ابو مرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) عمرو بن عاص کے پاس داخل ہوئے یہ یوم نحر کے بعد دوسرا یا تیسرا دن تھا تو عمرو (رض) نے ان کے سامنے کھانا رکھا۔ عبداللہ کہنے لگے میں روزہ دار ہوں تو عمرو کہنے لگے افطار کرو یہ وہ دن ہیں جن کے متعلق روزے کی ممانعت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے یا افطار کا حکم فرمایا ہے تو عبداللہ نے افطار کرلیا اور انھوں نے کھایا اور میں نے بھی کھایا۔

4013

۴۰۱۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرٍ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ دَخَلَ عَلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ‘ فَدَعَاہُ إِلَی الْغَدَائِ فَقَالَ (إِنِّیْ صَائِمٌ) ثُمَّ الثَّانِیَۃُ کَذٰلِکَ‘ ثُمَّ الثَّالِثَۃُ .فَقَالَ : لَا‘ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ سَمِعْتُہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : فَإِنِّیْ قَدْ سَمِعْتُہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ یَعْنِی النَّہْیَ‘ عَنِ الصِّیَامِ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ .
٤٠١٣: سعید بن کثیر نے بتلایا کہ جعفر بن مطلب نے مجھے بتلایا کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) عمرو بن العاص (رض) کے ہاں گئے انھوں نے ان کو صبح کے کھانے کی دعوت دی تو عبداللہ کہنے لگے۔ میں روزہ سے ہوں پھر دوسری مرتبہ کہا تو انھوں نے پھر وہی جواب دیا پھر تیسری مرتبہ کہا تو پھر انھوں نے وہی جواب دیا تو انھوں نے کہا میں نہیں کھاؤں گا مگر یہ کہ آپ نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو تو عمرو کہنے لگے میں نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ ممانعت فرماتے تھے کہ ان دنوں میں روزہ رکھا جائے۔

4014

۴۰۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُذَافَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُ أَنْ یُنَادِیَ فِیْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ أَنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ) .
٤٠١٤: سالم نے سلیمان بن یسار سے انھوں نے عبداللہ بن حذافہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ایّام تشریق میں اعلان کر دوں کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

4015

۴۰۱۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ حُذَافَۃَ أَنْ یَطُوْفَ فِیْ أَیَّامِ مِنًیْ أَلَا‘ لَا تَصُوْمُوْا ھٰذِہِ الْأَیَّامَ فَإِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ‘ وَذِکْرِ اللّٰہِ) .
٤٠١٥: سعید بن المسیب نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن حذافہ کو حکم دیا کہ وہ ایام منیٰ میں منیٰ میں چکر لگا کر یہ اعلان کرے کہ ان دنوں میں روزہ مت رکھو یہ کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے دن ہیں۔

4016

۴۰۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ أَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ‘ أَیَّامُ أَکْلٍ‘ وَشُرْبٍ‘ وَذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ) .
٤٠١٦: حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایّام تشریق کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کی یاد کے دن ہیں۔

4017

۴۰۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ ہُوَ ابْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ ‘ عَنْ أَبِی الْمَلِیْحِ الْہُذَلِیِّ‘ عَنْ نُبَیْشَۃَ الْہُذَلِیِّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٤٠١٧ : بوالملیح ھذلی نے نبیشہ ہذلی (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4018

۴۰۱۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ عَمْرٌو : وَقَدْ سَمَّاہُ نَافِعٌ فَنَسِیْتُہٗ ‘ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ یُقَالُ لَہٗ بِشْرُ بْنُ سُحَیْمٍ : قُمْ فَنَادِ فِی النَّاسِ : إِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ فِیْ أَیَّامِ مِنًی) .
٤٠١٨: نافع بن جبیر نے ایک صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ عمرو کہتے ہیں کہ نافع نے ان کا نام نافع لیا ہے کہ میں اس کو بھول گیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی غفار کے ایک شخص کو فرمایا جس کا نام بشر بن سحیم تھا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو ۔ یہ کھانے پینے کے دن ہیں یہ ایّام منیٰ میں اعلان کرا یا گیا۔

4019

۴۰۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ بِشْرِ بْنِ سُحَیْمٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٠١٩: نافع بن جبیر نے بشر بن سحیم سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4020

۴۰۲۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ ح .
٤٠٢٠: یزید بن ہارون نے شعبہ سے روایت کی ہے۔

4021

۴۰۲۱ : وَحَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ بِشْرِ بْنِ سُحَیْمٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٠٢١: نافع بن جبیر نے بشر بن سحیم سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4022

۴۰۲۲ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صُبَیْحٍ‘ وَمَرْزُوقٌ‘ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّامِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا یَزِیْدُ الرَّقَاشِیُّ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ الثَّلَاثَۃِ‘ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ) .
٤٠٢٢: یزید الرقاشی نے روایت کی ہے کہ انس بن مالک (رض) نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم نحر کے بعد تین دن ایام تشریق میں روزے کی ممانعت فرمائی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٧٧۔

4023

۴۰۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ صُبَیْحٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ الرَّقَاشِیِّ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہٖ .
٤٠٢٣: یزیدالرقاشی نے انس بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4024

۴۰۲۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ (مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْعَدَوِیِّ قَالَ : بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُؤَذِّنُ فِیْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ بِمِنًیْ لَا یَصُوْمُ مِنْ أَحَدٍ فَإِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ) .
٤٠٢٤: عبدالرحمن بن جبیر نے معمر بن عبداللہ عدوی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے منیٰ میں ایام تشریق میں بھیجا کہ میں اعلان کر دوں ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھے یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢٢٤۔

4025

۴۰۲۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ‘ وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَا : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی النَّضْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ‘ وَقَبِیْصَۃَ بْنَ ذُؤَیْبٍ‘ یُحَدِّثَانِ عَنْ (أُمِّ الْفَضْلِ‘ امْرَأَۃِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَتْ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِنًیْ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ‘ فَسَمِعْت مُنَادِیًا یَقُوْلُ : إِنَّ ھٰذِہِ الْأَیَّامَ أَیَّامُ طُعْمٍ‘ وَشُرْبٍ‘ وَذِکْرِ اللّٰہِ .قَالَتْ : فَأَرْسَلْتُ رَسُوْلًا : مَنَ الرَّجُلُ‘ وَمَنْ أَمَرَہٗ؟ .فَجَائَ نِی الرَّسُوْلُ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّہٗ رَجُلٌ یُقَالُ لَہٗ ابْنُ حُذَافَۃَ‘ یَقُوْلُ : أَمَرَنِیْ بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٤٠٢٥: سلیمان بن یسار اور قبیصہ بن دویب دونوں نے ام الفضل زوجہ عباس (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ میں تھے یہ ایام تشریق کے دن تھے میں نے ایک منادی کو اعلان کرتے سنا یہ کھانے پینے اور ذکراللہ کے دن ہیں ام فضل کہتی ہیں میں نے قاصد بھیج کر پتہ کروایا کہ تم کون ہو اور تمہیں کس نے حکم دیا ہے ؟ قاصد لوٹ کر آیا اور اس نے مجھے بیان کیا کہ میرا نام حذافہ ہے اور مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٩‘ ٢٢٩‘ ٣٨٧۔

4026

۴۰۲۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْمُنْذِرُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَالِدَۃَ الزُّرَقِیِّ عَنْ أُمِّہٖ‘ قَالَتْ : (بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ‘ یُنَادِیْ فِی النَّاسِ لَا تَصُوْمُوْا فِیْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ‘ فَإِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ) .
٤٠٢٦: عمرو بن خالدہ زرقی نے اپنی والدہ سے روایت کی ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) کو ایام تشریق کے دوران بھیجا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں ان دنوں میں روزہ مت رکھو یہ کھانے پینے اور جماع کے دن ہیں۔

4027

۴۰۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حَکِیْمٍ‘ عَنْ (مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ الزُّرَقِیِّ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ أُمِّیْ قَالَتْ : لَکَأَنِّیْ أَنْظُرُ إِلٰی عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی بَغْلَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیْضَائِ ‘ حَتّٰی قَامَ إِلَی شِعْبِ الْأَنْصَارِ وَہُوَ یَقُوْلُ : یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ إِنَّہَا لَیْسَتْ بِأَیَّامِ صَوْمٍ‘ إِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ‘ وَشُرْبٍ‘ وَذِکْرٍ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ)
٤٠٢٧: مسعود بن حکم زرقی کہتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے بیان کیا گویا یہ منظر اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں اعلان کر رہے ہیں اے مسلمانو ! یہ روزے کے دن نہیں بلکہ کھانے پینے اور ذکراللہ کے دن ہیں۔

4028

۴۰۲۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ تَمَّامٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَیْمُوْنُ بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَخْرَمَۃُ بْنُ بُکَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ‘ یَزْعُمُ أَنَّہٗ سَمِعَ (ابْنَ الْحَکَمِ الزُّرَقِیَّ یَقُوْلُ :
٤٠٢٨: سلیمان بن یسار کا خیال یہ ہے کہ اس نے ابن حکم زرقی کو کہتے سنا کہ میرے والد نے بیان کیا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ میں موجود تھے انھوں نے ایک سوار کو بلند آواز سے چیخ چیخ کر یہ اعلان کرتے سنا کوئی آدمی ہرگز ان دنوں روزہ نہ رکھے یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

4029

۴۰۲۹ : حَدَّثَنَا أَبِیْ أَنَّہُمْ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِنًی فَسَمِعُوْا رَاکِبًا وَہُوَ یَصْرُخُ : لَا یَصُوْمَنَّ أَحَدٌ فَإِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ) .
٤٠٢٩: سلیمان بن یسار نے بیان کیا کہ مسعود نے اپنی والدہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4030

۴۰۳۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ یَکْبُرَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ حَدَّثَہٗ أَنْ مَسْعُوْدًا حَدَّثَہٗ عَنْ أُمِّہِ‘ نَحْوَہٗ۔
٤٠٣٠: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے یوسف بن مسعود بن حکم زرقی کو کہتے سنا کہ مجھے میری دادی نے بیان کیا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4031

۴۰۳۱ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرْجِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِہْرِیُّ قَالَ : أَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّہٗ سَمِعَ یُوْسُفَ بْنَ مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ الزُّرَقِیَّ یَقُوْلُ : حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتِیْ‘ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
٤٠٣١: مسعود بن حکم انصاری نے ایک صحابی رسول سے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن حذافہ (رض) کو حکم فرمایا کہ منیٰ کے دنوں میں اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں میں زور زور سے اعلان کر دے۔ خبردار ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھے یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان کو اپنی اونٹنی پر سوار یہ اعلان کرتے سنا۔
حاصل روایت : ان آثار و روایات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ ایام تشریق میں قیام منیٰ کے دوران ہر قسم کے حجاج کو روزے کی ممانعت ہے خواہ وہ متمتع ہوں یا قارن۔ ان میں سے کسی کو مستثنیٰ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی کو ان دنوں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ اشکال۔ فان قال قائل سے ذکر کیا :
ان روایات کو فصل اول کی روایات پر ترجیح کی کیا وجہ ہے ورنہ روایت و استدلال میں تو دونوں برابر ہیں۔
نوٹ :
نمبر 1: روایت اول میں یحییٰ بن سلام راوی ہے جو کہ نہایت درجہ ضعیف ہے وہ اپنے ضعف سے اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوسکتا روایت کو کیا قائم کرے گا ایسے منکر و متروک کی روایت قابل اعتبار نہیں دوسرا محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بھی ضعیف راوی ہے۔
نمبر 2: دوسری روایت حضرت عائشہ (رض) اور ابن عمر (رض) کی ہے اور ان کا اجتہاد ہے۔ فصیام ثلاثہ ایام فی الحج کے عموم سے ایام تشریق مستثنیٰ ہیں ان کو اس کی اطلاع نہیں ہوسکی اور حضرت عائشہ (رض) کی اپنی روایت فریق ثانی کی حمایت میں موجود ہے فلہذا اس سے استدلال درست نہ رہا۔
معانی آثار کے لحاظ سے اس باب کا یہ حکم ہے۔
نظر طحاوی۔ ومن طریق النظر سے بیان کیا :
اس پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ ایام نحر میں کسی قسم کا روزہ جائز نہیں ہے اور قرآن مجید کی آیت فصیام ثلاثۃ ایام فی الحج (الایۃ) میں یوم نحر سے پہلے تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے اور یوم نحر یوم عرفہ سے قبل کے دنوں کی بنسبت ایام تشریق کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہے تو جب یوم نحر عشرہ ذی الحجہ کے قریب تر ہونے کے باوجود اس بات کا حقدار نہیں کہ متمتع یا قارن یا محصر ان میں روزہ رکھے۔ تو ایام تشریق جو ایام حج یعنی عشر ذی الحجہ سے دور ہیں ان میں قارن محصر و متمتع کو روزہ رکھنا بدرجہ اولیٰ ناجائز و ممنوع ہوگا فلہذا یوم نحر کے روزہ کی ممانعت ہی ایام تشریق کے روزہ کی ممانعت کو لازم کرنے والی ہے۔ پس ایام تشریق کا روزہ جائز نہ ہوگا۔
ایام نحر اور عیدین ایام تشریق میں ممانعت صوم کی روایات ملاحظہ ہوں۔

4032

۴۰۳۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ (مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ حُذَافَۃَ أَنْ یَرْکَبَ رَاحِلَتَہٗ أَیَّامَ مِنًی‘ فَیَصِیْحُ فِی النَّاسِ : أَلَا لَا یَصُوْمَنَّ أَحَدٌ‘ فَإِنَّہَا أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ .قَالَ : فَلَقَدْ رَأَیْتُہٗ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ یُنَادِیْ بِذٰلِکَ) .قَالُوْا : فَلَمَّا ثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّہْیُ عَنْ صِیَامِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ‘ وَکَانَ نَہْیُہُ عَنْ ذٰلِکَ بِ (مِنًی) وَالْحُجَّاجُ مُقِیْمُوْنَ بِہَا‘ وَفِیْہِمَ الْمُتَمَتِّعُوْنَ وَالْقَارِنُوْنَ‘ وَلَمْ یَسْتَثْنِ مِنْہُمْ مُتَمَتِّعًا وَلَا قَارِنًا‘ دَخَلَ الْمُتَمَتِّعُوْنَ وَالْقَارِنُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ النَّہْیِ أَیْضًا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : لِمَ صَارَ ھٰذَا أَوْلَی مِمَّا رَوَیْتُمْ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ ؟ قِیْلَ لَہٗ : مِنْ قِبَلِ صِحَّۃِ مَا جَائَ فِیْ ھٰذَا‘ وَتَوَاتُرِ الْآثَارِ بِہٖ وَفَسَادِ مَا جَائَ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .مِنْ ذٰلِکَ‘ حَدِیْثُ یَحْیَی بْنِ سَلَّامٍ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ فَہُوَ حَدِیْثٌ مُنْکَرٌ‘ لَا یُثْبِتُہُ أَہْلُ الْعِلْمِ بِالرِّوَایَۃِ‘ لِضَعْفِ یَحْیَی بْنِ سَلَّامٍ عِنْدَہُمْ‘ وَابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ وَفَسَادِ حِفْظِہِمَا‘ مَعَ أَنِّیْ لَا أُحِبُّ أَنْ أَطَعْنَ عَلٰی أَحَدٍ مِنَ الْعُلَمَائِ بِشَیْئٍ ‘ وَلٰـکِنْ ذَکَرْتُ مَا تَقُوْلُ أَہْلُ الرِّوَایَۃِ فِیْ ذٰلِکَ .وَمِنْ ذٰلِکَ حَدِیْثُ یَزِیْدَ بْنِ سِنَانٍ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ مِنْ بَعْدِہٖ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہُمَا قَالَا : (لَمْ یُرَخَّصْ لِأَحَدٍ فِیْ صَوْمِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ إِلَّا لِمُحْصَرٍ أَوْ مُتَمَتِّعٍ) .فَقَوْلُہُمَا ذٰلِکَ‘ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَا عَنَیَا بِھٰذِہِ الرُّخْصَۃِ‘ مَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہِ (فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ) فَعَدَّاہَا أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ‘ مِنْ أَیَّامِ الْحَجِّ فَقَالَا : رُخِّصَ لِلْحَاجِّ الْمُتَمَتِّعِ وَالْمُحْصَرِ فِیْ صَوْمِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ لِھٰذِہِ الْآیَۃِ .وَلِأَنَّ ھٰذِہِ الْأَیَّامَ‘ عِنْدَہُمَا‘ مِنْ أَیَّامِ الْحَجِّ‘ وَخَفِیَ عَلَیْہِمَا مَا کَانَ مِنْ تَوْقِیْفِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ مِنْ بَعْدُ‘ عَلٰی أَنَّ ھٰذِہِ الْأَیَّامَ لَیْسَتْ بِدَاخِلَۃٍ فِیْمَا أَبَاحَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ صَوْمَہٗ مِنْ ذٰلِکَ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ یَوْمَ النَّحْرِ لَا یُصَامُ فِیْہِ شَیْء ٌ مِنْ ذٰلِکَ وَہُوَ إِلٰی أَیَّامِ الْحَجِّ أَقْرَبُ مِنْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ‘ لِمَا جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّہْیِ عَنْ صَوْمِہٖ، مِمَّا سَنَذْکُرُہٗ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَکَمَا کَانَ نَہْیُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ‘ یَدْخُلُ فِیْہِ الْمُتَمَتِّعُوْنَ وَالْقَارِنُوْنَ وَالْمُحْصَرُوْنَ‘ کَانَ کَذٰلِکَ نَہْیُہُ عَنْ صِیَامِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ‘ یَدْخُلُوْنَ فِیْہِ أَیْضًا .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّہْیِ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ النَّحْرِ۔
٤٠٣٢: ابن ازہر کے مولیٰ ابو عبید کہتے ہیں کہ میں علی و عثمان ] کے ساتھ عید میں موجود تھا وہ نماز پڑھ کر لوٹتے پھر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے میں نے ان کو یہ تقریر کرتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دو دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے۔ یوم نحر اور یوم فطر۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب ان روایات سے ایام تشریق میں روزے کی مخالت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوگئی۔ اور آپ نے لوگوں کو منیٰ میں منع فرمایا جب کہ حجاج وہاں قیام پذیر تھے ‘ ان میں متمتع ‘ قارن سبھی لوگ تھے ۔ آپ نے کسی متمتع اور قارن کا استثناء بھی نہیں فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ اس ممانعت میں تمتع اور قارن سب شامل ہیں۔ اگر کوئی معترض کہے کہ ان روایات کی دوسری روایات سے اور اولولیت کی کیا وجہ ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان روایات کا تواتر اور صحت وجہ ترجیح ہے اور اسی طرح پہلی روایات میں وارد کمزوریاں ہیں۔ ان کمزور روایات میں یحییٰ بن سلام کی روایت ہے ‘ حالانکہ وہ حدیث منکر ہے۔ محدثین یحییٰ بن سلام اور ابن ابی لیلیٰ کے ضعف کی وجہ سے اس روایت کو درست قرار نہیں دیتے ۔ مجھے کسی اہل علم پر طعن پسند نہیں مگر اہل روایت نے جو کہا ہے اس کو بیان کرنا میرا فرض ہے۔ انھیں میں یزید بن سنان کی روایت ہے۔ جس کو ہم نے اس کے حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محصر و متمتع کے علاوہ کسی کے لیے بھی ایام تشریق میں روزے کی اجازت نہیں۔ عین ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے اس قول سے وہ بات مراد لی ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا (فصیام ثلاثۃ ایام فی الحج) پس حج کے دنوں میں تین دن کے تو وزے ہیں۔ انھوں نے ایاں تشریق کو ایام حج سے قرار دیا اور فرمایا کہ متمتع و محصر کو اس آیت میں ایام تشریق میں روزے کی اجازت دی گئی کیونکہ ان کے ہاں یہ دن ایام حج میں سے ہیں۔ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد جو آپ نے منیٰ میں لوگوں کو فرمایا کہ یہ ان ایام میں سے نہیں جن میں روزہ رکھنا درست ہے۔ روایات کی تصحیح کے لحاظ سے اس باب کا یہ حکم ہے۔ نظر وفکر کے لحاظ سے اس باب کی وضاحت اس طرح ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ایام قربانی میں کسی قسم کا روزہ درست نہیں اور وہ ایام تشریق کی نسبت ایام حج کے قریب تر ہے۔ اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن میں روزہ کو منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ مذکور ہوگا۔ جس طرح اسی نہی میں متمتع اور قارن اور محصر تمام داخل ہیں ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی ممانعت بھی ان تمام کو شامل ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوم نحر کے روزہ کی ممانعت والی روایات ذیل میں ہیں۔

4033

۴۰۳۳ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ خَالِدٍ‘ عَنْ (أَبِیْ عُبَیْدٍ‘ مَوْلَی بْنِ أَزْہَرَ‘ قَالَ : شَہِدْتُ الْعِیْدَ مَعَ عَلِیٍّ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَکَانَا یُصَلِّیَانِ‘ ثُمَّ یَنْصَرِفَانِ یُذَکِّرَانِ النَّاسَ‘ فَسَمِعْتُہُمَا یَقُوْلَانِ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِ ہٰذَیْنِ الْیَوْمَیْنِ‘ یَوْمِ النَّحْرِ‘ وَیَوْمِ الْفِطْرِ) حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ (أَبِیْ عُبَیْدٍ قَالَ : شَہِدْتُ الْعِیْدَ مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : ھٰذَانِ یَوْمَانِ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِہِمَا‘ یَوْمُ الْفِطْرِ‘ وَیَوْمُ النَّحْرِ .فَأَمَّا یَوْمُ الْفِطْرِ‘ فَیَوْمُ فِطْرِکُمْ مِنْ صِیَامِکُمْ‘ وَأَمَّا یَوْمُ النَّحْرِ‘ فَیَوْمٌ تَأْکُلُوْنَ فِیْہِ مِنْ نُسُکِکُمْ) .
٤٠٣٣: ابو عبید کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ عید میں حاضر ہوا وہ فرمانے لگے ان دو دنوں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے سے منع فرمایا ہے یعنی یوم الفطر ‘ یوم نحر۔ یوم فطر تو روزے سے افطار کا دن ہے اور یوم نحر وہ دن ہے جس میں تم اپنی قربانی کے گوشت کھاتے ہو۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٦‘ مسلم فی الصیام ١٣٨‘ مالک فی العیدین ٥‘ والحج ١٣٧۔

4034

۴۰۳۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : أَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مَجْمَعٍ‘ وَسُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدٍ‘ مَوْلٰی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ الْعِیْدَ مَعَ عُمَرَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٤٠٣٤: عبدالرحمن بن عوف کے مولیٰ ابو عبید کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کے ساتھ عید ادا کی پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4035

۴۰۳۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ (نَہٰی عَنْ صَوْمِ یَوْمَیْنِ‘ یَوْمِ الْفِطْرِ‘ وَیَوْمِ النَّحْرِ)
٤٠٣٥: عمرہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو دن کے روزے سے منع فرمایا یوم فطر اور یوم نحر۔

4036

۴۰۳۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٠٣٦: ابو نضرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4037

۴۰۳۷ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ الْمُنْذِرَ بْنَ عُبَیْدٍ الْمَدَنِیَّ حَدَّثَہٗ أَنَّ أَبَا صَالِحٍ السَّمَّانَ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٠٣٧: ابو صالح سمان نے ابوہریرہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے سنا ہے۔

4038

۴۰۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ صُبَیْحٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ الرَّقَاشِیِّ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٠٣٨: یزیدالرقاشی نے انس بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4039

۴۰۳۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ‘ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٠٣٩: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4040

۴۰۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ قَزَعَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ خَارِجًا مِنْ أَیَّامِ الْحَجِّ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُتَمَتِّعِ الصَّوْمَ فِیْہَا بَدَلًا مِنَ الْہَدْیِ‘ لِمَا قَدْ أَخْرَجَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَیَّامِ الَّتِیْ یُصَامُ فِیْہَا‘ بِنَہْیِہٖ عَنْ صَوْمِہٖ- کَانَ کَذٰلِکَ أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ خَارِجَۃً مِنْ أَیَّامِ الْحَجِّ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُتَمَتِّعِ الصَّوْمَ فِیْہَا بَدَلًا مِنَ الْہَدْیِ لِمَا قَدْ أَخْرَجَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَیَّامِ الَّتِیْ تُصَامُ بِنَہْیِہٖ‘ عَنْ صَوْمِہَا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ‘ لَیْسَ لِأَحَدٍ صَوْمُہَا‘ فِیْ مُتْعَۃٍ‘ وَلَا قِرَانٍ‘ وَلَا إِحْصَارٍ‘ وَلَا غَیْرِ ذٰلِکَ مِنَ الْکَفَّارَاتِ‘ وَلَا مِنَ التَّطَوُّعِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٤٠٤٠: قزعہ نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ پس جب یوم نحر ان کے ایّام حج سے خارج ہے جن میں متمتع کو ہدی نہ ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنے کا حکم ہے۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کرکے اسے ان ایام سے خارج کردیا جن میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایام تشریق بھی اس سے خارج ہیں جن میں متمتع کو روزہ رکھنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دنوں میں روزے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ان دنوں کو روزہ رکھنے والے دنوں سے خارج کردیا ہے۔ ہمارے مذکورہ بیان سے ثابت ہوا کہ ایام میں کسی شخص کو کسی قسم کا رزوہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ خواہ وہ متمتع ہو یا قران والا یا محصر یا کفارے کا روزہ یا نفل کا روزہ رکھنے والا ہو۔ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ کا قول اسی طرح ہے حضرت عمر (رض) سے مروی روایت اس پر دلالت کررہا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : جب یوم نحر ایام حج سے خارج ہے جن میں متمتع کو روزہ رکھنے کی ہدی کے بدلے اجازت دی ہے جب اس دن کو خارج کیا گیا تو ایام تشریق بھی ایام حج والی اس آیت سے خارج ہیں کیونکہ ان دنوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے کی ممانعت فرمائی ہے اس سے ثابت ہوا کہ کسی کو ایّام تشریق کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے خواہ حج تمتع ہو یا قران یا احصار کی صورت ہو۔ اور نہ ہی کفارات و تطوع کے روزے ان میں درست ہیں۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

4041

۴۰۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : أَنَا حَجَّاجٌ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ رَجُلًا أَتٰی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَ النَّحْرِ‘ فَقَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ إِنِّیْ تَمَتَّعْتُ، وَلَمْ أُہْدِ‘ وَلَمْ أَصُمْ فِی الْعَشْرِ .فَقَالَ : " سَلْ فِیْ قَوْمِکَ" ثُمَّ قَالَ : یَا " مُعَیْقِیْبُ‘ أَعْطِہٖ شَاۃً " .أَفَلاَ تَرٰی أَنَّ عُمَرَ لَمْ یَقُلْ لَہٗ : فَھٰذِہِ أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ‘ فَصُمْہَا .فَدَلَّ تَرْکُہُ ذٰلِکَ وَأَمَرُہٗ إِیَّاہُ بِالْہَدْیِ أَنْ أَیَّامَ الْحَجِّ عِنْدَہُ‘ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ التَّمَتُّعَ بِالصَّوْمِ فِیْہَا‘ ہِیَ قَبْلَ یَوْمِ النَّحْرِ‘ وَأَنَّ یَوْمَ النَّحْرِ‘ وَمَا بَعْدَہٗ مِنْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ‘ لَیْسَ مِنْہَا .
٤٠٤١: عمرو بن شعیب نے سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی جناب عمر (رض) کی خدمت میں نحر کے دن آیا اور کہنے لگا اے امیرالمؤمنین میں نے حج تمتع کیا ہے اور ہدی نہیں دی اور نہ ہی ایام عشر میں روزے رکھے ہیں پھر فرمایا اپنی قوم سے مانگو ! پھر فرمایا اے معیقیب ! اس کو ایک بکری دے دو ۔ کیا تم اس بات کو نہیں پاتے کہ حضرت عمر (رض) نے اس کو یہ نہیں فرمایا کہ یہ ایام تشرایق ہیں تو ان کا روزہ رکھ لے۔ اس بات کا ترک اور اسے ھدی کا حکم اس بات پر دلالت ہے کہ ان کے ہاں وہ ایام حج جن میں متمتع کو روزہ کی اجازت ہے وہ ایام نحر سے پہلے پہلے ہیں اور یوم نحر اور اس کے بعد والے ایام تشریق اس حکم میں نہیں ہیں۔
حاصل روایت : یہاں عمر (رض) نے اس کو یہ نہیں فرمایا کہ یہ ایام تشریق ہیں ان کے روزے رکھ لو بلکہ دم کو لازم قرار دے کر خود اپنی طرف سے اس کو بکری عنایت کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہدی نہ دینے پر متمتع کے لیے دم متعین ہوجاتا ہے ہدی کے بدلے روزے کی اجازت کا تعلق ایام نحر سے پہلے تک ہے۔ ایام تشریق یا اس کے بعد اس کی اجازت نہیں۔

4042

۴۰۴۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُجَّاجُ الصَّوَّافُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ (الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِیِّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ عَرِجَ أَوْ کُسِرَ‘ فَقَدْ حَلَّ‘ وَعَلَیْہِ حَجَّۃٌ أُخْرَی .قَالَ : فَحَدَّثْتُ بِذٰلِکَ ابْنَ عَبَّاسٍ‘ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَقَالَا : صَدَقَ) .
٤٠٤٢: عکرمہ نے حجاج بن عمرو انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جو لنگڑا ہو یا ہڈی ٹوٹ گئی وہ گویا حلال ہوگیا اس کے ذمہ دوسرا حج ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات ابن عباس (رض) اور ابوہریرہ (رض) کو بیان کی تو دونوں نے کہا انھوں نے سچ بولا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٤٣‘ ترمذی فی الحج باب ٩٤‘ نسائی فی المناسک باب ١٠٢‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٨٥‘ دارمی فی المناسک باب ٥٧‘ مسند احمد ٣؍٤٥۔
احصار : اثناء سفر حج میں رکاوٹ کو احصار کہتے ہیں اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوں گی۔
نمبر 1: محصر پر قضا لازم ہوگی یا نہیں امام شافعی ومالک رحمہم اللہ کے ہاں اگر حج فرض نہ ہوا ہو تو قضا حج لازم نہیں۔
نمبر 2: امام احمد ‘ مجاہد رحمہم اللہ کہتے ہیں اس پر حج کی قضا لازم ہے حضرت عمر ‘ زید بن ثابت (رض) اور ائمہ احناف ایک حج وعمرہ کو لازم قرار دیتے ہیں۔
نمبر 3: محصر تو بلا دم حلال ہوجائے گا البتہ محصر بالحج کو صرف حج اور محصر بالعمرہ کو عمرہ لازم ہوگا اس کو ابو ثور (رح) نے اختیار کیا۔ تمام ائمہ رحمہم اللہ بغیر دم حلال ہونے کو جائز قرار نہیں دیا۔
نمبر 4: اسباب احصار کیا ہیں ائمہ ثلاثہ نے فقط دشمن کو سبب حصر قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ و صاحبین کے ہاں اسباب احصار دشمن ‘ بادشاہ ‘ ہڈی کا ٹوٹنا ‘ ڈسنا ‘ خرچہ ختم ہو۔ یہ تمام اسباب احصار ہیں۔
نمبر 5: محصر بالعمرہ کو احصار کے ختم ہونے تک احرام میں رہنا ضروری ہے حلال ہونا جائز نہیں یہ ابن سیرین کا قول ہے۔ دشمن و مرض کی وجہ سے احصار سے حلال ہونا جائز ہے اس کا حکم محصر بالحج والا ہے یہ ائمہ اربعہ کا قول ہے۔
نمبر 6: محصر حلق کرے گا یا نہیں۔ محصر پر ہدی کے ذبح کے بعد حلق لازم نہیں اس کو امام ابوحنیفہ ‘ محمد رحمہم اللہ نے اختیار کیا۔ محصر کو حلق مسنون ہے یہ ابو یوسف ‘ عطاء کا مختار ہے۔ امام مالک احمد شافعی رحمہم اللہ کے ہاں ہدی کے بعد حلق لازم ہے۔
عنوان نمبر ٢ محصر بلا دم حلال ہوگا یا نہیں :

4043

۴۰۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ " ذَکَرَ عِکْرِمَۃُ ذٰلِکَ لِابْنِ عَبَّاسٍ‘ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ " .
٤٠٤٣: ابو عاصم نے حجاح الصواف سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ البتہ انھوں نے یہ بیان نہیں کیا۔ ” ذکر عکرمہ ذلک لابن عباس و ابوہریرہ ] ۔

4044

۴۰۴۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلَّامٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَافِعٍ‘ مَوْلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ‘ أَنَّہٗ قَالَ : أَنَا سَأَلْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ عَمْرٍو‘ عَمَّنْ حُبِسَ وَہُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَحَدَّثْتُ بِذٰلِکَ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ فَقَالَا : صَدَقَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمُحْرِمَ بِالْحَجِّ‘ أَوْ بِالْعُمْرَۃِ اِذَا کُسِرَ أَوْ عَرِجَ‘ فَقَدْ حَلَّ حِیْنَئِذٍ فَعَلَیْہِ قَضَائُ مَا حَلَّ مِنْہُ‘ إِنْ کَانَتْ حَجَّۃً فَحَجَّۃٌ‘ وَإِنْ کَانَتْ عُمْرَۃً فَعُمْرَۃٌ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَحِلُّ حَتّٰی یَنْحَرَ عَنْہُ الْہَدْیَ‘ فَإِذَا نَحَرَ عَنْہُ الْہَدْیَ حَلَّ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ‘
٤٠٤٤: عکرمہ نے عبداللہ بن رافع مولیٰ امّ سلمہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن عمرو سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جس کو احرام کی حالت میں قید کردیا جائے تو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کردی میں نے ابن عباس (رض) اور ابوہریرہ (رض) کو یہ بات بیان کی تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ بعض علماء اس بات کو اختیار کرنے والے ہیں کہ محرم حج وعمرہ لنگڑا ہوجائے یا اس کا پاؤں ٹوٹ جائے تو وہ اسی وقت احرام سے نکل جاتا ہے اور اس پر اس کی قضاء ہے جس سے وہ نکلا۔ اگر حج ہے تو حج اور اگر عمرہ ہے تو عمرہ لازم ہوگا اور اس روایت کو انھوں نے استدلال میں پیش کیا ۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا وہ اس وقت احرام سے نہ نکلے گا جب تک اس کی طرف سے ھدی ذبح نہ کی جائے ۔ جب ھدی کا جانور نحر کا کردیا گیا تو وہ حلال ہوجائے گا۔ اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
حاصل روایت : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ محرم بالحج یا بالعمرہ جب لنگڑا ہوجائے یا اس کی ہڈی ٹوٹ جائے اس وقت اس پر قضا لازم ہے اور وہ اس احرام سے حلال ہوجاتا ہے اور حج وعمرہ جو بھی ہو اس کی قضا لازم ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : محصر کو بلادم حلال ہونا جائز نہیں۔ دلائل یہ روایات ہیں۔

4045

۴۰۴۵ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الرُّوْمِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الثَّوْرِ‘ قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحَرَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ‘ قَبْلَ أَنْ یَحْلِقَ وَأَمَرَ أَصْحَابَہٗ بِذٰلِکَ) .
٤٠٤٥: عروہ نے مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے دن حلق سے پہلے نحر کیا اور اپنے اصحاب کو اس کا حکم فرمایا۔
تخریج : بخاری فی المحصر باب ٣: ابن ماجہ فی المناسک باب ٧٤‘ مالک فی الحج ١٤٥‘ مسند احمد ١؍٧٦‘ ١٥٧‘ ٤؍٣٢٧۔

4046

۴۰۴۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ تَمَّامٍ‘ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَیْمُوْنُ بْنُ یَحْیٰی‘ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ بُکَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا‘ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ‘ یَقُوْلُ : قَالَ (ابْنُ عُمَرَ : اِذَا عَرَضَ لِلْمُحْرِمِ عَدُوٌّ‘ فَإِنَّہٗ یَحِلُّ حِیْنَئِذٍ‘ قَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ حَبَسَتْہُ کُفَّارُ قُرَیْشٍ فِیْ عُمْرَتِہٖ‘ عَنِ الْبَیْتِ‘ فَنَحَرَ ہَدْیَہُ وَحَلَقَ وَحَلَّ ہُوَ وَأَصْحَابُہٗ، ثُمَّ رَجَعُوْا‘ حَتَّی اعْتَمَرُوْا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَحِلَّ بِالِاخْتِصَارِ فِیْ عُمْرَتِہٖ‘ بِحَصْرِ الْعَدُوِّ إِیَّاہُ حَتّٰی نَحَرَ الْہَدْیَ) ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ کَذٰلِکَ حُکْمَ الْمُحْصَرِ‘ لَا یَحِلُّ بِالْاِحْصَارِ حَتّٰی یَنْحَرَ الْہَدْیَ .وَلَیْسَ فِیْمَا رَوَیْنَاہُ أَوَّلُ خِلَافٍ لِھٰذَا عِنْدَنَا‘ لِأَنَّ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مِنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ‘ فَقَدْ حَلَّ) فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ‘ فَقَدْ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحِلَّ‘ لَا عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ حَلَّ بِذَلک مِنْ إِحْرَامِہٖ .وَیَکُوْنُ ھٰذَا کَمَا یُقَالُ " قَدْ حَلَّتْ فُلَانَۃُ لِلرِّجَالِ " اِذَا خَرَجَتْ مِنْ عِدَّۃٍ عَلَیْہَا مِنْ زَوْجٍ قَدْ کَانَ لَہَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘ لَیْسَ عَلٰی مَعْنٰی أَنَّہَا قَدْ حَلَّتْ لَہُمْ‘ فَیَکُوْنُ لَہُمْ وَطْؤُہَا وَلٰـکِنْ عَلٰی مَعْنٰی أَنَّہٗ قَدْ حَلَّ لَہُمْ أَنْ یَتَزَوَّجُوْہَا تَزَوُّجًا‘ یَحِلُّ لَہُمْ وَطْؤُہَا .ھٰذَا کَلَامٌ جَائِزٌ مُسْتَسَاغٌ .فَلَمَّا کَانَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ قَدْ احْتَمَلَ مَا ذَکَرْنَا‘ وَجَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ عَنِ الْمِسْوَرِ‘ مَا قَدْ وَصَفْنَا ثَبَتَ بِذٰلِکَ ھٰذَا التَّأْوِیْلُ .وَقَدْ بَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتَابِہٖ بِقَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ (فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ وَلَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ) .فَلَمَّا أَمَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی الْمُحْصَرَ أَنْ لَا یَحْلِقَ رَأْسَہُ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ، عُلِمَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا یَحِلُّ الْمُحْصَرُ مِنْ إِحْرَامِہٖ إِلَّا فِیْ وَقْتِ مَا یَحِلُّ لَہٗ حَلْقُ رَأْسِہٖ۔ فَھٰذَا قَدْ دَلَّ عَلَیْہِ قَوْلُ اللّٰہِ تَعَالٰی ثُمَّ فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ .وَالدَّلِیْلُ عَلَیْ صِحَّۃِ ذٰلِکَ التَّأْوِیْلِ أَیْضًا‘ أَنَّ حَدِیْثَ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو قَدْ ذَکَرَ عِکْرِمَۃُ أَنَّہٗ حَدَّثَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ لَا : صَدَقَ .فَصَارَ ذٰلِکَ الْحَدِیْثُ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَیْضًا .وَقَدْ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الْمُحْصَرِ‘ مَا قَدْ وَافَقَ التَّأْوِیْلَ الَّذِیْ صَرَفْنَا إِلَیْہِ حَدِیْثَ الْحَجَّاجِ .وَدَلَّ عَلَیْہٖ‘
٤٠٤٦: نافع مولیٰ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا جب محرم کو دشمن روک دے تو وہ اس وقت حلال ہوجائے۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا جبکہ کفار قریش نے عمرہ کرنے سے روک دیا اور بیت اللہ سے منع کردیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے ہدایا کو نحر کیا اور احرام کھول دیئے پھر واپس لوٹے اگلے سال عمرہ کیا۔ جب جناب رسول اللہ اس وقت تک اپنے اس عمرہ سے حلال نہ ہوئے جس میں آپ کو روک لیا گیا تھا یہاں تک کہ آپ ہدی کو نحر کیا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ محصر کا حکم یہی ہے۔ کہ جب تک وہ اپنے ھدی کو نحر نہ کرے اسے حلال ہونا درست نہیں ہے۔ اور شروع میں جو روایت ہم نے ذکر کی ہے اس میں ہمارے نزدیک اس کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” من کر او عرج فقد حل “ میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس کا معنیٰ ہو کہ اس کے لیے جائز ہے۔ کہ وہ حلال ہوجائے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ اس سے حلال ہوگیا اور اسی طرح ہے جیسا محاورہ میں کہتے ہیں فلانۃ حلت للاجال “ جب کہ وہ عدت پوری کرے جو سابقہ خاوند کی طرف سے اس پر لازم تھی۔ اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ وہ ان کے لیے حلال ہے اور وہ اس سے وطی کرسکتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے نکاح کرسکتے ہیں جس سے ان کے لیے وطی حلال ہوجائے گی ۔ یہ کلام محاورے میں درست اور مسلم ہے۔ پس جب اس روایت میں اس بات کا احتمال ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی میں مسور والی روایت میں موجود ہے۔ تو یہ تاویل مزید پختہ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : فان احصر تم فما استیسر من الھدی ولا تحلقوا رؤ سکم حتی یبلغ الھدی محلہ۔۔۔ جب اس آیت میں محصر کو یہ حکم دیا گیا ہے کو وہ ھدی کے نحر کی جگہ پہنچنے سے پہلے اپنے سر کو نہ منڈوائے۔ اس وقت فارغ ہوگا ۔ جب اسے منڈانا حلال ہوگا۔ اس پر قرآن مجید کی آیت دلالت کر رہی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے زمانہ میں اس پر عمل کیا اور اس کی صحت پر یہ دلیل بھی ہے کہ حجاج بن عمرو سے مذکور ہے کہ میں نے ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) کے سامنے یہ بات ذکر کی تو انھوں نے اس کی تصدیق فرمائی پھر حضرت ابن عباس (رض) نے محصر کے متعلق اس تاویل کے موافق بات فرمائی ہے۔ روایت ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایت : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نحر کر کے حلق کیا اور اپنے عمرہ سے حلال ہوگئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ محصر صرف احصار سے حلال نہیں ہوتا بلکہ نحر ہدی سے حلال ہوگا۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
جو روایات بیان کی گئیں وہ مؤقف ثانی کے خلاف نہیں کیونکہ ان اعراض والے کو حلال ہونا جائز ہے یہ معنی نہیں کہ وہ اسی کی وجہ سے حلال ہوگیا اور یہ اسی طرح ہے جیسے معتدہ عورت کو کہتے ہیں ” قدحلت فلانۃ للرجال “ یعنی اختتام عدت کی تعبیر ہے یہ مطلب نہیں کہ ان کو اس سے وطی حلال ہوگئی بلکہ مطلب یہ کہ ان کو اس سے نکاح کرنا حلال ہوگیا اور وطی جائز ہوگئی جب اس روایت میں احتمال پیداہو گیا۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل عروہ عن المسور نقل ہوچکا تو اس سے یہ تاویل ثابت ہوگئی یعنی شرائط کے ساتھ محصر حلال ہوسکتا ہے اور وہ شرط نحر ہے۔
دلیل ثانی : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں احصار والے کو حکم فرمایا ہے کہ وہ ہدی کے اپنے مقام پر پہنچنے سے پہلے وہ حلق نہ کرے اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ محصر ایسے وقت میں حلال ہوسکتا ہے جس میں اس کو حلق راس جائز ہو اور حلق راس کا دارومدار نحر ہدی پر ہے۔ پس ہدی سے پہلے حلال ہونا لازم نہ ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور حدیبیہ کے موقعہ پر فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دلالت کررہا ہے۔
اور اس تاویل کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے۔ حجاج بن عمرو کو جب عکرمہ نے ابن عباس (رض) اور ابوہریرہ (رض) کے سامنے بیان کیا تو دونوں نے تصدیق کی تو یہ روایت تین صحابہ کرام سے مروی ہوگئی۔ محصر کے متعلق خود ابن عباس (رض) کا قول بھی اسی تاویل کے موافق آیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4047

۴۰۴۷ : مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ (وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ) .قَالَ : اِذَا أُحْصِرَ الرَّجُلُ‘ بَعَثَ الْہَدْیَ .وَلَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَوْ بِہٖ أَذًی مِنْ رَأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ) فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ .فَإِنْ عَجَّلَ فَحَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ، فَعَلَیْہِ فِدْیَۃٌ‘ مِنْ صِیَامٍ‘ أَوْ صَدَقَۃٍ‘ أَوْ نُسُکٍ‘ صِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ‘ أَوْ تَصَدَّقَ عَلَی سِتَّۃِ مَسَاکِیْنَ‘ کُلُّ مِسْکِیْنٍ نِصْفُ صَاعٍ‘ أَوْ النُّسُکُ شَاۃٌ .فَإِذَا أَمِنَ مِمَّا کَانَ بِہِ (فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ) فَإِنْ مَضٰی مِنْ وَجْہِہٖ ذٰلِکَ‘ فَعَلَیْہِ حَجَّۃٌ‘ وَإِنْ أَخَّرَ الْعُمْرَۃَ إِلٰی قَابِلٍ فَعَلَیْہِ حَجَّۃٌ وَعُمْرَۃٌ وَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ (فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ) آخِرُہَا یَوْمُ عَرَفَۃَ‘ (وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ) قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِسَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَقَالَ : ھٰذَا قَوْلُ عَبَّاسٍ وَعَقَدَ ثَلاَثِیْنَ .
٤٠٤٧: اعمش نے ابراہیم عن علقمہ نقل کیا ہے۔ واتموا الحج والعمرہ اللہ فان احصرتم فمااستیسر من الہدی (البقرہ ١٩٦) علقمہ کہنے لگے جب آدمی احصار میں آجائے تو ہدی روانہ کر دے ولا تحلقوا رؤسکم الایۃ تو صیام سے آیت میں تین دن کے روزے مراد ہیں اگر کسی نے ہدی پہنچنے سے پہلے حلق کروا لی تو اس پر فدیہ لازم ہوگا خواہ روزے رکھے یا صدقہ کرے یا دم دے یعنی تین روزے یا چھ مساکین پر صدقہ کہ ہر مسکین کو نصف صاع صدقۃ الفطر کی مقدار دے یا بکری ذبح کرے۔
جب وہ احصار سے چھوٹ گیا جس نے حج وعمرہ دونوں کا فائدہ اٹھایا یعنی دونوں کا احرام باندھا تھا مگر احصار پیش آنے سے ایام حج گزرے اور یہ احرام کے ساتھ رکا رہا اور چھوٹنے پر عمرہ کرلیا تو پھر اس پر صرف حج لازم ہوگا اور اگر اس نے عمرہ بھی نہ کیا تو اگلے سال حج وعمرہ دونوں کرے گا اور جو ہدی میسر ہو وہ دے گا اگر ہدی نہ ہو تو ایام حج سے پہلے تین دن کے روزے رکھے گا جن میں آخری روزہ یوم عرفہ کا ہوسکتا ہے اور سات فراغت حج کے بعد۔ ابراہیم کہتے ہیں میں نے سعید بن جبیر کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا یہ ابن عباس (رض) کا مکمل قول ہے۔

4048

۴۰۴۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ شُرَیْحٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لَنَا (فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ) قَالَ : " مِنْ حَبْسٍ أَوْ مَرَضٍ " قَالَ اِبْرَاہِیْمُ : فَحَدَّثْتُ بِہٖ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ فَقَالَ : ہٰکَذَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ یَجْعَلْہُ یَحِلُّ مِنْ إِحْرَامِہٖ بِالْاِحْصَارِ حَتّٰی یَنْحَرَ عَنْہُ الْہَدْیَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ‘ فَقَدْ حَلَّ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَعْنَی " فَقَدْ حَلَّ " عِنْدَہٗ‘ أَیْ : لَہُ أَنْ یَحِلَّ‘ عَلٰی مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ عَنْ غَیْرِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا .
٤٠٤٨: ابراہیم نے علقمہ سے بیان کیا کہ وہ ” فان احصرتم “ کے متعلق فرمانے لگے اس سے مراد قید کیا جانے والایا بیمار ہے۔ ابراہیم کہنے لگے میں نے یہ روایت سعید بن جبیر کو بیان کی تو فرمانے لگے ابن عباس (رض) نے بھی یہی فرمایا ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے رکاوٹ ہوجانے کی وجہ سے اس کو نحر ہدی کے بعد حلال کی اجازت دی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : ” من کسر اوعرج فقد حل “ یہ دلالت کررہا ہے کہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ گویا اس وقت حلال ہوگیا یعنی اس کے لیے حلال ہونا درست ہوگیا جس کی طرف ہم گئے ہیں اور یہ ابن عباس (رض) کے علاوہ دیگر اصحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایات آتی ہیں۔
حاصل روایت : ابن عباس (رض) نے احرام سے فراغت کے لیے ہدی کے نحر کرنے کو لازم قرار دیا اب معلوم ہوتا ہے کہ ” فقدحل “ والی روایت کا یہ مفہوم نہیں جو ظاہر سے معلوم ہوتا ہے ورنہ ابن عباس (رض) یہ نہ کہتے پس ثابت ہوا کہ حل کا معنی فقد حل۔ یعنی حلال ہونا اس کے لیے جائز ہوگیا۔
اور فقط اتنی بات نہیں کہ ابن عباس (رض) نے اس کو نقل کیا بلکہ دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ منقول ہے۔

4049

۴۰۴۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدِ بْنِ شَدَّادٍ الْعَبْدِیُّ‘ صَاحِبُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : لُدِغَ صَاحِبٌ لَنَا بِذَاتِ التَّنَانِیْنِ‘ وَہُوَ مُحْرِمٌ بِعُمْرَۃٍ‘ فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَیْنَا‘ فَلَقِیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرْنَا لَہٗ أَمْرَہُ .فَقَالَ : یَبْعَثُ بِہَدْیٍ‘ وَیُوَاعِدُ أَصْحَابَہٗ مَوْعِدًا‘ فَإِذَا نَحَرَ عَنْہُ حَلَّ .
٤٠٤٩: منصور نے ابراہیم سے انھوں نے علقمہ سے نقل کیا کہ مقام تنانین میں ہمارے ایک ساتھی کو سانپ نے ڈس لیا وہ احرام میں تھا ہم پر یہ بات گراں گزری ہم ابن مسعود (رض) سے ملے اور اس کا معاملہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا۔ ہدی روانہ کر دے اور اپنے ساتھیوں سے ایک دن طے کرے جب اس کی طرف سے ہدی ذبح کردی جائے تو یہ حلال ہوجائے گا۔

4050

۴۰۵۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ " ثُمَّ عَلَیْہِ عُمْرَۃٌ بَعْدَ ذٰلِکَ " .
٤٠٥٠: عمارہ بن عمیر نے عبدالرحمن بن یزید سے نقل کیا عبداللہ (رض) فرمانے لگے پھر اس پر اس (مرض سے شفایابی) کے بعد عمرہ ہے۔

4051

۴۰۵۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَعْمَشِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٠٥١: ابو عوانہ نے سلیمان الاعمش سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4052

۴۰۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : سَمِعْت اِبْرَاہِیْمَ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : أَہَلَّ رَجُلٌ مِنَ النَّخْعِ بِعُمْرَۃٍ یُقَالُ لَہٗ‘ عُمَیْرُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ فَلُدِغَ فَبَیْنَمَا ہُوَ صَرِیعٌ فِی الطَّرِیْقِ اِذْ طَلَعَ عَلَیْہِمْ رَکْبٌ فِیْہِمُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَأَلُوْہُ .فَقَالَ : ابْعَثُوْا بِالْہَدْیِ‘ وَاجْعَلُوْا بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ یَوْمًا أَمَارَۃً‘ فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ‘ فَلْیَحْلِلْ .الْحَکَمُ : وَقَالَ عُمَارَۃُ بْنُ عُمَیْرٍ‘ وَکَانَ حَدَّثَک بِہٖ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : وَعَلَیْہِ الْعُمْرَۃُ مِنْ قَابِلٍ .قَالَ : شُعْبَۃُ وَسَمِعْتُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَہُ بِہٖ، مِثْلَ مَا حَدَّثَ الْحَکَمُ سَوَائً .
٤٠٥٢: ابراہیم عبدالرحمن بن یزید سے بیان کرتے تھے کہ ایک نخعی نے عمرے کا احرام باندھا اس کا نام عمیر بن سعید تھا اس کو سانپ نے ڈس لیا وہ راستہ میں بیمار پڑگیا تو اچانک ایک قافلہ سامنے آیا جس میں ابن مسعود (رض) تھے انھوں نے ان سے سوال کیا کہ اس کا کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہدی روانہ کر دو اور اس کے مابین ایک مقررہ دن طے کرلو جب وہ دن آجائے تو یہ حلال ہوجائے۔
حکم کہنے لگے عمارہ بن عمیر نے کہا تمہیں عبدالرحمن بن یزید سے یہ روایت اس طرح بیان کی تھی کہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا اس کو آئندہ سال عمرہ لازم ہے۔ شعبہ کہنے لگے میں نے یہ روایت اسی طرح سلیمان سے سنی جس طرح حکم نے بیان کی تھی۔

4053

۴۰۵۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّہٗ قَالَ : الْمُحْصَرِ لَا یَحِلُّ حَتّٰی یَطُوْفَ بِالْبَیْتِ‘ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَإِنْ اُضْطُرَّ إِلَی شَیْئٍ مِنْ لُبْسِ الثِّیَابِ الَّتِیْ لَا بُدَّ لَہٗ مِنْہَا‘ وَالدَّوَائِ ‘ صَنَعَ ذٰلِکَ وَافْتَدٰی .فَقَدْ ثَبَتَ بِھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ أَیْضًا‘ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یُوَافِقُ مَا تَأَوَّلْنَا عَلَیْہِ حَدِیْثَ الْحَجَّاجِ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ .ثُمَّ اخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ ھٰذِہٖ فِی الْاِحْصَارِ الَّذِی ھٰذَا حُکْمُہٗ، بِأَیِّ شَیْئٍ ہُوَ ؟ أَوْ بِأَیِّ مَعْنًی یَکُوْنُ .فَقَالَ قَوْمٌ : یَکُوْنُ بِکُلِّ حَابِسٍ یَحْبِسُہٗ مِنْ مَرَضٍ أَوْ غَیْرِہٖ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .وَقَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ أَیْضًا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : لَا یَکُوْنُ الْاِحْصَارُ الَّذِیْ حُکْمُہٗ مَا وَصَفْنَا‘ إِلَّا بِالْعَدُوِّ خَاصَّۃً‘ وَلَا یَکُوْنُ بِالْأَمْرَاضِ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ .
٤٠٥٣: سالم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرمانے لگے محصر اس وقت حلال ہوگا جب بیت اللہ کا طواف کرے گا اور صفا ومروہ کی سعی کرے گا اور اگر وہ مرض کی وجہ سے کسی کپڑے اور دوا کے استعمال پر مجبور ہوگا تو جتنا مجبور ہے اتنا کرے اور اس کا فدیہ دے گا۔ ان روایات سے بھی ہماری تاویل کے موافق بات اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوئی اور حدیث حجاج بن عمرو میں بھی یہ بات مذکور ہوئی ہے۔ اس کے بعد اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ کس احصار کا حکم ہے اور وہ احصار کس چیز سے ہو اور کس مفہوم میں ہو ۔ تو ایک گروہ علماء کا قول یہ ہے کہ ہر رکاوٹ مرض وغیرہ اس کا سبب ہوسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہ قول ہے اور ہم نے اسی باب میں حضرت ابن مسعود ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ مگر دیگر علماء کہتے ہیں کہ احصار جو ہم نے بیان کیا وہ دشمن والا احصار ہے مرض والا احصار نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) کا یہی قول ہے۔
حاصل روایت : حجاج (رض) کی روایت کی جو تاویل ہم نے پیش کی ہے اس کے مطابق اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کئی روایات ہم نے نقل کردیں۔
عنوان ثالث۔ احصار کن چیزوں سے ثابت ہوگا :
فریق اوّل کا مؤقف : احصار صرف دشمن سے ہوتا ہے اور کوئی چیز مثلاً مرض وغیرہ اسباب احصار سے نہیں ہے دلیل یہ روایات ہیں۔

4054

۴۰۵۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَکَرِیَّا أَبُوْ شُرَیْحٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .قَالَ : لَا یَکُوْنُ الْاِحْصَارُ إِلَّا مِنْ عَدُوٍّ .
٤٠٥٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ احصار صرف دشمن سے ہوسکتا ہے۔

4055

۴۰۵۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ قَالَ : مَنْ حُبِسَ‘ دُوْنَ الْبَیْتِ بِمَرَضٍ‘ فَإِنَّہُ لَا یَحِلُّ حَتّٰی یَطُوْفَ بِالْبَیْتِ‘ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ .فَلَمَّا وَقَعَ فِیْ ھٰذَا‘ ھٰذَا الِاخْتِلَافُ‘ وَقَدْ رَوَیْنَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِنْ حَدِیْثِ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو‘ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِہٖ، یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ‘ فَقَدْ حَلَّ‘ وَعَلَیْہِ حُجَّۃٌ أُخْرَی) ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْاِحْصَارَ یَکُوْنُ بِالْمَرَضِ‘ کَمَا یَکُوْنُ بِالْعَدُوِّ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ إِحْصَارَ الْعَدُوِّ‘ یَجِبُ بِہِ لِلْمُحْصَرِ‘ الْاِحْلَالُ کَمَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَاخْتَلَفُوْا فِی الْمَرَضِ‘ فَقَالَ قَوْمٌ : حُکْمُہٗ حُکْمُ الْعَدُوِّ فِیْ ذٰلِکَ‘ اِذَا کَانَ قَدْ مَنَعَہُ مِنَ الْمُضِیّ فِی الْحَجِّ‘ کَمَا مَنَعَہُ الْعَدُوُّ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : حُکْمُہُ بَائِنٌ مِنْ حُکْمِ الْعَدُوِّ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ‘ مَا أُبِیْحَ بِالضَّرُوْرَۃِ مِنَ الْعَدُوِّ‘ ہَلْ یَکُوْنُ مُبَاحًا بِالضَّرُوْرَۃِ بِالْمَرَضِ أَمْ لَا ؟ .فَوَجَدْنَا الرَّجُلَ اِذَا کَانَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ‘ کَانَ فَرْضًا أَنْ یُصَلِّیَ قَائِمًا‘ وَإِنْ کَانَ یَخَافُ إِنْ قَامَ أَنْ یُعَایِنَہُ الْعَدُوُّ فَیَقْتُلَہٗ، أَوْ کَانَ الْعَدُوُّ قَائِمًا عَلٰی رَأْسِہٖ‘ فَمَنَعَہُ مِنَ الْقِیَامِ‘ فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ قَدْ حَلَّ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ قَاعِدًا‘ وَسَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْقِیَامِ .وَأَجْمَعُوْا أَنَّ رَجُلًا لَوْ أَصَابَہُ مَرَضٌ أَوْ زَمَانَۃٌ فَمَنَعَہُ ذٰلِکَ مِنَ الْقِیَامِ‘ أَنَّہٗ قَدْ سَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْقِیَامِ‘ وَحَلَّ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ قَاعِدًا‘ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ اِذَا أَطَاقَ ذٰلِکَ‘ أَوْ یُوْمِئُ إِنْ کَانَ لَا یُطِیْقُ ذٰلِکَ .فَرَأَیْنَا مَا أُبِیْحَ لَہٗ مِنْ ھٰذَا بِالضَّرُوْرَۃِ مِنَ الْعَدُوِّ‘ قَدْ أُبِیْحَ لَہٗ بِالضَّرُوْرَۃِ مِنَ الْمَرَضِ وَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا حَالَ الْعَدُوُّ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَائِ ‘ سَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْوُضُوْئِ‘ وَیَتَیَمَّمُ وَیُصَلِّیْ .فَکَانَتْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائُ الَّتِیْ قَدْ عُذِرَ فِیْہَا بِالْعَدُوِّ‘ قَدْ عُذِرَ فِیْہَا أَیْضًا بِالْمَرَضِ‘ وَکَانَ الْحَالُ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً .ثُمَّ رَأَیْنَا الْحَاجَّ الْمُحْصَرَ بِالْعَدُوِّ‘ قَدْ عُذِرَ فَجُعِلَ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ یَفْعَلَ مَا جُعِلَ لِلْمُحْصَرِ أَنْ یَفْعَلَ‘ حَتّٰی یَحِلَّ وَاخْتَلَفُوْا فِی الْمُحْصَرِ بِالْمَرَضِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ مَا وَجَبَ لَہٗ مِنَ الْعُذْرِ بِالضَّرُوْرَۃِ بِالْعَدُوِّ‘ یَجِبُ لَہٗ أَیْضًا بِالضَّرُوْرَۃِ بِالْمَرَضِ‘ وَیَکُوْنُ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ سِوَاہُ‘ کَمَا کَانَ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً ‘ فِی الطِّہَارَاتِ‘ وَالصَّلَوَاتِ .ثُمَّ اخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ ھٰذَا فِی الْمُحْرِمِ بِعُمْرَۃٍ‘ یُحْصَرُ بِعَدُوٍّ أَوْ بِمَرَضٍ. فَقَالَ قَوْمٌ : یَبْعَثُ بِہَدْیٍ وَیُوَاعَدُہُمْ أَنْ یَنْحَرُوْہُ عَنْہُ‘ فَإِذَا نَحَرَ حَلَّ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ یُقِیْمُ عَلَی إِحْرَامِہِ أَبَدًا‘ وَلَیْسَ لَہَا وَقْتٌ کَوَقْتِ الْحَجِّ .وَکَانَ مِنَ الْحَجَّۃِ لِلَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّہٗ یَحِلُّ مِنْہَا بِالْہَدْیِ‘ مَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ‘ (لَمَّا أَحْصَرَ بِعُمْرَۃٍ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ‘ حَصَرَتْہُ کُفَّارُ قُرَیْشٍ‘ فَنَحَرَ الْہَدْیَ‘ وَحَلَّ‘ وَلَمْ یَنْتَظِرْ أَنْ یَذْہَبَ عَنْہُ الْاِحْصَارُ) ، اِذْ کَانَ لَا وَقْتَ لَہَا کَوَقْتِ الْحَجِّ‘ بَلْ جَعَلَ الْعُذْرَ فِی الْاِحْصَارِ بِہَا‘ کَالْعُذْرِ فِی الْاِحْصَارِ بِالْحَجِّ . فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَہَا فِی الْاِحْصَارِ فِیْہِمَا سَوَاء ٌ‘ وَأَنَّہٗ یَبْعَثُ الْہَدْیَ حَتّٰی یَحِلَّ بِہٖ مِمَّا أُحْصِرَ بِہِ مِنْہُمَا .إِلَّا أَنَّ عَلَیْہِ فِی الْعُمْرَۃِ قَضَائَ عُمْرَۃٍ‘ مَکَانَ عُمْرَتِہٖ‘ وَعَلَیْہِ فِی الْحَجَّۃِ‘ حَجَّۃً مَکَانَ حَجَّتِہٖ وَعُمْرَۃً لِاِخْلَالِہٖ .وَقَدْ رَوَیْنَا فِی الْعُمْرَۃِ أَنَّہٗ قَدْ یَکُوْنُ الْمُحْرِمُ مُحْصَرًا بِہَا‘ مَا قَدْ تَقَدَّمَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ قَدْ فُرِضَتْ عَلَی الْعِبَادِ‘ مِمَّا جُعِلَ لَہَا وَقْتٌ خَاصٌّ‘ وَأَشْیَائُ فُرِضَتْ عَلَیْہِمْ‘ مِمَّا جُعِلَ الدَّہْرُ کُلُّہُ وَقْتًا لَہَا .مِنْہَا الصَّلَوَاتُ‘ فُرِضَتْ عَلَیْہِمْ فِیْ أَوْقَاتٍ خَاصَّۃٍ‘ تُؤَدَّیْ فِیْ تِلْکَ الْأَوْقَاتِ بِأَسْبَابٍ مُتَقَدِّمَۃٍ لَہَا‘ مِنَ التَّطَہُّرِ بِالْمَائِ ‘ وَسَتْرِ الْعَوْرَۃِ .وَمِنْہَا الصِّیَامُ فِیْ کَفَّارَاتِ الظِّہَارِ وَکَفَّارَاتِ الصِّیَامِ‘ وَکَفَّارَاتِ الْقَتْلِ‘ جُعِلَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُظَاہِرِ‘ وَالْقَاتِلِ لَا فِیْ أَیَّامٍ بِعَیْنِہَا‘ بَلْ جُعِلَ الدَّہْرُ کُلُّہُ وَقْتًا لَہَا‘ وَکَذٰلِکَ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ جَعَلَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی الْحَانِثِ فِیْ یَمِیْنِہِ‘ وَہِیَ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ .ثُمَّ جَعَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ فُرِضَ عَلَیْہِ الصَّلَوَاتُ بِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ یَتَقَدَّمُ‘ وَالْأَسْبَابُ الْمَفْعُوْلَۃِ فِیْہَا فِیْ ذٰلِکَ‘ عُذْرًا اِذَا مُنِعَ مِنْہُ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا جُعِلَ لَہٗ فِیْ عَدَمِ الْمَائِ ‘ مِنْ سُقُوطِ الطَّہَارَۃِ بِالْمَائِ وَالتَّیَمُّمِ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا جُعِلَ لِلَّذِیْ مُنِعَ مِنْ سَتْرِ الْعَوْرَۃِ أَنْ یُصَلِّیَ بَادِیَ الْعَوْرَۃِ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا جُعِلَ لِمَنْ مُنِعَ مِنَ الْقِبْلَۃِ أَنْ یُصَلِّیَ إِلٰی غَیْرِ قِبْلَۃٍ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا جُعِلَ لِلَّذِیْ مُنِعَ مِنَ الْقِیَامِ‘ أَنْ یُصَلِّیَ قَاعِدًا‘ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ‘ فَإِنْ مُنِعَ مِنْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ أَوْمَأَ إِیْمَائً ‘ فَجُعِلَ لَہٗ ذٰلِکَ .وَإِنْ کَانَ قَدْ بَقِیَ عَلَیْہِ مِنَ الْوَقْتِ مَا قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَذْہَبَ عَنْہُ ذٰلِکَ الْعُذْرُ‘ وَیَعُوْدُ إِلٰی حَالِہِ قَبْلَ الْعُذْرِ‘ وَہُوَ فِی الْوَقْتِ‘ لَمْ یَفُتْہُ .وَکَذٰلِکَ جُعِلَ لِمَنْ لَا یَقْدِرُ عَلَی الصَّوْمِ فِی الْکَفَّارَاتِ الَّتِیْ أَوْجَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ فِیْہَا الصَّوْمَ‘ لِمَرَضٍ حَلَّ بِہٖ مِمَّا قَدْ یَجُوْزُ بُرْؤُہُ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَرُجُوْعُہُ إِلٰی حَالِ الطَّاقَۃِ لِذٰلِکَ الصَّوْمِ‘ فَجُعِلَ ذٰلِکَ لَہٗ عُذْرًا فِیْ إِسْقَاطِ الصَّوْمِ عَنْہُ بِہٖ، وَلَمْ یُمْنَعْ مِنْ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ مَا جُعِلَ عَلَیْہِ مِنَ الصَّوْمِ لَا وَقْتَ لَہٗ .وَکَذٰلِکَ فِیْمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْاِطْعَامِ فِی الْکَفَّارَاتِ وَالْعِتْقِ فِیْہَا‘ وَالْکِسْوَۃِ‘ اِذَا کَانَ الَّذِیْ فُرِضَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مُعْدِمًا .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَجِدَ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ فَیَکُوْنَ قَادِرًا عَلٰی مَا أَوْجَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ‘ مِنْ غَیْرِ فَوَاتٍ لِوَقْتِ شَیْئٍ مِمَّا کَانَ أُوْجِبَ عَلَیْہِ فِعْلُہٗ فِیْہِ .فَلَمَّا کَانَتْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائُ یَزُوْلُ فَرْضُہَا بِالضَّرُوْرَۃِ فِیْہَا‘ وَإِنْ کَانَ لَا یَخَافُ فَوْتَ وَقْتِہَا‘ فَجُعِلَ ذٰلِکَ مَا خِیْفَ فَوْتُ وَقْتِہٖ، سَوَاء ٌ مِنَ الصَّلَوَاتِ فِیْ أَوَاخِرِ أَوْقَاتِہَا‘ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ الْعُمْرَۃُ‘ وَإِنْ کَانَ لَا وَقْتَ لَہَا أَنْ یُبَاحَ فِی الضَّرُوْرَۃِ فِیْہَا‘ مَا یُبَاحُ بِالضَّرُوْرَۃِ فِیْ غَیْرِہَا‘ مِمَّا لَہٗ وَقْتٌ مَعْلُوْمٌ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّہٗ قَدْ یَکُوْنُ الْاِحْصَارُ بِالْعُمْرَۃِ‘ کَمَا یَکُوْنُ الْاِحْصَارُ بِالْحَجِّ سَوَائً .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .ثُمَّ تَکَلَّمَ النَّاسُ بَعْدَ ھٰذَا فِی الْمُحْصَرِ اِذَا نَحَرَ ہَدْیَہٗ‘ ہَلْ یَحْلِقُ رَأْسَہُ أَمْ لَا ؟ .فَقَالَ قَوْمٌ : لَیْسَ عَلَیْہِ أَنْ یَحْلِقَ لِأَنَّہٗ قَدْ ذَہَبَ عَنْہُ النُّسُکُ کُلُّہٗ، وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ‘ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ . وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ یَحْلِقُ‘ فَإِنْ لَمْ یَحْلِقْ‘ حَلَّ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہٖ‘ وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ‘ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَقَالَ آخَرُوْنَ یَحْلِقُ وَیَجِبُ ذٰلِکَ عَلَیْہٖ‘ کَمَا یَجِبُ عَلَی الْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّہٗ قَدْ سَقَطَ عَنْہُ بِالْاِحْصَارِ‘ جَمِیْعُ مَنَاسِکِ الْحَجِّ‘ مِنَ الطَّوَافِ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَذٰلِکَ مِمَّا یَحِلُّ الْمُحْرِمُ بِہٖ مِنْ إِحْرَامِہٖ .أَلَا تَرٰی أَنَّہٗ اِذَا طَافَ بِالْبَیْتِ یَوْمَ النَّحْرِ‘ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ‘ فَیَحِلُّ لَہٗ بِذٰلِکَ‘ الطِّیْبُ‘ وَاللِّبَاسُ‘ وَالنِّسَائُ .قَالُوْا : فَلِمَا کَانَ ذٰلِکَ مِمَّا یَفْعَلُہُ‘ حَتّٰی یَحِلَّ‘ فَسَقَطَ ذٰلِکَ عَنْہُ کُلُّہُ بِالْاِحْصَارِ‘ سَقَطَ أَیْضًا عَنْہُ سَائِرُ مَا یَحِلُّ بِہِ الْمُحْرِمُ بِسَبَبِ الْاِحْصَارِ‘ ھٰذِہِ حُجَّۃٌ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ الْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمَا فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ تِلْکَ الْأَشْیَائَ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ‘ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَرَمْیِ الْجِمَارِ‘ قَدْ صُدَّ عَنْہُ الْمُحْرِمُ‘ وَحِیْلَ بَیْنَہُ وَبَینَہٗ، فَسَقَطَ عَنْہُ أَنْ یَفْعَلَہٗ۔وَالْحَلْقُ لَمْ یَحُلْ بَیْنَہُ وَبَینَہٗ، وَہُوَ قَادِرٌ عَلٰی أَنْ یَفْعَلَہٗ۔فَمَا کَانَ یَصِلُ إِلٰی أَنْ یَفْعَلَہٗ، فَحُکْمُہٗ فِیْہٖ‘ فِیْ حَالِ الْاِحْصَارِ‘ کَحُکْمِہٖ فِیْہٖ‘ حَالَ الْاِحْصَارِ .وَمَا لَا یَسْتَطِیْعُ أَنْ یَفْعَلَہُ فِیْ حَالِ الْاِحْصَارِ‘ فَہُوَ الَّذِیْ یَسْقُطُ عَنْہُ بِالْاِحْصَارِ‘ فَہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا .وَإِذَا کَانَ حُکْمُہٗ فِیْ وَقْتِ الْحَلْقِ عَلَیْہٖ‘ وَہُوَ مُحْصَرٌ‘ کَحُکْمِہٖ فِیْ وُجُوْبِہٖ عَلَیْہٖ‘ وَہُوَ غَیْرُ مُحْصَرٍ‘ کَانَ تَرْکُہُ إِیَّاہُ أَیْضًا‘ وَہُوَ مُحْصَرٌ‘ کَتَرْکِہِ إِیَّاہُ وَہُوَ غَیْرُ مُحْصَرٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ الْحَلْقِ بَاقٍ عَلَی الْمُحْصَرِیْنَ‘ کَمَا ہُوَ عَلٰی مَنْ وَصَلَ إِلَی الْبَیْتِ۔
٤٠٥٥: سالم نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ جس کو مرض پیش آجائے اور وہ بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے تو وہ حلال نہ ہوگا جب تک کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور صفا مروہ کے مابین سعی نہ کرے۔ جب یہ مسئلہ مختلف فیہ ہوا اور گ ہم پہلے حجاج بن عمرو والی روایت جس کو ابن عباس و ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ‘ کہ آپ نے فرمایا ” من کسر اوعرج فقد حل “ کے ضمن میں ذکر آئے ‘ کہ اس پر دوسرا حج لازم ہے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ دشمن کے احصار کی طرح بیماری کا احصار بھی ہے۔ اس باب کے معانی کی تصحیح کے لحاظ سے اس باب کی وضاحت اسی طرح ہے۔ اب رہا طریق غور و فکر تو اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ دشمن کی وجہ سے احصار (روک) کی صورت میں محصر پر احرام کھولنے کا وجوب تو سب کے ہاں اتفاقی ہے۔ جیسا مذکور ہوا اختلاف تو صرف مرض وغیرہ کے متعلق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا حکم دشمن کے حکم جیسا ہے اور اس کا حج کے لیے رکاوٹ بننا دشمن کی رکاوٹ کی طرح ہے۔ مگر دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ اس کا حکم اس سے الگ ہے۔ اب ہم یہ غور کرنا چاہتے ہیں کہ جو کام دشمن کے باعث جائز ہے۔ وہ بیماری کی وجہ سے جائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جب کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز ادا کرسکتا ہو تو اس پر کھڑے ہو کر نماز لازم ہے اور اس کو یہ ڈر ہو کہ دشمن اس کو دیکھتے ہی قتل کر دے گا یا دشمن سر پر کھڑا ہوا ور وہ اسے روکے ۔ تو تمام اسباب پر متفق ہیں کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا اور اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ اور اس پر سب متفق ہیں کہ اگر کوئی بیمار یا شل ہوجائے اور اس کی بناء پر کھڑے ہونے سے عاجز ہو تو اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ اور اسے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے۔ وہ رکوع کرے اور سجدہ کرے اگر ان کی استطاعت ہو ورنہ اشارے سے نماز پڑھے گر طاقت نہ ہو تو اشارہ کرے ۔ پس ہم نے یہ جان لیا کہ جو چیز دشمن کی ضرورت سے جائز ہوئی وہ مرض کی وجہ سے بھی جائز ہوئی اور بات بھی پاتے ہیں کہ جب دشمن پانی اور اس آدمی کے درمیان حامل ہوجائے تو اس سے وضو کی فرضیت جاتی رہتی ہے اور وہ تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر اسے نقصان دینے والی بیماری ہو تو وضو کی فرضیت اس سے ساقط ہوجائے گی اور وہ تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ یہ سب صورتیں جن میں وہ دشمن کی وجہ سے معذور ہوا وہ بیماری کی وجہ سے عذر میں ایک جیسا حکم رکھتا ہے۔ ہم یہ بھی بات پاتے ہیں کہ وہ حاجی جس کو دشمن روک لے وہ معذرو قرار پاتا ہے۔ اسے وہ عمل کرنے کا حکم ہے جو محصر کو کرنا چاہیے ۔ یہاں تک کہ وہ احرام کھول دے ۔ جب کہ بیماری کی وجہ سے رکنے والے محصر کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ تو جو ہم نے ذکر کیا اس پر قیاس کا تقاضا ہے کہ دشمن کی وجہ سے ضرورت کے پیش نظر جو عمل لازم ہے وہ بیماری کی وجہ سے ضرورت کے طور پر واجب ہوگا اور ان دونوں کا حکم اسی طرح ایک جیسا ہوگا۔ جیسا کہ طہارت ونماز میں دونوں کا حکم یکساں ہے۔ پھر اس کے بعد اس شخص کے متعلق اختلاف ہے جس نے عمرے کا احرام باندھا اور بیماری یا دشمن کی وجہ سے وہ محصر ہوگیا۔ ایک جماعت علماء کا کہنا یہ ہے کہ وہ ہدی روانہ کرے اور ان سے وعدہ لے کہ وہ اس ذبح کردیں گے۔ پس جب انھوں نے نحر کردیا تو وہ احرام سے فارغ ہوجائے گا۔ دیگر علماء کا کہنا ہے کہ وہ احرام کو باندھے رہے۔ اس کے لیے حج کی مثل وقت مقرر نہیں۔ جو لوگ ھدی کے ساتھ احرام سے نکلنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وہ روایت ہے جس کو ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس باب کی ابتداء میں نقل کر آئے ۔ کہ جب آپ کو قریش نے روک لیا تو آپ نے ھدی ذبح کر کے احرام کھول دیا اور احصار کے ختم ہونے کا انتظار نہ کیا کہ اس کا حج کی طرح وقت مقرر نہیں ۔ بلکہ رکاوٹ کو اسی طرح عذر قرار دیا جس طرح حج میں رکاوٹ عذر ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رکاوٹ کی صورت میں اس کا حکم یکساں ہے کہ وہ ہدی روانہ کرے اور دونوں سے حلال ہوجائے۔ البتہ عمرہ کی صورت میں عمرے کی قضاء لازم ہے اور حج کی صورت میں اس پر ایک حج اور احرام کھولنے کی وجہ سے ایک عمرہ لازم ہوگا۔ عمرہ کے سلسلہ میں ہم نے حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت پہلے نقل کی ہے۔ کہ عمرہ کا محرم بھی احصار والا ہوسکتا ہے۔ روایات کے انداز سے اس باب کی یہ وضاحت ہے البتہ بطریق نظر وفکر اس کی وضاحت اس طرح ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض چیزیں بندوں پر فرض ہیں جن کا خاص وقت مقرر ہے اور بعض فرض امور تمام عمر کیے جاتے ہیں ان میں سے نمازیں ہیں یہ خاص اوقات میں لازم ہیں اور ان اوقات میں پیشگی اسباب کی وجہ سے ادا کیے جاتے ہیں مثلاً پانی سے طہارت کا حصول ‘ سترڈھانپنا ‘ انہی امور میں سے ظہار کے کفارے روزے کے کفارے اور قتل کے کفارے ہیں۔ جو کہ ظہار کرنے والے پر مقررہ دنوں میں لازم ہیں بلکہ زندگی میں جب چاہے ان کو ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح قسم کا کفارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قسم کو توڑنے والے پر لازم کیا ہے۔ اور بہ دس مساکین کو کھانا کھلانا یا ان کو لباس پہنانا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ پھر جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے نماز کو پہلے پائے جانے والے اسباب اور نماز کے اندر پائے جانے والے اسباب سے فرض فرمائی ہے۔ جب ان امور سے رکاوٹ ہوجائے تو اس کو عذر قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب کسی کو پانی نہ ملے تو اس سے پانی سے طہارت کرنا ساقط ہوجاتا ہے اور تیمم کرنا پڑتا ہے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ستر ڈھانپنے کو کچھ نہ ملے تو ننگے نماز ادا کرے اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو قبلہ کی طرف رخ نہ کرسکتا ہو وہ غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لے اور جس کو قیام میں رکاوٹ ہو وہ بیٹھ کر رکوع و سجود سے نماز ادا کرے اور یہ بھی نہ کرسکے تو اشارے سے پڑھ لے۔ اس کو اس بات کی اجازت ہے اگرچہ اس قدر وقت باقی ہو جس میں یہ عذر ختم ہوجائے اور وہ عذر سے پہلے والی حالت کی طرف لوٹ آئے اور ابھی وقت نہ نکلا ہو۔ اسی طرح جس شخص پر کفارے کے روزے ہیں اور کسی مرض کی وجہ سے روزے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو شخص معذور قرار پائے گا ۔ حالانکہ یہ ہوسکتا کہ وہ درست ہوجائے اور اس کی اپنی حالت پر لوٹ آئے اور اس کو روزے سے کوئی چیز رکاوٹ نہ ہو۔ کیونکہ اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔ اسی طرح کفاروں کی صورت میں کھانا کھلانے ‘ غلام آزاد کرنے اور لباس پہنانے کا بھی حکم ہے اگر ان میں سے کسی ایک پر قدرت نہ ہو تو دوسرے پر اس کی قدرت شمار ہوگی اور آئندہ حاصل ہونے والی کسی وقت کی قوت کا لحاظ نہ ہوگا۔ جب امور مذکورہ کی فرضیت جب ضرورت کے وقت ساقط ہوجاتی ہے۔ خواہ وقت کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہو تو یہ امور اور جن امور میں وقت نکلنے کا خطرہ ہوتا ہے دونوں کا حکم ایک جیسا ہے۔ تو ان مذکورہ امور کا تقاضا یہ ہے کہ عمرہ کہ جس کا وقت مقرر نہیں اس کے لیے بھی وہ چیز ہو جو ان امور کے لیے جائز ہے جن کے اوقات مقرر ہیں اس سے ان لوگوں کا مسلک ثابت ہوگیا جو حج کے احصار کو عمرہ کے احصار جیسا شمار کرتے ہیں۔ یہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ پھر اس سلسلہ میں فقہاء کرام مختلف ہیں کہ جب رکاوٹ والے سخص کی ہدی ذبح ہوجائے تو وہ سر منڈوا سکتا ہے یا نہیں ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ اس پر ہدی لازم ہی نہیں کیونکہ اس پر سے تمام افعال حج ساقط ہوگئے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد (رح) اسی بات نے قائل ہیں۔ مگر دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ وہ حلق کروائے اور اگر وہ حلق نہ بھی کرواے تو تھی وہ احرام کھول سکتا ہے اور اس پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا اور امام ابو یوسف اسی قول کو اختیار کرنے والے ہیں۔ اور بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ اس پر حلق ضروری ہے جیسا کہ حاجی اور معتمر پر حلق واجب ہے۔ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ اور محمد (رح) کی دلیل یہ ہے احصار نے حج کے تمام مناسک کو ساقط کردیا اور یہ وہ امور ہیں جن کے ساتھ محرم احرام سے باہر آتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب یوم نحر کو محرم بیت اللہ کا طواف کرتا ہے۔ تو اس کے لیے حلق جائز ہوجاتا ہے اور اس کے لیے خوشبو ‘ لباس ‘ جماع جائز ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب حلق ان معاملات سے ہے کہ جن کو حاجی احرام کو کھولنے سے پہلے انجام دیتا ہے اور احصار سے ان امور کو ساقط کردیا۔ تو وہ امور خود ساقط ہوجائیں گے جن کو احصار کی وجہ سے محرم چھوڑ دیتا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ محمد (رح) کی دلیل ہے۔ دوسرے حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف سعی صفا ‘ مروہ جمرات کو کنکریاں مارنے سے محرم کو رکاوٹ ہوگئی اور اس کے ان امور میں احصار حائل ہوگیا۔ تو اس وجہ سے ان امور کی انجام دہی ساقط ہوگئی ‘ مگر حلق اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں وہ اس کو بجالانے پر قدرت رکھتا ہے۔ تو وہ جو عمل کرسکتا ہے احصار کی صورت میں اس کا وہی حکم ہوگا جو حالت احصار کے علاوہ ہے اور جس کو وہ حالت احصار میں انجام نہیں دے سکتا وہ احصار کی وجہ سے ساقط ہوگئے ہیں ہمارے ہاں قیاس یہی ہے۔ پس جب احصار کی صورت میں وجوب حلق کا حکم وہی ہے جو احصار کے علاوہ ہے۔ تو اس کے چھوڑنے کا حکم بھی وہی ہوگا جو محصر نہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں روایت وارد ہے ‘ جو اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ کہ محصر پر حلق کا حکم اسی طرح باقی ہے جیسا کہ اس شخص پر باقی ہے۔ جو بیت اللہ شریف تک پہنچتا ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ احصار صرف دشمن کی وجہ سے ہوتا ہے مرض پیش آنا احصار میں شمار نہ ہوگا اور اس کو وہیں احرام میں درست ہونے تک ضروری ہے پھر عمرہ مکمل کر کے وہ حلال ہو سکے گا یہ ضروری ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
احصار جس طرح دشمن کے روکنے سے ہوتا ہے مرض وغیرہ بھی احصار کا باعث ہیں اس کے دلائل ابن عباس ‘ ابن مسعود ‘ حجاج بن عمرو ] کی روایات ہیں جن میں مرض ‘ سانپ کا ڈسنا وغیرہ مذکور ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : فلما وقع سے ذکر کیا۔
گزشتہ روایات ابن عباس ‘ ابن مسعود ‘ حجاج ] میں مرض لاحق ہونا ‘ عضو ٹوٹنا ‘ پاؤں لوٹنا صاف مذکور ہے اور اس کا حلال ہونا درست ہے اور اگلے سال اس پر حج لازم ہوگا (اگر احرام حج ہو) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ احصار جس طرح دشمن کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح مرض کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔
روایات کی تصحیح کے لحاظ سے اس بات کا مفہوم یہی ہوگا اب نظری طریقہ سے ہم دیکھیں گے۔
جواب ثانی۔ نظر طحاوی (رض) :
اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ دشمن کا احصار محصر کے لیے حلال کو لازم کرنے والا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دشمن کی رکاوٹ تو اتفاقی طور پر اسباب احلال سے ہے البتہ مرض وغیرہ کے متعلق اختلاف ہے کہ وہ اسباب احلال سے ہے یا نہیں۔ ایک فریق اس کو اسباب احلال سے قرار دیتا ہے جبکہ مرض ایسا شدید ہو اور بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بن جائے تو یہ اسباب احصار سے ہے اور دوسرا فریق اس کو اسباب احلال قرار نہیں دیتا۔
اب اس پر نظر ڈالنے کے دو انداز ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ کیا وہ اشیاء جو دشمن کی وجہ سے درست ہوجاتی ہیں وہ مرض کی وجہ سے بھی مباح اور درست ہوتی ہیں یا نہیں۔ دیکھنے سے معلوم ہو اگر کسی شخص کو قیام پر قدرت حاصل ہو تو اس پر نماز میں قیام لازم و فرض ہے لیکن اگر قیام سے دشمن کے دیکھنے کا خطرہ ہو یا دشمن سر پر کھڑا ہے اور اس کو قیام سے روک رہا ہے تو اس صورت میں سب کے ہاں قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور وہ بیٹھ کر نماز ادا کرسکتا ہے اس پر بھی سب متفق ہیں کہ اگر کسی کو شدید مرض لاحق ہوگیا یا پہلے سے وہ اپاہج اور معذور ہے تو اس پر قیام فرض نہیں ہے وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے گا بالکل اسی طرح رکوع و سجدہ کی طاقت نہ ہو تو ان کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور اشارہ سے رکوع اور سجدہ کرنا جائز ہے۔ اب اس سے معلوم ہوگیا کہ جو چیزیں دشمن کی وجہ سے مباح ہوجاتی ہیں وہ بیماری کی وجہ سے بھی مباح ہوجاتی ہیں۔ فلہذا جس طرح احصار دشمن سے حلال ہونا درست ہے اسی طرح مرض کے احصار سے بھی حلال ہونا جائز ہونا چاہیے۔
دوسرا انداز۔ ورایناالرجل سے شروع ہوتا ہے۔
جب نمازی اور وضو کے پانی کے درمیان دشمن حائل ہوجائے تو اس نماز پر وضو فرض نہیں رہتا اس کو تیمم جائز ہے۔ اسی طرح اگر سخت بیماری کی وجہ سے پانی کا استعمال نقصان دے تو وضو کی فرضیت ساقط ہو کر تیمم جائز ہوجاتا ہے۔
پس اس سے معلوم ہوا کہ ان تمام امور میں دشمن کی وجہ سے جس طرح معذور خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرض کی وجہ سے بھی معذور سمجھا جاتا ہے۔ جب محصر بالعدو بالاتفاق معذور قرار دے کر اس کو حلال ہونا جائز قرار دیا جاتا ہے تو محصر بالمرض کو بھی معذور قرار دے کر حلال ہونا اس کے لیے بھی جائز ہونا قیاس کا تقاضا ہے۔
عنوان رابع محصر بالعمرۃ
فریق اوّل جو عمرہ کا احرام باندھنے والا ہو وہ احصار میں آجائے تو اس کو حلال ہونا جائز نہیں بلکہ اپنے احرام میں باقی رہے یہاں تک کہ احصار ختم ہو اور پھر وہ عمرہ کرے یہ ابن سیرین (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اس کا حکم احصار میں محصر بالحج جیسا ہے ہدی روانہ کر کے وقت مقررہ آنے پر حلال ہوجائے عمرے کے بعد میں قضا لازم ہے جیسا کہ اس پر حج میں حج کی قضا لازم ہے کیونکہ ان کے احرام پورے نہ کرسکا۔ دلائل یہ ہیں۔
نمبر !: کفار قریش نے آپ کو حدیبیہ میں روک دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدی کو نحر کیا اور عمرے سے حلال ہوگئے اور احصار کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا کیونکہ عمرہ کا کوئی وقت نہیں سال کے کسی موقعہ پر بھی ہوسکتا ہے البتہ عذر احصار کو احصار حج کی طرح قرار دیا گیا اور آئندہ اس پر عمرہ لازم کردیا گیا جیسا کہ احصار حج میں وقت چلا جائے تو اگلے سال حج ضروری ہے کیونکہ احرام کی تکمیل سے پہلے وہ حلال ہوگیا اور محرم کو بھی احصار پیش آجاتی ہے جیسا روایت ابن مسعود (رض) میں سانپ کے ڈسنے کا واقعہ مذکور ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
بندوں پر دو قسم کی چیزیں فرض ہوتی ہیں نمبر ایک جن کا خاص وقت مقرر کیا گیا۔ نمبردو تمام اوقات میں ان کی ادائیگی ہوسکتی ہے اول قسم مثلاً نمازوں کے خاص اوقات ہیں ان اوقات میں ان کی شرائط سے ان کو ادا کیا جاسکتا ہے جیسے طہارت ‘ ستر عورت وغیرہ دوسری قسم کی مثال کفارات قتل و ظہار ہیں ان کا دارومدار قائل و مظاہر پر ہے جب چاہے ادا کرے کفارہ قسم کا بھی یہی حال ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچوں نمازوں کے اوقات متعین ہیں مگر اعذار پیش آنے کی صورت میں بعض فرائض ساقط ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وضو ‘ ستر عورت ‘ قیام ‘ رکوع ‘ سجدہ ‘ سمت قبلہ وغیرہ وقت میں گنجائش کے باوجود عذر پیش آنے کی وجہ سے یہ ساقط نہیں ہے اور عذر قابل قبول ہے کیونکہ وہ قطعی و یقینی ہے بالکل اسی طرح کفارات طہار و قتل میں اگر وقتی قدرت نہیں تو روزے کی طرف سے فدیہ دے کر بری الذمہ ہوجائے گا اگرچہ روزے رکھنے کی طاقت آنے کا امکان موجود ہے تو امکان قدرت کی وجہ سے اس کو غیر معذور قرار نہیں دیا جاتا بلکہ معذور سمجھ کر عوض قبول کرتے ہیں۔
اب ثابت ہوا کہ خواہ احکامات کا وقت متعین ہو یا غیر متعین اعذار کی وجہ سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہے خواہ وقت کے فوت ہونے کا خطرہ ہو یا نہ ہو دونوں میں حکم یکساں لگایا جاتا ہے۔ پس نظر و قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ عمرہ کا اگرچہ وقت متعین نہیں ہے۔ مگر عذر کی صورت میں اس سے ادائیگی فرض کو ساقط کر دے گی پس ثابت ہوا کہ احصار میں حج وعمرہ کا حکم یکساں ہے وقتی ادائیگی کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔
ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
عنوان خامس ‘ محصر ذبح کے بعد حلق کرے یا نہ :
فریق اوّل : ہدی کے ذبح کردینے کے بعد اس پر حلق راس لازم نہیں دم سے حلال ہوچکا یہ امام ابوحنیفہ ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
دلیل یہ ہے : احصار کی وجہ سے اس کے حج وعمرہ کے تمام مناسک ساقط ہوگئے مثلاً طواف ‘ سعی وغیرہ اور یہی چیزیں ہیں جن کی ادائیگی سے وہ حلال ہوتا تھا غور فرمائیں جب اس نے نحر کے دن طواف زیارت کرلیا تو اس کو سر منڈوانا درست ہے اور خوشبو و لباس اور نساء بھی حلال ہوجائیں گی جب رمی جمرہ ‘ طواف ‘ سعی وغیرہ سب اس سے ساقط ہوگئے تو حلق بطریق اولیٰ ساقط ہونا چاہیے۔
فریق ثانی و ثالث کا مؤقف و جواب : نحر کے بعد حلق مسنون ہے اور بعض نے واجب قرار دیا ہے۔ دلیل سے پہلے سابقہ مؤقف کا جواب عرض کرتے ہیں۔ محصر کو حالت احصار میں طواف و سعی ‘ رمی جمار وغیرہ امور ادائیگی نہ کرسکنے کی وجہ سے ساقط ہوئے ہیں مگر اس امر کے کرنے میں تو کوئی رکاوٹ نہیں اس کو قدرت کے باوجود کیونکر ساقط کیا جائے۔ پس جن امور میں رکاوٹ ہے وہ ساقط اور جن میں رکاوٹ نہیں وہ اسی طرح لازم رہیں گے پس آپ کی دلیل کا اعتبار نہیں۔
دلیل نمبر 1: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایت وارد ہے جو محصر پر حلق کے حکم کے باقی رہنے پر دلالت کرتی ہے۔ روایت یہ ہے۔

4056

۴۰۵۶ : وَذٰلِکَ أَنَّ رَبِیْعًا الْمُؤَذِّنَ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا‘ أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ ( : حَلَقَ رِجَالٌ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ‘ وَقَصَّرَ آخَرُوْنَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُحَلِّقِیْنَ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَالْمُقَصِّرِیْنَ ؟ قَالَ : یَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُحَلِّقِیْنَ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ وَالْمُقَصِّرِیْنَ ؟ قَالَ : یَرْحَمُ اللّٰہ الْمُحَلِّقِیْنَ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ وَالْمُقَصِّرِیْنَ ؟ قَالَ : وَالْمُقَصِّرِیْنَ .قَالُوْا : فَمَا بَالُ الْمُحَلِّقِیْنَ ظَاہَرْتُ لَہُمْ بِالتَّرَحُّمِ ؟ قَالَ : إِنَّہُمْ لَمْ یَشُکُّوْا) .
٤٠٥٦: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ بعض لوگوں نے حدیبیہ کے دن حلق کیا اور بعض نے قصر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ محلقین پر رحمت فرمائے انھوں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! والمقصرین ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ فرمایا اللہ تعالیٰ محلقین پر رحمت فرمائے انھوں پھر کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمقصرین ؟ آپ نے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ محلقین پر رحمت فرمائے انھوں نے پھر کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمقصرین ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور مقصرین پر رحمت فرمائے۔
انھوں نے سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے محلقین کے لیے کھل کر رحمت کی دعا فرمائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انھوں نے حرف شکایت زبان سے نہیں نکالا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٢٧‘ مسلم فی الحج ٣١٦؍٣١٧‘ ٣٢٠؍٣٢١‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٧٨‘ ترمذی فی الحج باب ٤٧‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧١‘ دارمی فی المناسک باب ٦٤‘ مالک فی الحج ١٨٤‘ مسند احمد ١‘ ٢١٦؍٣٥٣‘ ٢‘ ١٦؍٣٤‘ ٣‘ ٢٠؍٨٩‘ ٤‘ ٧٠؍١٦٥‘ ٥‘ ٣٨١‘ ٦‘ ٣٩٣؍٩٠٢۔

4057

۴۰۵۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٠٥٧: ابن ادریس نے ابو اسحاق سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

4058

۴۰۵۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ أَبِی اِبْرَاہِیْمَ الْأَنْصَارِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا (أَبُوْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَغْفِرُ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ‘ لِلْمُحَلِّقِیْنَ ثَلاَثًا وَالْمُقَصِّرِیْنَ مَرَّۃً) .
٤٠٥٨: ابو ابراہیم انصاری نے ابو سعیدالخدری (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ حدیبیہ کے دن محلقین کے لیے تین مرتبہ اور مقصرین کے لیے ایک مرتبہ استغفار فرما رہے تھے۔

4059

۴۰۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْجَزَّارُ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ أَنَّ أَبَا اِبْرَاہِیْمَ الْأَنْصَارِیَّ حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ (أَنَّ الرَّسُوْلَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ‘ اسْتَغْفَرَ لِلْمُحَلِّقِیْنَ مَرَّۃً‘ وَلِلْمُقَصِّرِیْنَ مَرَّۃً .وَحَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ رُئُ وْسَہُمْ‘ غَیْرَ رَجُلَیْنِ‘ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ‘ وَرَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا حَلَقُوْا جَمِیْعًا إِلَّا مَنْ قَصَّرَ مِنْہُمْ‘ وَفَضَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَقَ مِنْہُمْ عَلٰی مَنْ قَصَّرَ‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہُمْ قَدْ کَانَ عَلَیْہِمَ الْحَلْقُ وَالتَّقْصِیْرُ‘ کَمَا کَانَ عَلَیْہِمْ لَوْ وَصَلُوْا إِلَی الْبَیْتِ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا کَانُوْا فِیْہِ إِلَّا سَوَائً وَلَا کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ فَضِیْلَۃٌ عَلٰی بَعْضٍ .فَفِیْ تَفْضِیْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ‘ الْمُحَلِّقِیْنَ عَلَی الْمُقَصِّرِیْنَ‘ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہُمْ کَانُوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ کَغَیْرِ الْمُحْصَرِیْنَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ حُکْمَ الْحَلْقِ أَوْ التَّقْصِیْرِ لَا یُزِیْلُہٗ الْاِحْصَارُ‘ وَاَللّٰہَ أَسْأَلُہٗ التَّوْفِیْقَ .
٤٠٥٩: ابو ابراہیم انصاری نے ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ والے سال محلقین کے لیے ایک مرتبہ اور مقصرین کے لیے ایک مرتبہ استغفار فرمایا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کی اکثریت نے اپنے سروں کو حلق کروائے۔ صرف دو آدمیوں نے قصر کیا ایک انصاری اور ایک قریشی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جب بعض کے علاوہ تمام نے حلق کروایا اور جناب رسول اللہ نے قصر والوں پر حلق والوں کی فضیلت ذکر فرمائی تو اس سے ثابت ہوگیا کہ ان پر قصر لازم تھا۔ جیسا کہ ان کے کعبہ شریف پر پہنچنے کی صورت میں لازم ہوتا ۔ اگر یہ بات نہ پائی جاتی تو وہ برابر شما ہوتے اور ایک دوسرے پر فضیلت نہ ہوتی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق کرانے والوں کو قصر والوں سے افضل قرار دیا ۔ اس میں یہ دلیل ہے کہ وہ اس سلسلہ میں غیر محصر لوگوں کی طرح تھے جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ احصار (روک لیا جانا) قصر وحلق کے حکم کو زائل نہیں کرتا واللہ اسالہ التوفیق
استدلال طحاوی (رح) ۔ جب اکثریت سے حلق کروائے اور صرف دو نے قصر کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق والوں کو قصر والوں پر فضیلت دی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر حلق و قصر بھی لازم تھا اگر وہ بیت اللہ تک پہنچ پاتے اور گھر تک پہنچنے میں اگر رکاوٹ نہ ہوتی تو سب برابر تھے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا محلقین کو مقصرین پر فضیلت دینا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ حلق میں غیر محصرین کی طرح تھے۔ اس کو قدرت ہوتے ہوئے انھوں نے انجام دیا۔
پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ حلق و تقصیر کو احصار زائل نہیں کرتا۔
اس باب میں طحاوی (رح) نے بعض عنوانات کو اپنے طرز سے ہٹ کر دلائل کو مقدم و مؤخر بنایا ہے ہم نے ان کے طرز کا لحاظ کر کے ان کو ذکر کردیا ہے مگر اس سے روایات کے نمر میں کوئی فرق نہیں آنے دیا بلکہ وہ اپنے تسلسل کے مطابق ہیں۔ آخری عنوان میں امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق دوم کی طرف ہے اسی لیے ہم نے ان کے مؤقف کو بعد میں ذکر کیا ہے اگرچہ دلائل میں امام طحای (رح) نے یہاں اپنے طرز کا لحاظ کیا ہے۔

4060

۴۰۶۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اِبْرَاہِیْمُ بْنُ عُقْبَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلَتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَبِیٍّ ہَلْ لِھٰذَا مِنْ حَجٍّ ؟ قَالَ : نَعَمْ‘ وَلَک أَجْرٌ) .
٤٠٦٠: ابراہیم بن عقبہ نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک عورت نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے بچے کے متعلق سوال کیا۔ کیا اس کا حج ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اور تمہیں اس کا اجر ملے گا۔
تخریج : مسلم فی الحج ٤٠٩؍٤١٠‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨‘ ترمذی فی الحج باب ٨٣‘ نسائی فی الحج باب ١٥‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١١‘ مالک فی الحج ٢٤٤‘ مسند احمد ١‘ ٢١٩؍٢٤٤‘ ٣٤٣؍٣٤٤۔
بچے کا حج تو بالاتفاق معتبر ہے مگر حجۃ الاسلام کی طرف سے اس کا یہ حج واقع ہوگا یا بلوغت کے بعد اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا بعض محدثین کے ہاں اس کا یہ حج فرضی شمار ہوگا۔
تمام ائمہ جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں اس کا حج تو معتبر ہے مگر حج فرضی کے لیے کافی نہ ہوگا۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : بچے کا حج معتبر ہے بلوغت کے بعد اسے دوبارہ حج کی ضرورت نہیں۔ دلیل یہ روایت ہے۔

4061

۴۰۶۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عُقْبَۃَ‘ فَذَکَرَ لِاِسْنَادِہِ مِثْلَہٗ۔
٤٠٦١: مالک نے ابراہیم بن عقبہ سے روایت کی پھر اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

4062

۴۰۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْمَاجِشُوْنِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عُقْبَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الصَّبِیَّ اِذَا حَجّ قَبْلَ بُلُوْغِہِ‘ أَجُزْأَہُ ذٰلِکَ مِنْ حَجَّۃِ الْاِسْلَامِ‘ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ أَنْ یَحُجَّ بَعْدَ ذٰلِکَ بَعْدَ بُلُوْغِہِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یُجْزِیْہِ مِنْ حَجَّۃِ الْاِسْلَامِ‘ وَعَلَیْہِ بَعْدَ بُلُوْغِہٖ حَجَّۃٌ أُخْرٰی .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عِنْدَنَا‘ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ أَنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ أَنَّ لِلصَّبِیِّ حَجًّا‘ وَھٰذَا مِمَّا قَدْ أَجْمَعَ النَّاسُ جَمِیْعًا عَلَیْہٖ‘ وَلَمْ یَخْتَلِفُوْا أَنَّ لِلصَّبِیِّ حَجًّا‘ کَمَا أَنَّ لَہٗ صَلَاۃً‘ وَلَیْسَتْ تِلْکَ الصَّلَاۃُ بِفَرِیْضَۃٍ عَلَیْہِ .فَکَذٰلِکَ أَیْضًا قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ حَجٌّ‘ وَلَیْسَ ذٰلِکَ الْحَجُّ بِفَرِیْضَۃٍ عَلَیْہٖ‘ وَإِنَّمَا ھٰذَا الْحَدِیْثُ حُجَّۃٌ عَلٰی مَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ لَا حَجَّ لِلصَّبِیِّ .فَأَمَّا مَنْ یَقُوْلُ : إِنَّ لَہٗ حَجًّا‘ وَإِنَّہُ غَیْرُ فَرِیْضَۃٍ‘ فَلَمْ یُخَالِفْ شَیْئًا مِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَإِنَّمَا خَالَفَ تَأْوِیْلَ مُخَالَفَۃٍ خَاصَّۃٍ .وَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ہُوَ الَّذِیْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَدْ صَرَفَ ہُوَ‘ حَجَّ الصَّبِیِّ إِلٰی غَیْرِ الْفَرِیْضَۃِ‘ وَأَنَّہٗ لَا یَجْزِیْہِ بَعْدَ بُلُوْغِہٖ مِنْ حَجَّۃِ الْاِسْلَامِ .
٤٠٦٢ : عبدالعزیز بن عبداللہ الماجشون نے ابراہیم بن عقبہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اس بچے کا اپنا حج ہے تو بلوغ کے بعد اس کو دوبارہ حج لازم نہ ہوگا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل و جواب :
حج اسلام کی طرف سے بچے کا حج کفایت نہ کرے گا بلکہ بلوغت کے بعد اس پر حج لازم ہوگا۔
مؤقف اول کا جواب :
اس روایت میں تو اتنی بات مذکور ہے کہ کیا بچے کے لیے حج ہے یعنی وہ حج کرسکتا ہے جیسا کہ اس کے لیے نماز ہے حالانکہ وہ نماز فرض نہیں ہے اس کو سب تسلیم کرتے ہیں اسی طرح یہ درست ہے کہ اس کے لیے حج ہو اور وہ فرض نہ ہو یہ روایت تو ان کے خلاف دلیل ہے جو سرے سے بچے کے حج کے قائل نہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو بچے کے حج کے قائل ہیں مگر اس کو حج فرض قرار نہیں دیتے اس روایت میں ان کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے ابن عباس (رض) جو اس روایت کے راوی ہیں وہ بچے کے حج کو فرض قرار نہیں دیتے بلکہ بلوغت کے بعد دوبارہ حج کا حکم فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ تم نے روایت کا جو معنی لیا وہ درست نہیں۔ روایت ابن عباس (رض) یہ ہے۔

4063

۴۰۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبِی السَّفَرِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ : (یَا أَیُّہَا النَّاسُ‘ أَسْمِعُوْنِیْ مَا تَقُوْلُوْنَ‘ وَلَا تَخْرُجُوْا‘ تَقُوْلُوْنَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَیُّمَا غُلَامٍ حَجَّ بِہٖ أَہْلُہُ‘ فَمَاتَ‘ فَقَدْ قَضَیْ حَجَّۃَ الْاِسْلَامِ‘ فَإِنْ أَدْرَکَ فَعَلَیْہِ الْحَجُّ‘ وَأَیُّمَا عَبْدٍ حَجَّ بِہٖ أَہْلُہٗ فَمَاتَ‘ فَقَدْ قَضَیْ حَجَّۃَ الْاِسْلَامِ‘ فَإِنْ أُعْتِقَ فَعَلَیْہِ الْحَجُّ) .
٤٠٦٣: ابوالسفر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو فرماتے سنا ہے اے لوگو ! میری بات سنو تم کیا کہتے ہو اور صحیح بات سے مت نکلنا تم کہتے ہو کہ ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ جس بچے نے اپنے اہل کے ساتھ حج کیا پھر وہ فوت ہوگیا تو اس نے گویا حجۃ الاسلام ادا کرلیا۔ اگر انھوں نے پا لیا تو اس پر حج لازم ہے۔ جس غلام کو اس کے مالک نے حج کرایا پھر وہ مرگیا تو اس کا فرض حج پورا ہوگیا اور اگر اسے آزاد کردیا گیا تو اس کے ذمہ حج ہوگا۔

4064

۴۰۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ صَاحِبِ الْحُلِیِّ‘ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْمَمْلُوْکِ اِذَا حَجَّ ثُمَّ عَتَقَ بَعْدَ ذٰلِکَ ؟ قَالَ : عَلَیْہِ الْحَجُّ أَیْضًا‘ وَعَنِ الصَّبِیِّ یَحُجُّ ثُمَّ یَحْتَلِمُ‘ قَالَ : یَحُجُّ أَیْضًا .وَقَدْ زَعَمْتُمْ أَنَّ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثًا فَہُوَ أَعْلَمُ بِتَأْوِیْلِہٖ، فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ ثُمَّ قَالَ ہُوَ‘ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَیَجِبُ عَلٰی أَصْلِکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلٰی مَعْنٰی مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا الَّذِیْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْحَجَّ لَا یُجْزِیْہِ مِنْ حَجَّۃِ الْاِسْلَامِ ؟ قُلْتُ؟ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃٍ‘ عَنِ الصَّغِیْرِ حَتّٰی یَکْبَرَ) وَقَدْ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہِ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ‘ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ ثَبَتَ أَنَّ الْقَلَمَ عَنِ الصَّبِیِّ مَرْفُوْعٌ‘ ثَبَتَ أَنَّ الْحَجَّ عَلَیْہِ غَیْرُ مَکْتُوْبٍ‘ وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ صَبِیًّا لَوْ دَخَلَ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ فَصَلَّاہَا‘ ثُمَّ بَلَغَ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ وَقْتِہَا أَنَّ عَلَیْہِ أَنْ یُعِیْدَہَا‘ وَہُوَ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یُصَلِّہَا .فَلَمَّا ثَبَتَ ذٰلِکَ مِنْ اتِّفَاقِہِمْ‘ ثَبَتَ أَنَّ الْحَجَّ کَذٰلِکَ‘ وَأَنَّہٗ اِذَا بَلَغَ وَقَدْ حَجَّ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ أَنَّہٗ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَحُجَّ‘ وَعَلَیْہِ أَنْ یَحُجَّ بَعْدَ ذٰلِکَ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا فِی الْحَجِّ حُکْمًا یُخَالِفُ حُکْمَ الصَّلَاۃِ‘ وَذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا أَوْجَبَ الْحَجَّ عَلٰی مَنْ وَجَدَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا‘ وَلَمْ یُوْجِبْہُ عَلٰی غَیْرِہٖ۔ فَکَانَ مَنْ لَمْ یَجِدْ سَبِیْلًا إِلَی الْحَجِّ‘ فَلاَ حَجَّ عَلَیْہٖ‘ کَالصَّبِیِّ الَّذِیْ لَمْ یَبْلُغْ .ثُمَّ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ مَنْ لَمْ یَجِدْ سَبِیْلًا إِلَی الْحَجِّ‘ فَحَمَلَ عَلٰی نَفْسِہِ وَمَشَیْ حَتّٰی حَجَّ‘ أَنَّ ذٰلِکَ یُجْزِیْہٖ‘ وَإِنْ وَجَدَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا بَعْدَ ذٰلِکَ‘ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ أَنْ یَحُجَّ ثَانِیَۃً‘ لِلْحَجَّۃِ الَّتِیْ قَدْ کَانَ حَجَّہَا قَبْلَ وُجُوْدِہِ السَّبِیْلَ .فَکَانَ النَّظَرُ - عَلٰی ذٰلِکَ - أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الصَّبِیُّ اِذَا حَجَّ قَبْلَ الْبُلُوْغِ‘ فَفَعَلَ مَا لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ‘ أُجْزَاہُ ذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ أَنْ یَحُجَّ ثَانِیَۃً بَعْدَ الْبُلُوْغِ .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الَّذِیْ لَا یَجِدُ السَّبِیْلَ‘ إِنَّمَا سَقَطَ الْفَرْضُ عَنْہُ لِعَدَمِ الْوُصُوْلِ إِلَی الْبَیْتِ‘ فَإِذَا مَشٰی فَصَارَ إِلَی الْبَیْتِ‘ فَقَدْ بَلَغَ الْبَیْتَ‘ وَصَارَ مِنَ الْوَاجِدِیْنَ لِلسَّبِیْلِ‘ فَوَجَبَ الْحَجُّ عَلَیْہِ لِذٰلِکَ‘ فَلِذٰلِکَ قُلْنَا إِنَّہُ أَجْزَأَہُ حَجَّۃً‘ وَلِأَنَّہٗ صَارَ بَعْدَ بُلُوْغِہِ الْبَیْتَ‘ کَمَنْ کَانَ مَنْزِلُہٗ ہُنَالِکَ‘ فَعَلَیْہِ الْحَجُّ .وَأَمَّا الصَّبِیُّ فَفَرْضُ الْحَجِّ غَیْرُ وَاجِبٍ عَلَیْہٖ‘ قَبْلَ وُصُوْلِہٖ إِلَی الْبَیْتِ‘ وَبَعْدَ وُصُوْلِہٖ إِلَیْہٖ‘ لِرَفْعِ الْقَلَمِ عَنْہُ فَإِذَا بَلَغَ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ فَحِیْنَئِذٍ وَجَبَ عَلَیْہِ فَرْضُ الْحَجِّ .فَلِذٰلِکَ قُلْنَا : إِنَّ مَا قَدْ کَانَ حَجُّہُ قَبْلَ بُلُوْغِہِ‘ لَا یُجْزِیْہٖ‘ وَأَنَّ عَلَیْہِ أَنْ یَسْتَأْنِفَ الْحَجَّ بَعْدَ بُلُوْغِہِ‘ کَمَنْ لَمْ یَکُنْ حَجَّ قَبْلَ ذٰلِکَ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٠٦٤: یونس بن عبید صاحب الحلی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے غلام کے متعلق سوال کیا کہ جب غلام حج کرے پھر آزاد کردیا جائے ؟ فرمایا اس پر حج لازم ہوگا۔ میں نے بچے کے متعلق پوچھا کہ وہ بچپن میں حج کرے پھر بالغ ہو ؟ تو آپ نے فرمایا اس پر حج لازم ہے۔ تمہارے ہاں یہ بات مانی ہوئی ہے کہ حدیث کا راوی اس کی مراد کو زیادہ جانتا ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جن ہوں نے اس روایت کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس باب کے شروع میں روایت کیا پھر انھوں نے وہ بات فرمائی جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔ تو تمہارے ضابطے کے مطابق یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایت پر دلیل ہونی چاہیے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ حج فریضہ اسلام کی جگہ کافی نہیں ہے۔ تو اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے۔ تین آدمی مرفوع القلم ہیں نمبر ١ بچہ یہاں تک کہ بڑا ہوجائے (الحدیث) یہ روایت اپنی اسناد کے ساتھ اسی کتاب میں دوسرے موقع پر درج ہے۔ جب بچہ مرفوع القلم ہے۔ تو یہ خود ثابت ہوگیا کہ اس کا حج فرض نہیں ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی بچہ نماز کے وقت نماز ادا کرے ۔ پھر اس نماز کے وقت میں بالغ ہوجائے تو اسے نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور وہ نماز نہ پڑھنے والے کے حکم میں ہوگا ۔ جب سب کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تو یہ ثابت ہوا کہ حج کا حکم بھی یہی ہے اور جب وہ حج کے بعد بالغ ہو تو وہ حج نہ کرنے والے کے حکم میں ہوگا اور اس پر دوبارہ حج فرض ہوگا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ حج کا حکم نماز کے حکم سے مختلف ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حج تو اس پر فرض ہے جو وہاں پہنچنے کی طاقت واستطاعت رکھتا ہے۔ اس کے سواء دوسرے پر فرض نہیں ۔ عدم استطاعت والے پر فرض نہیں جیسا کہ بچے کے بلوغ تک اس پر فرض نہیں پھر ان علماء کا اس پر اجماع ہے۔ جس شخص کے پاس خرچہ سفر نہ ہو اور وہ اپنے کو مشقت میں ڈال کر پیدل حج کرے ۔ تو یہ اس لے لیے کافی ہے۔ اگر اس کے بعد اس کو طاقت میسر آبھی جائے تب بھی اس پر حج فرض نہ ہوگا ۔ پہلا حج اس نے عدم استطاعت میں کیا۔ اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ بچے کا حکم بھی یہی ہو۔ کہ جب بلوغت سے پہلے اس نے حج کرلیا اور اس وقت اس پر فرض نہ تھا تو یہ اس کے لیے کافی ہونا چاہیے بلوغت کے بعد اسے حج کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں یہ گ ہیں گے کہ جو وہاں تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا اس سے فرضیت کے ساقط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ تک پہنچ نہیں سکتا ۔ پس اگر پیدل چل کر بیت اللہ تک پہنچ جائے وہاں تک پہنچنے والوں کی طاقت حاصل کرنے والوں میں بن جائے اس وجہ سے اس پر حج لازم ہوگا ۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ یہ حج اس کے لیے کافی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ بیت اللہ پہنچنے پر وہ وہاں کا ساکن شمار ہوگا اور اس پر حج لاز ہوگا لیکن بچے پر بیت اللہ تک پہنچنے سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں حج لازم نہیں ۔ کیونکہ وہ مرفوع القلم ہے۔ جب وہ اس کے بعد بالغ ہوگا تو اس پر حج فرض ہوگا ۔ اسی وجہ سے تو ہم کہتے ہیں جس نے قبل البلوغ حج کیا وہ اس کے لیے کفایت نہ کرے گا۔ اسے لیے سرے سے حج لازم ہوگا ۔ جیسا وہ شخص کرتا ہے جس نے اس سے پہلے حج نہ کیا جو۔ اس باب میں قیاس یہی ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
حاصل روایات : راوی حدیث کو خوب جانتا ہے ابن عباس (رض) نے پہلے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایت کی جو مذکور ہوئی پھر یہ فتویٰ دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روایت کا جو معنی تم لے رہے ہو وہ درست نہیں۔
ایک اشکال :
آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ بچے کا حج حجۃ الاسلام کی طرف سے کفایت نہ کرے گا۔
نوٹ : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین قسم کے لوگ ہیں جو احکام کے مکلف نہیں ہیں اگر وہ ادا کریں تو یہ ان کی طرف سے نفل ہوگا۔ ایک بچہ ‘ دوسرا مجنون ‘ تیسرا سونے والا۔
تخریج : بخاری کتاب الطلاق باب ١١‘ الحدود باب ٢٢‘ ابو داؤد باب ١٧‘ ترمذی فی الحدود باب ١‘ نسائی فی الطلاق باب ٢١‘ ابن ماجہ فی الطلاق باب ١٥‘ دارمی فی الحدود باب ١‘ مسند احمد ١؍١٦‘ ٦؍١٠٠۔
پس بچہ جب فرائض کا مکلف نہیں تو حج بھی فریضہ ہے اس لیے جب وہ حج کرے گا تو اس کی طرف سے نفل ہوگا جس طرح بچہ فرض نماز ادا کرلیتا ہے تو اس کے بعد نماز کے وقت کے اندر بالغ ہوجائے تو اس پر نماز کا اعادہ ہے اور وہ نماز نہ پڑھنے والے کے حکم میں ہوجاتا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے پس اسی طرح حج کا بھی حکم ہوگا کہ بلوغت کے بعد اس کا حج اسی طرح ہے جیسے اس نے حج نہیں کیا۔ فلہذا اس پر دوسرا حج لازم ہوگا۔
دوسرا اشکال :
آپ نے بچے کے حج کو بچے کی نماز پر قیاس کیا یہ قیاس مع الفارق ہے نماز کے لیے زادراہ کی شرط نہیں حج کے لیے بالغ ہونے کے باوجود زادراہ کی شرط لازم ہے کیونکہ بالغ ہونے کے بعد اگر زادراہ میسر نہیں مگر وہ پیدل حج کرے اور پھر امیر ہوجائے تو آپ اس پر حج کو دوبارہ لازم نہیں کرتے بلکہ اسی کو سمار کرتے ہیں تو حج کو حج پر قیاس کرو نہ کہ نماز پر۔ پس بچے کا حج جو بچپن میں کیا وہ حجۃ الاسلام شمار ہونا چاہیے۔
نوٹ : آپ نے غیر مکلف کو غیر مستطیع پر قیاس کیا جو کہ درست نہیں غیر مستطیع پر حج فرض نہ ہونے کی وجہ بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت نہ ہونا ہے جب اس نے مشقت اٹھا کر پیدل اس رکاوٹ کو دور کرلیا تو اب رکاوٹ ختم ہونے کی وجہ سے اس پر حج فرض ہوگیا۔ اور مکہ پہنچ کر وہ مکی کے حکم میں ہوگیا اہل مکہ پر حج کے لیے راستہ کی سہولت شرط نہیں جب یہ اس کے حل میں ہوا تو سہولت اس کے لیے شرط نہیں۔ جس طرح مشقت سے حج کرے گا ادا ہوجائے گا بخلاف بچے کے وہ تو بیت اللہ میں پہنچے یا نہ پہنچے بہر صورت غیر مکلف ہے فلہذا بلوغت کے بعد جب وہ فرض کا مخاطب بنے گا تو اس پر حج فرض ہوگا اور اسی وقت کی ادائیگی حجۃ الاسلام کی ادائیگی شمار ہوگی۔
اس باب میں نظر کا بھی یہی تقاضا ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔

4065

۴۰۶۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَلّٰی بْنُ مَنْصُوْرٍ ح .
٤٠٦٥: علی بن معبد نے معلی بن منصور سے روایت کی ہے۔
جو شخص حج وعمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو اسے تو بلا احرام حرم میں داخلہ جائز ہے مگر وہ شخص جو حرم میں داخل ہونا چاہتا ہے وہ میقات سے بلا احرام حدود حرم میں داخل ہوسکتا ہے یا نہیں۔
نمبر 1: ابن شہاب حسن بصری ‘ شافعی ومالک رحمہم اللہ کے ہاں بلا احرام میقات سے تجاوز درست ہے۔
نمبر 2: عطاء ‘ نخعی و طاؤس طحاوی رحمہم اللہ کے ہاں بلا احرام میقات سے تجاوز جائز نہیں ہے۔
نمبر 3: میقات کے باہر والے لوگوں کو بلا احرام داخلہ جائز ہے۔
نمبر 4: امام احمد ‘ شافعی ومالک رحمہم اللہ کے ہاں بلا احرام میقات کے باہر والوں کو داخل حرم ہونا ناجائز ہے۔
فریق اوّل : بلا احرام میقات سے تجاوز درست ہے اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔ دلیل۔

4066

۴۰۶۶ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَکِیْمٍ الْأَوْدِیُّ ح .
٤٠٦٦: علی بن عبدالرحمن نے علی بن حکیم ازدی سے روایت کی ہے۔

4067

۴۰۶۷ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالُوْا : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ دَخَلَ مَکَّۃَ یَوْمَ الْفَتْحِ‘ وَعَلٰی رَأْسِہٖ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ) .
٤٠٦٧: ابوالزبیر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔
تخریج : مسلم فی الحج باب ٤٥١؍٤٥٢‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٦‘ ٢٠‘ ٢١‘ ترمذی فی اللباس باب ١١‘ والجہاد باب ٩‘ تفسیر سورة ٦٩‘ باب ٢‘ نسائی فی المناسک باب ١٠٧‘ والنسائی فی الزینہ باب ١٠٩‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٨٥‘ واللباس باب ١٤؍١٥‘ والجہاد باب ٢٢‘ دارمی فی المناسک باب ٨٨‘ مسند احمد ٣‘ ٣٦٣؍٣٨٧۔

4068

۴۰۶۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ح .وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ۔
٤٠٦٨: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4069

۴۰۶۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہُ ح .
٤٠٦٩: ابن وہب نے بیان کیا کہ مالک نے ان کو بیان کیا ہے۔

4070

۴۰۷۰ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّۃَ‘ وَعَلٰی رَأْسِہٖ مِغْفَرٌ‘ فَلَمَّا کَشَفَ الْمِغْفَرَ عَنْ رَأْسِہِ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ‘ فَقَالَ اُقْتُلُوْہٗ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِدُخُوْلِ الْحَرَمِ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَصْلُحُ لِأَحَدٍ کَانَ مَنْزِلُہٗ مِنْ وَرَائِ الْمِیْقَاتِ إِلَی الْأَمْصَارِ أَنْ یَدْخُلَ مَکَّۃَ إِلَّا بِإِحْرَامٍ .وَاخْتَلَفَ ہٰؤُلَائِ ‘ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : وَکَذٰلِکَ النَّاسُ جَمِیْعًا‘ مَنْ کَانَ بَعْدَ الْمِیْقَاتِ وَقَبْلَ الْمِیْقَاتِ‘ غَیْرَ أَہْلِ مَکَّۃَ خَاصَّۃً .وَقَالَ آخَرُوْنَ : مَنْ کَانَ مَنْزِلُہٗ فِیْ بَعْضِ الْمَوَاقِیْتِ أَوْ فِیْمَا بَعْدَہَا إِلٰی مَکَّۃَ‘ فَلَہُ أَنْ یَدْخُلَ مَکَّۃَ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ .وَمَنْ کَانَ مَنْزِلُہٗ قَبْلَ الْمَوَاقِیْتِ‘ لَمْ یَدْخُلْ مَکَّۃَ إِلَّا بِإِحْرَامٍ‘ وَمِمَّنْ قَالَ ھٰذَا الْقَوْلَ‘ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : أَہْلُ الْمَوَاقِیْتِ حُکْمُہُمْ حُکْمُ مَنْ کَانَ قَبْلَ الْمَوَاقِیْتِ‘ وَجَعَلَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ حُکْمَ أَہْلِ الْمَوَاقِیْتِ‘ کَحُکْمِ مَنْ کَانَ مِنْ وَرَائِہِمْ إِلٰی مَکَّۃَ .وَلَیْسَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا - عِنْدَنَا - مَا قَالُوْا‘ أَنَّا رَأَیْنَا مَنْ یُرِیْدُ الْاِحْرَامَ‘ اِذَا جَاوَزَ الْمَوَاقِیْتَ حَلَالًا‘ حَتَّی فَرَغَ مِنْ حَجَّتِہٖ‘ وَلَمْ یَرْجِعْ إِلَی الْمَوَاقِیْتِ‘ کَانَ عَلَیْہِ دَمٌ .وَمَنْ أَحْرَمَ مِنَ الْمَوَاقِیْتِ‘ کَانَ مُحْسِنًا‘ وَکَذٰلِکَ مَنْ أَحْرَمَ قَبْلَہَا‘ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا .فَلَمَّا کَانَ الْاِحْرَامُ مِنَ الْمَوَاقِیْتِ‘ فِیْ حُکْمِ الْاِحْرَامِ مِمَّا قَبْلَہَا‘ لَا فِی الْاِحْرَامِ مِمَّا بَعْدَہَا‘ ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ الْمَوَاقِیْتِ کَحُکْمِ مَا قَبْلَہَا‘ لَا کَحُکْمِ مَا بَعْدَہَا .فَلاَ یَجُوْزُ لِأَہْلِہَا مِنْ دُخُوْلِ الْحَرَمِ إِلَّا مَا یَجُوْزُ لِأَہْلِ الْأَمْصَارِ الَّتِیْ قَبْلَ الْمَوَاقِیْتِ .فَانْتَفٰی بِھٰذَا مَا قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فِیْ حُکْمِ أَہْلِ الْمَوَاقِیْتِ .وَاحْتَجْنَا إِلَی النَّظَرِ فِی الْأَخْبَارِ‘ ہَلْ فِیْہَا مَا یَدْفَعُ دُخُوْلَ الْحَرَمِ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ ؟ وَہَلْ فِیْہَا مَا یُنْبِئُ عَنْ مَعْنًی‘ فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ الْمُتَقَدِّمَیْنِ‘ یَجِبُ بِذٰلِکَ الْمَعْنٰی أَنَّ ذٰلِکَ الدُّخُوْلَ الَّذِیْ کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ خَاصٌّ لَہٗ .فَاعْتَبَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٠٧٠: زہری نے انس (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اس وقت آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ اور مغفر تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغفر ہٹا دیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ ابن خطل کعبہ شریف کے پردوں کو تھامنے والا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو قتل کر دو ۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت نے اس بات کو اختیار کیا کہ بلا احرام حرم میں جانے میں کچھ حرج نہیں ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں مندرجہ بالا روایات کو مستدل قرار دیا ہے۔ مگر دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کا گھر میقات سے باہر ہو اس کا بلا احرام مکہ میں داخلہ درست نہیں ہے۔ پھر ان حضرات میں یہ اختلاف ہے کہ بعض تو اہل مکہ کے علاوہ تمام لوگوں کا حکم یہی بتلاتے ہیں۔ خواہ وہ میقات کے اندر ہوں یا باہر۔ دوسرے حضرات کا کہنا یہ ہے کہ جب کسی کا گھر میقات پر ہو یا اس کے اندر مکہ والی جانب ہو ۔ وہ بلا احرام داخل ہوسکتا ہے اور جس کا گھر میقات سے باہر ہو وہ بلا احرام اندر نہیں آسکتا ۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے اختیار کیا۔ دوسرے حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اہل میقات کا حکم آفاقی کا ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ نے اہل میقات کو ان لوگوں میں شامل کیا جو میقات کے اندر مکہ کی جانب رہتے ہیں۔ مگر امام طحاوی (رح) کے ہاں ان کا یہ قول قیاس کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ جو احرام کا ارادہ کرے اور پھر بلا احرام میقات سے گزر جائے یہاں تک کہ وہ حج سے فارغ ہوجائے اور میقات کی طرف لوٹ کر احرام نہ باندھا ہو تو اس پر قربانی لازم ہے۔ اور اسی طرح جو اس سے پہلے احرام باندھ لے وہ بھی نیکو کار ہے۔ جب میقات سے احرام باندھنا اس کے باہر سے احرام باندھنے جیسا ہے اندر سے احرام باندھنے کی طرح نہیں تو میقات کا حکم ماقبل کی طرح ہے مابعد جیسا نہیں پس میقات والوں کے لیے حرم میں داخلہ اس حالت میں جائز جس حالت میں میقات سے آفاقی داخل ہوسکتے ہیں۔ اس بحث سے حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کے قول کی نفی ثابت ہوگئی۔ اب ہمیں احادیث میں غور کی ضرورت ہے کیا ان میں کوئی ایسی بات ہے جو احرام کے بغیر حرم میں داخلہ کو مانع ہے اور کیا ان میں اب گزشتہ دو روایات کے معنیٰ پر کچھ دلالت مل سکے گی ۔ جس سے یہ معلوم ہو کہ حرم مکہ میں آپ کا بلا احرام داخلہ وہ آپ کے ساتھ تو خاص تھا ۔ ہم نے اس پر غور کیا تو ذیل کی روایات سامنے آئیں۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٦٩‘ والمغازی باب ٤٨‘ واللباس باب ١٧‘ مسلم فی الحج ٤٥٠‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١١٧‘ ترمذی فی الجہاد باب ١٨‘ نسائی فی لامناسک باب ١٠٧‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ١٨‘ دارمی فی المناسک باب ٨٨‘ ولسیر باب ٢٠‘ مالک فی الحج ٢٤٧‘ مسند احمد ٣‘ ١٠٩؍١٦٤‘ ١٨٠؍١٨٦‘ ٢٣٢؍٢٤٠۔
لغات : المغفر۔ خود۔ العمامہ۔ پگڑی۔
حاصل روایات : ان روایات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بلا احرام مکہ میں داخلہ ثابت ہو رہا ہے خود کا پہننا اس کی واضح علامت ہے۔
فریق ثانی و ثالث و رابع کا مؤقف : کہ سر زمین حرم میں بلا احرام داخلہ جائز نہیں البتہ اس میں اختلاف ہے کہ قبل المیقات یا بعد المیقات یکساں ہے یا نہیں۔
نمبر 1: بعض نے یکساں قرار دیا۔
نمبر 2: میقات کے اندر والے کا حکم مکی کا ہے۔ باہر والے کا آفاقی کا حکم ہے۔
نمبر 3: میقات سے پہلے گھر والے کو بلا احرام داخلہ درست نہیں یہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
نمبر 4: اہل میقات کا حکم بھی آفاقی والا ہے مگر امام ابوحنیفہ (رح) اور صاحبین (رح) نے اہل مواقیت کو میقات کے اندر والوں میں شامل کیا۔
احناف کے ایک قول کی تردید : اہل میقات کو احناف نے حل والوں میں شامل کیا مگر یہ درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر میقات سے باہر کا آدمی حج کے ارادے سے جائے بلا احرام میقات سے تجاوز کر جائے اور پھر احرام باندھ کر حج کرے اور اس سے فارغ ہوجائے احرام کے لیے میقات نہ لوٹے تو اس پر صرف دم لازم ہے اور جو میقات سے احرام باندھے وہ سنت پر عمل کرنے والا ہے۔ میقات سے بہت پہلے باندھ لے یہ بھی مسنون طریقہ ہے میقات کا احرام جب میقات سے پہلے احرام باندھنے کی طرح ہے تو اہل میقات کا حکم آفاقی کا ہوگا نہ کہ حل والوں جیسا فلہذا۔ جس طرح میقات کے باہر والے بلا احرام حرم میں داخل نہیں ہوسکتے اسی طرح اہل میقات کو بھی بلا احرام داخل ہونا جائز نہیں اس قیاس سے احناف کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : حضرت جابر (رض) اور حضرت انس (رض) کی روایت کا مطلب درست طور پر جاننے کے لیے دیگر روایات پر غور کرنا ہوگا تاکہ دخول حرم بلا احرام کی مدافعت میں کوئی اور روایات بھی ان کی معاون ہیں یا نہیں اگر نہیں تو ان کا مفہوم کیا ہے۔ بلا احرام دخول مکہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خاص تھا کچھ وقت کے لیے وہاں کی حرمت آپ کے لیے اٹھائی گئی پھر قیامت تک کے لیے قائم کردی گئی۔

4071

۴۰۷۱ : فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَکَّۃَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ‘ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‘ وَوَضَعَہَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْأَخْشَبَیْنِ لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ، وَلَمْ تَحِلَّ لِی إِلَّا سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ لَا یُخْتَلَی خَلَاہَا‘ وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُہَا‘ وَلَا یَرْفَعُ لُقَطَتَہَا إِلَّا مُنْشِدٌ فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَّا الْاِذْخِرَ فَإِنَّہُ لَا غِنَی لِأَہْلِ مَکَّۃَ عَنْہُ لِبُیُوْتِہِمْ وَقُبُوْرِہِمْ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْاِذْخِرَ) .
٤٠٧١: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن سے حرمت والا بنایا جس دن آسمان و زمین ‘ سورج و چاند کو بنایا اور کعبہ اللہ کو ان دو پہاڑوں اخشبین یعنی جبل ابو قیس اور جبل قیقعان کے درمیان رکھا۔ یہ مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا۔ اس کے گھاس کو نہ کاٹا جائے گا اور نہ اس کے درخت کاٹے جائیں گے اس کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھائے ہاں وہ آدمی اٹھاسکتا ہے جو اعلان کرنے والا ہو۔ عباس (رض) کہنے لگے مگر اذخر اس لیے کہ اہل مکہ کو اپنے گھروں اور قبور کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے اس پر آپ نے فرمایا مگر اذخر کو کاٹنے کی اجازت ہے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٧٦‘ والعلم باب ٣٩‘ والصید باب ٩؍١٠‘ واللقطہ باب ٧‘ والمغازی باب ٥٣‘ مسلم فی الحج ٤٤٥؍٤٤٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٩‘ نسائی فی الحج باب ١١٠‘ ١٢٠‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ١٠٣‘ مسند احمد ١‘ ٢٥٣؍٢٥٩‘ ٣؍١٩٩۔
لغات : : اخشبان۔ یہ دو پہاڑوں کو کہتے ہیں۔ ابو قبیس ‘ قیقعان۔ الاختلاء۔ کاٹنا۔ خلا۔ ترگھاس۔ لایعضد۔ نہ کاٹنا۔ لقطہ۔ گری پڑی چیز منشد۔ گمشدہ کا اعلان کرنے والا۔ الاذخر۔ عمدہ خوشبو والی نبات ہے۔

4072

۴۰۷۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی‘ عَنْ أَبِیْ ذِئْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ الْمَقْبُرِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا شُرَیْحٍ الْکَعْبِیَّ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَلَمْ یُحَرِّمْہُ النَّاسُ‘ فَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاَللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ‘ فَلاَ یَسْفِکَنَّ فِیْہَا دَمًا وَلَا یَعْضُدَنَّ فِیْہَا شَجَرًا‘ فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ فَقَالَ : قَدْ حَلَّتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَحَلَّہَا لِیْ وَلَمْ یُحِلَّہَا لِلنَّاسِ‘ وَإِنَّمَا أَحَلَّہَا لِیْ سَاعَۃً) .
٤٠٧٢: سعیدالمقبری نے ابو شریح کعبی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرام کیا۔ لوگوں نے اسے حرام نہیں کیا جس کو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان ہو وہ اس میں کوئی خون نہ بہائے اور ہرگز اس کا درخت نہ کاٹے اگر کوئی رخصت پسند یہ کہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال کیا (تو میرے لیے کیوں حلال نہیں) (تو تم اسے کہنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) اس کو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تھوڑی دیر کے لیے حلال کیا اور لوگوں کے لیے حلال نہیں کیا۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣٧‘ والصید باب ٨‘ ٩‘ والمغازی باب ٥١‘ مسلم فی الحج ٤٤٦‘ ترمذی فی الحج باب ١‘ الدیات باب ١٣‘ نسائی فی المناسک باب ١١١‘ مسند احمد ٤؍٣١‘ ٣٢‘ ٦؍٤٨٥۔

4073

۴۰۷۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدٌ الْمَقْبُرِیُّ‘ عَنْ (أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ : لَمَّا بَعَثَ عَمْرُو بْنُ سَعِیْدٍ الْبَعْث إِلٰی مَکَّۃَ لِغَزْوِ ابْنِ الزُّبَیْرِ أَتَاہُ أَبُوْ شُرَیْحٍ فَکَلَّمَہٗ بِمَا سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی نَادِیْ قَوْمِہٖ فَجَلَسَ‘ فَقُمْتُ إِلَیْہِ فَجَلَسْتُ مَعَہٗ۔ قَالَ : فَحَدَّثَ عَمَّا حَدَّثَ عَمْرٌو عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَمَّا جَاوَبَہٗ بِہٖ عَمْرٌو .قَالَ : قُلْتُ إِنَّا کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ افْتَتَحَ مَکَّۃَ‘ فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ‘ خَطَبَنَا فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ‘ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَکَّۃَ‘ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَہِیَ حَرَامٌ مِنْ حَرَامِ اللّٰہِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘ لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ یُؤْمِنُ بِاَللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ فِیْہَا دَمًا‘ وَلَا یَعْضِدَ بِہَا شَجَرًا‘ لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِیْ، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِیْ، وَلَمْ تَحِلَّ لِی إِلَّا ھٰذِہِ السَّاعَۃَ‘ غَضَبًا عَلٰی أَہْلِہَا‘ أَلَا ثُمَّ قَدْ عَادَتْ کَحُرْمَتِہَا بِالْأَمْسِ‘ فَمَنْ قَالَ لَکُمْ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَحَلَّہَا فَقُوْلُوْا لَہٗ : إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحَلَّہَا لِرَسُوْلِہٖ، وَلَمْ یُحِلَّہَا لَک .فَقَالَ لِیْ : انْصَرِفْ أَیُّہَا الشَّیْخُ‘ فَنَحْنُ أَعْرَفُ بِحُرْمَتِہَا مِنْک‘ إِنَّہَا لَا تَمْنَعُ سَافِکَ دَمٍ وَلَا مَانِعَ خَرِبَۃٍ‘ وَلَا خَالِعَ طَاعَۃٍ .قُلْتُ : قَدْ کُنْتُ شَاہِدًا‘ کُنْتُ غَائِبًا‘ وَقَدْ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَلِّغَ شَاہِدُنَا غَائِبَنَا‘ وَقَدْ أَبْلَغْتُک) .
٤٠٧٣: سعید مقبری نے ابو شریح خزاعی (رض) سے روایت کی ہے جب عمرو بن سعید نے ایک دستہ عبداللہ بن زبیر (رض) سے لڑائی کے لیے بھیجا تو ابو شریح (رض) خود عمرو بن سعید کے پاس گئے اور جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا وہ اس کو سنایا پھر اپنی قوم کی مجلس میں آ بیٹھے تو میں ان کے پاس اٹھ کر گیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا چنانچہ انھوں نے مجھے وہی روایت سنائی جو عمرو بن سعید کو سنائی اور وہ بھی بتلایا جو عمرو نے جواب دیا اور کہنے لگے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس وقت ساتھ تھے جب مکہ فتح ہوا جب فتح مکہ سے اگلا دن آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ اللہ تعالیٰ کے محترم مقامات سے ہے جو قیامت تک محترم رہیں گے۔ کسی شخص کو جائز نہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین رکھتا ہو۔ کہ وہ اس میں کوئی خون بہائے اور نہ یہ جائز ہے کہ کوئی درخت کاٹے۔ اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں فرمایا اور میرے بعد بھی کسی کے لیے حلال نہیں اور میرے لیے بھی صرف ایک گھڑی کے لیے حلال فرمایا اور اس کا سبب اہل مکہ مشرکین پر غضب کا اظہار تھا۔ خبردار سنو ! پھر اس کی حرمت پہلے کی طرح واپس لوٹ آئی ہے جو شخص تمہیں کہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حلال کیا تو اس کو یہ جواب دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس کو حلال کیا ہے اس کو تیرے لیے حلال نہیں کیا۔ سعید کہتے ہیں ابو شریح کہنے لگے میری بات سن کر عمرو بن سعید کہنے لگا اے بوڑھے ! تم لوٹ جاؤ ہم تیری نسبت اس کی حرمت سے زیادہ واقف ہیں یہ خون بہانے والے سے نہیں روکتا اور نہ خون خرابہ کرنے والے سے روکتا ہے اور نہ امیر کی اطاعت سے نکلنے والے سے روکتا ہے میں نے کہا میں موجود تھا تو غائب تھا ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غائب کو پہنچانے کا حکم فرمایا تھا اور وہ میں نے پہنچا دیا۔
تخریج : بخاری فی اعلم باب ٣٧‘ والعید باب ٨؍١٠‘ والمغازی باب ٥١‘ مسلم فی الحج ٤٤٦‘ ترمذی فی الحج باب ١‘ نسائی فی المناسک باب ١١١‘ مسند احمد ٤‘ ٣١؍٣٢۔
لغات : سافک۔ خون بہانے والا۔ خربہ۔ خرابی والا۔ خالع۔ بیعت توڑنا۔

4074

۴۰۷۴ : حَدَّثَنَا بَحْرٌ‘ ہُوَ ابْنُ نَصْرٍ‘ عَنْ شُعَیْبِ بْنِ اللَّیْثِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٤٠٧٤: ابو سعیدالمقبری نے ابو شریح خزاعی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4075

۴۰۷۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (وَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْحَجُوْنِ‘ ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہ إِنَّک لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ‘ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ إِلَی اللّٰہِ‘ لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِیْ وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِیْ، وَمَا أُحِلَّتْ لِی إِلَّا سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ وَہِیَ بَعْدَ سَاعَتِہَا ھٰذِہٖ حَرَامٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)
٤٠٧٥: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجون کے مقام پر کھڑے ہوئے پھر فرمایا۔ اللہ کی قسم اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین میں سب سے زیادہ محبوب سر زمین ہے۔ تو مجھ سے پہلے بھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی حلال کیا گیا اور یہ مکہ اس گھڑی کے بعد قیامت تک حرام ہے۔
تخریج : ٤٠٧٢‘ ٤٠٧٣‘ ٤٠٧٤ روایات کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4076

۴۰۷۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ وَأَبُوْ سَلْمَۃَ مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ التَّبُوذَکِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٠٧٦: حماد بن سلمہ نے محمد بن عمرو سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔

4077

۴۰۷۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (لَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی رَسُوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَکَّۃَ‘ قَتَلَتْ ہُذَیْلٌ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ ثَقِیْفٍ‘ بِقَتِیْلٍ کَانَ لَہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ أَہْلِ مَکَّۃَ الْفِیْلَ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُوْلَہٗ وَالْمُؤْمِنِیْنَ‘ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِیْ، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِیْ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِیْ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ‘ وَإِنَّہَا سَاعَتِیْ ھٰذِہٖ حَرَامٌ‘ لَا یُعْضَدُ شَجَرُہَا‘ وَلَا یُخْتَلٰی شَوْکُہَا‘ وَلَا یُلْتَقَطُ سَاقِطُہَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ) .
٤٠٧٧: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ کو فتح کردیا تو بنو ہذیل نے بنو ثقیف کے ایک آدمی کو قتل کردیا اور یہ قتل ایک مقتول کے بدلے میں تھا جس کا واقعہ زمانہ جاہلیت میں پیش آیا تھا۔
جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے ہاتھی والوں کو روک دیا اور اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنوں کو ان پر غلبہ و تسلط عنایت فرمایا۔ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا میرے لیے دن کی ایک گھڑی حلال ہوا اور بلاشبہ اس گھڑی یہ حرام ہے اس کا درخت نہ کاٹا جائے گا اور نہ اس کا کانٹا توڑا جائے گا اور اس کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے گا مگر اعلان کرنے والے کے لئے۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣٩‘ القطۃ باب ٧‘ الشروط باب ١٥‘ مسلم فی الحج ٤٤٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٩‘ والجہاد باب ١٥٦‘ مسند احمد ٢؍٢٣٨۔

4078

۴۰۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ أَہْلِ مَکَّۃَ الْفِیْلَ قَالَ وَلَا یُلْتَقَطُ ضَالَّتُہَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ) .فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ مَکَّۃَ لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلَہٗ، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدَہُ وَأَنَّہَا إِنَّمَا أُحِلَّتْ لَہٗ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ‘ ثُمَّ عَادَتْ حَرَامًا کَمَا کَانَتْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ دَخَلَہَا یَوْمَ دَخَلَہَا .وَہِیَ لَہٗ حَلَالٌ‘ فَکَانَ لَہٗ بِذٰلِکَ دُخُوْلُہَا‘ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ‘ وَہِیَ بَعْدُ حَرَامٌ‘ فَلاَ یَدْخُلُہَا أَحَدٌ إِلَّا بِإِحْرَامٍ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ مَعْنٰی مَا أُحِلَّ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہَا‘ ہُوَ شَہْرُ السِّلَاحِ فِیْہَا لِلْقِتَالِ وَسَفْکِ الدِّمَائِ ‘ لَا غَیْرَ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ .ھٰذَا مُحَالٌ‘ إِنْ کَانَ الَّذِی أُبِیْحَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہَا‘ ہُوَ مَا ذَکَرْتُ خَاصَّۃً‘ اِذْ لَمْ یَقُلْ " وَلَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِی " .وَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْمُشْرِکِیْنَ لَوْ غَلَبُوْا عَلٰی مَکَّۃَ‘ فَمَنَعُوا الْمُسْلِمِیْنَ مِنْہَا‘ حَلَالٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ قِتَالُہُمْ‘ وَشَہْرُ السِّلَاحِ بِہَا وَسَفْکُ الدِّمَائِ ‘ وَأَنَّ حُکْمَ مَنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ اِبَاحَتِہَا‘ فِیْ حُکْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْمَعْنَی الَّذِیْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَصَّ بِہٖ فِیْہَا‘ وَأُحِلَّتْ لَہٗ مِنْ أَجْلِہٖ، لَیْسَ ہُوَ الْقِتَالَ .وَإِذَا انْتَفَیْ أَنْ یَّکُوْنَ ہُوَ الْقِتَالَ‘ ثَبَتَ أَنَّہٗ الْاِحْرَامُ .أَلَا تَرَی إِلٰی قَوْلِ عَمْرِو بْنِ سَعِیْدٍ‘ لِأَبِیْ شُرَیْحٍ (إِنَّ الْحَرَمَ لَا یَمْنَعُ سَافِکَ دَمٍ‘ وَلَا مَانِعَ خَرِبَۃٍ‘ وَلَا خَالِعَ طَاعَۃٍ) جَوَابًا لَمَا حَدَّثَہُ بِہٖ أَبُوْ شُرَیْحٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أَبُوْ شُرَیْحٍ‘ وَلَمْ یَقُلْ لَہٗ (إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِمَا حَدَّثْتُک عَنْہُ‘ أَنَّ الْحَرَمَ قَدْ یُجِیْرُ کُلَّ النَّاسِ " ) وَلٰکِنَّہٗ عَرَفَ ذٰلِکَ‘ فَلَمْ یُنْکِرْہٗ .وَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَقَدْ رَوَیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ قَالَ : مِنْ رَأْیِہِ (لَا یَدْخُلُ أَحَدٌ الْحَرَمَ إِلَّا بِإِحْرَامٍ) وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہِ‘ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَدَلَّ قَوْلُہٗ ھٰذَا‘ أَنَّ مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا أُحِلَّتْ لَہٗ لَیْسَ ہُوَ عَلَی إظْہَارِ السِّلَاحِ بِہَا‘ وَإِنَّمَا ہُوَ عَلٰی مَعْنًی آخَرَ .لِأَنَّہٗ لَمَّا انْتَفَی ھٰذَا الْقَوْلُ‘ وَلَمْ یَکُنْ غَیْرُہُ وَغَیْرُ الْقَوْلِ الْآخَرِ‘ ثَبَتَ الْقَوْلُ الْآخَرُ .ثُمَّ احْتَجْنَا بَعْدَ ھٰذَا إِلَی النَّظَرِ فِیْ حُکْمِ مَنْ ہُمْ بَعْدَ الْمَوَاقِیْتِ إِلٰی مَکَّۃَ‘ ہَلْ لَہُمْ دُخُولٌ الْحَرَمِ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ أَمْ لَا ؟ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَرَادَ دُخُوْلَ الْحَرَمِ‘ لَمْ یَدْخُلْہُ إِلَّا بِإِحْرَامٍ‘ وَسَوَاء ٌ أَرَادَ دُخُوْلَ الْحَرَمِ لِاِحْرَامٍ‘ أَوْ لِحَاجَۃٍ غَیْرِ الْاِحْرَامِ .وَرَأَیْنَا مَنْ أَرَادَ دُخُوْلَ تِلْکَ الْمَوَاضِعِ الَّتِیْ بَیْنَ الْمَوَاقِیْتِ‘ وَبَیْنَ الْحَرَمِ لِحَاجَۃٍ‘ أَنَّ لَہٗ دُخُوْلَہَا بِغَیْرِ إِحْرَامٍ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ ھٰذِہِ الْمَوَاضِعِ اِذَا کَانَتْ تُدْخَلُ لِلْحَوَائِجِ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ‘ کَحُکْمِ مَا قَبْلَ الْمَوَاقِیْتِ‘ وَأَنَّ أَہْلَہَا لَا یَدْخُلُوْنَ الْحَرَمَ إِلَّا کَمَا یَدْخُلُہٗ مَنْ کَانَ أَہْلُہٗ وَرَائَ الْمَوَاقِیْتِ إِلَی الْآفَاقِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ عِنْدِیْ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ خِلَافُ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَذٰلِکَ أَنَّہُمْ إِنَّمَا قَلَّدُوْا فِیْمَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ مِنْ ھٰذَا۔
٤٠٧٨: حرب بن شداد نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ البتہ اس میں ان الفاظ کا فرق ہے۔ ” ان اللہ عزوجل حبس عن اہل مکۃ الفیل “ اور یہ بھی فرق ہے۔ ” ولا یلتقط ضال تھا الا لمنشد “ ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اطلاع دی ہے کہ آپ سے پہلے اور بعد کسی کے لیے بھی مکہ حلال نہیں ہوا ۔ آپ کے لیے بھی دن کی ایک گھڑی حلال ہواپھر قیامت تک اس کی حرمت واپس لوٹ آئی۔ تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ جب آپ اس میں داخل ہوئے تو وہ آپ کے لیے حلال تھا اس وجہ سے آپ بلا احرام داخل ہوئے ۔ لیکن اس کے بعد وہ حرم ہے کسی کو بلا احرام داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ آپ کے لیے حلال ہونے کا تو مطلب یہ ہے کہ اس میں خون ریزی اور ہتھیار نکالا ہے اور کوئی مطلب نہیں۔ اس کے جواب میں کہیں گے ۔ کہ یہ بات ناممکن ہے کیونکہ اگر صرف اسی مقصد کے لیے حلال ہوا ہوتا تو آپ یہ نہ فرماتے کہ میرے بعد کسی کے لیے حلال نہیں اور ہم اس بات کو پاتے ہیں کہ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر مشرکین کا مکہ پر غلبہ ہوجائے اور وہ مسلمانوں و وہاں سے روک دیں تو مسلمانوں سے لڑنا اور ہتھیار نکالنا اور ان کا خون بہانا جائز ہے ‘ اس سلسلہ میں تو اس کے جواز کا حکم وہی ہے جو آپ کے لیے تھا۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو بات خاص تھی اور جب لڑائی کی نفی ہوگئی تو اس کا احرام ہونا خود ثابت ہوگیا ۔ کیا یہ بات تمہارے سامنے نہیں کہ حضرت عمر وبن سعید نے حضرت ابو شریح (رض) کو کہا کہ حرم کسی خون ریز تخریب کار کو پناہ نہیں دیتا اور نہ اطاعت سے نکلنے والے کو پناہ دیتا ہے تو حضرت ابو شریح (رض) نے ان کی بات سے انکار نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرادوہی ہے جو میں نے بیان کی “ کہ مکہ ہر قسم کے لوگوں کو پناہ دیتا ہے۔ بلکہ انھوں نے اس کو پہچانا اور اس کا انکار نہ کیا۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات روایت کی ہے پھر اپنی رائے و اجتہاد سے فرمایا کہ کوئی حرم میں بلا احرام نہ داخل ہو ‘ ہم اس بات کو اس کے موقعہ پر لائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ان کا یہ قول اس بات پر دال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس کے حلال ہونے کا مطلب ہتھیاروں کے ظاہر کرنے پر محمول نہیں بلکہ اس سے دوسرا معنیٰ مراد ہے۔ جب اس قول کی نفی ہوگئی اور دوسرا سبب پایا نہیں جاسکتا تو احرام کا ہونا خود ثابت ہوگیا۔ اب ہمارے لیے یہ لازم ہے کہ میقات کے اندر کا علاقہ مکہ تک کیا حکم رکھتا ہے۔ کیا ان کے احرام کے بغیر حرم میں داخلہ درست ہے یا نہیں ہم نے یہ بات پائی کہ جب کوئی حرم میں داخلے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ بلا احرام داخل نہیں ہوتا خواہ وہ حرم میں احرام کا ارادہ رکھتا ہو یا دیگر کوئی عمل کرنا چاہتا ہو اور یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ جو شخص مواقیت اور حرم کے درمیان والے مقامات میں جانا چاہے۔ وہ بلا احرام جاسکتا ہے۔ اس سے ثابت ہو کہ جب ان مقامات میں ضرورت کے لیے جائے تو بلا احرام جائے گا ۔ جیسا کہ مواقیت سے پہلے کا حکم ہے اور وہاں کے رہنے والے حرم میں اسی طرح داخل ہوں جس طرح میقات سے باہر کے آفاقی لوگ داخل ہوتے ہیں۔ اس باب میں امام طحاوی کے نزدیک قیاس یہی ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کے قول کے خلاف ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
تخریج : ٤٠٧٨ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان آثار میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا کہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ بعد میں کسی کے لیے حلال ہے آپ کے لیے دن کے ایک حصہ میں حلال کیا گیا۔ پھر اس کی حرمت واپس لوٹ آئی جیسا کہ پہلے تھی اور وہ قیامت تک باقی رہے گی۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ جب اس میں داخل ہوئے تو وہ آپ کے لیے حلال تھا اور اس لیے اس میں اس طرح داخل ہوئے۔ اس کے بعد پہلے کی طرح حرام ہوگیا پس اس میں کسی کو بلا احرام داخلہ جائز نہ ہوگا اگر داخل ہوگا تو دم حرمت کو توڑنے کی وجہ سے بطور تاوان دینا پڑے گا۔
اشکال :
تم نے حلت مکہ کو عموم پر محمول کیا یہ درست نہیں بلکہ حلت مکہ سے مراد اس میں قتال کی حلت ‘ ہتھیار اٹھانے کا جواز ‘ خون کے بہانے کا جواز مراد ہے ہر طرح کی حلت مراد نہیں کہ اس سے تم بلا احرام داخلہ کی حلت ثابت کر کے پھر حرمت دخول بلا احرام کو ثابت کرسکو۔
نوٹ : آپ کا یہ اشکال درست نہیں اگر صرف قتال وغیرہ کی حلت مراد ہو تو اس میں آپ کی خصوصیت نہیں رہتی کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے اگر بالفرض مشرکین کا مکہ پر غلبہ ہوجائے۔ (خدانخواستہ) اور وہ مسلمانوں کو وہاں سے نکال باہر کریں تو حصول غلبہ کے لیے ان سے قتال اور ان کا قتل اور ہتھیار اٹھانے جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہوگا اور قتال کی اباحیت تو اس سلسلہ میں آپ کے بعد بھی اسی طرح ہوگی جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تھی۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لایحل لاحد بعدی “ کا کلمہ فرمایا۔ تو وہ آپ کی خصوصیت ہے اور وہ حلت عامہ ہے جس میں بلا احرام داخلہ بھی شامل ہے صرف قتال نہیں۔ ورنہ یہ جملہ بلافائدہ ہوگا۔
ذرا غور کرو۔ عمرو بن سعید نے ابو شریح (رض) کو یہ کہا کہ حرم خون بہانے والے۔ خرابی مچانے والے اور امیر کی اطاعت سے علیحدگی والے کو نہیں روکتا۔ تمہاری اس روایت کی وجہ سے جو تم نے بیان کی تو ابو شریح نے اس کی بات پر نکیر نہیں کی اور نہ یہ کہا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت سے یہ مراد لی ہے کہ حرم کبھی تمام قسم کے لوگوں کو پناہ دیتا ہے لیکن اس کو جانا اور اس کی بات پر نکیر نہیں فرمائی۔
اور عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کو ملاحظہ کرو کہ وہ فرماتے ہیں کوئی شخص حرم میں بلا احرام داخل نہ ہو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت انھوں نے نقل کی ہے اس سے مراد اظہار اسلحہ اور قتال نہیں بلکہ دوسرا معنی مراد ہے۔ جب اس معنی کی نفی ہوگئی تو دوسرا معنی جو ان کے فتویٰ میں مذکور ہے خود ثابت ہوگیا۔
عنوان خامس : اہل مواقیت کو حل والوں کی طرح مکہ میں بلا احرام داخلہ کی اجازت کے قول پر تنقید۔
نظر طحاوی (رض) :
جب کوئی آدمی حرم میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اسے احرام سے داخل ہونا ہوگا۔ خواہ احرام کے لیے حرم میں داخل ہونا چاہتا ہو یا احرام کے علاوہ تجارت وغیرہ کی غرض ہو۔
اسی طرح جو آدمی ان مقامات میں داخل ہونا چاہے جو حل میں واقع ہیں اور وہ کسی ضرورت ذاتی سے حل میں داخلہ چاہتا ہو تو بلا احرام اس کا داخلہ درست ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان مقامات کا حکم جبکہ ذاتی ضرورت سے داخل ہو تو بلا احرام کا ہے اور یہی حکم میقات سے باہر کا ہے ان مقامات کے رہنے والے حرم میں اسی طرح داخل ہوں گے جس طرح میقات سے باہر رہنے والے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حل والوں کا حکم حرم میں داخلہ کے لیے آفاقی والا ہے۔ اس باب میں بلحاظ نظر یہی حکم ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ اور محمد رحمہم اللہ کے قول کے خلاف ہے۔ انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا ہے۔

4079

۴۰۷۹ : مَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّہٗ خَرَجَ مِنْ مَکَّۃَ یُرِیْدُ الْمَدِیْنَۃَ‘ فَلَمَّا بَلَغَ قُدَیْدًا بَلَغَہٗ عَنْ جَیْشٍ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ‘ فَرَجَعَ فَدَخَلَ مَکَّۃَ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ .
٤٠٧٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے جب مقام قدید میں پہنچے تو ان کو اطلاع ملی مدینہ پر لشکر حملہ آور ہوگیا تو وہ بلا احرام مکہ میں داخل ہوئے۔

4080

۴۰۸۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ‘ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا خَرَجَ مِنْ مَکَّۃَ‘ وَہُوَ یُرِیْدُ الْمَدِیْنَۃَ .فَلَمَّا کَانَ قَرِیْبًا‘ لَقِیَہُ جَیْشُ ابْنُ دُلْجَۃَ‘ فَرَجَعَ‘ فَدَخَلَ مَکَّۃَ حَلَالًا .
٤٠٨٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ مکہ سے نکلے اور مدینہ منورہ جا رہے تھے جب وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ابن دلجہ کا لشکر ملا۔ وہ وہاں سے واپس لوٹے اور مکہ میں بلا احرام داخل ہوگئے۔

4081

۴۰۸۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ‘ أَقْبَلَ مِنْ مَکَّۃَ‘ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِقُدَیْدٍ بَلَغَہُ خَبَرٌ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ‘ فَرَجَعَ‘ فَدَخَلَ مَکَّۃَ حَلَالًا‘ فَقَلَّدُوْا ذٰلِکَ وَاتَّبَعُوْہُ‘ وَکَانَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدَنَا - خِلَافَ مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ عُمَرَ فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا یُخَالِفُ ھٰذَا .
٤٠٨١: نافع نے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) مکہ سے روانہ ہوئے جب مقام قدید میں پہنچے تو ان کو اطلاع ملی کہ وہاں فوج کشی ہوگئی ہے تو وہ واپس لوٹے اور مکہ میں بلا احرام داخل ہوئے۔ ان ائمہ احناف (رح) نے ان روایات کو اپنایا اور ان کی اتباع کی اور نظر و فکر کا تقاضا ہمارے ہاں اس کے خلاف تھا اور حضرت ابن عمر (رض) کے علاوہ دیگر حضرات سے اس کے خلاف روایات موجود ہیں۔

4082

۴۰۸۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : قَالَ عَطَاء ٌ‘ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (لَا عُمْرَۃَ عَلَی الْمَکِّیِّ إِلَّا أَنْ یَخْرُجَ مِنَ الْحَرَمِ فَلاَ یَدْخُلُہٗ إِلَّا حَرَامًا) .فَقِیْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : فَإِنْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ مَکَّۃَ قَرِیْبًا ؟ قَالَ : نَعَمْ‘ یَقْضِیْ حَاجَتَہٗ‘ وَیَجْعَلُ مَعَ قَضَائِہَا عُمْرَۃً .
٤٠٨٢: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مکی کے لیے عمرہ جائز نہیں صرف اس صورت میں عمرہ کرسکتا ہے جبکہ وہ حرم سے نکلے اور پھر حرم میں احرام سے داخل ہو۔ ابن عباس (رض) سے کسی نے پوچھا اگر ایک آدمی مکہ سے قریبنی علاقہ میں نکل کر گیا تو تب بھی عمرہ کرسکتا ہے انھوں نے فرمایا جی ہاں وہ اپنی ضرورت بھی پوری کرے اور اپنا عمرہ بھی پورا کرے۔

4083

۴۰۸۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لَا یَدْخُلُ أَحَدٌ الْحَرَمَ إِلَّا بِإِحْرَامٍ .فَقِیْلَ : وَلَا الْحَطَّابُوْنَ ؟ قَالَ : وَلَا الْحَطَّابُوْنَ‘ قَالَ : ثُمَّ بَلَغَنِیْ بَعْدُ أَنْ رَخَّصَ لِلْحَطَّابِیْنَ .
٤٠٨٣: عطاء کہتے ہیں کہ حرم میں صرف احرام سے داخل ہو۔ ان سے پوچھا گیا کیا لکڑہارے بھی ؟ فرمایا ہاں لکڑھاروں کا بھی یہی حکم ہے۔ کہتے ہیں پھر مجھے یہ اطلاع ملی کہ انھوں نے لکڑہاروں کو رخصت دے دی۔

4084

۴۰۸۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ (لَا یَدْخُلُ مَکَّۃَ تَاجِرٌ وَلَا طَالِبُ حَاجَۃٍ إِلَّا وَہُوَ مُحْرِمٌ) .
٤٠٨٤: عطاء بن ابی رباح نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے تھے مکہ میں آنے والا تاجر یا حاجت مندصرف احرام سے داخل ہو۔

4085

۴۰۸۵ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ‘ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ .
٤٠٨٥: ہشیم نے یونس سے انھوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ (حسن) وہ یہ کہا کرتے تھے۔

4086

۴۰۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (لَا یَدْخُلُ أَحَدٌ مَکَّۃَ إِلَّا مُحْرِمًا) .
٤٠٨٦: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کوئی شخص مکہ میں بلا احرام داخل نہ ہو۔ اگر کوئی شخص یہ بات کہے ‘ کیا وہ شخص جو مواقیت کے اندر والی جانب مکہ کی طرف ہو وہ تمتع کرسکتا ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ اس کا حکم اس میں مکہ والوں کے خلاف ہے اور یہ بات ائمہ احناف کے قول کے خلاف ہے۔ مگر ہمارے ہاں قیاس اسی بات کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ۔ ہمارے نزدیک ” حاضری المسجد الحرام “ سے صرف خاص مکی لوگ مراد ہیں ‘ یہ قول جو ہم نے اختیار کیا ہے اس کو نافع مولیٰ ابن عمر اور عبد الرحمن بن ہرمز الاعرج نے اختیار کیا ہے۔

4087

۴۰۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ (لَا یَدْخُلُ أَحَدٌ مَکَّۃَ إِلَّا مُحْرِمًا) .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَیَجُوْزُ لِمَنْ کَانَ بَعْدَ الْمَوَاقِیْتِ إِلٰی مَکَّۃَ أَنْ یَتَمَتَّعَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ‘ وَہُوَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا خِلَافُ أَہْلِ مَکَّۃَ‘ وَھٰذَا أَیْضًا خِلَافُ قَوْلِ أَصْحَابِنَا‘ وَلٰکِنَّہٗ النَّظَرُ - عِنْدَنَا - عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا وَبَیَّنَّا‘ وَحَاضِرُو الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ - عِنْدَنَا - أَہْلُ مَکَّۃَ خَاصَّۃً .وَقَدْ قَالَ ھٰذَا الْقَوْلَ الَّذِیْ ذَہَبْنَا إِلَیْہِ - فِیْ ھٰذَا - نَافِعٌ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ‘ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ ہُرْمُز الْأَعْرَجُ .
٤٠٨٧: افلح بن حمید نے قاسم بن محمد سے روایت کی کہ وہ فرماتے تھے کوئی شخص مکہ میں بلا احرام داخل نہ ہو۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حل میں رہنے والا یا آفاقی تاجر ‘ غیر تاجر مکہ میں بلا احرام داخل نہیں ہوسکتا۔
ایک اشکال :
کیا میقات کے اندر (حل میں رہنے والا) تمتع کرسکتا ہے یا نہیں اگر تمتع اس کے لیے جائز نہ ہو تو وہ مکی کے حکم میں ہیں اور اگر جائز ہو تو پھر آفاقی کے حکم میں ہیں۔
الجواب : اہل حل کے لیے تمتع سب کے ہاں جائز ہے اور اس حکم میں وہ اہل مکہ کے خلاف ہیں یہ بھی ہمارے علماء کے قول کے مخالف ہے لیکن نظر کا تقاضا یہی ہے جیسا کہ ہم ذکر کر آئے۔ حاضروا المسجدالحرام ۔ ہمارے نزدیک اس کی تفسیر خاص اہل مکہ ہیں اور تفسیر میں یہ قول نافع مولیٰ ابن عمر (رض) اور عبدالرحمن الاعرج کا بھی ہے اس تفسیر سے یہ ثابت ہوا کہ اہل مکہ کا حکم خاص ہے اہل حل کا حکم الگ ہے۔ ہذا ہوالمقصود ہاہنا۔

4088

۴۰۸۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَخْرَمَۃُ بْنُ بُکَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ یَسْأَلُ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ أَہْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) أَجَوْفَ مَکَّۃَ‘ أَمْ حَوْلَہَا ؟ قَالَ : جَوْفَ مَکَّۃَ‘ وَقَالَ ذٰلِکَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجُ.
٤٠٨٨: مخرمہ بن بکیر کہتے ہیں کہ میں نے نافع مولیٰ ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا جب ان سے ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجدالحرام “ (البقرہ ١٩١) کے متعلق پوچھا گیا کیا مکہ کے اندرون لوگ مراد ہیں یا اطراف مکہ کے لوگ بھی ؟ تو انھوں نے فرمایا اندرون مکہ کے لوگ مراد ہیں۔ اور یہ عبدالرحمن الاعرج نے بھی بات فرمائی۔
تعمیر کعبہ کے مراحل عشرہ :
نمبر 1: تخلیق انسانی سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔ نمبر 2: آدم (علیہ السلام) نے دنیا میں اترنے کے بعد تعمیر کی۔
نمبر 3: حضرت شعیب (علیہ السلام) نے تعمیر کی۔ نمبر 4: ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کی۔
نمبر 5: عمالقہ کی تعمیر۔ نمبر 8: تعمیر بنو جرہم۔
نمبر 9: تعمیر قصی بن کلاب۔ نمبر 10: تعمیر قریش۔
نمبر :11 تعمیر عبداللہ بن زبیر۔ نمبر 12: تعمیر حجاج۔ (تاریخ مکہ)
گیارہویں مرتبہ سلطان مراد خان ١٠٤٠ ھ اکثر حصہ کو منہدم کر کے تعمیر کیا البتہ حجر اسود والا حصہ قد آدم اسی طرح قائم رہا۔
(تاریخ تقویم ج ٣)
حاصل کلام : گویا امام طحاوی (رح) کے ہاں آفاقی ‘ اہل میقات ‘ اہل حل تینوں کو حرم میں بلا احرام داخل ہونا جائز نہ ہوگا اور احناف کے نزدیک صرف آفاق والوں کے لیے داخلہ حرم کے لیے احرام لازم ہے بلا احرام میقات سے تجاوز نہیں کرسکتے اور اہل حرم اور اہل میقات حج وعمرہ کی نیت سے حرم میں بلا احرام داخل نہیں ہوسکتے تجارت وغیرہ کی غرض سے داخل ہوسکتے ہیں۔

4089

۴۰۸۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَطَائِ ابْنِ أَبِیْ لَبِیْبَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ جَابِرٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فَقَدَ قَمِیْصَہُ مِنْ جَیْبِہٖ، حَتّٰی أَخْرَجَہٗ مِنْ رِجْلَیْہِ .فَنَظَرَ الْقَوْمُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّیْ أَمَرْتُ بِبَدَنِی الَّتِی بُعِثْتُ بِہَا أَنْ تُقَلَّدَ الْیَوْمَ وَتُشْعَرَ‘ عَلٰی مَکَانِ کَذَا وَکَذَا فَلَبِسْت قَمِیْصِی وَنَسِیْتُ، فَلَمْ أَکُنْ لِأُخْرِجَ قَمِیْصِی مِنْ رَأْسِیْ وَکَانَ بَعَثَ بِبَدَنِہِ فَأَقَامَ بِالْمَدِیْنَۃِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا بُعِثَ بِالْہَدْیِ‘ وَأَقَامَ فِیْ أَہْلِہِ فَقَلَّدَ الْہَدْیَ وَأَشْعَرَ أَنَّہٗ یَتَجَرَّدُ فَیُقِیْمُ کَذٰلِکَ‘ حَتّٰی یَحِلَّ النَّاسُ مِنْ حَجِّہِمْ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَرَوَوْا ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .
٤٠٨٩: عبدالملک بن جابر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ آپ نے اپنا قمیص گریبان سے پھاڑ دیا یہاں تک کہ اس کو اپنے دونوں پاؤں کی طرف سے نکالا۔ لوگوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے اپنے بدنہ کے متعلق جس کو میں نے روانہ کرنا تھا حکم دیا کہ آج فلاں مقام پر اس کو اشعار کیا جائے پس میں نے اپنا قمیص بھول کر پہن لیا چنانچہ میں نے پسند نہ کیا کہ قمیص کو سر سے نکالوں (اس لیے قدموں کی طرف سے نکالا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدنہ روانہ کر کے مدینہ منورہ میں قیام فرمایا تھا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٠٠۔
نمبر 1: امام ابوحنیفہ (رح) اس کو مکروہ کہتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) ومالک (رح) کے ہاں چھوٹے جانوروں کا قلادہ نہ ثابت ہے نہ مسنون البتہ امام شافعی ‘ احمد کے ہاں قلائد غنم بھی مسنون ہے۔ ہدی کا جانور قلادہ ڈال کر روانہ کردیا جائے تو امام شعبہ ‘ حسن بصری اور عطاء ‘ مجاہد رحمہم اللہ کے ہاں وہ محرم ہوجائے گا اور تمام احکامات محرم اس پر لاگو ہوجائیں گے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں محرمات احرام ہدی کے ساتھ جانے سے لازم ہوتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف ہدی کو قلادہ ڈالنے یا اشعار کرنے سے محرم پر احرام کی تمام پابندیاں لازم ہوجاتی ہیں۔ دلیل یہ روایات ہیں۔

4090

۴۰۹۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ زِیَادَ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ کَتَبَ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ مَنْ أَہْدَی ہَدْیًا‘ حَرُمَ عَلَیْہِ مَا یَحْرُمُ عَلَی الْحَاجِّ حَتّٰی یَنْحَرَ ہَدْیَہٗ‘ وَقَدْ بَعَثْتُ بِہَدْیٍ‘ فَاکْتُبِیْ إِلَیَّ بِأَمْرِک‘ أَوْ مُرِیْ صَاحِبَ الْہَدْیِ .فَقَالَتْ عَائِشَۃُ لَیْسَ کَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ‘ أَنَا فَتَلْت قَلَائِدَ ہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِیْ‘ ثُمَّ قَلَّدَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہٖ، ثُمَّ بَعَثَ بِہَا مَعَ أَبِیْ‘ فَلَمْ یَحْرُمْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْء ٌ أَحَلَّہٗ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہٗ حَتّٰی نَحَرَ الْہَدْیَ)
٤٠٩٠: عمرہ بنت عبدالرحمن کہتی ہیں کہ زیاد بن ابی سفیان نے حضرت عائشہ (رض) کی طرف لکھ بھیجا کہ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جو ہدی روانہ کرے تو اس پر محرم والی پابندیاں لازم ہوجاتی ہیں اور وہ ان کا لحاظ ہدی کے ذبح ہونے تک کرے گا۔ میں نے ہدی روانہ کردی اب میرے لیے کیا حکم ہے۔ آپ اپنا ارشاد میری طرف لکھ بھیجیں یا ہدی والے کو حکم فرما دیں حضرت عائشہ (رض) نے (لکھ بھیجا) کہ بات اس طرح نہیں جس طرح ابن عباس (رض) نے کہی۔ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدی کے قلادے بناتی تھی پھر وہ قلادے اپنے دست اقدس سے ہدی کو ڈالتے اور ان کو میرے والد محترم کی معیت میں روانہ کرتے مگر اس کے باوجود آپ پر ہدی کے ذبح ہونے تک کوئی چیز حرام نہ ہوتی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٦؍١١١‘ مسلم فی الحج ٣٦٢؍٣٦٤‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٦‘ نسائی فی المناسک باب ٦٦‘ مسند احمد ٦‘ ٧٨؍٢٢٤۔

4091

۴۰۹۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ قَالَ (کَانَ ابْنُ عُمَرَ‘ اِذَا بَعَثَ ہَدْیَہُ وَہُوَ مُقِیْمٌ‘ أَمْسَکَ عَمَّا یُمْسِکُ عَنْہُ الْمُحْرِمُ حَتّٰی یَنْحَرَ ہَدْیَہٗ) .
٤٠٩١: نافع کہتے ہیں ابن عمر (رض) جب اپنی ہدی روانہ کرتے تو گھر میں مقیم رہتے۔ مگر محرم کی طرح ہدی کے ذبح ہونے تک ان تمام چیزوں سے احتراز کرتے جن سے محرم کرتا ہے۔

4092

۴۰۹۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ اِذَا بَعَثَ بِہَدْیِہِ‘ أَمْسَکَ عَنْ النِّسَائِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ عَلٰی أَحَدٍ تَجْرِیْدٌ وَلَا تَرْکُ شَیْئٍ مِمَّا یَتْرُکُہُ الْمُحْرِمُ إِلَّا بِدُخُوْلِہِ فِی الْاِحْرَامِ إِمَّا بِالْحَجِّ‘ وَإِمَّا بِالْعُمْرَۃِ .وَکَانَ مِمَّا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ فِیْمَا أَجَابَتْ بِہِ زِیَادًا .
٤٠٩٢: نافع ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی ہدی بھیجتے تو بیویوں کے قریب نہ جاتے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ ہدی کو روانہ کرنے والا گھر میں محرم کی طرح پابندیاں کرے گا جب ہدی کے ذبح کا دن آجائے گا تو وہ ان پابندیوں سے نکلے گا۔
فریق ثانی کا مؤقف : فقط ہدی روانہ کرنے یا قلادہ ڈالنے سے کوئی محرم نہیں بنتا نہ اس پر وہ پابندیاں لازم ہوتی ہیں جب تک وہ احرام نہ باندھے اور ہدی کے ساتھ روانہ نہ ہو خواہ حج کا قصد کر کے یا عمرہ کا۔
دلائل یہ روایات ہیں۔
اوپر ٤٠٩١ نمبر روایت میں حضرت عائشہ (رض) کا خط ذکر کیا گیا وہ اس سلسلہ کی پہلی دلیل ہے۔

4093

۴۰۹۳ : وَبِمَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ (مَسْرُوْقٍ قَالَ : قُلْت لِعَائِشَۃَ إِنَّ رِجَالًا ہَاہُنَا یَبْعَثُوْنَ بِالْہَدْیِ إِلَی الْبَیْتِ‘ وَیَأْمُرُوْنَ الَّذِیْ یَبْعَثُوْنَ مَعَہٗ بِمُعَلِّمٍ لَہُمْ یُقَلِّدُوْنَہَا ذٰلِکَ الْیَوْمَ‘ فَلاَ یَزَالُوْنَ مُحْرِمِیْنَ‘ حَتّٰی یَحِلَّ النَّاسُ .فَصَفَّقَتْ بِیَدِہَا‘ فَسَمِعَتْ ذٰلِکَ مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ‘ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللّٰہِ‘ لَقَدْ کُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ ہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِیْ‘ فَیَبْعَثُ بِہَا إِلَی الْکَعْبَۃِ‘ وَیُقِیْمُ فِیْنَا‘ لَا یَتْرُکُ شَیْئًا مِمَّا یَصْنَعُ الْحَلَالُ‘ حَتّٰی یَرْجِعَ النَّاسُ) .
٤٠٩٣: مسروق نے روایت کی ہے کہ میں نے عائشہ (رض) سے دریافت کیا بعض لوگ یہاں ہدی کو بیت اللہ کی طرف روانہ کرتے ہیں اور وہ ان لوگوں کو جن کے ساتھ ہدی روانہ کرتے باقاعدہ دن متعین کرتے ہیں پھر خود احرام کی حالت میں رہتے ہیں یہاں تک کہ حج والے حلال ہوجائیں۔
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے خود سنا کہ انھوں نے پردے کے پیچھے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کہنے لگیں۔ (تعجباً ) سبحان اللہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہدی کے قلادے اپنے ہاتھ سے بنتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کعبہ کی طرف روانہ کرتے تھے اور خود گھر میں مقیم رہتے اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال بنائی ہے ان میں سے کسی بھی چیز کو لوگوں کے لوٹنے تک ترک نہ فرماتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٧؍١١٠‘ مسلم فی الحج ٣٥٩؍٣٦٠‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٦‘ ترمذی فی الحج باب ٧٠‘ نسائی فی المناسک باب ٦٥؍٦٩‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٩٤‘ دارمی فی المناسک باب ٨٦۔

4094

۴۰۹۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٠٩٤ : دیگر اسناد سے بھی بعینہٖ مروی ہے۔

4095

۴۰۹۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ‘ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ أَفْتِلُ بِیَدِی لِبُدْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَیَبْعَثُ بِالْہَدْیِ وَہُوَ مُقِیْمٌ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ وَیَفْعَلُ مَا یَفْعَلُ الْمُحِلُّ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَی الْبَیْتِ) .
٤٠٩٥: مسروق نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہدی کے قلادے بنتی پھر آپ (وہ قلادہ ڈال کر) ہدی روانہ فرماتے اور مدینہ منورہ میں آپ مقیم رہتے اور وہ تمام کام جو احرام نہ باندھنے والا بیت اللہ تک پہنچنے سے پہلے کرتا ہے وہ تمام کام کرتے۔

4096

۴۰۹۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ لَرُبَّمَا فَتَلْتُ الْقَلَائِدَ لِہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَیُقَلِّدُہُ‘ ثُمَّ یَبْعَثُہُ بِہٖ، ثُمَّ یُقِیْمُ لَا یَجْتَنِبُ شَیْئًا مِمَّا یَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ) .
٤٠٩٦: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ بسا اوقات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدی کے قلادے بناتی آپ اس کو قلادہ ڈالتے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں مقیم رہتے اور کسی چیز سے پرہیز نہ کرتے جن سے محرم پرہیز کرتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ١٠٧‘ مسلم فی الحج ٣٥٩‘ ابو داؤد فی المناسک باب ١٦‘ ترمذی فی الاضاحی باب ٢٢‘ نسائی فی الحج باب ٦٥‘ مسند احمد ٦‘ ٣٦؍٨٢‘ ١٩١؍٢٢٤‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٩٤؍٩٦‘ دارمی فی المناسک باب ٨٦۔

4097

۴۰۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ‘ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنَّا نُقَلِّدُ الشَّاۃَ فَتُرْسِلُ أَوْ قَالَتْ فَنُرْسِلُ بِہَا‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَالٌ‘ لَمْ یَحْرُمْ مِنْہُ شَیْء ٌ)
٤٠٩٧: اسود بن یزید نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم بکری کو قلادہ ڈال کر روانہ کرتے یا کہا اس کے ساتھ روانہ کردیتے اس حال میں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلال حالت میں مقیم رہتے اور کسی چیز کو بھی اپنے اوپر حرام نہ کرتے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٣٦٨‘ نسائی فی المناسک باب ٦٩‘ مسند احمد ٦؍٢٥٠۔

4098

۴۰۹۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ رُبَّمَا فَتَلْتُ الْقَلَائِدَ‘ لِہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیُقَلِّدُہُ‘ ثُمَّ یَبْعَثُ بِہٖ، ثُمَّ یُقِیْمُ‘ لَا یَجْتَنِبُ شَیْئًا مِمَّا یَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ) .
٤٠٩٨: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے بسا اوقات میں قلادہ ہدی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بناتی آپ اس کو قلادہ ڈالتے پھر اس کو روانہ کر کے خود مقیم رہتے اور محرم جن چیزوں سے اجتناب کرتا ہے ان میں سے کسی چیز سے اجتناب نہ کرے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جب آدمی ہدی روانہ کر دے اور گھر میں مقیم رہے اور ہدی کو اشار کر کے قلادہ ڈالے تو وہ محرم کی طرح سلے کپڑے نہ پہنے یہاں تک کہ لوگ اپنے حج کے احرام سے باہر آئیں انھوں اس روایت سے استدلال کیا ہے اور اسے حضرت ابن عباس اور ابن عمر (رض) سے بھی روایت کیا ۔ روایت ذیل میں ملاحظہ کریں۔
تخریج : ٤٠٩٧ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4099

۴۰۹۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٠٩٩: حماد بن زید نے منصور سے انھوں نے ابراہیم سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4100

۴۱۰۰ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤١٠٠: وہیب نے منصور سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4101

۴۱۰۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .
٤١٠١: حماد نے ہشام عن ابیہ عن عائشہ (رض) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4102

۴۱۰۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنِ اللَّیْثِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَہٗ، عَنْ عُرْوَۃَ وَعَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ مِثْلَہٗ .
٤١٠٢: عروہ عمرہ دونوں نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4103

۴۱۰۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ مِثْلَہٗ .
٤١٠٣: عروہ نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4104

۴۱۰۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ مِثْلَہٗ۔
٤١٠٤: ہشام نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4105

۴۱۰۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ مِثْلَہٗ .
٤١٠٥: عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے والد سے انھوں نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4106

۴۱۰۶ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَرَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ‘ عَنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ مِثْلَہٗ .
٤١٠٦: قاسم نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4107

۴۱۰۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ مِثْلَہٗ .
٤١٠٧: قاسم نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4108

۴۱۰۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤١٠٨: لیث نے عبدالرحمن بن القاسم سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔
دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کوئی شخص حج کا احرام نہ باندھے اسے ان سلے کپڑے پہننا یا ان چیزوں کا ترک جن کو حرم میں چھوڑنا ہے لازم نہیں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ جو ہم نے زیاد کے جواب میں ذکر کی گئی ہے۔

4109

۴۱۰۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ (وَلَا نَعْلَمُ الْمُحْرِمَ یُحِلُّہٗ إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ) .
٤١٠٩: اوزاعی نے عبدالرحمن بن قاسم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت کی پھر اس میں یہ اضافہ ہے۔ ولا نعلم المحرمہ بحلہ الاالطواف بالبیت۔

4110

۴۱۱۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ الزِّیَادَۃَ الَّتِیْ فِیْہِ عَلٰی مَا قَبْلَہٗ۔فَقَدْ تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ بِمَا لَمْ یَتَوَاتَرْ عَنْ غَیْرِہَا‘ بِمَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ صِحَّۃِ الْأَسَانِیْدِ‘ فَإِنَّ إِسْنَادَ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ھٰذَا‘ إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ‘ لَا تَنَازُعَ بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِیْہِ . وَلَیْسَ حَدِیْثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّ مَنْ رَوَاہُ‘ دُوْنَ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ ظُہُوْرِ الشَّیْئِ ‘ وَتَوَاتُرِ الرِّوَایَۃِ بِہٖ، فَإِنَّ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ أَیْضًا أَوْلَی‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ مَوْجُوْدٌ فِیْہٖ‘ وَمَعْدُوْمٌ فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ .وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الَّذِیْنَ یَذْہَبُوْنَ إِلٰی حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُوْنَ (إِنَّ الْحُرْمَۃَ الَّتِیْ تَجِبُ عَلٰی بَاعِثِ الْہَدْیِ بِتَقْلِیْدِہِ إِیَّاہُ وَإِشْعَارِہِ‘ فَیَحِلُّ عَنْہُ اِذَا حَلَّ النَّاسُ بِغَیْرِ فِعْلٍ یَفْعَلُہٗ ہُوَ‘ فَیَحِلُّ بِہِ) .فَأَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ فِی الْاِحْرَامِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْہٖ‘ ہَلْ ہُوَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَحْرَمَ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ‘ فَقَدْ صَارَ مُحْرِمًا إِحْرَامًا مُتَّفَقًا عَلَیْہٖ‘ وَرَأَیْنَاہُ غَیْرَ خَارِجٍ مِنْ ذٰلِکَ الْاِحْرَامِ إِلَّا بِأَفْعَالٍ یَفْعَلُہَا‘ فَیَحِلُّ بِہَا مِنْہُ‘ وَلَا یَحِلُّ بِغَیْرِہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّہٗ اِذَا کَانَ حَاجًّا‘ فَلَمْ یَقِفْ بِعَرَفَۃَ‘ حَتّٰی مَضَی وَقْتُہَا‘ أَنَّ الْحَجَّ قَدْ فَاتَہٗ‘ وَلَا یَحِلُّ إِلَّا بِفِعْلٍ یَفْعَلُہٗ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَّا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَالْحَلْقِ أَوْ التَّقْصِیْرِ .وَلَوْ وَقَفَ بِعَرَفَۃَ‘ وَفَعَلَ جَمِیْعَ مَا یَفْعَلُہٗ الْحَاجُّ‘ غَیْرَ الطَّوَافِ الْوَاجِبِ‘ لَمْ یَحِلَّ لَہٗ النِّسَائُ أَبَدًا حَتّٰی یَطُوْفَ الطَّوَافَ الْوَاجِبَ .وَکَذٰلِکَ الْعُمْرَۃُ لَا یَحِلُّ مِنْہَا أَبَدًا إِلَّا بِالطَّوَافِ بِالْبَیْتِ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَالْحَلْقِ الَّذِیْ یَکُوْنُ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَکَانَتْ ھٰذِہِ أَحْکَامَ الْاِحْرَامِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْہٖ‘ لَا یُخْرِجُہُ مِنْہُ مُرُوْرُ مُدَّۃٍ‘ وَإِنَّمَا یُخْرِجُہُ مِنْہُ الْأَفْعَالُ .وَکَانَ مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ وَسَاقَ الْہَدْیَ وَہُوَ یُرِیْدُ التَّمَتُّعَ‘ فَطَافَ لِعُمْرَتِہٖ وَسَعَی‘ لَمْ یَحِلَّ حَتّٰی یَفْرَغَ مِنْ حَجِّہِ وَیَنْحَرَ الْہَدْیَ .فَکَانَتْ ھٰذِہِ حُرْمَۃً زَائِدَۃً لِسَبَبِ الْہَدْیِ‘ لِأَنَّہٗ لَوْلَا الْہَدْیُ‘ لَکَانَ اِذَا طَافَ لِعُمْرَتِہٖ وَسَعَی‘ حَلَقَ وَحَلَّ لَہٗ‘ فَإِنَّمَا مَنَعَہُ مِنْ ذٰلِکَ الْہَدْیُ الَّذِی سَاقَہٗ‘ ثُمَّ کَانَ إِحْلَالُہٗ مِنْ تِلْکَ الْحُرْمَۃِ أَیْضًا إِنَّمَا یَکُوْنُ بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ‘ لَا بِمُرُوْرِ وَقْتٍ .فَکَانَ ھٰذَا الْاِحْرَامُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہِ لَا یَخْرُجُ مِنْہُ بِمُرُوْرِ الْأَوْقَاتِ وَلَا بِأَفْعَالٍ غَیْرِہِ‘ وَلٰـکِنْ بِأَفْعَالٍ یَفْعَلُہَا ہُوَ .وَکَأَنَّ مَنْ بَعَثَ بِہَدْیٍ‘ وَأَقَامَ فِیْ أَہْلِہٖ، وَأَمَرَ أَنْ یُقَلَّدَ وَیُشْعَرَ‘ فَوَجَبَ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ التَّجْرِیْدُ‘ فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُ ذٰلِکَ‘ یَحِلُّ مِنْ تِلْکَ الْحُرْمَۃِ‘ لَا بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ‘ وَلٰـکِنْ فِیْ وَقْتِ مَا یَحِلُّ النَّاسُ .فَخَالَفَ ذٰلِکَ الْاِحْرَامَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہٖ‘ فَلَمْ یَجِبْ ثُبُوْتُہُ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا یَثْبُتُ الْأَشْیَائُ الْمُخْتَلَفُ فِیْہَا اِذَا أَشْبَہَتَ الْأَشْیَائَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہَا .فَإِذَا کَانَتْ غَیْرَ مُشْبِہَۃٍ لَہَا‘ لَمْ یَثْبُتْ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ مَعَہَا التَّوْقِیْتُ الَّذِیْ یَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ‘ فَیَجِبُ الْقَوْلُ بِہَا لِذٰلِکَ .فَإِذَا وَجَبَ ذٰلِکَ‘ انْتَفَی الِاخْتِلَافُ‘ فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ صِحَّۃُ قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَفَسَادُ قَوْلِ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ إِلٰی حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤١١٠: عمرہ نے عائشہ (رض) اسی طرح روایت کی ہے البتہ ماقبل والا اضافہ نقل نہیں کیا۔ تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے یہ روایات کثرت سے مروی ہیں ان کے خلاف دوسری روایات اس قدر کثرت سے وارد نہیں ہیں۔ اگر صحت سند کا لحاظ کیا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایات صحیح السند نہیں ہیں۔ اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں۔ حضرت جابر (رض) والی روایت اس درجہ کی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے روات حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی حدیث کے روات سے کم درجہ کے ہیں۔ اور اگر اسے کسی چیز کو صاف طور پر ظاہر ہونے اور کثرت روایت کا لحاظ کیا جائے تو پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت اولیٰ ہے۔ یہ چیز حضرت صدیقہ (رض) کی روایت میں موجود ہے اور روایت جابر (رض) میں موجود نہیں ہے اور اگر اس مسئلہ کو قیاس کے طور پر معلوم کریں تو ہم یہ بات پاتے ہیں کہ جو لوگ حضرت جابر (رض) کی روایت کو لیتے ہیں۔ ان الحرمۃ التی تجب۔ الحدیث کہ ھدی والے پر جو قلادہ ڈالنے اور اشعار کی وجہ سے حرمت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے وہ کسی عمل کے بغیر باہر آجائے گا جب لوگ احرام سے فارغ ہوجائیں گے۔ پس ہم یہ نظر ڈالنا چاہتے ہیں کہ جس احرام پر اتفاق ہے اس کی کیا صورت ہے۔ چنانچہ ہم نے نظر ڈالی کہ جو شخص حج وعمرہ کا احرام باندھتا ہے۔ تو اس قسم کے احرام سے محرم بن جاتا ہے جس پر سب کا اتفاق ہے اور یہ بات جانی پہچانی ہے کہ وہ اس احرام سے بعض افعال سے باہر آتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ احرام سے نکل نہیں سکتا ۔ کیا یہ بات نہیں کہ جب وہ حج کررہا ہو پس وہ عرفات میں وقوف نہ کرے یہاں تک کہ اس کا وقت گزر جائے تو اس کا حج فوت ہوجاتا ہے اور وہ اپنے احرام سے طواف بیت اللہ ‘ سعی صفا مروہ اور حلق یا قصر سے نکل سکتا ہے۔ اگر اس نے وقوف عرفات کرلیا اور حجاج کے تمام افعال انجام دیے۔ مگر طواف زیارت نہ کیا تو اس کے لیے عورتیں حلال نہ ہوں گی یہاں تک کہ وہ طواف کرے۔ اسی طرح عمرہ سے بھی اسی صورت میں فارغ ہوسکتا ہے جب بیت اللہ شریف کا طواف اور صفا مروہ کی سعی اور حلق کو کرلے ۔ یہ اس احرام کے احکام ہیں جس پر سب کا اتفاق ہے۔ وقت کا گزرنا احرام سے نکلنے کا باعث نہیں بن سکتا ۔ بلکہ اس سے نکلنے کے لیے مخصوص افعال ہیں جن کو انجام دینا پڑتا ہے۔ جو شخص عمرے کا احرام باندھ کر ھدی روانہ کرے اور اس کا ارادہ حج تمتع کا بھی ہو پس وہ عمرے کے لیے طواف وسعی کرے ۔ وہ جب تک حج سے فارغ نہ ہو لے اور قربانی نہ کرے وہ احرام سے نکل نہیں سکتا۔ تو یہ حرمت زائدہ ھدی کی وجہ سے آئی ہے۔ اگر ھدی نہ ہوتی تو جب اس نے طواف و سعی صفا مروہ کرلی اور سر منڈوالیتا تو وہ احرام سے نکل جاتا ۔ اس نکلنے سے اس کی روانہ کردہ ہدی رکاوٹ بنی۔ پھر اس احرام سے بھی خاص فعل کے ذریعہ نکلتا ہے فقط وقت گزرنے سے نہیں۔ یہ متفق علیہ احرام کے احکامات ہیں۔ جس سے باہر آنے کے لیے وقت کا گزر نا کافی نہیں اور نہ دیگر افعال جو مخصوص افعال سے باہر آتا ہے۔ جو شخص ہدی روانہ کر کے گھر میں مقیم رہے اور اسے قلادہ ڈالنے اور اشعار کا حکم دے تو ان لوگوں کے ہاں جو اس کی وجہ سے سلا ہوا لباس درست قرار نہیں دیتے اسے ان سلے لباس ( دو چادروں) میں رہنا ہوگا۔ اس حرمت سے وہ کسی عمل کے ذریعہ باہر نہیں آسکتا بلکہ لوگوں کے احرام میں نکلنے پر یہ بھی احرام سے نکل جائے گا ۔ تو یہ احرام اتفاقی احرام کے خلاف ہے۔ اس طرح اس احرام کا ثبوت لازم نہ ہوگا ۔ کیونکہ جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ اس صورت میں ثابت ہوتی ہیں جب وہ اتفاقی اشیاء کے ساتھ مشابہت رکھتی ہوں۔ جب ان کے مشابہ نہ ہوں گی تو ثابت کیوں کر ہوں گی البتہ ان کے متعلق ایسی واقفیت ہونی چاہیے جو دلیل کا کام دے سکے۔ اس وقت اس کو ماننا لازم ہوگا۔ پس جب یہ بات واجب ہوگی تو پھر اختلاف والی بات کی نفی ہوجائے گی۔ ہماری مذکورہ بحث سے ان حضرات کا قول درست ثابت ہوا جنہوں نے روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو اختیار کیا اور ان کے خلاف جن حضرات نے حضرت جابر (رض) کی روایت سے استدلال کیا ان کا قول نا درست ثابت ہوا ۔ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا مسلک یہی ہے۔
حاصل روایات : وجوہ ترجیح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کو دو وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ نمبر ایک اسناد کی صحت کے اعتبار سے وہ روایات اصح ہیں جن کی صحت سند میں کسی کو اعتراض نہیں دوسرا جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت اس درجہ کی نہیں۔ تیسرا شئی کے ظہور کے لحاظ سے اگر اس روایت کو دیکھا جائے تب بھی روایت عائشہ (رض) اولیٰ ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روایت جابر (رض) کی وجہ سے وہ آدمی جو ہدی روانہ کرے اس پر تمام محرمات احرام ثابت ہوجاتی ہیں وہ اس وقت ان محرمات سے نکلے گا جب ہدی کو ذبح کردیا جائے گا اور حجاج کرام طواف زیارت کر کے تمام محرمات سے نکل جائیں گے۔ وہ شخص بغیر کچھ کئے احرام کی پابندیوں سے نکل جائے گا۔
ذرا غور کی بات یہ ہے کہ اس احرام کو دیکھا جائے جس میں سب کا اتفاق ہے کہ اس میں بھی ایسا ہے یا نہیں۔ محرم بالحج یا بالعمرہ ایسے احرام میں داخل ہوتے ہیں جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ وہ اس احرام سے اس وقت نکلے گا جب کچھ خاص افعال کو انجام دے گا۔ ان افعال کو کرنے کے بغیر وہ احرام سے نکل نہیں سکتا۔
اب ذرا غور کریں کہ حاجی سے وقوف عرفات فوت ہوجائے تو اس سے حج فوت ہوجاتا ہے مگر وہ حلال نہیں ہوگا بلکہ دیگر حجاج کی طرح طواف زیارت سعی صفا ومروہ ‘ رمی جمار حلق وغیرہ کے افعال کرلے گا تو تب حلال ہوگا اور اگر وقوف میسر آگیا اور اس نے طواف زیارت کے علاوہ تمام افعال مکمل کر لیے تو طواف سے پہلے عورت حلال نہ ہوگی۔ عمرہ میں بھی طواف و سعی و حلق کے بغیر عمرہ سے حلال نہیں ہوسکتا۔
حاصل یہ ہے کہ وہ احرام جس کے متعلق سب کا اتفاق ہے اس میں زمانے کا گزرنا اور وقت کا چلے جانا حلال ہونے کا سبب نہیں بلکہ افعال مخصوصہ کی ادائیگی وہ حلال ہونے کا ذریعہ ہوگی۔ جو شخص حج تمتع کے ارادہ سے عمرہ کا احرام باندھ کر ہدی روانہ کرتا ہے اس کے بعد عمرہ کے لیے طواف و سعی سے فراغت حاصل کرلیتا ہے تو اس کے لیے ارکان حج اور ذبح ہدی سے پہلے حلال ہونا جائز نہیں ہے اور متمتع پر ہدی کے روانہ کرنے کی وجہ سے جو ایک زائد حرمت ہے۔ کیونکہ سوق ہدی نہ ہوتی تو حلال ہوجانا اس کے لیے جائز ہوتا پھر اس زائد حرمت سے بھی مخصوص افعال کی ادائیگی اختیار کرنے کے بعد حلال ہونا درست ہے۔ اوقات کے گزر جانے کی وجہ سے حلال نہ ہوگا۔
پس اس سے یہ معلوم ہوا کہ جب متفق علیہ احرام سے حلال ہونے کا دارومدار خاص افعال کی ادائیگی ہے۔ اوقات کا گزرنا نہیں تو اپنے وطن میں رہ کر ہدی روانہ کرنے کی وجہ سے تجرید اور محرمات احرام کا چھوڑنا فرق اول کے ہاں واجب ہے ہدی روانہ کرنے والا اس حرمت سے افعال مخصوصہ ادا کرنے کے بغیر محض وقت گزرنے سے حلال ہوجائے گا۔
اس اختلافی احرام کا یہ طریقہ متفق علیہ احرام کے طریقہ کے خلاف ہے اس لیے ہدی بھیجنے والے پر حرمت کا ثبوت نہ ہوگا۔ کیونکہ قاعدہ و اصول یہ ہے کہ مختلف فیہا اور مختلف فیہ احکام تب ثابت ہوتے ہیں جبکہ وہ احکام متفق علیہ کے ساتھ مشابہت اختیار کریں اور یہاں مشابہت کا وجود نہیں۔ اس لیے حرمت ثابت نہ ہوگی البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ احکام مختلف فیہا پر حجت قائم ہونے تک موقوف رہیں گے۔ جب ضابطہ سے یہ بات ثابت ہوگئی تو اختلاف بھی ختم ہوجائے گا اور فریق ثانی جو روایت حضرت عائشہ (رض) کو حجت پیش کرتے ہیں ان کا قول ثابت و صحیح ہوجائے گا۔ اور فریق اوّل کا قول دلیل نظری نادرست ٹھہرے گا۔
ہمارے علماء ثلاثہ یعنی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

4111

۴۱۱۱ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ‘ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْہَدِیْرِ‘ أَنَّہٗ رَأٰی رَجُلًا مُتَجَرِّدًا بِالْعِرَاقِ قَالَ : فَسَأَلْتُ النَّاسَ عَنْہُ فَقَالُوْا أَمَرَ بِہَدْیِہِ أَنْ یُقَلَّدَ‘ فَلِذٰلِکَ تَجَرَّدَ .قَالَ رَبِیْعَۃُ : فَلَقِیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ فَقَالَ : بِدْعَۃٌ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ .وَلَا یَجُوْزُ عِنْدَنَا أَنْ یَّکُوْنَ ابْنُ الزُّبَیْرِ حَلَفَ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ بِدْعَۃٌ‘ إِلَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ السُّنَّۃَ خِلَافُ ذٰلِکَ .
٤١١١: ابراہیم بن حارث تیمی نے ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر سے روایت کی ہے کہ انھوں نے عراق میں ایک متجرد آدمی دیکھا تو اس کے متعلق لوگوں سے پوچھا انھوں نے کہا اس نے اپنے ہدی کو قلادہ ڈالنے کا حکم دیا ہے اس وجہ سے اس نے تجرد اختیار کیا ہے۔ ربیعہ کہنے لگے کہ میں عبداللہ بن زبیر (رض) کو ملا تو وہ کہنے لگے۔ رب کعبہ کی قسم یہ بدعت ہے۔ حضرت ابن زبیر (رض) کا قسم اٹھانا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ فعل خلاف سنت اور بدعت ہے۔

4112

۴۱۱۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ الرَّجُلِ یَبْعَثُ بِہَدْیِہِ‘ أَیُمْسِکُ عَنْ النِّسَائِ ؟ .فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا عَلِمْنَا الْمُحْرِمَ یَحِلُّ‘ حَتّٰی یَطُوْفَ بِالْبَیْتِ .فَمَعْنٰی ھٰذَا‘ أَنَّ الْمُحْرِمَ الَّذِیْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النِّسَائُ ‘ ہُوَ الَّذِیْ یَحِلُّ مِنْ ذٰلِکَ‘ بِالطَّوَافِ بِالْبَیْتِ ھٰذَا‘ لَا طَوَافَ عَلَیْہِ فَلاَ مَعْنَی لِاجْتِنَابِہِ ذٰلِکَ .وَھٰذَا خِلَافُ مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .
٤١١٢: ایوب نے ابوالعالیہ سے نقل کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ ہدی روانہ کرنے والا کیا عورتوں کے پاس نہ جائے۔ ابن عمر (رض) فرمانے لگے ہم نے ایسا محرم نہیں دیکھا جو بلاطواف حلال ہوجاتا ہو۔ اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ جس محرم پر عورتیں حرام ہیں یہ وہی ہے جو اس حرمت سے تب نکلتا ہے جب کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرلے اور وہ شخص جو ھدی روانہ کرتا ہے اور گھر مقیم ہے اس پر طواف نہیں پس اس کے سلے کپڑوں سے اجتناب کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ روایت اس کے خلاف ہے جو شروع باب میں ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔
حاصل روایات : ابن عمر (رض) کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس محرم کے لیے عورتیں حرام ہوتی ہیں وہ تو وہی جو بیت اللہ کے طواف سے حلال ہوتا ہے جب اس کے ذمہ طواف نہیں تو اس کے محرم کی طرح محرمات احرام سے اجتناب کا کوئی معنی نہیں۔ یہ ارشاد اس روایت کے خلاف ہے جو باب کے شروع میں ہم نے نقل کی ہے معلوم ہوا کہ وہ روایت قابل استدلال نہیں کیونکہ فتویٰ راوی اس کے خلاف ہے۔ پس عدم حرمت کی روایت معتبر ہوگی۔
امام طحاوی (رح) کا طرز یہ ہے کہ وہ راجح اقوال و روایات میں ہمیشہ ایسی روایات لانے کی کوشش کرتے ہیں جو انہی روات سے ہوں جن کی روایات مرجوح قول میں مذکور ہوں تاکہ کسی نئی دلیل کے بغیر خودبخود روایت سابقہ کا جواب ہوجائے۔

4113

۴۱۱۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا وَابْنَ أَبِیْ ذِئْبٍ حَدَّثَاہُ‘ عَنْ نَافِعٍ عَنْ نَبِیْہِ بْنِ وَہْبٍ أَخِیْ بَنِیْ عَبْدِ الدَّارِ‘ عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ‘ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَنْکِحُ الْمُحْرِمُ‘ وَلَا یُنْکِحُ وَلَا یَخْطُبُ) .
٤١١٣: ابان بن عثمان (رح) نے کہا کہ میں نے اپنے والد عثمان بن عفان (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا محرم نہ نکاح کرے اور نہ نکاح کر کے دے اور نہ پیغام نکاح دے۔
تخریج : مسلم فی النکاح ٤١؍٤٢‘ ٤٣؍٤٤‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٣٨‘ ترمذی فی الحج باب ٢٣‘ نسائی فی المناسک باب ٩١‘ والنکاح باب ٣٨‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٤٥‘ دارمی فی النکاح باب ١٧‘ مالک فی الحج ٧٠؍٧٣‘ مسند احمد ١؍٥٧‘ ٦٤؍٦٥‘ ٦٨؍٧٣۔
حالت احرام میں وطی یا دواعی وطی تو بالاتفاق حرام و ممنوع ہیں مگر اس بارے میں اختلاف ہے۔ کہ محرم نکاح کا عقد اور پیغام نکاح دے سکتا ہے یا نہیں۔ اس میں دو مذہب منقول ہیں۔
نمبر 1: ائمہ ثلاثہ سعید بن المسیب سالم بن عبداللہ رحمہم اللہ کے ہاں عقد نکاح اور پیغام نکاح دونوں حرام و ناجائز ہیں اگر نکاح کیا تو درست نہ ہوگا۔
نمبر 2: ائمہ احناف اور عطاء ابراہیم ‘ سفیان رحمہم اللہ کے ہاں پیغام نکاح اور عقد نکاح ہر دو جائز و درست ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : محرم کو حالت احرام میں نکاح اور پیغام نکاح دونوں حرام و ناجائز ہیں اگر نکاح کیا تو وہ باطل ہے۔ دلیل یہ ہے۔

4114

۴۱۱۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ " وَلَا یَخْطُبُ " .
٤١١٤: مالک نے نافع انھوں نے ابن عمر (رض) سے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے البتہ ” لایخطب “ کے الفاظ موجود نہیں۔

4115

۴۱۱۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ نَبِیْہِ بْنِ وَہْبٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ‘ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا یَنْکِحُ وَلَا یُنْکِحُ وَلَا یَخْطُبُ) .
٤١١٥: ابان بن عثمان نے عثمان (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ نکاح کرے نہ پیغام نکاح دے۔

4116

۴۱۱۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَفْصٍ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ الْقَطَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ الْفَضْلِ‘ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ‘ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ ثَمَّ لَمْ یَقُلْ " وَلَا یَخْطُبُ " .
٤١١٦: ابان بن عثمان نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ انھوں نے ” لایخطب “ کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔

4117

۴۱۱۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ‘ قَالَ‘ ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ مُوْسَی الْمَکِّیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَبِیْہٌ‘ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : حَدَّثَنَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (الْمُحْرِمُ لَا یَنْکِحُ وَلَا یُنْکِحُ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِلْمُحْرِمِ أَنْ یَنْکِحَ وَلَا یُنْکِحَ وَلَا یَخْطُبَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا نَرَیْ بِذٰلِکَ کُلِّہِ بَأْسًا لِلْمُحْرِمِ وَلٰکِنَّہٗ إِنْ تَزَوَّجَ‘ فَلاَ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا حَتّٰی یَحِلَّ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٤١١٧: نبیہ نے ابان بن عثمان (رض) سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عثمان (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ محرم نہ نکاح کرے اور نہ نکاح کر کے دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء نے اس روایت کو اختیار کرتے ہوئے یہ کہا کہ محرم نہ نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی کا نکاح کر کے دے سکتا ہے ‘ اور نہ منگنی کا پیغام دے سکتا ہے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ محرم کے لیے یہ سب چیزیں جائز ہیں ‘ لیکن اگر محرم شادی کرے تو جب تک حلال نہ ہوجائے دخول نہ کرے اور انھوں نے مذکورہ روایات سے استدلال کیا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کو نکاح کرنا نکاح کر کے دینا اور پیغام نکاح سب ممنوع ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جوابات :
محرم کو عقد نکاح اور نکاح کر کے دینے اور پیغام نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دلائل یہ ہیں۔

4118

۴۱۱۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ ح .
٤١١٨: یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔

4119

۴۱۱۹ : وَحَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ إِسْحَاقَ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ وَعَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَہُوَ حَرَامٌ‘ فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ ثَلاَثًا فَأَتَاہُ حُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّی‘ فِیْ نَفَرٍ مِنْ قُرَیْشٍ فِی الْیَوْمِ الثَّالِثِ فَقَالُوْا إِنَّہٗ قَدِ انْقَضَیْ أَجَلُک فَاخْرُجْ عَنَّا .فَقَالَ وَمَا عَلَیْکُمْ لَوْ تَرَکْتُمُوْنِیْ فَعَرَّسْتُ بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ‘ فَصَنَعْنَا لَکُمْ طَعَامًا فَحَضَرْتُمُوْہُ .فَقَالُوْا : لَا حَاجَۃَ لَنَا فِیْ طَعَامِک‘ فَاخْرُجْ عَنَّا .فَخَرَجَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَخَرَجَ بِمَیْمُوْنَۃَ‘ حَتّٰی عَرَّسَ بِہَا بِسَرِفٍ) .
٤١١٩: مجاہد وعطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمونہ (رض) سے نکاح کیا اور اس وقت آپ حالت احرام میں تھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں تین روز قیام فرمایا اور وہیں آپ کے پاس حویطب بن عبدالعزیٰ قریش کا ایک وفد لے کر تیسرے دن حاضر ہوا تو وہ کہنے لگے آپ کا وقت ختم ہوگیا آپ یہاں سے نکل جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا کچھ نقصان نہ تھا اگر تم مجھے اپنے درمیان چھوڑتے تو ہم تمہارے لیے کھانا تیار کرتے اور تم اس میں شرکت کرتے وہ کہنے لگا ہمیں تمہارے کھانے کی چنداں حاجت نہیں بس تم یہاں سے نکل جاؤ۔
پس اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میمونہ (رض) کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ مقام سرف میں ان کے ساتھ شب زفاف گزاری۔

4120

۴۱۲۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا رِیَاحُ بْنُ أَبِیْ مَعْرُوْفٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ‘ وَہُوَ مُحْرِمٌ) ..
٤١٢٠: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمونہ بنت حارث سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ١٢‘ النکاح باب ٣٠‘ المغازی باب ٤٣‘ مسلم فی النکاح ٤٦؍٤٧‘ ٤٨‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢١؍٣٨‘ ترمذی فی الحج باب ٢٤‘ نسائی فی المناسک باب ٩٠‘ دارمی المناسک باب ٢١‘ مسند احمد ٢٤٥؍٢٦٦‘ ٣٣٠؍٣٣٣‘ ٣٣٦‘ ٣٤٦‘ ٣٥١‘ ٣٥٤‘ ٣٦٠‘ ٣٦١۔

4121

۴۱۲۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوٗسٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٤١٢١: عبداللہ بن طاؤس نے اپنے والد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4122

۴۱۲۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ ابْنِ خَیْثَمٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٤١٢٢: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4123

۴۱۲۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ .ح .
٤١٢٣: ربیع الموذن نے اسد سے روایت کی ہے۔

4124

۴۱۲۴ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٤١٢٤: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4125

۴۱۲۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَفَہْدٌ قَالَا‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ .ح .
٤١٢٥: ابوبکر اور فہد دونوں نے ابراہیم بن بشار سے روایت نقل کی ہے۔

4126

۴۱۲۶ : وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .قَالَ عَمْرٌو :
٤١٢٦: عمرو بن دینار نے جابر بن زید سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4127

۴۱۳۷ : فَحَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَکَحَ مَیْمُوْنَۃَ‘ وَہِیَ خَالَتُہُ وَہُوَ حَلَالٌ) .قَالَ عَمْرٌو : فَقُلْت لِلزُّہْرِیِّ‘ وَمَا یَدْرِیْ یَزِیْدُ بْنُ الْأَصَمِّ أَعْرَابِیٌّ بَوَّالٌ‘ أَتَجْعَلُہٗ مِثْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ ؟
٤١٢٧: عمرو بن دینار کہتے ہیں مجھے زہری عن یزید بن اصم (رض) نے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمونہ سے نکاح کیا اور وہ میری خالہ ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت حلال میں تھے۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے زہری کو کہا یزید بن اصم (رض) بہت پیشاب کرنے والا بدو کیا جانتا ہے کیا تم اس کو ابن عباس (رض) کے برابر قرار دیتے ہو۔

4128

۴۱۲۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ أَبِی الضُّحَی‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْضَ نِسَائِہِ وَہُوَ مُحْرِمٌ) .
٤١٢٨: مسروق نے عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بیوی سے حالت احرام میں نکاح فرمایا۔

4129

۴۱۲۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا کَامِلٌ أَبُوَ الْعَلَائِ ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُحْرِمٌ) .فَقَالَ لَہُمْ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : وَمَنْ یُتَابِعُکُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ وَہُوَ مُحْرِمٌ ؟ وَھٰذَا أَبُوْ رَافِعٍ وَمَیْمُوْنَۃُ یَذْکُرَانِ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ‘ وَہُوَ حَلَالٌ .فَذَکَرُوْا
٤١٢٩: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام کی حالت میں میمونہ سے نکاح کیا۔ ان کو فریق اوّل نے کہا کہ کون اس قول میں تمہارے پیچھے چلے گا۔ کہ تم کہتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمونہ سے نکاح حالت احرام میں کیا۔ لویہ ابو رافع اور میمونہ دونوں بیان کر رہے ہیں یہ نکاح والا سلسلہ آپ نے اس وقت کیا جب آپ احرام میں نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے ذیل کی روایات ذکر کیں۔
ایک اشکال :
حضرت ابو رافع اور میمونہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے حالت حلال میں نکاح فرمایا ہے اور ابو رافع (رض) یہ درمیان میں پیغام لے جانے والے تھے۔ پس حالت احرام میں نکاح کیوں کر ثابت ہوسکتا ہے جبکہ ابن عباس (رض) تو موقعہ پر موجود نہ تھے۔ روایت ابو رافع یہ ہے۔

4130

۴۱۳۰ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثِنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ مَطَرٍ‘ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا حَلَالًا وَبَنَی بِہَا حَلَالًا‘ وَکُنْتُ الرَّسُوْلَ بَیْنَہُمَا) .
٤١٣٠: سلیمان بن یسا ر نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمونہ (رض) سے حلال ہونے کی حالت میں نکاح کیا اور ان کے ساتھ شب زفاف حلال ہونے کی حالت میں گزاری اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مابین وکیل تھا۔

4131

۴۱۳۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ وَرَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَا : ثَنَا أَسَدٌ .ح .
٤١٣١: ربیع الموذن اور ربیع الجیزی دونوں نے کہا کہ ہمیں اسد نے بیان کیا۔

4132

۴۱۳۲ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ‘ عَنْ (مَیْمُوْنَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ تَزَوَّجَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَرِفٍ‘ وَنَحْنُ حَلَالَانِ‘ بَعْدَ أَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّۃَ) وَلَمْ یَقُلْ ابْنُ خُزَیْمَۃَ (بَعْدَ أَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّۃَ) .
٤١٣٢: حبیب بن میمون بن مہران نے یزید بن اصم (رض) سے انھوں نے میمونہ بنت الحارث سے نقل کیا وہ فرماتی ہیں کہ مجھ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام سرف میں نکاح کیا اس وقت ہم حلال تھے اور یہ مکہ سے واپسی کا موقعہ تھا ابن خزیمہ بن خزیمہ نے یہ الفاظ نقل نہیں کئے۔ بعد ان رجع من مکۃ۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٣٨‘ دارمی فی المناسک باب ٢١‘ مسند احمد ٦‘ ٣٣٢؍٣٣٣‘ ٣٣٥۔

4133

۴۱۳۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا فَزَارَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ قَالَ : (أَخْبَرَتْنِیْ مَیْمُوْنَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا حَلَالًا) .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِمْ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ إِنْ کَانَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ صِحَّۃِ الْاِسْنَادِ وَاسْتِقَامَتِہٖ‘ وَہٰکَذَا مَذْہَبُہُمْ‘ فَإِنَّ حَدِیْثَ أَبِیْ رَافِعٍ الَّذِیْ ذَکَرُوْا‘ فَإِنَّمَا رَوَاہُ مَطَرٌ الْوَرَّاقُ‘ وَمَطَرٌ - عِنْدَہُمْ - لَیْسَ ہُوَ مِمَّنْ یُحْتَجُّ بِحَدِیْثِہٖ .وَقَدْ رَوَاہُ مَالِکٌ‘ وَہُوَ أَضْبَطُ مِنْہُ‘ وَأَحْفَظُ‘ فَقَطَعَہُ .
٤١٣٣: یزید بن اصم (رض) کہتے ہیں کہ مجھے میمونہ بنت حارث نے خبر دی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلال ہونے کی حالت میں ان سے نکاح فرمایا۔ ان کے خلاف ہماری دلیل یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کو صحت سند کے لحاظ سے لیں اور فریق اوّل کا مسلک یہی ہے تو حضرت ابو رافع کی روایت جو ان کی طرف سے مذکور ہوئی ۔ اس کو مطروراق نے روایت کیا ہے اور فریق اوّل والوں کے ہاں مطر ایسا راوی نہیں جس کی روایت قابل استدلال ہو اور دوسری طرف اس کو مالک (رح) نے روایت کیا جو ضبط وحفظ میں ان سے بڑھ کر ہیں انھوں نے اس روایت کو منقطع روایت کیا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی النکاح باب ٤٥۔
حل اشکال :
اس بات کو اگر روایت کی اسناد اور استقامت اسناد کے لحاظ سے لیا جائے اور فریق اوّل کے ہاں یہ مسلم ہے تو روایت ابو رافع (رض) جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں ہوا جس کو مطرالوراق اور مطر (ان کے ہاں) وہ اس مقام مرتبہ میں نہیں ہے جن کی روایت سے احتجاج کیا جاتا ہے۔ ذرا توجہ فرمائیں کہ اس روایت کو مشہور امام حدیث امام مالک (رح) جو اس سے بڑے ضابط ‘ حافظ ہیں انھوں نے اس تفصیل سے نقل کیا ہے جو اس بات کو بالکل قطع کردیتی ہے۔ روایت مالک (رح) یہ ہے۔
تخریج : ترمذی فی الحج باب ٢٣‘ دارمی فی المناسک باب ٢١‘ مسند احمد ٦؍٣٩٣۔

4134

۴۱۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ بَعَثَ أَبَا رَافِعٍ مَوْلَاہُ‘ وَرَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ‘ فَزَوَّجَاہُ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ‘ وَہُوَ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ) .وَحَدِیْثُ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ‘ فَقَدْ ضَعَّفَہُ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ فِیْ خِطَابِہِ لِلزُّہْرِیِّ‘ وَتَرَکَ الزُّہْرِیُّ الْاِنْکَارَ عَلَیْہٖ‘ وَأَخْرَجَہٗ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ‘ وَجَعَلَہُ أَعْرَابِیًّا بَوَّالًا‘ وَہُمْ یُضَعِّفُوْنَ الرَّجُلَ بِأَقَلَّ مِنْ ھٰذَا الْکَلَامِ‘ وَبِکَلَامِ مَنْ ہُوَ أَقَلُّ مِنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ وَالزُّہْرِیِّ .فَکَیْفَ وَقَدْ أَجْمَعَا جَمِیْعًا عَلَی الْکَلَامِ بِمَا ذَکَرْنَا‘ فِیْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ ؟ وَمَعَ ھٰذَا فَإِنَّ الْحُجَّۃَ عِنْدَکُمْ‘ فِیْ مَیْمُوْنَ بْنِ مِہْرَانَ‘ ہُوَ جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ‘ وَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ مُنْقَطِعًا .
٤١٣٤: مالک نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے انھوں نے سلیمان بن یسار سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے غلام ابو رافع اور ایک انصاری (رض) کو بھیجا انھوں نے میمونہ بنت الحارث کو آپ کی طرف سے پیغام نکاح دیا اس وقت آپ مدینہ منورہ میں تھے اور عمرۃ القضاۃ کے لیے روانہ نہیں ہوئے تھے۔ روایت یزید بن اصم (رح) کو عمر وبن دینار (رح) نے زہری کے ساتھ گفتگو میں ضعیف قرار دیا ہے۔ زہری نے منکر قرار دے کر اس کو ترک کردیا اور اس کو اہل علم سے نکالتے ہوئے اس کو بہت پیشاب کرنے والا دیہاتی قرار دیا اور فریق اوّل کے لوگ تو اس سے کم درجہ کے کلام سے بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے۔ تمہارے ہاں میمون بن مہران کے سلسلہ میں جعفر بن برقان حجت ہیں حالانکہ یہ روایت منقطع روایت کی گئی ہے۔
جواب نمبر ": یزید بن اصم (رض) کی روایت کو عمرو بن دینار نے زہری کے ساتھ گفتگو میں کمزور قرار دیا اور زہری نے ان کے جواب میں انکار نہیں فرمایا عمرو نے اس کو اہل علم سے خارج کر کے کثرت سے پیشاب والا بدو شمار کیا ہے اور فریق اوّل تو اس سے کم تنقید پر آدمی کو ضعیف قرار دے دیتے ہیں خواہ تنقید والے عمرو بن دینار اور زہری کے پایہ کے لوگ نہ بھی ہوں ‘ اب جناب کا کیا خیال ہے جب کہ دونوں عظیم ثقہ محدث اس کو نقد و تبصرہ میں بوال قرار دے رہے ہیں۔
یہاں یزید بن اصم (رض) کی روایت کو برسبیل تسلیم مانتے ہوئے عرض کرتے ہیں یزید بن اصم کی یہ روایت حبیب بن میمون بن مہران سے مروی ہے حالانکہ ان کی روایت جعفر بن برقان عن میمون بن مہران عن یزید بن اصم (رض) زیادہ معتبر ہے۔ اس روایت یزید بن اصم پر موقوف ہے جیسا کہ میمون بن مہران اور عطاء بن ابی رباح (رح) کے درمیان مناظرہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ روایت یہ ہے۔

4135

۴۱۳۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ‘ عَنْ مَیْمُوْنَ بْنِ مِہْرَانَ‘ قَالَ : (کُنْتُ عِنْدَ عَطَائٍ ‘ فَجَائَ ہٗ رَجُلٌ فَقَالَ : ہَلْ یَتَزَوَّجُ الْمُحْرِمُ ؟ فَقَالَ عَطَاء ٌ : مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ النِّکَاحَ‘ مُنْذُ أَحَلَّہٗ .قَالَ مَیْمُوْنُ : فَقُلْتُ لَہٗ : إِنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ کَتَبَ إِلَیَّ : أَنْ سَلْ یَزِیْدَ بْنَ الْأَصَمِّ‘ أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ‘ حَلَالًا‘ أَوْ حَرَامًا ؟ فَقَالَ یَزِیْدُ : تَزَوَّجَہَا وَہُوَ حَلَالٌ .فَقَالَ عَطَاء ٌ : مَا کُنَّا نَأْخُذُ ھٰذَا إِلَّا عَنْ مَیْمُوْنَۃَ‘ کُنَّا نَسْمَعُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہُوَ مُحْرِمٌ) .فَأَخْبَرَ جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ مَیْمُوْنَ بْنِ مِہْرَانَ‘ بِالسَّبَبِ الَّذِیْ لَہٗ وَقَعَ إِلَیْہِ ھٰذَا الْحَدِیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ‘ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِ یَزِیْدَ‘ لَا عَنْ مَیْمُوْنَۃَ‘ وَلَا عَنْ غَیْرِہَا ثُمَّ حَاجَّ مَیْمُوْنُ بِہٖ عَطَائً ‘ فَذَکَرَہٗ عَنْ یَزِیْدَ‘ وَلَمْ یُجَوِّزْہٗ بِہٖ۔ فَلَوْ کَانَ عِنْدَہٗ‘ عَمَّنْ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْہُ‘ لَاحْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہٖ‘ لِیُؤَکِّدَ بِذٰلِکَ حُجَّتَہٗ۔ فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ‘ لَا عَنْ غَیْرِہٖ وَاَلَّذِیْنَ رَوَوْا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ أَہْلُ عِلْمٍ .وَأَثْبَتَ أَصْحَابُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ‘ وَعَطَاء ٌ‘ وَطَاوٗسٌ‘ وَمُجَاہِدٌ‘ وَعِکْرِمَۃُ‘ وَجَابِرُ بْنُ زَیْدٍ .وَہٰؤُلَائِ کُلُّہُمْ أَئِمَّۃٌ فُقَہَائُ یَحْتَجُّ بِرِوَایَاتِہِمْ وَآرَائِہِمْ الَّذِیْنَ نَقَلُوْا عَنْہُمْ .فَکَذٰلِکَ أَیْضًا مِنْہُمْ‘ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ وَأَیُّوْبُ السِّخْتِیَانِیُّ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ .فَہٰؤُلَائِ أَیْضًا أَئِمَّۃٌ یُقْتَدَیْ بِرِوَایَتِہِمْ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ أَیْضًا‘ وَمَا قَدْ وَافَقَ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَرُوِیَ ذٰلِکَ عَنْہَا‘ مَنْ لَا یَطْعَنُ أَحَدٌ فِیْہٖ‘ أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ أَبِی الضُّحَی‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ .فَکُلُّ ہٰؤُلَائِ أَئِمَّۃٌ یُحْتَجُّ بِرِوَایَتِہِمْ .فَمَا رَوَوْا مِنْ ذٰلِکَ أَوْلَی مِمَّا رَوَی‘ مَنْ لَیْسَ کَمِثْلِہِمْ فِی الضَّبْطِ‘ وَالثَّبَتِ‘ وَالْفِقْہِ‘ وَالْأَمَانَۃِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَإِنَّمَا رَوَاہُ نَبِیْہُ بْنُ وَہْبٍ‘ وَلَیْسَ کَعَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ وَلَا کَجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ‘ وَلَا کَمَنْ رَوٰی مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ وَلَیْسَ لِنَبِیْہٍ أَیْضًا مَوْضِعٌ فِی الْعِلْمِ‘ کَمَوْضِعِ أَحَدٍ مِمَّنْ ذَکَرْنَا .فَلاَ یَجُوْزُ اِذْ کَانَ کَذٰلِکَ أَنْ یُعَارِضَ بِہٖ جَمِیْعُ مَنْ ذَکَرْنَا‘ مِمَّنْ رَوٰی بِخِلَافِ الَّذِیْ رَوَیْ ھُوَ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .فَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِنَّ الْمُحْرِمَ‘ حَرَامٌ عَلَیْہِ جِمَاعُ النِّسَائِ ‘ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ عَقْدُ نِکَاحِہِنَّ کَذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَا بَأْسَ عَلَی الْمُحْرِمِ بِأَنْ یَبْتَاعَ جَارِیَۃً‘ وَلٰـکِنْ لَا یَطَؤُہَا حَتّٰی یَحِلَّ .وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یَشْتَرِیَ طِیْبًا لِیَتَطَیَّبَ بِہٖ بَعْدَمَا یَحِلُّ‘ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یَشْتَرِیَ قَمِیْصًا لِیَلْبَسَہٗ‘ بَعْدَمَا یَحِلُّ .وَذٰلِکَ الْجِمَاعُ وَالتَّطَیُّبُ وَاللِّبَاسُ‘ حَرَامٌ عَلَیْہِ کُلُّہٗ، وَہُوَ مُحْرِمٌ .فَلَمْ یَکُنْ حُرْمَۃُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ تَمْنَعُہُ عَقْدَ الْمِلْکِ عَلَیْہِ .وَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ لَا یَشْتَرِیْ صَیْدًا‘ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ عَقْدِ نِکَاحٍ‘ کَحُکْمِ عَقْدِ شِرَائِ الصَّیْدِ‘ أَوْ حُکْمِ عَقْدِ شِرَائِ مَا وَصَفْنَا مَا سِوٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا مَنْ أَحْرَمَ وَفِیْ یَدِہِ صَیْدٌ‘ أَمَرَ أَنْ یُطْلِقَہٗ‘ وَمَنْ أَحْرَمَ وَعَلَیْہِ قَمِیْصٌ ، وَفِیْ یَدِہِ طِیْبٌ أَمَرَ أَنْ یَطْرَحَہُ عَنْہُ وَیَرْفَعَہُ .وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ‘ کَالصَّیْدِ الَّذِیْ یُؤْمَرُ بِتَخْلِیَتِہٖ، وَیُتْرَکُ حَبْسُہُ .وَرَأَیْنَاہُ اِذَا أَحْرَمَ وَمَعَہُ امْرَأَۃٌ‘ لَمْ یُؤْمَرْ بِإِطْلَاقِہَا‘ بَلْ یُؤْمَرُ بِحِفْظِہَا وَصَوْنِہَا فَکَانَتَ الْمَرْأَۃُ فِیْ ذٰلِکَ‘ کَاللِّبَاسِ وَالطِّیْبِ‘ لَا کَالصَّیْدِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَّکُوْنَ فِی اسْتِقْبَالِ عَقْدِ النِّکَاحِ عَلَیْہَا‘ فِیْ حُکْمِ اسْتِقْبَالِ عَقْدِ الْمِلْکِ عَلَی الثِّیَابِ وَالطِّیْبِ‘ الَّذِیْ یَحِلُّ لَہٗ بِہِ لُبْسُ ذٰلِکَ‘ وَاسْتِعْمَالُہٗ بَعْدَ الْخُرُوْجِ مِنَ الْاِحْرَامِ .فَقَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ تَزَوَّجَ أُخْتَہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ کَانَ نِکَاحُہُ بَاطِلًا‘ وَلَوْ اشْتَرَاہَا‘ کَانَ شِرَاؤُہُ جَائِزًا‘ فَکَانَ الشِّرَائُ یَجُوْزُ أَنْ یُعْقَدَ عَلٰی مَا لَا یَحِلُّ وَطْؤُہٗ‘ وَالنِّکَاحُ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُعْقَدَ إِلَّا عَلَی مَنْ یَحِلُّ وَطْؤُہَا‘ وَکَانَتَ الْمَرْأَۃُ حَرَامًا عَلَی الْمُحْرِمِ جِمَاعُہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَحْرُمَ عَلَیْہِ نِکَاحُہَا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّا رَأَیْنَا الصَّائِمَ وَالْمُعْتَکِفَ‘ حَرَامٌ عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا الْجِمَاعُ .وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ حُرْمَۃَ الْجِمَاعِ عَلَیْہِمَا‘ لَا یَمْنَعُہُمَا مِنْ عَقْدِ النِّکَاحِ‘ لِأَنْفُسِہِمَا‘ اِذْ کَانَ مَا حَرَّمَ الْجِمَاعَ عَلَیْہِمَا مِنْ ذٰلِکَ‘ إِنَّمَا ہُوَ حُرْمَۃُ دِیْنٍ کَحُرْمَۃِ حَیْضِ الْمَرْأَۃِ الَّذِیْ لَا یَمْنَعُہَا مِنْ عَقْدِ النِّکَاحِ عَلٰی نَفْسِہَا .فَحُرْمَۃُ الْاِحْرَامِ فِی النَّظَرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَقَدْ رَأَیْنَا الرَّضَاعَ الَّذِیْ لَا یَجُوْزُ تَزْوِیْجُ الْمَرْأَۃِ لِمَکَانِہِ اِذَا طَرَأَ عَلَی النِّکَاحِ فَسَخَ النِّکَاحَ‘ وَکَذٰلِکَ لَا یَجُوْزُ اسْتِقْبَالُ النِّکَاحِ عَلَیْہِ .وَکَانَ الْاِحْرَامُ اِذَا طَرَأَ عَلَی النِّکَاحِ‘ لَمْ یَفْسَخْہُ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ لَا یَمْنَعُ اسْتِقْبَالَ عُقْدَۃِ النِّکَاحِ‘ وَحُرْمَۃُ الْجِمَاعِ بِالْاِحْرَامِ کَحُرْمَتِہٖ بِالصِّیَامِ سَوَاء ٌ .فَإِذَا کَانَتْ حُرْمَۃُ الصِّیَامِ لَا تَمْنَعُ عَقْدَ النِّکَاحِ‘ فَکَذٰلِکَ حُرْمَۃُ الْاِحْرَامِ‘ لَا تَمْنَعُ عُقْدَۃَ النِّکَاحِ أَیْضًا .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤١٣٥: جعفر بن برقان نے میمون بن مہران سے نقل کیا کہ میں عطاءؒ کے ہاں تھا تو ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا محرم شادی کرسکتا ہے ؟ عطاء کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے جب سے نکاح حلال کیا ہے پھر حرام نہیں کیا۔ میمون کہنے لگے۔ میں نے کہا عمر بن عبدالعزیز نے میری طرف لکھا کہ یزید بن اصم سے پوچھا گیا۔ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب میمونہ (رض) سے نکاح کیا تو کیا آپ حلال کی حالت میں تھے یا حالت احرام میں تھے ؟ میمون کہنے لگے کہ یزید نے جواب دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے حلال ہونے کی حالت میں نکاح کیا۔۔ عطاءؒ نے کہا ہم تو یہ روایت میمونہ (رض) سے نقل کرتے تھے ہم سنا کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ جعفر بن برقان (رح) نے میمون بن مہران (رح) سے نقل کرتے ہوئے وہ سبب ذکر کیا جس سے یہ روایت یزید بن اصم (رح) سے ان تک پہنچی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ یزید کا قول ہے۔ حضرت میمونہ (رض) کا قول نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کا ہے۔ پھر میمونہ (رح) نے عطاء (رح) سے بحث کرتے وقت یزید کی یہ روایت نقل کی تو انھوں نے اس کو قبول نہ کیا۔ اگر یہ ان کے ہاں اوپر تک روایت جاتی تو میمون اس سے ضرور استدلال کرتے اور اس سے اپنی دلیل کو مضبوط بنا لیتے ۔ پس اس روایت کی اصل اتنی ہے کہ یہ صرف یزید بن اصم (رح) سے مروی ہے اور کسی سے نہیں۔ اور جن لوگوں نے یہ روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت احرام میں نکاح کیا وہ اہل علم ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) کے معتبرشاگرد سعید بن جبیر اور عطاء طاؤس ‘ مجاہد عکرمہ ‘ جابربن زید رحمہم اللہ ہیں یہ تمام فقاہت کے ائمہ ہیں ان کی آراء سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان سے نقل کرنے والے ایوب سختیانی اور عبداللہ بن ابی نجیح رحمہم اللہ ہیں۔ یہ بھی ائمہ ملا مقتداء علم ہیں ان کی روایات کو مسلم مانا جاتا ہے۔ جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی روایت ابن عباس (رض) کی موافقت میں روایت آتی ہے اور اس روایت کے روات وہ حضرات ہیں جو کسی کے ہاں بھی مطعون نہیں ‘ حضرت ابو عوانہ مغیرہ سے وہ ابو الضحیٰ سے اور وہ مسروق (رح) سے روایت کرتے ہیں یہ تمام ایسے ائمہ ہیں جن کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے۔ پس ان کی روایات ان حضرات کی روایات کے مقابل اولیٰ ہیں جو کہ ضبط پختگی ‘ فقاہت اور امانت میں ان کے برابر نہیں ہیں۔ رہی حضرت عثمان (رض) کی روایت اس کو نبیہ بن وھب نے روایت کیا جو کہ درجہ میں عمرو بن دینار کے برابر نہیں اور اسی وہ جابر بن زید کو بھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ ان کو پہنچ سکتے ہیں ‘ جو ان کے موافق مسروق کی وساطت سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کرتے ہیں اور نبیہ بن وھب کا کوئی علمی مقام نہیں جیسا مذکورۃ الصدر لوگوں کا ہے۔ جب کہ روایت کی صورت حال یہ ہے تو پھر وہ حضرات ان مذکورہ روات کے مقابل نہیں ہوسکتے ۔ ر وایات کو سامنے رکھ کر یہ اس باب کی صورت ہے۔ باقی قیاس تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ محرم پر عورتوں سے جماع حرام ہے۔ تو اس کا احتمال ہے کہ عقد نکاح کا حکم اسی طرح ہو ۔ جب ہم نے اس سلسلہ میں غور وخوض کیا تو ان کو اس سلسلہ میں متفق پایا کہ محرم پر لونڈی خریدنے میں چنداں حرج نہیں مگر احرام سے نکلنے تک اس سے جماع نہیں کرسکتا۔ خوشبو کی خریداری میں کچھ حرج نہیں مگر احرام میں استعمال نہیں کرسکتا بلکہ بعد میں کرے گا۔ قمیص کی خرید میں کچھ حرج نہیں مگر اس کا پہننا احرام سے فراغت کے بعد ہوگا ۔ یہ جماع ‘ خوشبو ‘ لباس تمام اس پر حرام ہیں مگر ان کی حرمت عقد ملکیت کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محرم شکار کی خریداری نہیں کرسکتا پس اس سے یہ احتمال پیدا ہوسکتا ہے کہ نکاح کا حکم شکار کے خریدنے کی طرح ہو یامطلق خریدو فروخت کا ہو۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ پس ہم نے اس میں غور کیا تو ہمارے سامنے یہ بات آئی کہ جو شخص احرام باندھے اور اس وقت اس کے قبضہ میں شکارہو۔ تو اسے چھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اسی طرح جس نے احرام باندھا اور اس نے قمیص زیب تن کر رکھی ہو اور اس کے ہاتھ میں خوشبو ہو۔ تو اسے حکم کیا جائے گا کہ وہ اسے پھینک دے اور قمیص کو اتار دے اور یہ شکار کی طرح نہیں ہے کہ جس کا چھوڑنے کا حکم کیا جائے گا اور اسے قید بھی نہ کیا جائے گا اور ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے احرام باندھا اور اس کے ساتھ بیوی تھی تو اسے اس کو آزاد کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا بلکہ اس کی حفاظت دصیانت کا حکم دیا جائے گا عورت کی حیثیت اس کے لیے لباس و خوشبو جیسی ہوگی شکار جسی نہ ہوگی۔ پس نظر و فکر کا تقاضا تو یہی ہے کہ عقد نکاح کرنا کپڑے اور خوشبو کی خریداری کے عقد کی طرح ہے۔ وہ کپڑا کہ جس کا استعمال احرام سے خروج کے بعد اس کو درست ہے۔ ایک معترض کا کہنا یہ ہے ہم نے دیکھا کہ جس شخص نے رضاعی بہن سے نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے اور اگر اس نے اس کو خرید لیا تو اس کی خریداری درست ہے اور یہ عقد شراء درست ہے اور عقد شراء اس لونڈی کا بھی درست ہے جس سے قربت حلال نہ ہو حالانکہ نکاح کا عقد اسی سے منعقد ہوتا ہے جس سے وطی حلال ہو۔ اور محرم کو بیوی سے حالت احرام میں جماع حرام ہے۔ پس نظر وفکر کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس سے نکاح بھی حرام ہو۔ فریق اوّل کے خلاف فریق ثانی کی دلیل یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ روزہ دار ‘ معتکف ہر دو کے لیے بیوی سے جماع حرام ہے اور سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ان کے لیے جماع کی حرمت اپنے عقد نکاح سے مانع نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان پر جماع کی حرمت وہ دینی حرمت ہے جیسا کہ حیض کی حالت میں عورت کی حرمت ہے اور یہ حیض عقد نکاح سے عورت کو مانع نہیں ہے۔ تو قیاس و نظر میں احرام کی حرمت بھی اسی طرح ہے۔ ہم نے نگاہ دوڑائی تو ہم نے دیکھا کہ رضاع کے ہوتے ہوئے اس عورت سے نکاح درست نہیں ۔ اگر وہ نکاح پر طاری ہوجائے تو نکاح فسخ ہوجائے گا ۔ اسی طرح اس پر نکاح کا کرنا درست نہیں اور احرام جب نکاح پر طاری ہو تو وہ نکاح کو فسخ نہیں کرتا پس نظر وفکر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عقد نکاح کے پیش آنے سے مانع نہیں ہے اور جماع کی حرمت احرام کے ساتھ روزے کی حرمت کی طرح ہے اور دونوں برابر ہیں۔ پس جب حرمت روزہ عقد نکاح سے رکاوٹ نہیں تو حرمت احرام کا حکم بھی یہی ہے کہ وہ بھی عقد نکاح سے مانع نہیں ہے۔ اس باب میں تقاضا نظر یہی ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
حاصل روایات : پس جعفر بن برقان نے میمون بن مہران سے تو وہ سبب بیان کیا ہے جس کی وجہ سے ان تک یہ روایت یزید بن اصم سے پہنچی ہے اور واقعہ میں یزید کا قول ہے۔ پھر میمون نے اسی کو عطاءؒ کے بالمقابل بطور حجت پیش کیا۔ تو یزید ہی سے نقل کیا اور عطاءؒ نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر میمون کے پاس اس سے اوپر کا واسطہ ہوتا تو وہ عطاءؒ کے خلاف اس کو حجت میں پیش کرتے تاکہ ان کی دلیل پختہ ہوجاتی۔ یہ اس روایت کی یزید بن اصم سے اصل ہے کسی اور سے اس طرح مروی نہیں۔
نمبر 2: جو حضرات حالت احرام میں عقد نکاح کی روایت نقل کرتے ہیں وہ تمام اعلیٰ درجہ کے اہل علم ہیں اور ابن عباس (رض) کے ثقہ ‘ قابل اعتماد شاگردوں سے ہیں مثلاً سعید بن جبیر عطاء ‘ طاؤس ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ جابر بن زید رحمہم اللہ یہ ائمہ حدیث و فقہ و تفسیر و حدیث ہیں ان کی روایات کو حجت قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے بالمقابل یزید بن اصم کی کیا حیثیت ہے۔
نمبر 3: ان سے نیچے جن روات نے اس روایت کو بیان کیا وہ عمرو بن دینار ‘ ایوب سختیانی ‘ عبداللہ بن ابی نجیح رحمہم اللہ ہیں یہ بھی ائمہ حدیث و فقہ ہیں۔
نمبر 4: پھر حضرت عائشہ (رض) سے بھی روایت منقول ہے جو روایت ابن عباس (رض) کی موید ہے اور اس روایت کے راوی مطعون نہیں ہیں ابو عوانہ عن مغیرہ عن ابی الضحیٰ عن مسروق یہ تمام ائمہ حدیث ہیں جن کی روایت مانی جاتی ہے۔ تو ان کی روایت ان سے بڑھ کر قابل حجت ہے جو ان کی طرح ضابط ‘ ثقہ ‘ فقیہ و امین نہیں ہیں۔
ان ترجیحات سے ثابت ہوا کہ روایت ابن عباس (رض) قابل اخذ ہے نہ کہ اس کے بالمقابل روایت۔
فریق اوّل کی پیش کردہ روایت کا جواب :
اب ہم فریق اوّل کی پیش کردہ دوسری روایت کو پرکھتے ہیں نبیہ بن وہب کا علم میں وہ مقام نہیں جو کہ عمرو بن دینار اور جابر بن زید کا ہے پس اس کے بالمقابل اس کے روات ثقہ تر ہیں اس لیے ان کی روایت ان کے بالمقابل اثقہ و افضل ہوگی اور فریق اوّل کی روایت معتبر نہ ہوگی۔ آثار کے لحاظ سے اس باب کا یہ حکم ہے۔
دلیل ثانی۔ نظر طحاوی (رض) :
محرم کے لیے بالاتفاق جماع حرام ہے اب احتمال یہ ہے کہ عقد نکاح بھی اسی طرح حرام ہو تو اس سلسلہ میں قیاس کر کے دیکھا کہ اس پر تمام متفق ہیں کہ محرم کو حالت احرام میں باندی خریدنے کی اجازت ہے مگر اس سے وطی حرام ہے۔ حلال ہونے کے بعد استعمال کے لیے خوشبو کا خریدنا درست ہے اگرچہ وقتی استعمال خوشبو ناجائز ہے۔ اسی طرح حلال ہونے کے بعد پہننے کے لیے لباس کا خریدنا جائز ہے البتہ پہننا جائز نہیں۔
لباس ‘ خوشبو کا استعمال جماع یہ تمام حالت احرام میں ممنوع ہیں اس کے باوجود ان اشیاء کو خریدنا جائز ہے۔ ان کے استعمال کا حرام ہونا ان کے عقد ملکیت کے خلاف نہیں ہے۔
محرم کو حالت احرام میں شکار کا خریدنا ناجائز ہے۔ عقد نکاح کے متعلق دو احتمال سامنے آئے۔ اگر یہ شکار خریدنے کی طرح ہو تو ناجائز ہونا چاہیے دوسرا عقد شراء جاریہ کی طرح ہو تو جائز ہونا چاہیے۔
غور کرنے سے معلوم ہوا کہ عقد نکاح شراء عبد و جاریہ کی طرح ہے۔ شراء صید کی طرح نہیں ہے۔ اب ہم نے دیکھا کہ اگر کوئی احرام باندھ رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں شکار ہے تو اسے شکار کو آزاد کردینا ضروری ہے اور اگر اس کے جسم پر کرتا ہے یا خوشبو ہے تو وہ کرتے کو اتار دے خوشبو رکھ دے شکار کی طرح پھینکنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ان کی حفاظت کا حکم ہے اور شکار کی حفاظت جائز نہیں ہے اسی طرح کسی کے پاس بیوی ہو تو اسے چھوڑنے کا حکم نہیں بلکہ اس کی حفاظت کا حکم ہے۔
پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ عقد نکاح کا حکم شراء عبد و جاریہ اور شراء لباس کی طرح ہو۔ شکار کی خریداری جیسا نہ ہو۔ فلہذا جس طرح احرام سے نکلنے کے بعد وطی کے لیے باندی خریدنا اور حلال ہو کر استعمال میں لانے کے لیے خوشبو اور لباس کا خریدنا جائز ہے بالکل اسی طرح احرام کی حالت میں نکاح کرنا تاکہ حلال ہونے کے بعد حقوق زوجیت ادا کرے یہ جائز ہے۔
سرسری اشکال :
آپ کا لونڈی ‘ لباس ‘ خوشبو کے شراء پر عقد نکاح کو قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ عقد شراء میں بعض ایسی عورتیں ہیں کہ جن کی خریداری درست ہونے کے باوجود ان سے جماع حرام ہے تو جو پہلے ہی حرام ہے اس کو وقتی حرام پر قیاس کرنا درست نہیں مثلاً رضاعی بہن کی خریداری تو درست ہے مگر اس سے جماع و نکاح پہلے ہی حرام ہے۔ حرمت ابدیہ ہے تو اجنبیہ کے نکاح کی وقتی حرمت کو اس پر کس طرح قیاس کرنا درست ہوگا۔
حل اشکال لفرع الاثقال :
ذرا توجہ تو فرمائیں روزہ دار اور معتکف پر جماع حرام ہے مگر حرمت جماع روزہ دار اور معتکف پر عقد نکاح کی حرمت کو لازم قرار نہیں دیتا بلکہ حالت صوم اور حالت اعتکاف میں عقد نکاح بالاتفاق جائز ہے یہ حرمت حرمت دین کی قسم سے ہے جیسا کہ حیض کی حالت میں عورت سے جماع حرام ہے مگر عقد نکاح حرام نہیں ہے۔
تو جس طرح روزہ دار اور معتکف پھر جماع کی حرمت ‘ حرمت عقد کو لازم نہیں کرتی اسی طرح محرم پر جماع کی حرمت عقد نکاح کی حرمت کو لازم نہیں کرے گی اور جس طرح حالت حیض میں جماع کا حرام ہونا حائضہ عورت کے ساتھ عقد نکاح کو حرام قرار نہیں دیتا بالکل اسی طرح محرم پر جماع کا حرام ہونا اس کے عقد نکاح کو حرام نہ کرے گا۔

مزید توجہ سے نگاہ ڈالنے سے سمجھ آیا کہ وہ رضاعت جس کی وجہ سے عورت سے نکاح جائز نہیں ہوتا جب یہی رضاعت حالت نکاح میں ثابت ہوجائے گی تو اس سے نکاح قائم نہ رہے گا بلکہ فسخ ہوجائے گا اور ازسرنو نکاح کرنا بھی جائز نہ ہوگا جیسا کہ صغیرہ بیوی کو شوہر کی ماں دودھ پلا دے تو عقد نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔
مگر جب نکاح کی حالت میں احرام ثابت ہوجائے تو اس سے نکاح فسخ نہ ہوگا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ احرام مستقل طور پر عقد نکاح کے لیے بھی رکاوٹ نہیں ہے اور احرام کی وجہ سے وقتی طور پر جماع کی حرمت اس طرح ہے جس طرح کہ روزے کی وجہ سے جماع کی حرمت ہوجاتی ہے تو جس طرح حرمت روزہ عقد نکاح کو روکنے والا نہیں ہے تو اسی طرح حرمت احرام بھی عقد نکاح کے لیے مانع نہیں ہے۔ قیاس و نظر کے موافق یہی بات ہے اور ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔

4136

۴۱۳۶ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ لَا یَرٰی بَأْسًا أَنْ یَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمُ .
٤١٣٦: سلیمان الاعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابن مسعود (رض) اس بات میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے کہ محرم عقد نکاح کرلے۔

4137

۴۱۳۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ حَبِیْبٍ الْمُعَلِّمِ‘ وَقَیْسٍ‘ وَعَبْدِ الْکَرِیْمِ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ لَا یَرٰی بَأْسًا أَنْ یَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمَانِ .
٤١٣٧: حبیب المعلم ‘ قیس ‘ عبدالکریم تمام نے عطاء سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے وہ محرم کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ خیال کرتے تھے۔

4138

۴۱۳۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ: ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ نِکَاحِ الْمُحْرِمِ‘ فَقَالَ : وَمَا بَأْسٌ بِہٖ، ہَلْ ہُوَ إِلَّا کَالْبَیْعِ۔ ہذا آخر ما کتبنا لترجمۃ الطحاوی المعروف بشرح معانی الٓاثار للامام الجلیل ابو جعفراحمد بن محمد الازدی الحجری المصری الطحاوی الحنفی المتوفی ۳۲۱ھ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وصلی اﷲ علی حبیبہ محمد اطیب خلقہ بافضل الصلوات والسلام وعلی اصحابہ والہ الذین ہم خلاصۃ العرب العرباء وخیرالخلائق بعدالانبیاء (علیہم الصلوۃ والسلام)
٤١٣٨: عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے نکاح محرم کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں وہ تو بیع و شراء کی طرح ہے۔
ایک لطیفہ۔ مقام سرف کا شرف :
بیت اللہ شریف سے یہ مقام ١٣ کلومیٹر اور مقام تنعیم سے مدینہ کی جانب دس کلومیٹر پر واقع ہے۔ عمرۃ القضاہ کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں داخلہ سے پہلے مقام سرف میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحالت احرام نکاح فرمایا۔ عمرہ سے فراغت کے بعد تیسرے روز اسی مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب زفاف فرمائی اسی مقام پر حضرت میمونہ (رض) کا انتقال ہوا اور اسی جگہ ان کی قبر ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔