HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

20. مزارعت یعنى کھیتى کى بٹائى کا بیان

الطحاوي

5775

۵۷۷۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ وَفَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَا : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ یَقُوْلُ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَارَعَۃِ .
٥٧٧٤: عمرو بن دینار (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزارعت سے منع فرمایا۔
تخریج : مسلم فی البیوع ١١٨؍١١٩‘ مسند احمد ٤؍٣٣‘ عن ثابت بن ضحاک۔

5776

۵۷۷۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ : سَمِعْت ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : کُنَّا نُخَابِرُ وَلَا نَرَی بِذٰلِکَ بَأْسًا حَتّٰی زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُخَابَرَۃِ فَتَرَکْنَاہَا ..
٥٧٧٥: عمرو بن دینار (رح) کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا ہم مخابرہ کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے یہاں تک کہ رافع بن خدیج (رض) نے یہ خیال ظاہر کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔ تو ہم نے مخابرہ چھوڑ دیا۔
تخریج : بخاری فی المساقات باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٨١؍٨٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٥٥؍٧٠‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ والبیوع باب ٢٨؍٣٩‘ دارمی فی البیوع باب ٧٢‘ مسند احمد ٥‘ ١٨٧؍١٨٨۔

5777

۵۷۷۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ أَبَاہُ یَعْنِیْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یُکْرِی أَرْضَہُ حَتّٰی ْ بَلَغَہٗ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ الْأَنْصَارِیَّ کَانَ یُنْہِیْ عَنْ کِرَائِ الْأَرْضِ .فَلَقِیَہُ فَقَالَ : یَا ابْنَ خَدِیجٍ مَاذَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کِرَائِ الْأَرْضِ ؟ .فَقَالَ : سَمِعْتُ عَمَّیَّ وَکَانَا قَدْ شَہِدَا بَدْرًا یُحَدِّثَانِ أَہْلَ الدَّارِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ کِرَائِ الْأَرْضِ .قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : لَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّ الْأَرْضَ کَانَتْ تُکْرٰی عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَشِیَ عَبْدُ اللّٰہِ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحْدَثَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا لَمْ یَکُنْ عَلِمَہٗ فَتَرَکَ کِرَائَ الْأَرْضِ .
٥٧٧٦: سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد عبداللہ بن عمر (رض) اپنی زمین کو کرایہ پر دیتے تھے یہاں تک کہ ان کو یہ بات پہنچی کہ رافع بن خدیج انصاری (رض) زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کرتے ہیں۔
میرے والد رافع کو ملے اور کہا اے ابن خدیج تم زمین کے کرایہ کے سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا بات بیان کرتے ہو۔ تو وہ کہنے لگے میں نے اپنے دو چچاؤں جو بدری صحابی ہیں ان سے سنا وہ دونوں گھر والوں سے بیان کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔
عبداللہ کہنے لگے میں جانتا تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں زمین کرایہ پر دی جاتی تھی پھر عبداللہ (رض) کو یہ خدشہ ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممکن ہے اس سلسلے میں کوئی نیا حکم فرمایا ہو۔ جو ان کے علم میں نہ ہو اس لیے زمین کو کرایہ پر دینا چھوڑ دیا۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ١٨‘ مسلم فی البیوع ١٠٨؍١١٢‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣١‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥؍٤٦‘ مسند احمد ٢‘ ٦‘ ٦٤۔

5778

۵۷۷۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْحَقْلِ .قَالَ شُعْبَۃُ : فَقُلْت لِلْحَکَمِ : مَا الْحَقْلُ ؟ قَالَ : أَنْ تُکْرَی الْأَرْضُ . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ أَرَاہُ أَنَا قَالَ : بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ
٥٧٧٧: مجاہد نے رافع بن خدیج (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم سے نقل کیا کہ آپ نے حقل سے منع فرمایا ہے۔ شعبہ کہنے لگے میں نے حکم سے دریافت کیا حقل کیا ہے۔ انھوں نے کہا زمین کو کرایہ پر دینا۔ ابو جعفر کہتے ہیں میرے خیال میں انھوں نے ساتھ ثلث ‘ ربع کا بھی نام لیا۔ یعنی زمین کو ثلث و ربع پر کرایہ پر دینا۔
تخریج : مسلم فی البیوع ١٢٢٣٨٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٩‘ والایمان باب ٤٥‘ مسند حمد ١؍٣١٣‘ ٣‘ ٤٦٤؍٤٦٦۔

5779

۵۷۷۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ کَانَ لَنَا نَافِعًا وَأَمْرُ نَبِیِّ اللّٰہِ أَنْفَعُ لَنَا قَالَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ لِیُزْرِعْہَا .
٥٧٧٨: مجاہد نے رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایسی بات سے منع فرمایا جو ہمارے لیے (بظاہر) فائدہ مند تھی اور اللہ تعالیٰ کے نبی نے ہمیں اس سے زیادہ فائدہ مند کا حکم فرمایا جس کی اپنی زمین ہو وہ اس میں خود کاشت کرے یا دوسرے سے کاشت کروائے۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ١٨‘ والہبہ باب ٣٥‘ مسلم فی البیوع ٨٧؍٨٨‘ ٨٩؍٩١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣١‘ ترمذی فی الاحکام باب ٤٢‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٧؍٨‘ مسند احمد ١؍٢٨٦‘ ٣‘ ٣٠٢؍٣٠٤‘ ٤‘ ١٤١؍١٤٣۔

5780

۵۷۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الزُّبَیْدِیُّ قَالَ سَمِعْت مُجَاہِدًا یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ أَسَدُ بْنُ أَخِیْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَلْیَزْرَعْہَا فَاِنْ عَجَزَ عَنْہَا فَلْیُزْرِعْہَا أَخَاہُ .
٥٧٧٩: مجاہد کہتے ہیں مجھے رافع بن خدیج کے بھتیجے اسد نے بیان کیا کہ رافع بن خدیج (رض) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ ” فلیزرعہا “ کے بعد ” فان عجز فلیزرعہا اخاہ “
تخریج : بخاری فی الاہبہ باب ٣٥‘ مسند احمد ٣‘ ٣٥٤؍٣٦٢‘ ٣٦٩؍٣٧٣‘ ٤‘ ١٦٩‘ ٣٤١۔

5781

۵۷۸۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : أَخَذْتُ بِیَدِ طَاوُسٍ حَتّٰی أَدْخَلْتُہٗ عَلٰی ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ فَحَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ کَرْیِ الْأَرْضِ .فَأَبَی طَاوُسٌ وَقَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ لَا یَرَی بِذٰلِکَ بَأْسًا .
٥٧٨٠: مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے طاوس کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ میں ان کو رافع بن خدیج کے بیٹے کے پاس لے گیا تو انھوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے زمین کو کرایہ پر دینے کی ممانعت فرمائی مگر طاوس نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ابن عباس (رض) سے میں نے سنا کہ اس میں کچھ حرج نہیں۔

5782

۵۷۸۱: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَۃِ وَالْمُحَاقَلَۃِ .وَقَالَ : اِنَّمَا یَزْرَعُ ثَلَاثَۃٌ رَجُلٌ لَہٗ أَرْضٌ فَہُوَ یَزْرَعُہَا وَرَجُلٌ مَنَحَ أَخَاہُ أَرْضًا فَہُوَ یَزْرَعُ مَا مُنِحَ مِنْہَا وَرَجُلٌ اکْتَرَی بِذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ
٥٧٨١: سعید بن مسیب نے حضرت رافع بن خدیج (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا اور فرمایا تین آدمی کاشت کرسکتے ہیں۔ ! زمین والا جو خود کاشت کرے۔ " وہ آدمی جس نے اپنے بھائی (مسلمان) کو زمین عنایت کی وہ اس کو کاشت کرے۔ # وہ آدمی جس نے زمین سونے یا چاندی کے بدلے کرایہ پر لی۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٢؍٩٣‘ المساقات باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٥٩؍٨١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣١؍٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ١٤‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ دارمی فی المقدمہ باب ٢٨‘ والبیوع باب ٢٣‘ مالک فی البیوع ٢٤؍٢٥‘ مسند احمد ١؍٢٢٤‘ ٢؍٣٩٢‘ ٣‘ ٦؍٦٠‘ ٥‘ ١٨٥؍١٩٠۔

5783

۵۷۸۲: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ وَالْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَا : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٧٨٢: ابو نعیم اور معلیٰ بن منصور دونوں نے ابوالاحوص سے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی۔

5784

۵۷۸۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ یُزْرِعْہَا أَخَاہُ وَلَا یُکْرِیہَا بِالثُّلُثِ وَلَا بِالرُّبُعِ وَلَا بِطَعَامٍ مُسَمًّی .
٥٧٨٣: سلیمان بن یسار نے رافع بن خدیج (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی زمین ہو وہ اس میں خود کاشت کرے یا اپنے بھائی سے کاشت کر والے اور ثلث یا ربع کے بدلے کرائے پر نہ دے اور نہ ہی مقررہ غلہ کے بدلے (کرایہ پر دے) ۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٩٢‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ مسند احمد ٣؍٣٦٣۔

5785

۵۷۸۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا بُکَیْر بْنُ عَامِرٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نُعْمٍ قَالَ : حَدَّثَنِی رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ أَنَّہٗ زَرَعَ أَرْضًا فَمَرَّ بِہٖ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَسْقِیْھَا فَسَأَلَہٗ : لِمَنْ الزَّرْعُ وَلِمَنِ الْأَرْضُ ؟ فَقَالَ زَرْعِی بِبَذْرِی وَعَمَلِیْ لِی الشَّطْرُ وَلِبَنِیْ فُلَانٍ الشَّطْرُ .فَقَالَ أَرْبَیْتُ فَرُدَّ الْأَرْضَ عَلٰی أَہْلِہَا وَخُذْ نَفَقَتَک
٥٧٨٤: ابن ابی نعیم رافع بن خدیج (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے زمین کاشت کی۔ میں کھیت کو پانی لگا رہا تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پاس سے گزر ہوا آپ نے پوچھا یہ کھیتی کس کے لیے اور زمین کس کی ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ کھیتی میرے بیج اور کام کے بدلے آدھا میرا اور بنی فلاں کا نصف۔ آپ نے فرمایا تم نے سودی کام کیا۔ تم زمین مالکوں کو واپس کر دو اور اپنا خرچہ لے لو۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٣١۔

5786

۵۷۸۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا بُکَیْر عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ رَافِعٍ مِثْلَہٗ۔
٥٧٨٥: شعبی نے حضرت رافع (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5787

۵۷۸۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو النَّجَاشِیِّ مَوْلٰی رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : قُلْت لِرَافِعٍ : اِنَّ لِی أَرْضًا أُکْرِیہَا فَنَہَانِیْ رَافِعٌ وَأَرَاہُ قَالَ لِی : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ کِرَائِ الْأَرْضِ قَالَ : اِذَا کَانَتْ لِأَحَدِکُمْ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ لِیُزْرِعْہَا أَخَاہُ فَاِنْ لَمْ یَفْعَلْ فَلْیَدَعْہَا وَلَا یُکْرِیہَا بِشَیْئٍ .فَقُلْتُ : أَرَأَیْتَ اِنْ تَرَکْتُہَا فَلَمْ أَزْرَعْہَا وَلَمْ أُکْرِہَا بِشَیْئٍ فَزَرَعَہَا قَوْمٌ فَوَہَبُوْا لِیْ مِنْ نَبَاتِہَا شَیْئًا آخُذُہٗ؟ قَالَ : لَا .
٥٧٨٦: ابوالنجاشی مولیٰ رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع (رض) سے کہا میری زمین ہے میں اسے کرایہ پر دیتا ہوں۔ پس رافع نے مجھے اس سے منع فرمایا اور میرا خیال ہے کہ مجھے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا اور فرمایا جب تم میں سے کسی کی زمین ہو تو وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے بھائی سے کاشت کروائے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے چھوڑ دے اور کسی چیز کے بدلے اس کو کرایہ پر نہ دے۔
میں نے کہا کیا خیال ہے کہ اگر میں اس کو چھوڑ دوں اور اس میں زراعت نہ کروں اور اس کو کسی چیز کے بدلے کرایہ پر بھی نہ دوں پھر اگر اس کو کچھ لوگ کاشت کریں اور اس کی کھیتی میں سے کوئی چیز اگر مجھے ہبہ کریں تو کیا میں اسے لے لوں تو انھوں نے کہا مت لو۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٩٢‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ مسند احمد ٣؍٣٦٣۔

5788

۵۷۸۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ ح
٥٧٨٧: ابراہیم بن مرزوق نے حبان بن ہلال سے روایت کی ہے۔

5789

۵۷۸۸: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ الشَّیْبَانِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ السَّائِبِ قَالَ : سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُغَفَّلٍ وَعَنِ الْمُزَارَعَۃِ فَقَالَ : أَخْبَرَنِیْ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاکِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُزَارَعَۃِ .
٥٧٨٨: عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے مزارعت کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزارعت سے منع فرمایا۔
تخریج : مسلم فی البیوع ١١٨‘ مسند احمد ٤؍٣٣۔

5790

۵۷۸۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مِہْرَانَ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ السَّائِبِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٧٨٩: شیبانی نے عبداللہ بن سائب (رض) سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی کی مثل روایت کی ہے۔

5791

۵۷۹۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَطَائُ بْنُ أَبِیْ رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانَ لِرِجَالٍ مِنَّا فُضُوْلُ أَرَضِیْنَ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانُوْا یُؤَاجِرُوْنَہَا عَلَی النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ لِیَمْنَحْ أَخَاہٗ، فَاِنْ أَبَی فَلْیُمْسِکْ .
٥٧٩٠: عطاء بن ابی رباح نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم میں سے بعض لوگوں کی زائد زمینیں تھیں وہ انھیں نصف ‘ تہائی ‘ چوتھائی پر اجرت پر دیتے تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو وہ اس میں کھیتی باڑی کرے یا اپنے مسلمان بھائی کو بطور عطیہ دے دے اگر ایسا نہ کرے تو روک لے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٨٧‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٧۔

5792

۵۷۹۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : ثَنَا عَطَائٌ عَنْ جَابِرٍ مِثْلَہٗ۔
٥٧٩١: عطاء نے جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5793

۵۷۹۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : قِیْلَ لِعَطَائٍ : ہَلْ حَدَّثَک جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ لِیُزْرِعْہَا أَخَاہُ وَلَا یُؤَاجِرْہَا ؟ فَقَالَ عَطَائٌ : نَعَمْ .
٥٧٩٢: عطاء سے پوچھا گیا کیا تمہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے یہ روایت بیان کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی زمین ہو وہ اس کو خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کے لیے دے اس کو اجرت پردے عطاء کہنے لگے جی ہاں۔
تخریج : نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٨‘ مسند احمد ٣؍٣٠٢‘ ٣٠٤‘ ٣٩٢۔

5794

۵۷۹۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : سَأَلَ سُلَیْمَانُ بْنُ مُوْسٰی عَطَائً وَأَنَا شَاہِدٌ ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٧٩٣: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے دریافت کیا اور میں اس پر شاہد ہوں پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت ذکر کی ہے۔

5795

۵۷۹۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ الْفَوْزِیُّ قَالَ : ثَنَا ضَمْرَۃُ عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ عَنْ مَطَرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٥٧٩٤: عطاء نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا۔ پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5796

۵۷۹۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ ابْنُ خُثَیْمٍ : حَدَّثَنِیْ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ لَمْ یَذَرْ الْمُخَابَرَۃَ فَلْیُؤْذَنْ بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .
٥٧٩٥: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے مخابرہ نہ چھوڑا تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٣٣۔

5797

۵۷۹۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ الطَّائِفِیُّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ .
٥٧٩٦: یحییٰ بن سلیم طائفی نے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے اور یہ اضافہ ہے۔ ” من اللہ ورسولہ “

5798

۵۷۹۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ حَیَّانَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مِیْنَائَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ لَہٗ فَضْلُ مَائٍ أَوْ فَضْلُ أَرْضٍ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ یُزْرِعْہَا وَلَا تَبِیْعُوْہَا .قَالَ سُلَیْمٌ : فَقُلْتُ لَہٗ : یَعْنِی الْکِرَائَ ؟ فَقَالَ نَعَمْ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ وَکَرِہُوْا بِہَا اِجَارَۃَ أَرْضٍ بِجُزْئٍ مِمَّا یَخْرُجُ مِنْہَا وَہٰذِہِ الْآثَارُ فَقَدْ جَائَ تْ عَلَی مَعَانٍ مُخْتَلِفَۃٍ .فَأَمَّا ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاکِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ فَرَوَی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنِ الْمُزَارَعَۃِ وَلَمْ یُبَیِّنْ أَیَّ مُزَارَعَۃٍ .فَاِنْ کَانَتْ ہِیَ الْمُزَارَعَۃَ عَلَی جُزْئٍ مَعْلُوْمٍ مِمَّا تُخْرِجُ الْأَرْضُ فَہٰذَا الَّذِیْ یَخْتَلِفُ فِیْہِ ہٰؤُلَائِ الْمُحْتَجُّوْنَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ وَمُخَالِفُوْھُمْ .فَاِنْ کَانَتْ تِلْکَ الْمُزَارَعَۃُ الَّتِیْ نَہٰی عَنْہَا ہِیَ الْمُزَارَعَۃَ عَلَی الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَشَیْئٍ غَیْرِ ذٰلِکَ مِثْلَ مَا یَخْرُجُ مِمَّا یُزْرَعُ فِیْ مَوْضِعٍ مِنَ الْأَرْضِ بِعَیْنِہِ فَہٰذَا مِمَّا یَجْتَمِعُ الْفَرِیْقَانِ جَمِیْعًا عَلَی فَسَادِ الْمُزَارَعَۃِ عَلَیْہِ .وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ ثَابِتٍ ہٰذَا مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ مَعْنًی مِنْ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ بِعَیْنِہِ دُوْنَ الْمَعْنَی الْآخَرِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فَاِنَّہٗ قَالَ فِیْہِ : کَانَ لِرِجَالٍ مِنَّا فُضُوْلُ أَرَضِیْنَ فَکَانُوْا یُؤَاجِرُوْنَہَا عَلَی النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا وَلْیَمْنَحْہَا أَخَاہُ فَاِنْ أَبَی فَلْیُمْسِکْ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ لَمْ یَجُزْ لَہُمْ اِلَّا أَنْ یَزْرَعُوْہَا بِأَنْفُسِہِمْ أَوْ یَمْنَحُوْہَا مَنْ أَحَبُّوْا وَلَمْ یُبِحْ لَہُمْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ غَیْرَ ذٰلِکَ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ النَّہْیُ کَانَ عَلٰی أَنْ لَا تُؤَاجَرَ بِثُلُثٍ وَلَا رُبُعٍ وَلَا بِدَرَاہِمَ وَلَا بِدَنَانِیْرَ وَلَا بِغَیْرِ ذٰلِکَ .فَیَکُوْنُ الْمَقْصُوْدُ اِلَیْہِ بِذٰلِکَ النَّہْیِ ہُوَ اِجَازَۃَ الْأَرْضِ .وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ اِجَارَۃِ الْأَرْضِ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ
٥٧٩٧: سعید بن میناء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے پاس بچا ہوا پانی یا بچی ہوئی زمین ہو پس وہ اس میں کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کے لیے دے اور اس کو فروخت مت کرو۔ سلیم کہتے ہیں کہ میں نے سعید کو کہا کرایہ پر بیچنا مراد ہے ؟ تو انھوں نے کہا جی ہاں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زمین کی پیداوار کے کسی حصہ پر زمین کو اجارہ پر دینا مکروہ ہے اور انھوں نے ان آثار سے استدلال کیا ہے۔ ان آثار کے مختلف معانی وارد ہوئے ہیں۔ حضرت ثابت بن ضحاک (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے مزارعت سے منع فرمایا مگر انھوں نے وضاحت نہیں فرمائی کہ مزارعت سے کیا مراد ہے۔ اگر یہی مزارعت مراد ہے کہ زمین سے نکلنے والے غلہ کی ایک مقررہ مقدار دی جائے تو اسی میں اختلاف ہے انہی آثار سے استدلال کرنے والے اور ان کے مخالفین استدلال کرتے ہیں اور اگر مزارعت سے وہ مراد ہے جس کی ممانعت ہے کہ ثلث یا ربع یا زمین کے مقررہ قطعہ میں کاشت کی جانے والی کھیتی کا کچھ حصہ دیا جائے تو اس پر ہر دو فریق کا اتفاق ہے کہ یہ مزارعت ناجائز ہے اور حضرت ثابت (رض) کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس سے معلوم ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد ان دو معنی میں سے کون سا معنی ہے دوسرا نہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت میں ہے کہ ہم میں سے بعض لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں وہ انھیں نصف ‘ ثلث ‘ یا چوتھائی پر اجرت پردے دیتے تھے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو وہ اس میں کھیتی باڑی کرے یا اپنے بھائی کو عطیہ دے اگر ایسا نہ کرے تو وہ روک دے۔ تو اس ارشاد کے مطابق ان کو صرف اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ خود کاشت کریں یا بطور عطیہ دے دیں اس روایت کے مطابق آپ نے اور کسی بات کی اجازت نہیں دی تو اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ تہائی یا چوتھائی پیداوار اور درہم و دینار یا کسی اور چیز کے بدلے اجارہ پر دینے کی ممانعت ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کو اجرت پر دینے کی ممانعت ہے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٩٤۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زمین کی پیداوار کے کسی حصہ پر زمین کو اجارہ پر دینا مکروہ ہے اور انھوں نے ان آثار سے استدلال کیا ہے۔ ان آثار کے مختلف معانی وارد ہوئے ہیں۔
تبصرہ طحاویسوال :
نمبر 1: حضرت ثابت بن ضحاک (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے مزارعت سے منع فرمایا مگر انھوں نے وضاحت نہیں فرمائی کہ مزارعت سے کیا مراد ہے۔
اگر یہی مزارعت مراد ہے کہ زمین سے نکلنے والے غلہ کی ایک مقررہ مقدار دی جائے تو اسی میں اختلاف ہے انہی آثار سے استدلال کرنے والے اور ان کے مخالفین استدلال کرتے ہیں اور اگر مزارعت سے وہ مراد ہے جس کی ممانعت ہے کہ ثلث یا ربع یا زمین کے مقررہ قطعہ میں کاشت کی جانے والی کھیتی کا کچھ حصہ دیا جائے تو اس پر ہر دو فریق کا اتفاق ہے کہ یہ مزارعت ناجائز ہے۔
اور حضرت ثابت (رض) کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس سے معلوم ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد ان دو معنی میں سے کون سا معنی پیش نظر ہے دوسرا نہیں۔
نمبر 2: حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت میں ہے کہ ہم میں سے بعض لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں وہ انھیں نصف ‘ ثلث ‘ یا چوتھائی پر اجرت پردے دیتے تھے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو وہ اس میں کھیتی باڑی کرے یا اپنے بھائی کو عطیہ دے اگر ایسا نہ کرے تو وہ روک دے۔ تو اس ارشاد کے مطابق ان کو صرف اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ خود کاشت کریں یا بطور عطیہ دے دیں اس روایت کے مطابق آپ نے اور کسی بات کی اجازت نہیں دی تو اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ تہائی یا بوتھائی پیداوار اور درہم و دینار یا کسی اور چیز کے بدلے اجارہ پر دینے کی ممانعت ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کو اجرت پر دینے کی ممانعت ہے۔
ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سونے و چاندی پر زمین کا اجارہ نہیں ہوسکتا :

5799

۵۷۹۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ قَالَ : کَانَ طَاوُسٌ یَکْرَہُ کِرَائَ الْأَرْضِ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ .فَہٰذَا طَاوُسٌ یَکْرَہُ کَرْیَ الْأَرْضِ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلَا یَرٰی بَأْسًا بِدَفْعِہَا بِبَعْضِ مَا یَخْرُجُ وَسَیَجِیْئُ بِذٰلِکَ فِیْمَا بَعْدُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَاِنْ کَانَ النَّہْیُ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ وَقَعَ عَلَی الْکِرَائِ أَصْلًا بِشَیْئٍ مِمَّا یَخْرُجُ وَبِغَیْرِ ذٰلِکَ فَہٰذَا مَعْنًیْ یُخَالِفُہُ الْفَرِیْقَانِ جَمِیْعًا .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّہْیُ وَاقِعًا لِمَعْنَی غَیْرِ ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا ہَلْ رَوَی أَحَدٌ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا یَدُلُّ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہِ کَانَ النَّہْیُ ؟
٥٧٩٨: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاوس (رح) زمین کو سونے چاندی کے بدلے کرایہ پر دینا مکروہ خیال کرتے تھے۔ یہ طاوس زمین کو سونے چاندی کے بدلے کرایہ پر دینا مکروہ خیال کرتے ہیں مگر اس کو زمین کی بعض پیداوار کے بدلے دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے اور عنقریب یہ بات انشاء اللہ آئے گی۔
نمبر 4: اگر جابر (رض) کی روایت میں ممانعت مطلق ہو کہ خواہ وہ زمین سے نکلنے والی پیداوار میں سے کسی چیز کے بدلے ہو یا اور کسی چیز کے بدلے ہو تو اس معنی کے دونوں فریق قائل نہیں ہیں۔
نمبر 5: اور یہ بھی ممکن ہے کہ ممانعت کسی اور وجہ سے ہو۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا حضرت جابر (رض) سے کوئی ایسی روایت وارد ہے جو وجہ ممانعت پر دلالت کرتی ہو ؟

5800

۵۷۹۹: فَاِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ الْمَدَنِیُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ الْمَکِّیِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلَغَہٗ أَنَّ رِجَالًا یَکْرُوْنَ مَزَارِعَہُمْ بِنِصْفِ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَبِثُلُثِہِ وْبالماذیانات .فَقَالَ فِیْ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا فَاِنْ لَمْ یَزْرَعْہَا فَلْیَمْنَحْہَا أَخَاہُ فَاِنْ لَمْ یَفْعَلْ فَلْیُمْسِکْہَا .
٥٧٩٩: ہشام بن سعد نے ابوالزبیر مکی سے انھوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اپنی زمین کو نصف پیداوار یا ثلث یا نالوں کے قریب پیداوار کے بدلے کرائے پر دیتے ہیں۔ تو اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی زمین ہے وہ خود کاشت کرے اور اگر وہ کاشت نہیں کرتا تو وہ اپنے بھائی کو بطور عطیہ دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے روک رکھے۔
تخریج : اخرج بنحوہ مسلم فی البیوع ٩٦‘ مسند احمد ٤؍١٤٢۔

5801

۵۸۰۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدَانَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ الْمَکِّیِّ حَدَّثَہٗ قَالَ : سَمِعْت جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : کُنَّا فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَأْخُذُ الْأَرْضَ بِالثُّلُثِ أَوْ الرُّبْعِ بِالْمَاذِیَانَاتِ فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ .
٥٨٠٠: ابوالزبیر مکی کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے سنا ہے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں زمین کو ثلث یا ربع یا نالوں کے قریب پیداوار کے بدلے لیتے تھے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرما دیا۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٩٦۔

5802

۵۸۰۱: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا نُخَابِرُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنُصِیْبُ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ لِیَمْنَحْہَا أَخَاہُ وَاِلَّا فَلْیَزْرَعْہَا .فَأَخْبَرَ أَبُو الزُّبَیْرِ فِیْ ہٰذَا عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ بِالْمَعْنَی الَّذِی وَقَعَ النَّہْیُ مِنْ أَجْلِہِ وَأَنَّہٗ اِنَّمَا ہُوَ لِشَیْئٍ کَانُوْا یُصِیْبُوْنَہُ فِی الْاِجَارَۃِ فَکَانَ النَّہْیُ مِنْ قَبْلِ ذٰلِکَ جَائَ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَعْنَیْ حَدِیْثِ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا کَذٰلِکَ .وَأَمَّا حَدِیْثُ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَدْ جَائَ بِأَلْفَاظٍ مُخْتَلِفَۃٍ اضْطَرَبَ مِنْ أَجْلِہَا .فَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ عَنْہُ فَہُوَ مِثْلُ حَدِیْثِ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُزَارَعَۃِ .فَہُوَ یَحْتَمِلُ مَا وَصَفْنَا مِنْ مَعَانِیْ حَدِیْثِ ثَابِتٍ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَبَیَّنَّا .وَأَمَّا مَا رَوَاہٗ عَلِیٌّ مِثْلُ مَا رَوَی جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَیَحْتَمِلُ أَیْضًا مَا وَصَفْنَا مِمَّا یَحْتَمِلُ حَدِیْثُ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .ثُمَّ نَظَرْنَا بَعْدَ ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ عَنْ رَافِعٍ مَعْنًیْ یَدُلُّنَا عَلَی وَجْہِ النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ لِمَ کَانَ ؟ فَاِذَا أَبُوْبَکْرَۃَ۔
٥٨٠١: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بیع مخابرہ کرتے تھے جس سے ہمیں اتنا اتنا حصہ ملتا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا پھر اپنے مسلمان بھائی کو دے۔ یا اس میں کاشت کروائے۔ اس روایت میں ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے وہ وجہ نقل کی جو ممانعت کا باعث تھی بلاشبہ وہ اجارہ میں پائی جانے والی چیز کے سبب تھی ممانعت اسی طرف سے آئی۔ عین ممکن ہے کہ ثابت بن ضحاک (رض) کی روایت کا بھی یہی معنی ہو۔ باقی حدیث رافع (رض) تو اس کے الفاظ مختلف وارد ہوئے جس کی وجہ سے وہ روایت مضطرب ہے۔ حدیث ابن عمر (رض) وہ ثابت بن ضحاک (رض) کی روایت جیسی ہے۔ کیونکہ اس میں مزارعت کی ممانعت ہے۔ اس میں بھی ثابت والی روایت کے معانی کا احتمال ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا۔ بقیہ جنہوں نے حضرت جابر (رض) جیسی روایات ذکر کی ہیں تو ان میں حدیث جابر (رض) والے احتمالات ہیں۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا حضرت رافع (رض) سے کوئی ایسی روایت وارد ہے جو نہی کی جانب پر دلالت کرے کہ یہ کیوں ہوئی ؟
تخریج : مسلم فی البیوع ٩٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣١‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٧‘ دارمی فی البیوع باب ٧٢‘ مسند احمد ١؍٢٣٤‘ ٢؍١١‘ ٣‘ ٣١٢؍٣١٣‘ ٤؍١٤٢۔
حاصل کلام : اس روایت میں ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے وہ وجہ نقل کی جو ممانعت کا باعث تھی بلاشبہ وہ اجارہ میں پائی جانے والی چیز کے سبب تھی ممانعت اسی طرف سے آئی۔
نمبر 1: عین ممکن ہے کہ ثابت بن ضحاک (رض) کی روایت کا بھی یہی معنی ہو۔
نمبر 2: باقی حدیث رافع (رض) تو اس کے الفاظ مختلف وارد ہوئے جس کی وجہ سے وہ روایت مضطرب ہے۔
نمبر 3: حدیث ابن عمر (رض) وہ ثابت بن ضحاک (رض) کی روایت جیسی ہے۔ کیونکہ اس میں مزارعت کی ممانعت ہے۔ اس میں بھی ثابت والی روایت کے معانی کا احتمال ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا۔
نمبر 4: بقیہ جنہوں نے حضرت جابر (رض) جیسی روایات ذکر کی ہیں تو ان میں حدیث جابر (رض) والے احتمالات ہیں۔
نظر دیگر : اب ہم یہ دیکھنا چاہتے کہ آیا حضرت رافع (رض) سے کوئی ایسی روایت وارد ہے جو نہی کی جانب پر دلالت کرے کہ یہ کیوں ہوئی ؟
وجہ ممانعت والی روایت رافع (رض) :

5803

۵۸۰۲: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ یَحْیَی بْنَ سَعِیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ أَخْبَرَہُمْ عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ قَیْسٍ الزُّرَقِیِّ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : کُنَّا - بَنِیْ حَارِثَۃَ - أَکْثَرَ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ حَقْلًا وَکُنَّا نُکْرِی الْأَرْضَ عَلٰی أَنَّ مَا سَقَی الْمَاذِیَانَاتُ وَالرَّبِیْعُ قُلْنَا وَمَا سَقَتِ الْجَدَاوِلُ فَلَہُمْ فَرُبَّمَا سَلِمَ ہٰذَا وَہَلَکَ ہٰذَا وَرُبَّمَا ہَلَکَ ہٰذَا وَسَلِمَ ہٰذَا وَلَمْ یَکُنْ عِنْدَنَا یَوْمَئِذٍ ذَہَبٌ وَلَا فِضَّۃٌ فَنَعْلَمُ ذٰلِکَ فَسَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ فَنَہَانَا .
٥٨٠٢: حنظلہ بن قیس زرقی نے حضرت رافع (رض) سے نقل کیا ہے ہم بنو حارثہ کے قبیلہ کی زمینیں مدینہ میں سب سے زیادہ تھیں اور ہم زمین کو اس طرح کرایہ پر دیتے تھے کہ جو کچھ بڑے نالوں یا بارش سے سیراب ہوگا وہ حصہ پیداوار ہمارا ہوگا اور جو پیداوار کا حصہ چھوٹے نالوں سے سیراب ہوگا وہ ان کرایہ پر لینے والوں کے لیے ہوگا بعض اوقات یہ حصہ محفوظ رہتا اور وہ تباہ ہوجاتا اور بعض اوقات وہ تباہ ہوجاتا اور یہ بچ جاتا ان دنوں ہمارے پاس سونا ‘ چاندی نہیں تھی۔ پھر ہمیں معلوم ہوا اور ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو آپ نے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الشروط باب ٧‘ والحرث باب ١٢‘ مسلم فی البیوع ١١٧۔

5804

۵۸۰۳: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا حَنْظَلَۃُ بْنُ قَیْسٍ الزُّرَقِیُّ أَنَّہٗ سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ یَقُوْلُ : کُنَّا أَکْثَرَ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ حَقْلًا وَکُنَّا نَقُوْلُ لِلَّذِیْ نُخَابِرُہُ لَک ہٰذِہِ الْقِطْعَۃُ وَلَنَا ہٰذِہِ الْقِطْعَۃُ تَزْرَعُہَا لَنَا .فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ ہٰذِہِ الْقِطْعَۃُ وَلَمْ تُخْرِجْ ہٰذِہِ شَیْئًا وَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ ہٰذِہِ وَلَمْ تُخْرِجْ ہٰذِہِ شَیْئًا فَنَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ فَأَمَّا بِالْوَرِقِ فَلَمْ یَنْہَنَا عَنْہُ .
٥٨٠٣: حنظلہ بن قیس زرقی کہتے ہیں کہ میں نے رافع (رض) کو فرماتے سنا کہ مدینہ منورہ میں ہماری زمینیں سب سے زیادہ تھیں اور ہم جن سے مخابرہ کرتے تو ان کو کہتے اس قطعہ زمین کی پیداوار تمہاری اور اس قطعہ زمین کی پیداوار ہماری تم اس میں ہمارے کاشت کرو۔ بعض اوقات اس قطعہ زمین کی پیداوار ہوتی اور دوسرے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا اور بعض اوقات اس سے پیداوار نکلتی اور اس قطعہ میں سے کچھ پیداوار نہ ہوتی پس اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا۔ البتہ چاندی کے بدلے اس سے منع نہیں فرمایا۔
تخریج : اخرج بنحوہ بخاری فی الحرث باب ١٢۔

5805

۵۸۰۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ذُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : کُنَّا نُحَاقِلُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُحَاقَلَۃُ : أَنْ یُکْرِیَ الرَّجُلُ أَرْضَہُ بِالثُّلُثِ أَوْ الرُّبُعِ أَوْ طَعَامٍ مُسَمًّی .فَبَیْنَا أَنَا ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ أَتَانِیْ بَعْضُ عُمُوْمَتِیْ فَقَالَ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ کَانَ لَنَا نَافِعًا فَطَاعَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ قَالَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَمْنَحْہَا أَخَاہُ وَلَا یُکْرِیہَا بِثُلُثٍ وَلَا بِرُبُعٍ وَلَا بِطَعَامٍ مُسَمًّی .فَبَیَّنَ رَافِعُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ کَیْفَ کَانُوْا یُزَارِعُوْنَ فَرَجَعَ مَعْنَی حَدِیْثِہِ اِلَی مَعْنَیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَثَبَتَ أَنَّ النَّہْیَ فِی الْحَدِیْثَیْنِ جَمِیْعًا اِنَّمَا کَانَ لِأَنَّ کُلَّ فَرِیْقٍ مِنْ أَرْبَابِ الْأَرْضِیْنَ وَالْمُزَارِعِیْنَ کَانَ یَخْتَصُّ بِطَائِفَۃٍ مِنَ الْأَرْضِ فَیَکُوْنُ لَہٗ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا مِنْ زَرْعٍ اِنْ سَلِمَ فَلَہٗ وَاِنْ عَطِبَ فَعَلَیْہِ وَہٰذَا مِمَّا أُجْمِعَ عَلَی فَسَادِہٖ۔ فَہٰذَا قَدْ خَرَّجَ مَعْنَیْ حَدِیْثِ رَافِعٍ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ الْمَذْکُوْرَ فِیْہِ کَانَ لِلْمَعْنَی الَّذِی وَصَفْنَا لَا لِاِجَارَۃِ الْأَرْضِ بِجُزْئٍ مِمَّا یَخْرُجُ مِنْہَا .وَقَدْ أَنْکَرَ آخَرُوْنَ عَلٰی رَافِعٍ مَا رَوَی مِنْ ذٰلِکَ وَأَخْبَرُوْا أَنَّہٗ لَمْ یَحْفَظْ أَوَّلَ الْحَدِیْثِ .
٥٨٠٤: سلیمان بن یسار نے حضرت رافع (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بیع محاقلہ کرتے یعنی کوئی آدمی اپنی زمین ثلث ‘ ربع یا مقرر غلہ کے بدلے کرایہ پر دیتا۔ تو حضرت رافع (رض) نے اس روایت میں واضح فرما دیا کہ وہ کس طرح کی مزارعت کرتے تھے پس اس روایت کا مفہوم حضرت جابر (رض) کی روایت کے مفہوم کی طرف لوٹ گیا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ دونوں روایات میں جو ممانعت وارد ہے۔ وہ اس لحاظ سے ہے کہ زمین کے مالک اور کھیتی باڑی کرنے والے کے لیے زمین کا ایک حصہ مختص ہوجاتا ہے اور اس کو وہی غلہ ملتا ہے جو اس حصہ زمین سے پیدا ہو۔ اگر وہ محفوظ رہ گیا تو اس کا حصہ مل گیا اور اگر ضائع ہوجائے تو اسی کا نقصان ہوگا اور اس طرز عمل کے غلط ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے۔ اس سے حضرت رافع (رض) کی روایت کا معنی بھی واضح ہوگیا کہ اس میں جس ممانعت کا تذکرہ ہے اس کا سبب وہی مفہوم ہے جس کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یہ مفہوم نہیں کہ زمین کو اس کی پیداوار کے کسی حصہ کے بدلے کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ بعض لوگوں نے حضرت رافع (رض) کی روایت کا انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو حدیث کا پہلا حصہ یاد نہیں رہا۔
ایک دن میں اسی حال میں تھا کہ میرے ایک چچا میرے پاس آئے اور کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس کام سے منع کردیا ہے جو ہمارے لیے فائدہ مند تھا مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سب سے زیادہ نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جس کی زمین ہو وہ اپنے بھائی کو بطور عطیہ دے اور ثلث ‘ ربع یا مقررہ غلہ کے بدلے کرایہ پر نہ دے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ١١٣‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ١٢‘ مسند احمد ٣؍٤٦٥۔
حاصل روایت : تو حضرت رافع (رض) نے اس روایت میں واضح فرما دیا کہ وہ کس طرح کی مزارعت کرتے تھے پس اس روایت کا مفہوم حضرت جابر (رض) کی روایت کے مفہوم کی طرف لوٹ گیا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ دونوں روایات میں جو ممانعت وارد ہے۔ وہ اس لحاظ سے ہے کہ زمین کے مالک اور کھیتی باڑی کرنے والے کے لیے زمین کا ایک حصہ مختص ہوجاتا ہے اور اس کو وہی غلہ ملتا ہے جو اس حصہ زمین سے پیدا ہو۔ اگر وہ محفوظ رہ گیا تو اس کا حصہ مل گیا اور اگر ضائع ہوجائے تو اسی کا نقصان ہوگا اور اس طرز عمل کے غلط ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے۔
مزید توضیح : اس سے حضرت رافع (رض) کی روایت کا معنی بھی واضح ہوگیا کہ اس میں جس ممانعت کا تذکرہ ہے اس کا سبب وہی مفہوم ہے جس کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یہ مفہوم نہیں کہ زمین کو اس کی پیداوار کے کسی حصہ کے بدلے کرایہ پر دینا جائز نہیں۔
ایک اور جماعت کا حدیث رافع پر اشکال :
بعض لوگوں نے حضرت رافع (رض) کی روایت کا انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو حدیث کا پہلا حصہ یاد نہیں رہا۔
روایت زید بن ثابت (رض) :

5806

۵۸۰۵: فَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ أَبِی الْوَلِیْدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہٗ قَالَ : یَغْفِرُ اللّٰہُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ أَنَا وَاللّٰہِ کُنْتُ أَعْلَمَ بِالْحَدِیْثِ مِنْہُ اِنَّمَا جَائَ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ اقْتَتَلَا .فَقَالَ اِنْ کَانَ ہٰذَا شَأْنَکُمْ فَلَا تَکْرُوْا الْمَزَارِعَ فَسَمِعَ قَوْلَہٗ لَا تَکْرُوْا الْمَزَارِعَ .فَہٰذَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَکْرُوْا الْمَزَارِعَ النَّہْیُ الَّذِی قَدْ سَمِعَہُ رَافِعٌ لَمْ یَکُنْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی وَجْہِ التَّحْرِیْمِ اِنَّمَا کَانَ لِکَرَاہِیَۃِ وُقُوْعِ السُّوْئِ بَیْنَہُمْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ .
٥٨٠٥: عروہ بن زبیر نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ رافع کی مغفرت فرمائے اللہ کی قسم میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جاننے والا ہوں انصار کے دو آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے جنہوں نے باہمی لڑائی کی تھی۔ تو آپ نے فرمایا اگر تمہارا یہی حال ہے تو کھیتوں کو مت کرائے پر دو ۔ تو رافع (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد فقط ” لاتکروا المزارع “ سنا۔ (گویا ان کو اس کے ماسبق و مابعد کی بات معلوم نہیں تھی) یہ حضرت زید بن ثابت (رض) بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لاتکروا المزارع “ رافع نے جس نہی کو سنا ہے وہ حرمت کے لیے نہیں بلکہ باہمی لوگوں میں نزاع اور خرابی ہونے کی وجہ سے اس کو ناپسند قرار دیا۔ روایت ابن عباس (رض) بھی اس سلسلہ میں گویا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥‘ ١٨٢؍١٨٧۔
حاصل روایت : یہ حضرت زید بن ثابت (رض) بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لاتکروا المزارع “ رافع نے جس نہی کو سنا ہے وہ حرمت کے لیے نہیں بلکہ باہمی لوگوں میں نزاع اور خرابی ہونے کی وجہ سے اس کو ناپسند قرار دیا۔ روایت ابن عباس (رض) بھی اس سلسلہ میں گویا ہے۔

5807

۵۸۰۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ : قُلْتُ لَہٗ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ لَوْ تَرَکْت الْمُخَابَرَۃَ فَاِنَّہُمْ یَزْعُمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْہَا .فَقَالَ أَخْبَرَنِیْ أَعْلَمُہُمْ یَعْنِی ابْنَ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَنْہَ عَنْہَا وَلٰـکِنَّہٗ قَالَ لَأَنْ یَمْنَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ أَرْضَہُ خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَأْخُذَ عَلَیْہَا خَرَاجًا مَعْلُوْمًا .
٥٨٠٦: عمرو بن دینار نے طاوس سے روایت کی ہے کہ میں نے ان کو کہا اے ابو عبدالرحمن ! اگر تم مخابرہ کو ترک کردیتے (تو مناسب تھا) کیونکہ ان حضرات کا خیال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ممانعت فرمائی ہے انھوں نے کہا مجھے ان میں سے سب سے زیادہ علم والے یعنی ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو (زمین کا) عطیہ دے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ اس پر کوئی مقرر اجرت لے۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ١٠‘ مسلم فی البیوع ١٢٠؍١٢٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٠‘ ابن ماجہ فی الرہوں مسند احمد ١‘ ٢٣٤؍٣١٣۔

5808

۵۸۰۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَبَیَّنَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ مَا کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ لِلنَّہْیِ وَاِنَّمَا أَرَادَ الرِّفْقَ بِہِمْ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ کَرِہَ لَہُمْ أَخْذَ الْخَرَاجِ لِمَا وَقَعَ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ فِیْ حَدِیْثِ زَیْدٍ فَقَالَ لَأَنْ یَمْنَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ أَرْضَہُ خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَأْخُذَ عَلَیْہَا خَرَاجًا مَعْلُوْمًا لِأَنَّ مَا کَانَ وَقَعَ بَیْنَ ذَیْنِک الرَّجُلَیْنِ مِنِ الشَّرِّ اِنَّمَا کَانَ فِی الْخَرَاجِ الْوَاجِبِ لِأَحَدِہِمَا عَلٰی صَاحِبِہٖ فَرَأَی أَنَّ الْمَنِیْحَۃَ الَّتِیْ لَا تُوْجِبُ بَیْنَہُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ خَیْرٌ لَہُمْ مِنَ الْمُزَارَعَۃِ الَّتِیْ تُوْقِعُ بَیْنَہُمْ مِثْلَ ذٰلِکَ .وَقَدْ جَائَ بَعْضُہُمْ بِحَدِیْثِ رَافِعٍ عَلَی لَفْظِ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ ہٰذَا .
٥٨٠٧: سفیان نے عمرو سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت اسی طرح ذکر کی ہے۔ اس روایت میں ابن عباس (رض) نے بتلایا آپ نے جو ممانعت فرمائی وہ شفقت کے طور پر ہے وہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں کہ آپ نے اجرت کا لینا ناپسند کیا ہو جس کی وجہ سے ان دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا پیدا ہوا جن کا ذکر حضرت زید (رض) کی روایت میں آیا ہے اسی لیے آپ نے فرمایا اگر تم میں سے ایک دوسرے بھائی کو زمین بطور عطیہ دے یہ اس سے بہتر ہے کہ اس زمین پر مقررہ خراج حاصل کرے۔ کیونکہ ان دو آدمیوں میں اختلاف کا سبب یہی مقررہ اجرت تھی جو ایک کے ذمہ دوسرے کا حق تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ وہ عطیہ جو ان کے درمیان کوئی چیز واجب نہ کرے وہ اس مزارعت سے بہت بہتر ہے جو ان کے مابین نزاع کا باعث ہو اور حضرت رافع (رض) کی روایت بھی حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت کے موافق ہے۔ ابن عباس (رض) کی روایت جو روایت رافع کے موافق ہے۔
حاصل روایت : اس روایت میں ابن عباس (رض) نے بتلایا آپ نے جو ممانعت فرمائی وہ شفقت کے طور پر ہے وہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں۔

5809

۵۸۰۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ قَالَ : سَمِعْت مُجَاہِدًا عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ کَانَ لَنَا نَافِعًا وَأَمَرَنَا بِخَیْرٍ مِنْہُ فَقَالَ مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَلْیَزْرَعْہَا أَوْ یَمْنَحْہَا .قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِطَاوُسٍ فَقَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اِنَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْنَحُہَا أَخَاہُ خَیْرٌ لَہٗ أَوْ یَمْنَحُہَا خَیْرٌ .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ وَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا فَیَکُوْنُ قَوْلُہٗ نَہَانَا عَنْ أَمْرٍ کَانَ لَنَا نَافِعًا یُرِیْدُ مَا ذَکَرَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَافِعًا سَمِعَہُ وَأَمَرَنَا بِکَذَا مَا حَکَاہُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَلَمْ یَکُنْ فِیْ جَمِیْعِ مَا سَمِعَ فِی الْحَقِیْقَۃِ نَہْیٌ لِکِرَائِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَیْضًا فِی النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ اِنَّمَا کَانَ لِبَعْضِ الْمَعَانِی الَّتِیْ تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہَا ..
٥٨٠٨: مجاہد نے رافع (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایسی بات سے منع فرمایا جو ہمارے لیے فائدہ مند تھی اور ہمیں اس سے بہت ہی بہتر کا حکم فرمایا آپ نے فرمایا جس کی زمین ہو وہ اس کو خود کاشت کرے یا کسی کو عطیہ کے طور پردے دے۔ اس روایت میں بھی وہی مفہوم محتمل ہے کہ حضرت رافع کے قول کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایسے کام سے روک دیا جو ہمارے لیے فائدہ مند تھا سے مراد وہی بات ہے جو حضرت زید بن ثابت (رض) نے ذکر کی کہ حضرت رافع نے اتنی بات سنی اور حکم دے دیا جیسا کہ ابن عباس (رض) سے نقل کیا گیا تو جو سنا اس میں حقیقۃً زمین کو تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کرایہ پر دینے کی ممانعت نہیں تھی اس مفہوم کی سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر (رض) سے بھی روایات آئی ہیں اور ان میں بھی وہی وجود مراد ہیں جن کا تذکرہ ہوچکا۔
میں نے یہ بات طاوس کے سامنے ذکر کی تو انھوں نے کہا حضرت ابن عباس (رض) اسے اپنے بھائی کو عطیہ دینا بہت بہتر ہے یا عطیہ دے دینا بہت بہتر ہے (کوئی ایک لفظ فرمایا) ۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ١٨‘ مسلم فی البیوع ٩٨‘ مسند احمد ٣؍٣٥٤‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٧‘ ترمذی فی الاحکام باب ٤٢‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥۔
روایت سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر (رض) :

5810

۵۸۰۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عِکْرَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ لَبِیْبَۃَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ : کَانَ النَّاسُ یَکْرُوْنَ الْمَزَارِعَ بِمَا یَکُوْنُ عَلَی السَّاقِی وَبِمَا یُسْقٰی بِالْمَائِ مِمَّا حَوْلَ الْبِئْرِ فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ وَقَالَ اُکْرُوْہَا بِالذَّہَبِ وَالْوَرِقِ .
٥٨٠٩: سعید بن مسیب حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نالیوں کے کنارے اور کنویں کے گرد نالی سے سیراب ہونے والے حصے کی پیداوار پر مزارعت کرتے تھے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ سونے اور چاندی کے ساتھ کرایہ پر دیا کرو۔
تخریج : نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ مسند احمد ١؍١٧٩۔

5811

۵۸۱۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ وَہُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی بَدَنِیْ أَنَّ عُمُوْمَتَہُ جَائُوْا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعُوْا فَقَالُوْا : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ کِرَائِ الْمَزَارِعِ .فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : قَدْ عَلِمْنَا أَنَّہٗ کَانَ صَاحِبَ مَزْرَعَۃٍ یُکْرِیہَا عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَنَّ لَہٗ مَا فِیْ رَبِیْعِ السَّاقِی الَّذِیْ تَفَجَّرَ مِنْہُ الْمَائُ وَطَائِفَۃً مِنْ التِّبْنِ لَا أَدْرِی مَا التِّبْنُ مَا ہُوَ ؟ .فَبَیَّنَ سَعْدٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَا نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمَ کَانَ وَأَنَّہٗ اِنَّمَا کَانَ ؛ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا یَشْتَرِطُوْنَ مَا عَلٰی رَبِیْعِ السَّاقِی وَذٰلِکَ فَاسِدٌ فِی قَوْلِ النَّاسِ جَمِیْعًا .وَحَمَلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا النَّہْیَ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ الْمَعْنَی أَیْضًا .وَزَادَ حَدِیْثُ سَعْدٍ عَلَی غَیْرِہِ مِنْ ہٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ اِبَاحَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِجَارَۃَ الْأَرْضِ بِالذَّہَبِ وَالْوَرِقِ .فَقَدْ بَانَ نَہْیُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَارَعَۃِ فِی الْآثَارِ الْمُتَقَدِّمَۃِ لِمَ کَانَ وَمَا الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ ؟ وَلَمْ یَثْبُتْ فِیْ شَیْئٍ مِنْہَا النَّہْیُ عَنْ اِجَارَۃِ الْأَرْضِ بِبَعْضِ مَا یَخْرُجُ اِذَا کَانَ ثُلُثًا أَوْ رُبُعًا أَوْ مَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .وَقَدْ احْتَجَّ قَوْمٌ فِیْ ذٰلِکَ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی
٥٨١٠: نافع نے بیان کیا کہ حضرت نافع (رض) نے ابن عمر (رض) کو اطلاع دی وہ اس وقت میرے وجود سے پر تکیہ لگائے ہوئے تھے کہ میرے چچا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے پھر واپسی پر کہنے لگے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمینوں کو کرایہ پر دینے کی ممانعت کردی ہے ابن عمر (رض) نے فرمایا ہم جانتے ہیں کہ وہ زمین کے مالک تھے اور زمانہ نبوت میں زمین کو اس طرح کرایہ پر دیتے کہ جو کچھ نالیوں کے کناروں پر ہوگا جس سے پانی پھوٹتا ہے اور گھاس بھی ان کا ہوگا وہ فرماتے تھے مجھے معلوم نہیں کہ تبن سے کیا مراد ہے۔ (یعنی چارا یا عام گھاس) اس روایت میں حضرت سعد (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ممانعت کی وجہ بیان فرمائی اور وہ اس لیے تھی کہ لوگ نالیوں کے کناروں والے حصہ کی پیداوار کی شرط رکھا کرتے تھے اور اس قسم کی مزارعت تو سب کے ہاں ناجائز ہے اور حضرت ابن عمر (رض) نے بھی اسی بات پر محمول کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ممانعت کی یہ وجہ ہو اور حضرت سعد (رض) کی روایت میں دوسری روایات کے مقابلہ میں اضافہ ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے اور چاندی کے بدلے زمین کو اجرت پر دینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ گزشتہ روایات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیوں منع فرمایا اور کس چیز سے منع فرمایا اور یہ بات پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکی کہ زمین کی کچھ پیداوار مثلاً تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ وغیرہ کے بدلے زمین کو اجرت پر دینا جائز نہیں۔
فریق اوّل کی ایک اور دلیل :

5812

۵۸۱۱: بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنِ ابْنِ ہُرْمُزَ عَنْ أَسَدِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ سَمِعَہٗ یَذْکُرُ أَنَّہُمْ مَنَعُوْا مِنَ الْمُحَاقَلَۃِ وَہِیَ أَنْ یُکْرِیَ أَرْضًا عَلَی بَعْضِ مَا فِیْہَا .
٥٨١١: ابن ہرمز نے اسد بن رافع کو بیان کرتے سنا کہ وہ بیع محاقلہ سے منع کرتے تھے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بعض حصہ آمدنی کے بدلہ زمین کو کرایہ پر دینا۔

5813

۵۸۱۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَامِدٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ دِیْنَارٍ یَقُوْلُ: سَمِعْت ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : کُنَّا نُخَابِرُ وَلَا نَرَی بِذٰلِکَ بَأْسًا حَتّٰی زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْہَا فَتَرَکْنَاہَا مِنْ أَجْلِ قَوْلِہٖ
٥٨١٢: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ ہم مخابرہ کرتے اور اس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت رافع کو خیال ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع کیا پس ہم نے اس کو ان کے کہنے پر چھوڑ دیا۔

5814

۵۸۱۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَیْسَرَۃَ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُخَابَرَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ وَالْمُحَاقَلَۃِ .وَالْمُخَابَرَۃُ : عَلَی الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ مِنْ بَیَاضِ الْأَرْضِ .وَالْمُزَابَنَۃُ : بَیْعُ الرَّطْبِ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ وَبَیْعُ الْعِنَبِ فِی الشَّجَرِ بِالزَّبِیْبِ .وَالْمُحَاقَلَۃُ : بَیْعُ الزَّرْعِ قَائِمًا ہُوَ عَلٰی أُصُوْلِہِ بِالطَّعَامِ .
٥٨١٣: عمرو بن دینار نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخابرہ ‘ مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا۔ مخابرہ : ثلث یا ربع یا نصف پیداوار پر زمین کرایہ پر دینا۔ مزابنہ : درخت پر کھجور کی خشک کھجور توڑی ہوئی سے بیع کرنا اسی طرح تر انگور کو کشمش کے مقابلے میں فروخت کرنا۔ محاقلہ : کھڑی کھیتی کی غلے سے بیع کرنا۔
تخریج : بخاری فی المساقاۃ باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٨١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٥٥‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ والبیوع باب ٢٨‘ دارمی فی البیوع باب ٧٢‘ مسند احمد ٥؍١٨٧۔

5815

۵۸۱۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ حَیَّانَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مِیْنَائَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ وَالْمُخَابَرَۃِ۔
٥٨١٤: سعید بن میناء نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ ‘ مزابنہ اور مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔

5816

۵۸۱۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ وَأَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٨١٥: ابوالزبیر نے جابر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا۔

5817

۵۸۱۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَیَّانَ عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَیَّانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ
٥٨١٦: واسع بن حیان نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔

5818

۵۸۱۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٨١٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5819

۵۸۱۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٨١٨: اسحاق بن عبیداللہ نے انس بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5820

۵۸۱۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ حَفْصٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ حَدَّثَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ وَالْمُحَاقَلَۃُ : الشِّرْکُ فِی الزَّرْعِ وَالْمُزَابَنَۃُ : التَّمْرُ بِالتَّمْرِ عَلَی رُئُوْسِ النَّخْلِ .قَالُوْا : فَقَدْ نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ وَہِیَ کِرَائُ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَنَہَی أَیْضًا عَنِ الْمُخَابَرَۃِ وَہِیَ أَیْضًا کَذٰلِکَ .قِیْلَ لَہُمْ : أَمَّا مَا ذَکَرْتُمْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَہْیِہِ عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ فَقَدْ صَدَقْتُمْ وَنَحْنُ نُوَافِقُکُمْ عَلٰی صِحَّۃِ مَجِیْئِ ذٰلِکَ .وَأَمَّا تَأْوِیْلُکُمْ اِیَّاہُ عَلٰی أَنَّہٗ الْمُزَارَعَۃُ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ فَہٰذَا تَأْوِیْلٌ مِنْکُمْ وَلَیْسَ عِنْدَکُمْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ تَأْوِیْلَہٗ کَمَا تَأَوَّلْتُمْ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ عِنْدَنَا مَا ذَکَرْتُمْ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَمَا قَالَ مُخَالِفُکُمْ أَنَّہٗ بَیْعُ الْحِنْطَۃِ کَیْلًا بِحِنْطَۃِ ہٰذَا الْحَقْلِ الَّذِی لَا یَدْرِی مَا کَیْلُہُ .فَذٰلِکَ عِنْدَنَا وَعِنْدَکُمْ فَاسِدٌ وَہٰذَا أَشْبَہٗ بِذٰلِکَ لِأَنَّہٗ مَقْرُوْنٌ بِالْمُزَابَنَۃِ وَالْمُزَابَنَۃُ ہِیَ بَیْعُ التَّمْرِ الْمَکِیلِ بِمَا فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ مِنْ التَّمْرِ .فَہٰذَا الْحَدِیْثُ یَحْتَمِلُ مَا تَأَوَّلَہُ الْفَرِیْقَانِ جَمِیْعًا عَلَیْہِ وَلَا حُجَّۃَ فِیْہِ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ عَلَی الْفَرِیْقِ الْآخَرِ .وَقَدْ جَائَ تْ آثَارٌ غَیْرُ ہٰذِہِ الْآثَارِ فِیْہَا اِبَاحَۃُ الْمُزَارَعَۃِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .
٥٨١٩: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے اور کہا کہ محاقلہ کھیتی میں شراکت ‘ مزابنہ تر کھجور درخت پر ہو اس کی بیع خشک کھجور سے۔ انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ سے منع فرمایا اور زمین کو ثلث یا ربع پر کرایہ پر لینا ہے اور مخابرہ سے بھی منع کیا اور وہ بھی یہی ہے۔ آپ نے جس قدر روایات محاقلہ وغیرہ سے ممانعت کی ذکر کی ہیں ان کی درستی میں شبہ نہیں۔ ہم بھی اس میں آپ کے موافق ہیں۔ البتہ ہمیں تو آپ کی اس تاویل سے اختلاف ہے جو آپ نے ان بیوع کی کی ہے کہ اس سے مراد مزارعت ہے جو ثلث یا ربع وغیرہ کے بدلے کی جائے یہ آپ کی تاویل ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نہیں اور آپ کے پاس کوئی دلیل بھی ایسی نہیں جو یہ ثابت کر دے۔ ہمارے ہاں جہاں تمہاری تاویل کا ان روایات میں احتمال ہے۔ وہاں تمہارے مخالفین کی تاویل یہ ہے کہ اس سے مراد گندم کو کیل کر کے اس کھڑی فصل کے بدلے فروخت کیا جائے جس کی پیمائش معلوم نہیں۔ یہ اس سے مراد ہے اور اگر یہ تاویل مان لی جائے تو اس کا فاسد ہونا ہمارے اور تمہارے ہاں مسلم ہے اور یہ تاویل اس کے ساتھ خوب مشابہت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ مزابنہ سے ملتی جلتی ہے مزابنہ کی حقیقت یہ ہے کہ کھجور کے درخت پر کھجوروں کے بدلے کیل کر کے کھجور کی بیع کرنا۔ یہ روایات تو فریقین کے مؤقف کا احتمال رکھتی ہیں اس میں فریق ثانی کے خلاف کوئی دلیل نہیں۔ پہلے بہت سے آثار ان کے علاوہ ثلث و ربع پر مزارعت کے جواز کو ثابت کرتے ہیں۔
مزارعت کی اباحت پر آمدہ روایات :
بہت سے آثار ان کے علاوہ ثلث و ربع پر مزارعت کے جواز کو ثابت کرتے ہیں۔

5821

۵۸۲۰: فَمِنْہَا مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ أَبِی الْقَاسِمِ وَہُوَ مِقْسَمٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ بِالشَّطْرِ ثُمَّ أَرْسَلَ ابْنَ رَوَاحَۃَ فَقَاسَمَہُمْ .
٥٨٢٠: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حصہ آمدنی پر خیبر کی زمین دی پھر عبداللہ بن رواحہ (رض) کو بھیجا انھوں نے ان کا اندازہ لگایا۔
تخریج : بخاری فی الاجارہ باب ٢٢‘ مسلم فی المساقاۃ ٢۔

5822

۵۸۲۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَہْلَ خَیْبَرَ بِشَطْرِ مَا خَرَجَ مِنْ الزَّرْعِ .
٥٨٢١: نافع نے ابن عمر (رض) روایت کی کہ جناب نبی اکرم نے اہل خیبر سے جو کھیتی کی پیداوار ہو اس کے نصف پر معاملہ کیا۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ٨؍٩‘ مسلم فی المساقاۃ ١؍٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٤‘ ترمذی فی الاحکام باب ٤١‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ١٤‘ دارمی فی البیوع باب ٧١‘ مسند احمد ٢‘ ١٧؍٢٢۔

5823

۵۸۲۲: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کَانَتِ الْمَزَارِعُ تُکْرٰی عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَنَّ لِرَبِّ الْأَرْضِ مَا عَلٰی رَبِیْعِ السَّاقِی مِنْ الزَّرْعِ وَطَائِفَۃً مِنْ التِّبْنِ لَا أَدْرِیْ کَمْ ہُوَ ؟ .قَالَ نَافِعٌ : فَجَائَ رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ وَأَنَا مَعَہُ فَقَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی خَیْبَرَ یَہُوْدًا عَلٰی أَنَّہُمْ یَعْمَلُوْنَہَا وَیَزْرَعُوْنَہَا بِشَطْرِ مَا یَخْرُجُ مِنْ تَمْرٍ أَوْ زَرْعٍ .
٥٨٢٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ کھیتیاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کرایہ پر دی جاتی تھیں اس شرط پر کہ مالک زمین کو نالہ کے قریب والی کھیتی اور کچھ بھوسہ ملے گا مجھے معلوم نہیں کہ اس کی مقدار کیا تھی۔
نافع کہتے ہیں کہ وہ اچانک رافع (رض) کے پاس آئے اور میں ان کے ساتھ تھا اور کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی زمین یہود کو نصف کھجور اور کھیتی کے غلہ پر دی کہ وہ کام کریں گے اور کھیتی باڑی کا کام ان کے ذمہ ہوگا۔
تخریج : نسائی فی الایمان باب ٤٥؍٤٦۔

5824

۵۸۲۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوْنٍ الزِّیَادِیُّ وَہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَوْنٍ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : أَفَائَ اللّٰہُ خَیْبَرَ فَأَقَرَّہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا کَانُوْا وَجَعَلَہَا بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَبَعَثَ ابْنَ رَوَاحَۃَ فَخَرَصَہَا عَلَیْہِمْ .
٥٨٢٣: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی اللہ تعالیٰ نے خیبر کا جو حصہ بطور فئی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا تو اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو اسی طرح برقرار رکھا اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کو اندازے کے لیے بھیجا تو انھوں نے اندازہ لگایا۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٣٥‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٨‘ مالک فی المساقاۃ ١؍٢‘ مسند احمد ٢؍٢٤‘ ٣؍٢٩٦۔

5825

۵۸۲۴: وَحَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ دَفَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ بِالنِّصْفِ مِنْ ثَمَرِہَا وَزَرْعِہَا .فَقَدْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ جَوَازُ الْمُزَارَعَۃِ وَالْمُسَاقَاۃِ وَلَمْ یُضَادَّ ذٰلِکَ مَا قَدْ تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہٗ مِنْ حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَرَافِعٍ وَثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لِمَا ذَکَرْنَا مِنْ حَقَائِقِہَا .فَاحْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ : قَدْ عُوْرِضَتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ أَیْضًا بِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ تَکُوْنَ مِمَّا قَدْ وَصَفْنَا ذٰلِکَ فِی بَابِ بَیْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ یَبْدُوَ صَلَاحُہَا .قَالَ : فَاِذَا نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْاِبْتِیَاعِ بِالثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ تَکُوْنَ دَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ الْاِسْتِئْجَارُ بِہَا قَبْلَ أَنْ تَکُوْنَ فَکَمَا کَانَ الْبَیْعُ بِہَا قَبْلَ کَوْنِہَا بَاطِلًا کَانَ الْاِسْتِئْجَارُ بِہَا قَبْلَ کَوْنِہَا أَیْضًا کَذٰلِکَ .أَلَا تَرَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہٰی عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک ؟ فَکَانَ الْاِسْتِئْجَارُ بِذٰلِکَ غَیْرَ جَائِزٍ اِذْ کَانَ الْاِبْتِیَاعُ بِہٖ غَیْرَ جَائِزٍ فَکَذٰلِکَ لَمَّا کَانَ الْاِبْتِیَاعُ بِمَا لَمْ یَکُنْ غَیْرَ جَائِزٍ کَانَ الْاِسْتِئْجَارُ بِہٖ أَیْضًا غَیْرَ جَائِزٍ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّہٗ لَوْ لَمْ یَرْوِ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ اِجَارَۃِ الْمُزَارَعَۃِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ لَکَانَ الْأَمْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْت .وَلٰـکِنْ لِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِبَاحَتُہَا وَعَمِلَ بِہَا الْمُسْلِمُوْنَ بَعْدَہُ وَاحْتَمَلَ أَنْ لَا یَکُوْنَ الْاِسْتِئْجَارُ بِمَا لَمْ یَکُنْ دَاخِلًا فِی الْاِبْتِیَاعِ بِمَا لَمْ یَکُنْ وَیَکُوْنُ مُسْتَثْنًی مِنْ ذٰلِکَ وَاِنْ لَمْ یُبَیِّنْ فِی الْحَدِیْثِ .کَمَا أُبِیْحَ السَّلَمُ وَلَمْ یُحَرِّمْہُ النَّہْیُ عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ وَاِنَّمَا وَقَعَ النَّہْیُ فِیْ ذٰلِکَ عَلَی بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک غَیْرَ السَّلَمِ .فَکَذٰلِکَ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّہْیُ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ تَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا سِوَی الْمُزَارَعَۃِ بِہَا وَالْمُسَاقَاۃِ عَلَیْہَا .وَقَدْ عَمِلَ بِالْمُزَارَعَۃِ وَالْمُسَاقَاۃِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ۔
٥٨٢٤: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ان روایات سے ثابت ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی زمین ‘ پھل اور کھیتی کے نصف پر یہود کے حوالہ فرمائی اس سے مزارعت اور مساقات کا جواز ثابت ہوگیا سابقہ روایات میں کوئی بھی ان کے متضاد نہیں۔ خواہ وہ حدیث جابر ہو یا رافع و ثابت (رض) اس لیے کہ ہم نے ان کی حقیقت ذکر کردی۔ یہ مندرجہ بالا آثار جو جواز مزارعت میں پیش کئے گئے نہی کی روایات ان کے معارض ہیں۔ آپ نے پھلوں کی بیع پھل بننے سے پہلے اور ان کی درستی ظاہر ہونے سے پہلے ممنوع فرمائی ہے۔ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھل کو پھل بننے سے پہلے فروخت سے منع فرمایا تو اس میں ان کو اجارہ پر حاصل کرنا بھی شامل ہے جبکہ ابھی پھل بنا نہ ہو۔ جب پھل بننے سے پہلے بیع باطل ہے تو اجارہ پر لینا بھی بننے سے پہلے باطل ہوا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کی بیع سے منع فرمایا ہے جو تمہارے پاس نہ ہو ؟ اور ایسی چیز کو اجارہ پر حاصل کرنا بھی ناجائز ہے جبکہ اس کی خریدو فروخت ناجائز ہے تو استیجار بھی ناجائز ہے۔ اگر مندرجہ بالا آثار میں مزارعت کا کھلا جواز نہ ملتا تو بات اسی طرح تھی جو آپ نے ذکر فرمائی۔ لیکن جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اباحت مروی ہے اور اس پر مسلمان عمل پیرا ہیں جو پھل ابھی تک مکمل بنا نہیں ممکن ہے کہ اس کا استیجار اس بیع کے تحت داخل نہ ہو جو نامکمل پھل کی ممنوع ہے بلکہ اس سے مستثنیٰ ہو۔ اگرچہ حدیث میں وضاحت نہیں۔ اس کی نظیر بیع سلم ہے کہ وہ مباح ہے۔ اس کی بیع اس بیع میں شامل نہیں جو ان چیزوں کی کی جائے جو تمہارے پاس موجود نہ ہوں تو اس چیز کی بیع جو تمہارے پاس موجود نہیں وہ بیع سلم کے علاوہ ہے۔ بالکل اسی طرح ممکن ہے کہ پھلوں کی بیع مکمل ہونے سے پہلے مزارعت و مساقاۃ کے علاوہ ممنوع ہو۔
بالکل اسی طرح ممکن ہے کہ پھلوں کی بیع مکمل ہونے سے پہلے مزارعت و مساقاۃ کے علاوہ ممنوع ہو۔
عمل صحابہ کرام (رض) سے مزارعت کا ثبوت :

5826

۵۸۲۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَذْکُرُ عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ قَالَ : أَقْطَعَ عُثْمَانُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ وَالزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَامّ وَسَعْدَ بْنَ مَالِکٍ وَأُسَامَۃَ فَکَانَ جَارِی مِنْہُمْ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ وَابْنَ مَسْعُوْدٍ یَدْفَعَانِ أَرْضَہُمَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .
٥٨٢٥: اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے سنا۔ کہ موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے تھے کہ حضرت عثمان (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کی ایک جماعت کو ایک ایک ٹکڑا زمین کا عنایت فرمایا یعنی ابن مسعود ‘ زبیر بن العوام ‘ سعید بن مالک ‘ اسامہ بن زید (رض) کو ان میں سے حضرت سعد (رض) اور ابن مسعود (رض) نے موافقت کی اور یہ دونوں اپنی زمین ثلث یا ربع پر دیتے تھے۔

5827

۵۸۲۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُہَاجِرٍ قَالَ : سَأَلْت مُوْسَی بْنَ طَلْحَۃَ عَنِ الْمُزَارَعَۃِ فَقَالَ : أَقْطَعَ عُثْمَانُ عَبْدَ اللّٰہِ أَرْضًا وَأَقْطَعَ سَعْدًا أَرْضًا وَأَقْطَعَ خَبَّابًا أَرْضًا وَأَقْطَعَ صُہَیْبًا أَرْضًا فَکِلَا جَارَیَّ کَانَ یُزَارِعَانِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .
٥٨٢٦: ابراہیم بن مہاجر کہتے ہیں کہ میں نے موسیٰ بن طلحہ سے مزارعت کے متعلق سوال کیا تو وہ کہنے لگے حضرت عثمان نے عبداللہ ابن مسعود (رض) کو زمین کا ایک قطعہ دیا اور ایک قطعہ سعد (رض) کو اور ایک خباب اور ایک قطعہ صہیب (رض) کو دیا تمام موافقت کر کے ثلث یا ربع پر مزارعت کرتے تھے۔

5828

۵۸۲۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ یَحْیَی بْنَ سَعِیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ أَخْبَرَہُمْ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ حَکِیْمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعَثَ یَعْلَی بْنَ أُمَیَّۃَ اِلَی الْیَمَنِ فَأَمَرَہٗ أَنْ یُعْطِیَہُمُ الْأَرْضَ الْبَیْضَائَ عَلٰی أَنَّہٗ اِنْ کَانَ الْبَقَرُ وَالْبَذْرُ وَالْحَدِیدُ مِنْ عُمَرَ فَلَہٗ الثُّلُثَانِ وَلَہُمُ الثُّلُثُ وَاِنْ کَانَ الْبَقَرُ وَالْبَذْرُ وَالْحَدِیدُ مِنْہُمْ فَلِعُمَرَ الشَّطْرُ وَلَہُمُ الشَّطْرُ .وَأَمَرَہُ أَنْ یُعْطِیَہُمُ النَّخْلَ وَالْکَرْمَ عَلٰی أَنَّ لِعُمَرَ ثُلُثَیْنِ وَلَہُمْ الثُّلُثُ .
٥٨٢٧: عمر بن عبدالعزیز (رح) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے یعلیٰ بن منیہ کو یمن روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ ان کو خالی زمین اس طرح اس شرط پر دو کہ اگر بیل ‘ بیج ‘ ہل عمر کی طرف سے ہو تو عمر کو دو ثلث اور ان کو ایک ثلث دیا جائے گا اور اگر بیل ‘ بیج ‘ اور ہل ان کی طرف سے ہو تو عمر کو آدھا دینا ہوگا اور آدھا تمہارا ہوگا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ ان کو کھجور اور انگور اس شرط پر دیں کہ عمر کو دو ثلث اور ایک ثلث ان کو ملے گا۔

5829

۵۸۲۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی أَنَّہٗ قَالَ : کَانَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُعْطِی الْأَرْضَ عَلَی الشَّطْرِ .
٥٨٢٨: ابو جعفر نے محمد بن علی سے نقل کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) زمین کو نصف پر دیتے تھے۔

5830

۵۸۲۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ الْحَجَّاجَ أَخْبَرَہُمْ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ أَنَّہٗ قَالَ : کَانَ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُکْرِی الْأَرْضَ عَلَی الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .
٥٨٢٩: عثمان بن عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) زمین کو ثلث و ربع کے بدلے کرایہ پر دیتے تھے۔

5831

۵۸۳۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ مُعَاذًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا قَدِمَ اِلَی الْیَمَنِ وَہُمْ یُخَابِرُوْنَ فَأَقَرَّہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ .
٥٨٣٠: طاوس نے حضرت معاذ (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ یمن تشریف لائے اور یمنی لوگ مخابرہ کرتے تھے تو انھوں نے ان کو اس پر قائم رکھا۔

5832

۵۸۳۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ مُعَاذًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا قَدِمَ الْیَمَنَ کَانَ یُکْرِی الْأَرْضَ أَوْ الْمَزَارِعَ عَلَی الثُّلُثِ أَوْ الرُّبُعِ .وَقَالَ : قَدِمَ الْیَمَنَ وَہُمْ یَفْعَلُوْنَہٗ فَأَمْضَی لَہُمْ ذٰلِکَ .
٥٨٣١: طاوس کہتے ہیں کہ جب معاذ (رض) یمن آئے تو وہ زمین کو یا کھیت کو ثلث یا ربع کے عوض کرایہ پر دیتے تھے اور کہتے ہیں کہ وہ یمن آئے تو لوگ اسی طرح کرتے تھے انھوں نے ان کو اس پر برقرار رکھا۔

5833

۵۸۳۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْکُوْفِیُّ عَنْ کُلَیْبِ بْنِ وَائِلٍ قَالَ : قُلْت لِابْنِ عُمَرَ : أَتَانِیْ رَجُلٌ لَہٗ أَرْضٌ وَمَائٌ وَلَیْسَ لَہٗ بَذْرٌ وَلَا بَقَرٌ أَخَذْتُ أَرْضَہُ بِالنِّصْفِ فَزَرَعْتُہَا بِبَذْرِی وَبَقَرِی فَنَاصَفْتہ ؟ فَقَالَ : حَسَنٌ .ثُمَّ اِنَّہٗ قَدْ اخْتَلَفَ التَّابِعُوْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ
٥٨٣٢: کلیب بن وائل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے کہا میرے پاس ایک آدمی آیا جس کے پاس زمین اور پانی اپنا ہے البتہ بیج نہیں اور بیل ہیں میں نے اس کی زمین نصف پر لی ہے میں اس کو اپنے بیج اور بیل سے کاشت کرتا ہوں کیا میں اس سے آدھا لے سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا خوب ہے۔
اس میں اختلاف تابعین :

5834

۵۸۳۳: فَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَمَّادٍ أَنَّہٗ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ وَسَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ وَمُجَاہِدًا عَنْ کِرَائِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ فَکَرِہُوْھُ .
٥٨٣٣: حماد کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسیب ‘ سعید بن جبیر اور سلم بن عبداللہ اور مجاہد سے ثلث و ربع کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔

5835

۵۸۳۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَمَّادٍ أَنَّہٗ قَالَ : سَأَلْت مُجَاہِدًا وَسَالِمًا عَنْ کِرَائِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ فَکَرِہَاہُ .وَسَأَلْتُ عَنْ ذٰلِکَ طَاوُسًا فَلَمْ یَرَ بِہٖ بَأْسًا .قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُجَاہِدٍ وَکَانَ یُشَرِّفُہُ وَیُوَقِّرُہُ فَقَالَ : اِنَّہٗ یَزْرَعُ .
٥٨٣٤: حماد کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد وسالم سے زمین کے ثلث و ربع کے عوض کرایہ دینے کا سوال کیا تو انھوں نے اس کو ناپسند قرار دیا اور طاوس سے سوال کیا تو انھوں نے اس میں کسی قسم کا حرج قرار نہ دیا میں نے یہ بات مجاہد کو بتلائی وہ ان کا احترام و اکرام کرتے تھے تو مجاہد کہنے لگے وہ خود کاشت کاری کرتے تھے (اس لیے ان کو اس کے متعلق زیادہ معلومات ہیں)

5836

۵۸۳۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَکْرَہُ کِرَائَ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ
٥٨٣٥: منصور کہتے ہیں کہ ابراہیم زمین کو تہائی یا چوتھائی کے عوض کرایہ پر دینا ناپسند کرتے تھے۔

5837

۵۸۳۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَہٗ۔
٥٨٣٦: قتادہ نے حسن بصری سے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5838

۵۸۳۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ مِثْلَہٗ۔
٥٨٣٧: منصور بن معتمر نے سعید بن جبیر (رح) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5839

۵۸۳۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ أَخْبَرَہُمْ عَنْ عَطَائٍ مِثْلَہٗ۔
٥٨٣٨: حماد نے قیس بن سعد نے عطائ (رح) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5840

۵۸۳۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ وَیُوْنُسُ بْنُ عُبَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُکْرِیَ الرَّجُلُ الْأَرْضَ مِنْ أَخِیْہِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ .فَأَمَّا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَاِنَّ ذٰلِکَ کَمَا قَدْ قَالَہٗ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : اِنَّ ذٰلِکَ لَا یَجُوْزُ فِی الْمُزَارَعَۃِ وَالْمُعَامَلَۃِ وَالْمُسَاقَاۃِ اِلَّا بِالدَّرَاہِمِ وَالدَّنَانِیْرِ وَالْعُرُوْضِ .وَذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْنَ قَدْ أَجَازُوْا الْمُسَاقَاۃَ فِیْ ذٰلِکَ زَعَمُوْا أَنَّہُمْ شَبَّہُوْہَا بِالْمُضَارَبَۃِ وَہِیَ الْمَالُ یَدْفَعُہُ الرَّجُلُ اِلَی الرَّجُلِ عَلٰی أَنْ یَعْمَلَ بِہٖ عَلَی النِّصْفِ أَوْ الثُّلُثِ أَوْ الرُّبُعِ فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ عَلٰی جَوَازِ ذٰلِکَ وَقَامَ ذٰلِکَ مَقَامَ الْاِسْتِئْجَارِ بِالْمَالِ الْمَعْلُوْمِ .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ الْمُسَاقَاۃُ تَقُوْمُ النَّخْلُ الْمَدْفُوْعَۃُ مَقَامَ رَأْسِ الْمَالِ فِی الْمُضَارَبَۃِ وَیَکُوْنُ الْحَادِثُ عَنْہَا مِنْ التَّمْرِ مِثْلَ الْحَادِثِ عَنِ الْمَالِ مِنْ الرِّبْحِ .فَکَانَتْ حُجَّتُنَا عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ الْمُضَارَبَۃَ اِنَّمَا یَثْبُتُ فِیْہَا الرِّبْحُ بَعْدَ سَلَامَۃِ رَأْسِ الْمَالِ وَوُصُوْلِہِ اِلٰی یَدَیْ رَبِّ الْمَالِ وَلَمْ یُرَ الْمُزَارَعَۃُ وَلَا الْمُسَاقَاۃُ فُعِلَ ذٰلِکَ فِیْہِمَا .أَلَا تَرَی أَنَّ الْمُسَاقَاۃَ فِی قَوْلِ مَنْ یُجِیزُہَا لَوْ أَثْمَرَتْ النَّخْلُ فَجَرَّ عَنْہَا الثَّمَرَ ثُمَّ احْتَرَقَتْ النَّخْلُ وَسَلِمَ الثَّمَرُ کَانَ ذٰلِکَ الثَّمَرُ بَیْنَ رَبِّ النَّخْلِ وَالْمُسَاقِیْ عَلٰی مَا اشْتَرَطَا فِیْہَا .وَلَمْ یَمْنَعْ مِنْ ذٰلِکَ عَدَمُ النَّخْلِ الْمَدْفُوْعَۃِ کَمَا یَمْنَعُ عَدَمُ رَأْسِ الْمَالِ فِی الْمُضَارَبَۃِ مِنْ الرِّبْحِ .وَکَانَتِ الْمُسَاقَاۃُ وَالْمُزَارَعَۃُ اِذَا عُقِدَتَا لَا اِلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ کَانَتَا فَاسِدَتَیْنِ وَلَا تَجُوْزَانِ اِلَّا اِلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ .وَکَانَتِ الْمُضَارَبَۃُ تَجُوْزُ لَا اِلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ وَکَانَ الْمُضَارِبُ لَہٗ أَنْ یَمْتَنِعَ بَعْدَ أَخْذِہِ الْمَالَ مُضَارَبَۃً مِنَ الْعَمَلِ بِذٰلِکَ مَتَی أَحَبَّ وَلَا یُجْبَرُ عَلٰی ذٰلِکَ وَقَدْ کَانَ لِرَبِّ الْمَالِ أَیْضًا أَنْ یَأْخُذَ الْمَالَ مِنْ یَدِہِ مَتَی أَحَبَّ شَائَ ذٰلِکَ الْمُضَارِبُ أَوْ أَبَی .وَلَیْسَتِ الْمُسَاقَاۃُ وَلَا الْمُزَارَعَۃُ کَذٰلِکَ لِأَنَّا رَأَیْنَا الْمُسَاقِیَ اِذَا أَبَی الْعَمَلَ بَعْدَ وُقُوْعِ عَقْدِ الْمُسَاقَاۃِ أُجْبِرَ عَلٰی ذٰلِکَ وَاِنْ أَرَادَ رَبُّ النَّخْلِ أَخْذَہَا مِنْہُ وَنَقْضَ الْمُسَاقَاۃِ لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ لَہٗ حَتّٰی تَنْقَضِیَ الْمُدَّۃُ الَّتِی قَدْ تَعَاقَدَا عَلَیْہَا .فَکَانَ عَقْدُ الْمُضَارَبَۃِ عَقْدًا لَا یُوْجِبُ اِلْزَامَ وَاحِدٍ مِنْ رَبِّ الْمَالِ وَلَا مِنَ الْمُضَارِبِ وَاِنَّمَا یَعْمَلُ الْمُضَارِبُ بِذٰلِکَ الْمَالِ مَا کَانَ ہُوَ وَرَبُّ الْمَالِ مُتَّفِقَیْنِ عَلٰی ذٰلِکَ .وَکَانَتِ الْمُسَاقَاۃُ یُجْبَرُ عَلَی الْوَفَائِ بِمَا یُوْجِبُہُ عَقْدُہَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ رَبِّ النَّخْلِ وَمِنَ الْمُسَاقِی .وَأَشْبَہَتِ الْمُضَارَبَۃُ الشَّرِکَۃَ فِیْمَا ذَکَرْنَا وَأَشْبَہَتِ الْمُسَاقَاۃُ الْاِجَارَۃَ فِیْمَا قَدْ وَصَفْنَا .ثُمَّ اِنَّا قَدْ رَجَعْنَا اِلَی حُکْمِ الْاِجَارَۃِ کَیْفَ ؟ لِنَعْلَمَ بِذٰلِکَ کَیْفَ حُکْمُ الْمُسَاقَاۃِ الَّتِی قَدْ أَشْبَہَتْہَا مِنْ حَیْثُ مَا وَصَفْنَا .فَرَأَیْنَا الْاِجَارَاتِ تَقَعُ عَلٰی وُجُوْہٍ مُخْتَلِفَۃٍ .فَمِنْہَا اِجَارَاتٌ عَلَی بُلُوْغِ مُسَاقَاۃٍ مَعْلُوْمَۃٍ بِأَجْرٍ مَعْلُوْمٍ فَہِیَ جَائِزَۃٌ وَہٰذَا وَجْہٌ مِنَ الْاِجَارَاتِ .وَمِنْہَا مَا یَقَعُ عَلَی عَمَلٍ مَعْلُوْمٍ مِثْلَ خِیَاطَۃِ ہٰذَا الْقَمِیْصِ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ بِأَجْرٍ مَعْلُوْمٍ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ أَیْضًا جَائِزًا .وَمِنْہَا مَا یَقَعُ عَلَی مُدَّۃٍ مَعْلُوْمَۃٍ کَالرَّجُلِ یَسْتَأْجِرُ الرَّجُلَ عَلٰی أَنْ یَخْدُمَہُ شَہْرًا بِأَجْرٍ مَعْلُوْمٍ فَذٰلِکَ جَائِزٌ أَیْضًا .فَاحْتِیجَ فِی الْاِجَارَاتِ کُلِّہَا اِلَی الْوُقُوْفِ عَلٰی مَا قَدْ وَقَعَ عَلَیْہَا مِنْہَا الْعَقْدُ فَلَمْ یَجُزْ فِیْ جَمِیْعِ ذٰلِکَ اِلَّا عَلٰی شَیْئٍ مَعْلُوْمٍ اِمَّا مُسَاقَاۃٍ مَعْلُوْمَۃٍ وَاِمَّا عَمَلٍ مَعْلُوْمٍ وَاِمَّا أَیَّامٍ مَعْلُوْمَۃٍ وَقَدْ کَانَتْ ہٰذِہِ الْأَشْیَائُ الْمَعْلُوْمَۃُ فِیْ نَفْسِہَا لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَبْدَالُہَا مَجْہُوْلَۃً بَلْ قَدْ جُعِلَ حُکْمُ أَبْدَالِہَا کَحُکْمِہَا .فَاحْتِیجَ أَنْ تَکُوْنَ مَعْلُوْمَۃً کَمَا أَنَّ الَّذِی ہُوَ بَدَلٌ مِنْ ذٰلِکَ یَحْتَاجُ أَنْ یَکُوْنَ مَعْلُوْمًا وَقَدْ کَانَتِ الْمُضَارَبَۃُ تَقَعُ عَلَی عَمَلٍ بِالْمَالِ غَیْرِ مَعْلُوْمٍ وَلَا اِلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ فَکَانَ الْعَمَلُ فِیْہَا مَجْہُوْلًا وَالْبَدَلُ مِنْ ذٰلِکَ مَجْہُوْلٌ .فَقَدْ ثَبَتَ فِیْ ہٰذِہِ الْأَشْیَائِ الَّتِی وَصَفْنَا مِنَ الْاِجَارَاتِ وَالْمُضَارَبَاتِ أَنَّ حُکْمَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہَا حُکْمُ بَدَلِہٖ .فَمَا کَانَ بَدَلُہُ مَعْلُوْمًا فَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ نَفْسِہِ اِلَّا مَعْلُوْمًا وَمَا کَانَ فِیْ نَفْسِہٖ غَیْرَ مَعْلُوْمٍ فَجَائِزٌ أَنْ یَکُوْنَ بَدَلُہُ غَیْرَ مَعْلُوْمٍ .ثُمَّ رَأَیْنَا الْمُسَاقَاۃَ وَالْمُزَارَعَۃَ وَالْمُعَامَلَۃَ لَا یَجُوْزُ وَاحِدَۃٌ مِنْہَا اِلَّا اِلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ فِیْ شَیْئٍ مَعْلُوْمٍ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ لَا یَجُوْزَ الْبَدَلُ مِنْہَا اِلَّا مَعْلُوْمًا وَأَنْ یَکُوْنَ حُکْمُہَا کَحُکْمِ الْبَدَلِ مِنْہَا کَمَا کَانَ حُکْمُ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا مِنَ الْاِجَارَاتِ وَالْمُضَارَبَاتِ حُکْمَ أَبْدَالِہَا .فَقَدْ ثَبَتَ بِالنَّظَرِ الصَّحِیْحِ أَنْ لَا تَجُوْزَ الْمُسَاقَاۃُ وَلَا الْمُزَارَعَۃُ اِلَّا بِالدَّرَاہِمِ وَالدَّنَانِیْرِ وَمَا أَشْبَہَہُمَا مِنَ الْعُرُوْضِ .وَہٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ فَاِنَّہُمَا قَدْ ذَہَبَا اِلَی جَوَازِہِمَا جَمِیْعًا وَتَرَکَا النَّظَرَ فِیْ ذٰلِکَ وَاتَّبَعَا مَا قَدْ رَوَیْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ مِنَ الْآثَارِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَعَنْ أَصْحَابِہٖ بَعْدَہٗ. وَقَلَّدَاہَا فِیْ ذٰلِکَ .
٥٨٣٩: حمیدالطویل اور یونس بن عبید دونوں نے حسن (رح) سے نقل کیا ہے کہ وہ زمین کی آمدنی میں سے ثلث یا ربع پر زمین کو کرایہ پر دینا ناپسند کرتے تھے۔ قیاس کے طریقہ سے اس باب کا حکم فریق اول کے مطابق بنتا ہے کہ مزارعت معاملہ ‘ مساقات صرف سونا چاندی اور سامان کے بدلے درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے اس صورت میں مساقات کی اجازت دی ہے۔ تو ان کے خیال میں یہ مضاربت کے مشابہہ ہے اور وہ مال ہے جس کو ایک شخص دوسرے آدمی کو دے کہ وہ نصف یا تہائی یا چوتھائی پر کام کرے اور اس کے جواز پر سب کا اتفاق ہے اور یہ بات بھی ہے کہ معلوم مال کے بدلے اجارہ کے قائم مقام ہوجائے گا اور مساقات میں بھی یہی ہے خود درخت دیئے گئے وہ مال مضاربت کی طرح ہوجائیں گے اور ان پر لگنے والی کھجوریں مال سے حاصل ہونے والے نفع کی طرح ہوں گی۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ مضاربت میں نفع اس وقت ثابت ہوتا ہے جب کہ اصلمال صحیح سالم مالک کو ملے اور مزارعت و مساقات میں ایسا نہیں کیا جاتا۔ ذرا غور فرمائیں کہ مساقات کو جو لوگ جائز کہتے ہیں ان کے ہاں درخت اگر پھل لائے پھر اسے اس سے الگ کرلیا جائے پھر درخت جل جائے اور پھل بچ جائے تو پھل درخت کے مالک اور مساقات کرنے والے کے درمیان اس انداز سے تقسیم ہوگا جو ان کے مابین سے ہے۔ درختوں کا معدوم ہوجانا اس سلسلہ میں رکاوٹ نہ بنے گا جیسا کہ اصل مال کا معدوم ہونا نفع کے لیے مانع بن جاتا ہے اور مساقات و مزارعت غیر معلوم وقت تک ہوں تو ان کا مقابلہ فاسد ہے جب تک مدت معلوم نہ ہو یہ جائز نہیں۔ جبکہ مضاربت غیر معینہ مدت کے لیے جائز ہوتی ہے اور مضارب کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ مضاربت کے طور پر مال لینے کے بعد کام کرنے سے انکار کر دے اور جب چاہے انکار کر دے اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح رب المال کو بھی حق حاصل ہے کہ جب چاہے اس سے مال واپس لے خواہ مضارب اس بات کو چاہے یا انکار کرے۔ جبکہ مزارعت اور مساقات کا یہ حکم نہیں ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ شخص جس کے ساتھ مضاربت کا معاہدہ ہوا ہے معاہدہ مساقات کے بعد کام کرنے سے انکار کر دے تو اس کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا اور اگر درختوں کا مالک اس سے واپس لینے اور مساقات کو توڑنے کا ارادہ کرے تو اسے اس کا حق نہیں ہے جب تک کہ مدت مقررہ نہ گزر جائے جس پر ان کے درمیان معاہدہ ہوا ہے تو عقد مضاربت وہ عقد ہے جو رب المال اور مضارب میں سے کسی ایک پر اسے لازم نہیں کرتا مضارب اس مال کے ساتھ اس وقت تک عمل کرتا ہے جب تک وہ اور رب المال اس پر متفق ہوں جب تک مساقات میں عقد کے مطابق عمل کرنے کے لیے درختوں کے مالک اور جس کے ساتھ معاہدہ مساقات ہوا دونوں کو مجبور کیا جاتا ہے پس ہماری اس بحث کے مطابق مضاربت تو شراکت کے مشابہہ ہے اور مساقات اجارہ کے مشابہہ ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے۔ اب ہم اجارہ کے حکم کی طرف لوٹتے ہیں کہ وہ کس طرح ہے تاکہ ہم اس سے مساقات کے حکم کی وہ کیفیت معلوم کرسکیں جس میں وہ اس کے مشابہہ ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ ہم نے غور کیا کہ اجارہ کی چند صورتیں ہیں کہ درختوں کی مقررہ مقدار کو مقررہ اجرت پر پانی دیتا ہے یہ جائز ہے۔ یہ بھی اجارہ کی ایک صورت ہے کہ ان میں سے ایک معلوم کام پر اجرت ہے مثلاً اس قمیص کی سلائی کا کام مقررہ اجرت پر ہو یہ جائز ہے۔ مقررہ مدت پر اجارہ ہو جس طرح کوئی آدمی دوسرے کو ایک ماہ مقررہ خدمت کے لیے مقررہ اجرت پر حاصل کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے تو اجاروں کے سلسلہ میں یہ بات معلوم کرنے کی ضرورت ہوئی کہ ان میں سے کس اجارے پر عقد واقع ہوا تو ان تمام صورتوں میں صرف وہ اجارہ جائز ہوگا جو معلوم چیز پر ہو۔ یا تو مساقات معلوم ہو یا عمل معلوم ہو یا دن معلوم ہوں اور یہ تمام باتیں فی ذاتہ معلوم ہیں تو ان کے بدل کا مجہول ہونا جائز نہیں۔ بلکہ ان کے بدل کا حکم ان کے حکم کی طرح ہوگا پس ضروری ہے کہ بدل بھی معلوم ہو جیسا کہ وہ چیزیں معین اور معلوم ہیں جن کا یہ بدل بن رہی ہیں اور مضاربت غیر معلوم مال کے ساتھ غیر معین وقت تک کام کرنے پر منعقد ہوجاتی ہے پس اس میں کام اور بدل دونوں مجہول ہیں تو جو امور مثلاً اجارات اور مضاربت وغیرہ ہم نے ذکر کئے ہیں ان میں سے ہر ایک کا حکم وہی ہے جو اس کے بدل کا ہے تو جس کا بدل معلوم ہو تو وہ بھی ذاتی طورپر معلوم ہی ہونا چاہیے اور وہ جو بذاتہ معلوم نہ ہو بلکہ مجہول ہو تو اس کا بدل بھی غیر معلوم ہوسکتا ہے۔ پھر ہم نے مساقات ‘ مزارعت اور معاملہ پر غور کیا کہ کوئی بھی ان میں سے جائز نہیں ہوتا جب تک کہ وقت معلوم نہ ہو اور اس کا بدل بھی معلوم نہ ہو۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا بدل بھی معلوم ہو اور اس کا حکم وہی ہو جو اس کے مبدل منہ کا ہے جیسا کہ ان مذکورہ امور یعنی اجارات اور مضاربتوں کا حکم ان کے بدل کے مطابق ہے۔ تو صحیح قیاس سے ثابت ہوا کہ مضاربت اور مساقات دراہم اور دینار یا اس کے مشابہہ سامان کے ساتھ درست ہے اس بات میں امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) ان دونوں کے جواز کی طرف گئے ہیں انھوں نے اس سلسلے میں قیاس کو ترک کیا اور اس سلسلے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام سے مروی روایات کی پیروی کی ہے اور ان کو اپنایا ہے۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) نے مزارعت و مساقات کی حرمت کے قول کو رد کیا اور اس کا جواز اور شروط کو ثابت کیا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کے عمل سے اس کا جواب اسی طرح ظاہر ہو رہا ہے جیسا کہ روایات سے اور اس خصوصی صورت کی وضاحت کردی جو جاہلیت میں مروج تھی تابعین کا اختلاف کراہت و عدم کراہت میں نقل کیا اس سے یہ میلان معلوم ہوتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کا رجحان امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی طرف ہے۔ روایاتی دلائل کے لحاظ سے صاحبین (رح) کا مسلک راجح ہے۔ واللہ اعلم۔

5841

۵۸۴۰: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ زَرَعَ زَرْعًا فِیْ أَرْضِ قَوْمٍ بِغَیْرِ اِذْنِہِمْ فَلَیْسَ لَہٗ مِنْ الزَّرْعِ شَیْئٌ وَیُرَدُّ عَلَیْہِ نَفَقَتُہُ فِیْ ذٰلِکَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنْ زَرَعَ فِیْ أَرْضِ قَوْمٍ زَرْعًا بِغَیْرِ أَمْرِہِمْ کَانَ ذٰلِکَ الزَّرْعُ لِأَرْبَابِ الْأَرْضِ وَغَرِمُوْا لِلزَّارِعِ مَا أَنْفَقَ فِیْہِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : أَصْحَابُ الْأَرْضِ بِالْخِیَارِ اِنْ شَائُوْا خَلَّوْا بَیْنَ الزَّارِعِ وَبَیْنَ أَخْذِ زَرْعِہِ ذٰلِکَ وَضَمِنُوْھُ بِنُقْصَانِ أَرْضِہِمْ اِنْ کَانَ زَرْعُہُ ذٰلِکَ قَدْ نَقَصَ الْأَرْضَ شَیْئًا وَاِنْ شَائُوْا مَنَعُوْا الزَّارِعَ مِنْ ذٰلِکَ وَغَرِمُوْا لَہٗ قِیْمَۃَ زَرْعِہِ ذٰلِکَ مَقْلُوْعًا .وَقَدْ کَانَ لَہُمْ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی غَیْرِ مَا ذَکَرُوْھُ فِیْ ذٰلِکَ .
٥٨٤٠: عطاء نے حضرت رافع بن خدیج (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی قوم کی اجازت کے بغیر ان کی زمین میں کاشت کی اس کے لیے اس کھیتی میں سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ البتہ جو کچھ اس نے خرچ کیا وہ اس کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : جس آدمی نے کسی کی زمین کو اس کی اجازت کے بغیر کاشت کرلیا تو وہ کھیتی زمین کے مالک کی ہوگی اور کاشت کار نے جو خرچ کیا مالک اس کا ضامن ہوگا انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ زمین والوں کو اختیار ہے کہ کاشت کار کو وہ کھیتی چھوڑ دیں اور زمین کا نقصان اس سے بھریں اگر اس کی کھیتی سے زمین کو نقصان پہنچا ہو اور اگر وہ پسند کریں تو کاشت کار کو اس کھیتی سے روک دیں اور کاٹی ہوئی فصل کے مطابق تاوان بھر دیں انھوں نے بھی اس حدیث کو دوسری اساند سے نقل کر کے دلیل میں پیش کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٣٢‘ ترمذی فی الاحکام باب ٢٩‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ١٣‘ مسند احمد ٣؍٤٦٥‘ ٤؍١٤١۔
جو شخص کسی کی زمین کو بلااجازت کاشت کرتا ہے امام احمد فرماتے ہیں اس کو اپنے بیج کے علاوہ کچھ نہ ملے گا دوسرا فریق جس کو عام فقہاء امصار نے اپنایا ہے وہ یہ ہے کہ کھیتی بیج والے کی ہوگی البتہ وہ کھیت کے نقصان کا ضمان دے گا اور وہ اس سے کھیت کا کرایہ وصول کریں گے۔ یہ غصب کی طرح ہوگا۔
تخریج : کذا فی البذل ج ٤‘ ٢٦٠‘ والتعلیق ج ٣‘ ٣٦٥۔
روایت رافع (رض) دوسری سند سے :

5842

۵۸۴۱: وَہُوَ کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ زَرَعَ فِیْ أَرْضِ قَوْمٍ بِغَیْرِ اِذْنِہِمْ فَلَہٗ نَفَقَتُہُ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ الزَّرْعِ شَیْئٌ .وَقَدْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَیْضًا یَحْیَی بْنُ آدَمَ عَنْ شَرِیْکٍ وَقَیْسٍ جَمِیْعًا عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ وَذَکَرَہٗ عَنْہُمَا فِیْ کِتَابِ الْخَرَاجِ کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ أَیْضًا لَا کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ .فَمَعْنٰی ْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَنَا غَیْرُ مَعْنَی مَا رَوَی الْحِمَّانِیُّ لِأَنَّ مَا قَدْ رَوَی الْحِمَّانِیُّ ہُوَ قَوْلُہٗ فَلَیْسَ لَہٗ مِنْ الزَّرْعِ شَیْئٌ وَیُرَدُّ عَلَیْہِ نَفَقَتُہُ فِیْ ذٰلِکَ .فَوَجْہُ ذٰلِکَ أَنَّ غَیْرَہُ یُعْطِیْہِ النَّفَقَۃَ الَّتِی قَدْ أَنْفَقَہَا فِیْ ذٰلِکَ فَیَکُوْنُ لَہٗ الزَّرْعُ لَا بِمَا یُعْطَی مِنْ ذٰلِکَ .وَہٰذَا مُحَالٌ عِنْدَنَا لِأَنَّ النَّفَقَۃَ الَّتِی قَدْ أُخْرِجَتْ فِیْ ذٰلِکَ الزَّرْعِ لَیْسَتْ بِقَائِمَۃٍ وَلَا لَہَا بَدَلٌ قَائِمٌ وَذٰلِکَ أَنَّہَا اِنَّمَا دُفِعَتْ فِیْ أَجْرِ عُمَّالٍ وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ فَعَلَہُ الْمُزَارِعُ لَہٗ لِنَفْسِہِ فَاسْتَحَالَ أَنْ یَجِبَ لَہٗ ذٰلِکَ عَلٰی رَبِّ الْأَرْضِ اِلَّا بِعِوَضٍ یَتَعَوَّضُہُ مِنْہُ رَبُّ الْأَرْضِ فِیْ ذٰلِکَ .وَلٰـکِنْ أَصْلُ الْحَدِیْثِ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ اِنَّمَا ہُوَ عَلٰی مَا قَدْ رَوَاہُ أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ لَا عَلٰی مَا قَدْ رَوَاہُ الْحِمَّانِیُّ فِیْ ذٰلِکَ .وَوَجْہُ ذٰلِکَ عِنْدَنَا عَلٰی أَنَّ الزَّارِعَ لَا شَیْئَ لَہٗ فِی الزَّرْعِ یَأْخُذُہُ لِنَفْسِہِ فَیَمْلِکُہُ کَمَا یَمْلِکُ الزَّرْعَ الَّذِیْ یَزْرَعُہٗ فِیْ أَرْضِ نَفْسِہِ أَوْ فِیْ أَرْضِ غَیْرِہِ مِمَّنْ قَدْ أَبَاحَ لَہٗ الزَّرْعَ فِیْہَا وَلٰـکِنَّہٗ یَأْخُذُ نَفَقَتَہُ وَبَذْرَہُ وَیَتَصَدَّقُ بِمَا بَقِیَ ہٰکَذَا وَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَقَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ أَیْضًا .وَمِنْ الدَّلِیْلِ عَلٰی صِحَّۃِ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٨٤١: احمد بن ابی عمران نے اپنی اسناد سے عطاء سے انھوں نے رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی کی زمین میں بلااجازت کھیتی کی تو اس کو اس کا خرچہ واپس ملے گا کھیتی میں اس کا کچھ بھی حق نہیں۔ اسی روایت کو یحییٰ بن آدم نے شریک و قیس سے اور دونوں نے ابو اسحاق سے نقل کیا اور یحییٰ نے کتاب الخراج میں اس کو اسی طرح نقل کیا جس طرح ابن ابی عمران (رح) نے نہ کہ فہد بن سلیمان نے۔ ہمارے ہاں اس کا وہ مفہوم نہیں ہے جو کہ حمانی نے روایت نمبر ٥٨٤٠ میں ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی میں سے اس کو کچھ نہ ملے گا اور اس کا خرچہ اسے واپس کردیا جائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ مالک اس کو اس کا خرچہ واپس کرے گا جو اس نے خرچ کیا اور کھیتی کا وہ مالک بن جائے گا اس کے بدلے نہیں جو اس نے (غاصب) کو واپس کیا ہے۔ مگر یہ مفہوم ہمارے ہاں محال ہے کیونکہ نمبر ١ وہ خرچہ جو اس کھیتی پر کیا گیا وہ تو موجود نہیں اور نہ اس کا کوئی بدل موجود ہے اور یہ اس لیے کہ خرچہ تو کام کرنے والوں اور اس کے لیے دے دیا گیا جو کاشتکار نے اس پر خرچ کیا پس یہ ناممکن ہے کہ اس کے لیے مالک زمین پر کچھ لازم ہو۔ مگر اس چیز کے بدلے جو مالک زمین نے اس کے بدلے میں لی ہے۔ ہمارے ہاں اصل حدیث وہ ہے جو ابوبکر بن ابی شیبہ نے روایت کی ہے وہ نہیں جو حمانی نے روایت کی ہے۔ روایت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کاشتکار کو کھیتی میں سے کچھ نہ ملے گا جس کو وہ اپنی ذات کے لیے لے سکے اور اس کا اسی طرح مالک ہو جس طرح اپنی زمین میں کاشت کی ہوئی کھیتی کا بنتا ہے یا دوسرے کی اس زمین میں کاشت کی ہوئی کھیتی کا مالک بنتا ہے جس نے اس کے لیے کاشت کو مباح کیا ہو۔ لیکن یہاں صرف وہ اپنا بیج اور خرچہ وصول کرے گا اور بقیہ کو صدقہ کر دے گا ہمارے نزدیک اس کا یہی مفہوم ہے۔ واللہ اعلم۔ اور اس بات کو یحییٰ بن آدم نے حفص بن غیاث سے بھی نقل کیا ہے اور اس کی درستی پر یہ روایت بھی دلیل ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٤١‘ ترمذی فی الاحکام باب ٢٩۔

5843

۵۸۴۲: مَا قَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ اِنَّ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَیِّتَۃً فَہِیَ لَہٗ وَلَیْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ .قَالَ عُرْوَۃُ : فَلَقَدْ حَدَّثَنِیْ ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی قَدْ حَدَّثَنِیْ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ رَأٰی نَخْلًا یُقْطَعُ أُصُوْلُہَا بِالْفُرْسِ .
٥٨٤٢: یحییٰ بن عروہ بن زبیر نے ایک صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی بنجر زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے اور ظالم سردار کا اس میں کوئی حق نہیں۔ عروہ کہتے ہیں کہ مجھے اس آدمی نے یہ روایت بیان کی جس نے روایت بیان کی کہ اس نے ایسی کھجور کو دیکھا جس کی جڑوں کو کلہاڑوں سے کاٹا جا رہا تھا (یعنی غیر کی زمین کاشت کردینے کی وجہ سے)
تخریج : بخاری فی الحرث باب ١٥‘ ابو داؤد فی الامارہ باب ٣٧‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٨‘ مالک فی الاقضیہ ٢٦‘ مسند احمد ٥؍٣٢٧۔

5844

۵۸۴۳: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ بَیَاضَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ ذٰلِکَ أَیْضًا .أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِقَطْعِ النَّخْلِ الْمَغْرُوْسِ فِیْ غَیْرِ حَق بَعْدَمَا قَدْ نَبَتَ فِی الْأَرْضِ وَلَمْ یَجْعَلْہُ لِأَرْبَابِ الْأَرْضِ فَیُوْجِبُ عَلَیْہِمْ غُرْمَ مَا أَنْفَقَ فِیْہِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الزَّرْعَ الْمَزْرُوْعَ فِی الْأَرْضِ أَحْرَی أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ وَأَنْ یُقْلَعَ ذٰلِکَ فَیُدْفَعَ اِلٰی صَاحِبِ الزَّرْعِ کَالنَّخْلِ الَّتِی قَدْ ذَکَرْنَاہَا اِلَّا أَنْ یَشَائَ صَاحِبُ الْأَرْضِ أَنْ یَمْنَعَ مِنْ ذٰلِکَ وَیَغْرَمَ قِیْمَۃَ الزَّرْعِ وَالنَّخْلِ مَنْزُوْعَیْنِ مَقْلُوْعَیْنِ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ لَہٗ۔وَقَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ مِنْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٨٤٣: یحییٰ بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے بنو بیاضہ کے ایک آدمی سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ناحق لگے ہوئے درخت کو اکھاڑنے کا حکم فرمایا۔ جبکہ وہ زمین میں اگ چکا تھا اور اس درخت کو مالک زمین کا قرار نہیں دیا کہ ان پر خرچہ کی چٹی ڈال دی جاتی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بوئی ہوئی کھیتی اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ اس کو کاٹ ڈالا جائے اور کھیتی لگانے والے کے حوالے کردی جائے جیسا کہ وہ کھجور جس کا ہم نے تذکرہ کیا البتہ اگر زمین والا اس سے روکے اور کھیتی اور کھجور کی چٹی ادا کرے جو ان کو کاٹے اور اکھاڑے جانے کی حالت میں ہوتی ہے تو یہ چیزیں مالک زمین کی ہوجائیں گی۔ یہ روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

5845

۵۸۴۴: مَا قَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ وَاصِلِ بْنِ أَبِیْ جَمِیْلٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : اشْتَرَکَ أَرْبَعَۃُ نَفَرٍ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُہُمْ عَلَیَّ الْبَذْرُ وَقَالَ الْآخَرُ عَلَیَّ الْعَمَلُ وَقَالَ الْآخَرُ عَلَیَّ الْأَرْضُ وَقَالَ الْآخَرُ عَلَیَّ الْفَدَّانُ فَزَرَعُوْا ثُمَّ حَصَدُوْا .ثُمَّ أَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ الزَّرْعَ لِصَاحِبِ الْبَذْرِ وَجَعَلَ لِصَاحِبِ الْعَمَلِ أَجْرًا وَجَعَلَ لِصَاحِبِ الْفَدَّانِ دِرْہَمًا فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَأَلْغَی الْأَرْضَ فِیْ ذٰلِکَ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَفْسَدَ ہٰذِہِ الْمُزَارَعَۃَ لَمْ یَجْعَلْ الزَّرْعَ لِصَاحِبِ الْأَرْضِ بَلْ قَدْ جَعَلَہٗ لِصَاحِبِ الْبَذْرِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ حَکَمَ بِہٖ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَابِعُوْھُمْ مِنْ بَعْدِہِمْ فِیْمَنْ بَنَی فِیْ أَرْضِ قَوْمٍ بِغَیْرِ أَمْرِہِمْ بِنَائً ۔
٥٨٤٤: مجاہد (رح) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں چار آدمیوں نے شراکت کی ان میں سے ایک نے بیج کی بات کی جبکہ دوسرے نے کام کی اور تیسرے نے زمین اور چوتھے نے بیلوں کی جوڑی مہیا کرنے کی۔ انھوں نے کاشتکاری کی پھر فصل کاٹی پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے کھیتی بیج والے کو دے دی اور مشقت کرنے والے کو معلوم اجرت دے دی اور بیلوں کی جوڑی والے کو ہر روز کے بدلے ایک درہم دیا اور زمین (والے) کو لغو قرار دیا۔ یعنی کچھ نہ دیا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزارعت کو فاسد قرار دیا اور زمین والے کو کھیتی میں سے کچھ بھی نہ دیا بلکہ اسے بھیجنے والے کے لیے قرار دیا۔ اس کے متعلق صحابہ کرام اور تابعین (رح) کے فیصلے بھی دلالت کرتے ہیں جو انھوں نے ان لوگوں کے متعلق فرمائے جنہوں نے دوسروں کی اجازت کے بغیر نا کی زمین پر تعمیرات کی تھیں۔
حضرت ابن مسعود و حضرت عمر (رض) کا فیصلہ :

5846

۵۸۴۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ عَامِرَ الْأَحْوَلَ أَخْبَرَہُمْ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : فِیْ رَجُلٍ بَنَی فِیْ دَارٍ بِنَائً ثُمَّ جَائَ أَہْلُہَا فَاسْتَحَقُّوْہَا قَالَ : اِنْ کَانَ بَنَی بِأَمْرِہِمْ فَلَہٗ نَفَقَتُہُ وَاِنْ کَانَ بَنَی بِغَیْرِ اِذْنِہِمْ فَلَہٗ نَقْضُہُ .
٥٨٤٥: عمرو بن شعیب نے روایت کی کہ حضرت عمر (رض) نے اس شخص کے متعلق فیصلہ فرمایا جس نے دوسروں کی زمین میں مکان تعمیر کرلیا تھا زمین کے مالکوں نے حق طلب کیا تو آپ نے فرمایا اگر اس نے ان کی اجازت سے تعمیر کی ہے تو اس کے لیے خرچہ ہوگا اور اگر ان کی اجازت کے بغیر تعمیر ہے تو اس مکان کو توڑنا ہوگا۔

5847

۵۸۴۶: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ۔
٥٨٤٦: قاسم بن عبدالرحمن نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت کی۔

5848

۵۸۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ شُرَیْحٍ مِثْلَ ذٰلِکَ سَوَائٌ .
٥٨٤٧: قاسم بن عبدالرحمن نے حضرت شریح (رح) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5849

۵۸۴۸: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : وَقَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ أَنَّہٗ قَدْ أَخْبَرَہُمْ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَدْ کَتَبَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ فِیْمَنْ بَنَی فِیْ دَارِ قَوْمٍ وَفِیْمَنْ غَرَسَ فِیْ أَرْضِ قَوْمٍ بِمِثْلِ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .أَفَلَا تَرَی أَنَّہُمْ جَمِیْعًا قَدْ جَعَلُوا النَّقْضَ لِصَاحِبِ الْبِنَائِ وَلَمْ یَجْعَلُوْھُ لِصَاحِبِ الْأَرْضِ فَالزَّرْعُ فِی النَّظَرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَالَّذِی قَدْ حَمَلَنَا عَلَیْہِ مَعْنَیْ حَدِیْثِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ الَّذِی قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَوْلَی مِمَّا قَدْ حَمَلَہٗ عَلَیْہِ مَنْ قَدْ خَالَفَنَا لِیَتَّفِقَ ذٰلِکَ وَمَا رَوَاہُ الرَّجُلُ الْبَیَاضِیُّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا وَلَا یَتَضَادَّانِ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ فِی بَابِ الْمُزَارَعَۃِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَرَّ بِرَجُلٍ یَزْرَعُ لَہٗ فَسَأَلَہٗ عَنْہُ فَقَالَ ہُوَ زَرْعِی وَالْأَرْضُ لِآلِ فُلَانٍ وَالْبَذْرُ مِنْ قِبَلِیْ بِنِصْفِ مَا یَخْرُجُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَیْتُ خُذْ نَفَقَتَک .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلَی مَعْنَی خُذْ نَفَقَتَک مِنْ رَبِّ الْأَرْضِ لِأَنَّ رَبَّ الْأَرْضِ لَمْ یَأْمُرْہُ بِالْاِنْفَاقِ لِنَفْسِہٖ۔ وَلٰـکِنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ خُذْ نَفَقَتَک مِمَّا قَدْ خَرَجَ مِنْ الزَّرْعِ مِنْ ہٰذَا الزَّرْعِ وَتَصَدَّقْ بِمَا بَقِیَ .فَمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَافِعٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَنْ زَرَعَ فِیْ أَرْضِ غَیْرِہِ وَقَدْ جَعَلَ لَہٗ نَفَقَتَہُ کَذٰلِکَ أَیْضًا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٨٤٨: حمیدالطویل نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے نقل کیا کہ انھوں نے اسی طرح کا فیصلہ اس آدمی کے متعلق لکھا جس نے دوسروں کی زمین پر مکان تعمیر کرلیا تھا یا دوسروں کی زمین میں درخت لگایا تھا۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ ان حضرات نے مکان بنانے والے کو اس کے توڑنے کا حکم دیا اور اسے مالک زمین کے لیے بھی قرار نہیں دیا تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ کھیتی کا بھی یہی حکم ہو۔ حضرت رافع کی روایت کی جو تاویل ہم نے کی ہے وہ فریق اول کی تاویل سے بہتر ہے تاکہ یہ حدیث اور بیاضی مرد والی روایات کا تضاد نہ رہے۔ ہم نے باب المزارعت میں روایت رافع (رض) ذکر کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے لیے کاشت کررہا تھا آپ نے پوچھا تو اس نے کہا یہ میری کھیتی ہے زمین فلاں کی ہے اور بیج بھی میرا ہے جو فصل نکلے گی وہ میرے اور مالک کے مابین نصف ہوگی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے سودی کاروبار کیا۔ اپنا خرچہ وصول کرو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنا نفقہ زمین کے مالک سے وصول کرو کیونکہ زمین کے مالک نے اس کو حکم نہ دیا تھا کہ وہ اپنے لیے خرچ کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنا خرچہ اس کھیتی کی پیداوار سے وصول کرو اور باقی صدقہ کر دو ۔ تو حضرت رافع (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کا بھی یہی مطلب ہے من زرع فی ارض غیرہ الحدیث اس میں آپ نے اس کے لیے نفقہ کا جو حکم دیا اس کا بھی یہی مطلب ہے اپنا خرچہ لے کر بقیہ صدقہ کر دو ۔ اس باب میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔