HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

17. ہبہ کا بیان

الطحاوي

5682

۵۶۸۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ وَہِشَامٌ عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْعَائِدُ فِیْ ہِبَتِہٖ، کَالْعَائِدِ فِیْ قَیْئِہٖ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْوَاہِبَ لَیْسَ لَہٗ أَنْ یَرْجِعَ فِیْمَا وَہَبَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَالُوْا : لَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَعَلَ الرُّجُوْعَ فِی الْہِبَۃِ کَالرُّجُوْعِ فِی الْقَیْئِ وَکَانَ رُجُوْعُ الرَّجُلِ فِیْ قَیْئِہِ حَرَامًا عَلَیْہِ کَانَ کَذٰلِکَ رُجُوْعُہٗ فِیْ ہِبَتِہٖ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لِلْوَاہِبِ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہٖ اِذَا کَانَتْ قَائِمَۃً عَلٰی حَالِہَا لَمْ تُسْتَہْلَکْ وَلَمْ یَزِدْ فِیْ بَدَنِہَا بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ الْمَوْہُوْبُ لَہُ لَیْسَ بِذِیْ رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنَ الْوَاہِبِ وَبَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ لَمْ یُثِبْہُ أَیْ : لَمْ یُعْطِہِ مِنْہَا ثَوَابًا .فَاِنْ کَانَ أَثَابَہٗ مِنْہَا ثَوَابًا وَقَبِلَ ذٰلِکَ الثَّوَابَ مِنْہُ أَوْ کَانَ الْمَوْہُوْبُ لَہُ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنَ الْوَاہِبِ فَلَیْسَ لِلْوَاہِبِ أَنْ یَرْجِعَ فِیْہَا .فَاِنْ لَمْ یَکُنِ الْوَاہِبُ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ لِلْمَوْہُوْبِ لَہٗ وَلٰـکِنَّہَا امْرَأَۃٌ وَہَبَتْ لِزَوْجِہَا أَوْ زَوْجٌ وَہَبَ لِامْرَأَتِہِ فَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ کَذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ وَلَیْسَ لِوَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنْ یَرْجِعَ فِیْمَا وَہَبَ لِصَاحِبِہٖ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْعَائِدَ فِیْ ہِبَتِہٖ وَلَمْ یُبَیِّنْ لَنَا مَنِ الْعَائِدُ فِیْ قَیْئِہٖ۔ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ الرَّجُلَ الْعَائِدَ فِیْ قَیْئِہِ فَیَکُوْنَ قَدْ جَعَلَ الْعَائِدَ فِیْ ہِبَتِہٖ کَالْعَائِدِ فِیْمَا ہُوَ حَرَامٌ عَلَیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ الْکَلْبَ الْعَائِدَ فِیْ قَیْئِہِ وَالْکَلْبُ غَیْرُ مُتَعَبِّدٍ بِتَحْرِیْمٍ وَلَا تَحْلِیْلٍ فَیَکُوْنُ الْعَائِدُ فِیْ قَیْئِہِ عَائِدًا فِیْ قَذَرٍ کَالْقَذَرِ الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْہِ الْکَلْبُ فَلَا یَثْبُتُ بِذٰلِکَ مَنْعُ الْوَاہِبِ مِنَ الرُّجُوْعِ فِی الْہِبَۃِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ فِی الْآثَارِ مَا یَدُلُّنَا عَلٰی مُرَادِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ مَا ہُوَ ؟
٥٦٨١: حضرت سعید ابن مسیب (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے والا قے کر کے لوٹانے والے کی طرح ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے ہبہ والا دی ہوئی چیز کو واپس نہیں کرسکتا انھوں نے اس سلسلہ میں مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبہ سے رجوع کرنے والے کو قے کر کے واپس لوٹانے والے کی طرح قرار دیا اور قے کر کے واپس کرنا حرام ہے تو ہبہ میں رجوع کا بھی یہی حکم ہے۔ ہبہ کرنے والا اپنے ہبہ کو واپس لے سکتا ہے جب تک کہ وہ چیز اپنی اسی حالت پر قائم ہو اور ہلاک نہ ہوئی ہو اور نہ اس کے بدن میں کوئی اضافہ ہوا ہو۔ جس کو ہبہ کیا گیا وہ اس کا رشتہ دار نہ ہو اس کی طرف سے اسے کوئی بدلہ بھی نہ ملا ہو۔ اگر اس نے اس کے بدلے کچھ دے دیا اور اس نے قبول بھی کرلیا یا ہبہ کیا ہوا شخص اس کا قریبی رشتہ دار ہو تو پھر ہبہ کرنے والا واپس نہیں کرسکتا اگر ہبہ کیا ہو اشخص اس کا رشتہ دار نہ ہو بلکہ اس کی بیوی نے اپنے خاوند کو یا خاوند نے اپنی بیوی کو ہبہ کیا ہو تو یہ دونوں اس معاملے میں قریبی رشتہ دار کی طرح ہیں ان میں سے ایک بھی دوسرے کو دی ہوئی چیز واپس نہیں کرسکتا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبہ کر کے واپس کرنے والے کو قے کر کے واپس لوٹانے والے سے تشبیہ دی۔ البتہ قے کر کے اسے واپس لوٹانے والے کے بارے میں یہ نہیں بتلایا کہ اس سے کون مراد ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہو جو قے کر کے اسے واپس لوٹاتا ہے تو آپ نے ہبہ کر کے لوٹانے والے کو قے کر کے اسے چاٹنے والے کی طرح قرار دیا اور یہ حرام ہے اس سے پہلے قول والوں کی بات ثابت ہوجائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ کتا ہو جو قے کر کے چاٹتا ہو اور کتا حرام و حلال کا مکلف نہیں فلہذا ہبہ کو لوٹانے والا گویا گندگی کو لوٹانے والا ہے جو اس گندگی کی طرح ہے جس کو کتا لوٹاتا ہے۔ اس صورت میں اس سے یہ بات ثابت نہ ہوگی کہ واہب کو ہبہ سے رجوع کرنا منع ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا روایات میں کوئی ایسی روایت موجود ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس مراد پر دلالت کرنے والی ہے جو پہلی روایات سے ظاہر ہو رہی ہے۔
تخریج : بخاری فی الہبۃ باب ١٤؍٣٠‘ الزکوۃ باب ٥٩‘ والجہاد باب ١٣٧‘ مسلم فی الہبات ١‘ ٧‘ ٨‘ ٢‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٨١‘ ترمذی فی البیوع باب ٦٢‘ نسائی فی الزکوۃ باب ١٠‘ والہبہ باب ٢؍٣‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٥‘ مالک فی الزکوۃ ٤٩‘ مسند احمد ١‘ ٢١٧؍٢٥‘ ٢؍١٨٢۔

5683

۵۶۸۲: فَاِذَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوْئِ الرَّاجِعُ فِیْ ہِبَتِہٖ کَالْکَلْبِ یَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہٖ .
٥٦٨٢: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ہمارے سامنے بری حالت کی مثال بیان فرمائی کہ ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو چاٹتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ٣٠‘ والخیل باب ١٤‘ ترمذی فی البیوع باب ٦١۔

5684

۵۶۸۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوٗسٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَائِدُ فِیْ ہِبَتِہِ کَالْکَلْبِ یَقِیئُ ثُمَّ یَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہِ .فَدَلَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَرَادَ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ تَنْزِیْہَ أُمَّتِہِ عَنْ أَمْثَالِ الْکِلَابِ لَا أَنَّہٗ أَبْطَلَ أَنْ یَکُوْنَ لَہُمْ الرُّجُوْعُ فِیْ ہِبَاتِہِمْ .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْکَلَامُ أَیْضًا الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٥٦٨٣: عبداللہ بن طاوس نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ ہبہ کو واپس کرنے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اپنی قے کرودوبارہ لوٹا لیتا ہے۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پہلی روایت میں جو ہم نے ذکر کی ہے آپ نے اپنی امت کو کتوں کے اوصاف اپنانے سے بچانے کا ارادہ فرمایا ہے یہ بات نہیں کہ ہبہ کی ہوئی اشیاء کو واپس کرنے کو آپ نے باطل قرار دیا۔
تخریج : بخاری باب الخیل باب ١٤‘ مسلم فی الہباب ٨‘ مسند احمد ١؍٣٢٧‘ ٢؍١٢٨۔

5685

۵۶۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ ثَنَا عَوْفٌ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ح
٥٦٨٤: عوف نے حسن سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔

5686

۵۶۸۵: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا عَوْفٌ عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُ الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ عَطَائِہِ کَمَثَلِ الْکَلْبِ أَکَلَ حَتّٰی اِذَا شَبِعَ قَائَ ثُمَّ عَادَ فِیْ قَیْئِہٖ فَأَکَلَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ ہٰذَا الْکَلَامِ فِیْ مَعْنًی غَیْرِ ہٰذَا الْمَعْنٰی۔
٥٦٨٥: خلاس بن عمرو کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے عطیہ کو لوٹاتا ہے وہ اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہتا ہے جب سیر ہوجاتا ہے تو قے کردیتا ہے اور پھر اسے چاٹ کر واپس کرلیتا ہے۔

5687

۵۶۸۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِفَرَسٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَوَجَدَہٗ یُبَاعُ بَعْدَ ذٰلِکَ فَأَرَادَ أَنْ یَشْتَرِیَہٗ فَأَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْمَرَہٗ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَعُدْ فِیْ صَدَقَتِک فَلِذٰلِکَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا یَرٰی أَنْ یَبْتَاعَ مَالًا جَعَلَہٗ صَدَقَۃً .
٥٦٨٦: ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کیا اس کے بعد اسے فروخت ہوتا ہوا پایا تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا اپنے صدقہ کو واپس مت لو۔ اسی بات کے پیش نظر ابن عمر (رض) اس بات کو جائز نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی جس مال کو صدقہ کرے اسی کو خریدے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٩‘ نسائی فی الزکوۃ باب ١٠٠‘ ابن ماجہ فی الصدقات باب ٢۔

5688

۵۶۸۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُوْلُ حَمَلْتُ عَلٰی فَرَسٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَأَضَاعَہُ الَّذِیْ کَانَ عِنْدَہُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَہُ مِنْہُ وَظَنَنْتُ أَنَّہٗ بَائِعُہٗ بِرُخْصٍ ہُوَ ضِدُّ الْغَلَائِ .فَسَأَلْتُ عَنْ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تَبْتَعْہُ وَاِنْ أَعْطَاکَہٗ بِدِرْہَمٍ وَاحِدٍ وَلَا تَعُدْ فِیْ صَدَقَتِکَ فَاِنَّ الْعَائِدَ فِیْ صَدَقَتِہٖ کَالْکَلْبِ یَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہٖ .
٥٦٨٧: زید بن اسلم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے ایک گھوڑا ایک شخص کو جہاد کے لیے دیا اس نے اس کو ضائع کردیا میں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا اور سوچا کہ وہ اسے کم قیمت میں فروخت کر دے گا۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم کے بدلے دے اور اپنا صدقہ واپس نہ کرو کیونکہ صدقہ واپس کرنے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹ لیتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٩‘ والجہاد باب ١٣٧‘ مسلم فی الہبات ١‘ نسائی فی الزکوۃ باب ١٠٠‘ مالک فی الزکوۃ ٤٩‘ مسند احمد ١؍٤٠۔

5689

۵۶۸۸: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عُمَرَ أَنَّہٗ أَبْصَرَ فَرَسًا تُبَاعُ فِی السُّوْقِ وَکَانَ تَصَدَّقَ بِہٖ فَسَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْتَرِیْہٖ؟ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَشْتَرِہِ وَلَا شَیْئًا مِنْ نِتَاجِہِ أَیْ مِمَّا یُنْتِجُہُ مِنَ الْوَلَدِ .فَمَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ یَبْتَاعَ مَا کَانَ تَصَدَّقَ بِہٖ أَوْ شَیْئًا مِنْ نِتَاجِہِ وَجَعَلَہُ اِنْ فَعَلَ ذٰلِکَ کَالْکَلْبِ یَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہٖ۔ فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ بِمُوْجِبِ حُرْمَۃِ ابْتِیَاعِ الصَّدَقَۃِ عَلَی الْمُتَصَدِّقِ بِہَا وَلٰـکِنْ تَرْکُ ذٰلِکَ أَفْضَلُ لَہٗ۔فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا قَبْلَ ہَذَا لِمَا ذُکِرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّجُوْعِ فِی الْہِبَۃِ لَیْسَ عَلَی تَحْرِیْمِ ذٰلِکَ سَوَاء ٌ وَلٰـکِنَّہٗ لِأَنَّ تَرْکَہُ أَفْضَلُ .
٥٦٨٨: زید بن اسلم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے بازار میں ایک گھوڑا فروخت ہوتے دیکھا اور وہ وہی گھوڑا تھا جو صدقہ میں دیا جا چکا تھا چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا میں اس کو خرید لوں تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے مت خریدو اور نہ اس کے بچوں میں سے کسی کو خریدو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو اس چیز کے خریدنے سے روک دیا جس کو انھوں نے صدقہ کیا تھا۔ اسی طرح اس کی اولاد کی خریداری سے روک دیا اور اس فعل کو اس کتے کے فعل کی طرح قرار دیا جو قے کر کے لوٹاتا ہے تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ صدقہ کرنے والے کے لیے صدقہ کے مال کو خریدنا حرام ہے بلکہ اس کو چھوڑنا (نہ خریدنا) افضل ہے۔ اسی طرح جو پہلے ذکر ہوا اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبہ کو واپس لینے کے سلسلہ میں جو کچھ فرمایا اس سے اس کی حرمت مراد نہیں بلکہ (اس سے کراہت دلا کر) اس کے چھوڑنے کا افضل ہونا ظاہر فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ٣٧‘ مسند احمد ١؍٢٥‘ ٣٧۔

5690

۵۶۸۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ذَرِیْعٍ عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ طَاوٗسٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَا : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَحِلُّ لِوَاہِبٍ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہِ اِلَّا الْوَالِدُ لِوَلَدِہِ .فَقَالَ قَائِلٌ فَقَدْ دَلَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَلَی تَحْرِیْمِ الرُّجُوْعِ فِی الْہِبَۃِ مِنَ الرَّجُلِ لِغَیْرِ وَلَدِہٖ۔ قِیْلَ لَہٗ : مَا دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْتُ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَفَ ذٰلِکَ الرُّجُوْعَ بِأَنَّہٗ لَا یَحِلُّ لِتَغْلِیظِہِ اِیَّاہُ لِکَرَاہِیَۃِ أَنْ یَکُوْنَ لِأَحَدٍ مِنْ أُمَّتِہِ مَثَلُ السُّوْئِ .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِذِیْ مَرَّۃٍ سَوِی فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلَی مَعْنَی أَنَّہَا تَحْرُمُ عَلَی الْأَغْنِیَائِ وَلٰـکِنَّہَا عَلَی مَعْنَی لَاتَحِلُّ لَہٗ مِنْ حَیْثُ تَحِلُّ لِغَیْرِہِ مِنْ ذَوِی الْحَاجَۃِ وَالزَّمَانَۃِ .فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا لَا یَحِلُّ لِوَاہِبٍ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہِ اِنَّمَا ہُوَ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَحِلُّ لَہُ ذٰلِکَ کَمَا تَحِلُّ لَہُ الْأَشْیَائُ الَّتِی قَدْ أَحَلَّہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِعِبَادِہٖ۔ وَلَمْ یَجْعَلْ لِمَنْ فَعَلَہَا مَثَلًا کَالْمَثَلِ الَّذِیْ جَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْعَائِدِ فِیْ ہِبَتِہٖ۔وَقَدْ دَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ الْعَوْدُ فِیْہَا بِالرُّجُوْعِ وَالِابْتِیَاعِ وَغَیْرِہِ ثُمَّ اسْتَثْنَی مِنْ ذٰلِکَ مَا وَہَبَ الْوَالِدُ لِوَلَدِہٖ۔ فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - عَلَی اِبَاحَتِہِ لِلْوَالِدِ أَنْ یَأْخُذَ مَا وَہَبَ لِابْنِہِ فِیْ وَقْتِ حَاجَتِہِ اِلَی ذٰلِکَ وَفَقْرِہِ اِلَیْہِ لِأَنَّ مَا یَجِبُ لِلْوَلَدِ مِنْ ذٰلِکَ لَیْسَ بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ رُجُوْعًا مِنْہُ یَکُوْنُ مَثَلُہُ فِیْہِ کَمَثَلِ الْکَلْبِ الْمُتَرَاجِعِ فِیْ قَیْئِہٖ۔ وَلٰـکِنَّہٗ شَیْء ٌ أَوْجَبَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُ لِفَقْرِہِ فَلَمْ یُضَیِّقْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ کَمَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٥٦٨٩: طاوس نے ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہبہ کرنے والے کو جائز نہیں کہ وہ ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس کرے البتہ باپ اپنے بیٹے سے ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ کسی آدمی کو ہبہ واپس کرنا حرام ہے البتہ اپنے لڑکے سے ہبہ لوٹا سکتا ہے۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ روایت میں تو آپ کی بات پر کوئی دلالت موجود نہیں ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات لایحل بطور تغلیظ فرمائی ہو کیونکہ آپ اپنے کسی امت میں بھی بری مثال کا انطباق پسند نہ فرماتے تھے۔ جیسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی تندرست ٹھیک ٹھاک آدمی کے لیے صدقہ حلال نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس پر حرام ہے جس طرح کہ مالدار لوگوں پر حرام ہے بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح دیگر حاجتمندوں اور اپاہجوں کے لیے حلال ہے اسی طرح اس کے لیے حلال نہیں۔ پس اسی طرح جو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی نقل کیا کہ ہبہ کرنے والے کو ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں کا مطلب ہے کہ اس کے لیے یہ اس طرح حلال نہیں جس طرح دیگر اشیاء ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے حلال قرار دیا ہے اور ان کو لینے والے لوگوں کے لیے ایسی مثال بیان نہیں فرمائی۔ جیسی کچھ ہبہ کر کے واپس کرنے والے کے لیے بیان فرمائیں اور اس رجوع کرنے کے ماتحت ہبہ شدہ چیز کو واپس لینا اس کو خریدنا اور دیگر صورتیں شامل ہیں۔ پھر اس سے والد کا بیٹے کو دیا ہوا مال مستثنیٰ کیا۔ واللہ اعلم۔ مگر احناف کے ہاں یہ بھی جائز ہے جبکہ باپ کو حاجت ہو اور احتیاج ہو کیونکہ اس سلسلہ میں جو کچھ والد کے لیے واجب ہے وہ ایسا فعل نہیں ہے جس کے کرنے سے وہ واپسی کرنے میں کتے کے اپنی قے کے چاٹنے کے مترادف ہو بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس (والد) کے فقر کی حالت میں بیٹے کے لیے واجب کیا ہے اور اس سلسلہ میں اسے کسی تنگی میں نہیں ڈالا جیسا کہ دیگر احادیث میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔
تخریج : ترمذی فی البیوع باب ٦١‘ ولولاء باب ٧‘ نسائی فی الہبہ باب ٢؍٤‘ ابن ماجہ فی الہبہ باب ٢‘ مسند احمد ٢؍٢٧‘ ٢٨۔
تشریح اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ کسی آدمی کو ہبہ واپس کرنا حرام ہے البتہ اپنے لڑکے سے ہبہ لوٹا سکتا ہے۔
روایات ملاحظہ ہوں :

5691

۵۶۹۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَجُلًا أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ أَعْطَیْتُ أُمِّیْ حَدِیْقَۃً وَاِنَّہَا مَاتَتْ وَلَمْ تَتْرُکْ وَارِثًا غَیْرِیْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ صَدَقَتُکَ وَرَجَعَتْ اِلَیْکَ حَدِیْقَتُکَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : أَفَلَا تَرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَبَاحَ لِلْمُتَصَدِّقِ صَدَقَتَہُ لَمَّا رَجَعَتْ اِلَیْہِ بِالْمِیْرَاثِ وَمَنَعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنِ ابْتِیَاعِ صَدَقَتِہٖ۔فَثَبَتَ بِہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ اِبَاحَۃُ الصَّدَقَۃِ الرَّاجِعَۃِ اِلَی الْمُتَصَدِّقِ بِفِعْلِ اللّٰہِ وَکَرَاہَۃُ الصَّدَقَۃِ الرَّاجِعَۃِ اِلَیْہِ بِفِعْلِ نَفْسِہٖ۔ فَکَذٰلِکَ وُجُوْبُ النَّفَقَۃِ لِلْأَبِ عَنْ مَالِ الِابْنِ لِحَاجَتِہٖ وَفَقْرِہِ وَجَبَتْ لَہُ بِاِیجَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی اِیَّاہَا لَہٗ۔فَأَبَاحَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ ارْتِجَاعَ ہِبَتِہٖ وَاِنْفَاقَہَا عَلٰی نَفْسِہِ وَجَعَلَ ذٰلِکَ کَمَا رَجَعَ اِلَیْہِ بِالْمِیْرَاثِ لَا کَمَا رَجَعَ اِلَیْہِ بِالِابْتِیَاعِ وَالِارْتِجَاعِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ خَصَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الْوَالِدَ الْوَاہِبَ دُوْنَ سَائِرِ الْوَاہِبِیْنَ .أَفَیَکُوْنُ حُکْمُ الْوَلَدِ فِیْمَا وَہَبَ لِأَبِیْھَاخِلَافَ حُکْمِ الْوَالِدِ فِیْمَا وَہَبَ لِوَلَدِہٖ؟ قِیْلَ لَہٗ : بَلْ حُکْمُہُمَا فِیْ ہٰذَا سَوَاء ٌ فَذِکْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدَہُمَا عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْنَا یُجْزِئُ مِنْ ذِکْرِہِ اِیَّاہُمَا وَمِنْ ذِکْرِ غَیْرِہِمَا مِمَّنْ حُکْمُہٗ فِیْ ہٰذَا مِثْلُ حُکْمِہِمَا .وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ.فَحَرَّمَ ہٰؤُلَائِ جَمِیْعًا بِالْأَنْسَابِ .ثُمَّ قَالَ وَأُمَّہَاتُکُمُ اللَّاتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَلَمْ یَذْکُرْ فِی التَّحْرِیْمِ بِالرَّضَاعَۃِ غَیْرَ ہَاتَیْنِ .فَکَانَ ذِکْرُہُ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّ سَائِرَ مَنْ حُرِّمَ بِالنَّسَبِ فِیْ حُکْمِ الرَّضَاعِ سَوَاء ٌ وَأَغْنَاہُ ذِکْرُ ہَاتَیْنِ بِالتَّحْرِیْمِ بِالرَّضَاعِ عَنْ ذِکْرِ مَنْ سِوَاہُمَا فِیْ ذٰلِکَ اِذْ کَانَ قَدْ جَمَعَ بَیْنَہُنَّ فِی التَّحْرِیْمِ بِالْأَنْسَابِ فَجَعَلَ حُکْمَہُنَّ حُکْمًا وَاحِدًا .فَدَلَّ تَحْرِیْمُہُ بَعْضَہُنَّ أَیْضًا بِالرَّضَاعِ أَنَّ حُکْمَہُنَّ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمٌ وَاحِدٌ .فَکَذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَالَ لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہِ فَعَمّ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا .ثُمَّ قَالَ اِلَّا الْوَالِدُ لِوَلَدِہِ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْنَا- دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَنْ سِوَی الْوَالِدِ مِنَ الْوَاہِبِیْنَ فِیْ رُجُوْعِ الْہِبَاتِ اِلَیْہِمْ یُرِدْ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِیَّاہَا کَذٰلِکَ وَأَغْنَاہُ ذِکْرُ بَعْضِہِمْ عَنْ ذِکْرِ سَائِرِہِمْ .فَلَمْ یَکُنْ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ مَا یَدُلُّنَا عَلٰی أَنَّ لِلْوَاہِبِ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہِ بِنَقْضِہِ اِیَّاہَا حَتّٰی یَأْخُذَہَا مِنَ الْمَوْہُوْبِ لَہُ وَیَرُدَّہَا اِلَی مِلْکِہِ الْمُتَقَدِّمِ الَّذِی أَخْرَجَہَا مِنْہُ بِالْہِبَۃِ .فَنَظَرْنَا ہَلْ نَجِدُ فِیْمَا رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا .
٥٦٩٠: عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اپنی والدہ کو ایک باغ کا عطیہ دیا ہے اب اس کا انتقال ہوگیا اور اس نے میرے علاوہ کوئی وارث نہیں چھوڑا۔ آپ نے فرمایا تمہارا صدقہ واجب ہوگیا (ادا ہوچکا) اور تیرا باغ تیری طرف لوٹ آیا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبہ کرنے والے والد کو خاص کیا ہے باقی ہبہ کرنے والے کے لیے یہ حکم کیسے ہوسکتا ہے اگر بیٹا باپ کو کوئی چیز ہبہ کرے تو اس کا حکم باپ کے بیٹے کو ہبہ کرنے کے خلاف ہے۔ تو اس کے جواب میں کہے اس سلسلے میں دونوں کا حکم یکساں ہے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس سبب سے جس کو کہ ہم نے ذکر کیا ایک کا تذکرہ دونوں کے ذکر کو کفایت کرنے والا ہے بلکہ ان دونوں کے علاوہ کے لیے بھی کافی ہے جن کا یہی حکم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ تم پر تمہاری مائیں تمہاری بیٹیاں ‘ تمہاری بہنیں ‘ تمہاری پھوپھیاں ‘ تمہاری خالائیں ‘ تمہاری بھتیجیاں اور بھانجیاں حرام کی گئیں یہ نسبی رشتہ کے اعتبار سے ہیں پھر فرمایا تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی حرام ہیں دودھ کے رشتہ میں صرف ان دو کے ذکر پر اکتفا کیا ان دو کا ذکر کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ جو عورتیں نسب کے لحاظ سے حرام ہیں۔ دودھ کی وجہ سے بھی ان تمام کا حکم وہی ہے دودھ کی وجہ سے ان دو کے حرام ہونے کے تذکرے نے باقی کے تذکرے سے بےنیاز کردیا کیونکہ نسب کی وجہ سے حرام ہونے میں تمام کا ذکر کردیا اور ان تمام کے لیے ایک ہی حکم قرار دیا (یعنی حرمت) تو اس سے اس بات پر دلالت مل گئی کہ رضاعت کی وجہ سے بعض کے حرام ہونے سے دوسری رضاعی رشتہ دار عورتوں کا حکم بھی یہی ہے۔ اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ فرمایا کہ کسی شخص کو ہبہ میں رجوع درست نہیں تو یہ حکم تمام لوگوں کو شامل ہے پھر فرمایا سوائے باپ کے جو کہ اپنے بیٹے کو ہبہ کرے یہ بات جو کہ ہم نے کہی ہے اس کی بنا پر یہ اس بات پر دلالت ہے کہ والد کے علاوہ ہبہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے حکم سے رجوع کریں تو یہی حکم ہوگا۔ تو والد کے تذکرے نے دوسروں کے تذکرہ سے بےنیاز کردیا۔ فلہذا ان روایات میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی جو اس بات پر دلالت کرنے والی ہو کہ ہبہ کرنے والا اپنے ہبہ کو توڑ کر موہوب لہ سے واپس لے اور اسے اپنی سابقہ ملکیت میں لائے۔ جس ملکیت سے اس نے ہبہ کر کے اس شئی کو نکالا تھا۔ اب ہم دیکھنا چاہتے کہ آیا آثار صحابہ کرام میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے جس سے کوئی دلالت میسر آجائے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصدقات باب ٣۔
سوال : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبہ کرنے والے والد کو خاص کیا ہے باقی ہبہ کرنے والے کے لیے یہ حکم کیسے ہوسکتا ہے اگر بیٹا باپ کو کوئی چیز ہبہ کرے تو اس کا حکم باپ کے بیٹے کو ہبہ کرنے کے خلاف ہے۔
جواب اس سلسلے میں دونوں کا حکم یکساں ہے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس سبب سے ججس کو کہ ہم نے ذکر کیا ایک کا تذکرہ دونوں کے ذکر کو کفایت کرنے والا ہے بلکہ ان دونوں کے علاوہ کے لیے بھی کافی جن کا یہی حکم ہو۔
آثار صحابہ (رض) سے اس کی تلاش :
اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا آثار صحابہ کرام میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے جس سے کوئی دلالت میسر آجائے۔

5692

۵۶۹۱: فَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا حَنْظَلَۃُ عَنْ سَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُوْلُ مَنْ وَہَبَ ہِبَۃً فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا حَتَّی یُثَابَ مِنْہَا بِمَا یَرْضَی .
٥٦٩١: سالم نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ حضرت عمر (رض) فرماتے جس نے کسی کو کوئی چیز ہبہ کی وہ اس کا زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ اس کا اپنی مرضی کے مطابق بدلہ پالے۔

5693

۵۶۹۲: وَاِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ عَنْ أَبِی غَطَفَانَ بْنِ طَرِیْفٍ الْمَرِیِّ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ مَنْ وَہَبَ ہِبَۃً لِصِلَۃِ رَحِمٍ أَوْ عَلَی وَجْہِ صَدَقَۃٍ فَاِنَّہٗ لَا یَرْجِعُ فِیْہَا وَمَنْ وَہَبَ ہِبَۃً یَرَی أَنَّہٗ اِنَّمَا یُرَادُ بِہٖ الثَّوَابُ فَہُوَ عَلَی ہِبَتِہِ یَرْجِعُ فِیْہَا اِنْ لَمْ یَرْضَ مِنْہَا .فَہٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ فَرَّقَ بَیْنَ الْہِبَاتِ وَالصَّدَقَاتِ فَجَعَلَ الصَّدَقَاتِ لَا یَرْجِعُ فِیْہَا وَجَعَلَ الْہِبَاتِ عَلَی ضَرْبَیْنِ .فَضَرْبٍ مِنْہَا صِلَۃُ الْأَرْحَامِ فَرَدَّ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ الصَّدَقَاتِ وَمَنَعَ الْوَاہِبَ مِنِ الرُّجُوْعِ فِیْہَا وَضَرْبٍ مِنْہَا خِلَافُ ذٰلِکَ فَجَعَلَ لِلْوَاہِبِ أَنْ یَرْجِعَ فِیْہِ مَا لَمْ یَرْضَ مِنْہُ .
٥٦٩٢: مروان بن حکم نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جس نے صلہ رحمی کے لیے کوئی ہبہ کیا یا بطور صدقہ ہبہ کیا وہ اس میں رجوع نہ کرے اور جس نے اس لیے ہبہ کیا کہ اس سے مقصود صرف حصول ثواب تھا۔ تو وہ اپنے ہبہ کے بارے میں اختیار رکھتا ہے اگر وہ اس کو اس کے ہاں پسند نہ کرے تو لوٹا لے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے ہبہ اور صدقہ میں تفریق کردی۔ صدقات کو نہ لوٹانے والا قرار دیا اور عطیات کے متعلق دو قسمیں کردیں۔
نمبر ١ جو صرف صلہ رحمی کی خاطر ہو تو صدقات کے حکم میں رکھا جائے گا اور ہبہ کرنے والا ان کو لوٹا نہیں سکتا۔
نمبر ٢ اگر واہب اس کے استعمال پر خوش نہ ہو تو اس کو واپس کرسکتا ہے۔

5694

۵۶۹۳: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْأَزْرَقُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عُمَرَ قَالَ مَنْ وَہَبَ ہِبَۃً لِذِیْ رَحِمٍ جَازَتْ وَمَنْ وَہَبَ ہِبَۃً لِغَیْرِ ذِیْ رَحِمٍ مَحْرَمٍ لَہٗ فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ یُثَبْ مِنْہَا .
٥٦٩٣: اسود نے عمر (رض) سے روایت کی ہے جس نے کسی رحم والے رشتہ دار کو ہبہ کیا ایسا کرنا جائز ہے جس نے غیر ذی رحم محرم کو دیا تو وہ ہبہ کا زیادہ حقدار ہے جب تک کہ اس کا معاوضہ نہ ملے (اگر معاوضہ مل گیا تو پھر واپس نہیں ہوسکتا) ۔

5695

۵۶۹۴: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی عَنْ عَلِیٍّ قَالَ الْوَاہِبُ أَحَقُّ مَا لَمْ یُثَبْ مِنْہَا .فَہٰذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ جَعَلَ لِلْوَاہِبِ الرُّجُوْعَ فِیْ ہِبَتِہٖ مَا لَمْ یُثَبْ مِنْہَا .فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلَی الْوَاہِبِ الَّذِیْ جَعَلَ لَہُ الرُّجُوْعَ فِیْ ہِبَتِہٖ عَلٰی مَا ذُکِرَ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ قَبْلَ ہٰذَا حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ قَوْلُہُمَا رَضِیَ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ .
٥٦٩٤: عبدالرحمن بن ابزی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے واہب اپنے ہبہ کا اس وقت تک زیادہ حقدار جب تک کہ اس کا بدلہ نہ دیا جائے۔ یہ حضرت علی (رض) جو ہبہ کرنے والے کو رجوع کا حق اس وقت تک ثابت فرما رہے ہیں یہاں تک کہ وہ بدلہ نہ لے۔ ہمارے ہاں اس روایت اور پہلی روایت تضاد کو دور کرنے کی صورت یہی ہے کہ اس سے وہ ہبہ کرنے والا مراد ہے جس کا تذکرہ پہلی روایت میں ہوچکا۔

5696

۵۶۹۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الْقَاسِمِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔عَلٰی مَا رَوَیْنَا عَنْ سُلَیْمَانَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ بِنَحْوٍ مِنْ ہٰذَا .
٥٦٩٥: شعبہ نے جابر سے انھوں نے قاسم سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے جیسا کہ ہم نے سلیمان کی روایت میں ذکر کی ہے۔
روایت فضالہ بن عبید (رض) :
حضرت فضالہ بن عبید (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے ملاحظہ ہو۔

5697

۵۶۹۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ الْیَحْصُبِیِّ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ فَأَتَاہٗ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ اِلَیْہِ .فَقَالَ أَحَدُہُمَا : اِنِّیْ وَہَبْتُ لِہٰذَا بَازِیًا عَلٰی أَنْ یُثِیْبَنِیْ فَلَمْ یَفْعَلْ .فَقَالَ الْآخَرُ : وَہَبَ لِیْ وَلَمْ یَذْکُرْ شَیْئًا .فَقَالَ لَہٗ فَضَالَۃُ : اُرْدُدْ اِلَیْہِ ہِبَتَہٗ فَاِنَّمَا یَرْجِعُ فِی الْہِبَۃِ النِّسَائُ وَسُقَّاطُ الرِّجَالِ .
٥٦٩٦: عبداللہ بن عامر یحصبی کہتے ہیں کہ میں حضرت فضالہ بن عبید (رض) کے پاس تھا ان کے پاس دو آدمی جھگڑا لے کر آئے ایک کہنے لگا۔ میں نے اس کو ایک باز ہبہ کیا کہ یہ مجھے اس کا بدلہ دے گا مگر اس نے نہ دیا دوسرے نے کہا اس نے مجھے ہبہ کیا اور اس نے کسی بات کا ذکر نہ کیا تو حضرت فضالہ (رض) نے فرمایا اس کا ہبہ اسے واپس کر دو ۔ عورتیں اپنا ہبہ واپس لیا کرتی ہیں اور اسی طرح گرے ہوئے لوگ۔

5698

۵۶۹۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ الْیَحْصُبِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ اِذْ جَائَ ہٗ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ اِلَیْہِ فِیْ بَازٍ .فَقَالَ أَحَدُہُمَا : وَہَبْتُ لَہُ بَازِیًا وَأَنَا أَرْجُو أَنْ یُثِیْبَنِیْ مِنْہُ .فَقَالَ الْآخَرُ : نَعَمْ قَدْ وَہَبَ لِیْ بَازِیًا مَا سَأَلْتُہٗ وَمَا تَعَرَّضْتُ لَہٗ۔فَقَالَ لَہٗ فَضَالَۃُ اُرْدُدْ اِلَیْہِ ہِبَتَہٗ فَاِنَّمَا یَرْجِعُ فِی الْہِبَاتِ النِّسَائُ وَشِرَارُ الْأَقْوَامِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٦٩٧: عبداللہ بن عامر یحصبی کہتے ہیں کہ میں حضرت فضالہ بن عبید (رض) کے ہاں تھا کہ دو آدمی ایک باز کا جھگڑا لیے حاضر ہوئے تو ان میں سے ایک نے کہا میں نے اس کو باز دیا اور مجھے اس کی طرف سے بدلے کی امید تھی دوسرے نے کہا جی ہاں اس نے مجھے باز دیا تھا جو کہ میں نے نہ اس سے مانگا اور نہ میں نے اس سے کوئی پیش رفت کی تھی تو فضالہ (رض) نے فرمایا اس کا ہبہ اس کو دے دو ہبات میں عورتیں اور اقوام کے شریر لوگ رجوع کیا کرتے ہیں۔
روایت ابوالدرداء (رض) :
حضرت ابوالدرداء (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت وارد ہے :

5699

۵۶۹۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ اَلْمَوَاہِبُ ثَلَاثَۃٌ رَجُلٌ وَہَبَ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُسْتَوْہَبَ فَہِیَ کَسَبِیْلِ الصَّدَقَۃِ فَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ صَدَقَتِہٖ۔وَرَجُلٌ اُسْتُوْہِبَ فَوَہَبَ فَلَہُ الثَّوَابُ فَاِنْ قَبِلَ عَلٰی مَوْہِبَتِہٖ ثَوَابًا فَلَیْسَ لَہٗ اِلَّا ذٰلِکَ وَلَہٗ أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہٖ مَا لَمْ یُثَبْ .وَرَجُلٌ وَہَبَ وَاشْتَرَطَ الثَّوَابَ فَہُوَ دَیْنٌ عَلٰی صَاحِبِہَا فِیْ حَیَاتِہٖ وَبَعْدَ وَفَاتِہٖ۔فَہٰذَا أَبُو الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ جَعَلَ مَا کَانَ مِنَ الْہِبَاتِ مَخْرَجُہُ مَخْرَجَ الصَّدَقَاتِ فِیْ حُکْمِ الصَّدَقَاتِ .وَمَنَعَ الْوَاہِبَ مِنَ الرُّجُوْعِ فِیْ ذٰلِکَ کَمَا یُمْنَعُ الْمُتَصَدِّقُ مِنَ الرُّجُوْعِ فِیْ صَدَقَتِہٖ۔وَجَعَلَ مَا کَانَ مِنْہَا بِغَیْرِ ہٰذَا الْوَجْہِ مِمَّا لَمْ یُشْتَرَطْ ثَوَابٌ مِمَّا یَرْجِعُ فِیْہِ مَا لَمْ یُثَبَ الْوَاہِبُ عَلَیْہِ .وَجَعَلَ مَا اُشْتُرِطَ فِیْہِ الْعِوَضُ فِیْ حُکْمِ الْمَبِیْعِ فَجَعَلَ الْعِوَضَ لِوَاہِبِہٖ وَاجِبًا عَلَی الْمَوْہُوْبِ لَہُ فِیْ حَیَاتِہٖ وَبَعْدَ وَفَاتِہِ فَہٰذَا حُکْمُ الْہِبَاتِ عِنْدَنَا .فَأَمَّا مَا ذَکَرْنَا مِنْ انْقِطَاعِ رُجُوْعِ الْوَاہِبِ فِیْ ہِبَتِہٖ لِمَوْتِ الْمَوْہُوْبِ لَہٗ أَوْ بِاسْتِہْلَاکِہِ الْہِبَۃَ فَلِمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ .
٥٦٩٨: راشد بن سعد نے ابوالدرداء (رض) سے روایت کی ہے کہ ہبہ کرنے والے تین ہیں۔
نمبر ١ ایک وہ آدمی جو خود ہبہ کرتا ہے مگر خود اس سے کسی ہبہ کا طالب نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنے کی طرح ہے اس کو اپنا صدقہ لوٹانا جائز نہیں۔
نمبر ٢ وہ آدمی جس نے ہبہ طلب کیا اس کو ہبہ کردیا گیا تو اس کو تو بدلہ ملے گا اور اگر اس نے اپنے ہبہ پر بدلے کو قبول کرلیا تو اس کو یہی کچھ ملے گا اور یہ اپنے ہبہ کو بدلہ ملنے سے پہلے پہلے لوٹا سکتا ہے۔
نمبر ٣ جس آدمی نے اس شرط پر ہبہ کیا کہ اس کو بدلہ دینا پڑے گا تو یہ موہوب لہ پر دین ہوگا جو کہ زندگی اور موت کے بعد بھی دینا پڑے گا۔ یہ حضرت ابوالدرداء (رض) ہیں انھوں نے ہبات کی تین اقسام بتلائیں۔
نمبر ١ جو صدقات کی طرح ہیں تو ان کا حکم بھی صدقات والا ہے اس میں ہبہ کرنے والے کو رجوع درست نہیں جیسے کہ صدقہ کرنے والے کو اپنے صدقہ سے رجوع جائز نہیں ہے۔
نمبر ٢ دوسری قسم وہ قرار دی جس میں بدلے کو شرط قرار نہ دیا جائے اس میں ہبہ کرنے والے کو رجوع کا اس وقت تک حق ہے جب تک کہ اس کا بدلہ نہ لے۔
نمبر ٣ اس قسم میں عوض کو شرط قرار دیا گیا یہ بیع کا حکم میں ہے اس میں واہب کو عوض دینا موہوب لہ پر لازم ہوجائے گا یہ زندگی اور موت دونوں میں لازم رہے گا ہمارے ہاں بھی ہباب کا یہی حکم ہے باقی ہمارے ہاں موہوب لہ کے مرجانے یا اس چیز کے ہلاک کردینے کی صورت میں ہبہ کرنے والے کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے یہ اس لیے کہا کہ حضرت عمر (رض) سے اس طرح مروی ہے۔

5700

۵۶۹۹: حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ ثَنَا : حَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُمَرَ مِثْلَہٗ۔یَعْنِیْ: مِثْلَ حَدِیْثِہِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْفَصْلِ وَزَادَ وَیَسْتَہْلِکُہَا أَوْ یَمُوْتُ أَحَدُہُمَا .فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اسْتِہْلَاکَ الْہِبَۃِ یَمْنَعُ وَاہِبَہَا مِنَ الرُّجُوْعِ فِیْہَا وَجَعَلَ مَوْتَ أَحَدِہِمَا یَقْطَعُ مَا لِلْوَاہِبِ فِیْہَا مِنَ الرُّجُوْعِ أَیْضًا فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ شُرَیْحٍ فِی الْہِبَۃِ نَظِیْرُ مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
٥٦٩٩: ابراہیم نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلی فصل میں ذکر کر آئے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ ہبہ کا ہلاک کردینا یا واہب و موہوب لہ میں سے کسی کی موت بھی۔ (کہ اب وہ واپس نہیں ہوسکتا) اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے ہبہ کے ہلاک کردینے کو واپسی کے لیے مانع قرار دیا اسی طرح دونوں میں سے کسی ایک کی موت کو رجوع ہبہ سے مانع قرار دیا ہم احناف بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ ہبہ کے متعلق شریح (رح) کا قول بھی حضرت عمر (رض) کی طرح ہے۔
اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے ہبہ کے ہلاک کردینے کو واپسی کے لیے مانع قرار دیا اسی طرح دونوں میں سے کسی ایک کی موت کو رجوع ہبہ سے مانع قرار دیا ہم احناف بھی اسی طرح کہتے ہیں۔
حضرت شریح (رح) کا قول :
ہبہ کے متعلق شریح (رح) کا قول بھی حضرت عمر (رض) کی طرح ہے۔

5701

۵۷۰۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ : سَمِعْت مُحَمَّدًا یُحَدِّثُ أَنَّ شُرَیْحًا قَالَ مَنْ أَعْطَی فِیْ قَرَابَۃٍ أَوْ مَعْرُوْفٍ أَوْ صِلَۃٍ فَعَطِیَّتُہُ جَائِزَۃٌ وَالْجَانِبُ الْمُسْتَقْرَبُ یُثَبْ مِنْ ہِبَتِہِ أَوْ یُرَدُّ عَلَیْہِ .
٥٧٠٠: محمد نے بیان کیا کہ شریح (رح) نے کہا جس نے اپنے قرابت دار کو اس کی قرابت داری یا نیکی یا احسان کے طور پر دیا تو اس کا عطیہ جائز ہے اور قرابت والی جانب کے لحاظ سے وہ اپنے ہبہ کا بدلہ دے یا اسی کو اس پر لوٹا دیا جائے۔

5702

۵۷۰۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ شُرَیْحٍ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَأَمَّا ہِبَۃُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الزَّوْجَیْنِ لِصَاحِبِہٖ فَاِنَّ أَبَا بَکْرَۃَ قَدْ
٥٧٠١: ابن سیرین نے شریح سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ زوجین کے ایک دوسرے کو ہبہ کا مسئلہ اس طرح ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ زوجین کے ایک دوسرے کو ہبہ کا مسئلہ اس طرح ہے۔

5703

۵۷۰۲: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ امْرَأَۃً وَہَبَتْ لِزَوْجِہَا ہِبَۃً ثُمَّ رَجَعَتْ فِیْہَا فَاخْتَصَمَا اِلَی شُرَیْحٍ فَقَالَ لِلزَّوْجِ شَاہِدَاک أَنَّہُمَا رَأَیَاہَا وَہَبَتْ لَک مِنْ غَیْرِ کُرْہٍ وَلَا ہَوَانٍ وَاِلَّا فَیَمِیْنُہَا لَقَدْ وَہَبَتْ لَک عَنْ کُرْہٍ وَہَوَانٍ فَہٰذَا شُرَیْحٌ قَدْ سَأَلَ الزَّوْجَ الْبَیِّنَۃَ أَنَّہَا وَہَبَتْ لَہُ لَا عَنْ کُرْہٍ بَعْدَ ارْتِجَاعِہَا فِی الْہِبَۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ السُّنَّۃَ لَوْ ثَبَتَتْ عِنْدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ لَرَدَّ الْہِبَۃَ اِلَیْہَا وَلَمْ یَجُزْ لَہَا الرُّجُوْعُ فِیْہَا .وَقَدْ کَانَ مِنْ رَأْیِہِ أَنَّ لِلْوَاہِبِ الرُّجُوْعَ فِیْ ہِبَتِہِ اِلَّا مِنْ ذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ فَجَعَلَ الْمَرْأَۃَ فِیْ ہٰذَا کَذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ فَہٰکَذَا نَقُوْلُ .وَأَمَّا ہِبَۃُ الزَّوْجِ لِامْرَأَتِہِ
٥٧٠٢: ایوب نے محمد سے روایت کی ہے کہ ایک عورت نے اپنے خاوند کو ایک چیز ہبہ کی پھر اس کو لوٹایا۔ دونوں اپنا مقدمہ قاضی شریح کی خدمت میں لائے تو آپ نے خاوند کو فرمایا کہ تم دو گواہ پیش کرو کہ جنہوں نے دیکھا ہو کہ اس عورت نے تمہیں کسی جبر واکراہ اور سستی کے بغیر ہبہ کیا ورنہ وہ قسم اٹھائے گی کہ اس نے یہ عطیہ مجبوراً اور ذلت و عجز کے بغیر دیا۔ یہ شریح ہیں کہ جنہوں نے خاوند سے دلیل کا مطالبہ کیا کہ اس نے واقعۃً خاوند کو ہبہ کیا ہے اس میں زبردستی کا دخل نہ تھا یہ بات آپ نے ہبہ لوٹانے کے بعد فرمائی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر یہ روایت ان کے ہاں ثابت ہوتی تو ہبہ خاوند کی طرف لوٹاتے اور عورت کے لیے رجوع کو جائز قرار نہ دیتے۔ قاضی شریح (رح) کی رائے یہی تھی کہ ہبہ کرنے والا ہبہ میں رجوع کرسکتا ہے البتہ ذی رحم محرم سے رجوع نہیں کرسکتا انھوں نے عورت کو اس مسئلہ میں ذی رحم محرم سے رجوع نہیں کرسکتا انھوں نے عورت کو اس مسئلہ میں ذی رحم محرم کی طرح قرار دیا ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں۔

5704

۵۷۰۳: فَاِنَّ أَبَا بَکْرَۃَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : قَالَ اِبْرَاھِیْمُ : اِذَا وَہَبَتِ الْمَرْأَۃُ لِزَوْجِہَا أَوْ وَہَبَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِہٖ فَالْہِبَۃُ جَائِزَۃٌ وَلَیْسَ لِوَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنْ یَرْجِعَ فِیْ ہِبَتِہٖ۔
٥٧٠٣: ابو منصور کہتے ہیں کہ ابراہیم کہنے لگے جب عورت اپنے خاوند کو کوئی چیز ہبہ کرے یا مرد اپنی بیوی کو کوئی چیز ہبہ کرے تو ہبہ درست ہے ان میں سے کسی کو بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ہبہ کو لوٹائے۔

5705

۵۷۰۴: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ أَنَّہٗ قَالَ الزَّوْجُ وَالْمَرْأَۃُ بِمَنْزِلَۃِ ذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ اِذَا وَہَبَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہٖ لَمْ یَکُنْ لَہٗ أَنْ یَرْجِعَ .فَجُعِلَ الزَّوْجَانِ فِیْ ہٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ کَذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ فَمَنَعَ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِنِ الرُّجُوْعِ فِیْمَا وَہَبَ لِصَاحِبِہٖ فَہٰکَذَا نَقُوْلُ .وَقَدْ وَصَفْنَا فِیْ ہٰذَا مَا ذَہَبْتُ اِلَیْہِ فِی الْہِبَاتِ وَمَا ذَکَرْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ اِذْ لَمْ نَعْلَمْ عَنْ أَحَدٍ مِثْلِ مَنْ رَوَیْنَاہَا عَنْہُ خِلَافًا لَہَا .فَتَرَکْنَا النَّظَرَ مِنْ أَجْلِہَا وَقَلَّدْنَاہَا .وَقَدْ کَانَ النَّظْرُ - لَوْ خَلَّیْنَا وَاِیَّاہُ - خِلَافَ ذٰلِکَ وَہُوَ أَنْ لَا یَرْجِعَ الْوَاہِبُ فِی الْہِبَۃِ لِغَیْرِ ذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ ؛ لِأَنَّ مِلْکَہُ قَدْ زَالَ عَنْہَا بِہِبَۃِ اِیَّاہَا وَصَارَ لِلْمَوْہُوْبِ لَہُ دُوْنَہٗ فَلَیْسَ لَہُ نَقْضُ مَا قَدْ مَلَکَ عَلَیْہِ اِلَّا بِرِضَائِ مَالِکِہٖ۔ وَلٰـکِنْ اتِّبَاعُ الْآثَارِ وَتَقْلِیْدُ أَئِمَّۃِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَوْلَی فَلِذٰلِکَ قَلَّدْنَاہَا وَاقْتَدَیْنَاہَا .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٧٠٤: حماد نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا میاں اور بیوی بمنزلہ ذی رحم محرم کے ہیں جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو ہبہ کرے تو وہ اسے لوٹا نہیں سکتا۔ ان تمام آثار میں میاں بیوی کو ہبہ میں ذی رحم محرم کی طرح قرار دیا گیا ہے جو بھی ایک دوسرے کو ہبہ کردیں تو اس میں رجوع جائز نہیں ہے ہم احناف کا قول بھی یہی ہے۔ ہم نے جو کچھ ہبہ کی اشیاء کے سلسلہ میں اپنا مذہب بیان کیا اس کے لیے جو روایات ہم نے ذکر کی ہیں ان کے خلاف اس قسم کی روایات ہم نہیں پاتے اسی وجہ سے ہم نے قیاس کو ترک کر کے انہی کو اختیار کیا ہے۔ اگر قیاس کا صرف لحاظ کیا جائے تو وہ ان روایات کے مخالف ہے وہ اس طرح کہ ہبہ کرنے والا جس طرح ذی رحم محرم کو دی ہوئی چیز واپس نہیں کرسکتا اسی طرح وہ غیر ذی رحم محرم سے بھی واپس نہ کرسکتا کیونکہ ہبہ کرنے کی وجہ سے اس چیز سے اس کی ملک زائل ہوگئی اور وہ موہوب لہ کی ملک بن گئی اس کی نہیں رہی۔ تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کی ملکیت کو توڑے البتہ اس کے مالک کی مرضی سے ایسا کر سکنا ممکن ہے۔ لیکن روایات کی اتباع اور اہل علم ائمہ کرام کی تقلید زیادہ بہتر ہے اسی وجہ سے ہم نے ان روایات کو اپنایا۔ اس باب میں جو بیان کیا گیا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
ہبہ زوجین میں احناف نے ان کو ذی رحم محرم کے حکم میں قرار دے کر ہبہ کی واپسی کو درست قرار نہیں دیا۔ امام طحاوی (رح) نے اسی کو راجح کہا ہے۔

5706

۵۷۰۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ وَحُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَخْبَرَاہُ أَنَّہُمَا سَمِعَا النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ یَقُوْلُ : نَحَلَنِیْ أَبِیْ غُلَامًا فَأَمَرَتْنِیْ أُمِّی أَنْ أَذْہَبَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُشْہِدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکُلُّ وَلَدِک أَعْطَیْتُہٗ فَقَالَ : لَا قَالَ فَارْدُدْہُ .
٥٧٠٥: محمد بن نعمان اور حمید بن عبدالرحمن دونوں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کو فرماتے سنا میرے والد نے مجھے ایک غلام عنایت فرمایا میری والدہ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جاؤں تاکہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا لوں اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو دیا ہے ؟ میرے والد نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا اس کو واپس لوٹا لو۔
تخریج : مسلم فی الہبات ١٨‘ مسند احمد ٤‘ ٢٧٠؍٢٧١‘ ٢٧٢۔

5707

۵۷۰۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ حَدَّثَاہُ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ قَالَ اِنَّ أَبَاہُ أَتَی بِہٖ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنِّیْ نَحَلْتُ ابْنِیْ ہَذَا غُلَامًا کَانَ لِی .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکُلَّ وَلَدِک نَحَلْتُہٗ مِثْلَ ہَذَا فَقَالَ : لَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَارْجِعْہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا نَحَلَ بَعْضَ بَنِیْہِ دُوْنَ بَعْضٍ أَنَّ ذٰلِکَ بَاطِلٌ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَقَالُوْا : قَدْ کَانَ النُّعْمَانُ فِیْ وَقْتِ مَا نَحَلَہٗ أَبُوْھُ صَغِیْرًا فَکَانَ أَبُوْھُ قَابِضًا لَہُ لِصِغَرِہِ عَنِ الْقَبْضِ لِنَفْسِہٖ۔ فَلَمَّا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُرْدُدْہُ بَعْدَمَا کَانَ فِیْ حُکْمِ مَا قَبَضَ دَلَّ ہَذَا أَنَّ النُّحْلَی مِنَ الْوَالِدِ لِبَعْضِ وَلَدِہِ دُوْنَ بَعْضٍ لَا یَمْلِکُہُ الْمَنْحُوْلُ وَلَا یَنْعَقِدُ لَہٗ عَلَیْہِ ہِبَۃٌ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : یَنْبَغِیْ لِلرَّجُلِ أَنْ یُسَوِّیَ بَیْنَ وَلَدِہِ فِی الْعَطِیَّۃِ لِیَسْتَوُوْا فِی الْبِرِّ وَلَا یُفَضِّلُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ فَیُوْقِعُ ذٰلِکَ لَہُ الْوَحْشَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمَفْضُوْلِیْنَ مِنْہُمْ .فَاِنْ نَحَلَ بَعْضَہُمْ شَیْئًا دُوْنَ بَعْضٍ وَقَبَضَہُ الْمَنْحُوْلُ لِنَفْسِہِ اِنْ کَانَ کَبِیْرًا أَوْ قَبَضَہُ لَہٗ أَبُوْھُ مِنْ نَفْسِہِ اِنْ کَانَ صَغِیْرًا بِاِعْلَامِہِ اِیَّاہُ وَالْاِشْہَادِ بِہٖ فَہُوَ جَائِزٌ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَ النُّعْمَانِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُ عَلٰی مَا ذَکَرُوْا وَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ کَانَ حِیْنَئِذٍ صَغِیْرًا وَلَعَلَّہٗ وَقَدْ کَانَ کَبِیْرًا وَلَمْ یَکُنْ قَبَضَہُ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .
٥٧٠٦: محمد بن نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے انھوں نے نعمان بن بشیر (رض) روایت کی ہے کہ میرے والد مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام کا عطیہ دیا ہے جو غلام کہ میرا تھا۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اس جیسا غلام اپنے ہر لڑکے کو دیا ہے ؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے واپس لوٹا لو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کے ایک فریق کا خیال یہ ہے کہ اگر ایک لڑکے کو دوسروں کو چھوڑ کر عطیہ دیا تو یہ عطیہ باطل ہے۔ مندرجہ بالا روایت دلیل ہے۔ جب نعمان کو ان کے والد نے یہ عطیہ دیا اس وقت وہ بہت چھوٹے بچے تھے ان کا والد اس غلام پر قابض تھا اور وہ اپنی نو عمری سے اس پر قبضہ نہ کرسکتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ارددہ “ کہ اس کو واپس کر دو ۔ جب حکماً ان کا قبضہ ہوگیا تو آپ نے لوٹانے کا حکم دیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ عطیہ والد نے اپنے ایک لڑکے کو دیا تھا اور جس کو دیا گیا وہ اس کا مالک نہ تھا اور نہ اس کا ہبہ منعقد ہوا۔ دوسروں نے کہا والد کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے عطیات میں برابری برتے تاکہ وہ احسان میں برابر ہوں ان میں کوئی ایک دوسرے سے کم زیادہ نہ ہو۔ اس نے جن کو کم دیا گیا ان کے دلوں میں دوری پیدا ہوگی اگر اس نے کچھ چیزیں ایک کو دیں اور اس نے قبضہ کرلیا یہ سمجھ کر کہ یہ میری ہے اگر وہ بڑا یا والد نے اس کی طرف سے قبضہ کرلیا جبکہ وہ چھوٹا تھا تاکہ اس کو بتلا دیا جائے کہ یہ اس کی چیز ہے اور اس پر گواہ بھی بنائے تو یہ درست ہے۔ روایت نعمان اس طرح بھی مروی ہے مگر اس کے علاوہ دیگر روایات میں اور طرح مروی ہے ان روایات سے نعمان کا چھوٹا بچہ ہونا ثابت نہیں ہوتا شاید وہ بڑے تھے مگر انھوں نے غلام پر قبضہ نہ کیا تھا۔ یہ روایت دوسری سند سے۔
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ١٢‘ مسلم فی الہبات ٩؍١٠‘ نسائی فی النحل باب ١‘ مالک فی الاقضیہ ٣٩۔

5708

۵۷۰۷: فَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ قَالَ : انْطَلَقَ بِیْ أَبِیْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحَلَنِیْ نُحْلَی لِیُشْہِدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ فَقَالَ أَکُلَّ وَلَدِک نَحَلْتَہُ مِثْلَ ہَذَا فَقَالَ : لَا .قَالَ : أَیَسُرُّک أَنْ یَکُوْنُوْا اِلَیْکَ فِی الْبِرِّ کُلُّہُمْ سَوَائً قَالَ : بَلَی قَالَ : فَأَشْہِدْ عَلٰی ہَذَا غَیْرِی .فَکَانَ وَالَّذِیْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبَشِیْرٍ فِیْمَا کَانَ نَحَلَہُ النُّعْمَانُ أَشْہِدْ عَلٰی ہَذَا غَیْرِی .فَہٰذَا دَلِیْلٌ أَنَّ الْمِلْکَ ثَابِتٌ لِأَنَّہٗ لَوْ لَمْ یَثْبُتْ لَا یَصِحُّ قَوْلُہٗ .فَہٰذَا بِخِلَافِ مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ لِأَنَّ ہٰذَا الْقَوْلَ لَا یَدُلُّ عَلَی فَسَادِ الْعَقْدِ الَّذِیْ کَانَ عَقَدَہُ النُّعْمَانُ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ یَتَوَقَّی الشَّہَادَۃَ عَلٰی مَالِہِ أَنْ یُشْہِدَ عَلَیْہِ وَعَلَی الْأُمُوْرِ الَّتِی قَدْ کَانَتْ .وَکَذٰلِکَ لِمَنْ بَعْدَہُ لِأَنَّ الشَّہَادَۃَ اِنَّمَا ہِیَ أَمْرٌ یَتَضَمَّنُہُ الشَّاہِدُ لِلْمَشْہُوْدِ لَہٗ فَلَہٗ أَنْ لَا یَتَضَمَّنَ ذٰلِکَ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ غَیْرُ ہَذَا أَیْضًا فَیَکُوْنُ قَوْلُہٗ أَشْہِدْ عَلٰی ہَذَا غَیْرِی أَیْ : اِنِّیْ أَنَا الْاِمَامُ وَالْاِمَامُ لَیْسَ مِنْ شَأْنِہٖ أَنْ یَشْہَدَ وَاِنَّمَا مِنْ شَأْنِہٖ أَنْ یَحْکُمَ .وَفِیْ قَوْلِہٖ أَشْہِدْ عَلٰی ہَذَا غَیْرِی دَلِیْلٌ عَلَیْ صِحَّۃِ الْعَقْدِ .
٥٧٠٧: عامر شعبی نے نعمان (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے والد مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گئے میرے والد نے مجھے ایک عطیہ دیا تھا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گواہ بنانا چاہتے تھے آپ نے فرمایا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اس قسم کا عطیہ دیا ہے انھوں نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا کیا تم کو یہ پسند ہے کہ وہ بھلائی میں سب تمہارے ہاں برابر ہوں انھوں نے کہا جی ہاں کیوں نہیں آپ نے فرمایا پھر تم میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔ اس روایت میں حضرت نعمان کو عطیہ دینے پر حضرت بشیر (رض) کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی اور کو گواہ بنانے کا حکم فرمایا ہے پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ نعمان کے لیے ملک ثابت تھی کیونکہ اگر ان کی ملک ثابت نہ ہوتی تو آپ اس پر کسی دوسرے کو گواہ بنانے کا حکم نہ فرماتے۔ اس روایت کا مضمون پہلی روایت کے خلاف ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض اوقات ان معاملات پر گواہ بننے سے احتراز فرماتے تھے جن پر آپ کو گواہ بننا جائز ہوتا اسی طرح وہ امور جو ہوچکے ہوتے نیز آپ کے بعد والے حضرات کے لیے بھی ایسا کرنا جائز تھا کیونکہ شہادت ایک ایسا معاملہ ہے جس میں شاہد مشہود کے لیے ضامن بنتا ہے اور آپ کو حق تھا کہ ضامن نہ بنتے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ نے اور کو گواہ بنانے کا فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں حاکم ہوں اور گواہ بننا امام و حاکم کی شان نہیں بلکہ وہ تو امور کا فیصل ہے آپ کا یہ فرما دینا میرے علاوہ اور کسی کو گواہ بناؤ۔ صحت عقد کی دلیل ہے۔
تخریج : مسلم فی الفرائض ٣٤‘ والہبات ١٧‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٨٣‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ١‘ مسند احمد ٤‘ ٢٦٩؍٢٧٠۔

5709

۵۷۰۸: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا آدَمَ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ عَلَی مِنْبَرِنَا ہَذَا یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَوُّوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ فِی الْعَطِیَّۃِ کَمَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یُسَوُّوْا بَیْنَکُمْ فِی الْبِرِّ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : کَأَنَّ الْمَقْصُوْدَ اِلَیْہِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الْأَمْرُ بِالتَّسْوِیَۃِ بَیْنَہُمْ فِی الْعَطِیَّۃِ لِیَسْتَوُوْا جَمِیْعًا فِی الْبِرِّ .وَلَیْسَ فِیْہِ شَیْء ٌ مِنْ ذِکْرِ فَسَادِ الْعَقْدِ الْمَعْقُوْدِ عَلَی التَّفْضِیْلِ .
٥٧٠٨: شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان (رض) کو ہمارے اس منبر پر فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی اولاد کے درمیان عطیات میں برابری کرو جیسا کہ تم یہ پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ بھائی و احسان میں برابر ہوں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : اس ارشاد سے مقصود مبارک یہ تھا کہ عطیات میں اولاد کے درمیان برابری ہونی چاہیے تاکہ وہ احسان میں وہ برابری کرنے والے ہوں اس میں عقد کے فساد کی کوئی دلیل نہیں جو بعض کی فضیلت کی وجہ سے قائم ہوا۔

5710

۵۷۰۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَامّ عَنْ حُصَیْنٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : سَمِعْت النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ یَقُوْلُ : أَعْطَانِیْ أَبِیْ عَطِیَّۃً فَقَالَتْ أُمِّیْ عَمْرَۃُ بِنْتُ رَوَاحَۃَ لَا أَرْضَیْ حَتّٰی تُشْہِدَ مِنَ الْأَشْہَادِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنِّیْ قَدْ أَعْطَیْتُ ابْنِیْ مِنْ عَمْرَۃَ عَطِیَّۃً وَاِنِّیْ أُشْہِدُک .قَالَ أَکُلَّ وَلَدِک أَعْطَیْتُ مِثْلَ ہَذَا ؟ قَالَ لَا قَالَ : فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ .فَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہٗ بِرَدِّ الشَّیْئِ وَاِنَّمَا فِیْہِ الْأَمْرُ بِالتَّسْوِیَۃِ .
٥٧٠٩: شعبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کو فرماتے سنا میرے والد نے مجھے عطیہ عنایت فرمایا میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے کہا میں تو اس کو اس وقت پسند کروں گی جب کہ تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر گواہ بناؤ۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہا میں نے اپنی بیوی عمرہ کے بیٹے کو عطیہ دیا ہے اور میں اس پر آپ کو گواہ بناتا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے میں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے مابین برابری کرو۔ اس روایت میں بھی یہ موجود نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عطیہ کو واپس لینے کا حکم فرمایا ہو بلکہ اس میں صرف برابری کا حکم فرمایا ہے۔
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ١٢‘ مسلم فی الہبات ١٣‘ نسائی فی النحل باب ١‘ مسنداحمد ٤؍٢٧٥۔
اس روایت میں بھی یہ موجود نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عطیہ کو واپس لینے کا حکم فرمایا ہو بلکہ اس میں صرف برابری کا حکم فرمایا ہے۔

5711

۵۷۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا مُرَجّٰی قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ قَالَ : انْطَلَقَ بِیْ أَبِیْ یَحْمِلُنِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اشْہَدْ أَنِّیْ قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ مِنْ مَالِیْ کَذَا وَکَذَا .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکُلَّ وَلَدِک نَحَلْتُہٗ قَالَ : لَا قَالَ أَمَا یَسُرُّک أَنْ یَکُوْنُوْا لَک فِی الْبِرِّ سَوَائً .قَالَ : بَلَی قَالَ فَلَا اِذًا .فَقَدْ اخْتَلَفَ لَفْظُ حَدِیْثِ دَاوٗدَ ہَذَا فِیْمَا رَوٰی عَنْہُ مُرَجَّیْ ہٰہُنَا وَبِمَا رَوٰی عَنْہُ وُہَیْبٌ فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَہٰکَذَا رَوَاہُ الشَّعْبِیُّ عَنِ النُّعْمَانِ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو الضُّحٰی عَنِ النُّعْمَانِ أَیْضًا .
٥٧١٠: شعبی نے نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے اٹھا کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نعمان کو اپنے مال میں سے اتنا اتنا دیا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو عطیہ دیا ہے انھوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا یہ بات تمہیں پسند ہے کہ وہ تیرے ساتھ احسان میں برابر ہوں۔ اس نے کہا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ پھر ایسا مت کرو۔ داؤد کی اس روایت کے الفاظ اس سے مختلف ہیں جو اس سے مرجی سے یہاں روایت کی ہے اور جو اس نے وہیب سے روایت کی جو کہ گزری اسی طرح شعبی نے نعمان سے روایت کی ہے اور ابوالضحیٰ نے نعمان سے بھی روایت کی ہے۔
تخریج : مسلم فی الفرائض ٣٤‘ والہبات ١٧‘ نسائی فی النحل باب ١‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ١‘ مسند احمد ٤؍٢٦٩۔

5712

۵۷۱۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَیْ عَنْ فِطْرٍ ح .
٥٧١١: مسدد نے یحییٰ سے انھوں نے فطر سے روایت کی ہے۔

5713

۵۷۱۲: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا فِطْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الضُّحَی قَالَ سَمِعْت النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ یَقُوْلُ : ذَہَبَ بِیْ أَبِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُشْہِدَہُ عَلٰی شَیْئٍ أَعْطَانِیْہِ .فَقَالَ أَلَکَ وَلَدٌ غَیْرُہٗ؟ قَالَ : نَعَمْ فَقَالَ بِیَدِہِ أَلَا سَوَّیْتَ بَیْنَہُمْ .فَلَمْ یُخْبِرْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَمَرَ بِرَدِّہِ .وَاِنَّمَا قَالَ أَلَا سَوَّیْتُ بَیْنَہُمْ عَلَی طَرِیْقِ الْمَشُوْرَۃِ وَأَنَّ ذٰلِکَ لَوْ فَعَلَہُ کَانَ أَفْضَلَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قِصَّۃِ النُّعْمَانِ ہَذَا خِلَافُ کُلِّ مَا رَوَیْنَا عَنِ النُّعْمَانِ .
٥٧١٢: ابوالضحیٰ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر (رض) کو فرماتے سنا کہ میرے والد مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گئے تاکہ وہ اس چیز پر آپ کو گواہ بنائیں جو انھوں نے مجھے دی تھی تو وہ کہنے لگے کیا تمہارا اور بھی لڑکا ہے اس نے کہا جی ہاں۔ تو آپ نے اپنے دست اقدس سے فرمایا تم ان کے مابین برابری کیوں نہیں کرتے۔ پس اس روایت میں اس بات کی کوئی اطلاع نہیں کہ آپ نے ان کو واپس کرنے کا حکم فرمایا بس اتنی بات فرمائی کہ تم ان کے مابین برابری کیوں کر نہیں کرتے یہ بطور مشورہ فرمایا۔ کیونکہ ایسا کرنا زیادہ بہتر و افضل تھا۔
روایت جابر بن عبداللہ (رض) :
حضرت جابر (رض) کی روایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ نعمان کے سلسلہ میں اس کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔

5714

۵۷۱۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا النُّفَیْلُ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُبَیْرٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَتِ امْرَأَۃُ بَشِیْرٍ لِبَشِیْرٍ انْحَلْ ابْنِیْ غُلَامَکَ وَأَشْہِدْ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ .قَالَ : فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ بِنْتَ فُلَانٍ سَأَلَتْنِیْ أَنْ أَنْحَلَ ابْنَہَا غُلَامِیْ وَقَالَتْ أَشْہِدْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ أَلَہٗ اِخْوَۃٌ قَالَ : نَعَمْ قَالَ أَفَکُلُّہُمْ أَعْطَیْتُہٗ قَالَ : لَا قَالَ فَاِنَّ ہَذَا لَا یَصْلُحُ وَاِنِّیْ لَا أَشْہَدُ اِلَّا عَلٰی حَقٍّ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا کَانَ أَمْرُہٗ لِبَشِیْرٍ بِالرَّدِّ قَبْلَ اِنْفَاذِ بَشِیْرٍ الصَّدَقَۃَ فَأَشَارَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ بِمَا ذَکَرْنَا .وَہٰذَا خِلَافُ جَمِیْعِ مَا رُوِیَ عَنِ النُّعْمَانِ لِأَنَّ فِیْ تِلْکَ الْأَحَادِیْثِ أَنَّہٗ نَحَلَہٗ قَبْلَ أَنْ یَجِیْئَ بِہٖ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَّہٗ قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنِّیْ نَحَلْتُ ابْنِیْ ہَذَا کَذَا فَأَخْبَرَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ فَعَلَ .وَفِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ ہَذَا اِخْبَارُہُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسُؤَالِ امْرَأَتِہِ اِیَّاہُ فَکَانَ کَلَامُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُ بِمَا کَلَّمَہُ بِہٖ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَشُوْرَۃِ وَعَلٰی مَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُفْعَلَ عَلَیْہِ الشَّیْئُ اِنْ آثَرَ أَنْ یَفْعَلَہٗ۔وَقَدْ رَوٰی شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنِ الزُّہْرِیِّ مُوَافِقًا لِہٰذَا الْمَعْنٰی .
٥٧١٣: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت بشیر (رض) کی ایک بیوی نے کہا میرے بیٹے کو اپنا غلام بطور عطیہ دے دو اور اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گواہ بنا لو۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلاں کی بیٹی نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام دے دوں اور وہ کہتی ہے کہ اس پر آپ کی گواہی ڈلواؤں۔ آپ نے فرمایا کیا اس کے اور بھائی ہیں اس نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا کیا تم نے سب کو عطیہ دیا ہے انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا یہ مناسب نہیں۔ میں تو خالص حق بات پر گواہ بنتا ہوں۔ یہ روایت بتلاتی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات بشیر کو فرمائی کہ ایسا مت کرو یہ بشیر کے عطیہ دینے سے پہلے کی بات ہے آپ نے اس میں اعلیٰ کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ روایت نعمان سے مروی تمام روایات کے خلاف ہے کیونکہ ان روایات میں یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں آنے سے پہلے عطیہ کردیا تھا اور ان کے الفاظ یہ تھے : ” انی نحلت “ جس نے فعل عطیہ کا ثبوت ملتا ہے اور روایت جابر (رض) سے معلوم ہوتا کہ بیوی کے سوال کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشورہ طلب کیا تو آپ نے بطریق مشورہ فرمایا اور جو کرنا مناسب تھا وہ بتلایا اگر وہ ترجیح دینا چاہتا ہو۔
تخریج : مسلم فی الہبات ١٩‘ مسند احمد ٣؍٣٢٦۔
روایت زہری عن روایت نعمان (رض) :
شعیب بن ابی حمزہ نے اس روایت کو زہری سے روایت جابر (رض) کی طرح نقل کیا ہے ملاحظہ ہو۔

5715

۵۷۱۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ أَنَّہُمَا سَمِعَا النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ یَقُوْلُ : نَحَلَنِیْ أَبِیْ غُلَامًا ثُمَّ مَشٰی بِیْ حَتّٰی أَدْخَلَنِیْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ نَحَلْتُ ابْنِیْ غُلَامًا فَاِنْ أَذِنْتُ أَنْ أُجِیْزَہُ لَہٗ أَجَزْتہ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ النُّحْلَیْ کَمُلَتْ فِیْہِ مِنْ حِیْنِ نَحَلَہُ اِیَّاہُ اِلٰی أَنْ أَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَدِّہِ . وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَسَمَ شَیْئًا بَیْنَ أَہْلِہِ سَوَّیْ بَیْنَہُمْ جَمِیْعًا فَأَعْطَی الْمَمْلُوْکَ مِنْہُمْ کَمَا یُعْطَی الْحُرُّ۔
٥٧١٤: زہری نے حمید اور محمد بن نعمان دونوں سے انھوں نے نعمان بن بشیر (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام دینا جاہا پھر وہ مجھے لے کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دینا ہے اگر آپ کی اجازت ہوگی تو میں اس کو عنایت کر دوں گا پھر روایت اسی طرح ذکر کی۔ اس روایت سے بھی دلالت مل گئی کہ آپ نے عطیہ نہ کیا تھا اس کی تکمیل کا دارومدار آپ کی اجازت مبارکہ تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول مبارک اپنے اہل کے درمیان تمام چیزوں میں برابری تھا۔ مملوک و حر میں بھی برابری فرماتے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٢٧١‘ ٢٧٣۔
حاصل روایت : اس روایت سے بھی دلالت مل گئی کہ آپ نے عطیہ نہ کیا تھا اس کی تکمیل کا دارومدار آپ کی اجازت مبارکہ تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول مبارک اپنے اہل کے درمیان تمام چیزوں میں برابری تھا۔ مملوک و حر میں بھی برابری فرماتے۔ (جیسا کہ یہ روایت شاہد ہے)

5716

۵۷۱۵: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطِیْبَۃِ خَرَزٍ فَقَسَمَہَا بَیْنَ الْحُرَّۃِ وَالْأَمَۃِ .قَالَتْ : عَائِشَۃُ وَکَذٰلِکَ کَانَ أَبِیْ یَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ .فَکَانَ ہَذَا مِمَّا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ یَعُمُّ بِعَطَایَاہُ جَمِیْعَ أَہْلِہِ حُرِّہِمْ وَعَبْدِہِمْ لَیْسَ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ وَاجِبٌ وَلٰـکِنَّہٗ أَحْسَنُ مِنْ غَیْرِہٖ۔ فَکَذٰلِکَ کَانَتْ مَشُوْرَتُہٗ فِی الْوَلَدِ أَنْ یُسَوِّیَ بَیْنَہُمْ فِی الْعَطِیَّۃِ لَیْسَ عَلٰی أَنَّہٗ وَاجِبٌ وَلَا عَلٰی أَنَّ غَیْرَہُ اِنْ فَعَلَ لَمْ یَثْبُتْ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ فَضَّلَ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ عَنْہُمْ بَعْضَ أَوْلَادِہِمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الْعَطَایَا .
٥٧١٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ کے پاس شفاف موتی آئے تو آپ نے آزاد و حر کی تفریق کے بغیر ان کو تقسیم فرما دیا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میرے والد صاحب بھی اسی طرح تقسیم فرماتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طرز عمل اس لیے تھا تاکہ تمام اہل کو آپ کے عطیات عام ہوں خواہ وہ غلام ہو یا آزاد۔ یہ تقسیم واجب تو نہ تھی مگر اعلیٰ ضرور تھی پس اسی طرح آپ کا مشورہ مبارک اولاد کے سلسلہ میں عطیات میں تسویہ و برابری اس طور پر نہ تھا کہ یہ فرض واجب ہے اور نہ اس طور پر تھا کہ اگر اس کے علاوہ کیا جائے تو وہ نافذ نہ ہوگا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارہ باب ١٣‘ مسند احمد ٦‘ ١٥٦؍١٥٩‘ ٢٣٨۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طرز عمل اس لیے تھا تاکہ تمام حقداروں کو آپ کے عطیات عام ہوں خواہ وہ غلام ہو یا آزاد۔ یہ تقسیم واجب تو نہ تھی مگر اعلیٰ ضرور تھی پس اسی طرح آپ کا مشورہ مبارک اولاد کے سلسلہ میں عطیات میں تسویہ و برابری اس طور پر نہ تھا کہ یہ فرض واجب ہے اور نہ اس طور پر تھا کہ اگر اس کے علاوہ کیا جائے تو وہ نافذ نہ ہوگا۔

5717

۵۷۱۶: فَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا قَالَتْ اِنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیْقَ نَحَلَہَا جِدَادَ عِشْرِیْنَ وَسْقًا مِنْ مَالِہِ بِالْغَابَۃِ .فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ قَالَ وَاللّٰہِ یَا بُنَیَّۃُ مَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ أَحَبَّ اِلَیَّ غِنًی مِنْکِ وَلَا أَعَزَّ النَّاسِ عَلَیَّ فَقْرًا مِنْ بَعْدِیْ مِنْکَ وَاِنِّیْ کُنْتُ نَحَلْتُک جِدَادَ عِشْرِیْنَ وَسْقًا فَلَوْ کُنْتُ جَدَدْتِیْہِ وَأَحْرَزْتِیْہِ کَانَ لَکَ وَاِنَّمَا ہُوَ الْیَوْمَ مَالُ وَارِثٍ وَاِنَّمَا ہُمَا أَخُوْکَ وَأُخْتَاک فَاقْسِمُوْھُ عَلَیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی .فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : وَاللّٰہِ یَا أَبَتِ لَوْ کَانَ کَذَا وَکَذَا لَتَرَکْتہ اِنَّمَا ہِیَ أَسْمَاء ٌ فَمَنِ الْأُخْرَی قَالَ : ذُوْبَطْنٍ بِنْتُ خَارِجَۃَ أَرَاہَا جَارِیَۃً .
٥٧١٦: زبیر نے حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) نے مقام غابہ کے مال سے بیس وسق کھجوریں اتاری ہوئیں عنایت کیں اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا بیٹی ! اللہ کی قسم ! مالداری کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر مجھے کوئی پسند نہیں اور تیری محتاجی سے بڑھ کر میرے لیے کسی کی محتاجی زیادہ پریشان کن نہیں میں نے تمہیں بیس وسق اتاری ہوئی کھجوریں دی تھیں اگر تم ان کو الگ کر کے قبضہ کرچکی ہوتیں تو وہ تمہاری ہوتیں لیکن آج جو کچھ ہے وہ وارثوں کا ہے اور وہ تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں انھیں قرآن مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کرلینا۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا ابا جان ! اللہ کی قسم ! اگر مال اس قدر بھی ہوتا تو میں چھوڑ دیتی میری تو ایک بہن اسماء ہیں دوسری کون سی ہے انھوں نے کہا کہ خارجہ کی بیٹی (زوجہ صدیق (رض) ) کے پیٹ میں جو کچھ ہے میرے خیال میں وہ لڑکی ہوگی۔
تخریج : مالک فی الاقضیہ ٤٠۔

5718

۵۷۱۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ: ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِیْقٍ قَالَ : ثَنَا مَسْرُوْقٌ قَالَ : کَانَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ قَدْ أَعْطٰی عَائِشَۃَ نُحْلٰی فَلَمَّا مَرِضَ قَالَ لَہَا اجْعَلِیْہِ فِی الْمِیْرَاثِ وَذَکَرُوْا الْقَبْضَ وَالْہِبَۃَ وَالصَّدَقَۃَ .
٥٧١٧: حضرت مسروق نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کو ایک عطیہ دیا جب آپ بیمار ہوئے تو ان سے فرمایا اس کو میراث بنادو اور انھوں نے قبضہ ‘ ہبہ اور صدقہ کا ذکر کیا۔

5719

۵۷۱۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ أَخْبَرَنِیْ صَالِحُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ فَضَّلَ بَنِیْ أُمِّ کُلْثُوْمٍ بِنُحْلٍ قَسَمَہٗ بَیْنَ وَلَدِہِ فَہٰذَا أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَعْطٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا دُوْنَ سَائِرِ وَلَدِہِ وَرَأَیْ ذٰلِکَ جَائِزًا وَرَأَتْہُ ہِیَ کَذٰلِکَ وَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِمَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ عَنْہُمْ .وَہٰذَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ فَضَّلَ بَعْضَ أَوْلَادِہِ أَیْضًا فِیْمَا أَعْطَاہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مُنْکِرٌ .فَکَیْفَ یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْمِلَ فِعْلَ ہٰؤُلَائِ عَلٰی خِلَافِ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلٰـکِنْ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَنَا فِیْمَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ اِنَّمَا کَانَ عَلَی الْاِسْتِحْبَابِ کَاسْتِحْبَابِہٖ التَّسْوِیَۃَ بَیْنَ أَہْلِہِ فِی الْعَطِیَّۃِ .وَتَرْکُ التَّفْضِیْلِ لِحُرِّہِمْ عَلَی مَمْلُوْکِہِمْ لَیْسَ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ مَا لَا یَجُوْزُ غَیْرُہُ وَلٰـکِنْ عَلَی اسْتِحْبَابِہٖ لِذٰلِکَ وَغَیْرِہٖ فِی الْحُکْمِ جَائِزٌ کَجَوَازِہٖ۔ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا فِیْ عَطِیَّۃِ الْوَلَدِ الَّتِیْ یُتْبَعُ فِیْہَا أَمْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبَشِیْرٍ کَیْفَ ہِیَ ؟ .فَقَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ : یُسَوِّیْ بَیْنَ الْأُنْثٰی فِیْہَا وَالذَّکَرِ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ : بَلْ یَجْعَلُہَا بَیْنَہُمْ عَلٰی قَدْرِ الْمَوَارِیْثِ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَوُّوْا بَیْنَہُمْ فِی الْعَطِیَّۃِ کَمَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یُسَوُّوْا لَکُمْ فِی الْبِرِّ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ أَرَادَ التَّسْوِیَۃَ بَیْنَ الْاِنَاثِ وَالذُّکُوْرِ لِأَنَّہٗ لَا یُرَادُ مِنَ الْبِنْتِ شَیْء ٌ مِنَ الْبِرِّ اِلَّا الَّذِیْ یُرَادُ مِنْ الِابْنِ مِثْلُہٗ .فَلَمَّا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ مِنَ الْأَبِ لِوَلَدِہِ مَا یُرِیْدُ مِنْ وَلَدِہِ لَہُ وَکَانَ مَا یُرِیْدُ مِنَ الْأُنْثٰی مِنَ الْبِرِّ مِثْلَ مَا یُرِیْدُ مِنَ الذَّکَرِ کَانَ مَا أَرَادَ مِنْہُ لَہُمْ مِنَ الْعَطِیَّۃِ لِلْأُنْثٰی مِثْلَ مَا أَرَادَ لِلذَّکَرِ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِی الضُّحٰی فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَکَ وَلَدٌ غَیْرُہٗ؟ فَقَالَ : نَعَمْ .فَقَالَ أَلَا سَوَّیْتُ بَیْنَہُمْ ؟ وَلَمْ یَقُلْ أَلَکَ وَلَدٌ غَیْرُہٗ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی وَذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ وَاِلَّا وَحُکْمُ الْأُنْثٰی فِیْہِ کَحُکْمِ الذَّکَرِ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا ذَکَرَ التَّسْوِیَۃَ اِلَّا بَعْدَ عِلْمِہِ أَنَّہُمْ ذُکُوْرٌ کُلُّہُمْ .فَلَمَّا أَمْسَکَ عَنِ الْبَحْثِ عَنْ ذٰلِکَ ثَبَتَ اسْتِوَائُ حُکْمِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدَہُ فَہٰذَا أَحْسَنُ عِنْدَنَا مِمَّا قَالَ مُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٧١٨: صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن (رض) نے اولاد کو عطیات تقسیم فرمائے تو امّ کلثوم کی اولاد کو فضیلت دی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں جنہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو عطیہ دیا اور باقی اولاد کو چھوڑ دیا اور اس کو جائز قرار دیا اور امّ المؤمنین نے بھی اسی طرح خیال فرمایا اور کسی صحابی (رض) نے بھی اعتراض نہیں کیا (جبکہ ان کے بیٹے پوتے صحابی ہیں) یہ عبدالرحمن بن عوف (رض) ہیں جنہوں نے اولاد کے عطیات میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا اب یہ کسی اور کے لیے کس طرح درست ہے کہ وہ ان حضرات کے عمل کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی کے مخالف قرار دے۔ ہمارے نزدیک تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی سے اس کا استحباب مراد ہے گھر والوں میں عطیات کی تقسیم میں برابری کرنا اور آزاد کو غلام پر فضیلت دینا اگر ترک کردیا جائے تو یہ ترک مستحب ہے یہ نہیں کہ ناجائز ہے بلکہ یہ مستحب ہے اور دوسرا طریقہ جائز ہے۔ اس میں ہمارے علماء کا اختلاف ہے کہ حضرت بشیر (رض) کو آپ نے جو حکم دیا تو وہ کس طرح ہے ؟ لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین برابری کی جائے۔ وراثت کے حساب سے ١: ٢ کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کہ ان کے مابین برابری کرو جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے خیر میں مساوات قائم کریں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان برابری کا ارادہ فرمایا۔ اس لیے کہ بیٹی سے بھی وہی بھلائی چاہی جاتی ہے جو بیٹے سے مقصود ہوتی ہے تو جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ سے بیٹے کے لیے اس چیز کا ارادہ فرمایا جس کا وہ اپنے بیٹے کے لیے ارادہ کرتا تھا اور وہ بیٹی سے جو بھلائی چاہتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو بیٹے سے چاہتا ہے تو آپ نے عطیات کے سلسلہ میں لڑکی کے لیے اس چیز کا ارادہ فرمایا جس کا لڑکے کے لیے فرمایا اور ابوالضحیٰ کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تمہاری اور کوئی اولاد ہے انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا۔ تو ان کے مابین مساوات قائم کرو۔ آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی بیٹا بیٹی ہے اور یہ بات اس صورت میں (یعنی مرد و عورت کا فرق) دریافت کیے بغیر یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ بیٹی اور بیٹے کا حکم ایک جیسا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ اس وقت تک برابری کا ذکر نہ فرماتے جب تک آپ کو علم نہ ہوجاتا کہ وہ تمام لڑکے ہیں جب آپ اس بحث میں نہ پڑے تو ثابت ہوا کہ آپ کے نزدیک ان سب کا حکم ایک جیسا ہے۔ ہمارے نزدیک امام محمد (رح) کے قول کی بنسبت یہ قول زیادہ اچھا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مفہوم پر دلالت کرنے والی روایت بھی مروی ہے۔
یہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں جنہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو عطیہ دیا اور باقی اولاد کو چھوڑ دیا اور اس کو جائز قرار دیا اور امّ المؤمنین نے بھی اسی طرح خیال فرمایا اور کسی صحابی (رض) نے بھی اعتراض نہیں کیا (جبکہ ان کے بیٹے پوتے صحابی ہیں) یہ عبدالرحمن بن عوف (رض) ہیں جنہوں نے اولاد کے عطیات میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا اب کسی اور کیلئے کس طرح درست ہے کہ وہ ان حضرات کے عمل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی کے مخالف قرار دے۔
ہمارے نزدیک تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی سے اس کا استحباب مراد ہے گھر والوں میں عطیات کی تقسیم میں برابری کرنا اور آزاد کو غلام پر فضیلت دینا اگر ترک کردیا جائے تو یہ ترک مستحب ہے یہ نہیں کہ ناجائز ہے بلکہ یہ مستحب ہے اور دوسرا طریقہ جائز ہے۔
احناف کے اقوال میں اختلاف :
اس میں ہمارے علماء کا اختلاف ہے کہ حضرت بشیر (رض) کو آپ نے جو حکم دیا تو کس طرح ہے ؟
امام ابو یوسف (رح) : لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین برابری کی جائے۔
امام محمد (رح) : وراثت کے حساب سے ١: ٢ کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔
امام طحاوی (رح) کا قول : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کہ ان کے مابین برابری کرو جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے خیر میں مساوات قائم کریں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان برابری کا ارادہ فرمایا۔ اس لیے کہ بیٹی سے بھی وہی بھلائی چاہی جاتی ہے جو بیٹے سے مقصود ہوتی ہے تو جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ سے بیٹے کے لیے اس چیز کا ارادہ فرمایا جس کا وہ اپنے بیٹے کے لیے ارادہ کرتا تھا اور وہ بیٹی سے جو بھلائی چاہتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو بیٹے سے چاہتا ہے تو آپ نے عطیات کے سلسلہ میں لڑکی کے لیے اس چیز کا ارادہ فرمایا جس کا لڑکے کے لیے فرمایا۔
اور ابوالضحیٰ کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تمہاری اور کوئی اولاد ہے انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا۔ تو ان کے مابین مساوات قائم کرو۔ آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی بیٹا بیٹی ہے اور یہ بات اس صورت میں ہوسکتی ہے (یعنی مرد و عورت کا فرق) کئے بغیر دریافت ظاہر کرتی ہے کہ بیٹی اور بیٹے کا حکم ایک جیسا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ اس وقت تک برابری کا ذکر نہ فرماتے جب تک آپ کو علم نہ ہوجاتا کہ وہ تمام لڑکے ہیں جب آپ اس بحث میں نہ پڑے تو ثابت ہوا کہ آپ کے نزدیک ان سب کا حکم ایک جیسا ہے۔ ہمارے نزدیک امام محمد (رح) کے قول کی بنسبت یہ قول زیادہ اچھا ہے۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مفہوم پر دلالت کرنے والی روایت بھی مروی ہے۔

5720

۵۷۱۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَجَائَ ابْنٌ لَہٗ فَقَبَّلَہُ وَأَجْلَسَہُ عَلَی فَخِذِہِ ثُمَّ جَائَ تِ بِنْتٌ لَہٗ فَأَجْلَسَہَا اِلَیْ جَنْبِہٖ قَالَ فَہَلَّا عَدَلْتُ بَیْنَہُمَا .أَفَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَرَادَ مِنْہُ التَّعْدِیْلَ بَیْنَ الِابْنَۃِ وَالِابْنِ وَأَنْ لَا یُفَضِّلَ أَحَدَہُمَا عَلَی الْآخَرِ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِی الْعَطِیَّۃِ أَیْضًا .
٥٧١٩: زہری نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک آدمی تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اسے چوما اور اپنی ران پر بٹھا لیا پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے پہلو میں بٹھا لیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے ان کے مابین برابری کیوں قائم نہیں کی۔ کیا اس بات کے مخالف کو نظر نہیں آتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد کے ذریعہ بیٹی اور بیٹے کے درمیان سلوک میں برابری اور ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دینے کا ارادہ فرمایا تو یہ اس بات کی بھی دلیل ہے جس کو ہم نے عطیہ کے ضمن میں ذکر کیا۔ کیا اس بات کے مخالف کو نظر نہیں آتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد کے ذریعہ بیٹی اور بیٹے کے درمیان سلوک میں برابری اور ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دینے کا ارادہ فرمایا تو یہ اس بات کی بھی دلیل ہے جس کو ہم نے عطیہ کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔
فریق اوّل کے لیے اشارہ جواب :
اعتدال کا حکم استحباب کے لیے اور اعتدال سے نکلنے کو جور سے تغلیظاً تعبیر کیا گیا عمل صحابہ (رض) اس کی حرمت کے منافی ہے۔ فتدبر۔ (البذل ج ٤)
حاصل کلام : اس باب میں اولاد کے مابین عطیات میں برابری کا استحباب ثابت کیا اور اس کی فرضیت و وجوب کو مضبوط دلائل سے مسترد کیا گیا ہے۔ عمل صحابہ کرام (رض) سے اس کی تائید بھی پیش کی گئی ہے۔

الحمد اللہ قدتم ھذا الباب لیلۃ الثلاثاء الثالث من الربیع الاول ١٤٢٩ ھ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔