HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

2. نماز کا بیان

الطحاوي

774

۷۷۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَا : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، ح .
٧٧٤: روح بن عبادہ نے اپنی سند سے ابو محذورہ (رض) سے روایت نقل کی ہے۔
خلاصہ الزام : اذان کے کلمات کے متعلق بحث کہ ان کی تعداد کتنی ہے ۔
مسئلہ نمبر : امام مالک حسن بصری اور اہل مدینہ کے ہاں کلمات اذان سترہ ہیں پہلی تکبیر دو مرتبہ اور شہادتین میں ترجیع۔ نمبر ٢ امام شافعی (رح) کے ہاں انیس پہلی تکبیر چار مرتبہ اور شہادتین میں ترجیع۔ نمبر ٣ ابوحنیفہ و حنابلہ کے ہاں کلمات پندرہ تکبیر اول چار مرتبہ مگر شہادتین میں ترجیع نہیں۔
دوسرا مسئلہ : کلمات اذان کی کیفیت اول تکبیر دو مرتبہ بقیہ اسی طرح ہے یہ امام مالک و حسن بصری و ابن سیرین کا مسلک ہے۔ نمبر ٢ ابتداء کلمات میں چار مرتبہ تکبیر یہ امام ابوحنیفہ (رح) شافعی (رح) و جمہور فقہاء کا مسلک ہے۔
تیسرا مسئلہ : شہادتین میں ترجیع ہے یہ امام مالک و شافعی و حسن بصری و اہل مدینہ کا مسلک ہے۔ نمبر ٢ ترجیع نہیں احناف و حنابلہ کا یہی مسلک ہے۔
مسئلہ اوّل :
فریق اوّل امام مالک حسن بصری (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ شروع میں تکبیر دو مرتبہ کہی جائے گی کل کلمات اذان سترہ ہوں گے شہادتین کو چار مرتبہ پڑھیں گے۔

775

۷۷۵ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ قَالَ : أَبُوْ عَاصِمٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ وَأُمُّ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ، یَعْنِی (عَنْ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ) قَالَ : رَوْحٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ، عَنْ (أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ قَالَ : عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ کَمَا تُؤَذِّنُوْنَ الْآنَ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ) .وَقَالَ رَوْحٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ : أَخْبَرَنِیْ عُثْمَانُ ھٰذَا الْخَبَرَ کُلَّہُ عَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّہَا سَمِعَتْ ذٰلِکَ مِنْ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ .وَقَالَ : أَبُوْ عَاصِمٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ قَالَ : وَأَخْبَرَنِیْ ھٰذَا الْخَبَرَ کُلَّہٗ عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْہِ، وَعَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِکِ ابْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّہُمَا سَمِعَا ذٰلِکَ مِنْ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ .
٧٧٥: ابو وام عبدالملک بن ابی محزورہ یعنی عن ابی محذورہ قال روح فی حدیثہ عن ام عبدالملک بن ابی محذورہ یعنی ابو محذورہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح اذان سکھلائی جیسے تم اب اذان دیتے ہو۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اشہد ان لاالٰہ الا اللہ ‘ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ ‘ الی آخرہ (شہادتین میں ترجیع کے ساتھ) ۔ (سترہ کلمات) روح نے اپنی حدیث میں کہا کہ مجھے عثمان نے یہ تمام خبر ام عبدالملک بن ابی محذورہ سے بیان کی کہ میں نے یہ سب ابو محذورہ سے سنا ہے اور ابو عاصم نے اپنی حدیث میں کہا کہ مجھے یہ تمام خبر عثمان بن السائب نے عن ابیہ و عن ام عبدالملک بن ابی محذورہ نے بیان کی کہ دونوں نے یہ بات ابو محذورہ سے سنی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٦۔

776

۷۷۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ وَعَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَا : ثَنَا رَوْحٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَیْرِیْزٍ حَدَّثَہٗ، وَکَانَ یَتِیمًا فِیْ حِجْرِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ (أَبُوْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَہُ قُمْ فَأَذِّنْ بِالصَّلَاۃِ .فَقُمْت بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقٰی عَلَیَّ التَّأْذِیْنَ ہُوَ بِنَفْسِہٖ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ التَّأْذِیْنِ الَّذِیْ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، فَقَالُوْا: ھٰکَذَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَذَّنَ .وَخَالَفَہُمْ آخَرُوْنَ فِیْ مَوْضِعَیْنِ .أَحَدُہُمَا : اِبْتِدَائُ الْأَذَانِ - فَقَالُوْا یَنْبَغِیْ أَنْ یُقَالَ فِیْ أَوَّلِ الْأَذَانِ (اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ) .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٧٦: عبدالعزیز بن عبدالملک بن ابی محذورہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن محیریز نے مجھے بیان کیا اور یہ ابو محذورہ کی سرپرستی میں یتیم بچہ تھا کہ ابو محذورہ (رض) نے کہا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اٹھو اور نماز کی اذان دو میں آپ کی خدمت میں کھڑا ہوا اور آپ بذات خود کلمات اذان کہلواتے جا رہے تھے پس اسی طرح نقل کی جو روایت بالا میں موجود ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ علماء اس طرف گئے ہیں اور انھوں نے فرمایا کہ اسی طرح اذان مناسب ہے جیسا کہ روایت ابومحذورہ میں مذکور ہے۔ دیگر علماء کی جماعت نے ان سے اختلاف کیا اور اختلاف کے صرف دو مواقع ہیں :! اذان کی ابتداء میں اللہ اکبر چار چار مرتبہ پڑھا جائے گا اور ان کی دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧٣۔
حاصل روایات : ان روایات بالا سے ثابت ہوا کہ اذان کے کلمات سترہ ہیں جن میں شہادتین میں ترجیع ہے اور ابتدائی کلمات تکبیر دو بار ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف :
امام شافعی (رح) نے فرمایا اذان کی ابتداء میں چار مرتبہ اللہ اکبر اور شہادتین میں ترجیع ‘ کی ابتداء میں چار مرتبہ تکبیر کی مستدل روایات۔

777

۷۷۷ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَاللَّفْظُ لِأَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَا : ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمِ ڑالصَّفَّارُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا عَامِرُ ڑالْأَحْوَلُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَکْحُوْلٌ أَنَّ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَیْرِیْزٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُ الْأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَۃَ کَلِمَۃً اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ ثُمَّ ذَکَرَ بَقِیَّۃَ الْأَذَانِ، عَلٰی مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ) .
٧٧٧: مکحول نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن محیریز (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذان کے انیس کلمات سکھائے ابتداء میں تکبیر چار مرتبہ اور شہادتین ترجیع کے ساتھ بقیہ کلمات اسی طرح ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٨‘ نمبر ٥٠٢‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٩٢‘ نسائی فی الاذان باب ٤‘ ٣۔

778

۷۷۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، ح .
٧٧٨: ابن داؤد ہمام سے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

779

۷۷۹ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانِ ڑ الْعَوَفِیُّ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، ح .
٧٧٩: محمد بن سنان العوفی نے ہمام سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٥٢۔

780

۷۸۰ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، وَأَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ، قَالَا : ثَنَا ہَمَّامٌ، ثُمَّ ذَکَرُوْا مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ یَقُوْلُ فِیْ أَوَّلِ الْأَذَانِ، اللّٰہُ أَکْبَرُ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .فَکَانَ ھٰذَا الْقَوْلُ - عِنْدَنَا - أَصَحَّ الْقَوْلَیْنِ فِی النَّظَرِ، لِأَنَّا رَأَیْنَا الْأَذَانَ مِنْہُ مَا یُرَدَّدُ فِیْ مَوْضِعَیْنِ، وَمِنْہُ مَا لَا یُرَدَّدُ إِنَّمَا یُذْکَرُ فِیْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ .فَأَمَّا مَا یُذْکَرُ فِیْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ وَلَا یُکَرَّرُ، فَالصَّلَاۃُ وَالْفَلَاحُ، فَذٰلِکَ یُنَادٰی بِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُ مَرَّتَیْنِ .وَالشَّہَادَۃُ تُذْکَرُ فِیْ مَوْضِعَیْنِ، أَوَّلَ الْأَذَانِ وَفِیْ آخِرِہِ فَیُثَنَّی فِیْ أَوَّلِہٖ فَیُقَالُ " أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ " مَرَّتَیْنِ ثُمَّ، یُفْرَدُ فِیْ آخِرِہٖ فِیْ قَالَ (لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ) وَلَا یُثَنّٰی ذٰلِکَ .فَکَانَ مَا ثُنِّیَ مِنَ الْأَذَانِ إِنَّمَا ثُنِّیَ عَلٰی نِصْفِ مَا ہُوَ عَلَیْہِ فِی الْأَوَّلِ، وَکَانَ التَّکْبِیْرُ یُذْکَرُ فِیْ مَوْضِعَیْنِ، فِیْ أَوَّلِ الْأَذَانِ، وَبَعْدَ الْفَلَاحِ .فَأَجْمَعُوْا أَنَّہٗ بَعْدَ الْفَلَاحِ یَقُوْلُ (اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ) .فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا وَصَفْنَا أَنْ یَکُوْنَ مَا اُخْتُلِفَ فِیْہِ، مِمَّا یُبْتَدَأُ بِہِ الْأَذَانُ مِنَ التَّکْبِیْرِ أَنْ یَکُوْنَ مِثْلَ مَا یُثَنّٰی بِہٖ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا مِنَ الشَّہَادَۃِ أَنَّ " لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ " فَیَکُوْنُ مَا یُبْتَدَأُ بِہٖ الْأَذَانُ مِنَ التَّکْبِیْرِ عَلٰی ضِعْفِ مَا یُثَنَّی فِیْہِ مِنَ التَّکْبِیْرِ .فَإِذَا کَانَ الَّذِیْ یُثَنّٰی ھُوَ " اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، کَانَ الَّذِیْ یُبْتَدَأُ بِہٖ ہُوَ ضِعْفُہُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ الصَّحِیْحُ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُ اللّٰہٗ .غَیْرَ أَنَّ أَبَا یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ مِثْلُ الْقَوْلِ الْأَوَّلِ. وَالْمَوْضِعُ الْآخَرُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنْہُ ہُوَ التَّرْجِیْعُ، فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی التَّرْجِیْعِ، وَتَرَکَہٗ آخَرُوْنَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٧٨٠: ابوالولید و ابو عمر الحوضی دونوں نے ہمام سے روایت کی پھر بقیہ اسی سند سے روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ اذان کی ابتداء میں چار مرتبہ اللہ اکبر کہا جائے۔ ہمارے نزدیک نظری لحاظ سے بھی یہ قول صحیح ترین ہے۔ کیونکہ یہ ہم دیکھتے ہیں کہ اذان میں بعض کلمات وہ ہیں جو دو جگہ دھرائے جاتے ہیں اور بعض کلمات صرف ایک مرتبہ دھرائے جاتے ہیں اور ایک جگہ میں مذکور ہوتے ہیں۔ وہ کلمات جو ایک جگہ میں مذکور ہوتے ہیں مگر تکرار سے نہیں آتے وہ صلوۃ اور فلاح ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دو مرتبہ ہے اور شہادت کا تذکرہ دو بار کیا جاتا ہے۔ اسے اذان کے شروع میں اور آخر میں بھی ۔ ابتداء میں دو مرتبہ ہے : اشہد ان لا الٰہ الا اللہ ‘ دو مرتبہ کہتے پھر آخر میں اسے ایک مرتبہ لایا جاتا ہے۔ پس جو کلمات اذان میں دو مرتبہ آئے ہیں وہ پہلی سے نصف تعداد میں دوبارہ آتے ہیں۔ اللہ اکبر بھی دو جگہ ہے شروع میں اور فلاحین کے بعد دو مرتبہ اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ تو اس قیاس کے مطابق جو ہم نے کیا شروع میں دوگنا یعنی چار مرتبہ ہونا چاہیے جیسا کہ کلمہ شہادت کا ہم نے تذکرہ کیا تو شروع کی تکبیر آخر کی تکبیر سے دوگنا ہونا چاہیے۔ چنانچہ شروع میں چار مرتبہ ہے تو آخر میں دو مرتبہ ہے۔ یہی درست قیاس ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے قول اول کی طرح بھی مروی ہے اور دوسری جگہ جس میں اختلاف ہے وہ ترجیع ہے۔ بعض علماء ترجیع کی طرف گئے ہوں جبکہ دوسرے اس کے ترک کا قول کرتے ہیں اور ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : دارمی ١؍١١٩٧۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں تکبیر چار مرتبہ کہی جائے گی۔
نظر طحاوی (رح) :
ان دونوں اقوال میں سے یہ قول کہ ابتداء میں تکبیر چار مرتبہ کہی جائے یہ زیادہ صحیح قول ہے کیونکہ اذان پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ بعض کلمات دو مقام پر لوٹائے جاتے ہیں اور بعض کلمات ایک مقام پر ذکر کئے جاتے ہیں چنانچہ جو کلمات ایک مقام میں ذکر کئے جاتے ہیں اور دھرائے نہیں جاتے وہ الصلاۃ اور الفلاح کے کلمات ہیں ان میں سے ہر ایک کو دو مرتبہ کہا جاتا ہے اور شہادۃ کو ابتداء میں اور انتہاء دو مقام پر ذکر کیا جاتا ہے ابتداء میں تو دو مرتبہ اشہدان لاالہ الا اللہ کہا جاتا ہے پھر آخر میں لا الٰہ الا اللہ ایک مرتبہ کہا جاتا ہے۔
چنانچہ اذان میں جو کلمات دو مرتبہ آتے ہیں وہ ابتداء کے اعتبار سے نصف ہیں مثلاً تکبیر کا تذکرہ دو جگہ ہے ابتداء میں اور فلاح کے بعد بھی اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آخر میں فلاح کے بعد ” اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر “ دو مرتبہ کہا جائے گا۔
قیاس و نظر کے اعتبار سے :
جس میں اختلاف کیا گیا ان میں سے جن سے اذان کی ابتداء ہوتی ہے جیسے تکبیر تو وہ آخر میں دو مرتبہ ہو تو شروع میں چار مرتبہ آنا چاہیے اور شہادت میں آخر میں لاالہ الا اللہ ایک مرتبہ ہے تو شروع میں دو مرتبہ ہونا چاہیے ۔ جب اللہ اکبر بھی آخر میں دو مرتبہ آتا ہے تو شروع میں چار مرتبہ ہونا چاہیے۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ہے البتہ ابو یوسف کا ایک قول امام مالک کے ساتھ بھی ہے۔
مسئلہ نمبر ٢ اذان میں ترجیع ہے یا نہیں
فریق اوّل امام مالک و شافعی (رح) اس میں ترجیع کے قائل ہیں ان کی دلیل روایت ابو محذورہ ہے جو شروع باب میں ہے۔
فریق دوم کی مستدل روایت ۔ کہ ترجیع نہیں ہے۔

781

۷۸۱ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ دَاوٗدَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی أَنَّ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ زَیْدٍ رَأَی رَجُلًا نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، أَوْ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ، فَقَامَ عَلَی جِذْمِ حَائِطٍ فَنَادَی اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ .فَذَکَرَ الْأَذَانَ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرِ التَّرْجِیْعَ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہٗ فَقَالَ نِعْمَ مَا رَأَیْتَ عَلِّمْہُ بِلَالًا) .
٧٨١: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زید (رض) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اترا اس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے یا اس پر دو سبز چادریں تھیں وہ دیوار کے ایک حصے پر کھڑا ہوا اور اس نے اذان دی اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ‘ ۔ اس روایت میں ابو محذورہ کے مطابق اذان کو ذکر کیا گیا ہے البتہ اس میں ترجیع نہیں ہے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا تم نے خوب خواب دیکھا یہ بلال کو سکھاؤ۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢٣٢۔

782

۷۸۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی النَّیْسَابُوْرِیُّ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ زَیْدِ الْأَنْصَارِیَّ رَأَی الْأَذَانَ فِی الْمَنَامِ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہٗ فَقَالَ عَلِّمْہُ بِلَالًا فَقَامَ بِلَالٌ، فَأَذَّنَ مَثْنٰی مَثْنٰی) .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زَیْدٍ، لَمْ یَذْکُرْ فِیْ حَدِیْثِہٖ التَّرْجِیْعَ، فَقَدْ خَالَفَ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ فِی التَّرْجِیْعِ فِی الْأَذَانِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ التَّرْجِیْعُ الَّذِیْ حَکَاہُ أَبُوْ مَحْذُوْرَۃَ إِنَّمَا کَانَ لِأَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ لَمْ یَمُدَّ بِذٰلِکَ صَوْتَہُ، عَلٰی مَا أَرَادَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ، فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ارْجِعْ وَامْدُدْ مِنْ صَوْتِکَ) ھٰکَذَا اللَّفْظُ فِی الْحَدِیْثِ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ، وَجَبَ النَّظَرُ، لِنَسْتَخْرِجَ بِہٖ مِنَ الْقَوْلَیْنِ قَوْلًا صَحِیْحًا، فَرَأَیْنَا مَا سِوَیْ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ مِنَ الشَّہَادَۃِ أَنْ (لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ " لَا تَرْجِیْعَ فِیْہِ) .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ عَنْ ذٰلِکَ، مَعْطُوفًا عَلٰی مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ، وَیَکُوْنُ إِجْمَاعُہُمْ، أَنْ لَا تَرْجِیْعَ فِیْ سَائِرِ الْأَذَانِ غَیْرَ الشَّہَادَۃِ یَقْضِیْ عَلَی اخْتِلَافِہِمْ فِی التَّرْجِیْعِ فِی الشَّہَادَۃِ .وَھٰذَا الَّذِیْ وَصَفْنَا وَمَا بَیَّنَّاہُ مِنْ نَفْیِ التَّرْجِیْعِ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی.
٧٨٢: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کیا کہ عبداللہ بن زید بن عبداللہ انصاری (رض) نے اذان کو خواب میں دیکھا پس وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ کو اطلاع دی تو آپ نے فرمایا تم بلال کو سکھا دو پس بلال کھڑے ہوئے اور انھوں نے دو دو مرتبہ کلمات سے اذان دی یہ عبداللہ بن زید (رض) ہیں جنہوں نے اپنی روایت میں ترجیع کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢٤٦۔
حاصل روایات : یہ عبداللہ بن زید ہیں جن کی روایت میں ترجیع نہیں اور ابو محذورہ (رض) کی روایت میں ترجیع ہے اب ان کی روایت میں ترجیع ہے اس میں تاویل کرنا پڑے گی کہ وہ اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے اور شہادت کو انھوں نے آہستہ کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ارجع وامدد من صوتک یہ الفاظ روایت ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب ٢٨‘ نسائی فی الاذان باب ٥‘ میں مذکور ہیں تو ان کی روایت میں اس علت کی وجہ سے احتمال پیدا ہوگیا پس اس سے حجت درست نہیں اب اس فیصلہ پر پہنچنے کے لیے بطریق نظر دیکھنا ہوگا۔
نظر طحاوی (رح) :
اور کسی کلمہ اذان میں اختلاف نہیں صرف شہادتین کے متعلق اختلاف ہے تو اب جس بات میں اختلاف ہے اس کو اس طرف موڑو جس میں اختلاف نہیں ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ علاوہ شہادتین کسی حصہ میں ترجیع نہیں ہے تو اس سے خود سمجھ آگیا کہ اس میں بھی ترجیح نہیں کیونکر ترجیع اس علت پر موقوف تھی یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف و محمد کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں نظر کو دو مرتبہ استعمال کیا مگر اذان کے سلسلہ میں اپنے راجح مسلک کے روایات سے کم دلائل پیش کئے ایک ہی دلیل سے دوھرا کام لیا۔

783

۷۸۳ : حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُبَشِّرِ بْنِ مُکَسِّرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑالْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ خَالِدِ ڑالْحَذَّائِ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : (أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَیُوْتِرَ الْاِقَامَۃَ).
٧٨٣: ابی قلابہ نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ حضرت بلال کو حکم ملا اذان کو جفت اور اقامت کو طاق کہا کریں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٢‘ ١ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٣‘ ٢؍٥‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٩‘ ٥٠٨‘ ترمذی فی فی الصلاۃ باب ٦‘ مسند احمد ٣؍١٠٣‘ ١٨٩۔
اقامت کی کیفیت میں فریق اوّل امام مالک و اہل مدینہ (رح) دس کلمات بتلائے ہیں فریق دوم امام شافعی و احمد حسن بصری اہل حجاز کے ہاں کلمات اقامت گیارہ ہیں فریق ثالث امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری ‘ اہل کوفہ کلمات اقامت سترہ قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
فریق اوّل کلمات اقامت ہر چیز نصف تکبیر دو مرتبہ شہادتین دو مرتبہ حیی علی الصلاۃ ایک مرتبہ حیی علی الفلاح ایک مرتبہ قدقامت الصلاۃ ایک مرتبہ پھر اللہ اکبر ایک مرتبہ اور لاالہ ایک مرتبہ۔

784

۷۸۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٨٤: شعبہ و حماد بن زید نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارمی ١؍١٨٧۔

785

۷۸۵ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ خَالِدٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٨٥: سفیان نے خالد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٤٦٤۔

786

۷۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ خَالِدٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٨٦: حماد بن سلمہ و حماد بن زید نے خالد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٦٤۔

787

۷۸۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیْسَی بْنِ فُلَیْحِ بْنِ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ خَالِدٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٨٧: ہشیم نے خالد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٤٧۔

788

۷۸۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْہَرَوِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِیْنَارٍ الطَّاخِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ،، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : (کَانُوْا قَدْ أَرَادُوْا أَنْ یَضْرِبُوْا بِالنَّاقُوْسِ، وَأَنْ یَرْفَعُوْا نَارًا لِاِعْلَامِ الصَّلَاۃِ، حَتَّی رَأٰی ذٰلِکَ الرَّجُلُ تِلْکَ الرُّؤْیَا فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْاِقَامَۃَ) .
٧٨٨: ابو قلابہ نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ مسلمانوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ ناقوس بجائیں اور بلند جبہ پر نماز کے لیے اعلان کیا جاسکے یہاں تک کہ ایک آدمی (عبداللہ بن زید بن عبدربہ (رض)) نے وہ خواب دیکھا تو بلال کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات جفت اور اقامت کے طاق کہیں۔
تخریج : بخاری ١؍٢٢٠‘ مسلم ١؍١٦٤۔

789

۷۸۹ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو الْجَزَرِیُّ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْاِقَامَۃَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، فَقَالُوْا : ھٰکَذَا الْاِقَامَۃُ تُفْرَدُ مَرَّۃً مَرَّۃً .وَخَالَفَہُمْ آخَرُوْنَ فِیْ حَرْفٍ وَاحِدٍ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْا : إِلَّا قَوْلَہٗ (قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ فَإِنَّہٗ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یُثَنّٰی ذٰلِکَ مَرَّتَیْنِ) وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٧٨٩: ابو قلابہ نے نقل کیا کہ انس (رض) کہتے ہیں کہ بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کو جفت اور اقامت کو طاق کہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اقامت ایک ایک مرتبہ کہی جائے گی۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بقیہ اقامت تو تمہاری طرح ہے مگر قدقامت الصلوٰۃ کو دو مرتبہ کہا جائے گا ‘ ان کی مستدل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧٥۔
حاصل روایات : اذان کے کلمات جب جفت ہیں اقامت کے کلمات طاق ہوں گے اور قدقامت الصلاۃ پھر ایک مرتبہ ملا کر دس کلمات بنیں گے پس یہی مسنون ہے۔
فریق دوم کا مؤقف :
یہ تمام کلمات فریق اوّل کی طرح ہیں البتہ قدقامت الصلاۃ اقامت کی وجہ سے دو مرتبہ کہے جانے کا مستحق ہے جیسا مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہے۔

790

۷۹۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ سِمَاکِ بْنِ عَطِیَّۃَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : (أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْاِقَامَۃَ إِلَّا الْاِقَامَۃَ).
٧٩٠: قلابہ نے بیان کیا کہ انس (رض) کہتے ہیں کہ بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کو جفت اور اقامت کو طاق کہیں سوائے اقامت کے لفظ کے۔
تخریج : بخاری ١؍٢٢٠۔

791

۷۹۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانِ ڑ الْعَوَفِیُّ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .
٧٩١: ابو قلابہ نے بیان کیا کہ انس (رض) نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

792

۷۹۲ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ، قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْاِقَامَۃَ) .قَالَ إِسْمَاعِیْلُ فَحَدَّثْتُ بِہٖ أَیُّوْبَ فَقُلْتُ لَہٗ : وَأَنْ یُوْتِرَ الْاِقَامَۃَ فَقَالَ " إِلَّا الْاِقَامَۃَ " .
٧٩٢: ابو قلابہ نے بیان کیا کہ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کو جفت اور اقامت کو طاق کہیں اسماعیل کہتے ہیں میں نے اپنے استاذ ایوب کو کہا ان یوترالاقامۃ تو انھوں نے کہا : الاقامۃ ہاں اقامت کے لفظ کو جفت کہا جائے۔
تخریج : بخاری ١؍٢٢٠‘ مسلم ١؍١٦٤۔

793

۷۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرِ ڑ الْفَرَّائِ عَنْ مُسْلِمٍ، مُؤَذِّنٍ کَانَ لِأَہْلِ الْکُوْفَۃِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَ الْأَذَانُ عَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ وَالْاِقَامَۃُ مَرَّۃً مَرَّۃً غَیْرَ أَنَّہٗ اِذْ قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ قَالَہَا مَرَّتَیْنِ، فَعَرَفْنَا أَنَّہَا الْاِقَامَۃُ فَیَتَوَضَّأُ أَحَدُنَا، ثُمَّ یَخْرُجُ) .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مِنَ النَّظَرِ فَقَالُوْا : قَدْ رَأَیْنَا الْأَذَانَ مَا کَانَ مِنْہُ مُکَرَّرًا لَمْ یُثَنِّ فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ إِلَّا وَجُعِلَ عَلَی النِّصْفِ مِمَّا ہُوَ عَلَیْہِ فِی الْاِبْتِدَائِ، وَکَانَتَ الْاِقَامَۃُ لَا یُبْتَدَأُ بِہَا، إِنَّمَا تَکُوْنُ بَعْدَ الْأَذَانِ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ مَا فِیْہَا مِمَّا ہُوَ فِی الْأَذَانِ غَیْرَ مُثَنًّی، وَمَا فِیْہَا مِمَّا لَیْسَ فِی الْأَذَانِ فَکُلُّ الْاِقَامَۃِ فِی الْأَذَانِ غَیْرَ " قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ " فَیُفْرِدُ الْاِقَامَۃَ کُلَّہَا، وَلَا یُثَنّٰی غَیْرَ " قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ " فَإِنَّہَا تُکَرَّرُ لِأَنَّہَا لَیْسَتْ فِی الْأَذَانِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا الْاِقَامَۃُ کُلُّہَا مَثْنٰی مَثْنٰی مِثْلُ الْأَذَانِ سَوَائٌ ، غَیْرَ أَنَّہٗ یُقَالُ فِیْ آخِرِہَا : " قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ " .وَقَالُوْا : مَا ذَکَرْتُمْ عَنْ بِلَالٍ، قَدْ رُوِیَ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ، مِمَّا سَنَذْکُرُہٗ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٧٩٣: ابو جعفرالفراء نے مسلم سے نقل کیا یہ اہل کوفہ کے مؤذن تھے انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اذان جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں دو دو مرتبہ اور اقامت ایک ایک مرتبہ تھی البتہ جب قد قامت الصلاۃ کہتے تو اسے دو مرتبہ کہا جاتا پس اس سے ہم پہچان لیتے کہ یہ اقامت ہے پس وضو کر کے ہم نکلتے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں نظر و فکر کو مستدل بنایا اور کہا کہ ہم نے غور سے دیکھا کہ اذان میں جو کلمات تکرار سے کہے ہیں وہ دوسری مرتبہ دوگنا نہیں آتے ہیں بلکہ ابتداء سے نصف آتے ہیں اور اقامت سے ابتداء نہیں ہوتی بلکہ وہ اذان کے بعد ہوتی ہے۔ پس منظر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے وہ الفاظ جو اذان میں آتے ہیں طاق ہوں اور جو اذان میں نہیں وہ جفت ہوں۔ پس قد قامت الصلوٰۃ کے علاوہ تمام کلمات اذان سے نصف ہوں گے اور قد قامت الصلوٰۃ کو دو مرتبہ لایا جائے گا کیونکہ وہ اذان میں نہیں اور بقیہ کلمات اذان میں ہیں وہ نصف تعداد میں لائے جائیں گے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ اذان کی طرح اقامت کے کلمات بھی دو دو مرتبہ ہونے چاہئیں البتہ اقامت میں قدقامت الصلوٰۃ بھی کہا جاتا ہے۔ باقی جو روایت بلال (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش کرتے ہیں ہم انہی کی روایت اس کے برعکس دکھا سکتے ہیں ‘ ملاحظہ کریں۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧٥۔
فریق ثانی کے دلائل کا خلاصہ :
یہ ہے کہ اذان کے کلمات سے اقامت کے کلمات طاق ہوں گے صرف قدقامت الصلاۃ کو دو مرتبہ کہا جائے۔
ان کا ایک عقلی دلیل سے استدلال :
اذان کے کلمات پر غور کیا کہ جو ایک مقام پر آتے ہیں اور دوسری قسم جو دو مقام پر آتے ہیں ابتداء میں دو مقام پر آتے ہیں وہ پہلی جگہ کے مقابلے میں دوسری جگہ نصف ہیں معلوم ہوا بعد والا جو ذکر کیا جائے وہ نصف ہوجاتا ہے اور اقامت کا کلمہ تو پہلی مرتبہ آیا ہے یہ اسی طرح رہے گا اور اذان والے کلمات دوبارہ آنے کی وجہ سے نصف ہوجائیں گے اقامت کا کلمہ اذان میں سرے سے مذکور نہیں پس وہ دو مرتبہ ہی رہے گا پس کل گیارہ کلمات ہوگئے۔
فریق ثالث کا مؤقف :
اذان و اقامت کے کلمات یکساں ہیں اذان میں ترجیع نہیں کل کلمات پندرہ ہوئے اور قدقامت الصلاۃ جو اقامت کے ساتھ ہے وہ دو مرتبہ ہے اس طرح سترہ کلمات بن گئے۔
مستدل روایات :
تم نے حضرت بلال (رض) کے متعلق حضرت انس (رض) کا بیان نقل کیا ہم خود ان کی اپنی روایت ذکر کرتے ہیں جو اس کے خلاف ہے۔

794

۷۹۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ دَاوٗدَ، عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، أَنَّ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ زَیْدٍ رَأٰی رَجُلًا نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ، عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، أَوْ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ، فَقَامَ عَلَی جِذْمِ حَائِطٍ فَأَذَّنَ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَعَدَ، ثُمَّ قَامَ فَأَقَامَ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہٗ فَقَالَ : نِعْمَ مَا رَأَیْتُ، عَلِّمْہَا بِلَالًا) .
٢٩٤: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ نے ایک آدمی دیکھا جو آسمان سے اترا اس نے سبز کپڑے زیب تن کر رکھے تھے یا دو سبز چادریں اوڑھ رکھی تھیں وہ دیوار کے ایک حصہ پر کھڑا ہوا اور اس نے اذان دی اللہ اکبر اللہ اکبر جیسا باب اول میں ہم نے ذکر کیا پھر وہ بیٹھ گیا پھر کھڑا ہوا اور اسی طرح اقامت کہی پھر عبداللہ بن زید (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ کو اطلاع دی تو آپ نے فرمایا تم نے بہت خوب دیکھا یہ کلمات بلال کو سکھاؤ۔
تخریج : روایت نمبر ٧٨١ کو ملاحظہ کریں۔

795

۷۹۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی النِّیْسَابُوْرِیُّ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ زَیْدِ ڑ الْأَنْصَارِیَّ رَأٰی فِی الْمَنَامِ الْأَذَانَ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَہٗ فَقَالَ : عَلِّمْہُ بِلَالًا فَأَذَّنَ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ وَأَقَامَ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ وَقَعَدَ قَعْدَۃً) .
٧٩٥: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی کہ عبداللہ بن زید انصاری نے خواب میں اذان دیکھی پھر وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا تم اسے بلال کو سکھاؤ پس انھوں نے دو دو مرتبہ کلمات سے اذان دی اور دو دو مرتبہ کلمات سے اقامت کہی اور بیٹھ گئے۔
تخریج : المحلّٰی لابن حزم ٢؍١٩١

796

۷۹۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : حَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔قَالَ : عَبْدُ اللّٰہِ : لَوْلَا أَنِّیْ أَتَّہِمُ نَفْسِیْ لَظَنَنْتُ أَنِّیْ رَأَیْتُ ذٰلِکَ وَأَنَا یَقْظَانُ غَیْرُ نَائِمٍ ثُمَّ قَالَ : وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ " أَنَا وَاللّٰہِ لَقَدْ طَافَ بِی الَّذِیْ طَافَ بِعَبْدِ اللّٰہِ، فَلَمَّا رَأَیْتَہٗ قَدْ سَبَقَنِی، سَکَتُّ" فَفِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّ بِلَالًا أَذَّنَ بِتَعْلِیْمِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ بِأَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ بِذٰلِکَ، فَأَقَامَ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ فَھٰذَا یُخَالِفُ الْحَدِیْثَ الْأَوَّلَ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ بِلَالٍ أَنَّہٗ کَانَ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤَذِّنُ مَثْنٰی مَثْنٰی، وَیُقِیْمُ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلَی انْتِفَائِ مَا رَوٰی أَنَسٌ.
٧٩٦: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں ہمیں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذکر فرمایا ہے پھر اسی طرح روایت نقل کی عبداللہ کہتے ہیں اگر اپنے نفس کو متہم کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں کہتا میں نے یہ بات بیداری کی حالت میں دیکھی ہے جبکہ میں نیند میں نہ تھا پھر کہنے لگے اور عمر بن خطاب کہنے لگے اللہ کی قسم خواب میں وہی آنے والا جو عبداللہ کو آیا مجھے بھی آیا جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے آگے بڑھ گئے ہیں تو میں خاموش ہوگیا۔ اس اثر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اذان بلالی تلقین عبداللہ بن زید (رض) سے تھی۔ پس ان کی اقامت دو دو بار ہے۔ یہ روایت پہلی روایات کے مخالف ہے۔ پھر حضرت بلال (رض) سے مروی ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اذان بھی دو دو کلمات اور اقامت بھی دو دو کلمات سے کہتے تھے۔ یہ اس چیز کی نفی پر دلالت کرتی ہے جس کو حضرت انس (رض) نے روایت کیا ہے۔
تخریج : المحلی ابن حزم ٢؍١٩٢۔
نوٹ : نمبر ١: اس اثر سے صاف ظاہرہو رہا ہے کہ بلال نے عبداللہ بن زید کی تعلیم پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اذان دی پس انھوں نے اقامت دو دو مرتبہ کہی یہ حدیث اول کے خلاف ہے اور یہ روایت روایت انس (رض) کے مقابلے میں مفصل ہے وہ مجمل ہے اس کو اس پر محمول کیا جائے گا۔
نمبر ٢: دو دو مرتبہ کلمات سے اذان دیتے تھے اور اقامت بھی دو دو مرتبہ کہتے رہے پس یہ فعل بھی انس والی روایت کی نفی کرتا ہے۔

797

۷۹۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ أَنَّہٗ کَانَ یُثَنِّی الْأَذَانَ، وَیُثَنِّی الْاِقَامَۃَ .
٧٩٧: اسود نے نقل کیا کہ بلال اذان کے کلمات دو دو مرتبہ ور اقامت بھی دو دو مرتبہ کہتے تھے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٤٦٢‘ دارقطنی ١؍٢٥٠۔

798

۷۹۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، ح .وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ لُوَیْنٌ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سُوَیِْد بْنِ غَفَلَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ بِلَالًا یُؤَذِّنُ مَثْنٰی‘ وَیُقِیْمُ مَثْنٰی .فَھٰذَا بِلَالٌ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِی الْاِقَامَۃِ مَا یُخَالِفُ مَا ذَکَرَ أَنَسٌ، وَفِیْ حَدِیْثِ (أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُ الْاِقَامَۃَ مَثْنٰی مَثْنًی)
٧٩٨: عمران بن مسلم نے بیان کیا کہ سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو خود دو دو مرتبہ کلمات سے اذان و اقامت کہتے سنا۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٥٩‘ طبرانی فی مسند الشامیین مثلہ ٢؍٢٧٧۔
یہ بلال اقامت میں انس (رض) کی روایت کے خلاف نقل کرتے ہیں اور حدیث ابو محذورہ (رض) میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اقامت دو دو مرتبہ سکھائی ہے۔

799

۷۹۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَا : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْہِ وَأُمِّ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ قَالَتْ : سَمِعْتُ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ ح .
٧٩٩: عثمان نے سائب اور ام عبدلاملک سے نقل کیا کہ دونوں نے ابو محذورہ سے اسی طرح سنا ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٤۔

800

۸۰۰ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْہِ، وَأُمِّ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّہُمَا سَمِعَا (أَبَا مَحْذُوْرَۃَ یَقُوْلُ عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْاِقَامَۃَ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ) .غَیْرَ أَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ حَدِیْثِہٖ " قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ " .
٨٠٠: عثمان نے سائب اور امّ عبدالملک سے نقل کیا کہ دونوں نے ابو محذورہ (رض) کو کہتے سنا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اقامت اس طرح سکھائی دو دو مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر اشہد ان لا الٰہ الا اللہ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ اشہد ان محمدا رسول اللہ اشہد ان محمدا رسول اللہ حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ حی علیٰ الفلاح حی علیٰ الفلاح قدقامت الصلاۃ قدقامت الصلاۃ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ ۔ البتہ ابوبکر راوی نے اپنی روایت میں قدقامت الصلاۃ کے کلمات نقل نہیں کئے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧٢‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٨‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٧‘ مسند احمد ٣؍٤٠٩۔

801

۸۰۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : حَدَّثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَامِرٌ الْأَحْوَلُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَکْحُوْلٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَیْرِیْزٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ (أَبَا مَحْذُوْرَۃَ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُ الْاِقَامَۃَ سَبْعَ عَشْرَۃَ کَلِمَۃً اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ رَوْحٍ سَوَائً) .
٨٠١: مکحول نے عبداللہ بن محیریز سے بیان کیا کہ ابو محذورہ (رض) نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اقامت کے سترہ کلمات سکھائے اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر پھر روح کی روایت کی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧٣‘ ترمذی ١؍٤٨۔

802

۸۰۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، ح .
٨٠٢: موسیٰ بن داؤد نے ہمام سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٤٥۔

803

۸۰۳ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ عَامِرِ ڑ الْأَحْوَلِ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیْزٍ، عَنْ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٨٠٣: ابن محیریز نے ابو محذورہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٣۔

804

۸۰۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، وَأَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَا : ثَنَا ہَمَّامٌ ح .
٨٠٤: حدثنا ابوالولید ‘ ابو عمرالحوضی دونوں نے نقل کیا کہ حدثنا ہمام پھر اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٧؍١٧٠۔

805

۸۰۵ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، قَالَ : ثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، قَالَ : ثَنَا مَکْحُوْلٌ، أَنَّ ابْنَ مُحَیْرِیْزٍ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ (أَبَا مَحْذُوْرَۃَ یَقُوْلُ : عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْاِقَامَۃَ سَبْعَ عَشْرَۃَ کَلِمَۃً) .فَتَصْحِیْحُ مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، یُوْجِبُ أَنْ یَکُوْنَ الْاِقَامَۃُ مِثْلَ الْأَذَانِ سَوَائً، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا، لِأَنَّ بِلَالًا اُخْتُلِفَ فِیْمَا أُمِرَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ثُمَّ ثَبَتَ ہُوَ مِنْ بَعْدُ عَلَی التَّثْنِیَۃِ فِی الْاِقَامَۃِ بِتَوَاتُرِ الْآثَارِ فِیْ ذٰلِکَ، فَعُلِمَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ مَا أُمِرَ بِہٖ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ التَّثْنِیَۃُ أَیْضًا، فَقَدْ ثَبَتَ التَّثْنِیَۃُ فِی الْاِقَامَۃِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّ قَوْمًا احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ مِمَّنْ یَقُوْلُ : " الْاِقَامَۃُ تُفْرَدُ مَرَّۃً مَرَّۃً " بِالْحُجَّۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا لَہُمْ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِمَّا یُکَرَّرُ فِی الْأَذَانِ مِمَّا لَا یُکَرَّرُ، فَکَانَتَ الْحُجَّۃُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ الْأَذَانَ کَمَا ذَکَرُوْا .وَأَمَّا مَا کَانَ مِنْہُ مِمَّا یُذْکَرُ فِیْ مَوْضِعَیْنِ، یُثَنّٰی فِی الْمَوْضِعِ الْأَوَّلِ وَأُفْرِدَ فِی الْمَوْضِعِ الْآخَرِ وَمَا کَانَ مِنْہُ غَیْرَ مُثَنًّی أُفْرِدَ .وَأَمَّا الْاِقَامَۃُ فَإِنَّمَا تُفْعَلُ بَعْدَ انْقِطَاعِ الْأَذَانِ، فَلَہَا حُکْمٌ مُسْتَقِلٌّ، وَقَدْ رَأَیْنَا مَا یُخْتَمُ بِہٖ الْاِقَامَۃُ مِنْ قَوْلِ " لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ " ہُوَ مَا یُخْتَمُ بِہٖ الْأَذَانُ أَیْضًا .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ بَقِیَّۃُ الْاِقَامَۃِ عَلَی مِثْلِ بَقِیَّۃِ الْأَذَانِ أَیْضًا .فَکَانَ مِمَّا یَدْخُلُ عَلٰی ھٰذِہِ الْحُجَّۃِ، أَنَّا رَأَیْنَا مَا یُخْتَمُ بِہٖ الْاِقَامَۃُ لَا نِصْفَ لَہٗ فَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْمَقْصُوْدُ إِلَیْہِ مِنْہُ، ہُوَ نِصْفُہٗ .إِلَّا أَنَّہٗ لَمَّا لَمْ یَکُنْ لَہٗ نِصْفٌ، کَانَ حُکْمُہٗ حُکْمَ سَائِرِ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ لَا تَنْقَسِمُ، مِمَّا اِذَا وَجَبَ بَعْضُہَا، وَجَبَ بِوُجُوْبِہٖ کُلُّہَا فَلِھٰذَا صَارَ مَا یُخْتَمُ بِہٖ الْأَذَانُ وَالْاِقَامَۃُ، مِنْ قَوْلِ (لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ) سَوَائً، فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ لِأَحَدِ الْمَعْنَیَیْنِ عَلَی الْآخَرِ .ثُمَّ نَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَرَأَیْنَاہُمْ لَمْ یَخْتَلِفُوْا أَنَّہٗ فِی الْاِقَامَۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ وَالْفَلَاحِ یَقُوْلُ (اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ) فَیَجِیْئُ بِہٖ، ہَاہُنَا، عَلَی مِثْلِ مَا یَجِیْئُ بِہٖ فِی الْأَذَانِ فِیْ ھٰذَا الْمَوْضِعِ أَیْضًا، وَلَا یَجِیْئُ بِہٖ عَلٰی نِصْفِ مَا ہُوَ عَلَیْہِ فِی الْأَذَانِ .فَلَمَّا کَانَ ھٰذَا مِنَ الْاِقَامَۃِ، مِمَّا لَہٗ نِصْفٌ، عَلَی مِثْلِ مَا ہُوَ عَلَیْہِ فِی الْأَذَانِ، سَوَائٌ کَانَ مَا بَقِیَ مِنَ الْاِقَامَۃِ أَیْضًا، ہُوَ عَلَی مِثْلِ مَا ہُوَ عَلَیْہِ فِی الْأَذَانِ أَیْضًا سَوَائٌ لَا یُحْذَفُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْاِقَامَۃَ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا .
٨٠٥: مکحول کہتے ہیں کہ ابن محیریز نے مجھے بیان کیا کہ انھوں نے ابو محذورہ کو یہ فرماتے سنا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔ ان آثار کے معانی کو درست رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اقامت کو اذان کی طرح تسلیم کیا جائے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کردیا کیونکہ حضرت بلال (رض) کو جس بات کا حکم دیا گیا اس میں اختلاف ہے۔ پھر وہ اقامت میں جفت کلمات پر قائم رہے ‘ یہ تواتر سے ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ان کو اسی کا حکم دیا گیا۔ حضرت ابومحذورہ (رض) کی روایت میں بھی جفت کلمات ہیں۔ پس اقامت میں بھی جفت ہونا ثابت ہوگیا۔ البتہ نظر و فکر کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں جو لوگ اقامت منفرد مانتے ہیں وہ اس کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں جو ہم نے اس باب کی ابتداء میں ذکر کردی کہ اذان کے بعض کلمات میں تکرار ہے اور بعض کلمات دو مرتبہ تکرار کے علاوہ ہیں تو اس سے انھوں نے استدلال کیا کہ اذان کے کلمات جو دو مرتبہ مذکور ہیں وہ پہلی مرتبہ دوبارہ آئے ہیں تو دوسری مرتبہ وہ مفرد لائے گئے اور جو دو مرتبہ نہیں آئے اور مفرد لائے گئے باقی اقامت تو اختتام اذان کے بعد کہی جاتی ہے۔ پس اس کا حکم باقی اذان کی طرح ہونا چاہیے۔ اس دلیل پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ جن الفاظ سے اقامت کا اختتام ہوتا ہے وہ تو نصف نہیں ہوتے پس یہ جائز ہونا چاہیے کہ اس کا مقصود اس سے نصف ہو۔ جب یہ نصف نہیں تو اس کا حکم تمام طاق اشیاء کی طرف ہونا چاہیے کہ جب ان کا بعض حصہ لازم ہوجاتا ہے تو تمام وجوب کے ساتھ واجب ہوجاتی ہے۔ پس اذان و اقامت کا اختتام لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ برابر منفرد طور پر ہوتا ہے تو اس میں ایک معنی کے دوسرے کے لیے ثابت ہونے کی کوئی دلیل نہ رہی۔ پھر ہم نے نظری طور پر توجہ ڈالی تو ہمیں یہ ظاہر ہوا کہ اس میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ اقامت میں فلاحین کے بعد اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر دو مرتبہ آتا ہے اور یہ اذان و اقامت میں برابر ہے۔ اسے اذان کا نصف کر کے نہیں لایا جاتا پس جب یہ اقامت میں ایسا کلمہ ہے کہ اس کا نصف اذان کے مماثل ہے تو بقیہ اقامت بھی اذان کے برابر ہونی چاہیے۔ پس جب یہ اقامت میں نصف نہیں ہوتے تو اقامت کے بعد یہ کلمات بھی اذان کے لحاظ سے ایک جیسے ہونے چاہیں اور اس سے کوئی کلمہ چھوڑا نہ جائے اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اقامت کے کلمات دو دو بار ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف و محمد (رح) کا یہی مسلک ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے۔ آثارِ صحابہ درج کئے جاتے ہیں۔
تخریج : دارمی ١؍١٨٨۔
اللغات : ان بارہ روایات سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اقامت اذان کی طرح ہے حضرت بلال کو حکم کئے جانے والی روایت مجمل ہے اور اس میں اختلاف بھی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت بلال کا بالالتزام دو دو مرتبہ کی اقامت کو لازم کرلینا متواتر روایات سے ثابت ہے پس معلوم ہوا کہ ان کو اسی کا حکم ملا تھا اور مزید براں حضرت ابو محذورہ (رض) کی روایت میں بھی دو دو مرتبہ اقامت کا ثبوت ہے جس سے یہ حقیقت مسلمہ طور پر ثابت ہوگئی کہ اقامت اذان کی طرح دو دو مرتبہ کہی جائے گی۔
فریق ثانی کی عقلی دلیل کا جواب واما وجہ :
ان کی عقلی دلیل کا حاصل یہ ہے اذان کے جو کلمات مقرر آتے ہیں وہ ابتداء کے مقابلے میں نصف استعمال ہوتے اور اقامت بھی اذان کے بعد پس یہ بھی نصف ہوگئی قدقامت پہلے مذکور نہیں وہ اسی طرح رہے گی۔
الجواب : آپ کا یہ قاعدہ تو تب چلتا جب وہ ایک چیز ہوتی اور ساتھ متصل ہوتی یہاں تو اذان اعلام عام ہے اور یہ اعلام خاص ہے اور اس کے مکمل انقطاع کے بعد ہے اس کا حکم الگ ہونا ہی مناسب ہے اور ایک اور جہت سے نظر فرمائیں دونوں کا اختتام لا الٰہ الا اللہ پر ہوتا ہے پس بقیہ کلمات میں بھی یکسانیت ہونی چاہیے۔
ایک شبہ :
لاالٰہ کا کلمہ تو غیر منقسم ہے پس جہاں آدھا بولا جائے گا تمام مراد ہوگا اقامت کا کلمہ گرچہ آدھا بولا گیا مگر پورا مراد ہے۔
الجواب : یہ اذان و اقامت میں برابر ہے اس کو غیر منقسم کہہ کر نصف سے کل واجب کرنا یا نصف بول کر کل واجب کرنا ان میں سے کسی کے لیے کوئی دلیل نہیں جیسا اذان میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح اقامت میں استعمال کیا گیا ہے۔
ایک اور نظر :
حی علی الصلاۃ ‘ حی علی الفلاح کے بعد اللہ اکبر دو مرتبہ لایا جاتا ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں حالانکہ اس میں تنصیف ممکن ہے جب ہم نے غور کیا تو تکبیر و اذان میں اسے دو مرتبہ ہی پایا پس اقامت کے بقیہ کلمات بھی اسی طرح مستعمل ہونے چاہئیں جیسا کہ قدقامت الصلاۃ میں جواز تنصیف کے باوجود اس کو دو مرتبہ لایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دونوں کا حکم برابر ہے کہ جیسے اذان مثنیٰ مثنیٰ ہے تکبیر بھی مثنیٰ مثنیٰ ہے یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور یہ بات ہم خود بنا نہیں رہے صحابہ کرام کی جماعت بتارہی ہے ملاحظہ ہو۔

806

۸۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَۃَ، عَنْ عُبَیْدٍ مَوْلٰی سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ أَنَّ سَلَمَۃَ بْنَ الْأَکْوَعِ، کَانَ یُثَنِّی الْاِقَامَۃَ .
٨٠٦: عبیدمولیٰ سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) اقامت دو مرتبہ کہتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٨٧۔

807

۸۰۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : کَانَ ثَوْبَانُ یُؤَذِّنُ مَثْنٰی‘ وَیُقِیْمُ مَثْنٰی .
٨٠٧: حماد نے بیان کیا کہ ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت ثوبان (رض) مثنی مثنیٰ اذان دیتے اور مثنیٰ مثنیٰ اقامت کہتے۔

808

۸۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ یُؤَذِّنُ مَثْنٰی مَثْنٰی‘ وَیُقِیْمُ مَثْنٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ مُجَاہِدٍ فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْقَطَّانُ قَالَ : ثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیْفَۃَ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی الْاِقَامَۃِ مَرَّۃً مَرَّۃً إِنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ اسْتَخَفَّہُ الْأُمَرَائُ فَأَخْبَرَ مُجَاہِدٌ أَنَّ ذٰلِکَ مُحْدَثٌ وَأَنَّ الْأَصْلَ ہُوَ التَّثْنِیَۃُ .
٨٠٨: عبدالعزیز بن رفیع نے کہا کہ میں نے ابو محذورہ (رض) کو سنا کہ وہ مثنیٰ مثنیٰ اذان اور اقامت کہتے تھے۔
اور یہی بات صحابہ کرام (رض) کے علاوہ جلیل القدر تابعی مجاہد سے بھی ثابت ہے۔ ملاحظہ ہو۔
یحییٰ بن سعید ‘ مجاہد (رح) سے نقل کرتے ہیں کہ اقامت ایک ایک مرتبہ یہ امراء نے تخفیف کی ہے اور یہ تو ایجاد کردہ چیز ہے اصل اس میں مثنیٰ مثنیٰ یعنی دو دو مرتبہ ہے۔
حاصل روایات : عموماً اپنی طرف سے نظر پیش کی جاتی ہے یہ پہلا موقعہ ہے کہ فریق مخالف کی طرف سے نظر پیش کر کے پھر اس کی نظر سے تردید کی ہے اور عموماً باب کے آخر میں نظر طحاوی لائے ہیں جبکہ یہاں باب کے آخر میں تائیدی روایات لائے۔

809

۸۰۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ، عَنْ (أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہٗ فِی الْأَذَانِ الْأَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ) . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : کَرِہَ قَوْمٌ أَنْ یُقَالَ فِیْ أَذَانِ الصُّبْحِ (الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ) وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ (بِحَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ فِی الْأَذَانِ الَّذِیْ أَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعْلِیْمَہٗ إِیَّاہُ بِلَالًا فَأَمَرَ بِلَالًا بِالتَّأْذِیْنِ) .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَاسْتَحَبُّوْا أَنْ یُقَالَ : ذٰلِکَ فِی التَّأْذِیْنِ لِلصُّبْحِ بَعْدَ الْفَلَاحِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ، فَقَدْ عَلَّمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ بَعْدَ ذٰلِکَ وَأَمَرَہٗ أَنْ یَجْعَلَہٗ فِی الْأَذَانِ لِلصُّبْحِ .
٨٠٩: ام عبدالملک نے بیان کیا کہ ابو محذورہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی پہلی اذان میں الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کے کلمات سکھائے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٨‘ نمبر ٥٠٠؍٥٠٤‘ نسائی فی الذان باب ٦‘ ١٥‘ ابن ماجہ فی الاذان باب ٣‘ ١‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٥‘ مالک فی النداء نمبر ٨‘ مسند احمد ٣؍٤٠٨‘ ٤٠٩‘ ٤؍٤٣۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض لوگوں نے نماز صبح میں ” الصلوٰۃ خیر من النوم “ کو مکروہ قرار دیا ہے اور انھوں نے عبداللہ بن زید (رض) کی اس روایت سے استدلال کیا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے انھوں نے بلال (رض) کو اذان سکھائی۔ علماء کی دوسری جماعت نے اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اذان فجر میں اس کا کہنا مستحب ہے۔ یہ فلاحین کے بعد کہا جائے گا اور ان کی دلیل یہ ہے کہ اگرچہ یہ عبداللہ بن زید (رض) کی روایت میں نہیں مگر یہ کلمہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابومحذورہ (رض) کو اذان فجر کے لیے تعلیم دیا اور یہ اس کے بعد کا واقعہ ہے۔

خلاصہ الزام : عطاء بن ابی رباح اور طاؤس نے تثویب فجر کو مکروہ قرار دیا ہے فریق ثانی ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اس کو مسنون قرار دیا ہے۔
فریق اوّل :
بقول امام طحاوی (رح) حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ (رض) کی روایت جو سابقہ ابواب اذان و اقامت میں گزری اس سے استدلال کیا چونکہ اس میں تثویب نہیں پس اس کا کہنا مکروہ ہے۔
فریق نمبر ٢إ
الجواب : عبداللہ بن زید (رض) کی روایت میں اگر موجود نہیں تو دیگر روایات میں اس کا وجود اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذان عبداللہ کی تصویب فرما کر انھیں بلال کو تعلیم کا حکم دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو محذورہ (رض) کو اذان فجر میں اس کا حکم دیا پس مکروہ کہنے کا کوئی جواز نہیں۔

810

۸۱۰ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ خَالِدِ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ قَالَ : سَمِعْتُ (أَبَا مَحْذُوْرَۃَ قَالَ : کُنْتُ غُلَامًا صَبِیًّا فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُلْ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا عَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ کَانَ ذٰلِکَ زِیَادَۃً عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ، وَوَجَبَ اسْتِعْمَالُہَا .وَقَدِ اسْتَعْمَلَ ذٰلِکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ .
٨١٠: عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے خود ابو محذورہ کو کہتے سنا کہ میں نو عمر بچہ تھا مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہو : الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ ، الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ ۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ابومحذورہ (رض) کو یہ کلمات سکھائے تو یہ عبداللہ بن زید (رض) کی روایت پر اضافہ ہوا اور اس کو اختیار کرنا لازم ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنایا۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٤٤۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود سکھائے تو ان کلمات سے روایت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ پر صحیح سند سے اضافہ ثابت ہوگیا ثقہ کا اضافہ مقبول ہے پس اس کا استعمال ضروری ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے آپ کی وفات کے بعد اس کو استعمال کیا اس کی شاہد یہ روایات ہیں۔

811

۸۱۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ فِی الْأَذَانِ الْأَوَّلِ بَعْدَ الْفَلَاحِ (الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ) " .
٨١١: نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں اذان اول میں الفلاح کے بعد الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ دو مرتبہ تھا۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٤٧٣ باختلاف یسیر۔

812

۸۱۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ، ح .
٨١٢: یحییٰ بن یحییٰ نے کہا کہ ہشیم نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٥١۔

813

۸۱۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ أَبِیْ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ التَّثْوِیْبُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ - اِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ (حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ) قَالَ : (الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ) مَرَّتَیْنِ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ ذٰلِکَ مِمَّا کَانَ الْمُؤَذِّنُ یُؤَذِّنُ بِہٖ فِیْ أَذَانِ الصُّبْحِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ؛ وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٨١٣: محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ حضرت انس (رض) کہتے ہیں فجر کی اذان میں تثویب یہ ہے کہ جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ سے فارغ ہوجائے تو دو مرتبہ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کا کلمہ کہا جائے۔ پس یہ ابن عمر اور انس (رض) ہیں جو خبر دے رہے ہیں کہ یہ کلمات وہ ہیں جن کو مؤذن اذانِ صبح میں پڑھا کرتا تھا۔ پس ان روایات سے یہ ثابت ہوگیا اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : بیہقی فی الکبرٰی ١؍٦٢٣۔
خلاصہ روایات : ان روایات ثلاثہ سے ثابت ہو کہ اذان صبح میں الفلاح کے بعد الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کا کلمہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور زمانہ صحابہ سے ثابت ہے یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
نوٹ : باب کی روایت سے الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کا ثبوت جو زبان نبوت سے ثابت ہوگیا تو جو لوگ اس کو احداث عمری کہتے ہیں ان کو حشر کی صبح سے ڈرنا چاہیے۔
` بَابُ التَّأْذِیْنِ لِلْفَجْرِ ، أَیُّ وَقْتٍ ہُوَ ؟ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ ، أَوْ قَبْلَ ذٰلِکَ ؟`
فجر کی اذان کس وقت کہی جائے ؟
فریق نمبر ١: امام ابو یوسف ‘ شافعی ومالک و احمد ‘ جمہور کے نزدیک اذان فجر طلوع صبح صادق سے پہلے جائز ہے۔
فریق نمبر ٢: امام ابوحنیفہ ‘ محمد ‘ سفیان ثوری ‘ حسن بصری (رح) کے ہاں اذان طلوع فجر صادق سے پہلے درست نہیں لوٹانا واجب ہے۔
فریق نمبر ١ کا مؤقف اذان فجر طلوع صبح صادق سے پہلے درست ہے۔

814

۸۱۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ، فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا، حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) .قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : وَکَانَ رَجُلًا أَعْمٰی لَا یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَہٗ " أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ " .
٨١٤: سالم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلال رات کو اذان دے دیتا ہے پس تم اس وقت تک کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں ابن شہاب کہتے ہیں یہ ابن ام مکتوم نابینا تھے یہ اس وقت تک اذان نہ دیتے جب تک لوگ ان کو تاکید سے أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ کہتے۔ یعنی تم نے صبح کردی تم نے صبح کردی۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١١‘ ١٢‘ ١٣‘ ترمذی فی المواقیت باب ٣٥‘ نمبر ٢٠٣‘ نسائی فی الاذان باب ٩‘ مالک فی النداء حدیث نمبر ١٤؍١٥‘ مسند احمد ٢؍٩‘ ٥٧۔

815

۸۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٨١٥: سالم نے حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی اور ابن عمر کا درمیان میں ذکر نہیں کیا۔ (یہ منقطع روایت ہے)
تخریج : موطا مالک ١؍٢٥۔

816

۸۱۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ؛ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٨١٦: سالم نے نقل کیا کہ ابن عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٥۔

817

۸۱۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٨١٧: عبدالعزیز نے زہری سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند الطیاسی ١؍٢٥٠۔

818

۸۱۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ، قَالَ : أَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ " سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ یَقُوْلُ : إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ، فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) .
٨١٨: سالم بن عبداللہ نے کہا کہ کہ میں نے عبداللہ کو یہ کہتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک بلال رات کو اذان دے دیتا ہے۔ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔
تخریج : مسند العدنی۔

819

۸۱۹ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرِ الْبَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٨١٩: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

820

۸۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٨٢٠: عبداللہ بن دینار نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٧٣۔

821

۸۲۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٨٢١: مالک نے بیان کیا کہ عبداللہ بن دینار نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٥۔

822

۸۲۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ وَشُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : " حَتّٰی یُنَادِیَ بِلَالٌ أَوْ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ " شَکَّ شُعْبَۃُ .
٨٢٢: مالک و شعبہ نے عبداللہ بن دینار سے بیان کہ انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اتنا فرق ہے کہ شعبہ نے ” حَتّٰی یُنَادِیَ بِلَالٌ أَوْ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ “ شک کے ساتھ لکھا ہے۔

823

۸۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَشُکَّ .قَالَتْ " وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَہُمَا إِلَّا مِقْدَارُ مَا یَنْزِلُ ھٰذَا وَیَصْعَدُ ھٰذَا " .
٨٢٣: قاسم نے کہا کہ حضرت عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں شک کا لفظ بھی نہیں ۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں ان کے درمیان بس اتنا سا فاصلہ ہوتا کہ ایک اذان کی جگہ پر چڑھتا اور دوسرا اترتا۔
تخریج : نسائی فی الاذان باب ١٠‘ مسند احمد ٦؍٤٣٣۔

824

۸۲۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ ثَنَا رَوْحٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : سَمِعْتُ خُبَیْبَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُحَدِّثُ عَنْ عَمَّتِہٖ أُنَیْسَۃَ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ بِلَالًا أَوْ ابْنَ أُمِّ مَکْتُوْمٍ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ، فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ بِلَالٌ أَوْ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) .فَکَانَ اِذَا نَزَلَ ھٰذَا، وَأَرَادَ ھٰذَا أَنْ یَصْعَدَ، تَعَلَّقُوْا بِہٖ وَقَالُوْا کَمَا أَنْتَ حَتّٰی نَتَسَحَّرَ .
٨٢٤: شعبہ کہتے ہیں میں نے خبیب بن عبدالرحمن کو اپنی پھوپھی انیسہ (رض) سے بیان کرتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلال یا ابن ام مکتوم رات کو ہی اذان دے دیتے ہیں (یعنی ابھی رات باقی ہوتی ہے کہ وہ اذان دے دیتے ہیں) پس تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ بلال یا ابن ام مکتوم اذان دیں جب یہ اذان والا اترتا تو دوسرا چڑھنے کا ارادہ کرتا تو لوگ اسے چمٹ جاتے اور کہتے تم اسی طرح رہو یہاں تک کہ سحر ہوجائے ۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٤؍١٩١‘ بیہقی ١؍٥٦١۔

825

۸۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ وَزَادُوْا (کَانَتْ قَدْ حَجَّتْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَہُمَا إِلَّا مِقْدَارُ مَا یَصْعَدُ ھٰذَا وَیَنْزِلُ ھٰذَا).
٨٢٥: شعبہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ انیسہ (رض) نے آپ کے ساتھ حج کیا تھا ان دونوں مؤذنوں کے درمیان بس اتنا فاصلہ تھا کہ ایک منبر پر چڑھتا اور دوسرا اترتا تھا۔
تخریج : طبرانی کبیر ٢٤؍١٩١۔

826

۸۲۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ خُبَیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَمَّتِہٖ أُنَیْسَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ ابْنَ أُمِّ مَکْتُوْمٍ یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ، فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی تَسْمَعُوْا نِدَائَ بِلَالٍ) .
٨٢٦: منصور نے خبیب بن عبدالرحمن عن عمتہ انیسہ (رض) سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابن ام مکتوم رات کو اذان دے دیتے ہیں تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ بلال کی اذان سنو۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٥۔

827

۸۲۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : سَمِعْتُ سَوَادَۃَ الْقُشَیْرِیَّ وَکَانَ إمَامُہُمْ - قَالَ : سَمِعْتُ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ یَقُوْلُ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا یَغُرَّنَّکُمْ نِدَائُ بِلَالٍ، وَلَا ھٰذَا الْبَیَاضُ، حَتّٰی یَبْدُوَ الْفَجْرُ، وَیَنْفَجِرَ الْفَجْرُ) .
٨٢٧: شعبہ نے سوادہ قشیری سے سنا (یہ ان کا امام تھا) کہ میں نے سمرہ بن جندب (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں بلال کی اذان دھوکا میں نہ رکھے اور نہ یہ (صبح کاذب کی) سفیدی یہاں تک کہ فجر ظاہر ہو اور صبح صادق پھوٹ پڑے۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ٤٤‘ مسند احمد ٤؍٢٢۔

828

۸۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سَوَادَۃَ الْقُشَیْرِیِّ، عَنْ سَمُرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْفَجْرَ یُؤَذَّنُ لَہَا قَبْلَ دُخُوْلِ وَقْتِہَا، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ، فَمَنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَذَّنَ لِلْفَجْرِ أَیْضًا إِلَّا بَعْدَ دُخُوْلِ وَقْتِہَا، کَمَا لَا یُؤَذَّنُ لِسَائِرِ الصَّلَوَاتِ إِلَّا بَعْدَ دُخُوْلِ وَقْتِہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ فَقَالُوْا : إِنَّمَا کَانَ أَذَانُ بِلَالٍ الَّذِیْ کَانَ یُؤَذِّنُ بِہٖ بِلَیْلٍ، لِغَیْرِ الصَّلَاۃِ .فَذَکَرُوْا۔
٨٢٨: سوادہ القشیری نے سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کے ہاں فجر کی اذان اس کا وقت داخل ہونے سے پہلے دی جاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے ان روایات کو اپنا مستدل بنایا ہے۔ ان حضرات میں امام ابو یوسف (رح) بھی شامل ہیں۔ مگر دوسرے حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ فجر کے لیے بھی وقت کے آجانے کے بعد اذان دی جائے جیسا کہ دیگر نمازوں کے لیے دخولِ وقت کے بعد اذان دی جاتی ہے اور انھوں نے دلیل پیش کرتے ہوئے حضرت بلال (رض) کی اذان والی روایت کہ وہ رات کو اذان دیتے تھے کا جواب یہ دیا کہ وہ نماز کے لیے نہ تھی ‘ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٧‘ مسلم ١؍٣٥٠‘ المعجم الکبیر ٧؍٢٣٦۔
حاصل روایات : ان تمام روایات میں اکثر روایات میں بلال (رض) کے متعلق رات کو اذان دینا اور ایک روایت میں ابن ام مکتوم کا رات کو اذان دینا منقول ہے یہ اذان فجر تھی اور وقت سے پہلے دی جاتی تھی پس اس سے ثابت ہوگیا کہ فجر کا وقت داخل ہونے سے پہلے اذان فجر جائز ہے امام ابو یوسف (رح) اور دیگر ائمہ ثلاثہ اس بات کے قائل ہوئے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
اذان فجر بھی وقت سے پہلے درست نہیں جیسا کہ دیگر نمازوں کے اوقات داخل ہونے پر وہ اذانیں دی جاتی ہیں۔
فریق اوّل کا جواب :
حضرت بلال کی وہ اذان نماز کے لیے نہ تھی بلکہ دیگر مقاصد کے لیے تھی اور مندرجہ ذیل روایات سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے۔

829

۸۲۹ : مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ وَأَبُوْ بِشْرِ ڑالرَّقِّیُّ قَالَا : حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ مَعْبَدٍ، ح .
٨٢٩: شجاع نے کہا یہ الفاظ علی بن معبد کے ہیں انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤٣٥۔

830

۸۳۰ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ح .
٨٣٠: اسباط بن محمد نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٥۔

831

۸۳۱ : وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ح .
٨٣١: نعیم نے کہا ابن المبارک نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١٠؍٢٣٠۔

832

۸۳۲ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا یَمْنَعَنَّ أَحَدَکُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ، فَإِنَّہٗ یُنَادِیْ، أَوْ یُؤَذِّنُ، لِیَرْجِعَ غَائِبُکُمْ، وَلِیَنْتَبِہَ قَائِمُکُمْ) .وَقَالَ : (لَیْسَ الْفَجْرُ أَوِ الصُّبْحُ ھٰکَذَا وَھٰکَذَا وَجَمَعَ أُصْبُعَیْہِ وَفَرَّقَہُمَا) .وَفِیْ (حَدِیْثِ زُہَیْرٍ خَاصَّۃً وَ رَفَعَ زُہَیْرٌ یَدَہٗ وَخَفَضَہَا حَتّٰی یَقُوْلَ ھٰکَذَا، أَوْ مَدَّ زُہَیْرٌ یَدَیْہِ عَرْضًا .فَقَدْ أَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ ذٰلِکَ النِّدَائَ کَانَ مِنْ بِلَالٍ، لِیَنْتَبِہَ النَّائِمُ وَلِیَرْجِعَ الْغَائِبُ لَا لِلصَّلَاۃِ) . وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔
٨٣٢: ابو عثمان نہدی نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلال کی اذان تمہیں سحری سے نہ ہرگز نہ روکے وہ اس لیے اذان دیتے ہیں تاکہ تمہارا غائب گھر واپس لوٹ آئے اور قیام کرنے والا خبردار ہوجائے اور کہا کیا فجر یا صبح اس طرح اور اس طرح نہیں ہے اور انھوں نے اپنی دونوں انگلیوں کو جمع کیا اور جدا کیا ” زہیر کی روایت میں خاص طور پر یہ الفاظ ہیں “ : ” رَفَعَ زُہَیْرٌ یَدَہٗ وَخَفَضَہَا حَتّٰی یَقُوْلَ ھٰکَذَا، أَوْ مَدَّ زُہَیْرٌ یَدَیْہِ عَرْضًا “ زہیر نے عرض میں اپنے دونوں ہاتھوں کو دراز کیا (صبح صادق کو سمجھانے کے لئے۔
حاصل روایت : اس روایت سے صاف معلوم ہوگیا کہ اذان بلال اس لیے تھی تاکہ سونے والا بیدار ہوجائے اور جو ڈیوٹیوں پر مقرر ہیں وہ واپس لوٹ آئیں نماز کے لیے نہ تھی۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٣‘ مسلم فی الصیام نمبر ٣٩‘ ابو داؤد فی الصوم باب ١٨‘ نمبر ٢٣٤٧‘ نسائی فی الاذان باب ١١‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٤؍٢١٨۔
ابن عمر (رض) سے بھی روایات ہیں جو اس پر دال ہیں۔

833

۸۳۳ : مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح
٨٣٣: موسیٰ بن اسماعیل نے حماد بن سلمہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧٩۔

834

۸۳۴ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ (بِلَالًا أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ، فَأَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَرْجِعَ فَنَادٰی أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ فَرَجَعَ فَنَادٰی أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ) .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَرْوِیْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا ذَکَرْنَا، وَہُوَ مِمَّنْ قَدْ رَوٰی عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (إِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ، أَنَّ مَا کَانَ مِنْ نِدَائِہٖ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ مِمَّا کَانَ مُبَاحًا لَہٗ، ہُوَ لِغَیْرِ الصَّلَاۃِ، وَأَنَّ مَا أَنْکَرَہٗ عَلَیْہِ اِذْ فَعَلَہٗ قَبْلَ الْفَجْرِ، کَانَ لِلصَّلَاۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا۔
٨٣٤: نافع ‘ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال (رض) نے ایک مرتبہ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دی تو ان کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ وہ دوبارہ لوٹ کر یہ اعلان کردیں : أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ بندے کو نیند میں معلوم نہیں رہا چنانچہ انھوں نے لوٹ کر یہ اعلان کیا : أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ ۔ یہ ابن عمر (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نقل کر رہے ہیں حالانکہ وہ ان حضرات میں سے ہیں جن کی روایت یہ ہے کہ بلال (رض) رات کو اذان دیتے ہیں۔ پس تم کھاتے اور پیتے رہو ‘ یہاں تک کہ ابن امّ مکتوم (رض) اذان دیں۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ طلوع صبح صادق سے پہلے جس اذان کو مباح قرار دیا گیا تھا وہ نماز کے علاوہ دیگر عمل کے لیے تھی اور جس اذان کے طلوع فجر سے پہلے ہوجانے پر آپ نے اعتراض کیا وہ نماز کے لیے تھی اور ابن عمر (رض) نے حضرت حفصہ (رض) سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤٠‘ نمبر ٥٣٢‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٣٥‘ نمبر ٢٠٣‘
یہی ابن عمر (رض) یہاں یہ روایت کر رہے ہیں انھوں نے باب کے شروع میں وہ روایات نقل کی ہیں جن میں یہ مذکور ہے : ”إِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ “ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کی جو اذان طلوع فجر سے پہلے تھی اس کا انھیں حکم ملا تھا وہ نماز کے لیے نہ تھی اور وہ اذان جس کے متعلق نکیر کی گئی وہ فجر کے لیے تھی جس کو وہ پہلے غلطی سے دے بیٹھے تو انھیں غلطی کا اعلان کرنے کا حکم ہوا بلکہ حضرت ابن عمر (رض) نے حضرت حفصہ (رض) سے بھی یہ نقل کیا ہے۔

835

۸۳۵ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ عَنْ نَافِعِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ عُمَرَ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِالْفَجْرِ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ وَحَرَّمَ الطَّعَامَ، وَکَانَ لَا یُؤَذِّنُ حَتّٰی یُصْبِحَ) .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یُؤَذِّنُوْنَ لِلصَّلَاۃِ إِلَّا بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ .(وَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا بِلَالًا أَنْ یَرْجِعَ فَیُنَادِیَ أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ) یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ عَادَتَہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَعْرِفُوْنَ أَذَانًا قَبْلَ الْفَجْرِ .وَلَوْ کَانُوْا یَعْرِفُوْنَ ذٰلِکَ أَذَانًا، لَمَا احْتَاجُوْا إِلٰی ھٰذَا النِّدَائِ، وَأَرَادَ بِہٖ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ النِّدَائِ إِنَّمَا ہُوَ لِیُعْلِمَہُمْ أَنَّہُمْ فِیْ لَیْلٍ حَتّٰی یُصَلِّیَ مَنْ آثَرَ مِنْہُمْ أَنْ یُصَلِّیَ وَلَا یُمْسِّکَ عَمَّا یُمْسِّکُ عَنْہُ الصَّائِمُ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ بِلَالٌ کَانَ یُؤَذِّنُ فِیْ وَقْتٍ کَانَ یَرٰی أَنَّ الْفَجْرَ قَدْ طَلَعَ فِیْہِ وَلَا یَتَحَقَّقُ ذٰلِکَ، لِضُعْفِ بَصَرِہٖ۔
٨٣٥: حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت حفصہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب مؤذن فجر کی اذان دے دیتا تو آپ فجر کی دو رکعت پڑھتے پھر مسجد کی طرف نکلتے اور کھانا حرام ہوجاتا (سحری کے لئے) اور صبح صادق جب تک طلوع نہ ہوتی آپ اذان نہ دیتے۔ یہ ابن عمر (رض) جو حفصہ (رض) کے متعلق خبر دے رہے ہیں کہ مؤذن نمازِ فجر کے لیے اذان طلوع فجر کے بعد دیا کرتے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو اذان لوٹانے کا حکم فرمایا اور اس اعلان کا حکم فرمایا ” الا ان العبد قد نام “ کہ بندہ کو نیند آگئی تھی۔ یہ بات اس عادت کو ثابت کرتی ہے کہ فجر سے پہلے اذان ان کے ہاں معروف نہ تھی۔ اگر لوگ اس کو جانتے ہوتے تو دوبارہ اعلان کی چنداں حاجت نہ تھی۔ ہمارے ہاں اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ ان کو مطلع کریں کہ اب تک رات کا وقت باقی ہے تاکہ جو شخص رات کو نماز ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ ادا کرے اور ان چیزوں کے استعمال سے پہلے اپنے ہاتھ کو نہ روکے جن سے روزہ دار بچتا ہے اور اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضرت بلال (رض) یہ گمان کر کے اذان دیتے ہوں کہ فجر طلوع ہوچکی مگر نگاہ کی کمزوری کی وجہ سے اسی طلوع فجر کو اچھی طرح معلوم نہ کرسکتے تھے۔ دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٢‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٨٧‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٠٣‘ نمبر ٤٣٣‘ نسائی فی الصالۃ باب ٢٩‘ مالک فی الصلاۃ نمبر ٢٩‘ مسند احمد ٦؍٢٨٤۔
نوٹ : یہ ابن عمر (رض) ہیں آپ کے مؤذن نے طلوع صبح صادق سے پہلے اذان دیدیدی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو فرمایا کہ وہ اذان کی جگہ لوٹ کر الا ان العبد قدنام کا اعلان کردیں اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ فجر سے قبل اذان کو اذان نہ جانتے تھے اگر وہ اس کو اذان جانتے ہوتے تو اس اعلان کی ضرورت نہ رہتی تھی اس اذان سے اس بات کی تعلیم مقصود تھی کہ جو تہجد پڑھنا چاہتے ہیں وہ پڑھ لیں اور روزہ رکھنے والے کھانے سے ابھی نہ رکیں کیونکہ وقت کی گنجائش ابھی باقی ہے اور اس میں ایک دوسرا احتمال بھی عین ممکن ہے کہ بلال (رض) اپنے خیال میں کہ فجر طلوع ہوگئی اذان دیتے ہوں اور ضعف نگاہ کی وجہ سے طلوع فجر کو یقینی طور پر معلوم نہ کرسکتے ہوں۔ اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

836

۸۳۶ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إشْکَابٍ ح .
٨٣٦ : ابن ابی داؤد نے احمد بن اشکاب سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

837

۸۳۷ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا شِہَابُ بْنُ عَبَّادِ ڑ الْعَبْدِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَغُرَّنَّکُمْ أَذَانُ بِلَالٍ فَإِنَّ فِیْ بَصَرِہٖ شَیْئًا) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ بِلَالًا کَانَ یُرِیْدُ الْفَجْرَ فَیُخْطِئُہُ لِضَعْفِ بَصَرِہِ .فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا یَعْمَلُوْا عَلٰی أَذَانِہٖ، اِذْ کَانَ مِنْ عَادَاتِہِ الْخَطَأُ، لِضُعْفِ بَصَرِہٖ .
٨٣٧: قتادہ نے انس (رض) سے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کو اذان بلال سے دھوکا نہ لگ جائے ان کی بصارت میں کچھ کمزوری ہے۔ اس سے یہ دلالت مہیا ہوگئی کہ بلال (رض) طلوعِ صبح صادق کا ارادہ فرماتے۔ نظر کی کمزوری سے ‘ ان کی نظر کبھی خطاء کر جاتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ اس کی اذان کے مطابق عمل نہ کریں کیونکہ نظر کی کمزوری سے خطاء ان کی عادت بن چکی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ بلال تو اپنی طرف سے فجر کا ارادہ فرماتے مگر ضعف بصر کی وجہ سے بسا اوقات خطا کر جاتے اسی لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اذان پر عمل نہ کرنے کا حکم دیا کیونکہ ضعف بصر کی وجہ سے خطا ان کی عادت بن گئی تھی۔

838

۸۳۸ : وَقَدْ حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ عَنِ ابْنِ عُثْمَانَ، أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ إِنَّک تُؤَذِّنُ اِذَا کَانَ الْفَجْرُ سَاطِعًا، وَلَیْسَ ذٰلِکَ الصُّبْحَ، إِنَّمَا الصُّبْحُ ھٰکَذَا مُعْتَرِضًا) .فَأَخْبَرَہٗ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّہٗ کَانَ یُؤَذِّنُ بِطُلُوْعِ مَا یَرٰی أَنَّہُ الْفَجْرُ، وَلَیْسَ - ہُوَ فِی الْحَقِیْقَۃِ - ، بِفَجْرٍ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (إِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ، فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) .قَالَتْ : وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَہُمَا إِلَّا مِقْدَارُ مَا یَصْعَدُ ھٰذَا وَیَنْزِلُ ھٰذَا .فَلَمَّا کَانَ بَیْنَ أَذَانِہِمَا مِنَ الْقُرْبِ مَا ذَکَرْنَا، ثَبَتَ أَنَّہُمَا کَانَا یَقْصِدَانِ وَقْتًا وَاحِدًا وَہُوَ طُلُوْعُ الْفَجْرِ، فَیُخْطِئُہُ بِلَالٌ لَمَّا یُبْصِرُہُ، وَیُصِیْبُہُ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَفْعَلُہُ حَتّٰی یَقُوْلَ لَہٗ الْجَمَاعَۃُ " أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ " .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٨٣٨: عثمان نے عدی (رض) بن حاتم سے بیان کیا اور اس نے ابو ذر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو فرمایا تم اس وقت اذان دیتے ہو فجر (کاذب) چمک رہی ہوتی ہے اور یہ صبح (صادق) نہیں بیشک صبح تو اس طرح چوڑائی میں ہوتی ہے۔ اس ارشاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال (رض) کو یہ بتلایا کہ تم اس چیز کے ظاہر ہونے پر اسے فجر سمجھ کر اذان دے دیتے ہو۔ مگر وہ حقیقت میں فجر نہیں ہے اور ہم نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا قول نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلال رات ابھی باقی ہوتی ہے کہ اذان دے دیتے ہیں ‘ پس تم سحری کھاؤ ‘ پیؤ یہاں تک کہ عبداللہ بن امّ مکتوم (رض) اذان دیں۔ حضرت امّ المؤمنین (رض) فرماتی ہیں کہ ان دونوں کی اذان میں اتنا وقفہ ہوتا کہ وہ اذان کے لیے چڑھتے اور وہ اذان دے کر اترتے۔ جب ان دونوں اذانوں میں اتنا کم فاصلہ تھا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں حضرات طلوع صبح صادق کا ارادہ رکھتے تھے۔ حضرت بلال (رض) بصارت میں کمزوری کی وجہ سے خطاء کر جاتے اور حضرت ابن امّ مکتوم صیح طلوع فجر پر اذان دیتے کیونکہ وہ اذان اسی وقت دیتے جب تک لوگ ان کو ” اصبحت ‘ اصبحت “ کہ صبح ہوگئی ‘ صبح ہوگئی نہ پکارتے۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ مروی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍١٧٢۔
اس ارشاد میں حضرت بلال (رض) کو یہ خبر دی گئی ہے جس کو فجر خیال کر کے تم اذان دیتے ہو وہ صبح کاذب ہے صبح صادق نہیں کیونکہ صبح صادق تو افق کی چوڑائی میں ہوتی ہے اور حضرت عائشہ (رض) کی روایت ذکر کر آئے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلال تو رات میں اذان دے دیتا ہے پس تم اس وقت تک کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں ان کے درمیان معمولی سا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک اذان گاہ کے اوپر چڑھتا اور دوسرا اذان دے کر نیچے اترتا۔
اب جب ان کی اذانوں کے درمیان اس قدر قرب پایا جاتا تھا تو اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ دونوں ایک ہی وقت کا قصد فرمانے والے تھے اور وہ طلاع فجر تھی بلال ضعف بصر کی وجہ سے اس میں غلطی کر جاتے اور ابن ام مکتوم اس کو پالیتے کیونکہ وہ نابینا تھے وہ اس وقت تک اذان نہ دیتے جب تک ان کو لوگ یہ نہ کہتے تم نے صبح کردی صبح کردی۔

839

۸۳۹ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : قُلْتُ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ، مَتَی تُوْتِرِیْنَ؟ قَالَتْ " اِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ .قَالَ الْأَسْوَدُ وَإِنَّمَا کَانُوْا یُؤَذِّنُوْنَ بَعْدَ الصُّبْحِ وَھٰذَا تَأْذِیْنُہُمْ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّ الْأَسْوَدَ إِنَّمَا کَانَ سِمَاعُہٗ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِالْمَدِیْنَۃِ، وَہِیَ قَدْ سَمِعَتْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَوَیْنَا عَنْہَا ذٰلِکَ، فَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِمْ تَرْکَہُمُ التَّأْذِیْنَ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَلَا أَنْکَرَ ذٰلِکَ غَیْرُہَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مُرَادَ بِلَالٍ بِأَذَانِہٖ ذٰلِکَ، الْفَجْرُ وَأَنَّ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) " إِنَّمَا ہُوَ لِاِصَابَۃِ طُلُوْعِ الْفَجْرِ .فَلَمَّا رَوِیَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا، وَکَانَ فِیْ حَدِیْثِ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یُؤَذِّنُوْنَ حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، فَقَدْ بَطَلَ الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَہَبَ إِلَیْہِ، أَبُوْ یُوْسُفَ .وَإِنْ کَانَ الْمَعْنٰی عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ، وَکَانُوْا یُؤَذِّنُوْنَ قَبْلَ الْفَجْرِ عَلَی الْقَصْدِ مِنْہُمْ لِذٰلِکَ فَإِنَّ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ بَیَّنَ أَنَّ ذٰلِکَ التَّأْذِیْنَ کَانَ لِغَیْرِ الصَّلَاۃِ .وَفِیْ تَأْذِیْنِ ابْنِ أُمِّ مَکْتُوْمٍ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ دَلِیْلُ أَنَّ ذٰلِکَ مَوْضِعُ أَذَانٍ لِتِلْکَ الصَّلَاۃِ .وَلَوْ لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ مَوْضِعَ أَذَانٍ لَہَا لَمَا أُبِیْحَ الْأَذَانُ فِیْہَا .فَلَمَّا أُبِیْحَ ذٰلِکَ ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ الْوَقْتَ، وَقْتٌ لِلْأَذَانِ، وَاحْتَمَلَ تَقْدِیْمَہُمْ أَذَانَ بِلَالٍ قَبْلَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا .ثُمَّ اعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ، قَوْلًا صَحِیْحًا فَرَأَیْنَا سَائِرَ الصَّلَوَاتِ، غَیْرَ الْفَجْرِ لَا یُؤَذَّنُ لَہَا إِلَّا بَعْدَ دُخُوْلِ أَوْقَاتِہَا .وَاخْتَلَفُوْا فِی الْفَجْرِ، فَقَالَ قَوْمٌ : اَلتَّأْذِیْنُ لَہَا قَبْلَ دُخُوْلِ وَقْتِہَا .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ ہُوَ بَعْدَ دُخُوْلِ وَقْتِہَا .فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا وَصَفْنَا أَنْ یَکُوْنَ الْأَذَانُ لَہَا کَالْأَذَانِ لِغَیْرِہَا مِنَ الصَّلَوَاتِ، فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ بَعْدَ دُخُوْلِ أَوْقَاتِہَا، کَانَ أَیْضًا فِی الْفَجْرِ کَذٰلِکَ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَمُحَمَّدٍ وَسُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ .
٨٣٩: اسود کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ام المؤمنین آپ وتر کب ادا کرتی ہیں ؟ فرمایا جب مؤذن اذان دے چکتا ہے۔ اسود کہتے ہیں کہ وہ صبح صادق کے بعد اذان دیتے اور یہ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اذان سے متعلق ہے کیونکہ اس کا سماع حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مدینہ منورہ میں ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے وہ روایت خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن رکھی جو ہم ذکر کر آئے۔ اس لیے فجر سے پہلے والی اذان کے چھوڑنے پر انھوں نے اعتراض نہ کیا اور ان کے علاوہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انکار نہ کیا۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت بلال (رض) کا مقصود بھی اذان سے اذان فجر تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ((فکلوا واشربوا)) یہ طلوع فجر کے صحیح طور پر ظاہر ہونے کی بناء پر تھا۔ جب روایات اس انداز سے وارد ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور حضرت حفصہ (رض) کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام (رض) اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے جب تک صبح صادق طلوع نہ ہوجاتی اگر یہ بات اسی طرح ہے تو امام ابویوسف (رح) نے جس معنی کو اختیار کیا وہ باطل ٹھہرا۔ بالفرض اگر وہ معنی مراد لیا جائے کہ وہ جان بوجھ کر فجر سے پہلے اذان دیتے تھے تو ابن مسعود (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والی روایت سے یہ بات کھول دی کہ وہ اذان فجر کے لیے اذان نہ تھی اور ابن امّ مکتوم (رض) کی وہ اذان جو طلوع فجر کے بعد ہوا کرتی تھی وہ اس پر شاہد ہے کہ یہ اس نماز کے وقت کی اذان ہے اگر وہ اس کی اذان کا وقت نہ ہوتا تو اس وقت اذان درست نہ ہوتی جب وہ مباح قرار دی گئی تو اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ یہ وقت اذان فجر کا وقت تھا اور حضرت بلال (رض) کی اذان کو مقدم کرنے میں وہی احتمال ہے جو ہم ذکر کر آئے۔ اب اس کو نظری انداز سے دیکھا تو ہم نے یہ بات پائی کہ دوسری نمازوں کے لیے اذان ان کے وقت داخل ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ فجر میں صرف اختلاف ہے ایک جماعت نے کہا کہ اس کی اذان وقت سے پہلے دی جاسکتی ہے اور دوسری جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ اذان بھی وقت کے داخل ہونے کے بعد دی جائے گی تو اس بیان کا تقاضا یہ ہے کہ فجر کے لیے بھی اذان اسی طرح ہو جس طرح دیگر نمازوں کے لیے ہوتی ہے۔ جب وہ دخول وقت کے بعد ہیں تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ نظر و قیاس اسی کو چاہتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے
تخریج : بیہقی ١؍٦٧٥۔
اسود (رح) کا قول :
اسود کہتے ہیں وہ صبح کی اذان دیتے اور یہ اذان مسجد نبوی کی بات ہے کیونکہ اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے احادیث مدینہ میں ہی سنی ہیں اور حضرت عائشہ (رض) نے وہ ارشادات نبوت خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنے حضرت عائشہ (رض) نے فجر سے پہلے جو اذان تھی اس کے ترک پر نکیر نہیں فرمائی اور نہ دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر نکیر فرمائی اس سے یہ خود دلالت مل گئی کہ بلال کی اذان سے مقصود تو فجر تھی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ” کلوا واشربوا حتی ینادی ابن ام مکتوم “ یہ طلوع فجر کو صحیح طور پر پالینے کے لیے تھا۔
حاصل روایات : ان آثار سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ اذان طلوع فجر صادق کے بعد دیتے تھے روایت حضرت حفصہ (رض) اس کی شاہد ہے جب یہ اسی طرح ہے تو امام یوسف (رح) کا ان روایات سے جو شروع باب میں گزریں یہ استدلال کہ فجر کے طلوع سے قبل اذان فجر جائز ہے یہ درست نہ ہوا۔

ایک دوسرے پہلو سے :
اگر دوسرا معنی لیں کہ وہ فجر سے قبل اذان دیتے تھے تو اور بالقصد ایسا کرتے تھے تو حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے واضح کردیا کہ یہ اذان نماز کے لیے نہ تھی۔
ایک اور رُخ سے :
ابن ام مکتوم کا طلوع فجر کے بعد اذان دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس نماز کے لیے اصل اذان کا یہی موقعہ ہے اگر یہ اذان کا مقام نہ ہوتا تو اذان دینا ان کو مباح نہ ہوتا جب ان کو اذان کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ یہی وقت اذان ہے اور بلال کی اذان کی تقدیم میں وہ احتمال ہے جس کا ہم نے تذکرہ کردیا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اگر بطریق نظر دیکھیں جس سے دونوں میں اصح ترین قول سامنے آجائے تو تمام نمازوں کو ملاحظہ فرمائیں ان میں اذان دخول وقت کے بعد دی جاتی ہیں فجر کی اذان کے متعلق اختلاف ہوا کہ یہ وقت سے پہلے درست ہے یا نہیں تو جب یہ اذان دوسری اذانوں کی طرح کے ان میں دخول وقت لازم ہے تو اس میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے یہی تقاضا نظر ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ محمد ‘ سفیان ثوری (رح) کا یہی قول ہے۔

840

۸۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ بْنَ سَعِیْدٍ، وَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : إِنِّیْ أُؤَذِّنُ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ لِأَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ یَقْرَعُ بَابَ السَّمَائِ بِالنِّدَائِ .فَقَالَ سُفْیَانُ لَا، حَتّٰی یَنْفَجِرَ الْفَجْرُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلْقَمَۃَ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ .
٨٤٠: علی بن جعد کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن سعید سے سنا کہ ان کو ایک آدمی نے کہا میں طلوع فجر سے پہلے اذان دیتا ہوں تاکہ میری اذان سب سے پہلے اذان کے ذریعہ آسمان کا دروازہ کھٹکھٹانے والی ہو تو انھوں نے فرمایا مت اذان دو جب تک کہ فجر طلوع نہ ہو۔

841

۸۴۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : شَیَّعْنَا عَلْقَمَۃَ إِلٰی مَکَّۃَ، فَخَرَجَ بِلَیْلٍ فَسَمِعَ مُؤَذِّنًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَقَالَ : " أَمَّا ھٰذَا " فَقَدْ خَالَفَ سُنَّۃَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَوْ کَانَ نَائِمًا کَانَ خَیْرًا لَہٗ فَإِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، أَذَّنَ .فَأَخْبَرَ عَلْقَمَۃُ أَنَّ التَّأْذِیْنَ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ، خِلَافٌ لِسُنَّۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٨٤١: ابراہیم کہتے ہیں ہم علقمہ کے ساتھ مکہ کی طرف گئے وہ رات کو نکلے تو انھوں نے ایک مؤذن کو رات کے وقت اذان دیتے سنا آپ نے فرمایا لو سنو ! اس شخص نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ کی خلاف ورزی کی ہے اگر اس کی بجائے سو رہتا تو بہتر تھا جب فجر طلوع ہوجاتی تب اذان دیتا۔ حضرت علقمہ نے یہ بات بتلا دی کہ طلوع فجر سے پہلے اذان یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ کے خلاف ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٩٤۔
حاصل آثار :
علقمہ اور سفیان بن سعید کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ اذان فجر طلوع صبح صادق سے پہلے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے طریق کی مخالفت ہے۔
نوٹ : اس باب میں نظر کے بعد تائید کے لیے اقوال تابعین کو ذکر کیا اور ائمہ ثلاثہ کے ساتھ پہلی مرتبہ سفیان ثوری (رح) کا نام لائے۔

842

۸۴۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ زِیَادِ بْنِ نُعَیْمٍ، أَنَّہٗ سَمِعَ (زِیَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِیَّ قَالَ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا کَانَ أَوَّلُ الصُّبْحِ أَمَرَنِیْ فَأَذَّنْتُ، ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ فَجَائَ بِلَالٌ لِیُقِیْمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّ أَخَا صُدَائٍ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَہُوَ یُقِیْمُ) .
٨٤٢: زیاد بن نعیم نے زیاد بن حارث صدائی کو فرماتے سنا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جب صبح کی ابتداء ہوئی تو مجھے حکم دیا پس میں نے اذان دی پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو بلال اقامت کہنے لگے تو آپ نے فرمایا تمہارے بھائی زیاد صدائی نے اذان دی ہے اور جو اذان دے وہی اقامت کہتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٣٠‘ نمبر ٥٤٤‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٣٢‘ نمبر ١٩٩‘ ابن ماجہ فی الاذان والسنۃ باب ٣‘ نمبر ٧١٧‘ مسند احمد ٤؍١٦٩‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٣٩٩۔
خلاصہ الزام : نمبر ١: جو اذان دے وہی اقامت کہے ایسا لازم ہے یہ امام شافعی و احمد ‘ اوزاعی (رح) کا مسلک ہے۔
نمبر ٢: ایک اذان دے دوسرا اقامت کہے تو درست مگر بہتر اسی کا کہنا ہے۔
مؤذن و مکبّر ایک شخص ہونا چاہیے اس کی روایات مندرجہ ذیل ہیں۔

843

۸۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ سُفْیَانَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ نُعَیْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ، فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُقِیْمَ لِلصَّلَاۃِ غَیْرُ الَّذِیْ أَذَّنَ لَہَا، وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ أَنْ یُقِیْمَ الصَّلَاۃَ غَیْرُ الَّذِیْ أَذَّنَ لَہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٨٤٣: عبداللہ بن الحارث الصدائی نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) اور ایک جماعت علماء نے اس روایت کو اپنایا اور انھوں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں کہ جس نے اذان کہی ہو اس کے علاوہ اقامت کہے۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حرج نہیں کہ مؤذن کے علاوہ دوسرا اقامت کہے اور ان کی دلیل یہ آثار ہیں۔
تخریج : المعجم الکبیر ٥؍٢٦٣۔
حاصل روایات : ان دونوں روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مؤذن کو ہی اقامت کہنا چاہیے دوسرے کو درست نہیں۔

844

۸۴۴ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ، عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ أَنَّہٗ حِیْنَ أُرِیَ الْأَذَانَ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَمَرَ عَبْدَ اللّٰہِ فَأَقَامَ) .
٨٤٤: حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ان کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال (رض) کو حکم دیا انھوں نے اذان دی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ کو حکم دیا انھوں نے اقامت کہی۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٥٠۔

845

۸۴۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ، عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : أَتَیْت النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْہُ کَیْفَ رَأَیْتُ الْأَذَانَ فَقَالَ : أَلْقِہِنَّ عَلٰی بِلَالٍ، فَإِنَّہٗ أَنْدٰی صَوْتًا مِنْک .فَلَمَّا أَذَّنَ بِلَالٌ نَدِمَ عَبْدُ اللّٰہِ، فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنْ یُقِیْمَ) .فَلَمَّا تَضَادَّ ھٰذَانِ الْحَدِیْثَانِ أَرَدْنَا أَنْ نَلْتَمِسَ حُکْمَ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ لِنَسْتَخْرِجَ بِہٖ مِنَ الْقَوْلَیْنِ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَوَجَدْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ، أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَذِّنَ رَجُلَانِ أَذَانًا وَاحِدًا، یُؤَذِّنُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بَعْضَہٗ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ الْأَذَانُ وَالْاِقَامَۃُ کَذٰلِکَ، لَا یَفْعَلُہُمَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَا، کَالشَّیْئَیْنِ الْمُتَفَرِّقَیْنِ، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ یَتَوَلَّی کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا رَجُلٌ عَلٰی حِدَۃٍ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الصَّلَاۃَ لَہَا أَسْبَابٌ تَتَقَدَّمُہَا مِنَ الدُّعَائِ، إِلَیْہَا بِالْأَذَانِ، وَمِنَ الْاِقَامَۃِ لَہَا ھٰذَا فِیْ سَائِرِ الصَّلَاۃِ .وَرَأَیْنَا الْجُمُعَۃَ یَتَقَدَّمُہَا خُطْبَۃٌ لَا بُدَّ مِنْہَا، فَکَانَتِ الصَّلَاۃُ مُضَمَّنَۃً بِالْخُطْبَۃِ، وَکَانَ مَنْ صَلَّی الْجُمُعَۃَ بِغَیْرِ خُطْبَۃٍ فَصَلَاتُہٗ بَاطِلَۃٌ، حَتَّی تَکُوْنَ الْخُطْبَۃُ قَدْ تَقَدَّمَتِ الصَّلَاۃُ .وَرَأَیْنَا الْاِمَامَ لَا یَجِبُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ غَیْرَ الْخَطِیْبِ، لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مُضَمَّنٌ بِصَاحِبِہٖ .فَلَمَّا کَانَ لَا بُدَّ مِنْہُمَا لَمْ یَنْبَعِ أَنْ یَکُوْنَ الْقَائِمُ بِہِمَا إِلَّا رَجُلًا وَاحِدًا وَرَأَیْنَا الْاِقَامَۃَ جُعِلَتْ مِنْ أَسْبَابِ الصَّلَاۃِ أَیْضًا وَأَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یَتَوَلَّاہَا غَیْرُ الْاِمَامِ فَکَمَا کَانَ یَتَوَلَّاہَا غَیْرُ الْاِمَامِ، وَہِیَ مِنَ الصَّلَاۃِ، أَقْرَبُ مِنْہَا مِنَ الْأَذَانِ، کَانَ لَا بَأْسَ أَنْ یَتَوَلَّاہَا غَیْرُ الَّذِیْ یَتَوَلَّی الْأَذَانَ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٨٤٥: حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ کو خبر دی کہ کس طرح میں نے اذان کا خواب دیکھا آپ نے فرمایا یہ کلمات بلال کو تلقین کرو وہ تم سے زیادہ بلند آواز والے ہیں جب بلال نے اذان دی تو عبداللہ شرمندہ ہوئے پس آپ نے ان کو اقامت کا حکم دیا۔ جب یہ دونوں روایات باہمی متضاد ہوئیں تو ہم نے چاہا کہ اس باب کا حکم نظر و فکر سے تلاش کریں تاکہ دونوں اقوال میں سے درست ترین قول کو نکال سکیں۔ پس غور سے معلوم کیا کہ اس اصل پر سب کا اتفاق ہے کیہ یہ مناسب نہیں کہ دو آدمی ایک اذان دیں کہ ان میں سے ہر ایک اس کا کچھ کچھ حصہ کہے۔ پس یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ اذان اور اقامت کا بھی یہی حال ہو کہ ان دونوں کو ایک شخص ادا کرے اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ دو متفرق اشیاء کی طرح شمار ہوں اور اس میں کوئی حرج نہ ہو ‘ ان میں سے ہر ایک کا ایک الگ الگ شخص ذمہ دار ہو۔ چنانچہ غور سے معلوم ہوا کہ نماز کے متعدد اسباب ہیں جو اس سے پہلے ہیں ‘ نماز کی طرف اذان کے ذریعہ دعوت دی جاتی ہے اور اقامت سے بھی نماز کی طرف بلایا جاتا ہے اور یہ تمام نمازوں میں ہے۔ ہم نے یہ بھی غور کیا کہ جمعہ سے پہلے خطبہ لازمی ہے اور نماز جمعہ خطبہ سے متصل ہے۔ جو شخص خطبہ کے بغیر جمعہ ادا کرے اس کا جمعہ باطل ہے۔ اسی لیے خطبہ کو نماز سے پہلے رکھا گیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ امام خود خطیب ہی ہونا چاہیے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہے۔ جب دونوں کا پایا جانا ضروری ہوا تو مناسب نہیں کہ ان دونوں کو انجام دینے والا ایک ہی شخص ہو۔ ہم غور کرتے ہیں کہ اقامت بھی اسباب نماز سے ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کا ذمہ دار امام کے علاوہ اور شخص ہو۔ پس جس طرح امام کے علاوہ شخص اس کا ذمہ دار بن سکتا ہے حالانکہ یہ بھی نماز سے متعلق ہے اور اذان کی نسبت اس سے قریب تر ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ اس کا ذمہ دار مؤذن کے علاوہ شخص ہو۔ نظر و فکر کا تقاضا یہی ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٣٠‘ ٥١٢۔
حاصل روایات : ان روایات سے ایک کو اذان دینے کا حکم اور دوسرے کو تکبیر کا حکم ثابت کرتا ہے کہ اس کی اجازت ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
جب دونوں روایتیں آپس میں متضاد ہوگئیں تو بطریق نظر دونوں اقوال میں سے صحیح تر کا نکالنا ضروری ہوا چنانچہ غور سے معلوم ہوا کہ اس طرح تو کسی کے ہاں بھی درست نہیں ہے کہ دو آدمی اذان دیں اور آدھی ایک دے اور آدھی دوسرا دے اور یہی احتمال اقامت میں بھی جاری ہوتا ہے پس ثابت ہوا کہ ان کو ایک آدمی انجام دے گا اور اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ دونوں میں ایک مستقل چیز کی طرح معاملہ ہو اور ہر ایک کا الگ الگ شخص ذمہ دار ہو۔
ہم نے اس کی نظیر تلاش کی تو نماز میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ نماز کے ان اسباب میں جو اس سے پہلے ہیں وہ اذان سے نماز کی طرف بلانا ہے اور اسی طرح نماز کے لیے اقامت کا کہنا ہے اور یہ تو تمام نمازوں میں ہے۔
اسی طرح ہم نے جمعہ پر نظر ڈالی کہ اس سے پہلے خطبہ ضروری ہے اور نماز جمعہ خطبہ سے متصل ہے جو بلا خطبہ نماز جمعہ پڑھے اس کا جمعہ باطل ہے بلکہ خطبے کو نماز سے پہلے رکھا گیا۔
پھر غور کیا کہ امام جمعہ وہی ہونا چاہیے جو خطیب ہو کیونکہ ہر ایک دوسرے سے متصل ہے اور دوسرے کے بغیر نہیں ہوسکتی جب دونوں ضروری ہوئے تو ان کو انجام دینے والا ایک شخص ہونا چاہیے اب ہم نے دیکھا کہ اقامت بھی اسباب نماز سے ہے اور اس کا اتصال نماز کے ساتھ خطبہ جمعہ سے زیادہ ہے کیونکہ خطبہ پہلے اور اقامت بعد میں ہوتی ہے اس اتصال کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار مؤذن کی بجائے امام ہو کیونکہ دونوں ایک چیز ہیں اور تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جمعہ کا خطبہ اور نماز کی امامت الگ الگ آدمی کرا سکتے ہیں اگرچہ امام زیادہ بہتر ہے تو اذان و اقامت بھی الگ الگ کرا لینے میں کیا حرج ہے بلکہ یہ تو بطریق اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔
ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا یہی مسلک ہے۔

846

۸۴۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ وَیُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (اِذَا سَمِعْتُمَ الْمُؤَذِّنَ) وَفِیْ حَدِیْثِ مَالِکٍ (النِّدَائَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ) ، وَفِیْ حَدِیْثِ مَالِکٍ (مَا یَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ) .
٨٤٦: سعید الخدری (رض) نے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ جب تم مؤذن کو سنو (مالک کی روایت میں مؤذن کی بجائے نداء کا لفظ ہے) تو تم اسی طرح کہو جیسا وہ کہتا ہے۔ مالک کی روایت میں المؤذن کا لفظ زائد ہے۔
تخریج : بخاری فی الذان باب ٧‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٠‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٤٠‘ والمناقب باب ١‘ نسائی فی الاذان باب ٣٣‘ ٣٥؍٣٧‘ ابن ماجہ فی الذان باب ٤‘ نمبر ٧١٩‘ مالک فی النداء نمبر ٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٣٧‘ مسند احمد ١؍١٢٠‘ ٣؍٨‘ ٤؍٩٢‘ ٩٣‘ ٤؍٣٢٦‘ ابن ابی شیبہ کتاب الاذان والاقامۃ ١؍٢٢٧ عبرانی فی المعجم الکبیر ٢٣؍٢٢٨۔
خلاصہ الزام : مؤذن کا جواب انہی کلمات سے دیا جائے یا کچھ کلمات کے تفاوت سے اور یہ جواب واجب ہے یا مسنون۔

847

۸۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ یُوْنُسَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٨٤٧: حضرت یونس نے اپنی سند سے اس طرح روایت ذکر کی ہے۔
تخریج : دارمی ١؍١٨٩۔

848

۸۴۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ، قَالَ : أَنَا کَعْبُ بْنُ عَلْقَمَۃَ، أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ جُبَیْرٍ مَوْلٰی نَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْقُرَشِیِّ یَقُوْلُ : إِنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یَقُوْلُ : إِنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (اِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّہٗ مَنْ صَلَّیْ عَلَیَّ صَلَاۃً صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ تَعَالٰی لِیَ الْوَسِیْلَۃَ، فَإِنَّہَا مَنْزِلٌ فِی الْجَنَّۃِ لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ، وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ أَنَا ہُوَ، فَمَنْ سَأَلَ اللّٰہَ لِی الْوَسِیْلَۃَ، حَلَّتْ لَہٗ الشَّفَاعَۃُ .)
٨٤٨: عبدالرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جب مؤذن کو سنو ! تو اسی طرح کہو جیسا وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو اس لیے کہ جو مجھ پر درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے مقام وسیلہ طلب کرو وسیلہ جنت کے ایک مقام کا نام ہے وہ صرف ایک بندے کو جچتا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا۔ جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا وہ میری شفاعت کا حقدار بن گیا۔
تخریج : روایت ٨٤٦ ملاحظہ کریں۔

849

۸۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ۔
٨٤٩: حضرت شعبہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد۔

850

۸۵۰ : ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، وَأَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ أَبِی الْمَلِیْحِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ یَقُوْلُ مِثْلَ مَا یَقُوْلُ، حَتّٰی یَسْکُتَ)
٨٥٠: حضرت عبداللہ بن عتبہ نے ام حبیبہ (رض) سے نقل کیا کہ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مؤذن سے اذان سنتے تو اسی طرح فرماتے جیسے وہ کہتا جاتا یہاں تک کہ وہ خاموش ہوجاتا۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٥٢۔

851

۸۵۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو اللَّیْثِیُّ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (اِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ یُؤَذِّنُ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَقَالَتِہٖ)، أَوْ کَمَا قَالَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : یَنْبَغِیْ لِمَنْ سَمِعَ الْأَذَانَ أَنْ یَقُوْلَ کَمَا یَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ، حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْ أَذَانِہٖ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا لَیْسَ لِقَوْلِہٖ (حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ) مَعْنًی، لِأَنَّ ذٰلِکَ إِنَّمَا یَقُوْلُہُ الْمُؤَذِّنُ لِیَدْعُوَ بِہِ النَّاسَ إِلَی الصَّلَاۃِ وَإِلَی الْفَلَاحِ .وَالسَّامِعُ لَا یَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ مِنْ ذٰلِکَ عَلَی جِہَۃِ دُعَائِ النَّاسِ إِلٰی ذٰلِکَ إِنَّمَا یَقُوْلُہٗ عَلٰی جِہَۃِ الذِّکْرِ، وَلَیْسَ ھٰذَا مِنَ الذِّکْرِ .فَیَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَجْعَلَ مَکَانَ ذٰلِکَ، مَا قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْآثَارِ الْأُخَرِ وَہُوَ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ) .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہٗ (فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ) حَتّٰی یَسْکُتَ، أَیْ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا ابْتَدَأَ بِہِ الْأَذَانَ مِنَ التَّکْبِیْرِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ حَتّٰی یَسْکُتَ .فَیَکُوْنُ التَّکْبِیْرُ وَالشَّہَادَۃُ ہُمَا الْمَقْصُوْدُ إِلَیْہِمَا بِقَوْلِہٖ (مِثْلَ مَا یَقُوْلُ) وَقَدْ قَصَدَ إِلٰی ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ .
٨٥١: محمد بن عمرو اللیثی اپنے باپ دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ہم معاویہ (رض) کے پاس تھے تو مؤذن نے اذان دی تو معاویہ (رض) کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جب تم مؤذن کو اذان دیتا سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہے انھوں نے مقالتہ کا لفظ فرمایا یا اسی طرح کا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے ان آثار کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جو شخص اذان سنے اسے اسی طرح کہنا چاہیے جس طرح مؤذن کہے یہاں تک کہ وہ اذان سے فارغ ہو۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ فلاحین کے کہنے کا مطلب نہیں کیونکہ مؤذن تو یہ کلمات لوگوں کو نماز و فلاح کی طرف بلانے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا تو بلانے کی نیت سے نہیں کہتا بلکہ بطور ذکر کے کہتا ہے اور یہ ذکر نہیں ہے۔ پس مناسب یہ ہے کہ اس کی جگہ وہ کہا جائے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیگر روایات میں وارد ہوا ہے اور وہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ” فقولوا مثل ما یقول “ کی مراد یہ ہو کہ وہ کلمات کہو جن سے مؤذن نے ابتداء کی ہے اور وہ تکبیر و شہادتین ہیں یہاں تک کہ وہ ان سے خاموش ہوجائے پس تکبیر اور شہادت مثل ” مایقول “ سے مراد ہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ان کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔
تخریج : اس کی تخریج نمبر ٨٤٦ میں ملاحظہ ہو۔ عبدالرزاق ١؍٤٧٩۔
حاصل روایات : ان چھ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذان سننے والا مؤذن کے ساتھ ساتھ کہتا جائے یہاں تک کہ وہ اذان سے فارغ ہو پھر درود شریف اور دعا وسیلہ پڑھے۔
مؤقف فریق نمبر ٢ کی مستدل روایات :
حی علی الصلاۃ ‘ حی علی الفلاح سے مؤذن دوسروں کو نماز و فلاح کی طرف دعوت دے رہا ہے اور یہ دعوت کو سن کر وہی کلمات نہ کہے کیونکہ یہ کلمات ذکر تو نہیں پس مناسب یہ ہے کہ ان کی جگہ وہ کلمات کہے جو دیگر آثار میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں اور وہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ہے۔
جواب دلیل فریق نمبر ١: قولوا مثل ما یقول حتی یسکت اس سے کلمات تکبیر و شہادت مراد ہیں یہاں تک کہ وہ اذان مکمل کرے باقی یہ کلمات دعوت ہیں ان کی بجائے وہ پڑھے (کہ اس دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق تو ادھر سے ہی حاصل ہوگی) پس مایقول کی مراد مقصودی کلمات تکبیر و شہادت ہیں اور حدیث ابوہریرہ (رض) میں ان کو مقصودی قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ ملاحظہ ہو۔

852

۸۵۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالشَّافِعِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ح .
٨٥٢: ابن شہاب نے اپنی سند سے اس طرح روایت بیان کی ہے۔

853

۸۵۳ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا تَشَہَّدَ الْمُؤَذِّنُ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ) .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قَوْلِہِ عِنْدَ ذٰلِکَ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ) وَفِی الْحَضِّ عَلٰی ذٰلِکَ .
٨٥٣: سعید بن المسیّب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا جب مؤذن اعلان شہادت کرے تو تم اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے اور لا حول ولا قوۃ کا کلمہ تو اس پر ابھارنے کے لیے ہے۔ پھر وہ روایت جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس وقت لا حول ولا قوۃ پڑھا جائے تو یہ اس پر ابھارنے اور آمادہ کرنے کے لیے ہے۔
تخریج : نسائی فی عمل الیوم واللیلہ ١٥٢‘ ١٥٣‘ ابن ماجہ فی الاذان والسنۃ باب ٤‘ نمبر ٧١٨۔

854

۸۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْقَرَوِیُّ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ عَنْ خُبَیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ فَقَالَ أَحَدُکُمْ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، ثُمَّ قَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ فَقَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، ثُمَّ قَالَ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقَالَ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، ثُمَّ قَالَ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، فَقَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، ثُمَّ قَالَ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ فَقَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، ثُمَّ قَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، فَقَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، ثُمَّ قَالَ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ فَقَالَ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ مِنْ قَلْبِہٖ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ) .
٨٥٤: حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کہو پھر وہ اشہد ان لاالٰہ الا اللہ کہے تو کہو اشہد ان لا الٰہ الا اللہ پھر وہ اشہد ان محمد رسول اللہ کہے تو تم اشہد ان محمد رسول اللہ کہو پھر وہ حی علی الصلاۃ کہے تو کہو لا حول ولا قوۃ الا باللہ پھر حی علیٰ الفلاح کہے تو کہو لا حول ولا قوۃ الا باللہ پھر کہے اللہ اکبر اللہ اکبر تو کہو اللہ اکبر اللہ اکبر پھر وہ کہے لا الٰہ الا اللہ تو کہو لا الٰہ الا اللہ۔ اگر کوئی دل کی گہرائیوں سے یہ جواب دے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٢‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٤٠٨؍٤٠٩۔

855

۸۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ شَرِیْکٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ وَإِذَا قَالَ : حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ قَالَ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ) .
٨٥٥: حضرت ابو رافع (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مؤذن سے اذان سنتے تو اسی طرح کہتے جاتے جیسے وہ کہتا جاتا اور جب وہ کہتا حی علی الصلاۃ ‘ حی علیٰ الفلاح تو فرماتے لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
تخریج : نسائی فی عمل الیوم واللیلہ ص ١٥٦‘ طبرانی معجم کبیر ١؍١٣٣۔

856

۸۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ الْقُرَشِیِّ عَنْ عِیْسَی بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ، فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَقَالَ " اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ " فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ : " اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ " فَقَالَ : " أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ " فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ : أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ : أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ حَتّٰی بَلَغَ : " حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ " فَقَالَ : " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ " .قَالَ یَحْیٰی وَحَدَّثَنِیْ رَجُلٌ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ لَمَّا قَالَ ذٰلِکَ قَالَ " ھٰکَذَا سَمِعْنَا نَبِیَّکُمْ یَقُوْلُ " .
٨٥٦: عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ کہتے ہیں کہ ہم معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے پاس تھے جبکہ مؤذن نے اذان دی اور اس نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو معاویہ (رض) نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا اسی طرح اشہد ان لا الٰہ الا اللہ کہا تو انھوں نے اشہد ان لا الٰہ الا اللہ کہا مؤذن نے اشہد ان محمدا رسول اللہ کہا تو معاویہ نے اشہد ان محمدا رسول اللہ کہا یہاں تک حیی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح تک پہنچے تو لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا۔ یحییٰ راوی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے مجھے بیان کیا کہ معاویہ (رض) نے جب یہ کلمات کہے تو فرمایا اسی طرح ہم نے تمہارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٢٣‘ والاذان باب ٧‘ مسند احمد ٤؍٩١‘ ٩٢‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ١٨٤٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٢٢٦۔

857

۸۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ قَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ قَالَ " ھٰکَذَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ " .
٨٥٧: محمد بن عمرو نے اپنے والد و دادا سے بیان کیا کہ معاویہ (رض) نے اسی طرح کہا پھر آخر میں فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا۔

858

۸۵۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَیْضًا یَعْنِیْ دَاوٗدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیٰی، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَلْقَمَۃَ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا إِلٰی جَنْبِ مُعَاوِیَۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ ثُمَّ قَالَ مُعَاوِیَۃُ " ھٰکَذَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ .
٨٥٨: جناب عبداللہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ میں جناب معاویہ (رض) کے پہلو میں بیٹھا تھا پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی کہ آخر میں عماویہ (رض) نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح فرماتے سنا ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر۔

859

۸۵۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ یَحْیَی الْأَنْصَارِیُّ أَنَّ عِیْسَی بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ وَقَّاصٍ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَ الْأَذَانِ وَیَأْمُرُ بِہٖ۔
٨٥٩: عیسیٰ بن محمد نے عبداللہ بن وقاص کی وساطت سے اسی طرح روایت نقل کی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود فرماتے اور اس کا حکم دیتے تھے۔
تخریج : طبرانی ١٩؍٣٢١‘ (الصحیح عیسٰی بن عمرو لیس عیسٰی بن محمد) نحب الافکار۔

860

۸۶۰ : مَا حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنِ الْحَکِیْمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ قَالَ حِیْنَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ وَأَنَا أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا غُفِرَ لَہٗ ذَنْبُہٗ) .حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٨٦٠: عامر بن سعد بن ابی وقاص نے سعد (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمایا کہ جس شخص نے اذان سن کر کہا : أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ور کہا : رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا ۔ اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اس روایت کو یونس بن عبدالاعلیٰ نے اپنی سند سے لیث سے بیان کیا ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٦٧‘ ابو داؤد ١؍٧٨‘ نسائی ١؍١١٠‘ ترمذی ١؍٥١‘ ابن ماجہ ١؍٥٣۔

861

۸۶۱ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنِ الْحَکِیْمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ، وَزَادَ أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ قَالَ حِیْنَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ یَتَشَہَّدُ) .
٨٦١: حکیم بن عبداللہ بن قیس نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : مَنْ قَالَ حِیْنَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ یَتَشَہَّدُ و مؤذن کی اذان سنے وہ تشہد پڑھے۔
تخریج : مسند عبد بن حمید ١؍٧٨۔

862

۸۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ السَّقَطِیُّ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی النَّیْسَابُوْرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْبَزَّارُ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَقُوْلُ اِذَا سَمِعَ النِّدَائَ فَیُکَبِّرُ الْمُنَادِیْ فَیُکَبِّرُ ثُمَّ یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَیَشْہَدُ عَلٰی ذٰلِکَ ثُمَّ یَقُوْلُ : اللّٰہُمَّ أَعْطِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ، وَاجْعَلْ فِیْ عِلِّیِّیْنَ دَرَجَتَہٗ وَفِی الْمُصْطَفِیْنَ مَحَبَّتَہٗ وَفِی الْمُقَرَّبِیْنَ دَارَہٗ إِلَّا وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) .
٨٦٢: عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلم اذان سنتا ہے اور جب مؤذن تکبیر کہتا ہے تو وہ بھی تکبیر کہتا ہے پھر وہ شہادتین کے کلمات کہتا ہے تو وہ بھی شہادتین کے کلمات کہے پھر (آخر میں) کہتا ہے : اللّٰہُمَّ أَعْطِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ ، وَاجْعَلْ فِیْ عِلِّیِّیْنَ دَرَجَتَہٗ وَفِی الْمُصْطَفِیْنَ مَحَبَّتَہٗ وَفِی الْمُقَرَّبِیْنَ دَارَہٗ ۔ تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہوگئی۔
تخریج : طبرانی معجم الکبیر ١؍١٧١٦ بخاری فی الاذان باب ٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٣٧‘ نمبر ٥٢٩‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٤٣‘ نمبر ٢١١۔

863

۸۶۳ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَیَّاشٍ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ قَالَ : اللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ أَعْطِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ، وَابْعَثْہُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ الَّذِیْ وَعَدْتہ) .
٨٦٣: حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے مؤذن کی آواز سنی اور کہا : اللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ أَعْطِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ ، وَابْعَثْہُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ الَّذِیْ وَعَدْتہ ۔
تخریج : معجم الکبیر ١؍١٧١٦ بخاری فی الاذان باب ٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٣٧‘ نمبر ٥٢٩‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٤٣‘ نمبر ٢١١۔

864

۸۶۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمِ ڑالطَّحَّانُ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ، عَنْ أُمِّہَا قَالَتْ : عَلَّمَتْنِیْ أُمُّ سَلَمَۃَ، وَقَالَتْ : عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (یَا أُمَّ سَلَمَۃَ اِذَا کَانَ عِنْدَ أَذَانِ الْمَغْرِبِ فَقُوْلِیْ اللّٰہُمَّ ھٰذَا عِنْدَ اسْتِقْبَالِ لَیْلِکَ وَاسْتِدْبَارِ نَہَارِکَ وَأَصْوَاتِ دُعَاتِکَ وَحُضُوْرِ صَلَاتِکَ اغْفِرْ لِیْ) .فَھٰذِہِ الْآثَارُ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ أَرَادَ بِمَا یُقَالُ عِنْدَ الْأَذَانِ، الذِّکْرَ فَکُلُّ الْأَذَانِ ذِکْرٌ غَیْرُ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ فَإِنَّہُمَا دُعَائٌ .فَمَا کَانَ مِنَ الْأَذَانِ ذِکْرٌ فَیَنْبَغِیْ لِلسَّامِعِ أَنْ یَقُوْلَ، وَمَا کَانَ مِنْہُ دُعَائٌ إِلَی الصَّلَاۃِ، فَالذِّکْرُ الَّذِیْ ھُوَ غَیْرُہٗ أَفْضَلُ مِنْہُ وَأَوْلٰی أَنْ یُقَالَ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ) عَلَی الْوُجُوْبِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا ذٰلِکَ عَلَی الْاِسْتِحْبَابِ لَا عَلَی الْوُجُوْبِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٨٦٤: حفصہ بنت ابی بکر نے اپنی والدہ سے نقل کیا کہ مجھے امّ سلمہ (رض) نے یہ دعا سکھائی اور وہ فرماتی تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ دعا سکھلائے ہوئے فرمایا اے امّ سلمہ جب اذان مغرب کا وقت ہو تو اس طرح کہو : اللہم ہذا عند استبال لیلک واستدبار نہارک واصوات دعائک وحضور صلاتک اغفرلی۔ اے اللہ یہ رات کی آمد کا وقت اور دن کے جانے کا ٹائم ہے اور دعاؤں کی آوازوں اور تیری نماز کی حاضری کا وقت ہے تو میری بخشش فرما۔ یہ آثار و روایات اس بات کو چاہتے ہیں کہ اذان کے وقت جو کہا جاتا ہے وہ ذکر ہے اور پوری اذان ذکر ہے البتہ حی علی الصلوٰۃ ‘ حی علی الفلاح یہ ذکر نہیں بلکہ دعوت ہے۔ پس مناسب یہ ہے کہ جو حصہ ذکر ہے ‘ وہ تو اسی طرح کہے اور جو نماز کی دعوت ہے پس ذکر کا اس کی بجائے کہنا افضل و اولیٰ ہے اور بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : ” اذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول “ کہ ان کلمات کا کہنا واجب ہے ‘ دیگر علماء نے فرمایا یہ کلمات دہرانا مستحب ہے نہ کہ واجب۔ ان کی دلیل یہ روایات بھی ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٣٨‘ نمبر ٥٣٠‘ ترمذی فی الدعوات باب ١٢٦‘ نمبر ٣٥٨٩۔
حاصل روایات : ان تیرہ روایات سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت جہاں وہی کلمات کہے جائیں وہاں حیعلتین کے وقت لاحول ولا قوۃ کہا جائے اور اذان سے فراغت پر شہادت کا اقرار اور دعا وسیلہ اور درود شریف اور دیگر دعائیں کہی جائیں ان سب کی اجازت ہے اور تمام اذان سوائے حیعلتین کے ذکر ہے پس کلمات ذکر کو تو اسی طرح کہا جائے اور جو کلمات دعوت ہیں اس میں دوسرے کلمات افضل و اولیٰ ہیں۔
مسئلہ نمبر ٢: مؤذن کا جواب واجب ہے یا مستحب :
فریق اوّل : مؤذن کا جواب واجب ہے یہ احناف و اہل ظواہر کا قول ہے اور ان کی مستدل وہ روایات ہیں جن میں اذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول تو امر کا اولی اطلاق وجوب پر ہوتا ہے۔
فریق نمبر ٢ کا مؤقف :
مؤذن کا جواب مستحب ہے اس کی طرف ائمہ ثلاثہ خود امام طحاوی (رح) کا رجحان ہے اس کی دلیل یہ روایت ہے۔

865

۸۶۵ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ، فَسَمِعَ مُنَادِیًا وَہُوَ یَقُوْلُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَقَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ النَّارِ قَالَ فَابْتَدَرْنَاہُ فَإِذَا ہُوَ صَاحِبُ مَاشِیَۃٍ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ، فَنَادٰی بِہَا) .فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ یُنَادِی فَقَالَ غَیْرَ مَا قَالَ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ قَوْلَہٗ" اِذَا سَمِعْتُمُ الْمُنَادِیَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ الَّذِیْ یَقُوْلُ " أَنَّ ذٰلِکَ لَیْسَ عَلَی الْاِیْجَابِ وَأَنَّہٗ عَلَی الْاِسْتِحْبَابِ وَالنُّدْبَۃِ إِلَی الْخَیْرِ وَإِصَابَۃِ الْفَضْلِ، کَمَا عَلَّمَ النَّاسَ مِنَ الدُّعَائِ الَّذِیْ أَمَرَہُمْ أَنْ یَقُوْلُوْہُ فِیْ دُبُرِ الصَّلَاۃِ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .
٨٦٥: حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ سفر میں ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تھے آپ نے مؤذن کو اذن دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہا ہے اللہ اکبر اللہ اکبر تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ فطرت (اسلام) پر ہے پھر مؤذن اشہد ان لا الٰہ الا اللہ پکارا تو آپ نے فرمایا یہ آگ سے بری ہوگیا (کیونکہ یہ اسلام و ایمان کی گواہی ہے) عبداللہ کہتے ہیں ہم جلدی سے اس کی طرف گئے تو وہ ایک گڈریا تھا جس نے نماز کا وقت پایا تو اس کے لیے اذان دی۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ نے مؤذن کو اذان دیتے سنا اور مؤذن کے الفاظ کے علاوہ کلمات فرمائے۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد مبارک کہ مؤذن کی جب اذان سنو تو اس کی مثل کہو سے مراد اس کا لزوم و وجوب نہیں بلکہ استحباب ہے اور فضیلت و خیر کا حصول ہے جیسا کہ نماز کے بعد والی دعائیں لوگوں کو مانگنے کے لیے سکھائیں اور دیگر اس کے مشابہہ چیزیں۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٩‘ ترمذی فی اسیر باب ٤٨‘ نمبر ١٦١٨‘ مسند احمد ١, ٤٠٧‘ ٣؍١٣٢‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ١٨٦٦‘ طبرانی معجم الکبیر ١٠؍١١٥۔
جواب فریق اوّل :
حاصل روایت یہ ہے : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤذن کی اذان سن کر مؤذن والے کلمات نہیں کہے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اذا سمعتم المنادی فقولوا مثل الذی یقول یہ وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ مستحب و سبقت الی الخیر ہے اور فضیلت کا حصول ہے جیسا کہ لوگوں کو معلوم و معروف ہے کہ نمازوں کے بعد پڑھنے کے لیے جو دعائیں آپ نے سکھلائیں وہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں اور اس کی مثالیں بہت ہیں۔

866

۸۶۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حَکِیْمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٨٦٦: نافع بن جبیر ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کرتے ہیں۔
خلاصہ الزام : پوری زندگی کے لیے حکم نماز کا خطاب ہماری طرف ہے اس لیے ان تمامی اوقات کو ملحوظ رکھا گیا ہے وقت فجر کی ابتداء میں تو سب کا اتفاق ہے البتہ آخری وقت سے متعلق امام شافعی (رح) ومالک (رح) کے ہاں اسفار پر وقت فجر ختم ہوجاتا ہے جبکہ نمبر ٢ احناف ‘ حنابلہ اور جمہور طلوع آفتاب تک وقت مانتے ہیں وقت ظہر کی ابتداء تو بالاتفاق زوال کے بعد سے ہے مگر اختتام کے متعلق نمبر امام شافعی ومالک کے ہاں مثل اول پر ظہر کا وقت ختم ہوجاتا مگر عصر کا وقت چار رکعت کی مقدار وقفے سے شروع ہوتا ہے نمبر ٢ صاحبین و جمہور کے ہاں مثل اول کے اختتام پر متصل عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے کہ درمیانہ وقت مشترک ہے نمبر ٣ امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں وقت ظہر دو مثل تک رہتا ہے وقت عصر کی ابتداء اوپر درج اقوال کے مطابق ہے اختتام عصر میں امام شافعی ومالک (رح) دو مثل پر ختم مانتے ہیں نمبر ٢ امام احمد کے ہاں اصفرار اور شمس تک وقت ہے نمبر احناف ‘ جمہور کے ہاں غروب آفتاب تک ہے وقت مغرب غروب آفتاب سے بالاتفاق شروع ہوتا ہے صرف عطائ (رح) کا قول طلوع نجوم سے شروع ہونا ہے آخری وقت امام مالک و شافعی (رح) کے ہاں تین رکعت خشوع و خضوع سے پڑھنے کی مقدار ہے خواہ وہ کتنی طویل ہوں نمبر ٢ ان کا ایک قول جمہور اور صاحبین کے ساتھ ہے کہ شفق احمر تک وقت ہے نمبر ٣ امام ابوحنیفہ کے ہاں شفق ابیض پر اس کا وقت ختم ہوتا ہے اور وقت عشاء علی اختلاف الاقوال مغرب کے وقت کے ختم ہونے پر اور آخری وقت امام مالک (رح) و شافعی (رح) کے ہاں نصف لیل تک ہے احناف ‘ جمہور فقہاء کے ہاں طلوع صبح صادق سے پہلے تک وقت ہے۔
تخریج : الستدرک ١؍٣٠٧۔

867

۸۶۷ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُوْمِیِّ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٨٦٧: نافع بن جبیر نے ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : الستدرک ١؍٣٠٧۔

868

۸۶۸ : وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَمَّنِیْ جِبْرَائِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَرَّتَیْنِ عِنْدَ بَابِ الْبَیْتِ فَصَلّٰی بِیَ الظُّہْرَ حِیْنَ مَالَتِ الشَّمْسُ، وَصَلّٰی بِیَ الْعَصْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، وَصَلّٰی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلّٰی بِیَ الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلّٰی بِی الْفَجْرَ حِیْنَ حُرِّمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الصَّائِمِ، وَصَلّٰی بِی الظُّہْرَ مِنَ الْغَدِ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، وَصَلّٰی بِیَ الْعَصْرَ، حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَیْہِ، وَصَلّٰی بِی الْمَغْرِبَ حِیْنَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلّٰی بِیَ الْعِشَائَ حِیْنَ مَضٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ، وَصَلّٰی بِیَ الْغَدَاۃَ عِنْدَمَا أَسْفَرَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ الْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ ھٰذَا وَقْتُ الْأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِکَ)۔
٨٦٨: نافع بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبرائیل امین نے بیت اللہ کے دروازے کے پاس مجھے دو دفعہ امامت کرائی تفصیل اس طرح ہے مجھے ظہر کی نماز پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور مجھے مغرب کی نماز پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے اور مجھے عشاء کی نماز پڑھائی جب شفق غائب ہوگیا اور فجر کی نماز پڑھائی جب روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے اور دوسرے دن مجھے ظہر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوگیا اور مجھے مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب روزہ دار روزہ کھولتا ہے اور مجھے عشاء کی نماز پڑھائی جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا اور فجر کی نماز پڑھائی جب سپیدا ہوگیا پھر وہ میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقت ان دونوں اوقات کے درمیان ہے اور یہ آپ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کا وقت ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢‘ نمبر ٣٩٣‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١‘ نمبر ١٤٩‘ مستدرک ١؍١٩٣‘ مسند احمد ١؍٣٣٣؍٣٥٤۔

869

۸۶۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا بُکَیْر بْنُ الْأَشَجِّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ سُوَیْد السَّاعِدِیِّ، سَمِعَ أَبَا سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیَّ یَقُوْلُ قَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَمَّنِیْ جِبْرَائِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الصَّلَاۃِ، فَصَلَّی الظُّہْرَ حِیْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، وَصَلَّی الْعَصْرَ حِیْنَ قَامَتْ قَائِمَۃٌ وَصَلَّی الْمَغْرِبَ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَصَلَّی الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی الصُّبْحَ حِیْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ .ثُمَّ أَمَّنِیْ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ فَصَلَّی الظُّہْرَ وَفَیْئُ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلُہٗ، وَصَلَّی الْعَصْرَ وَالْفَیْئُ قَامَتَانِ، وَصَلَّی الْمَغْرِبَ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَصَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ إِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ الْأَوَّلِ، وَصَلَّی الصُّبْحَ حِیْنَ کَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَطْلُعَ، ثُمَّ قَالَ : الصَّلَاۃُ فِیْمَا بَیْنَ ہَذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ) .
٨٦٩: عبدالملک بن سعید بن سوید الساعدی نے حضرت ابو سعید الخدری (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) نے نماز میں میری امامت کرائی پس ظہر کی نماز ادا کی جب سورج ڈھل گیا اور عصر کی نماز پڑھی جب ایک قد کے برابر ہوگیا اور مغرب کی نماز ادا کی جب سورج غروب ہوگیا اور عشاء کی نماز ادا کی جب شفق غائب ہوگیا اور صبح کی نماز ادا کی جب صبح صادق ہوئی پھر دوسرے روز مجھے امامت کرائی پس ظہر کی نماز پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور عصر کی نماز ادا کی جبکہ سایہ دو قد کے مطابق ہوگیا اور مغرب کی نماز ادا کی جبکہ سورج غائب ہوگیا اور عشاء کی نماز اول ثلث لیل تک ادا فرمائی اور صبح کی نماز ادا کی جب سورج طلوع کے قریب ہوگیا پھر فرمایا نماز ان دونوں اوقات کے درمیان ہے۔

870

۸۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسَی الشَّیْبَانِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ھٰذَا جِبْرَائِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ یُعَلِّمُکُمْ أَمْرَ دِیْنِکُمْ) .ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : فِی الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ (وَصَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ حِیْنَ ذَہَبَتْ سَاعَۃٌ مِنَ اللَّیْلِ) .
٨٧٠: محمد بن عمر نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں ‘ جو تمہیں تمہارے دین کے معاملات سکھاتے ہیں پھر اوپر والی روایت کو اسی طرح ذکر کیا سوائے ان الفاظ کے جو عشاء کے بارے میں فرماتے وہ دوسرے روز اس وقت ادا کی جب رات کی ایک گھڑی جا چکی۔
تخریج : مسلم فی الایمان نمبر ١‘ ابو داؤد فی السنہ باب ١٦‘ ترمذی فی الایمان باب ٤‘ نسائی فی المواہب باب ٦‘ ابن ماجہ فی المقدمہ باب ٩‘ مسند احمد ١؍٢٧‘ ٢٨‘ ٥٢‘ ٥٣۔

871

۸۷۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ : ثَنَا ثَوْرُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ : قَالَ (سَأَلَ رَجُلٌ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ، فَقَالَ : صَلِّ مَعِیْ فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ حِیْنَ تَطْلُعُ الْفَجْرُ ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ حِیْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ حِیْنَ کَانَ فَیْئُ الْاِنْسَانِ مِثْلَہُ ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ، حِیْنَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ قَبْلَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ، ثُمَّ صَلَّی الصُّبْحَ فَأَسْفَرَ ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ حِیْنَ کَانَ فَیْئُ الْاِنْسَانِ مِثْلَہٗ، ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ حِیْنَ کَانَ فَیْئُ الْاِنْسَانِ مِثْلَیْہِ ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ، ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ ثُلُثُ اللَّیْلِ وَقَالَ بَعْضُہُمْ شَطْرُ اللَّیْلِ) .
٨٧١: عطاء بن ابی رباح نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اوقات نماز کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ نماز ادا کرو پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز ادا کی جبکہ فجر طلوع ہوئی پھر ظہر کی نماز ادا کی جبکہ سورج ڈھل گیا پھر عصر کی نماز ادا کی جبکہ انسان کا سایہ اس کی مثل ہوگیا پھر مغرب کی نماز ادا کی جب کہ سورج غروب ہوگیا پھر عشاء کی نماز شفق کے غائب ہونے سے پہلے ادا کی پھر صبح کی نماز خوب روشن کر کے ادا کی پھر ظہر کی نماز ادا کی جبکہ ہر انسان کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا پھر عصر کی نماز ادا کی جب انسانی سایہ اس کے دو مثل ہوگیا پھر مغرب کی نماز شفق کے غائب ہونے سے پہلے ادا کی پھر نماز عشاء ادا فرمائی بعض روات نے ثلث لیل اور بعض نے شطراللیل کے الفاظ نقل کئے ہیں۔
تخریج : نسائی فی المواقیت باب ٧‘ مسند احمد ٣؍٣٣٠‘ ٣٣١۔

872

۸۷۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائَ بْنَ أَبِیْ رَبَاحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِنْہُمْ (أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَشْہَدَ الصَّلَاۃَ مَعَہٗ، فَصَلَّی الصُّبْحَ فَعَجَّلَ، ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ فَعَجَّلَ ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ فَعَجَّلَ، ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ فَعَجَّلَ، ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ فَعَجَّلَ، ثُمَّ صَلَّی الصَّلَوَاتِ کُلَّہَا مِنَ الْغَدِ، فَأَخَّرَ ثُمَّ قَالَ لِلرَّجُلِ مَا بَیْنَ صَلَاتِیْ فِیْ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ، وَقْتٌ کُلُّہٗ) .
٨٧٢: عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھے صحابہ (رض) میں سے ایک آدمی نے بیان کیا کہ ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ سے نماز کے اوقات کے سلسلہ میں سوال کیا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ نمازوں میں آپ کے ساتھ حاضر رہے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی نماز جلدی پڑھائی پھر ظہر کی نماز جلدی پڑھائی پھر نماز عصر جلدی پڑھائی پھر مغرب کی نماز جلدی پڑھائی پھر عشاء کی نماز جلد پڑھائی پھر اگلے روز تمام نمازیں مؤخر کر کے پڑھائیں پھر آدمی کو فرمایا میرے ان دونوں دنوں کی نماز کے درمیان سارا نماز کا وقت ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١٧٨‘ ١٧٩‘ ترمذی فی المواقیت باب ١‘ مسند احمد ٤؍٤١٦۔

873

۸۷۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ مُوْسٰی عَنْ أَبِیْہِ، (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَتَاہُ سَائِلٌ فَسَأَلَہٗ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ شَیْئًا فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِیْنَ انْشَقَّ الْفَجْرُ وَالنَّاسُ لَا یَکَادُ یَعْرِفُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الظُّہْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَالْقَائِلُ یَقُوْلُ : انْتَصَفَ النَّہَارُ أَوْ لَمْ وَکَانَ أَعْلَمَ مِنْہُمْ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ وَقَعَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنَ الْغَدِ حَتّٰی انْصَرَفَ مِنْہَا، وَالْقَائِلُ یَقُوْلُ : طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَوْ کَادَتْ، ثُمَّ أَخَّرَ الظُّہْرَ حَتَّی کَانَ قَرِیْبًا مِنَ الْعَصْرِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ حَتَّی انْصَرَفَ مِنْہَا، وَالْقَائِلُ یَقُوْلُ: احْمَرَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّی کَانَ عِنْدَ سُقُوْطِ الشَّفَقِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعِشَائَ حَتّٰی کَانَ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ أَصْبَحَ فَدَعَا السَّائِلَ فَقَالَ : الْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ) .
٨٧٣: ابوبکر بن ابی موسیٰ نے اپنے والد ابو موسیٰ اشعری (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص اوقات نماز کے متعلق پوچھنے لگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا کوئی جواب مرحمت نہ فرمایا پس بلال کو حکم دیا انھوں نے فجر کی اقامت کہی جب کہ فجر پھوٹ چکی اور اندھیرے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو نہیں پہچان رہے تھے پھر اس کو حکم دیا اس نے ظہر کی اقامت کہی جبکہ سورج ڈھل گیا اور کہنے والے کہہ رہے تھے دن آدھا ہوگیا یا نہیں آپ ان میں سب سے بہتر جاننے والے تھے پھر آپ نے ان کو حکم فرمایا انھوں نے عصر کی اقامت کی جبکہ سورج ابھی بلند تھا پھر بلال کو حکم فرمایا اس نے مغرب کی جماعت اس وقت کھڑی کی جبکہ سورج غروب ہوگیا پھر ان کو حکم دیا اور شفق کے غائب ہونے پر عشاء کی جماعت کھڑی کی پھر اگلے روز فجر کو مؤخر کیا یہاں تک کہ اس سے لوٹتے وقت کہنے والے کہہ رہے تھے سورج طلوع ہوا چاہتا ہے یا ہوگیا ہے پھر ظہر کو مؤخر فرمایا یہاں تک کہ عصر کے قریب وقت ہوگیا پھر عصر کو مؤخر کیا یہاں تک کہ اس سے لوٹنے والے کہہ رہے تھے سورج سرخ ہوگیا ہے پھر مغرب کو مؤخر فرمایا یہاں تک کہ شفق غروب ہونے لگا پھر عشاء کو مؤخر فرمایا یہاں تک کہ رات کے پہلے دو ثلث گزر گئے پھر جب صبح ہوئی تو سائل کو بلایا اور فرمایا ان دونوں اوقات کے درمیان درمیان نمازوں کے اوقات ہیں۔
تخریج : سابقہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔ نسائی ١؍٩١۔

874

۸۷۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یُوْسُفَ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَہٗ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ فَقَالَ : صَلِّ مَعَنَا قَالَ : فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُرْتَفِعَۃٌ نَقِیَّۃٌ، ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِیْنَ تَطْلُعُ الْفَجْرُ .فَلَمَّا کَانَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ أَمَرَہٗ فَأَذَّنَ لِلظُّہْرِ فَأَبْرَدَ بِہَا فَأَنْعَمَ أَنْ یُبْرِدَ بِہَا، وَصَلَّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ، أَخَّرَہَا فَوْقَ الَّذِیْ کَانَ، وَصَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ یَغِیْبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی الْعِشَائَ بَعْدَ مَا ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، وَصَلَّی الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِہَا ثُمَّ قَالَ : أَیْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ : أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَقَالَ : وَقْتُ صَلَاتِکُمْ فِیْمَا بَیْنَ مَا رَأَیْتُمْ) .فَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، فَلَمْ یَخْتَلِفُوْا عَنْہُ فِیْہِ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ، حِیْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ، وَہُوَ أَوَّلُ وَقْتِہَا، وَصَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ التَّالِیْ حِیْنَ کَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَطْلُعَ وَھٰذَا اتِّفَاقُ الْمُسْلِمِیْنَ أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ، حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ وَآخِرَ وَقْتِہَا حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ .أَمَّا مَا ذُکِرَ عَنْہُ فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، فَإِنَّہٗ ذُکِرَ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلَّاہَا حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ عَلٰی ذٰلِکَ اتِّفَاقُ الْمُسْلِمِیْنَ أَنَّ ذٰلِکَ أَوَّلُ وَقْتِہَا .وَأَمَّا آخِرُ وَقْتِہَا فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبَا سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَجَابِرًا، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَوَوْا عَنْہُ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ التَّالِیْ، حِیْنَ کَانَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ .فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ بَعْدَ مَا صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ ہُوَ وَقْتُ الظُّہْرِ بَعْدُ .وَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی قُرْبِ أَنْ یَصِیْرَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، وَھٰذَا جَائِزٌ فِی اللُّغَۃِ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ) فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ الْاِمْسَاکُ وَالتَّسْرِیْحُ مَقْصُوْدًا بِہٖ أَنْ یُفْعَلَ بَعْدَ بُلُوْغِ الْأَجَلِ لِأَنَّہَا بَعْدَ بُلُوْغِ الْأَجَلِ، قَدْ بَانَتْ وَحُرِّمَ عَلَیْہِ أَنْ یُمْسِکَہَا .وَقَدْ بَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعٍ آخَرَ فَقَالَ : (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ) .فَأَخْبَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ حَلَالًا لَہُنَّ بَعْدَ بُلُوْغِ أَجَلِہِنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا جُعِلَ لِلْأَزْوَاجِ عَلَیْہِنَّ فِی الْآیَۃِ الْأُخْرٰی‘ إِنَّمَا ہُوَ فِیْ قُرْبِ بُلُوْغِ الْأَجَلِ، لَا بَعْدَ بُلُوْغِ الْأَجَلِ .فَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَمَّنْ ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ صَلَّی الظُّہْرَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ) یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی قُرْبِ أَنْ یَصِیْرَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، فَیَکُوْنُ الظِّلُّ اِذَا صَارَ مِثْلَہٗ، فَقَدْ خَرَجَ وَقْتُ الظُّہْرِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ، أَنَّ الَّذِیْنَ ذَکَرُوْا ھٰذَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدْ ذَکَرُوْا عَنْہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَیْضًا، (أَنَّہٗ صَلَّی الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، ثُمَّ قَالَ : مَا بَیْنَ ہَذَیْنِ وَقْتٌ) فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ مَا بَیْنَہُمَا وَقْتٌ، وَقَدْ جَمَعَہُمَا فِیْ وَقْتٍ وَاحِدٍ، وَلَکِنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ فِیْمَا أَخْبَرَ عَنْ صَلَاتِہِ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ، (ثُمَّ أَخَّرَ الظُّہْرَ حَتّٰی کَانَ قَرِیْبًا مِنَ الْعَصْرِ) .فَأَخْبَرَ أَنَّہٗ إِنَّمَا صَلَّاہَا فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ فِیْ قُرْبِ دُخُوْلِ وَقْتِ الْعَصْرِ، لَا فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ اِذَا أَجْمَعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ أَنَّ بَعْدَ مَا یَصِیْرُ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ وَقْتًا لِلْعَصْرِ أَنَّہٗ مُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ وَقْتًا لِلظُّہْرِ، لِاِخْبَارِہٖ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فِیْمَا بَیْنَ صَلَاتَیْہِ فِی الْیَوْمَیْنِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٨٧٤: سلیمان بن بریدہ نے حضرت بریدہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے نمازوں کے اوقات دریافت کئے تو ارشاد فرمایا ہمارے ساتھ نماز پڑھو بریدہ (رض) کہتے ہیں جب سورج ڈھل گیا تو بلال (رض) کو حکم فرمایا تو انھوں نے اذان دی پھر ان کو حکم دیا انھوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ ابھی سورج سفید صاف ستھرا بلند تھا پھر اس کو حکم فرمایا انھوں نے مغرب کی نماز کھڑی کی جب کہ سورج غروب ہوچکا پھر اس کو حکم دیا انھوں نے عشاء کی جماعت کھڑی کی جب کہ شفق غائب ہوچکی پھر اس کو حکم فرمایا تو انھوں نے فجر کی جماعت اس وقت کھڑی کی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے جب دوسرا دن آیا تو اسے حکم دیا انھوں نے ظہر کی اذان دی اس کو خوب ٹھنڈا کر کے پڑھا اور بہت خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھائی جبکہ سورج بلند تھا کل سے اس کو مؤخر کیا اور مغرب کی نماز پڑھائی جب کہ ابھی شفق غائب نہ ہوئی تھی اور عشاء کی نماز پڑھائی جبکہ رات کا ایک ثلث گزر چکا تھا اور نماز فجر خوب اسفار میں پڑھائی پھر ارشاد فرمایا اوقات نماز کے سلسلہ میں سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا جی حاضر ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تمہاری نمازوں کا وقت ان کے مابین ہے جو تم نے جان لیا۔ پھر جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان روایاتِ مذکورہ میں نماز فجر سے متعلق وارد ہوا ہے اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ آپ نے نماز فجر کو پہلے رو ز اس وقت ادا فرمایا جبکہ فجر طلوع ہوگئی اور یہ اس کا اوّل وقت ہے اور دوسرے دن کی ادائیگی طلوع آفتاب کے قریب تھی اس پر تو تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ فجر کا اوّل وقت طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور آخری وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک ہے۔ رہی نماز ظہر تو اس کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ منقول ہے کہ اس کی ادائیگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کی جب سورج ڈھل گیا اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ اس کا اوّل وقت ہے۔ البتہ اس کے آخری وقت کے متعلق حضرت ابن عباس ‘ ابوسعید ‘ جابر ‘ ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے روز نماز ظہر اس وقت ادا فرمائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور یہ ابھی ظہر ہی کا وقت ہے اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی یہ لیا جائے کہ اس وقت ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہونے کے قریب تھا اور لغت میں اس کا استعمال پایا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف۔۔۔} تو یہاں امساک و تسریح کا حکم اس وقت سے متعلق ہے جب عدت رجوع قریب اور اختتام ہو کیونکہ اگر عدت رجوع پوری ہوگئی تو عورت مطلقہ بائنہ بن جائے گی ‘ حق امساک باقی ہی نہ رہے گا اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمائی ہے : { واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن ۔۔۔} اس میں بتلایا کہ ان کو اپنے خاوندوں کے ساتھ عدت کے مکمل ہونے پر نکاح کرنا حلال ہے۔ پس اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ خاوندوں پر جو ذمہ داری عائد کی گئی وہ عدت کا زمانہ ختم ہونے کے قریب زمانہ تک کے لیے ہے۔ عدت کا زمانہ پورے ہوجانے کے بعد مراد نہیں۔ پس اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات میں ” صلی الظہر فی الیوم الثانی حین صار ظل کل شئی مثلہ “ میں قرب کا معنی مراد ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہونے کے قریب تھا۔ پس جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجائے گا تو اس وقت ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جن حضرات نے ان آثار میں ظہر کا آخری وقت ذکر کیا انھوں نے ان آثار میں یہ بھی نقل کیا کہ آپ نے نماز عصر پہلے دن اس وقت ادا فرمائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ ان دو اوقات کے مابین وقت ہے۔ پس یہ بات ناممکن ہے کہ ان کے مابین الگ وقت ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک وقت میں جمع فرمایا ہو بلکہ ہمارے نزدیک اس کا معنی وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ‘ واللہ اعلم۔ اور ہماری اس بات پر ابو موسیٰ (رض) کی روایت بھی دلالت کرتی ہے۔ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسرے دن والی نماز کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا : ” ثم اخر الظہر حتی کان قریبًا من العصر “ تو ابو موسیٰ (رض) نے خبر دی کہ انھوں نے اس نماز کو اس وقت ادا کیا جب نماز عصر کے داخلے کا وقت قریب قریب تھا۔ یہ مطلب نہیں کہ وقت عصر میں ادا کیا۔ پس اس سے یہ بات پختہ ہوگئی کہ اس پر تمام کا اتفاق ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجائے تو یہ عصر کا وقت ہے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ یہ ظہر کا وقت ہو کیونکہ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتلایا کہ دونوں دنوں کی نمازوں کے مابین نماز کا وقت ہے اور اس پر یہ آثار بھی دال ہیں۔
تخریج : مسلم ١؍٢٢٣‘ ترمذی ١؍٤٠‘ نسائی ١؍٩٠۔
حاصل روایات : امامت جبرائیل (علیہ السلام) اور سائل کے عملی جواب کی روایات سے نمازوں کے اوقات کی ابتداء اور انتہاء ظاہر ہوتی ہے امامت جبرائیل (علیہ السلام) کا واقعہ مکی زندگی کا ہے اور سائل والی روایات مدنی زندگی سے متعلق ہیں فجر کا ابتدائی وقت صبح صادق ہے اور آخری وقت طلوع آفتاب اور ظہر کا اول وقت زوال آفتاب اور آخری وقت دو مثل اور عصر کا اول وقت ایک مثل کے بعد اور آخری وقت اصفرار الشمس تک ہے مغرب کا اول وقت غروب آفتاب اور آخری وقت غروب شفق عشاء کا اول وقت غروب شفق اور آخری وقت رات کے دو ثلث ہے۔
نمازِ فجر اور استدلالِ ائمہ n
نماز فجر کے اول وقت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں روایات بالا میں طلوع صبح صادق کو ہی اس کا اول وقت تسلیم کیا گیا ہے اور دوسرے دن طلوع آفتاب سے ذرا پہلے فجر کو پڑھا گیا ہے۔
اختلافِ ائمہ :
فریق اوّل : امام مالک و شافعی (رح) نے ان روایات سے استدلال کیا جن میں اسفار کا لفظ وارد ہے ان کے ہاں اسفار ہونے پر فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
نمبر ١ : حدیث امامت جبرائیل (علیہ السلام) : صلی بی الغداء عند ما اسفر روایت نمبر ٨٦٨۔
نمبر ٢: جابر (رض) والی روایت میں ثم صلی الصبح فاسفر روایت نمبر ٨٧١۔
نمبر ٣: حضرت بریدہ (رض) کی روایت میں صلی الفجر فاسفر بھا روایت نمبر ٨٧٤۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ اسفار پر فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
فریق نمبر ٢: احناف و حنابلہ اور جمہور فقہاء کے ہاں فجر کا آخری وقت طلوع آفتاب ہے طلوع آفتاب سے ذرا پہلے پڑھنا ان روایات سے ثابت ہے جیسا روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری میں ہے کہ کئی کہہ رہے تھے طلعت الشمس اوکادت تطلع روایت نمبر ٨٧٣ روایت نمبر ٨٦٩ میں کا دت الشمس ان تطلع مذکور ہے ان سے ثابت ہوتا ہے آخری وقت طلوع آفتاب ہے۔
روایات فریق اوّل کا جواب یہ ہے اسفار سے سورج کے طلوع سے ذرا پہلے کا وقت مراد ہے امام طحاوی (رح) نے اسی وجہ سے اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کے الفاظ نقل کئے ہیں۔
وقت ظہر :
اماما ذکر سے اسی بات کو ذکر فرما رہے ہیں کہ بالاتفاق ظہر کا ابتدائی وقت زوال شمس ہے اور اب تک تمام روایات اسی بات کی شاہد ہیں کہ امامت جبرائیل ہو یا حدیث رجل ہو دونوں میں زوال کا لفظ لایا گیا ہے اگرچہ تعبیراتی الفاظ مختلف ہیں البتہ ظہر کے آخری وقت میں خاصا اختلاف ہے۔
اما آخر وقتھا سے اسی کی طرف اشارہ کیا فریق اوّل صاحبین اور جمہور فقہاء کے ہاں ظہر کا آخری وقت مثل اول تک ہے۔
فریق اوّل کی مستدل روایات :
اس سے قبل روایت ابن عباس ‘ ابو سعید الخدری ‘ ابوہریرہ ‘ جابر (رض) میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ دوسرے دن ظہر کی نماز اس وقت ادا کی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر ١: کہ مثل سے مراد ایک مثل ہو۔ بس یہی ظہر کا وقت ہے۔
نمبر ٢: دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل کے قریب ہوگیا اور لغت کے لحاظ سے قرب کی یہ تعبیر مستعمل ہے چنانچہ اس آیت میں ملاحظہ ہو۔ واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف (البقرہ : ٢٣١) تو یہاں امساک تبھی درست ہے جبکہ عدت طلاق ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیا جائے ورنہ ختم ہونے کے بعد تو موقعہ ہی نہ رہا اور دوسرے مقام پر فرمایا واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن (البقرہ : ٢٣٢) یہاں بلوغ سے مراد اختتام اجل ہے۔
الجواب : جن روایات میں صلی الظہر فی الیوم الثانی حین صار ظل کل شیء مثلہ ہے وہ روایات ابن عباس ‘ ابو سعید ‘ جابر اور ابوہریرہ (رض) سے مروی ہیں ان میں یہی دوسرا احتمال مراد ہے اور اس کے لیے دلیل انہی آثار میں اس طرح موجود ہے۔
والدلیل : سے اسی کو بیان فرمایا کہ ان روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یوم اول میں آپ نے عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور یہ بھی آخر میں فرمایا ان دونوں کے مابین وقت ہے اگر وقت نہ ہو اور ان دونوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرلیا ہو تو یہ ناممکن ہے پس وہ احتمال نمبر ٢ والا معنی لینے سے روایات کا مفہوم اپنے مقام پر درست رہتا ہے۔
تائیدی دلیل :
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت میں ہے کہ دوسرے دن نماز عصر کے قریب نماز ظہر ادا کی تو اس سے گویا یہ بتلایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ظہر کو عصر کا وقت داخل ہونے کے قریب وقت میں ادا فرمایا نہ کہ عصر کے وقت میں پس ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ بالاتفاق ان تمام روایات میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو تو ظہر کا وقت ہے تو اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوتا ہے پس یہ ممکن نہیں کہ اس وقت ظہر کا وقت باقی ہو کیونکہ دونوں دنوں میں تصریح ہے کہ ان دونوں اوقات کے درمیان نماز کا وقت ہے اور اس روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے جو ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے نقل فرمائی وہ یہ ہے۔

875

۸۷۵ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ لِلصَّلَاۃِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الظُّہْرِ حِیْنَ تَزُوْلُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخَرَ وَقْتِہَا، حِیْنَ یَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ) .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ دُخُوْلَ وَقْتِ الْعَصْرِ، بَعْدَ خُرُوْجِ وَقْتِ الظُّہْرِ وَأَمَّا مَا ذُکِرَ عَنْہُ فِیْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ، فَلَمْ یَخْتَلِفْ عَنْہُ، أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِیْ أَوَّلِ یَوْمٍ فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ، فَثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ أَوَّلُ وَقْتِہَا .وَذُکِرَ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَیْہِ ثُمَّ قَالَ (الْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ) فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ ہُوَ آخِرُ وَقْتِہَا الَّذِیْ اِذَا خَرَجَ فَاتَتْ .وَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ الْوَقْتُ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَخِّرَ الصَّلَاۃَ عَنْہُ، حَتّٰی یَخْرُجَ، وَأَنَّ مَنْ صَلَّاہَا بَعْدَہٗ، وَإِنْ کَانَ قَدْ صَلَّاہَا فِیْ وَقْتِہَا، مُفَرِّطٌ لِأَنَّہٗ قَدْ فَاتَہٗ مِنْ وَقْتِہَا مَا فِیْہِ الْفَضْلُ وَإِنْ کَانَتْ لَمْ تَفُتْ بَعْدُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (إِنَّ الرَّجُلَ لَیُصَلِّی الصَّلَاۃَ، وَلَمْ تَفُتْہُ، وَلَمَا فَاتَہٗ مِنْ وَقْتِہَا خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَہْلِہٖ وَمَالِہٖ) .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّلَاۃَ فِی خَاصٍّ مِنَ الْوَقْتِ، أَفْضَلُ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْ بَقِیَّۃِ ذٰلِکَ الْوَقْتِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ الْوَقْتُ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَخَّرَ الْعَصْرُ حَتّٰی یَخْرُجَ ھٰذَا الْوَقْتُ الَّذِیْ صَلَّاہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ. وَقَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا۔
٨٧٥: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نماز کا اول و آخر وقت ہے اور ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت جبکہ عصر کا وقت آجائے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ عصر کا وقت اس وقت داخل ہوتا ہے جب ظہر کا وقت نکل جاتا ہے۔ رہی وہ روایت جس میں عصر کا وقت مذکور ہے اس میں کچھ اختلاف نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس وقت میں ادا فرمایا ہو جس کا ہم نے تذکرہ کردیا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ نماز عصر کا اول وقت ہے آپ سے یہ منقول ہے کہ آپ نے اس کی ادائیگی دوسرے روز اس وقت فرمائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کی دو مثل ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا اس نماز کا وقت وہی ہے جو ان دونوں اوقات کے درمیان ہے۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ وہ اس کا ایسا آخری وقت ہو کہ جب وہ نکل جاتا ہے تو وہ نماز فوت ہوجاتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ وقت ہو کہ جس سے نماز کو عمومی حالات میں مؤخر کرنا مناسب نہیں ہے یہاں تک کہ وہ ختم ہو اور وہ شخص جس نے اس کے بعد اس کو ادا کیا اگرچہ وہ اس کو اس کے وقت کی حدود میں ادا کررہا ہے مگر وہ زیادتی کرنے والا ہے کیونکہ اس نے اس نماز کو فضیلت وثواب والے وقت سے ہٹا دیا۔ اگرچہ وہ نماز بالکل فوت تو نہیں ہوئی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی نماز تو پڑھتا ہے اور ظاہر میں وہ اس سے فوت بھی نہیں ہوتی مگر جب اس نے اس کو (فضیلت والے) وقت سے فوت کردیا ‘ وہ اس کے لیے اس کے اہل و مال سے زیادہ بہتر تھا۔ پس اس ارشاد سے یہ ثابت ہوگیا کہ خاص وقت میں نماز بقیہ تمام وقت کی نماز کے ساتھ احاطہ کرنے سے بہتر ہے اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ وقت ہو جس سے نماز کا مؤخر کرنا کسی صورت میں درست نہیں یہاں تک کہ یہ وقت نکل جائے وہ وقت ہے کہ جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے دن نماز ادا فرمائی اور ہماری اس بات پر مندرجہ روایات دلالت کرتی ہیں۔
تخریج : ترمذی فی باب الصلاۃ باب ١ نمبر ١٥١۔
فریق ثانی :
امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں دو مثل تک ظہر کا وقت ہے اور اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔
دلیل نمبر ١: حضرت ابن عباس ‘ ابو سعید خدری ‘ ابوہریرہ (رض) کی روایات میں ظہر کی نماز دوسرے دن اس وقت پڑھنا ثابت ہے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوچکا تو اس سے معلوم ہوا کہ مثل اول کے ختم ہونے کے بعد مثل ثانی میں ظہر پڑھی پس ظہر کا وقت مثل ثانی میں بھی باقی تھا ورنہ وقت کے بعد نماز پڑھنا لازم آئے گا اور یہ وقت دو مثل تک بھی پہنچ سکتا ہے روایت نمبر ٨٧٥ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عصر کے وقت کا دخول ظہر کے وقت کے خروج پر ہے۔
وقت عصر :
اماما ذکر سے اس کو بیان فرمایا کہ عصر کا وقت مثل اول یا مثل ثانی کے بعد علی اختلاف الاقوال جیسا ذکر کر آئے یہ عصر کا اوّل وقت ہے جبکہ ظہر کا وقت دونوں اقوال کے مطابق ختم ہوجائے۔
عصر کا آخری وقت :
فریق نمبر ١: امام شافعی ومالک کے ایک قول کے مطابق عصر کا وقت دو مثل پر ختم ہوجاتا ہے۔
فریق نمبر ٢: احناف و حنابلہ و جمہور فقہاء نیز شافعی ومالک (رح) کے ہاں عصر کا وقت دو مثل کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔
فریق اوّل کی دلیل :
پہلے روایات میں گزرا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عصر دوسرے دن دو مثل پر یا سورج کے بلندی میں ہوتے ہوئے ادا فرمائی اور یہ فرمایا کہ ان کے مابین وقت عصر ہے اس سے معلوم ہوا کہ دو مثل پر وقت ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد نماز فوت ہوجاتی ہے ایک احتمال یہ بھی ہے۔
فریق ثانی اور اس کے دلائل :
فاحتمل ان یکون اس سے فریق ثانی کے مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دو مثل کے بعد وقت باقی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عصر دو مثل پر پڑھائی اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو بتلانا مقصود ہو کہ یہ وہ مناسب وقت ہے جس سے نماز کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے اور اس کو نکلنے نہ دے اگرچہ اس کے بعد پڑھنے والا بھی وقت میں پڑھ رہا ہے مگر وہ زیادتی کرنے والا ہے کیونکہ اس نے اس کو ایسے وقت سے مؤخر کیا ہے جو فضیلت والا ہے اگرچہ اس کی نماز فوت تو نہیں ہوئی جیسا کہ اس ارشاد میں فرمایا گیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی نماز پڑھ لیتا ہے اور نماز اس سے فوت تو نہیں ہوتی البتہ جو وقت اس سے فضیلت والا رہ گیا (اور میسر نہیں آیا) وہ اس کے اہل و مال سے بڑھ کر فضیلت والا تھا (مالک فی الموطا فی الوقوت نمبر ٢٣) اس روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کے بعض اوقات اس کے دوسرے اوقات سے افضل ہوتے ہیں۔
احتمال نمبر ٢: یحتمل ان یکون سے دوسرا احتمال ذکر کرتے ہیں کہ ممکن ہے وقت سے مراد وہ وقت ہو جس سے عصر کو مؤخر کرنا مناسب نہیں یہاں تک وہ وقت اس سے (کسی مجبوری سے) نکل جائے جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے دن نماز ادا فرمائی۔
اور یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔

876

۸۷۶ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا، أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَیْلِ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ لِلصَّلَاۃِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعَصْرِ، حِیْنَ یَدْخُلُ وَقْتُہَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِیْنَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ) .
٨٧٦: اعمش نے ابو صالح سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کی ابتداء و انتہاء ہے اور عصر کا اول وقت تو وہ ہے جب اس کا وقت شروع ہو اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا پڑجائے۔

877

۸۷۷ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (وَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ) .
٨٧٧: عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج کی دھوپ پیلی نہ پڑے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١٧١؍١٧٢‘ ١٧٣؍١٧٤‘ ١٧٨؍٢٠٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢‘ نمبر ٣٩٦‘ نسائی فی المواقیت باب ١٥‘ مسند احمد ٢؍٢١٠؍٢١٣‘ ٢٢٣۔

878

۸۷۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو .قَالَ شُعْبَۃُ حَدَّثَنِیْہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَرَفَعَہُ مَرَّۃً وَلَمْ یَرْفَعْہُ مَرَّتَیْنِ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ فَفِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّ آخِرَ وَقْتِہَا، حِیْنَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَذٰلِکَ بَعْدَمَا یَصِیْرُ الظِّلُّ قَامَتَیْنِ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ قَصَدَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْآثَارِ الْاُوَلِ مِنْ وَقْتِہَا، ہُوَ وَقْتُ الْفَضْلِ، لَا الْوَقْتُ الَّذِیْ اِذَا خَرَجَ فَاتَتِ الصَّلَاۃُ بِخُرُوْجِہٖ حَتَّی تَصِحَّ ھٰذِہِ الْآثَارُ وَلَا تَتَضَادَّ .غَیْرَ أَنَّ قَوْمًا ذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّ آخِرَ وَقْتِہَا إِلٰی غُرُوْبِ الشَّمْسِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٨٧٨: ابو ایوب نے عبداللہ بن عمرو سے اسی طرح روایت نقل کی ہے شعبہ کہتے ہیں میرے استاذ قتادہ نے اس کو تین مرتبہ بیان کیا ایک مرتبہ مرفوع نقل کی اور دو مرتبہ روایت کو مرفوع نقل نہیں کیا۔
اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ عصر کا آخری وقت آفتاب کا پیلا پڑنا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوجاتا ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ وہ وقت جس کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصد کیا اور آثار اوّل میں مذکور ہے وہ افضل وقت ہے ‘ اس سے وہ وقت مراد نہیں ہے کہ جب وہ نکل جائے تو اس کے نکلنے سے نماز فوت ہوجائے۔ یہ بات اس لیے کہی تاکہ ان آثار کا تطبیقی معنی سامنے آجائے اور تضاد ختم ہو ‘ البتہ بعض لوگوں نے کہا کہ عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٢٣۔
ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عصر کی نماز کا آخری وقت اصفر ار شمس ہے اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ ہر چیز کا سایہ دو مثل سے زیادہ ہوجائے۔
عمدہ تطبیق روایات :
معلوم ہوا کہ پہلے آثار میں جس وقت کا تذکرہ ہے وہ وقت فضیلت ہے وہ وقت نہیں کہ جس کے خروج سے نماز فوت ہوجاتی ہے یہ تطبیق اختیار کی جائے تو آثار میں تضاد باقی نہیں رہتا۔
وقت عصر میں اختلاف ثانی :
فریق اوّل : غروب آفتاب سے اس کا وقت ختم ہوتا ہے یہ ہمارے ائمہ ثلاثہ کا مذہب ہے یعنی امام ابوحنیفہ (رح) و صاحبین (رح) غیران قومًا اذہبوا سے یہی لوگ مراد ہیں۔

879

۸۷۹ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ، فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاۃَ، وَمَنْ أَدْرَکَ رَکْعَتَیْنِ مِنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَ) .
٨٧٩: ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جس نے نماز صبح کی ایک رکعت طلوع شمس سے پہلے پالی اس نے گویا نماز پا لی اور جس نے دو رکعت عصر کے غروب سے پہلے پالیں اس نے گویا نماز عصر کو پا لیا۔
تخریج : بخاری فی مواقیت الصلاۃ باب ٢٨‘ مسلم فی المساجد و مواضع الصلاۃ نمبر ٨٦٣‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ نمبر ٦٩٦‘ نسائی فی المواقیب باب ٢٨‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٣٧٨۔
مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً کی ایک شاندار توجیہ :
اس سے مراد کسی غیر مکلف کا اتنا وقت پالینا جس میں وضو کر کے ایک رکعت ادا کی جاسکے یہ اس نماز کو اس کے ذمہ قرض بنا دیتا ہے وہ نماز اسے قضاء کرنا ضروری ہے۔ (فیض الباری ١١٩؍ج ٢)

880

۸۸۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
٨٨٠: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المسند العدنی ‘ مسلم ١؍٢٢١۔

881

۸۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، وَبِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَکَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الْعَصْرِ، قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَکَ الْعَصْرَ) .
٨٨١: بشر و عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی ایک رکعت پا لی اس نے گویا صبح کی نماز پا لی جس نے ایک رکعت عصر کی غروب آفتاب سے پہلے پا لی اس نے عصر کی نماز پا لی۔
تخریج : تخریج نمبر ٨٧٩ کو ملاحظہ کرلیں۔

882

۸۸۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالُوْا : فَلَمَّا کَانَ مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الْعَصْرِ مَا ذَکَرْنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مُدْرِکًا لَہَا، ثَبَتَ أَنَّ آخِرَ وَقْتِہَا ہُوَ غُرُوْبُ الشَّمْسِ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّ آخِرَ وَقْتِہَا إِلٰی أَنْ تَتَغَیَّرَ الشَّمْسُ، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَہْیِہٖ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٨٨٢: عروہ حضرت عائشہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب ان آثار میں عصر کی ایک رکعت کا وقت پانے والوں کو عصر کا مدرک قرار دے دیا گیا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ عصر کا آخری وقت غروب آفتاب ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے اور جو لوگ عصر کا آخری وقت آفتاب کے زرد ہونے کو مانتے ہیں ان کی دلیل وہ روایات ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروب آفتاب کے وقت نماز کی ممانعت فرمائی ہے ‘ روایات یہ ہیں۔
تخریج : نسائی ١؍٩٤‘ ابن ماجہ ١؍٥١۔
حاصل روایات : ان چار روایات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ غروب سے پہلے ایک رکعت پانے والا گویا عصر کی نماز پانے والا ہے خواہ ثواب پانے والا یا نماز ما فی الذمہ والا ہو بہرحال وقت عصر غروب آفتاب تک نہ ہوتا تو اس کو مدرک بالصلاۃ نہ کہا جاتا پس ثابت ہوا کہ عصر کا آخری وقت غروب آفتاب ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔

فریق ثانی :
عصر کا وقت اصفرار آفتاب تک ہے۔ اس کو امام احمد بن حنبل اور اسحاق راہویہ نے اختیار کیا امام طحاوی (رح) کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔

883

۸۸۳ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ ذَرٍّ قَالَ : قَالَ لِیْ عَبْدُ اللّٰہِ کُنَّا نُنْہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ، وَعِنْدَ غُرُوْبِہَا وَنِصْفَ النَّہَارِ.
٨٨٣: عاصم نے بیان کیا کہ زر کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ نے کہا ہم طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے روک دیئے گئے اسی طرح غروب اور نصف نہار کے وقت بھی۔
تخریج : بخاری عن ابی ہریرہ فی مواقیت الصلاۃ باب ٣١‘ مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٨٥‘ نسائی فی المواقیت باب ٣٢‘ مسند احمد ٥؍٣١٢۔

884

۸۸۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ اِذَا طَلَعَ قَرْنُ الشَّمْسِ أَوْ غَابَ قَرْنُ الشَّمْسِ) .
٨٨٤: محمد نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز سے منع فرمایا جب سورج طلوع ہو یا غروب ہو رہا ہو۔
تخریج : طبرانی فی المعجم الکبیر ٥؍١٤٦۔

885

۸۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ: ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ عُلَیٍّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِیُّ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ ڑ الْجُہَنِیِّ قَالَ: (ثَلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَانَا أَنْ نُصَلِّیَ فِیْہِنَّ، وَأَنْ نُقْبِرَ فِیْہِنَّ مَوْتَانَا، حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَۃً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِیْنَ تَقُوْمُ قَائِمُ الظَّہِیْرَۃِ حَتّٰی تَمِیْلَ، وَحِیْنَ تَضِیْفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوْبِ، حَتّٰی تَغْرُبَ) .
٨٨٥: علی کہتے ہیں کہ حضرت عقبہ بن عامر الجھنی (رض) نے فرمایا کہ تین ایسے اوقات ہیں جن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے سے ہمیں منع فرماتے اور مردوں کو قبر میں ڈالنے (یعنی نماز جنازہ) سے منع فرماتے جبکہ سورج چمک دے یہاں تک کہ بلند ہو اور جب سورج زوال کے وقت میں ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے اور جب غروب کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ غروب ہوجائے۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٩٥‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٥١‘ نمبر ٣١٩٢‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤١‘ نمبر ٠٣٠١‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٣٠‘ نمبر ١٥١٩‘ نسائی فی المواقیت باب ٤‘ ٣١‘ والجنائز باب ٨٩‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٤٢‘ مسند احمد ٤؍١٥٢‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٤٥٤‘ ٤؍٣٢۔
اللغات : بازغہ : چمکنا ‘ ترتفع : بلند ہونا ‘ قائم الظہیرہ : دوپہر کا وقت ‘ نصف النہار۔ تضیف : مائل ہونا۔

886

۸۸۶ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ، قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا تَحَرَّوْا بِصَلَاتِکُمْ طُلُوْعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوْبَہَا، وَإِذَا بَدَأَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاۃَ حَتّٰی تَبْرُزَ، وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاۃَ حَتَّی تَغِیْبَ) .
٨٨٦: حضرت عبداللہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ سورج کے طلوع اور غروب کے اوقات میں اپنی نماز کی کوشش نہ کرو جب سورج کا کنارہ ظاہر ہو تو نماز کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ وہ خوب ظاہر ہوجائے اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو غائب ہونے تک نماز کو مؤخر کر دو ۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣‘ مسلم فی المساجد نمبر ٢٨٩‘ نسائی فی المواقیت باب ٣٣‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٣٩٥١‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٤٥٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٣٤٩‘ ٣٥٣۔
اللغآت : حاجب الشمس : کنارہ آفتاب ۔ لاتحروا : کوشش و تگ دو کرنا۔

887

۸۸۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٨٨٧: ہشام بن عروہ عن ابیہ نے ابن عمر (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٧٥‘ مسند احمد ٢؍١٣‘ ١٩۔

888

۸۸۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا یَتَحَرّٰی أَحَدُکُمْ فَیُصَلِّیَ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ، وَلَا عِنْدَ غُرُوْبِہَا)
٨٨٨: حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا کوئی تم میں سے نماز کے لیے تگ و دو نہ کرے کہ طلوع و غروب کے اوقات میں پڑھنے لگے۔
تخریج : روایت نمبر ٨٨٦ کی تخریج ملاحظہ ہو۔ بخاری ١؍٢١٢‘ مسلم ١؍٢٧٥‘ مسند احمد ٢؍٣٣۔

889

۸۸۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوٗسٍ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ " وَہَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، إِنَّمَا (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَحَرّٰی طُلُوْعُ الشَّمْسِ أَوْ غُرُوْبُہَا) .
٨٨٩: حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ عمر بن خطاب نے وہم کیا ہے کہ کوئی شخص نماز کا خیال نہ کرے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے لگے۔ (کہ حضرت عمر (رض) کے ہاں اصفرار سے غروب تک نماز کا نہ ہونا اور اسفار کے بعد طلوع تک کے وقت میں نماز نہ ہونے کا وہم و خیال ہوا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان نمازوں کے اوقات طلوع و غروب تک ہیں) البتہ ان اوقات تک نمازوں کو نہ مؤخر کیا جائے۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمار ٢٩٥۔

890

۸۹۰ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ یَحْیٰی، وَضَمْرَۃُ بْنُ حَبِیْبٍ وَأَبُوْ طَلْحَۃَ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَإِنَّہَا تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیْ الشَّیْطَانِ وَہِیَ سَاعَۃُ صَلَاۃِ الْکُفَّارِ فَدَعِ الصَّلَاۃَ حَتَّی تَرْتَفِعَ وَیَذْہَبَ شُعَاعُہَا ثُمَّ الصَّلَاۃُ مَحْضُوْرَۃٌ مَشْہُوْدَۃٌ إِلٰی أَنْ یَنْتَصِفَ النَّہَارُ، فَإِنَّہَا سَاعَۃٌ تُفْتَحُ فِیْہَا أَبْوَابُ جَہَنَّمَ وَتُسْجَرُ فَدَعِ الصَّلَاۃَ حَتّٰی یَفِیْئَ الْفَیْئُ، ثُمَّ الصَّلَاۃُ مَحْضُوْرَۃٌ مَشْہُوْدَۃٌ إِلٰی غُرُوْبِ الشَّمْسِ فَإِنَّہَا تَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ، وَہِیَ سَاعَۃُ صَلَاۃِ الْکُفَّارِ) .
٨٩٠: حضرت ابو امامہ باہلی (رض) کہتے ہیں مجھے حضرت عمرو بن عبسہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ظاہر ہوتا ہے اور یہ کفار کی عبادت کا وقت ہے پس تم اس میں نماز کو چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج بلند ہو کہ اس کی شعاعیں جاتی رہیں پھر نماز کی حاضری کا وقت رہتا ہے یہاں تک کہ دن آدھا ہوجائے یہ وہ گھڑی ہے جب جہنم کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کو اس میں بھڑکایا جاتا ہے پس اس وقت میں نماز ترک کر دو یہاں تک کہ سایہ ڈھل جائے پھر نماز کی حاضری کا وقت ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہو پس سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور یہ کفار کی نماز کا وقت ہے۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٩٤۔

891

۸۹۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ الْمُہَلَّبَ بْنَ أَبِیْ صُفْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ سَمُرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تُصَلُّوْا عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَلَا عِنْدَ غُرُوْبِہَا فَإِنَّہَا تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ، أَوْ عَلٰی قَرْنَیْ الشَّیْطَانِ، وَتَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ، أَوْ عَلٰی قَرْنَیْ الشَّیْطَانِ) .قَالُوْا : فَلَمَّا نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ، ثَبَتَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِوَقْتِ صَلَاۃٍ وَأَنَّ وَقْتَ الْعَصْرِ یَخْرُجُ بِدُخُوْلِہٖ. فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ الْآخَرِیْنَ عَلَیْہِ أَنَّہٗ رُوِیَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، النَّہْیُ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ وَرُوِیَ فِی غَیْرِہٖ (مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغِیْبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَ الْعَصْرَ) فَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ اِبَاحَۃُ الدُّخُوْلِ فِی الْعَصْرِ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ .فَجَعَلَ النَّہْیَ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ عَلٰی غَیْرِ الَّذِیْ أُبِیْحَ فِی الْحَدِیْثِ الْآخَرِ حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ الْحَدِیْثَانِ .فَھٰذَا أَوْلٰی مَا حُمِلَتْ عَلَیْہِ الْآثَارُ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ .وَأَمَّا وَجْہُ النَّظَرِ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَإِنَّا رَأَیْنَا وَقْتَ الظُّہْرِ وَالصَّلَوَاتُ کُلُّہَا فِیْہِ مُبَاحَۃٌ التَّطَوُّعُ کُلُّہٗ، وَقَضَائُ کُلِّ صَلَاۃٍ فَائِتَۃٍ .وَکَذٰلِکَ مَا اُتُّفِقَ عَلَیْہِ أَنَّہٗ وَقْتُ الْعَصْرِ، وَوَقْتُ الصُّبْحِ مُبَاحٌ قَضَائُ الصَّلَوَاتِ الْفَائِتَاتِ فِیْہِ، فَإِنَّمَا نَہٰی عَنِ التَّطَوُّعِ خَاصَّۃً فِیْہِ .فَکَانَ کُلُّ وَقْتٍ قَدْ اُتُّفِقَ عَلَیْہِ أَنَّہٗ وَقْتُ الصَّلَاۃِ عَنْ ھٰذِہِ الصَّلَوَاتِ، کُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ الصَّلَاۃَ الْفَائِتَۃَ تُقْضٰی فِیْہِ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ ھٰذِہِ صِفَۃُ أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْمُجْمَعِ عَلَیْہَا، وَثَبَتَ أَنَّ غُرُوْبَ الشَّمْسِ لَا یُقْضٰی فِیْہِ صَلَاۃٌ فَائِتَۃٌ بِاتِّفَاقِہِمْ خَرَجَتْ بِذٰلِکَ صِفَتُہٗ مِنْ صِفَۃِ أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ، وَثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یُصَلّٰی فِیْہِ صَلَاۃٌ أَصْلًا کَنِصْفِ النَّہَارِ، وَطُلُوْعِ الشَّمْسِ وَأَنَّ نَہْیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ، نَاسِخٌ لِقَوْلِہٖ (مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الْعَصْرِ رَکْعَۃً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَ الْعَصْرَ) لِلدَّلَائِلِ الَّتِیْ شَرَحْنَاہَا، وَبَیَّنَّاہَا .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ، عِنْدَنَا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ . وَأَمَّا وَقْتُ الْمَغْرِبِ فَإِنَّ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ کُلِّہَا أَنَّہٗ قَدْ صَلَّاہَا عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ .وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ فَقَالُوْا أَوَّلُ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِیْنَ یَطْلُعُ النَّجْمُ . وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٨٩١: سماک بن حرب کہتے ہیں میں نے مہلب بن ابی صفرہ کو حضرت سمرہ (رض) سے روایت بیان کرتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلوع آفتاب کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھو اس لیے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے یا بینؔ یا علیٰؔ کا لفظ فرمایا اسی طرح تغرب بین یا علی قرنی الشیطان کے لفظ فرمائے۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروب آفتاب کے وقت نماز سے ممانعت فرمائی ہے تو اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ نماز کا وقت نہیں اور اس کے آجانے سے عصر کا وقت جاتا رہتا ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والے علماء کی دلیل ان کے خلاف یہ ہے کہ اس روایت میں غروب آفتاب کے وقت نماز کی ممانعت کی گئی ہے اور دوسری روایت یہ کہہ رہی ہے کہ ” من ادرک رکعۃ من العصر قبل ان تغرب الشمس فقد ادرک العصر “ تو اس سے کم از کم اتنی بات ثابت ہو رہی ہے کہ اس وقت میں نماز عصر میں داخل ہونا مباح ہے تو حدیث اول میں جو نہی مذکور ہے اس کا محمل اور ہوگا اور دوسری روایت میں جس چیز کو مباح قرار دیا گیا اس کا محمل دوسرا ہے تاکہ دونوں روایات کا تضاد ختم ہوجائے ‘ یہ ان میں سب سے بہتر قول ہے جس پر ان آثار کو محمول کرنا چاہیے تاکہ تضاد نہ ہو۔ باقی نظر و فکر کے لحاظ سے اس کو دیکھا جائے تو ہمارے سامنے ظہر اور دیگر تمام نمازوں کے اوقات ہیں جن میں نوافل اور قضاء تمام مباح ہیں۔ اسی طرح عصر کے متفق علیہ وقت کا بھی یہی حکم ہے اور صبح کا وہ وقت مباح ہے کہ جس میں تمام فوت شدہ نمازوں کی قضاء درست ہے۔ البتہ نوافل کی ممانعت ہے۔ ہر وہ وقت جس کے نماز کا وقت ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور وہ ان نمازوں کے اوقات سے ہو تو اس میں قضا نماز جائز ہے اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ متفق علیہ اوقات نماز کا یہ حال ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غروب آفتاب کے وقت کوئی فوت شدہ نماز ادا نہیں کی جاسکتی اس پر سب متفق ہیں تو اس حالت سے اس کا فرض نمازوں کے اوقات سے خارج ہونا ثابت ہوگیا اور یہ تو پہلے ثابت ہوچکا کہ اس میں کوئی نماز ادا نہ کی جائے گی جیسا کہ زوال اور طلوع آفتاب کے وقت نماز ادا نہیں کی جاسکتی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غروب آفتاب کے قریب نماز کی ممانعت کرنا ” من ادرک من العصر رکعۃ۔۔۔“ کو منسوخ کرنے والا ہے۔ ان دلائل کی بناء پر جو ہم نے تشریح کی اور وضاحت کی نظر کا یہی تقاضا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے باقی رہا نماز مغرب کا وقت تو پہلے تمام آثار میں آیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو غروب آفتاب کے بعد ادا فرمایا۔ بعض لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ‘ انھوں نے کہا کہ نماز مغرب کا پہلا وقت ستاروں کے طلوع کا وقت ہے اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍١٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٣٤٩۔
حاصل روایات : ان ٩ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اوقات ثلاثہ میں نماز ممنوع ہے اور ممانعت کی علت کفار کی عبادت کے اوقات ہیں اور شیطان اپنے خیال میں ان سے اپنی عبادت کرواتا ہے۔
قالوا ! پس اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ ان اوقات میں نماز نہیں ہوتی اور ان کے اوقات کے آنے سے نماز کا وقت نکل جاتا ہے چنانچہ غروب کا وقت آنے سے عصر کا وقت جاتا رہتا ہے حرمت و حلت میں تعارض کے وقت حرمت کو ترجیح ہے۔
فریق اوّل کی طرف سے جواب :
ان تمام روایات میں غروب وغیرہ اوقات میں نماز کی ممانعت کی گئی ہے حالانکہ روایات عائشہ صدیقہ (رض) اور ابوہریرہ (رض) میں من ادرک رکعۃ من العصر قبل ان تغیب الشمس فقد ادرک العصر تو اس روایت میں غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر میں داخلے کا مباح ہونا ثابت کیا گیا جس سے ما وجب فی الذمہ کا ثبوت مل جائے اس سے فعل کے کرنے کو ثابت کرنا مقصود نہیں پس ممانعت والی روایات کی ممانعت کی جہت جب مختلف ہوئی اور اباحت والی روایات کی جہت مختلف ہوگئی تو ہر دو روایات میں تطبیق ہوگئی تضاد نہ رہا۔
فریق دوم کا مسلک بطریق نظر :
تمام اوقات پر غور سے معلوم ہوا کہ وہ تین ہیں :
نمبر ١: ایسے اوقات جن میں فرض ‘ نفل و قضاء سب کچھ جائز ہو مثلاً طلوعِ شمس کے بعد کا وقت اور ظہر کے بعد کا وقت وغیرہ۔
نمبر ٢: ایسے اوقات جن میں فرض و قضاء تو جائز ہوں مگر ان میں نفل جائز نہ ہوں مثلاً صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک کا وقت ‘ نماز عصر کے بعد غروب تک کا وقت۔
نمبر ٣: ایسے اوقات جن میں کوئی نماز جائز نہیں طلوع ‘ غروب ‘ نصف النہار۔
قاعدہ کلیہ نمبر ١: ان اوقات پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ جن اوقات میں نماز درست ہے ان میں قضاء نماز کی ممانعت نہیں کی گئی اگرچہ نوافل کی کردی گئی۔
نمبر ٢: جن اوقات میں کلی ممانعت ہے ان میں کوئی نماز ادا و قضاء جائز نہیں۔ معلوم ہوا کہ مکمل ممانعت کے اوقات میں وقت نماز ہے ہی نہیں پس ان اوقات میں غروب کا وقت بھی ہے اس میں نماز عصر کو جائز کہنا درست نہیں پس یہ ماننا پڑے گا کہ روایات غروب سے من ادرک رکعۃ من العصر والی روایات منسوخ ہیں۔
ایک ضروری تنبیہ :
یہاں امام طحاوی (رح) نے عندنا تو درست کہا کیونکہ ان کا رجحان یہاں امام احمد کے قول کی طرف ہے البتہ آگے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں بلکہ ان کا تسامح ہے۔
احناف کا مسلک فریق اوّل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے وقت عصر اور دوسرے اوقات میں ایک فرق ملحوظ رہنا چاہیے بقیہ تمام نمازوں کے اوقات کامل ہیں اس کے وقت میں اصفرار سے قبل کامل وقت ہے اور اصفرار کے بعد ناقص ہے جب اس کا وقت سب نمازوں سے الگ انداز کا ہے تو اس کا حکم وہی ہونا مناسب ہے جو حدیث ابوہریرہ (رض) اور عائشہ (رض) میں وارد ہے۔ واللہ اعلم وعلیہ التکلان۔
نوٹ : یہ دوسرا موقعہ ہے کہ امام طحاوی (رح) سے نقل مذہب میں تسامح ہوا اور یہ وہ موقعہ ہے جہاں ان کا اپنا رجحان بھی دوسرے قول کی ترجیح کا ہے۔

892

۸۹۲ : بِمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَیْرِ بْنِ نُعَیْمٍ، عَنْ أَبِیْ ھُبَیْرَۃَ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ أَبِیْ تَمِیْمِ ڑ الْجَیْشَانِیِّ، عَنْ أَبِیْ بَصْرَۃَ الْغِفَارِیِّ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالْمَخْمِصِ فَقَالَ : إِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ عُرِضَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَضَیَّعُوْہَا، فَمَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا مِنْکُمْ أُوْتِیَ أَجْرَہٗ مَرَّتَیْنِ، وَلَا صَلَاۃَ بَعْدَہَا حَتّٰی یَطْلُعَ الشَّاہِدُ) .
٨٩٢: ابو ہبیرہ شیبانی نے ابو تمیم جیشانی سے اور انھوں نے حضرت ابو بصرہ غفاری (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مقام مخمص میں عصر کی نماز پڑھائی پھر فرمایا یہ نماز پہلی امتوں کو پیش کی گئی انھوں نے اس کو ضائع کردیا پس جس نے اس کی حفاظت کی اس کو دو مرتبہ اجر ملے گا اس کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ ستارے طلوع ہوجائیں۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٩٢۔
خلاصہ الزام : مغرب کے وقت کی ابتداء اور اختتام کے متعلق اختلاف ہے بعض نے وقت مغرب کی ابتداء طلوع نجوم سے قرار دی ہے یہ عطاء بن ابی رباح وغیرہ کا مذہب ہے جبکہ جمہور فقہاء ائمہ اربعہ غروب آفتاب کے متصل بعد اس کا وقت مانتے ہیں مغرب کا آخری وقت تین رکعت اطمینان سے وضو کر کے خشوع و خضوع سے ادا کرلیں تو مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے دوسرا قول امام احمد جمہور فقہاء شفق احمر تک مغرب کا وقت ہے قول ثالث امام ابوحنیفہ (رح) اور عبداللہ بن مبارک شفق ابیض تک مغرب کا وقت رہتا ہے۔

893

۸۹۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ خَیْرِ بْنِ نُعَیْمِ ڑ الْحَضْرَمِیِّ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ بِالْمَخْمِصِ وَقَالَ (لَا صَلَاۃَ بَعْدَہَا حَتّٰی یُرَی الشَّاہِدُ) ، وَالشَّاہِدُ النَّجْمُ فَقَالُوْا : طُلُوْعُ النَّجْمِ ہُوَ أَوَّلُ وَقْتِہَا وَکَانَ قَوْلُہٗ عِنْدَنَا (وَلَا صَلَاۃَ بَعْدَہَا حَتّٰی یُرَی الشَّاہِدُ) قَدْ یَحْتَمِلُ أَنَّ ھٰذَا آخِرُ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا ذَکَرَہُ اللَّیْثُ، وَیَکُوْنُ الشَّاہِدُ ہُوَ اللَّیْلُ .وَلَکِنَّ الَّذِیْ رَوَاہُ غَیْرُ اللَّیْثِ تَأَوَّلَ أَنَّ الشَّاہِدَ ہُوَ النَّجْمُ، فَقَالَ ذٰلِکَ بِرَأْیِہٖ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّی الْمَغْرِبَ اِذَا تَوَاتَرَتِ الشَّمْسُ بِالْحِجَابِ .
٨٩٣: ابن اسحاق نے یزید بن ابی حبیب اور انھوں نے خیر بن نعیم حضرمی سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے صرف فرق یہ ہے اس میں مقام مخمص کا تذکرہ نہیں اور اس کے بعد کے الفاظ یہ ہیں : ” لاصلاۃ بعدھا حتی یری الشاہد “ الشاہد ستارے اور اس سے مراد رات بھی ہوتی ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ دوسرا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہو جیسا کہ لیث کے بیان سے معلوم ہوتا ہے۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں کہ آپ اس وقت نماز مغرب ادا فرماتے جب سورج غروب ہوجاتا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
ان کے علاوہ روات نے شاہد کی نجم سے تاویل کی اور کہا یہ لیث کی رائے اور قول ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نہیں۔
الجواب : یزید بن حبیب راوی کی روایت لیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ ہوگئی کیونکہ اس میں شاہد رات کے معنی میں ہے نمبر ٢ طلوع نجوم بسا اوقات غروب کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے اور یہی مغرب کا وقت ہے جیسا کہ متواتر روایات سے ثابت ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
کہ مغرب کی نماز غروب کے بعد ہی ہے اس کو ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اختیار فرمایا۔

894

۸۹۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَۃَ، عَنْ أَبِیْ عَطِیَّۃَ قَالَ : دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوْقٌ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَ مَسْرُوْقٌ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ، رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کِلَاہُمَا لَا یَأْلُوْا عَنِ الْخَیْرِ .أَمَّا أَحَدُہُمَا فَیُعَجِّلُ الْمَغْرِبَ، وَیُعَجِّلُ الْاِفْطَارَ، وَالْآخَرُ یُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّی تَبْدُوَ النُّجُوْمُ، وَیُؤَخِّرُ الْاِفْطَارَ - یَعْنِیْ أَبَا مُوْسٰی .قَالَتْ أَیُّہُمَا یُعَجِّلُ الصَّلَاۃَ وَالْاِفْطَارَ قَالَ : عَبْدُ اللّٰہِ .قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَذٰلِکَ کَانَ یَفْعَلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٨٩٤: عمارہ نے ابو عطیہ سے نقل کیا کہ میں اور مسروق حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مسروق نے سوال کیا اے ام المؤمنین ! اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے دو آدمی ہیں جو خیر کو بالکل نہیں چھوڑتے ان میں سے ایک مغرب کو جلد پڑھتا ہے اور جلد افطار کرتا ہے اور دوسرا مغرب کو اس وقت تک مؤخر کرتا ہے یہاں تک کہ ستارے ظاہر ہوں اور افطار کو بھی مؤخر کرتا ہے یعنی ابو موسیٰ انھوں نے پوچھا ان میں سے کون نماز کو اور افطار کو جلد ادا کرتا ہے میں نے کہا عبداللہ۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ٤٩‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٢١‘ نمبر ٢٣٥٤‘ ترمذی فی الصوم باب ١٣‘ نمبر ٧٠٢‘ نسائی فی الصیام باب ٢٣۔

895

۸۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الْمَغْرِبَ اِذَا وَجَبَتِ الشَّمْسُ).
٨٩٥: عروہ کہتے ہیں کہ بشیر بن ابی مسعود نے ابو مسعود (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز مغرب غروب آفتاب کے بعد ادا فرماتے۔
تخریج : دارمی فی الصلاۃ باب ٢‘ باختلاف یسیر۔

896

۸۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الْمَغْرِبَ اِذَا وَجَبَتِ الشَّمْسُ) .
٨٩٦: محمد بن عمرو بن الحسن نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہوجاتا۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١٨‘ مسلم فی المساجد ٧٧١‘ ٢٣٣‘ ترمذی فی المواقیت باب ١‘ نسائی فی المواقیت باب ١٠‘ ١٨‘ مسند احمد ٣؍٣٣‘ ٣٥١‘ ٣٦٩۔

897

۸۹۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ عُبَیْدٍ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ قَالَ : (کُنَّا نُصَلِّی الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ) .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَمَّنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٨٩٧: یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن اکوع (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مغرب کی نماز غروب آفتاب پر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد والے حضرات صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) کی روایات بھی موجود ہیں۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١٨‘ مسلم فی المساجد ٢١٦‘ ترمذی فی المواقیت باب ٨‘ نمبر ١٦٤‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٧‘ نمبر ٦٨٨‘ مسند احمد ٤؍٥٤‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٤٤٦۔
حاصل روایات : ان چاروں روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غروب آفتاب کے بعد نماز ادا فرما لیا کرتے تھے صحابہ کرام کا طرز عمل یہی تھا صحابہ کرام کے ارشاد سے بھی یہ بات ثابت ہے جس کو ہم نقل کرتے ہیں۔

898

۸۹۸ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ (صَلُّوْا ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ یَعْنِی الْمَغْرِبَ) وَالْفِجَاجُ مُسْفِرَۃٌ۔
٨٩٨: سوید بن غفلہ نے کہا کہ جناب عمر (رض) نے فرمایا تم یہ نماز یعنی مغرب پڑھو جبکہ وادیاں ابھی روشن ہی ہوں۔
اللغات : الفجاج : وسیع راستہ ‘ گلی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٨۔

899

۸۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عِمْرَانَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٨٩٩: شعبہ نے عمران سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

900

۹۰۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ عِمْرَانَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ.
٩٠٠: ابو عوانہ نے عمران سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

901

۹۰۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ، عَنِ الْمُہَاجِرِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلٰی أَبِیْ مُوْسٰی (أَنْ صَلِّ الْمَغْرِبَ حِیْنَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ) .
٩٠١: محمد بن سیرین نے مہاجر سے نقل کیا کہ جناب عمر (رض) نے ابو موسیٰ (رض) کو لکھا کہ مغرب کی نماز غروب آفتاب پر پڑھو۔
تخریج : موطا مالک فی وقوت الصلاۃ نمبر ٨۔

902

۹۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ الْجَابِیَۃِ أَنْ صَلُّوا الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ تَبْدُوَ النُّجُوْمُ .
٩٠٢: طارق بن عبدالرحمن نے سعید بن المسیب سے نقل کیا کہ عمر (رض) نے اہل جابیہ کی طرف لکھا کہ مغرب کی نماز ستاروں کے ظاہر ہونے سے پہلے ادا کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٨۔

903

۹۰۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ حَفْصٍ، قَالَ ثَنَا أَبِیْ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : صَلّٰی عَبْدُ اللّٰہِ بِأَصْحَابِہٖ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ، فَقَامَ أَصْحَابُہٗ یَتَرَائُ وْنَ الشَّمْسَ فَقَالَ : مَا تَنْظُرُوْنَ؟ قَالُوْا نَنْظُرُ، أَغَابَتِ الشَّمْسُ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : ھٰذَا، وَاللّٰہِ الَّذِیْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا ہُوَ وَقْتُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللّٰہِ (أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ) [الأسراء : ۷۸] وَأَشَارَ بِیَدِہٖ إِلَی الْمَغْرِبِ فَقَالَ : (ھٰذَا غَسَقُ اللَّیْلِ) وَأَشَارَ بِیَدِہٖ إِلَی الْمَطْلَعِ، فَقَالَ : (ھٰذَا دُلُوْکُ الشَّمْسِ) .قِیْلَ حَدَّثَکُمْ عُمَارَۃُ أَیْضًا؟ قَالَ (نَعَمْ) .
٩٠٣: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اپنے ساتھیوں کو نماز مغرب پڑھائی ان کے ساتھی کھڑے ہو کر سورج کو دیکھنے لگے تو عبداللہ نے کہا کیا دیکھتے ہو ؟ کہنے لگے ہم دیکھتے ہیں آیا سورج غروب ہوگیا ہے یا نہیں۔ تو عبداللہ نے فرمایا اس اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی اس نماز کا وقت ہے پھر عبداللہ نے بطور استشہاد یہ آیت پڑھی : ” اقم الصلاۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل “ [الاسرائ : ٧٨ ] اپنے ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ غسق اللیل ہے (رات کا آنا ہے) اور اپنے ہاتھ سے مطلع کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ دلوک الشمس ہے۔ فہد سے پوچھا گیا کہ کیا تمہیں عمارہ نے بھی بیان کیا ‘ انھوں نے کہا ‘ جی ہاں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٨؍٣٢٩۔

904

۹۰۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِیْرَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ : صَلَّی ابْنُ مَسْعُوْدٍ بِأَصْحَابِہٖ الْمَغْرِبَ حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَالَ : (ھٰذَا - وَالَّذِیْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا ہُوَ - وَقْتُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ) .
٩٠٤: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) نے اپنے ساتھیوں کو نماز مغرب پڑھائی جبکہ سورج غروب ہوگیا پھر کہنے لگے مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے جو اکیلا معبود ہے یہی وقت اس نماز کا ہے۔
تخریج : طبرانی ٩؍٢٣١۔

905

۹۰۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُرَّۃَ، عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .
٩٠٥: عبداللہ بن مرہ نے مسروق سے اور انھوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

906

۹۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّہٗ قَالَ حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ (وَالَّذِیْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا ہُوَ إِنَّ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ لَمِیْقَاتُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ) ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللّٰہِ تَصْدِیْقَ ذٰلِکَ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ (أَقِمْ الصَّلَاۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ).قَالَ : وَدُلُوْکُہَا حِیْنَ تَغِیْبُ، وَغَسَقُ اللَّیْلِ حِیْنَ یُظْلِمُ فَالصَّلَاۃُ بَیْنَہُمَا.
٩٠٦: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں ابن مسعود (رض) غروب آفتاب کے وقت فرمایا مجھے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بلاشبہ یہی گھڑی اس نماز کا وقت ہے پھر عبداللہ نے تصدیق کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی : { أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ } (الاسرائ : ٧٨) اور فرمایا دلوک وہ وقت ہے جب سورج غائب ہوجاتا ہے اور رات چھا جاتی ہے جبکہ اندھیرا چھا جاتا ہے پس نماز ان دونوں کے درمیان ہے۔

907

۹۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ لَبِیْبَۃَ قَالَ : قَالَ لِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (مَتٰی غَسَقُ اللَّیْلِ؟) قُلْتُ : اِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، قَالَ : فَاحْدُرَ الْمَغْرِبَ فِیْ إِثْرِہَا ثُمَّ اُحْدُرْہَا فِیْ إِثْرِہَا.
٩٠٧: عبدالرحمن بن لبیبہ کہتے ہیں مجھے ابوہریرہ (رض) نے کہا کب رات چھا جاتی ہے پھر خود فرمایا جب سورج غروب ہو تو اس کے پیچھے تو بھی جلد نماز ادا کرلو پھر اس کے پیچھے جلدی کر (وادی میں اتر) ۔
اللغات : فاحدر۔ وادی میں اترنا مراد جلدی کرنا۔

908

۹۰۸ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ وَعُثْمَانَ یُصَلِّیَانِ الْمَغْرِبَ فِیْ رَمَضَانَ اِذَا أَبْصَرَ إِلَی اللَّیْلِ الْأَسْوَدِ، ثُمَّ یُفْطِرَانِ بَعْدُ فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْ أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ، حِیْنَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ .وَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا دُخُوْلَ النَّہَارِ وَقْتًا لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَکَذٰلِکَ دُخُوْلُ اللَّیْلِ وَقْتٌ لِصَلَاۃِ الْمَغْرِبِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ، وَعَامَّۃِ الْفُقَہَائِ وَاخْتَلَفَ النَّاسُ فِی خُرُوْجِ وَقْتِ الْمَغْرِبِ فَقَالَ قَوْمٌ : اِذَا غَابَتِ الشَّفَقُ - وَہُوَ الْحُمْرَۃُ - خَرَجَ وَقْتُہَا، وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ : أَبُوْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : اِذَا غَابَ الشَّفَقُ وَہُوَ الْبَیَاضُ الَّذِیْ بَعْدَ الْحُمْرَۃِ، خَرَجَ وَقْتُہَا وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَکَانَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدَنَا أَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْحُمْرَۃَ الَّتِیْ قَبْلَ الْبَیَاضِ مِنْ وَقْتِہَا وَإِنَّمَا اخْتِلَافُہُمْ فِی الْبَیَاضِ الَّذِیْ بَعْدَہٗ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ حُکْمُہٗ حُکْمُ الْحُمْرَۃِ وَقَالَ : بَعْضُہُمْ حُکْمُہٗ خِلَافُ حُکْمِ الْحُمْرَۃِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْفَجْرَ یَکُوْنُ قَبْلَہٗ حُمْرَۃٌ ثُمَّ یَتْلُوْہَا بَیَاضُ الْفَجْرِ فَکَانَتِ الْحُمْرَۃُ وَالْبَیَاضُ فِیْ ذٰلِکَ وَقْتًا لِصَلَاۃٍ وَاحِدَۃٍ، وَہُوَ الْفَجْرُ فَإِذَا خَرَجَا، خَرَجَ وَقْتُہَا فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ الْبَیَاضُ وَالْحُمْرَۃُ فِی الْمَغْرِبِ أَیْضًا وَقْتًا لِصَلَاۃٍ وَاحِدَۃٍ وَحُکْمُہُمَا حُکْمٌ وَاحِدٌ اِذَا خَرَجَا، خَرَجَ وَقْتَا الصَّلَاۃِ اللَّذَانِ ہُمَا وَقْتٌ لَہَا. وَأَمَّا الْعِشَائُ الْآخِرَۃُ فَإِنَّ تِلْکَ الْآثَارَ کُلَّہَا فِیْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّاہَا فِیْ أَوَّلِ یَوْمٍ، بَعْدَمَا غَابَ الشَّفَقُ، إِلَّا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَإِنَّہٗ ذَکَرَ أَنَّہٗ صَلَّاہَا قَبْلَ أَنْ یَغِیْبَ الشَّفَقُ .فَیُحْتَمَلُ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنْ یَکُوْنَ جَابِرٌ عَنَی الشَّفَقَ الَّذِیْ ھُوَ الْبَیَاضُ، وَعَنَی الْآخَرُوْنَ الشَّفَقَ الَّذِیْ ھُوَ الْحُمْرَۃُ، فَیَکُوْنَ قَدْ صَلَّاہَا بَعْدَ غَیْبُوْبَۃِ الْحُمْرَۃِ، وَقَبْلَ غَیْبُوْبَۃِ الْبَیَاضِ، حَتَّی تَصِحَّ ھٰذِہِ الْآثَارُ وَلَا تَتَضَادَّ .وَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا قَالَ بَعْضُہُمْ : إِنَّ بَعْدَ غَیْبُوْبَۃِ الْحُمْرَۃِ وَقْتُ الْمَغْرِبِ إِلٰی أَنْ یَغِیْبَ الْبَیَاضُ . وَأَمَّا آخِرُ وَقْتِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأَبَا سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیَّ وَأَبَا مُوْسٰی، ذَکَرُوْا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَّرَہَا إِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ، ثُمَّ صَلَّاہَا) .وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ صَلَّاہَا فِیْ وَقْتٍ - قَالَ بَعْضُہُمْ - ہُوَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ ہُوَ نِصْفُ اللَّیْلِ .فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ صَلَّاہَا قَبْلَ مُضِیِّ الثُّلُثِ، فَیَکُوْنُ مُضِیُّ الثُّلُثِ، ہُوَ آخِرُ وَقْتِہَا .وَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ صَلَّاہَا بَعْدَ الثُّلُثِ، فَیَکُوْنُ قَدْ بَقِیَتْ بَقِیَّۃٌ مِنْ وَقْتِہَا بَعْدَ خُرُوْجِ الثُّلُثِ .فَلَمَّا اُحْتُمِلَ ذٰلِکَ، نَظَرْنَا فِیْمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٩٠٨: حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں میں نے عمر ‘ عثمان (رض) کو دیکھا کہ وہ رمضان میں مغرب کی نماز پڑھتے جونہی سیاہ رات کو دیکھتے پھر بعد میں افطار کرتے یعنی کھانا کھاتے۔ یہ صحابہ کرام (رض) ہیں کہ جن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مغرب کا اوّل وقت غروب آفتاب ہے اور غور و فکر کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دن کا داخل ہونا نماز فجر کا وقت ہے بالکل اسی طرح رات کی آمد یہ نماز مغرب کا وقت ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) و عام فقہاء کا یہی مسلک ہے۔ مغرب کا وقت ختم ہونے میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ چنانچہ امام ابویوسف و محمد (رح) کہتے ہیں جب سرخ شفق غائب ہوجائے تو مغرب کا وقت نکل جاتا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں سفید شفق کے غروب ہونے پر مغرب کا وقت ختم ہوتا ہے۔ نظر و فکر کا تقاضا اس طرح ہے کہ یہ تو اتفاقی امر ہے کہ وہ سرخی جو سپیدے سے پہلے آتی ہے وہ وقت مغرب ہے البتہ اس سپیدے میں اختلاف ہے جو بعد میں آتا ہے بعض نے کہا کہ اس کا حکم سرخی جیسا ہے۔ پس ہم نے اس پر غور کیا تو ہم کو اس کی نظیر مل گئی کہ فجر سے قبل بھی سرخی پھر اس کے بعد سپیدا صبح ہوتا ہے اور یہ دونوں ہی نماز فجر کے اوقات ہیں جب یہ دونوں نکل جاتے ہیں تو فجر کا وقت جاتا رہتا ہے۔ پس اس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ سپیدی اور سرخی مغرب میں بھی مغرب کا وقت نماز ہے اور ان دونوں کا فجر کی طرح ایک حکم ہے۔ جب یہ دونوں وقت نکل جائیں گے تو وقت مغرب جاتا رہے گا اور یہ دونوں وقت مغرب کے ہیں۔ باقی نماز عشاء تو ان تمام آثار میں معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پہلے روز غروب شفق کے بعد ادا فرمایا مگر جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت میں انھوں نے بیان فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفق کے غروب ہونے سے پہلے ادا فرمایا۔ اس میں ہمارے ہاں یہ احتمال ہے (واللہ اعلم) کہ حضرت جابر (رض) نے شفق ابیض مراد لیا ہو اور دوسروں نے شفق احمر مراد لیا ہو۔ پس آپ کا نماز ادا کرنا سرخی کے ازالہ اور سپیدے کی موجودگی میں تھا تاکہ یہ آثار درست ہو سکیں اور ان کا تضاد باقی نہ رہے اور ثبوت میں پیش کردہ روایات میں یہ ثبوت ہے کہ سرخی کا ازالہ اس وقت تک مغرب ہی کا وقت ہے یہاں تک کہ سفیدا دور ہو۔ باقی عشاء کا آخری وقت حضرت ابن عباس ‘ ابوسعید اور ابو موسیٰ (رض) کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رات کے تیسرے حصہ تک مؤخر فرمایا پھر اسے پڑھا اور جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں اس کو اس کے وقت ہونے پر ادا کرلیا۔ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ وقت رات کا تیسرا حصہ ہے اور دوسروں نے نصف رات قرار دیا۔ پس اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کا تیسرا حصہ گزرنے پر اس کو ادا کیا ہو۔ پس اس صورت میں ثلث لیل کا گزرنا اس کا آخری وقت ہوگا اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ثلث شب تک مؤخر فرمایا پھر اسے ادا کیا۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ اس کو وقت کے اندر ادا کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ وقت ثلث شب تھا اور دوسرے کہتے ہیں کہ وہ نصف شب تھا۔ اب اس میں احتمال ہے کہ ثلث شب گزر جانے پر اسے ادا کیا ہو تو ثلث شب کا گزرنا وہ آخری وقت بنا اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس کو ثلث شب کے بعد ادا کیا ہو۔ پھر ثلث شب گزرنے پر اس کو وقت کا کچھ حصہ بچ گیا۔ جب یہ احتمال پیدا ہوگیا تو ہم نے اس میں غور کیا تو یہ روایات ربیع المؤذن کی سند سے مل گئیں۔ ملاحظہ ہوں۔
ایک اشکال :
جب افطار کا فعل جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غروب کے معاً بعد کثرت روایات سے ثابت ہے تو اس اثر کا کیا مطلب ہوگا۔
الجواب : ان روایات کے مقابل یہ اثر ساقط ہے یا اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ نماز مغرب کے وقت کو غروب کے متصل بعد شروع کو تاکیداً ظاہر کرنے کے لیے ایسا کیا کرتے یا روزہ تو ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کھول کر نماز جلد ادا فرما لیتے پھر کھانا تناول کرتے اس کو راوی نے افطار سے تعبیر کیا۔ واللہ اعلم۔
حاصل روایات ان آثار صحابہ (رض) سے بھی ظاہر ہوگیا کہ مغرب غروب کے معاً بعد شروع ہوجاتا ہے ان نقلی دلائل سے بات ثابت ہوچکی اب دلیل نظری ملاحظہ ہو۔
دلیل نظری :
دخول نہار جو دن کا پہلا کنارہ ہے اس کے متصل بعد نماز فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے خروج نہارغروب سے ہوتا ہے اور دخول لیل جب غروب سے شروع ہوتی ہے تو مغرب کا وقت بھی اس کے متصل بعد شروع ہونا چاہیے کیونکہ لیل مغرب کا وقت ہے۔
یہی امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف (رح) و محمد (رح) اور عام فقہاء امت کا قول ہے۔
مغرب کا آخری وقت
خلاصہ الزام : مغرب کے آخری وقت میں دو قول معروف ہیں۔
نمبر ١: امام شافعی ومالک و احمد و صاحبین جمہور فقہاء کے ہاں شفق احمر پر ختم ہوتا ہے۔
نمبر ٢: امام ابوحنیفہ (رح) اور ابن مبارک (رح) کے ہاں شفق ابیض پر ختم ہوتا ہے۔
قول اوّل اور اس کی مستدل روایت :
شروع باب میں حضرت جابر (رض) کی روایت گزری اس میں موجود ہے وصلی المغرب قبل غیبوبۃ الشفق اس میں شفق سے شفق احمر مراد ہے اسی میں دوسرے دن نماز ادا فرمائی۔
قول دوم :
شفق سے مراد ابیض ہے۔
دلیل نمبر ١: روایات میں صرف شفق کا لفظ ہے روایت جابر (رض) کے علاوہ تمام روایات میں بعد ماغاب الشفق کے لفظ وارد ہیں جب شفق احمر مراد لیں تو اس کے بعد نماز کا ادا کرنا شفق ابیض تک نماز کے وقت کو ثابت کرتا ہے رہی روایت جابر (رض) تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں شفق کے لفظ میں دو احتمال ہیں ایک وہ جو فریق اوّل نے لیا اور دوسرا احتمال شفق ابیض ہے تو انھوں نے شفق احمر کے غائب ہونے کے بعد شفق ابیض کے متعلق اس طرح تعبیر فرمایا قبل ان یغیب الشفق پس اس تطبیق سے تمام روایات کا مفہوم یکساں ہوجاتا ہے تضاد باقی نہیں رہتا۔
دلیل نمبر ٢ نظری دلیل :
نظر کے طریقے سے جب دیکھتے ہیں کہ اس بات پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ وہ سرخی جو بیاض سے پہلے ہے وہ مغرب کا وقت ہے صرف اختلاف تو بیاض میں ہے بعض نے اسے پھر سرخی کے حکم میں شامل کر کے مغرب کے وقت میں شامل کیا جیسا امام صاحب اور بعض نے اسے خارج رکھا۔
نظیر سے استدلال : اب ہم نے غور کیا تو اس کی نظیر فجر میں مل گئی فجر میں پہلے سرخی آتی ہے اور پھر اس کے بعد معاً سفیدی فجر ہوتی ہے اور بالاتفاق یہ دونوں نماز فجر کے وقت میں شامل ہیں جب یہ دونوں چلی جاتی ہیں تو فجر کا وقت نکل جاتا ہے پس مغرب کی سرخی و سفیدی بھی ایک ہی نماز کا وقت ہونا چاہیے اور دونوں کا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے کہ جب دونوں نکل جائیں نماز کا وقت نکل جائے۔
وقت عشاء
خلاصہ الزام : عشاء کے اول وقت میں وہی دو قول ہیں جن کو مغرب کے اختتامی وقت کے سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے۔
نمبر ١: امام شافعی ومالک ‘ صاحبین ‘ جمہور فقہاء (رح) کے ہاں شفق احمر کے اختتام پر وقت عشاء شروع ہوجاتا ہے۔
نمبر ٢: امام ابوحنیفہ و ابن مبارک (رح) کے ہاں شفق ابیض کے اختتام پر وقت عشاء شروع ہوتا ہے۔
عشاء کے آخری وقت میں اختلاف ہے امام شافعی ومالک اور امام احمد (رح) کے ہاں عشاء کا وقت نصف لیل یا ثلث لیل پر ختم ہوجاتا ہے شدید ضرورت میں صبح تک بھی ہے۔
نمبر ٢: جمہور کا قول عشاء کا وقت جواز صبح تک رہتا ہے۔
عشاء کا اول وقت :
فریق اوّل کے ہاں شفق احمر کے غروب کے بعد عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے روایت جابر (رض) کہ یوم اول میں آپ نے عشاء کی نماز غیبوبت شفق سے پہلے ادا فرمائی اور دیگر تمام روایات میں بعد غیبوبت کا تذکرہ ہے ان روایات میں غیبوبت سے احمر مراد لیا جائے تو تمام روایات قول اول کی مستدل نظر آتی ہیں۔
فریق ثانی کے ہاں شفق ابیض کے غائب ہونے پر عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے۔
جواب روایت جابر (رض) :
نمبر ١: یہ روایت ان تمام روایات سے منسوخ ہے جن میں غیبوبت شفق کے بعد عشاء کا وقت بتلایا گیا ہے۔
نمبر ٢: نسائی میں حضرت جابر (رض) کی اس روایت میں عیبوبت کے بعد عشاء کے ادا کرنے کا تذکرہ ہے جیسا کہ دوسری روایات میں ہے پس نسائی والی روایت دوسری روایت کے موافق ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہوگی اور جابر (رض) کی روایت میں تاویل کے بعد یہ توجیہ ہوگی کہ شفق احمر کے بعد شفق ابیض کے غائب ہونے تک وقت مغرب ہے اس کے بعد وقت عشاء شروع ہوگا۔ فی ثبوت ما ذکرنا میں اسی طرف اشارہ ہے۔
عشاء کا آخری وقت
امام مالک و شافعی (رح) کے ہاں ثلث یا نصف رات تک اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے امام احمد بن حنبل (رح) کے نزدیک وقت تو ختم ہوجاتا ہے مگر ضرورت شدیدہ سے طلوع فجر تک وقت ہے۔
مستدل روایات :
اس سے پہلے شروع باب میں روایت ابن عباس ‘ ابو سعید الخدری (رض) سے جو امامت جبرائیل کی روایات گزریں اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور بریدہ (رض) کی روایات جو امامت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلسلہ میں گزریں ان تمام میں مذکور ہے کہ دوسرے دن بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز دونوں دن ثلث لیل کے وقت ادا فرمائی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ثلث لیل تک عشاء کا وقت ہے البتہ روایت جابر (رض) میں ثلث لیل اور نصف لیل بھی ہے مگر مذکورہ بالا روایات کی وجہ سے ثلث لیل والی روایت قابل ترجیح ہوگی۔

دو احتمال :
اگرچہ ایک احتمال کے مطابق ثلث لیل گزرنے سے پہلے پڑھی تو ثلث لیل پر وقت ختم ہونا شمار ہوگا اور دوسرے احتمال کے مطابق ثلث لیل کے بعد پڑھی تو عشاء کا وقت باقی ہے۔
تنبیہ : اگر ثلث لیل کے احتمال کو پہلی روایات راجح کرتی ہیں تو دوسرے احتمال کو مندرجہ ذیل روایات قوی بناتی ہیں۔

909

۹۰۹ : فَإِذَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَیْلِ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ لِلصَّلَاۃِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَائِ حِیْنَ یَغِیْبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِیْنَ یَنْتَصِفُ اللَّیْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ، حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ) .
٩٠٩: اعمش نے ابو صالح (رح) سے اور اس نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کی ابتداء اور انتہا ہے عشاء کا اول وقت وہ ہے جب افق غائب ہوجائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب رات آدھی ہوجائے اور فجر کا اول وقت جب پو پھوٹ جائے اور اس کا آخری وقت جب سورج طلوع ہو۔
تخریج : روایت نمبر ٥٧٨ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

910

۹۱۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (وَقْتُ الْعِشَائِ إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ) .
٩١٠: قتادہ نے ابو ایوب سے اور انھوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا عشاء کا وقت نصف لیل تک ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١٧٢؍١٧٣‘ نسائی فی المواقیت باب ١٥۔

911

۹۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑالْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ : شُعْبَۃُ : حَدَّثَنِیْہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَرَفَعَہُ مَرَّۃً، وَلَمْ یَرْفَعْہُ مَرَّتَیْنِ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ مَا بَعْدَ ثُلُثِ اللَّیْلِ أَیْضًا ہُوَ وَقْتٌ مِنْ وَقْتِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .
٩١١: شعبہ نے قتادہ سے اور انھوں نے ابو ایوب سے اور انھوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ پس ان آثار و روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ثلث شب کے بعد والا وقت بھی عشاء کا وقت ہے اور اس پر یہ روایات دلالت کر رہی ہیں۔
شعبہ کہتے ہیں مجھے قتادہ نے تین مرتبہ یہ روایت نقل کی ایک مرتبہ رفع کے ساتھ اور دو مرتبہ بغیر رفع کے نقل کی۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ ثلث لیل کے بعد بھی عشاء آخرہ کا وقت باقی ہے۔

912

۹۱۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ شَقِیْقٍ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ (مَکَثْنَا ذَاتَ لَیْلَۃٍ نَنْتَظِرُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْعِشَائِ الْآخِرَۃِ، فَخَرَجَ إِلَیْنَا حِیْنَ ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، أَوْ بَعْدَہٗ وَلَا نَدْرِیْ، أَشَیْئٌ شَغَلَہٗ فِیْ أَہْلِہٖ أَوْ غَیْرُ ذٰلِکَ .فَقَالَ حِیْنَ خَرَجَ : إِنَّکُمْ لَتَنْتَظِرُوْنَ صَلَاۃً، مَا یَنْتَظِرُہَا أَہْلُ دِیْنٍ غَیْرُکُمْ وَلَوْلَا أَنْ یَثْقُلَ عَلٰی أُمَّتِیْ، لَصَلَّیْتُ بِہِمْ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ، فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَصَلّٰی) .
٩١٢: حکم نے نافع سے اور انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک رات ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار نماز عشاء کے سلسلے میں کرتے رہے آپ اس وقت نکلے جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا یا اس کے بعد کا وقت آگیا ہمیں معلوم نہیں کہ گھر میں آپ کو کیا مشغولیت وغیرہ تھی جب آپ باہر تشریف لائے تو فرمایا بلاشبہ تم تو ایک نماز کا انتظار کر رہے ہو اور تمہارے علاوہ اور کسی دین والے نماز کا انتظار نہیں کر رہے اگر امت پر گرانی کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ان کو (ہر روز) اسی وقت نماز پڑھاتا پھر آپ نے مؤذن کو حکم دیا پھر اس نے اقامت کہی اور آپ نے جماعت کرائی۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٢٢‘ اذان باب ١٦٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٢١۔

913

۹۱۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَنْ زَائِدَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : (جَہَّزَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَیْشًا، حَتّٰی اِذَا انْتَصَفَ اللَّیْلُ، أَوْ بَلَغَ ذَاکَ، خَرَجَ إِلَیْنَا فَقَالَ صَلَّی النَّاسُ وَرَقَدُوْا وَأَنْتُمْ تَنْتَظِرُوْنَ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ أَمَا إِنَّکُمْ لَنْ تَزَالُوْا فِیْ صَلَاۃٍ مَا انْتَظَرْتُمُوْہَا) .
٩١٣: زائدہ بن سلیمان نے ابو سفیان سے اور انھوں نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر تیار فرمایا یہاں تک کہ آدھی رات کا وقت تیاری میں گزرا یا اس کے قریب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس نکل کر تشریف لائے اور فرمایا لوگ نماز پڑھ کر سو رہے اور تم ابھی اس نماز کے انتظار میں ہو خبردار ! تم نماز میں شمار ہوتے ہو جب تک نماز کا انتظار کرتے ہو۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٣٦‘ المواقیت باب ٢٥‘ نسائی فی المواقیت باب ٢١‘ مسند احمد ٣؍٥‘ ١٨٩؍٢٠٠۔

914

۹۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ (أَعْتَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃً بِالْعَتَمَۃِ، حَتَّی نَادَاہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ نَامَ النَّاسُ وَالصِّبْیَانُ .فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَا یَنْتَظِرُہَا أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الْأَرْضِ غَیْرُکُمْ، وَلَا یُصَلِّیْ یَوْمَئِذٍ إِلَّا بِالْمَدِیْنَۃِ .قَالَتْ وَکَانُوْا یُصَلُّوْنَ الْعَتَمَۃَ، فِیْمَا بَیْنَ أَنْ یَغِیْبَ غَسَقُ اللَّیْلِ إِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ) .
٩١٤: زہری نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز میں تاخیر کردی تو عمر (رض) نے بلند آواز سے آواز دی کہ لوگ اور بچے سو گئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور فرمایا اس نماز کا انتظار اہل زمین میں سے کوئی بھی تمہارے سوا نہیں کررہا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ان دنوں صرف مدینہ منورہ میں ہی نماز ہوتی تھی اور صحابہ کرام (رض) عشاء کی نماز اندھیرا چھا جانے کے بعد ثلث لیل تک پڑھتے تھے۔ (اس دن خلاف عادت تاخیر ہوئی) ۔
تخریج : بخاری مواقیت الصلاۃ باب ٢٢‘ الاذان باب ١٦٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٢١‘ مسند احمد ٦؍١٩٩‘ ٢١٥‘ ٢٧٢۔

915

۹۱۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ: ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ قَالَ: أَنَا حُمَیْدُ ڑالطَّوِیْلُ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: (أَخَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَۃَ إِلٰی قَرِیْبٍ مِنْ شَطْرِ اللَّیْلِ، فَلَمَّا صَلّٰی أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہٖ فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوْا وَرَقَدُوْا،وَلَمْ تَزَالُوْا فِیْ صَلَاۃٍ مَا انْتَظَرْ تُمُوْہَا)
٩١٥: حمیدالطویل نے انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز کو رات کا ایک حصہ گزر جانے تک مؤخر کیا جب آپ نماز پڑھا چکے تو ہماری طرف توجہ کر کے فرمایا بلاشبہ لوگ نماز پڑھ چکے اور سو گئے اور نیند میں مستغرق ہوگئے اور تم اس وقت تک نماز میں ہو جب تک کہ نماز کے انتظار میں رہو۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٣٦‘ والمواقیت باب ٢٥‘ العباس باب ٤٨‘ نسائی فی المواقیت باب ٢١‘ مسند احمد ٣؍٥‘ ١٨٩‘ ٢٠٠۔

916

۹۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ : أَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا ثَابِتٌ أَنَّہُمْ سَأَلُوْا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاتَمٌ؟ قَالَ : نَعَمْ .ثُمَّ قَالَ : أَخَّرَ الْعِشَائَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، حَتَّی کَادَ یَذْہَبُ شَطْرُ اللَّیْلِ، أَوْ إِلٰی شَطْرِ اللَّیْلِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الْعِشَائَ بَعْدَ مُضِیِّ ثُلُثِ اللَّیْلِ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مُضِیَّ ثُلُثِ اللَّیْلِ لَا یَخْرُجُ بِہٖ وَقْتُہَا .وَلَکِنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنَّ أَفْضَلَ وَقْتِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ الَّذِیْ یُصَلِّیْ فِیْہِ، ہُوَ مِنْ حِیْنِ یَغِیْبُ الشَّفَقُ إِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ، وَہُوَ الْوَقْتُ الَّذِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْہَا فِیْہِ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ثُمَّ مَا بَعْدَ ذٰلِکَ إِلٰی أَنْ یَمْضِیَ نِصْفُ اللَّیْلِ فِی الْفَضْلِ، دُوْنَ ذٰلِکَ حَتّٰی لَا تَتَضَادَّ ھٰذِہِ الْآثَارُ .ثُمَّ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ، ہَلْ بَعْدَ خُرُوْجِ نِصْفِ اللَّیْلِ مِنْ وَقْتِہَا شَیْئٌ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
٩١٦: حماد نے بتلایا کہ ثابت نے ہمیں خبر دی کہ ہم نے حضرت انس بن مالک (رض) سے دریافت کیا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی تھی انھوں نے کہا ہاں پھر کہنے لگے آپ نے ایک دن عشاء کو مؤخر فرمایا قریب تھا کہ رات کا ایک حصہ گزر جائے یا کہا رات کا ایک حصہ گزرنے تک مؤخر کیا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ ان آثار سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز ثلث شب گزرنے پر پڑھی ‘ اس سے یہ بات کھل کر پختہ ہوگئی کہ ثلث شب کا گزرنا نماز عشاء کے وقت کو خارج نہیں کرتا مگر اس کا مطلب ہمارے ہاں (واللہ اعلم) یہ ہے کہ عشاء کا سب سے افضل وقت غروب شفق کے بعد ثلث شب تک ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر نماز پڑھا کرتے تھے جیسا کہ حدیث عائشہ صدیقہ (رض) ہم بیان کر آئے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر وقت عشاء کا آدھی رات تک کا ہے۔ یہ تو فضیلت والے وقت میں دوسرے درجہ میں ہے تاکہ مندرجہ آثار میں تضاد نہ ہو۔ اب ہم نصف شب کے بعد والے وقت سے متعلق روایات پر نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مسلم ١؍٢٢٩۔
حاصل روایات : ان آٹھ روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ نے ثلث لیل گزرنے پر عشاء کی نماز پڑھی تو ثلث لیل گزرنے سے عشاء کا وقت ختم نہیں ہوا بلکہ باقی رہا۔
ایک اعتراض :
اگر نصف رات تک وقت باقی ہے تو امامت جبرائیل میں پھر دونوں رات ایک ہی وقت میں نماز کیوں پڑھائی گئی۔
ازالہ :
ثلث لیل سے پہلے پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے فضیلت کی طرف رغبت کے لیے ثلث لیل میں عشاء ادا فرمائی۔
روایات میں تطبیق کا طریقہ :
عشاء کا افضل وقت تو وہی ہے جس کا تذکرہ احادیث امامت میں ہے وہ غروب شفق سے ثلث لیل ہے حضرت عائشہ (رض) کی روایت کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی میں عموماً نماز ادا فرماتے اور اس کے بعد والا حصہ فضیلت میں اس سے کم درجہ ہے اس سے روایات کے مابین تضاد باقی نہیں رہتا۔

فریق دوم :
نصف لیل کے بعد طلوع فجر تک وقت کے قائلین۔
امام ابوحنیفہ اور ابن مبارک (رح) طلوع صبح تک اور امام احمد بھی ضرورت کے وقت صبح تک کو عشاء کا وقت مانتے ہیں۔

917

۹۱۷ : فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ، وَأَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ، عَنْ حُمَیْدِ ڑالطَّوِیْلِ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (أَخَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ إِلٰی شَطْرِ اللَّیْلِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہٖ بَعْدَمَا صَلّٰی بِنَا .فَقَالَ قَدْ صَلَّی النَّاسُ وَرَقَدُوْا، لَمْ تَزَالُوْا فِیْ صَلَاۃٍ، مَا انْتَظَرْتُمُوْہَا) .
٩١٧: حمیدالطویل کہتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رات نماز عشاء کو رات کا کافی حصہ گزرنے تک مؤخر کیا پھر آپ نے مڑ کر ہماری طرف توجہ فرمائی جبکہ آپ نماز پڑھا چکے اور فرمایا لوگ نماز پڑھ چکے اور سو گئے اور تم جب تک انتظار میں رہے نماز میں رہے۔
تخریج : نمبر : ٩١٥ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

918

۹۱۸ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ مِثْلَہٗ .
٩١٨: اسماعیل بن جعفر نے حمید سے اور انھوں نے انس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٩٣۔

919

۹۱۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہٗ صَلَّاہَا بَعْدَ مُضِیِّ نِصْفِ اللَّیْلِ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ قَدْ کَانَتْ بَقِیَّۃٌ مِنْ وَقْتِہَا، بَعْدَ مُضِیِّ نِصْفِ اللَّیْلِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ ذٰلِکَ أَیْضًا، مَا ہُوَ أَدَلُّ مِنْ ھٰذَا .
٩١٩: یحییٰ بن ایوب نے حمید اور انھوں نے انس (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان آثار سے واضح ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز نصف شب کے گزرنے پر ادا فرمائی۔ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ عشاء کا وقت نصف شب کے بعد ہے۔ اس سلسلہ میں یہ مرویات اس سے بھی زیادہ دلالت کرتی ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٢٠٠۔
حاصل روایات : نصف رات گزرنے کے بعد نماز پڑھائی اس کا معنی یہی ہوا کہ نماز عشاء کا وقت باقی تھا آدھی رات پر ختم نہ ہوا تھا ورنہ مؤخر نہ فرماتے یہ تاخیر بیان جواز کے لیے تھی۔
ان روایات سے زیادہ واضح روایت یہ ہے۔

920

۹۲۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ وَأَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَا : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْمُغِیْرَۃُ بْنُ حَکِیْمٍ، عَنْ أُمِّ کُلْثُوْمٍ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : (أَعْتَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ حَتّٰی ذَہَبَ عَامَّۃُ اللَّیْلِ، وَحَتّٰی نَامَ أَہْلُ الْمَسْجِدِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلّٰی وَقَالَ إِنَّہٗ لَوَقْتُہَا، لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِیْ) .فَفِیْ ھٰذَا أَنَّہٗ صَلَّاہَا بَعْدَ مُضِیِّ أَکْثَرِ اللَّیْلِ، وَأَخْبَرَنِیْ أَنَّ ذٰلِکَ وَقْتٌ لَہَا .فَثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ، أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ، مِنْ حِیْنِ یَغِیْبُ الشَّفَقُ إِلٰی أَنْ یَمْضِیَ اللَّیْلُ کُلُّہٗ، وَلَکِنَّہٗ عَلٰی أَوْقَاتٍ ثَلَاثَۃٍ .فَأَمَّا مِنْ حِیْنِ یَدْخُلُ وَقْتُہَا إِلٰی أَنْ یَمْضِیَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، فَأَفْضَلُ وَقْتٍ صُلِّیَتْ فِیْہِ .وَأَمَّا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ إِلٰی أَنْ یَتِمَّ نِصْفُ اللَّیْلِ، فَفِی الْفَضْلِ دُوْنَ ذٰلِکَ .وَأَمَّا بَعْدَ نِصْفِ اللَّیْلِ فَفِی الْفَضْلِ دُوْنَ کُلِّ مَا قَبْلَہٗ .قَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ وَقْتِہَا أَیْضًا، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .
٩٢٠: ام کلثوم بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بتلایا کہ ایک رات آپ نے نماز عشاء میں اتنی دیر کی کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا مسجد والے بھی سو گئے پھر آپ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی اور فرمایا یہ اس نماز کا وقت ہے اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں اس وقت ادا کرتا۔ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء کو رات کا اکثر حصہ گزرنے پر ادا کیا اور مجھے یہ بتلایا کہ یہ اس کا وقت ہے۔ پس ان روایات کی تصحیح کے پیش نظر ہم کہیں گے کہ عشاء کا اوّل وقت غروب شفق سے تمام رات گزرنے تک ہے۔ مگر اس کے فضیلت کے لحاظ سے تین درجات ہیں :! ثلث شب گزرے تک افضل ترین وقت ہے جس میں یہ نماز پڑھی جائے۔ " اس کے بعد آدھی رات ہونے تک فضیلت کا درجہ اس سے کم ہے۔#آدھی رات کے بعد ماقبل کے دونوں اوقات سے اور فضیلت گھٹ جائے گی اور اس کے متعلق بھی اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات آئی ہیں۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٢١٩‘ نسائی فی المواقیت باب ٢١‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٩‘ مسند احمد ٦؍١٥٠۔
ان آثار سے معلوم ہوگیا کہ نماز عشاء کا وقت غیبوبت شفق کے بعد تمام رات ہے مگر اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
افضل ترین وقت :
جب شفق غائب ہوا اس وقت سے لے کر ثلث لیل تک۔
مناسب وقت :
ثلث لیل سے آدھی رات تک یہ درجہ میں پہلے سے فروتر ہے۔
جائز وقت :
نصف رات سے طلوع صبح صادق تک یہ فضیلت میں سب سے کم ہے۔
مگر فرق مراتب کے باوجود نماز عشاء تمام اوقات میں ادا ہوگی قضا شمار نہ ہوگی۔

921

۹۲۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ " إِنَّ وَقْتَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ اِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ، وَلَا تُؤَخِّرُوْہُ إِلٰی ذٰلِکَ، إِلَّا مَنْ شُغْلٍ، وَلَا تَنَامُوْا قَبْلَہَا، فَمَنْ نَامَ قَبْلَہَا، فَلَا نَامَتْ عَیْنَاہُ ". قَالَہَا ثَلَاثًا .فَھٰذَا عُمَرُ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا۔
٩٢١: نافع نے اسلم سے نقل کیا کہ جناب عمر (رض) نے لکھا کہ عشاء کا وقت غروب شفق سے ثلث لیل ہے اور اس سے اس کو مؤخر نہ کیا جائے ہاں اگر کسی شدید مشغولیت سے مؤخر ہوجائے تو پھر نماز پڑھ کر سوؤ۔ جو اس سے پہلے سو گیا خدا کرے اس کی آنکھ کو نیند نصیب نہ ہو یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٥٦٠۔

922

۹۲۲ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ .عَنِ الْمُہَاجِرِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلٰی أَبِیْ مُوْسٰی " أَنْ صَلِّ صَلَاۃَ الْعِشَائِ مِنَ الْعِشَائِ إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ " أَیْ حِیْنَ شِئْتَ.
٩٢٢: ابن سیرین نے مہاجر سے اور انھوں نے حضرت عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو لکھا کہ نماز عشاء وقت عشاء سے نصف لیل تک پڑھی جائے جس وقت میں تم مناسب خیال کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٣٠۔

923

۹۲۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ، عَنِ الْمُہَاجِرِ مِثْلَہٗ .
٩٢٣: ہشام نے ہشام بن حسان ابن سیرین سے اور انھوں نے مہاجر سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

924

۹۲۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْمُہَاجِرِ، مِثْلَہٗ وَزَادَ (وَلَا أَدْرِیْ ذٰلِکَ إِلَّا نِصْفًا لَکَ) .فَفِیْ ھٰذَا أَنَّہٗ قَدْ جَعَلَ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَہَا إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ وَقَدْ جَعَلَ ذٰلِکَ نِصْفَہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
٩٢٤: عبداللہ بن عون نے محمد بن سیرین اور انھوں نے مہاجر سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں اور میں اس کو نہیں جانتا مگر تمہیں نصف ثواب ملے گا۔ اس روایت میں انھوں نے نصف لیل تک پڑھنا مقرر کیا اور اس کو نصف ثواب قرار دیا۔ اس میں یہ ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے آدھی رات تک ادا کرنا مقصرر فرمایا اور اس کے ثواب کو آدھا قرار دیا اور بھی اس سلسلہ میں روایات آئی ہیں۔

925

۹۲۵ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ ح .
٩٢٥: سفیان ثوری نے حبیب بن ابی ثابت سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

926

۹۲۶ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی أَبِیْ مُوْسٰی (وَصَلِّ الْعِشَائَ أَیَّ اللَّیْلِ شِئْتَ وَلَا تَغْفُلْہَا) .فَفِیْ ھٰذَا أَنَّہٗ جَعَلَ اللَّیْلَ کُلَّہٗ وَقْتًا لَہَا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَغْفُلُہَا .فَوَجْہُ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلٰی أَنَّ تَرْکَہٗ إِیَّاہَا إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ، إغْفَالٌ لَہَا، وَتَرْکَہٗ إِیَّاہَا إِلٰی أَنْ یَمْضِیَ ثُلُثُ اللَّیْلِ لَیْسَ بِإِغْفَالٍ لَہَا بَلْ ہُوَ مُؤَاخَذٌ بِالْفَضْلِ الَّذِیْ یُطْلَبُ فِیْ تَقْدِیْمِہَا فِیْ وَقْتِہَا، وَمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ نِصْفًا بَیْنَ الْأَمْرَیْنِ، أَیْ أَنَّہٗ دُوْنَ الْوَقْتِ الْأَوَّلِ، وَفَوْقَ الْوَقْتِ الثَّانِیْ .فَقَدْ وَافَقَ ھٰذَا أَیْضًا مَا صَرَفْنَا إِلَیْہِ مَعْنٰی مَا قَدَّمْنَا ذِکْرَہٗ، مِمَّا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہٖ۔
٩٢٦: حبیب بن ابی ثابت نے نافع بن جبیر اور انھوں نے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے ابو موسیٰ اشعری (رض) کو لکھا عشاء کی نماز رات کے جس حصے میں چاہے پڑھو مگر اس میں غفلت مت برتنا۔ اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے تمام رات کو اس کا وقت فرمایا اس طور پر کہ وہ اس سے غفلت اختیار نہ کرے پس اس کی صورت ہمارے ہاں یہ ہے کہ نصف شب تک اس کا چھوڑنا غفلت ہے اور ثلث شب کے گزر جانے تک اس کو مؤخر کرنا غفلت اور بےتوجہی میں داخل نہیں بلکہ وہ مطلوبہ فضل کو پانے والا ہے جو اس کے مقدم کرنے پر ملتا ہے۔ ان دونوں اوقات میں اوّل وقت زیادہ فضیلت والا ہے اور دوسرے وقت سے بڑھ کر ہے۔ جس معنی کا ہم تذکرہ کر آئے ہیں یہ مفہوم بھی اس کے موافق ہے۔ اس سلسلہ میں یہ روایات بھی آئی ہیں۔
اس روایت میں خبردار کیا گیا کہ نماز عشاء کے لیے تمام رات وقت ہے مگر اس سے غفلت نہ برتنی چاہیے۔
وجہ غفلت :
ہمارے ہاں نصف رات تک عشاء کا ترک کرنا غفلت سے ہوگا اور ثلث لیل گزرنے تک اس کا چھوڑے رکھنا غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ حصول فضل کے لیے ہے جو کہ پہلے وقت میں پڑھنے میں مطلوب ہے اور ثلث نصف کے درمیان میں اول وقت سے درجہ کم ملے گا مگر نصف کے بعد پڑھنے سے زیادہ ثواب ملے گا اور یہ چیز اس کے ساتھ موافق ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں منقول ہوئی ہے اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت منقول ہے۔

927

۹۲۷ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ح .
٩٢٧: لیث نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

928

۹۲۸ : وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ، أَنَّہٗ قَالَ لِأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (مَا إفْرَاطُ صَلَاۃِ الْعِشَائِ؟) قَالَ : طُلُوْعُ الْفَجْرِ .فَھٰذَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ جَعَلَ إفْرَاطَہَا الَّذِیْ بِہٖ تَفُوْتُ، طُلُوْعَ الْفَجْرِ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہٗ صَلَّی الْعِشَائَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ - حِیْنَ سُئِلَ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ- بَعْدَمَا مَضٰی سَاعَۃٌ مِنَ اللَّیْلِ) .وَفِیْ حَدِیْثِہٖ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (وَقْتُ الْعِشَائِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ) .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ وَقْتَہَا إِلٰی طُلُوْعِ الْفَجْرِ وَلَکِنْ بَعْضُہٗ أَفْضَلُ مِنْ بَعْضٍ .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّا مِنْ ھٰذِہِ الْأَقَاوِیْلِ، فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ إِلَّا مَا بَیَّنَّا مِمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنْ وَقْتِ الظُّہْرِ .فَإِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ : ہُوَ إِلٰی أَنْ یَصِیْرَ الظِّلُّ مِثْلَیْہِ، ھٰکَذَا رَوٰی عَنْہُ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ۔
٩٢٨: عبید بن جریج سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا نماز عشاء میں حد سے گزرنا کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا طلوع فجر۔ اس روایت میں حضرت ابوہریرہ (رض) نے طلوع فجر کو نماز عشاء کے فوت ہونے کا وقت قرار دیا اور اس کو افراط و زیادتی سے تعبیر کیا حالانکہ امامت جبرائیل (علیہ السلام) کے سلسلہ میں یہی حضرت ابوہریرہ (رض) دوسرے دن کی نماز بعد مامضی ساعۃً من اللیل نقل کرچکے اور دوسری روایت میں وقت العشاء الی نصف اللیل بھی فرما چکے تو ان کا طلوع فجر تک نماز عشاء کے وقت کو قرار دینا ثابت کرتا ہے کہ نماز عشاء کا وقت اختتام تو طلوع فجر ہے البتہ ثلث لیل سے اس وقت تک کے اوقات وہ ایک دوسرے سے فضیلت میں کم اور زیادہ ہیں۔ یہ حضرت ابوہریرہ (رض) ہیں کہ انھوں نے طلوع فجر تک اس کے مؤخر کرنے کو افراط قرار دیا حالانکہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کر آئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز دوسرے دن رات کا کچھ حصہ گزرنے پر ادا فرمائی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے اوقات کے سلسلہ میں سوال کیا گیا اور ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے کہ عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ اس کا وقت تو طلوع فجر ہے لیکن وقت کا کچھ حصہ دوسرے سے افضل ہے۔ یہ تمام اقوال جو اس باب میں مذکور ہوئے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے۔ سوائے اس کے کہ وقت ظہر میں اختلاف ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ظہر کا وقت ہر چیز کا سایہ دوگنا ہونے تک رہتا ہے اور امام ابویوسف (رح) کا قول بھی اسی طرح ہے۔ یہ تمام روایات امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہیں۔
وقت ظہر میں ثبوت رجوع :
البتہ ظہر کے سلسلہ میں امام صاحب کا مسلک یہ ہے کہ اس کا آخری وقت مثلین کی مقدار سایہ ہوجانے پر ہے۔
اور ابو یوسف کا قول بھی ان کے موافق ہے جیسا کہ محمد بن خالد کندی نے علی بن معبد عن محمد بن الحسن عن ابی یوسف نقل کیا ہے۔

929

۹۲۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدِ ڑ الْکِنْدِیُّ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٩٢٩: محمد بن الحسن نے ابو یوسف سے انھوں نے ابوحنیفہ سے۔

930

۹۳۰ : وَقَدْ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، عَنِ ابْنِ الثَّلْجِیِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِیَادٍ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، أَنَّہٗ قَالَ فِیْ ذٰلِکَ آخِرُ وَقْتِہَا اِذَا صَارَ الظِّلُّ مِثْلَہٗ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ : وَمُحَمَّدٍ وَبِہٖ نَأْخُذُ.
٩٣٠: ابن ثلجی عن الحسن بن زیاد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ ابوحنیفہ (رح) سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے آخری وقت میں فرمایا کہ ظہر کا وقت جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوجائے اور یہی ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے گویا دو مثل والے قول سے رجوع کرلیا امام طحاوی (رح) کا بھی ادھر رجحان ہے۔

931

۹۳۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ أَبِیْ قَیْسِ ڑ الْأَوْدِیِّ، عَنْ ہُزَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیْلَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِی السَّفَرِ) .
٩٣١: ابو قیس الاودی نے ہذیل بن شرحبیل سے اور انھوں نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں دو نمازوں کو جمع فرما لیتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٤٥٨۔
خلاصہ الزام : صورۃً دو نمازوں کو جمع کرنا کہ ایک کو اس کے آخری وقت اور دوسرے کو اول وقت میں پڑھنے کے جواز میں کسی کو کلام نہیں۔
جمع حقیقی کے متعلق اختلاف ہے۔
فریق اوّل : امام مالک و شافعی وعطاء بن رباح وغیرہ (رح) کے ہاں جمع حقیقی سفر و حضر میں مطلقاً جائز ہے شوافع سفر و مرض کی قید بھی لگاتے ہیں۔
فریق دوم : مطلقاً سفر و حضر و مرض و صحت کسی صورت بھی یہ جائز نہیں یہ امام ابوحنیفہ (رح) و صاحبین (رح) و حسن بصری (رح) کا مسلک ہے۔

932

۹۳۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ، أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ الْمَکِّیِّ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَہُ، (أَنَّہُمْ خَرَجُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَامَ تَبُوْکَ، فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَجْمَعُ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ) .
٩٣٢: ابوالطفیل نے خبر دی کہ مجھے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے بتلایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تبوک کے لیے روانہ ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر کو جمع فرماتے اسی طرح مغرب و عشاء کو بھی۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٥٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ ١٢٠٨‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ نمبر ١٠٧٠‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٤٣٩٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ نمبر ٤٥٦؍٢‘ دارقطنی ١؍٣٩٢‘ مسند احمد ٥؍٢٣٣۔

933

۹۳۳ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا قُرَّۃُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ الطُّفَیْلِ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ : قُلْتُ : مَا حَمَلَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ : أَرَادَ أَنْ لَا یُحْرِجَ أُمَّتَہٗ .
٩٣٣: قرہ بن خالد نے ابی الزبیر سے نقل کیا کہ ہمیں ابوالطفیل نے معاذ بن جبل (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے میں نے معاذ سے سوال کیا اس کی کیا ضرورت تھی ؟ انھوں نے جواب دیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤٦۔

934

۹۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَمَانِیًا، جَمِیْعًا، وَسَبْعًا جَمِیْعًا) .
٩٣٤: عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو ابن عباس (رض) سے نقل کرتے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکعات اکٹھی اور سات اکٹھی پڑھائیں۔
تخریج : بخاری باب ٣٠‘ الصلاۃ باب ١٨‘ مسلم صلوۃ المسافرین نمبر ٥٥‘ نسائی فی المواقیت باب ٤٤‘ ٤٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ١٢١٤‘ بیہقی سنن کبرٰی ٣؍١٦٧‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٤٤٣٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٤٥٦۔

935

۹۳۵ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إدْرِیْسَ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ، قَالَ : أَنَا جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ، أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، یَقُوْلُ : (صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ ثَمَانِیًا جَمِیْعًا، وَسَبْعًا جَمِیْعًا .قُلْتُ لِأَبِی الشَّعْثَائِ : أَظُنُّہٗ أَخَّرَ الظُّہْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ، وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، وَعَجَّلَ الْعِشَائَ، قَالَ : وَأَنَا أَظُنُّ ذٰلِکَ) .
٩٣٥: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت جابر بن زید (رض) نے خبر دی کہ انھوں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے میں نے مدینہ منورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آٹھ رکعات اور سات رکعات اکٹھی ادا کیں میں نے ابوالشعثاء سے سوال کیا میرے خیال میں آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلد ادا کیا ہوگا اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلد پڑھا ہوگا کہنے لگے میرا خیال بھی یہی ہے۔
تخریج : روایت سابقہ کی تخریج ملاحظہ کریں۔

936

۹۳۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ الْمَکِّیِّ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیْعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ جَمِیْعًا، فِیْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ) .
٩٣٦: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ظہر و عصر اکٹھی اور مغرب و عشاء اکٹھی پڑھائیں ان حالات میں نہ کوئی خطر تھا اور نہ وہ حالت سفر تھی۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤٦۔

937

۹۳۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا قُرَّۃُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قُلْتُ : مَا حَمَلَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ : أَرَادَ أَنْ لَا یُحْرِجَ أُمَّتَہٗ .
٩٣٧: عبدالرحمن بن مہدی نے قرۃ بن ابی الزبیر سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے میں نے سوال کیا کہ آپ کو اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا تو فرمایا تاکہ امت تنگی میں مبتلا نہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٧١‘ مسلم ١؍٢٤٦‘ نسائی ١؍٩٩‘ ترمذی ١؍٤٧۔

938

۹۳۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٩٣٨: ابن جریج نے ابی الزبیر سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٥٥۔

939

۹۳۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسِ ڑ الْفَرَّائُ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فِیْ غَیْرِ سَفَرٍ وَلَا مَطَرٍ) .
٩٣٩: داؤد بن قیس الفراء نے صالح مولی التوامہ سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے جو اس کی مثل ہے مگر اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : فی غیر سفر ولامطر ۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢١٠‘ عبدالرزاق ٢؍٥٥٥۔

940

۹۴۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَخَّرَ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقَالَ رَجُلٌ : " الصَّلَاۃَ الصَّلَاۃَ " .فَقَالَ لَا أُمَّ لَک، أَتُعْلِمُنَا بِالصَّلَاۃِ، وَقَدْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا جَمَعَ بَیْنَہُمَا بِالْمَدِیْنَۃِ .
٩٤٠: عمران بن حصین نے عبداللہ بن شقیق سے نقل کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے نماز مغرب کو ایک رات مؤخر کیا تو ایک آدمی زور زور سے الصلوٰۃ ‘ الصلوٰۃ پکارنے لگا آپ نے فرمایا تیری ماں نہ رہے کیا تو ہمیں نماز یاد دلاتا ہے (یعنی ہمیں الحمدللہ نماز کا احساس ہے) بسا اوقات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو نمازوں کو مدینہ میں جمع کیا۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤٦‘ ابن ابی شیبہ ٢؍٢٠۔

941

۹۴۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَفَہْدٌ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَجَّلَ السَّیْرَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، وَکَانَ قَدْ اُسْتُصْرِخَ عَلٰی بَعْضِ أَہْلِہِ ابْنَۃِ أَبِیْ عُبَیْدٍ، فَسَارَ حَتّٰی ہَمَّ الشَّفَقُ أَنْ یَغِیْبَ، وَأَصْحَابُہٗ یُنَادُوْنَہُ لِلصَّلَاۃِ، فَأَبٰی عَلَیْہِمْ، حَتّٰی اِذَا أَکْثَرُوْا عَلَیْہِ، قَالَ : (إِنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ ہَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ، الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ) ، وَأَنَا أَجْمَعُ بَیْنَہُمَا .
٩٤١: نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک رات انھوں نے چلنے میں جلدی کی جبکہ آپ کی بیوی نے اپنے کسی رشتہ دار کے سلسلہ میں معاونت طلب کی تھی آپ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غروب ہوا چاہتا تھا اور ان کے ساتھی نماز نماز پکار رہے تھے اور وہ انکار کر رہے تھے جب ان کا اصرار بڑھ گیا تو فرمانے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے ان دونوں نمازوں کو جمع کر کے ادا فرمایا یعنی مغرب و عشاء کو اور میں بھی جمع کروں گا۔
تخریج : بخاری فی التقصیر باب ٦‘ مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ١٢٠٧‘ نسائی فی المواقیت باب ٤٥‘ مسند احمد ٢؍٥١۔

942

۹۴۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا عَجَّلَ بِہِ السَّیْرُ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ) .
٩٤٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب سفر میں جلدی کرنا ہوتا تو مغرب و عشاء کو جمع فرماتے۔
تخریج : نسائی ١؍٩٩‘ مسلم ١؍٢٤٥۔

943

۹۴۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ اِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْرُ) .
٩٤٣: سالم نے اپنے والد عبداللہ سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب و عشاء کو جمع فرماتے۔
تخریج : نسائی ١؍٩٩۔

944

۹۴۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ، عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ ذُؤَیْبٍ، قَالَ (: کُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ہِبْنَا أَنْ نَقُوْلَ لَہٗ الصَّلَاۃَ، فَسَارَ، حَتّٰی ذَہَبَتْ فَحْمَۃُ الْعِشَائِ، وَرَأَیْنَا بَیَاضَ الْأُفُقِ، فَنَزَلَ فَصَلّٰی ثَلَاثًا الْمَغْرِبَ، وَاثْنَتَیْنِ الْعِشَائَ، ثُمَّ قَالَ : ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ) .
٩٤٤: اسماعیل بن ابی ذویب کہتے ہیں میں عبداللہ بن عمر (رض) کی معیت میں تھا جب سورج غروب ہوگیا ہم نے خوف سے ان کو نماز کا نہیں کہا یہاں تک کہ عشاء کی سیاہی آگئی اور ہم نے افق پر سپیدہ دیکھا تو آپ سواری سے اترے اور مغرب کی تین رکعت پڑھائی اور دو رکعت عشاء پھر فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا۔
تخریج : نسائی ١؍٩٩۔

945

۹۴۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَعِمْرَانُ بْنُ مُوْسَی الطَّائِیُّ قَالُوْا : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ یَحْیَی الْأُشْنَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (جَمَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِالْمَدِیْنَۃِ لِلرُّخَصِ مِنْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلَا عِلَّۃٍ) .
٩٤٥: محمد بن المنکدر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو مدینہ میں رخصت کے لیے بغیر کسی خطرے اور مرض کے جمع فرمایا۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین ٥٤ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ١٢١٠‘ نسائی فی المواقیت باب ٤٧‘ (متغیر یسیر بین اللفظ)

946

۹۴۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَرَبَتْ لَہُ الشَّمْسُ بِمَکَّۃَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا بِسَرِفٍ یَعْنِی الصَّلَاۃَ) .
٩٤٦: عبدالعزیز بن محمد الدر اور دی نے حضرت مالک بن انس (رض) اور ابی الزبیر نے جابر بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں سورج غروب ہوگیا آپ نے مغرب و عشاء کو مقام سرف میں جمع فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد و فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ١٢١٥۔

947

۹۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا، مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ فِی السَّفَرِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ وَقْتُہُمَا وَاحِدٌ، قَالُوْا : وَلِذٰلِکَ جَمَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا فِیْ وَقْتِ إحْدَاہُمَا، وَکَذٰلِکَ الْمَغْرِبُ وَالْعِشَائُ، فِیْ قَوْلِہِمْ وَقْتُہُمَا وَقْتٌ لَا یَفُوْتُ إحْدَاہُمَا حَتّٰی یَخْرُجَ وَقْتُ الْأُخْرَی مِنْہُمَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلْ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْ ھٰذِہِ الصَّلَوَاتِ وَقْتُہَا مُنْفَرِدٌ مِنْ وَقْتِ غَیْرِہَا .وَقَالُوْا : أَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعِہٖ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ، فَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ کَمَا ذَکَرْتُمْ .وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ جَمَعَ بَیْنَہُمَا فِیْ وَقْتِ إحْدَاہُمَا، فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ جَمْعُہٗ بَیْنَہُمَا کَانَ کَمَا ذَکَرْتُمْ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ صَلّٰی کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فِیْ وَقْتِہَا کَمَا ظَنَّ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ، وَہُوَ رَوٰی ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، مِنْ بَعْدِہٖ .فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : قَدْ وَجَدْنَا فِیْ بَعْضِ الْآثَارِ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ صِفَۃَ الْجَمْعِ الَّذِیْ فَعَلَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا قُلْنَا .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٩٤٧: حصن بن عبیداللہ نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب و عشاء کو سفر میں جمع فرماتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ لوگوں نے یہ راستہ اپنایا کہ ظہر و عصر کا وقت ایک ہے۔ انھوں نے اپنی دلیل بتاتے ہوئے کہا کہ اسی وجہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو ایک وقت میں جمع فرمایا اور مغرب و عشاء کا بھی ان کے ہاں یہی حکم ہے کہ ان کا وقت ایک ہی ہے اور ان میں سے کوئی بھی اس وقت تک فوت شدہ شمار نہ ہوگی جب تک دوسری کا وقت نہ گزر جائے۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان کی ممانعت میں کہا ہے کہ ان تمام نمازوں کو اپنے اوقات میں دوسری نماز کا وقت اس میں شامل نہیں۔ رہی وہ روایات جن میں تمہیں دو نمازوں کا جمع کرنا معلوم ہو رہا ہے وہ آپ ہی کے ارشادات ہیں جو آپ سے مروی ہیں مگر ان میں آپ کے جمع والے قول کی کوئی دلیل نہیں۔ اس میں کئی احتمال ہیں۔ ایک احتمال وہ بھی ہے جو تم نے ذکر کیا اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے وقت میں ادا فرمایا جیسا کہ جابر بن زید کا خیال ہے اور اسی نے یہ ابن عباس (رض) سے اور عمرو بن دینار سے ان کے بعد نقل کیا ہے۔ پہلے مقالہ والوں نے دعویٰ کیا کہ ہمیں ایسی روایات ملی ہیں جو ہمارے قول کی تائید کرتی ہیں۔ مندرجہ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : بخاری فی تقصیر الصلاۃ باب ١٦‘ مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٤٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ١٢١٨‘ نسائی فی تخریج المواقیت باب ٤٢۔
حاصل روایات : ان سترہ روایات سے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کا ایک وقت میں مدینہ منورہ اور سفر و حضر ہر دو میں ثابت ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک کا وقت اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک دوسری کا وقت نہ نکل جائے۔
فریق دوم کا مؤقف اور مستدل روایات اور جوابات :
امام ابوحنیفہ (رح) اور صاحبین ‘ حسن بصری (رح) جمع کو درست قرار نہیں دیتے تمام نمازوں کے اپنے اوقات ہیں انہی میں ان کو پڑھا جائے گا۔
روایات کا جواب :
ان روایات میں تم نے جمع حقیقی مراد لیا حالانکہ یہاں جمع صوری مراد ہے پس مجموعہ روایات میں تطبیق ہوجائے گی اور جابر بن عبداللہ (رض) نے ابن عباس (رض) سے یہی نقل کیا ہے اور عمرو بن دینار نے بھی نقل کیا۔
ایک اشکال :
مندرجہ ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمع حقیقی مراد ہے۔

948

۹۴۸ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَازِمُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اُسْتُصْرِخَ عَلٰی صَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِیْ عُبَیْدٍ، وَہُوَ بِمَکَّۃَ، فَأَقْبَلَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَسَارَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَبَدَتِ النُّجُوْمُ، وَکَانَ رَجُلٌ یَصْحَبُہٗ، یَقُوْلُ : الصَّلَاۃَ الصَّلَاۃَ .قَالَ : وَقَالَ لَہٗ سَالِمٌ : الصَّلَاۃَ .فَقَالَ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا عَجَّلَ بِہِ السَّیْرُ فِیْ سَفَرٍ، جَمَعَ بَیْنَ ہَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ) ، وَإِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أَجْمَعَ بَیْنَہُمَا فَسَارَ حَتّٰی غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا .
٩٤٨: ایوب نے نافع سے اور انھوں نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کو صفیہ بنت ابی عبید (رض) کی بیماری کی اطلاع ملی جبکہ وہ مکہ میں تھے وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے غروب آفتاب تک چلتے رہے یہاں تک کہ ستارے ظاہر ہوگئے اور جو آدمی ان کے ساتھ تھا وہ الصلاۃ الصلاۃ پکار رہا تھا اور راوی کہتے ہیں سالم نے ان کو کہا الصلاۃ تو کہنے لگے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب و عشاء ان دو نمازوں کو جمع فرماتے اور میں بھی دونوں کو جمع کرنا چاہتا ہوں چنانچہ وہ چلتے گئے یہاں تک کہ شفق غائب ہوگیا پھر اترے اور ان دونوں کو جمع کیا۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٧٠‘ ترمذی ١؍١٢٤۔

949

۹۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، أَنَّہٗ کَانَ اِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْرُ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، بَعْدَمَا یَغِیْبُ الشَّفَقُ، وَیَقُوْلُ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْرُ، جَمَعَ بَیْنَہُمَا) .قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلَی صِفَۃِ جَمْعِہٖ، کَیْفَ کَانَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِمُخَالِفِہِمْ أَنَّ حَدِیْثَ أَیُّوْبَ، الَّذِیْ قَالَ فِیْہِ : (فَسَارَ حَتّٰی غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ نَزَلَ) کُلُّ أَصْحَابِ نَافِعٍ لَمْ یَذْکُرُوْا ذٰلِکَ، لَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، وَلَا مَالِکٌ، وَلَا اللَّیْثُ، وَلَا مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ حَدِیْثَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَإِنَّمَا أَخْبَرَ بِذٰلِکَ مِنْ فِعْلِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَذَکَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجَمْعَ، وَلَمْ یَذْکُرْ کَیْفَ جَمَعَ فَأَمَّا حَدِیْثُ عُبَیْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَیْنَہُمَا ثُمَّ ذَکَرَ جَمْعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَیْفَ کَانَ وَأَنَّہٗ بَعْدَمَا غَابَ الشَّفَقُ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ أَنَّ صَلَاتَہُ الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، الَّتِیْ بِہَا کَانَ جَامِعًا بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ، بَعْدَمَا غَابَ الشَّفَقُ، وَإِنْ کَانَ قَدْ صَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ قَطُّ جَامِعًا بَیْنَہُمَا، حَتَّی صَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، فَصَارَ بِذٰلِکَ جَامِعًا بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ .وَقَدْ رَوٰی ذٰلِکَ، غَیْرُ أَیُّوْبَ مُفَسَّرًا عَلٰی مَا قُلْنَا .
٩٤٩: یحییٰ بن عبداللہ نے نافع اور انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے جب ان کو جلدی مطلوب ہوتی تو مغرب و عشاء کو جمع فرماتے اس کے بعد کہ شفق غائب ہوجاتی اور فرماتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ان دو نمازوں کو جمع کرتے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ روایت آپ کی دو نمازوں کے جمع کی کیفیت بتلا رہی ہیں۔ ان کے مخالفین کے پاس ان کے خلاف دلیل یہ ہے کہ روایت ایوب جس میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ چلتے گئے یہاں تک کہ شفق غائب ہوگیا پھر نافع کے تمام احباب اتر گئے۔ عبیداللہ ‘ مالک ‘ لیث اور نہ ہی کسی اور راوی جنہوں نے روایت ابن عمر (رض) سے نقل کی ‘ کسی سے یہ بات بیان نہیں کی یہ صرف فعل ابن عمر (رض) کی اطلاع دی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو نمازوں کو جمع کرنا نقل کیا مگر یہ بیان نہیں کیا کہ کس طرح جمع کیا اور روایت عبیداللہ میں اس طرح ہے کہ ” جمع بینہما “ کہ دونوں کو جمع کیا پھر انھوں نے ابن عمر (رض) کے فعل جمع کو ذکر کردیا کہ اس کی کیفیت کیا تھی اور شفق کے غائب ہوجانے پر تھی تو اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ عشاء کی وہ نماز جس کو مغرب کے ساتھ انھوں نے جمع کیا وہ غروب شفق کے بعد تھی اگرچہ وہ مغرب کی نماز شفق کے غائب ہونے سے پہلے پڑھ چکے ہوں کیونکہ وہ دونوں کو جمع کرنے والے اسی وقت ہوں گے جب تک وہ عشاء کو نہ پڑھ لیں۔ پس وہ اس طرح مغرب و عشاء کے جامع بن گئے اور ایوب کے علاوہ روات نے اس کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔
ان دونوں روایات سے معلوم ہو رہا ہے کہ جمع حقیقی مراد ہے۔
الجواب نمبر ١: ایوب سختیانی کی موجودہ روایت میں یہ الفاظ ہیں فسار حتی غاب الشفق ثم نزل نافع کے کسی اور شاگرد نے یہ الفاظ نقل نہیں کئے یعنی عبیداللہ ‘ لیث ‘ مالک (رح) نے اور نہ ہی ابن عثمان (رض) نے جن سے ہم نے روایت نقل کی ہے گویا یہ روایت دوسرے روات کے خلاف ہے۔
نمبر ٢: ایوب نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل میں تو اس کا ذکر نہیں کیا البتہ عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت میں اس کی خبر دی گئی ہے اور پھر جمع کی کیفیت بھی مذکور ہے کہ شفق کے غائب ہونے کے بعد دونوں کو جمع کیا۔ اور اس میں یہ کہنا بالکل ممکن ہے کہ انھوں نے مغرب کی نماز غیبوبت سے پہلے ادا کی اور عشاء کی نماز کو شفق کے بعد پڑھا ہو تو جمع بھی ہوگئی اور صوری ہوئی اور جواب نمبر ٢ اس کے ثبوت کا لفظ ایوب (رح) کے علاوہ دیگر روات کی روایات میں صاف موجود ہے۔
چنانچہ روایت اسامہ بن زید عن نافع ملاحظہ ہو۔

950

۹۵۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جَدَّ بِہِ السَّیْرُ، فَرَاحَ رَوْحَۃً، لَمْ یَنْزِلْ إِلَّا لِظُہْرٍ أَوْ لِعَصْرٍ، وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتّٰی صَرَخَ بِہٖ سَالِمٌ، قَالَ : الصَّلَاۃَ، فَصَمَتَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، حَتّٰی اِذَا کَانَ عِنْدَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ، نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا، وَقَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ھٰکَذَا اِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْرُ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ نُزُوْلَہٗ لِلْمَغْرِبِ، کَانَ قَبْلَ أَنْ یَغِیْبَ الشَّفَقُ، فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ نَافِعٍ، بَعْدَمَا غَابَ الشَّفَقُ فِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ إِنَّمَا أَرَادَ بِہٖ قُرْبَہٗ مِنْ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ، لِئَلَّا یَتَضَادَّ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ غَیْرُ أُسَامَۃَ، عَنْ نَافِعٍ، کَمَا رَوَاہُ أُسَامَۃُ .
٩٥٠: اسامہ بن زید نے نافع سے اور انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے ابن عمر تیزی سے رواں دواں تھے ذرا سا آرام کیا ظہر یا عصر کے لیے اترے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ سالم نے ” الصلاۃ “ کی آواز دی ابن عمر (رض) خاموش رہے یہاں تک کہ شفق کے غائب ہونے کا وقت ہوا تو اترے اور مغرب و عشاء کو جمع کیا اور فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا جبکہ آپ کو جلد جانا ہوتا تھا۔ اس روایت میں بتلا دیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مغرب کے لیے اترنا شفق کے غائب ہونے سے پہلے تھا۔ پس اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ نافع کا قول : ” بعد ما غاب الشفق “ جو کہ ایوب کی روایت میں آیا ہے اس سے مراد شفق کے غائب ہونے کا قریبی وقت ہو ‘ تاکہ ان کی دوسری روایت سے اس روایت کا تضاد نہ ہو۔ اس روایت کو اسامہ بن زید کے علاوہ حضرات نے بھی نافع سے نقل کیا ہے جیسا کہ اسامہ بن زید (رض) نے نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٩٩۔
اب اس روایت نے وضاحت کردی کہ آپ کا مغرب کے لیے اترنا عند غیبوبۃ الشفق تھا پس روایت ایوب میں جو اس کے خلاف مذکور ہے اس سے صاف مراد غیبوبۃ شفق کے قریب اترنا ہے تاکہ اس سے دوسری روایت متضاد نہ ہو۔
نمبر ٣: نافع سے اسامہ بن زید کے علاوہ دیگر روات نے بھی یہ بات نقل فرمائی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو ابن جابر سے نافع کی روایت ۔

951

۹۵۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ، قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَہُوَ یُرِیْدُ أَرْضًا لَہٗ، قَالَ : فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ لَہٗ : إِنَّ صَفِیَّۃَ بِنْتَ أَبِیْ عُبَیْدٍ لِمَا بِہَا، وَلَا أَظُنُّ أَنْ تُدْرِکَہَا .فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَہٗ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فَسِرْنَا حَتّٰی اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ لَمْ یُصَلِّ الصَّلَاۃَ، وَکَانَ عَہْدِیْ بِصَاحِبِیْ وَہُوَ مُحَافِظٌ عَلَی الصَّلَاۃِ .فَلَمَّا أَبْطَأَ قُلْتُ الصَّلَاۃَ رَحِمَکَ اللّٰہُ، فَلَمَّا الْتَفَتَ إِلَیَّ وَمَضَی کَمَا ہُوَ، حَتّٰی اِذَا کَانَ فِیْ آخِرِ الشَّفَقِ، نَزَلَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثُمَّ الْعِشَائَ وَقَدْ تَوَارَتْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا فَقَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا عَجَّلَ بِہٖ أَمْرٌ، صَنَعَ ھٰکَذَا) .
٩٥١: ابن جابر نے نافع سے روایت نقل کی کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ نکلا وہ اپنی زمینوں پر جا رہے تھے پس ہم نے ایک منزل پر قیام کیا تو ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا صفیہ بنت ابی عبید سخت تکلیف میں ہے اور میرے خیال میں آپ کے پہنچنے تک وہ چل بسے گی پس آپ تیزی سے روانہ ہوئے اس وقت آپ کے ساتھ ایک قریشی آدمی تھا ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب سورج غروب ہوگیا تو انھوں نے نماز مغرب ادا نہ فرمائی اور میں نے ملاقات سے اب تک ان کو نمازوں کا محافظ پایا تھا جب زیادہ دیر کی تو میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے نماز کا وقت ہے میری طرف توجہ فرمائی مگر حسب سابق چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق کا آخری وقت ہونے لگا تو اترے اور مغرب کی نماز ادا کی پھر کچھ دیر کے بعد عشاء کی نماز ادا کی اور اس وقت شفق بالکل غائب ہوچکا تھا پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو آپ اسی طرح کرتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ١٢١٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٤٨۔

952

۹۵۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑالْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدِ ڑالْمَخْزُوْمِیُّ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ أَقْبَلْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیْقِ، اُسْتُصْرِخَ عَلٰی زَوْجَتِہِ بِنْتِ أَبِیْ عُبَیْدٍ، فَرَاحَ مُسْرِعًا، حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ، فَنُوْدِیَ بِالصَّلَاۃِ فَلَمْ یَنْزِلْ، حَتَّی اِذَا أَمْسَی فَظَنَنَّا أَنَّہٗ قَدْ نَسِیَ، فَقُلْتُ : الصَّلَاۃُ، فَسَکَتَ، حَتّٰی اِذَا کَادَ الشَّفَقُ أَنْ یَغِیْبَ، نَزَلَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ، وَغَابَ الشَّفَقُ فَصَلَّی الْعِشَائَ وَقَالَ : " ھٰکَذَا کُنَّا نَفْعَلُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا جَدَّ بِنَا السَّیْرُ " .فَکُلُّ ہٰؤُلَائِ یَرْوِیْ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ نُزُوْلَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ قَبْلَ أَنْ یَغِیْبَ الشَّفَقُ .وَقَدْ ذَکَرْنَا احْتِمَالَ قَوْلِ أَیُّوْبَ، عَنْ نَافِعٍ (حَتَّی اِذَا غَابَ الشَّفَقُ) أَنَّہٗ یَحْتَمِلُ قُرْبَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ تُحْمَلَ ھٰذِہِ الرِّوَایَاتُ کُلُّہَا عَلَی الِاتِّفَاقِ لَا عَلَی التَّضَادِّ .فَنَجْعَلُ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ نُزُوْلَہٗ لِلْمَغْرِبِ، کَانَ بَعْدَ مَا غَابَ الشَّفَقُ، أَنَّہٗ عَلٰی قُرْبِ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ اِذَا کَانَ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّ نُزُوْلَہُ ذٰلِکَ کَانَ قَبْلَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّفَقِ .وَلَوْ تَضَادَّ ذٰلِکَ لَکَانَ حَدِیْثُ ابْنِ جَابِرٍ أَوْلَاہُمَا، لِأَنَّ حَدِیْثَ أَیُّوْبَ أَیْضًا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ، ثُمَّ ذَکَرَ فِعْلَ ابْنِ عُمَرَ کَیْفَ کَانَ .وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ جَابِرٍ صِفَۃُ جَمْعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَیْفَ کَانَ، فَہُوَ أَوْلٰی .فَإِنْ قَالُوْا فَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسٍ مَا قَدْ فَسَّرَ الْجَمْعَ کَیْفَ کَانَ فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٩٥٢: عطاف بن خالد المخزومی نے نافع سے نقل کیا تھا کہ ہم ابن عمر (رض) کے ساتھ لوٹ رہے تھے کہ ابھی کچھ راستہ طے کیا تھا کہ آپ کو اپنی بیوی بنت ابی عبید کے متعلق اطلاع ملی تو آپ جلدی سے لوٹے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور نماز کے لیے ان کو آواز دی گئی مگر وہ نہ اترے حتیٰ کہ جب گہری شام ہوگئی تو ہم نے گمان کیا کہ شاید بھول گئے تو میں نے کہا ” الصلاۃ “ اس پر خاموش رہے یہاں تک کہ شفق قریب الغروب ہوگیا تو اترے اور مغرب کی نماز ادا کی اور شفق غائب ہوچکا تو عشاء کی نماز پڑھائی اور فرمایا ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسی طرح کرتے تھے جبکہ آپ کو جلدی سفر کرنا ہوتا تھا۔ یہ تمام روایات نافع سے یہ بتلا رہی ہیں کہ ابن عمر (رض) کا اترنا شفق کے غائب ہونے سے پہلے تھا اور ہم نے ایوب کی نافع سے منقول روایت کے لفظ ” حتی اذا غاب الشفق “ سے متعلق شفق کے قریب ہونے کا احتمال لکھا ہے۔ پس ان روایات کے متعلق سب سے بہتر بات یہ ہے کہ تضاد کی بجائے اتفاق پر محمول کیا جائے۔ پس ابن عمر (رض) کی روایت کا محمل شفق غائب ہونے کے قریب ہوا ‘ قرار دیں گے کیونکہ ان سے دوسری روایت میں غیبوبت شفق سے پہلے اترنا منقول ہے۔ اگر ان روایات میں تضاد ہو تو ابن جابر کی روایت ان میں زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ ایوب کی روایت میں بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو نمازوں کو جمع کرنا وارد ہے پھر انھوں نے ابن عمر (رض) کا عمل بھی یہی نقل کیا اور حضرت جابر (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو نمازیں جمع کرنے کا طریقہ بھی مذکور ہے۔ پس یہ زیادہ بہتر ہوگی۔ بالفرض اگر وہ کہیں کہ حضرت انس (رض) نے بھی تو جمع کی کیفیت تفصیل سے ذکر کی ہے جیسا کہ روایت آتی ہے ۔
اللغات : جدبناالسیر : اہتمام کرنا۔ جلدی کرنا تیز چلنا۔
تخریج : دارقطنی ١؍٣٧٩۔
حاصل روایات : یہ تمام روایات جو نافع سے منقول ہیں ان میں ابن عمر (رض) کا شفق کے غائب ہونے سے پہلے اترنا مذکور ہے رہی وہ روایت جو ایوب نے نافع سے نقل کی ہے اور اس میں حتی اذا غاب الشفق کے لفظ پائے جاتے ہیں اس کے متعلق ہم عرض کر آئے کہ اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر ١: بصورت تطبیق تو اس کا مطلب دوسری روایات کے مطابق قرب غروب شفق مراد ہے اس سے تمام روایات میں موافقت پیدا ہوجاتی ہے۔
نمبر ٢: دوسرا احتمال تضاد کا ہے تو پھر حدیث ابن جابر (رح) اس سے اولیٰ ہے کیونکہ حدیث ایوب (رض) میں ابن عمر (رض) کے جمع بین الصلاتین کی کیفیت مذکور ہے جبکہ حدیث ابن جابر اور ابن خالد (رح) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جمع بین الصلاتین کی کیفیت مذکور ہے اور وہاں جمع سے مراد صوری ہی ہے نہ کہ حقیقی۔
اشکال نمبر ٢: حضرت انس (رض) کی روایت میں جمع بین الصلاتین کی کیفیت مذکور ہے جو جمع کا حقیقی ہونا ظاہر کرتی ہے روایت یہ ہے۔

953

۹۵۳ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، عَنْ عُقَیْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .یَعْنِی (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا عَجَّلَ بِہِ السَّیْرُ یَوْمًا، جَمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، وَإِذَا أَرَادَ السَّفَرَ لَیْلَۃً، جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، وَیُؤَخِّرُ الظُّہْرَ إِلٰی أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْرِ، فَیَجْمَعُ بَیْنَہُمَا، وَیُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ، حَتّٰی یَجْمَعَ بَیْنَہُمَا وَبَیْنَ الْعِشَائِ، حَتّٰی یَغِیْبَ الشَّفَقُ) .قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ صَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ، وَأَنَّ جَمْعَہٗ بَیْنَہُمَا کَانَ کَذٰلِکَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ قَدْ یَحْتَمِلُ مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ صِفَۃُ الْجَمْعِ مِنْ کَلَامِ الزُّہْرِیِّ لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِأَنَّہٗ قَدْ کَانَ کَثِیْرًا مَا یَفْعَلُ ھٰذَا، یَصِلُ الْحَدِیْثَ بِکَلَامِہٖ، حَتّٰی یُتَوَہَّمَ أَنَّ ذٰلِکَ فِی الْحَدِیْثِ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلَہٗ : " إِلٰی أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْرِ" إِلٰی أَقْرَبِ أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْرِ .فَإِنْ کَانَ مَعْنَاہُ بَعْضُ مَا صَرَفْنَاہُ إِلَیْہِ مِمَّا لَا یَجِبُ مَعَہٗ أَنْ یَکُوْنَ صَلَّاہَا فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ، فَلَا حُجَّۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِیْ یَقُوْلُ إِنَّہٗ صَلَّاہَا فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ وَإِنْ کَانَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ، فَکَانَ ذٰلِکَ ہُوَ جَمْعُہٗ بَیْنَہُمَا، فَإِنَّہٗ قَدْ خَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فِیْمَا رَوَیْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَخَالَفَتْہُ فِیْ ذٰلِکَ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا .
٩٥٣: ابن شہاب نے انس بن مالک (رض) سے اس طرح نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس دن سفر کرنا ہوتا تو ظہر و عصر کو جمع فرماتے کہ ظہر کو اول وقت عصر تک مؤخر کرتے پھر دونوں کو جمع کر کے پڑھتے اور مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب و عشاء کو جمع فرماتے یہاں تک کہ شفق غائب ہوجاتا۔ انھوں نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر و عصر کو عصر کے وقت میں ادا کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جمع کی یہی صورت تھی۔ پہلے قول والوں کے پاس ان کے خلاف یہ دلیل ہے کہ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ جمع کی صورت میں یہ زہری کا مدرج کلام ہو ارشاد نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہو کیونکہ وہ اکثر اپنے کلام کو حدیث سے ملاتا رہتا ہے یہاں تک کہ ناظر کو اس کے حدیث ہونے کا وہم ہوجاتا ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ : ” الی اول وقت العصر “ سے وقت عصر کا قرب مراد ہو۔ اگر اس روایت کا معنی دونوں میں سے کوئی ایک کیا جائے جس سے وقت عصر میں ظہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی تو پھر اس روایت سے ان کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی جو یہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو وقت عصر میں ادا کیا۔ اور اگر اصل روایت اس طرح ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے وقت عصر میں ادا کیا ہے تو پھر اس سے دونوں کا جمع کرنا لازم آتا ہے تو اس سے یہ ابن عمر (رض) کی اس روایت کے مخالف ہوجائے گی جو ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی اور اس سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بھی ان کی مخالفت کی ‘ ان کی روایت یہ ہے۔
حاصل روایات : فریق اوّل کہتا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ نے ظہر و عصر کو وقت عصر میں ادا فرمایا اور ان کو اسی طرح جمع فرمایا۔
الجواب مع الصواب :
فکان من الحجۃ سے دیا گیا پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت جمع حقیقی کی صورت میں نص قطعی ” ان الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا “ کے خلاف ہے نیز اس روایت سے تو اولیٰ ابن جابر اور ابن خالد کی روایت ہے جو نصوص کے مطابق ہیں۔
نمبر ٢: دوسری بات یہ ہے کہ جمع کی کیفیت خود زہری کا کلام ہو جناب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہ ہو کیونکہ زہری اکثر اپنی وضاحت کو کلام رسول سے خلط کردیتے ہیں جس سے اس کا حدیث ہونا معلوم ہوتا ہے حالانکہ وہ تفسیر حدیث ہوتی ہے۔
نمبر ٣: آخری بات یہ ہے کہ الی اول وقت العصر کے الفاظ سے ” الی اقرب اول وقت العصر “ مراد ہو۔
اگر ان معانی میں سے کسی کو اختیار کرلیں تو وقت عصر میں ظہر کا پڑھنا لازم نہیں آتا اور اگر بالفرض وقت عصر میں پڑھنا مراد ہو تو پھر یہ روایت ابن عمر (رض) اور عائشہ (رض) کی روایت کے خلاف ہے۔

954

۹۵۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ : ثَنَا الْمُعَافَی بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ مُغِیْرَۃَ بْنِ زِیَادِ ڑ الْمَوْصِلِیِّ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ، یُؤَخِّرُ الظُّہْرَ وَیُقَدِّمُ الْعَصْرَ، وَیُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ وَیُقَدِّمُ الْعِشَائَ) .ثُمَّ ھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا، قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِی السَّفَرِ) .
٩٥٤: عطاء بن ابی رباح نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم فرماتے اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم فرماتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢١٠‘ مسند اسحاق بن راہویہ۔
پھر یہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں ان سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں دو نمازوں کو جمع فرماتے یہ روایت گزری ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
جمع سے جمع صوری مراد ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔

955

۹۵۵ : ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ مَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ وَالْفِرْیَابِیُّ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : (مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی صَلَاۃً قَطُّ فِیْ غَیْرِ وَقْتِہَا إِلَّا أَنَّہٗ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِجَمْعٍ وَصَلَّی الْفَجْرَ یَوْمَئِذٍ لِغَیْرِ مِیْقَاتِہَا) .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا عَایَنَ مِنْ جَمْعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ ہُوَ بِخِلَافِ مَا تَأَوَّلَہُ الْمُخَالِفُ لَنَا .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فِی جَمْعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ .وَقَدْ ذُکِرَ فِیْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِی الْحَضَرِ فِیْ غَیْرِ خَوْفٍ، کَمَا جَمَعَ بَیْنَہُمَا فِی السَّفَرِ .أَفَیَجُوْزُ لِأَحَدٍ فِی الْحَضَرِ لَا فِیْ حَالِ خَوْفٍ وَلَا عِلَّۃٍ، أَنْ یُؤَخِّرَ الظُّہْرَ إِلٰی قُرْبِ تَغَیُّرِ الشَّمْسِ ثُمَّ یُصَلِّیْ. وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّفْرِیْطِ فِی الصَّلَاۃِ .
٩٥٥: عبدالرحمن بن یزید نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی نہیں دیکھا کہ کبھی آپ نے غیر وقت میں کوئی نماز پڑھی ہو البتہ آپ نے عرفات میں مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع فرمایا اور مزدلفہ کی صبح کو فجر کی نماز عام وقت سے مختلف پڑھی۔ جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو نمازوں کو جمع کرنے کا جو مشاہدہ کیا گیا ہے وہ ہمارے مخالفین کی تاویل کے خلاف ہے اس باب کا یہ حکم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو نمازیں جمع کرنے کی روایت کے معانی کو درست رکھنے کیلئے ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو نمازوں کو اقامت اور بغیر خوف کی حالت کے جمع کیا جس طرح کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر کی حالت میں جمع کیا پس اقامت کی حالت میں بغیر خوف اور بغیر بیماری کے یہ جائز ہے کہ ظہر کو سورج کے پیلا پڑنے کے قریب تک مؤخر کرے پھر نماز ادا کرے حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نماز میں تفریط قرار دیا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٩‘ مسلم فی الحج روایت نمبر ٢٩٢۔
اب یہ روایت ابن مسعود (رض) ماقبل مذکور روایت کے خلاف جمع صوری کی مؤید ہے پس ماننا پڑے گا کہ اس روایت میں بھی جمع صوری مراد ہے پس آثار مرویہ کے معانی کو سامنے رکھتے ہوئے جمع بین الصلاتین کی یہی صورت ہوسکتی ہے۔
جمع بین الصلاتین کی روایات تو سفر و حضر دونوں کے متعلق ثابت ہیں اگر جمع حقیقی مانیں تو پھر حضر میں خوف و مرض کے بغیر کیا آپ ظہر کو اس قدر مؤخر کرنے کی اجازت دیں گے کہ آفتاب تغیر کے قریب تر ہوجائے حالانکہ اس کے متعلق توبیخ کی روایات وارد ہیں جن میں یہ ابو قتادہ (رض) کی روایت ہے۔

956

۹۵۶ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ فِی النَّوْمِ تَفْرِیْطٌ إِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِی الْیَقَظَۃِ بِأَنْ یُؤَخِّرَ صَلَاۃً إِلٰی وَقْتِ أُخْرٰی) فَأَخْبَرَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ تَأْخِیْرَ الصَّلَاۃِ إِلٰی وَقْتِ الَّتِیْ بَعْدَہَا تَفْرِیْطٌ، وَقَدْ کَانَ قَوْلُہٗ ذٰلِکَ وَہُوَ مُسَافِرٌ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ أَرَادَ بِہِ الْمُسَافِرَ وَالْمُقِیْمَ فَلَمَّا کَانَ مُؤَخِّرُ الصَّلَاۃِ إِلَی وَقْتِ الَّتِیْ بَعْدَہَا مُفَرِّطًا فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ .بِمَا کَانَ بِہٖ مُفَرِّطًا .وَلَکِنَّہُ جَمَعَ بَیْنَہُمَا بِخِلَافِ ذٰلِکَ، فَصَلّٰی کُلَّ صَلَاۃٍ مِنْہُمَا فِیْ وَقْتِہَا .وَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ، ثُمَّ قَدْ قَالَ۔
٩٥٦: عبداللہ بن رباح نے ابو قتادہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیند میں تفریط نہیں تفریط بیداری میں ہے کہ ایک نماز کو مؤخر کر کے دوسری نماز کے وقت تک لے جایا جائے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی اس روایت میں خبر دی کہ نماز کو دوسرے وقت کی نماز تک مؤخر کرنا یہ تفریط ہے اور یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت سفر میں فرمائی اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصود مسافر اور مقیم دونوں ہیں جب نماز کو دوسری نماز کے وقت تک مؤخر کرنے والا آدمی مفرط ہے تو یہ ناممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو نمازوں کو اس طرح جمع کریں جس سے مفرط بنے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جمع تو اس کے خلاف ہوگی اور وہ اس طرح ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا فرمایا ہے۔ یہ ابن عباس (رض) کی روایت جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو نمازوں کو جمع کرنا آیا ہے اس کی مؤید ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٣١١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١‘ نمبر ٤٣٧‘ ترمذی فی المواقیت باب ١٦‘ نمبر ١٧٧‘ نسائی فی المواقیت باب ٥٣‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ١٠‘ احمد فی المسند ٥؍٣٠٥‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٢٢٤٠‘ بیہقی فی سنن کبرٰی ١؍٤٠٤‘ دارقطنی ١؍٣٨٦۔
حاصل روایات : اس روایت میں بتلایا گیا ہے کہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنا تفریط ہے جب سفر کی حالت میں آپ کا ارشاد یہ ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سفر و حضر میں جو آدمی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرے وہ مفرط ہے پس یہ ناممکن بات ہے کہ آپ ایسی جمع بین الصلاتین کرنے والے ہوں جس سے مفرط بنیں لیکن آپ نے ان دونوں کو جمع کیا تو اب ہر نماز کو اپنے وقت میں پڑھامگر ایک کو آخری اور دوسری کو اول وقت میں ادا فرمایا پس جمع سفر و حضر میں ثابت ہے وہاں جمع صوری ہی مراد ہے۔
ایک اور دلیل :
ابن عباس (رض) جن سے جمع بین الصلاتین کی روایت گزری ان کا فتویٰ ملاحظہ فرما لیں تاکہ اس روایت کی حقیقت بھی معلوم ہوجائے۔

957

۹۵۷ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوٗسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : لَا یَفُوْتُ صَلَاۃٌ حَتّٰی یَجِیْئَ وَقْتُ الْأُخْرٰی .فَأَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ مَجِیْئَ وَقْتِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ الَّتِیْ قَبْلَہَا فَوْتٌ لَہَا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا عَلِمَہٗ مِنْ جَمْعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ، کَانَ بِخِلَافِ صَلَاتِہٖ إحْدَاہُمَا فِیْ وَقْتِ الْأُخْرٰی .وَقَدْ قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا مِثْلَ ذٰلِکَ .
٩٥٧: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کسی نماز کو فوت نہ ہونے دو (مؤخر نہ کرو) کہ دوسری کا وقت آجائے۔ ابن عباس (رض) نے یہ بتلایا کہ دوسری نماز کا وقت آجانے سے پہلی نماز فوت ہوجاتی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دو نمازوں کا جمع کرنا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ان کے علم میں تھا وہ اس صورت سے مختلف تھا کہ ایک کو دوسری کے وقت میں پڑھا جائے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول بھی اسی طرح کے ‘ اس کو ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات : اس روایت میں ابن عباس (رض) نے ایک کو اس قدر مؤخر کرنا کہ دوسری کا وقت آجائے اس کو فوت صلوۃ سے تعبیر فرمایا پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے جمع بین الصلاتین کی جو روایات نقل کی ہیں وہ ایک دوسری کے وقت میں نہ تھیں بلکہ اپنے اپنے وقت میں جمع صوری تھی۔
ایک نئی دلیل ملاحظہ ہو :
یہ حضرت ابوہریرہ (رض) جن کی روایت جمع بین الصلاتین کے سلسلے میں گزری ان کا فتویٰ بھی ابن عباس (رض) کی طرح ہے۔

958

۹۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ وَشَرِیْکٌ، أَنَّہُمَا سَمِعَا عُثْمَانَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ قَالَ : سُئِلَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " مَا التَّفْرِیْطُ فِی الصَّلَاۃِ؟ " قَالَ : أَنْ تُؤَخَّرَ حَتّٰی یَجِیْئَ وَقْتُ الْأُخْرٰی .قَالُوْا : وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (لَمَّا سُئِلَ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ، فَصَلَّی الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ بِعَیْنِہٖ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ وَقْتٌ لَہُمَا جَمِیْعًا) .قِیْلَ لَہُمْ : مَا فِیْ ھٰذَا حُجَّۃٌ تُوْجِبُ مَا ذَکَرْتُمْ، لِأَنَّ ھٰذَا قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ أَنَّہٗ صَلّٰی الظُّہْرَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ فِیْ قُرْبِ الْوَقْتِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ، وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ وَالْحُجَّۃَ فِیْہِ فِیْ بَابِ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ قَوْلُہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ (الْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ) .فَلَوْ کَانَ کَمَا قَالَ الْمُخَالِفُ لَنَا، لَمَا کَانَ بَیْنَہُمَا وَقْتٌ اِذَا کَانَ مَا قَبْلَہُمَا وَمَا بَعْدَہُمَا وَقْتٌ کُلُّہٗ، وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّ کُلَّ صَلَاۃٍ مِنْ تِلْکَ الصَّلَوَاتِ مُنْفَرِدَۃٌ بِوَقْتٍ غَیْرِ وَقْتِ غَیْرِہَا مِنْ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رَوَیَا ذٰلِکَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ ثُمَّ قَالَاہُمَا فِی التَّفْرِیْطِ فِی الصَّلَاۃِ" أَنَّہٗ تَرْکُہَا حَتّٰی یَدْخُلَ وَقْتُ الَّتِیْ بَعْدَہَا " .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ وَقْتَ کُلِّ صَلَاۃٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ خِلَافُ وَقْتِ الصَّلَاۃِ الَّتِیْ بَعْدَہَا فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ صَلَاۃَ الصُّبْحِ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ تُقَدَّمَ عَلَی وَقْتِہَا وَلَا تُؤَخَّرَ عَنْہُ فَإِنَّ وَقْتَہَا وَقْتٌ لَہَا خَاصَّۃً دُوْنَ غَیْرِہَا مِنَ الصَّلَاۃِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ سَائِرُ الصَّلَوَاتِ، کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ مُنْفَرِدَۃٌ لِوَقْتِہَا دُوْنَ غَیْرِہَا فَلَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَخَّرَ عَنْ وَقْتِہَا وَلَا یُقَدَّمَ قَبْلَہٗ .فَإِنِ اعْتَلَّ مُعْتَلٌّ بِالصَّلَاۃِ بِعَرَفَۃَ وَبِجَمْعٍ .قِیْلَ لَہٗ قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْاِمَامَ بِعَرَفَۃَ، لَوْ صَلَّی الظُّہْرَ فِیْ وَقْتِہَا، فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، وَصَلَّی الْعَصْرَ فِیْ وَقْتِہَا فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، وَفَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ فِی الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِمُزْدَلِفَۃَ، فَصَلّٰی کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فِیْ وَقْتِہَا، کَمَا صَلّٰی فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، کَانَ مُسِیْئًا .وَلَوْ فَعَلَ ذٰلِکَ، وَہُوَ مُقِیْمٌ أَوْ فَعَلَہٗ، وَہُوَ مُسَافِرٌ، فِیْ غَیْرِ عَرَفَۃَ، وَجَمْعٍ، لَمْ یَکُنْ مُسِیْئًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ عَرَفَۃَ وَجَمْعًا، مَخْصُوْصَتَانِ بِھٰذَا الْحُکْمِ، وَأَنَّ حُکْمَ مَا سِوَاہُمَا فِیْ ذٰلِکَ، بِخِلَافِ حُکْمِہِمَا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ أَنَّہٗ تَأْخِیْرُ الْأُوْلٰی، وَتَعْجِیْلُ الْآخِرَۃِ وَکَذٰلِکَ کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ یَجْمَعُوْنَ بَیْنَہُمَا .
٩٥٨: عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا گیا کہ نماز میں تفریط کیا ہے تو انھوں نے فرمایا تم اس کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ دوسری کا وقت آجائے۔ ان مخالف علماء کا مؤقف یہ ہے کہ اس بات پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے پہلے دن عصر کی نماز اس وقت ادا فرمائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا پھر دوسرے دن ظہر کی نماز بعینہٖ اسی وقت میں پڑھی تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ دونوں ہی کا وقت ہے۔ ان حضرات کو یہ جواب دیا جائے گا کہ اس روایت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو تمہاری بات کو لازم کرے کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ دوسرے روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ظہر ایسے قریبی وقت میں ادا کی جو پہلے دن کی نماز عصر والے وقت سے قریب تر تھا اور ہم اس کو پہلے بیان کر آئے کہ اس کی دلیل پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے مابین ہے اگر مخالف کی بات مان لی جائے تو ماقبل اور مابعد سارے کا سارا وقت ہو تو ان کے مابین وقت نہ رہا پھر یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ن نمازوں میں سے ہر ایک نماز اپنا ایک منفرد وقت رکھتی ہے جو تمام نمازوں سے الگ ہے۔ مزید دلیل یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رض) نے نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں اس روایت کو بیان کیا ہے پھر دونوں نے اس کو نماز میں کوتاہی قرار دیا یعنی وہ نماز کو اس وقت تک چھوڑے رکھے یہاں تک کہ بعد والا وقت داخل ہوجائے پھر دونوں نے یہ کہا کہ یہ نماز میں تفریط ہے اور اس نے اس کو بعد والی نماز کے وقت داخل ہونے تک مؤخر کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نمازوں کے اوقات میں سے ہر ایک نماز کے اس وقت کے خلاف ہے جو اس کے بعد ہے اس باب کا یہ حکم روایات کے معانی کو درست رکھنے کے لیے ہے۔ البتہ غور و فکر کے طریقے سے یہ ہے کہ ہم نے غور کیا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ صبح کی نماز اپنے وقت سے مقدم اور مؤخر نہیں کی جاسکتی۔ اس کا ایک خاص وقت ہے۔ جو دوسری نمازوں کے علاوہ ہے پس غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام نمازوں کے اوقات اسی طرح ہوں اور ہر ایک ان میں سے اپنے وقت میں دوسروں کی بجائے منفرد ہو اور نہ ہی اس وقت سے مؤخر ہوں نہ مقدم ‘ اگر کوئی شخص عرفات و مزدلفہ کی وجہ سے اعتراض کرے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام نے ظہر کی نماز عام دنوں کی طرح اپنے وقت میں پڑھا دی اور نماز عصر عام دنوں کی طرح پڑھ لی اور مزدلفہ میں مغرب و عشاء کے ساتھ یہی سلوک کیا کہ ہر ایک کو اس کے وقت میں پڑھ لیا جیسا کہ عام ایّام میں کرتا ہے تو یہ آدمی گناہ گار ہوگا خواہ اس نے اقامت کی حالت میں ایسا کیا یا مسافر کی حالت میں اور عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ کیا تو یہ گناہ گار نہیں ہوگا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ عرفہ اور مزدلفہ کی جمع مخصوص جمع ہے اور ان کے علاوہ وہ حکم ان دونوں کے حکموں سے الگ ہے۔ ہماری اس بات سے ثابت ہوگیا کہ جو کچھ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو نمازوں کے جمع کے متعلق لکھا ہے اس کی صورت یہی ہے کہ پہلی نماز کو مؤخر کیا جائے اور دوسری نماز کو جلدی کیا جائے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اسی طرح ہی جمع کرتے تھے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
حدیث جبرائیل (علیہ السلام) میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے دن عصر کی نماز اس وقت ادا فرمائی جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا پھر دوسرے دن ظہر کی نماز بعینہٖ اسی وقت میں پڑھائی پس جمع بین الصلاتین ثابت ہوگئی۔
ازالہ اشتباہ :
یہ جمع حقیقی کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس میں واضح احتمال ہے کہ دوسرے دن ظہر کو اس وقت کے قریب لے جا کر پڑھا جس میں پہلے دن عصر پڑھی تھی اور قرب سے متعلق ایسی تعبیر کلام عرب میں بہت پائی جاتی ہیں۔
اور اس کی دلیل خود روایت کے یہ الفاظ ہیں : الوقت فیما بین ھذین الوقتین۔ اگر وہ وقت الگ نہ تھے تو ان دو اوقات کے درمیان درمیان کو نماز کے وقت قرار دینے کا کوئی معنی نہیں ان کے درمیان فاصلہ نہ تھا تو قبل اور مابعد دونوں کو وقت قرار دیا جاتا مابین نہ کہا جاتا پس یہ دلیل نہ بن سکی کہ ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھی گئی۔
دلیل کا ایک اور رُخ :
حضرت ابوہریرہ (رض) اور ابن عباس (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مواقیت صلوۃ میں وہ روایات نقل کیں پھر جب ان سے استفسار کیا گیا تو انھوں نے نماز کو اپنے وقت سے ہٹا کر پڑھنے کو تفریط قرار دیا پس ثابت ہوگیا کہ ان کے فتویٰ اور روایت میں تطبیق ہے اور وہ جمع صوری سے ہی ہوسکتی ہے نہ کہ اور سے پس ہر نماز اپنے اپنے وقت میں تھی یہ جمع روایات کی صورت ہے۔
نظر و فکر طحاوی (رح) : (واما وجہ ذلک)
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کو وقت سے مقدم یا مؤخر کرنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اس کا وقت خاص ہے اور اسی میں ادائیگی ضروری ہے اور کسی نماز کا وقت اس میں شامل نہیں تو فکر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام نمازیں ایسی ہی ہوئیں کیونکہ ہر ایک منفرد وقت تو رکھتی ہے پس اس کے وقت سے اسے مقدم و مؤخر کرنا جائز نہیں۔
بیمار استدلال :
میدان عرفات و مزدلفہ میں جمع حقیقی کے تو جناب بھی قائل ہیں۔
الجواب : اگر امام عرفات و مزدلفہ میں جمع نہ کرے بلکہ الگ الگ اپنے وقت میں ادا کرتے تو سب کہیں گے کہ اس نے برا کیا اور اگر عام دنوں میں کوئی آدمی عرفات و مزدلفہ میں جا کر ان نمازوں کو جمع کرے تو سب اس کو گناہ گار کہیں گے معلوم ہوا کہ ان مقامات کا جمع صلوۃ کے متعلق خصوصی حکم ہے اور اس پر کسی دوسرے کو قیاس کرنا غلط ہے۔
جمع صوری صحابہ کرام (رض) کا طرز عمل تھا :
روایات ملاحظہ ہوں۔

959

۹۵۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ السَّقَطِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَیْثَمَۃَ عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ قَالَ : وَفَدْتُ أَنَا وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ، وَنَحْنُ نُبَادِرُ لِلْحَجِّ فَکُنَّا نَجْمَعُ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، نُقَدِّمُ مِنْ ھٰذِہِ، وَنُؤَخِّرُ مِنْ ھٰذِہِ، وَنَجْمَعُ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، نُقَدِّمُ مِنْ ھٰذِہٖ، وَنُؤَخِّرُ مِنْ ھٰذِہِ حَتّٰی قَدِمْنَا مَکَّۃَ .
٩٥٩: عاصم احول نے ابو عثمان سے نقل کیا کہ میں اور سعد بن مالک (رض) نے اکٹھا سفر کیا ہم حج کے لیے جلدی جا رہے تھے ہم ظہر و عصر کو جمع کرتے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کرتے تھے اسی طرح مغرب و عشاء کو جمع کرتے مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرتے تھے یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے۔ اس باب میں جو کچھ بھی دو نمازوں کو جمع کرنے کی کیفیت مذکور ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے

960

۹۶۰ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالنُّفَیْلِیُّ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ یَزِیْدَ، یَقُوْلُ : صَحِبْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَجَّۃٍ، فَکَانَ یُؤَخِّرُ الظُّہْرَ، وَیُعَجِّلُ الْعَصْرَ، وَیُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ وَیُعَجِّلُ الْعِشَائَ، وَیُسْفِرُ بِصَلَاۃِ الْغَدَاۃِ .وَجَمِیْعُ مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، مِنْ کَیْفِیَّۃِ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٩٦٠: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود (رض) کے ساتھ حج کیا وہ ظہر کو مؤخر کرتے اور عصر کو جلدی پڑھتے اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی ادا کرتے اور فجر کی نماز اسفار میں ادا فرماتے تھے۔
جمع بین الصلاتین میں جمع صوری کا جو قول دلائل سے ثابت کیا ہے یہی امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا مسلک ہے۔
` بَابُ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی أَیُّ الصَّلَوَاتِ ؟ `
درمیانی نماز کون سی ہے ؟
اس کے متعلق کئی اقوال ہیں : ! ظہر ‘" جمعہ ‘ #نماز مغرب ‘ $عشائ ‘ %فجر ‘ & نماز عصر یہ آخری قول امام احمد ‘ امام ابوحنیفہ (رح) اور جمہور فقہاء (رح) کا ہے۔ اور سب سے پہلا قول حضرت زید بن ثابت ‘ اسامہ بن زید ‘ عبداللہ بن عمر (رض) اور دیگر صحابہ وتابعین کا ہے۔ دوسرا قول حسن بصری (رح) اور تیسرا ابن عباس (رض) کی طرف منسوب ہے امام شافعی ومالک نماز فجر کو وسطیٰ کہتے ہیں۔ من شاء التفصیل فلیراجع الشروح المطولات

961

۹۶۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُرَادِیُّ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ قَالَ : إِنَّ رَہْطًا مِنْ قُرَیْشٍ اجْتَمَعُوْا، فَمَرَّ بِہِمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَأَرْسَلُوْا إِلَیْہِ غُلَامَیْنِ لَہُمْ یَسْأَلَانِہٖ عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، فَقَالَ " ہِیَ الظُّہْرُ " .فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلَانِ مِنْہُمْ، فَقَالَ ہِیَ الظُّہْرُ، (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَجِیْرِ فَلَا یَکُوْنُ وَرَائَ ہٗ إِلَّا الصَّفُّ وَالصَّفَّانِ، وَالنَّاسُ فِیْ قَائِلَتِہِمْ، وَتِجَارَتِہِمْ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی) فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَنْتَہِیَنَّ رِجَالٌ أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ بُیُوْتَہُمْ) .
٩٦١: ابن ابی ذئب نے زبرقان سے نقل کیا ہے کہ قریش کا ایک گروہ جمع ہوا (اور صلوۃ وسطیٰ کے متعلق بات چیت کرنے لگا) اچانک ان کے پاس سے زید بن ثابت کا گزر ہوا تو قریش کے لوگوں نے دو لڑکے بھیجے تاکہ وہ صلوۃ وسطیٰ کے متعلق آپ سے دریافت کریں انھوں نے جواب دیا کہ وہ ظہر ہے پھر دو آدمی ان کے سامنے انہی لوگوں میں سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے وہ ظہر ہی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت گرمی میں ظہر کی نماز ادا فرماتے تو آپ کے پیچھے ایک صف یا دو صفیں ہوتیں لوگ یا قیلولہ کر رہے تھے یا اپنی تجارتوں میں مصروف ہوتے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی } (البقرہ : ٢٣٨) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگ اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ سے جلا ڈالوں گا۔

962

۹۶۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ حَکِیْمٍ عَنِ الزِّبْرِقَانِ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَجِیْرِ، أَوْ قَالَ : بِالْہَاجِرَۃِ، وَکَانَتْ أَثْقَلَ الصَّلَوَاتِ عَلٰی أَصْحَابِہٖ، فَنَزَلَتْ (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی) ) ، لِأَنَّ قَبْلَہَا صَلَاتَیْنِ ؛ وَبَعْدَہَا صَلَاتَیْنِ .
٩٦٢: عروہ نے زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز گرمی میں ظہر کی نماز ادا فرماتے (ہجیرہ یا ہاجرہ کا لفظ فرمایا) یہ آپ کے صحابہ کرام (رض) پر سب سے گراں نماز تھی تو یہ آیت نازل ہوئی :” حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطٰی [البقرہ : ٢٣٨] کیونکہ اس نماز سے پہلے دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ٤١١۔

963

۹۶۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ الرَّقِّیُّ ؛ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ؛ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ؛ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ؛ عَنْ أَبِیْہِ ؛ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : ہِیَ الظُّہْرُ.
٩٦٣: ابان بن عثمان نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا کہ وسطیٰ سے ظہر مراد ہے۔

964

۹۶۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ؛ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مِثْلَہٗ۔
٩٦٤: سعید بن المسیب نے حضرت ابن عمر (رض) اور زید بن ثابت سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

965

۹۶۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ، عَنِ ابْنِ الْیَرْبُوعِ الْمَخْزُوْمِیِّ، أَنَّہٗ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ یَقُوْلُ ذٰلِکَ۔
٩٦٥: الیبربوع المخزومی کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت (رض) کو اسی طرح فرماتے سنا۔

966

۹۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ، عَنْ حَیْوَۃَ وَابْنِ لَہِیْعَۃَ، قَالَا : أَنَا أَبُوْ صَخْرٍ أَنَّہٗ سَمِعَ یَزِیْدَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُسَیْطٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ خَارِجَۃَ بْنَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ ذٰلِکَ.
٩٦٦: یزید بن عبداللہ بن قسیط کہتے ہیں کہ میں نے خارجہ بن زید بن ثابت (رض) کو کہتے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنے والد کو اسی طرح فرماتے سنا۔

967

۹۶۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ رَبِیْعَۃَ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ أَبِی الْوَلِیْدِ الْمَدِیْنِیِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَفْلَحَ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِہٖ أَرْسَلُوْہُ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ یَسْأَلُہٗ، عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، فَقَالَ " اقْرَأْ عَلَیْہِمُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّا کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہَا الَّتِیْ فِیْ إِثْرِ الضُّحٰی .قَالَ : فَرَدُّوْنِیْ إِلَیْہِ الثَّانِیَۃَ، فَقُلْتُ : یَقْرَئُ وْنَ عَلَیْکَ السَّلَامَ وَیَقُوْلُوْنَ بَیِّنْ لَنَا أَیُّ صَلَاۃٍ ہِیَ؟ فَقَالَ : اقْرَأْ عَلَیْہِمُ السَّلَامَ وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّا کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہَا الصَّلَاۃُ الَّتِیْ وُجِّہَ فِیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکَعْبَۃَ " قَالَ : وَقَدْ عَرَفْنَاہَا ہِیَ الظُّہْرُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی مَا ذَکَرْنَا، فَقَالُوْا ہِیَ الظُّہْرُ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا احْتَجَّ بِہٖ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ، فِیْ حَدِیْثِ رَبِیْعِ ڑالْمُؤَذِّنِ، وَبِمَا رَوَیْنَاہُ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : أَمَّا حَدِیْثُ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَلَیْسَ فِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَوْلُہٗ (لَیَنْتَہِیَنَّ أَقْوَامٌ أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ) وَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کَانَ یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَجِیْرِ، وَلَا یَجْتَمِعُ مَعَہٗ إِلَّا الصَّفُّ وَالصَّفَّانِ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی ھٰذِہِ الْآیَۃَ) .فَاسْتَدَلَّ ہُوَ بِذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہَا الظُّہْرُ، فَھٰذَا قَوْلٌ مِنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَلَمْ یَرْوِاہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلَیْسَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ - عِنْدَنَا - دَلِیْلٌ عَلٰی ذٰلِکَ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ ھٰذِہِ الْآیَۃُ أُنْزِلَتْ لِلْمُحَافَظَۃِ عَلَی الصَّلَوَاتِ کُلِّہَا، الْوُسْطٰی وَغَیْرِہَا .فَکَانَتِ الظُّہْرُ فِیْمَا أُرِیْدَ وَلَیْسَتْ ہِیَ الْوُسْطٰی، فَوَجَبَ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ الْمُحَافَظَۃُ عَلَی الصَّلَوَاتِ کُلِّہَا، وَمِنَ الْمُحَافَظَۃِ عَلَیْہَا حُضُوْرُہَا حَیْثُ تُصَلّٰی .فَقَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ الَّتِیْ یُفَرِّطُوْنَ فِیْ حُضُوْرِہَا (لَیَنْتَہِیَنَّ أَقْوَامٌ أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ) یُرِیْدُ لَیَنْتَہِیَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ تَضْیِیْعِ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ الَّتِیْ قَدْ أَمَرَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْمُحَافَظَۃِ عَلَیْہَا أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی أَیُّ صَلَاۃٍ ہِیَ مِنْہُنَّ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : إِنَّ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا، لَمْ یَکُنْ لِصَلَاۃِ الظُّہْرِ وَإِنَّمَا کَانَ لِصَلَاۃِ الْجُمُعَۃِ۔
٩٦٧: عبدالرحمن بن افلح سے روایت ہے کہ میرے ساتھیوں کی ایک جماعت نے مجھے عبداللہ بن عمر (رض) کی طرف صلوۃ وسطیٰ کے متعلق سوال کرنے بھیجا تو انھوں نے فرمایا ان سب کو سلام کہہ دو اور بتلاؤ کہ ہم یہی بات کیا کرتے تھے کہ یہ وہی نماز ہے جو چاشت کے بعد ہے یعنی ظہر۔ عبدالرحمن کہتے ہیں انھوں نے مجھے دوبارہ بھیجا تو میں نے کہا وہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور عرض کرتے ہیں ہمیں واضح الفاظ میں بتلائیں کہ وہ کون سی نماز ہے۔ تو عبداللہ فرمانے لگے تم ان کو سلام کہنا کہ ہم باتیں کیا کرتے تھے کہ یہ وہی نماز ہے جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کی طرف رخ فرمایا ہم نے پہچان لیا کہ وہ ظہر ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء ان آثار کی طرف گئے اور انھوں نے ظہر کو درمیانی نماز قرار دیا اور انھوں نے حضرت زید بن ثابت (رض) کی مذکورہ روایت سے اسی طرح استدلال کیا جیسا کہ زید بن ثابت (رض) نے کیا اور ابن عمر (رض) کی مذکورہ بالا روایت کو مستدل بنایا۔ دیگر علماء نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ زید بن ثابت (رض) کی روایت میں تو صرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے کہ کچھ لوگ (نماز میں سستی سے) باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز سخت گرمی کے وقت میں پڑھتے ‘ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جماعت میں ایک یا دو صفیں جمع ہوتیں ‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت صلوٰۃ الوسطیٰ والی اتاری۔ چنانچہ زید بن ثابت (رض) نے اس سے استدلال کیا کہ اس وسطیٰ سے ظہر مراد ہے اور یہ حضرت زید (رض) کی رائے ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی نہیں ہے اور اس آیت میں ہمارے ہاں کوئی دلیل نہیں جو ثابت کرتی ہو کیونکہ یہ جائز ہے کہ آیت میں تمام نمازوں کی وسطیٰ سمیت حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور محافظت میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت میں حاضر ہو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نماز کے سلسلہ میں کہ جس کی حاضری میں وہ کوتاہی کرتے تھے ارشاد فرمایا : ((لینتھین اقوام او لاحرقن علیہم بیوتہم)) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کی نماز کی محافظت میں کوتاہی سے باز آجائیں ورنہ میں ان کو اس کوتاہی کی وجہ سے گھروں سمیت جلا ڈالوں گا۔ “ اب اس ارشاد میں تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ درمیانی کونسی نماز ہے ؟ ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نماز ظہر کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ نماز جمعہ کے لیے ہے۔
تخریج : تفسیرالطبری ٢؍٥٦٢‘ المعجم الاوسط ١؍٨٣۔
حاصل روایات : ان روایات سبعہ سے معلوم ہوا کہ صلوۃ وسطیٰ سے مراد نماز ظہر ہے جیسا کہ حضرت زید بن ثابت اور عبداللہ عمر (رض) کے اقوال سے ثابت ہو رہا ہے۔
ایک وضاحت :
نفر من اصحابہ۔ ہ ضمیر کا مرجع عبدالرحمن بن افلح ہے یا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
مؤقف ِثانی : اور سابق روایات کا جواب کہ ظہر مراد نہیں :
جواب نمبر ١: زید بن ثابت (رض) کی روایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام سے کوئی اشارہ بھی ظہر کے صلوۃ وسطیٰ ہونے سے متعلق نہیں ملتا لوگوں کے ظہر میں غفلت برتنے پر آیت اتری اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مکانات جلانے کی دھمکی دی تو حضرت زید (رض) نے اس سے نماز ظہر سمجھا یہ ان کی رائے ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہیں۔
جواب نمبر ٢: آیت میں نماز میں تمام نمازوں اور صلوۃ وسطیٰ کی حفاظت کا حکم فرمایا گیا ہے آیت میں تو ظہر کے صلوۃ وسطیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں سستی ظہر میں تھی اور محافظت اس کی وقت پر ادائیگی کا نام ہے خصوص کا لحاظ نہیں عموم لفظ کا اعتبار ہے آیت میں تو نمازوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے جن میں صلوۃ وسطیٰ بھی شامل ہے۔
جواب نمبر ٣: بعض لوگوں نے وعیدی کلمات کو جمعہ سے متعلق فرمایا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔

968

۹۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لِقَوْمٍ یَتَخَلَّفُوْنَ عَنِ الْجُمُعَۃِ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلٰی قَوْمٍ یَتَخَلَّفُوْنَ عَنِ الْجُمُعَۃِ فِیْ بُیُوْتِہِمْ) .فَھٰذَا ابْنُ مَسْعُوْدٍ یُخْبِرُ أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ إِنَّمَا کَانَ لِلْمُتَخَلِّفِیْنَ عَنِ الْجُمُعَۃِ فِیْ بُیُوْتِہِمْ .وَلَمْ یَسْتَدِلَّ ہُوَ بِذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْجُمُعَۃَ ہِیَ الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی، بَلْ قَالَ بِضِدِّ ذٰلِکَ وَأَنَّہَا الْعَصْرُ وَسَنَأْتِیْ بِذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ وَافَقَ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی مَا قَالَ مِنْ ذٰلِکَ غَیْرُہٗ مِنَ التَّابِعِیْنَ.
٩٦٨: ابوالاحوص نے عبداللہ سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے فرمایا جو جمعہ سے غفلت کرتے تھے میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں کسی آدمی کو کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالوں۔ یہ حضرت ابن مسعود (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد گرامی جمعہ میں تاخیر کرنے والوں سے متعلق ہے اور انھوں نے جمعہ کے نماز وسطیٰ ہونے پر اس سے استدلال نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل انھوں نے عصر کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا۔ عنقریب یہ اپنے مقام پر اس کو ذکر کریں گے ان شاء اللہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے حضرت ابن مسعود (رض) کی موافقت میں یہ بات کہی ہے۔ اقوال ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مسلم فی المساجد مواضع الصلاۃ ٢٥٤۔
اس روایت میں ابن مسعود (رض) نے اس وعید کو جمعہ سے متعلق قرار دیا جب وعیدی کلمات ظہر کے علاوہ سے متعلق ہوگئے تو وعید کی وجہ سے ظہر کو صلوۃ وسطیٰ ثابت کرنے والا استدلال درست نہ رہا۔

969

۹۶۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ زَعَمَ حُمَیْدٌ وَغَیْرُہٗ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَانَتِ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ أَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُحَرِّقَ عَلٰی أَہْلِہَا، صَلَاۃَ الْجُمُعَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٩٦٩: تابعین کے اقوال میں بھی اس کی تائید موجود ہے حماد بن سلمہ کہتے ہیں حمید وغیرہ کا خیال ہے کہ حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ جس نماز کے متعلق گھروں کو جلانے کی بات فرمائی وہ نماز جمعہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس دھمکی کا تعلق نماز فجر و عشاء سے ہے روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍١٩١۔
پس ظہر کے متعلق دھمکی کو سامنے رکھ کر صلوۃ وسطیٰ قرار دینا درست نہ رہا کیونکہ دھمکی کا تعلق جمعہ سے ثابت ہوگیا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس دھمکی کا تعلق نماز فجر و عشاء سے ہے روایت ملاحظہ ہو۔

970

۹۷۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا بِحَطَبٍ فَیَحْطِبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَہَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُہُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَظْمًا سَمِیْنًا، أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَہِدَ الْعِشَائَ) .
٩٧٠: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ میں ایک آدمی کو لکڑیاں لانے کا حکم دوں وہ لکڑیاں لائے پھر میں نماز کا حکم دوں پس اذان کہی جائے پھر میں اپنی جگہ ایک شخص کو امامت کے لیے کہوں پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کو گھروں سمیت جلا دوں اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کسی کو معلوم ہو کہ اس کو موٹی ہڈی (پرگوشت) مل جائے گی یا بکرے کے دو اچھے پائے مل جائیں گے تو وہ ضرور عشاء میں حاضر ہوتا۔
تخریج : بخاری فی الاحکام باب ٥٢‘ الاذان باب ٢٩‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٤٨‘ نمبر ٢١٧‘ نسائی فی الامامہ باب ٤٩‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٥٤‘ مالک فی الجماعہ نمبر ٣‘ مسند احمد ٢؍٤٧٢۔

971

۹۷۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ، وَمَالِکٌ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٩٧١: ابن ابی الزناد اور مالک نے ابوالزناد سے روایت کی ہے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

972

۹۷۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَیْسَ صَلَاۃٌ أَثْقَلَ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ مِنْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، وَصَلَاۃِ الْعِشَائِ، وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَیُقِیْمَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ، فَأُحَرِّقَ عَلٰی مَنْ لَمْ یَخْرُجْ إِلَی الصَّلَاۃِ بَیْتَہٗ) .
٩٧٢: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافقین پر سب سے بھاری فجر اور عشاء کی نماز ہے اگر لوگ ان کا ثواب جان لیتے تو ان کے لیے گھٹنوں کے بل آنا پڑتا و وہ آتے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں مؤذن کو اذان کے لیے کہوں وہ اذان دے پھر میں ایک آدمی کو لوگوں کی امامت کے لیے کہوں پھر میں آگ کا شعلہ لے کر ان لوگوں کے گھر جلا دیتا جو نماز کے لیے گھر سے نہیں نکلتے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٣٤‘ مسلم فی المساجد نمبر ٢٥٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤٧‘ نمبر ٥٤٨‘ نسائی فی الامامہ باب ٤٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٥٣‘ مسند احمد ٥؍١٤٠‘ ١٤١۔

973

۹۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، قَالَ أَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ أَخَّرَ عِشَائَ الْآخِرَۃِ، حَتّٰی کَانَ ثُلُثُ اللَّیْلِ أَوْ قُرْبَہٗ، ثُمَّ جَائَ وَفِی النَّاسِ رُقَّدٌ وَہُمْ عُرُوْنٌ، فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِیْدًا، ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلًا نَدَبَ النَّاسَ إِلٰی عِرْقٍ أَوْ مِرْمَاتَیْنِ لَأَجَابُوْا لَہٗ، وَہُمْ یَتَخَلَّفُوْنَ عَنْ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا فَیُصَلِّیَ بِالنَّاسِ ثُمَّ أَتَخَلَّفَ عَلٰی أَہْلِ ھٰذِہِ الدُّوْرِ الَّذِیْنَ یَتَخَلَّفُوْنَ عَنْ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ فَأُضْرِمَہَا عَلَیْہِمْ بِالنِّیْرَانِ) .
٩٧٣: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کو مؤخر فرمایا یہاں تک کہ رات کا ثلث حصہ گزر گیا یا گزرنے کے قریب ہوگیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور بعض لوگ سو رہے تھے اور وہ کپڑوں سے ننگے تھے آپ سخت ناراض ہوئے پھر فرمایا اگر لوگوں کو گوشت والی ایک ہڈی یا دو پائے کی طرف بلایا جاتا تو وہ ضرور جاتے مگر اس نماز سے وہ پیچھے رہنے والے ہیں میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے گھروں کی طرف جاؤں جو نماز سے پیچھے رہتے ہیں اور ان کو آگ سے جلا دوں۔
اللغات : عرون۔ عارون من الثیاب یا بقول عینی یہ عزون جمع عزۃ ‘ حلقہ بنا کر بیٹھنا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍١٩٠‘ ١٩١۔

974

۹۷۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ عَنْ عَاصِمٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَھٰذَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ قَالَ فِیْہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا الْقَوْلَ، ہِیَ الْعِشَائُ، وَلَمْ یَدُلَّہٗ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہَا ہِیَ الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی بَلْ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ، مِمَّا سَنَذْکُرُہٗ فِیْ مَوْضِعِہٖ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ وَافَقَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنَ التَّابِعِیْنَ عَلٰی مَا قَالَ مِنْ ذٰلِکَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ .
٩٧٤: ابوبکر نے عاصم سے اور اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
اور سعید بن المسیب (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس بات میں موافقت کی ہے۔ یہ ابوہریرہ (رض) ہیں جو یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ وہ نماز جس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی ہے وہ نماز عشاء ہے اور انھوں نے اس طرح قطعاً راہنمائی نہیں فرمائی کہ وہ درمیانی نماز کا مصداق ہے بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایت وارد ہے جس کو ہم اپنے مقام پر انشاء اللہ ذکر کریں گے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس سلسلہ میں تابعین نے موافقت کی ہے جیسا کہ ابن مسیب (رح) نے فرمایا ہے۔

975

۹۷۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا عَطَائُ الْخُرَاسَانِیُّ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ : (کَانَتِ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ أَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُحَرِّقَ عَلٰی مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہَا صَلَاۃَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ) .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ کُلِّہٖ وَأَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ، لَمْ یَکُنْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَالِ الصَّلَاۃِ، وَإِنَّمَا کَانَ لِحَالٍ أُخْرٰی .
٩٧٥: عطاء خراسانی سے سعید بن المسیب سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر جلانے کی دھمکی جس نماز کے متعلق دی وہ نماز عشاء ہے۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے اس سب کے خلاف روایت آئی ہے کہ آپ کا یہ قول نماز کے لیے نہ تھا بلکہ اور حاجت کے لیے تھا۔
حاصل روایات : حضرت ابوہریرہ (رض) کے بیان اور سعید بن المسیب کے قول سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جس نماز کے لیے گھر جلانے کی دھمکی دی گئی وہ نماز عشاء ہے پس یہ دھمکی اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ یہ صلوۃ وسطیٰ ہے جیسا زید بن ثابت (رض) کی روایت سے سمجھا گیا۔ اور روایت جابر (رض) سے تو اس کے بھی خلاف بات ثابت ہوتی ہے وہ ملاحظہ فرمائیں۔
الجواب : عشاء کو وسطیٰ کہنے والوں سے عرض یہ ہے کہ خود حضرت ابوہریرہ (رض) کا فتویٰ ان روایات کے خلاف ہے پس ان روایات سے عشاء کے صلوۃ وسطیٰ پر استدلال درست نہیں روایت جابر (رض) میں ہے کہ یہ دھمکی اور حالت کے لیے تھی نماز کے لیے نہ تھی۔

976

۹۷۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ، قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرًا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا شَیْئٌ لَأَمَرْتُ رَجُلًا أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ حَرَّقْتُ بُیُوْتًا، عَلٰی مَا فِیْہَا .قَالَ جَابِرٌ إِنَّمَا قَالَ ذٰلِکَ مِنْ أَجْلِ رَجُلٍ بَلَغَہٗ عَنْہُ شَیْئٌ فَقَالَ : (لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَأُحَرِّقَنَّ بَیْتَہٗ عَلٰی مَا فِیْہِ) .فَھٰذَا جَابِرٌ یُخْبِرُ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا کَانَ لِلتَّخَلُّفِ عَمَّا لَا یَنْبَغِی التَّخَلُّفُ عَنْہٗ .فَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا وَلَا فِیْ شَیْئٍ مِمَّا تَقَدَّمَہُ الدَّلِیْلُ عَلَی الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی مَا ہِیَ .فَلَمَّا انْتَفٰی بِمَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ فِیْمَا رَوَیْنَا عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ، رَجَعْنَا إِلٰی مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، فَإِذَا لَیْسَ فِیْہِ حِکَایَۃٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّمَا ہُوَ مِنْ قَوْلِہٖ لِأَنَّہٗ قَالَ ہِیَ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ وُجِّہَ فِیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْکَعْبَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الْوَجْہِ خِلَافُ ذٰلِکَ .
٩٧٦: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) سے پوچھا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو میں ایک آدمی کو کہتا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر گھروں کو سب چیزوں سمیت جلا ڈالتا۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو فرمائی جس کے متعلق کوئی بات پہنچی تو فرمایا اگر وہ باز نہ آیا تو میں اس کا گھر ہر چیز سمیت جلا دوں گا۔ یہ جابر (رض) خبر دے رہے ہیں یہ کسی ایسی چیز سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا جس سے تخلف درست نہیں اور دھمکی اس سے متعلق ہے۔ یہ جابر (رض) بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس شخص سے متعلق تھا جو ایسی چیزوں سے جان بوجھ کر پیچھے رہنے والے تھے جس سے پیچھے رہنا درست نہیں۔ ان روایات اور ان سے پہلے مذکورہ روایات میں کوئی بھی نماز وسطیٰ کی حقیقت میں نشاندہی نہیں کرتی جب زید بن ثابت (رض) کے قول میں کوئی دلیل نہ ملی تو ابن عمر (رض) کی روایت کی طرف رجوع کیا۔ اس میں ابن عمر (رض) کی اپنی رائے تو مذکور ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی کوئی چیز بیان نہیں کی گئی۔ خود ان کا قول یہ ہے کہ یہ وہ نماز ہے کہ جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کی طرف رخ فرمایا اور دوسری سند سے ان سے اختلاف کی اور صورت منقول ہے۔
حاصل یہ ہے :
کہ اس روایت میں اور اس سے پہلے گزشتہ روایات میں صلوۃ وسطیٰ کے متعلق کوئی دلیل نہیں کہ وہ کون سی نماز ہے جب اس بات کی نفی ہوگئی کہ زید بن ثابت (رض) سے جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی دلیل نہیں کہ صلوۃ وسطیٰ ظہر یا جمعہ یا فلاں نماز ہے۔
الجواب : اب رہی روایت ابن عمر (رض) تو اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول موجود نہیں بلکہ وہ ابن عمر (رض) کا قول ہے کیونکہ اس میں انھوں نے فرمایا : ” ہی الصلاۃ التی وجہ فیہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی الکعبۃ “ پس نماز ظہر کے وسطیٰ ہونے کی دلیل نہ بن سکی۔
جواب نمبر ٢: صلوۃ وسطیٰ کے سلسلہ میں ان کی دوسری روایت موجود ہے جس میں نماز عصر کو صلوۃ وسطیٰ کہا گیا ہے پس ان سے متضاد روایات اس بات کا ثبوت ہے کہ صلوۃ وسطیٰ کے متعلق ان کے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی قول نہ تھا وہ ان کی رائے تھی جو دوسرے صحابہ کی رائے کے خلاف ہونے کی وجہ سے حجت نہ بنی۔

977

۹۷۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ح .
٩٧٧: عبداللہ بن صالح نے لیث سے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : تفسیر طبری ٢؍٥٥٥۔

978

۹۷۸ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ) .فَلَمَّا تَضَادَّ مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ دَلَّ ھٰذَا عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ فِیْہِ شَیْئٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَرَجَعْنَا إِلٰی مَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِہٖ۔
٩٧٨: ابن شہاب نے سالم بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے کہ صلوۃ وسطیٰ صلوۃ عصر ہے۔ جب ابن عمر (رض) سے متضاد روایات وارد ہوئیں تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اس سلسلہ میں ان کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات نہ پہنچی تھی۔ اب ان کے علاوہ اصحاب کرام (رض) کی مرویات کو دیکھتے ہیں۔
اب یہ روایت ابن عمر (رض) کی پہلی روایت کے خلاف ہے۔

979

۹۷۹ : فَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِیْ رَجَائٍ قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الْغَدَاۃَ فَقَنَتَ قَبْلَ الرُّکُوْعِ، وَقَالَ : ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی.
٩٧٩: ابو رجاء کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس (رض) کے پیچھے نماز فجر ادا کی تو انھوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھی اور فرمایا یہ نماز صلوۃ وسطیٰ ہے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١٩‘ نمبر ١٨١‘ عن ابن مسعود (رض) ۔

980

۹۸۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا قُرَّۃُ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَجَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : ہِیَ صَلَاۃُ الصُّبْحِ .
٩٨٠: ابو رجاء نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ نماز فجر یہی صلوۃ وسطیٰ ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢٤٦۔

981

۹۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، عَنْ ہَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِی الْخَلِیْلِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٩٨١: قتادہ نے ابوالخلیل اور انھوں نے جابر بن زید سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : تفسیر طبری ٢؍٥٦٤۔

982

۹۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٩٨٢: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔

983

۹۸۳ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَالَ رَجُلٌ إِلٰی جَنْبِیْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی) .فَکَانَ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ ھٰذَا ہُوَ قَوْلُ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) [البقرۃ : ۲۳۸] فَکَانَ ذٰلِکَ الْقُنُوْتُ عِنْدَہٗ ہُوَ قُنُوْتُ الصُّبْحِ فَجَعَلَ بِذٰلِکَ الصَّلَاۃَ الْوُسْطٰی ہِیَ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ فِیْہَا الْقُنُوْتُ عِنْدَہٗ .وَقَدْ خُوْلِفَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ، فِیْمَ نَزَلَتْ؟
٩٨٣: ابوالعالیہ کہتے ہیں میں نے ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پیچھے نماز صبح ادا کی ایک صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو میرے پہلو میں تھے کہنے لگے یہ صلوۃ وسطیٰ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے استدلال میں آیت : ” حافظوا علی الصلوات “ کو پیش کیا اور ان کے ہاں قنوت سے صبح کا قنوت مراد ہے۔ جب قنوت سے صبح کا قنوت مراد ہے تو جس نماز میں وہ قنوت پایا جاتا ہے وہ نماز صلوٰۃ وسطیٰ ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں ابن عباس (رض) کے خلاف روایات بھی موجود ہیں ‘ ملاحظہ ہوں۔
تخریج : تفسیر طبری ٢؍٥٦٥۔
حاصل روایات : ابن عباس (رض) کی روایت سے نماز فجر کا صلوۃ وسطیٰ ہونا معلوم ہو رہا ہے اس کی وجہ : { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰیقوَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ } [البقرہ : ٢٣٨] ہے انھوں نے اس نماز کی وجہ سے جس میں قنوت پڑھی جاتی ہے اس کو صلوۃ وسطیٰ قرار دیا۔
روایات ابن عباس (رض) کا جواب :
جواب نمبر ١: اس آیت کا شان نزول اور بیان کیا ہے قنوت کو سکوت کے معنی میں لیا ہے پہلے نیت باندھ لینے کے بعد گفتگو کی اجازت تھی جب یہ آیت اتری تو کلام سے روک دیا گیا جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ثابت ہوتا ہے روایت زید بن ارقم (رض) ۔

984

۹۸۴ : فَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ شُبَیْلٍ، عَنْ أَبِیْ عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرَقْمَ، قَالَ : کُنَّا نَتَکَلَّمُ فِی الصَّلَاۃِ حَتّٰی نَزَلَتْ (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) فَأُمِرْنَا بِالسُّکُوْتِ.
٩٨٤: ابو عمرو شیبانی نے حضرت زید بن ارقم (رض) سے نقل کیا ہے ہم نماز میں بات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ : { وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ۔۔۔} اتری پس ہمیں نماز میں خاموشی کا حکم دیا گیا۔
تخریج : بخاری فی التفسیر باب ٤٣‘ مسلم فی المساجد و مواضع الصلاۃ نمبر ٣٥‘ ابو داؤد ١؍١٣٧‘ ترمذی ١؍٩٢‘ نسائی ١؍١٨٠۔

985

۹۸۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٩٨٥: حسین بن نصر نے بیان کیا کہ میں نے یزید بن ہارون سے اسی طرح سنا انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی۔
تخریج : مسند عبد بن حمیر ١؍١١٣۔

986

۹۸۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، عَنْ سُفْیَانَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) فَذَکَرَ عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانُوْا یَتَکَلَّمُوْنَ فِی الصَّلَاۃِ، حَتّٰی نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ فَالْقُنُوْتُ السُّکُوْتُ، وَالْقُنُوْتُ الطَّاعَۃُ .
٩٨٦: شجاع بن الولید نے سفیان ثوری سے اس آیت :{ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ } کے بارے میں نقل کیا انھوں نے منصور سے اور انھوں نے مجاہد سے نقل کیا کہ وہ لوگ نماز میں کلام کرتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی تو آیت میں القنوت سے سکوت و خاموشی مراد ہے قنوت کا معنی اطاعت بھی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍١٣٣۔

987

۹۸۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ، عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) قَالَ مِنَ الْقُنُوْتِ الرُّکُوْعُ وَالسُّجُوْدُ وَخَفْضُ الْجَنَاحِ، وَغَضُّ الْبَصَرِ مِنْ رَہْبَۃِ اللّٰہِ .
٩٨٧: لیث بن ابی سلیم نے مجاہد سے اس آیت کے متعلق نقل کیا : { وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ } [البقرہ : ٢٣٨] مجاہد کہتے ہیں قنوت سے رکوع ‘ سجود اور خشوع اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے نگاہ کا نیچے کرنا مراد ہے۔

988

۹۸۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ، قَالَ لَوْ کَانَ الْقُنُوْتُ کَمَا تَقُوْلُوْنَ، لَمْ یَکُنْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ شَیْئٌ ، إِنَّمَا الْقُنُوْتُ الطَّاعَۃُ یَعْنِی (وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ) .
٩٨٨: محمد بن طلحہ نے ابن عون اور انھوں نے عامر شعبی سے بیان کیا کہ اگر قنوت سے وہ مراد ہے جو تم کہتے ہو تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کوئی چیز نہ کرتے تھے قنوت سے یہاں طاعت مراد ہے جیسا اس آیت میں : { وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } [الاحزاب۔ ٣١]

989

۹۸۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ عَنِ الْقُنُوْتِ، فَقَالَ الصَّلَاۃُ کُلُّہَا قُنُوْتٌ أَمَّا الَّذِیْ تَصْنَعُوْنَ فَلَا أَدْرِیْ مَا ہُوَ .فَھٰذَا زَیْدُ بْنُ أَرَقْمَ وَمَنْ ذَکَرْنَا مَعَہٗ، یُخْبِرُوْنَ أَنَّ ذٰلِکَ الْقُنُوْتَ الَّذِیْ أُمِرَ بِہٖ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ، ہُوَ السُّکُوْتُ عَنِ الْکَلَامِ الَّذِیْ کَانُوْا یَتَکَلَّمُوْنَ بِہٖ فِی الصَّلَاۃِ .فَیَخْرُجُ بِذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْقُنُوْتَ الْمَذْکُوْرَ فِیْہَا، ہُوَ الْقُنُوْتُ الْمَفْعُوْلُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَقَدْ أَنْکَرَ قَوْمٌ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عَبَّاسٍ کَانَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَقَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ بَابِ الْقُنُوْتِ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .فَلَوْ کَانَ ھٰذَا الْقُنُوْتُ الْمَذْکُوْرُ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ، ہُوَ الْقُنُوْتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ اِذًا لَمَا تَرَکَہٗ، اِذَا کَانَ قَدْ أَمَرَ بِہِ الْکِتَابُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ الَّذِیْ ذَہَبَ إِلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ، مَعْنًی آخَرُ .
٩٨٩: ابوالاشہب نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن زید سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگے نماز ساری قنوت ہے باقی جو تم کرتے ہو مجھے معلوم نہیں وہ کیا ہے۔ یہ حضرت زید بن ارقم اور دیگر حضرات جن کا ہم نے ذکر کیا یہ بتلا رہے ہیں کہ جس قنوت کا اس آیت میں تذکرہ ہے اس سے مراد سکوت ہے جب کہ یہ لوگ نماز میں پہلے گفتگو کرتے تھے۔ پس اس طریقے سے یہ آیت اس بات کی دلیل نہ رہے گی کہ اس سے صبح والا قنوت مراد لیا جائے اور بعض حضرات نے تو اس سے بھی انکار کردیا کہ ابن عباس (رض) نماز صبح میں قنوت پڑھتے ہوں۔ ہم نے باب القنوت میں اسناد سے یہ روایت لکھی ہے کہ اگر یہ قنوت مذکورہ نماز صبح والا ہو تو آپ اس کو ترک نہ فرماتے کیونکہ اس کا حکم تو قرآن نے دیا ہے اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جس کی طرف ابن عباس (رض) گئے ہیں وہ ایک دوسری دلیل ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : یہ حضرت زید بن ارقم انصاری (رض) اور ان کے ساتھ سفیان ثوری عامر شعبی ‘ مجاہد ‘ جابر بن زید (رح) سب بالاتفاق کہہ رہے ہیں کہ اس آیت میں قنوت سے سکوت اور طاعت مراد ہے دعاء قنوت مراد نہیں کہ جس کی بنیاد پر روایت ابن عباس (رض) میں صلوۃ وسطیٰ پر استدلال کیا جائے اور فجر کو صلوۃ وسطیٰ قرار دیا جائے۔
روایت ابن عباس (رض) کا جواب :
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابن عباس (رض) فجر میں قنوت نہ پڑھتے تھے جیسا کہ باب القنوت میں آئے گا وہ کبھی کبھار پڑھتے تھے اگر دعاء قنوت مراد تھی تو ہمیشہ پڑھنی چاہیے تھی اس کو کسی وقت نہ چھوڑتے کیونکہ قرآن کی نص کا حکم تو ہر وقت لازم ہے۔
ایک اور انداز :
سے عرض یہ ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کا دوسر ا معنی بیان کیا ہے روایت ملاحظہ ہو۔

990

۹۹۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ خِدَاشِ ڑ الْمُہَلَّبِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالدَّرَاوَرْدِیُّ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : (الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی ہِیَ الصُّبْحُ، فَصْلٌ بَیْنَ سَوَادِ اللَّیْلِ وَبَیَاضِ النَّہَارِ) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الَّذِیْ جَعَلَ صَلَاۃَ الْغَدَاۃِ بِہٖ، ہِیَ الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی، ھٰذِہٖ ہِیَ الْعِلَّۃُ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) أَرَادَ بِہٖ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ الْقُنُوْتُ، ہُوَ طُوْلُ الْقِیَامِ کَمَا (قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا سُئِلَ أَیُّ الصَّلَاۃِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ طُوْلُ الْقُنُوْتِ) .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا أَنَّہَا قَالَتْ : إِنَّمَا أُقِرَّتْ الصُّبْحُ رَکْعَتَیْنِ لِطُوْلِ الْقِرَائَ ۃِ فِیْہِمَا .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ أَیْضًا فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہٗ (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) أَرَادَ بِہٖ فِیْ کُلِّ الصَّلَوَاتِ صَلَاۃَ الْوُسْطٰی وَغَیْرَہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی أَنَّہَا الْعَصْرُ .
٩٩٠: ثور بن یزید نے عکرمہ اور انھوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ صلوۃ وسطیٰ تو نماز صبح ہے اور اس کو وسطیٰ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے رات کی سیاہی اور دن کے چاندنے میں فاصلہ کردیا ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے اطلاع دی ہے کہ جن حضرات نے فجر کی نماز کو نماز وسطیٰ کہا ان کے ہاں علت یہی ہے حالانکہ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آیت : ” وقوموا اللہ قانتین “ سے مراد نماز صبح ہو تو اس صورت میں قنوت سے طول قیام مراد ہوگا جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کا قنوت یعنی قیام لمبا ہو۔ ہم نے یہ روایت پوری اسناد سے اپنے موقع پر ذکر کی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ فجر میں دو رکعتیں طول قیام کی وجہ سے رکھی گئی ہیں اور ہم نے یہ بات اور جگہ بھی ذکر کی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ” وقوموا اللہ قانتین “ والی آیت میں ہر نماز کا قنوت مراد ہو۔ خواہ وہ درمیان ہو یا دیگر اور حضرت ابن عباس (رض) سے نماز وسطیٰ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ نماز عصر ہے۔
حاصل روایات : کہ فجر کی نماز کو وسطیٰ کہنے کی علت یہ ہے کہ سواد لیل اور بیاض نہار میں جدائی کرنے والی ہے پس آیت مذکورہ والی صلوۃ وسطیٰ مراد نہ ہوئی۔
ایک اور جواب :
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے صبح کی نماز مراد لی جائے اور قنوت سے طول قیام مراد لیا جائے جیسا کہ آپ سے پوچھا گیا کون سی نماز افضل ہے تو فرمایا طول قنوت یعنی طویل قیام والی جب قیام کی طوالت مراد ہے تو اس کو قنوت نازلہ قرار دے کر صلوۃ وسطیٰ کی دلیل بنانا درست نہیں اور یہ روایت دوسرے مقام پر اسی کتاب میں مذکور ہے۔
حضرت عائشہ (رض) نے باب صلوۃ المسافر میں ذکر کیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں رکعات کی تعداد کم تھی مدینہ منورہ میں اضافہ کیا گیا فجر میں طویل قراءت کی وجہ سے اضافہ نہیں کیا گیا تو گویا ان کے ہاں بھی قنوت سے مراد طویل قراءت ہے۔
وقد یحتمل :
اس سے امام طحاوی (رح) یہ بتلا رہے ہیں کہ { وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ } [البقرہ : ٢٣٨] صلوۃ وسطیٰ اور دیگر تمام نمازوں سے متعلق ہے۔
وقدروی :
سے یہ جواب دینا چاہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کے ہاں صلوۃ وسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے جیسا کہ اس روایت میں موجود ہے۔

991

۹۹۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ زِرِّ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْعَبْدِیِّ، قَالَ : (سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ (الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ) (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) .فَلَمَّا اخْتُلِفَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ، أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِہٖ .وَذَہَبَ أَیْضًا مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّہَا غَیْرُ الْعَصْرِ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .فَذَکَرُوْا۔
٩٩١: زر بن عبیداللہ العبدی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو فرماتے سنا کہ صلوۃ وسطیٰ وہ نماز عصر ہے۔ جب حضرت ابن عباس (رض) کی روایات اس سلسلے میں مختلف ہوگئیں تو اب ہم اس سلسلے میں دیگر حضرات کی روایات دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض حضرات تو اس طرف گئے ہیں کہ اس سے عصر کے علاوہ نماز مراد ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس پر دلالت کرنے والی روایات موجود ہیں ‘ ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٥٠٤۔
حاصل : ابن عباس (رض) کی یہ روایت تو صلوۃ وسطیٰ نماز عصر کو ثابت کرتی ہے جب کہ پہلے روایت گزری وہ نماز فجر کو وسطیٰ ثابت کرتی ہے اب ان سے روایات مختلف ہونے کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام (رض) کی روایات کو دیکھنا ہوگا تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکے۔
اشکال :
دیگر صحابہ کرام (رض) سے بھی ایسی روایات وارد ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ عصر کے علاوہ ہے اس اشتباہ کی وجہ قراءت غیر معروفہ میں صلوۃ الوسطیٰ کے بعد وصلاۃ العصر آیا ہے۔ عصر کا لفظ تغایر کو ثابت کرتا ہے۔
روایات یہ ہیں۔

992

۹۹۲ : مَاحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدِ بْنِ نُوْحٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُوْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ، وَنَافِعٌ مَوْلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ رَافِعٍ مَوْلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَکْتُبُ الْمَصَاحِفَ عَلٰی عَہْدِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اسْتَکْتَبَتْنِیْ حَفْصَۃُ بِنْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُصْحَفًا، وَقَالَتْ لِیْ اِذَا بَلَغْتَ ھٰذِہِ الْآیَۃَ مِنْ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ، فَلَا تَکْتُبْہَا حَتَّی تَأْتِیَنِیْ فَأُمْلِیَہَا عَلَیْکَ کَمَا حَفِظْتُہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ فَلَمَّا بَلَغْتُہَا أَتَیْتُہُمَا بِالْوَرَقَۃِ الَّتِیْ أَکْتُبُہَا فَقَالَتْ اُکْتُبْ (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ) .
٩٩٢: عمرو بن رافع مولیٰ عمر بن خطاب (رض) اور نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر (رض) دونوں نے بیان کیا کہ عمرو بن رافع ازواج مطہرات کے لیے مصاحف لکھا کرتا تھا حضرت حفصہ (رض) نے اپنا مصحف لکھنے کی ذمہ داری لگائی تو کہنے لگیں جب تم : { قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ } [البقرہ : ٢٣٨] پر پہنچو تو اس وقت تک مت لکھو جب تک میرے پاس نہ آؤ میں اس کو اسی طرح لکھواؤں گی جس طرح میں نے اسے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یاد کیا چنانچہ جب میں اس آیت تک پہنچا تو میں ان کے پاس وہ کاغذ لے کر آیا جس کو لکھ رہا تھا تو کہنے لگیں اس طرح لکھو ” حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطٰی وصلاۃ العصر “ ۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٥٠٤۔

993

۹۹۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ رَافِعٍ مِثْلَہٗ، عَنْ حَفْصَۃَ، غَیْرَ أَنَّہَا لَمْ تَذْکُرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٩٩٣: مالک نے زید بن اسلم سے اور انھوں نے عمرو بن رافع سے اسی طرح حضرت حفصہ (رض) سے نقل کیا البتہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ اس روایت میں نہیں کیا۔

994

۹۹۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ أَبِیْ یُوْنُسَ مَوْلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہٗ قَالَ أَمَرَتْنِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ حَدِیْثِ حَفْصَۃَ، مِنْ حَدِیْثِ عَلِیِّ بْنِ مَعْبَدٍ .
٩٩٤: زید بن اسلم نے قعقاع بن حکیم اور انھوں نے ابو یونس مولیٰ عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ مجھے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا پھر اوپر والی علی بن معبد والی روایت کی طرح روایت نقل کی ۔
تخریج : مسلم ١؍٢٢٧۔

995

۹۹۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أُمِّہٖ أُمِّ حُمَیْدٍ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، سَأَلَتْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - (وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی) فَقَالَتْ کُنَّا نَقْرَؤُہَا عَلَی الْحَرْفِ الْأَوَّلِ، عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) .قَالُوْا فَلَمَّا قَالَ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ) ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوُسْطٰی غَیْرُ الْعَصْرِ .وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عِنْدَنَا عَلٰی مَا ذَکَرُوْا لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْعَصْرُ مُسَمَّاۃً بِالْعَصْرِ، وَمُسَمَّاۃً بِالْوُسْطٰی فَذَکَرَہَا ہَاہُنَا بِاسْمَیْہِمَا جَمِیْعًا .ھٰذَا یَجُوْزُ لَوْ ثَبَتَ مَا فِی تِلْکَ الْآثَارِ مِنَ التِّلَاوَۃِ الزَّائِدَۃِ عَلَی التِّلَاوَۃِ الَّتِیْ قَامَتْ بِہَا الْحُجَّۃُ، مَعَ أَنَّ التِّلَاوَۃَ الَّتِیْ قَامَتْ بِہَا الْحُجَّۃُ، دَافِعَۃٌ لِکُلِّ مَا خَالَفَہَا .وَقَدْ رُوِیَ أَنَّ الَّذِیْ کَانَ فِیْ مُصْحَفِ حَفْصَۃَ مِنْ ذٰلِکَ، غَیْرُ مَا رَوَیْنَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .
٩٩٥: ام حمید بنت عبدالرحمن کہتی ہیں میں نے عائشہ (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد والصلاۃ الوسطیٰ کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگیں ہم اس کو حرف اول کے مطابق زمانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اسی طرح پڑھتی تھیں : { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰیقوَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ } [البقرہ : ٢٣٨] وصلاۃ العصر ۔ علماء نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے وہ فرمایا جو ان روایات میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت :{ حافظوا علی الصلوات۔۔۔} میں صلوٰۃ وسطیٰ اور صلوٰۃ عصر کے لفظ ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سے نماز عصر مراد نہیں۔ ہمارے نزدیک اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ کہنا درست ہے اس نماز کا نام نماز عصر بھی ہے اور نماز وسطیٰ بھی۔ یہاں نام اور لقب دونوں ذکر کردیئے اور یہ اس وقت درست ہے کہ اگر ان آثار میں یہ ثابت ہوجائے کہ تلاوت سے وہ زائد تلاوت مراد ہے جس کے ساتھ دلیل قائم نہیں ہوتی کیونکہ تلاوت جس سے دلیل قائم ہوتی ہے وہ تو ہر مخالفت کی تردید کرنے والی ہے حالانکہ جو مصحف حفصہ میں مذکور ہے وہ ان روایات کے خلاف ہے جن کا ابتداء میں ذکر ہوا۔
تخریج : مسلم فی المساجد موضع الصلاۃ نمبر ٢٠٧‘ عبدالرزاق ١؍٥٧٨‘ المحلی ١؍١٧٨۔
حاصل روایات : کیونکہ ان تمام روایات میں وصلاۃ العصر کے لفظ واو عطف کے ساتھ ہیں معلوم ہوا کہ وہ صلوۃ وسطیٰ کے علاوہ نماز ہے۔
الجواب نمبر ١: یہ عطف مغایرت کے لیے نہیں عطف صفات تو اتحاد کو لازم کرتا ہے تو صلوۃ وسطیٰ کا دوسرا نام صلوۃ العصر ہے۔
نمبر ٢: یہ آثار قراءت مشہورہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں مصحف حفصہ میں اس اثر کے خلاف پایا جاتا ہے پس اس سے استدلال درست نہ ہوگا وہاں صلوۃ وسطیٰ کے بعد بطور تفسیر وہی صلوۃ العصر کے الفاظ اس اشکال کو رد کرتے ہیں۔
نمبر ٣: قدوری ص ٢٢٣ سے بتلانا چاہتے ہیں کہ حضرت حفصہ (رض) عائشہ (رض) اور ام کلثوم (رض) سے جو روایات اس قراءت کی ثابت ہوئی ہیں حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ یہ منسوخ التلاوۃ ہے۔ روایت براء (رض) ملاحظہ ہو۔

996

۹۹۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ رَافِعٍ، قَالَ : کَانَ مَکْتُوْبًا فِیْ مُصْحَفِ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، وَہِیَ صَلَاۃُ الْعَصْرِ، وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِھٰذَا مَا صَرَفْنَا إِلَیْہِ تَأْوِیْلَ الْآثَارِ الْأُوَلِ مِنْ قَوْلِہٖ : حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ " أَنَّہٗ سَمّٰی صَلَاۃَ الْعَصْرِ بِالْعَصْرِ وَبِالْوُسْطٰی .فَقَدْ ثَبَتَ بِھٰذَا قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّہَا صَلَاۃُ الْعَصْرِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ فِیْ ذٰلِکَ، مَا یَدُلُّ عَلٰی نَسْخِ مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَأُمِّ کُلْثُوْمٍ .
٩٩٦ : عمرو بن رافع سے روایت ہے کہ مصحف حفصہ (رض) میں لکھا تھا : حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، وَہِیَ صَلَاۃُ الْعَصْرِ سے۔ ماقبل روایات میں آیت { حافظوا علی الصلٰوات۔۔۔} کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا کہ نماز عصر کو نماز وسطیٰ کہا گیا ہے۔ پس اس سے ان حضرات کی بات ثابت ہوگئی جو نماز وسطیٰ نمازِ عصر کو قرار دیتے ہیں اور حضرت براء بن عازب (رض) سے ایسی روایت آئی ہے جو حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کی ناسخ معلوم ہوتی ہے۔
ہم نے پہلے آثار کی جو تاویل حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، وَہِیَ صَلَاۃُ الْعَصْرِ کے سلسلہ میں کی ہے کہ اس آیت میں صلوٰۃ عصر کا نام ہی صلوٰۃ عصر اور صلوٰۃ وسطیٰ رکھا گیا۔ چنانچہ اس سے ان لوگوں کی بات ثابت ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ یہ صلوٰۃ عصر ہے۔

997

۹۹۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ شُرَیْحٍ، مُحَمَّدُ بْنُ زَکَرِیَّا بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا شَقِیْقُ بْنُ عُقْبَۃَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : (نَزَلَتْ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ فَقَرَأْنَاہَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا شَائَ اللّٰہُ، ثُمَّ نَسَخَہَا اللّٰہُ - عَزَّوَجَلَّ - فَأَنْزَلَ (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی) ) فَأَخْبَرَ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ التِّلَاوَۃَ الْأُوْلٰی ہِیَ مَا رَوَتْ عَائِشَۃُ وَحَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَأَنَّہٗ نَسَخَ ذٰلِکَ التِّلَاوَۃُ الَّتِیْ قَامَتْ بِہَا الْحُجَّۃُ .فَإِنْ کَانَ قَوْلُہُ الثَّانِیْ (وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی) نَسْخًا لِلْعَصْرِ أَنْ تَکُوْنَ ہِیَ الْوُسْطٰی فَذٰلِکَ نَسْخٌ لَہَا .وَإِنْ کَانَ نَسْخًا لِتِلَاوَۃِ أَحَدِ اسْمَیْہَا وَتَثْبِیْتِ اسْمِہَا الْآخَرِ فَإِنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ أَنَّ الصَّلَاۃَ الْوُسْطٰی ہِیَ صَلَاۃُ الْعَصْرِ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ھٰذَا مَا ذَکَرْنَا، عُدْنَا إِلٰی مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .
٩٩٧: شقیق بن عقبہ نے براء بن عازب (رض) سے نقل کیا کہ آیت : { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی } [البقرہ : ٢٣٨] وصلاۃ العصر “ نازل ہوئی اور پڑھی جاتی رہی جب تک کہ زمانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پڑھا جانا منظور تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کردیا اور یہ اتاری : { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی } [البقرہ : ٢٣٨] حضرت براء (رض) نے بتلایا کہ پہلی تلاوت وہی ہے جس کو حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ جس تلاوت کو دلیل بنایا گیا تھا اس کو دوسری تلاوت والصلوٰۃ الوسطیٰ نے منسوخ کردیا۔ جب عصر کے لفظ کو وسطیٰ منسوخ کرنے والا ہے تو پھر نماز وسطیٰ نمازِ عصر ہی بنی۔ اگر اس کے دو ناموں میں سے ایک کو قائم رکھا گیا اور دوسرے کو تلاوۃ میں منسوخ کردیا گیا مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ صلوۃ وسطیٰ سے نماز عصر کی مراد ہے۔ جس سے اس میں احتمال پیدا ہوگیا تو روایات کی طرف رجوع کیا ‘ ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مسلم فی المساجد ومواضع الصلاۃ نمبر ٢٠٨۔
حاصل روایات : حضرت برائ (رض) نے اس روایت سے اطلاع دی کہ آیت کا وہ حصہ جو حضرت حفصہ و عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے وہ منسوخ التلاوۃ ہے کہ جس سے دلیل پکڑنا درست ہوگا اور اگر نسخ التلاوۃ والحکم مراد ہو تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ نماز عصر کا صلوۃ وسطیٰ ہونا منسوخ ہوگیا ہے اور منسوخ التلاوۃ والی صورت میں اس کے دو ناموں میں سے ایک نام کی تلاوت منسوخ کردی گئی اور اس کا نماز وسطیٰ والا حکم باقی رہا۔
قائلین عصر کے دلائل :
اب جب کہ یہ احتمال ہوا تو تعیین احتمال کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ اس سلسلہ میں مروی ہے پیش کیا جاتا ہے گزشتہ تمام روایات میں کسی بھی دلیل سے واضح طور پر کسی نماز کا صلوۃ وسطیٰ ہونا ثابت نہیں ہوتا مگر نماز عصر کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واضح ارشاد موجود ہے۔

998

۹۹۸ : فَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، قَالَ، ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ عَاصِمًا یُحَدِّثُ عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : قَاتَلْنَا الْأَحْزَابَ فَشَغَلُوْنَا عَنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ حَتّٰی کَرَبَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِیْبَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (اللّٰہُمَّ امْلَأْ قُلُوْبَ الَّذِیْنَ شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی نَارًا، وَامْلَأْ بُیُوْتَہُمْ نَارًا، وَامْلَأْ قُبُوْرَہُمْ نَارًا) ، قَالَ : عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : کُنَّا نَرٰی أَنَّہَا صَلَاۃُ الْفَجْرِ .فَھٰذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَرَوْنَہَا قَبْلَ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا الصُّبْحَ، حَتّٰی سَمِعُوْا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ یَقُوْلُ ھٰذَا، فَعَلِمُوْا بِذٰلِکَ أَنَّہَا الْعَصْرُ .
٩٩٨: زر نے حضرت علی مرتضیٰ سے روایت کی ہے کہ غزوہ احزاب میں ہم کفار سے قتال میں مشغول رہے جس سے نماز عصر جاتی رہی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ گیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح بددعا فرمائی ” اللہم املأ قلوب الذین شغلونا عن الصلاۃ الوسطٰی نارا واملأ بیوتہم نارا واملأ قبورہم ناراً اے اللہ جنہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ سے مشغول کردیا ان کے دلوں ‘ گھروں اور قبور کو آگ سے بھر دے ۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم خیال کرتے تھے کہ صلوۃ فجر صلوۃ وسطیٰ ہے (مگر اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ وہ نماز عصر ہے) یہ حضرت علی (رض) ہیں ‘ جو فرما رہے ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے پہلے اسے نماز صبح خیال کرتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس سے متعلق سنا تو اس سے انھوں نے جان لیا کہ وہ نماز عصر ہے ‘ اس کے متعلق روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٩٨‘ المغازی باب ٢٩‘ مسلم فی المساجد و مواضع الصلاۃ نمبر ٢٠٦‘ ترمذی فی تفسیر وسورۃ نمبر ٢‘ باب ٣١‘ نسائی فی الصلاۃ باب ١٤‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٦‘ نمبر ٦٨٤‘ مسند احمد ١؍٣٠١۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ علی (رض) کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ کہ وہ نماز فجر کو صلوۃ وسطیٰ خیال کرتے تھے مگر اس ارشاد نبوت کے بعد انھوں نے جان لیا کہ صلوۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔
نوٹ : اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جن صحابہ کرام (رض) سے اور کسی نماز کے متعلق یہ ارشاد منقول ہے وہ یا تو اس ارشاد سے پہلے کا ہے یا ان کو یہ ارشاد معلوم نہیں ہوا۔

999

۹۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَعَدَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَلٰی فُرْضَۃٍ مِنْ فُرَضِ الْخَنْدَقِ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کُنَّا نَرٰی أَنَّہَا الصُّبْحُ۔
٩٩: یحییٰ بن الجزار نے علی (رض) سے نقل کیا اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ خندق کے دن خندق کے ایک ناکے پر بیٹھے تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی مگر اس میں علی (رض) کا یہ قول موجود نہیں ” کنانری انہا الصبح “
تخریج : مسلم فی المساجد باب ٦‘ نمبر ٦٨٤‘ نمبر ٢٠٤۔

1000

۱۰۰۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجْوُدِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، قَالَ : قُلْتُ لِعُبَیْدَۃَ : سَلْ لَنَا عَلِیًّا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، فَسَأَلَہٗ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ وَزَادَ " کُنَّا نَرٰی أَنَّہَا الْفَجْرُ، حَتّٰی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ھٰذَا " .
١٠٠٠: زر بن جبیش کہتے ہیں میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمیں علی (رض) سے دریافت کر دو کہ صلوۃ وسطیٰ کون سی ہے انھوں نے پوچھا پھر اسی طرح روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ہم فجر کو صلوۃ وسطیٰ سمجھتے تھے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنا (کہ یہ صلوۃ عصر ہے)
تخریج : عبدالرزاق ١؍٥٧٦۔

1001

۱۰۰۱ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ، عَنْ زُبَیْدٍ عَنْ مُرَّۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : کُنَّا نَرٰی أَنَّہَا الْفَجْرُ .
١٠٠١: زبید نے مرہ سے اور انھوں نے عبداللہ سے اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں علی (رض) کا یہ قول مذکور نہیں ” کنانری انہا الفجر “
تخریج : مسلم ١؍٢٢٧۔

1002

۱۰۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٠٠٢: ابو عامر نے محمد بن طلحہ سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل فرمائی۔
تخریج : مسند البزاز ٥؍٣٨٨۔

1003

۱۰۰۳ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ، قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا غَزْوًا، فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْہُ حَتّٰی مَسَا بِصَلَاۃِ الْعَصْرِ عَنِ الْوَقْتِ الَّذِیْ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْہِ) ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٠٠٣: ابو عوانہ نے ہلال بن حباب عن عکرمہ عن ابن عباس (رض) نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ کیا اس سے جب لوٹے تو عصر کا وقت نکل کر شام ہوا چاہتی تھی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : تفسیر طبری ٢؍٥٥٩۔

1004

۱۰۰۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعْدَوَیْہِ، عَنْ عَبَّادٍ، عَنْ ہِلَالٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٠٠٤: سعدویہ نے عباد سے انھوں نے ہلال سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ ابن عباس (رض) بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ نماز عصر ہے۔ پھر اس کے خلاف انہی کی روایت کس طرح قابل قبول ہوگی۔

1005

۱۰۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ الْبَغْدَادِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِیْ قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، وَسَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا صَلَاۃُ الْعَصْرِ، فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُقْبَلَ عَنْہُ مِنْ رَأْیِہٖ، وَیُخَالِفَ ذٰلِکَ .
١٠٠٥: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ خندق کا دن تھا پھر اسی طرح واقعہ نقل کیا۔
تخریج : المعجم الکبیر ١٢؍٢١۔
نوٹ : لیجئے یہ ابن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر رہے ہیں کہ صلوۃ وسطیٰ عصر ہے تو اب ان کے متعلق ان کا اپنا قول جو اس کے خلاف ہو وہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔

1006

۱۰۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُسْہِرٍ، قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ خَالِدُ بْنُ دِہْقَانَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ خَالِدٌ سَبَلَانُ عَنْ کُہَیْلِ بْنِ حَرْمَلَۃَ النَّمَرِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، أَنَّہٗ أَقْبَلَ حَتّٰی نَزَلَ دِمَشْقَ عَلٰی آلِ أَبِیْ کُلْثُمَ الدُّوْمِیِّ، فَأَتَی الْمَسْجِدَ فَجَلَسَ فِیْ غَرْبِیَّۃٍ، فَتَذَاکَرُوا الصَّلَاۃَ الْوُسْطٰی، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہَا، فَقَالَ : اخْتَلَفْنَا فِیْہَا، کَمَا اخْتَلَفْتُمْ، (وَنَحْنُ بِفِنَائِ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَفِیْنَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَبُوْ ہَاشِمِ بْنُ عُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُ لَکُمْ ذٰلِکَ، فَأَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ جَرِیًّا عَلَیْہِ، فَاسْتَأْذَنَ فَدَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَیْنَا، فَأَخْبَرَنَا أَنَّہَا صَلَاۃُ الْعَصْرِ) .
١٠٠٦: کھیل بن حرملہ نمری نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ابوہریرہ (رض) آئے یہاں تک کہ دمشق میں آل ابی کلثم دوسی کے ہاں قیام کیا پھر مسجد میں آئے اور غربی جانب بیٹھ گئے انھوں نے صلوۃ وسطیٰ کا مذاکرہ کیا اور اس کے بارے میں اختلاف کیا تو ابوہریرہ (رض) کہنے لگے ہم نے بھی اس کے متعلق اختلاف کیا جیسا تم نے اختلاف کیا ہے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے صحن میں بیٹھے تھے اور ہم میں نیک آدمی ابو ہاشم بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بھی تھا اس نے کہا میں تمہیں اس کے متعلق معلوم کئے دیتا ہوں پس وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آزادانہ بات کرلیتا تھا اس نے اجازت طلب کی ملنے پر داخل ہوا پھر نکل کر ہماری طرف آیا اور ہمیں اطلاع دی کہ وہ نماز عصر ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٧؍٣٠١‘ الثقات لابن حبان ٥؍٣٤١‘ مجمع الزواید ٢؍٥٢۔

1007

۱۰۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خُبَابٍ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ حُمَیْدٍ، عَنْ مُوْسَی بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (صَلَاۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ) .
١٠٠٧: موسیٰ بن وردان نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صلوۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔
تخریج : بیہقی ١؍٦٧٥‘ ابن خزیمہ ٢؍٢٩٠۔

1008

۱۰۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ ح .
١٠٠٨: حدثنا عفان قال حدثنا ہمام انھوں نے قتادہ سے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٨۔

1009

۱۰۰۹ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ، قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَھٰذِہٖ آثَارٌ قَدْ تَوَاتَرَتْ وَجَائَ تْ مَجِیْئًا صَحِیْحًا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الصَّلَاۃَ الْوُسْطٰی، ہِیَ الْعَصْرُ وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ أَیْضًا جُلَّۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٠٠٩: ابو عروبہ نے قتادہ سے اور انھوں نے حسن عن سمرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ آثار متواترہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت کر رہے ہیں کہ اس سے نماز عصر مراد ہے اور صحابہ کرام (رض) کی عظیم الشان جماعت نے یہ قول کیا ہے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١٩‘ نمبر ١٨٢‘ مسند احمد ٥؍٧‘ ١٢‘ ١٣۔
حاصل روایات : یہ واضح روایات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت کر رہی ہیں کہ صلوۃ وسطیٰ نماز عصر ہی ہے۔

1010

۱۰۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، قَالَ : " الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ "
١٠١٠: ابو قلابہ نے ابی بن کعب سے نقل کیا صلوۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاہ ٢؍٥٠٦۔

1011

۱۰۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، عَنْ ہَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
١٠١١: قتادہ نے حسن عن ابی سعید الخدری (رض) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1012

۱۰۱۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ أَبِیْ عَبَّادٍ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
١٠١٢: ابو اسحاق نے حارث سے اور اس نے علی (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٥٠٤۔

1013

۱۰۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ خُثَیْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ لَبِیْبَۃَ الطَّائِفِیِّ، أَنَّہٗ سَأَلَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، فَقَالَ : سَأَقْرَأُ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ، حَتَّی تَعْرِفَہَا، أَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - فِی کِتَابِہٖ (أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ) الظُّہْرُ (إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ) الْمَغْرِبُ) (وَمِنْ بَعْدِ صَلَاۃِ الْعِشَائِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَـکُمْ) الْعَتَمَۃُ وَیَقُوْلُ (إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا) [الإسرائ: ۷۸]، الصُّبْحُ، ثُمَّ قَالَ : (حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) ہِیَ الْعَصْرُ ہِیَ الْعَصْرُ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَلِمَ سُمِّیَتْ صَلَاۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃَ الْعَصْرِ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ قَالَ النَّاسُ فِیْ ھٰذَا قَوْلَیْنِ، فَقَالَ قَوْمٌ : سُمِّیَتْ بِذٰلِکَ لِأَنَّہَا بَیْنَ صَلَاتَیْنِ مِنْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ وَبَیْنَ صَلَاتَیْنِ مِنْ صَلَاۃِ النَّہَارِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٠١٣: عبدالرحمن لبیبہ الطائفی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے صلوۃ وسطیٰ کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے میں عنقریب تمہیں قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سناؤں گا تاکہ تو پہچان لے کیا اللہ نے اپنی کتاب میں نہیں فرمایا : { أَقِمْ الصَّلَاۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ } (الاسرائ : ٧٨) {إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ } (الاسرائ : ٧٨) { وَمِنْ بَعْدِ صَلَاۃِ الْعِشَائِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَکُمْ } عشاء اور فرماتے ہیں :{إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا } (الاسرائ : ٧٨) (الصبح) پھر فرمایا : { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ }(البقرہ : ٢٣٨) وہ عصر وہ عصر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ صلوۃ وسطیٰ کا نام صلوۃ عصر کیونکر رکھا گیا تو اس کے جواب میں کہیں گے لوگوں نے اس سے متعلق دو باتیں کہی ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کیونکہ یہ دو رات اور دو دن کی نمازوں کے درمیان واقع ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٥٠٦۔
صلاۃ وسطیٰ کی وجہ تسمیہ :
اس کے متعلق دو اقوال ہیں :
نمبر ١: اس کو صلوۃ وسطیٰ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دو دو نمازوں کے درمیان میں واقع ہے رات کی نمازیں اور دن کی نمازیں۔ دوسرا قول : جو روایت میں مذکور ہے۔

1014

۱۰۱۴ : مَا حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرَ، قَالَ : سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَکَمِ الْکَیْسَانِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَۃَ یَقُوْلُ : إِنَّ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، لَمَّا تِیْبَ عَلَیْہِ عِنْدَ الْفَجْرِ، صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ، وَفُدِیَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّہْرِ فَصَلّٰی اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَرْبَعًا، فَصَارَتْ الظُّہْرُ، وَبُعِثَ عُزَیْرٌ فَقِیْلَ لَہٗ کَمْ لَبِثْت؟ فَقَالَ : یَوْمًا، فَرَأَی الشَّمْسَ فَقَالَ : أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ، فَصَلّٰی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ .وَقَدْ قِیْلَ غُفِرَ لِعُزَیْرٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَغُفِرَ لِدَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، عِنْدَ الْمَغْرِبِ، فَقَامَ فَصَلّٰی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ، فَجُہِدَ فَجَلَسَ فِی الثَّالِثَۃِ، فَصَارَتَ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا .وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، نَبِیُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلِذٰلِکَ قَالُوا الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی ہِیَ صَلَاۃُ الْعَصْرِ .فَھٰذِہٖ - عِنْدَنَا - مَعْنًی صَحِیْحٌ، لِأَنَّ أَوَّلَ الصَّلَوَاتِ إِنْ کَانَتْ الصُّبْحُ، وَآخِرَہَا الْعِشَائُ الْآخِرَۃُ، فَالْوُسْطٰی فِیْمَا بَیْنَ الْأُوْلٰی وَالْآخِرَۃِ ہِیَ الْعَصْرُ، فَلِذٰلِکَ قُلْنَا : إِنَّ الصَّلَاۃَ الْوُسْطٰی، صَلَاۃُ الْعَصْرِ، وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٠١٤: ابو عبدالرحمن نے کہا آدم (علیہ السلام) کی توبہ جب فجر کے وقت قبول ہوئی تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھی پس صبح کی نماز ہوگئی اسحاق کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے چار رکعت پڑھیں پس ظہر بن گئی جب عزیز (علیہ السلام) کو کہا گیا : کم لبثت ؟ تو انھوں نے یوماً کہا پھر سورج کو دیکھ کر کہا یا دن کا بعض حصہ پس انھوں نے چار رکعت پڑھیں اس سے عصر بن گئی یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر (علیہ السلام) کی بخشش کردی گئی (تو انھوں نے چار رکعت نماز پڑھی) داؤد (علیہ السلام) کی بخشش غروب کے قریب ہوئی تو انھوں نے چار رکعت کی نیت باندھی تھک گئے تو تیسری میں بیٹھ گئے پس مغرب تین رکعت بن گئی سب سے پہلے عشاء کی نماز پڑھنے والے ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اسی وجہ سے کہا گیا کہ صلوۃ وسطیٰ وہ صلوۃ عصر ہے کتاب روضۃ العلماء لابو علی بخاری میں اس کے متعلق بہت مختلف حکایت لکھی ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے کہا کہ صلوٰۃ وسطیٰ وہی نماز عصر ہے یہ مفہوم ہمارے ہاں درست ہے۔ اگر ابتداء دن کے لحاظ سے پہلی نماز صحیح ہے اور نماز میں آخری عشاء ہے اور سب سے پہلی اور آخری کے درمیان والی وسطیٰ ہے اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ صلوۃ وسطیٰ وہی نماز عصر ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : خصائص کبرٰی سیوطی۔
ایک تنبیہ : علامہ طحاوی (رح) کو معلوم نہیں اس اسرائیلی حکایت کی کیا حاجت پڑی اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دینا تحقیق کے خلاف ہے اس روایت کے حکایت ہونے کے لیے یہ بات کافی نشانی ہے۔
اول نماز اگر صبح ہو تو آخری عشاء ہے ان کے مابین وسطیٰ نماز عصر ہی بنے گی اسی وجہ سے عصر کو وسطیٰ کہا اور اسی کو ارشادات نبوی سے بالتفصیل ثابت کیا یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) نظر نہیں لائے کبھی کبھی صاحب نظر بھی نظر نہیں کرتے اس طرح کی اسرائیلی حکایت پہلی مرتبہ کتاب میں لائے۔

1015

۱۰۱۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ : (کُنَّا نِسَائً مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ یُصَلِّیْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِہِنَّ، ثُمَّ یَرْجِعْنَ إِلٰی أَہْلِہِنَّ، وَمَا یَعْرِفُہُنَّ أَحَدٌ) .
١٠١٥: زہری نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم مؤمن عورتیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صبح کی نماز پڑھتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوتیں پھر اپنے گھر واپس لوٹتیں تو (اندھیرے کی وجہ سے سے) ان کو کوئی پہچان نہ سکتا تھا۔
اللغات : متلفعات جمع متلفعہ۔ لپٹنا ‘ مروط جمع مرط چادر۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٣‘ المواقیت باب ٣٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ٢٣٠؍٢٣١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٨‘ ترمذی فی المواقیت باب ٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٢٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢٠‘ مالک فی الصلاۃ نمبر ٤‘ مسند احمد ٦؍٣٣‘ ٣٧‘ ٢٤٧‘ بیہقی فی سنن کبرٰی ١؍٤٥٤۔
خلاصہ الزام :
نمبر ١: فجر کا مستحب وقت امام مالک و شافعی (رح) کے ہاں ابتداء و انتہا اندھیرے میں ہو۔
نمبر ٢: امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) اسفار میں ابتداء اور اسفار میں اختتام۔
نمبر ٣: امام احمد کے ہاں جس میں تکثیر جماعت ہو اندھیرا ہو یا سپیدا۔
نمبر ٤: امام طحاوی اندھیرے میں شروع کر کے سپیدے میں اختتام کرنا افضل ہے۔

1016

۱۰۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ، قَالَ : أَنَا شُعَیْبٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٠١٦: شعیب نے زہری سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍١٤٦۔

1017

۱۰۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : وَمَا یَعْرِفُ بَعْضُہُنَّ بَعْضًا مِنَ الْغَلَسِ .
١٠١٧: عبدالرحمن بن قاسم نے قاسم سے اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت اسی طرح نقل کی ہے البتہ ان الفاظ کا فرق ہے : وَمَا یَعْرِفُ بَعْضُہُنَّ بَعْضًا مِنَ الْغَلَسِ کہ وہ اندھیرے کی وجہ سے ایک دوسری کو نہ پہچانتی تھیں۔
تخریج : بخاری ‘ مسلم ‘ ابن خزیمہ ‘ نسائی ‘ ترمذی ‘ ابو داؤد بطرق مختلفۃ۔

1018

۱۰۱۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ : أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، نَحْوَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : وَمَا یُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ .
١٠١٨: عمرہ بنت عبدالرحمن نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ یہ لفظ مختلف ہیں : وَمَا یُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِکہ وہ غلس کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں)
تخریج : ابو داؤد ترمذی۔

1019

۱۰۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ، عَنْ أَبِیْہِ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الْغَدَاۃَ فَغَلَسَ بِہَا، ثُمَّ صَلَّاہَا، فَأَسْفَرَ، ثُمَّ لَمْ یَعُدْ إِلَی الْاِسْفَارِ، حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - ) .
١٠١٩: عروہ بن الزبیر کہتے ہیں مجھے بشیر بن ابی مسعود (رض) نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز غلس میں پڑھائی پھر پڑھائی تو خوب سپیدے میں پڑھائی پھر دوبارہ اسفار میں نہیں پڑھائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢‘ روایت نمبر ٣٩٤‘ ١؍٥٧۔

1020

۱۰۲۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ ح .
١٠٢٠: اوزاعی نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٤٩‘ المعرفہ بیہقی ٢؍٢٩٦۔

1021

۱۰۲۱ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ، قَالَ ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَہِیْکُ بْنُ یَرِیْمَ، عَنْ مُغِیْثِ بْنِ سُمَیٍّ أَنَّہٗ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ ابْنِ الزُّبَیْرِ الصُّبْحَ بِغَلَسٍ فَالْتَفَتَ إِلَیَّ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ : مَا ھٰذَا؟ فَقَالَ : ھٰذِہٖ صَلَاتُنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ، وَمَعَ عُمَرَ فَلَمَّا قُتِلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَسْفَرَ بِہَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
١٠٢١: مغیث بن سمی کہتے ہیں کہ میں نے ابن الزبیر کے ساتھ صبح کی نماز غلس میں پڑھی میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو مخاطب ہو کر پوچھا یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا ہماری نماز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) کے ساتھ اسی طرح تھی جب عمر (رض) شہید کردیئے گئے تو عثمان (رض) اسفار میں پڑھنے لگے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٢‘ نمبر ٦٧١۔

1022

۱۰۲۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ (أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَا : تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَی الصَّلَاۃِ .قُلْتُ کَمْ بَیْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : قَدْرُ مَا یَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِیْنَ آیَۃً) .
١٠٢٢: قتادہ نے انس بن مالک اور زید بن ثابت (رض) دونوں سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سحری کا کھانا کھایا پھر ہم نماز کے لیے نکلے میں نے پوچھا نماز اور سحری کے درمیان کتنا فاصلہ تھا تو کہنے لگے پچاس آیات کے پڑھنے کی مقدار۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١٩‘ مسلم فی الصیام نمبر ٤٧‘ ترمذی فی الصوم باب ١٤‘ نسائی فی الصیام باب ٢١‘ ٢٢‘ ابن ماجہ فی الصوم باب ٢٣‘ دارمی فی الصوم باب ٨‘ مسند احمد ٥؍١٨٢؍١٨٥‘ ١٨٦؍١٨٨۔

1023

۱۰۲۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبَاغَنْدِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مِثْلَہٗ .
١٠٢٣: قتادہ نے انس بن مالک سے اور انھوں نے زید بن ثابت سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٣٥٠‘ ترمذی ١؍١٥٠‘ نسائی ١؍٣٠٤۔

1024

۱۰۲۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَسَنٍ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ الْحَجَّاجُ جَعَلَ یُؤَخِّرُ الصَّلَاۃَ، فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الصُّبْحَ أَوْ قَالَ : کَانُوْا یُصَلُّوْنَ الصُّبْحَ بِغَلَسٍ) .
١٠٢٤: محمد بن عمرو بن حسن سے روایت ہے کہ جب سے حجاج آیا تو وہ نماز کو مؤخر کرنے لگا پس ہم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے اس بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلس میں صبح کی نماز ادا فرماتے انھوں نے یُصَلُّوْنَ الصُّبْحَ کہا یا یُصَلِّی الصُّبْحَ کہا۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١٨‘ مسلم فی المساجد نمبر ٢٣٣‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢‘ مسند احمد ٣؍٣٦٩۔

1025

۱۰۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَسَنٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانُوْا یُصَلُّوْنَ الصُّبْحَ بِغَلَسٍ .
١٠٢٥: محمد بن عمرو بن حسن نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام (رض) صبح کی نماز غلس میں پڑھتے تھے۔
تخریج : سابقہ تخریج پیش نظر رہے۔

1026

۱۰۲۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حَسَّانَ الْعَنْبَرِیُّ، قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتَایَ صَفِیَّۃُ بِنْتُ عُلَیْبَۃَ وَدُحَیْبَۃُ بِنْتُ عُلَیْبَۃَ، أَنَّہُمَا أَخْبَرَتْہُمَا قَیْلَۃُ بِنْتُ مَخْرَمَۃَ، (أَنَّہَا قَدِمَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ بِأَصْحَابِہٖ صَلَاۃَ الْفَجْرِ، وَقَدْ أُقِیْمَتْ حِیْنَ شَقَّ الْفَجْرُ وَالنُّجُوْمُ شَابِکَۃٌ فِی السَّمَائِ، وَالرِّجَالُ لَا تَکَادُ تُعَارَفُ مَعَ الظُّلْمَۃِ) .
١٠٢٦: عبداللہ بن حسان عنبری نے اپنی دادی صفیہ بنت علیبہ اور دحیبہ بنت علیبہ دونوں نے قیلہ بنت مخرمہ سے نقل کیا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں جبکہ آپ اپنے صحابہ کو نماز فجر پڑھا رہے تھے اور جب پو پھوٹی اس وقت جماعت کھڑی کی گئی جبکہ ستارے ابھی آسمان میں جال پھیلانے والے تھے اور مرد اندھیرے کی وجہ سے ایک دوسرے کو پہچان نہ سکتے تھے۔
تخریج : طبرانی معجم کبیر ٢٥؍١۔

1027

۱۰۲۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ نُصَیْرٍ قَالَا : ثَنَا قُرَّۃُ بْنُ خَالِدِ ڑالسَّدُوْسِیُّ، قَالَ : ثَنَا ضِرْغَامَۃُ بْنُ عُلَیْبَۃَ بْنِ حَرْمَلَۃَ الْعَنْبَرِیُّ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ جَدِّیْ قَالَ : (أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَکْبٍ مِنَ الْحَیِّ فَصَلّٰی بِنَا صَلَاۃَ الْغَدَاۃِ، فَانْصَرَفَ، وَمَا أَکَادُ أَنْ أَعْرِفَ وُجُوْہَ الْقَوْمِ أَیْ کَأَنَّہٗ بِغَلَسٍ) .
١٠٢٧: ضرغامہ بن علیبہ بن حرملہ عنبری کہتے ہیں میرے والد نے مجھے میرے دادا حرملہ کے حوالہ سے بتایا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک قبائلی وفد میں حاضر ہوا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز ہمیں پڑھائی پھر واپس لوٹے تو اس قدر اندھیرا تھا کہ لوگوں کے چہروں کو پہچاننے سے میں عاجز تھا۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٥؍٧۔

1028

۱۰۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْخَزَّازُ، قَالَ : ثَنَا قُرَّۃُ عَنْ ضِرْغَامَۃَ بْنِ عُلَیْبَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ، وَقَالُوْا : ھٰکَذَا یَفْعَلُ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، یُغَلِّسُ بِہَا، فَإِنَّہٗ أَفْضَلُ مِنَ الْاِسْفَارِ بِہَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلَ الْاِسْفَارُ بِہَا أَفْضَلُ مِنَ التَّغْلِیْسِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
١٠٢٨: قرہ نے ضرغامہ بن علیبہ عن ابیہ عن جدہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ لوگوں نے ان روایات کو اختیار کرتے ہوئے کہا کہ نماز فجر اسی طرح اندھیرے میں پڑھی جائے گی ‘ یہ سپیدے میں پڑھنے سے افضل ہے جبکہ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سپیدے میں پڑھنا اندھیرے میں پڑھنے سے افضل ہے ‘ ان کی مستدل یہ روایات ہیں۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍٦۔
حاصل روایات : ان چودہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کے پڑھانے کا معمول مبارک غلس میں تھا پس غلس میں پڑھانا افضل ہے۔

1029

۱۰۲۹ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ یَزِیْدَ یَقُوْلُ : حَجَّ عَبْدُ اللّٰہِ، فَأَمَرَنِیْ عَلْقَمَۃُ أَنْ أَلْزَمَہٗ .فَلَمَّا کَانَتْ لَیْلَۃُ مُزْدَلِفَۃَ، وَطَلَعَ الْفَجْرُ، قَالَ : " أَقِمْ " فَقُلْتُ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، إِنَّ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ، مَا رَأَیْتُک تُصَلِّی فِیْہَا قَطُّ .فَقَالَ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ لَا یُصَلِّیْ یَعْنِیْ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ، إِلَّا ھٰذِہِ السَّاعَۃَ فِیْ ھٰذَا الْمَکَانِ، مِنْ ھٰذَا الْیَوْمِ .قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : ہُمَا صَلَاتَانِ تُحَوَّلَانِ عَنْ وَقْتِہِمَا، صَلَاۃُ الْمَغْرِبِ بَعْدَمَا یَأْتِی النَّاسُ مِنْ مُزْدَلِفَۃَ، وَصَلَاۃُ الْغَدَاۃِ، حِیْنَ یَنْزِعُ الْفَجْرُ، رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ) .
١٠٢٩: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ نے حج کیا مجھے علقمہ نے حکم دیا کہ میں ان کے ساتھ رہوں جب مزدلفہ کی رات آئی اور فجر طلوع ہوئی تو فرمانے لگے اقامت کہو میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن اس وقت میں تو میں نے آپ کو کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نماز اس وقت اس جگہ آج کے دن اسی وقت میں پڑھتے تھے عبداللہ کہنے لگے یہ دو نمازیں اپنے وقت سے پھیر دی گئی ہیں ایک نماز مغرب ہے جبکہ لوگ مزدلفہ پہنچ جائیں اور دوسری نماز فجر جبکہ پو پھوٹے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا ہی کرتے پایا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٧؍٩٩‘ نسائی فی المناسک باب ٢٠٧۔

1030

۱۰۳۰ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی مَکَّۃَ، فَصَلَّی الْفَجْرَ یَوْمَ النَّحْرِ، حِیْنَ سَطَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ ہَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ تُحَوَّلَانِ عَنْ وَقْتِہِمَا فِیْ ھٰذَا الْمَکَانِ، الْمَغْرِبَ، وَصَلَاۃَ الْفَجْرِ، ھٰذِہِ السَّاعَۃَ) .
١٠٣٠: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ مکہ کی طرف نکلا انھوں نے یوم نحر کی فجر اس وقت ادا کرلی جونہی پو پھوٹی پھر فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ دو نمازیں اپنے وقت سے پھیر دی گئیں مگر صرف اسی مقام میں ایک مغرب اور دوسری فجر جو اس وقت کی نماز ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٩٧۔

1031

۱۰۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِیِّ، قَالَ : ثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَمُرَۃَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ (أَبُوْ طَرِیْفٍ، أَنَّہٗ کَانَ شَاہِدًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِصْنَ الطَّائِفِ، فَکَانَ یُصَلِّیْ بِنَا صَلَاۃَ الْبَصِیْرِ حَتّٰی لَوْ أَنَّ إِنْسَانًا رَمٰی بِنَبْلِہٖ أَبْصَرَ مَوَاقِعَ نَبْلِہٖ) .
١٠٣١: ولید بن عبداللہ بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے ابوطریف (رض) نے بیان کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طائف کے محاصرہ میں شامل تھا آپ ہمیں ایسے اسفار میں نماز پڑھاتے کہ اگر کوئی تیر پھینکے تو وہ اپنے تیر کے لگنے کے مقامات کو دیکھ سکتا تھا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤١٦۔

1032

۱۰۳۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْل : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤَخِّرُ الْفَجْرَ کَاسْمِہَا) .
١٠٣٢: عبداللہ بن محمد بن عقیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کو اس کے نام کی طرح مؤخر فرماتے تھے۔
تخریج : مصنفقہ ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٠۔

1033

۱۰۳۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا عَوْفٌ عَنْ سَیَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ، قَالَ : (دَخَلْتُ مَعَ أَبِیْ عَلٰی أَبِیْ بَرْزَۃَ فَسَأَلَہٗ أَبِیْ عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : کَانَ یَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَالرَّجُلُ یَعْرِفُ وَجْہَ جَلِیْسِہٖ، وَکَانَ یَقْرَأُ فِیْہَا بِالسِّتِّیْنَ إِلَی الْمِائَۃِ) .قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا یَدُلُّ عَلٰی تَأْخِیْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہَا، وَعَلٰی تَنْوِیْرِہٖ بِہَا، وَفِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ صَلَاۃَ الصُّبْحِ فِیْ خِلَافِ الْوَقْتِ الَّذِیْ یُصَلِّیْ فِیْہِ بِمُزْدَلِفَۃَ، وَأَنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ تُحَوَّلُ عَنْ وَقْتِہَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، وَلَا فِیْمَا تَقَدَّمَہَا، دَلِیْلٌ عَلَی الْأَفْضَلِ مِنْ ذٰلِکَ مَا ہُوَ؟ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ فَعَلَ شَیْئًا، وَغَیْرُہٗ أَفْضَلُ مِنْہُ، عَلَی التَّوْسِعَۃِ مِنْہُ عَلٰی أُمَّتِہٖ، کَمَا تَوَضَّأَ مَرَّۃً مَرَّۃً، وَکَانَ وُضُوْئُ ہٗ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا رُوِیَ عَنْہُ سِوٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ، ہَلْ فِیْہَا مَا یَدُلُّ عَلَی الْفَضْلِ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ؟
١٠٣٣: سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ابو برزہ (رض) کے پاس گیا ان سے میرے والد نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے سلسلہ میں دریافت کیا تو کہنے لگے جب آپ صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کے چہرے کو پہچانتا تھا آپ نماز فجر میں ساٹھ سے سو تک آیات کی تلاوت فرماتے۔ انھوں نے کہا ان روایات میں ایسی دلالت موجود ہے جو آپ کے خوب روشنی میں پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں ہے کہ وہ تمام دنوں میں نماز صبح اس نماز سے مختلف وقت میں پڑھتے جو مزدلفہ میں پڑھی جاتی ہے اور فرماتے کہ یہ نماز اپنے وقت سے ہٹائی گئی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان روایات میں اور ان سے پہلی روایات میں افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ یہ کہنا درست ہے کہ آپ نے کوئی فعل امت پر وسعت کے لیے کیا ہو اور دوسرا فعل اس سے افضل ہو جیسا کہ آپ نے ایک ایک مرتبہ اعضاء کو وضو میں دھویا حالانکہ تین دفعہ اعضاء کو وضو میں دھونا افضل ہے ‘ اسی بات کے پیش نظر ہم نے یہ چاہا کہ ان کے علاوہ آثار پر نظر ڈالیں کہ کیا کوئی ایسے آثار پائے جاتے ہیں جو فضیلت پر دلالت کرنے والے چنانچہ یہ روایات مل گئیں۔
تخریج : بخاری فی مواقیت الصلاۃ باب ١٣‘ مسلم فی المساجد و مواضع الصلاۃ نمبر ٢٣٥۔
حاصل روایات : یہ آثار صاف دلالت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاخیر سے نماز فجر ادا فرماتے تھے اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت تو خاص طور پر ظاہر کر رہی ہے تمام ایام میں فجر ایسے وقت میں ادا فرماتے کہ مزدلفہ میں اس کے خلاف ادا فرماتے تھے اور عبداللہ کہتے ہیں کہ یہ دو نمازیں اپنے وقت سے ہٹا دی گئی ہیں پس اس سے ثابت ہوا کہ مزدلفہ کی صبح کے علاوہ نماز فجر کو چاندنے میں پڑھنا افضل ہے۔
قال ابو جعفر سے امام طحاوی (رح) کا محاکمہ :
ان آثار میں اور ان سے پہلے غلس کے سلسلہ میں مروی آثار میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ان میں کون سی افضل ہے بس اس قدر ثابت ہے کہ غلس میں نماز ادا فرمائی اور اسفار میں بھی نماز ادا فرمائی کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ نے کسی فعل کو بیان جواز کے لیے کیا اور دوسرا فعل اس سے افضل ہو جیسا کہ ایک ایک مرتبہ اور دو دو مرتبہ وضو کرنا توسع کے لیے تھا جبکہ تین مرتبہ کرنا افضل فعل تھا۔
فاردنا ان ننظر سے ایسے آثار کی نشان دہی کریں گے جو افضلیت پر دلالت کرنے والے ہوں چنانچہ ایسے آثار مل گئے جو اسفار کی افضلیت پر دلالت کرتے ہیں۔

1034

۱۰۳۴ : فَإِذَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ، عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ فَکُلَّمَا أَسْفَرْتُمْ، فَہُوَ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ، وَقَالَ : لِأُجُوْرِکُمْ)
١٠٣٤: محمود بن لبید نے رافع بن خدیج (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسفروا بالفجر الحدیث کہ فجر کو اسفار میں پڑھا کرو جب بھی تم اسفار کرو گے تو وہ اجر میں اضافہ کا باعث ہے ایک روایت میں اجر کی بجائے اجور کا لفظ ہے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٣‘ نمبر ١٥٤‘ نسائی فی المواقیت باب ٢٧‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢١‘ مسند احمد ٥؍٤٢٩۔

1035

۱۰۳۵ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ قَوْمِہٖ مِنَ الْأَنْصَارِ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالُوْا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (أَصْبِحُوْا بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَمَا أَصْبَحْتُمْ بِہَا فَہُوَ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ) .
١٠٣٥: زید بن اسلم نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے نقل کیا کہ انھوں نے قوم انصار میں سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز فجر کو صبح کر کے پڑھو جتنا روشن کر کے پڑھو گے اتنا ہی وہ اجر کو بڑھائے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٨‘ نمبر ٤٢٤‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٢‘ نمبر ٦٧٢‘ مسند احمد ٣؍٤٦٥‘ ٤؍١٤٠۔

1036

۱۰۳۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ .عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ، عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (نَوِّرُوْا بِالْفَجْرِ فَإِنَّہٗ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ) .
١٠٣٦: محمود بن لبید نے رافع بن خدیج (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فجر کو روشن کرو یہ اجر میں اضافہ کا باعث ہے۔
تخریج : دارمی فی الصلاۃ باب ٢١۔

1037

۱۰۳۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ قَوْمِہٖ مِنَ الْأَنْصَارِ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْا : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَصْبِحُوْا بِالصُّبْحِ، فَکُلَّمَا أَصْبَحْتُمْ بِہَا فَہُوَ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ)
١٠٣٧: زید بن اسلم نے عاصم بن عمر سے انھوں نے اپنی قوم انصار کے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فجر کی نماز روشن کرو جتنا روشن کرو گے اتنا ہی تمہارا اجر بڑھ جائے گا۔
تخریج : تخریج ١٠٣٥ کو ملاحظہ کریں۔

1038

۱۰۳۸ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إدْرِیْسَ بْنِ الْحَجَّاجِ، قَالَ : ثَنَا آدَمُ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ دَاوٗدَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (نَوِّرُوْا بِالْفَجْرِ فَإِنَّہٗ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ) .
١٠٣٨: محمود بن لبید نے رافع بن خدیج سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فجر کو منور کیا کرو پس وہ منور کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے۔
تخریج : تخریج ١٠٣٦ کو پیش نظر رکھو۔

1039

۱۰۳۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ، قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سَیَّارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ، عَنْ بِلَالٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْاِخْبَارُ عَنْ مَوْضِعِ الْفَضْلِ، وَأَنَّہُ التَّنْوِیْرُ بِالْفَجْرِ .وَفِی الْآثَارِ الْأُوَلِ الَّتِیْ فِی الْفَصْلَیْنِ الْأَوَّلَیْنِ، الْاِخْبَارُ عَنِ الْوَقْتِ الَّذِیْ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَیُّ وَقْتٍ ہُوَ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ، کَانَ مَرَّۃً یُغَلِّسُ، وَمَرَّۃً یُسْفِرُ عَلَی التَّوْسِعَۃِ .وَالْأَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ مَا بَیَّنَہٗ فِیْ حَدِیْثِ رَافِعٍ، حَتّٰی لَا تَتَضَادَّ الْآثَارُ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .فَھٰذَا وَجْہُ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَمَّنْ بَعْدَہٗ فِیْ ذٰلِکَ۔فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ خُزَیْمَۃَ۔
١٠٣٩: محمد بن المنکدر نے جابر سے اور انھوں نے حضرت ابوبکر الصدیق (رض) سے اور انھوں نے حضرت بلال (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان روایات میں فضیلت کا موقع بتلایا گیا اور وہ فجر کی خوب روشنی ہے پہلی دونوں فصلوں کی روایات میں صرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس وقت کو بتلایا گیا ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے تھے۔ پس یہ کہنا درست ہے کہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندھیرے میں پڑھتے اور کبھی امت پر وسعت کے لیے کبھی خوب سپیدے میں پڑھتے ‘ فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث حدیث رافع ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی آثار میں تضاد نہ رہے۔ روایات کے لحاظ سے اس باب کی یہی صورت ہے ‘ تابعین (رح) کے اقوال آ رہے ہیں۔
تخریج : بیہقی فی دلائل النبوۃ ٦؍٢٢٤۔
حاصل روایات : ان چھ روایات سے فجر کے اسفار میں پڑھنے کی افضلیت ثابت ہو رہی ہے اب رہی غلس اور اسفار والی مطلق روایات تو اس میں نماز کے مطلق وقت کو ذکر کیا گیا ہے کہ ان میں سے جس میں پڑھ لیا جائے درست ہے جیسا کہ فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ثبوت مل رہا ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امت پر وسعت کے لیے بھی آپ غلس اور کبھی اسفار میں نماز ادا فرماتے تھے۔ اور افضل دونوں میں سے وہی ہے جس کو حدیث رافع بن خدیج میں ذکر کیا گیا ہے اس سے آثار میں تضاد کی گنجائش نہیں رہتی۔

1040

۱۰۴۰ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ، قَالَ : ثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : سَمِعْتُ مَنْصُوْرَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ یُحَدِّثُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ، عَنْ قُرَّۃَ بْنِ حَیَّانَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ : تَسَحَّرْنَا مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ السُّحُوْرِ، أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ، فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ، وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی وَقْتِ خُرُوْجِہٖ مِنْہَا أَیُّ وَقْتٍ کَانَ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَطَالَ فِیْہَا الْقِرَائَ ۃَ فَأَدْرَکَ التَّغْلِیْسَ وَالتَّنْوِیْرَ جَمِیْعًا، وَذٰلِکَ عِنْدَنَا حَسَنٌ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ ہَلْ رُوِیَ عَنْہُ مَا یَدُلُّ عَلَی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ۔
١٠٤٠: قرہ بن حیان بن الحارث کہتے ہیں ہم نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے ساتھ سحری کھائی ‘ جب سحری سے فارغ ہوئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے (اذان کہی) پھر نماز کی امامت کرائی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ حضرت علی (رض) طلوعِ فجر کے وقت نماز میں داخل ہوتے۔ اس روایت میں آپ کے نماز سے نکلنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ‘ ممکن ہے کہ آپ قراءت کو لمبا کرتے ہوں اور اندھیرے اور روشنی کے دونوں اوقات کو پالیتے ہوں۔ ہمارے نزدیک یہ بہترین بات ہے اب ہم ایسے آثار پیش کرتے ہیں جو اس پر دلالت کریں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢٧٦‘ بیہقی ١؍٥٦٣۔ الجواب نمبر ١: اس حدیث میں تو اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے نماز غلس میں شروع فرمائی نماز کی فراغت کا اس میں تذکرہ نہیں پھر غلس کی افضلیت پر دلیل نہیں بن سکتی۔ قدیحتمل ان یکون سے امام طحاوی (رح) نے اپنا مؤقف شروع کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں یہ عین ممکن ہے کہ غلس میں نماز میں داخل ہوئے اور طویل قراءت فرمائی اور روشنی میں فارغ ہوئے اور اس کے لیے یہ روایت دلیل ہے جس کو ابو بشرالرقی نے نقل کیا ہے۔

1041

۱۰۴۱ : فَإِذَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ : عَنْ دَاوٗدَ بْنِ یَزِیْدَ الْأَوْدِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُصَلِّیْ بِنَا الْفَجْرَ، وَنَحْنُ نَتَرَائَ ی الشَّمْسَ، مَخَافَۃَ أَنْ تَکُوْنَ قَدْ طَلَعَتْ .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یُخْبِرُ عَنِ انْصِرَافِہٖ أَنَّہٗ کَانَ فِیْ حَالِ التَّنْوِیْرِ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ الْأَمْرِ بِالْاِسْفَارِ ۔
١٠٤١: داؤد بن یزید الاودی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) فجر کی نماز پڑھاتے اور ہم سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے کہ کہیں وہ تو طلوع نہیں ہوگیا۔ اس روایت میں آپ (رض) کے نماز سے لوٹنے کا وقت بتلایا گیا کہ وہ خوب روشنی کا وقت ہے اس سے ہماری بات پر دلالت مل گئی اور بعض روایات میں تو آپ (رض) سے اسفار کا حکم دینا بھی ثابت ہوتا ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : تفسیر طبری۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نماز سے خوب روشنی میں فارغ ہوتے اور یہ چیز تو ہمارے ہاں بھی افضل ہے اسفار کی روایات اور بھی وارد ہیں۔

1042

۱۰۴۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیْعَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : یَا قَنْبَرُ أَسْفِرْ أَسْفِرْ۔
١٠٤٢: علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو فرماتے سنا اے قنبر اسفار کرو اسفار کرو۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٥٦٩۔

1043

۱۰۴۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : أَنَا سَیْفُ بْنُ ہَارُوْنَ الْبُرْجُمِیُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَلْعِ ڑ الْہَمْدَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُنَوِّرُ بِالْفَجْرِ أَحْیَانًا، وَیُغَلِّسُ بِہَا أَحْیَانًا .فَیُحْتَمَلُ تَغْلِیْسُہٗ بِہَا أَنْ یَکُوْنَ تَغْلِیْسًا یُدْرِکُ بِہِ الْاِسْفَارَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلُ ذٰلِکَ .
١٠٤٣: عبد خیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کبھی تو فجر کو خوب روشنی میں ادا فرماتے اور کبھی غلس میں ادا کرتے۔ پس یہ قوی احتمال ہوا کہ تغلیس کو آپ اس لیے اختیار فرماتے تاکہ اس سے اسفار کو پائیں اور یہ فقط انہی کا طرز عمل نہیں بلکہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کا بھی طرز عمل تھا ان کے متعلق روایات ملاحظہ ہوں۔ آپ کے اندھیرے میں نماز پڑھنے کے متعلق یہ احتمال ہے کہ وہ ایسا اندھیرا ہو جس میں آپ سپیدے کو پالیتے اور حضرت عمر (رض) کا عمل بھی اسی طرح مروی ہے ‘ جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

1044

۱۰۴۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : أَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ، عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُنَوِّرُ بِالْفَجْرِ وَیُغَلِّسُ وَیُصَلِّیْ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ، وَیَقْرَأُ بِسُوْرَۃِ یُوْسُفَ وَیُوْنُسَ، وَقِصَارِ الْمَثَانِیْ وَالْمُفَصَّلِ .وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْہُ آثَارٌ مُتَوَاتِرَۃٌ، تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاتِہٖ مُسْفِرًا .
١٠٤٤: خرشہ بن الحر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) فجر کو روشن فرماتے اور غلس کرتے اور اس کے مابین پڑھتے آپ کی قراءت سورة یوسف ‘ یونس اور قصار مفصل اور مثانی ہوتی تھیں۔ آپ سے ایسے آثار منقول ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ سپیدے میں مسجد سے لوٹتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٢۔
آپ کے متعلق متواتر روایات سے وارد ہے کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوتے تو خوب چاندنا ہوتا چند روایات یہاں ذکر کی جائیں گی۔
اصطلاحات قرآنی :
سبع طوال ابتدائی سات بڑی سورتوں کو کہا جاتا ہے مئین مائۃ کی جمع ہے یہ سو یا اس سے زائد آیات والی گیارہ سورتوں کو کہا جاتا ہے المثانی ان کے بعد بیس سورتوں کو مثانی کہا جاتا ہے یہ سورة حجرات تک کل اڑتیس سورتیں ہوئیں۔
مفصلات : حجرات سے آخر قرآن تک سورتوں کو مفصلات سے تعبیر کرتے ہیں۔
! حجرات سے بروج ۔ " اوساط مفصل بروج سے لم یکن تک ۔# قصار مفصل لم یکن سے قصار مفصل کہلاتی ہیں۔

1045

۱۰۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ یَقُوْلُ صَلَّیْنَا وَرَائَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَرَأَ فِیْہَا بِسُوْرَۃِ یُوْسُفَ وَسُوْرَۃِ الْحَجِّ، قِرَائَ ۃً بَطِیْئَۃً، فَقُلْتُ : وَاللّٰہِ اِذًا لَقَدْ کَانَ یَقُوْمُ حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ، قَالَ : أَجَلْ.
١٠٤٥: عبداللہ بن عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر (رض) کے پیچھے نماز صبح ادا کی انھوں نے سورة یوسف اور سورة حج تلاوت کی ان کی قراءت ترتیل سے ہوتی تھی میں نے کہا پھر تو وہ اس وقت کھڑے ہوتے ہوں گے جب فجر طلوع ہوتا ہوگا کہنے لگے جی ہاں ایسا ہی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٣؍٣٥٤۔

1046

۱۰۴۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنِ ابْنِ بِنَذْرِ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ یَزِیْدَ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ الصُّبْحَ، فَقَرَأَ فِیْہَا بِالْبَقَرَۃِ، فَلَمَّا انْصَرَفُوْا اسْتَشْرَفُوا الشَّمْسَ فَقَالُوْا " طَلَعَتْ " فَقَالَ : لَوْ طَلَعَتْ لَمْ تَجِدْنَا غَافِلِیْنَ " .
١٠٤٦: محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید کو کہتے سنا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے پیچھے نماز فجر ادا کی تو انھوں نے اس میں سورة بقرہ کی تلاوت کی جب نماز سے لوٹے تو انھوں نے سورج کو طلوع کے قریب پایا تو کہنے والوں نے کہا سورج طلوع ہوگیا تو آپ نے فرمایا اگر وہ طلوع ہوجاتا تو ہمیں غافل نہ پاتا۔

1047

۱۰۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ فَقَرَأَ " بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَالْکَہْفَ " حَتّٰی جَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلٰی جُدُرِ الْمَسْجِدِ طَلَعَتِ الشَّمْسُ .
١٠٤٧: زید بن وہب کہتے ہیں کہ ہمیں عمر (رض) نے نماز صبح پڑھائی اور اس میں سورة بنی اسرائیل اور کہف پڑھیں یہاں تک کہ میں مسجد کی دیواروں کی طرف دیکھنے لگا کہ شاید سورج طلوع ہوگیا ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٣ تفسیر طبری۔

1048

۱۰۴۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَیْسَرَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ قَرَأَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ بِالْکَہْفِ وَبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ .
١٠٤٨: زید بن وہب کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے صبح کی نماز میں سورة کہف و بنی اسرائیل تلاوت فرمائی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣١٠۔

1049

۱۰۴۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَرَأَ فِی الصُّبْحِ بِسُوْرَۃِ الْکَہْفِ، وَسُوْرَۃِ یُوْسُفَ .
١٠٤٩: عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے صبح کی نماز میں سورة کہف و یوسف کی تلاوت فرمائی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣١٠۔

1050

۱۰۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا بُدَیْلُ بْنُ مَیْسَرَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ قَالَ : صَلّٰی بِنَا الْأَحْنَفُ بْنُ قَیْسٍ صَلَاۃَ الصُّبْحِ بِعَاقُوْلِ الْکُوْفَۃِ فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی الْکَہْفَ، وَالثَّانِیَۃِ بِسُوْرَۃِ یُوْسُفَ .قَالَ وَصَلّٰی بِنَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَرَأَ بِہِمَا فِیْہِمَا .
١٠٥٠: عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ حضرت احنف بن قیس (رض) نے عاقول کوفہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی تو پہلی رکعت میں سورة کہف اور دوسری میں سورة یوسف تلاوت کی اور کہنے لگے ہمیں حضرت عمر (رض) نے صبح کی نماز پڑھائی تو انھوں نے اس میں یہی دو سورتیں پڑھیں۔
تخریج : ابی ابی شیبہ ١؍٣١٠۔

1051

۱۰۵۱ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِمَکَّۃَ صَلَاۃَ الْفَجْرِ، فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی بِیُوْسُفَ، حَتّٰی بَلَغَ (وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ) [یوسف: ۸۴] ثُمَّ رَکَعَ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ بِالنَّجْمِ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ (اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَہَا)[الزلزلۃ :۱۱] وَرَفَعَ صَوْتَہٗ بِالْقِرَائَ ۃِ حَتّٰی لَوْ کَانَ فِی الْوَادِیْ أَحَدٌ لَأَسْمَعَہٗ۔
١٠٥١: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مکہ میں نماز فجر پڑھائی اور پہلی رکعت میں سورة یوسف پڑھی جب اس آیت پر پہنچے : { وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ } [یوسف ٨٤] پھر رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے اور دوسری رکعت میں سورة نجم پڑھی اور سجدہ کیا پھر کھڑے ہوئے پھر اِذَا زُلْزِلَتَ الْأَرْضُ [الزلزال ] پڑھی اور آواز کو اس قدر بلند کیا یہاں تک کہ اگر کوئی وادی مکہ میں ہوتا تو ضرور اس آواز کو سن پاتا۔

1052

۱۰۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْفَجْرَ فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی بِیُوْسُفَ، وَفِی الثَّانِیَۃِ ۱بِالنَّجْمِ، فَسَجَدَ .
١٠٥٢: ابراہیم تیمی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی آپ نے پہلی رکعت میں سورة یوسف پڑھی اور دوسری میں سورة نجم پڑھی اور سجدہ کیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٥‘ عبدالرزاق ٢؍١١٦۔

1053

۱۰۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ یُحَدِّثُ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ سَبْرَۃَ، قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا رُوِیَ مَا ذَکَرْنَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ قِرَائَ تَہُ تِلْکَ کَانَتْ قِرَائَ ۃً بَطِیْئَۃً لَمْ نَرَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنْ یَکُوْنَ دُخُوْلُہٗ فِیْہَا کَانَ إِلَّا بِغَلَسٍ، وَلَا خُرُوْجُہٗ کَانَ مِنْہَا إِلَّا وَقَدْ أَسْفَرَ إِسْفَارًا شَدِیْدًا .وَکَذٰلِکَ کَانَ یَکْتُبُ إِلٰی عُمَّالِہٖ.
١٠٥٣: ابراہیم تیمی نے حصین بن سبرہ سے روایت نقل کی ہے کہ ہمیں حضرت عمر (رض) نے نماز پڑھائی اور پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جب حضرت عمر (رض) سے یہ روایات نقل ہوئیں اور عبداللہ بن عامر (رض) کی روایت میں ہے کہ آپ (رض) ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتے ‘ ہمارے نزدیک آپ (رض) اندھیرے میں نماز شروع کرتے اور نہایت سپیدے میں اس سے فارغ ہوتے اور اپنے عمال کو بھی یہی لکھتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣١٢۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ نماز صبح میں طویل قراءت فرماتے سورة یوسف کہف اکثر پڑھتے اور عبداللہ بن عامر کی روایت سے قراءت کی کیفیت بھی ظاہر ہوگئی کہ ترتیل سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اتنی طویل قراءت تب ہوسکتی ہے جب کہ غلس میں شروع کر کے اسفار میں نماز کو ختم کیا جائے اس مسلسل فعل سے ثابت ہوا کہ افضل یہی ہے تبھی آپ نے اس کو معمول بنایا اور اس پر واضح دلالت معلوم کرنی ہو تو وہ بھی یہی ثابت ہوگی آپ اپنے عمال کی طرف یہ لکھتے تھے۔

1054

۱۰۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ عَنِ الْمُہَاجِرِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلٰی أَبِیْ مُوْسٰی (أَنْ صَلِّ الْفَجْرَ) بِسَوَادٍ أَوْ قَالَ " بِغَلَسٍ " وَأَطِلِ الْقِرَائَ ۃَ .
١٠٥٤: محمد بن سیرین نے مہاجر سے نقل کیا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو موسیٰ (رض) کو لکھا کہ فجر کی نماز غلس میں پڑھو اور قراءت طویل کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٠۔

1055

۱۰۵۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْمُہَاجِرِ، عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .أَفَلَا تَرَاہُ یَأْمُرُہُمْ أَنْ یَکُوْنَ دُخُوْلُہُمْ فِیْہَا بِغَلَسٍ، وَأَنْ یُطِیْلُوا الْقِرَائَ ۃَ فَکَذٰلِکَ عِنْدَنَا، أَرَادَ مِنْہُ أَنْ یُدْرِکُوا الْاِسْفَارَ وَکَذٰلِکَ کُلُّ مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ھٰذَا شَیْئًا سِوٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْمَذْہَبِ أَیْضًا.
١٠٥٥: یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ہمیں ابن عون نے بتلایا اور انھوں نے محمد بن سیرین سے انھوں نے مہاجر سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح نقل فرمایا۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ آپ ان کو اندھیرے میں نماز شروع کرنے کا حکم دیتے اور قراءت کو لمبا کرنے کے لیے کہتے۔ ہمارے ہاں آپ کا مقصد یہی تھا کہ وہ سپیدے کو پالیں۔ اسی طرح وہ تمام حضرات جن کے بارے میں ہم نے کوئی روایت کی ہے سوائے عمر (رض) کے کہ وہ اس راہ پر بہت دور جاتے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٥٧٠۔
تا ٔثر :
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز میں منہ اندھیرے میں داخل ہوتے اور قراءت کو طویل کرتے تاکہ اسفار کو پاسکیں عمر (رض) کے علاوہ بھی جن صحابہ (رض) سے ہم نے روایت لی ہے ان کا یہی مقصود تھا روایات ابوبکر (رض) ملاحظہ ہوں۔

1056

۱۰۵۶ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی بِنَا أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَرَأَ بِسُوْرَۃِ " آلِ عِمْرَانَ " فَقَالُوْا قَدْ کَادَتِ الشَّمْسُ تَطْلُعُ فَقَالَ : لَوْ طَلَعَتْ لَمْ تَجِدْنَا غَافِلِیْنَ۔
١٠٥٦: قتادہ نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں حضرت ابوبکر (رض) نے نماز صبح پڑھائی اور اس میں سورة آل عمران پڑھی لوگوں نے کہا قریب تھا کہ سورج طلوع ہوجاتا تو آپ نے فرمایا اگر وہ طلوع ہوجاتا تو ہمیں غفلت میں نہ پاتا۔
تخریج : مصنفقہ ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٣۔

1057

۱۰۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَیْدِیِّ، قَالَ صَلّٰی بِنَا أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَرَأَ بِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ جَمِیْعًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " کَادَتِ الشَّمْسُ تَطْلُعُ " فَقَالَ : " لَوْ طَلَعَتْ لَمْ تَجِدْنَا غَافِلِیْنَ " .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَھٰذَا أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ دَخَلَ فِیْہَا فِیْ وَقْتِ غَیْرِ الْاِسْفَارِ، ثُمَّ مَدَّ الْقِرَائَ ۃَ فِیْہَا، حَتّٰی خِیْفَ عَلَیْہِ طُلُوْعُ الشَّمْسِ .وَھٰذَا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبِقُرْبِ عَہْدِہِمْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبِفِعْلِہٖ، لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مُتَابَعَتِہِمْ لَہٗ .ثُمَّ فَعَلَ ذٰلِکَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ بَعْدِہٖ، فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مَنْ حَضَرَہٗ مِنْہُمْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ھٰکَذَا یُفْعَلُ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، وَأَنَّ مَا عَلِمُوْا مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَغَیْرُ مُخَالِفٍ لِذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَمَا مَعْنٰی قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، لِمُغِیْثِ بْنِ سُمَیٍّ لَمَّا غَلَّسَ بِالْفَجْرِ ھٰذِہٖ صَلَاتُنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَمَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلِمَا قُتِلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَسْفَرَ بِہَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .قِیْلَ لَہٗ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ وَقْتَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا، لَا وَقْتَ الْخُرُوْجِ مِنْہَا، حَتّٰی یَتَّفِقَ ذٰلِکَ وَمَا رَوَیْنَا قَبْلَہٗ، وَیَکُوْنُ قَوْلُہٗ " ثُمَّ أَسْفَرَ بِہَا عُثْمَانُ " أَیْ لِیَکُوْنَ خُرُوْجُہُمْ فِیْ وَقْتٍ یَأْمَنُوْنَ فِیْہِ وَلَا یَخَافُوْنَ فِیْہِ أَنْ یُغْتَالُوْا کَمَا اُغْتِیْلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا مَا یَدُلُّ أَنَّہٗ کَانَ یَدْخُلُ فِیْہَا بِسَوَادٍ لِاِطَالَتِہِ الْقِرَائَ ۃَ فِیْہَا .
١٠٥٧: عبداللہ بن حارث بن جزء الزبیدی کہتے ہیں ہمیں حضرت ابوبکر (رض) نے نماز صبح پڑھائی تو آپ نے دو رکعتوں میں مکمل سورة بقرہ پڑھی جب نماز سے واپس لوٹے تو حضرت عمر (رض) نے ان سے کہا قریب تھا کہ سورج طلوع ہوجاتا تو انھوں نے جواب دیا اگر وہ طلوع ہوجاتا تو ہمیں غافل نہ پاتا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ حضرت صدیق (رض) نے اندھیرے میں نماز کو شروع کیا پھر قراءت کو طویل کیا یہاں تک کہ آفتاب کے طلوع ہونے کا خطرہ ہوگیا یہ سب عمل اصحاب رسول کی موجودگی میں ہوا جبکہ ابھی انھوں نے عہد نبوت کو پایا اور کسی انکار کرنے والے نے بھی ان کی اس بات سے انکار نہیں کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سچی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر عمر فاروق (رض) نے ان کے بعد ایسا کیا اور حاضرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نماز فجر میں اسی طرح کیا جاتا تھا۔ رہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل تو وہ اس کے خلاف نہیں اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ پھر مغیث ابن سمیر کو ابن عمر (رض) نے اس وقت فرمایا جب انھوں نے فجر کو اندھیرے کے اندر ادا کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر اور عمر (رض) کے ساتھ ہماری نماز اسی طرح تھی جب حضرت عمر (رض) شہید کردیئے گئے تو حضرت عثمان (رض) نے اس کو سپیدے میں شروع فرمایا تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس بات کا بالکل احتمال ہے کہ اس سے داخل ہونے کا وقت مراد ہو نکلنے کا وقت مراد نہ ہو تاکہ روایات کا مفہوم ان روایات سے متفق ہوجائے جو اس سے پہلے ہم نے روایت کی ہیں پھر ان کا قول : ” ثم اسفر بھا عثمان “ یعنی تاکہ ان کا نکلنا ایسے وقت میں ہو جس میں امن و سکون ہو اور دھوکے سے حملہ کا خطرہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عمرفاروق (رض) کو دھوکا سے شہید کیا گیا اور حضرت عثمان (رض) سے بھی ایسے ارشادات مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ اندھیرے میں اس میں داخل ہوئے۔
امام ابو جعفر کہتے ہیں :
یہ ابوبکر (رض) کا طرز عمل ہے کہ نماز میں اسفار کے علاوہ وقت میں داخل ہوئے پھر قراءت کو طویل کیا یہاں تک کہ طلوع آفتاب کا خطرہ ہوگیا یہ طرز عمل صحابہ کرام کی موجودگی میں تھا اور ان کا زمانہ نبوت سے بالکل قریب تھا ان پر کسی کا نکیر نہ کرنا جہاں ان کی متابعت کی دلیل ہے وہاں اس بات کی درستگی کی واضح نشانی ہے جس کی عملی تصدیق ان کا اس فعل کو اختیار کرنا ہے لیجئے یہ عمر (رض) نے ان کے عمل کی پیروی کی اور کسی نے نکیر نہیں کی پس اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نماز فجر کے متعلق ان کا یہ فعل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل ہے اور اس کے خلاف نہیں ورنہ وہ لازماً اس پر نکیر کرتے۔
اشکال :
فان قال قائل سے ایک اشکال کا جواب دیتے ہیں۔
پہلے روایت غلس کے سلسلہ میں گزرا کہ عبداللہ بن زبیر (رض) نے غلس میں نماز پڑھائی تو مغیث بن سمی نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ غلس میں نماز پڑھنا کہاں سے ثابت ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے ساتھ اسی وقت نماز پڑھی جاتی تھی جب فاروق (رض) کو شہید کردیا گیا تو حضرت عثمان (رض) نے اسفار میں نماز شروع کردی معلوم ہوا کہ حضرت عثمان (رض) سے پہلے نماز غلس میں پڑھی جاتی تھی۔

الجواب عن الطحاوی (رح) :
قیل لہ سے جواب ہے کہ ابن عمر (رض) نے مغیث کو جو جواب دیا ممکن ہے کہ اس سے نماز کی ابتداء مراد ہو ‘ اختتام مراد نہ ہو تاکہ پہلی روایات کے ساتھ یہ روایت موافق ہوجائے۔ ” ثم اسفر بھا عثمان “ کا مطلب نماز کا اختتام ہے یہ اسفار کا اہتمام اس تدبیر کے طور پر تھا تاکہ جس طرح دھوکا بازی سے حضرت عمر (رض) پر حملہ کیا گیا اس سے حفاظت ہو باقی ان سے ایسی روایات موجود ہیں جو ان کے غلس میں ابتداء کر کے اسفار میں ختم کرنے پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ وہ بھی طویل قراءت کرتے تھے۔

1058

۱۰۵۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ وَرَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّ الْفُرَافِصَۃَ بْنَ عُمَیْرِ ڑ الْحَنَفِیَّ، أَخْبَرَہٗ قَالَ : مَا أَخَذْتُ سُوْرَۃَ یُوْسُفَ إِلَّا مِنْ قِرَائَ ۃِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِیَّاہَا فِی الصُّبْحِ، مِنْ کَثْرَۃِ مَا کَانَ یُرَدِّدُہَا .فَھٰذَا یَدُلُّ أَیْضًا أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَحْذُوْ فِیْہَا حَذْوَ مَنْ کَانَ قَبْلَہٗ، مِنَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا بِسَوَادٍ، وَالْخُرُوْجِ مِنْہَا فِیْ حَالِ الْاِسْفَارِ .وَقَدْ کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَنْصَرِفُ مِنْہَا مُسْفِرًا .
١٠٥٨: فرافصہ بن عمیرالحنفی نے بتلایا کہ میں نے تو سورة یوسف حضرت عثمان (رض) کی قراءت سے یاد کی وہ خاص طور پر اس سورت کو فجر میں کثرت سے پڑھتے تھے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے پہلے والے حضرات کے قدم بقدم چلتے تھے ‘ اندھیرے میں داخل ہوتے اور سپیدے کی حالت میں اس سے نکلتے اور ابن مسعود (رض) بھی خوب روشنی کے وقت نماز سے فارغ ہوتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٤۔
حاصل روایات : کہ وہ بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) و عمر (رض) کی اتباع کرتے تھے کہ غلس میں نماز شروع کر کے اسفار میں ختم فرماتے۔

1059

۱۰۵۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ التَّیْمِیُّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد، أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ إمَامِہِمْ فِی التَّیْمِ، فَیَقْرَأُ بِہِمْ سُوْرَۃً مِنَ الْمِئِیْنِ، ثُمَّ یَأْتِیْ عَبْدَ اللّٰہِ، فَیَجِدُہُ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ .
١٠٥٩: حارث بن سوید کہتے ہیں کہ میں اپنے امام کے ساتھ قبیلہ بنو تیم میں نماز فجر پڑھتا وہ امام مئین کی کوئی سورت پڑھ کر نماز پڑھاتا پھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں آتا تو ان کو نماز فجر میں مصروف پاتا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢١۔

1060

۱۰۶۰ : حَدَّثَنَا أَبُو الدَّرْدَائِ، ہَاشِمُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ : ثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ : کُنَّا نُصَلِّیْ مَعَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ یُسْفِرُ بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ .فَقَدْ عَقَلْنَا بِھٰذَا أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ کَانَ یُسْفِرُ، فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ خُرُوْجَہٗ مِنْہَا کَانَ حِیْنَئِذٍ، وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ دُخُوْلَہٗ فِیْہَا فِیْ أَیِّ وَقْتٍ کَانَ، فَذٰلِکَ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ- عَلٰی مِثْلِ مَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِہٖ مِنْ أَصْحَابِہٖ .وَقَدْ کَانَ یُفْعَلُ أَیْضًا مِثْلُ ھٰذَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٠٦٠: عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابن مسعود (رض) کے ساتھ نماز ادا کرتے وہ نماز صبح اسفار میں ادا کرتے۔ اس اثر سے ہم نے معلوم کرلیا کہ عبداللہ خوب سپیدے میں نماز پڑھتے اور اس سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ نماز سے ان کی فراغت کا وقت تھا مگر نماز میں ان کے داخلے کا وقت مذکور نہیں اور یہ چیز ہمارے ہاں (واللہ اعلم) اسی طرح ہے جیسے ان کے علاوہ صحابہ (رض) سے مروی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اسی طرح کیا جاتا تھا جیسا کہ ان روایات میں ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢١۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ اسفار میں نماز فجر پڑھتے پس اس سے ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ وہ اسفار میں فارغ ہوتے تھے ان کا نماز میں داخل ہونا احادیث میں مذکور نہیں کہ کس وقت تھا خلفاء راشدین کے طرز عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی طویل قراءت کرتے اور غلس میں شروع کر کے اسفار میں ختم کرتے تھے۔

1061

۱۰۶۱ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، قَالَ ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِیْ سُلَیْمَانَ، قَالَ : سَمِعْتُ عِرَاکَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ (قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ، یَؤُمُّ النَّاسَ فَسَمِعْتُہٗ یَقْرَأُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی بِسُوْرَۃِ مَرْیَمَ وَفِی الثَّانِیَۃِ بِوَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ) .
١٠٦١: عراک بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ میں جب مدینہ میں آیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت خیبر میں تھے بنی غفار کا ایک آدمی لوگوں کو امامت کراتا تھا میں نے اسے سنا کہ وہ نماز صبح کی رکعت اولیٰ میں سورة مریم اور دوسری میں ویل للمطففین پڑھتا تھا۔
تخریج : المحلی ٣؍٢١۔

1062

۱۰۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ، قَالَ : ثَنَا فُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ خُثَیْمِ بْنِ عِرَاکٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَاسْتَخْلَفَ عَلَی الْمَدِیْنَۃِ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَۃَ الْغِفَارِیَّ فَصَلَّیْتُ خَلْفَہٗ .فَھٰذَا سِبَاعُ بْنُ عُرْفُطَۃَ قَدْ کَانَ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاسْتِخْلَافِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ، یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الصُّبْحِ ھٰکَذَا، یُطِیْلُ فِیْہَا الْقِرَائَ ۃَ، حَتّٰی یُصِیْبَ فِیْہَا التَّغْلِیْسَ وَالْاِسْفَارَ جَمِیْعًا .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ .
١٠٦٢: عراک بن مالک نے ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پر سباع بن عرفطہ غفاری کو حاکم مقرر کر رکھا تھا میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی۔ یہ سباع ابن عرفطہ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب کی حیثیت سے مدینہ منورہ میں لوگوں کو نماز پڑھاتے اور اس میں قراءت طویل کرتے تاکہ غلس اور اسفار دونوں کو پالیں اور حضرت ابو الدرداء (رض) سے بھی اسی سلسلے میں روایت آئی ہے۔
تخریج : البیہقی ٢؍٤٥٤۔
نوٹ : یہ سباع بن عرفطہ زمانہ نبوت میں آپ کے نائب کی حیثیت سے لوگوں کو صبح کی نماز اس طرح پڑھا رہے ہیں کہ قراءت کو طویل کرتے ہیں تاکہ تغلیس و اسفار ہر دو کو پالیں۔

1063

۱۰۶۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ قَالَ : صَلّٰی بِنَا مُعَاوِیَۃُ الصُّبْحَ بِغَلَسٍ فَقَالَ : أَبُو الدَّرْدَائِ " أَسْفِرُوْا بِھٰذِہِ الصَّلَاۃِ فَإِنَّہٗ أَفْقَہُ لَکُمْ، إِنَّمَا تُرِیْدُوْنَ أَنْ تُخَلُّوْا بِحَوَائِجِکُمْ . فَھٰذَا عِنْدَنَا وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ مِنْ أَبِی الدَّرْدَائِ عَلٰی إِنْکَارِہٖ عَلَیْہِمْ تَرْکَ الْمَدِّ بِالْقِرَائَ ۃِ إِلَی وَقْتِ الْاِسْفَارِ لَا عَلٰی إِنْکَارِہٖ عَلَیْہِمْ وَقْتَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا .فَلَمَّا کَانَ مَا رَوَیْنَا عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ الْاِسْفَارُ الَّذِیْ یَکُوْنُ الْاِنْصِرَافُ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْہِ، مَعَ مَا رَوَیْنَا عَنْہُ مِنْ إطَالَۃِ الْقِرَائَ ۃِ فِیْ تِلْکَ الصَّلَاۃِ، ثَبَتَ أَنَّ الْاِسْفَارَ بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ تَرْکُہٗ، وَأَنَّ التَّغْلِیْسَ لَا یُفْعَلُ إِلَّا وَمَعَہُ الْاِسْفَارُ، فَیَکُوْنُ ھٰذَا فِیْ أَوَّلِ الصَّلَاۃِ، وَھٰذَا فِیْ آخِرِہَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنٰی مَا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ النِّسَائَ کُنَّ یُصَلِّیْنَ الصُّبْحَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَنْصَرِفْنَ وَمَا یُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ) .قِیْلَ لَہٗ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ھٰذَا قَبْلَ أَنْ یُؤْمَرَ بِإِطَالَۃِ الْقِرَائَ ۃِ فِیْہَا فَإِنَّہٗ۔
١٠٦٣: جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت معاویہ (رض) نے صبح کی نماز غلس میں پڑھائی تو ابوالدردائ (رض) نے کہا اس نماز کو اسفار میں پڑھو یہ زیادہ یاد آخرت دلانے والی ہے تم چاہتے ہو کہ جلدی سے حوائج دنیا میں مصروفیت اختیار کریں۔ ہمارے نزدیک حضرت ابوالدرداء (رض) نے ان پر یہ اعتراض اسی وجہ سے کیا کہ انھوں نے روشنی تک قراءت کو لمبا نہیں کیا اندھیرے میں شروع کرنے پر اعتراض نہ تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) سے روایات ہم نے ذکر کردیں کہ وہ سپیدے میں نماز سے فارغ ہوتے اور یہ بھی روایت کردیا کہ وہ اس میں لمبی قراءت کرتے تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ نماز صبح کو سپیدے میں چھوڑنا یہ کسی کے مناسب نہیں اندھیرے میں پڑھنا اس وقت ہے جب اس کے ساتھ اسفار ہو گویا اندھیرا نماز کی ابتداء میں اور اسفار اس کے اختتام میں تھا اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کا کیا مطلب ہے کہ وہ عورتوں کے لوٹنے کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ” وما یعرفن من الغلس “ کہ وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ عین ممکن ہے کہ یہ طویل قراءت کے حکم سے پہلے کا حکم ہو جیسا کہ اس روایت میں ہے۔
علامہ طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ابوالدردائ (رض) کا یہ نکیر فرمانا ہمارے نزدیک اسی وجہ سے تھا کہ انھوں نے قراءت کو طویل نہ کیا تھا آپ کا مقصد یہ تھا کہ قراءت کو طویل کرو تاکہ اسفار میں داخل ہوجاؤ یہ مطلب نہ تھا کہ تم غلس میں کیونکر نماز ادا کرتے ہو واللہ اعلم۔
حاصل روایات : اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایات ہم نے نقل کی ہیں ان میں نماز سے انصراف کا وقت اسفار بتلایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ان روایات میں طویل قراءت کا واضح ثبوت ملتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسفار کے وقت نماز فجر سے فراغت ضروری ہے اس کا ترک کسی کو مناسب نہیں اور تغلیس اس صورت میں اختیار کی جائے جبکہ اس کے ساتھ اسفار ہو گویا غلس سے ابتداء اور اسفار میں انتہا ہو۔
روایت حضرت عائشہ (رض) سے اشکال :
ان النساء کن یصلین الحدیث : حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ عورتیں صبح کی نماز جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ادا کر کے جب لوٹتیں تو غلس کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔
الجواب عن الطحاوی (رح) :
ممکن ہے کہ یہ طویل قراءت کا حکم ملنے سے پہلے کی روایت ہو جیسا مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہو رہا ہے۔

1064

۱۰۶۴ : قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ، قَالَ ثَنَا مُرَجَّی بْنُ رَجَائٍ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدُ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (أَوَّلُ مَا فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ وَصَلَ إِلٰی کُلِّ صَلَاۃٍ مِثْلَہَا غَیْرَ الْمَغْرِبِ فَإِنَّہٗ وِتْرٌ، وَصَلَاۃُ الصُّبْحِ لِطُوْلِ قِرَائَ تِہَا وَکَانَ اِذَا سَافَرَ عَادَ إِلٰی صَلَاتِہِ الْأُوْلٰی) .فَأَخْبَرَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ أَنْ یُتِمَّ الصَّلَاۃَ، عَلٰی مِثَالِ مَا یُصَلِّیْ اِذَا سَافَرَ وَحُکْمُ الْمُسَافِرِ تَخْفِیْفُ الصَّلَاۃِ، ثُمَّ أُحْکِمَ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَزِیْدَ فِیْ بَعْضِ الصَّلَوَاتِ، وَأُمِرَ بِإِطَالَۃِ بَعْضِہَا .فَیَجُوْزُ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنْ یَکُوْنَ مَا کَانَ یَفْعَلُ مِنْ تَغْلِیْسِہٖ بِہَا، وَانْصِرَافِ النِّسَائِ مِنْہَا وَلَا یُعْرَفْنَ عَنِ الْغَلَسِ کَانَ ذٰلِکَ فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ کَانَ یُصَلِّیْہَا فِیْہِ عَلٰی مِثْلِ مَا یُصَلِّیْ فِیْہِ الْآنَ فِی السَّفَرِ ثُمَّ أُمِرَ بِإِطَالَۃِ الْقِرَائَ ۃِ فِیْہَا وَأَنْ یَکُوْنَ مَفْعُوْلَہٗ فِی الْحَضَرِ بِخِلَافِ مَا یَفْعَلُ فِی السَّفَرِ مِنْ إطَالَۃِ ھٰذِہٖ، وَتَخْفِیْفِ ھٰذِہٖ وَقَالَ : (أَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ) أَیْ أَطِیْلُوْا الْقِرَائَ ۃَ فِیْہَا .لَیْسَ ذٰلِکَ عَلٰی أَنْ یَدْخُلُوْا فِیْہَا فِیْ آخِرِ وَقْتِ الْاِسْفَارِ وَلَکِنْ یَخْرُجُوْا مِنْہَا فِیْ وَقْتِ الْاِسْفَارِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ نَسْخُ مَا رَوَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِمَا ذَکَرْنَا، مَعَ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مِنْ فِعْلِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ فِیْ إصَابَتِہِمَ الْاِسْفَارَ فِیْ وَقْتِ انْصِرَافِہِمْ مِنْہَا، وَاتِّفَاقِہِمْ عَلٰی ذٰلِکَ .حَتّٰی لَقَدْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ النَّخَعِیُّ۔
١٠٦٤: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ پہلے نماز دو دو رکعت فرض ہوئی جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو ہر نماز کے ساتھ اس کی مثل ملا دی گئی دو کی چار رکعت ہوگئیں البتہ مغرب کا طاق عدد باقی رہا اور نماز صبح بھی طویل قراءت کی وجہ سے اسی طرح باقی رہی جب آپ سفر فرماتے تو پہلی نماز کی طرف لوٹ آتے یعنی دو دو رکعت پڑھتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس روایت میں یہ اطلاع دی ہے کہ نماز کے مکمل کرنے سے پہلے آپ اس طرح نماز ادا فرماتے جیسے کہ کوئی حالت سفر میں ہو اور مسافر کا حکم نماز میں تخفیف ہی کا ہے پھر بعض نمازوں میں اضافے کا حکم ہوا اور بعض میں طویل قراءت کا پس اس سے یہ کہنا درست ہوگیا (واللہ اعلم) کہ آپ جو کچھ غلس میں کرتے تھے جبکہ عورتیں نماز سے واپسی پر اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں یہ اس وقت کی بات ہے جیسے اب سفر میں نماز پڑھی جاتی ہے پھر لمبی قراءت کا حکم ہوا اور حضر کا عمل طویل قراءت کے ذریعے سفر سے مختلف ہوگیا اور ارشاد فرمایا : ” اسفروا بالفجر “ یعنی فجر میں طویل قراءت کرو یہ مطلب نہیں ہے کہ آخری وقت میں نماز میں داخل ہو بلکہ روشنی کے وقت نکلنے کا حکم ہے پس اس سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس روایت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے جو ہم نے پہلے ذکر کی اور اس کے ساتھ ساتھ اصحاب رسول کے فعل سے نماز سے لوٹنے کے وقت بالاتفاق اسفار کو پالینا ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ ابراہیم نخعی نے یہ کہا۔
تخریج : مسندالطیالسی ١؍١٢٩‘ (باختلاف یسیر) بیہقی ١؍٥٣٣۔
حاصل روایات : اس روایت میں حضرت عائشہ (رض) نے اطلاع دی ہے کہ نماز کی رکعات کے تکمیل تک پہنچنے سے پہلے آپ اسی طرح نماز پڑھتے تھے جیسے مسافر پڑھتا ہے اور مسافر کا حکم تخفیف صلوۃ کا ہے پھر بعض نمازوں کی عدد رکعات میں اضافہ کیا گیا جبکہ دوسری نمازوں میں طوالت قراءت کا حکم دیا گیا پس اس سے یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ عورتوں کا تغلیس میں اس حالت میں لوٹنا کہ پہچان نہ ہو یہ اس وقت ہو جبکہ نماز کی رکعات دو دو ہوں پھر قراءت کی طوالت کا حکم دیا گیا تاکہ حضر کا فعل سفر کے خلاف ہو اور سفر میں نماز کی تخفیف کے ساتھ قراءت کی تخفیف ہو اور فرمایا اسفر وابالفجر یعنی اس میں قراءت کو طویل کرو فجر کی نماز کو طول قراءت کی وجہ سے بعینہٖ قران بمعنی قراءت قرار دیا گیا ہے اور یہ اس طرح نہیں کہ وہ اسفار کے آخری وقت میں داخل ہوں بلکہ اسفار کے وقت فارغ ہوں۔ پس اس سے روایت عائشہ (رض) کا نسخ ثابت ہو رہا ہے اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل بھی اس کے خلاف ہے وہ تو اسفار کو اختیار کرنے والے تھے اور اسفار میں بالاتفاق نماز سے لوٹنے والے تھے۔

1065

۱۰۶۵ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : مَا اجْتَمَعَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی شَیْئٍ مَا اجْتَمَعُوْا عَلَی التَّنْوِیْرِ .فَأَخْبَرَ أَنَّہُمْ کَانُوْا قَدِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی ذٰلِکَ فَلَا یَجُوْزُ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - اجْتِمَاعُہُمْ عَلٰی خِلَافِ مَا قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہُ إِلَّا بَعْدَ نَسْخِ ذٰلِکَ، وَثُبُوْتِ خِلَافِہِ. فَالَّذِیْ یَنْبَغِی: الدُّخُوْلُ فِی الْفَجْرِ فِیْ وَقْتِ التَّغْلِیْسِ، وَالْخُرُوْجُ مِنْہَا فِیْ وَقْتِ الْاِسْفَارِ، عَلٰی مُوَافَقَۃِ مَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٠٦٥: عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے انھوں نے ابراہیم سے نقل کیا کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس قدر اتفاق خوب روشنی میں نماز فجر پڑھنے کا ہے اور کسی چیز پر اس قدر تفاق رائے نہ ملی۔ ہمارے نزدیک (واللہ اعلم) یہ جائز نہیں کہ صحابہ کرام (رض) کسی ایسی بات کی مخالفت پر اتفاق کرلیں کہ جس عمل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہو مگر اس صورت میں کہ ان کو اس کے خلاف عمل سے اس کے منسوخ ہونے کا عمل نہ پہنچا ہو پس نماز فجر میں مُنہ اندھیرے داخل ہونا اور سپیدے میں اس سے نکلنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد اور صحابہ کرام (رض) کے اقوال کے موافق ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٨٤۔
ابراہیم نخعی نے اس بات پر اجماع نقل کیا کہ وہ اسفار میں پڑھتے تھے یہ اجماع تبھی ہوسکتا ہے جبکہ نسخ کا ثبوت ملے اور اس کے خلاف کا ثبوت پختہ ہو۔
پس مناسب یہ ہے کہ فجر کی نماز میں تغلیس میں داخل ہوں اور اسفار میں فارغ ہوں یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے ارشادات کے موافق ہے۔
تسامح طحاوی :
اس موقعہ پر اپنے راجح قول کو ائمہ ثلاثہ کی طرف نسبت کرنے میں امام طحاوی سے تسامح ہوا ہے حالانکہ ائمہ ثلاثہ کا مسلک وہی ہے جو نمبر : ٢ میں مذکور ہوا۔
یہ پہلا موقعہ ہے کہ یہ باب نظر طحاوی سے خالی ہے نیز یہ تسامح کا تیسرا موقعہ ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسانوں میں صرف انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں۔

1066

۱۰۶۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَجِیْرِ) .
١٠٦٦: عروہ نے اسامہ بن زید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز گرمی میں پڑھتے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢٠٦۔
خلاصہ الزام : سردیوں میں سب کے ہاں بالاتفاق تعجیل ظہر ہی افضل ہے البتہ گرمیوں کے متعلق اختلاف ہے امام شافعی و لیث علماء عراق گرمیوں میں بھی تعجیل ظہر کے قائل ہیں اور افضل مانتے ہیں۔
نمبر ٢: امام ابوحنیفہ ‘ مالک ‘ احمد (رح) گرمیوں میں ابراد یعنی ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے قائل ہیں اور اس کو افضل کہتے ہیں۔

1067

۱۰۶۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَسَنٍ یَقُوْلُ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ فَقَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَاجِرَۃِ أَوْ حِیْنَ تَزُوْلُ الشَّمْسُ) .
١٠٦٧: محمد بن عمرو بن حسن کہتے ہیں کہ ہم نے جابر بن عبداللہ سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز گرمی میں یا جب سورج ڈھل جاتا پڑھتے تھے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١١‘ ١٨؍٢١‘ مسلم فی المساجد نمبر ٢٣٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٨‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٤‘ مسند احمد ٣؍٤‘ ٣٦٩؍٢٥٠۔

1068

۱۰۶۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ اللَّیْثِیُّ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ (: کُنَّا نُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ فَآخُذُ قَبْضَۃً مِنَ الْحَصْبَائِ، أَوْ مِنَ التُّرَابِ فَأَجْعَلُہَا فِی کَفِّیْ، ثُمَّ أُحَوِّلُہَا فِی الْکَفِّ الْأُخْرٰی حَتّٰی تَبْرُدَ، ثُمَّ أَضَعُہَا فِیْ مَوْضِعِ جَبِیْنِی مِنْ شِدَّۃِ الْحَرِّ).
١٠٦٨: سعید بن الحویرث نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازِ ظہر ادا کرتے میں کنکریوں کو مٹھی میں یا مٹی کی مٹھی بھر کر ہتھیلی میں رکھتا پھر اس کو دوسری ہتھیلی میں تبدیل کرتا تاکہ وہ ٹھنڈی ہوجائیں پھر ان کو میں اپنی پیشانی والی جگہ میں رکھتا (تاکہ اس پر پیشانی ٹکا سکوں)

1069

۱۰۶۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ: ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ خَبَّابٍ قَالَ (شَکَوْنَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّ الرَّمْضَائِ بِالْہَجِیْرِ فَمَا أَشْکَانَا)۔
١٠٦٩: سعید بن وہب نے حضرت خباب (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دھوپ سے تپی ہوئی ریت کی شکایت کی آپ نے شکوہ کا ازالہ نہ فرمایا۔ تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١٨٩؍١٩٠‘ نسائی فی المواقیت باب ٢ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٣‘ مسند احمد ٥؍١٠٨؍١١٠۔

1070

۱۰۷۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، عَنْ زِیَادِ بْنِ خَیْثَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ خَبَّابٍ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ کَانَ یُعَجِّلُ الظُّہْرَ فَیَشْتَدُّ عَلَیْہِمُ الْحَرُّ .
١٠٧٠: سعید بن وہب نے حضرت خباب (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٢٥۔ ابو اسحاق راوی کہتے ہیں آپ جلدی ظہر ادا فرماتے ان پر گرمی و حرارت گراں گزرتی۔

1071

۱۰۷۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَۃِ بْنِ مُضَرِّبٍ أَوْ مَنْ ہُوَ مِثْلُہٗ مِنْ أَصْحَابِہٖ قَالَ خَبَّابٌ : (شَکَوْنَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّ الرَّمْضَائِ فَلَمْ یُشْکِنَا) .
١٠٧١: ابو اسحاق سے حارثہ بن مضرب یا اسی طرح کے لوگوں نے خباب (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دھوپ سے ریت کے سخت گرم ہونے کی شکایت کی مگر آپ نے شکایت کی پروا نہ فرمائی۔
تخریج : روایت ١٠٦٩ کی تخریج ملاحظہ فرمائیں ابن ماجہ ١؍٤٩۔

1072

۱۰۷۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ ح .
١٠٧٢: یونس بن ابو اسحاق نے ابو اسحاق سے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ٦؍٧٨۔

1073

۱۰۷۳ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ ح وَحَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَۃَ، عَنْ خَبَّابٍ مِثْلَہٗ .
١٠٧٣: اعمش نے ابو اسحاق سے اور انھوں نے حارثہ سے اور انھوں نے خباب (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍٧٢۔

1074

۱۰۷۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ح .
١٠٧٤: ابو بکرہ نے مؤمل سے اور انھوں نے سفیان سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍٤٠۔

1075

۱۰۷۵ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : (قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْجِیْلًا لِصَلَاۃِ الظُّہْرِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اسْتَثْنَتْ أَبَاہَا وَلَا عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) .
١٠٧٥: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ نماز ظہر کو جلدی پڑھنے والا نہیں دیکھا حضرت عائشہ (رض) نے ابوبکر کا استثناء کیا اور نہ عمر (رض) کا۔
تخریج : ترمذی فی المواقیت باب ٤؍٧ مسند احمد ٦؍١٣٥؍٢١٦‘ ٢٨٩؍٣١٠۔

1076

۱۰۷۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا عَوْفٌ الْأَعْرَابِیُّ عَنْ سَیَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بَرْزَۃَ یَقُوْلُ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الْہَجِیْرَ الَّذِیْ تَدْعُوْنَہٗ الظُّہْرَ اِذَا دَحَضَتِ الشَّمْسُ) .
١٠٧٦: سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو برزہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کی نماز جس کو تم ظہر کہتے ہو ‘ اس وقت ادا فرماتے جب سورج آسمان کے وسط سے مغرب کی طرف پھسل جاتا تھا۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١٣‘ ٣٩‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٨٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤‘ نمبر ١٢٧‘ نسائی فی المواقیت باب ١٦‘ ٢٠‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٣‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٦٦‘ مسند احمد ٤؍٤٦٠؍٤٢٣۔

1077

۱۰۷۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ حَمْزَۃَ الْعَائِذِیِّ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا، لَمْ یَرْتَحِلْ مِنْہُ حَتّٰی یُصَلِّیَ الظُّہْرَ .فَقَالَ رَجُلٌ : وَلَوْ کَانَ نِصْفَ النَّہَارِ؟ فَقَالَ : وَلَوْ کَانَ نِصْفَ النَّہَارِ) .
١٠٧٧: حمزہ عائذی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو فرماتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی منزل پر قیام فرماتے آپ اس سے ظہر پڑھ کر کوچ فرماتے ایک آدمی نے سوال کیا خواہ نصف النہار ہی ہو ؟ تو انس کہنے لگے خواہ نصف النہار ہی ہوتا (اس سے مراد ڈھلنے کے فوراً بعد والا وقت مراد ہے کیونکہ قبل الزوال تو نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا)
تخریج : دارمی فی الاستیذان باب ٤٩‘ مگر وہاں لفظ یہ ہیں :” کان اذا نزل منزلا لم یرتحل منہ حتی یصلی رکعتین۔

1078

۱۰۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (خَرَجَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَلّٰی بِہِمْ صَلَاۃَ الظُّہْرِ) .
١٠٧٨: ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے جبکہ سورج ڈھل گیا اور ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔
تخریج : ترمذی ١؍٤٠‘ نسائی ١؍٨٦۔

1079

۱۰۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ عَنْ سُلَیْمَانِ بْنِ مِہْرَانَ ح .
١٠٧: شجاع بن الولید نے سلیمان بن مہران سے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٩؍٢٥٨۔

1080

۱۰۸۰ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدِ ڑالظُّہْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ : ھٰذَا- وَالَّذِیْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا ہُوَ - وَقْتُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، فَاسْتَحَبُّوْا تَعْجِیْلَ الظُّہْرِ فِی الزَّمَانِ کُلِّہٖ، فِیْ أَوَّلِ وَقْتِہَا، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ذَکَرْنَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : أَمَّا فِیْ أَیَّامِ الشِّتَائِ، فَیُعَجَّلُ بِہَا کَمَا ذَکَرْتُمْ، وَأَمَّا فِیْ أَیَّامِ الصَّیْفِ، فَتُؤَخَّرُ، حَتّٰی یُبْرِدَ بِہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
١٠٨٠: مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود (رض) کے پیچھے نماز ظہر ادا کی جب کہ سورج ڈھل گیا پھر ابن مسعود فرمانے لگے قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی اس نماز کا وقت ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کے ہاں تمام اوقات میں ظہر کا اوّل وقت میں جلد ادا کرنا مستحب ہے اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا سردی میں جلدی ادا کیا جائے جیسا تم نے کہا اور گرمیوں میں ٹھنڈک تک نماز کو مؤخر کیا جائے ‘ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٨٥۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے تعجیل ظہر پر روشنی پڑتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ گرمی و سردی ہر دو موسم میں اس میں جلدی کرنا افضل ہے۔
مؤقف ِثانی اور مستدل روایات :
سردی کے ایام میں تو جلدی کی جائے جیسا مؤقف اول میں کہا گیا مگر گرمی میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا جائے۔

1081

۱۰۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مُہَاجِرِ أَبِی الْحَسَنِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ : (کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَنْزِلٍ، فَأَذَّنَ بِلَالٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَہْ یَا بِلَالُ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یُؤَذِّنَ فَقَالَ : مَہْ یَا بِلَالُ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یُؤَذِّنَ فَقَالَ مَہْ یَا بِلَالُ .حَتَّی رَأَیْنَا فَیْئَ التُّلُوْلِ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ، فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ) .
١٠٨١: زید بن وہب نے ابو ذر (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک پڑاؤ میں تھے بلال (رض) نے اذان دینے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رک ‘ رک۔ پھر کچھ وقت بعد انھوں نے اذان کا دوبارہ ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا اے بلال ٹھہرو۔ پھر اذان کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا اے بلال رک جاؤ۔ اس وقت تک آپ رکے رہے یہاں تک کہ ٹیلوں کا سایہ بھی نظر آنے لگا پھر آپ نے فرمایا بیشک گرمی کی شدت جہنم کی بھڑک اور جوش سے ہے پس جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٩‘ ١٠‘ الاذان باب ١٨‘ بداء الخلق باب ١٠‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٨٠؍١٨١‘ ١٨٣؍١٨٤‘ ١٨٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤‘ ترمذی فی المواقیت باب ٥‘ نسائی فی المواقیت باب ٥‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٤‘ والطبّ باب ١٩‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٤‘ مالک فی الوقوت نمبر ٢٧؍٢٨‘ ٢٩‘ مسند احمد ٢؍٢٢٩‘ ٢٨٥‘ ٣١٨‘ ٥٠١‘ ٣؍٩‘ ٥٣‘ ٣٩‘ ٤؍٢٥٠‘ ٦٦٢‘ ٥؍١٥٥۔
اللغات : التلول جمع تل۔ ٹیلے۔ فیح۔ حرارت و جوش۔

1082

۱۰۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ فَإِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ، فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ) .
١٠٨٢: ابو صالح نے حضرت ابو سعید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھڑک سے ہے پس جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔
تخریج : حدیث نمبر ١٠٨١ کی تخریج ملاحظہ ہو۔ ابن ماجہ ١؍٤٩۔

1083

۱۰۸۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ
١٠٨٣: ابو صالح نے ابو سعید (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍١٩٩۔

1084

۱۰۸۴ : : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدِ ڑاللَّیْثِیُّ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، أَخْبَرَہُ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، وَسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٠٨٤: ابن شہاب نے ابو سلمہ اور سعید بن المسیب سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ١٠٨١ کی تخریج کافی ہے ابن حبان ٣؍٢٩‘ ١؍٥٨‘ ابو داؤد ترمذی ١؍٤٠۔

1085

۱۰۸۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ : أَنَا نَافِعُ بْنُ یَزِیْدَ عَنِ ابْنِ الْہَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٠٨٥: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) نے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند بزار ٩؍٣٩٤‘ عن ابی ذر (رض) ١؍٤٠٤‘ عن عمر (رض) مسلم ١؍٢٢٤۔

1086

۱۰۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، وَفَہْدٌ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٠٨٦: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند السراج۔

1087

۱۰۸۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ مَوْلَی الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٠٨٧: ابو سلمہ نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : موطا مالک ١؍٥‘ مسلم ١؍٢٢٤‘ ابن حبان ٣؍٣٠۔

1088

۱۰۸۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٠٨٨: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : موطا مالک ١؍٥‘ مسند احمد ٢؍٤٦٢۔

1089

۱۰۸۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ہُرْمُزٍ قَالَ : کَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
١٠٨٩: عبدالرحمن بن ہرمز نے ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند بزاز ٩؍٣٩٤‘ مثلہ عن زید بن وہب عن ابی ذر (رض) ۔

1090

۱۰۹۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، وَسَلْمَانَ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا کَانَ الْیَوْمُ الْحَارُّ فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ، فَإِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ) .
١٠٩٠: بشر بن سعید اور سلمان الاغر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب سخت گرمی کا دن ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو بیشک حرارت کی شدت یہ جہنم کی بھڑک سے ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٤‘ نمبر ٦٨٠‘ مسلم ١؍٢٢٤۔

1091

۱۰۹۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ) .
١٠٩١: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور عوف عن الحسن کے واسطہ سے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک حرارت کی تیزی یہ جہنم کی بھڑک سے ہے پس تم نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٢٩‘ فی مسند بزاز مثلہ عن عمر (رض) ١؍٤٠٤۔

1092

۱۰۹۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ .ثِنَا أَبِیْ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ح۔
١٠٩٢: ثابت بن قیس نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٨٧۔

1093

۱۰۹۳ : وَعَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی یَرْفَعُہُ قَالَ : (أَبْرِدُوْا بِالظُّہْرِ فَإِنَّ الَّذِیْ تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ، مِنْ فَیْحٍ مِنْ جَہَنَّمَ) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْأَمْرُ بِالْاِبْرَادِ بِالظُّہْرِ مِنْ شِدَّۃِ الْحَرِّ، وَذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ إِلَّا فِی الصَّیْفِ فَقَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ، مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَعْجِیْلِ الظُّہْرِ فِی الْحَرِّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنَ الْآثَارِ الْأُوَلِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ، فَمَا دَلَّ أَنَّ أَحَدَ الْأَمْرَیْنِ أَوْلٰی مِنَ الْآخِرِ .قِیْلَ لَہٗ : لِأَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ أَنَّ تَعْجِیْلَ الظُّہْرِ فِی الْحَرِّ، قَدْ کَانَ یُفْعَلُ ثُمَّ نُسِخَ .
١٠٩٣: ثابت بن قیس نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے انھوں نے مرفوع نقل کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا فرمان گرامی ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو جو حرارت تم پا رہے ہو وہ جہنم کی بھڑک سے ہے۔ ان آثار میں ظہر کو سخت حرارت کی وجہ سے ٹھنڈا کرنے کا حکم دیا ‘ یہ حکم صرف گرمیوں میں ہے۔ ہم نے پہلے جو آثار نقل کئے ہیں جن میں ظہر کو جلدی پڑھنے کا حکم ہے وہ اس کے خلاف ہیں اب کوئی شخص یہ کہے کہ یہاں تو دونوں میں سے کسی کے دوسرے سے افضل ہونے کی کوئی دلالت نہیں تو ہم عرض کریں گے پہلے ظہر کو جلدی پڑھنے والے حکم پر عمل رہا پھر منسوخ ہوگیا جیسا یہ روایت اس پر دلالت کر رہی ہے۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے جو مختلف صحابہ سے مروی ہیں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کا حکم موجود ہے اس حکم کی تاکید سے ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی فضیلت ظاہر ہے یہ روایات پہلی روایات کے خلاف گرمیوں میں تبرید ظہر کو ثابت کرتی ہیں ان روایات میں گرمی و سردی کا تذکرہ نہیں ہے تطبیق کے لیے ان کو سردی پر محمول کرنا مناسب ہے (واللہ اعلم)
ایک اہم اشکال :
پہلی روایات اور ان روایات میں کوئی روایت ایسی نہیں جس سے ایک دوسری پر فضیلت ظاہر ہوتی ہو۔
الجواب : یہ روایات میں موجود ہے کہ پہلے آپ ظہر میں جلدی فرماتے تھے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اس کی تائید کے لیے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت ملاحظہ ہو۔

1094

۱۰۹۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ، وَتَمِیمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ قَالَا : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ بَیَانٍ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ (: صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ بِالْہَجِیْرِ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ، فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ) فَأَخْبَرَ الْمُغِیْرَۃُ فِیْ حَدِیْثِہٖ ھٰذَا أَنْ أَمْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْاِبْرَادِ بِالظُّہْرِ، بَعْدَ أَنْ کَانَ یُصَلِّیْہَا فِی الْحَرِّ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ، نَسْخُ تَعْجِیْلِ الظُّہْرِ فِیْ شِدَّۃِ الْحَرِّ، وَوَجَبَ اسْتِعْمَالُ الْاِبْرَادِ فِیْ شِدَّۃِ الْحَرِّ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَأَبِیْ مَسْعُوْدٍ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُعَجِّلُہَا فِی الشِّتَائِ، وَیُؤَخِّرُہَا فِی الصَّیْفِ) .
١٠٩٤: قیس بن ابی حازم نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز دوپہر کی گرمی میں پڑھائی پھر فرمایا بیشک گرمی کی شدت یہ جہنم کے ابال سے ہے پس تم نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ حضرت مغیرہ (رض) نے اپنے اثر میں بتلایا کہ آپ پہلے سخت گرمی میں پڑھتے تھے پھر آپ نے ٹھنڈا کر کے پڑھنے کا حکم فرمایا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ظہر میں جلدی کرنے والا عمل منسوخ ہوچکا اور شدید گرمی کے وقت میں اسے ٹھنڈا کر کے پڑھنا لازم ہوگیا اور حضرت انس اور ابن مسعود (رض) سے روایات وارد ہیں کہ آپ اس نماز کو سردیوں میں جلدی ادا فرما لیتے اور گرمیوں میں اس میں تاخیر فرماتے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٤‘ نمبر ٦٨٠۔
حاصل روایات : اس روایت میں حضرت مغیرہ (رض) نے خبر دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابراد ظہر کا حکم فرمایا اس کے بعد کہ آپ اسے گرمی کی شدت میں پڑھا کرتے تھے اس سے ثابت ہوا کہ تعجیل ظہر والا حکم منسوخ ہوگیا اور گرمی میں ضروری ہے کہ ابراد کو اختیار کیا جائے۔
تائیدی روایات :
اس کی تائید کے لیے حضرت انس بن مالک اور حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت پیش کی جاتی ہے۔

1095

۱۰۹۵ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ، عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ (أَنَّہٗ رَأٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الظُّہْرَ حِیْنَ تَزِیْغُ الشَّمْسُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَہَا فِیْ شِدَّۃِ الْحَرِّ) .وَبِإِسْنَادِہٖ عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ (أَنَّہٗ رَأٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَجِّلُہَا فِی الشِّتَائِ، وَیُؤَخِّرُہَا فِی الصَّیْفِ) .
١٠٩٥: عروہ بن الزبیر کہتے ہیں کہ مجھے بشیر بن ابی مسعود نے بتلایا انھوں نے ابو مسعود سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ظہر کی نماز اس وقت پڑھتے دیکھا کہ جب سورج زوال پذیر ہوجاتا ہے اور بسا اوقات اس کو سخت گرمی میں مؤخر فرمایا۔
اور اسی سند سے ابو مسعود (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سردیوں میں جلدی کرتے اور گرمیوں میں مؤخر کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا۔
اللغات : تزیغ۔ مائل و زائل ہونا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢‘ روایت نمبر ٣٩٤۔

1096

۱۰۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ : ثَنَا حَرَمِیُّ بْنُ عُمَارَۃَ قَالَ ثَنَیْ أَبُوْ خَالِدَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ، بَکَّرَ بِالصَّلَاۃِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ، أَبْرَدَ بِالصَّلَاۃِ) .
١٠٩٦: ابو خالد نے انس بن مالک (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سخت سردی ہوتی تو نماز کو جلد ادا فرماتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٧۔

1097

۱۰۹۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ الشِّتَائُ، بَکَّرَ بِالظُّہْرِ، وَإِذَا کَانَ الصَّیْفُ أَبْرَدَ بِہَا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰکَذَا السُّنَّۃُ عِنْدَنَا، فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، عَلٰی مَا یَذْکُرُ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلَیْسَ فِیْمَا قَدَّمْنَا ذِکْرَہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ مَا یَجِبُ بِہٖ خِلَافُ شَیْئٍ مِنْ ھٰذَا ؛ لِأَنَّ حَدِیْثَ أُسَامَۃَ، وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، وَخَبَّابٍ، وَأَبِیْ بَرْزَۃَ، کُلُّہَا عِنْدَنَا، مَنْسُوْخَۃٌ بِحَدِیْثِ الْمُغِیْرَۃِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الْآخِرِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَحَلِفُہُ أَنَّ ذٰلِکَ وَقْتَہَا، فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ فِی الصَّیْفِ، وَلَا أَنَّہٗ کَانَ مِنْہُ فِی الشِّتَائِ، وَلَا دَلَالَۃَ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی خِلَافِ غَیْرِہٖ .وَھٰذَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوٰی عَنْہُ الزُّہْرِیُّ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ) ، ثُمَّ جَائَ أَبُوْ خَالِدَۃَ فَفَسَّرَ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْہَا فِی الشِّتَائِ، مُعَجِّلًا، وَفِی الصَّیْفِ مُؤَخِّرًا، فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ مَا رَوٰی ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، ہُوَ کَذٰلِکَ أَیْضًا .فَإِنِ احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ تَعْجِیْلِ الظُّہْرِ۔
١٠٩٧: ابو خالد نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سردی کا موسم ہوتا تو نماز ظہر کو جلد ادا فرماتے اور جب گرمی ہوتی تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ہمارے ہاں یہی سنت ہے جس کو حضرت انس اور ابی مسعود (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے اور فصل اوّل میں مذکور روایات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اس کی مخالفت لازم ہوتی۔ البتہ ہمارے ہاں حضرت عائشہ صدیقہ ‘ خباب ‘ ابوبرزہ ‘ اسامہ (رض) کی تمام روایات منسوخ ہیں اور دوسری فصل میں ہم نے حضرت مغیرہ (رض) کی روایت نقل کی ہے وہ ان کی ناسخ ہے اور ابن مسعود (رض) کی روایت جو ظہر کے سلسلہ میں وارد ہے اور اس میں ان کی قسم مذکور ہے وہ گرمیوں سے متعلق ہے۔ موسم سرما سے اس کا تعلق نہیں۔ اس میں اس کے خلاف کسی کو دلالت بھی نہیں ملتی۔ یہ حضرت انس (رض) ہیں جن سے زہری نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز اس وقت ادا فرمائی جب سورج ڈھل گیا۔ پھر ابو خالدہ راوی نے اس کی تفسیر زہری سے یہ نقل کی کہ اس سے سردیوں کی ظہر مراد ہے۔ گرمیوں کی ظہر دیر سے ادا کی جاتی تھی۔ پس اس سے ابن مسعود (رض) والی روایت میں میں بھی احتمال پیدا ہو یا کہ ممکن ہے اس کا مطلب بھی یہی ہو۔ پھر اگر کوئی اس روایت کو ظہر جلدی پڑھنے میں بطور حجت پیش کرے۔
تخریج : نسائی فی المواقیت باب ٤۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں ہمارے ہاں ظہر میں سنت یہ ہے جیسا کہ ابو مسعود (رض) اور انس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا تذکرہ کیا ہے رہی فصل اول کی روایت تو وہ اس کے مخالف نہیں کیونکہ حدیث اسامہ ‘ عائشہ ‘ خباب ‘ ابی برزہ (رض) کی روایات تمام ہمارے ہاں روایت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے منسوخ ہیں۔
ایک اہم اشکال :
البتہ ایک سوال ضرور باقی رہ جاتا ہے کہ روایت ابن مسعود (رض) میں صلوۃ ظہر کا تذکرہ زوال کے جلدی بعد کا ہے۔ اور پھر انھوں نے حلف اٹھا کر یہ بات کہی کہ یہی اس نماز کا وقت ہے اور پھر اس روایت میں گرمی و سردی کسی وقت کی تعیین نہیں اور اس میں اس کے خلاف پر کوئی دلالت بھی نہیں پائی جاتی۔
الجواب : یہ بات بالکل درست ہے کہ روایت ابن مسعود (رض) میں تو اس کی دلالت نہیں مگر فصل اول میں ہم نے انس (رض) کی روایت نقل کی ہے جس میں تعجیل ظہر کا تذکرہ ہے اور حضرت انس (رض) کی دوسری روایت جس کو زہری نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز زوال کے وقت پڑھائی پھر ابو خالدہ (رض) آئے اور انھوں نے اس کی تفسیر بیان کی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو سردی میں پڑھا کرتے تھے اور گرمیوں میں تاخیر سے ادا فرماتے پس اس کے مطابق ابن مسعود (رض) کی روایت کا مطلب بھی یہی لیا جائے گا کہ اس روایت میں سردی کی نماز ظہر کا تذکرہ ہے۔

1098

۱۰۹۸ : بِمَا حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : أَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ، عَنْ سُوَیِْد بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : سَمِعَ الْحَجَّاجُ أَذَانَہُ بِالظُّہْرِ وَہُوَ فِی الْجَبَّانَۃِ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَقَالَ : مَا ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ أَبِیْ بَکْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ قَالَ : فَصَرَفَہٗ وَقَالَ : " لَا تُؤَذِّنْ وَلَا تَؤُمَّ " .قِیْلَ لَہٗ لَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ رَآہُمْ فِیْہِ سُوَیْدٌ، کَانَ فِی الصَّیْفِ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ فِی الشِّتَائِ، وَیَکُوْنُ حُکْمُ الصَّیْفِ، عِنْدَہُمْ، بِخِلَافِ ذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ یَزِیْدَ بْنَ سِنَانٍ۔
١٠٩٨: ابو حصین نے حضرت سوید بن غفلہ (رض) سے نقل کیا کہ حجاج نے میری ظہر کی اذان سنی جبکہ وہ مقام جبانہ (یہ مدینہ سے شام کی جانب ذباب کے قریب مقام ہے یا بلند زرخیز زمین کو کہتے ہیں) میں تھا اس نے پیغام بھیج کر مجھے بلایا اور پوچھا یہ کون سی نماز ہے ؟ تو میں نے جواب دیا میں نے ابوبکر و عمر ‘ عثمان (رض) کے ساتھ اس وقت نماز ظہر ادا کی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا (اس پر حجاج نے میری بات کو قبول نہ کیا بلکہ مسترد کردیا) اور اذان و نماز سے معزول کردیا اور کہا آئندہ نہ اذان دینا اور نہ جماعت کرانا۔ اسے کہا جائے گا کہ اس روایت میں تو ایسی کوئی دلیل نہیں کہ حضرت سوید (رض) نے ان کو جس وقت میں دیکھا وہ موسم گرما ہی تھا۔ عین ممکن ہے کہ وہ موسم سرما ہو اور گرمیوں کا حکم ان کے ہاں اس کے خلاف ہو۔ اس کا ثبوت یزید بن سنان کی روایت میں موجود ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٣۔
الجواب : اس حدیث میں بھی یہ مذکور نہیں کہ حضرت سوید نے ان کو جس نماز میں دیکھا کہ وہ کون سی نماز تھی اس میں ہر دو احتمال ہیں۔
نمبر ١: جس نماز میں سوید نے ان کو دیکھا وہ سردی کی نماز تھی اور یہ بھی درست ہے کہ گرمی کی نماز ہو اور گرمی کا حکم ان کے ہاں بھی ابراد کا ہے اور اس کی دلیل یہ روایت ہے۔

1099

۱۰۹۹ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ ڑ الْحَنَفِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ : لِأَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ بِمَکَّۃَ إِنَّک بِأَرْضٍ حَارَّۃٍ شَدِیْدَۃِ الْحَرِّ، فَأَبْرِدْ، ثُمَّ أَبْرِدْ بِالْأَذَانِ لِلصَّلَاۃِ .أَفَلَا تَرٰی أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَمَرَ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ بِالْاِبْرَادِ لِشِدَّۃِ الْحَرِّ .وَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَحْمِلَ مَا رَوَاہُ عَنْہُ سُوَیْدٌ، عَلٰی غَیْرِ خِلَافِ ذٰلِکَ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ، کَانَ مِنْہُ فِیْ وَقْتٍ لَا حَرَّ فِیْہِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ حُکْمَ الظُّہْرِ أَنْ یُعَجَّلَ فِیْ سَائِرِ الزَّمَانِ، وَلَا یُؤَخَّرَ کَمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِیْ حَدِیْثِ خَبَّابٍ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَجَابِرٍ، وَأَبِیْ بَرْزَۃَ، وَإِنَّمَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَا کَانَ مِنْ أَمْرِہِ إِیَّاہُمْ بِالْاِبْرَادِ، رُخْصَۃً مِنْہُ لَہُمْ، لِشِدَّۃِ الْحَرِّ، لِأَنَّ مَسْجِدَہُمْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ ظِلَالٌ، وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ، مَا رُوِیَ عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ .
١٠٩٩: حضرت نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے مکہ میں ابو محذورہ (رض) کو حکم فرمایا تم گرم سخت حرارت والی سرزمین میں رہتے ہو پس ٹھنڈا کرو ٹھنڈا کرو پھر نماز ظہر کی اذان دو ۔ کیا تم توجہ نہیں کرتے کہ حضرت عمر (رض) نے ابومحذورہ (رض) کو سخت حرارت کی وجہ سے ٹھنڈے وقت میں نماز کا حکم دیا۔ پس بہترین طریق تو یہ ہے کہ حضرت سوید (رض) والی روایت کو اس کے ظاہر کے علاوہ پر محمول کیا جائے اور اس سے وہی وقت مراد ہوگا کہ جس میں شدت حرارت نہ ہو۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ‘ خباب اور جابر و ابوبرزہ (رض) کی روایات میں تو ظہر کو تمام موسموں میں جلدی پڑھنے کا حکم وارد ہوا ہے اور آپ کا اسے ٹھنڈے وقت وقت میں پڑھنے کا حکم رخصت و سہولت کے لیے ہے۔ اس کا سبب گرمی کی شدت تھی کیونکہ وہاں سایہ نایاب تھا۔ چنانچہ اس کے متعلق یہ اثر ملاحظہ ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٥۔
حاصل روایتإ
یہ ہے کہ عمر (رض) نے ابو محذورہ (رض) کو مکہ میں شدت حر کی وجہ سے ابراد کا حکم فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء کا طرز عمل ابراد ظہر کا تھا اور سوید بن غفلہ نے جس ظہر کا اپنی روایت میں تذکرہ فرمایا ہے وہ سردی کی نماز تھی۔

1100

۱۱۰۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْمَلِیْحِ، عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ قَالَ : لَا بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ نِصْفَ النَّہَارِ، وَإِنَّمَا کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ الصَّلَاۃَ نِصْفَ النَّہَارِ، لِأَنَّہُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ بِمَکَّۃَ، وَکَانَتْ شَدِیْدَۃَ الْحَرِّ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ ظِلَالٌ فَقَالَ : أَبْرِدُوْا بِہَا .قِیْلَ لَہٗ : ھٰذَا کَلَامٌ یَسْتَحِیْلُ لِأَنَّ ھٰذَا لَوْ کَانَ کَمَا ذَکَرْتُ، لَمَا أَخَّرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ فِی السَّفَرِ، حَیْثُ لَا کِنَّ وَلَا ظِلَّ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ذَرٍّ، وَیُصَلِّیْہَا حِیْنَئِذٍ لِأَنَّہٗ فِیْ أَوَّلِ وَقْتِہَا، مِنْ غَیْرِ کُنَّ وَلَا ظِلَّ .فَتَرْکُہُ الصَّلَاۃَ حِیْنَئِذٍ، دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ مِنْہُ مِنَ الْأَمْرِ بِالْاِبْرَادِ، لَیْسَ لَأَنْ یَکُوْنُوْا فِیْ شِدَّۃِ الْحَرِّ فِی الْکِنِّ، ثُمَّ یَخْرُجُوْنَ، فَیُصَلُّوْنَ الظُّہْرَ فِیْ حَالِ ذَہَابِ الْحَرِّ .لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، لَصَلَّاہَا حَیْثُ لَا کِنَّ أَوَّلَ وَقْتِہَا وَلَکِنْ مَا کَانَ مِنْہُ فِیْ ھٰذَا الْقَوْلِ عِنْدَنَا، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ إِیْجَابٌ مِنْہُ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ سُنَّتِہَا، کَانَ الْکِنُّ مَوْجُوْدًا أَوْ مَعْدُوْمًا، وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
١١٠٠: ابوالملیح نے بیان کیا کہ میمون بن مہران نے بتلایا کہ نصف النہار کے قریب نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں دراصل وہ نصف النہار کے وقت نماز کو اس لیے ناپسند کرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں نماز پڑھتے اور وہ شدید گرم جگہ ہے اور اس وقت مناسب سائے بھی نہ ہوتے تھے اسی لیے فرمایا تم ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ بات ناممکن ہے اگر اسی طرح ہو جس طرح آپ نے ذکر کیا تو آپ سفر میں اس کو مؤخر نہ فرماتے۔ جبکہ وہاں نہ سایہ ہے اور نہ کوئی جھونپڑا۔ جیسا کہ حضرت ابوذر (رض) کی روایت میں وارد ہے آپ نے اسے پہلے ہی وقت میں پڑھا کیونکہ وہاں سایہ وغیرہ کا معاملہ نہ تھا۔ تو آپ کا اس وقت میں اس کو چھوڑ دینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ نے ٹھنڈا کر کے جو پڑھنے کا حکم دیا وہ اس بناء پر نہیں تھا کہ سخت گرمی کے وقت میں وہ سائے میں رہیں اور پھر نکل کر گرمی کے چلے جانے پر ظہر کی نماز ادا کریں۔ اگر یہ بات اسی طرح ہوتی تو جہاں سایہ نہیں تھا وہاں آپ پہلے ہی وقت میں ادا فرما دیتے لیکن ہمارے نزدیک آپ کا یہ ارشاد (واللہ اعلم) وجوب کے لیے تھا اور یہی آپ کا طریقہ تھا۔ خواہ سایہ ہو یا نہ ہو اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف و محمد (رح) کا ہے۔
میمون بن مہران کی بات سے معلوم ہوتا ہے ظہر میں تعجیل ہی ہر زمانے میں افضل ہے جیسا کہ شروع باب میں حدیث عائشہ ‘ جناب جابر ‘ ابو برزہ (رض) سے ثابت ہے یہ ابراد کا حکم آپ کی طرف سے رخصت تھی کیونکہ گرمی سخت تھی ابراد کا حکم نہ تھا کہ اس کو افضل قرار دیا جائے۔
الجواب : یہ بات ہرگز درست نہیں اگر یہ رخصت ہوتی اور آپ کا حکم نہ ہوتا تو حضرات صحابہ کرام (رض) اس کو اختیار نہ کرتے وہ تو عزیمت پر عمل پیرا تھے نیز خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں ابراد کا حکم نہ فرماتے جہاں کوئی چھپر و سایہ بھی نہیں جیسا کہ روایت ابو ذر (رض) سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں تو بغیر سایہ اور چھپر کے آپ عام صحراء میں تھے پس آپ کا نماز کو ابراد کے لیے مؤخر کرنا یہ اس کی افضلیت کے لیے تھا اس لیے نہ تھا کہ وہ شدت حرارت سے سایہ کے ذریعہ بچ جائیں پھر وہ نکل کر ظہر کی نماز ایسی حالت میں ادا کرلیں کہ گرمی جا چکی ہو اگر ایسا ہوتا تو صحرا میں آپ اول وقت میں ادا فرماتے مگر وہاں ابراد کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ابراد افضل ہے خواہ وہاں سایہ اور چھپر موجود ہو یا نہ ہو۔
یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ و ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
نوٹ : اس باب میں بھی اشکالات کے جواب بڑے خوبصورت انداز سے دے کر موضوع کو مبرہن کیا گیا ہے مگر نظر طحاوی سے یہ باب بھی خالی ہے دلائل نقلیہ پر اکتفاء کیا گیا ہے۔

1101

۱۱۰۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : ثِنَا أَبِیْ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ الْأَنْصَارِیِّ، ثُمَّ الظَّفَرِیِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ سَمِعْتہ یَقُوْلُ : (مَا کَانَ أَحَدٌ أَشَدَّ تَعْجِیْلًا لِصَلَاۃِ الْعَصْرِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنْ کَانَ أَبْعَدَ رَجُلَیْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ دَارًا مِنْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَبُوْ لُبَابَۃَ بْنُ عَبْدِ الْمُنْذِرِ أَخُو بَنِیْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَأَبُوْ عَبْسِ بْنُ خَیْرٍ أَحَدُ بَنِیْ حَارِثَۃَ دَارُ أَبِیْ لُبَابَۃَ بِقُبَائَ، وَدَارُ أَبِیْ عَبْسٍ فِیْ بَنِیْ حَارِثَۃَ، ثُمَّ إِنْ کَانَ لَیُصَلِّیَانِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، ثُمَّ یَأْتِیَانِ قَوْمَہُمَا وَمَا صَلَّوْہَا لِتَبْکِیْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَا) .
١١٠١: عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری ظفری نے حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر عصر کی نماز میں کوئی عجلت کرنے والا نہ تھا انصار میں سب سے زیادہ مسجد نبوی سے دور رہنے والے دو انصاری تھے۔ ایک ابو لبابہ بن عبدالمنذر جو کہ بنی عمرو بن عوف سے تھے اور دوسرے ابو عبس بن خیر جن کا تعلق بنی حارثہ سے تھا ابو لبابہ کا مکان قباء میں اور ابو عبس کا بنو حارثہ میں تھا یہ دونوں حضرات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز عصر ادا کرتے پھر اپنے قبیلہ میں واپس لوٹتے تو ابھی وہ لوگ نماز عصر سے فارغ نہ ہوئے ہوتے تھے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز جلد ادا فرما لیتے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٢٣١۔
خلاصہ الزام : نماز عصر میں تاخیر یا تعجیل افضل ہے اس میں مذاہب ائمہ اس طرح ہیں۔
نمبر ١: امام شافعی ‘ مالک ‘ احمد ‘ ابن مبارک و اوزاعی (رح) کے ہاں عصر میں تعجیل افضل ہے۔
نمبر ٢: امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد ‘ ابراہیم نخعی (رح) کے ہاں اصفرار شمس سے پہلے پہلے تاخیر افضل ہے۔

1102

۱۱۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : أَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کُنَّا نُصَلِّی الْعَصْرَ، ثُمَّ یَخْرُجُ الْاِنْسَانُ إِلٰی بَنِیْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَیَجِدُہُمْ یُصَلُّوْنَ الْعَصْرَ) .
١١٠٢: اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم عصر کی نماز ادا کرتے پھر کوئی قباء کی طرف جاتا تو وہاں کے لوگوں کو نماز عصر میں مصروف پاتا تھا۔
تخریج : بخاری فی مواقیت الصلاۃ باب ١٣۔

1103

۱۱۰۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : أَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ وَإِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی الْعَصْرَ، ثُمَّ یَذْہَبُ الذَّاہِبُ إِلٰی قُبَائَ .قَالَ أَحَدُہُمَا، وَہُمْ یُصَلُّوْنَ، وَقَالَ الْآخَرُ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ) .
١١٠٣: اسحاق بن عبداللہ نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ادا فرماتے پھرجانے والا قباء جاتا جبکہ ابھی سورج بلند ہوتا یا جب کہ ابھی وہ نماز میں مصروف ہوتے۔
تخریج : مالک فی الموطا باب وقوت الصلاۃ نمبر ١١‘ والشمس مرتفہ کے الفاظ نقل کئے ہیں۔
زہری نے انس سے والشمس مرتفعہ نقل کیا اور اسحاق بن عبداللہ نے وہم یصلون نقل کیا ہے۔

1104

۱۱۰۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : أَنَا مَالِکٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَنَسٍ ح.
١١٠٤: زہری نے انس بن مالک (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1105

۱۱۰۵ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : (کُنَّا نُصَلِّی الْعَصْرَ، ثُمَّ یَذْہَبُ الذَّاہِبُ إِلٰی قُبَائَ، فَیَأْتِیْہِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ) .
١١٠٥: ابن شہاب نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ ہم عصر کی نماز ادا کرتے پھرجانے والا قباء کی طرف جاتا اور وہاں اس حال میں پہنچ جاتا کہ سورج ابھی تک بلند ہوتا۔
تخریج : روایت نمبر ١١٠٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1106

۱۱۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَنَسٍ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی الْعَصْرَ، فَیَذْہَبُ الذَّاہِبُ إِلَی الْعَوَالِیْ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ) .قَالَ الزُّہْرِیّ : وَالْعَوَالِیْ، عَلَی الْمِیْلَیْنِ وَالثَّلَاثَۃِ وَأَحْسِبُہُ قَالَ : وَالْأَرْبَعَۃِ .
١١٠٦: زہری نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ادا کرتے پھرجانے والا عوالی میں پہنچ جاتا اس حال میں کہ سورج ابھی اونچا ہوتا تھا زہری کہتے ہیں عوالی مدینہ سے دو یا تین یا چار میل یہ فاصلے کا فرق علاقے کی ابتداء اور انتہاء کے اعتبار سے ہے عوالی کا آخری کنارہ چار میل ہے راوی نے تین یا چار بولا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٥۔

1107

۱۱۰۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ حَیَّۃٌ، فَیَذْہَبُ الذَّاہِبُ إِلَی الْعَوَالِیْ، فَیَأْتِی الْعَوَالِیْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ) .
١١٠٧: ابن شہاب نے انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ایسے وقت ادا فرماتے جبکہ ابھی سورج بلند خوب تازہ روشنی والا ہوتا اور جانے والا عوالی جاتا اور وہاں پہنچ کر بھی ابھی سورج بلند ہوتا۔
تخریج : نمبر ١١٠٦ روایت والی تخریج ملاحظہ ہو۔

1108

۱۱۰۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃٌ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ رِبْعِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَبْیَضِ، قَالَ : ثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِنَا الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلٰی قَوْمِی، وَہُمْ جُلُوْسٌ فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَدِیْنَۃِ، فَأَقُوْلُ لَہُمْ : قُوْمُوْا فَصَلُّوْا، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلّٰی). فَقَدِ اخْتُلِفَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، فَکَانَ مَا رَوٰی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ وَإِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، وَأَبُو الْأَبْیَضِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یَدُلُّ عَلَی التَّعْجِیْلِ بِہَا، لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِہِمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْہَا، ثُمَّ یَذْہَبُ الذَّاہِبُ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِیْ ذَکَرُوْا، فَیَجِدُہُمْ لَمْ یُصَلُّوا الْعَصْرَ .وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ أُوْلَئِکَ لَمْ یَکُوْنُوْا یُصَلُّوْنَہَا إِلَّا قَبْلَ اصْفِرَارِ الشَّمْسِ، فَھٰذَا دَلِیْلُ الْمُتَعَجِّلِ . وَأَمَّا مَا رَوَی الزُّہْرِیُّ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَإِنَّہٗ قَالَ کُنَّا نُصَلِّیْہَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَأْتِی الْعَوَالِیَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃُ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ مُرْتَفِعَۃً قَدِ اصْفَرَّتْ .فَقَدِ اضْطَرَبَ حَدِیْثُ أَنَسٍ ھٰذَا، لِأَنَّ مَعْنٰی مَا رَوَی الزُّہْرِیُّ مِنْہُ، بِخِلَافِ مَا رَوٰی إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ، وَأَبُو الْأَبْیَضِ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ غَیْرِ أَنَسٍ .فَمِنْ ذٰلِکَ۔
١١٠٨: ابوالابیض نے حضرت انس بن مالک (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں عصر کی نماز پڑھاتے جبکہ سورج کی دھوپ ابھی سفید ہوتی پھر میں اپنے قبیلہ میں جاتا اور وہ مدینہ کی ایک جانب میں آباد تھے میں ان کو کہتا کہ اٹھ کر نماز ادا کرلو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز ادا فرما چکے۔ حضرت انس (رض) سے وارد روایات مختلف ہیں۔ چنانچہ عاصم بن عمر والی روایت جلدی پڑھنے کو بتلاتی ہے کیونکہ اس روایت میں یہ ہے : ((ان رسول اللہ ا کان یصلیھا )) کہ نماز پڑھنے والا نماز پڑھ کر اس جگہ پہنچ جاتا جس کا انھوں نے روایت میں تذکرہ کیا اور ان کو اس حال میں پاتا کہ ابھی انھوں نے عصر کی نماز ادا نہیں کی اور یہ بات تو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ سب نماز کو سورج کے زرد ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لیتے تھے تو جلدی ادا کرنے کی دلیل بن گئی۔ رہی وہ روایت جس کو زہری نے ان سے روایت کیا ہے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز عصر ادا کرتے پھر عوالی مدینہ میں پہنچتے جبکہ سورج ابھی بلند ہی ہوتا تو اس کے متعلق یہ کہنا بھی درست ہے کہ سورج زرد ہو کر غروب کے مقام سے بلند ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ حضرت انس (رض) کی یہ روایت مضطرب ہے کیونکہ زہری نے اسحق ‘ عاصم اور ابو الابیض کے خلاف روایت نقل کی ہے اور یہ روایت حضرت انس (رض) کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔
حاصل روایات : ان آٹھ روایات بالا سے تعجیل عصر کا ثبوت ملتا ہے حضرت انس (رض) کے شاگرد عاصم بن عمر ‘ اسحاق بن عبداللہ ‘ ابوالابیض کی روایات میں یہ بات مذکور ہے کہ انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ لیتے تو جانے والا عوالی میں جاتا اور ان کو اس حالت میں پاتا کہ ابھی تک انھوں نے نماز عصر نہ پڑھی ہوتی اور یہ تو ہم جانتے ہیں وہ آفتاب کی زردی سے پہلے نماز عصر ادا کرتے تھے اس سے ثابت ہوا کہ وہ عصر میں تعجیل فرماتے البتہ زہری کی روایت میں ہے کہ عوالی میں آتے جبکہ ابھی سورج بلند ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اصفرار کی حالت میں بلندی مراد ہو اگر یہ معنی لیں تو پھر یہ روایت دیگر روایات کے خلاف ہوگی پس اس روایت میں اضطراب ہے جس کی وجہ سے قابل استدلال نہیں کیونکہ زہری کی روایت کا مفہوم اسحاق بن عبداللہ اور عاصم بن عمر اور ابوالابیض کی روایت سے مختلف ہے جبکہ سب حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں۔
نماز عصر کی تاخیر کے قائلین کا مؤقف :
نماز عصر کو اصفرار آفتاب سے پہلے پہلے مگر ذرا تاخیر سے پڑھا جائے یہ افضل ہے اس سلسلہ کی روایات و آثار بمع جوابات اشکال پیش کئے جائیں گے۔

1109

۱۱۰۹ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ، قَالَا : حَدَّثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ وَاقِدِ ڑاللَّیْثِیُّ، قَالَ : ثَنَا (أَبُوْ أَرْوَیْ قَالَ : کُنْتُ أُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالْمَدِیْنَۃِ ثُمَّ آتِی الشَّجَرَۃَ ذَا الْحُلَیْفَۃِ، قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَہِیَ عَلٰی رَأْسِ فَرْسَخَیْنِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ کَانَ یَسِیْرُ بَعْدَ الْعَصْرِ فَرْسَخَیْنِ، قَبْلَ أَنْ تَغِیْبَ الشَّمْسُ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ سَیْرًا عَلَی الْأَقْدَامِ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ سَیْرًا عَلَی الْاِبِلِ وَالدَّوَابِّ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ سَالِمٍ الصَّائِغُ۔
١١٠٩: ابو واقد لیثی کہتے ہیں کہ ہمیں ابو ارویٰ (رض) نے بیان کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عصر کی نماز مدینہ منورہ میں پڑھتا پھر میں ذوالحلیفہ کے درختوں والے مقام میں غروب آفتاب سے پہلے آجاتا یہ مقام مدینہ منورہ سے دو فرسخ پر واقع ہے۔ (فرسخ تین میل ہوتا ہے) اس روایت میں یہ آیا ہے کہ ہم عصر کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے دو فرسخ فاصلہ طے کرلیتے۔ اس سے یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ پیدل چلنا ہو یا اونٹ یا گھوڑے پر ہو اس کے لیے مندرجہ ذیل روایت کو دیکھنا ہوگا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٧۔
حاصل روایات : اس روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابو ارویٰ (رض) عصر کے بعد دو فرسخ کا سفر کرتے اور ابھی تک سورج غروب نہ ہو پاتا اس روایت میں یہ دونوں احتمال ہیں کہ پیدل چل کر جاتے یا سوار ہو کر مگر روایت محمد بن اسماعیل بن سالم الصائغ نے پہلے احتمال کو متعین کردیا وہ روایت ملاحظہ ہو۔

1110

۱۱۱۰ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مُعَلّٰی وَأَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضَرِیُّ، قَالَا ثَنَا وُہَیْبٌ، عَنْ أَبِیْ وَاقِدٍ قَالَ : ثَنَا (أَبُوْ أَرْوَی، قَالَ کُنْتُ أُصَلِّی الْعَصْرَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَمْشِی إِلٰی ذِی الْحُلَیْفَۃِ، فَآتِیْہِمْ قَبْلَ أَنْ تَغِیْبَ الشَّمْسُ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ کَانَ یَأْتِیْہَا مَاشِیًا .وَأَمَّا قَوْلُہٗ (قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ) فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ وَقَدْ اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، وَلَمْ یَبْقَ مِنْہَا إِلَّا أَقَلُّ الْقَلِیْلِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ، نَحْوٌ مِنْ ذٰلِکَ .
١١١٠: وہیب نے ابو واقد سے اور اس نے ابو ارویٰ (رض) سے نقل کیا کہ میں عصر کی نماز جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد نبوی میں پڑھتا پھر میں پیدل ذوالحلیفہ آتا اور میں غروب آفتاب سے پہلے پہنچ جاتا۔ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے پیدل چل کر آتے تو اس میں یہ کہنا درست ہے کہ اس وقت ممکن ہے تھوڑا سا وقت باقی ہو اور سورج زرد ہوچکا ہو۔ چنانچہ یہ روایت ہماری مؤید ہے۔
تخریج : ملمعجم الکبیر ٢٢؍٣٦٩‘ مسند احمد ٤؍٣٣٤‘ مجمع الزوائد ١؍٤٨۔
حاصل روایات : اور روایت ابی مسعود (رض) اس کی تائید کرتی ہے کہ یہی معنی ہے۔

1111

۱۱۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ، أَخْبَرَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی صَلَاۃَ الْعَصْرِ، وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُرْتَفِعَۃٌ، یَسِیْرُ الرَّجُلُ حِیْنَ یَنْصَرِفُ مِنْہَا إِلٰی ذِی الْحُلَیْفَۃِ سِتَّۃَ أَمْیَالٍ، قَبْلَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ) .فَقَدْ وَافَقَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ أَیْضًا حَدِیْثُ أَبِیْ أَرْوَی، وَزَادَ فِیْہِ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْہَا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یُؤَخِّرُہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا۔
١١١١: عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے بشیر بن ابی مسعود (رض) نے اپنے والد ابو مسعود (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ادا فرماتے اس حال میں کہ سورج سفید بلند ہوتا نماز سے فارغ ہو کر آدمی ذوالحلیفہ تک چلا جاتا جو کہ چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور سورج ابھی غروب نہ ہو پاتا۔ یہ روایت بھی ابوعروہ والی روایت کے موافق ہے اور اس میں اس بات کا اضافہ ہے کہ وہ عصر کی نماز ایسی حالت میں پڑھ لیتے جبکہ سورج ابھی بلند ہوتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس کو مؤخر فرماتے اور حضرت انس (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢‘ نمبر ٣٩٤۔
حاصل روایت یہ ہے کہ یہ حدیث ابی ارویٰ (رض) کے موافق ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ نماز سے فارغ ہوتے اس وقت سورج ابھی بلند ہوتا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نماز کو مؤخر کرتے اور یہ دلیل اس طرح ہی بنے گی کہ جب ان کی قوت رفتار کو زیادہ تسلیم کیا جائے۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

1112

۱۱۱۲ : مَا حَدَّثَنَا نَصَّارُ بْنُ حَرْبِ ڑ الْمِسْمَعِیُّ الْبَصَرِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ رِبْعِیٍّ، عَنْ أَبِی الْأَبْیَضِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی صَلَاۃَ الْعَصْرِ وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُحَلِّقَۃٌ) .فَقَدْ أَخْبَرَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْہَا وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُحَلِّقَۃٌ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یُؤَخِّرُہَا، ثُمَّ یَکُوْنُ بَیْنَ الْوَقْتِ الَّذِیْ کَانَ یُصَلِّیْہَا فِیْہِ وَبَیْنَ غُرُوْبِہَا، مِقْدَارُ مَا کَانَ یَسِیْرُ الرَّجُلُ إِلٰی ذِی الْحُلَیْفَۃِ وَإِلٰی مَا ذُکِرَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، مِنَ الْأَمَاکِنِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
١١١٢: ابوالابیض نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر پڑھاتے اور سورج ابھی سفید بلند ہوتا۔ حضرت انس (رض) نے بتلایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازِ عصر کو ایسے وقت میں ادا کرتے جبکہ سورج سفید چمکدار ہوتا۔ پس یہ دلیل ہے کہ آپ اس کو مؤخر فرماتے پھر اس وقت میں اور غروب میں اتنا وقت ہوتا کہ آدمی ذوالحلیفہ وغیرہ تک جاسکتا تھا جن مقامات کا ان روایات میں تذکرہ آیا ہے اور حضرت انس (رض) سے بھی ایسی روایت وارد ہے۔
اللغات : محلقہ۔ ای مرتفعہ بلند۔
تخریج : نسائی فی الموقیت باب ٨‘ مسند احمد ٣؍١٣١‘ ١٦٩؍١٨٤‘ ٢٣٢۔
حاصل روایت ہذا :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر ایسے وقت ادا فرما لیتے جب کہ سورج سفید بلند ہوتا یہ دلیل ہے کہ آپ اس کو مؤخر فرماتے پھر جس وقت میں نماز ادا فرماتے اس کے اور غروب کے درمیان اتنا وقت ہوتا جس میں سوار ذوالحلیفہ وغیرہ مقامات تک جاسکتا تھا۔

1113

۱۱۱۳ : مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ صَدَقَۃَ مَوْلٰی أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ أَنَسٍ (أَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ فَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی صَلَاۃَ الْعَصْرِ، مَا بَیْنَ صَلَاتَیْکُمْ ہَاتَیْنِ) .فَذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ (فِیْمَا بَیْنَ صَلَاتَیْکُمْ ہَاتَیْنِ) مَا بَیْنَ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، وَصَلَاۃِ الْمَغْرِبِ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی تَأْخِیْرِہِ الْعَصْرَ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ فِیْمَا بَیْنَ تَعْجِیْلِکُمْ وَتَأْخِیْرِکُمْ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی التَّأْخِیْرِ أَیْضًا، وَلَیْسَ بِالتَّأْخِیْرِ الشَّدِیْدِ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا، وَکَانَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِی الْأَبْیَضِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْہَا وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُحَلِّقَۃٌ، دَلَّ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یُؤَخِّرُہَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : کَیْفَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذَمِّ مَنْ یُؤَخِّرُ الْعَصْرَ .فَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١١١٣: شعبہ نے ابو صدقہ مولیٰ انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ان (انس (رض)) سے اوقات نماز کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری ان دونوں نمازوں کے درمیان نماز عصر ادا فرماتے۔ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ روایت کے الفاظ ((فی ما بین صلٰوتیکم ھاتین۔۔۔)) اس سے ظہر اور مغرب کی نمازیں مراد ہیں۔ یہ تاخیر عصر کی دلیل ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تمہاری عجلت اور تاخیر کے درمیان مراد ہے۔ پس یہ تاخیر کی دلیل بن گئی۔ مگر اس تاخیر سے سخت قسم کی تاخیر مراد نہیں۔ جب روایت میں مذکورہ احتمال پیدا ہوگیا اور ابو الابیض والی روایت کہ آپ نماز عصر کو ایسے وقت میں ادا فرماتے جب سورج سفید اور روشن ہوتا وہ تاخیر کو ثابت کر رہی ہے اگر کوئی اس کے متعلق یہ کہے کہ آپ اس سے تاخیر کیسے مراد لیتے ہیں جبکہ حضرت انس (رض) کی یہ روایت موجود ہے۔
تخریج : الحاکم فی الکنٰی ۔
فیما بین صلاتیکم ھاتین اس عبارت میں احتمالات ہیں۔
نمبر ١: تمہاری تعجیل و تاخیر کے درمیان اس سے تاخیر مراد ہے مگر تاخیر شدید مراد نہیں ہے۔
نمبر ٢: نماز ظہر اور مغرب کے درمیان کا وقت اور یہ تاخیر کی دلیل ہے۔ اور انس (رض) کی روایت میں مذکور ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو اس وقت پڑھتے جب سورج سفید بلند ہوتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس کو مؤخر کرتے تھے۔
اشکال :
اس سے آپ تاخیر کس طرح مراد لیتے ہیں جبکہ حضرت انس (رض) سے تاخیر عصر کی شدید مذمت ثابت ہے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

1114

۱۱۱۴ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہٗ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ الظُّہْرِ فَقَامَ یُصَلِّی الْعَصْرَ .فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ، ذَکَرْنَا تَعْجِیْلَ الصَّلَاۃِ، أَوْ ذَکَرَہَا فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِیْنَ قَالَہَا ثَلَاثًا یَجْلِسُ أَحَدُہُمْ حَتّٰی اِذَا اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، وَکَانَتْ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ قَامَ، فَنَقْرَ أَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْہِنَّ إِلَّا قَلِیْلًا) .قِیْلَ لَہٗ فَقَدْ بَیَّنَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ التَّأْخِیْرَ الْمَکْرُوْہَ مَا ہُوَ؟ وَإِنَّمَا ہُوَ التَّأَخُّرُ الَّذِیْ لَا یُمْکِنُ بَعْدَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ الْعَصْرَ إِلَّا أَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ إِلَّا قَلِیْلًا .فَأَمَّا صَلَاۃٌ یُصَلِّیْہَا مُتَمَکِّنًا، وَیَذْکُرُ اللّٰہَ تَعَالٰی فِیْہَا مُتَمَکِّنًا قَبْلَ تَغَیُّرِ الشَّمْسِ، فَلَیْسَ ذٰلِکَ مِنَ الْأَوَّلِ فِیْ شَیْئٍ .وَالْأَوْلٰی بِنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ لَمَّا جَائَ تْ ھٰذَا الْمَجِیْئَ أَنْ نَحْمِلَہَا وَنُخَرِّجَ وُجُوْہَہَا عَلَی الِاتِّفَاقِ، لَا عَلَی الْخِلَافِ وَالتَّضَادِّ .فَنَجْعَلَ التَّأْخِیْرَ الْمَکْرُوْہَ فِیْہَا ہُوَ مَا بَیَّنَہُ الْعَلَائُ، عَنْ أَنَسٍ، وَنَجْعَلَ الْوَقْتَ الْمُسْتَحَبَّ مِنْ وَقْتِہَا أَنْ یُصَلِّیَ فِیْہِ ہُوَ مَا بَیَّنَہٗ أَبُو الْأَبْیَضِ، عَنْ أَنَسٍ، وَوَافَقَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا یَدُلُّ عَلَی التَّعْجِیْلِ بِہَا، فَذَکَرَ۔
١١١٤: علاء بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں انس (رض) کی خدمت میں ظہر کے بعد گیا تو ذرا دیر کے بعد وہ عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز عصر کی عجلت کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگے یہ منافقین کی نماز ہے یہ کلمہ تین بار دھرایا کہ ان میں سے کوئی بیٹھ رہتا ہے جب سورج پیلا زرد پڑجاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے تو پھر چار ٹھونگے مارتا ہے اور ان میں معمولی سا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔ تو اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اس روایت میں تو حضرت انس (رض) نے اس تاخیر کی وضاحت کی جو کہ ناپسندیدہ ہے اور وہ ایسی تاخیر ہے کہ جس کے بعد فقط چار رکعتیں عصر کی پڑھی جاسکتی ہوں اور اللہ تعالیٰ کا معمولی ذکر کیا جاسکتا ہو۔ اطمینان کے ساتھ ذکر والی نماز تو سورج کے زرد پڑنے سے پہلے ہے۔ اس وعید اور ڈراوے کا تعلق اس بات سے نہیں ہے۔ پس ہمارے لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اس روایت کا ایسا معنی لیں جس سے ان کا باہمی تضاد ختم ہو کر مطابقت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ ہم عرض کریں گے کہ علاء والی روایت سے مراد مکروہ تاخیر ہے اور ابو الابیض والی روایات سے مصر کا مستحب وقت مراد ہے چنانچہ ابو مسعود والی روایت بھی اسی کے موافق ہے اور اگر کوئی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی ان روایات سے استدلال کرے۔ اس کا جواب گزر چکا۔ ان آثار کو مجموعی طور پر دیکھو اور ان کی صحت کا لحاظ رکھا جائے تو یہ تاخیر عصر پر دلالت کرتے ہیں ان میں کوئی روایت بھی عصر کے جلدی پڑھنے کو ثابت نہیں کرتی۔ صرف اتنی بات ہے کہ اس سے روایات میں تعارض رہتا ہے۔ اس لیے ہم نے عصر کی تاخیر کو مستحب قرار دیا کہ اس کو ایسے وقت میں پڑھا جائے جبکہ سورج اچھی طرح روشن ہو اور غروب سے پہلے کچھ وقت بچتا ہو۔ اگر ہم غور کریں تو تمام نمازوں کا جلدی پڑھنا افضل نظر آتا ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو باتیں روایات میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) سے ثابت ہو رہی ہیں ان کی پیروی اولیٰ ہے۔ چنانچہ یہ روایات اس پر دلالت کرتی ہیں۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ روایت نمبر ١٩٥‘ ابو داؤدفی الصلاۃ باب ٥‘ نمبر ٤١٣‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٦‘ نمبر ١٦٠‘ نسائی فی الصلاۃ باب ٩۔
الجواب : اس روایت میں تو اشکال کا حل خود موجود ہے کہ حضرت انس (رض) نے جس تاخیر کو مذموم قرار دیا وہ وہی تاخیر مفرط ہے کہ جب سورج کی دھوپ پیلی پڑجائے اور اس میں تبدیلی واقع ہوجائے اس کے قریب نماز شروع کی جائے یا اس وقت میں پڑھی جائے۔ البتہ وہ تاخیر جس کے استحباب کی بات چل رہی ہے وہ وہی ہے جس میں اطمینان و سکون سے نماز ادا کی جائے پھر کسی نقص سے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت پیش آئے تو دوبارہ اصفرار سے قبل اطمینان سے ادا کی جاسکے اس کا مذمت سے کوئی تعلق نہیں جیسا حضرت انس (رض) اور ابو مسعود انصاری کی روایات ابھی گزریں۔
ہماری ذمہ داری :
ان روایات مختلفہ میں ہم تضاد ظاہر کرنے کی بجائے موافقت کی صورت پیدا کریں تاکہ ہر دو قسم کی روایات پر عمل ہوجائے جو کہ اصل مقصود ہے چنانچہ تاخیر مکروہ جس کی مذمت کی گئی ہے وہ وہی ہے جس کا تذکرہ روایت نمبر ١١١٤ علاء بن عبدالرحمن کی روایت میں ہے اور تاخیر مستحب وہ ہے جس کا تذکرہ ابوالابیض نمبر ١١١٢ نے اپنی روایت میں کیا اور روایات ابو مسعود (رض) نمبر ١١١١ نے بھی اس کی تائید کردی ہے واللہ الموفق۔
اشکال نمبر ٢: حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر میں تعجیل چاہیے روایت ملاحظہ ہو۔

1115

۱۱۱۵ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، قَالَ حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِیْ حُجْرَتِہَا قَبْلَ أَنْ تَظْہَرَ) .
١١١٥: عروہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر ادا فرماتے تھے جبکہ سورج کی دھوپ میرے حجرہ میں ہوتی اور سایہ خوب نمایاں نہ ہوتا تھا۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١‘ ١٣‘ والخمس باب ٤‘ مسلم فی المساجد روایت ١٦٧؍١٦٨‘ ١٦٩؍١٧٠‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥ نمبر ٤٠٧‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٦‘ نمبر ١٥٩‘ نسائی فی المواقیت باب ٨‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢‘ مالک فی الموطا باب الصلاۃ ٢‘ مسند احمد ٦؍٨٥‘ ٢٠٤۔
اللغآت : ظہر یظہر۔ نمایاں ہونا۔

1116

۱۱۱۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ سَمِعَ عُرْوَۃَ یُحَدِّثَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُصَلِّی الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِیْ حُجْرَتِہَا لَمْ یَفِیِٔ الْفَیْئُ بَعْدُ) .
١١١٦: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ادا فرما لیتے جبکہ سورج کی دھوپ میرے حجرہ میں ہوتی اور اس کا سایہ دیواروں پر ظاہر و نمایاں نہ ہوتا۔
اللغات : فاء یفیئ۔ چڑھنا اور ظاہر ہونا۔
تخریج : روایت نمبر ١١١٥ کی تخریج پر اکتفا کریں۔

1117

۱۱۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ؟ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی صَلَاۃَ الْعَصْرِ، وَالشَّمْسُ طَالِعَۃٌ فِیْ حُجْرَتِیْ) .قِیْلَ لَہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، وَقَدْ أَخَّرَ الْعَصْرَ لِقِصَرِ حُجْرَتِہَا، فَلَمْ یَکُنِ الشَّمْسُ تَنْقَطِعُ مِنْہُمَا إِلَّا بِقُرْبِ غُرُوْبِہَا فَلَا دَلَالَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ عَلٰی تَعْجِیْلِ الْعَصْرِ .وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ح .
١١١٧: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر ادا فرماتے جبکہ سورج میرے حجرہ میں چمکنے والا ہوتا۔ تو ان سے ہم جواب میں یہ عرض کریں گے کہ عین ممکن ہے کہ آپ نے کبھی عصر کو کچھ مؤخر کیا ہو کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا حجرہ چھوٹا تھا تو سورج کی شعائیں غروب کے قریب تک اس سے منقطع نہیں ہوتی تھیں۔ پس ان روایات میں عصر کو جلدی پڑھنے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے۔
تخریج : تخریج روایت ١١١٥ کو ملاحظہ فرمائیں۔
الجواب : بات بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ روایت میں وارد ہے حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ کی دیواریں بہت پست تھیں اور باہر صحن کی دیواروں کا بھی حال یہی تھا سورج کی دھوپ گھر سے غروب کے قریب منقطع ہوتی اور اس وقت سایہ گھر میں پھیلتا تھا پس اس سے تعجیل عصر کی افضلیت پر استدلال درست نہیں مندرجہ بالا تینوں روایات میں قریب قریب ایک ہی بات کہی گئی ہے کہ دھوپ حجرہ مبارک میں ہوتی تھی اور دیواروں پر سایہ نمایاں نہ ہوتا تھا اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ مدینہ منورہ کا قبلہ جنوبی ہے اور حجرات امہا ت المؤمنین ٹھیک مشرقی رخ پر واقع تھے جس سے دن کے آخری حصہ تک دھوپ کا رہنا لازمی امر تھا۔ فتفکر و تدبر۔
اشکال نمبر ٣: شعبہ نے یسار بن سلامہ سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر ادا فرماتے اس سے فراغت پا کر آدمی مدینہ منورہ شہر کے آخری کنارے تک جاسکتا تھا اور سورج اپنی چمک کے ساتھ ہوتا تھا۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1118

۱۱۱۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یَسَارِ بْنِ سَلَامَۃَ، قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَبِیْ عَلٰی أَبِیْ بَرْزَۃَ فَقَالَ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی الْعَصْرَ فَیَرْجِعُ الرَّجُلُ إِلٰی أَقْصَی الْمَدِیْنَۃِ وَالشَّمْسُ حَیَّۃٌ) .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ مَضٰی جَوَابُنَا فِیْ ھٰذَا، فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ، فَلَمْ نَجِدْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ لَمَّا صُحِّحَتْ وَجُمِعَتْ، مَا یَدُلُّ إِلَّا عَلٰی تَأْخِیْرِ الْعَصْرِ، وَلَمْ نَجِدْ شَیْئًا مِنْہَا یَدُلُّ عَلَی تَعْجِیْلِہَا إِلَّا قَدْ عَارَضَہٗ غَیْرُہٗ، فَاسْتَحْبَبْنَا بِذٰلِکَ تَأْخِیْرَ الْعَصْرِ إِلَّا أَنَّہَا تُصَلّٰی وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ، فِیْ وَقْتٍ یَبْقٰی بَعْدَہٗ مِنْ وَقْتِہَا مُدَّۃٌ قَبْلُ تَغَیُّبِ الشَّمْسِ .وَلَوْ خُلِّیْنَا وَالنَّظَرَ، لَکَانَ تَعْجِیْلُ الصَّلَوَاتِ کُلِّہَا فِیْ أَوَائِلِ أَوْقَاتِہَا أَفْضَلَ وَلَکِنَّ اتِّبَاعَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِمَّا تَوَاتَرَتْ بِہِ الْآثَارُ أَوْلٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
١١١٨: یسار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ابو برزہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر ادا فرماتے اور نماز سے سے فارغ ہو کر آدمی شہر کی انتہا تک چلا جاتا اس حال میں کہ سورج ابھی چمکدار ہوتا تھا۔ اگر ہم روایات سے قطع نظر قیاس کو دیکھیں تو تمام نمازوں کا اول وقت میں پڑھنا افضل نظر آتا ہے اس کی خواہ یہ وجہ تسلیم کریں کہ تعمیل امر الٰہی میں مسارعت ہے اور تاخیر میں عمل منافقین کی مشابہت ہے جس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ مگر تاخیر کی روایات اس قدر کثرت سے پائی جاتی ہیں جو تاخیر کی افضلیت کو نمایاں کرتی ہے اور عمل صحابہ (رض) وتابعین سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ١٣‘ مسلم فی المساجد نمبر ٣٣٥۔
الجواب : اس اشکال کا جواب گزر چکا کیونکہ تعجیل عصر کی جس قدر روایات مذکور ہیں تاخیر عصر کی روایات بھی اسی قدر پائی جاتی ہیں ہم نے تطبیق روایات کی یہ شکل بیان کی ہے کہ تاخیر عصر کو مستحب اور افضل قرار دیا جائے بشرطیکہ تاخیر مفرط سے بچا جائے جس کی مذمت دوسری روایات میں موجود ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اگر ہم روایات سے قطع نظر قیاس کو دیکھیں تو تمام نمازوں کا اول وقت میں پڑھنا افضل نظر آتا ہے اس کی خواہ یہ وجہ تسلیم کریں کہ تعمیل امر الٰہی میں مسارعت ہے اور تاخیر میں عمل منافقین کی مشابہت ہے جس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
مگر تاخیر کی روایات اس قدر کثرت سے پائی جاتی ہیں جو تاخیر کی افضلیت کو نمایاں کرتی ہیں اور عمل صحابہ (رض) وتابعین سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

1119

۱۱۱۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلٰی عُمَّالِہِ " إِنَّ أَہَمَّ أَمْرِکُمْ عِنْدِی الصَّلَاۃُ، مَنْ حَفِظَہَا وَحَافَظَ عَلَیْہَا، حَفِظَ دِیْنَہُ، وَمَنْ ضَیَّعَہَا فَہُوَ لِمَا سِوَاہَا أَضْیَعُ، صَلُّوا الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَیْضَائُ نَقِیَّۃٌ، قَدْرَ مَا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فَرْسَخَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً .
١١١٩: نافع نے حضرت عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے اپنے حکام کو تحریر کیا کہ میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم ترین مسئلہ نماز ہے۔ جس نے اس کی حفاظت کی اور دوسروں سے حفاظت کروائی اس نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے اس کو ضائع کیا وہ دین کے دوسرے اعمال کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہے عصر کی نماز ادا کرو جبکہ سورج بلند ‘ سفید صاف ہو اتنی دیر غروب سے پہلے ہو کہ سوار دو یا تین فرسخ جاسکے۔
تخریج : موطا مالک ١؍٣۔

1120

۱۱۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَکِیْمٍ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی جِنَازَۃٍ، فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ، وَسَکَتَ حَتَّی رَاجَعْنَاہُ مِرَارًا، فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ، حَتَّی رَأَیْنَا الشَّمْسَ عَلٰی رَأْسِ أَطْوَلِ جَبَلٍ بِالْمَدِیْنَۃِ .
١١٢٠: عکرمہ کہتے ہیں ہم نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ ایک جنازہ میں شرکت کی انھوں نے عصر کی نماز ادا نہ کی اور خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے بار بار یہ بات دھرائی ہم نے دیکھا کہ اس وقت سورج مدینہ منورہ کے سب سے طویل پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٨٩۔

1121

۱۱۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : " کَانَ مَنْ قَبْلَکُمْ أَشَدَّ تَعْجِیْلًا لِلظُّہْرِ وَأَشَدَّ تَأْخِیْرًا لِلْعَصْرِ مِنْکُمْ " .فَھٰذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَکْتُبُ إِلٰی عُمَّالِہِ، وَہُمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُہُمْ، بِأَنْ یُصَلُّوا الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُرْتَفِعَۃٌ .ثُمَّ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَخَّرَہَا، حَتَّی رَآہَا عِکْرِمَۃُ عَلٰی رَأْسِ أَطْوَلِ جَبَلٍ بِالْمَدِیْنَۃِ .ثُمَّ اِبْرَاہِیْمُ یُخْبِرُ عَمَّنْ کَانَ قَبْلَہُ یَعْنِی مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّہُمْ کَانُوْا أَشَدَّ تَأْخِیْرًا لِلْعَصْرِ مِمَّنْ بَعْدَہُمْ .فَلَمَّا جَائَ ھٰذَا مِنْ أَفْعَالِہِمْ، وَمِنْ أَقْوَالِہِمْ مُؤْتَلِفًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا، وَرُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْہَا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ وَفِیْ بَعْضِ الْآثَارِ مُحَلِّقَۃٌ، وَجَبَ التَّمَسُّکُ بِھٰذِہِ الْآثَارِ، وَتَرْکُ خِلَافِہَا، وَأَنْ یُؤَخِّرُوا الْعَصْرَ، حَتّٰی لَا یَکُوْنَ تَأْخِیْرُہَا یُدْخِلُ مُؤَخِّرَہَا فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ أَخْبَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ الْعَلَائِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِیْنَ فَإِنَّ ذٰلِکَ الْوَقْتَ، ہُوَ الْوَقْتُ الْمَکْرُوْہُ تَأْخِیْرُ صَلَاۃِ الْعَصْرِ إِلَیْہِ) .فَأَمَّا مَا قَبْلَہٗ مِنْ وَقْتِہَا، مِمَّا لَمْ تَدْخُلِ الشَّمْسُ فِیْہِ صُفْرَۃٌ، وَکَانَ الرَّجُلُ یُمْکِنُہُ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْہِ صَلَاۃَ الْعَصْرِ وَیَذْکُرَ اللّٰہَ فِیْہَا مُتَمَکِّنًا، وَیَخْرُجُ مِنَ الصَّلَاۃِ وَالشَّمْسُ کَذٰلِکَ، فَلَا بَأْسَ بِتَأْخِیْرِ الْعَصْرِ إِلٰی ذٰلِکَ الْوَقْتِ وَذٰلِکَ أَفْضَلُ لِمَا قَدْ تَوَاتَرَتْ بِہٖ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ وَلَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، أَنَّہٗ قَالَ : إِنَّمَا سُمِّیَتَ الْعَصْرَ لِتَعَصُّرٍ " أَیْ تَأَخُّرٍ ".
١١٢١: منصور نے روایت کی کہ ابراہیم کہنے لگے تم سے پہلے لوگ ظہر تم سے زیادہ جلدی پڑھتے اور عصر تم سے زیادہ مؤخر کر کے پڑھتے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جو اپنے عمال صحابہ کرام (رض) کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ عصر کی نماز ایسے وقت ادا کریں جبکہ سورج سفید اور بلند ہو پھر ابوہریرہ (رض) اس کو مؤخر کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عکرمہ نے سورج کو مدینہ کی سب سے بلند چوٹی سے دیکھا اور ابراہیم بھی دیگر اصحاب رسول کے بارے میں خبر دے رہے ہیں اسی طرح اصحاب عبداللہ بھی کہ وہ عصر کی بہت زیادہ تاخیر کیا کرتے تھے۔ جب ان کے یہ افعال اور اقوال اسی طرح آئے ہیں جیسے ہم نے ذکر کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی وہ روایت آئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ایسے حال میں پڑھتے کہ سورج بلندہوتا اور بعض روایات میں ((محلّقہ)) کا لفظ بھی آیا ہے تو ان آثار کو اپنانا ضروری ہوا اور اس کے خلاف کو چھوڑنا لازم ہوا۔ پس نماز عصر کو اتنا مؤخر کیا جائے کہ وہ تاخیر ایسے وقت میں داخل نہ ہوجائے جس کو حضرت علی (رض) والی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین والی مکروہ نماز قرار دیا۔ اس سے پہلے پہلے وہ عصر کا ہی وقت ہے جبکہ سورج میں زردی نہ آئے۔ اس میں آدمی کے لیے ممکن ہے کہ نماز عصر ادا کرے اور اللہ کا اطمینان سے ذکر کرے اور نماز سے ایسے وقت میں فارغ ہوجائے کہ سورج ابھی چمکدار ہی ہو۔ پس اس وقت تک نماز عصر کی تاخیر میں کچھ حرج نہیں اور یہ افضل ہے۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے کثیر روایات آئی ہیں اور حضرت ابوقلابہ کا بیان اس کی تائید کرتا ہے کہ اس کو عصر تعصر یعنی تاخیر کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٨٩‘ عن امّ سلمہ ترمذی فی الصلاۃ باب ٧‘ نمبر ١٦١۔
حاصل روایات : حضرت عمر (رض) کا خط اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کہ وہ ان کو عصر کی نماز ایسے وقت میں پڑھائیں جب سورج ابھی بلند سفید ہو اور پھر ابوہریرہ (رض) کو عکرمہ نے خود دیکھا کہ انھوں نے سورج کو مدینہ کے سب سے طویل پہاڑ کی چوٹی پر دیکھا پھر ابراہیم نخعی ان کو بتلا رہے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب عبداللہ بن مسعود ان مخاطبین سے زیادہ تاخیر عصر کرتے تھے۔
خلاصہ کلام : جب یہ افعال و اقوال ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات واضح ثابت کر رہی ہیں کہ آپ عصر ایسے حال میں پڑھتے جبکہ سورج بلند سفید ہوتا تو اب ان آثار کو اختیار کرنا اور اس کے بالمقابل روایات کو ترک کرنا ضروری ہوگیا اور اسی طرح عصر کا مؤخر کرنا بھی ضروری ہوا یہاں تک کہ اس کی تاخیر اس وقت میں داخل نہ ہونے پائے جس کی خبر انس (رض) کی روایت میں حدیث علاء بن عبدالرحمن میں دی گئی ہے کہ یہ منافقین کی نماز ہے ایسے وقت میں عصر کو ادا کرنا مکروہ ہے رہا وہ وقت جو اس سے پہلے پہلے ہے جس میں سورج پر زردی کا اثر نہیں ہوتا اور آدمی اطمینان سے نماز پڑھ کر نماز سے اس حال میں فارغ ہو کہ سورج ابھی سفید بلند ہو تو اس وقت تک عصر کی تاخیر میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ روایات حدیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں افضل عمل ہے۔
حضرت ابو قلابہ کا تائیدی بیان :
عصر کو عصر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ متاخر کر کے پڑھی جاتی ہے جیسا اس روایت میں ہے۔

1122

۱۱۲۲ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ قَالَ : إِنَّمَا سُمِّیَتَ الْعَصْرَ لِتَعَصُّرٍ .فَأَخْبَرَ أَبُوْ قِلَابَۃَ أَنَّ اسْمَہَا ھٰذَا إِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّ سَبِیْلَہَا أَنْ تُعْصَرَ .وَھٰذَا الَّذِیْ اسْتَحْبَبْنَاہُ مِنْ تَأْخِیْرِ الْعَصْرِ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ إِلٰی وَقْتٍ قَدْ تَغَیَّرَتْ فِیْہِ الشَّمْسُ، أَوْ دَخَلَتْہَا صُفْرَۃٌ وَہُوَ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَبِہٖ نَأْخُذُ .فَإِنِ احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِی التَّبْکِیْرِ بِہٖ أَیْضًا بِمَا۔
١١٢٢: خالد نے ابو قلابہ (رض) سے نقل کیا کہ عصر کا نام عصر رکھنے کی وجہ اس کا متاخر کرنا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٨۔
حاصل یہ ہے کہ ابو قلابہ (رض) نے بتلایا کہ اس کا نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راستے کو گویا نچوڑا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے ہم نے بھی تاخیر عصر کو مستحب قرار دیا کہ اس کو متاخر کیا جائے مگر یہ یاد رہے کہ یہ اس وقت سے پہلے پہلے ہے جس میں سورج کی دھوپ زرد ہو کر بدل جاتی ہے یا اس میں زردی کا اثر پیدا ہو۔
یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا مذہب و مسلک ہے۔
آخری اشکال :
رافع بن خدیج (رض) کی روایت میں ہے کہ عصر پڑھ کر ہم اونٹ ذبح کر کے تقسیم کرتے اور اس کا گوشت سورج غروب ہونے سے پہلے کھالیتے تھے معلوم ہوا کہ عصر اول وقت میں پڑھی جاتی تھی۔
روایت رافع ملاحظہ ہو۔

1123

۱۱۲۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُوَ النَّجَاشِیِّ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ، قَالَ : (کُنَّا نُصَلِّی الْعَصْرَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَنْحَرُ الْجَزُوْرَ فَنُقَسِّمُہٗ عَشَرَ قِسَمٍ، ثُمَّ نَطْبُخُ فَنَأْکُلُ لَحْمًا نَضِیْجًا قَبْلَ أَنْ تَغِیْبَ الشَّمْسُ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ، بِسُرْعَۃِ عَمَلٍ، وَقَدْ أَخَّرْت الْعَصْرَ) فَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ - عِنْدَنَا حُجَّۃٌ - عَلَیْ مَنْ یَرَی تَأْخِیْرَ الْعَصْرِ .وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ بَابِ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ فِیْ حَدِیْثِ بُرَیْدَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَمَّا سُئِلَ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ، صَلَّی الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ، وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُرْتَفِعَۃٌ نَقِیَّۃٌ، ثُمَّ صَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ، أَخَّرَہَا فَوْقَ الَّذِیْ قَدْ کَانَ أَخَّرَہَا فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ، فَکَانَ قَدْ أَخَّرَہَا فِی الْیَوْمَیْنِ جَمِیْعًا، وَلَمْ یُعَجِّلْہَا فِیْ أَوَّلِ وَقْتِہَا، کَمَا فَعَلَ فِیْ غَیْرِہَا .) فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ وَقْتَ الْعَصْرِ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُصَلّٰی فِیْہِ ہُوَ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی تَأْخِیْرِہَا لَا مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الْآخَرُوْنَ (آخِرُ کِتَابِ الْأَذَانِ وَالْمَوَاقِیْتِ) .
١١٢٣: ابوالنجاشی نے بیان کیا کہ رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ادا کرتے پھر اونٹ ذبح کر کے اس کو دس حصوں میں تقسیم کرتے پھر پکا کر اس کا گوشت غروب آفتاب سے پہلے کھالیتے تھے۔ اس کو یہ کہا جائے گا کہ عین ممکن ہے وہ اس کام کو جلدی انجام دے لیتے ہوں اور عصر کو مؤخر پڑھتے ہوں ہمارے نزدیک اس روایت میں کوئی ایسی دلالت نہیں جو تاخیر عصر کے خلاف ہو۔ ہم باب المواقیت میں حضرت بریدہ کی روایت نقل کر آئے کہ انھوں نے پہلے دن عصر کی نماز اس حال میں پڑھی کہ سورج سفید بلند ‘ صاف ستھرا تھا اور دوسرے دن عصر کی نماز ایسے وقت میں پڑھی جب سورج بلند تھا یعنی اس کو پہلے دن سے زیادہ مؤخر کر کے پڑھا جبکہ آپ نے دونوں دنوں میں ہی مؤخر کر کے پڑھی اور اوّل وقت میں جلدی کر کے نہیں پڑھی جیسا کہ دوسری نمازوں میں آپ نے کیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز عصر کے ادا کرنے کا وقت وہی ہے جس کی طرف تاخیر عصر والے لوگ گئے ہیں ‘ نہ وہ جس کی طرف تعجیل والے گئے۔ مکمل وضاحت مواقیت میں دیکھیں۔
تخریج : بخاری فی الشرکہ باب ١‘ مسلم فی المساجد حدیث نمبر ١٩٨‘ مسند احمد ٤؍١٤١‘ ١٤٢۔
حاصل روایت یہ نکلا کہ عصر اتنی پہلے پڑھی جاتی تھی جس میں یہ تمام کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے تھے اور وہ وقت اول ہی ہے۔
الجواب : یہ تمام کام تیز رفتار والے لوگ اتنی دیر میں نپٹا لیتے ہیں آج کل بھی ماہر قصاب بیس منٹ میں گائے ذبح کر کے اس کے ٹکڑے بنا لیتا ہے جب دو تین آدمی ہوں گے تو وہ اس سے بھی کم وقت میں یہ کام انجام دے لیں گے پس یہ روایت تاخیر عصر کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔ فتدبر۔
ایک استدراک :
باب مواقیت الصلاۃ میں ہم نے حضرت بریدہ (رض) کی روایت ذکر کی جس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ پہلے دن عصر کی نماز اس حال ادا فرمائی گئی کہ سورج بلندی پر تھا اور دوسرے دن عصر کی نماز پہلے دن کی نماز عصر سے زیادہ مؤخر کر کے ادا فرمائی اس روایت کے سیاق سے معلوم ہوا کہ فی الجملہ پہلے دن بھی عصر کو مؤخر کیا اور دوسرے دن تو پہلے دن کی بنسبت زیادہ مؤخر کیا۔
جس سے ثابت ہوا کہ دونوں دنوں میں عصر کی نماز فی الجملہ تاخیر سے ادا کی گئی اس کو اول وقت میں جلدی ادا نہیں فرمایا جیسا دوسری نماز میں کیا گیا پس اس سے ثابت ہوگیا کہ نماز عصر تاخیر مستحب کے ساتھ پڑھنا افضل ہے جس کی طرف ہمارے علماء گئے نہ کہ جس کی طرف دوسرے علماء کا رجحان ہے۔ واللہ اعلم۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) نے اپنے انداز سے تاخیر عصر کی افضلیت کو ثابت کیا اور اس کے لیے روایات کے علاوہ اپنی عادت کے مطابق آثار صحابہ وتابعین سے بھی دلیل پیش کی ہے نظر طحاوی سے بھی کام لیا ہے۔

1124

۱۱۲۴ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانُ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ سَمْعَانَ مَوْلَی الزُّرَقِیِّیْنَ قَالَا دَخَلَ عَلَیْنَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ مَدًّا) فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ مَدًّا وَلَمْ یُوَقِّتُوْا فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا وَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا، بَلْ یَنْبَغِی، لَہٗ أَنْ یَرْفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
١١٢٤: سعید بن سمعان جو کہ زرقیین کے مولیٰ تھے بیان کرتے ہیں ہمارے ہاں ابوہریرہ (رض) تشریف لائے اور فرمانے لگے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کھینچ کر اوپر کو اٹھاتے۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جب آدمی نماز کو شروع کرے تو اپنے ہاتھوں کو کھینچ کر اوپر کو اٹھائے مگر اس کے لیے انھوں نے کسی وقت کو متعین نہیں کیا اور اسی روایت بالا کو اپنی دلیل میں پیش کیا جبکہ علماء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھائے اور انھوں نے اپنی دلیل میں یہ روایات پیش کی ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٧‘ نمبر ٧٥٣‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٦٣‘ ٢٣٩؍٢٤٠‘ نسائی فی الافتتاح باب ٦۔
خلاصہ الزام : تکبیر تحریمہ کا لفظ واجب تو بالاتفاق ہے مگر بعض ائمہ اس وجوب میں رکنیت کا درجہ مانتے ہیں جبکہ دوسرے ائمہ شرط کہتے ہیں البتہ ہاتھوں کے اٹھانے کو سب کے ہاں سنت کا درجہ حاصل ہے اختلاف اس میں ہے۔
نمبر ١: مطلقاً سنت ہے یہ بعض لوگوں کا مسلک ہے۔
نمبر ٢: مونڈھوں کی قید کے ساتھ سنت ہے یہ ائمہ ثلاثہ کا مسلک ہے۔
نمبر ٣: کانوں تک اٹھانا چاہیے یہ احناف کا مسلک ہے۔
مؤقف اوّل : کہ مطلقاً ہاتھ اٹھانا سنت ہے یہ بعض لوگوں کا مسلک ہے انھوں نے مندرجہ ذیل روایات کو اپنا مستدل مانا ہے۔
حاصل روایت : اس روایت میں کھینچ کرر ہاتھوں کو بلند کرنے کا عمل مذکور ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں کے اٹھانے میں کوئی قید مسنون نہیں کندھوں تک ہوں یا کانوں تک ہر طرح درست ہے۔

1125

۱۱۲۵ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ کَانَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ کَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ) .
١١٢٥: عبیداللہ بن ابی رافع نے حضرت علی ابن ابی طالب (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر بلند فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ ٧٤٤‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٦‘ ٢٥٥‘۔

1126

۱۱۲۶ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ).
١١٢٦: سالم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو ہاتھوں کو اتنا بلند فرماتے کہ کندھوں کے برابر ہوجاتے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٢١۔

1127

۱۱۲۷ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ح .
١١٢٧: مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔
تخریج : سند ابن وہب۔

1128

۱۱۲۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١١٢٨: مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعرفہ ٢؍٥٠٥‘ نسائی ١؍١٤٠۔

1129

۱۱۲۹ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ حِیْنَ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ .فَسَأَلْتُہٗ عَنْ ذٰلِکَ؟ فَقَالَۃ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَفْعَلُ ذٰلِکَ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
١١٢٩: زید بن ابی انیسہ نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے سالم بن عبداللہ کو نماز شروع کرتے دیکھا کہ انھوں نے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایا ہے میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگے میں نے ابن عمر (رض) کو ایسا کرتے دیکھا اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح کرتے دیکھا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ شروع نماز کی تکبیر میں ہاتھوں کا اٹھانا کندھوں تک ہے۔ اس سے تجاوز نہ کیا جائے۔ انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا اور ہمارے نزدیک حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں مذکور بات اس کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں صرف اتنی بات ہے کہ جب آپ نماز کے لیے اٹھتے تو آپ ہاتھوں کو دراز کر کے اٹھاتے۔ روایت میں دراز کرنے کی کوئی انتہا مذکور نہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کندھوں کے برابر اٹھاتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ نماز سے پہلے یہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ہو اور نماز کی تکبیر کے بعد میں کہہ کر کندھوں کے برابر اٹھاتے ہوں تو بس حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مراد ہوا اور حضرت علی اور حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں نماز کی ابتداء کے لیے ہاتھ اٹھانا مراد ہو تاکہ ان روایتوں میں تضاد نہ رہے۔ علماء کی ایک اور جماعت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا کہ نماز کو شروع کرتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھایا جائے گا تاکہ ان روایتوں میں تضاد نہ رہے۔ علماء کی ایک اور جماعت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا کہ نماز کو شروع کرتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھایا جائے گا اور انھوں نے اس سلسلہ میں ان روایات سے استدلال کیا۔

1130

۱۱۳۰ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حُمَیْدِ ڑ السَّاعِدِیَّ فِیْ عَشَرَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدُہُمْ أَبُوْ قَتَادَۃَ قَالَ : قَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ : (أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا : لِمَ، فَوَاللّٰہِ مَا کُنْتَ أَکْثَرْنَا لَہٗ تَبِعَۃً وَلَا أَقْدَمْنَا لَہٗ صُحْبَۃً فَقَالَ بَلٰی قَالُوْا فَاعْرِضْ .فَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ قَالَ : فَقَالُوْا جَمِیْعًا : صَدَقْتَ ھٰکَذَا کَانَ یُصَلِّی) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، فَقَالُوْا : الرَّفْعُ فِی التَّکْبِیْرِ فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ یَبْلُغُ بِہِ الْمَنْکِبَیْنِ وَلَا یُجَاوِزَانِ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَکَانَ مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عِنْدَنَا غَیْرَ مُخَالِفٍ لِھٰذَا ؛ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا ذَکَرَ فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ مَدًّا، فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ ذِکْرُ الْمُنْتَہَیْ بِذٰلِکَ الْمَدِّ إِلَیْہِ أَیُّ مَوْضِعٍ ہُوَ .قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ یَبْلَعُ بِہٖ حِذَائَ الْمَنْکِبَیْنِ، وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الرَّفْعُ قَبْلَ الصَّلَاۃِ لِلدُّعَائِ، ثُمَّ یُکَبِّرُ لِلصَّلَاۃِ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَیَرْفَعُ یَدَیْہِ حِذَائَ مَنْکِبَیْہِ .فَیَکُوْنُ حَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی الرَّفْعِ عِنْدَ الْقِیَامِ لِلصَّلَاۃِ لِلدُّعَائِ، وَحَدِیْثُ عَلِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلَی الرَّفْعِ بَعْدَ ذٰلِکَ، عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، حَتّٰی لَا تَتَضَادَّ ھٰذِہِ الْآثَارُ .وَخَالَفَ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : یَرْفَعُ الْأَیْدِیَ فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہَا الْأُذُنَانِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ۔
١١٣٠: محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید الساعدی (رض) کو دس اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دیکھا ان میں ابو قتادہ بھی تھے ابو حمید کہنے لگے میں تم میں سے سب سے زیادہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو جاننے والا ہوں انھوں نے کہا کیوں ؟ جبکہ تم ہم سے زیادہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے نہیں اور نہ صحبت میں ہم سے مقدم ہو تو ابو حمید کہنے لگے تمہاری بات درست ہے انھوں نے کہا آپ فرمائیں تو ابو حمید کہنے لگے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر بلند کرتے اس پر سب نے کہا تم نے درست کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت جو پہلے مذکور ہوئی اس میں ہاتھوں کو مطلقاً بلند کرنے کا تذکرہ ہے اس بلندی کی انتہا مذکور نہیں کہ ان روایات کے خلاف ہو کیونکہ ہاتھوں کو کندھوں کے برابر کھینچ کر بلند کرنا مراد ہو یا پھر نماز سے پہلے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنا مراد ہو پھر نماز کی تکبیر کہہ کر کندھوں کے برابر ہاتھ بلند کرتے ہوں۔ روایت ابوہریرہ (رض) میں نماز سے قبل دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مراد ہے اور روایت علی و ابن عمر (رض) میں افتتاح صلوۃ کے وقت رفع کا تذکرہ ہے اس سے روایات کا تضاد ختم ہوجاتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ نماز کی ابتداء میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے یا نہیں۔ ہاتھ اٹھا کر درست ہے یا نہیں۔ یہ طبرانی اوسط کی روایت ہے اور اس کے علاوہ بھی اقامت و تکبیر کے درمیان دعا کی جتنی روایات ہیں وہ سب ضعیف ہیں اقامت و تکبیر کے درمیان فاصلہ نہیں یا ابتدائً ایسا تھا پھر اذان و تکبیر کی مشروعیت کے بعد منسوخ ہوچکا اجلہ صحابہ کا عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔ تکبیر افتتاح کے لیے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا جائے گا جیسا کہ مندرجہ روایات و آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٠٦۔
حاصل روایات : تکبیر افتتاح میں آپ اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر بلند کرتے تھے اس سے تجاوز مسنون نہیں۔
فریق اوّل کی روایت کا جواب :
حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت جو پہلے مذکور ہوئی اس میں ہاتھوں کو مطلقاً بلند کرنے کا تذکرہ ہے اس بلندی کی انتہا مذکور نہیں کہ ان روایات کے خلاف ہو کیونکہ ہاتھوں کو کندھوں کے برابر کھینچ کر بلند کرنا مراد ہو یا پھر نماز سے پہلے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنا مراد ہو پھر نماز کی تکبیر کہہ کر کندھوں کے برابر ہاتھ بلند کرتے ہوں۔
صورت مطابقت :
روایت ابوہریرہ (رض) میں نماز سے قبل دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مراد ہے اور روایت علی و ابن عمر (رض) میں افتتاح صلوۃ کے وقت رفع کا تذکرہ ہے اس سے روایات کا تضاد ختم ہوجاتا ہے۔
سوال : اب رہا یہ سوال کہ نماز کی ابتداء میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے یا نہیں۔ ہاتھ اٹھا کر درست ہے یا نہیں۔
جواب : یہ طبرانی اوسط کی روایت ہے اور اس کے علاوہ بھی اقامت و تکبیر کے درمیان دعا کی جتنی روایات ہیں وہ سب ضعیف ہیں اقامت و تکبیر کے درمیان فاصلہ نہیں یا ابتداء ً ایسا تھا پھر اذان و تکبیر کی مشروعیت کے بعد منسوخ ہوچکا اجلہ صحابہ کا عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔
فریق ثالث کا مؤقف :
تکبیر افتتاح کے لیے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا جائے گا جیسا کہ مندرجہ روایات و آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے۔

1131

۱۱۳۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَبَّرَ لِافْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، رَفَعَ یَدَیْہِ، حَتّٰی یَکُوْنَ اِبْہَامَاہُ قَرِیْبًا مِنْ شَحْمَتَیْ أُذُنَیْہِ) .
١١٣١: ابن ابی لیلیٰ نے حضرت براء بن عازب (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب افتتاح نماز کے لیے تکبیر کہتے تو ہاتھوں کو اتنا بلند فرماتے کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر ہوجاتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ بابنمبر ١١١٦‘ نسائی فی الافتتاح باب ٥۔

1132

۱۱۳۲ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ : (رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلصَّلَاۃِ، یَرْفَعُ یَدَیْہِ حِیَالَ أُذُنَیْہِ) .
١١٣٢: عاصم بن کلیب نے کلیب سے اور انھوں نے وائل بن حجر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر افتتاح کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھاتے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٥٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ نمبر ٧٢٦‘ مسند احمد ٤؍١٣٦؍١٣٧۔

1133

۱۱۳۳ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١١٣٣: ابوالاحوص کہتے ہیں کہ عاصم بن کلیب نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج۔

1134

۱۱۳۴ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ السُّوْسِیُّ الْکُوفِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : (حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا فَوْقَ أُذُنَیْہِ) .
١١٣٤: نصر بن عاصم نے مالک بن حویرث (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے صرف ان الفاظ کا فرق ہے حتی یحاذی بھما فوق اذنیہ یہاں تک کہ ہاتھوں کو کانوں کے اوپر والی جانب کی محاذات میں کردیتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦‘ باب ٧٤٥‘ مسند احمد ٥؍٥٣۔

1135

۱۱۳۵ : وَبِمَا قَدْ حَدَّثَنِیْ أَبُو الْحُسَیْنِ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَخْلَدِ ڑ الْأَصْبَہَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ قَالَ : ثَنَا عُتْبَۃُ بْنُ أَبِیْ حَکِیْمٍ، عَنْ عِیْسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعَدَوِیِّ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ، عَنْ أَبِیْ حُمَیْدِ ڑالسَّاعِدِیِّ (أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ لِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ کَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حِذَائَ وَجْہِہٖ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا اخْتَلَفَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، الَّتِیْ فِیْہَا بَیَانُ الرَّفْعِ إِلٰی أَیِّ مَوْضِعٍ ہُوَ، فِی الْمَوْضِعِ الَّذِیْ انْتَہٰی بِہٖ، وَخَرَجَ حَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہٖ، أَنْ یَکُوْنَ مُضَادًّا لَہَا، أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ أَیُّ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ أَوْلٰی أَنْ یُقَالَ بِہٖ؟
١١٣٥: عباس بن سہل نے ابو حمید ساعدی (رض) سے نقل کیا کہ وہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمانے لگے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو تم سب سے زیادہ جاننے والا ہوں جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے کے برابر بلند کرتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقولہ روایات جن میں ہاتھوں کو اٹھانے کا تذکرہ ہے اس بارے میں مختلف ہیں کہ کہاں تک ہاتھ اٹھائے جائیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت جو شروع میں ہم نے ذکر کی وہ بھی ان کے مخالف نہیں تو ہم نے یہ چاہا کہ ان دونوں معانی میں سے جو اولیٰ ہو اس کے متعلق غور و فکر کریں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٧٣٣‘ نسائی فی السہو باب ٢٩‘ مسند احمد ٥؍٤٢٤۔
حاصل روایات : ان پانچوں روایات میں کانوں کے برابر ہاتھ اٹھانا مذکور ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسنون ہے۔
بےلاگ محاکمہ :
روایت ابوہریرہ (رض) جو ابتداء باب میں واقع ہے اس کا جواب ہوچکا اس کا بعد والی روایات سے تضاد دور کردیا گیا اب مؤقف ثانی و ثالث کی روایات میں کھلا تضاد معلوم ہوتا ہے اس کے متعلق فیصلہ پر پہنچنے کے لیے مندرجہ ذیل روایت کو ملاحظہ فرمائیں۔

1136

۱۱۳۶ : فَإِذَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْأَصْبَہَانِیُّ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ : (أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَرَأَیْتَہٗ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حِذَائَ أُذُنَیْہِ اِذَا کَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ، وَإِذَا سَجَدَ، فَذَکَرَ مِنْ ھٰذَا مَا شَائَ اللّٰہٗ .قَالَ : ثُمَّ أَتَیْتُہٗ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، وَعَلَیْہِمُ الْأَکْسِیَۃُ وَالْبَرَانِسُ فَکَانُوْا یَرْفَعُوْنَ أَیْدِیَہُمْ فِیْہَا، وَأَشَارَ شَرِیْکٌ إِلَی صَدْرِہٖ) .فَأَخْبَرَ وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ ھٰذَا أَنَّ رَفْعَہُمْ إِلٰی مَنَاکِبِہِمْ، إِنَّمَا کَانَ لِأَنَّ أَیْدِیَہُمْ کَانَتْ حِیْنَئِذٍ فِیْ ثِیَابِہِمْ، وَأَخْبَرَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَرْفَعُوْنَ اِذَا کَانَتْ أَیْدِیْہِمْ لَیْسَتْ فِیْ ثِیَابِہِمْ، إِلٰی حَذْوِ آذَانِہِمْ .فَأَعْمَلْنَا رِوَایَتَہُ کُلَّہَا فَجَعَلْنَا الرَّفْعَ اِذَا کَانَتَ الْیَدَانِ فِی الثِّیَابِ لِعِلَّۃِ الْبَرْدِ إِلَی مُنْتَہَیْ مَا یُسْتَطَاعُ الرَّفْعُ إِلَیْہِ، وَہُوَ الْمَنْکِبَانِ .وَإِذَا کَانَتَا بَادِیَتَیْنِ، رَفَعَہُمَا إِلَی الْأُذُنَیْنِ، کَمَا فَعَلَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلَمْ یَجُزْ أَنْ یَجْعَلَ حَدِیْثَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَمَا أَشْبَہَہُ، الَّذِیْ فِیْہِ ذِکْرُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ إِلَی الْمَنْکِبَیْنِ کَانَ ذٰلِکَ وَالْیَدَانِ بَادِیَتَانِ .اِذَا کَانَ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَا، کَانَتَا فِی الثِّیَابِ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ مُخَالِفًا، لِمَا رَوٰی وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، فَیَتَضَادَّ الْحَدِیْثَانِ .وَلَکِنَّا نَحْمِلُہُمَا عَلَی الْاِتِّفَاقِ، فَنَجْعَلُ حَدِیْثَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَدَاہُ فِیْ ثَوْبِہٖ، عَلٰی مَا حَکَاہُ وَائِلٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ .وَنَجْعَلُ مَا رَوٰی وَائِلٌ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ فَعَلَہٗ، فِیْ غَیْرِ حَالِ الْبَرْدِ، مِنْ رَفْعِ یَدَیْہِ إِلٰی أُذُنَیْہِ فَیُسْتَحَبُّ الْقَوْلُ بِہٖ وَتَرْکُ خِلَافِہِ .وَأَمَّا مَا رَوَیْنَاہُ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ، فَہُوَ خَطَأٌ، وَسَنُبَیِّنُ ذٰلِکَ فِیْ" بَابِ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الرُّکُوْعِ " إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ، مَا رَوٰی وَائِلٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا فَصَّلْنَا، مِمَّا فَعَلَ فِیْ حَالِ الْبَرْدِ، وَفِیْ غَیْرِ حَالِ الْبَرْدِ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
١١٣٦: عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت وائل بن حجر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا چنانچہ میں نے دیکھا کہ آپ افتتاح صلوۃ کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر تکبیر کہتے ہوئے بلند کرتے ہیں اور جب آپ اٹھتے اور سجدہ کرتے ہیں پھر اسی طرح انھوں نے بیان کیا ابن حجر کہتے ہیں میں پھر آئندہ سال آیا تو صحابہ کرام نے چادریں اور ٹوپیاں اوڑھ رکھی تھیں وہ انہی چادروں میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے تھے۔ شریک راوی نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت وائل بن حجر (رض) نے اپنی روایت میں بتلایا کہ کندھوں تک ہاتھوں کا اٹھانا اس بنا پر تھا کہ ان کے ہاتھ کپڑوں پر تھے ‘ انھوں نے یہ بھی بتلایا کہ وہ اپنے ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاتے تھے جبکہ وہ کپڑوں میں نہ ہوتے تھے۔ پس ہم نے ان کی روایت پر مکمل طور پر اس طرح عمل کیا جب ہاتھ کپڑوں میں ہوں تو اس حد تک اٹھائے جائیں جہاں تک آدمی اٹھاسکتا ہو اور وہ کندھے ہیں اور جب دونوں ہاتھ کپڑوں سے باہر ہوں تو ان کو کانوں تک اٹھایا جائے گا جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا اور وہ روایت جس کو ابن عمر (رض) اور دیگر حضرات نے روایت کیا جس میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے جبکہ وہ کھلے ہوں تو یہ روایت اس کے خلاف نہیں۔ اس لیے کہ یہ کہنا درست ہے کہ دونوں ہاتھ کپڑوں میں تھے تو اس صورت میں یہ روایت وائل بن حجر کی روایت کے مخالف بن گئی۔ مگر ہم ان کو اتفاق پر اس طرح محمول کریں گے کہ ابن عمر (رض) کی روایت اس موقع کے لیے ہے جبکہ آپ کے ہاتھ کپڑوں میں تھے جیسا کہ حضرت وائل کی روایت میں آیا ہے اور وائل بن حجر کی روایت میں آپ کا جو فعل وارد ہوا ہے جس میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا مذکور ہے وہ سردی کے علاوہ وقت سے متعلق ہے۔ پس اس کا اختیار کرنا مستحب ہے اور اس کی مخالفت کو ترک کردینا بہتر ہے بقیہ جو روایت علی المرتضیٰ سے مروی ہے اس کی کمزوری باب رفع الیدین فی الرکوع میں ذکر کریں گے ‘ ان شاء اللہ۔ اس باب میں وائل بن حجر (رض) کی روایت اور دیگر روایات جن کی ہم نے تفصیل کی جس سے آپ کی سردیوں کی حالت اور سردیوں کے علاوہ حالت کی تفصیل ہوئی یہ امام ابوحنیفہ ‘ امام ابویوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ نمبر ٧٢٨‘ نسائی فی الصلاۃ باب ٩٧۔
حاصل روایت یہ ہوا کہ کندھوں تک اٹھانا اس وقت تھا کہ جب ان کے ہاتھ چادروں میں تھے یعنی موسم سرما تھا اور جب کپڑوں میں ہاتھ نہ تھے (بلکہ موسم گرما تھا) تو وہ اپنے ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاتے تھے۔
اب اس روایت نے معاملہ تطبیق بالکل آسان کردیا کہ کندھوں تک اٹھانے والی روایات کا تعلق سردی کے زمانہ سے ہے اور سردی کی وجہ سے کپڑے کے اندر سے ہاتھ اتنے ہی بلند ہوسکتے ہیں اور عام حالات اور گرمی کے موسم میں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا جاتا تھا پس ابن عمر (رض) کی روایت کا مطلب یہ ہوا کہ کپڑوں کے اندر ہاتھوں کی صورت میں کندھوں تک اٹھائے جاتے تھے۔ اور وائل (رض) نے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا وہ سردی کے علاوہ ایام سے متعلق ہے پس اس طرح دونوں قسم کی روایات کا تضاد ختم ہوجاتا ہے اور اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو روایت ابن عمر (رض) اور وائل بن حجر (رض) کا تضاد کسی صورت میں ختم نہیں ہوسکتا پس موافقت روایات کا تقاضا یہ ہے کہ روایات کو حالت برد ‘ غیر برد پر محمول کیا جائے۔
آخری بات :
حضرت علی (رض) کی روایت انتہائی ضعیف ہے جو استدلال میں معاون نہیں بن سکتی۔
پس روایت وائل بن حجر (رض) پر عمل کرنا مسنون ہے یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک تاباں ہے۔
یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے مگر تطبیق کی ایک عمدہ صورت صحیح حدیث کے ذریعہ پیش کر کے اعلیٰ معیار قائم کردیا للہ درہ ‘ یہ عمل بالحدیث کی شاندار مثال ہے۔

1137

۱۱۳۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ظَفَرٍ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ مُطَہَّرٍ (عَلٰی وَزْنِ مَفْعُوْلٍ مِنَ التَّفْعِیْلِ) قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الضُّبَعِیُّ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَلِیٍّ الرِّفَاعِیِّ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیْ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ : سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِک، وَتَبَارَکَ اسْمُک، وَتَعَالٰی جَدُّک، وَلَا إِلٰـہَ غَیْرُکَ، ثُمَّ یَقُوْلُ : لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، ثُمَّ یَقُوْلُ : اللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلَاثًا ثُمَّ یَقُوْلُ أَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہٖ، وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ثُمَّ یَقْرَأُ) .
١١٣٧: ابوالمتوکل ناجی حضرت ابو سعید الخدری (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو اٹھتے اور نماز کے لیے تکبیر افتتاح کہہ چکتے تو پھر پڑھتے : سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ تا غَیْرُکَ پھر پڑھتے لاالٰہ الا اللہ پھر تین مرتبہ پڑھتے : اللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا پھر پڑھتے : أَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہِ ، وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ (میں اللہ تعالیٰ جو سمیع علیم ہیں شیطان مردود کی طعنہ زنی اور پھونک سے پناہ مانگتا ہوں) پھر آپ قراءت شروع فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد باب الصلاۃ باب ١٢٠‘ ٧٧٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٦٥‘ نمبر ٢٤٢‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢‘ نمبر ٨٠٤‘ مسند احمد ٣؍٥٠۔
خلاصہ الزام : تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء اور انی وجہت کے پڑھنے کی نوعیت میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ ‘ و محمد و احمد و دیگر علماء (رح) ثناء کو واجب کہتے اور انی وجہت کو مسنون قرار نہیں دیتے۔
نمبر ٢: فریق دوم امام یوسف و اوزاعی طحاوی وغیرہ (رح) ہر دو کو مسنون مانتے ہیں۔

1138

۱۱۳۸ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ، قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ غَیْرِ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ " ثُمَّ یَقْرَأُ " ۔
١١٣٨: حسن بن ربیع کہتے ہیں کہ ہمیں جعفر بن سلیمان نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ ” ثُمَّ یَقْرَأُ “ کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٦٥‘ ٢٤٣‘ ابن ماجہ فی اقامہ۔

1139

۱۱۳۹ : وَحَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَیْفٍ التُّجِیْبِیُّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، ثُمَّ یُکَبِّرُ، ثُمَّ یَقُوْلُ : سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِک، وَتَبَارَکَ اسْمُک، وَتَعَالٰی جَدُّک، وَلَا إِلٰـہَ غَیْرُکَ).
١١٣٩: عمرہ نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کو شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر تکبیر کہتے پھر پڑھتے ” سبحانک اللہم تا غیرک “
تخریج : ترمذی ١؍٥٧‘ ابو داؤد ١؍١١٣۔

1140

۱۱۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ ھٰذَا أَیْضًا، اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ .
١١٤٠: حسن بن ربیع کہتے ہیں کہ ہمیں ابو معاویہ نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٥٨۔

1141

۱۱۴۱ : کَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ، فَقَالَ : " اللّٰہُ أَکْبَرُ، سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِک، وَتَبَارَکَ اسْمُک، وَتَعَالٰی جَدُّکَ " .
١١٤١: عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہمیں عمر (رض) نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھائی تو اللہ اکبر کہا یعنی تکبیر افتتاح کہی اور ” سبحانک اللّٰہم تا غیرک “ پڑھا۔
تخریج : المستدرک۔

1142

۱۱۴۲ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ وَوَہْبٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ لَا إِلٰـہَ غَیْرُکَ، وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ " بِذِی الْحُلَیْفَۃِ " .
١١٤٢: اسود نے حضرت عمر (رض) کے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے صرف ذوالحلیفہ کا نام ذکر نہیں کیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢١٠۔

1143

۱۱۴۳ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرِ ڑ الْبُرْسَانِیُّ، قَالَ : أَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ مِثْلَہٗ، وَزَادَ " یُسْمِعُ مَنْ یَلِیْہِ " .
١١٤٣: ابراہیم نخعی نے علقمہ اور اسود سے نقل کیا انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ یہ لفظ زائد ہیں ” یسمع من یلیہ “ یعنی سبحانک اللہم اس طرح پڑھا کہ قریب والا سن پائے (یہ تعلیم کے لیے پڑھا)
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٠٩۔

1144

۱۱۴۴ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
١١٤٤: ابراہیم نے اسود سے اور انھوں نے عمر (رض) کے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٠٨۔

1145

۱۱۴۵ : وَکَمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، وَالْأَسْوَدِ أَنَّہُمَا سَمِعَا عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَبَّرَ، فَرَفَعَ صَوْتَہُ وَقَالَ : مِثْلَ ذٰلِکَ لِیَتَعَلَّمُوْہَا قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : ھٰکَذَا یَنْبَغِیْ لِلْمُصَلِّیْ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، أَنْ یَقُوْلَ، وَلَا یَزِیْدَ عَلٰی ھٰذَا شَیْئًا غَیْرَ التَّعَوُّذِ، إِنْ کَانَ إمَامًا، أَوْ مُصَلِّیًا لِنَفْسِہِ، وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلْ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَزِیْدَ بَعْدَ ھٰذَا مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرُوْا۔
١١٤٥: ابراہیم نے علقمہ اور اسود دونوں سے نقل کیا کہ دونوں نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح سنا کہ انھوں نے تکبیر افتتاح کہی اور اپنی آواز کو بلند کیا اور سبحانک اللہم بھی ذرا زور سے پڑھی تاکہ لوگ سیکھ لیں (کہ اس مقام پر یہی پڑھی جاتی ہے) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نمازی کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب وہ نماز کو شروع کرے تو یہی الفاظ کہے اور اعوذ باللہ کے علاوہ کسی چیز کا اضافہ نہ کرے جبکہ وہ امام یا اپنی نماز پڑھنے والا ہو یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ دوسروں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مناسب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ الفاظ بھی پڑھے جائیں جو حضرت علی (رض) کی روایت میں مذکور ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ روایات ذکر کیں۔
تخریج : بیہقی ٢؍٥٢‘ ابن ابی شیبہ ١؍٢١٠۔
حاصل روایات : یہاں تک جس قدر روایات و آثار گزرے ان میں تکبیر افتتاح کے بعد سبحانک اللہم کا پڑھنا مذکور ہے انی وجہت مذکور نہیں معلوم ہوا کہ ثنا ہی لازم ہے اگر امام ہو یا مقتدی تکبیر افتتاح کے بعد سبحانک اللہم پڑھے اس پر اضافہ نہ کرے امام تعوذ تسمیہ و قراءت سب کچھ پڑھے گا یہ امام ابوحنیفہ و امام محمد و احمد (رح) کا مسلک ہے۔

1146

۱۱۴۶ : مَا حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ الْمَاجِشُوْنِ، عَنْ عَمِّہٖ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ قَالَ : وَجَّہْت وَجْہِی لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ) .
١١٤٦: عبیداللہ بن ابی رافع حضرت علی (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع فرماتے تو پڑھتے : وَجَّہْتُ وَجْہِیْ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْت وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔
تخریج : مسلم صلوۃ المسافرین ٢٠١؍٢٠٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٩‘ نمبر ٧٦٠‘ ترمذی فی الدعوات باب ٣٢‘ نمبر ٣٤٢٢‘ نسائی فی الافتتاح باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الاضاحی باب ١‘ دارمی فی الاضاحی باب ١۔

1147

۱۱۴۷ : وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ الْبَصَرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ الْمَاجِشُوْنِ .
١١٤٧: عبداللہ بن رجاء (رض) نے کہا ہمیں عبدالعزیز بن ابی سلمہ الماجشون نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المحلی ٣؍١١۔

1148

۱۱۴۸ : وَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدِ ڑ الْوَہْبِیُّ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمَاجِشُوْنِ عَنِ الْمَاجِشُوْنِ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْفَضْلِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١١٤٨: عبدالعزیز بن الماجشون نے الماجشون اور عبداللہ بن فضل سے اور انھوں نے اعرج سے اور انھوں نے اپنی اسناد سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔
تخریج : المحلی ٣؍١١۔

1149

۱۱۴۹ : وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ. قَالُوْا : فَلَمَّا جَائَ تِ الرِّوَایَۃُ بِھٰذَا وَبِمَا قَبْلَہُ اسْتَحْبَبْنَا أَنْ یَقُوْلَہُمَا الْمُصَلِّیْ جَمِیْعًا، وَمِمَّنْ قَالَ ھٰذَا أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
١١٤٩: عبداللہ بن فضل نے اعرج سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ جب یہ کلمات بھی روایت میں آئے اور اس سے پہلے کلمات بھی روایات میں آئے تو مناسب یہ ہے کہ نمازی ہر دو کو پڑھے۔ یہ قول امام ابویوسف (رح) کا ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٩٧۔
حاصل روایات : یہ حضرت علی (رض) کی روایت ہے جو مختلف اسناد سے پیش کی گئی ہے اس میں صرف انی وجہت۔۔۔ کا تذکرہ ہے امام ابو یوسف (رح) نے اس روایت سے استدلال کیا ہے اس مؤقف کو آخر میں پیش کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کا رجحان بھی اسی طرف ہے کہ ہر دو کو پڑھا جائے تاکہ دونوں روایات جمع ہوجائیں۔
نوٹ : یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جہاں امام طحاوی (رح) کا رجحان امام ابوحنیفہ (رح) کے خلاف ہے شاید اس لیے دوسرے مؤقف کو اتنے زور دار انداز سے پیش نہیں کیا نیز نظر طحاوی (رح) سے یہ باب بھی خالی ہے فتدبر۔

1150

۱۱۵۰ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : أَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی خَالِدُ بْنُ یَزِیْدَ عَنْ سَعِیْدِ أَبِی ہِلَالٍ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ الْمُجْمِرِ قَالَ : صَلَّیْت وَرَائَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَرَأَ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ [الفاتحۃ :۱]" فَلَمَّا بَلَغَ (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ) [الفاتحۃ :۷] قَالَ : آمِیْن، فَقَالَ النَّاسُ " آمِیْن" ثُمَّ یَقُوْلُ اِذَا سَلَّمَ" أَمَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ إِنِیْ لَأَشْبَہُکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١١٥٠: نعیم بن مجمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے پیچھے نماز ادا کی تو انھوں نے بسم اللہ سمیت سورة فاتحہ ولاالضالین تک پڑھی پھر آمین کہی تو لوگوں نے بھی آمین کہی پھر سلام پھیر کر کہنے لگے اچھی طرح سنو ! مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز میں تم سب سے بڑھ کر مشابہت والا ہوں۔
تخریج : نسائی فی الافتتاح باب ٢١‘ مسند احمد ٢؍٤٩٧‘ مستدرک حاکم ١؍٢٣٢۔
خلاصہ الزام : بسم اللہ کے متعلق بہت سی باتوں میں اختلاف ہے۔
نمبر ١: سورة نمل کی آیت کا صرف حصہ ہے یا مستقل آیت ہے امام مالک و احمد نمل کی آیت کا حصہ اور احناف ‘ شوافع مستقل الگ آیت مانتے ہیں۔
نمبر ٢: احناف بسم اللہ کو فاتحہ کا جزو نہیں کہتے جبکہ شوافع و حنابلہ فاتحہ کی آیت مانتے ہیں۔
نمبر ٣: عطاء و ابن مبارک کے ہاں بسم اللہ ہر سورت کا جزء ہے اور امام ابوحنیفہ و شافعی و حنبل (رح) کے ہاں ہر سورت کا جز نہیں ہے۔
نمبر ٤: امام مالک کے ہاں نماز میں اس کا پڑھنا مکروہ ہے احناف و حنابلہ مستحب کہتے ہیں۔
نمبر ٥: امام ابوحنیفہ و ابو یوسف (رح) کے ہاں سورت سے پہلے پڑھنا درست نہیں مگر امام محمد اس کو مستحب مانتے ہیں۔
نمبر ٦: ہر رکعت کے شروع میں پڑھنا مسنون نہیں یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور ابو یوسف ہر رکعت کے شروع میں مستحب مانتے ہیں۔
نمبر ٧: امام شافعی (رح) کے ہاں جہری نماز میں جہراً سری میں سراً پڑھنا لازم ہے احناف و حنابلہ کے ہاں جہری و سری میں سراً پڑھنا لازم ہے اور امام مالک کے ہاں سر و جہر میں نہ پڑھیں گے یہاں مسئلہ نمبر ٧ کی تفصیل مقصود ہے۔
مؤقف اوّل : امام شافعی و دیگر علماء (رح) کے ہاں بسم اللہ کو نماز جہری میں جہراً اور سری میں سراً پڑھا جائے گا اس سلسلہ میں روایات و آثار ملاحظہ ہوں۔

1151

۱۱۵۱ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ بَیْتِہَا، فَیَقْرَأُ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ) ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَأَنَّہٗ یَنْبَغِیْ لِلْمُصَلِّیْ أَنْ یَقْرَأَ بِہَا، کَمَا یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا، بِمَا رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١١٥١: ابن ابی ملیکہ نے امّ سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر میں نماز ادا فرماتے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت سورة فاتحہ پڑھتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء کا خیال یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة فاتحہ کا حصہ ہے چنانچہ نمازی کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو اسی طرح پڑھے جس طرح سورة فاتحہ کو پڑھتا ہے اور ان روایات کو انھوں نے دلیل بنایا جو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الحروف والقراءت نمبر ٤٠٠١۔

1152

۱۱۵۲ : کَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَجَہَرَ بِ" بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " وَکَانَ أَبِیْ یَجْہَرُ بِ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " .
١١٥٢: عبدالرحمن بن ابزی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے جناب عمر (رض) کے پیچھے نماز ادا کی انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہراً پڑھا اور ابی بن کعب (رض) بھی اسے جہراً پڑھا کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١٢۔

1153

۱۱۵۳ : وَکَمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ جَہَرَ بِہَا .
١١٥٣: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ وہ بھی بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٣٠٣۔

1154

۱۱۵۴ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہٗ کَانَ لَا یَدَعُ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " قَبْلَ السُّوْرَۃِ وَبَعْدَہَا، اِذَا قَرَأَ بِسُوْرَۃٍ أُخْرٰی فِی الصَّلَاۃِ .
١١٥٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ سورة فاتحہ کے شروع اور دوسری سورت کی ابتداء میں بسم اللہ کو ترک نہ کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١٢۔

1155

۱۱۵۵ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ النَّہْشَلِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ الْفَقِیْرُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَفْتَتِحُ الْقِرَائَ ۃَ بِ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ".
١١٥٥: یزید الفقیر نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ بسم اللہ کے ساتھ قراءت کا افتتاح فرماتے۔
تخریج : معرفۃ السنن والآثار ٢؍٣٧٥۔

1156

۱۱۵۶ : وَکَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زَیْدِ ڑ الْہَرَوِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ الزُّبَیْرِ، فَسَمِعْتُہٗ یَقْرَأُ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا۔
١١٥٦: ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے ابن الزبیر کے پیچھے نماز ادا کی ان کو سورة فاتحہ کی ابتداء اور دوسری سورة کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھتے ہوئے پایا۔ انھوں نے اس روایت کو بھی استدلال میں پیش کیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١٢۔

1157

۱۱۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (وَلَقَدْ آتَیْنَاک سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی) قَالَ : فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " وَقَالَ ہِیَ الْآیَۃُ السَّابِعَۃُ .قَالَ وَقَرَأَ عَلٰی سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، کَمَا قَرَأَ عَلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : لَا نَرَی الْجَہْرَ بِہَا فِی الصَّلَاۃِ، وَاخْتَلَفُوْا بَعْدَ ذٰلِکَ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : یَقُوْلُہَا سِرًّا، وَقَالَ بَعْضُہُمْ لَا یَقُوْلُہَا أَلْبَتَّۃَ، لَا فِی السِّرِّ، وَلَا فِی الْعَلَانِیَۃِ .وَاحْتَجُّوْا عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ ذٰلِکَ۔
١١٥٧: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرمانے لگے : { وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ } [الحجر : ٧] سے مراد سورة فاتحہ ہے پھر انھوں نے بسم اللہ پڑھ کر بتلایا کہ یہ سورة فاتحہ کی ساتویں (پہلی) آیت ہے۔ ان سے دوسرے علماء نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نماز میں اس کے بلند آواز میں پڑھنے کا ثبوت اس سے نہیں ملتا پھر ان میں سے بعض نے یہ کہا کہ آہستہ پڑھے اور بعض نے یہ کہا کہ اس کو سر و جہر بالکل نہ پڑھے اس سلسلے میں انھوں نے پہلے قول والوں کے خلاف اس روایت کو پیش کیا۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٩٠۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ کو سورة فاتحہ کی ابتداء اور بعد والی سورت کی ابتداء میں جہری میں جہراً اور سری میں سراً پڑھا جائے گا یہ فاتحہ کا جز ہے جب فاتحہ کو جہراً پڑھا جاتا ہے تو یہ بھی جہراً ہوئی بقول ابن عباس سبع من المثانی کا مصداق سورة فاتحہ ہے بسم اللہ کے بغیر اس کی سات آیات نہیں بنتیں۔
مؤقف فریق ثانی :
بسم اللہ کو جہراً نہ پڑھا جائے بلکہ سراً پڑھا جائے بلکہ بعض تو سر بھی نہ پڑھنے کے قائل ہوتے انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔

1158

۱۱۵۸ : بِمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا نَہَضَ فِی الثَّانِیَۃِ، اسْتَفْتَحَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَلَمْ یَسْکُتْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ أَنَّ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " لَیْسَتْ مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَلَوْ کَانَتْ مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، لَقَرَأَ بِہَا فِی الثَّانِیَۃِ، کَمَا قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ .وَالَّذِیْنَ اسْتَحَبُّوا الْجَہْرَ بِہَا فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی لِأَنَّہَا - عِنْدَہُمْ - مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، اسْتَحَبُّوْا ذٰلِکَ أَیْضًا فِی الثَّانِیَۃِ فَلَمَّا انْتَفٰی بِحَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ھٰذَا أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ بِہَا فِی الثَّانِیَۃِ، انْتَفٰی بِہٖ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ قَرَأَ بِہَا فِی الْأُوْلٰی .فَعَارَضَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ، حَدِیْثَ نُعَیْمِ بْنِ الْمُجْمِرِ، وَکَانَ ھٰذَا أَوْلٰی مِنْہُ، لِاسْتِقَامَۃِ طَرِیْقِہٖ، وَفَضَّلَ صِحَّۃَ مَجِیْئِہٖ، عَلٰی مَجِیْئِ حَدِیْثِ نُعَیْمٍ .وَقَالُوْا : وَأَمَّا حَدِیْثُ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، الَّذِیْ رَوَاہُ ابْنُ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ، فَقَدِ اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ رَوَوْہُ فِیْ لَفْظِہٖ.فَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ، وَرَوَاہُ آخَرُوْنَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ۔
١١٥٨: ابو زرعہ بن عمرو بن جریر کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے ہمیں بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو رکعت کی قراءت کو الحمدللہ سے شروع فرماتے اور سکوت نہ فرماتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس سے یہ واضح دلیل مل گئی کہ بسم اللہ فاتحہ کا حصہ نہیں۔ اگر فاتحہ کا حصہ ہوتی تو دوسری رکعت میں پڑھی جاتی۔ جیسا کہ آپ نے فاتحہ کو پڑھا ‘ رہے وہ لوگ جنہوں نے پہلی رکعت میں اس کے جہر کے ساتھ پڑھنے کو مستحب قرار دیا تو ان کے ہاں اس کی وجہ فاتحۃ الکتاب کا حصہ ہونا ہے اور دوسری رکعت میں بھی انھوں نے مستحب قرار دیا۔ جب روایت بالا سے اس کے دوسری رکعت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نفی ہوگئی تو اس سے پہلی رکعت کے اندر پڑھنے کی بھی نفی ہوگئی۔ تو یہ روایت نعیم بن مجمر کی روایت کے معارض بنی اور یہ روایت اس سے سند کی پختگی کے لحاظ سے بہتر ہے۔ رہی وہ روایت جس کو حضرت امّ سلمہ (رض) نے ابن ابی ملکیہ سے ذکر کیا تو خود اس روایت کے الفاظ میں شدید اختلاف تھا۔ بعض نے اسی طرح روایت کی جس طرح ہم نے اور بعض نے دوسرے انداز سے روایت کی۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١٤٨۔
فریق اوّل کی روایات کے جوابات :
نعیم بن مجمر کی روایت سے روایت ابوہریرہ (رض) سند کے اعتبار سے اعلیٰ اور صحت متن میں بھی افضل ہے پس اس کو ترجیح حاصل ہوگی روایت ابوہریرہ (رض) کا حاصل یہ ہے کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کا حصہ نہیں اگر اس کا حصہ ہوتی تو دوسری رکعت میں اس کو پڑھا جاتا جیسا کہ فاتحہ کو پڑھا گیا پس ثابت ہوگیا کہ جب دوسری رکعت میں اس کا پڑھنا ثابت نہ ہوا تو پہلی رکعت میں بھی منتفی ہوا۔
روایت امّ سلمہ (رض) کا جواب :
اس روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے ‘ اضطراب متن کی وجہ سے قابل حجت نہیں جیسا کہ دوسری سند سے روایت امّ سلمہ (رض) سے ظاہر ہو رہا ہے۔

1159

۱۱۵۹ : کَمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ، عَنْ یَعْلَیْ أَنَّہٗ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَۃِ عَنْ قِرَائَ ۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَعَتَتْ لَہٗ قِرَائَ ۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُفَسَّرَۃً حَرْفًا حَرْفًا .فَفِیْ ھٰذَا أَنَّ ذِکْرَ قِرَائَ ۃِ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " مِنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، تَنْعَتُ بِذٰلِکَ قِرَائَ ۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَائِرِ الْقُرْآنِ، کَیْفَ کَانَتْ؟ وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " فَمَعْنٰی ھٰذَا غَیْرُ مَعْنٰی حَدِیْثِ ابْنِ جُرَیْجٍ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ تَقْطِیْعُ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ جُرَیْجٍ، کَانَ مِنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَیْضًا حِکَایَۃً مِنْہُ لِلْقِرَائَ ۃِ الْمُفَسَّرَۃِ حَرْفًا حَرْفًا، الَّتِیْ حَکَاہَا اللَّیْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ .فَانْتَفَیْ بِذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ حَدِیْثِ أُمِّ سَلَمَۃَ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِأَحَدٍ .وَقَالُوْا لَہُمْ أَیْضًا، فِیْمَا رَوَوْہُ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ قَوْلِہِ : (وَلَقَدْ آتَیْنَاک سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی) .أَمَّا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ أَنَّہَا ہِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِی، فَإِنَّا لَا نُنَازِعُکُمْ فِیْ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ أَنَّ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " مِنْہَا، فَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، کَمَا ذَکَرْتُمْ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِہِ مِمَّنْ رَوَیْنَا عَنْہُ، فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، مَا یَدُلُّ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یَجْہَرْ بِہَا وَلَمْ یَخْتَلِفُوْا جَمِیْعًا أَنَّ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ سَبْعُ آیَاتٍ .فَمَنْ جَعَلَ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " مِنْہَا عَدَّہَا آیَۃً، وَمَنْ لَمْ یَجْعَلْہَا مِنْہَا، عَدَّ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ آیَۃً .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ، وَجَبَ النَّظَرُ وَسَنُبَیِّنُ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔
١١٥٩: عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے یعلیٰ سے نقل کیا کہ میں نے امّ سلمہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کے سلسلہ میں دریافت کیا تو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کی کیفیت حرف بحرف بتلائی۔ اس روایت کے اندر یہ مذکور ہے کہ حضرت امّ سلمہ (رض) نے بسم اللہ پڑھی اور اس سے اس بات کی طرف اشارہ مل گیا کہ آپ پورا قرآن اس طرح پڑھتے تھے مگر اس روایت میں یہ کوئی دلیل نہیں کہ آپ بسم اللہ پڑھتے تھے۔ پس اس روایت کا مطلب ابن جریج والی روایت سے مختلف ہوا اور یہ بھی کہنا درست ہے کہ فاتحہ کا الگ الگ کر کے پڑھنا ابن جریج کی روایت میں خود ابن جریج کی طرف سے ہو اور ایک ایک حرف پڑھنے کی تفسیر ہو جس کو ابن ابی ملیکہ کی روایت میں ذکر کیا گیا۔ پس امّ سلمہ والی روایت کسی کی بھی دلیل نہ بن سکی۔ پہلے قول والوں نے جو انھوں نے ابن عباس (رض) سے آیت : { ولقد اتینٰک سبعا من المثانی } کے متعلق ذکر کیا ہے کہ یہ بھی السبع المثانی میں سے ہے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اس کے سبع مثانی میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں۔ ہمیں اختلاف تو اس بات میں ہے کہ آیا بسم اللہ اس کا حصہ ہے یا نہیں ؟ تو ابن عباس (رض) سے اس طرح بھی روایت آئی ہے جو تم نے ذکر کی ہے اور جن سے ہم نے اس باب میں روایات ذکر کیں ‘ ان سے یہ دلالت ملتی ہے کہ انھوں نے اس کو جہر سے نہیں پڑھا اور اس بات میں تو کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا کہ فاتحہ کتاب کی سات آیتیں ہیں جنہوں نے اس کو فاتحہ کا حصہ بنایا تو دوسروں نے اس کا حصہ نہیں بنایا بلکہ { انعمت علیھم } کو مستقل آیت شمار کیا۔ جب روایات میں اختلاف ہوا تو اس میں غور کرنا لازم آیا تاکہ اس کا موقع معلوم ہوجائے۔ ہم اس کو اپنے مقام پر ذکر کریں گے۔ حضرت عثمان (رض) سے اسی طرح روایت آرہی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الوتر باب ٢٠‘ ٢٢‘ ترمذی فی ثواب القرآن باب ٢٣‘ والقرآن باب ١‘ نسائی فی الافتتاح باب ٨٣‘ قیام اللیل باب ١٣‘ مسند احمد ٦؍٢٩٤؍٣٠٠۔
اب اس روایت کے الفاظ تو دوسرے مضمون کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کا نمونہ بیان کرتے ہوئے امّ سلمہ (رض) نے بسم اللہ پڑھی۔ یہ روایت ابن جریج کی سابق روایت کے خلاف ہے۔
اور یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ روایت ابن جریج میں فاتحہ کی یہ تقطیع خود ابن جریج کی بطور حکایت ہو جس کو لیث نے ابن ابی ملیکہ سے بیان کیا ہے پس روایت امّ سلمہ (رض) بسم اللہ کے جہراً لزوم کی دلیل نہ رہی۔
روایت سعید بن جبیر کے متعلق عرض یہ ہے کہ : { وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ } [الحجر : ٨٧] اس کے سبع من المثانی ہونے میں کلام نہیں مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ بسم اللہ فاتحہ کا جزء ہے اس کو ہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اس پر تو اتفاق ہے کہ فاتحۃ الکتاب کی سات آیات ہیں جو بسم اللہ کو جز نہیں مانتے انھوں نے انعمت علیہم پر وقف کیا اور اس کو چھٹی آیت قرار دیا جب سات آیات کی نوعیت میں اختلاف ہوا تو اب فیصلے پر پہنچنے کے لیے دوسری روایت کی طرف رجوع کیا جائے اور نظر و فکر سے کام لیا جائے چنانچہ روایت عثمان (رض) سے راہنمائی مل گئی۔ روایت عثمان (رض) ملاحظہ ہو۔

1160

۱۱۶۰ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیْفَۃَ، عَنْ عَوْفٍ عَنْ یَزِیْدَ الرَّقَاشِیِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَی الْأَنْفَالِ، وَہِیَ مِنَ السَّبْعِ الطُّوَلِ وَإِلٰی بَرَائَ ۃٌ وَہِیَ مِنَ الْمِئِیْنِ؟ فَقَرَنْتُمْ بَیْنَہُمَا، وَجَعَلْتُمُوْہُمَا فِی السَّبْعِ الطُّوَلِ، وَلَمْ تَکْتُبُوْا بَیْنَہُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ .فَقَالَ عُثْمَانُ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْآیَۃُ فَیَقُوْلُ : اجْعَلُوْہَا فِی السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یَذْکُرُ فِیْہَا کَذَا وَکَذَا، وَکَانَتْ قِصَّتُہَا شَبِیْہَۃً بِقِصَّتِہَا .فَتُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَسْأَلْہُ عَنْ ذٰلِکَ، فَخِفْتُ أَنْ تَکُوْنَ مِنْہَا فَقَرَنْتُ بَیْنَہُمَا، وَلَمْ أَکْتُبْ بَیْنَہَا سَطْرَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَجَعَلْتُہُمَا فِی السَّبْعِ الطُّوَلِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُخْبِرُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " لَمْ تَکُنْ عِنْدَہٗ مِنَ السُّوْرَۃِ، وَأَنَّہٗ إِنَّمَا کَانَ یَکْتُبُہَا فِیْ فَصْلِ السُّوَرِ، وَہِیَ غَیْرُہُنَّ : فَھٰذَا خِلَافُ، مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ .وَقَدْ جَائَ تَ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ أَبِیْ بَکْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَجْہَرُوْنَ بِہَا فِی الصَّلَاۃِ .
١١٦٠: ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) سے سوال کیا تم نے سورة انفال کو جو کہ سبع طوال سے ہے اور سورة برأت جو کہ مئین سے ہے کیونکر ملا کر سبع طوال میں شامل کیا اور ان کے مابین فاصلہ کے لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی اس پر عثمان (رض) نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی اور آیت اترتی تو آپ فرماتے اس کو فلاں فلاں سورة کی فلاں آیت کے بعد لکھ دو ان دونوں سورتوں کا واقعہ بڑی حد تک مشابہت رکھتا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور اس سلسلہ میں سوال نہ کرسکا پس مجھے خطرہ ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ اسی سورت کا حصہ ہو تو میں نے ان کو ملا دیا اور بسم اللہ کی سطر ان کے مابین اس لیے نہیں لکھی (کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمایا) اس لیے ان کو سبع طوال میں شامل کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ عثمان غنی (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ان کے ہاں سورت کا حصہ نہیں بلکہ اسے سورتوں میں فاصلے کے لیے لکھتے ہیں کہ وہ آیات اس سورت کے علاوہ ہیں۔ پس یہ وہ اختلافی بات ہے جس کی طرف ابن عباس (رض) گئے ہیں اور بہت سارے آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) سے آئے ہیں کہ وہ بسم اللہ میں جہر نہ کرتے تھے۔ یہ روایات اس کی دلیل ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٢‘ نمبر ٧٨٦‘ ترمذی فی تفیسر سورة نمبر ٩‘ باب ١‘ نبمر ٣٠٨٦‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب فضائل القرآن نمبر ٨٠٠٧‘ مسند احمد ١؍٥٧؍٦٩۔
لیجئے : یہ حضرت عثمان (رض) اس روایت میں بتلا رہے ہیں کہ بسم اللہ سورت کا حصہ نہیں اس کو فاصلہ سور کے لیے لکھا جاتا تھا مگر یہ ان سورتوں کا جز نہ تھی اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ فاتحہ کا بھی جز نہیں پس روایت ابن عباس (رض) سے یہ مفہوم لینا کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کا جز ہے اس لیے اس کو ابن عباس (رض) نے سبع مثانی فرمایا ہے یہ درست نہیں اور جب جز نہ ہوئی تو فاتحہ کے جہر پر قیاس کر کے اس کا جہر ثابت نہیں ہوسکتا عدم جہر بسم اللہ پر مزید بہت سے آثار دلالت کرتے ہیں حضرت ابوبکر و عمرو عثمان (رض) اس کو نماز میں جہراً نہ پڑھتے تھے۔
روایات ملاحظہ ہوں :

1161

۱۱۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَایَۃَ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنْ أَبِیْہِ، (وَقَلَّمَا رَأَیْتُ رَجُلًا أَشَدَّ عَلَیْہِ حَدَثًا فِی الْاِسْلَامِ مِنْہُ، فَسَمِعَنِیْ وَأَنَا أَقْرَأُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فَقَالَ : أَیْ بُنَیَّ، إِیَّاکَ وَالْحَدَثَ فِی الْاِسْلَامِ، فَإِنِّیْ قَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَلَمْ أَسْمَعْہَا مِنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ، وَلَکِنْ اِذَا قَرَأَتْ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) .
١١٦١: قیس بن عبایہ کہتے ہیں کہ مجھے ابن عبداللہ بن مغفل نے اپنے والد عبداللہ (رض) سے بیان کیا کہ میرے والد اسلام میں کسی بھی نئی بات کی ایجاد کے سخت خلاف تھے پس انھوں نے مجھے زور سے بسم اللہ پڑھتے سنا تو فرمایا اے بیٹے۔ تم اسلام میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) کے ساتھ نماز پڑھی میں نے ان کو بسم اللہ جہراً پڑھتے نہیں سنا لیکن جب تم قراءت شروع کرو تو کہو الحمد اللہ رب العالمین ۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٦٦‘ نمبر ٢٤٤‘ نسائی فی الافتتاح باب ٢٢‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٤۔

1162

۱۱۶۲ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، وَسَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، کَانُوْا یَسْتَفْتِحُوْنَ الْقِرَائَ ۃَ بِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) .
١١٦٢: قتادہ نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) قراءت کو ” الحمد للہ ربّ العالمین “ سے شروع کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٨٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٢‘ ترمذی فی المواقیت باب ٦٨‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٤‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٣٤‘ مسند احمد ٣؍١٠١؍١١١‘ ١١٤؍١٨٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١٠۔

1163

۱۱۶۳ : وَکَمَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ ڑ الْکَیْسَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ (أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : صَلَّیْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَجْہَرُ بِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) .
١١٦٣: قتادہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) کے پیچھے نماز پڑھی ہے میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ جہراً پڑھتے نہیں پایا۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٨٩‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٥٠‘ نسائی فی الافتتاح باب ٢٢‘ دارقطنی فی السنن ١؍٣١٥‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٥١۔

1164

۱۱۶۴ : وَکَمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ حُمَیْدِ ڑالطَّوِیْلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ " قُمْت وَرَائَ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَکُلُّہُمْ کَانَ لَا یَقْرَأُ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ .
١١٦٤: حمید الطویل نے حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کیا وہ کہتے ہیں میں نے ابوبکر و عمرو عثمان بن عفان (رض) کے پیچھے نماز ادا کی وہ جب نماز شروع کرتے تو بسم اللہ نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : سابقہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1165

۱۱۶۵ : وَکَمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَیَرَی حُمَیْدٌ أَنَّہٗ قَدْ ذَکَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
١١٦٥: حمیدالطویل نے انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبکر و عمر (رض) اور حمید کا خیال یہ ہے کہ انس (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ذکر فرمایا پھر بقیہ روایت سابقہ کی طرح نقل کی۔

1166

۱۱۶۶ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، وَعَلِیِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ، قَالَا : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ : أَنَا شَیْبَانُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ : (صَلَّیْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَجْہَرُ بِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) .
١١٦٦: قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) کے پیچھے نماز ادا کی میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ جہراً پڑھتے نہیں سنا۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٨٩‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٥٠‘ نسائی فی الافتتاح باب ٢٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١١۔

1167

۱۱۶۷ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃ قَالَ : ثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ، قَالَ : ثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَبُوْ بَکْرٍ وَلَا عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَجْہَرُوْنَ بِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) .
١١٦٧: ثابت نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) بسم اللہ کو جہراً نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : روایت ١١٦٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1168

۱۱۶۸ : وَکَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا دُحَیْمُ بْنُ الْیَتِیمِ، قَالَ : ثَنَا سُوَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَصِیْرِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانُوْا یُسِرُّوْنَ بِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) .
١١٦٨: حسن نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) بسم اللہ کو آہستہ پڑھتے تھے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١؍٢٥٥۔

1169

۱۱۶۹ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا مَخْلَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ، وَالْحَسَنُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَسْتَفْتِحُوْنَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) .
١١٦٩: حسن نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) قراءت کی ابتداء ” الحمد للہ رب العالمین “ سے کرتے تھے۔
تخریج : المنتقیٰ لابن جارود ١؍٥٥۔

1170

۱۱۷۰ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَسْعُوْدِ ڑ الْخَیَّاطُ الْمَقْدِسِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١١٧٠: اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کیا اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٧٢‘ دارقطنی ١؍٣١٤۔

1171

۱۱۷۱ : وَکَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ لَوْحٍ، أَخَا بَنِیْ سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ، حَدَّثَہٗ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْتَفْتِحُوْنَ الْقِرَائَ ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) .
١١٧١: محمد بن نوح اخو بنی سعد بن بکر نے انس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) سے سنا کہ وہ قراءت کی ابتدا ” الحمد للہ رب العالمین “ سے کیا کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٨٩۔

1172

۱۱۷۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ بُدَیْلٍ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْتَتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیْرِ، وَیَفْتَتِحُ الْقِرَائَ ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَیَخْتِمُہَا بِالتَّسْلِیْمِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَلَمَّا تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِمَا ذَکَرْنَا، وَکَانَ فِیْ بَعْضِہَا أَنَّہُمْ کَانُوْا یَسْتَفْتِحُوْنَ الْقِرَائَ ۃَ " بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ " وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَذْکُرُوْنَ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " قَبْلَہَا، وَلَا بَعْدَہَا لِأَنَّہٗ إِنَّمَا عَنٰی بِالْقِرَائَ ۃِ ہَاہُنَا قِرَائَ ۃَ الْقُرْآنِ .فَاحْتَمَلَ أَنَّہُمْ لَمْ یَعُدُّوْا " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " قُرْآنًا وَعَدُّوْہَا ذِکْرًا مِثْلَ (سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ) وَمَا یُقَالُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ .فَکَانَ مَا یُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ بَعْدَ ذٰلِکَ وَیُسْتَفْتَحُ (بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) وَفِیْ بَعْضِہَا أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَجْہَرُوْنَ بِ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَقُوْلُوْنَہَا مِنْ غَیْرِ طَرِیْقِ الْجَہْرِ وَلَوْلَا ذٰلِکَ، لَمَا کَانَ لِذِکْرِہِمْ نَفْیَ الْجَہْرِ مَعْنًی .فَثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ تَرْکُ الْجَہْرِ بِ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) وَذِکْرِہَا سِرًّا .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَغَیْرِہِ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا ۔
١١٧٢: ابوالجوزاء نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر سے نماز شروع فرماتے اور قراءت کو الحمدللہ سے شروع فرماتے اور سلام سے نماز کو ختم کرتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جب متواتر روایات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر و عثمان (رض) سے نقل ہو کر آئی ہیں جن کا گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے جن میں سے بعض روایات میں یہ ہے کہ وہ قراءت کو الحمد للہ ربّ العالمین سے شروع کرتے تھے ان روایات میں ایسی کوئی دلیل نہیں ‘ وہ بسم اللہ کو پہلے یا بعد پڑھتے تھے کیونکہ ان کے ہاں قراءت سے قراءت قرآن مراد ہے ‘ اس میں یہ احتمال ہوا کہ وہ بسم اللہ کو ذکر شمار کرتے تھے ‘ قرآنِ مجید کا حصہ شمار نہ کرتے تھے جیسے سبحانک اللہ اور وہ جو دوسری دعائیں پہلے پڑھ کر پھر الحمد شریف کا آغاز کیا جاتعا ہے۔ دوسری روایات میں یہ ہے کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہراً نہ پڑھتے تھے ‘ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ اس کو آہستہ پڑھتے تھے اگر یہ بات نہ مانی جائے تو ان کی روایات میں جہر کی نفی کرنے کا کوئی مطلب نہیں بن سکتا ان آثار کو صحیح قرار دینے کا تقاضا بسم اللہ کے جہر کو چھوڑنا ہے اور اس کو آہستہ پڑھنا ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٢٤٠‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٢‘ نمبر ٧٨٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ٨٦٩‘ مسند احمد ٦؍٣١؍١٩٤۔
حاصل روایات : بسم اللہ کو جہراً پڑھنا درست نہیں بلکہ سراً پڑھا جائے گا بعض روایات میں قراءت کے الحمدللہ سے شروع کرنے کا تذکرہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بسم اللہ پڑھی ہی نہ جاتی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ سبحانک اللہ وغیرہ استفتاح کی دعاؤں کی طرح یہ بھی ذکر و دعا ہے اس کو بطور دعا کے سراً تو پڑھا جاتا تھا مگر قراءت میں شامل کر کے نہ پڑھا جاتا تھا معلوم ہوا کہ ان کے ہاں یہ فاتحہ کا جز بھی نہیں اور اس کا جہراً پڑھنا بھی لازم نہیں۔
تو اب اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بسم اللہ سراً پڑھی جائے گی جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) کے عمل سے ثابت ہے اگر یہ مطلب تسلیم نہ کیا جائے تو جہر کی نفی کا کوئی مطلب نہ بن سکے گا اور یہ بات حضرت علی (رض) کے ہاں بھی مسلم ہے جیسا کہ اس روایت میں وارد ہے۔

1173

۱۱۷۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ ڑ الْکَیْسَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَا یَجْہَرَانِ (بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) وَلَا بِالتَّعَوُّذِ، وَلَا بِالتَّأْمِیْنِ .
١١٧٣: ابو وائل کہتے ہیں کہ عمرو علی (رض) بسم اللہ ‘ تعوذ اور آمین کو جہراً نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی سیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١١۔

1174

۱۱۷۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ عَاصِمًا وَعَبْدَ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ بَشِیْرٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الْجَہْرِ بِ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) قَالَ ذٰلِکَ فِعْلُ الْأَعْرَابُ .
١١٧٤: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ بسم اللہ کو جہراً پڑھنا بدو لوگوں کا فعل ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٤١١۔

1175

۱۱۷۵ : وَکَمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ بَشِیْرٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَھٰذَا خِلَافُ، مَا رَوَیْنَا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .
١١٧٥: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ابن عباس (رض) کی فصل اول والی روایت کے خلاف ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍١٨٩ باب قراۃ بسم اللہ ۔
نوٹ : یہ روایت ابن عباس (رض) کی پہلی روایت کے خلاف ہے۔

1176

۱۱۷۶ : وَکَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ، أَنَّ سِنَانَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الصَّدَفِیَّ حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ قَالَ: أَدْرَکْتُ الْأَئِمَّۃَ، وَمَا یَسْتَفْتِحُوْنَ الْقِرَائَ ۃَ إِلَّا " بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ " ۔
١١٧٦: عبدالرحمن الاعرج کہتے ہیں کہ میں نے ائمہ کو اس طرح پایا کہ وہ قراءت الحمدللہ سے شروع کرتے تھے۔

1177

۱۱۷۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ مِثْلَہٗ .
١١٧٧: ابوالاسود نے عروہ بن زبیر سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٦٠۔

1178

۱۱۷۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : لَقَدْ أَدْرَکْتُ رِجَالًا مِنْ عُلَمَائِنَا، مَا یَقْرَؤُنَّ بِہَا .
١١٧٨: یحییٰ بن ایوب نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا کہ میں نے اپنے علماء کو اس بات پر پایا کہ وہ بسم اللہ کو (جہراً ) نہ پڑھتے تھے۔

1179

۱۱۷۹ : وَکَمَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ : مَا سَمِعْتُ الْقَاسِمَ یَقْرَأُ (بِسْمِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَلَمَّا ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَمَّنْ ذَکَرْنَا بَعْدَہٗ، تَرْکُ الْجَہْرِ (بِبَسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ثَبَتَ أَنَّہَا لَیْسَتْ مِنَ الْقُرْآنِ .وَلَوْ کَانَتْ مِنَ الْقُرْآنِ لَوَجَبَ أَنْ یُجْہَرَ بِہَا کَمَا یُجْہَرُ بِالْقُرْآنِ سِوَاہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّ " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ " الَّتِیْ فِی النَّمْلِ یُجْہَرُ بِہَا، کَمَا یَجْہَرُ بِغَیْرِہَا مِنَ الْقُرْآنِ، لِأَنَّہَا مِنَ الْقُرْآنِ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الَّتِیْ قَبْلَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، یُخَافِتُ بِہَا، وَیَجْہَرُ بِالْقُرْآنِ ثَبَتَ أَنَّہَا لَیْسَتْ مِنَ الْقُرْآنِ، وَثَبَتَ أَنْ یُخَافِتَ بِہَا وَیُسِرَّ کَمَا یُسِرُّ التَّعَوُّذَ وَالْاِفْتِتَاحَ، وَمَا أَشْبَہَمَا .وَقَدْ رَأَیْنَاہَا أَیْضًا مَکْتُوْبَۃً فِیْ فَوَاتِحِ السُّوَرِ فِی الْمُصْحَفِ، فِیْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَفِیْ غَیْرِہَا، وَکَانَتْ فِیْ غَیْرِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ لَیْسَتْ بِآیَۃٍ، ثَبَتَ أَیْضًا أَنَّہَا فِیْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، لَیْسَتْ بِآیَۃٍ وَھٰذَا الَّذِیْ ثَبَتَ مِنْ نَفْیِ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) أَنْ تَکُوْنَ مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَمِنْ نَفْیِ الْجَہْرِ بِہَا فِی الصَّلَاۃِ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١١٧٩: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن القاسم نے کہا کہ میں نے قاسم کو بسم اللہ پڑھتے نہیں سنا (یعنی ابتداء قراءت میں جہراً ) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جب یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان حضرات سے ثابت ہوگئی جن کا ہم نے بسم اللہ کے جہر کو ترک کرنے کے سلسلے میں تذکرہ کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ قرآن سے نہیں ہے اگر یہ قرآن مجید سے ہوتی تو اس کو بھی اسی طرح جہراً پڑھا جاتا جیسے اس کے علاوہ قرآن مجید کو جہراً پڑھا جاتا ہے۔ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ سورة نمل میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی کو اسی طرح جہراً پڑھا جاتا ہے جس طرح کہ سورة نمل کی بقیہ آیات کو۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ کو فاتحہ سے پہلے آہستہ پڑھا جائے تو یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یہ قرآن مجید سے نہیں ہے اور بطور ذکر کے اس کو بھی تعوذ اور ثناء کی طرح آہستہ پڑھا جائے گا اور ہم نے بسم اللہ کو قرآن مجید میں فاتحۃ الکتاب سے پہلے بھی اسی طرح لکھا ہوا دیکھا جیسا کہ دیگر سورتوں میں۔ جب سورة فاتحہ کے علاوہ سورتوں کی یہ آیت نہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ فاتحہ کی بھی آیت نہیں اور یہ دونوں قول نماز میں بسم اللہ کا جہر سے نہ پڑھنا اور بسم اللہ کا فاتحہ کا جزء نہ ہونا امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن حسن (رح) کے قول ہیں۔
حاصل روایات : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) وتابعین (رح) سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ بسم اللہ کو جہراً نہ پڑھا جائے گا تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ وہ قراءت کا حصہ نہیں اگر وہ فاتحہ کا جز ہوتی تو اس کا جہر اسی طرح ضروری تھا جیسا دوسری
قراءت کو جہراً پڑھا جاتا ہے چنانچہ دیکھیں سورة نمل کی آیت میں جب اس آیت کی جہراً تلاوت کرتے ہیں تو بسم اللہ کو جہراً پڑھتے ہیں جیسا دیگر آیات قرآن کو جہراً پڑھا جاتا ہے۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاتحہ سے پہلے اس کو آہستہ پڑھا جائے گا اور قرآن مجید کو تو جہراً پڑھا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ یہ قرآن مجید کی قراءت کا حصہ نہیں اور اس کو اسی طرح آہستہ پڑھا جائے گا جیسا دیگر ادعیہ تعوذ وغیرہ کو سراً پڑھتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
قرآن مجید کی تمام سورتوں کے شروع میں سوائے سورة توبہ کے بسم اللہ کو لکھا جاتا ہے جب دوسری سورتوں کے شروع میں لکھنے سے ان کی آیت نہیں بنتی تو فاتحہ کے شروع میں لکھنے سے اس کی آیت کس طرح بن جائے گی پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ فاتحۃ الکتاب کی بھی آیت نہیں تو نماز میں اس کو جہراً بھی نہ پڑھا جائے گا اور ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ و ابویوسف و محمد بن الحسن (رح) کا تو یہی مسلک ہے واللہ الموافق۔
نوٹ : اس باب میں صاحب کتاب نے فریق ثانی کے دلائل کو جب خوب مضبوط کردیا اور بسم اللہ قراءت کا جز نہ ہونا ثابت ہوگیا تو اس کا سراً پڑھنا بھی لازم ہوا۔

1180

۱۱۸۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، وَحَمَّادٌ أَنَا زَیْدٌ، عَنْ أَبِیْ جَہْضَمٍ، مُوْسٰی بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَ : (کُنَّا جُلُوْسًا فِیْ فِتْیَانٍ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ؟ قَالَ : لَا .قَالَ : فَلَعَلَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ نَفْسِہٖ فِیْ حَدِیْثِ سَعِیْدٍ، قَالَ : لَا) ، وَفِیْ حَدِیْثِ حَمَّادٍ ہِیَ شَرٌّ مِنَ الْأُوْلٰی .ثُمَّ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدًا لِلّٰہِ أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَبَلَّغَ وَاللّٰہِ مَا أُمِرَ بِہٖ) .
١١٨٠: عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ہم بنی ہاشم کے چند نوجوان ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھے تھے ایک آدمی نے ان سے دریافت کیا کہ کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر میں قراءت کرتے تھے انھوں نے جواب دیا نہیں۔ اس نے کہا شاید آپ اپنے دل میں پڑھ لیتے ہوں یہ سعید کی روایت میں ہے کہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا نہیں اور حماد کی روایت میں ہے یہ پہلی سے بھی زیادہ بری بات ہے پھر کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے مامور بندے تھے اللہ کی قسم آپ کو جو حکم ملا آپ نے پہنچا دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧ نمبر ٨٠٨۔
خلاصہ الزام : قراءت تو تمام نمازوں میں واجب ہے مگر اس کے باوجود بعض لوگ جیسے حسن بن صالح اور سوید بن غفلہ (رح) اس بات کے قائل ہوگئے کہ ظہر و عصر میں قراءت نہیں تمام ائمہ جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں ظہر و عصر میں قراءت واجب ہے چونکہ یہ دن کی نمازیں ہیں سراً قراءت کی جائے گی جہراً ہرگز نہ کریں گے۔
مؤقف ِاوّل : ظہر وعصر میں سراً و جہراً کسی طرح کی قراءت نہیں ہے ان کا مستدل مندرجہ ذیل روایات و آثار ہیں۔

1181

۱۱۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا یَزِیْدَ الْمَدَنِیَّ، یُحَدِّثُ عَنْ کَرْمَۃِ، عَنْ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قِیْلَ لَہٗ إِنَّ نَاسًا یَقْرَئُ وْنَ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ فَقَالَ : لَوْ کَانَ لِیْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلٌ، لَقَلَعْتُ أَلْسِنَتَہُمْ، إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ، فَکَانَتْ قِرَائَ تُہٗ لَنَا قِرَائَ ۃً وَسُکُوْتُہُ لَنَا سُکُوْتًا) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا، فَقَلَّدُوْہَا، وَقَالُوْا لَا نَرٰی أَنْ یَقْرَأَ أَحَدٌ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ أَلْبَتَّۃَ .وَرَوَوْا ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ کَمَا۔
١١٨١: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ بعض لوگ ظہر و عصر میں قراءت کرتے ہیں تو انھوں نے فرمایا اگر مجھے ان پر اختیار ہوتا تو میں ان کی زبانیں گدی سے اکھاڑ دیتا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت (کا مقام) ہمارے لیے قراءت اور سکوت (کا مقام) ہمارے لیے سکوت ہے۔ کچھ لوگ ان آثار کی طرف گئے اور ان کی پیروی میں انھوں نے یہ کہا کہ ہمارے نزدیک یہ درست نہیں کہ کوئی شخص ظہر اور عصر میں کچھ بھی پڑھے۔ انھوں نے حضرت سوید بن غفلہ (رض) کی اس روایت کو بھی اپنی دلیل میں پیش کیا ہے۔
تخریج : طبرانی فی المعجم الکبیر ١١؍٣٥٧۔

1182

۱۱۸۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : سَأَلْتُ سُوَیِْد بْنَ غَفَلَۃَ (أَیَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ؟ فَقَالَ : لَا) .فَقِیْلَ لَہُمْ : مَا لَکُمْ فِیْمَا رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حُجَّۃٌ، وَذٰلِکَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ .کَمَا
١١٨٢: ولید بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے سوید بن غفلہ سے دریافت کیا کیا ظہر و عصر میں قراءت کی جائے گی ؟ تو کہنے لگے نہیں۔ ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ابن عباس (رض) والی روایت میں تمہارے حق میں کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ابن عباس (رض) کی روایت اس کے برعکس موجود ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٨٠٩۔
حاصل روایات : ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر و عصر میں مطلقاً قراءت نہیں ہے چنانچہ بعض لوگوں نے انہی آثار کو لے کر ظہر و عصر میں قراءت کا انکار کیا اور سوید بن غفلہ (رح) سے بھی ظہر و عصر کی قراءت کا انکار ثابت ہو رہا ہے۔
روایات کا جواب : ابن عباس (رض) کی روایت میں عدم قراءت کی کوئی دلیل نہیں ان سے اس کے برعکس روایت بھی منقول ہے وہ ملاحظہ ہو۔

1183

۱۱۸۳ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا حُصَیْنٌ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَدْ (حَفِظْتُ السُّنَّۃَ غَیْرَ أَنِّیْ لَا أَدْرِیْ أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ أَمْ لَا) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ لَمْ یَتَحَقَّقْ عِنْدَہٗ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَقْرَأُ فِیْہِمَا، وَإِنَّمَا أَمَرَ بِتَرْکِ الْقِرَائَ ۃِ فِیْمَا تَقَدَّمَتْ رِوَایَتُنَا لَہٗ عَنْہُ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَمْ یَکُنْ یَقْرَأُ فِیْ ذٰلِکَ .فَإِذَا انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ قَدْ تَحَقَّقَ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، انْتَفٰی مَا قَالَ مِنْ ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّ غَیْرَہٗ قَدْ تَحَقَّقَ قِرَائَ ۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمَا، مِمَّا سَنَذْکُرُہٗ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .مَعَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ رَأْیِہٖ مَا یَدُلُّ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ۔
١١٨٣: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے آپ کے طریقہ کو خوب محفوظ کیا مگر مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر میں قراءت پڑھتے تھے یا نہیں۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ ظہر و عصر میں قراءت نہ کرنا میرے نزدیک ہرگز ثابت نہیں اور ان سے پہلی روایت جو نقل کی گئی اس میں ابن عباس (رض) نے قراءت کے ترک کا حکم دیا یا اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں قراءت نہیں کی۔ پس اس روایت میں اس بات کے ثبوت کی نفی ہوگئی تو اس روایت میں جو کہا گیا اس کی خود نفی ہوگئی کیونکہ دیگر صحابہ کرام (رض) کے ہاں تو ان کی قراءت ثابت شدہ ہے جس کا تذکرہ ہم آئندہ روایات میں کر رہے ہیں پھر حضرت ابن عباس (رض) کا اپنا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے تو ان کے فتاویٰ جات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٨٠٩۔
یہ روایت صاف بتلا رہی ہے کہ ابن عباس (رض) کو ظہر و عصر کی قراءت کی تحقیق نہ تھی تو ان کا ترک قراءت کا قول اس وقت کا ہے جب ان سے عدم تحقیق کی بات ثابت ہوگئی تو عدم قراءت والی بات بھی عدم ہوگئی کیونکہ ان کے علاوہ صحابہ کرام کو تحقیق تھی کہ آپ ظہر و عصر میں قراءت کرتے تھے جیسا چند سطور بعد روایات مذکور ہیں اگر اس بات سے قطع نظر بھی کرلی جائے تو ابن عباس (رض) سے اس روایت کے خلاف بات بھی دکھائی جاسکتی ہے۔
جواب نمبر ٢: روایت ابن عباس (رض) ملاحظہ ہو۔

1184

۱۱۸۴ : کَمَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : (اقْرَأْ خَلْفَ الْاِمَامِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ) .
١١٨٤: عیزار بن حریث نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا امام کے پیچھے ظہر وعصر میں فاتحۃ الکتاب پڑھا کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٧٥۔

1185

۱۱۸۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ قَالَ : شَہِدْت ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَسَمِعْتہ یَقُوْلُ : لَا تُصَلِّ صَلَاۃً إِلَّا قَرَأْتَ فِیْہَا وَلَوْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .
١١٨٥: عیزار بن حریث کہتے ہیں میں ابن عباس (رض) کے ہاں موجود تھا میں نے ان کو یہ فرماتے سنا تم کوئی نماز بلا قراءت نہ پڑھو اگرچہ اس میں فاتحۃ الکتاب ہی پڑھو۔

1186

۱۱۸۶ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ، وَمُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ الْبَرَائِ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَوْ سُئِلَ عَنِ الْقِرَائَ ۃِ، فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ فَقَالَ : ہُوَ إمَامُکََ فَاقْرَأْ مِنْہُ مَا قَلَّ وَمَا کَثُرَ، وَلَیْسَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْئٌ قَلِیْلٌ .
١١٨٦: ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سوال کیا یا ان سے ظہر و عصر کی قراءت کے متعلق دریافت کیا گیا تو کہنے لگے وہ تمہارا مقصود ہے اس میں سے جتنا تھوڑا یا زیادہ میسر ہو پڑھو اور اس کا تھوڑ ا بھی تھوڑا نہیں (یعنی ثواب کے لحاظ سے کثیر در کثیر ہے)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٧٣۔

1187

۱۱۸۷ : وَکَمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ : وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَقَالَ : إِنِّیْ لِأَسْتَحْیِ أُصَلِّیْ صَلَاۃً لَا أَقْرَأُ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَمَا تَیَسَّرَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُ مِنْ رَأْیِہِ أَنَّ الْمَأْمُوْمَ یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، وَقَدْ رَأَیْنَا الْاِمَامَ تَحَمَّلَ عَنِ الْمَأْمُوْمِ، وَلَمْ نَرَ الْمَأْمُوْمَ تَحَمَّلَ عَنِ الْاِمَامِ شَیْئًا .فَإِذَا کَانَ الْمَأْمُوْمُ یَقْرَأُ، فَالْاِمَامُ أَحْرٰی أَنْ یَقْرَأَ مَعَ مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ أَیْضًا مِنْ أَمْرِہٖ بِالْقِرَائَ ۃِ فِیْہِمَا .فَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ مَا رَوَاہُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرَۃَ، بَکَّارُ بْنَ قُتَیْبَۃَ۔
١١٨٧: ابوالعالیہ کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا تو انھوں نے اسی طرح فرمایا جیسا روایت بالا میں گزرا ابوالعالیہ کہتے ہیں میں نے ابن عمر (رض) سے دریافت کیا تو کہنے لگے مجھے حیاء دامن گیر ہے کہ میں کوئی نماز ایسی پڑھوں جس میں سورة فاتحہ اور جو حصہ قرآن مجید کا میسر ہو وہ نہ پڑھ لوں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ ابن عباس (رض) کا فتویٰ ہے کے مقتدی امام کے پیچھے ظہر و عصر میں قراءت کرے گا اور ہمارے ہاں امام مقتدی کی قراءت کا ذمہ دار ہے۔ مقتدی امام کی کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہے۔ پس جب مقتدی کو پڑھنے کا وہ حکم فرما رہے ہیں تو امام کا قراءت کرنا تو بدرجہ اولیٰ ثابت ہوجائے گا جبکہ یہ بات بھی ہے کہ ہم نے ان دونوں نمازوں میں قراءت کی ‘ روایت ان سے نقل کرچکے ہیں پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ابن عباس (رض) کی روایت کے خلاف روایات وارد ہیں ‘ ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٦١۔
حاصل روایات : ان روایات سے ابن عباس (رض) فقط منفرد کا قراءت کرنا نہیں بلکہ امام کے پیچھے ظہر و عصر میں مقتدی کو قراءت کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور ذمہ دار تو امام ہے جب مقتدی پر قراءت لازم ہے تو اس کا امام تو لازماً قراءت کرے گا پس جب ان سے قراءت ظہر و عصر کا حکم ثابت ہوا تو ان کے متعلق نقل کردہ فتویٰ کی حیثیت نہ رہی۔
اور ابن عمر (رض) کے ارشاد سے بھی ظہر و عصر کی قراءت ثابت ہوئی جس سے سوید بن غفلہ (رح) کی روایت کا جواب بھی ثابت ہوگیا۔

مؤقف فریق ثانی :
عصر و ظہر میں بھی بقیہ نمازوں کی طرح قراءت ہے یہ ائمہ اربعہ تمام فقہاء و محدثین کا مسلک ہے یہ روایات اور اسی طرح کثیر روایات ان کی مستدل ہیں چند پیش کی جاتی ہیں۔

1188

۱۱۸۸ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ قَتَادَۃَ، أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ فَیُسْمِعُنَا الْآیَۃَ أَحْیَانًا) .
١١٨٨: عبداللہ نے اپنے والد ابو قتادہ سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر میں قراءت فرماتے بعض اوقات کوئی آیت بلند آواز سے پڑھ دیتے (تاکہ معلوم ہو کہ آپ قراءت کرتے ہیں اور ان میں قراءت لازم ہے)
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٩٦‘ ١٠٧؍١٠٩‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٥٤؍١٥٥‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٨‘ نسائی فی الافتتاح باب ٥٦؍٦٠‘ مسند احمد ٥؍٢٠٥؍٢٩٧‘ ٣٠٠؍٣٠١‘ ٣٠٥؍٣٠٧‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٦٥؍٦٦‘ ٢٩٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٧٢۔

1189

۱۱۸۹ : وَأَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ، قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ نَحْوَہٗ۔
١١٨٩: عبداللہ نے اپنے والد ابو قتادہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٥٩۔

1190

۱۱۹۰ : وَأَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأَوَّلَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَقُرْآنٍ، وَفِی الْعَصْرِ مِثْلَ ذٰلِکَ، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ مِنْہُمَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَفِی الْمَغْرِبِ فِی الْأُوْلَیَیْنِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَقُرْآنٍ، وَفِی الثَّالِثَۃِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ .قَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ : وَأُرَاہُ قَدْ رَفَعَہٗ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١١٩٠: عبیداللہ بن ابی رافع نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور قرآن مجید کا کچھ حصہ پڑھتے اور عصر میں بھی اسی طرح اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورة فاتحہ پڑھتے اور مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور قرآن مجید کی بعض آیات اور دوسری یعنی تیسری میں سورة فاتحہ پڑھتے تھے عبیداللہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں انھوں نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب فرمایا (یعنی یہ مرفوع روایت ہے)
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٥‘ عبدالرزاق ٢؍١٠٠۔

1191

۱۱۹۱ : وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنِ ڑ الْبَغْدَادِیَّ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَسُوْرَتَیْنِ مَعَہَا فِی الْأُوْلَیَیْنِ مِنْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَیُسْمِعُنَا الْآیَۃَ أَحْیَانًا)
١١٩١: عبداللہ نے اپنے والد ابو قتادہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور دو سورتیں تلاوت فرماتے اور بعض اوقات ہمیں کوئی آیت زور سے پڑھ کر سنا دیتے (تاکہ ہم جان لیں کہ ظہر و عصر میں قراءت ہے)
تخریج : روایت نمبر ١١٨٨: کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1192

۱۱۹۲ : وَأَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ، عَنْ زَیْدِ ڑ الْعَمِّیِّ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، قَالَ : (اجْتَمَعَ ثَلَاثُوْنَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : تَعَالَوْا حَتّٰی نَقِیسَ قِرَائَ ۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا لَمْ یَجْہَرْ فِیْہِ مِنَ الصَّلَوَاتِ فَمَا اخْتَلَفَ مِنْہُمْ رَجُلَانِ .فَقَاسُوْا قِرَائَ تَہٗ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ، بِقَدْرِ قِرَائَ ۃِ ثَلَاثِیْنَ آیَۃً، وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ عَلَی النِّصْفِ مِنْ ذٰلِکَ وَفِیْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ عَلٰی قَدْرِ النِّصْفِ مِنَ الْأُوْلَیَیْنِ فِی الظُّہْرِ، وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ عَلٰی قَدْرِ النِّصْفِ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ).
١١٩٢: ابو نضرہ نے ابو سعید الخدری (رض) سے نقل کیا کہ تین اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمع ہوئے اور کہنے لگے آؤ! تاکہ سری نمازوں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کا اندازہ کریں تو ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہ کیا بلکہ سب نے بالاتفاق کہا کہ پہلی دو رکعتوں میں آپ کی قراءت ظہر میں تیس آیات کے برابر ہوتی تھی اور آخری دو رکعات میں اس کے نصف کے برابر ہوتی تھی اور نماز عصر کی پہلی دو رکعات میں قراءت کی مقدار ظہر کی پہلی دو رکعات کے نصف کے برابر ہوتی (یعنی پندرہ آیات کے برابر) اور پچھلی دو رکعات میں پچھلی دو رکعات ظہر کا نصف (یعنی سات آٹھ آیات کے برابر)
تخریج : ابن ماجہ فی اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا باب ٧‘ نمبر ٨٢٨۔

1193

۱۱۹۳ : وَأَنَّ اِبْرَاہِیْمَ بْنَ مَرْزُوْقٍ، قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ زَاذَانَ، عَنِ الْوَلِیْدِ أَبِیْ بِشْرِ بْنِ مُسْلِمِ ڑ الْعَنْبَرِیِّ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیْقِ النَّاجِیْ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْمُ فِی الظُّہْرِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ، قَدْرَ قِرَائَ ۃِ ثَلَاثِیْنَ آیَۃً، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ، نِصْفُ ذٰلِکَ، وَکَانَ یَقُوْمُ فِی الْعَصْرِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ، قَدْرَ خَمْسَ عَشْرَۃَ آیَۃً، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ قَدْرَ نِصْفِ ذٰلِکَ).
١١٩٣: ابوالصدیق الناجی نے ابو سعیدالخدری (رض) سے نقل کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں تیس آیات کی مقدار کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعات میں اس کا نصف ہوتا اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام پندرہ آیات کی مقدار کے برابر اور پچھلی رکعات کا قیام اس کے نصف ہوتا۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ روایت نمبر ١٥٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٦‘ نمبر ٨٠٤‘ نسائی فی الصلاۃ باب ١٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٥٥؍٣٥٦‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٣٩٠‘ شرح السنہ للبغوی ٥٩٣۔

1194

۱۱۹۴ : وَأَنَّ أَحْمَدَ بْنَ شُعَیْبٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : أَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الدَّوْرَقِیُّ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرُ بْنُ زَاذَانَ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیْقِ النَّاجِیْ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، قَالَ : کُنَّا نَحْزِرُ قِیَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، فَحَزَرْنَا قِیَامَہٗ فِی الظُّہْرِ قَدْرَ ثَلَاثِیْنَ آیَۃً، قَدْرَ سُوْرَۃِ السَّجْدَۃِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ عَلٰی قَدْرِ النِّصْفِ مِنْ ذٰلِکَ، وَحَزَرْنَا قِیَامَہٗ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلٰی قَدْرِ الْأُخْرَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ، وَحَزَرْنَا قِیَامَہٗ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ مِنَ الْعَصْرِ، عَلَی النِّصْفِ مِنْ ذٰلِکَ) .
١١٩٤: ابوالصدیق الناجی نے ابو سعیدالخدری (رض) سے نقل کیا ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہر و عصر میں قراءت کا اندازہ کر رہے تھے تو ہم نے آپ کے قیام ظہر کا اندازہ تیس آیات کے برابر لگایا پہلی دو رکعتوں میں سورة سجدہ کی مقدار اور پچھلی دو رکعات میں اس سے نصف اور عصر کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ ہم نے ظہر کی پچھلی دو رکعتوں کے برابر لگایا اور عصر کی پچھلی دو رکعات کا قیام دو رکعات پہلی کے قیام کے نصف کی مقدار اندازہ لگایا۔ (یعنی سات آیات کے برابر)
تخریج : روایت نمبر ١١٩٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1195

۱۱۹۵ : وَإِنَّ عَلِیَّ بْنَ مَعْبَدٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ سِمَاکٍ، عَنْ جَابِرِ بْن سَمُرَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَائِ وَالطَّارِقِ (وَالسَّمَائِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ) ) وَنَحْوِہِمَا مِنَ السُّوَرِ .
١١٩٥: سماک نے جابر بن سمرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر میں والسماء والطارق اور والسماء ذات البروج اور اسی جیسی سورتیں تلاوت فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ ٨٠٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٢‘ نمبر ٣٠٧‘ نسائی فی الافتتاح باب ٦٠۔

1196

۱۱۹۶ : وَأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشِ ڑ الْبَصَرِیَّ، قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَازِمٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ : (قَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : أَیُّکُمْ قَرَأَ بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی قَالَ رَجُلٌ : أَنَا، قَالَ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَکُمْ قَدْ خَالَجَنِیْہَا) .
١١٩٦: زرارہ بن اوفیٰ نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے ظہر و عصر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا تم میں سے کس نے سبح اسم ربک الاعلٰی پڑھی ہے ایک آدمی نے کہا میں نے پڑھی آپ نے فرمایا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ تم میں سے بعض میری قراءت میں خلجان ڈال رہے ہو۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٤٧؍٤٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٤‘ نمبر ٨٢٩‘ نسائی فی الافتتاح باب ٢٧‘ و قیام اللیل باب ٥٠‘ مسند احمد ٤؍٤٢٦؍٤٣١‘ ٤٣٣؍٤٤١‘ ١؍٤٠٥‘ بیہقی فی السنن الکبرٰ ٢؍١٦٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٥٧؍٣٧٥۔

1197

۱۱۹۷ : وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ خُزَیْمَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ .ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّ زُرَارَۃَ قَدْ حَدَّثَہُمْ، عَنْ عِمْرَانَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
١١٩٧: قتادہ نے نقل کیا کہ زرارہ نے عمران بن حصین اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٧٢۔

1198

۱۱۹۸ : وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ خُزَیْمَۃَ، قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ زُرَارَۃَ، عَنْ عِمْرَانَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١١٩٨: عن قتادہ عن زرارہ عن عمران عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١١٨؍٢١١‘ نسائی ١؍١٤٦‘ مسند احمد ٤؍٤٣٣‘ دارقطنی ١؍٣٢٢۔

1199

۱۱۹۹ : وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ بَحْرِ بْنِ مَطَرِ ڑ الْبَغْدَادِیَّ، قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ، عَنْ أَبِیْ مَخْلَدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : وَلَمْ أَسْمَعْہُ مِنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، قَالَ : فَرَآہُ أَصْحَابُہُ أَنَّہٗ قَرَأَ بِتَنْزِیْلِ السَّجْدَۃِ) .
١١٩٩: ابو مخلد نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے ان سے یہ نہیں سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ظہر میں سجدہ کیا ہو کہتے ہیں کہ ان کے اصحاب نے دیکھا کہ انھوں نے الم تنزیل السجدہ پڑھی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٨١۔

1200

۱۲۰۰ : وَأَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْجَارُوْدِ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ: ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ: أَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی،عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَؤُمُّنَا، فَیَجْہَرُ وَیُخَافِتُ، فَجَہَرْنَا فِیْمَا جَہَرَ، وَخَافَتْنَا فِیْمَا خَافَتْ، وَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِقِرَائَ ۃٍ)۔
١٢٠٠: عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری امامت کرواتے پس جہر کرتے اور آہستہ قراءت کرتے پس ہم نے اس میں جہر کیا جہاں آپ نے جہر کیا اور آہستہ پڑھا جہاں آپ نے آہستہ پڑھا میں نے آپ کو کہتے سنا نماز قراءت کے بغیر نہیں ہوتی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٥‘ نمبر ١١٩٧۔

1201

۱۲۰۱ : وَأَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ رَقَبَۃَ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : فِیْ کُلِّ الصَّلَاۃِ قِرَائَ ۃٌ، فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَسْمَعْنَاکُمْ، وَمَا أَخْفَاہُ عَلَیْنَا، أَخْفَیْنَاہُ عَلَیْکُمْ .
١٢٠١: عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ہر نماز میں قراءت ہے پس جس میں قراءت بلند آواز سے پڑھ کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سنایا ہم تمہیں سناتے ہیں اور جس کو ہم پر آہستہ پڑھا ہم بھی تمہارے سامنے اس کا اخفاء کرتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٠٤‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٤٣؍٤٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٥‘ نمبر ٧٩٧‘ نسائی فی الافتتاح باب ٥٤‘ مسند احمد ٢؍٢٥٨؍٢٧٣‘ ٢٨٥؍٣٠١‘ ٣٤٣؍٣٤٨‘ ٤١١؍٤٨٧۔

1202

۱۲۰۲ : وَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ النُّعْمَانِ السَّقَطِیَّ، قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ، عَنْ حَبِیْبِ ڑ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
١٢٠٢: عطاء نے ابوہریرہ (رض) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٧٠۔

1203

۱۲۰۳ : وَأَنَّ یُوْنُسَ بْنَ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
١٢٠٣: عطاء کہتے ہیں میں نے ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا انھوں نے اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍٢٦٧۔

1204

۱۲۰۴ : وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ بَحْرِ بْنِ مَطَرٍ، قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ، قَالَ : أَنَا حَبِیْبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَطَائٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ النُّعْمَانِ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٢٠٤: عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ابن جریج بھی عطاء سے اور انھوں نے ابوہریرہ (رض) سمعت کے الفاظ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍١٢٠‘ ابو داؤد۔

1205

۱۲۰۵ : وَإِنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَامّ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ، وَہُوَ حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ، عَنْ أَنَسٍ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَقَدْ احْتَجَّ قَوْمٌ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا، مَعَ مَا ذَکَرْنَا، بِمَا رُوِیَ عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ .
١٢٠٥: حمید الطویل نے انس (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظہر میں سبح اسم ربک الاعلٰی پڑھا کرتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض حضرات نے ان روایات کے ساتھ حضرت خباب بن ارت (رض) کی روایت سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٦۔
اسی سلسلہ میں خباب بن ارت (رض) کی روایات بھی ملاحظہ ہوں :

1206

۱۲۰۶ : کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَۃِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ أَبِیْ مَعْمَرٍ، قَالَ : قُلْنَا لِخَبَّابٍ : (أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ؟ قَالَ : نَعَمْ .قُلْتُ : بِأَیِّ شَیْئٍ کُنْتُمْ تَعْرِفُوْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : بِاضْطِرَابِ لِحْیَتِہٖ) .
١٢٠٦: ابو معمر کہتے ہیں ہم نے حضرت خباب (رض) کو کہا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر و عصر میں پڑھتے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔ میں نے کہا تم اسے کس طرح پہچانتے تھے ؟ تو وہ کہنے لگے آپ کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٩١‘ ٩٦‘ ١٠٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٥‘ نمبر ٨٠١‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧‘ نمبر ٨٢٦‘ مسند احمد ٥؍١٠٩‘ ١١٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٦١؍٣٦٢‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٢٦٧٦۔

1207

۱۲۰۷ : وَکَمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، وَأَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، وَوَکِیْعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ھٰذَا عِنْدَنَا، دَلِیْلٌ، عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَقْرَأُ فِیْہِمَا لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَضْطَرِبَ لِحْیَتُہُ بِتَسْبِیْحٍ سَبَّحَہُ، أَوْ دُعَائٍ، أَوْ غَیْرِہٖ .وَلَکِنَّ الَّذِیْ حَقَّقَ الْقِرَائَ ۃَ مِنْہُ فِیْ ہَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ، مَنْ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ الْآثَارَ، الَّتِیْ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .فَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ، تَحْقِیْقُ الْقِرَائَ ۃِ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، وَانْتَفٰی مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِمَّا یُخَالِفُ ذٰلِکَ، رَجَعْنَا إِلَی النَّظَرِ بَعْدَ ذٰلِکَ، ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلَی صِحَّۃِ أَحَدِ الْقَوْلَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَا .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ، فَرَأَیْنَا الْقِیَامَ فِی الصَّلَاۃِ فَرْضًا، وَکَذٰلِکَ الرُّکُوْعُ، کَذٰلِکَ السُّجُوْدُ، وَھٰذَا کُلُّہُ مِنْ فَرْضِ الصَّلَاۃِ، وَہِیَ بِہٖ مُضَمَّنَۃٌ لَا تُجْزِئُ الصَّلَاۃُ اِذَا تُرِکَ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ، وَکَانَ ذٰلِکَ فِیْ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ سَوَائً وَرَأَیْنَا الْقُعُوْدَ الْأَوَّلَ سُنَّۃً، لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ، فَہُوَ فِیْ کُلِّ الصَّلَوَاتِ سَوَائٌ وَرَأَیْنَا الْقُعُوْدَ الْأَخِیْرَ، فِیْہِ اخْتِلَافٌ بَیْنَ النَّاسِ .فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ ہُوَ فَرْضٌ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ إِنَّہُ سُنَّۃٌ، کُلُّ فَرِیْقٍ مِنْہُمْ قَدْ جَعَلَ ذٰلِکَ فِیْ کُلِّ الصَّلَوَاتِ سَوَائً .فَکَانَتْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائُ مَا کَانَ مِنْہَا فَرْضًا فِیْ صَلَاۃٍ، فَہُوَ فَرْضٌ فِیْ کُلِّ الصَّلَوَاتِ، وَکَانَ الْجَہْرُ بِالْقِرَائَ ۃِ فِیْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ لَیْسَ بِفَرْضٍ وَلَکِنَّہٗ سُنَّۃٌ .وَلَیْسَتِ الصَّلَاۃُ بِہٖ مُضَمَّنَۃً کَمَا کَانَتْ مُضَمَّنَۃً بِالرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَالْقِیَامِ فَذٰلِکَ قَدْ یَنْتَفِیْ مِنْ بَعْضِ الصَّلَوَاتِ وَیَثْبُتُ فِیْ بَعْضِہَا وَالَّذِیْ ھُوَ فَرْضٌ وَالصَّلَاۃُ بِہٖ مُضَمَّنَۃٌ لَا تُجْزِئُ إِلَّا بِإِصَابَتِہِ اِذَا کَانَ فِیْ بَعْضِ الصَّلَوَاتِ فَرْضًا، کَانَ فِیْ سَائِرِہَا کَذٰلِکَ .فَلَمَّا رَأَیْنَا الْقِرَائَ ۃَ فِی الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، وَالصُّبْحِ، وَاجِبَۃٌ فِیْ قَوْلِ ھٰذَا الْمُخَالِفِ، لَا بُدَّ مِنْہَا، وَلَا تُجْزِئُ الصَّلَاۃُ إِلَّا بِإِصَابَتِہَا، کَانَ کَذٰلِکَ ہِیَ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ .فَھٰذِہِ حُجَّۃٌ قَاطِعَۃٌ، عَلَیْ مَنْ یَنْفِی الْقِرَائَ ۃَ مِنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، مِمَّنْ یَرَاہَا فَرْضًا فِیْ غَیْرِہَا .وَأَمَّا مَنْ لَا یَرَی الْقِرَائَ ۃَ مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ، فَإِنَّ الْحُجَّۃَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ، یَقْرَأُ فِیْ کُلِّہِمَا فِیْ قَوْلِہٖ وَیَجْہَرُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ مِنْہُمَا، وَیُخَافِتُ فِیْمَا سِوٰی ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَتْ سُنَّۃً مَا بَعْدَ الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ ہِیَ الْقِرَائَ ۃُ، وَلَمْ تَسْقُطْ بِسُقُوْطِ الْجَہْرِ، کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ السُّنَّۃُ، فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، لَمَّا سَقَطَ الْجَہْرُ فِیْہِمَا بِالْقِرَائَ ۃِ أَنْ لَا یُسْقِطَ الْقِرَائَ ۃَ قِیَاسًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٢٠٧: شریک ‘ ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے روایت نقل کی ہے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے ظہر و عصر میں قراءت کا ثبوت تو اظہر من الشمس ہوگیا ان میں روایت نمبر ١٢٠٦ میں اضطراب لحیہ کو قراءت کی دلیل قرار دینا ہمارے ہاں کچھ اچھی دلیل نہیں کیونکہ اضطراب لحیہ کے وقت تسبیح دعا وغیرہ سب مراد ہوسکتا ہے پس یہ احتمالی دلیل ثبوت مدعا کے لیے چنداں کافی نہیں البتہ دیگر روایات اس سلسلہ کی کافی دلیل ہیں جب ظہر و عصر کی قراءت یقینی طور پر ثابت ہوگئی تو ابن عباس (رض) والی روایت میں مذکور بات خود منتفی ہوگئی۔
نظر طحاوی (رح) :
تنویر موضوع کے لیے نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ ایک قول کی توثیق ہو کر مسئلہ واضح تر ہوجائے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز میں قیام فرض ہے اور رکوع کا حکم بھی یہی ہے اور سجود بھی یہی حکم رکھتا ہے۔
نمبر ١: یہ تمام نماز کے فرائض ہیں ان میں سے کسی چیز کے ترک سے نماز نہیں ہوتی اور یہ فرائض تمام نمازوں میں برابر ہیں۔
نمبر ٢: اسی طرح ہمارے نزدیک قعدہ اول سنت (سنت سے ثابت) ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں اس کی سنیت تمام نمازوں میں یکساں ہے۔ اسی طرح قعود اخیر میں علماء کا اختلاف ہے کہ وہ فرض ہے یا سنت (ثابت بالسنہ) لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ تمام نمازوں میں اس کا حکم فرض یا سنت ہونے کا ایک ہے پس یہ چیزیں جو ایک نماز میں فرض ہیں وہ تمام میں فرض ہیں اور رات کی نماز میں جہری قراءت سنت ہے فرض نہیں اور نماز کا اس پر دارومدار بھی نہیں جیسا کہ رکوع و سجدہ ‘ قیام پر دارومدار ہے اسی لیے وہ بعض میں ثابت ہے اور بعض میں نہیں اور وہ جو کہ فرض ہے اور نماز کا اس پر مدار ہے نماز اس کے بغیر ہوتی ہی نہیں جب وہ چیزیں ایک نماز میں فرض ہیں تو بقیہ نمازوں میں بھی اسی طرح ہونی چاہئیں۔
اب ہم نے غور کیا کہ قراءت مغرب ‘ عشائ ‘ صبح میں تو مخالفین کے ہاں بھی واجب و فرض ہے اور اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور نماز اس کے بغیر نہیں ہوسکتی تو بتقاضائے نظر ظہر و عصر میں بھی قراءت کا یہی حکم ہونا چاہیے اس عقلی دلیل سے ان لوگوں کی بات ہباء منثورا ہوگئی جو بقیہ نمازوں میں تو قراءت کو فرض مانتے ہیں مگر ظہر و عصر میں قراءت کے قائل نہیں۔
آخری بات :
اب اگر وہ لوگ قراءت کو ظہر و عصر کے فرائض ہی سے نہیں مانتے تو ان سے عرض کریں گے کہ مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں قراءت اور جہر کرنا دونوں کو آپ ضروری قرار دیتے ہیں اور پچھلی رکعات میں قراءت آہستہ مگر سنت کہتے ہیں جب پچھلی دو رکعتوں میں قراءت کم از کم سنت رہی اور جہر کے سقوط سے قراءت بالکل ساقط نہیں ہوئی تو اس پر نظر کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ظہر و عصر میں بھی قراءت سنت رہے اور جہر کے ساقط ہونے سے قراءت بالکل ساقط نہ ہو تو عقلی اعتبار سے قراءت کا سقوط کسی لحاظ سے بھی درست نہ ہوا اور یہی امام ابوحنیفہ و ابو یوسف و محمد (رح) کا مسلک ہے۔

1208

۱۲۰۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ، قَالَ : سَمِعْتُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ) .
١٢٠٨: ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو ظہر و عصر میں (ق والقرآن المجید) پڑھتے سنا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٣؍٣٥٦۔

1209

۱۲۰۹ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إدْرِیْسَ، قَالَ : ثَنَا آدَم، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّہْرِیَّ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہٗ کَانَ یَأْمُرُ أَوْ یُحِبُّ أَنْ یَقْرَأَ خَلْفَ الْاِمَامِ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .
١٢٠٩: ابن ابی رافع نے اپنے والد ابو رافع سے اور انھوں نے علی (رض) سے نقل کیا کہ وہ حکم دیتے یا پسند کرتے تھے کہ ظہر و عصر میں امام کے پیچھے پڑھا جائے پہلی دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب اور سورة اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف فاتحۃ الکتاب پڑھی جائے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٧٣‘ دار قطنی ١؍٣٢٠۔

1210

۱۲۱۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، وَابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مَرْیَمَ الْأَسَدِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ .
١٢١٠: ابو مریم اسدی کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود (رض) کو ظہر میں قراءت کرتے سنا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٨۔

1211

۱۲۱۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ جَمِیْلِ بْنِ مُرَّۃٍ، وَحَکِیْمٍ أَنَّہُمَا دَخَلَا عَلٰی مُوَرِّقِ ڑ الْعِجْلِیِّ فَصَلّٰی بِہِمُ الظُّہْرَ، فَقَرَأَ " بِقَافِ وَالذَّارِیَاتِ " أَسْمَعَہُمْ بَعْضَ قِرَائَ تِہٖ. فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ فَقَرَأَ بِقَافِ وَالذَّارِیَاتِ، وَأَسْمَعَنَا، نَحْوَ مَا أَسْمَعْنَاکُمْ .
١٢١١: جمیل بن مرہ اور حکیم دونوں مورق عجلی کے پاس گئے انھوں نے ان کو ظہر کی نماز پڑھائی اور سورة قٓ اور الذاریات پڑھی اور قراءت کے بعض حصے ان کو سنائے۔

1212

۱۲۱۲ : وَحَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِی، عَنْ حَیْوَۃَ، وَابْنِ لَہِیْعَۃَ قَالَا : أَنَا بَکْرُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنِ مِقْسَمٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لَہٗ : اِذَا صَلَّیْت وَحْدَکََ فَاقْرَأْ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَسُوْرَۃٍ سُوْرَۃٍ، وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ.قَالَ فَلَقِیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَا مِثْلَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا.
١٢١٢: عبیداللہ بن مقسم نے خبر دی کہ ابن عمر (رض) مجھے کہنے لگے جب تم اکیلے نماز پڑھو تو ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ اور ایک ایک سورة ساتھ ملاؤ اور پچھلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ پڑھو۔
عبیداللہ کا بیان ہے کہ میں زید بن ثابت اور جابر بن عبداللہ (رض) کو ملا تو انھوں نے بھی ابن عمر (رض) جیسی بات کہی۔

1213

۱۲۱۳ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ : قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مِقْسَمٍ، قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ الْقِرَائَ ۃِ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَأَقْرَأُ فِی الْأُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ سُوْرَۃٍ وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .
١٢١٣: عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے ظہر و عصر کی قراءت کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگے میں تو پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور ایک ایک سورة پڑھتا ہوں اور پچھلی دو میں سورة فاتحہ پڑھتا ہوں۔

1214

۱۲۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ سَأَلَہُ کَیْفَ تَصْنَعُوْنَ فِیْ صَلَاتِکُمْ الَّتِیْ لَا تَجْہَرُوْنَ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ اِذَا کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ؟ فَقَالَ نَقْرَأُ فِی الْأُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ، بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ، وَنَقْرَأُ فِی الْأُخْرَیَیْنِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَدْعُوْ .
١٢١٤: عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں میں نے جابر بن عبداللہ سے پوچھا کہ تم غیر جہری نماز میں کیا کرتے ہو جبکہ تم اپنے گھروں میں ہوتے ہو تو انھوں نے کہا ہم ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سے ہر ایک میں سورة فاتحہ اور ایک ایک سورة پڑھتے ہیں اور پچھلی دو رکعتوں میں سے ہر ایک سورة فاتحہ پڑھتا اور دعا پڑھتا ہوں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٦١۔

1215

۱۲۱۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَخْرَمَۃُ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مِقْسَمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : اِذَا صَلَّیْتُ وَحْدَک شَیْئًا مِنْ الصَّلَوَاتِ، فَاقْرَأْ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأَوْلَیَیْنِ بِسُوْرَۃٍ مَعَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ، بِأُمِّ الْقُرْآنِ .
١٢١٥: عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے سنا جب تم کسی بھی نماز کو اکیلے ادا کرو تو پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ سورت سمیت پڑھو اور پچھلی میں فقط ام القرآن پڑھو۔

1216

۱۲۱۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : ثَنَا مِسْعَرُ بْنُ کِدَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ الْفَقِیْرُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ سَمِعْتہ یَقُوْلُ : یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَسُوْرَۃٍ وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .قَالَ وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہٗ لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِقِرَائَ ۃِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَمَا فَوْقَ ذٰلِکَ، أَوْ فَمَا أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ .
١٢١٦: یزیدالفقیر نے جابر بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے پہلی دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب اور سورة پڑھی جائے اور پچھلی دو میں فاتحۃ الکتاب پڑھی جائے اور کہنے لگے ہم باتیں کیا کرتے تھے کہ نماز فاتحہ اور اس کے اوپر کچھ حصہ پڑھنے کے بغیر یا جو اس سے کچھ زائد ہے پڑھنے کے بغیر نہیں ہوتی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٦١۔

1217

۱۲۱۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ زَکَرِیَّا، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَۃَ، قَالَ سَمِعْتُ خَبَّابًا یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ (اِذَا زُلْزِلَتْ) .
١٢١٧: خالد بن عرفطہ کہتے ہیں کہ میں نے خباب (رض) کو ظہر و عصر میں اذا زلزلت الارض پڑھتے سنا (یعنی بعض آیات بلند کر کے تعلیم کے لئے)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٦٢۔

1218

۱۲۱۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : سَمِعْتُ ہِشَامَ بْنَ إِسْمَاعِیْلَ، عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ اقْرَئُ وْا فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَتَیْنِ، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .
١٢١٨: محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ہشام بن اسماعیل کو منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کہتے سنا کہ حضرت ابو الدردائ (رض) فرماتے تھے ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب اور دو سورتیں پڑھو اور پچھلی دو میں فاتحۃ الکتاب پڑھو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٥۔
حاصل روایات و آثار :
روایات ما سبق اور آثار صحابہ (رض) سے یہ بات خوب روشن ہوگئی کہ ظہر و عصر کی پہلی و پچھلی رکعات میں اسی طرح قراءت ہے جس طرح دیگر تینوں نمازوں کی پہلی اور پچھلی رکعات میں قراءت ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں ظہر و عصر کی قراءت کو کثرت روایات اور آثار صحابہ (رض) سے اور عقلی دلیل کو بطور تنور دلیل لا کر خوب واضح کیا ہے یہاں عادت کے خلاف نظر طحاوی (رح) کو پہلے اور آخر میں آثار صحابہ کو لایا گیا ہے۔

1219

۱۲۱۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ ح .
١٢١٩: محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد جبیر بن مطعم (رض) سے روایت نقل کی ہے۔
خلاصہ الزام : تمام ائمہ کے ہاں مغرب میں قصار مفصل پڑھا جائے گا اگرچہ قصار مفصل کی ابتداء میں تھوڑا بہت فرق ہے البتہ شوافع مغرب میں طوال مفصل کو افضل قرار دیتے ہیں۔
مؤقف اوّل اور ان کی مستدل روایات :
مغرب میں طویل قراءت افضل ہے ظاہریہ اور شوافع کا یہی قول ہے جیسا کہ سور اعراف و طور و مرسلات کا پڑھنا ثابت ہے۔

1220

۱۲۲۰ : وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْقَطَّانُ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ، قَالَ أَخْبَرَنِی الزُّہْرِیُّ، عَنِ ابْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِالطُّوْرِ) .
١٢٢٠: محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد جبیر بن مطعم (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نماز مغرب میں سورة طور پڑھ رہے تھے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة طور ٥٢‘ باب ١‘ مسلم فی الصلاۃ ١٧٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٨‘ نمبر ٨١١‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٣‘ نسائی فی الافتتاح باب ٦٥‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٩‘ نمبر ٨٣٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٦٤‘ مالک فی النداء نمبر ٢٣‘ مسند احمد ٤؍٨٠؍٨٣‘ ٨٥‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٢٦٩٢‘ طبرانی فی المعجم الکبیر نمبر ١٤٩٧۔

1221

۱۲۲۱ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إدْرِیْسَ، قَالَ : أَنَا مَالِکٌ، وَسُفْیَانُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٢٢١: مالک و سفیان نے ابن شہاب سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1222

۱۲۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَعْضُ إِخْوَتِیْ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ (أَنَّہٗ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَدْرٍ، قَالَ : فَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ، وَہُوَ یُصَلِّی الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ بِالطُّوْرِ فَکَأَنَّمَا صُدِعَ قَلْبِی، حِیْنَ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ، وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ) .
١٢٢٢: سعید بن ابراہیم کہتے ہیں مجھے میری بعض بہنوں نے اپنے والد سے نقل کیا اور انھوں نے جبیر بن مطعم (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا یہ بدر کے موقعہ کی بات ہے میں آپ تک پہنچا اس وقت آپ نماز مغرب ادا فرما رہے تھے آپ نے اس میں سورة طور پڑھی وہ سن کر مجھے یوں معلوم ہوا گویا میرا دل پھٹ گیا ہے یہ اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔
تخریج : روایت ١٢٢٠ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1223

۱۲۲۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ .أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : إِنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ سَمِعَتْہُ، وَہُوَ یَقْرَأُ (وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا) .فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ، لَقَدْ ذَکَّرَتْنِیْ قِرَائَ تُک ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ أَنَّہَا لَآخِرُ مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ بِہَا فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ .
١٢٢٣: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ میں نے ام الفضل بنت الحارث سے سنا جبکہ انھوں نے مجھے سورة والمرسلات عرفاً پڑھتے سنا اے میرے بیٹے ! تو نے تو مجھے اس سورت کی قراءت کر کے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت یاد دلا دی یہ آخری سورت تھی جس کی تلاوت میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مغرب میں سنی تھی۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٩٨‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٧٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٨‘ نمبر ٨١‘ نسائی فی المناسک باب ١١٤‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٩‘ نمبر ٨٣١‘ مسند احمد ٦؍٣٣٨؍٣٤٠‘ عبدالرزاق نمبر ٢٦٩٤۔

1224

۱۲۲۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ یُوْنُسَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ.
١٢٢٤: یونس نے زہری سے پھر زہری نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1225

۱۲۲۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ، قَالَ : أَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ أَنَّہٗ سَمِعَ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ، یَقُوْلُ : أَخْبَرَنِیْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ (أَنَّہٗ قَالَ لِمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ : یَا أَبَا عَبْدِ الْمَلِکِ، مَا یَحْمِلُک أَنْ تَقْرَأَ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ بِ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ وَسُوْرَۃٌ أُخْرٰی صَغِیْرَۃٌ .قَالَ زَیْدٌ فَوَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ بِأَطْوَلِ الطُّوَلِ وَہِیَ المص) .
١٢٢٥: عروہ بن زبیر کہتے ہیں مجھے زید بن ثابت (رض) نے بتلایا کہ میں نے مروان بن الحکم کو کہا اے ابو عبدالملک ؟ تم نماز مغرب میں قل ھو اللہ احد اور دوسری اسی طرح کی چھوٹی سورت پڑھتے ہو۔ زید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز مغرب میں طویل ترین سورة پڑھتے دیکھا اور وہ الٓمصٓ ہے یعنی اعراف۔
تخریج : نسائی فی الافتتاح باب ٦٧۔

1226

۱۲۲۶ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٢٢٦: ابن لہیعہ نے ابوالاسود سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1227

۱۲۲۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ مَرْوَانَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِسُوْرَۃِ یس .قَالَ عُرْوَۃُ : قَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَوْ أَبُوْ زَیْدِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ : شَکَّ ہِشَامٌ لِمَرْوَانَ وَقَالَ لِمَ تُقَصِّرْ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ، (وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِیْہَا بِأَطْوَلِ الطُّوْلَیَیْنِ الْأَعْرَافِ) .
١٢٢٧: حما دنے ہشام سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت نقل کی کہ مروان مغرب میں سورة یٓس پڑھتا تھا۔ عروہ کہتے ہیں زید بن ثابت یا ابو زید انصاری نے ہشام کو اس بارے میں شک ہے کہ حضرت عروہ نے زید بن ثابت یا ابو زید انصاری کا قول مروان کے متعلق ذکر کیا کہ تم نماز مغرب کو مختصر کیوں پڑھاتے ہو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طویل ترین سورة پڑھتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٩٨۔

1228

۱۲۲۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَیْتِہِ، الْمَغْرِبَ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ، مُتَوَشِّحًا بِہٖ فَقَرَأَ وَالْمُرْسَلَاتِ مَا صَلّٰی بَعْدَہَا صَلَاۃً، حَتّٰی قُبِضَ) .فَزَعَمَ قَوْمٌ أَنَّہُمْ یَأْخُذُوْنَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ، وَیُقَلِّدُوْنَہَا .وَخَالَفَہُمْ آخَرُوْنَ فِیْ قَوْلِہِمْ، فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُقْرَأَ فِی الْمَغْرِبِ إِلَّا بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ .وَقَالُوْا قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ یُرِیْدُ بِقَوْلِہٖ قَرَأَ (بِالطُّوْرِ) قَرَأَ بِبَعْضِہَا وَذٰلِکَ جَازَ فِی اللُّغَۃِ یُقَالُ : ھٰذَا فُلَانٌ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ اِذَا کَانَ یَقْرَأُ شَیْئًا مِنْہُ وَیُحْتَمَلُ قَرَأَ (بِالطُّوْرِ) قَرَأَ بِکُلِّہَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ہَلْ رُوِیَ فِیْہِ شَیْئٌ یَدُلُّ عَلٰی أَحَدِ التَّأْوِیْلَیْنِ؟
١٢٢٨: حضرت انس (رض) نے ام الفضل بنت الحارث سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر میں نماز مغرب پڑھائی جبکہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے اور آپ نے اس میں سورة مرسلات کی تلاوت فرمائی آپ نے اس طرح جماعت کے ساتھ کوئی نماز ادا نہیں فرمائی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ ایک جماعت نے ان روایات کو اپنایا اور اختیار کیا جبکہ دوسروں نے کہا کہ نماز مغرب میں قصار مفصل پڑھیں ‘ اس لیے کہ یہ کہنا درست ہے کہ آپ نے طور پڑھی یعنی اس کا بعض حصہ پڑھا اور یہ اطلاق لغت میں درست ہے جیسے محاورے میں کہتے ہیں فلاں قرآن پڑھتا ہے جبکہ وہ اس میں سے کچھ پڑھتا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ پوری سورت مراد ہو ہم نے غور کیا کہ کیا کوئی روایت ایسی موجود ہے جو اس پر دلالت کرتی ہو چنانچہ یہ روایت مل گئی۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٣‘ نمبر ٣٠٨‘ نسائی فی الافتتاح باب ٦٤۔
اللغات : متوشحًا چادر کے دونوں کناروں کو دائیں ہاتھ کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال کر پھر دونوں کناروں کو سینے پر باندھنا۔
حاصل روایات : ان روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز میں سورة طور ‘ مرسلات ‘ اعراف ‘ یٓسین جیسی سورتیں پڑھی جائیں ان کو پڑھنا افضل ہے کچھ علماء نے ان آثار سے استدلال کر کے ان کی پیروی کی جیسا کہ امام شافعی و دیگر علماء کا مؤقف ہے۔
مؤقف فریق دوم :
نماز مغرب میں قصار مفصل کو پڑھا جائے گا اس کو احناف و حنابلہ نے اختیار کیا ہے۔
مستدل روایات کے پیش کرنے سے پہلے سابقہ روایات کے جواب ذکر کرتے ہیں۔
روایت جبیر بن مطعم (رض) کا جواب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طور پڑھی اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر ١: پوری سورة طور پڑھی تو مدعا ثابت ہے اور اسی کو سامنے رکھ کر فریق اوّل نے استدلال کیا۔
نمبر ٢: سورة طور کا بعض حصہ تلاوت فرمایا اور کل بول کر جز مراد لینے کی بات تو کلام عرب میں شائع وذائع ہے۔
ان دونوں احتمالوں میں تعیین کے لیے روایات و آثار کو چھاننے سے یہ روایت نکل آئی۔

1229

۱۲۲۹ : فَإِذَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ: ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُکَلِّمَہُ فِیْ أَسَارَیْ بَدْرٍ، فَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ وَہُوَ یُصَلِّیْ بِأَصْحَابِہٖ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ، فَسَمِعْتہ یَقْرَأُ (إِنَّ عَذَابَ رَبِّک لَوَاقِعٌ) فَکَأَنَّمَا صُدِعَ قَلْبِیْ فَلَمَّا فَرَغَ کَلَّمْتہ فِیْہِمْ فَقَالَ شَیْخٌ لَوْ کَانَ أَتَانِی لِشُفْعَتِہِ یَعْنِیْ أَبَاہُ مُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ) .فَھٰذَا ہُشَیْمٌ قَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، فَبَیَّنَ الْقِصَّۃَ عَلَی وَجْہِہَا، وَأَخْبَرَ أَنَّ الَّذِیْ سَمِعَہٗ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ عَذَابَ رَبِّک لَوَاقِعٌ) .فَبَیَّنَ ھٰذَا أَنَّ قَوْلَہٗ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ قَرَأَ (بِالطُّوْرِ) إِنَّمَا ہُوَ مَا سَمِعَہُ یَقْرَأُ مِنْہَا .وَلَیْسَ لَفْظُ جُبَیْرٍ إِلَّا مَا رَوٰی ھُشَیْمٌ لِأَنَّہٗ سَاقَ الْقِصَّۃَ عَلَی وَجْہِہَا .فَصَارَ مَا حُکِیَ فِیْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ قِرَائَ تُہٗ (إِنَّ عَذَابَ رَبِّک لَوَاقِعٌ) خَاصَّۃً .وَأَمَّا حَدِیْثُ مَالِکٍ مُخْتَصَرٌ مِنْ ھٰذَا کَذٰلِکَ قَوْلُ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِیْ قَوْلِہٖ لِمَرْوَانَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِیْہَا بِأَطْوَلِ الطُّوَلِ (المص) یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی قِرَائَ تِہٖ بِبَعْضِہَا .وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا عَلٰی صِحَّۃِ ھٰذَا التَّأْوِیْلِ۔
١٢٢٩: محمد بن جبیر بن مطعم نے حضرت جبیر بن مطعم سے بیان کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں بات چیت کرنے کے لیے مدینہ منورہ حاضر ہوا اس وقت آپ اپنے صحابہ کو نماز مغرب پڑھا رہے تھے میں نے سنا کہ آپ پڑھ رہے تھے : ان عذاب ربک لواقع [الطور : ٧] یہ سن کر ایسے محسوس ہوا جیسے میرا دل پھٹ گیا ہو جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے قیدیوں کے سلسلے میں آپ سے بات چیت کی تو آپ نے فرمایا اگر بوڑھا میرے پاس آتا تو میں اس کی سفارش قبول کرتا (اس سے مراد مطعم بن عدی تھا) ھُشیم نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا اور انھوں نے واقعہ صحیح انداز سے بیان کر کے بتلا دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے جو قراءت سنی ہے وہ یہ ہے کہ : { ان عذاب ربک الواقع } پس اس روایت نے واضح کردیا کہ پہلی روایت میں طور سے مراد طور کی وہ آیات ہیں اور حبیبہ (رض) کے الفاظ وہی ہیں جو ھشیم سے نقل کئے کیونکہ ھشیم نے قصہ کو صحیح انداز سے بیان کیا ہے۔ پس جو قراءت انھوں نے بیان کی اس سے خاص آیت { ان عذاب ربک الواقع } مراد ہے ‘ مالک کی روایت ویسے مختصر ہے۔ اسی طرح زید بن ثابت نے جو بات مروان کو فرمائی کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طوال میں سب سے طویل طوال کو پڑھتے سنا وہ سورة { الٓمصٓ} ہے اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ اس سے بعض کا پڑھنا مراد ہو ‘ اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : روایت نمبر ١٢٢٠ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
نمبر ١: اس روایت کو ہشیم نے صحیح طریق سے بیان کردیا اور بتلایا کہ جبیر نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آیت ان عذاب ربک لواقع سنی تھی پس جبیر کی مراد یہی آیت تھی پوری سورت مراد نہ تھی۔
نمبر ٢: حدیث الباب مراد ہے مالک کی روایت بھی مختصر ہے گویا روایت میں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے پس طول قراءت پر اس سے استدلال درست نہیں ہے۔
نمبر ٣: اسی طرح حدیث حضرت زید بن ثابت (رض) جو مروان کو کہی گئی اس میں بھی الٓمصٓ کا جز پڑھنا مراد ہے ساری سورت مراد نہیں ہے۔
روایت کی جو تاویل ہم نے پیش کی ہے اس کی صداقت پر بطور استشہاد یہ روایات ملاحظہ ہوں۔

1230

۱۲۳۰ : أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ خُزَیْمَۃَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّہُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ یَنْتَضِلُوْنَ .
١٢٣٠: ابی الزبیر نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے نقل کیا کہ ہم مغرب کی نماز پڑھ کر پھر تیر اندازی میں مقابلہ کرتے۔
اللغات : ینتضلون۔ تیر اندازی میں مقابلہ کرنا۔

1231

۱۲۳۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَا : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا ثَابِتٌ عَنْ (أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا نُصَلِّی الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَرْمِیْ أَحَدُنَا، فَیَرٰیْ مَوْضِعَ نَبْلِہٖ) .
١٢٣١: ثابت نے حضرت انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم مغرب کی نماز جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ادا کرتے پھر تیر اندازی کرتے تو اپنے تیر پھینکنے کی جگہ کو بخوبی دیکھتے۔ تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٦‘ نمبر ٤١٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٢٨۔

1232

۱۲۳۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٢٣٢: حجاج نے حماد سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند السراج۔

1233

۱۲۳۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، ح
١٢٣٣: ابو عوانہ نے ابو بشر سے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔

1234

۱۲۳۴ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ، وَہُشَیْمٍ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، عَنْ (عَلِیِّ بْنِ بِلَالٍ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ فَحَدَّثُوْنِیْ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ یَنْطَلِقُوْنَ یَرْتَمُوْنَ لَا یَخْفَیْ عَلَیْہِمْ مَوْقِعُ سِہَامِہِمْ، حَتّٰی یَأْتُوَ أَدْیَارَہُمْ، وَہُمْ فِیْ أَقْصَی الْمَدِیْنَۃِ، فِیْ بَنِیْ سَلِمَۃَ) .
١٢٣٤: ابو بشر نے علی بن بلال سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک انصاری جماعت کے ساتھ نماز ادا کی تو انھوں نے مجھے بیان کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کرتے پھر وہ جا کر تیر اندازی میں مقابلہ کرتے تیر کے نشانے والی جگہ ان سے مخفی نہ رہتی تھی یہاں تک کہ وہ اپنے گھروں میں پہنچتے جو شہر کے آخر میں محلہ بنی سلمہ میں واقعہ تھے۔

1235

۱۲۳۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَسْعُوْدِ ڑ الْخَیَّاطُ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ بَعْضِ بَنِیْ سَلِمَۃَ، أَنَّہُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، الْمَغْرِبَ، ثُمَّ یَنْصَرِفُوْنَ إِلٰی أَہْلِہِمْ، وَہُمْ یُبْصِرُوْنَ مَوْقِعَ النَّبْلِ عَلٰی قَدْرِ ثُلُثَیْ مِیْلٍ .
١٢٣٥: زہری نے بنی سلمہ کے بعض لوگوں سے بیان کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز مغرب ادا کرتے پھر اپنے گھر لوٹتے اس حال میں کہ ثلث میل کی مقدار تیر پھیکنے کی جگہ کو ہم دیکھتے ہوتے تھے (یعنی زیادہ اندھیرا نہ ہوتا تھا)
تخریج : مسند احمد ٤؍٣٦۔

1236

۱۲۳۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : (کُنَّا نُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ نَأْتِیْ بَنِیْ سَلِمَۃَ، وَإِنَّا لَنُبْصِرُ مَوَاقِعَ النَّبْلِ) .فَلَمَّا کَانَ ھٰذَا وَقْتَ انْصِرَافِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ، اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ، وَقَدْ قَرَأَ فِیْہَا (الْأَعْرَافَ) وَلَا نِصْفَہَا .
١٢٣٦: قعقاع بن حکیم نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز مغرب ادا کرتے پھر محلہ بنی سلمہ میں آتے تو اس وقت تیر پھینکنے کے مقامات ابھی نظر آتے تھے۔ (مناسب روشنی ہوتی)
تخریج : عبدالرزاق ١؍٥٥١۔
حاصل روایات : یہ نکلا کہ نماز مغرب پڑھ کر تیر اندازی کی جاسکے اور تیر پھینکنے کی جگہ ثلث میل تک صاف نظر پڑے تو ممکن نہیں کہ نماز مغرب میں سورة اعراف پڑھی جائے اور اسی کا معمول ہو سورة اعراف پڑھنے کی صورت میں تو عشاء کا وقت قریب آ لگے گا چہ جائیکہ تیر اندازی کی جاسکے۔

1237

۱۲۳۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : صَلّٰی مُعَاذٌ بِأَصْحَابِہِ الْمَغْرِبَ، فَافْتَتَحَ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ أَوِ النِّسَائِ، فَصَلّٰی رَجُلٌ ثُمَّ انْصَرَفَ فَبَلَغَ ذٰلِکَ مُعَاذًا فَقَالَ (إِنَّہُ مُنَافِقٌ) فَبَلَغَ ذٰلِکَ الرَّجُلَ، (فَأَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَہٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفَاتِنٌ أَنْتَ یَا مُعَاذُ؟ قَالَہَا مَرَّتَیْنِ، لَوْ قَرَأْتُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی - وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا فَإِنَّہٗ یُصَلِّی خَلْفَک ذُو الْحَاجَۃِ وَالضَّعِیْفُ، وَالصَّغِیْرُ وَالْکَبِیْرُ) .
١٢٣٧: محارب بن دثار نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ معاذ نے اپنے ساتھیوں کو نماز مغرب پڑھائی تو سورة بقرہ یا نساء شروع کردی ایک آدمی نماز میں شامل ہوا پھر (طویل قراءت دیکھ کر) جماعت سے ہٹ گیا (الگ نماز پڑھ لی) یہ بات معاذ کو پہنچی تو انھوں نے کہا وہ منافق ہے یہ بات اس آدمی کو پہنچی تو وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس بات کا تذکرہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ کو (بلوا کر) فرمایا اے معاذ کیا تو لوگوں کو فتنے میں ڈالتا ہے اے معاذ کیا تو لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرتا ہے اگر تو سبح اسم ربک الاعلٰی اور والشمس وضحاھا پڑھتا تو مناسب تھا اس لیے کہ تیری اقتداء میں ضرورت مند ‘ کمزور ‘ بچے ‘ بوڑھے نماز پڑھتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ٧٤‘ والاذان باب ٦٠‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٧٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٤‘ نمبر ٧٩٠٤‘ نسائی فی الاقامہ باب ٣٩؍٤١‘ والافتتاح باب ٦٣؍٧٠‘ مسند احمد ٣؍١٢٤؍٢٩٩‘ ٣٠٠؍٣٠٨۔

1238

۱۲۳۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مَسْرُوْقٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، نَحْوَہٗ۔
١٢٣٨: محارب بن دثار نے حضرت جابر (رض) سے اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍٢٤٩۔

1239

۱۲۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : ہِیَ الْعَتَمَۃُ .
١٢٣٩: عمرو بن دینار نے جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ عشاء کی نماز تھی۔
تخریج : مسلم ١؍١٨٧۔

1240

۱۲۴۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَؤُمُّنَا فَأَخَّرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَائَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَصَلّٰی مَعَہٗ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ثُمَّ جَائَ لِیَؤُمَّنَا فَافْتَتَحَ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ تَنَحّٰی نَاحِیَۃً فَصَلّٰی وَحْدَہُ .فَقُلْنَا : مَا لَک یَا فُلَانُ أَنَافَقْتُ؟ قَالَ : مَا نَافَقْتُ وَلَآتِیَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَأُخْبِرَنَّہٗ .فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : إِنَّ مُعَاذًا یُصَلِّیْ مَعَک ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَؤُمُّنَا، وَإِنَّک أَخَّرَتَ الْعِشَائَ الْبَارِحَۃَ فَصَلّٰی مَعَک، ثُمَّ جَائَ فَتَقَدَّمَ لِیَؤُمَّنَا فَافْتَتَحَ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَلَمَّا رَأَیْتُ ذٰلِکَ تَنَحَّیْتَ فَصَلَّیْتُ وَحْدِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ نَوَاضِحَ إِنَّمَا نَعْمَلُ بِأَجْزَائِنَا أَیْ بِأَعْضَائِنَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفَتَّانٌ أَنْتَ یَا مُعَاذُ مَرَّتَیْنِ اقْرَأْ سُوْرَۃَ کَذَا، اقْرَأْ سُوْرَۃَ کَذَا، السُّوَرُ قِصَارٌ مِنَ الْمُفَصَّلِ لَا أَحَدَہَا) .فَقُلْنَا لِعَمْرٍو : إِنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ ثَنَا عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ اقْرَأْ بِسُوْرَۃِ وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی - وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا، وَالسَّمَائِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ، وَالسَّمَائِ وَالطَّارِقِ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ وَہُوَ نَحْوُ ھٰذَا .فَقَدْ أَنْکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مُعَاذٍ، تَثْقِیْلَ قِرَائَ تِہِ بِہِمْ، سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ، فَقَالَ لَہٗ أَفَتَّانٌ أَنْتَ یَا مُعَاذُ وَأَمَرَہٗ بِالسُّوَرِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا مِنَ الْمُفَصَّلِ) .فَإِنْ کَانَتْ تِلْکَ الصَّلَاۃُ ہِیَ صَلَاۃُ الْمَغْرِبِ فَقَدْ ضَادَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ حَدِیْثَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَمَا ذَکَرْنَا مَعَہٗ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .وَإِنْ کَانَتْ ہِیَ صَلَاۃُ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَقْرَأَ فِیْہَا بِمَا ذَکَرْنَا مَعَ سِعَۃِ وَقْتِہَا، فَإِنَّ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ- مَعَ ضِیْقِ وَقْتِہَا - أَحْرٰی أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ الْقِرَائَ ۃُ فِیْہَا مَکْرُوْہَۃً .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا کَانَ یَقْرَأُ بِہٖ فِیْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ، نَحْوٌ مِنْ ھٰذَا .
١٢٤٠: عمرو بن دینار نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ معاذ بن جبل (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھتے پھر لوٹ کر ہماری امامت کراتے ایک رات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء میں تاخیر فرمائی پس معاذ نے ان کے ساتھ نماز ادا کی پھر ہمیں امامت کرانے کے لیے آئے تو سورة بقرہ شروع کردی جب لوگوں میں سے ایک آدمی نے یہ حالت دیکھی تو اس نے ایک طرف ہٹ کر اکیلے نماز ادا کرلی پس ہم نے کہا اے فلاں تجھے کیا ہوا کیا تو منافق ہوگیا ؟ وہ کہنے لگے میں منافق نہیں ہوا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جا کر آپ کو ضرور اس بات کی اطلاع دوں گا پس وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتا ہے پھر لوٹ کر ہماری امامت کراتا ہے گزشتہ رات آپ نے نماز عشاء کو مؤخر فرمایا انھوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر وہ آئے اور ہمیں امامت کرانے لگے تو انھوں نے سورة البقرہ شروع کردی جب میں نے یہ حال دیکھا تو میں نے ایک طرف ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی ہم اونٹوں پر پانی لاتے ہیں ہم اپنے جوڑ بند سے کام کاج کرتے ہیں (اور پیٹ پالتے ہیں) پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ کیا تو فتنے میں ڈالتا ہے یہ بات آپ نے دو مرتبہ دھرائی تم یہ یہ سورت پڑھ لیا کرو اور یہ سورتیں قصار مفصل کی ہیں ان میں حد بندی نہیں کرتا۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے سورة بقرہ کی قراءت کا بوجھ ڈالنا ناپسند کیا اور فرمایا اے معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرتے ہو اور آپ نے مفصلات کا حکم دیا جو روایات میں مذکور ہوئیں اگر یہ نماز ‘ نمازِ مغرب ہو تو پھر یہ روایت زید ثابت (رض) والی روایت جو ابتلاء کے باب میں گزری اس کے خلاف ہے اور اگر اس سے عشاء مراد ہو تو وقت کی وسعت کے باوجود آپ نے اس میں اس کے پڑھنے کو ناپسند فرمایا۔ اب نماز مغرب اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ یہ قراءت اس میں مکروہ ہو اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی سورتوں کا پڑھنا نماز عشاء میں وارد ہوا ہے۔
ہم نے عمرو بن دینار کو کہا کہ ابوالزبیر نے جابر (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا تم سورة واللیل ‘ اذا یغشٰی ‘ والشمس وضحاھا اور والسماء ذات البروج ‘ والسماء والطارق میں سے کوئی سورة پڑھو تو اس پر عمرو بن دینار نے کہا اسی جیسی سورتیں مراد ہیں (کوئی مخصوص سورت مراد نہیں)
اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افتّان انت یامعاذ فرما کر قراءت کی بوجھل کرنے والی مقدار کا انکار فرمایا اور مفصل کی سورتیں پڑھنے کا حکم فرمایا۔
ایک اشکال اور اس کا حل :
مندرجہ بالا روایت دو طرق سے وارد ہے ایک محارب بن دثار سے دوسری عمرو بن دینار سے اگر اول روایت کو لیں تو پھر یہ روایت زید بن ثابت کے خلاف ہے اور مغرب سے متعلق ہے اور دوسرے شاگرد عمرو بن دینار اس کو عشاء کی نماز بتلا رہے ہیں اس صورت میں اس سے مغرب پر استدلال چنداں مفید نہیں۔
الجواب : مغرب کی نماز مراد ہونے کی صورت میں چونکہ یہ قولی روایت ہے اور زید بن ثابت اور دیگر روایات کے متعلق کہہ چکے ان میں ان سورتوں کا جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے پس اس قولی روایت کو ترجیح حاصل ہوگئی۔ اور اگر عمرو بن دینار کی روایت کے مطابق عشاء مراد ہو تو اس سے استدلال بطور دلالت النص ہوگا کہ جب وسیع وقت کے باوجود مختصر قراءت کا حکم فرمایا گیا تو مغرب کا وقت مختصر ہے اس میں تو بدرجہ اولیٰ اختصار قراءت کا لحاظ ہوگا پس مفصلات قصار سے پڑھنا افضل و اولیٰ ہوگا ہذا ہوالمراد۔ جیسا کہ یہ روایت شاہد ہے۔

1241

۱۲۴۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنَ الْخُرَاسَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیْقٍ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِیْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃ بِ (الشَّمْسِ وَضُحَاہَا) وَأَشْبَاہِہَا مِنَ السُّوَرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہَلْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ قَرَأَ فِی الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ) .قِیْلَ لَہٗ " نَعَمْ"
١٢٤١: حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء میں سورة والشمس وضحاھا اور اس جیسی سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کوئی روایت آئی ہے تو اسے کہا جائے گا جی ہاں ! (جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب میں قصار مفصل پڑھی ہے) ۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٤‘ نمبر ٣٠٩۔
اشکال نمبر ٣:
کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مغرب میں قصار مفصل کے پڑھنے کا ثبوت مل سکتا ہے۔
الجواب : جی ہاں اس کا ثبوت ملتا ہے مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔

1242

۱۲۴۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ إِسْرَائِیْلَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِی الْمَغْرِبِ بِالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ .
١٢٤٢: اسرائیل نے جابر اور انھوں نے عامر اور انھوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز مغرب میں والتین والزیتون پڑھی۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٤‘ نمبر ١٣٠‘ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٥٨۔

1243

۱۲۴۳ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ أَبُوْ زَکَرِیَّا الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ : ثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِیْ بُکِیْرُ بْنُ الْأَشَجِّ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ) .
١٢٤٣: سلیمان بن یسار نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب میں قصار مفصل پڑھی۔
تخریج : نسائی فی الافتتاح باب ٦٢۔

1244

۱۲۴۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ، قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمَخْزُوْمِیُّ، عَنِ الضَّحَّاکِ، عَنْ بُکَیْرٍ عَنْ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشْبَہَ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْ فُلَانٍ .قَالَ بُکَیْرُ : فَسَأَلْتُ سُلَیْمَانَ، وَقَدْ کَانَ أَدْرَکَ ذٰلِکَ الرَّجُلَ فَقَالَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ .
١٢٤٤: بکیر بن سلیمان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے کسی کو فلاں سے بڑھ کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مشابہت والی نماز پڑھتے نہیں دیکھا بکیر کہنے لگے میں نے سلیمان سے پوچھا تم نے اس آدمی کو پا لیا تو انھوں نے کہا وہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے۔
تخریج : ابن حبان ٣؍١٥٧۔

1245

۱۲۴۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا عُثْمَانُ بْنُ مِکْتَلٍ عَنِ الضَّحَّاکِ، ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَخْبَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ .فَإِنْ حَمَلْنَا حَدِیْثَ جُبَیْرٍ وَمَا رَوَیْنَا مَعَہٗ مِنَ الْآثَارِ، عَلٰی مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ الْمُخَالِفُ لَنَا، تَضَادَّتْ تِلْکَ الْآثَارُ وَحَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ھٰذَا، وَإِنْ حَمَلْنَاہَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا اتَّفَقَتْ ہِیَ وَھٰذَا الْحَدِیْثُ .وَأَوْلٰی بِنَا أَنْ نَحْمِلَ الْآثَارَ عَلَی الْاِتِّفَاقِ لَا عَلَی التَّضَادِّ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُقْرَأَ بِہٖ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ ہُوَ قِصَارُ الْمُفَصَّلِ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی - .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔
١٢٤٥: عثمان بن مکتل نے ضحاک سے روایت نقل کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت کی ہے۔ یہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بتلا رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں قصار مفصل پڑھتے تھے۔ اگر ہم حضرت جبیر اور ان کے ساتھ مذکورہ روایات کو اس بات پر محمول کریں جو ہمارے مخالفین کہتے ہیں تو پھر حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ان کا تضاد لازم آئے گا۔ اور اگر وہ مفہوم مراد لیں جو ہم نے پیش کیا ہے تو وہ روایات اور یہ حدیث باہمی متفق ہوجائیں گی اور تضاد نہ رہے گا۔ پس ہماری مذکورہ بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ نماز مغرب میں قصار مفصل پڑھی جائے گی۔ اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے اور حضرت عمر (رض) سے بھی اس کی مثل ارشاد مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بیہقی ١؍٥٤٧۔
فیصلہ کن بات یہ ہے :
یہ حضرت ابوہریرہ (رض) ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز مغرب میں قصار مفصل کا پڑھنا بتلا رہے ہیں اسی طرح دیگر روایات و آثار سے بھی یہ بات ثابت ہو رہی ہے اگر روایت جبیر کو مؤقف اول والے حضرات کے مطابق محمول کریں تو پھر وہ روایت ان تمام آثار سے ٹکراتی ہے اور اگر اس روایت کی وہ تاویل (سورة کا جز پڑھنا) مراد لیں تو اس ان روایات اور اس میں موافقت ہوجاتی ہے پس مقصود تو عمل ہے پس روایات کا موافق پر محمول کرنا تضاد سے اولیٰ تر ہے مناسب ترین بات یہی ہے کہ مغرب میں قصار مفصل پڑھی جائے۔
اور یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ و ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے اور حضرت عمر (رض) کا قول بھی اس کی حمایت میں موجود ہے جو آخر میں نقل کر رہے ہیں۔

1246

۱۲۴۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ عَنْ زُرَارَۃَ ابْنِ أَوْفٰی، قَالَ أَقْرَأَنِیْ أَبُوْ مُوْسٰی کِتَابَ عُمَرَ إِلَیْہِ اقْرَأْ فِی الْمَغْرِبِ بِآخِرِ الْمُفَصَّلِ۔
١٢٤٦: زرارہ بن اوفیٰ کہتے ہیں کہ مجھے ابو موسیٰ (رض) نے حضرت عمر (رض) کا خط پڑھایا (جس میں لکھا تھا) کہ آخر مفصل میں سے پڑھو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٥٩۔
حاصل روایات : ان روایات و آثار سے نماز مغرب میں قصار مفصل کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے پس یہی اولیٰ و افضل ہے۔
نوٹ : مغرب میں قصار مفصل کی اولویت کو مفصل طور پر ثابت کیا گیا اور اشکالات کا حل بھی ذکر کیا گیا امام طحاوی (رح) موافقت روایات کی زیادہ کوشش کرتے ہیں یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے۔

1247

۱۲۴۷ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مَکْحُوْلٍ، عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ الرَّبِیْعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْفَجْرِ فَتَعَایَتْ عَلَیْہِ الْقِرَائَ ۃُ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ : (أَتَقْرَؤُنَ خَلْفِیْ) قُلْنَا : نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (فَلَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، فَإِنَّہٗ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا) .
١٢٤٧: محمود بن الربیع نے عبادہ بن صامت (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی نماز پڑھائی پس آپ پر قراءت گراں ہوئی جب سلام پھیرا تو آپ نے فرمایا کیا تم میرے پیچھے پڑھتے ہو انھوں نے جواب دیا جی ہاں ! یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا ایسا مت کرو سوائے فاتحۃ الکتاب کے اس لیے کہ اس کی نماز نہیں جس نے فاتحہ نہ پڑھی۔
خلاصہ الزام : امام و مقتدی کی الگ الگ ذمہ داری ہے کہ منفرد و امام کی طرح مقتدی کا وظیفہ قراءت میں وہی ہے جو ان کا ہے۔
فریق اوّل :
امام شافعی اور اہل ظواہر ‘ احمد بن حنبل ‘ مالک (رح) کے ہاں مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ و سورة پڑھنا واجب یا مستحب ہے۔
فریق دوم :
امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری ‘ ابراہیم نخعی (رح) کے ہاں امام کے پیچھے فاتحہ اور دیگر کوئی سورة پڑھنی درست نہیں۔
اللغات : تعایت۔ گراں ہونا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٢‘ نمبر ١٨٢٣‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٥‘ نمبر ٣١١‘ مستدرک محاکم ١؍٢٣٨‘ بمع تغیر یسیر۔

1248

۱۲۴۸ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ سَمِعْتُ یَزِیْدَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبَّادِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیْہِ عَبَّادٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (کُلُّ صَلَاۃٍ لَمْ یُقْرَأْ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِیَ خِدَاجٌ) .
١٢٤٨: یحییٰ بن عباد نے اپنے والد عباد سے انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہر وہ نماز جس میں فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نقص والی ہے۔
اللغات : خداج۔ ناقص۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١١‘ نمبر ٤٨٠‘ مسند احمد ٦؍١٩٢؍٢٧٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ١؍٣٦٠۔

1249

۱۲۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٢٤٩: یزید بن زریع نے محمد بن اسحاق سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1250

۱۲۵۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلٰی ہِشَامِ بْنِ زُہْرَۃَ یَقُوْلُ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ صَلّٰی صَلَاۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِیَ خِدَاجٌ غَیْرُ تَمَامٍ) فَقُلْتُ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ إِ نِّیْ أَکُوْنُ أَحْیَانًا وَرَائَ الْاِمَامِ قَالَ اقْرَأْہَا یَا فَارِسِیُّ فِیْ نَفْسِک .
١٢٥٠: ہشام بن زہرہ کے مولی ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں امّ القرآن نہ پڑھی وہ ناقص و نامکمل ہے میں نے سوال کیا اے ابوہریرہ ! میں بسا اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو وہ فرمانے لگے اے فارسی ! اس وقت اپنے دل میں پڑھ لو۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٣٨؍٤١‘ مسند احمد ٢؍٢٤١۔

1251

۱۲۵۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَسَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٢٥١: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٤٤۔

1252

۱۲۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا الْعَلَائُ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ قَوْمٌ، وَأَوْجَبُوْا بِہَا الْقِرَائَ ۃَ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا لَا نَرٰی أَنْ یُقْرَأَ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَلَا بِغَیْرِہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَیْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اللَّذَیْنِ رَوَوْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کُلُّ صَلَاۃٍ لَمْ یُقْرَأْ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِیَ خِدَاجٌ) .لَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ أَرَادَ بِذٰلِکَ، الصَّلَاۃَ الَّتِیْ تَکُوْنُ وَرَائَ الْاِمَامِ .قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَنَیْ بِذٰلِکَ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ لَا إِمَامَ فِیْہَا لِلْمُصَلِّی وَأَخْرَجَ مِنْ ذٰلِکَ الْمَأْمُوْمَ بِقَوْلِہٖ مَنْ کَانَ لَہٗ إِمَامٌ فَقِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ قِرَائَ ۃٌ لَہٗ .فَجَعَلَ الْمَأْمُوْمَ فِیْ حُکْمِ مَنْ یَقْرَأُ بِقِرَائَ ۃِ إِمَامِہٖ، فَکَانَ الْمَأْمُوْمُ بِذٰلِکَ خَارِجًا مِنْ قَوْلِہٖ (کُلُّ مَنْ صَلَّی صَلَاۃً فَلَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَلَاتُہٗ خِدَاجٌ) .وَقَدْ رَأَیْنَا أَبَا الدَّرْدَائِ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ، مِثْلَ ھٰذَا، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ، عِنْدَہٗ، عَلَی الْمَأْمُوْمِ .
١٢٥٢: علاء بن عبدالرحمن عن ابیہ عن ابی ہریرہ (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ان روایات کے پیش نظر تمام نمازوں میں فاتحہ کی قراءت کو واجب قرار دیا۔ دوسرے حضرات نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی نماز میں امام کے پیچھے سورة فاتحہ یا کسی دوسری سورت کی قراءت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ ان حضرات کے خلاف دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایات نقل کی ہیں کہ ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اس سے جماعت کی نماز مراد ہے اس لیے یہ جائز نہیں کہ اس سے وہ نماز مراد لی جائے جو امام کے بغیر پڑھی جاتی ہو اس سے مقتدی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی بناء پر خارج ہوگیا کہ ” جو شخص امام کے ساتھ ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے ‘ پس مقتدی تو اس آدمی کے حکم میں ہے جو امام کی قراءت سے پڑھتا ہے اس لیے مقتدی اس قول کی حدود سے خارج ہوگیا کہ ہر وہ شخص جس نے اپنی نماز میں فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ابو الدرداء (رض) نے اس سلسلے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات سنی ہے یہ ان کے ہاں بھی مقتدی کے لیے نہیں ہے ‘ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد باختلاف یسیر فی المتن ٢؍٤٥٧۔
حاصل روایات : فاتحۃ الکتاب تمام نمازوں سری و جہری میں پڑھی جائے گی فاتحہ کے بغیر نماز ناقص و غیر کامل ہے۔
مؤقف ثانی :
کہ فاتحۃ الکتاب اور کسی سورة کو بھی امام کے پیچھے نہ پڑھا جائے گا اس پر بہت سی روایات سے استدلال کیا گیا ہے اس کی طرف بڑھنے سے پہلے ان روایات سابقہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر !: روایت حضرت ابوہریرہ (رض) جو سب سے آخر میں ہے جس نماز میں فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے اس روایت میں دو احتمال ہیں۔
نمبر !: اس میں امام مقتدی ‘ منفرد سب کی نماز مراد ہے کہ جو بھی ان میں سے فاتحہ ترک کرے اس کی نماز ناقص ہے۔
نمبر ": دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس آدمی کی نماز ہے جس کا کوئی امام نہ ہو یعنی امام اور منفرد تو ان کی نماز بغیر فاتحہ
ناقص و نامکمل ہے رہا مقتدی تو اس کی نماز تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق :” من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃٌ“ اس میں امام کی قراءت کو مقتدی کی قراءت قرار دیا گیا تو گویا مقتدی ناقص نماز والوں سے نکل گیا۔
جواب نمبر ": حضرت ابوالدردائ (رض) کی روایت میں بھی یہ مضمون موجود ہے کہ مقتدی کے ذمہ قراءت نہیں ہے ہر نماز میں قراءت کے وجوب کا ارشاد خود ابوالدردائ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا روایت ملاحظہ ہو۔

1253

۱۲۵۳ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ - ح.
١٢٥٣: عبداللہ بن وہب کہتے ہیں کہ مجھے معاویہ بن صالح نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٣٢٦۔

1254

۱۲۵۴ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ، أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ، عَنْ کَثِیْرِ بْنِ مُرَّۃٍ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ، (أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فِیْ کُلِّ الصَّلَاۃِ قُرْآنٌ؟ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَجَبَتْ) .قَالَ : وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ (أَرَیْ أَنَّ الْاِمَامَ اِذَا أَمَّ الْقَوْمَ، فَقَدْ کَفَاہُمْ) .فَھٰذَا أَبُو الدَّرْدَائِ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فِیْ کُلِّ الصَّلَاۃِ قُرْآنٌ) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ " وَجَبَتْ " فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِ الْأَنْصَارِ .ثُمَّ قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ بَعْدُ مِنْ رَأْیِہٖ مَا قَالَ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، عَلٰی مَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہُ، وَعَلَی الْاِمَامِ لَا عَلَی الْمَأْمُوْمِیْنَ .فَقَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ رَأْیَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمَأْمُوْمِ مَعَ الْاِمَامِ، وَانْتَفٰی بِذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ عَلٰی صَاحِبِہٖ .وَأَمَّا حَدِیْثُ عُبَادَۃَ، فَقَدْ بَیَّنَ الْأَمْرَ، وَأَخْبَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَمَرَ الْمَأْمُوْمِیْنَ بِالْقِرَائَ ۃِ خَلْفَہُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ ہَلْ ضَادَّ ذٰلِکَ غَیْرَہٗ أَمْ لَا؟
١٢٥٤: معاویہ بن صالح نے ابوالزاہریہ عن کثیر بن مرہ عن ابی الدردائ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہر نماز میں قرآن مجید پڑھنا لازم ہے آپ نے فرمایا ہاں۔ ایک انصاری نے کہا پھر تو قرآن مجید پڑھنا واجب ہوا۔ یہ حضرت ابو الدرداء (رض) ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ تمام نمازوں میں قرآن مجید پڑھنا چاہیے تو ایک انصاری نے کہا پھر تو واجب ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بات کا انکار نہیں کیا پھر ابو الدرداء (رض) نے اس کی بات کے بعد اپنی رائے ظاہر فرمائی کہ یہ حکم اکیلے نماز پڑھنے والے اور امام کے لیے ہے مقتدیوں کے لیے نہیں ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) کی رائے ان سے مختلف ہے وہ اسے مقتدی بمع امام پر لازم کرتے ہیں ‘ پس اس روایت کا کسی بھی فریق کے لیے دلیل ہونا ثابت نہ ہوسکا ‘ باقی رہی حدیث عبادہ (رض) ‘ تو انھوں نے بات کو واضح کردیا کہ جناب رسول اللہ نے مقتدیوں کو اپنے پیچھے فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ ان کے خلاف اور کسی صحابی نے عمل کیا یا نہیں تو چنانچہ یہ روایات مل گئیں۔
فتویٰ :
ابوالدردائ (رض) کہتے ہیں میرے خیال میں جب کوئی کسی قوم کی امامت کروائے تو اس کی قراءت ان کے لیے کافی ہے۔
تخریج : نسائی فی الافتتاح باب ٣١‘ ١؍١٤٦۔
یہ حضرت ابوالدردائ (رض) جو اس حدیث کے راوی ہیں انھوں نے خود زبان نبوت سے ” فی کل صلوۃ قرآن “ کا ارشاد سنا اس پر ایک انصاری نے قراءت کے وجوب کا قول کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار نہیں فرمایا گویا یہ سکوت بھی بیان ہوگیا پھر ابوالدردائ (رض) نے اس کے بعد یہ فتویٰ دیا کہ جو اکیلا نماز پڑھے یا امام ہو اس پر یہ حکم ہے مقتدی کا حکم یہ نہیں ہے۔
اب بنظر انصاف دونوں صحابیوں کے فتوے مختلف ہوئے تو ابوالدردائ (رض) کے فتویٰ کو ” من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ “ کے موافق ہونے کی وجہ سے ترجیح ہوگی۔
جواب روایت :
عبادہ بن الصامت (رض) کی روایت سند کے لحاظ سے کمزور ہے مکحول مدلس اور محمود بن الربیع مجہول ہے۔
نمبر ": مکحول کبھی خود عبادہ سے کبھی محمود بن الربیع کے واسطہ سے کبھی نافع ابن محمود کے واسطہ سے کبھی نافع ابن محمود عن محمود ابن الربیع کے واسطہ سے کبھی نافع ابن محمد عن ابی نعیم عن ابی عبادہ سے نقل کرتے ہیں اس شدید اضطراب کی وجہ سے قابل استدلال نہیں متن میں بھی اضطراب ہے کبھی لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب کبھی لا صلوۃ لمن لم یقرء بامّ القرآن خلف الامام کبھی لا صلوۃ لمن لم یقرأبھا ہے گویا متن بھی مضطرب پس قابل استدلال نہیں۔ یہ صحیح روایت مالی انازع القرآن کے خلاف ہے اسی طرح اذا قریء القرآن فاستمعوالہ کے خلاف ہے نیز اس کے بعض طرق امام و منفرد کے ساتھ اس کو خاص کرتے ہیں جس کے لیے جواب کی حاجت نہیں۔
مؤقف ثانی :
امام کے پیچھے کسی قسم کی قراءت نہیں ان کی مستدل یہ روایات و آثار ہیں۔

1255

۱۲۵۵ : فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ: أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنِ ابْنِ أَکِیْمَۃَ اللَّیْثِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاۃٍ جَہَرَ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ، فَقَالَ ہَلْ: (قَرَأَ مِنْکُمْ مَعِیْ أَحَدٌ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِ نِّیْ أَقُوْلُ مَالِیْ أُنَازَعُ الْقُرْآنَ؟) .قَالَ فَانْتَہَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَائَ ۃِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا جَہَرَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَائَ ۃِ، مِنَ الصَّلَوَاتِ، حِیْنَ سَمِعُوْا ذٰلِکَ مِنْہُ .
١٢٥٥: ابن اکیمہ لیثی نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جہری سے واپس مڑے تو ارشاد فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی پڑھا ہے تو ایک آدمی نے کہا جی ہاں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی کہہ رہا ہوں میرے ساتھ قرآن مجید کے پڑھنے میں کیوں منازعہ کیا جا رہا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں اس پر لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ساتھ جہری نمازوں میں پڑھنے سے رک گئے جب انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنا۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٣١٢‘ نسائی فی الافتتاح باب ٢٨‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣‘ مالک فی النداء نمبر ٤٤‘ مسند احمد ٢؍٢٨٤۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ (رض) کی جماعت میں اور کوئی بھی نہیں پڑھتا تھا جس ایک شخص نے پڑھا اس نے استفسار پر بتلا دیا اس کو بھی بات بتلا دی گئی تو پھر جو بعض افراد پڑھتے تھے وہ بھی رک گئے معلوم ہوتا ہے اگر فاتحہ خلف الامام ہوتی تو سب پڑھتے۔ فتدبر۔

1256

۱۲۵۶ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ، عَنْ سَعِیْدٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَاتَّعَظَ الْمُسْلِمُوْنَ بِذٰلِکَ، فَلَمْ یَکُوْنُوْا یَقْرَئُ وْنَ) .
١٢٥٦: سعید نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں مسلمانوں نے اس نصیحت کو پلے باندھ لیا پس وہ قراءت خلف الامام نہ کرتے تھے۔

1257

۱۲۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ الْأَوَّلِ الْأَحْوَلُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدٍ سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ، فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا) .
١٢٥٧: زید بن اسلم نے ابو صالح سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا امام اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے پس جب وہ پڑھے تو تم خاموش رہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٦٧‘ نمبر ٦٠٤‘ نسائی فی الافتتاح باب ٣٠‘ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٢٦۔

1258

۱۲۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانُوْا یَقْرَئُ وْنَ خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ (خَلَطْتُمْ عَلَیَّ الْقِرَائَ ۃَ) .
١٢٥٨: ابوالاحوص نے عبداللہ سے نقل کیا کہ لوگ جناب بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پڑھتے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا تم نے مجھ پر قراءت کو خلط ملط کردیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤٥١‘ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٦‘۔

1259

۱۲۵۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ، عَنْ یَعْقُوْبَ، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ کَانَ لَہٗ إِمَامٌ فَقِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَائَ ۃٌ) .
١٢٥٩: عبداللہ بن شداد نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ١٣‘ نمبر ٨٥‘ دارقطنی فی سنتہ ١؍٣٢٣؍٣٢٥۔

1260

۱۲۶۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ جَابِرًا وَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ .
١٢٦٠: موسیٰ بن ابی عائشہ نے عبداللہ بن شداد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا اس سند میں راوی نے جابر بن عبداللہ کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج : دارقطنی مرسلاً ۔

1261

۱۲۶۱ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْبَصَرَۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
١٢٦١: موسیٰ بن ابی عائشہ نے عبداللہ بن شداد سے انھوں نے بصرہ کے ایک آدمی سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٥٢٣۔

1262

۱۲۶۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرِ اڑلسَّلُوْلِیُّ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ وَلَیْثٍ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ .
١٢٦٢: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی نمبر ١٢٤٠۔

1263

۱۲۶۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ، قَالَا : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ، یَعْنِی الْجُعْفِیَّ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ.
٢٦٣ حسن بن صالح عن جابرالجعفی عن ابی الزبیر عن جابر (رض) : انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی۔

1264

۱۲۶۴ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ حَیٍّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
١٢٦٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1265

۱۲۶۵ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ صَلّٰی رَکْعَۃً، فَلَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ یُصَلِّ إِلَّا وَرَائَ الْاِمَامِ) .
١٢٦٥: وہب بن کیسان نے جابر بن عبداللہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں امّ القرآن نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی مگر جب کہ وہ امام کے پیچھے ہو (معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے نہ قراءت فاتحہ ہے اور نہ اور کوئی سورة)
تخریج : دارقطنی فی سننہ ١؍٣٢٧۔

1266

۱۲۶۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ جَابِرٍ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٢٦٦: وہب بن کیسان نے حضرت جابر بن عبداللہ سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر نہیں کیا یعنی روایت کو مرفوع قرار نہیں دیا۔
تخریج : دارقطنی ١؍٣٢٢‘ موطا مالک ١؍٢٩۔

1267

۱۲۶۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ مُوْسَی بْنِ ابْنَۃِ السُّدِّیِّ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ قَالَ : فَقُلْتُ لِمَالِکٍ " ارْفَعْہُ " فَقَالَ : " خُذُوْا بِرَجْلِہٖ " .
١٢٦٧: اسماعیل بن موسیٰ نے امام مالک سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو کہا تم اس کو مرفوع بیان کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے فرمایا اس روایت کو اس کے پاؤں سے پکڑ لو یعنی اس کی سند میں کمزور راوی ہیں۔

1268

۱۲۶۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْہِہٖ فَقَالَ (أَتَقْرَئُ وْنَ وَالْاِمَامُ یَقْرَأُ) فَسَکَتُوْا فَسَأَلَہُمْ ثَلَاثًا فَقَالُوْا إِنَّا لَنَفْعَلَ، قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَقَدْ بَیَّنَّا بِمَا ذَکَرْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَ مَا رَوٰی عُبَادَۃَ .فَلَمَّا اخْتَلَفَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ فِیْ ذٰلِکَ، الْتَمَسْنَا حُکْمَہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَرَأَیْنَاہُمْ جَمِیْعًا لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِی الرَّجُلِ، یَأْتِی الْاِمَامَ، وَہُوَ رَاکِعٌ أَنَّہٗ یُکَبِّرُ وَیَرْکَعُ مَعَہٗ، وَیَعْتَدُّ تِلْکَ الرَّکْعَۃَ، وَإِنْ لَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا شَیْئًا .فَلَمَّا أَجْزَاہُ ذٰلِکَ فِیْ حَالِ خَوْفِہٖ فَوْتَ الرَّکْعَۃِ، اُحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ إِنَّمَا أَجْزَاہُ ذٰلِکَ لِمَکَانِ الضَّرُوْرَۃِ، وَاحْتُمِلَ، أَنْ یَکُوْنَ إِنَّمَا، أَجْزَاہُ، ذٰلِکَ لِأَنَّ الْقِرَائَ ۃَ خَلْفَ الْاِمَامِ لَیْسَتْ عَلَیْہِ فَرْضًا .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ، فَرَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ مَنْ جَائَ إِلَی الْاِمَامِ، وَہُوَ رَاکِعٌ فَرَکَعَ، قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ فِی الصَّلَاۃِ بِتَکْبِیْرٍ کَانَ مِنْہُ، أَنَّ ذٰلِکَ لَا یُجْزِئُ ہٗ، وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا تَرَکَہٗ لِحَالِ الضَّرُوْرَۃِ، وَخَوْفَ فَوَاتِ الرَّاکِعَۃِ، فَکَانَ لَا بُدَّ لَہٗ مِنْ قَوْمَۃٍ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃ وَخَوْفِ فَوَاتِ الرَّکْعَۃِ، فَکَانَ لَا بُدَّ لَہٗ مِنْ قَوْمَۃٍ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ وَغَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ .فَھٰذِہِ صِفَاتُ الْفَرَائِضِ الَّتِیْ لَا بُدَّ مِنْہَا فِی الصَّلَاۃِ، وَلَا تُجْزِیُٔ الصَّلَاۃُ إِلَّا بِإِصَابَتِہَا .فَلَمَّا کَانَتَ الْقِرَائَ ۃُ مُخَالِفَۃً لِذٰلِکَ، وَسَاقِطَۃً فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ، کَانَتْ عَنْ غَیْرِ جِنْسِ ذٰلِکَ .فَکَانَتْ فِی النَّظَرِ أَنَّہَا سَاقِطَۃٌ فِیْ غَیْرِ حَالَۃِ الضَّرُوْرَۃِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالَی .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَقْرَئُ وْنَ خَلْفَ الْاِمَامِ وَیَأْمُرُوْنَ بِذٰلِکَ.
١٢٦٨: ابو قلابہ نے حضرت انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی پھر اپنے چہرہ مبارک کو ہماری طرف کیا اور فرمایا کیا تم اس وقت پڑھتے ہو جبکہ امام پڑھتا ہو پس سب خاموش رہے اس پر آپ نے ان سے تین بار سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا ہم امام کے پیچھے پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا ایسا مت کرو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ تمام روایات حضرت عبادہ (رض) کی روایت کے خلاف ہیں جب روایات میں اختلاف ہوا تو ہم نے نظر و فکر کی طرف رجوع کیا چنانچہ ہم نے یہ بات پائی کہ اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جو شخص امام کی ایسے وقت میں اقتداء کرے جبکہ وہ رکوع کی حالت میں ہو تو وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے تو اس کی یہ رکعت شمار ہوگئی اگرچہ اس نے اس میں کچھ بھی نہیں پڑھا ‘ جب رکعت کے فوت ہوجانے کے خطرے سے یہ چیز جائز ہے تو اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ یہ چیز ضرورت کے وقت بھی جائز ہے اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ امام کے پیچھے قراءت فرض نہیں ‘ پس اسی اعتبار کر کے ہم نے یہ رائے قائم کی کہ سب حضرات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص امام کو رکوع میں پائے اور وہ تکبیر افتتاح کے بغیر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائے تو اس کی یہ نماز جائز نہ ہوگی اگرچہ اس نے یہ عمل ضرورت کی وجہ سے اور رکعت کے فوت ہوجانے کے ڈر سے کیا ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ضرورت کی حالت اور رکعت کے فوت ہوجانے کے خطرے کے باوجود قومہ کرتا اس کے لیے قومہ حالت ضرورت اور بلا حالت ضرورت ہر دو صورت میں ضروری ہے اور یہی حکم ان سب فرائض کا ہے کہ جن کے علاوہ نماز میں کوئی چارہ نہیں اور ان کے پائے جانے کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی جب قراءت کا مسئلہ اس سے مختلف ہے اس لیے کہ یہ ضرورت کی حالت میں ساقط ہوجاتی ہے تو اس کی جنس الگ ہوگئی تو نظر و فکر کا یہ تقاضا ہے کہ ضرورت کی حالت کے علاوہ میں بھی یہ ساقط ہوجائے ‘ یہی نظر ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف و محمد کا قول ہے اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام کے پیچھے پڑھتے اور اس کا حکم بھی دیتے تھے۔
تخریج : دارقطنی فی سننہ ١؍٣٤٠‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍١٦٦۔
حاصل روایات : یہ چودہ روایات بتلا رہی ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے کچھ لوگ کرتے تھے آپ نے اس کو قراءت میں خلل قرار دے کر اس سے منع کردیا پس قراءت خلف الامام کی روایات منسوخ ہیں یہ روایات عبادہ (رض) والی روایت سے مضبوط تر ہیں۔
محاکمہ و نظر طحاوی (رح) :
فلما اختلفت ہذہ الاثار سے نظر طحاوی (رح) کو بیان کرتے ہیں جب آثار مرویہ میں اختلاف ہوا تو اب بطریق نظر ان میں صورت فیصلہ کو جانچا چنانچہ یہ بات مسلم ہے کہ جو آدمی جماعت کے لیے ایسے وقت آئے جب امام رکوع میں جاچکا ہو تو وہ آنے والا شخص تکبیر کہہ کر پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے تو وہ رکعت کو پانے والا شمار ہوتا ہے حالانکہ اس نے ذرا بھر قراءت نہیں کی اب یہی کہیں گے کہ رکعت کے فوت ہوجانے کا خطرہ دامن گیر ہوا جس سے اس کی اس رکعت کو جائز قرار دیا گیا اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ امام کا مقتدی بن جانے کی وجہ سے اس پر قراءت ساقط ہوگئی اور امام کی قراءت اس کے لیے معتبر ہوگئی۔
اب ان دونوں احتمالوں میں سے ایک کی تعیین کرنے کے لیے ہم نے مزید غور کیا کہ جو شخص امام کو اس حالت میں پائے کہ وہ رکوع میں جا چکا یہ تکبیر کہے بغیر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوگیا تو تمام ائمہ کے ہاں اس کی یہ نماز قابل اعتبار نہ ہوگی حالانکہ نظریہ ضرورت کا تقاضا تو یہاں بھی یہی ہے کہ رکعت جانے کے خوف سے وہ فوراً رکوع میں چلا گیا تو قیام کو ترک کیا خواہ ضرورت کی وجہ سے ترک کیا ان دونوں صورتوں میں اگرچہ ضرورت ہے مگر پہلی میں قراءت چھوڑی تو نماز کو رکوع میں شامل ہونے کی بناء پر جائز کہا گیا مگر دوسرے شخص کے لیے اسی نظریہ ضرورت کے موقعہ پر بھی اس کی نماز کو جائز قرار نہیں دیا گیا معلوم ہوا کہ قراءت اور تکبیر افتتاح کی حیثیت میں فرق ہے قراءت تو ساقط ہوگئی کیونکہ امام کی قراءت اس کا بدل تھی اور تکبیر تحریمہ کا کوئی بدل نہیں اس لیے اس کو ضرورت کے موقعہ پر بھی ساقط قرار نہیں دیا گیا گویا دونوں کی جنس الگ ہونے کی وجہ سے حکم بھی الگ ہوگا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
ایک اہم سوال :
بہت سے صحابہ کرام (رض) سے منقول ہے کہ وہ امام کے پیچھے پڑھتے اور اس کا حکم و فتویٰ دیتے تھے۔ جیسا کہ یہ اقوال ہیں۔

1269

۱۲۶۹ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیُّ عَنْ جَوَّابِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ التَّیْمِیِّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ شَرِیْکٍ، أَبُوْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیُّ، أَنَّہٗ قَالَ : سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ فَقَالَ لِیَ اقْرَأْ .فَقُلْتُ وَإِنْ کُنْتُ خَلْفَکَ؟ قَالَ : " وَإِنْ کُنْتُ خَلْفِیْ " قُلْتُ : وَإِنْ قَرَأْتَ؟ قَالَ: " وَإِنْ قَرَأْتُ" .
١٢٦٩: ابو ابراہیم التیمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے سوال کیا کہ کیا امام کے پیچھے قراءت کی جائے گی تو انھوں نے فرمایا پڑھ لیا کرو میں نے پوچھا خواہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں ؟ تو انھوں نے فرمایا خواہ تم میرے پیچھے پڑھو میں نے کہا اگرچہ آپ قراءت کریں انھوں نے فرمایا اگرچہ میں قراءت کروں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٣۔

1270

۱۲۷۰ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا أَبُوْ بِشْرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ مِنْ سُوْرَۃِ مَرْیَمَ .
١٢٧٠: مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے سنا کہ وہ امام کے پیچھے ظہر میں سورة مریم پڑھتے ہیں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٣۔

1271

۱۲۷۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ حُصَیْنٍ قَالَ، سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یَقُوْلُ : صَلَّیْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ، فَکَانَ یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَ ھٰذَا عَمَّنْ ذَکَرْتُمْ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِہِمْ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .
١٢٧١: مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کے ساتھ ظہر و عصر پڑھی وہ امام کے پیچھے قراءت کرتے تھے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ قول اس سے مروی ہے جن کا تم نے تذکرہ کیا ان کے علاوہ دیگر اصحاب سے اس کے خلاف روایات ہیں۔ ملاحظہ ہوں
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٣۔
الجواب بالصواب : تم نے اگر عمر بن خطاب اور عبداللہ بن عمرو کے متعلق فاتحہ خلف الامام کی بات نقل کی ہے تو دیگر حضرات صحابہ کرام (رض) سے اس کے خلاف آثار مروی ہیں ملاحظہ ہوں۔

1272

۱۲۷۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی وَمَرَّ عَلٰی دَارِ ابْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ صَاحِبُ ھٰذِہِ الدَّارِ، وَکَانَ قَدْ قَرَأَ عَلٰی أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْاِمَامِ فَلَیْسَ عَلَی الْفِطْرَۃِ۔
١٢٧٢ : مختار بن عبداللہ بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت کے خلاف کرنے والا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٦۔

1273

۱۲۷۳ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : أَنْصِتْ لِلْقِرَائَ ۃِ فَإِنَّ فِی الصَّلَاۃِ شُغْلًا، وَسَیَکْفِیْکَ ذٰلِکَ الْاِمَامُ .
١٢٧٣: ابو وائل نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ قراءت کے سننے کے لیے بالکل خاموشی اختیار کرو بلاشبہ نماز میں ایک مشغولیت ہے اور اس قراءت کے لیے تمہاری طرف سے امام کافی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٦۔

1274

۱۲۷۴ : حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، وَأَبُوْ جَابِرٍ، أَنَا أَشُکُّ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .
١٢٧٤: ابو وائل نے عبداللہ بن مسعود سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : طبرانی الکبیر ٩؍٢٦٤۔

1275

۱۲۷۵ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ نَحْوَہٗ۔
١٢٧٥: منصور نے ابو وائل سے انھوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٢٩۔

1276

۱۲۷۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا خَدِیْجُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَیْتَ الَّذِیْ یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ مُلِیَٔ فُوْہُ تُرَابًا) .
١٢٧٦: علقمہ نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا کاش کہ وہ شخص جو امام کے پیچھے پڑھتا ہے اس کا منہ مٹی سے بھر دیا جائے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٧٧۔

1277

۱۲۷۷ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، نَحْوَہٗ۔
١٢٧٧: سفیان نے زبیر سے انھوں نے ابراہیم عن علقمہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : سابقہ۔

1278

۱۲۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ
١٢٧٨: عبیداللہ بن مقسم نقل کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر اور زید بن ثابت اور جابر بن عبداللہ (رض) سے دریافت کیا کہ کیا امام کے پیچھے پڑھا جائے گا تو انھوں نے نے فرمایا کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے کچھ بھی مت پڑھو۔

1279

۱۲۷۹ : مِقْسَمٍ، أَنَّہٗ سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ، وَزَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالُوْا : (لَا تَقْرَؤُوْا خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ) حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَخْرَمَۃُ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مِقْسَمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ مِثْلَ ذٰلِکَ .
١٢٧٩: عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ سے سنا پھر اسی طرح روایت کو نقل کیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٣٠۔

1280

۱۲۸۰ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَخْرَمَۃُ بْنُ بُکَیْرٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، سَمِعَہٗ یَقُوْلُ : (لَا تَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ)
١٢٨٠: عطاء بن یسار نے زید بن ثابت سے نقل کیا کہ میں نے ان کو فرماتے سنا کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے مت پڑھو۔

1281

۱۲۸۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ زَیْدٍ، مِثْلَہٗ .
١٢٨١: عطاء بن یسار نے زید بن ثابت سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1282

۱۲۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحِ ڑ الْحَرَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ (أَقْرَأُ وَالْاِمَامُ بَیْنَ یَدَیَّ؟ فَقَالَ : لَا ۔
١٢٨٢: ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کیا میں اس وقت قراءت کروں جبکہ امام میرے سامنے ہو ؟ تو فرمانے لگے بالکل نہیں۔

1283

۱۲۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ اِذَا سُئِلَ : ہَلْ یَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْاِمَامِ؟ یَقُوْلُ (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ خَلْفَ الْاِمَامِ فَحَسْبُہٗ قِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ) وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ .
١٢٨٣: نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) سے جب یہ پوچھا جاتا کہ کیا امام کے پیچھے قراءت کی جائے گی ؟ تو فرمانے لگے جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کے لیے کافی ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر (رض) امام کے پیچھے نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : موطا مالک ١؍٢٩۔

1284

۱۲۸۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : (یَکْفِیْکَ قِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ) .فَہٰؤُلَائِ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی تَرْکِ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ .وَقَدْ وَافَقَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَدَّمْنَا ذِکْرَہٗ، وَشَہِدَ لَہُمُ النَّظَرُ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا، فَذٰلِکَ أَوْلٰی مِمَّا خَالَفَہٗ.
١٢٨٤: عبداللہ بن دینار نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ (امام کے پیچھے) تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت ہے جو امام کے پیچھے قراءت کے چھوڑنے پر متفق ہے اور اس کے موافق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا ارشاد بھی ہے اور صحیح نظر و فکر بھی اس کے موافق ہے اور یہ اس کی مخالفت کرنے والوں کے مسلک سے بہتر قول ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٧٦۔
حاصل آثار :
امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے متعلق کثیر صحابہ کرام (رض) کا فتویٰ اور عمل یہی تھا کہ قراءت نہ کی جائے بلکہ وہ قراءت خلف الامام کو پسند نہ کرتے تھے۔
فیصلہ طحاوی :
سابقہ روایات جو مؤقف ثانی میں پیش کی گئیں وہ ان فتاویٰ صحابہ کرام (رض) کی موافقت کرنے والی ہیں اور نظر و فکر کا فیصلہ بھی اسی حق میں ہے پس ان روایات کو اختیار کرنا پہلی روایات کو اختیار کرنے سے اولیٰ و افضل ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں بھی روایات مؤقف ثانی کو پیش کر کے پھر نظر طحاوی کو لائے اور آخر میں تائید کے لیے عمل و فتاویٰ صحابہ کرام (رض) کو پیش کیا اور اس فاتحہ خلف الامام کے اختلاف کو اولویت کا اختلاف قرار دیا آج کل کے جدید مجتہدین کی طرح کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں بنایا۔

1285

۱۲۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَیْثَمَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ ابْنِ عِمْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَکَانَ لَا یُتِمُّ التَّکْبِیْرَ۔
١٢٨٥: ابن عمران نے ابن عبدالرحمن بن ابزی عن ابیہ سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ تکبیرات پوری نہ کرتے تھے (کم تکبیرات کہتے) (ابو داؤد کہتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ رکوع سے سجدے کی طرف جاتے تکبیر نہ کہتے تھے اسی طرح سجدے سے قیام کے وقت تکبیر نہ کہا کرتے تھے)
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٦‘ نمبر ٨٣٧‘ مسند احمد ٣؍٤٠٦؍٤٠٧‘ بیہقی سنن کبریٰ ٢؍٦٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٤١؍٢٤٢۔
خلاصہ الزام : حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ابن سیرین ‘ قاسم بن محمد وسالم (رح) کے ہاں جھکتے وقت سجدہ تک کوئی تکبیر نہیں جب سجدہ سے اٹھیں گے تو تمام تکبیرات کہی جائیں گی۔
نمبر ": ائمہ ثلاثہ جمہور فقہاء و محدثین (رح) کے ہاں جھکتے و اٹھتے وقت تکبیر کہنا مسنون و مشروع ہے امام احمد کے ہاں واجب ہے۔

1286

۱۲۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ. قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، فَکَانُوْا لَا یُکَبِّرُوْنَ فِی الصَّلَاۃِ اِذَا خَفَضُوْا، وَیُکَبِّرُوْنَ اِذَا رَفَعُوْا، وَکَذٰلِکَ کَانَتْ بَنُوْ أُمَیَّۃَ تَفْعَلُ ذٰلِکَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَکَبَّرُوْا فِی الْخَفْضِ وَالرَّفْعِ جَمِیْعًا، وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی مَا تَوَاتَرَتْ بِہٖ الْآثَارُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٢٨٦: عمرو بن مرزوق کہتے ہیں کہ ہمیں شعبہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ لوگوں نے یہ رائے اختیار کی کہ وہ جھکتے وقت تکبیر نہیں کہتے اور جب سر اٹھاتے ہیں تو اس وقت تکبیر کہتے ہیں اور بنو امیہ کے لوگ اسی طرح کرتے تھے۔ دوسرے علماء نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جھکتے اور اٹھتے دونوں وقت تکبیر کہی جائے گی اور اس سلسلے میں ان روایاتِ کثیرہ سے انھوں نے استدلال کیا۔
تخریج : بیہقی ٢؍١٠٠۔
حاصل روایات : وہ تکبیر جھکتے وقت نہ کہتے تھے البتہ اٹھتے وقت تکبیر کہتے تھے خلفاء بنی امیہ کا طرز عمل یہی تھا بعض نے حضرت عثمان (رض) کی نسبت اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
روایت کا جواب :
یہ مجمل روایت ہے : لا یتم التکبیر کے الفاظ سے تکبیر نہ کہنے پر استدلال ہی درست نہیں تفصیلی روایت سے اس کا معاملہ معلوم ہوگا نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیگر صحابہ کرام (رض) سے تواتر کے ساتھ یہ عمل منقول ہے اس کے مقابلہ میں ایک مجمل روایت کیونکر معتبر ہوگئی۔
مؤقف ِدوم :
ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر مسنون ہے جو بہت سے آثار و روایات سے ثابت ہے ملاحظہ ہوں۔

1287

۱۲۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ، وَعَلْقَمَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : أَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ فِیْ کُلِّ وَضْعٍ وَرَفْعٍ .
١٢٨٧: علقمہ نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں ہر جھکتے اٹھتے وقت تکبیر کہتے پایا۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٤‘ نمبر ٢٥٣‘ نسائی فی التبطیق باب ٩٠‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٤٠‘ مسند احمد ١/٤٢٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٣٩۔

1288

۱۲۸۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑالرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ، عَنْ زُہَیْرٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ، قَالَ : وَرَأَیْتُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلَانِ ذٰلِکَ .
١٢٨٨‘ شجاع نے زہیر سے اپنی سند کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) کو اٹھتے جھکتے تکبیر کہتے پایا۔
تخریج : ترمذی ١؍٥٩‘ نسائی ١؍١٧٢۔

1289

۱۲۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَالِمُ ڑالْبَرَّادُ، قَالَ : وَکَانَ عِنْدِیْ أَوْثَقَ مِنْ نَفْسِیْ قَالَ : قَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدِ ڑ الْبَدْرِیُّ (أَلَا أُصَلِّیْ لَکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی بِنَا أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ یُکَبِّرُ فِیْہِنَّ، کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ وَقَالَ : ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٢٨٩: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ مجھے سالم البراد نے بیان کیا وہ میرے ہاں اپنی ذات سے بھی بڑھ کر قابل اعتماد ہیں کہ ابو مسعود بدری (رض) فرمانے لگے کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں پھر انھوں نے ہمیں چار رکعت نماز پڑھائی جن میں وہ ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہتے تھے پھر فرمانے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح نماز پڑھتے پایا۔
تخریج : ابوداؤد فی الصلاۃ باب ١٤٤‘ نمبر ٨٦٣‘ نسائی فی الصلاۃ باب ٩٣‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ١٧؍٢٤٠؍٢٤١۔

1290

۱۲۹۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ الدَّانَاجُ، قَالَ: ثَنَا عِکْرِمَۃُ، قَالَ : صَلّٰی بِنَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَکَانَ یُکَبِّرُ اِذَا رَفَعَ، وَإِذَا وَضَعَ فَأَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبَرْتُہٗ بِذٰلِکَ فَقَالَ : أَوَ لَیْسَ ذٰلِکَ سُنَّۃُ أَبِی الْقَاسِم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٢٩٠: عکرمہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے نماز پڑھائی وہ ہر جھکنے اور اٹھنے میں تکبیر کہتے تھے پھر میں حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی تو فرمانے لگے کیا یہی ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت نہیں یعنی یہی آپ کی سنت ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٤١۔

1291

۱۲۹۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ بِشْرٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
١٢٩١: ابوالبشر نے عکرمہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے مگر ابوہریرہ (رض) کا اس میں تذکرہ نہیں ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢١٨۔

1292

۱۲۹۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ : قَالَ أَبُوْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیُّ، ذَکَّرَنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃً کُنَّا نُصَلِّیْہَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِمَّا نَسِیْنَاہَا وَإِمَّا تَرَکْنَاہَا عَمْدًا یُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ، وَکُلَّمَا رَفَعَ، وَکُلَّمَا سَجَدَ .
١٢٩٢: اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ہمیں ابو موسیٰ اشعری کہنے لگے کہ ہمیں حضرت علی (رض) نے وہ نماز یاد دلا دی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پڑھا کرتے تھے جسے ہم نے خواہ جان بوجھ کر چھوڑ رکھا تھا یا ہم بھول گئے تھے آپ جب بھی جھکتے یا اٹھتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ کے وقت بھی تکبیر کہتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٤١۔

1293

۱۲۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ح .
١٢٩٣: سعید بن عامر نے بیان کیا کہ ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بین کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٧٤۔

1294

۱۲۹۴ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الرَّقَاشِیِّ، عَنْ أَبِیْ مُوْسَی، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا کَبَّرَ الْاِمَامُ وَسَجَدَ، فَکَبِّرُوْا وَاسْجُدُوْا)
١٢٩٤: حطان بن عبداللہ الرقاشی نے ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب امام تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٦٢۔

1295

۱۲۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِیْرِیُّ قَالَ : ثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ سُفْیَانَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ الْأَصَمُّ قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُتِمُّوْنَ التَّکْبِیْرَ، یُکَبِّرُوْنَ اِذَا سَجَدُوْا، وَإِذَا رَفَعُوْا، وَإِذَا قَامُوْا مِنَ الرَّکْعَۃِ) .
١٢٩٥: عبدالرحمن اصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) تکبیر کو مکمل کرتے اور جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب اس سے اٹھتے تب بھی اور جب رکعت سے دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تب بھی تکبیر کہتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٤٠۔

1296

۱۲۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ وَأَبُوْ حُذَیْفَۃَ، عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَصَمِّ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٢٩٦: سفیان نے عبدالرحمن اصم سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٨٠۔

1297

۱۲۹۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یُصَلِّیْ لَہُمُ الْمَکْتُوْبَۃَ، فَیُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ .فَإِذَا انْصَرَفَ قَالَ " وَاللّٰہِ إِ نِّیْ لَأَشْبَہَکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ " .
١٢٩٧: ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) ہمیں فرض نماز پڑھاتے تو ہر جھکنے اٹھنے میں تکبیر کہتے جب وہ نماز سے فارغ ہوتے تو کہتے میری نماز تم سب میں سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے مشابہ ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١١٥‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٧۔

1298

۱۲۹۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ، ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، وَأَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یُصَلِّیْ بِہِمُ الْمَکْتُوْبَۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٢٩٨: ابو سلمہ اور ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے ہمیں فرض نماز پڑھاتے تھے پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد طیاسی ١؍٣٠٥۔

1299

۱۲۹۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَحْوَہُ۔
١٢٩٩: ابوالذئب نے مقبری سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٤٢۔

1300

۱۳۰۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ سَمْعَانَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُکَبِّرُ کُلَّمَا سَجَدَ وَرَفَعَ) .
١٣٠٠: سعید بن سمعان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی جھکتے یا اٹھتے تو تکبیر کہتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٧‘ نمبر ٧٥٣‘ نسائی فی الافتتاح باب ٦‘ مسند احمد ٢؍٤٣٤۔

1301

۱۳۰۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی أَنَّ أَبَا سَلَمَۃَ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُکَبِّرُ فِی الصَّلَاۃِ، کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ .فَقُلْتُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ، مَا ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ؟ فَقَالَ : (إِنَّہَا لَصَلَاۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .فَکَانَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّکْبِیْرِ، فِیْ کُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ، أَظْہَرَ مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی، وَأَکْثَرَ تَوَاتُرًا .وَقَدْ عَمِلَ بِہَا مِنْ - بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَتَوَاتَرَ بِہَا الْعَمَلُ إِلٰی یَوْمِنَا ھٰذَا لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ مُنْکِرٌ، وَلَا یَدْفَعُہٗ دَافِعٌ .ثُمَّ النَّظَرُ یَشْہَدُ لَہٗ أَیْضًا، وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الدُّخُوْلَ فِی الصَّلَاۃِ، یَکُوْنُ بِالتَّکْبِیْرِ، ثُمَّ الْخُرُوْجُ مِنَ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ، یَکُوْنَانِ أَیْضًا بِتَکْبِیْرٍ .کَذٰلِکَ الْقِیَامُ مِنَ الْقُعُوْدِ یَکُوْنُ أَیْضًا بِتَکْبِیْرٍ .فَکَانَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ تَغَیُّرِ الْأَحْوَالِ مِنْ حَالٍ إِلٰی حَالٍ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ فِیْہِ تَکْبِیْرًا .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ تَغَیُّرُ الْأَحْوَالِ أَیْضًا مِنَ الْقِیَامِ إِلَی الرُّکُوْعِ، وَإِلَی السُّجُوْدِ فِیْہِ أَیْضًا تَکْبِیْرٌ، قِیَاسًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
١٣٠١: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو نماز میں ہر حفض و رفع میں تکبیر کہتے پایا ہے میں نے ان سے استفسار کیا اے ابوہریرہ (رض) ! یہ کیا نماز ہے ؟ تو وہ فرمانے لگے بیشک یہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز ہے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشابہ نماز ہے) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیے جانے والے آثار ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کو کھلے طور پر ثابت کر رہے ہیں ان کے مقابلہ میں عبد الرحمن بن ابزی کی روایت کم درجہ ہے۔ ان روایات پر ابوبکر و عمر (رض) کا عمل اور آج تک کا متواتر عمل ہے جس کا کوئی منکر اور ردّ کرنے والا انکار نہیں کرسکتا۔ پھر نظر و فکر بھی اس پر گواہ ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز میں تکبیر سے داخل ہوتے ہیں پھر رکوع و سجود سے انتقال بھی تکبیر کے ذریعے ہے۔ اسی طرح قعدہ قیام بھی تکبیر سے ہوگا۔ ان احوال کی تکبیر سب کے ہاں بالاتفاق ہے۔ تو اٹھنے اور جھکنے میں بھی ان پر قیاس کرتے ہوئے تکبیر ہوگی۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٣١۔
حاصل روایات : یہ تمام روایات و آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال ہیں اور پھر آپ کے بعد خلفائے راشدین نے ان کو اپنایا ہے پس ان روایات کو لے کر عمل کرنا عبدالرحمن بن ابزیٰ کی مجمل روایت سے اولیٰ و اعلیٰ ہے اور یہ عمل تواتر سے ہم تک پہنچا ہے جس کا کوئی منکر انکار نہیں کرسکتا اور نہ کوئی دلیل اس کا مقابلہ کرسکتی ہے پس دلائل قاہرہ سے ہر خفض و رفع کی تکبیر ثابت ہوگئی۔
نظر طحاوی (رح) :
پھر عقل و فکر بھی اس کے شاہد ہیں وہ اس طرح کہ نماز میں ہم تکبیر افتتاح سے داخل ہوتے ہیں پھر رکوع اور سجود سے فراغت بھی تکبیر سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح قیام و قعود سے بھی انتقال تکبیر سے ہوتا ہے تو یہ تمام حالات جن میں ہم ایک ہیئت سے دوسری ہیئت کی طرف منتقل ہوتے ہیں وہ جب تمام تر تکبیر سے ہے اور فریق مخالف کے ہاں بھی نیچے سے اوپر کی طرف منتقل ہونے کے لیے تکبیر ہے تو نظر و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ تغیر احوال میں قیام سے رکوع اور رکوع سے سجدہ کی طرف جھکتے ہوئے بھی تکبیر ہونی چاہیے ورنہ تفریق کی کیا وجہ ہے پس ثابت ہوا ہے کہ نیچے سے قیام کی طرف اٹھتے وقت جب تکبیر ہے تو اوپر سے نیچے کی طرف رجوع وغیرہ کے لیے جھکتے وقت بھی تکبیر ہے۔
یہی ہمارے علماء و ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا مسلک ہے اور جمہور فقہاء و محدثین بھی اسی طرف گئے ہیں۔
نوٹ : اس باب میں فریق اوّل کی ایک دلیل ذکر کر کے اس کی نہایت کمزوری کی طرف اشارہ کردیا اور جمہور کے دلائل کو بڑی قوت و زور سے پیش کیا اور معمول کے مطابق آخر میں نظر سے ثابت کردیا خلفاء راشدین کے عمل کو مسلمات کے طور پر پیش کیا۔

1302

۱۳۰۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ کَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، وَیَصْنَعُ مِثْلَ ذٰلِکَ اِذَا قَضٰی قِرَائَ تَہٗ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ، وَیَصْنَعُہٗ اِذَا فَرَغَ وَرَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ، وَلَا یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ شَیْئٍ مِنْ صَلَاتِہٖ وَہُوَ قَاعِدٌ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَیْنِ رَفَعَ یَدَیْہِ کَذٰلِکَ وَکَبَّرَ) .
١٣٠٢: عبیداللہ بن ابی رافع علی بن ابی طالب (رض) سے اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ جب وہ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر بلند کرتے اور اسی طرح کرتے جبکہ اپنی قراءت پوری کر چکتے اور رکوع کا ارادہ کرتے اور اس وقت کرتے جب رکوع سے فارغ ہو کر رکوع سے سر اٹھاتے اور اپنی نماز میں کسی جگہ بھی ہاتھ نہ اٹھاتے جب قعدہ کرتے اور جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو اسی طرح ہاتھ بلند کرتے اور تکبیر کہتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نبمر ٧٤٤‘ ترمذی فی الصلاۃ با ٧٦‘ نمبر ٢٥٥۔
خلاصہ الزام : تکبیر افتتاح میں رفع یدین تو سب کے ہاں مسلم ہے البتہ تکبیر رکوع ‘ تکبیر سجود اور قعدہ سے قیام کی تکبیر رفع یدین امام شافعی ‘ امام احمد (رح) کے ہاں لازم ہے اور صحابہ کرام میں ابن عمر ‘ ابن عباس ‘ ابن زبیر اور ابوہریرہ (رض) اس کے قائل ہیں۔ فریق ثانی : ان تینوں مواقع میں رفع یدین نہیں یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابرہیم نخعی (رح) اور خلفاء راشدین ‘ ابن مسعود ‘ عشرہ مبشرہ کا طرز عمل ہے۔

1303

۱۳۰۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ، حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ وَبَعْدَ مَا یَرْفَعُ وَلَا یَرْفَعُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ) .
١٣٠٣: سالم اپنے والد عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ ان کو اپنے دونوں کندھوں کے برابر کردیتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب اس سے اٹھتے تو ہاتھ اٹھاتے اور دو سجدوں کے درمیان ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢١۔

1304

۱۳۰۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، وَإِذَا کَبَّرَ لِلرُّکُوْعِ، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ، رَفَعَہُمَا کَذٰلِکَ وَقَالَ (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) وَکَانَ لَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ) .
١٣٠٤: سالم نے اپنے والد حضرت عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کی تکبیرکہتے اور جب رکوع سے اٹھتے تو تب بھی ہاتھ اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد اور دونوں سجدوں کے درمیان ایسا نہ کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٨٣‘ ٨٤۔

1305

۱۳۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٠٥: بشر بن عمر کہتے ہیں ہمیں مالک نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت بیان کی۔

1306

۱۳۰۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَفَعَ یَدَیْہِ حِذَائَ مَنْکِبَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ ثَلَاثَ مِرَارٍ حِیْنَ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ وَحَیْنَ رَکَعَ، وَحِیْنَ رَفَعَ رَأْسَہُ .قَالَ : جَابِرٌ فَسَأَلْتُ سَالِمًا عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ : سَالِمٌ (رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ وَقَالَ : ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ) ۔
١٣٠٦: زید بن ابی انیسہ نے جابر بن یزید جعفی سے نقل کیا کہ میں نے سالم بن عبداللہ کو دیکھا کہ انھوں نے نماز میں تین مرتبہ کندھوں تک ہاتھ اٹھائے۔
نمبر !: جب انھوں نے نماز کو شروع کیا اور جب رکوع کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا جابر کہتے ہیں میں نے سالم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو کہنے لگے میں نے ابن عمر (رض) کو اس طرح کرتے دیکھا اور ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے کرتے دیکھا۔

1307

۱۳۰۷ : .حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حُمَیْدِ ڑ السَّاعِدِیَّ فِیْ عَشَرَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَحَدُہُمْ أَبُوْ قَتَادَۃَ قَالَ : (قَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا لِمَ؟ فَوَاللّٰہِ مَا کُنْتُ أَکْثَرَنَا لَہٗ تَبِعَۃً، وَلَا أَقْدَمَنَا لَہٗ صُحْبَۃً فَقَالَ : بَلٰی، فَقَالُوْا فَاعْرِضْ .قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ، رَفَعَ یَدَیْہِ، حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ، ثُمَّ یُکَبِّرُ، ثُمَّ یَقْرَأُ، ثُمَّ یُکَبِّرُ فَیَرْفَعُ یَدَیْہِ، حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ، ثُمَّ یَرْکَعُ، ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَہٗ فَیَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ ثُمَّ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ ثُمَّ یَقُوْلُ اللّٰہُ أَکْبَرُ یَہْوِیْ إِلَی الْأَرْضِ، فَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ کَبَّرَ، وَرَفَعَ یَدَیْہِ، حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ، ثُمَّ صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ فِیْ بَقِیَّۃِ صَلَاتِہٖ .قَالَ : فَقَالُوْا جَمِیْعًا صَدَقْتَ، ھٰکَذَا کَانَ یُصَلِّیْ) .
١٣٠٧: محمد بن عمرو بن عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی (رض) کو دس اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے سنا ان میں ایک ابو قتادہ (رض) بھی تھے ابو حمید کہنے لگے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں انھوں نے کہا کیوں ؟ اللہ کی قسم تم ہم سے زیادہ نہ پیروی کرنے والے ہوں اور نہ ہم سے زیادہ صحبت یافتہ ہو تو اس پر وہ کہنے لگے کیوں نہیں پھر وہ کہنے لگے تم بات پیش کرو تو کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے یہاں تک کہ ان کو کندھوں کے برابر لاتے پھر تکبیر کہتے پھر قراءت کرتے پھر تکبیر کہتے پس اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھاتے کہ دونوں کندھوں کے برابر لاتے پھر رکوع کرتے پھر اپنا سر اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ وہ دونوں کندھوں کے برابر ہوجاتے پھر آپ اللہ اکبر کہتے اور زمین کی طرف جھکتے پس جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھوں کو اس قدر بلند کرتے یہاں تک کہ وہ دونوں کندھوں کے برابر ہوجائیں پھر اسی طرح آپ اپنی بقیہ نماز میں بھی کرتے اس پر تمام نے کہا درست کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح نماز ادا فرماتے۔
دلیل طحاوی (رح) :
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ اس روایت میں تو کوئی دلیل نہیں جس سے ان نمازوں میں قراءت کرنا ثابت ہو کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ ان کی داڑھی تسبیح یا دعاء وغیرہ کے لیے ہلتی ہو لیکن قراءت کو وہ روایات ثابت کر رہی ہیں جن کو اس سے پہلی فصل میں ہم نے ذکر کیا ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظہر و عصر میں قراءت پختہ طور پر ثابت ہوگئی تو اس کے مخالف آنے والی ابن عباس (رض) کی روایت کی ہم نفی کرتے ہیں اور ہم غور و فکر کی طرف لوٹتے ہیں کہ آیا اس میں کوئی چیز ایسی ملتی ہے جو دونوں اقوال میں سے ایک کی صحت کے متعلق نشاندہی کرے ۔ ہم نے جانچا تو ہمیں معلوم ہوا کہ نماز میں قراءت فرض ہے۔ اسی طرح رکوع ‘ سجود بھی اور یہ تمام نماز کے فرائض ہیں اور نماز ان پر مشتمل ہے اگر ان میں سے کسی کو ترک کردیں تو نماز ادا نہ ہوگی اور یہ باتیں تمام نمازوں میں فرضیت کے اعتبار سے برابر ہیں۔ آخری قعدہ پر غور کیا تو ہم نے پہلے قعدہ کو لعنت قرار دیا جس میں کسی کو اختلاف نہیں اور وہ تمام نمازوں میں برابر ہے۔ ہم نے قعدہ اخیرہ کو پایا کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض اسے فرض مانتے ہیں جبکہ دوسرے اسے سنت کہتے ہیں اور ہر ایک نے ہر نماز میں یہی حکم قرار دیا کہ ان چیزوں میں سے جو ایک نماز میں فرض ہے تو وہی دوسری نماز میں بھی فرض ہے۔ قراءت میں جہر رات کی نماز میں فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ نماز اس پر مشتمل نہیں جیسا کہ رکوع و سجود و قیام پر مشتمل ہے۔ یہ بعض نماز میں موجود ہے جبکہ دوسری میں نہیں۔ نماز میں جو فرض ہے نماز کا اس پر دارومدار ہے۔ نماز اس وقت ادا ہوگی جب وہ ادا کیا جائے گا جب وہ ایک نماز میں فرض تھا تو تمام نمازوں میں وہ اسی طرح فرض ہوگا۔ جب ہم نے دیکھا کہ قراءت مغرب و عشاء اور صبح میں اس مخالف کے نزدیک بھی فرض ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور نماز اسی وقت درست ہوتی ہے جب اس کو کرے تو ظہر و عصر میں بھی یہی حکم ہوگا۔ پس جو لوگ ظہر و عصر میں قراءت کی نفی کرتے ہیں ان کے خلاف یہ قطعی دلیل ان لوگوں کی طرف سے ہے جو ان میں فرض قرار دیتے ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو سرے سے نماز میں قراءت کو ضروری قرار نہیں دیتے ان کے خلاف دلیل یہ ہے کہ ہم مغرب و عشاء کی نمازوں کو پاتے ہیں کہ ان کی پہلی دو رکعات میں قراءت جہراً پڑھی جاتی ہے اور ان کے علاوہ رکعات میں قراءت آہستہ کرتے ہیں۔ پس جب قراءت پہلی دو رکعات کے علاوہ میں سنت برقرار رہی اور جہر کے ساقط ہونے سے ساقط نہ ہوئی تو نظر و فکر کا تقاضا یہی ہے کہ ظہر و عصر میں بھی جہر کے ساقط ہونے سے ساقط نہ ہو۔ قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے اور یہ بات اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت سے مروی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٧٣٣‘ نسائی فی السہو باب ٢٩‘ مسند احمد ٥؍٤٢٤‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٢٦؍٧٣‘ ١٠١؍١١٨۔

1308

۱۳۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ قَالَ : اجْتَمَعَ أَبُوْ حُمَیْدٍ، وَأَبُوْ أُسَیْدٍ، وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، فَذَکَرُوْا صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ : (أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا قَامَ رَفَعَ یَدَیْہِ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرُّکُوْعِ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ، رَفَعَ یَدَیْہِ) .
١٣٠٨: عباس بن سہل کہتے ہیں کہ ابو حمید اور ابو اسید اور سہل بن سعد (رض) جمع ہوتے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا تذکرہ کیا تو ابو حمید کہنے لگے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو تم سب سے زیادہ جاننے والا ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھ بلند کرتے پھر رکوع کی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے۔
تخریج : ایضًا۔

1309

۱۳۰۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلصَّلَاۃِ، وَحِیْنَ یَرْفَعُ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حِیَالَ أُذُنَیْہِ) .
١٣٠٩: عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے اور انھوں نے وائل بن حجر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا جبکہ آپ نماز کے لیے تکبیر کہہ رہے تھے تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھایا اور اس وقت بھی جبکہ آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ نمبر ٧٢٨‘ نسائی فی الصلاۃ باب ١٨٧۔

1310

۱۳۱۰ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣١٠: ابوالاحوص نے عاصم سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت بیان کی۔

1311

۱۳۱۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ، قَالَ (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَکَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ رُکُوْعِہِ، یَرْفَعُ یَدَیْہِ، حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا فَوْقَ أُذُنَیْہِ) .
١٣١١: نصر بن عاصم نے مالک بن الحویرث (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو مرتبہ نماز میں ہاتھ اٹھاتے دیکھا جبکہ آپ رکوع سے سر اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے اور ہاتھوں کو کانوں کی اوپر والی جانب کے برابر اٹھاتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٢٥؍٢٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٧٤٥‘ فی الافتتاح باب ٤‘ مسند احمد ٥؍٥٣‘ دارقطنی فی سننہ ١؍٢٩٢‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ١٩؍٦٢٦؍٦٢٧۔

1312

۱۳۱۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، وَحِیْنَ یَرْکَعُ، وَحِیْنَ یَسْجُدُ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ، فَأَوْجَبُوا الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّکُوْعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنَ الرُّکُوْعِ، وَعِنْدَ النُّہُوضِ إِلَی الْقِیَامِ عَنِ الْقُعُوْدِ فِی الصَّلَاۃِ کُلِّہَا .وَخَالَفَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا لَا تَرَی الرَّفْعَ إِلَّا فِی التَّکْبِیْرَۃِ الْأُوْلٰی .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٣١٢: صالح بن کیسان نے اعرج اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع کے لیے جھکتے اور جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ علماء نے ان آثار کے پیش نظر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت اور قیام کی طرف اٹھتے ہوئے تمام نماز میں ہاتھ اٹھانے کا قول اختیار کیا ہے۔ دیگر علماء نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں صرف تکبیر افتتاح میں رفع یدین ہے۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا باب ١٥‘ نمبر ٨٦٠۔
حاصل روایات : پہلی روایت حضرت علی (رض) میں چار جگہ رفع یدین کا ذکر ہے تکبیر تحریمہ ٢: تکبیر رکوع نمبر ٣: تکبیر سجدہ نمبر ٤: سجدہ سے اٹھتے وقت نمبر ": ابن عمر (رض) کی روایت میں اٹھنے کے وقت کی تکبیر میں رفع یدین کا ذکر نہیں۔ نمبر ٣: ابو حمید (رض) کی روایت میں چار مرتبہ رفع یدین ہے۔ نمبر ٤: وائل بن حجر کی روایت میں تین مرتبہ بعینہٖ روایت ابن عمر کی طرح رفع یدین کا ذکر ہے۔ نمبر%: مالک بن حویرث میں رکوع میں جاتے اور اس سے اٹھتے وقت صرف دو مرتبہ رفع یدین کا ذکر ہے۔ نمبر ٦: ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ابن عمر (رض) کی طرح تین مرتبہ رفع یدین کا ذکر ہے گویا ان روایات میں تکبیر افتتاح کے علاوہ دو جگہ یا تین جگہ رفع یدین کا ذکر وارد ہے اس سے ثابت ہوا کہ رفع یدین واجب ہے۔
مؤقف ثانی :
تکبیر افتتاح کے علاوہ اور کسی جگہ رفع یدین نہیں مندرجہ روایات ان کا مستدل ہیں۔

1313

۱۳۱۳ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَبَّرَ لِافْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَکُوْنَ اِبْہَامَاہُ قَرِیْبًا مِنْ شَحْمَتَیْ أُذُنَیْہِ، ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) .
١٣١٣: ابن ابی لیلیٰ نے براء بن عازب (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کو شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو آپ اس قدر ہاتھ بلند کرتے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے آپ کے دونوں کانوں کی لو کے برابر ہوجاتے پھر دوبارہ ہاتھوں کو بالکل نہ اٹھاتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ ٧٤٩؍٧٥٠‘ نسائی فی الافتتاح باب ٥۔

1314

۱۳۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ أَنَا خَالِدٌ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ عِیْسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
١٣١٤: عیسیٰ بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت براء بن عازب (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1315

۱۳۱۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ أَخِیْہِ، وَعَنِ الْحَکَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی عَنِ الْبَرَائِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٣١٥: ابن ابی لیلیٰ نے برائ (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1316

۱۳۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ أَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ، ثُمَّ لَا یَعُوْدُ .
١٣١٦: علقمہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر افتتاح میں ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ نماز میں بالکل ہاتھ نہ اٹھاتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٧‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٦‘ نمبر ٢٥٧‘ نسائی فی الافتتاح باب ٨٧۔

1317

۱۳۱۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٣١٧: یحییٰ بن یحییٰ کہتے ہیں ہمیں وکیع نے سفیان سے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢١٣‘ مسند العدنی۔

1318

۱۳۱۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ قَالَ : قُلْتُ لِاِبْرَاہِیْمَ حَدِیْثُ وَائِلٍ أَنَّہٗ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، وَإِذَا رَکَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ؟) .فَقَالَ إِنْ کَانَ وَائِلٌ رَآہُ مَرَّۃً یَفْعَلُ ذٰلِکَ، فَقَدْ رَآہُ عَبْدُ اللّٰہِ خَمْسِیْنَ مَرَّۃً، لَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
١٣١٨: سفیان مغیرہ سے اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے کہا کہ وائل بن حجر کی روایت میں ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز شروع کرتے اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کرتے دیکھا تو ابراہیم نے جواب دیا اگر وائل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مرتبہ ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے تو ابن مسعود (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پچاسوں مرتبہ ہاتھ نہ اٹھاتے دیکھا۔

1319

۱۳۱۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : ثَنَا حُصَیْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، قَالَ : دَخَلْتُ مَسْجِدَ حَضْرَمَوْتَ، فَإِذَا عَلْقَمَۃُ بْنُ وَائِلٍ یُحَدِّثُ، عَنْ أَبِیْہِ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ قَبْلَ الرُّکُوْعِ، وَبَعْدَہٗ) .فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِاِبْرَاہِیْمَ فَغَضِبَ وَقَالَ رَآہُ ہُوَ وَلَمْ یَرَہُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَلَا أَصْحَابُہٗ .فَکَانَ ھٰذَا مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ ھٰذَا الْقَوْلِ، لِقَوْلِہِمْ مِمَّا رَوَیْنَاہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مُخَالِفِہِمْ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ قَالَ مَا رَوَیْنَا نَحْنُ، بِتَوَاتُرِ الْآثَارِ، وَصِحَّۃِ أَسَانِیْدِہَا وَاسْتِقَامَتِہَا، فَقَوْلُنَا أَوْلٰی مِنْ قَوْلِکُمْ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ مَا سَنُبَیِّنُہٗ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .أَمَّا مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہٖ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .
١٣١٩ : عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں حضر موت کی مسجد میں گیا تو وہاں علقمہ بن وائل لوگوں کو اپنے والد کی سند سے یہ روایت بیان کر رہے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں اپنے ہاتھوں کو رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اٹھایا ہے عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی کے سامنے یہ روایت نقل کی تو وہ غصے میں آگئے اور کہنے لگے وائل بن حجر نے تو دیکھا اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے نہیں دیکھا (نہایت تعجب ہے) یہ ان روایات میں سے جن سے اس قول والوں نے استدلال کیا ہے اور ان کے مخالفین کی مستدل متواتر روایات ہیں۔ ان کی اسناد درست اور مضبوط ہیں۔ پس ہمارا قول تمہارے قول سے بہترین ہے اور مخالفین کے خلاف دلائل ہم عنقریب انشاء اللہ بیان کریں گے۔ رہی وہ روایت جس کو اس باب کی ابتداء میں ہم نے ابن ابی الزناد کی سند سے حضرت علی (رض) کی روایت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ ٢٣‘ ٧٢٦‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ص ص ٢٣٦/١
حاصل روایات : براء بن عازب (رض) کی روایات تین سندوں سے اور ابن مسعود (رض) کی روایات دو سندوں سے ثابت کر رہی ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء نماز میں ہاتھوں کو اٹھایا ہے پھر نماز کے کسی حصہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔
دلیل دوم :
عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں حضر موت کی مسجد میں گیا تو وہاں علقمہ بن وائل لوگوں کو اپنے والد کی سند سے یہ روایت بیان کر رہے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں اپنے ہاتھوں کو رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اٹھایا ہے عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی کے سامنے یہ روایت نقل کی تو وہ غصے میں آگئے اور کہنے لگے وائل بن حجر نے تو دیکھا اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے نہیں دیکھا جبکہ وائل بن حجر ٩ ہجری میں اسلام لائے اور چند دنوں مدینہ رہ کر پھر وطن واپسی اختیار فرمائی اور عبداللہ بن مسعود (رض) آپ کے تکبیر مسواک اور پاپوش بردار تھے ابن مسعود (رض) کو آپ کے حالات سے جس قدر واقفیت تھی وائل بن حجر کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں پس ان کی روایات کو ترجیح حاصل ہوگی۔
مؤقف اوّل کے قائلین کا جواب :
جواب کی ابتداء سے پہلے یہاں فکان کا لفظ تین مرتبہ استعمال ہوا پہلی مرتبہ تو اپنے دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے لایا گیا دوسری مرتبہ مخالفین کے اشکال کا ذکر کیا کہ ہماری روایات متواتر ہیں اور سند کے اعتبار سے پختہ ہیں پس ہمارا قول قابل ترجیح ہے تیسری دفعہ لائے اور اس سے ان کی روایات کا جواب شروع کردیا روایت حضرت علی (رض) جس کو ابی الزناد کی سند سے پیش کیا گیا اس کے بالمقابل عاصم بن کلیب کی روایت ہے جس میں حضرت علی (رض) کے عمل کو پیش کیا گیا روایت یہ ہے۔

1320

۱۳۲۰ : فَإِنَّ أَبَا بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ ڑالنَّہْشَلِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ أَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ مِنَ الصَّلَاۃِ، ثُمَّ لَا یَرْفَعُ بَعْدُ .
١٣٢٠: عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب علی (رض) نماز کی تکبیر افتتاح کے وقت ہاتھ اٹھاتے اس کے بعد پھر نماز میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢١٣۔

1321

۱۳۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ النَّہْشَلِیُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ ۔ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہٗ .فَحَدِیْثُ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ھٰذَا، قَدْ دَلَّ أَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ عَلٰی أَحَدِ وَجْہَیْنِ .إِمَّا أَنْ یَکُوْنَ فِیْ نَفْسِہِ سَقِیْمًا أَوْ لَا یَکُوْنُ فِیْہِ ذِکْرُ الرَّفْعِ أَصْلًا، کَمَا قَدْ رَوَاہُ غَیْرُہٗ فَإِنَّ ابْنَ خُزَیْمَۃَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ح .
١٣٢١: ابوبکر نہشلی نے عاصم بن کلیب اور انھوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ حضرت علی (رض) نماز کی افتتاحی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے پھر اس کے بعد نماز میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے یہ کلیب علی (رض) کے قابل اعتماد حلقہ احباب میں سے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١١٣۔
حاصل روایت یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ابی الزناد تو رفع یدین نقل کر رہے ہیں اور کلب حضرت علی (رض) سے عدم رفع نقل کرتے ہیں اب روایت عبدالرحمن بن ابی الزناد میں تین احتمال ہیں۔
نمبر !: عبدالرحمن بن ابی الزناد خود متکلم فیہ راوی ہے تو سقیم و کمزور راوی کی روایت مضبوط راوی کے مقابلے قابل احتجاج نہیں۔
نمبر ": دوسرا احتمال عبدالرحمن بن ابی الزناد کی روایت میں سرے سے رفع یدین کا تذکرہ ہی نہیں جیسا کہ دیگر رواۃ نے اس کو نقل کیا ہے۔

1322

۱۳۲۲ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ وَالْوَہْبِیُّ، قَالُوْا : أَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ .فَذَکَرُوْا مِثْلَ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ فِیْ إِسْنَادِہٖ وَمَتْنِہِ، وَلَمْ یَذْکُرُوْا الرَّفْعَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ فَإِنْ کَانَ ھٰذَا ہُوَ الْمَحْفُوظُ، وَحَدِیْثُ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ خَطَأٌ، فَقَدْ ارْتَفَعَ بِذٰلِکَ أَنْ یَجِبَ لَکُمْ بِحَدِیْثٍ خَطَأٍ حُجَّۃٌ .وَإِنْ کَانَ مَا رَوٰی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ صَحِیْحًا لِأَنَّہٗ زَادَ عَلٰی مَا رَوٰی غَیْرُہٗ، فَإِنَّ عَلِیًّا لَمْ یَکُنْ لِیَرَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ، ثُمَّ یَتْرُکُ ہُوَ الرَّفْعَ بَعْدَہُ إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَہٗ نَسْخُ الرَّفْعِ .فَحَدِیْثُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، اِذَا صَحَّ، فَفِیْہِ أَکْثَرُ الْحُجَّۃِ لِقَوْلِ، مَنْ لَا یَرَی الرَّفْعَ .وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَإِنَّہٗ قَدْ رَوٰی عَنْہُ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رُوِیَ عَنْہُ، مِنْ فِعْلِہٖ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ .
١٣٢٢: عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے حضرت عبداللہ بن الفضل سے پھر انھوں نے ابن ابی الزناد والی روایت اسی سند اور متن سے نقل کی ہے اور اس میں رفع یدین کا تذکرہ ہی نہیں ملتا عبداللہ بن فضل کے دو شاگرد ہیں ایک موسیٰ بن عقبہ اور دوسرے عبدالعزیز بن ابی سلمہ ان سے عبداللہ بن صالح اور وہبی دو نے نقل کیا اور اس میں رفع یدین کا تذکرہ نہیں اور موسیٰ بن عقبہ سے عبدالرحمن بن ابی الزناد نے رفع نقل کیا عبداللہ بن صالح قابل اعتماد غیر متکلم فیہ راوی ہیں جبکہ ابن ابی الزناد متکلم فیہ ہے تو اس کی روایت شاذ اور خطاء کے درجہ میں ہے (پس اس سے استدلال درست نہیں) اور اگر ابی الزناد کی روایت کو درست مان لیا جائے تو کیونکہ اس نے دیگر روات کی روایات سے اضافہ کیا ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ حضرت علی (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھیں پھر آپ کے بعد اس رفع یدین کو ترک کردیں ‘ اس کی صرف یہی صورت ہوسکتی ہے رفع یدین ان کے نزدیک منسوخ ہوچکا ہو۔ پس جب حضرت علی (رض) کی روایت درست ہوگئی تو رفع یدین نہ کرنے والوں کے لیے اس میں کافی دلیل ہے۔ رہی ابن عمر (رض) والی روایت تو وہ وہی ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔ پھر جناب ابن عمر (رض) کا فعل آپ کی وفات کے بعد اس کے برعکس مروی ہے۔
احتمال نمبر#: اگر ابن ابی الزناد کی روایت کو درست مان لیا جائے تو حضرت علی (رض) کے قول و عمل میں تضاد لازم آئے گا قاعدہ مشہورہ ہے کہ راوی کا عمل روایت کے خلاف اس روایت کے منسوخ ہونے کی علامت ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ علی (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رفع یدین کرتے دیکھیں اور پھر اس کے خلاف چلیں ان کا خلاف کرنا رفع یدین کے نسخ کی علامت ہے پس اس روایت سے تو ثبوت رفع یدین کی بجائے عدم رفع یدین کا ثبوت پختہ ہوگیا۔ واللہ اعلم۔
حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کا جواب :
حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کے خلاف ان کا عمل موجود ہے لیجئے روایت حاضر ہے۔

1323

۱۳۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ حُصَیْنٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَلَمْ یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہٖ إِلَّا فِی التَّکْبِیْرَۃِ الْأُوْلٰی مِنَ الصَّلَاۃِ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَکَ ہُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَہٗ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِعْلَہُ وَقَامَتِ الْحُجَّۃُ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ : قَائِلٌ " ھٰذَا حَدِیْثٌ مُنْکَرٌ " قِیْلَ لَہٗ " وَمَا دَلَّک عَلٰی ذٰلِکَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إِلٰی ذٰلِکَ سَبِیْلًا " .فَإِنْ قَالَ : فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَکَرَ أَنَّہٗ رَأَی ابْنَ عُمَرَ یَفْعَلُ مَا یُوَافِقُ مَا رُوِیَ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہُمْ : فَقَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَہُ مُجَاہِدٌ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآہُ طَاوُسٌ مَا یَفْعَلُہُ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ عِنْدَہٗ الْحُجَّۃُ بِنَسْخِہِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَہُ الْحُجَّۃُ بِنَسْخِہٖ فَتَرَکَہٗ وَفَعَلَ مَا ذَکَرَہٗ عَنْہُ مُجَاہِدٌ .ھٰکَذَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُحْمَلَ مَا رُوِیَ عَنْہُمْ، وَیُنْفَیْ عَنْہُ الْوَہْمُ، حَتّٰی یَتَحَقَّقَ ذٰلِکَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَکْثَرُ الرِّوَایَاتِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ وَائِلٍ، فَقَدْ ضَادَّہٗ اِبْرَاہِیْمُ بِمَا ذَکَرَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مَا ذَکَرَ .فَعَبْدُ اللّٰہِ أَقْدَمُ صُحْبَۃً لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَفْہَمُ بِأَفْعَالِہٖ مِنْ وَائِلٍ، قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ أَنْ یَلِیَہُ الْمُہَاجِرُوْنَ لِیَحْفَظُوْا عَنْہُ .
١٣٢٣: ابوبکر بن عیاش نے حصین سے انھوں نے مجاہد سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے ابن عمر (رض) کے پیچھے نماز ادا کی وہ صرف تکبیر افتتاح میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ یہ ابن عمر (رض) جنہوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رفع یدین کرتے دیکھا پھر انھوں نے ہاتھوں کا اٹھانا آپ کے بعد چھوڑ دیا۔ اور اس کے خلاف عمل کیا یہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکا ہو جس کو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیکھا تھا۔ اور ان کے ہاں اس کے نسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکر ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ آپ کو کس نے بتلایا ؟ آپ کے لیے اس کے منکر قرار دینے کی کوئی صورت نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ طاؤس نے ابن عمر (رض) کو وہ فعل کرتے دیکھا جو اس روایت کے موافق ہے جو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی۔ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ طاؤس نے یہ بات ذکر کی ہے مگر مجاہد نے ان کی مخالفت کی ہے۔ تو اب یہ کہنا درست ہوا کہ طاؤس نے ابن عمر (رض) کے اس وقت کے عمل کو دیکھا جب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئے تھے ‘ پھر جب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہوگئے تو انھوں نے رفع یدین کو ترک کردیا اور وہی کیا جو ان سے مجاہد نے دیکھا۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جو ان سے مروی ہے وہ اس پر محمول کیا جائے اور وہم کی نفی کی جائے تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے ورنہ تو اکثر روایات کو ساقط الاعتبار قرار دینا پڑے گا۔ رہی روایت وائل (رض) تو اس کے خلاف ابراہیم نے ابن مسعود (رض) کے متعلق ذکر کیا کہ یہ ممکن نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کو ابن مسعود (رض) جیسے لازم صحبت نے تو نہ دیکھا ہو۔ اور چند دنوں کے لیے آنے والے نے دیکھ لیا ہو۔ پس عبداللہ کو صحبت میں ان سے بہت مقدم مانا جائے گا۔ اور ان کو حضرت وائل (رض) کے مقابلے میں آپ کے افعال و اقوال کو زیادہ سمجھنے والا شمار کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چاہت یہ ہوتی تھی کہ مہاجرین آپ کے قریب ہوں تاکہ وہ آپ کی باتوں کو اچھی طرح محفوظ کرلیں۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٣٧۔
حاصل روایت یہ ہے کہ ابن عمر (رض) کا قول وہ ہے جو اول باب میں نقل ہوا اور فعل یہ ہے کہ جو مجاہد (رح) نے نقل کیا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ رفع یدین کے منسوخ ہونے کے بغیر ابن عمر (رض) اپنے قول کے خلاف عمل کیا ہو پس ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بھی رفع یدین منسوخ ہوچکا تھا۔
فان قال قائل :
یہاں سے ایک اشکال ذکر کیا کہ مصنف کی یہ روایت جو تم نے پیش کی یہ منکر ہے پس اس سے اس روایت کا جواب ممکن نہیں۔
: مجاہد (رح) کی روایت کے منکر ہونے پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں اور نہ تمہیں میسر آئے گی بلادلیل انکار قابل تسلیم نہیں۔ فان قال یہ دوسرا اشکال ہے ہمارے پاس حجت موجود رہے کہ طاؤس نے نقل کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) کو رفع یدین کرتے پایا پس ابن عمر (رض) کا عمل روایت کے عین مطابق ہوا۔
: قیل لہم سے طاؤس (رح) نے ابن عمر (رض) کا عمل رفع یدین کے متعلق ضرور نقل کیا ہے اور مجاہد (رح) نے ابن عمر (رض) کا عمل نقل کرنے میں رفع یدین کی مخالفت نقل کی ہے اب کم از کم بلاوجہ ترجیح کے کسی ایک کی روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
یہ عین ممکن ہے کہ طاؤس نے جو فعل ابن عمر (رض) کا نقل کیا ہے وہ نسخ کے دلائل ابن عمر (رض) کے سامنے آنے سے پہلے کا قول ہے پھر جب ان کے ہاں حجت نسخ واضح ہوگئی تو انھوں نے رفع یدین کو ترک کردیا اور اسی کو مجاہد (رح) نے ذکر کیا اس طرح ان کی روایات کا مناسب محمل نکل سکتا ہے ورنہ تو اکثر روایات کو ساقط الاعتبار قرار دینا پڑے گا۔
حدیث وائل بن حجر (رض) کا جواب :
حضرت وائل کی یہ روایت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے متضاد ہے ابراہیم نخعی نے اسی کی تردید میں فرمایا کہ وائل (رض) نے تو دیکھ لیا اور ابن مسعود (رض) نے نہ دیکھا جبکہ وائل (رض) ٩ ہجری میں اسلام قبول کرتے ہیں اور ابن مسعود (رض) بیسویں مسلمان ہیں وہ آپ کے افعال ‘ اقوال کو قدامت صحبت کی وجہ سے زیادہ سمجھنے والے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین اولین اور قدیم الاسلام انصار کو ہمیشہ قریب تر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ آپ کے افعال و اقوال کو خوب در خوب نقل کرلیں اور محفوظ کرلیں۔

1324

۱۳۲۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ، قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ أَنْ یَلِیَہُ الْمُہَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ، لِیَحْفَظُوْا عَنْہُ .وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَقَالَ (لِیَلِیَنِیْ مِنْکُمْ أُوْلُوا الْأَحْلَامِ وَالنُّہٰی) .
١٣٢٤: حمید نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو پسند فرماتے کہ مہاجرین و انصار آپ کے قریب ہوں تاکہ وہ آپ کی باتیں آپ سے خوب یاد کرلیں۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ١٢٢؍١٢٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٩٥‘ نمبر ٦٧٤‘ ترمذی فی المواقیت باب ٥٤‘ نسائی فی الاقامۃ باب ٢٣‘ ٢٤‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٤٥۔ دارمی فی الصلاۃ باب ٥١‘ مسند احمد ١؍٤٥٧‘ ٤؍١٢٢۔
اسی طرح ابو بکرہ نے عبداللہ بن بکر سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
مہاجرین اور انصار کے قریب تر رہنے کی مؤید روایات۔
طحاوی (رح) کہتے ہیں جناب رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد لیلینی منکم اولوا الاحلام والنہٰی اس کا مؤید ہے اس کو ابی معمر نے ابو مسعود (رض) سے اس طرح نقل کیا ہے ملاحظہ ہو۔

1325

۱۳۲۵ : کَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سُلَیْمَانُ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَارَۃَ بْنَ عُمَیْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (لِیَلِیَنِی مِنْکُمْ أُوْلُوْا الْأَحْلَامِ وَالنُّہٰی، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ) .
١٣٢٥: ابو معمر کہتے ہیں کہ ابو مسعود انصاری (رض) نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جو زیادہ عقل و سمجھ والے ہیں وہ میرے قریب رہیں پھر وہ جو ان سے قریب عقل والے ہیں پھر وہ جو ان سے قریب عقل والے ہیں۔
تخریج : سابقہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1326

۱۳۲۶ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ قَتَادَۃَ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ : قَالَ لِیْ أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ، قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کُوْنُوْا فِی الصَّفِّ الَّذِیْ یَلِیْنِی) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَعَبْدُ اللّٰہِ مِنْ أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَقْرُبُوْنَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِیَعْلَمُوْا أَفْعَالَہٗ فِی الصَّلَاۃِ کَیْفَ ہِیَ؟ لِیُعَلِّمُوْا النَّاسَ ذٰلِکَ .فَمَا حَکَوْا مِنْ ذٰلِکَ، فَہُوَ أَوْلٰی مِمَّا جَائَ بِہٖ مَنْ کَانَ أَبْعَدَ مِنْہُ مِنْہُمْ فِی الصَّلَاۃِ .فَإِنْ قَالُوْا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ غَیْرُ مُتَّصِلٍ .قِیْلَ لَہُمْ کَانَ اِبْرَاہِیْمُ، اِذَا أَرْسَلَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، لَمْ یُرْسِلْہُ إِلَّا بَعْدَ صِحَّتِہِ عِنْدَہٗ، وَتَوَاتُرِ الرِّوَایَۃِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَدْ قَالَ لَہٗ الْأَعْمَشُ : اِذَا حَدَّثْتنِیْ فَأَسْنِدْ .فَقَالَ : اِذَا قُلْتُ لَک قَالَ " عَبْدُ اللّٰہِ " فَلَمْ أَقُلْ ذٰلِکَ حَتّٰی حَدَّثَنِیْہِ جَمَاعَۃٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، وَإِذَا قُلْتُ " حَدَّثَنِیْ فُلَانٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ" فَہُوَ الَّذِیْ حَدَّثَنِیْ .
١٣٢٦: قیس بن عباد کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس صف میں ہوا کرو جو مجھ سے قریب تر ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : پس عبداللہ (رض) تو ان لوگوں میں سے ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب رہتے تھے تاکہ وہ آپ کے نماز والے افعال کی کیفیت جان کر دوسروں کو سکھائیں۔ پس جو ان حضرات نے بیان کیا وہ ان حضرات کے بیان سے اولیٰ اور بہتر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور رہنے والے تھے (اور ان کو کبھی کبھی حاضری کا موقعہ میسر آتا) اگر وہ کہیں جو تم نے ابراہیم سے حضرت عبداللہ (رض) سے نقل کیا وہ متصل نہیں ‘ تو ان کو یہ جواب دیا جائے گا کہ ابراہیم جب عبداللہ (رض) سے ارسال کرتے ہیں تو وہ روایت ان کے نزدیک تواتر و صحت سے پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ اعمش نے ان کو کہا کہ مجھے روایت بیان کرتے ہوئے سند بیان کیا کرو تو انھوں نے فرمایا : جب میں تم سے کہوں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا تو سمجھ لو کہ میں یہ بات اسی وقت کہتا ہوں جب وہ بات ایک جماعت مجھ سے بیان کرتی ہے۔ اور جب میں کہوں : حدثنی فلان عن عبد اللّٰہ (رض) ۔ تو وہ مجھے فقط اسی شخص نے بیان کی ہوتی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٢٣۔
حاصل روایات : ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ سمجھ والے لوگوں کو افعال و اقوال نبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریب سے دیکھنے کے لیے پہلی صفوف کا حکم دیا گیا ابو جعفر طحاوی (رح) رقمطراز ہیں کہ پھر عبداللہ بن مسعود (رض) تو ان لوگوں سے ہیں جو نبوت کا قرب اختیار کرنے والے ہیں تاکہ وہ آپ کے افعال کی کیفیت نماز میں پہچان لیں اور لوگوں کو اسی طرح سکھائیں پس جو بات یہ قریب ترین لوگ کریں گے وہ اس سے اولیٰ ترین ہوگی جو ان سے منقول ہو جو آپ سے صف نماز میں دور کھڑے ہوں پس عبداللہ (رض) کی روایت وائل بن حجر (رض) کی روایت سے زیادہ اولیٰ ہوگی اور قابل استدلال ہوگی۔
ایک اشکال :
فان قالوا سے ذکر کیا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت جو ابراہیم نخعی سے بیان کی گئی وہ متصل السند نہیں کیونکہ ابراہیم کی پیدائش ٨ ٣ ؁ھ اور ابن مسعود (رض) کا سنہء وفات ٢ ٣ ؁ھ ہے تو پھر وائل بن حجر کی متصل السند روایت کے مقابلے میں کیسے قابل ترجیح ہوگی۔
S: ابراہیم نخعی کی جو روایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے ارسال کے ساتھ ہے وہ اس کی صحت پر کامل یقین کے بعد وہ ارسال کرتے ہیں بلکہ وہ روایت ان کے ہاں تواتر کو پہنچی ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ سلیمان بن مہران الاعمش (رح) نے ابراہیم نخعی (رح) کو کہا آپ مجھ سے متصل سند سے روایت بیان کیا کریں تو ابراہیم کہنے لگے جب میں آپ کو اس طرح کہوں قال عبداللہ تو میں یہ اسی وقت کہتا ہوں جب ایک جماعت مجھے عبداللہ سے بیان کرتی ہے اور اگر میں حدثنی فلان عن عبداللہ کہوں ‘ تو اس وقت وہ صرف ایک ہی آدمی بیان کرنے والا ہوتا ہے جو اس میں مذکور ہوتا ہے۔ پس میری مرسل متصل سے زیادہ قوی ہے۔

1327

۱۳۲۷ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ أَوْ بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، شَکَّ أَبُوْ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْأَعْمَشِ بِذٰلِکَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَأَخْبَرَ أَنَّ مَا أَرْسَلَہُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، فَمَخْرَجُہٗ عِنْدَہٗ أَصَحُّ مِنْ مَخْرَجِ مَا ذَکَرَہٗ عَنْ رَجُلٍ بِعَیْنِہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ .فَکَذٰلِکَ ھٰذَا الَّذِیْ أَرْسَلَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ لَمْ یُرْسِلْہُ إِلَّا وَمَخْرَجُہٗ عِنْدَہٗ أَصَحُّ مِنْ مَخْرَجِ مَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَجُلٍ بِعَیْنِہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ .وَمَعَ ذٰلِکَ فَقَدْ رَوَیْنَاہُ مُتَّصِلًا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَکَذٰلِکَ کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یَفْعَلُ فِیْ سَائِرِ صَلَاتِہٖ .
١٣٢٧: وہب یا بشر بن عمر نے بیان کیا یہ ابو جعفر کو شک ہے انھوں نے شعبہ اور انھوں نے اعمش سے اس کو نقل کیا۔ ابو جعفر کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی نے بتلایا کہ عبداللہ سے میرا ارسال کرنا وہ معینہ آدمی سے روایت ذکر کرنے سے زیادہ مضبوط ہے یہ روایت اسی طرح کی مرسل ہے اور یہ اس متصل سے اعلیٰ ہے جو ایک معینہ آدمی سے نقل کی جائے اور عبداللہ کی طرف نسبت کی جائے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ روایت عبد الرحمن بن اسود کی سند سے متصل بھی منقول ہے اور حضرت عبداللہ اپنی تمام نمازوں میں اسی طرح کرتے تھے۔
مع ذلک سے دوسرے جواب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ان سب روایتی خوبیوں کے باوجود متصل سند کے ساتھ بھی یہ روایت منقول ہے ملاحظہ ہو۔

1328

۱۳۲۸ : کَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَیْنٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَاۃِ إِلَّا فِی الْاِفْتِتَاحِ. وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔
١٣٢٨: ابراہیم کہتے ہیں کہ عبداللہ نماز کے کسی بھی جزء میں ابتدائی تکبیر کے علاوہ نماز میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔
حاصل روایت یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر افتتاح کے علاوہ نماز میں کہیں رفع یدین نہ فرماتے تھے۔ پس ابراہیم نخعی (رح) کے ارسال کی وضاحت کے بعد ابن ان کے ارسال پر اعتراض بےجا ہے اور حضرت عمر (رض) سے بھی عدم رفع کی کی روایت ملاحظہ ہو۔

1329

۱۳۲۹ : کَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ أَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ، ثُمَّ لَا یَعُوْدُ، قَالَ : وَرَأَیْتُ اِبْرَاہِیْمَ، وَالشَّعْبِیَّ یَفْعَلَانِ ذٰلِکَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ أَیْضًا إِلَّا فِی التَّکْبِیْرَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، وَہُوَ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَیَّاشٍ، وَإِنْ کَانَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ إِنَّمَا دَارَ عَلَیْہِ، فَإِنَّہٗ ثِقَۃٌ حُجَّۃٌ، قَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ وَغَیْرُہٗ .أَفَتَرٰی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَفِیَ عَلَیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ، وَعَلِمَ بِذٰلِکَ مَنْ دُوْنَہُ، وَمَنْ ہُوَ مَعَہُ یَرَاہُ یَفْعَلُ غَیْرَ مَا رَأٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ، ثُمَّ لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ، ھٰذَا عِنْدَنَا مُحَالٌ .وَفَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا وَتَرَکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ عَلٰی ذٰلِکَ، دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ الْحَقُّ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ خِلَافُہٗ .وَأَمَّا مَا رَوَوْہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ، فَإِنَّمَا ہُوَ مِنْ حَدِیْثِ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ عَیَّاشٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ .وَہُمْ لَا یَجْعَلُوْنَ إِسْمَاعِیْلَ فِیْمَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِ الشَّامِیِّیْنَ، حَجَّۃً، فَکَیْفَ یَحْتَجُّوْنَ عََلٰی خَصْمِہِمْ، بِمَا لَوِ احْتَجَّ بِمِثْلِہٖ عَلَیْہِمْ، لَمْ یُسَوِّغُوہُ إِیَّاہُ .وَأَمَّا حَدِیْثُ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہُمْ یَزْعُمُوْنَ أَنَّہٗ خَطَأٌ، وَأَنَّہٗ لَمْ یَرْفَعْہُ أَحَدٌ إِلَّا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ خَاصَّۃً، وَالْحُفَّاظُ یُوْقِفُوْنَہُ، عَلٰی أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَأَمَّا حَدِیْثُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، فَإِنَّہُمْ یُضَعِّفُوْنَ عَبْدَ الْحَمِیْدِ، فَلَا یُقِیْمُوْنَ بِہٖ حُجَّۃً، فَکَیْفَ یَحْتَجُّوْنَ بِہٖ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا .وَمَعَ ذٰلِکَ فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ لَمْ یَسْمَعْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ مِنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ، وَلَا مِمَّنْ ذُکِرَ مَعَہٗ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ بَیْنَہُمَا رَجُلٌ مَجْہُوْلٌ، قَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ عَنْہُ، عَنْ رَجُلٍ، وَأَنَا ذَاکِرٌ ذٰلِکَ فِیْ بَابِ الْجُلُوْسِ فِی الصَّلَاۃِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَحَدِیْثُ أَبِیْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیْدِ ھٰذَا، فَفِیْہِ " فَقَالُوْا جَمِیْعًا صَدَقْتَ " فَلَیْسَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ أَحَدٌ غَیْرُ أَبِیْ عَاصِمٍ .
١٣٢٩: ابراہیم نے اسود سے نقل کی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیر میں صرف ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے تھے اور میں نے ابراہیم نخعی اور شعبی کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمر (رض) جو اس روایت کے مطابق صرف پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اس کا دارومدار حسن بن عیاش راوی پر ہے۔ اور وہ قابل اعتماد و پختہ راوی ہے۔ جیسا کہ یحییٰ بن معین وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع اور سجدے میں ہاتھ اٹھاتے ہوں اور عمر (رض) کو معلوم نہ ہوں اور دوسروں کو معلوم ہوجائیں جو ان سے کم صحبت والے ہوں۔ اور آپکے ساتھی آپکو ایسا فعل کرتے دیکھیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کیا ہو پھر وہ اس کا انکار نہ کریں۔ ہمارے نزدیک تو یہ بات ناممکنات سے ہے۔ حضرت عمر (رض) کا یہ عمل اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع یدین کو چھوڑنا اس بات کی پکی دلیل ہے کہ یہ ایسا حق ہے کہ کسی عاقل کو اس کے خلاف کرنا مناسب نہیں۔ رہی وہ روایت ابوہریرہ (رض) جس کو اسماعیل بن عیاش سے نقل کیا ہے۔ تو وہ خود اسماعیل کو شامیوں کے علاوہ کی جانے والی روایت میں حجت قرار نہیں دیتے ‘ تو ایسی روایت سے اپنے مخالف پر بطور دلیل کے کس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ اگر اس جیسی روایت سے ان کے خلاف دلیل پیش کی جائے تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کریں گے۔ رہی روایت انس بن مالک (رض) تو وہ (مخالفین) خود اس کے غلط قرار دیتے ہیں۔ عبد الوہاب ثقفی کے علاوہ اور کسی نے اس کو مرفوع بیان نہیں کیا۔ بلکہ حفاظ تو اسے انس پر موقوف قرار دیتے ہیں۔ باقی روایت عبدالحمید بن جعفر تو وہ (مخالفین) اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں تو ایسے موقع پر ایسے شخص کی روایت کو بطور حجت (ہمارے خلاف) کیسے پیش کرتے ہیں حالانکہ محمد بن عمرو نے اس کو ابو حمید سے نہیں سنا اور نہ ہی ان سے جن کا تذکرہ اس کے ساتھ ہو۔ اس روایت میں ان کے درمیان ایک مجہول شخص ہے۔ اس بات کو عطاف سے ایک آدمی سے بیان کیا ہے۔ میں باب الجلوس فی الصلوۃ میں انشاء اللہ اس کا تذکرہ کروں گا۔ اور ابو عاصم کی عبدالحمید سے روایت تو اس میں یہ الفاظ ہیں : ” فقالوا جمیعًا صدقت “ یہ اضافہ ابو عاصم کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کی یہ روایت کہ وہ صرف تکبیر افتتاح کے وقت ہاتھ اٹھاتے یہ صحیح روایت ہے اس کا دارومدار حسن بن عیاش (رح) پر ہے اور ان کے متعلق یحییٰ بن معین نے حجۃ ثقۃ فرمایا ہے اس سے ظاہر ہوگیا کہ اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔
اب حضرت عمر بن خطاب (رض) جو رسالت مآب کے اس قدر قریب رہنے والے تھے ان پر یہ چیز مخفی کیسے رہ سکتی تھی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع و سجود کے موقعہ پر رفع یدین کرتے ہوں اور ان کو معلوم ہی نہ ہو اور ان لوگوں کو معلوم ہوگیا جو ان سے کم درجہ تھے اور جو لوگ حضرت عمر (رض) کے ساتھ تھے وہ عمر (رض) کو اس کے خلاف عمل کرتا دیکھیں جو عمل کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرتا دیکھتے ہوں پھر وہ ان پر کوئی نکیر نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کے ہاں رفع نہ کرنا ہی صحیح تھا ہمارے نزدیک یہ بات ناممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کے خلاف عمل کریں اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اس پر چھوڑ دیں پس یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رفع یدین نہ کرنا ہی ایسا حق ہے کہ جس کی مخالفت کسی کو درست نہیں۔
روایت ابوہریرہ (رض) کا جواب :
اما مارواہ سے دیا جا رہا ہے اس روایت کا دارومدار اسماعیل بن عیاش پر ہے اس نے صالح بن کیسان سے نقل کیا اس کی روایات دو قسم کی ہیں۔
نمبر !: وہ روایات جو اسماعیل نے شام کے علماء سے نقل کی ہیں وہ تو حجۃ ہیں۔ نمبر ": وہ روایات جو اسماعیل نے غیر شامیین سے نقل کی ہیں وہ ساقط الاعتبار ہیں اور صالح بن کیسان یہ غیر شامی ہیں حجاز سے تعلق رکھتے ہیں پس اسماعیل کی ایسی روایات معتبر نہیں عجیب بات تو یہ ہے کہ ہمارے خلاف بطور حجت وہ دلیل پیش کی جا رہی ہے کہ اگر اس جیسی روایت سے ان کے خلاف دلیل پیش کریں تو وہ اس کو نگل بھی نہ سکیں بالکل قبول نہ کریں گے تو احناف کے خلاف اس کو حجت میں پیش کرنا کیونکر درست ہوا۔
روایات حضرت انس بن مالک (رض) کا جواب :
یہ ہے کہ اس میں عبدالوہاب ثقفی ایسا راوی ہے جو اس روایت کو مرفوع بیان کرتا ہے جبکہ دیگر حفاظ رواۃ اس کو مرفوع نہیں بلکہ موقوف مانتے ہیں یہاں ضعیف راوی ثقہ کی مخالفت کررہا ہے جو کہ روایت کے منکر ہونے کی علامت ہے حضرت انس (رض) کی یہ روایت اگرچہ طحاوی (رح) میں موجود نہیں تبییض میں لکھنے سے رہ گئی ابن ماجہ میں حضرت انس (رض) کی مرفوع روایت عبدالوہاب ثقفی کی سند سے موجود ہے۔
ابو حمید ساعدی (رض) والی روایت کا جواب :
امام حدیث عبدالحمید بن جعفر سے دیا جا رہا ہے۔
نمبر !: عبدالحمید بن جعفر کمزور و ضعیف راوی ہیں اس کی روایت سے استدلال اس موقعہ پر کیوں کر درست ہوگا۔
نمبر ": یہ روایت منقطع ہے کیونکہ محمد بن عمرو بن عطاء کا سماع خود حضرت ابو حمید ساعدی سے ثابت نہیں ہے باب صفۃ الجلوس میں یہی سند مذکور ہے اس میں محمد بن عمرو کے بعد عطاف بن خالد نے ” عن رجل “ کہہ کر تذکرہ کیا ہے تو یہ مجہول راوی کی روایت غیر معتبر ہے۔
نمبر#: عبدالحمید بن جعفر کے کئی شاگرد ہیں نمب ١: ابو عاصم نمبر ": یحییٰ بن سعید بن قطان۔ نمبر ٣: ہشیم بن بشیر وغیرہ ہیں ابو عاصم کی اس مذکورۃ الصدر روایت میں تو ” فقالوا جمیعا صدقت “ کے الفاظ ہیں جبکہ دیگر شاگردوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا معلوم ہوتا ہے یہ ان کا اضافہ ہے۔
یحییٰ بن سعید اور ہشیم کی روایات ملاحظہ ہوں۔

1330

۱۳۳۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، ح .
١٣٣٠: یحییٰ بن یحییٰ کہتے ہیں ہمیں ہشیم نے نقل کیا پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی۔

1331

۱۳۳۱ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ، قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ، فَذَکَرَاہُ بِإِسْنَادِہٖ، وَلَمْ یَقُوْلَا" فَقَالُوْا جَمِیْعًا صَدَقْتُ" وَھٰکَذَا رَوَاہُ غَیْرُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ .وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ بَابِ الْجُلُوْسِ فِی الصَّلَاۃِ .فَمَا نَرَی کَشْفَ ھٰذِہِ الْآثَارِ، یُوْجِبُ لِمَا وَقَفَ عَلٰی حَقَائِقِہَا وَکَشَفَ مَخَارِجَہَا إِلَّا تَرْکَ الرَّفْعِ فِی الرُّکُوْعِ فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَمَا أَرَدْتُ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ تَضْعِیْفَ أَحَدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ، وَمَا ھٰکَذَا مَذْہَبِی، وَلَکِنِّیْ أَرَدْت بَیَانَ ظُلْمِ الْخَصْمِ لَنَا .وَأَمَّا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلٰی، مَعَہَا رَفْعٌ، وَالتَّکْبِیْرَۃُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ لَا رَفْعَ مَعَہَا. وَاخْتَلَفُوْا فِیْ تَکْبِیْرَۃِ النُّہُوضِ، وَتَکْبِیْرَۃِ الرُّکُوْعِ فَقَالَ قَوْمٌ حُکْمُہَا حُکْمُ تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ، وَفِیْہِمَا الرَّفْعُ کَمَا فِیْہَا الرَّفْعُ .وَقَالَ آخَرُوْنَ حُکْمُہَا حُکْمُ التَّکْبِیْرَۃِ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ، وَلَا رَفْعَ فِیْہِمَا، کَمَا لَا رَفْعَ فِیْہَا .وَقَدْ رَأَیْنَا تَکْبِیْرَۃَ الْاِفْتِتَاحِ مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ لَا تُجْزِیُٔ الصَّلَاۃُ إِلَّا بِإِصَابَتِہَا، وَرَأَیْنَا التَّکْبِیْرَۃَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ، لَیْسَتْ کَذٰلِکَ، لِأَنَّہٗ لَوْ تَرَکَہَا تَارِکٌ، لَمْ تَفْسُدْ عَلَیْہِ صَلَاتُہٗ .وَرَأَیْنَا تَکْبِیْرَۃَ الرُّکُوْعِ، وَتَکْبِیْرَۃَ النُّہُوْضِ، لَیْسَتَا مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ لِأَنَّہٗ لَوْ تَرَکَہَا تَارِکٌ لَمْ تَفْسُدْ عَلَیْہِ صَلَاتُہٗ، وَہُمَا مِنْ سُنَنِہَا .فَلَمَّا کَانَتْ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلَاۃِ، کَمَا أَنَّ الْکَبِیْرَۃَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلَاۃِ، کَانَتَا کَہِیَ، فِیْ أَنْ لَا رَفْعَ فِیْہِمَا، کَمَا لَا رَفْعَ فِیْہَا .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٣٣١: یحییٰ بن سعید اور ہشیم دونوں کہتے ہیں ہمیں عبدالحمید نے اپنی سند سے روایت کیا ان دونوں نے فقالوا جمیعا “ کے الفاظ نقل نہیں کئے بلکہ عبدالحمید کے علاوہ نے بھی ان الفاظ کے بغیر روایت نقل کی ہے چنانچہ باب الجلوس فی الصلاۃ میں ملاحظہ کرلیں۔ رفع یدین کی حمایت میں پیش کردہ روایات کی حقیقت سامنے آنے اور ان کے مخارج ظاہر ہونے کے بعد رکوع اور سجدہ میں ترک رفع یدین کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ تو آثار کے پیش نظر بات ہے۔ امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے کسی عالم راوی کی کمزوری ظاہر کرنا مقصود نہیں اور نہ یہ میرا طریقہ ہے لیکن میرا مقصود صرف مخالف فریق کی زیادتی واضح کرنا ہے۔ اب بطور نظر و فکر کے اس بات پر غور کریں کہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ تکبیر افتتاح میں رفع یدین ہے۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان والی تکبیر میں رفع یدین نہیں۔ اُٹھنے اور رکوع کی تکبیر میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کا حکم تکبیر افتتاح والا ہے۔ جیسا اس میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اسی طرح ان میں بھی ہاتھ اٹھائیں گے۔ جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ ان کا حکم دونوں سجدوں کے مابین تکبیر والا ہے۔ جیسا اس میں رفع یدین نہیں ان دونوں میں بھی رفع یدین نہیں ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تکبیر افتتاح تو نماز کا اصل حصہ ہے کہ اس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ اور دونوں سجدوں کے مابین تکبیر وہ یہ حکم نہیں رکھتی کیونکہ بالفرض اگر اس کو کوئی ترک کر دے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی اور وہ دونوں نماز کے سنن سے ہے۔ پس جب وہ نماز کی سنت میں سے ہے جیسا کہ اٹھنے کی تکبیر نماز کے ارکان میں سے نہیں۔ اس لیے کہ بالفرض اگر اس کو چھوڑ دے تو اس کی نماز نہ ٹوٹے گی۔ یہ دونوں تکبیرات نماز کی سنتوں میں سے ہے۔ تو نماز کی سنت کا جو حکم ہے جیسا کہ دونوں سجدوں کے درمیان والی تکبیر تو وہی حکم ان کا ہے تو ان دونوں میں بھی رفع یدین نہیں۔ جیسا کہ اس میں رفع یدین نہیں۔ اس باب میں نظر و فکر کا یہی تقاضا ہے۔ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا یہی معمول ہے۔
حاصل اجوبہ :
رفع یدین کی حمایت میں پیش کی جانے والی روایات کی حقیقت سامنے آنے کے بعد ترک رفع یدین فی الرکوع والسجود کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
ایک اعتذار :
ان روایات کے سلسلہ میں ایک ایک کر کے جواب کی نوبت اس لیے آئی کہ قائلین رفع یدین نے اپنے مؤقف کو اس انداز سے بیان کیا گویا وہی سنت ہے اور اس کے خلاف ترک رفع یدین کے لیے کوئی روایت نہیں اس لیے روایات مشتبہ کی حقیقت اور ان کے روات کا حال اچھی طرح واضح کرنا پڑا تاکہ ان کے ظلم و زیادتی کو کھول کر انصاف مخاطب پر چھوڑ دیا جائے اس میں جرح میں جن اہل علم کو ضعیف قرار دیا وہ روایت کی حیثیت بیان کرنے کے لیے حاشاوکلا ان کی تنقیص مقصود نہیں اور نہ اپنا یہ طریق ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
نظر و فکر سے اس مسئلہ کو جانچ لیا جائے کہ تکبیر افتتاحی میں رفع یدین سب کے ہاں متفق علیہ ہے اور دونوں سجدوں کے مابین تکبیر میں رفع یدین نہیں۔
اب صرف رکوع کی تکبیر اور اٹھنے کی تکبیر رہ گئی اسی کے متعلق اختلاف ہوا ایک جماعت نے کہا کہ اس کا حکم تکبیر افتتاح کا ہے اور ان دونوں مواقع میں بھی اسی طرح ہاتھ اٹھائے جائیں گے جیسا تکبیر افتتاح میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔
دوسری جماعت نے کہا کہ اس کا حکم دونوں سجدوں کے درمیان والی تکبیر کا ہے کہ اس میں تکبیر تو ہے رفع یدین نہیں ہے۔
اب فیصلہ کن مرحلے میں داخلے کے لیے ہم نے تکبیرات میں غور کیا کہ کون کس کے ساتھ مشابہت و مناسبت رکھتی ہے تکبیر افتتاحی تو نماز کا ایسا جز ہے کہ جس کے بغیر نماز شروع ہی نہیں ہوتی اور تکبیر سجدتین اس طرح نہیں کیونکہ وہ سنت ہے اگر اس کو ترک کردیا جائے تو نماز فاسد بھی نہیں ہوتی اب تکبیر رکوع اور اٹھنے کی تکبیر دونوں نماز کا ایسا جز نہیں کہ جس کے بغیر نماز نہ ہوتی ہو اگر اس کو کوئی چھوڑ دے تو اس کی نماز ہرگز فاسد نہ ہوگی کیونکہ یہ دونوں تکبیرات مسنون ہیں جب ان دونوں کی حیثیت سنیت والی واضح ہوگئی جیسا کہ تکبیر بین السجدتین کی ہے تو یہ دونوں اسی کی مثل ہوں گی صرف تکبیر کہی جائے گی رفع یدین نہ ہوگا جیسا اس میں رفع یدین نہیں ہے۔ یہ تقاضائے نظر کے اعتبار سے ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا مسلک یہی ہے۔

1332

۱۳۳۲ : وَلَقَدْ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَاأَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ قَالَ : مَا رَأَیْتُ فَقِیْہًا قَطُّ یَفْعَلُہٗ، یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ غَیْرِ التَّکْبِیْرَۃِ الْأُوْلٰی .
١٣٣٢: ابن ابی داؤد نے احمد بن یونس سے انھوں نے امام ابوبکر بن عیاش (رح) سے نقل کیا کہ میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی تکبیر افتتاح کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں پایا۔ واللہ اعلم۔
اس باب میں میں نے جس انداز سے حامیان رفع یدین کے جوابات بالتفصیل پوری جرح سند و متن سے دیئے گزشتہ اوراق میں تو شاید و باید ہے یہاں نظر و فکر کے بعد تبع تابعی کا تائیدی قول ملا اسے بھی ذکر کردیا۔

1333

۱۳۳۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ، أَنَّہُمَا دَخَلَا عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ فَقَالَ أَصَلَّی ہٰؤُلَائِ خَلْفَکُمْ؟) فَقَالَا : نَعَمْ : فَقَامَ بَیْنَہُمَا وَجَعَلَ أَحَدَہُمَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِہٖ، ثُمَّ رَکَعْنَا فَوَضَعْنَا أَیْدِیَنَا عَلٰی رُکَبِنَا، فَضَرَبَ أَیْدِیَنَا فَطَبَّقَ ثُمَّ طَبَّقَ بِیَدَیْہِ، فَجَعَلَہُمَا بَیْنَ فَخْذَیْہِ .فَلَمَّا صَلَّیْ قَالَ ھٰکَذَا فَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٣٣٣: ابرہیم نے علقمہ اور اسود سے نقل کیا کہ وہ دونوں حضرت عبداللہ (رض) کی خدمت میں گئے تو آپ نے فرمایا کیا ان لوگوں نے تمہارے پیچھے نماز ادا کرلی ہے ؟ یعنی امراء نے تو ان دونوں نے کہا جی ہاں ! تو آپ ان دونوں کے درمیان کھڑے ہوئے ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں جانب کھڑا کرلیا پھر ہم نے رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے تو انھوں نے ہمارے ہاتھ پر ضرب لگائی اور ان کو جمع کردیا پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو جمع کر کے دونوں رانوں کے درمیان رکھ لیا جب وہ نماز پڑھ چکے تو فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔
تخریج : مسلم فی المساجد ٢٦؍٢٨‘ ٣٠‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٦‘ نمبر ٨٦٨‘ نسائی فی الرطبیق باب ١‘ مسند احمد ١؍٤١٤؍٤٥١‘ ٤٥٥؍٤٥٩‘ دارقطنی فی السنن ٣٣٩؍١۔
خلاصہ الزام : تطبیق کا مطلب یہ ہے کہ رکوع اور تشہد میں دونوں ہاتھوں کو ملا کر دونوں رانوں کے درمیان کمان کی طرح رکھ لیا جائے اس کے متعلق مؤقف اول یہ ہے کہ یہ رکوع و تشہد میں مسنون ہے علقمہ اور ابراہیم نخعی (رح) کا یہی مسلک ہے۔
مؤقف ثانی :
رکوع میں ہاتھوں کو سیدھا کر کے انگلیوں کو کشادہ کر کے گھٹنوں پر رکھ لیں اور تشہد ہاتھوں کو دونوں رانوں پر رکھ لیا جائے تطبیق مسنون نہیں ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف :
کہ تطبیق مسنون ہے مندرجہ ذیل روایات اس کی دلیل ہیں۔

1334

۱۳۳۴ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، وَالْأَسْوَدِ أَنَّہُمَا کَانَا مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ۔
١٣٣٤: عبدالرحمن بن الاسود نے علقمہ اور اسود دونوں سے نقل کیا کہ وہ دونوں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس تھے پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤١٢۔

1335

۱۳۳۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ عَنِ الْأَسْوَدِ، (قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَعَلْقَمَۃُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ : " أَصَلّٰی ہٰؤُلَائِ خَلْفَکُمْ؟ " فَقُلْنَا : نَعَمْ .قَالَ : فَصَلُّوْا .فَصَلّٰی بِنَا فَلَمْ یَأْمُرْنَا بِأَذَانٍ وَلَا إقَامَۃٍ، فَقُمْنَا خَلْفَہُ، فَقَدَّمَنَا، فَقَامَ أَحَدُنَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِہٖ، فَلَمَّا رَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ بَیْنَ رِجْلَیْہِ وَحَنَا، قَالَ : وَضَرَبَ یَدَیَّ عَلٰی رُکْبَتَیْ وَقَالَ : (ھٰکَذَا) ، وَأَشَارَ بِیَدِہٖ .فَلَمَّا صَلَّیْ قَالَ : اِذَا کُنْتُمْ ثَلَاثَۃَ، فَصَلُّوْا جَمِیْعًا، وَإِذَا کُنْتُمْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، فَقَدِّمُوْا أَحَدَکُمْ فَإِذَا رَکَعَ أَحَدُکُمْ ھٰکَذَا وَطَبَّقَ یَدَیْہِ، ثُمَّ لِیَفْرِشْ ذِرَاعَیْہِ بَیْنَ فَخْذَیْہِ، فَکَأَنِّیْ أَنْظُرُ إِلٰی أَصَابِعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، وَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یَنْبَغِیْ لَہٗ اِذَا رَکَعَ أَنْ یَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی رُکْبَتَیْہِ شَبَہُ الْقَابِضِ عَلَیْہِمَا وَیُفَرِّقُ بَیْنَ أَصَابِعِہٖ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ.
١٣٣٥: ابراہیم نے اسود سے نقل کیا کہ میں اور علقمہ عبداللہ (رض) کی خدمت میں گئے تو آپ نے فرمایا کیا ان لوگوں نے تمہارے پیچھے نماز ادا کرلی ہے ؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ تو فرمایا پس تم نماز پڑھو۔ (یعنی میرے ساتھ نفلی نماز) چنانچہ انھوں نے ہمیں نماز پڑھائی ہمیں اذان و اقامت کا حکم نہیں فرمایا ہم ان کے پیچھے کھڑے ہوئے تو انھوں نے ہمیں آگے بڑھایا ایک کو دائیں اور ایک کو بائیں جانب کھڑا کیا جب انھوں نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھوں کو اپنی ٹانگوں کے مابین رکھا اور جھکے اسود کہتے ہیں انھوں نے میرے دونوں ہاتھوں کو میرے گھٹنوں پر مارا اور اپنے ہاتھ سے ملانے کا اشارہ کیا جب نماز پڑھا چکے تو فرمانے لگے۔
حاصل روایات : جب تم تین ہو تو برابر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اور اگر اس سے تعداد بڑھ جائے تو ایک کو آگے بڑھا دیا جائے اور وہ تطبیق کرے پھر وہ اپنی رانوں کے درمیان دونوں بازوؤں کو پھیلا لے گویا (یہ معاملہ مجھے اس طرح مستحضر ہے) کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگشت مبارکہ کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔
تخریج : مسلم ١؍٢٠٢۔
نوٹ : یہ روایت مسئلہ تطبیق میں ظاہر ہے وہ ان تینوں سے بلا تامل ثابت ہے۔
مؤقف ِثانی :
اس کو ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین نے اختیار کیا کہ تطبیق نہیں بلکہ انگلیوں کو کھول کر گھٹنے پھر اس طرح رکھ لیں جیسے کوئی آدمی گھٹنوں کو تھامنے والا ہو اور انگلیوں کو کھول لے۔

1336

۱۳۳۶ : بِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، وَحَیَّانُ بْنُ ہِلَالٍ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ حُصَیْنٍ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ أَمِسُّوْا فَقَدْ " سُنَّتْ لَکُمْ الرُّکَبُ .
١٣٣٦: ابو حصن نے ابو عبدالرحمن سے نقل کیا کہ عمر (رض) نے کہا اپنے ہاتھوں کو اس انداز سے گھٹنوں پر رکھو کہ وہ اسے تھام لیں اور اس طرح گھٹنوں کا پکڑنا آسان کردیا گیا۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٧‘ ٢٥٨‘ نسائی فی التطبیق باب ٩٢۔
اللغات : امسوا : گھٹنوں کو پکڑنے کے لیے ہاتھوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔

1337

۱۳۳۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، قَالَ : ثَنَا سَالِمُ ڑالْبَرَّادُ، قَالَ : " وَکَانَ عِنْدِیْ أَوْثَقَ مِنْ نَفْسِیْ" قَالَ : قَالَ لَنَا أَبُوْ مَسْعُوْدِ ڑالْبَدْرِیُّ (أَلَا أُرِیْکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا، قَالَ ثُمَّ رَکَعَ فَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَفُصِّلَتْ أَصَابِعُہٗ عَلٰی سَاقَیْہِ) .
١٣٣٧: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ مجھے سالم البراد نے (جو میرے ہاں اپنے سے زیادہ قابل اعتماد ہے) بیان کیا کہ ہمیں ابو مسعود (رض) نے کہا کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز نہ دکھلاؤں پھر انھوں نے طویل روایت ذکر کی عطاء کہتے ہیں پھر انھوں نے رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا اور اپنی انگلیوں کو دونوں پنڈلیوں پر کھول دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٤‘ نمبر ٨٦٣۔

1338

۱۳۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑالْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ قَالَ : اجْتَمَعَ أَبُوْ حُمَیْدٍ وَأَبُوْ أُسَیْدٍ وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ فِیْمَا یَظُنُّ ابْنُ مَرْزُوْقٍ فَذَکَرُوْا صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (کَانَ اِذَا رَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، کَأَنَّہٗ قَابِضٌ عَلَیْہِمَا) .
١٣٣٨: عباس بن سہل کہتے ہیں کہ ابو حمید ‘ ابو سید اور سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ جمع ہوئے جیسا کہ ابن مرزوق راوی کا خیال ہے تو ابو حمید کہنے لگے کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز نہ سکھاؤں چنانچہ وہ جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے گویا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنے والے ہیں۔
تخریج : روایت نمبر ١٣٠٨ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1339

۱۳۳۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَیْدِ ڑالسَّاعِدِیَّ فِیْ عَشَرَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَحَدُہُمْ أَبُوْ قَتَادَۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ فَقَالُوْا جَمِیْعًا " صَدَقْتَ" .
١٣٣٩: محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی سے دس اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں یہ سنا ان میں ابو قتادہ بھی تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے انھوں نے ان کی بات سن کر کہا تم نے سچ کہا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کچھ لوگوں نے اس روایت کو اختیار کیا جبکہ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ رکوع میں ہاتھوں کو ملانا نہیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھے جیسے ان کو پکڑنے والا ہے۔ اور اپنی انگلیوں کو کھول کر رکھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : پہلے گزر چکی ہے۔

1340

۱۳۴۰ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَکَعَ، وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ) .
١٣٤٠: عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے انھوں نے وائل بن حجر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب وہ رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٧۔

1341

۱۳۴۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ، قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَجْلَانَ یُحَدِّثُ مَنْ سُمِّیَ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : (اشْتَکَی النَّاسُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّفَرُّجَ فِی الصَّلَاۃِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعِیْنُوْا بِالرُّکَبِ) فَکَانَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ مُعَارِضَۃً لِلْاَثَرِ الْأَوَّلِ، وَمَعَہَا مِنَ التَّوَاتُرِ مَا لَیْسَ مَعَہٗ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ ہَلْ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، مَا یَدُلُّ عَلٰی نَسْخِ أَحَدِ الْأَمْرَیْنِ بِصَاحِبِہٖ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ۔
١٣٤١: سمی نے ابو صالح سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ لوگوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں کھل جانے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا گھٹنوں سے معاونت لو۔ پس یہ آثار پہلی روایت کے معارض ہیں اور ان کے ساتھ عمل کا تواتر بھی موجود ہے جو اس روایت کے ساتھ نہیں ہے۔ پس ہم چاہتے ہیں کہ ان آثار پر نگاہ ڈال کر ایسی روایت تلاش کریں جو کسی ایک کے نسخے پر دلالت کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٥٥‘ نمبر ٩٠٢‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٩٦‘ ٢٨٦‘ نسائی فی التطبیق باب ٢‘ مسند احمد ٢؍٣٤٠۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ رکوع اور تشہد میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ رکوع میں ہاتھ گھٹنوں کو گویا پکڑنے والے ہوں گے اور تشہد میں رانوں پر ہاتھ رکھے جائیں گے امام ابو جعفر طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ تمام آثار اثر اول کے معارض ہیں اور یہ کثیر روایات ہیں جن کو تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ اور پہلی روایت کو یہ درجہ حاصل نہیں پس اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا دیگر آثار میں کوئی ایسی چیز موجود ہے جو کسی ایک کے نسخ پر دلالت کرتی ہو۔

1342

۱۳۴۲ : فَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ یَعْفُوْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یَقُوْلُ صَلَّیْتُ إِلَی جَنْبِ أَبِیْ فَجَعَلْتُ یَدَیَّ بَیْنَ رُکْبَتَیْ، فَضَرَبَ یَدَیَّ فَقَالَ : (یَا بُنَیَّ إِنَّا کُنَّا نَفْعَلُ ھٰذَا فَأَمَرَنَا أَنْ نَضْرِبَ بِالْأَکُفِّ عَلَی الرُّکَبِ) .
١٣٤٢: ابو یعفور سے روایت ہے کہ میں نے مصعب بن سعید کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد کے پہلو میں نماز ادا کی تو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان میں کرلیا تو انھوں نے میرے ہاتھ پر مار کر فرمایا اے بیٹے ہم اس کو کیا کرتے تھے پھر ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم ہوا۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١١٨‘ مسلم فی المساجد ٢٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٦‘ نمبر ٨٦٧‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٧‘ نمبر ٢٥٩‘ نسائی فی التطبیق باب ٥١‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٦٨؍٧٠‘ ٧٨‘ مسند احمد ١؍٢٨٧‘ ٤؍١١٩؍١٢٠‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٨٣‘ مصنف عبدالرزاق ٢٩٥٣‘ مصنف ابی ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣١٨‘ دارقطنی فی السنن ١؍٣٣٩۔

1343

۱۳۴۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ قَالَ: ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ یَعْفُوْرٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٤٣: ابو عوانہ نے ابو یعفور سے پھر اس نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٠٢۔

1344

۱۳۴۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ سَعْدٍ فَلَمَّا أَرَدْت الرُّکُوْعَ، طَبَّقْتُ، فَنَہَانِیْ عَنْہُ وَقَالَ : کُنَّا نَفْعَلُ، حَتَّی نُہِیَ عَنْہُ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا، نَسْخُ التَّطْبِیْقِ وَأَنَّہٗ کَانَ مُتَقَدِّمًا لِمَا فَعَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ وَضْعِ الْیَدَیْنِ عَلَی الرُّکْبَتَیْنِ .ثُمَّ الْتَمَسْنَا حُکْمَ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ کَیْفَ ہُوَ؟ فَرَأَیْنَا التَّطْبِیْقَ فِیْہِ الْتِقَائُ الْیَدَیْنِ، وَرَأَیْنَا وَضْعَ الْیَدَیْنِ عَلَی الرُّکْبَتَیْنِ فِیْہِ تَفْرِیْقُہُمَا .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ أَشْکَالِ ذٰلِکَ فِی الصَّلَاۃِ کَیْفَ ہُوَ .فَرَأَیْنَا السُّنَّۃَ جَائَ تْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالتَّجَافِیْ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ، وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ فَکَانَ ذٰلِکَ مِنْ تَفْرِیْقِ الْأَعْضَائِ، وَکَمَنَ قَامَ فِی الصَّلَاۃِ أَمَرَ أَنْ یُرَاوِحَ بَیْنَ قَدَمَیْہِ، وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَہُوَ الَّذِیْ رَوٰی التَّطْبِیْقَ .فَلَمَّا رَأَیْنَا تَفْرِیْقَ الْأَعْضَائِ فِیْ ھٰذَا، بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ أَوْلٰی مِنْ إِلْصَاقِ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ وَاخْتَلَفُوْا فِیْ إِلْصَاقِہَا وَتَفْرِیْقِہَا فِی الرُّکُوْعِ، کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنْ ذٰلِکَ مَعْطُوْفًا عَلٰی مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ مِنْہُ، فَیَکُوْنُ کَمَا کَانَ التَّفْرِیْقُ فِیْمَا ذَکَرْنَا أَفْضَلَ یَکُوْنُ فِیْ سَائِرِ الْأَعْضَائِ کَذٰلِکَوَقَدْ رُوِیَ التَّجَافِیْ فِی السُّجُوْدِ۔
١٣٤٤: ابو اسحاق نے مصعب بن سعد سے نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت سعد (رض) کے ساتھ نماز ادا کی جب میں نے رکوع کا ارادہ کیا تو میں نے تطبیق کی تو انھوں نے مجھے اس سے منع فرمایا اور کہا ہم اس سے پہلے کیا کرتے تھے پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا۔ مندرجہ بالا روایات سے تطبیق کا منسوخ ہونا ثابت ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے والے عمل سے پہلے کا عمل ہے۔ پھر ہم نے نظر و فکر کے طور پر اس کی کیفیت معلوم کرنا چاہی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تطبیق دونوں ہاتھوں کے ملانے کو کہتے ہیں اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے میں دونوں ہاتھوں کی تفریق ہے۔ پس ہم نے چاہا کہ اس کا حکم نماز میں اس کے ہم شکلوں کے ساتھ معلوم کریں۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ رکوع اور سجدہ میں اعضاء کو الگ الگ رکھنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجماعی سنت ہے۔ اور یہ اعضاء کو الگ الگ رکھنے سے ادا ہوتی ہے۔ جیسا کہ نماز میں کھڑے ہونے والے کو دونوں قدموں کے درمیان فاصلے کا حکم دیا گیا۔ اور اسی روایت کے راوی حضرت عبداللہ مسعود (رض) ہیں۔ اور تطبیق والی روایت کے راوی بھی خود ابن مسعود (رض) ہیں۔ جب ہم نے غور کیا تو رکوع میں اعضاء کا جدا جدا رکھنا ایک دوسرے کے ساتھ ملانے سے زیادہ بہتر ہے۔ اختلاف تو اس کے ملانے اور جدا رکھنے میں ہے۔ تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جو اختلافی حالت ہے اس کو اجماعی حالت کی طرف پھیر دیا جائے۔ پس ان کو ہاتھوں کو جدا رکھنا دیگر تمام اعضاء کے جدا جدا رکھنے کی طرف افضل ٹھہرا۔
تخریج : مسند البزاز عزاہ ولم یوجد۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ یہ حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا اور ہمیں اس سے منع کردیا گیا گو گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم ملنے سے پہلے پہلے یہ حکم تھا جب گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم ملا تو یہ منسوخ ہوگیا۔
نظر و فکر سے :
اب ان دونوں کی مطابقت کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس دوسرے رکن سے اس کو مطابقت ہے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ تطبیق میں دونوں ہاتھ ملتے ہیں اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے میں ہاتھوں کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ نماز میں اس کا ہم شکل تلاش کیا چنانچہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنت منقول ہے کہ رکوع و سجود میں بازو کو اپنے پہلو اور زمین سے الگ رکھا جائے اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ جدا کئے جانے والے اعضاء سے ہیں اور اس میں پاؤں کا حکم بھی تفریق ہی کا ہے جیسا کہ جو شخص نماز میں کھڑا ہوا (اور طویل قراءت و قیام کیا) اس کو حکم ہے دونوں پاؤں میں ایک پر جسم کا بوجھ ڈال کر دوسرے کو راحت دے اور یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی مروی ہے اور ابن مسعود (رض) ہی تو ہیں جن سے تطبیق والی روایت ہے۔
جب ہم نے غور کیا کہ اس میں اعضاء کا ایک دوسرے سے جدا رکھنا ایک دوسرے کے ساتھ ملانے سے اولیٰ ہے اور رکوع میں اعضاء کے تفریق والصاق (ملانے) میں اختلاف ہے تو نظر و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ جس میں اختلاف ہے اس کو اس کی طرف موڑا جائے جس میں اتفاق ہے پس جس طرح اس مذکور میں تفریق افضل ہے تو تمام اعضاء میں تفریق ہی افضل ہوگی اور سجدہ میں بھی اسی طرح اعضا کو الگ الگ رکھنے کا حکم ہے جیسا کہ یہ روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔

1345

۱۳۴۵ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ التَّیْمِیِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا سَجَدَ، یُرٰی بَیَاضُ اِبْطَیْہِ) .
١٣٤٥: تیمی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آتی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٥٤‘ نمبر ٨٩٩‘ مگر روایت کے الفاظ یہ ہیں اتیت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من خلفہ فرایت بیاض ابطہ وھو مجخ قد فرج بین یدیہ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٥٨۔
اللغات : مجخ۔ جخ۔ ہاتھ پاؤں چھوڑ کر لیٹنا۔

1346

۱۳۴۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا کَثِیْرُ بْنُ ہِشَامٍ، وَأَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَا : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، قَالَ حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ الْأَصَمِّ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ، جَافٰی حَتّٰی یَرٰی مَنْ خَلْفَہٗ وَضْحَ اِبْطَیْہِ) .
١٣٤٦: یزید بن اصم نے امّ المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو پیٹ کو رانوں سے جدا رکھتے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے والا آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ سکتا تھا۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٢٣٦؍٢٣٨‘ ٢٣٩‘ نسائی فی التطبیق باب ١٨٨‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٨٩‘ مسند احمد ٦؍٣٣٣۔
اللغات : وضح ابطیہ۔ بغلوں کی سفیدی۔

1347

۱۳۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّیَّاحِ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ زَکَرِیَّا، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ مَیْمُوْنَۃَ بِنَحْوِہٖ.
١٣٤٧ : یزید بن اصم نے حضرت میمونہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1348

۱۳۴۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَحْرٍ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ یُوْسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی حَتّٰی یُرٰی بَیَاضُ اِبْطَیْہِ، أَوْ حَتّٰی أَرٰی بَیَاضَ اِبْطَیْہِ) .
١٣٤٨: سالم بن ابی الجعد نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے آپ رانوں اور پیٹ کو الگ رکھتے یہاں تک کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی جاسکتی تھی یا میں آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھ لیتا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٥۔

1349

۱۳۴۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُو الْہَیْثَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ (أَبَا سَعِیْدٍ یَقُوْلُ کَأَنِّیْ أَنْظُرُ إِلٰی بَیَاضِ کَشْحَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاجِدٌ) .
١٣٤٩: ابوالہیثم کہتے ہیں میں نے ابو سعید کو کہتے سنا گویا میں اب بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوکھ کی سفیدی کو سامنے دیکھ رہا ہوں۔
اللغات : الکشح۔ کوکھ۔ پسلی اور کوکھ کا درمیانی حصہ۔

1350

۱۳۵۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، قَالَ : رَأَیْتُ الْبَرَائَ اِذَا سَجَدَ خَوّٰی وَرَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَقَالَ (ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ) .
١٣٥٠: شریک نے ابو اسحاق سے نقل کیا کہ میں نے برائ (رض) کو دیکھا کہ جب وہ سجدہ کرتے تو اپنے پیٹ کو زمین سے بلند کر کے اونچا کرلیتے اور سرینوں کو اوپر اٹھاتے اور زبان سے کہتے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٣٨‘ نسائی فی تطبیق باب ٨٨‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٩٩‘ مسند احمد ١؍٣٠٢؍٣٠٥‘ ١٣٧‘ ٤؍٣٠٣؍٣١٩۔
اللغات : خوی۔ پیٹ کو زمین سے جدا کر بلند کرنا۔ اصل معنی خالی ہونا اور کرنا ہے العجیزہ۔ سرین۔ چوتڑ۔

1351

۱۳۵۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ہُرْمُزٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ ذِرَاعَیْہِ، وَبَیْنَ جَنْبَیْہِ حَتّٰی یُرٰی بَیَاضُ اِبْطَیْہِ) .
١٣٥١: عبدالرحمن بن ہرمز نے عبداللہ بن بحینہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں بازؤں اور پہلوؤں میں اس قدر کشادگی کرتے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی جاسکتی تھی۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٢٧‘ والاذان باب ١٣٠‘ مسلم فی الصلاۃ ٢٣٦؍٢٣٧‘ نسائی فی التطبیق باب ٥‘ مسند احمد ٥؍٣٤٥۔

1352

۱۳۵۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَقْرَمَ الْکَعْبِیِّ، قَالَ (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ فَنَظَرْتُ إِلٰی عُفْرَۃِ اِبْطَیْہِ، یَعْنِیْ بَیَاضَ اِبْطَیْہِ، وَہُوَ سَاجِدٌ) .
١٣٥٢: داؤد بن قیس نے عبیداللہ بن عبداللہ بن اقرم الکعبی (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز ادا فرماتے دیکھا تو مجھے آپ کے بغلوں کی ہلکی سفیدی نظر پڑی جبکہ آپ سجدہ میں تھے۔
تخریج : ترمذی فی المواقیت باب ٨٨‘ نمبر ٢٧٤‘ نسائی فی التطبیق باب ٥١‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ١٩‘ نمبر ٨٨١‘ مسند احمد ٤؍٣٥‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ١؍٣٠٦۔
اللغات : عفرۃ ابطیہ۔ عفرہ ایسی سفیدی جس میں مٹیالا پن ہو۔

1353

۱۳۵۳ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنِی نَافِعُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : أَخْبَرَنِی خَالِدُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : (کَأَنِّیْ أَنْظُرُ إِلَیْ بَیَاضِ کَشْحَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاجِدٌ).
١٣٥٣: ابوالہیثم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ گویا اب بھی میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سجدہ کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کو لہو کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔

1354

۱۳۵۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، وَعَفَّانُ قَالَا : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَحْمَرُ صَاحِبُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنْ کُنَّا لَنَأْوِیْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا یُجَافِیْ یَدَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہِ اِذَا سَجَدَ) .
١٣٥٤: حسن کہتے ہیں کہ مجھے احمر (رض) نے بیان کیا ہمیں اس بات پر رحم آتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ کے وقت اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے الگ کرتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٥٤‘ نمبر ٩٠٠‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ١٩‘ نمبر ٨٨٦‘ مسند احمد ٤؍٣٤٢‘ ٥؍٣١۔
اللغات : نأوی رحم آتا۔ رقت پیدا ہوتی۔

1355

۱۳۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، وَأَبُوْ عَامِرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ أَحْمَرُ صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا کَانَتِ السُّنَّۃُ، فِیْمَا ذَکَرْنَا، تَفْرِیْقَ الْأَعْضَائِ لَا إِلْصَاقَہَا، کَانَتْ فِیْمَا ذَکَرْنَا أَیْضًا کَذٰلِکَ فَثَبَتَ بِثُبُوْتِ النَّسْخِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا، وَبِالنَّسْخِ الَّذِیْ وَصَفْنَا، انْتِفَائُ التَّطْبِیْقِ وَوُجُوْبُ وَضْعِ الْیَدَیْنِ عَلَی الرُّکْبَتَیْنِ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٣٥٥: حسن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت احمر (رض) صاحب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی پھر اسی طرح کی روایت بیان کی۔ جب سنت یہی ٹھہری جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا کہ اعضاء کو متفرق رکھا جائے نہ کہ ان کو ملایا جائے۔ تو اس نسخ سے جس کا ہم نے سابقہ سطور میں ذکر کیا تاکہ روایات میں تطبیق ہوجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا لازم ہے۔ اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد (رح) کا مسلک ہے۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ سجدہ میں پیٹ کو رانوں سے الگ رکھا جائے گا اور زمین سے پیٹ کو یوں بلند کیا جائے کہ بغل کی سفیدی نظر آجائے۔
نتیجہ جب سجدہ میں اعضاء کا الگ رکھا سنت ہے نہ کہ ملانا تو رکوع میں بھی ہاتھوں کا الگ رکھنا مسنون ہوگا۔
باقی سابقہ سطور میں مذکور ناسخ روایات اور جو بات ہم نے نظری طور پر لکھی ہے اس سے تطبیق کی نفی ثابت ہو کر گھٹنوں پر ہاتھوں کے رکھنے کا وجوب ثابت ہوگیا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
نوٹ : اس باب میں ناسخ روایات کو قوت سے پیش کر کے ان کے لیے تائیدی طور طویل پر نظری دلیل پیش کرتے کرتے اس کے بعض اجزاء کے ثبوت میں بھی کئی روایات سجدہ کی صحیح کیفیت کی ذکر کردیں پھر تمام باب کا نتیجہ بھی ذکر کیا جو کہ اب تک عادت تحریر کے خلاف ہے۔

1356

۱۳۵۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (اِذَا قَالَ أَحَدُکُمْ فِیْ رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ثَلَاثًا، فَقَدْ تَمَّ رُکُوْعُہٗ وَذٰلِکَ أَدْنَاہُ، وَإِذَا قَالَ فِیْ سُجُوْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلٰی ثَلَاثًا فَقَدْ تَمَّ سُجُوْدُہٗ وَذٰلِکَ أَدْنَاہُ)
١٣٥٦: عون بن عبداللہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے رکوع میں سبحان ربی العظیم تین مرتبہ کہے پس اس کا رکوع مکمل ہوگیا اور یہ اس کا کم ترین درجہ ہے اور جب اپنے سجدہ میں اس نے سبحان ربی الاعلیٰ تین مرتبہ کہہ دیا تو اس کا سجدہ مکمل ہوگیا اور یہ اس کا ادنیٰ درجہ ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٥٠‘ نمبر ٨٨٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٩‘ نمبر ٢٦١۔
خلاصہ الزام : رکوع و سجدہ میں ٹھہرنے کی مقدار میں اختلاف ہے۔
نمبر !: امام احمد (رح) ابراہیم نخعی (رح) اور اہل ظواہر کہتے ہیں کہ تین مرتبہ سجدہ ‘ رکوع کی تسبیح کے بقدر فرض ہے ورنہ رکوع ‘ سجدہ ادا نہ ہوں گے۔
نمبر ": احناف ‘ شوافع و مالکیہ ‘ جمہور فقہاء و محدثین اتنی دیر رکوع و سجود کو فرض مانتے جس میں طمانیت حاصل ہوجائے اس سے زائد کو سنت و مستحب کہتے ہیں۔
مؤقف اول : رکوع و سجود تین مرتبہ تسبیح کی مقدار فرض ہے۔

1357

۱۳۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : مِقْدَارُ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ الَّذِیْ لَا یُجْزِیُٔ أَقَلُّ مِنْ ھٰذَا وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مِقْدَارُ الرُّکُوْعِ أَنْ یَرْکَعَ حَتّٰی یَسْتَوِیَ رَاکِعًا وَمِقْدَارُ السُّجُوْدِ أَنْ یَسْجُدَ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، فَھٰذَا مِقْدَارُ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ الَّذِیْ لَا بُدَّ مِنْہُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٣٥٧: ابو عامر نے ابن ابی الذئب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کچھ لوگ ان روایات کی طرف گئے ہیں اور انھوں نے کہا کہ رکوع اور سجدے کی وہ مقدار جس سے کم جائز نہیں وہ یہی مقدار ہے جو اس روایت میں مذکور ہے۔ دیگر علماء نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ رکوع کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ رکوع میں پہنچ کر رکوع کی حالت درست ہوجائے اور سجدے کی مقدار یہ ہے کہ سجدہ کرے اور اس سے اطمینان حاصل ہوجائے۔ یہ وہ مقدار ہے جس کے بغیر چارہ کار نہیں۔ اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا۔
حاصل روایات : یہ ہے تین مرتبہ تسبیح سے کم مقدار سب سے نچلا درجہ ہے اور تین دفعہ کہہ لینے والے کو سجدہ ‘ رکوع کا مکمل کرنے والا شمار کیا گیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ یہ مقدار فرض ہے اور اس کے بغیر رکوع و سجدہ درست نہیں۔
مؤقف ثانی :
رکوع و سجدہ کی مقدار جو فرض قرار دی گئی وہ اس قدر بس ہے کہ نمازی کے اعضاء اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائیں اور یہی مقدار فرض ہے ان کا استدلال مندرجہ ذیل روایات سے ہے۔

1358

۱۳۵۸ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحِ ڑ الْوُحَاظِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ شَرِیْکُ بْنُ أَبِیْ نَمِرٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَحْیٰی عَنْ عَمِّہٖ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ جَالِسًا فِی الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّی، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ إِلَیْہِ فَقَالَ لَہٗ اِذَا قُمْتَ فِیْ صَلَاتِکَ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ إِنْ کَانَ مَعَکَ قُرْآنٌ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَکَ قُرْآنٌ، فَاحْمَدِ اللّٰہَ، وَکَبِّرْ وَہَلِّلْ، ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا، ثُمَّ قُمْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ اجْلِسْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، فَإِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُکَ وَمَا أَنْقَصْتَ مِنْ ذٰلِکَ، فَإِنَّمَا تُنْقِصُ مِنْ صَلَاتِکَ) .
١٣٥٨: علی بن یحییٰ نے اپنے چچا رفاعہ بن رافع (رض) سے ذکر کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے چنانچہ ایک آدمی داخل ہوا اور اس نے نماز کی ادائیگی اس حال میں کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف دیکھ رہے تھے آپ نے اسے فرمایا جب تم اپنی نماز میں کھڑے ہوجاؤ تو تکبیر کہو پھر اگر تمہیں قرآن مجید آتا ہو تو وہ پڑھو اگر تمہیں قرآن مجید بالکل نہ آتا ہو تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرو الحمد للہ ‘ اللہ اکبر ‘ لا الٰہ الا اللہ پڑھو پھر رکوع کرو یہاں تک کہ تم رکوع میں مطمئن ہوجاؤ پھر اٹھو یہاں تک کہ بالکل سیدھے ہوجاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں مطمئن ہوجاؤ پھر بیٹھ جاؤ یہاں تک کہ اطمینان ہوجائے جب تم نے ایسا کردیا تو تمہاری نماز مکمل ہوگئی اور جو اس میں سے تم کم کرو گے وہ اپنی نماز سے کم کرو گے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٤‘ ٨٥٩؍٨٦١‘ ترمذی فی المواقیت باب ١١٠‘ نمبر ٣٠٢‘ نسائی فی التطبیق باب ١٥‘ والسہو باب ١٧‘ مسند احمد ٤؍٣٤٠‘ مستدرک حاکم ١؍٢٤١؍٢٤٢‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍١٠٢؍١٣٣‘ ٣٤٥؍٣٨٠۔

1359

۱۳۵۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَلِیِّ بْنِ خَلَّادِ ڑالزُّرَقِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
١٣٥٩ : یحییٰ بن علی بن خلاد زرقی نے اپنے والد اور اپنے دادا رفاعہ بن رافع سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٢٤۔

1360

۱۳۶۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْمَقْبُرِیُّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ نَحْوَہٗ۔فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ بِالْفَرْضِ الَّذِیْ لَا بُدَّ مِنْہُ، وَلَا تَتِمُّ الصَّلَاۃُ إِلَّا بِہٖ .فَعَلِمْنَا أَنَّ مَا سِوٰی ذٰلِکَ إِنَّمَا أُرِیْدَ بِہٖ أَنَّہٗ أَدْنَیْ مَا یُبْتَغٰی بِہٖ الْفَضْلُ، وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ الْحَدِیْثُ الَّذِیْ ذٰلِکَ فِیْہِ مُنْقَطِعًا عَنْہُ غَیْرَ مُکَافٍ لِہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ فِیْ إِسْنَادِہٖمَا وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
١٣٦٠: سعید بن ابی سعید المقبری نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں روایات میں اس فرض مقدار کی نشاندہی کردی کہ جس کے بغیر چارہ کار نہیں اور نہ نماز اس کے بغیر پوری ہوتی ہے۔ پس اس سے معلوم ہوگیا کہ اس کے علاوہ جو مقدار ہے اس کا مقصود فضیلت کا کم سے کم درجہ پالینا ہے۔ اور وہ حدیث جو اس سلسلے میں نقل کی گئی وہ منقطع ہے۔ ان دو روایتوں کی سند کے لحاظ سے مقابل نہیں بن سکتی۔ امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٢٢‘ مسلم فی الصلاۃ ٤٥‘ نسائی فی الافتتاح باب ٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٤‘ نمبر ٨٥٦‘ مسند تخریجاحمد ٣؍٤٣٧‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٨٨؍١١٧۔
حاصل روایات : فرض کی مقدار رکوع و سجود کی حالت کا اطمیان حاصل ہونا ہے اس سے زائد نہیں معلوم ہوا کہ نماز اس کے بغیر نہیں ہوتی باقی درجہ استحباب میں ہے۔
جواب روایت مؤقف اوّل :
تین دفعہ تسبیح والی روایت فضیلت کا کم سے کم درجہ ہے اس سے اوپر پانچ اور پھر سات مرتبہ ہے اور رفاعہ والی روایت میں اصل فرض کا تذکرہ ہے فعلمنا سے جواب اول اور ان کان ذلک سے جواب ثانی کی طرف اشارہ ہے۔
جواب نمبر ": یا اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ روایت ابن مسعود (رض) منقطع ہے کیونکہ عون بن عبداللہ کا سماع ابن مسعود (رض) سے ثابت نہیں۔
جواب ثالث : اگر منقطع نہ بھی ہو تب پر روایت ابوہریرہ (رض) اور رفاعہ (رض) کا مقابلہ نہیں کرسکتی پس احسن صورت تطبیق ہے جو ہم نے اختیار کی واللہ اعلم۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : یہ باب نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے اس میں مؤقف دوم کے لیے چند روایات پیش کر پائے ہیں شاید کہ انہی پر اکتفاء کرلیا ہو۔

1361

۱۳۶۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْن أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ وَہُوَ رَاکِعٌ اللّٰہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، وَأَنْتَ رَبِّی، خَشَعَ لَکَ سَمْعِیْ وَبَصَرِی وَمُخِّیْ وَعَظْمِیْ وَعَصَبِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَیَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِہِ اللّٰہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، وَأَنْتَ رَبِّیْ، سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) .
١٣٦١: عبیداللہ بن ابی رافع نے علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع کی حالت میں پڑھتے : اللہم لک رکعت وبک آمنت ولک اسلمت وانت ربی خشع لک سمعی وبصری و مخی و عظمی وعصبی اللہ رب العالمین اور سجدہ میں یہ پڑھتے اللہم لک سجدت ولک اسلمت وانت ربی سجد وجہی للذی خلقہ وشق سمعہ وبصرہ تبارک اللہ احسن الخالقین ترجمہ روایت ١٣٦٤ میں درج ہے۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٠١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٩‘ نمبر ٧٦٠‘ ترمذی فی الدعوات باب ٣٢‘ نمبر ٢٦٦‘ نسائی فی التطبیق باب ١٣‘ ١٤‘ مسند احمد ١؍٩٥؍١٠٢‘ ١١٩۔
خلاصہ الزام : رکوع و سجود میں تسبیح کی کیا حیثیت ہے اور کون سی تسبیح مسنون ہے۔
مؤقف اول :
امام احمد (رح) اور اہل ظواہر رکوع میں تسبیح کو واجب کہتے ہیں۔
مؤقف ثانی :
احناف ‘ شوافع و مالکیہ اور تمام فقہاء و محدثین کے ہاں یہ مسنون ہے یہ مسئلہ یہاں مذکور نہیں البتہ کون سی تسبیح مسنون ہے اس میں امام شافعی ‘ احمد کے نزدیک کوئی سی دعا پڑھ لے۔
نمبر ": امام ابوحنیفہ اور حسن بصری (رح) رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلٰی کو مسنون ہے۔
نمبر#: امام مالک رکوع میں سبحن ربی العظیم اور سجدہ میں جو دعا پسند ہو۔

فریق اوّل :
کہ جو دعا چاہے پڑھے مسنون ہے کوئی مخصوص دعا نہیں ہے۔

1362

۱۳۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ .
١٣٦٢: محمد بن خزیمہ نے عبداللہ بن رجاء نے اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ تخریج : سابقہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1363

۱۳۶۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالُوْا : أَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمَاجِشُوْنِ، عَنِ الْمَاجِشُوْنِ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٦٣: ماجشون اور عبداللہ بن الفضل نے اعرج سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری مختصر۔

1364

۱۳۶۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا رَکَعَ قَالَ اللّٰہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، أَنْتَ رَبِّی، خَشَعَ لَک سَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَمُخِّیْ وَعَظْمِی، وَمَا اسْتَقَلَّتْ بِہٖ قَدَمِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) .
١٣٦٤: عبدالرحمن الاعرج نے عبیداللہ بن ابی رافع سے اور انھوں نے علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع کرتے تو یہ دعا پڑھتے ” اللہم رکعت “ (روایت اول میں نقل کردی ہے) اے اللہ ! میں نے آپ کے لیے رکوع کیا اور آپ پر ایمان لایا اور آپ کی فرمان برداری اختیار کی تو ہی میرا رب ہے میرے کان ‘ آنکھیں اور مغز اور ہڈیاں اور جس کی طاقت میرا قدم رکھتا ہے یہ سب رب العالمین ہی کے لیے ہیں اور اس کی بارگاہ میں جھکنے والے ہیں۔
تخریج : تخریج روایت ١٣٦١ دیکھیں مسند احمد ١؍١١٩۔

1365

۱۳۶۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (نُہِیْتُ أَنْ أَقْرَأَ وَأَنَا رَاکِعٌ أَوْ سَاجِدٌ .فَأَمَّا الرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیْہِ الرَّبَّ، وَأَمَّا السُّجُوْدُ فَاجْتَہِدُوْا فِی الدُّعَائِ فَقَمِنٌ أَنْ یُسْتَجَابَ لَکُمْ) .
١٣٦٥: عبدالرحمن بن اسحاق نے نعمان بن سعد اور انھوں نے علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رکوع و سجدہ کی حالت میں مجھے قراءت سے منع کیا گیا ہے رکوع میں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدہ میں خوب دعا کرو سجدہ کی دعا اس لائق ہے کہ مقبول ہوجائے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٠٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٨‘ نمبر ٨٧٦‘ نسائی فی التطبیق باب ٨‘ نمبر ٦٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٧٧‘ مسند احمد باب ١٣‘ ١٤‘ مسند احمد ١؍٩٥؍١٠٢۔
اللغات : قمین۔ اس لائق ہے۔ مناسب ہے۔

1366

۱۳۶۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْکُوْفِیُّ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُیَیْنَۃَ یَقُوْلُ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ سُحَیْمٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَشَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السِّتَارَۃَ، وَالنَّاسُ صُفُوْفٌ خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٣٦٦: ابراہیم بن عبداللہ بن معبد نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دست اقدس سے پردہ ہٹایا (یہ مرض وفات کی بات ہے) جبکہ لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے پیچھے صف باندھنے والے تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج نمبر ١٣٦٥ ملاحظہ ہو۔

1367

۱۳۶۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ أَبِی الضُّحٰی، عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ أَنْ یَقُوْلَ فِیْ رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ، فَاغْفِرْ لِیْ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ .
١٣٦٧: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع میں اکثر پڑھا کرتے تھے سبحانک اللہم وبحمدک استغفرک واتوب الیک فاغفرلی انک انت التواب اے اللہ تو سبحان ہے میں آپ کی تعریف کرتا ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں اور آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں پس آپ مجھے بخش دیں آپ توبہ قبول فرمانے والے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٣٩‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢١٨۔

1368

۱۳۶۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ ح۔
١٣٦٨: ابراہیم بن مرزوق نے وہب بن جریر اور بشر بن عمر سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1369

۱۳۶۹ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ: ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالُوْا: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ فَذَکَرُوْا بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ۔
١٣٦٩: ابو داؤد نے ابو بکرہ سب نے شعبہ سے اور شعبہ نے منصور سے پھر تمام اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1370

۱۳۷۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْکَنَّاسِیُّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٧٠: محمد بن عبداللہ کناسی نے سفیان سے اور انھوں نے منصور سے منصور نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1371

۱۳۷۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُوْدِہٖ سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ .
١٣٧١: قتادہ نے مطرف سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع و سجدہ میں یہ پڑھا کرتے تھے : سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ وہ سبوح و قدوس ملائکہ اور ارواح کا رب ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٢٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٧‘ نمبر ٨٧٢‘ نسائی فی التطبیق باب ١١‘ نمبر ٧٥‘ مسند احمد ٦؍٩٤؍١١٥‘ ١٤٨؍١٤٩‘ مصنف ابی ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٥٠۔

1372

۱۳۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ: ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٧٢: سعید بن عمار کہتے ہیں ہمیں شعبہ نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1373

۱۳۷۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا الْفَرَجُ بْنُ فُضَالَۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ فَقَدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَظَنَنْتُ أَنَّہٗ أَتٰی جَارِیَتَہٗ، فَالْتَمَسْتُہٗ بِیَدِیْ فَوَقَعَتْ یَدِیْ عَلٰی صُدُوْرِ قَدَمَیْہِ، وَہُوَ سَاجِدٌ یَقُوْلُ اللّٰہُمَّ إِ نِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ .
١٣٧٣: یحییٰ بن سعید نے عمرہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے میں نے ایک رات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گم پایا میں نے گمان کیا کہ آپ اپنی لونڈی کے قریب گئے ہوں گے پس میں نے اپنے ہاتھ سے تلاش کیا تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں کے درمیان میں لگا آپ اس وقت سجدہ ریز تھے اور دعا فرما رہے تھے۔ اللہم انی اعوذ برضاک من سخطک واعوذ بعفوک من عقابک واعوذبک منک لا احصی ثناء علیک کما انت اثنیت علی نفسک اے اللہ ! میں آپ کی ناراضی سے آپ کی رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور آپ کی معافی کے واسطہ سے آپ کے عقاب سے پناہ مانگتا ہوں اور آپ کی ذات کا واسطہ دے کر آپ کی (ناراضگی سے) پناہ مانگتا ہوں میں آپ کی اس طرح تعریف نہیں کرسکتا جیسی آپ نے اپنی تعریف کی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٢٢‘ مسند احمد ٦؍٥٨‘ ٢٠١۔

1374

۱۳۷۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ.
١٣٧٤: محمد بن ابراہیم بن الحارث تیمی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے پھر اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : التمہید ٢٣؍٣٤٨۔

1375

۱۳۷۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَارَۃُ بْنُ غَزِیَّۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ یَقُوْلُ : قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہٗ (لَا أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ) وَزَادَ (أُثْنِیْ عَلَیْکَ لَا أَبْلُغُ کَمَا فِیْکَ) .
١٣٧٥: ابوالنضر کہا کرتے تھے کہ میں نے عروہ کو کہتے سنا کہ عائشہ (رض) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی البتہ انھوں نے : لَا أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ کے الفاظ نقل نہیں کئے مگر أُثْنِیْ عَلَیْکَ لَا أَبْلُغُ کَمَا فِیْکَ کے الفاظ لائے (مفہوم قریب قریب ہے)
تخریج : مسلم ١؍١٩٢‘ ابو داؤد بنحوہ ١؍١٢٨‘ ابن ابی شیبہ ٦؍٣٠۔

1376

۱۳۷۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ، عَنْ سُمَیٍّ مَوْلٰی أَبِیْ بَکْرٍ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ : فِیْ سُجُوْدِہٖ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذَنْبِیْ کُلَّہٗ، دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ، أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ، وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ).
١٣٧٦: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سجدہ میں کہا کرتے تھے : اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذَنْبِیْ کُلَّہٗ ، دِقَّہٗ وَجُلَّہٗ ، أَوَّلَہُ وَآخِرَہٗ ، وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ ۔ اے ! مجھے میری تمام لغزشیں بخش دے چھوٹی بھی بڑی بھی ابتدائی بھی اور انتہائی بھی پوشیدہ بھی کھلی ہوئی بھی۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢١٦۔

1377

۱۳۷۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ، عَنْ سُمَیٍّ مَوْلٰی أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَہُوَ سَاجِدٌ : فَأَکْثِرُوْا الدُّعَائَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ إِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یَدْعُوَ الرَّجُلُ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُوْدِہٖ بِمَا أَحَبَّ، وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ - عِنْدَہُمْ - شَیْئٌ مُوَقَّتٌ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ : بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَزِیْدَ فِیْ رُکُوْعِہِ عَلَی " سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیْمِ " یُرَدِّدُہَا مَا أَحَبَّ، وَلَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَنْقُصَ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ وَلَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَزِیْدَ فِیْ سُجُوْدِہِ عَلَی " سُبْحَانَ رَبِّی الْأَعْلٰی " یُرَدِّدُہَا مَا أَحَبَّ، وَلَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَنْقُصَ ذٰلِکَ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٣٧٧: سمی مولیٰ ابوبکر نے ابو صالح سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ بندہ اپنے اللہ تعالیٰ کے قریب سجدہ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے تم اس میں کثرت سے دعا کیا کرو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ رکوع اور سجدے میں آدمی جو چاہے دعا کرسکتا ہے اور ان کے پاس کوئی مقررہ چیز موجود نہیں۔ گزشتہ روایات کو انھوں نے اپنا مستدل قرار دیا۔ جبکہ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ رکوع میں فقط ” سبحان ربی العظیم “ پڑھا جائے گا۔ اس پر اضافہ جائز نہیں۔ البتہ اس کو متعدد بار دہرانے میں کوئی حرج نہیں اور تین مرتبہ سے کم کرنا مناسب نہیں۔ اور سجدے میں ” سبحان ربی الاعلٰی “ کو پڑھا جائے گا ‘ خواہ کتنی بار دہرائے۔ تین مرتبہ سے کم پڑھنا مناسب نہیں اور اس کے علاوہ اور چیز پڑھنا جائز نہیں۔ اور ان کی مستدل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٢٢٨۔
حاصل روایات : مختلف دعائیں سجدہ و رکوع کی نقل کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ سجدہ و رکوع میں جو دعا چاہے پڑھی جاسکتی ہے کوئی تسبیح و تعظیم کے کلمات متعین نہیں ہیں اور پہلے مؤقف والے حضرات کا یہی قول ہے۔
مؤقف ِثانی اور مستدل روایات :
رکوع و سجدہ میں علی الترتیب سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلٰی پر اضافہ درست نہیں البتہ اس کو بار بار پڑھا جاسکتا ہے تین سے کم مناسب نہیں زیادہ کی کوئی پابندی نہیں جن روایات کو پیش نظر رکھا گیا ہے وہ یہ ہیں۔

1378

۱۳۷۸ : بِمَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیُٔ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ عَمِّہِ إِیَاسِ بْنِ عَامِرِ ڑ الْغَافِقِیِّ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ ڑالْجُہَنِیِّ قَالَ : (لَمَّا نَزَلَتْ (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ) [الواقعۃ : ۷۴] قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْعَلُوْہَا فِیْ رُکُوْعِکُمْ وَلَمَّا نَزَلَتْ (سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی) [الاعلٰی : ۱] قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْعَلُوْہَا فِیْ سُجُوْدِکُمْ).
١٣٧٨: ایاس بن عامر غافقی نے عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے نقل کیا کہ جب فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ اتری تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اپنے رکوع میں مقرر کرلو اور جب آیت : سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی اتری تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اپنے سجدہ مقرر کرلو۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٧‘ نمبر ٨٦٩‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢٠‘ نمبر ٨٨٧‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٦٩‘ مسند احمد ٤؍١٥٥‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ١٧؍٨٨٩‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٨٦‘ مستدرک حاکم ١؍٢‘ ٢٢٥؍٤٧٧۔

1379

۱۳۷۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُوْسٰی بْنُ أَیُّوْبَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٧٩: عبدالرحمن بن وہب کہتے ہیں کہ میرے چچا نے موسیٰ بن ایوب سے بیان پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : تخریج ابن حبان ٥؍١٨٥‘ ابن ماجہ ١؍٦٣۔

1380

۱۳۸۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ، أَنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ، إِنَّمَا کَانَ قَبْلَ نُزُوْلِ الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ عُقْبَۃَ .فَلَمَّا نَزَلَتَا أَمَرَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا أَمَرَہُمْ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ، فَکَانَ أَمْرُہُ نَاسِخًا لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ فِعْلِہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُوْدِہٖ مَا أَمَرَ بِہٖ فِیْ حَدِیْثِ عُقْبَۃَ .
١٣٨٠: عبدالرحمن بن زیاد نے یحییٰ بن ایوب اور انھوں نے موسیٰ بن ایوب انھوں نے ایاس بن عامر سے بواسطہ حضرت علی (رض) اسی طرح نقل کیا ہے۔ ان علماء کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جو کچھ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان روایات میں وارد ہوا جن کو فریق اوّل نے مستدل بنایا وہ ان دو آیتوں کے نزول سے پہلے کی بات ہے جن کا ہم نے حضرت عقبہ (رض) کی میں ذکر کیا ہے۔ جب یہ دونوں آیتیں نازل ہو چکیں تو آپ نے ان کو یہ حکم دیا جو فریق دوم کی روایات میں ہے تو آپ کا یہ ارشاد آپ کے پہلے فعل کو منسوخ کرنے والا ہے۔ اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی انہی تسبیحات کا رکوع اور سجود میں کہنا جن کا آپ نے حضرت عقبہ (رض) والی روایت میں حکم دیا ‘ منقول ہے۔
ایک دلیل اور جواب دلیل فریق اوّل :
گزشتہ آثار جو فریق اوّل نے پیش کئے ان میں جو بات مذکور ہے اس میں کلام نہیں مگر وہ ان آیات کے نزول سے پہلے کی بات ہے جب یہ آیات نازل ہو چکیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پڑھنے کا حکم فرمایا پہلے ذکر کردہ روایات میں فعل کا ذکر جس میں خصوصیت کا بھی احتمال ہے اس سے قطع نظر آپ کا حکم ماقبل کے لیے ناسخ ہے اور آپ کا عمل مبارک اس کی تائید کررہا ہے مندرجہ ذیل روایات شاہد ہیں۔

1381

۱۳۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَیْفَۃَ أَنَّہٗ صَلَّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَکَانَ یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہِ سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیْمِ وَفِیْ سُجُوْدِہِ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلٰی .
١٣٨١: صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ (رض) سے سنا کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک رات نماز ادا کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ پڑھ رہے تھے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٢٠٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٧‘ نمبر ٨٧١‘ نسائی فی التطبیق باب ٩٩‘ مسند احمد ٥؍٣٨٢۔

1382

۱۳۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا سُحَیْمُ ڑالْحَرَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنِ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ صِلَۃَ عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہِ : سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیْمِ ثَلَاثًا وَفِیْ سُجُوْدِہِ سُبْحَانَ رَبِّی الْأَعْلٰی ثَلَاثًا) .فَھٰذَا أَیْضًا قَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ وُقُوْفِہِ عَلٰی دُعَائٍ بِعَیْنِہٖ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ أَمَّا الرُّکُوْعُ، فَلَا یُزَادُ فِیْہِ عَلَی تَعْظِیْمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُوْدُ، فَیَجْتَہِدُ فِیْہِ فِی الدُّعَائِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثَیْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ قَدْ جَعَلُوْا قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَمَّا الرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیْہِ الرَّبَّ) نَاسِخًا لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ أَفْعَالِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَہُمْ بِالتَّعْظِیْمِ فِی الرُّکُوْعِ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ عَلَیْہِ (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ) وَیُجْہِدُہُمْ بِالدُّعَائِ فِی السُّجُوْدِ بِمَا أَحَبُّوْا قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ عَلَیْہِ (سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ) فَلَمَّا نَزَلَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أَمَرَہُمْ بِأَنْ یَنْتَہُوْا إِلَیْہِ فِیْ سُجُوْدِہِمْ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عُقْبَۃَ، وَلَا یَزِیْدُوْنَ عَلَیْہِ فَصَارَ ذٰلِکَ نَاسِخًا لِمَا قَدْ تَقَدَّمَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ، کَمَا کَانَ الَّذِیْ أَمَرَہُمْ بِہٖ فِی الرُّکُوْعِ عِنْدَ نُزُوْلِ (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ) نَاسِخًا لِمَا قَدْ کَانَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقُرْبِ وَفَاتِہٖ، لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (کَشَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السِّتَارَۃَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ) .قِیْلَ لَہٗ : فَہَلْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَقِبِہَا أَوْ أَنَّ تِلْکَ الْمِرْضَۃَ، ہِیَ مِرْضَتُہُ الَّتِیْ تُوُفِّیَ فِیْہَا؟ لَیْسَ فِی الْحَدِیْثِ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ تُوُفِّیَ بِعَقِبِہَا وَیَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ صَلَاۃً غَیْرَہَا قَدْ صَحَّ بَعْدَہَا .فَإِنْ کَانَتْ تِلْکَ ہِیَ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ تُوُفِّیَ بَعْدَہَا، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ) أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ قَبْلَ وَفَاتِہٖ. وَإِنْ کَانَتْ تِلْکَ الصَّلَاۃُ مُتَقَدِّمَۃً لِذٰلِکَ، فَہِیَ أَحْرٰی أَنْ یَجُوْزَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَہَا مَا ذَکَرْنَا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا مَوَاضِعَ فِی الصَّلَاۃِ فِیْہَا ذِکْرٌ .فَمِنْ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرُ لِلدُّخُوْلِ فِی الصَّلَاۃِ، وَمِنْ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرُ لِلرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَالْقِیَامِ مِنَ الْقُعُوْدِ .فَکَانَ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرُ تَکْبِیْرًا قَدْ وُقِفَ الْعِبَادُ عَلَیْہِ وَعُلِّمُوْہُ، وَلَمْ یُجْعَلْ لَہُمْ أَنْ یُجَاوِزُوہُ إِلَیْ غَیْرِہٖ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا یَشْہَدُوْنَ بِہٖ فِی الْقُعُوْدِ، فَقَدْ عُلِّمُوْہُ، وَوُقِفُوْا عَلَیْہِ، وَلَمْ یُجْعَلْ لَہُمْ أَنْ یَأْتُوْا مَکَانَہُ بِذِکْرِ غَیْرِہٖ لِأَنَّ رَجُلًا لَوْ قَالَ مَکَانَ قَوْلِہٖ " اللّٰہُ أَکْبَرُ " اللّٰہُ أَعْظَمُ أَوْ " اللّٰہُ أَجَلُّ " کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مُسِیْئًا .وَلَوْ تَشَہَّدَ رَجُلٌ بِلَفْظٍ یُخَالِفُ لَفْظَ التَّشَہُّدِ الَّذِیْ جَائَ تْ بِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ، کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مُسِیْئًا، وَکَانَ بَعْدَ فَرَاغِہِ مِنَ التَّشَہُّدِ الْأَخِیْرِ قَدْ أُبِیْحَ لَہٗ مِنَ الدُّعَائِ مَا أَحَبَّ فَقِیْلَ لَہٗ فِیْمَا رَوَی ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ثُمَّ لِیَخْتَرْ مِنَ الدُّعَائِ مَا أَحَبَّ) .فَکَانَ قَدْ وُقِفَ فِیْ کُلِّ ذِکْرٍ عَلٰی ذِکْرٍ بِعَیْنِہِ وَلَمْ یُجْعَلْ مُجَاوَزَتُہُ إِلٰی مَا أَحَبَّ إِلَّا مَا قَدْ وُقِفَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ، وَإِنْ اسْتَوَیْ ذٰلِکَ فِی الْمَعْنَی فَلَمَّا کَانَ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ قَدْ أُجْمِعَ عَلٰی أَنَّ فِیْہِمَا ذِکْرًا، وَلَمْ یُجْمَعْ عَلٰی أَنَّہٗ أُبِیْحَ لَہٗ فِیْہِمَا کُلُّ الذِّکْرِ، کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الذِّکْرُ کَسَائِرِ الذِّکْرِ فِیْ صَلَاتِہٖ، مِنْ تَکْبِیْرِہٖ وَتَشَہُّدِہٖ، وَقَوْلِہٖ : " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ " وَقَوْلِ الْمَأْمُوْمِ " رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ " فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ قَوْلًا خَاصًّا لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ مُجَاوَزَتُہُ إِلَیْ غَیْرِہٖ، کَمَا لَا یَنْبَغِیْ لَہٗ فِیْ سَائِرِ الذِّکْرِ الَّذِیْ فِی الصَّلَاۃِ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ مُجَاوَزَتُہٗ ذٰلِکَ إِلٰی غَیْرِہِ إِلَّا بِتَوْقِیفٍ مِنَ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ الَّذِیْنَ وَقَّتُوْا فِیْ ذٰلِکَ ذِکْرًا خَاصًّا وَہُمْ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی حَدِیْثِ عُقْبَۃَ، عَلٰی مَا فُصِّلَ فِیْہِ مِنَ الْقَوْلِ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَأَیْنَ جُعِلَ لِلْمُصَلِّیْ أَنْ یَقُوْلَ بَعْدَ التَّشَہُّدِ مَا أَحَبَّ؟ قِیْلَ لَہٗ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ۔
١٣٨٢: صلہ نے حذیفہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ تین مرتبہ پڑھتے تھے۔ ان دونوں روایات سے یہ دلیل مل گئی کہ رکوع اور سجدے میں انہی تسبیحات پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ علماء کی ایک اور جماعت نے کہا کہ رکوع میں تو سبحان ربی العظیم ہی کہا جائے گا۔ مگر سجدے میں دعا میں خوب کوشش کی جائے گی۔ اور انھوں نے فصل اول میں ذکر کی جانے والی حضرت علی اور ابن عباس (رض) والی روایات کو دلیل بنایا۔ ان کے خلاف ہماری دلیل یہ ہے کہ ان حضرات نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ام الرکوع فعظموا فیہ الرّبّہ کو آپ کے فصل اوّل میں آنے والے افعال کا ناسخ قرار دیا۔ تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تعظیم فی الرکوع والا ارشاد ان آیات کے نزول سے پہلے ہو۔ اور اجتہاد فی السجود یہ سبح اسم ربک الاعلٰی کے نزول سے پہلے ہو۔ جب یہ آیات اتر پڑیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو حکم دیا کہ اپنے سجدے میں اسی پر اکتفاء کریں۔ جیسا کہ حدیث عقبہ (رض) میں آیا ہے اور اس میں اضافہ نہ کریں۔ تو یہ اسی طرح پہلے والے فعل اور حکم کے لیے ناسخ بن گیا۔ جس طرح رکوع کے سلسلے میں سبح الاسم ربک العظیم ناسخ بن گیا۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ آپ کے یہ افعال آپ کی وفات کے قریبی زمانے کے ہیں۔ کیونکہ حدیث ابن عباس (رض) میں صاف مذکور ہے : کشف رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السّارۃ والناس صفوف خلف ابی بکر ‘ یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت پردہ ہٹایا جب کہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پیچھے صف باندھنے والے تھے۔ اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کیا اس روایت میں ایسی بات موجود ہے کہ وہ نماز ہے کہ جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی یا وہی مرض کے آیام ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی۔ روایت میں تو اس کا کوئی نشان بھی نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ یہ وہی نماز ہو کہ جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی۔ جس طرح کہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اور کوئی نماز ہو کہ جس کے بعد آپ صحت یاب ہوئے۔ اگر بالفرض یہ وہی نماز ہو جس کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ تو یہ بھی تو کہنا درست ہے کہ سبح اسم ربک الاعلٰی آیت اس نماز کے بعد اور وفات سے پہلے اتری ہو۔ اور اگر یہ نماز اس سے پہلے زمانے کی ہے تو پھر زیادہ مناسب ہے کہ نزول آیت اس کے بعد ہوا ہو۔ روایات کے معانی کی درستگی کی یہ صورت ہے۔ بطریق نظر جب ہم نے دیکھا تو ہم نے نماز میں ذکر کے مختلف مقامات پائے۔ ان میں سے ایک تکبیر ہے جس سے نماز میں داخل ہوتے ہیں اور ایک تکبیر رکوع ‘ سجدے اور قعدہ سے قیام کے لیے ہے۔ اور یہ تکبیر ہی کہی جاتی ہے۔ اور بندے اس سے اچھی طرح مطلع ہیں ‘ آج تک اس سے تجاوز نہیں کیا۔ اور ان مواقع میں سے ایک قعدہ میں تشہد پڑھنا ہے اور اس سے بھی سب لوگ واقف ہیں ‘ اس کی جگہ اور کوئی ذکر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ اگر کسی شخص نے اللّٰہ اکبر کی بجائے اللّٰہ عظیم یا اللّٰہ اجل کہہ دیا تو اس سے وہ گناہ گار ہوگا۔ اور اگر اس نے اس تشہد کے علاوہ اور تشہد پڑھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ سے روایات میں آیا ہے تو وہ گناہ گار ہوگا۔ اور آخری تشہد سے فارغ ہونے کے بعد دل پسند دعا پڑھ سکتا ہے۔ تو اس کو ابن مسعود (رض) والی روایت کے مطابق کہا جائے گا۔ وہ اپنی پسندیدہ دعا چنے۔ پس ان مختلف مواقع ذکر کے کلمات مقرر ہیں جن کو ترک کر کے دوسرے کی طرف وہ تجاوز نہیں کرسکتا اور نہ مقررہ کلمات سے ان کے ہم معنی کلمات کی طرف جاسکتا ہے۔ جب رکوع اور سجدے کے متعلق اتفاق ہے کہ ان میں ذکر اور اس بات پر اجماع نہیں کہ ان میں اس کو دیگر کلمات مباح ہیں ‘ تو یہ ذکر بھی ان تمام اذکار یعنی تکبیر ‘ تشہد اور اسی طرح قومہ کی تسمیع وتحمید یہ بھی خاص کلمات ان سے کسی کو اور کی طرف تجاوز جائز نہیں۔ جیسا کہ اسے جائز نہیں کہ نماز کے دیگر اذکار میں اسے کسی اور ذکر کی طرف تجاوز جائز نہیں فقط اس کی اجازت ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوا ہے۔ پس اس سے ان لوگوں کی بات پختہ ہوگئی جنہوں نے ہر ایک وقت کے لیے ایک ذکر کو مخصوص قرار دیا اور یہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عقبہ (رض) والی روایت کو اختیار کیا ‘ جس میں سجدہ و رکوع کی تفصیل مذکور ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ تشہد کے بعد نماز کو اپنے پسندیدہ دعائیہ کلمات کی کہاں اجازت دی گئی اسے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت میں موجود ہے جس کو ابو بکرہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢٠‘ نمبر ٨٨٨۔
حاصل ہر دو روایت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع و سجود میں معینہ دعا پر اکتفاء فرماتے تھے اور گزشتہ روایات بھی اسی کو ظاہر کرتی ہیں۔
مؤقف فریق ثالث :
رکوع میں تو اسی پر اکتفاء کیا جائے البتہ سجدہ میں خوب دعا مانگیں گے گویا انھوں نے دونوں قسم کی روایات سے ایک ایک بات لے کر موافقت کی صورت نکالی ہے ان کی مستدل روایات یہ ہیں جن کو نمبر ١٣٦٤ تا ١٣٦٦ حضرت علی (رض) اور ابن عباس (رض) سے ہم نقل کر آئے ہیں۔
ہم آگے بڑھنے سے قبل فریق ثالث کی ان دلیلوں کا جواب عرض کرتے ہیں۔
S: آپ کی پیش کردہ روایات میں جو کچھ فرمایا گیا وہ بجا طور درست ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع کے متعلق فعظموا فیہ الرّب کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے الفاظ رکوع میں کہے جائیں پر عمل پیرا رہے اور جب سبح باسم ربک العظیم نازل ہوئی تو آپ نے سبحان ربی العظیم کا حکم دیا تو سابقہ کلمات منسوخ مان لیا مگر جب سجدے کی باری آئی تو یجہدہم بالدعاء پر عمل پیرا رہے جب سبح اسم ربک الاعلٰی نازل ہوئی اور سبحان ربی الاعلٰی کا حکم ملا تو اسے ناسخ نہیں مانا۔ حالانکہ دونوں کا حکم یکساں ہے اور یہ بھی ماقبل کی اسی طرح ناسخ ہے جس طرح رکوع والی آیت ہے۔
اشکال :
ابن عباس (رض) کی روایت سے معلوم ہوا ہے کہ یہ قرب وفات کا عمل ہے پس اس کی ناسخ تو وہ آیات نہ بن سکیں۔
حل اشکال :
اس روایت میں کوئی قرینہ نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ وہی نماز ہے جس کے بعد آپ کی وفات ہوگی پس جب دونوں احتمال پیدا ہوگئے کہ ممکن ہے کہ یہ اس بیماری کا تذکرہ ہو جس میں آپ کی وفات ہوئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اور کوئی نماز ہو تو سبح اسم ربک کا اس کے بعد نزول ظاہر ہے یہ جواب تو تمام آثار کو صحیح قرار دیتے ہوئے دیا گیا ہے مگر بطریق نظر اس کا فیصلہ واضح ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
نماز میں کئی مواضع ہیں جن میں اذکار مقررہ ہیں چنانچہ نماز میں داخلے کے لیے تکبیر اور رکوع میں تعظیم اور سجود میں تسبیح اور ان میں منتقل ہونے کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے بندوں نے اس تکبیر کو اختیار کیا اور وہ اس تکبیر کے علاوہ کو اختیار نہیں کرتے اور ان اذکار میں سے ایک قعدہ ہے جس میں تشہد پڑھی جاتی ہے لوگوں نے ان سب چیزوں کو اختیار کر کے اسی کو اپنایا وہ ان کی جگہ دوسرے کسی ذکر کا جواز نہیں سمجھتے اگر بالفرض کسی شخص نے اللہ اکبر کی جگہ اللہ اعظم یا اللہ اجل کہا تو وہ گناہ گار ہوگا اسی طرح اگر کسی نے اس تشہد کے علاوہ تشہد پڑھا جو آثار نبویہ میں وارد ہے وہ شخص گناہ گار ہوگا اور آخری تشہد سے فراغت کے بعد اسے ہر اس دعا کی اجازت ہے جو وہ پسند کرتا ہو تشہد ابن مسعود (رض) پڑھے اور دعا مانگے۔

حاصل کلام : یہ ہوا کہ ہر مقام کے لیے ایک ذکر متعین ہے جس سے نمازی کو تجاوز جائز نہیں اگرچہ معنوی اعتبار سے اسی طرح ہو جب اس بات پر اتفاق ہے کہ رکوع و سجدہ دونوں میں ذکر کے وجود پر سب کا اتفاق ہے اور اس پر اتفاق نہیں کہ ان دونوں میں ان کے علاوہ بھی کوئی ذکر مباح ہو تو نظر و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ذکر بھی نماز کے دوسرے مقامات کی طرح مثلاً تکبیر ‘ تشہد وغیرہ کی طرح نہ بدلے اور سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی کا قول ربنا ولک الحمد یہ بھی خاص کلمہ ہے کسی کو اس سے تجاوز جائز نہیں جیسے دوسرے اذکار سے تجاوز درست نہیں اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر مداومت فرمائی پس اس سے ان لوگوں کی بات اظہر من الشمس کی طرح ثابت ہوگئی جنہوں نے خاص مواقع میں اذکارکو خاص مانا ہے اور اس سے مراد وہ ہیں جو حدیث عقبہ بن عامر (رض) کو دلیل بنانے والے ہیں یعنی فریق ثانی و اعوانہم۔
ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
اہم اشکال :
یہ بات کہاں سے ثابت ہے کہ تشہد کے بعد اپنی پسندیدہ دعا پڑھے۔ ؟
جواب : پسندیدہ دعا کا ثبوت روایت ابن مسعود (رض) میں مذکور ہے ملاحظہ ہو۔

1383

۱۳۸۳ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ، عَنْ شَقِیْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا جَلَسْنَا فِی الصَّلَاۃِ السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ، وَعَلٰی عِبَادِہِ، السَّلَامُ عَلَی جِبْرِیْلَ وَمِیکَائِیْلَ، السَّلَامُ عَلَی فُلَانٍ وَفُلَانٍ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ السَّلَامُ، فَلَا تَقُوْلُوْا ھٰکَذَا، وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا : فَذَکَرُوْا التَّشَہُّدَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثُمَّ لِیَخْتَرْ أَحَدُکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ أَطْیَبَ الْکَلَامِ أَوْ مَا أَحَبَّ مِنَ الْکَلَامِ .
١٣٨٣: ابو عوانہ نے سلیمان سے اور انھوں نے شقیق سے اور انھوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے تشہد میں بیٹھ کر اس طرح کہتے السلام علی اللہ وعلی عبادہ السلام علی جبرائیل و میکائیل ‘ السلام علی فلان و فلان تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ کی ذات السلام ہے تم اس طرح مت کہا کرو بلکہ اس طرح کہو : السلام علیک ایھا النبی۔۔۔ آخر تک جیسا تشہد ابن مسعود (رض) نماز میں پڑھا جاتا ہے پھر فرمایا تم میں سے ہر ایک پاکیزہ کلمات یا جو کلام یعنی دعا وہ پسند کرتا ہو وہ کہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٤٨؍١٥٠‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٥٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٨‘ نمبر ٩٦٨‘ نسائی فی التطبیق باب ١٠٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢٤‘ نمبر ٨٩٩‘ مسند احمد ١؍٤١٣۔

1384

۱۳۸۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کُنَّا لَا نَدْرِیْ مَا نَقُوْلُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ، غَیْرَ أَنَّا نُسَبِّحُ وَنُکَبِّرُ وَنَحْمَدُ رَبَّنَا، وَإِنَّ مُحَمَّدًا أُوْتِیَ فَوَاتِحَ الْکَلِمِ وَجَوَامِعَہُ، أَوْ قَالَ : خَوَاتِمَہُ فَقَالَ : اِذَا قَعَدْتُمْ فِی الرَّکْعَتَیْنِ فَقُوْلُوْا فَذَکَرَ التَّشَہُّدَ ثُمَّ یَتَخَیَّرُ أَحَدُکُمْ مِنَ الدُّعَائِ مَا أَعْجَبَہُ إِلَیْہِ، فَیَدْعُوْا بِہٖ رَبَّہٗ) .
١٣٨٤: ابوالاحوص نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم پہلے نہ جانتے تھے کہ دو رکعتوں کے درمیان کیا کہیں ہم فقط تسبیح و تکبیر وحمد پڑھتے تھے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واضح کلمات اور جامع کلمات یا انتہائی کامل کلمات دیئے گئے ہیں (ہم کہتے تھے) اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب دو رکعات کے بعد قعدہ کرو تو تم اس طرح کہو پھر تشہد ابن مسعود (رض) ذکر کیا (یعنی التحیات اللہ والصلوات والطیبات آخر تک) پھر فرمایا تم اپنی پسندیدہ دعا پڑھو جس میں اپنے رب سے مانگو۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٥٠‘ مسلم فی الصلاۃ ٥٧؍٥٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٨‘ مسند احمد ١؍٣٨٢؍٤١٣‘ ٤٢٨؍٤٣١۔

1385

۱۳۸۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ شَقِیْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (ثُمَّ لِیَتَخَیَّرْ مِنَ الْکَلَامِ بَعْدُ مَا شَائَ) .فَأُبِیْحَ لَہٗ ہَاہُنَا أَنْ یَخْتَارَ مِنَ الدُّعَائِ مَا أَحَبَّ، لِأَنَّ مَا سِوَاہُ مِنَ الصَّلَاۃِ بِخِلَافِہٖ .مِنْ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِنَ التَّکْبِیْرِ فِیْ مَوَاضِعِہِ، وَمِنَ التَّشَہُّدِ فِیْ مَوَاضِعِہِ، وَمِنَ الْاِسْتِفْتَاحِ فِیْ مَوْضِعِہٖ‘ وَمِنَ التَّسْلِیْمِ فِیْ مَوْضِعِہٖ‘ فَجُعِلَ ذٰلِکَ ذِکْرًا خَاصًّا غَیْرَ مُتَعَدٍّ إِلَیْ غَیْرِہٖ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ، أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ، الذِّکْرُ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ، ذِکْرًا خَاصًّا، لَا یُتَعَدَّی إِلَیْ غَیْرِہٖ .
١٣٨٥: شقیق نے عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح بات فرمائی جیسے اوپر والی روایت میں فرمایا گیا ہے البتہ اس قدر فرق ہے : ’ ثم یتخیر من الکلام بعد ماشائ “ ۔ پس ان کے لیے مباح کیا گیا کہ وہ پسندیدہ دعا کا چناؤ کرے اس کے علاوہ اذکار کا مسئلہ اس سے مختلف ہے کہ وہ تکبیر ‘ تشہید ‘ استفتاح ‘ تسلیم اپنے اپنے مقام پر ادا کیے جائیں گے۔ پس اس کو بھی خاص ذکر بنایا گیا جو دوسرے مقام کی طرف کرنے والا نہیں ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔
حاصل ہر دو روایات یہ ہے کہ وہ پسندیدہ دعا کا چناؤ کرے کیونکہ بقیہ نماز اس کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے کہا تکبیر اپنے مقام پر تشہد اپنے مقام پر اور استفتاح کی تکبیر اپنے مقام پر اور سلام اپنے مقام پر پس ان تمام کو ایسا ذکر قرار دیا گیا جو دوسرے کی طرف متعدی نہیں ہے۔
نتیجہ کلام :
تقاضہ نظر و فکر یہ ہے کہ رکوع و سجود کا ذکر بھی ایک ذکر ہے جو دوسرے کی طرف متعدی نہ ہوگا بلکہ اس کے ساتھ مخصوص رہے گا۔
حاصل روایات : اس باب میں فریق ثانی کا مؤقف جو امام کو پسند ہے اس کی موافقت کرتے ہوئے طویل نظری دلیل پیش کی کہ جس کے بعض حصوں کی وضاحت کے لیے روایات بھی ذکر کیں۔

1386

۱۳۸۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، وَأَبُوْ عَوَانَۃَ، وَأَبَانُ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ، قَالَ : عَلَّمَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ فَقَالَ : اِذَا کَبَّرَ الْاِمَامُ فَکَبِّرُوْا، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوْا، وَاذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوْا، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ فَقُوْلُوْا : اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ یَسْمَعُ اللّٰہُ لَکُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ).
١٣٨٦: حطان بن عبداللہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز سکھائی اور فرمایا جب امام تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو اللہم ربنا ولک الحمد کہو اللہ تعالیٰ تمہاری فریادوں کو سننے والا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے فرمایا سمع اللہ لمن حمدہ اللہ تعالیٰ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٨‘ الاذان باب ٨٢‘ ١٢٨‘ التقصیر باب ١٧‘ مسلم فی الصلاۃ ٦٢؍٧٧‘ ٨٦؍٨٧‘ ٨٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٦٨‘ ١٧٨‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٥٠‘ نسائی فی الامامہ باب ٣٨‘ والافتتاح باب ٣٠‘ والتطبیق باب ٢٣‘ ١٠١‘ والسہو باب ٤٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣‘ ٤١؍١٤٤‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٧١‘ ٩٢‘ مسند احمد ٢؍٢٣٠؍٣١٤‘ ٣١٤؍٣٧٦‘ ٤٢٠؍٤٣٨‘ ٤٤٠؍٤٥٢‘ ٣؍١١٠‘ ٤؍٤٠١؍٤٠٥۔
نمبر !: اس میں امام ابوحنیفہ ومالک سفیان (رح) کا قول یہ ہے کہ امام سمع اللہ لمن حمدہ پر مامور ہے اور مقتدی کا وظیفہ ربنا ولک الحمد ہے ایک دوسرے کے وظیفہ کو بدلنا درست نہیں۔
نمبر ": مؤقف ثانی امام شافعی ‘ ابو یوسف ‘ محمد ‘ طحاوی (رح) کے ہاں امام ربنا ولک الحمد بھی کہے البتہ مقتدی صرف ربنا ولک الحمد کہے گا۔
مؤقف ِاوّل :
امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے مقتدی صرف ربنا ولک الحمد کہے جیسا کہ یہ روایات دلالت کرتی ہیں۔

1387

۱۳۸۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٨٧: سعید بن عامر نے سعید بن ابی عروبہ سے اور انھوں نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح ذکر کیا ہے۔

1388

۱۳۸۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَلْقَمَۃَ یُحَدِّثُ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہٗ : (یَسْمَعْ اللّٰہُ لَکُمْ) إِلَی آخِرِ الْحَدِیْثِ۔
١٣٨٨: یعلی بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو علقمہ کو بیان کرتے سنا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے البتہ یسمع اللہ لکم کا جملہ ذکر نہیں کیا۔
تخریج : مسلم ١؍١٧٧۔

1389

۱۳۸۹ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٣٨٩: محمد بن عمرو نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارمی ١؍٢١٧۔

1390

۱۳۹۰ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدِ ڑالْقُرَشِیِّ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٣٩٠ : ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1391

۱۳۹۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ سُمَیٍّ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا قَالَ الْاِمَامُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، فَقُوْلُوْا اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ فَإِنَّہٗ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ ھٰذِہِ الْآثَارَ قَدْ دَلَّتْہُمْ عَلٰی مَا یَقُوْلُ الْاِمَامُ وَالْمَأْمُوْمُ جَمِیْعًا وَأَنَّ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، فَقُوْلُوْا : اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ " یَقُوْلُہَا الْاِمَامُ دُوْنَ الْمَأْمُوْمِ، وَأَنَّ " رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ " یَقُوْلُہَا الْمَأْمُوْمُ دُوْنَ الْاِمَامِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ، وَمَالِکٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلْ یَقُوْلُ الْاِمَامُ " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ " ثُمَّ یَقُوْلُ الْمَأْمُوْمُ " رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ " خَاصَّۃً .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (وَإِذَا قَالَ الْاِمَامُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، فَقُوْلُوْا : رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ یَقُوْلُہُ الْمَأْمُوْمُ دُوْنَ غَیْرِہٖ .وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، لَاسْتَحَالَ أَنْ یَقُوْلَہَا، مَنْ لَیْسَ بِمَأْمُوْمٍ .فَقَدْ رَأَیْنَاکُمْ تُجْمِعُوْنَ أَنَّ الْمُصَلِّیَ وَحْدَہٗ یَقُوْلُہَا مَعَ قَوْلِہٖ (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ) فَکَمَا کَانَ مَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہٗ یَقُوْلُہَا وَلَیْسَ بِمَأْمُوْمٍ، وَلَمْ یَنْفِ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ الْاِمَامُ أَیْضًا یَقُوْلُہَا کَذٰلِکَ، وَلَا یَنْفِیْ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ .
١٣٩١: سمی نے ابو صالح سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب امام : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ ، کہے تو تم : رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہو پس جس کا قول ملائکہ کے قول کے موافق ہوا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ کچھ علماء نے یہ فرمایا کہ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام و مقتدی کیا کہیں ‘ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اس سے یہ دلیل میسر آگئی کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا اور مقتدی ربنا لک الحمد فقط کہیں گے۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ ومالک (رح) نے اختیار کیا۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ امام سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد ساتھ کہے مقتدی صرف ربنا و لک الحمد صرف کہے۔ فریق اوّل کہتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” اذا قال الامام سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد “ میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ صرف امام کہے دوسرا نہ کہے۔ اگر اسی طرح ہوتا تو ناممکن کہ اس کو وہ شخص بھی کے جو مقتدی نہ ہو۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارا اس بات پر تو اتفاق ہے اکیلا نماز پڑھنے والے اسے سمع اللہ سمیت کہے۔ پس جب اکیلا نماز ادا کرنے والا جو کہ مقتدی نہیں۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول جو ہم نے ذکر کیا وہ اس کی نفی نہیں کرتا۔ اسی طرح امام کے متعلق بھی ارشاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نفی نہیں ‘ پس وہ بھی کہے۔ اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا۔
تخریج : بخاری ١؍٢٧٤‘ مسلم ١؍١٧٦‘ ابو داؤد ١؍١٢٣‘ ترمذی ١؍٦١‘ نسائی ١؍١٦٢۔
حاصل روایات : کہ امام کا وظیفہ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ اور مقتدی کا وظیفہ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ہے اور اس وظیفے کو بدلنا جائز نہیں ہے۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ ومالک (رح) نے اختیار کیا ہے۔
نوٹ : یہ پہلا موقعہ ہے کہ امام ابوحنیفہ اور مالک (رح) کا نام ذکر کیا ورنہ اب فریق اوّل کا تذکرہ بغیر نام کے کرتے رہے کیا خوب احترام امام (رح) کا انداز ہے۔
مؤقف ِثانی :
امام سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا ولک الحمد دونوں کہے گا پھر مقتدی ربنا لک الحمد صرف کہے گا ان روایات سے انھوں نے استدلال کیا ہے روایات کو بیان کرنے سے پہلے فریق اوّل کی روایات کا جواب دیا جاتا ہے۔
جواب : روایت ابو موسیٰ (رض) میں کوئی ایسی عبارت نہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ تحمید صرف مقتدی کا وظیفہ ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا اگر اس کو مان لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کوئی غیر مقتدی اس کو نہ کہے حالانکہ اس بات پر اجماع ہے کہ منفرد دونوں کو کہے گا جب منفرد دونوں کو کہے گا تو امام بھی منفرد کی طرح ہے اور غیر مقتدی بھی ہے۔ تو اسے ان دونوں کا کہنا کیونکر ممنوع ہوگا۔
مؤقف ثانی :
امام ہر دو کو کہے اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہے گا یہ روایات اس کی دلیل ہیں۔

1392

۱۳۹۲ : بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ : (اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَائِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ) .
١٣٩٢: عبداللہ بن ابی رافع نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح فرماتے : اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَائِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ ۔
تخریج : مسلم فی صلوۃ المسافرین نمبر ٢٠١‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٢٩٠٣۔

1393

۱۳۹۳ : وَبِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : أَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ قَیْسِ ابْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٣٩٣: عطاء نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٠٦‘ نسائی فی التطبیق باب ١١٥‘ مسند احمد ١؍١٧٦‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٢٩٠٨‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٩٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٤٦؍٢٤٧۔

1394

۱۳۹۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُبَیْدٌ ہُوَ ابْنُ حَسَنٍ أَبُو الْحَسَنِ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ أَوْفَیْ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
١٣٩٤: ابوالحسن انھوں نے ابن ابی اوفی سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٠٢۔

1395

۱۳۹۵ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَیْفٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ الدِّمَشْقِیُّ قَالَ : أَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ التَّنُوْخِیُّ، عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ قَیْسِ ڑ الْکَلَاعِیِّ، عَنْ قَزَعَۃَ بْنِ یَحْیٰی، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ، وَزَادَ أَہْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا نَازِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ .
١٣٩٥: قزعہ بن یحییٰ نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ لفظ زائد ہیں :؟ ؟۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٠٥‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٠‘ ٨٤٧‘ نسائی فی التطبیق باب ١١٥‘ مسند احمد ٣؍٨٧۔

1396

۱۳۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ شَرِیْکٍ، عَنْ أَبِیْ عَمْرٍو ہُوَ الْمُنَبِّہِیُّ، عَنْ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ قَالَ : (ذَکَرْتُ الْجُدُوْدَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ جَدُّ فُلَانٍ فِی الْاِبِلِ وَقَالَ بَعْضُہُمْ فِی الْخَیْلِ فَسَکَتَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَامَ یُصَلِّیْ، فَرَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ، قَالَ : اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَائِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لَمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) .فَلَیْسَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ وَہُوَ إِمَامٌ، وَلَا فِیْہَا مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ : بِہَا، أَنَّ مَنْ صَلّٰی وَحْدَہٗ یَقُوْلُ " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ " .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ : ہَلْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلَی حُکْمِ الْاِمَامِ فِیْ ذٰلِکَ کَیْفَ ہُوَ؟ وَہَلْ یَقُوْلُ مِنْ ذٰلِکَ مَا یَقُوْلُہٗ مَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہٗ أَمْ لَا؟
١٣٩٦: ابو عمرو المنبہی نے ابو جحیفہ (رض) سے روایت نقل کی کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نصیب کا ذکر کیا بعض لوگوں نے کہا فلان کے نصیب میں تو اونٹ اور بعض کے نصیب میں گھوڑے ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے جب آپ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے اور رکوع سے سر مبارک اٹھایا تو اس طرح کہا اللہم ربنا لک الحمد مل السماء وملء الارض وملء ماشئت من شئی بعد لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد اے اللہ جو کہ ہمارا راب ہے تیرے لیے تعریف آسمان بھر کر اور زمین بھر کر اور اس کے بعد جو چیز آپ کی پسند ہو وہ بھر کر جو آپ دینا چاہیں اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو آپ روک دیں اسے کوئی دینے والا نہیں کسی نصیب والے کو آپ کے عذاب سے چھڑانے کے لیے اس کا نصیب کام نہ دے گا۔ ان آثار میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آپ امامت کی حالت میں یہ کہتے تھے اور نہ اس میں سے کسی بھی چیز پر دلالت کرتا ہے۔ البتہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص اکیلا نماز ادا کرے وہ ” سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد “ کہے۔ پس ہم جانتے ہیں کہ اس پر غور کریں کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی چیز مروی ہے جو امام کے متعلق اس کا حکم واضح کر دے کہ آیا وہ تنہا نماز پڑھنے والے کی طرح کہے یا نہ۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٨۔
حاصل آثار :
ان روایات سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ آپ سمع اللہ لمن حمدہ کے ربنا لک الحمد کہا کرتے تھے اگرچہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ آپ اس کو اس وقت پڑھتے تھے جب آپ امام ہوتے اور نہ ان آثار میں کوئی ایسی دلیل ہے جو اس میں سے کسی بھی چیز پر دلالت کرے البتہ ان روایات سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ جو اکیلا نماز ادا کرے وہ سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہے۔
اب اس کے بعد ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس بات کو دیکھیں کہ آیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کوئی بات مروی ہے کہ امام کا کیا حکم ہے ؟ کیا اکیلے نماز پڑھنے والا بھی اس کو کہہ سکتا ہے یا نہیں ؟

1397

۱۳۹۷ : فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَأَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہُمَا سَمِعَاہُ یَقُوْلُ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ یَفْرَغُ مِنْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ وَیُکَبِّرُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ، اللّٰہُمَّ أَنْجِ الْوَلِیْدَ بْنَ الْوَلِیْدِ) ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ قَالَ ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّہٗ مِنَ الْقُنُوْتِ ثُمَّ تَرَکَہُ بَعْدُ، لَمَّا تَرَکَ الْقُنُوْتَ، فَرَجَعْنَا إِلٰی غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ہَلْ فِیْہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا۔
١٣٩٧: سعید بن المسیّب اور ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم دونوں نے ان کو کہتے سنا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز فجر کی قراءت سے فارغ ہوتے اور تکبیر کہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ‘ ربنا ولک الحمد ‘ اللہم انج الولید بن الولید پھر حدیث کو مکمل طور پر ذکر کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس کو قنوت کے طور پر پڑھا ہو پھر جب قنوت کو ترک کیا تو اسے بھی ترک کردیا۔ ہم اس کے علاوہ روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ آیا ان میں سے کسی چیز پر دلالت کرتی ہیں ‘ چنانچہ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٢٨‘ وا الاستسقاء باب ٢‘ والجہاد باب ٩٨‘ احادیث الانبیاء باب ١٩‘ تفسیر سورة نمبر ٣‘ باب ٩‘ الادب باب ١١٠‘ والدعوات باب ٥٨‘ مسلم فی المساجد ٢٩٤؍٢٩٥‘ نسائی فی التطبیق باب ٢٧‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ١٤٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢١٦‘ مسند احمد ٢؍٢٣٩؍٢٥٥‘ ٢٧١؍٢٩٦۔
ضمنی اشکال اور اس کا حل :
ممکن ہے کہ یہ آپ نے قنوت کے موقع پر کہا پھر بعد میں قنوت کی طرح اسے بھی ترک کردیا اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر روایات میں اس کا قنوت کے علاوہ پڑھنا موجود ہے جس کا ثبوت یہ روایات ہیں۔

1398

۱۳۹۸ : فَإِذَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : أَنَا أَشْبَہُکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ اِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ قَالَ (اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) .
١٣٩٨: مقبری نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے ساتھ مشابہت کرنے والا ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اللہم ربنا لک الحمد کہتے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١١٥‘ مسلم فی الصلاۃ ٢٧؍٣٠‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٤٠‘ نمبر ٨٤٨‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٨٣‘ نمبر ٢٦٧‘ نسائی فی الافتتاح باب ٢١؍٨٤‘ والتطبیق باب ٩٤‘ مالک فی النداء نمبر ١٩‘ مسند احمد ٢؍٢٣٦؍٢٧٠‘ ٣٠٠؍٣١٩‘ ٤٥٢؍٤٩٧‘ ٥٠٢؍٥٢٧‘ ٥٣٢۔

1399

۱۳۹۹ : وَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ أَخْبَرَنِیْ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِیْ حَیَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ).
١٣٩٩: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں سورج کو گرہن لگ گئی آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی جب رکوع سے سر اٹھایا تو کہا سمع اللہ لمن حمدہ ‘ ربنا ولک الحمد ۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ٤‘ مسلم فی الکسوف نمبر ١۔

1400

۱۴۰۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا قَامَ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ ذٰلِکَ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْاِمَامَ یَقُوْلُ مِنْ ذٰلِکَ مِثْلَ مَا یَقُوْلُ مَنْ صَلّٰی وَحْدَہُ، لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ذٰلِکَ وَہُوَ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَا أَشْبَہُکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ ذٰلِکَ .فَأَخْبَرَ أَنَّ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ، ہُوَ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ فِیْ صَلَاتِہِ لَا یَفْعَلُ غَیْرَہُ .وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ وَہُوَ أَیْضًا فِیْہِ إِخْبَارٌ عَنْ صِفَۃِ صَلَاتِہِ کَیْفَ کَانَتْ .فَلَمَّا ثَبَتَ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ وَہُوَ إِمَامٌ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) ثَبَتَ أَنَّ ھٰکَذَا یَنْبَغِیْ لِلْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ، اتِّبَاعًا لِمَا قَدْ ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا فِیْمَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہُ، عَلٰی أَنَّہٗ یَقُوْلُ ذٰلِکَ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْاِمَامِ ہَلْ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمُ مَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہٗ أَمْ لَا؟ فَوَجَدْنَا الْاِمَامَ یَفْعَلُ فِیْ کُلِّ صَلَاتِہٖ مِنَ التَّکْبِیْرِ وَالْقِرَائَ ۃِ وَالْقِیَامِ وَالْقُعُوْدِ وَالتَّشَہُّدِ، مِثْلَ مَا یَفْعَلُہُ مَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہُ .وَوَجَدْنَا أَحْکَامَہُ فِیْمَا یَطْرَأُ عَلَیْہِ فِیْ صَلَاتِہٖ، کَأَحْکَامِ مَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہُ فِیْمَا یَطْرَأُ عَلَیْہِ، مِنْ صَلَاتِہٖ مِنْ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تُوْجِبُ فَسَادَہَا، وَمَا یُوْجِبُ سُجُوْدَ السَّہْوِ فِیْہَا، وَغَیْرَ ذٰلِکَ، وَکَانَ الْاِمَامُ وَمَنْ یُصَلِّیْ وَحْدَہُ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً، بِخِلَافِ الْمَأْمُوْمِ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِاتِّفَاقِہِمْ أَنَّ الْمُصَلِّیَ وَحْدَہٗ یَقُوْلُ بَعْدَ قَوْلِہٖ" سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ " " رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ " ثَبَتَ أَنَّ الْاِمَامَ أَیْضًا یَقُوْلُہَا بَعْدَ قَوْلِہٖ" سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ " .فَھٰذَا وَجْہُ النَّظَرِ أَیْضًا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، فَبِھٰذَا نَأْخُذُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَکَانَ یَذْہَبُ فِیْ ذٰلِکَ إِلَی الْقَوْلِ الْأَوَّلِ .
١٤٠٠: سالم نے اپنے والد عبداللہ سے انھوں نے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع سے اٹھتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ ان آثار میں اس بات پر دلالت پائی جاتی ہے کہ امام ان کو اسی طرح کہے جیسا کہ اکیلا نماز پڑھنے والا کہتا ہے اس لیے کہ حضرت امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو یہ کہتے اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے ذکر کیا کہ میری نماز تم میں سے سب سے زیادہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ نہیں کرتا اور ابن عمر (رض) کی روایت میں بھی آپ کی نماز کی کیفیت مذکور ہے۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ اسے امامت کی حالت میں کہتے تھے جبکہ آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہتے تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ امام کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں اسی طرح کہنا چاہیے۔ روایات کے طریقہ پر اس بات کا یہی حکم ہے۔ البتہ نظر و فکر کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا اسے کہے۔ اب ہم غور کرنا چاہتے ہیں کہ آیا امام کا حکم بھی تنہا نماز پڑھنے والے کا ہے ‘ تو ہم نے اس طرح پایا کہ امام اپنی نماز میں وہ تمام چیزیں کرتا ہے جو تنہا نماز پڑھنے والا یعنی تکبیر ‘ قراءت ‘ قیام ‘ قعود ‘ تشہد وغیرہ اور جو حالت اس کو پیش آئے اس کا حکم اسی طرح ہے جس طرح تنہاء نماز پڑھنے والے کو نماز میں کوئی پیش آنے پر ہوتا ہے۔ اس کو سجدہ سہو جن چیزوں سے پیش آتا ہے اور جن چیزوں سے اس کی نماز فاسد ہوتی ہے اس میں امام اور تنہا برابر ہیں البتہ مقتدی کے احکام مختلف ہیں۔ پس جب یہ بالاتفاق ثابت ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والا سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد ربنا ولک الحمد کہے۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ امام بھی اس کو سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد کہے۔ اس باب میں غور و فکر کا تقاضا یہی ہے۔ اور ہم اسی کو اس باب میں اختیار کرتے ہیں یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ باقی امام ابوحنیفہ (رح) نے اس میں قول اوّل کو اختیار کیا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات میں سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد کا قنوت کے علاوہ موقع پر کہنا بھی ثابت ہوگیا بلکہ روایت عائشہ (رض) سے لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے کہنا ثابت ہوگیا اور حدیث ابوہریرہ (رض) میں ابوہریرہ (رض) کا یہ کہہ کر اس کو بیان کرنا کہ میری نماز تم میں سب سے زیادہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے مشابہ ہے اس بات کو اور پختگی سے ثابت کرتا ہے کہ یہ افعال بعینہٖ وہی ہیں جو جناب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں کیا کرتے تھے نہ کہ کوئی اور۔ اور ابن عمر (رض) والی روایت میں بھی آپ کی نماز کی کیفیت بتلائی گئی ہے کہ وہ کس طرح تھی۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ امام ہونے کی حالت میں جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ‘ ربنا ولک الحمد کہتے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام کو اسی طرح ہی کرنا چاہیے تاکہ اصل اتباع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاصل ہو سکے آثار کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا حکم عرض کردیا۔
نوٹ : مگر باوجود جلالت شان کے ہم عرض کریں گے کہ امام طحاوی (رح) نے جتنی روایات اپنے مستدل کی حمایت میں پیش کی ہیں ان میں کوئی ایک بھی امامت پر دلالت نہیں کرتی صرف ایک روایت ہے اور وہ بھی صلوۃ کسوف سے متعلق ہے جس کی کیفیت الگ نوعیت رکھتی ہے کما لا یخفی علی من تدبر قلیلاً واللہ اعلم۔ مترجم
نظر طحاوی (رح) :
غور فرمائیں کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص اکیلے نماز ادا کرے وہ سمع اللہ لمن حمدہ ‘ ربنا لک الحمد کہے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ امام منفرد کا حکم یکساں ہے یا مختلف چنانچہ سوچ بچار سے معلوم ہوا کہ کہ امام اپنی تمام نماز میں یعنی تکبیر قرات ‘ قیام ‘ قعود ‘ تشہد وغیرہ میں منفرد جیسے افعال کرتا ہے اور احکام میں بھی دونوں کی حالت یکساں ہے ان حالات میں جو مختلف اوقات میں اس پر طاری ہوتی ہیں اور نماز کو فاسد کرتی اور نماز میں سجدہ سہو کو لازم کرتی ہیں وغیرہ۔ اس میں منفرد و امام برابر ہیں مقتدی کی حالت ان سے مختلف ہے جب یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ اکیلے نماز پڑھنے والا سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہے گا تو اس سے خود ثابت ہوگیا کہ امام بھی یہ دونوں کلمات کہے گا۔
یہ بات بطریق نظر بھی ثابت ہوگئی۔
ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں اور یہی امام ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کا رجحان قول اول کی طرف ہے۔
نوٹ : اس بات میں امام طحاوی کا رجحان دوسرے قول کی طرف تھا اس کے لیے دلائل پیش کرتے ہوئے زیادہ زور دیا گیا آخر میں امام صاحب کا تذکرہ دوسری مرتبہ نام لے کر فرمایا جیسے کوئی معذرت کررہا ہو۔

1401

۱۴۰۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَعِیْدٍ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ، أَنَّہُمَا سَمِعَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ حِیْنَ یَفْرَغُ مِنْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ وَیُکَبِّرُ وَیَرْفَعُ رَأْسَہٗ وَیَقُوْلُ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ یَقُوْلُ وَہُوَ قَائِمٌ اللّٰہُمَّ أَنْجِ الْوَلِیْدَ بْنَ الْوَلِیْدِ، وَسَلَمَۃَ بْنَ ہِشَامٍ، وَعَیَّاشَ بْنَ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ، وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، اللّٰہُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَکَ عَلٰی مُضَرَ، وَاجْعَلْہَا عَلَیْہِمْ کَسِنِیْ یُوْسُفَ، اَللّٰہُمَّ الْعَنْ لِحْیَانَ وَرِعْلًا وَذَکْوَانَ، وَعُصَیَّۃَ، عَصَتِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ) .
١٤٠١: سعید اور ابو سلمہ دونوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز فجر کی قراءت سے فارغ ہوجاتے اور تکبیر کہتے اور اپنا سر اٹھا کر سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہتے اور آپ اس وقت حالت قیام میں ہوتے تو یہ کلمات کہتے اللہم انج الولید بن الولید ‘ سلمہ بن ہشام و عیاش بن ربیعہ والمستضعفین اللہم اشد وطأتک علی مضر واجعلھا علیہم کسنی یوسف اللہم العن لحیان ورعلا وذکوان وعصیۃ عصت اللہ ورسولہ ‘ اے اللہ ! ولید بن ولید سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ربیعہ اور کمزوروں کو نجات عنایت فرما۔ اے اللہ ! اپنے بندھن کو مضر پر سخت کر دے اور ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانے والا قحط مسلط فرما۔ اے اللہ ! لحیان ‘ رعل و ذکوان ‘ عصیہ پر لعنت فرما جنہوں نے آپ کی اور آپ کے رسول کی نافرمانی کی ہے۔
تخریج : روایت ١٣٩٨ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
خلاصہ الزام : قنوت کے متعلق طویل کلام ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
نمبر !: احناف و حنابلہ کے ہاں وتر میں تمام سال قنوت ہے مگر امام شافعی صرف رمضان میں مانتے ہیں امام مالک وتر میں قنوت نہیں مانتے۔
نمبر ": ہر قنوت شوافع و حنابلہ کے ہاں رکوع کے بعد مگر احناف قنوت وتر رکوع سے پہلے اور قنوت فجر رکوع کے بعد قرار دیتے ہیں۔
نمبر#: احناف قنوت میں اللہم انا نستعینک اور شوافع و حنابلہ قنوت نازلہ کے الفاظ کو مسنون کہتے ہیں امام مالک قنوت نازلہ مانتے ہیں۔
نمبر$: قنوت کی مشروعیت شوافع و مالکیہ کے ہاں پورا سال فجر میں ہے مگر احناف وتر میں ہمیشہ قنوت اور آفات کے وقت فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ کے قائل ہیں یہاں اسی سے متعلق بحث آئے گی۔
مؤقف اول : امام شافعی و احمد (رح) نماز فجر میں قنوت کو تمام سال مشروع کہتے ہیں جو مندرجہ ذیل روایات سے ماخوذ ہے۔

1402

۱۴۰۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا صَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ، قَالَ (اللّٰہُمَّ أَنْجِ الْوَلِیْدَ بْنَ الْوَلِیْدِ) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٤٠٢: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب عشاء کی نماز ادا فرماتے ہوئے رکوع سے سر اٹھاتے تو یہ دعا کرتے اللہم انج الولید بن الولید پھر اسی طرح روایت نقل کی۔
تخریج : روایت ١٣٩٨ والی روایت سے ملاحظہ کرلیں۔

1403

۱۴۰۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَأُرِیَنَّکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَلِمَۃً نَحْوَہَا. فَکَانَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ وَقَالَ : (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ دَعَا لِلْمُؤْمِنِیْنَ، وَلَعَنِ الْکَافِرِیْنَ)
١٤٠٣: ابو سلمہ نے نقل کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہنے لگے میں ضرور بضرور تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز سکھاؤں گا اور یا اسی طرح کے کلمات کہے پس جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ اور مؤمنین کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت بھیجتے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٢٩٥۔

1404

۱۴۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ قَالَ، ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ (کَانَ اِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ فِی الرَّکْعَۃِ الْأَخِیْرَۃِ مِنْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ قَالَ اللّٰہُمَّ أَنْجِ الْوَلِیْدَ) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ، عَنْ أَبِیْ دَاوٗدَ .
١٤٠٤: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ نماز عشاء کی آخری رکعت میں کہتے تو یہ دعا بھی کرتے ” اللہم انج الولید “ پھر ابو داؤد نے جو ابو بکرہ س روایت نقل کی ہے اس میں ہے کہ وہ اسی جیسے کلمات کہتے ہیں۔
تخریج : روایت ١٣٩٨ کی تخریج ملاحظہ کریں۔

1405

۱۴۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ یَحْیٰی، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَصْبَحَ ذَاتَ یَوْمٍ وَلَمْ یَدْعُ لَہُمْ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ فَقَالَ : أَوَ مَا تَرَاہُمْ قَدْ قَدِمُوْا .
١٤٠٥: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں ایک دن صبح کے وقت آپ نے نام لے کر دعا نہیں کی میں نے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ آگئے ہیں۔

1406

۱۴۰۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَدْعُوَ لِأَحَدٍ أَوْ یَدْعُوَ عَلٰی أَحَدٍ قَنَتَ بَعْدَ الرُّکُوْعِ، وَرُبَّمَا قَالَ اِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ اللّٰہُمَّ أَنْجِ الْوَلِیْدَ) ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (فَأَصْبَحَ ذَاتَ یَوْمٍ، وَلَمْ یَدْعُ لَہُمْ) إِلَی آخِرِ الْحَدِیْثِ .وَزَادَ قَالَ : (یَجْہَرُ بِہٖ وَکَانَ یَقُوْلُ فِیْ بَعْضِ صَلَاتِہِ) اللّٰہُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا أَحْیَائً مِنَ الْعَرَبِ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ) . [آل عمران : ۱۳۸]
١٤٠٦: سعید بن المسیّب اور ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کے لیے دعا کا ارادہ فرماتے یا بددعا کرتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے اور بسا اوقات جب سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہہ لیتے تو فرماتے : اللہم انج الولید پھر بقیہ روایت اسی طرح نقل کی ہے مگر ” فاصبح ذات یوم ولم یدع لہم “ سے آخر روایت تک کے الفاظ نقل نہیں اور یہ الفاظ اس روایت میں زائد ہیں یجہر بہ (کہ آپ یہ دعا جہراً پڑھتے) اور بعض نمازوں میں اللہم العن فلانا فلانا کہ اے اللہ عرب کے فلان قبیلہ پر لعنت کر پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ’ لیس لک من الامر شیٔ او یتوب علیہم او یعذبھم فانہم ظالمون (آل عمران) ۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣ باب ٩ والاستسقاء باب ٣‘ والدعوات باب ٥٨۔

1407

۱۴۰۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ (سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ حِیْنَ رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ : رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ فِی الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ ثُمَّ قَالَ : اللّٰہُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا) عَلٰی نَاسٍ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ) . [آل عمران : ۱۲۸]
١٤٠٧: سالم نے اپنے والد عبداللہ سے نقل کیا کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز صبح میں یہ رکوع کے بعد یہ سنا ربنا ولک الحمد اور دوسری رکعت میں بھی پھر کہا اللہم العن فلان وفلان منافقین میں سے فلان فلان پر لعنت کر تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ” لیس لک منا الامر شیٔ او یتوب علیہم او یعذبہم فانہم ظالمون (آل عمران۔ ١٢٨)
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣‘ باب ٩‘ الاستسقاء والدعوا ات باب ٥٨۔

1408

۱۴۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ، قَالَ : ثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ رَجَائٍ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ .قَالَ : اللّٰہُمَّ أَنْجِ) .ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ، وَزَادَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ).قَالَ : فَمَا دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدُعَائٍ عَلٰی أَحَدٍ) .
١٤٠٨: عبداللہ بن کعب نے عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنا سر مبارک دوسری رکعت کے رکوع سے اٹھاتے تو یہ دعا کرتے اللہم انج پھر ابوہریرہ (رض) جیسی روایت ذکر کی جس کا ہم شروع باب میں ذکر کر آئے البتہ یہ الفاظ زائد ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ” لیس لک من الامر شیئ۔ (آل عمران) راوی کہتے ہیں کہ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے حق میں بددعا نہیں فرمائی۔
تخریج : روایت ١٣٩٨ کی تخرئیج ملاحظہ ہو۔

1409

۱۴۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ حَدَّثَہٗ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْنُتُ فِی الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ .
١٤٠٩: ابن ابی لیلیٰ نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٣٠٥‘ ابو داؤد فی الوتر باب ١٠‘ نمبر ١٤٤١‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٧٧‘ نمبر ٤٠١‘ نسائی فی التطبیق باب ٣٠‘ ابن ماجہ فی الااقامہ باب ١٤٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢١٦‘ مسند احمد ٤؍٢٨٠‘ ٢٩٩۔

1410

۱۴۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، وَشُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنِ الْبَرَائِ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یَقْنُتُ فِی الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ.
١٤١٠: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے براء بن عازب (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و مغرب میں قنوت پڑھتے تھے۔

1411

۱۴۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ نُصَیْرٍ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا .
١٤١١: علقمہ سے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیس روز تک قنوت پڑھی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣١٠۔

1412

۱۴۱۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرِ ڑالْعَبْدِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَرْمَلَۃَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ خُفَافٍ، عَنْ خُفَافِ بْنِ إِیْمَائٍ قَالَ : (رَکَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ غِفَارٌ غَفَرَ اللّٰہُ لَہَا وَأَسْلَمُ سَالَمَہَا اللّٰہُ وَعُصَیَّۃُ، عَصَتِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ، اللّٰہُمَّ الْعَنْ بَنِی لِحْیَانَ، اللّٰہُمَّ الْعَنْ رِعْلًا وَذَکْوَانَ، اللّٰہُ أَکْبَرُ ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا) .
١٤١٢: حارث بن خفاف نے خفاف بن ایمائ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا غفار کو اللہ تعالیٰ بخشے اور اسلم کو سلامت رکھے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے۔ اے اللہ ! بنی لحیان پر لعنت فرما اے اللہ رعل و ذکوان پر لعنت کر ۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر آپ سجدہ میں پڑگئے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٣٠٨‘ مسند احمد ٤؍٥٨۔

1413

۱۴۱۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْکُثَیْرِیُّ الْمَدَنِیُّ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ أُوَیْسٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ اللَّیْثِیِّ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَرْمَلَۃَ الْمُدْلِجِیِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ خُفَافِ بْنِ إِیْمَائِ بْنِ رَحْضَۃَ الْغِفَارِیِّ، عَنْ خُفَافِ بْنِ إِیْمَائٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَنَّہٗ لَمَّا خَرَّ سَاجِدًا قَالَ (اَللّٰہُ أَکْبَرُ) وَزَادَ فَقَالَ خُفَافٌ فَجُعِلَتْ لَعْنَۃُ الْکَفَرَۃِ مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ .
١٤١٣: خالد بن عبداللہ المدلجی نے حارث بن خفاف غفاری (رض) سے روایت نقل کی ہے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ مذکور نہیں کہ جب آپ سجدہ میں گئے تو اللہ اکبر کہا اور یہ الفاظ زائد ہیں خفاف کہتے ہیں اسی لیے کفار کے لیے لعنت مقرر کی گئی۔
تخریج : مسلم ١؍٢٣٧۔

1414

۱۴۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٤١٤: اسماعیل بن ابی کثیر نے محمد بن عمرو سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٩٤۔

1415

۱۴۱۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ، (سُئِلَ أَنَسٌ : أَقَنَتَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ؟ قَالَ : نَعَمْ .فَقِیْلَ لَہٗ - أَوْ فَقُلْتُ لَہٗ - : قَبْلَ الرُّکُوْعِ أَوْ بَعْدَہٗ؟ قَالَ : بَعْدَ الرُّکُوْعِ یَسِیْرًا) .
١٤١٥: ایوب نے محمد سے نقل کیا کہ انس (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ پھر ان سے پوچھا گیا یا میں نے ان سے کہا کیا رکوع سے پہلے یا بعد تو انھوں نے جواب دیا رکوع سے ذرا سی دیر بعد۔
تخریج : بخاری فی الوتر باب ٧‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢١٦۔

1416

۱۴۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عُبَیْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَزَلْ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، حَتّٰی فَارَقْتُہٗ، وَصَلَّیْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمْ یَزَلْ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، حَتّٰی فَارَقْتُہٗ .
١٤١٦: حسن نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کی آپ دنیا سے جانے تک نماز صبح میں قنوت پڑھتے رہے ۔ میں نے اور میں نے عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ نماز ادا کی وہ نماز صبح میں وفات تک قنوت پڑھتے رہے۔
تخریج : دار قطنی ١؍٢٩٢۔

1417

۱۴۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحِ الْوُحَاظِیُّ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ بَشِیْرٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَنَتَ شَہْرًا یَدْعُوْ عَلٰی عُصَیَّۃَ وَذَکْوَانَ وَرِعْلٍ وَلِحْیَانَ) .
١٤١٧: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصیہ و ذکوان اور رعل و لحیان کے خلاف بددعا کرتے ہوئے ایک ماہ تک نماز فجر میں قنوت پڑھی۔
تخریج : بخاری فی الوتر باب ٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ٢٩٩‘ نسائی فی التطبیق باب ٢٦‘ ابن ماجہ فی الاقامامۃ باب ١٢٠‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٢٦‘ مسند احمد ٣؍١٦٧؍١٨٤‘ ٢٣٢؍٢٤٩۔

1418

۱۴۱۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (إِنَّمَا قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرَّکْعَۃِ شَہْرًا .قَالَ : قُلْتُ، فَکَیْفَ الْقُنُوْتُ؟ قَالَ : قَبْلَ الرُّکُوْعِ) .
١٤١٨: عاصم نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع کے بعد ایک ماہ تک قنوت پڑھی ہے میں نے پوچھا وہ قنوت کیسی تھی ؟ آپ نے فرمایا وہ رکوع سے پہلے تھی۔
تخریج : نمبر ١٤١٨ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1419

۱۴۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ الْقُنُوْتِ : قَبْلَ الرُّکُوْعِ أَوْ بَعْدَ الرُّکُوْعِ؟ فَقَالَ : لَا، بَلْ قَبْلَ الرُّکُوْعِ .قُلْتُ : إِنَّ نَاسًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَنَتَ بَعْدَ الرُّکُوْعِ .قَالَ : إِنَّمَا قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْرًا، یَدْعُوْ عَلٰی نَاسٍ قَتَلُوْا نَاسًا مِنْ أَصْحَابِہٖ یُقَالُ لَہُمَ الْقُرَّائُ) .
١٤١٩: عاصم نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے قنوت کے متعلق سوال کیا کہ آیا وہ رکوع سے پہلے ہے یا بعد ؟ تو فرمایا وہ رکوع سے پہلے ہے بعد نہیں۔ میں نے کہا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی تو انھوں نے جواب دیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ تک قنوت پڑھی اس میں قراء کو قتل کرنے والوں کے متعلق بددعا کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الوتر باب ٧۔

1420

۱۴۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شَاذُّ بْنُ فَیَّاضٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : (کَانَ الْقُنُوْتُ فِی الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ) .
١٤٢٠: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ قنوت فجر و مغرب میں تھی۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٢٦‘ وتر باب ٧۔

1421

۱۴۲۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیْ مَخْلَدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْرًا، یَدْعُوْ عَلٰی رَعْلٍ، وَذَکْوَانَ) .
١٤٢١: ابی مخلد نے انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ تک رعل ذکوان پر بددعا کے لیے قنوت پڑھی۔
تخریج : بخاری فی الوتر باب ٧‘ والمغازی باب ٢٨‘ والدعوات باب ٥٨‘ مسلم فی المساجد ٣٠١؍٣٠٣‘ ٣٠٤‘ ابو داؤد فی الوتر باب ١٠‘ مسند احمد ٣‘ ١٦٢؍١٦٧‘ ٢٠٤؍٢١٦‘ ٢٥٥؍٢٥٩۔

1422

۱۴۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ : ثَنَا حَنْظَلَۃُ السَّدُوْسِیُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ مِنْ قُنُوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْ قُلُوْبَہُمْ عَلٰی قُلُوْبِ نِسَائٍ کَوَافِرَ) .
١٤٢٢: حنظلہ سدوسی نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قنوت : واجعل قلوبہم علی قلوب نساء کو افر۔ ان کے دلوں کو کافروں کی عورتوں کے دلوں کی طرح کر دے۔

1423

۱۴۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ جَعْفَرِ ڑالرَّازِیُّ، عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقِیْلَ لَہٗ : إِنَّمَا قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْرًا .فَقَالَ : مَا زَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، حَتّٰی فَارَقَ الدُّنْیَا) .
١٤٢٣: ابو جعفر رازی نے بیان کیا کہ ربیع بن انس کہنے لگے میں حضرت انس بن مالک (رض) کے پاس بیٹھا تھا ان سے پوچھا گیا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ قنوت پڑھی ؟ تو کہنے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز میں وفات تک قنوت پڑھتے رہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢ ص ٢٨۔

1424

۱۴۲۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ قَالَ : (سَأَلْتُ أَنَسًا أَقَنَتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَ : قَدْ قَنَتَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) .
١٤٢٤: شعبہ نے مروان اصفر سے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس (رض) سے سوال کیا کیا حضرت عمر (رض) نے قنوت پڑھی ؟ تو کہنے لگے اس ہستی نے قنوت پڑھی جو عمر سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
تخریج : حازمی فی الناسخ والمنسوخ ابو یعلیٰ ٣؍٣٨۔

1425

۱۴۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ، عَنْ حُمَیْدِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِشْرِیْنَ یَوْمًا) .
١٤٢٥: حمید نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیس دن قنوت پڑھی۔

1426

۱۴۲۶ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرِ ڑ الْبَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ہِلَالٍ الرَّاسِبِیُّ، عَنْ حَنْظَلَۃَ السَّدُوْسِیِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ یُکَبِّرُ حَتّٰی اِذَا فَرَغَ کَبَّرَ فَرَکَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فِی الثَّانِیَۃِ فَقَرَأَ حَتّٰی اِذَا فَرَغَ کَبَّرَ فَرَکَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَدَعَا) .
١٤٢٦: حنظلہ سدوسی نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبح کی نماز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فجر کی نماز میں دیکھا کہ آپ تکبیر کہتے جب قراءت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہہ کر رکوع کرتے پھر سر اٹھاتے اور سجدہ کرتے پھر دوسری میں کھڑے ہو کر قراءت کرتے جب اس سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہہ کر رکوع کرتے پھر رکوع سے سر اٹھاتے تو دعا کرتے۔

1427

۱۴۲۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ، حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : دَعَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِیْنَ صَبَاحًا عَلٰی رَعْلٍ وَذَکْوَانَ وَعُصَیَّۃَ الَّذِیْنَ عَصَوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ) .
١٤٢٧: اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رعل و ذکوان اور عصیہ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تیس روز تک دعا فرمائی۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٢٩٧۔

1428

۱۴۲۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ الدَّسْتُوَائِیُّ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْرًا بَعْدَ الرُّکُوْعِ، یَدْعُوْ عَلٰی حَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ، ثُمَّ تَرَکَہُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی إِثْبَاتِ الْقُنُوْتِ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ ثُمَّ افْتَرَقُوْا فِرْقَتَیْنِ .فَقَالَتْ فِرْقَۃٌ مِنْہُمْ ہُوَ بَعْدَ الرُّکُوْعِ وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ قَبْلَ الرُّکُوْعِ .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ مِنْہُمْ ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔
١٤٢٨: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع کے بعد ایک ماہ تک قنوت پڑھی آپ اس میں عرب کے بعض قبائل کے متعلق دعا فرماتے تھے پھر آپ نے چھوڑ دی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ بعض لوگ نماز فجر میں قنوت کو ثابت کرتے ہیں پھر وہ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ یہ رکوع کے بعد ہے جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ یہ رکوع سے پہلے ہے اور جنہوں نے یہ کہا وہ ابن ابی لیلیٰ اور مالک بن انس (رض) ہیں۔
تخریج : بخاری فی الوتر باب ٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ٣٠٠۔
حاصل روایات : ان روایات میں فجر کی نماز میں قنوت کا پڑھنا ثابت ہو رہا ہے اور بعض روایات سے دوام اور بعض سے آپ کا کچھ وقت تک کے لیے پڑھنا ثابت ہوتا ہے بعدالرکوع کی روایات کثرت سے ہیں جبکہ رکوع سے پہلے بھی ثابت ہے اسی وجہ سے ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک (رح) نے رکوع سے پہلے پڑھنے کا کہا ہے چنانچہ امام مالک کا قول اس طرح منقول ہے۔

1429

۱۴۲۹ : کَمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ مَالِکًا یَقُوْلُ الَّذِیْ أَخَذْتُہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِی الْقُنُوْتُ فِی الْفَجْرِ قَبْلَ الرُّکُوْعِ .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ ذَہَبَ مِنْہُمْ إِلٰی أَنَّہٗ بَعْدَ الرُّکُوْعِ مَا ذَکَرْنَاہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ .وَکَانَتَ الْحُجَّۃُ عَلَیْہِمْ لِلْفَرِیْقِ الْآخَرِ، مَا ذَکَرْنَاہُ فِیْ حَدِیْثِ سُفْیَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَنَتَ بَعْدَ الرُّکُوْعِ شَہْرًا، وَإِنَّمَا الْقُنُوْتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا لَا نَرَی الْقُنُوْتَ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ أَصْلًا قَبْلَ الرُّکُوْعِ وَلَا بَعْدَہٗ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ھٰذِہِ الْآثَارَ الْمَرْوِیَّۃَ فِی الْقُنُوْتِ، قَدْ رُوِیَتْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَکَانَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی ذٰلِکَ عَنْہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَنَتَ ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا) .فَکَانَ قَدْ ثَبَتَ عِنْدَہٗ قُنُوْتُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِلْمُہٗ ثُمَّ قَدْ وَجَدْنَا عَنْہُ۔
١٤٢٩: ابن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک (رح) کو یہ کہتے سنا کہ میرے دل میں جو بات بیٹھی ہے وہ یہ ہے کہ قنوت فجر میں رکوع سے پہلے پڑھی جائے۔ جن حضرات کے ہاں رکوع کے بعد قنوت ہے ان کی مستدل روایات ابوہریرہ (رض) ابن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہیں ان کے خلاف دوسری جماعت کا کہنا ہے قنوت صرف ایک ماہ پڑھی گئی اور قنوت رکوع سے پہلے ہے ان کی مستدل روایات میں انس (رض) کی روایت ہے کہ قنوت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ پڑھی اور رکوع سے پہلے پڑھی ان دونوں کو فریق اوّل کے عنوان سے ذکر کر کے یہ روایات ذکر کردی گئی ہیں۔ دوسرے حضرات نے اس سلسلے میں ان کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ قنوت کے سلسلہ میں آنے والی روایات جن کا ہم نے ذکر کیا ہے ‘ ان میں سے ایک راوی حضرت ابن مسعود (رض) ہیں ہم نے ان کی روایت بھی نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیس روز تک قنوت پڑھی۔ پس ان کے ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قنوت پڑھنا ثابت و معلوم تھا۔ پھر ہم نے یہ روایت پائی۔
فریق ثانی کا مؤقف :
فجر میں قنوت نہ رکوع سے پہلے ہے اور نہ بعد میں باقی ان روایات کے بالتفصیل جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جواب روایت ابن مسعود (رض) :
اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیس دن تک قنوت پڑھی گویا انھوں نے آپ کی قنوت معلوم کی اب انہی سے مروی دیگر روایات ملاحظہ فرمائیں تاکہ اس روایت کا موقوف ہونا معلوم ہوجائے۔

1430

۱۴۳۰ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (لَمْ یَقْنُتِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا شَہْرًا لَمْ یَقْنُتْ قَبْلَہٗ وَلَا بَعْدَہُ) .
١٤٣٠: علقمہ نے عبداللہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ قنوت پڑھی اس سے پہلے اور بعد نہیں پڑھی۔
تخریج : طبرانی معجم کبیر ١٠؍٨٣۔

1431

۱۴۳۱ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْشَرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَمْزَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْرًا یَدْعُوْ عَلٰی عُصَیَّۃَ وَذَکْوَانَ .فَلَمَّا ظَہَرَ عَلَیْہِمْ تَرَکَ الْقُنُوْتَ وَکَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَھٰذَا ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ قُنُوْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ إِنَّمَا کَانَ مِنْ أَجْلِ مَنْ کَانَ یَدْعُوْ عَلَیْہِ، وَإِنَّہٗ قَدْ کَانَ تَرَکَ ذٰلِکَ فَصَارَ الْقُنُوْتُ مَنْسُوْخًا فَلَمْ یَکُنْ ہُوَ مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْنُتُ .وَکَانَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی ذٰلِکَ أَیْضًا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .ثُمَّ قَدْ أَخْبَرَہُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ - نَسَخَ ذٰلِکَ حِیْنَ أَنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ .فَصَارَ ذٰلِکَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَنْسُوْخًا أَیْضًا، فَلَمْ یَکُنْ ہُوَ یَقْنُتُ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَکَانَ یُنْکِرُ عَلٰی مَنْ کَانَ یَقْنُتُ۔
١٤٣١: علقمہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ تک عصیہ و ذکوان کے متعلق بددعا کے لیے قنوت پڑھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حضرت ابن مسعود (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قنوت تو کفار کے خلاف بد دعا کے لیے تھا اور آپ نے اس کو چھوڑ دیا تو قنوت منسوخ ہوگئی۔ چنانچہ آپ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قنوت کے روات میں حضرت ابن عمر (رض) بھی ہیں۔ وہ بتلا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے { لیس لک من الامر شیٔ} کو اتار کر قنوت کو منسوخ کردیا۔ پس حضرت ابن عمر (رض) کے ہاں بھی منسوخ ہوچکی۔ پس اسی بناء پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد قنوت نہ پڑھتے تھے۔ بلکہ پڑھنے والوں پر اعتراض کرتے تھے۔
تخریج : طبرانی فی المعجم الکبیر ١٠؍٨٤۔
قنوت بلاشبہ پڑھی گئی مگر جب ان کو غالب معلوم ہوگیا یہ کہ حکم منسوخ ہوگیا تو انھوں نے قنوت ترک کردی چنانچہ ابن مسعود (رض) فجر کی نماز میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں ابن مسعود (رض) بتلا رہے ہیں کہ آپ کا قنوت پڑھنا ایک حادثاتی معاملے کی وجہ سے ہوا پھر آپ نے چھوڑ دیا تو قنوت کا پڑھنا منسوخ ہوگیا اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قنوت نہ پڑھتے تھے۔
جواب روایت ابن عمر (رض) :
حضرت ابن عمر (رض) نے ذکر کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم منسوخ کردیا جبکہ اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت اتاری ” لیس لک من الامر شئی او یتوب علیہم او یعذبھم فانہم ظالمون “ (آل عمران) گویا نماز فجر میں رکوع کے بعد جو قنوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خصوصی حوادث کی وجہ سے پڑھتے تھے وہ بھی اس آیت سے منسوخ ہوگئی یہی وجہ ہے کہ ابن عمر (رض) فجر میں قنوت پڑھنے والوں پر نکیر فرماتے کہ خلفاء راشدین اور اجلّہ صحابہ کرام نے تو یہ قنوت نہیں پڑھی جیسا کہ ان روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے۔

1432

۱۴۳۲ : کَمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ ثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ أَبِیْ مِجْلَزٍ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الصُّبْحَ فَلَمْ یَقْنُتْ فَقُلْتُ آلْکِبْرُ یَمْنَعُک؟ فَقَالَ : مَا أَحْفَظُہٗ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِیْ.
١٤٣٢: قتادہ نے ابو مجلز سے نقل کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) کے پیچھے فجر کی نماز ادا کی انھوں نے قنوت نہ پڑھی تو میں نے کہا کیا بڑھاپے کی وجہ سے آپ نے قنوت نہیں پڑھی ! تو فرمانے لگے مجھے تو اپنے ساتھیوں میں سے کسی کے متعلق یاد نہیں کہ وہ قنوت پڑھتا ہو۔
تخریج : مجمع الزوائد ٢؍٣٨٢۔

1433

۱۴۳۳ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَمُؤَمَّلٌ، قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْقُنُوْتِ فَقَالَ : مَا شَہِدْتُ وَمَا رَأَیْتُ ھٰکَذَا فِیْ حَدِیْثِ وَہْبٍ وَفِیْ حَدِیْثِ مُؤَمَّلٍ وَلَا رَأَیْتُ أَحَدًا یَفْعَلُہٗ) .
١٤٣٣: ابوالشعشاء کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے قنوت سے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا نہ میں نے اسے دیکھا اور نہ اس کا مشاہدہ کیا۔ یہ وہب و مؤمل کی روایت میں بھی اسی طرح ہے۔ نہ میں نے اکابر صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے پایا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٠٩۔

1434

۱۴۳۴ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ، عَنِ الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْقُنُوْتِ ؛ فَقَالَ : وَمَا الْقُنُوْتُ فَقَالَ : اِذَا فَرَغَ الْاِمَامُ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ فِی الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ، قَامَ یَدْعُوْ قَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا یَفْعَلُہٗ وَإِنِّیْ لَأَظُنّکُمْ - مُعَاشِرَ أَہْلِ الْعِرَاقِ تَفْعَلُوْنَہُ۔
١٤٣٤: اشعث نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ابن عمر سے قنوت کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا قنوت کیا ہے ؟ اس نے کہا جب امام دوسری رکعت کی قراءت سے فراغت پالے تو کھڑے ہو کر دعا کرے ابن عمر (رض) فرمانے لگے میں نے تو نہیں دیکھا کہ کوئی اسے کرتا ہو اور میرے خیال میں تو اہل عراق اس کو کرتے ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٢

1435

۱۴۳۵ : وَکَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ تَمِیْمِ بْنِ سَلَمَۃَ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْقُنُوْتِ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ مَا رَأَیْتُ وَلَا عَلِمْتُ.فَوَجْہُ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ أَنَّہٗ رَأَی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ قَنَتَ حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ فَتَرَکَ لِذٰلِکَ الْقُنُوْتَ الَّذِیْ کَانَ یَقْنُتُہُ) .وَسَأَلَہُ أَبُوْ مِجْلَزٍ فَقَالَ آلْکِبْرُ یَمْنَعُک مِنَ الْقُنُوْتِ؟ فَقَالَ : مَا أَحْفَظُہُ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِیْ یَعْنِی مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْ أَنَّہُمْ لَمْ یَفْعَلُوْہُ بَعْدَ تَرْکِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ .وَسَأَلَہُ أَبُوْ الشَّعْثَائِ عَنِ الْقُنُوْتِ وَسَأَلَہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ ذٰلِکَ الْقُنُوْتِ مَا ہُوَ فَأَخْبَرَہٗ أَنَّ الْاِمَامَ اِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ فِی الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ قَامَ یَدْعُو .فَقَالَ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا یَفْعَلُہُ لِأَنَّ مَا کَانَ ہُوَ عَلِمَہُ مِنْ قُنُوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ الدُّعَائُ بَعْدَ الرُّکُوْعِ وَأَمَّا قَبْلَ الرُّکُوْعِ فَلَمْ یَرَہٗ مِنْہُ وَلَا مِنْ غَیْرِہِ فَأَنْکَرَ ذٰلِکَ مِنْ أَجْلِہٖ۔ فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا رَوَیْنَا عَنْہُ، نَسْخُ قُنُوْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرُّکُوْعِ، وَنَفْیُ الْقُنُوْتِ قَبْلَ الرُّکُوْعِ أَصْلًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَمْ یَکُنْ یَفْعَلُہٗ وَلَا خُلَفَاؤُہُ مِنْ بَعْدِہٖ .وَکَانَ أَحَدُ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ الْقُنُوْتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ فَأَخْبَرَ فِیْ حَدِیْثِہٖ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ عَنْہُ بِأَنَّ مَا کَانَ یَقْنُتُ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُعَائٌ عَلٰی مَنْ کَانَ یَدْعُوْ عَلَیْہِ، وَأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ نَسَخَ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ) الْآیَۃَ، فَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا وُجُوْبُ تَرْکِ الْقُنُوْتِ فِی الْفَجْرِ وَکَانَ أَحَدُ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ أَیْضًا خُفَافُ بْنُ إِیْمَائٍ فَذَکَرَ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَمَّا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ أَسْلَمُ سَالَمَہَا اللّٰہُ، وَغِفَارٌ غَفَرَ اللّٰہُ لَہَا، وَعُصَیَّۃُ عَصَتْ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ، اللّٰہُمَّ الْعَنْ بَنِی لِحْیَانَ وَمَنْ ذُکِرَ مَعَہُمْ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ لَعَنَ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَفِیْ حَدِیْثَیْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ وَقَدْ أَخْبَرَاہُمَا فِیْ حَدِیْثِہِمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرَکَ ذٰلِکَ حِیْنَ أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ الْآیَۃُ الَّتِیْ ذَکَرْنَا .فَفِیْ حَدِیْثِہِمَا النَّسْخُ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ خُفَافِ بْنِ إِیْمَائٍ فَہُمَا أَوْلٰی مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ إِیْمَائٍ، وَفِیْ ذٰلِکَ وُجُوْبُ تَرْکِ الْقُنُوْتِ أَیْضًا .وَکَانَ أَحَدُ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ ذٰلِکَ أَیْضًا الْبَرَائُ، فَرُوِیَ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْنُتُ فِی الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ) ، وَلَمْ یُخْبِرْ بِقُنُوْتِہٖ ذٰلِکَ مَا ہُوَ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْقُنُوْتُ الَّذِیْ رَوَاہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ وَمَنْ رَوٰی ذٰلِکَ مَعَہُمَا، ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ أَیْضًا وَقَدْ قَرَنَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْفَجْرِ فَذَکَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْنُتُ فِیْہِمَا .فَفِیْ إِجْمَاعِ مُخَالِفِنَا لَنَا، عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ یَفْعَلُہٗ فِی الْمَغْرِبِ مِنْ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ، لَیْسَ لِأَحَدٍ بَعْدَہُ أَنْ یَفْعَلَہُ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ یَفْعَلُہٗ فِی الْفَجْرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَکَانَ أَحَدُ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا الْقُنُوْتَ فِی الْفَجْرِ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَرَوٰی عَمْرُو بْنُ عُبَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَزَلْ یَقْنُتُ بَعْدَ الرُّکُوْعِ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، حَتّٰی فَارَقَہُ) .فَأَثْبَتَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الْقُنُوْتَ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ وَأَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یُنْسَخْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ مِنْ وُجُوْہٍ، خِلَافُ ذٰلِکَ، فَرَوٰی أَیُّوْبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ : سُئِلَ أَنَسٌ أَقَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ فَقَالَ نَعَمْ .فَقِیْلَ لَہٗ : قَبْلَ الرُّکُوْعِ أَوْ بَعْدَہٗ .فَقَالَ : بَعْدَ الرُّکُوْعِ یَسِیْرًا .وَرَوٰی إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : (قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِیْنَ صَبَاحًا، عَلٰی رَعْلٍ وَذَکْوَانَ) .وَرَوَیْ قَتَادَۃُ عَنْہُ نَحْوًا مِنْ ذٰلِکَ .وَرَوٰی عَنْہُ حُمَیْدٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَنَتَ عِشْرِیْنَ یَوْمًا .فَہَؤُلَائِ کُلُّہُمْ قَدْ أَخْبَرُوْا عَنْہُ خِلَافَ مَا رَوٰی عَمْرٌو عَنِ الْحَسَنِ، وَقَدْ رَوٰی عَاصِمٌ عَنْہُ إِنْکَارَ الْقُنُوْتِ بَعْدَ الرُّکُوْعِ أَصْلًا وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ شَہْرًا وَلَکِنَّ الْقُنُوْتَ قَبْلَ الرُّکُوْعِ فَضَادَّ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا رَوٰی عَمْرُو بْنُ عُبَیْدٍ وَخَالَفَہُ .فَلَمْ یَجُزْ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْتَجَّ فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِأَحَدِ الْوَجْہَیْنِ مِمَّا رُوِیَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِأَنَّ لِخَصْمِہِ أَنْ یَحْتَجَّ عَلَیْہِ بِمَا رُوِیَ عَنْ أَنَسٍ مِمَّا یُخَالِفُ ذٰلِکَ .وَأَمَّا قَوْلُہٗ : وَلَکِنَّ الْقُنُوْتَ قَبْلَ الرُّکُوْعِ فَلَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ أَخَذَہُ عَمَّنْ بَعْدَہُ أَوْ رَأْیًا رَآہُ .فَقَدْ رَأَیْ غَیْرُہٗ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَ ذٰلِکَ، فَلَا یَکُوْنُ قَوْلُہُ أَوْلٰی مِنْ قَوْلِ مَنْ خَالَفَہُ إِلَّا بِحُجَّۃٍ تُبَیِّنُ لَنَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَقَدْ رَوٰی أَبُوْ جَعْفَرِ ڑ الرَّازِیّ عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ (کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقِیْلَ لَہٗ : إِنَّمَا قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْرًا .فَقَالَ مَا زَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، حَتّٰی فَارَقَ الدُّنْیَا .قِیْلَ لَہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْقُنُوْتُ ہُوَ الْقُنُوْتَ الَّذِیْ رَوَاہُ عَمْرٌو عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَقَدْ ضَادَّہٗ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْقُنُوْتُ ہُوَ الْقُنُوْتَ قَبْلَ الرُّکُوْعِ الَّذِیْ ذَکَرَہٗ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ عَاصِمٍ .فَلَمْ یَثْبُتْ لَنَا عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقُنُوْتِ قَبْلَ الرُّکُوْعِ شَیْئٌ ، وَقَدْ ثَبَتَ عَنْہُ النَّسْخُ لِلْقُنُوْتِ بَعْدَ الرُّکُوْعِ. وَکَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَحَدَ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا الْقُنُوْتُ فِی الْفَجْرِ، فَذٰلِکَ الْقُنُوْتُ ہُوَ دُعَائٌ لِقَوْمٍ وَدُعَائٌ عَلَی آخَرِیْنَ .وَفِیْ حَدِیْثِہٖ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرَکَ ذٰلِکَ حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ ) الْآیَۃَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ھٰذَا ھٰکَذَا، وَقَدْ کَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْنُتُ فِی الصُّبْحِ فَذَکَرَ مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ح .
١٤٣٥: نعیم بن سلمہ کہتے ہیں ابن عمر (رض) سے قنوت کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے اسی طرح کی بات فرمائی جو پہلی روایت میں گزری صرف فرق یہ تھا ” مارأیت ولا علمت “ نہ میں نے یہ دیکھا اور نہ میں اسے جانتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت کی وضاحت اس سلسلہ میں اس طرح ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حالت میں دیکھا کہ جب آپ دوسری رکعت کے رکوع سے اٹھتے تو قنوت پڑھتے ‘ یہاں تک کہ { لیس لک من الامر القرآن } آیت نازل ہوئی۔ اس وقت آپ نے اس قنوت کو ترک کردیا۔ چنانچہ ابو مجلز نے ان سے دریافت کیا آپ بڑھاپے کی وجہ سے قنوت نہیں پڑھتے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے تو تو اپنے کسی دوست کے متعلق بھی یہ بات یاد نہیں کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چھوڑنے کے بعد اس کو اختیار کیا ہو۔ ابو شعثاء نے جب ان سے قنوت کے متعلق دریافت کیا اور خود ابن عمر (رض) ان کے سوال پر فرمایا وہ قنوت کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب بتلایا کہ امام جب دوسری رکعت کی قراءت سے فارغ ہوجائے تو وہ دعا مانگے۔ وہ فرمانے لگے میں نے تو کسی کو یہ عمل کرتے نہیں دیکھا اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قنوت تو رکوع کے بعد دعا کی صورت میں تھی۔ مگر رکوع سے پہلے انھوں نے نہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تھا اور نہ کسی اور کو ‘ اس وجہ سے انھوں نے تعجب کرتے ہوئے انکار فرمایا۔ ہم نے ان کی جو روایت ذکر کی ہے اس سے رکوع کے بعد والی قنوت کا نسخ ثابت ہوگیا۔ اور رکوع ماقبل قنوت کی انھوں نے خود نفی کردی اور یہ واضح کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپکے بعد خلفاء کا یہ طرز عمل نہ تھا۔ قنوت کے منجملہ روات میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی اس روایت میں جو ہم نے ذکر کی ‘ یہ واضح کردیا کہ آپ کی قنوت تو کفار کے خلاف بد دعا تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے { لیس لک من الامر القرآن } کے ذریعے اس کو منسوخ کردیا۔ اس روایت سے بھی نماز فجر میں قنوت کے ترک کا وجوب ثابت ہوا۔ قنوت کے روات میں حضرت خفاف بن ایمائ (رض) کا نام بھی آتا ہے ان کی روایت میں یہ ہے کہ آپ نے جب رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا کہ اللہ قبیلہ اسلم والوں کو سلامت رکھے اور غفار کی بخشش فرمائے اور عصبہ قبیلہ کے لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ‘ اے اللہ بنو لحیان اور ان کے ساتھ جو مذکور ہوئے ان پر لعنت کر۔ اس روایت کے مطابق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض افراد و قبائل پر لعنت کی اور ابن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) نے اپنی روایات میں بتلایا کہ آیت لیس لک اترنے پر اس لعنت کرنے کو ترک کردیا تھا۔ پس ان دونوں روایات میں خفاف بن ایمائ (رض) کی روایت کی طرح نسخ ہے۔ یہ دونوں روایات اس روایت سے اعلیٰ ہیں اگر حضرت خفاف (رض) کی روایت قنوت کے چھوڑنے کو لازم کر رہی ہے۔ اور قنوت کو روایت کرنے والوں میں حضرت براء بن عازب (رض) بھی ہیں ‘ ان کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ آپ نماز فجر و مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ‘ مگر اس قنوت کی حقیقت روایت میں مذکور نہیں۔ تو ممکن ہے کہ یہ وہی قنوت ہو جس کو ابن عمر اور عبدالرحمن ابن ابی بکر (رض) نے اپنی روایات میں ذکر کیا ‘ اور ان سے یہ منقول ہوئی پھر منسوخ ہوگئی اور اس کا نسخ بھی اس آیت سے ہوا اور اس میں فجر و مغرب کا اکٹھا ذکر کیا کہ ان میں قنوت پڑھی جاتی تھی۔ مغرب کے بارے میں تو ہمارے مخالفین کو بھی اتفاق ہے کہ وہ منسوخ ہوچکی۔ تو ہم کہتے ہیں فجر کے متعلق بھی یہی حکم ہے کسی نسخ کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔ قنوت کے روات میں حضرت انس بن مالک (رض) نام بھی آتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز رکوع کے بعد وفات تک قنوت پڑھتے رہے۔ اس روایت میں یہ فجر میں قنوت کا عدم نسخ ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس روایت کے روات اس کو مختلف انداز سے بیان کیا ‘ چنانچہ ہم عرض کرتے ہیں : (١) ابن سیرین کی روایت میں ہے کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر میں قنوت پڑھی تو انھوں نے کہا جی ہاں۔ پھر میں نے پوچھا کیا رکوع سے پہلے یا بعد۔ تو انھوں نے فرمایا ذرا بعد میں۔ (٢) اسحاق کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ماہ تک صبح کی نماز میں رعل و ذکوان کے لیے قنوت پڑھی۔ (٣) قتادہ کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ (٤) حمید کی روایت میں ہے کہ بیس دن قنوت پڑھنے کا تذکرہ ہے۔ یہ تمام حضرات حضرت انس (رض) سے اس روایت کے خلاف ذکر کر رہے ہیں جو حسن نے ان سے نقل کی ہے۔ عاصم تو رکوع کے بعد قنوت کا بالکل انکار کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے صرف ایک ماہ قنوت پڑھی اور وہ بھی رکوع سے پہلے تھی۔ چنانچہ یہ روایت بھی عمرو کی روایت کے برعکس ہے۔ پس حضرت انس (رض) کی روایت سے کسی کو استدلال کا حق نہیں کیونکہ دوسرا فریق انہی کی دوسری سند والی روایت کو پیش کر دے گا۔ باقی روایت کا یہ جملہ ” لکن القنوت قبل الرکوع “ انھوں نے اسے مرفوع نقل نہیں کیا ‘ عین ممکن ہے کہ یہ ان کی رائے ہو یا بعد والوں سے لیا ہو۔ اس لیے کہ دیگر صحابہ کرام کی رائے اس کے خلاف ہے۔ پس ان کا قول ان کے بالمقابل دوسرے لوگوں سے واضح دلیل کے بغیر اولیت اختیار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرلے حضرت ربیع بن انس کہتے ہیں میں انس (رض) کے پاس بیٹھا تھا ان سے پوچھا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ قنوت پڑھی ہے تو انس کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات تک قنوت پڑھی ہے۔ ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ یہ حسن کی روایت والی قنوت ہے اگر بات اسی طرح ہو۔ تو یہ مذکورہ بالا روایت سے متضاد ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ رکوع سے پہلے والی قنوت ہو جو عاصم کی روایت میں ہے۔ حالانکہ حضرت انس (رض) کی رکوع سے پہلے قنوت میں ایک رویت بھی ان سے ثابت نہیں بلکہ رکوع کے بعد قنوت کا نسخ ان سے ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بھی قنوت کے روات سے ہیں اور قنوت فجر کے راوی ہیں جو کہ ایک قوم کے خلاف بد دعا تھی اور اسی روایت میں موجود ہے کہ آیت { لیس لک من الامر القرآن } کے نزول کے بعد آپ نے اسے ترک کردیا اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ اس طرح ہو جبکہ خود حضرت ابوہریرہ (رض) صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے۔ جیسا کہ یونس کی یہ روایت ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ مثلہ ٦٩٧٧۔
حاصل روایات : ان روایات سے ابن عمر (رض) کا ان لوگوں کے بارے میں انکار ظاہر ہوتا ہے جو قنوت فجر کے قائل تھے۔ ابن عمر (رض) نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ دوسری رکعت سے سر اٹھاتے تو قنوت پڑھتے تھے اور یہ اس وقت تک پڑھتے رہے یہاں تک کہ یہ آیت : لیس لک من الامر شیء (آل عمران) “ نازل ہوئی تو آپ نے یہ ترک فرما دیا کیونکہ سبب قنوت ختم ہوگیا غور فرمائیں کہ آپ سے ابو مجلز نے سوال کیا کہ کیا آپ بڑھاپے کی وجہ سے قنوت ترک کرتے ہیں تو فرمایا اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ چیز میں نے ترک کے بعد نہیں دیکھی۔ پس ابن عمر (رض) کی روایت کو قنوت کے ثبوت میں اس انکار کے ہوتے ہوئے پیش کرنا درست نہیں پھر مزید توجہ فرمائیں کہ ابوالشعثاء نے قنوت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ابو مجلز سے دریافت کیا قنوت کیا ہے ؟ ابو مجلز سے کہا کہ دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے نماز صبح میں دعا کرتے ہیں اس کو قنوت کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا میں نے تو کسی کو کرتے نہیں دیکھا اس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا وہ رکوع کے بعد تھا اور وہ بھی ایک ماہ کے محدود وقت کے لیے تھا باقی رکوع سے پہلے انھوں نے نہ دیکھا تھا اس لیے انکار فرمایا اب اس انکار سے خود یہ ثابت ہوا کہ انھوں نے نسخ سے پہلے کا تو اقرار کیا نسخ کے بعد رکوع کے بعد والا قنوت بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء راشدین سے انھوں نے نہ دیکھا اور رکوع سے پہلے تو انھوں نے بالکل نہ دیکھا نہ جانا پس ابن عمر (رض) کی روایت سے قنوت پر استدلال بےجا ضد ہوگی۔
جواب روایت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) :
ان کی روایت میں جس قنوت کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثبوت مل رہا ہے وہ ان قبائل عرب سے متعلق تھی جب اللہ تعالیٰ نے لیس لک الایہ اتاری تو اسے بھی منسوخ کردیا اور آپ نے بددعا کو موقوف فرما دیاپس ان کی روایت سے استدلال بھی درست نہیں ہے۔
جواب روایت حضرت خفاف بن ایمائ (رض) :
اس روایت میں مذکور ہے کہ جب آپ رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو بعض قبائل کے نام لے کر دعا اور بعض کے نام لے کر بددعا فرماتے اس سے معلوم ہوا کہ ان کی روایت کا مصداق روایت ابن عمر (رض) ‘ عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کا مصداق ایک ہے تو جب روایت ابن مسعود (رض) اور ابن عمر (رض) آیت کریمہ لیس لک الایہ سے منسوخ ہے تو خفاف بن ایمائ (رض) کی روایت بدرجہ اولیٰ منسوخ ہے۔ پس اس سے ثبوت قنوت پر استدلال درست نہیں۔
روایت براء بن عازب (رض) کا جواب :
ان کی روایت میں مطلق قنوت کا ذکر ہے ممکن ہے اس سے قنوت فجر مراد لیا جائے تو آیت سے جس طرح دوسری روایات منسوخ میں یہ بھی منسوخ نیز اس روایت میں قنوت مغرب کا بھی تذکرہ ہے جو کہ سب کے ہاں منسوخ ہے تو جب ایک چیز منسوخ ہوا تو دوسرا بدرجہ اولیٰ منسوخ ہوگا پس اس سے استدلال تام نہ ہوا اس سے قنوت کا وجوب ثابت ہوا نہ کہ وجوب۔
ترک وجوب حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت کا جواب :
حضرت انس (رض) سے روایت کرنے والے چھ شاگرد ہیں۔
نمبر !: عمرو بن عبید عن حسن اس میں وفات تک نماز فجر میں قنوت کا تذکرہ ہے۔
نمبر ": ابن سیرین کی روایت میں رکوع کے بعد مختصر قنوت کا ثبوت ہے۔
نمبر#: اسحاق بن عبداللہ کی روایت میں ایک ماہ کے لیے رعل ‘ ذکوان کے لیے بددعا کے موقعہ پر قنوت کا تذکرہ ہے۔
نمبر$: قتادہ کی روایت میں بھی انہی قبائل کے لیے اس کا پڑھنا ثابت ہے۔
نمبر%: حمید بن ابی حمید کی روایت میں بیس روز کے لیے قنوت کا تذکرہ ہے گویا ان تمام نے عمرو بن عبید کی روایت کے خلاف نقل کیا ہے اور قنوت کو وفات تک نہیں بلکہ چند روز کے لیے تسلیم کیا ہے۔
نمبر & عاصم بن کلیب کی روایت میں رکوع کے بعد والی قنوت کا سرے سے انکار ہے اور صرف ایک ماہ تک پڑھنا ثابت ہے البتہ عام حالات میں رکوع سے پہلے قنوت کا پڑھنا انھوں نے سب کے خلاف نقل کیا ہے۔
حاصل یہ ہوا کہ حضرت انس (رض) کی روایت سے موافق و مخالف ہر دو استدلال کرسکتے ہیں پس یہ بنیادی استدلال کے مناسب نہ ٹھہری اب رہی رکوع سے پہلے قنوت والی بات تو یہ عین ممکن ہے ان کی اجتہادی رائے ہو اور ان کی اجتہادی رائے دیگر جمہور صحابہ کے بالمقابل تسلیم نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے حق میں کوئی شرعی دلیل نہیں۔
فان قال قائل :
سے اشکال ذکر کیا کہ جب حضرت انس (رض) کی روایت میں اس کا زندگی کے آخری لمحات تک پڑھنا ثابت ہے تو اس کو محدود سے ماننا کس طرح درست ہوا۔
(رح) : روایت ربیع بن انس میں جس قنوت کا تذکرہ آخری لمحات تک بتلایا گیا اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر !: یہ وہی قنوت ہے جس کا تذکرہ روایت عمرو عن الحسن میں آچکا تو یہ روایت دیگر ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔
نمبر ": دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے قنوت قبل الرکوع مراد ہو جو کہ عاصم بن کلیب کی روایت میں وارد ہے حالانکہ حضرت انس (رض) سے قنوت قبل الرکوع کی کوئی روایت ثابت نہیں اس کا نسخ تو سب مانتے ہیں اور بعدالرکوع کا نسخ خود روایت انس میں ثابت ہے پس اس روایت سے استدلال مضبوط بنیاد نہیں رکھتا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کا جواب :
اس روایت میں بھی جس قنوت کا تذکرہ ہے وہ بعض قبائل کے لیے دعا اور دوسروں کے لیے بددعا کے ذکر والی ہے اور اس کا نسخ لیس لک من الامر شیء (آل عمران) والی آیت سے ہوچکا ہے پس استدلال میں پیش نہیں کی جاسکتی۔
فان قال قائل سے اشکال ذکر کیا : حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے جس کو عبداللہ بن یوسف اور اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے۔

1436

۱۴۳۶ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَا : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ، عَنِ الْأَعْرَجِ قَالَ : کَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْمَنْسُوْخَ عِنْدَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا کَانَ ہُوَ الدُّعَائَ عَلٰی مَنْ دَعَا عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَمَّا الْقُنُوْتُ الَّذِیْ کَانَ مَعَ ذٰلِکَ، فَلَا .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ یُوْنُسَ بْنَ یَزِیْدَ قَدْ رَوٰی عَنِ الزُّہْرِیِّ فِیْ حَدِیْثِ الْقُنُوْتِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ، مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ بِطُوْلِہِ .ثُمَّ قَالَ فِیْہِ : ثُمَّ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّہٗ تَرَکَ ذٰلِکَ حِیْنَ أُنْزِلَ عَلَیْہِ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ ) الْآیَۃَ " ، فَصَارَ ذِکْرُ نُزُوْلِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ الَّذِیْ کَانَ بِہٖ النَّسْخُ، مِنْ کَلَامِ الزُّہْرِیِّ، لَا مِمَّا رَوَاہُ عَنْ سَعِیْدٍ، وَأَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ نُزُوْلُ ھٰذِہِ الْآیَۃِ لَمْ یَکُنْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلِمَہُ، فَکَانَ یَعْمَلُ عَلٰی مَا عَلِمَ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقُنُوْتِہٖ إِلٰی أَنْ مَاتَ لِأَنَّ الْحُجَّۃَ لَمْ تَثْبُتْ عِنْدَہٗ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .وَعَلِمَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ أَنَّ نُزُوْلَ ھٰذِہِ الْآیَۃِ کَانَ نَسْخًا لِمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہُ فَانْتَہَیَا إِلٰی ذٰلِکَ وَتَرَکَا بِہٖ الْمَنْسُوْخَ الْمُتَقَدِّمَ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ إِیْمَائٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ - حِیْنَ رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرَّکْعَۃِ غِفَارٌ غَفَرَ اللّٰہُ لَہَا حَتّٰی ذَکَرَ مَا ذَکَرَ فِیْ حَدِیْثِہٖ ثُمَّ قَالَ " اللّٰہُ أَکْبَرُ " وَخَرَّ سَاجِدًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ جَمِیْعَ مَا کَانَ یَقُوْلُہُ ہُوَ مَا تَرَکَ بِنُزُوْلِ تِلْکَ الْآیَۃِ وَمَا کَانَ یَدْعُوْ بِہٖ مَعَ ذٰلِکَ مِنْ دُعَائِہٖ لِلْأَسْرَی الَّذِیْنَ کَانُوْا بِمَکَّۃَ، ثُمَّ تَرَکَ ذٰلِکَ عِنْدَمَا قَدِمُوْا . وَقَدْ رَوٰی أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا، فِیْ حَدِیْثِ یَحْیَی بْنِ کَثِیْرٍ الَّذِیْ قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَّا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ عَنْہُ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَذَکَرَ الْقُنُوْتَ .وَفِیْہِ قَالَ : أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (وَأَصْبَحَ ذَاتَ یَوْمٍ وَلَمْ یَدْعُ لَہُمْ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ فَقَالَ : أَوَ مَا تَرَاہُمْ قَدْ قَدِمُوْا عَلَیَّ؟) فَفِیْ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ الْقُنُوْتَ فِی الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ، کَمَا کَانَ یَقُوْلُہُ فِی الصُّبْحِ، وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ مِنْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ بِکَمَالِہٖ لَا إِلٰی قُنُوْتٍ غَیْرِہٖ، فَالْفَجْرُ أَیْضًا فِی النَّسْخِ کَذٰلِکَ .فَلَمَّا کَشَفْنَا وُجُوْہَ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقُنُوْتِ، فَلَمْ نَجِدْہَا تَدُلُّ عَلَی وُجُوْبِہٖ الْآنَ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ لَمْ نَأْمُرْ بِہٖ فِیْہَا وَأَمَرْنَا بِتَرْکِہِ، مَعَ أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْکَرَہٗ أَصْلًا۔
١٤٣٦: جعفر بن ربیعہ نے اعرج سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نماز صبح میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے ہاں بددعا تو منسوخ ہوئی مگر اصل قنوت اسی طرح باقی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس روایت سے یہ دلالت مل گئی کہ منسوخ بد دعا ہوئی ‘ قنوت منسوخ نہیں ہوئی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یونس نے زہری سے اس باب کے شروع میں جو طویل روایت نقل کی اس میں یہ ہے کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ آپ آیت { لیس لک من الامر } کے نزول کے بعد اس کو چھوڑ دیا تھا۔ تو اس کے مطابق آیت سے نسخ والا کلام زہری کا ہے۔ ابوہریرہ (رض) کا کلام نہ بنا۔ اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کو نزول آیت کا علم نہ ہوا ہو ‘ اور وہ آپ کی وفات تک آپ کے گزشتہ فعل اور قنوت پر عمل کرتے رہے ہوں ‘ کیونکہ ان کے ہاں اس کے خلاف دلیل نہیں ملی۔ جب کہ ابن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیت { لیس لک } جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کی ناسخ ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس پر عمل پیرا رہے اور اس کے ذریعہ جس عمل کو منسوخ کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت خفاف (رض) کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ غفار قبیلہ کی مغفرت کرے۔---- روایت کے آخر تک ‘ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلے گئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول آیت کے بعد ان کلمات کو نہیں چھوڑا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں مقید و پابند لوگوں کے لیے دعا کا سلسلہ جاری رہا۔ جب وہ رہا ہو کر آگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دعا کو ترک کردیا۔ باقی اس سے قبل یحییٰ بن کثیر کی منقولہ روایت جو حضرت ابوہریرہ (رض) سے آئی ہے اس میں بھی قنوت کا تذکرہ موجود ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ایک صبح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان قیدیوں کے لیے دعا مانگی۔ میں نے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ میرے پاس آ چکے ہیں۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے اسی طرح عشاء کی نماز میں بھی پڑھتے تھے۔ اور اس پر تو سب کا اتفاق ہے۔ کہ عشاء کی نماز میں یہ قنوت مکمل طور پر منسوخ ہے۔ کسی اور قنوت کو بھی اس کی جگہ اختیار نہیں کیا۔ پس فجر کی قنوت بھی اسی حکم میں ہے۔ جب ہم نے قنوت کے سلسلہ ان روایات کی حقیقت کو کھول دیا تو اب ہم فجر میں قنوت کے واجب ہونے ک کوئی دلیل نہیں پاتے ‘ اسی وجہ سے ہم اس نماز میں اس کے پڑھنے کا حکم نہیں دیتے بلکہ چھوڑنے کا کہتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بات اپنے مقام پر ہے کہ بعض صحابہ کرام اس کا بالکل انکار کرتے ہیں۔ جیسا یہ روایت ہے۔
جواب : اس روایت میں ترک قنوت بوجہ نزول آیت یہ ابوہریرہ (رض) کا کلام نہیں بلکہ زہری کا مدرج جملہ ہے زہری نے دیگر صحابہ سے سن کر اس کو درمیان میں نقل کردیا اس لیے عین ممکن ہے کہ ابوہریرہ (رض) کو اس کا علم نہ ہوا ہو اور زمانہ نبوت کے بعد انھوں نے اپنی معلومات کے مطابق قنوت فجر کا سلسلہ باقی رکھا ہو اور عبدالرحمن بن ابی بکر اور ابن عمر (رض) کو معلوم ہونے کی وجہ سے انھوں نے قنوت کو ترک کردیا پس ان کے عمل سے استدلال درست نہیں۔
جواب نمبر ": حجۃ اخری سے دیا گیا ہے کہ خفاف ابن ایمائ (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا غفار غفر اللہ الی آخرالحدیث پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ وہی ہے جس کو نزول آیت سے چھوڑ دیا گیا اور وہ مکہ کے اساریٰ کے حق میں دعا تھی جس کو ان کی آمد پر ترک کردیا اس کے متعلق ابو سلمہ عن ابی ہریرہ (رض) کی روایت میں آیا ہے کہ قنوت پڑھی پھر ایک صبح کو آپ نے قنوت نہ پڑھی میں نے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ آگئے ہیں اور اس روایت میں یہ بات بھی موجود ہے کہ آپ نے عشاء کی نماز میں قنوت پڑھی جیسا کہ صبح میں پڑھتے تھے اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ عشاء والی قنوت تو منسوخ ہوچکی تو پھر فجر والی کو بھی منسوخ سمجھنا چاہیے۔
خلاصۃ الاجوبہ :
قنوت کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آثار مرویہ کی واضح توجیہات ذکر کردی گئیں جن سے ثابت ہوگیا کہ قنوت کے صلوۃ فجر میں وجوب کی کوئی دلیل پورے طور پر ثابت نہیں پس ہم فجر میں قنوت کے ترک کا حکم دیں گے وجوب کا قول نہ کریں گے اس لیے کہ بعض صحابہ کرام (رض) نے قنوت کا اصلاً انکار کیا ہے جیسا کہ یہ روایت ابو مالک اشجعی (رض) ہے۔

1437

۱۴۳۷ : کَمَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، وَحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا أَبُوْ مَالِکِ ڑ الْأَشْجَعِیُّ سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ قَالَ : (قُلْتُ لِأَبِیْ یَا أَبَتِ، إِنَّکَ قَدْ صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ وَخَلْفَ عُمَرَ وَخَلْفَ عُثْمَانَ وَخَلْفَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ہَاہُنَا بِالْکُوْفَۃِ، قَرِیْبًا مِنْ خَمْسِ سِنِیْنَ، أَفَکَانُوْا یَقْنُتُوْنَ فِی الْفَجْرِ .فَقَالَ أَیْ بُنَیَّ، مُحْدَثٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَسْنَا نَقُوْلُ : إِنَّہُ مُحْدَثٌ، عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ قَدْ کَانَ، وَلٰـکِنَّہٗ قَدْ کَانَ بَعْدَہُ مَا رَوَیْنَاہُ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ قَبْلَہٗ .فَلَمَّا لَمْ یَثْبُتْ لَنَا الْقُنُوْتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، رَجَعْنَا إِلٰی مَا رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ ذٰلِکَ .
١٤٣٧: ابو مالک سعد بن طارق کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے عرض کی ابا جی ! آپ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر ‘ عمرو عثمان ‘ علی (رض) کے پیچھے نماز ادا کی ہوگی یہاں کوفہ میں آپ کو حضرت علی (رض) کے پیچھے نماز پڑھتے پانچ سال گزرے کیا وہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے تو وہ فرمانے لگے اے بیٹے۔ یہ نو ایجاد چیز (یعنی منسوخ کو دوبارہ کیا جا رہا ہے) ۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں اس معنی میں اس کو محدث نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا پہلے وجود نہ تھا اور اب ایجاد کرلی گئی بلکہ یہاں معنی یہ ہے کہ پہلے تھی پھر منسوخ ہوگئی اب منسوخ پر عمل احداث کی طرح ہے اور ہم نے روایات کا نسخ خوب اچھے طریقے سے واضح کردیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس کو اس معنی نو ایجاد شدہ نہیں کہتے کہ اس کی اصل نہیں ‘ بلکہ اس کی اصل تھی جیسا کہ روایاتِ سابقہ میں مذکور ہوا۔ ان میں قنوت کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوخ ہونے کے بعد پڑھنا ثابت نہ ہوا۔ تو اب ہم صحابہ کرام کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
عمل اجلہ صحابہ کرام (رض) :
فلما لم یثبت : سے اسی کو بیان کیا گیا ہے حضرت عمر ‘ علی ‘ ابن عباس (رض) حالت جنگ میں فجر میں قنوت کے قائل ہیں اور حضرت ابن مسعود ‘ ابوالدرداء ابن عمر ‘ ابن زیبر (رض) صلح و جنگ کسی صورت میں بھی قنوت فجر کے قائل نہیں ہیں۔
روایات ملاحظہ ہوں :

1438

۱۴۳۸ : فَإِذَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ عَطَائٍ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الْغَدَاۃِ فَقَنَتَ فِیْہَا بَعْدَ الرُّکُوْعِ وَقَالَ : فِیْ قُنُوْتِہٖ (اللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ اللّٰہُمَّ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ، وَنَسْجُدُ وَإِلَیْکَ نَسْعَی وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَیْ عَذَابَکَ إِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ .
١٤٣٨: عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی تو آپ نے رکوع کے بعد اس طرح کہا اللہم انا نستعینک ونستغفرک تا ملحق اے اللہ ! ہم آپ سے مدد مانگتے ہیں اور آپ سے بخشش کے طالب ہیں اور آپ کی تمام اچھی تعریف کرتے ہیں اور آپ کے شکر گزار ہیں اور آپ کی ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے اور آپ کے نافرمانوں کو ترک کرتے ہیں اے اللہ ! ہم آپ ہی کی عبادت کرتے اور آپ کے لیے نماز پڑھتے ہیں آپ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے اور آپ کی طرف دوڑتے اور جھپٹتے ہیں اور آپ کی رحمت کے امیدوار اور آپ کے عذاب سے ڈرتے ہیں بلاشبہ آپ کا عذاب کفار کو پہنچنے والا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٦۔

1439

۱۴۳۹ : وَإِذَا صَالِحٌ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا حُصَیْنٌ عَنْ ذَرِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْہَمْدَانِیِّ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزَی الْخُزَاعِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ صَلّٰی خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَفَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ " نُثْنِیْ عَلَیْکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْشَیْ عَذَابَکَ الْجِدَّ" .
١٤٣٩: سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ الجزاعی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی انھوں نے اپنی روایت سابقہ روایت کی طرح نقل کی صرف یہ الفاظ مختلف تھے : ” نثنی علیک ولا نکفرک و نخشٰی عذابک الجد “ ۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٣١٤۔

1440

۱۴۴۰ : وَإِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدَۃَ بْنِ أَبِیْ لُبَابَۃَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزَی، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " قَنَتَ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ قَبْلَ الرُّکُوْعِ بِالسُّوْرَتَیْنِ " .
١٤٤٠: سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) فجر کی نماز میں رکوع سے پہلے دو سورتوں کے ساتھ قنوت پڑھی (اس سے مراد دعا اللہم انا نستعینک ہے یہ منسوخ شدہ دو سورتیں ہیں کذا قال المفسرون)
تخریج : بیہقی ٢؍٢٩٩۔

1441

۱۴۴۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہٗ کَانَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ بِسُوْرَتَیْنِ : " اَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ" وَ " اللّٰہُمَّ إِیَّاکَ نَعْبُدُ " .
١٤٤١: مقسم نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ عمر (رض) نماز صبح میں دو سورتوں یعنی اللہم انا نستعینک اور اللہم ایاک نعبد سے قنوت کرتے تھے۔
تخریج : عبدالرزاق ٣؍١١٢۔

1442

۱۴۴۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَرَأَ بِالْأَحْزَابِ، فَسَمِعْتُ قُنُوْتَہُ، وَأَنَا فِیْ آخِرِ الصُّفُوْفِ .
١٤٤٢: ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے پیچھے فجر کی نماز ادا کی آپ نے فجر کی نماز میں سورة احزاب پڑھی میں نے آپ کی قنوت کو سنا جبکہ میں آخری صفوں میں تھا (یہاں تو قنوت سے قراءت مراد ہے)
تخریج : معرفۃ السنن نمبر ١٢٥٣

1443

۱۴۴۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ حَ
١٤٤٣: ابو بکرہ نے مؤمل سے انھوں نے سفیان سے نقل کیا۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٨٨۔

1444

۱۴۴۴ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، کِلَاہُمَا عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ، کَبَّرَ ثُمَّ قَنَتَ، ثُمَّ کَبَّرَ فَرَکَعَ .
١٤٤٤: طارق بن شہاب کہتے ہیں میں نے حضرت عمر (رض) کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی جب وہ دوسری رکعت کی
قراءت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہی پھر قنوت پڑھی پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا۔

1445

۱۴۴۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مُخَارِقٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٤٤٥: وہب نے شعبہ سے انھوں نے مخارق سے پھر مخارق سے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٣؍١٠٩۔

1446

۱۴۴۶ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ذُکِرَلَہٗ قَوْلَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْقُنُوتِ فَقَالَ : أَمَا إِنَّہٗ قَدْ قَنَتَ مَعَ أَبِیہِ ، وَلٰـکِنَّہٗ نَسِیَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ: فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا ذَکَرْنَا ، وَرُوِیَ عَنْہُ خِلَافُ ذَلِکَ .
١٤٤٦: محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کے سامنے ابن عمر (رض) کا قول قنوت کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا تو کہنے لگے اچھی طرح سنو ! انھوں نے اپنے والد کے ساتھ قنوت پڑھی ہے مگر وہ بھول گئے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) سے یہ مذکورہ روایت بھی آئی ہے مگر اس کے خلاف روایت بھی مروی ہے۔
خلاصہ اقوال :
ان سابقہ تمام آثار سے حضرت عمر (رض) کا فجر میں قنوت پڑھنا ثابت ہو رہا ہے اور وہ قنوت اللہم انا نستعینک۔۔۔ ہے۔
عمل عمر (رض) کا دوسرا انداز :
اس طرح مروی ہے۔

1447

۱۴۴۷ : فَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ لَا یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .
١٤٤٧: ابراہیم نے اسود سے انھوں نے حضرت عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ نماز فجر میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : عبدالرزاق ٣؍١٠٦۔

1448

۱۴۴۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَا : صَلَّیْنَا خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْفَجْرَ فَلَمْ یَقْنُتْ .
١٤٤٨: اسود اور عمرو بن میمون دونوں نے بیان کیا کہ ہم نے عمر (رض) کے پیچھے نماز فجر اد ا کی انھوں نے قنوت نہ پڑھی۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٩٠۔

1449

۱۴۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ وَمَسْرُوْقٍ، أَنَّہُمْ قَالُوْا : " کُنَّا نُصَلِّی خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْفَجْرَ فَلَمْ یَقْنُتْ " .
١٤٤٩: علقمہ ‘ اسود و مسروق سب نے بیان کیا کہ ہم عمر (رض) کے پیچھے نماز فجر ادا کرتے تھے آپ اس میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔

1450

۱۴۵۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ بِإِسْنَادِہٖ ھٰذَا أَنَّہُمْ قَالُوْا : کُنَّا نُصَلِّی خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَحْفَظُ رُکُوْعَہُ وَسُجُوْدَہُ، وَلَا نَحْفَظُ قِیَامَ سَاعَۃٍ، یَعْنُوْنَ : الْقُنُوْتَ .
١٤٥٠: ابن شہاب نے اپنی سند سے نقل کیا کہ ہم عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھتے ہمیں ان کا رکوع ‘ سجدہ بالکل یاد ہے ہمیں اس کے علاوہ ذرا سا قیام یعنی قنوت کے لیے یاد نہیں۔

1451

۱۴۵۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَا : صَلَّیْنَا خَلْفَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمْ یَقْنُتْ فِی الْفَجْرِ .
١٤٥١: اسود اور عمرو بن میمون دونوں نے نقل کیا کہ ہم نے عمر (رض) کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے فجر میں قنوت نہ پڑھی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠١۔

1452

۱۴۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ اِبْرَاہِیْمَ یُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ نَحْوَہٗ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا خِلَافُ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ کَانَ فَعَلَ کُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الْأَمْرَیْنِ فِیْ وَقْتٍ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٥٢: ابراہیم نے عمرو بن میمون سے اسی طرح کا مضمون بیان کیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ روایات ان روایات کے مخالف ہیں جو انہی حضرات سے شروع باب میں آئی ہیں۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ نے دونوں کام ایک الگ الگ وقت میں کیے ہیں ‘ چنانچہ اس سلسلہ میں دیکھا تو یہ روایات سامنے آئیں۔
تخریج : تہذیب الآثار طبری۔
خلاصہ اقوال بالا :
عمر (رض) فجر میں قنوت نہ پڑھتے تھے یہ پہلے عمل کے بالکل خلاف ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس میں دونوں احتمال ہیں کہ کبھی قنوت کو اختیار کیا اور کبھی ترک کردیا جیسا اس اثر سے ظاہر ہوتا ہے۔

1453

۱۴۵۳ : فَإِذَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرُ بْنُ کِدَامٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَیْسَرَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، قَالَ : رُبَّمَا قَنَتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَأَخْبَرَ زَیْدٌ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّہٗ کَانَ رُبَّمَا قَنَتَ، وَرُبَّمَا لَمْ یَقْنُتْ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْمَعْنَی الَّذِیْ لَہٗ کَانَ یَقْنُتُ مَا ہُوَ؟
١٤٥٣: زید بن وہب نے کہا عمر (رض) نے بسا اوقات قنوت کی ہے۔ پس حضرت زید نے یہ بتلایا کہ حضرت عمر (رض) کبھی قنوت پڑھتے اور کبھی نہ پڑھتے۔ پس اب دیکھنا چاہیے کہ آپ کی قنوت کس سبب سے تھی ‘ تو یہ روایت مل گئی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٣؍١٠٤۔
حاصل اثر :
کہ بعض اوقات قنوت کی اور بعض اوقات اس کو ترک کیا۔
نوٹ : قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو قنوت آپ نے کی ہے اس کی کیا حقیقت ہے مندرجہ روایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے۔

1454

۱۴۵۴ : فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ، عَنْ أَبِیْ شِہَابِ ڑ الْحَنَّاطِ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ عَنْ حَمَّادٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذَا حَارَبَ قَنَتَ، وَإِذَا لَمْ یُحَارِبْ لَمْ یَقْنُتْ .فَأَخْبَرَ الْأَسْوَدُ بِالْمَعْنَی الَّذِیْ لَہٗ کَانَ یَقْنُتُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ اِذَا حَارَبَ یَدْعُوَ عَلٰی أَعْدَائِہِ، وَیَسْتَعِیْنُ اللّٰہَ عَلَیْہِمْ وَیَسْتَنْصِرُہٗ، کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ، لَمَّا قُتِلَ مَنْ قُتِلَ، مِنْ أَصْحَابِہٖ حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ) .قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ : فَمَا دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَحَدٍ بَعْدُ .فَکَانَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَعِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَمَنْ وَافَقَہُمَا، تَنْسَخُ الدُّعَائَ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الصَّلَاۃِ عَلٰی أَحَدٍ .وَلَمْ یَکُنْ عِنْدَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِنَاسِخَۃٍ مَا کَانَ الْقِتَالُ، وَإِنَّمَا نَسَخَتْ - عِنْدَہٗ - الدُّعَائَ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْقِتَالِ، إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ بُطْلَانُ قَوْلِ مَنْ یَرَی الدَّوَامَ عَلَی الْقُنُوْتِ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ .فَھٰذَا وَجْہُ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٥٤: ابراہیم نے اسود سے نقل کیا کہ جناب عمر (رض) جب کفار سے جنگ میں مصروف ہوتے تو قنوت پڑھتے اور جب محاربہ کے ایام نہ ہوتے تو قنوت نہ پڑھتے تھے۔ تو حضرت اسود (رح) نے جناب فاروق (رض) کے قنوت کا سبب بتلایا کہ محاربہ اور جنگ کی حالت میں آپ دشمن کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے اور استعانت طلب کرتے جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا اور آپ یہ کرتے رہے یہاں تک کہ { لیس لک من الامر شیٔ} آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے لیے بد دعا نہیں فرمائی۔ پس حضرت عبدالرحمن اور ابن عمر (رض) کے نزدیک آیت { لیس لک } نے نماز میں کسی کے لیے بھی بد دعا کو منسوخ کردیا جبکہ حضرت عمر (رض) کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ آیت لڑائی سے قبل مانگی جانے والی دعا کو منسوخ نہیں کرتی۔ البتہ جنگ کے علاوہ دشمن کے لیے بد دعا منسوخ ہوگئی ‘ مگر اس بات سے ان حضرات کے قول کا ابطال ضرور ہوگیا کہ نماز فجر میں قنوت پڑھنے کا قول کرتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کے قول کی تشریح اسی طرح ہے۔ مگر حضرت علی (رض) سے اس سلسلہ میں اس طرح روایت آئی ہے۔
تخریج : مسند ابوحنیفہ ١؍٨٣۔
عمری قنوت کی حقیقت :
اس روایت اسود نے اس بات کی نشاندہی کردی کہ عمر (رض) قنوت اس وقت کرتے جب دشمن سے لڑائی کا موقعہ ہوتا دشمنان دین کے لیے بددعا فرماتے اور اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے لیے استعانت و نصرت طلب کرتے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا جبکہ آپ کے اصحاب میں سے ستر قراء کو مظلومانہ طور پر شہید کردیا گیا اور یہ دعا اس آیت کے نزول تک مانگتے رہے : لیس لک من الامر شیء او یتوب علیہم او یعذبہم فانہم ظالمون (آل عمران)
عبدالرحمن بن ابی بکر کہتے ہیں کہ اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے حق میں بددعا نہیں فرمائی گویا یہ آیت عبدالرحمن بن ابی بکر اور ابن عمر (رض) اور بعض دیگر حضرات کے ہاں قنوت والے حکم کی ناسخ تھی مگر عمر (رض) کے ہاں قتال سے پہلے جتنا حکم تھا اس کی ناسخ نہیں تھی ان کے ہاں دشمن سے لڑائی نہ ہونے کی حالت میں بددعا منسوخ ہوئی تھی۔
حاصل کلام : یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) کے ہاں قنوت ایام محاربہ کے لیے اب بھی باقی ہے البتہ ہمیشہ نماز فجر میں قنوت درست نہیں۔ پس فریق اوّل کے ہاں ہمیشہ نماز فجر میں قنوت کا قول درست نہ رہا۔

1455

۱۴۵۵ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ قَبْلَ الرُّکُوْعِ .
١٤٥٥: ابو عبدالرحمن نے علی (رض) سے نقل کیا کہ وہ نماز صبح میں رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٥۔

1456

۱۴۵۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ وَأَبُوْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ حَ .
١٤٥٦: عبدالصمد بن عبدالوارث اور ابو داؤد نے شعبہ سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : الی الطیالسی عزاہ البدرالعینی۔

1457

۱۴۵۷ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، کِلَاہُمَا عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ فِیْ حَدِیْثِ سُفْیَانَ قَالَ: کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبُوْ مُوْسٰی یَقْنُتَانِ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، وَفِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ قَنَتَ بِنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبُوْ مُوْسٰی.
١٤٥٧: عبداللہ بن معقل نے حدیث سفیان میں نقل کیا کہ حضرت علی (رض) اور ابو موسیٰ (رض) فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ ہمارے ساتھ علی اور ابو موسیٰ اشعری (رض) نے قنوت پڑھی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٤۔

1458

۱۴۵۸ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ حُسَیْنٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَعْقِلٍ یَقُوْلُ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الصُّبْحَ فَقَنَتَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَرَی الْقُنُوْتَ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ فِیْ سَائِرِ الدَّہْرِ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ فِیْ وَقْتٍ خَاصٍّ لِلْمَعْنَی الَّذِیْ کَانَ فَعَلَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ أَجْلِہٖ۔ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٥٨: عبید بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے ابن معقل کو کہتے سنا کہ میں نے علی (رض) کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی پس انھوں نے اس میں قنوت پڑھتی۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ علی (رض) آیا ہمیشہ نماز فجر میں قنوت پڑھتے یا حضرت عمر (رض) کی طرح دشمن سے مقابلہ کے وقت پڑھا کرتے تھے چنانچہ مندرجہ ذیل آثار سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ممکن ہے کہ حضرت علی (رض) ہمیشہ نماز فجر میں قنوت کو جائز قرار دیتے ہوں ‘ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ آپ نے ایک خاص وقت میں کیا اور اس کی وجہ وہی ہو جس کی بناء پر حضرت عمر (رض) پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں غور کرنے پر یہ روایات سامنے آئیں۔

1459

۱۴۵۹ : فَإِذَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِیْرَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَقْنُتُ فِی الْفَجْرِ، وَأَوَّلُ مَنْ قَنَتَ فِیْہَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانُوْا یُرَوْنَ أَنَّہٗ إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ کَانَ مُحَارِبًا .
١٤٥٩: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ عبداللہ فجر میں قنوت نہیں پڑھتے تھے حضرت علی (رض) نے فجر میں پہلے پہل قنوت پڑھی ان کا خیال یہ تھا کہ آپ نے یہ قنوت اس لیے پڑھی کہ آپ اس وقت حالت جنگ میں تھے (ہم سے مراد اصحاب ابراہیم ہیں)

1460

۱۴۶۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحْرِزُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : إِنَّمَا کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقْنُتُ فِیْہَا ہَاہُنَا لِأَنَّہٗ کَانَ مُحَارِبًا، فَکَانَ یَدْعُوْ عَلٰی أَعْدَائِہِ فِی الْقُنُوْتِ فِی الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَذْہَبَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْقُنُوْتِ، ہُوَ مَذْہَبُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ وَصَفْنَا .وَلَمْ یَکُنْ عَلِیٌّ یَقْصِدُ بِذٰلِکَ إِلَی الْفَجْرِ خَاصَّۃً لِأَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی الْمَغْرِبِ فِیْمَا ذَکَرَ اِبْرَاہِیْمُ .
١٤٦٠: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ علی (رض) یہاں اس لیے قنوت پڑھتے تھے کہ وہ اس وقت حالت جنگ میں تھے چنانچہ وہ اپنے مخالفین کے لیے فجر و مغرب میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ مندرجہ بالا روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب علی (رض) کا طرز عمل اس سلسلہ میں حضرت عمر (رض) جیسا تھا۔ جناب علی (رض) اس کو نماز فجر میں مقصود بنا کر نہ پڑھتے تھے بلکہ ابراہیم کے بیان کے مطابق آپ مغرب میں بھی اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٩۔
خلاصہ آثار :
ان دونوں آثار سے یہ بات ثابت کردی کہ علی (رض) کا مؤقف قنوت کے سلسلہ میں عمر (رض) والا تھا وہ بھی فجر میں قنوت کو خاص طور پر نہ پڑھتے تھے بلکہ بقول ابراہیم ایام حرب میں مغرب میں بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔

1461

۱۴۶۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حُصَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ مَعْقِلٍ یَقُوْلُ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْمَغْرِبَ فَقَنَتَ وَدَعَا .فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ الْمَغْرِبَ لَا یُقْنَتُ فِیْہَا اِذَا لَمْ یَکُنْ حَرْبٌ، وَأَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا کَانَ قَنَتَ فِیْہَا مِنْ أَجْلِ الْحَرْبِ، فَقُنُوْتُہٗ فِی الْفَجْرِ أَیْضًا عِنْدَنَا - کَذٰلِکَ .وَأَمَّا ابْنُ عَبَّاسٍ، فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٦١: عبدالرحمن بن معقل کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے اس میں قنوت پڑھی اور دعا کی۔ سب کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ مغرب کی نماز میں قنوت حالت جنگ کے علاوہ میں نہ پڑھی جائے اور حضرت علی (رض) نے جنگ کی بناء پر پڑھی۔ پس ثابت ہوگیا کہ آپ کا نماز فجر میں قنوت پڑھنا اسی بناء پر تھا ‘ البتہ ابن عباس (رض) کی روایات یہ ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٩۔
اس پر تو فریق اوّل کو بھی اتفاق ہے کہ مغرب میں جنگ کے علاوہ اوقات میں قنوت نہیں اور علی (رض) نے جنگ کے حالات میں مغرب کی نماز میں قنوت کی ہے پس ان کی قنوت فجر بھی ہمارے احناف کے ہاں اسی حکم میں ہے اس کی مشروعیت کے متعلق مغرب کی طرح آپ کو بھی اتفاق کرنا چاہیے۔
حضرت ابن عباس (رض) کا قنوت کے متعلق طرز عمل :
حضرت ابن عباس (رض) سے بھی قنوت کے متعلق دو قسم کی روایات وارد ہیں ملاحظہ ہوں۔
قسم اول : قنوت پڑھتے تھے۔

1462

۱۴۶۲ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِیْ رَجَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَہُ الْفَجْرَ فَقَنَتَ قَبْلَ الرَّکْعَۃِ .
١٤٦٢: ابو رجاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے میں نے حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی تو انھوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھی۔
اللغات : الرکعۃ۔ ان تمام روایات میں رکوع کے معنی میں مستعمل ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢٠٧۔

1463

۱۴۶۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا عَوْفٌ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ وَقَالَ : ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ الْوُسْطٰی .فَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا فِیْ أَمْرِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مَا جَازَ فِیْ أَمْرِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَنَظَرْنَا ہَلْ رُوِیَ عَنْہُ خِلَافٌ لِھٰذَا .
١٤٦٣: ابو عاصم کہتے ہیں ہمیں عوف نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح بیان کیا صرف اس میں یہ اضافہ ہے ہذہ الصلوٰۃ الوسطیٰ یہی صلوۃ وسطیٰ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے متعلق وہ کہنا درست ہے جو حضرت علی (رض) کے سلسلہ میں کہا۔ اب ہم یہ دینا چاہتے ہیں کہ آیا اس کے خلاف بھی کوئی روایت موجود ہے۔
تخریج : بیہقی۔
قسم ثانی :
عدم ثبوت قنوت کے آثار۔

1464

۱۴۶۴ : فَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ وَاقِدٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَکَانَا لَا یَقْنُتَانِ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .
١٤٦٤: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) کے پیچھے نماز پڑھی وہ دونوں نماز صبح میں قنوت نہ کرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٢۔

1465

۱۴۶۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا مُجَاہِدٌ أَوْ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ لَا یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ .
١٤٦٥: مجاہد یا سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس (رض) نماز فجر میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٣۔

1466

۱۴۶۶ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ أَنَا حُصَیْنٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحَارِثِ السُّلَمِیِّ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ دَارِہِ الصُّبْحَ، فَلَمْ یَقْنُتْ قَبْلَ الرُّکُوْعِ وَلَا بَعْدَہٗ .
١٤٦٦: عمران بن حارث سلمی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کے ساتھ ان کے گھر میں نماز صبح ادا کی انھوں نے رکوع سے پہلے اور بعد قنوت نہ پڑھی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ نمبر ٦٩٩١۔

1467

۱۴۶۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : أَنَا عِمْرَانُ بْنُ الْحَارِثِ السُّلَمِیُّ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الصُّبْحَ، فَلَمْ یَقْنُتْ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَانَ الَّذِیْ یَرْوِیْ عَنْہُ الْقُنُوْتَ ہُوَ أَبُوْ رَجَائٍ، وَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ وَہُوَ بِالْبَصَرَۃِ وَالِیًا عَلَیْہَا لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَکَانَ أَحَدُ مَنْ یَرْوِیْ عَنْہُ بِخِلَافِ ذٰلِکَ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ وَإِنَّمَا کَانَتْ صَلَاتُہٗ مَعَہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ بِمَکَّۃَ، فَکَانَ، مَذْہَبُہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَذْہَبَ عُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَکَانَ ذٰلِکَ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ عَنْہُمَ الْقُنُوْتَ فِی الْفَجْرِ إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُمْ لِلْعَارِضِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا فَقَنَتُوْا فِیْہَا وَفِیْ غَیْرِہَا مِنَ الصَّلَوَاتِ وَتَرَکُوْا ذٰلِکَ فِیْ حَالِ عَدَمِ ذٰلِکَ الْعَارِضِ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ آخَرِیْنَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرْکَ الْقُنُوْتِ فِیْ سَائِرِ الدَّہْرِ.
١٤٦٧: عمران بن حارث سلمی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کی اقتداء میں نماز صبح ادا کی تو انھوں نے قنوت نہ پڑھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ابو رجائؒ حضرت ابن عباس (رض) سے قنوت کی روایت نقل کرنے والے ہیں اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب وہ حضرت علی (رض) کی طرف سے بصرہ کے عامل تھے اور ان سے مخالف روایت نقل کرنے والے ابن جبیر (رح) وہ ان کے ساتھ مکہ میں رہے۔ ان کا مذہب بھی ابن عمر اور علی (رض) جیسا ہے۔ پس ان میں سے جن حضرات سے ہم نے قنوت نقل کی وہ مذکورہ عارضہ کی وجہ سے ہے جو اس کے پیش آنے وقت پڑھی گئی ‘ عارضہ جاتا رہا تو قنوت بھی جاتی رہی اور ہم دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرچکے جنہوں نے ہمیشہ کے لیے قنوت ترک کی ہے۔ بعض روایات یہ ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٦۔
فیصلہ طحاوی (رح) :
ابن عباس (رض) سے قنوت کی روایت کرنے والے ابو رجاء ہیں اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ابن عباس (رض) و علی (رض) کی جانب سے بصرہ کے حاکم تھے اور اس کے مخالف روایت والی روایت کو ناقل سعید بن جبیر ہیں اور ان کی یہ روایت مکی دور سے متعلق ہے گویا وہ ابن عباس (رض) کا آخری عمل ہے پہلے والے کو اسی پر محمول کریں گے جس پر حضرت عمرو علی (رض) کے فعل کو محمول کیا گیا کہ وہ قنوت کسی عارضہ کی وجہ سے تھی اور عارضہ کے علاوہ ان کا فجر میں قنوت نہ پڑھنا اصل عمل ہے۔
فجر میں عدم قراءت قنوت کے دلائل :
قدروینا عن آخرین سے ان روایات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو گزشتہ اوراق میں قنوت نہ پڑھنے کی وارد ہوئیں۔

1468

۱۴۶۸ : فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .
١٤٦٨: ابو اسحاق نے علقمہ سے نقل کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نماز صبح میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠١۔

1469

۱۴۶۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا یَقْنُتُ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ إِلَّا الْوِتْرَ فَإِنَّہٗ کَانَ یَقْنُتُ قَبْلَ الرَّکْعَۃِ .
١٤٦٩: عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ کسی بھی نماز میں قنوت نہ پڑھتے تھے البتہ وتر میں رکوع سے پہلے وہ قنوت پڑھتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٢۔

1470

۱۴۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .
١٤٧٠: ابو اسحاق سے علقمہ سے روایت کی ہے کہ عبداللہ نماز صبح میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ۔

1471

۱۴۷۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیْ دَاوٗدَ عَنِ الْمَسْعُوْدِیِّ بِإِسْنَادِہٖ.
١٤٧١: ابن رجاء نے کہا کہ ہمیں مسعودی نے خبر دی اور اپنی سند سے ابو بکرہ عن ابی داؤد جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٩؍٢٨٤۔

1472

۱۴۷۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنِ الْحَارِثِ الْعُکْلِیِّ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : لَقِیْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ بِالشَّامِ فَسَأَلْتُہٗ عَنِ الْقُنُوْتِ فَلَمْ یَعْرِفْہُ .
١٤٧٢: علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابوالدرداء کو شام میں ملا تو میں نے ان سے قنوت کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے قنوت کو نہ پہچانا۔
تخریج : عبدالرزاق۔

1473

۱۴۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ح.
١٤٧٣: ابن وہب نے مالک سے روایت نقل کی ہے۔

1474

۴ ۱۴۷ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ عَنْ مَالِکٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ لَا یَقْنُتُ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ .
١٤٧٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ کسی بھی نماز میں قنوت نہ کرتے تھے۔

1475

۱۴۷۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ بِنَا الصُّبْحَ بِمَکَّۃَ فَلَا یَقْنُتُ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَکُنْ یَقْنُتْ فِیْ دَہْرِہٖ کُلِّہٖ وَقَدْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ قِتَالِ عَدُوِّہِمْ فِیْ کُلِّ وِلَایَۃِ عُمَرَ، أَوْ فِیْ أَکْثَرِہَا، فَلَمْ یَکُنْ یَقْنُتُ لِذٰلِکَ، وَھٰذَا أَبُو الدَّرْدَائِ یُنْکِرُ الْقُنُوْتَ، وَابْنُ الزُّبَیْرِ لَا یَفْعَلُہُ، وَقَدْ کَانَ مُحَارِبًا حِیْنَئِذٍ ؛ لِأَنَّہٗ لَمْ نَعْلَمْہُ أَمَّ النَّاسَ إِلَّا فِیْ وَقْتِ مَا کَانَ الْأَمْرُ صَارَ إِلَیْہِ .فَقَدْ خَالَفَ ہٰؤُلَائِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَعَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ فِیْمَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ مِنَ الْقُنُوْتِ فِیْ حَالِ الْمُحَارَبَۃِ بَعْدَ ثُبُوْتِ زَوَالِ الْقُنُوْتِ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْمُحَارَبَۃِ .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ وَجَبَ کَشْفُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْمَعْنَیَیْنِ مَعْنًی صَحِیْحًا، فَکَانَ مَا رَوَیْنَا عَنْہُمْ أَنَّہُمْ قَنَتُوْا فِیْہِ مِنَ الصَّلَوَاتِ لِذٰلِکَ الصُّبْحَ وَالْمَغْرِبَ خَلَا مَا رَوَیْنَا عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ)، فَإِنَّ فِیْ ذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الْمَغْرِبَ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ وَلَمْ نَعْلَمْ عَنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ أَنَّہٗ قَنَتَ فِیْ ظُہْرٍ وَلَا عَصْرٍ فِیْ حَالِ حَرْبٍ وَلَا غَیْرِہٖ .فَلَمَّا کَانَتْ ہَاتَانِ الصَّلَاتَانِ لَا قُنُوْتَ فِیْہِمَا فِیْ حَالِ الْحَرْبِ أَیْضًا وَفِیْ حَالِ عَدَمِ الْحَرْبِ، وَکَانَتَ الْفَجْرُ وَالْمَغْرِبُ وَالْعِشَائُ لَا قُنُوْتَ فِیْہِنَّ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْحَرْبِ ثَبَتَ أَنْ لَا قُنُوْتَ فِیْہِنَّ فِیْ حَالِ الْحَرْبِ أَیْضًا، وَقَدْ رَأَیْنَا الْوِتْرَ فِیْہَا الْقُنُوْتُ عِنْدَ أَکْثَرِ الْفُقَہَائِ فِیْ سَائِرِ الدَّہْرِ وَعِنْدَ خَاصٍّ مِنْہُمْ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ خَاصَّۃً، فَکَانُوْا جَمِیْعًا إِنَّمَا یَقْنُتُوْنَ لِتِلْکَ الصَّلَاۃِ خَاصَّۃً لَا لِحَرْبٍ وَلَا لِغَیْرِہٖ .فَلَمَّا انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ الْقُنُوْتُ فِیْمَا سِوَاہَا یَجِبُ لِعِلَّۃِ الصَّلَاۃِ خَاصَّۃً لَا لِعِلَّۃٍ غَیْرِہَا، انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ یَجِبُ لِمَعْنًی سِوٰی ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِی الْقُنُوْتُ فِی الْفَجْرِ، فِیْ حَالِ حَرْبٍ وَلَا غَیْرِہٖ، قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٤٧٥: حضرت عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر ہمیں مکہ میں فجر کی نماز پڑھاتے اور قنوت نہ کرتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ابن مسعود (رض) جو کبھی بھی کسی زمانہ میں بھی قنوت نہ پڑھتے تھے۔ اور مسلمان کفار کے خلاف تو ہر وقت زمانہ فاروقی میں برسر پیکار رہتے اور اس کے لیے انھوں نے قنوت نہ پڑھی۔ یہ حضرت ابو الدردائ (رض) ہیں جو کہ قنوت کا انکار کر رہے ہیں اور ابن زبیر (رض) بھی اسے نہیں کرتے اور جنگ کی حالت میں نہ کرتے تھے حالانکہ وہ اس وقت حالت جنگ میں تھے اور ان تک نماز پڑھانے کی نوبت اسی وقت آئی جب یہ امر خلافت ان کے پاس آیا۔ ان حضرات کی رائے حضرت عمر ‘ علی ‘ ابن عباس (رض) سے مختلف ٹھہری اس لیے کہ یہ حضرات جنگ کی حالت میں قنوت کے قائل اور لڑائی نہ ہونے کی حالت میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔ اب جبکہ صحابہ کرام (رض) کی روایات میں اختلاف ہوا تو غور و فکر کی راہ سے صحیح معنی کی تلاش لازم ہوئی۔ پس ان حضرات نے صبح و مغرب میں قنوت پڑھی۔ البتہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں وارد ہوا کہ وہ نماز عشاء میں قنوت پڑھتے تھے۔ اور اس میں بھی احتمال ہے کہ یہ عشاء اولیٰ (مغرب ہو یا پچھلی عشاء ہی ہو۔ اور ہمارے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ صحابی نے بھی لڑائی اور امن کی کسی بھی حالت میں ظہر و عصر میں قنوت پڑھی ہو۔ جب یہ دو نمازیں ایسی ہیں کہ ان میں جنگ اور عدم جنگ کسی بھی حالت میں قنوت جائز نہیں ہے اور مغرب ‘ عشاء و فجر میں امن کی حالت میں قنوت ثابت نہیں۔ ہم نے وتروں کی نماز پر نگاہ ڈالی کہ اکثر فقہاء کے ہاں ان میں ہمیشہ قنوت پڑھی جائے گی۔ اور بعض علماء کے نزدیک رمضان آخری نصف میں صرف پڑھی جائے گی۔ یہ تمام حضرات خاص طور پر اس نماز کے لیے قنوت پڑھتے اس میں جنگ اور غیر جنگ کا کوئی دخل نہیں۔ پس جب دوسری نمازوں سے خاص نماز کے لحاظ سے نفی ہوگئی ‘ کسی اور سبب کی بناء پر نہیں ‘ تو وہ کسی اور وقت کی بناء پر لازم نہیں۔ ہم نے جو ذکر کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ نماز فجر میں قنوت تو جنگ کی حالت میں پڑھی جائے اور نہ جنگ کے علاوہ حالت میں پڑھی جائے۔ نظر و قیاس کا یہی تقاضا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٢۔
حاصل آثار :
زمانہ خلافت فاروقی میں مسلمان کافروں سے نبرد آزما تھے اور عبداللہ بن مسعود (رض) اس کے باوجود قنوت نہ پڑھا کرتے تھے اور یہ دوسرے صحابی ابوالدردائ (رض) قنوت سے ناواقفیت کا اظہار کر رہے ہیں اور تیسرے صحابی ابن الزبیر اس کو بالکل نہیں کرتے حالانکہ یہ خود اس وقت حجاج اور خوارج کے خلاف لڑ رہے تھے کیونکہ مکہ شریف میں انھوں نے اسی وقت امامت کرائی جبکہ ان کو خلافت سپرد ہوئی۔
ادھر دوسری طرف حضرت عمر بن خطاب ‘ علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جو زمانہ قتال میں قنوت پڑھتے اور دوسرے اوقات میں چھوڑتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
فلما اختلفو : اب جبکہ روایات بھی مختلف ہیں اور عمل صحابہ میں بھی اختلاف موجود ہے تو نظر و فکر سے ہم صحیح معنی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں سابقہ روایات میں عمومی روایات فجر و مغرب سے متعلق قنوت کو ظاہر کر رہی ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں صرف صلوۃ عشاء کا ذکر آتا ہے اس صلوۃ عشاء کے لفظ میں دو احتمال ہیں۔
نمبر : اس سے مراد عشاء اول یعنی مغرب ہو تو پھر یہ سابقہ روایات کے مطابق ہوگئی جن میں مغرب کا ذکر ہے اور اگر دوسرا احتمال عشاء آخر کا ہو تو پھر یہ روایت ان سے مختلف رہے گی۔
باقی اتنی بات تو مسلم ہے کہ ظہر و عصر جو کہ سری نمازیں ہیں ان سے متعلق کسی بھی روایت میں مذکور نہیں ہے کہ اس میں قنوت پڑھی گئی ہو نہ تو زمانہ جنگ اور نہ زمانہ غیر جنگ میں۔
پس جبکہ ان دونوں نمازوں میں جنگ و صلح کسی صورت میں بھی قنوت نہیں تو فجر و مغرب و عشاء میں بھی قنوت عدم جنگ کی صورت میں نہیں ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حالت حرب میں بھی ان میں قنوت نہیں ہے۔
ایک اہم سوال :
جب قنوت کی روایات میں عدم قنوت فجر کو ترجیح دی گئی تو پھر وتر میں قنوت کہاں سے ثابت ہوگئی۔
جواب : قنوت کا ایک سبب تو جنگ ہے اور دوسرا نماز تو قنوت وتر تو نماز کی وجہ سے ہے اسی لیے فقہاء احناف ‘ حنابلہ اور جمہور تمام سال اس کو درست قرار دیتے ہیں اور شوافع اور مالکیہ نصف رمضان میں جائز قرار دیتے ہیں ان تمام کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس قنوت کا جنگ یا عدم جنگ سے تعلق نہیں بلکہ یہ صلوۃ سے متعلق ہے اس لیے سارا سال پڑھی جائے گی۔
جب علت صلوۃ کے علاوہ قنوت کی نفی ہوگئی تو علت محاربہ کی وجہ سے بھی اب نہ پڑھی جائے گی پس قیاس و نظر کے تقاضے سے قنوت فجر کی نماز میں حالت حرب و ضرب یا صلح آشتی میں بھی نہ پڑھی جائے گی یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نظر پر ایک ہلکی نظر :
یہاں بھی احناف کی طرف محاربہ کی صورت میں فجر میں قنوت نہ پڑھنے کی نسبت درست نہیں بلکہ احناف کے ہاں جنگ کے حالات میں فجر میں قنوت پڑھی جائے گی یہاں بھی اس نسبت احناف میں ان سے چوک ہوئی ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں پوری قوت و زور سے امام طحاوی (رح) سے عدم مشروعیت قنوت کسی بھی وقت میں ثابت کرنے کی کوشش کی مگر بعض روایات میں بالکل تاویل نہیں چلتی اس لیے قنوت نازلہ کے فجر میں تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ واللہ اعلم۔

1476

۱۴۷۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ اِذَا سَجَدَ بَدَأَ بِوَضْعِ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ، وَکَانَ یَقُوْلُ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ذٰلِکَ .
١٤٧٦: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جب وہ سجدہ کرتے پہلے اپنے دو ہاتھ رکھتے پھر گھٹنے اور کہا کرتے تھے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کیا کرتے تھے۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍٣٤٤۔
سجدہ اعضاء سبعہ پر ہوگا مگر ان میں کس کو پہلے اور کسے بعد میں رکھا جائے اس میں اختلاف ہے۔
فریق اوّل :
جس میں امام مالک و اوزاعی و حسن بصری (رح) ہیں گھٹنوں سے ہاتھوں کو مقدم کرنے کو افضل قرار دیتے ہیں اور فریق دوم جس میں احناف و شوافع و حنابلہ اور جمہور فقہاء شامل ہیں وہ رکبتین کو مقدم کرنا افضل قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور ان کے دلائل :
ہاتھوں کو زمین پر سجدہ کی حالت میں پہلے رکھنا افضل ہے جیسا یہ روایات اس کو ظاہر کرتی ہیں۔

1477

۱۴۷۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، وَأَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَا : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ۔
١٤٧٧: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ١٤٧٨ کی تخریج کو سامنے رکھیں۔

1478

۱۴۷۸ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا سَجَدَ أَحَدُکُمْ فَلَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ وَلٰـکِنْ یَضَعُ یَدَیْہِ ثُمَّ رُکْبَتَیْہِ) .فَقَالَ قَوْمٌ ھٰذَا الْکَلَامُ مُحَالٌ ؛ لِأَنَّہٗ قَالَ : (لَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ) ، وَالْبَعِیْرُ إِنَّمَا یَبْرُکُ عَلٰی یَدَیْہِ، ثُمَّ قَالَ : وَلٰـکِنْ یَضَعُ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ فَأَمَرَہٗ ہَاہُنَا أَنْ یَصْنَعَ مَا یَصْنَعُ الْبَعِیْرُ، وَنَہَاہُ فِیْ أَوَّلِ الْکَلَامِ أَنْ یَفْعَلَ مَا یَفْعَلُ الْبَعِیْرُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ تَثْبِیْتِ ھٰذَا الْکَلَامِ وَتَصْحِیْحِہِ وَنَفْیِ الْاِحَالَۃِ مِنْہُ أَنَّ الْبَعِیْرَ رُکْبَتَاہُ فِیْ یَدَیْہِ وَکَذٰلِکَ فِیْ سَائِرِ الْبَہَائِمِ، وَبَنُو آدَمَ لَیْسُوْا کَذٰلِکَ، فَقَالَ : لَا یَبْرُکْ عَلَی رُکْبَتَیْہِ اللَّتَیْنِ فِیْ رِجْلَیْہِ، کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ اللَّتَیْنِ فِیْ یَدَیْہِ، وَلٰـکِنْ یَبْدَأُ فَیَضَعُ أَوَّلًا یَدَیْہِ اللَّتَیْنِ لَیْسَ فِیْہِمَا رُکْبَتَانِ ثُمَّ یَضَعُ رُکْبَتَیْہِ، فَیَکُوْنُ مَا یَفْعَلُ فِیْ ذٰلِکَ بِخِلَافِ مَا یَفْعَلُ الْبَعِیْرُ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْیَدَیْنِ یُبْدَأُ بِوَضْعِہِمَا فِی السُّجُوْدِ قَبْلَ الرُّکْبَتَیْنِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلْ یَبْدَأُ بِوَضْعِ الرُّکْبَتَیْنِ قَبْلَ الْیَدَیْنِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٧٨: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اونٹ کی طرح مت بیٹھو بلکہ پہلے پہلے اپنے دو ہاتھ رکھو پھر دونوں گھٹنے رکھو۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کیونکہ آپ نے اونٹ کی طرح بیٹھنے کی ممانعت فرمائی۔ وہ تو اگلی ٹانگوں پر بیٹھتا ہے۔ پھر فرمایا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھے۔ پس اس کو یہاں حکم دیا کہ وہ اس طرح کرے جیسے اونٹ کرتا ہے۔ اور پہلی کلام میں اونٹ جیسے عمل سے منع فرمایا۔ اس کلام کی تصحیح اور ثابت رکھنے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی صورت یہ ہوگی کہ اونٹ کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں اور تمام بہاتم اسی طرح ہیں۔ جبکہ انسان کی حالت اس سے مختلف ہے۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ان دو گھٹنوں کے بل نہ بیٹھے جو اس کی ٹانگوں میں ہیں۔ جیسا کہ اونٹ اپنے ان دو گھٹنوں پر بیٹھتا ہے جو اس کی اگلی ٹانگوں میں ہیں۔ بلکہ پہلے ہاتھ رکھے جن میں گھٹنے نہیں پھر گھٹنے رکھے۔ پس اس کا یہ فعل اونٹ کے فعل کے مخالف ہوگا۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ سجدے میں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے جائیں ‘ انھوں نے اس سلسلے میں مندرجہ بالا روایات کو اپنا مستدل قرار دیا۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا بلکہ اس طرح کرے کہ گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھے اور ان کی دلیل مندرجہ روایات سے استدلال کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٧‘ نمبر ٨٤٠‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٨٥‘ نمبر ٢٦٩‘ نسائی فی التطبیق باب ١٢٨‘ دارقطنی فی السنن ١؍٣٤٤‘ بیہقی فی السنن ٢؍٩٩‘ مسند احمد ٢؍٣٨١۔
ایک اشکال :
بعض لوگوں نے روایت کے الفاظ لا یبرک کما یبرک البیعیر لکن یضع یدیہ قبل رکبتیہ ان دونوں جملوں کو باہم متضاد قرار دیا کیونکہ اونٹ بیٹھتے وقت اپنے اگلے گھٹنوں کو مقدم کرتا ہے۔
مگر اس کا جواب یہ ہے انسانی اور حیوانی اعضاء کے نام کا اور کام کا فرق ہے اونٹ کے گھٹنے اس کے ہاتھ ہیں گویا ارشاد میں ہاتھ کو مقدم کرنے کی ممانعت ہے ہذا ھوالمقصود۔ بیٹھنے کی کیفیت کو اونٹ کے بیٹھنے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھوں کو سجدہ میں گھٹنوں سے پہلے رکھا جائے گا۔
فریق ثانی کا مؤقف :
گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا جائے گا جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثبوت ملتا ہے۔

1479

۱۴۷۹ : بِمَاحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ جَدِّہٖ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا سَجَدَ بَدَأَ بِرُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ) .وَبِمَا۔
١٤٧٩: عبداللہ بن سعید نے اپنے دادا سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ میں جاتے تو ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے رکھتے۔

1480

۱۴۸۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ جَدِّہٖ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا سَجَدَ أَحَدُکُمْ فَلِیَبْدَأْ بِرُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ وَلَا یَبْرُکْ بُرُوکَ الْفَحْلِ) .فَھٰذَا خِلَافُ مَا رَوٰی الْأَعْرَجُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَمَعْنٰی ھٰذَا لَا یَبْرُکْ عَلٰی یَدَیْہِ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ عَلٰی یَدَیْہِ .
١٤٨٠: عبداللہ بن سعید نے اپنے دادا سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو وہ ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے رکھے اور نر اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت ان کی اعرج والی روایت کے خلاف ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں پر بوجھ ڈال کر نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ اپنے ہاتھوں پر بیٹھتا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٣۔
حاصل روایات : یہ روایت اعرج کی اس روایت کے خلاف ہے جس کو اس نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کیونکہ اس روایت کا معنی یہ ہے اپنے ہاتھ کو پہلے نہ رکھے جیسے اونٹ اپنے ہاتھوں پر بیٹھتا ہے۔

1481

۱۴۸۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِیْ إِسْرَائِیْلَ، قَالَ أَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبِ ڑالْجَرْمِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ بَدَأَ بِوَضْعِ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ .
١٤٨١: عاصم بن کلیب جرمی نے اپنے والد سے انھوں نے وائل بن حجر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٣٧‘ نمبر ٨٣٨‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٨٤‘ نمبر ٢٦٨‘ نسائی فی التطبیق باب ٣٨‘ ٩٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ٢٨٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٧٤۔

1482

۱۴۸۲ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ وَائِلًا، کَذَا قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ مِنْ حِفْظِہِ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ وَقَدْ غَلِطَ وَالصَّوَابُ شَقِیْقٌ وَہُوَ أَبُوْ لَیْثٍ کَذٰلِکَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ مِنْ کِتَابِہٖ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ شَقِیْقٍ أَبِیْ لَیْثٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ وَشَقِیْقٌ أَبُوْ لَیْثٍ ھٰذَا فَلَا یُعْرَفُ .فَلَمَّا اُخْتُلِفَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا یَبْدَأُ بِوَضْعِہِ فِیْ ذٰلِکَ نَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَکَانَ سَبِیْلُ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ : أَنَّ وَائِلًا لَمْ یُخْتَلَفْ عَنْہُ وَإِنَّمَا الْاِخْتِلَافُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ یَکُوْنَ مَا رُوِیَ عَنْہُ لَمَّا تَکَافَأَتِ الرِّوَایَاتُ فِیْہِ ارْتَفَعَ وَثَبَتَ مَا رَوٰی وَائِلٌ فَھٰذَا حُکْمُ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ فِیْ ذٰلِکَ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَعْضَائَ الَّتِیْ أُمِرَ بِالسُّجُوْدِ عَلَیْہَا ہِیَ سَبْعَۃُ أَعْضَائٍ بِذٰلِکَ جَائَ تَ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٨٢: عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد شدہ روایات میں اختلاف ہے کہ ہاتھوں یا پاؤں میں سے پہلے کس کو رکھا جائے تو ہم نے اس میں تصحیح معانی کی خاطر غور کیا کہ حضرت وائل (رض) کی روایت میں اختلاف نہیں۔ اختلاف اس روایت میں ہے جو حضرت ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے۔ پس تقابل کی وجہ سے روایات کو چھوڑ دیا جائے اور حضرت وائل (رض) کی روایت ثابت ہوجائے۔ البتہ معانی آثار کی تصحیح اس طرح بھی ممکن ہے۔ البتہ غور و فکر کے انداز سے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ سجدہ کے اعضاء سات ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایات وارد ہوئی ہے۔
تقید سند : اس نے وائل کا ذکر نہیں کیا اسی طرح ابن ابی داؤد نے اپنے حافظہ سے سفیان ثوری کہا حالانکہ اس نے غلطی کی ہے درست شقیق ہے جو کہ ابو لیث ہے ہمیں اسی طرح یزید بن سنان نے اپنی کتاب سے بیان کیا : حدثنا حبان بن ہلال قال ثنا ہمام عن شقیق ابی لیث عن عاصم بن کلیب عن ابیہ ۔ یہ شقیق ابو لیث غیر معروف ہے۔
حاصل روایات : گزشتہ روایات اور موجودہ روایات کے مضامین میں اختلاف ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کی دونوں روایتیں باہمی متضاد ہیں البتہ وائل بن حجر (رض) کی روایت وہ ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت کے موافق ہے اب تصحیح آثار کے پیش نظر ابوہریرہ (رض) کی اس روایت کو لیا جائے گا جو وائل بن حجر (رض) کی روایت کے موافق ہے اور وہ گھٹنوں کا سجدہ میں ہاتھوں سے پہلے رکھنا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
بطریق نظر اگر دیکھا جائے تو جن اعضاء میں سجدے کا حکم ہے وہ سات اعضاء ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کئی روایات وارد ہیں جن میں چند یہ ہیں۔

1483

۱۴۸۳ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : أُمِرَ الْعَبْدُ أَنْ یَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ آرَابٍ وَجْہِہٖ وَکَفَّیْہِ وَرُکْبَتَیْہِ وَقَدَمَیْہِ أَیُّہَا لَمْ یَقَعْ فَقَدِ انْتَقَصَ .
١٤٨٣: عامر بن سعد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ بندے کو سات اعضاء پر سجدے کا حکم دیا گیا ہے چہرہ ‘ دونوں ہتھیلیاں ‘ دونوں گھٹنے اور دونوں قدم ‘ ان میں سے جو زمین پر نہ لگ سکا اتنی سجدہ میں کمی آگئی۔
اللغات : آراب۔ جمع ارب۔ عضو۔
تخریج : مسند عبد بن حمید ١؍٨٢۔

1484

۱۴۸۴ : وَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ عَنْ عَامِرِ ابْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : اِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ عَلَی سَبْعَۃِ آرَابٍ) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ.
١٤٨٤: عامر بن سعد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جب بندہ سجدہ کرے تو سات اعضاء پر سجدہ کرے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٨٠

1485

۱۴۸۵ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ح.
١٤٨٥: عبداللہ بن صالح کہتے ہیں مجھے اللیث نے اسی طرح اپنی سند سے نقل کیا۔

1486

۱۴۸۶ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (اِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَہُ سَبْعَۃُ آرَابٍ وَجْہُہُ وَکَفَّاہُ وَرُکْبَتَاہُ وَقَدَمَاہُ) .
١٤٨٦: عامر بن سعد بن ابی وقاص نے عباس بن عبدالمطلب سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں چہرہ ‘ دونوں ہتھیلیاں ‘ دونوں گھٹنے ‘ دونوں قدم۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٥١‘ نمبر ٩٨١‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٨٧‘ نمبر ٢٧٢‘ نسائی فی التطبیق باب ٤١‘ ٤٦‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ١٩‘ نمبر ٨٨٥‘ مسند احمد ١‘ ٢٠٦؍٢٠٨‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٤٩١‘ باختلاف یسیر من اللفظ۔

1487

۱۴۸۷ : وَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑالْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْہَادِ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٤٨٧: عبدالعزیز بن محمد نے یزید بن الھاد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1488

۱۴۸۸ : وَمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوٗسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ .
١٤٨٨: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات ہڈیوں پر سجدہ کا حکم دیا۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٣٣‘ ١٣٤؍١٣٨‘ مسلم فی الصلاۃ ٢٢٧؍٢٢٩‘ ٢٣٠‘ ترمذی فی المواقیت باب ٨٧‘ ٢٧٣‘ نسائی فی التطبیق باب ٤٤‘ ٥٨‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٩‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٧٣‘ مسند احمد ١؍٢٧٩‘ ٢٨١؍٢٨٦‘ ٢٩٢؍٣٠٥۔

1489

۱۴۸۹ : وَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ فَکَانَتْ ھٰذِہِ الْأَعْضَائُ ہِیَ الَّتِیْ عَلَیْہَا السُّجُوْدُ .فَنَظَرْنَا کَیْفَ حُکْمُ مَا اُتُّفِقَ عَلَیْہِ مِنْہَا لِیُعْلَمَ بِہٖ کَیْفَ حُکْمُ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنْہَا فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا سَجَدَ یَبْدَأُ بِوَضْعِ أَحَدِ ہٰذَیْنِ إِمَّا رُکْبَتَاہُ وَإِمَّا یَدَاہُ ثُمَّ رَأْسُہٗ بَعْدٗ ہُمَا وَرَأَیْنَاہُ اِذَا رَفَعَ بَدَأَ بِرَأْسِہٖ فَکَانَ الرَّأْسُ مُقَدَّمًا فِی الرَّفْعِ مُؤَخَّرًا فِی الْوَضْعِ ثُمَّ یُثَنِّیْ بَعْدَ رَفْعِ رَأْسِہِ بِرَفْعِ یَدَیْہِ ثُمَّ رُکْبَتَیْہِ وَھٰذَا اتِّفَاقٌ مِنْہُمْ جَمِیْعًا فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی مَا وَصَفْنَا فِیْ حُکْمِ الرَّأْسِ اِذَا کَانَ مُؤَخَّرًا فِی الْوَضْعِ لَمَّا کَانَ مُقَدَّمًا فِی الرَّفْعِ أَنْ یَکُوْنَ الْیَدَانِ کَذٰلِکَ لَمَّا کَانَتَا مُقَدَّمَتَیْنِ عَلَی الرُّکْبَتَیْنِ فِی الرَّفْعِ أَنْ تَکُوْنَا مُؤَخَّرَتَیْنِ عَنْہُمَا فِی الْوَضْعِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا رَوٰی وَائِلٌ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ وَبِہٖ نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ وَعَبْدِ اللّٰہِ وَغَیْرِہِمَا۔
١٤٨٩: عطاء نے ابن عباس (رض) اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے پس یہ وہ اعضاء ہیں جن پر سجدے کا دارومدار ہے۔ پس ہم نے غور کیا کہ ان میں متفق علیہ کا حکم کیا ہے تاکہ اختلافی بات کا حکم اس سے جان سکیں۔ چنانچہ غور سے معلوم ہوا کہ مرد سجدے کے وقت گھٹنوں یا ہاتھوں میں سے ایک کو رکھتا ہے۔ اور اپنا سر رکھتا ہے۔ اور اٹھانے کی حالت اس کے برعکس ہے کہ پہلے سر اٹھایا جاتا ہے جو رکھنے میں سب سے آخر میں تھا۔ پھر وہ اپنے ہاتھ اور پھر گھٹنے اٹھاتا ہے۔ اس اٹھنے کی حالت پر سب متفق ہیں۔ پس غور و فکر اس بات کے متقاضی ہیں کہ جس طرح سر رکھنے میں مؤخر اور اٹھانے میں مقدم ہوتا ہے۔ اسی طرح ہاتھ جب گھٹنوں سے پہلے اٹھائے جاتے ہیں تو رکھنے میں ان سے مؤخر ہونے چاہئیں۔ فلہذا اس سے تو حضرت وائل (رض) کی روایت والا عمل ثابت ہوگیا۔ قیاس اسی کو چاہتا ہے۔ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف و محمد (رح) کا قول اس کے مطابق ہے۔ اور صحابہ کرام میں سے حضرت عمر ‘ ابن مسعود (رض) کا قول اس کے موافق ہے۔
حاصل روایات : اعضاء سجدہ سات ہیں اور انہی سے کامل سجدہ ادا ہوتا ہے جتنا اس میں سے کم رہ جائے گا اتنی اس میں کمی آجائے گی۔

نظر طحاوی (رح) :
فنظرنا کیف سے یہی بیان کرنا چاہتے ہیں ہم نے غورفکر کیا تاکہ اس اختلاف میں سے نکلنے کا راستہ مل جائے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ آدمی جب سجدہ کرتا ہے تو ان دو اعضاء میں سے کسی ایک سے ابتداء کرتا ہے خواہ ہاتھ ہوں یا گھٹنے پھر سر ان کے بعد۔ اور جب سجدے سے سر اٹھاتا ہے تو سر اٹھانے میں سب سے پہلے ہے حالانکہ رکھنے میں سب سے مؤخر تھا پھر ہاتھوں اور پھر گھٹنوں کو اٹھاتا ہے اور اس پر تو سب کا اتفاق ہے۔
اب ہم نے غور کیا کہ سر کا حکم رکھنے میں سب سے مؤخر ہے اور اٹھانے میں سب سے مقدم ہے تو اٹھانے میں ہاتھ اس کے بعد اور پھر گھٹنے تو رکھنے میں بھی اسی بات کا لحاظ ہونا چاہیے گھٹنے دوسرے نمبر اور ہاتھ تیسرے نمبر پر ہوں تاکہ رکھنے کی ترتیب اٹھانے کی ترتیب کا عکس ہو اور اسی بات کو وائل بن حجر (رض) کی روایت میں ذکر کردیا گیا ہے بطریق نظر یہی بات ثابت ہوتی ہے اور یہی امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
مزید تائید :
حضرت عمر ‘ عبداللہ بن مسعود (رض) اور دیگر کئی حضرات سے بھی یہ بات ثابت ہے چنانچہ روایات ملاحظہ ہوں۔

1490

۱۴۹۰ : کَمَا حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ عَنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ فَقَالَا : حَفِظْنَا عَنْ عُمَرَ فِیْ صَلَاتِہٖ أَنَّہٗ خَرَّ بَعْدَ رُکُوْعِہٖ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ کَمَا یَخِرُّ الْبَعِیْرُ وَوَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ .
١٤٩٠: علقمہ و اسود کہتے ہیں ہمیں عمر (رض) کے متعلق خوب یاد ہے کہ وہ رکوع کے بعد سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنے اونٹ کی طرح پہلے رکھتے اور پھر ہاتھ۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٣۔

1491

۱۴۹۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ أَرْطَاۃَ أَخْبَرَہُمْ قَالَ : قَالَ اِبْرَاہِیْمُ النَّخَعِیُّ حُفِظَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رُکْبَتَیْہِ کَانَتَا تَقَعَانِ إِلَی الْأَرْضِ قَبْلَ یَدَیْہِ .
١٤٩١: ابراہیم نخعی (رح) کہتے ہیں کہ مجھے ابن مسعود (رض) کی نماز کے متعلق اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے گھٹنے سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر ہاتھوں سے پہلے پڑتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٤۔

1492

۱۴۹۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مُغِیْرَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الرَّجُلِ یَبْدَأُ بِیَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ اِذَا سَجَدَ فَقَالَ أَوَ یَضَعُ ذٰلِکَ إِلَّا أَحْمَقُ أَوْ مَجْنُوْنٌ۔
١٤٩٢: مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے دریافت کیا کہ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھتا اور پھر اپنے گھٹنے رکھتا ہے تو وہ کہنے لگے یہ تو کوئی مجنون اور احمق کرتا ہوگا۔ (باقی جن آثار میں وارد ہے وہ بڑھاپے والے لوگ ہیں جو کہ اس حکم سے بڑھاپے کی وجہ سے مستثنیٰ ہیں)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٣۔
اس باب میں بھی امام طحاوی (رح) نے آثار و دلائل سے مسئلہ کو ثابت کرنے کے بعد نظر سے کام لیا مگر عام عادت کے خلاف اپنی عقلی دلیل کے بعد تائید کے لیے حضرات صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) کے اقوال و افعال تائید مزید کے لیے پیش کئے۔ اللہ درہ مادق نظرہ۔

1493

۱۴۹۳ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ قَالَ : اجْتَمَعَ أَبُوْ حُمَیْدٍ، وَأَبُوْ أُسَیْدٍ، وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، فَذَکَرُوْا صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا سَجَدَ أَمْکَنَ أَنْفَہُ وَجَبْہَتَہُ وَنَحَّی یَدَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا: الَّذِیْ یَنْبَغِیْ لِلْمُصَلِّیْ أَنْ یَجْعَلَ یَدَیْہِ فِیْ سُجُوْدِہِ حِذَائَ مَنْکِبَیْہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یَجْعَلُ یَدَیْہِ فِیْ سُجُوْدِہٖ حِذَائَ أُذُنَیْہِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٤٩٣: عباس بن سہل روایت کرتے ہیں کہ ابو حمید اور ابو اسید اور سہل بن سعد جمع ہوئے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا تذکرہ کیا تو ابو حمید کہنے لگے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر جماتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے اور اپنی دو ہتھیلیوں کو اپنے کندھوں کے برابر رکھتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ نمازی کو چاہیے کہ وہ سجدے میں اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر رکھے۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا سجدے میں اپنے ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھے۔ اور ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٧٣٠‘ باب ١٧٧‘ نمبر ٩٦٣‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٠‘ نمبر ٣٠٤‘ نسائی فی السھو باب ٢٩‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢‘ ٢٦؍٧٣‘ ١١٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٣٥۔
خلاصہ الزام : سجدہ میں ہاتھ تو زمین پر رکھے جاتے ہیں اس سے پہلے باب میں ان کا گھٹنوں سے مؤخر کرنا ثابت کیا اب یہاں سجدہ میں رکھنے کی جگہ بتلانا چاہتے ہیں۔
نمبر !: امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے ہاں کندھوں کے برابر رکھے جائیں گے۔
نمبر ": اور احناف و سفیان ثوری (رح) کے ہاں کانوں کے برابر رکھے جائیں گے۔
مؤقف اوّل اور اس کے دلائل :
ہاتھوں کو سجدہ میں کندھوں کے برابر رکھا جائے گا جیسا کہ ابو حمید ساعدی (رض) کی روایت میں وارد ہے۔
حاصل روایات : سجدہ میں اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر رکھا جائے گا۔
مؤقف ثانی :
ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھا جائے گا جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔

1494

۱۴۹۴ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبِ ڑ الْجَرْمِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ کَانَتْ یَدَاہُ حِیَالَ أُذُنَیْہِ۔
١٤٩٤: عاصم بن کلیب جرہمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وائل بن حجر (رض) نے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے برابر ہوتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ ٧٢٦‘ نسائی فی التطبیق باب ٤٩‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥‘ نمبر ٨٦٧۔

1495

۱۴۹۵ : وَبِمَا حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمٌ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٤٩٥: خالد نے بیان کیا کہ ہمیں عاصم نے بیان کیا اور انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

1496

۱۴۹۶ : وَبِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ : کُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاۃَ أَبِیْ فَحَدَّثَنِیْ وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَکَانَ اِذَا سَجَدَ وَضَعَ وَجْہَہٗ بَیْنَ کَفَّیْہِ.
١٤٩٦: عبدالجبار بن وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اپنے والد کی نماز کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا تھا مجھے وائل بن علقمہ نے اپنے والد وائل بن حجر (رض) سے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کی جب آپ سجدہ کرتے اپنا چہرہ اپنی ہتھیلیوں کے درمیان رکھتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ نمبر ٧٢٣۔

1497

۱۴۹۷ : وَبِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ، قَالَ : سَأَلْتُہٗ أَیْنَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضَعُ جَبْہَتَہٗ اِذَا صَلَّی قَالَ : بَیْنَ کَفَّیْہِ .فَکَانَ کُلُّ مَنْ ذَہَبَ فِی الرَّفْعِ فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ إِلَی الْمَنْکِبَیْنِ یَجْعَلُ وَضْعَ الْیَدَیْنِ فِی السُّجُوْدِ حِیَالَ الْمَنْکِبَیْنِ أَیْضًا وَکُلُّ مَنْ ذَہَبَ فِی الرَّفْعِ فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ إِلَی الْأُذُنَیْنِ یَجْعَلُ وَضْعَ الْیَدَیْنِ فِی السُّجُوْدِ حِیَالَ الْأُذُنَیْنِ أَیْضًا .وَقَدْ ثَبَتَ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ تَصْحِیْحُ قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ فِی الرَّفْعِ فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ إِلَی حِیَالِ الْأُذُنَیْنِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَیْضًا قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ فِیْ وَضْعِ الْیَدَیْنِ فِی السُّجُوْدِ حِیَالَ الْأُذُنَیْنِ أَیْضًا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ.s
١٤٩٧: ابو اسحاق نے برائ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے خود ان سے سوال کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے وقت سجدہ میں پیشانی کہاں رکھتے تو انھوں نے جواب دیا اپنی دونوں ہتھیلوں کے مابین۔ پس جو لوگ نماز کے شروع میں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے کے قائل ہیں انہی کا قول یہ ہے سجدے میں بھی ہاتھ کندھوں کے برابر رکھے جائیں گے۔ اور جو ابتداء نماز میں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے کا حکم دیتے ہیں وہ سجدے میں بھی ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھنے کو اختیار کرنے والے ہیں۔ اور کتاب الصلوۃ میں کانوں کو ہاتھوں تک اٹھانے والا مؤقف ثابت کیا جا چکا ہے۔ اس سے سجدہ میں ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھنے کا مؤقف خود ثابت ہوگیا۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٨٧‘ ٢٧١۔
حاصل روایات : ان چار روایات میں سجدہ کے دوران ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھنا معلوم ہو رہا ہے پس اس سے ثابت ہوگیا کہ یہی افضل ہے۔
لطیفہ : اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو حضرات افتتاح صلوۃ میں کندھوں تک ہاتھ لے جانے کے قائل ہیں وہی سجدہ میں کندھوں کے برابر ہاتھوں کو رکھنے کے قائل ہیں اور جو تکبیر افتتاح میں کانوں تک ہاتھ لے جانے کے قائل ہیں وہ سجدہ میں کانوں کے برابر ہاتھوں کو رکھنے کے قائل ہیں۔
اور گزشتہ ابواب میں ہم ثابت کرچکے کہ افتتاحی تکبیر میں کون کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانے والا ہے چنانچہ ہمارے ائمہ کے ہاں تکبیر افتتاح میں ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھایا جاتا ہے اس لیے سجدہ میں بھی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول یہی ہے کہ ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھا جائے۔
نوٹ : یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے البتہ ایک لطیفہ افتتاحی تکبیر اور سجدہ میں ہاتھوں کے رکھنے کا یہاں ذکر کردیا اور افتتاحی تکبیر میں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے کے دلائل اس باب میں کافی گزرے تھے یہاں ان کی طرف اشارہ کر کے چند دلائل پر اکتفاء کیا۔ اللہ ما تبصرہ۔

1498

۱۴۹۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَرَاہُمَ الْجُلُوْسَ فَنَصَبَ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی وَثَنٰی رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَجَلَسَ عَلٰی وَرِکِہِ الْیُسْرٰی وَلَمْ یَجْلِسْ عَلٰی قَدَمَیْہِ ثُمَّ قَالَ : أَرَانِیْ ھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرٍ وَحَدَّثَنِیْ أَنَّ أَبَاہُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
١٤٩٨: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد نے ہمیں تشہد میں بیٹھنا دکھایا پس انھوں نے دایاں پاؤں کھڑا کیا اور بایاں موڑ کر دوہرا کیا اور اپنی بائیں سرین کو زمین پر ٹیک کر بیٹھ گئے اور دونوں قدموں کے زور پر نہ بیٹھے پھر کہنے لگے یہ کیفیت مجھے عبداللہ بن عبداللہ بن عمرو (رض) نے کر کے دکھلائی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میرے والد عبداللہ (رض) اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٦‘ نمبر ٩٦١۔
خلاصہ الزام : تشہد قعدہ اولیٰ اور قعدہ ثانیہ جلسہ بین السجدتین میں تورک مسنون ہے یا دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پاؤں کے اوپر بیٹھا جائے۔
فریق اوّل :
امام مالک (رح) کہتے ہر سہ حالات میں تورک مسنون ہے۔
فریق ثانی :
امام شافعی واحمد (رح) قعدہ اولیٰ اور جلسہ میں دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پر بیٹھنا مسنون ہے اور قعدہ اخیرہ میں تورک مسنون ہے۔
فریق ثالث :
احناف ‘ ابن مبارک (رح) ہر سہ مواقع میں دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پر بیٹھنا مسنون ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف :
قعدہ اولیٰ ‘ جلسہ اور قعدہ اخیرہ ہر سہ مقام پر تورک یعنی دائیں کو کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو بچھا کر زمین پر بیٹھنا مسنون ہے۔

1499

۱۴۹۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ کَانَ یَرٰی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَتَرَبَّعُ فِی الصَّلَاۃِ اِذَا جَلَسَ قَالَ : فَفَعَلْتُہٗ یَوْمَئِذٍ وَأَنَا حَدِیْثُ السِّنِّ فَنَہَانِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَقَالَ : إِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَتَثْنِیَ الْیُسْرٰی فَقُلْتُ لَہٗ : فَإِنَّکَ تَفْعَلُ ذٰلِکَ فَقَالَ : إِنَّ رِجْلَیَّ لَا تَحْمِلَانِی .قَالَ : أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْقُعُوْدَ فِی الصَّلَاۃِ کُلِّہَا أَنْ یَنْصِبَ الرَّجُلُ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی وَیَثْنِیَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَیَقْعُدَ بِالْأَرْضِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا وَصَفَہٗ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ مِنَ الْقُعُوْدِ وَبِقَوْلِ : عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ إِنَّ ذٰلِکَ سُنَّۃُ الصَّلَاۃِ قَالُوْا : وَالسُّنَّۃُ لَا تَکُوْنُ إِلَّا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ وَقَالُوْا: أَمَّا الْقُعُوْدُ فِیْ آخِرِ الصَّلَاۃِ فَکَمَا ذَکَرْتُمْ وَأَمَّا الْقُعُوْدُ فِی التَّشَہُّدِ الْأَوَّلِ مِنْہَا فَعَلَی الرِّجْلِ الْیُسْرٰی وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ فِیْمَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمَ الْفَرِیْقُ الْأَوَّلُ أَنَّ قَوْلَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا إِنَّ سُنَّۃَ الصَّلَاۃِ فَذَکَرَ مَا فِی الْحَدِیْثِ لَا یَدُلُّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَأَیْ ذٰلِکَ أَوْ أَخَذَہٗ مِمَّنْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ بَعْدِی) ، وَقَالَ : سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ لَمَّا سَأَلَہٗ رَبِیْعَۃُ، عَنْ أُرُوشِ أَصَابِعِ الْمَرْأَۃِ إِنَّہَا السُّنَّۃُ یَا ابْنَ أَخِیْ وَلَمْ یَکُنْ مَخْرَجُ ذٰلِکَ إِلَّا عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَسَمَّی سَعِیْدٌ قَوْلَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ سُنَّۃً فَکَذٰلِکَ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سَمَّی مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا سُنَّۃً وَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ فِیْ ذٰلِکَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ .وَفِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ أَرَی الْقَاسِمَ الْجُلُوْسَ فِی الصَّلَاۃِ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِہٖ وَذَکَرَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ لَمَّا قَالَ لَہٗ : فَإِنَّکَ تَفْعَلُ ذٰلِکَ فَقَالَ : إِنَّ رِجْلَایَ لَا تَحْمِلَانِیْ فَکَانَ مَعْنَیْ ذٰلِکَ أَنَّہُمَا لَوْ حَمَلَتَانِیْ قَعَدْتُ عَلٰی إِحْدَاہُمَا وَأَقَمْتُ الْأُخْرٰی‘ لِأَنَّ ذِکْرَہٗ لؑہُمَا لَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ إِحْدَاہُمَا تُسْتَعْمَلُ دُوْنَ الْأُخْرَی وَلٰـکِنْ تُسْتَعْمَلَانِ جَمِیْعًا، فَیَقْعُدُ عَلٰی إِحْدَاہُمَا وَیَنْصِبُ الْأُخْرٰی‘ فَھٰذَا خِلَافُ مَا فِیْ حَدِیْثِ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ .وَقَدْ رَوٰی أَبُوْ حُمَیْدِ ڑالسَّاعِدِیُّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
: عبداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) کا یبان ہے کہ میں نے اپنے والد عبداللہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں جب تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں تو چوکڑی مار کر بیٹھتے ہیں میں نو عمر تھا میں نے ان کو دیکھ کر ایسا ہی کیا تو (نماز سے فارغ ہو کر) مجھے منع فرمایا اور کہنے لگے نماز میں تشہد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے اور بائیں پاؤں دوہرا کر دو میں نے کہا آپ ایسا کیوں نہیں کرتے تو فرمانے لگے میرے پاؤں کو میرے جسم کے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا خیال یہ ہے کہ تمام نماز میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کر کے اور بائیں پاؤں کو دوہرا کر کے زمین پر بچھا کر بیٹھے اور ان کی دلیل اس سلسلہ میں یحییٰ بن سعید کا نماز کے متعلق بیان اور ابن عمر (رض) کا عبدالرحمن بن قاسم والی روایت میں یہ قول ” ان ذلک سنۃ الصلاۃ “ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنت تو صرف عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوتی ہے۔ مگر دوسرے علماء نے کہا نماز میں بیٹھنے کا آخر میں طریقہ تو وہی ہے جو تم نے بیان کیا۔ مگر اول قعدہ میں بائیں پاؤں پر بیٹھنا چاہیے۔ انھوں نے بھی اپنا مستدل اسی روایت کو قرار دیا۔ جو پہلے فریق کی دلیل ہے۔ کہ عبداللہ بن عمر (رض) کا قول ” ان ذلک سنۃ الصلاۃ “ ہے۔ پس سنت کا لفظ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس سے مراد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے بعد والوں کو اس طرح کرتے دیکھا یا ان سے معلوم کیا ہو۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین۔۔۔“ (الحدیث) ۔ تو خلفاء کی سنت کو بھی سنت کہا گیا ہے۔ اسی طرح ابن مسب (رح) سے ربیعہ نے عورت کی انگلیوں کی دیت دریافت کی ‘ تو انھوں نے فرمایا اے بھتیجے یہ سنت ہے۔ حالانکہ وہ زید بن ثابت (رض) کا قول تھا۔ تو سعید نے حضرت زید (رض) کے قول سنت فرمایا۔ پس اسی طرح اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ ابن عمر (رض) نے بھی اس قسم کی بات کو سنت فرمایا۔ اگرچہ ان کے ہاں اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ کچھ بھی مروی نہ ہو۔ اس سلسلے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ابن عمر (رض) نے اپنے بیٹے قاسم کو نماز کے اندر بیٹھنے کے متعلق بتلایا جیسا کہ ان کی روایت میں ہے۔ عبداللہ نے اپنے والد ابن عمر (رض) کو کہا کہ آپ تو التی پالتی مار کر بیٹھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا میرے پاؤں میرا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ بوجھ برداشت کرتے تو میں ایک پاؤں پر بیٹھتا کیونکہ ان کا دونوں پاؤں کے متعلق ذکر نہ کرنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا تاکہ ان میں سے ایک استعمال کیا جائے اور دوسرا استعمال کیا جائے بلکہ دونوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک پر بیٹھتے اور دوسرے کو کھڑا کرلے۔ یہ یحییٰ بن سعید والی روایت کے خلاف ہے اور حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح ذکر کیا ہے۔
حاصل روایات : تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا کرے اور بائیں پاؤں کو دوہرا کرے اور بیٹھ جائے اگر زمین پر بیٹھے تو تورک کی صورت ثابت ہوگئی۔
طریق استدلال :
روایت میں یحییٰ بن سعید نے عبدالرحمن بن قاسم سے اور انھوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ اس انداز سے بیٹھنا سنت صلوۃ ہے اور سنت تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوتی ہے پس تورک کا سنت ہونا ثابت ہوگیا۔
الجواب نمبر !: فریق ثانی کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ آخری قعدہ میں تو اسی طرح بیٹھا جائے گا جیسا تم نے بیان کیا البتہ تشہد اول اور جلسہ میں بائیں پاؤں پر بیٹھا جائے گا رہی تمہاری دلیل تو اس میں آپ نے سنت کے لفظ سے استدلال کیا ہے اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ سنت سے مراد ابن عمر (رض) یا خلفاء راشدین کی رائے اور طریقہ ہے ضروری نہیں کہ اس سے مراد سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلفاء کے طریقہ کے بارے میں بتلایا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین (الحدیث) ۔ جب ربیعہ نے سعید بن المسیب سے پوچھا کہ عورت کی انگلیوں کی دیت کیا ہے تو انھوں نے فرمایا یہ سنت ہے حالانکہ یہ تو زید بن ثابت (رض) کا اجتہاد و رائے تھی۔ اسی طرح حضرت ابن عمر (رض) نے بھی اس کو اسی اعتبار سے سنت قرار دیا خواہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس میں کوئی چیز مروی نہ ہو پس سنت کہنے سے تورک کا مسنون ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
جواب نمبر ": عبداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) کا یہ قول کہ ابا جی ! آپ خود تو تربع کرتے ہیں تو انھوں نے جواباً فرمایا میرے پاؤں میرے جسم کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے مطلب یہ ہے کہ اگر اٹھاسکتے تو میں اسی طرح بیٹھتا کہ دائیں کو کھڑا کرتا اور بائیں کو موڑ کر بیٹھتا تو دونوں پاؤں کا تذکرہ کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ دونوں کو کھڑا کرتے بلکہ ایک کو کھڑا کرنے اور دوسرے پر بیٹھنے پر زیادہ دلالت کرتا ہے اور یہ بات روایت یحییٰ بن سعید کے خلاف ہے۔
پس مدعا ثابت نہ ہوا (یہ دونوں جواب کافی کمزور ہیں فتدبر)
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
قعدہ اولیٰ اور جلسہ میں تو دائیں پاؤں کو کھڑا کریں گے اور قعدہ اخیرہ میں تورک کیا جائے گا اس کا ثبوت ان روایات میں ملتا ہے۔

1500

۱۵۰۰ : قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ قَالَ .سَمِعْتُ أَبَا حُمَیْدِ ڑ السَّاعِدِیَّ فِیْ عَشْرَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدُہُمْ أَبُوْ قَتَادَۃَ قَالَ : قَالَ أَبُوْ حُمَیْدٍ (أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : لِمَ فَوَاللّٰہِ مَا کُنْتَ أَکْثَرَنَا لَہٗ تَبْعَۃً وَلَا أَقْدَمَنَا لَہٗ صُحْبَۃً، فَقَالَ : بَلَی، قَالُوْا : فَاعْرِضْ فَذَکَرَ أَنَّہٗ کَانَ فِی الْجِلْسَۃِ الْأُوْلٰی یَثْنِیْ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی فَیَقْعُدُ عَلَیْہَا حَتّٰی اِذَا کَانَتْ السَّجْدَۃُ الَّتِیْ یَکُوْنُ فِیْ آخِرِہَا التَّسْلِیْمُ أَخَّرَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَقَعَدَ مُتَوَرِّکًا عَلٰی شِقِّہِ الْأَیْسَرِ قَالَ : فَقَالُوْا جَمِیْعًا : صَدَقْتَ) .
١٥٠٠: محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں میں نے حضرت ابو حمید ساعدی (رض) سے اس وقت یہ بات سنی جبکہ وہ دس اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تشریف فرما تھے ان اصحاب عشرہ میں ابو قتادہ (رض) بھی تھے ابو حمید ان کو مخاطب ہو کر فرمانے لگے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں انھوں نے کہا کیوں۔ اللہ کی قسم تم آپ کی اتباع میں ہم سے آگے بڑھنے والے نہیں اور صحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی ہم سے مقدم نہیں انھوں نے کہا کیوں نہیں وہ ابو حمید سے کہنے لگے بہرطور جو کچھ ہے تم تو حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا تذکرہ کرو۔ (محبوب کے اعمال میں محبوب کی خوشبو رچی بسی ہے) ابو حمید کہنے لگے جلسہ اولیٰ (قعدہ اولیٰ ) میں آپ اپنے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے جب آپ قعدہ اخیرہ کرتے تو بائیں پاؤں کو مؤخر کرتے اور زمین پر اپنی سرین کے سہارے سے بائیں طرف بیٹھ جاتے تو اس پر تمام نے کہا تم نے سچ کہا۔
تخریج : روایت نمبر ١٤٩٣ کی تخریج ملاحظہ کریں۔

1501

۱۵۰۱ : وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ مُحَمَّدِ ڑالْقُرَشِیِّ وَیَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ .ح قَالَ : وَأَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ وَعَبْدِ الْکَرِیْمِ ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ فَقَالُوْا جَمِیْعًا صَدَقْتَ.
١٥٠١: محمد بن عمرو بن حلحلہ نے محمد بن عمرو بن عطاء سے اور دوسری سند عبدالکریم بن حارث نے محمد بن عمرو بن عطاء سے اور انھوں نے ابو حمید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے صرف ” فَقَالُوْا جَمِیْعًا صَدَقْتَ “ کے الفاظ نقل نہیں کئے۔

1502

۱۵۰۲ : حَدَّثَنِیْ أَبُو الْحُسَیْنِ الْأَصْبَہَانِیُّ ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَخْلَدٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَفْصٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ الدُّؤَلِیِّ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا یُوَافِقُ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَہْلُ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ .وَقَدْ خَالَفَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : الْقُعُوْدُ فِی الصَّلَاۃِ کُلِّہَا سَوَائٌ عَلَی مِثْلِ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ فِیْ قَوْلِ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ یَنْصِبُ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی وَیَفْتَرِشُ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی فَیَقْعُدُ عَلَیْہَا. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٥٠٢: عبدالسلام بن حفص نے محمد بن عمرو بن حلحلہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ اس کے موافق ہے جو پہلے قول والوں نے اختیار کیا اور لوگوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نماز میں پہلے قعدہ اسی طرح ہے جیسا دوسرے قول والوں نے کہا ہے کہ اپنے دائیں کو کھڑا کرلے اور بائیں کو بچھائے اور اس پر بیٹھ جائے۔ ان کی دلیل یہ روایت ہے۔
حاصل روایات : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قعدہ اخیرہ میں اسی طرح تورک فرمایا جیسا کہ فریق اوّل کہتا ہے اور قعدہ اولیٰ میں آپ دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھے۔
فریق ثالث کا مؤقف :
نماز میں تمام قعود ایک ہی کیفیت کے حامل ہیں۔

1503

۱۵۰۳ : بِمَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَرَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَا : حَدَّثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ: ثَنَا أَبُوالْأَحْوَصِ،عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبِ ڑالْجَرْمِیِّ،عَنْ أَبِیْہِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرِ ڑالْحَضْرَمِیِّ، قَالَ : (صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَأَحْفَظَنَّ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَلَمَّا قَعَدَ لِلتَّشَہُّدِ فَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی ثُمَّ قَعَدَ عَلَیْہَا وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرٰی ْ عَلٰی فَخْذِہِ الْیُسْرٰی وَوَضَعَ مِرْفَقَہُ الْأَیْمَنَ عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنَی، ثُمَّ عَقَدَ أَصَابِعَہُ وَجَعَلَ حَلْقَۃَ الْاِبْہَامِ وَالْوُسْطٰی ثُمَّ جَعَلَ یَدْعُوْ بِالْأُخْرٰی) .
١٥٠٣: عاصم بن کلیب جرمی نے اپنے والد سے انھوں نے وائل بن حجر حضرمی (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کی اور میں نے عزم کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو خوب یاد کروں گا کہتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تشہد کے لیے قعدہ کیا تو بائیں پاؤں کو بچھایا پھر اس پر بیٹھ گئے اور بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھا اور دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا اپنی انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا کر عقد کیا اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا اور سبابہ سے دعا کا اشارہ کرنے لگے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٥‘ نمبر ٧٢٦‘ نسائی فی التطبیق باب ٤٩‘ ابن ماجہ فی الاقاممہ باب ١٥‘ نمبر ٨٦٧۔

1504

۱۵۰۴ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عَاصِمٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا یُوَافِقُ مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ .وَفِیْ قَوْلِ وَائِلٍ، ثُمَّ عَقَدَ أَصَابِعَہٗ یَدْعُوْ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ فِیْ آخِرِ الصَّلَاۃِ فَقَدْ تَضَادَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ وَحَدِیْثُ أَبِیْ حُمَیْدٍ فَنَظَرْنَا فِیْ صِحَّۃِ مَجِیْئِہِمَا وَاسْتِقَامَۃِ أَسَانِیْدِہِمَا .
١٥٠٤: خالد نے عاصم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔
حاصل روایات : یہ روایات اس کے بالکل مطابق ہے جس کی طرف فریق ثالث گئے ہیں اس میں ایک چیز ابو حمید والی روایت کے خلاف ہے۔
ایک اشکال :
جب دونوں صحیح روایات معارض ہیں تو آپ نے کس بناء پر وائل بن حجر (رض) کی روایت کو ترجیح دی ہے۔
الجواب نمبر !: ابو حمید (رض) والی روایت سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔

1505

۱۵۰۵ : فَإِذَا فَہْدٌ وَیَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ قَدْ حَدَّثَانَا قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی وَسَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ أَنَّہٗ وَجَدَ عَشْرَۃً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُلُوْسًا فَذَکَرَ نَحْوَ حَدِیْثِ أَبِیْ عَاصِمٍ سَوَائً .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ فَسَدَ بِمَا ذَکَرْنَا حَدِیْثُ أَبِیْ حُمَیْدٍ ؛ لِأَنَّہٗ صَارَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَجُلٍ، وَأَہْلُ الْاِسْنَادِ لَا یَحْتَجُّوْنَ بِمِثْلِ ھٰذَا فَإِنْ ذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ضَعْفَ الْعَطَّافِ بْنِ خَالِدٍ قِیْلَ لَہُمْ : وَأَنْتُمْ أَیْضًا تُضَعِّفُوْنَ عَبْدَ الْحَمِیْدِ أَکْثَرَ مِنْ تَضْعِیْفِکُمْ لِلْعَطَّافِ مَعَ أَنَّکُمْ لَا تَطْرَحُوْنَ حَدِیْثَ الْعَطَّافِ کُلَّہُ إِنَّمَا تَزْعُمُوْنَ أَنَّ حَدِیْثَہُ فِی الْقَدِیْمِ صَحِیْحٌ کُلُّہٗ وَأَنَّ حَدِیْثَہٗ بِآخِرِہِ قَدْ دَخَلَہُ شَیْئٌ .ھٰکَذَا قَالَ : یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ فِی کِتَابِہٖ، فَأَبُوْ صَالِحٍ سَمَاعُہُ مِنَ الْعَطَّافِ قَدِیْمٌ جِدًّا فَقَدْ دَخَلَ ذٰلِکَ فِیْمَا صَحَّحَہٗ یَحْیٰی مِنْ حَدِیْثِہٖ مَعَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ لَا یَحْتَمِلُ مِثْلَ ھٰذَا، وَلَیْسَ أَحَدٌ یَجْعَلُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ سَمَاعًا لِمُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو مِنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ إِلَّا عَبْدَ الْحَمِیْدِ وَہُوَ عِنْدَکُمْ أَضْعَفُ وَلٰـکِنَّ الَّذِیْ رَوٰی حَدِیْثَ أَبِیْ حُمَیْدٍ وَوَصَلَہٗ لَمْ یُفَصِّلْ حُکْمَ الْجُلُوْسِ کَمَا فَصَّلَہٗ عَبْدُ الْحَمِیْدِ۔
١٥٠٥: عطاف بن خالد کہتے ہیں ہمیں محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا اور کہا مجھے ایک آدمی نے بیان کیا کہ اس نے دس اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھے ہوئے پایا پھر انھوں نے بالکل ابو عاصم جیسی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ہم نے جو روایات ذکر کی ہیں اس سے ابو حمید والی روایت فاسد ہوگئی۔ کیونکہ محمد بن عمرو کے بعد ایک مجہول آدمی ہے۔ اور محدثین ایسی روایات کو قابل حجت قرار نہیں دیتے اگر بالفرض وہ عطاف بن خالد کے متعلق کہیں کہ وہ ضعیف ہے تو ہم کہیں گے کہ تم عبد الحمید کو عطاف سے بڑھ کر ضعیف قرار دیتے ہو مگر اس کی تمام روایات کو نہیں چھوڑتے۔ بلکہ تمہارا خیال یہ ہے کہ اس کی تمام قدیم روایات تو درست ہیں اور اس کی آخری دور والی روایات میں کچھ کمزوری آچکی ہے۔ یہ بات یحییٰ بن معین (رح) نے اپنی کتب میں کہی ہے۔ اور ابو صالح نے عطاف سے ابتدائی زمانہ میں حدیث سماعت کی ہے۔ یہ ان روایات میں داخل ہوگئی جن کو یحییٰ بن معین (رح) نے صحیح قرار دیا حالانکہ محمد بن عمرو کی عمر اس بات کا احتمال بھی نہیں رکھتی اور کسی نے اس روایت میں محمد بن عمرو کا ابو حمید سے سماع عبد الحمید کے سوا ثابت نہیں کیا اور وہ تمہارے ہاں ضعیف ترین روات سے ہیں۔ مگر جس نے ابو حمید کی حدیث متصل روایت کی ہے اس نے بیٹھنے کا حکم اس قدر تفصیل سے بیان نہیں کیا جس قدر عبدالحمید نے بیان کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٧٣٠‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١١٠‘ نمبر ٣٠٤‘ نسائی فی السہو باب ٢٩۔
وجہ اوّل :
اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ محمد بن عمرو بن عطاء کا ابو حمید ساعدی (رض) سے سماع ثابت نہیں کیونکہ یہاں رجل کا لفظ آ رہا ہے ایسی روایت قابل حجت نہیں۔
وجہ دوم :
عطاف بن خالد بھی ضعیف راوی ہے ہم نے اس کے ابتدائی دور کی روایت لی اس کی ابتدائی روایات کو درست کہا گیا اور ہم نے آخری دور کی روایت لی حالانکہ ان میں گڑبڑ بتلائی جاتی ہے (کذا قال یحییٰ بن معین فی کتابہ)
وجہ سوم :
محمد بن عمرو بن عطاء کا ابو حمید (رض) سے اتصال و سماع صرف عبدالحمید کی سند میں پایا جاتا ہے وہ ضعیف ترین راوی ہے لیکن جس نے ابو حمید کی روایت کو وصل سے بیان کیا اس سے حکم جلوس میں کوئی تفصیل ذکر نہیں کی جیسا عبدالحمید نے تفصیل کی اور عبدالحمید اضعف راوی کی روایت کس طرح قابل حجت ہوگی۔
روایت ملاحظہ ہو :

1506

۱۵۰۶ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَمَّارِ ڑالْبَغْدَادِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ إِشْکَابَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَیْثَمَۃَ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عِیْسَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ أَحَدِ بَنِیْ مَالِکٍ عَنْ عَیَّاشٍ أَوْ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ السَّاعِدِیِّ وَکَانَ فِیْ مَجْلِسٍ فِیْہِ أَبُوْہُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِی الْمَجْلِسِ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبُوْ أُسَیْدٍ وَأَبُوْ حُمَیْدِ ڑالسَّاعِدِیُّ مِنَ الْأَنْصَارِ (أَنَّہُمْ تَذَاکَرُوْا الصَّلَاۃَ فَقَالَ : أَبُوْ حُمَیْدٍ أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَقَالُوْا : وَکَیْفَ؟ فَقَالَ : اتَّبَعْتُ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْا : فَأَرِنَا، قَالَ: فَقَامَ یُصَلِّیْ وَہُمْ یَنْظُرُوْنَ فَبَدَأَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ نَحْوَ الْمَنْکِبَیْنِ، ثُمَّ کَبَّرَ لِلرُّکُوْعِ، وَرَفَعَ یَدَیْہِ أَیْضًا، ثُمَّ أَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ، غَیْرَ مُقْنِعٍ رَأْسَہٗ وَلَا مُصَوِّبَہُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَی کَفَّیْہِ وَرُکْبَتَیْہِ وَصُدُوْرِ قَدَمَیْہِ وَہُوَ سَاجِدٌ، ثُمَّ کَبَّرَ فَجَلَسَ فَتَوَرَّکَ إِحْدَی رِجْلَیْہِ وَنَصَبَ قَدَمَہُ الْأُخْرٰی‘ ثُمَّ کَبَّرَ فَسَجَدَ ثُمَّ کَبَّرَ فَقَامَ، فَلَمْ یَتَوَرَّکْ، ثُمَّ عَادَ فَرَکَعَ الرَّکْعَۃَ الْأُخْرَی وَکَبَّرَ کَذٰلِکَ، ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ الرَّکْعَتَیْنِ، حَتّٰی اِذَا ہُوَ أَرَادَ أَنْ یَنْہَضَ لِلْقِیَامِ قَامَ بِتَکْبِیْرٍ، ثُمَّ رَکَعَ الرَّکْعَتَیْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، وَسَلَّمَ عَنْ شِمَالِہٖ أَیْضًا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ)
١٥٠٦: محمد بن عمرو بن عطاء نے بنی مالک کے کسی آدمی سے اس نے عیاش یا عباس بن سہل ساعدی سے بیان کیا کہ میں ایک مجلس میں تھا جس میں میرے والد بھی موجود تھے میرے والد خود صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور اس مجلس میں ابوہریرہ ‘ ابواسید ‘ ابو حمیدالساعدی (رض) انصار میں سے تھے انھوں نے باہمی نماز کا مذاکرہ کیا تو ابو حمید نے کہا میں تم میں سب سے بڑھ کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو جاننے والا ہوں انھوں نے کہا یہ کیسے ؟ تو وہ کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کی ہے انھوں نے کہا ہمیں دکھلاؤ چنانچہ ابو حمید کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور وہ تمام دیکھ رہے تھے انھوں نے نماز کی ابتداء میں کندھوں کے برابر ہاتھوں کو بلند کیا پھر رکوع کی تکبیر کہی اور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا پھر اپنے ہاتھوں سے گھٹنوں کو مضبوطی سے تھام لیا سر کو نہ تو کمر سے بلند کرنے والے اور نہ نیچے جھکانے والے تھے (بلکہ برابر رکھنے والے تھے) پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا ولک الحمد کہا پھر رفع یدین کیا پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلے گئے اور سجدہ میں اپنی ہتھیلیوں کے سہارے دونوں گھٹنوں اور پاؤں کو کھڑا رکھا پھر تکبیر کہی اور جلسہ کیا اور ایک پاؤں کو کھڑا رکھا جبکہ دوسرے سے تورک کیا پھر تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا اور تکبیر کہہ کر قیام کے لیے اٹھ گئے اور تورک نہ کیا۔ پھر دوسری رکعت کی قراءت پوری کر کے رکوع کیا اور اسی طرح تکبیر کہی پھر دو رکعت کے بعد بیٹھے جب قیام کے لیے اٹھنے کا ارادہ کیا تو تکبیر کہہ کر کھڑے ہوگئے پھر دو رکعت مکمل کر کے دائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ اللہ اور بائیں طرف السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٦‘ نمبر ٧٣٠‘ بیہقی ٢؍١٤٦‘ تخریج روایت ١٥٠٥ ملاحظہ ہو۔

1507

۱۵۰۷ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیٌّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَدْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَیْثَمَۃَ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عِیْسَی ھٰذَا الْحَدِیْثَ ھٰکَذَا، أَوْ نَحْوَہٗ وَحَدِیْثُ عِیْسٰی أَنَّ مِمَّا حَدَّثَہٗ أَیْضًا فِی الْجُلُوْسِ فِی التَّشَہُّدِ أَنْ یَضَعَ یَدَہُ الْیُسْرٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُسْرٰی، وَیَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنَیْ عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنَی، ثُمَّ یُشِیْرَ فِی الدُّعَائِ بِأُصْبُعٍ وَاحِدَۃٍ .
١٥٠٧: حسن بن حر کہتے ہیں عیسیٰ نے اس روایت کو اسی طرح بیان کیا یا اس جیسا بیان کیا اور عیسیٰ کی حدیث ان میں سے ہے جن کو اس نے بیان کیا اس حدیث میں تشہد بیٹھنے کا اس طرح تذکرہ ہے کہ اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا جائے اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا جائے پھر دعا میں ایک انگلی سے اشارہ کرے۔
تخریج : بیہقی ٢؍١٤٦۔

1508

۱۵۰۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ عَبَّاسِ ابْنِ سَہْلٍ، قَالَ : اجْتَمَعَ أَبُوْ حُمَیْدٍ وَأَبُوْ أُسَیْدٍ، وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، فَذَکَرُوْا صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا الْقُعُوْدَ عَلٰی مَا ذَکَرَہٗ عَبْدُ الْحَمِیْدِ فِیْ حَدِیْثِہٖ فِی الْمَرَّۃِ الْأُوْلٰی وَلَمْ یَذْکُرْ غَیْرَ ذٰلِکَ۔
١٥٠٨: عباس بن سہل کہتے ہیں کہ ابو حمید ‘ ابو اسید ‘ سہل بن سعید اکٹھے بیٹھے تھے انھوں نے باہمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا تذکرہ کیا اور انھوں نے اپنی روایت میں عبدالحمید کے بیان کے مطابق قعدہ اولیٰ کا تذکرہ کیا ہے اور کسی چیز کا تذکرہ اس میں موجود نہیں۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٠٦۔

1509

۱۵۰۹ : .حَدَّثَنِیْ أَبُو الْحُسَیْنِ الْأَصْبَہَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، قَالَ : ثَنَا عُتْبَۃُ بْنُ حَکِیْمٍ، عَنْ عِیْسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعَدَوِیِّ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ، عَنْ أَبِیْ حُمَیْدِ ڑ السَّاعِدِیِّ، أَنَّہٗ (کَانَ یَقُوْلُ لِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا : مِنْ أَیْنَ؟ قَالَ : رَقَبْتُ ذٰلِکَ مِنْہُ حَتّٰی حَفِظْتُ صَلَاتَہُ .قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ کَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حِذَائَ وَجْہِہِ، فَإِذَا کَبَّرَ لِلرُّکُوْعِ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ : رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخْذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطْنَہُ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ فَخِذَیْہِ، وَلَا مُفْتَرِشٍ ذِرَاعَیْہِ، فَإِذَا قَعَدَ لِلتَّشَہُّدِ، أَضْجَعَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَنَصَبَ الْیُمْنَیْ عَلَی صَدْرِہَا، وَیَتَشَہَّدُ) .فَھٰذَا أَصْلُ حَدِیْثِ أَبِیْ حُمَیْدٍ ھٰذَا لَیْسَ فِیْہِ ذِکْرُ الْقُعُوْدِ إِلَّا عَلَی مِثْلِ مَا فِیْ حَدِیْثِ وَائِلٍ وَالَّذِیْ رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، فَغَیْرُ مَعْرُوْفٍ وَلَا مُتَّصِلٍ عِنْدَنَا عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ ؛ لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِہٖ أَنَّہٗ حَضَرَ أَبَا حُمَیْدٍ وَأَبَا قَتَادَۃَ، وَوَفَاۃُ أَبِیْ قَتَادَۃَ قَبْلَ ذٰلِکَ بِدَہْرٍ طَوِیْلٍ ؛ لِأَنَّہٗ قُتِلَ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَصَلَّیْ عَلَیْہِ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَیْنَ سِنُّ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ مِنْ ھٰذَا .فَلَمَّا کَانَ الْمُتَّصِلُ، عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ مُوَافِقًا لَمَا رَوٰی وَائِلٌ، ثَبَتَ الْقَوْلُ بِذٰلِکَ وَلَمْ یَجُزْ خِلَافُہُ مَعَ مَا شَدَّہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْقُعُوْدَ الْأَوَّلَ فِی الصَّلَاۃِ وَفِیْمَا بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ، ہُوَ أَنْ یَفْتَرِشَ الْیُسْرٰی فَیَقْعُدَ عَلَیْہَا .ثُمَّ اخْتَلَفُوْا فِی الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ، فَلَمْ یَخْلُ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ، أَنْ یَکُوْنَ سُنَّۃً أَوْ فَرِیْضَۃً .فَإِنْ کَانَ سُنَّۃً، فَحُکْمُہٗ حُکْمُ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ، وَإِنْ کَانَ فَرِیْضَۃً، فَحُکْمُہٗ حُکْمُ الْقُعُوْدِ فِیْمَا بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا رَوٰی وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ أَیْضًا، اِبْرَاہِیْمُ النَّخَعِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
١٥٠٩: عیسیٰ بن عبدالرحمن عدوی نے عباس بن سہل سے انھوں نے ابو حمید ساعدی (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہنے لگے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں انھوں نے کہا یہ کیسے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ میں نے خوب جانچ کر دیکھا یہاں تک کہ میں نے آپ کی نماز کو خوب محفوظ کرلیا ابو حمید کہنے لگے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو چہرے کے برابر اٹھاتے پھر جب رکوع کی تکبیر کہتے تو دوبارہ اسی طرح کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ربنا ولک الحمد کہتے جب سجدہ کرتے تو اپنی رانوں کو پیٹ سے الگ رکھتے اس کا بوجھ کسی ران پر نہ ڈالتے اور اپنے دونوں بازؤں کو زمین پر نہ بچھاتے جب تشہد کے لیے بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو لٹاتے اور دائیں پاؤں کو ٹھیک و سیدھا اور تشہد پڑھتے۔ یہ ابو حمید کی روایت کی اصل ہے اور اس میں بھی بیٹھنے کا تذکرہ اسی انداز سے ہے جیسا حضرت وائل (رض) کی روایت میں ہے اور وہ جس کو ابو حمید سے محمد بن عمرو نے بیان کیا وہ نہ تو معروف ہے اور نہ متصل ہے کیونہ اس روایت میں یہ ہے کہ وہ خود ابو حمید اور ابو قتادہ کی خدمت میں حاضر ہوا حالانکہ ابو قتادہ کی وفات تو اس سے عرصہ پہلے ہوچکی تھی کیونکہ وہ حضرت علی کے ساتھ لڑائی میں شریک ہو کر شہید ہوئے اور حضرت علی (رض) نے ان کی نماز جنازہ ادا کی ‘ محمد بن عمرو کی عمر ہی اس وقت کیا تھی کہ وہ ان کی مجلس میں حاضر ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابو حمید کی متصل روایت وائل کی رایت کے موافق ہے۔ پس اسی کو اختیار کرنا ضروری ہے اس کی مخالفت درست نہیں جبکہ نظر وفکر کے لحاظ سے بھی اسی کی پختگی ثابت ہوتی ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں نماز میں پہلا قاعدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا بھی پایا جاتا ہے اور وہ اسی طرح ہے کہ بائیں پاؤں کو بٹھا کر اسی پر بیٹھتے ہیں صرف آخری قعدہ میں اختلاف ہے۔ تو وہ دو حالتوں سے خالی نہیں یا وہ سنت ہے یا فرض ‘ اگر وہ سنت ہے تو اس کا حکم پہلے قعدہ کی طرح ہے اور اگر وہ فرض ہے تو اس کا حکم دونوں سجدوں کے درمیان والے قعدہ کی طرح ہے۔ پس اس سے وائل ابن حجر والی روایت میں جو مذکور ہے وہ ثابت ہوگیا اور وہی امام ابوحنیفہ امام ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے اور ابراہیم نخغی (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : یہ ابو حمید ساعدی (رض) کی روایات میں سے اصل ہے اس میں قعود کا تذکرہ اسی طرح سے ہے جس طرح کہ وائل بن حجر (رض) کی روایت میں ہے اور جس کو محمد بن عمرو نے بیان کیا ہے وہ غیر معروف ہے اور ہمارے ہاں ابو حمید سے اس کا اتصال بھی نہیں ہے۔
عدم اتصال کے وجوہ :
نمبر !: اس میں یہ مذکور ہے کہ وہ ابو حمید اور ابو قتادہ کی خدمت میں حاضر ہوا حالانکہ ابو قتادہ (رض) کی وفات اس سے طویل زمانہ پہلے ٤٠ ؁ھ میں ہوچکی تھی۔
نمبر ": ابو قتادہ (رض) جن کی خدمت میں حاضری بتلائی جا رہی ہے وہ علی (رض) کے ساتھ ان کے زمانہ میں شہید ہوئے اس وقت تو محمد بن عمرو بن عطاء کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی سماع حدیث تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کی پیدائش ٤٤ ؁ھ میں ہوئی۔
فیصلہ کن مرحلہ :
جب ابو حمید ساعدی (رض) کی متصل روایت وائل بن حجر (رض) کی روایت کے موافق ہے تو فریق ثالث کی بات اس سے ثابت ہوگئی اسی کو اپنانا چاہیے اس کی خلاف ورزی نہ ہونی چاہیے۔
نظر طحاوی (رح) :
قعدہ اولیٰ نماز کا حصہ ہے اس پر غور کیا اور جلسہ میں غور کیا کہ جب اس میں بالاتفاق بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے ہیں۔ اب رہا قعدہ اخیرہ جس میں اختلاف کیا گیا تو اس کی دو حالتیں ہیں یا وہ فرض ہے یا سنت اگر وہ سنت ہے تو اس کا حکم قعدہ اولیٰ جیسا ہوگا اور اگر وہ فرض ہے تو اس کا حکم جلسہ جیسا ہونا چاہیے تو ہر دو صورت میں نظر بھی وائل بن حجر (رض) کی روایت ہی کے موافق ہے۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

1510

۱۵۱۰ : کَمَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، أَنَّہٗ کَانَ یَسْتَحِبُّ اِذَا جَلَسَ الرَّجُلُ فِی الصَّلَاۃِ أَنْ یَفْرِشَ قَدَمَہُ الْیُسْرٰی عَلَی الْأَرْضِ ثُمَّ یَجْلِسَ عَلَیْہَا .
١٥١٠: مغیرہ نے ابراہیم نخعی (رح) سے نقل کیا کہ وہ اس کو مستحب و مستحسن قرار دیتے تھے کہ آدمی جب نماز میں بیٹھے تو بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھے (گویا تورک نہ کرے) ۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٥٤۔
گویا کبار تابعین کے ہاں بھی وائل بن حجر (رض) والی روایت پر عمل تھا۔
حاصل روایات : اس باب میں امام نے فریق ثالث کے لیے ایک دلیل ہی پیش کی مگر ضمنی طور پر کئی دیگر روایات پیش کردیں جن سے اس عنوان کو تقویت ملتی تھی۔

1511

۱ ۱ ۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ حَدَّثَہُمَا، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ ڑالْقَارِیْ، أَنَّہٗ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُعَلِّمُ النَّاسَ التَّشَہُّدَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَہُوَ یَقُوْلُ : قُوْلُوْا : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
١ ١ ١٥: عبدالرحمن بن عبدالقاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا وہ منبر پر لوگوں کو تشہد کی تعلیم دے رہے اور کہہ رہے تھے تم اس طرح کہو ! التحیات اللہ الزاکیات اللہ الصلوات اللہ السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللہ الصالحین اشہد ان لا الٰہ الا اللہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ تمام بدنی مالی اور زبانی عبادتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر اللہ تعالیٰ کا سلام اور اس کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٩٣۔
خلاصہ الزام : قعدہ اولیٰ اور ثانیہ میں تشہد پڑھنا واجب ہے یا مسنون۔
نمبر 1: امام مالک (رح) کے ہاں دونوں میں تشہد پڑھنا مسنون ہے۔
نمبر 2: امام احمد (رح) کے ہاں دونوں میں پڑھنا واجب ہے۔
نمبر 3: احناف کے ہاں قعدہ اولیٰ میں مسنون اور اخیرہ میں واجب ہے امام شافعی (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ مگر عام کتب احناف میں قعدہ اولیٰ میں بھی اس کو واجب کہا گیا ہے اب رہا یہ مسئلہ کہ تشہد کون سا پڑھا جائے گا امام مالک کے ہاں تشہد عمر (رض) اور امام شافعی کے نزدیک تشہد ابن عباس (رض) ۔
یہاں تشہد کی کیفیت پر بحث ہے :
نمبر 4: احناف و حنابلہ کے ہاں تشہد ابن مسعود (رض) ہے۔
مؤقف اول : تشہد عمر (رض) پڑھا جائے گا انھوں نے برسر منبر یہ بات فرمائی اور کسی نے نکیر نہیں فرمائی اس سے تشہد عمری پر صحابہ (رض) کا اجماع ہوگیا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

1512

۱۵۱۲ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنْ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ ڑالْقَارِی فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٥١٢: عروہ نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٢٠٢۔

1513

۱۵۱۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، قَالَ قُلْتُ : لِنَافِعٍ کَیْفَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَتَشَہَّدُ، قَالَ : کَانَ یَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰہِ التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، وَالزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ثُمَّ یَتَشَہَّدُ فَیَقُوْلُ : شَہِدْتُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، شَہِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ.
١٥١٣: ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے کہا ابن عمر (رض) تشہد کیسے پڑھتے تھے تو اس نے کہا وہ اس طرح پڑھتے تھے : بِسْمِ اللّٰہِ التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ ، وَالزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ۔ پھر شہادتین اس طرح پڑھتے : شَہِدْتُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ ، شَہِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
تخریج : موطا مالک فی الصلاۃ نمبر ٥٤۔

1514

۱۵۱۴ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ .ح
١٥١٤: نصر بن مرزوق نے عبداللہ بن صالح سے انھوں نے اپنی سند سے نقل کیا۔

1515

۱۵۱۵ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَا : حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : اِذَا تَشَہَّدَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ : ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ تَشَہُّدِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
١٥١٥: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے تو اس طرح کہے پھر تشہد عمری کی طرح نقل کیا۔

1516

۱۵۱۶ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، وَفَہْدٌ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ وَتُشِیْرُ بِیَدِہَا، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ، وَقَالُوْا: ھٰکَذَا التَّشَہُّدُ فِی الصَّلَاۃِ ؛ لِأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ عَلَّمَ ذٰلِکَ النَّاسَ عَلَی مِنْبَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَضْرَۃِ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ .وَخَالَفَہُمْ، فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَوْ وَجَبَ مَا ذَکَرْتُمُوْہُ عِنْدَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذًا لَمَا خَالَفَ أَحَدٌ مِنْہُمْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ فَقَدْ خَالَفُوْہُ فِیْہِ وَعَمِلُوْا بِخِلَافِہٖ .وَرَوٰی أَکْثَرُہُمْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَمِمَّنْ خَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٥١٦: یحییٰ بن سعید نے قاسم سے انھوں نے نقل کیا کہ عائشہ صدیقہ (رض) ہمیں تشہد سکھاتیں اور اپنے ہاتھ سے اس کا اشارہ بتلاتی تھیں پھر اس طرح کا تشہد نقل کیا۔ بعض علماء کا رجحان ان روایات کی طرف گیا اور انھوں نے کہا کہ تشہد اسی طرح ہے کیونکہ حضرت عمر (رض) نے ممبر پر انصار و مہاجرین کی موجودگی میں سکھایا اور کسی نے بھی انکار نہیں کیا مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے نزدیک اگر یہی لازم ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو پھر کوئی صحابی بھی ان کی مخالفت نہ کرتا حالانکہ کئی حضرات نے ان کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس کے خلاف عمل کیا اور ان کی اکثریت نے وہ تشہد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی نقل کیا ‘ ان مخالفت کرنے والوں میں ابن مسعود (رض) بھی ہیں ‘ انھوں نے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تشہد نقل کیا ہے جو یہ مذکور ہے۔
تخریج : موطا مالک فی الصلاۃ نمبر ٥٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٩٣۔
حاصل روایات : نماز میں اسی تشہد کا پڑھنا افضل ہے کیونکہ جناب عمر (رض) نے لوگوں کو منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ تشہد مہاجرین و انصار کے مجمع میں سکھایا اور ان پر کسی نے نکیر نہ کی پس اس کی افضلیت پر اجماع ہوگیا۔
مؤقف فریق ثانی و ثالث :
کہ اس کے علاوہ تشہد بھی موجود ہیں جن کا احادیث میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سکھانا منقول ہے جیسا آئندہ روایات سے ثابت ہوگا۔
جواب دلیل فریق اوّل :
وخالفہم فی ذلک تمہارا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ تشہد ضروری ہے اگر ایسا ہوتا تو دیگر صحابہ میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف تشہد منقول نہ ہوتا سب بےپہلے عبداللہ بن مسعود (رض) جنہوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سے مختلف تشہد نقل کیا ہے۔ روایت ابن مسعود (رض) ملاحظہ ہو۔

1517

۱۵۱۷ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، وَوَہْبٌ، وَأَبُوْ عَامِرٍ، قَالُوْا : ثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِیُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : (کُنَّا اِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ السَّلَامُ عَلَی جِبْرَائِیْلُ السَّلَامُ عَلَی مِیکَائِیْلَ فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : لَا تَقُوْلُوْا السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ فَإِنَّ اللّٰہَ ہُوَ السَّلَامُ، وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ)۔
١٥١٧: ابو وائل نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ ہم جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے السلام علی اللہ السلام علی جبرائیل السلام علی میکائیل۔ (جب آپ نے یہ سنا) تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اس طرح نہ کہو السلام علی اللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات السلام ہے بلکہ تم اس طرح کہا کرو۔ التحیات اللہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اشہد ان لاالٰہ الا اللہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ تمام قولی فعلی و مالی عبادات اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں تم پر سلام ہو اے نبی ! اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت ہم پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٤٨‘ نمبر ١٥٠‘ الاستیذان باب ٣‘ والدعوات باب ١٦‘ التوحید باب ٥‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٥٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٨‘ نمبر ٩٦٨‘ ترمذی فی الدعوات باب ٨٢‘ نسائی فی التطبیق باب ١٠٠‘ والسہو باب ٥٦‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢٤‘ نمبر ٨٩٩‘ مسند احمد ١؍٤١٣۔

1518

۱۵۱۸ : وَمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ حَمَّادٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٥١٨: شعبہ نے حماد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : سابقہ مسند احمد ١؍١٦٤۔

1519

۱۵۱۹ : وَمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ، عَنْ شَقِیْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .
١٥١٩: ابو عوانہ نے سلیمان سے انھوں نے شقیق سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤١٣۔

1520

۱۵۲۰ : وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .
١٥٢٠: منصور بن معتمر نے ابو وائل سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو عبداللہ العدنی فی مسندہ۔

1521

۱۵۲۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا مُحِلُّ بْنُ مُحْرِزِ ڑالضَّبِّیُّ .
١٥٢١: ابو احمد نے محل بن محرز ضبی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : طبرانی کبیر ١٠؍٣٩۔

1522

۱۵۲۲ : ح وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا مُحِلُّ بْنُ مُحْرِزٍ قَالَ : ثَنَا شَقِیْقٌ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ وَزَادَ حُسَیْنٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ قَالُوْا : وَکَانُوْا یَتَعَلَّمُوْنَہَا کَمَا یَتَعَلَّمُ أَحَدُکُمْ السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ .
١٥٢٢: محل بن محرز نے شقیق سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے حسین کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ کانوا یتعلمونہا کما یتعلم احدکم السورۃ من القرآن وہ اس کو اسی طرح سکھاتے سیکھتے تھے جس طرح تم قرآن مجید کی سورت سیکھتے ہو۔
تخریج : ترمذی ١؍٦٥۔

1523

۱۵۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَبِیْبٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ قَالَ : أَخَذْت التَّشَہُّدَ مِنْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَقَّنَنِیْہَا کَلِمَۃً کَلِمَۃً ثُمَّ ذَکَرَ التَّشَہُّدَ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ وَائِلٍ وَزَادَ قَالَ : (فَکَانُوْا یُخْفُوْنَ التَّشَہُّدَ وَلَا یُظْہِرُوْنَہٗ .
١٥٢٣: عبدالرحمن بن اسود نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے خود زبان نبوت سے تشہد سیکھا ہے اور آپ نے ایک ایک کلمہ کر کے مجھے اس کی تلقین کی ہے پھر ابو وائل والی سابقہ روایت کے تشہد کو ذکر کیا اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ صحابہ کرام تشہد کو آہستہ پڑھتے جہراً نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٨٠‘ نمبر ٩٨٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٠١‘ نمبر ٢٩١۔

1524

۱۵۲۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا مُغِیْرَۃُ الضَّبِّیُّ قَالَ : ثَنَا شَقِیْقُ بْنُ سَلَمَۃَ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ حَمَّادٍ وَمَنْصُوْرٍ وَسُلَیْمَانَ وَمُحِلٍّ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ وَبَرَکَاتُہُ۔
١٥٢٤: مغیرہ ضبّی کہتے ہیں کہ مجھے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا پھر حماد ‘ منصور ‘ سلیمان ‘ محل نے ابی وائل کی طرح روایت نقل کی۔ البتہ اس میں ” برکاتہ “ کا لفظ نہیں کہا۔
تخریج : سابقہ طبرانی فی الکبیر ١٠؍٣٩۔

1525

۱۵۲۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ . ح
١٥٢٥: سعید بن عامر نے کہا ہمیں شعبہ نے بیان کیا۔

1526

۱۵۲۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ . ح
١٥٢٦: دوسری سند میں وہب نے کہا ہمیں شعبہ نے بیان کیا۔
تخریج : نسائی ١؍١٧٤۔

1527

۱۵۲۷ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ کِلَاہُمَا عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کُنَّا لَا نَدْرِیْ مَا نَقُوْلُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ غَیْرَ أَنْ نُسَبِّحَ وَنُکَبِّرَ وَنَحْمَدَ رَبَّنَا - عَزَّ وَجَلَّ - وَإِنَّ مُحَمَّدًا عُلِّمَ فَوَاتِحَ الْکَلِمِ وَخَوَاتِمَہٗ أَوْ قَالَ وَجَوَامِعَہُ فَقَالَ : اِذَا قَعَدَ أَحَدُکُمْ فِی الرَّکْعَتَیْنِ فَلْیَقُلْ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٥٢٧: ابو اسحاق نے ابوالاحوص سے انھوں نے حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نہ جانتے تھے کہ دو رکعتوں کے درمیان کیا کہا کریں بس ہم سبحان اللہ ‘ اللہ اکبر ‘ الحمدللہ کہتے اور کہتے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کلمات کی ابتداء اور انتہاء والے کلمات سکھائے گئے ہیں یا خواتم کی بجائے جوامع کے لفظ فرمائے پھر فرمایا جب تم قعدہ اولیٰ میں بیٹھا کرو تو اس طرح کہو پھر التحیات کے آخر تک اسی طرح کلمات ذکر کئے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ ١٧٨‘ نمبر ٩٦٩‘ ترمذی فی النکاح باب ١٧‘ نمبر ١١٠٥‘ والصلاۃ باب ٩٩‘ نمبر ٢٨٩۔

1528

۱۵۲۸ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَا : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : عَلَّمَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُطْبَۃَ الصَّلَاۃِ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ وَخَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَرُوِیَ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .
١٥٢٨: ابو اسحاق نے ابوالاحوص سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کا خطبہ سکھایا انھوں نے اسی کی مثل ذکر کیا۔
تخریج : ترمذی فی النکاح باب ١٧‘ نمبر ١١٠٥۔
حاصل روایات : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے دوسرا تشہد جس کو خود زبان نبوت سے سیکھا وہی اپنے شاگردوں کو سکھایا اور یہ تشہد حضرت عمر (رض) والے تشہد سے مختلف ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہی تشہد واجب و لازم نہیں ہے۔
خالفہ فی ذلک ایضًا عبداللّٰہ بن عباس (رض) ۔ اس سے دوسرا تشہد نقل کریں گے جن سے یہ ثابت ہوگا تشہد عمری ہی سب سے افضل نہیں روایت ابن عباس (رض) ملاحظہ ہو۔

1529

۱۵۲۹ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ، وَأَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، وَطَاوٗسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ، کَمَا یُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ، فَکَانَ یَقُوْلُ : التَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ، الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، أَشْہَد أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ) .
١٥٢٩: سعید بن جبیر اور طاؤس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تشہد ایسے سکھاتے جیسے قرآن مجید سکھاتے آپ اس طرح فرماتے التحیات المبارکات ‘ الصلوات الطیبات اللہ السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ اشہد ان لاالٰہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ بابرکت قولی عبادات ‘ پاکیزہ فعلی عبادات اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔ اور اس سلسلے میں عبداللہ ابن عباس (رض) نے ان کی مخالفت کی اور انھوں نے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو روایت کیا۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٦٠‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٨‘ نمبر ٩٧٤‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٠٠‘ نمبر ٢٩٠‘ نسائی فی التطبیق باب ١٩٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ٩٠٠‘ مسند احمد ١؍٢٩٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٩٤‘ دارقطنی فی السنن ١؍٣٥٠۔

1530

۱۵۳۰ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : أَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ ، وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنِ التَّشَہُّدِ فَقَالَ : التَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ، الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ، ثُمَّ قَالَ : لَقَدْ سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُہُنَّ عَلَی الْمِنْبَرِ، یُعَلِّمُہُنَّ النَّاسَ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ مِثْلَ مَا سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ .قُلْتُ فَلَمْ یَخْتَلِفْ ابْنُ الزُّبَیْرِ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَقَالَ : لَا .وَخَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
١٥٣٠: ابن جریج کہتے ہیں کہ عطائ (رح) سے کسی نے پوچھا جبکہ میں یہ گفتگو سن رہا تھا کہ تشہد کون سا پڑھا جائے تو فرمایا : التَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ ، الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ ، آخر تک جو گزشتہ روایت میں گزرا ہے۔ اسی طرح نقل کیا پھر ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر (رض) کو منبر پر لوگوں کو اسے سکھاتے سنا اور میں نے خود حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی اسی طرح سنا جیسا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے سنا تھا میں نے عطاء سے کہا کیا ان دونوں کے تشہد کے کلمات مختلف ہیں تو انھوں نے کہا نہیں۔ اور اس سلسلے میں عبداللہ ابن عمر (رض) نے بھی ان کی مخالفت کی۔
حاصل روایات : کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے بھی یہ تشہد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھا ہے اور اسی کو حضرت عبداللہ بن زبیر نے برسر منبر صحابہ اور تابعین کے مجمع میں سنایا اور سکھایا جس سے اس کا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہونا اور پختہ ہوگیا اس سے ثابت ہوا کہ اگر تشہد عمری لازم ہوتا تو دونوں حضرات اور تشہد نقل نہ کرتے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی طرف سے تشہد کی روایت منقول ہے جس کے الفاظ تشہد عمر (رض) سے مختلف ہیں روایت ملاحظہ ہو۔

1531

۱۵۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَابِی الْمَکِّیُّ قَالَ : صَلَّیْتُ إِلٰی جَنْبِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ ضَرَبَ یَدَہٗ عَلٰی فَخِذِیْ، فَقَالَ : أَلَا أُعَلِّمُکَ تَحِیَّۃَ الصَّلَاۃِ کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا، قَالَ : فَتَلَا ہٰؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ مِثْلَ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٥٣١: عبداللہ بن بابی المکی کہتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پہلو میں نماز ادا کی جب وہ نماز ادا کرچکے تو انھوں نے مجھے خبردار کرتے ہوئے میری ران پر ہاتھ سے ضرب لگائی اور فرمایا کیا تمہیں نماز کا تحیہ یعنی التحیات نہ سکھاؤں جس طرح ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سکھاتے تھے چنانچہ انھوں نے یہ کلمات پڑھے جو حدیث ابن مسعود (رض) میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہیں۔
تخریج : طبرانی فی الکبیر ١١؍١٤٠‘ باختلاف الراوی۔

1532

۱۵۳۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، وَیَحْیَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْبَغْدَادِیُّ بِطَبَرِیَّۃَ، قَالَا : ثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، قَالَ : ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنْ مُجَاہِدٍ، وَقَالَ یَحْیٰی : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّشَہُّدِ : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ .إِلَّا أَنَّ یَحْیٰی زَادَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ زِدْتُ فِیْہَا : وَبَرَکَاتُہٗ ، وَزِدْتُ فِیْہَا : وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ.
١٥٣٢: یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد کو ابن عمر (رض) سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشہد میں اس طرح پڑھتے : التحیات اللہ الصلوات الطیبات بقیہ الفاظ روایت ابن مسعود نمبر ١٥١٧ کی طرح ہیں البتہ یحییٰ نے اپنی روایت میں رحمۃ اللہ کے بعد برکاتہ کے لفظ زائد اور الا اللہ کے بعد وحدہ لاشریک لہ کا اضافہ کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٨‘ نمبر ٩٧١۔

1533

۱۵۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ : کُنْتُ أَطُوْفُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِالْبَیْتِ وَہُوَ یُعَلِّمُنِی التَّشَہُّدَ، یَقُوْلُ : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ .قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَزِدْتُ فِیْہَا وَبَرَکَاتُہٗ ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ .قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : وَزِدْتُ فِیْہَا وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
١٥٣٣: مجاہد نے کہا کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا اور وہ مجھے تشہد سکھا رہے تھے التحیات اللہ الصلوات الطیبات ‘ السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں میں نے اس میں برکاتہ کا اضافہ کردیا ہے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین ‘ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ کے بعد میں وحدہ لاشریک لہ اور اشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ کا اضافہ کردیا ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍١٩٩۔

1534

۱۵۳۴ : وَھٰکَذَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَلَمْ یَذْکُرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَّا أَنَّ قَوْلَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْہِ، وَزِدْتُ فِیْہَا، یَدُلُّ أَنَّہٗ أَخَذَ ذٰلِکَ عَنْ غَیْرِہٖ، مِمَّنْ ہُوَ خِلَافُ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، إِمَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
١٥٣٤: مجاہد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے اور انھوں نے اس روایت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ نہیں کیا البتہ ابن عمر (رض) نے جو یہ کہا زدت فیہا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ انھوں نے براہ راست نہیں سیکھے بلکہ اور کسی سے سیکھے ہیں انھوں نے ابن عمر (رض) کے سیکھے ہوئے الفاظ سے یہ زائد لفظ پڑھے تو انھوں نے اپنے سیکھے ہوئے میں ان کا اضافہ کرلیا (یہ مطلب نہیں کہ اپنی طرف سے اضافہ کرلیا) خواہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا ابوبکر صدیق (رض) سے۔

1535

۱۵۳۵ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ زَیْدِ ڑالْعَمِّیِّ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیْقِ النَّاجِیْ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ عَلَی الْمِنْبَرِ، کَمَا تُعَلِّمُوْنَ الصِّبْیَانَ فِی الْکِتَابَ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ تَشَہُّدِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَوَائً .فَھٰذَا الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخَالِفُ مَا رَوَاہُ سَالِمٌ وَنَافِعٌ عَنْہُ، وَھٰذَا أَوْلَی ؛ لِأَنَّہٗ حَکَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنْ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعَلَّمَہٗ مُجَاہِدًا، فَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَدَعُ مَا أَخَذَہٗ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی مَا أَخَذَہُ عَنْ غَیْرِہٖ .وَخَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَبُوْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیُّ، فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٥٣٥: ابوالصدیق الناجی نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبکر (رض) ہمیں منبر پر اس طرح تشہد سکھاتے جیسا تم بچوں کو قرآن مجید سکھاتے ہو پھر حضرت ابن مسعود (رض) کے تشہد کی طرح تشہد ذکر کیا۔ یہ جس کو ہم نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا یہ سالم اور نافع کی روایت کے خلاف ہے ‘ لیکن ان سے یہ اولیٰ ہے کیونکہ انھوں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) سے نقل کیا اور مجاہد کو سکھلایا ‘ اس لیے ناممکن ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سکھلائی ہوئی بات کو چھوڑ کر دوسرے کی سکھلائی ہوئی بات کی طرف جائیں۔ اسی طرح ابوسعید خدری (رض) نے بھی اس سلسلے میں ان کی مخالفت کی اور حضرت ابو سعید خدری (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ تشہد روایت کیا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٩٢۔
حاصل روایات : یہ روایت جو ہم نے ابن عمر (رض) سے نقل کی اور مجاہد نے اس کو سیکھ کر ان سے نقل کیا یہ اس روایت سے اولیٰ ہے جس کو ان سے سالم و نافع نے نقل کیا ہے کیونکہ یہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر صدیق (رض) سے نقل کی ہے پس یہ ناممکن ہے کہ ابن عمر (رض) اس کو ترک کردیں جس کو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیا ہو اور اس کو اختیار کریں جس کو غیر سے لیا ہو پس فصل اوّل کی روایت موقوف ہونے کی وجہ سے اس مرفوع روایت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
نوٹ : حاصل یہ ہے کہ ابن عمر (رض) نے ابن مسعود (رض) جیسا التحیات نقل کیا اور حضرت عمر (رض) والا نقل نہیں کیا اگر وہ لازم ہوتا تو اسی کو نقل کرتے اور دوسرے کو اختیار نہ کرتے۔
حضرت ابو سعید الخدری (رض) :
ان کے نقل کردہ تشہد کے الفاظ بھی تشہد ابن مسعود سے سوائے چند الفاظ کے ملتے جلتے ہیں تشہد عمری ضروری ہوتا تو وہ اسی کو اختیار کرتے روایات ابو سعد (رض) ملاحظہ ہو۔

1536

۱۵۳۶ : مَاحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ ہَارُوْنَ الْبُرْدِیُّ قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوْسُفَ الْأَنْمَاطِیُّ قَالَ : ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ بَصْرِیٌّ ثِقَۃٌ : قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، قَالَ : کُنَّا نَتَعَلَّمُ التَّشَہُّدَ کَمَا نَتَعَلَّمُ السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ تَشَہُّدِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَوَائً .وَخَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
١٥٣٦: ابوالمتوکل نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ ہم تشہد بھی اسی طرح سیکھتے جس طرح قرآن مجید کی سورة سیکھی جاتی ہے پھر بالکل ابن مسعود (رض) جیسے تشہد کو نقل کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے اس میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تشہد عمری سے مختلف تشہد نقل کیا۔
روایت جابر بن عبداللہ ملاحظہ ہو :

1537

۱۵۳۷ : مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ قَالَ، ثَنَا أَیْمَنُ بْنُ نَابِلٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَبُوْ الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ تَشَہُّدِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ سَوَائً، إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ، وَأَسْأَلُ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ، وَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ .وَخَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَبُوْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیُّ، فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٥٣٧: محمد بن مسلم ابوالزبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اسی طرح تشہد سکھاتے جیسے قرآن مجید کی سورة سکھاتے ہیں۔ بسم اللہ وب اللہ پھر بعینہٖ تشہد ابن مسعود نقل کیا صرف الفاظ کا فرق ہے عبداللہ ورسولہ واسال اللہ الجنۃ واعوذب اللہ من النار۔ اور اس میں حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ان کی مخالفت کی اور انھوں نے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تشہد نقل کیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢٤‘ نمبر ٩٠٢‘ نسائی فی التطبیق باب ١٠٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٩٢۔
نمبر%: حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور تشہد نقل کیا ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1538

۱۵۳۸ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الرَّقَاشِیِّ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مُوْسَی الْأَشْعَرِیَّ یَقُوْلُ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا وَبَیَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا، فَقَالَ: اِذَا کَانَ فِی الْقَعْدَۃِ الثَّانِیَۃِ فَلْیَکُنْ مِنْ قَوْلِ أَحَدِکُمْ، التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ أَوْ قَالَ : سَلَّامٌ شَکَّ سَعِیْدٌ، عَلَیْکَ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، أَشْہَد أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ.
١٥٣٨: حطان بن عبداللہ الرقاشی نے بیان کیا کہ میں نے ابو موسیٰ اشعری (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمیں ہماری نماز سکھلائی اور ہمارا طریقہ ہمارے سامنے کھول کر بیان کیا اور فرمایا جب تم قعدہ ثانیہ کرو تو اس طرح کہو التحیات الطیبات ‘ الصلوات اللہ ‘ السلام یاسلام کہا یہ سعید راوی کو شک ہے : علیک یا ایہا النبی ورحمۃ اللہ ‘ السلام علینا وعلی عبداللہ الصالحین ‘ اشہد ان لاالٰہ الا اللہ وان محمدًا عبدہ ورسولہ۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٦٢۔

1539

۱۵۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَلَّابٍ یُوْنُسُ بْنُ جُبَیْرٍ أَنَّ حِطَّانَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ الرَّقَاشِیَّ حَدَّثَہٗ، قَالَ : (قَالَ لِیْ أَبُوْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیُّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَعَلَّمَنَا سُنَّتَنَا، وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا فَقَالَ : اِذَا کَانَ عِنْدَ الْقَعْدَۃِ فَلْیَکُنْ مِنْ قَوْلِ أَحَدِکُمْ، التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ .وَخَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ فَرُوِیَ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٥٣٩: حطان بن عبداللہ الرقاشی نے بیان کیا کہ مجھے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمیں سنتیں بتلائیں اور ہمیں نماز کا طریقہ سکھایا اور فرمایا جب تم قعدہ کرو تو تم اس طرح کہو : التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ ، پھر گزشتہ روایت کی طرح آخر تک نقل کیا۔ اور اس میں عبداللہ ابن زبیر نے ان کی مخالفت کی اور انھوں نے بھی تشہد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا۔
تخریج : مسلم ٤؍١٢٢۔
حاصل روایات : اگر تشہد عمر (رض) واجب ہوتا تو ابو موسیٰ اشعری (رض) سے یہ تشہد منقول نہ ہوتا۔
نمبر ٧: حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) سے بھی التحیات مختلف منقول ہے۔ روایت ابن الزبیر (رض) ملاحظہ ہو۔

1540

۱۵۴۰ : مَاقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ أَبُوْ قُرَّۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، قَالَ حَدَّثَنِی الْحَارِثُ بْنُ یَزِیْدَ، أَنَّ أَبَا أَسْلَمَ الْمُؤَذِّنَ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ : (إِنَّ تَشَہُّدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ یَتَشَہَّدُ بِہٖ، بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ خَیْرِ الْأَسْمَائِ، التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہُ، أَرْسَلَہُ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَنَذِیْرًا، وَأَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لَا رَیْبَ فِیْہَا، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَاہْدِنِی) .فَکُلُّ ہٰؤُلَائِ قَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّشَہُّدِ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُمْ وَخَالَفَ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَدْ تَوَاتَرَتْ بِذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّوَایَاتُ، فَلَمْ یُخَالِفْہَا شَیْئٌ ، فَلَا یَنْبَغِی خِلَافُہَا وَلَا الْأَخْذُ بِغَیْرِہَا وَلَا الزِّیَادَۃُ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا فِیْہَا إِلَّا أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَرْفًا یَزِیْدُ عَلٰی غَیْرِہِ وَہُوَ الْمُبَارَکَاتُ .فَقَالَ قَائِلُوْنَ : ہُوَ أَوْلٰی مِنْ حَدِیْثِ غَیْرِہٖ، اِذَا کَانَ قَدْ زَادَ عَلَیْہِ، وَالزَّائِدُ أَوْلٰی مِنَ النَّاقِصِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبِیْ مُوْسٰی وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الَّذِیْ رَوَاہُ عَنْہُ مُجَاہِدٌ وَابْنُ بَابِیْ أَوْلَی لِاسْتِقَامَۃِ طُرُقِہِمْ وَاتِّفَاقِہِمْ عَلٰی ذٰلِکَ، لِأَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ لَا یُکَافِئُ الْأَعْمَشَ، وَلَا مَنْصُوْرٌ، وَلَا مُغِیْرَۃُ وَلَا أَشْبَاہُہُمْ مِمَّنْ رَوَیْ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَا یُکَافِئُ قَتَادَۃَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی وَلَا یُکَافِئُ أَبَا بِشْرٍ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ، وَلَوْ وَجَبَ الْأَخْذُ بِمَا زَادَ، وَإِنْ کَانَ دُوْنَہُمْ، لَوَجَبَ الْأَخْذُ بِمَا زَادَ عَنِ ابْنِ نَابِلٍ، عَنْ اللَّیْثِ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، فَإِنَّہٗ قَدْ قَالَ فِی التَّشَہُّدِ أَیْضًا بِسْمِ اللّٰہِ، وَلَوَجَبَ الْأَخْذُ بِمَا زَادَ أَبُوْ أَسْلَمَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَإِنَّہٗ قَدْ قَالَ فِی التَّشَہُّدِ أَیْضًا : بِسْمِ اللّٰہِ، وَزَادَ أَیْضًا عَلٰی مَا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الزِّیَادَۃِ عَلٰی حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَلَمَّا کَانَتْ ھٰذِہِ الزِّیَادَۃُ غَیْرَ مَقْبُوْلَۃٍ لِأَنَّہٗ لَمْ یَزِدْہَا عَلَی اللَّیْثِ مِثْلَہٗ، لَمْ یَقْبَلْ زِیَادَۃَ ابْنِ أَبِی الزُّبَیْرِ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ لِأَنَّ ابْنَ جُرَیْجٍ رَوَاہُ عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، مَوْقُوْفًا .وَرَوَاہُ أَبُوْ الزُّبَیْرِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، وَطَاوٗسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَرْفُوْعًا، وَلَوْ ثَبَتَتْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثُ کُلُّہَا وَتَکَافَأَتْ فِیْ أَسَانِیْدِہَا لَکَانَ حَدِیْثُ عَبْدِ اللّٰہِ أَوْلَاہَا، لِأَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَیْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یَتَشَہَّدَ بِمَا شَائَ مِنَ التَّشَہُّدِ غَیْرَ مَا رُوِیَ مِنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ التَّشَہُّدَ بِخَاصٍّ مِنَ الذِّکْرِ، وَکَانَ مَا رَوَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ قَدْ وَافَقَہٗ عَلَیْہِ کُلُّ مَنْ رَوَاہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُہٗ وَزَادَ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ مَا لَیْسَ فِیْ تَشَہُّدِہِ، کَانَ مَا قَدْ أُجْمِعَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَوْلَیْ أَنْ یُتَشَہَّدَ بِہٖ دُوْنَ الَّذِیْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ، شَدَّدَ فِیْ ذٰلِکَ، حَتّٰی أَخَذَ عَلٰی أَصْحَابِہٖ الْوَاوَ فِیْہِ، کَیْ یُوَافِقُوْا لَفْظَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ غَیْرَہٗ فَعَلَ ذٰلِکَ فَلِھٰذَا اسْتَحْسَنَّا مَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ دُوْنَ مَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِہٖ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْمَ ذَکَرْنَا۔
١٥٤٠: حارث بن یزید کہتے ہیں کہ ابو اسلم مؤذن نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن الزبیر (رض) کو کہتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشہد جو آپ پڑھا کرتے تھے وہ یہ تھا : بسم اللہ وب اللہ خیرالاسماء التحیات الطیبات ‘ الصلوات اللہ ‘ اشہد ان لاالٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشرا و نذیرا وان الساعۃ آتیۃ لاریب فیہا السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اللہم اغفرلی واھدنی۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اللہ کی مدد سے جو کہ سب سے بہترین نام ہے تمام پاکیزہ کلمات اور فعلی عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے ایسے رسول ہیں جن کو اس سے حق کے ساتھ بشارت دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر سلام اور اللہ تعالیٰ رحمت اور برکتیں ہوں ہم پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔ اے اللہ مجھے بخش دے اور ہدایت پر ثابت قدمی نصیب فرما۔ ان سب نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تشہد نقل کیا اور ان سب کا تشہد حضرت عمر والے تشہد سے مختلف ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے روایات اس سلسلے میں آئی ہیں ان کے خلاف کچھ بھی مروی نہیں۔ پس ان کی مخالفت کر کے ان کے علاوہ کو قبول کرنا اور ان پر اضافہ کرنا مناسب نہیں ‘ صرف ابن عباس (رض) کی روایت میں ایک لفظ دوسروں سے زائد ہے اور وہ المبارکٰت کا لفظ ہے۔ اس لیے کہنے والوں نے یہ کہا کہ وہ روایت دوسروں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ اس میں اضافہ ہے تو زائد ناقص سے بہتر ہے۔ مگر دوسروں نے کہا کہ ابن مسعود ‘ ابو موسیٰ اور ابن عمر کی وہ روایات جن کو مجاہد اور ابن بابی نے نقل کیا ‘ وہ ان سے اولیٰ ہے کیونکہ ان کی سند پختہ اور متفق علیہ ہے کیونکہ ابو الزبیر اعمش ‘ منصور ‘ مغیرہ اور انہی جیسے دوسرے لوگ جنہوں نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے وہ ابو موسیٰ کی روایت نقل کرنے میں قتادہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ابن عمر کی روایت نقل کرنے میں ابو بشر کا مقابلہ کرسکتے ہیں اگر بالفرض کم درجہ ہونے کے باوجود زائد الفاظ والی روایت کو قبول کرلیا جائے تو پھر ضروری ہے کہ ابن نابل کی ابو الزبیر سے اس سے زیادہ اضافے والی روایت قبول کرلی جائے کیونکہ اس نے تو تشہد میں بسم اللّٰہ کو بھی شامل کیا ہے بلکہ یہ بھی لازم آئے گا کہ مزید اضافے والی روایت جس کو ابو اسلم نے عبداللہ بن زبیر سے نقل کیا ہے اس کو قبول کرلیا جائے انھوں نے بسم اللہ کے علاوہ اور بھی اضافے کیا ہے۔ جب یہ اضافہ اس لیے قابل قبول نہیں کیونکہ لیث کی روایت پر اس قسم کے لوگوں کا اضافہ قابل قبول نہیں۔ بالکل اسی طرح ابوالزبیر کا حدیث ابن عباس میں عطاء پر اضافہ قابل قبول نہیں کیونکہ ابن حریج نے اسے عطاء سے موقوف نقل کیا ہے اور ابوالزبیر نے اسے ابن جبیر اور طاؤس کے واسطے سے مرفوع نقل کیا ہے اگر یہ روایات ثابت بھی ہوجائیں اور سندوں کے اعتبار سے برابر ہوجائیں تب بھی ابن مسعود کی روایت ان سب سے اولیٰ ہے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ کوئی آدمی اپنی مرضی سے کوئی تشہد نہیں پڑھ سکتا جو ان روایات کے علاوہ ہو اور عبداللہ نے جو تشہد روایت کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہونے والی تمام روایات کا تشہد اس کے موافق ہے اور ان دیگر روایات میں اضافے ہیں جو اس تشہد میں نہیں ‘ تو جس تشہد پر سب کا اتفاق ہو وہ اختلافی روایات والی تشہد سے بہرحال اولیٰ ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ نے اس سلسلے میں نہایت سختی سے کام لیا اور اپنے ساتھیوں کے واؤ کے نہ پڑھنے پر بھی ڈانٹ پلائی تاکہ ان کا تشہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف نہ ہو بلکہ موافق ہوجائے اور ہمارے علم میں تو اور کسی نے ایسا نہیں کیا۔ پس قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے دوسروں کے بجائے عبداللہ کے تشہد کو اختیار کیا جائے۔
تخریج : مجمع الزوائد ٢؍٣٣٦۔
حاصل روایات : یہ التحیات بھی اس سے مختلف ہے۔
خلاصہ الکلام : یہ سات صحابہ کرام کے التحیات ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ سے نقل کردیئے ان سب کے الفاظ تشہد عمری سے مختلف ہیں۔
ان تمام صحابہ کرام (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع روایات سے تشہد کو نقل کیا ہے اور ان میں باہمی الفاظ کا اختلاف بھی نہیں پس ان روایات کو چھوڑنا مناسب نہیں اور نہ کسی اور کو لینا مناسب ہے صرف روایت ابن عباس (رض) میں المبارکات کا لفظ دوسروں سے زائد ہے پس تشہد عمر (رض) جو کسی مرفوع روایت سے بھی ثابت نہیں اس پر ان کو ترجیح حاصل ہوگی۔
فریق ثانی کی دو جماعتیں :
نمبر !: امام شافعی (رح) نے ابن عباس (رض) کے تشہد کو اختیار کیا۔
نمبر ": احناف نے ابن مسعود (رض) کے تشہد کو اختیار کیا۔
جماعت نمبر ١ فقال قائلون سے بیان کیا۔
دلیل مؤقف :
یہ ہے کہ تشہد ابن عباس (رض) میں دوسروں کے مقابلے میں الفاظ زائد ہیں اور زائد کو ناقص کے مقابلے میں اختیار کرنا اولیٰ و افضل ہے۔
فریق ثانی میں جماعت ثانیہ : ابن مسعود (رض) والا تشہد افضل ہے۔
جواب جماعت نمبر !: ابن عباس (رض) والا تشہد دو اسناد سے ثابت ہو رہا ہے۔
نمبر !: لیث بن سعد عن ابی الزبیر عن سعید بن جبیر و طاؤس۔
نمبر ": ابن جریج عن عطاء بن ابی رباح۔ اس کے بالمقابل۔
نمبر !: سلیمان بن مہرالاعمش۔ نمبر ": منصور بن معتمر۔ مغیرہ بن مقسم کی اسناد سے ثابت ہے۔
تبصرہ نمبر !:
ابوالزبیر امام اعمش کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں اسی طرح دوسرے روات بھی ابوالزبیر سے ثقہ ہیں پس ان کے مقابلے میں ان کی روایت قابل استدلال کیسے ہوگی۔
نمبر ": سند نمبر ٢ میں ابن جریج والی سند تو درست ہے مگر موقوف روایت ہے مرفوع کے مقابلے میں موقوف کیسے چل سکتی ہے۔
پس تشہد ابن عباس (رض) کے مقابلے میں تشہد ابن مسعود ہی افضل ہے۔
نمبر ٢ دیگر روایات سے موازنہ : حضرت ابو موسیٰ ‘ ابو سعید خدری ‘ ابن عمر (رض) کی روایات تشہد ابن مسعود (رض) کی موافقت کرتی ہیں پش تشہد ابن عباس (رض) پر فوقیت کی یہ وجہ بھی ہوگی۔
نمبر 3: ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت کو قتادہ اور روایت ابن عمر کو ابوالبشر سے روایت کیا گیا اور ان دونوں کے مقابلہ میں ابوالزبیر کمزور ہے پس ان وجوہ ثلاثہ سے روایت ابن عباس (رض) کمزور ہے۔
الزامی جواب :
اگر تمہارے بقول اضافے والی روایت کو لینا زیادہ اولیٰ ہے اور یہ چنداں دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ راوی کمزور ہیں یا مضبوط۔ تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ تشہد جابر (رض) جس کو ابن نابل نے نقل کیا ہے وہ تشہد ابن عباس (رض) افضل ہو کیونکہ اس کی ابتداء بسم اللہ سے ہے اور تشہد ابن زبیر جس کو ابو اسلم نے نقل کیا وہ بھی اضافہ کے ساتھ ہے وہ تشہد ابن عباس (رض) سے افضل ہو حالانکہ آپ اس کو تسلیم نہیں کرتے تو معلوم ہوا کہ ہر اضافہ افضلیت کا سبب نہیں جب تک کہ اثقہ سے ثابت نہ ہو بالفرض اگر یہ تمام روایات اپنی اسانید میں برابر بھی ہوں تو پھر بھی روایت ابن مسعود (رض) کو اولیت حاصل ہوگی اس کی وجوہ یہ ہیں۔
وجہ اول :
اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ تشہد جو چاہے اپنی مرضی سے نہیں پڑھ سکتا وہی پڑھا جائے گا جو مروی ہے اور روایات میں تو قوت و ضعف کو دیکھنا مسلّم ہے پس روایت ابن مسعود (رض) سب سے اولیٰ ہے۔
وجہ دوم :
تشہد خاص ذکر ہے اور عبداللہ نے جو تشہد نقل کیا دوسروں کی روایات میں موجود ہے اور ان کی روایات میں اضافہ بھی ہے مگر ان کی روایت میں اضافہ نہیں تو جس پر اتفاق ہو اس کو لینا مختلف فیہ کے مقابلے میں اولیٰ ہے۔
فریق ثانی کی جماعت ثانیہ کی خاص دلیل :
عبداللہ نے تشہد کے معاملے میں بڑے تشدد سے کام لیا ہے یہاں تک کہ اپنے شاگردوں پر واوکے نہ پڑھنے پر بھی مواخذہ کیا ہے تاکہ لفظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نہ ہونے پائے اس کے بالمقابل اور کسی سے بھی ایسی صورت سامنے نہیں آئی پس اسی تشہد ابن مسعود کو دوسروں کے مقابلہ میں افضل و اولیٰ قرار دیا جائے گا۔
یہ روایات اس کی شاہد ہیں :

1541

۱۵۴۱ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یَأْخُذُ عَلَیْنَا الْوَاوَ فِی التَّشَہُّدِ .
١٥٤١: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ ہم سے اس واو پر بھی مواخذہ کرتے جو تشہد میں پائی جاتی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٩٤۔

1542

۱۵۴۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یَحْیٰی، عَنِ الْمُسَیَّبِ ابْنِ رَافِعٍ قَالَ : سَمِعَ عَبْدُ اللّٰہِ رَجُلًا یَقُوْلُ فِی التَّشَہُّدِ : بِسْمِ اللّٰہِ، التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، فَقَالَ : لَہٗ : عَبْدُ اللّٰہِ أَتَأْکُلُ.
١٥٤٢: مسیب بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے سنا کہ ایک آدمی نے ان کے سامنے بسم اللہ التحیات للہ پڑھا تو آپ نے فرمایا کیا تو کھان اکھا رہا ہے۔ (یا تشہد پڑھ رہا ہے) ۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٩٥۔

1543

۱۵۴۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، أَنَّ الرَّبِیْعَ بْنَ خَیْثَمٍ لَقِیَ عَلْقَمَۃَ، فَقَالَ : إِنَّہٗ قَدْ بَدَا لِیْ أَنْ أَزِیْدَ فِی التَّشَہُّدِ وَمَغْفِرَتُہُ، فَقَالَ لَہٗ عَلْقَمَۃُ : نَنْتَہِی إِلٰی مَا عُلِّمْنَاہُ .
١٥٤٣: ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ ربیع بن خیثم علقمہ کو ملے اور کہنے لگے مجھے یہ بات بہتر معلوم ہوتی ہے کہ تشہد میں ومغفرتہ کا لفظ زائد پڑھوں علقمہ نے کہا ہمیں اسی پر اکتفاء کرنا چاہیے جو ہم نے سیکھا ہے۔ (خود بڑھانا نہ چاہیے)
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٢٠٠۔

1544

۱۵۴۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، قَالَ : أَتَیْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ یَزِیْدَ فَقُلْتُ : إِنَّ أَبَا الْأَحْوَصِ قَدْ زَادَ فِی خُطْبَۃٍ : الصَّلَوَاتُ وَالْمُبَارَکَاتُ قَالَ : فَأْتِہِ فَقُلْ لَہٗ : إِنَّ الْأَسْوَدَ یَنْہَاکَ وَیَقُوْلُ لَکَ : إِنَّ عَلْقَمَۃَ بْنَ قَیْسٍ تَعَلَّمَہُنَّ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ کَمَا یَتَعَلَّمُ السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ، عَدَّہُنَّ عَبْدُ اللّٰہِ فِیْ یَدِہٖ، ثُمَّ ذَکَرَ تَشَہُّدَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَلِھٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْنَا اسْتَحْبَبْنَا مَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ لِتَشْدِیْدِہٖ فِیْ ذٰلِکَ وَلِاجْتِمَاعِہِمْ عَلَیْہِ اِذْ کَانُوْا قَدْ اتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَتَشَہَّدَ إِلَّا بِخَاصٍّ مِنَ التَّشَہُّدِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٥٤٤: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ ابوالاحوص نے خطبہ میں الصلوات والمبارکات کا اضافہ کردیا ہے انھوں نے کہا اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ اسود تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ علقمہ بن قیس نے یہ کلمات عبداللہ سے اس طرح سیکھے ہیں جیسے قرآن مجید کی سورت سیکھی جاتی ہے۔ عبداللہ نے ان کو اپنے ہاتھ سے گن کر شمار کیا پھر عبداللہ نے ان کو بیان کیا۔ ان وجوہ کی وجہ سے جو مذکور ہوئیں اور اس سختی کی وجہ سے جو عبداللہ نے تشہد کے سلسلہ میں اختیار کی اور اس اتفاق کی بنیاد پر کہ اس مقام پر تشہد ہی پڑھا جاسکتا ہے اور کوئی چیز نہیں تو ہم نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے تشہد کو افضل ہونے کی وجہ سے ترجیح دی ہے۔ یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ پس یہ جس کو ہم نے پسند کیا اس لیے کہ عبداللہ ابن مسعود اس کے متعلق سختی کرتے تھے اور اس لیے بھی کہ اس پر سب کا اتفاق ہے اور اس وجہ سے بھی کہ سب اس پر متفق ہیں کہ خاص تشہد ہی پڑھنا چاہیے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف اور امام محمد کا مسلک ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں فریق اوّل کے مؤقف کی بڑے زور دار انداز سے تردید کی اور اس میں تفصیل کی راہ اپنائی اور پھر فریق ثانی میں سے اپنے مؤقف کو علمی انداز سے حل کیا جس سے تشہد ابن مسعود (رض) کی افضلیت مبرہن ہوگئی۔

1545

۱۵۴۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، وَرَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَا : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ بَکْرِ ڑالزُّہْرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالدَّرَاوَرْدِیُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُسَلِّمُ فِیْ آخِرِ الصَّلَاۃِ تَسْلِیْمَۃً وَاحِدَۃً : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمُصَلِّیَ یُسَلِّمُ فِیْ صَلَاتِہٖ تَسْلِیْمَۃً وَاحِدَۃً تِلْقَائَ وَجْہِہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یُسَلِّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ یَقُوْلُ فِیْ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنَ التَّسْلِیْمَتَیْنِ : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلَیْ أَنَّ حَدِیْثَ سَعْدٍ ھٰذَا إِنَّمَا رَوَاہُ کَمَا ذَکَرَہُ الدَّرَاوَرْدِیُّ خَاصَّۃً وَقَدْ خَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ کُلُّ مَنْ رَوَاہُ، عَنْ مُصْعَبٍ غَیْرُہٗ .
١٥٤٥: عامر بن سعد نے سعد (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نقل کیا ہے کہ آپ نماز کے آخر میں ایک سلام پھیرتے تھے جو السلام علیکم کے لفظ سے ہوتا تھا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا مؤقف یہ ہے کہ نمازی نماز میں ایک مرتبہ سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم کہے اور انھوں نے مذکورہ روایت کو اپنا مستدل بنایا۔ جبکہ دیگر علماء کی جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا نمازی کو چاہیے کہ وہ دائیں بائیں سلام پھیر لے اور دونوں طرف سلام میں السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ کا کلمہ کہے۔ پہلے قول والوں کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت سعد (رض) کی روایت کا راوی صرف دراوردی ہے۔ جبکہ دیگر تمام روات نے مصعب سے روایت کرتے ہوئے اس کے مخالف روایت نقل کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١‘ ٣٠٠؍٣٠١۔
خلاصہ الزام : مام مالک (رح) کے ہاں امام کو صرف سامنے کی طرف ایک سلام اور مقتدی کو دائیں ‘ بائیں اور سامنے تین سلام لازم ہیں۔ احناف ‘ شوافع وحنابلہ اور جمہور فقہاء کے ہاں امام و منفرد پر دائیں اور بائیں صرف دو سلام ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
امام کو صرف سامنے کی طرف ایک سلام پھیرنا لازم ہے مستدل روایت یہ ہے۔
حاصل روایات : مقتدی ‘ امام نماز کے آخر میں ایک سلام پھیرے گا جو سامنے کی جانب ہوگا جیسا اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
مؤقف ثانی اور دلائل و جوابات :
دائیں وبائیں دو سلام امام و مقتدی پھیریں گے اور ہر سلام میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہے گا۔
فریق اوّل کی دلیل کا جواب نمبر !:
عبدالعزیز بن دراوردی کی روایت واہی ہے۔
نمبر ": مصعب کے شاگردوں میں سے جس نے بھی اس کے علاوہ روایت کی اس نے دو سلام کا ذکر کیا پس ان کے مقابلے میں عبدالعزیز کی روایت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
دیگر روات کی روایات ملاحظہ ہوں :

1546

۱۵۴۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ یَسَارِہٖ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، حَتّٰی یُرَیْ بَیَاضُ خَدَّیْہِ مِنْ ہَاہُنَا وَمِنْ ہَاہُنَا) .
١٥٤٦: یہ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت ہے جس کو انھوں نے اپنی سند کے ساتھ عامر بن سعد عن سعد (رض) روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دائیں بائیں سلام پھیرتے اور گردن کو اس قدر سلام میں موڑتے کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دونوں اطراف میں نظر آجاتی اور سلام کے الفاظ السلام علیکم و رحمۃ اللہ تھے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١١٩‘ نسائی فی التطبیق نمبر ٨٣‘ السہو باب ٦٨؍٧٠‘ ٧١‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٢٨‘ نمبر ٩١٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٨٧‘ مسند احمد ١‘ ١٨٠؍١٨١۔

1547

۱۵۴۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَا : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ مَعَ حِفْظِہِ وَإِتْقَانِہٖ قَدْ رَوَاہُ عَنْ مُصْعَبٍ عَلٰی خِلَافِ مَا رَوَاہُ الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْہُ .وَوَافَقَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، مَعَ تَقَدُّمِہِ وَجَلَالَتِہٖ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ غَیْرِ مُصْعَبٍ، کَمَا رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، وَابْنُ الْمُبَارَکِ لَا کَمَا رَوَاہُ الدَّرَاوَرْدِیُّ.
١٥٤٧: محمد بن عمرو نے مصعب بن ثابت سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن مبارک (رح) جنہوں نے اپنے حافظہ و اتقان کے ساتھ مصعب سے دراوردی کے خلاف روایت نقل کی ہے اور محمد بن عمرو نے جو ان مقدم اور جلیل ہیں ان کی توثیق کی ہے۔ پھر اس روایت کو ان دونوں کی طرح اسماعیل بن محمد (رح) نے بھی نقل کی ہے اور دراوردی کے خلاف روایت کی اور مصعب کے علاوہ سے روایت بھی۔
حاصل روایات : یہ ابن مبارک اور محمد بن عمرو دونوں کی روایت جلالت شان کے ساتھ ساتھ دراوردی کی روایت سے مختلف ہیں اور دو سلاموں کو ثابت کر رہی ہیں پس دراوردی ی روایت معتبر نہ ہوگی۔
وجہ دوم : اس روایت کو مصعب کے علاوہ اسماعیل بن محمد سے بھی اسی طرح روایت کیا گیا جس طرح ابن مبارک اور ابن عمرو کی روایات میں ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1548

۱۵۴۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ .
١٥٤٨: سند اول۔ یونس نے یحییٰ بن حسان سے پھر انھوں نے اپنی سند سے۔

1549

۱۵۴۹ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ، قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ حَتّٰی أَرَیْ بَیَاضَ خَدِّہِ، وَعَنْ یَسَارِہٖ حَتّٰی أَرَیْ بَیَاضَ خَدِّہِ) .فَقَدْ انْتَفٰی بِمَا ذَکَرْنَا مَا رَوٰی الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْہُ، وَثَبَتَ عَنْ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمَتَیْنِ .وَقَدْ وَافَقَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٥٤٩: ابن مرزوق نے ابو عامر سے دونوں نے عبداللہ بن جعفر سے اسماعیل بن محمد عن عامر بن سعد عن سعد (رض) نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دائیں جانب سلام پھیرتے تو میں آپ کے چہرے مبارک کی سفیدی کو دیکھتا اور بائیں طرف سلام پھیرتے تو آپ کے رخسار کی سفیدی پر خوش ہوتا۔ اس سے دراوردی کی سعد (رض) والی روایت کی نفی ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کثیر اصحاب سے نقول دو سلام والی روایت ثابت ہوگئی ‘ روایات یہ ہیں۔
تخریج : روایت نمبر ١٥٤٦ کی تخریج پر اکتفاء کریں۔
حاصل روایات : ان روات کی روایات نے دراوردی کی روایت کی حقیقت کھول دی کہ سلام دو ہی ہیں نہ کہ ایک اس کی تائید میں بہت سی روایات وارد ہیں جو آئندہ صفحات پر مذکور ہوں گی۔

فریق ثانی کا مؤقف اور مستدل روایات اور اشکالات کے جوابات :
دائیں بائیں دو سلام ہیں۔ روایات یہ ہیں۔

1550

۱۵۵۰ : فَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی، قَالَ : (صَلّٰی بِنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَ الْجَمَلِ صَلَاۃً ذَکَّرَنَا صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِمَّا أَنْ یَکُوْنَ نَسِیْنَاہَا أَوْ تَرَکْنَاہَا عَلٰی عَمْدٍ، فَکَانَ یُکَبِّرُ فِیْ کُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ، وَیُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ) .
١٥٥٠: یزید بن ابی مریم نے ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں حضرت علی (رض) نے جمل کے دن ایسی نماز پڑھائی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز یاد دلا دی خواہ اس وجہ سے کہ ہم اس کو بھول گئے تھے یا ہم نے جان بوجھ کر چھوڑ دی تھی وہ ہر جھکتے اور اٹھتے وقت تکبیر کہتے اور انھوں نے اپنے دائیں بائیں سلام پھیرا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٤١۔

1551

۱۵۵۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسَی الْعَبَسِیُّ، قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ، حَتّٰی یَبْدُوَ بَیَاضُ خَدِّہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ .
١٥٥١: ابوالاحوص نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دائیں بائیں سلام پھیرتے یہاں تک کہ چہرے کی سفیدی ظاہر ہوجاتی اور سلام کے لیے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے لفظ فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٨٤‘ نمبر ٩٩٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٠٥‘ نمبر ٢٩٥‘ ابن ماجہ الاقامہ باب ٢٨‘ نمبر ٩١٥‘ مسند احمد ١؍١٨٦۔

1552

۱۵۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٥٥٢: ابوالاحوص نے عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٢١٩۔

1553

۱۵۵۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنَ الْمَرْوَزِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیْقٍ، قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، قَالَ : ثَنَا عَلْقَمَۃُ وَالْأَسْوَدُ بْنُ یَزِیْدَ وَأَبُو الْأَحْوَصِ، قَالُوْا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٥٥٣: علقمہ ‘ اسود بن یزید اور ابوالاحوص تینوں نے ابن مسعود (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٩٥۔

1554

۱۵۵۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٥٥٤: اسود نے حضرت ابن مسعود (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٤٣۔

1555

۱۵۵۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُسَلِّمُوْنَ عَنْ أَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَائِلِہِمْ فِی الصَّلَاۃِ : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ .
١٥٥٥: عبدالرحمن بن اسود نے اپنے والد سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) نماز میں اپنے دائیں ‘ بائیں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے ساتھ سلام پھیرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٩٩۔

1556

۱۵۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ح.
١٥٥٦: شجاع بن الولید نے زہیر بن معاویہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٥٣۔

1557

۱۵۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ : قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ ح.
١٥٥٧: ابن مرزوق نے ابوالولید اس نے زہیر بن معاویہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔

1558

۱۵۵۸ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ، قَالَ : أَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیْہِ، وَعَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
١٥٥٨: عبدالرحمن بن اسود نے اسود ‘ علقمہ دونوں کے واسطہ سے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٣٥٠۔

1559

۱۵۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ، وَمَنْصُوْرٌ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ أَبِیْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : (صَلَّیْ أَمِیْرٌ بِمَکَّۃَ، فَسَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : مِنْ أَیْنَ عَلِقَہَا قَالَ الْحَکَمُ فِیْ حَدِیْثِہٖ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ .
١٥٥٩: مجاہد نے ابو معمر کے واسطہ سے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ ایک امیر نے مکہ میں نماز پڑھائی پس اس نے اپنے دائیں بائیں سلام پھیرا تو عبداللہ نے کہا اس نے اس سنت کو کہاں سے پایا ہے۔ حکم راوی نے اپنی روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کرتے تھے۔
اللغات : علق۔ حاصل کرنا۔ پالینا۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١١٧۔

1560

۰ ۱۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِیْنِیِّ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٥٦٠: علی بن المدینی نے یحییٰ سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح سے نقل کیا ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٥١۔

1561

۱۵۶۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : حَدَّثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ عَنْ عَمَّارٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُسَلِّمُ فِیْ صَلَاتِہٖ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ .
١٥٦١: ابو اسحاق نے صلہ بن زفر سے انھوں نے عمار (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز میں دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٦٥۔

1562

۱۵۶۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ یَحْیَی الْمَازِنِیُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ عَنْ عَمِّہِ، وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ أَنَّہٗ سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : کَانَ یُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ وَیُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ .
١٥٦٢: واسع بن حبان نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کیسی تھی تو کہنے لگے ہر جھکنے اور اٹھنے پر تکبیر کہتے اور السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے ساتھ دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے۔
تخریج : نسائی فی السہو باب ٧١۔

1563

۱۵۶۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ، عَنِ الزُّبَیْدِیِّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُسَلِّمُ فِی الصَّلَاۃِ تَسْلِیْمَتَیْنِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ .
١٥٦٣: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز میں دائیں بائیں دو سلام پھیرتے تھے۔

1564

۱۵۶۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ ح.
١٥٦٤: ابو احمد محمد بن عبداللہ بن زبیر نے مسعر سے روایت نقل کی ہے۔

1565

۱۵۶۵ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْقِبْطِیَّۃِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ، قَالَ : کُنَّا اِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَلَّمْنَا بِأَیْدِیْنَا، قُلْنَا : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ یُسَلِّمُوْنَ بِأَیْدِیْہِمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلٍ شَمْسٍ أَمَا یَکْفِیْ أَحَدَکُمْ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلَاۃِ أَنْ یَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی فَخِذِہٖ وَیُشِیْرَ بِأُصْبُعِہِ، وَیَقُوْلَ : (السَّلَامُ عَلَیْکُمْ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ ).
١٥٦٥: عبیداللہ بن قبطیہ نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے نقل کیا ہے جب ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں سے سلام کرتے اور زبان سے السلام علیکم کہتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اس طرح سلام لیتے ہیں جیسے ترش رو گھوڑوں کی دمیں ہوں کیا تمہارے لیے اتنا کافی نہیں کہ جب وہ نماز میں بیٹھے تو اپنا دایاں بایاں ہاتھ ران پر رکھے اور انگلی سے اشارہ کرے اور السلام علیکم کہے۔ (یعنی یہ کافی ہے)
تخریج : مسلم ١؍١٨١۔

1566

۱۵۶۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِبْرَاہِیْمَ التَّرْجُمَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا حُدَیْجُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُسَلِّمُ فِی الصَّلَاۃِ تَسْلِیْمَتَیْنِ) ۔
١٥٦٦: ابو اسحاق نے براء سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں دو سلام کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٩٩۔

1567

۱۵۶۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُوْ الرَّبِیْعِ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ دَاوٗدَ، عَنْ حُرَیْثٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنِ الْبَرَائِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٥٦٧: حریث نے شعبی انھوں نے برائ (رض) سے انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1568

۱۵۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .
١٥٦٨: ابن مرزوق نے ابوالولید اور اس سے شعبہ سے نقل کیا۔

1569

۱۵۶۹ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، قَالَ سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا عَنْبَسٍ یُحَدِّثُ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّہٗ (صَلَّی خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ) .
١٥٦٩: محجر ابو عنبس نے وائل بن حجر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے اپنے دائیں بائیں سلام پھیرا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٨٤‘ نمبر ٩٩٧۔

1570

۱۵۷۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ رَجَائٍ، قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ یُحَدِّثُ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٥٧٠: ابوالبختری کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن سے سنا کہ وہ وائل بن حجر (رض) سے بیان کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں اپنے دائیں بائیں سلام پھیرتے۔
تخریج : مسند طیالسی ١؍١٣٨۔

1571

۱۵۷۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ، قَالَ : ثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلَی الْفُضَیْلِ حَدَّثَنِیْ أَبُوْ حَرِیْزٍ أَنَّ قَیْسَ بْنَ أَبِیْ حَازِمٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ عَدِیَّ بْنَ عَمِیْرَۃَ الْحَضْرَمِیَّ حَدَّثَہٗ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ أَقْبَلَ بِوَجْہِہٖ عَنْ یَمِیْنِہٖ حَتّٰی یُرٰی بَیَاضُ خَدِّہِ، ثُمَّ یُسَلِّمُ عَنْ یَسَارِہٖ، وَیُقْبِلُ بِوَجْہِہٖ حَتّٰی یُرَیْ بَیَاضُ خَدِّہِ الْأَیْسَرِ) .
١٥٧١: قیس بن ابو حازم نے بیان کیا کہ عدی بن عمیرہ حضرمی (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز میں سلام پھیرتے تو اپنے چہرے کے ساتھ دائیں طرف متوجہ ہوتے یہاں تک کہ ان کے رخسار کی سفیدی نظر آتی پھر اپنے بائیں طرف سلام پھیرتے اپنے چہرے کو اس قدر پھیرتے کہ آپ کے بائیں چہرے کی سفیدی نظر آجاتی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٥۔

1572

۱۵۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَیَّاشُ ڑالرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی، قَالَ ثَنَا قُرَّۃُ، قَالَ : ثَنَا بُدَیْلٌ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنَمٍ، قَالَ : قَالَ أَبُوْ مَالِکِ ڑ الْأَشْعَرِیُّ لِقَوْمِہٖ أَلَا أُصَلِّیْ بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرَ الصَّلَاۃَ وَسَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ، ثُمَّ قَالَ : ھٰکَذَا کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٥٧٢: شہر بن حوشب نے عبدالرحمن بن غنم سے روایت کی ہے کہ حضرت ابو مالک اشعری (رض) نے اپنی قوم کو فرمایا کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز نہ پڑھاؤں پھر انھوں نے نماز کا تذکرہ کیا اور اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرا پھر کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز اسی طرح تھی۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢؍٢٨١۔

1573

۱۵۷۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِیْنِیِّ، قَالَ : ثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ : ثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ طَلْقِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : کُنَّا اِذَا صَلَّیْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ رَأَیْنَا بَیَاضَ خَدِّہِ الْأَیْمَنِ وَبَیَاضَ خَدِّہِ الْأَیْسَرِ .
١٥٧٣: ہوذہ بن قیس بن طلق نے اپنے والد اپنے دادا طلق بن علی (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کی پس جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے آپ کے دائیں جانب کے رخسار کی سفیدی اور بائیں رخسار کی سفیدی (سلام) میں دیکھی۔
تخریج : المعجم الکبیر ٨؍٣٣٣۔

1574

۱۵۷۴ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الطَّائِفِیِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، أَوْ أَوْسِ بْنِ أَوَیْسٍ، قَالَ : أَقَمْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِصْفَ شَہْرٍ، فَرَأَیْتُہٗ یُصَلِّی وَیُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہِ .
١٥٧٤: عبدالملک بن مغیرہ طائفی نے اوس بن اوس با اوس بن اویس سے روایت نقل کی کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نصف ماہ مقیم رہا پس میں آپ کو نماز پڑھتے دیکھتا اور دیکھتا کہ آپ دائیں اور بائیں سلام پھیرتے ہیں۔

1575

۱۵۷۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنَ الصُّوْفِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا الْمِنْہَالُ بْنُ خَلِیْفَۃَ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ، قَالَ صَلّٰی بِنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ثُمَّ حَدَّثَنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (سَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمْ نَعْلَمْ شَیْئًا صَحَّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّلَامِ فِی الصَّلَاۃِ إِلَّا وَقَدِ دَخَلَ فِیْمَا رَوَیْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، فَإِنَّمَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ مَنْ یُخَالِفُہٗ إِلٰی حَدِیْثِ الدَّرَاوَرْدِیِّ الَّذِیْ قَدْ بَیَّنَّا فَسَادَہٗ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ احْتَجَّ قَوْمٌ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
١٥٧٥: ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہمیں ابو احیہ (رض) نے نماز پڑھائی پھر بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں اپنے دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی روایت معلوم نہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہو اور وہ ان روایات میں موجود نہ ہو اور یہ روایات تمام حدیث دراوردی کے خلاف ہیں جس کی کمزوری ہم شروع باب میں نقل کرچکے ہیں۔ انھوں نے مندرجہ روایت کو بھی اپنا مستدل قرار دیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٨٨‘ نمبر ١٠٠٧۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ نماز میں سلام پھیرنے کی صحیح روایات جو اس باب میں وارد ہیں وہ ہم نے یہاں بیان کردیں اب ان روایات کے بالمقابل دراوردی کی روایت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جس کے اندر پائی جانے والی خرابیاں ہم نے ذکر کردیں۔
دو اہم اشکال :
حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں ایک سلام کا تذکرہ موجود ہے پھر آپ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم نے دو سلام کی تمام صحیح روایت نقل کردیں۔ روایات عائشہ (رض) یہ ہے۔

1576

۱۵۷۶ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیْمِ الْبَرْقِیُّ، قَالَا : ثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمَۃً وَاحِدَۃً) .قِیْلَ لَہُمْ ھٰذَا حَدِیْثٌ أَصْلُہُ مَوْقُوْفٌ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ھٰکَذَا رَوَاہُ الْحُفَّاظُ وَزُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَإِنْ کَانَ رَجُلًا ثِقَۃً فَإِنَّ رِوَایَۃَ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْہُ تَضْعُفُ جِدًّا .ھٰکَذَا قَالَ یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ فِیْمَا حَکَیْ لَہٗ عَنْہُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا لَآمَنُہُمْ عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ إِلَیَّ وَزَعَمَ أَنَّ فِیْہَا تَخْلِیْطًا کَثِیْرًا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِذَا ثَبَتَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْمَا ذَکَرْتَ فَبِمَنْ یُعَارِضُہَا فِیْ ذٰلِکَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قِیْلَ لَہٗ بِأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ عَنْہُمَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ .
١٥٧٦: عمرو بن ابی سلمہ نے زہیر بن محمد سے انھوں نے ہشام بن عروہ انھوں نے اپنے والد عروہ سے اور انھوں نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سلام کرتے تھے۔ ان کو جواب میں عرض کیا جائے گا۔ اس حدیث کی اصل تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔ حفاظِ حدیث نے اس کو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر موقوف قرار دیا ہے۔ اس کے راوی زہیر بن محمد اگرچہ پختہ راوی ہیں مگر ان سے عمرو بن ابی سلمہ کی روایت کو نہایت کمزور کہا گیا ہے۔ حضرت یحییٰ بن معین (رح) سے ہمارے بہت سے احباب نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ میرے ہاں ان میں علی بن عبدالرحمن زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اس روایت میں شدید خلط ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ بات تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی ثابت ہے تو پھر اس روایت کا کس روایت سے معارضہ ہے۔ تو جواباً عرض کریں گے کہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے مؤقف سے اس کا تعارض ہے۔ جیسا کہ اس باب کے شروع میں گزرا۔
تخریج : ترمذی ١؍٦٥۔
الجواب نمبر !: یہ روایت عمرو بن ابی سلمہ کی سند سے اگرچہ مرفوعاً نقل کی گئی ہے مگر اس روایت کو دیگر حفاظ حدیث نے نقل کیا مگر کسی نے بھی مرفوع قرار نہیں دیا بلکہ سب نے موقوف کہا ہے۔
نمبر ": عمرو بن ابی سلمہ خود متکلم فیہ اور ضعیف راوی ہے اور یحییٰ بن معین اور علی بن عبدالرحمن بن المغیرہ (رح) کی نشان دہی کے مطابق اس روایت میں عمرو مذکور نے بہت خلط ملط کیا ہے۔
عبارت : قدیمی نسخہ کے مطابق ! لامنہم الی ان سب سے زیادہ قابل اعتماد " بعض سے لاء منہم منقول ہے جس کا معنی الگ کیا ‘ متوجہ ہوا۔
اشکال نمبر ":
اس روایت کو تسلیم کرنے سے کن روایات سے معارضہ لازم آتا ہے۔
جواب : دیگر صحابہ (رض) کی روایات سے معارضہ کے علاوہ حضرات ابوبکر و عمر (رض) کی روایات سے معارضہ لازم آتا ہے۔

1577

۱۵۷۷ : وَقَدْ حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِی الضُّحٰی، عَنْ مَسْرُوْقٍ، قَالَ : کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ، ثُمَّ یَنْتَقِلُ سَاعَتَئِذٍ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ .
١٥٧٧: مسروق کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) دائیں طرف سلام پھیرتے اور بائیں طرف سلام پھیرتے پھر اسی وقت وہاں سے منتقل ہو کر نمازیوں کی طرف متوجہ ہوجاتے گویا کہ آپ گرم پتھر پر بیٹھے ہوں۔
اللغات : الرضف۔ گرم پتھر۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٢٤٢۔

1578

۱۵۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، وَوَہْبٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ وَہِشَامٌ ح.
١٥٧٨: ابو داؤد وہب دونوں نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ و ہشام نے اپنی سند سے بیان کیا۔

1579

۱۵۷۹ : ح وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ حَمَّادٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٥٧٩: ہشام نے حماد سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1580

۱۵۸۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ رَزِیْنٍ، قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ .
١٥٨٠: اعمش نے ابی رزین سے نقل کیا کہ میں نے حضرت علی (رض) کے پیچھے نماز ادا کی پس انھوں نے اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١‘ ٢٩٩؍٣٠٠۔

1581

۱۵۸۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ رَزِیْنٍ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ .قِیْلَ لِسُفْیَانَ : عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ قَالَ نَعَمْ .
١٥٨١: عاصم نے ابو رزین سے نقل کیا کہ علی (رض) اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے سفیان سے کسی نے سوال کیا کیا حضرت علی (رض) کے متعلق کہتے ہو ؟ انھوں نے ہاں میں جواب دیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٦۔

1582

۱۵۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ رَزِیْنٍ، قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعَبْدِ اللّٰہِ فَسَلَّمَا تَسْلِیْمَتَیْنِ .
١٥٨٢: عاصم نے ابو رزین سے نقل کیا کہ میں نے حضرت علی (رض) کے پیچھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پیچھے نماز ادا کی دونوں نے دونوں طرف سلام کیا۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٢١٩۔

1583

۱۵۸۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ شَقِیْقِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ فِی الصَّلَاۃِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ .
١٥٨٣: شقیق بن سلمہ نے علی (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ نماز میں اپنے دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٢٩٩۔

1584

۱۵۸۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ، أَنَّہٗ صَلَّی خَلْفَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ فَکِلَاہُمَا یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ : (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ) .
١٥٨٤: ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ میں نے جناب علی (رض) اور ابن مسعود (رض) کے پیچھے نماز پڑھی دونوں اپنے دائیں بائیں السلام علیکم و رحمۃ اللہ سے سلام پھیرتے تھے۔ ابن مرزوق نے حکم سے نقل کیا کہ میں ابن ابی لیلی (رح) کے ساتھ نماز پڑھتا تھا وہ اپنے دائیں اور بائیں سلام ” السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ “ کے ساتھ پھیرتے تھے۔
تخریج : المحلی ٣؍٤٧۔

1585

۱۵۸۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ شَقِیْقٍ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ فِی الصَّلَاۃِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ .
١٥٨٥: شقیق نے علی (رض) سے نقل کیا کہ وہ نماز میں اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے۔
تخریج : المحلی۔

1586

۱۵۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَالِکِ ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ أَمِیْرًا صَلّٰی بِمَکَّۃَ فَسَلَّمَ تَسْلِیْمَتَیْنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَتُرَی مِنْ أَیْنَ عَلِقَہَا؟ فَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ یَقُوْلُ : قَالَ یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ : ھٰذَا مِنْ أَصَحِّ مَا رُوِیَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .
١٥٨٦: عبدالرحمن بن یزید نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ ایک امیر نے مکہ میں نماز پڑھائی تو اس نے دو سلام کئے اس پر ابن مسعود (رض) نے کہا تیرا کیا خیال ہے اس نے کہاں سے اس کو حاصل کیا ہے۔ میں نے ابن ابی داؤد کو فرماتے سنا ہے کہ یحییٰ بن معین (رح) نے کہا کہ یہ روایت اس باب کی صحیح ترین روایات سے ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٦۔
ابن ابی داؤد (رح) کا قول :
کہ یحییٰ بن معین کہا کرتے تھے کہ یہ اس سلسلہ کی اصح ترین روایات ہیں۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجلہ حضرات صحابہ کرام (رض) نماز میں دونوں طرف السلام علیکم و رحمۃ اللہ سے سلام پھیرتے تھے اس لیے مقتدی امام ہر دو کو ہر دو طرف اسی طریق سے سلام لازم ہے۔

1587

۱۵۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ : کَانَ عَمَّارٌ أَمِیْرًا عَلَیْنَا سَنَۃً، لَا یُصَلِّیْ صَلَاۃً إِلَّا سَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ : (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ) .
١٥٨٧: حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ عمار (رض) ہم پر ایک سال امیر رہے وہ ہر نماز میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے ساتھ دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٩٩۔

1588

۱۵۸۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ حَازِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّہٗ رَأَی سَہْلَ بْنَ سَعْدِ ڑ السَّاعِدِیَّ اِذْ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاۃِ، سَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَعَنْ شِمَالِہٖ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَہَؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَعَمَّارٌ، وَمَنْ ذَکَرْنَا مَعَہُمْ یُسَلِّمُوْنَ عَنْ أَیْمَانِہِمْ، وَعَنْ شَمَائِلِہِمْ لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ غَیْرُہُمْ عَلٰی قُرْبِ عَہْدِہِمْ بِرُؤْیَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحِفْظَہُمْ لِأَفْعَالِہِ .فَمَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ خِلَافُہُمْ لَوْ لَمْ یَکُنْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ فَکَیْفَ وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُوَافِقُ فِعْلَہُمْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ؟ فَإِنْ أَنْکَرَ مُنْکِرٌ مَا رَوَیْنَا عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ فِی الصَّلَاۃِ تَسْلِیْمَتَیْنِ، وَمَا رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ وَاحْتَجَّ لِمَا أَنْکَرَ مِنْ ذٰلِکَ بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ح.
١٥٨٨: عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ انھوں نے سہل بن سعد الساعدی (رض) کو دیکھا کہ جب وہ نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے دائیں بائیں سلام پھیرتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام حضرت ابوبکر و عمر ‘ علی ‘ ابن مسعود ‘ عمار (رض) اور دیگر جن کا ہم نے ان کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ یہ تمام دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرنے والے ہیں اور جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیگر اصحاب ان کو اس حالت میں دیکھنے کے باوجود ان کی مخالفت نہ کرنے والے تھے ‘ حالانکہ عہد نبوی کا بالکل قرب تھا۔ یہ ان کے فعل سے موافقت کے سلسلے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ بھی مروی نہ ہوتا تب بھی ان کی مخالفت مناسب نہ تھی ‘ تو اب جبکہ ان کی موافقت میں آپکے ارشادات موجود ہیں تو ان کی مخالفت کیونکر درست ہوگی۔ اگر کوئی انکار کرنے والا اس روایت کو تسلیم نہ کرے جو کہ ہم نے ابو وائل کی سند سے حضرت علی (رض) سے نقل کی ہے کہ آپ نماز میں دونوں طرف سلام پھیرتے تھے اور اس سلسلہ میں ان کی وساطت سے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے اور منکر یہ کہے ایک سلام والی روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد۔
حاصل روایات : امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن میں ابوبکر و عمر ‘ علی ‘ ابن مسعود (رض) اور عمار (رض) جیسے اساطین امت شامل ہیں وہ دائیں بائیں دو سلام پھیرتے دوسرے تمام لوگ ان کو اس حال میں دیکھتے اور ان کے پیچھے نمازیں ادا کرتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کا ان حضرات نے قریب ترین زمانہ پایا تھا اور آپ کے افعال و اقوال کو خوب محفوظ کیا تھا ان کا یہ فعل کرنا اور کسی کا نکیر کے بغیر تسلیم کرنا اجماع صحابہ (رض) کی دلیل ہے پس ان کے افعال کی مخالفت کسی کو درست نہیں اور کیسے درست ہوسکتی ہے جبکہ ان کے افعال جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال کے عین مطابق ہیں۔
ضمنی اشکال نمبر !:
انکر منکر ماروینا سے گزشتہ سطور میں ابو وائل کی سند سے علی (رض) کا عمل نقل کیا گیا کہ وہ دو سلام کرتے تھے اور اسی طرح ابن مسعود (رض) کا عمل بھی دو سلام کا ابو وائل شقیق بن سلمہ سے نقل کیا گیا وہ قابل تسلیم نہیں کیونکہ ابو وائل کی دوسری روایت میں ایک سلام کا تذکرہ ہے۔ روایت یہ ہے۔

1589

۱۵۸۹ : وَبِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، قَالَ : قُلْتُ لِأَبِیْ وَائِلٍ أَتَحْفَظُ التَّکْبِیْرَ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ قُلْتُ : فَالتَّسْلِیْمَ؟ قَالَ : وَاحِدَۃً .قَالَ : فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَحْفَظَ ہُوَ التَّسْلِیْمَ وَاحِدَۃً وَقَدْ رَأَیْ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعَبْدَ اللّٰہِ یُسَلِّمَانِ اثْنَتَیْنِ .أَفَتُرَیْ عَمَّنْ حَفِظَ الْوَاحِدَۃَ غَیْرَہُمَا، وَعَنْہُمَا کَانَ یَتَحَفَّظُ وَبِہِمَا کَانَ یُقْتَدَی .فَفِیْ ثُبُوْتِ ھٰذَا عَنْہُ مَا یَجِبُ بِہٖ فَسَادُ مَا رَوَیْتُمْ عَنْہُ فِی التَّسْلِیْمَتَیْنِ .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الَّذِیْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِی التَّسْلِیْمَتَیْنِ صَحِیْحٌ لَمْ یَدْخُلْہُ شَیْئٌ فِیْ إِسْنَادِہٖ، وَلَا فِیْ مَتْنِہِ، وَذٰلِکَ عَلَی السَّلَامِ مِنَ الصَّلَوَاتِ ذَوَاتِ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ، وَالَّذِیْ أَرَادَہُ أَبُوْ وَائِلٍ فِیْ حَدِیْثِ عَمْرِو بْن مُرَّۃَ، مِنَ السَّلَامِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً، ہُوَ فِی الصَّلَاۃِ ذَاتِ التَّکْبِیْرِ، فَإِنَّہٗ قَدْ کَانَ جَمَاعَۃٌ مِنَ الْکُوْفِیِّیْنَ، مِنْہُمْ اِبْرَاہِیْمُ یُسَلِّمُوْنَ فِیْ صَلَاتِہِمْ عَلٰی جَنَائِزِہِمْ تَسْلِیْمَۃً خَفِیَّۃً وَیُسَلِّمُوْنَ فِیْ سَائِرِ صَلَوَاتِہِمْ تَسْلِیْمَتَیْنِ .فَھٰکَذَا مَعْنَی، حَدِیْثِ أَبِیْ وَائِلٍ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ وَلِھٰذَا أَوْلَیْ أَنْ یُحْمَلَ عَلَیْہِ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ حَتّٰی لَا یُضَادَّ بَعْضُہٗ بَعْضًا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، وَالْحَسَنُ وَابْنُ سِیْرِیْنَ، یُسَلِّمُوْنَ فِیْ صَلَاتِہِمْ تَسْلِیْمَۃً وَاحِدَۃً، وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٥٨٩: عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کیا تمہیں تکبیر یاد ہے تو انھوں نے کہا جی ہاں۔ میں نے پوچھا کیا تمہیں سلام یاد ہے انھوں نے کہا ایک۔ تو اس روایت میں وہ ایک سلام کو یاد رکھنے کا کہہ رہے ہیں اور آپ کی روایت میں حضرت علی (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے دو سلام ذکر کرتے ہیں تو ان دونوں روایتوں میں تعارض ہوا پس اس سے دو سلام پر استدلال درست نہ رہا۔ تو یہ کس طرح درست ہے کہ ان کو ایک سلام محفوظ ہو اور انھوں نے حضرت علی اور ابن مسعود (رض) کو دو سلام کرتے دیکھا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ ان دو کے علاوہ انھوں نے یہ سلام کس سے یاد کیا ‘ حالانکہ وہ انہی کی وہ باتیں یاد کرنے اور ان کی اقتداء کرنے والے تھے۔ پس اس روایت کا ثبوت اور جو چیز اس روایت سے ثابت ہوتی ہے وہ اس روایت کے فساد کو ظاہر کر رہی ہے جو تم دو سلام کے سلسلے میں روایت کرچکے ہو۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ دو سلام کے سلسلے میں ہم نے جو روایت کی وہ بالکل درست ہے۔ اس کی سند و متن بےغبار ہیں اور اس کا تعلق رکوع و سجدہ والی نماز کے سلام سے تعلق رکھتا ہے۔ رہی ابو وائل کی عمرو بن مرّہ والی روایت جس میں ایک سلام کا ذکر ہے۔ اس کا تعلق تکبیرات والی نماز سے ہے۔ کوفہ کے علماء کی ایک جماعت جن میں ابراہیم (رح) بھی ہیں اپنے جنائز میں خفیف سلام پھیرتے اور اپنی بقیہ تمام نمازوں میں دو سلام پھیرتے تھے۔ ہمارے نزدیک ابو وائل کی روایت کا یہی معنی ہے۔ پس زیادہ بہتر ہے کہ ان سے مروی دوسری روایت کو بھی اسی پر محمول کریں تاکہ روایات میں تضاد نہ ہو۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ عمر بن عبدالعزیز ‘ حسن اور ابن سیرین اپنی نمازوں میں ایک سلام پھیرتے تھے ‘ جیسا ان روایات میں ہے۔
الجواب نمبر !: دو سلام والی روایت صحیح ہے اس کا متن اور سند دونوں محفوظ ہیں اس روایت کا تعلق رکوع و سجود والی نماز سے ہے اور عمرو بن مرہ والی روایت کا تعلق نماز جنازہ کے سلام سے ہے اب اس سے دونوں روایات صحیحہ کا محمل درست نکل آیا۔
نمبر ": وہ کثیر صحیح روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ شمار ہوگی۔
حاصل روایات : نماز جنازہ میں ابن مسعود ‘ ابن عمر ‘ ابن عباس (رض) اور جمہور کے ہاں نماز جنازہ میں ایک سلام کافی ہے البتہ حضرت علی (رض) اور امام حنیفہ (رح) اور شوافع کے ہاں دو سلام ہیں۔ (فتدبر)
اشکال نمبر ":
تابعین میں عمر بن عبدالعزیز ‘ حسن بصری ‘ ابن سیرین (رح) نمازوں میں ایک سلام پھیرتے تھے جیسا یہ روایات ظاہر کرتی ہیں۔
روایات ملاحظہ ہوں :

1590

۱۵۹۰ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑالرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَعَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّہُمَا کَانَا یُسَلِّمَانِ فِی الصَّلَاۃِ تَسْلِیْمَۃً وَاحِدَۃً حِیَالَ وُجُوْہِہِمَا .
١٥٩٠: اشعب نے حسن (رح) کے متعلق نقل کیا کہ وہ نماز میں سامنے طرف ایک سلام پھیرتے تھے۔ جواب میں کہا جائے گا کہ ایسی روایات بلاشبہ ان سے مروی ہیں مگر ان کے بالمقابل صحابہ کرام کی کثیر روایات جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ مروی ہیں وہ ان کے خلاف موجود ہیں۔ جن کا تذکرہ ہم اس باب میں کر آئے ہیں۔ (دوسرا جواب یہ ہے) کہ حضرت سعید بن المسیب اور ابن ابی لیلیٰ (رح) جو کہ اکابر تابعین سے ہیں ان کی روایات ان کے خلاف ہیں (پس ان کی روایات سے استدلال کا کوئی جواز نہیں ہے) ۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٠١۔

1591

۱۵۹۱ : وَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ تَسْلِیْمَۃً وَاحِدَۃً۔
١٥٩١: ابن عون نے محمد اور حسن بصری (رح) کے متعلق نقل کیا کہ وہ دونوں ایک طرف سلام پھیرتے تھے۔ یہ دونوں جلیل القدر تابعی ہیں جن کو صحابہ کرام کی کثیر صحبت حاصل رہی جن کا تذکرہ اس باب میں ہوا۔ (مدینہ منورہ میں) صحابہ کرام کے درمیان رہنے کا شرف جو ان کو میسر ہوا وہ دوسروں کو نہیں ملا۔ ہم نے روایات میں جو نقل کیا وہ اولیٰ ہے کیونکہ ان حضرات نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی موافقت میں پہلے حضرات کی پیروی کی ‘ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : عبدالرزاق نمبر ٣١٤٤۔

1592

۱۵۹۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، عَنْ سَعِیْدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، مِثْلَہٗ .قِیْلَ لَہٗ صَدَقْتَ، قَدْ رُوِیَ ھٰذَا عَنْ ہٰؤُلَائِ وَقَدْ رُوِیَ عَمَّنْ قَبْلَہُمْ مِمَّنْ ذَکَرْنَا مَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ، مَعَ مَا قَدْ تَوَاتَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِمَّا قَدَّمْتُ ذِکْرَہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، وَہُمَا مِنَ التَّابِعِیْنَ أَکْبَرُ مِنْ أُوْلَئِکَ خِلَافُ مَا رُوِیَ عَنْہُمْ .
١٥٩٢: سعید نے عمر بن عبدالعزیز (رح) کے متعلق نقل کیا کہ وہ ایک طرف سلام پھیرتے تھے۔ ابن مرزوق نے عمر بن عبدالعزیز سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ جواب میں کہا جائے گا کہ ایسی روایات بلاشبہ ان سے مروی ہیں مگر ان کے بالمقابل صحابہ کرام کی کثیر روایات جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ مروی ہیں وہ ان کے خلاف موجود ہیں۔ جن کا تذکرہ ہم اس باب میں کر آئے ہیں۔ (دوسرا جواب یہ ہے) کہ حضرت سعید بن المسیب اور ابن ابی لیلیٰ (رح) جو کہ اکابر تابعین سے ہیں ان کی روایات ان کے خلاف ہیں (پس ان کی روایات سے استدلال کا کوئی جواز نہیں ہے) ۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٧۔
الجواب بالصواب نمبر !: یہ تو اکابر تابعین کا عمل ہے ہم تو گزشتہ روایات میں اکابر صحابہ (رض) اور تابعین (رح) کا عمل پیش کر آئے بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل مبارک متواتر اسناد سے پیش کردیا اس لیے اس کے ہوتے ہوئے ان روایات کی چنداں حیثیت نہ ہوگی۔
نمبر ": ان سے جلیل القدر تابعین جنہوں نے ان سے زیادہ صحابہ کرام کی صحبت اٹھائی ان کا عمل پیش کیا جاتا ہے جو دو سلام ہی ہے پس ان کا عمل ان کے مقابلہ میں مرجوح ہوگا روایات ملاحظہ ہوں۔

1593

۱۵۹۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ أَیُّوْبَ، عَنْ زُہْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ، قَالَ : کَانَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ، یُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ .
١٥٩٣: یونس نے اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ وہ اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیر لے۔ زہرہ بن معبد کہتے ہیں کہ سعید بن المسیّب (رح) اپنے دائیں بائیں (نماز میں) سلام پھیرتے تھے۔

1594

۱۵۹۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، قَالَ : کُنْتُ أُصَلِّیْ مَعَ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، فَیُسَلِّمُ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ : (السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ) .فَھٰذَانِ تَابِعِیَّانِ مَعَہُمَا مِنَ الْقِدَمِ وَمِنَ الصُّحْبَۃِ بِجَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا لَیْسَ لِلَّذِیْ یُخَالِفُہُمَا مِمَّنْ ذَکَرْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .فَاَلَّذِیْ رَوَیْنَا عَنْہُمَا مِنْ ذٰلِکَ أَوْلَی، لِاقْتِدَائِہِمَا بِمَنْ قَبْلَہُمَا، وَلِمُوَافَقَتِہِمْ ا لِمَا قَدْ ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .وَھٰذَا أَیْضًا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٥٩٤: حکم کہتے ہیں کہ میں ابن ابی لیلیٰ کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا پس وہ اپنے دائیں بائیں جانب السلام علیکم و رحمۃ اللہ سے سلام پھیرتے۔ ابن مرزوق نے حکم سے نقل کیا کہ میں ابن ابی لیلی (رح) کے ساتھ نماز پڑھتا تھا وہ اپنے دائیں اور بائیں سلام ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ “ کے ساتھ پھیرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٦٧۔
حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں قدیم صحبت پانے والے تابعی ہیں جو کہ ان مذکورہ حضرات کو اس قدر میسر نہیں ہے پس ان کا قول ان سے بڑھ کر وزن رکھتا ہے نیز صحابہ کرام (رض) کے قول کے مطابق اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل سے موافقت رکھتا ہے۔
اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں اگرچہ نظری دلیل ذکر نہیں ہے مگر آثار سے اس قدر دلائل پیش کئے ہیں کہ ایک سلام والی روایات سند اور کثیر عمل کے اعتبار سے ان کے سامنے کبھی ترجیح نہیں پا سکتیں وہ اکابر صحابہ (رض) اور اکابر تابعین (رح) اور جمہور امت کا اجتماعی عمل ہے یعنی دو سلام سے نماز سے فراغت پانا۔

1595

۱۵۹۵ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (: مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّہُوْرُ، وَإِحْرَامُہَا التَّکْبِیْرُ، وَإِحْلَالُہَا التَّسْلِیْمُ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِہٖ بِغَیْرِ تَسْلِیْمٍ فَصَلَاتُہٗ بَاطِلَۃٌ ؛ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (تَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ) فَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَخْرُجَ مِنْہَا بِغَیْرِہٖ .خَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَافْتَرَقُوْا عَلٰی قَوْلَیْنِ .فَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ : اِذَا قَعَدَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ، وَإِنْ لَمْ یُسَلِّمْ .وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ : اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ سَجْدَۃٍ مِنْ صَلَاتِہٖ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ، وَإِنْ لَمْ یَتَشَہَّدْ وَلَمْ یُسَلِّمْ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْفَرِیْقَیْنِ جَمِیْعًا عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلَیْ أَنَّ مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْ قَوْلِہٖ (تَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ) ، إِنَّمَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ رَأْیِہِ فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مَعْنَیْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ کَانَ عِنْدَہٗ عَلٰی غَیْرِ مَا حَمَلَہُ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .فَذَکَرُوْا مَا قَدْ۔
١٥٩٥: محمد بن حنفیہ نے حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کی کنجی طہارت ہے اور اس کا تحریمہ تکبیر اور اس کی تحلیل (حلال ہونا ‘ نکلنا) سلام ہے۔ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ آدمی جب اپنی نماز سے سلام کے بغیر باہر آجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام تحلیل صلوۃ قرار دیا۔ پس سلام کے بغیر نماز سے نکلنا جائز نہیں۔ جبکہ دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کیا پھر ان کی دو جماعتیں بن گئیں۔ بعض نے تو کہا کہ جب وہ تشہد کی مقدار بیٹھ جائے تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی خواہ وہ سلام نہ پھیرے اور دیگر کا قول یہ ہے کہ جب وہ اپنی نماز کی آخری رکعت کے آخری سجدہ سے سر اٹھائے گا تو اس کی نماز مکمل ہوگئی خواہ وہ سلام و تشہد نہ پڑھے۔ ان دونوں گروہوں نے پہلے قول کے قائلین کے خلاف دلیل دیتے ہوئے کہا کہ روایت ” تحلیلھا التسلم “ یہ حضرت علی (رض) سے مروی ہے اور حضرت علی (رض) اپنا فتویٰ بھی خود اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے ہاں اس قول کا وہ معنی نہیں جو پہلے قول والوں نے اختیار کیا ہے۔ پس انھوں نے یہ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٣‘ نمبر ٦١٨‘ ترمذی فی الطہارۃ اب ٣‘ نمبر ٣‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ٣٢‘ نمبر ٢٧٥‘ دارمی فی الوضوء باب ٢٢‘ مسند احمد ١؍١٢٣‘ ٢٩١۔
حاصل روایات : جب نماز کا تحریمہ تکبی رہے اور نماز سے فراغت سلام سے ہے تو سلام کے بغیر جو نماز سے فارغ ہوگا س کی نماز باطل ہوجائے گی کیونکہ زبان نبوت نے سلام کو تحلیل قرار دیا پس اس کے بغیر نکلنا جائز نہ ہوا۔
فریق ثانی : اس میں امام عطاء بن ابی رباح (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) سب ہی مراد ہیں کیونکہ لفظ سلام کی عدم فرضیت میں سب برابر ہیں احناف کا قول یہ ہے کہ تشہد کے بعد نماز مکمل ہوگئی۔ فمنہم اذا قعد مقدار التشہد سے یہی مراد ہے اور عطائ (رح) کا قول یہ ہے کہ سجدہ سے سر اٹھایا تو نماز مکمل ہوگئی خواہ تشہد پڑھے یا نہ پڑھے۔
فریق ثانی کی طرف سے فریق اوّل کی دلیل کا جواب :
آپ نے حضرت علی (رض) سے تحلیل والی روایت نقل کی ہے روایت بالکل درست ہے اس میں کلام نہیں مگر اس کا جو مطلب آپ نے لیا وہ درست نہیں۔ یہ روایت ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ الزام : نماز سے فراغت کے لیے السلام کے لفظ کا کیا مقام ہے اس میں تین مذاہب ہیں :
نمبر 1: امام احمد کے ہاں لفظ سلام اور دائیں بائیں دو سلام فرض ہیں۔
نمبر 2: امام شافعی ومالک (رح) کے ہاں نماز سے فراغت کے لیے لفظ سلام تو فرض ہے مگر دونوں میں سے ایک سلام فرض ہے اور قعدہ اخیرہ فرض نہیں۔
نمبر 3: عطاء ابراہیم و ابن مسیب (رح) کے ہاں نہ سلام فرض نہ قعدہ اخیرہ۔
نمبر 4: ابوحنیفہ و سفیان ثوری (رح) کے ہاں قعدہ اخیرہ فرض مگر لفظ سلام واجب ثابت بالسنۃ ہے۔
مؤقف فریق نمبر اول : اس میں امام احمد ‘ مالک و شافعی (رح) سب شامل ہیں کہ لفظ سلام اور دونوں طرف سلام فرض ہے۔

1596

۱۵۹۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ سَجْدَۃٍ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ .فَھٰذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (تَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ) وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ عَلٰی أَنَّ الصَّلَاۃَ لَا تَتِمُّ إِلَّا بِالتَّسْلِیْمِ ؛ اِذْ کَانَتْ تَتِمُّ عِنْدَہٗ بِمَا ہُوَ قَبْلَ التَّسْلِیْمِ، وَکَانَ مَعْنَی (تَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ) عِنْدَہٗ أَیْضًا ہُوَ التَّحْلِیْلُ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یَحِلَّ بِہٖ لَا بِغَیْرِہٖ، وَالتَّمَامُ الَّذِیْ لَا یَجِبُ بِمَا یَحْدُثُ بَعْدَہُ إِعَادَۃُ الصَّلَاۃِ غَیْرُہٗ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : قَدْ قَالَ : (تَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ) ، فَکَانَ ہُوَ الَّذِیْ لَا یُدْخَلُ فِیْہَا إِلَّا بِہٖ، فَکَذٰلِکَ لَمَّا قَالَ : (وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ) کَانَ کَہُوَ أَیْضًا لَا یُخْرَجُ مِنْہَا إِلَّا بِہٖ .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الدُّخُوْلُ فِی الْأَشْیَائِ إِلَّا مِنْ حَیْثُ أُمِرَ بِہٖ مِنَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا، وَقَدْ یُخْرَجُ مِنَ الْأَشْیَائِ مِنْ حَیْثُ أُمِرَ أَنْ یُخْرَجَ بِہٖ مِنْہَا وَمِنْ غَیْرِ ذٰلِکَ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا النِّکَاحَ قَدْ نُہِیَ أَنْ یُعْقَدَ عَلَی الْمَرْأَۃِ، وَہِیَ فِیْ عِدَّۃٍ، وَکَانَ مَنْ عَقَدَہٗ عَلَیْہَا، وَہِیَ کَذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ بِذٰلِکَ مَالِکًا لِبُضْعِہَا، وَلَا وَجَبَ لَہٗ عَلَیْہَا نِکَاحٌ .فِیْ أَشْبَاہٍ لِذٰلِکَ کَثِیْرَۃٍ یَطُوْلُ بِذِکْرِہَا الْکِتَابُ .وَأَمَرَ أَنْ لَا یُخْرَجَ مِنْہُ إِلَّا بِالطَّلَاقِ الَّذِیْ لَا إِثْمَ فِیْہِ، وَأَنْ تَکُوْنَ الْمُطَلَّقَۃُ طَاہِرًا مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ فَکَانَ مَنْ طَلَّقَ عَلٰی غَیْرِ مَا أُمِرَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ فَطَلَّقَ ثَلَاثًا أَوْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ حَائِضًا یَلْزَمُہُ ذٰلِکَ وَإِنْ کَانَ إِثْمًا، وَیَخْرُجُ بِذٰلِکَ الطَّلَاقِ الْمَنْہِیِّ عَنْہُ مِنَ النِّکَاحِ الصَّحِیْحِ .فَکَانَ قَدْ تَثْبُتُ الْأَسْبَابُ الَّتِیْ تُمْلَکُ بِہَا الْأَبْضَاعُ کَیْفَ ہِیَ؟ وَالْأَسْبَابُ الَّتِیْ تَزُوْلُ بِہَا الْاِمْلَاکُ عَنْہَا کَیْفَ ہِیَ؟ وَنُہُوْا عَمَّا خَالَفَ ذٰلِکَ، أَوْ شَیْئًا مِنْہُ .فَکَانَ مَنْ فَعَلَ مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ لِیَدْخُلَ بِہٖ فِی النِّکَاحِ، لَمْ یَدْخُلْ بِہٖ فِیْہِ، وَإِذَا فَعَلَ شَیْئًا مِنْہُ لِیَخْرُجَ بِہٖ مِنَ النِّکَاحِ، خَرَجَ بِہٖ مِنْہُ .فَلَمَّا کَانَ لَا یَدْخُلُ فِی الْأَشْیَائِ إِلَّا مِنْ حَیْثُ أُمِرَ بِہٖ. وَالْخُرُوْجُ مِنْہَا قَدْ یَکُوْنُ مِنْ حَیْثُ أُمِرَ بِہٖ، وَقَدْ یَکُوْنُ بِغَیْرِ ذٰلِکَ .کَانَ کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ فِی الصَّلَاۃِ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ، فَیَکُوْنُ الدُّخُوْلُ فِیْہَا غَیْرَ وَاجِبٍ إِلَّا بِمَا أُمِرَ بِہٖ مِنَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا، وَیَکُوْنُ الْخُرُوْجُ مِنْہَا بِمَا أُمِرَ بِہٖ مِمَّا یُخْرَجُ بِہٖ مِنْہَا، وَمِنْ غَیْرِ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّہٗ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ سَجْدَۃٍ مِنْ صَلَاتِہٖ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ .
١٥٩٦: عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا جب اس نے آخری سجدہ سے سر اٹھایا تو اس کی نماز مکمل ہوگئی۔ تو یہ حضرت علی (رض) ہیں جنہوں نے یہ ذکر کیا ” تحلیلھا التسلیم “ ان کے ہاں تو سلام نماز کے لیے ضروری نہیں بلکہ سلام سے پہلے ان کے ہاں نماز مکمل ہوجاتی ہے۔ پس تحلیلھا التسل کا مفہوم ان کے ہاں یہ ہے کہ سلام کے ذریعہ نماز سے فراغت حاصل کی جائے کسی اور عمل سے نہیں اور تکمیل نماز یہ ہے کہ اگر اس کے بعد کوئی چیز پیش آجائے (جس سے نماز سے نکل جائے) تو نماز کو لوٹانے کی حاجت نہ ہو۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان تو ” تحریمھا التکبیر “ تحریم صلوۃ وہ ہے کہ جس کے بغیر نماز میں داخلہ درست نہ ہو (اور یہ مسلّم ہے) ۔ تو اسی طرح آپ نے فرمایا تحلیلھا التسلم کا بھی یہی معنی ہے کہ اس کے بغیر نماز سے باہر آنا جائز نہیں۔ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ کسی چیز کی ابتداء کے لیے وہی بات اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کا حکم ہے مگر باہر آنے کے لیے بھی وہی بات اختیار کرتے ہیں جس کا حکم ملا ہو اور بعض اوقات اس کے علاوہ کو اختیار کرتے ہیں مثلاً یہ ہمارے سامنے ہے کہ معتدۃ کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جو شخص عدت کے دوران نکاح کرے اس کو ملکیت بضعہ حاصل نہ ہوگی اور نہ نکاح منعقد ہوگا۔ اس کی مثالیں بہت ہیں جن کو اگر ہم ذکر کریں تو کتاب لمبی ہوجائے گی۔ نکاح سے باہر آنے کے لیے طلاق کا حکم ہے جس طلاق میں گناہ نہ ہو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ عورت بھی حیض سے پاک ہو اور اس نے اس طہر میں جماع بھی نہ کیا ہو۔ پس جس نے اس طریقہ کو چھوڑ کر طلاق دی خواہ وہ تین طلاقیں دے یا حائضہ کو طلاق دے تو طلاق پڑجائے گی مگر طلاق دینے والا گناہ کا مرتکب ہوگا اور اس طلاق ممنوعہ کے ذریعے صحیح نکاح جاتا رہے گا اور ایسے اسباب بھی واضح کردیے گئے ہیں جن سے ملک بضعہ حاصل ہوتی ہے اور ایسے اسباب کو ظاہر کردیا گیا کہ جن نے بالکل ملک بضعہ جاتی رہتی ہے اور ان تمام اسباب کی مخالفت سے روکا گیا ہے یا ان میں سے بعض کی مخالفت سے بھی روکا گیا ہے۔ پس جو آدمی ممنوعہ طریقہ سے نکاح کرنا چاہے گا اس کا نکاح تو واقع نہ ہوگا مگر نکاح سے نکلنے کے لیے بتلائے ہوئے درست طریقے اور غیر درست طریقے دونوں سے نکل سکتا ہے۔ پس جب حاصل یہ ہوا کہ چیزوں میں داخلہ کے لیے تو مقررہ طریقوں کو اختیار کرنا پڑے گا مگر ان سے نکلنے کے لیے مقررہ یا غیر مقررہ دونوں طریقوں سے وہ نکل جائے گا۔ پس نماز کے متعلق یہی قیاس سامنے رہے کہ اس میں داخلے کے لیے تو وہی مقررہ طریقہ جس داخلے کا حکم ہے۔ مگر خارج ہونے کے لیے کبھی تو مقررہ طریقہ اختیار کیا جاتا اور کبھی اس کے علاوہ اور جو لوگ اس بات کے قائل کہ جونہی آخری سجدے سے اٹھیں تو نماز پوری ہوجائے گی۔ ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍٣٦٠۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) کے ہاں تحلیلھا التسلیم کا مطلب یہ نہیں کہ تسلیم کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوئی اس لیے کہ ان کے ہاں تو نماز اس سے پوری ہوجاتی ہے جو سلام سے پہلے ہے اور تحلیلھا التسلیم کا مفہوم یہ ہوا کہ ایسی تحلیل جس کے ساتھ نماز سے باہر آنا مناسب ہے نہ کہ غیر سے اور وہ تکمیل کہ جس کے بعد جو کچھ بھی ہو نماز کا اعادہ لازم نہیں آتا وہ تسلیم کے علاوہ ہے پس معلوم ہوا کہ تسلیم فرض نہیں اور تسلیم کے ساتھ نماز سے باہر آنے کا مطلب یہ ہے کہ تسلیم وجوب ہے جس کے بغیر نماز پوری ہوگئی کامل نہ ہوئی۔
ایک اہم اشکال :
نماز میں داخلہ کے لیے تکبیر کی فرضیت تو مسلمہ ہے تسلیم میں اختلاف کیا گیا حالانکہ دونوں ایک سیاق میں واقع ہیں پھر حکم کیسے الگ ہوگئے۔
جواب : قیل لہ لہ انہ ص ٣٥٥ بہت سی اشیاء ایسی ہیں کہ جن میں داخل ہونے کے لیے خاص شرائط ہیں ان کے بغیر ان اشیاء میں داخلہ معتبر نہیں ہوتا اور خروج کے بھی اسباب ہیں مگر خروج کے لیے شرائط کی رعایت کرنے یا نہ کرنے ہر دو صورتوں میں خروج شمار کرلیا جاتا ہے۔ مثلاً نکاح کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ عورت کسی کے نکاح میں نہ ہو اس کے محارم میں سے نہ ہو کسی کی عدت میں نہ ہو حالت عدت میں نکاح کالعدم ہے اس سے وہ عورت کے بضع کا مالک نہ بن سکے گا اور نہ نکاح کرنے والے کا کوئی حق منکوحہ کے ذمہ لازم ہوگا اس کی مثال بیان کریں تو کتاب طویل ہوجائے گی۔ اور شوہر کو حکم ہوا کہ عورت کو اس نکاح سے ایسی طلاق سے فارغ کرے جس میں گناہ نہ ہو یعنی طہر میں ہو اس میں جماع نہ کیا گیا ہو اور تینوں طلاقوں کو اجتماعی طور پر نہ دے۔
مگر اس کے باوجود اپنی بیوی کو تین طلاق اکٹھی دے یا حیض میں طلاق دے تو طلاق بہرحال نافذ ہوجائے گی اگرچہ خاوند گناہ گار ہوگا مگر اس ممنوعہ طلاق سے وہ عورت نکاح سے فارغ و خارج ہوجائے گی۔
تو اب اس سے ثابت ہوگیا کہ ملک بضع کے اسباب وہ اور انداز کے ہیں اور وہ اسباب بھی متعین ہیں جن سے ملک بضع تو زائل ہوسکتا ہے مگر ان اسباب کی ممانعت ہے یا بعض کو اختیار کرنے کی ممانعت ہے پس جو ممنوعہ طریقہ سے نکاح میں داخل ہونا چاہتا ہے وہ تو داخل نہیں ہوسکتا مگر ممنوعہ طریقہ سے خارج ہونا چاہے تو خارج ہوجائے گا اور خارج ہونا تسلیم کرلیا جائے گا ادھر منہی عنہ کے ذریعہ داخل ہونے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے اور جائز اور ممنوعہ دونوں طرق سے خارج ہونا درست قرار پایا۔ تو اس کو سامنے رکھتے ہوئے نماز کے مسئلہ کو سمجھنا چاہیے کہ تکبیر تحریمہ جو کہ ماموربہ ہے اس کے بغیر نماز میں داخلہ ممکن نہیں ہے اور دوسری طرف السلام کے لفظ سے جو کہ مامور بہ ہے یا اس کے بغیر نماز سے نکلنے والا نکلنے والا شمار ہوجائے گا۔ فتدبر۔
فریق ثانی کی جماعت اوّل کا مؤقف :
عطاء بن رباح (رح) کہتے ہیں آخری سجدہ سے سر اٹھاتے ہی اس کی نماز مکمل ہوجائے گی گویا نہ سلام فرض نہ آخری التحیات لازم۔ جیسا اس روایت میں ہے۔

1597

۱۵۹۷ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ رَافِعٍ وَبَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ السُّجُوْدِ، فَقَدْ مَضَتْ صَلَاتُہٗ اِذَا ہُوَ أَحْدَثَ) .
١٥٩٧: عبدالرحمن بن رافع اور بکر بن سوادہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب آخری سجدہ سے سر اٹھائے تو اس کی نماز ختم ہوئی جبکہ وہ اس وقت بےوضو ہوجائے۔
تخریج : حلیۃ الاولیاء ٥؍١١٧۔

1598

۱۵۹۸ : وَمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ الرَّبِیْعِ اللُّؤْلُؤِیُّ، قَالَا : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْحَکَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .قِیْلَ لَہُمْ : إِنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ، فَرَوَاہُ قَوْمٌ ھٰکَذَا، وَرَوَاہُ آخَرُوْنَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ۔
١٥٩٨: معاذ بن حکم نے عبدالرحمن بن زیاد سے اسی طرح اس کی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ ان سے کہا جائے گا کہ یہ روایت مختلف فیہ ہے۔ بعض نے اس کو اسی طرح روایت کیا مگر دوسروں نے اور طریقے سے روایت کیا ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍٩٣۔
حاصل روایات۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آخری رکعت کے سجدہ سے نماز مکمل ہوجاتی ہے اس کے بعد لاحق ہونے والا حدث نماز میں مخل نہیں اور قعدہ اخیرہ بھی فرض نہیں ہے۔
جواب : قیل لہم سے دیا نمبر ١ یہ روایت مختلف فیہ ہے اس کو دوسری طرز سے بھی روایت کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

1599

۱۵۹۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ، وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیُٔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ رَافِعٍ ڑالتَّنُوْخِیِّ، وَبَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ الْجُذَامِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا قَضَی الْاِمَامُ الصَّلَاۃَ، فَقَعَدَ، فَأَحْدَثَ ہُوَ أَوْ أَحَدٌ مِمَّنْ أَتَمَّ الصَّلَاۃَ مَعَہٗ، قَبْلَ أَنْ یُسَلِّمَ الْاِمَامُ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ، فَلَا یَعُوْدُ فِیْہَا) " .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا مَعْنَاہُ غَیْرُ مَعْنَی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .وَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا بِلَفْظٍ غَیْرِ ھٰذَا .
١٥٩٩: عبدالرحمن بن رافع تنوخی اور بکر بن سوادہ جذامی نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب امام نے نماز کو پورا کرلیا اور وہ بیٹھا رہا تو اس کو بےوضگی کی حالت پیش آئی یا اس کے مقتدی کو ایسی حالت میں حدث لاحق ہوگئی جبکہ اس کے امام نے ابھی سلام نہ پھیرا تھا تو اس نے اپنی نماز کو پورا کرلیا پس وہ اعادہ نہ کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٢‘ نمبر ٦١٧‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٨٣‘ نمبر ٤٠٨۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ قعدہ کے بعد سلام سے پہلے حدث لاحق ہو تو نماز مکمل ہوجاتی ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں اس روایت کا مفہوم پہلی روایت سے مختلف ہے یہاں قعدہ کے بعد نماز کو کامل کہا گیا قعدہ اخیرہ کا لزوم ثابت ہو رہا ہے۔ اس روایت کا تیسرا انداز بھی ہے۔

1600

۱۶۰۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْحَکَمِ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ، عَنْ أَبِیْ دَاوٗدَ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ .قَالَ مُعَاذٌ : فَلَقِیْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، فَحَدَّثَنِیْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ رَافِعٍ، وَبَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ، فَقُلْتُ لَہٗ : لَقِیْتَہُمَا جَمِیْعًا، فَقَالَ : کِلَیْہِمَا حَدَّثَنِیْ بِہٖ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا رَفَعَ الْمُصَلِّیْ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ صَلَاتِہٖ، وَقَضَی تَشَہُّدَہُ، ثُمَّ أَحْدَثَ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ، فَلَا یَعُوْدُ لَہَا) .وَاحْتَجَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا : لَا تَتِمُّ الصَّلَاۃُ حَتّٰی یَقْعُدَ فِیْہَا قَدْرَ التَّشَہُّدِ بِمَا۔
١٦٠٠: عبدالرحمن بن زیاد نے ابو بکرہ جیسی روایت نقل کی ہے۔ ابن مبارک کہتے ہیں کہ معاذ نے بتلایا کہ میں عبدالرحمن بن زیاد کو ملا انھوں نے عبدالرحمن بن رافع اور بکر بن سوادہ دونوں سے مجھے بیان کیا میں نے کہا کیا تو سب کو ملا ہے تو اس نے کہا دونوں نے مجھے عبداللہ بن عمرو (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب نمازی نے اپنی نماز کے اختتام پر سجدہ سے سر اٹھا لیا اور تشہد پڑھ لیا پھر اس کا وضو ٹوٹ گیا تو گویا اس کی نماز پوری ہوگئی وہ اس کا اعادہ نہ کرے۔ اس روایت کو ان لوگوں نے دلیل بنایا جن کا مقولہ یہ ہے کہ جب تک تشہد کی مقدار قعدہ نہ کرے اس کی نماز مکمل نہ ہوگی۔
تخریج : روایت نمبر ١٥٩٩ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ جو نمازی آخری سجدہ کر کے تشہد بیٹھ گیا اس کی نماز پوری ہوگئی اگر اس وقت کوئی حدث لاحق ہوجائے تو اس پر اعادہ نہیں ہے یہ روایت سابقہ روایات پر مفصل ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہوگی۔
فریق ثانی کی جماعت دوم کا مؤقف یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ فرض ہے اور مقدار تشہد بیٹھنے کی مقدار جب تک تشہد اختیار نہ کرے گا نماز پوری نہ ہوگی اوپر والی روایت بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مگر مستقل دلائل یہ روایات ہیں۔

1601

۱۶۰۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، وَأَبُوْ غَسَّانَ، وَاللَّفْظُ لِأَبِیْ نُعَیْمٍ، قَالَا : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ مُخَیْمِرَۃَ، قَالَ : أَخَذَ عَلْقَمَۃُ بِیَدَیَّ فَحَدَّثَنِیْ (أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَخَذَ بِیَدِہِ، وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِیَدِہٖ وَعَلَّمَہُ التَّشَہُّدَ، فَذَکَرَ التَّشَہُّدَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ بَابِ التَّشَہُّدِ. وَقَالَ : فَإِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ، أَوْ قَضَیْتَ ھٰذَا فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُکَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُوْمَ فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ .
١٦٠١: قاسم بن مخیمرہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھائی پھر وہ تشہد ذکر کیا جو ہم عبداللہ (رض) سے باب التشہد میں نقل کر آئے ہیں اور فرمایا جب تم نے اس کو کرلیا یا پورا کردیا تو گویا تیری نماز مکمل ہوگئی اگر چاہو تو کھڑے ہوجاؤ اگر بیٹھنا چاہو تو بیٹھے رہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٨‘ نمبر ٩٧٠۔

1602

۱۶۰۲ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٦٠٢: زہیر نے بیان کیا کہ ہمیں حسن بن حر نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح بیان کیا۔
تخریج : سابقہ ابن حبان ٣؍٢٠٨۔

1603

۱۶۰۳ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ .ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْشَرِ ڑالْبَرَائُ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ التَّشَہُّدَ، وَقَالَ (: لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِتَشَہُّدٍ) .فَرَوَوْا مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَوَوْا مِنْ قَوْلِ عَبْدِ اللّٰہِ۔
١٦٠٣: علقمہ نے عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا پھر تشہد کا ذکر کیا اور کہا تشہد کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد روایت کیا پھر عبداللہ کا قول روایت کیا۔
تخریج : مسند البزاز ٥؍١٧‘ طبرانی الکبیر ١٠؍٥١
ان روایات نے پہلے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ذکر کیا پھر انھوں نے عبداللہ کا قول نقل کیا جیسا اس روایت میں ہے۔

1604

۱۶۰۴ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ وَکِیْعٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : التَّشَہُّدُ انْقِضَائُ الصَّلَاۃِ، وَالتَّسْلِیْمُ اِذْنٌ بِانْقِضَائِہَا ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ تَرْکَ السَّلَامِ غَیْرُ مُفْسِدٍ لِلصَّلَاۃِ، وَہُوَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ خَمْسًا، فَلَمْ یُسَلِّمْ، فَلَمَّا أُخْبِرَ بِصَنِیْعِہِ فَثَنَی رِجْلَہُ فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ) .
١٦٠٤: ابو اسحاق نے ابوالاحوص سے انھوں نے عبداللہ سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا تشہد نماز کا اگر اختتام ہے تو تسلیم اختتام کا اعلان ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس روایت کا معنی پہلی روایت سے مختلف ہے اور اس روایت کو دیگر الفاظ سے بھی روایت کیا گیا ہے۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات وارد ہوتی ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ سلام کا چھوڑ دینا نماز کو نہیں توڑتا اور وہ اس طرح کہ آپ نے نماز ظہر پانچ رکعت پڑھائی اور سلام نہ پھیرا جب آپ کے عمل کی آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاؤں کو موڑا اور دو سجدے ادا فرمائے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٤٨ موقوفاً ۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ترک سلام نماز کے لیے مفسد نہیں ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پانچ رکعت ادا کی اور سلام نہ پھیرا جب آپ کو اس بات کی اطلاع دی گئی تو آپ نے اپنے پاؤں کو موڑا پھر دو سجدے کئے۔ روایت یہ ہے۔

1605

۱۶۰۵ : کَمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَدْخَلَ فِی الصَّلَاۃِ رَکْعَۃً مِنْ غَیْرِہَا قَبْلَ السَّلَامِ، وَلَمْ یَرَ ذٰلِکَ مُفْسِدًا لِلصَّلَاۃِ، وَلَوْ رَآہُ مُفْسِدًا لَہَا اِذًا لَأَعَادَہَا فَلَمَّا لَمْ یُعِدْہَا، وَقَدْ خَرَجَ مِنْہَا إِلَی الْخَامِسَۃِ لَا بِتَسْلِیْمٍ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ السَّلَامَ لَیْسَ مِنْ صُلْبِہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّہٗ لَوْ کَانَ جَائَ بِالْخَامِسَۃِ، وَقَدْ بَقِیَ عَلَیْہِ مِمَّا قَبْلَہَا سَجْدَۃٌ، کَانَ ذٰلِکَ مُفْسِدًا لِلْأَرْبَعِ، لِأَنَّہٗ خَلَطَہُنَّ بِمَا لَیْسَ مِنْہُنَّ فَلَوْ کَانَ السَّلَامُ وَاجِبًا کَوُجُوْبِ سُجُوْدِ الصَّلَاۃِ، لَکَانَ حُکْمُہٗ أَیْضًا کَذٰلِکَ، وَلٰـکِنَّہٗ بِخِلَافِہٖ فَہُوَ سُنَّۃٌ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فَلَمْ یَدْرِ أَثَلاَثًا صَلَّیْ أَمْ أَرْبَعًا فَلْیَبْنِ عَلَی الْیَقِیْنِ وَیَدَعْ الشَّکَّ، فَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ نَقَصَتْ، فَقَدْ أَتَمَّہَا، وَکَانَتْ السَّجْدَتَانِ تُرْغِمَانِ الشَّیْطَانَ، وَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ تَامَّۃً، کَانَ مَا زَادَ وَالسَّجْدَتَانِ لَہٗ نَافِلَۃً) .فَقَدْ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَامِسَۃَ الزَّائِدَۃَ وَالسَّجْدَتَیْنِ اللَّتَیْنِ لِلسَّہْوِ تَطَوُّعًا، وَلَمْ یَجْعَلْ مَا تَقَدَّمَ مِنَ الصَّلَاۃِ بِذٰلِکَ فَاسِدًا وَإِنْ کَانَ الْمُصَلِّیْ قَدْ خَرَجَ مِنْہَا إِلَیْہِ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّلَاۃَ تَتِمُّ بِغَیْرِ تَسْلِیْمٍ وَأَنَّ التَّسْلِیْمَ مِنْ سُنَنِہَا لَا مِنْ صُلْبِہَا .فَکَانَ تَصْحِیْحُ مَعَانِی الْآثَارِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ یُوْجِبُ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الَّذِیْنَ قَالُوْا : لَا تَتِمُّ الصَّلَاۃُ حَتّٰی یَقْعُدَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ لِأَنَّ حَدِیْثَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ احْتَمَلَ مَا ذَکَرْنَا وَاخْتُلِفَ فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ فَہُوَ الَّذِیْ لَمْ یُخْتَلَفْ فِیْہِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا : إِنَّہُ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ سَجْدَۃٍ مِنْ صَلَاتِہٖ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ .قَالُوْا : رَأَیْنَا ھٰذَا الْقُعُوْدَ قُعُوْدَ التَّشَہُّدِ وَفِیْہِ ذِکْرٌ یُتَشَہَّدُ بِہٖ وَتَسْلِیْمٌ یُخْرَجُ بِہٖ مِنَ الصَّلَاۃِ، وَقَدْ رَأَیْنَا قَبْلَہُ فِی الصَّلَاۃِ قُعُوْدًا فِیْہِ ذِکْرٌ یُتَشَہَّدُ بِہٖ. فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ ذٰلِکَ الْقُعُوْدَ الْأَوَّلَ، وَمَا فِیْہِ مِنَ الذِّکْرِ، لَیْسَ ہُوَ مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ، بَلْ ہُوَ مِنْ سُنَنِہَا .وَاخْتُلِفَ فِی الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ کَالْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ، وَیَکُوْنُ مَا فِیْہِ کَمَا فِی الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ، فَیَکُوْنُ سُنَّۃً، وَکُلُّ مَا یُفْعَلُ فِیْہِ سُنَّۃٌ کَمَا کَانَ الْقُعُوْدُ الْأَوَّلُ سُنَّۃً، وَکُلُّ مَا یُفْعَلُ فِیْہِ سُنَّۃٌ، وَقَدْ رَأَیْنَا الْقِیَامَ الَّذِیْ فِیْ کُلِّ الصَّلَاۃِ وَالرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ الَّذِیْ فِیْہَا أَیْضًا کُلَّہُ کَذٰلِکَ فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ الْقُعُوْدُ فِیْہَا أَیْضًا کُلُّہٗ کَذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ بَعْضُہُ بِاتِّفَاقِہِمْ سُنَّۃً کَانَ مَا بَقِیَ مِنْہُ کَذٰلِکَ أَیْضًا فِی النَّظَرِ .وَاحْتَجَّ عَلَیْہِمَ الْآخَرُوْنَ فَقَالُوْا : قَدْ رَأَیْنَا الْقُعُوْدَ الْأَوَّلَ مَنْ قَامَ عَنْہُ سَاہِیًا فَاسْتَتَمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالْمُضِیِّ فِیْ قِیَامِہِ وَلَمْ یُؤْمَرْ بِالرُّجُوْعِ إِلَی الْقُعُوْدِ، وَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْآخِرِ سَاہِیًا حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالرُّجُوْعِ إِلٰی قُعُوْدِہِ .قَالُوْا فَمَا یُؤْمَرُ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ بَعْدَ الْقِیَامِ عَنْہُ فَہُوَ الْفَرْضُ، وَمَا لَا یُؤْمَرُ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ بَعْدَ الْقِیَامِ عَنْہُ، فَلَیْسَ ذٰلِکَ بِفَرْضٍ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ مَنْ قَامَ وَعَلَیْہِ سَجْدَۃٌ مِنْ صَلَاتِہِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالرُّجُوْعِ إِلٰی مَا قَامَ عَنْہُ لِأَنَّہٗ قَامَ فَتَرَکَ فَرْضًا فَأُمِرَ بِالْعَوْدِ إِلَیْہِ، وَکَذٰلِکَ الْقُعُوْدُ الْأَخِیْرُ، لَمَّا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ عَنْہُ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ کَانَ ذٰلِکَ دَلِیْلًا أَنَّہٗ فَرْضٌ، وَلَوْ کَانَ غَیْرَ فَرْضٍ اِذًا لَمَا أُمِرَ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ کَمَا لَمْ یُؤْمَرْ بِالرُّجُوْعِ إِلَی الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ أَنَّہٗ إِنَّمَا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا بِالْمُضِیِّ فِیْ قِیَامِہِ، وَأَنْ لَا یَرْجِعَ إِلٰی قُعُوْدِہِ ؛ لِأَنَّہٗ قَامَ مِنْ قُعُوْدٍ غَیْرِ فَرْضٍ فَدَخَلَ فِیْ قِیَامٍ فَرْضٍ فَلَمْ یُؤْمَرْ بِتَرْکِ الْفَرْضِ وَالرُّجُوْعِ إِلَیْ غَیْرِ الْفَرْضِ وَأُمِرَ بِالتَّمَادِیْ عَلَی الْفَرْضِ حَتّٰی یُتِمَّہُ .فَکَانَ لَوْ قَامَ عَنِ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ فَلَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالْعَوْدِ إِلَی الْقُعُوْدِ لِأَنَّہٗ مَا لَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَلَمْ یَدْخُلْ فِیْ فَرْضٍ فَأُمِرَ بِالْعَوْدِ مِمَّا لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَلَا فَرْضٍ إِلَی الْقُعُوْدِ الَّذِیْ ھُوَ سُنَّۃٌ، وَکَانَ یُؤْمَرُ بِالْعَوْدِ مِمَّا لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَلَا فَرِیْضَۃٍ إِلٰی مَا ہُوَ سُنَّۃٌ، وَیُؤْمَرُ بِالْعَوْدِ مِنَ السُّنَّۃِ إِلٰی مَا ہُوَ فَرِیْضَۃٌ، وَکَانَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا دَاخِلًا لَا فِیْ سُنَّۃٍ وَلَا فِیْ فَرِیْضَۃٍ وَقَدْ قَامَ مِنْ قُعُوْدٍ ہُوَ سُنَّۃٌ فَأُمِرَ بِالْعَوْدِ إِلَیْہِ وَتَرْکِ التَّمَادِی فِیْمَا لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَلَا فَرِیْضَۃٍ .کَمَا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ الَّذِیْ ھُوَ سُنَّۃٌ فَلَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَیَدْخُلَ فِی الْفَرِیْضَۃِ أَنْ یَرْجِعَ مِنْ ذٰلِکَ إِلَی الْقُعُوْدِ الَّذِیْ ھُوَ سُنَّۃٌ فَلِھٰذَا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ لَا لِمَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الْآخَرُوْنَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ لَا مَا قَالَ الْآخَرُوْنَ .وَلَکِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃ، وَأَبَا یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدًا، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، ذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی قَوْلِ الَّذِیْنَ قَالُوْا : إِنَّ الْقُعُوْدَ الْأَخِیْرَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ لِأَنَّہٗ ثَبَتَ بِالنَّصِّ کَمَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ قَالَ بَعْضُ الْمُتَقَدِّمِیْنَ بِمَا قَالُوْا مِنْ ذٰلِکَ .
١٦٠٥: ابراہیم نے علقمہ سے انھوں نے عبداللہ سے بیان کیا اور عبداللہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کو بیان کیا۔ (جو اوپر ظہر کے واقعہ والی گزری) اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز سلام سے پہلے ایک اور پانچوں رکعت پڑھ دی اور اس کو نماز کے لیے مفسد قرار نہ دیا اگر آپ اسے نماز کے لیے مفسد قرار دیتے تو ضرور اس کا اعادہ کرتے جب آپ نے اعادہ نہ کیا اور پانچویں رکعت کی طرف بلا تسلیم نکل گئے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ نماز کے ارکان سے نہیں ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ آپ پانچویں رکعت کی طرف اس حالت میں منتقل ہوتے کہ آپ کے ذمہ کوئی ایسی چیز باقی ہوتی جس سے پہلے سجدہ ہے تو یہ چاروں رکعات کے لیے مفسد بن جاتی کیونکہ اس سے ان رکعات کا ان چیزوں سے ملانا لازم آتا جو ان میں سے نہیں۔ پس اگر سلام واجب ہوتا جیسا کہ نماز میں سجدے لازم ہیں تو اس کا حکم بھی اسی طرح ہوتا مگر اس کے برعکس وہ سنت ہے اور یہ بات حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں آئی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے اور اس کو یہ یاد نہ رہے کہ اس سے تین پڑھی ہیں یا چار ‘ تو یقین پر عمل کرے اور شک کو ترک کر دے۔ پھر اگر اس کی نماز کم ہو تو اس کو (رکعت ملا کر) مکمل کرلے اور دو سجدے شیطان کی ناک رگڑنے کے لیے کرے اور اگر نماز مکمل ہوچکی تو جو زائد پڑھا ہے وہ اور دو سجدے اس کے لیے نفل بن جائیں گے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچویں زائد رکعت اور سہو کے دو سجدوں کو نفل قرا دیا اور اس سے پہلے والی رکعات کو فاسد قرار نہیں دیا خواہ نمازی اس فرض سے اس نفل کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز بعد سلام بھی مکمل ہوجاتی ہے اور سلام نماز کی سنن سے ہے فرائض سے نہیں۔ پس اس باب کے آثار کے معنی کی درستی اس بات کو لازم کرتی ہے کہ جنہوں نے یہ کہا کہ مقدار تشہد بیٹھنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے ‘ اس لیے کہ حضرت علی (رض) والی روایت میں اس بات کا احتمال ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں اختلاف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا۔ البتہ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت میں اختلاف نہیں۔ غور و فکر کے لحاظ سے اس کی وضاحت سنیے۔ جن لوگوں کا کہنا یہ ہے جب نماز کے آخری سجدہ سے سر اٹھائے تو نماز مکمل ہوجاتی ہے۔ وہ بطور ثبوت کہتے ہیں کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ تشہد والا قعدہ ہے۔ اس تشہد والا ذکر اور سلام جس کے ذریعے نماز سے باہر آتے ہیں اور ہم یہ پاتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی اسی نماز میں ایک قعدہ ہے جس میں تشہد کا ذکر تو موجود ہے۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پہلا قعدہ اور اس میں تشہد کا پڑھنا فرائض نماز سے نہیں بلکہ سنن اور واجبات سے ہے۔ آخری قعدہ سے متعلق اختلاف ہے ہم نے جو کچھ کہا اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ بھی پہلے قعدہ کی طرح ہو اور اس میں جو کچھ ہے اس کا حکم وہی ہو جو پہلے قعدہ کے افعال و اعمال کا ہے۔ اس لحاظ سے وہ سنت یا واجب ہوگا اور اس کے اعمال بھی سنت غیر فرض ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قیام رکوع اور سجدہ یہ تمام چیزیں ہر نماز کا لازمی حصہ ہیں۔ پس جو بات ہم نے ذکر کی اس کے لحاظ سے غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ قعدہ کا حکم بھی نماز میں اسی طرح ہو جب اس کا ایک حصہ بالاتفاق سنت یا واجب ہے تو اس کے بقیہ کا بھی قیاس کے لحاظ سے وہی حکم ہے دوسروں نے ان کے خلاف یہ دلیل پیش کی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قعدہ اول سے جو شخص بھول کر کھڑا ہوجاتا ہے اگر وہ مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہوجائے تو اس کے لیے قیام میں برقرار رہنے کا ہی حکم ہے اس کو قعد کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو شخص قعدہ اخیرہ میں بھول کر کھڑا ہوجائے اور مکمل سیدھا کھڑا ہوجائے تو اسے قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جاتا ہے تو جس قعدے میں مکمل قیام کے بعد لوٹنے کا حکم ہو وہ فرض ہے تبھی تو اس کی طرف لوٹنے کا حکم دیا گیا اور قعدہ اول میں اس کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ان کے خلاف دلیل دوسروں کی طرف سے یہ دی جاتی ہے پہلے قعدہ میں کھڑے ہونے کے بعد قیام میں برقرار رہنے کا حکم دیا گیا اور قعدے کی طرف لوٹنے کا نہیں کہا گیا کیونکہ وہ ایسے قعدہ سے کھڑا ہوا ہے جو فرض نہیں ہے اور دوسری طرف وہ ایسے قیام میں داخل ہوچکا جو کہ فرض ہے اس وجہ سے اس کے چھوڑنے اور غیر فرض کی طرف لوٹنے کی اجازت نہیں دی گئی اور فرض میں برقرار رہنے کا حکم دیا گیا تاکہ اس کی تکمیل کرلیں اگر وہ پہلا قعدہ کھڑا ہوا مگر مکمل طور پر سیدھا نہ ہوا تو اسے قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم دیں گے کیونکہ وہ مکمل کھڑا نہیں ہوا جس سے وہ فرض میں داخل نہیں ہوا اسی لیے واپسی کا حکم ہوگیا جو نہ تو سنت ہے اور نہ فرض ہے اور یہ اس قعدے کی طرف واپس آیا جو کہ سنت سے ثابت ہے تو اس کو لوٹنے کا حکم اس کے لیے کہا گیا جو کہ سنت سے ثابت ہے اور سنت سے اس کی طرف لوٹا جاتا ہے جو کہ فرض ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل وہ شخص جو کہ آخری قعدہ میں سیدھا کھڑا ہوگیا تو وہ ایسی چیز میں داخل ہونے والا ہے جو نہ سنت ہے نہ فرض اور وہ ایسے قعدہ سے اٹھا ہے جو کہ سنت ہے اور اس میں برقرار رہنے نہ دیا جائے گا جو کہ سنت و فرض میں سے کچھ بھی نہیں جیسا کہ اس شخص کو حکم دیا گیا جو کہ قعدہ اول سے اٹھ کھڑا ہوا تھا جبکہ وہ سنت سے ثابت ہے اور مکمل سیدھا کھڑا نہیں ہوا تھا کہ وہ فرض میں داخل ہوتا اس لیے اسے قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جائے گا جو کہ سنت ہے۔ بالکل اسی طرح قعدہ اخیرہ سے اٹھ جانے والے کو حکم دیا جائے گا خواہ وہ مکمل کھڑا ہوگیا کہ وہ سنت کی طرف واپس لوٹ آئے اس بناء پر نہیں جس کی طرف دوسرے لوگ گئے ہیں۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں نظر و فکر کا تقاضا اس باب میں اسی طرح ہے اس طرح نہیں جس کی طرف دوسرے لوگ گئے ہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) نے اس مقام پر ان لوگوں کا قول اختیار کیا جو یہ کہتے ہیں کہ آخری قعدہ تشہد کی مقدار نماز کے فرائض میں سے ہے کیونکہ یہ نص کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور بعض متقدمین بھی اسی قول کی طرف گئے ہیں جیسے کہ یہ روایات سے ثابت کرتی ہیں۔
حاصل روایات : یہ ہے نماز میں پانچویں رکعت سلام سے پہلے آپ نے شامل کردی اور اس کو مفسد نماز قرار نہ دیا اگر مفسد قرار دیا جاتا تو نماز کا اعادہ فرماتے پس جب اس کا اعادہ نہیں کیا بلکہ بلاتسلیم پانچویں کی طرف منتقل ہوگئے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سلام نماز کے فرائض سے نہیں ہے۔
ذرا غور فرمائیں اگر پانچویں رکعت اس طرح ادا فرماتے کہ آپ پر چوتھی کا ایک سجدہ باقی ہوتا تو اس سے چاروں رکعات فاسد ہوجاتیں کیونکہ ان رکعات میں (پانچویں رکعت) وہ چیز مل گئی جو ان میں سے نہیں پس اگر سلام بھی واجب و فرض ہوتا جیسا کہ سجدہ فرض ہے تو اس کا حکم بھی یہی ہوتا۔ لیکن اس کا حکم اس طرح نہیں پس وہ واجب ثابت بالسنہ ہوا۔
دلیل مزید : قدروی ایضاً سے اس کو بیان کیا کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی آدمی نماز پڑھ رہا ہو اور یہ بھول جائے کہ اس نے تین رکعات ادا کی ہیں یا چار تو اسے یقین پر عمل کرنا چاہیے اور شک کو چھوڑ دینا چاہیے (گویا ایک رکعت ملا کر سجدہ سہو سے نماز پوری کرے) اگر اس کی نماز حقیقت میں کم ہے (اس نے اپنے یقین کے مطابق ایک رکعت ملا کر اس کو پورا کرلیا) تو اس کی نماز مکمل ہوگئی اور سہو کے دو سجدے شیطان کی ذلت کا باعث ہوں گے اور اگر اس کی نماز پوری تھی (مگر اسے کم کا یقین تھا اس نے اور ملا کر سہو کے دو سجدوں سے نماز پوری کرلی) تو جو زائد رکعت ہوگی اور دو سجدے کئے یہ زائد (ثواب کا باعث) ہوں گے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩١‘ نمبر ١٠٢٤‘ نسائی فی السہو باب ٢٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣٢‘ ١٣٧‘ مسند احمد ٣‘ ٧٢؍٨٣۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچویں کو زائد قرار دیا اور سجدوں کو زائد نفل کہا اور اس گزشتہ نماز کو فاسد قرار نہیں دیا اگرچہ نمازی اسی سے پانچویں کی طرف نکلا ہے پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ نماز تو تسلیم کے بغیر مکمل ہوگئی اور سلام اس کے سنن سے ہے نہ کہ فرائض سے۔
خلاصہ کلام : آثار و روایات کے معانی کی درستی کا تقاضا ان لوگوں کی بات سے پورا ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ تشہد کی مقدار نہ بیٹھا جائے یہ فریق ثانی کی جماعت ثانیہ (احناف) کا مؤقف ہے جن کے دلائل ابھی گزرے اور اس کی وجوہ یہ ہیں۔
وجوہ نمبر 1: روایت حضرت علی (رض) میں احتمالات ہیں جن کا تذکرہ ہم نے کردیا سلام کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
نمبر 2: عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی روایت مختلف فیہ ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کردیا قعدہ اخیرہ فرض ہے یا نہیں مگر سلام فرض نہیں۔
نمبر 3: روایت ابن مسعود (رض) ہی ایک روایت رہ جاتی ہے جس میں اختلاف نہیں یہ قعدہ اخیرہ کی فرضیت اور سلام واجب ثابت بالسنۃ ہونے کی دلیل بن سکتی ہے قعدہ اخیرہ کو عطاء بن ابی رباح ابراہیم (رح) فرض نہیں مانتے امام ابوحنیفہ ‘ شافعی و دیگر ائمہ اس کو فرض جانتے ہیں سابقہ سطور میں دلائل گزرے۔
نظر طحاوی (رح) اور رجحان طحاوی (رح) :
اس بات کو بطریق نظر اگر سامنے رکھا جائے تو جن کا قول یہ کہ جب نماز کے آخری سجدہ سے اس سے سر اٹھایا تو اس کی نماز پوری ہوگئی تو وہ کہتے ہیں کہ اس قعدہ میں تشہد پڑھی جاتی ہے اور گویا اس میں ایک تو ذکر ہے اور وہ تشہد ہے اور دوسرا تسلیم ہے جس کی وجہ سے وہ نماز سے خارج ہوجاتا ہے ہم نے نماز کے پہلے حصہ پر نگاہ ڈالی تو اس میں بھی دو چیزیں مشترک پالیں قعدہ اور اس میں ذکر تشہد ‘ البتہ اس میں سلام نہیں تو تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قعدہ اول اور اس میں تشہد سنت یا واجب ہے فرض نہیں ہے۔ بس اختلاف تو قعدہ اخیرہ میں ہے پس پہلے قعدہ پر قیاس کا تقاضا یہ ہے یہ بھی قعدہ اول کی طرح واجب یا مسنون ہو اور جو کچھ اس میں پڑھا جاتا ہے وہ بھی اس کی طرح ہو اور حال یہ ہے کہ قعدہ اول میں جو کچھ کیا جاتا ہے وہ سنت یا واجب ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ قیام ہر نماز میں اور رکوع و سجدہ سب رکعات میں یکساں حکم رکھتے ہیں تو تقاضا نظریہ ہے کہ قعدہ میں بھی ہر دو قعدوں کا حکم یکساں ہو مختلف نہ ہو پس جب قعدہ اول بالاتفاق سنت یا واجب ہے تو بتقاضائے نظر دوسرا قعدہ بھی اسی طرح ہونا چاہیے اس سے مختلف ہونا چہ معنی دارد پس قعدہ اخیرہ کی عدم فرضیت مسلم ہوگئی۔
فریق ثانی کا جوابإ
اجتح علیہم الآخرون سے شروع کیا۔
آپ کی دلیل میں یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ قعدہ اولیٰ اور اخیرہ قعدہ ہونے کی وجہ سے ایک حکم میں ہونے چاہئیں کیونکہ ان میں بہت فرق ہے۔
مثلاً اگر کوئی نمازی قعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہوجائے اور پھر اسے یاد آئے کہ میں نے قعدہ بیٹھنا تھا تو اسے قعدہ کی طرف لوٹنا جائز نہیں بلکہ اسے کھڑا رہنا ضروری قرار دیا جاتا ہے مگر قعدہ اخیرہ میں اگر کوئی پانچویں رکعت کی طرف کھڑا ہوگیا تو اسے قیام کو برقرار رکھنا جائز نہیں بلکہ لوٹ کر واپس آنا ضروری ہے پس دونوں کے مابین واضح فرق کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر قیاس کر کے حکم لگانا درست نہ ہوگا حاصل یہ ہوا کہ جس قعدہ میں لوٹنے کا حکم نہیں وہ سنت یا واجب رہے گا اور جس میں لوٹنے کا حکم ہے وہ فرض ہوگا بلکہ یہ تو اس طرح ہوگا جیسا کوئی آدمی سجدہ چھوڑ کر قیام کی طرف لوٹ گیا تو اسے سجدہ کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ اس نے ایک فرض کو ترک کردیا پس فرض کی طرف لوٹنے کا حکم دیا بالکل اسی طرح قعدہ اخیرہ ہے جب اس سے وہ کھڑا ہوا تو تکمیل فرض کے لیے اس کی طرف لوٹنے کا حکم دیا گیا یہ واضح دلیل ہے کہ قعدہ اخیرہ فرض ہے اگر یہ فرض نہ ہوتا تو اس کی طرف لوٹنے کا چنداں حکم نہ دیا جاتا جیسا کہ قعدہ اول فرض نہ تھا تو اس کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
فریق اوّل کی طرف سے جواب الجواب :
فکان من الحجۃ سے دیا گیا آپ نے قعدہ اولیٰ اور ثانیہ میں فرق کی جو علت ذکر کی ہے ہم اس کو درست نہیں مانتے کیونکہ قعدہ اولیٰ میں لوٹنے کا حکم اس وجہ سے نہیں کہ یہ سنت یا واجب ہے بلکہ اس اصول کی وجہ سے ہے کہ جب کوئی فرض کی طرف منتقل ہوجائے اور اس نے سنت کو چھوڑا ہو تو سنت کی ادائیگی کے لیے فرض سے واپس نہیں ہوں گے پس قعدہ اولیٰ میں لوٹنے کی اجازت اس لیے نہیں ‘ نہ کہ جو آپ کہتے ہیں اور قعدہ اخیرہ میں لوٹنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ دونوں قعدوں کے حکم میں فرق ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹھنا سنت یا واجب تھا جب اس کو ترک کر کے ایسی حالت کی طرف منتقل ہوا جو فرض و واجب تو درکنار سنت بھی نہیں بلکہ خلاف سنت ہے تو اس سے سنت کی طرف لوٹنا لازم ہوگیا اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر نمازی قعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہونے لگا مگر مکمل کھڑا نہیں ہوا تو یہ حالت نہ سنت ہے نہ فرض پس نمازی کو قعدہ اولیٰ کی طرف لوٹنے کا حکم ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی فرض میں داخل نہیں ہوا اسی طرح جب نمازی قعدہ اخیرہ چھوڑ کر پانچیوں رکعت کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے تو پانچویں رکعت نہ سنت ہے نہ واجب نہ فرض اس لیے نمازی کو قعدہ اخیرہ کی طرف لوٹ آنا ہوتا ہے تو قعدہ اخیرہ میں لوٹ آنے کا حکم تمہاری بیان کردہ دلیل سے نہیں (تقاضہ نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کا رجحان بھی فریق اوّل کی طرف ہے) ۔
اسی لیے فرماتے ہیں کہ بطریق نظر تو فریق اوّل کی بات راجح ہے۔
مگر امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ بمقدار تشہد فرض ہے کیونکہ اس کا ثبوت نص سے ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ بلکہ تابعین کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے۔

1606

۱۶۰۶ : کَمَا حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ، قَالَ : ثَنَا آدَمُ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یُوْنُسَ، عَنِ الْحَسَنِ فِی الرَّجُلِ یُحْدِثُ بَعْدَ مَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ السَّجْدَۃِ فَقَالَ : لَا یُجْزِیْہِ حَتّٰی یَتَشَہَّدَ أَوْ یَقْعُدَ قَدْرَ التَّشَہُّدِ.
١٦٠٦: یونس نے حسن سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنا سر اٹھانے کے بعد بات چیت کرے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے تو انھوں نے فرمایا اس کی نماز درست نہیں ہوگی جب تک تشہد نہ پڑھے یا اسی کی مقدار بیٹھ نہ جائے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢٣٣۔

1607

۱۶۰۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سَابِقِ ڑالرَّشِیْدِیُّ، قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ : کَانَ عَطَائٌ یَقُوْلُ : اِذَا قَضَی الرَّجُلُ التَّشَہُّدَ الْأَخِیْرَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عَبَّادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ فَأَحْدَثَ .وَإِنْ لَمْ یَکُنْ سَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ فَذَکَرَ کَلَامًا مَعْنَاہُ : فَقَدْ مَضَتْ صَلَاتُہٗ، أَوْ قَالَ : فَلاَ یَعُوْدُ إِلَیْہَا .
١٦٠٧: ابن جریج سے روایت ہے کہ عطاء کہا کرتے تھے جب آدمی نے تشہد اخیر پورا کرلیا اور السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحینکہہ چکا پھر اس کا وضو ٹوٹ گیا اگرچہ اس نے دائیں بائیں سلام نہ پھیرا یا اس کے مشابہہ بات کہی تو اس کی نماز مکمل ہوگئی یا اس طرح فرمایا وہ نماز کا اعادہ نہ کرے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ نمبر ٨٤٧٦۔
حاصل اقوالإ
قعدہ اخیرہ بمقدار تشہد فرض ہے اور سلام لازم نہیں بلکہ مسنون ہے یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں نظر کو پہلے سے نہایت مختلف انداز سے پیش کیا فریق اوّل کی طرف سے نظر پھر اس کا فریق ثانی کی طرف سے نظر میں جواب پھر فریق اوّل جن کا مسلک ان کے ہاں راجح تھا ان کی طرف سے اس نظر کا جواب الجواب دیا پھر ائمہ احناف کا راجح قول اور تابعین کے اقوال سے اس کی تائید ذکر کی۔

1608

۱۶۰۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ ح .
١٦٠٨: علی بن جعد نے شعبہ سے نقل کیا۔
تخریج : نسائی ١؍٢٤٧۔
خلاصہ الزام : وتر کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا سنت امام ابوحنیفہ (رح) وجوب کے قائل ہیں جبکہ تمام ائمہ ابو یوسف (رح) و محمد (رح) سمیت ان کی سنیت کے قائل ہیں وتر کی تعداد میں اختلاف اول یہ ہے کہ ایک رکعت یا تین پھر تین رکعت ایک سلام سے یا دو سلاموں سے ہیں۔
نمبر 1: وتر ایک رکعت ہے یہ عطاء بن ابی رباح قتادہ کا مسلک ہے۔
نمبر 2: ائمہ ثلاثہ کے ہاں وتر تین رکعت ہے مگر دو رکعت پر سلام سے فاصلہ ہے۔
نمبر 3: امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) اور فقہاء سبعہ کا مسلک تین وتر ہے جو ایک سلام سے پڑھے جائیں گے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : وتر ایک رکعت ہے۔

1609

۱۶۰۹ : وَحَدَّثَنَا بَکَّارٌ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ یُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (الْوِتْرُ رَکْعَۃٌ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ) .
١٦٠٩: شعبہ نے ابوالتیاح سے انھوں نے ابو مجلز سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ الوتر رکعۃ من آخراللیل کہ وتر ایک رکعت ہے رات کے آخر میں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٥٣‘ ابو داؤد فی الوتر باب ٣‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٣٤‘ احمد ٢؍٣٣‘ ١٥٤؍١٠٠۔

1610

۱۶۱۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ ڑالْکَیْسَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٦١٠: شعبہ نے قتادہ سے انھوں نے ابو مجلز سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٥٧۔

1611

۱۶۱۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ مِجْلَزٍ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (رَکْعَۃٌ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ) وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (رَکْعَۃٌ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ) : قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَلَّدُوہُ وَجَعَلُوْہُ أَصْلًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَافْتَرَقُوْا عَلَی فِرْقَتَیْنِ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : الْوِتْرُ ثَلاَثُ رَکَعَاتٍ لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : الْوِتْرُ ثَلاَثُ رَکَعَاتٍ یُسَلِّمُ فِی الْاِثْنَتَیْنِ مِنْہُنَّ، وَفِیْ آخِرِہِنَّ .وَکَانَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (الْوِتْرُ رَکْعَۃٌ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ) قَدْ یَحْتَمِلُ عِنْدَنَا مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی، وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ رَکْعَۃً مِنْ شَفْعٍ قَدْ تَقَدَّمَہَا وَذٰلِکَ کُلُّہٗ وِتْرٌ فَتَکُوْنُ تِلْکَ الرَّکْعَۃُ تُوْتِرُ الشَّفْعَ الْمُتَقَدِّمَ لَہَا .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ مَا قَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
١٦١١: قتادہ نے ابو مجلز سے نقل کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ وتر کتنے ہیں تو انھوں نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا وتر رات کے اخیر میں ایک رکعت ہے اور میں نے ابن عمر (رض) سے بھی سوال کیا تو انھوں نے فرمایا وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے۔ امام طحاوی (رح) کچھ لوگوں نے اس بات کو اختیار کیا اور اس کو اصل قرار دیا۔ جبکہ دوسروں نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ پھر ان کی دو جماعتیں ہوگئیں۔ ایک فریق نے یہ کہا کہ وتر تین رکعت ہیں ‘ سلام ان کے آخر میں پھیرا جائے گا اور دوسری جماعت کہتی ہے کہ وتر تین رکعت ہے مگر وہ دو رکعت کے بعد سلام پھیر لے اور پھر آخر میں سلام پھیر لے۔ رہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ” الوتر رکعۃ ۔۔۔“ (الحدیث) کہ وتر ایک رکعت ہے۔ اس میں اس بات کا احتمال ہے۔ جو قول اول والوں نے کہی ہے اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ وہ رکعت ان دو رکعتوں کے ساتھ ہو جو پہلے پڑھی گئیں اور یہ تمام وتر کہلائیں گی۔ تو یہ رکعت ان دو پہلی رکعتوں کو وتر بنا دے گی۔ حضرت ابن عمر (رض) سے جن حضرات نے یہ بات بیان کی اس میں اسی بات کا تذکرہ ہے۔
تخریج : مسلم ص ٧٥٣۔
و تر ایک رکعت ہے اس کو فریق اوّل سے اختیار کیا اور اپنایا ہے امام طحاوی (رح) نے مذہب قوم سے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقفإ
وتر تین رکعت ہے ان کی پھر دو جماعتیں ہیں۔
جماعت اول : تین وتر ایک سلام سے ہیں۔
جماعت دوم : تین وتر دو سلام سے ہیں۔
فریق اوّل کی دلیل کا جواب : کان قول رسول اللہ آخرہ الوتر رکعۃ : اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر !: وتر ایک رکعت ہے۔
نمبر ": وتر اس شفع کی ایک رکعت ہے جو اس سے پہلے ہے اور یہ تمام ملا کر وتر ہے پس وہ رکعت اس شفع کو جو اس سے پہلے ہے بنانے والی ہے اور یہ احتمال من گھڑت نہیں بلکہ ابن عمر (رض) سے منقول ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1612

۱۶۱۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ فَقَالَ : مَثْنٰی، مَثْنٰی، فَإِذَا خَشِیْتَ الصُّبْحَ، فَصَلِّ رَکْعَۃً تُوْتِرُ لَکَ صَلَاتَکَ) .
١٦١٢: نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی آدمی نے سوال کیا کہ رات کی نماز کس طرح اور کتنی ہے تو آپ نے فرمایا مثنیٰ مثنیٰ دو دو پڑھتے رہو۔ جب صبح کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھو جو تیری ان رکعتوں کو طاق بنا دے یعنی دو کے ساتھ تیسری ملا لو یہ وتر بن جائیں گے۔
تخریج : بخاری باب الوتر ‘ مسلم فی المسافرین ١٤٥؍١٤٦‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٣٥‘ مسند احمد ٢؍١٣٣‘ ابن ابی شیبہ ٢؍٨٨۔

1613

۱۶۱۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦١٣: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍١٣٥۔

1614

۱۶۱۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ یَحْیٰی، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
١٦١٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : موطا مالک ١؍٣۔

1615

۱۶۱۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦١٥: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی فی السنن ٣؍٣٢۔

1616

۱۶۱۶ : حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوٗسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦١٦: عمرو بن دینار نے طاؤس سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بقیہ ٣؍٣٢۔

1617

۱۶۱۷ : حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ عَنْ ہُشَیْمٍ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦١٧: عبداللہ بن حضرت شقیق نے حضرت ابن عمر (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٨١۔

1618

۱۶۱۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ حَبِیْبٍ، عَنْ طَاوٗسٍ .عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦١٨: طاؤس نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍١١٣۔

1619

۱۶۱۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا خَالِدٌ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَقِیْقٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦١٩: عبداللہ بن شقیق نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : طبرانی۔

1620

۱۶۲۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا فِطْرٌ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ، عَنْ طَاوٗسٍ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦٢٠: طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے تھے کہ رات کی نماز دو دو رکت جب صبح کا خطرہ ہو تو ایک ملا لے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١٢؍٣٩٦۔

1621

۱۶۲۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، وَأَیُّوْبَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦٢١: عبداللہ بن شقیق نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند ابو یعلیٰ ٥؍١٦٤۔

1622

۱۶۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، وَنَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَہُمَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦٢٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح خبر دی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٧٥‘ نسائی ١؍٢٤٨۔

1623

۱۶۲۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہُ بْنُ وَہْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ وَحُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ حَدَّثَاہُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٦٢٣: سالم اور حمید نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍١١٣۔

1624

۱۶۲۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَحْرِ ڑالْقَطَّانُ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْوَضِیْنِ بْنِ عَطَائٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی (سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یَفْصِلُ بَیْنَ شَفْعِہِ وَوِتْرِہِ بِتَسْلِیْمَۃٍ، وَأَخْبَرَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ) .فَقَدْ أَخْبَرَ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّی شَفْعًا وَوِتْرًا، وَذٰلِکَ فِی الْجُمْلَۃِ کُلُّہٗ وِتْرٌ، وَقَوْلُہٗ : یَفْصِلُ بِتَسْلِیْمَۃٍ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ التَّسْلِیْمَۃُ یُرِیْدُ بِہَا التَّشَہُّدَ، وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ التَّسْلِیْمَ الَّذِیْ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ . فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا یُوْنُسُ ۔
١٦٢٤: سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) دو رکعت کے اور ایک رکعت کے مابین سلام سے فاصلہ کرتے تھے اور حضرت ابن عمر (رض) نے بتلایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے۔ اور حضرت ابن عمر (رض) نے بتلایا کہ آپ شفع اور وتر ٣ رکعت پڑھتے تھے اور یہ مجموعہ بھی وتر تھا۔ ابن عمر (رض) کا قول : ” کان یفصل بتسلیمۃ “ عین ممکن ہے کہ تسلیم سے تشہد مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ سلام جس سے نماز کو منقطع کرتے ہیں۔ پس اس میں ہم غور کرتے ہیں۔ روایات ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عمر (رض) جفت و طاق دونوں طرح کی نماز پڑھتے اور وہ تمام کا تمام جفت سے ملا کر طاق ہوجاتا تھا اب رہی آخری روایت سالم کہ یفصل بتسلیمۃ تو اس میں دو معنی کا احتمال ہے۔
نمبر 1: اس سلام سے مراد تشہد ہو۔
نمبر 2: نماز کو منقطع کرنے والاسلام ہو چنانچہ اس کی تعیین مندرجہ ذیل روایت سے ہوجائے گی۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1625

۱۶۲۵ : قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یُسَلِّمُ بَیْنَ الرَّکْعَۃِ وَالرَّکْعَتَیْنِ فِی الْوِتْرِ حَتّٰی یَأْمُرَ بِبَعْضِ حَاجَتِہٖ .
١٦٢٥: نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) دو رکعتوں اور اس رکعت کے درمیان سلام پھیرتے یہاں تک کہ اپنی بعض حاجات و ضروریات کا حکم فرماتے۔
تخریج : بخاری معلقاً ١؍١٣٥‘ بیہقی ٣؍٣٨۔

1626

۱۶۲۶ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ صَلَّی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَالَ : یَا غُلَامُ ارْحَلْ لَنَا ثُمَّ قَامَ فَأَوْتَرَ بِرَکْعَۃٍ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ بِثَلاَثٍ، وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ یَفْصِلُ بَیْنَ الْوَاحِدَۃِ وَالْاِثْنَتَیْنِ، فَقَدْ اُتُّفِقَ عَنْہُ فِی الْوِتْرِ أَنَّہٗ ثَلاَثٌ .وَقَدْ جَائَ عَنْہُ مِنْ رَأْیِہِ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ کَمَا وَصَفْنَا أَنَّہٗ یَحْتَمِلُ مِنَ التَّأْوِیْلِ .
١٦٢٦: بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے دو رکعت نماز ادا کی پھر فرمایا اے لڑکے کجا وہ باندھو پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت سے اس کو وتر بنایا۔ یہ آثار واضح کر رہے ہیں کہ آپ تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔ مگر دو رکعت اور ایک رکعت کے درمیان فاصلہ کرتے تھے۔ پس آپ وتروں کی رکعات کے تین ہونے پر متفق ہیں اور آپ کی وہ رائے جو روایت میں وارد ہے وہ ہمارے بیان کے مطابق تاویل کا احتمال رکھتی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٨٨۔
حاصل روایات : ان دو روایتوں سے ثابت ہوا کہ ابن عمر (رض) تین رکعت وتر پڑھتے مگر دو رکعت کے بعد سلام انقطاعی پھیرتے اور پھر ایک رکعت سے اس شفعہ کو طاق بنا لیتے یہ تین روایات فریق ثانی کی جماعت اول کے دلائل ہیں کہ وتر تو تین ہیں مگر دو سلام سے ہیں۔
جماعت دوم از فریق ثانی کی طرف سے جواب نمبر !: اگرچہ ان روایات سے ابن عمر (رض) کا تین وتر دو سلام سے پڑھنا معلوم ہو رہا ہے مگر تین وتر ایک سلام سے ثابت ہیں۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1627

۱۶۲۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ : أَتَعْرِفُ وِتْرَ النَّہَارِ؟ قُلْتُ : نَعَمْ، صَلَاۃُ الْمَغْرِبِ قَالَ : صَدَقْتَ أَوْ أَحْسَنْتَ، ثُمَّ قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ قَامَ رَجُلٌ فَسَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ عَنْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (صَلَاۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی، مَثْنٰی، فَإِذَا خَشِیْت الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَۃٍ) .أَفَلاَ تَرَیْ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ حِیْنَ سَأَلَہُ عُقْبَۃُ عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ : أَتَعْرِفُ وِتْرَ النَّہَارِ؟ أَیْ ہُوَ کَہُوَ، وَفِیْ ذٰلِکَ مَا یُنْبِئُکَ أَنَّ الْوِتْرَ کَانَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ ثَلاَثًا کَصَلَاۃِ الْمَغْرِبِ ؛ اِذْ جَعَلَ جَوَابَہُ لِسَائِلِہٖ عَنْ وِتْرِ اللَّیْلِ : أَتَعْرِفُ وِتْرَ النَّہَارِ، صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ .ثُمَّ حَدَّثَہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ذَکَرْنَا، فَثَبَتَ أَنَّ قَوْلَہُ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَۃٍ أَیْ مَعَ شَیْئٍ تُقَدِّمُہَا تُوْتِرُ بِتِلْکَ الْوَاحِدَۃِ مَا صَلَّیْتَ قَبْلَہَا وَکُلُّ ذٰلِکَ وِتْرٌ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
١٦٢٧: عقبہ بن مسلم نے ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ وتر کس کیفیت سے ؟ تو انھوں نے فرمایا کیا تم دن کے وتروں کو جانتے ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں ! وہ نماز مغرب ہے تو انھوں نے فرمایا تم نے درست جواب دیا یا فرمایا بہت خوب جواب دیا پھر کہنے لگے ہم مسجد میں تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وتر یا رات کی نماز کا سوال کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رات کی نماز دو دو ہے جب تمہیں صبح کا خدشہ ہو تو ایک رکعت ساتھ ملا کر اس کو طاق بنا لو۔ کیا یہ بات تمہارے سامنے نہیں کہ جب حضرت عقبہ (رض) نے ابن عمر (رض) سے وتروں سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کیا تم دن کے وتروں کو جانتے ہو۔ یعنی یہ بھی ان کے مشابہ ہیں۔ اس میں اس بات کی اطلاع ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے ہاں وتر تین رکعت نماز مغرب کی طرح ہیں کیونکہ آپ نے رات کے وتروں سے متعلق سوال کرنے والے کو فرمایا کیا تم دن کے وتروں کو جانتے ہو اور وہ نماز مغرب ہے۔ اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ بات بیان کی جس کو ہم ذکر کر آئے۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ آپ کا یہ فرمان ایک کے ساتھ وتر بنا لو۔ یعنی جو کچھ پہلے پڑھا ہے اس کے ساتھ ایک رکعت ملا کر ان کو وتر بنا لو یہ مجموعہ طاق ہوگا۔ یہ بات آئندہ روایت میں واضح ہے۔
تخریج : بخاری فی الوتر باب ١‘ مسلم فی المسافرین حدیث ١٤٥‘ ابو داؤد فی صلوۃ السفر باب ٢٤‘ نمبر ١٣٢٦‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٣٥‘ موطا ومالک قیام اللیل نمبر ١٣‘ مسند احمد ٢؍١٣٣۔
حاصل روایات : حضرت ابن عمر (رض) نے عقبہ بن مسلم کے سوال کے جواب وتر نہار کا حوالہ دیا اور بتلا دیا کہ ہر دو وتر ایک طرح ہیں تو اس سے واضح ہو رہا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے ہاں وتر کی نماز مغرب کی طرح تین پڑھی جائیں گی۔ اور ان میں سلام سے انقطاع نہ ہوگا پھر اس بات کو انھوں نے قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ثابت فرمایا کہ دو رکعتوں کے ساتھ ایک کو ملا دو اور کل تین رکعت بن جائیں گی اور جس طرح مغرب میں سلام کا فاصلہ نہیں اسی طرح ان میں بھی فاصلہ بالسلام نہ ہوگا پس ثابت ہوا ابن عمر (رض) کی پہلی اور اس روایت میں تعارض ہے پس اس روایت کو محل استدلال میں پیش نہیں کرسکتے۔
جواب نمبر 1: قدبین سے ذکر کیا کہ ابن عمر (رض) کا وہی مطلب ہے جو ہم نے گزشتہ روایت کا بیان کیا جیسا عامر شعبہ (رح) کی روایت بتلا رہی ہے۔ روایت شعبی (رح) ۔

1628

۱۶۲۸ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ، قَالَ : (سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَیْفَ کَانَ صَلَاۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ فَقَالَ : ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، ثَمَانٍ وَیُوْتِرُ بِثَلاَثٍ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْفَجْرِ) .ھٰکَذَا فِی النُّسَخِ .
١٦٢٨: عامر شعبی کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) اور ابن عمر (رض) سے سوال کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات والی نماز کس طرح تھی تو انھوں نے جواب دیا تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ آٹھ اور تین وتر اور طلوع صبح صادق کے بعد دو رکعت۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٨١‘ نمبر ١٣٦١‘ موطا مالک ١٠‘ مسند احمد ٥؍٢٧۔
اشکال جماعت اوّلإ
تم نے حضرت ابن عمر (رض) سے وتر کو ایک سلام سے ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ یہ روایت اس کی تردید کر رہی ہے۔

1629

۱۶۲۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ، قَالَ ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْمُطَّلِبُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْمَخْزُوْمِیُّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْوِتْرِ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَفْصِلَ، فَقَالَ الرَّجُلُ : إِنِّیْ لَأَخَافُ أَنْ یَقُوْلَ النَّاسُ ہِیَ الْبُتَیْرَائُ .فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تُرِیْدُ سُنَّۃَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ ھٰذِہِ سُنَّۃُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذِکْرِہَا وِتْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی حَقِیْقَۃِ مَا ذَکَرْنَا .
١٦٢٩: مطلب بن عبداللہ المخزومی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے وتر کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا درمیان میں فاصلہ کرے اس آدمی نے کہا تو لوگ وتر کو بتیراء (دم کٹی) کہنا شروع کریں گے۔ تو حضرت ابن عمر (رض) نے کہا اگر تم وتر کا سنت طریقہ چاہتے ہو تو وہ یہی ہے اور سنت اللہ اور سنت رسول یہی ہے یعنی لوگ کچھ کہیں اس کو ترک نہیں کرسکتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز وتر کا تذکرہ فرمایا۔ اس میں حقیقت کی طرف راہنمائی ملتی ہے۔
تخریج : ٣؍٣٨‘ بیہقی۔
جواب : سابقہ صحیح اسناد سے ثابت ہے جبکہ اس کا مرکزی راوی مطلب بن عبداللہ خود بہت زیادہ تدلیس کرنے والا راوی ہے پس یہ روایت اس کے مقابلے میں متروک ہوگی پس ہمارا احتمال ثابت ہوجائے گا کہ تین وتر ایک سلام سے ہیں اور یہ بات دیگر صحابہ کرام (رض) کی روایات سے ثابت ہے جو آئندہ سطور میں پیش کی جا رہی ہیں۔

1630

۱۶۳۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفٰی عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ : کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُسَلِّمُ فِیْ رَکْعَتَیِ الْوِتْرِ .
١٦٣٠: سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہ پھیرتے تھے۔
تخریج : نسائی قیام اللیل باب ٣٦‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٢٩٥۔

1631

۱۶۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ، قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ، عَنْ سَعِیْدٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَأَخْبَرْتُ أَنَّ الْوِتْرَ ثَلاَثًا لَا یُسَلِّمُ بَیْنَ شَیْئٍ مِنْہُنَّ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بَعْدَ ھٰذَا أَحَادِیْثُ فِی الْوِتْرِ اِذَا کُشِفَتْ رَجَعَتْ إِلٰی مَعْنٰی حَدِیْثِ سَعْدٍ ھٰذَا. فَمِنْ ذٰلِکَ۔
١٦٣١: محمد بن المنہال کہتے ہیں ہمیں یزید بن زریع نے انھوں نے سعید پھر سعید نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ پس حضرت امو المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بتلایا کہ وتر تین رکعت ہیں اور ان کے مابین بالکل سلام نہ پھیرے پھر اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جب ان کو کھولا جائے تو ان کا مفہوم حضرت سعد (رض) والی روایت کی طرف لوٹ آتا ہے۔ ان میں سے یہ روایت ہے۔
حاصل روایات : عائشہ (رض) نے یہ بتلایا کہ آپ وتروں کے مابین سلام نہ پھیرتے تھے پہلی روایات ابن عمر (رض) قول و فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلسلہ میں مجمل ہیں اور یہ مفصل پس اسی کو ترجیح ہوگی۔ مزید روایات ملاحظہ ہوں۔
ان روایات کا مفہوم جاننے کے لیے روایت سعد بن ہشام کو سامنے رکھیں۔

1632

۱۶۳۲ : مَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا أَبُوْ حُرَّۃَ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَہُ بِرَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ثُمَّ صَلَّی ثَمَانِ رَکَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ) .فَأَخْبَرْت ہَاہُنَا أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ ثَمَانِیًا ثُمَّ یُوْتِرُ. فَکَانَ مَعْنٰی ثُمَّ یُوْتِرُ یَحْتَمِلُ ثُمَّ یُوْتِرُ بِثَلاَثٍ، مِنْہُنَّ رَکْعَتَانِ مِنَ الثَّمَانِ وَرَکْعَۃٌ بَعْدَہَا فَکَوْنُ جَمِیْعُ مَا صَلَّی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .وَیَحْتَمِلُ : ثُمَّ یُوْتِرُ بِثَلاَثٍ مُتَتَابِعَاتٍ .فَیَکُوْنُ جَمِیْعُ مَا صَلّٰی ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .فَنَظَرْنَا فِیْمَا یُحْتَمَلُ مِنْ ذٰلِکَ، ہَلْ جَائَ شَیْئٌ یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْہُ بِعَیْنِہِ .
١٦٣٢: سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو بیدار ہوتے تو اپنی نماز دو ہلکی رکعات پڑھ کر شروع فرماتے پھر آٹھ رکعات پڑھتے پھر وتر پڑھتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے یہاں خبر دی کہ آپ رات کی نماز دو رکعت پڑھتے ‘ پھر آٹھ رکعت ادا فرماتے ‘ پھر وتر پڑھتے۔ پس ” ثم یوتر “ کا معنی احتمال رکھتا ہے کہ تین رکعت وتر پڑھتے آٹھ میں دو رکعت اور ان کے ساتھ ایک رکعت اور ملا ‘ اس طرح تمام مل کر گیارہ رکعت پڑھتے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ تین مسلسل رکعات وتر پڑھتے اس طرح آپ کی مجموعی رکعات کی تعداد گیارہ رکعت ہوجاتی۔ پھر ہم نے ان احتمالات میں غور کیا کہ آیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا اس سلسلہ میں کوئی بات روایات میں وارد ہوئی ہے جو اس بات پر دلالت کرنے والی ہو۔
تخریج : مسلم فی المسافرین حدیث ١٢١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ حدیث ١٣٤٠‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٥٥۔
حاصل روایات : پہلے آپ دو رکعت پڑھتے پھر آٹھ اور پھر وتر پڑھتے یوتر کا لفظ دو احتمال رکھتا ہے۔ کہ آٹھ میں سے آخری دو کو ایک رکعت ملا کر وتر بنا لیتے تو کل گیارہ رکعت بن گئیں اور یہ احتمال بھی ہے کہ تین الگ مسلسل پڑھتے ہیں۔
دونوں میں ایک احتمال کا تعین روایات سے ہوگا۔

1633

۱۶۳۳ : فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبَاغَنْدِیُّ، قَدْ حَدَّثَانَا قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، ثَنَا حُصَیْنُ بْنُ نَافِعِ ڑالْعَنْبَرِیُّ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقُلْتُ : حَدِّثِیْنِیْ عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ ثَمَانِ رَکَعَاتٍ وَیُوْتِرُ بِالتَّاسِعَۃِ فَلَمَّا بَدَّنَ صَلّٰی سِتَّ رَکَعَاتٍ وَأَوْتَرَ بِالسَّابِعَۃِ وَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ بِالتَّاسِعَۃِ، فَذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ أَنْ یَکُوْنَ یُوْتِرُ بِالتَّاسِعَۃِ مَعَ اثْنَتَیْنِ مِنَ الثَّمَانِ الَّتِیْ قَبْلَہَا، حَتّٰی یَتَّفِقَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ وَحَدِیْثُ زُرَارَۃَ وَلَا یَتَضَادَّانِ .
١٦٣٣: سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا اور میں نے کہا مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کی نماز کے متعلق بتلائیے تو وہ کہنے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو آٹھ رکعت ادا فرماتے اور نوویں کو ساتھ ملا کر وتر بنا لیتے جب آپ کا بدن بھاری ہوگیا (بڑھاپا آگیا) تو چھ رکعت ساتویں ملا کر وتر بنا لیتے اور پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نویں رکعت کے ساتھ وتر بنا لیتے۔ پس اس میں یہ احتمال ہے آٹھوں میں آخری دو رکعت کے ساتھ تیسری ملا کر ان کو وتر بنا لیتے تاکہ یہ اور زرارہ والی روایت متفق ہوجائیں اور ان کا تضاد نہ رہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٣٥٢‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٤٢۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوا کہ نوویں رکعت کو وتر بناتے اس میں دو احتمال ہیں نمبر ایک آٹھ میں سے آخری دو کے ساتھ ایک ملا کر وتر بنا لیتے یہ مفہوم ماقبل روایت اور اس روایت کو جمع کرتا ہے ورنہ وہ اس کے خلاف و متضاد ہوجائے گی۔

1634

۱۶۳۴ : حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُرَّۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ (سَعْدِ بْنِ ہِشَامِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ، فَقَالَتْ : کَانَ یُصَلِّی الْعِشَائَ ثُمَّ یَتَجَوَّزُ بِرَکْعَتَیْنِ، وَقَدْ أَعَدَّ سِوَاکَہُ وَطَہُوْرَہُ فَیَبْعَثُہُ اللّٰہُ لِمَا شَائَ أَنْ یَبْعَثَہُ، فَیَتَسَوَّکُ، وَیَتَوَضَّأُ، ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّیْ ثَمَانِ رَکَعَاتٍ یُسَوِّیْ بَیْنَہُنَّ فِی الْقِرَائَ ۃِ، ثُمَّ یُوْتِرُ بِالتَّاسِعَۃِ .فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَہُ اللَّحْمُ، جَعَلَ تِلْکَ الثَّمَانِیَ سِتًّا، ثُمَّ یُوْتِرُ بِالسَّابِعَۃِ، ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ یَقْرَأُ فِیْہِمَا بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (اِذَا زُلْزِلَتَ الْأَرْضُ) ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الثَّمَانِی الَّتِیْ یُوْتِرُ بِتَاسِعَتِہِنَّ أَرْبَعًا فَجَمِیْعُ ذٰلِکَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً مِنْہَا الْوِتْرُ الَّذِیْ فَسَّرَہُ زُرَارَۃُ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَہُوَ ثَلاَثُ رَکَعَاتٍ لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ فَقَدْ صَحَّتْ رِوَایَۃُ سَعْدٍ عَنْ عَائِشَۃَ وَثَابِتٌ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رَوٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَقِیْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٦٣٤: سعد بن ہشام انصاری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کی نماز کے سلسلہ میں دریافت کیا تو وہ فرمانے لگیں آپ عشاء کی نماز ادا فرماتے پھر آپ مختصر دو رکعت ادا فرماتے آپ کی مسواک اور پانی والا لوٹا تیار ہوتا پھر اللہ تعالیٰ جب چاہتا آپ کو بیدار کردیتا آپ مسواک کرتے پھر وضو کرتے پھر دو رکعت نماز ادا فرماتے پھر آپ کھڑے ہو کر آٹھ رکعت ادا فرماتے ان میں ایک جیسی قراءت فرماتے پھر نوویں کو ساتھ ملا کر وتر بنا لیتے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ جن آٹھ رکعات کے ساتھ نوویں ملا کر ان کو وتر بناتے ان میں پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ‘ پھر یہ ملا کر تیرہ رکعت بن جاتیں جن میں وہ وتر بھی شامل تھے جن کا زرارہ نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے اور زرارہ نے وہ حضرت عائشہ صدیقہ اور سعد (رض) سے روایت کی ہے اور وہ تین رکعات ہیں جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرتے تھے۔ پس حضرت سعد کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ اور ثابت (رض) درست ہے جیسا ہم نے ذکر کیا ہے اور عبداللہ بن شقیق (رح) نے بھی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت نقل کی ہے۔ وہ اس طرح ہے۔
تخریج : مسلم صلوۃ المسافرین نمبر ٢٣٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٧٣‘ نمبر ١٣٤٩‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٢‘ ١٨‘ ٣٩‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٢٣‘ نمبر ١١٩‘ دارمی فی الصلاۃ ١٦٥‘ مسدن احمد ١؍٥٤١٣٢۔
فیبعثہ اللہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا آپ کو اٹھا دیتا پھر آپ مسواک اور وضو فرماتے پھر دو رکعت ادا فرماتے پھر کھڑے ہو کر آٹھ رکعت ادا فرماتے ان میں ایک جیسی قراءت کرتے پھر نوویں کو ملا کر ان کو وتر بناتے پس جب آپ پر بڑھاپا آگیا اور جسم مبارک گوشت سے بھاری ہوگیا تو ان آٹھ کو چھ میں بدل دیا اور ساتویں کو ملا کر آپ وتر بنا لیتے پھر یبٹھ کر دو رکعت ادا فرماتے اور ان میں قل یا ایہا الکافرون اور اذا زلزلت الارض (الزلزال) تلاوت فرماتے۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ پہلے آپ آٹھ رکعت ادا فرماتے رہے جن میں سے نوویں کو ملا کر آپ چار کو وتر بنا لیتے پس یہ کل تیرہ رکعت ہوتیں جن میں وتر بھی ہیں۔ زرارہ نے سعد عن عائشہ (رض) وتروں کی وضاحت تین سے کی ہے جن کے آخر میں آپ سلام پھیرتے تھے اور زرارہ کی روایت عائشہ (رض) سے واضح طور پر ثابت ہے۔

1635

۱۶۳۵ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیْرٍ، قَالَ : أَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَقِیْقٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ، عَنْ تَطَوُّعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ فَقَالَتْ : کَانَ اِذَا صَلّٰی بِالنَّاسِ الْعِشَائَ یَدْخُلُ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ قَالَتْ : وَکَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ تِسْعَ رَکَعَاتٍ فِیْہِنَّ الْوِتْرُ فَإِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فِیْ بَیْتِی ثُمَّ یَخْرُجُ فَیُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْفَجْرِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّی اِذَا دَخَلَ بَیْتَہُ بَعْدَ الْعِشَائِ رَکْعَتَیْنِ وَمِنَ اللَّیْلِ تِسْعًا فِیْہِنَّ الْوِتْرُ .فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلَی تِسْعٍ غَیْرِ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ کَانَ یُخِفُّہُمَا عَلٰی مَا قَالَ سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَفْتَتِحُ صَلَاتَہُ مِنَ اللَّیْلِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ) .وَإِنَّمَا حَمَلْنَا مَعْنَیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی لِیَتَّفِقَ ہُوَ وَحَدِیْثُ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ وَلَا یَتَضَادَّانِ .وَقَدْ رَوٰی أَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ مَا
١٦٣٥: عبداللہ بن شقیق نے بتلایا کہ میں نے عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کی نماز سے متعلق سوال کیا تو وہ کہنے لگیں جب آپ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا لیتے گھر میں داخل ہو کر دو رکعت نماز ادا فرماتے پھر رات کو نو رکعت نماز ادا فرماتے جن میں وتر تین عدد بھی ہوتے (جیسا گزشتہ روایت میں گزرا) جب فجر طلوع ہوتی تو میرے گھر میں دو رکعت نماز ادا فرماتے پھر لوگوں کو فجر کی نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لاتے۔ اس روایت میں اس طرح فرمایا کہ جب آپ رات کو گھر تشریف لاتے تو دو رکعت ادا فرماتے اور رات کو نو رکعت اور فرماتے جن میں وتر بھی ہوتے تھے۔ یہ نو رکعات ہمارے ہاں ان دو کے علاوہ ہیں جن کو ہلکا پھلکا ادا فرماتے۔ جیسا سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی رات کی نماز دو خفیف رکعات سے شروع فرماتے۔ ہم عبداللہ بن شقیق کی روایت کا یہ معنی کیا ہے تاکہ یہ روایت اور سعد بن ہشام کی روایت میں تضاد نہ رہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣٠۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ عشاء کے بعد آپ دو رکعت گھر میں داخل ہو کر پڑھتے اور رات کو ٩ رکعت ادا فرماتے جن میں وتر بھی تھے ہمارے ہاں اس روایت میں ٩ سے مراد ان دو کے علاوہ ہیں جن کو سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ (رض) سے ذکر فرمایا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی نماز کو دو ہلکی پھلکی رکعات سے شروع فرماتے جیسا کہ عبداللہ بن شقیق والی روایت ہے تاکہ روایات میں اختلاف نہ رہے اور سعد بن ہشام کی روایت سے اس کا معنی موافق ہوجائے۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمن کی عائشہ (رض) سے روایت ملاحظہ ہو۔

1636

۱۶۳۶ : قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی ابْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّیْ ثَمَانِ رَکَعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ بِرَکْعَۃٍ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ قَامَ فَرَکَعَ وَصَلّٰی بَیْنَ أَذَانِ الْفَجْرِ وَالْاِقَامَۃِ رَکْعَتَیْنِ) .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ الثَّمَانِ رَکَعَاتٍ الَّتِیْ أَوْتَرَ بِتَاسِعَتِہِنَّ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ہِیَ الثَّمَانِ رَکَعَاتٍ الَّتِیْ ذَکَرَ سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَہُنَّ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ لِیَتَّفِقَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ وَحَدِیْثُ سَعْدٍ، وَیَکُوْنَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ قَدْ زَادَ عَلٰی حَدِیْثِ سَعْدٍ وَحَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ تَطَوُّعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْوِتْرِ .وَیُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ھٰذِہِ التِّسْعُ ہِیَ التِّسْعَ الَّتِیْ ذَکَرَہَا سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْہَا لَمَّا بَدَّنَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ تِسْعَ رَکَعَاتٍ مَعَ الرَّکْعَتَیْنِ الْخَفِیْفَتَیْنِ اللَّتَیْنِ کَانَ یَفْتَتِحُ بِہِمَا صَلَاتَہٗ، ثُمَّ کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ جَالِسًا بَدَلًا مِمَّا کَانَ یُصَلِّیْہِ قَبْلَ أَنْ یُبَدِّنَ قَائِمًا، وَہُوَ رَکْعَتَانِ، فَقَدْ عَادَ ذٰلِکَ أَیْضًا إِلَی ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .
١٦٣٦: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرہ رکعات ادا فرماتے آٹھ رکعت ادا فرماتے پھر ایک رکعت ملا کر ان کو وتر بنا لیتے یعنی آخری دو کے ساتھ تیسری ملا کر وتر بناتے پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے پس جب رکوع کا ارادہ فرماتے تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے اور فجر کی اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت (فجر کی سنتیں) پڑھتے۔ اس روایت میں احتمال ہے کہ وہ آٹھ رکعات جن کے ساتھ ایک ملا کر ان کو وتر بنایا یہ وہی آٹھ رکعات ہو جن کا تذکرہ سعد بن ہشام کی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پہلے چار رکعت ادا فرماتے تاکہ یہ روایت سعد والی روایت سے متفق ہوجائے اور اس حدیث سے سعد والی روایت اور عبداللہ بن شقیق والی روایت پر اضافہ ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کے بعد نفل پڑھتے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ نو وہی نو رکعات ہوں جن کا تذکرہ سعد نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت میں کیا ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ادا فرماتے رہے جب آپ کا بدن مبارک بھاری ہوگیا پس وہی نو رکعات دو خفیف رکعات سمیت رہیں جن سے آپ اپنی نماز کو شروع فرماتے ‘ پھر وتروں کے بعد دو رکعت بیٹھ کر ان کے بدلے میں ادا فرماتے جن کو آپ بدن کے بھاری ہونے سے پہلے ادا فرماتے تھے اور وہ دو رکعت ہوتیں اس طرح یہ بھی تیرہ رکعت کی طرف بات لوٹ گئی۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٢٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٣٤٠‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٥٥۔
اس روایت میں دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: یہ آٹھ رکعات وہی ہیں جن کو سعد بن ہشام نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار رکعت ان سے پہلے پڑھتے تاکہ یہ روایت اس کے موافق ہوجائے اس روایت میں سعد اور عبداللہ بن شقیق کی روایت پر میں وتروں کے بعد نوافل کا اضافہ پایا جاتا ہے۔
نمبر 2: ممکن ہے کہ یہ سعد والی روایت میں مذکور نو ٩ ہوں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو پڑھا کرتے تھے جب آپ کا بدن بھاری ہوگیا تو یہ نو ٩ رکعت ان خفیف رکعات سمیت ہوں گی جن سے آپ نماز شروع فرماتے تھے پھر وتروں کے بعد دو رکعت بیٹھ کر ادا فرماتے ان کے بدلے جو بدن کے بھاری ہونے سے پہلے کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے تو یہ ١٣ رکعت بن گئیں۔

1637

۱۶۳۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْخَزَّازُ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، قَالَ : (سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ فَقَالَتْ : کَانَ یُصَلِّیْ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّیْ ثَمَانِ رَکَعَاتٍ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ قَامَ فَرَکَعَ قَائِمًا ثُمَّ یَسْجُدَ وَکَانَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالْاِقَامَۃِ مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ) .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ مَعْنَاہُ مَعْنَیْ حَدِیْثِ أَحْمَدَ بْنِ دَاوٗدَ، عَنْ سَہْلٍ، غَیْرَ أَنَّہٗ تَرَکَ ذِکْرَ الْوِتْرِ .
١٦٣٧: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کی نماز کے سلسلہ میں سوال کیا تو کہنے لگیں آپ تیرہ رکعت پڑھا کرتے تھے اور آپ آٹھ رکعت پڑھتے پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے ان میں جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے اور دو رکعت (سنت فجر) نماز صبح کی اقامت و اذان کے درمیان پڑھتے۔ پس یہ روایت اس کا وہی معنی ہے جو احمد بن داؤد کی سہل والی روایت کا ہے۔ البتہ اس میں وتر کا ذکر اس سے چھوڑ دیا۔
تخریج : روایت ١٦٣٦ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : اس روایت کا معنی احمد بن داؤد کی روایت جیسا ہے جو کہ اس نے سہل سے روایت کی ہے البتہ اس روایت میں وتر کا ذکر چھوٹ گیا ہے یعنی کل تیرہ دو پہلے والی خفیف دو آخر والی بیٹھ کر چھ رکعت مزید تین وتر۔ بہ معنی پہلی روایت سے موافقت کے لیے ہے۔

1638

۱۶۳۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، مِنْہَا رَکْعَتَانِ، وَہُوَ جَالِسٌ، وَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ، فَذٰلِکَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً) .فَقَدْ وَافَقَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا حَدِیْثَ أَحْمَدَ بْنِ دَاوٗدَ وَقَوْلُہَا یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ یَعْنِیْ قَبْلَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَہُمَا الرَّکْعَتَانِ اللَّتَانِ ذَکَرَہُمَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ فِیْ حَدِیْثِہٖ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْہِمَا بَیْنَ الْأَذَانِ وَالْاِقَامَۃِ .
١٦٣٨: ابو سلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو کو گیارہ رکعت پڑھتے ان میں دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے اور دو رکعت نماز صبح سے پہلے یہ تیرہ رکعت ہوئیں۔ یہ روایت بھی احمد بن داؤد والی روایت کے موافق ہوگئی اور روایت کے یہ الفاظ ” یصلی رکعتین قبل الصبح “ کا مطلب یہ ہے کہ نماز صبح سے پہلے دو رکعت ادا فرماتے ہیں دو رکعات ہیں جن کا تذکرہ احمد بن داؤد نے اپنی روایت میں کیا ‘ یہ وہی رکعات ہیں جن کو آپ اذان و اقامت کے درمیان ادا فرماتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٣٥٠۔
حاصل روایات : یہ روایت بھی احمد بن داؤد کی روایت کے موافق ہے اور یصلی رکعتین قبل الصبح اس کا مطلب نماز صبح سے پہلے کی دو رکعت سنت ہیں اور ان کا تذکرہ احمد بن داؤد نے اس طرح کیا ہے کہ دو رکعت فجر کی اذان و اقامت کے درمیان پڑھتے۔

1639

۱۶۳۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ ح.
١٦٣٩: احمد بن ابی عمران نے کہا کہ ہمیں القواریری نے بیان کیا۔ یہ روایت بھی ابو سلمہ والی روایت کے موافق ہے۔

1640

۱۶۴۰ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ لَبِیْدٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَۃَ یَقُوْلُ : دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلْتُہَا عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ فَقَالَتْ : کَانَتْ صَلَاتُہٗ فِیْ رَمَضَانَ وَغَیْرِہِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً مِنْہَا رَکْعَتَا الْفَجْرِ .فَقَدْ وَافَقَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا مَا رَوَیْنَاہُ قَبْلَہٗ مِنْ أَحَادِیْثِ أَبِیْ سَلَمَۃَ .
١٦٤٠: ابن ابی الولید کہتے ہیں میں نے ابو سلمہ کو کہتے سنا کہ میں عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو فرمانے لگیں آپ کی نماز رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعت ہوتی تھی ان میں فجر کی دو رکعت بھی تھیں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٢٧۔
حاصل روایات : یہ روایت بھی ابو سلمہ کی پہلی روایت کے موافق ہے۔

1641

۱۶۴۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ (کَیْفَ کَانَ صَلَاۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہِ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ أَرْبَعًا فَلاَ تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ، وَطُوْلِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّیْ أَرْبَعًا، فَلاَ تَسْأَلْ، عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلاَثًا .قَالَتْ عَائِشَۃُ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوْتِرَ، قَالَ : یَا عَائِشَۃُ إِنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِی) .فَیَحْتَمِلُ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہَا ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلاَثًا تُرِیْدُ یُوْتِرُ بِإِحْدَاہُنَّ اثْنَتَیْنِ مِنَ الثَّمَانِ ثُمَّ یُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ الْبَاقِیَتَیْنِ .وَہُمَا الرَّکْعَتَانِ اللَّتَانِ ذَکَرَہُمَا أَبُوْ سَلَمَۃَ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِمَّا رَوَیْنَا عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْہِمَا وَہُوَ جَالِسٌ حَتّٰی یَتَّفِقَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ وَمَا تَقَدَّمَہُ مِنْ أَحَادِیْثِہِ .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ الثَّلَاثُ وِتْرًا کُلُّہَا وَہُوَ أَغْلَبُ الْمَعْنَیَیْنِ ؛ لِأَنَّہَا قَدْ فَصَّلَتْ صَلَاتَہُ فَقَالَتْ: کَانَ یُصَلِّیْ أَرْبَعًا ثُمَّ أَرْبَعًا وَوَصَفَتْ ذٰلِکَ کُلَّہُ بِالْحُسْنِ وَالطُّوْلِ، ثُمَّ قَالَتْ : ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلاَثًا وَلَمْ تَصِفْ ذٰلِکَ بِطُوْلٍ وَجَمَعَتْ الثَّلَاثَ بِالذِّکْرِ .فَذٰلِکَ عِنْدَنَا عَلَی الْوِتْرِ فَیَکُوْنُ جَمِیْعُ مَا کَانَ یُصَلِّیْہِ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً مَعَ الرَّکْعَتَیْنِ الْخَفِیْفَتَیْنِ اللَّتَیْنِ فِیْ حَدِیْثِ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ أَوْ مَعَ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ کَانَ یُصَلِّیْہِمَا وَہُوَ جَالِسٌ بَعْدَ الْوِتْرِ .وَھٰذَا أَشْبَہُ بِرِوَایَاتِ أَبِیْ سَلَمَۃَ لِأَنَّ جَمِیْعَہَا تُخْبِرُ عَنْ صَلَاتِہٖ بَعْدَمَا بَدَّنَ، وَحَدِیْثُ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ یُخْبِرُ عَنْ صَلَاتِہٖ بَعْدَمَا بَدَّنَ، وَعَنْ صَلَاتِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ وَقَدْ رَوٰی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ ۔
١٦٤١: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے بتلایا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی تو فرمانے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نماز ادا نہیں فرماتے تھے آپ چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی کے متعلق مت پوچھو اور ان کی درازی مت پوچھو پھر چار پڑھتے ان کے حسن و طول کا مت سوال کرو۔ پھر تین رکعت (وتر) پڑھتے۔ پس اس روایت میں احتمال ہے کہ روایت کے الفاظ ” ثم یصلی ثلاثا “ اس سے مراد ان آٹھ رکعات میں سے دو کے ساتھ ایک ملا کر وتر تین پڑھتے اور پھر وہ رکعات پڑھتے جن کا تذکرہ ابو سلمہ کی روایت میں پہلے گزرا کہ آپ ان کو بیٹھ کر ادا فرماتے تاکہ یہ روایت پہلی روایات کے موافق ہوجائے اور اس میں دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ تین وتر ہوں اور یہ مفہوم زیادہ شاندار ہے۔ کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے آپ کی نماز کی تفصیل کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ چار رکعت اور ان کی پھر عمدگی اور طوالت میں تعریف فرمائی۔ پھر فرماتی ہیں کہ پھر آپ تین رکعت ادا فرماتے ان کے متعلق یہ بیان نہیں کیا کہ وہ لمبی ہوتی تھیں اور آپ نے تین رکعات کا اکٹھا ذکر کیا۔ ہمارے ہاں اس سے وتر مراد ہیں۔ اسی طرح آپ کی تمام نفلی نماز گیارہ رکعت ٹھہری اس کے ساتھ وہ دو خفیف رکعات ملائیں جن کا تذکرہ سعد بن ہشام کی روایت میں ہے۔ جن کو آپ وتروں کے بعد بیٹھ کر ادا فرماتے تو اس طرح تیرہ رکعت بن گئیں۔ یہ معنی ابو سلمہ کی روایت سے زیادہ مطابقت کرنے والا ہے ‘ کیونکہ تمام روایات میں آپ کے جسم کے بھاری ہونے کے بعد کی نماز کی خبر دی ہے اور سعد بن ہشام کی روایت میں بدن کے بھاری ہونے سے پہلے اور بعد دونوں نمازوں کا ذکر کیا ہے۔ عروہ کی روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی صلوۃ التراویح باب ١‘ والتہجد باب ١٦‘ مسلم فی المسافرین نمبر ١٢٥‘ ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٣٤١‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٣٦‘ والترمذی فی الصلاۃ باب ٢٠٨‘ نمبر ٤٣٩‘ مسند احمد ٦؍٣٦‘ ٧٣؍١٠٤۔
حاصل روایات : حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں میں نے سوال کیا کیا آپ وتروں سے پہلے سو جاتے ہیں فرمایا اے عائشہ (رض) ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔
اس روایت میں ثم یصلی ثلاثا اس سے مراد اگر آٹھ میں سے وہ پچھلی رکعات ہوں جن کے ساتھ ایک ملا کر آپ ان کو تین بناتے پھر باقی دو رکعت پڑھتے تھے پھر یہ وہی دو رکعت بن جائیں گی جن کا تذکرہ ابو سلمہ نے اس روایت میں کیا جس کو ہم نے پہلے ذکر کیا کہ آپ بیٹھ کر پڑھا کرتے ھتے پس اس طرح یہ روایت اور ماقبل روایات موافق ہوجائیں گی۔
نمبر ": اور اگر تین وتر ہوں جیسا کہ غالب معنی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے کو الگ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں چار پڑھتے پھر چار پڑھتے اور وہ نہایت حسن و طول کے ساتھ ہوتیں پھر عائشہ (رض) نے فرمایا پھر آپ تین رکعت پڑھتے ان کی صفت میں طوالت کا ذکر نہیں مگر تین کو نماز کے ذکر میں لایا گیا گویا یہ الگ نماز ہے۔
پس ہمارے ہاں اس سے مراد وتر ہی ہیں ان دو خفیف رکعات کے بغیر جن کا تذکرہ سعد بن ہشام کی روایت میں ہے یا ان دو رکعات کے بغیر جن کو بیٹھ کر ادا فرماتے اور وتر کے بعد ادا فرماتے کل گیارہ رکعت بن گئیں۔
یہ ابو سلمہ کی روایت کے ساتھ زیادہ مشابہہ ہے کیونکہ یہ روایات آپ کی اس وقت کی نماز جب کہ بدن بھاری ہوگیا اس کا تذکرہ کر رہی ہیں اور سعد بن ہشام کی روایت میں اس نماز کا ذکر ہے جو بدن کے بوجھل ہونے اور اس سے پہلے بدن کے خفیف ہونے کی حالت میں تھی۔
اب عروہ کی عائشہ (رض) سے روایت ملاحظہ ہو۔

1642

۱۶۴۲ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ مِنْہَا بِوَاحِدَۃٍ فَإِذَا فَرَغَ مِنْہَا اضْطَجَعَ عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ حَتّٰی یَأْتِیَہُ الْمُؤَذِّنُ فَیُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ) .فَھٰذَا یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی صَلَاتِہٖ قَبْلَ أَنْ یُبَدِّنَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ ہُوَ جَمِیْعَ مَا کَانَ یُصَلِّیْہِ مَعَ الرَّکْعَتَیْنِ الْخَفِیْفَتَیْنِ اللَّتَیْنِ کَانَ یَفْتَتِحُ بِہِمَا صَلَاتَہُ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی صَلَاتِہٖ بَعْدَمَا بَدَّنَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ مِنْہَا تِسْعٌ فِیْہَا الْوِتْرُ، وَرَکْعَتَانِ بَعْدَہُمَا وَہُوَ جَالِسٌ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَلَمَۃَ وَعَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ .غَیْرَ أَنَّ غَیْرَ مَالِکٍ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ فَزَادَ فِیْہِ شَیْئًا .
١٦٤٢: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی نماز گیارہ رکعت ادا فرماتے اور ایک کو شفعہ کے ساتھ ملا کر وتر بنا لیتے جب آپ فارغ ہوجاتے تو دائیں پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آتا تو دو خفیف رکعتیں (فجر کی سنتیں) ادا فرماتے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٢١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٣٣٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٠٨‘ نمبر ٤٤٠‘ نسائی فی قیام اللیل باب ٣٥۔
حاصل روایات : اس روایت میں دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: ممکن ہے کہ یہ اس زمانے کی نماز کا ذکر ہو جب آپ کا جسم مبارک بوجھل نہ ہوا تھا تو اس پر یہ ان دو خفیف رکعات کے ساتھ جو آپ ادا فرماتے جن سے آپ اپنی نماز شروع فرماتے کل گیارہ رکعت وتر سمیت ہوں گی۔
نمبر 2: اس میں آپ کی اس وقت کی نماز کا تذکرہ ہو جس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بدن بھاری ہوگیا تو پھر گیارہ میں نو رکعت وتر سمیت ہوئیں اور دو وہ رکعتیں ہیں جو بیٹھ کر ادا فرماتے تھے جیسا کہ ابو سلمہ اور سعد بن ہشام اور عبداللہ بن شقیق کی روایات میں آیا ہے۔
البتہ مالک نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ کردیا۔

1643

۱۶۴۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَخْبَرَہُمْ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْمَا بَیْنَ أَنْ یَفْرُغَ مِنْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ إِلَی الْفَجْرِ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُوْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ وَیَسْجُدُ سَجْدَۃً قَدْرَ مَا یَقْرَأُ أَحَدُکُمْ خَمْسِیْنَ آیَۃً فَإِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَتَبَیَّنَ لَہٗ الْفَجْرُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ حَتّٰی یَأْتِیَہُ الْمُؤَذِّنُ لِلْاِقَامَۃِ فَیَخْرُجَ مَعَہُ) .وَبَعْضُہُمْ یَزِیْدُ عَلٰی بَعْضٍ فِیْ قِصَّۃِ الْحَدِیْثِ .
١٦٤٣: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء کی فراغت سے لے کر نماز فجر تک کے دوران گیارہ رکعت ادا فرماتے ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا کر وتر بنا لیتے اور تمہارے پچاس آیات پڑھنے کی مقدار ایک سجدہ یعنی رکعت ادا کرتے جب مؤذن نماز فجر سے خاموش ہوجاتا اور فجر روشن ہوجاتی تو دو ہلکی پھلکی رکعتیں ادا فرماتے پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آتا پس آپ نماز کے لیے نکلتے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٢٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ ١٣٣٦؍١٣٣٧۔
نوٹ : حدیث کے واقعہ میں بعض راوی ایک دوسرے سے اضافہ کرتے ہیں۔

1644

۱۶۴۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ جَمِیْعَ مَا کَانَ یُصَلِّیْہِ بَعْدَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ إِلَی الْفَجْرِ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .فَقَدْ عَادَ ذٰلِکَ إِلٰی حَدِیْثِ أَبِیْ سَلَمَۃَ وَعَلِمْنَا بِہٖ أَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃَ ہِیَ صَلَاتُہٗ بَعْدَمَا بَدَّنَ .وَأَمَّا قَوْلُہَا یُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ فَإِنَّ ذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ یُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ فِی الْوِتْرِ وَغَیْرِہِ فَیَثْبُتُ بِذٰلِکَ مَا یَذْہَبُ إِلَیْہِ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ مِنَ التَّسْلِیْمِ بَیْنَ الشَّفْعِ وَالْوِتْرِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ یُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ مِنْ ذٰلِکَ غَیْرَ الْوِتْرِ لِیَتَّفِقَ ذٰلِکَ، وَحَدِیْثُ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، وَلَا یَتَضَادَّانِ، مَعَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ عُرْوَۃَ فِیْ ھٰذَا خِلَافُ مَا رَوَاہُ الزُّہْرِیُّ عَنْہُ .
١٦٤٤ : ابو عامر عقدی نے ابن ابی ذہب سے انھوں نے زہری سے اور زہری نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ عشاء کی نماز سے صبح صادق تک آپ کل گیارہ رکعت ادا فرماتے تھے پس اس روایت کا مفہوم روایت ابو سلمہ کی طرف لوٹ گیا کہ اس میں آپ کی اس وقت کی نماز کا تذکرہ ہے جب آپ کا جسم بھاری اور بوجھل ہوگیا تھا البتہ یسلم بین کل رکعتین اس میں دو احتمال ہیں۔ اس روایت میں یہ ہے کہ عشاء کے بعد صبح تک آپ جو نماز ادا فرماتے اس کی تعداد گیارہ رکعت تھی۔ یہ مفہوم ابو سلمہ کی روایت والا ہے اور ہم یہ بخوبی جان چکے ہیں کہ آپ ک یہ نماز جسم کے بھاری ہوجانے کے بعد تھی۔ رہا روایت کے یہ الفاظ ” یسلم بین کل رکعتین “ اس میں احتمال ہے آپ وتر اور غیر وتر کی ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے۔ اس سے اہل مدینہ والے وتر ثابت ہوجائیں گے کہ دو رکعت اور ایک کے بعد سلام پھیرا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر دو رکعتوں کے مابین سلام پھیرتے جو وتر کے علاوہ ہوتیں ‘ تاکہ یہ روایت سعد کی روایت کے موافق ہوجائے اور ان میں تضاد نہ رہے اور اس بات کے ساتھ ساتھ کہ عروہ نے اس کے خلاف بھی روایت نقل کی ہے جو اس سے زہری نے نقل کی ہے۔ (فتدبر)
نمبر !: وتر وغیرہ اور ہر شفعہ کے بعد سلام پھیرتے تھے تو اس میں اہل مدینہ کا قول ثابت ہوجائے گا کہ وتروں میں دو سلام ہیں ایک شفعہ کے بعد اور ایک آخر میں۔
احتمال نمبر ": وتر کے علاوہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے اس سے یہ روایت سعد بن ہشام کی روایت کے عین مطابق ہوجائے گی اور ان میں تضاد نہ رہے گا حالانکہ عروہ کی دوسری روایت جس کو زہری نے نقل کیا ہے وہ اس کے خلاف ہے۔

1645

۱۶۴۵ : فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ثُمَّ یُصَلِّی اِذَا سَمِعَ النِّدَائَ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ) .فَھٰذَا خِلَافُ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ وَعَمْرٍو وَیُوْنُسَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ فَذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ أَنْ یَکُوْنَ الرَّکْعَتَانِ الزَّائِدَتَانِ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ عَلٰی ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ ہُمَا الرَّکْعَتَانِ الْخَفِیْفَتَانِ اللَّتَانِ ذَکَرَہُمَا سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی وِتْرِہٖ کَیْفَ کَانَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٦٤٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرہ رکعات ادا فرماتے تھے پھر جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی پھلکی رکعات (فجر کی سنتیں) ادا فرماتے۔ اس میں احتمال ہے کہ اس سے آپ کی وہ نماز مراد ہو جو بدن کے بھاری ہونے سے پہلے تھی ‘ تو اس لحاظ سے ان دو خفیف رکعات سمیت جن سے نماز کا اختتام فرماتے یہ رکعات مراد ہوں گی اور دوسرا احتمال یہ آپ کی جسم کے بھاری ہونے کے بعد والی نماز ہو۔ اس صورت میں گیارہ رکعت اس طرح ہوں گی کہ ان میں سے نو رکعات جن میں وتر بھی شامل ہیں اور دو خفیف رکعات جن کو آپ بیٹھ کر ادا فرماتے جن کا تذکرہ حضرت ابو سلمہ (رض) کی روایت میں ہے۔ جس کا تذکرہ سعد بن ہشام اور عبداللہ بن شقیق کی روایات میں بھی ہے۔ البتہ مالک نے اپنی روایت میں بعض اضافے نقل کیے۔ یہ اس روایت کے مخالف ہے جو ابن ابی ذئب اور عمرو ‘ یونس نے زہری سے نقل کی ہیں۔ پس اس لحاظ سے یہ روایت محتمل ہے کہ اس میں دو زائد رکعت مراد ہوں اور یہ وہی دو خفیف رکعات ہیں جن کا تذکرہ سعد بن ہشام نے اپنی روایت میں کیا ہے۔ اس میں وتر کی کیفیت کا کچھ بھی تذکرہ نہیں کہ دلیل بن سکے۔ پس غور سے یہ روایت دیکھیں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٢١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٣٣٩۔
حاصل روایات : یہ روایت ابن ابی ذئب ‘ عمرو بن یونس کی اس روایت کے مخالف ہے جو انھوں نے زہری سے نقل کی ہے اس میں ایک احتمال ہے کہ دو زائد رکعتیں ممکن ہے کہ وہ دو خفیف رکعتیں ہوں جن کا تذکرہ سعد بن ہشام کی روایت میں کیا گیا ہے مگر اس روایت وتروں کی کیفیت کچھ بھی مذکور نہیں ہے پس نتیجہ تک پہنچنے کے لیے ان روایات کو غور سے دیکھنا ہوگا ان میں پہلی شعبہ دوسری لیث کی ہشام عن عروہ اور تیسری محمد بن جعفر بن زبیر عن عروہ ہے۔ روایت اول شعبہ عن ہشام۔

1646

۱۶۴۶ : فَإِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِخَمْسِ سَجَدَاتٍ (یَعْنِیْ رَکَعَاتٍ) .
١٦٤٦: ہشام نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ سجدات یعنی رکعات کے ساتھ وتر بنا لیا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٢١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٣٣٩۔
روایت دوم : لیث عن ہشام :

1647

۱۶۴۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِخَمْسِ سَجَدَاتٍ وَلَا یَجْلِسُ بَیْنَہَا حَتّٰی یَجْلِسَ فِی الْخَامِسَۃِ ثُمَّ یُسَلِّمُ.
١٦٤٧: لیث سے ہشام عن عروہ عن عائشہ (رض) نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ سجدات یعنی رکعات کے ساتھ وتر بناتے ان کے درمیان نہ بیٹھتے یہاں تک کہ پانچویں میں بیٹھتے پھر سلام پھیرتے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٦٤۔

1648

۱۶۴۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ بِخَمْسٍ لَا یَجْلِسُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ. فَقَدْ خَالَفَ مَا رَوٰی ہِشَامٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُرْوَۃَ مَا رَوٰی الزُّہْرِیُّ مِنْ قَوْلِہٖ (کَانَ یُصَلِّی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یُوْتِرُ مِنْہَا بِوَاحِدَۃٍ وَیُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ) .فَلَمَّا اضْطَرَبَ مَا رُوِیَ، عَنْ عُرْوَۃَ فِیْ ھٰذَا، عَنْ عَائِشَۃَ مِنْ صِفَۃِ وِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ فِیْمَا رَوٰی عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ، وَرَجَعْنَا إِلٰی مَا رَوٰی عَنْہَا غَیْرُہٗ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٦٤٨: محمد بن جعفر بن زبیر عن عروہ عن عائشہ (رض) نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ رکعات کو وتر بناتے اور ان کے درمیان میں نہ بیٹھتے بس آخر میں بیٹھتے۔ زہری کی روایت ہشام اور حجر بن جعفر کی روایت کے مخالف ہے۔ کہ آپ گیارہ رکعت ادا فرماتے اور ان میں سے ایک کے ساتھ وتر بنا لیتے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے۔ پس جب عروہ سے وارد روایات مضطرب ہوگئیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتروں کی کیفیت کیا تھی اور ان میں سے کسی روایت کو بطور اختیار نہیں کرسکتے تو ہم نے عروہ کے علاوہ روات کی روایات جو انھوں نے امّ المؤمنین (رض) سے کیا ہے ‘ رجوع کیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٣٥٩۔
حاصل روایات : ہشام اور محمد بن جعفر کی روایات عروہ سے اور زہری کی روایت عروہ سے مختلف ہوگئیں اس روایت میں گیارہ رکعت پڑھنا اور ایک کو ملا کر وتر بنانا اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مذکور ہے اور یہاں پانچ وتروں کو ایک سلام سے پڑھنا مذکور ہے۔
نوٹ : اب عروہ سے منقول روایات میں اضطراب پیدا ہوا تو ان روایات میں وتروں کے ثبوت کے لیے حجت نہ رہی۔
عروہ کے علاوہ دیگر روات کی روایات پر غور کرتے ہیں تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکے۔

1649

۱۶۴۹ : فَإِذَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَعْیَنَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِتِسْعِ رَکَعَاتٍ۔
١٦٤٩: ابراہیم نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو رکعتوں سے وتر بناتے تھے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١٢٠‘ نمبر ٤٤٣‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٢٩٣۔

1650

۱۶۵۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَعْیَنَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِتِسْعِ رَکَعَاتٍ.
١٦٥٠: ابراہیم نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو رکعات سے وتر بناتے تھے (٦ نفل تین وتر)

1651

۱۶۵۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی الضُّحٰی، عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ بِتِسْعٍ فَلَمَّا بَلَغَ سِنًّا وَثَقُلَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ .
١٦٥١: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو رکعات سے وتر بناتے تھے (٦ نفل تین وتر) جب بڑھاپا آگیا اور بدن بوجھل ہوگیا تو سات سے وتر بنانے لگے یعنی (٤ نفل تین وتر)
تخریج : نسائی فی قیام اللیل باب ٤٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١١٩٠‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ٤؍١٤٧‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٢٩٣۔

1652

۱۶۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أَیُّوْبَ یَعْنِی ابْنَ خَلَفٍ الطَّبَرَانِیَّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ وِتْرَہُ کَانَ تِسْعًا .إِلَّا أَنَّ فَہْدًا حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فِیْمَا أَظُنُّ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ تِسْعَ رَکَعَاتٍ) فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ تِلْکَ التِّسْعَ ہِیَ صَلَاتُہٗ الَّتِیْ کَانَ یُصَلِّیْہَا فِی اللَّیْلِ فَخَالَفَ ھٰذَا مَا قَبْلَہٗ مِنْ حَدِیْثِ الْأَسْوَدِ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ جَمِیْعُ مَا سَمَّاہُ وِتْرًا ہُوَ جَمِیْعَ صَلَاتِہِ الَّتِیْ فِیْہَا الْوِتْرُ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ مَا فِیْ حَدِیْثِ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ أَنْ یَضْعُفَ تِسْعًا فَلَمَّا بَلَغَ سِنًّا صَلّٰی سَبْعًا فَوَافَقَ ذٰلِکَ مَا رَوٰی سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ مِنَ الثَّمَانِ الَّتِیْ کَانَ یُصَلِّیْہِنَّ أَوَّلًا وَیُوْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ فَلَمَّا بَدَّنَ جَعَلَ تِلْکَ الثَّمَانِ سِتًّا، وَأَوْتَرَ بِالسَّابِعَۃِ .فَدَلَّ ھٰذَا عَلٰی أَنَّہٗ سَمَّی جَمِیْعَ صَلَاتِہِ فِی اللَّیْلِ الَّتِیْ کَانَ فِیْہَا الْوِتْرُ وِتْرًا حَتّٰی تَتَّفِقَ ھٰذِہِ الْآثَارُ فَلاَ تَتَضَادُّ غَیْرَ أَنَّا لَمْ نَقِفْ بَعْدُ عَلٰی حَقِیْقَۃِ الْوِتْرِ إِلَّا فِیْ حَدِیْثِ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَیْ عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ خَاصَّۃً .فَنَظَرْنَا ہَلْ فِیْ غَیْرِ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی کَیْفِیَّۃِ الْوِتْرِ أَیْضًا کَیْفَ ہِیَ؟
١٦٥٢: یحییٰ بن جزار نے حضرت عائشہ (رض) سے ‘ انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ کے وتر نو رکعت تھے البتہ فہد نے ابراہیم سے جو روایت کی وہ اس سے مختلف ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں اسود نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس طرح نقل کیا کہ آپ کی نماز رات کو نو رکعت ہوا کرتی تھی۔ تو اس روایت میں اس طرح ہے کہ آپ کی رات والی نماز نو رکعت تھی۔ اس نے اسود والی روایت کی مخالفت کی ہے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ وہ تمام نماز جس کو اس نے وتر سے تعبیر کیا ہے وہ وتر سمیت مکمل نماز تھی اور اس کی دلیل یحییٰ کی روایت میں ہے کہ آپ کی ضعف سے پہلے کی نماز نو رکعت تھی جب آپ کو بڑھاپا آگیا تو آپ نے سات رکعت ادا فرمائیں۔ پس یہ ہشام کی اس روایت کے موافق ہوگئی جس میں آٹھ رکعات کا تذکرہ جن کو پہلے ادا فرماتے اور پھر ایک ملا کر ان کو وتر بنا لیتے۔ پھر جب آپ کا جسم بھاری ہوگیا تو آپ نے ان آٹھ کو چھ میں بدل دیا اور ایک ملا کر سات کو وتر بنا لیا۔ یہ اس طور پر ہے کہ آپ کی تمام نماز جس میں وتر بھی شامل تھے انھوں نے اس کا نام وتر رکھا تاکہ یہ آثار متفق ہو کہ ان میں تضاد جاتا رہے۔ البتہ اتنی بات رہے گی کہ وتر کی حقیقت پر روشنی زرارہ کی روایت کے بغیر نہیں پڑ سکتی۔ پس ہم نے اس میں غور و فکر کیا کہ آیا کوئی روایت ایسی ملتی ہے جس میں وتر کی کیفیت مذکور ہو تو یہ روایات مل گئیں۔
تخریج : نسائی ١؍٢٤٩۔
حاصل روایات : ان روایات سے وتر کی تعداد نو معلوم ہو رہی ہے البتہ فہد کی روایت جو حسن بن ربیع عن ابوالاحوص عن اعمش ہے اس میں بقول طحاوی (رح) ابراہیم عن اسود عن عائشہ (رض) یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نو رکعات پڑھا کرتے تھے۔ تو اس روایت نے ظاہر کردیا کہ آپ کی رات کے وقت ادا کی جانے والی نماز کی رکعات کل نو تھیں پس یہ اسود کی پہلی روایات سے مختلف ہوئی۔
اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ وہ تمام رکعات جو رات کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادا فرماتے ان کو وتر کہہ دیا گیا ان میں نفل و وتر سب شامل تھے (٦ نفل ٣ وتر) اس کی دلیل یحییٰ بن جزار کی روایت ہے آپ پر بڑھاپا آنے سے پہلے نو رکعات ادا فرماتے رہے جب آپ کی عمر بڑھاپے والی آگئی تو آپ سات رکعت ادا فرمانے لگے اب اس طرح یہ روایت سعد بن ہشام کی آٹھ رکعت والی اس روایت کے موافق ہوگئی جس میں مذکور ہے کہ پہلے آپ آٹھ رکعت ادا فرماتے رہتے پھر ایک کو ملاکر وتر بنا لیتے پس جب آپ کا جسم مبارک بوجھل ہوگیا تو آٹھ کو چھ سے بدل لیا اور ساتویں سے وتر بنانے لگے (٤ نفل تین وتر)
نوٹ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ کی رات والی تمام نماز کو وتر سے تعبیر کردیا یہ تسمیۃ الکل باسم الجزء کی قسم سے ہے ان سات رکعات میں وتر بھی تھے تاکہ ان آثار میں تضاد واقع نہ ہو اور جو بظاہر پیدا ہو رہا ہے وہ ختم ہوجائے۔
کیفیت وتر :
اب تک جس قدر روایات گزر چکیں ان میں حقیقت وتر سے آگاہی نہیں ہوئی البتہ صرف روایت زرارہ بن اوفی عن سعد بن ہشام میں یہ مذکور ہے ہم یہاں اور روایات بھی پیش کرتے ہیں جو کیفیت وتر کی نشاندہی کریں گی۔

1653

۱۶۵۳ : فَإِذَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ، قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ کَانَ یُوْتِرُ بَعْدَہُمَا بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی وَقُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ وَیَقْرَأُ فِی الَّتِیْ فِی الْوِتْرِ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ وَ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ .
١٦٥٣: یحییٰ بن سعید نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دو رکعتوں میں جن میں آخرری رکعت کو ملا کر وتر بنانا ہوتا تو اول میں سبح اسم ربک الاعلٰی دوسری میں قل یا ایھا الکافرون اور تیسری جس سے ان کو وتر بناتے اس میں کمل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے تھے۔
سنت ِفجر کی قراءت
حاصل روایت :: نماز فجر سے پہلے دو رکعت نماز واجب ہے یا سنت ‘ حسن بصری (رح) اس کو واجب کہتے ہیں جبکہ تمام ائمہ اس کو سنت کہتے ہیں فجر کی ان دو رکعتوں میں امام مالک صرف فاتحہ پڑھتے اور دیگر تمام ائمہ سورة فاتحہ اور سورة کا پڑھنا فرماتے ہیں شافعی (رح) و احمد (رح) تو پڑھنے کو لابأس بہ قرار دیتے ہیں اور احناف قراءت کو واجب مانتے ہیں۔
مؤقف فریق اوّل و ثانی : امام حسن بصری (رح) بالکل قراءت نہ کرنے کے قائل ہیں جبکہ امام مالک (رح) صرف فاتحہ کے قائل ہیں۔ روایات یہ ہیں۔

1654

۱۶۵۴ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ سَہْلٍ الدِّمْیَاطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ یَحْیٰی ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ( أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِثَلَاثٍ یَقْرَأُ فِیْ أَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّک الْأَعْلَی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ).فَأَخْبَرَتْ عَمْرَۃُ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ بِکَیْفِیَّۃِ الْوِتْرِ کَیْفَ کَانَتْ وَوَافَقَتْ عَلَی ذٰلِکَ سَعْدَ بْنَ ہِشَامٍ وَزَادَ عَلَیْہَا سَعْدٌ أَنَّہٗ کَانَ لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ .
١٦٥٤ : حضرت عمرہ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ” جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین رکعت وتر پڑھے ‘ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ ‘ دوسری میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ اور معوذتین پڑھے “۔ اس روایت میں عمرہ نے حضرت صدیقہ (رض) سے وتروں کی کیفیت ذکر کی ہے۔ سعد بن ہشام کی روایت اس کے موافق ہے اور سعد کی روایت میں یہ اضافہ بھی منقول ہے کہ وہ آخر میں سلام پھیرتے تھے۔

1655

۱۶۵۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیْدَ الرَّحَبِیِّ ، عَنْ أَبِیْ إِِدْرِیْسَ ، عَنْ أَبِیْ مُوسَی ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، قَالَتْ ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِیْ وِتْرِہِ فِیْ ثَلَاثِ رَکَعَاتٍ ( قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ) وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ).فَقَدْ وَافَقَ ہَذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا مَا رَوَی سَعْدٌ وَعَمْرَۃُ .
١٦٥٥ : حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تین وتروں میں قل ھو اللہ اور معوذتین پڑھتے۔ یہ روایت سعد وعمرہ کی روایت کے موافق ہے۔

1656

۱۶۵۶ : وَحَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ قَیْسٍ قَالَ : ( قُلْتُ لِعَائِشَۃَ بِکَمْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ ؟ قَالَتْ : کَانَ یُوْتِرُ بِأَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ ، وَثَمَانٍ وَثَلَاثٍ ، وَعَشْرٍ وَثَلَاثٍ وَلَمْ یَکُنْ یُوْتِرُ بِأَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ وَلَا بِأَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ).فَفِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ ذِکْرُہَا لَمَّا کَانَ یُصَلِّیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی اللَّیْلِ مِنْ التَّطَوُّعِ وَتَسْمِیَتُہَا إِیَّاہُ وِتْرًا إِلَّا أَنَّہَا قَدْ فَصَلَتْ بَیْنَ الثَّلَاثِ وَبَیْنَ مَا ذَکَرَتْ مَعَہَا وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ إِلَّا لِأَنَّ الثَّلَاثَ کَانَ لَہَا مَعْنًی بَائِنٌ مِنْ مَعْنَیْ مَا قَبْلِہَا فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَیْ مَعْنَی حَدِیْثِ الْأَسْوَدِ وَمَسْرُوْقٍ وَیَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہٗ کَذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلَی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا رُوِیَ عَنْہَا مِنْ قَوْلِہَا .
١٦٥٦ : عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سوال کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتنے وتر پڑھتے۔ انھوں نے فرمایا آپ چار اور تین پڑھتے ‘ کبھی آٹھ اور تین پڑھتے ‘ کبھی دس اور تین پڑھتے ‘ سات سے کم کو وتر نہ بناتے اور نہ تیرہ سے زیادہ کو وتر بناتے۔ اس روایت میں آپ کی رات کی نفل نماز ذکر کی اور اس کا نام وتر رکھا ‘ البتہ تین اور اس کے ساتھ مذکورہ رکعات میں فاصلہ کیا اور اس کی وجہ واضح ہے کہ تین دوسری رکعات سے معنوی اعتبار سے جدا ہیں۔ اور اس کا معنی روایت اسود ‘ مسروق ‘ یحییٰ جو انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کی ‘ جیسا ہے۔ اور اس کی دلیل ان کا یہ قول بھی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

1657

۱۶۵۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ ( عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، قَالَتْ : کَانَ الْوِتْرُ سَبْعًا وَخَمْسًا ، وَالثَّلَاثُ بُتَیْرَائٌ ).فَکَرِہَتْ أَنْ تَجْعَلَ الْوِتْرَ ثَلَاثًا لَمْ یَتَقَدَّمْہُنَّ شَیْئٌ حَتّٰی یَکُوْنَ قَبْلَہُنَّ غَیْرُہُنَّ ، فَلَمَّا کَانَ الْوِتْرُ عِنْدَہَا أَحْسَنَ مَا یَکُوْنُ ہُوَ أَنْ یَتَقَدَّمَہُ تَطَوُّعٌ إِمَّا أَرْبَعٌ وَإِِمَّا اثْنَتَانِ جَمَعَتْ بِذٰلِکَ تَطَوُّعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی اللَّیْلِ الَّذِی صَلُحَ بِہِ الْوِتْرُ الَّذِی بَعْدَہَا وَالْوِتْرَ فَسَمَّتْ ذٰلِکَ بِذٰلِکَ وِتْرًا .إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ فِیْ جُمْلَۃِ ذٰلِکَ عَنْہَا أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثًا فَثَبَتَ مِنْ رِوَایَتِہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَوَاہُ عَنْہَا سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ لِمُوَافَقَۃِ قَوْلِہَا مِنْ رَأْیِہَا إِیَّاہُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثًا لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ . غَیْرَ أَنَّ مَا رَوَاہُ ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃٍ عَنْ أَبِیْہِ فِیْ ذٰلِکَ ( أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِخَمْسٍ لَا یَجْلِسُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ ) لَمْ نَجِدْ لَہٗ مَعْنًی .وَقَدْ جَاء َتِ الْعَامَّۃُ عَنْ أَبِیْہِ وَعَنْ غَیْرِہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، بِخِلَافِ ذٰلِکَ ، فَمَا رَوَتْہُ الْعَامَّۃُ أَوْلَی مِمَّا رَوَاہُ ہُوَ وَحْدَہُ وَانْفَرَدَ بِہِ .وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ آثَارٌ یَعُوْدُ مَعْنَاہَا أَیْضًا إِلَی الْمَعْنَی الَّذِی عَادَ إِلَیْہِ مَعْنَی حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .فَمِنْ ذٰلِکَ۔
١٦٥٧ : ابن مسیب نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا آپ کے وتر سات ‘ پانچ ‘ تین رکعت تھے اور تین رکعت بتیرا ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس بات کو ناپسند کیا کہ صرف وتر تین ادا کرے اور ان سے پہلے کچھ نفل نہ پڑھے۔ جب ان کے نزدیک بہترین وتر وہ ہیں جن سے قبل نفل چار رکعت یا دو رکعت ہو ‘ انھوں نے اس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات والی نماز کو جمع کر کے تمام کو وتر کہا۔ مگر اس کے ضمن میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وتروں کی تین رکعات ہیں۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس مرفوع روایت سے وہی بات ثابت ہوئی۔ تو سعد بن ہشام نے حضرت صدیقہ (رض) سے نقل کی ہے۔ کیونکہ ان کا قول ان کے اجتہاد کے موافق ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وتر تین ہیں اور ان کے درمیان سلام نہ پھیرا جائے گا ‘ بلکہ آخر میں پھیریں گے۔ البتہ عروہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا آپ پانچ وتر پڑھتے اور ان کے آخر میں بیٹھتے ‘ ہمیں اس کی تاویل نہیں مل سکی۔ عام روایات جو خود عروہ یا اوروں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کی ہیں وہ اس کے خلاف ہیں۔ پس کثیر روات کی روایت عروہ کی منفرد روایت سے اولیٰ ہے اور عبداللہ بن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ روایات نقل کی ہیں جن کا مفہوم وہی ہے جو روایت ِ صدیقہ (رض) کا ہے۔ ان میں سے یہ روایات ہیں۔

1658

۱۶۵۸ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوقٍ وَبَکَّارٌ ، قَالَا : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ جَمْرَۃَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی مِنْ اللَّیْلِ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً).وَمِنْ ذٰلِکَ
١٦٥٨ : ابو حمزہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرہ رکعت ادا فرماتے۔

1659

۱۶۵۹ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوُسٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، ( عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ بَاتَ عِنْدَ خَالَتِہِ مَیْمُوْنَۃَ ، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اللَّیْلِ یُصَلِّی فَقُمْتُ فَتَوَضَّأْتُ ، ثُمَّ قُمْتُ عَنْ یَسَارِہِ فَجَذَبَنِی فَأَدَارَنِی عَنْ یَمِیْنِہِ ، فَصَلَّی ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ، قِیَامُہُ فِیْہِنَّ سَوَائٌ ).وَمِنْ ذٰلِکَ
١٦٥٩ : دوسری روایت جس کو عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ کے ہاں رات گزاری۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی وضوء کر کے آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا ‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھینچ کر مجھے اپنی دائیں طرف کرلیا ‘ پھر آپ نے تیرہ رکعت نماز ادا فرمائی جن میں آپ کا قیام برابر تھا۔

1660

۱۶۶۰ : مَا حَدَّثَنَا بَکَّارٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ کُرَیْبًا یُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَذَکَرَ مِثْلَہٗ وَقَالَ : فَتَکَامَلَتْ صَلَاۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .فَقَدْ اتَّفَقَ ہَذَا الْحَدِیْثُ وَحَدِیْثُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ جُمْلَۃِ صَلَاتِہِ أَنَّہَا کَانَتْ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .إِلَّا أَنَّہٗ لَا تَفْصِیْلَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَأَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ ہَلْ رُوِیَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ تَفْصِیْلِ ذٰلِکَ شَیْئٌ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ
١٦٦٠ : ایک روایت یہ ہے جس کو کریب نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح نقل کیا۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں ” فتکاملت۔۔۔ کہ آپ کی تیرہ رکعت نماز مکمل ہوئی۔ پس یہ روایت اور روایت ِ حضرت صدیقہ (رض) ان کی مجموعی نماز میں متفق ہوگئیں کہ وہ تیرہ رکعت تھی ‘ البتہ روایت ابن عباس (رض) میں تفصیل نہیں۔ پس ہم ابن عباس (رض) کی زبانی اس کی تفصیل چاہتے ہیں وہ یہ ہے۔

1661

۱۶۶۱ : فَإِِذَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ إِِسْحَاقَ ، عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : ( أَمَرَنِی الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ أَبِیْتَ بِآلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَقَدَّمَ إِلَیَّ أَنْ لَا تَنَامَ حَتّٰی تَحْفَظَ لِی صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : فَصَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَاء َ ، ثُمَّ نَامَ ، ثُمَّ قَامَ ، فَبَالَ ، ثُمَّ تَوَضَّأَ ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ ، لَیْسَتَا بِطَوِیْلَتَیْنِ وَلَا بِقَصِیْرَتَیْنِ ، ثُمَّ عَادَ إِلَی فِرَاشِہِ ، ثُمَّ نَامَ حَتّٰی سَمِعْتُ غَطِیْطَہُ أَوْ خَطِیْطَہُ ثُمَّ اسْتَوَی وَفَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ حَتّٰی صَلَّی سِتَّ رَکَعَاتٍ وَأَوْتَرَ بِثَلَاثٍ).
١٦٦١ : علی بن معبد نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ مجھے میرے والد عباس نے حکم دیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آل کے ہاں رات گزاروں اور مجھے یہ فرمایا کہ رات کو نہ سوؤں یہاں تک کہ میرے لیے آپ کی رات کی نماز کو محفوظ کرلوں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ نماز عشاء پڑھی ‘ پھر آپ سو گئے۔ پھر اٹھے اور پیشاب و وضو کیا ‘ پھر دو رکعت ادا کیں جو کچھ طویل نہ تھیں اور نہ بالکل چھوٹی تھیں۔ پھر اپنے بستر کی طرف لوٹ آئے پھر سو گئے ‘ یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی ‘ پھر آپ اٹھے اور اسی طرح کیا یہاں تک کہ چھ رکعات ادا کیں اور تین سے ان کو وتر بنایا۔

1662

۱۶۶۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
١٦٦٢ : ابن داؤد نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ صالح نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ یہ فرق کہ پھر آپ نے وتر ادا کیے مگر تین عدد اس روایت مذکور نہیں ہوا۔

1663

۱۶۶۳ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَنَا حُصَیْنٌ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : ثُمَّ أَوْتَرَ وَلَمْ یَقُلْ بِثَلَاثٍ .فَأَخْبَرَ عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ وِتْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَیْفَ کَانَ فِیْ صَلَاتِہِ تِلْکَ وَأَنَّہٗ ثَلَاثٌ وَخَالَفَ أَبَا جَمْرَۃَ وَعِکْرِمَۃَ بْن خَالِدٍ وَکُرَیْبًا فِیْ عَدَدِ التَّطَوُّعِ .وَأَمَّا سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ فَرَوَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ
١٦٦٣ : علی نے ابن والد سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتروں کی کیفیت ذکر کی کہ کس طرح تھی اور یہ بھی بتلایا کہ وہ تین رکعت تھیں مگر انھوں نے نوافل کے متعلق ابو جمرہ ‘ عقبہ ‘ عکرمہ اور کریب سے مختلف بیان کیا۔

1664

۱۶۶۴ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُوْلُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ح .
١٦٦٤ : ابوبکر نے ابن جبیر کی سند سے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ۔

1665

۱۶۶۵ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ح
١٦٦٥ : ابوبکر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر تین رکعت ادا کرتے۔

1666

۱۶۶۶ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ ( ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : بِتُّ فِیْ بَیْتِ خَالَتِیْ مَیْمُوْنَۃَ ، فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَاء َ ، ثُمَّ جَاء َ فَصَلَّی أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی خَمْسَ رَکَعَاتٍ ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ نَامَ حَتّٰی سَمِعْتُ غَطِیْطَہُ أَوْ خَطِیْطَہُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ).فَفِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ صَلَّی إِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً مِنْہَا رَکْعَتَانِ بَعَدَ الْوِتْرِ .فَقَدْ وَافَقَ عَلِیَّ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ فِی التِّسْعِ الَّتِیْ مِنْ الْوِتْرِ وَزَادَ عَلَیْہِ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْوِتْرِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ وَیَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُفْرَدًا مَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہٗ ثَلَاثٌ .فَمِنْ ذٰلِکَ
١٦٦٦ : ابوبکر نے ابن جبیر کی سند سے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ کے ہاں رات گزاری۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد تشریف لائے اور چار رکعت نماز ادا کی پھر آپ اٹھے اور پانچ رکعات ادا کیں پھر دو رکعت پڑھیں پھر آپ سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے سنے۔ پھر آپ صبح کی نماز کے لیے نکلے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے گیارہ رکعت ادا فرمائیں۔ جن میں دو رکعت وتر کے بعد تھیں۔ پس علی بن عبداللہ کی روایت میں نو رکعت ہیں ‘ جن میں وتر بھی ہیں البتہ وتروں کے بعد دو رکعتوں کا اضافہ ہے۔ اور ابن جبیر ‘ یحییٰ بن جزار سے ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتر سے الگ روایت کی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وتر تین ہیں۔ ان میں سے بعض روایات یہ ہیں۔

1667

۱۶۶۷ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ النَّہْشَلِیُّ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِثَلَاثِ رَکَعَاتٍ).
١٦٦٧ : روح نے ابن عباس (رض) کی سند سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین وتر ادا فرماتے اول رکعت میں سورة اعلیٰ ‘ دوسری میں کافروں اور تیسری میں قل ھو اللہ پڑھتے تھے۔

1668

۱۶۶۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا لُوَیْنٌ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ أَبِیْ إِِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ
١٦٦٨ : روح نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

1669

۱۶۶۹ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا لُوَیْنٌ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ مُخَوَّلٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِیْنِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ بِثَلَاثٍ ، یَقْرَأُ فِی الْأُوْلَیْ بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّک الْأَعْلَی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ).
١٦٦٩ : روح نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

1670

۱۶۷۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ رَجَاء ٍ ، قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ أَبِیْ إِِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَہَذَا فِیْہِ تَحْقِیْقُ مَا رَوَی عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْہِ مِنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ ثَلَاثًا .وَأَمَّا کُرَیْبٌ فَرَوَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ مَا
١٦٧٠ : ابن خزیمہ نے ابن عباس (رض) کی سند سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت سے علی بن عبداللہ (رض) والی بات پختہ ہوگئی کہ آپ تین رکعت وتر ادا فرماتے۔

1671

۱۶۷۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکُ بْنُ أَبِیْ نَمِرٍ أَنَّ کُرَیْبًا أَخْبَرَہُ أَنَّہٗ سَمِعَ ( ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ بِتّ لَیْلَۃً عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ مِنْ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ انْصَرَفْتُ مَعَہُ ، فَلَمَّا دَخَلَ الْبَیْتَ رَکَعَ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ، رُکُوْعُہُمَا مِثْلُ سُجُوْدِہِمَا .وَسُجُوْدُہُمَا مِثْلُ قِیَامِہِمَا ، ثُمَّ اضْطَجَعَ مَکَانَہُ فِیْ مُصَلَّاہُ ، حَتّٰی سَمِعْتُ غَطِیْطَہُ ، ثُمَّ تَعَارَّ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ کَذٰلِکَ ، ثُمَّ اضْطَجَعَ ثَانِیَۃً مَکَانَہُ فَرَقَدَ حَتّٰی سَمِعْتُ غَطِیْطَہُ ، ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ خَمْسَ مَرَّاتٍ فَصَلَّی عَشْرَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ ، وَأَتَاہُ بِلَالٌ فَآذَنَہُ بِالصُّبْحِ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ).فَقَدْ أَخْبَرَ فِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ صَلَّی عَشْرَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ مَعَ ثِنْتَیْنِ قَدْ تَقَدَّمَتَاہَا ، فَتَکُوْنَانِ مَعَ ہَذِہِ الْوَاحِدَۃِ ثَلَاثًا لِیَسْتَوِیَ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِیْثِ وَمَعْنَی حَدِیْثِ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ، وَسَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَیَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ .ثُمَّ نَظَرْنَا ہَلْ رُوِیَ عَنْہُ مَا یُبَیِّنُ ذٰلِکَ .فَإِِذَا إِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ الْعُصْفُرِیُّ قَدْ
١٦٧١ : کریب نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے ایک رات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گزاری۔ پس جب آپ عشاء سے واپس لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ چلدیا۔ پس گھر میں داخل ہو کر آپ نے دو ہلکے پھلکے رکوع والی رکعات ادا فرمائیں ان کے رکوع ‘ سجدے اور قیام تمام یکساں تھے۔ پھر اپنی نماز کی جگہ آپ نے آرام فرمایا۔ یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ پھر آپ نے نیند سے بیدار ہو کر وضو کیا اور دو رکعت اسی طرح کی ادا فرمائیں۔ پھر دوبارہ اپنی اسی جگہ آرام فرمانے لگے اور سو گئے ‘ میں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی۔ پھر آپ نے پانچ مرتبہ کیا اور اس طرح دس رکعات ادا فرمائیں ‘ پھر ایک کو ملا کر ان کو وتر بنایا۔ پھر بلال (رض) آگئے اور نماز صبح کی اطلاع دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت ادا فرما کر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ اس روایت میں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ آپ نے دس رکعات ادا فرمائیں اور ایک کو ساتھ ملا کر ان کو وتر بنایا۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ ان دو آخری رکعات کے ساتھ ایک کو ملا کر وتر اد کیے جن دو رکعتوں کو ادا کرچکے تھے تو وہ اس ایک سے ملکر تین ہوگئیں۔ یہ معنی اس بناء پر کیا تاکہ اس روایت اور علی بن عبداللہ ‘ ابن جبیر اور یحییٰ بن جزار والی روایات کا مفہوم ایک ہوجائے۔ پھر ہم نے غور کیا کہ آیا ان کا اس سلسلہ میں کوئی بیان مروی ہے۔ روایت یہ ہے۔

1672

۱۶۷۲ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِی ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ أَیُّوبَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ رَبِّہِ بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ قَیْسٍ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ کُرَیْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَدَّثَہُ قَالَ : ( فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَائِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ).فَاتَّفَقَ ہَذَا الْحَدِیْثُ وَحَدِیْثُ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ ، عَلَی أَنَّ جَمِیْعَ مَا صَلَّی إِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ، وَبَیَّنَ ہَذَا أَنَّ الْوِتْرَ فِیْہَا ثَلَاثٌ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَعْنَی حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ ، أَیْ مَعَ اثْنَتَیْنِ قَدْ تَقَدَّمَتَاہَا ہُمَا مَعَہَا وِتْرٌ .
١٦٧٢ : حضرت کریب نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ ابن عباس کہنے لگے کہ ” جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء کے بعد دو رکعت نماز ادا کی ‘ پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت ‘ پھر تین وتر ادا کیے “۔ پس یہ روایت اور ابن ابی داؤد کی روایت اس بات میں متفق ہوگئیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کل گیارہ رکعت ادا فرمائی۔ اور یہ بھی واضح ہوا کہ اس میں تین رکعت وتر تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن ابی داؤد والی روایت ” ثم اوتر بواحدۃ “ کا مطلب یہ ہے دو کے ساتھ ایک اور ملائی جن کو پہلے پڑھا اور وتر بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔

1673

۱۶۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہُ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ کُرَیْبٍ أَنَّ ( عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَدَّثَہُ أَنَّہٗ بَاتَ لَیْلَۃً عِنْدَ مَیْمُوْنَۃَ وَہِیَ خَالَتُہُ فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ أَوْتَرَ ، ثُمَّ اضْطَجَعَ ، ثُمَّ جَاء َہُ الْمُؤَذِّنُ ، فَقَامَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الصُّبْحَ).فَقَدْ زَادَ فِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ رَکْعَتَیْنِ وَلَمْ یُخَالِفْہُ فِی الْوِتْرِ فَکَانَ مَا رَوَیْنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَمَّا جُمِعَتْ مَعَانِیْہِ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِثَلَاثٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ قَوْلِہِ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئٌ
١٦٧٣ : کریب نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ کے ہاں گزاری۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ پھر دو رکعت ‘ پھر دو ‘ پھر دو رکعت ‘ پھر دو رکعت ‘ پھر دو رکعت ‘ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وتر ادا فرمائے پھر آپ پہلو کے بل لیٹ گئے پھر آپ کی خدمت میں مؤذن آیا تو آپ نے کھڑے ہو کر دو ہلکی رکعات ادا فرمائی پھر نکل کر صبح کی نماز پڑھائی۔ اس روایت میں دو رکعات کا اضافہ ہے البتہ وتروں کے سلسلہ میں مخالف نہیں۔ پس جو کچھ ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ اگر ان کے معانی کو جمع کیا جائے تو وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین رکعت وتر ادا فرماتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس (رض) کا اپنا قول بھی اسی طرح منقول ہے۔ ملاحظ ہو۔

1674

۱۶۷۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَطَاء ٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنِّی لَأَکْرَہُ أَنْ یَکُوْنَ بَتْرَاء َ ثَلَاثًا ، وَلَکِنْ سَبْعًا أَوْ خَمْسًا .
١٦٧٤ : ابن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تین وتر الگ قرار پائیں بلکہ وہ سات یا پانچ رکعت ہونا چاہیے یعنی دو چار نفل بھی ساتھ ہو۔

1675

۱۶۷۵ : حَدَّثَنَا عِیْسَی بْنُ إِبْرَاہِیْمَ الْغَافِقِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ الْأَعْمَشِ ، فَذَکَرَ بِإِِسْنَادِہٖ نَحْوَہُ .
١٦٧٥ : سفیان بن عیینہ نے حضرت اعمش سے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے۔

1676

۱۶۷۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَاء ٍ ، قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ عَنْ الْأَعْمَشِ ، فَذَکَرَ بِإِِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَہَذَا عِنْدَنَا عَلَی أَنَّہٗ کَرِہَ أَنَّہٗ یُوْتِرُ وِتْرًا لَمْ یَتَقَدَّمْہُ تَطَوُّعٌ ، وَأَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ قَبْلَہٗ تَطَوُّعٌ ، إِمَّا رَکْعَتَانِ وَإِِمَّا أَرْبَعٌ .فَإِِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا خِلَافُ ہَذَا .فَذَکَرَ
١٦٧٦ : حضرت شعبہ (رح) نے حضرت اعمش سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وتروں کو اکیلا پڑھنا ناپسند کرتے تھے کہ اس سے پہلے نفل نہ ہوں بلکہ آپ چاہتے تھے کہ اس سے پہلے نفل ہوں خواہ وہ دو رکعت ہوں یا چار۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ ابن عباس (رض) تو اس کے خلاف بھی مروی ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

1677

۱۶۷۷ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَطَاء ٍ : قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ہَلْ لَک فِیْ مُعَاوِیَۃَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ ، وَہُوَ یُرِیْدُ أَنْ یَعِیْبَ مُعَاوِیَۃَ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَصَابَ مُعَاوِیَۃُ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ فِعْلِ مُعَاوِیَۃَ ہَذَا مَا یَدُلُّ عَلَی إِنْکَارِہِ إِیَّاہُ عَلَیْہِ .وَذٰلِکَ أَنَّ أَبَا غَسَّانَ مَالِکَ بْنَ یَحْیَی الْہَمْدَانِیَّ
١٦٧٧ : عطاء نے نقل کیا کہ ایک شخص نے ابن عباس (رض) سے کہا کہ کیا آپ کو معاویہ (رض) کی اس بات پر اعتراض ہے کہ انھوں نے ایک وتر پڑھا۔ تو اس آدمی کا مقصد معاویہ (رض) پر غیب لگانا تھا۔ تو ابن عباس (رض) نے فرمایا معاویہ (رض) نے درست کیا۔ (ابن ابی شیبہ ٢/٢٩١) اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے وہ روایت بھی وارد ہے جس میں معاویہ (رض) کے اس فعل پر نکیر کی گئی ہے۔

1678

۱۶۷۸ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاء ٍ ، قَالَ : أَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ نَتَحَدَّثُ حَتّٰی ذَہَبَ ہَزِیْعٌ مِنْ اللَّیْلِ، فَقَامَ مُعَاوِیَۃُ ، فَرَکَعَ رَکْعَۃً وَاحِدَۃً ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : مِنْ أَیْنَ تُرَی أَخَذَہَا الْحِمَارُ .
١٦٧٨ : روایت یہ ہے کہ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے ساتھ امیر معاویہ کے پاس تھا۔ ہمیں باتیں کرتے رات کا ایک حصہ گزر گیا۔ پس معاویہ (رض) نے کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھی تو ابن عباس (رض) نے فرمایا اس حمار نے یہ چیز کہاں سے لی ہے ؟

1679

۱۶۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا عِمْرَانُ ، فَذَکَرَ بِإِِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ الْحِمَارُ .وَقَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَصَابَ مُعَاوِیَۃُ " عَلَی التَّقِیَّۃِ لَہٗ ، أَیْ أَصَابَ فِیْ شَیْء ٍ آخَرَ لِأَنَّہٗ کَانَ فِیْ زَمَنِہِ ، وَلَا یَجُوزُ عَلَیْہِ - عِنْدَنَا - أَنْ یَکُوْنَ مَا خَالَفَ فِعْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی قَدْ عَلِمَہُ عِنْدَہُ صَوَابًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الْوِتْرِ أَنَّہٗ ثَلَاثٌ .
١٦٧٩ : ابو بکرہ نے عمران کی سند سے اسی طرح روایت کی ‘ مگر اس میں ” حمار “ کا لفظ نہیں۔ عین ممکن ہے ابن عباس کا قول ” اصاب معاویہ “ بطور توریہ ہو اور کسی چیز کا پالینا مراد ہو کیونکہ یہ ان کی حکومت کے زمانے کا واقعہ ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ درست نہیں کیونکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کیے ہوئے فعل کو کبھی ترک کرنے والے نہ تھے۔

1680

۱۶۸۰ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَہْمِیُّ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ الْوِتْرِ فَقَالَ : ثَلَاثٌ ، قَالَ : ابْنُ لَہِیْعَۃَ : وَحَدَّثَنِی یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدَۃَ عَنْ أَبِیْ مَنْصُوْرٍ بِذٰلِکَ .
١٦٨٠ : ابومنصور کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) سے وتر کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا تین ہیں۔

1681

۱۶۸۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ أَبِیْ یَحْیَی قَالَ : سَمَرَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی طَلَعَتِ الْحَمْرَاء ُ ثُمَّ نَامَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَلَمْ یَسْتَیْقِظْ إِلَّا بِأَصْوَاتِ أَہْلِ الزَّوْرَائِ فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ أَتَرَوْنَنِی أُدْرِکُ أُصَلِّی ثَلَاثًا ، یُرِیْدُ الْوِتْرَ وَرَکْعَتَی الْفَجْرِ وَصَلَاۃَ الصُّبْحِ ، قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَالُوْا : نَعَمْ ، فَصَلَّی ، وَہَذَا فِیْ آخِرِ وَقْتِ الْفَجْرِ فَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ الْوِتْرُ عِنْدَہُ یُجْزِئُ فِیْہِ أَقَلُّ مِنْ ثَلَاثٍ ، ثُمَّ یُصَلِّیْہِ حِیْنَئِذٍ ثَلَاثًا مَعَ مَا یَخَافُ مِنْ فَوْتِ الْفَجْرِ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی صِحَّۃِ مَا صَرَفْنَا إِلَیْہِ مَعَانِیْ أَحَادِیْثِہِ فِی الْوِتْرِ أَنَّہٗ ثَلَاثٌ .وَقَدْ رُوِیَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ فِی الْوِتْرِ أَیْضًا أَنَّہٗ ثَلَاثٌ ۔
١٦٨١ : ابن لہیعہ نے یزید کی سند سے ابو منصور سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ ایک رات مسور بن مخرمہ اور ابن عباس (رض) رات کی باتوں میں مصروف ہوئے کہ سرخی نکل آئی۔ پھر ابن عباس (رض) سو گئے۔ اہل زوراء کی (اذان کی) آوازوں سے بیدار ہوئے۔ پھر کہنے لگے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تین وتر اور دو رکعت سنت فجر اور نماز صبح پا سکوں گا اس سے پہلے کہ سورج طلوع ہو۔ تو لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پس انھوں نے نماز ادا کی اور یہ فجر کی نماز آخری وقت تھا۔ پس یہ بات ناممکن ہوئی کہ ان کے ہاں وتر تین سے کم درست ہوں۔ اور پھر اس دن فجر کا وقت تنگ ہونے کے باوجود تین ہی پڑھیں۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس معنی کی طرف ہم نے احادیث کا معنی لوٹایا ہے وہی صحیح ہے کہ وتر تین ہیں۔

1682

۱۶۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ ، عَنْ أَبِیْ إِِسْحَاقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: ( کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلَی ( أَلْہَاکُمْ التَّکَاثُرُ ) وَ ( إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ) وَ ( إِذَا زُلْزِلَتْ ) وَفِی الثَّانِیَۃِ ( وَالْعَصْرِ ) وَ ( إِذَا جَاء َ نَصْرُ اللّٰہِ ) وَ ( إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ ) وَفِیْ الثَّالِثَۃِ ( قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ ) وَ ( تَبَّتْ ) وَ ( قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَد ) ) .وَرَوَی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ
١٦٨٢ : حارث نے علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مفصل کی تین سورتوں سے وتر ادا فرمائے ‘ رکعت اولیٰ میں الھاکم التکاثر اور انا انزلنٰہ اور اذا زلزلت اور دوسری میں عصر ‘ نصر ‘ کوثر اور تیسری میں کافرون ‘ لہب ‘ اخلاص پڑھتے۔ (ترمذی فی الوتر روایت نمبر 460) حضرت عمران بن حصین (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔

1683

۱۶۸۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ الْحَجَّاجِ ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ( أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْوِتْرِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلَیْ بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّک الْأَعْلَی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ).وَرُوِیَ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٦٨٣ : حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ آپ وتروں اول رکعت سورة الاعلیٰ اور دوسری میں قل یا ایھا الکافرون اور تیسری میں سورة اخلاص پڑھتے تھے۔
حضرت زید بن خالد جھنی (رض) نے اس طرح کی روایت کی ہے۔

1684

۱۶۸۴ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسِ بْنِ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَہُ عَنْ ( زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : لَأَرْمُقَنَّ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَتَوَسَّدْتُ عَتَبَتَہُ أَوْ فُسْطَاطَہُ فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ ، وَہُمَا دُوْنَ اللَّتَیْنِ قَبْلَہُمَا ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ ، ہُمَا دُوْنَ اللَّتَیْنِ قَبْلَہُمَا ، ثُمَّ أَوْتَرَ ) ، فَذٰلِکَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .فَالْکَلَامُ فِیْ ہَذَا مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْمَا تَقَدَّمَہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ ، عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ
١٦٨٤ : یونس نے حضرت زید بن خالد (رض) سے نقل کیا کہ میں نے (اپنے دل میں کہا) کہ میں ضرور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کن اکھیوں سے دیکھوں گا۔ چنانچہ میں آپ چوکھٹ پر ٹیک لگائی یا خیمے سے ٹیک لگائی۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مختصر رکعات ادا فرمائیں ‘ پھر دو طویل خوب طویل خوب لمبی رکعات تین مرتبہ پڑھیں۔ پھر دو رکعت نماز ادا کیں جو ان دو پہلی سے کم تھیں ‘ پھر دو رکع ادا کیں ان سے بھی مختصر تھیں۔ پھر وتر ادا کیے یہ تیرہ رکعت بن گئیں۔ اس کے متعلق بحث ماقبل روایت کی طرح ہے۔
تخریج : (مسلم فی المسافرین ١٩٥‘ احمد ١٦٨٥ مسالک فی صلوۃ الیل ١٢‘ المسند ٥/١٩٣‘ ابوداؤد فی التطوع باب ٢٦، ١٣٦٦)
حضرت ابو امامہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح روایت کی ہے۔

1685

۱۶۸۵ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنْ أَبِیْ غَالِبٍ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ بِتِسْعٍ ، فَلَمَّا بَدَّنَ وَکَثُرَ لَحْمُہُ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ یَقْرَأُ فِیْہِمَا ( إِذَا زُلْزِلَتْ ) وَ ( قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ ) ) .فَقَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ ذَکَرَ شَفْعَہُ وَہُوَ التَّطَوُّعُ وَوِتْرَہُ ، فَجَعَلَ ذٰلِکَ کُلَّہُ وِتْرًا کَمَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ بَعْضِ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہٗ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ مِنْ فِعْلِہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی ہَذَا .
١٦٨٥ : سلیمان نے حضرت ابوامامہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو سے وتر بناتے۔ جب آپ کا بدن بھاری ہوگیا گوشت بڑھ گیا تو سات سے وتر بناتے اور دو رکعت بیٹھ کر ادا فرمائیں جن میں سورة زلزال اور کافرون کی تلاوت فرمائی۔ (احمد ٥/٢٦٩) اس میں ممکن ہے آپ کا شفعہ نفل اور وتر ہوں۔ پس انھوں نے ان تمام کو وتر کہا ان بعض روایات میں بھی جو پہلے مذکور ہوئیں۔ اور حضرت ابو امامہ (رض) کا فعل اس پر دلالت کرتا ہے۔

1686

۱۶۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانٍ عَنْ أَبِیْ غَالِبٍ أَنَّ أَبَا أُمَامَۃَ کَانَ یُوْتِرُ بِثَلَاثٍ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوِتْرَ عِنْدَ أَبِیْ أُمَامَۃَ ہُوَ مَا ذَکَرْنَا ، وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عِنْدَہُ کَذٰلِکَ ، وَقَدْ عَلِمَ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَہُ ، وَلَکِنْ مَا عَلِمَہُ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعْنَاہُ مَا صَرَفَنَا إِلَیْہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا۔
١٦٨٦ : ابن مرزوق نے نقل کیا کہ ابو امامہ تین وتر ادا کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢/٢٩٣) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی وتر ابو امامہ (رض) کے ہاں اتنے ہیں جو ہم نے ذکر کردیے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ یہ اسی طرح ہوں۔ اس لیے کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل تو اس کے خلاف معلوم ہوا۔ لیکن جو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل معلوم کیا ‘ اس کا معنی وہی ہے جس کی طرف ہم نے پھیرا اور موڑا ہے۔ واللہ اعلم

1687

۱۶۸۷ : قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ، فَلَمَّا کَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ).فَالْکَلَامُ فِیْ ہَذَا مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ أُمَامَۃَ أَیْضًا .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٦٨٧ : ابن خزیمہ نے ام الدردائ (رض) سے نقل کیا کہ تیرہ رکعت سے وتر بناتے جب آپ کمزور ہوگئے سات وتر بنانے لگے۔ (ابن ابی شیبہ ٢/٢٩٣‘ طبرانی کبیر ٢٣/٣٤٤) اس روایت کے متعلق کلام ابو امامہ والی روایت کی طرح ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت ام سلمیٰ (رض) نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔

1688

۱۶۸۸ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ بِخَمْسٍ وَبِسَبْعٍ لَا یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِسَلَامٍ وَلَا کَلَامٍ).فَقَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ ہَذَا قَبْلَ أَنْ یُحْکَمَ الْوِتْرُ فَکَانَ مَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ ، وَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ ، وَکَانَ إِنَّمَا یُرَادُ مِنْہُمْ أَنْ یُصَلُّوْا وِتْرًا لَا عَدَدَ لَہٗ مَعْلُومٌ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ أَیُّوبَ مَا یَدُلُّ عَلَی أَنَٔ ذٰلِکَ کَانَ کَذٰلِکَ .
١٦٨٨ : مقسم نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ یا سات کو وتر بناتے اور ان کے مابین سلام و کلام سے فاصلہ نہ کرتے۔ اس میں یہ کہنا ممکن ہے کہ وتروں کے تعداد لازم ہونے سے پہلی کی بات
ہو۔ اور جو چاہتا پانچ وتر پڑھتا اور جو چاہتا سات وتر پڑھتا اس وقت مقصود طاق عدد پورا کرنا ہوتا تھا اس کی تعداد معلوم نہ تھی۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے کہ یہ معاملہ اسی طرح تھا۔

1689

۱۶۸۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ عَنْ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ عَنْ أَبِیْ أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( أَوْتِرْ بِخَمْسٍ ، فَإِِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَبِثَلَاثٍ فَإِِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَبِوَاحِدَۃٍ، فَإِِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَأَوْمِئْ إِیْمَاء ً).
١٦٨٩ : یزید لیثی نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانچ وتر ادا کرو اگر اس کی طاقت نہیں تو تین اور اگر اس کی طاقت نہیں تو ایک پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اشارے سے پڑھو۔

1690

۱۶۹۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوبَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ ، فَحَسَنٌ ، وَمَنْ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ فَقَدْ أَحْسَنَ ، وَمَنْ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ فَحَسَنٌ ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَلْیُومِئْ إِیْمَاء ً).
١٦٩٠ : یزید لیثی (رح) نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ وتر حق ہیں ‘ پس جو چاہے پانچ پڑھے تو اچھا ہے اور جس نے تین پڑھے اس نے خوب کیا اور جس نے ایک وتر ادا کیا تو مناسب ہے اور جو طاقت نہ رکھے وہ اشارے سے پڑھے۔

1691

۱۶۹۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوبَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ ، وَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ ، وَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ).
١٦٩١ : یزید لیثی (رح) نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وتر حق و ثابت ہیں جو چاہے پانچ وتر پڑھے اور جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے وہ ایک وتر ادا کرے۔

1692

۱۶۹۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوبَ ، قَالَ : ( الْوِتْرُ حَقٌّ أَوْ وَاجِبٌ ، فَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ ، وَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ ، وَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ ، وَمَنْ شَاء َ أَوْتَرَ بِوَاحِدَۃٍ ، وَمَنْ غُلْبَ إِلٰی أَنْ یُومِئَ فَلْیُومِئْ).فَأَخْبَرَ فِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ کَانُوْا مُخَیَّرِیْنَ فِیْ أَنْ یُوْتِرُوْا بِمَا أَحَبُّوْا ، لَا وَقْتَ فِیْ ذٰلِکَ ، وَلَا عَدَدَ ، بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ مَا یُصَلُّوْنَ وِتْرًا .وَقَدْ أَجْمَعَتِ الْأُمَّۃُ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ وَأَوْتَرُوْا وِتْرًا لَا یَجُوزُ لِکُلِّ مَنْ أَوْتَرَ عِنْدَہُ تَرْکُ شَیْء ٍ مِنْہُ .فَدَلَّ إِجْمَاعُہُمْ عَلٰی نَسْخِ مَا قَدْ تَقَدَّمَہُ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَکُنْ لِیَجْمَعَہُمْ عَلَی ضَلَالٍ .وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَی عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٦٩٢ : یزید لیثی نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے نقل کیا کہ وتر حق یا واجب ہیں۔ پس جو چاہے سات پڑھے اور جو چاہے پانچ پڑھے اور جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے ایک پڑھے اور جس پر تکلیف کا غلبہ ہو تو اشارے سے ادا کرے۔ ان روایات میں اس بات کی اطلاع دی گئی ہے کہ صحابہ کرام کو وتروں کے سلسلہ میں تعداد کی پابندی نہ تھی جس قدر چاہیں پڑھ لیں۔ نہ وقت تھا نہ تعداد متعین تھی۔ البتہ ان کا طاق تعداد میں پڑھنا لازم تھا۔ اس بات پر آپ کے بعد امت کا اتفاق ہوگیا کہ وہ وتر پڑھیں اور جو وتر پڑھے تو اسے اس میں سے کسی چیز کا ترک جائز نہیں۔ اُمت کا اجماع اس اختیار کے نسخ کی دلیل ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔ عبدالرحمن بن ابزیٰ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح نقل کیا ہے۔

1693

۱۶۹۳ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ الْمُطَرِّفُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ ( صَلَّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوِتْرَ فَقَرَأَ فِی الْأُوْلَی : بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّک الْأَعْلَی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ : سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا ، یَمُدُّ صَوْتَہُ بِالثَّالِثَۃِ).
١٦٩٣ : حضرت عبدالرحمن بن ابزی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وتر ادا کیے۔ آپ نے پہلی رکعت میں سورة اعلیٰ اور دوسری میں الکافرون اور تیسری میں سورة اخلاص پڑھی۔ پس جب آپ فارغ ہوگئے تو آپ نے تین مرتبہ یہ کلمات سبحان الملک القدوس کہے اور تیسری مرتبہ میں آواز کو دراز کیا۔

1694

۱۶۹۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِِسْنَادِہٖ .
١٦٩٤ : حضرت زید (رح) نے اپنے اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت کیا ہے۔

1695

۱۶۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِِسْنَادِہٖ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : وَفِی الثَّانِیَۃِ ( قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ) یَعْنِی : ( قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ ) ، وَفِی الثَّالِثَۃِ : اللّٰہُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ .فَہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ بِثَلَاثٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ
١٦٩٥ : حضرت زید (رح) نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے البتہ اتنا فرق ہے کہ دوسری میں قل للذین کفروا یعنی الکافرون اور تیسری میں اللّٰہ الواحد یعنی قل ھو اللہ پڑھی ہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ وہ تین وتر پڑھتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے۔

1696

۱۶۹۶ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : ثَنَا عَمِّی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَالْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( : لَا تُوْتِرُوْا بِثَلَاثٍ ، وَأَوْتِرُوْا بِخَمْسٍ أَوْ سَبْعٍ وَلَا تَشَبَّہُوْا بِصَلَاۃِ الْمَغْرِبِ) .
١٦٩٦ : حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین کے ساتھ وتر نہ بناؤ بلکہ پانچ یا سات کے ساتھ وتر بناؤ اور نماز مغرب کی مشابہت مت کرو۔

1697

۱۶۹۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ حَدَّثَہُ ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، وَلَمْ یَرْفَعْہُ ، قَالَ لَا تُوْتِرُوْا بِثَلَاثِ رَکَعَاتٍ تَشَبَّہُوْا بِالْمَغْرِبِ ، وَلَکِنْ أَوْتِرُوْا بِخَمْسٍ أَوْ بِسَبْعٍ أَوْ بِتِسْعٍ أَوْ بِإِِحْدَی عَشْرَۃَ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَرِہَ إِفْرَادَ الْوِتْرِ حَتّٰی یَکُوْنَ مَعَہُ شَفْعٌ عَلَیْ مَا قَدْ رَوَیْنَا قَبْلَ ہَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ تَطَوُّعًا قَبْلَ الْوِتْرِ وَفِیْ ذٰلِکَ نَفْیُ الْوَاحِدَۃِ أَنْ تَکُوْنَ وِتْرًا .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلَیْ مَعْنَیْ مَا ذَکَرْنَا مِنْ حَدِیْثِ أَبِیْ أَیُّوبَ فِی التَّخْیِیْرِ إِلَّا أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہِ إِبَاحَۃُ الْوِتْرِ بِالْوَاحِدَۃِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِہَذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا ، عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْوِتْرَ أَکْثَرُ مِنْ رَکْعَۃٍ ، وَلَمْ یُرْوَ فِیْ الرَّکْعَۃِ شَیْئٌ وَتَأْوِیْلُہُ یَحْتَمِلُ مَا قَدْ شَرَحْنَاہُ وَبَیَّنَّاہُ فِیْ مَوْضِعِہِ مِنْ ہَذَا الْبَابِ ثُمَّ أَرَدْنَا أَنْ نَلْتَمِسَ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَوَجَدْنَا الْوِتْرَ لَا یَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ ، إِمَّا أَنْ یَکُوْنَ فَرْضًا أَوْ سُنَّۃً ، فَإِِنْ کَانَ فَرْضًا فَإِِنَّا لَمْ نَرَ شَیْئًا مِنْ الْفَرَائِضِ إِلَّا عَلَی ثَلَاثَۃِ أَوْجُہٍ ، فَمِنْہُ مَا ہُوَ رَکْعَتَانِ ، وَمِنْہُ مَا ہُوَ أَرْبَعٌ وَمِنْہُ مَا ہُوَ ثَلَاثٌ ، وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ الْوِتْرَ لَا تَکُوْنُ اثْنَتَیْنِ وَلَا أَرْبَعًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ ثَلَاثٌ .ہَذَا إِذَا کَانَ فَرْضًا ، وَأَمَّا إِذَا کَانَ سُنَّۃً ، فَإِِنَّا لَمْ نَجِدْ شَیْئًا مِنْ السُّنَنِ إِلَّا وَلَہٗ مِثْلٌ فِی الْفَرْضِ .مِنْ ذٰلِکَ الصَّلَاۃُ مِنْہَا تَطَوُّعٌ ، وَمِنْہَا فَرْضٌ .وَمِنْ ذٰلِکَ : الصَّدَقَاتُ ، لَہَا أَصْلٌ فِی الْفَرْضِ ، وَہُوَ الزَّکَاۃُ .وَمِنْ ذٰلِکَ : الصِّیَامُ ، وَلَہٗ أَصْلٌ فِی الْفَرْضِ ، وَہُوَ صِیَامُ شَہْرِ رَمَضَانَ وَمَا أَوْجَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْکَفَّارَاتِ .وَمِنْ ذٰلِکَ : الْحَجُّ ، یُتَطَوَّعُ بِہِ ، وَلَہٗ أَصْلٌ فِی الْفَرْضِ ، وَہُوَ حَجَّۃُ الْإِِسْلَامِ .وَمِنْ ذٰلِکَ الْعُمْرَۃُ ، یُتَطَوَّعُ بِہَا ، وَوُجُوبُہَا فِیْہِ اخْتِلَافٌ سَنُبَیِّنُہُ فِیْ مَوْضِعِہِ إِنْ شَاء َ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَمِنْ ذٰلِکَ الْعَتَاقُ ، لَہٗ أَصْلٌ فِی الْفَرْضِ ، وَہُوَ مَا فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْکِتَابِ مِنْ الْکَفَّارَاتِ وَالظِّہَارِ .فَکَانَتْ ہَذِہِ الْأَشْیَاء ُ کُلُّہَا یُتَطَوَّعُ بِہَا ، وَلَہَا أُصُوْلٌ فِی الْفَرْضِ ، فَلَمْ نَرَ شَیْئًا یُتَطَوَّعُ بِہِ ، إِلَّا وَلَہٗ أَصْلٌ فِی الْفَرْضِ .وَقَدْ رَأَیْنَا أَشْیَاء َ ہِیَ فَرْضٌ وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُتَطَوَّعَ بِہَا .مِنْہَا الصَّلَاۃُ عَلَی الْجِنَازَۃِ وَہِیَ فَرْضٌ وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُتَطَوَّعَ بِہَا وَلَا یَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْ مَیِّتٍ مَرَّتَیْنِ یَتَطَوَّعُ بِالْآخِرَۃِ مِنْہُمَا .فَکَانَ الْفَرْضُ قَدْ یَکُوْنُ فِیْ شَیْء ٍ وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُتَطَوَّعَ بِمِثْلِہِ .وَلَمْ نَرَ شَیْئًا یُتَطَوَّعُ بِہِ إِلَّا وَلَہٗ مِثْلٌ فِی الْفَرْضِ ، مِنْہُ أُخِذَ ، وَکَانَ الْوِتْرُ یُتَطَوَّعُ بِہِ ، فَلَمْ یَجُزْ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ إِلَّا وَلَہٗ مِثْلٌ فِی الْفَرْضِ ، وَالْفَرْضُ لَمْ نَجِدْ فِیْہِ وِتْرًا إِلَّا ثَلَاثًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثٌ .ہَذَا ہُوَ النَّظَرُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمْ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٦٩٧ : حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا تین رکعت سے وتر نہ بناؤ کہ جس سے نماز مغرب کی مشابہت اختیار کرو ‘ بلکہ پانچ یا سات یا نو یا گیارہ سے وتر بناؤ۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ انھوں نے اکیلے وتروں کا ادا کرنا مکروہ خیال کہ جب تاکہ اس کے ساتھ (دو یا چار) جفت نہ ہوں جیسا کہ ہم اس سے پہلے ابن عباس ‘ عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کر آئے وہ جفت رکعات وتر سے قبل نفل ہوں گے۔ اس میں ایک کے وتر ہونے کی نفی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا معنی حضرت ابو ایوب انصاری (رض) روایت کی طرح اختیار کا ہو۔ اگر اس ایک وتر کے پڑھنے کا جواز نہ ہوگا۔ ان آثار مرویہ سے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں یہ ثابت ہوگیا کہ وتروں کی تعداد ایک سے زائد ہے۔ اور ایک رکعت کے متعلق جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی چیز مروی نہیں۔ پس تاویل محتملہ ہے۔ جس کی وضاحت ہم نے کتاب ہٰذا میں اپنے موقع پر ذکر کردی۔ پھر ہم نے چاہا کہ نظر و فکر کے لحاظ سے وتروں کا حکم تلاش کریں وہ صورتیں بنیں گی یا تو وہ فرض ہوں گے یا سنت۔ پس اگر وہ فرض ہو تو ہم فرائض کی تین صورتیں پاتے ہیں (١) ایک صورت یہ ہے کہ وہ دو رکعت ہیں۔ (٢) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ چار رکعت ہیں۔ (٣) تیسری صورت یہ ہے کہ وہ تین رکعت ہوں۔ اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ وتر دو یا چار تو نہیں۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ تین ہیں یہ اس صورت میں ہے جبکہ وہ فرض ہوں۔ اور اگر وہ سنت ہوں ہم تمام سنتوں کی مثالیں نماز کے فرائض میں پاتے ہیں ان میں سے نمازیں ہیں ‘ بعض تو ان میں فرض ہیں اور بعض نفل ہیں۔ انم میں جو فرض ہیں وہ صدقات کے لیے کچھ فرضیت میں اصل ہیں اور وہ زکوۃ ہے۔ اور اسی میں سے روزے ہیں ان کے لیے بھی اصل فرض ہیں اور وہ رمضان المبارک کے روزے ہیں اور وہ روزے جن کو کفارات میں لازم کیا ہے۔ اور ان اصل فرائض میں سے حج ہے۔ اور وہ نفلی بھی ہوتا ہے۔ اصل فرض تو حج اسلام (زندگی میں ایک مرتبہ) ہے اور اس میں سے نفل عمرہ ہے۔ اور اس کے واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ عنقریب اسے بیان کیا جائے گا انشاء اللہ۔ اور اسی میں سے آزاد کرنا ہے۔ اور اس میں اصل تو فرض ہے اور وہ مختلف کفارات ہیں اور ظہار ہے۔ یہ جتنی چیزیں ہیں ان کی اصل فرض اور ان کو نفلی طور پر بھی انجام دیا جاتا ہے۔ تو ہم کوئی چیز نوافل کی ایسی نہیں پاتے جس کی اصل فرض میں موجود نہ ہو۔ البتہ ہم بہت سی ایسی فرض اشیاء پاتے ہیں مگر ان کو نفل کے طور پر ادا کرنا درست نہیں مثلاً ان میں سے نماز جنازہ ہے۔ یہ ایسا فرض ہے کہ اس کو نفل کے طور پر ادا نہیں کرسکتے اور کسی آدمی کو کسی میت پر دو مرتبہ جنازہ درست نہیں کہ دوسری مرتبہ کو وہ نفل قرار دے لے۔ تو گویا فرائض ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن کی نفلی ادائیگی درست نہیں ہے اور نوافل میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی کہ جس کو نفلی طور پر ادا کیا جاسکتا ہو۔ مگر فرائض میں اس کی کوئی مثل نہ پائی جاتی ہو۔ اور وتروں کو بطور نفل ادا کیا جاتا ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ وہ اس طرح ہوں اور ان کی فرائض میں کوئی مثال نہ ہو۔ فرائض ہم طاق تعداد تین ہی پاتے ہیں۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وتر تین ہیں نظر کا یہی تقاضا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول یہی ہے۔

1698

۱۶۹۸ : وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٦٩٨ : صحابہ کرام (رض) سے اس سلسلے میں روایات آئی ہیں۔

1699

۱۶۹۹ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہُ ح .وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ ، قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِیْمَ الدَّارِیَّ أَنْ یَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً قَالَ : فَکَانَ الْقَارِئُ یَقْرَأُ بِالْمِئِیْنِ حَتّٰی یَعْتَمِدَ عَلَی الْعَصَا مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ ، وَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِیْ فُرُوعِ الْفَجْرِ .فَہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُمْ کَانُوْا یُوْتِرُوْنَ بِثَلَاثٍ لِأَنَّہٗ لَا یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنُوْا کَانُوْا یُصَلُّوْنَ شَفْعًا وَاحِدًا ثُمَّ یَنْصَرِفُوْنَ عَلَیْہِ حَتّٰی یَصِلُوْہُ بِشَفْعٍ آخَرَ۔
١٦٩٩ : یونس نے اپنے استاد کے ساتھ ساتب یزید نے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے ابی بن کعب اور تمیم داری (رض) کو گیارہ رکعت قیام اللیل کا حکم فرمایا۔ قاری سو سو آیات والی سورتیں تلاوت کرتے ‘ لوگ لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے کیونکہ قیام طویل ہوتا اور فجر قریب ہم گھروں کو لوٹتے۔ یہ روایت دلالت کر رہی ہے کہ وہ تین وتر پڑھتے تھے کیونکہ یہ تو درست نہیں کہ وہ ایک شفعہ پڑھتے پھر لوٹ کر اسے دوسرے شفعہ کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہوں۔

1700

۱۷۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمَانَ الْجُعْفِیُّ ، قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرٌو ، عَنْ ابْنِ أَبِیْ ہِلَالٍ ، عَنْ ابْنِ السَّبَّاقِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، قَالَ : دَفَنَّا أَبَا بَکْرٍ لَیْلًا ، فَقَالَ عُمَرُ إِنِّی لَمْ أُوْتِرْ ، فَقَامَ وَصَفَفْنَا وَرَاء َہُ ، فَصَلَّی بِنَا ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ ، لَمْ یُسَلِّمْ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ .
١٧٠٠ : ابن ابی داؤد نے مسور بن مخرمہ سے نقل کیا کہ ہم نے ابوبکر صدیق (رض) کو رات کے وقت دفن کیا تو عمر (رض) کہتنے لگے میں وتر نہیں پڑھ سکا ‘ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے ‘ ہم نے ان کے پیچھے صف بنائی۔ پس انھوں نے ہمیں تین رکعت پڑھائیں اور ان کے اختتام پر سلام پھیرا۔

1701

۱۷۰۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَلْدَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا الْعَالِیَۃِ عَنْ الْوِتْرِ ، فَقَالَ : عَلَّمَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ عَلَّمُوْنَا أَنَّ الْوِتْرَ مِثْلُ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ ، غَیْرَ أَنَّا نَقْرَأُ فِی الثَّالِثَۃِ ، فَہَذَا وِتْرُ اللَّیْلِ ، وَہَذَا وِتْرُ النَّہَارِ .
١٧٠١ : ابوبکرہ نے ابو خالد سے نقل کیا کہ میں نے ابو العالیہ (رح) سے وتر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا ہم نے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھا اور تم ہم سے سیکھ لو کہ وتر نماز مغرب کی طرح ہیں سوائے اس بات کے کہ مغرب کی تیسری میں ہم قرأت نہیں کرتے۔ پس یہ دن کے وتر ہیں اور وہ رات کے وتر ہیں (ان کی تیسری رکعت میں قرأت کرتے ہیں) ۔

1702

۱۷۰۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ، قَالَ : الْوِتْرُ ثَلَاثٌ ، کَوِتْرِ النَّہَارِ ، صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ .
١٧٠٢ : یزید نے ابن مسعود (رض) سے بیان کیا کہ وتر تین رکعت ہیں جیسا کہ دن کی طاق نماز مغرب ہے۔

1703

۱۷۰۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِِسْنَادِہٖ .
١٧٠٣ : ابن مرزوق نے مالک بن حارث (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1704

۱۷۰۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالُوْا : الْوِتْرُ ثَلَاثُ رَکَعَاتٍ ، وَکَانَ یُوْتِرُ بِثَلَاثِ رَکَعَاتٍ .
١٧٠٤ : حمید نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ وتر تین رکعت ہیں

1705

۱۷۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ صَلَّی بِیْ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْوِتْرَ أَنَا عَنْ یَمِیْنِہِ وَأُمُّ وَلَدِہٖ خَلْفَنَا ، ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ، لَمْ یُسَلِّمْ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ ، ظَنَنْتُ أَنَّہٗ یُرِیْدُ أَنْ یُعَلِّمَنِی .
١٧٠٥ : اور حضرت انس (رض) تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ ثابت کہتے ہیں کہ ہمیں انس (رض) وتر پڑھاتے ‘ میں ان کی دائیں جانب اور ان کی ام ولدہ ہمارے پیچھے تھی۔ انھوں نے تین رکعت ان کے آخر میں سلام پھیرا۔

1706

۱۷۰۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ نَافِعٍ وَالْمَقْبُرِیِّ ، سَمِعَا مُعَاذًا الْقَارِئَ یُسَلِّمُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ مِنْ الْوِتْرِ .
١٧٠٦ : میں نے گمان کیا کہ انھوں نے مجھے سکھانے کے لیے ایسا کیا۔ نافع اور مقبری نے معاذ القاری (رض) سے نقل کیا کہ وہ وتر کی دو رکعت پر سلام پھرتے تھے۔

1707

۱۷۰۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِیِّ ، قَالَ : کَانَ مُعَاذٌ یَقْرَأُ لِلنَّاسِ فِیْ رَمَضَانَ فَکَانَ یُوْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ ، یَفْصِلُ بَیْنَہَا وَبَیْنَ الثِّنْتَیْنِ بِالسَّلَامِ ، حَتّٰی یَسْمَعَ مَنْ خَلْفَہُ تَسْلِیْمَہُ .فَلَمَّا تُوُفِّیَ قَامَ لِلنَّاسِ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، فَأَوْتَرَ بِثَلَاثٍ ، لَمْ یُسَلِّمْ حَتّٰی فَرَغَ مِنْہُنَّ .فَقَالَ لَہٗ النَّاسُ : أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّۃِ صَاحِبِکَ ؟ فَقَالَ : لَا ، وَلَکِنْ إِنْ سَلَّمْتُ انْفَضَّ النَّاسُ .فَہَؤُلَائِ جَمِیْعًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوْا یُوْتِرُوْنَ بِثَلَاثٍ ، فَمِنْہُمْ مَنْ کَانَ یُسَلِّمُ فِی الْاِثْنَتَیْنِ وَمِنْہُمْ مَنْ کَانَ لَا یُسَلِّمُ .فَلَمَّا ثَبَتَ عَنْہُمْ أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثٌ ، نَظَرْنَا فِی حُکْمِ التَّسْلِیْمِ بَیْنَ الْاِثْنَتَیْنِ مِنْہُنَّ ، کَیْفَ ہُوَ ؟ فَرَأَیْنَا التَّسْلِیْمَ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ وَیَخْرُجُ الْمُسْلِمُ بِہِ مِنْہَا ، حَتّٰی یَکُوْنَ فِیْ غَیْرِ صَلَاۃٍ .وَقَدْ رَأَیْنَا مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ مِنْ الْفَرْضِ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُفْصَلَ بَعْضُہُ مِنْ بَعْضٍ بِسَلَامٍ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلَی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، الْوِتْرُ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُفْصَلَ بَعْضُہُ مِنْ بَعْضٍ بِسَلَامٍ .فَإِِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِِنَّہُ قَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ ، فَذَکَرَ۔
١٧٠٧ : حنش صنعانی کہتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) رمضان میں لوگوں کو قرآن سناتے وہ ایک وتر پڑھا کرتے وہ پہلی دو رکعتوں اور اس میں سلام سے فاصلہ کرتے یہاں تک کہ ان کے پیچھے لوگ سن لیتے۔ جب ان کی وفات ہوگئی زید بن ثابت (رض) ان کی جگہ کھڑے ہوئے وہ لوگوں کو وتر پڑھاتے اور ان کے مابین سلام سے فاصلہ نہ کرتے بلکہ فراغت پر سلام پھیرتے لوگوں نے کہا کیا تم نے اپنے ساتھی کے طریقہ کو ترک کردیا۔ انھوں نے کہا : نہیں لیکن اگر میں سلام پھروں تو لوگ بکھر جائیں گے۔ یہ تمام اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو تین وتر ادا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض دو پر سلام پھیرتے جبکہ دوسرے درمیان میں سلام نہ پھیرتے۔ پس جب ان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وتر تین ہیں تو اب ہم دو کے بعد سلام پھیرنے کے مسئلہ کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس کی صورت کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ سلام سے نماز منقطع ہوجاتی ہے اور سلام کرنے والا نماز سے نکل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نماز سے باہر ہوجاتا ہے۔ اور ہم نے غور سے دیکھا کہ فرائض کے سلسلہ میں اس پر اتفاق ہے کہ ان کے مابین سلام سے فاصلہ نہ ہونا چاہیے۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ وتر کا حکم یہی ہو۔ اور ان میں بھی سلام سے فاصلہ مناسب نہ ہو۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ بہت سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ وہ ایک وتر پڑھتے تھے۔ روایت ملاحظہ ہو ۔

1708

۱۷۰۸ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْخُزَاعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ : لَا یَغْلِبُنِی اللَّیْلَۃَ عَلَی الْقِیَامِ أَحَدٌ ، فَقُمْتُ أُصَلِّی فَوَجَدْتُ حِسَّ رَجُلٍ مِنْ خَلْفِ ظَہْرِی فَنَظَرْت فَإِِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، فَتَنَحَّیْت لَہٗ فَتَقَدَّمَ فَاسْتَفْتَحَ الْقُرْآنَ حَتّٰی خَتَمَ ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ فَقُلْتُ أَوْہَمَ الشَّیْخُ ، فَلَمَّا صَلَّی قُلْتُ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، إِنَّمَا صَلَّیْتَ رَکْعَۃً وَاحِدَۃً ، فَقَالَ : أَجَلْ ، ہِیَ وِتْرِی .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ عُثْمَانُ کَانَ یَفْصِلُ بَیْنَ شَفْعِہِ وَوِتْرِہِ فَیَکُوْنُ قَدْ صَلَّی شَفْعَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ أَوْتَرَ فِیْ وَقْتِ مَا رَآہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ .وَفِیْ إِنْکَارِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِعْلَ عُثْمَانَ دَلِیْلٌ عَلَی أَنَّ الْعَادَۃَ الَّتِیْ قَدْ کَانَ جَرَی عَلَیْہَا قَبْلَ ذٰلِکَ وَعَرَفَہَا عَلَی غَیْرِ مَا فَعَلَ عُثْمَانُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فَلَہٗ صُحْبَۃٌ .فَقَدْ دَخَلَ بِذٰلِکَ ہَذَا الْمَعْنَی فِی الْمَعْنَی الْأَوَّلِ .وَإِِنْ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ مُحْتَجٌّ بِمَا رُوِیَ عَنْ سَعْدٍ۔
١٧٠٨ : ابوبکرہ نے حضرت عبدالرحمن تیمی سے نقل کیا کہ میں نے اپنے طور فیصلہ کیا کہ آج رات کے قیام پر مجھ پر کوئی چیز غالب نہ آسکے گی۔ پس میں نماز پڑھنے لگا میں نے اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ محسوس کی ‘ تو میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عثمان بن عفان (رض) ہیں۔ میں نے ان کے لیے جگہ چھوڑ دی وہ آگے بڑھے اور قرآن مجید کو شروع کر کے مکمل کیا پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا ‘ میں نے کہا شیخ کو وہم ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا اے امیر المؤمنین تم نے ایک رکعت ادا کی ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا ہاں وہ میرے وتر ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ممکن ہے حضرت عثمان اپنے وتر اور شفعہ کے درمیان فاصلہ کرتے ہوں۔ پس انھوں نے اس سے پہلے شفعہ پڑھا ہوگا پھر جب اس وقت میں جب عبدالرحمن نے ان کو دیکھا تو انھوں نے اس کو طاق بنا لیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبدالرحمن کے حضرت عثمان (رض) کے عمل پر انکار سے یہ دلیل مل گئی کہ عام عادت تو اس سے پہلے ان کے ہاں معروف تھی وہ حضرت عثمان (رض) کے فعل سے مختلف تھی اور حضرت عبدالرحمن (رض) بھی صحابی ہیں۔ اس سے یہ مفہوم بھی پہلے معنی میں شامل ہوگیا۔ اگر کوئی معترض حضرت سعد (رض) کی روایت سے حجت و دلیل پکڑ لے۔ روایت یہ ہے۔

1709

۱۷۰۹ : فَإِِنَّہُ قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، حَدَّثَہُمْ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ : شَہِدَ عِنْدِی مِنْ شُیُبٍ مِنْ آلِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِیْ وَقَّاصٍ کَانَ یُوْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ .
١٧٠٩ : یونس نے اپنی سند سے ابن المسیب (رح) سے بیان کیا کہ میرے پاس آل سعد بن وقاص کے ایک بوڑھے نے گواہی دی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ایک وتر پڑھتے۔ (ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢/٢٩٢)

1710

۱۷۱۰ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : ثَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ۔
١٧١٠ : ایضا

1711

۱ ۱۷۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَاء ٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَمَۃَ قَالَ : أَمَّنَا سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ فِیْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ ، تَنَحَّی فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ ، فَصَلَّی رَکْعَۃً فَاتَّبَعْتُہُ فَأَخَذْتُ بِیَدِہِ فَقُلْتُ لَہٗ : یَا أَبَا إِِسْحَاقَ مَا ہَذِہِ الرَّکْعَۃُ ؟ فَقَالَ : وِتْرٌ أَنَامُ عَلَیْہِ ، قَالَ عَمْرٌو : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : کَانَ یُوْتِرُ بِرَکْعَۃٍ یَعْنِی سَعْدًا .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ سَعْدٌ فَعَلَ فِیْ ذٰلِکَ مَا احْتَمَلَہٗ مَا فَعَلَہٗ عُثْمَانُ فِیْمَا ذَکَرْنَا قَبْلَہٗ .فَإِِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ حَدِیْثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ مَا یَدُلُّ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ قَالَ : صَلَّی بِنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ تَنَحَّی فَصَلَّی رَکْعَۃً قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْاِنْصِرَافُ ہُوَ الْاِنْصِرَافُ إِلَیْ مَنْزِلِہِ وَقَدْ صَلَّی قَبْلَ ذٰلِکَ بَعْدَ انْصِرَافِہِ مِنْ صَلَاتِہِ .
١٧١١ : ابن خزیمہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن سلمہ سے بیان کیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے عشاء کی نماز میں ہماری امامت کرائی۔ پس جب اس سے فارغ ہوئے تو وہ مسجد کے ایک کونے میں الگ چلے گئے اور ایک رکعت ادا کی۔ پس میں ان کے پیچھے چلدیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا اے ابو اسحاق یہ رکعت کیسی ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا : یہ وتر ہیں جن کو پڑھ کر میں سوتا ہوں۔ عمرو کہنے لگے میں نے یہ مصعب بن سعد کے سامنے اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا سعد ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢/٢٩٢) ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ممکن ہے کہ وہ سعد (رض) نے بھی اسی طرح کیا ہو جو احتمال ہم نے اوپر حضرت عثمان (رض) کے متعلق نقل کیا ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ عمرو بن مرّہ کی روایت اس کے برعکس ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے۔ انھوں نے ہمیں نماز پڑھائی۔ پس جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک طرف ہٹ کر انھوں نے ایک رکعت ادا کی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ممکن ہے کہ اس لوٹنے سے گھر کی طرف لوٹنا مراد ہو۔ اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے نماز پڑھی ہو۔

1712

۱۷۱۲ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاء ٍ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ آلُ سَعْدٍ وَآلُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ یُسَلِّمُوْنَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ مِنْ الْوِتْرِ وَیُوْتِرُوْنَ بِرَکْعَۃٍ رَکْعَۃٍ .فَقَدْ بَیَّنَ الشَّعْبِیُّ فِیْ ہَذَا الْحَدِیْثِ مَذْہَبَ آلِ سَعْدٍ فِی الْوِتْرِ ، وَہُمْ الْمُقْتَدُوْنَ بِسَعْدٍ ، الْمُتَّبِعُوْنَ لِفِعْلِہِ ، وَإِِنَّ وِتْرَہُمْ الَّذِی کَانَ رَکْعَۃً رَکْعَۃً إِنَّمَا ہُوَ وِتْرٌ بَعْدَ صَلَاۃٍ ، قَدْ فَصَلُوْا بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا بِتَسْلِیْمٍ .فَقَدْ عَادَ ذٰلِکَ إِلَی قَوْلِ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلَی أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثٌ .
١٧١٢ : ابو امیہ نے اپنے اسناد سے نقل کیا کہ آل سعد اور آل عبداللہ بن عمر وتر کی دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت اور ملا کر وتر بناتے۔ تو اس روایت میں شعبی (رح) نے واضح کردیا کہ وتروں میں آل سعد (رض) کا طریقہ حضرت حضرت سعد (رض) کے قول و فعل کی اتباع تھی۔ ان کے وتر وہ ایک ایک رکعت تھی اور وہ رکعت ایسی ہوتی کہ اس سے پہلے ایک شفعہ پڑھ کر سلام پھیرتے۔ پس اس معنی کو اختیار کرنے سے اس کا وہی مفہوم ہوا جو کہتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہیں۔

1713

۱۷۱۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیْمَ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ عَابَ ذٰلِکَ عَلَی سَعْدٍ وَمُحَالٌ - عِنْدَنَا - أَنْ یَکُوْنَ عَبْدُ اللّٰہِ عَابَ ذٰلِکَ عَلَی سَعْدٍ مَعَ نُبْلِ سَعْدٍ وَعِلْمِہِ إِلَّا لِمَعْنًی قَدْ ثَبَتَ عِنْدَہُ ، وَہُوَ أَوْلَی مِنْ فِعْلِہِ ، وَلَوْ کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ إِنَّمَا خَالَفَہُ بِرَأْیِہِ لَمَا کَانَ رَأْیُہُ أَوْلَی مِنْ رَأْیِ سَعْدٍ ، وَلَمَا عَابَ ذٰلِکَ عَلَی سَعْدٍ ، إِذَا کَانَ مَا أَخَذَ ذٰلِکَ مِنْہُ ہُوَ الرَّأْیُ ، وَلَکِنْ الَّذِی عَلِمَہُ ابْن مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِمَّا خَالَفَ فِعْلَ سَعْدٍ فِیْ ذٰلِکَ ہُوَ غَیْرُ الرَّأْیِ .وَإِِنْ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
١٧١٣ : ابراہیم نے بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے حضرت سعد پر اس سلسلہ میں تنقید کی۔ اور ہمارے ہاں یہ بات ناممکن ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) حضرت سعد (رض) پر باوجود ان کے عمل و فضل کے تنقید بلاوجہ کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات ان کے ہاں ثابت شدہ تھی۔ اور وہ بات حضرت سعد (رض) کے فعل سے اولیٰ تھی۔ اگر ابن مسعود (رض) اپنے اجتہاد سے ان پر تنقید کرتے تو ان کی بات سعد (رض) کے فعل سے اولیٰ نہ ہوتی۔ جب انھوں نے سعد (رض) پر تنقید کی اس لیے کہ جس کو وہ اختیار کرنے والے تھے وہ اجتہاد تھا لیکن ابن مسعود (رض) جس بات کو سعد کے فعل کے خلاف جانتے تھے وہ صرف رائے نہ تھی (بلکہ ثابت شدہ عمل تھا) ۔ اگر کوئی اس روایت کو بطور دلیل پیش کرے۔

1714

۱۷۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ ، عَنْ أَبِیْ عُبَیْدِ اللّٰہِ ، قَالَ : رَأَیْت أَبَا الدَّرْدَائِ وَفَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ ، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَدْخُلُوْنَ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ فَیَتَنَحَّوْنَ إِلَیْ بَعْضِ السَّوَارِی فَیُوْتِرُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ بِرَکْعَۃٍ ثُمَّ یَدْخُلُوْنَ مَعَ النَّاسِ فِی الصَّلَاۃِ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُمْ بَعْدَمَا کَانُوْا صَلَّوْا فِیْ بُیُوْتِہِمْ أَشْفَاعًا کَثِیْرَۃً ؟ فَکَانَ ذٰلِکَ الَّذِی صَلَّوْا فِیْ بُیُوْتِہِمْ ہُوَ الشَّفْعَ وَمَا صَلَّوْا فِی الْمَسْجِدِ ہُوَ الْوِتْرَ فَیَعُوْدُ ذٰلِکَ أَیْضًا إِلَی الْوِتْرِ ثَلَاثٌ .
١٧١٤ : فہد نے اپنے اسناد سے ابو عبیداللہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابو الدردائ ‘ فضالہ بن عبید اور معاذ بن جبل (رض) کو دیکھا کہ وہ مسجد میں داخل ہو رہے ہیں اس وقت تمام لوگ صبح کی نماز میں مشغول تھے وہ بعض ستونوں کی طرف گئے اور ہر ایک نے ایک وتر ادا کیا ‘ پھر لوگوں کے ساتھ نماز صبح میں شامل ہوگئے “۔ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ عین ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے گھروں میں کئی شفعات پڑھے ہوں۔ تو وہ نماز جو انھوں نے گھروں میں ادا کی وہ شفع ہوا اور جو انھوں نے مسجد میں ادا کی وہ وتر ہو۔ پس یہ بھی تین وتر کی طرف لوٹ جائے گی۔

1715

۱۷۱۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہِ ، قَالَ : أَثْبَتَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ الْوِتْرَ بِالْمَدِیْنَۃِ بِقَوْلِ الْفُقَہَائِ ثَلَاثًا ، لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ .
١٧١٥ : ربیع نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو الزناد سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے مدینہ منورہ میں فقہاء کے کہنے کے مطابق تین وتر جاری کردیے جن کے آخر میں سلام پھیرتے۔

1716

۱۷۱۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ الْعَوَّامِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْمُرَادِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ الْأَیْلِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِیْ الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ السَّبْعَۃِ ، سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، وَعُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، وَأَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَخَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ، وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، فِیْ مَشْیَخَۃٍ سِوَاہُمْ أَہْلِ فِقْہٍ وَصَلَاحٍ وَفَضْلٍ وَرُبَّمَا اخْتَلَفُوْا فِی الشَّیْئِ فَأَخَذَ بِقَوْلِ أَکْثَرِہِمْ وَأَفْضَلِہِمْ رَأْیًا .فَکَانَ مِمَّا وَعَیْتُ عَنْہُمْ عَلٰی ہَذِہِ الصِّفَۃِ أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثٌ لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ فَہَذَا مَنْ ذَکَرْنَا مِنْ فُقَہَائِ الْمَدِیْنَۃِ وَعُلَمَائِہِمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثٌ لَا یُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ ، وَتَابَعَہُمْ عَلَی ذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ مُنْکِرٌ سِوَاہُمْ وَقَدْ عَلِمَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ مَا کَانَ مِنْ وِتْرِ سَعْدٍ ، فَأَفْتَی بِغَیْرِہِ ، وَرَآہُ أَوْلَی مِنْہُ وَقَدْ أَفْتَی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ بِذٰلِکَ أَیْضًا ، وَقَدْ رَوَی عَنْہُ الزُّہْرِیُّ وَابْنُہُ ہِشَامٌ فِی الْوِتْرِ مَا قَدْ تَقَدَّمَتْ رِوَایَتُنَا لَہٗ فِیْ ہَذَا الْبَابِ .فَہَذَا عِنْدَنَا مِمَّا لَا یَنْبَغِی خِلَافُہُ لِمَا قَدْ شَہِدَ لَہٗ مِنْ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ فِعْلِ أَصْحَابِہِ ، وَأَقْوَالِ أَکْثَرِہِمْ مِنْ بَعْدِہِ ثُمَّ اتَّفَقَ عَلَیْہِ تَابِعُوہُمْ .
١٧١٦ : ابو العوام محمد بن عبداللہ نے اپنے اسناد کے ساتھ ابو الزناد سے نقل کیا کہ مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ ابن المسیب ‘ عروہ ‘ قاسم ‘ ابوبکر بن عبدالرحمن ‘ خارجہ بن زید ‘ عبداللہ بن عبداللہ ‘ سلیمان بن یسار یہ اپنے علاوہ مشائح اور فضیلت و صلاحیت والے فقہاء کے سامنے مسائل بیان کرتے۔ بسا اوقات کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تو پھر ان میں سے اکثریت کے قول کو اور افضل ترین کے قول کو لیتے۔ پس میں نے ان سے اس سلسلہ میں جو یاد کیا وہ یہی تھا کہ وتر تین ہیں اور ان کے آخر میں سلام پھیرا جائے گا۔ پس یہ فقہاء و علماء مدینہ منورہ جن کا ہم نے تذکرہ کیا ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وتر تین ہیں۔ آخر میں سلام پھیرتے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے ان کی متابعت کی اور کسی انکار کرنے والے نے اس کا انکار نہیں کیا۔ ابن مسیب (رح) کو حضرت سعد (رض) کے وتروں کا علم تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ اور ان کے عمل سے اس کو اولیٰ گردانا۔ اور عروہ (رح) نے بھی اس کا فتویٰ دیا۔ اور ان سے زہری اور ان کے بیٹے ہشام نے بھی روایت کی جو اسی باب میں گزر چکی۔ یہ ہمارے ہاں ایسا عمل ہے کہ اس کی خلاف ورزی مناسب نہیں اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اس کی شاہد ہے۔ اور پھر اس عمل کو آپ کے بعد آپ کے اصحاب (رض) نے بھی اختیار کیا اور ان میں سے اکثریت کے اقوال بھی اس کی تائید میں ہیں پھر تابعین کرام کا اس پر اتفاق ہوگیا۔

1717

۱۷۱۷: بِمَا قَدْ حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ حَفْصَۃَ أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ أَوْ النِّدَائِ بِالصُّبْحِ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاۃُ .
١٧١٧: حضرت ابن عمر (رض) نے امّ المؤمنین حفصہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مؤذن صبح کی اذان دے کر فارغ ہوجاتا تو نماز کے قائم کرنے سے پہلے ہلکی پھلکی دو رکعت ادا فرماتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ فجر کی رکعات میں قراءت بالکل نہیں۔ دوسرے علماء کہتے ہیں اس کی دونوں رکعات میں سورة فاتحہ صرف پڑھیں گے۔ دونوں گروہوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ٨٧ بخاری باب التہجد باب ٢٨‘ ١؍١٥٦۔

1718

۱۷۱۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الْمَکِّیُّ، قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ حَازِمٍ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ۔فَذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّ السُّنَّۃَ فِیْہِمَا ہِیَ التَّخْفِیْفُ .وَمِمَّنْ قَالَ : إِنَّہُ یُقْرَأُ فِیْہِمَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ خَاصَّۃً، مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
١٧١٨: موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے ان کی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٣؍٢١٢۔
حاصل روایات : ان دو روایات میں خفیف قراءت کا تذکرہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءت کی ضرورت نہیں اگر پڑھنا چاہے تو فاتحہ الکتاب پڑھ لی جائے امام مالک (رح) کا قول یہی ہے۔

1719

۱۷۱۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : قَالَ مَالِکٌ : بِذٰلِکَ آخُذُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِیْ أَنْ أَقْرَأَ فِیْہِمَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ .
١٧١٩: ابن وہب نے بیان کیا کہ امام مالک (رح) نے فرمایا میں ذاتی طور پر اس روایت سے استدلال کرتا ہوں کہ دونوں رکعتوں میں فاتحہ الکتاب پڑھتا ہوں۔

1720

۱۷۲۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ حَتّٰی أَقُوْلَ ہَلْ قَرَأَ فِیْہِمَا بِأُمِّ الْکِتَابِ) ؟
١٧٢٠: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی دو رکعتیں بہت خفیف پڑھتے یہاں تک کہ میں تعجب سے کہتی کیا ان دونوں میں آپ نے فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں ؟
تخریج : بخاری باب ٢٨‘ مسلم فی المسافرین روایت نمبر ٩٢۔

1721

۱۷۲۱: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ۔
١٧٢١: یوسف بن عدی کہتے ہیں ہمیں علی بن مسہر نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1722

۱۷۲۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ أَنَّ یَحْیَی بْنَ سَعِیْدٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ حَدَّثَہٗ عَنْ أُمِّہِ عَمْرَۃَ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ. ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
١٧٢٢: یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ محمد بن عبدالرحمن نے اپنے والد عمرہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا پھر اوپر والی روایت جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٤٩۔

1723

۱۷۲۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمَّتِیْ عَمْرَۃَ تُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ أَقُوْلُ یَقْرَأُ فِیْہِمَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ ھٰذَا خِلَافُ مَا فِیْ غَیْرِہِ مِنْ أَحَادِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا الَّتِیْ قَبْلَہُ لِأَنَّہٗ قَالَ : قَالَتْ أَقُوْلُ قَرَأَ فِیْہِمَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .فَفِیْ ھٰذَا تَثْبِیْتُ قِرَائَ تِہِ فِیْہِمَا فَذٰلِکَ حُجَّۃٌ عَلٰی مَنْ نَفَی الْقِرَائَ ۃَ مِنْہُمَا، وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ یَقْرَأُ فِیْہِمَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَغَیْرِہَا فَیُخَفِّفُ الْقِرَائَ ۃَ جِدًّا حَتّٰی تَقُوْلَ عَلٰی التَّعَجُّبِ مِنْ تَخْفِیْفِہِ " ہَلْ قَرَأَ فِیْہِمَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ؟" .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہَا مُنْقَطِعًا مَا فِیْہِ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَقْرَأُ فِیْہِمَا غَیْرَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ.
١٧٢٣: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فجر طلوع ہوجاتی تو دو ہلکی پھلکی رکعات پڑھتے جن میں فاتحہ الکتاب پڑھتے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں شعبہ کی یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں یہ کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا میں کہتی ہوں کہ آپ اس ان دو رکعات میں فاتحہ الکتاب پڑھتے تھے تو اس روایت میں دونوں رکعات میں قراءت کا ثبوت ملتا ہے۔ اس میں اس کے خلاف دلیل ہے جو قراءت کی مطلق نفی کرتے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ ان میں فاتحہ الکتاب بمع دوسری سورت پڑھتے ہو اور قراءت نہایت ہلکی پھلکی فرماتے ہوں یہاں تک کہ تخفیف پر تعجب کرنے والا کہتا گویا آپ نے قراءت ہی نہیں کی اور آپ سے منقطع روایت میں ثابت ہے کہ آپ ان دونوں میں سورة فاتحہ کے علاوہ بھی پڑھتے تھے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٩٣‘ مسند احمد ٦؍٤٠‘ ١٧٢‘ ١٨٦۔
حاصل روایات : ان تمام روایات کا ماحصل یہ ہے کہ کم از کم فاتحہ تو پڑھی جاتی تھی اور ان دو کے ہلکے پھلکے ہونے کی وجہ سے اگر اس طرح کہہ لیا جائے کہ کچھ نہیں پڑھا تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
یہ شعبہ والی روایت حضرت عائشہ (رض) کی دیگر روایات کے خلاف ہے اس میں فاتحہ الکتاب کا پڑھنا واضح طور پر ثابت ہے اور دیگر میں موجود نہیں ہے کہ فاتحہ بھی پڑھی یا نہیں۔
: ان روایات میں تو نفی قراءت کی کوئی دلیل نہیں بلکہ فاتحہ الکتاب اور اس کے علاوہ کا پڑھنا مراد ہوسکتا ہے تخفیف قراءت کو مبالغہ بطور تعجب کہہ دیا کہ آیا اس میں فاتحہ بھی پڑھی یا نہیں پڑھی اس کا یہ معنی کس طرح ثابت ہوگیا کہ بالکل قراءت نہیں اور ختم سورت کا انکار بھی نہیں نکلتا۔
مؤقف ثالث : کہ ان دونوں رکعتوں میں فاتحہ اور سورت سمیت قراءت کی جائے گی جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات ثابت کرتی ہیں۔

1724

۱۷۲۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخْفِیْ مَا یَقْرَأُ فِیْہِمَا وَذَکَرَتْ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) ) .فَقَدْ ثَبَتَ عَنْہُ بِحَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا الَّذِیْ رَوَاہُ شُعْبَۃُ قِرَائَ ۃُ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، وَبِحَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ ھٰذَا قِرَائَ ۃُ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ کَانَ یَفْعَلُ فِیْہِمَا مَا یَفْعَلُ فِیْ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ .ثُمَّ نَظَرْنَا ہَلْ رَوَیْ غَیْرُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا؟ .
١٧٢٤: محمد نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ (رض) فرمانے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں رکعتوں میں آہستہ قراءت فرماتے اور مجھے قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد یاد ہے۔ (کہ ان کو آپ پڑھتے) ۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٢٤٢۔
حاصل روایات : شعبہ کی روایت سے فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوا اور اس روایت سے قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد کا ثبوت ملا اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان دو رکعات میں اسی طرح کرتے تھے جیسا بقیہ نمازوں میں کرتے تھے۔ دیگر روایات ملاحظہ ہوں۔

1725

۱۷۲۵: فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ الْوَلِیْدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : (مَا أُحْصِیْ مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ وَالرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) ) .
١٧٢٥: ابو وائل نے عبداللہ سے بیان کیا کہ عبداللہ نے کہا کہ جو کچھ مجھے اس قراءت کے متعلق یاد ہے وہ میں نے فجر کی دو رکعتوں اور مغرب کے بعد تھے۔ دو رکعتوں کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے۔ وہ یہ سورتیں تھیں قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد ۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٠٢‘ نمبر ٤٣١۔

1726

۱۷۲۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ، قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ مُجَاہِدٍ ح .
١٧٢٦ : اسرائیل نے ابو اسحق سے اور انھوں نے مجاہد سے اس کی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1727

۱۷۲۷: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : (رَمَقْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَعِشْرِیْنَ مَرَّۃً أَوْ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ مَرَّۃً یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) ) .
١٧٢٧ : ابو اسحق نے مجاہد سے ‘ انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے اپنی کنکھیوں کے کنارہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چوبیس یا پچیس مرتبہ دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاشت کی دو رکعات اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں میں قتل یایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے تھے۔

1728

۱۷۲۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ح .
١٧٢٨: ربیع مؤذن نے اسد سے انھوں نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔

1729

۱۷۲۹: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُوَیْدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَا : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیْمِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : أَنَا سَعِیْدُ بْنُ یَسَارٍ أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ فِی الْأُوْلٰی مِنْہُمَا (قُوْلُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا) ، الْآیَۃَ وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ آمَنَّا بِاللّٰہِ وَاشْہَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ) .
١٧٢٩: سعید بن یسار نے بتلایا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی دو رکعتوں میں سے پہلی میں قولوا آمنا باللہ الآیہ اور دوسری میں قل آمنا باللہ واشہد بانا مسلمون پڑھا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ٩٩؍١٠٠

1730

۱۷۳۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُوْسٰی قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْغَیْثِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی السَّجْدَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، فِی السَّجْدَۃِ الْأُوْلٰی (قُوْلُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَی اِبْرَاہِیْمَ) الْآیَۃَ وَفِی السَّجْدَۃِ الثَّانِیَۃِ (رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ) ) .
١٧٣٠: ابوالغیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی دو رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا الایۃ اور دوسری رکعت میں ربنا آمنا بما انزلت پڑھا کرتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ روایت نمبر ١٢٦٠۔

1731

۱۷۳۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُوْسٰی بْنِ خَلَفِ ڑالْعَمِّیُّ، قَالَ .ثَنَاأَخِیْ خَلَفُ بْنُ مُوْسٰی عَنْ أَبِیْہِ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) ) " .
١٧٣١: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی دو رکعتوں میں قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے۔

1732

۱۷۳۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ یَحْیَی بْنِ جُنَادَۃَ الْبَغْدَادِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ : سَمِعْتُ طَلْحَۃَ بْنَ خِرَاشٍ یُحَدِّثُ عَنْ جَابِرٍ (أَنَّ رَجُلًا قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ فَقَرَأَ فِی الْأُوْلٰی (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) حَتَّی انْقَضَتْ السُّوْرَۃُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا عَبْدٌ آمَنَ بِرَبِّہِ ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ فِی الْآخِرَۃِ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) حَتَّی انْقَضَتْ السُّوْرَۃُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا عَبْدٌ عَرَفَ رَبَّہُ) قَالَ طَلْحَۃُ : فَأَنَا أَسْتَحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ ہَاتَیْنِ السُّوْرَتَیْنِ فِیْ ہَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ فِیْ بَعْضِہَا أَنَّہٗ قَرَأَ بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) وَفِیْ بَعْضِہَا أَنَّہٗ قَرَأَ بِغَیْرِ ذٰلِکَ وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ نَفْیُ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ مَعَ مَا قَرَأَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا وَصَفْنَا أَنَّ تَخْفِیْفَہُ ذٰلِکَ کَانَ تَخْفِیْفًا مَعَہُ قِرَائَ ۃٌ وَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مِنْ قِرَائَ تِہِ غَیْرَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ نَفْیُ قَوْلِ مَنْ کَرِہَ أَنْ یُقْرَأَ فِیْہِمَا غَیْرُ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَثَبَتَ أَنَّہُمَا کَسَائِرِ التَّطَوُّعِ وَأَنَّہٗ یَقْرَأُ فِیْہِمَا کَمَا یَقْرَأُ فِی التَّطَوُّعِ وَلَمْ نَجِدْ شَیْئًا مِنْ صَلَوَاتِ التَّطَوُّعِ لَا یَقْرَأُ فِیْہِ بِشَیْئٍ وَیَقْرَأُ فِیْہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ خَاصَّۃً .وَلَمْ نَجِدْ شَیْئًا مِنَ التَّطَوُّعِ کُرِہَ أَنْ یَمُدَّ فِیْہِ الْقِرَائَ ۃَ .بَلْ قَدْ اُسْتُحِبَّ طُوْلُ الْقُنُوْتِ، وَرُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
١٧٣٢: طلحہ بن حراش نے حضرت جابر سے بیان کیا کہ ایک آدمی اٹھا اور فجر کی دو رکعت ادا کی اور پہلی میں قل ایہا الکافرون پڑھی جب سورة مکمل ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ اپنے ربّ پر ایمان لایا ہے پھر اٹھا اور دوسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھی جب سورة ختم ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس بندے نے اپنے رب کو پہچانا طلحہ کہنے لگے میں ان دو سورتوں کا ان دو رکعتوں میں پڑھنا مستحب خیال کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور ابو بکرہ (رض) کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ اور تلاوت فرمائی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ آن میں اسی طرح کرتے جیسا دیگر تمام نمازوں میں قراءت کرتے تھے۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ کیا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے علاوہ سے بھی کوئی روایت اس سلسلہ میں آئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : بعض آثار میں قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد اور بعض میں دیگر آیات کا پڑھنا وارد ہے اور اس میں اس بات کی نفی نہیں کہ انھوں نے فاتحہ الکتاب اس سمیت پڑھی ہو جو کچھ کہ انھوں نے دوسری آیات سے پڑھا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے قراءت میں تخفیف کی اور فاتحہ کے علاوہ سورة یا آیات کے پڑھنے سے ان لوگوں کی بات کی نفی ہوگئی جو فاتحہ الکتاب کے علاوہ پڑھنے کے قائل نہیں پس اس سے ظاہر ہوا کہ یہ دوسرے نوافل کی طرح ہیں اور نوافل کی طرح ان میں قراءت کو طویل و قصیر کرسکتا ہے ہمیں تو کوئی ایسی نفلی نماز نہیں ملی جس میں کوئی قراءت نہ کی جائے صرف فاتحہ الکتاب پڑھی جائے اور نوافل میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتے جس میں قراءت دراز کرنا مکروہ ہو بلکہ طویل قراءت تو اس میں مستحب ہے جیسا کہ یہ روایات ثابت کر رہی ہیں۔

1733

۱۷۳۳: فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ مِہْرَانَ ح .
١٧٣٣: شجاع بن ولید کہتے ہیں کہ سلیمان بن مہران نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1734

۱۷۳۴: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ، أَتٰی رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَیُّ الصَّلَاۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : طُوْلُ الْقُنُوْتِ .
١٧٣٤: اعمش نے ابو سفیان سے ‘ انھوں نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور پوچھنے لگا کون سی نفل نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا طویل قیام والی۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٦٥۔

1735

۱۷۳۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الزُّبَیْرِ یُحَدِّثُ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : (أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ طُوْلُ الْقِیَامِ) .
١٧٣٥: سفیان نے کہا کہ میں نے ابوالزبیر کو حضرت جابر (رض) سے یہ روایت بیان کرتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افضل نماز طویل قیام والی ہے۔ تخریج : ترمذی فی المواقیت باب ١٦٨‘ نمبر ٣٨٧۔

1736

۱۷۳۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ طُوْلُ الْقِیَامِ) .
١٧٣٦: ابن جریج نے ابوالزبیر سے انھوں نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افضل نماز طویل قیام والی ہے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٦٤۔

1737

۱۷۳۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِیْ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَلِیٍّ الْأَزْدِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَبَشِیٍّ الْخَثْعَمِیِّ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَیُّ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : طُوْلُ الْقِیَامِ) .
١٧٣٧: عبید بن عمیر نے حضرت عبداللہ بن حبشی خثعمی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے تو آپ نے فرمایا طویل قیام والی۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ٢‘ نمبر ١٤٤٩۔

1738

۱۷۳۸: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ، قَالَ : ثَنَا سُوَیْدٌ أَبُوْ حَاتِمٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ اللَّیْثِیُّ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُّ الصَّلَاۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : طُوْلُ الْقُنُوْتِ ".وَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ابْنَ سِمَاعَۃَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ یَقُوْلُ : بِذٰلِکَ نَأْخُذُ وَہُوَ أَفْضَلُ عِنْدَنَا مِنْ کَثْرَۃِ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ مَعَ قِلَّۃِ طُوْلِ الْقِیَامِ، فَلَمَّا کَانَ ھٰذَا حُکْمَ التَّطَوُّعِ وَقَدْ جُعِلَتْ رَکْعَتَا الْفَجْرِ مِنْ أَشْرَفِ التَّطَوُّعِ وَأُکِّدِ أَمْرُہُمَا مَا لَمْ یُؤَکَّدْ أَمْرُ غَیْرِہِمَا مِنَ التَّطَوُّعِ .وَرُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمَا۔
١٧٣٨: عبداللہ بن عبید بن عمیر لیثی نے اپنے والد اور دادا سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کون سی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا طویل قیام والی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں میں نے ابن ابی عمران کو کہتے سنا کہ میں نے ابن سماعہ کو کہتے سنا کہ محمد بن الحسن کہا کرتے تھے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ہمارے ہاں یہ کثرت سجود رکوع سے جس میں قیام طویل نہ ہو افضل ہے جب یہ نوافل کا حکم ہے تو نماز فجر کی سنتیں تو افضل ترین نوافل سے ہیں جن کی اس قدر تاکید ہے جو اور کسی فل نماز کی نہیں ملتی۔ ان میں سے بعض آثار میں سورة کافرون اور اخلاص کا تذکرہ ہے اور بعض میں اس کے علاوہ آیات کا ذکر ہے اور ان میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ قرآن کا حصہ پڑھنے کی نفی نہیں ہے۔ پس اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ آپ کی یہ تخفیف ایسی تھی کہ جس ساتھ قراءت تھی اور ہم نے آپ کی قراءت سے فاتحہ کے ساتھ حصہ قرآن کا پڑھنا ثابت کردیا۔ پس اس نے ان لوگوں کا قول خود غلط ہوگیا جو صرف فاتحہ ہی پڑھتے ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ دو رکعت عام نوافل کی طرح ہیں اور ان میں اسی طرح مکمل قراءت ہے جیسا کہ دیگر نوافل میں ہوتی ہے۔ ہمیں کوئی ایسی نفلی نماز نہیں مل سکی کہ جس میں کوئی چیز نہ پڑھی جاتی ہو یا صرف فاتحہ الکتاب پڑھی جاتی ہو۔ البتہ طویل قراءت ان میں کراہت سے خالی نہیں۔ البتہ طویل قیام مستحب ہے اور یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

1739

۱۷۳۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ قُنْفُذٍ، عَنِ ابْنِ سِیْلَانَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَتْرُکُوْا رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ وَلَوْ طَرَدَتْکُمَ الْخَیْلُ) .
١٧٣٩: محمد بن زید بن قنفذ نے ابن سیلان سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فجر کی دو رکعتوں کو مت چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٢٥٨۔

1740

۱۷۴۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَطَائٌ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ عَلٰی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاہَدَۃً مِنْہُ عَلَی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ) .
١٧٤٠: عطاء نے عبید بن عمیر سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قدر فجر کی دو رکعتوں کا اہتمام فرماتے اور کسی نفل کا اس قدر اہتمام کرنے والے نہ تھے۔
تخریج : بخاری فی التہجد باب ٢٧‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٩٤۔

1741

۱۷۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٧٤١: ابن جریج نے عطاء سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1742

۱۷۴۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا کَانَتْ أَشْرَفَ التَّطَوُّعِ کَانَ أَوْلَیْ بِہِمَا أَنْ یُفْعَلَ فِیْہِمَا أَشْرَفُ مَا یُفْعَلُ فِی التَّطَوُّعِ .
١٧٤٢: سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے افضل ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جب یہ دو رکعات اعلیٰ ترین نوافل سے ہیں تو ان میں بدرجہ اولیٰ نوافل کا اعلیٰ طریق اختیار کرنا چاہیے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٩٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٩٠‘ نمبر ٤١٦۔
امام طحاوی (رح) کا نوٹ :
ان روایات سے فجر کی دو رکعت کا افضل النوافل ہونا ثابت ہوگیا تو اس میں افضل ترین عمل کرنا ہی افضل ہوگا۔ مزید روایات ملاحظہ ہوں۔

1743

۱۷۴۳: وَقَدْ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِیَادٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ رُبَّمَا قَرَأْتُ فِیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ حِزْبَیْنِ مِنَ الْقُرْآنِ فَبِھٰذَا نَأْخُذُ لَا بَأْسَ أَنْ یُطَالَ فِیْہِمَا الْقِرَائَ ۃُ؟ وَہِیَ عِنْدَنَا أَفْضَلُ مِنَ التَّقْصِیْرِ لِأَنَّ ذٰلِکَ مِنْ طُوْلِ الْقُنُوْتِ الَّذِیْ فَضَّلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّطَوُّعِ عَلٰی غَیْرِہٖ.وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، ح .
١٧٤٣: حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ (رح) کو فرماتے سنا کہ میں بسا اوقات فجر کی دو رکعتوں
میں دو پارے پڑھتا ہوں۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ان میں طویل قراءت کرنے میں کچھ حرج نہیں بلکہ یہ چھوٹی قراءت سے ہمارے نزدیک افضل ہے کیونکہ طویل قیام ہی وہ چیز ہے جس پر نوافل کی فضیلت کا دارومدار ہے اور ابراہیم (رح) سے بھی روایت آئی۔ ملاحظہ ہو۔
ہم احناف تو اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ان دونوں رکعتوں میں قراءت میں طوالت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ہمارے نزدیک یہ مختصر قراءت سے افضل ہے کیونکہ یہی وہ علت ہے جس کی بنیاد پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوافل کی فضیلت کا دارومدار رکھا ہے۔

1744

۱۷۴۴: وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ ڑالدَّسْتُوَائِیُّ، قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : اِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَلاَ صَلَاۃَ إِلَّا الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، قُلْتُ لِاِبْرَاہِیْمَ، أُطِیْلُ فِیْہِمَا الْقِرَائَ ۃَ؟ قَالَ : نَعَمْ إِنْ شِئْتَ .وَقَدْ رُوِیَتْ آثَارٌ عَمَّنْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقِرَائَ ۃِ فِیْہِمَا أَرَدْتُ بِذِکْرِہَا الْحُجَّۃَ عَلٰی مَنْ قَالَ : لَا قِرَائَ ۃَ فِیْہِمَا .فَمِنْ ذٰلِکَ
١٧٤٤: حماد نے ابراہیم سے نقل کیا کہ جب فجر طلوع ہوجائے تو دو رکعت فجر کے علاوہ کوئی نفل نماز نہیں میں نے ابراہیم سے پوچھا کیا میں ان میں قراءت کو طویل کروں تو فرمایا اگر پسند کرو تو طویل کرلو۔

1745

۱۷۴۵: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) .
١٧٤٥: ابراہیم نخعی (رح) نے کہا کہ ابن مسعود (رض) دو رکعتوں میں فجر کے بعد اور دو رکعتوں میں صبح سے پہلے قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے۔

1746

۱۷۴۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَصْحَابِہٖ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ۔
١٧٤٦: مغیرہ نے ابراہیم سے اور انھوں نے اپنے اساتذہ سے نقل کیا کہ وہ اسی طرح کیا کرتے تھے۔

1747

۱۷۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الْأَعْمَشُ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ أَنَّ أَصْحَابَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ .
١٧٤٧: اعمش نے ابراہیم سے نقل کیا کہ اصحاب ابن مسعود (رض) اسی طرح کیا کرتے تھے۔

1748

۱۷۴۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا وَائِلٍ قَرَأَ فِیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَبِآیَۃٍ .
١٧٤٨: سفیان نے علاء بن مسیب سے روایت کی ہے کہ ابو وائل نے فجر کی دونوں رکعتوں میں سورة فاتحہ مع دیگر آیات کے پڑھیں۔

1749

۱۷۴۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَفَہْدٌ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَعْفَرُ بْنُ رَبِیْعَۃَ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو یَقْرَأُ فِیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ لَا یَزِیْدُ مَعَہَا شَیْئًا
١٧٤٩: عقبہ بن مسلم نے عبدالرحمن بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کو سنا کہ وہ فجر کی دو رکعتوں میں امّ القرآن پڑھتے اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کا اضافہ نہ فرماتے تھے۔
اس روایت کو عدم قراءت کی تردید کے لیے پیش کیا گیا فقط اس سے ضم سورة پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
ان روایات سے آفتاب نیم روز کی طرح ثابت ہوگیا کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ سمیت قراءت بھی کی جائے گی جو قراءت کے مطلقاً قائل نہیں ان کے پاس بھی روایت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
ائمہ ثلاثہ اور تمام فقہاء کا متفقہ فیصلہ فجر کی دو رکعتوں میں حسب طبع مختصر یا طویل قراءت ہے واللہ اعلم۔ یہ باب نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے خود دلائل مانعین کے خلاف اس قدر مضبوط ہیں کہ کسی معاون دلیل کی حاجت نہیں۔

1750

۱۷۵۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ وَمَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : مَا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِیْ یَکُوْنُ عِنْدِی فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٥٠: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ جس دن بھی میرے گھر میں ہوتے تو عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٤‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٣٠١۔
خلاصہ الزام : عصر کے بعد دو رکعت نفل کو اہل ظواہر جائز قرار دیتے ہیں اور ائمہ اربعہ جمہور فقہاء امت اس کے قائل نہیں بلکہ مکروہ تحریمی قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
عصر کے بعد نفل پڑھنے درست ہیں اس کا ثبوت ان روایات سے واضح ہے۔

1751

۱۷۵۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا الشَّیْبَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : رَکْعَتَانِ لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَعُہُمَا سِرًّا وَلَا عَلَانِیَۃً، رَکْعَتَانِ قَبْلَ الصُّبْحِ، وَرَکْعَتَانِ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٥١: عبدالرحمن بن اسود نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ دو رکعتوں کو پوشیدہ اور سرعام کسی حالت میں بھی آپ ترک نہ فرماتے نمبر صبح سے پہلے دو رکعتیں اور عصر کے بعد دو رکعتیں۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٤‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٣٠٠۔

1752

۱۷۵۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٧٥٢: محمد بن عبداللہ بن نمیر کہتے ہیں کہ ہمیں حضص نے شیبانی سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
تخریج : عزاہ البدر الی ابن ابی شیبہ۔

1753

۱۷۵۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا ہِلَالُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَدَعُ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٥٣: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کے بعد والی دو رکعتوں کو ترک نہ فرماتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٥٢۔

1754

۱۷۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : وَاللّٰہِ مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّکْعَتَیْنِ عِنْدِیْ بَعْدَ الْعَصْرِ قَطُّ .
١٧٥٤: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ہاں عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی نہیں چھوڑیں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین روایت نمبر ٢٩٩‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٥١۔

1755

۱۷۵۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (مَا دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْتِیْ قَطُّ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ) .
١٧٥٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ میں کہتی ہوں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کے بعد جبھی آپ میرے گھر میں تشریف لاتے تو آپ دو رکعت نماز ادا فرماتے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٤۔

1756

۱۷۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الرِّجَالِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نَحْوَہٗ۔
١٧٥٦: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1757

۱۷۵۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْحَوْضِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ مُغِیْرَۃَ، عَنْ أُمِّ مُوْسٰی قَالَتْ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلْتُہَا عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَذَکَرَتْ عَنْہَا مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا .
١٧٥٧: مغیرہ نے ام موسیٰ سے نقل کیا کہ میں عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے اسی طرح بات ذکر فرمائی۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٠٩۔

1758

۱۷۵۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ صَلَاۃَ الْعَصْرِ ثُمَّ یُصَلِّیْ بَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ .
١٧٥٨: مقدام بن شریح نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز ادا فرماتے پھر اس کے بعد دو رکعت نماز ادا فرماتے۔
تخریج : مسند اسحٰق بن راہویہ۔ (نخب الافکار)

1759

۱۷۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعْدِ ڑ الْأَعْمٰی یُحَدِّثُ، عَنْ (رَجُلٍ یُقَالُ لَہٗ السَّائِبُ مَوْلَی الْقَارِئِیْنَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِ ڑ الْجُہَنِیِّ أَنَّہٗ رَآہُ رَکَعَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَکْعَتَیْنِ وَقَالَ : لَا أَدَعُہُمَا بَعْدَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْہِمَا .) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا وَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِأَنْ یُصَلِّیَ الرَّجُلُ بَعْدَ الْعَصْرِ رَکْعَتَیْنِ وَہُمَا مِنَ السُّنَّۃِ عِنْدَہُمْ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .فَخَالَفَہُمْ أَکْثَرُ الْعُلَمَائِ فِیْ ذٰلِکَ وَکَرِہُوہُمَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ۔
١٧٥٩: سائب مولی القارئین نے حضرت زید بن خالد الجہنی (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے زید کو عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا اور زید کہنے لگے میں ان کو اس وقت سے نہیں چھوڑتا جب سے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھتے دیکھا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے میں حرج نہیں بلکہ یہ ان کے ہاں سنت ہیں اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا۔ مگر علماء کی اکثریت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا یہ دو رکعت مکروہ ہیں اور انھوں نے یہ روایاتِ ذیل سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٥؍٢٢٨۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کو عصر کے بعد صرف پڑھنے کا ثبوت ہی نہیں بلکہ ان کی سنیت ثابت ہو رہی ہے پس ان کا انکار کیسے درست ہوسکتا ہے ؟
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
عصر کے بعد نوافل درست نہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہیں اس کی تائید مندرجہ ذیل روایات سے ہو رہی ہے یہ سابقہ روایات کا جواب بھی ہے اور مستقل دلیل بھی۔

1760

۱۷۶۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسَی الْعَبْسِیُّ، قَالَ : أَنَا طَلْحَۃُ بْنُ یَحْیٰی، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَرْسَلَ إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ یَسْأَلُہَا عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ رَکَعَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَتْ : نَعَمْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدِی رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقُلْتُ : أُمِرْتَ بِہِمَا؟ قَالَ : لَا، وَلٰـکِنِّیْ کُنْتُ أُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الظُّہْرِ فَشُغِلْتَ عَنْہُمَا فَصَلَّیْتُہُمَا الْآنَ .
١٧٦٠: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے ام سلمیٰ (رض) کی طرف پیغام بھیجا ان سے سوال کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے یا نہیں انھوں نے جواب دیا جی ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ہاں عصر کے بعد دو رکعتیں ادا فرمائیں تو میں نے گزارش کی کیا آپ کو ان دو رکعتوں کا حکم ملا ہے آپ نے فرمایا نہیں لیکن میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا آج مشغولیت کی وجہ سے رہ گئیں پس میں نے اب پڑھ لیں۔
تخریج : نسائی فی المواقیت باب ٣٣۔

1761

۱۷۶۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ أَبِیْ لَبِیْدٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ (أَنَّ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ، قَالَ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ لِکَثِیْرِ بْنِ الصَّلْتِ اذْہَبْ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَاسْأَلْہَا عَنْ رَکْعَتَیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ، قَالَ أَبُوْ سَلَمَۃَ : فَقُمْتُ مَعَہٗ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ : اذْہَبْ مَعَہٗ، فَجِئْنَاہَا فَسَأَلْنَاہَا فَقَالَتْ: لَا أَدْرِیْ سَلُوْا أُمَّ سَلَمَۃَ فَسَأَلْنَاہَا : فَقَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا کُنْتَ تُصَلِّی ہَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ؟ فَقَالَ : قَدِمَ عَلَیَّ وَفْدٌ مِنْ بَنِی تَمِیْمٍ أَوْ جَائَ تْنِی صَدَقَۃٌ فَشَغَلُوْنِیْ عَنْ رَکْعَتَیْنِ کُنْتُ أُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الظُّہْرِ وَہُمَا ہَاتَانِ) .
١٧٦١: ابو سلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے کثیر بن صلت کو منبر پر فرمایا تم حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں جاؤ اور ان سے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کے متعلق پوچھو جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھا کرتے تھے ابو سلمہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے عبداللہ بن الحارث کو کہا کہ تم بھی اس کے ساتھ جاؤ پس ہم ان کی خدمت میں پہنچے اور ان سے ان کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تم امّ سلمہ سے دریافت کرو۔ چنانچہ ہم نے ان سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں ایک دن تشریف لائے یہ عصر کے بعد کا وقت تھا آپ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ رکعتیں پہلے تو نہ پڑھتے تھے آپ نے فرمایا میرے پاس بنو تمیم کا وفد آگیا یا صدقہ آگیا پس انھوں نے ظہر کے بعد ان کے پڑھنے سے مجھے مشغول کردیا اور یہ وہ دونوں رکعتیں ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٠٧‘ نمبر ١١٥٩۔

1762

۱۷۶۲: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ الْفَضْلِ الْبَصَرِیُّ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ مُوْسَی الْقَطَّانُ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ کَثِیْرٍ، قَالَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ (أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَرْسَلَ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَسْأَلُہَا عَنْ السَّجْدَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَتْ : لَیْسَ عِنْدِی صَلَّاہُمَا وَلَکِنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا حَدَّثَتْنِیْ أَنَّہٗ صَلَّاہُمَا عِنْدَہَا فَأَرْسَلَ إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ : صَلَّاہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدِیْ لَمْ أَرَہُ صَلَّاہُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا سَجْدَتَانِ رَأَیْتُکَ صَلَّیْتَہُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ مَا صَلَّیْتَہُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ؟ فَقَالَ : ہُمَا سَجْدَتَانِ کُنْتُ أُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الظُّہْرِ فَقَدِمَ عَلَیَّ قَلَائِصُ مِنَ الصَّدَقَۃِ فَنَسِیْتُہُمَا حَتَّی صَلَّیْتُ الْعَصْرَ، ثُمَّ ذَکَرْتُہُمَا، فَکَرِہْتُ أَنْ أُصَلِّیَہُمَا فِی الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ یَرَوْنِیْ فَصَلَّیْتُہُمَا عِنْدَکِ) .
١٧٦٢: عبدالرحمن بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کی طرف پیغام بھیجا ان سے عصر کے بعد والی دو رکعتوں سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میرے ہاں آپ نے وہ دو رکعت نہیں پڑھیں لیکن امّ سلمہ نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ان کے ہاں پڑھا پس انھوں نے امّ سلمہ کی طرف پیغام بھیجا تو انھوں نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ہاں دو رکعت پڑھیں میں نے وہ دو رکعتیں اس سے پہلے اور بعد پڑھتے نہیں پایا اس پر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سوال کیا یہ کیا رکعتیں ہیں جن کو آپ نے پڑھا ہے اس سے پہلے اور بعد میں نے آپ کو پڑھتے نہ دیکھا تو آپ نے فرمایا یہ دو رکعت میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا میرے پاس صدقہ کی اونٹنیاں آئیں (قلائص جمع قلوص۔ جواں سال اونٹنی) (ان کی تقسیم میں مشغول ہو کر) میں پڑھنا بھول گیا یعنی پڑھنے سے رہ گئیں پھر ابھی مجھے یاد آئیں تو میں نے ان کو مسجد میں پڑھنا ناپسند کیا کہ لوگ مجھے دیکھیں (اور وہ پڑھنا شروع کردیں) پس میں نے تمہارے گھر میں ادا کیں۔

1763

۱۷۶۳: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ ذَکْوَانَ، عَنْ عَائِشَۃَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِیْ بَیْتِہَا رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ہَاتَانِ الرَّکْعَتَانِ؟ فَقَالَ : کُنْتُ أُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الظُّہْرِ فَجَائَ نِیْ مَالٌ فَشَغَلَنِیْ فَصَلَّیْتُہُمَا الْآنَ .
١٧٦٣: ذکوان نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے امّ سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے گھر میں دو رکعت نماز عصر کے بعد ادا فرمائی میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ دو رکعت کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا میں ان کو ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا پس میرے پاس مال آیا (اس کی تقسیم سے) مجھے مشغول کردیا (جس کی وجہ سے میں ادا نہ کرسکا) پس میں نے ان کو اب پڑھا ہے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٣۔

1764

۱۷۶۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرٍ أَنَّ کُرَیْبًا مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَدَّثَہٗ (أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَزْہَرَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَرْسَلُوْہُ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَقَالُوْا : أَقْرِئْہَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِیْعًا وَسَلْہَا عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَقُلْ إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّکِ تُصَلِّیْنَہُمَا وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْہُمَا .قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کُنْتُ أَضْرِبُ النَّاسَ مَعَ عُمَرَ عَلَیْہِمَا، قَالَ : کُرَیْبٌ فَدَخَلْتُ عَلَیْہَا فَبَلَّغْتُہَا مَا أَرْسَلُوْنِیْ بِہٖ، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَخَرَجْتُ إِلَیْہِمْ فَأَخْبَرْتُہُمْ بِقَوْلِہَا فَرَدُّوْنِیْ إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُوْنِیْ بِہٖ إِلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَیْ عَنْہُمَا، ثُمَّ رَأَیْتُہُ صَلَّاہُمَا، أَمَّا حِیْنَ صَلَّاہُمَا فَإِنَّہٗ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَیَّ وَعِنْدِیْ نِسْوَۃٌ مِنْ بَنِیْ حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَصَلَّاہُمَا فَأَرْسَلْتُ إِلَیْہِ الْجَارِیَۃَ فَقُلْتُ قُوْمِی إِلَی جَنْبِہٖ فَقُوْلِیْ تَقُوْلُ لَکَ أُمُّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لِمَ أَسْمَعُکَ تَنْہَیْ عَنْ ہَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ وَأَرَاک تُصَلِّیْہِمَا؟ فَإِنْ أَشَارَ بِیَدِہِ فَاسْتَأْخِرِیْ عَنْہُ فَفَعَلَتَ الْجَارِیَۃُ فَأَشَارَ بِیَدِہِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْہُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : یَا بِنْتَ أَبِیْ أُمَیَّۃَ سَأَلْتِ عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَإِنَّہُ أَتَانِیْ أُنَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ بِالْاِسْلَامِ مِنْ قَوْمٍ فَشَغَلُوْنِیْ عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ بَعْدَ الظُّہْرِ فَہُمَا ہَاتَانِ) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَوْ فِیْ بَعْضِہَا أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَمَّا سُئِلَتْ عَمَّا حُکِیَ عَنْہَا مِمَّا ذَکَرْنَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَأْتِیْہَا فِیْ بَیْتِہَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ أَضَافَتْ ذٰلِکَ إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَانْتَفَتْ بِذٰلِکَ الْآثَارُ الْأُوَلُ کُلُّہَا الْمَرْوِیَّۃُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَلَمَّا سُئِلَتْ عَنْ ذٰلِکَ أُمُّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَخْبَرَتْ أَنَّہَا قَدْ کَانَتْ سَمِعَتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَیْ عَنْہُمَا .وَوَافَقَہَا عَلٰی ذٰلِکَ ابْن عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَالْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْأَزْہَرِ إِلَّا أَنَّہُمْ ذَکَرُوْا ذٰلِکَ بَلَاغًا وَلَمْ یَذْکُرُوْہُ سَمَاعًا .وَوَافَقَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ حَکَوْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ
١٧٦٤: کریب مولیٰ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ابن عباس ‘ عبدالرحمن بن ازہر ‘ مسور بن مخرمہ (رض) نے مجھے حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجا کہ ان کو ہمارا سلام عرض کرو اور ان سے عصر کے بعد والی دو رکعتوں کے متعلق دریافت کرو اور ان سے کہو کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم یہ رکعتیں پڑھتی ہو اور ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے منع فرمایا ہے ابن عباس (رض) کہنے لگے میں تو لوگوں کو اس پر عمر (رض) کے ساتھ مل کر مارا کرتا تھا کریب کہتے ہیں میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں پہنچا اور میں نے وہ بات ان تک پہنچائی جس کی خاطر انھوں نے مجھے بھیجا تھا تو وہ کہنے لگیں تم امّ سلمہ (رض) سے دریافت کرو چنانچہ میں نکل کر ان کی خدمت میں پہنچا اور ان کو اس بات کی اطلاع دی تو انھوں نے مجھے امّ سلمہ (رض) کی طرف وہ پیغام دے کر بھیجا جو پیغام حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجتے وقت دیا تھا (میں ان کی خدمت میں پہنچا اور ان کا پیغام دیا) تو امّ سلمہ (رض) فرمانے لگیں میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ ان دو رکعتوں سے منع فرماتے تھے پھر میں نے دیکھا کہ آپ نے خود ان کو پڑھا ہے سنو ! جب ان کو پڑھا تو آپ نے عصر کی جماعت کرائی پھر ذرا دیر بعد میرے گھر تشریف لائے اور میرے ہاں قبیلہ انصار بنی حرام کی عورتیں بیٹھی تھیں تو آپ نے یہ دو رکعت ادا فرمائی ہیں میں نے آپ کی طرف لونڈی کو بھیجا اور اسے کہا آپ کے پہلو میں جا کر رک جاؤ اور عرض کرو آپ کی خدمت میں امّ سلمہ (رض) گزارش کرتی ہے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو سنتی تھی کہ آپ ان دو رکعتوں سے منع فرماتے ہیں اور اب میں آپ کو دیکھتی رہی ہوں کہ آپ ان کو خود ادا فرما رہے ہیں یہ کیوں ہے ؟ پس اگر آپ دست اقدس سے اشارہ فرما دیں تو پیچھے ہٹ جانا پس لونڈی نے اسی طرح کیا آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا چنانچہ لونڈی پیچھے ہٹ گئی جب آپ نماز مکمل کرچکے تو فرمایا اے ابو امیہ کی بیٹی (یعنی امّ سلمہ) تم نے عصر کے بعد والی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا ہے معاملہ یہ ہے کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے لوگ اسلام لانے کے لیے آئے تھے ان کی وجہ سے میں ظہر کے بعد والی دو رکعتوں سے میں مشغول ہو کر ادا نہ کرسکا یہ وہی دونوں رکعات ہیں۔
تخریج : بخاری فی السہو باب ٨‘ مسلم فی المسافرین روایت نمبر ٢٩٧۔
حاصل روایات : ان روایات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کے بعد دو رکعت والا واقعہ حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ امّ سلمہ (رض) کے ساتھ پیش آیا اور خود حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عصر کے بعد دو رکعت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں ادا نہیں فرمائیں اور اس کے متعلق استفسار کو امّ سلمہ (رض) کی طرف پھیر رہی ہیں امّ سلمہ (رض) صاف ممانعت کر رہی ہیں۔ اس سے صاف واضح ہوا کہ حضرت عائشہ (رض) سے متعلق فصل اول کی تمام روایات منسوخ ہیں اور ان روایات کے ہوتے ہوئے ساقط الاعتبار ہیں پس ان روایات سے عصر کے بعد کی دو رکعت پر استدلال درست نہیں نیز ابن عباس ‘ مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن زبیر (رض) کی بلاغیات فصل دوم کی روایات کی تائید کر رہی ہیں اور ان تمام صحابہ وتابعین کی تائید بھی فصل اول کی روایات کی تائید نہیں کرتیں۔
جواب نمبر 1: زید بن خالد جہنی (رض) کی روایت کا جواب یہ ہے کہ سنت کی قضا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات سے ہے پس اس سے سنت کی قضاء پر استدلال بھی درست نہیں۔
جواب نمبر 2: حضرت عائشہ (رض) کی روایات میں آپ کے عمل کا تذکرہ ہے جس میں خصوصیت کا قوی احتمال ہے نیز جب اس کے مقابلے میں ممانعت تصریح سے ثابت ہوگئی اور ان دو روایات کی تاویل بھی تصریح سے سامنے آگئی تو فریق اوّل کی پیش کردہ روایات پر عمل کی گنجائش نہ رہی واللہ اعلم۔ ان جوابات والی روایات کے بعد اب ہم فریق ثانی کے مثبت دلائل پیش کرتے ہیں۔

1765

۱۷۶۵: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِیْزِ ڑ الْأَیْلِیُّ، قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ، عَنْ عُقَیْلٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی حِزَامُ بْنُ دَرَّاجٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَبَّحَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَکْعَتَیْنِ، بِطَرِیْقِ مَکَّۃَ، فَدَعَاہُ عُمَرُ فَتَغَیَّظَ عَلَیْہِ وَقَالَ : وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَنْہَانَا عَنْہُمَا .
١٧٦٥: حرام بن وراج نے بتلایا کہ علی بن ابی طالب (رض) نے عصر کے بعد راہ مکہ میں دو رکعت نماز ادا کی تو ان کو عمر (رض) نے بلا کر ان پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہنے لگے اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ان سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ان آثار میں یا ان میں سے بعض میں مذکور ہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ان روایات کے متعلق پوچھا گیا جو ان سے بیان کی جاتی ہیں جو پہلی فصل ہم نقل کر آئے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے گھر میں عصر کے بعد جب تشریف لاتے تو اس میں دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ انھوں نے اس بات کی نسبت حضرت ام سلمہ (رض) کی طرف کی۔ اس سے وہ تمام منسوبہ آثار کی نفی ہوگئی جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی تھے ‘ اس لیے کہ جب حضرت اُم سلمہ (رض) سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتلایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی ممانعت سن رکھی تھی اور ان کی اس بات میں ابن عباس اور مسور بن مخرمہ ‘ عبدالرحمن بن ازہر (رض) نے موافقت کی۔ البتہ انھوں نے بطور بلاغ یہ روایات کی ہیں بطور سماع نہیں ‘ اور ایک جماعت صحابہ (رض) نے اس کی موافقت کی جنہوں نے اس بات کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کردیا۔
تخریج : بخاری ١؍٨٢‘ باب الصلاۃ بعدالفجر۔

1766

۱۷۶۶: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ الْعَتَّابِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : شَہِدَ عِنْدِی رِجَالٌ مَرْضِیُّوْنَ وَأَرْضَاہُمْ عِنْدِیْ عُمَرُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْفَجْرِ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ .
١٧٦٦: قتادہ نے ابوالعالیہ سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے ہاں میرے پسندیدہ لوگ آئے اور ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہستی حضرت عمر (رض) تھے اور وہ کہنے لگے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کے بعد نماز سے منع فرمایا جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوجائے اور عصر کے بعد (نفل نماز) سے منع فرمایا جب تک کہ سورج غروب نہ ہوجائے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣١‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٢٨٦۔

1767

۱۷۶۷: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : ثَنَا غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٧٦٧: ابوالعالیہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ بہت سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بیان کیا پھر اس کی مثل روایت بیان کی۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٨١۔

1768

۱۷۶۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ عَنْ قَتَادَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٧٦٨: مسلم بن ابراہیم نے کہا کہ ہمیں ابان نے قتادہ سے روایت نقل کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

1769

۱۷۶۹: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْکُوْفِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ح .
١٧٦٩: اسماعیل بن اسحاق کوفی نے ابراہیم سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1770

۱۷۷۰: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ رَکْعَتَیْنِ إِلَّا الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ .
١٧٧٠: عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے سوائے فجر و عصر کے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ ١٢٧٥۔

1771

۱۷۷۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرِ ڑالْأَنْصَارِیُّ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ صَلَاۃٍ بَعْدَ الصُّبْحِ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَعَنْ صَلَاۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ .
١٧٧١: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کے بعد طلوع آفتاب تک (نفل) نماز سے منع فرمایا ہے اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز سے منع فرمایا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٣١۔

1772

۱۷۷۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِیْنَارٍ، قَالَ : ثَنَا سَعْدُ بْنُ أَوْسٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مِصْدَعٌ أَبُوْ یَحْیٰی، قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَبَیْنِیْ وَبَیْنَہَا سِتْرٌ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یُصَلِّیْ صَلَاۃً إِلَّا تَبِعَہَا رَکْعَتَیْنِ غَیْرَ الْعَصْرِ وَالْغَدَاۃِ، فَإِنَّہٗ کَانَ یَجْعَلُ الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَہُمَا) .
١٧٧٢: مصدع ابو یحییٰ نے بیان کیا کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا جبکہ میرے اور ان کے درمیان پردہ لٹکا تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہر نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے سوائے فجر اور عصر کے پس آپ وہ دو رکعت ان سے پہلے ادا کرلیا کرتے تھے۔

1773

۱۷۷۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ مُعَاذِ ابْنِ عَفْرَائَ أَنَّہٗ طَافَ بَعْدَ الْعَصْرِ أَوْ بَعْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ فَلَمْ یُصَلِّ، فَسُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: نَہَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاۃٍ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَعَنْ صَلَاۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ .
١٧٧٣: نصر بن عبدالرحمن نے معاذ بن عفراء سے نقل کیا کہ حضرت معاذ (رض) نے عصر کے بعد طواف کیا یا نماز صبح کے بعد طواف کیا مگر طواف کی نماز نہ پڑھی پس اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز سے منع فرمایا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٣١۔

1774

۱۷۷۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ ڑالنَّہْشَلِیُّ، عَنْ عَطِیَّۃَ الْعَوْفِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ کَمَا ذَکَرَہُ مُعَاذُ ابْنُ عَفْرَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٧٧٤: عطیہ عوفی نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ان دونوں نمازوں کے بعد نماز سے منع فرمایا جیسا کہ معاذ بن عفرائ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔
تخریج : مسندالطیاسی ١؍١٧٠‘ بخاری فی المواقیت باب ٣٢‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٢٨٨۔

1775

۱۷۷۵: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٧٧٥: ابو نضرہ نے اب سعید سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : مسند ابی حنیفہ ١؍١٦٣۔

1776

۱۷۷۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَطَائِ ابْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ .عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٧٧٦: عطاء بن یزید لیثی نے ابو سعید سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍٨٢‘ مسلم ١؍٢٧٥۔

1777

۱۷۷۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیٰی، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٧٧٧: عمرو بن یحییٰ نے یحییٰ سے انھوں نے ابو سعید خدری سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٩٦۔

1778

۱۷۷۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیْمِ الْبَرْقِیِّ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ۔
١٧٧٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٧٣‘ مسلم فی المسافرین ٢٨٩۔

1779

۱۷۷۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ الضُّبَعِیِّ، قَالَ : ثَنَا حُمْرَانُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ : خَطَبَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَتُصَلُّوْنَ صَلَاۃً قَدْ صَحِبْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَأَیْنَاہُ یُصَلِّیْہَا، وَلَقَدْ نَہٰی عَنْہَا، یَعْنِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٧٩: حمران بن ابان کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے خطبہ دیا اور کہا اے لوگو ! تم ایک نماز پڑھتے ہو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اختیار کی مگر ہم نے وہ نماز آپ کو پڑھتے نہیں دیکھا تحقیق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے یعنی عصر کے بعد دو رکعت۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٢۔

1780

۱۷۸۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ، عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ) .فَقَدْ جَائَ تَ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرَۃً بِالنَّہْیِ عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَعَمِلَ بِذٰلِکَ أَصْحَابُہٗ مِنْ بَعْدِہٖ، فَلاَ یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یُخَالِفَ ذٰلِکَ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ ذٰلِکَ مَا
١٧٨٠: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز (نفل) سے منع فرمایا ہے۔ عصر کے بعد غروب آفتاب تک نفل نماز کی ممانعت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے متواتر آثار وارد ہوتے ہیں۔ پس کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان روایاتِ صحابہ کرام کی مخالفت کرے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٢٨٥۔
حاصل روایات : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر آثار کے ساتھ عصر کے بعد نماز (نفل) کی ممانعت منقول ہے جیسا کہ ان روایات میں مذکور ہوا پس ہرگز ہرگز اس کی مخالفت درست نہیں۔ مزید آثار صحابہ (رض) ملاحظہ ہوں۔

1781

۱۷۸۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ أَنَّہٗ رَأَیْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَضْرِبُ الْمُنْکَدِرَ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٨١: سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ منکدر کو عصر کے بعد نماز (نقل) پڑھنے پر مار رہے ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٥٠‘ ٣٥١‘ موطا مالک ١؍٧٧۔

1782

۱۷۸۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٧٨٢: عقیل نے ابن شہاب سے نقل کیا اور انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : تخریج ابن ابی شیبہ ٢؍١٣٢‘ عبدالرزاق ٢؍٤٢٩۔

1783

۱۷۸۳: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ ڑالْقَطَّانُ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَکْرَہُ الصَّلَاۃَ بَعْدَ الْعَصْرِ وَأَنَا أَکْرَہُ مَا کَرِہَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
١٧٨٣: ابو وائل نے عبداللہ سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) عصر کے بعد نماز سے منع کرتے اور میں بھی اسی چیز کو ناپسند کرتا ہوں جس کو حضرت عمر (رض) ناپسند کرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٥٠۔

1784

۱۷۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٧٨٤: ابو عوانہ نے سلیمان سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٣٥٠۔

1785

۱۷۸۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : رَأَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَضْرِبُ الرَّجُلَ اِذَا رَآہُ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ مِنْ صَلَاتِہٖ .
١٧٨٥: جبلہ بن سحیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ جب کسی آدمی کو عصر کے بعد نماز پڑھتا دیکھتے تو اس وقت تک مارتے رہتے یہاں تک کہ وہ نماز چھوڑ دیتا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٤٩۔

1786

۱۷۸۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ جَمْرَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَقَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَضْرِبُ الرَّجُلَ اِذَا رَآہُ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٨٦: ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے عصر کے بعد نماز کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ جب وہ کسی آدمی کو عصر کے بعد نماز پڑھتا دیکھتے تو اس کو مارتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٥٠۔

1787

۱۷۸۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ إِیَادِ بْنِ لَقِیْطٍ عَنْ إِیَادِ بْنِ لَقِیْطٍ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : بَعَثَنِیْ سَلْمَانُ بْنُ رَبِیْعَۃَ بَرِیْدًا إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَاجَۃٍ لَہٗ فَقَدِمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ لِیْ : لَا تُصَلُّوْا بَعْدَ الْعَصْرِ، فَإِنِّیْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَتْرُکُوْہَا إِلَیْ غَیْرِہَا .
١٧٨٧: ایاد بن لقیط نے حضرت براء بن عازب (رض) سے نقل کیا کہ مجھے سلیمان بن ربیعہ نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں خط دے کر بھیجا جو کسی ضرورت کے سلسلہ میں تھا میں ان کی خدمت میں آیا تو مجھے فرمایا عصر کے بعد نماز مت پڑھا کرو مجھے خدشہ ہوگیا ہے کہ کہیں اس کو تم دوسروں کے لیے نہ چھوڑ جاؤ۔

1788

۱۷۸۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : أَنْبَأَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : فَاتَتْنِیْ رَکْعَتَانِ مِنَ الْعَصْرِ فَقُمْتُ أَقْضِیْہِمَا، وَجَائَ إِلَیَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمَعَہُ الدِّرَّۃُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ، قَالَ : مَا ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ؟ فَقُلْتُ : فَاتَتْنِیْ رَکْعَتَانِ فَقُمْتُ أَقْضِیْہِمَا، فَقَالَ : ظَنَنْتُکَ تُصَلِّیْ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَلَوْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ، لَفَعَلْتُ بِکَ وَفَعَلْتُ .
١٧٨٨: عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد رافع سے سنا کہ مجھ سے عصر سے پہلی دو رکعت فوت ہوگئیں میں ان کو پورا کرنے کھڑا ہوا تو عمر (رض) آگئے اور ان کے پاس درہ تھا جب میں نے سلام پھیرا تو انھوں نے پوچھا یہ کیا نماز ہے جس کو تو ادا کررہا تھا ؟ میں نے کہا یہ میری پہلی رہی ہوئی رکعتیں تھیں جن کو میں قضاء کررہا تھا کہنے لگے میں نے خیال کیا کہ تو عصر کے بعد نماز پڑھ رہا ہے اگر تو ایسا کرتا تو میں درے سے تیری مرمت کرتا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٥٠۔

1789

۱۷۸۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْہِ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٧٨٩: عبیداللہ بن رافع نے اپنے والد سے نقل کیا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1790

۱۷۹۰: وحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ أَنَّہٗ قَالَ: أَمَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ أَضْرِبَ مَنْ کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْعَصْرِ الرَّکْعَتَیْنِ بِالدِّرَّۃِ .
١٧٩٠: عمر بن عبدالملک بن مغیرہ بن نوفل نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حکم دیا کہ جس کو عصر کے بعد نماز پڑھتا دیکھوں اس کو درے سے ماروں۔
تخریج : ثقات ابن حبان ٧؍١٧٠۔

1791

۱۷۹۱: حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا سَعْدُ بْنُ مَسْعُوْدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ عَنِ الْأَشْتَرِ، قَالَ : کَانَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ یَضْرِبُ النَّاسَ عَلَی الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ .
١٧٩١: عبدالرحمن بن یزید نے اشتر سے نقل کیا کہ خالد بن الولید (رض) عصر کے بعد نماز پڑھنے والوں کو درے مارتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٣٢۔

1792

۱۷۹۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَامِرُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنْ طَاوٗسٍ، أَنَّہٗ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَنَہَاہُ، وَقَالَ : (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَکُوْنَ لَہُمَ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ) الْآیَۃَ .فَہَؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَوْنَ عَنْہُمَا، وَیَضْرِبُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَیْہِمَا بِحَضْرَۃِ سَائِرِ أَصْحَابِہٖ عَلٰی قُرْبِ عَہْدِہِمْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ أَخْبَرَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ نَہٰی عَنْہُمَا ثُمَّ صَلَّاہُمَا بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَّا تَرَکَہُمَا بَعْدَ الظُّہْرِ .فَھٰکَذَا أَقُوْلُ : یُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ مَنْ تَرَکَہُمَا بَعْدَ الظُّہْرِ، وَلَا یُصَلِّیْ أَحَدٌ بَعْدَ الْعَصْرِ شَیْئًا مِنَ التَّطَوُّعِ غَیْرَہُمَا .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا صَلَّاہُمَا حِیْنَئِذٍ قَدْ نَہٰی عَنْہُمَا أَنْ یَقْضِیَہُمَا أَحَدٌ۔
١٧٩٢: طاؤس کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) سے عصر کی نماز کے بعد دو رکعت کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے منع فرمایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَکُوْنَ لَہُمَ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ } [الاحزاب : ٣٦] یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ہیں جو ان نوافل سے روکتے ہیں اور حضرت عمر فاروق (رض) ان کی موجودگی میں عہد نبوت کے قرب کے باوجود ان کی پٹائی کرتے ہیں اور کوئی اس کا انکار نہیں کرتا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ حضرت اُم سلمہ (رض) نے تو یہ خبر دی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اس سے روکا ہے۔ پھر ظہر کے بعد رہ جانے والے نوافل کو اس کے بعد ادا کیا۔ اسی طرح میں یہ کہتا ہوں کہ عصر کے بعد وہ شخص پڑھے جو ظہر کے بعد نوافل چھوڑنے والا ہو۔ البتہ کوئی شخص عصر کے بعد نوافل میں سے کوئی چیز نہ پڑھے۔ اس سے کہا جائے گا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان رکعات کو ادا فرمایا تو اسی وقت ان کی قضاء سے بھی منع فرما دیا۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٦٣٥‘ باب النہی عن الصلاۃ۔
حاصل آثار صحابہ (رض) :
ان روایات سے صحابہ کرام (رض) کا طرز عمل واضح ہوگیا کہ عمر (رض) اور خالد بن ولید ‘ ابو سعید خدری (رض) عصر کے بعد (نوافل) نماز پڑھنے والے کو درے لگاتے اور یہ دیگر صحابہ کرام اور تابعین کی موجودگی میں درے لگاتے کسی کو انکار کی مجال نہ تھی۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہائی قرب کا زمانہ ہے اتنا جلد تو وہ احکام کو بھول نہیں گئے پس ثابت ہوگیا کہ عصر کے بعد نفل نماز نہیں ہے۔
اس پر صحابہ کرام (رض) کا اجماع تھا کہ عصر کے بعد نماز نفل نہیں۔
اشکال : حضرت امّ سلمہ (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ آپ نے ظہر کے بعد والی رکعات کو چھوڑ دیا پھر ان کو عصر کے بعد پڑھا آپ نے ان کو چھوڑا ہی کیوں تھا ؟ کیا پھر ہمارے لیے بھی ظہر کی چھوڑی گئی رکعات کو عصر کے بعد ادا کرنا درست ہوگا جبکہ عصر کے بعد نوافل کی ممانعت ہے۔
جواب : اس کو کہا جائے گا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو ادا کیا تو قضاء سے آئندہ منع فرمایا دیا جیسا کہ اس روایت میں وارد ہے۔

1793

۱۷۹۳: أَنَّ عَلِیَّ بْنَ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ ذَکْوَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ بَیْتِیْ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : صَلَّیْتَ صَلَاۃً لَمْ تَکُنْ تُصَلِّیْہَا، قَالَ : قَدِمَ عَلَیَّ مَالٌ فَشَغَلَنِیْ عَنْ رَکْعَتَیْنِ کُنْتُ أُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الظُّہْرِ فَصَلَّیْتُہُمَا الْآنَ .قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَفَنَقْضِیْہِمَا اِذَا فَاتَتَا، قَالَ : لَا) .فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدًا أَنْ یُصَلِّیَہُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ قَضَائً عَمَّا کَانَ یُصَلِّیْہِ بَعْدَ الظُّہْرِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی، أَنَّ حُکْمَ غَیْرِہِ فِیْہِمَا، اِذَا فَاتَتَاہُ خِلَافُ حُکْمِہِ، فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَہُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، وَلَا أَنْ یَتَطَوَّعَ بَعْدَ الْعَصْرِ أَصْلًا .وَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا، وَذٰلِکَ أَنَّ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الظُّہْرِ لَیْسَتَا فَرْضًا، فَإِذَا تُرِکَتَا حَتّٰی یُصَلِّیَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ، فَإِنْ صُلِّیَتَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَإِنَّمَا تَطَوَّعَ بِہِمَا مُصَلِّیْہِمَا فِیْ غَیْرِ وَقْتِ تَطَوُّعٍ فَلِذٰلِکَ نَہَیْنَا أَحَدًا أَنْ یُصَلِّیَ بَعْدَ الْعَصْرِ تَطَوُّعًا وَجَعَلْنَا ہَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ وَغَیْرَہُمَا مِنْ سَائِرِ التَّطَوُّعِ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
١٧٩٣: ذکوان نے امّ سلمہ سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز ادا فرمائای پھر میرے گھر تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی تو میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ایسی نماز پڑھی جو آپ پہلے نہ پڑھتے تھے آپ نے فرمایا میرے پاس (صدقہ کا) مال آیا جس کی تقسیم نے مجھے مشغول کردیا یہ رکعتیں میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا پس اب میں نے ان کو پڑھا ہے میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم بھی سنت کے فوت ہونے پر ان کو قضاء کرلیا کریں آپ نے فرمایا نہیں۔ اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کے بعد والی نماز کے قضاء کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ظہر کے بعد رکعات فوت شدہ کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دوسروں سے الگ ہے۔ فلہذا کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ عصر کے بعد قضائِ نفل ادا کرے اور عصر کے بعد نفل تو بالکل نہ پڑھے۔ غور و فکر کا تقاضا بھی یہ ہے کیونکہ ظہر کے بعد والی رکعات فرض نہیں جب وہ رہ گئیں یہاں تک کہ عصر پڑھ چکا تو اب ان کو پڑھا جائے تو وہ نفل ہیں جو اپنے وقت کے علاوہ ادا کیے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سیھ ہم عصر کے بعد نوافل سے منع کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان دو رکعتوں اور دیگر نوافل کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ـ ابو یوسف و محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ٢٩٧‘ مسند احمد ٦؍٣٠٠‘ ٣١٥۔
پس اس روایت سے ثابت ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قضا نوافل سنن سے بھی منع فرما دیا پس کسی کو سنت کی قضا بھی درست نہیں۔ ان کا پڑھنا یہ آپ کی خصوصیت ہوئی اب کسی کو جائز نہیں کہ وہ ان کو قضاء ہونے پر اس وقت ادا کرے اور نہ ہی عصر کے بعد نوافل پڑھے۔
نظر طحاوی (رح) :
تقاضائے نظر بھی یہی ہے کہ ظہر کے بعد وہ رکعات فرض نہیں جب وہ چھوٹ گئیں اور عصر کی نماز ادا کرچکا اگر عصر کے بعد پڑھے گا تو وہ سنت اپنے وقت میں سنت تھی وقت کے بعد نفل بن گئی اور نفل کا بالاتفاق عصر کے بعد پڑھنا ممنوع ہے پس ان دو رکعات کا عصر کے بعد ادا کرنا درست نہ ہوا امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول بھی یہی ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے عصر کے بعد پڑھے جانے والے نوافل یا سنت قضا کے مسئلہ کو دلائل سے خوب مبرہن کردیا اور صحابہ کرام ‘ تابعین کے اقوال و اعمال اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے اس کی ممانعت ثابت کردی۔ واللہ یہدی الی سبیل الرشاد۔

1794

۱۷۹۴: عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلّٰی بِعَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ فَجَعَلَ أَحَدَہُمَا عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِہٖ، قَالَ ثُمَّ رَکَعْنَا فَوَضَعْنَا أَیْدِیَنَا عَلَی رُکَبِنَا، فَضَرَبَ أَیْدِیَنَا بِیَدِہٖ وَطَبَّقَ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ : ھٰکَذَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .فَاحْتَمَلَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - أَنْ یَکُوْنَ مَا ذَکَرَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ فَعَلَہٗ، ہُوَ التَّطْبِیْقُ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ التَّطْبِیْقَ، وَإِقَامَۃَ أَحَدِ الْمَأْمُوْمِیْنَ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِہٖ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ، ہَلْ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الرِّوَایَاتِ، مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ؟ .
١٧٩٤: باب التطبیق فی الرکوع میں یہ روایت گزری کہ علقمہ اور اسود دونوں کو عبداللہ بن مسعود (رض) نے نماز پڑھائی ایک کو دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں جانب کھڑا کیا پھر رکوع میں گئے اور ہم نے اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے تو انھوں نے ہمارے ہاتھوں پر ضرب لگائی اور تطبیق کی جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔ اس روایت میں ہمارے نزدیک یہ احتمال ہے کہ جو انھوں نے بیان کیا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل ہو اور وہ تطبیق ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ مقتدیوں میں سے ایک کو دائیں دوسرے کو بائیں کھڑا کرنا مراد ہو۔ پس ہم اس سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ روایات ملاحظہ ہو۔
تخریج : باب التطبیق میں ملاحظہ کریں مسلم فی المساجد ٢٦۔
اس روایت کے متعلق دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جس فعل کی نسبت کی ہے اس سے مراد تطبیق ہے۔
نمبر 2: اس سے مراد تطبیق اور دونوں کو امامت میں دائیں بائیں کھڑے کرنا مراد ہو۔ روایات پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ ایک احتمال متعین ہو سکے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
خلاصہ الزام : دو مقتدی سے کم ہو تو امام کے دائیں جانب کھڑے ہوں اور تین مقتدی بالاتفاق پیچھے کھڑے ہوں البتہ دو مقتدی امام یوسف (رح) و ابراہیم کے ہاں امام کے دائیں بائیں کھڑے ہوں اور ائمہ اربعہ کے ہاں دو مقتدی بھی امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔
مؤقف فریق اوّل : دو مقتدی ہوں تو امام اپنے دائیں بائیں کھڑا کرے دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے۔

1795

۱۷۹۵: فَإِذَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (دَخَلْتُ أَنَا وَعَمِّیْ، عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بِالْہَاجِرَۃِ، فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ فَتَأَخَّرْنَا خَلْفَہُ، فَأَخَذَ أَحَدَنَا بِیَمِیْنِہٖ وَالْآخَرَ بِشِمَالِہٖ، فَجَعَلَنَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ، فَلَمَّا صَلَّیْ قَالَ : ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ اِذَا کَانُوْا ثَلاَثَۃً) .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یُخْبِرُ أَنَّ قَوْلَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " ھٰکَذَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ عَلٰی قِیَامِ الرَّجُلَیْنِ، أَحَدُہُمَا عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِہٖ، وَعَلَی التَّطْبِیْقِ .
١٧٩٥: عبدالرحمن بن الاسود اپنے والد اسود سے بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے چچا حضرت علی (رض) کے پاس دھوپ کے وقت حاضر ہوئے تو انھوں نے امامت کرائی ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے کے لیے پیچھے ہٹے تو انھوں نے ایک کو اپنے دائیں اور دوسرے کو بائیں کھڑا کیا پس جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے جب آپ مل کر تین ہوتے تو آپ اسی طرح کرتے۔ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ ابن مسعود (رض) کا قول ” ھٰکذا فعل رسول اللّٰہ ا “ سے مراد دو آدمیوں کا دائیں بائیں کھڑا کرنا اور تطبیق یدین ہوں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٦٩‘ نمبر ٦١٣‘ بیہقی فی السنن ٢؍٨٣۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ جب امام کے ساتھ دو اور ہوں تو امام ان کو دائیں بائیں کھڑا کرے اور اسی کو جناب ابن مسعود (رض) نے فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرار دیا۔ مزید روایت ملاحظہ ہو۔

1796

۱۷۹۶: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑالرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَشُعَیْبُ بْنُ الْحَبْحَابِ عِنْدَ اِبْرَاہِیْمَ فَحَضَرَتَ الْعَصْرُ فَصَلّٰی بِنَا اِبْرَاہِیْمُ، فَقُمْنَا خَلْفَہُ فَجَرَّنَا فَجَعَلَنَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ، قَالَ : فَلَمَّا صَلَّیْنَا وَخَرَجْنَا إِلَی الدَّارِ، قَالَ : اِبْرَاہِیْمُ، قَالَ : ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " ھٰکَذَا، فَصَلُّوْا وَلَا تُصَلُّوْا کَمَا یُصَلِّیْ فُلَانٌ " .قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ، وَلَمْ أُسَمِّ لَہٗ اِبْرَاہِیْمَ، فَقَالَ : ھٰذَا اِبْرَاہِیْمُ، قَدْ قَالَ ذَاکَ عَنْ عَلْقَمَۃَ وَلَا أَرَی ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَعَلَہُ إِلَّا لِضِیْقٍ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ، أَوْ لِعُذْرٍ رَآہُ فِیْہِ لَا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ مِنَ السُّنَّۃِ .قَالَ : وَذَکَرْتُہُ لِلشَّعْبِیِّ، فَقَالَ : قَدْ زَعَمَ ذَاکَ عَلْقَمَۃُ، ابْنُ عَوْنِ ڑالْقَائِلُ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ إِضَافَۃُ الْفِعْلِ إِلَی ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَلَا یَذْکُرُہُ الشَّعْبِیُّ وَلَا ابْنُ سِیْرِیْنَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ عَلْقَمَۃُ لَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ لِلشَّعْبِیِّ وَلِابْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذَکَرَہٗ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَہُ الْأَسْوَدُ لِابْنِہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَکَیْفَ کَانَ الْمَعْنٰی فِیْ ھٰذَا فَقَدْ عُوْرِضَ ذٰلِکَ۔
١٧٩٦: ابن عون کہتے ہیں کہ میں اور شعیب بن حبحاب ابراہیم کے پاس تھے نماز عصر کا وقت ہوا تو ابراہیم نے ہمیں جماعت کرائی ہم ان کے پیچھے کھڑے ہوئے تو انھوں نے ہمیں اپنے دائیں بائیں کردیا جب ہم نماز پڑھ چکے اور گھر کی طرف نکلنے لگے تو ابراہیم کہنے لگے ابن مسعود (رض) نے اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم فرمایا اور فرمایا فلاں کی طرح مت پڑھو۔ ابوالبشرالبرقی کہتے ہیں کہ یہ بات میں نے ابن سیرین کو کہی اور میں نے ابراہیم کا نام نہ لیا تو ابن سیرین کہنے لگے یہ بات ابراہیم نے علقمہ سے نقل کی ہے اور میرے خیال میں ابن مسعود (رض) نے یہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے کیا ہے یا اور کسی عذر کی وجہ سے کیا جو ان کے سامنے تھے اس وجہ سے نہیں کہ یہ سنت طریقہ ہے گویا یہ روایت خاص علت سے معلول ہے۔ اور میں نے شعبی کے سامنے تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ علقمہ بن عون کا زعم ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں ابن مسعود (رض) کی طرف اس کی نسبت کرنے میں شعبی اور ابن سیرین نے علقمہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ ذکر نہیں کئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علقمہ نے اسے شعبی اور ابن سیرین کے سامنے ذکر نہ کیا ہو کہ ابن مسعود (رض) نے اس کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا ہو پھر اس کو اسود نے اپنے بیٹے کے سامنے بیان کردیا ہو ابن سیرین اور عامر شعبی اس روایت کو مرفوع نہیں مانتے بلکہ یہ منقطع ہونے کی وجہ سے مرفوع روایات کی کیسے مقابل ہوسکتی ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور سابقہ دلائل کا معارضہ :
دو آدمی ہوں تو امام آگے کھڑا ہوگا یہی مسنون طریقہ ہے۔ یہ روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔

1797

۱۷۹۷: بِمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، عَنْ أَبِیْ حَزْرَۃَ الْمَدِیْنِیِّ یَعْقُوْبَ بْنَ مُجَاہِدٍ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ : أَتَیْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ فَقَالَ : جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ حَتّٰی قُمْتُ عَنْ یَسَارِہٖ فَأَخَذَنِیْ بِیَدِہِ فَأَدَارَنِیْ حَتّٰی أَقَامَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَجَائَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ فَقَامَ عَنْ یَسَارِہٖ، فَدَفَعَنَا بِیَدِہِ جَمِیْعًا حَتّٰی أَقَمْنَا خَلْفَہٗ .
١٧٩٧: عبادہ بن الولید بن عبادہ بن الصامت کہتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی خدمت میں آئے جابر کہنے لگے ایک دن میں خدمت نبوی میں ایسے حال میں گیا کہ آپ نماز میں مصروف تھے میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا آپ نے ہاتھ پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ میں آپ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا جابر بن صخر آئے تو وہ آپ کے بائیں جانب کھڑے ہوگئے پس آپ نے ہم دونوں کو دھکیلا یہاں تک کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٤٤‘ نمبر ٩٧٤۔

1798

۱۷۹۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ جَدَّتَہٗ مُلَیْکَۃَ دَعَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْہُ، فَأَکَلَ مِنْہُ، ثُمَّ قَالَ : قُوْمُوْا فَلْأُصَلِّ لَکُمْ، قَالَ أَنَسٌ : فَقُمْتُ إِلٰی حَصِیْرٍ لَنَا قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُوْلِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُہُ بِمَائٍ، فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْیَتِیمُ وَرَائَ ہُ، وَالْعَجُوْزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلّٰی بِنَا رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ) .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّ فِعْلَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا الَّذِیْ وَصَفْنَا بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مَا عَمِلَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ہُوَ النَّاسِخُ .قِیْلَ لَہٗ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ فَعَلَ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ مِثْلَ مَا رَوٰی جَابِرٌ وَأَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَإِنْ کَانَ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ فِعْلِہٖ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَلِیْلًا عِنْدَکَ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ النَّاسِخُ، کَانَ مَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عِنْدَ خَصْمِکَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ النَّاسِخُ. فَمِمَّا رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ح .
١٧٩٨: عبداللہ بن ابی طلحہ نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا ہے کہ میری دادی ملیکہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانے کی دعوت دی جو اس نے آپ کے لیے تیار کیا تھا آپ نے وہ کھانا کھایا پھر فرمایا تم اٹھو تاکہ میں تمہارے لیے نماز پڑھ دوں۔ انس کہتے ہیں میں نے چٹائی اٹھائی جو زیادہ استعمال کی وجہ سے سیاہ ہوچکی تھی میں نے اس پر ذرا سا پانی چھڑکا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور میں نے اور یتیم نے صف بندی کی اور بڑھیا ہمارے پیچھے صف میں تھی آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر آپ واپس تشریف لے گئے۔ اگر کسی شخص کو یہ اعتراض ہو کہ جناب ابن مسعود (رض) کا یہ عمل حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کا عمل ہے۔ یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل ماقبل کی روایات کا ناسخ ہے۔ ہم اس معترض کے جواب میں کہیں گے کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے علاوہ دیگر صحابہ کرام (رض) سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے یہ عمل جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ عمل کیا جیسا کہ جابر اور انس (رض) ۔ پس اگر ابن مسعود (رض) کا فعل جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ناسخ ہونے کا ثبوت ہے تو پھر ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سے مروی عمل بھی آپ کے مخالف کے ہاں ناسخ ہونے کی دلیل ہے۔ پس ابن مسعود (رض) کے علاوہ جن سے منقول ہے وہ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری ١؍٥٥‘ مسلم ١؍٢٣٤‘ ابو داؤد ١؍٩٠‘ ترمذی ١؍٥٥۔
اشکال :
ان روایات میں جو کچھ مذکور ہے یہ پہلے کے اعمال ہیں اور روایت حضرت ابن مسعود (رض) میں ان کا جو فعل ثابت ہو رہا ہے وہ زمانہ نبوت کے بعد کا ہے پس وہ اس کے لیے اس لیے ناسخ ہے کہ وہ آخری عمل ہے۔
: ابن مسعود (رض) کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام سے اس عمل کا کرنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ جابر اور انس (رض) کے اعمال ظاہر کرتے ہیں تو اب اگر روایت ابن مسعود (رض) ناسخ ہے تو ان کے اعمال مذکورہ بھی نبوت کے زمانہ کے بعد ثابت ہیں تو وہ کیونکر ناسخ نہیں۔ ماہو جوابکم فہو جوابنا۔

1799

۱۷۹۹: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : جِئْتُ بِالْہَاجِرَۃِ إِلٰی عُمَرَ فَوَجَدْتُہُ یُصَلِّیْ، فَقُمْتُ عَنْ شِمَالِہٖ فَأَخْلَفَنِیْ فَجَعَلَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہٖ ثُمَّ جَائَ یَرْفَأُ فَتَأَخَّرْتُ فَصَلَّیْتُ أَنَا وَہُوَ خَلْفَہٗ.
١٧٩٩: عبیداللہ بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں دوپہر کے وقت حضرت عمر (رض) کے پاس آیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں بھی ان کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو انھوں نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر کے دائیں جانب کرلیا پھر یرفا ٔ (غلام عمر (رض) ) آگئے تو میں پیچھے ہٹ گیا پس میں نے اور اس نے ان کے پیچھے نماز ادا کی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٨٧۔

1800

۱۸۰۰: حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ، قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ مَوْلٰی آلِ طَلْحَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ ابْنَ غَنِبَّۃَ یَقُوْلُ : أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ وَلَیْسَ فِی الْمَسْجِدِ أَحَدٌ إِلَّا الْمُؤَذِّنُ وَرَجُلٌ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَجَعَلَہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَلْفَہُ، فَصَلّٰی بِہِمَا .ثُمَّ الْتَمَسْنَا حُکْمَ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَرَأَیْنَا الْأَصْلَ أَنَّ الْاِمَامَ اِذَا صَلّٰی بِرَجُلٍ وَاحِدٍ أَقَامَہٗ عَنْ یَمِیْنِہٖ، وَبِذٰلِکَ جَائَ تِ السُّنَّۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ.
١٨٠٠: سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عتبہ کو کہتے سنا جماعت کھڑی ہوگئی حالانکہ مسجد میں مؤذن اور ایک آدمی اور عمر (رض) کے سوا اور کوئی نہ تھا پس ان کو عمر (رض) نے اپنے پیچھے کھڑا کیا اور ان کو نماز پڑھائی۔ پھر ہم نے غور و فکر سے اس کا حکم ڈھونڈا ‘ چنانچہ ہم نے یہ اصول پایا کہ جب امام ایک شخص کو نماز پڑھائے تو اسے دائیں جانب کھڑا کرلے۔ حضرت انس (رض) کی حدیث میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنت طریقہ یہی وارد ہوا ہے۔
اس اثر سے سابقہ جواب کی تاکید و تائید ہوگئی۔
نظر طحاوی (رح) نمبر !: امام جب ایک آدمی کو نماز پڑھائے تو وہ اسے دائیں جانب کھڑا کرتا ہے اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی ہے جیسا اس روایت میں ہے۔

1801

۱۸۰۱: وَفِیْمَا حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْس، قَالَ : ثَنَا آدَم، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : (أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ، فَقُمْتُ عَنْ یَسَارِہٖ، فَأَخْلَفَنِیْ فَجَعَلَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہِ) .فَھٰذَا مَقَامُ الْوَاحِدِ مَعَ الْاِمَامِ .وَکَانَ اِذَا صَلّٰی بِثَلاَثَۃٍ أَقَامَہُمْ خَلْفَہُ .ھٰذَا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْعُلَمَائِ، وَإِنَّمَا اخْتِلَافُہُمْ فِی الْاِثْنَیْنِ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : یُقِیْمُہُمَا حَیْثُ یُقِیْمُ الْوَاحِدَ .وَقَالَ : بَعْضُہُمْ یُقِیْمُہُمَا، حَیْثُ یُقِیْمُ الثَّلَاثَۃَ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ لِنَعْلَمَ، ہَلْ حُکْمُ الْاِثْنَیْنِ فِیْ ذٰلِکَ کَحُکْمِ الثَّلَاثَۃِ؟ أَوْ کَحُکْمِ الْوَاحِدِ؟ فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ : (الْاِثْنَانِ فَمَا فَوْقَہُمَا جَمَاعَۃٌ) .
١٨٠١: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت آیا جب آپ نماز پڑھ رہے تھے میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا پس آپ نے مجھے اپنے پیچھے سے گزار کر اپنے دائیں جانب کرلیا۔ تو امام کے ساتھ ایک آدمی کے کھڑے ہونے کی جگہ یہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تین اشخاص کو نماز پڑھاتے تو ان کو پیچھے کھڑا کرتے۔ اس میں علماء کے درمیان کسی کو اختلاف نہیں ‘ اختلاف صرف دو کے متعلق ہے۔ بعض نے کہا کہ ان کو وہاں کھڑا کیا جائے جہاں ایک کو کھڑا کیا جاتا ہے اور دوسروں کا کہنا یہ ہے کہ ان دو کو تین کے کھڑے ہونے کی جگہ کھڑا کرے۔ پس ہم نے نظر و فکر سے اس کا حکم معلوم کرنا چاہا کہ دو اور تین کے حکم میں فرق ہے یا ایک جیسا ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (((الْاِثْنَانِ فَمَا فَوْقَہُمَا جَمَاعَۃٌ)) کہ دو اور ان سے اوپر جماعت کے حکم میں ہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٧٧‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٤٤‘ نمبر ٩٧٣۔
اس روایت اور اس طرح کی دیگر روایات سے ایک مقتدی کے متعلق تو تمام کا اتفاق ہے اور تین کے متعلق بھی اتفاق ہے علماء کا اختلاف دو سے متعلق ہے بعض نے ایک کی جگہ کھڑا کرنے کا قول کیا اور دوسروں نے تین کی جگہ کھڑا کرنے کو کہا اب غور کرتے ہیں کہ دو کا حکم عام حالات میں کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو یا دو سے زائد کو جماعت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

1802

۱۸۰۲: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ وَمُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَا : ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ بَدْرٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ‘ عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَجَعَلَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَاعَۃً، فَصَارَ حُکْمُہُمَا کَحُکْمِ مَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْہُمَا، لَا حُکْمِ مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہُمَا .وَرَأَیْنَا اللّٰہَ - عَزَّ وَجَلَّ - فَرَضَ لِلْأَخِ أَوْ لِلْأُخْتِ مِنْ قِبَلِ الْأُمِّ السُّدُسَ وَفَرَضَ لِلْجَمِیْعِ الثُّلُثَ وَکَذٰلِکَ فَرَضَ لِلْاِثْنَیْنِ وَجَعَلَ لِلْأُخْتِ مِنَ الْأَبِ النِّصْفَ وَلِلْاِثْنَیْنِ الثُّلُثَیْنِ، وَکَذٰلِکَ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ یَکُوْنُ الثُّلُثَ وَأَجْمَعُوْا أَنَّ للِاِْبْنَۃِ النِّصْفَ وَلِلْبَنَاتِ الثُّلُثَیْنِ، قَالَ أَکْثَرُہُمْ وَابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْہِمْ : إِنَّ لِلْاِثْنَتَیْنِ أَیْضًا الثُّلُثَیْنِ .فَکَذٰلِکَ ہُوَ فِی النَّظَرِ، لِأَنَّ الْاِبْنَۃَ لَمَّا کَانَتْ فِیْ مِیْرَاثِہَا مِنْ أَبِیْہَا کَالْأُخْتِ فِیْ مِیْرَاثِہَا مِنْ أَخِیْہَا، کَانَتْ الاِبْنَتَانِ أَیْضًا فِیْ مِیْرَاثِہِمَا مِنْ أَبِیْہِمَا کَالْأُخْتَیْنِ فِیْ مِیْرَاثِہِمَا مِنْ أَخِیْہِمَا .فَکَانَ حُکْمُ لْاِثْنَیْنِ فِیْمَا وَصَفْنَا، حُکْمَ الْجَمَاعَۃِ، لَا حُکْمَ الْوَاحِدِ. فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ، أَنْ یَکُوْنَا فِیْ مَقَامِہِمَا مَعَ الْاِمَامِ فِی الصَّلَاۃِ مَقَامَ الْجَمَاعَۃِ لَا مَقَامَ الْوَاحِدِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا رَوٰی جَابِرٌ وَأَنَسٌ، وَفَعَلَہٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .غَیْرَ أَنَّ أَبَا یُوْسُفَ قَالَ : الْاِمَامُ بِالْخِیَارِ، إِنْ شَائَ فَعَلَ کَمَا رَوٰی ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَإِنْ شَائَ فَعَلَ کَمَا رَوٰی أَنَسٌ وَجَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَقَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ فِیْ ھٰذَا، أَحَبُّ إِلَیْنَا۔
١٨٠٢ : ربیع بن بدر نے اپنے والد و دادا سے انھوں نے موسیٰ اشعری (رض) اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو اسی طرح روایت کیا ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو کو جماعت قرار دیا۔ پس ان کا حکم بھی دو سے زیادہ کا ہوا ان کا نہیں جو ان سے کم ہیں۔ ہم نے غور کیا کہ وراثت میں ماں کی طرف سے بھائی یا بہن کا چھٹا حصہ مقرر کیا ہے اور دو سے زائد ہوں یا دو ہوں ان کو ثلث 1/3 مقرر فرمایا۔ اسی طرح دو کے لیے بھی یہی مقرر کیا۔ باپ کی طرف سے بہن کے لیے آدھا اور دو بہنوں کے لیے دو ثلث مقرر فرمایا۔ اسی طرح اس پر سب کا اتفاق ہے کہ تین کے لیے بھی اتنا ہی ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ ایک بیٹی کے لیے آدھا اور زیادہ بیٹیوں کے لیے دو تہائی ہے۔ اکثر صحابہ کرام اور ابن مسعود (رض) کے ہاں یہ ہے کہ دو بیٹیوں کے لیے بھی دو تہائی ہے۔ غور و فکر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ بیٹی وراثت میں اپنے والد کے لیے بہن کی طرح ہے جو اپنے بھائی کے لیے ہو۔ چنانچہ باپ کی وراثت میں دو بیٹیوں کو وہی کچھ ملے گا جو دو بہنوں کو اپنے بھائی کی طرف سے ملتا ہے۔ ہمارے اس بیان میں دو کا حکم ایک جماعت والا ہے ایک شخص والا نہیں۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ امام کے ساتھ دو مقتدی جماعت کی طرح کھڑیھ ہوں ایک کی جگہ پر کھڑے نہ ہوں۔ اس سے حضرت جابر ‘ انس اور حضرت عمر (رض) کا عمل ثابت ہوگا اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ البتہ امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا کہ امام اختیار ہے کہ وہ اگر چاہے تو ابن مسعود (رض) کی طرح بھی کرسکتا ہے اور اگر چاہے تو حضرت جابر و انس (رض) کے روایت کردہ فعل پر عمل کرے۔ ہمارے ہاں اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ ‘ محمد (رح) کا قول زیادہ قابل ترجیح ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان ۔ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٢٤ ‘ ح ٩٧٢
تو اب ان کا حکم بھی جماعت والا ہونا چاہیے نہ کر واحد و فرد والا۔ پس دو کو جماعت قرار دے کر پیچھے کھڑا کرنا مسنون ہوگا۔
نمبر ": ہم غور کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے میراث کے معامالات میں ہر دو کو تین کے برابر قرار دیا مثلاً اخیافی بھائیوں اور بہنوں میں سے ہر ایک کا سدس مقرر فرمایا مگر دو ہوں تو ثلث مقرر فرمایا اگر دو سے زائد ہوں تب بھی ان کا حصہ دو ثلث سے نہ بڑھے گا اور ایک لڑکی کا نصف ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں تو ان کو دو ثلث ملیں گے اور دو سے زائد ہوجائیں تب بھی ان کا حصہ دو ثلث سے زائد نہ ہوگا اور یہی حکم علاتی بھائیوں اور حقیقی اور علاتی بہنوں کا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ باب الامامت میں بھی دو پر تین کا حکم لگے گا اور دو کو پیچھے کھڑا کیا جائے گا امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد بن حسن کا یہی قول ہے۔
نوٹ :(اس باب میں مذاہب کی طرف اشارہ نہیں ہے خصوصاً فریق ثانی البتہ دلائل کو خوب پیش کیا اور نظر کو دو نظری دلیلوں سے نوازا امام طحاوی غیر قیاسی مسائل کو بھی ذوق سے قیاسی بنا لیتے ہیں) ۔

1803

۱۸۰۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِیٍّ، وَخَلَفُ بْنُ ہِشَامٍ، قَالَا: ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ح.
١٨٠٣: عاصم بن علی اور خلف بن ہشام دونوں نے ابو عوانہ سے روایت ان کی سند سے نقل کی۔
خلاصہ الزام : نماز خوف کی مشروعیت ٤ ھ غزوہ ذات الرقاع ٧ ھ میں ہوئی اس میں دشمن کا خطرہ اور ایک امام کے پیچھے نماز پر اصرار تو ہو یہ طریقہ درست ہے بعض نے فاقمت کے خطاب کے پیش نظر آپ کے ساتھ خاص کیا جبکہ جمہور فقہاء بعد والے زمانے میں بقاء کے قائل ہیں جمہور فقہاء کے ہاں سفر و حضر ہر دو موقعہ پر جائز ہے۔ تعداد رکعات اور کیفیت میں خاصا اختلاف ہے۔
نمبر 1: عطاء بن ابی رباح و قتادہ (رح) وغیرہ ایک رکعت مانتے ہیں۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ و محمد (رح) کے ہاں خوف کی وجہ سے تعداد میں فرق نہیں اگر ایک امام ہو تو ہر گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائے اور سفر نہ ہو تو چار رکعت میں دو دو پڑھائے دوسرا گرواہ مسبوق کی طرح پڑھے اور پہلا گروہ لاحق کی طرح پڑھے۔
نمبر 3: امام مالک (رح) کے ہاں تعداد میں کمی سفر کی وجہ سے ہوگی طریقہ یہ ہوگا امام ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائے امام انتظار کرے اور وہ اپنی دوسری رکعت سجدہ تک مکمل کر کے دشمن کے مقابل جائے پھر دوسرا گروہ آئے تو امام ان کو ایک رکعت پڑھائے پھر امام التحیات میں انتظار کرے یہ لوگ دوسری رکعت سجدے تک مکمل کر کے دشمن کے سامنے جائیں اور پہلا آ کر التحیات پڑھے امام ان کے ساتھ سلام پھیرے پھر یہ دشمن کے سامنے جائیں دوسرا گرواہ آ کر التحیات پڑھ کر اکیلے سلام پھیر دے۔
نمبر 4: حسن بصری (رح) فرماتے ہیں امام پہلے گروہ کو دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دے پھر دوسرے گروہ کو دو پڑھا کر سلام پھیر دے چار رکعت امام پر لازم ہوں گی۔
نمبر 5: ابن ابی لیلیٰ وغیرہ کہتے ہیں امام کے پیچھے دونوں صف بنا کر ہتھیاروں سے لیس کھڑے ہوں جب امام سجدہ کرے تو صف اول سجدہ کرے دوسری صف کھڑی رہے جب یہ سجدہ سے سر اٹھالیں تو صف ثانی سجدہ کرے پھر صف ثانی اول کی جگہ آجائے جب امام سجدہ کرے تو یہ لوگ سجدہ کریں صف اول والے پیچھے کھڑے رہیں جب سجدہ کرلیں تو پہلا گروہ اپنا سجدہ کرے پھر ایک ساتھ تمام سلام پھیر دیں۔
نمبر 6: امام ابو یوسف و طحاوی (رح) کے ہاں دونوں گروہوں کو امام ایک ساتھ نماز پڑھائے جب طائفہ اولیٰ امام کے ساتھ سجدہ سے فارغ ہو تو دوسرا گروہ خود سجدہ کرے پھر دوسرا گروہ صف اول میں چلا جائے دونوں کو امام ایک ساتھ پڑھائے پھر امام کے ساتھ سجدہ کرلیں اولیٰ گروہ اپنا سجدہ کرے اب سلام امام ساتھ پھیر لیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : صلوۃ خوف ایک رکعت ہے یہ حسن بصری (رح) کے ہاں ہے۔

1804

۱۸۰۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الضَّرِیْرُ .ح .
١٨٠٤: ابن مرزوق کہتے ہیں ہمیں ابو اسحاق الضریر نے اپنی سند سے روایت کی ہے۔

1805

۱۸۰۵: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ .
١٨٠٥: عبدالعزیز بن معاویہ (رض) نے یحییٰ بن حماد انھوں نے ابو عوانہ سے روایت نقل کی۔

1806

۱۸۰۶: وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : فَرَضَ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - عَلَی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا فِی الْحَضَرِ، وَرَکْعَتَیْنِ فِی السَّفَرِ، وَرَکْعَۃً فِی الْخَوْفِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَلَّدُوہُ، وَجَعَلُوْہُ أَصْلًا فَجَعَلُوْا صَلَاۃَ الْخَوْفِ رَکْعَۃً .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ - عَزَّ وَجَلَّ - قَالَ : (وَإِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ مَعَک وَلْیَأْخُذُوْا أَسْلِحَتَہُمْ فَإِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ) فَفَرَضَ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - صَلَاۃَ الْخَوْفِ، وَنَصُّ فَرْضِہَا فِی کِتَابِہٖ ھٰکَذَا .وَجَعَلَ صَلَاۃَ الطَّائِفَۃِ بَعْدَ تَمَامِ الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی مَعَ الْاِمَامِ .فَثَبَتَ بِھٰذَا أَنَّ الْاِمَامَ یُصَلِّیْہَا فِیْ حَالِ الْخَوْفِ رَکْعَتَیْنِ، وَھٰذَا خِلَافُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یُؤْخَذَ بِحَدِیْثٍ یَدْفَعُہٗ نَصُّ الْکِتَابِ .ثُمَّ قَدْ عَارَضَہٗ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا غَیْرُہٗ .
١٨٠٦: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے چار رکعت حضر میں لازم کیں اور دو رکعت سفر اور خوف میں ایک رکعت لازم کی ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے اس روایت کو اختیار کر کے اسے اصل قرار دیا اور انھوں نے نماز خوف کو ایک رکعت کہا۔ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلیل ہے : { و اذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلاۃ۔۔۔}(القرآن) ۔ ” اور جب آپ ان میں ہوں اور ان کو نماز پڑھانے لگیں تو ان کی ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہو اور وہ اپنے ہتھیاروں کو تھامے رہیں۔ پس جب وہ سجدہ (ثانیہ) کر چکیں تو وہ پیچھے چلے جائیں تو دوسرا گروہ آجائے جنہوں کہ اب تک نماز نہیں پڑھی وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھ لیں۔ “ (القرآن) ۔ اللہ تعالیٰ نے نماز خوف کو فرض قرار دیا اور قرآن مجید میں اس کی فرضیت اس طرح ذکر فرمائی اور اس طرح بتایا کہ ایک گروہ امام کے ساتھ پہلی رکعت کو اس طرح مکمل کرلے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ امام حالت خوف میں دو رکعت پڑھے اور یہ بات اس حدیث کے خلاف ہے اور ایسی روایت کو اختیار کرنا جائز نہیں جس کو قرآن مجید کی نص قبول نہ کرے۔ پھر اس کے معارض حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر صحابہ کرام کی روایات ہیں۔
تخریج : صحیح مسلم فی المسافرین نمبر ٥‘ نسائی فی الصلاۃ باب ٣‘ صلوۃ خوف باب ٤۔
حاصل روایات : اس روایت میں صلوۃ خوف کی ایک رکعت کا صراحۃً ذکر ہے پس صلوۃ خوف ایک رکعت ہوگی۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے نماز خوف کا قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے کہ امام ایک ایک طائفہ کو ایک ایک رکعت پڑھاتے تو صاف لفظوں میں نماز کا دو رکعت ہونا ثابت ہوگیا پس یہ روایت نص قرآنی کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔

1807

۱۸۰۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ أَبِی الْجَہْمِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذِیْ قَرَدٍ، صَلَاۃَ الْخَوْفِ . وَالْمُشْرِکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ، فَصَفَّ صَفًّا خَلْفَہُ وَصَفًّا مُوَازِیَ الْعَدُوِّ، فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً ثُمَّ ذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ وَرَجَعَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَکَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَانِ وَلِکُلِّ طَائِفَۃٍ رَکْعَۃٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَدْ رَوٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا خَالَفَ مَا رَوٰی مُجَاہِدٌ عَنْہُ، وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ الْفَرْضُ عَلَی الْاِمَامِ رَکْعَۃً فَیُصَلِّیَہَا بِأُخْرٰی بِلَا قُعُوْدٍ لِلتَّشَہُّدِ، وَلَا تَسْلِیْمٍ .فَلَمَّا تَضَادَّ الْخَبَرَانِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تَنَافَیَا، وَلَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ بِمُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا؛ لِأَنَّ خَصْمَہٗ یَحْتَجُّ عَلَیْہِ بِعُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِخِلَافِ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالُوْا : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا یُوَافِقُ مَا قُلْنَا فَذَکَرُوْا۔
١٨٠٧ : عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی قرد میں نماز خوف پڑھائی۔ اس وقت مشرک اور قبلہ کے درمیان حائل تھے۔ ایک صف نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صف بنائی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صف آراء ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی جماعت کو ایک رکعت پڑھائی پھر دشمن کے سامنے چلے گئے اور دشمن کے مقابل صف نے آ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صف باندھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعت ہوئیں اور ہر جماعت کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ عبیداللہ بن عبداللہ ہیں جو کہ ابن عباس (رض) سے مجاہد کی روایت کے خلاف روایت کر رہے ہیں اور یہ بات ناممکن ہے کہ امام پر ایک رکعت فرض ہو مگر وہ اسے دوسری رکعت ملا کر بغیر تشہد و تسلیم کے ادا کرلے۔ جب ابن عباس (رض) سے ملنے والی دونوں روایات متضاد اور ایک دوسرے سے منافی ہیں تو کسی کو مجاہد والی روایت سے دلیل کا حق نہیں کیونکہ اس کا مقابل عبیداللہ کی ابن عباس (رض) والی مخالف روایت سے استدلال کرے گا۔ اگر بالفرض وہ یہ کہیں کہ ابن عباس (رض) سے اور حضرات نے بھی مجاہد والی روایت کی طرح روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی ‘ کتاب صلٰوۃ الخوف : ١٩٢١
نمبر ": حضرت ابن عباس (رض) سے عبیداللہ بن عبداللہ کی سند سے اس کے خلاف روایت منقول ہے ۔
امام طحاوی کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کی دو روایتیں ایک دوسرے سے متضاد ہوگئیں ان میں کسی ایک کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
نمبر#: یہ بات ناممکن ہے کہ امام پر فرض ایک ہو اور وہ دو پڑھا لے اور اس ایک میں نہ قعدہ نہ تشہد نہ سلام۔
فان قالوا سے ایک سوال کا تذکرہ ہے۔
فقط اس روایت کی بات نہیں حذیفہ بن یمان ‘ زید بن ثابت ‘ جابر سہیل بن ابی حشمہ (رض) سے اس قسم کی روایات منقول ہیں۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

1808

۱۸۰۸: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الرُّکَیْنِ بْنِ الرَّبِیْعِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانٍ، قَالَ : (أَتَیْت ابْنَ وَدِیْعَۃَ فَسَأَلْتہ عَنْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ، فَقَالَ : إِیْت زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَاسْأَلْہُ، فَلَقِیْتَہٗ، فَسَأَلْتہ، فَقَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فِیْ بَعْضِ أَیَّامِہِ، فَصَفَّ صَفًّا خَلْفَہُ، وَصَفًّا مُوَازِیَ الْعَدُوِّ، فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً، ثُمَّ ذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ، وَجَائَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ، فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَیْہِمْ)
١٨٠٨: قاسم بن حسان کہتے ہیں کہ میں ابن ودیعہ کے پاس آیا اور میں نے ان سے صلوۃ خوف کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے کہا تم زید بن ثابت کے پاس جا کر ان سے سوال کرو چنانچہ میں ان سے ملا تو انھوں نے فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز خوف بعض اوقات پڑھائی پس آپ کے پیچھے ایک جماعت نے صف باندھی اور ایک جماعت نے دشمن کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر یہ چلی گئی اور ان کی جگہ صف بستہ ہوگئے دوسرا گروہ آیا اور ان کی جگہ صف بستہ ہوا تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیرا۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب صلوۃ الخوف نمبر ١٩١٩۔

1809

۱۸۰۹: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَدِیْعَۃَ وَزَادَ (فَکَانَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَانِ وَلِکُلِّ طَائِفَۃٍ رَکْعَۃٌ رَکْعَۃٌ)
١٨٠٩: مؤمل بن اسماعیل نے سفیان سے پھر سفیان نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ عبداللہ بن ودیعہ نے اس روایت میں اضافہ کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو دو رکعت تھیں اور ہر گروہ کی ایک ایک رکعت ہوئی (یعنی جماعت کے ساتھ)

1810

۱۸۱۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ .ح .
١٨١٠: علی بن شیبہ نے قبیصہ سے اپنی سند سے نقل کیا۔

1811

۱۸۱۱: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ زَہْدَمِ ڑالْحَنْظَلِیِّ، قَالَ : (کُنَّا مَعَ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ بِطَبَرِسْتَانَ فَقَالَ : أَیُّکُمْ شَہِدَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَامَ حُذَیْفَۃُ، فَقَالَ : أَنَا، ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِیْ ذَکَرَ زَیْدٌ سَوَائً) .
١٨١١: ثعلبہ بن زہدم حنظلی کہتے ہیں کہ ہم سعید بن العاص کے ساتھ طبرستان میں تھے تو انھوں نے اعلان کیا تم میں سے کون ایسا شخص ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز خوف میں شامل تھا تو حضرت حذیفہ (رض) نے کہا میں موجود تھا پھر انھوں نے اسی طرح کیا جیسا زید نے ذکر کیا بالکل فرق نہ تھا۔ تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٢٤٦‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب صلوۃ الخوف نمبر ١٩١٧۔

1812

۱۸۱۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ : ثَنَا عَطِیَّۃُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ دُہَاثٍ قَالَ : (غَزَوْتُ مَعَ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ فَسَأَلَ النَّاسَ مَنْ شَہِدَ مِنْکُمْ صَلَاۃَ الْخَوْفِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ) .
١٨١٢: محمد بن دھاث کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن العاص کے ساتھ غزوہ میں شریک تھا انھوں نے لوگوں سے دریافت کیا تم میں سے کون جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز خوف میں شامل رہا ہے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1813

۱۸۱۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ عَنْ یَزِیْدَ الْفَقِیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : (کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ) .ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٨١٣: یزیدالفقیر نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دشمن کے مقابل تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب صلوۃ الخوف ١٩٣٣۔

1814

۱۸۱۴: حَدَّثَنِیْ أَبُوْ حَازِمٍ عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ حَفْصِ ڑالْفَلَّاسُ، قَالَ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَنْ سَہْلِ بْن أَبِیْ حَثْمَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِأَصْحَابِہٖ صَلَاۃَ الْخَوْفِ) فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قِیْلَ لَہُمْ : ھٰذَا غَیْرُ مُوَافِقٍ لِمَا رَوٰی مُجَاہِدٌ وَلٰـکِنَّہٗ مُوَافِقٌ لِمَا رَوٰی عُبَیْدُ اللّٰہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَقَدْ تَقَدَّمَتْ حُجَّتُنَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ الْفَرْضُ عَلَیْہِ فِی تِلْکَ الصَّلَاۃِ رَکْعَۃً وَاحِدَۃً ثُمَّ یَصِلُہَا بِأُخْرٰی لَا یُسَلِّمُ بَیْنَہُمَا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ فَرْضَ صَلَاۃِ الْخَوْفِ رَکْعَتَانِ عَلَی الْاِمَامِ ثُمَّ لَمْ یُذَکِّرَ الْمَأْمُوْمِیْنَ بِقَضَائٍ وَلَا غَیْرِہِ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنُوْا قَضَوْا وَلَا بُدَّ فِیْمَا یُوْجِبُہُ النَّظَرُ مِنْ أَنْ یَکُوْنُوْا قَدْ قَضَوْا رَکْعَۃً رَکْعَۃً لِأَنَّا رَأَیْنَا الْفَرْضَ عَلَی الْاِمَامِ فِیْ صَلَاۃِ الْأَمْنِ، وَالْاِقَامَۃِ مِثْلَ الْفَرْضِ عَلَی الْمَأْمُوْمِ سَوَائً، وَکَذٰلِکَ الْفَرْضُ عَلَیْہِمَا فِیْ صَلَاۃِ الْأَمْنِ فِی السَّفَرِ سَوَائٌ ، وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ الْمَأْمُوْمُ فَرْضُہُ رَکْعَۃً فَیَدْخُلُ مَعَ غَیْرِہِ مِمَّنْ فَرْضُہُ رَکْعَتَانِ إِلَّا وَجَبَ عَلَیْہِ مَا وَجَبَ عَلٰی إِمَامِہٖ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ مُسَافِرًا لَوْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃِ مُقِیْمٍ صَلَّیْ أَرْبَعًا فَکَانَ الْمَأْمُوْمُ یَجِبُ عَلَیْہِ مَا یَجِبُ عَلٰی إِمَامِہٖ ، وَیَزِیْدُ فَرْضُہُ بِزِیَادَۃِ فَرْضِ إِمَامِہٖ ، وَقَدْ یَکُوْنُ عَلَی الْمَأْمُوْمِ مَا لَیْسَ عَلٰی إِمَامِہٖ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْمُقِیْمَ یُصَلِّی خَلْفَ الْمُسَافِرِ فَیُصَلِّیْ بِصَلَاتِہٖ، ثُمَّ یَقُوْمُ بَعْدَ ذٰلِکَ فَیَقْضِی تَمَامَ صَلَاۃِ الْمُقِیْمِ فَکَانَ الْمَأْمُوْمُ قَدْ یَجِبُ عَلَیْہِ مَا لَیْسَ عَلٰی إِمَامِہٖ وَلَا یَجِبُ عَلٰی إِمَامِہٖ مَا لَا یَجِبُ عَلَیْہِ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا وُجُوْبُ الرَّکْعَتَیْنِ عَلٰی الْاِمَامِ ثَبَتَ أَنَّ مِثْلَہُمَا عَلَی الْمَأْمُوْمِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ حُذَیْفَۃَ مِنْ قَوْلِہٖ مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا تَأَوَّلْنَا فِیْ حَدِیْثِہٖ وَحَدِیْثِ زَیْدٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہُمْ قَضَوْا رَکْعَۃً رَکْعَۃً .
١٨١٤: صالح بن خوات نے سہل بن ابی حشمہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو صلوۃ خوف پڑھائی پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا یہ روایت مجاہد والی روایت کی موافقت کی بجائے عبیداللہ والی روایت کی تائید کرتی ہے۔ شروع باب میں ہم اپنی دلیل ذکر کر آئے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ناممکن ہے کہ آپ پر لازم تو ایک رکعت ہو اور آپ اسے دوسری ملا کر پڑھیں اور ان کے مابین سلام نہ پھیریں۔ پس اس سے یہ بات تو ثابت ہوگیا کہ نماز خوف کی امام پر فرض ہی دو رکعت ہیں۔ پھر ان روایات میں مقتدیوں کی قضاء یا اور کسی چیز کا تذکرہ نہیں۔ پس اس میں پورا کرلینے کا احتمال ہے اور نظر و فکر تو یہی چاہتے کہ وہ ایک ایک رکعت پوری کریں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام و مقتدی پر نماز کے فرائض امن و اقامت کی حالت میں ایک طرح کے ہیں اسی طرح امن والے سفر میں امام و مقتدی کا حال برابر ہے اور یہ بات ناممکن ہے کہ مقتدی پر ایک رکعت فرض ہو اور وہ ایسے شخص کے ساتھ نماز میں داخل ہوجائے جس پر دو فرض ہوں ‘ اگر ایسا ہوگا تو مقتدی پر وہی فرض ہوگا جو امام پر فرض تھا۔ کیا تم ایسا نہیں پاتے کہ اگر مقیم کسی مسافر کی نماز میں داخل ہو تو چار رکعت ادا کرے گا۔ تو مقتدی پر وہ چیز واجب تھی جو اس کے امام پر واجب تھی اور امام کے فرض میں اضافہ سے اس کے فرض بھی بڑھ جاتے ہیں اور بعض اوقات مقتدی پر ایسی چیز لازم ہوجاتی ہے جو اس کے امام پر لازم نہیں ہوتی۔ اس سے ہم نے یہ سمجھ لیا کہ جب مقیم نے مسافر کے پیچھے نماز ادا کی تو اسی جیسی نماز ادا کرتا ہے۔ پھر کھڑے ہو کر وہ مقیم والی نماز کی تکمیل کرتا ہے۔ پس یہاں مقتدی پر ایسی چیز لازم تھی جو امام پر نہ تھی اور اس کے امام پر وہ چیز لازم نہیں جو اس مقتدی پر لازم نہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی جو بیان کر آئے کہ امام پر دو رکعت لازم ہیں تو انہی جیسی دو رکعت مقتدی پر بھی لازم ہیں اور ہم نے جو تاویل حضرت حذیفہ کی روایت اور زید اور جابر اور ابن عباس (رض) کی اس روایت میں کی ہے کہ انھوں نے ایک ایک رکعت ادا کی وہ حضرت حذیفہ (رض) سے بھی مروی ہے۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب صلوۃ خوف نمبر ١٩٣٤‘ بخاری فی المغازی باب ٣١‘ نمبر ٤١٣‘ مسلم فی المسافرین ٣٠٩؍٣١٠۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو رکعت پڑھنا اور صحابہ کرام (رض) کا ایک رکعت پڑھنا معلوم ہوتا ہے۔
جواب : قیل لہم سے جواب دیا گیا ہے۔
نمبر 1: ہم پہلے بھی کہہ چکے کہ جب امام کے لیے دو رکعت ثابت ہوئی تو مقتدی کے لیے بدرجہ اولیٰ ثابت ہوجائیں گی اور اگر یہ کہا جائے کہ امام کی ایک رکعت فرض اور دوسری نفل ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ امام نے ایک فرض رکعت پڑھ کر اس کے ساتھ بغیر قعدہ وسلام تشہد کے دوسری نفل ملا لی اور یہ نماز کی صحت کے خلاف ہے اور نماز کی صحت کے لیے محال ہے۔
نمبر 2: نظری استدلال اور عقلی جواب جس کو فثبت کے لفظ سے بیان کیا۔
روایات میں اگرچہ امام کے لیے دو رکعت اور مقتدی کے لیے صرف ایک رکعت کا تذکرہ ہے اور دوسری رکعت کے پورا کرنے یا نہ کرنے کا بالکل ذکر نہیں اور احتمال اگرچہ دونوں ہیں لیکن نظر و فکر کو استعمال کیا جائے تو یہ بات مسلمہ ہے کہ امن کی حالت میں امام و مقتدی ہر دو کی نمازیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور اسی طرح سفر کی حالت میں جب امن ہو تو دونوں کی نمازوں میں چنداں فرق نہیں تو یہ بات عقلاً ناممکن ہے کہ مقتدی کی نماز تو ایک رکعت ہو اور امام کی نماز دو رکعت ہو حالانکہ صریح نص تو اس بات کی پابند بناتی ہے کہ امام و مقتدی متضاد نماز والے نہ ہوں بلکہ یکساں ہوں۔ انما جعل الامام لیؤتم بہ الحدیث۔ اس طرح کے ارشادات سے امام کی پوری اقتداء مقتدی پر لازم ہوتی ہے پس یہ ماننا پڑے گا کہ جتنی رکعت امام پر لازم ہیں اسی قدر مقتدی پر بھی لازم ہیں اسی لیے تو اگر مسافر مقیم کی اقتداء کرے تو اس کو امام کی اقتداء میں چار پڑھنی پڑتی ہیں اور یہ نہیں ہوسکتا کہ امام کی رکعتیں مقتدی سے زائد ہوں یہ تو ہوسکتا ہے کہ مقتدی کی رکعتیں امام سے زائد ہوں جیسا کہ جب مقیم ہو اور مسافر امام کی اقتداء کرے تو امام دو پڑھے گا مگر مقتدی اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا اور وہ چار ہوں گی پس عقلی اعتبار سے بھی یہ اشکال کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ثابت ہوا کہ مقتدیوں نے دو رکعت ہی پوری کی ہوں گی اگرچہ تذکرہ ایک کا ہے۔
نمبر 3: فتاویٰ صحابہ کرام (رض) نے یہ بات صاف کردی جن حضرات کی روایات مذکور ہوئیں ان میں سے حضرت حذیفہ (رض) نے دو رکعت پورا کرنے کا حکم دیا پس یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ان تمام نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دو دو رکعتیں پڑھی ہیں چونکہ ایک ایک رکعت آپ کی اقتداء میں پڑھی گئی اسی کا تذکرہ ہے جو انھوں نے الگ پڑھی اس کا تذکرہ نہیں کیا کہ وہ کالمذکور ہے۔ روایت حذیفہ ملاحظہ ہو۔

1815

۱۸۱۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَبَدٍ، عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : صَلَاۃُ الْخَوْفِ رَکْعَتَانِ وَأَرْبَعُ سَجَدَاتٍ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا فَعَلُوْا کَذٰلِکَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ثُمَّ اعْتَبَرْنَا الْآثَارَ، ہَلْ نَجِدُ فِیْہَا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا؟ .
١٨١٥: سلیم بن عبد نے حضرت حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ نماز خوف دو رکعت ہیں اور چار سجدے ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ پہلی روایات میں بھی یہی بات ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسی طرح کیا۔ اب ہم روایات کو جانچتے ہیں کہ آیا ان میں کوئی ایسی روایت ملتی ہے۔ چنانچہ وہ رایت میسر آگئی۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢١٥۔
حاصل روایات : اس روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس طرح حضرت حذیفہ (رض) کا عمل ظاہر کررہا ہے بالکل اسی طرح دیگر صحابہ کرام (رض) نے بھی کیا ہوگا ان سابقہ روایات کا مفہوم اسی فتویٰ کے مطابق ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
اگر حضر ہو تو طائفہ اولیٰ کو دو رکعتیں اور سفر ہو تو ایک رکعت پڑھائی جائے گی طائفہ اولیٰ کی نماز لاحق کی طرح اور دوسرے گروہ کی نماز مسبوق کی طرح ہوگی یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک ہے دلائل یہ آثار ہیں۔ آثار میں دو رکعت پڑھنے کا ثبوت۔

1816

۱۸۱۶: فَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُرَّۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِأَصْحَابِہٖ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فَصَلّٰی بِطَائِفَۃٍ مِنْہُمْ رَکْعَۃً، وَکَانَتْ طَائِفَۃٌ بِإِزَائِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا صَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً سَلَّمَ، فَنَکَصُوْا عَلٰی أَعْقَابِہِمْ حَتَّی انْتَہَوْا إِلٰی إِخْوَانِہِمْ، ثُمَّ جَائَ الْآخَرُوْنَ فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَۃً ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ کُلُّ فَرِیْقٍ، فَصَلَّوْا رَکْعَۃً رَکْعَۃً) .فَقَدْ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ قَضَوْا، وَبَیَّنَ مَا وَصَفْنَا أَنَّہٗ یُحْتَمَلُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ وَکَانَ قَوْلُہٗ (ثُمَّ سَلَّمَ بَعْدَ الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی) یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ سَلَامًا لَا یُرِیْدُ بِہٖ قَطْعَ الصَّلَاۃِ وَلٰـکِنْ یُرِیْدُ بِہٖ إِعْلَامَ الْمَأْمُوْمِیْنَ مَوْضِعَ الْاِنْصِرَافِ.
١٨١٦: حسن نے حضرت ابی موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کو خوف کی نماز پڑھائی پس ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی ایک گروہ دشمن کے مقابل تھا جب آپ نے ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیرا پھر ایک گروہ گھڑا ہوا اور انھوں نے ایک ایک رکعت ادا کی۔ اس حدیث سے یہ اطلاع میسر آگئی کہ انھوں نے بقیہ نماز کو پورا کیا۔ ہم نے پہلی روایات میں جو احتمال نقل کیا ہے وہ بھی مذکور ہے۔ باقی روایت میں ” ثم سلّم بعد الرکعۃ الاولٰی “ میں یہ احتمال ہے کہ اس سلام سے نماز توڑنے کا ارادہ نہیں فرمایا بلکہ مقتدیوں کو لوٹنے کا مقام بتلانے کے لیے سلام فرمایا۔
تخریج : طیالسی ١؍٢٤٧‘ ابن ابی شیبہ ٢؍٢١٥۔
حاصل روایات : اس روایت میں ایک ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد دوسری رکعت پوری کرنے کی صراحت ہے اور اس روایت نے اس بات کو کھول دیا جو کہ پہلی روایات کے سلسلہ میں ہم بیان کر آئے اس روایت میں سلام کا تذکرہ ہے ممکن ہے کہ یہ سلام انقطاع صلوۃ کے لیے نہ ہو بلکہ مقتدیوں کو واپسی کی اطلاع کے لیے ہو تاکہ وہ دشمن کے سامنے لوٹ جائیں اور دوسرا گروہ ان کی جگہ آجائے۔
مزید روایات ملاحظہ ہوں۔

1817

۱۸۱۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ قَالَ : سُفْیَانُ ح .
١٨١٧: علی بن شیبہ کہتے ہیں ہمیں قبیصہ نے سفیان سے روایت بیان کی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤٠٨۔

1818

۱۸۱۸: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ خُصَیْفٍ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فِیْ بَعْضِ أَیَّامِہٖ فَصَفَّ صَفًّا خَلْفَہٗ وَصَفًّا مُوَازِیَ الْعَدُوِّ، وَکُلُّہُمْ فِیْ صَلَاۃٍ فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً، ثُمَّ ذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ، وَجَائَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً ثُمَّ قَضَوْا رَکْعَۃً رَکْعَۃً ثُمَّ ذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ وَجَائَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ، فَقَضَوْا رَکْعَۃً) .
١٨١٨: ابو عبیدہ نے عبداللہ سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن نماز خوف پڑھائی آپ کے پیچھے ایک صف بنائی گئی اور ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی کردی گئی تمام نماز میں شامل تھے آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے چلے گئے اور صف بستہ گروہ آیا پس ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر ایک ایک رکعت انھوں نے ادا کی پھر یہ گروہ ان کی جگہ چلا گیا اور دوسرا گروہ آیا۔ انھوں نے ایک ایک رکعت پوری کی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ ١٢٤٤۔

1819

۱۸۱۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ بَکَّارِ ڑالْقَیْسِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ الْحُسَیْنِ، قَالَ : ثَنَا خُصَیْفٌ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : لَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فِیْ حَرَّۃِ بَنِیْ سُلَیْمٍ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ (وَکُلُّہُمْ فِیْ صَلَاۃٍ) وَزَادَ : (وَکَانُوْا فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ قَضَوْا رَکْعَۃً رَکْعَۃً، وَأَخْبَرَ أَنَّہُمْ دَخَلُوْا فِی الصَّلَاۃِ جَمِیْعًا .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْآثَارِ أَنَّ صَلَاۃَ الْخَوْفِ رَکْعَتَانِ، غَیْرَ أَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ذَکَرَ فِیْہِ دُخُوْلَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ مَعًا .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ، ہَلْ عَارَضَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ غَیْرَہٗ فِیْ ھٰذَا الْمَعْنَی؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٨١٩: ابو عبیدہ نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرہ بنی سلیم میں صلوۃ الخوف پڑھائی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ اس روایت میں وکلہم فی صلوۃ کا جملہ نقل نہیں کیا اور یہ اضافہ نقل کیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس حدیث میں صاف بتلایا گیا ہے کہ انھوں نے ایک ایک رکعت مزید ادا کی اور یہ بھی بتلایا گیا کہ وہ تمام ایک نماز میں داخل ہوئے۔ پس ان روایاتِ مذکورہ سے ثابت ہوگیا کہ نماز خوف کی دو رکعت ہیں البتہ ابن مسعود (رض) کی روایت میں ان تمام کے نماز میں ایک ہی وقت میں داخلے کا ذکر ہے۔ پس ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مندرجہ مفہوم میں یہ روایت دوسری روایات کے خلاف تو نہیں ‘ تو تلاش کرنے پر روایات مل گئیں۔
وکانوا فی غیرالقبلہ “ حرۃ سیاہ پتھریلی زمین۔
تخریج : سابقہ تخریج کو سامنے رکھیں۔ ابو داؤد ١؍١٧٦۔
حاصل روایات :
ان روایات میں امام کے ساتھ پڑھنے کے علاوہ ایک ایک رکعت کے پورا کرنے کا تذکرہ موجود ہے جس سے سابقہ روایات کا حل نکل رہا ہے۔
ایک اعتراض :
روایت ابن مسعود (رض) کا جملہ دخولہم فی الصلوٰۃ معاً “ بقیہ روایت تو مؤقف ثانی کے موافق ہے مگر یہ جملہ اس کے خلاف ہے۔
الجواب نمبر !: ہم اس جملے کی پڑتال کے لیے دیگر روایات پر غور کرتے ہیں تاکہ راوی کے اس اضافہ کی حقیقت ظاہر ہوجائے ملاحظہ فرمائیں۔ روایت حضرت ابن عمر (رض) ۔

1820

۱۸۲۰: فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ اِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ، قَالَ : یَتَقَدَّمُ الْاِمَامُ وَطَائِفَۃٌ مِنَ النَّاسِ فَیُصَلِّیْ بِہِمْ رَکْعَۃً، وَیَکُوْنُ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْعَدُوِّ وَلَمْ یُصَلُّوْا فَیَتَقَدَّمُ الَّذِیْنَ لَمْ یُصَلُّوْا وَیَتَأَخَّرُ الْآخَرُوْنَ فَیُصَلِّیْ بِہِمْ رَکْعَۃً ثُمَّ یَنْصَرِفُ الْاِمَامُ، وَقَدْ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فَتَقُوْمُ طَائِفَۃٌ مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ فَیُصَلُّوْنَ لِأَنْفُسِہِمْ رَکْعَۃً رَکْعَۃً بَعْدَ أَنْ یَنْصَرِفَ الْاِمَامُ فَیَکُوْنَ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ قَدْ صَلَّوْا رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ .قَالَ نَافِعٌ : لَا أَرَی ابْنَ عُمَرَ ذَکَرَ ذٰلِکَ إِلَّا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ دُخُوْلَ الثَّانِیَۃِ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ أَنْ یُصَلِّیَ الْاِمَامُ بِالطَّائِفَۃِ الْأُوْلٰی رَکْعَۃً .وَالْکِتَابُ شَاہِدٌ لِھٰذَا فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالَیْ قَالَ : (وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ) فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا وَصَفْنَا أَنَّ دُخُوْلَ الثَّانِیَۃِ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ فَرَاغِ الْاِمَامِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی .وَھٰذَا الْخَبَرُ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ وَأَصْلُہٗ مَرْفُوْعٌ، وَإِنْ کَانَ نَافِعٌ قَدْ شَکَّ فِیْہِ فِیْ وَقْتِ مَا حَدَّثَ بِہٖ مَالِکٌ .وَھٰکَذَا رَوَاہُ عَنْہُ أَصْحَابُہٗ الْأَکَابِرُ .
١٨٢٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ جب ان سے صلوۃ خوف کے متعلق دریافت کیا جاتا تو فرماتے امام اور ایک گروہ نماز شروع کرے امام ان کو ایک رکعت پڑھائے اور ایک جماعت ان کے اور دشمنوں کے درمیان حائل رہے اور نماز میں شامل نہ ہو پھر وہ لوگ آگے آئیں جنہوں نے ابھی ایک رکعت بھی ادا نہیں کی اور پہلی جماعت پیچھے ہٹ جائے ان کو امام ایک رکعت پڑھائے پھر امام لوٹ جائے کیونکہ وہ دو رکعت پوری کرچکا پھر ہر طائفہ اپنی اپنی ایک ایک رکعت ادا کرلیں اس کے بعد کہ امام نماز سے فارغ ہوچکا پس اس طرح ہر گروہ دو دو رکعت ادا کرنے والا بن جائے گا۔ نافع (رح) کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ابن عمر (رض) یہ بات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی نقل کر کے بتلاتے تھے۔ پس اس روایت میں یہ خبر دی کہ دوسرا گروہ نماز میں اس وقت شامل ہو جبکہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھا لے اور قرآن مجید کی آیت بھی اسی کی شہادت دیتی ہے۔ چنانچہ فرمایا : { ولتات طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک } (القرآن) ۔ ” اور دوسرے گروہ کو آنا چاہیے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ‘ پس وہ آپ کے ساتھ نماز ادا کریں “۔ اس بیان سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی کہ دوسری جماعت اس وقت نماز میں شامل ہوگی جب امام رکعت اوّل سے فارغ ہوچکے گا۔ یہ روایت صحیح ہے اور اصل کے لحاظ سے مرفوع ہے۔ اگرچہ نافع سے مالک سے بیان کرتے ہوئے اس کے رفع میں شک کیا مگر ان کے اکابر شاگردوں نے ان سے مرفوع نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢‘ باب ٤٤‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٣٠٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٢٤٣‘ نسائی فی السنن کتاب صلوۃ الخوف نمبر ١٩٣٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥١‘ نمبر ١٢٥٨۔
امام نافع (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں بلکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر فرمائی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت نے ثابت کردیا کہ دوسرے گروہ نے شروع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں کی بلکہ پہلے گروہ کے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لینے کے بعد شرکت کی ہے پس یہ روایت کا حصہ اگر روات کا تصرف نہ ہو تو دوسری صحیح روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔
الجواب نمبر ": قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولتأت طائفۃ اخرٰی لم یصلوا فلیصلوا معک۔ (النسائ) نص کے الفاظ لم یصلوا معک شروع میں امام کے ساتھ ان کی شرکت کی صاف نفی کر رہے ہیں وہ ٹکڑا نظم قرآن کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں بلکہ تصرف روات شمار ہوگا ابن مسعود (رض) کی طرف اس کی نسبت درست نہ ہوگی۔
تصرف روات کی کھلی دلیل :
الجواب نمبر 2: ابن مسعود (رض) کے علاوہ صحابہ کرام (رض) اس جملے کو نقل نہیں کرتے۔ ملاحظہ ہو۔

1821

۱۸۲۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فِیْ بَعْضِ أَیَّامِہٖ فَقَامَتْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ مَعَہٗ وَطَائِفَۃٌ مِنْہُمْ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْعَدُوِّ فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً، ثُمَّ ذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ، وَجَائَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ، فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَۃً، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَیْہِمْ، ثُمَّ قَضَتِ الطَّائِفَتَانِ رَکْعَۃً رَکْعَۃً) .
١٨٢١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ کے موقعہ پر صلوۃ خوف پڑھائی ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور ایک دشمن اور آپ کے درمیان حائل تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک رکعت نماز پڑھائی پھر یہ لوگ دشمن کی طرف گئے اور دوسرے آ کر نماز کے لیے صف بستہ ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا پھر دونوں جماعتوں نے ایک ایک رکعت (الگ الگ) ادا کی۔
تخریج : بخاری فی صلوۃ الخوف باب ٢‘ مسلم فی المسافرین حدیث ٣٠٦‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب صلوۃ الخوف نمبر ١٩٣٠۔

1822

۱۸۲۲: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَأَحْمَدُ بْنُ مَسْعُوْدِ ڑالْخَیَّاطُ، قَالَا : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ مَعْنَاہُ .وَقَدْ رَوَاہُ أَیْضًا سَالِمٌ عَنْ أَبِیْہِ مَرْفُوْعًا .
١٨٢٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1823

۱۸۲۳: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَبِیْعٍ الزَّہْرَانِیُّ، قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ صَلَّاہَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَذٰلِکَ .
١٨٢٣: سالم نے اپنے والد سے مرفوعاً نقل کیا کہ میں صلوٰۃ خوف کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی نے اسی طرح ادا کیا ہے۔

1824

۱۸۲۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ مُحَمَّدٍ فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ، قَالَ : أَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ أَنَّ عُمَرَ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزْوَتَہُ قِبَلَ نَجْدٍ، فَوَازَیْنَا الْعَدُوَّ .ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .وَذَہَبَ آخَرُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ إِلَی۔
١٨٢٤: سالم نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں اس غزوہ میں شرکت کی جو نجد کی جانب کیا پس دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہوا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ دیگر علماء ان روایات کی طرف گئے ہیں۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٣٣۔
حاصل روایات : کہ نماز خوف کا طریقہ یہی ہے کہ امام ایک ایک رکعت دونوں گروہوں کو پڑھائے اور ایک ایک رکعت وہ الگ الگ پڑھیں گے کہ ایک گروہ پہلی رکعت میں شامل ہو اور دوسرا گروہ دوسری رکعت میں شامل ہوگا اس روایت کو ایک سند میں نافع نے شک سے نقل کیا مگر بعد والی روایات نے ثابت کردیا کہ ابن عمر (رض) یہ سب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔
فریق ثالث کا مؤقف اور مستدل روایات اور ان کے اجوبہ :
یہ قول امام مالک و شافعی و احمد (رح) کا ہے کہ امام ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائے پھر یہ ایک رکعت ملا کر سلام کے بغیر دشمن کی طرف جائیں امام منتظر رہے پھر دوسرا گروہ آ کر نماز میں شامل ہو۔ وہ ایک رکعت پڑھ کر دوسری رکعت خود ملائے پھر امام کے ساتھ سلام پھیریں پھر دوسرا گروہ آ کر تشہد سے الگ سلام پھیریں۔

1825

۱۸۲۵: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ (عَمَّنْ صَلَّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاۃَ الْخَوْفِ أَنَّ طَائِفَۃً صَفَّتْ مَعَہُ وَطَائِفَۃً وِجَاہَ الْعَدُوِّ فَصَلّٰی بِاَلَّذِیْنَ مَعَہُ رَکْعَۃً ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوْا لِأَنْفُسِہِمْ ثُمَّ انْصَرَفُوْا فَصَفُّوْا وِجَاہَ الْعَدُوِّ، وَجَائَ تِ الطَّائِفَۃُ الْأُخْرٰی فَصَلّٰی بِہِمْ الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ بَقِیَتْ مِنْ صَلَاتِہٖ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا، وَأَتَمُّوْا لِأَنْفُسِہِمْ، ثُمَّ سَلَّمَ بِہِمْ) .
١٨٢٥: یزید رومان نے صالح بن حوات (رض) سے نقل کیا یہ ان لوگوں سے ہیں جنہوں نے غزوہ ذات الرقاع میں صلوۃ خوف میں خود شمولیت کی ہے کہ ایک جماعت نے آپ کے ساتھ صف بندی کی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے رہی آپ نے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپ کھڑے رہے اور انھوں نے اپنی رکعت ملا کر نماز پوری کرلی پھر یہ دشمن کی طرف چلے گئے اور صف بستہ ہوگئے دوسری جماعت آئی آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی جو آپ کی نماز سے باقی تھی پھر آپ تشہد میں ٹھہرے رہے انھوں نے اپنی ایک رکعت مکمل کرلی پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٣٣۔

1826

۱۸۲۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّ سَہْلَ بْنَ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فَذَکَرَ نَحْوَہُ، وَلَمْ یَذْکُرْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَزَادَ فِیْ ذِکْرِ الْآخِرَۃِ قَالَ (فَیَرْکَعُ بِہِمْ وَیَسْجُدُ ثُمَّ یُسَلِّمُ، فَیَقُوْمُوْنَ فَیَرْکَعُوْنَ لِأَنْفُسِہِمْ الرَّکْعَۃَ الْبَاقِیَۃَ ثُمَّ یُسَلِّمُوْنَ) .
١٨٢٦: محمد بن ابی بکر نے حضرت صالح بن خوات انصاری (رض) سے نقل کیا کہ سسہل بن ابی حشمہ نے ان کو بتلایا کہ نماز خوف اس طرح ہے پھر روایت بالا کی طرح روایت نقل کی ہے اور اس روایت کو انھوں نے مرفوعاً نقل نہیں کیا البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے فبرکع بہم وسجد ثم یسلم کہ امام رکوع اور سجدہ کرائے گا پھر امام سلام پھیر دے گا فیقومون فیرکعون لانفسہم الرکعۃ الباقیہ ثم یسلمون پھر وہ خود کھڑے ہو کر رکوع سجدہ کر کے اپنی بقیہ رکعت مکمل کریں گے اور سلام پھیریں گے۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٣١‘ مسلم فی المسافرین ٣٠٩؍٣١٠‘ نسائی فی السنن کتاب صلوۃ الخوف ١٩٣٤۔

1827

۱۸۲۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .قِیْلَ لَہُمْ : إِنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ فِیْہِ أَنَّہُمْ صَلَّوْا وَہُمْ مَأْمُوْمُوْنَ قَبْلَ فَرَاغِ الْاِمَامِ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْ حَدِیْثِ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ .وَقَدْ رَوَیْنَا مِنْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ خِلَافًا لِذٰلِکَ ؛ لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ أَنَّہٗ ثَبَتَ (بَعْدَمَا صَلَّی الرَّکْعَۃَ الْأُوْلَیْ قَائِمًا، وَأَتَمُّوْا لِأَنْفُسِہِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوْا ثُمَّ جَائَ تَ الْأُخْرٰی بَعْدَ ذٰلِکَ) .وَفِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، (أَنَّہٗ صَلّٰی بِطَائِفَۃٍ مِنْہُمْ رَکْعَۃً ثُمَّ ذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ہٰؤُلَائِ) وَلَمْ یَذْکُرْ أَنَّہُمْ صَلَّوْا قَبْلَ أَنْ یَنْصَرِفُوْا .فَقَدْ خَالَفَ الْقَاسِمُ مُحَمَّدَ بْنَ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ فَإِنْ کَانَ ھٰذَا یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ الْاِسْنَادِ فَإِنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْہِ الْقَاسِمِ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْسَنُ مِنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ عَنْ صَالِحٍ عَمَّنْ أَخْبَرَہُ وَإِنْ تَکَافَئَا تَضَادَّا، وَاِذَا تَضَادَّا لَمْ یَکُنْ لِأَحَدِ الْخَصْمَیْنِ فِیْ أَحَدِہِمَا حُجَّۃٌ ؛ اِذْ کَانَ لِخَصْمِہِ عَلَیْہِ مِثْلُ مَا لَہٗ عََلٰی خَصْمِہِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّ یَحْیَی بْنَ سَعِیْدٍ قَدْ رَوٰی عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَنْ سَہْلٍ مَا یُوَافِقُ مَا رَوٰی یَزِیْدُ بْنُ رُوْمَانَ وَیَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ لَیْسَ بِدُوْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ فِی الضَّبْطِ وَالْحِفْظِ .قِیْلَ لَہٗ : یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ کَمَا ذَکَرْت وَلٰـکِنْ لَمْ یَرْفَعَ الْحَدِیْثَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنَّمَا أَوْقَفَہُ عَلَی سَہْلٍ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا رَوٰی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ صَالِحٍ ہُوَ الَّذِیْ کَذٰلِکَ .کَانَ عِنْدَ سَہْلٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً ثُمَّ قَالَ ہُوَ مِنْ رَأْیِہِ مَا بَقِیَ فَصَارَ ذٰلِکَ رَأْیًا مِنْہُ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلِذٰلِکَ لَمْ یَرْفَعْہُ یَحْیَی إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا، ارْتَفَعَ أَنْ یَقُوْمَ بِہٖ حُجَّۃٌ أَیْضًا .وَالنَّظَرُ یَدْفَعُ ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّا لَمْ نَجِدْ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الصَّلَاۃِ أَنَّ الْمَأْمُوْمَ یُصَلِّی شَیْئًا مِنْہَا قَبْلَ الْاِمَامِ، وَإِنَّمَا یَفْعَلُہُ الْمَأْمُوْمُ مَعَ فِعْلِ الْاِمَامِ أَوْ بَعْدَ فِعْلِ الْاِمَامِ، وَإِنَّمَا یُلْتَمَسُ عِلْمُ مَا اُخْتُلِفَ فِیْہِ مِمَّا أُجْمِعَ عَلَیْہِ .فَإِنْ قَالُوْا : قَدْ رَأَیْنَا تَحْوِیْلَ الْوَجْہِ عَنِ الْقِبْلَۃِ قَدْ یَجُوْزُ فِیْ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ، وَلَا یَجُوْزُ فِیْ غَیْرِہَا، فَمَا یُنْکِرُوْنَ قَضَائَ الْمَأْمُوْمِ قَبْلَ فَرَاغِ الْاِمَامِ کَذٰلِکَ جُوِّزَ فِیْ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ، وَلَمْ یُجَوَّزْ فِیْ غَیْرِہَا قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ تَحْوِیْلَ الْوَجْہِ عَنِ الْقِبْلَۃِ قَدْ رَأَیْنَاہُ أُبِیْحَ فِیْ غَیْرِ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ لِلْعُذْرِ فَأُبِیْحَ فِیْ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ کَمَا أُبِیْحَ فِیْ غَیْرِہَا، وَذٰلِکَ أَنَّہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ مَنْ کَانَ مُنْہَزِمًا فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَإِنَّہٗ یُصَلِّیْ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی غَیْرِ قِبْلَۃٍ .فَلَمَّا کَانَ قَدْ یُصَلِّی کُلَّ الصَّلَاۃِ عَلٰی غَیْرِ قِبْلَۃٍ لِعِلَۃِ الْعَدُوِّ، وَلَا یُفْسِدُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ، کَانَ انْصِرَافُہٗ عَلٰی غَیْرِ الْقِبْلَۃِ مِنْ بَعْضِ صَلَاتِہٖ، أَحْرٰی أَنْ لَا یَضُرَّہٗ ذٰلِکَ .فَلَمَّا وَجَدْنَا أَصْلًا فِی الصَّلَاۃِ إِلَیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ مُجْمَعًا عَلَیْہِ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ بِالْعُذْرِ، عَطَفْنَا عَلَیْہِ مَا اُخْتُلِفَ فِیْہِ مِنْ اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَۃِ فِی لْاِنْصِرَافِ لِلْعُذْرِ، وَلَمَّا لَمْ نَجِدْ لِقَضَائِ الْمَأْمُوْمِ قَبْلَ أَنْ یَفْرُغَ الْاِمَامُ مِنَ الصَّلَاۃِ أَصْلًا فِیْمَا أُجْمِعَ عَلَیْہِ یَدُلُّ عَلَیْہِ فَنَعْطِفُہٗ عَلَیْہِ، أَبْطَلْنَا الْعَمَلَ بِہٖ وَرَجَعْنَا إِلَی الْآثَارِ الْأُخَرِ الَّتِیْ قَدَّمْنَا ذِکْرَہَا، الَّتِیْ مَعَہَا التَّوَاتُرُ وَشَوَاہِدُ الْاِجْمَاعِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ کُلِّہٖ۔
١٨٢٧: سفیان نے یحییٰ بن سعید سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا۔ اس حدیث میں تو یہ ہے کہ انھوں نے مقتدی ہونے کی حیثیت سے امام کی فراغت سے پہلے نماز ادا کی اور یزیدین رومان کی روایت میں بھی ہے اور شعبہ والی روایت اس کے خلاف ہے۔ کیونکہ یزیدین رومان کی روایت بتلاتی ہے کہ آپ رکعت اوّل ادا کرنے کے بعد کھڑے رہے اور لوگوں نے اپنے طور پر دوسری رکعت مکمل کی۔ پھر وہ دشمن کی طرف چلے گئے تو دوسری جماعت آئی۔ شعبہ والی روایت اس طرح ہے کہ ” آپ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی ‘ پھر یہ لوگ ان کی جگہ دشمن کے سامنے چلے گئے “۔ اس روایت میں یہ مذکور نہیں کہ انھوں نے لوٹنے سے پہلے نماز مکمل کی۔ تو قاسم نے روایت میں یزید کے خلاف روایت نقل کی ہے۔ اگر سند کے لحاظ سے لیا جائے تو عبدالرحمن نے اپنے والد کی وساطت سے ابو خصمہ (رض) سے جو روایت مرفوع نقل کی وہ یزیدین رومان کی صالح والی روایت سے زیادہ عمدہ ہے۔ اگر ان میں برابر مانی جائے تو تضاد ہوا تو کسی فریق کے لیے اس روایت میں استدلال کا موقع نہ رہا ‘ اس لیے کہ اس کے مقابل کے پاس اسی جیسی روایت موجود ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ یحییٰ بن سعید نے قاسم سے یزیدین رومان کے موافق روایت کی ہے اور یحییٰ کوئی عبدالرحمن سے ثقاہت میں کم نہیں۔ تو جواب میں ہم عرض کریں گے کہ بلاشبہ یحییٰ کا مقام تو وہی ہے جو تم نے بیان کردیا مگر انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع روایت ذکر نہیں کی بلکہ انھوں نے سہل (رض) سے موقوف روایت نقل کی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ جو عبدالرحمن نے روایت کیا ہے وہ حضرت سہل (رض) کی مخصوص روایت کی طرح ہو اور باقی انھوں نے اپنی رائے سے کہا ہو۔ پس یہ ان کا اجتہاد ہوا نہ کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد۔ اسی وجہ سے یحییٰ (رح) نے اس کو مرفوع نقل نہیں کیا۔ جب اس بات کا احتمال موجود ہے تو پھر اس روایت سے استدلال کرنا درست نہ رہا اور غور و فکر بھی اس کے خلاف ہے کیونکہ ہم کوئی ایسی نماز نہیں پاتے جس کو مقتدی امام سے پہلے ادا کرلیں۔ مقتدی کی ادائیگی تو اس کی معیت یا اس کے بعد ہوتی ہے۔ اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ہم نے غور سے دیکھا کہ اس نماز میں تو قبلہ سے رُخ موڑنا جائز ہے جبکہ دوسری کسی نماز میں درست نہیں تو جو لوگ امام سے پہلے نماز پوری رنے پر معترض ہیں وہ بھی اسی طرح اس نماز میں جائز ہے دوسری نمازوں میں نہیں۔ اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری نمازوں میں عذر کی بناء پر رُخ پھیرنا جائز ہے۔ پس دوسری نمازوں کی طرح یہاں بھی جائز ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کا اس بات پر اجماع ہے۔ کہ جو شخص دشمن سے بھاگنے والا ہو اور نماز کا وقت ہوجائے تو وہ اسی طرح نماز پڑھے خواہ وہ قبلہ کی طرف رُخ نہ کرنے والا ہو۔ پس جب ہر نماز دشمن کی وجہ سے قبلہ کے علاوہ پڑھی جاسکتی ہے اور اس سے نماز میں فرق نہیں پڑتا تو نماز کے بعد قبلہ سے رُخ موڑ لینا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے نماز کو نقصان نہ پہنچے۔ جب یہ قاعدہ اجتماعی ہے کہ عذر کی وجہ سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ سکتے ہیں تو واپس مڑنے کے لیے قبلے سے رُخ موڑ لینے کو بھی ہم نے اسی پر قیاس کیا۔ جب ہمیں کوئی اصل اجتماعی نہ مل سکی جس سے امام سے پہلے فراغت ثابت ہو سکے کہ اس پر قیاس کیا جائے اسی وجہ سے ہم نے اس پر عمل کو باطل قرار دے کر دوسری روایات کی طرف رجوع کیا جن کا تذکرہ ہوچکا ‘ وہ روایات تواتر سے ثابت ہیں اور ان پر اجماع کی گواہی بھی موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس کے برعکس روایت ملاحظہ کریں۔
الجواب نمبر !: یزید بن رومان نے صالح بن خوات سے جو روایت اوپر نقل کی ہے اس میں ہے کہ امام کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ رکعت پڑھ کر فارغ ہوجائیں گے حالانکہ وہ مقتدی ہیں عبدالرحمن اور بن قاسم اپنے والد کی وساطت سے صالح بن خوات سے جو روایت نقل کی ہے وہ اس کے خلاف ہے اس میں ان کی فراغت امام کے بعد ہے اور اس بات کا اس میں تذکرہ نہیں کہ وہ لوٹنے سے نماز پوری کرلیں۔
قاسم ‘ یزید بن رومان کے مقابلے میں قوی راوی ہے قاسم نے صالح بن خوات عن سہل بن ابی حشمہ نقل کی جبکہ یزید نے صالح بن خوات سے براہ راست نقل کی حالانکہ تمام سہل بن ابی خشمہ سے ہیں پس یزید کی روایت منقطع و متروک ہے پس روایت قابل استدلال نہیں۔
ایک ضمنی اشکال : یزید بن رومان تو متروک ہے مگر یحییٰ بن سعید تو معتبر راوی ہے اس کی روایت یزید بن رومان کی روایت کے موافق ہے۔
ضمنی جواب : یحییٰ بن سعید کی روایت سہل پر موقوف ہے اور دوسری سہل کی روایت مرفوع ہے پس وہی قابل ترجیح ہوگی اور یہ سہل کا اجتہاد یا نچلے راوی کا تصرف قرار دیا جائے گا اسی وجہ سے تو وہ مرفوع بیان نہیں کی گئی پس اب اس روایت سے استدلال درست نہ رہا۔
نظری جواب : ہمارے سامنے ایسا کوئی نمونہ نہیں کہ امام و مقتدی نماز اکٹھی شروع کریں اور مقتدی امام سے پہلے فراغت پالے مقتدی تو امام کے ساتھ پڑھتا ہے یا بعد میں ادا کرتا ہے پس خلافیات کا علم اجتماعیات سے لینا چاہیے۔ فتدبر و تشکر۔
سرسری اشکال : یہاں تحویل قبلہ پایا گیا حالانکہ یہ اور کسی نماز میں نہیں ہے پس جس طرح امام سے پہلے فراغت نادر ہے تو یہ بھی نادر ہے فما قولکم فیہ پھر ہم پر اعتراض کیوں ؟
جواب : تحویل قبلہ اعذار کے مقامات میں دوسرے مقامات میں بھی جائز ہے پس یہ مباح و جائز رہا اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ جو آدمی شکست کھا کر بھاگ رہا ہو اور نماز کا وقت آجائے تو وہ غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھتا جائے گا پس جب مکمل نماز غیر قبلہ کی طرف دشمن کے خطرہ سے درست ہوگئی اور نماز فاسد نہ ہوئی تو یہاں تو فقط انصراف للصف ہے تو یہ بدرجہ اولیٰ درست ہونا چاہیے جب وہاں قبلہ سے رخ موڑنے میں دشمن کے عذر کی وجہ سے بالاتفاق حرج نہیں تو یہاں بھی یہی حکم ہوا۔
البتہ امام سے پہلے مقتدی کے فراغت پالینے کی کوئی اصل موجود نہیں ہے کہ جس طرف ہم اس کو موڑ سکیں اس لیے ہم نے اس کو باطل قرار دے کر آثار کی طرف رجوع کیا جو کہ متواتر اور اجماع کے شواہد سے بھی مزین ہیں۔

1828

۱۸۲۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیُٔ قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ، قَالَا : أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَسَدِیُّ أَنَّہٗ سَمِعَ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ یُحَدِّثُ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ أَنَّہٗ (سَأَلَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہَلْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ مَرْوَانُ مَتَی؟ قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَامَ غَزْوَۃِ نَجْدٍ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَلَاۃِ الْعَصْرِ وَقَامَتْ مَعَہُ طَائِفَۃٌ، وَطَائِفَۃٌ أُخْرَی مُقَابِلُو الْعَدُوِّ وَظُہُوْرُہُمْ إِلَی الْقِبْلَۃِ فَکَبَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَبَّرُوْا جَمِیْعًا مَعَہٗ وَالَّذِیْنَ مُقَابِلُو الْعَدُوِّ ثُمَّ رَکَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَۃً وَاحِدَۃً وَرَکَعَتْ مَعَہُ الطَّائِفَۃُ الَّتِیْ تَلِیْہِ ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَتْ مَعَہُ الطَّائِفَۃُ الَّتِیْ تَلِیْہِ، وَالْآخَرُوْنَ قِیَامٌ مُقَابِلُو الْعَدُوِّ، ثُمَّ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَامَتِ الطَّائِفَۃُ الَّتِیْ مَعَہٗ فَذَہَبُوْا إِلَی الْعَدُوِّ فَقَابَلُوْہُمْ، وَأَقْبَلَتِ الطَّائِفَۃُ الَّتِیْ کَانَتْ مُقَابِلِیْ الْعَدُوِّ فَرَکَعُوْا وَسَجَدُوْا، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ کَمَا ہُوَ، ثُمَّ قَامُوْا فَرَکَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَۃً أُخْرٰی فَرَکَعُوْا مَعَہٗ، ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدُوْا مَعَہٗ، ثُمَّ أَقْبَلَتِ الطَّائِفَۃُ الْأُخْرٰی الَّتِیْ کَانَتْ مُقَابِلِیْ الْعَدُوِّ فَرَکَعُوْا وَسَجَدُوْا، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ وَمَنْ مَعَہٗ، فَسَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا، فَکَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَانِ، وَلِکُلِّ رَجُلٍ مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ رَکْعَتَانِ رَکْعَتَانِ).
١٨٢٨: عروہ بن زبیر مروان بن الحکم سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلوۃ خوف پڑھی ہے ؟ تو انھوں نے کہا جی ہاں۔ مروان نے سوال کیا کب ؟ تو ابوہریرہ (رض) نے کہا غزوہ نجد کے موقعہ پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عصر کے لیے کھڑے ہوئے اور ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے بالمقابل کھڑی تھی ان کی پشتیں قبلہ کی طرف تھیں پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر کہی اور ان تمام نے آپ کے ساتھ تکبیر کہی ان سمیت جو دشمن کے مقابلے تھے۔ پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع کیا اور ایک رکعت اپنے ساتھ والی جماعت کو مکمل کرائی اور سجدہ کیا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ والا گروہ بھی کھڑا ہوا اور دشمن کی طرف جا کر اس کے مقابل صف بستہ ہوگئے اور دوسرا گروہ آیا جو کہ پہلے دشمن کے سامنے کھڑا تھا پس انھوں نے آ کر رکوع کیا اور سجدہ کیا اس حال میں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کی حالت میں تھے پھر یہ رکعت مکمل کر کے کھڑے ہوگئے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری رکعت ادا فرمائی اور انھوں نے بھی آپ کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی پھر انھوں نے آپ کے سجدہ کے ساتھ سجدہ کیا اور پہلا گروہ جو دشمن کے سامنے تھا وہ آیا اور انھوں نے رکوع سجدہ کیا اس حال میں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت تشہد میں تھے اور دوسری جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعتیں ہوئی اور ہر گروہ کی بھی دو دو رکعت ہوئیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ ١٢٤٠‘ نسائی فی السنن کتاب صلوۃ الخوف ١٩٣۔

1829

۱۸۲۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فَصَدَعَ النَّاسَ صَدْعَیْنِ فَصَلَّتْ طَائِفَۃٌ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَطَائِفَۃٌ تُجَاہَ الْعَدُوِّ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَنْ خَلْفَہُ رَکْعَۃً وَسَجَدَ بِہِمْ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ قَامَ وَقَامُوْا مَعَہٗ فَلَمَّا اسْتَوَوْا قِیَامًا، رَجَعَ الَّذِیْنَ خَلْفَہُ وَرَائَ ہُمَ الْقَہْقَرَی فَقَامُوْا وَرَائَ الَّذِیْنَ بِإِزَائِ الْعَدُوِّ .وَجَائَ الْآخَرُوْنَ فَقَامُوْا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِہِمْ رَکْعَۃً، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَامُوْا فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہِمْ أُخْرٰی فَکَانَتْ لَہُمْ وَلِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَانِ .وَجَائَ الَّذِیْنَ بِإِزَائِ الْعَدُوِّ فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِہِمْ رَکْعَۃً وَسَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ جَلَسُوْا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ بِہِمْ جَمِیْعًا) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَحَوُّلُ الْاِمَامِ إِلَی الْعَدُوِّ، وَبِالطَّائِفَۃِ الَّتِیْ صَلَّتْ مَعَہُ الرَّکْعَۃَ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْآثَارِ غَیْرَ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَفِی کِتَابِ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - مَا یَدُلُّ عَلٰی دَفْعِ ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : (فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ مَعَک) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ مَعْنَیَانِ مُوْجِبَانِ لِدَفْعِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، أَحَدُہُمَا : قَوْلُہٗ (لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ) فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ دُخُوْلَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ إِنَّمَا ہُوَ فِیْ حِیْنِ مَجِیْئِہِمْ لَا قَبْلَ ذٰلِکَ، وَقَوْلُہٗ (فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ مَعَکَ)۔ ثُمَّ قَالَ: (وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ) [النساء : ۱۰۲] فَذَکَرَ الْاِتْیَانَ لِلطَّائِفَتَیْنِ إِلَی الْاِمَامِ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْآثَارُ الْمُتَوَاتِرَۃُ الَّتِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہَا، فَہِیَ أَوْلٰی مِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَذَہَبَ آخَرُوْنَ فِیْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ إِلٰی۔
١٨٢٩: عروہ بن زبیر نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز خوف پڑھائی اور لشکر کی دو جماعتیں بنائیں پس ایک جماعت نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک رکعت نماز ادا کی پھر یہ جماعت آپ کے ساتھ جب دوسری رکعت کے قیام کے لیے اٹھ گئے تو یہ پیچھے کی طرف الٹے قدموں ہٹ گئے اور ان لوگوں کی جگہ لے لی جو دشمن کے سامنے تھے اور دوسری جماعت ان کی جگہ آئی اور انھوں نے ایک رکعت اپنی ادا کی اس حال میں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کی حالت میں تھے پھر یہ جماعت دوسری رکعت کے لیے گھڑے ہوئے پس آپ نے ان کو دوسری رکعت پڑھائی پس ان کی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعت ہوگئیں اور وہ لوگ بھی آئے جو دشمن کے بالمقابل تھے پس انھوں نے اپنی ایک رکعت دو سجدوں سمیت مکمل کی پھر یہ تشہد میں بیٹھ گئے پس آپ نے سب کے ساتھ سلام پھیرا۔ اس روایت میں امام کا پہلی رکعت ادا کرنے والی جماعت کے ساتھ دشمن کی طرف پھرجانا مذکور ہے یہ صرف اسی روایت میں مذکور ہے اور کسی روایت میں وارد نہیں اور قرآن مجید کی آیت بھی غلط ہونے پر دلالت کرتی ہے چنانچہ فرمایا : { فلتقم طائفۃ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم واتأت طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک } (القرآن) ۔ ” پس ایک جماعت آپ کے ساتھ نماز میں کھڑی ہو اور وہ اپنا اسلحہ بھی لیے رہیں ‘ پس جب وہ رکعت مکمل کرلیں تو وہ پیچھے چلے جائیں اور دوسری جماعت آجائے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ‘ پس وہ آپکے ساتھ نماز پڑھیں “۔ اس آیت میں دو ایسی باتیں ہیں جو اس روایت کو ردّ کر رہی ہیں۔ (١) لم یصلوا فلیصلوا معک ‘ اس سے یہ دلالت مل رہی ہے کہ ان کا نماز میں داخلہ اسی وقت ہے جب وہ آئے ہں اس سے پہلے نہیں۔ (٢) فلتقم طائفۃ منھم معک ‘ تو دونوں گروہوں کا امام کی طرف آنا ثابت ہو رہا ہے اور یہ چیز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد متواتر آثار کے موافق ہے جن میں آپ کا فعل مذکور ہے۔ شروع باب میں بیان کرچکے وہ اس حدیث سے ہر اعتبار سے اولیٰ ہیں۔ دوسرے علماء نے نماز خوف میں ایک اور راہ اپنائی ہے۔ مستدل روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٢١٤۔
نقد و تبصرہ طحاوی (رح) : اس روایت میں دوسرے گروہ کا بھی محاذ کو چھوڑ کر آجانا مذکور ہے دیگر روایات اس حصہ کی مؤید نہیں اور قرآن مجید میں جو طریقہ مذکور ہے اس کے خلاف ہے پس یہ حصہ محل استدلال نہیں تصرف راوی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ امام سے پہلے کوئی گروہ بھی نماز مکمل نہیں کرے گا بلکہ امام کے بعد مکمل کریں گے البتہ نماز میں تمام کا شروع میں داخل ہونا بھی ثابت ہو رہا ہے یہ بھی روایات مشہورہ کے خلاف ہے نیز قرآن مجید کے اندر مذکورہ صورت کے بھی خلاف قرآن مجید میں فلتقم طائفۃ منہم معک (النساء ١٠٢) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے ایک جماعت ہے جو آپ کے ساتھ کھڑی۔ دوسری جماعت نماز شروع کرنے والی نہیں ہے نیز آیت کے الفاظ لم یصلوا فلیصلوا معک (النسائ) بتلاتے ہیں کہ یہ نماز میں پہلے شامل نہیں ورنہ ان کو لم یصلوا نہ کہا جاتا کیونکہ تحریمہ میں شریک ہونے والا تو نماز میں شامل ہوجاتا ہے پس معلوم ہوا کہ دوسرا گروہ نماز میں آ کر شریک ہوا ہے پہلے وہ داخل نہ تھا اور پھر ولتأت طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک تو اس آیت میں دونوں جماعتوں کا یکے بعد دیگرے آنا مذکور ہے پس اس صورت کے ساتھ یہ روایت آثار عامہ کے ساتھ مل جائے گی۔
فریق ثالث کا جواب :
اس روایت اور سیاق آیت سے ان کا جواب بھی ہوگیا جو امام سے پہلے دوسری رکعت کو مکمل کرنے کے قائل ہیں فریق ثانی کا مؤقف جو مبرہن ہوگیا۔

فریق رابع کا مؤقف اور استدلال :
امام حسن بصری (رح) کہتے ہیں صلوۃ خوف امام کے لیے چار رکعت اور مقتدیوں کے لیے دو دو رکعت ہے دلیل یہ روایت ابو بکرہ و جابر (رض) ہے۔

1830

۱۸۳۰: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ الْأَشْعَثِ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِہِمْ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فَصَلّٰی بِطَائِفَۃٍ مِنْہُمْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوْا، وَجَائَ الْآخَرُوْنَ فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَتَیْنِ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا، وَصَلَّی کُلُّ طَائِفَۃٍ رَکْعَتَیْنِ .
١٨٣٠: حسن نے ابو بکرہ (رض) سے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں صلوۃ خوف پڑھائی پس ایک طائفہ کو دو رکعت پڑھائی پھر وہ لوٹ گئے (دشمن کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے) اب دوسرا گروہ آیا پس ان کو دو رکعت پڑھائی اس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار رکعت ادا فرمائی اور ہر جماعت نے دو دو رکعت ادا کی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ ١٢٤٨‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب صلوۃ الخوف ١٩٣٩۔

1831

۱۸۳۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُرَّۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٨٣١: ابو حرہ نے حسن سے انھوں نے ابو بکرہ سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1832

۱۸۳۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَاتِ الرِّقَاعِ، فَأُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ .ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٨٣٢: ابو سلمہ نے کہا کہ حضرت جابر (رض) کہتے کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں تھے پس جماعت کرائی گئی پھر اس کا طریقہ مندرجہ بالا روایت والا نقل کیا ہے۔
تخریج : نسائی فی المغازی باب ٣٣‘ مسلم فی المسافرین ٣١١۔

1833

۱۸۳۳: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی الشَّوَارِبِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَیْسٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحَارِبَ خَصَفَۃَ فَصَلّٰی بِہِمْ صَلَاۃَ الْخَوْفِ) فَذَکَرَ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا .فَقَالَ قَوْمٌ بِھٰذَا، وَزَعَمُوْا أَنَّ صَلَاۃَ الْخَوْفِ کَذٰلِکَ .وَلَا حُجَّۃَ لَہُمْ - عِنْدَنَا - فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، لِأَنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّاہَا کَذٰلِکَ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ فِیْ سَفَرٍ یُقْصَرُ فِی مِثْلِہِ الصَّلَاۃُ، فَصَلّٰی بِکُلِّ طَائِفَۃٍ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَضَوْا بَعْدَ ذٰلِکَ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ .وَھٰکَذَا نَقُوْلُ نَحْنُ اِذَا حَضَرَ الْعَدُوُّ فِیْ مِصْرٍ فَأَرَادَ أَہْلُ ذٰلِکَ الْمِصْرِ أَنْ یُصَلُّوْا صَلَاۃَ الْخَوْفِ فَعَلُوْا ھٰکَذَا .یَعْنِیْ بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ الصَّلَاۃُ ظُہْرًا أَوْ عَصْرًا أَوْ عِشَائً .قَالُوْا : فَإِنَّ الْقَضَائَ مَا ذُکِرَ .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا قَدْ قَضَوْا وَلَمْ یُنْقَلْ ذٰلِکَ فِی الْخَبَرِ، وَقَدْ یَجِیْئُ فِی الْأَخْبَارِ مِثْلُ ھٰذَا کَثِیْرًا وَإِنْ کَانُوْا لَمْ یَقْضُوْا، فَإِنَّ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - لَا حُجَّۃَ فِیْہِ أَیْضًا لِأَنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْفَرِیْضَۃُ تُصَلّٰی - حِیْنَئِذٍ - مَرَّتَیْنِ فَیَکُوْنُ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فَرِیْضَۃً، وَقَدْ کَانَ ذٰلِکَ یُفْعَلُ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ .
١٨٣٣: سلیمان بن قیس نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خصفہ کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے پس صحابہ کو نماز خوف پڑھائی پس اسی طرح روایت نقل کی جیسے اوپر گزری۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ نماز خوف اسی طرح ہے۔ ہمارے ہاں ان آچار میں ہمارے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ادا کیا ہو اور آپ سفر میں نہ ہوں کہ جس میں قصر کی جاتی ہے۔ اس سے آپ نے ہر جماعت کو دو دو رکعت پڑھائیں اور بقیہ دو دو رکعتیں بعد میں انھوں نے پوری کرلیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ جب دشمن شہر میں حملہ کر دے اور شہر کے لوگ نماز خوف ادا کرنا چاہتے ہوں تو وہ اسی طرح کریں یعنی اس کے بعد کہ وہ نماز ظہر یا عصر یا عشاء ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ قضاء کا تو یہاں تذکرہ نہیں تو ان سے کہا جائے گا ممکن ہے کہ انھوں نے قضاء کی ہو مگر روایت میں مذکور نہیں اور روایات میں ایسا کثرت سے آتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قضاء نہ کی ہو مگر ہمارے ہاں اس کے لیے بھی کوئی دلیل روایت میں موجود نہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ یہ عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہو اور اس زمانے میں فریضہ دو مرتبہ ادا کیا جاتا ہو۔ پس ان میں سے ہر ایک فرض ہو ابتداء اسلام میں ایسا کا گیا پھر منسوخ ہوگیا۔ چنانچہ آئندہ روایت ملاحظہ کریں۔
تخریج : سابقہ تخریج کو ملاحظہ کریں۔ نسائی فی المغازی۔
حاصل روایات : ان روایتوں سے بظاہر آپ کا چار رکعت پڑھنا اور مقتدیوں کا دو دو رکعت پڑھنا ثابت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام پر تو چار رکعت اور مقتدیوں پر دو دو رکعت ہے۔
جواب : ان چاروں روایات میں آپ کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں یہ قوی احتمال ہے کہ یہ صلوۃ خوف حالت حضر میں ادا کی گئی اور حالت حضر میں تو امام چار رکعت پڑھتا اور مقتدیوں کو دو دو رکعت پڑھاتا اور بقیہ نماز مقتدی خود پوری کرتے ہیں اس کا تذکرہ اس روایت میں اگرچہ نہیں مگر دیگر روایات میں بقیہ کی قضا کا تذکرہ موجود ہے اور حضر میں تو سب کے نزدیک امام کا چار رکعت پڑھنا ضروری ہے اور مقتدی دو دو رکعت امام کے ساتھ پڑھ کر بقیہ پوری کریں گے جبکہ وہ نماز ظہر ‘ عصر یا عشاء ہو۔
ضمنی اشکال : بقیہ نماز کی ادائیگی کا تذکرہ روایات میں موجود نہیں ہے۔
الجواب نمبر !: ممکن ہے کہ انھوں نے پوری کی ہو اگرچہ اس روایت میں مذکور نہیں مگر دیگر روایات میں تو موجود ہے گویا ان روایات میں اجمال ہے۔
نمبر ": اگر بالفرض انھوں نے نہ پوری کی ہوں تو یہ عین ممکن ہے کہ یہ ابتداء اسلام کا زمانہ ہو جبکہ فرض کو ایک وقت میں دو مرتبہ پڑھا جاسکتا تھا پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا یہ روایت ابن عمر (رض) اس بات کو ظاہر کر رہی ہے۔

1834

۱۸۳۴: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا حُسَیْنُ ڑالْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ مَوْلٰی مَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَ : (أَتَیْت الْمَسْجِدَ فَرَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ جَالِسًا وَالنَّاسُ فِی الصَّلَاۃِ فَقُلْتُ : أَلَا تُصَلِّیْ مَعَ النَّاسِ؟ فَقَالَ : قَدْ صَلَّیْتُ فِیْ رَحْلِیْ، إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَیْ أَنْ تُصَلّٰی فَرِیْضَۃٌ مَرَّتَیْنِ) .فَالنَّہْیُ لَا یَکُوْنُ إِلَّا بَعْدَ الْاِبَاحَۃِ .فَقَدْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ ھٰکَذَا یَصْنَعُوْنَ فِیْ بَدْئِ الْاِسْلَامِ، یُصَلُّوْنَ فِیْ مَنَازِلِہِمْ ثُمَّ یَأْتُوْنَ الْمَسْجِدَ فَیُصَلُّوْنَ تِلْکَ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ أَدْرَکُوْہَا عَلٰی أَنَّہَا فَرِیْضَۃٌ فَیَکُوْنُوْا قَدْ صَلَّوْا فَرِیْضَۃً مَرَّتَیْنِ حَتَّی نَہَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ، وَأَمَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مَنْ جَائَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَأَدْرَکَ تِلْکَ الصَّلَاۃَ أَنْ یُصَلِّیَہَا وَیَجْعَلَہَا نَافِلَۃً .وَتَرْکُ ابْنِ عُمَرَ الصَّلَاۃَ مَعَ الْقَوْمِ یُحْتَمَلُ - عِنْدَنَا - ضَرْبَیْنِ .یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ الصَّلَاۃُ، صَلَاۃً لَا یُتَطَوَّعُ بَعْدَہَا فَلَمْ یَکُنْ یَجُوْزُ أَنْ یُصَلِّیَہَا إِلَّا عَلٰی أَنَّہَا فَرِیْضَۃٌ، فَقَالَ : (نَہَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُصَلّٰی فَرِیْضَۃً فِیْ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ) ، أَیْ فَلاَ یَجُوْزُ أَنْ أُصَلِّیَہَا فَرِیْضَۃً لِأَنِّیْ قَدْ صَلَّیْتَہٗ َا مَرَّۃً، وَلَا أَدْخُلُ مَعَہُمْ لِأَنِّیْ لَا یَجُوْزُ لِیْ التَّطَوُّعُ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ سُمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّہْیُ، عَنْ إِعَادَتِہَا عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ، ثُمَّ رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ تُصَلَّی عَلٰی أَنَّہَا نَافِلَۃٌ فَلَمْ یَسْمَعْ ذٰلِکَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٨٣٤: سلیمان مولیٰ میمونہ (رض) کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں آیا اور میں نے ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہیں جبکہ دوسرے لوگ نماز میں مشغول ہیں تو میں نے کہا کیا آپ لوگوں کے ساتھ نماز نہ پڑھیں گے ؟ تو انھوں نے جواب دیا میں اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فرض کو دو مرتبہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ممانعت کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ اباحت کے بعد ہوا کرتی ہے ابتداء اسلام میں مسلمان اسی طرح کرتے تھے وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے پھر وہ مسجد میں آتے اور جو نماز وہ جماعت کے ساتھ پاتے وہ فرض کے طور پر ادا کرتے۔ پس وہ دو مرتبہ فرض ادا نے والے ہوتے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس سے روک دیا اور ان کو حکم دیا کہ جو شخص مسجد میں آئے (جبکہ وہ پہلے گھر میں نماز ادا کرچکا ہو) تو اس نماز میں شامل ہو کر اس کو نفل بنائے۔ باقی اس روایت میں مذکور ہے ” ابن عمر (رض) نے لوگوں کے ساتھ نماز کو چھوڑ دیا “ اس میں دو احتمال ہیں۔ (١) ممکن ہے کہ وہ نماز ایسی ہو جس کے بعد نوافل نہیں پڑھے جاتے۔ پس یہ جائز نہیں کہ اسے فرض کے علاوہ کسی دوسری نیت سے ادا کرلے۔ اس وجہ سے انھوں نے فرمایا ” نھی رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یصلی فریضۃ فی یوم مرتین “ یعنی یہ جائز نہیں ہے کہ میں اسے فرض کی نیت سے ادا کروں کیونکہ میں اسے اس طور پر تو ایک مرتبہ ادا کرچکا اور ان کے ساتھ میں فرض میں شامل نہ ہوں گا کیونکہ اس وقت میں نفل میرے لیے جائز نہیں اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے لوٹانے کی ممانعت اس معنی میں سنی ہو جس پر آپ نے ممانعت فرمائی اور بعد میں آپ نے نفلی طور پر اجازت مرحمت فرمائی وہ انھوں نے نہ سنی ہو۔ پس دونوں احتمالات کو روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد و فی الصلاۃ باب ٥٧‘ نمبر ٥٧٩۔
حاصل روایت یہ ہے کہ نہی اباحت کے بعد ہوا کرتی ہے ابتداء اسلام میں لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کرلیتے تھے پھر مسجد نبوی میں آتے اور وہی نماز دوبارہ جماعت سے پڑھ لیتے تو گویا فرض دو مرتبہ ادا کرنے والے ہوتے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ اگر وہ نماز ادا کرلے پھر وہ مسجد میں آجائے تو اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرے اور اس کو نفل بنا لے (بشرطیکہ وہ ان نمازوں سے نہ ہو جن کے اوقات میں نوافل مکروہ تحریمی ہیں مثلاً نماز فجر کے بعد سورج طلوع تک کا وقت یا عصر کے بعد غروب آفتاب تک کا وقت۔
حضرت ابن عمر (رض) کے عمل میں دو احتمال ہیں۔
احتمال نمبر !: ابن عمر (رض) نے جس نماز کو ترک کیا ہے وہ وہی نماز ہو جس کے بعد نفل نہیں پڑھے جاسکتے اسی وجہ سے انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فرض کو دو مرتبہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ میں فرض تو ادا کرچکا اور یہ فعل اس وقت جائز نہیں اس لیے میں ان کے ساتھ نماز میں داخل نہیں ہو رہا۔
احتمال نمبر ": ممکن ہے کہ یہ نماز تو ایسی ہو جس کے بعد نفل نماز جائز ہو مگر ابن عمر (رض) نے ابھی تک جواز نفل والا ارشاد نہ سنا ہو۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ اس کی فرض نماز پہلے والی ہے یا یہ دوسری اس میں فتویٰ حضرت ابن عمر (رض) ملاحظہ ہو۔

1835

۱۸۳۵: فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ، قَالَ : ثَنَا الْمَاجِشُوْنُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعِیْدِ ابْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، قَالَ : أَرْسَلَنِیْ مُحْرِزُ بْنُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی ابْنِ عُمَرَ أَسْأَلُہُ اِذَا صَلَّی الرَّجُلُ الظُّہْرَ فِیْ بَیْتِہِ ثُمَّ جَائَ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ فَصَلّٰی مَعَہُمْ، أَیَّتَہمَا صَلَاتُہُ؟ .فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : صَلَاتُہُ الْأُوْلٰی .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ رَأَیٰ أَنَّ الثَّانِیَۃَ تَکُوْنُ تَطَوُّعًا فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ تَرْکَہٗ لِلصَّلَاۃِ فِیْ حَدِیْثِ سُلَیْمَانَ إِنَّمَا کَانَ لِأَنَّہَا صَلَاۃٌ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُتَطَوَّعَ بَعْدَہَا فَإِنْ کَانَتْ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ وَجَابِرٍ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَا کَانَ أَوْلَی الْحُکْمِ مَا وَصَفْنَا أَنَّ مَنْ صَلَّی فَرِیْضَۃً جَازَ أَنْ یُعِیْدَہَا فَتَکُوْنَ فَرِیْضَۃً فَلِذٰلِکَ صَلَّاہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتَیْنِ بِالطَّائِفَتَیْنِ، وَذٰلِکَ ہُوَ جَائِزٌ لَوْ بَقِیَ الْحُکْمُ عَلٰی ذٰلِکَ .فَأَمَّا اِذَا نُسِخَ فَنَہَیْ أَنْ تُصَلّٰی فَرِیْضَۃٌ مَرَّتَیْنِ فَقَدْ ارْتَفَعَ ذٰلِکَ الْمَعْنَی الَّذِیْ لَہٗ صَلّٰی بِکُلِّ طَائِفَۃٍ رَکْعَتَیْنِ وَبَطَلَ الْعَمَلُ بِہٖ .فَلاَ حُجَّۃَ لَہُمْ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ، وَجَابِرٍ لِاحْتِمَالِہِمَا مَا ذَکَرْنَا .
١٨٣٥: عثمان بن سعید بن ابی رافع کہتے ہیں کہ مجھے محرز بن ابی ہریرہ (رض) نے ابن عمر (رض) کی خدمت میں بھیجا کہ (میں ان سے یہ مسئلہ دریافت کروں) جب آدمی ظہر اپنے گھر میں ادا کرے پھر مسجد میں آئے اور لوگ ابھی نماز میں مصروف ہوں اور وہ ان کے ساتھ مل کر بھی نماز پڑھے تو اس کے فرض کون سے شمار ہوں گے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا فرض پہلی نماز والے ہوں گے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ ابن عمر (رض) نے یہ خیال فرمایا کہ دوسری نماز نفل ہوگی۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ان کا نماز چھوڑنا جس کا تذکرہ سلیمان (رض) کی روایت میں آیا ہے۔ وہ اس بناء پر تھا کہ وہ ایسی نماز تھی کہ جس کے بعد نفل ادا نہیں ہوسکتے۔ پس اگر ابوبکرہ اور جابر (رض) والی روایات جن کا ہم نے تذکرہ کیا ان میں پہلا معنی مراد لیا جائے جو ہم نے بیان کیا کہ ” جو شخص فرض نماز ادا کرلے اس کو اسے دوبارہ پڑھنا درست ہے “۔ پس اس صورت میں یہ فرض قرار پائیں گے۔ اسی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو مرتبہ دو جماعتوں کو نماز پڑھائی اور یہ جائز بشرطیکہ اس پر حکم باقی ہے اور اگر منسوخ ہوچکا ہو اور فرض کو دو مرتبہ پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہو تو یہ مفہوم خود ختم ہوگیا جس کی وجہ سے دو گروہوں کو دو دو رکعت پڑھائیں اور اس پر عمل کرنا جائز نہ ہوا۔ پس ان دو احتمالات کی وجہ سے حضرت ابو بکرہ اور جابر (رض) کی روایات سے استدلال کی گنجائش نہ رہی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٧٥۔
اس روایت سے یہ بات تو ظاہر ہوگئی کہ ابن عمر (رض) نے اس وقت جس جماعت میں شمولیت نہیں کی وہ ایسی نماز تھی جس کے بعد نفل نماز درست نہیں پس احتمال اول متعین ہوگیا۔
حدیث ابو بکرہ اور جابر (رض) کا جواب نمبر !: ان روایات میں مذکور ہے یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ فرض دو مرتبہ پڑھنے کی اجازت بھی اسی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گروہ کو دو رکعت پڑھائیں اور دوسرے گروہ کو بھی دو رکعت پڑھائیں اور یہ حکم پہلے تھا جب یہ حکم منسوخ ہوا تو اس روایت پر عمل بھی درست نہ رہا۔
ایک فرض کے دن میں دو مرتبہ پڑھنے کے نسخ کی دلیل یہ روایت ہے۔

1836

۱۸۳۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ یَعْنِی : ابْنَ ہِلَالٍ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ، عَنْ عَامِرِ ڑالْأَحْوَلِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَیْمَنَ الْمَعَافِرِیِّ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ الْعَوَالِیْ یُصَلُّوْنَ فِیْ مَنَازِلِہِمْ، وَیُصَلُّوْنَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَہَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعِیْدُوْا الصَّلَاۃَ فِیْ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ .قَالَ عَمْرٌو : قَدْ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فَقَالَ : صَدَقَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ ھٰذَا مَا یَدُلُّ عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا الْمَعْنَی .
١٨٣٦: عمرو بن شعیب نے خالد بن ایمن المعافری (رض) سے نقل کیا کہ اہل موالی اپنے گھروں میں نماز پڑھتے اور (پھر آ کر) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کرتے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دن میں دو مرتبہ ایک فرض نماز پڑھنے سے منع فرمایا عمرو کہتے ہیں میں نے یہ بات سعید بن المسیب (رح) کو نقل کی تو انھوں نے کہا خالد نے سچ فرمایا ہے۔ اور حضرت جابر (رض) سے اس کے خلاف روایت آئی ہے جو اور مفہوم پر دلالت کرتی ہے۔
ایک اور انداز سے ابوبکر و جابر (رض) کی روایت کا جواب :
خود حضرت جابر (رض) کی روایت اس مفہوم کو نادرست قرار دیتی ہے جو فریق رابع نے روایت حضرت جابر (رض) سے اخذ کیا ہے۔ روایت حضرت جابر (رض) ملاحظہ ہو۔

1837

۱۸۳۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْیَشْکُرِیِّ أَنَّہٗ سَأَلَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ إِقْصَارِ الصَّلَاۃِ فِی الْخَوْفِ أَیُّ یَوْمِ اُنْزِلَ وَأَیْنَ ہُوَ قَالَ انْطَلَقْنَا نَتَلَقَّیْ عِیْرَ قُرَیْشٍ آتِیَۃً مِنَ الشَّامِ، حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِنَخْلٍ، جَائَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَنْتَ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : نَعَمْ .قَالَ : أَلَا تَخَافُنِی؟ قَالَ : لَا .قَالَ : فَمَنْ یَمْنَعُک مِنِّی؟ قَالَ : اللّٰہُ یَمْنَعُنِی مِنْک .قَالَ : فَسَلَّ السَّیْفَ، قَالَ : فَتَہَدَّدَہُ الْقَوْمُ وَأَوْعَدُوہُ .فَنَادَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّحِیْلِ وَأَخَذُوْا السِّلَاحَ ثُمَّ نُوْدِیَ بِالصَّلَاۃِ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطَائِفَۃٍ مِنَ الْقَوْمِ، وَطَائِفَۃٌ أُخْرَی یَحْرُسُوْنَہُمْ .فَصَلّٰی بِاَلَّذِیْنَ یَلُوْنَہُ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ تَأَخَّرَ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُ عَلٰی أَعْقَابِہِمْ فَقَامُوْا فِیْ مَصَافِّ أَصْحَابِہِمْ، وَجَائَ الْآخَرُوْنَ فَصَلّٰی بِہِمْ رَکْعَتَیْنِ، وَالْآخَرُوْنَ یَحْرُسُوْنَہُمْ ثُمَّ سَلَّمَ .فَکَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ، وَلِلْقَوْمِ رَکْعَتَانِ رَکْعَتَانِ .فَفِیْ یَوْمَئِذٍ أَنْزَلَ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - إِقْصَارَ الصَّلَاۃِ، وَأَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِأَخْذِ السِّلَاحِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِہِمْ أَرْبَعًا یَوْمَئِذٍ، قَبْلَ إِنْزَالِ اللّٰہِ عَلَیْہِ فِیْ قَصْرِ الصَّلَاۃِ مَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ، وَأَنَّ قَصْرَ الصَّلَاۃِ إِنَّمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ - تَعَالٰی - بِہٖ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَکَانَتَ الْأَرْبَعُ یَوْمَئِذٍ مَفْرُوضَۃً عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ الْمُؤْتَمُّوْنَ بِہٖ فَرْضُہُمْ أَیْضًا فِیْہَا کَذٰلِکَ ؛ لِأَنَّ حُکْمَہُمْ حِیْنَئِذٍ، کَانَ فِیْ سَفَرِہِمْ کَحُکْمِہِمْ فِیْ حَضَرِہِمْ، وَلَا بُدَّ اِذَا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ کُلُّ طَائِفَۃٍ مِنْ ہَاتَیْنِ الطَّائِفَتَیْنِ قَدْ قَضَتْ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ، کَمَا تَفْعَلُ لَوْ کَانَتْ فِی الْحَضَرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ عَلٰی خُرُوْجِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاۃِ بَعْدَ فَرَاغِہٖ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ صَلَّاہُمَا بِالطَّائِفَۃِ الْأُوْلٰی وَاسْتِقْبَالِہِ الصَّلَاۃَ فِیْ وَقْتِ دُخُوْلِ الطَّائِفَۃِ الثَّانِیَۃِ مَعَہٗ فِیْہَا ؛ لِأَنَّ فِی الْحَدِیْثِ (ثُمَّ سَلَّمَ) .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ السَّلَامُ الْمَذْکُوْرُ فِیْ ھٰذَا الْمَوْضِعِ، ہُوَ سَلَامُ التَّشَہُّدِ الَّذِیْ لَا یُرَادُ بِہٖ قَطْعُ الصَّلَاۃِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ سَلَامًا أَرَادَ بِہٖ إِعْلَامَ الطَّائِفَۃِ الْأُوْلٰی بِأَوَانِ انْصِرَافِہَا .وَالْکَلَامُ حِیْنَئِذٍ مُبَاحٌ لَہٗ فِی الصَّلَاۃِ غَیْرُ قَاطِعٍ لَہَا عَلٰی مَا قَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، وَعَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ فِی الْبَابِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا فِیْہِ وُجُوْہَ حَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَلَّاہَا عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا الْمَعْنٰی .
١٨٣٧: سلیمان یشکری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نماز خوف میں قصد کا سوال کیا کہ یہ حکم کب نازل ہوا اور کہاں نازل ہوا ؟ تو جابر (رض) نے فرمایا ہم شام سے آنے والے قریش کے قافلہ کا سامنا کرنے نکلے جب ہم مقام نخل میں پہنچے تو ایک آدمی ایک قبیلے سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے سوال کیا کیا تم محمد ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا کیا تم مجھ سے نہیں ڈرتے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ تو اس نے کہا تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بچائے گا۔ پھر اس نے تلوار سونت لی صحابہ کرام (رض) نے اس کو ڈانٹا اور دھمکایا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم فرمایا انھوں نے ہتھیار تھام لیے پھر اذان دی گئی پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جماعت کو نماز پڑھائی اور ایک جماعت ان کی حفاظت کرتی رہی جو جماعت آپ کے قریب تھی ان کو دو رکعت پڑھائی سلام پھیرا (علامتی سلام) پھر یہ جماعت الٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئی اور اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کھڑے ہوئے اور دوسری جماعت آئی پس ان کو دو رکعت پڑھائی اور پہلی جماعت ان کی حفاظت کر رہی تھی پھر آپ نے سلام پھیرا (یہ سلام انقطاع صلوۃ والا تھا) پس اس طرح جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار رکعت ہوگئیں اور ہر گروہ کی دو دو رکعت ہوئیں پس اسی دن اللہ تعالیٰ نے نماز قصر اتاری اور مسلمانوں کو اسلحہ سمیت نماز کا حکم دیا۔
تخریج : ابن حبان ٣ ج ٤ س ٢٣٧۔
اللغات : عیر۔ قافلہ۔ سل۔ سونتنا۔ تہردد۔ ڈرانا۔ اوعد۔ دھمکانا۔
حاصل روایات : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چار رکعت پڑھائیں اور یہ نماز قصر کے نزول سے پہلے کی بات ہے پس اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی چار لازم تھیں اور مقتدیوں پر بھی چار لازم تھیں اور سفر و حضر کی نماز یکساں تھی۔ پس لازم ہے کہ جب جابر اور ابو بکرہ (رض) میں یہی حکم ہو اور مقتدیوں نے دو دو بعد میں پوری کی ہوں جیسا کہ حضر میں اگر صلوۃ خوف ہو تو اس کے سب قائل ہیں۔
ایک اشکال :
اس روایت میں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو دو رکعت الگ پڑھانا ثابت ہو رہا ہے کیونکہ روایت میں (ثم سلم) کے الفاظ موجود ہیں۔
جواب : یہ سلام قطع صلوۃ والا نہ تھا بلکہ طائفہ اولیٰ کو خبردار کرنے کے لیے تھا کہ اب ان کے لوٹنے کا وقت ہوگیا اور یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ نماز میں کلام ممنوع نہ تھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں مذکور ہے اور ہم عنقریب ابو سعید الخدری ‘ زید بن ارقم (رض) سے بھی باب صلوۃ الوسطیٰ میں گزری اور آئندہ باب العلوم فی الصلاۃ تحت روایۃ ذوالندین آئے گی۔ اس میں ہم ذکر کریں گے۔
جواب روایت جابر (رض) عن طریق آخر : ہم روایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں آپ نے ایک ایک رکعت پڑھائی ملاحظہ ہو۔

1838

۱۸۳۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیْمِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ الْہَادِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شُرَحْبِیْلُ بْنُ سَعْدٍ أَبُوْ سَعْدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ قَالَ : قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَطَائِفَۃٌ مِنْ خَلْفِہِ مِنْ وَرَائِ الطَّائِفَۃِ الَّتِیْ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُعُوْدٌ وُجُوْہُہُمْ کُلُّہُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَبَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَبَّرَتِ الطَّائِفَتَانِ وَرَکَعَ وَرَکَعَتِ الطَّائِفَۃُ الَّتِیْ خَلْفَہُ وَالْآخَرُوْنَ قُعُوْدٌ ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوْا أَیْضًا، وَالْآخَرُوْنَ قُعُوْدٌ ثُمَّ قَامَ وَقَامُوْا فَنَکَصُوْا خَلْفَہُ حَتَّی کَانُوْا مَکَانَ أَصْحَابِہِمْ وَأَتَتِ الطَّائِفَۃُ الْأُخْرٰی فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَۃً وَسَجْدَتَیْنِ وَالْآخَرُوْنَ قُعُوْدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَتِ الطَّائِفَتَانِ کِلْتَاہُمَا فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِہِمْ رَکْعَۃً وَسَجْدَتَیْنِ، رَکْعَۃً وَسَجْدَتَیْنِ) .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ - عِنْدَنَا - مِنَ الْمُحَالِ الَّذِیْ لَا یَجُوْزُ کَوْنُہُ ؛ لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّہُمْ دَخَلُوْا فِی الصَّلَاۃِ، وَہُمْ قُعُوْدٌ .وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ رَجُلًا لَوْ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ قَاعِدًا ثُمَّ قَامَ فَأَتَمَّہَا قَائِمًا، وَلَا عُذْرَ لَہٗ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ، أَنَّ صَلَاتَہُ بَاطِلَۃٌ، فَکَانَ الدُّخُوْلُ لَا یَجُوْزُ إِلَّا عَلٰی مَا یَکُوْنُ عَلَیْہِ الرُّکُوْعُ وَالسُّجُوْدُ، فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ الَّذِیْنَ کَانُوْا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّفِّ الثَّانِیْ، دَخَلُوْا فِی الصَّلَاۃِ، وَہُمْ قُعُوْدٌ .فَثَبَتَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ مَا رَوَیْنَاہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَذَہَبَ آخَرُوْنَ فِیْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ إِلٰی مَا
١٨٣٨: شرحبیل بن سعد ابو سعد نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز خوف کے سلسلہ میں نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایک جماعت آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ایک گروہ اس گروہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جو آپ کے پیچھے تھا مگر ان کے چہرے آپ کی طرف تھے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر کہی اور دونوں گروہوں نے تکبیر کہی آپ نے رکوع کیا اور اس جماعت کے بھی رکوع کیا جو آپ کے پیچھے تھی اور دوسری جماعت نے آپ کے پیچھے بیٹھے تھے پھر آپ نے سجدہ کیا اور انھوں نے بھی سجدہ کیا اور دوسرے بیٹھے رہے پھر آپ نے قیام کیا اور انھوں نے بھی قیام کیا اور پیچھے کی طرف ہٹ گئے اور بیٹھنے والوں کی جگہ پہنچ گئے دوسرا گروہ آیا اور ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو سجدوں سمیت مکمل رکعت پڑھائی اور دوسرے بیٹھے تھے پھر آپ نے سلام پھیرا پھر دونوں جماعتیں کھڑی ہوئیں اور اپنی ایک ایک رکعت دو سجدوں سمیت ادا کی۔ اس روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نماز قصر کے نزول سے پہلے ان کو چار رکعت نماز پڑھائی۔ قصر کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ پس اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چار رکعت ہی فرض تھیں اور آپ کے مقتدیوں کی فرض نماز بھی اسی طرح تھی۔ اس لیے کہ اس وقت تک ان کے حق میں سفر و حضر کا حکم برابر تھا۔ جب ایسی صورت تھی تو دونوں گروہوں نے دو دو رکعات پوری کیں۔ جیسا کہ اگر مقیم ہوتے تو دو دو رکعت کو پورا کرنا لازم آتا۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ دو رکعت ادا کرنے کے بعد آپ نماز سے باہر ہے ‘ کیونکہ حدیث پہلے گروہ کے ساتھ دو رکعت پر سلام پھیرنا مذکور ہے۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ یہ مذکورہ سلام تشہد والا ہو جس سے نماز سے نکلنے کا ارادہ نہیں ہوتا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سلام سے اس جماعت کو نماز سے لوٹنے کا مقام بتانا ہو اور اس زمانے میں گفتگو جائز تھی اس سے نماز قطع نہ ہوتی تھی۔ جیسا کہ حضرت ابن مسعود ‘ ابوسعید خدری اور زید بن ارقم (رض) سے مروی ہے۔ ہم نے کسی دوسرے موقع پر اس کتاب میں ان روایات کو ذکر کیا ہے جہاں حدیث ذوالیدین (رض) کی وجوہ ذکر کی گئی ہیں۔ حضرت جابر (رض) نے نماز خوف کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طریقہ کے علاوہ طریق سے بھی نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : المستدرک ١؍٤٨٦‘ ١٢٤٦۔
تنقید بروایت جابر (رض) :
اس روایت میں یہ ہے کہ وہ نماز میں بیٹھنے کی حالت میں داخل ہوئے تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جس آدمی نے بالعذر بیٹھ کر نماز شروع کی پھر وہ کھڑا ہوگیا اور نماز کو مکمل کیا تو اس کی نماز باطل ہے کیونکہ اس نے بلاعذر قیام کو ترک کیا اس کا نماز میں داخلہ ہی درست نہیں کہ جس پر رکوع و سجود کا دارومدار ہے پس یہ بات ناممکن ہے آپ کے پیچھے دوسری صرف میں بیٹھ کر وہ نماز میں داخل ہوئے پس جب یہ روایت قابل استدلال نہ ہوئی تو جابر (رض) کی وہ روایت جو دوسری روایات کے مطابق ہے وہی محل استدلال رہی۔
فریق خامس کا مؤقف اور مستدل :
یہ ابن ابی لیلیٰ اور مجاہد (رح) کا مؤقف ہے امام کے ساتھ دونوں فریق اسلحہ سمیت صف بستہ ہوں جب امام سجدہ کرے تو صف اول سجدہ کرے پھر دونوں سجدوں سے جب فارغ ہوں تو دوسرا گروہ سجدہ کرے پھر تو یہ گروہ پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا گروہ ان کی جگہ آئے اور امام جب سجدہ کرے تو یہ اس کے ساتھ سجدے کریں جب یہ سجدہ کر چکیں تو دوسرا گروہ ان کے بعد خود سجدہ کرے اور سلام دونوں امام کے ساتھ پھیریں۔

1839

۱۸۳۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ أَبِیْ عَیَّاشٍ الزُّرَقِیِّ، قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ بِ عُسْفَانَ وَالْمُشْرِکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ، فِیْہِمْ أَوْ عَلَیْہِمْ، خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ، فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : لَقَدْ کَانُوْا فِیْ صَلَاۃٍ لَوْ أَصَبْنَا مِنْہُمْ لَکَانَتَ الْغَنِیمَۃُ .فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ إِنَّہَا سَتَجِیْئُ صَلَاۃٌ ہِیَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَبْنَائِہِمْ قَالَ فَنَزَلَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِالْآیَاتِ فِیْمَا بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ .قَالَ : فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، وَصَفَّ النَّاسُ صَفَّیْنِ، وَکَبَّرَ وَکَبَّرُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا، ثُمَّ رَکَعَ وَرَکَعُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا ثُمَّ رَفَعَ وَرَفَعُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ الصَّفُّ الَّذِیْ یَلُوْنَہُ، وَقَامَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ یَحْرُسُوْنَہُمْ بِسِلَاحِہِمْ، ثُمَّ رَفَعَ وَرَفَعُوْا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ الصَّفُّ الْآخَرُ ثُمَّ رَفَعُوْا .وَتَأَخَّرَ الصَّفُّ الْمُقَدَّمُ وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ، فَکَبَّرَ وَکَبَّرُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا، ثُمَّ رَکَعَ وَرَکَعُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ وَرَفَعُوْا مَعَہٗ جَمِیْعًا، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَیْہِمْ وَصَلَّاہَا مَرَّۃً أُخْرٰی فِیْ أَرْضِ بَنِیْ سُلَیْمٍ) .
١٨٣٩: مجاہد نے ابو عیاش زرقی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مقام عسفان میں ظہر کی نماز پڑھائی جبکہ مشرکین آپ کے سامنے قبلہ والی جانب تھے ان کے کمانڈر خالد بن ولید تھے (جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے) مشرکین نے کہا یہ لوگ نماز میں تھے اگر ہم ان پر حملہ کرتے تو بڑی غنیمت بات تھی پھر مشرکین کہنے لگے ابھی ان کی دوسری نماز آرہی ہے وہ ان کو اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ صحابہ (رض) کہتے ہیں کہ ظہر و عصر کے درمیان جبرائیل (علیہ السلام) نماز خوف کا حکم لے کر نازل ہوئے ابو عیاش کہتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز پڑھائی لوگوں کی دو جماعتیں بنادیں آپ نے تکبیر کہی اور تمام نے آپ کے ساتھ تکبیر کہی پھر آپ نے رکوع کیا اور سب نے آپ کے ساتھ رکوع کیا پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا سب نے رکوع سے سر اٹھایا پھر آپ نے سجدہ کیا تو صف اول نے سجدہ کیا اور پچھلی صف کھڑی رہی وہ اپنے ہتھیاروں سے ان کی حفاظت کر رہی تھی پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور انھوں نے بھی سجدہ سے سر اٹھایا پھر دوسری صف والوں نے سجدے کر کے اس سے سر اٹھایا۔ اب پہلی صف پیچھے ہٹ گئی اور دوسری آگے آگئی آپ نے دوسری رکعت کی تکبیر کہی تمام نے آپ کے ساتھ تکبیر کہی پھر جب آپ نے رکوع کیا تو تمام نے آپ کے ساتھ رکوع کیا پھر آپ نے سر اٹھایا تو تمام نے آپ کے ساتھ سر اٹھایا پھر آپ نے سلام پھیرا۔ پھر آپ نے دوسری مرتبہ سر زمین بنی سلیم میں یہ نماز ادا فرمائی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ١٢٣٦‘ نسائی فی السنن کتاب صلوۃ الخوف نمبر ١٩٣٧۔

1840

۱۸۴۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فَذَکَرَ نَحْوًا مِنْ ھٰذَا وَکَانَ ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی مِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَتَرَکَہُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ؛ لِأَنَّ اللّٰہَ - عَزَّ وَجَلَّ - قَالَ: (وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ) وَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ صَلَّوْا جَمِیْعًا .وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَفِیْ حَدِیْثِ حُذَیْفَۃَ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ دُخُوْلُ الطَّائِفَۃِ الثَّانِیَۃِ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ لَمْ یَکُوْنُوْا صَلَّوْا قَبْلَ ذٰلِکَ، فَالْقُرْآنُ یَدُلُّ عَلٰی مَا جَائَ تْ بِہِ الرِّوَایَۃُ عَنْہُمْ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ فَکَانَتْ عِنْدَہٗ أَوْلٰی مِنْ حَدِیْثِ أَبِیْ عَیَّاشٍ، وَجَابِرٍ، ہٰذَیْنِ .وَذَہَبَ أَبُوْ یُوْسُفَ إِلٰی أَنَّ الْعَدُوَّ اِذَا کَانَ فِی الْقِبْلَۃِ، فَالصَّلَاۃُ کَمَا رَوٰی أَبُوْ عَیَّاشٍ وَجَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَإِنْ کَانُوْا فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ، فَالصَّلَاۃُ کَمَا رَوٰی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَحُذَیْفَۃُ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ .لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ عَیَّاشٍ أَنَّہُمْ کَانُوْا فِی الْقِبْلَۃِ، وَحَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ، وَحُذَیْفَۃَ، وَزَیْدٍ، لَمْ یُذْکَرْ فِیْہِ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مَا یُوَافِقُ مَا رَوَوْا وَقَالَ : کَانَ الْعَدُوُّ فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ .قَالَ : أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَأُصَحِّحُ الْحَدِیْثَیْنِ فَأَجْعَلُ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمَا وَافَقَہُ اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ وَحَدِیْثَ أَبِیْ عَیَّاشٍ، وَجَابِرٍ، اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِی الْقِبْلَۃِ .وَلَیْسَ ھٰذَا بِخِلَافِ التَّنْزِیْلِ - عِنْدَنَا - لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہٗ (وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ) اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ .ثُمَّ أَوْحَی اللّٰہُ إِلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ کَیْفَ حُکْمُ الصَّلَاۃِ اِذَا کَانُوْا فِی الْقِبْلَۃِ فَفَعَلَ الْفِعْلَیْنِ جَمِیْعًا کَمَا جَائَ الْخَبَرَانِ .وَھٰذَا أَصَحُّ الْأَقَاوِیْلِ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ وَأَوْلَاہَا ؛ لِأَنَّ تَصْحِیْحَ الْآثَارِ یَشْہَدُ لَہٗ وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ مَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ مِمَّا رَوَاہُ عَنْہُ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ مِنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذِیْ قَرَدٍ فَکَانَ ذٰلِکَ مُوَافِقًا لِمَا رَوٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ، وَحُذَیْفَۃُ، وَزَیْدٌ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .ثُمَّ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ رَأْیِہٖ۔
١٨٤٠: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے نماز خوف اسی طرح ادا فرمائی۔ ہمارے نزدیک اس روایت کا ہونا ناممکنات سے ہے۔ کیونکہ اس میں مذکور ہے کہ وہ قعدہ کی حالت میں نماز میں داخل ہوئے۔ حالانکہ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی بیٹھنے کی حالت نماز کو شروع پھر وہ کھڑا ہوجائے اور اس کا بیٹھنا عذر کی وجہ سے نہ ہو ‘ وہ نماز کو مکمل کرے تو اس کی نماز باطل ہوگی۔ پس ایسی حالت کے ساتھ داخل ہونا جائز ہے۔ جس میں رکوع اور سجدہ ادا کیا جاسکے۔ پس جو لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے دوسری صف میں شامل تھے ان کا قعدے کی حالت میں نماز میں داخلہ ناممکن ہے۔ جو کچھ ہم نے روایت کیا یہ جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کے علاوہ دوسری روایت میں موجود ہے۔ نمازِ خوف کے متعلق دوسرے حضرات نے اور راہ اپنایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : نماز کو اکٹھا شروع کیا جائے اور اکٹھا سلام پھیرا جائے آپ نے اسی طرح کیا معلوم ہوا یہی افضل ہے۔
الجواب نمبر 1: اس روایت میں جو طریقہ مذکور ہے وہ نص قرآنی میں ایک گروہ کو نماز شروع کرانا اور ایک رکعت ادا کرلینے پر دوسرے کا آنا مذکور ہے۔ پس یہ روایت اس کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہ ہوگی۔
جواب نمبر 2: ابن عمر ‘ ابن عباس ‘ حذیفہ بن یمان ‘ زید بن ثابت (رض) کی مواتر روایات کے مقابلے میں اس روایت سے استدلال نہ کیا جاسکے گا۔ پس ان روایات میں جو طریقہ مذکور ہے وہی نص قرآنی کے مطابق ہے اس کو لیا جائے گا۔
فریق سادس کا مؤقف :
جب دشمن سامنے ہو تو ابو عیاش اور جابر (رض) والا طریقہ اور جب قبلہ کی طرف نہ ہو تو ابن عمر ‘ حذیفہ ‘ زید بن ثابت (رض) والی روایت کو لیا جائے گا۔
طریق استدلال نمبر !: ابو عیاش اور جابر (رض) کی روایات میں دشمن کا سامنے ہونا صاف مذکور ہے جبکہ زید بن ثابت اور ابن عمر (رض) و دیگر صحابہ (رض) کی روایات اس سے خالی ہیں پس مطابقت کے لیے ابو عیاش (رض) کی روایات کو دشمن کے سامنے ہونے کی صورت پر محمول کریں گے۔
نمبر 1: ابن مسعود (رض) سے جو روایت منقول ہے اس میں دشمن کا غیر قبلہ میں ہونا معلوم ہوتا ہے پس زید بن ثابت اور دیگر صحابہ (رض) کی روایات کو ابن مسعود (رض) کے مطابق تسلیم کر کے سب روایات میں تطبیق دے لیں گے یہ تطبیق کا بہترین انداز ہے۔
نمبر 2: اور آیت : ولتأت طائفۃ اخری الایۃ تو اس میں خاص اس حالت کا ذکر ہے جبکہ دشمن غیر قبلہ میں ہو پھر جب دشمن کے قبلہ والی جانب ہونے والی صورت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ طریقہ نماز نازل فرما دیا جو اس موقعہ کے موافق تھا پس دونوں خبروں کا محمل الگ الگ نکل آیا۔
امام طحاوی (رح) کا رجحان :
تمام اقاویل میں سب سے اولیٰ اور اصح اور احوط یہی مذہب ہے کیونکہ آثار کو اس کے ساتھ بآسانی جمع کیا جاسکتا ہے اور اس کی تائید ابن عباس (رض) کے اس طرز عمل سے ہوتی ہے کہ مقام ذی قرد میں پیش آنے والے واقعہ کے سلسلہ میں انھوں نے وہی نقل کیا جو زید بن ثابت ‘ ابن عمر ‘ ابن مسعود (رض) سے منقول ہے گویا جبکہ دشمن قبلہ کی طرف نہ تھا تو وہی حکم دیا اور جب دشمن قبلہ کی طرف تھا تو انھوں نے یہ فتویٰ دیا ملاحظہ ہو۔

1841

۱۸۴۱: مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحِ ڑالْہَاشِمِیُّ أَبُوْ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ عَنِ الْأَعْرَجِ أَنَّہٗ سَمِعَ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : (کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ فِیْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ فَذَکَرَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ عَیَّاشٍ، وَحَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الَّذِیْ وَافَقَہُ .فَلَمَّا کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ عَلِمَ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا عَلِمَ عَلٰی مَا رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، وَقَالَ : کَانَ الْمُشْرِکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ، ثُمَّ قَالَ ھٰذَا بِرَأْیِہِ : اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ یُصَلُّوْنَ ھٰکَذَا، وَالْعَدُوُّ فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ، وَیُصَلُّوْنَ اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِی الْقِبْلَۃِ .کَمَا رَوٰی عَنْہُ عُبَیْدٌ .لِأَنَّہُمْ اِذَا کَانُوْا لَا یَسْتَدْبِرُوْنَ الْقِبْلَۃَ وَالْعَدُوُّ فِیْ ظُہُوْرِہِمْ، کَانَ أَحْرَیْ أَنْ لَا یَسْتَدْبِرُوْہَا اِذَا کَانُوْا فِیْ وُجُوْہِہِمْ .وَلٰـکِنْ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ مِنْ تَرْکِ الْاِسْتِدْبَارِ ہُوَ اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِی الْقِبْلَۃِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَیْضًا کَذٰلِکَ اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ أَیْضًا فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ، قَالَ ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی فَقَدْ أَحَاطَ عِلْمُنَا بِقَوْلِہٖ بِخِلَافِ مَا رَوٰی عَنْہُ عُبَیْدُ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِی الْقِبْلَۃِ .وَلَمْ یَکُنْ لِیَقُوْلَ ذٰلِکَ إِلَّا بَعْدَ ثُبُوْتِ نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ اِذَا کَانَ الْعَدُوُّ فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ فَجَعَلْنَا ھٰذَا الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ عَنْہُ مِنْ قَوْلِہٖ ہُوَ، فِی الْعَدُوِّ اِذَا کَانُوْا فِی الْقِبْلَۃِ، وَتَرَکْنَا حُکْمَ الْعَدُوِّ اِذَا کَانُوْا فِیْ غَیْرِ الْقِبْلَۃِ، عَلَی مِثْلِ مَا رَوٰی عَنْہُ عُبَیْدُ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ مَرَّۃً : لَا یُصَلَّی صَلَاۃُ الْخَوْفِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَزَعَمَ أَنَّ النَّاسَ إِنَّمَا صَلَّوْہَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا صَلَّوْہَا لِفَضْلِ الصَّلَاۃِ مَعَہٗ، وَھٰذَا الْقَوْلُ - عِنْدَنَا - لَیْسَ بِشَیْئٍ ؛ لِأَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّوْہَا بَعْدَہٗ، قَدْ صَلَّاہَا حُذَیْفَۃُ، بِطَبَرِسْتَانَ، وَمَا فِیْ ذٰلِکَ فَأَشْہَرُ مِنْ أَنْ یَحْتَاجَ إِلٰی أَنْ نَذْکُرَہُ ہَاہُنَا .فَإِنِ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ (وَإِذَا کُنْتُ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ) الْآیَۃَ، فَقَالَ : إِنَّمَا أَمَرَ بِذٰلِکَ، اِذَا کَانَ فِیْہِمْ فَإِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْہِمْ، انْقَطَعَ مَا أَمَرَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : فَقَدْ قَالَ - عَزَّ وَجَلَّ - : (خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ) الْآیَۃَ، فَکَانَ الْخِطَابُ ہَاہُنَا لَہٗ، وَقَدْ أَجْمَعَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مَعْمُوْلًا بِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ، کَمَا کَانَ یُعْمَلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِہِ .وَلَقَدْ حَدَّثَنِیْ أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدَ بْنَ شُجَاعٍ الثَّلْجِیَّ یَعِیْبُ قَوْلَ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ ھٰذَا وَیَقُوْلُ : إِنَّ الصَّلَاۃَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنْ کَانَتْ أَفْضَلَ مِنَ الصَّلَاۃِ مَعَ النَّاسِ جَمِیْعًا فَإِنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَتَکَلَّمَ فِیْہَا بِکَلَامٍ یَقْطَعُہَا فَلاَ یَنْبَغِیْ أَنْ یُفْعَلَ فِیْہَا شَیْئٌ لَا یَفْعَلُہٗ فِی الصَّلَاۃِ مَعَ غَیْرِہِ وَأَنْ یَقْطَعَہَا مَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ خَلْفَ غَیْرِہِ مِنَ الْأَحْدَاثِ کُلِّہَا .فَلَمَّا کَانَتِ الصَّلَاۃُ خَلْفَہُ لَا یَقْطَعُہَا الذَّہَابُ وَالْمَجِیْئُ وَاسْتِدْبَارُ الْقِبْلَۃِ اِذَا کَانَتْ صَلَاۃَ خَوْفٍ کَانَتْ خَلْفَ غَیْرِہٖ کَذٰلِکَ أَیْضًا .
١٨٤١: اعرج نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ابن عباس (رض) نے صلوۃ خوف کے سلسلہ میں اسی طریق کو نقل کیا جو ابو عیاش (رض) کی روایت میں مذکور ہے۔
جب ابن عباس (رض) نے فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی جانا جو ہم نے حدیث عبیداللہ میں نقل کیا تو اس روایت میں یہ صاف موجود ہے کہ دشمن آپ کے اور قبلہ کے درمیان حائل تھے پھر یہ فتویٰ انھوں نے اپنے اجتہاد سے دیا جو کہ بظاہر فعل رسول کے خلاف ہے حالانکہ وہ فعل رسول کی اصل صورت کو خوب جانتے تھے تو ایک ساتھ نیت باندھنے پر انکار فتویٰ ناممکن ہے کیونکہ دشمن غیر قبلہ کی طرف ہو اور سب لوگ ایک ساتھ نیت باندھ لیں حالانکہ دشمن سے حفاظت بھی مقصود ہو تو یہ ناممکن ہے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دشمن قبلہ کی جانب ہو اور نماز اسی طرح ادا کی جائے جیسا عبیداللہ کی روایت میں مذکور ہے جب دشمن غیر قبلہ میں ہو تو تب بھی مسلمان قبلہ سے پشت نہیں پھیرتے پھر دشمن قبلہ کی جانب ہو تو پھر ان کا پشت نہ پھیرنا بطریق اولیٰ ہے۔
مگر مطلب وہی درست ہے جو ہم کہہ رہے ہیں کہ جب دشمن قبلہ کی جانب ہو تو قبلہ سے رخ موڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دونوں گروہ ایک ساتھ نیت کرلیں بس سجدہ آگے پیچھے کریں گے ایک گروہ امام کے ساتھ سجدہ کرے اور دوسرا اس کے بعد لیکن ترک استدبار اس وقت ہو جبکہ دشمن قبلہ کی طرف ہو اور غیر قبلہ میں ابن ابی لیلیٰ والی روایت کا بھی احتمال ہے رجعت قہقری۔ ہم اس کی وضاحت اور جواب ذکر کر آئے ہیں البتہ عبیداللہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت ثابت ہے وہ ان سے ثبوت نسخ کی صورت میں ہے یہ روایت عبیداللہ تو دشمن کے قبلہ کی طرف ہونے سے متعلق ہے ہم نے غیر قبلہ میں دشمن کے پائے جانے والی صورت کو چھوڑ دیا ہے جیسا کہ عبیداللہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔
حاصل روایات :
یہ ہے کہ قبلہ کی جانب دشمن ہو تو ابو عیاش والی روایت اور غیر قبلہ کی جانب ہو تو ابن عمر زید بن ثابت والی روایات پر عمل ہوگا۔
امام ابو یوسف (رح) کے قول پر تنقید :
امام ابویوسف کبھی صلوۃ خوف کو زمانہ نبوت سے خاص مانتے ہیں اور دلیل یہ دی کہ لوگوں نے آپ کے ساتھ اس لیے پڑھی کہ آپ کے پیچھے نماز فضیلت والی ہے اور بس۔ مگر یہ قول ہمارے نزدیک کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ صحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نماز کو آپ کے بعد ادا کیا حضرت حذیفہ (رض) نے طبرستانؔ میں پڑھائی اور اسی طرح دیگر حضرات نے۔
ایک اشکال :
اذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلاۃ۔ الایۃ اس آیت میں صیغہ خطاب کا ہے کہ جب آپ ان میں ہوں تو نماز پڑھائیں جب نہ ہوں تو وہ حکم نہ ہوگا۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم وتزکیہم بھا وصل علیہم الایۃ (التوبہ) اس میں بھی صیغہ خطاب موجود ہے مگر اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت اس وقت سے لے کر آج تک معمول بھا ہے۔ بلکہ علامہ محمد بن شجاع ثلجی امام ابو یوسف (رح) کی اس بات پر کہ انھوں نے تو فضیلت کی وجہ سے آپ کے ساتھ نماز پڑھی یہ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ یہ افضل ہے مگر نماز میں گفتگو کرنا اور ایسے افعال کرنا جو نماز کو منقطع کرنے والے ہوں یہ تو کسی کے لیے درست نہیں اور جو احداث دوسروں کے ساتھ نماز کو منقطع کرنے والے ہیں وہ آپ کے ساتھ بھی نماز کو قطع کرنے والے ہیں پس جب آپ کے پیچھے نماز آنے جانے سے منقطع نہیں ہوئی اور استدبار قبلہ سے انقطاع نہیں ہوا تو دوسروں کے ساتھ صلوۃ خوف میں یہی حکم ہوگا اور صلوۃ خوف میں یہ سب حالتیں درست ہوں گی۔ فتدبر۔
اور آپ کے بعد بھی اسی طرح جائز ہوگی جیسا آپ کے زمانے میں جائز تھی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ورنہ صحابہ وتابعین سے اس کا پڑھنا ثابت نہ ہوتا۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے اپنے مزاج کے خلاف فریق ثانی احناف کے مسلک کو خوب واضح کیا اور اس پر پیش آمدہ اعتراضات کے جوابات اور عقلی دلائل بھی پیش کئے اور اس کو درمیان میں ذکر کیا البتہ اپنے ہاں جس قول کو راجح خیال کیا اسے سب سے آخر میں لائے اور امام ابو یوسف (رح) کا قول دراصل ان کے مزاج سے بہت موافق تھا کہ روایات میں تطبیق زیادہ سے زیادہ پیدا ہو کر عملی شکل میں زیادہ سے زیادہ احادیث پر عمل ہو سکے اس کو ملحوظ رکھا مگر جس بات میں ان سے اختلاف تھا اس کی دلیل سے تردید کردی کیونکہ بات تو امام ابو یوسف (رح) کے جلالت شان کی نہیں بلکہ احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے جس پر ایمان کا مدار ہے۔

1842

۱۸۴۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ہُوَ ابْنُ نُوْحٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدٍ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ : (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ شَغَلُوْنَا عَنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ قَالَ : وَلَمْ یُصَلِّہَا یَوْمَئِذٍ حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ مَلَأَ اللّٰہُ قُبُوْرَہُمْ نَارًا وَقُلُوْبَہُمْ نَارًا وَبُیُوْتَہُمْ نَارًا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّاکِبَ لَا یُصَلِّی الْفَرِیْضَۃَ عَلٰی دَابَّتِہِ، وَإِنْ کَانَ فِیْ حَالٍ لَا یُمْکِنُہُ فِیْہَا النُّزُوْلُ، قَالُوْا : لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ رَاکِبًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : إِنْ کَانَ ھٰذَا الرَّاکِبُ یُقَاتِلُ، فَلاَ یُصَلِّیْ وَإِنْ کَانَ الرَّاکِبُ لَا یُقَاتِلُ وَلَا یُمْکِنُہُ النُّزُوْلُ صَلَّی، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ ؛ لِأَنَّہٗ کَانَ یُقَاتِلُ، فَالْقِتَالُ عَمَلٌ، وَالصَّلَاۃُ لَا یَکُوْنُ فِیْہَا عَمَلٌ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ أُمِرَ - حِیْنَئِذٍ - أَنْ یُصَلِّیَ رَاکِبًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ۔
١٨٤٢: زر نے حضرت حذیفہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ خندق کے روز فرما رہے تھے ان کفار نے ہمیں نماز عصر سے مشغول کردیا یعنی نہ پڑھنے دی آپ عصر کی نماز ادا نہ فرما سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا آپ نے یہ بددعا فرمائی اللہ تعالیٰ ان کی قبور کو آگ سے بھر دے اور ان کے دلوں کو آگ سے بھر دے اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سوار اس سواری پر فرض نماز نہ پڑھے جبکہ وہ ایسی حالت میں بھی ہو کہ اس سے اترنا اسے ممکن نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن سواری کی حالت میں نماز ادا نہ فرمائی۔ دوسروں نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر سوار لڑائی میں مصروف ہو تو پھر نماز نہ پڑھے اور اگر سوار لڑائی نہ کررہا ہو اور اترنا بھی ممکن نہ ہو تو نماز پڑھ لے۔ یہ کہنا درست ہے کہ آپ نے نماز اس وجہ سے نہ پڑھی ہو کہ آپ لڑائی میں مصروف ہو۔ لڑائی ایک خارجی عمل ہے اور نماز میں کوئی خارجی عمل نہیں ہوتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے نماز اس لیے نہ پڑھی ہو کہ سواری کی حالت میں نماز کا حکم نہ دیا گیا تھا۔ پس ہم نے اس پر غور کیا تو یہ روایات سامنے آئیں۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٩٨‘ والمغازی باب ٢٩‘ مسلم فی المساجد ٢٠٢؍٢٠٣‘ ترمذی فی تفسیر سورة نمبر ٢‘ باب ٣١‘ نسائی فی الصلاۃ باب ١٤‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٦‘ مسند احمد ١؍٧٩‘ ٨١‘ ١١٣۔
مؤقف ثانی : اگر سوار لڑائی میں مصروف ہو تو نماز نہ پڑھے اور اگر لڑائی میں مصروف نہ ہو مگر اترنا ممکن نہ ہو تو سواری کی حالت میں فرض ادا کرے۔
جواب نمبر 1: قدیجوز سے دیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت کفار کے ساتھ مقابلے میں مصروف رہے اور مقابلہ تو عمل کثیر ہے اس کے ہوتے ہوئے نماز ممکن نہیں تھی۔
نمبر 2: اس لیے آپ نے نماز ادا نہیں کی کیونکہ سواری کی حالت میں نماز کا حکم نہ ملا تھا جیسا کہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے۔
خلاصہ الزام : سوار ہونے کی حالت میں مجاہد یا مسافر کو اشارہ سے نماز جائز ہے یا نہیں۔ تعاقب دشمن کے عذر کے باوجود سواری پر اشارہ سے نماز درست نہیں یہ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے۔
نمبر 2: جبکہ امام مالک و شافعی و احمد (رح) اور اکثر احناف سواری پر عذر کی حالت میں فرض نماز کو جائز قرار دیتے ہیں۔
مؤقف اول اور اس کے دلائل : سوار کو فرض نماز سواری کی حالت میں بالکل درست نہیں کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم خندق میں سواری کی حالت میں نماز نہیں پڑھی۔ دلیل۔ ابن ابی لیلیٰ ان لوگوں میں سے ہیں جو اس حدیث کی طرف گئے ہیں۔ اسے ابوحنیفہ اور محمد بن حسن (رح) نے اس کو چھوڑ دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { ولتأت طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک } ” اور چاہے کہ دوسری جماعت آئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ آپ کے ساتھ نماز ادا کریں “۔ اس روایت میں ہے کہ ” انھم صلّوا جمیعًا “ کہ ان تمام نے اکٹھی نماز پڑھی اور ابن عمر اور عبیداللہ کی ابن عباس (رض) والی روایت اسی طرح حضرت حذیفہ اور زید بن ثابت (رض) میں اس طرح مذکور ہے کہ وہ دوسری رکعت میں اس دوسرے گروہ کے داخل ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی قرآن مجید کی دلالت بھی ان کی روایت کے مضمون کا مؤید ہے۔ جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی۔ پس ان دونوں کے نزدیک یہ روایت حضرت ابو عیاش اور جابر (رض) کی روایت سے اولیٰ و افضل ہے۔ مگر امام ابویوسف (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ جب دشمن قبلہ کی جانب ہوں تو پھر نماز حضرت ابوعیاش و جابر (رض) کی روایت کے مطابق ہوگی اور دشمن اگر قبلہ کے علاوہ ہوں تو پھر اس طرح نماز پڑھی جائے جیسے حضرت ابن عمر ‘ ابن عباس ‘ زید بن ثابت اور حذیفہ (رض) کی روایت میں مذکور ہے۔ کیونکہ حضرت ابوعیاش (رض) کی روایت صاف موجود ہے کہ دشمن قبلہ کی طرف تھا اور حضرت اب عمر ‘ حذیفہ اور زید (رض) کی روایت میں کسی بھی ایسی بات کا تذکرہ نہیں ہے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے ان کے موافق روایت موجود ہے اور اس میں مذکور ہے کہ دشمن غیر قبلہ کی طرف تھا۔ امام ابویوسف (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ میرے ہاں دونوں روایات درست ہیں ‘ اس لیے ابن مسعود (رض) کی روایت اور جو ان کے موافق ہیں اس بات پر محمول کرتا ہوں جب دشمن قبلہ کی سمت میں نہ ہوں اور رہی روایت ابو عیاش اور جابر (رض) اس صورت سے تعلق رکھتی ہے جبکہ دشمن قبلہ کی جانب ہو اور یہ صورت ہمارے نزدیک بھی قرآن مجید کے مخالف نہیں۔ کیونکہ ارشاد خداوندی { ولتأت طائفۃ اخریٰ } (القرآن) کی آیت اس صورت سے متعلق ہے جب دشمن قبلہ والی جانب نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ جب دشمن قبلہ والی جانب ہو تو نماز کس طرح ادا کی جائے۔ پس آپ نے دونوں پر عمل کیا جیسا کہ دونوں طرح کی روایات وارد ہیں۔ ہمارے نزدیک تمام اقوال میں سے زیادہ صحیح یہ قول ہے۔ کیونکہ روایات کی صحت اس پر گواہ ہے اور اس کی مؤید وہ روایت ہے جو ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز خوف کے سلسلہ میں نقل کی ہے۔ جس کو اس باب کی ابتداء میں ہم نے ذکر کیا۔ اس کو ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے مقام ذی قرر میں نقل کیا ہے اور وہ ابن مسعود ‘ ابن عمر ‘ حذیفہ اور زید (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں روایات کی ہیں ‘ ان کے موافق ہے اور ابن عباس (رض) کا فتویٰ بھی اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو۔
امام ابو یوسف (رح) کبھی تو اس طرح فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نماز خوف نہ پڑھی جائے ‘ بقیہ صحابہ کرام (رض) نے آپ کے ساتھ صلوۃ خوف فضیلت کو حاصل کرنے کو پڑھی تھی۔ مگر یہ قول ہمارے ہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتی ‘ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام نے بھی یہ نماز پڑھی ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ (رض) نے طبرستان میں یہ نماز ادا کی اس میں جو کچھ تذکرہ ہو وہ اس قدر شہرت یافتہ ہے کہ ہمیں دوبارہ ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر بالفرض وہ اس سلسلہ میں اس ارشاد گرامی سے استدلال کریں { و اذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ } (القرآن) کہ ” جب آپ ان میں ہوں تو آپ ان کو نماز اس طرح پڑھائیں “۔ انھوں نے کہا یہ حکم آپ کی موجودگی کے ساتھ خاص ہے ‘ جب آپ نہیں ہوں گے تو یہ حکم بھی منقطع ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { خذ من اموالھم صدقۃ۔۔۔} (الآیۃ) کہ ” آپ ان کے اموال سے زکوۃ وصول کریں اور ان کو پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں “۔ یہاں اگرچہ خطاب تو آپ کو فرمایا مگر اس پر تمام کا اتفاق ہے کہ آپ کے بعد بھی اس پر عمل کیا جائے گا۔ جیسا کہ ظاہری حیات طیبہ میں اس پر عمل کیا گیا۔ مجھے احمد بن ابی عمران نے محمد بن شجاع ثلجی کے متعلق بتلایا کہ وہ امام ابویوسف (رح) کے قول کو ناپسند کرتے اور اس پر عیب لگاتے اور فرماتے اگرچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کرنا سب سے افضل ہے مگر اس نماز میں ایسا کلام کسی کو جائز نہیں جو نماز کو توڑ دے۔ اسے نماز میں وہ عمل نہ کرنا چاہیے جو وہ دوسرے کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے نہیں کرتا۔ آپ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کو وہ عمل توڑ دیتا ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ نماز کو توڑ دیتا ہے مثلاً حدث کا پیش آنا۔ پس جب آپ کے پیچھے نماز خوف میں آنا جانا اور قبلہ کی طرف پشت کرنا نماز کو نہیں توڑتا تو کسی دوسرے کے پیچھے بھی نماز خوف کا یہی حکم ہے۔

1843

۱۸۴۳: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ ح .
١٨٤٣: ابو عامر اور بشر بن عمر نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔

1844

۱۸۴۴: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ سَعِیْدِ ڑالْمَقْبُرِیِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : (حُبِسْنَا یَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّی کَانَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ بِہَوِیٍّ مِنَ اللَّیْلِ حَتّٰی اِذَا کُفِیْنَا، وَذٰلِکَ قَوْلُ اللّٰہِ تَعَالٰی (وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا)، قَالَ : فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّہْرَ فَأَحْسَنَ صَلَاتَہَا کَمَا کَانَ یُصَلِّیْہَا فِیْ وَقْتِہَا ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعَصْرَ فَصَلَّاہَا کَذٰلِکَ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ فَصَلَّاہَا کَذٰلِکَ، وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یُنْزِلَ اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - فِیْ صَلَاۃِ الْخَوْفِ (فَرِجَالًا أَوْ رُکْبَانًا) ) .فَأَخْبَرَ أَبُوْ سَعِیْدٍ أَنَّ تَرْکَہُمْ لِلصَّلَاۃِ یَوْمَئِذٍ رُکْبَانًا إِنَّمَا کَانَ قَبْلَ أَنْ یُبَاحَ لَہُمْ ذٰلِکَ ثُمَّ أُبِیْحَ لَہُمْ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا کَانَ فِی الْحَرْبِ - وَلَا یُمْکِنُہُ النُّزُوْلُ عَنْ دَابَّتِہِ - أَنَّ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہَا إِیْمَائً وَکَذٰلِکَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا کَانَ عَلَی الْأَرْضِ، فَخَافَ إِنْ سَجَدَ أَنْ یَفْتَرِسَہٗ سَبْعٌ أَوْ یَضْرِبَہٗ رَجُلٌ بِسَیْفٍ، فَلَہُ أَنْ یُصَلِّیَ قَاعِدًا، إِنْ کَانَ یَخَافُ ذٰلِکَ فِی الْقِیَامِ وَیُوْمِیُٔ إِیْمَائً، وَھٰذَا کُلُّہُ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
١٨٤٤: عبدالرحمن بن ابی سعید الخدری نے اپنے والد سے نقل کیا کہ نقل کیا ہم نماز سے مشغول رہے یہاں تک کہ جب مغرب کے بعد رات کا ایک حصہ گزرا اور ہم دشمن سے محفوظ کردیئے گئے جیسا کہ اس ارشاد میں فرمایا وکفی اللہ المؤمنین القتال (الاحزاب : ٢٥) تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو بلایا پس (اذان دی) اور اقامت کہی اور ظہر کی نماز اسی طرح پڑھائی جیسے اس کے وقت میں آپ پڑھاتے تھے پھر اس کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے اقامت کہی آپ نے عصر کو اسی طرح ادا فرمایا پھر اس کی اقامت کا حکم دیا اور مغرب کی نماز بھی اسی طرح ادا فرمائی اور یہ اس آیت کے نزول سے پہلے کی بات ہے جو صلوۃ خوف کے سلسلہ میں اتری۔ فرجالا اور کبانا۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے بتلایا کہ اس دن سواری کی حالت میں نماز پڑھنا لڑائی کی حالت میں نماز کے چھوڑنے کے جائز ہونے سے پہلے تھا۔ پھر اس آیت کے ذریعہ ان کے لیے جائز کردیا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب کوئی شخص لڑائی کی حالت میں ہو اور وہ سواری سے بھی نہ اتر سکتا ہو تو اس کے لیے اشارے سے پہلے نماز پڑھنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص زمین پر ہو اور اسے ڈر ہو کہ وہ سجدہ میں پڑنے کی وجہ سے کوئی درندہ اسے شکار کرلے گا یا کوئی اس پر تلوار کا وار کر کے مار دے گا ‘ اور قیام کی حالت میں یہ خوف دامن گیر ہو تو بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے۔ یہ تمام امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٠٧۔
اللغآت : ہوی حصہ ٹکڑا۔ کفی یکفی : کفایت کرنا ‘ کافی ہونا۔
حاصل روایات : اس روایت میں ابو سعید (رض) نے اطلاع دی ہے کہ اس نے دن سواری کی حالت میں نماز ترک فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ سواری پر نماز کا حکم ابھی نازل نہ ہوا تھا۔
پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جب آدمی میدان جنگ میں مصروف ہو اور سواری سے اترنا ممکن نہ ہو تو اسے اشارہ کے ساتھ سواری پر نماز درست ہے۔ بالکل اسی طرح جب آدمی زمین پر ہو اور اسے خطرہ ہو کہ اگر وہ سجدہ کرے گا تو اس کو کوئی درندہ پھاڑ ڈالے گا یا کوئی آدمی حملہ کر کے تلوار سے قتل کر دے گا تو اسے بیٹھے بیٹھے اشارے سے نماز پڑھ لینی چاہیے اور قیام کی حالت میں خطرہ ہو تو اشارہ سے نماز قیام کی حالت میں ادا کرے۔
اسی طرح امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں بھی نظری دلیل پیش نہیں کی صرف نقلی پر اکتفاء کیا ہے اور مسلک راجح کو عادت کے مطابق اخیر میں ذکر کیا ہے۔

1845

۱۸۴۵: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ، ہُوَ أَبُوْ بِشْرِ ڑالْبَغْدَادِیُّ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ شَرِیْکِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ نِمْرٍ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَذْکُرُ أَنَّ (رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مِنْ بَابٍ کَانَ وِجَاہَ الْمِنْبَرِ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، ثُمَّ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ہَلَکَتَ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللّٰہَ یُغِیْثُنَا فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَیْہِ، ثُمَّ قَالَ : اللّٰہُمَّ اسْقِنَا .قَالَ أَنَسٌ : فَوَاللّٰہِ مَا نَرَی فِی السَّمَائِ مِنْ سَحَابٍ وَلَا قَزَعَۃٍ، وَمَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ سَلْعٍ مِنْ بَیْتٍ وَلَا دَارٍ .قَالَ : فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِہِ سَحَابَۃٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتْ السَّمَائَ انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ، قَالَ : فَوَاللّٰہِ مَا رَأَیْنَا الشَّمْسَ سَبْتًا .قَالَ : ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنَ الْبَابِ فِی الْجُمُعَۃِ الْمُقْبِلَۃِ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یَخْطُبُ النَّاسَ فَاسْتَقْبَلَہٗ قَائِمًا، ثُمَّ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : ہَلَکَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُمْسِکَہَا عَنَّا .فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ : اللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا، اللّٰہُمَّ عَلَی الْآکَامِ وَالظِّرَابِ .قَالَ : فَأَقْلَعَتْ، وَخَرَجَ یَمْشِیْ فِی الشَّمْسِ).
١٨٤٥: شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے حضرت انس (رض) سے سنا کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے سامنے والی جانب ہے اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے خطبہ دے رہے تھے وہ سیدھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال تباہ ہوگئے اور منقطع ہوگئے یعنی جانور بھوک کی وجہ سے سواری کے قابل نہ رہے پس آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عنایت فرمائے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ ہمیں رحمت سے سیراب فرما حضرت انس (رض) کہتے ہیں اللہ کی قسم ! آسمان میں اس وقت کوئی بادل نہ تھا نہ چھوٹا نہ بڑا اور نہ ہی ہمارے اور جبل سلع کے درمیان کوئی گھر یا عمارت حائل تھی انس (رض) کہتے ہیں سلع کے پچھلی جانب ڈھال جیسا بادل رونما ہوا جب وہ آسمان کے درمیان میں پہنچا تو پھیل گیا پھر بارش شروع ہوئی انس (رض) کہتے ہیں ایک ہفتہ ہم نے سورج نہیں دیکھا۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں پھر اسی دروازے سے ایک آدمی آئندہ جمعہ کے دن داخل ہوا جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور سیدھا آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا پھر کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مال تباہ ہوگئے اور راستے (پانی کی کثرت) سے رک گئے پس آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ اس بارش کو روک دے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور یہ دعا فرمائی اے اللہ ! ہمارے اطراف و جوانب اور ٹیلوں اور پہاڑوں پر برسا نہ کہ ہم پر۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں بس بارش رک گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے۔
اللغات : وجاہ۔ سامنے۔ یغیثنا۔ بارش کر دے۔ قزعۃ۔ بادل کا ٹکڑا۔ حوالینا۔ یہ حول کی جمع ارد گرد اکام۔ اکمۃ کی جمع ٹیلہ۔ ظراب۔ ظرب کی جمع ہے پھیلا ہوا پہاڑ۔
تخریج : بخاری فی الاستسقاء باب ٦‘ ٧‘ ٩‘ مسلم فی الاستسقاء نمبر ٨‘ نسائی فی الاستسقاء باب ١٠۔
خلاصہ الزام : بارش کے لیے دعا مانگنے کو استسقاء کہتے ہیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ دعا ہے یا اس میں مسنون نماز بھی ہے پھر اس نماز میں ایک خطبہ یا دو اور تحویل رداء مسنون ہے یا جائز ‘ امام و مقتدی ہر دو یا صرف امام کرے۔
مؤقف ِاوّل : استسقاء میں مستقل نماز نہیں کبھی فقط دعا کی گئی کبھی نماز پڑھی گئی اور امام کے لیے تحویل رداء جائز ہے مسنون نہیں دلیل یہ ہے۔

1846

۱۸۴۶: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : قُرِئَ عَلَی شُعَیْبِ بْنِ اللَّیْثِ أَخْبَرَکَ أَبُوْکَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ، عَنْ شَرِیْکٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ۔
١٨٤٦: سعید بن ابی سعید نے شریک سے اور انھوں نے اپنی سند سے نقل کی ہے۔

1847

۱۸۴۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ظَفَرٍ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ مُطَہَّرٍ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ (إِنِّیْ لَقَائِمٌ عِنْدَ الْمِنْبَرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ، فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْمَسْجِدِ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، حُبِسَ الْمَطَرُ وَہَلَکَتِ الْمَوَاشِیْ فَادْعُ اللّٰہَ یَسْقِیْنَا فَرَفَعَ یَدَیْہِ وَمَا فِی السَّمَائِ مِنْ سَحَابٍ، فَأَلَّفَ اللّٰہُ بَیْنَ السَّحَابِ فَوَبَلَتْنَا حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَیُہِمُّہُ مِنْ نَفْسِہِ أَنْ یَأْتِیَ أَہْلَہٗ، فَمُطِرْنَا سَبْعًا، قَالَ : فَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ فِی الْجُمُعَۃِ الثَّانِیَۃِ ؛ اِذْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْمَسْجِدِ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، تَہَدَّمَتَ الْبُیُوْتُ، فَادْعُ اللّٰہَ أَنْ یَرْفَعَہَا عَنَّا، قَالَ : فَرَفَعَ یَدَیْہِ، وَقَالَ : اللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا فَتَقَوَّرَ مَا فَوْقَ رُؤُسِنَا مِنْہَا، حَتَّی کَانَا فِیْ إِکْلِیْلٍ یُمْطِرُ مَا حَوْلَنَا وَلَا نُمْطَرُ) .
١٨٤٧: ثابت نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں منبر کے پاس کھڑا تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے خطبہ دے رہے تھے مسجد میں سے کسی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بارش بند ہے مویشی (چار نہ ہونے کی وجہ سے) ہلاک ہوگئے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ بارش کر دے پس آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اس وقت آسمان پر ذرہ بھر بادل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو جمع کردیا پھر خوب بارش ہوئی یہاں تک کہ ہر شخص کو فکر تھی کہ وہ اپنے گھر جائے۔ پورا ہفتہ بارش رہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگلے جمعہ کو خطبہ دے رہے تھے جبکہ مسجد میں سے کسی نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مکانات گرگئے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش کو ہٹا دے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا فرمائی اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا۔ نہ کہ ہم پر چنانچہ بادل ہمارے سروں کے اوپر سے پھٹ گیا یہاں تک کہ گویا ہم چمکتے سورج کے مزین تاج میں ہیں کہ ہمارے اطراف میں تو بارش ہو رہی تھی مدینہ میں بارش نہ تھی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٤‘ ابو داؤد فی الاستسقاء باب ٢‘ نمبر ١١٧٤‘ نسائی فی الاستسقاء باب ٩‘ ١٠‘ مسند احمد ٣؍١٠٤۔
اللغات : وہم یہم۔ یا ہم یہم۔ خیال کرنا ‘ ارادہ کرنا۔ تقور۔ متفرق ‘ منتشر ہونا۔ اکلیل۔ تاج۔

1848

۱۸۴۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ وَأَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ، عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ : سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ : ہَلْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ؟ قَالَ : قِیْلَ لَہٗ یَوْمَ جُمُعَۃٍ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَحَطَ الْمَطَرُ، وَأَجْدَبَتِ الْأَرْضُ، وَہَلَکَ الْمَالُ، قَالَ : فَمَدَّ یَدَیْہِ حَتّٰی رَأَیْتُ بَیَاضَ اِبْطَیْہِ) ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ .
١٨٤٨: حمید بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے سوال کیا گیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے تو انھوں نے جواب دیا جمعہ کے دن آپ سے عرض کیا گیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بارش بند ہے زمین میں خشکی پیدا ہوگئی مال ہلاک ہوگئے (چارہ ختم ہوگیا) حضرت انس (رض) کہتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک اتنے بلند کئے کہ مجھے آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آئی پھر اسی طرح روایت نقل کی جیسا کہ ابن ابی داؤد نمبر : ١٨٤٧ نے بیان کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٩٤۔

1849

۱۸۴۹: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ .
١٨٤٩: حمید نے انس (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1850

۱۸۵۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ السِّمْطِ قَالَ : قُلْنَا لِکَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ أَوْ مُرَّۃَ بْنِ کَعْبٍ حَدِّثْنَا حَدِیْثًا سَمِعْتَہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - لِلّٰہِ أَبُوْاکَ وَاحْذَرْ - قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مُضَرَ فَأَتَیْتَہٗ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ قَدْ نَصَرَک وَاسْتَجَابَ لَک وَإِنَّ قَوْمَک قَدْ ہَلَکُوْا فَادْعُ اللّٰہَ لَہُمْ فَقَالَ : اللّٰہُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُغِیْثًا مَرِیئًا مُرِیعًا طَبَقًا غَدَقًا عَاجِلًا غَیْرَ رَائِثٍ نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ قَالَ : فَمَا کَانَ إِلَّا جُمُعَۃٌ أَوْ نَحْوُہَا حَتَّی مُطِرُوْا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ سُنَّۃَ الْاِسْتِسْقَائِ ہُوَ لْاِبْتِہَالُ إِلَی اللّٰہِ - تَعَالٰی - وَالتَّضَرُّعُ إِلَیْہِ، کَمَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ صَلَاۃٌ، وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، مِنْہُمْ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَقَالُوْا : بَلْ السُّنَّۃُ فِی الْاِسْتِسْقَائِ أَنْ یَخْرُجَ الْاِمَامُ بِالنَّاسِ إِلَی الْمُصَلّٰی وَیُصَلِّیَ بِہِمْ ہُنَاکَ رَکْعَتَیْنِ وَیَجْہَرَ فِیْہِمَا بِالْقِرَائَ ۃِ، ثُمَّ یَخْطُبَ وَیُحَوِّلَ رِدَائَ ہٗ فَیَجْعَلَ أَعْلَاہُ أَسْفَلَہُ وَأَسْفَلَہُ أَعْلَاہُ إِلَّا أَنْ یَکُوْنَ رِدَائً ثَقِیْلًا لَا یُمْکِنُہُ قَلْبُہُ کَذٰلِکَ، أَوْ یَکُوْنَ طَیْلَسَانًا، فَیُجْعَلَ الشِّقُّ الْأَیْمَنُ مِنْہُ عَلَی الْکَتِفِ الْأَیْسَرِ، وَالشِّقُّ الْأَیْسَرُ مِنْہُ عَلَی الْکَتِفِ الْأَیْمَنِ .وَقَالُوْا : مَا ذُکِرَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسُؤَالِہِ بِہٖ، فَہُوَ جَائِزٌ أَیْضًا یُسْأَلُ اللّٰہُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ فِیْہِ دَفْعُ أَنْ یَکُوْنَ مِنْ سُنَّۃِ الْاِمَامِ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَسْتَسْقِیَ بِالنَّاسِ أَنْ یَفْعَلَ مَا ذَکَرْنَا .فَنَظَرْنَا فِیْمَا ذَکَرُوْا مِنْ ذٰلِکَ : ہَلْ نَجِدُ لَہٗ مِنَ الْآثَارِ دَلِیْلًا؟.
: شرحبیل بن السمط کہتے ہیں ہم نے کعب بن مرہ یا مرہ بن کعب کو کہا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو اللہ تیرا بھلا کرے اور احتیاط کرنا کعب کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مضر کے متعلق بددعا فرمائی چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اور آپ کی دعا قبول فرمائی آپ کی قوم ہلاک ہوا چاہتی ہے آپ ان کے لیے دعا فرما دیں تو آپ نے اس طرح دعا فرمائی اے اللہ ! ہمیں ایسے بادل سے بارش عنایت فرما جو سیراب کرنے والا ہو اس کی بارش فائدہ مند ہو سبزہ اگانے والی شادابی لانے والی ہو زمین کو پر کرنے والی موٹے قطرات والی جلد برسنے والی نہ کر دیر سے آنے والی ہو وہ بارش نفع بخش ہو نقصان سے خالی ہو کعب کہتے ہیں ابھی ایک جمعہ یا اس کے برابر دن گزرنے نہ پائے کہ بارش ہوگئی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کہتی ہے کہ استسقاء سنت ہے اور اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑانا اور زاری کرنا ہے۔ جیسا کہ یہ روایت بتلا رہی ہیں۔ اس میں نماز مسنون نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اسی بات کے قائل ہیں۔ مگر دیگر علماء اس بات میں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ امام ابویوسف (رح) ان میں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ استسقاء میں مسنون عمل یہ ہے کہ امام لوگوں کو لے کر عیدگاہ کی طرف جائے وہاں ان کو دو رکعت پڑھائے اور ان میں جہر سے قراءت کرے۔ پھر خطبہ دے کر اپنی چادر کو الٹائے۔ اس کے اوپر والے حصہ کو نیچے اور نیچے والے حصہ کو اوپر کرلے مگر چادر کے بھاری ہونے کی صورت میں اس کا پلٹنا ممکن نہ ہو یا طیلسانی ہو تو اس چادر کی دائیں جانب کو بائیں اور بائیں جانب کو دائیں جانب کرلے۔ وہ کہتے ہیں جو کچھ ہم نے اس سلسلے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل مبارک نقل کیا اور آپ کا بارگاہِ ربّ العالمین میں سوال کرنا مذکور ہے۔ وہ بھی درست ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرے ‘ اگر امام کا لوگوں کو نماز استسقاء پڑھانا سنت قرار دیا تو اس میں عمل دعا کی نفی نہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جو روایات ذکر کی ہیں ہم نے ان میں غور کیا تاکہ یہ دیکھیں کہ کیا ان روایات میں ان کے مؤقف پر کوئی دلیل ہے۔ چنانچہ روایات ملاحظہ ہوں۔
اللغات : غیث۔ بارش ‘ مغیثا۔ سیرابی والی۔ مرئیاً بہتر انجام والی۔ ریعاً سبزہ اگانے والی۔ طبقاً زمین کو بھرنے والی۔ غرقاً بڑے قطرات والی۔ عاجلاً جلدی والی۔ رائث۔ دیر کرنا۔
تخریج : بیہقی ٣؍٤٩٦۔
حاصل روایات :
ان روایات میں بارش کے لیے دعا کا تذکرہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارش کے لیے کبھی فقط دعا فرمائی اور کبھی نماز بھی پڑھی پس مستقل نماز مسنون نہیں البتہ کبھی دعا فقط کبھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ان آثار میں فقط دعا کا تذکرہ ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک ہے۔
مؤقف ثانی : استسقاء کے لیے نماز مسنون ہے جس میں خطبہ اور تحویل رداء بھی ہے البتہ ایک خطبہ یا دو خطبوں میں اختلاف ہے اسی طرح یہ نماز عیدین کی طرح زائد تکبیرات سے ہے یا جمعہ کی طرح علی اختلاف الاقوال۔ یہ امام ابو یوسف (رح) اور دیگر تمام فقہاء کا مسلک ہے امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں امام دو رکعت پڑھائے گا اور ان میں قراءت بالجہر ہوگی پھر خطبہ اور تحویل رداء ہوگی چادر کے اوپر والے حصہ کو نیچے اور نچلے کو اوپر تفاولاً کیا جائے گا جب ایسا کرنا مشکل ہو تو دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں بدل لیا جائے گا۔
سابقہ روایات کا جواب : سابقہ روایات میں مذکور دعا بلاشبہ جائز ہے مگر دیگر روایات میں نماز کا تذکرہ بھی موجود ہے ان روایات میں مذکور نہ ہونا عدم کی علامت نہیں دیگر روایات کو سامنے رکھ کر نماز ادا کی جائے گی اور دعا بھی مانگی جائے گی مندرجہ ذیل روایات اس کی دلیل ہیں۔

1851

۱۸۵۱: فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ، (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الْمُصَلّٰی فَاسْتَسْقٰی، فَقَلَبَ رِدَائَ ہٗ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ) .
١٨٥١: عباد بن تمیم نے حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید گاہ کی طرف نکلے اور بارش کی دعا کی یا نماز پڑھی اور تحویل رداء فرمائی اور قبلہ کی طرف رخ (کر کے دعا فرمائی) ۔
تخریج : بخاری فی الاستسقاء باب ٤‘ ١١‘ ١٥‘ مسلم فی الاستسقاء نمبر ٢‘ ٣‘ ابو داؤد فی الاستسقاء باب ٢٠١‘ نمبر ١١٦٦‘ ترمذی فی الاستسقاء باب ٤٣‘ نمبر ٥٥٦‘ نسائی فی الاستسقاء باب ٢‘ ٥‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٣‘ نمبر ١٢٦٧‘ دارمی فی الاستسقاء باب ١٨٨‘ موطا مالک فی الاستسقاء نمبر ‘ مسند احمد ٢؍٣٢٦۔

1852

۱۸۵۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الْمُصَلّٰی فَاسْتَسْقٰی فَحَوَّلَ رِدَائَ ہٗ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ) .
١٨٥٢: عباد بن تمیم نے عبداللہ بن زید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید گاہ کی طرف نکلے اور نماز استسقاء ادا فرمائی اور تحویل رداء کی اور قبلہ رو ہو کر دعا فرمائی۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔ ابن ماجہ ١؍٩٠۔

1853

۱۸۵۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبَّادُ بْنُ تَمِیْمٍ أَنَّ عَمَّہُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ بِالنَّاسِ إِلَی الْمُصَلّٰی یَسْتَسْقِیْ لَہُمْ فَقَامَ فَدَعَا اللّٰہَ قَائِمًا ثُمَّ تَوَجَّہَ قِبَلَ الْقِبْلَۃِ فَحَوَّلَ رِدَائَ ہٗ فَسُقُوْا .
١٨٥٣: عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ میرے چچا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) میں سے تھے انھوں نے بتلایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو لے کر عید گاہ کی طرف گئے تاکہ بارش طلب کریں پس آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی پھر قبلہ رو ہو کر تحویل رداء کیا پس اللہ تعالیٰ نے بارش کردی۔
تخریج : بخاری ١؍١٣٩‘ روایت نمبر ١٨٥١ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1854

۱۸۵۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَمِّہٖ قَالَ : (خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَسْقٰی فَقَلَبَ رِدَائَ ہٗ قَالَ : قُلْتُ جَعَلَ الْأَعْلٰی عَلَی الْأَسْفَلِ وَالْأَسْفَلَ عَلَی الْأَعْلٰی؟ قَالَ : لَا، بَلْ جَعَلَ الْأَیْسَرَ عَلَی الْأَیْمَنِ وَالْأَیْمَنَ عَلَی الْأَیْسَرِ) .
١٨٥٤: عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے نماز استسقاء پڑھی اور قلب رداء فرمائی قلب رداء کا مطلب کیا یہ ہے کہ چادر کے اوپر والے حصہ کو نیچے اور نیچے والے کو اوپر کردیا جائے تو کہنے لگے نہیں بلکہ دائیں کو بائیں اور بائیں طرف کو دائیں طرف کردیا جائے۔
تخریج : روایت نمبر ١٨٥١ کو دیکھو۔ بخاری ١؍١٤٠۔

1855

۱۸۵۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : (خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَسْقِیْ وَعَلَیْہِ خَمِیْصَۃٌ سَوْدَائُ فَأَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْخُذَہَا بِأَسْفَلِہَا فَیَجْعَلَہُ أَعْلَاہَا، فَلَمَّا ثَقُلَتْ عَلَیْہِ أَنْ یُحَوِّلَہَا قَلَبِّہَا عَلٰی عَاتِقِہٖ) .
١٨٥٥: عباد بن تمیم نے حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارش طلب کرنے نکلے آپ نے سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی آپ نے اس کے نچلے حصہ کو پکڑ کر اوپر کرنا چاہا جب اس طرح کرنا مشکل ہوگیا تو آپ نے اس کے دائیں حصے کو بائیں کندھے اور بائیں حصہ کو دائیں کندھے پر کرلیا۔
تخریج : روایت نمبر ١٨٥١ کو ملاحظہ کریں۔ ابو داؤد ١؍١٠٤۔

1856

۱۸۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَی فَقَلَبَ رِدَائَ ہُ). فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ قَلْبُہُ لِرِدَائِہِ وَصِفَۃُ قَلْبِ الرِّدَائِ کَیْفَ کَانَ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا جَعَلَ مَا عَلٰی یَمِیْنِہٖ مِنْہُ عَلٰی یَسَارِہٖ وَمَا عَلٰی یَسَارِہٖ عَلٰی یَمِیْنِہٖ لَمَّا ثَقُلَ عَلَیْہِ أَنْ یَجْعَلَ أَعْلَاہُ أَسْفَلَہُ وَأَسْفَلُہُ أَعْلَاہُ فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ مَا أَمْکَنَ أَنْ یَجْعَلَ أَعْلَاہُ أَسْفَلَہُ وَأَسْفَلَہُ أَعْلَاہُ فَقَلَبَہُ کَذٰلِکَ ہُوَ، وَمَا لَا یُمْکِنُ ذٰلِکَ فِیْہِ حُوِّلَ، فَجَعَلَ الْأَیْمَنَ مِنْہُ أَیْسَرَ وَالْأَیْسَرَ مِنْہُ أَیْمَنَ .فَقَدْ زَادَ مَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ عَلٰی مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ فَیَنْبَغِیْ أَنْ یُسْتَعْمَلَ ذٰلِکَ وَلَا یُتْرَکَ .
١٨٥٦: عباد بن تمیم نے حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارش کے لیے دعا کی یا نماز ادا کی پھر قلب رداء فرمائی۔ ان آثار میں آپ کے چادر پلٹنے کا تذکرہ اور اس کی کیفیت مذکور ہے۔ آپ اس کی دائیں طرف کو بائیں جانب اور بائیں کو دائیں کرلیا جبکہ آپ کے لیے اس کے اوپر کو نیچے اور نیچے کو اوپر کرنا مشکل ہوا۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جب نیچے والے حصہ کو اوپر کرنا مشکل ہوجائے تو پھر اسی طرح چادر کو دائیں بائیں پلٹ لیا جائے۔ ان آثار میں پہلے آثار پر اضافہ ہے۔ پس اس کو عمل میں لانا چاہیے اور ترک نہ کیا جائے۔
تخریج : روایت نمبر ١٨٥١ کی تخریج سامنے رکھیں۔ بخاری ١؍١٣٧‘ باب تحول الردائ۔
حاصل روایات : ان روایات میں قلب رداء کا اضافہ ہے ثقہ راوی کا اضافہ قابل تسلیم ہے قلب رداء اول تو نیچے اوپر کو کی جائے اور اگر ممکن نہ ہو تو دائیں سے بائیں کندھے پر پلٹ لی جائے پس قلب رداء کو ترک نہ کیا جائے۔

1857

۱۸۵۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ عَنْ ہِشَامٍ أَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کِنَانَۃَ مِنْ بَنِیْ مَالِکِ بْنِ شُرَحْبِیْلَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ : (أَرْسَلَنِی الْوَلِیْدُ بْنُ عُقْبَۃَ أَسْأَلُ لَہٗ عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِسْتِسْقَائِ، فَأَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقُلْتُ : إِنَّا تَمَارَیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فِیْ صَلَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِسْتِسْقَائِ قَالَ : لَا، وَلٰـکِنْ أَرْسَلَک ابْنُ أَخِیکُمَ الْوَلِیْدُ، وَہُوَ أَمِیْرُ الْمَدِیْنَۃِ وَلَوْ أَنَّہٗ أَرْسَلَ فَسَأَلَ مَا کَانَ بِذٰلِکَ بَأْسٌ ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُبْتَذِلًا مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا حَتّٰی أَتَی الْمُصَلّٰی فَلَمْ یَخْطُبْ خُطْبَتَکُمْ ھٰذِہِ، وَلٰـکِنْ لَمْ یَزَلْ فِی الدُّعَائِ وَالتَّضَرُّعِ وَالتَّکْبِیْرِ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَمَا یُصَلِّیْ فِی الْعِیْدَیْنِ) .فَقَوْلُہٗ (کَمَا یُصَلِّیْ فِی الْعِیْدَیْنِ) یُحْتَمَلُ أَنَّہٗ جَہَرَ فِیْہِمَا کَمَا یَجْہَرُ فِی الْعِیْدَیْنِ .
١٨٥٧: ہشام نے بیان کیا کہ بنی مالک بن شرحبیل کے اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے بتلایا کہ مجھے ولید بن عقبہ (رض) نے بھیجا کہ میں ابن عباس (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استسقاء کے سلسلہ میں دریافت کروں چنانچہ میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا ہم نے مسجد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلوۃ استسقاء کے متعلق اختلاف و بحث کی ہے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تمہیں تمہارے چچا زاد بھائی ولید نے بھیجا ہے وہ ان دنوں مدینہ کے گورنر تھے اگر وہ خود پیغام بھیج کر پوچھتا تو تب بھی اس میں قباحت نہ تھی پھر ابن عباس (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرانے کپڑوں میں تواضع اور تضرع کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ عید گاہ میں آئے اور تمہاری طرح کا خطبہ نہیں دیا بلکہ دعا اور گڑگڑانے اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے رہے پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی جیسے عیدین کی نماز ہوتی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاستسقاء باب ١‘ نمبر ١١٦٥‘ ترمذی فی الاستسقاء باب ٤٣‘ نمبر ٥٥٨۔
اللغات : کما یصلی فی العبدین۔ یہ جملہ دو احتمال رکھتا عیدین کے ساتھ جہر میں تشبیہہ دی یا تکبیرات زوائد میں اور خطبہ میں تشبیہ دی ہے۔

1858

۱۸۵۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْعَطَّارُ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ : (فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَنَحْنُ خَلْفَہُ، یَجْہَرُ فِیْہِمَا بِالْقِرَائَ ۃِ، وَلَمْ یُؤَذِّنْ، وَلَمْ یُقِمْ) .وَلَمْ یَقُلْ (مِثْلَ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ) فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ قَوْلَہُ مِثْلَ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ إِنَّمَا أَرَادَ بِہٖ ھٰذَا الْمَعْنَی، أَنَّہٗ صَلّٰی بِلَا أَذَانٍ وَلَا إقَامَۃٍ، کَمَا یُفْعَلُ فِی الْعِیْدَیْنِ .
١٨٥٨: عبید بن اسحاق عطار کہتے ہیں کہ حاتم بن اسماعیل نے ہمیں بیان کیا پھر اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ فصلی رکعتین الحدیث۔ کہ دو رکعت نماز ادا کی ہم آپ کے ساتھ تھے آپ نے اس میں جہراً قراءت فرمائی اذان نہیں دی گئی اور نہ اقامت کہی گئی اور اس روایت میں مثل صلوۃ العیدین کا جملہ بھی نہیں ہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ روایت میں یہ الفاظ ” مثل صلوۃ العیدین “ ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے عیدین کی طرح بغیر اقامت اور اذان کے نماز ادا کی۔
تخریج : بیہقی ٣؍٤٨٤‘ ترمذی ١؍١٢٤۔
حاصل روایت یہ ہے کہ صلوۃ عیدین سے تشبیہہ کا مطلب وہی ہے جو اس روایت میں مذکور ہے کہ آپ نے بلااذان و اقامت اور جہری قراءت سے نماز ادا کی جس طرح کہ عیدین میں کیا جاتا ہے۔

1859

۱۸۵۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کِنَانَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ رَبِیْعٍ عَنْ أَسَدٍ، قَالَ سُفْیَانُ : (فَقُلْتُ لِلشَّیْخِ : الْخُطْبَۃُ قَبْلَ الصَّلَاۃِ أَوْ بَعْدَہَا .قَالَ : لَا أَدْرِی) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ذِکْرُ الصَّلَاۃِ وَالْجَہْرِ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ وَدَلَّ جَہْرُہُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ أَنَّہَا کَصَلَاۃِ الْعِیْدِ الَّتِیْ تُفْعَلُ نَہَارًا فِیْ وَقْتٍ خَاصٍّ فَحُکْمُہَا الْجَہْرُ .وَکَذٰلِکَ أَیْضًا صَلَاۃُ الْجُمُعَۃِ ہِیَ مِنْ صَلَاۃِ النَّہَارِ وَلَکِنَّہَا مَفْعُوْلَۃٌ فِیْ یَوْمٍ خَاصٍّ فَحُکْمُہٗ الْجَہْرُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ کَذٰلِکَ حُکْمَ الصَّلَوَاتِ الَّتِیْ تُصَلّٰی بِالنَّہَارِ، لَا فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، وَلٰـکِنْ لِعَارِضٍ أَوْ فِیْ یَوْمٍ خَاصٍّ، فَحُکْمُہَا الْجَہْرُ .وَکُلُّ صَلَاۃٍ تُفْعَلُ فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ نَہَارًا، لَا لِعَارِضٍ وَلَا فِیْ وَقْتٍ خَاصٍّ، فَحُکْمُہَا الْمُخَافَتَۃُ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ صَلَاۃَ الْاِسْتِسْقَائِ سُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہَا .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ۔
١٨٥٩: ہشام بن اسحاق نے اپنے والد اسحاق سے اس نے ربیع سے اسد جیسی روایت نقل کی ہے سفیان کہتے ہیں کہ میں نے شیخ یعنی ہشام سے پوچھا کہ خطبہ استسقاء نماز سے پہلے یا بعد ہے تو انھوں نے فرمایا یہ مجھے معلوم نہیں۔ اس روایت میں جہری قراءت کے ساتھ نماز کا ذکر ہے اور قراءت کو بلند آواز سے پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نماز عید کی طرح ہے۔ جو دن میں پڑھنے کے باوجود جہری قراءت سے ادا کی جاتی ہے اور اس کا قت بھی مخصوص ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ جو نمازیں کسی عارضہ کی وجہ سے خاص دن میں پڑھی جائے ان کا حکم جہر کا ہے۔ اسی طرح جمعہ کی نماز بھی ایک خاص دن میں دن کے وقت ادا کی جاتی ہے تو اس کا حکم بھی جہر ہی کا ہے اور دن کی وہ نمازیں کہ جن میں نہ کوئی عارضہ ہے اور نہ ان کا خاص وقت ہے تو ان میں آہستہ قراءت کی جاتی ہے۔ پس اس سے ثابت ہوگیا نماز استسقاء قائم کی جانے والی سنت ہے۔ اس کا چھوڑنا مناسب نہیں ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی اسناد کے ساتھ مروی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٩٠‘ باب ماجء فی صلوۃ الاستسقائ۔
حاصل روایات : اس روایت میں نماز میں جہری قراءت کا تذکرہ ہے پس معلوم ہوا کہ عید کے ساتھ جہر میں مشابہت ہے اگرچہ وہ دن کی نماز ہے مگر اس میں جہر ہے اسی طرح اس میں بھی جہر ہے اسی طرح نماز جمعہ وہ بھی خاص دن میں ہے دن کی نماز ہونے کے باوجود جہری ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ دن کی عام نمازوں کا حکم جہر کا نہیں سوائے ان نمازوں کے جو خاص حالات یا خاص ایام میں پڑھی جائیں ان میں جہر کریں گے اس کے علاوہ دن کی نمازوں میں جہر نہیں ہے۔
ان روایات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ نماز استسقاء مسنون ہے اس کو ترک کرنا مناسب نہیں ہے ہم نماز کی اور روایات پیش کرتے ہیں۔

1860

۱۸۶۰: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْہَیْثَمِ الْأَیْلِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مَبْرُوْرٍ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (شَکَا النَّاسُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُحُوطَ الْمَطَرِ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِنْبَرٍ فَوُضِعَ فِی الْمُصَلّٰی وَوَعَدَ النَّاسَ یَخْرُجُوْنَ یَوْمًا .قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : وَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللّٰہَ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّکُمْ شَکَوْتُمْ إِلَیَّ جَدْبَ جَنَابِکُمْ وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ عَنْ اِبَّانِ زَمَانِہِ عَنْکُمْ، وَقَدْ أَمَرَکُمْ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَدْعُوْہُ وَوَعَدَکُمْ أَنْ یَسْتَجِیْبَ لَکُمْ .ثُمَّ قَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ، لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ، اللّٰہُمَّ أَنْتَ اللّٰہُ لَا إِلٰـہَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِیُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَائُ أَنْزِلْ عَلَیْنَا الْغَیْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّۃً وَبَلَاغًا إِلَی حِیْنٍ .ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ فَلَمْ یَزَلْ فِی الرَّفْعِ حَتّٰی بَدَا بَیَاضُ اِبْطَیْہِ .ثُمَّ حَوَّلَ إِلَی النَّاسِ ظَہْرَہُ، وَقَلَبَ أَوْ حَوَّلَ رِدَائَ ہٗ وَہُوَ رَافِعٌ یَدَیْہِ .ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ وَنَزَلَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، وَأَنْشَأَ اللّٰہُ سَحَابًا فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ وَأَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللّٰہِ - تَعَالٰی - فَلَمْ یَأْتِ مَسْجِدَہُ حَتّٰی سَالَتْ السُّیُوْلُ .فَلَمَّا رَأَی الْتِوَائَ الثِّیَابِ عَلَی النَّاسِ وَتَسَرُّعَہُمْ إِلَی الْکِنِّ، ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ وَقَالَ : أَشْہَدُ أَنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَأَنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ .
١٨٦٠: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ لوگوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بارش کے نہ ہونے کی شکایت کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر منگوایا جو کہ عیدگاہ میں رکھ دیا گیا پھر لوگوں سے مقررہ دن میں جمع ہونے کا حکم فرمایا۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت نکلے جب کہ سورج کا کنارہ نکل آیا پس آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی پھر فرمایا تم نے قحط کا شکوہ کیا اور اپنے علاقہ میں خشک سالی کا ذکر کیا بارش وقت سے مؤخر ہوئی اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دعا کرو اس نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ قبولیت عنایت فرمائیں گے پھر اس طرح دعا فرمائی تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو کہ جزاء کے دن کا مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اے اللہ ! تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو غنی ہے اور ہم محتاج ہیں ہم پر بارش نازل فرمایا اور اس بارش کو ہماری قوت اور مقررہ وقت تک پہنچانے کا ذریعہ بنا دے۔ پھر آپ نے دعا کے لیے ہاتھ بلند فرماتے اس قدر بلند فرماتے کہ بغلوں کی سپیدی ظاہر ہونے لگی پھر آپ نے اپنی پشت کو لوگوں کی طرف موڑ لیا اور قلب رداء فرمائی اس حال میں کہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کرنے والے تھے۔ پھر لوگوں کی طرف رخ فرمایا اور منبر سے نیچے تشریف لائے پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیس کے کلمات شروع کئے پھر تو بادل گرجنے لگا بجلی چمکنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش ہونے لگی آپ واپس مسجد میں تشریف نہ لائے تھے کہ وادیاں بہہ پڑیں جب آپ نے دیکھا کہ لوگ کپڑوں کو سمیٹے جلد کوٹھڑیوں میں اور پناہ گاہوں میں گھس رہے ہیں تو یہ دیکھ کر آپ خوب ہنسے یہاں تک کہ آپ کے نواجز ظاہر ہوگئے اور زبان سے فرمایا اشہد ان اللہ علی کل شئی قدیر وانی عبداللہ ورسولہ۔
تخریج : ابو داؤد فی الاستسقاء باب ٢‘ نمبر ١١٧٣۔
اللغات : جدب۔ قحط ‘ خشک سالی ‘ جنابہ۔ جانب و طرف۔ استئخار۔ مؤخر ہونا۔

1861

۱۸۶۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا یَسْتَسْقِیْ فَصَلّٰی بِنَا رَکْعَتَیْنِ بِغَیْرِ أَذَانٍ وَلَا إقَامَۃٍ، قَالَ : ثُمَّ خَطَبَنَا وَدَعَا اللّٰہَ وَحَوَّلَ وَجْہَہُ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ، وَرَفَعَ یَدَیْہِ وَقَلَبَ رِدَائَ ہُ، فَجَعَلَ الْأَیْمَنَ عَلَی الْأَیْسَرِ، وَالْأَیْسَرَ عَلَی الْأَیْمَنِ .
١٨٦١: حمید بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن بارش طلب کرنے کے لیے باہر تشریف لائے پھر ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی اس کے لیے اذان ‘ اقامت نہ تھی پھر ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی اور آپ نے اپنا چہرہ قبلہ رخ کیا اور اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کئے اور قلب رداء کیا دائیں کندھے والے پلڑے کو بائیں اور بائیں والے کو دائیں پر کردیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٣‘ نمبر ١٢٦٨۔

1862

۱۸۶۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ فُدَیْکٍ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ ح .
١٨٦٢: محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک اور خالد بن عبدالرحمن نے ابن ابی الذئب سے روایت نقل کی ہے۔

1863

۱۸۶۳: وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ، عَنْ عَمِّہٖ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ (رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا خَرَجَ یَسْتَسْقِیْ، فَحَوَّلَ إِلَی النَّاسِ ظَہْرَہُ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ یَدْعُو، ثُمَّ حَوَّلَ رِدَائَ ہُ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، قَرَأَ فِیْہِمَا وَجَہَرَ) .
١٨٦٣: عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے نقل کیا ہے کہ یہ صحابی ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ استسقاء کے لیے نکلے ہیں آپ نے اپنا چہرہ مبارک قبلہ کی طرف کیا اور دعا مانگنے لگے پھر تحویل رداء فرمائی پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور ان میں جہراً قراءت کی۔
تخریج : روایت نمبر ١٨٥١ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

1864

۱۸۶۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرَ الْجَہْرَ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ ذِکْرُ الْخُطْبَۃِ مَعَ ذِکْرِ الصَّلَاۃِ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ فِی الْاِسْتِسْقَائِ خُطْبَۃً، غَیْرَ أَنَّہٗ قَدْ اُخْتُلِفَ فِی خُطْبَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَتَی کَانَتْ .فَفِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ : أَنَّہٗ خَطَبَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ، وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ خَطَبَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَوَجَدْنَا الْجُمُعَۃَ فِیْہَا خُطْبَۃٌ وَہِیَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ، وَرَأَیْنَا الْعِیْدَیْنِ فِیْہِمَا خُطْبَۃٌ وَہِیَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ کَذٰلِکَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی خُطْبَۃِ الْاِسْتِسْقَائِ بِأَیِّ الْخُطْبَتَیْنِ ہِیَ أَشْبَہُ؟ فَنَعْطِفُ حُکْمَہَا عَلَی حُکْمِہَا .فَرَأَیْنَا خُطْبَۃَ الْجُمُعَۃِ فَرْضًا، وَصَلَاۃُ الْجُمُعَۃِ مُضَمَّنَۃٌ بِہَا لَا تُجْزِیُٔ إِلَّا بِإِصَابَتِہَا، وَرَأَیْنَا خُطْبَۃَ الْعِیْدَیْنِ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ لِأَنَّ صَلَاۃَ الْعِیْدَیْنِ تُجْزِیُٔ أَیْضًا وَإِنْ لَمْ یَخْطُبْ، وَرَأَیْنَا صَلَاۃَ الْاِسْتِسْقَائِ تُجْزِیُٔ أَیْضًا وَإِنْ لَمْ یَخْطُبْ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ إِمَامًا لَوْ صَلّٰی بِالنَّاسِ فِی الْاِسْتِسْقَائِ وَلَمْ یَخْطُبْ کَانَتْ صَلَاتُہُ مُجْزِئَۃً غَیْرَ أَنَّہٗ قَدْ أَسَائَ فِیْ تَرْکِہِ الْخُطْبَۃَ فَکَانَتْ بِحُکْمِ خُطْبَۃِ الْعِیْدَیْنِ أَشْبَہَ مِنْہَا بِحُکْمِ خُطْبَۃِ الْجُمُعَۃِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ مَوْضِعُہَا مِنْ صَلَاۃِ الْاِسْتِسْقَائِ مِثْلَ مَوْضِعِہَا مِنْ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ لَا قَبْلَہَا .وَھٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ یُوْسُفَ . وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَمَّنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَلّٰی فِی الْاِسْتِسْقَائِ وَجَہَرَ بِالْقِرَائَ ۃِ .
١٨٦٤: ابن ابی الذئب نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ اس میں جہراً قراءت کا ذکر نہیں۔ ان روایات میں نماز کے ساتھ خطبہ کا بھی تذکرہ ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ نماز استسقاء میں خطبہ بھی ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ خطبہ میں اختلاف ہے کہ آپ نے کس وقت خطبہ دیا۔ حضرت عبداللہ بن زید اور عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں ہے کہ نماز سے پہلے دیا اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت بتلاتی ہے کہ خطبہ نماز کے بعد ارشاد فرمایا۔ پس ہم نے اس میں غور کیا تو دیکھا کہ جمعہ میں خطبہ ہے مگر نماز سے پہلے ہے اور عیدین کا خطبہ نماز کے بعد ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے۔ پھر ہم نے غور کیا کہ خطبہ استسقاء ان میں سے کس کے ساتھ مشابہہ ہے۔ آیا وہ خطبہ جمعہ کے مشابہہ ہے یا عیدین کے تاکہ اس کے مطابق اس پر حکم لگائیں۔ ہم نے دیکھا کہ خطبہ جمعہ تو نماز میں شامل اور فرض ہے اس کے بغیر نماز جمعہ جائز نہیں اور عیدین کا خطبہ اس کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ نماز عیدین اس کے بغیر بھی درست ہے خواہ خطبہ نہ دیا جائے اسی طرح نماز استسقاء بھی خطبہ کے بغیر بھی درست ہے۔ ذرا غور تو کرو اگر امام لوگوں کو نماز استسقاء پڑھائے اور خطبہ نہ بھی دے ‘ تب بھی نماز درست ہوجاتی البتہ ترک خطبہ اس کی غلطی ہے اور گناہ ہے۔ پس یہ خطبہ جمعہ کی بجائے عیدین کے خطبہ سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے اس لیے اس کا خطبہ بھی وقت عیدین میں ہونا چاہیے یعنی نماز کے بعد۔ پس اس نظر سے ثابت ہوا کہ یہ خطبہ نماز کے بعد ہے نہ کہ پہلے۔ یہ امام ابویوسف (رح) کا مذہب ہے اور صحابہ کرام سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے نماز استسقاء میں بلند آواز قراءت کی اور قراءت بھی بلند آواز سے پڑھی۔
حاصل روایات : ان روایات میں خطبہ نماز ‘ دعا ‘ قلب رداء کا تذکرہ پایا جاتا ہے خطبہ شروع میں بھی مذکور ہے اور بعد میں بھی مذکور ہے روایت حضرت عائشہ (رض) و عبداللہ بن زید (رض) میں خطبہ پہلے اور روایت ابوہریرہ (رض) میں بعد میں مذکور ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
جب ہم نے غور کیا تو ہم نے عبادات میں جمعہ اور عیدین کو پایا جن میں خطبہ پایا جاتا ہے جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے اور عیدین کا خطبہ نماز کے بعد ہے یہ خطبہ استسقاء کی کس کے ساتھ مشابہت زیادہ ہے تو غور سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ فرض ہے اور اس کے بغیر جمعہ ادا ہی نہیں ہوتا اور عیدین کا خطبہ مسنون ہے عید کی نماز اس کے بغیر بھی درست ہے اگرچہ خلاف سنت ہے چنانچہ نماز استسقاء کی زیادہ مشابہت خطبہ عید سے ہے کیونکہ یہ خطبہ کے بغیر بھی درست ہے اور (ایک صحابی نے بھی اس کو عیدین سے تشبیہ دی ہے) جب یہ خطبہ مقام و حیثیت میں عید کے مشابہہ ہے تو اس کی جگہ بھی وہی ہونی چاہیے جو خطبہ عیدین کا ہے کہ وہ نماز کے بعد دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے اور یہ امام ابو یوسف (رح) کا مذہب ہے۔

1865

۱۸۶۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ قَالَ : خَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَزِیْدَ یَسْتَسْقِیْ، وَکَانَ قَدْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَخَرَجَ فِیْمَنْ کَانَ مَعَہُ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ، وَزَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ، قَالَ : أَبُوْ إِسْحَاقَ وَأَنَا مَعَہُ یَوْمَئِذٍ فَقَامَ قَائِمًا عَلٰی رَاحِلَتِہِ عَلٰی غَیْرِ مِنْبَرٍ وَاسْتَسْقَی وَاسْتَغْفَرَ وَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَنَحْنُ خَلْفَہُ فَجَہَرَ فِیْہِمَا بِالْقِرَائَ ۃِ وَلَمْ یُؤَذِّنْ یَوْمَئِذٍ وَلَمْ یُقِمْ .
١٨٦٥: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن یزید (رض) استسقاء کے لیے تشریف لائے یہ صحابی ہیں ان نکلنے والوں میں ان کے ساتھ براء بن عازب ‘ زید بن ارقم (رض) بھی تھے اور ابو اسحاق کہتے ہیں میں بھی اس مجمع میں تھا عبداللہ بن یزید اپنی اونٹنی کے کجاوے پر کھڑے ہوئے منبر نہ تھا اور بارش کی دعا مانگی اور دو رکعت نماز ادا کی اس میں جہری قراءت کی ہم نماز میں موجود تھے نماز کے لیے اذان و اقامت نہ کہی گئی۔
تخریج : بخاری فی الاستسقاء باب ١٤‘ مسلم فی الاستسقاء نمبر ١٧۔

1866

۱۸۶۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ جَعْدٍ قَالَ : أَنَا زُہَیْرٌ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ حَدِیْثِہٖ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ یَزِیْدَ قَالَ : کَانَ رَأْیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٨٦٦: علی بن جعد نے کہا ہمیں زہیر نے بتلایا پھر اپنی سند سے زہیر نے روایت بیان کی البتہ اس روایت میں یہ ذکر نہیں کہ عبداللہ بن یزید نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے۔

1867

۱۸۶۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، قَالَ : خَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَزِیْدَ یَسْتَسْقِیْ بِالْکُوْفَۃِ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ .
١٨٦٧: ابو اسحاق سے نقل کیا کہ عبداللہ بن یزید خطمی (رض) کوفہ میں طلب بارش کے لیے نکلے اور دو رکعت نماز پڑھائی۔
تخریج : بیہقی ٣؍٤٨٥۔
حاصل روایات : ان آثار نے بھی تائید کردی کہ صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) کا عمل بھی استسقاء کے لیے دعا اور نماز کا تھا اور نماز میں قراءت بھی جہری تھی۔
استدراک : امام طحاوی (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کو نقل کرنے میں پوری توجہ سے کام نہیں لیا امام صاحب استسقاء میں نماز کا انکار نہیں کرتے البتہ نماز کو لازم قرار نہیں دیتے بلکہ دعا اور نماز دونوں کو جائز کہتے ہیں ان کی طرف نماز استسقاء کے انکار کا قول منسوب کرنا درست نہیں۔ واللہ اعلم۔
یہاں بھی امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثانی کی طرف ہے اسی وجہ سے اس کے ہر جز کے لیے آثار و نظر سے دلائل لائے ہیں۔

1868

۱۸۶۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَ : الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِرَائَ ۃَ، ثُمَّ رَکَعَ فَأَطَالَ الرُّکُوْعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَأَطَالَ الْقِیَامَ وَہُوَ دُوْنَ قِیَامِہِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَکَعَ فَأَطَالَ الرُّکُوْعَ وَہُوَ دُوْنَ رُکُوْعِہِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَفَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ، غَیْرَ أَنَّ الرَّکْعَۃَ الْأُوْلٰی مِنْہُمَا أَطْوَلُ .
١٨٦٨: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورج گہن گیا تو آپ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے اور طویل قراءت فرمائی پھر خوب طویل رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تر تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تر تھا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سجدہ کیا پھر آپ اٹھے اور دوسری رکعت کا قیام اسی طرح فرمایا البتہ اول رکعت کا قیام زیادہ لمبا تھا۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ٢‘ مسلم فی الکسوف نمبر ٢‘ مسند احمد ٦؍٣٥١‘۔
نماز گرہن کا حکم مالکیہ کے ہاں تو فرض کفایہ ہے اور بقیہ تمام محدثین و فقہاء کے ہاں سنت علی الکفایہ ہے البتہ اس کی کیفیت میں۔
نمبر 1: امام مالک و شافعی و احمد (رح) دو رکوع کہتے ہیں۔
نمبر 2: طاؤس ہر رکعت میں چار رکوع کہتے ہیں۔
نمبر 3: عطاء و قتادہ (رح) ہر رکعت میں تین رکوع کہتے ہیں۔
نمبر 4: سعید بن جبیر (رض) وغیرہ غیر متعین تعداد بتلاتے ہیں۔
نمبر 5: احناف ایک رکوع اور دو سجدے کے ساتھ یہ نماز فجر کی طرح ادا کی جائے۔
مؤقف فریق اوّل : ہر رکعت میں دو رکوع ہوں گے تین صحابہ (رض) سے یہ روایات وارد ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

1869

۱۸۶۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٨٦٩: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

1870

۱۸۷۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٨٧٠: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1871

۱۸۷۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، وَہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ " عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
١٨٧١: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت کی ہے۔

1872

۱۸۷۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٨٧٢: عطاء بن یسار نے ابن عباس (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ٩‘ مسلم فی الکسوف نمبر ٢۔

1873

۱۸۷۳: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عَمْرٍو، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَنَّ الرُّکُوْعَ الثَّانِیَ کَانَ دُوْنَ الرُّکُوْعِ الْأَوَّلِ وَلٰـکِنْ ذَکَرَ أَنَّہٗ مِثْلُہُ قَالَ : وَذٰلِکَ یَوْمَ مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا وَقَالُوْا : ھٰکَذَا صَلَاۃُ الْخُسُوْفِ، أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ وَأَرْبَعُ سَجَدَاتٍ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ ہِیَ ثَمَانِ رَکَعَاتٍ فِیْ أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٨٧٣: ابن عمرو نے عروہ سے اور انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ مذکور نہیں کہ دوسرا رکوع پہلے رکوع سے کم تھا لیکن باقی روایت اسی طرح ہے اور یہ اضافہ ہے کہ یہ گہن اس دن ہوا جس دن ابراہیم سلام اللہ علیہ نے وفات پائی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ نماز کسوف میں چار رکوع اور چار سجدے ہیں ‘ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ آٹھ رکوع اور چار سجدے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اس طرح استدلال کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب نمبر ١۔
حاصل آثار و روایات :
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع ہوں گے گویا کل چار رکوع اور چار سجدے ہوں گے۔
فریق ثانی کا مؤقف : ہر رکعت میں چار رکوع اور دو سجدے ہیں کل آٹھ رکوع اور چار سجدے ہوں گے یہ دو روایات ابن عباس اور علی (رض) سے ثابت ہے۔

1874

۱۸۷۴: بِمَاحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ عَنْ طَاوٗسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْخُسُوْفِ فَقَامَ فَافْتَتَحَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَکَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَکَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَرَأَ، ثُمَّ رَکَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَکَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ مَرَّۃً أُخْرٰی) .
١٨٧٤: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گہن کی نماز پڑھائی قیام سے نماز کو شروع فرمایا پھر قراءت کی اور رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور قراءت کی پھر رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر قراءت کی پھر رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور قراءت کی پھر رکوع کیا پھر سجدہ کیا پھر دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کی۔
تخریج : مسلم فی الکسوف نمبر ١٨‘ ١٩۔

1875

۱۸۷۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْقَطَّانُ عَنْ سُفْیَانَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ
١٨٧٥: یحییٰ بن قطان نے سفیان سے ‘ انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ١؍١٢٥۔

1876

۱۸۷۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ سُفْیَانَ، قَالَ : ثَنَا حَبِیْبٌ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٨٧٦: سفیان نے حبیب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ١؍١٦٧۔

1877

۱۸۷۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْحَکَمُ عَنْ رَجُلٍ یُدْعَیْ حَنَشًا عَنْ (عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلّٰی بِالنَّاسِ فِیْ کُسُوْفِ الشَّمْسِ کَذٰلِکَ ثُمَّ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَذٰلِکَ فَعَلَ) .وَخَالَفَ ہٰؤُلَائِ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ ہِیَ سِتُّ رَکَعَاتٍ فِیْ أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ .
١٨٧٧: حنش نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو سورج گہن کی نماز اس طرح پڑھائی پھر ان کو فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔ دوسرے حضرات نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے ہیں اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گہن کی نماز میں ہر رکعت میں چار رکوع اور دو سجدے ہیں۔
مؤقف فریق ثالث : ہر رکعت میں تین رکوع اور دو سجدے ہیں یہ حضرت عائشہ (رض) جابر اور ابن عباس (رض) کی ان روایات سے ثابت ہے۔

1878

۱۸۷۸: وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْمُ فَیَرْکَعُ ثَلاَثَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَرْکَعُ ثَلاَثَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ، تَعْنِیْ فِیْ صَلَاۃِ الْخُسُوْفِ) .
١٨٧٨: عبید بن عمیر نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کرتے پھر رکوع کرتے آپ نے اس طرح تین رکروع کئے پھر دو سجدے کئے پھر دوسری رکعت کے قیام میں تین رکوع کئے اور سجدے د و کئے یعنی نماز گہن سے یہ بات متعلق ہے۔
تخریج : مسلم فی الکسوف نمبر ٦۔

1879

۱۸۷۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ ھِشَامٍ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (فِیْ صَلَاۃِ الْآیَاتِ قَالَ : سِتُّ رَکَعَاتٍ، وَأَرْبَعُ سَجَدَاتٍ) .
١٨٧٩: عبید بن عمیر نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ گہن کی نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے ہیں۔

1880

۱۸۸۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْکُوْفِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِیْ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ : (أَنَّ الشَّمْسَ انْکَسَفَتْ یَوْمَ مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ) ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ رَبِیْعٍ، عَنْ أَسَدٍ وَزَادَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ، فَصَلُّوْا حَتّٰی یَنْجَلِیَ) قَالُوْا : وَقَدْ فَعَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَ ھٰذَا بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوْا۔
١٨٨٠: عطاء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جس دن ابراہیم سلام اللہ علیہ کی وفات ہوئی اس دن سورج کو گہن لگ گیا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی پھر ربیع مؤذن والی سابقہ روایت کی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ یہ اضافہ ہے۔ ان رسول اللہ ﷺ قال ان الشمس والقمر الحدیث۔ کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی علامت ہیں ان کا گہن کسی کی زندگی و موت سے متعلق نہیں ہے جب تم ان میں سے کسی چیز کو دیکھو تو گہن کے ختم ہونے تک نماز ادا کرو۔ انھوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس طرح کیا۔ پس انھوں نے اس طرح ذکر کیا۔
تخریج : مسلم فی الکسوف نمبر ١٠۔

1881

۱۸۸۱: مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ عَلٰی عَہْدِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ : مَا أَدْرِیْ أَیَّ أَرْضٍ یَعْنِیْ مَا کَانَ بِہٖ مِنَ التَّفَرُّسِ ھٰکَذَا ذَکَرَ الْخَصِیْبُ أَوْ زُلْزِلَتَ الْأَرْضُ .فَقِیْلَ لَہٗ : زُلْزِلَتَ الْأَرْضُ فَخَرَجَ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَ ۃَ، وَکَبَّرَ فَرَکَعَ، ثُمَّ قَالَ : " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ " ثُمَّ کَبَّرَ أَرْبَعًا، فَکَبَّرَ فَأَطَالَ الْقِرَائَ ۃَ، ثُمَّ کَبَّرَ فَرَکَعَ، ثُمَّ قَالَ : " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ " ثُمَّ کَبَّرَ أَرْبَعًا، فَقَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَ ۃَ، ثُمَّ کَبَّرَ، فَرَکَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَفَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ .فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ : ھٰکَذَا صَلَاۃُ الْآیَاتِ، وَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی بِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ، وَفِی الْأُخْرٰی سُوْرَۃَ آلِ عِمْرَانَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ وَقَالُوْا : بَلْ یُطِیْلُ الصَّلَاۃَ کَذٰلِکَ أَبَدًا، یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ، لَا تَوْقِیْتَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ حَتّٰی تَنْجَلِیَ الشَّمْسُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٨٨١: عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کے زمانہ میں زلزلہ آیا تو کہنے لگے مجھے معلوم نہیں کہ زمین میں زلزلہ کیوں ہے ان سے بتایا گیا کہ زمین میں زلزلہ آیا ہے تو آپ باہر نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی اور چار مرتبہ تکبیر کہی پھر قراءت کی اور قراءت خوب طویل فرمائی اور تکبیر کہہ کر رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا پھر چار تکبیرات کہیں پھر تکبیر کہہ کر طویل قراءت کی پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا پھر چار تکبیرات کہیں اور طویل قراءت کی پھر تکبیر کہہ کر رکوع پھر سجدہ کیا پھر قیام کر کے دوسری رکعت اسی طرح ادا فرمائی پھر جب سلام پھیرا تو فرمایا حوادث کی نماز اسی طرح ہے پہلی رکعت میں سورة بقرہ کی تلاوت فرمائی اور دوسری رکعت میں سورة آل عمران کی تلاوت کی۔ اور دوسرے علماء نے ان سے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز کی طوالت تو سورج گرہن سے چھٹ جانے تک ہے۔ پھر رکوع اور سجدے کرلے ان میں کوئی چیز مقرر نہیں ہے۔ ان کا استدلال اس روایت سے ہے۔
حاصل روایات : یہ آخری اثر ابن عباس (رض) ہے اور پہلی تین روایات ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر رکعت میں تین رکوع اور دو سجدے اور طویل قراءت ہے۔
مؤقف فریق رابع : رکوع و سجدات کی کوئی پابندی نہیں البتہ طویل نماز پڑھی جائے کہ سورج صاف ہوجائے۔ جیسا ابن عباس (رض) کی اس روایت سے ثبوت ملتا ہے۔

1882

۱۸۸۲: بِمَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ سَعِیْدِ ابْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : لَوْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فِی الرَّکْعَۃِ الرَّابِعَۃِ، لَرَکَعَ وَسَجَدَ .فَھٰذَا سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ یُخْبِرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ لَوْ تَجَلَّتْ لَہٗ الشَّمْسُ فِی الرَّکْعَۃِ الرَّابِعَۃِ لَرَکَعَ وَسَجَدَ وَالرَّابِعَۃُ ہِیَ الْأُوْلٰی مِنَ الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ .فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَقْصِدُ فِیْ ذٰلِکَ رُکُوْعًا مَعْلُوْمًا، وَإِنَّمَا یَرْکَعُ مَا کَانَتِ الشَّمْسُ مُنْکَسِفَۃً حَتّٰی تَنْجَلِیَ فَیَقْطَعَ الصَّلَاۃَ وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فَصَلُّوْا حَتّٰی تَنْجَلِیَ) وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا: صَلَاۃُ الْکُسُوْفِ رَکْعَتَانِ کَسَائِرِ صَلَاۃِ التَّطَوُّعِ إِنْ شِئْت طَوَّلْتہمَا وَإِنْ شِئْت قَصَّرْتُہُمَا ثُمَّ الدُّعَائُ مِنْ بَعْدِہِمَا حَتّٰی تَنْجَلِیَ الشَّمْسُ .وَاخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٨٨٢: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ اگر سورج کا گہن سے صاف ہونا چوتھے رکوع میں ہو وہ بھی کرے گا یہ پہلی رکعت کی بات ہے دوسری رکعت اسی طرح پڑھی جائے گی۔ یہ ابن جبیر (رح) ہیں جو حضرت ابن عباس (رض) کے متعلق بتلا رہے ہیں کہ انھوں نے فرمایا اگر چوتھی رکوع میں اگر سورج گرہن چھٹ جائے تو وہ رکوع اور سجدہ کرے گا اور چوتھا رکوع یہ دوسری رکعت کا پہلا رکوع ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کے ہاں رکوع معلوم و مقرر نہیں۔ یہ رکوع سورج کے روشن ہونے تک کرتا رہے جب وہ روشن ہوچکے تو پھر نماز کو منقطع کرلے اور اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : ” فصلوا حتی تنجلی “ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سورج گرہن کی نماز بھی دو رکعت ہے ‘ خواہ ان کو طویل کرو خواہ مختصر کرلو۔ پھر طویل دعا کی جائے یہاں تک کہ سورج روشن ہوجائے۔ ان کی اس سلسلہ میں یہ روایات مستدل ہیں۔
حاصل روایات : ابن جبیر ابن عباس (رض) سے نقل کر رہے ہیں کہ اگر انجلاء شمس تک ایک رکعت میں چار رکوع کرنے پڑیں تو وہ بھی کئے جائیں گے پس معلوم ہوا کہ رکوعات کی تعداد متعین نہیں ہے البتہ رکعات دو ہی ہوں گی۔
فریق خامس کا مؤقف : نماز گہن کی بھی دو رکعت ہیں اور جس طرح نفلی نمازوں میں طویل قراءت کے باوجود رکوع کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا اسی طرح یہاں بھی طویل قراءت ہوگی مگر رکوع کی تعداد اسی قدر ہوگی پھر انجلاء شمس تک دعا و استغفار میں مشغول رہیں گے جیسا کہ روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

1883

۱۸۸۳: لِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : (کَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بِالنَّاسِ فَلَمْ یَکَدْ یَرْکَعُ، ثُمَّ رَکَعَ، فَلَمْ یَکَدْ یَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ یَکَدْ یَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ یَکَدْ یَرْفَعُ .وَفَعَلَ فِی الثَّانِیَۃِ مِثْلَ ذٰلِکَ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ) .
١٨٨٣: سائب نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ سورج کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں سورج گہنا گیا آپ لوگوں کو لے کر نماز میں قیام فرمایا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ رکوع نہ کریں گے پھر رکوع کیا پس اتنا طویل رکوع کیا کہ ایسا لگتا تھا کہ اس سے سر نہ اٹھائیں گے پھر آپ نے سر مبارک اٹھایا اتنا طویل قومہ کیا قریب نہ تھا کہ سجد کریں۔ پھر سجدہ کیا تو ایسا لگتا تھا کہ سجدہ سے سر نہ اٹھائیں گے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا اس وقت سورج گہن سے صاف ہوچکا تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی صلوۃ الکسوف ١١٩٤‘ ترمذی فی صلوۃ الکسوف باب ٤٤‘ نمبر ٥٦٠۔

1884

۱۸۸۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ.
١٨٨٤: حجاج نے حماد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت کی۔

1885

۱۸۸۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ عَنْ أَبِیْہِ، وَعَطَائُ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
١٨٨٥: سائب نے حضرت عبداللہ بن عمرو عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

1886

۱۸۸۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ : (انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ) .
١٨٨٦: سائب نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں سورج گہن گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔

1887

۱۸۸۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِیْ کُسُوْفِ الشَّمْسِ رَکْعَتَیْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ أَطَالَ فِیْہِمَا الْقِیَامَ وَالرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ) .
١٨٨٧: سائب نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج گہن کے موقعہ پر لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اس میں چار سجدے کئے آپ نے اس میں طویل قیام فرمایا اسی طرح رکوع اور سجدہ بھی۔

1888

۱۸۸۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ أَیُّوْبَ، عَنْ عَمِّہِ إِیَاسِ بْنِ عَامِرٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (فَرَضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ صَلَوَاتٍ : صَلَاۃَ الْحَضَرِ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ، وَصَلَاۃَ السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ، وَصَلَاۃَ الْکُسُوْفِ رَکْعَتَیْنِ وَصَلَاۃَ الْمَنَاسِکِ رَکْعَتَیْنِ) .
١٨٨٨: ایاس بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے علی بن ابی طالب (رض) کو فرماتے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار نمازیں مقرر فرمائیں حضر کی نماز چار رکعت اور سفر کی نماز دو رکعت اور کسوف کی نماز دو رکعت اور طواف کی نماز دو رکعت۔

1889

۱۸۸۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ : (انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَلّٰی بِہِمْ) مِثْلَ مَا ذَکَرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، سَوَائً .
١٨٨٩: ثعلبہ بن عباس نے سمرہ بن جندب (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورج گہن گیا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا تو آپ نے لوگوں کو اسی طرح نماز پڑھائی جیسا روایت میں عبداللہ میں مذکور ہے ٹھیک اسی طرح۔
تخریج : ابو داؤد فی صلوۃ الکسوف باب ٤: نمبر ١١٨٤‘ ترمذی فی صلوۃ الکسوف باب ٤٥‘ نمبر ٥٦٢۔

1890

۱۸۹۰: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، قَالَ : ثَنَا الْأَسْوَدُ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٨٩٠: زہیر نے اسود سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

1891

۱۸۹۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ، قَالَ : انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ .
١٨٩١: حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا پس آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب نمبر ١۔

1892

۱۸۹۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ، قَالَ : (کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ إِلَی الْمَسْجِدِ یَجُرُّ رِدَائَ ہٗ مِنَ الْعَجَلَۃِ وَثَابَ النَّاسُ إِلَیْہِ فَصَلّٰی کَمَا تُصَلُّوْنَ) .
١٨٩٢: حسن نے ابو بکرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تھے کہ سورج کو گہن لگ گیا آپ جلدی میں اپنی چادر کو کھینچتے ہوئے اٹھے اور لوگ آپ کی طرف لوٹ آئے پس آپ نے ان کو اسی طرح نماز پڑھائی جس طرح تم (فرض) نماز پڑھتے ہو۔

1893

۱۸۹۳: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ (أَنَّ الشَّمْسَ أَوَ الْقَمَرَ انْکَسَفَتْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ وَإِنَّہُمَا لَا یَکْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ وَلَا لِحَیَاتِہٖ، فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَصَلُّوْا حَتّٰی تَنْجَلِیَ)
١٨٩٣: حسن نے ابو بکرہ (رض) سے نقل کیا کہ سورج یا چاند کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں گہن لگ گیا تو آپ نے (خطبہ دیتے ہوئے) فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی علامات ہیں یہ کسی کی موت و زندگی سے گہنی نہیں جاتیں اور نہ کسی کی پیدائش سے ان کو تعلق ہے جب ان میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اس وقت تک نماز میں مصروف رہو یہاں تک کہ سورج چھٹ جائے۔

1894

۱۸۹۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالصَّیْرَفِیُّ، ہُوَ الْبَصَرِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ کُسُوْفِ الشَّمْسِ کَمَا تُصَلُّوْنَ رَکْعَۃً وَسَجْدَتَیْنِ) .
١٨٩٤: ابو قلابہ نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح نماز پڑھتے تھے جیسا کہ تم ایک رکوع اور دو سجدے سے نماز پڑھتے ہو۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب کسوف الشمس والقمر نمبر ١٨٧٣۔

1895

۱۸۹۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ .ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ قَالَ : انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ .
١٨٩٥: ابو قلابہ نے نعمان بن بشیر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں سورج کو گہن لگ گیا پس آپ رکوع اور سجدے کرتے رہے۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو نمبر ١٨٩٤۔

1896

۱۸۹۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِی الْکُسُوْفِ نَحْوًا مِنْ صَلَاتِکُمْ ھٰذِہٖ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ .
١٨٩٦: ابو قلابہ نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسوف میں اسی طرح نماز پڑھائی جس طرح تم رکوع و سجدہ سے پڑھتے ہو۔

1897

۱۸۹۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ أَوْ غَیْرِہٖ، قَالَ : (کَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَیُسَلِّمُ وَیَسْأَلُ حَتَّی انْجَلَتْ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ رِجَالًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَنْکَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِیْمٍ مِنْ عُظَمَائِ أَہْلِ الْأَرْضِ وَلَیْسَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، وَلَکِنَّہُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ فَإِذَا تَجَلَّی اللّٰہُ لِشَیْئٍ مِنْ خَلْقِہِ خَشَعَ لَہٗ) .
١٨٩٧: ابو قلابہ نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) یا دوسرے کسی صحابی سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں سورج کو گہن لگ گیا پس آپ دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے اور پوچھتے رہے یہاں تک کہ گہن ختم ہوگیا پھر آپ نے فرمایا بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سورج و چاند کو گہن کسی بڑے آدمی کی موت سے لگتا ہے حالانکہ یہ اس طرح درست نہیں بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جب اللہ تعالیٰ اپنی کسی مخلوق پر تجلی ڈالتے ہیں تو وہ اس کی عظمت کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی صلوۃ الکسوف باب ٩‘ نمبر ١١٩٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٢‘ نمبر ١٢٦٢۔

1898

۱۸۹۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، عَنْ زَائِدَۃَ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمُغِیْرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ، قَالَ : (انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ یَوْمَ مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَصَلُّوْا وَادْعُوْا حَتّٰی یَنْکَشِفَ) .
١٨٩٨: زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے سنا کہ سورج کو اس دن گہن لگا جس دن ابراہیم سلام اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت و زندگی سے گہن زدہ نہیں ہوتیں۔ پس جب تم ان کو اس حالت میں دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو یہاں تک کہ گہن کھل جائے۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ١۔

1899

۱۸۹۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ح .
١٨٩٩: سلیمان بن شعیب نے عبدالرحمن بن زیاد سے اپنی سند سے بیان کیا۔ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ جن حضرات کو آپ کی نماز کا صحیح علم ہوا ‘ انھوں نے اس کو اسی طرح یاد رکھا۔

1900

۱۹۰۰: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، قَالَ : انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّی الْمُغِیْرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ بِالنَّاسِ رَکْعَتَیْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ عَلِمَہُ مِنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَضَرَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ .
١٩٠٠: ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ سورج کو گہن لگ گیا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے لوگوں کو دو رکعت نماز چار سجدات کے ساتھ پڑھائی۔ ان روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جن صحابہ کرام (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا صحیح علم تھا اور وہ پہلی صفوں میں تھے انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی ہے کہ یہ نماز بھی عام نمازوں کی طرح ایک رکوع اور دو سجدوں والی تھی۔

1901

۱۹۰۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ حَازِمٍ عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ قَبِیْصَۃَ الْبَجَلِیِّ، قَالَ : (انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی کَمَا تُصَلُّوْنَ) .
١٩٠١: ابو قلابہ نے قبیصہ بجلی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح نماز پڑھائی جس طرح تم نماز پڑھاتے ہو۔
تخریج : نسائی ١؍٢١٩۔

1902

۱۹۰۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ، قَالَا : ثَنَا ابْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ قَبِیْصَۃَ الْہِلَالِیِّ أَوْ غَیْرِہِ (أَنَّ الشَّمْسَ کَسَفَتْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَزِعًا یَجُرُّ ثَوْبَہٗ وَأَنَا مَعَہُ یَوْمَئِذٍ بِالْمَدِیْنَۃِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ أَطَالَہُمَا ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَقَالَ : إِنَّمَا ھٰذِہِ الْآیَاتُ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہَا فَإِذَا رَأَیْتُمُوْہَا فَصَلُّوْا کَأَحْدَثِ صَلَاۃٍ صَلَّیْتُمُوْہَا مِنَ الْمَکْتُوْبَۃِ) .فَکَانَ أَکْثَرُ الْآثَارِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ ہِیَ الْمُوَافَقَۃَ لِھٰذَا الْمَذْہَبِ الْأَخِیْرِ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ مَعَانِی الْأَقْوَالِ الْأُوَلِ فَکَانَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیْرٍ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ حَدِیْثِہٖ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَیُسَلِّمُ وَیَسْأَلُ) فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ النُّعْمَانُ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السُّجُوْدَ بَعْدَ کُلِّ رَکْعَۃٍ وَعَلِمَہُ مَنْ وَافَقَہٗ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَلَمْ یُعْلِمْ الَّذِیْنَ قَالُوْا : رَکَعَ رَکْعَتَیْنِ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ لَمَّا کَانَ مِنْ طُوْلِ صَلَاتِہِ فَتَصْحِیْحُ حَدِیْثِ النُّعْمَانِ ھٰذَا مَعَ ھٰذِہِ الْآثَارِ ہُوَ أَنْ یَجْعَلَ صَلَاتَہُ کَمَا قَالَ النُّعْمَانُ لِأَنَّ مَا رَوٰی عَلِیٌّ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَدْخُلُ فِیْ ذٰلِکَ وَیَزِیْدُ عَلَیْہِ حَدِیْثُ النُّعْمَانِ، فَہُوَ أَوْلَی، مِنْ کُلِّ مَا خَالَفَہُمْ .ثُمَّ قَدْ شَدَّ ذٰلِکَ مَا حَکَاہُ قَبِیْصَۃُ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَصَلُّوْا کَأَحْدَثِ صَلَاۃٍ صَلَّیْتُمُوْہَا مِنَ الْمَکْتُوْبَۃِ) .فَأَخْبَرَنَا إِنَّمَا یُصَلِّیْ فِی الْکُسُوْفِ کَمَا یُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلٰی قَوْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یُوَقِّتُوْا فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا لِمَا رَوَوْہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَکَانَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ قَبِیْصَۃَ (فَصَلُّوْا کَأَحْدَثِ صَلَاۃٍ صَلَّیْتُمُوْہَا مِنَ الْمَکْتُوْبَۃِ) دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّ الصَّلَاۃَ فِیْ ذٰلِکَ مُؤَقَّتَۃٌ مَعْلُوْمَۃٌ لَہَا وَقْتٌ مَعْلُوْمٌ، وَعَدَدٌ مَعْلُوْمٌ، فَبَطَلَ بِذٰلِکَ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الْمُخَالِفُوْنَ لِھٰذَا الْحَدِیْثِ .فَأَمَّا قَوْلُہُمْ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَصَلُّوْا حَتّٰی تَنْجَلِیَ) فَقَالُوْا فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَقْطَعَ الصَّلَاۃَ اِذَا کَانَ ذٰلِکَ حَتّٰی تَنْجَلِیَ .فَیُقَالُ لَہُمْ : فَقَدْ قَالَ فِیْ بَعْضِ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ (فَصَلُّوْا وَادْعُوْا حَتّٰی تَنْکَشِفَ) .
١٩٠٢: ابو قلابہ نے قبیصہ ہلالی یا کسی دوسرے صحابی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرا کر اپنے کپڑوں کو کھینچتے ہوئے نکلے اور میں ان دنوں آپ کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھا پس آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ ان دو رکعتوں کو خوب لمبا کیا پھر نماز سے اس وقت فارغ ہوئے جبکہ سورج چھٹ چکا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ یہ نشانہائے قدرت ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں جب تم ان کو دیکھ پاؤ تو اس قریبی نماز کی طرح نماز پڑھو جو فرض تم نے پڑھی ہو۔ اس باب کی اکثر روایات سے اس مسلک اخیرہ کی تائید ہوتی ہے۔ پس ہم نے چاہا کہ اقوال و آثار کے معانی پر نگاہ ڈالیں۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے اپنی روایت میں خبر دی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز دو دو رکعت ادا کرتے پھر سلام پھیرتے اور دعا فرماتے۔ اس سے یہ احتمال پیدا ہوا کہ حضرت نعمان (رض) کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر رکوع کے بعد سجدے کا علم ہوا۔ اس طرح جنہوں نے ان کی موافقت کی ان کو بھی یہی معلوم ہوا کہ آپ نے دو رکعت ادا کی ہیں۔ مگر وہ حضرات جنہوں نے یہ فرمایا کہ آپ نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے یا اس سے زیادہ رکوع کیے ان کو طوالت صلوۃ کی وجہ سے یہ علم نہ ہوسکا۔ پس حضرت نعمان (رض) کی روایت ان روایات کے ساتھ اس وقت درست بیٹھ سکتی ہے کہ نماز تو حضرت نعمان (رض) کے قول کے مطابق قرار دیں اس لیے کہ جو حضرت عائشہ صدیقہ ‘ علی ‘ ابن عباس (رض) سے مروی ہے وہ بھی اس میں داخل ہے اور حضرت نعمان (رض) کی روایت اضافے پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہ ان سے اولیٰ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت قبیصہ (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول نے اس کو مزید پختہ کردیا۔ ان کا فرمان یہ ہے جب بات پیش آجائے تو قریب ترین فرض نماز کی طرح پڑھو۔ پس انھوں نے یہ بتلایا کہ آپ نماز کسوف فرض نماز کی طرح پڑھتے تھے۔ اب ہم نے ان لوگوں کے قول کی طرف توجہ کی جو اس روایت ابن عباس (رض) کے مطابق اس میں رکوع کی کوئی تعداد مقرر نہیں کی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان یہ تھا کہ تم قریب ترین نماز کی طرح ادا کرو۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس نماز فرض کی تعداد رکعات اور وقت بھی معلوم ہے اور پس اس روایت کی وجہ سے مخالف کا مسلک باطل ہوا۔ رہا ان کا یہ کہنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فاذا ارایتم ذلک فصلوا حتی تنجلی “ میں یہ دلیل ہے کہ روشنی کے آنے تک نماز کو توڑنا مناسب نہیں۔ ان کے جواب میں ہم کہیں گے کہ تم نماز پڑھو اور دعا مانگو یہاں تک کہ سورج روشن ہوجائے۔
تخریج : ابو داؤد فی صلوۃ الکسوف باب ٤‘ نمبر ١١٨٥‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٥٢‘ نمبر ١٢٦٢‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب کسوف الشمس والقمر ١٨٧١؍١٨٧٢۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے نماز کسوف کا عام نفل نماز کی طرح مگر جہر قراءت و طویل قراءت سے ثبوت مل رہا ہے اور اکثر آثار و روایات اس مذہب اخیر کی موافقت کرتی ہیں ہمیں پہلی روایات میں غور کرنا ہوگا چنانچہ نعمان بن بشیر (رض) کی روایت میں ہے کہ آپ دو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیرتے اور سوال کرتے رہے اس میں احتمال ہے کہ نعمان نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ جانا کہ ہر رکوع کے بعد سجدہ کیا اور جو ان سے موافقت کرنے والے تھے ان سے معلوم کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت ہی پڑھی ہیں اور ان لوگوں کو جو مجمع کی کثرت کی وجہ سے پیچھے تھے معلوم نہ ہوا انھوں نے دو رکوع یا اس سے زیادہ نقل کردیئے کیونکہ آپ نے طویل قیام فرمایا پس ان حضرات کی روایات تب درست بیٹھتی ہیں جبکہ ان کا معنی وہی لیا جائے جو نعمان بن بشیر (رض) کی روایت کا ہے کہ یہ نماز آپ نے عام نمازوں کی طرح ادا کی پس نعمان کی روایت دوسروں سے اولیٰ ہے اور اس بات کو مزید تقویت قبیصہ (رض) والی روایت سے ملتی ہے کہ اس نماز کو کسی قریبی فرض نماز کی طرح ادا کرو تو اس سے یہ فیصلہ تو آسان ہوگیا کہ صلوۃ کسوف فرض نماز کی طرح ہے اب رہا ان لوگوں کا قول جنہوں نے رکوعات وغیرہ کی کوئی تعداد متعین نہیں کی جیسا کہ روایت ابن عباس (رض) سے ظاہر ہوتا ہے تو حدیث قبیہ (رض) میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول کہ تم قریبی فرض نماز کی طرح تم نماز پڑھ لو تو معلوم ہوا کہ اس میں نماز کی تعداد بھی معلوم ہے اور اس کا ایک وقت بھی معلوم ہے پس ان لوگوں کی بات باطل ہوگئی جو عدد معلوم کے قائل نہیں۔
ایک اشکال مہم :
فاذا رایتم ذلک فصلوا حتی تنجلی یہ قول بتلا رہا ہے کہ نماز انکشاف ‘ آفتاب تک پڑھی جائے گی اس سے پہلے اس کا ترک درست نہیں۔
جواب : روایت نمبر ١٨٩٨ میں فصلوا وادعوا حتی تنکشف کے الفاظ اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ نماز بھی پڑھی جائے اور دعا بھی کی جائے یہاں تک کہ سورج کھل جائے۔
اس کی تائید مندرجہ روایات سے بھی ہوتی ہے۔

1903

۱۹۰۳: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، أَرَاہُ، وَلَا لِحَیَاتِہٖ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَعَلَیْکُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ وَالصَّلَاۃِ) .
١٩٠٣: عبداللہ بن سائب نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی علامات قدرت سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت و پیدائش سے گہن زدہ نہیں ہوتیں۔ پس جب تم اس (گہن) کو دیکھو تو تم پر اللہ تعالیٰ کی یاد اور نماز لازم ہے۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب کسوف الشمس والقمر ١٨٦٧۔

1904

۱۹۰۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ کُرَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی قَالَ : (خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِیْ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ فَزِعًا یَخْشٰی أَنْ تَکُوْنَ السَّاعَۃُ حَتّٰی أَتَی الْمَسْجِدَ فَقَامَ یُصَلِّیْ بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوْعٍ وَسُجُوْدٍ مَا رَأَیْتَہٗ یَفْعَلُہٗ فِیْ صَلَاۃٍ قَطُّ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ ھٰذِہِ الْآیَاتِ الَّتِیْ یُرْسِلُہَا اللّٰہُ - عَزَّ وَجَلَّ - لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ وَلَکِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُرْسِلُہَا یُخَوِّفُ بِہَا عِبَادَہُ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْہَا فَافْزَعُوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَدُعَائِہِ وَاسْتِغْفَارِہِ) فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالدُّعَائِ عِنْدَہَا وَالْاِسْتِغْفَارِ کَمَا أَمَرَ بِالصَّلَاۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یُرِدْ مِنْہُمْ عِنْدَ الْکُسُوْفِ الصَّلَاۃَ خَاصَّۃً وَلٰـکِنْ أُرِیْدَ مِنْہُمْ مَا یَتَقَرَّبُوْنَ بِہٖ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی مِنَ الصَّلَاۃِ وَالدُّعَائِ وَالْاِسْتِغْفَارِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ .
١٩٠٤: ابو بردہ نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا تو آپ گھبرا کر اٹھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی یہاں تک کہ آپ مسجد میں پہنچے اور نماز پڑھنے کھڑے ہوئے آپ نے اس میں انتہائی طویل قیام ‘ رکوع اور سجدہ کیا جو کسی اور نماز میں دیکھنے میں نہ آیا تھا پھر ارشاد فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتے ہیں اس میں کسی کی موت و زندگی کا دخل نہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بھیج کر اپنے بندوں کو خوف دلاتے ہیں جب تم ان میں سے کسی چیز کو دیکھو تو یاد الٰہی کی طرف اور دعا و استغفار کی طرف لپکو۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا ‘ استغفار کا بھی اسی طرح حکم فرمایا جس طرح نماز کا فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ اس سے کوئی خاص قسم کی نماز مراد نہیں بلکہ مقصود ایسی چیزیں ہیں جن سے قرب الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔ یعنی نماز دعا اور استغفار وغیرہ کرو۔
دیگر روایات جو عام تقرب پر دلالت کرتی ہیں۔

1905

۱۹۰۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ فَاطِمَۃَ، عَنْ أَسْمَائَ قَالَتْ : (أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَاقَۃِ عِنْدَ الْکُسُوْفِ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ .
١٩٠٥: ہشام بن عروہ نے فاطمہ (رض) سے اس نے اسماء (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسوف کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا (اس سے ثابت ہوا کہ اصل مقصود تقرب الٰہی کی چیزیں ہیں)
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ١١‘ والعتق باب ٣‘ ابو داؤد فی الاستسقاء باب ٨‘ نمبر ١١٩٢‘ مسند احمد ٧؍٣٤٥۔

1906

۱۹۰۶: وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ، عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدِ ڑالْأَنْصَارِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، قَالَ ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُوْدِ ڑ الْأَنْصَارِیَّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ فَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَقُوْمُوْا فَصَلُّوْا) فَأُمِرُوْا فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ بِالْقِیَامِ عِنْدَ رُؤْیَتِہِمْ ذٰلِکَ لِلصَّلَاۃِ وَأُمِرُوْا فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ بِالدُّعَائِ وَالْاِسْتِغْفَارِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ حَتّٰی تَنْجَلِیَ الشَّمْسُ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہُمْ لَمْ یُؤْمَرُوْا بِأَنْ لَا یَقْطَعُوْا الصَّلَاۃَ حَتّٰی تَنْجَلِیَ الشَّمْسُ، وَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ لَہُمْ أَنْ یُطِیْلُوْا الصَّلَاۃَ إِنْ أَحَبُّوْا، وَإِنْ شَائُ وْا قَصَرُوْہَا، وَوَصَلُوْہَا بِالدُّعَائِ حَتّٰی تَنْجَلِیَ الشَّمْسُ .
١٩٠٦: قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو مسعود (رض) انصاری سے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت و پیدائش سے متعلق نہیں جب تم ان کو دیکھو تو ونماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ پس اس ارشاد میں اس وقت نماز کے لیے کھڑے ہونے کا حکم دیا جبکہ پہلی روایات میں نماز کے بعد دعا اور استغفار کا بھی حکم ہے ‘ یہاں تک کہ سورج روشن ہوجائے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کو سورج کے روشن ہونے تک نماز کے نہ توڑنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس سے دوسری یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ وہ نماز کو چاہیں تو مختصر پڑھ لیں اور اسے دعا کے ساتھ ملائیں یہاں تک کہ سورج روشن ہوجائے۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ١٣‘ مسلم فی الکسوف نمبر ٢١۔
اس روایت میں نماز کے قیام کا کسوف کے وقت حکم فرمایا گیا ہے اور اس سے پہلی روایات میں دعا ‘ استغفار ‘ غلام آزاد کرنے کا حکم ہے معلوم ہوا کہ انکشاف آفتاب تک نماز دعا و استغفار میں مشغول رہنا چاہیے اسی وجہ سے طویل نماز زیادہ بہتر ہے اگر مختصر پڑھ کر دعا و استغفار کرتے رہیں تاآنکہ آفتاب چھٹ جائے تو یہ بھی مناسب ہے۔
غلطی کا ازالہ : روایت ملاحظہ ہو۔

1907

۱۹۰۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ، قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یَحْیَی الْکَلْبِیُّ، قَالَ ثَنَا الزُّہْرِیُّ، قَالَ : کَانَ کَثِیْرُ بْنُ الْعَبَّاسِ، یُحَدِّثُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یُحَدِّثُ، عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَ بِہٖ عُرْوَۃُ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَ الزُّہْرِیُّ : فَقُلْتُ لِعُرْوَۃِ : فَإِنَّ أَخَاک یَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ بِالْمَدِیْنَۃِ لَمْ یَزِدْ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ مِثْلِ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَقَالَ : أَجَلْ إِنَّہُ أَخْطَأَ السُّنَّۃَ .فَھٰذَا عُرْوَۃُ وَالزُّہْرِیُّ قَدْ ذَکَرَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّہٗ صَلَّی لِکُسُوْفِ الشَّمْسِ رَکْعَتَیْنِ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ رَجُلٌ لَہٗ صُحْبَۃٌ وَقَدْ حَضَرَہُ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَئِذٍ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ .فَأَمَّا قَوْلُ عُرْوَۃَ (إِنَّہُ أَخْطَأَ السُّنَّۃَ) ذٰلِکَ عِنْدَنَا لَیْسَ لِشَیْئٍ .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ صَلَاۃِ الْکُسُوْفِ أَنَّہَا رَکْعَتَانِ، وَأَنَّ الْمُصَلِّیَ إِنْ شَائَ طَوَّلَہُمَا، وَإِنْ شَائَ قَصَّرَہُمَا اِذَا وَصَلَہُمَا بِالدُّعَائِ حَتّٰی تَنْجَلِیَ الشَّمْسُ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا ؛ لِأَنَّا رَأَیْنَا سَائِرَ الصَّلَاۃِ مِنَ الْمَکْتُوْبَاتِ وَالتَّطَوُّعِ مَعَ کُلِّ رَکْعَۃٍ سَجْدَتَیْنِ فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ کَذٰلِکَ۔
١٩٠٧: کثیر بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کسوف آفتاب کے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے متعلق بیان کرتے تھے اور وہ بیان بالکل عروہ عن عائشہ (رض) والی روایت کی طرح ہے زہری کہنے لگے میں نے عروہ کو کہا کہ تمہارا بھائی عبداللہ جبکہ مدینہ میں تھا تو سورج گہن ہوا اس نے لوگوں کو صبح کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی۔ تو عروہ نے کہا اس نے سنت ادا کرنے میں غلطی کی ہے۔ اس باب میں ہم نے جو نماز گہن کے متعلق بیان کیا ہے۔ کہ وہ دو رکعت ہیں نمازی کو اختیار ہے خواہ لمبی پڑھے یا مختصر ‘ جبکہ ان کے ساتھ دعا کو ملائے یہاں تک کہ سورج روشن ہوجائے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے اور ہمارے ہاں قیاس بھی اسی بات کو چاہتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فرائض و نوافل کی تمام نمازوں میں ایک رکعت میں ایک رکوع اور دوسرے سجدے ہوا کرتے ہیں۔ پس قیاس اس بات کو متقاضی ہے کہ یہ نماز بھی اسی طرح ہو۔
یہ عروہ اور زہری بیان کر رہے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے کسوف شمس کی نماز دو رکعت پڑھائی اور عبداللہ تو صحابی ہیں اور اس نماز میں دیگر صحابہ کرام بھی شریک تھے کسی نے ان پر نکیر نہیں کی پس ثابت ہوا کہ عبداللہ بن زبیر کا فعل درست تھا باقی عروہ کی تنقید کی کوئی حیثیت نہیں عروہ کی بات وہم سے زائد حیثیت نہیں رکھتی۔
الحاصل : ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ صلوۃ کسوف دو رکعت ہے اور نمازی ان کو طویل و قصیر کرسکتا ہے اگر قصر کرے تو دعا کو اس کے ساتھ ملاتے یہاں تک کہ انکشاف شمس ہوجائے۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم تمام فرض و نفل نمازوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہر ایک میں ایک رکوع اور دو سجدے نظر آتے ہیں پس تقاضائے نظر بھی یہی ہے کہ یہ نماز بھی ایک رکوع اور دو سجدوں والی ہونی چاہیے فتدبر۔
حاصل روایات : امام طحاوی (رح) نے دلائل قاہر اور آثار باہرہ سے نماز کسوف کا عام نماز کی طرح ہونا ثابت کردیا اور جن روایات میں زیادہ رکوعات کا تذکرہ ہے ان کے جوابات بھی ذکر کردیئے آخر میں عقلی دلیل بھی ذکر کی کیونکہ وما یذکر الا اولوا الالباب۔ اور اس انداز سے زیادہ سے زیادہ آثار بھی ہم معنی بن گئے ہیں کسی تاویل اور توڑ مروڑ کی چنداں ضرورت نہیں پڑی ہے۔ ہذا ہواقرب للصواب۔
` بَابُ الْقِرَائَ ۃِ فِیْ صَلَاۃِ الْکُسُوْفِ کَیْفَ ہِیَ ؟ `
نمازِ کسوف میں قراءت کی کیفیت کیا ہوگی ؟
خلاصہ الزام :
نمبر 1: امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک ‘ شافعی اور جمہور فقہاء (رح) کسوف میں قراءت کو سراً مسنون قرار دیتے ہیں۔
نمبر 2: امام احمد ‘ ابو یوسف ‘ و محمد جہری قراءت کو مسنون کہتے ہیں طحاوی (رح) کا رجحان اسی طرف ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : کسوف کی نماز میں جہراً قراءت مسنون نہیں ہے دلیل یہ ہے۔ حضرت ابن عبا اس (رض) اور حضرت سمرہ بن جندب کی روایات درج ذیل ہیں۔

1908

۱۹۰۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الْکُسُوْفِ حَرْفًا .
١٩٠٨: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے میں نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوۃ کسوف میں ایک حرف نہیں سنا۔
تخریج : بیقہی ٣؍٤٦٦‘ مسند احمد ٥؍١٤۔

1909

۱۹۰۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ح
١٩٠٩: ابن مرزوق نے بیان کیا کہ ہمیں ابوالولید نے بیان کیا انھوں نے ابو عوانہ سے بیان کیا۔

1910

۱۹۱۰: وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الْکُسُوْفِ لَا نَسْمَعُ لَہٗ صَوْتًا .
١٩١٠: ثعلبہ بن عباد نے سمرہ بن جندب (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوۃ کسوف پڑھائی ہم نے آپ کی آواز نہ سنی۔
تخریج : ابو داؤد فی الاستسقاء باب ٤‘ نمبر ١١٨٤‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٤٥‘ نمبر ٥٦٢‘ نسائی فیالکسوف باب ١٥‘ ابن ماجہ فی الاقاماہ باب ١٥٢‘ نمبر ١٢٦٤‘ مسند احمد ٥؍١٤‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٤٧٢۔

1911

۱۹۱۱: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّادٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ عَبْدِ الْقَیْسِ، عَنْ سَمُرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩١١: ابن عبادیہ نے سمرہ سے انھوں نے سمرہ سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1912

۱۹۱۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ، عَنْ سَمُرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : ذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : ھٰکَذَا صَلَاۃُ الْکُسُوْفِ یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ لِأَنَّہَا مِنْ صَلَاۃِ النَّہَارِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ، وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَسَمُرَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَمْ یَسْمَعَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاتِہٖ تِلْکَ حَرْفًا، وَقَدْ جَہَرَ فِیْہَا لِبُعْدِہِمَا مِنْہُ .فَھٰذَا لَا یَنْفِی الْجَہْرَ ؛ اِذْ کَانَ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ قَدْ جَہَرَ فِیْہَا .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ
١٩١٢: ثعلبہ نے سمرہ سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسوف کی نماز میں جب آپ کی آواز نہ سنی گئی تو معلوم ہوتا ہے کہ قراءت جہراً نہ تھی اگر ہوتی تو سنی جاتی ہے۔
الجواب : ابن عباس (رض) اور سمرہ بن جندب اصاغر صحابہ (رض) میں سے ہیں اور بچوں کی صفیں آخر میں ہوتی ہیں مجمع کی کثرت کی وجہ سے آواز آخر تک سنائی نہ دیتی تھی۔ پس ان کا حرف نہ سننا عدم جہر کی ہرگز علامت نہیں۔
مؤقف فریق ثانی : کسوف کی نماز میں جہراً قراءت کی جائے گی اور اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل روایات اس بات پر شاہد ہیں۔

1913

۱۹۱۳: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ عُقَیْلٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَہَرَ بِالْقِرَائَ ۃِ فِیْ کُسُوْفِ الشَّمْسِ) .
١٩١٣: عروہ نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوۃ کسوف میں جہراً قراءت فرمائی۔
تخریج : بخاری فی الکسوف باب ١٩‘ مسلم فی الکسوف نمب ٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٤٥‘ نمبر ٥٦٣۔

1914

۱۹۱۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَھٰذِہِ عَائِشَۃُ تُخْبِرُ أَنَّہٗ قَدْ جَہَرَ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ، فَہِیَ أَوْلَی لِمَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ کَانَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ لَمَّا اخْتَلَفُوْا أَنَّا رَأَیْنَا الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ یُصَلَّیَانِ نَہَارًا فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ وَلَا یُجْہَرُ فِیْہِمَا بِالْقِرَائَ ۃِ وَرَأَیْنَا الْجُمُعَۃَ تُصَلّٰی فِی خَاصٍّ مِنَ الْأَیَّامِ وَیُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ فَکَانَتَ الْفَرَائِضُ ھٰکَذَا حُکْمُہَا مَا کَانَ مِنْہَا یُفْعَلُ فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ نَہَارًا خُوْفَتْ فِیْہِ وَمَا کَانَ مِنْہَا یُفْعَلُ فِی خَاصٍّ مِنَ الْأَیَّامِ جُہِرَ فِیْہِ .وَکَذٰلِکَ جُعِلَ حُکْمُ النَّوَافِلِ مَا کَانَ مِنْہَا یُفْعَلُ فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ نَہَارًا خُوْفَتْ فِیْہِ بِالْقِرَائَ ۃِ، وَمَا کَانَ مَا یُفْعَلُ فِی خَاصٍّ مِنَ الْأَیَّامِ (مِثْلَ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ) یُجْہَرُ فِیْہِ بِالْقِرَائَ ۃِ .ھٰذَا مَا لَا اخْتِلَافَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْہِ، وَکَانَتْ صَلَاۃُ الْاِسْتِسْقَائِ فِیْ قَوْلِ مَنْ یَرٰی فِی الْاِسْتِسْقَائِ صَلَاۃً، ھٰکَذَا حُکْمُہَا عِنْدَہٗ یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ .وَقَدْ شَذَّ قَوْلُہُ فِیْ ذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا فِی جَہْرِہِ بِالْقِرَائَ ۃِ فِیْ صَلَاۃِ الْاِسْتِسْقَائِ .فَلَمَّا ثَبَتَ مَا وَصَفْنَا فِی الْفَرَائِضِ وَالسُّنَنِ ثَبَتَ أَنَّ صَلَاۃَ الْکُسُوْفِ کَذٰلِکَ أَیْضًا لَمَّا کَانَتْ مِنَ السُّنَّۃِ الْمَفْعُوْلَۃِ فِی خَاصٍّ مِنَ الْأَیَّامِ وَجَبَ أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ الْقِرَائَ ۃِ فِیْہَا کَحُکْمِ الْقِرَائَ ۃِ فِی السُّنَنِ الْمَفْعُوْلَۃِ فِی خَاصٍّ مِنْ الْأَیَّامِ، وَہُوَ الْجَہْرُ لَا الْمُخَافَتَۃَ، قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
١٩١٤: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ‘ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تو یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جو بتلاتی ہیں کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت فرمائی۔ پس یہ روایت اسی وجہ کی بناء پر ہمارے ہاں اولیٰ ہے۔ جب روایات میں اختلاف ہوا تو نظر و فکر کی طرف رجوع کیا چنانچہ نظر کا تقاضا یہ ہے کہ غور فرمائیں دن کی نمازیں ظہر و عصر روزانہ پڑھی جاتی ہیں اور ان میں قراءت آہستہ ہے اور جمعہ المبارک کی نماز جو مخصوص دن میں پڑھی جاتی ہے اس میں بآواز بلند قراءت کی جاتی ہے۔ پس فرائض کا حکم یہی ہے کہ ان میں سے جو دن کئے وقت روزانہ ادا کیے جاتے ہیں ان میں قراءت آہستہ ہوگی اور جو مخصوص ایام میں ادا ہوں ان میں جہری قراءت ہوگی نوافل بھی اسی حکم میں ہیں۔ جو دن کے وقت روزانہ پڑھے جاتے ہیں ان میں قراءت آہستہ ہے اور جو خاص دنوں میں ادا ہوتے ہیں مثلاً عیدین وغیرہ ان میں قراءت بلند آواز سے پڑھی جائے گی۔ یہ ایسی بات ہے جس میں سب کا اتفاق ہے اور جن حضرات کے ہاں نماز استسقاء میں نماز ہے ان کے ہاں بھی یہی حکم ہے کہ قراءت بلند آواز سے ہو اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی جس کا تذکرہ ہم نے اس کتاب میں کیا ہے۔ اس میں ہے کہ نماز استسقاء میں بلند آواز سے قراءت ہوگی۔ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ پس وہ نظر بات جس کو فرائض و سنن کے سلسلہ میں ہم نے ذکر کیا ہے وہ ثابت ہوگئی تو اس سے خود ثابت ہوگیا کہ نماز کسوف بھی اس سے مختلف نہیں ‘ اس لیے کہ وہ بھی خاص وقت میں ادا کی جانے والی سنت ہے۔ اب لازم ہے کہ اس کی قراءت اسی طرح ہو جو مخصوص ایام میں ادا کرنے والی سنتوں کا ہے ‘ یعنی قراءت بلند آواز سے ہو آہستہ نہ پڑھی جائے ‘ قیاس اسی کو چاہتا ہے۔ امام ابویوسف و محمد (رح) کا یہی قول ہے اور اس سلسلہ میں حضرت علی (رض) کا اثر بھی موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسوف میں جہراً قراءت فرمائی پس ثابت ہوا کہ کسوف میں جہراً قراءت ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
ان روایات کے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم جب غور کرتے ہیں تو دن کو پڑھی جانے والی نمازوں کو دیکھا جائے وہ ظہر و عصر ہیں ان دونوں نمازوں میں قراءت جہراً نہیں کی جاتی اور ہم دیکھتے ہیں کہ جمعہ خاص دنوں میں پڑھا جاتا ہے مگر اس میں جہراً قراءت کی جاتی ہے تو گویا فرائض میں سے جو دن کے وقت ہر روز معمول کے مطابق کئے جاتے ہیں ان میں جہر نہیں اور جو خاص ایام میں ادا کئے جاتے ہیں ان میں جہر ہے۔
بالکل اسی طرح نوافل میں سے جو تمام دنوں میں دن کے وقت ادا کئے جاتے ہیں ان میں جہر نہیں اور جو خاص ایام میں ادا کئے جاتے ہیں ان میں جہر ہے مثلاً نماز عیدین۔ ان دونوں باتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے جو نماز استسقاء کو نماز مسنون مانتے ہیں وہ اس میں جہر کے قائل ہیں۔
اور اس بات کو ان آثار سے مزید تقویت حاصل ہوجاتی ہے جو جہر کے سلسلہ میں وارد ہیں جب فرائض و سنن میں یہ بات ثابت ہوگئی تو نماز کسوف چونکہ خاص ایام میں پڑھی جاتی ہے تو اس میں قراءت کا حکم جہر ہی کا ہونا چاہیے قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے ہمارے ائمہ میں سے ابو یوسف و محمد (رح) کا یہی مسلک ہے۔

1915

۱۹۱۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ حَنَشٍ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جَہَرَ بِالْقِرَائَ ۃِ فِیْ کُسُوْفِ الشَّمْسِ وَقَدْ صَلَّیْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ مِمَّا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا .
١٩١٥ : حنش نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے نماز کسوف شمس ادا فرمائی تو اس میں جہراً قراءت کی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٤٧٢۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ علی مرتضیٰ (رض) کا جہر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کر جہر کرتے دیکھا ورنہ آپ کے فعل کی وہ مخالفت نہیں کرسکتے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثانی کی طرف ہے کہ کسوف میں جہراً قراءت ہے مگر یہاں دوسرے ابواب کے خلاف دلائل بہت کم پیش گئے شاید کہ گزشتہ باب کی ان روایات پر اکتفاء کر کے جن میں صحابہ کرام (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سورة بقرہ پڑھنا اور آل عمران پڑھنا مذکور ہے یہاں صرف حضرت عائشہ (رض) کی روایت کو پیش کیا جس میں جہر کا تذکرہ ہے قراءت سننے کا تذکرہ نہیں جبکہ روایت ابن عباس (رض) میں عدم سماع کا صاف تذکرہ ہے۔ فتدبر۔

1916

۱۹۱۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ الْبَارِقِیَّ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : وَأُرَاہُ قَدْ رَفَعَہٗ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (صَلَاۃُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنٰی، مَثْنَی) .
١٩١٦: علی بن عبداللہ البارقی حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اس کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیا اور کہا رات کی نماز اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے ان روایات کو اختیار کرتے ہوئے کہا کہ سورج گرہن کی نماز دن کی نماز ہے ‘ اس لیے اس میں جہری قراءت نہ ہونی چاہیے۔ حضرت ابوحنیفہ (رح) کی میلان انہی کی طرف ہے۔ مگر علماء کی دوسری جماعت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بلند آواز سے قراءت کی جائے۔ اس سلسلہ میں ان کی دلیل یہ ہے عین ممکن ہے کہ حضرت سمرہ اور ابن عباس (رض) نے دور ہونے کی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت نہ سنی ہو اور آپ نے بلند آواز سے قراءت کی ہو۔ پس یہ روایت جہر کی نفی نہیں کرتی جبکہ آپ سے اس نماز میں بلند آواز سے قراءت بھی روایات میں آئی ہے۔ روایات ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ٢٤‘ نمبر ١٣٢٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٥٩٧‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١١٦‘ نمبر ١٣٢٢‘ مالک فی صلوۃ اللیل نمبر ٧‘ مسند احمد ١؍٢‘ ٢١١؍٥‘ ٩‘ نسائئی فی السنن کتاب قیام اللیل نمبر ١٣٨٠۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: دن راتے نوافل دو دو رکعت مسنون و مشروع ہے یہ امام شافعی ‘ مالک ‘ احمد (رح) کا قول ہے۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کے ہاں دن رات کے نوافل چار چار جائز بلکہ افضل ہیں۔
نمبر 3: امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری رات کے نوافل دو دو چار چار چھ بلکہ آٹھ آٹھ رکعتیں ایک تحریمہ سے جائز ہیں۔
نمبر 4: امام ابو یوسف و محمد و طحاوی (رح) رات کے نوافل ایک تحریمہ سے صرف دو دو مشروع ہیں زائد نہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : رات دن کے نوافل دو سے زائد مشروع نہیں۔

1917

۱۹۱۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْحُنَیْنِیُّ عَنِ الْعُمَرِیِّ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : ھٰکَذَا صَلَاۃُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنٰی، مَثْنٰی، یُسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ .وَاحْتَجُّوْا بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : أَمَّا صَلَاۃُ النَّہَارِ، فَإِنْ شِئْت تُصَلِّیْ بِتَکْبِیْرَۃٍ مَثْنٰی، مَثْنٰی، تُسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَإِنْ شِئْتُ أَرْبَعًا، وَکَرِہُوْا أَنْ یَزِیْدَ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا، وَاخْتَلَفُوْا فِیْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : إِنْ شِئْت صَلَّیْتُ بِتَکْبِیْرَۃٍ رَکْعَتَیْنِ، وَإِنْ شِئْتُ أَرْبَعًا، وَإِنْ شِئْت سِتًّا، وَإِنْ شِئْت ثَمَانِیًا، وَکَرِہُوْا أَنْ یَزِیْدَ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ : أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : صَلَاۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی، مَثْنٰی، یُسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ : أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْنَا فِیْ صَلَاۃِ النَّہَارِ، فَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِہِمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : أَنَّ کُلَّ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثَ ابْنِ عُمَرَ سِوٰی عَلِیٍّ الْبَارِقِیِّ، وَسِوَیْ مَا رَوٰی الْعُمَرِیُّ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا إِنَّمَا یَقْصِدُ إِلَی صَلَاۃِ اللَّیْلِ خَاصَّۃً دُوْنَ صَلَاۃِ النَّہَارِ .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ بَابِ الْوِتْرِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ فِعْلِہٖ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی فَسَادِ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ أَیْضًا اللَّذِیْنَ ذَکَرْنَاہُمَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .
١٩١٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح سے روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا یہی خیال ہے کہ دن اور رات کی نمازیں دو دو رکعت ہیں اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے ‘ مگر دیگر حضرات نے اس سلسلہ میں ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ دن کی نماز اگر پسند کرو تو دو رکعات پڑھو اور دو کے بعد سلام پھیرو اور چاہو تو چار پڑھو ‘ مگر اس سے زائد کو وہ مکروہ خیال کرتے ہیں۔ البتہ رات کی نماز کے سلسلہ میں ان میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ اگر تم چاہو تو ایک تکبیر سے دو رکعت اور اگر چاہو تو چار رکعت اور اگر چاہو تو چھ رکعت اور اگر چاہو تو آٹھ رکعت ادا کرسکتے ہو اس سے زیادہ ایک نیت سے مکروہ ہیں اور یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ دوسروں نے کہا کہ رات کی نماز دو دو کر کے ادا کی جائے گی اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے گا۔ یہ امام ابویوسف (رح) کا قول ہے۔ باقی دن کی نماز کے سلسلہ میں ہم نے جو بیان کیا وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔ پہلے قول کو جن حضرات نے اختیار کیا ہے ان کے خلاف دلیل یہ ہے کہ جن حضرات سے ابن عمر (رض) کی روایت سوائے علی البارقی (رح) کے کی ہے ‘ انھوں نے اس سے صرف رات کی نماز مراد لی ہے نہ کہ دن کی اور ہم نے اس کا تذکرہ باب الوتر میں کردیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابن عمر (رض) کا عمل ان روایات کے فساد پر دلالت کرتا ہے جن روایات کو اس باب کے شروع میں ہم نقل کر آئے۔
حاصل روایات : رات و دن کی نفلی نماز دو دو رکعت مشروع ہے نہ کہ زائد جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔
فریق ثانی : دن میں تو دو یا چار ایک تحریمہ سے اور رات کو دو ‘ چار ‘ چھ ‘ آٹھ تک پڑھ سکتے ہیں اس سے زائد مکروہ ہیں یہ امام صاحب کا قول ہے البتہ ابو یوسف کے ہاں ہر دو رکعت پر سلام کرنا ضروری ہے۔
سابقہ روایت کا جواب نمبرا : اس روایت کو ابن عمر (رض) سے علی البارقی اور العمری نے نقل کیا اور صلوۃ اللیل کے بعد والنہار کے الفاظ یہ زائد ہیں جو حفاظ حدیث نے نقل نہیں کئے حفاظ کی روایات باب الوتر طحاوی میں موجود ہیں امام نسائی نے اس اضافے کو خطا قرار دیا ہے۔
نمبر 2: ابن عمر (رض) نے اپنا عمل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کے خلاف نقل کیا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

1918

۱۹۱۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ رَکْعَتَیْنِ وَبِالنَّہَارِ أَرْبَعًا .
١٩١٨: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ رات کو دو دو اور دن کو چار چار پڑھتے تھے۔

1919

۱۹۱۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، عَنْ زَیْدٍ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الْجُمُعَۃِ أَرْبَعًا، لَا یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِسَلَامٍ، ثُمَّ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ أَرْبَعًا .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَرْوِیْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَوٰی عَنْہُ عَلِیٌّ الْبَارِقِیُّ، ثُمَّ یَفْعَلُ خِلَافَ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
١٩١٩: جبکہ بن سحیم نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ جمعہ سے پہلے چار رکعت سلام کے فاصلہ کے بغیر پڑھتے تھے پھر جمعہ کے بعد دو رکعت اور پھر چار رکعت پڑھتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ ٧٠‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٤‘ نمبر ٥٢٣‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ۔
حاصل روایات : ان دونوں آثار سے ظاہر ہوا کہ ابن عمر (رض) اپنا عمل رات کو دو دو اور دن کو چار چار ہے تو یہ ناممکن ہے کہ باقی تو ابن عمر (رض) سے وہ نقل کریں اور خود ابن عمر (رض) کا عمل اس کے خلاف ہو پس باقی کی نقل قابل اعتبار نہیں۔

1920

۱۹۲۰: فَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : أَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا عُبَیْدَۃُ الضَّبِّیُّ ح .
١٩٢٠: یزید بن ہارون نے خبر دی کہ ہمیں عبیدہ ضبی نے بیان کیا۔

1921

۱۹۲۱: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ح .
١٩٢١: زید بن ابی انیسہ نے عبیدہ سے روایت کی۔

1922

۱۹۲۲: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ہُوَ النَّخَعِیُّ، عَنْ سَہْمِ بْن مِنْجَابٍ، عَنْ قَزَعَۃَ، عَنِ الْقَرْثَعِ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ : (أَدْمَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّک تُدْمِنُ ہٰؤُلَائِ الْأَرْبَعَ رَکَعَاتٍ .فَقَالَ : یَا أَبَا أَیُّوْبَ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَائِ، فَلَنْ تُرْتَجَّ حَتّٰی یُصَلَّی الظُّہْرُ، فَأُحِبُّ أَنْ یَصْعَدَ لِیْ فِیْہِنَّ عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ أَنْ تُرْتَجَّ .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَوْ فِیْ کُلِّہِنَّ قِرَائَ ۃٌ .قَالَ : نَعَمْ قُلْتُ : بَیْنَہُنَّ تَسْلِیْمٌ فَاصِلٌ؟ قَالَ : لَا إِلَّا التَّشَہُّدُ) .
١٩٢٢: قزعہ نے قرشع سے ‘ انھوں نے ابو ایوب انصاری سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زوال کے بعد ہمیشہ چار رکعت پڑھی ہیں میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ تو ہمیشہ یہ چار رکعات پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا اے ابو ایوب ! جب سورج زائل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ظہر تک بند نہیں کئے جاتے مجھے یہ پسند ہے کہ اس وقت میں دروازہ بند ہونے سے پہلے میرا کوئی نیک عمل آسمان میں چڑھ جائے میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ان چاروں میں قراءت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا ان کے مابین سلام سے فاصلہ بھی ہے آپ نے فرمایا نہیں فقط تشہد پڑھا جائے گا۔

1923

۱۹۲۳: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : ثَنَا فَہْدُ بْنُ حِبَّانَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ سَہْمِ بْنِ الْمِنْجَابِ، عَنْ قَزَعَۃَ، عَنْ قَرْثَعٍ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ، لَا تَسْلِیْمَ فِیْہِنَّ یُفْتَحُ لَہُنَّ أَبْوَابُ السَّمَائِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ ثَبَتَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یُتَطَوَّعَ بِأَرْبَعِ رَکَعَاتٍ بِالنَّہَارِ لَا تَسْلِیْمَ فِیْہِنَّ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ ذَکَرْنَا أَنَّہٗ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ .قَدْ رُوِیَ ھٰذَا أَیْضًا عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
١٩٢٣: قزعہ نے قرشع سے ‘ انھوں نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چار رکعت ظہر سے پہلے پڑھی جائیں جن میں سلام سے فاصلہ نہ ہو تو ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ دن کے وقت چار رکعت ایک سلام سے پڑھنا درست ہے اس سے ان لوگوں کا مؤقف درست ہوگیا جو اس کے قائل ہیں اور متقدمین کی ایک جماعت سے یہ بات مروی ہے۔ یہ حاضر ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ٧‘ نمبر ١٢٧٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٠٥‘ نمبر ١٥٧‘ مسند احمد ٥؍٤١٦‘ بیہقی ٢؍٦٨٧۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوا کہ دن کے نوافل چار رکعت ایک سلام سے جائز ہیں۔

1924

۱۹۲۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یُصَلِّیْ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ، وَأَرْبَعَ رَکَعَاتٍ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ، وَأَرْبَعَ رَکَعَاتٍ بَعْدَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحٰی لَیْسَ فِیْہِنَّ تَسْلِیْمٌ فَاصِلٌ، وَفِیْ کُلِّہِنَّ الْقِرَائَ ۃُ .
١٩٢٤: عبیدہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ عبداللہ (رض) ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے اور چار رکعت جمعہ کے بعد اور چار افطار کے بعد اور چار چاشت کے بعد ان میں سلام سے فاصلہ نہ کرتے اور ان تمام رکعت میں قراءت کرتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٧۔

1925

۱۹۲۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑالرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ، عَنْ مُحِلِّ ڑالضَّبِّیِّ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الْجُمُعَۃِ أَرْبَعًا وَبَعْدَہَا أَرْبَعًا، لَا یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِتَسْلِیْمٍ .
١٩٢٥: محل ضبی نے ابراہیم سے نقل کیا کہ حضرت ابن مسعود (رض) جمعہ سے قبل چار اور اس کے بعد بھی چار رکعت پڑھتے ان میں سلام سے فاصلہ نہ کرتے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٤‘ نمبر ٥٢٣۔

1926

۱۹۲۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ حُصَیْنٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : مَا کَانُوْا یُسَلِّمُوْنَ فِی الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّہْرِ .
١٩٢٦: حصین نے ابراہیم سے نقل کیا ظہر سے پہلی چار رکعت میں وہ سلام نہ پھیرتے تھے۔

1927

۱۹۲۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِیْرَۃَ، قَالَ : سَأَلَ مُحِلٌن اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الرَّکَعَاتِ قَبْلَ الظُّہْرِ، یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِتَسْلِیْمٌ؟ قَالَ : إِنْ شِئْت اکْتَفَیْتُ بِتَسْلِیْمْ التَّشَہُّدِ، وَإِنْ شِئْتَ فَصَلْتَ.
١٩٢٧: ابوالاحوص نے مغیرہ سے نقل کیا کہ محل نے ابراہیم نخعی سے سوال کیا کہ کیا ظہر سے پہلے چار رکعات میں سلام سے فاصلہ ہوگا ؟ تو انھوں نے فرمایا اگر پسند کرو تو تشہد کے سلام پر اکتفا کرو اور اگر فاصلہ کرلو تو تمہاری مرضی ہے۔

1928

۱۹۲۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ، أَنَّ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : صَلَاۃُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنٰی، مَثْنٰی، إِلَّا أَنَّک إِنْ شِئْتَ صَلَّیْتَ مِنَ النَّہَارِ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ لَا تُسَلِّمُ إِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ ثَبَتَ حُکْمُ صَلَاۃِ النَّہَارِ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا، وَمَا رَوَیْنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، لَمْ یَدْفَعْ ذٰلِکَ وَلَمْ یُعَارِضْہُ شَیْئٌ ، وَأَمَّا صَلَاۃُ اللَّیْلِ، فَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْہَا مِنَ الْاِخْتِلَافِ مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ الَّذِیْنَ جَعَلُوْا لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ اللَّیْلَ ثَمَانِیًا لَا یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِتَسْلِیْمٍ حَدِیْثُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً مِنْہَا الْوِتْرُ ثَلاَثُ رَکَعَاتٍ) .فَقِیْلَ لَہٗ فَقَدْ رَوٰی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، (أَنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ اثْنَتَیْنِ مِنْہُنَّ) .وَھٰذَا الْبَابُ إِنَّمَا یُؤْخَذُ مِنْ جِہَۃِ التَّوْقِیفِ وَالْاِتِّبَاعِ لِمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ بِہٖ وَفَعَلَہُ أَصْحَابُہٗ مِنْ بَعْدِہٖ فَلَمْ نَجِدْ عِنْدَ مَنْ فَعَلَہٗ وَلَا مِنْ قَوْلِہٖ أَنَّہٗ أَبَاحَ أَنْ یُصَلّٰی فِی اللَّیْلِ بِتَکْبِیْرَۃٍ أَکْثَرَ مِنْ رَکْعَتَیْنِ وَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ وَہُوَ أَصَحُّ الْقَوْلَیْنِ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ .
١٩٢٨: ابو معشر نے نقل کیا کہ ابراہیم نخعی کہنے لگے دن رات کی نماز دو دو ہے البتہ دن میں چار رکعات سلام کے فاصلہ کے بغیر پڑھو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ دن کی نماز کا حکم اسی طرح ثابت ہوگیا جس طرح ہم نے ذکر کیا اور جو کچھ ہم نے ان روایات میں ذکر کیا ہے وہ اس کے منافی نہیں اور نہ اس کے مخالف ہے اور رات کی نماز کے سلسلہ کا اختلاف تو ہم اس باب کے شروع میں ذکر کرچکے۔ پس وہ حضرات جو رات کو ایک سلام کے ساتھ آٹھ رکعات کے قائل ہیں تو ان کی دلیل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ روایت ہے کہ آپ رات کو گیارہ رکعت ادا کرتے جن میں سے تین رکعت وتر ہوتے۔ ان حضرات کے جواب میں کہا جائے کہ امام زہری نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے اور یہ مسئلہ توفیقی ہے جس طرح سنا ہے اسی طرح آپ کے فعل اور صحابہ کرام کے فعل پر عمل پیرا ہونا ہے۔ ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی ایسا فعل و قول نہیں ملا جس میں دو رکعت سے زائد نماز کو ادا کیا ہو۔ ہم اسی کو اختیار کرنے والے ہیں اور ہمارے ہاں دونوں اقوال میں سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ دن کی نماز چار چار درست ہے ان روایات کے معارض کوئی روایت نہی اور رات کی نماز دو دو ثابت ہوگئی اس میں اختلافی روایات پہلے بھی ذکر کی ہیں۔
فریق ثالث : البتہ جو لوگ رات کو دو سے آٹھ تک ایک سلام سے درست کہتے ہیں ان کی دلیل یہ روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو گیارہ رکعت ادا فرماتے ان میں تین وتر بھی تھے اس سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت ایک سلام سے درست ہیں۔
الجواب نمبر 1: حضرت عائشہ (رض) سے روایت موجود ہے کہ (آپ رات کی نماز میں) ہر دو پر سلام پھیرتے تھے۔
جواب نمبر 2: اس باب میں توقیف پر دارومدار ہے اسی طرح آپ کا فعل اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کا فعل۔ ہمیں تو آپ کے اقوال و افعال میں رات کے اعمال میں کوئی روایت نہیں مل سکی جس میں دو رکعت سے زیادہ ایک تکبیر سے ادا کی گئی ہوں پس رات کو دو دو رکعت والا قول ہی ہر دو اقوال میں زیادہ صحیح اور راجح ہے۔
باقی تمام نوافل و سنن کا حکم ایک ہے کہ اصل کے اعتبار سے وہ سب نوافل ہیں۔
نوٹ : اس باب میں نظری دلیل پیش نہیں کی گئی کیونکہ نوافل کی تعداد کے معاملے کو توقیفی قرار دیا پس اس میں عقل و قیاس کا دخل نہیں۔ امام طحاوی (رح) نے رات میں دو دو رکعت والے قول کو سب سے زیادہ اصح قرار دیا ہے اور اسی کو دلائل روایات و آثار سے مزین کیا ہے۔
` بَابُ التَّطَوُّعِ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ کَیْفَ ہُوَ ؟`
جمعہ کے بعد نوافل کی تعداد کتنی ہے ؟
نمبر 1: جمعہ کے بعد نوافل یعنی سنن کی تعداد کتنی ہے امام ابوحنیفہ اور محمد ‘ احمد (رح) جمعہ کے بعد چار رکعت مسنون کہتے ہیں۔
نمبر 2: امام مالک و زہری جمعہ کے بعد دو رکعت مسنون کہتے ہیں۔
نمبر 3: امام ابو یوسف ‘ شافعی ‘ طحاوی (رح) جمعہ کے بعد چھ رکعت مسنون کہتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : جمعہ کے بعد چار رکعت مسنون ہیں جیسا روایت ابوہریرہ (رض) میں ہے۔ ملاحظہ ہو۔

1929

۱۹۲۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ کَانَ مُصَلِّیًا مِنْکُمْ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَلْیُصَلِّ أَرْبَعًا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ التَّطَوُّعَ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہُ ہُوَ أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ لَا یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِسَلَامٍ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ التَّطَوُّعُ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہُ، رَکْعَتَانِ، کَالتَّطَوُّعِ بَعْدَ الظُّہْرِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
١٩٢٩: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو تم میں سے جمعہ کے بعد پڑھے تو وہ چار رکعت پڑھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ جمعہ کے بعد جن رکعات کو چھوڑا نہیں جاسکتا وہ چار ہیں ان کے مابین سلام سے تفریق نہ کی جائے گی۔ ان کا مستدل یہی روایت ہے ‘ مگر دوسروں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کے بعد جن دو رکعات کو چھوڑنا درست نہیں وہ ظہر کے بعد کی طرح دو رکعت ہیں ان کا استدلال ان روایات سے ہے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ ٦٧؍٦٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣٨‘ نمبر ١١٣١‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٢٤‘ نمبر ٥٢٣‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ نمبر ١٣٢‘ نسائی فی السنن کتاب الجمعہ نمبر ١٧٤٣‘ مسند احمد ٢‘ ٢٤٩؍٤٤٢۔
حاصل روایت یہ ہے جمعہ کے بعد چار رکعت مسنون ہیں ان میں سلام سے فاصلہ نہ ہوگا۔
فریق ثانی : جمعہ کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہیں ان کا ترک جائز نہیں۔ جیسا کہ ظہر کی دو سنتیں۔ دلیل یہ روایت ہے۔

1930

۱۹۳۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ کَانَ لَا یُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ إِلَّا فِیْ بَیْتِہِ)
١٩٣٠: نافع نے ابن عمر (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ جمعہ کے بعد گھر میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ ٧٠؍٧١‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣٨‘ ١١٢٧؍١١٢٨‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٢٤‘ نمبر ٥٢١‘ نسائی فی الجمعہ باب ٤٣‘ السنن الکبرٰی کتاب الجمعہ ١٧٤٥؍١٧٤٦‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٨٦‘ نمبر ١١٣٠‘ مسند احمد ٢؍٦۔

1931

۱۹۳۱: .حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَادِمٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ (ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، رَأٰی رَجُلًا یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ، فَدَفَعَہٗ وَقَالَ : أَتُصَلِّی الْجُمُعَۃَ أَرْبَعًا؟ .قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ فِیْ بَیْتِہٖ وَیَقُوْلُ : ھٰکَذَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : التَّطَوُّعُ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہٗ سِتُّ رَکَعَاتٍ، أَرْبَعٌ ثُمَّ رَکْعَتَانِ .وَقَالُوْا : قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا رَوَاہُ عَنْہُ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَوَّلًا ثُمَّ فَعَلَ مَا رَوٰی عَنْہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ ذٰلِکَ زِیَادَۃً فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ. وَالدَّلِیْلُ عَلٰی مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ۔
١٩٣١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے دیکھا (اسی جگہ پر) تو انھوں نے اس کو دھکیلا کہ کیا تو جمعہ کو چار رکعت پڑھتا ہے ؟ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے اور کہتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔ ایک اور جماعت نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کے بعد جن رکعات نوافل کو چھوڑنا درست نہیں وہ چھ رکعت ہیں پہلے چار پڑھی جائیں اور دو بعد میں اور انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے وہ عمل کیا ہو جس کو ابوہریرہ (رض) نے آپ سے نقل اور پھر وہ عمل کیا ہو جو حضرت ابن عمر (رض) نے آپ سے نقل کیا۔ پس یہ ان کے پہلے قول میں اضافہ شمار ہوگا جیسا اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣٨‘ نمبر ١١٢٧۔
فریق ثالث کا مؤقف :
نفلی نماز جمعہ کے بعد چھ رکعت ہیں پہلے دونوں فریق کے دلائل کا جواب ملاحظہ ہو۔
جواب : قد یحتمل سے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے جو روایت کی ہے وہ پہلے ارشاد فرمایا پھر وہ کیا جو حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے پس یہ قول پر اضافہ ہوا اسی وجہ سے دونوں روایات کی تطبیق کا تقاضا بھی چھ رکعت ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے۔

1932

۱۹۳۲: أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ شُعَیْبٍ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ : حَدَّثَنِیْ غَیْرَ مَرَّۃٍ قَالَ صَلَّیْتُ : مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ : فَصَلَّیْ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ یَتَطَوَّعُ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ بِرَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ أَرْبَعٍ، فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ لِمَا قَدْ کَانَ ثَبَتَ عِنْدَہٗ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ وَفِعْلِہِ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلُ ذٰلِکَ .
١٩٣٢: عطاء نے ابو اسحاق سے نقل کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کی جب سلام پھیرا تو آپ نے کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کیں پھر ابو اسحاق کہتے ہیں انھوں نے چار رکعت ادا کی پھر واپس لوٹے۔ یہ حضرت ابن عمر (رض) ہیں جو جمعہ کے پہلے دو پھر چار رکعت نفل پڑھتے تھے۔ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ کا یہ عمل اس بنائے پر ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد و عمل ثابت ہوا ہو۔ حضرت علی (رض) کی روایت بھی اس سلسلہ میں مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١٣٢۔
حاصل روایات : حضرت ابن عمر (رض) کا چھ رکعت پڑھنا ثابت ہو رہا ہے اور راوی کا عمل اس کے قول سے قوی تر ہے پہلے دو پڑھتے تھے اس لیے کہ انھوں نے اسی طرح دیکھا تھا بعد میں چار کا بھی علم ہوا تو وہ چھ رکعت ادا کرنے لگے۔
اس کی تائید کے لیے حضرت علی (رض) کا قول و عمل ملاحظہ ہو۔

1933

۱۹۳۳: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : مَنْ کَانَ مُصَلِّیًا بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَلْیُصَلِّ سِتًّا
١٩٣٣: ابو عبدالرحمن نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا جو آدمی جمعہ کے بعد (نفل) نماز پڑھے تو وہ چھ پڑھے۔
تخریج : ترمذی فی الجمعہ باب ٢٤‘ نمبر ٥٢٣۔

1934

۱۹۳۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ .ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : عَلَّمَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ النَّاسَ أَنْ یُصَلُّوْا بَعْدَ الْجُمُعَۃِ أَرْبَعًا فَلَمَّا جَائَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَّمَہُمْ أَنْ یُصَلُّوْا سِتًّا .
١٩٣٤: ابو عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) نے جمعہ کے بعد چار رکعات کی تعلیم دی جب حضرت علی (رض) (کوفہ) آئے تو انھوں نے چھ رکعات کی تعلیم دی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١٢٣۔

1935

۱۹۳۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ، قَالَ : قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ فَکَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ أَرْبَعًا فَقَدِمَ بَعْدَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ اِذَا صَلَّی الْجُمُعَۃَ صَلّٰی بَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ وَأَرْبَعًا فَأَعْجَبَنَا فِعْلُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاخْتَرْنَاہُ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ التَّطَوُّعَ الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہُ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ سِتٌّ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ یُبْدَأَ بِالْأَرْبَعِ ثُمَّ یُثَنّٰی بِالرَّکْعَتَیْنِ لِأَنَّہٗ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ صَلّٰی بَعْدَ الْجُمُعَۃِ مِثْلَہَا عَلٰی مَا قَدْ نُہِیَ عَنْہُ۔
١٩٣٥: ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں عبداللہ آئے تو وہ جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے پھر ان کے بعد حضرت علی (رض) آئے پس جب وہ جمعہ پڑھتے تو اس کے بعد چھ رکعت (دو پہلے پھر چار) ادا کرتے ہم نے تعجب کیا ہمیں ان کا یہ عمل پسند آیا تو ہم نے اسی کو اختیار کرلیا (کیونکہ دونوں کا جامع تھا) جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوافل کی وہ رکعات جن کو جمعہ کے بعد چھوڑنا مناسبت نہیں وہ چھ رکعات ہیں۔ امام ابو یوسف (رح) کا قول بھی یہی ہے۔ البتہ وہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک پہلے چار اور پھر دو رکعت ادا کریں۔ اس لیے کہ طریقہ اس بات سے نہایت دور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کے جمعہ کی مثل دو رکعت سے منع فرمایا ہے۔
تخریج : منفہ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١٣٢۔
حاصل روایات : حضرت علی (رض) کے قول اور فعل سے چھ رکعات کا ثبوت مل رہا ہے پس ثابت ہوا کہ جمعہ کے بعد چھ رکعات ہیں اور یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے مگر وہ پہلے چار رکعت ادا کرتے پھر دو رکعت پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔
حکمت ابو یوسف (رح) :
امام ابو یوسف (رح) کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ابن عمر (رض) نے جمعہ کے فوراً بعد وہیں دو رکعت پڑھنے کو جمعہ کو چار رکعت بنانے کے مترادف قرار دیا پس پہلے چار پڑھی جائیں تاکہ تشابہہ ختم ہو پھر دو رکعت ادا کی جائیں۔
حضرت عمر (رض) سے جمعہ کے فوراً بعد دو رکعت کی ممانعت مذکور ہے ملاحظہ ہو۔

1936

۱۹۳۶: فَإِنَّہٗ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُسْہِرٍ عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُصَلِّیَ بَعْدَ صَلَاۃِ الْجُمُعَۃِ مِثْلَہَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلِذٰلِکَ اسْتَحَبَّ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ أَنْ یُقَدِّمَ الْأَرْبَعَ قَبْلَ الرَّکْعَتَیْنِ لِأَنَّہُنَّ لَسْنَ مِثْلَ الرَّکْعَتَیْنِ فَکُرِہَ أَنْ یُقَدَّمَ الرَّکْعَتَانِ لِأَنَّہُمَا مِثْلُ الْجُمُعَۃِ .وَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، فَکَانَ یَذْہَبُ فِیْ ذٰلِکَ إِلَی الْقَوْلِ الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہٖ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .
١٩٣٦: خرشد بن حر کہتے ہیں کہ عمر (رض) نماز جمعہ کے بعد انہی جیسی (دو رکعت) نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اسی وجہ سے امام ابویوسف نے چار رکعات کو دو رکعت سے پہلے پڑھنا پسند فرمایا کیونکہ وہ دو کی مثل نہیں۔ پس دو رکعات کو مقدم کرنا مکروہ ہے اس لیے کہ وہ جمعہ کی مثل ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک وہی ہے جو شروع باب میں مذکور ہوا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٢٠٦۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اسی وجہ سے امام ابو یوسف (رح) چار کو مقدم اور دو کو مؤخر کرنے کے قائل ہیں تاکہ مماثلت نہ رہے امام صاحب کا قول تو ہم پہلے ذکر کر آئے۔
نوٹ ۔۔۔ مسئلہ : جمعہ سے قبل چار رکعات کے متعلق جو مرفوع روایات ابن ماجہ وغیرہ میں ہیں ان میں سقم امام صاحب کے زمانہ کے بعد والے روات کی طرف سے ہے امام صاحب سے اوپر تک کی سند میں کوئی سقم نہیں ہے پس وہ چار سنت ثابت ہوجائیں گی۔ (مقدمہ اوجز)
دو اور چار نوافل کی الگ روایات ملتی ہیں اور چھ رکعات فعل صحابہ کرام (رح) سے ثابت ہوئی اسی وجہ سے ائمہ میں اختلاف ہوا امام طحاوی (رح) نے چھ والے قول کو راجح قرار دے کر وضاحت کردی اور اپنی رائے بھی ان کی یہی معلوم ہوئی۔ آخر میں امام صاحب کے نام کا حوالہ دے کر معذرت کا طرز اختیار کیا۔ واللہ اعلم۔

1937

۱۹۳۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْن سِیْرِیْنَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقِ ڑ الْعُقَیْلِیِّ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ لِلصَّلَاۃِ قَائِمًا وَقَاعِدًا فَإِذَا صَلَّیْ قَائِمًا رَکَعَ قَائِمًا، وَإِذَا صَلَّیْ قَاعِدًا رَکَعَ قَاعِدًا).
١٩٣٧: عبداللہ بن شقیق عقیلی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کی تکبیر افتتاحی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہو کر کرتے تھے پس جب آپ کھڑے ہو کر شروع کرتے تو کھڑا ہو کر نماز ادا کرتے اور کھڑے ہونے کی حالت میں رکوع کرتے اور جب بیٹھ کر ابتداء کرتے تو بیٹھ کر رکوع کرتے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ١٠٥؍١٠٦‘ ١٠٧؍١٠٩‘ نسائی ١؍٢٤٤۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: بیٹھ کر نماز شروع کرنے کے بعد کھڑے ہو کر رکوع کرنے کو ابن سیرین (رح) و اہل ظواہر مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔
نمبر 2: دیگر تمام ائمہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔
مؤقف فریق اوّل : نماز اگر بیٹھ کر شروع کرچکا تو رکوع کے لیے اس کو اٹھنا جائز نہیں ہے دلیل یہ روایت ہے جو حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے۔

1938

۱۹۳۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہٗ سَأَلَہَا عَنْ ذٰلِکَ فَحَدَّثَتْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ سَوَائً .
١٩٣٨: عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے دریافت کیا تو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بالکل اسی طرح کی روایت نقل کی۔
تخریج : مسلم ١؍٢٥٢۔

1939

۱۹۳۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرِ ڑ الْعَتَکِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ہِلَالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہٖ .
١٩٣٩: عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ (رض) عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٦٢۔

1940

۱۹۴۰: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بُدَیْلُ بْنُ مَیْسَرَۃَ عَنِ ابْنِ شَقِیْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩٤٠: عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ (رض) عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٥٢۔

1941

۱۹۴۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ بُدَیْلٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ.
١٩٤١: ابراہیم بن طہمان نے بدیل سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٢٧۔

1942

۱۹۴۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ خَالِدِ ڑالْحَذَّائِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٩٤٢: عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اسی جیسی بات فرمائی۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢١٧۔

1943

۱۹۴۳: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، وَحُمَیْدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩٤٣: حمید نے عبداللہ بن شقیق سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٥٢۔

1944

۱۹۴۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ عَبْدِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی کَرَاہَۃِ الرُّکُوْعِ قَائِمًا لِمَنِ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ قَاعِدًا، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَلَمْ یَرَوْا بِہٖ بَأْسًا وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٩٤٤: عبد بن معقل نے حضرت عائشہ (رض) سے ‘ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص بیٹھ کر نماز کی ابتداء کرلے اسے کھڑے ہو کر رکوع کرنا مکروہ ہے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اسی روایت کو دلیل بنایا ہے۔ جبکہ دوسروں نے اس میں کچھ حرج قرار نہیں دیا اس سلسلہ میں ان کی دلیل ان روایات سے ہے۔
تخریج : مسلم۔
حاصل روایات : ان روایات میں نماز کو کھڑے ہو کر شروع کر کے اسی حالت میں تکمیل کرنا اور بیٹھ کر شروع کیا جائے تو بیٹھ کر مکمل کرنا مذکور ہے معلوم ہوا کہ اگر بیٹھ کر شروع کریں تو رکوع کے لیے کھڑا ہونا درست نہیں سابقہ حالت میں تکمیل کی جائے گی۔
فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے کہ بیٹھ کر شروع کرے تو رکوع کرنے کے لیے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

1945

۱۹۴۵: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا لَمْ تَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ صَلَاۃَ اللَّیْلِ قَاعِدًا قَطُّ حَتّٰی أَسَنَّ فَکَانَ یَقْرَأُ قَاعِدًا حَتّٰی اِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ قَامَ فَقَرَأَ نَحْوًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ آیَۃً أَوْ أَرْبَعِیْنَ آیَۃً ثُمَّ رَکَعَ .
١٩٤٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھ کر صلوۃ اللیل پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ بڑھاپا آگیا تو آپ بیٹھ کر قراءت فرماتے جب رکوع کا ارادہ فرماتے تو کھڑے ہو کر کچھ قراءت کرتے جو تقریباً تیس آیات یا چالیس آیات کے برابر ہوتی پھر رکوع کرتے۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٢٠‘ مسلم فی المسافرین ١١١؍١١٢۔

1946

۱۹۴۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩٤٦: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٣٧۔

1947

۱۹۴۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩٤٧: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٥٢۔

1948

۱۹۴۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ مَوْلَی الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْیَانَ وَأَبِی النَّضْرِ مَوْلٰی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ غَیْرُ مَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ ؛ لِأَنَّ فِیْ ھٰذَا أَنَّہٗ کَانَ یَرْکَعُ قَائِمًا بَعْدَ مَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ قَاعِدًا. وَھٰذَا أَوْلٰی مِنَ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ الَّذِیْ رَوَاہُ ابْنُ شَقِیْقٍ لِأَنَّ صَبْرَہُ عَلَی الْقُعُوْدِ حَتّٰی یَرْکَعَ قَاعِدًا لَا یَدُلُّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ أَنْ یَقُوْمَ فَیَرْکَعَ قَائِمًا وَقِیَامُہُ مِنْ قُعُوْدِہٖ حَتّٰی یَرْکَعَ قَائِمًا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ لَہٗ أَنْ یَرْکَعَ قَائِمًا بَعْدَ مَا افْتَتَحَ قَاعِدًا : فَلِھٰذَا جَعَلْنَا ھٰذَا الْحَدِیْثَ أَوْلٰی مِمَّا قَبْلَہٗ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
١٩٤٨: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ (رض) سے ‘ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں عبداللہ بن شقیق والی روایت سے ذرا سا فرق ہے کہ بیٹھ کر نماز شروع کی ہوتی تو کھڑے ہو کر پھر رکوع میں جاتے۔ اس روایت میں عبداللہ بن شقیق کی روایت سے مختلف بات ہے کیونکہ اس روایت میں مذکور ہے کہ آپ کھڑے ہو کر رکوع کرتے جبکہ نماز آپ نے بیٹھ کر شروع فرمائی ہوتی اور یہ روایت ابن شقیق کی روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ اس میں مذکور ہے ” آپ بیٹھے رہتے یہاں تک کہ بیٹھ کر رکوع کرتے “۔ یہ روایت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آپ کے لیے کھڑے ہو کر رکوع میں جانا مناسب نہیں اور آپ کا بیٹھ کر اٹھنا تاکہ کھڑے ہو کر پھر رکوع میں جائیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے لیے جائز ہے کہ جب اس نے بیٹھ کر نماز شروع کی ہے تو وہ کھڑے ہو کر رکوع کرلے۔ اسی وجہ سے اس روایت کو پہلی سے اولیٰ قرار دیا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ١؍١٥٠ بخاری ‘ مسلم ١؍٢٥٢‘ ابو داؤد ١؍١٣٧۔
یہ روایت پہلی سے بہتر ہے کیونکہ اس میں بیٹھ کر نماز شروع کرنے اور رکوع سے پہلے اٹھ جانے کا صاف تذکرہ ہے کیونکہ زیادہ دیر بیٹھنا کھڑے ہو کر رکوع کرنے پر دلالت نہیں کرتا۔
حاصل روایات : یہ ہیں کہ بیٹھ کر نماز شروع کی جائے پھر رکوع سے پہلے اٹھ جائیں اور رکوع کریں اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ تطبیق کی شاندار صورت جو بعض علماء نے پیش کی ہے۔
نمبر 1: جوانی اور کامل صحت کی حالت میں ھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور اسی حالت میں رکوع کرتے۔
نمبر 2: بیماری کی حالت میں بیٹھ کر نماز شروع کرتے اور رکوع سے پہلے اٹھ کر رکوع فرما لیتے۔
نمبر 3: عمر کے آخری حصہ میں بیٹھ کر نماز شروع فرماتے اور اسی طرح تکمیل فرماتے گویا یہ سب روایات اپنے اپنے مقام پر آپ کی زندگی کے ان گوسوں کو اجاگر کر رہی ہیں۔ واللہ اعلم۔
ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) بیٹھ کر نماز شروع کر کے پھر رکوع سے پہلے اٹھ جاتے اور رکوع کرنے میں کوئی حرج قرار نہیں دیتے۔
نوٹ : اس باب میں بھی نظر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کیونکہ مقصود پر دلالت کی روایات بالکل واضح تر ہیں امام طحاوی (رح) کا رجحان بھی دوسرے قول کی طرف ہے اسی وجہ سے عبداللہ بن شقیق کی روایت پر ابو سلمہ کی روایت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

1949

۱۹۴۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْمُطَرِّفِ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوْسٰی عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الْمَغْرِبَ فِیْ مَسْجِدِ بَنِیْ عَبْدِ الْأَشْہَلِ فَلَمَّا فَرَغَ رَأَی النَّاسَ یُسَبِّحُوْنَ فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّمَا ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ فِی الْبُیُوْتِ) .
١٩٤٩: سعد بن اسحاق نے اپنے باپ اور دادا سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نقل کیا کہ آپ نے مسجد بنو عبدالاشہل میں نماز مغرب ادا فرمائی جب آپ نے فارغ ہوئے تو لوگوں کو نفلی نماز پڑھتے پایا اس پر آپ نے فرمایا اے لوگو ! یہ (نفلی) نماز گھروں میں پڑھا کرو۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ١٥‘ نمبر ١٣٠٠‘ ترمذی فی ابواب الصلاۃ نمبر ٦٠٤۔
خلاصہ الزام
نمبر 1: مغرب کی دو سنت اور تحیۃ المسجد کے علاوہ مسجد میں سنن و نوافل درست نہیں اس کو ابراہیم نخعی اور سوید بن غفلہ نے اختیار کیا ہے۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ ‘ احمد ‘ شافعی (رح) مسجد میں مناسب ہے بلکہ بعض اوقات اولیٰ ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف : مسجد کی بجائے گھروں میں نوافل کو آپ نے پسندیدہ قرار دیا جس سے ثابت ہوا کہ چند سنن کے علاوہ نوافل مسجد میں درست نہیں۔ دلیل یہ روایات ہیں :

1950

۱۹۵۰: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَرَامِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : (سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ بَیْتِی وَالصَّلَاۃِ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ : قَدْ تَرَیْ مَا أَقْرَبَ بَیْتِی مِنَ الْمَسْجِدِ فَلأََنْ أُصَلِّیَ فِیْ بَیْتِیْ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّیَ فِی الْمَسْجِدِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ التَّطَوُّعَ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُفْعَلَ فِی الْمَسَاجِدِ إِلَّا الَّذِیْ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہُ مِثْلُ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الظُّہْرِ وَالرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَالرَّکْعَتَیْنِ عِنْدَ دُخُوْلِ الْمَسْجِدِ فَأَمَّا مَا سِوٰی ذٰلِکَ فَلاَ یَنْبَغِیْ أَنْ تُصَلّٰی فِی الْمَسَاجِدِ وَلٰـکِنْ تُؤَخَّرُ ذٰلِکَ لِلْبُیُوْتِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : التَّطَوُّعُ فِی الْمَسَاجِدِ حَسَنٌ، غَیْرَ أَنَّ التَّطَوُّعَ فِی الْمَنَازِلِ أَفْضَلُ مِنْہُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٩٥٠: حضرت حرام بن حکیم نے اپنے چچا عبداللہ بن سعد سے روایت کرتے ہیں عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کون سی نماز گھر میں اور کون سی نماز مسجد میں ادا کروں تو آپ نے فرمایا تم دیکھتے ہو کہ میرا گھر بنی فلان مسجد سے کس قدر قریب ہے تو مسجد میں پڑھنے کی بجائے میں گھر میں (نفل نماز) پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں بس فرض نماز مسجد میں ادا کرتا ہوں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علمائ (رح) اس طرف گئے ہیں کہ عام نوافل مساجد میں نہ پڑھنے چاہئیں ‘ البتہ وہ نوافل جن کو مسجد میں ادائیگی کے سواء چارہ نہیں وہ اس میں پڑھے جا کتے ہیں مثلاً ظہر کے بعد کی دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت۔ پس اس کے علاوہ نوافل مساجد میں پڑھنا مناسب نہیں بلکہ ان کو گھروں کے لیے مؤخر کیا جائے گا۔ دیگر علماء نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ نفل مسجد میں پڑھنا خوب ہیں ہاں گھروں میں پڑھنا اس سے خوب تر ہیں۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ترمذی فی ابواب الصلاۃ نمبر ٤٥‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٨٦۔
حاصل روایت یہ ہے کہ نفل نماز مسجد میں ادا نہ کی جائے سوائے ان سنن کے جن کے بغیر چارہ نہیں مثلاً ظہر کے بعد اور مغرب کے بعد دو رکعت اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت پس نفلی نماز کو گھروں کے لیے مؤخر کیا جائے مساجد میں مناسب نہیں۔
مؤقف فریق دوم : مساجد میں نفلی نماز مناسب ہے البتہ گھروں میں اس کا پڑھنا افضل ہے دلیل یہ روایت ہے۔

1951

۱۹۵۱ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ لِیْ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : (بِتُّ اللَّیْلَۃَ بِآلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَائَ ثُمَّ صَلَّیْ بَعْدَھَا حَتّٰی لَمْ یَبْقَ فِی الْمَسْجِدِ غَیْرُہٗ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ یَتَطَوَّعُ فِی الْمَسْجِدِ ھٰذَا التَّطَوُّعَ الطَّوِیْلَ فَذٰلِکَ عِنْدَنَا حَسَنٌ إِلَّا أَنَّ التَّطَوُّعَ فِی الْبُیُوْتِ أَفْضَلُ مِنْہُ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (خَیْرُ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہِ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ) .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٩٥١: علی بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر رات گزارنے کے لیے میرے والد نے حکم فرمایا (تاکہ میں ان کی رات کی نماز دیکھ کر وہ ان کو نقل کروں) چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء پڑھائی پھر اس کے بعد اتنی دیر نماز پڑھتے رہے کہ مسجد میں آپ کے سوائے کوئی نہ رہا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی مسجد میں اس قدر طویل نفل ادا فرماتے ‘ پس یہ ہمارے ہاں ثواب ہے البتہ ان کا گھروں میں پڑھنا اس سے افضل ہے اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خیر صلوۃ المرء فی بیتہ الا المکتوبۃ “ آدمی کی سب سے بہتر نماز (نفل) وہ ہے جو گھر میں ادا کی جائے سوائے فرض نماز کے۔ یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍١٠١‘ و ابو داؤد ١؍١٤٩ عن زید ‘ البخاری عن ابن عمر ١؍٢۔
حاصل روایات : یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں نوافل ادا فرماتے تھے ہمارے ہاں اسی لیے مسجد میں نفل مناسب ہے البتہ افضل ان کی گھروں میں ادائیگی ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمانا کہ آدمی کی بہترین (نفل نماز) وہ ہے جو گھر میں ہو سوائے فرائض کے (ان کو مسجد میں پڑھا جائے گا)
ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اسی دوسری رائے کی طرف گئے طحاوی (رح) کا رجحان بھی قرینے سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
اس مقام پر روایت میں احتمال ہے البتہ باب کے شروع والی روایت سے بھی نفل نماز کی مسجد میں ادائیگی کی واضح کراہت ثابت نہیں ہوتی چہ جائیکہ عدم جواز کہا جائے بلکہ وہ روایت نفل کی گھر میں پسندیدگی پر دلالت کرتی ہے اور آپ کا اکثر گھر میں نفل نماز پڑھنا اس کی علامت ہے۔ یہ باب بھی دلیل نظری سے خالی ہے۔

1952

۱۹۵۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ فِیْ أَوَّلِ اللَّیْلِ وَفِیْ وَسَطِہِ وَفِیْ آخِرِہِ ثُمَّ ثَبَتَ لَہٗ الْوِتْرُ فِیْ آخِرِہٖ .
١٩٥٢: عاصم بن (رض) ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتداء رات میں وتر پڑھتے اور درمیان رات اور آخر رات میں اور پھر آپ کے وتر آخر میں قائم ہوتے (یعنی آخری نماز وتر ہوتی) ۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصلاۃ والسنۃ فیہا باب ١٢١‘ نمبر ١١٨٦۔
خلاصہ الزام
نمبر 1: نوافل کو اگر وتروں کے بعد پڑھ لیں تو امام اسحاق (رح) و مکحول کے ہاں وتر باطل ہیں دوبارہ پڑھنے ہوں گے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور تمام فقہاء و محدثین کے ہاں وتروں کے بعد نفل سے وتروں پر کچھ اثر نہ پڑے گا۔
فریق نمبر اول کا مؤقف اور دلائل : وتروں کے بعد نوافل نہ پڑھے جائیں اگر پڑھ لیے تو وتر باطل اور دہرائے جائیں۔ چھ صحابہ کی روایات اس کی شاہد ہیں۔

1953

۱۹۵۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ وَعَفَّانُ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَا أَبُوْ إِسْحَاقَ : أَنْبَأَنِیْ غَیْرَ مَرَّۃٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩٥٣: اسحاق کہتے ہیں میں نے عاصم بن ضمرہ سے بارہا سنا کہ جناب حضرت علی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٨٣۔

1954

۱۹۵۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِیْ عَیَّادٍ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٩٥٤: ابراہیم بن طہمان نے ابو اسحاق سے پھر اس نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

1955

۱۹۵۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ، وَقَالَ : مَرَّۃً أُخْرٰی أَنَا أَبُوْ إِسْرَائِیْلَ، عَنْ السُّدِّیِّ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ، قَالَ : (خَرَجَ عَلَیْنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : أَیْنَ السَّائِلُ، عَنِ الْوِتْرِ؟ فَانْتَہَیْنَا إِلَیْہِ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ أَوَّلَ اللَّیْلِ ثُمَّ بَدَا لَہٗ فَأَوْتَرَ وَسَطَہُ ثُمَّ ثَبَتَ لَہٗ الْوِتْرُ فِیْ ھٰذِہِ السَّاعَۃِ، قَالَ : وَذَاکَ عِنْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ) .وَھٰذَا عِنْدَنَا عَلٰی قُرْبِ طُلُوْعِ الْفَجْرِ قَبْلَ أَنْ یَطْلُعَ حَتّٰی یَسْتَوِیَ مَعْنٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ، وَمَعْنَیْ حَدِیْثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُجْعَلَ فِیْہِ الْوِتْرُ ہُوَ السَّحَرُ وَأَنَّہٗ لَا یُتَطَوَّعُ بَعْدَہٗ، وَأَنَّ مَنْ تَطَوَّعَ بَعْدَہٗ فَقَدْ نَقَضَہُ، وَعَلَیْہِ أَنْ یُعِیْدَ وِتْرًا آخَرَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِتَأْخِیْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوِتْرَ إِلَی آخِرِ اللَّیْلِ وَبِمَا رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَرَوْنَ مَنْ تَطَوَّعَ بَعْدَ وِتْرٍ فَقَدْ نَقَضَہُ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
١٩٥٥: سدی نے عبد خیر سے نقل کیا کہ جناب حضرت علی (رض) گھر سے مسجد میں تشریف لائے جبکہ ہم مسجد میں تھے آپ نے فرمایا وتروں کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ ہم ان کو لے کر اس کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع رات میں وتر ادا فرما لیتے پھر اگر آپ نفل پڑھتے تو دوبارہ وتر پڑھ لیتے پھر یہ وتر آپ کے قائم رہتے (یعنی اس کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے) اور یہ بالکل فجر کے طلوع کے قریب کرتے۔ یہ ہمارے نزدیک طلوع فجر کیھ قریب ہونے پر محمول ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ طلوع ہو تاکہ اس روایت کا معنی اور عاصم بن ضمرہ کی روایت کا معنی مختلف نہ ہو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ وتروں کا اصل وقت مناسب یہ ہے کہ سحری کا وہ وقت ہو کہ جس کے بعد نفل نہیں پڑھے جاسکتے اور جس نے اس کے بعد نفل پڑھے اس نے ان وتروں کو باطل کردیا۔ اسے دوبارہ وتر پڑھنے ضروری ہیں۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس عمل کو دلیل بنایا کہ آپ وتروں کو رات کے آخری حصے تک مؤخر فرماتے تھے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ آپ کے بعد صحابہ کرام (رض) کا خیال یہ تھا کہ جس نے وتروں کے بعد نفل پڑھے انھوں نے وتروں کو باطل کردیا اور انھوں نے ان روایات کو دلیل میں پیش کیا۔
یہاں عند طلوع الفجر سے قرب طلوع فجر مراد ہے تاکہ اس حدیث اور سابقہ روایت کا معنی مختلف نہ رہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٢٠۔
حاصل روایات : ان دونوں روایتوں سے وتر کا آخر میں پڑھنا ثابت اگر وقت ہوتا تو آپ نوافل ادا فرماتے اور سابقہ وتروں سے ایک رکعت ملا کر جفت بناتے پھر وتر دوبارہ پڑھتے اس سے معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد طلوع فجر تک کوئی نفل نماز نہ پڑھے ورنہ باطل ہوجائیں گے دوبارہ پڑھنے ہوں گے اس مفہوم کو مزید تائید ان فتاویٰ جات صحابہ (رض) سے ہوتی ہے۔

1956

۱۹۵۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ طَلْحَۃَ أَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : إِنِّیْ أُوْتِرُ أَوَّلَ اللَّیْلِ، فَإِذَا قُمْتَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ صَلَّیْتَ رَکْعَۃً فَمَا شَبَّہْتُہَا إِلَّا بِقَلُوْصٍ أَضُمُّہَا إِلَی الْاِبِلِ .
١٩٥٦: موسیٰ بن طلحہ نے نقل کیا کہ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا میں رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھ لیتا ہوں جب رات کے آخر حصہ میں جاگ جاتا ہوں تو میں ایک رکعت ملا کر ان کو جفت کرلیتا ہوں جیسے اونٹنی اونٹوں سے ملائی جاتی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٢٨٤۔

1957

۱۹۵۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٩٥٧: شعبہ نے عبدالملک بن عمیر سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ٣؍٥٣۔

1958

۱۹۵۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ بَشِیْرٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
١٩٥٨: سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ جناب حضرت ابوبکر (رض) بھی اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج : بیہقی ایضًا۔

1959

۱۹۵۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ ہَارُوْنَ الْغَنَوِیِّ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ الْوِتْرُ عَلَی ثَلاَثَۃِ أَنْوَاعٍ : رَجُلٌ أَوْتَرَ أَوَّلَ اللَّیْلِ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، وَرَجُلٌ أَوْتَرَ أَوَّلَ اللَّیْلِ فَاسْتَیْقَظَ فَوَصَلَ إِلَی وِتْرِہِ رَکْعَۃً فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ، وَرَجُلٌ أَخَّرَ وِتْرَہُ إِلَی آخِرِ اللَّیْلِ .
١٩٥٩: حطان بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں وتر تین قسم پر ہیں۔
نمبر 1: ایک آدمی جس سے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لیے پھر وہ بیدار ہوا تو اس نے دو رکعتیں پڑھ لیں۔
نمبر 2: وہ آدمی جس نے رات کو وتر پڑھ لیے پھر صبح کو بیدار ہوگیا تو اس نے اپنے وتر کے ساتھ ایک رکعت ملا کر نفل بنا لیا پھر دو دو رکعت پڑھتا رہا پھر اس سے وتر دوبارہ پڑھے۔
نمبر 3: وہ آدمی جو اپنے وتر رات کے پچھلے حصہ میں پڑھتا ہے۔
تخریج : بیہقی فی السنن الکبرٰی ٣؍٣٧۔

1960

۱۹۶۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرٍ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ وَمَالِکِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ جُلَاسٍ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَمَّارٍ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ لَہٗ : کَیْفَ تُوْتِرُ؟ قَالَ : أَتَرْضٰی بِمَا أَصْنَعُ، قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : أَحْسَبُ قَتَادَۃَ قَالَ .فِیْ حَدِیْثِہٖ فَإِنِّیْ أُوْتِرُ بِلَیْلٍ بِخَمْسِ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ أَرْقُدُ فَإِذَا قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ شَفَعْتُ .
١٩٦٠: جلاس کہتے ہیں کہ میں حضرت عمار کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا تم وتر کیسے ادا کرتے ہو ؟ حضرت عمار کہنے لگے کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں جو کرتا ہوں وہ بتلاؤں اس نے ہاں میں جواب دیا۔ ہمام کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ قتادہ نے اپنی روایت میں اس طرح کہا میں رات کو پانچ رکعت وتر پڑھتا ہوں پھر میں سو جاتا ہوں پھر جب میں رات کو بیدار ہوتا ہوں تو شفعہ شفعہ پڑھتا ہوں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٨٣۔

1961

۱۹۶۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ .ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : مَنْ أَوْتَرَ فَبَدَا لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ فَلْیَشْفَعْ إِلَیْہَا بِأُخْرٰی حَتّٰی یُوْتِرَ بَعْدُ .
١٩٦١: ابو سلمہ اور محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جس نے وتر پڑھ لیے پھر اس کو نوافل کا موقع ملا تو وتروں کے ساتھ ایک رکعت ملا کر شفعہ بنا لے پھر آخر میں وتر پڑھتے۔ امام مسروق (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے شاگرد حضرت ابن عمر (رض) کے عمل پر تعجب کرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٨٢‘ سند آخر۔

1962

۱۹۶۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ مَسْرُوْقٍ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا شَیْئٌ أَفْعَلُہٗ بِرَأْیِیْ لَا أَرْوِیْہِ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ ذٰلِکَ .قَالَ مَسْرُوْقٌ : وَکَانَ أَصْحَابُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَتَعَجَّبُوْنَ مِنْ صُنْعِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
١٩٦٢: مسروق کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کہنے لگے ایک چیز میں اپنے اجتہاد سے کرتا ہوں اور اس کے لیے روایت نقل نہیں کرتا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی۔ امام مسروق (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے شاگرد حضرت ابن عمر (رض) کے عمل پر تعجب کرتے تھے۔
تخریج : عزاۃ العینی الی مسند الطیاسی۔
مسروق کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے شاگرد ابن عمر (رض) کے فعل پر تعجب کرتے۔

1963

۱۹۶۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِی الْحَارِثِ الْغِفَارِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا اسْتَفْتَاہُ عَنْ رَجُلٍ أَوْتَرَ أَوَّلَ اللَّیْلِ ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ کَیْفَ یَصْنَعُ؟ قَالَ : یُتِمُّہَا عَشْرًا .وَقَدْ رُوِیَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ھٰذَا الْقَوْلِ .وَسَنَذْکُرُہٗ بَعْدَ ھٰذَا، إِنْ شَائَ اللّٰہُ - تَعَالٰی - وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِالتَّطَوُّعِ بَعْدَ الْوِتْرِ، وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ نَاقِضًا لِلْوِتْرِ .وَرَوَوْا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٩٦٣: ابو بکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں ابو حارث غفاری نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے ان سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جو شروع رات میں وتر پڑھ لے پھر سو جائے پھر اٹھ جائے تو وہ کیا کرے گا ؟ انھوں نے کہا ان کو ایک ملاکر دس پوری کرے گا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس کے خلاف قول بھی مروی ہے جس کو ہم انشاء اللہ عنقریب ذکر کریں گے۔ دوسرے علماء نے ان سے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وتروں کے بعد نفل پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں اور اس سے اس کے وتر باطل بھی نہ ہوں گے۔ چنانچہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایات نقل کی ہیں۔
تخریج : مسند طیالسی۔
حاصل روایات : وتر کے بعد نوافل درست نہیں اسی وجہ سے کہ ان کو جفت بنادیا گیا تو وتر دوبارہ پڑھے گئے اگر وتر پہلے کافی ہوتے تو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہ تھی معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے سے وتر باطل ہوگئے اسی وجہ سے دوبارہ پڑھنے پڑے۔
مؤقف فریق دوم : کہ وتروں کے بعد نفل پڑھے جاسکتے ہیں اس سے وتروں کا بطلان لازم نہ آئے گا دلیل یہ ہے۔ روایت نمبر ١۔

1964

۱۹۶۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْبَابْلُتِّیُّ، قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکَعَ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْوِتْرِ قَرَأَ فِیْہِمَا، وَہُوَ جَالِسٌ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ قَامَ فَرَکَعَ) .وَقَدْ ذَکَرْنَا مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ (بَابِ الْوِتْرِ) فِیْ حَدِیْثِ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ .
١٩٦٤: ابو سلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کے بعد دو رکعت پڑھتے ان میں بیٹھ کر قراءت فرماتے جب رکوع کا ارادہ ہوتا تو کھڑے ہوجاتے اور رکوع کرتے۔ اور ہم نے اسی جیسی روایت باب الوتر میں سعد بن ہشام کی سند سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٢٥‘ نمبر ١١٩۔
حاصل روایات : : اس طرح کی ایک روایت باب الوتر میں سعد بن ہسام کی سند سے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کر آئے ہیں۔

1965

۱۹۶۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ ثَابِتِ ڑالْبُنَانِیِّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْوِتْرِ بِ الرَّحْمٰنِ، وَالْوَاقِعَۃِ) .
١٩٦٥: ثابت بنانی نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کے بعد والی دو رکعتوں میں سورة رحمن و واقعہ پڑھتے تھے۔
تخریج : بیہقی ٣؍٤٨۔

1966

۱۹۶۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِیْ غَالِبٍ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الْوِتْرِ، وَہُوَ جَالِسٌ یَقْرَأُ فِیْہِمَا " اِذَا زُلْزِلَتْ " وَ " قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ " ) .
١٩٦٦: ابو غالب نے حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر ادا فرماتے اور ان میں اذا زلزلت الارض اور قل یا ایہا الکافرون پڑھتے تھے۔
تخریج : بیہقی ٣؍٤٩۔

1967

۱۹۶۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ (کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ، فَقَالَ : إِنَّ ھٰذَا السَّفَرَ جَہْدٌ وَثِقَلٌ، فَاِذَا أَوْتَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، فَإِنْ، اسْتَیْقَظَ وَإِلَّا کَانَتَا لَہٗ) .فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ تَطَوَّعَ بَعْدَ الْوِتْرِ بِرَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ نَاقِضًا لِوِتْرِہِ الْمُتَقَدِّمِ، فَھٰذَا أَوْلٰی مِمَّا تَأَوَّلَہُ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی وَادَّعَوْہُ مِنْ مَعْنٰی حَدِیْثِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انْتَہَی وِتْرُہُ إِلَی السَّحَرِ مَعَ أَنَّ ذٰلِکَ أَیْضًا لَیْسَ بِہٖ خِلَافٌ عِنْدَنَا لِھٰذَا، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ وِتْرُہُ یَنْتَہِی إِلَی السَّحَرِ ثُمَّ یَتَطَوَّعُ بَعْدَہُ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ تَیْنِکَ الرَّکْعَتَانِ ہُمَا رَکْعَتَا الْفَجْرِ، فَلاَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ مِنْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ .قِیْلَ لَہٗ : لَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ مِنْ جِہَتَیْنِ أَمَّا أَحَدُہُمَا : فَلِأَنَّ سَعْدَ بْنَ ہِشَامٍ إِنَّمَا سَأَلَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ، فَکَانَ ذٰلِکَ مِنْہَا جَوَابًا لِسُؤَالِہِ وَإِخْبَارًا مِنْہَا إِیَّاہُ، عَنْ صَلَاتِہٖ بِاللَّیْلِ کَیْفَ کَانَتْ .وَالْجِہَۃُ الْأُخْرَی : أَنَّہٗ لَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ جَالِسًا، وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ ؛ لِأَنَّہٗ بِذٰلِکَ تَارِکٌ لِقِیَامِہَا، وَإِنَّمَا یَجُوْزُ أَنْ یُصَلِّیَ قَاعِدًا وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ مَا لَہٗ أَنْ لَا یُصَلِّیَہُ أَلْبَتَّۃَ، وَیَکُوْنُ لَہٗ تَرْکُہُ، فَہُوَ کَمَا لَہٗ تَرْکُہُ بِکَمَالِہِ، یَکُوْنُ لَہٗ تَرْکُ الْقِیَامِ فِیْہِ .فَأَمَّا مَا لَیْسَ لَہٗ تَرْکُہُ فَلَیْسَ لَہٗ تَرْکُ الْقِیَامِ فِیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ تَیْنِک الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ تَطَوَّعَ بِہِمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْوِتْرِ کَانَتَا مِنْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ، وَفِیْ ذٰلِکَ مَا وَجَبَ بِہٖ قَوْلُ الَّذِیْنَ لَمْ یَرَوْا بِالتَّطَوُّعِ فِی اللَّیْلِ بَعْدَ الْوِتْرِ بَأْسًا وَلَمْ یَنْقُضُوْا بِہٖ الْوِتْرَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا أَیْضًا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ ثَوْبَانَ .
١٩٦٧: عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر نے ثوبان مولیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ ہم ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا بلاشبہ یہ سفر مشقت اور بوجھ ہے پس جب تم میں سے کوئی وتر پڑھے تو وہ دو رکعت اس کے بعد پڑھ لیا کرے اگر وہ پچھلی رات بیدار ہوگیا فبہا ورنہ وہ اس کے لیے تہجد کی جگہ ہوجائیں گی۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ بعض اوقات آپ وتروں کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر ادا کرتے اور یہ آپ کے پہلے وتروں کو باطل نہیں کرتی تھیں۔ یہ مفہوم اس سے زیادہ بہتر ہے جو پہلے قول والوں نے اختیار کیا اور انھوں نے حضرت علی مرتضیٰ (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کو لے کر یہ دعویٰ کیا : ” انتھٰی وترہٗ الی السحر “۔ حالانکہ ہمارے نزدیک اس بات میں اختلاف نہیں کیونکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بھی درست ہے کہ وتر آخری نماز ہو اور اس کو آپ سحر تک ختم کرتے ہوں ‘ پھر اس کے بعد طلوع فجر سے پہلے نفل پڑھتے ہوں۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ تو وہی فجر کی دو رکعتیں ہیں۔ پس یہ رات کی نماز تو نہ ہوئی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کا یہ اعتراض دو وجہ سے درست نہیں۔ (١) کیونکہ سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے یہ بات ان کے سوال کے جواب میں کہی اور اس بات کی اس کو خبر دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات والی نماز کس طرح تھی۔ (٢) کسی کے لیے یہ درست نہیں کہ فجر کی دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھے جبکہ کھڑے ہو کر پڑھنے پر قادر ہو۔ کیونکہ وہ اس طرح قیام کا تارک بن جائے گا۔ البتہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹھ کر پڑھے اور وہ قیام کی بھی طاقت رکھتا ہو۔ جن کو اسے بالکل نہ ادا کرنا بھی درست ہے اور وہ ان کو چھوڑ بھی سکتا ہے ‘ تو جیسے اس کا چھوڑنا اس کے کمالے ساتھ درست ہے اسی طرح اس میں ترک قیام بھی یہی حکم رکھتا ہے۔ رہی وہ نماز جس کا چھوڑنا اس کے لیے درست نہیں ‘ تو اس کے قیام کا چھوڑنا بھی اس کے لیے درست نہیں۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وتروں کے بعد جو دو رکعت نفل ادا فرمائے وہ رات ہی کی نماز کا حصہ تھے اور اس سے ان لوگوں کا قول بھی ثابت ہوگیا جو وتروں کے بعد نفل پڑھنے کو حرج نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے ہاں اس سے وتر باطل ہوتے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد جو حدیث ثوبان میں مذکور ہے وہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢؍٢٦۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کے بعد دو نفل ادا فرما رہے اور حکم فرما رہے ہیں اور بیٹھ کر ادا فرما رہے ہیں اس سے آپ کے وتر باطل نہ ہوئے اور ان لوگوں کے پہلی روایات میں بطلان کی تاویل کرنے سے یہ بہتر ہے کہ وتر کے بعد نوافل کو درست قرار دیا جائے رہی روایت حضرت علی (رض) اس کی تاویل یہ ہے کہ سحری کے وقت تک آپ نوافل پڑھتے اور جب ختم کرتے تو وتر پڑھتے اور اس میں تو ہمارے ہاں بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ سحر کے قریب تک نفل پڑھتے ہوں پھر وتر ادا کر کے جو تھوڑا وقت ہوتا تو اس میں دو نفل ادا کرتے یہ طلوع سحر سے ذرا پہلے کی بات ہے۔
ایک اشکال :
ممکن ہے کہ یہ دو رکعت فجر کی سنتیں ہوں نفل نہ ہوں۔
جواب : یہ تو جیہ درست نہیں ہے اس کی دو وجہ ہیں۔
وجہ نمبر 1: سعد بن ہشام نے جناب حضرت عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز تہجد کا سوال کیا اور یہ اس کا جواب اور اطلاع تھی تو فجر کی دو رکعت کس طرح بن گئیں۔
وجہ نمبر 2: یہ ہے کہ فجر کی دو رکعت اس کو بیٹھ کر جائز نہیں جو قیام کی قدرت رکھتا ہو البتہ جو قیام کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ بیٹھ کر ادا کرے اسے اس صورت میں تارک قیام بھی نہیں کہہ سکتے۔
پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ دو رکعت آپ نے نفل ادا کئے ہیں اور یہ دونوں صلوۃ لیل کا حصہ ہیں پس اس لیے ضروری ہے کہ کہا جائے کہ وتروں کے بعد نوافل میں حرج نہیں اور نہ ہی اس سے وتروں کا بطلان لازم ہوتا ہے گزشتہ روایات میں حدیث ثوبان والا مضمون اور کئی روایات میں پایا جاتا ہے۔ روایات ثوبان کے مشابہہ روایات ملاحظہ ہوں۔

1968

۱۹۶۸: وَقَدْ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوْسٰی الطَّائِیُّ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ح .
١٩٦٨: عمران بن موسیٰ طائی اور ابن ابی داؤد دونوں نے ابوالولید سے نقل کیا۔

1969

۱۹۶۹: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَا : أَنَا أَیُّوْبُ بْنُ عُتْبَۃَ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا وِتْرَانِ فِیْ لَیْلَۃٍ) .
١٩٦٩: ایوب بن عتبہ نے قیس بن طلق سے اور انھوں نے اپنے والد کے واسطہ سے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک رات میں وتر دو مرتبہ نہیں۔
تخریج : دارمی فی الصلاۃ باب ٢١٥‘ ابو داؤد فی الوتر باب ٩‘ نمبر ١٤٢٩‘ ترمذی فی الوتر باب ١٣‘ نمبر ٤٧٠‘ نسائی فی صلوۃ اللیل باب ٢٩‘ فی السنن الکبرٰی کتاب الوتر نمبر ١٣٨٨‘ مسند احمد ٤؍٢٨۔

1970

۱۹۷۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١٩٧٠: عبداللہ بن بدر نے قیس بن طلق سے ‘ انھوں نے اپنے والد سے ‘ انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح نقل کیا۔

1971

۱۹۷۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ وَأَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَا : ثَنَا مُلَازِمٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ بَدْرٍ. فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٩٧١: ملازم نے عبداللہ بن بدر سے اپنی سند سے اسی طرح نقل کیا ہے۔

1972

۱۹۷۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِیْ بَکْرٍ : مَتَی تُوْتِرُ؟ قَالَ : أَوَّلَ اللَّیْلِ بَعْدَ الْعَتَمَۃِ، قَالَ : أَخَذْتُ بِالْوُثْقٰی، ثُمَّ قَالَ لِعُمَرَ : مَتٰی تُوْتِرُ؟ قَالَ : آخِرَ اللَّیْلِ، قَالَ : أَخَذْتُ بِالْقُوَّۃِ) .
١٩٧٢: عبداللہ بن محمد بن عقیل نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر سے پوچھا تم وتر کب ادا کرتے ہو تو انھوں نے عرض کیا کہ رات کے شروع میں نماز عشاء کے بعد آپ نے فرمایا تم نے مضبوط کڑے کو تھام رکھا ہے پھر عمر سے پوچھا تم وتر کب ادا کرتے ہو تو انھوں نے جواب دیا رات کے آخری حصہ میں تو آپ نے فرمایا تم نے مضبوط چیز کو تھام رکھا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الوتر باب ٧‘ نمبر ١٤٣٤۔

1973

۱۹۷۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ (أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تَذَاکَرَا الْوِتْرَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَمَّا أَنَا فَأُصَلِّیْ ثُمَّ أَنَامُ عَلَی وِتْرٍ، فَإِذَا اسْتَیْقَظْت صَلَّیْت شَفْعًا حَتَّی الصَّبَاحَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : لَکِنِّیْ أَنَامُ عَلٰی شَفْعٍ، ثُمَّ أُوْتِرُ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : حَذِرَ ھٰذَا، وَقَالَ لِعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : قَوِیَ ھٰذَا) .فَدَلَّ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا وِتْرَانِ فِیْ لَیْلَۃٍ) عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ نَفْیِ إِعَادَۃِ الْوِتْرِ وَوَافَقَ ذٰلِکَ قَوْلَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : (أَمَّا أَنَا فَأُوْتِرُ أَوَّلَ اللَّیْلِ، فَإِذَا اسْتَیْقَظْت صَلَّیْت شَفْعًا حَتَّی الصَّبَاحَ وَتَرْکُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّکِیْرَ عَلَیْہِ) دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ کَمَا کَانَ یَفْعَلُ، وَأَنَّ الْوِتْرَ لَا یَنْقُضُہُ النَّوَافِلُ الَّتِیْ یُتَنَفَّلُ بِہَا بَعْدَہٗ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٩٧٣: ابن شہاب نے ابن المسیّب سے بیان کیا کہ ابوبکر و عمر (رض) دونوں نے وتر کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مذاکرہ کیا تو ابوبکر (رض) کہنے لگے میں نماز (عشائ) پڑھتا ہوں پھر وتر پڑھ کر سو رہتا ہوں پھر جب میں بیدار ہوتا ہوں تو صبح تک دو دو رکعت پڑھتا رہتا ہوں عمر (رض) کہنے لگے میں تو شفع پڑھ کر سو جاتا ہوں اور سو کر آخر میں وتر پڑھتا ہوں اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوبکر (رض) تم نے احتیاط برتی اور عمر (رض) تم نے مضبوط چیز کو پا لیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” لا وتران فی لیلۃ “ کہ ایک رات میں وتر دو مرتبہ نہیں ‘ یہ وتروں کے اعادہ کی نفی کرتا ہے اور قول ابوبکر (رض) بھی اس کی موافقت کررہا ہے۔ کہ میں رات کے شروع میں وتر پڑھ لیتا ہوں پھر جب بیدار ہوجاتا ہوں تو صبح تک دو دو رکعت کر کے پڑھتا رہتا ہوں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کو انکار نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا حکم اسی طرح ہے جیسے ابوبکر (رض) کرتے تھے اور ان کے بعد نوافل کا پڑھنا وتروں کو باطل نہیں کرتا۔ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت سے یہ بات مروی ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مثلۃ فی ابن ابی شیبہ ٢؍٨٠‘ ابی داؤد ١؍٢٠٣۔
حاصل روایات : امام طحاوی (رح) کہتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے لاوتران فی لیلۃ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وتروں کو دوبارہ نہیں پڑھا جاسکتا اور یہ باب ابوبکر (رض) کے قول کے موافق ہے کہ شروع رات میں وتر پڑھتا ہوں پھر جب بیدار ہوتا ہوں تو صبح تک دو دو رکعت پڑھتا رہتا ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس پر انکار نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ وتروں کا حکم وہی ہے جو ابوبکر (رض) کرتے تھے اور بات بھی واضح ہوگئی کہ وتروں کو بعد والے نوافل وتروں کو باطل نہیں کرتے۔

1974

۱۹۷۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ جَمْرَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ : اِذَا أَوْتَرْتُ أَوَّلَ اللَّیْلِ فَلاَ تُوْتِرْ آخِرَہٗ، وَإِذَا أَوْتَرْت آخِرَہُ، فَلاَ تُوْتِرْ أَوَّلَہُ۔
١٩٧٤: ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے وتروں کے متعلق سوال کیا تو فرمانے لگے جب تم شروع رات میں وتر پڑھ لو تو رات کے آخر میں وتر مت پڑھو اور اگر تم نے رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھنے ہیں تو شروع رات میں وتر مت پڑھو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٨٣۔

1975

۱۹۷۵: قَالَ : وَسَأَلْتُ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو، فَقَالَ مِثْلَہٗ .
١٩٧٥: ابو جمرہ کہتے ہیں میں نے عائذ بن عمرو سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔

1976

۱۹۷۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ وَمَالِکِ بْنِ دِیْنَارٍ، أَنَّہُمَا سَمِعَا خِلَاسًا، قَالَ : سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ - وَسَأَلَہٗ رَجُلٌ عَنِ الْوِتْرِ - فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَأُوْتِرُ ثُمَّ أَنَامُ، فَإِنْ قُمْتُ، صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ .وَھٰذَا - عِنْدَنَا - مَعْنَیْ حَدِیْثِ ہَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ ؛ لِأَنَّ فِیْ ذٰلِکَ، فَإِذَا قُمْتُ شَفَعْتُ .فَاحْتَمَلَ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ یَشْفَعُ بِرَکْعَۃٍ کَمَا کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّی شَفْعًا شَفْعًا .فَفِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ مَا قَدْ بُیِّنَ أَنَّ مَعْنَیْ قَوْلِ : " شَفَعْتُ" ، أَیْ صَلَّیْتُ شَفْعًا شَفْعًا، وَلَمْ أَنْقُضَ الْوِتْرَ .
١٩٧٦: خلدس کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر سے سنا اور ایک آدمی نے ان سے وتر کے متعلق سوال کیا تھا تو کہنے لگے میں وتر پڑھ کر سو جاتا ہوں اگر میں بیدار ہوجاؤں تو دو رکعت کر کے نماز پڑھتا رہتا ہوں۔ ہمارے نزدیک حضرت ہمام کی روایت کا مفہوم یہی ہے۔ جس کو انھوں نے حضرت قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ جس کو ہم فصل اوّل میں ذکر کر آئے ہیں۔ کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ ” جب میں جاگتا ہوں تو دو دو رکعت پڑھتا ہوں “ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ایک رکعت ملا کر شفعہ بنا لیتے جیسا کہ ابن عمر (رض) کرتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ دو دو رکعت کر کے پڑھتا ہوں۔ پس شعبہ (رح) کی روایت میں اس بات کا بیان ہے کہ ان کے قول ” شفعت “ کا معنی یہ ہے کہ میں شفع شفع پڑھتا ہوں اور وتر کو نہیں توڑتا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٨٣۔
حاصل روایات : : طحاوی (رح) فرماتے ہیں ہمام کی وہ روایت جس کے الفاظ یہ ہیں ” فاذا قمت شفعت “ کا معنی ہمارے ہاں وہی ہے جو اثر نمبر ١٩٧٦ کا ہے۔
نمبر 2: اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ابن عمر (رض) کی طرح ایک رکعت ملا کر وتر کو شفعہ بنا لیتے ہیں۔
نمبر 3: یہ بھی احتمال ہے کہ شفعہ شفعہ پڑھتے رہتے ہیں اور وتروں کو نہیں توڑتے اور شعبہ والی روایت کا مفہوم یہی ہے۔

1977

۱۹۷۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نَقْضُ الْوِتْرِ، فَقَالَتْ : " لَا وِتْرَانِ فِیْ لَیْلَۃٍ " .
١٩٧٧: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے ہاں وتروں کے بطلان کا تذکرہ ہوا تو فرمایا ایک رات میں دو مرتبہ وتر نہیں۔
تخریج : تخریج کے لیے نمبر ١٩٧٠ کو ملاحظہ کریں۔

1978

۱۹۷۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ أَنَسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : " لَوْ جِئْتُ بِثَلاَثِ أَبْعِرَۃٍ فَأَنَخْتہَا، ثُمَّ جِئْتُ بِبَعِیْرَیْنِ فَأَنَخْتہمَا، أَلَیْسَ کَانَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ وِتْرًا؟ " ، قَالَ : وَکَانَ یَضْرِبُہُ مَثَلًا لِنَقْضِ الْوِتْرِ .وَھٰذَا - عِنْدَنَا - کَلَامٌ صَحِیْحٌ، وَمَعْنَاہُ أَنَّ مَا صَلَّیْت بَعْدَ الْوِتْرِ مِنَ الْأَشْفَاعِ، فَہُوَ مَعَ الْوِتْرِ الَّذِیْ أَوْتَرْتہ وِتْرًا .
١٩٧٨: عمر بن حکم کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہنے لگے اگر میں تین اونٹ لا کر بیٹھاؤں پھر دو اور اونٹ لا کر بیٹھا دوں کیا یہ طاق نہ رہیں گے وہ یہ مثال ان لوگوں کے لیے بیان کرتے جو نقض وتر کے قائل ہیں کہ تین وتروں کا وتر ہونا اسی طرح نفل سے باطل نہیں ہوتا جس طرح کہ تین اونٹوں کا طاق ہونا دو اور اونٹ ملانے سے باطل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں یہ کلام درست ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں جتنی جفت رکعات میں وتروں کے ساتھ پڑھوں وہ وتروں کے ساتھ ملا کر بھی طاق رہی ہیں۔ (یعنی وتر باطل نہیں ہوتے)

1979

۱۹۷۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ، مَوْلٰی عَقِیْلِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، أَنَّہٗ (سَأَلَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْتِرُ؟ فَقَالَ : إِنْ شِئْتُ أَخْبَرْتُک کَیْفَ أَصْنَعُ أَنَا، قُلْتُ : أَخْبِرْنِی .قَالَ : اِذَا صَلَّیْت الْعِشَائَ، صَلَّیْت بَعْدَہَا خَمْسَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ أَنَامُ، فَإِنْ قُمْت مِنَ اللَّیْلِ، صَلَّیْتُ مَثْنٰی، مَثْنٰی، وَإِنْ أَصْبَحْتُ، أَصْبَحْتُ عَلَی وِتْرٍ) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَعَائِذُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَمَّارٌ، وَأَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، لَا یَرَوْنَ التَّطَوُّعَ بَعْدَ الْوِتْرِ، یَنْقُضُ الْوِتْرَ .فَھٰذَا أَوْلَی - عِنْدَنَا - مِمَّا رُوِیَ عَمَّنْ خَالَفَہُمْ، اِذْ کَانَ ذٰلِکَ مُوَافِقًا لِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ فِعْلِہِ وَقَوْلِہٖ .وَالَّذِیْ رُوِیَ عَنِ الْآخَرِیْنَ أَیْضًا فَلَیْسَ لَہٗ أَصْلٌ فِی النَّظَرِ، لِأَنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا أَرَادُوْا أَنْ یَتَطَوَّعُوْا، صَلَّوْا رَکْعَۃً، فَیَشْفَعُوْنَ بِہَا وِتْرًا مُتَقَدِّمًا، قَدْ قَطَعُوْا فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ مَا شَفَعُوْا بِہٖ، بِکَلَامٍ، وَعَمَلٍ، وَنَوْمٍ، وَھٰذَا لَا أَصْلَ لَہٗ أَیْضًا فِی الْاِجْمَاعِ، فَیُعْطَفُ عَلَیْہِ ھٰذَا الْاِخْتِلَافُ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، وَخَالَفَہُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَنْ ذَکَرْنَا، وَرُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا خِلَافُہُ، انْتَفٰی ذٰلِکَ، وَلَمْ یَجُزِ الْعَمَلُ بِہٖ .وَھٰذَا الْقَوْلُ الَّذِیْ بَیَّنَّا، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ .
١٩٧٩: زید بن اسلم نے ابو مرہ سے جو عقیل بن ابی طالب (رض) کے مولیٰ ہیں بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح وتر پڑھتے تھے ؟ تو انھوں نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں اپنا عمل بتلاتا ہوں میں نے کہا فرمائیں کہنے لگے جب میں عشاء کی نماز پڑھ لیتا ہوں تو اس کے بعد پانچ رکعت پڑھتا ہوں (تین وتر دو نفل) پھر میں سو جاتا ہوں اگر رات کو جاگ گیا تو میں دو دو کر کے نماز پڑھتا رہتا ہوں اور اگر صبح کو بیدار ہوں تو وتروں کی حالت میں صبح کرتا ہوں یعنی میری آخری نماز وہ رات والے وتر ہوتے ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ‘ عائد بن عمرو ‘ عمار ‘ ابوہریرہ ‘ عائشہ صدیقہ (رض) ہیں جو وتروں کے بعد نوافل پڑھنے سے وتروں کو باطل قرار نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں صحابہ کرام (رض) کے ارشادات ان کی پیش کردہ آثار سے بہت بہتر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و فعل کے موافق ہے۔ باقی دیگر حضرات سے جو کچھ مروی ہے قیاس سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب وہ نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو ایک رکعت پڑھتے اس سے وہ گزشتہ ۔۔۔ کو شفعہ بناتے حالانکہ اس شفعہ اور وتر کے درمیان کلام ‘ نیند اور کلام سے انقطاع کرچکے اور اس کی بھی اجماع سے کوئی دلیل نہیں کہ جس کی طرف اس اختلاف کا رُخ موڑا جاسکے۔ جب یہ بات بالکل اسی طرح ہے اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل و قول مذکورہ روایات میں ان کے خلاف ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس کے خلاف مروی ہے۔ تو ان کی اس بات کی پوری نفی ہوگئی اس پر عمل جائز نہیں۔ یہ جو کچھ ہم نے واضح کیا امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : بیہقی ٣؍٥٣۔
حاصل روایات : امام طحاوی (رح) کہتے ہیں یہ بات ابن عباس ‘ عائذ بن عمرو ‘ عمار بن یاسر ‘ ابوہریرہ ‘ عائشہ صدیقہ (رض) کے فتاویٰ جات سے ثابت ہوگیا کہ یہ وتروں کے بعد نوافل سے بطلان وتر کے ہرگز قائل نہ تھے ہمارے ہاں ان کی یہ روایات ان روایات سے اولیٰ ہیں جن سے وتروں کے متعلق باطل ہونے کا شبہہ پڑتا ہے اس لیے کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و فعل کے مطابق ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو بطریق نظر بھی اس بات کی کوئی اصل نظر نہیں آتی کیونکہ جب صبح کو نفل پڑھنا چاہتے تو ایک رکعت پڑھ کر وتروں کو طاق بنا لیتے حالانکہ ان کے اور اس شفعہ کے درمیان سلام کلام عمل کثیر نیند سے انقطاع ہوچکا ہوتا تھا اور بالاجماع اس کی کوئی اصل نہیں کہ اتنے انقطاع کے بعد یہ اس نماز کا حصہ بن جائے چہ جائیکہ کہ ہم اپنے اس اختلافی مسئلہ کی دلیل بنائیں جب یہ اسی طرح ہے اور دوسری جناب بہت سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے خلاف ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بھی اس کے خلاف ہے تو ان روایات پر عمل درست نہیں نہ ان سے استدلال درست ہے۔
یہ قول جس کو روایات و آثار اور نظری دلائل سے واضح کیا ہے یہ ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : : اس باب کو امام طحاوی (رح) نے ذکر کر کے فصل اول کی روایات کے بارے میں ثابت کیا کہ ان پر عمل جائز نہیں کیونکہ وہ بعض اجماعی اعمال کے خلاف ہیں ان میں بعض حضرات سے منقول ہے کہ میرا اجتہاد ہے (جیسے ابن عمر (رض) ) تو قول و فعل رسول سے جو اجتہاد ٹکرائے اس کو ترک کردیا جائے گا ان میں سے بعض قابل تاویل روایات کی جابجا تاویل بھی کی گئی ہے۔

1980

۱۹۸۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ، فَیُسْمِعُ قِرَائَ تَہُ مِنْ وَرَائِ الْحُجَرِ وَہُوَ فِی الْبَیْتِ) .
١٩٨٠: عکرمہ (رض) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو جب نماز ادا فرماتے تو آپ کی آواز حجرات کے باہر سنائی دیتی حالانکہ آپ اپنے گھر میں ہوتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ٢٥‘ نمبر ١٣٢٧۔
اس میں دو قول ہیں۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: حسن بصری و علقمہ (رح) کہتے ہیں جہراً قراءت ضروری ہے سراً مکروہ ہے۔
نمبر 2: فقہاء اربعہ اور تمام محدثین ہر دو طرح قراءت کے جواز کے قائل ہیں۔
مؤقف اوّل اور اس کے دلائل : رات کی نماز میں جہراً قراءت لازم ہے مندرجہ ذیل روایات سے ثبوت ملتا ہے۔

1981

۱۹۸۱: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ، عَنْ جَدَّتِہٖ أُمِّ ہَانِیٍٔ، قَالَتْ : (کُنْتُ أَسْمَعُ صَوْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ، وَأَنَا نَائِمَۃٌ عَلٰی عَرِیْشِیْ وَہُوَ یُصَلِّیْ یُرَجِّعُ بِالْقُرْآنِ) .
١٩٨١: یحییٰ بن جعدہ نے اپنی نانی ام ہانی (رض) سے نقل کیا کہ میں رات کے دوران جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سنتی تھی جبکہ میں اپنے چھپر کے نیچے سو رہی ہوتی تھی اور آپ آواز کے زیروبم نماز میں قرآن پڑھ رہے ہوتے تھے۔
تخریج : نسائی فی الافتتاح باب ٨١‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٧٩‘ نمبر ١٣٤٩‘ مسند احم د ١؍٣٤٢؍٣٤٣۔

1982

۱۹۸۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِی الْعَلَائِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ، قَالَ : (قَالَتْ أُمُّ ہَانِیٍٔ : إِنِّی کُنْتُ أَسْمَعُ صَوْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلٰی عَرِیْشِی) .قَالَ : أَبُوْ جَعْفَرٍ، فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْقِرَائَ ۃَ فِیْ صَلَاۃِ اللَّیْلِ ھٰکَذَا ہِیَ، وَکَرِہُوا الْمُخَافَتَۃَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : إِنْ شَائَ خَافَتَ، وَإِنْ شَائَ جَہَرَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
١٩٨٢: یحییٰ بن جعدہ نے اپنی نانی ام ہانی (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سنا کرتی تھی اس حال میں کہ اپنے چھپر میں سو رہی ہوتی تھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ رات کی نماز میں قراءت (بلند آواز) سے ہے ان کے ہاں آہستہ آواز سے قراءت رات کو مکروہ ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر چاہے آہستہ آواز سے اور اگر چاہے تو بلند آواز سے قراءت کرے ‘ ہر دو طرح درست ہے۔ ان کی مستدل مندرجہ روایات ہیں۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ کریں۔
اللغات : یرجع آواز تیز اور آہستہ کرنا۔
حاصل روایات : ان روایات سے تہجد کی نماز میں جہراً تلاوت کا ثبوت مل رہا ہے البتہ سراً کی نفی کہیں نہیں ملتی جنہوں نے اس سے استدلال کیا تو انھوں نے فرمایا جب آپ جہراً ہی پڑھتے تھے تو معلوم ہوا کہ اس میں جہراً ہی قراءت ہے نہ کہ سراً ۔ پس سراً قراءت مکروہ ہوئی۔
مؤقف ِثانی : جہر و سر ہر دو طرح درست ہے جہر کو ترک کرنے میں ذرا کراہیت نہیں۔ دلائل یہ ہیں۔

1983

۱۹۸۳: بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَلِیٍّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَۃَ بْنِ نَشِیْطٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ خَالِدِ ڑ الْوَالِبِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : (کَانَتْ قِرَائَ ۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - یَعْنِیْ بِاللَّیْلِ - یَرْفَعُ طَوْرًا، وَیَخْفِضُ طَوْرًا) .
١٩٨٣: ابو خالد والبی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے رات کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کبھی آپ آواز بلند فرماتے اور کبھی آپ ہلکی آواز سے پڑھتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ٢٥‘ نمبر ١٣٢٨‘ بیہقی ٣؍١٩۔

1984

۱۹۸۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ عِمْرَانَ، فَذُکِرَ بِإِسْنَادِہٖ، وَمِثْلِہِ .
١٩٨٤: حفص بن غیاث نے عمران سے پھر اس سے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٢۔

1985

۱۹۸۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَھٰذَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (أَنَّہٗ کَانَ یَرْفَعُ صَوْتَہُ فِیْ قِرَائَ تِہِ بِاللَّیْلِ طَوْرًا، وَیَخْفِضُہُ طَوْرًا) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ لِلْمُصَلِّی فِی اللَّیْلِ، أَنْ یَرْفَعَ إِنْ أَحَبَّ، وَیَخْفِضَ إِنْ أَحَبَّ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا ذَکَرَتْ أُمُّ ہَانِیٍٔ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ رَفْعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، صَوْتَہُ بِالْقِرَائَ ۃِ فِیْ صَلَاتِہٖ بِاللَّیْلِ، ہُوَ رَفْعٌ قَدْ کَانَ یُفْعَلُ بِعَقَبَۃِ الْخَفْضِ .فَحَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ ہَانِیٍٔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، لَا یَنْفِی الْخَفْضَ، وَحَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُبَیِّنُ أَنَّ لِلْمُصَلِّیْ أَنْ یَخْفِضَ إِنْ أَحَبَّ، وَیَرْفَعَ إِنْ أَحَبَّ، فَہُوَ أَوْلٰی مِنْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ .وَبِہٖ یَقُوْلُ : أَبُوْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٌ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٩٨٥: عمران بن زائدہ نے اپنے والد سے انھوں نے خالد (رض) سے اور خالد نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اور ابوہریرہ (رض) کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ یہ حضرت ابوہریرہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق خبر دے رہے ہیں کہ آپ رات کو کبھی بلند اور کبھی آہستہ آواز سے پڑھتے تھے۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نمازی کو رات کے وقت اختیار ہے کہ اگر وہ پسند کرے تو بلند آواز سے قراءت کرے اور اگر چاہے تو آہستہ آواز سے قراءت کرے اور عین ممکن ہے کہ حضرت ام ھانی (رض) اور ابن عباس (رض) نے رات کے وقت آپ کی قراءت میں آواز کو بلند کرنے سے متعلق ذکر کیا ہے وہ ایسا بلند کرنا ہو کہ جس کے بعد آہستہ کرنا ہو۔ پس حضرت ابن عباس (رض) ، ام ھانی (رض) والی آہستہ پڑھنے کی نفی نہیں کرتی اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ نمازی کو آہستہ اور بلند آواز میں اختیار ہے۔ تو ان آثار کی نسبت روایت ابوہریرہ (رض) اولیٰ ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : بیہقی ٣؍١٩۔
حاصل روایت و جواب :
حضرت ابوہریرہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ قراءت میں رات کو کبھی آواز بلند کرتے اور دوسرے موقعہ پر آواز آہستہ کرتے اس سے یہ ثابت ہوا کہ نماز نفل ادا کرنے والے کو اختیار ہے خواہ وہ رات کو قراءت بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ پس اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ابن عباس اور ام ہانی (رض) کی روایات میں آواز کا بلند کرنا مذکور ہے وہ وہی حالت بلند صورت والی ہے اور کبھی آہستہ کے بعد بلند فرمانے۔ وہ دونوں روایات اس بات کی نفی نہیں کرتیں کہ ہلکی آواز ممنوع ہے اور روایت ابوہریرہ (رض) نماز کی ہر دو حالت کو بیان کر رہی ہے پس یہ روایت جو دونوں اطراف کو بیان کرے وہ ایک حالت کو بیان کرنے والی روایت سے اولیٰ و ارجح ہے۔
اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔
حاصل روایات : : یہ باب بھی نظر سے خالی ہے ایک روایت لا کر دوسری روایات پر ترجیح دی ائمہ اربعہ کو امت سے تلقی بالقبول اس لیے بھی بخشی گئی ہے کہ ان کی فقہ احادیث و آثار صحابہ وتابعین کو زیادہ جامع ہے طحاوی (رح) کا اپنا رجحان بھی دوسرے قول کی طرف ہے جس کو ترجیح دے رہے ہیں۔

1986

۱۹۸۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَنْ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (لِکُلِّ سُوْرَۃٍ رَکْعَۃٌ) .
١٩٨٦: عاصم نے ابوالعالیہ سے نقل کیا وہ کہتے ہیں مجھے اس نے بتلایا جس نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہر سورة کے لیے ایک رکعت ہے۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: ایک رکعت میں متعدد سورتوں کو جمع کرنا شعبی اور ابوالعالیہ رحمہما اللہ کے ہاں مکروہ ہے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور تمام فقہاء اس میں عدم کراہت کے قائل ہیں۔
مؤقف ِاوّل : ایک رکعت میں کئی سورتیں جمع کر کے پڑھنا مکروہ ہے۔
دلیل یہ روایت ہے۔

1987

۱۹۸۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ : أَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لِکُلِّ سُوْرَۃٍ رَکْعَۃٌ) .قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِابْنِ سِیْرِیْنَ، فَقَالَ : أَسَمّٰی لَکَ مَنْ حَدَّثَہٗ؟ قُلْتُ : لَا، قَالَ : أَفَلاَ تَسْأَلُہٗ؟ .فَسَأَلْتُہٗ، فَقُلْتُ : مَنْ حَدَّثَکَ؟ فَقَالَ : إِنِّیْ لَأَعْلَمُ مَنْ حَدَّثَنِی، وَفِیْ أَیِّ مَکَان حَدَّثَنِی، وَقَدْ کُنْتُ أُصَلِّیْ بَیْنَ عِشْرِیْنَ، حَتّٰی بَلَغَنِی ھٰذَا الْحَدِیْثُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا قَوْمٌ فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لِرَجُلٍ أَنْ یَزِیْدَ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ مِنْ صَلَاتِہِ عَلٰی سُوْرَۃٍ مَعَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ، وَبِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ .
١٩٨٧: عاصم احول نے ابوالعالیہ سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر سورة کے لیے ایک رکعت ہے میں نے ان سے دریافت کیا تمہیں کس نے بیان کیا تو ابوالعالیہ کہنے لگے میں خوب جانتا ہوں جنہوں نے مجھے بیان کیا اور کسی جگہ میں مجھے بیان کیا میں بیس آدمیوں کے درمیان نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے یہ حدیث پہنچی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی آدمی کو یہ مناسب نہیں کہ وہ ہر رکعت میں فاتحہ الکتاب کے ساتھ ایک سورة سے زیادہ پڑھے ‘ انھوں نے اس سلسلے میں اس روایت سے استدلال کیا جس کو حضرت ابن عمر (رض) نے نقل کیا ہے۔

1988

۱۹۸۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ لَبِیْبَۃَ قَالَ : قَالَ، رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ : إِنِّیْ قَرَأْت الْمُفَصَّلَ فِیْ رَکْعَۃٍ، أَوْ قَالَ : " فِیْ لَیْلَۃٍ " .فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِنَّ اللّٰہَ لَوْ شَائَ لَأَنْزَلَہُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً، وَلٰـکِنْ فَصَّلَہُ، لِتُعْطَی کُلُّ سُوْرَۃٍ حَظَّہَا مِنَ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ أَنْ یُصَلِّیَ الرَّجُلُ فِی الرَّکْعَۃِ الْوَاحِدَۃِ، مَا بَدَا لَہٗ مِنَ السُّوَرِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
١٩٨٨: ابن لبیبہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) کو کہا میں نے ایک رکعت میں مفصل پڑھی یا کہا کہ ایک رات میں تو ابن عمر (رض) کہنے لگے اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو قرآن مجید کو ایک مرتبہ اتار دیتا لیکن جدا جدا کر کے پڑھو تاکہ تمہاری ہر سورة کو رکوع و سجدہ میں حصہ مل سکے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کچھ بھی حرج نہیں کہ کوئی شخص اس میں جتنی سورتیں چاہے پڑھے۔ ان کا استدلال مندرجہ روایات سے ہے۔
تخریج : ٢؍١٤٩‘ عبدالرزاق۔
حاصل روایات : روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رکعت میں ایک سورة پڑھی جائے ورنہ سورة کو اس کے رکوع و سجود کا حصہ نہ ملے گا اسی وجہ سے کئی سورتوں کا جمع کرنا مکروہ ہے۔
مؤقف ِثانی : جتنی سورتیں چاہے ایک رکعت میں پڑھی جاسکتی ہیں اس میں کوئی کراہیت نہیں۔ دلائل یہ ہیں۔

1989

۱۹۸۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : أَنَا کَہْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ، قَالَ : (قُلْتُ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقْرِنُ السُّوَرَ؟ قَالَتْ : الْمُفَصَّلَ) .
١٩٨٩: عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورتوں کو ملا کر پڑھتے تھے ؟ تو انھوں نے جواب دیا مفصل کو ملا کر پڑھتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٣۔

1990

۱۹۹۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ حُصَیْنٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی اِبْرَاہِیْمُ عَنْ نَہِیکِ بْنِ سِنَانٍ السُّلَمِیِّ، أَنَّہٗ أَتٰی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَقَالَ : قَرَأْت الْمُفَصَّلَ اللَّیْلَۃَ فِیْ رَکْعَۃٍ .فَقَالَ : ہَذًّا مِثْلَ ہَذِّ الشِّعْرِ، وَنَثْرًا مِثْلَ نَثْرِ الدَّقَلِ، إِنَّمَا فَصَّلَ لِتُفَصِّلُوْا، (لَقَدْ عَلِمْنَا النَّظَائِرَ الَّتِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ عِشْرِیْنَ سُوْرَۃَ الرَّحْمٰنِ وَ النَّجْمِ) عَلَی تَأْلِیْفِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، کُلُّ سُوْرَتَیْنِ فِیْ رَکْعَۃٍ، وَذَکَرَ " الدُّخَانَ " وَ " عَمَّ یَتَسَائَ لُوْنَ " فِیْ رَکْعَۃٍ .فَقُلْتُ لِاِبْرَاہِیْمَ : أَرَأَیْتُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ، کَیْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ : رُبَّمَا قَرَأْتُ أَرْبَعًا فِیْ رَکْعَۃٍ .
١٩٩٠: ابراہیم بن نھیک بن سنان سلمی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا اور ان سے پوچھا کہ میں ایک رکعت میں رات کو مفصل پڑھتا ہوں آپ نے فرمایا شعر کی طرح جلدبازی کرتا اور ردی کھجور کی طرح حروف کو بکھیرتا ہوگا مفصل تو فصل کے لیے ہے ہم تو ان مثالوں کو جانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیس سورتیں ملاکر پڑھتے مثلاً الرحمن والنجم۔ ابن مسعود (رض) کے جمع شدہ نسخہ میں سورة رحمن و نجم اکٹھی ہیں ہر دو سورتیں ایک ایک رکعت میں اس سلسلہ میں سورة دخان اور عم یتساء لون کا بھی ذکر کیا ہے۔ میں نے ابراہیم سے کہا اس کے علاوہ میں میں کیا کروں ؟ تو کہنے لگے میں بسا اوقات ایک رکعت میں چار سورتیں پڑھ لیتا ہوں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٠٦‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٢٧٥‘ ابن ابی شیبہ ٢؍٢٥٩۔
اللغات : ہذأ جلدی کرنا۔ النشر بکھیرنا۔ الدقل ردی کھجور جو خشک ہو۔

1991

۱۹۹۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ح .
١٩٩١: ابن مرزوق کہتے ہیں ہمیں وہب نے بیان کیا۔

1992

۱۹۹۲: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ : إِنِّیْ قَرَأْت الْمُفَصَّلَ فِیْ رَکْعَۃٍ، فَقَالَ : ہَذًّا کَہَذِّ الشِّعْرِ، لَقَدْ عَرَفْت النَّظَائِرَ الَّتِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقْرِنُ بَیْنَہُنَّ .
١٩٩٢: ابو وائل کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ کو کہا میں مفصل ایک رکعت میں پڑھتا ہوں تو آپ نے فرمایا تو شعر پڑھنے کی طرح جلدی کرتا ہوگا مجھے وہ امثلہ معلوم ہیں کہ جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملا کر پڑھتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٠٦‘ مسلم فی المسافرین ٢٧٥؍٢٧٦‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٦٩‘ نمبر ٦٠٢۔

1993

۱۹۹۳: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : ثَنَا سَیَّارٌ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (الَّتِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقْرِنُ بَیْنَہُنَّ، سُوْرَتَیْنِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ) .
١٩٩٣: سیار نے ابو وائل سے انھوں نے عبداللہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ صرف یہ لفظ مختلف ہیں وہ سورتیں جن دو کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رکعت میں جمع فرماتے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤٢٧۔

1994

۱۹۹۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ح .
١٩٩٤: ابو بکرہ نے کہا ہمیں ابو داؤد نے بیان کیا۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤١٨۔

1995

۱۹۹۵: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَا : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ، قَالَا : (جَائَ رَجُلٌ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ : إِنِّیْ قَرَأْت الْمُفَصَّلَ فِیْ رَکْعَۃٍ، فَقَالَ : نَثْرًا کَنَثْرِ الدَّقَلِ، وَہَذًّا کَہَذِّ الشِّعْرِ لَکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَفْعَلُ مَا فَعَلْتُ، کَانَ یُقْرِنُ بَیْنَ کُلِّ سُوْرَتَیْنِ، فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ سُوْرَتَیْنِ، فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ النَّجْمَ وَ الرَّحْمَنَ فِیْ رَکْعَۃٍ، عِشْرُوْنَ سُوْرَۃً، فِیْ عَشْرِ رَکَعَاتٍ) .
١٩٩٥: علقمہ و اسود نے بیان کیا کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا میں نے ایک رکعت میں مفصل پڑھی ہے آپ نے فرمایا ردی کھجور کی طرح حروف کو پھینکتا اور شعر کی طرح جلدی پڑھتا ہوگا لیکن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کرتے تھے جو تو نے کیا ہے آپ دو سورتوں کو ملاتے اور ہر رکعت میں دو سورتیں پڑھتے اور ہر رکعت میں سورة النجم اور الرحمن بیس سورتیں دس رکعات میں پڑھے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤١٨۔

1996

۱۹۹۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الضَّرِیْرُ، قَالَ : أَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الْأَحْنَفِ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ، قَالَ : (صَلَّیْتُ إِلَی جَنْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَاسْتَفْتَحَ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْہَا، اسْتَفْتَحَ آلَ عِمْرَانَ .فَکَانَ اِذَا أَتٰی عَلَی آیَۃٍ فِیْہَا ذِکْرُ الْجَنَّۃِ أَوَ النَّارِ، وَقَفَ فَسَأَلَ، أَوْ تَعَوَّذَ، أَوْ قَالَ کَلَامًا ھٰذَا مَعْنَاہُ) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقْرِنُ بَیْنَ السُّوْرَتَیْنِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ) .فَقَدْ خَالَفَ ھٰذَا، مَا رَوٰی أَبُو الْعَالِیَۃِ، وَہُوَ أَوْلَی، لِاسْتِقَامَۃِ طَرِیْقِہِ وَصِحَّۃِ مَجِیْئِہِ .وَأَمَّا قَوْلُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ " إِنَّمَا سُمِّیَ الْمُفَصَّلَ لِتُفَصِّلُوْہُ " فَإِنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَذْکُرْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ رَأْیِہِ، فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ رَأْیِہِ، فَقَدْ خَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِأَنَّہٗ کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِیْ رَکْعَۃٍ، وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ فِیْ آخِرِ ھٰذَا الْبَابِ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَرَأَ فِیْ رَکْعَۃٍ مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ بِبَعْضِ سُوْرَۃٍ) .
١٩٩٦: صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں ایک رات نماز ادا کی پس آپ نے سورة بقرہ شروع فرمائی جب اس سے فارغ ہوئے تو آل عمران شروع کردی جب آپ ایک آیت کو پڑھتے جس میں جنت و نار کا ذکر ہوتا تو رک کر جنت مانگتے یا آگ سے پناہ طلب کرتے یا اس سے ملتی جلتی بات حذیفہ (رض) نے کہی۔ ان روایات سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رکعت میں دو سورتیں ملاتے تھے اور یہ اگرچہ ابوالعالیہ والی روایت کے خلاف ہے مگر یہ سند کی پختگی اور صحت میں اس سے اولیٰ ہے۔ پھر حضرت ابن مسعود (رض) کا یہ کہنا کہ ان کو مفصل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ تم ان کو الگ الگ کر کے پڑھو یہ بات انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع نقل نہیں کی ‘ ممکن ہے ان کا اجتہاد ہو اور اگر یہ اجتہاد ہے تو اس سلسلہ میں حضرت عثمان (رض) کا اجتہاد ان کے خلاف ہے کیونکہ وہ تو ایک رکعت میں پورا قرآن مجید پڑھتے تھے۔ ہم اس کو اس باب کے آخر میں انشاء اللہ ذکر کریں گے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی وارد ہے کہ آپ نے ایک رکعت صبح میں ایک سورت کا کچھ حصہ پڑھا۔
تخریج : نسائی ١؍١٥٦‘ ابو داؤد ١؍١٢٧‘ ابن ماجہ ١؍٩٦‘ ترمذی ١؍٦٠۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک رکعت میں دو سورتوں کا پڑھنا درست ہے اس میں کچھ کراہت نہیں۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ابوالعالیہ والی روایت اس کے خلاف ہے اگر اس کو اولویت پر محمول کریں تو موافقت ہوجائے گی۔ (ورنہ وہ منقطع روایت ہے اور یہ سب مرفوع روایات ہیں)
ضمنی سوال : ابن مسعود (رض) مفصل کی وجہ لتفصلوہ سے ذکر کی ہے تاکہ اس کو تم جدا جدا کر کے پڑھو۔
الجواب نمبر 1: ابن مسعود (رض) نے یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ذکر نہیں فرمایا۔
نمبر 2: اگر روایت کا بعد والا حصہ سامنے رکھا جائے تو لتفصلوا کا معنی ترتیل کرنا ہوگا اور ہر ایک رکعت میں ایک سورة پڑھنا مراد نہ ہوگا کیونکہ وہ مثال دے کر پھر دو سورتوں کا ایک رکعت میں جمع کرنا ثابت کر رہے ہیں اور اس معنی سے ابن مسعود (رض) پر کوئی اعتراض نہیں عثمان (رض) کا عمل بھی اس کا مؤید ہے کہ وہ ایک رات میں قرآن مجید پڑھتے۔

1997

۱۹۹۷: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ح .
١٩٩٧: ابن مرزوق نے عثمان بن عمر سے انھوں نے ابن جریج سے بیان کیا۔
تخریج : مسلم ١؍١٨٦۔

1998

۱۹۹۸: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ سُفْیَانَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ : (حَضَرَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃَ الْفَتْحِ صَلَاۃُ الصُّبْحِ، فَافْتَتَحَ سُوْرَۃَ الْمُؤْمِنِ، فَلَمَّا أَتٰی عَلٰی ذِکْرِ مُوْسٰی وَعِیْسٰی، أَوْ مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِمْ، أَخَذَتْہُ سَعْلَۃٌ فَرَکَعَ) .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ لِلسَّعْلَۃِ الَّتِیْ عَرَضَتْ لَہٗ .قِیْلَ لَہٗ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ فِیْ رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ، بِآیَتَیْنِ مِنَ الْقُرْآنِ، قَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ بَابِ الْقِرَائَ ۃِ، فِیْ رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ .
١٩٩٨: ابو سلمہ بن سفیان نے عبداللہ بن سائب (رض) سے نقل کیا کہ میں فتح مکہ کی صبح نماز صبح میں حاضر ہوا تو آپ نے سورة مؤمن پڑھنا شروع کی جب آپ موسیٰ و عیسیٰ یا موسیٰ و ہارون کے واقعہ پر پہنچے تو آپ پر کھانسی کا غلبہ ہوا پس آپ نے رکوع کیا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ اسی قدر سورت پر رکوع کرنا کھانسی کے باعث تھا۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ آپ نے فجر کی دو رکعتوں میں قرآن مجید کی دو آیات پڑھیں اور یہ بات ہم باب القرأۃ فی رکعتی الفجر میں ذکر کرچکے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٠٦‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٦٣‘ نسائی فی الافتتاح نمبر ٧٦‘ مسند احمد ٣؍٤١١۔
سوال : اس روایت میں کھانسی کا تذکرہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سورة کا کچھ حصہ کھانسی کی مجبوری سے پڑھا نہ کہ یہ اصل حکم ہے۔
جواب : باب القرأۃ فی رکعتی الفجر میں ہم پہلے ذکر کر آئے کہ آپ فجر کی دو رکعتوں میں قرآن مجید کی دو آیتیں پڑھتے تھے پس یہ عذر کی بات نہیں بلکہ سورة کا بعض حصہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

1999

۱۹۹۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانَ، أَبُوْ خَالِدِ ڑالْأَحْمَرُ، عَنْ رَجُلٍ، ہُوَ قُدَامَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، أَوْ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ جَسْرَۃَ بِنْتِ دِجَاجَۃَ، قَالَتْ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ قَالَ : (جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ، بِہَا یَرْکَعُ، وَبِہَا یَسْجُدُ، وَبِہَا یَدْعُو) .
١٩٩٩: جسرہ بنت دجاجہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کی ایک ایک آیت پڑھتے اور اسی پر رکوع اور سجدہ اور اسی میں دعا مانگتے تھے (یعنی جنت و دوزخ سے متعلق)
تخریج : ابن ماجی فی الاقامہ باب ١٧٩‘ نمبر ١٣٥٠‘ نسائی فی السنن الکبرٰی صفۃ الصلاۃ نمبر ١٠٨٣۔

2000

۲۰۰۰: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ الْعَتَّابِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْقَطَّانُ، عَنْ قُدَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ جَسْرَۃَ بِنْتِ دِجَاجَۃَ، عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ بِآیَۃٍ حَتّٰی أَصْبَحَ (إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ ۱ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّک أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) [المائدۃ : ۱۱۸] .
٢٠٠٠: جسرہ بنت دجاجہ نے حضرت ابو ذر (رض) سے نقل کیا کہ جناب بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آیت پر قیام کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی وہ آیت یہ تھی : (إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ ١ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّک أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) [المائدۃ : ١١٨]
تخریج : ابن ماجی فی الاقامہ باب ١٧٩‘ نمبر ١٣٥٠‘ نسائی فی السنن الکبرٰی صفۃ الصلاۃ بمبر ١٠٨٣۔

2001

۲۰۰۱: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ ڑالْقَطَّانُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ قُدَامَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ جَسْرَۃُ بِنْتُ دِجَاجَۃَ، أَنَّہَا سَمِعَتْ أَبَا ذَرٍّ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِقِرَائَ ۃِ بَعْضِ سُوْرَۃٍ فِیْ رَکْعَۃٍ .وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِقِرَائَ ۃِ السُّوَرِ فِی الرَّکْعَۃِ ؛ لِمَا قَدْ ذَکَرْنَا، مِمَّا جَائَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ طُوْلُ الْقِیَامِ) فَذٰلِکَ یَنْفِیْ أَیْضًا مَا ذَکَرَ أَبُو الْعَالِیَۃِ، لِأَنَّہٗ یُوْجِبُ أَنَّ الْأَفْضَلَ مِنَ الصَّلَوَاتِ مَا أُطِیْلَتَ الْقِرَائَ ۃُ فِیْہِ، وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ إِلَّا بِالْجَمْعِ بَیْنَ السُّوَرِ الْکَثِیْرَۃِ فِیْ رَکْعَۃٍ .وَھٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ خِلَافُ مَا رَوَیْنَا عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .
٢٠٠١: جسرہ بنت دجاجہ کہتی ہیں کہ میں نے ابو ذر (رض) کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے سنا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کسی سورة کا بعض حصہ ایک رکعت میں پڑھ لیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں اور اس میں بھی کچھ حرج نہیں کہ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھی جائے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات مذکور ہوئیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طول قیام کی ترغیب میں روایات آئی ہیں۔ ابوالعالیہ نے جو روایت ذکر کی ہے یہ طول ِ قیام کے منافی ہے۔ افضل ترین نماز لمبے قیام والی ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قراءت کو کئی سورتیں پڑھ کر طویل نہ کیا جائے۔ یہ تمام امام ابوحنیفہ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے اور بن عمر (رض) سے بھی اس روایت کے خلاف روایت موجود ہے جو ہم فصل اوّل میں نقل کر آئے۔ جمع بین السورتین کی روایات یہ ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات سے ایک رکعت میں سورة کے بعض حصہ کا پڑھنا ثابت ہوگیا اور یہ بات پہلے روایات سے ثابت کی جاچکی کہ ایک رکعت میں کئی سورتوں کے پڑھنے میں حرج نہیں ہے اور ان کے علاوہ آپ کا یہ ارشاد گرامی معروف ہے کہ افضل الصلاۃ۔۔۔
تخریج : الصلاۃ طول القیام مسلم فی الصلاۃ ١٦٤؍١٦٥۔
اس روایت نے بھی ابوالعالیہ والی روایت کی صاف صاف نفی کردی کیونکہ اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ افضل نماز طویل قراءت والی ہے اور طویل قراءت تو کئی سورتوں کو جمع کرنے سے ہی ممکن ہے۔
یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی کی تائید میں مزید روایات : ابوالعالیہ وغیرہ والی روایات کے خلاف حضرت ابن عمر ‘ عمر ‘ تمیم داری (رض) سے روایات وارد ہیں جو ہم درج کر رہے ہیں۔

2002

۲۰۰۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ " کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَجْمَعُ بَیْنَ السُّوْرَتَیْنِ فِی الرَّکْعَۃِ الْوَاحِدَۃِ، مِنْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ " .
٢٠٠٢: نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) دو سورتوں کو ایک رکعت میں جمع فرماتے اور وہ نماز بھی مغرب کی ہوتی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٦٩۔

2003

۲۰۰۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، وَمُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ بِالسُّوْرَتَیْنِ وَالثَّلَاثِ فِیْ رَکْعَۃٍ .
٢٠٠٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ ایک رکعت میں دو یا تین سورتیں پڑھتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٣۔

2004

۲۰۰۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، مِثْلَہٗ .وَزَادَ " وَکَانَ یَقْسِمُ السُّوْرَۃَ الطَّوِیْلَۃَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ مِنَ الْمَکْتُوْبَۃِ " .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ وَغَیْرِہٖ، مَا دَلَّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنَی .
٢٠٠٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی اور یہ اضافہ ذکر کیا کہ طویل سورة کو فرائض کی دو رکعتوں میں تقسیم فرما لیتے اور ایسی روایات حضرت عمر (رض) اور دیگر صحابہ (رض) سے بھی آئی ہیں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٦٩۔

2005

۲۰۰۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِمَکَّۃَ، الْفَجْرَ فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی بِـ" سُوْرَۃِ یُوْسُفَ " حَتّٰی بَلَغَ (وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ) [یوسف : ۸۴] ثُمَّ رَکَعَ .
٢٠٠٥: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر (رض) نے مکہ مکرمہ میں فجر کی نماز پڑھائی چنانچہ آپ نے پہلی رکعت میں سورة یوسف پڑھی جو اس آیت تک تھی ۔ وابیضت عیناہ من الحزن فہو کظیم (یوسف۔ ٨٤) پھر رکوع کیا۔
تخریج : مصنف ابی ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٥٣‘ ٣٥٤۔

2006

۲۰۰۶: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ، قَالَ : حَجَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ مِنَ الْمَغْرِبِ " أَلَمْ تَرَ " وَ " لِاِیْلَافِ " .
٢٠٠٦: عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ حج کیا آپ نے مغرب کی پہلی رکعت میں الم ترکیف الفیل۔ اور ایلاف پڑھی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٥٨۔

2007

۲۰۰۷: وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، فَافْتَتَحَ " الْأَنْفَالَ " حَتَّی انْتَہَی إِلَی : (نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ) [الانفال : ۴۵] ثُمَّ رَکَعَ .
٢٠٠٧: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ (رض) کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی آپ نے سورة انفال شروع کی اور نعم المولی و نعم النصیر (الانفال۔ ٤٠) آخر تک پڑھی پھر رکوع کیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ١؍٣٥٩۔

2008

۲۰۰۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ، قَالَ : کَانَ تَمِیْمٌ الدَّارِیُّ یُحْیِی اللَّیْلَ کُلَّہُ بِالْقُرْآنِ کُلِّہِ، فِیْ رَکْعَۃٍ .
٢٠٠٨: ابن سیرین نقل کرتے ہیں کہ تمیم داری تمام رات قرآن مجید پڑھتے اور ایک رکعت میں سارا قرآن پڑھتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٥٠٢۔

2009

۲۰۰۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الضُّحَیْ یُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوْقٍ، قَالَ : قَالَ لِیْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ : (ھٰذَا مَقَامُ أَخِیک تَمِیْمٍ الدَّارِیِّ، لَقَدْ رَأَیْتَہٗ قَامَ لَیْلَۃً حَتّٰی أَصْبَحَ أَوْ کَادَ أَنْ یُصْبِحَ، یَقْرَأُ آیَۃً، یَرْکَعُ بِہَا وَیَسْجُدُ، وَیَبْکِیْ (أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ) [الجاثیۃ : ۲۱] الْآیَۃَ .
٢٠٠٩: مسروق کہتے ہیں کہ مجھے ایک مکی نے کہا یہ جگہ تمہارے بھائی تمیم داری (رض) کی ہے میں نے ان کو دیکھا کہ ایک رات صبح تک قیام کیا یا قریب تھا کہ صبح ہوجاتی وہ ایک ہی آیت پڑھتے اس پر رکوع اور سجدہ کرتے اور روتے۔ وہ آیت یہ تھی ام حسب الذین اجترحوا السیات (الجاثیہ ٢١)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٤٧٧۔

2010

۲۰۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّہٗ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِیْ رَکْعَۃٍ .
٢٠١٠: اسحاق بن سعید نے سعید سے انھوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے کہ ابن زبیر نے ایک رکعت میں قرآن مجید پڑھا۔

2011

۲۰۱۱: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ : أَنَّہٗ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِیْ رَکْعَۃٍ، فِی الْبَیْتِ .
٢٠١١: حماد نے سعید بن جبیر سے نقل کیا کہ انھوں نے بیت اللہ میں ایک رکعت میں قرآن مجید پڑھا۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍١٤٨۔

2012

۲۰۱۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : (أَمَّنَا فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ، فَوَصَلَ بِ " سُوْرَۃِ الْفِیْلِ (لِاِیْلَافِ قُرَیْشٍ) فِیْ رَکْعَۃٍ) .وَھٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْنَا، مَعَ تَوَاتُرِ الرِّوَایَۃِ فِیْہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَثْرَۃِ مَنْ ذَہَبَ إِلَیْہِ مِنْ أَصْحَابِہٖ، وَمِنْ تَابِعِیْہِمْ، ہُوَ النَّظَرُ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ تُقْرَأُ، وَسُوْرَۃٌ غَیْرُہَا فِیْ رَکْعَۃٍ، وَلَا یَکُوْنُ بِذٰلِکَ بَأْسٌ، وَلَا یَجِبُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، لِأَنَّہَا سُوْرَۃٌ، رَکْعَۃٌ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ مَا سِوَاہَا مِنَ السُّوَرِ، لَا یَجِبُ أَیْضًا لِکُلِّ سُوْرَۃٍ مِنْہُ رَکْعَۃٌ .وَھٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٠١٢: مغیرہ نے ابراہیم کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے مغرب کی نماز میں ہماری امامت کرائی تو ایک رکعت میں سورة الفیل اور ایلاف پڑھی۔ یہ متواتر روایات جو ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و عمل اور کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے نقل کیا اور انھوں نے اس پر عمل کیا اور تابعین نے اپنایا یہ قیاس و نظر کا تقاضا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فاتحہ الکتاب اور اس کے علاوہ کوئی سورت ایک رکعت میں پڑھی جاتی ہے اور اس میں کسی کے ہاں بھی حرج نہیں اور وہ فاتحہ الکتاب کی وجہ سے لازم نہیں ہوئی کیونکہ یہ تو ہر رکعت کی سورت ہے۔ پس اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دیگر سورتوں کا یہی حکم ہو۔ ہر سورت کے لیے ایک رکعت کا ہونا واجب نہ ہو (بلکہ ایک رکعت میں کئی سورتیں پڑھی جاسکیں) یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
حاصل روایات : متواتر روایات اور صحابہ وتابعین کی اکثریت کے عمل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دو سورتوں کا ایک رکعت میں جمع کرنا جائز ہے اس میں کوئی کراہت نہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
اگر غور کریں تو عقلی تقاضہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے ہم سورة فاتحہ اور ایک سورة اس کے ساتھ ایک رکعت میں ملاتے ہیں اور اس میں ذرہ بھر حرج نہیں سمجھتے اور نہ فاتحہ الکتاب سے یہ لازم آتا ہے کیونکہ یہ ایک سورة ہے تو اس کے لیے ایک رکعت ضروری ہے اسی طرح باقی سورتوں کے لیے بھی لازم نہیں کہ ہر سورة کے لیے ایک رکعت ہو۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی مذہب ہے۔
نوٹ : اس باب میں دلائل کی ترتیب عجیب ہے کہ دو سورتوں کا ایک رکعت میں پڑھنے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے دو ضمنی مسئلے کہ سورة کا بعض حصہ پڑھنے سے بھی نماز میں فرق نہ پڑے گا اور ایک رکعت میں پورا قرآن مجید پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا ان مسائل کی روایات آثار صحابہ وتابعین سے واضح کیا اور آخر میں نظری دلیل بھی پیش کی۔ دراصل جب پورے قرآن مجید کے ایک رکعت میں پڑھنے کا ثبوت مل گیا جو کہ ١١٤ سورتیں ہیں تو دو سورتوں کے جمع کرنے میں کیا قباحت رہی۔ فتدبر ما اعجب فکرہ۔

2013

۳ ۲۰۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ، وَہُوَ ابْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرِ ڑالْحَضْرَمِیِّ عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ، قَالَ : (صُمْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، وَلَمْ یَقُمْ بِنَا، حَتّٰی بَقِیَ سَبْعٌ مِنَ الشَّہْرِ .فَلَمَّا کَانَتْ اللَّیْلَۃُ السَّابِعَۃُ خَرَجَ فَصَلّٰی بِنَا، حَتَّیْ مَضَی ثُلُثُ اللَّیْلِ، ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ بِنَا السَّادِسَۃَ، حَتّٰی خَرَجَ لَیْلَۃَ الْخَامِسَۃِ، فَصَلّٰی بِنَا حَتَّیْ مَضٰی شَطْرُ اللَّیْلِ .فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا؟ فَقَالَ : إِنَّ الْقَوْمَ اِذَا صَلَّوْا مَعَ الْاِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ، کُتِبَ لَہُمْ قِیَامُ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ بِنَا الرَّابِعَۃَ حَتّٰی اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ الثَّالِثَۃِ، خَرَجَ وَخَرَجَ بِأَہْلِہِ، فَصَلّٰی بِنَا حَتّٰی خَشِیْنَا أَنْ یَفُوْتَنَا الْفَلاَحُ، قُلْتُ : وَمَا الْفَلاَحُ .قَالَ : السُّحُوْرُ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْقِیَامَ مَعَ الْاِمَامِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ، أَفْضَلُ مِنْہُ فِی الْمَنَازِلِ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا: إِنَّہُ (مَنْ قَامَ مَعَ الْاِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ، کُتِبَ لَہٗ قُنُوْتُ بَقِیَّۃِ لَیْلَتِہِ) .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلْ صَلَاتُہُ فِیْ بَیْتِہِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہٖ مَعَ الْاِمَامِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ، أَنَّ مَا احْتَجُّوْا بِہٖ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّہُ (مَنْ قَامَ مَعَ الْاِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَہٗ قُنُوْتُ بَقِیَّۃِ لَیْلَتِہِ) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : وَلٰـکِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا أَنَّہٗ قَالَ : (خَیْرُ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہِ، إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ) ، فِیْ حَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ .وَذٰلِکَ لَمَّا کَانَ قَامَ بِہِمْ لَیْلَۃً فِیْ رَمَضَانَ فَأَرَادُوْا أَنْ یَقُوْمَ بِہِمْ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَالَ لَہُمْ ھٰذَا الْقَوْلَ .فَأَعْلَمَہُمْ بِہٖ أَنَّ صَلَاتَہُمْ فِیْ مَنَازِلِہِمْ وُحْدَانًا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہِمْ مَعَہٗ فِیْ مَسْجِدِہِ، فَصَلَاتُہُمْ تِلْکَ فِیْ مَنَازِلِہِمْ أَحْرَیْ أَنْ یَکُوْنَ أَفْضَلَ مِنَ الصَّلَاۃِ مَعَ غَیْرِہِ فِیْ غَیْرِ مَسْجِدِہٖ .فَتَصْحِیْحُ ہٰذَیْنِ الْأَثَرَیْنِ، یُوْجِبُ أَنَّ حَدِیْثَ أَبِیْ ذَرٍّ ہُوَ عَلٰی أَنْ یُکْتَبَ لَہٗ بِالْقِیَامِ مَعَ الْاِمَامِ، قُنُوْتُ بَقِیَّۃِ لَیْلَتِہٖ .وَحَدِیْثُ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، یُوْجِبُ أَنَّ مَا فَعَلَ فِیْ بَیْتِہِ ہُوَ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ ھٰذَانِ الْأَثَرَانِ .
٢٠١٣: جبیر بن نفیر حضرمی نے ابو ذر (رض) سے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اور ہمیں قیام لیل کرایا یہاں تک کہ جب تیسویں رات آئی تو آپ نے نکل کر ہمیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ رات کا ثلث گزر گیا پھر ہمیں اگلے روز (چوبیسویں کو نماز نہ پڑھائی یہاں تک کہ پچیس کی رات نکل کر نماز پڑھائی یہاں تک کہ رات کا ایک حصہ گزر گیا ہم نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کاش آپ ہمیں نفل نماز پڑھاتے آپ نے فرمایا جب لوگ امام کے ساتھ نماز پڑھ کر لوٹتے ہیں تو ان کے لیے اس رات کا قیام لکھ دیا جاتا ہے پھر چھبیس کی رات آپ نے ہمیں نماز نہ پڑھائی جب ستائیسویں کی رات آئی آپ خود گھر والوں سمیت نکلے آپ نے ہمیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خطرہ ہوگیا کہ سحری فوت ہوجائے گی۔ ابو ذر (رض) نے فلاح کا معنی سحری بتلایا ہے۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ رمضان کی رات مسجد میں قیام نسبت گھروں میں قیام کے افضل ہے۔ ان کا استدلال جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے ہے کہ جو شخص مسجد میں قیام کر کے لوٹا تو اسے بقیہ رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔ مگر دوسری جماعت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ گھر میں قیام رمضان ‘ مسجد میں پڑھنے سے افضل ہے۔ فریق اوّل کی یہ دلیل کو جو شخص امام کے ساتھ قیام کر کے لوٹا تو اس کو بقیہ رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔ اس کے قول رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے میں کلام نہیں ‘ مگر آپ کا یہ ارشاد بھی تو ہے : ” خیر صلوۃ المرء فی بیتہٖ الا المکتبوبۃ “ نفل نماز گھر میں افضل ہے البتہ فرض نماز۔ یہ حضرت زید بن ثابت (رض) کی روایت میں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ نے ان کے ساتھ رمضان المبارک کی رات میں کیا اور ان کی چاہت یہ تھی کہ آپ اور بھی نماز پڑھائیں ‘ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی۔ آپ نے تو ان کو بتلایا کہ ان کا گھر نماز پڑھنا ان کے مسجد میں نماز سے افضل ہے۔ تو یہ نماز اس لائق ہے کہ اسے گھر میں ادا کیا جائے۔ ان دونوں کو تضاد سے محفوظ کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ روایت ابو ذر (رض) سے امام کے ساتھ قیام سے بقیہ رات کے قیام کا ثواب ملنا ثابت ہوا اور زید بن ثابت (رض) کی روایت سے گھر میں پڑھنے ک افضلیت ثابت ہوئی۔
اللغات : السادسہ سے ٢٤ رمضان السابعہ تئیس رمضان الخامسہ سے ٢٥ رمضان الفلاح سحری۔
تخریج : ابو داؤد فی رمضان باب ١‘ نمبر ١٣٧٥‘ ترمذی فی الصوم باب ٨١‘ نمبر ٨٠٦‘ نسائی فی السہو باب ١٠٣‘ قیام لیل باب ٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٧٣‘ نمبر ١٣٢٧ مسند احمد ٥؍١٥٩۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو مسجد میں تراویح پڑھائی ہیں معلوم ہوا کہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے اور اس سے قیام لیل کا ثواب بھی مفت میں مل جاتا ہے۔
مؤقف ثانی : رمضان میں تراویح گھر میں افضل ہے دلیل ملاحظہ ہو۔
خلاصہ الزام :
تراویح کی رکعات کی تعداد کتنی ہے اور تراویح مسجد میں افضل یا تنہا گھر میں۔
نمبر 1: اہل ظواہر آٹھ رکعت۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور جمہور بیس رکعت تراویح مانتے ہیں تراویح مسجد میں افضل ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ شافعی ‘ احمد بن حنبل (رح) کا مسلک ہے۔ امام مالک ابراہیم نخعی گھر میں افضل مانتے ہیں۔
تراویح کی تعداد کے متعلق صرف حضرت ابن عباس (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں۔ ان رسول اللہ ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر الحدیث۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ص ٣٩٤ ج ٢۔
مؤقف اول : تراویح مسجد میں باجماعت افضل ہے دلیل یہ ہے۔

2014

۲۰۱۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَا : ثَنَا عَفَّانَ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ یُحَدِّثُ عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَرَ حُجْرَۃً فِی الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِیْرٍ، فَصَلّٰی فِیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَالِیَ، حَتَّی اجْتَمَعَ إِلَیْہِ نَاسٌ ثُمَّ فَقَدُوْا صَوْتَہُ، فَظَنُّوْا أَنَّہٗ قَدْ نَامَ، فَجَعَلَ بَعْضُہُمْ یَتَنَحْنَحُ لِیَخْرُجَ إِلَیْہِمْ، فَقَالَ : مَا زَالَ بِکُمْ الَّذِیْ رَأَیْتُ مِنْ صَنِیعِکُمْ مُنْذُ اللَّیْلَۃِ، حَتّٰی خَشِیْتُ أَنْ یُکْتَبَ عَلَیْکُمْ قِیَامُ اللَّیْلِ، وَلَوْ کُتِبَ عَلَیْکُمْ، مَا قُمْتُمْ بِہٖ، فَصَلُّوْا - أَیُّہَا النَّاسُ- فِیْ بُیُوْتِکُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہِ، إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ) .
٢٠١٤: بشر بن سعید نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لیے مسجد میں چٹائی کا حجرہ بنایا اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی راتیں نماز ادا کی یہاں تک کہ لوگ جمع ہوئے تو انھوں نے آپ کی آواز کو گم پایا انھوں نے خیال کیا کہ آپ سو گئے ہیں بعض لوگ کھنگارنے لگے تاکہ آپ آواز سن کر نکل آئیں آپ نے فرمایا مجھے تمہاری طرف سے جو طرز عمل تھا وہ سامنے رہا یہاں تک کہ مجھے قیام لیل کے فرض ہونے کا خطرہ ہوا اگر وہ تم پر فرض ہوجاتا تو تم نہ کرتے۔ اے لوگو ! اپنے گھروں میں نماز ادا کرو بیشک فرض نماز کے علاوہ آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں ادا کی جائے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٨١‘ والللباس باب ٤٣‘ الادب باب ٧٥‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٢١٣‘ ابو داؤد فی الوتر باب ١١‘ نمبر ١٠٤٤‘ نسائی فی القبلہ باب ١٣‘ مسند احمد ٥؍١٨٧۔

2015

۲۰۱۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَرْدَانُ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ فُلَانٍ، وَہُوَ ابْنُ أَبِی النَّضْرِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِیَّ ا قَالَ : (صَلَاۃُ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہِ فِیْ مَسْجِدِی ھٰذَا إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ).
٢٠١٥: بشر بن سعید نے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کی نماز اپنے گھر میں میری اس مسجد میں نماز سے افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٠١٤۔

2016

۲۰۱۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ وَأَبُو الْأَسْوَدِ، قَالَا : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ أَبِی النَّضْرِ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ أَفْضَلَ صَلَاۃِ الْمَرْئِ، صَلَاتُہُ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ) .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِیْ ذٰلِکَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ بَابِ التَّطَوُّعِ فِی الْمَسَاجِدِ .فَثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ مَعَانِی ھٰذِہِ الْآثَارِ، مَا ذَکَرْنَاہُ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُوَافِقُ مَا صَحَّحْنَاہَا عَلَیْہِ .
٢٠١٦ : بشیر بن سعید نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی کی فرض نماز کے علاوہ افضل ترین نماز گھر میں ہے۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کے علاوہ دیگر صحابہ کرام (رض) سے بھی یہ روایت ثابت ہے جس کو ہم (باب التطوع فی المساجد) میں ذکر کر آئے ہیں۔ ان آثار کے معانی کی تصحیح کا تقاضا یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ صحابہ کرام سے یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ثابت ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : ٢٠١٤ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : خیر صلوۃ المرء فی بیتہ الا المکتوبہ ثابت کررہا ہے کہ افضل نفل نماز گھر میں ہے اور وہ اکیلے پڑھی جائے گی آپ نے ان کو اپنے عمل سے سمجھایا کہ میرے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے اور زید بن ثابت والی روایت بتلا رہی ہے کہ جو آپ نے گھر میں کیا وہ اس سے افضل ہے (جو مسجد میں کیا) پس گھر میں نفل نماز کا ثواب زیادہ ہونا ثابت ہوا۔

2017

۲۰۱۷: فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، أَنَّہٗ کَانَ لَا یُصَلِّیْ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ رَمَضَانَ .
٢٠١٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ ابن عمر رمضان میں امام کے پیچھے رمضان میں قیام نہ کرتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٣٩٦۔

2018

۲۰۱۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : أُصَلِّیْ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ : أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ .قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : صَلِّ فِیْ بَیْتِک .
٢٠١٨: مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہا کہ میں رمضان امام کے پیچھے پڑھوں ؟ تو انھوں نے پوچھا کیا تو قرآن پڑھ سکتا ؟ یعنی قرآن یاد ہے۔ اس نے کہا جی ہاں۔ فرمایا پھر اپنے گھر میں پڑھو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٣٩٧۔

2019

۲۰۱۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، وَمُغِیْرَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : لَوْ لَمْ یَکُنْ مَعِیْ إِلَّا سُوْرَتَیْنِ لَرَدَّدْتُہُمَا، أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَقُوْمَ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ رَمَضَانَ.
٢٠١٩: ابو حمزہ اور مغیرہ دونوں نے ابراہیم کے متعلق نقل کیا کہ وہ کہتے تھے اگر مجھے دو ہی سورتیں یاد ہوتیں تو میں ان کو دھراتا رہتا اور یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں امام کے پیچھے رمضان میں قیام کروں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٣٩٧۔

2020

۲۰۲۰: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِیْرَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : کَانَ الْمُتَہَجِّدُوْنَ یُصَلُّوْنَ فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ، وَالْاِمَامُ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ فِیْ رَمَضَانَ .
٢٠٢٠: مغیرہ نے ابراہیم کے متعلق نقل کیا کہ تہجد گزار مسجد کی ایک جانب نماز پڑھتے اور امام رمضان میں لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہوتا تھا۔

2021

۲۰۲۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : کَانُوْا یُصَلُّوْنَ فِیْ رَمَضَانَ، فَیَؤُمُّہُمْ الرَّجُلُ، وَبَعْضُ الْقَوْمِ یُصَلِّیْ فِی الْمَسْجِدِ وَحْدَہُ .قَالَ شُعْبَۃُ : سَأَلْتُ إِسْحَاقَ بْنَ سُوَیْدٍ عَنْ ھٰذَا، فَقَالَ : کَانَ الْاِمَامُ ہَاہُنَا یَؤُمُّنَا، وَکَانَ لَنَا صَفٌّ یُقَالُ لَہٗ : صَفُّ الْقُرَّائِ، فَنُصَلِّی وُحْدَانًا وَالْاِمَامُ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ .
٢٠٢١: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ لوگ رمضان میں نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور ان کی امامت خاص آدمی کرا رہا ہوتا تھا ادھر بعض لوگ مسجد میں اکیلے نماز پڑھ رہے ہوتے تھے شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے اسحاق بن سوید سے اس کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگے امام ہمیں یہاں امامت کراتا اور ہماری ایک صف ہوتی جس کو قراء کی صف کہا جاتا پس ہم اکیلے نماز پڑھتے جبکہ امام لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہوتا تھا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٩٦۔

2022

۲۰۲۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ .ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : لَوْ لَمْ یَکُنْ مَعِی إِلَّا سُوْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ، لَکُنْتُ أَنْ أُرَدِّدَہَا، أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَقُوْمَ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ رَمَضَانَ۔
٢٠٢٢: ابو حمزہ نے ابراہیم سے نقل کیا اگر مجھے ایک سورت آتی ہوتی تو میں اسی کو دھراتا اور ایک سورت بار بار پڑھنا مجھے امام کے پیچھے رمضان میں نماز پڑھنے سے زیادہ پسند ہے۔

2023

۲۰۲۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَفَہْدٌ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَۃَ، أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ النَّاسِ فِیْ رَمَضَانَ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ إِلٰی مَنْزِلِہٖ، فَلاَ یَقُوْمُ مَعَ النَّاسِ .
٢٠٢٣: ابوالاسود نے عروہ کے متعلق بیان کیا کہ وہ لوگوں کے ساتھ رمضان میں فرض نماز پڑھتے پھر اپنے گھر لوٹ آتے اور لوگوں کے ساتھ قیام نہ کرتے۔

2024

۲۰۲۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، قَالَ : لَا أَعْلَمُہُ إِلَّا عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ، کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمَضَانَ فِی الْمَسْجِدِ وَحْدَہُ، وَالْاِمَامُ یُصَلِّیْ بِہِمْ فِیْہِ .
٢٠٢٤: ابو بشر کہتے ہیں کہ سعید بن جبیر رمضان میں مسجد میں اکیلے نماز پڑھتے جبکہ امام لوگوں کو اس میں نماز پڑھا رہا تھا۔

2025

۲۰۲۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا أَنَسٌ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ : رَأَیْتُ الْقَاسِمَ، وَسَالِمًا، وَنَافِعًا یَنْصَرِفُوْنَ مِنَ الْمَسْجِدِ فِیْ رَمَضَانَ، وَلَا یَقُوْمُوْنَ مَعَ النَّاسِ .
٢٠٢٥: عبیداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے قاسم ‘ سالم ‘ نافع کو دیکھا کہ وہ رمضان میں مسجد سے واپس لوٹ رہے ہیں اور وہ لوگوں کے ساتھ قیام رمضان نہ کرتے تھے۔

2026

۲۰۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَیْمٍ، قَالَ : أَتَیْتُ مَکَّۃَ، وَذٰلِکَ فِیْ رَمَضَانَ، فِیْ زَمَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ، فَکَانَ الْاِمَامُ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ فِی الْمَسْجِدِ، وَقَوْمٌ یُصَلُّوْنَ عَلَی حِدَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ .بِہٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ رَوَیْنَا عَنْہُمْ مَا رَوَیْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، کُلُّہُمْ یُفَضِّلُ صَلَاتَہُ وَحْدَہُ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ، عَلَی صَلَاتِہٖ مَعَ الْاِمَامِ، وَذٰلِکَ ہُوَ الصَّوَابُ .
٢٠٢٦: اشعث بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ آیا اور یہ رمضان المبارک کے دن تھے اور حضرت عبداللہ بن زبیر کی حکومت کا زمانہ تھا مسجد میں امام لوگوں کو نماز پڑھا رہا تھا اور کچھ لوگ اکیلے مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔
حاصل روایات : آثار سے یہ بات واضح ہوئی کہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کی بجائے اکیلے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے اور یہی درست ہے۔
نتیجہ : ائمہ اربعہ جمہور صحابہ وتابعین کا مسلک یہی ہے کہ رمضان میں تراویح مسجد میں پڑھنا افضل ہے حضرت فاروق اعظم (رض) نے اپنے زمانے میں مسجد میں الگ جماعتوں میں پڑھنے والے صحابہ وتابعین کو ابی بن کعب اور تمیم داری کے پیچھے جمع کردیا تھا۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) کا خود اپنا رجحان فریق ثانی کی طرف ہے اس لیے ان کے دلائل خوب زور دار انداز سے پیش کئے اگرچہ یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت رمضان میں امام کے پیچھے ہی قیام رمضان کرتی تھی بعض افراد کا یہ طرز عمل تھا جو انھوں نے نقل کیا جمہور کا مسلک اور تابعیں و صحابہ کی اکثریت وہ مسجد ہی میں قیام رمضان کرتے تھے ائمہ کے احترام کے طور پر اسماء گرامی ذکر کرنے کے بغیر اس باب میں مسالک کا تذکرہ کیا یہ باب بھی نظر سے خالی ہے۔

2027

۲۰۲۷:؟ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ صَخْرٍ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : (عَرَضَتْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّجْمُ فَلَمْ یَسْجُدْ أَحَدٌ مِنَّا) :
٢٠٢٧: خارجہ بن زید نے اپنے والد زید بن ثابت سے نقل کیا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة نجم سنائی پس ہم میں سے کسی ایک نے بھی سجدہ نہیں کیا۔
تخریج : بخاری فی سجودالقرآن باب ٦‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٠٦۔
یہ جلیل القدر صحابہ کرام (رض) ہیں جو سجدہ تلاوت کو واجب قرار نہیں دیتے۔ ہمارے نزدیک قیاس اسی بات کا متقاضی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ جب مسافر آیت سجدہ تلاوت کرلے اور وہ سواری پر ہو تو وہ اشارہ کرلے اس پر ضروری نہیں کہ وہ زمین پر اتر کر سجدہ کرے اور یہ فصلت نفل میں ہے فرض میں نہیں ‘ اس لیے فرض نماز تو بالاتفاق زمین پر ادا ہوتی ہے اور نفل تو سواری کی حالت میں کیف ما تفق ادا ہوجائے۔ ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کے ہاں سجدہ تلاوت واجب ہے۔ ہم نے جو بیان کیا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت ابی (رض) کی پیش کردہ روایت میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں کہ مفصلات میں سجدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے سجدہ سے متعلق کلا م میں کئی احتمالات ہیں جو ہم فصل اوّل میں ذکر کرچکے ان میں سے ایک کے مطابق معنی ہوگا جس کو ہم نے حضرت عمر ‘ سلمان ‘ ابن الزبیر (رض) سے بیان کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مفصل کے علاوہ سجدات کو بھی ان وجوہ سے چھوڑا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابی (رض) نے جو رائے اختیار کی ہے اس کے خلاف صحابہ کرام کی ایک جماعت کے اقوال موجود ہیں جو درج ذیل ہیں۔
سجدہ تلاوت میں تین اختلاف ہیں۔
اختلاف اول : سنت ہے یا واجب۔ حضرت عمر (رض) ابن عمر (رض) امام مالک و شافعی و احمد (رح) کے ہاں سنت ہے۔ ابوحنیفہ (رح) کے ہاں واجب ہے۔
اختلاف دوم : کل قرآن میں کتنے سجدے ہیں امام احمد کے ہاں پندرہ ۔ امام مالک کے ہاں گیارہ۔ امام ابوحنیفہ و شافعی کے ہاں چودہ ہیں۔ البتہ ابوحنیفہ حج میں ایک سجدہ اور ایک ص میں مانتے ہیں امام شافعی دونوں حج میں مانتے ہیں۔
اختلاف سوم : مقصود باب یہی مسئلہ ہے امام مالک و حسن بصری (رح) مفصلات میں سجدہ کے قائل نہیں اسی لیے نجم ‘ انشقاق ‘ علق میں سجدہ نہیں امام ابوحنیفہ و شافعی و احمد (رح) مفصلات میں سجدہ کو لازم قرار دیتے ہیں۔
اختلاف سوم میں مؤقف فریق اوّل : مفصلات میں سجدہ نہیں ہے دلیل ملاحظہ ہو۔

2028

۲۰۲۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ، قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ، قَالَ : أَنَا أَبُوْ صَخْرٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٠٢٨: حیوہ بن شریح سے خبر دی کہ ابو صخرہ نے بتلایا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ١؍١٤٦۔

2029

۲۰۲۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ح .
٢٠٢٩: ابو بکرہ کہتے ہیں ہمیں روح نے اور وہ ابن ابی ذئب سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٩٩‘ ترمذی ١؍١٢٧۔

2030

۲۰۳۰: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ قَوْمٌ فَقَلَّدُوْہُ، فَلَمْ یَرَوْا فِی " النَّجْمِ " سَجْدَۃً .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : بَلْ فِیْہَا سَجْدَۃٌ، وَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ دَلِیْلٌ - عِنْدَنَا - عَلٰی أَنَّہٗ لَا سُجُوْدَ فِیْہَا، لِأَنَّہٗ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ تَرْکُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السُّجُوْدَ فِیْہَا حِیْنَئِذٍ ؛ لِأَنَّہٗ کَانَ عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ فَلَمْ یَسْجُدْ لِذٰلِکَ .وَیُحْتَمَلُ أَنَّہٗ تَرَکَہٗ لِأَنَّہٗ کَانَ فِیْ وَقْتٍ لَا یَحِلُّ فِیْہِ السُّجُوْدُ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ تَرْکُہُ، لِأَنَّ الْحُکْمَ کَانَ عِنْدَہٗ فِیْ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ، أَنَّ مَنْ شَائَ سَجَدَ، وَمَنْ شَائَ تَرَکَہُ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ تَرَکَہُ، لِأَنَّہٗ لَا سُجُوْدَ فِیْہَا .فَلَمَّا احْتَمَلَ تَرْکُہُ لِلسُّجُوْدِ کُلَّ مَعْنَی مِنْ ھٰذِہِ الْمَعَانِیْ، لَمْ یَکُنْ ھٰذَا الْحَدِیْثُ بِمَعْنًی مِنْہَا، أَوْلٰی مِنْ صَاحِبِہٖ إِلَّا بِدَلَالَۃٍ تَدُلُّ عَلَیْہِ مِنْ غَیْرِہٖ .وَلَکِنَّا نَحْتَاجُ إِلٰی أَنْ نُفَتِّشَ مَا بَعْدَ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنَ الْأَحَادِیْثِ لِنَلْتَمِسَ حُکْمَ ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ، ہَلْ فِیْہَا سُجُوْدٌ أَوْ لَا سُجُوْدَ فِیْہَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ .ح .
٢٠٣٠: عطاء بن یسار نے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ بعض علماء نے گزشتہ آثار کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ سورة نجم میں سجدہ نہیں ہے۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سجدہ لازم ہے اور روایات بالا میں سورة نجم میں سجدہ کے نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں کئی احتمالات ہیں : (١) آپ نے اس وقت سجدہ وضوء کی حالت نہ ہونے کی وجہ سے ترک کیا ہو (٢) وہ ایسا وقت ہو جس میں سجدہ جائز نہ ہو (٣) اس لیے چھوڑ دیا کہ آپ کے ہاں سجدہ کا اس وقت یہ ہو کہ جو چاہے اس کو کرلے اور جو چاہے چھوڑ دے (٤) یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں سجدہ اس لیے ترک کیا کہ اس میں سجدہ نہیں۔ جب سجدہ کے ترک میں یہ تمام احتمالات جاری ہیں اور یہ روایت دوسری روایات سے اولیٰ اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اس میں ایسی دلالت نہ ہو جو اسے دوسری سے راجح بنا دے۔ لیکن اس کے لیے ان احادیث کو دیکھنا اور تلاش کرنا ہوگا جو اس میں سجدہ کے ہونے نہ ہونے پر دلالت کریں۔ روایات ذیل پر نظر ڈالیں۔
تخریج : نسائی ١؍١٥٢‘ مسلم ١؍٢١٥‘ نحوہ۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور صحابہ کرام نے سجدہ نہیں کیا تو سورة نجم میں سجدہ نہیں کیا اور تمام مفصلات کا حکم یکساں ہے۔
جواب دلیل بالا : اس روایت میں ان کے مؤقف کی ہمارے نزدیک کوئی دلیل نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دلیل میں احتمالات ہیں۔
احتمال نمبر 1: ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ اس لیے چھوڑ دیا ہو کہ آپ وضو کی حالت میں نہ ہوں پس سجدہ نہیں کیا۔
احتمال نمبر 2: اس لیے چھوڑا کہ وہ ایسا وقت تھا جس میں سجدہ درست نہیں۔
احتمال نمبر 3: اس لیے چھوڑا کہ سجدہ تلاوت کا حکم آپ کے ہاں یہ ہو کہ جو چاہے سجدہ کرے جو چاہے چھوڑ دے۔
احتمال نمبر 4: آپ نے اس لیے چھوڑا ہو کہ اس سورت میں سجدہ نہیں۔ جب اس روایت میں یہ چاروں احتمال یکساں طور پر ثابت ہو رہے ہیں تو کسی ایک احتمال کو ترجیح دینے کے لیے دلیل راجح کی ضرورت ہے۔
تعین احتمال کے لیے دلیل کی تلاش :
ہم نے ایک احتمال کے متعین کرنے کے لیے دلیل کی تلاش کی تو ایسی روایات مل گئیں جو سورة النجم میں سجدہ کو ثابت کرتی ہیں چنانچہ ملاحظہ ہو۔

2031

۲۰۳۱: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ وَالنَّجْمِ فَسَجَدَ فِیْہَا، فَلَمْ یَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ، إِلَّا شَیْخٌ کَبِیْرٌ، أَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَقَالَ : ھٰذَا یَکْفِیْنِیْ .قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : وَلَقَدْ رَأَیْتَہٗ بَعْدُ، قُتِلَ کَافِرًا) .
٢٠٣١: اسود نے عبداللہ سے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور جتنے لوگ موجود تھے سب نے سجدہ کیا پس ایک بڈھا رہ گیا جس نے مٹی کی ایک مٹھی لے کر اپنے ماتھے سے لگائی اور کہنے لگا مجھے یہی کافی ہے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کو بعد میں کفر کی حالت میں قتل ہوتے دیکھا۔
تخریج : بخاری فی سجود القرآن باب ١‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٠٥۔

2032

۲۰۳۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبِ ڑالزُّہْرِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَبِ النَّجْمِ فَسَجَدَ وَسَجَدَ مَعَہُ الْمُسْلِمُوْنَ وَالْمُشْرِکُوْنَ حَتّٰی سَجَدَ الرَّجُلُ عَلَی الرَّجُلِ، وَحَتّٰی سَجَدَ الرَّجُلُ عَلٰی شَیْئٍ رَفَعَہٗ إِلَی وَجْہِہٖ بِکَفِّہٖ).
٢٠٣٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة نجم کی تلاوت فرمائی پھر سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمان اور کافر بھی سجدہ میں پڑگئے یہاں تک کہ آدمیوں نے ایک دوسرے پر سجدہ کیا اور ایک آدمی نے اس چیز پر سجدہ کیا جو اس نے چہرے کی طرف اپنے ہاتھ سے بلند کی۔
تخریج : بخاری فی سجودالقرآن باب ١٢‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٠٣‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ١٢؍٣٦٥۔

2033

۲۰۳۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ وَالنَّجْمِ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ مَعَہٗ إِلَّا رَجُلَیْنِ أَرَادَا الشُّہْرَۃَ) .
٢٠٣٣: محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم کی تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ سب نے سجدہ کیا مگر دو آدمیوں نے شہرت کی خاطر سجدہ نہ کیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٨۔

2034

۲۰۳۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَسْعُوْدِ ڑالْخَیَّاطُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَیْنٍ، عَنْ ہِشَامٍ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ وَالنَّجْمِ فَسَجَدَ وَسَجَدَ مَعَہٗ مَنْ حَضَرَہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالشَّجَرِ) .
٢٠٣٤: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم پڑھی پس آپ نے سجدہ کیا تو آپ کے ساتھ جو جن و انس اور درخت موجود تھے سب نے سجدہ کیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٧‘ ٨۔

2035

۲۰۳۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ثَابِتِ ڑالْمَدَنِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الْعَلَائِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، (أَنَّہٗ رَأَیْ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَجَدَ فِی خَاتِمَۃِ النَّجْمِ قَالَ أَبُوْ سَلَمَۃَ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ، رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہَا؟ قَالَ : لَوْلَا أَنِّی رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہَا لَمَا سَجَدْتُ فِیْہَا) .
٢٠٣٥: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے سورة نجم کے اختتام پر سجدہ کیا ابو سلمہ کہتے ہیں میں نے پوچھا۔ اے ابوہریرہ (رض) ! کیا تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة نجم میں سجدہ کرتے دیکھا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا اگر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں سجدہ کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں سجدہ نہ کرتا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٧۔

2036

۲۰۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِلَالٍ، عَمَّنْ أَخْبَرَہُ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ، قَالَ : (سَجَدْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِحْدٰی عَشْرَۃَ سَجْدَۃً، مِنْہُنَّ النَّجْمُ) .
٢٠٣٦: سعید بن بلال نے اس سے بیان جنہوں نے ان کو بتلایا کہ حضرت ابوالدردائ (رض) نے کہا میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گیارہ سجدے کئے جن میں ایک سورة نجم والا ہے۔
تخریج : ترمذی فی ابواب الوتر باب ٤٧‘ ٥٦٨؍٥٦٩۔

2037

۲۰۳۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوٗسٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ وَدَاعَۃَ، قَالَ : (رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ النَّجْمَ بِمَکَّۃَ، فَسَجَدَ، فَلَمْ أَسْجُدْ مَعَہُ لِأَنِّی کُنْتُ عَلٰی غَیْرِ الْاِسْلَامِ، فَلَنْ أَدَعَہَا أَبَدًا) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ تَحْقِیْقُ السُّجُوْدِ فِیْہَا، وَلَیْسَ فِیْمَا ذَکَرْنَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ، مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ فِیْہَا سَجْدَۃٌ فَھٰذِہِ أَوْلَی، لِأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُسْجَدَ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِ سُجُوْدٍ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یُتْرَکَ السُّجُوْدُ فِیْ مَوْضِعِہٖ‘ لِعَارِضٍ مِنَ الْعَوَارِضِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّ فِیْ ذٰلِکَ دَلَالَۃً أَیْضًا تَدُلُّ عَلٰی أَنْ لَا سُجُوْدَ فِیْہَا، فَذَکَرَ۔
٢٠٣٧: عکرمہ بن خالد نے مطلب بن وداعہ (رض) سے بیان کیا کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے مکہ میں سورة نجم پڑھی اور سجدہ کیا پس میں نے آپ کے ساتھ سجدہ نہ کیا کیونکہ میں اسلام پر نہ تھا (اب) ہرگز میں اس کو نہ چھوڑوں گا۔ ان روایات سے اس میں سجدہ کا وجود ثابت ہوا۔ فصل اوّل میں جو روایات مذکور ہیں وہ سجدہ ہونے کے منافی نہیں ہیں۔ پس یہ بہتر ہے اس لیے کہ جو سجدے کا موقع نہ ہو وہاں سجدہ جائز نہیں اور یہ تو ممکن ہے کہ عارضہ کی وجہ سے کسی سجدہ کو چھوڑ دیا جائے وہ عوارض جن کا تذکرہ ہم فصل اول میں کرچکے۔ اگر کسی کو یہ اعتراض ہو اس میں بھی تو اس میں سجدہ نہ ہونے کی دلالت موجود ہے۔ روایت درج ذیل ہے۔
تخریج : نسائی فی الافتتاح باب ٤٩‘ مسند احمد ٣؍٤٢٠‘ مصنف عبدالرزاق ٥٨٨١‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٣١٤۔
سوال : سورة النجم کے متعلق سجدہ نہ ہونے کی دلالت واضحہ موجود ہے یہ روایت ملاحظہ ہو۔

2038

۲۰۳۸: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ اللِّہْبِیُّ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہٗ سَأَلَ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ : ہَلْ فِی الْمُفَصَّلِ سَجْدَۃٌ؟ قَالَ : لَا .قَالَ : فَأُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ قَدْ قَرَأَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ کُلَّہُ، فَلَوْ کَانَ فِی الْمُفَصَّلِ سُجُوْدٌ اِذًا لَعَلَّمَہُ سُجُوْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ، لِمَا أَتَی عَلَیْہِ فِی تِلَاوَتِہٖ وَلَا حُجَّۃَ لَہٗ فِیْ ھٰذَا - عِنْدَنَا - لِأَنَّہٗ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ ذٰلِکَ فِیْہِ، لِمَعْنًی مِنَ الْمَعَانِی الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .وَقَدْ ذَہَبَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ إِلٰی أَنَّہٗ غَیْرُ وَاجِبٍ، وَإِلٰی أَنَّ التَّالِیَ لَا یَضُرُّہٗ أَنْ لَا یَفْعَلَہٗ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٠٣٨: عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب (رض) سے پوچھا کیا مفصلات میں سجدہ ہے انھوں نے فرمایا نہیں۔ معترض کہتے ہیں یہ لو ابی بن کعب (رض) ہیں جن پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سارا قرآن مجید پڑھا ‘ اگر مفصل میں سجدہ ہوتا تو وہ اس سجدہ کو ضرور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سجدہ سے جان لیتے۔ (امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں) ہمارے ہاں معترض کے لیے اس میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گزشتہ عوارض مذکورہ میں کسی کی بناء پر سجدہ کو ترک فرمایا ہو۔ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کہتی ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں اور اگر تلاوت کرنے والا بھی نہ کرے تو تب بھی اس کو کچھ نقصان نہیں۔ روایات ذیل میں ہیں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٦۔
یہ ابی بن کعب ہیں جنہوں نے مکمل قرآن مجید نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پڑھا اور آپ کو سنایا ہے اگر نجم میں سجدہ ہوتا تو ابن ابی کعب مفصلات میں سجدہ کا چنداں انکار نہ کرتے۔
الجواب نمبر 1: اس اشکال کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ پڑھاتے یا سنتے وقت گزشتہ احتمالات میں سے کسی ایک کی وجہ سے سجدہ نہ کیا ہو تو یہ بات سجدہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
جواب نمبر 2: بعض صحابہ کرام (رض) کا یہ قول ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں اور تلاوت کرنے والا اگر اسے نہ کرے تو اس پر کچھ حرج نہیں شاید کہ حضرت ابی بن کعب (رض) نے اسی وجہ سے سجدہ نہ کیا ہو چنانچہ حضرت عمر ‘ سلمان ‘ ابن زبیر (رض) کی روایات ہم پیش کرتے ہیں۔

2039

۲۰۳۹: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ .
٢٠٣٩: یونس کہتے ہیں ہمیں ابن وہب نے اور ان کو مالک (رح) نے بیان کیا۔

2040

۲۰۴۰: ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَرَأَ السَّجْدَۃَ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ فَنَزَلَ فَسَجَدَ‘ وَسَجَدُوْا مَعَہٗ، ثُمَّ قَرَأَہَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی‘ فَتَہَیَّئُوْا لِلسُّجُوْدِ‘ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی رِسْلِکُمْ إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکْتُبْہَا عَلَیْنَا إِلَّا أَنْ نَشَائَ ‘ فَقَرَأَہَا وَلَمْ یَسْجُدْ‘ وَمَنَعَہُمْ أَنْ یَسْجُدُوْا .
٢٠٤٠: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے سورة سجدہ منبر پر تلاوت کی یہ جمعہ کا دن تھا پھر اترے اور سجدہ کیا اور سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا پھر دوسرے جمعہ تلاوت فرمائی تو سب نے سجدہ کی تیاری کی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہم پر فرض نہیں کیا مگر جب کہ ہم قصد کریں پس انھوں نے سورة سجدہ تو پڑھی مگر سجدہ نہ کیا اور سب کو سجدہ سے روک دیا۔
تخریج : بخاری فی ابواب سجودالقرآن باب ١٠۔

2041

۲۰۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ‘ ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : مَرَّ سَلْمَانُ بِقَوْمٍ قَدْ قَرَؤُابِالسَّجْدَۃِ‘ فَقِیْلَ : أَلَا تَسْجُدُ؟ فَقَالَ : إِنَّا لَمْ نَقْصِدْ لَہَا .
٢٠٤١: ابو عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مسلمان (رض) ان لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جنہوں نے سجدہ کی آیت تلاوت کی ان سے کہا گیا تم سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟ تو انھوں نے کہا ہم پر یہ لازم نہیں کیا گیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٥۔

2042

۲۰۴۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِیْ صَغِیْرَۃَ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ‘ قَالَ : لَقَدْ قَرَأَ ابْنُ الزُّبَیْرِ السَّجْدَۃَ‘ وَأَنَا شَاہِدٌ‘ فَلَمْ یَسْجُدْ .فَقَامَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ فَسَجَدَ‘ ثُمَّ قَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ مَا مَنَعَک أَنْ تَسْجُدَ اِذْ قَرَأْت السَّجْدَۃَ؟ فَقَالَ : " اِذَا کُنْتُ فِیْ صَلَاۃٍ سَجَدْت‘ وَإِذَا لَمْ أَکُنْ فِیْ صَلَاۃٍ فَإِنِّیْ لَا أَسْجُدُ " فَہٰؤُلَائِ الْجِلَّۃُ لَمْ یَرَوْہَا وَاجِبَۃً .وَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا‘ لِأَنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ الْمُسَافِرَ اِذَا قَرَأَہَا وَہُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ‘ أَوْمَأَ بِہَا‘ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ أَنْ یَسْجُدَہَا عَلَی الْأَرْضِ‘ فَکَانَتْ ھٰذِہِ صِفَۃَ التَّطَوُّعِ‘ لَا صِفَۃَ الْفَرْضِ‘ لِأَنَّ الْفَرْضَ لَا یُصَلَّی إِلَّا عَلَی الْأَرْضِ‘ وَالتَّطَوُّعُ یُصَلَّیْ عَلَی الرَّاحِلَۃِ .وَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ پپ یَذْہَبُوْنَ فِی السُّجُوْدِ إِلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ‘ وَیَقُوْلُوْنَ : ہِیَ وَاجِبَۃٌ فَثَبَتَ بِہَا وَصَفْنَا أَنَّ مَا ذَکَرُوْا عَنْ أُبَیٍّ لَا دَلَالَۃَ فِیْہِ عَلٰی أَنْ لَا سُجُوْدَ فِی الْمُفَصَّلِ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْحُکْمُ کَانَ فِی السُّجُوْدِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَلَی وَاحِدٍ مِنَ الْمَعَانِی الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا فِیْ ذٰلِکَ عَنْ عُمَرَ‘ وَسَلْمَانَ‘ وَابْنِ الزُّبَیْرِ‘ فَتَرَکَ السُّجُوْدَ فِی الْمُفَصَّلِ لِذٰلِکَ.وَلَعَلَّہُ أَیْضًا لَمْ یَسْجُدْ فِی تِلَاوَۃِ مَا فِیْہِ سُجُوْدٌ أَیْضًا مِنْ غَیْرِ الْمُفَصَّلِ .وَقَدْ خَالَفَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ فِیْمَا ذَہَبَ إِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ‘ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٠٤٢: ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن زبیر سے آیت سجدہ پڑھی اس وقت میں موجود تھا مگر انھوں نے سجدہ نہ کیا پھر حارث بن عبداللہ کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا پھر کہا اے امیرالمؤمنین ! تمہیں سجدہ سے کس بات نے منع کیا جب کہ تم نے آیت سجدہ پڑھی تو ابن زبیر نے جواب دیا جب میں نماز میں ہوتا ہوں تو سجدہ کرلیتا ہوں اور اگر نماز میں نہیں ہوتا تو سجدہ نہیں کرتا۔ ایک جماعت صحابہ کرام (رض) نے حضرت ابی بن کعب (رض) کی بات لا سجود فی المفصل کہ مفصل میں سجدہ نہیں ‘ کے خلاف فرمایا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٨١۔
حاصل روایات : یہ ہوا کہ حضرت عمر ‘ سلمان ‘ ابن زبیر (رض) کے ہاں سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے اس لیے انھوں نے کبھی سجدہ کرلیا جب خود قصد کیا اور کبھی نہ کیا اور ممکن ہے کہ ابی بن کعب (رض) بھی انہی سے ہوں۔
تقاضا نظر : تقاضہ عقل یہی ہے کیونکہ مسافر اگر سواری کی حالت میں سجدہ تلاوت ادا کرنا چاہے تو زمین پر اترنا اس کے لیے لازم نہیں بلکہ وہ اشارہ کرلے اور یہ کیفیت نفل کی ہے فرض کی نہیں کیونکہ فرض بہرصورت زمین پر پڑھا جاتا ہے اور نفل تو سواری پر بھی پڑھ سکتے ہیں ائمہ احناف اگرچہ سجدہ کو واجب قرار دیتے ہیں مگر اوپر والی تفصیل سے بھی یہ معلوم ہوگیا کہ ابی بن کعب والی روایت میں اس احتمال کی وجہ سے مفصلات میں سجدہ نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
شاید انھوں نے مفصلات کے علاوہ سجود کے مقامات میں بھی سجدہ نہ کیا ہو۔
جواب نمبر 3: صحابہ کرام (رض) کی ایک عظیم جماعت ابی بن کعب (رض) کے اس عمل کے خلاف نظر آتی ہے۔

2043

۲۰۴۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ‘ عَنْ ذَرٍّ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : إِنَّ عَزَائِمَ السُّجُوْدِ (الم تَنْزِیْلُ " وَ " حم " وَ " النَّجْمِ " وَ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ)
٢٠٤٣: ذر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کہتے جن سورتوں میں سجدہ ضروری ہے وہ یہ ہیں الم السجدہ ‘ النجم ‘ اقرأ باسم ربک۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٧۔

2044

۲۰۴۴: .حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ مِثْلَہُ۔
٢٠٤٤: سفیان نے عاصم سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2045

۲۰۴۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْفَجْرَ بِمَکَّۃَ‘ فَقَرَأَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ بِ " النَّجْمِ " ، ثُمَّ سَجَدَ‘ ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ : (اِذَا زُلْزِلَتِ) .
٢٠٤٥: عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں مکہ میں نماز فجر پڑھائی انھوں نے دوسری رکعت میں سورة النجم پڑھی پھر سجدہ کیا پھر کھڑے ہو کر اذا زلزلت پڑھی۔

2046

۲۰۴۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ وَوَہْبٌ‘ وَرَوْحٌ‘ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ أَنَّہٗ سَمِعَ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ .قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ، وَاللَّفْظُ لِرَوْحٍ .
٢٠٤٦ : حکم نے بیان کیا کہ میں ابراہیم تیمی کے ساتھ تھا ‘ وہ اپنے والد سے بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر اسی طرح روایت نقل کی اور یہ الفاظ روح راوی کے ہیں۔

2047

۲۰۴۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ .ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ أَوْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عِمْرَانَ‘ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ عُمَرَ سَجَدَ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) .
٢٠٤٧: ابو رافع نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کی نے اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ میں سجدہ کیا۔
تخریج : بخاری فی ابواب سجودالقرآن باب ٧‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٧۔

2048

۲۰۴۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ‘ عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفٰی‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ عُثْمَانَ الصُّبْحَ‘ فَقَرَأَ " النَّجْمَ " فَسَجَدَ فِیْہَا‘ ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ سُوْرَۃً أُخْرٰی .
٢٠٤٨: مسروق کہتے ہیں کہ میں عثمان (رض) کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی تو انھوں نے سورة النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا پھر کھڑے ہو کر دوسری سورت پڑھی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٨۔

2049

۲۰۴۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ أَنَّ عُمَرَ‘ وَعَبْدَ اللّٰہِ یَعْنِی ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا - سَجَدَا فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) قَالَ مَنْصُوْرٌ : أَوْ أَحَدُہُمَا .
٢٠٤٩: اسود کہتے ہیں کہ عمر اور ابن مسعود (رض) دونوں نے اذا السماء انشقت میں سجدہ کیا۔ منصورت نے کہا یا اس طرح کہا کہ ان دونوں میں سے ایک نے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٧۔

2050

۲۰۵۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٠٥٠ : روح نے شعبہ سے انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

2051

۲۰۵۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ‘ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْجُدَانِ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) .
٢٠٥١: اسود کہتے ہیں کہ میں نے عمر اور ابن مسعود (رض) کو دیکھا کہ وہ دونوں اذا السماء انشقت میں سجدہ کرتے تھے۔

2052

۲۰۵۲: حَدَّثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ لَیْثٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بِذٰلِکَ .
٢٠٥٢: عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے اسی طرح بیان کیا۔

2053

۲۰۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجُ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَسْجُدُ فِی " النَّجْمِ " فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ فِیْ سُوْرَۃٍ أُخْرَی .
٢٠٥٣: عبدالرحمن الاعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ النجم میں نماز صبح میں پڑھتے ہوئے سجدہ کرتے پھر دوسری سورة سے شروع کرتے۔

2054

۲۰۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا مَالِکٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَرَأَ النَّجْمَ‘ فَسَجَدَ فِیْہَا .
٢٠٥٤: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ ہمیں عمر (رض) نے نماز پڑھائی تو سورة النجم کی تلاوت کی پس اس میں سجدہ کیا۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب الافتتاح الصلاۃ نمبر ١٠٣٨۔

2055

۲۰۵۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ عَنْ بُکَیْرٍ‘ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ رَأَی ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْجُدُ فِی اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ فِیْ غَیْرِ صَلَاۃٍ .
٢٠٥٥: نافع بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ سورة اذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربک کو نماز کے علاوہ بھی تلاوت کرتے تو سجدہ کرتے۔

2056

۲۰۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْدٍ‘ قَالَ : سُئِلَ نَافِعٌ " أَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْجُدُ فِی الْحَجِّ سَجْدَتَیْنِ؟ " قَالَ : مَاتَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَلَمْ یَقْرَأْہَا‘ وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ یَسْجُدُ فِی " النَّجْمِ " ، وَفِی اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک .
٢٠٥٦: اسحاق بن سوید کہتے ہیں کہ نافع سے دریافت کیا گیا کیا ابن عمر سورة حج میں دو سجدے کرتے تھے ‘ کہنے لگے ابن عمر (رض) نے وفات تک ان کو پڑھا نہیں (یعنی میں نے ان کی قراءت ان سے نہیں سنی) لیکن وہ النجم اور اقرء میں سجدہ کرتے تھے۔

2057

۲۰۵۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَسْجُدُ فِی " النَّجْمِ " .
٢٠٥٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ سورة النجم میں سجدہ کرتے تھے۔

2058

۲۰۵۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَسْجُدُ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) .
٢٠٥٨: ابو عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) اذا السماء انشقت میں سجدہ کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٧۔

2059

۲۰۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ وَالثَّوْرِیُّ‘ وَحَمَّادٌ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنْ ذَرٍّ أَنَّ عَمَّارًا سَجَدَ فِیْہَا .
٢٠٥٩: حماد نے عاصم سے انھوں نے ذر سے بیان کیا کہ عمار (رض) نے اذا السماء میں سجدہ کیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٨۔

2060

۲۰۶۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّہٗ کَانَ یَسْجُدُ فِیْہَا .فَہٰؤُلَائِ قَدْ خَالَفُوْا أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فِیْ قَوْلِہِ : " لَا سُجُوْدَ فِی الْمُفَصَّلِ " .
٢٠٦٠: عبدالرحمن اعرج کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سورة السماء میں سجدہ کرتے تھے۔ یہ وہ صحابہ کرام (رض) ہیں جنہوں نے حضرت ابی بن کعب (رض) کے قول ” لا سجود فی المفصل “ کی مخالفت کی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٦‘ ٧۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہو رہا ہے کہ مفصلات میں سجدے ہیں گویا مفصلات میں سجدہ نہ ہونے کی نفی کردی ان کبار صحابہ کرام (رض) میں ابن مسعود (رض) جیسے حضرات بھی شامل ہیں جو ہر سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید سنتے سناتے تھے بلکہ وفات والے سال دو مرتبہ سنا سنایا۔ اس لیے وہ منسوخ و تبدیل سے خوب واقف تھے ابن عباس (رض) کی روایت ملاحظہ ہو۔

2061

۲۰۶۱: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ (أَبِیْ ظَبْیَانَ‘ قَالَ : قَالَ لِیْ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیَّ قِرَائَ ۃٍ تَقْرَأُ؟ .قُلْتُ : الْقِرَائَ ۃَ الْأُوْلَیْ قِرَائَ ۃَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘ فَقَالَ : ہِیَ الْقِرَائَ ۃُ الْآخِرَۃُ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُعْرَضُ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ فِیْ کُلِّ عَامٍ‘ قَالَ : أُرَاہٗ، قَالَ : فِیْ کُلِّ شَہْرِ رَمَضَانَ فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ‘ عَرَضَہُ عَلَیْہِ مَرَّتَیْنِ‘ فَشَہِدَ عَبْدُ اللّٰہِ مَا نُسِخَ وَمَا بُدِّلَ) .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَضَرَ قِرَائَ ۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ مَرَّتَیْنِ‘ فِی الْعَامِ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ‘ فَعَلِمَ مَا نُسِخَ وَمَا بُدِّلَ .فَإِنْ کَانَ فِیْ قِرَائَ ۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ أُبَیًّا قَدْ عَلِمَ مَا فِیْہِ مِنَ السُّجُوْدِ مِنَ الْقُرْآنِ‘ حَتَّی صَارَ قَوْلُہٗ : " لَا سُجُوْدَ فِی الْمُفَصَّلِ " دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّہٗ کَذٰلِکَ‘ کَانَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَإِنَّ حُضُوْرَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قِرَائَ ۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ مَرَّتَیْنِ‘ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ عَلِمَ مَا فِیْہِ السُّجُوْدُ مِنَ الْقُرْآنِ‘ فَصَارَ قَوْلُہٗ : " إِنَّ الْمُفَصَّلَ مِنَ السُّجُوْدِ " مَا رَوَیْنَاہُ عَنْہُ حُجَّۃٌ .وَقَالَ : قَوْمٌ قَدْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِی الْمُفَصَّلِ بِمَکَّۃَ‘ فَلَمَّا ہَاجَرَ‘ تَرَکَ ذٰلِکَ) .وَرَوَوْا ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ طَرِیْقٍ ضَعِیْفٍ‘ لَا یَثْبُتُ مِثْلُہٗ، وَرَوَوْا عَنْہُ مِنْ قَوْلِہٖ : " إِنَّہٗ لَا سُجُوْدَ فِی الْمُفَصَّلِ " .
٢٠٦١: ابو ظبیان کہتے ہیں مجھ سے ابن عباس (رض) نے پوچھا تم کون سی قراۃ میں قرآن مجید پڑھتے ہو میں کہا پہلی قراءت یعنی قراءت ابن مسعود (رض) تو اس پر انھوں نے فرمایا وہ پہلی نہیں سب سے آخری قراءت ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سال ان کو قرآن مجید سناتے راوی کہتے ہیں شاید انھوں نے فی کل شہر رمضان کہا۔ جب آپ کا وفات والا سال آیا تو آپ نے ان کو دو مرتبہ قرآن مجید سنایا پس عبداللہ منسوخ اور تبدیل شدہ کے گواہ بن گئے۔ یہ عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جو اس بات کی اطلاع دے رہے ہیں عبداللہ بن مسعود (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وفات والے سال میں جب قرآن مجید کے دو عرضات میں موجود تھے اس لیے ان کو اس میں منسوخ اور مبدل کا علم ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت میں وہ بات ہوتی جس سے ابی (رض) کو یہ معلوم ہوا کہ قرآن میں سجدے نہیں ‘ تب تو ان کا قول لا سجود فی المفصلات میں سجدہ نہ ہونے کی دلیل بنتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابن مسعود (رض) کا دو عرضات قرآنیہ میں حاضر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ان کو قرآن مجید کے علم ہوا پس ان کا قول کہ مفصلات میں سجدہ ہے یہ ثبوت بن گیا۔ ایک علماء کی جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مفصلات میں سجدہ مکی زندگی میں کیا مگر جب ہجرت فرمائی تو اسے چھوڑ دیا اور اس سلسلہ میں انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک ضعیف روایت نقل کی ‘ اس جیسی روایت دلیل میں پیش نہیں ہوسکتی اور انھوں سے ایک روایت یہ بھی نقل کی کہ مفصل میں سجدہ نہیں۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٧٥۔
الزامی جواب : اب خود غور کریں کہ ابن عباس (رض) جن کے متعلق یہ کہہ رہے ہوں کہ وفات والے سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دو مرتبہ قرآن مجید سنایا اور انھوں نے منسوخ و تبدیل کو خوب جان لیا اگر ابی بن کعب (رض) کے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید سنایا اس سے انھوں نییہ جان لیا کہ مفصلات میں سجدہ نہیں ہے تو ابن مسعود (رض) نے وفات والے سال دو مرتبہ سنایا اور ہر سال سناتے تھے تو ان کا مفصلات میں سجدے بتلانا درجہ اولیٰ دلیل ہوگی پس ان حضرات کی روایا تکے مقابلے میں حضرت ابی (رض) والی روایت چنداں حجت نہ بن سکے گی۔
ایک اشکال :
ابن عباس (رض) کا قول ہے سجود فی المفصل۔ مفصلات میں سجدے مکہ میں تھے مدینہ میں نہیں کئے گئے ۔ اثر یہ ہے۔

2062

۲۰۶۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَطِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ عَطَائٍ أَنَّہٗ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ سُجُوْدِ الْقُرْآنِ‘ فَلَمْ یُعِدْ عَلَیْہِ فِی الْمُفَصَّلِ شَیْئًا .وَھٰذَا - عِنْدَنَا - لَوْ ثَبَتَ‘ لَکَانَ فَاسِدًا‘ وَذٰلِکَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ سَجَدَ فِی النَّجْمِ) وَأَنَّہٗ کَانَ حَاضِرًا ذٰلِکَ‘ (وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ)۔ ) .وَإِسْلَامُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَلِقَاؤُہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ بِالْمَدِیْنَۃِ قَبْلَ وَفَاتِہٖ بِثَلاَثِ سِنِیْنَ‘ وَقَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ عَنْہُ فِیْ مَوَاضِعِہِ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی فَسَادِ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَہْلُ تِلْکَ الْمَقَالَۃِ .وَقَدْ تَوَاتَرَتَ الْآثَارُ أَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسُجُوْدِہٖ فِی الْمُفَصَّلِ .
٢٠٦٢: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے سجود قرآن کا سوال کیا انھوں نے مفصل میں کسی سجدہ کا شمار نہ کیا۔ اور یہ بات ان سے ہم کئی جگہ اپنی اس کتاب میں نقل کرچکے۔ پس اس سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہوگئی۔
الجواب نمبر 1: یہ روایت ضعیف ہے جو ثابت ہی نہیں چہ جائیکہ مضبوط و مرفوع روایات کے مقابل حجت بن سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہم بیان کر آئے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے النجم میں سجدہ کیا اور ابوہریرہ (رض) اس مجلس میں موجود تھے اور اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذا السماء النشقت میں سجدہ کیا ابوہریرہ (رض) کا اسلام اور ان کی ملاقات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے تین سال پہلے کی ہے۔ (یا چار سال پہلے کی ہے)
تو اس سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہوگئی جو مفصلات میں سجدہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں یہ سجدہ نہ تھا صرف مکی زندگی میں تھا۔ نیز اس اثر ابن عباس (رض) کا راوی ابو قدامہ اور مطروراق مجروح راوی ہیں پھر یہ مرفوع روایات کے مقابل ٹھہرنے کے کس طرح قابل ہے۔

2063

۲۰۶۳: فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ قُرَّۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ وَصَفْوَانُ بْنُ سُلَیْمٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (سَجَدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ : (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) وَ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) سَجْدَتَیْنِ) .
٢٠٦٣: عبدالرحمن بن سعد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربک میں دو سجدے کئے۔
تخریج : مسلم فی المساجد روایت نمبر ١٠٩۔

2064

۲۰۶۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نُعَیْمِ ڑالْمُجْمِرِ‘ أَنَّہٗ قَالَ : (صَلَّیْتُ مَعَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَوْقَ ھٰذَا الْمَسْجِدِ فَقَرَأَ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) فَسَجَدَ فِیْہَا‘ وَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہَا) .
٢٠٦٤: نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ اس مسجد میں سجدہ کیا جبکہ انھوں نے سورة اذا السماء انشقت پڑھی اور سجدہ کیا اور سات ھیہ فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٧۔

2065

۲۰۶۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ‘ قَالَ : (صَلَّیْتُ خَلْفَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ فَقَرَأَ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) فَسَجَدَ فِیْہَا‘ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ لَقِیْتَہٗ ‘ فَقُلْتُ : أَتَسْجُدُ فِیْہَا؟ فَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہَا‘ فَلَنْ أَدَعَ ذٰلِکَ) .
٢٠٦٥: ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مدینہ منورہ میں نماز ادا کی تو انھوں نے اذا السماء انشقت پڑھی اور اس میں سجدہ کیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں ان سے ملا اور کہا کیا آپ اس سورت میں سجدہ کرتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا پس میں ہرگز اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١١٠‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٧۔

2066

۲۰۶۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہٗ (فَلَنْ أَدَعَ ذٰلِکَ أَبَدًا) .
٢٠٦٦: ابو رافع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے صرف اس میں فلن ادع ذلک ابدا مذکور نہیں۔

2067

۲۰۶۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ وَزَادَ (فَلَنْ أَدَعَ ذٰلِکَ حَتّٰی أَلْقَاہُ) .
٢٠٦٧: مروان اصغر نے ابو رافع سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی اور اس روایت میں فَلَنْ أَدَعَ ذٰلِکَ حَتّٰی أَلْقَاہُ کے الفاظ کا اضافہ ہے۔

2068

۲۰۶۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا الثَّوْرِیُّ‘ وَابْنُ جُرَیْجٍ‘ وَابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ مِیْنَا‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (سَجَدْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) ) .
٢٠٦٨: عطاء بن میناء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اذا السماء انشقت میں سجدہ کیا۔
تخریج : مسلم فی المساجد روایت ١٠٧؍١٠٨‘ ابو داؤد فی سجودالقرآن باب ٤‘ نمبر ١٤٠٧‘ ترمذی فی ابواب الوتر باب ٥٠‘ نمبر ٥٧٣‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب افتتاح الصلاۃ نمبر ١٠٣٩‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧١‘ نمبر ١٠٥٨۔

2069

۲۰۶۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا عَطَائُ بْنُ مِیْنَائَ ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (سَجَدْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ) وَ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) ) .
٢٠٦٩: عطاء بن میناء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سورة اقراء اور اذا السماء انشقت میں سجدے کئے ہیں۔
تخریج : تخریج میں سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔

2070

۲۰۷۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ وَرَوْحٌ‘ وَاللَّفْظُ لِأَبِیْ دَاوُد‘ قَالَا : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ رَآہُ یَسْجُدُ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) وَقَالَ : لَوْ لَمْ أَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہَا لَمْ أَسْجُدْ) .
٢٠٧٠: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب ابوہریرہ (رض) کو اذا السماء انشقت میں سجدہ کرتے دیکھا (پوچھنے پر فرمایا) اگر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کرتے نہ دیکھتا تو میں سجدہ نہ کرتا۔
تخریج : بخاری فی سجودالقرآن باب ٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٠٧‘ ترمذی فی ابواب الوتر باب ٥٠‘ نمبر ٥٧٤‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب افتتاح نمبر ١٠٣٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧١‘ نمبر ١٠٥٨۔

2071

۲۰۷۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنِ ڑ الْبَغْدَادِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیٰی‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٠٧١: یحییٰ نے ابو سلمہ سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2072

۲۰۷۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ ح .
٢٠٧٢: ابو بکرہ نے کہا ہمیں روح نے بیان کیا۔

2073

۲۰۷۳: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَا : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ أَنَّ (أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَرَأَ بِہِمْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) فَسَجَدَ فِیْہَا‘ فَلَمَّا انْصَرَفَ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِیْہَا) .
٢٠٧٣: ابن مرزوق ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے متعلق بیان کیا کہ انھوں نے ہمیں اذا السماء انشقت پڑھائی پس اس میں سجدہ کیا جب سجدے سے فارغ ہوئے تو بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سجدہ کیا ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ١٠٧‘ نسائی فی السنن الکبرٰی نمبر ١٠٣٣۔

2074

۲۰۷۴: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ‘ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہٗ (رَأَیْ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ یَسْجُدُ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) فَقَالَ أَبُوْ سَلَمَۃَ : فَقُلْتُ لَہٗ - حِیْنَ انْصَرَفَ - سَجَدْتُ فِیْ سُوْرَۃٍ‘ مَا رَأَیْتُ النَّاسَ یَسْجُدُوْنَ فِیْہَا .فَقَالَ : لَوْ لَمْ أَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہَا لَمْ أَسْجُدْ) .
٢٠٧٤: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو دیکھا کہ وہ اذا السماء انشقت میں سجدہ کرتے ہیں ابو سلمہ نے ان کے سجدہ سے فراغت کے بعد دریافت کیا کہ آپ نے ایسی سورت میں سجدہ کیا کہ میں نے لوگوں کو اس میں سجدہ کرتے نہیں دیکھا تو جواباً فرمایا اگر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں اس میں سجدہ نہ کرتا۔

2075

۲۰۷۵: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ عَیَّاشٍ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) ) .
٢٠٧٥: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذا السماء انشقت میں سجدہ کیا۔
تخریج : ترمذی ابواب الوتر باب ٥٠‘ نمبر ٥٧٤‘ نسائی فی السنن نمبر ١٠٥٣۔

2076

۲۰۷۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنْ رَجُلَیْنِ‘ کِلَاہُمَا خَیْرٌ مِنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ أَحَدَہُمَا سَجَدَ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) وَفِیْ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) وَکَانَ الَّذِیْ سَجَدَ أَفْضَلَ مِنَ الَّذِیْ لَمْ یَسْجُدْ‘ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ عُمَرُ‘ فَہُوَ خَیْرٌ مِنْ عُمَرَ فَھٰذَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَنْہُ الرِّوَایَاتُ أَنَّہٗ سَجَدَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) .وَإِسْلَامُہُ إِنَّمَا کَانَ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - بَعْدَ مَا ہَاجَرَ - لَمْ یَسْجُدْ فِی الْمُفَصَّلِ؟ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سُجُوْدِ الْمُفَصَّلِ أَیْضًا۔
٢٠٧٦: محمد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا انھوں نے دو آدمیوں سے جو دونوں حضرت ابوہریرہ (رض) سے بہتر ہیں کہ ایک نے اذا السماء انشقت اور اقرا باسم ربک میں سجدہ کیا اور جس نے سجدہ کیا وہ اس سے بہتر ہے جس نے سجدہ نہیں کیا اگر وہ عمر نہ ہو وہ تو عمر سے بھی بہتر ہے (یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) حضرت ابوہریرہ (رض) سے متواتر روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ { اذا السمآء انشقت } میں سجدہ کیا اور ان کا مسلمان ہونا مدینہ میں ہے۔ پس یہ کہنا کس طرح جائز ہے کہ آپ نے ہجرت کے بعد مفصلات میں سجدہ نہیں کیا اور حضرت عمرو بن العاص (رض) کی روایت بھی مفصلات میں سجدہ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ثابت کرتی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : نسائی فی السنن اکبرٰی ١٠٣٧؍١٠٣٨۔
حاصل روایات : یہ تمام روایات ابوہریرہ (رض) جو مختلف اسناد سے مروی ہیں یہ مفصلات کے سجدہ کو ثابت کر رہی ہیں پس یہ کہنا کیونکر درست ہے کہ مفصلات میں سجدہ ہجرت سے پہلے تھا ہجرت کے بعد نہیں کیونکہ ابوہریرہ (رض) کا اسلام لانا ہی ٧ ھ یا ٦ ھ کا ہے۔

2077

۲۰۷۷: مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ کَثِیْرٍ‘ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سَعِیْدِ ڑ الْکِنْدِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرِ ڑ الْیَحْصُبِیِّ‘ (أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ سَجَدَ فِیْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) وَفِیْ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) .
٢٠٧٧: عبداللہ بن نمیر یحصبی کہتے ہیں کہ عمرو بن العاص (رض) نے اذا السماء انشقت اور اقراء باسم ربک میں سجدہ کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی سجودالقرآن باب ١‘ ١٤٠١‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧١‘ ١٠٥٥؍١٠٥٧۔

2078

۲۰۷۸: حَدَّثَنَا فَقِیْلَ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْہِمَا) .فَھٰذِہِ الْآثَارُ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسُّجُوْدِ فِیْ (الْمُفَصَّلِ) فَبِہَا نَقُوْلُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی . وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَعَلٰی غَیْرِ ھٰذَا الْمَعْنَی‘ وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا السُّجُوْدَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ‘ ہُوَ عَشْرُ سَجَدَاتٍ .مِنْہُنَّ فِیْ (الْأَعْرَافِ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ فِیْہَا مِنْہَا قَوْلُہٗ : (إِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّک لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہُ یَسْجُدُوْنَ) .وَمِنْہُنَّ (الرَّعْدُ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ عِنْدَ قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ : (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَظِلَالُہُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ) .وَمِنْہُنَّ (النَّحْلُ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ مِنْہَا عِنْدَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ دَابَّۃٍ) إِلٰی قَوْلِہٖ (یُؤْمَرُوْنَ) .وَمِنْہُنَّ فِیْ سُوْرَۃِ (بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ مِنْہَا عِنْدَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی : (وَیَخِرُّوْنَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا) إِلٰی قَوْلِہٖ (خُشُوعًا) .وَمِنْہُنَّ سُوْرَۃُ (مَرْیَمَ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ مِنْہَا عِنْدَ قَوْلِہِ : (وَإِذَا تُتْلَیْ عَلَیْہِمْ ٰایٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَبُکِیًّا) .وَمِنْہُنَّ سُوْرَۃُ (الْحَجِّ) فِیْہَا سَجْدَۃٌ فِیْ أَوَّلِہَا عِنْدَ قَوْلِہِ : (أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ .وَمِنْہُنَّ سُوْرَۃُ (الْفُرْقَانِ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ مِنْہَا عِنْدَ قَوْلِہٖ : (وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمَنِ) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ .وَمِنْہُنَّ سُوْرَۃُ (النَّمْلِ) فِیْہَا سَجْدَۃٌ عِنْدَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی : (أَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئَ) إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ .وَمِنْہُنَّ (الم تَنْزِیْلُ السَّجْدَۃِ) فِیْہَا سَجْدَۃٌ عِنْدَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی : (إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا الَّذِیْنَ) إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ .وَمِنْہُنَّ (حم تَنْزِیْلٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ مِنْہَا‘ فِیْہِ اخْتِلَافٌ‘ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَوْضِعُہُ " تَعْبُدُوْنَ " وَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَوْضِعُہُ (فَإِنْ اسْتَکْبَرُوْا فَاَلَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّک یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ) .وَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ - تَعَالٰی : یَذْہَبُوْنَ إِلٰی ھٰذَا الْمَذْہَبِ الْأَخِیْرِ .وَاخْتَلَفَ الْمُتَقَدِّمُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ
٢٠٧٨: اسی سند سے مروی ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کیا آپ ان سورتوں میں سجدہ کرتے ہیں تو جواب میں فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سجدہ کرتے تھے۔ ہمارا کہنا بھی یہ ہے اور ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ جہاں تک نظر و فکر کا تعلق ہے وہ اس کے خلاف ہے اور وہ اس طرح کہ اتفاقی سجدات گیارہ ہیں :
سورة اعراف اور مقام سجدہ یہ ہے { ان الذین عند ربک تا یسجدون } (الایۃ)
1 سورة رعد کی یہ آیت { للّٰہ یسجد تا والاصال } (الایۃ)
2 سورة نحل کی اس آیت میں { وللّہ یسجد تا یؤمرون } (الایۃ)
3 سورة اسراء کی آیت { ویخرون تا خشوعًا } (الایۃ)
4 سورة مریم کی آیت { واذا تتلٰی علیھم تا بکتًا } (الایۃ)
5 سورة حج کی آیت { الم تر تا ما یشائ } (الایۃ)
6 سورة الفرقان کی آیت { واذا قیل لھم تا نفورًا } (الایۃ)
7 سورة النمل کی آیت { الاّ یسجدوا تا رب العرش العظیم } (الایۃ)
8 سورة لم تنزیل کی آیت { انما یؤمن تا لا یستکبرون } (الایۃ)
9 سورة حم تنزیل کے مقام سجدہ میں اختلاف ہے (الف) تعبدون یا (ب) لا یسئمون الایاتان۔ اس میں امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کے ہاں دوسرا مقام ہے۔
الحاصل : یہ کثیر روایات مفصلات میں سجدے کو ثابت کرتی ہیں۔
ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
نظری اشکال :
نظر کا تقاضا کچھ اس سے مختلف ہے غور فرمائیں کہ دس مقامات قرآن مجید میں ایسے ہیں جن میں تمام ائمہ کے ہاں سجدہ ہے وہ یہ ہیں۔
نمبر 1: سورة الاعراف آیات نمبر ٢٠٦ ولہ یسجدون پر۔
نمبر 2: سورة الرعد آیت ١٥ بالغدو والاصال پر۔
نمبر 3: سورة النحل آیت ٥٠ مایؤمرون والی آیت پر۔
نمبر 4: سورة بنی اسرائیل آیت ١٠٩ خشوعا پر۔
نمبر 5: سورة مریم آیت ٥٨ ب کیا پر۔
نمبر 6: سورة الحج آیت ١٨ مایشاء پر۔
نمبر 7: سورة الفرقان آیت ٦٠ زادہم نفورا پر۔
نمبر 8: سورة النمل آیت ٢٦ رب العرش العظیم پر۔
نمبر 9: سورة الم تنزیل آیت ١٥ ہم لا یستکبرون پر۔
نمبر 10: سورة حم تنزیل آیت ٣٧‘ ٣٨ تعبدون یا لا یسئمون پر
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) آیت نمبر ٣٨ پر سجدہ کو قرار دیتے ہیں دوسروں کے ہاں آیت نمبر ٣٧ تعبدون پر سجدہ ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو ان آثار کی تائید حاصل ہے۔

2079

۲۰۷۹:‘ فَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیْفَۃَ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَسْجُدُ فِی الْآیَۃِ الْآخِرَۃِ مِنْ حم تَنْزِیْلٌ.
٢٠٧٩: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ آپ حم تنزیل آخری آیت (لایسمؤن والی) پر سجدہ کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١٠۔

2080

۲۰۸۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا فِطْرٌ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ السَّجْدَۃِ الَّتِیْ فِیْ حم قَالَ : اُسْجُدْ بِآخِرِ الْآیَتَیْنِ .
٢٠٨٠: مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حم کے سجدہ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا دونوں آیتوں میں سے پچھلی آیت (لایسمؤن والی) پر سجدہ کرو۔

2081

۲۰۸۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : سَجَدَ رَجُلٌ فِی الْآیَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ حم فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (عَجَّلَ ھٰذَا بِالسُّجُوْدِ) .
٢٠٨١: مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حم کی پہلی آیت پر سجدہ کردیا تو ابن عباس (رض) نے فرمایا اس نے سجدہ کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١١۔

2082

۲۰۸۲: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُغِیْرَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ أَنَّہٗ کَانَ یَسْجُدُ فِی الْآیَۃِ الْأَخِیْرَۃِ .
٢٠٨٢: مغیرہ نے ابو وائل کے متعلق بیان کیا کہ وہ حم کی پچھلی آیت پر سجدہ کرتے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١٠۔

2083

۲۰۸۳: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ عَوْنٍ‘ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ مِثْلَہٗ .
٢٠٨٣: ابن عون نے ابن سیرین سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2084

۲۰۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ لَیْثٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ مِثْلَہٗ .
٢٠٨٤: سفیان ثوری نے لیث سے انھوں نے مجاہد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2085

۲۰۸۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ مِثْلَہٗ .
٢٠٨٥: سعد نے قتادہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2086

۲۰۸۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ یَزِیْدَ یَذْکُرُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَسْجُدُ فِی الْآیَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ حٰمٓ .
٢٠٨٦: عبدالرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) حم کی پہلی آیت نمبر ٣٧ پر سجدہ کرتے۔

2087

۲۰۸۷: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ رَجُلٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ، فَکَانَتْ ھٰذِہِ السَّجْدَۃُ الَّتِیْ فِیْ حٰمٓ مِمَّا قَدْ اُتُّفِقَ عَلَیْہِ‘ وَاخْتُلِفَ فِیْ مَوْضِعِہَا .وَمَا ذَکَرْنَا قَبْلَ ھٰذَا مِنَ السُّجُوْدِ فِی السُّوَرِ الْأُخَرِ‘ فَقَدْ اتَّفَقُوْا عَلَیْہَا وَعَلٰی مَوَاضِعِہَا الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا‘ وَکَانَ مَوْضِعُ کُلِّ سَجْدَۃٍ مِنْہَا‘ فَہُوَ مَوْضِعُ إِخْبَارٍ‘ وَلَیْسَ بِمَوْضِعِ أَمْرٍ . وَقَدْ رَأَیْنَا السُّجُوْدَ مَذْکُوْرًا فِیْ مَوَاضِعِ أَمْرٍ‘ مِنْہَا قَوْلُہٗ تَعَالٰی : (یَا مَرْیَمُ اُقْنُتِی لِرَبِّک وَاسْجُدِی) وَمِنْہَا قَوْلُہٗ : (وَکُنْ مِنَ السَّاجِدِیْنَ) فَکُلٌّ قَدْ اتَّفَقَ أَنْ لَا سُجُوْدَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَکُوْنَ کُلُّ مَوْضِعٍ مِمَّا اُخْتُلِفَ فِیْہِ‘ ہَلْ فِیْہِ سُجُوْدٌ أَمْ لَا؟ أَنْ نَنْظُرَ فِیْہِ‘ فَإِنْ کَانَ مَوْضِعَ أَمْرٍ‘ فَإِنَّمَا ہُوَ تَعْلِیْمٌ‘ فَلاَ سُجُوْدَ فِیْہِ .وَکُلُّ مَوْضِعٍ فِیْہِ خَبَرٌ عَنْ السُّجُوْدِ‘ فَہُوَ مَوْضِعُ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ‘ فَکَانَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ‘ مِنْ سُوْرَۃِ (النَّجْمِ) .فَقَالَ قَوْمٌ : ہُوَ مَوْضِعُ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ‘ وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہُوَ لَیْسَ مَوْضِعَ سَجْدَۃِ تِلَاوَۃٍ‘ وَہُوَ قَوْلُہٗ : (فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا) فَذٰلِکَ أَمْرٌ وَلَیْسَ بِخَبَرٍ .فَکَانَ النَّظَرُ - عَلٰی مَا ذَکَرْنَا - أَنْ لَا یَکُوْنَ مَوْضِعَ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ‘ وَکَانَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ أَیْضًا مِنْ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ) ہُوَ قَوْلُہٗ : (کَلًّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ) فَذٰلِکَ أَمْرٌ وَلَیْسَ بِخَبَرٍ .فَالنَّظَرُ - عَلٰی مَا ذَکَرْنَا - أَنْ لَا یَکُوْنَ مَوْضِعَ سُجُوْدِ تِلَاوَۃٍ .وَکَانَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ مِنْ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) ہُوَ مَوْضِعَ سُجُوْدٍ أَوْ لَا ہُوَ قَوْلُہٗ : (فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَیْہِمَ الْقُرْآنُ لَا یَسْجُدُوْنَ) فَذٰلِکَ مَوْضِعُ إِخْبَارٍ لَا مَوْضِعُ أَمْرٍ .فَالنَّظَرُ - عَلٰی مَا ذَکَرْنَا - أَنْ یَکُوْنَ مَوْضِعَ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ‘ وَیَکُوْنَ کُلُّ شَیْئٍ مِنَ السُّجُوْدِ یُرَدُّ إِلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَمَا کَانَ مِنْہُ أَمْرًا رُدَّ إِلٰی شَکْلِہِ مِمَّا ذَکَرْنَا فَلَمْ یَکُنْ فِیْہِ سُجُوْدٌ‘ وَمَا کَانَ مِنْہُ خَبَرًا رُدَّ إِلٰی شَکْلِہِ مِنَ الْأَخْبَارِ‘ فَکَانَ فِیْہِ سُجُوْدٌ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .فَکَانَ یَجِیْئُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ مَوْضِعُ السُّجُوْدِ مِنْ حم ہُوَ الْمَوْضِعَ الَّذِیْ ذَہَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِأَنَّہٗ - عِنْدَہٗ - خَبَرٌ‘ ہُوَ قَوْلُہٗ : (فَإِنْ اسْتَکْبَرُوْا فَاَلَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّک یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ) لَا کَمَا ذَہَبَ إِلَیْہِ مَنْ خَالَفَہٗ، لِأَنَّ أُوْلَئِکَ جَعَلُوْا السَّجْدَۃَ عِنْدَ أَمْرٍ‘ وَہُوَ قَوْلُہٗ : (وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ) فَکَانَ ذٰلِکَ مَوْضِعَ أَمْرٍ‘ وَکَانَ الْمَوْضِعُ الْآخَرُ‘ مَوْضِعَ خَبَرٍ‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا أَنَّ النَّظَرَ یُوْجِبُ أَنْ یَکُوْنَ السُّجُوْدُ فِیْ مَوَاضِعِ الْخَبَرِ‘ لَا فِیْ مَوَاضِعِ الْأَمْرِ .فَکَانَ یَجِیْئُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ لَا یَکُوْنَ فِیْ سُوْرَۃِ (الْحَجِّ) غَیْرُ سَجْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ‘ لِأَنَّ الثَّانِیَۃَ الْمُخْتَلَفَ فِیْہَا إِنَّمَا مَوْضِعُہَا فِیْ قَوْلِ مَنْ یَجْعَلُہَا سَجْدَۃً‘ مَوْضِعَ أَمْرٍ وَہُوَ قَوْلُہٗ : (ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ) الْآیَۃَ وَقَدْ بَیَّنَّا أَنَّ مَوَاضِعَ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ‘ ہِیَ مَوَاضِعُ الْأَخْبَارِ‘ لَا مَوَاضِعُ الْأَمْرِ .فَلَوْ خُلِّیْنَا وَالنَّظَرَ‘ لَکَانَ الْقَوْلُ فِیْ سُجُوْدِ التِّلَاوَۃِ أَنْ نَنْظُرَ‘ فَمَا کَانَ مِنْہُ مَوْضِعَ أَمْرٍ لَمْ نَجْعَلْ فِیْہِ سُجُوْدًا‘ وَمَا کَانَ مِنْہُ مَوْضِعَ خَبَرٍ جَعَلْنَا فِیْہِ سُجُوْدًا‘ وَلَکِنَّ اتِّبَاعَ مَا ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْلٰی وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ سُوْرَۃِ (ص) فَقَالَ قَوْمٌ : فِیْہَا سَجْدَۃٌ‘ وَقَالَ آخَرُوْنَ : لَیْسَ فِیْہَا سَجْدَۃٌ .فَکَانَ النَّظَرُ - عِنْدَنَا - فِیْ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْہِ سَجْدَۃٌ‘ لِأَنَّ الْمَوْضِعَ الَّذِیْ جَعَلَہُ مَنْ جَعَلَہُ فِیْہَا سَجْدَۃً‘ وَمَوْضِعُ السُّجُوْدِ ہُوَ مَوْضِعُ خَبَرٍ‘ لَا مَوْضِعُ أَمْرٍ‘ وَہُوَ قَوْلُہٗ : (فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَخَرَّ رَاکِعًا وَأَنَابَ) فَذٰلِکَ خَبَرٌ .فَالنَّظَرُ فِیْہِ أَنْ یُرَدَّ حُکْمُہٗ إِلَی حُکْمِ أَشْکَالِہِ مِنَ الْأَخْبَارِ‘ فَیَکُوْنَ فِیْہِ سَجْدَۃٌ کَمَا یَکُوْنُ فِیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٠٨٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ حٰم تنزیل کے اس سجدہ میں تو اتفاق ہے مگر مقام سجدہ میں اختلاف ہے۔ اس سے قبل جن سجدات کا ہم نے ذکر کیا ہے ان سجود اور ان مقامات دونوں پر اتفاق ہے۔ سجدات کے ان مقامات کی اطلاع دی گئی ہے حکم نہیں دیا گیا اور ہم کئی مقامات ایسے بھی پاتے ہیں جن میں لفظ سجدہ بھی مذکور ہے اور امر بھی ہے مگر وہاں بالاتفاق سجدہ نہیں مثلاً { یا مریم اقنتی لربک واسجدی } ” اے مریم اپنے ربّ کے حضور عاجزی کرو اور سجدہ کرو “ اور دوسرے مقام پر فرمایا { وکن من الساجدین } ” اور سجدہ والوں سے ہو جاؤ “۔ پس نظر و فکر اس بات میں کیا جائے گا کہ جن مقامات میں سجدوں کا حکم مختلف ہے وہاں امر سجدہ یا فقط سجدے کی خبر دی گئی ہے۔ اگر سجدے کا حکم ہے تو وہ تعلیم سجدہ ہے اور اگر خبر سجدہ ہو تو وہ مقام سجدہ تلاوت ہے۔ وہ مقام سجدہ جہاں اختلاف کیا گیا وہ ” سورة النجم “ ہے۔ بعض حضرات نے اسے سجدہ تلاوت کا مقام کہا جبکہ دوسروں نے اسے شامل نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ { والسجدوا اللّٰہ واعبدوا } اس میں امر ہے خبر نہیں ہے۔ جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس پر قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ سجدہ کا مقام نہ ہو۔ وہ مقام جہاں جس کے مقام سجدہ ہونے میں اختلاف ہے سورة اقراء میں آیت { کلآہ تطعہ واسجد اقترب } ہے اس میں امر ہے اور خبر نہیں۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مقام سجدہ تلاوت نہ ہو۔ ایک اور مختلف فیہ مقام جو سورة انشقاق کی آیت { فما لھم لا یؤمنون۔۔۔} (الآیۃ) یہ خبر ہے امر نہیں۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ سجدہ تلاوت کا مقام ہو۔ جو بات ہم نے ذکر کی اس کو اس بات کی طرف لوٹائیں گے جو ہم کہہ آئے اس میں سے جو امر ہے وہ ہم مثل کی طرف لوٹائیں گے اور اگر اس میں سجدہ نہ ہوگا اور اس میں جہاں خبر ہے اس کو خبر کی طرف لوٹایا جائے گا وہاں سجدہ کریں گے۔ اس باب میں تقاضا قیاس یہی ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق تو حٰم سجدہ میں سجدہ تلاوت ہو چاہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کو اختیار کیا کیونکہ ان کے ہاں وہ خبر ہے اور وہ یہ آیت { فان استکبروا فالذین عند ربک یسبحون لہ باللیل والنھار وھم لا یسمعون } ہے۔ اس جگہ نہیں جیسا ان سے اختلاف کرنے والوں نے موضع سجدہ قرار دیا کیونکہ وہ امر ہے اور وہ یہ آیت ہے : { واسجدوا اللّٰہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون } اور یہ تو امر کا مقام ہے اور پہلا مقام وہ مقام خبر ہے اور تقاضا نظر سے سجدہ مقام خبر میں ہے ‘ مقام امر میں نہیں۔ پس اس کے مطابق سورة حج میں صرف ایک سجدہ ہوگا کیونکہ اختلاف کے مقام پر جنہوں نے سجدہ قرار دیا وہ مقام امر ہے اور وہ یہ آیت ہے : { أرکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم۔۔۔} (الآیۃ) اور سجدہ تو مقام خبر میں ہے۔ موضع امر مقام سجدہ نہیں۔ اگر قیاس کا اعتبار کرتے تو ہم ہر موضع خبر کو سجدہ اور ہر موضع امر کو مقام غیر سجدہ قرار دیتے مگر جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت شدہ حکم کی اتباع ضروری ہے (اسی کو اختیار کریں گے) ۔ سجدہ صٓ میں بھی اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں اس میں سجدہ ہے۔ دوسرے اس میں سجدہ نہیں مانتے۔ ہمارے ہاں کا قیاس یہ چاہتا ہے کہ یہاں سجدہ تلاوت ہو۔ جو لوگ یہاں سجدہ کے قائل ہیں وہ مقام خبر کو مقام بتلاتے ہیں مقام امر پر نہیں اور وہ یہ آیت کا یہ حصہ ہے : { فاستغفر ربہ وخرّ راکعا و اناب } یہ خبر ہے۔ پس قیاس سجدے کا متقاضی ہے ہم مثلوں کا حکم لگے گا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ روایت وارد ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
حاصل روایات : حٰمّ کے سجدہ میں تو اتفاق ہے البتہ مقام سجدہ میں اختلاف ہے ابن عباس (رض) دوسری آیت اور ابن مسعود (رض) پہلی آیت پر سجدہ کے قائل ہیں۔
نظری قاعدہ کلیہ : جن مقامات پر بالاتفاق سجدہ ہے وہ مقامات اخبار ہیں اور جن مقامات میں اختلاف ہے وہ مقامات امر ہیں موقع امر میں چونکہ موقع تعلیم ہے اس لیے مقام امر میں سجدہ لازم نہ ہوگا ہر وہ مقام جہاں خبر ہے وہاں سجدہ لازم ہے کیونکہ سجدہ کی خبر دی گئی ہے مثلاً یا مریم اقنتی لربک واسجدی میں بالاتفاق سجدہ نہیں ہے اسی طرح کن من الساجدین میں بھی سجدہ نہیں بلکہ تعلیم مقصود ہے اب ان مختلف مقامات کو غور کے لیے ذکر کیا جاتا ہے۔
سجدہ کے اختلافی مقامات :
نمبر 1: سورة نجم فاسجدوا للہ واعبدوا آیت پر۔
نمبر 2: سورة انشقاق لایسجدون آیت پر۔
نمبر 3: سورة اقرأ واسجد واقترب آیت پر۔
نمبر 4: سورة صٓ وخر راکعا واناب آیت پر۔
نمبر 5: سورة حج مقام ثانی وارکعوا واسجدوا آیت پر۔
اب نظری قاعدہ کے پیش نظر سورة نجم میں امر ہے خبر نہیں پس سجدہ تلاوت نہ ہونا چاہیے اسی طرح اقراء باسم ربک میں بھی امر ہے خبر نہیں۔ پس یہ بھی سجدہ تلاوت کی جگہ نہ ہوئی اور سورة انشقت میں مقام خبر ہے پس سجدہ تلاوت ہونا چاہیے ہر ایک کو اس قاعدہ کے مطابق اس کے اشکال کی طرف لوٹایا جائے گا جہاں امر ہوگا سجدہ نہ ہوگا اور جہاں خبر ہوگی وہاں سجدہ ہوگا چنانچہ حم میں لایسئمون خبر ہے ابن عباس (رض) بھی اسی کو مقام سجدہ کہتے ہیں۔ اور ان کے خلاف جن کا قول ہے وہ موضع امر ہے اس لحاظ سے وہاں سجدہ بطریق نظر نہیں آتا بالکل اسی طرح سورة الحج لیں تو اس میں بھی پہلا مقام سجدہ کا بنتا ہے نہ کہ دوسرا کیونکہ وہ مقام امر ہے۔ لیکن یہ لٰکن تردیدیہ ہے۔
نظری قاعدہ تو محص قیاس ہے اور شروع میں اصل دلیل تو نقل ہے اس سے جن مقامات پر نقل وارد ہے خواہ نظر اس کی تائید کرے یا نہ کرے وہاں سجدہ ہوگا اور جہاں نقل کے مطابق نظر ہو تو وہ نور علی نور ہے۔
سورة صٓ کا سجدہ : اس کے متعلق اختلاف ہے۔
نمبر 1: اس میں امام ابوحنیفہ (رح) تو سجدہ کے قائل ہیں۔
نمبر 2: جبکہ امام شافعی (رح) شعبی (رح) سجدہ کے قائل نہیں ہیں۔ نظر کے مطابق بھی یہاں سجدہ تلاوت لازم آتا ہے کیونکہ یہ موضع خبر ہے ملاحظہ کریں۔ فاستغفر ربہ وخر راکعا واناب اور دوسری طرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں موجود ہے ملاحظہ ہو۔

2088

۲۰۸۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِلَالٍ‘ عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِیْ ص).
٢٠٨٨: عبداللہ بن سعد نے ابو سعید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صٓ میں سجدہ کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی سجودالقرآن باب ٥‘ نمبر ١٤١٠۔

2089

۲۰۸۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبَ‘ قَالَ : سَأَلْتُ مُجَاہِدًا عَنْ السُّجُوْدِ فِیْ (ص) فَقَالَ : سَأَلْتُ عَنْہَا ابْنَ عَبَّاسٍ‘ فَقَالَ : اُسْجُدْ فِیْ (ص) فَتَلَا عَلَیَّ ہٰؤُلَائِ الْآیَاتِ مِنَ الْأَنْعَامِ (وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ) إِلٰی قَوْلِہٖ (أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ) فَکَانَ دَاوُد‘ مِمَّنْ أُمِرَ نَبِیُّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَقْتَدِیَ بِہٖ .
٢٠٨٩: عوام بن حوشب کہتا ہے کہ میں نے مجاہد سے صٓ کے سجدہ سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا میں نے ابن عباس (رض) سے یہ سوال کیا تھا تو انھوں نے فرمایا صٓ میں سجدہ کرو پھر انھوں نے انعام کی یہ آیات تلاوت فرمائیں ومن ذریتہ داؤد و سلیمان الی قولہ فبہداہم اقتدہ داؤد (علیہ السلام) ان میں سے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اقتداء کرو۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣٨‘ باب ١۔

2090

۲۰۹۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ ؛ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ السَّجْدَۃِ فِیْ (صٓ) فَقَالَ : (أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہٖ) .فَبِھٰذَا نَأْخُذُ‘ فَنَرَی السُّجُوْدَ فِیْ (صٓ) تِبَاعًا لِمَا قَدْ رُوِیَ فِیْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلِمَا قَدْ أَوْجَبَہُ النَّظَرُ . وَنَرَی السُّجُوْدَ فِی الْمُفَصَّلِ فِیْ (النَّجْمِ) وَ (اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ) وَ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) لِمَا قَدْ ثَبَتَ فِیْہِ الرِّوَایَۃُ فِی السُّجُوْدِ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَنَرٰی أَنْ لَا سُجُوْدَ فِیْ آخِرِ (الْحَجِّ) لِمَا قَدْ نَفَاہُ مَا ذَکَرْنَاہُ مِنَ النَّظَرِ‘ وََوْضِعُ تَعْلِیْمٍ‘ لَا مَوْضِعُ خَبَرٍ‘ وَمَوَاضِعُ التَّعْلِیْمِ لَا سُجُوْدَ فِیْہَا لِلتِّلَاوَۃِ. وَقَدِ اخْتَلَفَ فِیْ ذٰلِکَ الْمُتَقَدِّمُوْنَ .فَمَا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٠٩٠: مجاہد سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) سے سجدہ صٓ کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے یہ آیت پڑھی : { فَبِھُدَاھُمْ اقْتَدِہِ } اسی کو ہم اختیار کرتے ہوئے صٓ میں سجدہ تلاوت ہے اوّل اس وجہ سے کہ جناب رسول اللہ سے اسی طرح مروی ہے اور اس بناء پر بھی کہ تقاضہ نظر بھی یہی ہے اور ہمارے ہاں مفصلات میں سورة نجم ‘ سورة انشقاق ‘ سورة اقراء میں سجدہ تلاوت ہے اور یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اور ہمارے ہاں سورة الحج کے آخر میں دوسرا سجدہ نہیں ہے جیسا کہ قیاس کی روشنی میں اس کی نفی ہوچکی ہے اور یہ بھی بات ہے کہ وہ موقعہ تعلیم ہے خبر کا موقعہ نہیں اور مواقع تعلیم میں سجدہ تلاوت نہیں۔ متقدمین کا اس میں اختلاف ہے۔ روایات درجہ ذیل ہیں۔
تخریج : ترمذی فی ابواب الوتر باب ٥٣‘ نمبر ٥٧٧‘ ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٩۔
حاصل کلام :
یہ ہوا کہ ہم ان روایات کو سامنے رکھ کر صٓ میں سجدے کا حکم دیتے ہیں اصل یہ ہے اور نظر بھی بظاہر اس کی مصدق ہے اور بالکل اسی طرح مفصلات میں سورة النجم۔ انشقاق علق میں سجدہ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات اس کو ثابت کرتی ہیں۔ خواہ نظر اس کے موافق نہیں اس کو ترک کرتے ہیں۔
سورة الحج کے سجدہ کا اختلاف :
اور سورة الحج کے آخر میں سجدہ لازم قرار نہیں دیتے کیونکہ وہاں ایک قسم کی روایت موجود نہیں اور بتقاضائے نظر اس کی نفی ہوتی ہے کیونکہ وہ امر کی جگہ ہے جو کہ مواقع تعلیم میں استعمال ہوتا ہے خبر کی جگہ نہیں۔
اختلاف روایت ملاحظہ ہو۔

2091

۲۰۹۱: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ وَرَوْحٌ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ أَنْبَأَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أُخْتٍ لَنَا یُقَالُ لَہٗ : عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ ثَعْلَبَۃَ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الصُّبْحَ فِیْمَا أَعْلَمُ‘ قَالَ سَعْدٌ صَلّٰی بِنَا الصُّبْحَ‘ فَقَرَأَ (بِالْحَجِّ) وَسَجَدَ فِیْہَا سَجْدَتَیْنِ .
٢٠٩١: عبداللہ بن ثعلبہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمر بن خطاب (رض) نے صبح کی نماز پڑھائی اور اس میں سورة الحج پڑھی اور اس میں دو سجدے کئے۔
تخریج : ترمذی فی ابواب الوتر باب ٥٤‘ نمبر ٥٧٨‘ ابن شیبہ فی الصلاۃ ٢؍١١۔

2092

۲۰۹۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ‘ أَنَّ أَبَا مُوْسَی الْأَشْعَرِیَّ سَجَدَ فِیْہَا سَجْدَتَیْنِ .
٢٠٩٢: صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری (رض) نے سورة الحج میں دو سجدے کئے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٤٥٠۔

2093

۲۰۹۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٢٠٩٣: عبداللہ بن دینار نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : موطا ١؍٧١‘ بیہقی ٢؍٤٥٠۔

2094

۲۰۹۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خُمَیْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ‘ وَخَالِدَ بْنَ مَعْدَانَ‘ یُحَدِّثَانِ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ أَنَّہٗ رَأٰی أَبَا الدَّرْدَائِ سَجَدَ فِیْ (الْحَجِّ) سَجْدَتَیْنِ .
٢٠٩٤: جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوالدردائ (رض) کو حج میں دو سجدے کرتے دیکھا۔
تخریج : بیہقی ٢؍٤٥١۔

2095

۲۰۹۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلٰی الثَّعْلَبِیِّ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ فِیْ سُجُوْدِ (الْحَجِّ) الْأَوَّلُ عَزِیمَۃٌ وَالْآخَرُ تَعْلِیْمٌ فَبِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ھٰذَا نَأْخُذُ .وَجَمِیْعُ مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِمَّا جَائَ تْ بِہٖ الْآثَارُ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٢٠٩٥: سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ سورة حج کا پہلا سجدہ لازم ہے اور دوسرا تعلیم کے لیے ہے۔ پس ہم ابن عباس (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باب میں جو مسائل آئے جو آثار صحابہ کرام سے مؤید ہیں وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٧٣۔ حاصل روایات : ان روایات میں حضرت عمر ‘ ابن عمر ‘ ابوالدرداء (رض) دو دو سجدے حج میں کرتے تھے البتہ ابن عباس (رض) اول سجدہ کو لازم قرار دیتے اور دوسرے کو تعلیم کے لیے کہتے تھے آثار صحابہ کے اس اختلاف میں ہم نے اثر ابن عباس (رض) کو ترجیح دی کہ وہ نظر کے بھی موافق ہے۔
اس باب میں جو آثار وارد ہوئے اور ہم نے اس کو راجح قرار دیا وہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں خوب درخوب تفصیلات ذکر کر کے امام صاحب (رح) کے مسلک کو راجح قرار دیا اور اپنی رائے بھی طحاوی (رح) کی اس کے موافق تھی تو بار بار کثرت روایات کی حمایت کی وجہ سے امام صاحب کا تذکرہ فرمایا نظری دلیل کو پیش کر کے اس کا حدود اربعہ بھی بتلایا کہ روایات کے مقابل ہم نظری دلیل نہیں مانتے مگر پھر اختلاف روایات میں ترجیح کے لیے نظری دلیل کو استعمال کرتے ہیں۔

2096

۲۰۹۶: َدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ‘ عَنْ بُسْرِ بْنِ مِحْجَنٍ الدِّیْلِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ رَآہُ وَقَدْ أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ قَالَ : فَجَلَسْتُ وَلَمْ أَقُمْ لِلصَّلَاۃِ‘ فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ قَالَ لِیْ : أَلَسْت مُسْلِمًا؟ قُلْتُ : بَلَی‘ قَالَ : فَمَا مَنَعَک‘ أَنْ تُصَلِّیَ مَعَنَا؟ فَقُلْتُ : قَدْ کُنْتُ صَلَّیْتُ مَعَ أَہْلِیْ فَقَالَ : صَلِّ مَعَ النَّاسِ وَإِنْ کُنْتُ قَدْ صَلَّیْتَ مَعَ أَہْلِکَ) .
٢٠٩٦: بسر بن محجن دئلی نے اپنے والد محجن (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا ادھر جماعت کھڑی ہوگئی اور میں اس دوران بیٹھا رہا اور جماعت میں شامل نہ ہوا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے فرمایا کیا تم مسلمان نہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں فرمایا پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ میں نے کہا میں گھر میں نماز پڑھ چکا تھا آپ نے فرمایا لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو خواہ گھر میں نماز پڑھ چکے ہو۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی باب الامامہ والجماعہ ٩٣٠‘ عبدالرزاق ٢؍٤٢٠۔
خلاصہ الزام : جو آدمی گھر میں یہ سمجھ کر فرض پڑھ لے کہ مسجد میں جماعت ہوچکی تو وہ مسجد میں آیا تو لوگ نماز میں مصروف تھے اب وہ نماز میں شرکت کرسکتا ہے یا نہیں۔
نمبر 1: امام شافعی (رح) و احمد (رح) فرماتے ہیں پانچوں نمازوں میں شرکت کرسکتا ہے۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کے ہاں فجر و مغرب عصر میں شرکت نہیں کرسکتا ظہر و عشاء میں شرکت کرسکتا ہے فجر و عصر کے بعد تو نفل جائز نہیں اور تین رکعت نفل نہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور ان کی مستدل روایات : اگر اکیلے نماز پڑھ لی جائے تو جماعت مل جانے کی صورت دوبارہ اس میں شرکت کرسکتے ہیں خواہ کوئی نماز ہو۔ یہ احناف کے علاوہ جملہ ائمہ کا مسلک ہے بس تعداد نماز میں ذرا اختلاف ہے۔ دلیل۔

2097

۲۰۹۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحِ ڑالْوُحَاظِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ‘ عَنْ بُسْرِ بْنِ مِحْجَنٍ الدِّیْلِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (صَلَّیْتُ فِیْ بَیْتِی الظُّہْرَ‘ أَوَ الْعَصْرَ‘ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ‘ فَوَجَدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا وَحَوْلَہُ أَصْحَابُہٗ، ثُمَّ أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ) ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
٢٠٩٧: بسر بن محجن دئلی نے اپنے والد محجن (رض) سے نقل کیا کہ میں نے ظہر کی نماز گھر میں ادا کی یا عصر کہا پھر میں مسجد نبوی کی طرف نکلا تو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام (رض) کے ساتھ بیٹھا پایا پھر جماعت کھڑی ہوگئی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٠؍٢٩٥۔

2098

۲۰۹۸: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ح .
٢٠٩٨: حسین بن نصر نے فریابی سے بیان کیا۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٣٤۔

2099

۲۰۹۹: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ بُسْرِ بْنِ مِحْجَنٍ الدِّیْلِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَیَّ صَلَاۃٍ ہِیَ.
٢٠٩٩: زید بن اسلم نے بسر بن محجن دئلی نے اپنے والد سے اور انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ البتہ اس میں یہ مذکور نہیں کہ یہ کون سی نماز تھی۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٠؍٢٩٣۔

2100

۲۱۰۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ .قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ بُسْرِ بْنِ مِحْجَنٍ الدِّیْلِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَوْ عَنْ عَمِّہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٢١٠٠: زید بن اسلم نے بسر بن محجن دئلی سے انھوں نے اپنے والد یا چچا سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

2101

۲۱۰۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جُرَیْجٍ ح
٢١٠١: ابو بکرہ نے وہب بن جریج سے۔

2102

۲۱۰۲: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الصَّامِتِ‘ عَنْ (أَبِیْ ذَرٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : أَوْصَانِی خَلِیْلِیْ أَنْ أُصَلِّیَ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا‘ وَإِنْ أَدْرَکْت الْاِمَامَ‘ وَقَدْ سَبَقَک‘ فَقَدْ أَجْزَتْک صَلَاتُک‘ وَإِلَّا فَہِیَ لَک نَافِلَۃٌ) .
٢١٠٢: عبداللہ بن صامت نے حضرت ابو ذر (رض) سے نقل کیا کہ میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں وقت پر نماز پڑھا کروں اگر امام جماعت میں سبقت کر جائے تو تیری نماز اس کے ساتھ جائز ہے ورنہ وہ تیرے لیے نفل بن جائیں گے۔
تخریج : مسلم فی المساجدنمبر ٢٤٠۔

2103

۲۱۰۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا بُدَیْلٌ‘ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الصَّامِتِ‘ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَرْفَعُہٗ، قَالَ : فَضَرَبَ فَخِذِیْ فَقَالَ لِیْ : کَیْفَ أَنْتَ اِذَا بَقِیْتُ فِیْ قَوْمٍ یُؤَخِّرُوْنَ الصَّلَاۃَ عَنْ وَقْتِہَا ثُمَّ قَالَ لِیْ : صَلِّ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا‘ ثُمَّ اُخْرُجْ‘ وَإِنْ کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَأُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَصَلِّ مَعَہُمْ‘ وَلَا تَقُلْ إِنِّیْ قَدْ صَلَّیْتَ فَلاَ أُصَلِّی) .
٢١٠٣: عبداللہ بن صامت نے حضرت ابو ذر (رض) سے نقل کیا اور مرفوعاً بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری ران پر ہاتھ مار کر (متوجہ کیا) فرمایا اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہوں گے پھر مجھے فرمایا تم وقت پر نماز ادا کرلینا پھر نکلنا اگر تم مسجد میں ہو اور جماعت کھڑی ہوجائے تو ان کے ساتھ نماز پڑھو اور یہ مت کہو کہ میں نماز پڑھ چکا ہوں پس میں نماز نہ پڑھوں گا۔ (یہ زمانہ فتنہ کی ناصحانہ تدبیر بتلائی)
تخریج : مسلم فی المساجد ٢٣٨‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب الامامہ والجماعۃ ٩٣٢۔

2104

۲۱۰۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ ‘ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ یَزِیْدَ بْنِ الْأَسْوَدِ السُّوَائِیَّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَسْجِدِ الْخَیْفِ صَلَاۃَ الصُّبْحِ‘ فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ اِذَا رَجُلَانِ جَالِسَانِ فِیْ مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ فَأُتِیَ بِہِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُہُمَا‘ فَقَالَ : مَا مَنَعَکُمَا أَنْ تُصَلِّیَا مَعَنَا؟ فَقَالَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ صَلَّیْنَا فِیْ رِحَالِنَا‘ قَالَ : فَلاَ تَفْعَلَا‘ اِذَا صَلَّیْتُمَا فِیْ رِحَالِکُمَا‘ ثُمَّ أَتَیْتُمَا النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ‘ فَصَلِّیَا مَعَہُمْ‘ فَإِنَّہَا لَکُمَا نَافِلَۃٌ أَوْ قَالَ تَطَوُّعٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : ذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ فَقَالُوْا : اِذَا صَلَّی الرَّجُلُ فِیْ بَیْتِہِ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً‘ أَیَّ صَلَاۃٍ کَانَتْ‘ ثُمَّ جَائَ الْمَسْجِدَ فَوَجَدَ النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ‘ صَلَّاہَا مَعَہُمْ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : کُلُّ صَلَاۃٍ یَجُوْز التَّطَوُّعُ بَعْدَہَا‘ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یُفْعَلَ فِیْہَا مَا ذَکَرْتُمْ مِنْ صَلَاتِہِ إِیَّاہَا مَعَ الْاِمَامِ‘ عَلٰی أَنَّہَا نَافِلَۃٌ لَہٗ، غَیْرَ الْمَغْرِبِ‘ فَإِنَّہُمْ کَرِہُوْا أَنْ تُعَادَ ؛ لِأَنَّہَا إِنْ أُعِیْدَتْ‘ کَانَتْ تَطَوُّعًا‘ وَالتَّطَوُّعُ لَا یَکُوْنُ وِتْرًا‘ إِنَّمَا یَکُوْنُ شَفْعًا .وَکُلُّ صَلَاۃٍ لَا یَجُوْزُ التَّطَوُّعُ بَعْدَہَا‘ فَلاَ یَنْبَغِیْ أَنْ یُعِیْدَہَا مَعَ الْاِمَامِ‘ لِأَنَّہَا تَکُوْنُ تَطَوُّعًا فِیْ وَقْتٍ لَا یَجُوْزُ فِیْہِ التَّطَوُّعُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ تَوَاتَرَتْ بِہِ الرِّوَایَاتُ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِیْ نَہْیِہِ عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ‘ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ) .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہِ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ فَذٰلِکَ عِنْدَہُمْ نَاسِخٌ لِمَا رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .وَقَالُوْا : إِنَّہٗ لَمَّا بَیَّنَ فِیْ بَعْضِ الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ‘ فَقَالَ : (فَصَلُّوہَا فَإِنَّہَا لَکُمْ نَافِلَۃٌ أَوْ قَالَ : تَطَوُّعٌ) وَنَہٰی عَنِ التَّطَوُّعِ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْأُخَرِ‘ وَأُجْمِعَ عَلَی اسْتِعْمَالِہَا - کَانَ ذٰلِکَ دَاخِلًا فِیْہَا‘ نَاسِخًا لِمَا قَدْ تَقَدَّمَہُ مِمَّا قَدْ خَالَفَہُ .وَمِنْ تِلْکَ الْآثَارِ مَا لَمْ یَقُلْ فِیْہِ (فَإِنَّہَا لَکُمْ تَطَوُّعٌ) فَذٰلِکَ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مَعْنَاہُ مَعْنٰی ھٰذَا الَّذِیْ بَیَّنَ فِیْہِ فَقَالَ : (فَإِنَّہَا لَکُمْ تَطَوُّعٌ) .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ‘ کَانَ فِیْ وَقْتٍ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ فِیْہِ الْفَرِیْضَۃَ مَرَّتَیْنِ فَیَکُوْنَانِ جَمِیْعًا فَرِیْضَتَیْنِ‘ ثُمَّ نُہُوْا عَنْ ذٰلِکَ .فَعَلٰی أَیِّ الْأَمْرَیْنِ کَانَ‘ فَإِنَّہٗ قَدْ نَسَخَہُ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَمِمَّنْ قَالَ بِأَنَّہٗ لَا یُعَادُ مِنَ الصَّلَوَاتِ إِلَّا الظُّہْرُ‘ وَالْعِشَائُ الْآخِرَۃُ‘ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ - رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ‘
٢١٠٤: جابر بن یزید بن اسود اسوائی نے اپنے والد یزید بن اسود (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد خیف میں صبح کی نماز پڑھائی جب نماز سے فراغت ہوئی تو اچانک دو آدمیوں پر نگاہ پڑی جو مسجد کے پچھلے حصے میں بیٹھے تھے ان کو لایا گیا تو ان پر کپکپی طاری تھی آپ نے فرمایا تم نے سہارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی دونوں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے اپنے کجاو وں کے پاس نماز پڑھ لی آپ نے فرمایا ایسا مت کرو جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو پھر تم لوگوں میں ایسی حالت میں آؤ کہ وہ نماز میں مصروف ہوں تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لو یہ تمہاری نفل نماز بن جائے گی آپ نے نافلہ یا تطوع کا لفظ فرمایا دونوں کا معنی ایک ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے ان آثار کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے خواہ وہ کوئی سی نماز ہو مگر دوسرے علماء کی جماعت نے فرمایا کہ جس نماز کے بعد نوافل کی اجازت ہے۔ اس میں ان آثار پر عمل میں کچھ حرج نہیں کہ امام کے ساتھ نماز ادا کرلے تاکہ وہ اس کے لیے نفل بن جائیں۔ مگر مغرب میں ایسا نہ کرے کیونکہ اس کو لوٹانا مکروہ ہے اگر وہ اسے لوٹائے گا تو وہ نفل ہیں اور نفل شفعہ شفعہ ہیں طاق نہیں ہوتے اور جن نمازوں کے بعد نوافل کی اجازت نہیں ان میں امام کے ساتھ اعادہ نماز نہ کرے۔ اس لیے کہ یہ ایسے وقت کے نفل ہیں جس میں نوافل کی اجازت نہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں تواتر کے ساتھ مروی ان روایات سے استدلال کیا ہے۔ جن میں آپ صبح سے لے کر طلوع آفتاب تک اور عصر سے لے کر غروب آفتاب میں نفل کی ممانعت فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ طلوع اور غروب پورے طور پر ہوجائے۔ ہم اسناد سے ان روایات کو اسی کتاب میں ذکر کرچکے۔ تو دوسرے قول والوں کے ہاں یہ روایات فصل اوّل میں مذکورہ روایات کی ناسخ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب شروع باب کی بعض احادیث میں یہ موجود ہے ” فصلوھا فانھا لکم نافلۃ او قال تطوع “ کہ ان کو پڑھو بیشک وہ تمہارے لیے نافل ہیں وہاں ” لفظنا فلہ یا تطوع “ فرمایا (ہر دو کا معنی ایک ہے) ۔ ان روایاتِ متاخرہ میں نفلوں سے منع فرمایا ان روایات کے استعمال پر بھی اتفاق ہے۔ تو ان کا حکم وہی ہوگا اور یہ گزشتہ روایات کی ناسخ بنیں گی جو ان کے مخالف ہیں۔ بعض روایات میں یہ بات مذکور نہیں ” فانھا لکم تطوع “ کہ وہ تمہارے حق میں نفل ہیں۔ تو اس میں احتمال ہے کہ اس کا معنی یہی ہو جو اس میں بیان ہو کہ وہ تمہارے حق میں نفل ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہو جب وہ ایک فرض دو مرتبہ ادا کرتے تھے۔ پس اس صورت میں دونوں نمازیں فرض ہوں گی۔ پھر اس سے روک دیا گیا۔ بہرحال ان میں جس احتمال کو بھی مانیں یہ ان کے لیے ناسخ بنیں گی۔ جن علماء کے نزدیک ظہر و عشاء کے علاوہ دوبارہ اور کوئی بھی نماز درست نہیں ‘ ان میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) بھی ہیں۔ روایات درج ذیل ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥٦‘ نمبر ٥٧٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٤٠‘ نمبر ٢١٩‘ نسائی فی الامامہ باب ٥٤‘ مسند احمد ٤؍١٦٠۔
حاصل روایات : جب آدمی نماز گھر میں پڑھ کر مسجد میں آئے اور لوگوں کو نماز میں مشغول پائے تو اسے جماعت میں شریک ہوجانا چاہیے ان روایات میں کسی نماز کی تعیین نہیں ہے ہر نماز میں شامل ہوسکتا ہے۔
فریق دوم کا مؤقف اور دلیل : ہر نماز جس کے بعد نوافل جائز نہیں ان کے علاوہ مغرب کو چھوڑ کر ہر نماز میں شامل ہوسکتے ہیں کیونکہ مغرب میں شامل ہوگا تو یہ نفل نہیں بن سکتے کیونکہ کوئی نفل طاق نہیں بلکہ وہ تو شفع شفع ہوتے ہیں ہر وہ نماز جس کے بعد نوافل جائز نہیں اس کو دوبارہ امام کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں کیونکہ وہ نفل بنیں گے اور نفل اس وقت ممنوع ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر روایات ان اوقات میں نوافل کی ممانعت کی وارد ہیں جن میں سے بعض ہم پہلے باب التطوع میں نقل کر آئے ہیں اس باب کی ابتداء میں نقل کردہ بعض روایات تو فصلوہا فانہا لکم نافلہ کے الفاظ وارد ہیں اور اس وقت نفل کی ممانعت وارد ہے جس پر سب کا اتفاق ہے تو وہ روایات ان کی بھی ناسخ ہیں۔ اور جن آثار میں یہ معنی مذکور نہیں ان میں دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: یا تو یہی معنی ہے تو وہ نسخ میں داخل ہوگئیں۔
نمبر 2: شروع شروع میں ایک فرض دو مرتبہ پڑھنے کی اجازت تھی پھر یہ حکم منسوخ ہوا تو یہ روایات بھی منسوخ شمار ہوں گی۔
نمبر 3: یہ احتمال بھی ہے کہ وہ ان نمازوں سے ہو جو لوٹائی جاتی ہیں یعنی ان کے بعد نفل درست ہیں مثلاً ظہر ‘ عشائ۔
فقط ان نمازوں کے لوٹانے کا قول امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے اور تابعین اور صحابہ کرام (رض) کی جماعت سے بھی یہ بات منقول ہے۔ آثار ملاحظہ ہوں۔

2105

۲۱۰۵: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ حَبِیْبٍ‘ عَنْ نَاعِمِ بْن أُجَیْلٍ مَوْلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : کُنْتُ أَدْخُلُ الْمَسْجِدَ لِصَلَاۃِ الْمَغْرِبِ‘ فَأَرَی رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ جُلُوْسًا فِیْ آخِرِ الْمَسْجِدِ‘ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ فِیْہِ‘ قَدْ صَلَّوْا فِیْ بُیُوْتِہِمْ .فَہٰؤُلَائِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانُوْا لَا یُصَلُّوْنَ الْمَغْرِبَ فِی الْمَسْجِدِ‘ لَمَّا کَانُوْا قَدْ صَلَّوْہَا فِیْ بُیُوْتِہِمْ‘ وَلَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ غَیْرُہُمْ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ - عِنْدَنَا - عَلٰی نَسْخِ مَا قَدْ کَانَ تَقَدَّمَہُ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لِأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مِثْلُ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ ذَہَبَ عَلَیْہِمْ جَمِیْعًا‘ حَتّٰی یَکُوْنُوْا عَلٰی خِلَافِہٖ‘ وَلٰـکِنْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُمْ لِمَا قَدْ ثَبَتَ عِنْدَہُمْ فِیْہِ مِنْ نَسْخِ ذٰلِکَ الْقَوْلِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَغَیْرِہِ مَا
٢١٠٥: ناعم بن اجیل مولیٰ امّ سلمہ کہتے ہیں کہ میں نماز مغرب کے لیے مسجد میں داخل ہوتا تو میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کچھ آدمیوں کو دیکھتا کہ وہ مسجد میں پیچھے بیٹھے ہیں اور وہ گھر میں نماز پڑھ کر آئے ہوتے اور لوگ اس وقت نماز میں مشغول ہوتے۔ تو یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو کہ مسجد میں آ کر دوسری بار مغرب کی نماز میں شامل نہ ہوتے بلکہ بیٹھ جاتے وہ گھروں میں نماز پڑھ کر آئے ہوتے تھے۔ ہمارے ہاں تو یہ عمل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے قول کے لیے ناسخ ہے۔ کیونکہ یہ درست نہیں کہ آپ کے فرمانے کے باوجود وہ اس کے الٹ چلیں۔ بلکہ ان کے نزدیک اس کا نسخ لازماً ثابت ہوچکا ہو گا اور حضرت ابن عمر (رض) وغیرہ سے یہ بات مروی ہے۔ درج ذیل اثر ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) مغرب کی نماز گھر میں پڑھ کر آتے ادھر اس وقت مسجد میں جماعت ہو رہی ہوتی تھی تو وہ مغرب کی جماعت میں شریک نہ ہوتے پس یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جو پہلے حکم تھا اس کا نسخ ان کو معلوم ہوچکا تھا تبھی تو وہ جماعت میں شریک نہ ہوتے تھے۔

2106

۲۱۰۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ : (إِنْ صَلَّیْتُ فِیْ أَہْلِک ثُمَّ أَدْرَکْت الصَّلَاۃَ‘ فَصَلِّہَا إِلَّا الصُّبْحَ وَالْمَغْرِبَ‘ فَإِنَّہُمَا لَا یُعَادَانِ فِیْ یَوْمٍ) .
٢١٠٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جب تم گھر میں نماز پڑھ چکو تو پھر نماز کو پالو تو صبح اور مغرب کے علاوہ نماز پڑھ لو کیونکہ یہ دونوں نمازیں ایک دن میں لوٹائی نہیں جاتیں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ فی الصلاۃ ٢؍٢٧٧۔

2107

۲۱۰۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُعَادَ الْمَغْرِبُ إِلَّا أَنْ یَخْشَی رَجُلٌ سُلْطَانًا‘ فَیُصَلِّیَہَا‘ ثُمَّ یَشْفَعَ بِرَکْعَۃٍ .
٢١٠٧: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ وہ مغرب کا لوٹانا مکروہ قرار دیتے مگر یہ کہ کسی کے دبدبے کا خطرہ ہو تو شامل ہوجائے پھر ایک رکعت ساتھ ملا لے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٧٦۔
حاصل روایات : : یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے عصر و فجر کے بعد نفلی نماز کے سلسلہ میں تفصیلی کلام پہلے ہوچکا اس وجہ سے زیادہ بحث نہیں کی اور روایت بھی کوئی پیش نہیں کی صرف فریق اوّل کی دلیل کا جواب دیا البتہ آخر میں صحابہ (رض) کے عمل و قول کو معاون دلیل کے طور پر لائے۔

2108

۲۱۰۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (جَائَ سُلَیْکٌ الْغَطَفَانِیُّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ‘ فَقَعَدَ سُلَیْکٌ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ‘ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ ا أَرَکَعْتُ رَکْعَتَیْنِ قَالَ: لَا قَالَ قُمْ فَارْکَعْہُمَا) .
٢١٠٨: ابوالزبیر (رض) نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ سلیک غطفانی جمعہ کے دن آیا جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے سلیک دو رکعت پڑھنے سے پہلے بیٹھ گئے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے دو رکعت پڑھ لیں اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا اٹھو اور پڑھو۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٣٢‘ مسلم فی الجمعہ نمبر ٥٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣١‘ نمبر ١١١٥‘ ترمذی فی الجمعہ باب ١٥‘ نمبر ٥١٠‘ نسائی فی السنن الکبرٰی نمبر ١٧٠٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٧‘ نمبر ١١١٢‘ مسند احمد ٣؍٢٩٧۔
خلاصہ الزام : خطبہ کے وقت آنے والے کو دو رکعت پڑھنا کیسا ہے۔
نمبر 1: امام شافعی و احمد (رح) اس وقت نفل کو مستحب قرار دیتے اور ترک کو مکروہ کہتے ہیں۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ ومالک (رح) دو رکعت کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں اور بیٹھنے کو لازم قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف و دلائل : خطبہ کے وقت آنے والے کو تحیۃ المسجد ضروری ہیں ترک مکروہ ہے دلائل کے لیے یہ روایات ہیں۔

2109

۲۱۰۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ (رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ) ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ۔
٢١٠٩: ابوالزبیر (رض) نے حضرت جابر (رض) روایت کی ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ جمعہ کا دن تھا اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : سابقہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

2110

۲۱۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہُ
٢١١٠: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ کو کہتے سنا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٣؍٢٤٤۔

2111

۲۱۱۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِشْکَابَ الْکُوْفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ سُلَیْکُ ڑالْغَطَفَانِیُّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ‘ فَجَلَسَ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ فَلْیُصَلِّ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ‘ ثُمَّ لْیَجْلِسَ) .
٢١١١: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ سلیک غطفانی جمعہ کے دن آیا جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے پس وہ بیٹھ گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ایسے حال میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے ہلکی دو رکعت پڑھنی چاہئیں پھر وہ بیٹھ جائے۔
تخریج : روایت نمبر ٢١٠٨ کی تخریج دیکھو۔ دارقطنی اج ٢؍١١۔

2112

۲۱۱۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ‘ قَالَ : ثَنَا أُبَیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ یَذْکُرُ حَدِیْثَ سُلَیْکِ ڑ الْغَطَفَانِیِّ .ثُمَّ سَمِعْتُ أَبَا سُفْیَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُوْلُ : جَائَ سُلَیْکٌ الْغَطَفَانِیُّ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ‘ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (قُمْ‘ یَا سُلَیْکُ‘ ؓفَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ‘ تَجَوَّزْ فِیْہِمَا ثُمَّ قَالَ اِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ فَلْیُصَلِّ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ‘ یَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا) .
٢١١٢: اعمش کہتے ہیں کہ میں نے ابو صالح کو سنا کہ وہ سلیک غطفانی کی حدیث بیان کرتے ہیں پھر میں نے ابو سفیان سے اس کے بعد یہ سنا کہ میں نے جابر (رض) سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ سلیک غطفانی آیا جبکہ جمعہ کا دن تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اس کو فرمایا اٹھو اے سلیک ! اور ہلکی دو رکعت نماز ادا کرو ان میں اختصار کرو پھر فرمایا جب تم میں کا کوئی اس حال میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو اس کو ضرور دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھنی چاہیے اور ان میں اختصار کرے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٥٩۔

2113

۲۱۱۳: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیْسَی‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ (عَنْ سُلَیْکٍ بْنِ ہُدْیَۃَ الْغَطَفَانِیِّ أَنَّہٗ جَائَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ عَلَی الْمِنْبَرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَقَالَ لَہٗ : أَرَکَعْتُ رَکْعَتَیْنِ؟ قَالَ : لَا‘ قَالَ : صَلِّ رَکْعَتَیْنِ وَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا) .
٢١١٣: حسن نے سلیک بن ھدیہ غطفانی سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جمعہ کے دن پہنچا جبکہ آپ منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے فرمایا کیا تم نے دو رکعت پڑھی ہیں ؟ میں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا دو رکعت اختصار سے پڑھو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٤٤٧۔

2114

۲۱۱۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامٍ الرُّعَیْنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عِجْلَانَ‘ عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَخْبَرَہٗ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ أَنَّ (رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ‘ فَنَادَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَمَا زَالَ یَقُوْلُ اُدْنُ حَتّٰی دَنَا‘ فَأَمَرَہٗ، فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ وَعَلَیْہِ خِرْقَۃُ خَلَقٍ‘ ثُمَّ صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ فِی الثَّانِیَۃِ‘ فَأَمَرَہٗ بِمِثْلِ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ صَنَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ فِی الْجُمُعَۃِ الثَّالِثَۃِ‘ فَأَمَرَہٗ بِمِثْلِ ذٰلِکَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ تَصَدَّقُوْا فَأَلْقَوا الثِّیَابَ‘ فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَخْذِ ثَوْبَیْنِ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ یَتَصَدَّقُوْا‘ فَأَلْقَی الرَّجُلُ أَحَدَ ثَوْبَیْہِ‘ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ أَمَرَہٗ أَنْ یَأْخُذَ ثَوْبَہٗ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْاِمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ یَخْطُبُ‘ فَیَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَرْکَعَ رَکْعَتَیْنِ یَتَجَوَّزُ فِیْہِمَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَجْلِسَ وَلَا یَرْکَعُ‘ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ سُلَیْکًا بِمَا أَمَرَہٗ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَقَطَعَ بِذٰلِکَ خُطْبَتَہُ إرَادَۃً مِنْہُ أَنْ یُعَلِّمَ النَّاسَ کَیْفَ یَفْعَلُوْنَ اِذَا دَخَلُوْا الْمَسْجِدَ‘ ثُمَّ اسْتَأْنَفَ الْخُطْبَۃَ .وَیَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ بَنَیْ عَلٰی خُطْبَتِہٖ‘ وَکَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یُنْسَخَ الْکَلَامُ فِی الصَّلَاۃِ‘ ثُمَّ نُسِخَ الْکَلَامُ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَنُسِخَ أَیْضًا فِی الْخُطْبَۃِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَمَرَہٗ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ‘ کَمَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلَی‘ وَیَکُوْنَ سُنَّۃً مَعْمُوْلًا بِہَا .فَنَظَرْنَا‘ ہَلْ رُوِیَ شَیْئٌ یُخَالِفُ ذٰلِکَ؟
٢١١٤: عیاض بن عبداللہ بتلاتے ہیں کہ حضرت ابو سعید الخدری (رض) نے بیان فرمایا کہ ایک آدمی مسجد میں اس حال میں داخل ہوا جبکہ آپ منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ نے اس کو آواز دی اور فرماتے رہے اور قریب آ اور قریب آ۔ یہاں تک کہ وہ قریب آگیا تو اس کو فرمایا پس اس نے دو رکعت بیٹھنے سے پہلے پڑھیں اور اس کا لباس پھٹے پرانے چیتھڑے تھے پھر اس نے اسی طرح کیا تو آپ نے اس کو اسی طرح حکم دیا پھر اس نے تیسرے جمعہ اسی طرح کیا تو آپ نے اس کو یہی حکم فرمایا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ کا حکم فرمایا لوگوں نے کپڑے ڈالے تو آپ نے اس کو دو کپڑے عنایت فرمائے پھر جب آپ نے دوبارہ صدقہ کا حکم فرمایا تو اس نے اپنا ایک کپڑا ڈال دیا آپ نے ناراضی کا اظہار فرمایا اور اسے لینے کا حکم فرمایا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ جمعہ کے دن جو شخص مسجد میں ایسے حال میں آئے کہ جب امام خطبہ میں مصروف ہو تو وہ اس وقت بھی مختصر طور پر دو رکعات پڑھے۔ ان کی مندرجہ بالا روایات ہیں۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس کو مناسب یہ ہے کہ اس وقت جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو ‘ بیٹھ جائے اور نفل نہ پڑھے انھوں نے اس کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلیک (رض) کو حکم دیتے ہوئے خطبہ روک دیا ہو تاکہ لوگوں کو مسئلہ معلوم ہوجائے کہ داخلہ مسجد کے وقت کیا کرنا چاہیے۔ پھر آپ نے نئے سرے سے خطبہ کو شروع فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ سابقہ خطبہ پر بناء کی ہو ‘ اور یہ واقعہ نماز میں کلام کے نسخ ہونے سے پہلے کا ہو۔ نماز میں کلام جب منسوخ ہوا تو خطبہ میں کلام بھی منسوخ ہوگیا اور عین ممکن ہے کہ آپ نے اس کو اس بناء پر ہی حکم دیا ہو جو قول اوّل فصل اوّل والوں نے بات کہی ہے اور عمل بھی اسی طریق پر ہو۔ چنانچہ اب ہم روایات کو دیکھتے ہیں کہ اس کے موافق یا مخالف عمل تھا۔
تخریج : ترمذی فی ابواب الجمعہ باب ١٥‘ نمبر ٥١١‘ نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب الجمعہ نمبر ١٧١٩‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٧‘ نمبر ١١١٣۔
حاصل روایات : جو آدمی جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے وقت آئے اسے دو ہلکی پھلکی رکعت پڑھ کر بیٹھنا چاہیے جیسا کہ ان روایات میں مذکور ہے معلوم ہوا کہ یہ دو رکعت تحیۃ المسجد ضروری ہیں۔
مؤقف فریق ثانی اور ان کے دلائل و جوابات : خطبہ کے دوران آنے والے کو بیٹھنا لازم ہے تحیۃ المسجد نہیں پڑھ سکتا ممنوع ہیں اولاً ان کے مؤقف کا جواب دیا جاتا ہے پھر دلیل پیش کی جائے گی۔
جواب نمبر 1: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلیک کو جب حکم فرمایا تو خطبہ کا ارادہ منقطع فرما دیا اور لوگوں کو مسجد میں آنے کے آداب سکھانے لگے کہ جب وہ مسجد میں آئیں تو پہلے انھیں کیا کرنا چاہیے۔
نمبر 2: آپ نے اپنے سابقہ خطبہ پر بنا کی ہو اور یہ واقعہ نماز اور خطبہ میں کلام کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہو۔
نمبر 3: اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو دوران خطبہ آپ نے حکم دیا اور یہ اس کے لیے لازم ہوگیا۔
اب غور کرتے ہیں کیا اس کے مخالف روایات موجود ہیں۔ روایت ملاحظہ فرمائیں۔

2115

۲۱۱۵: فَإِذَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ صَالِحٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ‘ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْن بُسْرٍ‘ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا إِلَی جَنْبِہٖ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ فَقَالَ : جَائَ رَجُلٌ یَتَخَطَّی رِقَابَ النَّاسِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اجْلِسْ فَقَدْ آذَیْت وَآنَیْت قَالَ أَبُوْ الزَّاہِرِیَّۃِ : وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ حَتّٰی یَخْرُجَ الْاِمَامُ) أَفَلاَ تَرَیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ ھٰذَا الرَّجُلَ بِالْجُلُوْسِ‘ وَلَمْ یَأْمُرْہُ بِالصَّلَاۃِ‘ فَھٰذَا یُخَالِفُ حَدِیْثَ سُلَیْکٍ‘ وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ، فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ فِیْ حَالِ اِبَاحَۃِ الْأَفْعَالِ فِی الْخُطْبَۃِ قَبْلَ أَنْ یَنْہَیْ عَنْہَا‘ أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ : (فَأَلْقَی النَّاسُ ثِیَابَہُمْ) .وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ نَزْعَ الرَّجُلِ ثَوْبَہٗ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ مَکْرُوْہٌ‘ وَأَنَّ مَسَّہُ الْحَصَی وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ مَکْرُوْہٌ‘ وَأَنَّ قَوْلَہُ لِصَاحِبِہٖ (أَنْصِتْ) وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ مَکْرُوْہٌ أَیْضًا .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ أَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُلَیْکًا‘ وَالرَّجُلَ الَّذِیْ أَمَرَہٗ بِالصَّدَقَۃِ عَلَیْہِ‘ کَانَ فِیْ حَالِ ڑ الْحُکْمُ فِیْہَا فِیْ ذٰلِکَ‘ بِخِلَافِ الْحُکْمِ فِیْمَا بَعْدُ .وَلَقَدْ تَوَاتَرَتْ الرِّوَایَاتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ (مَنْ قَالَ لِصَاحِبِہٖ أَنْصِتْ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ فَقَدْ لَغَا) .
٢١١٥: ابوالزاہریہ حضرت عبداللہ بن بسر (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن آپ کے پہلو میں بیٹھتا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا بیٹھ جاؤ تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی اور تو آیا (یعنی دیر سے) ابوالزاہریہ کہتے ہیں ہم امام کے نکلتے تک بات کرتے تھے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اس کو بیٹھ جانے کا حکم فرمایا نہ کہ نماز پڑھنے کا ‘ تو یہ روایت حضرت سلیک (رض) والی روایت کے خلاف ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) والی روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب خطبہ میں عمل جائز تھا اور اس کی ممانعت نہ کی گئی تھی۔ کیا تم یہ بات نہیں دیکھ پاتے کہ وہ کہہ رہے ہیں ” فالقی الناس ثیابھم “ کہ لوگوں نے کپڑے ڈال دیے۔ حالانکہ اس بات پر تو سب مسلمان متفق ہیں کہ آدمی کا اپنے کپڑے ایسے حال میں اتارنا کہ امام خطبہ دے رہا ہو ‘ مکروہ ہے۔ بلکہ دوران خطبہ کنکروں کو چھونا مکروہ ہے اور خطبہ کے درمیان اپنے ساتھی کو یہ کہہ کر خطاب کرنا کہ خاموش ہو جاؤ یہ مکروہ ہے۔ یہ اس بات کا اہم ثبوت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلیک (رض) کو جو حکم فرمایا اور وہ شخص جس کو اس کے لیے کپڑے دینے کا حکم فرمایا یہ اس حکم کے دوران تھا بخلاف اس حکم کے جو اس کے بعد تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ روایات یہ بات ہے کہ جو شخص اپنے ساتھی کو یہ کہے کہ تم خاموش ہو جاؤ تو اس سے لغو کام کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣٢‘ نمبر ١١١٨‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٨‘ مسند احمد ٤؍١٨٨۔
حاصل روایات : اس روایت میں غور کرو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو بیٹھنے کا حکم فرمایا اس کو نماز کا حکم نہیں فرمایا یہ روایت سلیک (رض) اور ابو سعد (رض) والی روایت کے خلاف ہے وہ روایات دوران خطبہ ان افعال کی اباحت کو ظاہر کر رہی ہیں اور یہ روایت ممانعت کو ثابت کر رہی ہے اس روایت میں موجود ہے فالقی الناس ثیابہم اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے خطبہ کے وقت اپنا کپڑا کھینچنا ممنوع ہے اسی طرح کنکریوں کا پکڑنا بھی خطبہ میں مکروہ بلکہ زبان سے انصت کا لفظ کہنا بھی دوران خطبہ ممنوع ہے یہ قرائن اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ سلیک کو حکم دینا اور آدمی کے لیے صدقہ کا حکم یہ ممانعت سے پہلے کی بات ہے اور بعد میں منسوخ کردی گئیں۔
دلیل : جب امام کے خطبہ کے دوران انصت کہنا بھی ممنوع ہے اور لغو حرکت ہے تو اور باتیں تو خود ممنوع ہوں گی۔
ممانعت کلام والی چند روایات ملاحظہ ہوں۔

2116

۲۱۱۶: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَالَ : (اِذَا قُلْتُ لِصَاحِبِک أَنْصِتْ‘ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتُ) .
٢١١٦: سعید ابن المسیب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم نے اپنے ساتھی کو دوران خطبہ انصیت کہا تو تم نے لغو حرکت کی لغو بات کہی۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٣٦‘ مسلم فی الجمعہ نمبر ١٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٢٩‘ نمبر ١١١٢‘ ترمذی فی الجمعہ باب ١٦‘ نمبر ٥١٢‘ نسائی فی الجمعہ باب ٢٢‘ والعیدین باب ٢١‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٦‘ موطا مالک فی الجمعہ نمبر ٧‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٩٥‘ مسند احمد ٢؍٢٤٤۔

2117

۲۱۱۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَعْنٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ
٢١١٧: ابن جریج نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب آدمی کا اپنے ساتھی کو یہ کہنا کہ تو نے لغو کام کیا اتنی بھی لغو ہے تو فعل و عمل لغو تو بدرجہ اولیٰ لغو ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلیک (رض) کو وہ حکم دیا اس وقت شرعی حکم اور تھا اور جب اس کو لغو قرار دیا اس وقت حکم شرعی اور تھا۔ اس سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح مروی ہے۔

2118

۲۱۱۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَارِظٍ‘ وَعَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سَمِعَہُ یَقُوْلُ : (اِذَا قُلْتُ لِصَاحِبِک أَنْصِتْ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ فَقَدْ لَغَوْتُ) فَإِذَا کَانَ قَوْلُ الرَّجُلِ لِصَاحِبِہٖ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ (أَنْصِتْ) لَغْوًا‘ کَانَ قَوْلُ الْاِمَامِ لِلرَّجُلِ (قُمْ فَصَلِّ) لَغْوًا أَیْضًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ کَانَ فِیْہِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَمْرُ لِسُلَیْکٍ بِمَا أَمَرَہٗ بِہٖ‘ کَانَ الْحُکْمُ مِنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ بِخِلَافِ الْحُکْمِ فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ جَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ لَغْوًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ‘
٢١١٨: سعید بن المسیب اور عبداللہ بن قارظ دونوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا امام کے خطبہ کے دوران جمعہ کے دن اگر تم نے اپنے ساتھ کو انصت کہا تو تم نے لغو بات کہی۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو ‘ نمبر ٢١١٦۔
حاصل روایات : جب آدمی کا اپنے ساتھی کو انصیت خاموش ‘ کہنا لغو بات اور حرکت ہے تو امام اگر کسی کو کہے اٹھو اور نماز پڑھو تو یہ بھی وہی حکم رکھتی ہے پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سلیک (رض) والا واقعہ ایک وقت میں وہ حکم تھا پھر جب وہ منسوخ ہوا تو دوسرے کو خاموش کا لفظ بھی لغو قرار دیا گیا۔
دلیل۔ اور نسخ کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے۔

2119

۲۱۱۹: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ حَرْبِ بْنِ قَیْسٍ‘ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ أَنَّہٗ قَالَ : (جَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ یَوْمِ جُمُعَۃٍ عَلَی الْمِنْبَرِ یَخْطُبُ النَّاسَ‘ فَتَلَا آیَۃً‘ وَإِلَی جَنْبِیْ أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ‘ فَقُلْتُ لَہٗ : یَا أُبَیّ‘ مَتَی نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ؟ فَأَبَیْ أَنْ یُکَلِّمَنِیْ حَتّٰی اِذَا نَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِنْبَرِ‘ قَالَ : مَا لَک مِنْ جُمُعَتِک إِلَّا مَا لَغَوْت .ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَجِئْتہ فَأَخْبَرْتہ‘ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ إِنَّک تَلَوْت آیَۃً وَإِلَی جَنْبِیْ أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ‘ فَسَأَلْتہ : مَتَی نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ؟ فَأَبَیْ أَنْ یُکَلِّمَنِی‘ حَتّٰی اِذَا نَزَلْتُ زَعَمَ أَنَّہٗ لَیْسَ لِیْ مِنْ جُمُعَتِی إِلَّا مَا لَغَوْت‘ قَالَ : صَدَقَ‘ اِذَا سَمِعْتُ إِمَامَک یَتَکَلَّمُ‘ فَأَنْصِتْ حَتّٰی یَنْصَرِفَ).
٢١١٩: صرب بن قیس حضرت ابوالدردائ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھے اور ایک آیت تلاوت فرمائی میرے پہلو میں ابی بن کعب تشریف فرما تھے میں نے ان کو کہا اے ابی ! یہ آیت کب نازل ہوئی انھوں نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کردیا جب تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے نہیں اترے پھر کہنے لگے تمہیں تمہارے جمعہ سے سوائے لغو بات کے کچھ حاصل نہیں ہوا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب واپس تشریف لے گئے تو میں آپ کی خدمت میں آیا اور میں نے اس بات کی اطلاع دی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے خطبے میں آیت کی تلاوت فرمائی میرے پہلو میں اس وقت ابی بن کعب بیٹھے تھے میں نے ان سے سوال کیا یہ آیت کب اتری ؟ تو ابی نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کردیا جب آپ منبر سے نیچے تشریف لائے تو اس نے مجھے کہا کہ تمہارے جمعہ کا تمہیں سوائے لغو بات کے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس نے سچ کہا۔ جب تم امام کو کلام کرتے سنو تو خاموش ہوجاؤ یہاں تک امام نماز سے فارغ ہوجائے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٦‘ مسند احمد ٥؍١٤٣۔

2120

۲۱۲۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَقَرَأَ سُوْرَۃً .فَقَالَ أَبُوْ ذَرٍّ لِأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ مَتَی نَزَلَتْ ھٰذِہِ السُّوْرَۃُ؟ فَأَعْرَضَ عَنْہُ .فَلَمَّا قَضَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاتَہُ قَالَ أُبَیٌّ لِأَبِیْ ذَرٍّ : مَا لَک مِنْ صَلَاتِک إِلَّا مَا لَغَوْتَ فَدَخَلَ أَبُوْ ذَرٍّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہٗ بِذٰلِکَ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَ أُبَیٌّ) .فَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْاِنْصَاتِ عِنْدَ الْخُطْبَۃِ‘ وَجَعَلَ حُکْمَہَا فِیْ ذٰلِکَ‘ کَحُکْمِ الصَّلَاۃِ‘ وَجَعَلَ الْکَلَامَ فِیْہَا لَغْوًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّلَاۃَ فِیْہَا مَکْرُوْہَۃٌ‘ فَإِذَا کَانَ النَّاسُ مَنْہِیِّیْنَ عَنِ الْکَلَامِ‘ مَا دَامَ الْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ کَانَ کَذٰلِکَ‘ الْاِمَامُ مَنْہِیًّا عَنِ الْکَلَامِ‘ مَا دَامَ یَخْطُبُ بِغَیْرِ الْخُطْبَۃِ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ الْمَأْمُوْمِیْنَ مَمْنُوْعُوْنَ مِنَ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ؟ .فَکَذٰلِکَ الْاِمَامُ‘ فَکَانَ مَا مُنِعَ مِنْہُ غَیْرُ الْاِمَامِ فَقَدْ مُنِعَ مِنْہُ الْاِمَامُ .فَکَذٰلِکَ لَمَّا مُنِعَ غَیْرُ الْاِمَامِ مِنَ الْکَلَامِ فِی الْخُطْبَۃِ‘ کَانَ الْاِمَامُ مُنِعَ بِذٰلِکَ أَیْضًا مِنَ الْکَلَامِ فِی الْخُطْبَۃِ‘ بِمَا ہُوَ مِنْ غَیْرِہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘
٢١٢٠: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ ایک سورة پڑھی اس پر حضرت ابو ذر نے حضرت ابی بن کعب کو کہا یہ سورة کب نازل ہوئی تو ابی نے ان کی بات سے اعراض کیا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نماز کو مکمل کرلیا تو ابی نے ابو ذر (رض) کو کہا تمہیں نماز سے وہی حاصل ہوا جو تم نے لغو بات کی۔ اسی وقت ابو ذر (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابی نے سچ کہا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ کے وقت خاموشی کا حکم فرمایا اور خطبہ کو نماز کی طرح قرار دیا اور اس میں گفتگو کو لغور قرار دیا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دوران خطبہ نماز مکروہ ہے۔ جب لوگوں کو دوران خطبہ گفتگو کرنا مکروہ ہوئی کہ خطبے کے دوران گفتگو نہیں کرسکتا تو امام بھی جب تک خطبہ دے رہا ہوں اس کے دوران اور گفتگو نہیں کرسکتا۔ کیا تم اس پر توجہ نہیں کرتے کہ مقتدیوں کو دوران نماز کلام سے روکا گیا۔ تو امام کا حکم بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ پس جس بات سے غیر امام کو روکا گیا اس سے امام کو بھی منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح جب غیر امام کو دوران خطبہ گفتگو سے روکا گیا تو امام کو دوران خطبہ گفتگو سے ممانعت ہے۔ روایات درج ذیل ہیں۔
حاصل روایات : خطبہ کے دوران بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی کا حکم دیا ہے اور اس کا حکم نماز والا قرار دیا اور اس میں گفتگو کو لغو اور مردود قرار دیا اسی وجہ سے تو کلام سے پورے جمعہ کا ثواب ضائع قرار دیا۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اس میں نماز بھی مکروہ ہے جب لوگوں کو امام کے خطبہ میں کلام کی ممانعت ہے تو اسی طرح امام کو بھی وہ کلام ممنوع ہے جو خطبہ کے علاوہ ہو جب تک کہ وہ خطبہ دیتا رہے۔
ذرا غور تو کرو کہ مقتدیوں کو نماز میں کلام ممنوع ہے اور امام کو خطبہ میں وہ کلام ممنوع ہے جو خطبہ کے علاوہ ہو۔

2121

۲۱۲۱: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبَاغَنْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ قَرْثَعٍ‘ عَنْ سَلْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَدْرُوْنَ مَا الْجُمُعَۃُ قُلْتُ : اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ‘ ثُمَّ قَالَ : أَتَدْرُوْنَ مَا الْجُمُعَۃُ قُلْتُ فِی الثَّالِثَۃِ أَوْ الرَّابِعَۃِ ہُوَ الْیَوْمُ الَّذِیْ جُمِعَ فِیْہِ أَبُوْک قَالَ : لَا‘ وَلٰـکِنْ أُخْبِرُکَ عَنِ الْجُمُعَۃِ‘ مَا مِنْ أَحَدٍ یَتَطَہَّرُ‘ ثُمَّ یَمْشِیْ إِلَی الْجُمُعَۃِ‘ ثُمَّ یُنْصِتُ حَتّٰی یَقْضِیَ الْاِمَامُ صَلَاتَہٗ، إِلَّا کَانَ لَہٗ کَفَّارَۃُ مَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الَّتِیْ قَبْلَہَا مَا اجْتَنَبَ الْمَقْتَلَۃَ) .
٢١٢١: قرثع نے سلمان (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ جمعہ کیا ہے میں نے عرض کیا۔ اللہ ورسولہ اعلم ۔ پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ جمعہ کیا ہے میں نے تیسری یا چوتھی مرتبہ دھرانے پر میں نے کہا یہ وہی دن ہے وہی دن ہے جس میں تمہارے باپ جمع ہوئے آپ نے فرمایا نہیں۔ لیکن میں تمہیں جمعہ کے متعلق بتلاتا ہوں جو آدمی خوب طہارت حاصل کرلے پھر جمعہ کی طرف جائے پھر خاموش رہے یہاں تک کہ امام اپنی نماز مکمل کرلے تو یہ جمعہ کی نماز اس کے اور پہلے جمعہ کے مابین کئے جانے والے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جبکہ ہلاک کن گناہ یعنی کبیرہ سے بچتا رہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤٣٩۔

2122

۲۱۲۲: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ .ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢١٢٢: ابو عوانہ نے مغیرہ عن ابی معشر عن ابراہیم نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی۔

2123

۲۱۲۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَعَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیِّ‘ وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاسْتَنَّ‘ وَمَسَّ مِنْ طِیْبٍ إِنْ کَانَ عِنْدَہٗ، وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِیَابِہٖ، ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی یَأْتِیَ الْمَسْجِدَ‘ فَلَمْ یَتَخَطَّ رِقَابَ النَّاسَ‘ ثُمَّ رَکَعَ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَرْکَعَ‘ وَأَنْصَتَ حَتّٰی اِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ‘ کَانَتْ کَفَّارَۃً لِمَا بَیْنَہَا وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الَّتِیْ قَبْلَہَا).
٢١٢٣: ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور ابو امامہ دونوں نے حضرت ابو سعیدالخدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور مسواک کی اور خوشبو لگائی اگر موجود ہوئی اور اپنے اچھے کپڑے زیب تن کئے پھر نکل کر مسجد میں آیا اور لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے نہ آیا پھر نماز پڑھی جب تک اللہ نے چاہا کہ وہ نماز پڑھے اور اس وقت تک خاموشی اختیار کرے جب تک امام مسجد سے نہ نکلا تو یہ نماز اس کے ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جو اس جمعہ اور اس سے پہلے جمعہ کے دوران ہوئے (بشرطیکہ کبیرہ سے بچا)
تخریج : ابو داؤد فی الطہارۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٣٤٧۔

2124

۲۱۲۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، وَأَبِیْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٢١٢٤: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2125

۲۱۲۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ ثُمَّ مَسَّ مِنْ طِیْبِ امْرَأَتِہِ‘ وَلَبِسَ أَصْلَحَ ثِیَابِہٖ، وَلَمْ یَتَخَطَّ رِقَابَ النَّاسِ‘ وَلَمْ یَلْغُ عِنْدَ الْمَوْعِظَۃِ کَانَتْ کَفَّارَۃً لِمَا بَیْنَہُمَا) .
٢١٢٥: عمرو بن شعیب نے اپنے دادا عبداللہ عمرو سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جس نے جمعہ کے دن غسل کیا پھر بیوی کی خوشبو میں سے خوشبو استعمال کی اور اچھے کپڑے پہنے اور لوگوں کی گردنوں کو پھاند کر آگے نہیں آیا اور وعظ کے وقت لغو بات نہ کی تو یہ چیز اس کے اور پچھلے جمعہ کے مابین گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔
تخریج : روایت نمبر ٢١٢٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

2126

۲۱۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مِسْہَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحَارِثِ الذِّمَارِیِّ‘ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ‘ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَکَرَ‘ وَدَنَا مِنَ الْاِمَامِ فَأَنْصَتَ‘ وَلَمْ یَلْغُ‘ کَانَ لَہٗ مَکَانَ کُلِّ خُطْوَۃٍ عَمَلُ سَنَۃٍ‘ صِیَامِہَا وَقِیَامِہَا) .
٢١٢٦: ابوالاشعت صنعانی نے حضرت اوس بن اوس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے غسل کیا اور کرایا اور جلدی سویرے مسجد کی طرف گیا اور امام کے قریب بیٹھا اور خاموش رہا اور لغو بات نہ کی تو اسے ہر قدم ایک سال کے روزے اور قیام کے عمل کے برابر ثواب ملے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطہارۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٣٤٥‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٤‘ نمبر ٤٩٦‘ مسند احمد ٢؍٢٠٩۔

2127

۲۱۲۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسَی‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحَارِثِ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٢١٢٧: عبداللہ بن عیسیٰ نے یحییٰ بن حارث سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی۔

2128

۲۱۲۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ ڑ الْمَقْبُرِیِّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُبَیٌّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ وَدِیْعَۃَ‘ عَنْ سَلْمَانَ الْخَیْرِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَأَنْ یَغْتَسِلَ الرَّجُلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَیَتَطَہَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُہْرٍ‘ ثُمَّ ادَّہَنَ مِنْ دُہْنٍ أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبِ بَیْتِہِ‘ ثُمَّ رَاحَ‘ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ‘ وَصَلَّیْ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ، ثُمَّ یُنْصِتُ اِذَا تَکَلَّمَ الْاِمَامُ‘ غُفِرَ لَہٗ مَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرَی) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَیْضًا‘ الْأَمْرُ بِالْاِنْصَاتِ‘ اِذَا تَکَلَّمَ الْاِمَامُ‘ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ مَوْضِعَ کَلَامِ الْاِمَامِ‘ لَیْسَ بِمَوْضِعِ صَلَاۃٍ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ مَنْ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ قَبْلَ أَنْ یَخْطُبَ الْاِمَامُ‘ فَإِنَّ خُطْبَۃَ الْاِمَامِ تَمْنَعُہُ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ فَیَصِیْرُ بِہَا فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِ صَلَاۃٍ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ دَاخِلَ الْمَسْجِدِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ دَاخِلًا لَہٗ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِ صَلَاۃٍ‘ فَلاَ یَنْبَغِیْ أَنْ یُصَلِّیَ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ أَنَّ الْأَوْقَاتَ الَّتِیْ تَمْنَعُ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ یَسْتَوِیْ فیْہَا مَنْ کَانَ قَبْلَہَا فِی الْمَسْجِدِ‘ وَمَنْ دَخَلَ فِیْہَا الْمَسْجِدَ فِیْ مَنْعِہَا إِیَّاہُمَا مِنَ الصَّلَاۃِ .فَلَمَّا کَانَتَ الْخُطْبَۃُ تَمْنَعُ مَنْ کَانَ قَبْلَہَا فِی الْمَسْجِدِ عَنِ الصَّلَاۃِ‘ کَانَتْ کَذٰلِکَ أَیْضًا‘ تَمْنَعُ مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ بَعْدَ دُخُوْلِ الْاِمَامِ فِیْہَا مِنَ الصَّلَاۃِ .فَھٰذَا ہُوَ وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَتْ فِیْ ذٰلِکَ آثَارٌ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٢١٢٨: عبیداللہ بن ودیعہ نے سلمان الخیر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب طہارت حاصل کرے پھر جو تیل میسر ہو لگائے یا گھریلو خوشبو لگائے پھر مسجد جائے تو دو آدمیوں میں تفریق نہ کرے یعنی گھس کہ نہ بیٹھے اور جو فرض نماز اس پر مقرر ہے وہ ادا کرے جب امام کلام کرے خاموش رہے تو اس کے اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے مابین گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ ان آثار سے بھی خاموش رہنے کا حکم ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ امام گفتگو کررہا ہو۔ پس اس سے اس پر کھلی دلیل مل گئی کہ امام کے کلام کا مقام وہ نماز کی جگہ نہیں آثار کے معانی کی درستی کے اعتبار سے اس باب کا یہی حکم ہے۔ نظر و فکر کے اعتبار سے ہم غور کرتے ہیں کہ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ جو شخص مسجد میں امام کے خطبہ سے پہلے آجائے تو امام کا خطبہ اس کو نماز سے روک دیتا ہے اب وہ ایسے مقام ہوجاتا جو نماز نہ پڑھنے کا ہو۔ پس نظر و فکر یہ چاہتا ہے کہ امام کے خطبہ کے دوران داخل ہونے والے شخص کا یہی حال ہو کہ اسے بھی اس وقت میں نماز پڑھنا مناسب نہ ہو۔ بلکہ ہم تو یہاں ایک اتفاقی ضابطہ پاتے ہیں کہ جو شخص مسجد میں داخل ہو اور وہ شخص جس نے مسجد میں ہوتے ہوئے ابھی نماز نہ پڑھی ہو وہ اس میں برابر ہیں ‘ جب خطبہ پہلے سے موجود شخص کو نماز سے روکتا ہے تو امام کے افتتاح خطبہ کے بعد آنے والے شخص کو بھی نماز سے روکے گا اس دوران سے متعلق قیاس یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف و محمد (رح) کا مسلک بھی یہی ہے اور اس سلسلہ میں متقدمین سے بھی روایات وارد ہوئی ہیں ‘ جو درج ذیل ہیں۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٦‘ ١٩‘ نسائی فی الحج باب ٤٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٩١‘ موطا مالک ص ١٨‘ مسند احمد ٥؍٤٣٨۔
حاصل کلام : ان روایات میں بھی خاموشی کا حکم موجود ہے جبکہ امام کلام کررہا ہو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام کے کلام کا موقعہ نماز کا موقعہ نہیں ہے آثار و روایات کو پیش نظر رکھ کر جو حکم تھا وہ اب تک واضح کردیا کہ خطبہ کے وقت گفتگو کی طرح نماز بھی ممنوع ہوگی اور امام کو علاوہ خطبہ اور بات کرنا ممنوع ہوگا۔
نظر طحاوی (رح) :
اما وجہ النظر سے پیش کی جاتی ہے امام کے خطبہ شروع کرنے سے پہلے جو آدمی مسجد میں موجود ہو تو جب امام خطبہ شروع کرے تو اسے نماز ممنوع ہے اور وہ خطبے کی وجہ سے نماز کی جگہ میں نہ رہا اور یہ بات بالاتفاق ہے تو اب جو آدمی اس وقت مسجد میں داخل ہو رہا ہو وہ بھی غیر موضع صلوۃ میں ہوجائے گا پس اس کو بھی نماز درست نہ ہوگی۔
ایک قاعدہ :
اور اصل قاعدہ کلیہ یہ ہے : وہ اوقات جن میں نماز ممنوع ہے اس میں پہلے سے موجود یا مسجد میں نیا آنے والا دونوں برابر ہیں دونوں کو نماز منع ہے بالکل اسی طرح خطبہ سے قبل جو مسجد میں موجود ہو جب اس کو نماز ممنوع ہے ‘ نئے آنے والے کا بھی یہی حکم ہوگا کہ اسے نماز ممنوع ہوگی۔
نظری اعتبار سے بھی خطبہ کے وقت کلام ونماز کی ممانعت ثابت ہوگئی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی مذہب ہے۔

2129

۲۱۲۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ تَوْبَۃَ الْعَنْبَرِیِّ قَالَ : قَالَ الشَّعْبِیُّ : أَرَأَیْتُ الْحَسَنَ حِیْنَ یَجِیْئُ ‘ وَقَدْ خَرَجَ الْاِمَامُ فَیُصَلِّی‘ عَمَّنْ أَخَذَ ھٰذَا؟ لَقَدْ رَأَیْتُ شُرَیْحًا اِذَا جَائَ ‘ وَقَدْ خَرَجَ الْاِمَامُ لَمْ یُصَلِّ .
٢١٢٩: توبہ عنبری سے منقول ہے کہ شعبی کہنے لگے کیا تم نے حسن بصری کو دیکھا ہے کہ جب امام خطبہ کے لیے حجرہ سے نکل چکا ہو تو وہ آ کر نماز پڑھتے ہیں انھوں نے یہ چیز کس سے اخذ کی ہے ؟ میں نے شریح کو دیکھا کہ جب وہ آتے ہیں اور امام کو حجرہ سے خطبہ کے لیے نکلا دیکھتے ہیں تو نماز نہیں پڑھتے (دو رکعت نفل)

2130

۲۱۳۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ‘ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ الْمَسْجِدَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ قَالَ : یَجْلِسُ‘ وَلَا یُسَبِّحُ‘ أَیْ : لَا یُصَلِّی .
٢١٣٠: عقیل نے ابن شہاب سے بیان کیا کہ وہ آدمی جو مسجد میں خطبہ امام کے وقت داخل ہو تو وہ کیا کرے تو انھوں نے فرمایا وہ بیٹھ جائے اور نماز نہ پڑھے۔

2131

۲۱۳۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَاصِمٍ‘ عَنْ خَالِدِ ڑ الْحَذَّائِ أَنَّ أَبَا قِلَابَۃَ جَائَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ فَجَلَسَ وَلَمْ یُصَلِّ .
٢١٣١: خالد حذاء کا بیان ہے کہ ابو قلابہ ایک دن مسجد میں آئے جبکہ جمعہ کا دن تھا اور امام خطبہ دے رہا تھا پس یہ بیٹھ گئے اور نفل نہ پڑھے۔

2132

۲۱۳۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْفَہْمِیُّ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنِ ابْنِ ہُبَیْرَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْمُصْعَبِ‘ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ‘ قَالَ : (الصَّلَاۃُ وَالْاِمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ مَعْصِیَۃٌ) .
٢١٣٢: ابو مصعب نے عقبہ بن عامر سے نقل کیا کہ امام جب منبر پر ہو تو اس وقت نماز گناہ ہے۔

2133

۲۱۳۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ ثَعْلَبَۃُ بْنُ أَبِیْ مَالِکِ ڑ الْقُرَظِیّ‘ أَنَّ جُلُوْسَ الْاِمَامِ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ وَکَلَامَہُ یَقْطَعُ الْکَلَامَ .وَقَالَ : إِنَّہُمْ کَانُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ حِیْنَ یَجْلِسُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ حَتّٰی یَسْکُتَ الْمُؤَذِّنُ‘ فَإِذَا قَامَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ‘ لَمْ یَتَکَلَّمْ أَحَدٌ حَتّٰی یَقْضِیَ خُطْبَتَیْہِ کِلْتَیْہِمَا‘ ثُمَّ اِذَا نَزَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَقَضَی خُطْبَتَیْہِ‘ تَکَلَّمُوْا .
٢١٣٣: ابن شہاب کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن ابی مالک قرظی نے بیان کیا کہ امام کا منبر پر بیٹھنا نماز کو منقطع کردیتا ہے اور اس کا کلام کلام کو منقطع کردیتا ہے ثعلبہ کہتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر (رض) کے منبر پر بیٹھنے اور مؤذن کے خاموش ہونے تک بات کرتے جب منبر پر کھڑے ہوجاتے تو اس وقت کوئی بھی بات نہ کرتا یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں خطبوں سے فارغ ہوجاتے پھر جب عمر (رض) منبر سے اترتے اور خطبہ پورا کرلیتے تو لوگ بات کرتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٤٥٨۔

2134

۲۱۳۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ الْخَلِیْلِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مِسْہَرٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ صَفْوَانَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ عَلَی الْمِنْبَرِ‘ وَعَلَیْہِ إِزَارٌ وَرِدَائٌ وَنَعْلَانِ‘ وَہُوَ مُتَعَمِّمٌ بِعِمَامَۃٍ‘ فَاسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّ قَالَ : (السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ) ثُمَّ جَلَسَ وَلَمْ یَرْکَعْ .
٢١٣٤: ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن صفوان کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں آئے اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور انھوں نے ازار پہنی اور چادر اوڑھ رکھی تھی اور نعل پاؤں میں تھے اور سر پر عمامہ تھا پھر رکن کا استلام کیا اور کہا السلام علیک یا امیرالمؤمنین و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ! پھر بیٹھ گئے اور دو رکعت نہ پڑھی۔

2135

۲۱۳۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : قِیْلَ لِعَلْقَمَۃَ : أَتَتَکَلَّمُ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ؟ أَوَ قَدْ خَرَجَ الْاِمَامُ؟ قَالَ : لَا .فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : أَقْرَأُ حِزْبِیْ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ؟ قَالَ عَسَی : إِنْ یَضُرَّک‘ وَلَعَلَّک أَنْ لَا یَضُرَّک .
٢١٣٥: منصور نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ علقمہ سے پوچھا گیا کیا جب امام خطبہ دے رہا ہو یا امام حجرے سے نکل چکا ہو تو بات کی جاسکتی ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں تو ان کو ایک آدمی نے کہا کیا میں خطبہ امام کے وقت اپنا وظیفہ پڑھ سکتا ہوں ؟ انھوں نے کہا ہوسکتا ہے کہ تمہیں نقصان دے اور شاید کہ تمہیں نقصان نہ دے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٤٥٧۔

2136

۲۱۳۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ‘ قَالَ : ثَنَا عَطَائٌ ‘ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَکْرَہَانِ الْکَلَامَ اِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ .
٢١٣٦: عطاء کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) اس وقت کلام کو ناپسند گردانتے تھے جبکہ امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو۔

2137

۲۱۳۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ لَیْثٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہٗ کَرِہَ أَنْ یُصَلِّیَ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ .فَقَدْ رَوَیْنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ خُرُوْجَ الْاِمَامِ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ وَأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ صَفْوَانَ جَائَ ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ‘ فَجَلَسَ وَلَمْ یَرْکَعْ‘ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ‘ وَلَا مَنْ کَانَ بِحَضْرَتِہِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَابِعِیْہِمْ .ثُمَّ قَدْ کَانَ شُرَیْحٌ یَفْعَلُ ذٰلِکَ‘ وَرَوَاہُ الشَّعْبِیُّ‘ وَاحْتَجَّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہٗ، وَشَدَّ ذٰلِکَ الرِّوَایَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَدَّمْنَا ذِکْرَہُ .ثُمَّ مِنَ النَّظَرِ الصَّحِیْحِ‘ مَا قَدْ وَصَفْنَا‘ فَلاَ یَنْبَغِیْ تَرْکُ مَا قَدْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ إِلَیْ غَیْرِہٖ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (اِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمَ الْمَسْجِدَ‘ فَلاَ یَجْلِسُ حَتّٰی یَرْکَعَ رَکْعَتَیْنِ) وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٢١٣٧: سفیان نے لیث انھوں نے مجاہد سے نقل کیا کہ امام کے خطبہ کے وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ ہم ان آثار میں یہ بیان کرچکے کہ امام کا باہر آنا نماز کو منقطع کردیتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن صفوان اس وقت آئے جب حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) خطبہ دے رہے تھے ‘ پس وہ بیٹھ گئے اور انھوں نے نماز نفل ادا نہ کی۔ ابن زیبر (رض) نے ان کی اس بات کا انکار نہ کیا اور نہ ہی ان کے پاس جو دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی نے انکار کیا اور نہ تابعین نے انکار کیا ‘ پھر شریح اس کو کرتے تھے اور شعبی نے اس کو روایت کیا اور مخالفین پر بطور حجت پیش کیا اور اس روایت کو مرفوع قرار دیا جس کا تذکرہ ہم نے کردیا۔ پھر ہم نے قیاس کو بیان کردیا ‘ پس اس کے ہوتے ہوئے دوسرے کی طرف رجوع درست نہیں۔ پھر اگر کوئی یہ معترج کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک وہ دو رکعات ادا نہ کرے اور پھر ان روایات مندرجہ ذیل کو ذکر کیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٤٥٦۔
حاصل آثار :
ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام کا خروج نماز کو قطع کردیتا ہے اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے خطبہ امام کے وقت دو رکعت نہ پڑھنے والے پر نکیر نہ کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ سب اس وقت میں نماز اور کلام کے انقطاع کے قائل تھے پھر شعبی شریح کے عمل کی تصدیق اور حسن بصری کے عمل پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں اور شریح کے عمل کی تصدیق کر رہے ہیں پھر نظر صحیح کا تقاضا بھی یہ ہے پس جو نقل و عقل دونوں سے ثابت ہو اس کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف جانا مناسب نہیں۔
ایک اہم اشکال :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے اب اس میں کسی وقت کی تعیین تو نہیں کی گئی بلکہ عموم ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

2138

۲۱۳۸: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ‘ سَمِعَ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ یُخْبِرُ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ‘ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ)
٢١٣٨: عمرو بن سلیمان نے حضرت ابو قتادہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٦٠‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٦٩۔

2139

۲۱۳۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ‘ عَنِ ابْنِ الْعَجْلَانِ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢١٣٩: ابن عجلان نے عامر بن عبداللہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔

2140

۲۱۴۰: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادٍ مِثْلَہٗ .
٢١٤٠: مالک نے عامر بن عبداللہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2141

۲۱۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الضَّرِیْرُ - یَعْنِی اِبْرَاہِیْمَ بْنَ أَبِیْ زَکَرِیَّا - قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَیْمٍ الزُّرَقِیِّ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ یَنْبَغِیْ لِمَنْ یَدْخُلُ الْمَسْجِدَ‘ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ أَنْ لَا یَجْلِسَ حَتّٰی یُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْت‘ إِنَّمَا ھٰذَا عَلٰی مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فِیْ حَالٍ یَحِلُّ فِیْہَا الصَّلَاۃُ‘ لَیْسَ عَلٰی مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فِیْ حَالٍ لَا یَحِلُّ فِیْہَا الصَّلَاۃُ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ أَوْ عِنْدَ غُرُوْبِہَا‘ أَوْ فِیْ وَقْتٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَوْقَاتِ الْمَنْہِیِّ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا‘ أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ‘ وَأَنَّہٗ لَیْسَ مِمَّنْ أَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ لِدُخُوْلِہِ الْمَسْجِدَ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ حِیْنَئِذٍ .فَکَذٰلِکَ الَّذِیْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ‘ لَیْسَ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ‘ وَلَیْسَ مِمَّنْ أَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .وَإِنَّمَا دَخَلَ فِیْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ ذَکَرْت‘ کُلُّ مَنْ لَوْ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ فَآثَرَ أَنْ یُصَلِّیَ‘ کَانَ لَہٗ ذٰلِکَ .فَأَمَّا مَنْ لَوْ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ لَمْ یَکُنْ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ حِیْنَئِذٍ‘ فَلَیْسَ بِدَاخِلٍ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ قِیَاسًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ حُکْمِ الْأَوْقَاتِ الْمَنْہِیِّ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا‘ الَّتِیْ وَصَفْنَا۔
٢١٤١: عمرو بن سلیم الزرقی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس میں اس بات کی دلالت پائی جاتی ہے کہ جو شخص خطبہ امام کے وقت بھی مسجد میں آئے وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکت نماز ادا کرلے۔ اس کے جواب میں ہم اس طرح عرض کریں گے کہ اس روایت میں تو اس کا کچھ ثبوت نہیں یہ تو اس وقت داخل ہونے والے کا تذکرہ ہے کہ جب تک نماز درست ہو۔ ایسے وقت میں کہ جب نماز درست نہ ہو داخل ہونے والے کا یہ حکم نہیں ہے۔ کیا آپ غور نہیں فرماتے کہ جو شخص طلوع آفتاب کے وقت مسجد میں آئے یا اس وقت جب آفتاب غروب ہو رہا ہو یا ان ممنوعہ اوقات نماز میں سے کوئی وقت ہو تو اسے نماز پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ ایسا شخص ان میں شامل نہیں جن کو دخول مسجد کے وقت نماز تحیۃ المسجد کا حکم دیا گیا ہو۔ کیونکہ آپ نے ان اوقات میں نماز سے منع فرمایا ہے۔ پس یہی حکم اس شخص کا ہے جو خطبہ امام کے وقت مسجد میں داخل ہو۔ اسے تحیۃ المسجد نہ پڑھنے چاہئیں اور وہ ان لوگوں میں شامل ہی نہیں جن کو داخلے کے وقت نماز کا حکم ہو۔ اس حکم میں وہ شخص داخل ہے جس کا آپ نے تذکرہ فرمایا۔ جو اس سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہوا تھا ‘ پس اس کو زیادہ بہتر ہے کہ وہ نماز پڑھے اور یہ حکم اس کے لیے ہے۔ رہا وہ شخص جو مسجد میں اس سے پہلے موجود ہو اسے اس وقت نہ پڑھنے چاہئیں وہ اس حکم نفل کا مخاطب نہیں اور اس کو ممنوعہ اوقات نماز پر قیاس کر کے بھی پڑھنا نہ چاہیے جن اوقات کا ہم تذکرہ کرچکے۔
حاصل روایات : ان روایات نے ثابت کردیا کہ مسجد میں داخل ہونے والے کو بہرصورت دو رکعت پڑھنا ضروری ہیں خواہ امام خطبہ بھی دے رہا ہو یہ حالت بھی اس عموم میں داخل ہے۔
الحل للاشکال :
ان روایات سے تو آپ کا مطلب پورا نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو ان لوگوں کے حق میں ہیں جو ان اوقات میں داخل ہوں جن میں نماز ممنوع نہیں یہ حکم ان پر لاگو نہیں ہوتا جو ممنوعہ اوقات میں داخل ہوں۔
ذرا غور فرمائیں جو آدمی مسجد میں طلوع شمس کے وقت داخل ہو یا غروب کے وقت یا نصف النہار کے وقت آئے یعنی ممنوعہ اوقات میں داخل ہو تو اسے ان اوقات میں نماز لازم نہیں اور وہ اس حکم میں داخل نہیں جن کو داخلہ کے وقت نماز کا حکم ہے کیونکہ خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اوقات میں فرض سے روک دیا تو نفل کی گنجائش کہاں رہی۔
بالکل اسی طرح امام کے خطبہ کا وقت بھی ان ممنوعہ اوقات میں شامل ہے جن میں مسجد میں داخل ہونے والے کو نماز پڑھنا ممنوع ہے بلکہ اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کے تحت ہر وہ شخص بھی شامل ہے جو اوقات سے پہلے مسجد میں موجود ہو حالانکہ وہ تو نوافل میں باہر والے کی بنسبت زیادہ قابل ترجیح ہے پس جب اس کو نماز کے ان اوقات میں ممانعت ہے تو اس وقت مسجد میں داخل ہونے کو بھی اس موجود پر قیاس کر کے نماز نہ پڑھنی چاہیے جیسا کہ ممنوعہ اوقات کا حکم ہم ذکر کرچکے۔
نوٹ : اس باب میں بھی آثار روایات کے دلائل اور نظری دلائل سے مسئلہ کو واضح کرنے کے بعد صحابہ وتابعین کے عمل سے اپنے مسلک کی تائید پیش کی اور پھر آخر میں وارد ہونے والے اشکال کا دفعیہ کیا تاکہ کسی قسم کا خلجان نہ رہے فصل اول کی روایات کا مختصر جواب تو تنسیخ ہے کہ پہلے یہ حکم تھا پھر منسوخ ہوا معلوم ہوا کہ یہ حکم تدریجی طور پر اتارا گیا اور نافذ ہوا۔

2142

۲۱۴۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَلاَ صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ) .
٢١٤٢: سلیمان بن یسار نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٣٨‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٦٣‘ ابو داؤد فی التطوع باب ٥‘ نمبر ١٢٦٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٩٥‘ نمبر ٤٢١‘ نسائی فی الاقامہ باب ٦٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٠٣‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٤٩‘ مسند احمد ٢؍١٣٣۔
خلاصہ الزام
نمبر 1: فرض فجر شروع ہوجائیں سنت کی نیت باندھ چکا تو پڑھ لے نئے سرے سے نیت باندھنا درست نہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہے اس کو امام شافعی ‘ احمد اہل ظواہر (رح) نے اختیار کیا۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد ‘ مالک (رح) کے ہاں نیت باندھنا جبکہ نماز ملنے کی امید ہو تو جماعت سے عدم اختلاط والی جگہ میں سنت پڑھنا درست ہے۔
مؤقف فریق اوّل اور دلائل : سنت فجر جماعت کے کھڑے ہوجانے پر نہیں ادا کرسکتا ہے ‘ دلیل یہ روایات ہیں۔

2143

۲۱۴۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ‘ قَالَ أَحْمَدُ الْأَصْبَہَانِیُّ : الصَّوَابُ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مَجْمَعِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَکَرِہُوْا لِلرَّجُلِ أَنْ یَرْکَعَ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ فِی الْمَسْجِدِ‘ وَالْاِمَامُ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِأَنْ یَرْکَعَہُمَا غَیْرُ مُخَالِطٍ لِلصُّفُوْفِ‘ مَا لَمْ یَخَفْ فَوْتَ الرَّکْعَتَیْنِ مَعَ الْاِمَامِ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلَی‘ أَنَّ ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ الَّذِیْ احْتَجُّوْا بِہٖ، أَصْلُہٗ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ھٰکَذَا رَوَاہُ الْحُفَّاظُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ .
٢١٤٣: عطاء بن یسار نے حضرت ابوہریرہ (رض) انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ علماء نے اس روایت پر عمل کرتے ہوئے اس کو ناپسند قرار دیا کہ جو شخص ایسے وقت سنت فجر ادا کرے جب کہ امام نماز فجر شروع کرچکا ہو۔ دوسرے علماء نے فرمایا کہ اگر امام کے ساتھ دو رکعت فرض چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو تو صفوف سے الگ ان رکعات کی ادائیگی میں چندا حرج نہیں۔ اوّل قول والوں کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے جس روایت کو اپنا مستدل بنایا وہ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے ‘ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نہیں۔ حفاظِ حدیث نے عمرو بن دینار سے اسے موقوف نقل کیا ہے جو درج ذیل ہے۔
روایت کا اجمالی جواب :
یہ روایت صرف زکریا بن اسحاق سے مرفوع نقل کی ہے باقی حماد بن سلمہ وغیرہ حفاظ حدیث نے اس کو موقوف نقل کیا ہے پس موقوف روایت کو اختلافی مسائل میں بطور حجت پیش نہیں کیا جاسکتا یہ گویا کلام ابوہریرہ (رض) ہے اور عمرو بن دینار نے اسی طرح ہی موقوف نقل کیا ہے۔
نمبر 2: اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک بڑی جماعت نے اس روایت کی مخالفت کی ہے جیسا کہ ہم عنقریب نقل کریں گے اگر مرفوع روایت ہوتی تو وہ مخالفت نہ کرتے بقیہ اجتہاد میں تو دوسرے کا اجتہاد مختلف ہوسکتا ہے۔
موقوف روایت یہ ہے۔

2144

۲۱۴۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الضَّرِیْرُ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَرْفَعْہٗ، فَصَارَ أَصْلُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ خَالَفَ أَبَا ہُرَیْرَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ سَنَذْکُرُ مَا رُوِیَ عَنْہُمْ مِنْ ذٰلِکَ‘ فِیْ آخِرِ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢١٤٤ : عمرو بن دینار نے عطاء بن یسار عن ابی ہریرہ (رض) اس کو نقل کیا حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس کو مرفوع نہیں کہا پس یہ موقوف روایت ہوئی۔ پس اس روایت کی اصل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع نہ ہوئی بلکہ موقوف صحابی ابوہریرہ (رض) ہوئی اور دوسری طرف صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی مخالفت کی ہے۔ ان کی مرویات اس باب کے آخر میں مذکور ہوں گی۔

2145

۲۱۴۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسِ ڑ الْقِتْبَانِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَلاَ صَلَاۃَ إِلَّا الَّتِیْ أُقِیْمَتْ لَہَا) .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ ھٰذَا النَّہْیَ عَنْ أَنْ یُصَلِّیَ غَیْرَہَا فِیْ مَوْطِنِہَا الَّذِیْ یُصَلِّیْ فِیْہِ‘ فَیَکُوْنُ مُصَلِّیْہَا قَدْ وَصَلَہَا بِتَطَوُّعٍ‘ فَیَکُوْنُ النَّہْیُ مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ‘ لَا مِنْ أَجْلِ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْ آخِرِ الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ یَتَنَحَّی الَّذِیْ یُصَلِّیْہَا مِنْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ‘ فَیُخَالِطُ الصُّفُوْفَ‘ وَیَدْخُلُ فِی الْفَرِیْضَۃِ .وَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا۔
٢١٤٥: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہوجائے تو وہی نماز جائز ہے جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے یعنی فرض۔ ممکن ہے کہ اس ممانعت سے مراد یہ ہو کہ جس جگہ یہ نماز پڑھ رہا ہے کوئی دوسری نماز بھی پڑھے ‘ پس اس صورت میں اس کا پڑھنے والا اس کو نوافل سے ملانے والا ہوگیا ‘ تو ممانعت اس جانب سے آگئی نہ اس بناء پر کہ وہ مسجد کی اس جگہ پڑھ کر وہاں سے ہٹ جائے اور صفوف میں مل جل جائے اور فرائض میں شامل ہوجائے۔ پہلے قول والوں نے مزید ان روایات کو بھی مستدل بنایا ہے۔
روایت ہذا کا جواب :
ممکن ہے کہ فلاصلاۃ کی نہی سے مراد یہ ہو کہ جس جگہ نماز پڑھی گئی اس جگہ اور نماز نہ پڑھی جائے تاکہ فرائض کو نوافل سے ملانا لازم نہ آئے تو ممانعت اس لحاظ سے ہے اس بناء پر نہیں کہ وہ مسجد کے آخر میں سنت پڑھے پھر وہاں سے ہٹ کر صفوں میں فرض نماز پڑھے اس کی ممانعت نہیں ہے پس اس روایت سے تو ان کا استدلال ثابت نہیں ہوتا۔

2146

۲۱۴۶: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ‘ عَنْ مَالِکِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : (أُقِیْمَتْ صَلَاۃُ الْفَجْرِ‘ فَأَتٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ‘ فَقَامَ عَلَیْہِ وَلَاثَ بِہٖ النَّاسُ فَقَالَ : أَتُصَلِّیْہَا أَرْبَعًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ) .
٢١٤٦: حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ مالک بن بحینہ (رض) نے بیان کیا کہ فجر کی جماعت کھڑے ہونے کے قریب تھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزر ہوا جو فجر کی دو رکعت پڑھ رہا تھا پس آپ اس کے پاس کھڑے ہوگئے اور لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے آپ نے فرمایا کیا یہ چار پڑھے گا ؟ یہ تین مرتبہ فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٣٨‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٦٥‘ درامی فی الصلاۃ باب ١٤٩‘ مسند احمد ٥؍٣٤٥۔
اللغات : لاث بہ۔ گھیر لینا۔

2147

۲۱۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَعْدٍ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ : وَلَاثَ بِہٖ النَّاسُ
٢١٤٧: شعبہ نے سعد سے بیان کیا انھوں نے اپنے اسناد سے اسی طرح روایت کی البتہ ولاث بہ الناس۔ کے الفاظ نہیں لائے۔

2148

۲۱۴۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ (ثَلاَثَ مَرَّاتٍ) .فَلِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرٰی عَلٰی أَہْلِ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَرِہَ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ صَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ وَصَلَہُمَا بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَکُوْنَ تَقَدَّمَ أَوْ تَکَلَّمَ .فَإِنْ کَانَ لِذٰلِکَ قَالَ لَہٗ مَا قَالَ‘ فَإِنَّ ھٰذَا حَدِیْثٌ یَجْتَمِعُ الْفَرِیْقَانِ عَلَیْہِ جَمِیْعًا .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ‘ ہَلْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئٌ یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ؟
٢١٤٨: شعبہ نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ ثلاث مرست کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ مقالہ دوم والوں کی طرف سے جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس لیے ناپسند فرمایا کہ اس شخص نے دو رکعت پڑھ کر انھیں نماز صبح کے ساتھ ملا دیا ‘ نہ وہاں سے آگے سرکا اور نہ اس نے درمیان میں کوئی گفتگو کی۔ اگر اس بنیاد پر تنبیہ فرمائی تو اس حدیث پر ہر دو فریق کا اتفاق ہوسکتا ہے۔ ہم نے چاہا کہ یہ غور کریں کہ آیا اس دلالت کرنے والی کوئی روایت میسر ہے تو غور کرنے سے یہ روایت ذی میسر آگئی۔
حاصل روایات : ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ نماز فجر کے ساتھ دو رکعت پڑھنے کو آپ نے فرائض کو دو کی بجائے چار رکعت بنانے والا قرار دے کر ڈانٹا۔۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ فرائض سے کسی چیز کو نہ ملانا چاہیے تکبیر سے پہلے نماز سنت درست ہوگی۔
جواب روایت :
شاید آپ نے اس شخص کی حرکت کو اس لیے ناپسند فرمایا ہو کہ اس نے بلا فاصلہ دو رکعت نماز صبح سے ملا دی اور درمیان میں نہ تو کلام سے فاصلہ کیا یا اپنی جگہ سے ادھر ادھر ہٹا اگر روایت سے یہی مراد لی جائے تو پھر ہر دو فریق کے ہاں یہ مسلمہ چیز ہے کسی کو اس سے انکار نہیں تو اختلافی چیز کے لیے اس روایت سے استدلال باقی نہ رہا۔
اب روایات پر نظر دوڑاتے ہیں کہ وہ کس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔

2149

۲۱۴۹: فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ ابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ وَہُوَ مُنْتَصِبٌ أَیْ قَائِمٌ یُصَلِّیْ ثَمَّۃَ بَیْنَ یَدَیْ نِدَائِ الصُّبْحِ فَقَالَ : لَا تَجْعَلُوْا ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ کَصَلَاۃٍ قَبْلَ الظُّہْرِ وَبَعْدَہَا وَاجْعَلُوْا بَیْنَہُمَا فَصْلًا) .فَبَیَّنَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ الَّذِیْ کَرِہَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ ہُوَ وَصْلُہُ إِیَّاہَا بِالْفَرِیْضَۃِ فِیْ مَکَان وَاحِدٍ‘ لَمْ یَفْصِلْ بَیْنَہُمَا بِشَیْئٍ وَلَیْسَ لِأَنَّہٗ کَرِہَ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَہَا فِی الْمَسْجِدِ اِذَا کَانَ فَرَغَ مِنْہَا تَقَدَّمَ إِلَی الصُّفُوْفِ‘ فَصَلَّی الْفَرِیْضَۃَ مَعَ النَّاسِ .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .
٢١٤٩: یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن عبدالرحمن سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر عبداللہ بن مالک ابن بحینہ کے پاس سے ہوا وہ کھڑے اس جگہ صبح کی اذان سے پہلے نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا اس نماز کو ایسا مت بناؤ جیسا کہ نماز ظہر سے پہلے کی نماز ہوتی ہے اور اس کے بعد کی ہوتی ہے بلکہ ان کے مابین فاصلہ کرو۔ پس اس روایت نے یہ بات کھول دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت بحینہ (رض) کا فرض اور سنتوں کو ایک جگہ پر ملا کر ادا کرنا پسند نہ آیا کہ ان میں تفریق کرنے والا کوئی عمل پیش نہ آیا۔ آپ نے اس بات کو ناپسند نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں سنتیں پڑھ کر آگے صفوف کی طرف بڑھیں۔ اس ضمن میں اس روایت کے علاوہ بھی روایت آئی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٣٤٥۔
حاصل روایات : اس روایت نے ثابت کردیا کہ ابن بحینہ کی جو بات آپ کو ناپسند ہوئی وہ ایک ہی جگہ میں فرائض کے ساتھ اس کا جمع کرنا تھا یہ وجہ نہ تھی کہ آپ نے ان رکعات کا مسجد میں پڑھنا ناپسند کیا تھا جب اس فارغ ہوئے تو وہ صفوف میں آگے بڑھ گئے اور فرض لوگوں کے ساتھ ادا کئے۔
جواب : اور اس روایت کے علاوہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
روایات ملاحظہ ہوں۔

2150

۲۱۵۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیْفَۃَ الْبَکْرَاوِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَطَائٍ بْنِ أَبِی الْخُوَارِ‘ أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ أَرْسَلَہُ إِلَی السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ (یَسْأَلُہٗ : مَاذَا سَمِعَ مِنْ مُعَاوِیَۃَ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ؟ فَقَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ مُعَاوِیَۃَ الْجُمُعَۃَ فِی الْمَقْصُوْرَۃِ‘ فَلَمَّا فَرَغْت قُمْتُ لِأَتَطَوَّعَ‘ فَأَخَذَ بِثَوْبِیْ فَقَالَ : لَا تَفْعَلْ حَتّٰی تَقَدَّمَ أَوْ تُکَلِّمَ‘ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِذٰلِکَ) .
٢١٥٠ : نافع بن جبیر نے مجھے سائب بن یزید کی طرف بھیجا اور ان سے سوال کیا کہ آپ نے جمعہ کے بعد نماز کے متعلق کیا سنا ہے سائب کہنے لگے کہ میں نے معاویہ کے ساتھ مقصورہ (مسجد میں بنایا جانے والا کمرہ مخصوص کمرہ) میں پڑھی جب میں فارغ ہوا تو میں نفلی نماز پڑھنے کھڑا ہوا انھوں نے میرے کپڑے سے پکڑا اور کہا نفل نماز اس وقت تک مت پڑھو یہاں تک کہ تم آگے بڑھو یا کلام کرو پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا حکم فرمایا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ نمبر ٧٣۔

2151

۲۱۵۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢١٥١: ابو عاصم نے ابن جریج سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے اور اسی طرح بیان فرمائی۔

2152

۲۱۵۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ‘ عَنْ صَفْوَانَ‘ مَوْلٰی عُمَرَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا تَکَاثِرُوا الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ بِمِثْلِہَا مِنَ التَّسْبِیْحِ فِیْ مَقَامٍ وَاحِدٍ) .فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ‘ أَنْ یُوْصِلَ الْمَکْتُوْبَۃَ بِنَافِلَۃٍ‘ حَتّٰی یَکُوْنَ بَیْنَہُمَا فَاصِلٌ مِنْ تَقَدُّمٍ إِلٰی مَکَان آخَرَ‘ أَوْ غَیْرَ ذٰلِکَ وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا .
٢١٥٢: صفوان مولیٰ عمر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرض نماز کا اس کی مثل سے کثرت میں تقابل مت کرو تسبیحات میں اور مقام میں (بلکہ جگہ اور تعداد ‘ طوالت ‘ قصر میں فرق کرلیا کرو) ۔ پس ان تمام روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض و نفل کو ملانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ مناسب یہ ہے کہ ان کے مابین آگے پیچھے یا اور کسی چیز سے فاصلہ کرلے۔
حاصل روایات : پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان روایات میں فرض کو نوافل کے ساتھ ملانے سے منع فرمایا۔ جب تک کہ تقدم و تاخر سے فاصلہ نہ کیا جائے تو اس سے ثابت یہ ہوا کہ ان روایات میں جس وصل کی ممانعت ہے ‘ ابن بحینہ کی روایت میں وہی مراد ہے۔

2153

۲۱۵۳: بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَرْجِسَ أَنَّ (رَجُلًا جَائَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ) (فِیْ حَدِیْثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ (خَلْفَ النَّاسِ ثُمَّ دَخَلَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ .فَلَمَّا قَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاتَہٗ، قَالَ : یَا فُلَانُ‘ اجْعَلْتَ صَلَاتَکَ الَّتِیْ صَلَّیْتُ مَعَنَا‘ أَوْ الَّتِیْ صَلَّیْت وَحْدَک؟) .
٢١٥٣: عاصم احول کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سرجس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز صبح میں مصروف تھے پس اس نے دو رکعت نماز ادا کی (حماد بن سلمہ کی روایت میں خلف الناس کا لفظ بھی ہے) پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز میں داخل ہوگیا پس جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے فلاں ! کیا تم نے وہ نماز جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے وہ اپنی نماز قرار دی ہے یا وہ جو اکیلے پڑھی ہے اس کو اپنی نماز قرار دیا ہے ؟
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٦٧‘ ابو داؤد فی التطوع باب ٥‘ نمبر ١٢٦٥۔

2154

۲۱۵۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح .
٢١٥٤: ابو بکرہ نے سعید بن عامر سے انھوں نے شعبہ سے روایت نقل کی ہے۔

2155

۲۱۵۵: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَاصِمٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ صَلَّاہُمَا خَلْفَ النَّاسِ وَقَدْ نَہَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہُمَا .فَمِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہٗ : (کَانَ خَلْفَ النَّاسِ) أَیْ کَانَ خَلْفَ صُفُوْفِہِمْ‘ لَا فَصْلَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہُمْ‘ فَکَانَ شَبِیْہُ الْمُخَالِطِ لَہُمْ‘ فَذٰلِکَ أَیْضًا دَاخِلٌ فِیْ مَعْنَیْ مَا بَانَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ وَھٰذَا مَکْرُوْہٌ عِنْدَنَا‘ وَإِنَّمَا یَجِبُ أَنْ یُصَلِّیَہُمَا فِیْ مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ یَمْشِیَ مِنْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ إِلٰی أَوَّلِ الْمَسْجِدِ‘ فَأَمَّا أَنْ یُصَلِّیَہُمَا مُخَالِطًا لِمَنْ یُصَلِّی الْفَرِیْضَۃَ‘ فَلاَ .
٢١٥٥: حماد بن زید نے عاصم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ انھوں نے یہ دو رکعت لوگوں کے پیچھے ادا کیں ‘ حالانکہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا تھا۔ ان کے خلاف دوسروں نے یہ جوابی دلیل دی ہے کہ عین ممکن ہے کہ آپ کا ارشاد ” کان خلف الناس “ اس سے مراد ان کی صفوف سے متصل کھڑا ہونا ہو کہ جن میں درمیان میں کوئی فاصلہ نہ رہا ہو۔ پس وہ ان کے ساتھ رل مل جانے والوں کی طرح بن گیا۔ پس یہ روایت بھی ابن ابن بحینہ (رض) والی روایت کے ہم معنی ہوگئی اور ہمارے ہاں یہ مکروہ ہے۔ لازم یہ ہے کہ وہ ان رکعات کو مسجد کے آخری حصہ میں ادا کرلے۔ پھر وہاں سے چل کر مسجد کے اگلے حصہ میں آئے۔ جو شخص فرض کو پڑھنے والا ہو اس کے ساتھ رلا ملا کر نہ پڑھنے والا ہو۔
حاصل روایات و طرزِ استدلال :
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے اس آدمی نے وہ دو رکعت لوگوں کے پیچھے پڑھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس سے منع فرمایا یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے مسجد میں جب جماعت کھڑی ہوجائے سنت درست نہیں۔
الجواب من الفریق الثانی :
خلف الناس کا مطلب صفوں سے متصل پڑھنا ہے اور اس کو تو ہم بھی غلط گردانتے ہیں یہ مخالطت ہے اور حدیث ابن بحینہ میں جس کو الگ کا حکم ملا یہ بھی ان میں شامل ہے اور ہمارے ہاں سخت مکروہ ہے ہم بھی مسجد کے پچھلے حصہ میں پڑھنے کا کہتے ہیں پھر وہاں سے چل کر مسجد میں جماعت کے ساتھ شامل ہو۔ اگر متصل صفوف میں پڑھے تو یہ جائز نہیں۔

2156

۲۱۵۶: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ عَنْ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ‘ أَلَا تَتَّقُوْنَ اللّٰہَ‘ افْصِلُوْا صَلَاتَکُمْ .قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَا یُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ إِلَّا فِیْ بَیْتِہِ‘ فَأَرَادَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْہُمَ الْفَصْلَ‘ مِنَ الْفَرِیْضَۃِ وَالتَّطَوُّعِ‘ وَذٰلِکَ الَّذِیْ أُرِیْدَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، وَابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ وَابْنِ سَرْجِسَ .وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَیْضًا الْفَصْلَ بَیْنَ الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ‘ بِمَا أَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِیْمَا رَوَیْنَا فِیْ ھٰذَا لْبَابِ‘ وَلَا نَرٰی بَأْسًا لِمَنْ لَمْ یَکُنْ رَکَعَ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ حَتّٰی جَائَ الْمَسْجِدَ‘ وَقَدْ دَخَلَ الْاِمَامُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ أَنْ یَرْکَعَہُمَا فِیْ مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ یَمْشِیَ إِلَی مُقَدَّمِہِ‘ فَیُصَلِّیَ مَعَ النَّاسِ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ ذٰلِکَ لَوْ کَانَ فِیْ ظُہْرٍ‘ أَوْ عَصْرٍ‘ أَوْ عِشَائٍ ‘ لَمْ یَکُنْ بِہٖ بَأْسٌ‘ وَلَا یَکُوْنُ فَاعِلُ ذٰلِکَ وَاصِلًا بَیْنَ فَرِیْضَۃٍ‘ وَتَطَوُّعٍ‘ فَکَذٰلِکَ اِذَا کَانَ فِیْ صُبْحٍ فَلاَ بَأْسَ بِہٖ، وَلَا یَکُوْنُ فَاعِلُہُ وَاصِلًا بَیْنَ فَرِیْضَۃٍ وَتَطَوُّعٍ‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جُلَّۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٢١٥٦: ابو ذئب نے شعبہ سے نقل کیا کہ حضرت ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے اے لوگو ! کیا تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ اپنے فرائض اور سنن میں فاصلہ کرو شعبہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) مغرب کے بعد کی دو رکعت ہمیشہ گھر میں پڑھتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ہمارے ہاں بھی فرائض و نوافل کے مابین فاصلہ مستحب ہے۔ جیسا کہ ان روایات باب میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد معلوم ہو رہا ہے۔ ہم اس میں ایسے آدمی کے لیے کچھ حرج خیال نہیں کرتے جس نے گھر میں فجر کی دو رکعت ادا نہیں کیں اور وہ مسجد میں ایسے حال میں پہنچا کہ امام نماز میں داخل ہوچکا تھا کہ وہ دو رکعت سنت فجر مسجد کے پچھلے حصہ میں پڑھ لے پھر وہاں سے چل کر مسجد کے اگلے حصہ میں آئے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شمولیت اختیار کرلے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر یہ شخص نماز ظہر و عصر یا عشاء میں ہوتا تو اسے کچھ حرج نہ تھا اور ایسا کرنے والا فرض و نفل کو ملانے والا نہ بنتا تھا۔ پس اسی طرح وہ جب نماز صبح کے وقت میں آئے تو سنت کے ادا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ ایسا کرنے والا بھی فرض و نفل کو ملانے والا نہ بنے گا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے اور متقدمین کی ایک بڑی جماعت سے ایسا مروی ہے ‘ جو درج ذیل ہے۔
ابن عباس (رض) نے اپنے طرز عمل سے فرائض و نوافل میں فرق و فاصلہ ظاہر کیا اور یہی فاصلہ روایت ابوہریرہ ‘ ابن بحینہ ‘ ابن سرجس (رض) کی روایات میں مراد ہے۔ واللہ اعلم۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
نماز صبح کی جماعت کھڑی ہوجائے اور جس شخص نے سنت ادا نہیں کی وہ مسجد کے ایک کنارے پر سنت ادا کر کے مسجد والوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
دلیل نمبر 1: اگر ظہر ‘ عصر یا عشاء کی نماز ہو اور کوئی آدمی سنت پڑھ کر یا دو رکعت پڑھ کر جماعت میں شامل ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے اور ایسا کرنے والے کو کوئی فرض و نفل کا ملانے والا شمار نہیں کرتا بالکل فجر میں بھی یہی حکم ہے اور وہ بھی واصل نہ بنے بشرطیکہ فاصل ہو۔
یہی ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

2157

۲۱۵۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ مُوْسٰی‘ عَنْ أَبِیْہِ - حِیْنَ دَعَاہُمْ سَعِیْدُ بْنُ الْعَاصِ - دَعَا أَبَا مُوْسٰی‘ وَحُذَیْفَۃَ‘ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ الْغَدَاۃَ‘ ثُمَّ خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِہِ وَقَدْ أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَجَلَسَ عَبْدُ اللّٰہِ إِلٰی أُسْطُوَانَۃٍ مِنَ الْمَسْجِدِ‘ فَصَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ قَدْ فَعَلَ ھٰذَا وَمَعَہٗ حُذَیْفَۃُ وَأَبُوْ مُوْسٰی لَا یُنْکِرَانِ ذٰلِکَ عَلَیْہِ‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مُوَافَقَتِہِمَا إِیَّاہُ.
٢١٥٧: عبداللہ بن ابی موسیٰ نقل کرتے ہیں کہ میرے والد نے بتلایا کہ مجھے حذیفہ اور عبداللہ بن مسعود (رض) کو سعید بن العاص (رض) نے فجر کی نماز سے پہلے بلایا پھر وہ ان کے ہاں سے نکلے جبکہ جماعت کھڑی ہوا چاہتی تھی عبداللہ تو مسجد کے ایک ستون کے پاس بیٹھ گئے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر نماز میں شامل ہوگئے۔ یہ حضرت عبداللہ بن ابو موسیٰ (رض) جنہوں نے یہ اپنے والد ابوموسیٰ اور حذیفہ (رض) کی معیت میں کیا ان دونوں نے ان کو نہ ٹوکا ‘ پس اس سے ان دونوں کی موافقت ثابت ہوگئی۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٤٤٤۔
حاصل روایات : یہ عبداللہ نے ایسی حالت میں کیا جبکہ حذیفہ اور ابو موسیٰ ان کے ساتھ تھے انھوں نے نکیر نہیں فرمائی پس یہ چیز ان کی موافقت پر دلالت کرتی ہے اگر سنت فجر مسجد کے ایک طرف پڑھ لی جائیں تو حرج نہیں۔

2158

۲۱۵۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ مُوْسٰی‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالْاِمَامُ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَصَلّٰی رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ .
٢١٥٨: عبداللہ بن ابی موسیٰ نے ابن مسعود (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ مسجد میں ایسے وقت داخل ہوئے جب امام نماز میں تھا پس انھوں نے فجر کی دو سنت پڑھی۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے دو رکعت نماز مسجد میں ادا کی جبکہ امام نماز صبح شروع کرچکا تھا اور ان کے مولیٰ شعبہ نے ان سے نقل کیا ہے کہ وہ فرائض و نوافل کے درمیان فاصلے کا حکم فرماتے۔ جب وہ مسجد کے کسی کونے میں نماز فجر کی دو رکعت پڑھ لیتے پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں فاصلہ کرتے ہوئے داخل ہوتے ‘ پس ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں۔

2159

۲۱۵۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدُ الْمُؤْمِنَ الْخُرَاسَانِیُّ‘ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنُ شَقِیْقٍ‘ قَالَ أَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ النَّحْوِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ مِجْلَزٍ‘ قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ مَعَ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ وَالْاِمَامُ یُصَلِّی .فَأَمَّا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَدَخَلَ فِی الصَّفِّ‘ وَأَمَّا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ دَخَلَ مَعَ الْاِمَامِ‘ فَلَمَّا سَلَّمَ الْاِمَامُ قَعَدَ ابْنُ عُمَرَ مَکَانَہٗ، حَتَّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ‘ فَقَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فِی الْمَسْجِدِ وَالْاِمَامُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ .وَقَدْ رَوٰی شُعْبَۃُ مَوْلَاہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَأْمُرُ النَّاسَ بِالْفَصْلِ بَیْنَ الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ وَقَدْ عَدَّ نَفْسَہُ - اِذَا صَلّٰی رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ فِیْ بَعْضِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ فِی النَّاسِ فِی الصَّلَاۃِ - فَاصِلًا بَیْنَہُمَا‘ فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ .
٢١٥٩: ابو مجلز کہتے ہیں کہ میں فجر کے وقت ابن عمر (رض) کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا اور ابن عباس (رض) بھی ساتھ تھے۔ اس وقت امام نماز پڑھا رہا تھا ۔ حضرت ابن عمر (رض) تو صف میں داخل ہوگئے اور ابن عباس (رض) نے دو رکعت سنت ادا کی پھر امام کے ساتھ نماز میں داخل ہوئے جب سلام پھیرا تو ابن عمر (رض) اپنی جگہ بیٹھ گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوا پھر اٹھے اور دو رکعت سنت ادا کی۔
حاصل روایات : یہ ابن عباس (رض) مسجد میں فجر کی دو رکعت پڑھ رہے ہیں جبکہ امام مسجد میں نماز پڑھا رہا ہے۔
نیز شعبہ مولیٰ ابن عباس (رض) نے نقل کیا کہ وہ لوگوں کو فرائض و نوافل میں فاصلے کا حکم فرماتے اور انھوں نے اپنے طور پر یہ طے فرمایا تھا کہ جب آدمی فجر کی دو رکعت مسجد کے کسی حصہ میں ادا کرے پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے تو یہ شخص فاصلہ کرنے والا سمجھا جائے گا اور ہمارے ہاں بھی یہی ہے۔
ابن عباس (رض) سے مزید روایت ملاحظہ ہو۔

2160

۲۱۶۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الضَّرِیْرُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : أَنَا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِیْفٍ‘ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ الْأَنْصَارِیِّ‘ قَالَ : جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ وَالْاِمَامُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ‘ وَلَمْ یَکُنْ صَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ فَصَلَّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الرَّکْعَتَیْنِ خَلْفَ الْاِمَامِ‘ ثُمَّ دَخَلَ مَعَہُمْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِثْلُ ذٰلِکَ .
٢١٦٠: ابو عثمان انصاری کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) اس وقت تشریف لائے جبکہ امام فجر کی نماز میں تھا اور آپ نے دو رکعت سنت ادا نہ کی تھیں پس انھوں نے دو رکعت سنت امام کے پیچھے (فاصلہ پر) ادا کیں پھر ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہوگئے۔ اور حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح روایت ہے۔

2161

۲۱۶۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ‘ قَالَ : خَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ بَیْتِہِ‘ فَأُقِیْمَتْ صَلَاۃُ الصُّبْحِ‘ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ الْمَسْجِدَ وَہُوَ فِی الطَّرِیْقِ‘ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّی الصُّبْحَ مَعَ النَّاسِ .فَھٰذَا وَإِنْ کَانَ لَمْ یُصَلِّہِمَا فِی الْمَسْجِدِ‘ فَقَدْ صَلَّاہُمَا بَعْدَ عِلْمِہِ بِإِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ فِی الْمَسْجِدِ‘ فَذٰلِکَ خِلَافُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (اِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَلاَ صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ) إِنْ کَانَ مَعْنَاہُ مَا صَرَفَہٗ إِلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .
٢١٦١: محمد بن کعب کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) اپنے گھر سے نکلے ادھر فجر کی جماعت کھڑی ہوگئی پس آپ نے مسجد میں داخلے سے پہلے دو رکعت راستہ میں ادا فرمائیں پھر مسجد میں داخل ہو کر صبح کی نماز لوگوں کے ساتھ پڑھی۔ یہ ابن عمر (رض) ہیں اگرچہ انھوں نے مسجد میں نماز نہیں پڑھی مگر انھوں نے مسجد میں جماعت کے کھڑے ہوجانے کے بعد ان کو ادا کیا ہو اور یہ طرز عمل حضرت ابوہریرہ (رض) کے اس قول کے خلاف ہے ” اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ “ اگر اس کا معنی وہ لیا جائے جس کی طرف پہلے قول والوں نے اشارہ کیا ہے۔
ایک اشکال :
اس روایت ابن عمر (رض) میں تو مسجد سے باہر سنت کا تذکرہ ہے پس یہ تمہاری دلیل نہ بن سکی۔
جواب : اگرچہ یہ سنت کی دو رکعت مسجد کے باہر پڑھی گئیں مگر یہ جان لینے کے بعد پڑھی گئیں کہ جماعت کھڑی ہوگئی ہے پس ابوہریرہ (رض) کی اس روایت کے تو یہ خلاف ہے جو فریق اوّل کی دلیل ہے کہ اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلوۃ الاالمکتوبہ پس اس روایت ابن عمر (رض) نے بتلایا دیا کہ اقامت صلوۃ کا علم ہوجانے کے باوجود مسجد کے باہر سنت ادا کر کے جماعت میں شامل ہوسکتا ہے پس اس اعتبار سے یہ ایک پہلو دلیل بن گئی۔

2162

۲۱۶۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا یَقُوْلُ : أَیْقَظْت ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ‘ وَقَدْ أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَقَامَ فَصَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ .
٢١٦٢: نافع کو میں نے کہتے سنا کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو نماز فجر کے لیے بیدار کیا اس وقت فجر کی جماعت کھڑی ہوچکی تھی پس انھوں نے اٹھ کر پہلے دو رکعت پڑھیں۔

2163

۲۱۶۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ جَائَ وَالْاِمَامُ یُصَلِّی الصُّبْحَ‘ وَلَمْ یَکُنْ صَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ فَصَلَّاہُمَا فِیْ حُجْرَۃِ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ ثُمَّ إِنَّہُ صَلَّیْ مَعَ الْاِمَامِ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ صَلَّاہُمَا فِی الْمَسْجِدِ‘ لِأَنَّ حُجْرَۃَ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنَ الْمَسْجِدِ‘ فَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَاہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٢١٦٣: زید بن اسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) ایسے وقت آئے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہا تھا اور نماز فجر سے پہلے انھوں نے صبح کی سنتیں نہ پڑھی تھیں پس آپ نے حضرت حفصہ (رض) کے حجرہ میں ادا فرمائیں۔ پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی۔ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) ان نوافل کو مسجد میں ادا کیا کیونکہ حضرت حفصہ (رض) کا حجرہ مبارکہ مسجد سے ہے۔ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) والی روایت کے موافق ہے۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے جماعت کا پتہ چل جانے کے باوجود حجرہ حفصہ (رض) میں نماز ادا کی اور پھر جماعت میں شرکت کی یہ دلیل ہے کہ جماعت شروع ہوجانے پر سنت ادا کرنے میں حرج نہیں۔

2164

۲۱۶۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ مِسْعَرٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ أَنَّہٗ کَانَ یَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ‘ فَیُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ یَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِی الصَّلَاۃِ .
٢١٦٤: ابو عبیداللہ نے ابوالدردائ (رض) کے متعلق بیان کیا کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے جبکہ لوگ نماز فجر کی صفوں میں ہوتے وہ مسجد کی ایک جانب دو رکعت پڑھتے پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں داخل ہوجاتے۔

2165

۲۱۶۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ مَالِکِ ڑ الْأَشْجَعِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ یَعْنِی ابْنَ مَسْعُوْدٍ أَنَّہٗ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
٢١٦٥: ابو عبیدہ نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے متعلق بیان کیا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔

2166

۲۱۶۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ جَعْفَرٍ‘ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ‘ قَالَ : کُنَّا نَأْتِیْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَبْلَ أَنْ نُصَلِّیَ الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ‘ وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَنُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ فِیْ آخِرِ الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ نَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِیْ صَلَاتِہِمْ .
٢١٦٦: ابو عثمان مہدی کہتے ہیں کہ ہم عمر بن خطاب (رض) کے پاس صبح کی سنتوں سے پہلے آتے اور آپ نماز میں مصروف ہوجاتے پھر ہم دو رکعت مسجد کے آخر میں پڑھ کر پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں داخل ہوجاتے۔

2167

۲۱۶۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ قَالَ ثَنَا عَاصِمٌ‘ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ‘ قَالَ : کُنَّا نَجِیْئُ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ فَنَرْکَعُ الرَّکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ نَدْخُلُ مَعَہٗ فِی الصَّلَاۃِ .
٢١٦٧: ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس نماز صبح کی حالت میں آتے پس دو رکعت پڑھ کر پھر آپ کے ساتھ نماز میں داخل ہوجاتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٥٧۔

2168

۲۱۶۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ عَنْ حُصَیْنٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ : کَانَ مَسْرُوْقٌ یَجِیْئُ إِلَی الْقَوْمِ‘ وَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَلَمْ یَکُنْ رَکَعَ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ‘ فَیُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ فِی الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ یَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِیْ صَلَاتِہِمْ .
٢١٦٨: شعبی کہتے ہیں کہ مسروق لوگوں کے پاس اس وقت آتے جبکہ لوگ نماز میں ہوتے اور انھوں نے ابھی فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہوتی تھی پس وہ مسجد میں دو رکعت پڑھتے پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں داخل ہوجاتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٥٦۔

2169

۲۱۶۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ أَنَّہٗ فَعَلَ ذٰلِکَ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ .
٢١٦٩: عاصم احول نے شعبی سے بیان کیا کہ مسروق اسی طرح کرتے البتہ اس روایت میں فی ناحیۃ المسجد کا لفظ ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٤٤٥۔

2170

۲۱۷۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : (اِذَا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَلَمْ تُصَلِّ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ‘ فَصَلِّہِمَا وَإِنْ کَانَ الْاِمَامُ یُصَلِّی‘ ثُمَّ اُدْخُلْ مَعَ الْاِمَامِ) .
٢١٧٠: ابراہیم کہتے ہیں کہ حسن سے روایت ہے کہ جب تم مسجد میں ایسی حالت میں آؤ کہ ابھی فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو تو ان کو پڑھ لو اگرچہ امام نماز میں مصروف ہوجائے پھر ان کے ساتھ نماز میں داخل ہوجاؤ۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٤٤٤۔

2171

۲۱۷۱: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُوْلُ : یُصَلِّیْہِمَا فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ یَدْخُلُ الْقَوْمُ فِیْ صَلَاتِہِمْ .
٢١٧١: یونس نے حسن کو کہتے سنا کہ ان دو رکعت کو مسجد کے کونے میں پڑھ لو پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوجاؤ۔

2172

۲۱۷۲: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا حُصَیْنٌ وَابْنُ عَوْنٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ أَنَّہٗ فَعَلَ ذٰلِکَ .فَہٰؤُلَائِ جَمِیْعًا قَدْ أَبَاحُوْا رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ أَنْ یَرْکَعَہُمَا فِیْ مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ وَالْاِمَامُ فِی الصَّلَاۃِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّہٗ یَدْخُلُ فِی الْفَرِیْضَۃِ وَیَدَعُ الرَّکْعَتَیْنِ‘ فَإِنَّہُمْ قَالُوْا : تَشَاغُلُہُ بِالْفَرِیْضَۃِ أَوْلٰی مِنْ تَشَاغُلِہِ بِالتَّطَوُّعِ وَأَفْضَلُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَوْ کَانَ فِیْ مَنْزِلِہِ‘ فَعَلِمَ دُخُوْلَ الْاِمَامِ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ أَنَّہٗ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَرْکَعَ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ مَا لَمْ یَخَفْ فَوْتَ صَلَاۃِ الْاِمَامِ‘ فَإِنْ خَافَ فَوْتَ صَلَاۃِ الْاِمَامِ لَمْ یُصَلِّہِمَا لِأَنَّہٗ إِنَّمَا أُمِرَ أَنْ یَجْعَلَہُمَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ .وَلَمْ یُجْمِعُوْا أَنَّ تَشَاغُلَہُ بِالسَّعْیِ إِلَی الْفَرِیْضَۃِ أَفْضَلُ مِنْ تَشَاغُلِہِ بِہِمَا فِیْ مَنْزِلِہِ وَقَدْ أُکِّدَتَا‘ مَا لَمْ یُؤَکَّدْ شَیْئٌ مِنَ التَّطَوُّعِ وَرُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ عَلٰی شَیْئٍ مِنَ التَّطَوُّعِ أَدْوَمَ مِنْہُ عَلَیْہِمَا‘ وَأَنَّہٗ قَالَ: (لَا تَتْرُکُوْہُمَا وَإِنْ طَرَدَتْکُمَ الْخَیْلُ) .فَلَمَّا کَانَتَا قَدْ أُکِّدَتَا بِالتَّأْکِیْدِ‘ وَرَغَّبَ فِیْہِمَا ھٰذَا التَّرْغِیْبَ‘ وَنَہٰی عَنْ تَرْکِہِمَا ھٰذَا النَّہْیَ‘ وَکَانَتَا تُرْکَعَانِ فِی الْمَنَازِلِ قَبْلَ الْفَرِیْضَۃِ‘ کَانَتَا أَیْضًا - فِی النَّظَرِ - أَنْ تُرْکَعَا فِی الْمَسَاجِدِ‘ قَبْلَ الْفَرِیْضَۃِ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٢١٧٢: ابن عون نے شعبی انھوں نے مسروق کے متعلق اسی طرح بیان کیا۔
حاصل آثار : یہ تمام اکابر تابعین (رح) اور صحابہ کرام (رض) ہیں کہ جو فجر کی دو رکعت کو جماعت کے کھڑے ہوجانے کی صورت میں بھی ادائیگی کی تاکید کرتے تھے اور خود اسی پر عمل پیرا تھے پس ثابت ہوا کہ مسجد کے پچھلی جانب ان دو رکعت کی ادائیگی میں حرج نہیں اگرچہ امام جماعت شروع کرچکا ہو آثار و روایات کے لحاظ سے ہم ثابت کرچکے اب بطریق نظر اس پر نگاہ ڈالیں۔
نظر طحاوی (رح) :
غور فرمائیں کہ جو حضرات فریضہ میں داخل ہونے کو افضل و اولیٰ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دو رکعت کا ترک کردینا اس سے اولیٰ ہے کہ فرض کی شمولیت میں تاخیر کی جائے۔
ہم ان سے عرض کرتے ہیں کہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں موجود ہو اور اسے جماعت کے کھڑے ہونے کا علم ہوگیا اور اسے معلوم ہے کہ وہ فجر کی سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہوسکتا ہے تو اسے فجر کی دو رکعت پڑھ کر جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور اگر جماعت کے فوت ہوجانے کا خدشہ ہو تو انھیں ادا نہ کرے کیونکہ اس کو دو فرض سے پہلے ادا کرنے کا حکم ہے۔
اور اس پر اتفاق نہیں کہ فرض کی طرف چل کر آنا اپنے گھر میں دو رکعتوں میں مشغول ہونے سے افضل ہے حالانکہ ان نوافل کی جتنی تاکید ہے کسی نفل نماز کی اس قدر تاکید نہیں ہے اور روایات میں وارد ہے کہ آپ کسی نفل نماز پر اس قدر دوام کرنے والے نہ تھے جس قدر دوام ان پر ثابت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ولا تترکوہما وان طردتکم الخیل۔
تخریج : ابو داؤد فی التطوع باب ٣‘ نمبر ٦٢٥٨‘ مسند احمد ٢؍٤٠٥۔
ان کو ایسی حالت میں بھی مت چھوڑو جبکہ گھوڑوں کے روندنے کا خطرہ لاحق ہو۔ تو جب اس قدر تاکید اور ترغیب ان کے متعلق دلائی گئی اور ان کے چھوڑنے کی ممانعت فرمائی اور یہ دو رکعت گھروں میں فرائض سے قبل پڑھی جاتی ہیں تو پھر فرض سے قبل مسجد میں بھی پڑھی جانی چاہئیں قیاس و نظر یہی کہتے ہیں۔
یہی امام ابوحنیفہ و ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : : یہاں بھی امام طحاوی (رح) نے اپنے طرز کے مطابق اپنی رائے کے خلاف قول کو ذکر کیا تو ان کے دلائل کے جوابات نقد دیتے چلے گئے ادھار نہیں چھوڑے اور جب میدان صاف ہوگیا تو پھر اپنے دلائل پیش کر کے عمل صحابہ وتابعین سے ان کی تائید بھی فرمائی اور آخر میں نظری دلیل لائے جس کو تنویر علی الدلیل کہنا چاہیے۔

2173

۲۱۷۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَسَاہُ وَہُوَ غُلَامٌ‘ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ‘ فَوَجَدَہُ یُصَلِّیْ مُتَوَشِّحًا‘ فَقَالَ : أَلَیْسَ لَک ثَوْبَانِ؟ قَالَ : بَلَی‘ قَالَ : أَرَأَیْتُ لَوْ اسْتَعَنْتُ بِک وَرَائَ الدَّارِ‘ أَکُنْتُ لَابِسَہُمَا؟ قَالَ : نَعَمْ .قَالَ : فَاَللّٰہُ أَحَقُّ أَنْ تَزَّیَّنَ لَہٗ أَمَ النَّاسُ؟ قَالَ نَافِعٌ (بَلْ اللّٰہُ) فَأَخْبَرَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ نَافِعٌ : قَدِ اسْتَیْقَنْتُ أَنَّہٗ عَنْ أَحَدِہِمَا وَمَا أُرَاہُ إِلَّا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا یَشْتَمِلْ أَحَدُکُمْ فِی الصَّلَاۃِ اشْتِمَالَ الْیَہُوْدِ‘ مَنْ کَانَ لَہٗ ثَوْبَانِ فَلْیَتَّزِرْ وَلْیَرْتَدِ‘ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ ثَوْبَانِ فَلْیَتَّزِرْ ثُمَّ لِیُصَلِّ) .
٢١٧٣: نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے مجھے کپڑا پہنایا جبکہ میں بچہ تھا پس اسے توشح (دائیں اور بائیں بغل سے نیچے کپڑے کی اطراف گزار کر کندھوں پر ڈال لیں پھر دونوں طرف کے کنارے سینے پر باندھ لیں) کی حالت میں نماز پڑھتے پایا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس دو کپڑے نہ تھے اس نے ہاں میں جواب دیا تو فرمایا کیا گھر کے باہر تمہیں کام بھیجا جائے کیا تو ان دونوں کو پہنے گا اس نے کہا جی ہاں تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ہے کہ اس کے لیے زینت کی جائے یا لوگوں کا ؟ نافع کہتے ہیں میں نے کہا اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ہے پس حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے والد یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتلائی میرے خیال میں وہ قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہود کی طرح اشتمال (اس طرح کپڑے میں لپٹنا کہ ہاتھ بھی نہ نکل سکیں) جس کے پاس دو کپڑے ہوں وہ ایک کو بطور ازار استعمال کرے اور دوسرے کو اوپر اوڑھ لے اور جس کے پاس دو کپڑے نہ ہوں وہ ازار کے طور پر باندھ لے پھر نماز ادا کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٨٢‘ نمبر ٦٣٥۔
جب کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو ایک کپڑے میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
نمبر 1: حضرت مجاہد ‘ ابراہیم (رح) نے اس کو مکروہ تحریمی کہا۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور حسن بصری (رح) اس پر کچھ حرج قرار نہیں دیا بس زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی (خلاف ادب) کہا ہے۔
مؤقف اول اور دلائل : دو کپڑوں کی موجودگی میں ایک کپڑے میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔ دلائل یہ ہیں۔

2174

۲۱۷۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ الْحَجَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ‘ مِثْلَہُ سَوَائٌ
٢١٧٤: حماد بن زید نے ایوب عن نافع پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت ذکر کی ہے۔
تخریج : بیہقی فی السنن ٢؍٣٣٤۔

2175

۲۱۷۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ بْنُ فَرُّوْخَ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَلاَ أَدْرِیْ أَرَفَعَہٗ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ حَدَّثَ بِہٖ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ شَکَّ نَافِعٌ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَ بِہٖ نَافِعٌ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ کَلَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَوْ کَلَامِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .
٢١٧٥: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں اس کو مرفوع بیان کروں یا حضرت عمر (رض) کی طرف نسبت کروں یہ نافع کو شک ہے پھر اسی طرح روایت بیان کی کہ یہ کلام عمر ہے یا کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور میرے نزدیک کلام رسول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍١٤٨۔

2176

۲۱۷۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا قَوْمٌ‘ فَکَرِہُوْا الصَّلَاۃَ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ لِمَنْ کَانَ قَادِرًا عَلَی ثَوْبَیْنِ‘ وَکَرِہُوْا الصَّلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ قَادِرًا إِلَّا عَلَی ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُشْتَمِلًا بِہٖ مُلْتَحِفًا‘ قَالُوْا : وَلٰـکِنْ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَتَّزِرَ بِہٖ .وَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَقَالُوْا : ہُوَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا شَکَّ فِیْہِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٢١٧٦: نافع کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح سنا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ آثار و روایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس باب کا یہی مطلب ہے۔ اب نظر و فکر سے دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ وہ لوگ جو اس طرف گئے ہیں کہ وہ فرائض میں شامل ہوجائے اور دو رکعات فجر کو چھوڑ دے تو ان کا کہنا یہ ہے کہ نوافل میں اس کی مشغولیت سے فرائض کی مشغولیت بہرحال اولیٰ و افضل ہے۔ ان کے بالمقابل یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ اگر یہ شخص اپنے مکان پر ہوتا اور اسے نماز فجر میں اس کو امام کا داخلہ معلوم ہوجاتا تو اسے زیادہ مناسب یہی تھا کہ وہ فجر کی سنتوں میں مشغول ہو ‘ جب تک کہ امام کی نماز کے چلے جانے کا خطرہ نہ ہو۔ اگر اسے نماز کی جماعت فوت ہونے کا خطرہ ہو تو پھر ان کو ترک کر دے کیونکہ اسے یہ حکم ہوا ہے کہ وہ ان کو فرائض سے پہلے ادا کرلے اور اس بات پر اتفاق نہیں کہ فرائض کی طرف میں مشغولیت اس کو گھر میں سنن کے پڑھنے سے افضل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ عام نوافل کی بنسبت ان کی تاکید بھی زیادہ ہے۔ روایات میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے زیادہ کسی نفل نماز کی پابندی نہ کرتے تھے اور ان کے متعلق تو یہاں تک فرمایا کہ ان کو مت چھوڑو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔ پس جب ان کی اس قدر تاکید و ترغیب ہے اور ان کو چھوڑنے کی اس انداز سے منع کیا گیا ہے اور فرائض سے پہلے یہ گھروں میں پڑھی جاتی تھیں تو تقاضا قیاس یہ ہے کہ ان کو مساجد میں بھی فرائض سے قبل پڑھا جائے۔ یہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مجمع الزوائد ٢؍١٨٤‘ بیہقی ٢؍٣٣٣۔
حاصل روایاتإ
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کے پاس دو کپڑے ہوں اس کے لیے ایک کپڑے میں نماز مکروہ ہے اور جس کے پاس ایک کپڑا ہو وہ اس کو اوڑھ ‘ لپیٹ کر نماز ادا کرے البتہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس کو بطور ازار باندھے اور نماز ادا کرے اس روایت کے کلام نبوت ہونے میں کوئی شک نہیں پس اس سے ثابت ہوا کہ دو کپڑوں کے ہوتے ہوئے ایک کپڑے میں نماز نہایت ناپسند ہے۔

2177

۲۱۷۷: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ عَبَّادٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ‘ عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فَلْیَلْبَسْ ثَوْبَیْہِ‘ فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ مَنْ یُزَّیَّنَ لَہٗ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ ثَوْبَانِ‘ فَلْیَتَّزِرْ اِذَا صَلَّی‘ وَلَا یَشْتَمِلُ أَحَدُکُمْ فِیْ صَلَاتِہِ اشْتِمَالَ الْیَہُوْدِ)
٢١٧٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ اپنا کپڑا پہنے پس اللہ تعالیٰ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے لیے زینت کی جائے اگر دو کپڑے میسر نہ ہوں تو ایک کپڑے کو بطور ازار استعمال کرے جبکہ وہ نماز پڑھنے لگے اور یہود کی طرح اپنے آپ کو پورے ایک کپڑے میں نہ لپیٹ دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ جس شخص کو دو کپڑوں کی قدرت ہو اسے ایک کپڑے میں نماز مکروہ ہے اور جس شخص کو ایک کپڑے کی قدرت ہو اسے کپڑے کو مکمل طور پر لپیٹ کر پڑھنا مکروہ ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ اسے ازار کے طور پر باندھ لے۔ انھوں نے اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور کہا کہ یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوا ہے اور انھوں نے مندرجہ ذیل روایات ذکر کیں۔
تخریج : بیہقی ٢؍٣٢٣۔

2178

۲۱۷۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ‘ قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ تَوْبَۃَ الْعَنْبَرِیِّ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَّزِرْ وَلْیَرْتَدِ) .قَالَ : فَھٰذَا مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ‘ وَہُوَ مِنْ جُلَّۃِ أَصْحَابِ نَافِعٍ وَقُدَمَائِہِمْ‘ فَذَکَرَ ذٰلِکَ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَمْ یَشُکَّ وَوَافَقَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ‘ تَوْبَۃُ الْعَنْبَرِیُّ .قِیْلَ لَہُمْ : فَقَدْ رَوٰی عَنِ ابْنِ عُمَرَ غَیْرُ نَافِعٍ‘ فَذَکَرَہٗ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢١٧٨: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کیا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ ازار باندھے اور دوسری چادر اوڑھ لے۔ موسیٰ بن عقبہ (رح) یہ نافع کے اجلہ شاگردوں سے ہیں انھوں نے اس روایت کو مرفوعاً بیان کیا ہے اور اس میں شک نہیں کیا اور ان کی موافقت میں توبہ عنبری نے بھی روایت کو مرفوع بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ لو یہ موسیٰ بن عقبہ نافع خلیل المنزلت قدیم شاگردوں سے ہیں انھوں نے حضرت ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغیر کسی شک کے الفاظ کے نقل کی ہے اور حضرت توبۃ عنبری اس سلسلہ میں ان کی روایت کی موافقت کرنے والے ہیں اور ان سے ذکر کا گیا کہ یہ روایت نافع کے علاوہ لوگوں نے ابن عمر (رض) سے موقوف نقل کی ‘ مرفوع نبوی قرار نہیں دی۔
تخریج : بیہقی ٢؍٣٢٣۔
اعتراض :
اس روایت کو نافع کے علاوہ دیگر حضرات نے قول ابن عمر (رض) قرار دیا ہے نہ کہ مرفوع روایت۔ ثبوت میں ملاحظہ ہو۔

2179

۲۱۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : رَأَیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَجُلًا یُصَلِّی‘ مُلْتَحِفًا‘ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ - حِیْنَ سَلَّمَ - لَا یُصَلِّیَنَّ أَحَدُکُمْ مُلْتَحِفًا‘ وَلَا تَشَبَّہُوْا بِالْیَہُوْدِ‘ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لِأَحَدِکُمْ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ‘ فَلْیَتَّزِرْ بِہٖ .فَھٰذَا سَالِمٌ‘ وَہُوَ أَثْبَتُ مِنْ نَافِعٍ وَأَحْفَظُ‘ إِنَّمَا رَوٰی ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَارَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَرَوَاہُ مَالِکٌ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ قَوْلِہٖ، وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْہِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَا عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢١٧٩: سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ عمر (رض) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھ رہا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے دریافت کیا جبکہ اس نے سلام پھیرلیا ایک کپڑے میں لپٹ کر ہرگز نماز مت پڑھا کرو یہود کی مشابہت مت کرو اگر تمہارے پاس ایک ہی کپڑا ہو تو اس کو بطور ازار باندھ لو۔ یہ سالم ہیں جو نافع سے زیادہ حافظ ‘ ضابط ہیں۔ انھوں نے یہ ابن عمر (رض) کی وساطت سے حضرت عمر (رض) سے موقوف نقل کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع نہیں۔ پھر یہ اثر عمر (رض) ہے ‘ـ حدیث نبوی نہیں ہے اور امام مالک (رح) نے اسے ابن عمر (رض) کے قول کے طور پر نقل کیا اور اس کو مرفوع روایت یا قول عمر (رض) بھی قرار نہیں دیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٧٨۔
لیجئے : یہ سالم بن عبداللہ جو کہ نافع سے زیادہ احفظ و اثبت ہیں وہ اس کو عمر (رض) سے بیان کر رہے ہیں نہ کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پس اس کا موقوف ہونا ثابت و ظاہر ہوگیا۔
بلکہ امام مالک نے اس کو ابن عمر (رض) سے بیان کیا ہے اس کو جناب عمر (رض) یا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھی منسوب نہیں کیا (جس سے اس کا قول ابن عمر (رض) ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
روایت مؤطا یہ ہے۔

2180

۲۱۸۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَسَا نَافِعًا ثَوْبَیْنِ‘ فَقَامَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَعَابَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ وَقَالَ : (احْذَرْ ذٰلِکَ فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ أَنْ یُتَجَمَّلَ لَہٗ) .وَخَالَفَ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٢١٨٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ میں نے نافع کو دو کپڑے پہنائے مگر وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے لگے تو میں نے ان کو کو سا اور کہا آئندہ اس سے محتاط رہو۔ اللہ تعالیٰ کا زیادہ حق ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے۔
تخریج : موطا ومالک۔
حاصل کلام : یہ ہوگا کہ فریق اوّل کی روایات اول تو موقوف ہیں اور جو ان میں مرفوع ہیں وہ ان کے مقصد کے لیے کافی نہیں پس ایک کپڑے میں نماز کی ممانعت یا توشح و اشتمال کی ممانعت شدیدہ ہرگز ثابت نہ سکے گی۔
فریق ثانی کے دلائل اور ان کا مؤقف :
ایک کپڑے میں نماز درست ہے جبکہ دو کپڑے میسر نہ ہوں۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

2181

۲۱۸۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَیُصَلّٰی فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ؟ فَقَالَ : أَوَکُلُّکُمْ یَجِدُ ثَوْبَیْنِ) .
٢١٨١: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم ایک کپڑے میں نماز پڑھ لیا کریں تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک دو کپڑے رکھتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٤‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٧٥‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٧‘ نمبر ٦٢٥‘ مسند احمد ٢؍٢٣٠۔

2182

۲۱۸۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ .ح
٢١٨٢: ابو بکرہ کہتے ہیں ہمیں وہب نے بیان کیا۔
تخریج : الدارمی ١؍٣٦٧۔

2183

۲۱۸۳: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُکَیْرٍ‘ قَالَا : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ‘ عَنْ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہُ۔
٢١٨٣: محمد نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٢٣٥۔

2184

۲۱۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ وَمَالِکٌ‘ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حَفْصَۃَ‘ قَالُوْا : أَنَا ابْنُ شِہَابٍ .، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَلَعَمْرِی إِنِّیْ لَأَتْرُکُ ثِیَابِیْ فِی الْمِشْجَبِ وَأُصَلِّی فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ .
٢١٨٤: ابو سلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں میری عمر کی قسم میں ضرور اپنا کپڑا کپڑا لٹکانے کی لکڑی پر چھوڑ کر ایک کپڑے میں نماز پڑھوں گا۔ (بیان جواز کے لئے)
تخریج : موطا مالک فی الجماعہ نمبر ٣١۔

2185

۲۱۸۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢١٨٥: مالک نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی مگر ابوہریرہ (رض) کے قول کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج : مسلم ١؍١٩٨۔

2186

۲۱۸۶: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢١٨٦: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٣٩۔

2187

۲۱۸۷: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَدْرٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢١٨٧: قیس بن طلق نے اپنے والد سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایب بیان کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٩٢۔

2188

۲۱۸۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ‘ مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ (شَہِدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَہٗ رَجُلٌ‘ عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ فَلَمْ یَقُلْ لَہٗ شَیْئًا‘ فَلَمَّا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ قَارَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ ثَوْبَیْہِ‘ فَصَلّٰی فِیْہِمَا) .
٢١٨٨: قیس بن طلق سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا کہ آپ سے کسی آدمی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ کیا ایک کپڑے میں آدمی نماز پڑھے آپ نے اس کو کوئی جواب نہ دیا جب جماعت کھڑی ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو کپڑوں کو ملا کر ان میں نماز پڑھی (یعنی ایک ازار باندھ کر اور دوسرے کو اوڑھ کر)
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٧‘ نمبر ٦٢٩‘ المعجم الکبیر ٨؍٣٣٥۔

2189

۲۱۸۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ‘ قَالَ : دَخَلْنَا عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ وَہُوَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ وَقَمِیْصُہُ وَرِدَاؤُہُ فِی الْمِشْجَبِ‘ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : أَمَا وَاللّٰہِ مَا صَنَعْتُ ھٰذَا إِلَّا مِنْ أَجْلِکُمْ‘ (إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ فَقَالَ : نَعَمْ‘ وَمَتَی یَکُوْنُ لِأَحَدِکُمْ ثَوْبَانِ؟) .
٢١٨٩: قعقاع بن حکیم کہتے ہیں ہم حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی خدمت میں گئے وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے اور ان کی قمیص اور چادر کھونٹے پر لٹکی تھی جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا سنو ! یہ کام میں نے تمہاری خاطر کیا (تاکہ تمہارے ذہنوں میں جواز ثابت ہوجائے) بیشک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک کپڑے میں نماز کا سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا نماز ہوجاتی ہے اور فرمایا کب تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہوں گے ؟
تخریج : بخاری ١؍٥٣۔

2190

۲۱۹۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا زَمْعَۃُ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ شِہَابٍ یُحَدِّثُ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا ذَکَرَ جَابِرٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِبَاحَۃَ الصَّلَاۃِ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
٢١٩٠: سالم نے اپنے والد عبداللہ سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح بیان کیا جیسا جابر (رض) کی روایت میں ہے۔
لیجئے : یہی ابن عمر (رض) ہیں جن کی روایت فریق اوّل کے ہاں مرکزی حیثیت رکھتی تھی یہ خود ایک کپڑے میں نماز کا جواز ثابت کر رہے ہیں۔

2191

۲۱۹۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ (عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ أَنَّہٗ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ فِیْ بَیْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا)
٢١٩١: عمر بن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امّ سلمہ (رض) کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٤‘ نمبر ١١‘ مسلم فی الصلاۃ فی الصلاۃ نمبر ٢٧٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٧‘ موطا مالک نمبر ٣٤ مسند احمد ٣‘ ١٢٧؍١٢٨۔

2192

۲۱۹۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ‘ (عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ قَالَ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُلْتَحِفًا بِہٖ) .
٢١٩٢: ابو امامہ بن سہل نے حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھتے دیکھا۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٩٢۔
دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے ملاحظہ ہو۔

2193

۲۱۹۳: حَدَّثَنَا : ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ قَبِیْلَۃَ‘ قَالَ : أَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ‘ عَنْ مُوْسٰی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ‘ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ أُعَالِجُ الصَّیْدَ‘ أَفَأُصَلِّی فِی الْقَمِیْصِ الْوَاحِدِ؟ قَالَ نَعَمْ‘ وَزِرَّہُ وَلَوْ بِشَوْکَۃٍ) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ اِبَاحَۃُ الصَّلَاۃِ فِیْ ثَوْبِ الْوَاحِدِ‘ فَذٰلِکَ یُضَادُّ مَا مَنَعَ الصَّلَاۃَ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ وَیَدُلُّ أَنَّ ذٰلِکَ لَا بَأْسَ بِہٖ عَلٰی حَالِ الْوُجُوْدِ وَحَالِ الْاِعْوَازِ .وَذٰلِکَ (أَنَّ السَّائِلَ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُصَلِّیْ أَحَدُنَا فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ؟ فَأَجَابَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَوَابًا مُطْلَقًا فَقَالَ : أَوَکُلُّکُمْ یَجِدُ ثَوْبَیْنِ؟) .أَیْ لَوْ کَانَتِ الصَّلَاۃُ مَکْرُوْہَۃً فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ‘ لَکُرِہَتْ لِمَنْ لَا یَجِدُ إِلَّا ثَوْبًا وَاحِدًا فَفِی جَوَابِہٖ ذٰلِکَ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ الصَّلَاۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لِمَنْ یَجِدُ الثَّوْبَیْنِ‘ کَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ‘ لِمَنْ لَا یَجِدُ غَیْرَہُ .
٢١٩٣: موسیٰ بن محمد بن ابراہیم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گزارش کی کہ میں شکار کا سامنا کرتا ہوں کیا میں ایک قمیص میں نماز ادا کرسکتا ہوں آپ نے فرمایا جی ہاں۔ البتہ اس کے دونوں کناروں کو سی لو اگرچہ کانٹے سے ہو۔ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے۔ پس یہ روایات ان سے متضاد و مخالف ہیں جن میں ایک کپڑے میں نماز سے روکا گیا ہے۔ ان روایات میں اس بات کی دلالت پائی جاتی ہے کہ جب کپڑے میسر ہوں یا تنگ دستی ہو کسی حالت میں بھی حرج نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز کی ادائیگی کرسکتا ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا کسی پابندی لگائے جواب دیا کہ تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں نماز ناپسند و مکروہ ہوتی تو جس کے پاس ایک کپڑا ہوتا اس کی نماز مکروہ ہوتی (نہ کہ دو والے کی) ۔ آپ کا جواب اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ جس کے پاس دو کپڑے ہوں اس کے لیے ایک کپڑے میں نماز کا وہی حکم ہے جو اس کے لیے حکم ہے جس کے پاس صرف ایک کپڑا ہے اور اس کے علاوہ موجود نہیں۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٩‘ نمبر ٦٣٢‘ نسائی فی القبلہ باب ١٥‘ مسند احمد ٤؍٤٩۔
حاصل روایات : ان آثار سے ایک کپڑے میں نماز کی اباحت ثابت ہو رہی ہے یہ ان لوگوں کی بات کے خلاف ہے جو ایک کپڑے میں نماز کو درست نہیں کہتے اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کپڑا ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں درست ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سائل نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کیا ہم ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟ تو آپ نے جواب میں مطلق فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک دو کپڑے پاتا ہے اس مطلق جواب نے دونوں حالتوں کو داخل کردیا اگر ایک کپڑے میں نماز مکروہ ہوتی تو جو ایک ہی کپڑا پاتا ہو اس کے لیے نماز میں کراہت قرار دی جاتی مگر آپ کے جواب نے یہ ظاہر کردیا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والا جبکہ اس کے پاس دو کپڑے ہوں اور وہ شخص جس کے پاس ایک ہی کپڑا ہو دوسرا نہ ہو دونوں حکم میں برابر ہیں۔
کپڑے کا طریقہ استعمال :
روایات ملاحظہ ہوں۔

2194

۲۱۹۴: ثُمَّ أَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ کَیْفَ یَنْبَغِیْ أَنْ یَفْعَلَ بِالثَّوْبِ الْوَاحِدِ الَّذِیْ یُصَلّٰی فِیْہِ‘ أَیَشْتَمِلُ بِہٖ أَوْ یَتَّزِرُ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ مَوْلٰی عَقِیْلِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ‘ عَنْ أُمِّ ہَانِیٍٔ بِنْتِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَتْ : (فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاطِمَۃَ فَسَکَبَتْ لَہٗ غِسْلًا فَاغْتَسَلَ‘ ثُمَّ صَلّٰی فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُخَالِفًا بَیْنَ طَرَفَیْہِ رَکَعَاتٍ) .
٢١٩٤: ابو مرہ مولیٰ عقیل (رض) نے ام ہانی (رض) سے طویل روایت میں نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) کو حکم فرمایا انھوں نے آپ کے لیے غسل کا پانی ڈالا پھر آپ نے غسل کیا پھر آپ نے ایک کپڑے میں نماز ادا فرمائی جو کئی رکعات تھیں اور اس کپڑے کی اطراف کو ایک دوسری جانب کے خلاف باندھنے والے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣٤١‘ المعجم الکبیر ٢٤؍٤١٧۔

2195

۲۱۹۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ‘ عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ فِی الصَّلَاۃِ مِثْلَہٗ، وَقَالَ : ثَمَانِ رَکَعَاتٍ
٢١٩٥: ابراہیم بن عبداللہ بن حنین نے ابو مرہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس روایت میں آٹھ رکعات کا تذکرہ بھی ہے۔

2196

۲۱۹۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ مُوْسٰی بْنِ مَیْسَرَۃَ‘ وَأَبِی النَّضْرِ‘ مَوْلٰی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ أَبَا مُرَّۃَ أَخْبَرَہُمَا أَنَّ أُمَّ ہَانِیٍٔ بِنْتَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَخْبَرَتْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢١٩٦: ابو مرہ نے ام ہانی (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٤٢۔

2197

۲۱۹۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ‘ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ حَدَّثَہٗ، ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢١٩٧: سعید بن ابی ہند نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٥٣۔

2198

۲۱۹۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُحْرِزٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِی‘ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ‘ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِیْدِ‘ عَنْ کُرَیْبٍ‘ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ بُرْدٍ لَہٗ حَضْرَمِیٍّ‘ مُتَوَشِّحًا بِہٖ، مَا عَلَیْہِ غَیْرُہٗ) .
٢١٩٨: کریب مولیٰ ابن عباس (رض) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حضرمی چادر پہنے نماز پڑھتے دیکھا اس چادر کے علاوہ آپ پر اور کپڑا نہ تھا (متوشح کا معنی گزر چکا) ۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٦٥۔

2199

۲۱۹۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ الْحَارِثِ الْمُحَارِبِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ غَیْلَانَ بْنَ جَامِعٍ یُحَدِّثُ عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ‘ عَنِ ابْنٍ لَعَمَّارَ بْنِ یَاسِرٍ‘ قَالَ : قَالَ أُبَیٌّ (أَمَّنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُتَوَشِّحًا بِہٖ) .
٢١٩٩: ایاس بن سلمہ بن اکوع نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کے کسی بیٹے سے نقل کیا کہ میرے والد نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کپڑے میں لپٹ کر (متوشحاً ) ہماری امامت کرائی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٦٥۔

2200

۲۲۰۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سُفْیَانَ‘ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی (أَبُوْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَرَآہُ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُتَوَشِّحًا بِہٖ) .
٢٢٠٠: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ مجھے ابو سعید (رض) نے بیان کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو ایک کپڑے میں لپٹ (متوشحاً ) کر نماز پڑھتے پایا۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٧٣۔

2201

۲۲۰۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ إِدْرِیْسُ بْنُ یَحْیَی‘ عَنْ بَکْرِ بْنِ مُضَرَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ (أَبَا الزُّبَیْرِ الْمَکِّیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ دَخَلَ عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ وَہُوَ یُصَلِّیْ مُلْتَحِفًا بِثَوْبِہٖ، وَثِیَابُہُ قَرِیْبَۃٌ مِنْہٗ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا فَقَالَ : إِنَّمَا صَنَعْتُ ھٰذَا لِکَیْمَا تَرَوْا‘ وَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ذٰلِکَ) .
٢٢٠١: ابوالزبیر مکی کہتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی خدمت میں گیا جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے انھوں نے ایک کپڑا لپیٹا ہوا (ملتحفا) تھا اور ان کے کپڑے ان کے قریب پڑے تھے پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ میں نے تمہاری خاطر کیا تاکہ تم دیکھ لو بیشک میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٩٨۔

2202

۲۲۰۲: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَلْیَتَعَطَّفْ بِہٖ) .
٢٢٠٢: ابوالزبیر سے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو وہ موڑ کر دوہرا کرے (تاکہ ستر ظاہر نہ ہو)
تخریج : مسند احمد ٣؍٣٢٤۔

2203

۲۲۰۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدِ ڑاللَّیْثِیُّ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ (جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، أَنَّہٗ رَأَی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُخَالِفًا بَیْنَ طَرَفَیْہِ عَلٰی عَاتِقَیْہِ‘ وَثَوْبُہُ عَلَی الْمِشْجَبِ) .
٢٢٠٣: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا آپ نے اس کپڑے کے دو اطراف کو مخالف کندھوں پر ڈال رکھا تھا اور اس وقت آپ کے کپڑے کھونٹے پر پڑے تھے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٣‘ ابو داؤد فی النارک باب ٥٦‘ مسند احمد ٢؍٢٣٩۔

2204

۲۲۰۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ عَنْ (عَاصِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ دَخَلَ عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ‘ قَامَ فَصَلّٰی وَہُوَ مُتَوَشِّحٌ بِإِزَارٍ‘ وَثِیَابُہُ عَلَی الْمِشْجَبِ‘ فَلَمَّا صَلَّی انْصَرَفَ إِلَیْنَا‘ فَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی ھٰکَذَا) .
٢٢٠٤: عاصم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں جابر (رض) کی خدمت میں گیا جب نماز کا وقت ہوا تو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اس وقت وہ ایک ازار باندھنے والے تھے حالانکہ ان کے کپڑے کھونٹے پر لٹکے تھے جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا۔
تخریج : سابقہ تخریج دیکھیں۔ بیہقی ٢؍٢٣٥۔

2205

۲۲۰۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (عُمَرَ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ أَنَّہٗ رَأَی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ فِیْ بَیْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاضِعًا طَرَفَیْہِ عَلٰی عَاتِقَیْہِ) .
٢٢٠٥: عروہ نے عمر بن ابی سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے امّ سلمہ کے مکان پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اس حال میں کہ اس کپڑے کے کنارے اپنے دونوں کندھوں کی اطراف پر ڈالنے والے تھے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٩٢۔

2206

۲۲۰۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ‘ عَنْ (عَمْرِو بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُلْتَحِفًا بِہٖ، مُخَالِفًا بَیْنَ طَرَفَیْہِ عَلٰی مَنْکِبَیْہِ) .
٢٢٠٦: ابو امامہ بن سہل نے حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھتے پایا جبکہ کپڑے کی اطراف دونوں کندھوں پر ڈالی ہوئی تھیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٦‘ نمبر ٦٢٨۔

2207

۲۲۰۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ .
٢٢٠٧: سلیمان بن حرب بیان کرتے ہیں حماد بن سلمہ نے اپنی اسناد سے بیان کیا۔

2208

۲۲۰۸: ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ الشَّہِیْدِ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُتَّکِئٌ عَلٰی أُسَامَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مُتَوَشِّحٌ بِبُرْدٍ‘ فَصَلّٰی بِہِمْ) .
٢٢٠٨: حسن نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے جبکہ آپ اسامہ پر ٹیک لگانے والے اور ایک چادر میں لپٹنے والے تھے اور آپ نے ہمیں نماز پڑھائی۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٢٣٩۔

2209

۲۲۰۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ وَبِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ‘ وَیَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالُوْا : أَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عِکْرِمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَلْیُخَالِفْ بَیْنَ طَرَفَیْہِ) .
٢٢٠٩: عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب تم میں سے کوئی ایک ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو وہ اس کی اطراف کو ایک دوسری سے مختلف کرے (تاکہ ستر ظاہر نہ ہو) ۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٥‘ مسلم فی الزہد نمبر ٤٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ نمبر ٧٧‘ مسند احمد ٢‘ ٣١٩؍٢٥٥۔

2210

۲۲۱۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ‘ وَشُعْبَۃُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (عُمَرَ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُخَالِفًا بَیْنَ طَرَفَیْہِ) .فَقَدْ تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ‘ مُتَوَشِّحًا بِہٖ، فِیْ حَالِ وُجُوْدِ غَیْرِہٖ .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ بَعْضِ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ أَنَّہٗ صَلّٰی وَثِیَابُہُ عَلَی الْمِشْجَبِ‘ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ مُتَوَشِّحًا بِہٖ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا اتَّسَعَ مِنَ الثِّیَابِ خَاصَّۃً‘ لَا عَلٰی مَا ضَاقَ مِنْہَا‘ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی کُلِّ الثِّیَابِ‘ مَا ضَاقَ مِنْہَا وَمَا اتَّسَعَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا أَبُوْ زُرْعَۃَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ‘ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ :
٢٢١٠: عروہ نے عمر بن ابی سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اس طرح کہ آپ نے اس کپڑے کی دونوں طرفوں کو مختلف اطراف میں کر رکھا تھا (جیسا باندھتے وقت کرتے ہیں)
تخریج : سابقہ نمبر ٢٢٠٦ کی تخریج ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات و آثار : ان آثار سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک کپڑے میں نماز بلاکراہت درست ہے اس ایک کپڑے میں لپٹ کر خواہ دوسرا کپڑا موجود ہو ممکن ہے کہ یہ اس کپڑے میں ہو جو کہ وسیع ہو نہ کہ اس میں جو تنگ ہو اور یہ بھی ممکن ہے تنگ و وسیع کی قید نہ ہو جتنا نماز کے لیے کفایت کرنے والا ہو۔
اب ایک جانب کی تعیین کے لیے روایات پر غور کرتے ہیں۔
ان متواتر روایات میں جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا گیا ہے کہ دوسرے کپڑے پانے کے باوجود آپ ایک کپڑے میں توشح کر کے نماز پڑھتے اور ایک روایت کے ضمن میں ایسی حالت میں آپ کا نماز پڑھنا بھی آیا ہے جبکہ آپ کے کپڑے کھونٹے پر لٹکے تھے۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ نماز کھلے کپڑے میں ہو اور تنگ کپڑے میں نہ ہو اور یہ بھی درست ہے کہ ہر کپڑے میں ہو خواہ وہ تنگ ہو یا وسیع۔ پس اس سلسلہ میں غور و فکر کیا تو حضرت ابو زرعہ کی روایت مل گئی جو ذیل میں ہے۔

2211

۲۲۱۱: ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیْفَۃَ‘ عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ : (اِذَا اتَّسَعَ الثَّوْبُ فَتَعَطَّفُ بِہٖ عَلٰی عَاتِقِک‘ وَإِذَا ضَاقَ فَاِتَّزِرْ بِہٖ ثُمَّ صَلِّ) .فَثَبَتَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ لْاِشْتِمَالَ ہُوَ الْمَقْصُوْدُ‘ وَأَنَّہٗ ہُوَ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُفْعَلَ فِی الثِّیَابِ الَّتِیْ یُصَلِّیْ فِیْہَا‘ وَإِذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلَیْہِ لِضِیْقِ الثَّوْبِ‘ اتَّزَرَ بِہٖ .وَاحْتَجْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ الثَّوْبِ الْوَاسِعِ‘ الَّذِیْ یَسْتَطِیْعُ أَنْ یَتَّزِرَ بِہٖ، وَیَشْتَمِلَ‘ ہَلْ یَشْتَمِلُ بِہٖ، أَوْ یَتَّزِرُ؟ وَکَیْفَ یَفْعَلُفَإِذَا یُوْنُسُ؟
٢٢١١: شرحبیل بن سعید کہتے ہیں حضرت جابر (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے جب کپڑا بڑا ہو تو اسے کندھے پر موڑ لو اور جب چھوٹا ہو تو اس کو بطور ازار باندھ لو پھر نماز ادا کرو۔ اس روایت سے ثابت ہوگیا کہ اصل مقصود کپڑا لپیٹنا ہے اور جن کپڑوں میں نماز ادا کررہا ہے۔ نماز والے کپڑوں میں یہی مناسب ہے اور جب کپڑے کی تنگی کی وجہ سے لپیٹنے کی قدرت نہ ہو تو بطور ازار کے استعمال کرلے۔ اب ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم کھلے کپڑے کا حکم معلوم کریں جس کو آدمی ازار اور اشتمال دونوں طرح استعمال کرسکتا ہو۔ کیا اس میں اشتمال کرے یا ازار کے طور پر استعمال کرے اور کیا کرے چنانچہ ذیل میں روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : تخریج روایت نمبر ٢٢٠٦ کو ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات : اس روایت سے ثابت ہوا کہ اصل مقصود کپڑے کو تمام جسم کو شامل ہونا ہے اور یہی کپڑا مناسب ہے جس میں نماز پڑھی جائے اور اس کی تنگی ہو تو پھر ازار بھی کفایت کر جائے گی۔
اشتمال و اتزار کا امتیاز :
روایت ملاحظہ ہوں۔

2212

۲۲۱۲: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ‘ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا یُصَلِّ أَحَدُکُمْ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَیْسَ عَلٰی عَاتِقَیْہِ مِنْہُ شَیْئٌ).
٢٢١٢: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ جس کپڑے کا کوئی حصہ دونوں کندھوں پر نہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٥‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٧‘ نمبر ٦٢٦‘ نسائی فی القبلہ باب ١٨۔

2213

۲۲۱۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ح
٢٢١٣: فہد نے کہا ابو نعیم نے بیان کیا۔

2214

۲۲۱۴: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢١٤: مؤمل نے سفیان سے انھوں نے ابی الزناد سے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2215

۲۲۱۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مُنْقِذٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ إِدْرِیْسُ بْنُ یَحْیَی‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَیَّاشٍ‘ عَنِ ابْنِ حَرِیْزٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ فَلْیُجْعَلْ عَلٰی عَاتِقَیْہِ مِنْہُ شَیْئٌ).فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِیْ حَدِیْثِ أَبِی الزِّنَادِ‘ عَنِ الصَّلَاۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ مُتَّزِرًا بِہٖ .وَقَدْ جَائَ عَنْہُ أَیْضًا أَنَّہٗ نَہَیْ أَنْ یُصَلِّیَ الرَّجُلُ فِی السَّرَاوِیْلِ وَحْدَہٗ، لَیْسَ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ .
٢٢١٥: ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ تم میں سے کوئی آدمی ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اسے اس چادر کا کچھ حصہ اپنے دونوں کندھوں پر ڈالنا چاہیے۔ جناب ابو الزناد والی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کپڑے کو بطور ازار باندھ کر نماز سے منع فرمایا ہے اور بات کی بھی ممانعت ہے کہ اکیلے پاجامے میں نماز پڑھے جبکہ اس پر اور کپڑا نہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٧‘ نسائی فی القبلہ باب ١٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٦٩‘ موطا مالک نمبر ٢٩‘ مسند احمد ٢؍٢٥٥‘ ٣‘ ١٠؍١٥۔
حاصل روایات : ابی الزناد والی روایت نمبر ٢٢١٢ میں ایک کپڑے کو بطور ازار کے باندھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا اور ایک روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تنہا سراویل میں نماز سے منع فرمایا جبکہ اس پر کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو اور روایت نمبر ٢٢١٥ میں کندھوں پر ڈالنے کے بغیر نماز سے منع فرمایا گیا۔

2216

۲۲۱۶: حَدَّثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْغَافِقِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ‘ عَنْ أَبِی الْمُنِیْبِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَھٰذَا مِثْلُ ذٰلِکَ‘ وَھٰذَا - عِنْدَنَا - عَلَی الْوُجُوْدِ مَعَہُ لِغَیْرِہِ‘ فَإِنْ کَانَ لَا یَجِدُ غَیْرَہٗ، فَلاَ بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ فِیْہِ‘ کَمَا لَا بَأْسَ فِی الثَّوْبِ الصَّغِیْرِ مُتَّزِرًا بِہٖ .فَھٰذَا تَصْحِیْحُ مَعَانِی ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ ذٰلِکَ آثَارٌ .مِنْہَا
٢٢١٦: ابوالمنیب نے عبداللہ بن بریدہ سے انھوں نے بریدہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کو نقل کیا ہے۔ یہ ہمارے ہاں اس وقت ہے جبکہ دوسرا کپڑا موجود ہو ‘ اگر دوسرا کپڑا بالکل میسر نہ ہو تو پھر اس میں نماز پڑھ لینے میں چنداں حرج نہیں ہے جیسا چھوغے کو بطور ازار استعمال کرنے میں حرج نہیں۔ یہ ان آثار کے معانی کی تصحیح کا تقاضا اس باب یہی ہے اور صحابہ کرام (رض) کی روایات اس سلسلہ میں تائید کے طور پر درج ذیل ہیں۔
حاصل کلام : یہ اور اسی طرح کی دیگر روایات ہمارے ہاں دوسرے کپڑے کے وجود کے ساتھ ہیں اور اگر اس کے پاس اور کپڑا بالکل نہ ہو تو اس ایک کپڑے میں نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ چھوٹے کپڑے کو بھی بطور ازار باندھ کر نماز پڑھنا جائز ہے جبکہ دوسرا کپڑا موجود نہ ہو۔
آثار کو سامنے رکھ کر ان کی تصحیح و تطبیق کا یہی تقاضا ہے جو اس سلسلہ میں ذکر کردیا۔

2217

۲۲۱۷: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ‘ (أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کَانُوْا یَشْہَدُوْنَ الصَّلَاۃَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَاقِدِی ثِیَابِہِمْ فِیْ رِقَابِہِمْ‘ مَا عَلٰی أَحَدِہِمْ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ) .
٢٢١٧: ابو حازم کہتے ہیں سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ کچھ مسلمان آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نمازوں میں حاضر ہوتے اور انھوں نے اپنے کپڑوں کو گردنوں سے باندھا ہوا ہوتا اور ان کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہوتا تھا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٣‘ ٦‘ الاذان باب ١٣٦‘ العمل فی الصلاۃ باب ١٤‘ مسلم فی الصلاۃ ١٣٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٧٨٠‘ نمبر ٦٣٠‘ نسائی فی القبلہ باب ١٦‘ مسند احمد ٣؍٤٣٣‘ ٥؍٣٣١۔

2218

۲۲۱۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْیَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ثَابِتُ بْنُ الْعَجْلَانِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ سُلَیْمُ الْأَنْصَارِیُّ‘ أَنَّہٗ صَلَّیْ مَعَ أَبِیْ بَکْرٍ فِی خِلَافَتِہِ‘ سَبْعَۃَ أَشْہُرٍ‘ فَرَأَیْ أَکْثَرَ مَنْ یُصَلِّیْ مَعَہُ مِنَ الرِّجَالِ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ یُدْعَی بُرْدًا‘ لَیْسَ عَلَیْہِمْ غَیْرُہٗ .
٢٢١٨: ابو عامر سلیم انصاری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ ان کے ایام خلافت میں چھ ماہ نماز پڑھی ان کے ساتھ اکثر نماز پڑھنے والوں کو ایک کپڑے میں دیکھا جس کو (برد) چادر بولتے تھے ان پر اس کے علاوہ کپڑا نہ ہوتا تھا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٧٨۔

2219

۲۲۱۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ‘ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ قَدْ خَالَفَ بَیْنَ طَرَفَیْہِ .
٢٢١٩: قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ہمیں خالد بن الولید نے یرموک کے دن نماز پڑھائی جبکہ وہ ایک کپڑے میں لپٹے تھے اور اس کی دونوں اطراف کو مخالف سمت میں باندھا ہوا تھا۔
تخریج : ١؍٢٧٦‘ ابن ابی شیبہ۔

2220

۲۲۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ قَالَ : (أَمَّنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ‘ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ قَدْ خَالَفَ بَیْنَ طَرَفَیْہِ‘ وَخَلَفَہُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .) فَفِیْمَا قَدْ رَوَیْنَا عَمَّنْ ذَکَرْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ‘ مَا یُضَادُّ مَا رَوَیْنَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .ثُمَّ قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْآثَارِ الْمُتَقَدِّمَۃِ‘ مَا قَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ‘ فَذٰلِکَ أَوْلَیْ أَنْ یُؤْخَذَ بِہٖ، مِمَّا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَھٰذَا الَّذِیْ بَیَّنَّا‘ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٢٢٢٠: قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ ہمیں خالد بن الولید نے یوم یرموک میں نماز پڑھائی آپ نے ایک کپڑا پہن رکھا تھا اور اس کی دونوں اطراف مخالف سمت میں باندھ رکھی تھیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ ان آثار میں جو کچھ ہم نے نقل کیا حضرت عمر (رض) سے اس کے خلاف روایت ہے اور پہلے آثار میں جو کچھ ہے اس کے موافق ہے۔ پس ہم اسی کو اولیٰ ہونے کی بناء پر اختیار کرتے ہیں ‘ اور یہ جو ہم نے واضح کیا ہے یہ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢٧٦۔
حاصل کلام : جن اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہم نے تذکرہ کیا کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے ان کے متضاد آپ نے حضرت عمر (رض) کی روایت کو پایا جو فریق اوّل نے پیش کی پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گزشتہ آثار میں وہ چیز مل گئی جو ان کے قول کے موافق تھی پس اس کو اختیار کرنا اولیٰ ہے فقط اس قول کو لینے سے جو فقط عمر (رض) سے مروی ہے۔
گویا عمر (رض) کے اقوال میں سے وہ قول جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و عمل کے موافق ہے اس کو لیا جائے گا دوسرا متروک ہوگا۔
یہ جو یہاں تک وضاحت کی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : : اس باب میں نقل آثار پر اکتفاء کیا گیا اور فریق اوّل کے جوابات ساتھ ساتھ نپٹا دیئے گئے اور مسئلہ کی ہر ہر جہت پر روایات اور آثار پیش کئے یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے موجودہ دور میں غیر مقلدین کا خاصا طبقہ بخاری کی بعض روایات کو جو مزاج کے مطابق ہیں لے کر دوسری بخاری کی روایات کو ترک کرتا ہوا پائیں گے۔

2221

۲۲۲۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَبَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالُوْا : حَدَّثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیْ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ .أَبُو الْعَبَّاسِ الْمِصْرِیُّ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ جَبِیْرَۃَ‘ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (نَہَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ سَبْعَۃِ مَوَاطِنَ فِی الْمَزْبَلَۃِ‘ وَالْمَجْزَرَۃِ‘ وَالْمَقْبَرَۃِ‘ وَقَارِعَۃِ الطَّرِیْقِ‘ وَالْحَمَّامِ‘ وَمَعَاطِنِ الْاِبِلِ‘ وَفَوْقَ بَیْتِ اللّٰہِ) .
٢٢٢١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات مقامات پر نماز سے منع فرمایا ہے نمبر ١ کوڑی نمبر ٢ مذبح خانہ نمبر ٣ قبرستان میں نمبر ٤ راستہ کے درمیان نمبر ٥ حمام میں نمبر ٦ اونٹوں کے باڑے میں نمبر ٧ بیت اللہ کی چھت پر۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١٤١‘ ابن ماجہ فی المساجد باب ٤۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: اونٹوں کے باڑے میں نماز کو امام احمد ‘ اسحاق ‘ حسن بصری (رح) مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔
نمبر 2: بقیہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور علماء اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : اونٹوں کے باڑے میں نماز مکروہ تحریمی ہے جائز نہیں۔ دلیل یہ روایات ہیں۔

2222

۲۲۲۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْحَرَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَامّ‘ قَالَ : أَنَا الْحَجَّاجُ‘ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ مَوْلٰی بَنِی ہَاشِمٍ‘ وَکَانَ ثِقَۃً‘ وَکَانَ الْحَکَمُ یَأْخُذُ عَنْہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی عَنْ أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (صَلُّوْا فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ‘ وَلَا تُصَلُّوْا فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ) .
٢٢٢٢: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اسید بن حضیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو ‘ اونٹوں کے باڑے میں مت پڑھو۔

2223

۲۲۲۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی‘ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أُصَلِّیْ فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِہَا .قَالَ : لَا قَالَ : أُصَلِّیْ فِیْ مَعَاطِنِ الْاِبِلِ؟ قَالَ : لَا قَالَ : أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِہَا؟ قَالَ : نَعَمْ)۔
٢٢٢٣: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ آپ نے ہاں میں جواب دیا۔ اس نے پوچھا کیا ہم ان کا گوشت کھا کر وضو کریں ؟ فرمایا نہیں۔ اس نے سوال کیا کیا اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟ فرمایا نہیں۔ اس نے سوال کیا ان کا گوشت کھا کر وضو کریں ؟ فرمایا جی ہاں۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ٩٧‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٧١‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٤٢‘ ابن ماجہ فی المساجد باب ١٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١١٢‘ مسند احمد ٢؍٤٥١۔

2224

۲۲۲۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ .ح .وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا لَمْ تَجِدُوْا إِلَّا مَرَابِضَ الْغَنَمِ‘ وَمَعَاطِنَ الْاِبِلِ‘ فَصَلُّوْا فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ‘ وَلَا تُصَلُّوْا فِیْ مَعَاطِنِ الْاِبِلِ) .
٢٢٢٤: محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم بکریوں کے باڑے اور اونٹوں کے باڑے کے علاوہ جگہ نہ پاؤ تو بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لو مگر اونٹوں کے باڑے میں مت پڑھو۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ٦٧‘ مسند احمد ٢‘ ٤٥١؍٤٩١۔

2225

۲۲۲۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ ثَوْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ أَبِیْ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أُصَلِّیْ فِیْ مَبَائَ اتِ الْغَنَمِ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : أُصَلِّیْ فِیْ مَبَائَ اتِ الْاِبِلِ؟ قَالَ : لَا) .
٢٢٢٥: جعفر بن ابی ثور نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں۔ آپ نے فرمایا جی ہاں۔ اس نے دوسرا سوال کیا کیا اونٹوں کے باڑے میں پڑھ سکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٥‘ ٩٢؍١٠٠۔

2226

۲۲۲۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ ثَوْرٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
٢٢٢٦: جعفر بن ابی ژور نے جابر بن سمرہ (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اونٹوں کے باڑہ میں نماز مکروہ ہے اور انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا ہے۔ یہاں تک کہ بعض نے تو اس کے حکم میں غلطی کرتے ہوئے نماز کو فاسد قرار دیا۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان مواقع میں نماز درست ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جن روایات میں اونٹ کے باڑوں میں نماز سے منع کیا گیا ہے ان کا معنی مخدوش ہے اور ممانعت کی وجہ میں بھی اشکال ہے۔ پس ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ اونٹوں والے عموماً اونٹ کے قریب ہی پیشاب پاخانہ کرلیا کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس کو پلید کردیتے ہیں۔ اس بناء پر آپ نے اونٹوں کے باڑے میں نماز سے منع فرمایا نہ کہ کسی اور وجہ سے اور یہ تو ایسی علت ہے جو ہر مقام پر نماز کے لیے مانع ہے اور بکریوں والے عادت یہ ہے کہ وہ بکریوں کے باڑے کو گندگی سے پاک رکھتے ہیں اور اس میں بول و بزار سے باز رہتے ہیں۔ پس ان کے باڑے میں نماز کو درست قرار دیا گیا۔ شریک بن عبداللہ (رح) نے اسی طرح کہا ہے اور وہ اس روایت کی یہی تاویل کرتے ‘ اور یحییٰ بن آدم (رح) کا قول یہ ہے کہ نماز کی ممانعت کا یہ سبب ہرگز نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اونٹ اچھل کود کرتے ہیں اور اس میں ہر سامنے آنے والے کو قتل و ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ کیا تم یہ روایت میں نہیں پاتے کہ ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ جنات سے پیدا کیے گئے اور رافع بن خدیج (رض) نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ” ان اونٹوں کے لیے وحشی پن ہے جیسا جنگل کے جانوروں میں وحشی پن ہوتا ہے “ اور یہ خطرہ بکریوں سے نہیں ہے۔ اس وجہ سے اونٹوں کے باڑے میں نماز سے ان اونٹوں کی حرکت کی وجہ سے روکا گیا اس بناء پر نہیں کہ ان کے پاس نجاست ہوتی ہے اور بکریوں کے پاس نہیں ہوتی۔ بکریوں کے باڑے میں نماز کو اس وجہ سے درست قرار دیا کیونکہ ان سے وحشی پن کا خطرہ نہیں ‘ جو اونٹوں سے ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

2227

۲۲۲۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ مُبَارَکٍ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (صَلُّوْا فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ‘ وَلَا تُصَلُّوْا فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الصَّلَاۃَ فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ مَکْرُوْہَۃٌ‘ وَاحْتَجُّوْا بِھٰذِہِ الْآثَارِ‘ حَتّٰی غَلِطَ بَعْضُہُمْ فِیْ حُکْمِ ذٰلِکَ‘ فَأَفْسَدَ الصَّلَاۃَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَأَجَازُوْا الصَّلَاۃَ فِیْ ذٰلِکَ الْمَوْطِنِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ أَنَّ ھٰذِہِ الْآثَارَ الَّتِیْ نَہَتْ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ‘ قَدْ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِیْ مَعْنَاہَا‘ وَفِی السَّبَبِ الَّذِیْ کَانَ مِنْ أَجْلِہِ النَّہْیُ .فَقَالَ قَوْمٌ : أَصْحَابُ الْاِبِلِ مِنْ عَادَتِہِمْ التَّغَوُّطُ بِقُرْبِ اِبِلِہِمْ وَالْبَوْلُ‘ فَیُنَجِّسُوْنَ بِذٰلِکَ أَعْطَانَ الْاِبِلِ‘ فَنُہِیَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ لِذٰلِکَ‘ لَا لِعِلَّۃِ الْاِبِلِ‘ وَإِنَّمَا ہُوَ لِعِلَّۃِ النَّجَاسَۃِ الَّتِیْ تَمْنَعُ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْ أَیِّ مَوْضِعٍ مَا کَانَتْ‘ وَأَصْحَابُ الْغَنَمِ مِنْ عَادَتِہِمْ تَنْظِیْفُ مَوَاضِعِ غَنَمِہِمْ‘ وَتَرْکُ الْبَوْلِ فِیْہِ وَالتَّغَوُّطُ‘ فَأُبِیْحَتِ الصَّلَاۃُ فِیْ مَرَابِضِہَا لِذٰلِکَ .ھٰکَذَا رُوِیَ عَنْ شَرِیْکِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ کَانَ یُفَسِّرُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنَی .وَقَالَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ : لَیْسَ مِنْ قِبَلِ ھٰذِہِ الْعِلَّۃِ عِنْدِی جَائَ النَّہْیُ‘ وَلٰـکِنْ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْاِبِلَ یُخَافُ وُثُوْبُہَا فَیَعْطَبُ مَنْ یُلَاقِیْہَا حِیْنَئِذٍ‘ أَلَا تَرَاہُ قَالَ : فَإِنَّہَا جِنٌّ مِنْ جِنٍّ خُلِقَتْ .وَفِیْ حَدِیْثِ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (إِنَّ لِھٰذِہِ الْاِبِلِ أَوَابِدَ کَأَوَابِدِ الْوَحْشِ) .وَھٰذَا فَغَیْرُ مَخُوفٍ مِنَ الْغَنَمِ‘ فَأَمَرَ بِاجْتِنَابِ الصَّلَاۃِ فِیْ مَعَاطِنِ الْاِبِلِ‘ خَوْفَ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِہَا‘ لَا لِأَنَّ لَہَا نَجَاسَۃً لَیْسَتْ لِلْغَنَمِ مِثْلُہَا‘ وَأُبِیْحَتِ الصَّلَاۃُ فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ‘ لِأَنَّہٗ لَا یُخَافُ مِنْہَا مَا یُخَافُ مِنَ الْاِبِلِ .
٢٢٢٧: حسن نے حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرو مگر اونٹوں کے باڑے میں نماز مت پڑھو۔
تخریج : روایت نمبر ٢٢٢٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : ان روایات میں اونٹوں کے باڑے میں نماز سے ممانعت واضح طور پر ثابت ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان کے باڑے میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔
مؤقف ثانی : بکریوں کے باڑے کی طرح اونٹوں کے باڑے میں نماز سے ممانعت واضح طور پر ثابت ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان کے باڑے میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔
مؤقف ثانی : بکریوں کے باڑے کی طرح اونٹوں کے باڑے میں نماز سے بھی نماز جائز ہے جن روایات میں ممانعت وارد ہے اس کے اسباب ہیں اگر وہ اسباب پائے جائیں تو نماز ممنوع ورنہ درست ہوگی۔
تلاش اسباب :
نمبر 1: بعض لوگوں نے کہا اونٹوں والے غیر محتاط ہوتے ہیں اور باڑے کے قرب و جوار میں پیشاب پاخانہ سے باز نہیں رہتے اس نجاست کی وجہ سے باڑے پلید ہوجاتے ہیں اسی وجہ سے باڑے کے اندر نماز کی ممانعت کی گئی گویا گندگی سے عدم احتیاط ممانعت کا سبب ہے۔
نمبر 2: اور اس کے برخلاف بکری کمزور ہے بکریوں والے ان کے مقامات کو صاف ستھرا رکتے ہیں اور ان باڑوں میں پیشاب پاخانہ خود بھی نہیں کرتے اس وجہ سے ان میں نماز کو مباح قرار دیا گیا یہ شریک بن عبداللہ کی رائے ہے وہ اس روایت کی تاویل یہی کرتے تھے۔
دوسرا سبب : یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ اس علت کی وجہ سے ممانعت نہیں جو شریک نے بیان کی بلکہ وجہ یہ ہے کہ اونٹوں سے ہلاکت کا خدشہ ہے یہ کینہ پرور جانور ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانوروں سے اس کو جن قرار دیا اور من جن خلقت کہا گویا شیاطین کی طرح فطرت میں شرارت ہے اور ان کو رافع بن خدیج کی روایت کے مطابق وحشی جانور قرار دیا گیا فرمایا : ان لہذہ الابل او ابدکا وابد الوحش ۔ گویا ان کے وحشی پن کا ہر وقت خطرہ ہے اور بکریوں سے چنداں یہ خطرہ نہیں ہے اس وجہ سے اونٹوں کے باڑے میں نماز کی ممانعت کی گئی ہے اس وجہ سے نہیں کہ وہاں نجاست ہے بس بکریوں سے خطرہ جان نہیں تو نماز کی اجازت دی اور اونٹوں سے خطرہ جان کی وجہ سے ممانعت ہے۔
تخریج : ہذاہ الابل اوابد۔ بخاری باب ١٩١‘ مسلم فی الاصاحی نمبر ٢٠‘ ابو داؤد باب ١٤‘ ترمذی فی العید ١٩‘ نسائی فی العید باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الذبائح باب ٩‘ دارمی فی الاضاجی باب ١٥‘ مسند احمد ٣؍٤٦٣۔

2228

۲۲۲۸: حَدَّثَنِی خَلَّادُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنِ ابْنِ شُجَاعٍ الثَّلْجِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ بِالتَّفْسِیْرَیْنِ جَمِیْعًا .
٢٢٢٨: ابن شجاع ثلحی عن یحییٰ بن آدم (رح) نے دونوں تفسیریں ذکر کی ہیں۔

2229

۲۲۲۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ أَنَّ عِیَاضًا قَالَ : إِنَّمَا نُہِیَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ‘ لِأَنَّ الرَّجُلَ یَسْتَتِرُ بِہَا لِیَقْضِیَ حَاجَتَہٗ فَھٰذَا التَّفْسِیْرُ مُوَافِقٌ لِتَفْسِیْرِ شَرِیْکٍ .
٢٢٢٩: معاویہ بن صالح بیان کرتے ہیں کہ عیاض نے کہا اونٹوں کے باڑے میں نماز سے اس لیے منع کیا کیونکہ اونٹوں کے باڑے کو ستر بنا کر آدمی قضاء حاجت کرتا ہے یہ تفسیر تو شریک کے ساتھ شریک ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلیل : اونٹوں کے بارے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں البتہ گزشتہ علل میں سے کوئی پانی جائے تو ممنوع ہوگی گویا ممانعت عارضی ہوگی۔

2230

۲۲۳۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ وَأَبُوْ بِکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ خَالِدِ ڑ الْأَحْمَرُ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی إِلَیْ بَعِیْرِہِ) .
٢٢٣٠: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اونٹ کو سامنے بیٹھا کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔

2231

۲۲۳۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ بُکَیْرِ ڑ الْعَبْدِیُّ‘ قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ زِیَادِ ڑ الْمُصْفَرِّ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنِ الْمِقْدَامِ الرَّہَاوِیِّ قَالَ : جَلَسَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ‘ وَأَبُو الدَّرْدَائِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ .فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : أَیُّکُمْ یَحْفَظُ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ صَلّٰی بِنَا إِلَیْ بَعِیْرٍ مِنَ الْمَغْنَمِ؟ فَقَالَ عُبَادَۃُ : أَنَا .قَالَ : فَحَدِّثْ .قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْ بَعِیْرٍ مِنَ الْمَغْنَمِ‘ ثُمَّ مَدَّ یَدَہٗ فَأَخَذَ قُرَادَۃً مِنَ الْبَعِیْرِ فَقَالَ : مَا یَحِلُّ لِیْ مِنْ غَنَائِمِکُمْ مِثْلُ ھٰذِہِ‘ إِلَّا الْخُمُسُ‘ وَہُوَ مَرْدُوْدٌ فِیکُمْ) .فَفِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ اِبَاحَۃُ الصَّلَاۃِ إِلَی الْبَعِیْرِ‘ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّلَاۃَ إِلَی الْبَعِیْرِ جَائِزَۃٌ‘ وَأَنَّہٗ لَمْ یَنْہَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ‘ لِأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الصَّلَاۃُ بِحِذَائِہَا .وَاحْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ الْکَرَاہَۃُ لِعِلَّۃِ مَا یَکُوْنُ مِنَ الْاِبِلِ فِیْ مَعَاطِنِہَا‘ مِنْ أَرْوَاثِہَا وَأَبْوَالِہَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا مَرَابِضَ الْغَنَمِ‘ کُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ عَلٰی جَوَازِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا‘ وَبِذٰلِکَ جَائَ تْ الرِّوَایَاتُ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَکَانَ حُکْمُ مَا یَکُوْنُ مِنَ الْاِبِلِ فِیْ أَعْطَانِہَا مِنْ أَبْوَالِہَا وَغَیْرِ ذٰلِکَ‘ حُکْمَ مَا یَکُوْنُ مِنَ الْغَنَمِ فِیْ مَرَابِضِہَا مِنْ أَبْوَالِہَا وَغَیْرِ ذٰلِکَ‘ لَا فَرْقَ بَیْنَ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ نَجَاسَۃٍ وَلَا طَہَارَۃٍ‘ لِأَنَّ مَنْ جَعَلَ أَبْوَالَ الْغَنَمِ طَاہِرَۃً‘ جَعَلَ أَبْوَالَ الْاِبِلِ کَذٰلِکَ‘ وَمَنْ جَعَلَ أَبْوَالَ الْاِبِلِ نَجِسَۃً‘ جَعَلَ أَبْوَالَ الْغَنَمِ کَذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَتِ الصَّلَاۃُ قَدْ أُبِیْحَتْ فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ نُہِیَ فِیْہِ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ‘ ثَبَتَ أَنَّ النَّہْیَ عَنْ ذٰلِکَ‘ لَیْسَ لِعِلَّۃِ النَّجَاسَۃِ مَا یَکُوْنُ مِنْہَا‘ اِذْ کَانَ مَا یَکُوْنُ مِنَ الْغَنَمِ‘ حُکْمُہٗ مِثْلَ ذٰلِکَ .وَلَکِنَّ الْعِلَّۃَ الَّتِیْ لَہَا کَانَ النَّہْیُ‘ ہُوَ مَا قَالَ شَرِیْکٌ‘ أَوْ مَا قَالَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ .فَإِنْ کَانَ لِمَا قَالَ شَرِیْکٌ فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَکْرُوْہَۃٌ حَیْثُ یَکُوْنُ الْغَائِطُ وَالْبَوْلُ‘ کَانَ عَطْنًا أَوْ غَیْرَہُ . وَإِنْ کَانَ لِمَا قَالَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ‘ فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَکْرُوْہَۃٌ حَیْثُ یُخَافُ عَلَی النُّفُوْسِ‘ کَانَ .عَطْنًا أَوْ غَیْرَہُ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا حُکْمُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ‘ وَأَنَّ الصَّلَاۃَ فِیْہَا جَائِزَۃٌ‘ وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوْا فِیْ أَعْطَانِ الْاِبِلِ‘ فَقَدْ رَأَیْنَا حُکْمَ لُحْمَانِ الْاِبِلِ‘ کَحُکْمِ لُحْمَانِ الْغَنَمِ فِی طَہَارَتِہَا‘ وَرَأَیْنَا حُکْمَ أَبْوَالِہَا کَحُکْمِ أَبْوَالِہَا فِی طَہَارَتِہَا أَوْ نَجَاسَتِہَا .فَکَانَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ الصَّلَاۃِ فِیْ مَوْضِعِ الْاِبِلِ کَہُوَ فِیْ مَوْضِعِ الْغَنَمِ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٢٣١: حسن نے مقدام رھاوی سے نقل کیا کہ حضرت عبادہ بن صامت (رض) اور ابوالدردائ (رض) اور حارث بن معاویہ (رض) اکٹھے بیٹھے تو ابوالدردائ (رض) نے پوچھا تم میں سے کسے وہ حدیث یاد ہے جس میں آپ نے مال غنیمت کے ایک اونٹ کا رخ کر کے نماز پڑھائی عبادہ (رض) نے کہا مجھے یاد ہے پس انھوں نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت کے ایک اونٹ کی طرف رخ کر کے (سترہ بنا کر) نماز پڑھائی پھر آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس کی ایک چیچڑی پکڑی اور فرمایا میرے لیے تمہارے اس مال غنیمت میں سے اس چیچڑی کے برابر بھی چیز سوائے خمس کے حلال نہیں ہے بقیہ چار حصے وہ تمہیں لوٹا دیئے جائیں گے۔ یہ دونوں روایات اونٹ کی طرف رُخ کر کے نماز کو جائز قرار دے رہی ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ اونٹ کی طرف نماز کچھ گناہ نہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے باڑے میں نماز کی ممانعت نہیں فرمائی کہ ان کی محاذات میں نماز نہیں ہوتی۔ رہا یہ احتمال کہ نماز کی ممانعت ان کے باڑوں میں کوئی شئے ہونے کی بناء پر ہو جیسے پیشاب و مینگنی وغیرہ۔ پس ہم نے غور کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کو بالاتفاق جائز قرار دیا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات وارد ہوئی ہیں اور اونٹوں کے پیشاب وغیرہ کی وجہ سے جو ان کے باڑے کا حکم ہے وہ بکریوں کے باڑے سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ ان میں نجاست و طہارت کے متعلق بالکل فرق نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جن علماء نے بکریوں کے پیشاب کو پاک کہا تو وہ اونٹوں کے پیشاب کا بھی یہی حکم بتلاتے ہیں۔ اسی طرح جن ہوں نے اونٹوں کے پیشاب کو نجس کہا ‘ انھوں نے بکریوں کے پیشاب کا بھی یہی حکم لگایا۔ پھر جب بکریوں کے باڑے میں نماز کو اسی روایت میں مباح قرار دیا گیا جس میں اونٹوں کے بارے میں نماز کو روکا گیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کی ممانعت ان میں نجاست کی بناء پر نہیں ‘ اس لیے کہ نجاست و طہارت میں دونوں کا حکم یکساں ہے۔ بلکہ ان کے باڑے میں ممانعت کی وجہ وہ ہے جو شریک نے اپنی روایت میں ذکر کی یا یحییٰ بن آدم نے اپنے قول میں بیان کی۔ پس اگر اس علت کو لیں تو پھر جہاں بول و بزار ہوگا اس کے قریب تو نماز مکروہ ہوگی ‘ خواہ وہ کوئی سا باڑہ ہو اور اگر یحییٰ بن آدم والی علت کو اختیار کریں تو نماز وہاں مکروہ ہوگی جہاں جان کو خطرہ ہوگا۔ خواہ وہ کوئی باڑہ ہو۔ روایات کی تصحیح کو سامنے رکھتے ہوئے اس باب کا یہ حکم ہے۔ اب طریق نظر و فکر سے دیکھتے ہیں کہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ بکریوں کے باڑے میں نماز جائز ہے۔ اختلاف صرف اونٹوں کے باڑے میں ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہر دو گوشت کا حکم طہارت میں برابر ہے اور پیشاب کا حکم طہارت و نجاست میں کچھ مختلف نہیں ‘ تو قیاس یہ چاہتا ہے کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز کا حکم بھی بکریوں کے باڑے میں نماز کی طرح ہونا چاہیے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ لیث بن سعد کا تائیدی اثر ملاحظہ فرمائیں۔
اللغات : قرادۃ۔ چیچڑی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٤۔
حاصل روایات : ان دونوں روایتوں سے اونٹ کی طرف اور ان کے قرب میں نماز پڑھنا درست ثابت ہوگیا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اونٹ کے باڑے میں ممانعت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے برابر یا سامنے نماز درست نہیں۔
ایک غلط احتمال :
اونٹوں کے ارداث و ابوال نجس ہونے کی وجہ سے اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت کی گئی۔
ازالہ :
جب ہم غور کرتے ہیں تو اس کا سبب ممانعت ہونا فاسد ٹھہرتا ہے کیونکہ بکریاں جن کے باڑوں میں بالاتفاق نماز جائز ہے ان کے اور اونٹوں کے متعلق ابوال و ارواث میں کوئی فرق نہیں کیونکہ جن کے ہاں ان کے ابوال نجس نہیں ان کے ہاں اونٹوں کا حکم بھی یہی ہے اور ارواث کا حکم بھی یکساں ہے جنہوں نے ابوال غنم کو نجس قرار دیا انھوں نے ابوال ابل کو بھی نجس کہا ہے۔
جب بکریوں کے باڑے میں نماز کی اجازت دی گئی اور اونٹوں کے متعلق ممانعت کردی گئی تو ثابت ہوگیا کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز کی ممانعت نجاست کی وجہ سے نہیں ہے جنہوں نے اس کو علت قرار دیا ان کی بات غلط اور علت فاسد ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ نہی کی علت کیا ہے ؟
تو جواب یہ ہے کہ نہی کی علت وہی ہے جو یا تو شریک نے ذکر کی یا یحییٰ بن آدم نے بیان کی پس اگر شریک والی علت کو لیں تو پھر اونٹوں کے باڑے ہوں یا دوسری کوئی جگہ جہاں پیشاب و پاخانہ ہو وہاں نماز ممنوع ہے خواہ وہ بکریوں کا باڑہ ہی کیوں نہ ہو۔
اور اگر یحییٰ بن آدم والی علت ہو تو جہاں بھی جان کا خطرہ ہو وہاں نماز ممنوع ہے وہ اونٹوں کا باڑہ ہو یا اور۔
آثار کے معانی کو درست رکھتے ہوئے تو یہی بات درست ماننا پڑے گی کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ممنوع نہ ہو اگر ہو تو وہ ان علل کی وجہ سے ہوگی پس تمام آثار موافق ہوگئے۔
نظر طحاوی (رح) :
نظر و فکر سے دیکھا تو مرابض غنم بکریوں کے باڑوں کو ایسا مقام پایا جہاں بالاتفاق نماز جائز ہے اونٹوں کے باڑے میں اختلاف ہوا ادھر گوشت کی پاکیزگی میں بکری اور اونٹ یکساں ہیں اسی طرح پیشاب و پاخانہ کی طہارت و نجاست میں برابر ہیں جب ان سب باتوں میں برابر ہیں تو نظر کا تقاضہ یہ ہے کہ اونٹوں کا باڑہ بکریوں کے باڑے کی طرح نماز کے جواز اور عدم جواز میں ہونا چاہیے۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔

2232

۲۲۳۲: وَقَدْ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ قَالَ ھٰذِہِ نُسْخَۃُ رِسَالَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ إِلَی اللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ یَذْکُرُ فِیْہَا : أَمَّا مَا ذَکَرْت مِنْ مَعَاطِنِ الْاِبِلِ‘ فَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ ذٰلِکَ یُکْرَہٗ، وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ عَلٰی رَاحِلَتِہِ‘ وَقَدْ کَانَ ابْنُ عُمَر‘ وَمَنْ أَدْرَکْنَا مِنْ خِیَارِ أَہْلِ أَرْضِنَا یَعْرِضُ أَحَدُہُمْ نَاقَتَہُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ‘ فَیُصَلِّی إِلَیْہَا وَہِیَ تَبْعَرُ وَتَبُوْلُ .
٢٢٣٢: ابن ابی مریم کہتے ہیں کہ ہمیں لیث بن سعد نے بتلایا کہ عبداللہ بن نافع (رح) کے خط کا ایک نسخہ یہ ہے جو انھوں نے میرے نام لکھا ہے اس میں لکھا ہے کہ تم نے اونٹوں کے باڑے کا تذکرہ کیا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ مکروہ ہے لیث بن سعد کہتے ہیں حالانکہ یہ بات مطلقاً نہیں کہی جاسکتی جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر نماز ادا فرماتے اسی طرح ابن عمر اور جن کو صحابہ وتابعین میں سے ہم نے پایا ہے وہ اونٹنی کو سترہ بناتے اور اس دوران اونٹنی مینگنیاں اور پیشاب بھی کرتیں تھیں (مگر کسی نے کراہت صلوۃ عند قربہا کا فتویٰ نہ دیا) اس سے معلوم ہوا کہ کراہت کا قول درست نہیں۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اگر لوگوں سے عید کے دن شروع دن میں عید رہ گئی تو وہ اسے اگلے روز عید کے وقت میں ادا کریں۔ یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ دوسروں نے اس کی مخالفت میں کہا کہ جب عید کے روز عید فوت ہوجائے اور زوال کا وقت ہوجائے تو عید نہ اس دن زوال کے بعد پڑھی جائے اور نہ اگلے روز۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ہشام سے دیگر روات نے ” انہ صلی بھم من الغد “ کے لفظ نقل نہیں کیے اور یحییٰ بن حسان اور سعید بن منصور (رح) یہ بھی ہشام کے شاگرد ہیں مگر ان کی روایت میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ‘ یہ وہ شاگرد ہیں جنہوں نے ہشام کی تدلیس کو واضح کیا ہے۔
حاصل روایات : : اس باب میں فریق ثانی کی طرف سے آثار سے زیادہ دلائل نہیں دیئے گئے نقل کے اعتبار سے یہاں دلائل زیادہ ہونے چاہئیں فریق اوّل کی نقل کا جواب علت کا فقدان قرار دیا گیا حالانکہ علت تو خود قیاسی چیز ہے۔ واللہ اعلم۔ البتہ نظری دلیل لاجواب ہے۔

2233

۲۲۳۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ إِیَاسٍ‘ عَنْ أَبِیْ عُمَیْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمُوْمَتِیْ مِنَ الْأَنْصَارِ‘ (أَنَّ الْہِلَالَ خَفِیَ عَلَی النَّاسِ فِیْ آخِرِ لَیْلَۃٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِیْ زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحُوْا صِیَامًا فَشَہِدُوْا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ‘ أَنَّہُمْ رَأَوا الْہِلَالَ اللَّیْلَۃَ الْمَاضِیَۃَ .فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالْفِطْرِ‘ فَأَفْطَرُوْا تِلْکَ السَّاعَۃَ‘ وَخَرَجَ بِہِمْ مِنَ الْغَدِ‘ فَصَلّٰی بِہِمْ صَلَاۃَ الْعِیْدِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : اِذَا فَاتَ النَّاسَ صَلَاۃُ الْعِیْدِ فِیْ صَدْرِ یَوْمِ الْعِیْدِ‘ صَلَّوْہَا مِنْ غَدِ ذٰلِکَ الْیَوْمِ‘ فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ یُصَلُّوْنَہَا .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ‘ أَبُوْ یُوْسُفَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : اِذَا فَاتَتِ الصَّلَاۃُ یَوْمَ الْعِیْدِ‘ حَتَّی زَالَتِ الشَّمْسُ مِنْ یَوْمِہِ‘ لَمْ یُصَلِّ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ‘ وَلَا فِیْمَا بَعْدَہٗ .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ‘ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ الْحُفَّاظَ مِمَّنْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ‘ عَنْ ہُشَیْمٍ‘ لَا یَذْکُرُوْنَ فِیْہِ أَنَّہٗ صَلّٰی بِہِمْ مِنَ الْغَدِ .فَمِمَّنْ رَوٰی ذٰلِکَ عَنْ ہُشَیْمٍ وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْہِ ھٰذَا‘ یَحْیَی بْنُ حَسَّانٍ‘ وَسَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ وَہُوَ أَضْبَطُ النَّاسِ لِأَلْفَاظِ ہُشَیْمٍ‘ وَہُوَ الَّذِیْ مَیَّزَ لِلنَّاسِ مَا کَانَ ہُشَیْمٌ یُدَلِّسُ بِہٖ مِنْ غَیْرِہٖ .
٢٢٣٣: ابو عمیر بن انس بن مالک کہتے ہیں کہ مجھے انصاری پھوپھی سے خبر دی کہ رمضان کی آخری رات چاند لوگوں پر مخفی ہوگیا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کی بات ہے صبح سب کے روزے تھے زوال آفتاب کے بعد آپ کے پاس گواہی دی گئی کہ گزشتہ رات کو چاند دیکھا گیا ہے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کا حکم دیا لوگوں نے اسی وقت افطار کردیا اگلے روز آپ ان کو لے کر نکلے اور ان کو نماز عید پڑھائی۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اگر لوگوں سے عید کے دن شروع دن میں عید رہ گئی تو وہ اسے اگلے روز عید کے وقت میں ادا کریں۔ یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ دوسروں نے اس کی مخالفت میں کہا کہ جب عید کے روز عید فوت ہوجائے اور زوال کا وقت ہوجائے تو عید نہ اس دن زوال کے بعد پڑھی جائے اور نہ اگلے روز۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ہشام سے دیگر روات نے ” انہ صلی بھم من الغد “ کے لفظ نقل نہیں کیے اور یحییٰ بن حسان اور سعید بن منصور (رح) یہ بھی ہشام کے شاگرد ہیں مگر ان کی روایت میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ‘ یہ وہ شاگرد ہیں جنہوں نے ہشام کی تدلیس کو واضح کیا ہے۔
امام طحاوی کہتے ہیں جیسا اس روایت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جب لوگوں سے پہلے دن عید رہ جائے تو پھر وہ اگلے دن پڑھیں اور یہ امام ابو یوسف (رح) کی رائے ہے۔
روایت کا جواب :
اس روایت کو ہشیم سے یحییٰ بن حسن اور سعید بن منصور نے بھی روایت کیا مگر انھوں نے وہ الفاظ فصلی بہم صلوۃ العید کے الفاظ نقل نہیں کئے حالانکہ ہشیم کی روایات کے یہی بڑے حافظ نہیں اور انھوں نے ہشیم کی تدلیس کو واضح کیا ہے۔ روایات سعید و یحییٰ ملاحظہ ہوں۔
خلاصہ الزام : نماز عید امام احمد (رح) کے ہاں فرض اور امام ابوحنیفہ (رح) واجب قرار دیتے ہیں اور مالک و شافعی (رح) سنت موکدہ کہتے ہیں عید اگر پہلے روز نہ پڑھی جاسکے تو دوسرے دن پڑھی جائے گی امام ابو یوسف (رح) احمد (رح) کا یہ مسلک ہے مگر امام شافعی (رح) ومالک (رح) کے ہاں دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے۔
مسئلہ ثانی میں فریق اوّل : عذر کی وجہ سے عید دوسرے دن پڑھی جاسکتی ہے۔ دلیل یہ ہے۔

2234

۲۲۳۴: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوْ بِشْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ عُمَیْرِ بْنِ أَنَسٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمُوْمَتِیْ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْا : (أُغْمِیَ عَلَیْنَا ہِلَالُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِیَامًا‘ فَجَائَ رَکْبٌ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ فَشَہِدُوْا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ رَأَوا الْہِلَالَ بِالْأَمْسِ .فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفْطِرُوْا مِنْ یَوْمِہِمْ‘ ثُمَّ لِیَخْرُجُوْا لِعِیْدِہِمْ مِنَ الْغَدِ إِلَی مُصَلَّاہُمْ) .
٢٢٣٤: ہشیم نے ابو عمیر بن انس سے اور انھوں نے اپنی کسی پھوپھی سے نقل کیا کہ شوال کا چاند نظر نہ آیا ہم نے روزے رکھ لیے دن کے آخری حصہ میں ایک قافلہ آیا اور اس نے اطلاع دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا تھا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ وہ آج افطار کردیں پھر کل اپنی عید کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصیام باب ٦۔

2235

۲۲۳۵: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لَا کَمَا رَوَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ وَأَمْرُہُ إِیَّاہُمْ بِالْخُرُوْجِ مِنَ الْغَدِ لِعِیْدِہِمْ‘ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ أَنْ یَجْتَمِعُوْا فِیْہِ لِیَدْعُوْا‘ أَوْ لِیَرَی کَثْرَتَہُمْ‘ فَیَتَنَاہَیْ ذٰلِکَ إِلٰی عَدُوِّہِمْ فَتَعْظُمُ أُمُوْرُہُمْ عِنْدَہٗ، لَا لَأَنْ یُصَلُّوْا کَمَا یُصَلَّی لِلْعِیْدِ وَقَدْ رَأَیْنَا الْمُصَلِّیَ فِیْ یَوْمِ الْعِیْدِ قَدْ کَانَ أُمِرَ بِحُضُوْرِ مَنْ لَا یُصَلِّیْ.
٢٢٣٥: ہشیم نے ابی بشر سے بھی اس طرح اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔ اس کی روایت کی اصل یہ ہے۔ اس طرح نہیں کہ عبداللہ بن صالح نے نقل کیا ہے کہ آپ نے اگلے دن عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ان کو دعا کے لیے جمع کرنا مقصود ہو۔ یا تاکہ کفار کے سامنے مسلمانوں کی کثرت کو ظاہر کیا جائے اور دشمن کے دل میں رعب بیٹھے۔ اس بناء پر جمع کا حکم نہیں دیا کہ وہ نماز پڑھی جائے جیسے عید کی پڑھی جاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں نماز عید کی دعا میں ایسے لوگوں نفسائ ‘ حیض وغیرہ کو بھی آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذیل کی روایت دیکھیں۔
یہ اس روایت کی اصل ہے جو ہم نے نقل کردی اس طرح نہیں جیسا عبداللہ بن صالح سے فریق اوّل نے نقل کی ہے آپ نے ان کو اگلے دن عید کے لیے نکلنے کا حکم فرمایا۔
تاویل : اس کی یہ تاویل ہوسکتی ہے۔
نمبر 1: دعا کے لیے جمع ہونا مراد ہو۔
نمبر 2: کثرت ظاہر کرنا مقصود ہو تاکہ دشمن کو ان کی کثرت معلوم ہو یہ مقصود نہیں کہ وہ عید کی نماز کے لیے نکلیں۔ کیونکہ عید گاہ کی طرف ان کو بھی نکلنے کا حکم بغیر نماز لازم نہیں۔ روایت ملاحظہ ہو۔

2236

۲۲۳۶: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا مَنْصُوْرٌ‘ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ وَہِشَامٍ‘ عَنْ حَفْصَۃَ‘ عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخْرُجُ الْحُیَّضَ وَذَوَاتَ الْخُدُوْرِ یَوْمَ الْعِیْدِ فَأَمَّا الْحُیَّضُ فَیَعْتَزِلْنَ وَیَشْہَدْنَ الْخَیْرَ‘ وَدَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ) وَقَالَ ہُشَیْمٌ : (فَقَالَتْ امْرَأَۃٌ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لِاِحْدَانَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ : فَلْتُعِرْہَا أُخْتُہَا جِلْبَابَہَا) فَلَمَّا کَانَ الْحُیَّضُ یَخْرُجْنَ لَا لِلصَّلَاۃِ‘ وَلٰـکِنْ لَأَنْ یُصِیْبَہُنَّ دَعْوَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ‘ احْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ بِالْخُرُوْجِ مِنْ غَدِ الْعِیْدِ لَأَنْ یَجْتَمِعُوْا فَیَدْعُوْنَ‘ فَیُصِیْبُہُمْ دَعْوَتُہُمْ‘ لَا لِلصَّلَاۃِ .وَقَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ کَمَا رَوَاہُ سَعِیْدٌ وَیَحْیَی‘ لَا کَمَا رَوَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ .
٢٢٣٦: حفصہ نے ام عطیہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیض والی عورتوں اور نوجوان پردہ دار خواتین کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیتے حائضات تو نماز سے الگ رہتیں مگر دعاء مسلمین اور دیگر بھلائیوں (وعظ و نصیحت) میں شریک رہتیں۔ ہشیم نے کہا کہ ایک عورت کہنے لگی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر ہمارے پاس اوڑھنی ہو تب بھی نکلنا ضروری ہے فرمایا وہ سہیلی سے عاریۃ مانگ لے۔ (مگر نکلے ضروری) جب کہ حائضہ عورتوں کو دعا کے لیے نکلنے کا حکم فرمایا نہ کہ نماز کے لیے ‘ لیکن مسلمانوں کی دعاؤں میں صرف شمولیت کے لیے۔ اسی طرح احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو عید کے اگلے روز دعا کے لیے جمع ہونے کا حکم فرمایا ہو۔ تاکہ تمام دعا میں شریک ہو سکیں۔ امام شعبہ (رح) نے اس روایت کو ابو بشیر سے سعید و یحییٰ کی طرح روایت کیا ہے اس طرح نہیں جیسے عبداللہ بن صالح (رح) نے نقل کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٢‘ حیض باب ٢٣‘ عیدین باب ١٥‘ الحج باب ٨١‘ مسلم فی العیدین نمبر ١٢: ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤٢١‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٣٦‘ نسائی فی الحیض باب ٢٢‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٦٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢٢٢‘ مسند احمد ٦؍١٨٤۔
حاصل کلام : جب حائضہ کو بھی مسلمانوں کی دعاؤں میں شامل کرنے کے لیے نکلنے کا حکم ہے تو یہ احتمال پختہ ہوگیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے دن لوگوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تاکہ وہ جمع ہو کر دعا کرسکیں اور ان کی دعا سب کو حاصل ہوجائے نماز کے لیے نہیں۔
اس روایت کو شعبہ نے یحییٰ و سعید کی طرح روایت کیا ملاحظہ ہو۔

2237

۲۲۳۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عُمَیْرِ بْنَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .ح
٢٢٣٧: شعبہ نے ابو بشر سے انھوں نے ابو عمیر بن انس (رض) سے روایت کی ہے۔

2238

۲۲۳۸: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (وَأَمَرَہُمْ اِذَا أَصْبَحُوْا أَنْ یَخْرُجُوْا إِلَی مُصَلَّاہُمْ) .فَمَعْنَیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَعْنَیْ مَا رَوٰی یَحْیٰی وَسَعِیْدٌ‘ عَنْ ہُشَیْمٍ‘ وَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ .وَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِی الْحَدِیْثِ‘ مَا یَدُلُّ عَلَی حُکْمِ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الصَّلَاۃِ فِی الْغَدِ‘ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الصَّلَوَاتِ عَلٰی ضَرْبَیْنِ .فَمِنْہَا مَا الدَّہْرُ کُلُّہُ لَہَا وَقْتٌ‘ غَیْرَ الْأَوْقَاتِ الَّتِیْ لَا یُصَلِّیْ فِیْہَا الْفَرِیْضَۃَ‘ فَکَانَ مَا فَاتَ مِنْہَا فِیْ وَقْتِہِ‘ فَالدَّہْرُ کُلُّہُ لَہَا وَقْتٌ یُقْضَی فِیْہِ‘ غَیْرَ مَا نُہِیَ عَنْ قَضَائِہَا فِیْہِ مِنَ الْأَوْقَاتِ .وَمِنْہَا مَا جُعِلَ لَہٗ وَقْتٌ خَاصٌّ‘ وَلَمْ یُجْعَلْ لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَہُ فِیْ غَیْرِ ذٰلِکَ الْوَقْتِ .مِنْ ذٰلِکَ الْجُمُعَۃُ‘ حُکْمُہَا أَنْ یُصَلِّیَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مِنْ حِیْنِ تَزُلْ الشَّمْسِ إِلٰی أَنْ یَدْخُلَ وَقْتُ الْعَصْرِ‘ فَإِذَا خَرَجَ ذٰلِکَ الْوَقْتُ فَاتَتْ وَلَمْ یَجُزْ أَنْ یُصَلِّیَ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ یَوْمِہَا ذٰلِکَ‘ وَلَا فِیْمَا بَعْدَہٗ .فَکَانَ مَا لَا یُقْضَی فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہِ بَعْدَ فَوَاتِ وَقْتِہِ‘ لَا یُقْضَیْ بَعْدَ ذٰلِکَ .وَمَا یُقْضَیْ بَعْدَ فَوَاتِ وَقْتِہِ فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہِ ذٰلِکَ‘ قُضِیَ مِنَ الْغَدِ‘ وَبَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَکُلُّ ھٰذَا مُجْمَعٌ عَلَیْہِ .وَکَانَتْ صَلَاۃُ الْعِیْدِ جُعِلَ لَہَا وَقْتٌ خَاصٌّ‘ فِیْ یَوْمِ الْعِیْدِ‘ آخِرُہُ زَوَالُ الشَّمْسِ‘ وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ عَلٰی أَنَّہَا اِذَا لَمْ تُصَلَّ یَوْمَئِذٍ حَتَّی زَالَتِ الشَّمْسُ أَنَّہَا لَا تُصَلّٰی فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہَا .فَلَہَا ثَبَتَ أَنَّ صَلَاۃَ الْعِیْدِ‘ لَا تُقْضَیْ بَعْدَ خُرُوْجِ وَقْتِہَا فِیْ یَوْمِہَا ذٰلِکَ‘ ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُقْضَیْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ غَدٍ وَلَا غَیْرِہِ‘ لِأَنَّا رَأَیْنَا مَا لِلَّذِیْ فَاتَہُ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ غَدٍ یَوْمِہِ جَائِزٌ لَہٗ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ بَقِیَّۃِ الْیَوْمِ الَّذِیْ وَقْتُہُ فِیْہِ وَمَا لَیْسَ‘ لِلَّذِیْ فَاتَہُ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہِ ذٰلِکَ‘ فَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ غَدِہِ .فَصَلَاۃُ الْعِیْدِ کَذٰلِکَ‘ لَمَّا ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُقْضَی اِذَا فَاتَتْ فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہَا‘ ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُقْضَی فِیْ غَدِہِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالَی‘ فِیْمَا رَوَاہُ عَنْ بَعْضِ النَّاسِ‘ وَلَمْ نَجِدْہُ فِیْ رِوَایَۃِ أَبِیْ یُوْسُفَ عَنْہٗ، ھٰکَذَا کَانَ فِیْ رِوَایَۃِ أَحْمَدَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٢٣٨: شعبہ نے ابو بشر سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت کی البتہ یہ فرق ہے یہ الفاظ زائد ہیں وامرہم اذا اصبحوا ان یخرجوا الی مصلاہم یہ اصل روایت ہے۔ یہ اس روایت کی اصل ہے اب جبکہ روایت میں کوئی ایسی بات نہیں جو اگلے دن میں عید کی نماز ادا کرنے پر دلالت کرے تو اب اس میں ہم نے غور و فکر کیا تو نماز کو دو قسموں میں تقسیم پایا۔ ان میں بعض تو وہ ہیں کہ جس کے لیے ہر زمانہ وقت ہے۔ البتہ ان اوقات میں ان کو ادا نہ کریں گے جن میں فرائض کی ممانعت ہے۔ پس ان میں سے جو اپنے وقت سے رہ جائے تو تمام زمانہ اس کے لیے وقت ہے۔ اس میں اسے ادا کیا جائے گا صرف ان اوقات میں نہ پڑھیں گے جن میں قضاء کی ممانعت ہے اور بعض وہ نمازیں ہیں کہ جن کا خاص وقت مقرر ہے۔ ان میں کسی کو جائز نہیں ہے کہ ان کو دوسرے وقت میں ادا کرے ان میں سے ایک جمعہ ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے جمعہ کے دن ادا کیا جائے جبکہ سورج ڈھل جائے اور اس کا وقت عصر کے وقت تک رہتا ہے۔ پس جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے تو جمعہ فوت ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو اس دن یا اگلے دن یا بعد میں قضاء نہیں کرسکتا اور وہ نمازیں جن کو فوت ہونے کے بعد اسی دن کے بقیہ وقت اور اگلے دن اور اس کے بعد جب چاہے قضاء کرسکتا ہے۔ یہ سب کے ہاں مسلّم ہے۔ نماز عید کو دیکھیں اس کا ایک مقررہ وقت ہے اور وہ عید والا دن زوال سے پہلے تک کا وقت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر نماز عید اس دن زوال تک ادا نہ کی تو بقیہ دن کے حصہ میں بھی ادا نہ کی جائے گی۔ پس اس سے اس قدر بات ثابت ہوگئی کہ نماز عید وقت نکل جانے کے بعد اس دن بھی قضاء نہیں کی جاسکتی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ اگلے روز اور نہ کسی دوسرے دن قضاء ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ بات تو وہ نماز جو فوت ہونے کے بعد اگلے قضاء کی جاسکے وہ قضاء کے بعد اس دن کے بقیہ میں بھی ادا ہوسکتی ہے جس میں اس کی ادائیگی کا وقت تھا اور جو اس طرح نہیں ‘ پس اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اگلے روز قضاء کرے تو نماز بھی یہی حکم رکھتی ہے۔ جب ی بات ثابت ہوگئی کہ عید دن کے بقیہ حصہ میں قضاء نہیں کی جاسکتی تو اگلے دن قضائج نہ کیا جانا خود ثابت ہوگیا۔ اس باب میں نظر کا تقاضا یہی ہے۔ بعض علماء کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کی روایات میں تو ہمیں نہیں مل سکا۔ یہ امام احمد (رح) کی روایت میں اسی طرح تھا۔
اس روایت کی وہی تاویل ہے جو اوپر یحییٰ والی روایت کی ذکر کردی اب جب کہ اس کے لیے صریح روایت موجود نہیں بلکہ مختلف فیہ ہے تو ہم قیاس و نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
عقلی جواب : غور سے دیکھتے ہیں تو نمازوں کو دو قسم پر پاتے ہیں۔
نمبر 1: جو ہر وقت پڑھی جاسکتی ہے فقط ان اوقات کا استثناء ہے جن میں فرض جائز ہی نہیں پس ان میں سے جو فوت ہوجائے تو تمام زمانہ اس کا ٹائم ہے یعنی قضا کرسکتے ہیں۔
نمبر 2: جن نمازوں کا خاص وقت مقرر کیا گیا اور کسی دوسرے وقت میں وہ پڑھی نہیں جا سکتیں جب یہ وقت نکل جائے تو جمعہ کا دن باقی ہونے کے باوجود اس کو پڑھا نہیں جاسکتا اور نہ ہی کسی دوسرے وقت میں اس کی قضا ہوسکتی ہے۔
پس قاعدہ یہ ہوا کہ جو اپنے وقت سے فوت ہونے کے بعد اس دن میں بھی قضا نہ کی جاسکے تو وہ بعد میں بھی قضا نہیں کی جاسکتی اور جو وقت گزرنے کے بعد اسی دن میں قضا ہو سکے وہ اگلے روز بھی قضا ہوسکتی ہے اور بعد میں بھی یہ مسلمہ قاعدہ ہے۔
اب نماز عید اس کا ایک خاص وقت ہے اور وہ یوم عید ہے اور اس کی انتہا زوال آفتاب ہے اور اصولاً جب اپنے وقت سے رہ گئی اور بقیہ دن موجود ہوتے ہوئے پڑھی نہیں جاسکتی تو اس سے ظاہر ہوا کہ یہ اگلے روز بھی قضا نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی مشابہت ان نمازوں سے ہے جو وقت نکل جانے کے بعد دن موجود ہونے کے باوجود اس دن قضا نہیں کی جاسکتی تو اگلے روز تو قضا نہ کرنا بدرجہ اولیٰ ہے پس اگلے دن عید کی قضا نہیں۔
حاصل روایات :: امام طحاوی (رح) کا اپنا جھکاؤ دوسرے قول کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
امام طحاوی (رح) کا اعتراف :
امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف بعض لوگوں نے منسوب کیا وہی ہم نے لکھ دیا مگر امام ابو یوسف کی روایات میں امام صاحب کی طرف اس کی نسبت نہیں پائی جاتی اور امام احمد کی روایت میں اسی طرح ہے۔ (واقعۃً تلاش بسیار پر بھی امام صاحب کا یہ قول کتب احناف میں میسر نہیں ہوا۔ احناف کا فتویٰ امام ابو یوسف (رح) کے قول پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فریق دوم کے پاس نقلی دلیل موجود نہیں اور عقلی قرائن سے کام نہیں چلتا فریق اوّل کی نقل میں بہت سے عقلی قرائن ثبوت عید کو ظاہر کرتے ہیں ادھر نظری دلیل میں کمزوری ہے کہ جمعہ و عید میں فرق ہے جمعہ کا بدل ہے عید کا بدل نہیں فتدبر۔

2239

۲۲۳۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ الْقَاضِی‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ النَّبِیْلُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ (أَسَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ‘ وَلَمْ نُؤْمَرْ بِدُخُوْلِہِ؟) یَعْنِی الْبَیْتَ .فَقَالَ : لَمْ یَکُنْ یُنْہَیْ عَنْ دُخُوْلِہِ‘ وَلٰـکِنْ سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَیْتَ‘ دَعَا فِیْ نَوَاحِیْہِ کُلِّہَا‘ وَلَمْ یُصَلِّ فِیْہِ شَیْئًا حَتّٰی خَرَجَ‘ فَلَمَّا خَرَجَ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَقَالَ : ھٰذِہِ الْقِبْلَۃُ) .
٢٢٣٩: ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء کو کہا کیا تم نے حضرت ابن عباس (رض) کی یہ بات سنی ہے کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ملا ہے اس کے اندر داخل کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس پر عطاء نے کہا داخل سے روکا بھی نہیں گیا لیکن میں نے ان کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسامہ بن زید (رض) نے بتلایا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کی تمام اطراف میں دعائیں کیں اور اس میں کوئی چیز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ باہر تشریف لائے اور نکل کر دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا یہ قبلہ ہے۔
تخریج : مسلم فی الحج روایت نمبر ٣٩٥۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: بیت اللہ کے اندر امام مالک و احمد (رح) کے ہاں نماز درست نہیں۔
نمبر 2: جبکہ ائمہ احناف کے ہاں نماز درست ہے خواہ فرض ہوں یا نفل۔
مؤقف فریق اوّل و دلائل : بیت اللہ شریف کے اندر نماز درست نہیں دلیل ملاحظہ ہو۔

2240

۲۲۴۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْبَیْتَ‘ وَلَمْ یُصَلِّ‘ وَلٰـکِنَّہٗ لَمَّا خَرَجَ صَلَّیْ عِنْدَ بَابِ الْبَیْتِ رَکْعَتَیْنِ) .
٢٢٤٠: عمرو بن دینار نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ فضل بن عباس (رض) نے بتلایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اس میں نماز ادا نہیں کی لیکن جب نکلے تو بیت اللہ کے دروازہ کے پاس دو رکعت نماز ادا کی۔

2241

۲۲۴۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدِ ڑ الْفَرَائِضِیُّ‘ قَالَ : أَنَا مُوْسٰی بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ‘ وَفِیْہَا سِتُّ سَوَارِی‘ فَقَامَ إِلٰی کُلِّ سَارِیَۃٍ کَذَا وَلَمْ یُصَلِّ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الصَّلَاۃُ فِی الْکَعْبَۃِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ‘ (وَبِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ صَلَّی خَارِجًا مِنَ الْکَعْبَۃِ إِنَّ ھٰذِہِ الْقِبْلَۃُ) .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا لَا بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ فِی الْکَعْبَۃِ‘ وَقَالُوْا : قَدْ یَحْتَمِلُ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ھٰذِہِ الْقِبْلَۃُ) مَا ذَکَرْنَا‘ وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ، ھٰذِہِ الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ یُصَلِّی إِلَیْہَا إِمَامُکُمْ الَّذِیْ تَأْتَمُّوْنَ بِہٖ، وَعِنْدَہَا یَکُوْنُ مَقَامَہُ فَأَرَادَ بِذٰلِکَ تَعْلِیْمَہُمْ مَا أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ مِنْ قَوْلِہٖ (وَاِتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی) [البقرۃ : ۱۲۵] وَلَیْسَ فِیْ تَرْکِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ فِیْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الصَّلَاۃُ فِیْہَا .وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارُ مُتَوَاتِرَۃٌ أَنَّہٗ صَلّٰی فِیْہَا .فَمِنْ ذٰلِکَ
٢٢٤١: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے اس میں چھ ستون ہیں ہر ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی مگر نماز نہیں پڑھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ کعبہ میں نماز جائز نہیں اور انھوں نے ان آثار کو اپنا مستدل بنایا اور نیز آپ کے اس فرمان کو بھی کہ آپ نے بیت اللہ شریف سے باہر نماز ادا کر کے فرمایا ” ان ھذہ القبلۃ “ بیشک یہ قبلہ ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ بیت اللہ کے اندر نماز میں چنداں حرج نہیں اور انھوں نے کہا کہ آپ کا ارشاد ” ان ھذہ القبلۃ “ اس بات کا بھی احتمال رکھتا ہے جس کا ہم تذکرہ کر آئے اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو یہی وہ قبلہ ہے کہ جس کی طرف تمہارا امام نماز پڑھاتا ہے جس کی تم اقتداء کرتے ہو اور وہ بیت اللہ کے قریب کھڑا ہوتا ہے ‘ اس سے ان کو اس بات کی تعلیم دینا مقصود تھی جس کا اس نے حکم اس فرمان میں دیا ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصل “ کہ تم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس میں نماز ترک کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس میں نماز درست نہیں ہے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات میں وارد ہے کہ آپ نے بیت اللہ شریف میں نماز ادا کی۔ آثار درج ذیل ہیں۔
تخریج : مسلم فی الحج نمبر ٣٩٦۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کے اندر نماز نہیں آپ نے باہر نکل کر نماز پڑھی اور فرمایا ہذہ القبلہ یہ قبلہ فرمانے سے معلوم ہوا کہ کعبہ سامنے ہو تو نماز درست ہوگی اگر اس کا کچھ حصہ پیچھے ہو تو نماز درست نہ ہوگی۔
فریق ثانی کا مؤقف و دلائل : بیت اللہ میں ہر قسم کی نماز فرض و نوافل درست ہے دلائل یہ ہیں ان کا تذکرہ کرنے سے پہلے فریق اوّل کا مختصر جواب عرض کریں گے۔
جواب : ہذہ القبلہ کا جملہ جس کو آپ نے محل استدلال بنایا اس میں کئی احتمال ہیں۔
نمبر 1: وہ احتمال یہ بھی ہے کہ نماز میں تمام قبلہ سامنے ہونا چاہیے اس کا کوئی حصہ پیچھے نہ ہونا چاہیے۔
نمبر 2: یہ باجماعت نماز کے سلسلہ میں فرمان ہے کہ پورا قبلہ امام کے سامنے ہو پیچھے نہ ہو۔
نمبر 3: یہ اس بات کی خبر اور پیشین گوئی ہے کہ بیت اللہ کا کعبہ و قبلہ ہونا کبھی منسوخ نہ ہوگا اب یہی قبلہ رہے گا باقی مکمل کعبہ کا رخ نہ لازم ہے اور نہ ہوسکتا ہے جس جانب کھڑا ہوگا وہی سامنے ہوگی دوسری سامنے نہ ہوگی اور امام بھی اسی طرح ایک جانب ہی کھڑا ہوگا یہ اسی طرح ہے جیسا فرمایا واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (البقرہ۔ ١٢٥) آیت میں جہت مقام ابراہیم مراد ہے عین مقام ابراہیم مراد نہیں۔
جواب نمبر 2: ان روایات میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے نماز نہیں پڑھی تو اس سے نماز کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔
ثبوت نماز کے دلائل :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر آثار مروی ہیں جن سے آپ کا بیت اللہ میں نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔ چند یہ ہیں۔

2242

۲۲۴۲: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ ہُوَ وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ‘ وَبِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَۃَ الْحَجَبِیُّ وَأَغْلَقَہَا عَلَیْہِمْ‘ وَمَکَثَ فِیْہَا .قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : فَسَأَلْتُ بِلَالًا حِیْنَ خَرَجَ : مَاذَا صَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : جَعَلَ عَمُوْدًا عَلٰی یَسَارِہٖ وَعَمُوْدَیْنِ عَلٰی یَمِیْنِہِ‘ وَثَلاَثَۃَ أَعْمِدَۃٍ وَرَائَ ہٗ، وَکَانَ الْبَیْتُ یَوْمَئِذٍ عَلَی سِتَّۃِ أَعْمِدَۃٍ‘ ثُمَّ صَلَّی‘ وَجَعَلَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِدَارِ نَحْوًا مِنْ ثَلاَثَۃِ أَذْرُعٍ) .
٢٢٤٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ میں داخل ہوئے آپ کے ساتھ اسامہ بن زید بلال ‘ عثمان بن طلحہ الحجبی داخل ہوئے اس نے باب کعبہ کو بلند کردیا اور اس میں کچھ دیر رکے۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے بلال سے دریافت کیا جبکہ وہ باہر آئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں کیا گیا ؟ تو بلال (رض) نے بتلایا ایک ستون بائیں طرف اور دو ستون دائیں طرف اور تین ستون پیچھے چھوڑے پھر نماز ادا کی اور آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا اس وقت بیت اللہ کی چھت چھ ستونوں پر قائم تھی۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٥١۔

2243

۲۲۴۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، (وَأَنَّہٗ صَلّٰی بَیْنَ الْعَمُوْدَیْنِ الْیَمَانِیَّیْنِ) ، إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ کَیْفَ جَعَلَ الْعُمُدَ الَّتِیْ ذَکَرَہَا مَالِکٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ.
٢٢٤٣: سالم بن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یمانی دو ستونوں کے درمیان نماز ادا فرمائی البتہ اس ستون کا تذکرہ نہیں کیا جس کو مالک نے اپنی روایت میں بائیں جانب ذکر کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٥١‘ مسلم فی الحج نمبر ٣٨٨۔

2244

۲۲۴۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِیْزِ ڑ الْأَیْلِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ‘ عَنْ عُقَیْلٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَہُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٤٤: سالم نے بتلایا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ان کو خبر دی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2245

۲۲۴۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا دُحَیْمُ بْنُ الْیَتِیمِ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : أَخْبَرَنِی (أَنَّہٗ صَلَّیْ عَلَی وَجْہِہِ حِیْنَ دَخَلَ بَیْنَ الْعَمُوْدَیْنِ عَنْ یَمِیْنِہِ) .
٢٢٤٥: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ بتلایا کہ آپ جب داخل ہوئے تو دو ستون آپ کے دائیں جانب تھے داخل ہو کر سامنے کی جانب نماز ادا فرمائی۔
تخریج : ١؍٩٣‘ دارمی۔

2246

۲۲۴۶: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ‘ وَرَدِیفُہُ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ‘ فَأَنَاخَ فِیْ ظِلِّ الْکَعْبَۃِ .قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَسَبَقْتُ النَّاسَ وَقَدْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِلَالٌ وَأُسَامَۃُ فِی الْبَیْتِ‘ فَقُلْتُ لِبِلَالٍ مِنْ وَرَائِ الْبَابِ : أَیْنَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ : صَلّٰی بِحِیَالِک بَیْنَ السَّارِیَتَیْنِ).
٢٢٤٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے اسامہ بن زید آپ کے پیچھے سوار تھے اور آپ نے بیت اللہ کے سایہ میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا ابن عمر (رض) کہتے ہیں میں لوگوں میں پہلے آیا جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بلال اور اسامہ بیت اللہ میں داخل ہوچکے تھے میں نے دروازے کے پیچھے سے بلال سے پوچھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہاں نماز ادا کی ؟ انھوں نے بتلایا تمہارے سامنے دو ستونوں کے درمیان میں نماز ادا فرمائی۔
تخریج : مسلم فی الحج نمبر ٣٩٠۔

2247

۲۲۴۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ بِلَالٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِی الْکَعْبَۃِ) .
٢٢٤٧: عمرو بن دینار نے ابن عمر (رض) سے ‘ انھوں نے حضرت بلال (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔
تخریج : ترمذی فی الحج باب ٤٦‘ نمبر ٨٧٤۔

2248

۲۲۴۸: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی (الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی‘ فَلَقِیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَسَأَلَہٗ أَبِی‘ وَأَنَا أَسْمَعُ : أَیْنَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَخَلَ الْبَیْتَ؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ‘ وَبِلَالٍ‘ فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتہمَا : أَیْنَ صَلَّی؟ یَعْنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَا عَلَی جِہَتِہِ) .
٢٢٤٨: علاء بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں ابی (رض) کے ساتھ تھا پھر ہماری ملاقات ابن عمر (رض) سے ہوگئی۔ حضرت ابی نے ان سے پوچھا جبکہ میں سن رہا تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں داخل ہو کر کہاں نماز ادا کی ؟ ابن عمر (رض) نے جواب دیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسامہ بن زید اور بلال کے درمیان بیت اللہ میں داخل ہوئے جب آپ باہر تشریف لائے تو میں نے ان دونوں سے سوال کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہاں نماز ادا فرمائی۔ تو دونوں نے جواب دیا سامنے کی جانب۔

2249

۲۲۴۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِشْکَابَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ‘ عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ، عَنْ (ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : رَأَیْتَہٗ دَخَلَ الْبَیْتَ‘ حَتّٰی اِذَا کَانَ بَیْنَ السَّارِیَتَیْنِ‘ مَضَیْ حَتّٰی لَزِقَ بِالْحَائِطِ‘ فَقَامَ یُصَلِّی‘ فَجِئْتَ فَقُمْتُ إِلَی جَنْبِہٖ، فَصَلَّیْ أَرْبَعًا‘ فَقُلْتُ : أَخْبِرْنِیْ أَیْنَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَیْتِ فَقَالَ : ہَاہُنَا أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ أَنَّہٗ رَأَی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی) .فَھٰذَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ‘ قَدْ رَوٰی عَنْہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِی الْبَیْتِ .فَقَدْ اخْتَلَفَ ہُوَ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْمَا رَوَیَا عَنْ أُسَامَۃَ مِنْ ذٰلِکَ‘ وَرَوٰی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا عَنْ بِلَالٍ مِثْلَ مَا رُوِیَ عَنْ أُسَامَۃَ .فَکَانَ یَنْبَغِیْ لَمَّا تَضَادَّتْ الرِّوَایَاتُ عَنْ أُسَامَۃَ‘ وَتَکَافَأَتْ‘ أَنْ تَرْتَفِعَ وَیَثْبُتَ مَا رُوِیَ عَنْ بِلَالٍ‘ اِذْ کَانَ لَمْ یَخْتَلِفْ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مُطْلَقًا‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِی الْکَعْبَۃِ) .
٢٢٤٩: ابوالشعثاء نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے آپ کو بیت اللہ میں داخل ہوتے دیکھا یہاں تک کہ جب آپ دو ستونوں کے درمیان پہنچ گئے تو آپ آگے چلتے رہے یہاں تک کہ بیت اللہ شریف کی دیوار سے چمٹ گئے پھر آپ نے کھڑے ہو کر نماز ادا فرمائی پھر میں آیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہوگیا پس آپ نے چار رکعت نماز ادا کی میں نے کہا مجھے یہ بتلاؤ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ شریف کی کون سی جگہ نماز ادا فرمائی ؟ تو کہنے لگے اس جگہ کے متعلق اسامہ نے بتلایا کہ آپ نے نماز ادا فرمائی۔ یہ اسامہ بن زید (رض) ہیں کہ جن سے ابن عمر (رض) نقل کر رہے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ میں نماز ادا کرتے دیکھا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے اور ابن عباس (رض) نے اسامہ سے روایت میں اختلاف کیا اور ابن عمر (رض) نے بلال (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے جیسی اسامہ (رض) سے۔ پس جب حضرت اسامہ (رض) کی روایات متضاد اور مرتفع ہونے اور ثابت ہونے میں برابر ہوگئیں تو بلال (رض) والی روایت ثابت ہوگئی کیونکہ ان سے روایت اس کے مخالف مروی نہیں اور ابن عمر (رض) کی روایت مطلق ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ میں نماز ادا فرمائی۔
تخریج : مسلم فی الحج روایت نمبر ٣٩٢‘ مسند احمد ٥؍٢٠٤۔

حاصل روایات : یہ اسامہ بن زید انہی سے حضرت ابن عمر (رض) نے نقل کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ میں نماز پڑھتے پایا جناب ابن عباس (رض) نے بھی اسامہ سے روایت کی مگر اس میں نماز کا انکار کیا گیا ہے اب اسامہ (رض) کی روایت میں تضاد کی وجہ سے تساقط ہوگا تو بلال (رض) کی روایت تو اس موضوع پر کافی روایت ہے اس کے متضاد کوئی روایت نہیں پس نماز پڑھنا ثابت ہوجائے گا۔
ابن عمر (رض) کی مطلق روایات :
ابن عمر (رض) سے مطلقاً بھی روایات وارد ہیں جن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیت اللہ میں نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

2250

۲۲۵۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ - ہُوَ ابْنُ جَرِیْرٍ - قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سِمَاکِ ڑ الْحَنَفِیِّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْبَیْتِ‘ وَسَیَأْتِیْکَ مَنْ یَنْہَاکَ) فَسَمِعَ قَوْلَہُ : (یَعْنِی ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) .
٢٢٥٠: سماک الحنفی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں نماز پڑھی ہے عنقریب تمہارے پاس وہ بھی آئے گا جو اس سے انکار کرے گا اس نے ان کی بات سن لی یعنی ابن عباس (رض) ۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤٦۔

2251

۲۲۵۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ‘ عَنْ سِمَاکِ ڑ الْحَنَفِیِّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : لَا تَجْعَلْ شَیْئًا مِنَ الْبَیْتِ خَلْفَک‘ وَأَتِمَّ بِہٖ جَمِیْعًا وَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلُ مَا رَوٰی ابْنُ عُمَرَ عَنْ أُسَامَۃَ وَبِلَالٍ . فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٢٢٥١: سماک حنفی نے ابن عباس (رض) سے ارشاد نقل کیا کہ وہ فرماتے بیت اللہ کے کسی حصہ کو اپنے پیچھے مت کرو بلکہ پورے کو سامنے رکھو ! (اور چونکہ بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے پورا کعبہ سامنے نہیں اس لیے اس میں نماز جائز نہیں) مگر یہ ایک قیاس و اجتہاد ہے اور ادھر نص سے ثابت ہے پس جو قول اس کے مطابق ہوگا وہ لیا جائے گا) اور ابن عمر (رض) کے علاوہ دوسروں سے بھی اسی طرح روایت ہے جیسا ابن عمر (رض) نے اسامہ و بلال (رض) سے روایت کی ہیں۔ روایات ذیل میں ہیں۔
سماک کہتے ہیں ابن عمر (رض) کو میں نے فرماتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں نماز ادا کی۔
تخریج : عزاہ البدر الی الطبرانی۔
دیگر روایات صحابہ (رض) سے تائید :
بہت سے صحابہ کرام نے بھی ابن عمر ‘ اسامہ اور بلال (رض) کی روایات جیسی روایات کی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

2252

۲۲۵۲: مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ الْحُمَیْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ بْنِ غَزْوَانَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنْ أَبِیْ صَفْوَانَ‘ أَوْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَفْوَانَ‘ قَالَ : (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ‘ قَدْ قَدِمَ‘ فَجَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی‘ فَوَجَدْتہ قَدْ خَرَجَ مِنَ الْبَیْتِ .فَقُلْتُ : أَیْنَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْبَیْتِ .فَقَالُوْا : تُجَاہَک أَیْ وِجَاہَک قُلْتُ : کَمْ صَلَّی؟ قَالُوْا : رَکْعَتَیْنِ) .
٢٢٥٢: مجاہد نے ابو صفوان یا عبداللہ بن صفوان (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فتح کے دن سنا کہ آپ تشریف لے آئے ہیں پس میں نے اپنے کپڑے درست کئے اور (حرم میں پہنچا) اس وقت آپ بیت اللہ سے نکل رہے تھے میں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں کس جگہ نماز پڑھی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا تمہارے سامنے میں نے پوچھا کتنی نماز ادا کی ہے تو انھوں نے جواب دیا دو رکعت۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٩٢‘ نمبر ٢٠٢٦۔

2253

۲۲۵۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْحَنْظَلِیُّ‘ قَالَ : أَنَا جَرِیْرٌ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنْ (عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ صَفْوَانَ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ‘ کَیْفَ صَنَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ؟ فَقَالَ : صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ)
٢٢٥٣: مجاہد نے عبدالرحمن بن صفوان سے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے کہا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ شریف میں داخل ہوا تو کیا کیا ؟ تو انھوں نے کہا آپ نے اس میں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔

2254

۲۲۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَفْوَانَ) .فَھٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ حُکِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مَا یُوَافِقُ مَا حَکَی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ أُسَامَۃَ‘ وَبِلَالٍ‘ مِنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْبَیْتِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلُ ذٰلِکَ .
٢٢٥٤: ابوالولید کہتے ہیں کہ جریر بن عبدالحمید نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے صرف عبداللہ بن صفوان کہا یعنی عبدالرحمن کی جگہ۔ یہ حضرت عمر (رض) جن سے اس قول کے موافق قول مروی ہے جو ابن عمر (رض) نے اسامہ و بلال (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ شریف میں نماز ادا کی اور حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی اسی طرح روایت آئی ہے۔
حاصل کلام : حضرت عمر (رض) کی روایت حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کے موافق ہے اور حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت بھی موافق ہے وہ بھی ملاحظہ کریں۔

2255

۲۲۵۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، قَالَ : (دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیْتَ یَوْمَ الْفَتْحِ‘ فَصَلّٰی فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ) .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ شَیْبَۃَ بْنِ عُثْمَانَ‘ وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَۃَ‘ مِثْلُ ذٰلِکَ .
٢٢٥٥: ابوالزبیر نے جابر (رض) نے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اس میں دو رکعت نماز ادا کی۔

2256

۲۲۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْمَاعِیْلَ الْمُؤَدِّبُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ ہُرْمُزَ عَنْ (عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الزَّجَّاجِ‘ قَالَ : أَتَیْت شَیْبَۃَ بْنَ عُثْمَانَ فَقُلْتُ : یَا أَبَا عُثْمَانَ إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ فَلَمْ یُصَلِّ‘ قَالَ : بَلَی صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ عِنْدَ الْعَمُوْدَیْنِ الْمُقَدَّمَیْنِ ثُمَّ أَلْزَقَ بِہِمَا ظَہْرَہُ)
٢٢٥٦: عبدالرحمن بن زجاج کہتے ہیں کہ میں شیبہ بن عثمان کی خدمت میں آیا اور کہا اے ابو عثمان ! ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے مگر آپ نے نماز نہیں پڑھی انھوں نے کہا کیوں نہیں آپ نے اس میں دو رکعت نماز اگلے دو ستونوں کے درمیان پڑھی پھر ان دونوں ستونوں سے اپنی پشت کو چمٹا لیا۔

2257

۲۲۵۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُسْلِمٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٥٧: عبدالرحیم بن سلیمان نے عبداللہ بن مسلم سے روایت کی اور اپنی اسناد سے اسی طرح بیان کی ہے۔

2258

۲۲۵۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : أَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ طَلْحَۃَ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْبَیْتَ‘ فَصَلّٰی فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ وِجَاہَک‘ بَیْنَ السَّارِیَتَیْنِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَإِنْ کَانَ ھٰذَا الْبَابُ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ تَوَاتُرِ الْآثَارِ‘ فَإِنَّ الْآثَارَ قَدْ تَوَاتَرَتْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلّٰی فِی الْکَعْبَۃِ‘ مَا لَمْ تَتَوَاتَرْ بِمِثْلِہٖ أَنَّہٗ لَمْ یُصَلِّ .وَإِنْ کَانَ یُؤْخَذُ بِأَنْ یُلْقَیْ مَا یُزَادُ مِنْہَا‘ عَمَّنْ یُزَادُ ذٰلِکَ عَنْہُ وَیُعْمَلَ بِمَا سِوٰی ذٰلِکَ فَإِنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ‘ الَّذِیْ حَکَیْ عَنْہُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ‘ خَرَجَ مِنْہَا وَلَمْ یُصَلِّ .فَقَدْ رَوٰی عَنْہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَخَلَہَا‘ صَلّٰی فِیْہَا‘ فَقَدْ تَضَادَّ ذٰلِکَ عَنْہٗ، فَتَنَافَیَا .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ، وَبِلَالٍ‘ وَجَابِرٍ‘ وَشَیْبَۃَ بْنِ عُثْمَانَ‘ وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَۃَ‘ مَا یُوَافِقُ مَا رَوٰی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ أُسَامَۃَ فَذٰلِکَ أَوْلٰی مِمَّا تَفَرَّدَ بِہٖ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ أُسَامَۃَ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ، مَا یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ الصَّلَاۃِ فِیْہَا .
٢٢٥٨: عروہ نے عثمان بن طلحہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے اور سامنے کی جانب دو رکعت نماز دو ستونوں کے درمیان ادا کی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ اگر اس باب کو متواتر آثار کی تصحیح سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات وارد ہوئی ہیں کہ آپ نے کعبہ شریف میں نماز ادا کی اور اس کے بالمقابل بیت اللہ شریف میں نماز ادا نہ کرنے کی روایات اس قدر زیادہ نہیں اور اگر اس لحاظ سے لیا جائے کہ ان میں سے متضاد روایات کو ترک کر کے ان کے علاوہ روایات میں جو کچھ ہے اس کو اختیار کیا جائے تو ابن عباس (رض) نے اسامہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کعبہ میں داخل ہوئے تو اس سے نماز پڑھے بغیر باہر تشریف لائے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے انہی سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں داخل ہو کر نماز ادا فرمائی۔ یہ بات پہلی بات سے متضاد ہے۔ پس دونوں نے ایک دوسرے کی نفی کردی۔ پھر حضرت عمر ‘ بلال ‘ جابر ‘ شیبہ بن عثمان ‘ عثمان بن طلحہ (رض) تمام کی روایات ابن عمر (رض) کی اس روایت سے موافقت کرنے والی ہیں جو انھوں نے حضرت اسامہ (رض) سے نقل کی ہے۔ پس ان کی روایت ابن عباس (رض) کی منفرد روایت سے اولیٰ ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول بیت اللہ شریف میں نماز کے جواب کو ثابت کرتا ہے۔
حاصل کلام :
اگر روایات کے تواتر کو دیکھا جائے تو بیت اللہ میں داخلہ کی روایات کثرت سے ہیں اور نماز پڑھنے کو ثابت کرتی ہیں جبکہ دوسری روایت جو نماز کی نفی کرتی ہیں قلیل ہیں تو پھر متواتر روایات کو لیا جائے گا۔
اور اگر تضاد سے تساقط کرنا ہو تو پھر غور کریں کہ ابن عباس (رض) نے بھی اسامہ بن زید سے داخل ہونے مگر نماز نہ پڑھنے کی روایات لی ہیں اور ابن عمر (رض) نے انہی اسامہ سے داخل ہو کر نماز پڑھنے کی روایات لی ہیں تو تضاد کو گرا دیں۔
دوسری طرف عمر بلال ‘ جابر ‘ شیبہ بن عثمان ‘ عثمان بن طلحہ (رض) کی روایات اس مضمون کو ثابت کرتی ہیں جو ابن عمر (رض) کی روایت میں موجود ہے اور ادھر ابن عباس (رض) اسامہ سے نقل کرنے میں منفرد نظر آتے ہیں تب بھی ابن عمر (رض) والا مؤقف ثابت ہوتا ہے پھر اس سے چند قدم آگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات وارد ہیں جو بیت اللہ میں نماز کو ثابت کرتی ہیں جو اس مؤقف کو مزید تقویت ہی نہیں دیتیں بلکہ پختہ کرتی ہیں۔
ایسی روایات ملاحظہ ہوں جو نماز کا جواز ثابت کرتی ہیں۔ روایات جواز۔

2259

۲۲۵۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ صَفِیَّۃَ‘ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ أُمِّ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَتْ : أَخْبَرَتْنِی امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِیْ سُلَیْمٍ‘ وَلَّدَتْ عَامَّۃَ أَہْلِ دَارِنَا‘ قَالَتْ : (أَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ طَلْحَۃَ فَقَالَ : إِنِّی کُنْتُ رَأَیْتُ قَرْنَیَ الْکَبْشِ‘ حِیْنَ دَخَلْتُ الْبَیْتَ‘ فَنَسِیْتُ أَنْ آمُرَک أَنْ تَجْمُرَہُمَا فَإِنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَکُوْنَ فِی الْبَیْتِ شَیْئٌ یَشْغَلُ مُصَلِّیًا) .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٢٥٩: صفیہ ام منصور کہتی ہیں کہ مجھے بنی سلیم کی ایک عورت نے بیان کیا جو ہمارے گھر میں پیدا ہوئی اور پلی وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ (رض) کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا میں نے دنبے کے دو سینگ بیت اللہ کے اندر لٹکے دیکھے میں یہ بھول گیا کہ تمہیں کہوں کہ ان کو اتار دو کیونکہ بیت اللہ میں ایسی چیز مناسب نہیں جو کسی نمازی کو مشغول کرے۔ ان سے یہ روایت بھی وارد ہوئی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٩٣‘ نمبر ٢٠٣٠۔
مزید روایت ملاحظہ ہو۔

2260

۲۲۶۰: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلْقَمَۃُ بْنُ أَبِیْ عَلْقَمَۃَ عَنْ أُمِّہِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَیْتَ‘ فَأُصَلِّیَ فِیْہِ‘ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِیْ فَأَدْخَلَنِی الْحِجْرَ وَقَالَ : إِنَّ قَوْمَک لَمَا بَنَوا الْکَعْبَۃَ‘ اقْتَصَرُوْا فِیْ بِنَائِہَا فَأَخْرَجُوا الْحِجْرَ مِنَ الْبَیْتِ‘ فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ تُصَلِّیَ فِی الْبَیْتِ‘ فَصَلِّ فِی الْحِجْرِ‘ فَإِنَّمَا ہُوَ قِطْعَۃٌ مِنْہُ) .فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَازَ الصَّلَاۃَ فِی الْحِجْرِ الَّذِیْ ھُوَ مِنَ الْبَیْتِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ تَصْحِیْحُ قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی إِجَازَۃِ الصَّلَاۃِ فِی الْبَیْتِ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا حُکْمُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّ الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہِ إِنَّمَا نَہَوْا عَنْ ذٰلِکَ لِأَنَّ الْبَیْتَ کُلَّہُ عِنْدَہُمْ قِبْلَۃٌ‘ قَالُوْا : فَمَنْ صَلّٰی فِیْہِ فَقَدِ اسْتَدْبَرَ بَعْضَہٗ، فَہُوَ کَمُسْتَدْبِرٍ بَعْضَ الْقِبْلَۃِ‘ فَلاَ تُجْزِیْہِ صَلَاتُہٗ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّا رَأَیْنَا مَنِ اسْتَدْبَرَ الْقِبْلَۃَ‘ وَوَلَّاہَا یَمِیْنَہٗ أَوْ شِمَالَہُ أَنَّ ذٰلِکَ کُلَّہُ سَوَائٌ ‘ وَأَنَّ صَلَاتَہُ لَا تُجْزِیْہِ .وَکَانَ مَنْ صَلَّی مُسْتَقْبِلَ جِہَۃٍ مِنْ جِہَاتِ الْبَیْتِ أَجْزَأَتْہُ الصَّلَاۃُ بِاتِّفَاقِہِمْ‘ وَلَیْسَ ہُوَ فِیْ ذٰلِکَ مُسْتَقْبِلَ جِہَاتِ الْبَیْتِ کُلِّہَا‘ لِأَنَّ مَا عَنْ یَمِیْنِ مَا اسْتَقْبَلَ مِنَ الْبَیْتِ‘ وَمَا عَنْ یَسَارِہٖ ‘ لَیْسَ ہُوَ مُسْتَقْبِلَہُ وَکَمَا کَانَ لَمْ یَتَعَبَّدْ بِاسْتِقْبَالِ کُلِّ جِہَاتِ الْبَیْتِ فِیْ صَلَاتِہِ‘ وَإِنَّمَا تَعَبَّدَ بِاسْتِقْبَالِ جِہَۃٍ مِنْ جِہَاتِہِ‘ فَلاَ یَضُرُّہُ تَرْکُ اسْتِقْبَالِ مَا بَقِیَ مِنْ جِہَاتِہِ بَعْدَہَا .کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ مَنْ صَلّٰی فِیْہِ‘ فَقَدِ اسْتَقْبَلَ إِحْدٰی جِہَاتِہِ‘ وَاسْتَدْبَرَ غَیْرَہَا .فَمَا اسْتَدْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُوَ فِیْ حُکْمِ مَا کَانَ عَنْ یَمِیْنِ مَا اسْتَقْبَلَ مِنْ جِہَاتِ الْبَیْتِ وَعَنْ یَسَارِہٖ ‘ اِذَا کَانَ خَارِجًا مِنْہُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَیْضًا قَوْلُ الَّذِیْنَ أَجَازُوْا الصَّلَاۃَ فِی الْبَیْتِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ .
٢٢٦٠: علقمہ نے اپنی والدہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ (رض) سے کہنے لگیں کہ مجھے بیت اللہ کے اندر نماز پسند تھی (میں نے اس کا اظہار کیا) تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مقام حطیم میں داخل کردیا اور فرمایا تمہاری برادری نے جب کعبہ بنایا تو تعمیر میں اتنے حصہ پر اکتفاء کیا اس لیے انھوں نے حطیم کو بیت اللہ سے نکال دیا جب تمہارا ارادہ بیت اللہ میں نماز کا ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لیا کرو وہ بیت اللہ کا حصہ ہے۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ نے مقام حجر میں نماز کو جائز قرار دیا جو کہ بیت اللہ کا حصہ ہے۔ پس اس مذکورہ روایت سے ان لوگوں کی بات کی درست ثابت ہوگئی جنہوں نے بیت اللہ شریف کے اندر نماز کو جائز قرار دیا۔ آثار کے معانی کو درست کرنے کے لحاظ سے اس باب کا یہی حکم ہے۔ رہا نظر و فکر کا معاملہ تو اس سے ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس میں نماز سے منع کرتے ہیں تو ان کے ہاں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام کا تمام قبلہ ہے تو جو شخص اس کے اندر نماز پڑھتا ہے تو اس نے بعض حصہ قبلہ کی طرف پشت کی تو گویا وہ قبلہ کے بعض حصہ کو پشت کرنے والا ہے۔ پس اس کی نماز نہ ہوگی۔ اس سلسلہ میں ان کے خلاف دلیل والے کہتے ہیں کہ ہم اس طرح پاتے ہیں کہ جس نے قبلہ کی طرف پیٹھ کی یا دائیں بائیں جانب اس کو رکھا یہ حکم میں سب برابر ہیں اس کی نماز جائز نہ ہوگی اور جو آدمی بیت اللہ شریف کی کسی ایک جہت کا رُخ کر کے نماز ادا کرے اس کی نماز جائز ہے۔ حالانکہ وہ تو کعبہ کی ایک جہت کی طرف رُخ کرنے والا ہے نہ کہ تمام جہات کی طرف ‘ کیونکہ جو بیت اللہ کا حصہ اس کے دائیں بائیں ہے یہ اس کی طرف منہ کرنے والا نہیں جیسا کہ اس نے نماز میں بیت اللہ کی ایک جہت کی طرف رُخ کر کے عبادت انجام دی ہے نہ کہ تمام جہات کی طرف اور نماز میں تین اطراف کی طرف چہرے کے نہ کرنے سے اس کی نماز میں چنداں فرق نہیں پڑا۔ تو اس پر نظر و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ جس نے بیت اللہ شریف کے اندر نماز ادا کی اس نے بھی ایک جہت کا رُخ کیا اور دوسری جہات کی طرف پشت کی۔ پس جن تین جہات کی طرف اس نے پشت کی وہ اس کے دائیں بائیں جانبوں کی طرح ہوئیں جبکہ وہ بیت اللہ سے باہر نماز ادا کرنے والا ہو ۔ اس سے ان لوگوں کی بات ثابت ہوگئی جو بیت اللہ شریف میں نماز کو جائز قرار دینے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا یہی مسلک ہے اور یہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی اس کی مثل مروی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٩٣‘ نمبر ٢٠٣٨‘ ترمذی فی الحج نمبر ٤٨‘ نمبر ٨٧٦۔
حاصل روایات : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حطیم میں جو کہ بیت اللہ کا حصہ ہے نماز پڑھنے کی اجازت دی اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو حکم فرمایا ان روایات نے ثابت کردیا کہ اجازت نماز والا قول درست و ثابت ہے۔
روایات کے معانی کا لحاظ کر کے یہ حکم تو ثابت ہوچکا۔
نظر طحاوی (رح) :
جو لوگ نماز سے منع کرتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بیت اللہ سارا سامنے نہیں رہتا جب کہ بیت اللہ پورے کا پورا قبلہ بننا چاہیے اندر نماز پڑھنے والے ایک طرف کو قبلہ بنانے والے ہوں گے اور دوسری طرف بیت اللہ کے کچھ حصے کو پشت کی طرف کرنے والے ہوں گے اسی وجہ سے اس کی نماز درست نہ ہوگی تو جواباً عرض ہے کہ بیت اللہ کی طرف پشت کرنے یا دائیں طرف یا بائیں طرف کرلیں اور قبلہ سامنے نہ رہے تو اس کا حکم یکساں ہے کہ نماز نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی قبلہ کی چاروں اطراف میں سے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرے اس کی نماز بالاتفاق درست ہے حالانکہ انصاف سے دیکھیں تو یہاں بھی وہ کعبہ کی ایک جہت کو سامنے کرنے والا ہے تمام جہات کعبہ اس کے سامنے نہیں خواہ وہ دائیں بائیں ‘ مشرق و مغرب جس جانب ہو وہ ایک ہی جہت بنے گی جب باہر ہو کر ایک جہت کا استقبال نماز کی صحت کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے تو پھر اندر نماز پڑھنے والا بھی تو ایک جہت کا رخ کرنے والا ہے اس کی نماز کیوں کر درست نہ ہوگی رہی اس کی پشت والی جانب بھی قبلہ آگیا تو یہ اسی طرح ہے جیسے دائیں جانب یا بائیں جانب قبلہ ہوجائے۔
پس قبلہ میں نماز پڑھنے کا مسئلہ نقل و عقل ہر دو لحاظ سے ثابت و مبرہن ہوا یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے امام طحاوی (رح) کا رجحان اسی طرف ہے۔
عبداللہ بن زبیر کے عمل سے مزید تائید۔

2261

۲۲۶۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوُد‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ فِی الْحِجْرِ۔
٢٢٦١: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر (رض) کو مقام حجر میں نماز پڑھتے دیکھا۔
حاصل روایات : : اس باب میں بھی اپنے راجح قول کی حمایت میں شاندار دلائل سے صلوۃ فی الکعبہ کو ثابت کیا اور عقلی دلیل اور آثار صحابہ سے خوب واضح کردیا۔

2262

۲۲۶۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح .
٢٢٦٢: ابو بکرہ ثنا ابو داؤد ثنا شعبہ نے بیان کیا۔
نمبر 1: امام احمد اور ابراہیم ‘ وکیع (رح) کے ہاں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد اور واجب الاعادہ ہے۔
نمبر 2: ائمہ ثلاثہ ‘ سفیان ثوری (رح) کے ہاں نماز فاسد نہیں نہ واجب الاعادہ ہے البتہ کراہت سے خالی نہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف : صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد اور واجب الاعادہ ہے۔ دلائل یہ ہیں۔

2263

۲۲۶۳: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ہِلَالَ بْنَ یَسَافٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنْ وَابِصَۃَ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی رَجُلًا یُصَلِّیْ فِیْ خَلْفِ الصَّفِّ وَحْدَہٗ‘ فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ .
٢٢٦٣: عمرو بن راشد وابصہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٥٦‘ نمبر ٢٣١۔

2264

۲۲۶۴: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ حُصَیْنٍ‘ عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافٍ‘ قَالَ : أَخَذَ بِیَدِیْ زِیَادُ بْنُ أَبِی الْجَعْدَۃِ‘ فَأَقَامَنِیْ عَلٰی وَابِصَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ بِالرَّقَّۃِ‘ فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّ (رَجُلًا صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہٗ‘ فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ) .
٢٢٦٤: ہلال بن یسار بیان کرتے ہیں کہ زیاد بن ابی جعدہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مقام رقہ میں وابصہ بن معبد کے پاس لا کھڑا کیا اور کہا کہ میرے والد نے مجھ کو بتلایا کہ ایک آدمی نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٩٩‘ نمبر ٦٨٢‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٥٦‘ نمبر ٢٣٠۔

2265

۲۲۶۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَدْرِ السُّحَیْمِیُّ‘ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ شَیْبَانَ السُّحَیْمِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ وَکَانَ أَحَدَ الْوَفْدِ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَضٰی صَلَاتَہٗ وَرَجُلٌ فَرْدٌ یُصَلِّیْ خَلْفَ الصَّفِّ فَقَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی قَضٰی صَلَاتَہٗ ثُمَّ قَالَ : اسْتَقْبِلْ صَلَاتَک‘ فَلاَ صَلَاۃَ لِفَرْدٍ خَلْفَ الصَّفِّ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ صَلّٰی خَلْفَ صَفٍّ مُنْفَرِدًا‘ فَصَلَاتُہُ بَاطِلَۃٌ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدْ أَسَائَ ‘ وَصَلَاتُہُ مُجْزِئَۃٌ عَنْہُ وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا یَدُلُّ عَلٰی خِلَافِ مَا قُلْنَا .وَذٰلِکَ أَنَّکُمْ رَوَیْتُمْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الَّذِیْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَمَرَہٗ بِذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَمَرَہٗ بِذٰلِکَ‘ لِمَعْنًی آخَرَ کَمَا أَمَرَ الَّذِیْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ‘ ثُمَّ أَمَرَہٗ أَنْ یُعِیْدَہَا حَتّٰی فَعَلَ ذٰلِکَ مِرَارًا فِیْ حَدِیْثِ رِفَاعَۃَ‘ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی وَلٰـکِنَّہٗ لِمَعْنًی آخَرَ غَیْرَ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ تَرْکُہُ إِصَابَۃَ فَرَائِضِ الصَّلَاۃِ .فَیَحْتَمِلُ أَیْضًا مَا رَوَیْتُمْ مِنْ أَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ الَّذِیْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ‘ لَا لِأَنَّہٗ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ‘ وَلٰـکِنْ لِمَعْنًی آخَرَ کَانَ مِنْہُ فِی الصَّلَاۃِ .وَفِیْ حَدِیْثِ عَلِیِّ بْنِ شَیْبَانَ مَعْنًی زَائِدٌ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ وَابِصَۃَ‘ وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ : صَلَّیْنَا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَضٰی صَلَاتَہٗ، وَرَجُلٌ فَرْدٌ یُصَلِّیْ خَلْفَ الصَّفِّ‘ فَقَامَ عَلَیْہِ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی قَضٰی صَلَاتَہٗ ثُمَّ قَالَ : (اسْتَقْبِلْ فَإِنَّہٗ لَا صَلَاۃَ لِفَرْدٍ خَلْفَ الصَّفِّ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ‘ فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَمَرَہٗ أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ وَقَالَ : (لَا صَلَاۃَ لِفَرْدٍ خَلْفَ الصَّفِّ) فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ أَمْرُہُ إِیَّاہُ بِإِعَادَۃِ الصَّلَاۃِ کَانَ لِلْمَعْنَی الَّذِیْ وَصَفْنَا فِیْ مَعْنَیْ حَدِیْثِ وَابِصَۃَ .وَأَمَّا قَوْلُہٗ : (لَا صَلَاۃَ لِفَرْدٍ خَلْفَ الصَّفِّ) فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ کَقَوْلِہِ : (لَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یُسَمِّ) وَکَالْحَدِیْثِ الْآخَرِ (لَا صَلَاۃَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ إِلَّا فِی الْمَسْجِدِ) وَلَیْسَ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ اِذَا صَلَّیْ کَذٰلِکَ‘ کَانَ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یُصَلِّ‘ وَلٰـکِنَّہٗ قَدْ صَلّٰی صَلَاۃً تُجْزِئُہٗ،وَلٰـکِنَّہَا لَیْسَتْ بِمُتَکَامِلَۃِ الْأَسْبَابِ فِی الْفَرَائِضِ وَالسُّنَنِ‘ لِأَنَّ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلَاۃِ مَعَ الْاِمَامِ‘ اتِّصَالُ الصُّفُوْفِ‘ وَسَدُّ الْفُرَجِ‘ ھٰکَذَا یَنْبَغِیْ لِلْمُصَلِّیْ خَلْفَ الْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ‘ فَإِنْ قَصَّرَ عَنْ ذٰلِکَ فَقَدْ أَسَائَ وَصَلَاتُہُ تُجْزِئُہٗ وَلٰـکِنَّہَا لَیْسَتْ بِالصَّلَاۃِ الْمُتَکَامِلَۃِ فِیْ فَرَائِضِہَا وَسُنَنِہَا‘ فَقِیْلَ لِذٰلِکَ (لَا صَلَاۃَ لَہٗ) أَیْ لَا صَلَاۃَ لَہٗ مُتَکَامِلَۃً‘ کَمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ بِالَّذِیْ تَرُدُّہُ التَّمْرَۃُ وَالتَّمْرَتَانِ‘ وَلٰکِنَّ الْمِسْکِیْنُ الَّذِیْ لَا یُعْرَفُ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْہٖ‘ وَلَا یَسْأَلُ النَّاسَ) .فَکَانَ مَعْنٰی قَوْلِہٖ (لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ بِالَّذِیْ تَرُدُّہُ التَّمْرَتَانِ) إِنَّمَا مَعْنَاہُ : لَیْسَ ہُوَ بِالْمِسْکِیْنِ الْمُتَکَامِلِ فِی الْمَسْکَنَۃِ‘ اِذْ ہُوَ یَسْأَلُ فَیُعْطٰی مَا یَقُوْتُہٗ وَیُوَارِیْ عَوْرَتَہٗ .وَلٰـکِنَّ الْمِسْکِیْنُ الَّذِیْ لَا یَسْأَلُ النَّاسَ وَلَا یَعْرِفُوْنَہٗ فَیَتَصَدَّقُوْنَ. فَنُفِیَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ مَنْ کَانَ مِسْکِیْنًا غَیْرَ مُتَکَامِلِ أَسْبَابِ الْمَسْکَنَۃِ‘ أَنْ یَّکُوْنَ مِسْکِیْنًا .فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ أَیْضًا إِنَّمَا نُفِیَ بِقَوْلِہٖ (لَا صَلَاۃَ لِمَنْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہٗ) مَنْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ أَنْ یَّکُوْنَ مُصَلِّیًا‘ لِأَنَّہٗ غَیْرُ مُتَکَامِلِ أَسْبَابِ الصَّلَاۃِ‘ وَہُوَ قَدْ صَلّٰی صَلَاۃً تُجْزِئُہٗ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہَلْ تَجِدُوْنَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا شَیْئًا یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْتُمْ؟ .قِیْلَ لَہٗ۔
٢٢٦٥: عبدالرحمن بن علی بن شیبان سحیمی نے اپنے والد سے نقل کیا (یہ بنو سحیم میں سے تھے) کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے اس وقت ایک آدمی صف کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے رہے یہاں تک کہ اس نے اپنی نماز پوری کی آپ نے فرمایا نماز کو نئے سرے سے پڑھو ایک آدمی کی نماز صف کے پیچھے کامل نہیں ہوتی۔ علماء کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ جس شخص نے کسی صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اس کی نماز باطل ہے اور انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا۔ دوسرے علماء نے اختلاف کرتے ہوئے کہا جس نے اس طرح کیا اس نے زیادتی کی مگر اس کی نماز جائز ہے اور انھوں نے دوسری بات یہ کہی کہ ان آثار میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ہمارے قول کے مخالف ہو اور وہ اس لیے کہ جو شخص صف میں اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا تو جس طرح یہ کہنا درست ہے کہ آپ نے اسے اس بناء پر حکم دیا کیونکہ اس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی ‘ تو یہ بھی جائز ہے کہ کسی دوسری وجہ سے اسے نماز لوٹانے کا حکم فرمایا ہو۔ اس کی نظیر وہ شخص ہے جس نے مسجد میں داخلے کے بعد نماز ادا کی تو آپ نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ پھر اسے دوبارہ لوٹانے کا حکم فرمایا یہاں تک کہ اس نے یہ نماز لوٹانے کا کام متعدد بار کیا جیسا حضرت رفاعہ اور ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس نے مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھی تھی بلکہ اور وجہ سے لوٹانے کا حکم فرمایا تھا وہ یہ تھی کہ اس نے فرائض نماز کو درست طور پر ادا نہ کیا تھا۔ پس اسی طرح تمہاری روایت میں بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کو نماز کے لوٹانے کا حکم دیا جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا ‘ لوٹانے کا حکم صف کے پیچھے اکیلے نماز کے سبب نہ تھا بلکہ نماز میں کسی دوسری حرکت کی بنیاد پر تھا اور علی بن شیبہ ان کی روایت میں وابصہ (رض) کی روایت سے یہ اضافی بات بھی ہے کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز پوری کرچکے تو ایک شخص کو صف میں تنہا نماز پڑھتے پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اس کے نماز مکمل کرنے تک اس کا انتظار فرمایا ‘ پھر فرمایا تم نماز دوبارہ پڑھو اس لیے کہ اکیلے آدمی کی نماز صف کے پیچھے درست نہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس روایت میں اس کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ صف کے پیچھے اکیلے کی نماز درست نہیں۔ پس اس میں نماز کے اعادہ کا حکم ایک تو وہ معنی رکھتا ہے جو وابصہ کی روایت میں پائے جاتے ہیں اور آپ کا فرمان ” لا صلوۃ لفرد خلف الصفّ “ ممکن ہے کہ یہ ان ارشادات کئے ہم معنی ہو : (١) ” لا وضوء لمن لم یُسمّ “ اور اس روایت کی طرح (٢) ” لا صلوۃ لجار المسجد الا فی المسجد “۔ یہ معنی نہیں کہ جب اس نے نماز پڑھی ہے تو وہ نماز نہ پڑھنے کی طرح ہے۔ لیکن وہ ایسی نماز تو پڑھ چکا جو اس کے لیے کافی تھی مگر وہ فرائض و سنن میں کامل اسباب والی نماز نہیں ہے کیونکہ امام کے ساتھ نماز پڑھنا نماز کی سنتوں سے ہے۔ اسی طرح صفوف کا ملانا اور فاصلے کو پُر کرنا بھی اسی قسم سے ہے ‘ مقتدی کو امام کی اقتداء میں اسی طرح کرنا چاہیے۔ اگر اس نے اس میں کوتاہی کی تو اس نے غلطی کی اور اس کی نماز تو درست ہے مگر وہ سنن و فرائض کے لحاظ سے کامل نہیں۔ اس وجہ سے کہا گیا لا صلوۃ لہ یعنی اس کی نماز کامل نہیں جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لیس المسکین بالذی تردہ المرۃ والتمرتان ولکن المسکین الذی لا یعرف فیتصدق علیہ ولا ییأل الناس “ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ مکمل مسکنت والا مسکین نہیں اس لیے کہ وہ لوگوں سے مانگتا ہے ‘ پس لوگ اس کو اتنی مقدار دیتے ہیں جس سے وہ پیٹ بھر سکے اور اپنے ستر کو چھپا سکے لیکن مسکین وہ ہے جو لوگوں سے مانگتا بھی نہیں اور نہ لوگ اس کو مسکین جانتے ہیں کہ اس پر صدقہ کریں۔ پس اس روایت میں اس مسکین کی نفی ہے جس میں مسکنت کے کامل اسباب نہ ہوں کہ وہ کامل مسکین کہلائے۔ پس اس روایت میں یہ احتمال بھی ہے کہ ” لا صلوۃ لمن صلیّ خلف الصف وحدہ “ کا معنی یہ ہو کہ وہ جو اکیلا صف میں نماز پڑھے وہ نمازی نہیں کیونکہ وہ اسباب نماز کو کامل کرنے والا نہیں۔ اس نے تو صرف ایسی نماز پڑھی ہے جو کفایت کرے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو اس پر دلالت کرنے والی ہو ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا جی ہاں ! روایات درج ذیل ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٥٤‘ نمبر
١٠٠٣‘ مسند احمد ٤؍٢٣۔
فریق اوّل کی روایت کا جواب :
صف کے پیچھے نماز نہ ہونا دو معنی رکھتا ہے ایک وہ جو آپ نے لیا کہ اس کی نماز نہیں ہوئی۔
نمبر 7: اعادے کا حکم کسی اور وجہ سے فرمایا جیسا کہ دوسری روایت رفاعہ و ابوہریرہ (رض) میں بعض صفات صلوۃ میں کمی کی وجہ سے فرمایا ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ فرمایا اور اس کا سبب ان روایات میں بعض فرائض صلوۃ کا ترک ہے پس اس روایت میں بھی وہی معنی ہوا اور اس معنی کی تائید علی بن شیبان کی روایت میں موجود ہے کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اس وقت ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے پایا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس کھڑے رہے یہاں تک کہ اس نے نماز مکمل کرلی تو آپ نے فرمایا نماز کو دوبارہ پڑھو۔ اس لیے کہ جماعت کی صف کھڑی ہو اور کوئی آدمی پیچھے نماز اکیلا شروع کر دے یہ درست نہیں (اور یہ اجماعی مسئلہ ہے) پس اس سبب سے آپ نے اسے نماز کے اعادہ کا حکم فرمایا۔
حاصل کلام : س روایت میں نماز لوٹانے کا حکم اس وجہ سے ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی ہے جیسا کہ وابصہ (رض) والی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور لاصلاۃ لفرد خلف الصف میں احتمال یہ ہے کہ اس روایت کی طرح ہو لاوضوء لمن لم یسم اور لاصلاۃ لجارالمسجد الا فی المسجد تو یہ گویا اس نے نماز نہیں پڑھی کے معنی میں ہے کہ اس کی نماز کامل نہیں۔ اگرچہ ذمہ سے فرض اتر گیا مگر ہر اعتبار سے کامل نہ تھی کیونکہ سنت طریقہ تو امام کے ساتھ صف کا اتصال ہے اور فاصلہ کو ختم کرنا ہے امام کے پیچھے یہ سب باتیں اسے کرنی چاہئیں اگر اس نے ایسا نہ کیا تو نماز ناقص رہی اگر کمال کی نگاہ سے دیکھیں تو کہیں گے اس کی نماز نہیں ہوئی اور بہت سی روایات میں کمال نہ ہونے پر وجود کی نفی کی گئی ہے ارشاد فرمایا۔ لیس المسکین بالذی تردہ التمرۃ والتمرتان ولکن المسکین الذی لا تعرف یتصدق علیہ ولا یسأل الناس۔
: بخاری باب ٤٨‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٠١‘ ابو داؤد فی الزکوۃ نمبر ٢٤‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٧٦‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٢۔
اب اس روایت لیس المسکین میں موجود مسکین کی نفی نہیں بلکہ کامل مسکنت کی نفی ہے کیونکہ وہ سوال کر کے اپنا کام بنا لیتا ہے اور گزارا چلا لیتا ہے اصل مسکین تو وہ ہے جو کسی سے نہ سوال کرے اور نہ اس کو لوگ پہچان کر صدقہ دیں پس جس طرح روایت میں کمال کی مسکنت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مسکینی کی نفی کی گئی بالکل اسی طرح یہاں بھی نماز میں کمال نہ پائے جانے کی وجہ سے اس کو غیر نمازی کہا حالانکہ وہ بقدر ضرورت نماز پڑھ چکا ہے۔

2266

۲۲۶۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الضَّرِیْرُ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ أَنَّ زِیَادَ الْأَعْلَمَ أَخْبَرَہُمْ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : جِئْتُ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاکِعٌ‘ وَقَدْ حَفَزَنِی النَّفَسُ‘ فَرَکَعْتُ دُوْنَ الصَّفِّ‘ ثُمَّ مَشَیْتُ إِلَی الصَّفِّ .فَلَمَّا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ‘ قَالَ : (أَیُّکَمُ الَّذِیْ رَکَعَ دُوْنَ الصَّفِّ؟ قَالَ أَبُوْ بَکْرَۃَ : أَنَا‘ قَالَ : زَادَک اللّٰہُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ) .
٢٢٦٦: حسن نے ابو بکرہ (رض) سے روایت کی میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جبکہ آپ حالت رکوع میں تھے اور مجھے میرے نفس نے ابھارا پس میں نے صف سے دور رکوع کرلیا پھر میں صف کی طرف چلا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کو مکمل فرمایا تو فرمایا تم میں سے کس نے صف سے الگ رکوع کیا ؟ ابو بکرہ کہنے لگے میں نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری حرص جماعت زیادہ کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔
: بخاری فی الاذان باب ١١٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٠‘ نمبر ٦٨٣‘ نسائی فی الامامہ باب ٦٣‘ مسند احمد ٥؍٣٩۔

2267

۲۲۶۷: حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٦٧ : عفان بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔

2268

۲۲۶۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ زِیَادِ ڑالْأَعْلَمِ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ أَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ رَکَعَ دُوْنَ الصَّفِّ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَادَک اللّٰہُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ رَکَعَ دُوْنَ الصَّفِّ‘ فَلَمْ یَأْمُرْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِعَادَۃِ الصَّلَاۃِ .فَلَوْ کَانَ مَنْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ لَا تُجْزِیْہِ صَلَاتُہٗ،لَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ خَلْفَ الصَّفِّ‘ لَا یَکُوْنُ دَاخِلًا فِیْہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّ مَنْ صَلّٰی عَلٰی مَکَانٍ قَذِرٍ‘ أَنَّ صَلَاتَہٗ فَاسِدَۃٌ؟ وَمَنِ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ عَلٰی مَکَانٍ قَذِرٍ‘ ثُمَّ صَارَ إِلٰی مَکَانٍ نَظِیْفٍ أَنَّ صَلَاتَہٗ فَاسِدَۃٌ فَکَانَ کُلُّ مَنِ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ فِیْ مَوْطِنٍ لَا یَجُوْزُ لَہٗ فِیْہِ أَنْ یَأْتِیَ بِالصَّلَاۃِ فِیْہِ بِکَمَالِہَا‘ لَمْ یَکُنْ دَاخِلًا فِی الصَّلَاۃِ فَلَمَّا کَانَ دُخُوْلُ أَبِیْ بَکْرَۃَ فِی الصَّلَاۃِ دُوْنَ الصَّفِّ دُخُوْلًا صَحِیْحًا‘ کَانَتْ صَلَاۃُ الْمُصَلِّیْ کُلَّہَا دُوْنَ الصَّفِّ‘ صَلَاۃً صَحِیْحَۃً .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ (وَلَا تَعُدْ) .قِیْلَ لَہٗ : ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - یَحْتَمِلُ مَعْنَیَیْنِ : یَحْتَمِلُ : وَلَا تَعُدْ أَنْ تَرْکَعْ دُوْنَ الصَّفِّ حَتّٰی تَقُوْمَ فِی الصَّفِّ‘ کَمَا قَدْ رَوٰی عَنْہُ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ .
٢٢٦٨: حسن نے ابو بکرہ (رض) سے نقل کیا کہ ابو بکرہ (رض) نے صف سے الگ رکوع کیا تو ان کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیری جماعت کی حرص میں اضافہ کرے تو دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت میں یہ ہے کہ اس نے صف سے پہلے رکوع کرلیا تھا۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ پس اگر صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز نہ ہوتی تو نماز میں صف کے پیچھے داخل ہونے والا نماز میں داخل نہ قرار دیا جاتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ جو شخص گندگی والی جگہ نماز پڑھے اس کی نماز فاسد ہے اور جو شخص گندی جگہ نماز شروع کر کے پھر ستھری جگہ منتقل ہوجائے اس کی نماز بھی فاسد ہے۔ پس ہر وہ شخص جس نے نماز کو ایسی جگہ میں شروع کیا تو اسے جائز نہیں کہ وہ اس میں نماز کو اس کے کمال کے ساتھ ادا کرسکے۔ وہ نماز میں داخل شمار نہ ہوگا۔ پس جب حضرت ابوبکرہ (رض) کا صف میں پہنچنے سے پہلے نماز میں داخلہ درست داخلہ تھا تو نمازی کی تمام نماز صف سے پہلے درست نماز ثابت ہوگئی۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ” ولا تَعُد “ کا کیا مطلب ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ ہمارے ہاں اس کے دو معنی ہیں : (١) صف میں داخلہ سے پہلے رکوع کرنے والی حرکت آئندہ مت کرنا جب تک کہ تم صف میں نہ پہنچ جاؤ۔ جیسا کہ ان سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کیا ہے ملاحظہ ہو۔
: نمبر ٢٢٦٦ کو ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات : ارشاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیلے رکوع کرنے والے اور صف سے الگ نماز شروع کرنے والے کو نماز لوٹانے کا حکم نہ دیا بلکہ آئندہ ایسا نہ کرنے کی تاکید فرمائی اگر صف سے الگ نیت باندھنا نماز کو باطل کرتا ہے تو جو صف سے دور نماز میں داخل ہونے والا ہے اس کی نماز سرے سے شروع نہ ہونی چاہیے حالانکہ ان کو آپ نے ایسی حرکت دوبارہ نہ کرنے کا حکم دیا۔ اعادہ صلوۃ کا حکم نہیں اس کے لیے قرینہ ان کے شوق جماعت کو آپ نے سراہا اگر وہ داخل نماز ہی نہ ہوتا تو صاف کہہ دیا جاتا جیسا کہ گندی جگہ نماز پڑھنے والے کی نماز کو فاسد قرار دیا گیا۔ اگرچہ وہ پلید جگہ شروع کر کے پاک جگہ منتقل ہوجائے کیونکہ جہاں نماز نہ ہوسکتی ہو اگرچہ وہ بظاہر نماز میں داخل بھی ہوجائے تب بھی وہ نماز میں داخل شمار نہیں ہوتا۔
پس جب جناب ابو بکرہ (رض) کا صف سے الگ نماز میں داخل ہونا صحیح قرار دیا گیا تو صف سے پیچھے دوسری صف میں نماز پڑھنے والے کی ساری نماز ہی درست ہونی چاہیے کیونکہ ابتداء نماز درست ہے تو بناء صلوۃ بھی یقیناً درست ہے۔
اعتراض :
لاتعد۔ یہ اعادہ سے نہ لیا جائے بلکہ عدٰی یعدو۔ (دوڑنا) سے لیا جائے کہ نماز کے لیے مت دوڑو تب آپ کے جواب کی بنیاد ہی ختم ہوگئی۔
ازالہ :
جناب توجہ فرمائیں۔
نمبر 8 اعادہ والا معنی لیں تو پھر روایت کا مفہوم روایت ابوہریرہ (رض) والا ہے کہ صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرنے والی حرکت دوبارہ مت کرنا صف میں پہنچ کر نماز میں شامل ہو۔
روایت ابوہریرہ (رض) یہ ہے۔

2269

۲۲۶۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ عَلِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عِجْلَانَ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا أَتَیْ أَحَدُکُمُ الصَّلَاۃَ فَلاَ یَرْکَعْ دُوْنَ الصَّفِّ‘ حَتّٰی یَأْخُذَ مَکَانَہُ مِنَ الصَّفِّ) .وَیَحْتَمِلُ قَوْلُہٗ (وَلَا تَعُدْ) أَیْ : وَلَا تَعُدْ أَنْ تَسْعَی إِلَی الصَّلَاۃِ سَعْیًا یَحْفِزُک فِیْہِ النَّفَسُ‘ کَمَا قَدْ جَائَ عَنْہُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .
٢٢٦٩: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم نماز کے لیے آؤ تو صف سے الگ رکوع میں مت جایا کرو اس وقت رکوع کرو جب صف میں پہنچ جاؤ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ نماز کے لیے یوں دوڑ کر مت آؤ کہ تمہارا سانس ہی پھول جائے۔ جیسا کہ اس کے علاوہ روایات میں موجود ہے۔ جو ذیل میں ہیں۔
جیسا ابوہریرہ (رض) کی دوسری روایت ہے۔

2270

۲۲۷۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ .ح .
٢٢٧٠: عبداللہ بن وہب نے ابراہیم بن سعد سے انھوں نے اپنے والد سے بیان کیا ۔

2271

۲۲۷۱: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَلاَ تَأْتُوہَا تَسْعَوْنَ وَأْتُوہَا وَأَنْتُمْ تَمْشُوْنَ وَعَلَیْکُمُ السَّکِیْنَۃُ‘ فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا‘ وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوْا) .
٢٢٧١: سعد بن ابراہیم نے ابو سلمہ سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ جب جماعت کھڑی ہوجائے تو دوڑ کر مت آؤ۔ بلکہ چل کر آؤ اور تم پر سکون لازم ہے پس نماز کا جو حصہ پاؤ وہ (امام کے ساتھ) پڑھ لو اور جو (امام سے) رہ جائے اس کو مکمل کرلو۔
: بخاری فی الجمعہ باب ١٨‘ مسلم فی المساجد ١٥١؍١٥٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٥٤‘ نسائی فی الامامہ باب ٥٧‘ ابن ماجہ فی المساجد باب ١٤‘ دارمی فی الصلاۃ نمبر ٥٩‘ موطا مالک فی النداء مسند احمد ٢‘ ٢٣٧؍٢٣٨۔

2272

۲۲۷۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَاقْضُوْا) .
٢٢٧٢: ابن شہاب نے ابو سلمہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی صرف واتموا کی جگہ فاقضوا کا لفظ ہے معنی یکساں ہے۔

2273

۲۲۷۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٧٣: محمد بن عمر نے ابو سلمہ سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2274

۲۲۷۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٧٤: سعید بن المسیب نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2275

۲۲۷۵: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیْدٍ وَأَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٧٥: سعید و ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2276

۲۲۷۶: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٧٦: ابن سیرین نے ابوہریرہ (رض) عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2277

۲۲۷۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ مُحَمَّدٍ. فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٧٧: ایوب نے محمد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2278

۲۲۷۸: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاۃِ فَلاَ تَأْتُوہَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ‘ وَأْتُوہَا وَعَلَیْکُمُ السَّکِیْنَۃُ وَالْوَقَارُ‘ فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا‘ وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوْا) .
٢٢٧٨: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہوجائے تو اس کے لیے دوڑتے ہوئے مت آؤ۔ بلکہ سکون سے آؤوقار سے آؤ۔ پس جو جماعت کا حصہ مل جائے تو اسے پڑھ لو اور جو تم سے رہ جائے اسے مکمل کرلو۔
: مسلم فی المساجد نمبر ١٥٢‘ موطا فی النداء نمبر ٤‘ مسند احمد ٢؍٤٢٧۔
لغات : ثوب بالصلاۃ۔ جماعت قائم کردی جائے۔

2279

۲۲۷۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ الْعَلَائِ، عَنْ أَبِیْہٖ‘ وَإِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہُمَا سَمِعَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ وَزَادَ (فَإِنَّ أَحَدَکُمْ فِیْ صَلَاۃِ‘ مَا کَانَ یَعْمِدُ إِلَی الصَّلَاۃِ) .
٢٢٧٩: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد اور اسحاق بن عبداللہ سے نقل کیا کہ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح نقل کیا اس میں یہ اضافہ ہے فان احدکم فی صلوۃ ما کان یعمد الی الصلاۃ کہ جب آدمی نماز کا قصد کرلیتا ہے تو نماز میں شمار ہوتا ہے (یعنی اس کو برابر ثواب ملنے لگتا ہے)
: مسند احمد ٢؍٥٢٩‘ مسلم ١؍٢٢٠۔

2280

۲۲۸۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ‘ قَالَ : أَنَا حُمَیْدُ الطَّوِیْلُ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (اِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ یَعْنِیْ : إِلَی الصَّلَاۃِ فَلْیَمْشِ عَلَی ہَیْئَتِہٖ‘ فَلْیُصَلِّ مَا أَدْرَکَ‘ وَلْیَقْضِ مَا سُبِقَ بِہٖ مِنْہَا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ - وَالنَّظْرُ عِنْدَنَا - یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مَنْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ‘ فَصَلَاتُہٗ جَائِزَۃٌ .وَذٰلِکَ أَنَّہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْ رَجُلٍ کَانَ یُصَلِّیْ وَرَائَ الْاِمَامِ فِیْ صَفٍّ‘ فَخَلَا مَوْضِعُ رَجُلٍ أَمَامَہٗ أَنَّہٗ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَمْشِیَ إِلَیْہِ حَتّٰی یَقُوْمَ فِیْہٖ‘ وَکَذٰلِکَ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٢٢٨٠: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے آئے تو وہ اپنی حالت پر چل کر آئے پس اس میں سے جو پائے اسے پڑھ لینا چاہیے (امام کے ساتھ) اور جو رہ جائے تو وہ پوری کرے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں نظر و فکر یہی چاہتے ہیں کہ جو کوئی شخص صف میں اکیلا نماز پڑھے اس کی نماز جائز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ائمہ کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب کوئی شخص صف سے پیچھے نماز میں مصروف ہو پھر اس کے آگے ایک آدمی کی جگہ خالی ہوجائے تو اسے چل کر وہاں کھڑا ہونا چاہیے۔ ابن عمر (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ ذیل میں دیکھیں۔
: مسند احمد ٣؍١٠٦۔
حاصل روایات : کہ صف کے پیچھے آنے والے کو سکون وقار سے آ کر نماز میں شامل ہونا چاہیے اگر وہ جلد بازی سے نماز میں وضو کر کے دور سے شامل ہوگیا تو تب بھی اس کی نماز تو درست ہوجائے گی اس کا شوق قابل تحسین ہے مگر سکون و وقار کو توڑنا مناسب اور اچھی عادت نہیں اس کو ترک کردینا چاہیے۔ یہ تقاضا اثر ہے اور تقاضائے نظریہ ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
تقاضائے نظر ہمارے ہاں یہی ہے کہ جو شخص صف میں پیچھے اکیلا امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کی نماز درست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سب متفق ہیں کہ جو شخص امام کے پیچھے صف میں نماز پڑھ رہا ہو۔ ایک آدمی نے اس کے سامنے والی جگہ خالی کردی (وضو وغیرہ ٹوٹ گیا) اسے مناسب ہے کہ وہ صف میں چل کر اس جگہ کھڑا ہوجائے اور یہ بات حضرت ابن عمر (رض) سے ثابت ہے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

2281

۲۲۸۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ أَنْبَأَنِیْ‘ قَالَ : سَمِعْتُ خَیْثَمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یَقُوْلُ : صَلَّیْتُ إِلٰی جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَرَأَی فِی الصَّفِّ خَلَلًا‘ فَجَعَلَ یَغْمِزُنِیْ أَنْ أَتَقَدَّمَ إِلَیْہٖ‘ وَجَعَلْتُ إِنَّمَا یَمْنَعُنِیْ أَنْ أَتَقَدَّمَ الضِّیْقُ بِمَکَانِیْ‘ اِذَا جَلَسَ أَنْ أَبْعُدَ مِنْہُ فَلَمَّا أَنْ رَأَیْ ذٰلِکَ تَقَدَّمَ ہُوَ .وَالَّذِیْ یَتَقَدَّمُ مِنْ صَفٍّ إِلٰی صَفٍّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ہُوَ فِیْمَا بَیْنَ الصَّفَّیْنِ فِیْ غَیْرِ صَفٍّ‘ فَلَمْ یَضُرَّہُ ذٰلِکَ‘ وَلَمْ یُخْرِجْہُ مِنَ الصَّلَاۃِ .فَلَوْ کَانَتِ الصَّلَاۃُ لَا تَجُوْزُ إِلَّا بِقِیَامٍ فِیْ صَفٍّ‘ لَفَسَدَتْ عَلٰی ھٰذَا صَلَاتُہُ لَمَّا صَارَ فِیْ غَیْرِ صَفٍّ‘ وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ أَقَلَّ الْقَلِیْلِ .کَمَا أَنَّ مَنْ وَقَفَ عَلٰی مَکَان نَجِسٍ وَہُوَ یُصَلِّیْ أَقَلَّ الْقَلِیْلِ‘ أَفْسَدَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ۔ فَلَمَّا أَجْمَعُوْا أَنَّہُمْ یَأْمُرُوْنَ ھٰذَا الرَّجُلَ بِالتَّقَدُّمِ إِلٰی مَا خَلَا أَمَامَہٗ مِنَ الصَّفِّ‘ وَلَا یُفْسِدُ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ، کَوْنُہُ فِیْمَا بَیْنَ الصَّفَّیْنِ فِیْ غَیْرِ صَفٍّ‘ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَنْ صَلَّیْ دُوْنَ الصَّفِّ‘ أَنَّ صَلَاتَہُ مُجْزِئَۃٌ عَنْہُ۔ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ رَکَعُوْا دُوْنَ الصَّفِّ‘ ثُمَّ مَشَوْا إِلَی الصَّفِّ‘ وَاعْتَدُّوْا بِتِلْکَ الرَّکْعَۃِ الَّتِیْ رَکَعُوْہَا دُوْنَ الصَّفِّ .فَمِنْ ذٰلِکَ
٢٢٨١: خیثمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کے پہلو میں نماز پڑھی انھوں نے صف میں خلل پایا تو مجھے کنکھیوں سے اشارہ کرنے لگے کہ میں اس جگہ کی طرف آگے بڑھ جاؤں اور مجھے جگہ کی تنگی آگے بڑھنے سے مانع تھی جب وہ بیٹھ جاتے تو میں اور دور ہوجاتا جب انھوں نے یہ حالت دیکھی تو خود آگے بڑھ گئے۔ جو شخص ایک صف سے دوسری صف کی طرف بڑھتا ہے جیسا ہم ذکر کر آئے تو وہ دو صفوں کے درمیان ہوتا ہے اگلی یا پچھلی کسی صف میں نہیں ہوتا ‘ تو یہ چیز اس کو نہ نقصان دیتی ہے اور نہ نماز سے نکالتی ہے۔ اگر صف میں برابر کھڑے ہونے سے ہی نماز جائز ہوتی تو اس صورت میں تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی اس لیے کہ وہ صف سے آگے پیچھے جگہ میں چلا گیا۔ اگرچہ یہ عمل قلیل ہے جیسا کہ کوئی ناپاک جگہ پر نماز ادا کرے خواہ وقت کس قدر قلیل ہو تب بھی اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ تو جب اس بات پر تمام کا اجماع ہے کہ وہ ائمہ کرام اس کو آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہیں جو اس سے اگلے شخص نے خالی کی ہے اور اس کی نماز ایسا کرنے سے نہیں ٹوٹتی کہ وہ نہ پہلی صف میں ہے اور پچھلی میں ‘ بلکہ ان کے درمیان ہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس نے صف کے علاوہ نماز پڑھی اس کی نماز درست ہے اور بہت سے صحابہ کرام (رض) سے صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرنا مروی ہے اور پھر وہ صف کی طرف چل کر گئے پھر انھوں نے جس رکعت کا رکوع صف میں شمولیت سے پہلے کیا تھا اس کو رکعت گردانا۔ چند روایات ذیل میں ہیں۔
: مسند ابن ابی شیبہ ١؍٣٢٣۔
جب ایک صف سے دوسری صف کی طرف بڑھنا اس روایت کے مطابق نقصان دہ نہیں اور نماز سے خارج نہیں کرتا پس اگر نماز صرف صف میں ایک جگہ کھڑے ہونے کے بغیر درست نہیں تو پھر ایک صف سے دوسری صف کی طرف بڑھنے والے کی نماز فاسد ہونی چاہیے کیونکہ یہ غیر صف میں ہوگیا اگرچہ قلیل ہی سہی جیسا کہ نجس جگہ پر اقل قلیل وقت کھڑے ہو کر نماز شروع کرنے والے کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔
پس جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سب بالاتفاق اس نمازی کو آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہیں جو اس کے آگے والے نے خالی کی ہے اور اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی حالانکہ وہ دو صفوں کے درمیان بالکل غیر صف میں ہے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس نے غیر صف میں نماز پڑھی اس کی نماز درست ہے اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت سے یہ بات ثابت ہے کہ انھوں نے صف کے علاوہ رکوع کیا پھر وہ چل کر صف میں آگئے صف کے علاوہ پڑھی گئی یہ رکعت ان کی نماز میں شمار ہوئی۔
روایت ملاحظہ کریں۔

2282

۲۲۸۲: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی عَنْ سُفْیَانَ بْنِ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ‘ قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ أَنَا وَابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَأَدْرَکْنَا الْاِمَامَ وَہُوَ رَاکِعٌ‘ فَرَکَعْنَا ثُمَّ مَشَیْنَا حَتَّی اسْتَوَیْنَا بِالصَّفِّ .فَلَمَّا قَضَی الْاِمَامُ الصَّلَاۃَ‘ قُمْتُ لِأَقْضِیَ‘ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : قَدْ أَدْرَکْتَ الصَّلَاۃَ .
٢٢٨٢: زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں اور ابن مسعود (رض) مسجد میں داخل ہوئے ہم نے امام کو رکوع کی حالت میں پایا ہم نے رکوع کیا پھر ہم چلتے رہے یہاں تک کہ صف میں برابر جا کھڑے ہوئے جب امام نے نماز پوری کی تو میں وہ رکعت پوری کرنے کھڑا ہوا تو عبداللہ نے فرمایا تم نے رکعت کو پا لیا۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٢٢٩۔

2283

۲۲۸۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا بَشِیْرُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَیَّارٌ أَبُو الْحَکَمِ‘ عَنْ طَارِقٍ‘ قَالَ : کُنَّا مَعَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا جُلُوْسًا فَجَائَ آذِنُہٗ فَقَالَ : قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَقَامَ وَقُمْنَا فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ‘ فَرَأَی النَّاسَ رُکُوْعًا فِیْ مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ‘ فَکَبَّرَ فَرَکَعَ وَمَشَی‘ وَفَعَلْنَا مِثْلَ مَا فَعَلَ .فَإِنْ اعْتَلَّ فِیْ ھٰذَا مُعْتَلٌّ بِأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ صَارَ ہُوَ وَأَصْحَابُہٗ صَفًّا .قِیْلَ لَہٗ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِیْ ذٰلِکَ ۲۲۸۴: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ‘ قَالَ : رَأَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ رُکُوْعٌ‘ فَمَشَیْ حَتّٰی اِذَا أَمْکَنَہٗ أَنْ یَصِلَ إِلَی الصَّفِّ وَہُوَ رَاکِعٌ‘ کَبَّرَ فَرَکَعَ ثُمَّ دَبَّ وَہُوَ رَاکِعٌ حَتَّی وَصَلَ الصَّفَّ .
٢٢٨٣: طارق کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن مسعود (رض) کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کو اطلاع دینے والا آیا اور اس نے کہا کہ جماعت کھڑی ہونے والی ہے پس آپ اٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے پس آپ مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسجد کی اگلی جانب رکوع کی حالت میں ہیں تو انھوں نے رکوع کیا اور چلنے لگے ہم نے بھی اسی طرح کیا۔
: المعجم الکبیر ٩؍٢٧١۔
ایک ضمنی اعتراض :
عبداللہ نے یہ اس لیے کیا کہ وہ اور ان کے شاگرد وہ مستقل صف بن گئے تھے تو صف میں شمول تو ہوگیا۔
جواب : اس بات کا جواب حضرت زید بن ثابت (رض) کی اس روایت سے واضح ہوجائے گا۔
اگر اس روایت میں کوئی معترض یہ علت نکالے کہ عبداللہ نے یہ اس لیے کیا کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی مستقل صف بن گئے تھے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ اس سلسلہ میں زید بن ثابت کی روایت بھی آرہی ہے ملاحظہ ہو۔

2284

۲۲۸۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ وَابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٨٤: ابو امامہ بن سہل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ثابت (رض) کو دیکھا کہ وہ مسجد میں ایسے وقت داخل ہوئے جبکہ لوگ رکوع میں جا چکے تھے وہ چلتے رہے جب انھوں نے خیال کیا کہ وہ صف میں یہاں رکوع کی حالت میں مل سکیں گے تو انھوں نے تکبیر کہہ کر رکوع کیا اور رکوع میں آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے چلتے گئے یہاں تک کہ صف میں جا ملے۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٢٢٩۔

2285

۲۲۸۵: ابن ابی الذئب نے ابن شہاب سے پھر انہوں نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
٢٢٨٥: ابن ابی الذئب نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
: مثلہ فی البیہقی ٣؍١٥١۔

2286

۲۲۸۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُبَیٌّ‘ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ‘ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَرْکَعُ عَلٰی عَتَبَۃِ الْمَسْجِدِ وَوَجْہُہٗ إِلَی الْقِبْلَۃِ‘ ثُمَّ یَمْشِیْ مُعْتَرِضًا عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ ثُمَّ یَعْتَدُّ بِہَا إِنْ وَصَلَ إِلَی الصَّفِّ أَوْ لَمْ یَصِلْ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتُمْ تُخَالِفُوْنَ مَا قَدْ رَوَیْتُمُوْہُ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَزَیْدٍ‘ وَتَقُوْلُوْنَ : لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَرْکَعَ دُوْنَ الصَّفِّ .قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ‘ وَلَکِنِ احْتَجَجْنَا بِذٰلِکَ عَلَیْک‘ لِتَعْلَمَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّہُمْ لَا یُبْطِلُوْنَ صَلَاۃَ مَنْ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ قَبْلَ وُصُوْلِہِ إِلَی الصَّفِّ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا الَّذِیْ ذَہَبْتُمْ إِلَیْہٖ‘ حَتَّی خَالَفْتُمْ عَبْدَ اللّٰہِ وَزَیْدًا؟ .قِیْلَ لَہٗ : مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (لَا یَرْکَعْ أَحَدُکُمْ دُوْنَ الصَّفِّ‘ حَتّٰی یَأْخُذَ مَکَانَہٗ مِنَ الصَّفِّ) وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ‘ الْحَسَنُ .
٢٢٨٦: خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) مسجد کی چوکھٹ کے پاس قبلہ رخ ہو کر رکوع کرتے پھر وہ اپنی دائیں مڑتے ہوئے چلتے رہتے پھر اسی سے شمار کرتے خواہ صف میں پہنچیں یا نہ پہنچیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ تم تو ابن مسعود اور زید (رض) کی عروایت سے مخالفت کرنے والے ہو۔ تمہارا کہنا یہ ہے کہ کسی کو صف سے پہلے رکوع مناسب نہیں۔ اس کو جواب میں کہا جائے گا جی ہاں ! مگر ہم نے تو ان روایات سے تمہارے خلاف دلیل حاصل کی تاکہ تمہیں یہ علم ہوجائے کہ تمام صحابہ کرام (رض) صف میں پہنچنے سے قبل نماز میں شامل ہونے والے کی نماز کو باطل قرار نہ دیتے تھے۔ اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ ابن مسعود اور زید (رض) کی روایت کے خلاف چل کر تم نے کس روایت کو اختیار کیا ہے ؟ ت جواب میں کہا جائے گا۔ ہم نے روایت حضرت ابوہریرہ (رض) کو اختیار کیا ہے کہ ” لا یرکع احدکم دون الصف “ (الحدیث) کہ تمہارا کوئی شخص صف سے پہلے رکوع میں نہ جائے۔ جب تک کہ وہ صف میں اپنے ٹھکانے نہ پہنچے اور یہ بات حضرت حسن بصری (رح) نے بھی کہی ہے۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٢٢٩‘ باب الرجل یدخل والقوم رکوع۔
حاصل روایات : ان روایات نے ثابت کردیا کہ ایک آدمی رکوع کی حالت میں ملے یا دو چار ملیں سب کا حکم برابر ہے اور وہ رکعت بھی شمار ہوگی اور رکوع ملنا بھی معتبر خیال کیا جائے گا۔
اعتراض نمبر 2:
زید بن ثابت اور ابن مسعود (رض) نے آثار اس روایت کے خلاف ہیں جس میں یہ فرمایا گیا لاینبغی لاحد ان یرکع دون الصف۔
جواب : یہ دونوں آثار اگرچہ اس روایت کے خلاف معلوم ہوتے ہیں مگر ہم نے تو صرف اس غرض سے پیش کئے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کی نماز کو باطل قرار نہ دیتے تھے جو صف سے پہلے نماز میں شامل ہوجائے اگرچہ یہ مناسب نہیں مگر ابطال نماز والے قول کی تردید کے لیے کافی ہے۔
احناف پر اشکال :
کہ تم اپنے مسلک میں تو عبداللہ اور زید (رض) کے اقوال کے مخالف ہو۔
جواب : ہم نے حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت نقل کی تم میں کوئی صف کے علاوہ رکوع میں نہ جائے جب تک کہ وہ اپنی جگہ صف میں نہ پہنچ جائے اور ان کے علاوہ یہ حسن بصری (رح) کا بھی قول ہے۔ ملاحظہ ہو۔

2287

۲۲۸۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنِ الْأَشْعَثِ‘ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَرِہَ أَنْ یُّرْکَعَ دُوْنَ الصَّفِّ .وَکُلُّ مَا بَیَّنَّا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ ھٰذَا‘ وَمِنْ إِجَازَۃِ صَلَاۃِ مَنْ صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٢٨٧: یحییٰ بن سعید نے اشعث سے انھوں نے حسن بصری (رح) سے نقل کیا کہ صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع مکروہ ہے۔ اس باب میں ہم نے جو کچھ بیان کیا اور صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز کو درست قرار دیا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٢٣٠۔
یہ جو کچھ ہم نے اس باب میں بیان کیا اور صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز کا جواز ثابت کیا یہ سب امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد (رح) کا قول ہے۔

2288

۲۲۸۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ خِلَاسٍ‘ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ أَدْرَکَ مِنْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ رَکْعَۃً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْیُصَلْ إِلَیْہَا أُخْرٰی) . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : رَوٰی عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ وَغَیْرُہٗ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ أَدْرَکَ مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ رَکْعَۃً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاۃَ) وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہِ فِیْ (بَابِ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ صَلَّی مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ رَکْعَۃً قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ ثُمَّ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ‘ صَلَّی إِلَیْہَا أُخْرَی‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْأَثَرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : اِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَہُوَ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَسَدَتْ عَلَیْہِ .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ دَلَالَۃٌ عَلٰی مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ لِأَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ أَدْرَکَ مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ رَکْعَۃً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ فَقَدْ أَدْرَکَ) قَدْ یَحْتَمِلُ مَا قَالَہُ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ عَنٰی بِہِ الصِّبْیَانَ الَّذِیْنَ یَبْلُغُوْنَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ وَالْحُیَّضَ اللَّاتِیْ یَطْہُرْنَ‘ وَالنَّصَارَی الَّذِیْنَ یُسْلِمُوْنَ‘ لِأَنَّہٗ لَمَّا ذَکَرَ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ الْاِدْرَاکَ وَلَمْ یَذْکُرْ الصَّلَاۃَ‘ فَیَکُوْنُ ہٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ سَمَّیْنَاہُمْ وَمَنْ أَشْبَہَہُمْ‘ مُدْرِکِیْنَ لِھٰذِہٖ الصَّلَاۃِ‘ وَیَجِبُ عَلَیْہِمْ قَضَاؤُہَا وَإِنْ کَانَ الَّذِیْ بَقِیَ عَلَیْہِمْ مِنْ وَقْتِہَا أَقَلَّ مِنَ الْمِقْدَارِ الَّذِیْ یُصَلُّوْنَہَا فِیْہِ .قَالُوْا : وَھٰذَا الْحَدِیْثُ ہُوَ الَّذِیْ ذَہَبْنَا فِیْہِ إِلٰی أَنَّ الْمَجَانِیْنَ اِذَا أَفَاقُوْا‘ وَالصِّبْیَانَ اِذَا بَلَغُوْا‘ وَالنَّصَارٰی اِذَا أَسْلَمُوْا‘ وَالْحُیَّضُ اِذَا طَہُرْنَ‘ وَقَدْ بَقِیَ عَلَیْہِمْ مِنْ وَقْتِ الصُّبْحِ مِقْدَارُ رَکْعَۃٍ‘ أَنَّہُمْ لَہَا مُدْرِکُوْنَ فَلَمْ نُخَالِفْ ھٰذَا الْحَدِیْثَ‘ وَإِنْ خَالَفْنَا تَأْوِیْلَ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ۔ چیک
٢٢٨٨: ابو رافع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے صبح کی نماز سے ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لی تو اسے ایک رکعت اور ملا لینی چاہیے۔
: بیہقی ١؍٥٥٧۔
امام طحاوی (رح) نے فرمایا کہ عطاء بن یسار (رح) وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت کو پا لیا اس نے نماز فجر کو پا لیا اور اس روایت کو باب المواقیت میں ذکر کر آئے۔ پس کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ جس شخص نے نماز صبح کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لی پھر سورج طلوع ہوگیا تو وہ اس کے ساتھ اور رکعت ملا لے اور ان کا مستدل یہ روایت ہے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا اگر کسی کو نماز کے دوران سورج طلوع ہوجائے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ انھوں نے کہا پہلے قول والے لوگوں کے لیے یہ اثر دلیل نہیں بن سکتا۔ کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : ” جس شخص نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت کو پا لیا تو اس نے گویا نماز کو پا لیا “ اس میں ایک احتمال تو وہ ہے جس کی طرف پہلے قول والے گئے ہیں اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ بچے ہوں جو حد بلوغت کو طلوع آفتاب سے پہلے پہنچ جائیں اور وہ حائضہ عورتیں ہیں جو طلوع آفتاب سے پہلے پاک ہوجائیں اور ایسے نصرانی مراد ہیں جو طلوع آفتاب سے پہلے اسلام لے آئیں اس لیے کہ اس روایت میں تو ادراک کا ذکر ہے ‘ نماز کا ذکر نہیں۔ پس یہ لوگ جن کا ہم نے نام لیا اور جو ان کے مشابہ ہیں وہ اس نماز کے مدرک بنیں گے اور ان کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم ہوجائے گی۔ اگرچہ ان کے پاس اتنی مقدار میں وقت نہ ہو کہ جس میں وہ نماز ادا کرسکتے ہوں۔ اس روایت کے متعلق ہم نے جس بات کو اختیار کیا ہے اس میں اگر ان کو اضافہ ہوجائے مجنون کا جنون جاتا رہا ‘ بچے نے بلوغت کی عمر کو پا لیا ‘ عیسائی اسلام لے آیا ‘ حیض والی عورت پاک ہوگئی اور ادھر صبح کے وقت میں سے ایک رکعت کی مقدار وقت باقی تھا تو یہ تمام صبح کی نماز پانے والے شمار ہوں گے۔ پس اس طرح حدیث کا معنی دیگر روایات کے خلاف نہ رہا۔ ہم نے پہلے قول والوں کی تاویل کے خلاف بات کہی ہے نہ کہ حدیث کے خلاف۔ دوسرے قول کے قائلین کے خلاف پہلے قول والے ان روایات سے استدلال کرتے ہیں۔ روایات درج ذیل ہیں۔

خلاصہ الزام :
نمبر 1 ۔ نماز اگر سورج نکل آیا تو امام شافعی ‘ مالک ‘ احمد (رح) کے ہاں اس کی نماز فاسد نہ ہوگی وہ ایک رکعت ملا کر نماز پوری کرے۔
نمبر 2: احناف کے ہاں اس کی نماز فاسد اور واجب الاعادہ ہے۔
مؤقف فریق اوّل : اگر فجر کی نماز ایک رکعت پڑھی اور سورج نکل آیا تو وہ ایک رکعت ملائے اس کی نماز درست ہے واجب الاعادہ نہیں دلائل یہ ہیں۔
عطاء بن یسار نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نماز صبح کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لی اس نے گویا نماز کو پا لیا۔ مواقیت الصلاۃ میں یہ روایت مذکور ہے۔
: بخاری فی المواقیت باب ٢٨‘ مسلم فی المساجد نمبر ١٦٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ بابنمبر ٢٣٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٩١۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ جس نے نماز صبح کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پائی پھر سورج طلوع ہوگیا تو وہ اس کے ساتھ ایک رکعت ملا لے اس کی نماز ہوجائے گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نماز کا پانے والا قرار دیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اگر فجر کی ایک رکعت پڑھی تھی کہ سورج طلوع ہوگیا تو اس کی نماز فاسد ہوگئی اعادہ ضروری ہے دلائل آتے ہیں اولاً دلیل کا جواب عرض کیا جاتا ہے۔
الجواب نمبر !: اس روایت میں فریق اوّل کے لیے دلیل تو کیا ہوتی کوئی دلالت بھی موجود نہیں۔ کیونکہ ارشاد نبوت میں من ادرک من صلوۃ الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادرک ۔
نمبر 1: اس میں ایک احتمال تو وہ ہے جو تم نے بیان کیا کہ اس نے نماز کو پا لیا اس کی نماز مکمل ہوجائے گی فاسد نہ ہوگی۔
احتمال نمبر 2: اس ارشاد سے وہ لوگ مراد ہیں جو نابالغ یا معذور ہوں کہ اگر وہ طلوع آفتاب سے پہلے بالغ ہوجائیں یا حائضہ وغیرہ کا عذر جاتا رہے یا وہ کافر تھے مسلمان ہوگئے اور انھوں نے اتنا وقت پا لیا جس میں ایک رکعت پڑھی جاسکتی ہے تو ان لوگوں کو نماز کا پالینے والا شمار کیا جائے گا اور نماز ان کے ذمہ واجب ہوگی اور اس کی قضاء لازم ہوگی اس لیے یہاں نماز کا صرف تذکرہ نہیں بلکہ ادراک کا تذکرہ ہے اور ادراک اسی کو کہتے ہیں اور اگر اس سے کم وقت ہوگا تو پھر ان کے ذمہ نہ ہوگی تو گویا اس روایت کے مخاطب مخصوص لوگ ہیں۔
جواب نمبر 2: یہ روایت منسوخ ہے جب اوقات ممنوعہ میں نماز پڑھنا منع کردیا گیا تو وقت اسی میں شامل ہے پس ممنوعہ وقت میں داخل ہونے کی وجہ سے نماز درست نہ ہوگی مزید تفصیل باب مواقیت الصلوٰۃ میں دیکھیں۔
ایک اشکال :
ایسی روایات صراحۃً موجود ہیں جن میں طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت کو ملانے کا حکم موجود ہے جس سے طلوع آفتاب سے پہلے والی رکعت پر دوسری رکعت کی بناء ہو رہی ہے معلوم ہوا نماز درست ہے۔ روایات یہ ہیں۔

2289

۲۲۸۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ کَثِیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ، وَإِذَا أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہُ) .فِیْمَا رَوَیْنَا‘ ذَکَرَ الْبِنَائَ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ عَلٰی مَا قَدْ دَخَلَ فِیْہِ قَبْلَ طُلُوْعِہَا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلٰی أَہْلِ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ أَنَّ ھٰذَا قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ نَہْیِہِ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ .فَإِنَّہٗ قَدْ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ‘ وَتَوَاتَرَتْ عَنْہُ الْآثَارُ بِنَہْیِہِ عَنْ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا تِلْکَ الْآثَارَ فِی " بَابِ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ " .فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ مَا کَانَ فِیْہِ الْاِبَاحَۃُ‘ ہُوَ مَنْسُوْخٌ بِمَا فِیْہِ النَّہْیُ .فَقَالُوْا : إِنَّمَا النَّہْیُ عَنِ التَّطَوُّعِ خَاصَّۃً‘ لَا عَنْ قَضَائِ الْفَرَائِضِ أَلَا تَرَوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَعِنْدَکُمْ - بِمَانِعٍ أَنْ تُقْضَیْ صَلَاۃٌ فَائِتَۃٌ فِیْ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ .فَکَذٰلِکَ مَا رَوَیْتُمْ عَنْہُ‘ مِنَ النَّہْیِ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ لَا یَکُوْنُ مَانِعًا عِنْدَنَا لَأَنْ یَقْضِیَ حِیْنَئِذٍ صَلَاۃً فَائِتَۃً‘ إِنَّمَا ہُوَ مَانِعٌ مِنْ صَلَاۃِ التَّطَوُّعِ خَاصَّۃً .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ‘ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الصَّلَوَاتِ الْمَفْرُوْضَاتِ الْفَائِتَاتِ‘ قَدْ دَخَلَتْ فِیْمَا نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ وَعِنْدَ غُرُوْبِہَا .وَذٰلِکَ أَنَّ
٢٢٨٩: یحییٰ بن کثیر نے ابو سلمہ سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نماز عصر کی ایک رکعت ایسے وقت پا لی کہ سورج غروب نہ ہوا تھا تو گویا اس کی نماز مکمل ہوگئی اور جب نماز صبح کی ایک رکعت پا لی تو گویا اس کی نماز مکمل ہوگئی۔ ان مذکورہ روایات میں اس نماز پر بناء کا تذکرہ ہے جس میں وہ طلوع آفتاب سے پہلے داخل ہوا۔ اس بات کو اختیار کرنے والوں کے خلاف دلیل یہ ہے کہ ممکن ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فعل طلوع آفتاب کے وقت نماز میں داخلے کی ممانعت سے پہلے ہو پھر آپ نے اس کی ممانعت فرمائی اور ممانعت کے سلسلہ میں کثیر تعداد میں روایات وارد ہیں ‘ ہم ان آثار کو باب مواقیت الصلاۃ میں نقل کر آئے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ جس میں پہلے اباحت تھی وہ ممانعت کے بعد منسوخ ہوگیا۔ پہلے قول والے کہتے ہیں کہ نوافل کی ممانعت خاص ہے قضاء فرائض کی ممانعت نہیں۔ ذرا غور کرو کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب تک نماز کی ممانعت فرمائی ہے اور یہ ہمارے اور تمہارے ہاں فوت شدہ نماز کی قضاء سے ان دونوں اوقات میں ممانعت نہیں۔ پس اسی طرح طلوع آفتاب کے وقت تم نے نماز سے ممانعت کی روایت نقل کی ہے وہ بھی ہمارے ہاں قضاء فائتہ سے مانع نہیں بلکہ وہ نفلی نماز سے صرف مانع ہے۔ دوسرے قول کے قائلین پہلے قول والوں کے مخالف دلیل لاتے ہیں اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات وارد ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ طلوع و غروب آفتاب کے اوقات کی ممانعت میں فوت شدہ فرض نمازیں بھی شامل ہیں۔ روایات ذیل میں ہیں۔
: بخاری ١؍٧٩‘ من ادرک رکعۃ۔
جواب : طلوع آفتاب سے پہلے والی نماز پر بناء کی جو روایات نقل کی گئی ہیں یہ نسخ سے پہلے کی ہیں آپ نے طلوع و غروب و نصف النہار کے وقت نماز سے روک دیا اس لیے ان سے استدلال درست نہیں۔ پس یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان سے ہو جس میں اباحت ہے مگر نہی کے ذریعہ وہ بھی منسوخ ہے۔
ضمنی اشکال :
ممانعت والی روایات سے مراد صرف نوافل کی ممانعت ہے نہ کہ فرائض کی جیسا کہ نماز فجر اور عصر کے بعد نوافل کی ممانعت ہے فرائض کی ہرگز نہیں۔
جواب : طلوع و غروب اور نصف النہار کے وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قسم کی نماز سے منع فرمایا جس میں فوت شدہ نمازیں بھی شامل و داخل ہیں۔ روایت ملاحظہ ہو۔

2290

۲۲۹۰: عَلِیَّ بْنَ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَیْنٍ‘ قَالَ : (سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزْوَۃٍ‘ أَوْ قَالَ‘ فِیْ سَرِیَّۃٍ‘ فَلَمَّا کَانَ آخِرُ السَّحَرِ عَرَّسْنَا‘ فَمَا اسْتَیْقَظْنَا حَتّٰی أَیْقَظَنَا حَرُّ الشَّمْسِ‘ فَجَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا یَثِبُ فَزَعًا دَہَشًا .فَاسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنَا فَارْتَحَلْنَا مِنْ مَّسِیْرِنَا حَتَّی ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ‘ ثُمَّ نَزَلْنَا فَقَضَی الْقَوْمُ حَوَائِجَہُمْ‘ ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ‘ فَصَلَّیْنَا رَکْعَتَیْنِ فَأَقَامَ فَصَلَّی الْغَدَاۃَ .فَقُلْنَا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَلَا نَقْضِیْہَا لِوَقْتِہَا مِنَ الْغَدِ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنْ الرِّبَا‘ وَیَقْبَلُہٗ مِنْکُمْ) .
٢٢٩٠: حسن سے عمران بن حصین (رض) نے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں چلتے رہے یا سریہ میں چلتے رہے جب سحر کا اختتام ہونے لگا تو ہم نے قیام کیا ہم بیدار نہ ہوئے مگر یہ کہ سورج کی دھوپ نے اٹھایا ہم میں سے ہر ایک گھبراہٹ سے کود کر اٹھتا تھا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اور ہمیں وہاں سے کوچ کا حکم فرمایا ہم چلتے رہے یہاں تک کہ سورج بلند ہوگیا پھر ہم اترے لوگوں نے اپنے ضروری کام انجام دے لیے (کجاوے اتار کر خیمے لگا لئے) پھر آپ نے بلال (رض) کو حکم دیا انھوں نے اذان دی پس ہم نے دو رکعت ادا کیں پھر آپ نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھائی ہم نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! کیا اسے ہم کل اپنے وقت پر قضاء نہ کرلیتے ؟ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہیں اللہ تعالیٰ نے ربا سے منع نہیں کیا اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پھر تم سے قبول کرے۔
: مسلم فی المساجد نمبر ٣١٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٥٥‘ مسند احمد ٤؍٤٤١۔

2291

۲۲۹۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ‘ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ بْنُ عُبَیْدٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصَرِیِّ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ‘ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَنَامَ عَنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ حَتَّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَأَمَرَ فَأَذَّنَ‘ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّی اشْتَعَلَتِ الشَّمْسُ‘ ثُمَّ أَمَرَ فَأَقَامَ‘ فَصَلّٰی الصُّبْحَ)
٢٢٩١: حسن بصری نے عمران بن حصین (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمایا ہے کہ آپ کسی سفر میں تھے آپ نماز صبح سے سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوا پھر آپ نے اذان کا حکم فرمایا پھر انتظار کیا یہاں تک کہ سورج خوب روشن ہوگیا پھر آپ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور صبح کی نماز پڑھائی۔
: ابو داؤد فی الصلاۃ بابنمبر ١١‘ روایت نمبر ٤٤٣۔

2292

۲۲۹۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ ثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَیْسَرَۃَ الْمُنْقِرِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا رَجَائِ ڑ الْعُطَارِدِیَّ‘ قَالَ : ثَنَا (عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ‘ قَالَ : أَسْرَیْ بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَرَّسْنَا مَعَہٗ، فَلَمْ نَسْتَیْقِظْ إِلَّا بِحَرِّ الشَّمْسِ‘ فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ ذَہَبَتْ صَلَاتُنَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ تَذْہَبْ صَلَاتُکُمْ‘ ارْتَحِلُوْا مِنْ ھٰذَا الْمَکَانِ فَارْتَحَلَ قَرِیْبًا‘ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلّٰی) .
٢٢٩٢: ابو رجاء عطاردی کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمران بن حصین (رض) نے بیان فرمایا کہ ایک رات ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلتے رہے اور صبح کے وقت ہم ایک جگہ رکے ہمیں سورج کی گرمی نے جگایا پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے تو صحابہ نے گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری تو نماز جاتی رہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری نماز نہیں گئی یہاں سے کوچ کرو پس کوچ کر کے قریب ہی ٹھہرے پھر سواری سے اتر کر آپ نے نماز پڑھائی۔
: مسلم فی المساجد حدیث نمبر ٣١٣۔

2293

۲۲۹۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ‘ قَالَ : أَنَا عَوْفٌ‘ عَنْ أَبِیْ رَجَائٍ ‘ عَنْ عِمْرَانَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٢٢٩٣ : عبدالوہاب نے عوف سے روایت کی ‘ انھوں نے ابو رجاء سے انھوں نے عمران (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2294

۲۲۹۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْجَرَّاحِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ‘ عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ قَتَادَۃَ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ قَالَ : (أَسْرٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزْوَۃٍ مِنْ غَزَوَاتِہٖ، وَنَحْنُ مَعَہٗ، فَقَالَ لَہٗ بَعْضُ الْقَوْمِ لَوْ عَرَّسْتَ .فَقَالَ : إِنِّیْ أَخَافُ أَنْ تَنَامُوْا عَنِ الصَّلَاۃِ فَقَالَ بِلَالٌ : أَنَا أُوقِظُکُمْ .فَنَزَلَ الْقَوْمُ فَاضْطَجَعُوْا‘ وَأَسْنَدَ بِلَالٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ظَہْرَہٗ إِلٰی رَاحِلَتِہٖ وَأُلْقِیَ عَلَیْہِمُ النَّوْمُ‘ فَاسْتَیْقَظَ الْقَوْمُ‘ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْنَ مَا قُلْتُ یَا بِلَالُ؟ .قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا أُلْقِیَتْ عَلَیَّ نَوْمَۃٌ مِثْلُہَا قَطُّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ، إِنَّ اللّٰہَ قَبَضَ أَرْوَاحَکُمْ حِیْنَ شَائَ ‘ وَرَدَّہَا إِلَیْکُمْ حِیْنَ شَائَ ‘ فَأَذِّنَ النَّاسَ بِالصَّلَاۃِ فَأَذَّنَہُمْ فَتَوَضَّئُوْا‘ فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ‘ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ‘ ثُمَّ صَلَّی الْفَجْرَ) .
٢٢٩٤: حصین (رض) بن عبدالرحمن نے ابو قتادہ (رض) سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں رات کو ایک غزوہ میں خوب چلایا بعض لوگوں نے درمیان سے کہا کہ اگر آپ قیام کرلیں تو بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ تم نماز سے سو جاؤ گے بلال (رض) کہنے لگے کہ میں تم کو جگاؤں گا پس لوگ اتر پڑے اور لیٹ گئے بلال نے اپنی پشت کو کجاوے کے ساتھ لگایا اور ان پر بھی نیند طاری کردی گئی پس لوگ اس وقت بیدار ہوئے جب سورج کا کنارہ طلوع ہوچکا تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بلال (رض) تمہاری وہ بات کہاں گئی جو تم نے کہی تھی ؟ انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں تمہاری ارواح کو قبض کرلیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں تمہاری طرف لوٹا دیتے ہیں لوگوں نے نماز کی اجازت مانگی آپ نے ان کو اجازت دے دی پس انھوں نے وضو کیا جب سورج بلند ہوا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی دو رکعت پڑھی اور فجر کی نماز پڑھائی۔
: بخاری فی المواقیت باب ٣٥‘ نسائی فی الاقامہ باب ٤٧‘ مسند احمد ٥؍٣٠٧۔

2295

۲۲۹۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا حُصَیْنٌ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٢٩٥: سعید بن منصور نے ہشیم سے انھوں نے حصین سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2296

۲۲۹۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ‘ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِہٖ عَنْ رَوْحٍ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْفَصْلِ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ سُؤَالَہُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : فَسَمِعَنِیْ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ وَأَنَا أُحَدِّثُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ فِی الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ‘ فَقَالَ : (مَنْ الرَّجُلُ؟) فَقُلْتُ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ .فَقَالَ : الْقَوْمُ أَعْلَمُ بِحَدِیْثِہِمْ‘ اُنْظُرْ کَیْفَ تُحَدِّثُ فَإِنِّیْ أَحَدُ السَّبْعَۃِ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ .فَلَمَّا فَرَغْت قَالَ : مَا کُنْتُ أَحْسِبُ أَنَّ أَحَدًا یَحْفَظُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ غَیْرِی .قَالَ حَمَّادٌ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ‘ عَنْ بَکْرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ‘ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٩٦: عبداللہ بن رباح نے ابو قتادہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی جیسی روایت ٢٢٩٠ ہے البتہ اس میں ان کا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال مذکور نہیں ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) نے مجھے یہی روایت جامع مسجد میں بیان کرتے سنا تو انھوں نے پوچھا تم کون ہو میں نے کہا میں عبداللہ بن رباح انصاری ہوں لوگوں نے کہا میں ان کی بات کو خوب جانتا ہوں تم دیکھ کر بیان کرو اس رات کے سات آدمیوں میں سے میں ایک ہوں جب میں فارغ ہوا تو وہ کہنے لگے میرا خیال تو یہ تھا کہ یہ روایت صرف مجھے ہی معلوم ہے۔ حماد نے عبداللہ بن رباح عن ابی قتادہ (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
: مسلم ١؍٢٤٠‘ باب قضاء الصلاۃ۔

2297

۲۲۹۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَقَالَ : مَنْ یَکْلَؤُنَا اللَّیْلَۃَ‘ لَا یَنَامُ حَتَّی الصُّبْحِ .فَقَالَ بِلَالٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَا‘ فَاسْتَقْبَلَ مَطْلَعَ الشَّمْسِ فَضَرَبَ عَلٰی آذَانِہِمْ‘ حَتّٰی أَیْقَظَہُمْ حَرُّ الشَّمْسِ فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَوَضَّأَ وَتَوَضَّئُوْا ثُمَّ قَعَدُوْا ہُنَیْہَۃً‘ ثُمَّ صَلُّوْا رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ‘ ثُمَّ صَلُّوا الْفَجْرَ) .
٢٢٩٧: نافع بن جبیر کہتے ہیں کہ میرے والد نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ سفر میں تھے آپ نے فرمایا آج رات کون ہماری حفاظت کرے گا اور صبح تک نہ سوئے گا بلال (رض) کہنے لگے میں انھوں نے افق سورج کی طرف منہ کیا ان پر نیند طاری ہوگئی یہاں تک کہ سورج کی حرارت نے ان کو جگایا تو آپ اٹھے اور وضو فرمایا اور سب نے وضو کیا پھر تھوڑی دیر بیٹھے پھر دو رکعت نماز پڑھی اور پھر نماز فجر پڑھائی۔
: ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤٠‘ نسائی فی المواقیت باب ٥٥‘ مسند احمد ٣؍٣٤٤۔

2298

۲۲۹۸: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ الزُّہْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَرَّسَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ بِطَرِیْقِ مَکَّۃَ‘ فَلَمْ یَسْتَیْقِظْ ہُوَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ، حَتّٰی ضَرَبَتْہُمُ الشَّمْسُ‘ فَاسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ھٰذَا مَنْزِلٌ بِہٖ شَیْطَانٌ .فَاقْتَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاقْتَادَ أَصْحَابُہٗ، حَتَّی ارْتَفَعَ الضُّحٰی‘ فَأَنَاخَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَأَنَاخَ أَصْحَابُہٗ، فَأَمَّہُمْ‘ فَصَلّٰی الصُّبْحَ) .فَلَمَّا رَأَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَّرَ صَلَاۃَ الصُّبْحِ لَمَّا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَہِیَ فَرِیْضَۃٌ فَلَمْ یُصَلِّہَا حِیْنَئِذٍ حَتَّی ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ وَقَدْ قَالَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً أَوْ نَامَ عَنْہَا‘ فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا) دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ نَہْیَہُ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ قَدْ دَخَلَ فِیْہِ الْفَرَائِضُ وَالنَّوَافِلُ‘ وَأَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ اسْتَیْقَظَ فِیْہٖ‘ لَیْسَ بِوَقْتٍ لِلصَّلَاۃِ الَّتِیْ نَامَ عَنْہَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَلِمَ قُلْتُ بِبَعْضِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَتَرَکْتُ بَعْضَہُ؟ فَقُلْتُ : (مَنْ صَلَّی مِنَ الْعَصْرِ رَکْعَۃً ثُمَّ غَرَبَتْ لَہٗ الشَّمْسُ‘ أَنَّہٗ یُصَلِّیْ بَقِیَّتَہَا) .قِیْلَ لَہٗ : لَمْ نَقُلْ بِبَعْضِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَلَا بِشَیْئٍ مِنْہُ‘ بَلْ جَعَلْنَاہُ مَنْسُوْخًا کُلَّہٗ، بِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَہْیِہِ عَنِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ وَبِمَا قَدْ دَلَّ عَلَیْہِ مَا ذَکَرْنَا مِنْ حَدِیْثِ جُبَیْرٍ‘ وَعِمْرَانَ‘ وَأَبِیْ قَتَادَۃَ‘ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَلٰی أَنَّ الْفَرِیْضَۃَ‘ قَدْ دَخَلَتْ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَأَنَّہَا لَا تُصَلّٰی حِیْنَئِذٍ‘ کَمَا لَا تُصَلَّی النَّافِلَۃُ .وَأَمَّا الصَّلَاۃُ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ لِعَصْرِ یَوْمِہٖ، فَإِنَّا قَدْ ذَکَرْنَا الْکَلَامَ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ (بَابِ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ) .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا وَقْتَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ إِلٰی أَنْ تَرْتَفِعَ‘ وَقْتًا قَدْ نُہِیَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ الْأَوْقَاتِ الَّتِیْ یُنْہَی فِیْہَا عَنِ الْأَشْیَائِ، ہَلْ یَکُوْنُ عَلَی التَّطَوُّعِ مِنْہَا دُوْنَ الْفَرَائِضِ؟ أَوْ عَلٰی ذٰلِکَ کُلِّہِ؟ فَرَأَیْنَا یَوْمَ الْفِطْرِ‘ وَیَوْمَ النَّحْرِ‘ قَدْ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِہِمَا‘ وَقَامَتَ الْحُجَّۃُ عَنْہُ بِذٰلِکَ‘ فَکَانَ ذٰلِکَ النَّہْیُ عِنْدَ جَمِیْعِ الْعُلَمَائِ عَلٰی أَنْ لَا یُصَامَ فِیْہِمَا فَرِیْضَۃٌ‘ وَلَا تَطَوُّعٌ .فَکَانَ النَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ فِیْ وَقْتِ طُلُوْعِ الشَّمْسِ‘ الَّذِیْ قَدْ نُہِیَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہٖ‘ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ لَا تُصَلّٰی فِیْہِ فَرِیْضَۃٌ وَلَا تَطَوُّعٌ‘ وَکَذٰلِکَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ‘ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ .وَأَمَّا نَہْیُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغِیْبَ الشَّمْسُ‘ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ‘ فَإِنَّ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ لَمْ یُنْہَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہِمَا لِلْوَقْتِ‘ وَإِنَّمَا نُہِیَ عَنِ الصَّلَاۃِ فِیْہِمَا لِلصَّلَاۃِ‘ وَقَدْ رَأَیْنَا ذٰلِکَ الْوَقْتَ یَجُوْزُ لِمَنْ لَمْ یُصَلِّ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْہِ الْفَرِیْضَۃَ وَالصَّلَاۃَ الْفَائِتَۃَ .فَلَمَّا کَانَتِ الصَّلَاۃُ ہِیَ النَّاہِیَۃُ وَہِیَ فَرِیْضَۃٌ‘ کَانَتْ إِنَّمَا یُنْہٰی عَنْ غَیْرِ شَکْلِہَا مِنَ النَّوَافِلِ‘ لَا عَنِ الْفَرَائِضِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ الْحَکَمُ وَحَمَّادٌ .
٢٢٩٨: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی راہ میں رات کے پچھلے حصہ میں قیام فرمایا نہ آپ بیدار ہوئے نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ سورج کی دھوپ انھیں لگی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اور فرمایا یہ وہ جگہ ہے جہاں شیاطین ہیں۔ پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز فجر کو مؤخر فرمایا جب کہ سورج چڑھ آیا ‘ حالانکہ یہ تو فرض نماز ہے آپ نے اس کو مؤخر فرمایہاں تک کہ سورج بلند ہوگیا اور دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا : ” من نسی صلوۃ اونام عنھا فلیصلھا اذا ذکرھا “ (الحدیث) ” جو شخص کوئی نماز بھول جائے یا سونے کی وجہ سے رہ جائے تو اس کو یاد آنے پر ادا کرلے “۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ کا نماز سے طلوع آفتاب کے وقت منع کرنا فرائض و نوافل ہر دو کو شامل ہے اور وہ وقت جس میں بیدار ہوا وہ اس نماز کا وقت ہے جو سونے کی بناء پر چھوٹ گئی ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ جناب آپ نے اس حدیث کا بعض حصہ تو بیان کردیا مگر بعض کو ترک کردیا ؟ تم نے کہا ” من صلی من العصر رکعۃ ثم غربت لہ الشمس انہ یصلی بقی تھا “ ” جس نے نماز عصر کی ایک رکعت ادا کی پھر سورج غروب ہوگیا تو وہ بقیہ نماز ادا کرے “۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا ہم نے نہ تو اس حدیث کا بعض حصہ لیا اور نہ کچھ لیا بلکہ اس مکمل روایت کو اس روایت سے منسوخ تسلیم کرتے ہیں جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج کے طلوع کے وقت نماز سے منع فرمایا ہے اور اس سے منسوخ جانتے ہیں جس پر حضرت جبیر ‘ عمران ‘ ابو قتادہ اور ابوہریرہ (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے کہ فرض بھی ممانعت میں شامل ہے اور ان اوقات میں اسے بھی نہ پڑھا جائے جیسا کہ نوافل نہیں پڑھے جاتے۔ وہی نماز عصر جو غروب آفتاب کے وقت پڑھی جاتی ہے اس کے متعلق ہم باب مواقیت الصلاۃ میں بحث کر آئے۔ روایات کے معانی کی تصحیح کے اعتبار سے یہ اس باب کی وضاحت ہے۔ البتہ نظر و فکر کے لحاظ سے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ہم نے دیکھا کہ طلوع آفتاب کے وقت نماز کی ممانعت ہے جب تک کہ سورج بلند نہ ہوجائے۔ پھر ہم نے ممنوعہ اوقات کو دیکھا کہ آیا وہاں نفل سے منع کیا گیا یا فرائض سے یا ہر دو سے۔ پس ہم عید الفطر اور عید قربان کو دیکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان ایام میں روزے کی ممانعت فرمائی اور اس پر آپ کی طرف سے دلیل بھی قائم ہوگئی۔ تو تمام علماء کے ہاں ان دنوں میں فرض و نفل دونوں قسم کے روزوں کی ممانعت ہے۔ پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت کی ممانعت بھی اسی طرح کی ہے کہ اس میں فرض و نفل دونوں کی ممانعت ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت سے متعلق بھی عقل اسی بات کی متقاضی ہے۔ جہاں تک جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عصر کے بعد سے غروب آفتاب اور فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک نماز سے منع کرنے کا معاملہ ہے تو ان دونوں اوقات میں نماز کی ممانعت وقت کی بناء پر نہیں ہے بلکہ ممانعت نماز کی وجہ سے ہے اور ہم اس بات کو پاتے ہیں کہ جس آدمی نے نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے لیے درست ہے کہ وہ اس وقت میں فرض وقتی اور سابقہ فوت شدہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ پس جب نماز ہی روکنے والی بن گئی حالانکہ وہ فرض ہے تو وہ اپنے ساتھ مشابہت نہ رکھنے والی یعنی نفل نماز کے لیے مانع تو بنے گی مگر فرائض کے لیے نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے اور جلیل القدر تابعی حضرت حکم و حماد کا قول اس کے موافق ہے۔ ملاحظہ ہو۔
پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے کوچ کیا اور چلتے رہے یہاں تک کہ چاشت کا وقت ہوگیا تو آپ نے اونٹنی بٹھائی تو صحابہ (رض) نے بھی بٹھا دیں پھر آپ نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی۔
: مسلم فی المساجد نمبر ٣١٠‘ نسائی فی المواقیت باب ٥٥‘ مسند احمد ٢؍٤٢٩۔
حاصل کلام : یہاں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلوع آفتاب کے وقت نماز کو مؤخر کیا اور اس وقت ادا نہیں کیا یہاں تک کہ سورج بلند ہوا اور دوسری روایت من نسی صلوۃ اونام عنہا فلیصلھا اذا ذکرھا۔
: بخاری باب ٣٧‘ مسلم فی المساجد ٣٠٩؍٣١٤‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٦‘ نسائی فی المواقیت باب ٥٢‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ١٠‘ ١١‘ موطا فی الوقوت نمبر ٢٥‘ مسند احمد ٣؍٣١۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت جس نماز کی ممانعت ہے اس میں فرض و نفل دونوں شامل ہیں اور وہ وقت جس میں وہ بیدار ہوا وہ اس نماز کا وقت نہیں جو سونے سے رہ گئی ہے۔
اشکال :
من صلی من العصر رکعۃ ثم غربت لہ الشمس انہ یصلی بقی تھا اس روایت کا بعض حصہ آپ نے چھوڑا اور بعض مان لیا۔
جواب : ہم نے اس روایت کے کسی حصہ سے استدلال نہیں کیا بلکہ طلوع الشمس والی روایت سے اس کو منسوخ قرار دیا ہے اور ان روایات سے جن کو ہم نے جبیر ‘ عمران ‘ ابو قتادہ ‘ ابوہریرہ (رض) سے اوپر نقل کیا کہ فرض ایسے وقت میں پہنچ گیا جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی جیسا نفل بھی نہیں پڑھے جاتے۔
غروب آفتاب کے وقت اسی دن کی نماز عصر کے سلسلہ میں ہم باب المواقیت میں مفصل بحث کر آئے ہیں۔
آثار کے معانی کو باہمی قائم رکھنے کے لیے تو یہی معنی لیا جائے گا۔
نظر طحاوی (رح) :
طلوع آفتاب کا وقت بلند ہونے تک ایسا ہے کہ اس میں نماز ممنوع ہے اب ہم دوسرے ممنوعہ اوقات کو دیکھتے ہیں کہ ان میں نفل و فرض کا فرق ہے یا نہیں چنانچہ یوم فطرونحر کے روزوں کی ممانعت ہے اور سب کے ہاں اتفاق ہے کہ ان دنوں میں فرض و نفل دونوں ممنوع ہیں۔
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت نماز ممنوع ہونی چاہیے خواہ نفل ہوں یا فرض اور غروب آفتاب کے وقت کا بھی یہی حال ہے البتہ عصر کے بعد غروب تک ممانعت اور فجر کے بعد طلوع تک ممانعت ان میں نماز کی ممانعت وقت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ نماز کی وجہ سے ممانعت ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان اوقات میں فرض نماز اور فوت شدہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
تو جب فرض خود مانع ہو تو اپنی شکل سے مختلف کے لیے مانع ہے نہ کہ اپنے ہم شکل کے لئے۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ ہم نے اس روایت کے کسی حصہ سے استدلال نہیں کیا بلکہ طلوع الشمس والی روایت سے اس کو منسوخ قرار دیا ہے اور ان روایات سے جن کو ہم نے جبیر ‘ عمران ‘ ابو قتادہ ‘ ابوہریرہ (رض) سے اوپر نقل کیا کہ فرض ایسے وقت میں پہنچ گیا جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی جیسا نفل بھی نہیں پڑھے جاتے۔
غروب آفتاب کے وقت اسی دن کی نماز عصر کے سلسلہ میں ہم باب المواقیت میں مفصل بحث کر آئے ہیں۔
آثار کے معانی کو باہمی قائم رکھنے کے لیے تو یہی معنی لیا جائے گا۔
نظر طحاوی (رح) :
طلوع آفتاب کا وقت بلند ہونے تک ایسا ہے کہ اس میں نماز ممنوع ہے اب ہم دوسرے ممنوعہ اوقات کو دیکھتے ہیں کہ ان میں نفل و فرض کا فرق ہے یا نہیں چنانچہ یوم فطرونحر کے روزوں کی ممانعت ہے اور سب کے ہاں اتفاق ہے کہ ان دنوں میں فرض و نفل دونوں ممنوع ہیں۔
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت نماز ممنوع ہونی چاہیے خواہ نفل ہوں یا فرض اور غروب آفتاب کے وقت کا بھی یہی حال ہے البتہ عصر کے بعد غروب تک ممانعت اور فجر کے بعد طلوع تک ممانعت ان میں نماز کی ممانعت وقت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ نماز کی وجہ سے ممانعت ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان اوقات میں فرض نماز اور فوت شدہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
تو جب فرض خود مانع ہو تو اپنی شکل سے مختلف کے لیے مانع ہے نہ کہ اپنے ہم شکل کے لئے۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

2299

۲۲۹۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا‘ عَنِ الرَّجُلِ یَنَامُ عَنِ الصَّلَاۃِ فَیَسْتَیْقِظُ‘ وَقَدْ طَلَعَ مِنَ الشَّمْسِ شَیْئٌ ؟ قَالَا : لَا یُصَلِّی‘ حَتّٰی تَنْبَسِطَ الشَّمْسُ.
٢٢٩٩: شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حکم و حماد سے کہا کہ جو آدمی نماز سے سو جائے پھر بیدار ہو جبکہ ذرا سا سورج نکل چکا ہو (تو کیا حکم ہے) انھوں نے کہا وہ اس وقت تک نہ پڑھے یہاں تک کہ دھوپ پھیل جائے۔
حاصل روایات : نماز اس وقت میں نہیں ہوتی۔ تبھی تو ممانعت کی گئی۔
: مثلہ فی مصنفہ عبدالرزاق ٢؍٤۔
البتہ یہ بات پوری سمجھ نہیں آئی عصر تو شروع کر کے غروب ہو تو خرابی نہیں مگر فجر میں طلوع ہو تو وہ فاسد ہوجائے۔ (واللہ اعلم)

2300

۲۳۰۰: علی بن شیبہ نے یحییٰ بن یحییٰ سے روایت کی ہے۔
٢٣٠٠: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی ۔ ح ۔
خلاصہ الزام : : معذور جو قیام کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کی اقتداء میں صحت مند کی اقتداء درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کس طرح۔
نمبر 1: امام احمد (رح) کے ہاں معذور کے پیچھے بیٹھ کر اقتداء لازم ہے ورنہ اقتداء درست نہیں۔
نمبر 2: معذور عن القیام کے پیچھے قیام سے اقتداء درست ہے ورنہ نہیں امام ابوحنیفہ و شافعی (رح) کا یہ مسلک ہے۔
نمبر 3: امام مالک (رح) و محمد (رح) کے ہاں معذور کی اقتداء درست نہیں۔
مؤقف فریق اوّل و دلیل : معذور کی اقتداء اسی حالت کے ساتھ درست ہے۔

2301

۲۳۰۱: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَا : ثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنُ حُمَیْدِ ڑالرُّؤَاسِیُّ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ‘ وَأَبُوْ بَکْرٍ خَلْفَہٗ‘ فَإِذَا کَبَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَبَّرَ أَبُوْ بَکْرٍ لِیُسْمِعَنَا .فَبَصَرَ بِنَا قِیَامًا فَقَالَ : اجْلِسُوْا أَوْمٰی بِذٰلِکَ إِلَیْہِمْ فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَالَ : کِدْتُمْ أَنْ تَفْعَلُوْا فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّوْمِ بِعُظَمَائِہِمُ‘ ائْتَمُّوْا بِأَئِمَّتِکُمْ‘ فَإِنْ صَلَّوْا قِیَامًا‘ فَصَلُّوْا قِیَامًا‘ وَإِنْ صَلَّوْا جُلُوْسًا‘ فَصَلُّوْا جُلُوْسًا) .
٢٣٠١: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پڑھائی اور حضرت ابوبکر (رض) آپ کے پیچھے تھے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر کہتے تو ابوبکر تکبیر کہتے تاکہ ہم تکبیر کی آواز سن پائیں پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کھڑے دیکھا تو بیٹھنے کا اشارہ کیا جب آپ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا قریب ہے کہ تم بھی اپنے بڑوں کے ساتھ فارسیوں رومیوں کے بڑوں جیسا سلوک شروع کر دو اپنے ائمہ کی اقتداء کرو اگر وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کریں تو کھڑے نماز ادا کرو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کریں تو بیٹھ کر ادا کرو۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ٨٥۔

2302

۲۳۰۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْہُ فَجُحِشَ شِقُّہُ الْأَیْمَنُ‘ فَصَلّٰی صَلَاۃً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَہُوَ قَاعِدٌ‘ وَصَلَّیْنَا وَرَائَ ہٗ قُعُوْدًا .فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : إِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ، فَإِذَا صَلّٰی قَائِمًا فَصَلُّوْا قِیَامًا‘ وَإِذَا صَلّٰی جَالِسًا فَصَلُّوْا جُلُوْسًا أَجْمَعِیْنَ) .
٢٣٠٢: ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور اس سے گر کر آپ کے چمڑے پر دائیں جانب خراش آگئی تو آپ نے ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا امام اقتداء کے لیے بنایا گیا ہے جب وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے تو کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بیٹھ کر نماز ادا کرو۔
لغات : جحش۔ خراش آنا۔
: بخاری فی الاذان باب ٥١‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٧٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٦٨‘ ترمذی فی الصلاۃ نمبر ١٥١‘ نسائی فی الامامہ باب ٤٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٧١‘ موطا فی الجماعۃ نمبر ١٦‘ مسند احمد ٦؍٥٨۔

2303

۲۳۰۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ‘ وَیُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٣٠٣: لیث و یونس نے ابن شہاب سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2304

۲۳۰۴: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٢٣٠٤: حمید نے حضرت انس بن مالک (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2305

۲۳۰۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَیْتِہٖ وَہُوَ شَاکٍ‘ فَصَلّٰی جَالِسًا‘ فَصَلّٰی خَلْفَہٗ قَوْمٌ قِیَامًا‘ فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ أَنْ اِجْلسُوْا) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٣٠٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر میں نماز ادا فرمائی آپ کو درد کی شکایت تھی پس آپ نے بیٹھ کر نماز ادا کی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو آپ نے لوگوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
: نمبر ٢٣٩٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

2306

۲۳۰۶: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ‘ عَنْ ہِشَامِ ابْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٣٠٦: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔
: ١؍١٥٠‘ باب صلوۃ التامہ۔

2307

۲۳۰۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَلْقَمَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ أَطَاعَنِیْ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ‘ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ‘ وَمَنْ أَطَاعَ الْأَمِیْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِیْ‘ وَمَنْ عَصَی الْأَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ‘ فَإِذَا صَلّٰی قَائِمًا فَصَلُّوْا قِیَامًا‘ وَإِذَا صَلّٰی قَاعِدًا فَصَلُّوْا قُعُوْدًا) ".
٢٣٠٧: ابو علقمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے گویا میری نافرمانی کی جب امام کھڑے ہو کر نماز ادا کرے تو کھڑے ہو کر ادا کرو اور بیٹھ کر ادا کرے تو بیٹھ کر ادا کرو۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ٨٨۔

2308

۲۳۰۸: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدِ ڑ الْقُرَشِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ، فَإِذَا صَلّٰی قَاعِدًا‘ فَصَلُّوْا قُعُوْدًا أَجْمَعِیْنَ).
٢٣٠٨: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا امام تو اقتداء کے لیے بنایا گیا جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بیٹھ کر پڑھو۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ٨٧۔

2309

۲۳۰۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .مِثْلَہٗ .
٢٣٠٩: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا۔
: ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١٢٣٩۔

2310

۲۳۱۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ .ح ..
٢٣١٠: ابو بکرہ نے کہا ہمیں عبداللہ بن حمران نے بیان کیا۔

2311

۲۳۱۱: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَا : ثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی الصَّہْبَائِ الْبَاہِلِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمًا یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَوْمًا مِنَ الْأَیَّامِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِیْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہٖ، فَقَالَ لَہُمْ " أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ؟ " فَقَالُوْا : بَلَی‘ نَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ .قَالَ : (أَفْلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَنْزَلَ فِیْ کِتَابِہٖ أَنَّ مَنْ أَطَاعَنِیْ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ؟ قَالُوْا : بَلَی‘ نَشْہَدُ أَنَّہٗ مَنْ أَطَاعَک فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ .قَالَ : فَإِنَّ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ أَنْ تُطِیْعُوْنِیْ‘ وَإِنَّ مِنْ طَاعَتِیْ أَنْ تُطِیْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ‘ فَإِنْ صَلَّوْا قُعُوْدًا‘ فَصَلُّوْا قُعُوْدًا أَجْمَعِیْنَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ‘ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا‘ فَقَالُوْا : مَنْ صَلّٰی بِقَوْمٍ قَاعِدًا‘ مِنْ عِلَّۃٍ‘ صَلَّوْا خَلْفَہُ قُعُوْدًا‘ وَإِنْ کَانُوْا یُطِیْقُوْنَ الْقِیَامَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : بَلْ یُصَلُّوْنَ خَلْفَہُ قِیَامًا‘ وَلَا یَسْقُطُ عَنْہُمْ فَرْضُ الْقِیَامِ‘ لِسُقُوطِہٖ عَنْ إِمَامِہِمْ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .ح .
٢٣١١: سالم کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں ایک دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا جبکہ اور صحابہ کرام (رض) بھی موجود تھے تو آپ نے ان کو فرمایا کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں پھر فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی انھوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی فرمایا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سے یہ بات ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میری اطاعت یہ ہے کہ تم اپنے ائمہ کی اقتداء کرو اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھیں تو تم بیٹھ کر نماز پڑھو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص کسی قوم کو بیماری سے نماز پڑھائے تو ان کو بھی اس کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا چاہیے خواہ وہ قیام کی طاقت رکھتے ہوں۔ اس بات میں دوسروں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کریں اور ان سے قیام کی فرضیت اس بناء پر ساقط نہیں ہوسکتی کہ ان کے امام سے ساقط ہوگئی ہے۔ ان کی دلیل یہ ابوبشر رقی والی روایت ہے جو ذیل میں ہے۔
: المعجم الکبیر ١٢؍٣٢١‘ ترمذی باب ١٥٠ نمبر ٣٦١۔
خلاصہ کلام : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جب عذر سے بیٹھ کر نماز ادا کرے تو اس کی اقتداء کرنے والوں کو اس کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھنا چاہیے اگر وہ اس کی مخالفت کریں تو درست نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : امام اگر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں اگر بلاوجہ بیٹھیں گے تو نماز درست نہ ہوگی۔

2312

۲۳۱۲: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ .ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَا : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِیْلَ‘ قَالَ : سَافَرْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ إِلَی الشَّامِ .فَقَالَ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا مَرِضَ مَرَضَہُ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہٖ‘ کَانَ فِیْ بَیْتِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَ : اُدْعُوَا لِیْ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ۔ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَلَا نَدْعُوْ لَک أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ۔ ؟ قَالَ : اُدْعُوْہٗ۔ فَقَالَتْ حَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : أَلَا نَدْعُوْ لَک عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ قَالَ .اُدْعُوْہٗ۔ فَقَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ : أَلَا نَدْعُوْ لَکَ الْعَبَّاسَ عَمَّک؟ قَالَ : اُدْعُوْہٗ۔ فَلَمَّا حَضَرُوْا رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ قَالَ : لِیُصَلِّ لِلنَّاسِ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَتَقَدَّمَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ .وَوَجَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِہٖ خِفَّۃً‘ فَخَرَجَ یُہَادَیْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ . فَلَمَّا أَحَسَّہُ أَبُوْ بَکْرٍ‘ سَبَّحُوْا بِہٖ، فَذَہَبَ أَبُوْ بَکْرٍ یَتَأَخَّرُ‘ فَأَشَارَ إِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَانَک .فَاسْتَتَمَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ حَیْثُ انْتَہٰی أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ‘ وَأَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَائِمٌ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ .فَأَتَمَّ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَتَمَّ النَّاسُ بِأَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ۔ فَمَا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ‘ حَتَّی ثُقِلَ‘ فَخَرَجَ یُہَادَیْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ‘ وَأَنَّ رِجْلَیْہِ لَتَخُطَّانِ بِالْأَرْضِ‘ فَمَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُوصِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ائْتَمَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ .وَھٰذَا مِنْ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ قَوْلِہٖ مَا قَالَ فِی الْأَحَادِیْثِ الَّتِیْ فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ .
٢٣١٢: ارقم بن شرحبیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ مدینہ سے شام کا سفر کیا تو آپ نے فرمایا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے گھر میں تھے آپ نے فرمایا میرے لیے حضرت علی (رض) کو بلاؤ تو حضرت عائشہ (رض) نے کہا کیا ہم آپ کے لیے ابوبکر (رض) کو نہ بلا دیں ؟ آپ نے فرمایا انہی کو بلاؤ پس حفصہ (رض) کا بیان ہے کیا ہم آپ کے لیے عمر (رض) کو نہ بلا دیں فرمایا اس کو بلاؤ تو ام فضل کہتی ہیں کیا ہم آپ کے لیے آپ کے چچا عباس کو نہ بلا دیں آپ نے فرمایا ان کو بلاؤ جب یہ تمام حضرات آگئے تو آپ نے فرمایا لوگوں کو ابوبکر نماز پڑھائیں پس ابوبکر (رض) آگے بڑھے اور انھوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے کھڑے ہو کر آپ کی اقتداء کی جبکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر نماز کی امامت فرما رہے تھے۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل ہے اس کے بعد کہ وہ آپ کا قول ہے جو باب اوّل کی روایات میں گزرا۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ آرام محسوس کیا تو دو آدمیوں کے درمیان سہارا دے کر نکلے۔
فلما احسہ ابوبکر سبحوا بہ ایک نسخہ یہ ہے جب ابوبکر (رض) نے آپ کی آمد کو محسوس کیا اور لوگوں نے بھی سبحان اللہ سبحان اللہ کہا۔
فلما راہ الناس سبحوابابی بکر۔ یہ دوسرا نسخہ ہے جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے۔
پس ابوبکر پیچھے پیچھے ہٹنے لگے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنی جگہ رکنے کا اشارہ فرمایا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت کو وہیں سے شروع فرمایا جہاں سے ابوبکر نے چھوڑی تھی اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے اور ابوبکر (رض) کھڑے تھے ابوبکر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر (رض) کی۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کو مکمل کرلیا تو طبیعت بوجھل ہوگئی تو آپ وہاں سے دو آدمیوں کے سہارے نکلے اس وقت آپ کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور آپ نے کوئی وصیت و نصیحت نہیں فرمائی۔
: ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١٢٣٥۔
تنبیہ طحاوی (رح) :
یہ ابوبکر (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کھڑے ہو کر کر رہے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے گزشتہ روایات میں آپ کے جو اقوال گزرے ان کے بعد یہ آپ کا فعل ہے جو بیٹھنے والے کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کو ثابت کررہا ہے۔

2313

۲۳۱۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَبِیْ عَائِشَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقُلْتُ : أَلَا تُحَدِّثِیْنِیْ عَنْ مَرْضِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ : بَلَی‘ (کَانَ النَّاسُ عُکُوْفًا فِی الْمَسْجِدِ‘ یَنْتَظِرُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَلَاۃِ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ‘ فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی أَبِیْ بَکْرٍ أَنْ یُّصَلِّیَ بِالنَّاسِ‘ فَکَانَ یُصَلِّیْ بِہِمْ تِلْکَ الْأَیَّامِ .ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِہٖ خِفَّۃً‘ فَخَرَجَ یُہَادَیْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ لِصَلَاۃِ الظُّہْرِ‘ وَأَبُوْ بَکْرٍ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآہٗ أَبُوْ بَکْرٍ‘ ذَہَبَ لِیَتَأَخَّرَ‘ فَأَوْمٰی إِلَیْہِ أَلَّا یَتَأَخَّرَ وَقَالَ لَہُمَا أَجْلِسَانِیْ إِلٰی جَنْبِہٖ فَأَجْلَسَاہُ إِلَی جَنْبِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ۔ فَجَعَلَ أَبُوْ بَکْرٍ یُصَلِّیْ وَہُوَ قَائِمٌ‘ بِصَلَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاۃِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ .قَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فَدَخَلْتُ عَلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَعَرَضْتُ حَدِیْثَہَا عَلَیْہٖ‘ فَمَا أَنْکَرَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا) .
٢٣١٣: عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا میں نے گزارش کی کہ آپ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کے سلسلے میں بتلائیں انھوں نے حامی بھر لی۔ لوگ مسجد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے باہر تشریف لانے کے منتظر تھے تاکہ آپ عشاء کی نماز پڑھائیں پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ وہی ان (ایام مرض) میں دنوں نماز پڑھاتے رہے پھر (ایک دن) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض میں کچھ افاقہ محسوس فرمایا تو آپ دو آدمیوں کے سہارے نماز ظہر کے لیے تشریف لائے اس وقت ابوبکر (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب ابوبکر (رض) نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے پس آپ نے ان کی طرف پیچھے نہ ہٹنے کا اشارہ فرمایا اور ان دونوں کو فرمایا مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو ان دونوں نے آپ کو ابوبکر (رض) کے پہلو میں بٹھا دیا پس ابوبکر (رض) کھڑے ہو کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں نماز پڑھنے لگے اور لوگ ابوبکر (رض) کی نماز کے مطابق نماز پڑھنے لگے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس گیا اور میں نے ان کی تمام روایت ان کو سنائی تو انھوں نے اس میں سے کسی چیز کا انکار نہ کیا۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ٩٠‘ ترمذی فی الصلاۃ بابنمبر ١٥١‘ حدیث نمبر ٣٦٢٦۔
نوٹ : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت نمبر ٢٣١٢ کے موجودہ نسخہ کی عبارت بھی درست ہے۔ مترجم

2314

۲۳۱۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (لَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ ہُ بِلَالٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُؤْذِّنُہُ بِالصَّلَاۃِ فَقَالَ : ائْتُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ .قَالَتْ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ لَوْ أَمَرْت عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُصَلِّیْ بِہِمْ‘ فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ أَسِیْفٌ وَمَتَی یَقُوْمُ مَقَامَک لَمْ یُسْمَعَ النَّاسُ قَالَ : مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ فَأَمَرُوْا أَبَا بَکْرٍ‘ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ. فَلَمَّا دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ وَجَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِفَّۃً‘ فَقَامَ یُہَادَیْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ‘ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ‘ فَلَمَّا سَمِعَ أَبُوْ بَکْرٍ حِسَّہُ ذَہَبَ لِیَتَأَخَّرَ‘ فَأَوْمٰی إِلَیْہِ أَنْ صَلِّ کَمَا أَنْتَ فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی جَلَسَ عَنْ یَسَارِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ‘ وَأَبُوْ بَکْرٍ یَقْتَدِیْ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ قَائِمٌ‘ وَالنَّاسُ یَقْتَدُوْنَ بِصَلَاۃِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) .فَقَالَ قَائِلُوْنَ : لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِیْ تِلْکَ الصَّلَاۃِ مَأْمُوْمًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٢٣١٤: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت مرض کی وجہ سے بوجھل ہوگئی تو بلال (رض) نے آ کر آپ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا ابوبکر (رض) کو لاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ عمر کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ابوبکر (رض) تو بہت رقیق القلب ہیں جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگ ان کی قراءت نہ سن سکیں گے آپ نے بار دیگر فرمایا جاؤ ابوبکر (رض) کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں انھوں نے ابوبکر (رض) کو یہ پیغام دیا تو انھوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی جب وہ نماز شروع کرچکے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ تخفیف محسوس کی تو دو آدمیوں کا سہارا لے کر آپ اٹھے جبکہ آپ کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے جب حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کی آمد کو محسوس کیا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے تو آپ نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ جیسا پڑھا رہے ہو پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ابوبکر (رض) کے بائیں جانب بیٹھ گئے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر (رض) آپ کی اقتداء کر رہے تھے اس حال میں کہ ابوبکر (رض) کھڑے تھے اور لوگ ابوبکر (رض) کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس روایت میں تمہارے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس روایت کے مطابق اس نماز میں مقتدی تھے اور انھوں نے ان روایتوں کو دلیل بنایا ہے۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ٩٥‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ نمبر ١٢٣٤۔
لغآت : ثقل۔ طبیعت کا بوجھل ہونا۔ اسیف۔ جلد رونے اور غم کرنے والا۔ نرم دل۔ تخطان۔ زمین پر خط ڈالنا۔ گھسٹنا۔ حسمہ۔ محسوس کیا۔
ایک اعتراض :
آپ نے جو روایات ذکر کی ہیں ان میں بظاہر امامت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ معلوم ہوتا ہے مگر مندرجہ ذیل روایات سے امامت ابی بکر (رض) ثابت ہوتی ہے پس مدعیٰ ثابت نہ ہوسکا روایات یہ ہیں۔

2315

۲۳۱۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَرْضِہِ الَّذِیْ تُوُفِّیَ فِیْہِ‘ خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَاعِدًا .
٢٣١٥: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی حضرت ابوبکر (رض) کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائای۔
: ترمذی فی الصلاۃ باب ١٥١‘ نمبر ٣٦٢۔

2316

۲۳۱۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامٍ الرُّعَیْنِیُّ‘ أَبُوْ قُرَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدٌ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ‘ بُرْدٍ‘ مُخَالِفٌ بَیْنَ طَرَفَیْہٖ‘ فَکَانَتْ آخِرَ صَلَاۃٍ صَلَّاہَا) .
٢٣١٦: ثابت نبانی نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب ابوبکر (رض) کے پیچھے ایک کپڑے میں نماز ادا کی ہے جس کے دونوں کناروں کو اطراف میں ڈالا ہوا تھا ‘ یہ آخری نماز تھی جو آپ نے ادا فرمائی۔
: ترمذی فی الصلاۃ باب ١٥١‘ نمبر ٣٦٣۔

2317

۲۳۱۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو الْأَزْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ أَبِیْ مُوْسٰی‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (مَرِضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ‘ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ .فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیْقٌ‘ فَقَالَ : مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ‘ فَإِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ) .قَالَ : قَامَ أَبُوْ بَکْرٍ فِیْ حَیَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرُوْہُ .وَلٰـکِنَّ أَفْعَالَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاتِہٖ تِلْکَ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ إِمَامًا‘ وَذٰلِکَ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ‘ فِیْ حَدِیْثِ الْأَسْوَدِ عَنْہَا (فَقَعَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ یَسَارِ أَبِیْ بَکْرٍ) وَذٰلِکَ قُعُوْدُ الْاِمَامِ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ إِمَامًا لَہٗ‘ لَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْعُدُ عَنْ یَمِیْنِہٖ .فَلَمَّا قَعَدَ عَنْ یَسَارِہٖ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ عَنْ یَمِیْنِہِ‘ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ ہُوَ الْاِمَامُ‘ وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ ہُوَ الْمَأْمُوْمُ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ فِیْ حَدِیْثِہٖ (فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقِرَائَ ۃِ مِنْ حَیْثُ انْتَہٰی أَبُوْ بَکْرٍ) .فَفِیْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَطَعَ الْقِرَائَ ۃَ‘ وَقَرَأَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ کَانَ الْاِمَامَ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ‘ لَمْ یَقْرَأْ‘ لِأَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃَ کَانَتْ صَلَاۃً یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا عَلِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَوْضِعَ الَّذِیْ انْتَہَی إِلَیْہِ أَبُوْ بَکْرٍ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ‘ وَلَا عَلِمَہُ مَنْ خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا وَصَفْنَا أَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃَ‘ کَانَتْ مِمَّا یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ‘ وَقَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا‘ وَکَانَ النَّاسُ جَمِیْعًا لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ الْمَأْمُوْمَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ‘ کَمَا یَقْرَأُ الْاِمَامُ .ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِیْ تِلْکَ الصَّلَاۃِ إِمَامًا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ دُخُوْلَ الْمَأْمُوْمِ فِیْ صَلَاۃِ الْاِمَامِ‘ قَدْ یُوْجِبُ فَرْضًا عَلَی الْمَأْمُوْمِ‘ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ، وَلَمْ نَرَہُ یُسْقِطُ عَنْہُ فَرْضًا قَدْ کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ .فَمِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْمُسَافِرَ یَدْخُلُ فِیْ صَلَاۃِ الْمُقِیْمِ‘ فَیَحَبُّ عَلَیْہِ أَنْ یُصَلِّیَ صَلَاۃَ الْمُقِیْمِ أَرْبَعًا‘ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ وَاجِبًا عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہِ مَعَہٗ، وَإِنَّمَا أَوْجَبَہُ عَلَیْہٖ‘ دُخُوْلُہُ مَعَہٗ۔ وَرَأَیْنَا مُقِیْمًا لَوْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃِ مُسَافِرٍ‘ صَلّٰی بِصَلَاتِہٖ، حَتّٰی اِذَا فَرَغَ أَتَیْ بِتَمَامِ صَلَاۃِ الْمُقِیْمِ‘ فَلَمْ یَسْقُطْ عَنِ الْمُقِیْمِ فَرْضٌ بِدُخُوْلِہِ مَعَ الْمُسَافِرِ‘ وَکَانَ فَرْضُہُ عَلٰی حَالِہٖ غَیْرَ سَاقِطٍ مِنْہُ شَیْئٌ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الصَّحِیْحُ الَّذِیْ کَانَ عَلَیْہِ فَرْضُ الْقِیَامِ اِذَا دَخَلَ مَعَ الْمَرِیْضِ‘ الَّذِیْ قَدْ سَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْقِیَامِ فِیْ صَلَاتِہٖ، أَنْ لَا یَکُوْنَ ذٰلِکَ الدُّخُوْلُ مُسْقِطًا عَنْہُ فَرْضًا کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہِ فِی الصَّلَاۃِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْعَبْدَ الَّذِیْ لَا جُمُعَۃَ عَلَیْہِ‘ یَدْخُلُ فِی الْجُمُعَۃِ‘ فَیُجْزِیْہِ مِنَ الظُّہْرِ‘ وَیَسْقُطُ عَنْہُ فَرْضٌ قَدْ کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ مَعَ الْاِمَامِ فِیْہَا .قِیْلَ لَہٗ : ھٰذَا یُؤَکِّدُ مَا قُلْنَا‘ وَذٰلِکَ أَنَّ الْعَبْدَ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ جُمُعَۃٌ قَبْلَ دُخُوْلِہِ فِیْہَا‘ فَلَمَّا دَخَلَ فِیْہَا مَعَ مَنْ ہِیَ عَلَیْہٖ‘ کَانَ دُخُوْلُہُ إِیَّاہَا یُوْجِبُ عَلَیْہِ مَا ہُوَ وَاجِبٌ عَلٰی إِمَامِہٖ ‘ فَصَارَ بِذٰلِکَ اِذَا وَجَبَ عَلَیْہِ مَا ہُوَ وَاجِبٌ عَلٰی إِمَامِہٖ ‘ فِیْ حُکْمِ مُسَافِرٍ لَا جُمُعَۃَ عَلَیْہِ دَخَلَ فِی الْجُمُعَۃِ‘ فَقَدْ صَارَتْ وَاجِبَۃً عَلَیْہِ لِوُجُوْبِہَا عَلٰی إِمَامِہٖ ‘ وَصَارَتْ مُجْزِئَۃً عَنْہُ مِنَ الظُّہْرِ‘ لِأَنَّہَا صَارَتْ بَدَلًا مِنْہَا .فَکَذٰلِکَ الْعَبْدُ‘ لَمَّا وَجَبَتْ عَلَیْہِ الْجُمُعَۃُ بِدُخُوْلِہِ فِیْہَا أَجْزَأَتْہُ مِنَ الظُّہْرِ‘ لِأَنَّہَا صَارَتْ بَدَلًا مِنْہَا .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ دُخُوْلَ الرَّجُلِ فِیْ صَلَاۃٍ غَیْرُہٗ، قَدْ یُوْجِبُ عَلَیْہِ مَا لَمْ یَکُنْ وَاجِبًا عَلَیْہٖ‘ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ فِیْہَا‘ وَلَا یَسْقُطُ عَنْہُ‘ مَا کَانَ وَاجِبًا عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّحِیْحَ الَّذِی‘ الْقِیَامُ فِی الصَّلَاۃِ وَاجِبٌ عَلَیْہٖ‘ اِذَا دَخَلَ مَعَ مَنْ قَدْ سَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْقِیَامِ فِیْ صَلَاتِہٖ، لَمْ یَکُنْ یَسْقُطُ عَنْہُ بِدُخُوْلِہِ مِنَ الْقِیَامِ‘ مَا کَانَ وَاجِبًا عَلَیْہِ قَبْلَ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ .وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ: لَا یَجُوْزُ لِصَحِیْحٍ أَنْ یَأْتَمَّ بِمَرِیْضٍ یُصَلِّیْ قَاعِدًا‘ وَإِنْ کَانَ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ .وَیَذْہَبُ إِلٰی أَنَّ مَا کَانَ مِنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا فِیْ مَرَضِہِ بِالنَّاسِ وَہُمْ قِیَامٌ مَخْصُوْصٌ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ فَعَلَ فِیْہَا مَا لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ بَعْدَہٗ أَنْ یَفْعَلَہٗ، مِنْ أَخْذِہِ فِی الْقِرَائَ ۃِ‘ مِنْ حَیْثُ انْتَہٰی أَبُوْ بَکْرٍ‘ وَخُرُوْجِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنَ الْاِمَامَۃِ إِلٰی أَنْ صَارَ مَأْمُوْمًا فِیْ صَلَاۃٍ وَاحِدَۃٍ‘ وَھٰذَا لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِہٖ‘ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ جَمِیْعًا فَدَلَّ ذٰلِکَ‘ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ کَانَ خُصَّ فِیْ صَلَاتِہٖ تِلْکَ‘ بِمَا مُنِعَ مِنْہُ غَیْرُہٗ .
٢٣١٧: ابو بردہ بن ابو موسیٰ نے اپنے والد ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا ابوبکر (رض) کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ (میں نے کہا) ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اس پر بھی آپ نے فرمایا جاؤ لوگوں کو کہو کہ وہ ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہیں تم تو یوسف کو مشورہ دینے والیاں ہو۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) آپ کی زندگی میں (آپ کے مصلیٰ پر امامت کے لئے) کھڑے ہوئے۔ ان کے خلاف دلیل یہ ہے اگرچہ یہ روایت جس کا انھوں نے تذکرہ کیا وہ مروی ہے مگر نماز میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ امام تھے (نہ کہ مقتدی) اور وہ اس طرح کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اسود والی روایت میں فرمایا (فعقد رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن یسار ابی بکر) کہ آپ ابوبکر (رض) کے بائیں جانب بیٹھ گئے اور یہ امام کے بیٹھنے کا مقام ہے۔ اگر جناب ابوبکر (رض) امام ہوتے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دائیں جانب بیٹھتے اب جبکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بائیں جانب بیٹھے اور ابوبکر (رض) آپ کی دائیں جانب تھے۔ تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ امام تھے اور حضرت ابوبکر (رض) مقتدی تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابن عباس (رض) نے اپنی روایت میں یہ بات ذکر کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت کو وہیں سے شروع فرمایا جہاں تک ابوبکر (رض) پہنچے تھے۔ اس سے یہ دلالت میسر آئی کہ ابوبکر (رض) نے قراءت کو روک دیا اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت شروع فرمائی۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ آپ امام تھے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ قراءت نہ کرتے کیونکہ وہ ایسی نماز تھی جس میں قراءت کو جہر سے پڑھا جاتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ مقام قراءت کو نہ جان سکتے کہ کہاں ابوبکر (رض) نے قراءت کو چھوڑا ہے اور دوسرے مقتدیوں کو بھی معلوم نہ ہوسکتا۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایسی نماز تھی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں قراءت فرمائی اور اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قراءت نہ کرنا چاہیے جیسا امام قراءت کرتا ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز میں امام تھے یہ تو اس باب کے آثار کو پیش نظر رکھتے ہوئے صورت ہے۔ باقی نظر و فکر کا طریق پیش کیے دیتے ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنیادی بات جس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مقتدی امام کے ساتھ نماز میں شمولیت اختیار کرلے تو اس پر امام والے فرض کو لازم کردیتی ہے جو کہ پہلے اس پر فرض نہ تھے اور ہم یہ مقتدی کے متعلق خیال نہیں کرتے کہ اس پر جو چیز پہلے سے فرض تھی تو یہ داخل ہونا اس کے فرض کو ساقط کر دے گا۔ پس اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر کسی مقیم کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے تو اس کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ مقیم والی نماز چار رکعت ادا کرلے حالانکہ اس مقیم امام کی اقتداء سے پہلے اس پر فرض نہ تھی (صرف دو رکعت تھیں) امام کے ساتھ شمولیت نے اس پر لازم کردی اور ہم نے دیکھا کہ اگر کوئی مقیم کسی مسافر کی اقتداء میں نماز ادا کرنے لگے تو وہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھتا رہے گا جب امام اپنی نماز کو مکمل کرلے تو یہ مقیم والی نماز کی تکمیل کرے گا۔ پس مسافر امام کی اقتداء نے اس کے چار فرض کو گرا کر دو نہیں کردیا بلکہ وہ فرض اسی طرح رہیں گے اس میں ذرہ بھر حصہ ساقط نہ ہوگا۔ پس اس نظر کا تقاضا یہ ہے۔ وہ صحت مند آدمی جس پر قیام تھا جب وہ مریض کے ساتھ نماز میں شامل ہوا کہ جس مریض کا قیام والا فرض ساقط ہوچکا تو اس کی نماز میں داخلہ اس فرض کو اس سے ساقط نہ کرے گا جو داخلہ سے پہلے اس پر لازم تھا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غلام جس پر جمعہ لازم ہی نہیں اگر وہ جمعہ میں شامل ہوجائے تو وہ اس کی ظہر کی جگہ کفایت کر جائے گا اور ظہر کا فریضہ اس سے ساقط ہوجائے گا اور اس کے ذمہ سے وہ فرض ساقط ہوجائے گا جو امام کے ساتھ نماز میں داخلے سے پہلے اس پر لازم تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کی یہ بات تو ہمارے قول کی مؤید ہے اور وہ اس طرح کہ غلام پر تو امام کے ساتھ داخلے سے پہلے جمعہ لازم ہی نہ تھا پھر جب وہ امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوا تو اس کا نماز میں داخلہ ہی اس پر امام والی بات کو اس پر لازم کررہا ہے۔ پس وہ اس طرح اس مسافر کے حکم میں ہوگیا کہ جس پر جمعہ فرض نہ تھا مگر وہ امام کے ساتھ جمعہ میں شامل ہوگیا تو اب اس پر وہ چیز واجب ہوگئی جو اس کے امام پر واجب تھی اور اس کا وہ جمعہ ظہر کی بجائے کفایت کر جائے گا کیونکہ وہ ظہر کا بدل بن گیا۔ پس اسی طرح جب غلام پر امام کی نماز میں داخلہ کے بعد جمعہ لازم ہوگیا اور وہ ظہر کی جگہ کفایت کر گیا۔ کیونکہ وہ ظہر کا بدل بن گیا۔ پس ہماری اس بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کے ساتھ نماز میں شامل ہوگا تو اس کی دو حالتیں ہوں گی بعض اوقات اس سے اس پر وہ چیز واجب ہوجائے گی جو داخلہ سے پہلے اس پر لازم نہ تھی اور جو داخلہ سے پہلے اس کے ذمہ لازم ہوچکی تھی وہ اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگی (بعض اوقات دوسری صورت ہوگی جو مذکور ہوئی) اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ وہ صحت مند جس پر قیام کرنا نماز میں لازم ہے جب وہ اس مریض کے ساتھ نماز میں شامل ہو جس سے فرض قیام ساقط ہے تو امام کے ساتھ نماز میں شمولیت سے اس سے فرض قیام ساقط نہ ہوگا جو کہ پہلے اس پر لازم ہوچکا تھا اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف (رح) کا قول یہی ہے۔ امام محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ صحت مند شخص کو ایسے مریض کی اقتداء ہی درست نہیں جو بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ اگرچہ وہ رکوع و سجدہ سے نماز ادا کرتا ہو۔ ان کا رجحان اس طرف ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیٹھ کر نماز پڑھنا جبکہ صحابہ کرام (رض) حالت قیام میں تھے ‘ یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ اس لیے کہ اس میں آپ نے وہ عمل کیا جو آپ کے بعد کسی کو جائز نہیں مثلاً آپ نے قراءت اس جگہ سے شروع فرمائی جہاں تک جناب ابوبکر (رض) پہنچے تھے۔ اسی طرح دوسری بات یہ ہے کہ جناب صدیق اکبر (رض) ایک ہی نماز میں امامت سے نکل کر مقتدی بن گئے اور یہ بات اجماعی ہے کہ یہ عمل آپ کے سواء اور کسی کے لیے جائز نہیں۔ پس اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ یہ عمل جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے جو دوسروں کے لیے ممنوع ہے۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٠١۔
حاصل روایات : ان روایات ثلاثہ سے تو امامت ابوبکر (رض) معلوم ہوتی ہے اور اس میں تو کسی کو اشکال نہیں وہ بھی کھڑے تھے اور مقتدی بھی کھڑے تھے پس سابقہ روایات سے استدلال باطل ہے۔
جواب : یہ دونوں روایات بلاشبہ موجود ہیں۔
نمبر 1: مگر جن روایات پر اعتراض کیا گیا ان میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو آپ کا امام ہونا ثابت کرتے ہیں آپ بائیں طرف بیٹھے تو امام مقتدی کے بائیں طرف ہوتا ہے اور اسود کی روایت میں فقعد عن یسار ابی بکر کے الفاظ ہیں اگر ابوبکر (رض) امام ہوتے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دائیں طرف بیٹھتے آپ کا بائیں طرف بیٹھنا امامت کی واضح دلیل ہے۔
نمبر 2: روایت ابن عباس (رض) میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت کو وہیں سے شروع کیا جہاں سے ابوبکر (رض) نے چھوڑی تھی تو ابوبکر کا قراءت روک دینا اور آپ کا قراءت شروع کردینا یہ امامت کی واضح دلیل ہے اگر ابوبکر امام ہوتے تو آپ جہراً کیوں پڑھتے اور اگر جہری نماز نہ ہوتی تو آپ کو ابوبکر (رض) کی قراءت کا علم کیوں کر ہوتا اور مقتدیوں کو کیسے معلوم ہوتا کہ ابوبکر (رض) نے قراءت منقطع کردی اور آپ نے شروع کردی ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہیں ہے پس ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز میں امام تھے۔
نظر طحاوی (رح) :
مقتدی جب امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے تو اس سے مقتدی پر ایسی نماز لازم ہوجاتی ہے جو اس سے پہلے اس پر چنداں فرض نہ تھی جیسا کہ مسافر جب مقیم امام کی اقتداء کرے تو اس پر چار رکعت پوری کرنی لازم ہیں جو کہ اس پر پہلے واجب نہ تھیں اور اگر کسی پر کوئی فرض پہلے سے لازم تھا تو اقتداء امام کی وجہ سے اس میں کمی نہ آئے گی اور نہ وہ ساقط ہوگا جیسا کہ جب مقیم اگر مسافر امام کی اقتداء کرے تو مقیم کو چار رکعت لازم ہوں گی ان میں کمی نہ آئے گی بلکہ امام کی فراغت کے بعد کھڑے ہو کر وہ اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا یہ اس کو لازم ہے۔
اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوگیا کہ مقتدی پر اقتداء سے قبل جو فرض واجب ہو وہ اقتداء کے بعد بھی باقی رہتا ہے اقتداء سے ساقط نہیں ہوتا اسی لیے صحت و تندرستی والے پر قیام فرض ہے تو معذور امام کی اقتداء کی وجہ سے فرض قیام مقتدی سے کیوں کر ساقط ہوگا فلہٰذا تندرست مقتدی کا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا لازم ہے۔
ایک ضمنی سوال :
غلام پر جمعہ لازم نہیں ہے اگر وہ جمعہ پڑھ لے تو ظہر کی بجائے اس کو کافی ہوجائے گا اور اس کے ذمہ جو فرض ہے وہ اس سے ساقط ہوجائے گا حالانکہ امام کے ساتھ اس پر جمعہ واجب ہی نہ تھا۔
جواب : جب وہ امام کے ساتھ داخل ہوگیا تو اس پر اس لیے واجب ہوا کہ اس کے امام پر واجب تھا پس وہ ظہر کا بدل بن کر کافی ہوا۔
اسی طرح جب غلام پر جمعہ اس کے جمعہ میں شامل ہونے کی وجہ سے لازم ہوا اور ظہر کی طرف سے بدل کی بناء پر کافی ہوا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ آدمی جب کسی دوسرے کی نماز میں شامل ہوجائے تو کبھی اس پر وہ لازم ہ وجاتا ہے جو اس پر داخلے سے پہلے لازم نہ تھا اور اس سے وہ ساقط نہیں ہوتا جو اس پر پہلے لازم تھا پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تندرست پر تو قیام پہلے لازم ہے جب وہ اس شخص کے ساتھ نماز میں شامل ہوا جس سے قیام کا فرض ساقط ہے تو اس کے ساتھ نماز میں شامل ہونے سے اس کا اپنا فرض تو ساقط نہ ہوگا اور وہ قیام ہے۔
یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔ البتہ امام محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ تندرست کو مریض کی اقتداء درست نہیں جبکہ وہ رکوع و سجدہ کی طاقت رکھتا ہو۔
اب رہا یہ سوال کہ بہت سی روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایام مرض میں بیٹھ کر صحابہ کو نماز پڑھانا ثابت ہے جبکہ صحابہ کرام قیام کی حالت میں تھے تو وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات آپ کے ساتھ مخصوص ہے اس میں کئی ایسے افعال بھی ثابت ہیں جو اور کسی کو جائز نہیں مثلاً آپ نے اسی جگہ سے قراءت شروع کردی جہاں سے حضرت ابوبکر (رض) نے چھوڑی اور ایک ہی نماز میں ابوبکر (رض) امام تھے پھر وہ مقتدی بن گئے اور یہ باتیں سب کے ہاں آپ کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں ہیں اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ نماز آپ کے ساتھ مخصوص اور دوسروں کو ایسا کرنا درست نہیں۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) نے فریق ثانی کے مؤقف کو دلیل سے خوب ثابت و مضبوط کیا مگر اس باب میں ایک انوکھا انداز یہ رکھا کہ امام محمد (رح) کا مسلک بیان کر کے فقط ان کی دلیل تو پیش کردی مگر اس کے متعلق سوال و جواب سے اپنے قلم کو روک لیا شاید ان کا بھی تخصیص کی طرف میلان ہو واللہ اعلم۔

2318

۲۳۱۸ : مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ عَمْرٍو‘ قَالَ .أَخْبَرَنِیْ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ مُعَاذًا کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَائَ ‘ ثُمَّ یَنْصَرِفُ إِلٰی قَوْمِہٖ فَیُصَلِّیَہَا بِہِمْ‘ ہِیَ لَہٗ تَطَوُّعٌ‘ وَلَہُمْ فَرِیْضَۃٌ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ‘ أَنَّ ابْنَ عُیَیْنَۃَ قَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ کَمَا رَوَاہُ ابْنُ جُرَیْجٍ‘ وَجَائَ بِہٖ تَامًّا‘ وَسَاقَہُ أَحْسَنَ مِنْ سِیَاقِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ فِیْہٖ‘ ھٰذَا الَّذِیْ قَالَہُ ابْنُ جُرَیْجٍ ((ہِیَ لَہٗ تَطَوُّعٌ‘ وَلَہُمْ فَرِیْضَۃٌ) .فَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ قَوْلِ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ قَوْلِ جَابِرٍ .فَمِنْ أَیِّ ہٰؤُلَائِ الثَّلَاثَۃِ کَانَ الْقَوْلُ‘ فَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی حَقِیْقَۃِ فِعْلِ مُعَاذٍ أَنَّہٗ کَذٰلِکَ‘ أَمْ لَا‘ لِأَنَّہُمْ لَمْ یَحْکُوْا ذٰلِکَ عَنْ مُعَاذٍ‘ إِنَّمَا قَالُوْا قَوْلًا‘ عَلٰی أَنَّہٗ عِنْدَہُمْ کَذٰلِکَ‘ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ فِی الْحَقِیْقَۃِ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .وَلَوْ ثَبَتَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ مُعَاذٍ‘ لَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ کَانَ بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ أَخْبَرَہٗ بِہٖ لَأَقَرَّہُ عَلَیْہِ أَوْ غَیْرُہٗ .وَھٰذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَمَّا أَخْبَرَہُ رِفَاعَۃُ بْنُ رَافِعٍ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُجَامِعُوْنَ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا یَغْتَسِلُوْنَ‘ حَتّٰی یُنْزِلُوْا .فَقَالَ لَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَأَخْبَرْتُمَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ‘ فَرَضِیَہُ لَکُمْ؟‘ قَالَ : لَا‘ فَلَمْ یَجْعَلْ ذٰلِکَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حُجَّۃً .فَکَذٰلِکَ ھٰذَا الْفِعْلُ‘ لَوْ ثَبَتَ أَنَّ مُعَاذًا فَعَلَہٗ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ (أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَائَ) ، ثُمَّ یَرْجِعُ فَیُصَلِّیَہَا بِقَوْمِہٖ فِیْ بَنِیْ أَسْلَمَۃَ .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ بَابِ الْقِرَائَ ۃِ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ یُصَلِّی النَّافِلَۃَ‘ وَیَأْتَمَّ بِہٖ مَنْ یُصَلِّی الْفَرِیْضَۃَ‘ وَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْأَثَرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِرَجُلٍ أَنْ یُصَلِّیَ فَرِیْضَۃً خَلْفَ مَنْ یُصَلِّیْ نَافِلَۃً .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ مُعَاذٍ ھٰذَا أَنَّ مَا کَانَ یُصَلِّیْہِ بِقَوْمِہٖ، کَانَ نَافِلَۃً لَہٗ أَوْ فَرِیْضَۃً .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ‘ کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَافِلَۃً‘ ثُمَّ یَأْتِیْ قَوْمَہٗ فَیُصَلِّیْ بِہِمْ فَرِیْضَۃً‘ فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ‘ فَلاَ حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرِیْضَۃً‘ ثُمَّ یُصَلِّیْ بِقَوْمِہِ تَطَوُّعًا کَمَا ذَکَرْتُمْ .فَلَمَّا کَانَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ یَحْتَمِلُ الْمَعْنَیَیْنِ‘ لَمْ یَکُنْ أَحَدُہُمَا أَوْلٰی مِنَ الْآخَرِ‘ وَلَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَصْرِفَہٗ إِلٰی أَحَدِ الْمَعْنَیَیْنِ دُوْنَ الْمَعْنَی الْآخَرِ إِلَّا بِدَلَالَۃٍ تَدُلُّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ .فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا فِیْ بَعْضِ الْآثَارِ أَنَّ مَا کَانَ یُصَلِّیْہِ بِقَوْمِہِ ہُوَ تَطَوُّعٌ‘ وَأَنَّ مَا کَانَ یُصَلِّیْہِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرِیْضَۃٌ وَذَکَرُوْا فِیْ ذَلِکَ۔
٢٣١٨: عمرو بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے بتلایا کہ معاذ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عشاء پڑھتے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ کر ان کو نماز پڑھاتے یہ معاذ کی نفلی نماز ہوتی اور ان کی فرض ہوتی۔ دوسرے قول والوں کے ہاں قول اوّل کے قائلین پر حجت یہ ہے۔ اس روایت کو ابن عیینہ سے عمرو بن دینار سے روایت کیا جیسا کہ ابن جریج نے روایت کیا ہے مگر انھوں نے اس کو روایت ابن جریج سے زیادہ عمدہ اور مکمل ذکر کیا اور دوسرا فریق یہ ہے کہ انھوں نے ” ھی لہ تطوع و لھم فریضۃ “ کے الفاظ سرے سے نقل ہی نہیں کیے۔ پس اس میں احتمال یہ ہے کہ یہ ابن جریج کا قول ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمرو بن دینار کا قول ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ جابر (رض) کا قول ہو۔ پس ان تینوں حضرات میں سے جس کا بھی قول ہو اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ معاذ (رض) کے فعل کی حقیقت ہو کہ وہ واقعہ میں اسی طرح تھا یا نہیں ‘ کیونکہ انھوں نے یہ بات معاذ (رض) سے نقل نہیں کی انھوں نے ایک بات کہی ہے کہ ہمارے ہاں یہ اسی طرح ہے۔ عین ممکن ہے کہ حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اگر بالفرض یہ بات حضرت معاذ (رض) سے بھی ثابت ہوجائے تب بھی اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ آپ کے حکم و ارشاد سے تھا اور نہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع کرتے تو آپ اس پر قائم رکھتے یا کوئی دوسری بات ہوتی۔ لو یہ حضرت عمر (رض) ہیں کہ جب حضرت رفاعہ بن رافع (رض) نے ان کو بتلایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جماع کرتے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل نہ کرتے تھے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا کہ کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی اور آپ نے اسے تمہاری خاطر پسند کیا۔ انھوں نے عرض کیا نہیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان کے فعل کو حجت قرار نہیں دیا۔ پس یہ فعل بھی اسی طرح ہے۔ بالفرض اگر ثابت ہو بھی جائے کہ حضرت معاذ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایسا کیا تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انھوں نے ایسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے کیا اور ہم نے تو اس کے خلاف بات پر دلالت کرنے والے کئی ارشادات آپ سے نقل کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز عشاء ادا کرتے پھر لوٹ کر بنو سلمہ میں اپنے لوگوں کو نماز پڑھاتے یہ روایت ہم ” باب القراء ۃ فی صلوۃ المغرب “ میں ذکر کرچکے ہیں۔ (بخاری باب ٦، مسلم نمبر ١٧٨) ۔ بعض علماء کا رجحان اس طرف ہے کہ جو شخص نماز نفل ادا کررہا ہو تو فرض پڑھنے والا اس کی اقتداء کرسکتا ہے۔ انھوں نے اس روایت کو اپنا مستدل بنایا۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی متنفل کے پیچھے مفترض کو قطعاً نماز درست نہیں اور انھوں نے کہا کہ حضرت معاذ (رض) کی روایت میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ جو کچھ وہ اپنی قوم کو پڑھاتے تھے وہ نفل تھے یا فرض ‘ ممکن ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نفل پڑھتے ہوں اور پھر اپنی قوم بنی سلمہ میں آ کر ان کو فرض پڑھاتے ہوں۔ اگر یہ بات اسی طرح ہو تو پھر اس روایت میں تمہارے حق کی کوئی دلیل نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فرض ادا کرتے ہوں پھر اپنی قوم کو نفل پڑھاتے ہوں جیسا کہ تم کہتے ہو۔ پس جب یہ روایت دو معنوں کا احتمال رکھتی ہے اور ان دونوں احتمالات میں کوئی دوسرے سے اولیٰ نہیں اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دلالت کے بغیر ایک کو ترک کر کے دوسرے کو متعین کرلے۔ چنانچہ پہلے قول والوں نے کہا کہ بعض آثار ایسے ملتے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو نماز نفل پڑھاتے تھے اور جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ادا کرتے وہ فرض تھے ‘ چنانچہ انھوں نے ذیل کی روایات ذکر کی ہیں۔
خلاصۃ الزام :
نمبر 1: امام شافعی (رح) وعطاء (رح) فرض پڑھنے والے کو نفل پڑھنے والے کی اقتداء درست ہے۔
نمبر 2: احناف و مالکیہ وحنابلہ کے ہاں مفترض کو متنفّل (نفل پڑھنے والا) کی اقتداء درست نہیں۔
مؤقف فریق اوّل : کہ مفترض کو متنفل کی اقتداء درست ہے اس کی دلیل یہ روایت ہے جو باب القراء ۃ فی صلوۃ المغرب میں گزر چکی ہے۔
جابر بن عبداللہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ معاذ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتے پھر لوٹ کر بنی سلمہ میں اپنی قوم کو جماعت کراتے۔
: بخاری باب ٦٠‘ مسلم نمبر ١٧٨۔
حاصل کلام :
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی ایک دفعہ فرض پڑھے پھر نفل پڑھے اور فرض والوں کی امامت کرائے تو ان کی نماز درست ہوگی۔
فریق ثانی کا جواب : فرض اس کے پیچھے درست نہیں جو نفل پڑھتا ہو اس اثر میں کوئی اشارہ نہیں کہ وہ اپنی قوم کو فرض پڑھاتے تھے یا نفل اس میں کئی احتمال ہیں۔
نمبر 1: یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے ساتھ وہ نفل کی نیت کرتے ہوں اور اپنی قوم کو آ کر فرض پڑھاتے ہوں اگر یہ بات درست ہو تو یہ تمہاری دلیل نہ رہی۔
نمبر 2: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فرض پڑھتے ہوں پھر اپنی قوم کو نفل پڑھاتے ہوں جیسا تم نے کہا جب ہر دو احتمال ہیں اور کوئی قرینہ موجود نہیں جو ایک احتمال کو متعین کرے۔
ایک اشکال :
ہم ایسے آثار کی راہنمائی کرسکتے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو نفل پڑھاتے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فرض ادا کرتے تھے۔ اثر ملاحظہ ہو۔
عمرو بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے بتلایا کہ معاذ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عشاء پڑھتے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ کر ان کو نماز پڑھاتے یہ معاذ کی نفلی نماز ہوتی اور ان کی فرض ہوتی۔ دوسرے قول والوں کے ہاں قول اوّل کے قائلین پر حجت یہ ہے۔ اس روایت کو ابن عیینہ سے عمرو بن دینار سے روایت کیا جیسا کہ ابن جریج نے روایت کیا ہے مگر انھوں نے اس کو روایت ابن جریج سے زیادہ عمدہ اور مکمل ذکر کیا اور دوسرا فریق یہ ہے کہ انھوں نے ” ھی لہ تطوع و لھم فریضۃ “ کے الفاظ سرے سے نقل ہی نہیں کیے۔ پس اس میں احتمال یہ ہے کہ یہ ابن جریج کا قول ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمرو بن دینار کا قول ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ جابر (رض) کا قول ہو۔ پس ان تینوں حضرات میں سے جس کا بھی قول ہو اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ معاذ (رض) کے فعل کی حقیقت ہو کہ وہ واقعہ میں اسی طرح تھا یا نہیں ‘ کیونکہ انھوں نے یہ بات معاذ (رض) سے نقل نہیں کی انھوں نے ایک بات کہی ہے کہ ہمارے ہاں یہ اسی طرح ہے۔ عین ممکن ہے کہ حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اگر بالفرض یہ بات حضرت معاذ (رض) سے بھی ثابت ہوجائے تب بھی اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ آپ کے حکم و ارشاد سے تھا اور نہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع کرتے تو آپ اس پر قائم رکھتے یا کوئی دوسری بات ہوتی۔ لو یہ حضرت عمر (رض) ہیں کہ جب حضرت رفاعہ بن رافع (رض) نے ان کو بتلایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جماع کرتے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل نہ کرتے تھے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا کہ کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی اور آپ نے اسے تمہاری خاطر پسند کیا۔ انھوں نے عرض کیا نہیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان کے فعل کو حجت قرار نہیں دیا۔ پس یہ فعل بھی اسی طرح ہے۔ بالفرض اگر ثابت ہو بھی جائے کہ حضرت معاذ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایسا کیا تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انھوں نے ایسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے کیا اور ہم نے تو اس کے خلاف بات پر دلالت کرنے والے کئی ارشادات آپ سے نقل کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
اس اثر سے یہ بات معین ہوگئی کہ حضرت معاذ خود نفل پڑھتے اور ان کو فرض پڑھاتے تھے۔
مؤقف فریق ثانی اور دلائل و جوابات دلائل : فرض پڑھنے والے کو نفل والے کی اقتداء جائز نہیں۔
جوا ب اثر سابق : اس روایت کو ابن عیینہ نے عمرو بن دینار سے نہایت کامل انداز سے نقل کیا بلکہ ابن جریج سے بہتر بیان کیا البتہ اس نے اس میں ہی لہ تطوع ولہم فریضۃ کا لفظ ذکر نہیں کیا پس اب عین ممکن ہے کہ یہ راوی ابن جریج کے الفاظ ہوں یا عمرو بن دینار کے یا جابر (رض) کا قول ہو۔
ہر سہ صورت میں معاذ کا قول تو نہیں بنتا کیونکہ ان سے نقل نہیں کیا پس انھوں نے اپنے طور پر گمان سے یہ بات کہی ممکن ہے کہ حقیقت اس کے خلاف ہو۔
بالفرض اگر یہ معاذ کا قول بھی ہو تو تب بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ایسے کرتے تھے یا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر و طلاع دی تھی کہ آپ اس پر ان کو برقرار رکھیں یا بدل دیں۔
یہ عمر بن خطاب (رض) ہیں جب ان کو رفاعہ بن رافع (رض) نے خبر دی کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جماع کرتے انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل نہ کرتے تھے تو عمر (رض) نے رفاعہ (رض) سے پوچھا کیا تم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی اور آپ نے اس پر رضامندی ظاہر فرمائی تو انھوں نے جواب دیا نہیں تو عمر (رض) نے اس دلیل کو ماننے سے انکار کردیا۔
: مسند احمد ٥؍١١٥۔
پس اس قول و فعل کا بھی حال یہی ہے کہ اگر بالفرض اس کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کرنا ثابت ہو بھی جائے تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے تھا۔
اس کے خلاف روایات آگے ملاحظہ ہوں۔

2319

۲۳۱۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحِ ڑالْوُحَاظِیُّ .ح .
٢٣١٩: فہد نے یحییٰ بن صالح و حاظی سے روایت کی ہے۔
: مسند احمد ٥؍٧٤۔

2320

۲۳۲۰: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنُ قُعْنُبٍ‘ قَالَا : ثَنَا سُلَیْمَانُ ابْنُ بِلَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی الْمَازِنِیُّ‘ عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ الزُّرَقِیُّ‘ (أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ سَلِمَۃَ یُقَالُ لَہٗ سَلِیْمٌ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالَ : إِنَّا نَظَلُّ فِیْ أَعْمَالِنَا‘ فَنَأْتِی حِیْنَ نُمْسِیْ، فَنُصَلِّیْ فَیَأْتِی مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ‘ فَیُنَادَیْ بِالصَّلَاۃِ‘ فَنَأْتِیْہِ فَیُطَوِّلُ عَلَیْنَا .فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا مُعَاذُ لَا تَکُنْ فَتَّانًا‘ إِمَّا أَنْ تُصَلِّیَ مَعِیْ، وَإِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ عَنْ قَوْمِکَ) .فَقَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا لِمُعَاذٍ‘ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ - عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - کَانَ یَفْعَلُ أَحَدَ الْأَمْرَیْنِ‘ إِمَّا الصَّلَاۃَ مَعَہٗ، أَوْ بِقَوْمِہٖ، وَأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَجْمَعُہَا‘ لِأَنَّہٗ قَالَ : (إِمَّا أَنْ تُصَلِّیَ مَعِیْ) أَیْ وَلَا تُصَلِّ بِقَوْمِکَ (وَإِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ بِقَوْمِکَ) أَیْ وَلَا تُصَلِّ مَعِی .فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ ‘ وَکَانَ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ مَا ذَکَرْنَا‘ ثَبَتَ بِھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ لِمُعَاذٍ شَیْئٌ مُتَقَدِّمٌ‘ وَلَا عَلِمْنَا أَنَّہٗ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مِنْہُ شَیْئٌ مُتَأَخِّرٌ‘ فَیَجِبُ بِہٖ الْحُجَّۃُ عَلَیْنَا .وَلَوْ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْرٌ‘ کَمَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ وَقْتٍ مَا کَانَتَ الْفَرِیْضَۃُ تُصَلّٰی مَرَّتَیْنِ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ قَدْ کَانَ یُفْعَلُ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ حَتّٰی نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہِ فِیْ بَابِ صَلَاۃِ الْخَوْفِ .فَفِعْلُ مُعَاذٍ‘ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ قَبْلَ النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ کَانَ النَّہْیُ فَنَسَخَہٗ‘ وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَجْعَلَہُ فِیْ أَحَدِ الْوَقْتَیْنِ إِلَّا کَانَ لِمُخَالِفِہِ أَنْ یَجْعَلَہُ فِی الْوَقْتِ الْآخَرِ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ. وَأَمَّا حُکْمُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا صَلَاۃَ الْمَأْمُوْمِیْنَ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاۃِ إِمَامِہِمْ بِصِحَّتِہَا وَفَسَادِہَا یُوْجِبُ ذٰلِکَ النَّظَرُ الصَّحِیْحُ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْاِمَامَ اِذَا سَہَا وَجَبَ عَلٰی مَنْ خَلْفَہُ لِسَہْوِہِ‘ مَا وَجَبَ عَلَیْہٖ‘ وَلَوْ سَہَوْا ہُمْ‘ وَلَمْ یَسْہُ ہُوَ‘ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِمْ مَا یَجِبُ عَلَی الْاِمَامِ اِذَا سَہَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْمَأْمُوْمِیْنَ یَجِبُ عَلَیْہِمْ حُکْمُ السَّہْوِ لِسَہْوِ الْاِمَامِ‘ وَیَنْتَفِیْ عَنْہُمْ حُکْمُ السَّہْوِ بِانْتِفَائِہِ عَنِ الْاِمَامِ‘ ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ‘ حُکْمُ الْاِمَامِ فِیْ صَلَاتِہٖ، وَکَأَنَّ صَلَاتَہُمْ مُضَمَّنَۃٌ بِصَلَاتِہٖ .وَلَمَّا کَانَتْ صَلَاتُہُمْ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاتِہٖ، لَمْ یَجُزْ أَنْ یَّکُوْنَ صَلَاتُہُمْ خِلَافَ صَلَاتِہٖ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ‘ أَنَّ الْمَأْمُوْمَ لَا یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ صَلَاتُہُ خِلَافَ صَلَاۃِ إِمَامِہٖ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ لَمْ یَخْتَلِفُوْا أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُصَلِّیَ تَطَوُّعًا خَلْفَ مَنْ یُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً‘ فَکَمَا کَانَ الْمُصَلِّیْ تَطَوُّعًا‘ یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یَأْتَمَّ بِمَنْ یُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً‘ کَانَ کَذٰلِکَ‘ یَجُوْزُ لِلْمُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً أَنْ یُصَلِّیَہَا خَلْفَ مَنْ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ سَبَبَ التَّطَوُّعِ‘ ہُوَ بَعْضُ سَبَبِ الْفَرِیْضَۃِ‘ وَذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ یَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَلَا یُرِیْدُ شَیْئًا غَیْرَ ذٰلِکَ‘ مِنْ نَافِلَۃٍ وَلَا فَرِیْضَۃٍ‘ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ دَاخِلًا فِیْ نَافِلَۃٍ‘ وَإِذَا نَوَی الدُّخُوْلَ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَنَوَی الْفَرِیْضَۃَ کَانَ بِذٰلِکَ دَاخِلًا فِی الْفَرِیْضَۃِ‘ فَصَارَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ دَاخِلًا فِی الْفَرِیْضَۃِ‘ بِالسَّبَبِ الَّذِیْ دَخَلَ بِہٖ فِی النَّافِلَۃِ‘ وَبِسَبَبٍ آخَرَ‘ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ‘ کَانَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا‘ وَہُوَ یَأْتَمُّ بِمُصَلٍّ فَرِیْضَۃً‘ ہُوَ فِیْ صَلَاۃٍ لَہٗ فِیْ کُلِّہَا إِمَامٌ‘ وَالَّذِیْ یُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً‘ وَیَأْتَمُّ بِمِنْ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا ہُوَ فِیْ صَلَاۃِ لَہٗ فِیْ بَعْضِ سَبَبِہَا الَّذِیْ بِہٖ دَخَلَ فِیْہَا إِمَامٌ‘ وَلَیْسَ لَہٗ فِیْ بَقِیَّتِہِ إِمَامٌ‘ فَلَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلّٰی بِالنَّاسِ جُنُبًا‘ فَأَعَادَ وَلَمْ یُعِیْدُوْا‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ صَلَاتَہُمْ لَمْ تَکُنْ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاتِہٖ. فَقَالَ مُخَالِفُہُمْ : إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ لَمْ یَتَیَقَّنْ بِالْجَنَابَۃِ کَانَتْ مِنْہُ قَبْلَ الصَّلَاۃِ‘ فَأَخَذَ لِنَفْسِہٖ بِالْحَوْطَۃِ‘ فَأَعَادَ وَلَمْ یَأْمُرْ غَیْرَہٗ بِالْاِعَادَۃِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٢٣٢٠: معاذ بن رفاعہ زرقی کہتے ہیں کہ بنی سلمہ کا ایک آدمی جس کو سلیم کہا جاتا تھا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا ہم اپنے کام کاج میں دن گزارتے ہیں شام کے وقت ہم لوٹتے ہیں تو ہم نماز پڑھتے ہیں معاذ آ کر اذان دیتے پس ہم نماز کے لیے آتے ہیں تو وہ طویل قراءت کرتے ہیں تو اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ ! تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنے والے مت بنو یا تو تم میرے ساتھ نماز پڑھو۔ یا اپنی قوم پر قراءت میں تخفیف کرو۔ پس جناب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاذ (رض) کو یہ فرمانا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کریں یا تو میرے ساتھ نماز پڑھیں یا اپنی قوم کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان دونوں کو جمع نہ کریں کیونکہ آپ نے فرمایا : ” اما ان تصلی معی “ یا تو میرے ساتھ نماز پڑھ یعنی اپنی قوم کے ساتھ نماز نہ پڑھ ” و اما ان تخفف بقومک “ یعنی میرے ساتھ نماز نہ پڑھ اور اپنی قوم کو ہلکی نماز پڑھاؤ۔ جب اس اثر اوّل میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں سے کوئی چیز نہیں ہے اور ہم نے جو روایت ذکر کی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے معاذ (رض) کو کوئی بات پہلے نہیں کہی گئی تھی اور جہاں تک ہمارا علم ہے بعد میں بھی کوئی بات معاذ کو نہیں فرمائی کہ جس سے ہمارے خلاف کچھ ثبوت ملتا ہو۔ اگر اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی حکم ہوتا جیسا پہلے قول والوں کا دعویٰ ہے تو اس میں یہ احتمال لازم ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہو جب فرض کو دو مرتبہ پڑھنا درست تھا ابتداء اسلام میں ایسا تھا پھر آپ نے اس کی ممانعت کردی۔ جیسا کہ تفصیل کے ساتھ مستند روایات ہم ” باب صلوۃ الخوف “ میں ذکر کر آئے۔ پس حضرت معاذ (رض) کا یہ عمل جس کا شروع باب میں ہم نے تذکرہ کیا اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ یہ ممانعت سے پہلے کا معاملہ ہو۔ پھر نہی نے آ کر اسے منسوخ کردیا اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس کے بعد کا واقعہ ہو کسی فریق کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کو ایک وقت میں مقرر کر کے اپنی دلیل بنائے۔ بلکہ ہر ایک دلیل بنانا برابر ہے۔ آثار کے پیش نظر تو اس باب کا حکم یہی ہے۔ مگر اس کا نظر و فکر کے لحاظ سے جو حکم بنتا ہے وہ پیش خدمت ہے۔ یہ بات تو ہمارے سامنے ہے کہ مقتدیوں کی نماز تو اپنے امام کی نماز سے صحت و فساد کے لحاظ سے ملی ہوئی ہے۔ یہ صحیح فکر کو اس طرح لازم کرتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب امام بھول جائے تو اس کا یہ بھولنا اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے پر اس چیز کو لازم کر دے گا جو خود امام پر لازم ہوئی۔ حالانکہ مقتدیوں کو خود بھول تو نہیں ہوئی اور مقتدی بھول جائے تو اس پر اور اس کے امام پر کچھ لازم نہیں۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام کے بھول جانے سے مقتدیوں پر سہو کا حکم لگ جاتا ہے اور بھول کا حکم امام سے اٹھ جائے تو مقتدیوں پر بھی نہیں رہتا۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مقتدیوں کا حکم ان کی اپنی نماز میں ان کے امام کی نماز کا حکم ہے۔ گویا کہ مقتدیوں کی نماز کا وہ ضامن ہے۔ تو جب مقتدیوں کی نماز امام کی نماز سے ملی ہوئی ہے تو پھر یہ درست نہ رہا کہ مقتدیوں کی نماز امام کی نماز کے مخالف ہو۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقتدی کی نماز امام کی نماز کے مخالف نہ ہونی چاہیے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم یہ بات اتفاقی طور پر پاتے ہیں کہ نفل نماز فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں درست ہے۔ پس جس طرح نفل پڑھنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ فرض پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اسی طرح فرض پڑھنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ ان کو نوافل پڑھنے والے کی اقتداء میں ادا کرلے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ نفل کا سبب فرض کے سبب کا بعض حصہ ہے اور وہ اس طرح کہ جو شخص نماز میں داخل ہو اور اس کی نیت نفل و فرض میں سے کسی کی نہ ہو تو اسے نفل پڑھنے والا شمار کیا جائے گا اور جب اس نے نماز میں داخل ہونے کی نیت کی اور فرض کی نیت کی تو اسے فرض میں داخل ہونے والا شمار کیا جائے گا۔ تو گویا جس سبب سے نفل سے میں داخل ہوا اس سبب سے بھی وہ فرض میں داخل ہونے والا ہوگا اور دوسرے سبب سے بھی۔ پس جب یہ بات اسی طرح ہی ہے تو وہ شخص جو نفل پڑھ رہا ہو اور وہ فرض ادا کرنے والے کا مقتدی بن جائے تو وہ گویا وہ ایسی نماز میں ہے جس کی تمام رکعات میں وہ مقتدی ہے اور وہ شخص جو فرض پڑھ رہا ہو اور وہ ایسے شخص کی اقتداء اختیار کرے جو نفل پڑھ رہا ہے تو وہ ایسی نماز میں مشغول ہے کہ جس کے بعض سبب کو اس کا امام پانے والا ہے اس میں تو یہ اس کی اقتداء کرنے والا ہے اور جو سبب اس میں موجود نہیں اس میں یہ اس کا مقتدی نہیں۔ پس یہ اقتداء جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ‘ انھوں نے تو نماز کا اعادہ کیا مگر لوگوں نے اعادہ نہیں کیا۔ اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کی ضامن نہیں ہے۔ اس کا جواب قول اوّل والوں کو یہ دیا گیا کہ ان کو جنابت پر یقین نہ تھا کہ وہ نماز سے قبل پیش آئی یا نماز کے بعد۔ تو انھوں نے اپنی ذات کے لیے احتیاطی پہلو کو اختیار کیا اور نماز کا اعادہ کرلیا اور لوگوں کو عدم تیقن کی وجہ سے اعادہ کا حکم نہ فرمایا۔ آثار ذیل ملاحظہ ہوں۔
: المعجم الکبیر ٧؍٦٧۔
حاصل کلام :
نمبر 1: پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں دو میں سے ایک کام کرتے تھے۔
نمبر آپ کے ساتھ نماز یا قوم کے ساتھ نماز۔ وہ ان کو جمع نہ کرتے تھے کیونکہ آپ نے فرمایا : اما ان تصلی معی یعنی اپنی قوم کو مت نماز پڑھاؤ صرف میرے ساتھ پڑھو۔ واما تخفف بقومک یعنی میرے ساتھ نماز نہ پڑھو صرف ان کو نماز پڑھاؤ۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کوئی بات ایسی ثابت نہیں جس سے ہم پر حجت لازم ہو۔
بالفرض اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کوئی روایت مل جائے تو اس کا تعلق اس زمانے سے ہوگا جب ایک فرض کو دو مرتبہ ادا کیا جاسکتا تھا ابتداء اسلام میں یہ درست تھا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع کردیا اور باب صلوۃ الخوف میں وہ روایات مذکور ہوئیں پس اس کے مطابق معاذ (رض) کا یہ فعل نسخ سے پہلے کا ہوگا۔
پھر نہی نے منسوخ کردیا اور بعد کا بھی احتمال ہے اس کو کسی ایک وقت سے متعلق کرنے کا اختیار کسی کو نہیں جب ایک فریق ایک وقت مقرر کرے گا تو دوسرے فریق کو دوسرا متعین کرنے کا حق ہے۔
آثار کے پیش نظر تو اس باب کا یہ حکم ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
غور سے دیکھا کہ مقتدیوں کی نماز کے درست و فاسد ہونے کا مدار امام کی نماز پر ہے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب امام بھول جائے تو مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہے جو امام پر لازم ہوا اور اگر مقتدی بھول جائیں اور امام کو بھول نہ ہوئی تو امام پر کچھ بھی لازم نہیں اور نہ مقتدیوں پر۔
پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ مقتدیوں کے سہو کا مدار امام کے سہو پر ہے اور امام پر سہو نہ ہو تو مقتدیوں پر سہو نہیں اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی نماز کا وہی حکم ہے جو ان کے امام کی نماز کا حکم ہے گویا ان کی نماز امام کی نماز میں متضمن ہے جب امام کی نماز ان کی نماز کو متضمن ہے تو پھر یہ درست نہ ہوا کہ ان کی نماز امام کی نماز کے خلاف ہو پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقتدی کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی نماز اپنے امام کی نماز کے خلاف ہو۔
ایک سرسری اشکال : اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ متنفل تو مفترض کے پیچھے اقتداء کرسکتا ہے تو اسی طرح متنفل کے پیچھے بھی مفترض کی اقتداء درست ہونی چاہیے۔
جواب : نوافل کا سبب فرائض کے سبب کا بعض حصہ ہے وہ اس طرح کہ جو شخص مطلقاً نماز کی نیت کرے فرض و نفل کی خاص نیت نہ ہو تو وہ نفل پڑھنے والا شمار ہوتا ہے جب فرض نماز میں داخل ہوا تو تب داخل سمجھا جائے گا پس وہ اس سبب اور دیگر سبب سے فرض میں داخل ہونے والا شمار ہوگا جب یہ بات مسلم ہے تو نفل پڑھنے والا جب فرض پڑھنے والے کی اقتداء کرے گا تو وہ مفترض مکمل نماز میں اس کا امام ہوگا اور جو متنفل مفترض کی اقتداء کرے تو وہ بعض نماز میں تو اپنے امام کا مقتدی ہے اور وہ صرف وہی سبب ہے جس سے وہ نماز میں داخل ہوا اور بقیہ میں امام نہ بنے گا تو اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
ایک اور اشکال :
ہم نے روایات میں یہ بات پائی کہ حضرت عمر (رض) سے لوگوں کو جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی تھی معلوم ہونے پر انھوں نے نماز کا اعادہ کیا مگر لوگوں نے اعادہ نہیں کیا اس سے ثابت ہوا کہ عمر (رض) کی نماز ان کی نماز کو متضمن نہ تھی۔
جواب : آپ نے احتیاطاً نماز کو دھرایا تھا ان کو یقین نہ تھا کہ یہ جنابت نماز سے پہلے واقع ہوئی یا بعد میں اسی وجہ سے دوسروں کو اعادہ کرنے کا حکم نہیں فرمایا روایت آگے ملاحظہ ہو۔

2321

۲۳۲۱: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائِ ڑ الْغُدَانِیُّ‘ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنْ زُبَیْدِ بْنِ الصَّلْتِ‘ قَالَ : قَالَ عُمَرُ (أَرَانِیْ قَدِ احْتَلَمْتُ وَمَا شَعَرْتُ، وَصَلَّیْتُ وَمَا اغْتَسَلْتُ) ثُمَّ قَالَ : (أَغْتَسِلُ مَا رَأَیْتُ وَأَنْضَحُ مَا لَمْ أَرَ) ثُمَّ أَقَامَ فَصَلّٰی مُتَمَکِّنًا وَقَدِ ارْتَفَعَ الضُّحٰی .
٢٣٢١: عروہ نے زبید بن ا لصلت سے روایت کی ہے کہ عمر (رض) کہنے لگے میرا خیال ہے کہ مجھے احتلام ہوگیا اور مجھے معلوم نہیں ہوسکا اور میں نے بلاغسل نماز پڑھ لی ہے پھر فرمایا میں اس کو دھو لیتا ہوں جو گندگی نظر آتی ہے اور جو نظر نہیں آتی (اس پر وہم ہے تو وہاں ازالہ وہم کے لئے) چھینٹے دے لیتا ہوں پھر اقامت کہہ کر اطمینان سے نماز ادا کی جبکہ چاشت کا وقت ہوچکا تھا۔
: ابن ابی شیبہ مختصراً ١؍٣٤٥۔

2322

۲۳۲۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ زُبَیْدِ بْنِ الصَّلْتِ أَنَّہٗ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَنَظَرْنَا‘ فَإِذَا ہُوَ قَدِ احْتَلَمَ‘ فَصَلّٰی وَلَمْ یَغْتَسِلْ فَقَالَ : (وَاللّٰہِ مَا أُرَانِیْ إِلَّا وَقَدِ احْتَلَمْتُ وَمَا شَعَرْتُ، وَصَلَّیْتُ مَا اغْتَسَلْتُ) .قَالَ : فَاغْتَسَلَ وَغَسَلَ مَا رَأٰی فِیْ ثَوْبِہٖ، وَنَضَحَ مَا لَمْ یَرَ‘ وَأَذَّنَ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ‘ ثُمَّ صَلّٰی‘ بَعْدَمَا ارْتَفَعَ الضُّحٰی‘ مُتَمَکِّنًا .فَدَلَّ ھٰذَا عَلٰی أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ لَمْ یَکُنْ تَیَقَّنَ بِأَنَّ الْجَنَابَۃَ کَانَتْ مِنْہُ قَبْلَ الصَّلَاۃِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ یَرٰی أَنَّ صَلَاۃَ الْمَأْمُوْمِ تَفْسُدُ بِفَسَادِ صَلَاۃِ الْاِمَامِ
٢٣٢٢: عروہ نے زبید بن ا لصلت سے نقل کیا کہ میں عمر (رض) کے ساتھ نکلا پس ہم نے دیکھا کہ ان کو تو احتلام ہوا اور انھوں نے نماز پڑھ لی اور غسل نہیں کیا اس پر عمر (رض) کہنے لگے اللہ کی قسم ! مجھے تو احتلام ہوگیا اور مجھے خبر بھی نہیں ہوئی اور میں نے بلاغسل نماز پڑھ لی ہے پھر آپ نے غسل کیا اور کپڑے پر جو نشان دیکھا اس کو دھو ڈالا اور جہاں نظر نہ آیا وہاں صرف پانی انڈیل دیا پھر اذان اقامت کہی گئی پھر انھوں نے چاشت کے وقت اطمینان سے نماز ادا کی۔ پس اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ حضرت عمر (رض) کو یقین نہ تھا کہ جنابت والا معاملہ نماز کے بعد پیش آیا ‘ یا پہلے پیش آیا۔ وہی اس بات کی دلیل کہ عمر (رض) ان کی رائے بھی یہی تھی کہ مقتدی کی نماز امام کی نماز کے فساد سے فاسد ہوجاتی ہے۔ اثر ذیل پڑھ لو۔
: موطا مالک ١٧۔
حاصل آثار :
اس سے معلوم ہوا کہ ان کو یقین نہیں تھا کہ یہ جنابت نماز سے پہلے کی ہے۔ حضرت عمر (رض) بھی امام کی نماز کے فساد پر مقتدی کی نماز کو فاسد خیال کرتے تھے۔ اس کی دلیل میں اگلی روایت ملاحظہ ہو۔

2323

۲۳۲۳: أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَسِیَ الْقِرَائَ ۃَ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ‘ فَأَعَادَ بِہِمُ الصَّلَاۃَ .فَلَمَّا أَعَادَ بِہِمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الصَّلَاۃَ لِتَرْکِہِ الْقِرَائَ ۃَ - وَفِیْ فَسَادِ الصَّلَاۃِ بِتَرْکِ الْقِرَائَ ۃِ اخْتِلَافٌ - کَانَ اِذَا صَلّٰی بِہِمْ جُنُبًا أَحْرٰی أَنْ یُّعِیْدَ بِہِمُ الصَّلَاۃَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ خِلَافُ ذٰلِکَ‘ فَذَکَرَ۔
٢٣٢٣: ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ عمر (رض) مغرب کی نماز میں قراءت بھول گئے پس آپ نے ان کو دوبارہ نماز پڑھائی۔ پس جب قراءت کے چھوٹنے کی وجہ سے حضرت عمر (رض) نے نماز کا اعادہ کیا (اگرچہ ترک قراءت سے نماز کے فاسد ہونے میں اختلاف ہے) تو جنابت کی حالت میں نماز پڑھانے کے بعد اس کا لوٹانا زیادہ قرین قیاس ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ حضرت عمر (رض) کا قول اس کے برعکس بھی مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل اثر :
جب ترک قراءت جس میں اختلاف ہے اس پر بھی نماز کو لوٹاتے ہیں تو جنابت پر نماز کا دھرانا بدرجہ اولیٰ ہے۔
ایک اشکال :
عمر (رض) سے اس کے خلاف روایت موجود ہے۔ آگے ملاحظہ ہو۔

2324

۲۳۲۴: مَا حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ : إِنِّیْ صَلَّیْتُ صَلَاۃً لَمْ أَقْرَأْ فِیْہَا شَیْئًا .فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَلَیْسَ قَدْ أَتْمَمْتَ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ؟ قَالَ : بَلَی‘ قَالَ : تَمَّتْ صَلَاتُک .قَالَ شُعْبَۃُ فَحَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ الْغَمْرِیُّ‘ قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ : مِمَّنْ سَمِعْتُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ؟ فَقَالَ : مِنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَ ھٰذَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ حَیْثُ ذَکَرْتُمْ‘ وَلٰـکِنَّ الَّذِیْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْمَا بَدَأْنَا بِذِکْرِہِ‘ مُتَّصِلُ الْاِسْنَادِ عَنْ عُمَرَ‘ وَہَمَّامٌ حَاضِرٌ ذٰلِکَ مِنْہُ‘ فَمَا اتَّصَلَ إِسْنَادُہُ عَنْہُ‘ فَہُوَ أَوْلٰی أَنْ یُقْبَلَ عَنْہُ‘ مِمَّا خَالَفَہُ .وَھٰذَا أَیْضًا مِمَّا یَدُلُّ عَلَیْہِ النَّظَرُ‘ وَذٰلِکَ لِأَنَّہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ رَجُلًا لَوْ صَلّٰی خَلْفَ جُنُبٍ وَہُوَ یَعْلَمُ بِذٰلِکَ‘ أَنَّ صَلَاتَہُ بَاطِلَۃٌ وَجَعَلُوْا صَلَاتَہُ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاۃِ الْاِمَامِ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ اِذَا کَانَ یَعْلَمُ بِفَسَادِ صَلَاۃِ إِمَامِہٖ ‘ کَانَ کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ‘ اِذَا کَانَ لَا یَعْلَمُ بِہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّ الْمَأْمُوْمَ لَوْ صَلّٰی وَہُوَ جُنُبٌ‘ وَہُوَ یَعْلَمُ‘ أَوْ لَا یَعْلَمُ‘ کَانَتْ صَلَاتُہُ بَاطِلَۃً .فَکَانَ مَا یُفْسِدُ صَلَاتَہُ فِیْ حَالِ عِلْمِہٖ بِہٖ، ہُوَ الَّذِیْ یُفْسِدُ صَلَاتَہُ فِیْ حَالِ جَہْلِہِ بِہٖ وَکَانَ عِلْمُہُ بِفَسَادِ صَلَاۃِ إِمَامِہٖ تَفْسُدُ بِہٖ صَلَاتُہُ .فَالنَّظٰرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ جَہْلُہٗ بِفَسَادِ صَلَاۃِ إِمَامِہٖ‘ فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ طَاوٗسٌ وَمُجَاہِدٌ .
٢٣٢٤: محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو ایک آدمی نے کہا اگر میں کسی نماز میں قراءت نہ کروں آپ نے فرمایا کیا تم نے رکوع و سجدہ مکمل کیا ہے ؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ فرمایا تیری نماز پوری ہوگئی۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن ابراہیم سے پوچھا تم نے یہ روایت کہاں سے سنی ؟ اس نے کہا میں نے ابو سلمہ سے انھوں نے عمر (رض) سے سنی ہے۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے روایت نقل کی ہے اس طرح بھی روایت وارد ہوئی ہے لیکن وہ روایت جو ہم نے ان سے نقل کی ہے وہ متصل سند والی ہے۔ اس کا قبول کرنا اس کی بنسبت اولیٰ ہے اور ہمام خود موجود ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ نظر و فکر کی دلالت بھی تائید کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جنابت والے کے پیچھے نماز ادا کرلے اور اس کو اس کا جنبی ہونا معلوم ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور تمام نے اس کی نماز کو امام کی نماز کے ساتھ متصل قرار دیا۔ جب یہ بات اسی طرح ہے جبکہ اسے امام کی جنابت کا علم تھا تو جب اس کو علم نہ تھا تب بھی حکم وہی ہونا چاہیے قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ ذرا غور تو کرو کہ اگر مقتدی نے جنابت کی حالت میں نماز ادا کی اسے معلوم ہو یا نہ ہو اس کی نماز بہرحال باطل ہے۔ تو جو چیز جاننے کے حالت میں اس کی نماز کے لیے مفسد ہے وہی اس کی نماز کے لیے عدم علم کی حالت میں بھی مفسد ہے۔ امام کی نماز کے باطل ہونے کا علم اس کی نماز کو فاسد کردیتا ہے۔ پس فکر و نظر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی نماز کا یہی حکم ہو جبکہ وہ امام کی نماز کے بطلان کا علم نہ رکھتا ہو۔ نظر کا یہی تقاضا ہے اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن الحسن (رح) کا ہے اور اکابر تابعین طاوس و مجاہد (رح) کا قول بھی یہی ہے۔ ذیل میں دیکھیں۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٣٤٩۔
جواب : بلاشبہ حضرت عمر (رض) سے یہ مروی ہے مگر یہ سند کے لحاظ سے متصل نہیں اور پہلی ہمام والی روایت متصل ہے۔
تقاضائے نظر :
تقاضائے نظر بھی یہی ہے کہ امام کی نماز کے فساد سے مقتدی کی نماز فاسد ہو اس لیے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے اگر کسی آدمی نے ایک جنبی کے پیچھے نماز ادا کی اور اسے یہ بات معلوم تھی تو اس کی نماز باطل ہے اور علماء نے اس کی نماز کو امام کی نماز میں متضمن خیال کیا ہے جبکہ یہ بات اسی طرح ہی ہے کہ جب وہ اپنے امام کی نماز کے فساد کو جانتا ہو تو اس کی نماز فاسد ہے تو عقل یہی کہتی ہے کہ جب وہ نہ جانتا ہو تو تب بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔
ذرا توجہ کرو اگر مقتدی جنابت کی حالت میں نماز پڑھے اور اس کو معلوم ہو یا معلوم نہ ہو تو اس کی نماز باطل ہے پس جاننے کی حالت میں اس کی جو نماز باطل ہوئی یہ وہی ہے کہ جس کی نماز نہ جاننے کی صورت میں فاسد ہوتی ہے تو اپنے امام کی نماز کے فساد کا علم اس کی نماز کو فاسد کرنے والا ہے پس نظر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ لاعلمی کی حالت میں بھی اس کی نماز فاسد ہونی چاہیے۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔

2325

۲۳۲۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ جَابِرِ الْجُعْفِیِّ‘ عَنْ طَاوٗسٍ وَمُجَاہِدٍ فِیْ إِمَامٍ صَلّٰی بِقَوْمٍ وَہُوَ عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ ‘ قَالَ : یُعِیْدُوْنَ الصَّلَاۃَ جَمِیْعًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ مَا یُوَافِقُ مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ فِیْ اِخْتِلَافِ صَلَاۃِ الْاِمَامِ وَالْمَأْمُوْمِیْنَ. فَمِنْ ذٰلِکَ‘
٢٣٢٥: جابر جعفی نے مجاہد و طاؤس (رح) سے بیان کیا کہ جو امام لوگوں کو اس حال میں نماز پڑھائے کہ اس کا وضو نہیں تھا تو طاوس (رح) نے جواب دیا وہ تمام نماز کا اعادہ کریں گے۔ اور متقدمین کی ایک جماعت سے بھی ایسی چیزیں منقول ہیں جو ہمارے مذہب کی موافقت کرنے والے ہیں جبکہ امام اور مقتدیوں کی نماز مختلف ہو (تو مقتدیوں کو اعادہ کرنا ہوگا) ۔
امام و مقتدی کی نمازیں جب مختلف ہوں تو تب بھی اعادہ ضروری ہے۔ جیسا یہ روایت ہے۔

2326

۲۳۲۶: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ فِی الرَّجُلِ یُصَلِّیْ بِقَوْمٍ ہِیَ لَہُ الظُّہْرُ‘ وَلَہُمُ الْعَصْرُ .قَالَ : یُعِیْدُوْنَ‘ وَلَا یُعِیْدُ .
٢٣٢٦: منصود نے ابراہیم سے نقل کیا جو آدمی ایسے لوگوں کو نماز ظہر پڑھائے جو نماز عصر پڑھ رہے ہوں ابراہیم کہنے لگے امام کی نماز درست ہے مقتدیوں کی نماز فاسد ہے وہ لوٹائیں گے۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٤١٤۔

2327

۲۳۲۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ یُوْنُسَ بْنَ عُبَیْدٍ یَقُوْلُ : جَائَ عَیَّادٌ إِلَی الْمَسْجِدِ فِیْ یَوْمٍ مَطِیْرٍ‘ فَوَجَدَہُمْ یُصَلُّوْنَ الْعَصْرَ‘ فَصَلّٰی مَعَہُمْ‘ وَہُوَ یَظُنُّ أَنَّہَا الظُّہْرُ‘ وَلَمْ یَکُنْ صَلَّی الظُّہْرَ .فَلَمَّا صَلَّوْا فَإِذَا ہِیَ الْعَصْرُ فَأَتَی الْحَسَنَ فَسَأَلَہٗ عَنْ ذٰلِکَ‘ فَأَمَرَہٗ أَنْ یُّصَلِّیَہُمَا جَمِیْعًا.
٢٣٢٧: یونس بن عبید کہتے ہیں کہ عباد مسجد میں بارش کے دن آئے ان کو نماز عصر پڑھتے پایا اس نے ان کے ساتھ نماز ظہر کے گمان سے نماز پڑھ لی اور عباد نے اس وقت تک ظہر نہ پڑھی تھی (دل کے اندھیرے سے وقت معلوم نہ ہوا) جب وہ نماز پڑھ چکے (اس نے معلوم کیا) تو وہ عصر تھی عباد نے حسن بصری (رح) سے سوال کیا تو فرمایا دونوں نمازیں دوبارہ پڑھے۔
: ابن ابی شیبہ ١؍٤١٤۔

2328

۲۳۲۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ وَابْنُ سِیْرِیْنَ یَقُوْلَانِ : یُصَلِّیْہِمَا جَمِیْعًا .قَالَ :
٢٣٢٨: سعید بن ابی عروبہ کہتے ہیں کہ حسن و ابن سیرین ایسا ہی فتویٰ دیتے کہ ایسا کرنے والا دونوں دوبارہ پڑھے۔
ابن ابی شیبہ ١؍٤١٥۔

2329

۲۳۲۹: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ مَعْشَرٍ‘ عَنِ النَّخَعِیِّ‘ قَالَ : یُصَلِّیْہِمَا جَمِیْعًا .
٢٣٢٩: ابو معشر نے نخعی سے بیان کیا کہ وہ آدمی دونوں دوبارہ پڑھے۔

2330

۲۳۳۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ قَالَ : یُصَلِّی الظُّہْرَ‘ ثُمَّ یُصَلِّی الْعَصْرَ .
٢٣٣٠: ابن مرزوق نے سعید سے انھوں نے عبداللہ بن عمر اور نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ پہلے وہ آدمی ظہر پڑھے پھر عصر پڑھے۔

2331

۲۳۳۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْأَضْحٰی وَالْفِطْرِ فِی الْأُوْلٰی بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ) .
٢٣٣١: عمرو بن عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدالفطر اور قربان کی پہلی رکعت میں سورة الاعلی اور دوسری میں الغاشیہ تلاوت فرماتے۔
: ابن ماجہ فی اقامہ باب قراۃ العیدین ٢١٨٣۔
خلاصہ الزام : کیا بعض نمازوں کی کچھ سورتیں مسنون ہیں۔
نمبر 1: امام شافعی ‘ احمد ‘ مالک (رح) کے ہاں بعض سورتیں مسنون ہیں انہی کے پڑھنے سے سنت ادا ہوگی۔
نمبر 2: احناف کے ہاں یہ سورتیں اور ان کے علاوہ بھی مسنون ہے کسی سورة کی تخصیص مکروہ تنزیہی ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : کہ بعض خاص نمازوں میں خاص سورتیں مسنون ہیں ان کے بغیر سنت ادا نہ ہوگی دلیل یہ ہے۔
عمرو بن عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدالفطر اور قربان کی پہلی رکعت میں سورة الاعلی اور دوسری میں الغاشیہ تلاوت فرماتے۔

2332

۲۳۳۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مُحَمَّدِ ڑ الْمُنْتَشِرِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ سَالِمٍ‘ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْعِیْدَیْنِ بِ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی وَ ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ وَإِذَا اجْتَمَعَ یَوْمُ عِیْدٍ وَیَوْمُ جُمُعَۃٍ قَرَأَ بِہِمَا فِیْہِمَا جَمِیْعًا) .
٢٣٣٢: حبیب بن سالم نے نعمان بن بشیر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں سورة الاعلی اور سورة غاشیہ تلاوت فرماتے اور جب جمعہ و عیدین جمع ہوجاتے تو دونوں میں پڑھ لیتے۔
: مسلم فی الجمعہ نمبر ٦٣‘ ترمذی فی العیدین باب ٣٣‘ نمبر ٥٣٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١٢٨١۔

2333

۲۳۳۳: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمِ بْنِ مُحَمَّدِ الْمُنْتَشِرِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٣٣٣: جریر بن عبدالحمید نے ابراہیم بن محمد المنتشر سے نقل کیا پھر اس نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی۔
: مسلم ١؍٢٨٨‘ کتاب الجمعہ۔

2334

۲۳۳۴: حَدَّثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمِ بْنِ مُحَمَّدِ ڑ الْمُنْتَشِرِ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ سَالِمٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنِ النُّعْمَانِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٣٣٤: سالم نے نعمان (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
: ابن ماجہ ١؍٩١۔

2335

۲۳۳۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْعِیْدَیْنِ مِثْلَہٗ ، وَلَمْ یَذْکُرَ الْجُمُعَۃَ .
٢٣٣٥: زید بن عقبہ نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عیدین کے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ البتہ اس میں جمعہ کا ذکر نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣٧‘ نمبر ١١٢٥۔

2336

۲۳۳۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٣٣٦: وہبی نے بیان کیا کہ مسعودی نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2337

۲۳۳۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عُقْبَۃَ الْفَزَارِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ ہَاتَیْنِ السُّوْرَتَیْنِ‘ ہُمَا اللَّتَانِ یَنْبَغِیْ لِلْاِمَامِ أَنْ یَقْرَأَ بِہِمَا فِیْ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ‘ وَفِی الْجُمُعَۃِ مَعَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘ وَلَا یُجَاوِزُ ذٰلِکَ إِلٰی غَیْرِہِ‘ وَاحْتَجُّوْا بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ تَوْقِیْتٌ بِعَیْنِہِ‘ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُجَاوَزَ إِلٰی غَیْرِہِ‘ وَلٰـکِنْ لِلْاِمَامِ أَنْ یَقْرَأَ بِہِمَا‘ وَلَہٗ أَنْ یَقْرَأَ بِغَیْرِہِمَا وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ وَابْنَ مَرْزُوْقٍ‘
٢٣٣٧: شعبہ نے معبد بن خالد سے انھوں نے زید بن عقبہ فزاری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ دو سورتیں وہ جن کو نماز عیدین اور جمعہ میں فاتحہ الکتاب کے ساتھ پڑھنا چاہیے اور ان کے علاوہ اور سورت نہ پڑھے انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان نمازوں میں کوئی سورت متعین نہیں اور ان کے علاوہ کسی اور سورت کی قراءت میں کچھ حرج نہیں ‘ بلکہ امام ان دونوں کو بھی پڑھے اور ان کے علاوہ کو بھی پڑھ سکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
حاصل روایات : ان آثار سے جب آپ کا مسلسل پڑھنا ثابت ہوا تو اب انہی سورتوں کو عیدین و جمعہ میں پڑھنا چاہیے اور دوسروں کی طرف تجاوز نہ کرنا چاہیے ورنہ سنت کی ادائیگی نہ ہوگی۔
مؤقف فریق ثانی اور دلائل : کسی سورت کی تخصیص کسی نماز کے لیے نہیں ہے کہ اس کی بجائے اور نہ پڑھ سکتا ہو بلکہ جو مذکور ہیں وہ بھی پڑھے اور دیگر بھی پڑھے۔ دلائل میں اگلی روایات ملاحظہ ہیں۔

2338

۲۳۳۸: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَافُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ (أَبِیْ وَاقِدٍ‘ قَالَ : سَأَلَنِیْ عُمَرُ بِمَا قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْعِیْدَیْنِ‘ قُلْتُ ق وَ (اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ) )
٢٣٣٨: عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا کہا بی واقد کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر (رض) نے عیدین میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کے متعلق پوچھا تو میں نے کہا سورة قٓ اور سورة قمر۔
تخریج : مسلم فی العیدین نمبر ١٥۔

2339

۲۳۳۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ .ح .قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنْ ضَمْرَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا أَبُوْ وَاقِدٍ قَدْ أَخْبَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَرَأَ فِی الْعِیْدَیْنِ بِغَیْرِ مَا أَخْبَرَ بِہٖ، مَنْ رَوٰی الْآثَارَ الْأُوَلَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَرَأَ فِی الْجُمُعَۃِ بِغَیْرِ مَا ذُکِرَ عَنْہُ أَیْضًا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘
٢٣٣٩: ابو عاصم نے حضرت انس بن مالک (رض) سے اور ضمرہ نے عبیداللہ بن عبداللہ سے انھوں نے حضرت عمر (رض) نقل کیا کہ انھوں نے ابو واقد (رض) سے اسی طرح کا سوال کیا پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ابو واقد نے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیدین میں ان کے علاوہ سورتوں کی خبر دی جو پہلے آثار میں وارد ہیں۔ یہ ابو واقد ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق خبر دے رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیدین میں ان مذکورہ سورتوں کے علاوہ سورتیں بھی پڑھیں جن کا تذکرہ پہلے آثار میں آچکا۔ چند ذیل میں درج ہیں۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٦٣‘ ترمذی ١؍١١٩‘ نسائی ١؍٢٣٢‘ ابن ماجہ ١؍٩٩‘ مرسلاً ۔
مزید روایت ملاحظہ ہو۔

2340

۲۳۴۰: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ سَعِیْدِ ڑ الْمَازِنِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ‘ سَأَلَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ : مَاذَا کَانَ یَقْرَأُ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ عَلٰی إِثْرِ سُوْرَۃِ الْجُمُعَۃِ؟ قَالَ : (کَانَ یَقْرَأُ بِ (ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ) ) .
٢٣٤٠: ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر (رض) سے پوچھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة جمعہ کے بعد جمعہ کی نماز میں کیا پڑھتے تھے تو انھوں نے فرمایا وہ سورة غاشیہ پڑھتے تھے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٨٨‘ ابو داؤد ١؍١٦٩‘ نسائی ١؍٢٣٢‘ ابن ماجہ ١؍٧٨۔

2341

۲۳۴۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ قَالَ : ثَنَا ضَمْرَۃُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ‘ سَأَلَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ : (مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ بِہٖ فِی الْجُمُعَۃِ؟ قَالَ : الْجُمُعَۃَ وَ (ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ) ) .
٢٣٤١: ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر (رض) سے پوچھا کہ جمعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا پڑھتے تھے انھوں نے کہا سورة الجمعہ اور الغاشیہ پڑھتے تھے۔

2342

۲۳۴۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ رَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْجُمُعَۃِ بِسُوْرَۃِ الْجُمُعَۃِ وَ (اِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ) )
٢٣٤٢: ابو رافع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کیا کہ آپ جمعہ میں سورة الجمعہ اور سورة المنافقون پڑھتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ نمبر ٦١۔

2343

۲۳۴۳: .حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مِخْوَلِ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنْ مُسْلِمِ ڑ الْبَطِیْنِ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہٗ قَرَأَ فِی الْعِیْدَیْنِ وَالْجُمُعَۃِ‘ غَیْرَ مَا جَائَ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ لَمْ یَجُزْ أَنْ یُحْمَلَ ذٰلِکَ عَلَی التَّضَادِّ وَالتَّکَاذُبِ .وَلٰـکِنَّا نَحْمِلُہُ عَلَی لْاِتِّفَاقِ وَالتَّصَادُقِ‘ فَنَجْعَلُ ذٰلِکَ کُلَّہٗ، قَدْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ بِھٰذَا مَرَّۃً‘ وَبِھٰذَا مَرَّۃً‘ فَحَکٰی عَنْہُ کُلُّ فَرِیْقٍ مِنَ الْفَرِیْقَیْنِ مَا حَضَرَہُ مِنْہُ .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا تَوْقِیْتَ لِلْقِرَائَ ۃِ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَأَنَّ لِلْاِمَامِ أَنْ یَقْرَأَ فِیْ ذٰلِکَ مَعَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ أَیَّ الْقُرْآنِ شَائَ .وَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ فِیْ ذٰلِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ .
٢٣٤٣: سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایات وارد ہوئی ہیں کہ آپ نے عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں اس کے علاوہ بھی قراءت کی ہے ‘ البتہ وہ پہلے آثار جن میں عدم جواز معلوم ہوتا ہے تو اس کو بجائے اس کے کہ ہم تضاد اور ایک دوسرے کی روایت کی تکذیب پر محمول کریں ہم انھیں ایک دوسرے کی تصدیق پر محمول کریں گے اور تمام کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل قرار دیں گے اور وہ اس طرح کہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پڑھا اور کبھی دوسری سورتوں کو پڑھا۔ روایت میں جو موجود تھے انھوں نے اپنا مشاہدہ نقل کردیا اور اس میں اس بات کا ثبوت مل گیا کہ کسی نماز کے لیے کوئی قراءت مقرر نہیں ہے اور امام کو اختیار ہے کہ فاتحۃ الکتاب کے ساتھ قرآن مجید کا جونسا حصہ بھی پڑھے درست ہے اور اسی طرح وہ جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں یہ قراءت کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ روایت نمبر ٦٤۔
حاصل روایات : جمعہ و عیدین میں ان سورتوں کے علاوہ دیگر سورتوں کو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلاوت فرمایا یہ تضاد پر محمول کرنا مناسب نہیں اس لیے ہم ان روایات میں اور فصل اول کی روایات میں موافقت پیدا کرتے ہیں ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ تمام سورتیں آپ نے تلاوت فرمائیں کبھی وہ اور کبھی وہ تو ہر صحابی نے وہ بیان کی جس نماز میں وہ موجود تھے۔ پس اس میں یہ ثبوت مل گیا کہ اس میں قراءت کی توقیت نہیں امام کو فاتحہ الکتاب کے ساتھ قرآن کے جس حصہ سے چاہے پڑھنے کی اجازت ہے۔
مزید روایات تائید کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔

2344

۲۳۴۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ وَشَرِیْکٌ‘ عَنْ مِخْوَلٍ‘ عَنْ مُسْلِمِ ڑ الْبَطِیْنِ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .ح .وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ (الم تَنْزِیْلُ) وَ (ہَلْ أَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ) .
٢٣٤٤: مسلم بطین نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا دوسری سند میں ابو اسحاق نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن نماز صبح میں الم سجدہ اور سورة الانسان پڑھتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجمعہ نمبر ٦٤۔

2345

۲۳۴۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ‘ قَالَ : ثَنَا حُمَامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ عُزْرَۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ لَا یَتَجَاوَزُ ذٰلِکَ إِلٰی غَیْرِہٖ‘ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَحْکِ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : لَا یُقْرَأُ فِیْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مَعَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ غَیْرُ ہَاتَیْنِ السُّوْرَتَیْنِ حَتّٰی لَا یَجُوْزَ خِلَافُ ذٰلِکَ .وَلٰـکِنْ إِنَّمَا أَخْبَرَ مَنْ رَوَاہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ بِہِمَا فِیْہِمَا‘ کَمَا أَخْبَرَ النُّعْمَانُ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْعِیْدَیْنِ بِمَا ذَکَرْنَا .ثُمَّ قَدْ جَائَ عَنْ غَیْرِہِمَا أَنَّہٗ قَرَأَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ قَرَأَ بِھٰذَا مَرَّۃً‘ وَبِھٰذَا مَرَّۃً .فَکَذٰلِکَ مَا حُکِیَ عَنْہُ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ قَرَأَ بِہٖ مَرَّۃً أَوْ قَرَأَ بِہٖ مِرَارًا ثُمَّ قَرَأَ بِغَیْرِہِ فَیَحْکِیْ کُلُّ مَنْ حَضَرَہُ مَا سَمِعَ مِنْ قِرَائَ تِہٖ، وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی حُکْمِ التَّوْقِیْتِ .وَجَمَعَ مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٣٤٥: عزرہ نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان روایات میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آپ ان کے علاوہ نہیں پڑھتے تھے کہ یہ کہا جائے کہ ان دو سے تجاوز کرنا جائز نہیں بلکہ ان روایات کے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرنے والوں نے صرف یہ بات بتلائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دو سورتیں ان دو موقعوں پر پڑھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت نعمان اور ابن عباس (رض) کی روایات میں صاف مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں یہ سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ ہم پہلے بتا آئے ‘ پھر دوسری بات یہ ہے کہ ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام (رض) نے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے علاوہ سورتیں بھی کبھی پڑھیں اور کبھی انہی کو پڑھا اسی طرح جمعہ کے دن کی فجر میں کی جانے والی قراءت کا معاملہ بھی یہی ہے اس میں احتمال یہ ہے کہ آپ نے ان سورتوں کو ایک مرتبہ پڑھا یا کئی مرتبہ پڑھا پھر ان کے علاوہ اور بھی قرآن مجید کو پڑھا ‘ چنانچہ جو جس موقع پر موجود تھا اس نے جو قراءت سنی اس کو بیان کردیا اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ وہ سورتیں اس موقع کے لیے متعین ہوگئیں ‘ یہ جتنی باتیں جو ہم نے اس باب میں بیان کی ہیں یہ امام ابوحنیفہ ابویوسف اور محمد بن حسن (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ١؍٢٨٨‘ کتاب الجمعہ۔
حاصل کلام :
اس روایت میں یہ بالکل ذکر نہیں کہ آپ نماز فجر میں جمعہ کے دن فاتحہ الکتاب کے ساتھ ان دو سورتوں کے علاوہ نہیں پڑھتے تھے کہ جس کی خلاف ورزی درست نہ ہو بلکہ اتنا مذکور ہے کہ یہ دو سورتیں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ نعمان ‘ ابن عباس ‘ ابوہریرہ (رض) نے بتلایا کہ آپ عیدین میں یہ پڑھتے تھے پھر ان کے علاوہ بھی روایات میں وارد ہوتیں کہ کبھی وہ اور کبھی سورتیں دوسری پڑھتے تھے یہی حال جمعہ کی قراءت کا ہے اس میں جس نے جس نماز میں شرکت کی وہ ذکر کردی یہ تمام اقوال جن کی طرف ہم اس باب میں گئے ہیں یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : : یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے اس میں روایات کو پیش کرنا مناسب خیال کیا گیا اور پھر ان روایات میں اپنے مزاج کے مطابق تطبیق پیدا فرمائی اور مسئلہ کو واضح کیا کہ راجح قول قرآن مجید کی کسی صورت کی عدم تخصیص ہے۔

2346

۲۳۴۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُعَافَی بْنُ عِمْرَانَ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ بْنِ زِیَادٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (قَصَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ‘ وَأَتَمَّ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمُسَافِرَ بِالْخِیَارِ‘ إِنْ شَائَ أَتَمَّ صَلَاتَہٗ، وَإِنْ شَائَ قَصَرَہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .
٢٣٤٦: عطاء بن ابی رباح نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں قصر بھی کی اور مکمل بھی پڑھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ مسافر کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر چاہے تو وہ اپنی نماز کو مکمل کرلے اور چاہے تو اس میں قصر کرلے (قصر لازم نہیں) ۔ انھوں نے اس روایت کو اپنا مستدل قرار دیا ہے۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ٢؍١٨٩‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٣؍١٤١۔
خلاصہ الزام : مدت اقامت میں احناف پندرہ یوم اور مالکیہ و شوافع چار یوم اور حنابلہ اکیس نمازوں کے قیام کے ارادہ کو معتبر مانتے ہیں۔ نماز کو قصر کرنا آیا عزیمت ہے۔ یا رخصت۔
نمبر 1: امام مالک ‘ شافعی ‘ و احمد (رح) اس کو رخصت و سنت کے درجہ میں مانتے ہیں۔
نمبر 2: احناف عزیمت و فرض کے درجہ میں قرار دیتے ہیں۔
مؤقف فریق اوّل اور دلائل : نماز حالت سفر میں قصر کرنا سنت ہے اور اس کا درجہ رخصت کا ہے خواہ اس کو استعمال کرے یا نہ کرے۔ دلائل یہ ہیں۔
آگے روایات ملاحظہ ہوں۔

2347

۲۳۴۷: وَبِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ عَمَّارٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَابَاہُ‘ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُنْیَۃَ‘ قَالَ : (قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلَاۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَکَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ .فَقَالَ : إِنِّیْ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتُ مِنْہُ فَسَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ‘ فَاقْبَلُوْا صَدَقَتَہٗ). وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَزِیْدَ عَلَی اثْنَتَیْنِ‘ وَإِنْ أَتَمَّ الصَّلَاۃَ‘ فَإِنْ کَانَ قَعَدَ فِی اثْنَتَیْنِ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْعِشَائِ، قَدْرَ التَّشَہُّدِ‘ فَصَلَاتُہُ تَامَّۃٌ‘ وَإِنْ کَانَ لَمْ یَقْعُدْ فِیْہَا قَدْرَ التَّشَہُّدِ‘ فَصَلَاتُہُ بَاطِلَۃٌ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ مِنَ الْحَدِیْثَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ
٢٣٤٧: یعلی بن منیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : لیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلاۃ (النساء : ١٠١) اب تو لوگ امن میں ہوگئے (کیا اب بھی قصر ہے) تو انھوں نے کہا مجھے اسی پر تعجب ہوا ہے جس پر تمہیں تعجب ہے پس میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں سوال کیا تو فرمایا یہ صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے پس تم اس کے صدقہ کو قبول کرو۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مسافر کو دو سے زائد جائز نہیں اگر بالفرض اس نے نماز کو مکمل چار رکعت ادا کرلیا ‘ پس اگر وہ قعدہ اوّل ظہر ‘ عصر ‘ عشاء کی دو رکعتوں میں تشہد کی مقدار بیٹھا تو تب تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی اور تشہد کی مقدار اس نے قعدہ نہیں کیا تو اس کی نماز باطل ہے۔ قول اوّل کے قائلین کے خلاف ان کی دلیل وہ دو روایات ہیں جو اس باب کے شروع میں ہم نقل کر آئے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٦٣‘ نمبر ١١٩٩‘ ترمذی فی تفسیر سورة ٤‘ باب ٢٠‘ نسائی فی الخوف باب ١‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٧٣‘ نمبر ١٠٦٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٧٩‘ مسند احمد ١؍٢٥۔
حاصل روایات : ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صدقہ ہے اس کو قبول کرنا نہ کرنا اپنی مرضی پر موقوف ہے کرے تو سنت ادا کرنے کا ثواب پالے گا ورنہ اختیار نہ کرنے سے گناہ گار نہ ہوگا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : قصر کرنا سفر میں لازم ہے اگر چار رکعت میں دو پر قعدہ کیا نماز درست ہوجائے گی اور اگر قعدہ نہیں کیا تو نماز باطل ہوگی۔ دلائل آگے ملاحظہ ہوں۔

2348

۲۳۴۸: أَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُرَجَّی بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (أَوَّلُ مَا فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ‘ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ صَلّٰی إِلٰی کُلِّ صَلَاۃٍ مِثْلَہَا‘ غَیْرَ الْمَغْرِبِ‘ فَإِنَّہَا وِتْرُ النَّہَارِ‘ وَصَلَاۃُ الصُّبْحِ لِطُوْلِ قِرَائَ تِہَا‘ وَکَانَ اِذَا سَافَرَ‘ عَادَ إِلٰی صَلَاتِہِ الْأُوْلٰی) فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُخْبِرُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ‘ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ‘ حَتّٰی قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ فَصَلّٰی إِلٰی کُلِّ صَلَاۃٍ مِثْلَہَا وَأَنَّہٗ کَانَ اِذَا سَافَرَ‘ عَادَ إِلٰی صَلَاتِہِ الْأُوْلٰی .فَأَخْبَرَتْ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ سَفَرِہٖ کَمَا کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ أَنْ یُّؤْمَرَ بِتَمَامِ الصَّلَاۃِ‘ وَذٰلِکَ رَکْعَتَانِ .فَذٰلِکَ خِلَافُ حَدِیْثِ فَہْدِ ڑالَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ : (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَمَّ الصَّلَاۃَ فِی السَّفَرِ‘ وَقَصَرَ) .وَأَمَّا حَدِیْثُ یَعْلَی بْنِ مُنْیَۃَ فَإِنَّ أَہْلَ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی احْتَجُّوْا بِالْآیَۃِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْہِ‘ وَہِیَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ) الْآیَۃَ .قَالُوْا : فَذٰلِکَ عَلَی الرُّخْصَۃِ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ فِی التَّقْصِیْرِ‘ لَا عَلَی الْحَتْمِ عَلَیْہِمْ بِذٰلِکَ‘ وَہُوَ کَقَوْلِہٖ (فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یَتَرَاجَعَا) فَذٰلِکَ عَلَی التَّوْسِعَۃِ مِنْہُ لَہُمْ فِی الْمُرَاجَعَۃِ‘ لَا عَلٰی إِیْجَابِہٖ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرٰی أَنَّ ھٰذَا اللَّفْظَ قَدْ یَکُوْنُ عَلٰی مَا ذَکَرُوْا‘ وَیَکُوْنُ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا) وَذٰلِکَ عَلَی الْحَتْمِ عِنْدَ جَمِیْعِ الْعُلَمَائِ لِأَنَّہٗ لَیْسَ لِأَحَدٍ حَجَّ أَوْ اعْتَمَرَ أَنْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا .فَلَمَّا کَانَ نَفْیُ الْجُنَاحِ‘ قَدْ یَکُوْنُ عَلَی التَّخْیِیْرِ‘ وَقَدْ یَکُوْنُ عَلَی الْاِیْجَابِ‘ لَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْمِلَ ذٰلِکَ عَلٰی أَحَدِ الْمَعْنَیَیْنِ دُوْنَ الْمَعْنَی الْآخَرِ إِلَّا بِدَلِیْلٍ یَدُلُّہُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ مِنْ کِتَابٍ‘ أَوْ سُنَّۃٍ‘ أَوْ إِجْمَاعٍ .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِتَقْصِیْرِہِ فِیْ أَسْفَارِہِ کُلِّہَا .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ
٢٣٤٨: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ اولاً نماز دو دو رکعت فرض ہوئی جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو ہر نماز کے ساتھ اس کی مثل ملا کر پڑھی یعنی دو کی چار ہوگئیں البتہ مغرب کی رکعات وہ دن کے وتر ہیں (ان کی تعداد اتنی رہی) اور صبح کی نماز طویل قراءت کی وجہ سے اسی قدر رکھی گئی آپ جب سفر کرتے تو پہلی حالت نماز کی طرف لوٹ آتے۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں ‘ جو یہ بتلا رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو دو رکعت نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے ہر نماز اس کی مثل تعداد سے تعداد رکعات ملا کر نماز ادا کی اور جب آپ حالت سفر میں ہوتے تو پہی (مکی) نماز کی طرف لوٹ آتے۔ پس انھوں نے بتلایا کہ آپ سفری نماز اسی قدر پڑھتے تھے جتنی تکمیل سے پہلے تھی اور وہ دو رکعت تھی۔ پس یہ روایت ابتداء باب میں نقل کی جانے والی فہد والی روایت کے خلاف ہے۔ روایت یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں نماز کو پورا بھی پڑھا اور اس میں قصر بھی کی۔ رہی روایت یعلی بن منبہ ‘ تو قول اوّل والوں نے اس روایت میں مذکور آیت سے استدلال کیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : { واذا اضربتم فی الارض } (الآیۃ) وہ کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت دی گئی ہے کہ خواہ ہم قصر کریں یا نہ کریں ‘ قصر لازم نہیں ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : { فلا جناح علیھما ان یتراجعا } کی طرح ہے کہ طلاق میں رجوع لازم نہیں ‘ اختیار ہے۔ دوسرے قول والوں کی طرف سے ہماری دلیل یہ ہے کہ لا جناح کا لفظ کبھی تو رخصت کے لیے آتا ہے جیسا قول اوّل والوں نے کہا اور اس کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما } (الآیۃ) اور تمام علماء اس بات کے قائل ہیں کہ طواف حج یا عمرہ کرنے والے کے لیے لازم ہے۔ پس جب لا جناح کی نفی اختیار و لزوم دونوں کے لیے مستعمل ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان دو معنوں میں سے کسی ایک کے لیے بلا دلیل مقرر کرلینا درست نہیں ‘ وہ دلیل کتاب و سنت یا اجماع میں سے ہونا ضروری ہے اور کثیر روایات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اسفار میں قصر کو ثابت کرتے ہیں۔ چند درج ذیل ہیں۔
تخریج : بخاری تقصیرالصلاۃ باب ٥‘ مسلم فی المسافرین ١‘ ابو داؤد فی السفر باب ١ نمبر ١١٩٨۔
حاصل روایات : یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بتلا رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو دو رکعت ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ منورہ تشریف لائے یہاں ہر نماز میں اس کی مثل سے اضافہ ہوا اور جب آپ سفر کرتے تو پہلی نماز کی طرف لوٹتے اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں نماز مکی زندگی کی طرح پڑھتے تھے اور وہ دو رکعت ہے یہ روایت فہد والی اس روایت کے خلاف ہے جس کو دارقطنی نے نقل کیا ہے۔
فریق اوّل کی طرف سے اشکال یا استدلال :
اذا ضربتم والی آیت رخصت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس طرح کہ یہ آیت فلا جناح علیہما ان یتراجعا (البقرہ ٢٣٠) اس میں رجوع کی خاوند کو گنجائش ہے لازم نہیں۔ بالکل اسی طرح آیت میں قصر کی گنجائش ہے لزوم نہیں۔
الجواب بالصواب :
یہ لفظ لاجناح کبھی تو توسع کے لیے آتا ہے اور کبھی لزوم کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلا جناح علیہ ان یطوف بہما (البقرہ ١٥٨) حالانکہ یہ طواف تمام کے ہاں لازم ہے خواہ حج ہو یا عمرہ دونوں کا رکن ہے پس جب یہ نفی دونوں احتمال رکھتی ہے تو ایک پر محمول بلا دلیل کرنا درست نہیں جو کہ کتاب ‘ سنت و اجماع سے ہو۔ اور ہم تو متواتر آثار ایسے پیش کرسکتے ہیں جو سفر میں ہمیشہ قصر کو ثابت کرتے ہیں پس یہ اس احتمال کے راجح ہونے کی واضح دلیل ہے۔
آثار مرویہ یہ ہیں :

2349

۲۳۴۹: مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَزِدْ بْنِ خُمَیْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ حَبِیْبَ بْنَ عُبَیْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ السِّمْطِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِذِی الْحُلَیْفَۃِ رَکْعَتَیْنِ) .
٢٣٤٩: ابن السمط کہتے ہیں میں نے حضرت عمر (رض) کو فرماتے سنا وہ کہتے تھے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ١٣۔

2350

۲۳۵۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سُلَیْمَانُ‘ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ‘ أَوْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : (صَلَّیْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ عُمَرَ رَکْعَتَیْنِ‘ فَلَیْتَ حَظِّی مِنْ أَرْبَعِ رَکَعَاتٍ رَکْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ) .
٢٣٥٠: عبدالرحمن بن یزید نے عبداللہ سے روایت کی کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منی میں دو رکعت نماز ادا کی اسی طرح حضرت ابو بکرو عمر (رض) نے دو دو رکعت پڑھیں کاش میرا نصیب چار رکعات میں سے دو مقبول رکعات ہوجائیں۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٢‘ مسلم فی المسافرین نمبر ١٩۔

2351

۲۳۵۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا حَفْصٌ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ عَبْدِ اللّٰہِ (فَلَیْتَ حَظِّیْ) إِلَی آخِرِ الْحَدِیْثِ .
٢٣٥١: عبدالرحمن بن یزید نے ابراہیم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں عبداللہ کا یہ قول لیت حظی الی آخرالحدیث ذکر نہیں کیا۔

2352

۲۳۵۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُوْمُ فِی السَّفَرِ‘ وَیُفْطِرُ‘ وَیُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ لَا یَدَعُہُمَا‘ یَعْنِیْ لَا یَزِیْدُ عَلَیْہِمَا) .
٢٣٥٢: علقمہ نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں روزہ رکھتے تھے اور افطار بھی کرتے۔ اور دو رکعت نماز کو بالکل ترک نہ فرماتے تھے یعنی ان پر اضافہ نہ فرماتے۔
٢٣٥٣: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ‘ عَنْ عَاصِمٍ ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْہُمَا قَالَ : (سَافَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَقَامَ تِسْعَۃَ عَشَرَ یَوْمًا ‘ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ) .

2353

۲۳۵۳: عکرمہ نے ابن عباسi سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہﷺ نے سفر کیا اور انیس روز قیام فرمایا آپ دو رکعت ادا فرماتے۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ١‘ ترمذی فی ابواب السفر باب ٤٠‘ نمبر ٥٤٩۔

2354

۲۳۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح .
٢٣٥٤: ابن مرزوق نے وہب سے انھوں نے شعبہ سے روایت نقل کی۔

2355

۲۳۵۵: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ شُفَیٍّ‘ قَالَ : جَعَلَ النَّاسُ یَسْأَلُوْنَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الصَّلَاۃِ .فَقَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا خَرَجَ مِنْ أَہْلِہٖ، لَمْ یُصَلِّ إِلَّا رَکْعَتَیْنِ‘ حَتّٰی یَرْجِعَ إِلَیْہِمْ) .
٢٣٥٥: سعید بن شفی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کرنے لگے کہ سفر میں نماز کا کیا حکم ہے تو انھوں نے فرمایا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر سے نکلتے تو دو رکعت گھر میں واپسی تک دو دو رکعت ادا فرماتے رہتے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب التقصیر فی السفر نمبر ١٠٦٧۔

2356

۲۳۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَامَ حَیْثُ فَتْحُ مَکَّۃَ‘ خَمْسَۃً یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ) .
٢٣٥٦: عبیداللہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقعہ پر پندرہ روز قیام فرمایا اور آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١٠٧٦۔

2357

۲۳۵۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی رَکْعَتَیْنِ‘ وَأَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِہٖ‘ ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَّاہَا بَعْدُ أَرْبَعًا) .فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِذَا صَلَّی مَعَ الْاِمَامِ صَلّٰی أَرْبَعًا .وَإِذَا صَلّٰی وَحْدَہٗ.صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ .
٢٣٥٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ میں دو رکعت حضرت ابوبکر (رض) نے دو رکعت اور حضرت عمر (رض) نے دو رکعت ادا کیں اور حضرت عثمان (رض) نے دو رکعت اپنی خلافت کے شروع میں ادا کیں پھر حضرت عثمان (رض) نے چار پڑھیں پس ابن عمر (رض) جب امام کے ساتھ پڑھتے تو چار پڑھتے اور جب اکیلے پڑھتے تو دو پڑھتے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ١٧‘ ترمذی فی ابواب السفر باب ٣٩‘ نمبر ٥٤٤۔

2358

۲۳۵۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : (صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ سِتَّ سِنِیْنَ‘ أَوْ ثَمَانٍ‘ ثُمَّ أَتَمَّہَا بَعْدَ ذٰلِکَ) .
٢٣٥٨: حفص بن عاصم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت اور حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ دو رکعت اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ دو رکعت اور حضرت عثمان (رض) کے ساتھ چھ یا آٹھ سال دو رکعت ادا کیں پھر انھوں نے چار پڑھنا شروع کیں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ١٨۔

2359

۲۳۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ أَنَّ فَتًی سَأَلَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ‘ عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ فَعَدَلَ إِلٰی مَوْضِعِ الْعَوْقَۃِ فَقَالَ : إِنَّ ھٰذَا الْفَتَی‘ سَأَلَنِیْ عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ فَاحْفَظُوہَا عَنِّی‘ (مَا سَافَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَفَرًا إِلَّا صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ حَتّٰی یَرْجِعَ‘ وَأَقَامَ بِمَکَّۃَ زَمَنَ الْفَتْحِ ثَمَانِ عَشْرَۃَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ یَقُوْلُ : یَا أَہْلَ مَکَّۃَ‘ قُوْمُوْا فَصَلُّوْا رَکْعَتَیْنِ أُخْرَاوَیْنِ‘ فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ .ثُمَّ غَزَا حُنَیْنًا وَالطَّائِفَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْجِعْرَانَۃِ فَاعْتَمَرَ مِنْہَا فِیْ ذِی الْقَعْدَۃِ) ثُمَّ غَزَوْتُ مَعَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَاعْتَمَرْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِہِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ صَلّٰی أَرْبَعًا بِ " مِنًی " .
٢٣٥٩: ابو نضرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نوجوان نے عمران بن حصین (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز سفر کے متعلق دریافت کیا تو آپ موضع عوفہ کی طرف مڑ گئے اور فرمایا اس نوجوان نے مجھ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز سفر کے سلسلہ میں سوال کیا ہے تم سب اس کو مجھ سے محفوظ کرلو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر سفر میں دو رکعت نماز ادا کی ہے جب تک کہ واپسی نہیں ہوتی تھی آپ نے مکہ میں ایام فتح میں اٹھارہ روز قیام فرمایا اور نماز دو رکعت ادا فرمائی پھر آپ نے فرمایا اے اہل مکہ ! اٹھو اور دو پچھلی رکعتیں ادا کرلو ہم تو مسافر ہیں پھر آپ نے حنین و طائف کا غزوہ کیا تو دو دو رکعت نماز ادا فرماتے رہے پھر آپ جعرانہ کی طرف لوٹے تو وہاں ذی القعدہ میں عمرہ فرمایا پھر میں نے حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ غزوات میں شرکت کی اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ عمرے ادا کئے انھوں نے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور عثمان (رض) کے ساتھ شروع خلافت میں دو رکعت ادا کی پھر عثمان (رض) اس کے بعد منیٰ میں چار پڑھنے لگے۔
تخریج : ابو داؤد فی السفر باب ١٠‘ نمبر ١٢٢٩‘ ترمذی فی ابواب اسفر باب ٣٩‘ نمبر ٥٤٥۔

2360

۲۳۶۰: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ .ح .
٢٣٦٠: خصیب بن ناصح کہتے ہیں کہ ہمیں وہیب نے انھوں نے ابن جریج سے روایت نقل کی ہے۔

2361

۲۳۶۱: وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمِّی‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ‘ وَابْنُ جُرَیْجٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْکَدِرِ حَدَّثَہُمْ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : قَالَ (صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ بِالْمَدِیْنَۃِ أَرْبَعًا‘ وَصَلَّی الْعَصْرَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ رَکْعَتَیْنِ) .
٢٣٦١: محمد بن المنکدر نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز مدینہ منورہ میں چار رکعت اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں دو رکعت ادا فرمائی۔
تخریج : بخاری فی تقسیرالصلاۃ باب ٥‘ مسلم فی المسافرین نمبر ١٠‘ ابو داؤد وفی السفر باب ٢‘ نمبر ١٢٠٢‘ ترمذی فی ابواب السفر باب ٣٩‘ نمبر ٥٤٦۔

2362

۲۳۶۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٣٦٢: وہیب نے ایوب سے انھوں نے ابو قلابہ سے اور انھوں نے انس (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2363

۲۳۶۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمِ بْنِ مَیْسَرَۃَ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٣٦٣: ابراہیم بن میسرہ نے انس بن مالک (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2364

۲۳۶۴: حَدَّثَنَا مُبَشَّرُ بْنُ الْحَسَنِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : (خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَجَعَلَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ‘ حَتّٰی رَجَعَ .قُلْتُ : کَمْ أَقَمْتُمْ؟ قَالَ : عَشْرٌ) .
٢٣٦٤: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو فرماتے سنا کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے آپ لوٹنے تک دو دو رکعت ادا فرماتے رہے میں نے پوچھا تم نے کس قدر قیام کیا انھوں نے کہا دس روز۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ١‘ مسلم فی المسافرین نمبر ١٥۔

2365

۲۳۶۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ سُؤَالَہُ لِأَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢٣٦٥: یحییٰ بن اسحاق نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی مگر اس نے حضرت انس (رض) سے سوال کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج : دارمی ١؍٤٢٥۔

2366

۲۳۶۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ أَنَّ بُکَیْرًا حَدَّثَہٗ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمٍ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : (صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی رَکْعَتَیْنِ وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ‘ وَمَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَکْعَتَیْنِ شَطْرَ إِمَارَتِہٖ‘ ثُمَّ أَتَمَّہَا بَعْدَ ذٰلِکَ) .
٢٣٦٦: عبداللہ بن ابی سلیم نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ بکیر نے بیان کیا انھوں نے محمد بن عبداللہ بن ابی سلیم سے انھوں نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت ادا کیں اسی طرح ابوبکر (رض) کے ساتھ دو رکعت اور عمر (رض) کے ساتھ دو رکعت اور حضرت عثمان (رض) کے ساتھ خلافت کی ابتداء میں دو رکعت ادا کرتے رہے پھر اس کے بعد انھوں نے نماز پوری شروع کردی۔
تخریج : نسائی ١؍٢١٢‘ باب الصلاۃ بمنیٰ ۔

2367

۲۳۶۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنِ الْعَوْفِیِّ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : (صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَلَیْسَ بَعْدَہَا شَیْئٌ ‘ وَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا وَبَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ‘ وَقَالَ : ہِیَ وِتْرُ النَّہَارِ‘ وَلَا تَنْقُصُ فِیْ سَفَرٍ وَلَا حَضَرٍ‘ وَصَلَّی الْعِشَائَ أَرْبَعًا‘ وَصَلّٰی بَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ‘ قَالَ : وَصَلَّی فِی السَّفَرِ الظُّہْرَ رَکْعَتَیْنِ‘ وَصَلّٰی بَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ‘ وَصَلَّی الْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ‘ وَلَیْسَ بَعْدَہَا شَیْئٌ ‘ وَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا وَبَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ‘ وَصَلَّی الْعِشَائَ رَکْعَتَیْنِ‘ وَبَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ) .
٢٣٦٧: عوفی نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چار رکعت نماز ادا کی اور ان کے بعد کوئی چیز نہ تھی اور مغرب کی تین رکعت ادا کیں اور ان کے بعد دو رکعت پڑھیں اور کہا یہ دن کے وتر ہیں جو سفر و حضر میں کم نہیں ہوتے اور عشاء کی نماز چار رکعت ادا کی اور اس کے بعد دو رکعت پڑھیں اور آپ نے سفر میں ظہر دو رکعت اور اس کے بعد دو رکعت ادا کیں اور عصر کی نماز دو رکعت ادا کی اور اس کی بعد کوئی نماز نہ پڑھی (نفل) اور مغرب کی نماز تین رکعت ادا کی اور اس کے بعد دو رکعت ادا کی اور عشاء دو رکعت اور اس کے بعد دو رکعت ادا فرمائیں۔
تخریج : ترمذی فی ابواب السفر باب ٤١‘ نمبر ٥٥٢۔

2368

۲۳۶۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یُحَدِّثُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِہِمْ بِالْبَطْحَائِ، وَبَیْنَ یَدَیْہِ عَنَزَۃٌ‘ الظُّہْرَ رَکْعَتَیْنِ‘ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ‘ تَمْرُ بَیْنَ یَدَیْہِ الْمَرْأَۃُ وَالْحِمَارُ) .
٢٣٦٨: عون بن ابی جحیفہ (رض) نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطحاء میں ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھائی جبکہ آپ کے سامنے چھوٹا نیزہ گڑا ہوا تھا اور عورتیں اور گدھے سامنے سے گزر رہے تھے۔
تخریج : بخاری فی الوضو باب ٤٠‘ والصلاۃ باب ٩٠‘ والمناقب باب ٢٣‘ مسلم فی الصلاۃ ٢٥٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠١‘ ٦٨٨‘ نسائی فی الصلاۃ باب ١٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٢٤‘ مسند احمد ٤؍٣٠٧۔

2369

۲۳۶۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مُسَافِرًا‘ فَلَمْ یَزَلْ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ حَتّٰی رَجَعَ) .
٢٣٦٩: عون بن ابی جحفہ (رض) نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر کے لیے نکلے اور واپسی تک نماز دو دو رکعت پڑھتے رہے۔

2370

۲۳۷۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ .ح .
٢٣٧٠: ابن مرزوق نے وہب سے روایت نقل کی ہے۔

2371

۲۳۷۱: وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ وَہْبٍ‘ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی رَکْعَتَیْنِ‘ وَنَحْنُ أَکْثَرُ مَا کُنَّا وَآمَنُہُ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ یُخْبِرُوْنَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّہٗ کَانَ فِیْ سَفَرِہِ یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ حَتّٰی یَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِہٖ، ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ أَنَّہُمْ کَانُوْا فِیْ أَسْفَارِہِمْ یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْفَصْلِ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَمِنْہُ أَیْضًا
٢٣٧١: شعبہ نے ابو اسحاق سے انھوں نے حارثہ بن وہب (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھائی ہم اس وقت اکثریت اور امن میں تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جماعت ہے جو یہ خبر دے رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سفر میں گھر واپس آنے تک قصر فرماتے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام (رض) اپنے سفروں میں اسی طرح کرتے تھے۔ ان صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر و عمر (رض) بھی ہیں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ٢٠۔
حاصل کلام :
یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطلاع اور خبر دے رہے ہیں کہ وہ سفر میں گھر لوٹنے تک قصر نماز پڑھتے تھے اور صحابہ کرام بھی اپنے اسفار میں اسی طرح کرتے تھے اوپر ابوبکر و عمر (رض) کے عمل کا تذکرہ آچکا۔

2372

۲۳۷۲: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلّٰی بِمَکَّۃَ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ قَالَ : (یَا أَہْلَ مَکَّۃَ أَتِمُّوْا صَلَاتَکُمْ فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ) .
٢٣٧٢: ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے مکہ میں دو رکعت ادا کیں پھر ارشاد فرمایا اے مکہ والو ! تم اپنی نماز پوری کرلو ہم تو مسافر لوگ ہیں۔

2373

۲۳۷۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ وَرَوْحٌ‘ وَوَہْبٌ‘ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِمِثْلِہٖ .
٢٣٧٣: اسود نے عمر (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : امام محمد ١؍٥٠‘ منقطتاً ۔

2374

۲۳۷۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ وَمَالِکٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ أَسْلَمَ‘ مَوْلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ اِذَا قَدِمَ مَکَّۃَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٣٧٤: اسلم مولیٰ عمر (رض) نے عمر (رض) کے متعلق اسی طرح ذکر کیا ہے کہ جب وہ مکہ تشریف لاتے تو دو رکعت ادا کرتے۔

2375

۲۳۷۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَصَالِحُ بْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٢٣٧٥: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عمر (رض) کے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : الموطا مالک ١؍٥٢۔

2376

۲۳۷۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَیْ صِفِّیْنَ‘ فَصَلّٰی بِنَا رَکْعَتَیْنِ‘ بَیْنَ الْجِسْرِ وَالْقَنْطَرَۃِ .
٢٣٧٦: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی (رض) کے ساتھ صفین کی طرف نکلے تو آپ نے ان کو دو رکعت نماز مقام جسر اور قنطرہ کے مابین پڑھائی۔
تخریج : مصنفہ عبدالرزاق ٢؍٥٣٠‘ ابن ابی شیبہ ٢؍٢٠٢۔

2377

۲۳۷۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ عَدِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبِیْ لَیْلَی الْکِنْدِیِّ‘ قَالَ : خَرَجَ سَلْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزَاۃٍ‘ وَکَانَ سَلْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَسَنَّہُمْ‘ فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَأُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ فَقَالُوْا : تَقَدَّمْ یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ .فَقَالَ : مَا أَنَا بِالَّذِیْ أَتَقَدَّمُ‘ أَنْتُمَ الْعَرَبُ‘ وَمِنْکُمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلْیَتَقَدَّمْ بَعْضُکُمْ‘ فَتَقَدَّمَ بَعْضُ الْقَوْمِ‘ فَصَلّٰی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ .فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَالَ سَلْمَانُ : مَا لَنَا وَلِلْمُرَبَّعَۃِ‘ إِنَّمَا یَکْفِیْنَا نِصْفُ الْمُرَبَّعَۃِ .
٢٣٧٧: ابو لیلیٰ کندی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت کے ساتھ جو کہ تعداد میں تیرہ تھے ایک غزوہ میں روانہ ہوئے سلمان (رض) ان میں زیادہ عمر والے تھے پس نماز کا وقت آگیا اور اقامت کہی گئی تو انھوں نے ابو عبداللہ کو پڑھانے کے لیے کہا انھوں نے جواب دیا میں آگے نہ بڑھوں گا تم عرب ہو اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں سے ہیں پس تم آگے بڑھو کوئی ان میں سے آگے بڑھا اور اس نے چار رکعت نماز پڑھائی جب جماعت ختم ہوئی تو سلمان کہنے لگے ہمیں چار سے کیا واسطہ ہمیں تو چار کی جگہ دو کافی ہیں۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٢٠‘ ابن ابی شیبہ ٢؍٢٠٤۔

2378

۲۳۷۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْمِسْوَرِ‘ قَالَ : کُنَّا مَعَ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ فِیْ قَرْیَۃٍ مِنْ قُرَی الشَّامِ‘ فَکَانَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ‘ فَنُصَلِّیْ نَحْنُ أَرْبَعًا‘ فَنَسْأَلُہُ عَنْ ذٰلِکَ‘ فَیَقُوْلُ سَعْدٌ : نَحْنُ أَعْلَمُ .
٢٣٧٨: عبدالرحمن بن مسور کہتے ہیں کہ ہم سعد بن ابی وقاص (رض) کے ساتھ شام کی ایک بستی میں گئے وہ لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے اور ہم چار پڑھتے پس ہم ان سے سوال کرتے تو وہ کہتے ہم خوب جانتے ہیں (کہ سفر میں دو رکعت ہیں)
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٣٥۔

2379

۲۳۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَہُ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنُ أَسْمَائَ ‘ قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ رَجُلًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِیْ وَقَّاصٍ‘ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ‘ وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَبْدِ یَغُوثَ‘ کَانُوْا جَمِیْعًا فِیْ سَفَرٍ‘ فَکَانَ سَعْدٌ یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ وَیُفْطِرُ‘ وَکَانَا یُتِمَّانِ الصَّلَاۃَ وَیَصُوْمَانِ .فَقِیْلَ لِسَعْدٍ‘ نَرَاک تَقْصُرُ الصَّلَاۃَ وَتُفْطِرُ وَیُتِمَّانِ .فَقَالَ سَعْدٌ نَحْنُ أَعْلَمُ .
٢٣٧٩: عبدالرحمن بن مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص ‘ مسور بن مخرمہ ‘ عبدالرحمن بن عبد یغوث (رض) سب ایک سفر میں اکٹھے تھے سعد نماز میں قصر کرتے اور روزہ افطار کرتے وہ دونوں پوری نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ‘ کسی نے سعد کو کہا تم نماز میں قصر کرتے ہو اور افطار کرتے ہو اور یہ دونوں پوری نماز پڑھتے ہیں۔ سعد کہنے لگے ہمیں بخوبی علم ہے۔

2380

۲۳۸۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ صَفْوَانِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَفْوَانَ أَنَّہٗ قَالَ : جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَعُوْدُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ صَفْوَانَ‘ فَصَلّٰی بِنَا رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ انْصَرَفَ‘ فَأَتْمَمْنَا لِأَنْفُسِنَا أَرْبَعًا .
٢٣٨٠: صفوان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) عبداللہ بن صفوان کی عیادت کے لیے آئے تو ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر نماز کا سلام پھیر دیا پس ہم نے اپنے طور پر چار رکعت پوری کرلیں۔
تخریج : ١؍٥٢‘ الموطا مالک۔

2381

۲۳۸۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یُصَلِّیْ وَرَائَ الْاِمَامِ بِ " مِنًی " أَرْبَعًا‘ وَإِذَا صَلَّی لِنَفْسِہِ‘ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ .
٢٣٨١: نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) امام کے پیچھے منیٰ میں چار رکعت پڑھتے اور جب اکیلے پڑھتے تو دو رکعت ادا کرتے۔

2382

۲۳۸۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ قَالَ : أُصَلِّیْ صَلَاۃَ سَفَرٍ مَا لَمْ أَجْمَعْ إقَامَۃٍ‘ وَإِنْ مَکَثْت ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً .
٢٣٨٢: سالم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا میں جب تک فیصلہ اقامت نہیں کرتا اس وقت تک سفری نماز پڑھتا ہوں اگرچہ بارہ راتیں رکا رہوں۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٣٣۔

2383

۲۳۸۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ قَالَ أَتَیْتُ سَالِمًا أَسْأَلُہُ‘ وَہُوَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ‘ فَقُلْتُ : کَیْفَ کَانَ أَبُوْک یَصْنَعُ؟ قَالَ : کَانَ اِذَا صَدَرَ الظُّہْرُ‘ وَقَالَ : نَحْنُ مَاکِثُوْنَ أَتَمَّ الصَّلَاۃَ‘ وَإِذَا قَالَ : الْیَوْمَ وَغَدًا‘ أَخَّرَ‘ وَإِنْ مَکَثَ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً .
٢٣٨٣: ابن ابی نجیع بیان کرتے ہیں کہ میں سالم کے پاس آیا اور ان سے پوچھ رہا تھا اور وہ اس وقت مسجد کے دروازہ کے پاس تھے میں نے کہا تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ جب ظہر کے شروع وقت میں وہ کہتے ہم قیام کریں گے تو پھر وہ نماز پوری کرتے اور اگر کہتے آج یا کل تو قصر کرتے اگرچہ بیس رات قیام کرتے۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٣٩۔

2384

۲۳۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْجَزَّازُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ قَالَ : صَحِبْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ‘ فَکَانَ یُصَلِّی الْفَرِیْضَۃَ رَکْعَتَیْنِ .
٢٣٨٤: ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کی رفاقت مکہ سے مدینہ تک کی۔ وہ فرض دو رکعت پڑھتے رہے۔

2385

۲۳۸۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ‘ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی شِقِّ سِیْرِیْنَ‘ فَأَمَّنَا فِی السَّفِیْنَۃِ عَلٰی بِسَاطٍ‘ فَصَلّٰی الظُّہْرَ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ صَلّٰی بَعْدَہَا رَکْعَتَیْنِ .
٢٣٨٥: انس بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک (رض) کے ساتھ سیرین کی جانب گئے تو انھوں نے کشتی میں ایک دری پر نماز پڑھائی۔ انھوں نے ظہر دو رکعت پڑھائی پھر اس کے بعد دو رکت پڑھیں۔
تخریج : المحلی لابن حزم ٣؍١٩٧۔

2386

۲۳۸۶: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَزْرَقُ بْنُ قَیْسٍ‘ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا بَرْزَۃَ الْأَسْلَمِیَّ بِالْأَہْوَازِ‘ صَلَّی الْعَصْرَ‘ قُلْتُ : فَکَمْ صَلَّی؟ قَالَ : رَکْعَتَیْنِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوْا یَقْصُرُوْنَ فِی السَّفَرِ‘ وَیُنْکِرُوْنَ عَلٰی مَنْ أَتَمَّ .أَلَا تَرٰی أَنَّ سَعْدًا لَمَّا قِیْلَ لَہٗ .إِنَّ الْمِسْوَرَ‘ وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَبْدِ یَغُوثَ یُتِمَّانِ قَالَ : نَحْنُ أَعْلَمُ وَلَمْ یَعْذُرْہُمَا فِیْ إِتْمَامِہِمَا .وَأَنَّ الرَّجُلَ الَّذِیْ قَدَّمَہُ سَلْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمَعَہُ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَصَلّٰی أَرْبَعًا فَقَالَ لَہٗ سَلْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : مَا لَنَا وَلِلْمُرَبَّعَۃِ إِنَّمَا یَکْفِیْنَا نِصْفُ الْمُرَبَّعَۃِ‘ وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مَنْ کَانَ بِحَضْرَتِہِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَذَاہِبَہُمْ‘ لَمْ تَکُنْ اِبَاحَۃَ الْاِتْمَامِ فِی السَّفَرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلُ : فَقَدْ أَتَمَّ ذٰلِکَ الرَّجُلُ الَّذِیْ قَدَّمَہُ سَلْمَانُ وَالْمِسْوَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَہُمَا صَحَابِیَّانِ‘ فَقَدْ ضَادَّ ذٰلِکَ مَا رَوَاہُ سَلْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَمَنْ تَابَعَہُ عَلَی تَرْکِ الْاِتْمَامِ فِی السَّفَرِ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْمِسْوَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَذٰلِکَ الرَّجُلُ أَتَمَّا لِأَنَّہُمَا لَمْ یَکُوْنَا یَرَیَانِ فِیْ ذٰلِکَ السَّفَرِ قَصْرًا‘ لِأَنَّ مَذْہَبَہُمَا أَنْ لَا تُقْصَرَ الصَّلَاۃُ إِلَّا فِیْ حَجٍّ‘ أَوْ عَمْرَۃٍ‘ أَوْ غَزَاۃٍ‘ فَإِنَّہٗ قَدْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا غَیْرُہُمَا .فَلَمَّا احْتَمَلَ مَا رُوِیَ عَنْہُمَا مَا ذَکَرْنَا‘ وَقَدْ ثَبَتَ التَّقْصِیْرُ عَنْ أَکْثَرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یُجْعَلْ ذٰلِکَ مُضَادًّا لَمَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُمْ .اِذْ کَانَ قَدْ یَجُوْزُ‘ أَنْ یَّکُوْنَ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ‘ وَھٰذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَدْ صَلّٰی بِ " مِنًی " أَرْبَعًا فَأَنْکَرَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمَنْ أَنْکَرَ مَعَہُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَإِنْ کَانَ عُثْمَانُ إِنَّمَا فَعَلَہُ لِمَعْنًی رَأَیْ بِہٖ إِتْمَامَ الصَّلَاۃِ‘ مِمَّا سَنَصِفُہُ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ‘ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَلَمَّا کَانَ الَّذِیْ ثَبَتَ لَنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَنْ أَصْحَابِہٖ، ہُوَ تَقْصِیْرُ الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرِ لَا إِتْمَامُہَا‘ لَمْ یَجُزْ لَنَا أَنْ نُخَالِفَ ذٰلِکَ إِلٰی غَیْرِہٖ . فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہَلْ رَوَیْتُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا یَدُلُّکُمْ عَلٰی أَنَّ فَرَائِضَ الصَّلَاۃِ رَکْعَتَانِ فِی السَّفَرِ‘ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ قَاطِعًا لَمَا ذَہَبَ إِلَیْہِ مُخَالِفُکُمْ؟ .قُلْنَا : نَعَمْ ۔
٢٣٨٦: ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے ابو برزہ اسلمی کو اہواز میں دیکھا کہ انھوں نے نماز عصر پڑھائی میں نے پوچھا انھوں نے کتنی رکعت پڑھائی تو کہنے لگے دو رکعت۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہ سفر میں قصر کرتے تھے اور تکمیل کرنے والے پر تنکیر کرتے تھے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ جب سعد کو یہ کہا گیا کہ مسور اور عبدالرحمن بن عبد یغوث (رض) پوری نماز پڑھتے ہیں تو فرمایا ہم خوب جانتے ہیں اور آپ نے تکمیل میں ان کو معذور قرار نہیں دیا اور وہ شخص جس کو سلمان (رض) نے نماز کے لیے آگے کیا اس وقت ان کے ساتھ تیرہ اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ تو انھوں نے چار رکعت نماز پڑھائی تو سلمان (رض) ہمیں چار رکعت سے کیا تعلق ہے ہمیں تو چار کا نصف کافی ہے۔ وہاں جتنے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے ان میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ‘ تو اس سے یہ ثبوت مہیا ہوگیا ان تمام کے ہاں سفر میں تکمیل نماز نہ تھی۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ اس شخص نے بھی چار رکعت ادا کیں جس کو حضرت سلمان (رض) نے مقدم کیا اور مسور (رض) اور وہ دونوں صحابی ہیں اس شخص نے بھی نماز کو اس لیے مکمل کیا کیونکہ وہ اور مسور سفر میں قصر کے قائل نہ تھے کیونکہ ان کے ہاں تو صرف نماز قصر صرف حج یا عمرہ یا غزوہ میں تھی اور اس بات کو ان کے علاوہ دوسروں نے بھی اختیار کیا جب اس روایت میں احتمال پیدا ہوگیا حالانکہ صحابہ کرام (رض) کی اکثریت سے نماز قصر ثابت ہے اور صحابہ کرام (رض) سے جو کچھ مروی ہے اس کو اس کے متضاد قرار نہیں دیا جائے گا اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ اس کی کوئی اور وجہ ہو۔ یہ حضرت عثمان بن عفان (رض) ہیں کہ جنہوں نے منیٰ میں چار رکعت ادا کیں ‘ جب عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان پر تنکیر کی اور ان کے ساتھ دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اوپر قرار دیا ‘ اگرچہ عثمان (رض) نے کسی اور وجہ سے کیا جس کی بناء پر انھوں نے نماز میں تکمیل کی۔ ہم عنقریب اپنے موقع پر اسی باب میں بیان کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے نماز سفر میں قصر کا ثبوت مہیا ہوگیا نہ کہ اتمام۔ تو ہمیں اس کی مخالفت کر کے کسی اور بات کو اختیار کرنا جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی کوئی بات مروی ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ سفر میں فرض نماز چار رکعت ہیں ‘ تو یہ تمہارے پاس مخالفین کے لیے دلیل قطعی بن جائے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ جی ہاں ! (ہمارے پاس ذیل کی روایات ہیں)
حاصل روایات : یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں نماز کو قصر کرتے اور جو پوری پڑھتا اس پر تنقید کرتے جیسے سعد (رض) سے جب کہا گیا کہ مسور اور عبدالرحمن بن یغوث (رض) تو پوری نماز پڑھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا ہم مسئلے کو خوب جانتے ہیں اور ان کو چار پڑھنے میں معذور قرار نہیں دیا۔ اور وہ شخص جس نے سلمان (رض) کے ساتھ چار پڑھائیں تو سلمان نے فرمایا ہمیں چار مناسب نہ تھیں ہمارے لیے دو کافی تھیں۔ حاضرین نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا۔ اس سے بخوبی ثابت ہوگیا کہ ان کا طریقہ سفر میں مکمل پڑھنے کا نہ تھا۔
ایک اشکال :
سلمان (رض) کے ساتھ والے دو شخص بھی تو صحابی ہیں مگر انھوں نے نماز چار رکعت ادا کی تو انھوں نے سلمان کے متضاد عمل کیا۔
جواب : یہ بات تمہیں فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ عین ممکن ہے کہ مسور اور ان کے ساتھی (رض) کی نظر میں وہ سفر قصر والا نہ ہو اور ان کا خیال ہو کہ غزوہ ‘ حج وعمرہ میں ہی قصر کی جاتی ہے۔ جب یہ احتمال موجود ہے اور ادھر کثرت کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کثیر صحابہ (رض) سے قصر ثابت ہے تو ان کے عمل کی یہی تاویل مناسب ہے تاکہ ان کا عمل کثیر اکابر صحابہ کے خلاف نہ ہو۔
اور اس کی نظیر وہ عثمان (رض) کا عمل ہے کہ انھوں نے منیٰ میں جب چار پڑھائیں اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے انکار کیا اور دیگر صحابہ (رض) نے انکار کیا تو انھوں نے اپنے عمل کی علت ظاہر کی کہ میں نے شادی کی ہے جس کی وجہ سے مکہ میں میں مقیم بن گیا۔ پس جب قصر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کثیر صحابہ کرام (رض) سے ثابت ہوگیا تو اب کسی کو اس کی مخالفت درست نہیں۔

2387

۲۳۸۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ح .وَثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ .ح .
٢٣٨٧: عبدالعزیز بن معاویہ نے یحییٰ بن حماد سے بیان کیا۔

2388

۲۳۸۸: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الضَّرِیْرُ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ الصَّلَاۃَ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا‘ وَفِی السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ .
٢٣٨٨: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پیغمبر کی زبان پر حضر میں چار رکعت نماز فرض کی اور سفر میں دو رکعت۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ٥‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧٣‘ ١٠٦٨۔

2389

۲۳۸۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ وَرَوْحٌ‘ قَالَا : ثَنَا الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ زُبَیْدِ الْیَامِیِّ .ح .
٢٣٨٩: ثوری نے زبید یامی سے بیان کیا۔

2390

۲۳۹۰: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : أَبُو الْمُطَرِّفِ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ بْنُ مُصَرِّفٍ‘ عَنْ زُبَیْدِ ڑ الْیَامِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلَاۃُ الْأَضْحَی رَکْعَتَانِ‘ وَالْفِطْرُ رَکْعَتَانِ‘ وَالْجُمُعَۃُ رَکْعَتَانِ وَصَلَاۃُ السَّفَرِ رَکْعَتَانِ‘ تَمَامٌ لَیْسَ بِقَصْرٍ‘ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٣٩٠: زبید نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے انھوں نے عمر (رض) بیان کیا کہ عید قربان کی نماز دو رکعت اور عیدالفطر دو رکعت اور جمعہ دو رکعت اور نماز سفر دو رکعت مکمل ہے ناقص نہیں ہے یہ تمہارے پیغمبر (رض) کی زبان سے بتلایا گیا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧٣‘ ١٠٦٣‘ مسند احمد ١؍٣٧۔

2391

۲۳۹۱: وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ وَمُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ‘ عَنْ زُبَیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٣٩١: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں خطبہ دیا پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن حبان ٣؍١٩٧۔

2392

۲۳۹۲: وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ زُبَیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٣٩٢: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ یا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ٣؍١٩٧‘ نسائی ١؍٢١١۔

2393

۲۳۹۳: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ الضَّرِیْرُ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ‘ عَنْ زُبَیْدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٣٩٣: محمد بن طلحہ نے زبید سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل ہے۔

2394

۲۳۹۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ قَالَ : ثَنَا زُبَیْدٌ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ الثِّقَۃِ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٢٣٩٤: عبدالرحمن بن لیلیٰ نے ایک ثقہ آدمی سے انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ٣؍٢٨٣۔

2395

۲۳۹۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ زُبَیْدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ عَنْ الثِّقَۃِ .
٢٣٩٥: شریک نے زبید سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی البتہ انھوں نے ثقہ سے ذکر نہیں کی۔
تخریج : موارد انطمان للہثیمی ١؍١٤٤۔

2396

۲۳۹۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ مُوْسَی بْنِ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقُلْتُ : إِنِّیْ أُقِیْمُ بِمَکَّۃَ‘ فَکَمْ أُصَلِّی؟ قَالَ : رَکْعَتَیْنِ سُنَّۃُ أَبِی الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٣٩٦: موسیٰ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے دریافت کیا کہ میں مکہ میں اقامت اختیار کرتا ہوں تو میں کتنی رکعت پڑھوں تو انھوں نے فرمایا ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت تو دو رکعت ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤١۔

2397

۲۳۹۷: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ جَمِیْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ جَابِرٍ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَا : (سَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ‘ وَہِیَ تَمَامٌ) .
٢٣٩٧: عامر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس (رض) دونوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر کی مکمل نماز دو رکعت قرار دی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٧٣‘ ١٠٦٦۔

2398

۲۳۹۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٢٣٩٨: شعبہ نے حضرت جابر (رض) سے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : اسماعیلی۔

2399

۲۳۹۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ‘ عَنْ صَفْوَانِ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّہٗ سَأَلْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرِ‘ فَقَالَ أَخْشَیْ أَنْ تَکْذِبَ عَلَیَّ رَکْعَتَانِ مَنْ خَالَفَ السُّنَّۃَ کَفَرَ
٢٣٩٩: صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے نماز سفر کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا مجھے خطرہ ہے کہ تو مجھ پر جھوٹ نہ باندھے۔ فرمایا دو رکعت ہیں جس نے مخالفت کی اس نے ناشکری و ناقدری کی۔
تخریج : مصنفہ عبدالرزاق ٢؍٥٢٠۔

2400

۲۴۰۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ التَّیَّاحِ‘ عَنْ مُؤَرَّقٍ‘ قَالَ : سَأَلَ صَفْوَانُ بْنُ مُحْرِزٍ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٠٠: مؤرق کہتے ہیں کہ صفوان بن محرز نے حضرت عمر (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے اسی طرح کی بات فرمائی۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥١٩۔

2401

۲۴۰۱: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ‘ قَالَ : سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنِ التَّطَوُّعِ فِی السَّفَرِ .فَقَالَ : وَمَا یَمْنَعُک؟ فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ : أَنَا أُحَدِّثُک‘ أَنَا سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ ھٰذَا فَقَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : قَدْ فُرِضَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃُ فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا‘ وَفِی السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ‘ فَکَمَا یُتَطَوَّعُ ہٰہُنَا قَبْلَہَا وَمِنْ بَعْدِہَا‘ فَکَذٰلِکَ یُصَلَّی فِی السَّفَرِ قَبْلَہَا وَبَعْدَہَا .
٢٤٠١: اسامہ بن زید نے کہا میں نے طاؤس سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا تمہیں پڑھنے سے کیا رکاوٹ ہے ؟ حسن بن مسلم کہنے لگے میں تمہیں بتلاتا ہوں میں نے طاوس سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حضر میں چار رکعت مقرر کی گئیں اور سفر میں دو رکعت مقرر کی گئیں پس جو نفل نماز اس سے پہلے اور بعد یہاں پڑھتا ہے وہ اسی طرح سفر میں ادا کرے گا۔
تخریج : بیہقی ٣؍٢٢٥۔

2402

۲۴۰۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ‘ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ أَوَّلَ مَا فُرِضَتْ رَکْعَتَیْنِ‘ فَأُقِرَّتْ صَلَاۃُ السَّفَرِ‘ وَزِیْدَ فِیْ صَلَاۃِ الْحَضَرِ .
٢٤٠٢: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ شروع میں نماز دو دو رکعت مقرر ہوئی حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور سفر کی نماز اسی طرح رہی۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٥‘ مسلم فی المسافرین نمبر ١‘ ٢‘ ابو داؤد فی السفر باب ١‘ ١١٩٨۔

2403

۲۴۰۳: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٠٣: قعنبی نے کہا ہمیں مالک نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٦٩۔

2404

۲۴۰۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ (عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ عَامِرٍ أَنَّہٗ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَطْعَمُ فَقَالَ : ہَلُمَّ فَکُلْ فَقَالَ : إِنِّیْ صَائِمٌ .فَقَالَ : اُدْنُ حَتّٰی أُخْبِرَک عَنِ الصَّوْمِ‘ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ شَطْرَ الصَّلَاۃِ عَنِ الْمُسَافِرِ‘ وَالصَّوْمَ عَنِ الْحُبْلَی وَالْمُرْضِعِ) .
٢٤٠٤: ابو قلابہ نے بنی عامر کے ایک شخص سے نقل کیا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوا کہ آپ کھانا کھا رہے تھے آپ نے فرمایا آؤ۔ کھانا تناول کرلو۔ اس نے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں آپ نے فرمایا قریب ہو تاکہ میں تمہیں روزے کے متعلق بتلا دوں۔ اللہ تعالیٰ نے نماز ایک حصہ مسافر کو معاف کردیا اور روزہ حاملہ اور دودھ پلانے والی سے ہٹا دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٤٤‘ ٢٤٠٨‘ ترمذی فی الصوم باب ٢١‘ ٧١٥‘ نسائی فی الصیام باب ٥١‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٢‘ ٦٦٧‘ مسند احمد ٤؍٥‘ ٣٤٧؍٢٩١۔

2405

۲۴۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنِ الْجَرِیْرِیِّ‘ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِہٖ أَنَّہٗ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٠٥: ابوالعلاء نے اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کیا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2406

۲۴۰۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : أَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : (أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَاجَۃٍ‘ فَإِذَا ہُوَ یَتَغَدَّی‘ فَقَالَ : ہَلُمَّ إِلَی الْغَدَائِ قُلْتُ : إِنِّیْ صَائِمٌ .فَقَالَ : إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ نِصْفَ الصَّلَاۃِ وَالصَّوْمِ) .
٢٤٠٦: ابو قلابہ نے ایک آدمی سے بیان کیا وہ کہتا ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کسی کام آیا آپ اس وقت صبح کا کھانا تناول فرما رہے تھے آپ نے فرمایا۔ آؤ صبح کا کھانا کھالو۔ میں نے کہا میں روزہ دار ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز اور روزہ ہٹا دیا۔
تخریج : نسائی ١؍٣١٦۔

2407

۲۴۰۷: حَدَّثَنَا نَصْرٌ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ قِلَابَۃَ عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَنِیْ قُشَیْرٍ عَنْ عَمِّہِ .ثُمَّ لَقِیْنَاہُ یَوْمًا فَقَالَ لَہٗ أَبُوْ قِلَابَۃَ حَدِّثْہُ یَعْنِیْ أَیُّوْبَ .فَقَالَ الشَّیْخُ حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ أَنَّہٗ ذَہَبَ فِیْ اِبِلٍ لَہٗ فَانْتَہَی إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ وَزَادَ (وَعَنِ الْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ) .
٢٤٠٧: ابو قلابہ نے بنی قشیر کے ایک شخص سے نقل کیا انھوں نے اپنے چچا سے پھر ہم ان کو ایک دن ملے تو ان کو ابو قلابہ نے کہا وہ روایت ایوب کو بھی بیان کر دو ۔ شیخ نے کہا میرے چچا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں اپنے اونٹوں کے ساتھ گیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا پھر اسی طرح کی روایت بیان کی اور اس میں عن الحامل والمرضع کا اضافہ کیا ہے۔
تخریج : نسائی ٢٢٧٥۔

2408

۲۴۰۸: حَدَّثَنَا نَصْرٌ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَوَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ مِنْ بَنِیْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ‘ قَالَ : أَغَارَتْ عَلَیْنَا خَیْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٠٨: عبداللہ بن سوادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے بنو عبداللہ بن کعب بن مالک سے نقل کیا کہ ہم پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دستہ نے حملہ کیا۔ پھر اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٣٢٧۔

2409

۲۴۰۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ عَنْ ہَانِئِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشِّخِّیْرِ‘ عَنْ رَجُلٍ بَلْ جُرَیْشٍ‘ قَالَ : (کُنَّا نُسَافِرُ فَأَتَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَطْعَمُ فَقَالَ : ہَلُمَّ فَاطْعَمْ فَقُلْتُ : إِنِّیْ صَائِمٌ .فَقَالَ : ہَلُمَّ أُحَدِّثُک عَنِ الصِّیَامِ‘ إِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصِّیَامَ وَشَطْرَ الصَّلَاۃِ) .
٢٤٠٩: ہانی بن عبداللہ بن الشخیر نے بلجریش کے ایک آدمی سے بیان کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے آپ اس وقت کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا آآ کھانا کھالو۔ میں نے عرض کیا میں روزہ دار ہوں آپ نے کہا آؤ میں تمہیں روزے کے متعلق بیان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزے اور نماز کے ایک حصہ کو ہٹا لیا ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٣١٦‘ کتاب الصیام۔

2410

۲۴۱۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنُ مَیْمُوْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی ؛ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ قِلَابَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ أُمَیَّۃَ ؛ أَوْ عَنْ رَجُلٍ‘ عَنْ أَبِیْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : (قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ ؛ فَقَالَ : أَلَا تَنْتَظِرُ الْغَدَا یَا أَبَا أُمَیَّۃَ؟ فَقُلْتُ : إِنِّیْ صَائِمٌ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ) .فَھٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ فَرْضَ الْمُسَافِرِ رَکْعَتَانِ .وَأَنَّہٗ فِیْ رَکْعَتَیْہِ کَالْمُقِیْمِ فِیْ أَرْبَعَۃٍ .فَکَمَا لَیْسَ لِلْمُقِیْمِ أَنْ یَزِیْدَ فِیْ صَلَاتِہِ عَلٰی أَرْبَعَۃٍ شَیْئًا‘ فَکَذٰلِکَ لَیْسَ لِلْمُسَافِرِ أَنْ یَزِیْدَ فِیْ صَلَاتِہِ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ شَیْئًا .وَکَانَ النَّظَرُ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْفُرُوْضَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہَا‘ لَا بُدَّ لِمَنْ ہِیَ عَلَیْہِ مِنْ أَنْ یَأْتِیَ بِہَا ؛ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ خِیَارٌ فِیْ أَنْ لَا یَأْتِیَ بِمَا عَلَیْہِ مِنْہَا .وَکَانَ مَا أُجْمِعَ عَلَیْہِ أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یَأْتِیَ بِہٖ إِنْ شَائَ ؛ وَإِنْ شَائَ لَمْ یَأْتِ بِہٖ، فَہُوَ التَّطَوُّعُ ؛ إِنْ شَائَ فَعَلَہُ ؛ وَإِنْ شَائَ تَرَکَہُ .فَھٰذِہِ ہِیَ صِفَۃُ التَّطَوُّعِ‘ وَمَا لَا بُدَّ مِنَ الْاِتْیَانِ بِہٖ، فَہُوَ الْفَرْضُ‘ وَکَانَتْ الرَّکْعَتَانِ لَا بُدَّ مِنَ الْمَجِیْئِ بِہِمَا وَمَا بَعْدَہُمَا فَفِیْہِ اخْتِلَافٌ .فَقَوْمٌ یَقُوْلُوْنَ : لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤْتَیْ بِہٖ، وَقَوْمٌ یَقُوْلُوْنَ لِلْمُسَافِرِ أَنْ یَجِیْئَ بِہٖ إِنْ شَائَ ‘ وَلَہٗ أَنْ لَا یَجِیْئَ بِہٖ .فَالرَّکْعَتَانِ مَوْصُوْفَتَانِ بِصِفَۃِ الْفَرْضِ‘ فَہُمَا فَرِیْضَۃٌ‘ وَمَا بَعْدَ الرَّکْعَتَیْنِ مَوْصُوْفٌ بِصِفَۃِ التَّطَوُّعِ‘ فَہُوَ تَطَوُّعٌ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْمُسَافِرَ فَرْضُہُ رَکْعَتَانِ‘ وَکَانَ الْفَرْضُ عَلَی الْمُقِیْمِ أَرْبَعًا فِیْمَا یَکُوْنُ فَرْضُہُ عَلَی الْمُسَافِرِ رَکْعَتَیْنِ .فَکَمَا لَا یَنْبَغِیْ لِلْمُقِیْمِ أَنْ یُصَلِّیَ بَعْدَ الْأَرْبَعِ شَیْئًا مِنْ غَیْرِ تَسْلِیْمٍ‘ فَکَذٰلِکَ لَا یَنْبَغِیْ لِلْمُسَافِرِ أَنْ یُصَلِّیَ بَعْدَ الرَّکْعَتَیْنِ شَیْئًا بِغَیْرِ تَسْلِیْمٍ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ- عِنْدَنَا - فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی. فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُتِمُّوْنَ‘ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ فَعَلَہٗ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِ مِنًی .
٢٤١٠: ابو قلابہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو امیہ نے یا کسی آدمی نے ابو امیہ سے بیان کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سفر سے واپس آیا تو آپ نے فرمایا اے ابو امیہ ! کیا تم صبح کے کھانے کا انتظار نہ کرو گے۔ میں نے عرض کیا میں روزے سے ہوں پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ یہ وہ آثار ہیں جن کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے یہ تمام اس پر دلالت کرتے ہیں کہ مسافر کے لیے فرض نماز دو رکعت ہے اور وہ اپنی ان دو رکعتوں میں اس مقیم کی طرح ہے جو اپنی چار رکعتوں سے ادائیگی کرنے والا ہو۔ پس جس طرح مقیم کو چار رکعت سے اضافہ اپنی نماز میں درست نہیں ‘ اسی طرح مسافر کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی نماز میں دو رکعت سے اضافہ کرے۔ ہمارے نزدیک اس میں نظر و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فرض نماز کو مکمل پڑھنا تمام کے ہاں متفق علیہ ہے اس میں سے کسی چیز کا چھوڑنا اس شخص کے لیے جائز نہیں جس پر لازم ہو ‘ اس پر سب کا اتفاق ہے اور اس کو مکمل ادا کرنا بہرحال ضروری ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے جس چیز کو کرنے یا نہ کرنے میں اختیار ہے وہ نوافل ہیں اور نوافل کا یہی حکم ہے اور جس کا کرنا ضروری ہے وہ فرض ہے اور دو رکعت کا ادا کرنا تو ضروری ہے اور دو کے بعد والی رکعات میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے ادا کرنے کو ضروری قرار دیا اور دوسروں نے کہا کہ مسافر کے لیے ان دو کی ادائیگی مرضی پر موقوف ہے خواہ ادا کرے یا ادا نہ کرے۔ تو گویا دو رکعت میں فرض کی صفت پائی جاتی ہے اور بعد والی دو رکعت نوافل والی حالت رکھتی ہیں۔ پس وہ نفل ہیں۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسافر کا اصل فرض دو رکعت ہے اور مقیم کا فرض اس نماز میں چار رکعت ‘ جس میں مسافر کے لیے دو رکعت ہیں۔ پس جس طرح مقیم کے لیے جائز نہیں کہ ایک سلام سے چار رکعت پر کچھ اضافہ کرے بالکل اسی طرح مسافر کے لیے جائز نہیں ہے کہ دو رکعت کے بعد سلام کے بغیر کسی چیز کا اضافہ کرے۔ ہمارے نزدیک اس باب میں نظر و فکر کا تقاضا یہی ہے اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔ بالفرض اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ نماز تکمیل کرتے تھے اور اس کے ثبوت میں منیٰ میں کیا جانے والا حضرت عثمان (رض) کا عمل پیش کرلے۔
تخریج : بیہقی ٤؍٣٩٠۔
حاصل کلام :
یہ آثار جن کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہم نے نقل کیا ہے یہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مسافر کا فریضہ دو رکعت ہیں اور وہ اپنی دو رکعتوں کے حق میں مقیم کی طرح ہے۔ پس جس طرح مقیم کو اپنی نماز میں چار پر اضافہ جائز نہیں اسی طرح مسافر کو اپنی دو رکعت پر اضافہ جائز نہیں ہے یہ روایات کے لحاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
جب ہم فرائض پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا کرنا ضروری ہے کسی کو ان میں کرنے نہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نوافل کو کرنا نہ کرنا درست ہے یہ نوافل کی صفت ہے اور جس کا بہرصورت کرنا ضروری ہے وہ فرائض ہیں دو رکعتوں کا ادا کرنا تو تمام کے نزدیک لازم ہے اور ان کے علاوہ میں اختلاف ہے کچھ لوگ ان کے کرنے کو لازم قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسافر کو کرنے نہ کرنے کا اختیار ہے ان دو رکعتوں کی صفت تو فرض ہونا ہے اور وہ دونوں فرض ہیں اور بعد والی رکعتیں تطوع کے حکم میں ہیں۔
پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی مسافر کا فرض دو رکعت اور مقیم پر فرض چار رکعت جہاں مسافر پر دو رکعت ہیں پس جس طرح مقیم کو چار کے بعد بلاتسلیم اور کوئی چیز ان سے ملانی درست نہیں پس اسی طرح مسافر کو بھی مناسب نہیں کہ وہ دو رکعت کے بعد بغیر سلام کے اور کچھ پڑھے اور ملائے۔ نظر کا یہ تقاضا ہے۔
اور یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
ایک سوال :
اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت سے چار پڑھنا منقول ہے اور ان میں منجملہ عثمان (رض) ہیں جنہوں نے منیٰ میں دو رکعت کی بجائے چار رکعت ادا کی۔ روایات اتمام آگے ملاحظہ ہوں۔

2411

۲۴۱۱: وَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ صَالِحُ بْنُ کَیْسَانَ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : أَوَّلُ مَا فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ أُکْمِلَتْ أَرْبَعًا‘ وَأُثْبِتَتْ لِلْمُسَافِرِ .قَالَ صَالِحٌ : فَحَدَّثْتُ بِذٰلِکَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ فَقَالَ : عُرْوَۃُ حَدَّثَنِیْ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تُصَلِّیْ فِی السَّفَرِ أَرْبَعًا .
٢٤١١: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ وہ فرماتی ہیں کہ شروع میں نماز دو رکعت فرض ہوئی پھر چار مکمل کی گئی اور مسافر کے لیے اسی طرح قائم رکھی گئی صالح ہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کو یہ بات کہی تو انھوں نے کہا مجھے عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ (رض) سفر میں چار رکعت پڑھا کرتی تھیں۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٥‘ مسلم فی المسافرین نمبر ١۔

2412

۲۴۱۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : اسْتَأْذَنْتُ حُذَیْفَۃَ مِنَ الْکُوْفَۃِ إِلَی الْمَدَائِنِ‘ أَوْ مِنَ الْمَدَائِنِ إِلَی الْکُوْفَۃِ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَقَالَ : آذَنُ لَک عَلٰی أَنْ لَا تُفْطِرَ وَلَا تَقْصُرَ‘ قَالَ : قُلْتُ وَأَنَا أَکْفُلُ لَک أَنْ لَا أَقْصُرَ وَلَا أُفْطِرَ .
٢٤١٢: ابراہیم تیمی نے اپنے والد سے بیان کیا کہ میں نے کوفہ سے مدائن جانے کے لیے حضرت حذیفہ (رض) سے اجازت طلب کی یا مدائن سے کوفہ آنے کی اجازت رمضان میں طلب کی تو انھوں نے کہا کہ میں تمہیں اس شرط پر اجازت دیتا ہوں کہ تو نہ قصر کرے اور نہ افطار کرے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ نہ قصر کروں گا اور نہ افطار کروں گا۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٢٧۔

2413

۲۴۱۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ‘ قَالَ : قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ‘ فَأَدْرَکْتُ رَکْعَۃً مِنَ الْعِشَائِ، فَصَنَعْتُ شَیْئًا بِرَأْیِی فَسَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَقَالَ : أَکُنْتُ تَرٰی أَنَّ اللّٰہَ یُعَذِّبُک لَوْ صَلَّیْتُ أَرْبَعًا؟ کَانَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِیْنَ عَائِشَۃُ تُصَلِّیْ أَرْبَعًا‘ وَتَقُوْلُ الْمُسْلِمُوْنَ یُصَلُّوْنَ أَرْبَعًا .
٢٤١٣: روح نے بیان کیا کہ ہمیں ابن عون نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ آیا تو مجھے عشاء کی ایک رکعت ملی میں نے اپنی رائے سے ایک پر عمل کیا پھر میں نے قاسم بن محمد سے سوال کیا تو وہ کہنے لگے کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اگر تو چار پڑھ لیتا تو اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دیتا ؟ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) چار پڑھا کرتی تھیں۔ اور مسلمانوں کو چار پڑھنے کا حکم دیتی تھیں۔

2414

۲۴۱۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ أَیُّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوَفِّی الصَّلَاۃَ فِی السَّفَرِ؟ فَقَالَ : لَا أَعْلَمُہٗ إِلَّا عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَسَعْدَ بْنَ أَبِیْ وَقَّاصٍ .فَھٰذَا عَطَائٌ قَدْ حَکٰی ذٰلِکَ عَنْ سَعْدٍ‘ وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ خِلَافَ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ‘ وَحَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ .
٢٤١٤: ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء کو کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے کون سے اصحاب سفر میں پوری نماز کرتے تھے انھوں نے کہا مجھے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے علاوہ کسی کا علم نہیں۔ یہ عطاء ہیں جو کہ سعد سے اسی طرح روایت کر رہے ہیں حالانکہ حدیث زہری میں ہم سعد سے اس کے خلاف نقل کر آئے ہیں۔ اسی طرح حبیب بن ابی ثابت سے بھی سعد (رض) کا قول اس کے خلاف نقل کیا ہے۔

2415

۲۴۱۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حِبَّانَ الْبَارِقِیِّ‘ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ‘ إِنِّیْ مِنْ بَعْثِ أَہْلِ الْعِرَاقِ فَکَیْفَ أُصَلِّی؟ قَالَ : إِنْ صَلَّیْتُ أَرْبَعًا‘ فَأَنْتَ فِیْ مِصْرٍ‘ وَإِنْ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ فَأَنْتَ مُسَافِرٌ .فَھٰذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَحُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ‘ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَدْ رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ إِتْمَامِ الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرِ‘ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ فِیْ مَذْہَبِہٖ الَّذِیْ ذَہَبَ إِلَیْہِ مَعْنًی سَنُبَیِّنُہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَنَذْکُرُ مَعَ ذٰلِکَ مَا یَجِبُ بِہٖ لِقَوْلِہٖ، مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ وَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَأَمَّا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَاَلَّذِیْ ذَکَرْنَا عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ‘ ہُوَ إِتْمَامُہُ الصَّلَاۃَ بِ" مِنًی" فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ أَنْکَرَ التَّقْصِیْرَ فِی السَّفَرِ .وَکَیْفَ یُتَوَہَّمُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ‘ وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ) الْآیَۃَ‘ فَأَبَاحَ اللّٰہُ لَہُمْ التَّقْصِیْرَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ اِذَا خَافُوْا أَنْ یَفْتِنَہُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا .نَعَمْ أَخْبَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ ذٰلِکَ وَاجِبٌ لَہُمْ‘ وَإِنْ أَمِنُوْا فِیْ حَدِیْثِ یَعْلَی بْنِ مُنْیَۃَ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ‘ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ (وَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِ مِنًی رَکْعَتَیْنِ) وَہُمْ أَکْثَرُ مَا کَانُوْا وَآمَنُہٗ‘ وَعُثْمَانُ مَعَہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمْ یَکُنْ إِتْمَامُہُ الصَّلَاۃَ بِ " مِنًی " لِأَنَّہٗ أَنْکَرَ التَّقْصِیْرَ فِی السَّفَرِ‘ وَلٰـکِنْ لِمَعْنًی قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ .
٢٤١٥: حبان بارقی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہا میں عراق کی طرف جا رہا ہوں میں کس طرح نماز ادا کروں انھوں نے فرمایا اگر تم چار پڑھو تو تم شہر میں ہو اور اگر دو پڑھو تو مسافر ہو۔ لو یہ حضرت عثمان بن عفان ‘ عائشہ صدیقہ ‘ حذیفہ بن الیمان اور ابن عمر (رض) ہیں کہ جن سے سفر میں نماز کی تکمیل سے متعلق منقول ہوئیں۔ ان حضرات میں سے ہر ایک کے پاس اپنے اختیار کردہ عمل کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے جس کا عنقریب ہم تذکرہ کریں گے اور بطریق نظر و فکر ہر ایک کے معنی پر جو چیز لازم ہوتی ہے وہ بھی ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ وضاحت سنیے یہ حضرت عثمان (رض) ہیں جنہوں نے منیٰ میں نماز کو مکمل کیا تو وہ اس بناء پر نہ تھی کہ وہ سفر میں قصر کے قائل نہ تھے اور اس کا قطعاً واہمہ بھی نہیں کیا جاسکتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { واذا ضربتم فی الارض۔۔۔} (الآیۃ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قصر کو ان کے لیے اس وقت مباح کیا ہے۔ جبکہ کفار کے فتنہ میں مبتلا کرنے کا خطرہ ہو پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی اطلاع دی کہ یہ ان کے لیے لازم ہے خواہ وہ امن کی حالت میں ہوں۔ یہ بات حضرت یعلی بن منیہ کی روایت میں موجود ہے جیسا کہ حضرت عمر (رض) کی وساطت سے یہ روایت اسی باب کی ابتداء میں مذکور ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ میں دو رکعت نماز ادا کی جبکہ وہ تعداد میں بھی زیادہ اور خوب امن میں بھی تھے اور اس وقت عثمان بھی ان کے ساتھ تھے۔ تو حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں نماز کو دراز یعنی چار رکعت اس لیے ادا نہیں کیا کہ وہ قصر کا سفر میں انکار کرتے تھے بلکہ اس کی وجہ میں اختلاف کیا گیا ہے۔ روایت یہ ہے۔
حاصل کلام :
یہ عثمان بن عفان ‘ حذیفہ بن یمان ‘ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عمر (رض) ہیں ان سے سفر میں نماز کو مکمل کرنے کی روایات ہیں۔
ان روایات کا تاویلی معنی :
حضرت عثمان (رض) کے متعلق تو گزارش یہ ہے کہ ان کا مکمل کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ سفر میں قصر کے قائل نہ تھے اور یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ واذا ضربتم فی الارض (النساء ١٠١) اللہ تعالیٰ نے قصر کو اس آیت میں مباح قرار دیا جبکہ کفار کے فتنے کا خوف دامن گیر ہو اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس کے وجوب کی اطلاع دی اور یقیناً وہ یعلی بن منیہ والی روایت ہے جس کو ہم بیان کر آئے وہ امن والے اور اکثریت والے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ میں نماز دو رکعت پڑھائی اور عثمان (رض) بھی آپ کے ساتھ پس منیٰ میں ان کا مکمل کرنا اس وجہ سے تو نہیں ہوسکتا کہ وہ قصر کا انکار کرنے والے تھے بلکہ اس بنیاد پر انھوں نے منیٰ میں نماز پوری کی جس کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں۔

2416

۲۴۱۶: فَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ‘ قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : إِنَّمَا صَلّٰی عُثْمَانُ بِ" مِنًی" أَرْبَعًا لِأَنَّہٗ أَزْمَعَ عَلَی الْمُقَامِ بَعْدَ الْحَجِّ .فَأَخْبَرَنَا الزُّہْرِیُّ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ إِتْمَامَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا کَانَ لِأَنَّہٗ نَوَی الْاِقَامَۃَ‘ فَصَارَ إِتْمَامُہٗ ذٰلِکَ وَہُوَ مُقِیْمٌ‘ قَدْ خَرَجَ مِمَّا کَانَا فِیْہِ مِنْ حُکْمِ السَّفَرِ‘ وَدَخَلَ فِیْ حُکْمِ الْاِقَامَۃِ فَلَیْسَ فِیْ فِعْلِہِ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مَذْہَبِہٖ کَیْفَ کَانَ فِی الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرِ‘ ہَلْ ہُوَ الْاِتْمَامُ أَوِ التَّقْصِیْرُ . وَقَدْ قَالَ الزُّہْرِیُّ أَیْضًا غَیْرَ ذٰلِکَ ۔
٢٤١٦: زہری سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے منیٰ میں چار پڑھائیں کیونکہ انھوں نے حج کے بعد قیام کا ارادہ کر رکھا تھا۔ پس ہمیں زہری نے اس روایت میں اس بات کی خبر دی کہ حضرت عثمان (رض) نے مکمل نماز منیٰ میں اس وجہ سے ادا کی کیونکہ وہ اقامت کی مکہ میں نیت کرچکے تھے۔ پس ان کا مکمل کرنا مقیم ہونے کی وجہ سے تھا۔ پس جب وہ سفر والے حکم سے نکل گئے اور اقامت والے حکم میں داخل ہوگئے تو اب ان کے سفر میں تکمیل کی کوئی دلیل قائم نہ رہی کہ ان کی سفری نماز کیسی تھی ‘ کامل یا قصر والی۔ زہری (رح) نے اس کے علاوہ بھی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٢٧٠۔
پس اس روایت میں زہری نے بتلایا کہ عثمان (رض) منیٰ میں اقامت کی نیت کرلینے کی وجہ سے مکمل فرض پڑھتے تھے پس جب وہ مسافر کے حکم سے نکل گئے اور مقیم بن گئے تو ان کا فعل سفر میں تخیر والوں کی دلیل نہیں بن سکتا۔

2417

۲۴۱۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : أَنَا أَیُّوْبُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : إِنَّمَا صَلّٰی عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِ " مِنًی " أَرْبَعًا لِأَنَّ الْأَعْرَابَ کَانُوْا أَکْثَرَ فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ‘ فَأَحَبَّ أَنْ یُخْبِرَہُمْ أَنَّ الصَّلَاۃَ أَرْبَعٌ .فَھٰذَا یُخْبِرُ أَنَّہٗ فَعَلَ مَا فَعَلَ لِیُعَلِّمَ الْأَعْرَابَ بِہٖ أَنَّ الصَّلَاۃَ أَرْبَعٌ .فَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ یُرِیَہُمْ ذٰلِکَ‘ نَوَی الْاِقَامَۃَ‘ فَصَارَ مُقِیْمًا‘ فَرْضُہُ أَرْبَعٌ‘ فَصَلّٰی بِہِمْ أَرْبَعًا‘ وَہُوَ مُقِیْمٌ بِالسَّبَبِ الَّذِیْ حَکَاہُ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ وَہُوَ مُسَافِرٌ لِتِلْکَ الْعِلَّۃِ .وَالتَّأْوِیْلُ الْأَوَّلُ أَشْبَہُ عِنْدَنَا وَاَللّٰہُ أَعْلَمُ‘ لِأَنَّ الْأَعْرَابَ کَانُوْا بِالصَّلَاۃِ وَأَحْکَامِہَا فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْہَلَ مِنْہُمْ بِہَا وَبِحُکْمِہَا فِیْ زَمَنِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُمْ بِأَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ حِیْنَئِذٍ أَحْدَثُ عَہْدًا .فَہُمْ کَانُوْا فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْعِلْمِ بِفَرَائِضِ الصَّلَاۃِ أَحْوَجُ مِنْہُمْ إِلٰی ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُتِمَّ الصَّلَاۃَ لِتِلْکَ الْعِلَّۃِ‘ وَلٰـکِنْ قَصَرَہَا لِیُصَلُّوْا مَعَہُ صَلَاۃَ السَّفَرِ عَلٰی حُکْمِہَا‘ وَیُعَلِّمَہُمْ صَلَاۃَ الْاِقَامَۃِ عَلٰی حُکْمِہَا فِی السَّفَرِ‘ کَانَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَحْرٰی أَنْ لَا یُتِمَّ بِہِمُ الصَّلَاۃَ لِتِلْکَ الْعِلَّۃِ‘ وَلٰـکِنَّہٗ یُصَلِّیْہَا بِہِمْ عَلٰی حُکْمِہَا فِی السَّفَرِ‘ وَیُعَلِّمُہُمْ کَیْفَ حُکْمُہَا فِی الْحَضَرِ .فَقَدْ عَادَ مَعْنَی مَا صَحَّ مِنْ تَأْوِیْلِ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ إِلٰی مَعْنَیْ حَدِیْثِ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ .وَقَدْ قَالَ آخَرُوْنَ إِنَّمَا أَتَمَّ الصَّلَاۃَ‘ لِأَنَّہٗ کَانَ یَذْہَبُ إِلٰی أَنَّہٗ لَا یَقْصُرُہَا إِلَّا مَنْ حَلَّ وَارْتَحَلَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا حَدَّثَنَا
٢٤١٧: زہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں چار رکعت اس لیے ادا کیں کیونکہ بدو اس سال کثرت سے حج میں آئے پس انھوں نے چاہا کہ ان کو بتلا دیا جائے کہ نماز چار رکعت ہے۔ زہری (رح) نے اس روایت میں خبر دی ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں چار رکعت بدوؤں کو اس بات کی تعلیم دینے کے لیے کیا کہ اصل نماز ظہر و عصر چار چار رکعت ہے۔ پس اس میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ جب ان کو تعلیم دینے کا ارادہ کیا تو اقامت کی نیت کرلی جس سے وہ مقیم ہوگئے اور ان کے فرض چار رکعت لازم ہوگئے اس لیے انھوں نے چار رکعت پڑھائی اور وہ اس سبب کے باعث مقیم ہوگئے جس کو معمر نے زہری سے ہی پہلی فصل میں ذکر فرمایا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ انھوں نے مسافر ہونے کی حالت میں اس سبب کی بناء پر نماز کو مکمل فرمایا ہو (کہ شادی کر کے مقیم ہوگئے ہیں) ۔ ہمارے نزدیک پہلی تاویل اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ کیونکہ بدوؤں کو نماز اور اس کے احکام سے زمانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں زمانہ جاہلیت کے قریب ہونے کی بناء پر زیادہ ناواقفیت تھی اور سیکھنے اور سکھانے کی ان کو زمانہ عثمانی سے زیادہ ضرورت تھی۔ زمانہ نبوت میں زمانہ عثمانی سے فرائض کے جاننے کی ان کو زیادہ حاجت تھی ‘ پس جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس علت کی وجہ سے نمازوں کو پورا نہیں پڑا بلکہ قصر ادا فرمایا تاکہ وہ آپ کے ساتھ نماز سفر اصل حکم کے مطابق ادا کریں اور سفر میں ان کو مقیم کی نماز اس کے طریقہ کے مطابق سکھائیں۔ حضرت عثمان (رض) کے لیے زیادہ مناسب تھا کہ وہ اس علت کی بناء پر نماز کو پورا نہ پڑھیں بلکہ سفری حکم کے مطابق انجام دیں اور ان کو سکھائیں کہ مقیم کی نماز کس طرح پر ہوتی ہے۔ پس بات اسی معنی کی طرف لوٹ آئی جو زہری (رح) نے نقل کیا ہے اور زہری (رح) سے ایوب (رح) کی روایت کا بھی وہی مفہوم ہوا۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ انھوں نے نماز اس بناء پر مکمل کی کیونکہ ان کے نزدیک قصر صرف اس کے لیے ہے جو مسافر ہو ‘ ٹھہرنے والا نہ ہو ۔ انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔ روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٢٧٠۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ انھوں نے بدوؤں کو بات سمجھانے کے لیے نماز چار رکعت پڑھی۔ اور جب ان کو دکھانے کا ارادہ کیا تو اقامت کی نیت سے وہ مقیم بن گئے اور فرض چار رکعت ادا کئے اور سبب وہی تھا جو زہری نے بیان کیا اور ممکن ہے کہ نیت تو نہ کی ہو مگر صرف ان کو دکھانے کے لیے ایسا کیا ہو پہلا جواب ہمارے ہاں زیادہ مناسب ہے کیونکہ بدو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تو زمانہ اسلام کے اس سے بھی زیادہ قریب اور مسائل سے زیادہ ناواقف تھے۔ مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا نہ کیا بلکہ سفر میں قصر ہی کی اور اقامت والی نماز کو اپنے حال پر رکھا پس عثمان (رض) کے لیے زیادہ مناسب تھا کہ وہ اس علت کی وجہ سے نماز کو پورا نہ کرتے بلکہ سفر والے حکم کے مطابق ہی ادا کرتے اور ان کو ویسے بتلا دیتے کہ اس کا حضر میں یہ حکم ہے پس اب اس کا معنی بھی وہی لینا ہوگا جو پہلی تاویل کے مطابق ہے۔
بعض علماء کا قول اور انوکھی تاویل :
حضرت عثمان (رض) اس سفری نماز میں قصر کے قائل تھے کہ جس میں آدمی اترے اور آرام کر کے پھر وہاں سے کوچ کر جاتے اقامت اختیار نہ کرے۔ اس کا ثبوت اگلی روایات ہیں۔

2418

۲۴۱۸: أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ قَالَ : قَالَ حَمَّادٌ‘ وَأَخْبَرَنَا قَتَادَۃُ‘ قَالَ : قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ مَنْ حَمَلَ الزَّادَ وَالْمَزَادَ‘ وَحَلَّ وَارْتَحَلَ .
٢٤١٨: قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نماز قصر اس کے لیے مانتے تھے جو زاد راہ اور مشک اٹھائے پھرے اور اترے اور کوچ کر جائے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٢٣٠۔

2419

۲۴۱۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃُ‘ عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلٰی عُمَّالِہِ أَنْ لَا یُصَلِّیَنَّ الرَّکْعَتَیْنِ جَابٍ وَلَا نَائٍ ‘ وَلَا تَاجِرٌ‘ إِنَّمَا یُصَلِّی الرَّکْعَتَیْنِ مَنْ کَانَ مَعَہُ الزَّادُ‘ وَالْمَزَادُ .
٢٤١٩: قتادہ نے عیاش بن عبداللہ سے نقل کیا کہ عثمان (رض) نے اپنے عمال کی طرف لکھ بھیجا وہ آدمی قصر نہ کرے جو صدقہ وصول کرنے والا ‘ دور جانے والا اور تاجر ہو صرف وہ قصر کرے جس کے ساتھ زاد سفر اور مشکیزہ ہو۔
تخریج : المحلی ٢؍٥٢٠۔

2420

۲۴۲۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ وَأَبُوْ عُمَرَ‘ قَالَا : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ أَیُّوْبَ السِّخْتِیَانِیَّ أَخْبَرَہُمْ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ الْجَرِیْبِیِّ‘ عَنْ عَمِّہِ أَبِی الْمُہَلَّبِ‘ قَالَ : کَتَبَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ بَلَغَنِیْ أَنَّ قَوْمًا یَخْرُجُوْنَ إِمَّا لِتِجَارَۃٍ وَإِمَّا لِجِبَایَۃٍ‘ وَإِمَّا لِحَشْرٍ‘ ثُمَّ یَقْصُرُوْنَ الصَّلَاۃَ‘ وَإِنَّمَا یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ مَنْ کَانَ شَاخِصًا أَوْ بِحَضْرَۃِ عَدُوٍّ .قَالَ : وَکَانَ مَذْہَبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ لَا یَقْصُرَ الصَّلَاۃَ إِلَّا مَنْ کَانَ یَحْتَاجُ إِلٰی حَمْلِ الزَّادِ وَالْمَزَادِ‘ وَمَنْ کَانَ شَاخِصًا‘ فَأَمَّا مَنْ کَانَ فِیْ سَفَرٍ مُسْتَغْنِیًا بِہٖ عَنْ حَمْلِ الزَّادِ وَالْمَزَادِ فَإِنَّہٗ یُتِمُّ الصَّلَاۃَ .قَالُوْا : وَلِھٰذَا أَتَمَّ الصَّلَاۃَ بِ " مِنًی " لِأَنَّ أَہْلَہَا فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ کَثُرُوْا‘ حَتَّیْ صَارَتْ مِصْرًا‘ اسْتَغْنَی مَنْ حَلَّ بِہٖ عَنْ حَمْلِ الزَّادِ وَالْمَزَادِ وَھٰذَا الْمَذْہَبُ عِنْدَنَا فَاسِدٌ لِأَنَّ " مِنًی " لَمْ تَصِرْ فِیْ زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ‘ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ مَکَّۃَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِہَا رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ صَلّٰی بِہَا أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَہُ کَذٰلِکَ‘ ثُمَّ صَلّٰی بِہَا عُمَرُ بَعْدَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَذٰلِکَ .فَإِذَا کَانَتْ مَکَّۃُ مَعَ عَدَمِ احْتِیَاجِ مَنْ حَلَّ بِہَا إِلٰی حَمْلِ الزَّادِ وَالْمَزَادِ‘ یَقْصُرُ فِیْہَا الصَّلَاۃَ‘ فَمَا دُوْنَہَا مِنَ الْمَوَاطِنِ أَحْرٰی أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ .فَقَدِ انْتَفَتْ ھٰذِہِ الْمَذَاہِبُ کُلُّہَا بِفَسَادِہَا‘ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ أَجْلِ شَیْئٍ مِنْہَا قَصْرُ الصَّلَاۃِ‘ غَیْرَ الْمَذْہَبِ الْأَوَّلِ الَّذِیْ حَکَاہُ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَإِنَّہٗ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ أَجْلِہٖ أَتَمَّہَا‘ وَفِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَنَّ إِتْمَامَہُ لِنِیَّتِہِ الْاِقَامَۃَ عَلٰی مَا رَوَیْنَا فِیْہٖ‘ وَعَلٰی مَا کَشَفْنَا مِنْ مَعْنَاہُ .وَأَمَّا مَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ حُذَیْفَۃَ‘ فَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ أَیْضًا عَلَی الْاِتْمَامِ فِی السَّفَرِ‘ کَانَ ذٰلِکَ سَفَرَ طَاعَۃٍ أَوْ غَیْرَ طَاعَۃٍ .لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ‘ کَانَ مِنْ رَأْیِہِ‘ أَنْ لَا یَقْصُرَ الصَّلَاۃَ إِلَّا حَاجٌّ أَوْ مُعْتَمِرٌ أَوْ مُجَاہِدٌ‘ کَمَا قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَإِنَّہٗ ۔
٢٤٢٠: اسود کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے ہاں قصر صرف حاجی ‘ معتمر یا مجاہد کے ساتھ خاص ہے۔ پس عین ممکن ہے کہ حذیفہ (رض) کا بھی یہی خیال ہو۔ اسی کے مطابق انھوں نے تیمی کو حکم فرمایا کہ جب وہ فقط سفر کریں جو حج و جہاد کا نہ ہو تو قصر نہ کریں پس اس کے مطابق اس روایت میں ان کی دلیل نہ رہی جو مسافر کو سفر میں مکمل نماز کا حکم کرتے ہیں۔ ابوالمہلب کہتے ہیں کہ عثمان (رض) نے عمال کی طرف لکھ بھیجا کہ کچھ لوگ تجارت یا وصولی خراج کے لیے نکلتے ہیں یا جانور چرانے کے لیے پھر وہ نماز میں قصر کرتے ہیں نماز کو وہ قصر کرے جو پراگندہ حالت یا دشمن کی موجودگی میں سفر کرنے والا ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کا مذہب یہ تھا کہ وہ شخص نماز میں قصر کرے جو زاد راہ اور مشکیزہ ساتھ اٹھانے والا ہو اور وہ شخص جو گھر سے دور ہو۔ رہا وہ شخص جو سفر میں زاد راہ اور مشکیزے کا محتاج نہ ہو وہ نماز کو پوری پڑھے اور انھوں نے منیٰ میں اسی بنیاد پر نماز کو پورا کیا کیونکہ منیٰ میں اس وقت کافی آبادی ہوگئی تھی یہاں تک کہ وہ شہر کے حکم میں ہوگیا تھا۔ وہاں اترنے والا سفری کھانا لینے اور مشکیزہ لینے سے بےنیاز تھا۔ مگر ہمارے ہاں یہ تاویل فاسد ہے کیونکہ منیٰ حضرت عثمان (رض) کے زمانہ میں مکہ سے زیادہ آباد نہ تھا۔ بلکہ زمانہ نبوت والی حالت تھی۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو وہاں دو رکعت ادا فرمائیں ‘ پھر وہاں آپ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے بھی اسی طرح کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کے بعد اسی طرح کیا اور جب مکہ مکرمہ میں زاد راہ اور مشکیزہ کی عدم احتیاج کے باوجود آپ نماز قصر پڑھتے رہے تو اس کے مضافاتی علاقے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہاں قصر کی جائے۔ یہ تمام مذاہب فاسد ہونے کی بناء پر منتفی ہوگئے اور ثابت ہوگیا کہ حضرت عثمان (رض) نے ان میں سے کسی کی بھی بنیاد پر نماز میں قصر نہیں کی تھی۔ البتہ معمر نے زہری (رح) سے جو روایت نقل کی ہے اس کی بنیاد پر ان کے مکمل کرنے کو محمول کریں گے اور اسی روایت میں یہ وارد ہے کہ انھوں نے اقامت کی نیت کرلینے کی وجہ سے تکمیل کی جیسا ہم روایت کر آئے اور جیسا کہ ہم نے اس کا معنی واضح کیا۔ رہی وہ روایت جو حضرت حذیفہ (رض) سے نقل کر آئے اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ سفر میں اس کو مکمل کیا جائے اور وہ نیکی کا سفر ہو یا گناہ کا۔ کیونکہ اس کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کا اجتہاد ہو کہ قصر وہ کرے جو سفر حج یا عمرہ یا جہاد میں ہو ‘ جیسا کہ ابن مسعود (رض) سے مروی ہے۔ روایت ابن مسعود (رض) ذیل میں درج ہے۔
روایت حذیفہ (رض) کا حل :
حضرت حذیفہ (رض) والی روایت جس میں نماز کو مکمل کیا گیا اس میں بھی قصر کو چھوڑنے کی کوئی دلیل نہیں خواہ وہ معصیت کا سفر ہو یا طاعت کا۔ کیونکہ اس میں پہلا احتمال یہ ہے کہ ان کا اجتہاد ہو کہ قصر صرف حاجی یا عمرے والے یا مجاہد کے لیے درست ہے جیسا ابن مسعود (رض) سے روایت ہے۔ روایت ابن مسعود (رض) ملاحظہ ہو۔
تخریج : عبدالرزاق ٢؍٥٢٠۔
حاصل روایات :
حاصل روایات : کہ عثمان (رض) اس کے متعلق قصر کے قائل تھے جو اپنے ساتھ سامان سفر اور مشکیزہ رکھتا ہو اور جو زاد راہ سے مستغنی ہو وہ نماز کو مکمل کرے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس علت کی وجہ سے عثمان (رض) نماز کو مکمل کرتے تھے کہ ان کے اہل و عیال زیادہ ہونے کی وجہ سے منیٰ ان کے لیے بمنزلہ شہر بن گیا وہ سامان سفر کے ضرورت مند نہ تھے۔
تنقید طحاوی (رح) :
ہمارے ہاں یہ قول غلط ہے اور اس کی نسبت حضرت عثمان (رض) کی طرف درست نہیں کیونکہ منیٰ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عمرو عثمان (رض) کے زمانہ میں آباد شہر نہ تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں دو رکعت پڑھتے رہے۔ پھر وہاں ابوبکر و عمر (رض) نے آپ کے بعد قصر ہی پڑھی بلکہ مکہ میں رک کر بھی قصر پڑھی تو مکہ میں رکنے والے کو زاد راہ اور مشکیزہ اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں مگر پھر بھی وہاں قصر ہی کی جاتی رہی تو اس کے علاوہ مقامات اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان میں قصر کی جائے۔
پس ان تمام مذاہب نے حضرت عثمان (رض) کے عدم قصر کی جو علتیں بیان کیں وہ سب فاسد اور غلط ہیں البتہ معمر نے زہری سے جو علت نقل کی ہے وہی مناسب ہے کہ آپ کا مکمل نماز پڑھنا وہ نیت اقامت کی وجہ سے تھا۔
روایت ابن عمر (رض) کا حل :
کہ حضرت ابن عمر (رض) سے کسی نے سوال کیا کہ میں نے عراق جانا ہے نماز کس طرح ادا کروں ؟ ابن عمر (رض) نے فرمایا اگر تو چار پڑھے تو تو اپنے شہر میں ہے اور اگر تو نے دو پڑھیں تو تو مسافر ہے یعنی حالت سفر میں (یعنی جب تو شہر میں رک جائے تو پوری کرو) اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں شہر میں مسافر کی نماز کا یہی حکم تھا کہ پوری پڑھی جائے اور دوران سفر قصر ہی کی جائے گویا صفوان بن محرز کی روایت میں دوران سفر پڑھی جانے والی نماز کا ذکر ہے اسی لیے انھوں نے قصر نہ کرنے کو ناشکری قرار دیا اور یہ جنگل کی نماز ہے اور قصر نہ کرنے والے کو ناشکرا اور ناقدری کرنے والا شمار فرمایا یہ دوران سفر سے متعلق حکم ہے۔ اور حیان والی روایت اس میں مسافر کی شہر کے اندر رہ کر نماز کا حکم ہے۔ اور دلیل آخر باب میں آئے گی۔

2421

۲۴۲۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ‘ عَنْ عُمَارَۃَ ابْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَرَی التَّقْصِیْرَ إِلَّا لِحَاجٍّ أَوْ مُعْتَمِرٍ أَوْ مُجَاہِدٍ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَذْہَبَ حُذَیْفَۃَ‘ کَانَ کَذٰلِکَ فَأَمَرَ التَّیْمِیَّ اِذْ کَانَ یُرِیْدُ سَفَرًا لَا لِحَجٍّ‘ وَلَا لِجِہَادٍ‘ أَنْ لَا یَقْصُرَ الصَّلَاۃَ‘ فَانْتَہٰی أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ حَدِیْثِہٖ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِمَنْ یَرَی لِلْمُسَافِرِ إِتْمَامَ الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرِ .وَأَمَّا مَا رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِنَّ حَدِیْثَ حَیَّانَ ہُوَ عَلٰی أَنَّہٗ سَأَلَہُ وَہُوَ فِیْ مِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ‘ فَقَالَ لَہٗ : إِنِّیْ مِنْ بَعْثِ أَہْلِ الْعِرَاقِ فَکَیْفَ أُصَلِّیْ؟ فَأَجَابَہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَقَالَ : إِنْ صَلَّیْتُ أَرْبَعًا فَأَنْتَ فِیْ مِصْرٍ‘ وَإِنْ صَلَّیْتُ اثْنَتَیْنِ فَأَنْتَ مُسَافِرٌ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَذْہَبَہُ کَانَ فِیْ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِ فِی الْأَمْصَارِ ھٰکَذَا .وَقَدْ رَوٰی عَنْہُ صَفْوَانُ بْنُ مُحْرِزٍ‘ حِیْنَ سَأَلَہُ عَنِ الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرِ فَکَانَ جَوَابُہٗ لَہٗ أَنْ قَالَ : ہِیَ رَکْعَتَانِ‘ مَنْ خَالَفَ السُّنَّۃَ کَفَرَ .فَذٰلِکَ‘ عَلَی الصَّلَاۃِ فِیْ غَیْرِ الْأَمْصَارِ‘ حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ ذٰلِکَ‘ وَمَا رَوٰی حَیَّانُ .فَیَکُوْنُ حَدِیْثُ حَیَّانَ عَلٰی صَلَاۃِ الْمُسَافِرِ فِی الْأَمْصَارِ‘ وَحَدِیْثُ صَفْوَانَ عَلٰی صَلَاتِہٖ فِیْ غَیْرِ الْأَمْصَارِ‘ وَسَنُبَیِّنُ الْحُجَّۃَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ فِیْ آخِرِہٖ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٤٢١ : اسود سے مروی ہے کہ ابن مسعود (رض) قصر کو صرف حاجی ‘ معتمر اور مجاہد کے ساتھ خاص سمجھتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) کا مذہب اس طرح ہو اسی لیے وہ تیمی کو فرماتے جب حج و جہاد کے علاوہ سفر کرنے لگتے کہ نماز کو قصر نہ کرنا۔ پس ان کی روایت میں ان لوگوں کی دلیل نہ رہی جو مطلق مسافر کے لیے نماز کو پورا پڑھنے کا حکم ثابت کرتے ہیں۔ رہی وہ روایت جو اس سلسلہ میں ابن عمر (رض) سے آئی ہے۔ پس روایت حیان (رح) میں اس طرح ہے کہ میں نے ان سے ایک شہر میں سوال کیا کہ میں لشکر کے عراقی دستہ سے ہوں تو میں نماز کس طرح ادا کروں۔ تو انھوں نے فرمایا اگر تم چار پڑھو تو تم شہر میں ہو اور اگر تم دو پڑھو تو پھر تم مسافر ہو۔ اس سے یہ دلالت ملی کہ ان کا مذہب مسافر کی نماز کے سلسلہ میں شہر میں اسی طرح ہے اور صفوان بن محرز کی روایت میں جبکہ اس نے ابن عمر (رض) سے نماز سفر کے متعلق سوال کیا تو فرمایا وہ دو رکعت ہیں جس نے سنت کی خلاف ورزی کی تو اس نے ناشکری کی۔ یہ شہروں کے علاوہ ان کے ہاں نماز کا حکم ہے۔ یہ تاویل اس لیے کی ہے تاکہ یہ روایت حیان والی روایت سے متضاد و متصادم نہ ہو۔ پس روایت حیان کی روایت شہروں میں مسافر کی نماز سے متعلق ہے اور صفوان کی روایت شہروں کے علاوہ مسافر کی نماز سے متعلق ہے۔ ہم اس باب میں عنقریب دلیل ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت یہ ہے۔

2422

۲۴۲۲: فَإِنَّ أَبَا بَکْرَۃَ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ شِہَابٍ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعُرْوَۃِ : مَا کَانَ یَحْمِلُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَلٰی أَنْ تُصَلِّیَ فِی السَّفَرِ أَرْبَعًا؟ فَقَالَ : تَأَوَّلَتْ مَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ فِیْ إِتْمَامِ الصَّلَاۃِ بِ " مِنًی " .وَقَدْ ذَکَرْنَا مَا تَأَوَّلَ فِیْ إِتْمَامِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الصَّلَاۃَ بِ " مِنًی " فَکَانَ مَا صَحَّ مِنْ ذٰلِکَ ہُوَ أَنَّہٗ کَانَ مِنْ أَجْلِ نِیَّتِہِ لِلْاِقَامَۃِ .فَإِنْ کَانَ مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ‘ کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُتِمُّ الصَّلَاۃَ‘ فَإِنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَتْ لَا یَحْضُرُہَا صَلَاۃٌ إِلَّا نَوَتْ إقَامَۃً فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ‘ یَجِبُ عَلَیْہَا بِہَا إِتْمَامُ الصَّلَاۃِ‘ فَتُتِمُّ الصَّلَاۃَ لِذٰلِکَ .فَیَکُوْنُ إِتْمَامُہَا وَہِیَ فِیْ حُکْمِ الْمُقِیْمِیْنَ‘ لَا فِیْ حُکْمِ الْمُسَافِرِیْنَ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : کَانَ ذٰلِکَ مِنْہَا‘ لِمَعْنًیْ غَیْرِ ھٰذَا‘ وَہُوَ أَنِّیْ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرَۃَ یَقُوْلُ : قَالَ أَبُوْ عُمَرَ کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ فَکَانَتْ تَقُوْلُ : کُلُّ مَوْضِعٍ أَنْزِلُہُ‘ فَہُوَ مَنْزِلُ بَعْضِ بَنِیَّ‘ فَتَعُدُّ ذٰلِکَ مَنْزِلًا لَہَا‘ وَتُتِمُّ الصَّلَاۃَ مِنْ أَجْلِہٖ۔ وَھٰذَا - عِنْدِی - فَاسِدٌ‘ لِأَنَّ عَائِشَۃَ وَإِنْ کَانَتْ ہِیَ أُمُّ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبُو الْمُؤْمِنِیْنَ‘ وَہُوَ أَوْلٰی بِہِمْ مِنْ عَائِشَۃَ .فَقَدْ کَانَ یَنْزِلُ فِیْ مَنَازِلِہِمْ‘ فَلاَ یَخْرُجُ بِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ السَّفَرِ الَّذِیْ یُقْصَرُ فِیْہِ الصَّلَاۃُ إِلَی حُکْمِ الْاِقَامَۃِ الَّتِیْ تُکْمَلُ فِیْہَا الصَّلَاۃُ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : کَانَ مَذْہَبُ عَائِشَۃَ فِیْ قَصْرِ الصَّلَاۃِ أَنَّہٗ یَکُوْنُ لِمَنْ حَمَلَ الزَّادَ وَالْمَزَادَ‘ عَلٰی مَا رَوَیْنَا‘ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَکَانَتْ تُسَافِرُ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کِفَایَۃٍ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَتَرَکَتْ لِھٰذَا الْمَعْنٰی قَصْرَ الصَّلَاۃِ .فَلَمَّا تَکَافَأَتْ ھٰذِہِ التَّأْوِیْلَاتُ فِیْ فِعْلِ عُثْمَانَ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ لَزِمَنَا أَنْ نَنْظُرَ حُکْمَ قَصْرِ الصَّلَاۃِ‘ مَا یُوْجِبُہُ .فَکَانَ الْأَصْلُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا کَانَ مُقِیْمًا فِیْ أَہْلِہٖ، فَحُکْمُہٗ فِی الصَّلَاۃِ حُکْمُ الْاِقَامَۃِ‘ وَسَوَائٌ کَانَ فِیْ إقَامَتِہِ طَاعَۃٌ أَوْ مَعْصِیَۃٌ‘ لَا یَتَغَیَّرُ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ حُکْمُہٗ، فَکَانَ حُکْمُہٗ تَمَامَ الصَّلَاۃِ یَجِبُ عَلَیْہِ بِالْاِقَامَۃِ خَاصَّۃً‘ لَا بِطَاعَۃٍ‘ وَلَا بِمَعْصِیَۃٍ ثُمَّ اِذَا سَافَرَ‘ خَرَجَ بِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ الْاِقَامَۃِ .فَقَدْ جَرٰی فِیْ ھٰذَا مِنَ الْاِخْتِلَافِ‘ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَجِبُ لَہٗ حُکْمُ التَّقْصِیْرِ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ السَّفَرُ سَفَرَ طَاعَۃٍ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : یَجِبُ لَہٗ حُکْمُ التَّقْصِیْرِ فِی الْوَجْہَیْنِ جَمِیْعًا .فَلَمَّا کَانَ حُکْمُ الْاِتْمَامِ یَجِبُ لَہٗ فِی الْاِقَامَۃِ بِالْاِقَامَۃِ خَاصَّۃً‘ لَا بِطَاعَۃٍ وَلَا بِغَیْرِہَا‘ کَانَ کَذٰلِکَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ التَّقْصِیْرِ یَجِبُ لَہٗ فِی السَّفَرِ بِالسَّفَرِ خَاصَّۃً‘ لَا بِطَاعَۃٍ وَلَا غَیْرِہَا‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا وَشَرَحْنَا .وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ التَّقْصِیْرَ إِنَّمَا یَجِبُ لَہٗ بِحُکْمِ السَّفَرِ خَاصَّۃً لَا بِغَیْرِہِ‘ ثَبَتَ أَنَّہٗ یَقْصُرُ مَا کَانَ مُسَافِرًا فِی الْأَمْصَارِ وَفِیْ غَیْرِہَا لِأَنَّ الْعِلَّۃَ الَّتِیْ لَہَا تُقْصَرُ فِی السَّفَرِ الَّذِیْ لَمْ یَخْرُجْ مِنْہُ بِدُخُوْلِہِ الْأَمْصَارَ .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَصَحَّحْنَا‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٤٢٢: ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے عروہ سے سوال کیا کہ حضرت عائشہ (رض) نے سفر میں چار کیوں پڑھیں تو اس نے کہا کہ انھوں نے وہی تاویل کی جو عثمان (رض) نے منیٰ میں نماز کو مکمل پڑھنے کی کی تھی۔ کہ انھوں نے اقامت کی نیت کرلی تھی اس سے یہ ثابت ہوا کہ جب نماز کا وقت آتا تو وہ اس مقام پر اقامت کی نیت کرلیتیں تو ان کے قصر چھوڑنے کی وجہ نیت اقامت سے مقیم بن جانا تھا جس کی وجہ سے وہ مقیمین والی نماز پڑھتیں ایسا نہیں تھا کہ وہ مسافرت کی نیت ہوتے ہوئے مکمل پڑھتی تھیں۔ ہم نے حضرت عثمان (رض) کے منیٰ میں چار رکعات ادا کرنے کی جو صحیح تاویل نقل کی ہے۔ وہ یہی تھی کہ آپ نے اقامت کی نیت کی تھی۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بھی نماز کو اسی وجہ سے پوری کرتی ہوں ‘ ہر نماز کے وقت وہ نیت اقامت کرلیتی ہوں۔ جس کی وجہ سے ان پر نماز کو مکمل پڑھنا لازم ہو۔ چنانچہ وہ نماز کو مکمل کرتیں۔ فلہذا آپ کا مکمل نماز پڑھنا اس لیے ہوا کہ آپ مقیمین کے حکم میں تھیں ‘ سرے سے مسافرین کے حکم ہی میں نہ تھیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ کسی اور وجہ سے نماز پوری پڑھتی تھیں۔ وہ یہ کہ ابو عمر نے ابوبکرہ (رض) کو کہتے سنا کہ وہ فرماتیں میں مؤمنوں کی ماں ہوں ہر جگہ جہاں اتروں وہ میرے بیٹوں کی منزل و مکان ہے۔ وہ اس کو اپنا ٹھکانا شمار کر کے نماز کو مکمل کرتیں۔ مگر میں ابو جعفر کے ہاں یہ وجہ فاسد ہے۔ کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بلاشبہ امّ المؤمنین ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمنزلہ مؤمنوں کے باپ کے ہیں اور آپ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی بنسبت مؤمنوں کے قریب تر ہیں اور آپ ان کے مکانات میں اترنے کے باوجود آپ کو یہ نزول اجلال مسافروں کے حکم سے نہ نکالتا تھا اور آپ قصر چھوڑ کر مکمل نماز ادا نہ فرماتے تھے (فتدبر) ۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا مذہب نماز کو قصر کرنے کے سلسلہ میں وہ تھا جو ہم نے حضرت عثمان (رض) سے نقل کیا کہ جو زاد راہ اور مشکیزہ رکھے اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سفر فرماتیں تو ان کی ضرورت نہ ہوتی اسی وجہ سے انھوں نے نماز میں قصر کو ترک فرمایا جب حضرت عثمان اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے اقوال میں یہ تاویلات ذکر کی جا چکیں تو اب ہم نظر و فکر کے اعتبار سے جو چیز لازم آتی ہے اس پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں یہ اصل پایا گیا کہ جب آدمی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہو تو اس کا حکم اقامت والا ہوجاتا ہے۔ خواہ اقامت اطاعت کی ہو یا گناہ کی ہو اس کا حکم کسی لحاظ سے تبدیل نہ ہوگا۔ پس اسے نماز کو پورا پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس پر اقامت کی وجہ سے نماز خصوصاً کامل فرض لازم ہوں گے نہ کہ طاعت و معصیۃ کے سبب سے۔ پھر جب وہ سفر کرے گا تو اس کی وجہ سے وہ مقیم کے حکم سے نکل جائے گا اس سلسلہ جو اختلاف تھا جس کا تذکرہ گزشتہ سطور میں کردیا گیا۔ بعض نے کہا کہ اس پر قصر اس وقت لازم ہے جبکہ یہ سفر بھی اطاعت والا ہو اور دوسروں کا کہنا یہ ہے طاعت و معصیت کے ہر دو سفروں میں اس کو قصر کرنا ہوگا۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب اتمام کا حکم خصوصاً اقامت کی بناء پر تھا اس میں طاعت و معصیت کا دخل نہ تھا تو قیاس یہی چاہتا ہے کہ قصر کے حکم کا دارومدار بھی سفر پر ہو ‘ اس طاعت و غیر طاعت کا کچھ دخل نہ ہو۔ جیسا کہ ہم نے کھول کر بتلایا غور و فکر اسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصر خصوصی طور پر سفر کی وجہ سے لازم آتا اس میں اور کسی سبب کا دخل نہیں ‘ تو اس سے یہ بات پختہ ہوگئی کہ شہروں میں بھی شہر کے علاوہ مقامات میں وہ جب تک مسافر رہے گا وہ قصر کرتا رہے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس علت کی وجہ سے قصر ہے وہ سفر ہے جس سے شہروں کا داخلہ خارج نہیں کرتا۔ ہم نے جو کچھ اس بات میں بیان کیا اور اس کی تصحیح دلائل سے کی وہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤١‘ صلوۃ المسافرین۔
ایک انوکھا قول :
ابو عمر کہتے ہیں کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہا کرتی تھیں ہر جگہ جہاں میں اتروں وہ میرے بیٹوں کی جگہ ہے پس اس کو اپنا گھر شمار کر کے وہ نماز کو مکمل کرتیں۔
جواب : یہ غلط قول ہے کیونکہ حضرت عائشہ (رض) کو امّ المؤمنین ہونے کی وجہ سے سفر کی ہر جگہ کو اپنا گھر قرار دینا درست ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوالمؤمنین ہیں آپ کو تو بدرجہ اولیٰ حق ہے مگر آپ نے قصر کو ترک نہیں کیا اور کسی کو کیسے درست ہے کہ وہ اس کو وجہ بنا کر ترک قصر اختیار کرے۔ آپ ان مقامات پر اترتے اور سفر میں قصر کرتے اور حکم اقامت والے مقامات میں اقامت کرتے تھے۔ پس یہ قول باطل ہے۔
بعض کا قول :
اس سلسلہ میں بعض نے کہا کہ وہ بھی زاد راہ اور مشکیزہ والے کو مسافر قرار دیتی تھیں جیسا کہ ہم حضرت عثمان (رض) کے متعلق نقل کرچکے اور جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان کا سفر اس حالت میں ہوتا کہ یہ سب اسباب مہیا ہوتے تھے۔ پس اسی وجہ سے وہ قصر کو ترک کرتی تھیں۔
ان قابل اعتراض روایات کی تاویل سے فارغ ہوچکے تو اب عقلی اعتبار سے مسئلہ قصر کو عرض کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
جب آدمی گھر میں مقیم ہو تو اس کا حکم نماز کے سلسلہ میں اقامت والا ہے خواہ ان کی اقامت اطاعت کے لیے ہو یا معصیت کے لیے ہو۔ اس کا حکم کسی چیز سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حکم نماز کو مکمل پڑھنا ہے جو کہ خاص طور پر اقامت کی وجہ سے لازم ہوا ہے اس کا طاعت و معصیت سے واسطہ نہیں پھر جب اس نے سفر کیا تو اقامت کے حکم سے خارج ہوگیا اور اس میں یہ اختلاف چل نکلا کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ قصر کی اجازت اسی وقت ہے جبکہ یہ سفر خاص اطاعت کا ہو دوسروں نے کہا ہر صورت میں اس کو قصر کرنی ہوگی جب اقامت میں طاعت و معصیت کی وجہ سے حکم اقامت یعنی تکمیل صلوۃ نہیں بدلتا تو تقاضا نظریہ ہے کہ قصر کا حکم بھی سفر میں خاص ہے اس کا طاعت و معصیت سے تعلق نہیں پس اسے بھی نیت معصیت سے بدلنا نہ چاہیے۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصر سفر کی وجہ سے ہے کسی اور وجہ سے نہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ اس وقت تک قصر کرے گا جب تک وہ حالت سفر میں ہوگا خواہ شہر میں ہو یا جنگل میں کیونکہ قصر کی علت سفر ہے اور کسی شہر میں داخل ہونے سے اس علت سے خارج نہیں ہوتا پس حکم قصر ہی ہوگا۔
اس باب میں جن اقوال کو صحیح قرار دیا وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

2423

۲۴۲۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْہٖ‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ عَلَی الرَّاحِلَۃِ قَبْلَ أَیِّ وَجْہٍ تَوَجَّہَ‘ وَیُوْتِرُ عَلَیْہَا‘ غَیْرَ أَنَّہٗ لَا یُصَلِّیْ عَلَیْہَا الْمَکْتُوْبَۃَ) .
٢٤٢٣: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ سواری جس طرف بھی جائے البتہ سواری پر فرض نماز نہ پڑھتے تھے۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٩‘ مسلم فی المسافرین نمبر ٣٩‘ ابو داؤد فی السفر باب ٨‘ نمبر ١٢٣٤۔
خلاصۃ الزام :
نمبر 1: امام مالک و شافعی و احمد (رح) کے ہاں وتر چونکہ نفل ہیں اس لیے سواری پر اشارے سے ادا کرسکتے ہیں۔
نمبر 2: احناف کے ہاں وتر واجب ہیں اس لیے سواری پر ادا نہیں کئے جاسکتے۔
مؤقف فریق اوّل اور دلائل :
وتر چونکہ نفل ہیں اس لیے سواری اور زمین پر دونوں طرح درست ہیں۔ روایات یہ ہیں

2424

۲۴۲۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ أَسِیْرُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا طَرِیْقَ مَکَّۃَ فَلَمَّا خَشِیْتُ الصُّبْحَ‘ نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ أَیْنَ کُنْتُ؟ فَقُلْتُ : خَشِیْتُ الْفَجْرَ‘ فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْت .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : أَوَلَیْسَ لَک فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ؟ فَقُلْتُ : بَلٰی وَاللّٰہِ .ؑقَالَ : (فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْتِرُ عَلَی الْبَعِیْرِ) .
٢٤٢٤: سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ مکہ جا رہا تھا جب مجھے صبح کے نکلنے کا خطرہ ہوا تو میں نے نیچے اتر کر وتر ادا کئے ابن عمر (رض) فرمانے لگے تم کہاں تھے میں نے کہا مجھے پو پھوٹنے کا خطرہ ہوا پس میں نے اتر کر وتر ادا کئے ہیں ابن عمر (رض) فرماتے کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی تیرے لیے اچھا نمونہ نہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تو ابن عمر (رض) کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ پر وتر ادا فرما لیا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٣٦۔

2425

۲۴۲۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ‘ قَالَا : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْعُمَرِیِّ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ یَسَارٍ أَبِی الْحُبَابِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ (أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ) .قَالَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ
٢٤٢٥: سعید بن یسار ابی الحباب نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ اپنی سواری پر وتر ادا فرماتے تھے۔ ایک روایت میں روح اور ابراہیم دونوں راوی ہیں دوسری میں صرف ابراہیم ہے۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٣٨۔

2426

۲۴۲۶: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ مَعْشَرٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِأَنْ یُصَلِّیَ الْمُسَافِرُ الْوِتْرَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ کَمَا یُصَلِّیْ سَائِرَ التَّطَوُّعِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَبِفِعْلِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ بَعْدِہٖ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَ الْوِتْرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ وَأَنَّہٗ یُصَلِّیْہِ عَلَی الْأَرْضِ کَمَا یَفْعَلُ فِی الْفَرَائِضِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٢٤٢٦: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ بعض علماء نے کہا کہ مسافر کو سواری پر وتر ادا کرنے میں چنداں قباحت نہیں ‘ جیسا کہ دیگر نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول آثار اور فعل ابن عمر (رض) کو دلیل بنایا۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو سواری پر وتر جائز نہیں بلکہ وہ زمین پر ادا کرے گا جیسا فرائض میں کیا جاتا ہے اور ان کی دلیل درج ذیل آثار سے ہے۔ یہ اثر اس کے مخالف ہے جس سے اوّل قول والوں نے دلیل اخذ کی ہے اور جس کو ہم نے ابن عمر (رض) کی روایت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابن عمر (رض) کی اپنی روایات بھی اپنے اس قول کے خلاف اور دوسرے قول کی موافقت میں آئی ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔
تخریج : مسلم فی المسافرین نمبر ٣١‘ ٣٢۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس طرح نوافل کو سواری پر ادا کرسکتے ہیں خواہ وہ کسی رخ پر جائے بالکل اسی طرح وتروں کی ادائیگی بھی سواری پر درست ہے فرائض کی طرح ان کو زمین پر اتر کر ادا کرنا ضروری نہیں۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل : سواری پر وتر جائز نہیں ان کو فرائض کی طرح زمین پر ادا کرنا ضروری ہیں وتر واجب ہیں نفل نہیں ان کا حکم اسی وجہ سے نوافل سے مختلف ہے دلائل یہ روایات ہیں۔

2427

۲۴۲۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَنْظَلَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنْ (ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ وَیُوْتِرُ بِالْأَرْضِ‘ وَیَزْعُمُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَفْعَلُ کَذٰلِکَ) .فَھٰذَا خِلَافُ مَا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ‘ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا‘ مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الْوَجْہِ‘ مِنْ فِعْلِہٖ، مَا یُوَافِقُ ھٰذَا .
٢٤٢٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ وہ اپنی سواری پر نفل نماز ادا کرتے اور وتر زمین پر اتر کر ادا کرتے اور ان کا خیال یہ تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی تقصیر الصلاۃ باب ٧۔
سابقہ روایات ابن عمر (رض) کا جواب۔
یہ روایت فریق اوّل کی نقل کردہ روایات کے خلاف ہے اور ابن عمر (رض) سے اس روایت کی تائید میں بہت سی روایات ان کے اپنے عمل کو اس کے مطابق ثابت کرتی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ وہ عمل پہلے کا ہے جو کہ منسوخ ہوا قاعدہ معروفہ ہے کہ راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو یہ نسخ کی دلیل ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

2428

۲۴۲۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ وَبَکْرُ بْنُ بَکَّارٍ‘ قَالَا : ثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یُصَلِّیْ فِی السَّفَرِ عَلٰی بَعِیْرِہِ أَیْنَ مَا تَوَجَّہَ بِہٖ، فَإِذَا کَانَ فِی السَّحَرِ‘ نَزَلَ فَأَوْتَرَ .
٢٤٢٨: مجاہد نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ وہ سفر میں اپنے اونٹ پر نفل نماز ادا کرتے جدھر وہ چلتا جاتا جب پو پھوٹنے کا وقت ہوتا تو وتر ادا کرتے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤‘ نمبر ٤٤٧٦‘ ٢؍٣٧٠۔

2429

۲۴۲۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ‘ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ ۔
٢٤٢٩: مجاہد سے روایت ہے کہ میں مکہ سے مدینہ کے درمیان سفر میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٣٥۔

2430

۲۴۳۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا نَحْوَہٗ ۔قَالُوْا : فَفِیْمَا رَوَیْنَا‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَفِیْمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ‘ مِنْ فِعْلِہٖ، مَا یُخَالِفُ مَا رَوَاہُ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّہُمْ لَا یُعَارِضُوْنَ الزُّہْرِیَّ بِحَنْظَلَۃَ .وَأَمَّا مَا رَوَاہٗ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ وِتْرِہِ عَلَی الْأَرْضِ‘ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ‘ وَلَہٗ أَنْ یُوْتِرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا عَلَی الْأَرْضِ‘ وَلَہٗ أَنْ یُصَلِّیَہٗ عَلَی الرَّاحِلَۃِ‘ فَصَلَاتُہُ إِیَّاہُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ‘ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَہٗ عَلَی الرَّاحِلَۃِ‘ وَصَلَاتُہُ إِیَّاہُ عَلَی الْأَرْضِ‘ لَا تَنْفِیْ أَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَہٗ عَلَی الرَّاحِلَۃِ .وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ۔
٢٤٣٠: مجاہد نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ چنانچہ ہم نے حضرت ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بیان کیا اور ان کو جو فعل آثار میں نقل کیا وہ پہلے قول والے علماء کے خلاف ہے۔ اوّل قول والوں کے ہاں دلیل یہ ہے کہ وہ روایت زہری (رح) کا روایت حنظلہ سے معارضہ نہیں کرتے۔ رہا ابن عمر (رض) کا عمل کہ انھوں نے زمین پر وتر ادا کیے تو اس کی تاویل اس طرح ہوسکتی ہے کہ نوافل کو جس طرح سواری پر پڑھنا درست ہے اسی طرح زمین پر پڑھنا بھی جائز ہے وتر کا بھی یہی حال ہے کہ ان کو سواری پر ادا کرنا دلالت کرتا ہے کہ ان کی ادائیگی پر بھی درست ہے اور زمین پر ان کی نماز وتر سواری والی نماز کے منافی نہیں ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٩٧۔
حاصل روایات : حضرت ابن عمر (رض) وتروں کو اونٹ سے نیچے اتر کر اہتمام سے ادا کرتے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سواری پر وتر درست نہ تھے جو پہلے نقل ہوا وہ پہلے کا ہے۔
اشکال فریق اوّل :
ہم روایت میں حنظلہ کا زہری سے تقابل نہیں کرتے مگر یہ کہنے کا تو حق رکھتے ہیں کہ نوافل کے متعلق آپ کے ہاں بھی سواری پر اور نیچے اتر کر ہر دو طرح درست ہے اسی طرح جہاں انھوں نے سواری پر وتر پڑھے تو اس میں اس کا جواز سواری پر ثابت کیا اور زمین پر اتر کر پڑھے تو اس کا درست ہونا ظاہر کیا زمین پر پڑھنا اس کے ہرگز منافی نہیں کہ وہ سواری پر وتروں کو درست قرار نہ دیتے تھے اور اس کا ثبوت یہ روایت دے رہی ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

2431

۲۴۳۱: ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُوْتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ وَرُبَّمَا نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَی الْأَرْضِ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مُجَاہِدٌ رَآہٗ یُوْتِرُ عَلَی الْأَرْضِ‘ وَلَمْ یَعْلَمْ کَیْفَ کَانَ مَذْہَبُہُ فِی الْوِتْرِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ فَأَخْبَرَ بِمَا رَأَی مِنْہُ مِنْ وِتْرِہِ عَلَی الْأَرْضِ .وَوِتْرُہُ عَلَی الْأَرْضِ فِیْمَا لَا یَنْفِیْ أَنْ یَّکُوْنَ قَدْ کَانَ یُوْتِرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ أَیْضًا .ثُمَّ جَائَ سَالِمٌ‘ وَنَافِعٌ‘ وَأَبُو الْحُبَابِ‘ فَأَخْبَرُوْا عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُوْتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ۔وَالْوَجْہُ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یُوْتِرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ قَبْلَ أَنْ یَحْکُمَ الْوِتْرَ وَیُغَلِّظَ أَمْرَہٗ‘ ثُمَّ أُحْکِمَ بَعْدُ‘ وَلَمْ یُرَخِّصْ فِیْ تَرْکِہٖ۔ فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٤٣١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) کے متعلق کہا کہ وہ سواری پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے بسا اوقات وہ اتر کر وتر ادا کرتے تھے۔ عین ممکن ہے کہ مجاہد (رح) نے ان کو زمین پر وتر ادا کرتے دیکھا اور ان کو یہ معلوم نہ ہو کہ سواری پر ان کے ہاں وتر کا کیا طریقہ ہے۔ پس انھوں نے ان کو زمین پر وتر پڑھتے دیکھا تو وہی نقل کردیا۔ ان کا زمین پر وتر ادا کرنا اس کے منافی نہیں کہ وہ سواری پر بھی وتر ادا کرتے تھے۔ پھر سالم ‘ نافع ‘ ابوالحباب (رح) آئے تو انھوں نے آپ کے سواری پر وتر پڑھنے کی خبر دی۔ ہمارے نزدیک اس کی توجیہہ یہ ہے کہ یہ کہنا درست ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر وتر ان دنوں تک پڑھتے رہے جب وتروں کا حکم پختہ نہیں ہوا اور اس کی تاکید نہ آئی تھی ‘ جب ان کی تاکید کردی گئی تو ان کے چھوڑنے کی رخصت ختم ہوگئی۔ روایات درج ذیل ہیں۔
پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجاہد نے ان کو زمین پر تو وتر پڑھتے دیکھا مگر سواری پر وتر پڑھنے سے متعلق ان کا طریقہ اسے معلوم نہ ہوا پس اس نے اپنے علم کے مطابق اطلاع دی اسی طرح ان کے زمین پر وتر پڑھنے میں اس بات کی قطعاً نفی نہ تھی کہ وہ سواری پر وتر پڑھتے تھے پھر سالم ‘ نافع ‘ ابوالحباب (رح) نے اطلاع دی کہ وہ سواری پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔ پس ثابت ہوا کہ سواری پر وتر درست ہیں۔
جواب : ہمارے ہاں اس کی وجہ اصلی یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع میں وتر سواری پر پڑھتے ہوں گے اور آپ نے ادا فرمائے مگر اس وقت تک وتر کے سلسلہ میں سخت حکم نہ ہوا تھا پھر وتروں کا معاملہ محکم ہوا تو اس سلسلہ میں ترک کی رخصت ختم کردی گئی۔ یہ روایات اس کی مؤید ہیں۔

2432

۲۴۳۲: مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُوْسَی بْنُ أَیُّوْبَ الْغَافِقِیُّ‘ عَنْ عَمِّہِ إِیَاسِ بْنِ عَامِرٍ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ‘ وَعَائِشَۃُ مُعْتَرِضَۃٌ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُوْتِرَ أَوْمَی إِلَیْہَا أَنْ تَنَحَّیْ‘ وَقَالَ : ھٰذِہِ صَلَاۃٌ زِدْتُمُوْہَا) .
٢٤٣٢: ایاس بن عامر نے علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز ادا فرماتے اور حضرت عائشہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لیٹی رہتیں جب وتروں کا ارادہ فرماتے تو ان کی طرف اشارہ فرماتے کہ آگے سے ہٹ جاؤ اور فرمایا یہ نماز ہے جو تمہیں زائد دی گئی ہے۔

2433

۲۴۳۳: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیْ، قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَیُّوْبَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادٍ مِثْلَہٗ .
٢٤٣٣: ابو عبدالرحمن المقری نے موسیٰ بن ایوب سے بیان کیا پھر اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2434

۲۴۳۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ وَاللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَاشِدٍ‘ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ حُذَافَۃَ الْعَدَوِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَمَدَّکُمْ بِصَلَاۃٍ‘ ہِیَ خَیْرٌ لَکُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘ مَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْعِشَائِ إِلَی طُلُوْعِ الْفَجْرِ الْوِتْرَ الْوِتْرَ) " .
٢٤٣٤: عبداللہ بن ابی راشد نے خارجہ بن حذافہ عدوی (رض) سے نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک نماز کا اضافہ کیا ہے وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ عشاء کی نماز اور طلوع فجر کے درمیان ہے اور وہ نماز وتر ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الوتر باب ١‘ نمبر ١٤١٨‘ ترمذی فی الوتر باب ١‘ نمبر ٤٥٢‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١١٤‘ نمبر ١١٦٨‘ درامی فی الصلاۃ باب ٣٠٨۔

2435

۲۴۳۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ .ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٣٥: لیث نے یزید بن ابی حبیب سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2436

۲۴۳۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیْ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ لَہِیْعَۃَ أَنَّ أَبَا تَمِیْمٍ‘ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَالِکِ ڑ الْجَیَشَانِیَّ‘ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : أَخْبَرَنِیْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (إِنَّ اللّٰہَ قَدْ زَادَکُمْ صَلَاۃً فَصَلُّوْہَا‘ مَا بَیْنَ الْعِشَائِ إِلٰی صَلَاۃِ الصُّبْحِ‘ الْوِتْرَ الْوِتْرَ)، أَلَا وَأَنَّہٗ أَبُوْ بَصْرَۃَ الْغِفَارِیُّ .قَالَ أَبُوْ تَمِیْمٍ‘ فَکُنْتُ أَنَا وَأَبُوْ ذَرٍّ قَاعِدَیْنِ فَأَخَذَ أَبُوْ ذَرٍّ بِیَدِیْ‘ فَانْطَلَقْنَا إِلٰی أَبِیْ بَصْرَۃَ‘ فَوَجَدْنَاہُ عِنْدَ الْبَابِ الَّذِیْ عَلٰی دَارِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ. فَقَالَ أَبُوْ ذَرٍّ : یَا أَبَا بَصْرَۃَ أَنْتَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: (إِنَّ اللّٰہَ زَادَکُمْ صَلَاۃً فَصَلُّوہَا‘ فِیْمَا بَیْنَ الْعِشَائِ إِلٰی طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ الْوِتْرَ الْوِتْرَ)؟ .فَقَالَ أَبُوْ بَصْرَۃَ : نَعَمْ‘ قَالَ : أَنْتَ سَمِعْتُہٗ . قَالَ : نَعَمْ‘ قَالَ : أَنْتَ تَقُوْلُ سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ؟ قَالَ : نَعَمْ .فَأَکَّدَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَمْرَ الْوِتْرِ‘ وَلَمْ یُرَخِّصْ لِأَحَدٍ فِیْ تَرْکِہِ‘ وَقَدْ کَانَ قَبْلَ ذٰلِکَ‘ لَیْسَ فِی التَّأْکِیْدِ کَذٰلِکَ .فَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَا رَوٰی ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ وِتْرِہِ‘ عَلَی الرَّاحِلَۃِ‘ کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُ قِبَلِ تَأْکِیْدِہِ إِیَّاہُ‘ ثُمَّ أَکَّدَہٗ مِنْ بَعْدِ نَسْخِ ذٰلِکَ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ الصَّلَاۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ‘ لَیْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یُّصَلِّیَہَا قَاعِدًا‘ وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ‘ وَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَہَا فِیْ سَفَرِہِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ وَالنُّزُوْلَ .وَرَأَیْنَاہُ یُصَلِّی التَّطَوُّعَ عَلَی الْأَرْضِ قَاعِدًا‘ وَیُصَلِّیْہِ فِیْ سَفَرِہِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ۔فَکَانَ الَّذِیْ یُصَلِّیْہِ قَاعِدًا وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ‘ ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْہِ فِی السَّفَرِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ وَالَّذِیْ لَا یُصَلِّیْہِ قَاعِدًا وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ‘ ہُوَ الَّذِیْ لَا یُصَلِّیْہِ فِی السَّفَرِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ ھٰکَذَا الْأُصُوْلُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہَا .ثُمَّ کَانَ الْوِتْرُ بِاتِّفَاقِہِمْ‘ لَا یُصَلِّیْہِ الرَّجُلُ عَلَی الْأَرْضِ قَاعِدًا وَہُوَ یُطِیْقُ الْقِیَامَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ لَا یُصَلِّیَہُ فِیْ سَفَرِہٖ عَلَی الرَّاحِلَۃِ وَہُوَ یُطِیْقُ النُّزُوْلَ .فَمِنْ ھٰذِہِ الْجِہَۃِ- عِنْدِیْ- ثَبَتَ نَسْخُ الْوِتْرِ عَلَی الرَّاحِلَۃِ‘ وَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ‘ عَلٰی أَنَّہٗ فَرِیْضَۃٌ وَلَا تَطَوُّعٌ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٤٣٦: ابو تمیم عبداللہ بن مالک جیشانی نے بتلایا کہ میں نے عمرو بن العاص (رض) کو فرماتے سنا کہ مجھے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے اطلاع دی ہے کہ اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو پڑھو وہ عشاء اور صبح کے مابین ہے وہ وتر ہے اور سنو وہ راوی ابو بصرہ غفاری ہیں ابو تمیم کہتے ہیں میں اور ابو ذر (رض) اکٹھے بیٹھے تھے ابو ذر نے میرا ہاتھ پکڑا ہم دونوں ابو بصرہ کے پاس گئے تو ان کو اس دروازے کے پاس پایا جو عمرو بن عاص (رض) کے گھر کے پاس ہے ابو ذر کہنے لگے اے ابو بصرہ کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے وہ عشاء سے طلوع فجر کے درمیان ہے وہ وتر ہے وتر ہے۔ ابو بصرہ کہنے لگے ہاں۔ ابو ذر کہنے لگے کیا تم نے آپ سے سنا ہے اس نے کہا ہاں۔ پھر ابو ذر نے کہا کیا تم نے کہا ہے کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے انھوں نے کہا جی ہاں۔ ان آثار میں وتروں کی خوب تاکید کردی اور اس کے چھوڑنے کی کسی کو رخصت نہیں دی ‘ حالانکہ پہلے اس طرح تاکید نہ تھی۔ پس عین ممکن ہے کہ ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جن وتروں کا حالت سواری میں معاینہ کیا یہ آپ پر تاکید وتر سے پہلے کا واقعہ ہو۔ پھر آپ نے تاکید کردی جس سے پہلا حکم منسوخ کردیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ایک اتفاقی قاعدہ یہ بھی پاتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو فرض نماز میں قیام پر قدرت ہو تو وہ بیٹھ کر نماز فرض ادا نہیں کرسکتا اور اگر سواری سے اترنے کی طاقت ہو تو وہ سفر میں سواری پر فرض ادا نہیں کرسکتا اور ہمارے پیش نظریہ بات بھی ہے کہ نوافل زمین پر قیام کی قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اور حالت سفر میں وہ سواری پر بھی ادا کرسکتا ہے۔ تو جس نماز کو قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اسی نماز کو سفر میں سواری پر ادا کرسکتا ہے اور جو نماز قیام پر قدرت کے ہوتے ہوئے بیٹھ کر ادا نہیں کرسکتا ‘ اسے حالت سفر میں سواری پر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ اس قاعدے پر سب کا اتفاق ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ جب کوئی شخص نماز وتر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو وہ زمین پر بیٹھ کر ادا نہیں کرسکتا۔ پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی شخص حالت سفر میں سواری سے نیچے اتر سکتا ہو وہ نماز وتر سواری پر نہیں پڑھ سکتا۔ تو اس لحاظ سے میرے ہاں وتر کا حکم منسوخ ہے۔ مگر اس میں نماز کے فرض یا نفل ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ یہ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٤٣٤ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔
حاصل روایات : ان روایات میں وتروں کی تاکید کردی گئی اور ان کے چھوڑنے کی کسی کو اجازت نہیں رہی یہ سلسلہ شروع میں تھا اس وقت اتنی تاکید بھی نہ تھی۔
پس یہ بالکل درست ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سواری پر وتر پڑھنا نقل کیا یہ ان تاکیدات سے پہلے تھا پھر جب تاکید کردی گئی تو سواری پر وتروں کا پڑھنا منسوخ کردیا گیا۔
نظر طحاوی یا دلیل عقلی :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ فرض نماز مرد کو بیٹھ کر پڑھنی درست نہیں جبکہ وہ قیام کی طاقت رکھتا ہو اور اس کا سفر میں سواری پر پڑھنا درست نہیں ہے جبکہ قیام وتروں کی طاقت رکھتا ہو جب ہم نے نوافل پر غور کیا تو ان کو زمین پر بیٹھ کر پڑھنا درست پایا اور سفر میں ان کا سواری پر پڑھنا درست ہے نوافل کو جو بیٹھ کر پڑھ رہا ہے وہ قیام کی طاقت رکھتا ہے اور وہی سفر میں ان کو سواری پر پڑھ رہا ہے اور دوسری طرف جو قیام کی طاقت کے ہوتے ہوئے بیٹھ کر ان کو نہیں پڑھ رہا یہ وہی شخص ہے جو سفر میں ان کو سواری پر نہیں پڑھتا یہ متفقہ اصول ہے۔
اب وتروں پر نظر ڈالیں کہ ان کو بالاتفاق زمین پر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے جبکہ کھڑے ہونے کی طاقت ہو پس تقاضا نظریہ ہے کہ سفر میں بھی ان کو سواری پر نہ پڑھا جائے جبکہ اترنے کی طاقت ہو میرے نزدیک وتروں کا نسخ اسی لحاظ سے ثابت ہے۔ اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ فرض ہیں یا نفل ہیں یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

2437

۲۴۳۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنُ مُحْرِزٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زَمْعَۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا جَائَ أَحَدَکُمُ الشَّیْطَانُ‘ فَخَلَطَ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ، فَلاَ یَدْرِیْ کَمْ صَلّٰی؟ فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ) .
٢٤٣٧: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے تو اس کی نماز میں خلل ڈالتا ہے پس اس کو یہ خبر نہیں رہتی کہ اس نے کتنی نماز ادا کی ہے پس (اس وقت وہ) دو سجدے بیٹھ کر کرے۔
تخریج : بخاری فی السہو باب ٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ٨٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩٢‘ نمبر ١٠٣٠‘ ترمذی فی المواقیت باب ١٧٤‘ نمبر ٣٩٧‘ نسائی فی السہو باب ٢٥‘ مالک فی السہو نمبر ١‘ مسند احمد ٢؍٢٤١‘
خلاصہ الزام :
نمبر 1: اگر کسی کو اپنی نماز کی تین یا چار رکعت میں شک ہوجائے تو امام حسن بصری وعطاء رحمہما اللہ کے ہاں صرف سجدہ سہو سے نماز پوری کرلے۔
نمبر 2: ائمہ ثلاثہ کے ہاں اقل پر عمل کرے اور سجدہ سہو کرے تو نماز درست ہوجائے گی۔
نمبر 3: احناف کے ہاں اقل کی بجائے ظن غالب پر عمل کرے اور اگر ظن برابر ہو تو اقل پر عمل کرے اور سجدہ بھی کرے تب نماز ہوگی۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : جب نماز میں شک ہو تو سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی۔ دلائل یہ ہیں۔
٢٤٣٧: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے تو اس کی نماز میں خلل ڈالتا ہے پس اس کو یہ خبر نہیں رہتی کہ اس نے کتنی نماز ادا کی ہے پس (اس وقت وہ) دو سجدے بیٹھ کر کرے۔
تخریج : بخاری فی السہو باب ٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ٨٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩٢‘ نمبر ١٠٣٠‘ ترمذی فی المواقیت باب ١٧٤‘ نمبر ٣٩٧‘ نسائی فی السہو باب ٢٥‘ مالک فی السہو نمبر ١‘ مسند احمد ٢؍٢٤١‘ ٢٧٣‘ بلفظ فلیس علیہ صلاتہ فلیلبس علیہ۔

2438

۲۴۳۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٤٣٨: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2439

۲۴۳۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِدْرِیْسُ بْنُ یَحْیٰی‘ عَنْ بَکْرِ بْنِ مُضَرَ‘ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ أَبِیْ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٣٩: عمرو بن حارث سے ابو شہاب سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2440

۲۴۴۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلَمْ یَدْرِ أَثْلَاثًا صَلّٰی أَمْ أَرْبَعًا) ؟ " ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٤٠: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگتا ہے پھر اسے معلوم نہیں رہتا کہ اس نے چار پڑھی ہیں یا تین ؟ پھر اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی السہو باب ٧‘ مسلم فی المساجد نمبر ٨٣‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ١٣٥‘ نمبر ١٢١٦‘ مسند احمد ٢؍٢٨٣۔

2441

۲۴۴۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنِ ڑ الْبَغْدَادِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ مُسْلِمٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ .عَنْ یَحْیَی‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٤١: یحییٰ نے ابو سلمہ سے انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2442

۲۴۴۲: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ‘ عَنْ یَحْیَی‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٤٢: یحییٰ نے ابو سلمہ سے انھوں نے اپنی سند روایت نقل کی ہے۔

2443

۲۴۴۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ (ثُمَّ یُسَلِّمُ) .
٢٤٤٣: ابوسلمہ نے بیان کیا کہ مجھے حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ ثم یسلم کے لفظ زائد ہیں۔

2444

۲۴۴۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ہُرْمُزَ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ الشَّیْطَانَ اِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاۃِ وَلَّی وَلَہُ ضُرَاطٌ فَإِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ یَلْتَمِسُ الْخِلَاطَ فَإِذَا أَتَیْ أَحَدَکُمْ مَنَّاہُ وَذَکَّرَہُ مِنْ حَاجَتِہٖ مَا لَمْ یَکُنْ یَذْکُرُ حَتّٰی لَا یَدْرِیَ کَمْ صَلَّی‘ فَإِذَا وَجَدَ ذٰلِکَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ) .
٢٤٤٤: عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ شیطان جب نماز کی اذان دی جائے تو پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اور (ڈر سے) اس کے شرمگاہ سے ہوا نکلتی ہے پھر جب جماعت کھڑی ہوجاتی ہے تو ملاوٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے جب تم میں سے کوئی نماز میں مصروف ہوجاتا ہے تو وہ اسے تمنائیں دلاتا ہے اور اس کی وہ ضروریات یاد دلاتا ہے جو یاد نہیں ہوتیں۔ اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعت ادا کی ہیں جب تم ایسی صورت حال پاؤ تو بیٹھ کر دو سجدے (سہو کے) کرو۔

2445

۲۴۴۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہِلَالُ بْنُ عِیَاضٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ‘ فَلَمْ یَدْرِ أَثَلاَثًا صَلّٰی أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : ھٰذَا حُکْمُ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ الشَّکُّ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَلَمْ یَدْرِ أَزَادَ أَمْ نَقَصَ؟ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ‘ ثُمَّ یُسَلِّمُ‘ لَیْسَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : بَلْ یَبْنِیْ عَلَی الْأَقَلِّ حَتّٰی یَعْلَمَ أَنَّہٗ قَدْ أَتَیْ بِمَا عَلَیْہِ یَقِیْنًا .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ عَلَی الْمُصَلِّیْ غَیْرُ تَیْنِکَ السَّجْدَتَیْنِ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ مَا قَدْ زَادَ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَأَوْجَبَ عَلَیْہِ قَبْلَ السَّجْدَتَیْنِ الْبِنَائَ عَلَی الْیَقِیْنِ‘ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا زَوَالَ مَا قَدْ کَانَ عَلِمَ وُجُوْبَہُ عَلَیْہِ بِالْیَقِیْنِ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٤٤٥: ہلال بن عیاض کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو سعید خدری (رض) نے بتلایا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور اسے معلوم نہ رہے کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو اسے بیٹھ کر دو سجدے کرلینے چاہئیں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ اس شخص کا حکم ہے جس کو اپنی نماز میں شک ہوجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ آیا اس نے اس میں اضافہ کیا ہے یا کمی ‘ تو قعدہ کی حالت میں سلام پھیر کر اس پر صرف دو سجدے لازم ہیں۔ مگر دیگر حضرات نے فرمایا کہ وہ کم رکعات پر بنیاد رکھے تاکہ اسے یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس نے اپنے ذمہ فریضہ کو ادا کردیا ہے۔ رہی یہ روایت تو اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ نمازی پر ان دو سجدات کے علاوہ کوئی چیز لازم نہیں۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت میں اس سے اضافہ بھی مذکور ہے۔ آپ نے نمازی پر دو سجدات سے پہلے یہ لازم کردیا کہ وہ یقین پر بنیاد رکھے تاکہ اسے قطعی طور پر علم ہوجائے کہ اس نے اپنے فریضہ کو صحیح ادا کردیا ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩٢‘ نمبر ١٠٢٩‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٧٤‘ ٣٩٦۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کو نماز پڑھتے یہ یاد نہ رہے کہ اس کی تین رکعت ہوئیں یا چار تو اسے سہو کے دو سجدے کرلینے کافی ہیں مزید کسی بات کی حاجت نہیں۔
مؤقف فریق ثانی و دلیل : جس کو یہ یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو وہ اقل کو بنیاد بنائے کہ وہ یقینی ہیں اور بقیہ نماز اس کے مطابق سجدہ سہو سے مکمل کرلے۔
فریق اوّل کا جواب :
ان روایات میں ہرگز ایسی کوئی دلیل نہیں جو یہ بتلائے کہ اس پر سوائے سجدہ سہو کے کوئی چیز لازم نہیں کیونکہ اس سے زائد بات والی روایات موجود ہیں اسے دو سجدوں سے پہلے یقین پر ِبنا کرنی ہوگی تاکہ اسے معلوم ہو کہ یقینی طور پر اس کے ذمہ کتنی رکعات باقی ہیں۔ جیسا کہ یہ روایات شاہد ہیں۔

2446

۲۴۴۶: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ الْمَکِّیُّ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنْتُ أُذَاکِرُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَمْرَ الصَّلَاۃِ‘ فَأَتٰی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ‘ فَقَالَ : أَلَا أُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا سَمِعْتُہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَا : بَلَی .قَالَ : أَشْہَدُ أَنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَشَکَّ فِی النُّقْصَانِ‘ فَلْیُصَلِّ حَتّٰی یَشُکَّ فِی الزِّیَادَۃِ) " .
٢٤٤٦: ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں عمر (رض) کے ساتھ نماز کے سلسلہ میں مذاکرہ کررہا تھا اس وقت عبدالرحمن بن عوف (رض) آگئے اور کہنے لگے کیا میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے ہم نے کہا کیوں نہیں ! کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جب تم میں سے کوئی آدمی نماز ادا کرے اور پھر اسے نماز میں نقصان کا شک گزرے تو وہ نماز پڑھتا رہے یہاں تک کہ اضافہ کا شک ہوجائے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١٧٤۔

2447

۲۴۴۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مَکْحُوْلٍ‘ عَنْ کُرَیْبٍ‘ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : جَلَسْتُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : ابْنُ عَبَّاسٍ‘ ہَلْ سَمِعْتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرَّجُلِ اِذَا نَسِیَ صَلَاتَہٗ فَلَمْ یَدْرِ‘ أَزَادَ أَمْ نَقَصَ مَا أَمَرَ فِیْہِ؟ .قَالَ : قُلْتُ مَا سَمِعْتُ أَنْتَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ شَیْئًا .قَالَ : لَا وَاَللّٰہِ‘ مَا سَمِعْتُ فِیْہِ شَیْئًا وَلَا سَأَلْتُ عَنْہُ .اِذْ جَائَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : فِیْمَا أَنْتُمَا؟ فَأَخْبَرَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : سَأَلْتُ ھٰذَا الْفَتَیْ عَنْ کَذَا فَلَمْ أَجِدْ عِنْدَہٗ عِلْمًا .فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ : لٰـکِنْ عِنْدِیْ، لَقَدْ سَمِعْتُ ذَاکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ عُمَرُ : أَنْتَ عِنْدَنَا الْعَدْلُ الرَّضِیُّ‘ فَمَاذَا سَمِعْت؟ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَشَکَّ فِی الْوَاحِدَۃِ وَالثِّنْتَیْنِ فَلْیَجْعَلْہَا وَاحِدَۃً‘ فَإِذَا شَکَّ فِی الثَّلَاثِ أَوَ الْأَرْبَعِ‘ فَلْیَجْعَلْہَا ثَلاَثًا حَتّٰی یَکُوْنَ الْوَہْمُ فِی الزِّیَادَۃِ‘ ثُمَّ یَسْجُدَ سَجْدَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یُسَلِّمَ) " .
٢٤٤٧: کریب مولیٰ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھا تو انھوں نے کہا اے ابن عباس (رض) ! کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آدمی کے متعلق سنا جو نماز میں بھول جائے اور یہ یاد نہ رہے کہ آیا مامورہ رکعات میں اس نے اضافہ کیا ہے یا کمی ؟ میں نے کہا اے امیرالمؤمنین آپ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے تو انھوں نے کہا نہیں۔ اللہ کی قسم ! نہ میں نے اس سلسلے میں کوئی چیز سنی اور نہ میں نے آپ سے کچھ دریافت کیا۔ اچانک اس وقت عبدالرحمن بن عوف آگئے اور کہنے لگے تم کس بارے میں گفتگو کر رہے ہو ؟ عمر (رض) نے ان کو بتلایا کہ میں نے اس نوجوان سے یہ دریافت کیا مگر میں نے ان کے پاس کوئی بات اس سلسلے میں نہیں پائی۔ تو عبدالرحمن بن عوف (رض) کہنے لگے لیکن میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں سن رکھا ہے عمر (رض) کہنے لگے تم ہمارے ہاں انصاف والے پسندیدہ آدمی ہو تم بتاؤ تم نے کیا سنا ہے ؟ عبدالرحمن (رض) : میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے ایک اور دو میں شک ہو تو اس کو ایک شمار کرے اور جب تین یا چار میں شک ہو تو ان کو تین قرار دے یہاں تک کہ اضافے کا خیال پیدا ہوجائے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١٢٠٩۔

2448

۲۴۴۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ وَہْبُ اللّٰہِ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ‘ أَنَّ زَیْدَ بْنَ أَسْلَمَ حَدَّثَہٗ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلَمْ یَدْرِ أَثَلاَثًا صَلّٰی أَمْ أَرْبَعًا فَلْیَبْنِ عَلَی الْیَقِیْنِ وَیَدَعُ الشَّکَّ‘ فَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ نَقَصَتْ‘ فَقَدْ أَتَمَّہَا‘ وَکَانَتِ السَّجْدَتَانِ تُرْغِمَانِ الشَّیْطَانَ‘ وَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ تَامَّۃً‘ کَانَ مَا زَادَ‘ وَالسَّجْدَتَانِ لَہٗ نَافِلَۃٌ) .
٢٤٤٨: عطاء بن یسار نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے اسے معلوم نہ رہے کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ یقین پر بناء کرے اور شک کو چھوڑ دے اگر اس کی نماز کم بنتی ہو تو پوری کرے اور دو سجدے شیطان کو ذلیل کرنے والے ہوں گے اور اگر اس کی نماز پوری تھی تو جو اضافہ ہوا اور دو سجدے اس کی زائد نماز بن جائے گی۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٨٨‘ ابن ماجہ فی الاقامہ نمبر ١٢١٠۔

2449

۲۴۴۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ‘ قَبْلَ التَّسْلِیْمِ) .
٢٤٤٩: ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ بیٹھ کر دو سجدے سلام سے پہلے کرے۔

2450

۲۴۵۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْمَاجِشُوْنِ عَنْ زَیْدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ (قَبْلَ التَّسْلِیْمِ) .
٢٤٥٠: ماجشون نے زید سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ قبل التسلیم کا لفظ نہیں کہا۔

2451

۲۴۵۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ .ح .
٢٤٥١: ابن وہب نے کہا کہ مالک نے اپنی سند سے نقل کیا۔

2452

۲۴۵۲: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ زَیْدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَبَا سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذِہِ الْآثَارُ تَزِیْدُ عَلَی الْآثَارِ الْأُوَلِ‘ لِأَنَّ ھٰذِہِ تُوْجِبُ الْبِنَائَ عَلَی الْأَقَلِّ‘ وَالسَّجْدَتَیْنِ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ فَہِیَ أَوْلٰی مِنْہَا‘ لِأَنَّہَا قَدْ زَادَتْ عَلَیْہَا .وَقَالَ آخَرُوْنَ : الْحَکَمُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ یَّنْظُرَ الْمُصَلِّیْ إِلٰی أَکْبَرِ رَأْیِہِ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَیَعْمَلُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ بَعْدَ التَّسْلِیْمِ .وَإِنْ کَانَ لَا رَأْیْ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ‘ بَنٰی عَلَی الْأَقَلِّ‘ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا‘ أَنَّہٗ قَدْ صَلّٰی مَا عَلَیْہِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٢٤٥٢: مالک نے زید سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ انھوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) کا تذکرہ نہیں کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان روایات میں پہلی روایات سے اضافہ منقول ہے۔ کیونکہ یہ روایات کم سے کم پر بناء کر کے دو سجدات کو لازم کرتی ہیں۔ پس یہ روایات ان سے اولیٰ ہیں کیونکہ ان میں اضافہ ہے۔ دیگر علماء نے کہا اصل حکم اس کے متعلق یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی غالب رائے پر غور کر کے اس پر عمل پیرا ہو۔ پھر سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے کے بعد کرلے اور اگر اس کی پختہ رائے نہ ہو تو پھر کم رکعات پر بناء کرلے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ اس نے اپنے کامل فرض کو ادا کردیا ہے۔ ان کی دلیل روایت ذیل ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے بناء علی الاقل یعنی کم تعداد پر بناء کی جائے گی اور دو سجدے بھی ہوں گے یہ روایات پہلی روایات سے اولیٰ ہیں کیونکہ ان میں بناء علی الاقل کا تذکرہ زائد ہے اور ثقہ کا اضافہ درست ہے پس ان کی بجائے ان پر عمل کیا جائے گا۔
فریق ثالث کا مؤقف اور دلائل : نمازی اپنے غالب گمان کو دیکھے اور اس پر عمل کرے اور اگر غالب گمان نہ ہو تو تب بناء علی الاقل کرے اور پھر سلام کے بعد دو سجدے کرے۔ دلائل آگے ملاحظہ ہوں۔

2453

۲۴۵۳: بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الشَّکِّ فِی الصَّلَاۃِ .فَقَالَ : أَمَّا أَنَا‘ فَإِنْ کَانَتِ التَّطَوُّعَ اسْتَقْبَلْتُ، وَإِنْ کَانَتْ فَرِیْضَۃً سَلَّمْتُ وَسَجَدْتُ. قَالَ : فَذَکَرْتُہٗ لِاِبْرَاہِیْمَ فَقَالَ : مَا تَصْنَعُ بِقَوْلِ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘
٢٤٥٣: منصور کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے پوچھا کہ نماز میں شک کا کیا حکم ہے تو انھوں نے فرمایا میں نفلوں میں تو نماز نئے سرے سے شروع کرلیتا ہوں اگر فرض ہوں تو سلام پھیر کر دو سجدے کرتا ہوں۔

2454

۲۴۵۴: حَدَّثَنِیْ عَلْقَمَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا سَہَا أَحَدُکُمْ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَلْیَتَحَرَّ وَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ) .
٢٤٥٤: علقمہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز میں بھول جائے تو وہ تحر ّی کرے اور دو سجدے کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩٠‘ نمبر ١٠٢٠۔

2455

۲۴۵۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرٌ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ‘ فَلَمْ یَدْرِأَ ثَلاَثًا صَلّٰی أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْیَنْظُرْ أَحْرٰی ذٰلِکَ إِلَی الصَّوَابِ‘ فَلْیُتِمَّہُ ثُمَّ لِیُسَلِّمْ‘ ثُمَّ لِیَسْجُدْ سَجْدَتَی السَّہْوِ وَیَتَشَہَّدُ وَیُسَلِّمُ) .
٢٤٥٥: علقمہ نے عبداللہ سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے اسے معلوم نہ رہے کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو اسے ان میں سے زیادہ درست کو دیکھنا چاہیے پھر اسے پورا کر کے سلام پھیر دے پھر سہو کے دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٨٩‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣٣‘ نمبر ١٢٠٣۔

2456

۲۴۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْہَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ ابْنُ الْقَاسِمِ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ (وَیَتَشَہَّدُ) .
٢٤٥٦: روح بن قاسم نے منصور سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی البتہ ” یتشہد “ کے لفظ ذکر نہیں کئے۔

2457

۲۴۵۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الْعَمَلُ بِالتَّحَرِّیْ. وَتَصْحِیْحُ الْآثَارِ یُوْجِبُ مَا یَقُوْلُ أَہْلُ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ‘ لِأَنَّ ھٰذَا الْمَعْنَی إِنْ بَطَلَ وَوَجَبَ أَنْ لَا یُعْمَلَ بِالتَّحَرِّی‘ انْتَفَی ھٰذَا الْحَدِیْثُ .وَإِنْ وَجَبَ الْعَمَلُ بِالتَّحَرِّی اِذَا کَانَ لَہٗ رَأْیٌ وَالْبِنَائُ عَلَی الْأَقَلِّ‘ اِذَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ رَأْیٌ‘ اسْتَوٰی حَدِیْثُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ‘ وَحَدِیْثُ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ وَحَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَصَارَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہَا قَدْ جَائَ فِیْ مَعْنًی‘ غَیْرِ الْمَعْنَی الَّذِیْ جَائَ فِیْہِ الْآخَرُ .وَھٰکَذَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُخَرَّجَ عَلَیْہِ الْآثَارُ وَیُحْمَلَ عَلَی الْاِتِّفَاقِ‘ مَا قُدِرَ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَلَا یُحْمَلُ عَلَی التَّضَادِّ إِلَّا أَنْ لَا یُوْجَدَ لَہَا وَجْہٌ غَیْرُہٗ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَمِمَّا یُصَحِّحُ مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ‘ مَا ذَکَرْنَا ثُمَّ قَالَ ہُوَ بِرَأْیِہٖ أَنَّہٗ یَتَحَرَّی .
٢٤٥٧: زائد بن قدامہ نے منصور سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں تحری پر عمل کا ذکر ہے اور روایات کی تصحیح اس قول کے قائلین کی بات کو لازم کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر یہ معنی باطل ہوجائے اور سوچ و بچار ضروری نہ رہے تو اس روایت کی نفی ہوجائے گی اور اگر ہم تحری پر عمل کو لازم قرار دیں جبکہ اس کی ایک رائے ٹھہر جائے اور اگر رائے قرار نہ پائے تو قلیل پر بناء کی جائے تو اس صورت میں روایت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور روایت ابو سعید اور روایت ابن مسعود (رض) برابر ہو کر ہر روایت کا ایک الگ معنی بن جائے گا جو دوسری میں نہیں۔ اس طرح مناسب یہ ہے کہ آثار کو ایسے معنی پر نکالا جائے اور جس حد تک ہو سکے اتفاق پر محمول کیا جائے اور تضاد سے بچا جائے سوائے اس صورت میں کہ جب اس کے علاوہ اور کوئی راہ نہ ملے۔ آثار کے معانی کی تصحیح کا یہی تقاضا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف و محمد (رح) کا قول ہے اور جس روایت سے ان حضرات کے مذہب کی تائید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی اسناد سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایت نقل کی ہے جو اس باب کی ابتداء میں گزری۔ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ وہ تحری کرلے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحری پر عمل کیا جائے اور اگر گمان غالب نہ ہو تو پھر اقل پر عمل کیا جائے تمام آثار کی تصحیح تو اس چیز کو لازم کر رہی ہے جو فریق ثالث نے کہی کیونکہ اگر اس مفہوم کو باطل قرار دیا جائے اور تحری کو لازم نہ قرار دیں تو اس حدیث کے مضمون کی نفی ہوجاتی ہے اور اگر اس کی رائے ہو اور اس پر عمل کو لازم قرار دیا جائے اور رائے نہ ہونے کی صورت میں اقل کو بنیاد بنایا جائے تو عبدالرحمن بن عوف ‘ ابو سعید ‘ ابن مسعود (رض) کی روایات برابر ہوجاتی ہیں پس ان میں سے ہر ایک ایک ایسے معنی میں ہوجاتی ہے جو اس معنی سے مختلف ہے جو دوسری روایت میں وارد ہوا ہے اس طرح آثار کو جہاں تک ممکن ہو اتفاق پر محمول کریں اور تضاد پر حتی الامکان محمول نہ کریں۔
آثار کے معانی کے لحاظ سے اس باب کا حکم یہ ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
اور ایک اور چیز بھی فریق ثالث کے قول کی تصحیح کرتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس باب کے شروع میں نقل کیا ہے پھر انھوں نے اپنی رائے اور اجتہاد سے یہ کہا انہ یتحرٰی روایت یہ ہے۔

2458

۲۴۵۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْخٌ أَحْسِبُہٗ أَبَا زَیْدِ ڑ الْہَرَوِیَّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ إِدْرِیْسُ : أَخْبَرَنِیْ عَنْ أَبِیْہِ سَمِعَہٗ یُحَدِّثُ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (فِی الْوَہْمِ یُتَحَرّٰی) .وَقَدْ رَوٰی عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٢٤٥٨: شعبہ نے بیان کیا کہ ادریس نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا وہ تحری کرلے خیال میں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٩۔
اور ابو سعید (رض) کی روایت میں بھی اسی طرح ہے۔

2459

۲۴۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارِ ڑ الرَّمَادِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُوْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ عَنْ رَجُلٍ سَہَا‘ فَلَمْ یَدْرِ کَمْ صَلَّی‘ أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَقَالَا : یَتَحَرّٰی أَصْوَبَ ذٰلِکَ فَیُتِمَّہٗ‘ ثُمَّ یَسْجُدَ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ
٢٤٥٩: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اور ابو سعید (رض) سے ایک آدمی نے پوچھا جو نماز میں بھول گیا اور اسے معلوم نہ رہا کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار۔ دونوں نے کہا وہ ان میں زیادہ بہتر کی تحری کر کے مکمل کرلے پھر بیٹھ کر دو سجدے کرلے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٨٨۔

2460

۲۴۶۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ الْیَشْکُرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : فِی الْوَہْمِ یُتَحَرّٰی .قَالَ : قُلْتُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا رَوَاہُ أَبُوْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا ہُوَ اِذَا کَانَ لَا یَدْرِیْ أَثَلاَثًا صَلّٰی أَمْ أَرْبَعًا؟ وَلَمْ یَکُنْ أَحَدُہُمَا أَغْلَبَ فِیْ قَلْبِہٖ مِنَ الْآخَرِ .وَأَمَّا اِذَا کَانَ أَحَدُہُمَا أَغْلَبَ فِیْ قَلْبِہٖ مِنَ الْآخَرِ‘ عَمِلَ عَلٰی ذٰلِکَ .فَقَدْ وَافَقَ مَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا جَمَعَ مَا رَوَاہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا أَجَابَ بِہٖ الَّذِیْ سَأَلَہٗ مِنْ بَعْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَہْلُ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ الْأَخِیْرَۃِ‘ لَا مَا قَالَ مَنْ خَالَفَہُمْ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی التَّحَرِّیْ مِثْلَہٗ .
٢٤٦٠: سلیمان یشکری نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا وہ خیال میں تحری کرے اس نے پوچھا آپ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ بات کہی ہے انھوں نے جواب دیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے۔ اس روایت مذکورہ سے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت ابو سعید (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس بات کو نقل کیا ہے وہ اس صورت میں ہے جبکہ اس کو معلوم نہ ہو کہ آیا اس نے تین پڑھی ہیں یا چار ؟ اور ان میں سے کوئی ایک بات اس کے دل میں دوسری سے غالب نہ ہو اور اگر ایک بات دوسری سے غالب ہو تو پھر اسی غالب پر عمل کرے جب ہم نے حضرت ابو سعید خدری (رض) کی اس روایت کو جو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی اور جو بات انھوں نے خود ان سے سوال کرنے والوں کے جواب میں کہی اکٹھا کیا گیا تو اس دوسرے قول کے کہنے والوں کے موافق بات بن گئی ‘ ان کے مخالف قول کے موفق نہ بن سکی اور حضرت انس (رض) سے بھی تحری سے متعلق اسی قسم کی بات منقول ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : اس سے یہ ثابت ہوا کہ ابو سعید (رض) نے جو بات پہلے روایت کی ہے وہ اس وقت ہے جبکہ اس کو معلوم نہ ہو کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار اور ان میں سے ایک کا دل میں غلبہ نہ ہو لیکن جب ایک کا ظن غالب ہو تو اس پر عمل کرے اس طرح ابو سعید (رض) کی روایت اور آپ سے کیا جانے والا استفسار اور اس کا جواب دونوں موافق ہوجاتے ہیں اور اس طرح فریق ثالث کی بات پختہ نظر آتی ہے البتہ دوسروں کے قول پر روایات کی موافقت نہیں ہوتی اور حضرت انس (رض) سے بھی تحری کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت ہے جس کو ہم نقل کرتے ہیں۔

2461

۲۴۶۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ وَأَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مِثْلَہٗ .
٢٤٦١: حماد بن سلمہ اور ابو عوانہ نے قتادہ سے انھوں نے حضرت انس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2462

۲۴۶۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَقُوْلُ : اِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَلْیَتَوَخَّ الَّذِیْ یَظُنُّ أَنَّہٗ نَسِیَ مِنْ صَلَاتِہِ فَلْیُصَلِّہٖ، وَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ .
٢٤٦٢: سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو تو وہ اپنے گمان کے مطابق تحری کرے پھر نماز ادا کرے اور بیٹھ کر دو سجدے کرے۔
تخریج : موطا مالک فی النداء نمبر ٦٣۔

2463

۲۴۶۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَالِمٍ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٦٣: عمر بن محمد نے سالم سے خبر دی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2464

۲۴۶۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ اِذَا سُئِلَ عَنْ النِّسْیَانِ فِیْ صَلَاۃٍ یَقُوْلُ لِیَتَوَخَّ أَحَدُکَمُ الَّذِیْ ظَنَّ أَنَّہٗ قَدْ نَسِیَ مِنْ صَلَاتِہٖ، فَلْیُصَلِّہٖ .
٢٤٦٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب ان سے نماز کی بھول کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے کہ جس کو بھول جانے کا گمان ہو وہ تحری کرے اور نماز پوری کرے۔
تخریج : روایت ٢٤٦٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

2465

۲۴۶۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی التَّحَرِّیْ فِی الشَّکِّ فِی الصَّلَاۃِ بِمِثْلِ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ وَہْبٍ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَعَنِ ابْنِ وَہْبٍ‘ عَنْ عُمَرَ نَفْسِہٖ۔ وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ فِی الصَّلَاۃِ‘ قَدْ کَانَ عَلَیْہِ أَنْ یَّأْتِیَ بِأَرْبَعِ رَکَعَاتٍ‘ فَلَمَّا شَکَّ فِیْ أَنْ یَّکُوْنَ جَائَ بِبَعْضِہَا‘ وَجَبَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ لِیُعْلَمَ کَیْفَ کَانَ حُکْمُہٗ .فَرَأَیْنَاہُ لَوْ شَکَّ فِیْ أَنْ یَّکُوْنَ قَدْ صَلَّی‘ لَکَانَ عَلَیْہِ أَنْ یُصَلِّیْ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ قَدْ صَلَّی‘ وَلَا یَعْمَلُ فِیْ ذٰلِکَ بِالتَّحَرِّیْ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ھٰذَا أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ ہُوَ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ مِنْ صَلَاتِہِ کَانَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ فَرْضًا‘ وَعَلَیْہِ أَنْ یَّأْتِیَ بِہٖ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ قَدْ جَائَ بِہٖ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ الْفَرْضَ عَلَیْہِ غَیْرُ وَاجِبٍ‘ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ وَاجِبٌ عَلَیْہِ .قِیْلَ لَہٗ: لَیْسَ ھٰکَذَا وَجَدْنَا الْعِبَادَاتِ کُلَّہَا‘ لِأَنَّا قَدْ تَعَبَّدْنَا أَنَّہٗ اِذَا أُغْمِیَ عَلَیْنَا فِیْ یَوْمِ ثَلاَثِیْنَ مِنْ شَعْبَانَ‘ فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ رَمَضَانَ‘ فَیَجِبُ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ شَعْبَانَ‘ فَلاَ یَکُوْنُ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، أَنَّہٗ لَیْسَ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، حَتّٰی نَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَنَصُوْمُہُ .وَکَذٰلِکَ رَأَیْنَا آخِرَ شَہْرِ رَمَضَانَ اِذَا أُغْمِیَ عَلَیْنَا فِیْ یَوْمِ الثَّلَاثِیْنَ‘ فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ فَیَکُوْنَ عَلَیْنَا صَوْمُہُ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ شَوَّالٍ فَلاَ یَکُوْنُ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، أُمِرْنَا بِأَنْ نَصُوْمَہٗ، حَتّٰی نَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ لَیْسَ عَلَیْنَا صَوْمُہُ .فَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِیْ شَیْئٍ بِیَقِیْنٍ لَمْ یَخْرُجْ مِنْہُ إِلَّا بِیَقِیْنٍ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ مَنْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃٍ بِیَقِیْنٍ‘ أَنَّہَا عَلَیْہِ لَمْ یَحِلَّ لَہٗ الْخُرُوْجُ مِنْہَا إِلَّا بِیَقِیْنٍ أَنَّہٗ قَدْ حَلَّ لَہٗ الْخُرُوْجُ مِنْہَا .وَقَدْ جَائَ مَا اسْتَشْہَدْنَا بِہٖ مِنْ حُکْمِ الْاِغْمَائِ فِیْ شَعْبَانَ‘ وَشَہْرِ رَمَضَانَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرًا کَمَا ذَکَرْنَاہُ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٤٦٥: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جس کو نماز میں شک ہو کہ آیا وہ تحری کرے انھوں نے سابقہ روایت ٢٤٦٢ میں مذکور جواب دیا۔ غور و فکر کے انداز سے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ ہمارے پاس متفقہ اصول موجود ہے کہ نماز کی ابتداء سے پہلے اس پر چار رکعات لازم تھیں۔ اب داخلہ کے بعد اس کو شک ہوا تو اس کا حکم جاننے کی غرض سے غور و فکر لازم ہوگیا۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اسے نماز کی ادائیگی اور عدم ادائیگی میں شبہ ہوتا تو اس کے لیے پڑھنا ضروری تھا۔ تاکہ یقین سے ادائیگی ثابت ہوجائے۔ فقط تحری کام نہ دے گی۔ پس اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام فرائض نماز میں فکر یہی فیصلہ کرتی ہے تاکہ ادائیگی یقین سے ثابت ہوجائے۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ فرض اس کے ذمہ اس وقت تک لازم نہیں ہوتا جب تک اس کے فرض ہونے کا یقین نہ ہو۔ تو اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ تمام عبادات اس طرح نہیں پائی جاتیں کیونکہ ہم اس طرح پاتے ہیں کہ اگر تیس شعبان والی رات چاند نظر نہ آیا تو اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ رمضان المبارک کا دن ہو تو اس لحاظ سے اس کا روزہ فرض ہوگا اور یہ احتمال ہے کہ یہ شعبان کا آخری دن ہو۔ اس اعتبار سے اس کا روزہ لازم نہ ہوگا۔ تو اس سے یہ واضح ہوا کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہونے کا کامل یقین نہ ہو تو ہم پر روزہ رکھنا فرض نہ ہوگا۔ بالکل اسی طرح رمضان المبارک کی تیسویں شب چاند نظر نہ آیا تو اس احتمال کی وجہ سے کہ رمضان المبارک کا تیسواں روزہ ہے روزہ رکھنا فرض ہے اور دوسری طرف اس کے یکم شوال ہونے کا احتمال ہے جس کی وجہ سے اس دن کا روزہ ہم پر لازم نہیں۔ مگر اس احتمال کے باوجود روزے کا حکم دیا گیا اور اس کا رکھنا اس وقت تک فرض ہے ‘ جب تک یقین سے اس کی عدم فرضیت کا علم نہ ہوجائے۔ پس جو شخص کسی چیز میں یقین سے داخل ہو تو اس سے یقین ہی کے ساتھ نکلنا ممکن ہے۔ پس اس پر قیاس اس بات کو چاہتا ہے کہ جو آدمی اپنی نماز میں اس یقین سے داخل ہوا کہ وہ اس پر لازم ہے ‘ تو اس کو اس سے اس یقین کے بغیر نکلنا حلال نہیں کہ اب اس کے لیے نکلنا جائز ہوچکا اور ہم نے شعبان کے آخر میں اور رمضان کے اواخر میں چاند نہ نکلنے کے سلسلہ سے جو استدلال کیا ہے اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات وارد ہوئی ہیں۔ روایات درج ذیل ہیں۔
نظر طحاوی (رح) بدلیل فریق ثانی :
اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ نماز میں داخلے سے پہلے نمازی پر چار رکعت لازم تھیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد بھی چار لازم رہیں اور نماز کے دوران شک پیدا ہوا تو نظر و فکر کے لحاظ سے اس کا حکم معلوم کرنے کی حاجت پڑی پس ہم نے ایک جز پر غور کیا کہ اگر نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے میں شک پیدا ہوجائے تو حکم یہ ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے تاکہ یقیناً ادائیگی ہوجائے اس صورت میں تحری سے کام لینا جائز نہیں تو غور سے جب نماز کے ہر جز پر یہ حکم جاری ہو تو اس پر یقین کی صورت اقل پر عمل ہوسکتا ہے نہ کہ تحری۔
اشکال :
نفس نماز کی فرضیت کا علم ہونا یقینی علم کی حد تک ہر نمازی پر واجب نہیں ہے تو جز نماز کے بارے میں بھی یہی حکم باقی رہنا چاہیے اور تحری کی گنجائش ہونی چاہیے۔
جواب : عبادات کی فرضیت کا علم تمام عبادات میں لازم نہیں بلکہ امر تعبدی کے طور پر لازم ہے البتہ بعض عبادات میں علم الیقین کے لازم ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا مثلاً رویت ہلال میں علم الیقین کا حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر ٢٩ شعبان کو بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرنی ضروری اور روزہ رکھنا لازم نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ٢٩ رمضان کو بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو روزوں کی گنتی تیس پوری کرنی لازم ہے افطار ہرگز درست نہیں بلکہ اقل کو مدار بنا کر ایک روزہ ملا کر تیس پورے کئے جائیں گے بالکل اسی طرح جب تعداد رکعات میں اگر تین یا چار میں شک ہو تو اقل پر عمل ہوگا۔ اگرچہ یہ احتمال ہے کہ وہ شوال کا دن ہو جس کا روزہ ہمارے ذمہ لازم نہیں ہے مگر ہم کو اس کا روزہ رکھنے کا حکم ہے تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ ہمارے ذمہ اس کا روز نہیں پس جو شخص یقین کے ساتھ کسی چیز میں داخل ہوا وہ اس سے یقین کے ساتھ نکلے گا۔
پس تقاضا نظریہ ہے کہ جو نماز میں یقین سے داخل ہوا اس کو نماز سے یقین سے خروج درست ہے کہ اب وہ نکلنے کے لائق ہوگیا ہے۔ تائید نظر کی روایات۔
اور رمضان کے چاند کے سلسلہ میں جو مثال پیش کی ہے وہ متواتر روایات میں وارد ہے۔

2466

۲۴۶۶: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا زَکَرِیَّا‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنِ جُبَیْرٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ : إِنِّیْ لَأَعْجَبُ مِنَ الَّذِیْنَ یَصُوْمُوْنَ قَبْلَ رَمَضَانَ‘ إِنَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلَالَ فَصُوْمُوْا‘ وَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَأَفْطِرُوْا‘ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَعُدُّوْا ثَلاَثِیْنَ) .
٢٤٦٦: محمد بن جبیر نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو رمضان سے پہلے روزہ رکھتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو افطار کرو اگر چاند غائب ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرو۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٥‘ مسلم فی الصیام نمبر ٦‘ ٧‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٤‘ ترمذی فی الصوم باب ٢‘ نسائی فی الصیام باب ٩‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٧‘ دارمی فی الصوم باب ٢‘ مالک فی الصیام نمبر ١‘ ٢‘ مسند احمد ٢؍٣‘ ٥‘ ٢٢٩‘ ٥؍٤٢‘ ٦؍١٤٩۔

2467

۲۴۶۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرٌو‘ عَنْ مُحَمَّدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٦٧: محمد نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا وہ کہتے ہیں میں نے ان کو فرماتے سنا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2468

۲۴۶۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٦٨: عمرو بن دینار نے حضرت ابن عباس (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2469

۲۴۶۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ‘ وَرَوْحٌ‘ قَالَا : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِیْ صَغِیْرَۃَ‘ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ‘ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی عِکْرَمَۃَ‘ فَقَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٦٩: عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح سنا ہے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2470

۲۴۷۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ .ح .
٢٤٧٠: ابو بکرہ نے کہا ہمیں ابو داؤد نے بیان کیا۔

2471

۲۴۷۱: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ‘ قَالَ : رَأَیْنَا ہِلَالَ رَمَضَانَ‘ فَأَرْسَلْنَا رَجُلًا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَسَأَلَہٗ، فَقَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ اللّٰہَ قَدْ مَدَّہٗ لِرُؤْیَتِہٖ، فَإِذَا أُغْمِیَ عَلَیْکُمْ‘ فَأَکْمِلُوا الْعِدَّۃَ) .
٢٤٧١: ابوالبختری کہتے ہیں ہم نے رمضان کا چاند دیکھا تو ہم نے ایک آدمی جناب ابن عباس (رض) کی طرف بھیجا اس نے ان سے دریافت کیا تو ابن عباس (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کو رؤیت تک دراز کردیا ہے جب چاند چھپ جائے تو گنتی پوری کرلو۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٢٩؍٣٠۔

2472

۲۴۷۲: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلَالَ فَصُوْمُوْا‘ وَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَأَفْطِرُوْا‘ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہٗ) .
٢٤٧٢: عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم چاند کو دیکھو تو روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کرو اگر وہ چھپ جائے تو اس کے لیے گنتی کرو۔

2473

۲۴۷۲: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلَالَ فَصُوْمُوْا‘ وَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَأَفْطِرُوْا‘ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہٗ) .
٢٤٧٣: مالک نے خبر دی کہ عبداللہ (رض) سے بتلایا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2474

۲۴۷۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : وَحَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٤٧٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2475

۲۴۷۵: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٤٧٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2476

۲۴۷۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ أَبُوْ قُرَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٤٧٦: سالم نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2477

۲۴۷۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا زَکَرِیَّا‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَعُدُّوْا ثَلاَثِیْنَ) .
٢٤٧٧: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس انھوں نے اسی طرح روایت بیان کی ہے صرف فعدوا ثلاثین کے الفاظ زائد نقل کئے ہیں۔

2478

۲۴۷۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ حُمَیْدِ ڑالرُّؤَاسِیُّ‘ عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیْ (اِذَا جَائَ رَمَضَانُ فَصُمْ ثَلاَثِیْنَ إِلَّا أَنْ تَرَی الْہِلَالَ قَبْلَ ذٰلِکَ) .
٢٤٧٨: شعبی نے عدی بن حاتم (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا جب رمضان آئے تو تیس دن روزہ رکھو ہاں یہ کہ اس سے پہلے اگر تم (٢٩ کو) چاند دیکھ لو۔

2479

۲۴۷۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ أَبُوْ قُرَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلَالَ فَصُوْمُوْا‘ وَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَأَفْطِرُوْا‘ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ‘ فَعُدُّوْا ثَلاَثِیْنَ) .
٢٤٧٩: سعید بن المسیّب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب چاند (شوال کا) دیکھو تو افطار کرو اور اگر چاند چھپ جائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔

2480

۲۴۸۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ‘ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٨٠: محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا ہے کہ ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس انھوں نے اسی طرح بیان کیا ہے۔

2481

۲۴۸۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٤٨١: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2482

۲۴۸۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنْ ہِشَامِ ابْنِ حَسَّانَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَرَأَیْتُ الْیَوْمَ الَّذِیْ یُخْتَلَفُ فِیْہِ؟ تَقُوْلُ فِرْقَۃٌ : مِنْ شَعْبَانَ‘ وَتَقُوْلُ فِرْقَۃٌ : مِنْ رَمَضَانَ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٤٨٢: محمد بن جابر کہتے ہیں کہ میں نے قیس بن طلق سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے ایک آدمی سے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یوم شک کے متعلق کیا خیال ہے کہ کوئی رمضان کہتا ہے کوئی شعبان تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔

2483

۲۴۸۳: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ‘ عَنْ رَجُلٍ‘ أَوْ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا تَتَقَدَّمُوْا ھٰذَا الشَّہْرَ حَتّٰی تَرَوا الْہِلَالَ أَوْ تُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ‘ وَلَا تُفْطِرُوْا‘ حَتّٰی تَرَوا الْہِلَالَ أَوْ تُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ) .فَلَمَّا لَمْ یَأْمُرْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْخُرُوْجِ مِنَ الْاِفْطَارِ الَّذِیْ قَدْ دَخَلُوْا فِیْہِ إِلَّا بِیَقِیْنِ أَنَّہُمْ قَدْ خَرَجُوْا مِنْہُ‘ ثُمَّ لَمْ یُخْرِجْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ أَیْضًا مِنَ الصَّوْمِ الَّذِیْ قَدْ دَخَلُوْا فِیْہِ إِلَّا بِیَقِیْنِ أَنَّہُمْ قَدْ خَرَجُوْا مِنْہُ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ مَنْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃٍ وَہُوَ مُتَیَقِّنٌ أَنَّہَا عَلَیْہِ لَا یَخْرُجُ مِنْہَا إِلَّا بِیَقِیْنٍ مِنْہُ أَنَّہَا لَیْسَتْ عَلَیْہِ .
٢٤٨٣: ربعی بن حراش نے ایک آدمی سے یا ایک صحابی سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس مہینے سے پہلے روزہ مت رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو یا گنتی کو پورا نہ کرلو اور افطار مت کرو جب تک کہ چاند نہ دیکھو یا گنتی نہ پوری کرلو۔ جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو افطار سے نکلنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ وہ روزے میں یقین کے ساتھ داخل ہوئے تھے تو اب اس سے نکلنا بھی ایسے ہی یقین کے ساتھ تھا تو اسی طرح ہوا۔ پس اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص نماز میں یقین سے داخل ہوتا ہے کہ وہ نماز اس پر فرض ہے۔ تو اس نماز سے اسی وقت نکلے گا کہ جب اسے یقین ہوجائے کہ وہ اس پر لازم نہیں رہی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٦‘ نمبر ٢٣٢٦۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوا کہ افطار سے رمضان کی طرف اور رمضان سے افطار کی طرف یقین کے ساتھ نکلیں گے خواہ وہ گنتی سے حاصل ہو یا وہ رویت سے حاصل ہو پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو افطار سے یقین کے بغیر نکلنے کی اجازت نہیں دی اسی طرح روزے سے بھی بلایقین نکلنے کی اجازت نہیں دی تو نظر کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کے سلسلہ میں بھی یہ ہونا چاہیے کہ جو شخص نماز میں داخل ہوا ہے وہ یقین کرنے والا ہے پس اس سے وہ یقین کے ساتھ نکلے گا اور وہ اقل مقدار ہے جس پر یقین ہے نہ کہ تحری۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کا اپنا رجحان اسی قول کی طرف ہے اس وجہ سے اس کی قیاس بات کے ایک جز کو ثابت کرنے کے لیے اتنی کثیر روایات پیش کیں۔ نوٹ : اس باب میں بھی امام طحاوی (رح) نے نظر کو دو مرتبہ استعمال فرمایا ایک مرتبہ فریق ثالث کے حق میں اور دوسری مرتبہ نظر کو فریق ثانی کے حق میں استعمال کیا اور آخر میں لا کر اس پر ترجیح کی مہر ثبت کی ہے اگرچہ نظر پر بھی نظر ہوسکتی ہے۔

2484

۲۴۸۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِیُّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ‘ ہُوَ ابْنُ بُحَیْنَۃَ أَنَّہٗ أَبْصَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَامَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ‘ وَنَسِیَ أَنْ یَقْعُدَ‘ فَمَضٰی فِیْ قِیَامِہٖ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ صَلَاتِہٖ) .
٢٤٨٤: عبدالرحمن اعرج نے عبداللہ بن مالک ان کو ابن بحینہ کہتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ دو رکعتوں میں کھڑے ہوگئے اور قعدہ بھول گئے آپ قیام میں قائم رہے پھر نماز سے فراغت کے بعد دو سجدے کئے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت میں فراغت کا مطلب معلوم نہیں ہوا عین ممکن ہے کہ فراغت سے سلام مراد ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلام سے پہلے والا تشہد اس سے مراد ہو۔ اس میں غور کے لیے ان روایات کو دیکھیں۔
تخریج : بخاری فی السہو باب ١‘ مسلم فی المساجد ٧٨؍٨٥۔
خلاصۃ الزام :
سجدہ سہو کے قبل السلام یا بعدالسلام میں اختلاف ہے۔
نمبر 1: امام شافعی (رح) قبل السلام کہتے ہیں۔
نمبر 2: امام مالک نماز میں نقصان کی صورت میں قبل السلام اور زیادتی کی صورت میں بعدالسلام قرار دیتے ہیں۔
نمبر 3: احناف امام ابوحنیفہ و احمد (رح) بہر صورت بعدالسلام مانتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : سجدہ سہو سلام سے پہلے بہر صورت کیا جائے۔ دلائل ملاحظہ ہوں۔

2485

۲۴۸۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ‘ وَلَمْ یُبَیِّنْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الْفَرَاغَ‘ مَا ہُوَ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْفَرَاغُ ہُوَ السَّلَامُ‘ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْفَرَاغُ مِنَ التَّشَہُّدِ قَبْلَ السَّلَامِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا
٢٤٨٥: عبدالرحمن اعرج نے عبداللہ ابن بحینہ سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : موطا مالک ٣٤۔
حاصل روایات : فراغت کے بعد دو سجدے کئے اب فراغت سے کیا مراد سلام سے پہلے والا تشہد ہو چنانچہ روایات سے یہ ظاہر ہوگا۔ روایات ملاحظہ کریں۔

2486

۲۴۸۶: قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ أَخْبَرَہُمْ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ بُحَیْنَۃَ حَدَّثَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ‘ کَبَّرَ فِیْ کُلِّ سَجْدَۃٍ وَہُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ یُّسَلِّمَ‘ أَوْ سَجَدَ بِہِمَا النَّاسُ مَعَہٗ، فَکَانَ مَا نَسِیَ مِنَ الْجُلُوْسِ) .
٢٤٨٦: عبدالرحمن اعرج نے بتلایا کہ عبداللہ ابن بحینہ نے مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح بیان کیا البتہ اس قدر فرق ہے فلما قضی صلاتہ سجد سجدتین کبر فی کل سجدہ وہو جالس قبل ان یسلم او سجد بھما الناس معہ فکان مانسیی من الجلوس کے الفاظ زائد ہیں کہ جب انھوں نے اپنی نماز مکمل کی تو دو سجدے کئے ہر سجدہ میں بیٹھ کر تکبیر کہی اور سلام سے پہلے سجدے کئے یا لوگوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا پس یہ وہ جلسہ ہوگیا جو آپ بھول گئے تھے۔
تخریج : ترمذی ١؍٨٩‘ کتاب الصلاۃ۔

2487

۲۴۸۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ‘ وَعَمْرٌو‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ ۔
٢٤٨٧: عبدالرحمن اعرج نے ابن بحینہ (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢١١‘ ابو داؤد ١؍١٤٨‘ نسائی ١؍١٨١‘ بخاری ١؍١٦٣۔

2488

۲۴۸۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٨٨: ابن ابی ذئب نے زہری سے پس انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٨٤۔

2489

۲۴۸۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ ہُرْمُزَ الْأَعْرَجُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃً‘ نَظُنُّ أَنَّہَا الْعَصْرُ‘ فَقَامَ فِی الثَّانِیَۃِ وَلَمْ یَجْلِسْ .فَلَمَّا کَانَ قَبْلَ أَنْ یُّسَلِّمَ‘ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ‘ وَہُوَ جَالِسٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا فِیْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ أَنَّ الْفَرَاغَ الْمَذْکُوْرَ فِی الْأَحَادِیْثِ الَّتِیْ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ ہُوَ قَبْلَ السَّلَامِ .
٢٤٨٩: عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے عبداللہ بن بحینہ (رض) سے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک نماز پڑھائی ہمارا خیال ہے کہ وہ نماز عصر تھی آپ دوسری رکعت میں کھڑے ہوگئے اور بیٹھے نہیں سلام سے پہلے بیٹھ کر دو سجدے کئے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں ان روایات بالا میں جس فراغت کا ذکر ہے اس سے مراد سلام سے پہلے والے دو سجدے ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٣٤٥‘ دارقطنی ١؍٣٦٥۔
حاصل روایات : ان روایات سے سجدہ سہو کا قبل السلام ہونا معلوم ہوا اور فراغت سے مراد سلام سے پہلی والی فراغت ہے۔

2490

۲۴۹۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ بُکَیْرٍ‘ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَجْلَانَ‘ مَوْلَی فَاطِمَۃَ حَدَّثَہٗ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْسُفَ‘ مَوْلٰی عُثْمَانَ حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ صَلّٰی بِہِمْ‘ فَقَامَ وَعَلَیْہِ جُلُوْسٌ‘ فَلَمْ یَجْلِسْ .فَلَمَّا کَانَ فِیْ آخِرِ صَلَاتِہٖ، سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یُّسَلِّمَ‘ وَقَالَ : ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ) .
٢٤٩٠: محمد بن یوسف مولیٰ عثمان نے اپنے والد سے بیان کیا کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی وہ کھڑے ہوگئے حالانکہ انھیں بیٹھنا تھا وہ نہ بیٹھے۔ جب نماز کے اختتام پر پہنچے تو سلام سے پہلے دو سجدے کئے اور کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٠٠۔

2491

۲۴۹۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ أَیُّوْبَ‘ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ قَالَا : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ‘ فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ قَوْمٌ فَقَالُوْا : ھٰکَذَا سُجُوْدُ السَّہْوِ‘ وَہُوَ قَبْلَ السَّلَامِ مِنَ الصَّلَاۃِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا کَانَ مِنْ سُجُوْدِ سَہْوٍ لِلنُّقْصَانِ کَانَ فِی الصَّلَاۃِ فَہُوَ قَبْلَ التَّسْلِیْمِ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ وَکَمَا فِیْ حَدِیْثِ مُعَاوِیَۃَ .وَمَا کَانَ مِنْ سُجُوْدِ سَہْوٍ‘ وَجَبَ لِزِیَادَۃٍ زِیْدَتْ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَہُوَ بَعْدَ التَّسْلِیْمِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ خَبَرِ ذِی الْیَدَیْنِ‘ وَبِحَدِیْثِ الْخِرْبَاقِ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فِیْ سُجُوْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ لِسَہْوِہٖ بَعْدَ التَّسْلِیْمِ .فَمِنْ ذٰلِکَ
٢٤٩١: یحییٰ بن ابی ایوب اور ابن لھیعہ دونوں نے محمد بن عجلان سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں بعض علماء نے ان آثار کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا نماز میں نقصان کا سجدہ سہو تو سلام سے پہلے ہوگا جیسا کہ ابن بحینہ کی روایات میں میں ہے اور اسی طرح معاویہ کی روایت میں پایا جاتا ہے اور جو سجدہ سہو کسی اضافہ کی وجہ سے لازم ہوا وہ سلام کے بعد ہوگا۔ انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے استدلال کیا جس میں ذوالیدین والا واقعہ مذکور ہے۔ نیز حضرت خرباق اور ابن عمر (رض) کی روایات سے استدلال کیا جو کہ اس دن آپ نے بھول جانے کی وجہ سے سلام پھیرنے کے بعد ادا فرمائے۔ روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : نسائی ١؍١٨٦۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے سجدہ سہو قبل السلام ثابت ہوتا ہے پس سجدہ سہو قبل السلام ہی کرنا چاہیے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : نماز میں نقصان کی صورت میں تو قبل السلام کیا جائے گا جیسا کہ ابن بحینہ (رض) کی روایت میں ہے اور اسی طرح معاویہ (رض) کی روایت میں ہے اور اضافے کی صورت میں سلام کے بعد ہوگا اور اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

2492

۲۴۹۲: مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنِ اللَّیْثِ‘ عَنْ یَزِدْ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ سَجَدَ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ‘ یَعْنِیْ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ بَعْدَ السَّلَامِ) .وَسَنَذْکُرُ حَدِیْثَ ذِی الْیَدَیْنِ‘ وَکَیْفَ ہُوَ فِی " بَابِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ " إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : کُلُّ سَہْوٍ وَجَبَ فِی الصَّلَاۃِ‘ لِزِیَادَۃٍ أَوْ نُقْصَانٍ‘ فَہُوَ بَعْدَ السَّلَامِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ‘
٢٤٩٢: عراک بن مالک نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ ذوالیدین والے واقعہ کے دن سلام کے بعد دو سہو کے سجدے کئے باب الکلام فی الصلاۃ میں وہ روایت مذکور ہوگی۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہر وہ سجدہ سہو جو نماز میں نقص یا زیادتی کی بناء پر ہو وہ سلام کے بعد کیا جائے گا۔ دلیل ذیل کی روایات ہیں۔
حاصل روایات : یہاں طحاوی (رح) نے اشارہ کے طور پر صرف روایت ابوہریرہ (رض) ذکر کی ہے ورنہ قبل التسلیم کے لیے فصل اول کی روایات سے ان کا استدلال ہے اور بعدالتسلیم کے لیے روایت ذوالیدین ‘ حدیث خر باق ‘ روایت ابن عمر (رض) ان کی مستدلات میں شامل ہیں کہ کمی میں سلام سے پہلے اور اضافے میں سلام کے بعد ہوگا۔
فریق ثالث کا مؤقف اور دلائل : نماز میں کمی ہو یا اضافہ ہر دو صورت میں سہو کے دو سجدے سلام کے بعد کئے جائیں گے جیسا یہ روایات شاہد ہیں۔ دلائل۔

2493

۲۴۹۳: بِمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ‘ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَہَا‘ فَنَہَضَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ‘ فَسَبَّحْنَا بِہٖ، فَمَضٰی‘ فَلَمَّا أَتَمَّ الصَّلَاۃَ وَسَلَّمَ سَجَدَ سَجْدَتَیِ السَّہْوِ) .
٢٤٩٣: زیاد بن علاقہ نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی جس میں آپ بھول گئے اور دو رکعت پر اٹھ گئے ہم نے سبحان اللہ کہا مگر آپ نے نماز جاری رکھی (واپس تشہد میں نہ لوٹے) جب آپ نماز پوری کرچکے اور سلام پھیرا تو سہو کے دو سجدے کئے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩٥‘ نمبر ١٠٣٧۔

2494

۲۴۹۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٩٤: علی بن شیبہ نے کہا ہمیں یزید نے بیان کیا پھر اپنی اسناد سے روایت نقل کی۔

2495

۲۴۹۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا زِیَادُ بْنُ عِلَاقَۃَ‘ قَالَ : أَنَا الْمُغِیْرَۃُ‘ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ ۔
٢٤٩٥: زید بن علاقہ کہتے ہیں ہمیں مغیرہ (رض) نے بیان کیا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2496

۲۴۹۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ بَکَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَالِکٍ الرُّؤَاسِیُّ مِنْ أَنْفَسِہِمْ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَامِرًا یُحَدِّثُ‘ (أَنَّ الْمُغِیْرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ سَہَا فِی السَّجْدَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ فَسَبَّحَ بِہٖ، فَاسْتَتَمَّ قَائِمًا حَتَّیْ صَلّٰی أَرْبَعًا‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیِ السَّہْوِ وَقَالَ : ھٰکَذَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٤٩٦: عامر بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ (رض) پہلے دو سجدوں میں بھول گئے سبحان اللہ کہی گئی وہ مکمل سیدھے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ چار رکعت مکمل کی پھر سہو کے دو سجدے کئے اور کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا ہے۔

2497

۲۴۹۷: حَدَّثَنَا مُبَشِّرٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ جَابِرٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ مِثْلَہٗ .
٢٤٩٧: قیس بن ابی حازم نے مغیرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

2498

۲۴۹۸: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُبَیْلٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ‘ فَقَامَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ‘ فَسَبَّحَ النَّاسُ خَلْفَہٗ‘ فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ أَنْ قُوْمُوْا .فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ سَجَدَ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ ثُمَّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا اسْتَتَمَّ أَحَدُکُمْ قَائِمًا فَلْیُصَلِّ وَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ وَإِنْ لَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَلْیَجْلِسْ‘ وَلَا سَہْوَ عَلَیْہِ) .
٢٤٩٨: قیس بن ابی حازم نے کہا کہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ (رض) نے نماز پڑھائی وہ دو رکعتوں میں کھڑے ہوگئے پیچھے لوگوں نے سبحان اللہ تو کہی مگر انھوں نے انھیں کھڑے ہوجانے کا اشارہ کیا جب اپنی نماز پوری کرچکے تو سہو کے دو سجدے کئے پھر کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سیدھا کھڑا ہوجائے تو اسے نماز جاری رکھنی چاہیے پھر وہ سہو کے دو سجدے کرے اور اگر وہ بالکل سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو وہ بیٹھ جائے اس پر سجدہ سہو بھی نہیں ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣١‘ نمبر ١٢٠٨‘ مسند احمد ٤؍٢٥٣۔

2499

۲۴۹۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ طَہْمَانَ‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُبَیْلٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ‘ فَقَامَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ قَائِمًا‘ فَقُلْنَا " سُبْحَانَ اللّٰہِ " فَأَوْمَی وَقَالَ " سُبْحَانَ اللّٰہِ " فَمَضَی فِیْ صَلَاتِہٖ .فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ وَسَلَّمَ‘ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ‘ ثُمَّ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَاسْتَوَیْ قَائِمًا مِنْ جُلُوْسِہِ‘ فَمَضَی فِیْ صَلَاتِہٖ .فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ، سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ‘ ثُمَّ قَالَ : اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَقَامَ مِنَ الْجُلُوْسِ‘ فَإِنْ لَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا‘ فَلْیَجْلِسْ‘ وَلَیْسَ عَلَیْہِ سَجْدَتَانِ‘ فَإِنِ اسْتَوَیْ قَائِمًا‘ فَلْیَمْضِ فِیْ صَلَاتِہٖ، وَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ) " .فَھٰذَا الْمُغِیْرَۃُ‘ یَحْکِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سَجَدَ لِلسَّہْوِ‘ لِمَا نَقَصَہُ مِنْ صَلَاتِہٖ بَعْدَ السَّلَامِ .وَھٰذِہِ الْأَحَادِیْثُ‘ قَدْ تَحْتَمِلُ وُجُوْہًا .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَا ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ‘ وَمُعَاوِیَۃَ‘ مِنْ سُجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلسَّہْوِ قَبْلَ السَّلَامِ‘ عَلٰی کُلِّ سَہْوٍ وَجَبَ فِی الصَّلَاۃِ‘ مِنْ نُقْصَانٍ أَوْ زِیَادَۃٍ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَا فِیْ حَدِیْثِ الْمُغِیْرَۃِ‘ مِنْ سُجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ السَّلَامِ‘ عَلٰی کُلِّ سَہْوٍ أَیْضًا یَکُوْنُ فِی الصَّلَاۃِ‘ یَجِبُ لَہٗ سُجُوْدُ السَّہْوِ مِنْ نُقْصَانٍ أَوْ زِیَادَۃٍ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَا فِیْ حَدِیْثِ عِمْرَانَ‘ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مِنْ سُجُوْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ السَّلَامِ لِمَا زَادَہُ فِی الصَّلَاۃِ سَاہِیًا. یَکُوْنُ کَذٰلِکَ کُلُّ سُجُوْدٍ وَجَبَ لِسَہْوٍ فَہُنَاکَ یَسْجُدُ‘ وَلَا یَکُوْنُ قَصَدَ بِذٰلِکَ إِلَی التَّفْرِقَۃِ بَیْنَ السُّجُوْدِ لِلزِّیَادَۃِ‘ وَبَیْنَ السُّجُوْدِ لِنُقْصَانٍ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ قَدْ قَصَدَ بِذٰلِکَ التَّفْرِقَۃَ بَیْنَہُمَا. فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ حَضَرَ سُجُوْدَ سَہْوِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ یَوْمِ ذِی الْیَدَیْنِ‘ لِلزِّیَادَۃِ الَّتِیْ کَانَ زَادَہَا فِیْ صَلَاتِہٖ مِنْ تَسْلِیْمِہٖ فِیْہَا‘ وَکَانَ سُجُوْدُہٗ ذٰلِکَ بَعْدَ السَّلَامِ .فَوَجَدْنَاہُ قَدْ سَجَدَ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنُقْصَانٍ کَانَ مِنْہُ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ السَّلَامِ .
٢٤٩٩: قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ (رض) نے نماز پڑھائی وہ دو رکعتوں میں (بیٹھنے کی بجائے) کھڑے ہوگئے پس ہم نے سبحان اللہ کہا انھوں نے اشارہ کیا اور سبحان اللہ کہا پھر اپنی نماز کو جاری رکھا جب نماز کو مکمل کر کے سلام پھیرا تو بیٹھ کر سہو کے دو سجدے کئے پھر کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی آپ جلسے سے سیدھے کھڑے ہوگئے اور نماز کے تسلسل کو جاری رکھا پھر جب نماز پوری کرلی تو بیٹھ کر دو سجدے ادا کئے پھر فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتے ہوئے جلسے سے کھڑا ہوجائے اگر وہ بالکل سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو وہ بیٹھ جائے اس کے ذمے دو سجدے نہیں اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہوگیا تو اپنی نماز کو جاری رکھے اور بیٹھ کر دو سجدے کرے۔ یہ حضرت مغیرہ (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نقل کر رہے ہیں کہ آپ نے نماز میں کمی کی وجہ سے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا اور ان احادیث میں کئی وجوہ کا احتمال ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ابن بحینہ اور معاویہ (رض) کی روایات میں مذکورہ وجہ مراد ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقصان و زیادتی دونوں حالتوں میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کیا اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ صورت مراد ہو جو کہ حضرت مغیرہ (رض) کی روایت میں مذکور ہے کہ آپ اضافے اور نقصان دونوں حالتوں میں آپ سے سجدہ سہو سلام کے بعد فرمایا اور تیسری صورت وہ بھی مراد ہوسکتی ہے جو کہ روایت حضرت عمران و ابوہریرہ (رض) اور ابن عمر (رض) میں مذکور ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں اضافے کا سجدہ سہو سلام کے بعد کیا اسی طرح ہر سجدہ سہو جو واجب ہو خواہ اضافہ کی بناء پر یا نقصان کی وجہ سے بلا تفریق اسے آپ نے سلام کے بعد ادا فرمایا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں میں فرق کیا ہو۔ جب ہم نے غور کیا تو ہم نے حضرت عمر (رض) کو پایا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سجدہ سہو میں جو ذوالیدین والے دن پیش آیا ‘ خود شریک تھے وہ سجدہ اضافے کی وجہ سے تھا اور سلام کے بعد تھا اور ہم نے حضرت عمر (رض) کو پایا کہ انھوں نے آپ کے بعد نقصان کی بناء سلام کے بعد سجدہ کیا۔ روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٤٩٨ کی تخریج دیکھ لی جائے۔
تمام روایات پر طائرانہ نگاہ
اب تک جس قدر روایات گزری ہیں ان میں یہ احتمالات ہیں۔
نمبر 1: حضرت ابن بحینہ ‘ معاویہ (رض) کی روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سلام سے پہلے سجدہ کرنا مذکور ہے خواہ وہ سجدہ نقصان کی وجہ سے لازم ہوا یا زیادتی کی وجہ سے ان میں کچھ تفاوت نہیں۔
نمبر 2: حضرت مغیرہ (رض) کی روایت میں سلام کے بعد سجدہ مذکور ہے خواہ نقصان کی وجہ سے لازم ہوا ہو یا زیادتی سے لازم ہوا ہو۔
نمبر 3: حدیث عمران بن حصین ‘ ابوہریرہ ‘ ابن عمر (رض) کی روایات میں سجدہ سہو سلام کے بعد ہے خواہ نماز میں زیادتی ہو یا نقصان سجدے کے سلسلے میں کوئی تفاوت و فرق نظر نہیں آتا۔
نمبر 4: فصل ثانی کی روایات میں کمی کی وجہ سے قبل السلام اور زیادتی کی وجہ سے بعدالسلام سہو کے دو سجدے ہیں۔
حاصل کلام :
ان تینوں فصول کی روایات میں یہ چار احتمال موجود ہیں اب کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کسی دلیل شرعی کی ضرورت ہے چنانچہ غور کے بعد آثار صحابہ (رض) مل گئے جو ایک احتمال کو متعین کر رہے ہیں یہ عمر (رض) ہیں جو ذوالیدین کے واقعہ میں موجود ہیں اور نماز میں اضافہ کی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سجدہ سہو بعدالسلام کر رہے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد نماز میں نقصان پر بھی سجدہ سہو سلام کے بعد کر رہے ہیں۔
روایات و آثار صحابہ (رض) ملاحظہ کریں :

2500

۲۵۰۰: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارِ ڑ الْیَمَامِیُّ‘ عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسِ ڑ الْحَنَفِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَنْظَلَۃَ بْنِ الرَّاہِبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلّٰی صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ‘ فَلَمْ یَقْرَأْ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی شَیْئًا .فَلَمَّا کَانَتْ الثَّانِیَۃُ قَرَأَ فِیْہَا بِفَاتِحَۃِ الْقُرْآنِ‘ وَسُوْرَۃٍ مَرَّتَیْنِ‘ فَلَمَّا سَلَّمَ‘ سَجَدَ سَجْدَتَی السَّہْوِ .فَصَارَ سُجُوْدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ قَدْ عَمِلَہٗ، لِلزِّیَادَۃِ الَّتِیْ کَانَ زَادَہَا فِیْ صَلَاتِہٖ، وَسُجُوْدِہٖ لَہَا بَعْدَ السَّلَامِ دَلِیْلًا عِنْدَہٗ‘ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ کُلِّ سُجُوْدِ سَہْوٍ فِی الصَّلَاۃِ مِثْلُہٗ۔ وَقَدْ فَعَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا مِثْلَ ذٰلِکَ .
٢٥٠٠: حنظلہ بن راہب کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مغرب کی نماز پڑھائی اور پہلی رکعت میں کچھ بھی نہ پڑھا جب دوسری رکعت ہوئی تو اس میں فاتحہ الکتاب اور ایک سورة دو مرتبہ پڑھی جب سلام پھیرا تو سہو کے دو سجدے ادا کئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ سجدہ جو نماز میں اضافہ کی وجہ سے تھا اور وہ سلام کے بعد کیا ‘ عمر فاروق (رض) نے اس کو اس بات کی دلیل سمجھا کہ ہر سہو کا نماز میں یہی حکم ہے اور سعد بن ابی وقاص (رض) نے بھی اسی طرح کیا۔
حاصل روایات : حضرت عمر (رض) کے ہاں وہ سجدہ جو روایت ذوالیدین میں اضافہ کی وجہ سے کیا اور وہ سجدہ جو اس نماز میں کیا یہ دلیل بن گئے کہ زیادتی یا کمی کے اعتبار سے سجدے میں فرق نہ ہوگا وہ سلام کے بعد ہی ہوگا۔

2501

۲۵۰۱: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ بَیَانِ أَبِیْ بِشْرِ ڑ الْأَحْمَسِیِّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ قَیْسَ بْنَ أَبِیْ حَازِمٍ قَالَ : صَلّٰی بِنَا سَعْدُ بْنُ مَالِکٍ‘ فَقَامَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ‘ فَقَالُوْا " سُبْحَانَ اللّٰہِ " فَقَالَ " سُبْحَانَ اللّٰہِ " فَمَضٰی‘ فَلَمَّا سَلَّمَ‘ سَجَدَ سَجْدَتَی السَّہْوِ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ‘ وَابْنِ عَبَّاسٍ‘ وَابْنِ الزُّبَیْرِ‘ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّہُمْ سَجَدُوْا لِلسَّہْوِ بَعْدَ السَّلَامِ .
٢٥٠١: قیس بن حازم کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت سعد بن مالک (رض) نے نماز پڑھائی وہ پہلی دو رکعتوں کے تشہد میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے مقتدیوں نے سبحان اللہ کہا تو انھوں نے سبحان اللہ کہا تو انھوں نے سبحان اللہ کہا اور نماز کو جاری رکھا جب سلام پھرا تو سہو کے دو سجدے کئے۔ اور یہ ابن مسعود ‘ ابن عباس ‘ ابن زبیر ‘ انس (رض) سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے سلام کے بعد سہو کے سجدے کیے۔
حاصل روایات : یہ سعد بن ابی وقاص ہیں جو نماز میں کمی کی صورت میں سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کر رہے ہیں۔
عمل ابن مسعود (رض) آگے ملاحظہ ہو۔

2502

۲۵۰۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ حُصَیْنٍ‘ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : السَّہْوُ أَنْ یَّقُوْمَ فِیْ قُعُوْدٍ‘ أَوْ یَقْعُدَ فِیْ قِیَامٍ‘ أَوْ یُسَلِّمَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ‘ فَإِنَّہٗ یُسَلِّمُ‘ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ وَیَتَشَہَّدُ‘ وَیُسَلِّمُ ۔
٢٥٠٢: ابو عبیدہ نے حضرت عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتے تھے بھولنا یہ ہے کہ آدمی قعود میں کھڑا ہوجائے یا قیام میں بیٹھا رہے یا دو رکعت پر سلام پھیر دے تو ان سب صورتوں میں وہ سلام پھیرے پھر سہو کے دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام پھیرے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٤٨٦‘ عبدالرزاق ٢؍٣١٢۔
ابن عباس (رض) کا عمل آگے ملاحظہ ہوں۔

2503

۲۵۰۳: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ‘ فَقَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ قُرَّۃَ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ حَدَّثَہٗ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ: سَجْدَتَا السَّہْوِ بَعْدَ السَّلَامِ .
٢٥٠٣: عمرو بن دینار نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کئے۔
حضرت عبداللہ ابن الزبیر (رض) کا عمل اگلی روایت ملاحظہ ہوں۔

2504

۲۵۰۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ‘ عَنْ زَیْدٍ‘ عَنْ جَابِرٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ الزُّبَیْرِ‘ فَسَلَّمَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ‘ فَسَبَّحَ الْقَوْمُ‘ فَقَامَ فَأَتَمَّ الصَّلَاۃَ‘ فَلَمَّا سَلَّمَ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَ السَّلَامِ .قَالَ عَطَائٌ : فَانْطَلَقْتُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَذَکَرْتَ لَہٗ مَا فَعَلَ ابْنُ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَقَالَ : أَحْسَنَ وَأَصَابَ .
٢٥٠٤: عطاء کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن الزبیر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی انھوں نے دو رکعتوں پر سلام پھیرا لوگوں سے سبحان اللہ کہا وہ کھڑے ہوئے اور نماز کو مکمل کیا جب سلام پھیرا تو سلام کے بعد دو سجدے کئے عطاء کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں گیا اور میں نے ان کو ابن زبیر کا عمل بتلایا تو انھوں نے توثیق و تحسین و تصویب فرمائی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٥١‘ مجمع الزوائد ٢؍٣٥٠۔

2505

۲۵۰۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَاہِکٍ‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا ابْنُ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَامَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ‘ فَسَبَّحْنَا بِہٖ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَلَمْ یَلْتَفِتْ إِلَیْہِمْ‘ فَقَضٰی مَا عَلَیْہِ‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَمَا سَلَّمَ .
٢٥٠٥: یوسف بن ماہک کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابن الزبیر (رض) نے نماز پڑھائی تو وہ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں کھڑے ہوگئے (تشہد نہ پڑھا) ہم نے سبحان اللہ کہا تو انھوں نے سبحان اللہ کہا اور ان کی کوئی پروا نہ کی پھر انھوں نے اپنی نماز پوری کی پھر سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کئے۔
تخریج : اخرج نحوۃ ابن ابی شیبہ ١؍٣٩٣۔

2506

۲۵۰۶: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوْ بِشْرٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٥٠٦: ہشیم نے کہا ہمیں ابو بشر نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج : اخرج نحوہ ابن ابی شیبہ۔

2507

۲۵۰۷: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ فِی الرَّجُلِ یَہِمُ فِیْ صَلَاتِہٖ، لَا یَدْرِیْ أَزَادَ أَمْ نَقَصَ؟ قَالَ : یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَمَا یُسَلِّمُ .
٢٥٠٧: قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے اس آدمی کے متعلق فرمایا جس کو نماز میں یہ معلوم نہ رہے کہ اس نے رکعات کم کردیں یا زیادہ تو آپ نے فرمایا سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کرے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٨٥۔

2508

۲۵۰۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا فُلَیْحٌ‘ عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ صَلّٰی وَرَائَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأُوْہِمَ‘ فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَ السَّلَامِ.
٢٥٠٨: ضمرہ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کے پیچھے نماز ادا کی ان کو نماز میں شک ہوا تو انھوں نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٨٦۔

2509

۲۵۰۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ صُہَیْبٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَامَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَسَبَّحَ بِہِ الْقَوْمُ‘ فَاسْتَتَمَّ أَرْبَعًا‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَمَا سَلَّمَ‘ ثُمَّ قَالَ : اِذَا وَہِمْتُمْ‘ فَافْعَلُوْا ھٰکَذَا .وَھٰذَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ قَدْ حَضَرَ سُجُوْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخِرْبَاقِ لِلزِّیَادَۃِ الَّتِیْ کَانَ زَادَہَا فِیْ صَلَاتِہٖ بَعْدَ السَّلَامِ ثُمَّ قَالَ ہُوَ مِنْ بَعْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ السُّجُوْدَ لِلسَّہْوِ بَعْدَ السَّلَامِ " وَلَمْ یَفْصِلْ بَیْنَ مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ لِزِیَادَۃٍ أَوْ نُقْصَانٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ السُّجُوْدَ الَّذِیْ حَضَرَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلسَّہْوِ الَّذِیْ کَانَ سَہَا حِیْنَئِذٍ فِیْ صَلَاتِہٖ، کَانَ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ عَلٰی أَنَّ کُلَّ سُجُوْدٍ لِکُلِّ سَہْوٍ‘ یَکُوْنُ فِی الصَّلَاۃِ کَذٰلِکَ أَیْضًا .
٢٥٠٩: عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ دوسری رکعت میں کھڑے ہوگئے لوگوں سے سبحان اللہ کہی جب انھوں نے چار مکمل کرلیں تو سلام کے بعد دو سجدے کئے پھر فرمایا جب تمہیں نماز میں وہم ہوجائے تو اسی طرح کیا کرو۔ یہ حضرت عمران بن حصین (رض) ہیں جو سلام کے دو سجدوں میں خرباق (رض) کے دن حاضر تھے ‘ وہ سجدے اس اضافے کی وجہ سے کیے گئے اور سلام کے بعد کیے گئے۔ پھر انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد فرمایا کہ وہ سجدے سلام کے بعد ہیں ‘ البتہ انھوں نے اس بات کی تفصیل نہیں کی کہ اضافے کی وجہ سے تھے یا نقصان کی بناء پر ۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انھوں نے بھول کی وجہ سے جو دو سجدے کیے وہ نماز میں ہر قسم کی بھول جو نماز میں پیش آئے اس میں سہو کے دو سجدے ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٩٠۔

2510

۲۵۱۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ خَالِدًا الْحَذَّائَ أَخْبَرَہُمْ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ عِمْرَانِ بْنِ حُصَیْنٍ‘ قَالَ : فِیْ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ یُسَلِّمُ ثُمَّ یَسْجُدُ ثُمَّ یُسَلِّمُ .وَقَدْ ذَکَرَ الزُّہْرِیُّ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ سُجُوْدَ السَّہْوِ قَبْلَ السَّلَامِ‘ فَلَمْ یَأْخُذْ بِہٖ .
٢٥١٠: ابو قلابہ نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے سجدہ سہو کے متعلق فرمایا سلام پھیرے پھر سجدہ کرے پھر سلام پھیرے۔ آثار کے پیش نظر اس باب کا یہی حکم ہے۔ نظر و فکر کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص نماز میں بھول جائے اسی وقت سجدہ سہو نہیں کیا جاتا بلکہ اسے تاخیر سے کرنے کو کہا جاتا ہے۔
حاصل روایات : یہ عمران ہیں جنہوں نے خرباق (رض) کے معاملے کے موقعہ پر اضافے پر سلام کے بعد سجدہ کیا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد انھوں نے فرمایا سہو کے سجدے سلام کے بعد ہیں انھوں نے اس میں زیادتی یا نقصان کا فرق نہیں کیا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی جب وہ آپ کے سجدہ سہو میں شریک تھے تو ان کے ہاں یہ بات ثابت تھی کہ سہو کا ہر سجدہ جو نماز میں پیش آئے وہ سلام کے بعد ہوگا۔

2511

۲۵۱۱:حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ‘ قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ بْنُ الْوَلِیْدِ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ : السُّجُوْدُ قَبْلَ السَّلَامِ؟ فَلَمْ یَأْخُذْ بِہٖ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا سَہَا فِیْ صَلَاتِہٖ، لَمْ یُؤْمَرْ بِالسُّجُوْدِ لِلسَّہْوِ‘ سَاعَۃَ کَانَ السَّہْوُ‘ وَأُمِرَ بِتَأْخِیْرِہٖ۔ فَقَالَ قَائِلُوْنَ : إِلٰی مَا بَعْدَ السَّلَامِ‘ وَقَالَ آخَرُوْنَ : إِلَی آخِرِ صَلَاتِہٖ قَبْلَ السَّلَامِ وَکَانَ مَنْ تَلَا سَجْدَۃً فِیْ صَلَاتِہٖ، فَوَجَبَ عَلَیْہِ بِتِلَاوَتِہِ أَوْ ذَکَرَ وَہُوَ فِیْ صَلَاتِہٖ، أَنَّ عَلَیْہِ لِمَا تَقَدَّمَ مِنْہَا سَجْدَۃً أَنَّہٗ یُؤْمَرُ أَنْ یَأْتِیَ بِہَا حِیْنَئِذٍ‘ وَلَا یُؤْمَرُ بِتَأْخِیْرِہَا إِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ الْمَوْضِعِ مِنْ صَلَاتِہٖ .فَکَانَ مَا یَجِبُ مِنَ السُّجُوْدِ فِی الصَّلَاۃِ‘ یُؤْتٰی بِہٖ حَیْثُ وَجَبَ مِنْہَا‘ وَلَا یُؤَخَّرُ إِلٰی مَا بَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَکَانَ سُجُوْدُ السَّہْوِ قَدْ أُجْمِعَ عَلَی تَأْخِیْرِہِ عَنْ مَوْضِعِ السَّہْوِ‘ حَتّٰی یَمْضِیَ کُلُّ الصَّلَاۃِ‘ لَا السَّلَامُ فَإِنَّہٗ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ تَقْدِیْمِہِ قَبْلَ السُّجُوْدِ لِلسَّہْوِ‘ وَفِیْ تَقْدِیْمِ السُّجُوْدِ لِلسَّہْوِ عَلَیْہِ فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ السَّلَامِ الْمُخْتَلَفِ فِیْہِ‘ حُکْمَ مَا قَبْلَہٗ مِنَ الصَّلَاۃِ الْمُجْتَمَعِ عَلَیْہِ .فَکَمَا کَانَ ذٰلِکَ مُقَدَّمًا عَلَی سُجُوْدِ السَّہْوِ‘ کَانَ کَذٰلِکَ السَّلَامُ أَیْضًا مُقَدَّمًا عَلٰی سُجُوْدِ السَّہْوِ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا. وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔
٢٥١١: زہری بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز سے پوچھا کیا سجدہ سہو سلام سے پہلے ہے تو آپ نے اس کو اختیار نہ کیا۔ بعض حضرات نے اسے سلام کے بعد تک مؤخر اور دوسروں نے نماز کے آخر اور سلام سے پہلے تک مؤخر کیا۔ چنانچہ جو شخص سجدہ کی آیت تلاوت کرے یا اس کو یاد آیا کہ اس پر پہلے سجدہ سہو لازم ہے تو اسے اسی وقت ادائیگی کا حکم ہے۔ نماز میں کسی دوسری جگہ کے لیے مؤخر کرنے کا حکم نہیں اور نماز میں سجدہ تلاوت واجب ہو تو اسے اسی وقت ادا کیا جائے گا مؤخر نہ کیا جائے گا۔ البتہ بھول کا سجدہ نماز کے اختتام تک مؤخر کرنے کا حکم ہے اور اس پر تمام متفق ہیں۔ صرف اختلاف اس بات میں ہے کہ سلام سجدے سے پہلے کیا جائے یا سجدہ کو سلام سے مقدم کریں۔ قیاس تو یہی چاہتا ہے کہ وہ سلام جس میں اختلاف ہے وہ نماز کے اس حصہ کی طرح ہونا چاہیے جس میں اتفاق ہے۔ جب باقی نماز سجدہ سہو سے پہلے ہے تو سلام بھی اس سے پہلے ہونا چاہے۔ نظر و فکر اسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول بھی یہی ہے۔
تخریج : اخرج فی معناہ ابو داؤد ١؍١٤٨۔
آثار کے لحاظ سے تو سلام کے بعد سجدے کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
جب نماز میں کسی کو سہو ہوجائے تو فی الفور سجدہ کا حکم نہیں ہے بلکہ تاخیر سے سجدہ کا حکم ہے اب وہ تاخیر کس قدر ہونی چاہیے اس میں اختلاف ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ سلام کے بعد تک مؤخر کیا جائے گا اور دوسرے کہتے ہیں کہ سلام سے پہلے تک مؤخر کیا جائے گا تو تاخیر پر اجماع ہوا۔ اب ہم نے نماز میں سجدہ تلاوت کے متعلق غور کیا تو معلوم ہوا کہ موضع تلاوت سے اس کی تاخیر جائز نہیں بلکہ اسی وقت سجدہ کا حکم ہے اور اگر بھول رہ جائے تو دوران نماز میں جب بھی یاد آجائے اسی وقت کرلیا جائے جیسا پہلے ذکر کیا کہ سجدہ سہو کی تاخیر پر تو سب کا اتفاق ہے فوری طور پر اس کا کرنا جائز نہیں البتہ افعال صلوۃ میں سلام سے بھی اس کو مؤخر کردیا جائے یا سلام سے پہلے کرلیا جائے اس میں اختلاف ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سلام کے علاوہ تمام افعال کو سجدہ پر مقدم کرنا اتفاقی مسئلہ ہے صرف سلام مختلف فیہ ہوا تو مختلف فیہ کو متفق علیہ پر قیاس کرنا ضروری ہے پس تمام افعال صلوۃ سجدہ سہو پر مقدم کئے جانے ضروری ہیں تو سلام بھی تو افعال صلوۃ سے ہے پس اس کو بھی سجدہ سہو پر مقدم کرنا ضروری ہے۔
یہی ہمارے علماء ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل کلام : : اس باب میں اپنے راجح قول کی تائید میں اپنے روایتی انداز سے آثار صحابہ کرام (رض) کو نقل کیا اور نظر کو آخر میں لائے اس سے اشارہ کیا کہ اصل دلیل تو روایات و آثار ہیں قیاس و نظر تو تائیدی دلیل ہے۔

2512

۲۵۱۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْخٌ‘ أَحْسَبُہٗ أَبَا زَیْدِ ڑ الْہَرَوِیَّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ خَالِدِ ڑ الْحَذَّائِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا قِلَابَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ عَمِّہٖ أَبِی الْمُہَلَّبِ‘ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِہِمُ الظُّہْرَ ثَلاَثَ رَکَعَاتٍ‘ ثُمَّ سَلَّمَ وَانْصَرَفَ .فَقَالَ لَہُ الْخِرْبَاقُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ إِنَّک صَلَّیْتُ ثَلاَثًا‘ قَالَ : فَجَائَ فَصَلّٰی رَکْعَۃً ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ) .
٢٥١٢: ابوالمہلب نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی اور تین رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا پھر نماز سے لوٹے تو آپ کو خرباق (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے تین رکعت نماز ادا کی ہے عمران کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور ایک رکعت نماز پڑھی پھر سلام پھیر دیا پھر سہو کے دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔
تخریج : مسلم فی المساجد ١٠١؍١٠٢۔

نمبر 1: امام و مقتدی کے نماز میں کلام کرنے کے متعلق اختلاف ہے ائمہ ثلاثہ (رح) کے ہاں اصلاح نماز کے لیے امام و مقتدی کا باہمی کلام یا بھول کر کلام مفسد صلوۃ نہیں ہے۔
نمبر 2: ائمہ احناف کے ہاں ہر قسم کا کلام جو بھول کر کیا جائے یا اصلاح نماز سے متعلق ہو وہ نماز کے لیے مفسد ہے خواہ امام مقتدیوں سے کرے یا مقتدی امام سے ذیل میں ہم مؤقف اور دلائل کی وضاحت کریں گے۔
فریق اوّل کا مؤقف : امام و مقتدی کے نماز میں بھول کر کلام کرنے یا قصداً ایسا کلام کرنے سے جن میں نماز کی اصلاح ہو وہ درست ہے اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

2513

۲۵۱۳: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ خَالِدِ ڑ الْحَذَّائِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : (فَقَامَ إِلَیْہِ الْخِرْبَاقُ وَزَعَمَ أَنَّہَا صَلَاۃُ الْعَصْرِ)
٢٥١٣: وہیب نے خالد سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی مگر اس میں اس طرح ہے پس خرباق کھڑے ہوئے اور انھوں نے خیال کیا کہ وہ عصر کی نماز ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١٨؍١٩٥۔

2514

۲۵۱۴: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ خَالِدٍ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ‘ قَالَ : (سَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ثَلاَثِ رَکَعَاتٍ‘ فَدَخَلَ الْحُجْرَۃَ مُغْضَبًا .فَقَامَ الْخِرْبَاقُ‘ رَجُلٌ بَسِیْطُ الْیَدَیْنِ‘ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَقَصُرَتِ الصَّلَاۃُ‘ أَمْ نَسِیْت؟ قَالَ : فَخَرَجَ یَجُرُّ رِدَائَ ہٗ فَسَأَلَ‘ فَأُخْبِرَ‘ فَصَلَّی الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ کَانَ تَرَکَ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ) .
٢٥١٤: ابوالمہلب نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین رکعت نماز ادا کی پھر حجرہ میں غصے سے داخل ہوئے تو خرباق نے کھڑے ہو کر کہا (یہ لمبے ہاتھوں والا آدمی تھا) یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا نماز کم ہوگئی راوی کہتے ہیں وہ اپنی چادر کو کھینچتے ہوئے نکلے اور آپ نے پوچھا تو آپ کو اس کی اطلاع دی گئی پھر آپ نے چھوڑی ہوئی رکعت پڑھی اور سلام پھیرا پھر دو سجدے کر کے سلام پھیرا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٨٨‘ الاذان باب ٦٩‘ السہو باب ٤‘ الادب باب ٤٥‘ الیمان باب ١٥‘ الاحاد باب ١‘ مسلم فی المساجد ٩٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٨٩‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٧٥‘ مالک فی الندار ٥٨‘ مسند احمد ٢؍٧٧۔

2515

۲۵۱۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی لِلنَّاسِ رَکْعَتَیْنِ‘ فَسَہَا فَسَلَّمَ .فَقَالَ لَہٗ ذُو الْیَدَیْنِ) ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ ابْنِ عَوْنٍ وَہِشَامٍ .وَحَدِیْثُہُمَا أَنَّہٗ قَالَ : (أَنَقَصَتِ الصَّلَاۃُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .قَالَ : لَا فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ أُخْرَیَیْنِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَی السَّہْوِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ) .
٢٥١٥: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نماز پڑھائی دو رکعت پڑھا کر بھول کر سلام پھیر دیا ذوالیدین نے کہا پھر ابن عون و ہشام جیسی روایت نقل کی ہے اور ان کی حدیث یہ ہے کہ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا نماز کم ہوگئی آپ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر سلام پھیرا پھر سہو کے دو سجدے کر کے سلام پھیرا۔
تخریج : بخاری فی السہو باب ٣۔

2516

۲۵۱۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِحْدٰی صَلَاتٰی الْعَشِیِّ‘ الظُّہْرَ أَوِ الْعَصْرَ‘ وَأَکْثَرُ ظَنِّیْ أَنَّہٗ ذَکَرَ الظُّہْرَ‘ فَصَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ قَامَ إِلٰی خَشَبَۃٍ فِیْ مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ‘ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَیْہَا‘ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرٰی‘ یُعْرَفُ فِیْ وَجْہِہِ الْغَضَبُ .قَالَ : وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ فَقَالُوْا : أَقَصُرَتِ الصَّلَاۃُ‘ وَفِی النَّاسِ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَعُمَرُ‘ فَہَابَاہُ أَنْ یُّکَلِّمَاہُ .فَقَامَ رَجُلٌ طَوِیْلُ الْیَدَیْنِ‘ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمَّاہُ ذَا الْیَدَیْنِ‘ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَنَسِیْتُ أَمْ قَصُرَتِ الصَّلَاۃُ؟ فَقَالَ : لَمْ أَنْسَ‘ وَلَمْ تَقْصُرِ الصَّلَاۃُ قَالَ : بَلْ نَسِیْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .فَأَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ فَقَالَ : أَصَدَقَ ذُو الْیَدَیْنِ؟ فَقَالُوْا : نَعَمْ‘ فَجَائَ فَصَلّٰی بِنَا الرَّکْعَتَیْنِ الْبَاقِیَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ کَبَّرَ‘ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہٖ أَوْ أَطْوَلَ‘ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ‘ فَکَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہٖ أَوْ أَطْوَلَ‘ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہٗ وَکَبَّرَ) .
٢٥١٦: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں پچھلے پہر کی ایک نماز ظہر یا عصر پڑھائی اور میرا زیادہ گمان یہ ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے ظہر کا ذکر کیا دو رکعت پڑھائیں پھر آپ مسجد کے اگلی جانب لکڑی کے پاس کھڑے ہوئے اور اس پر اپنے ہاتھ رکھے اور ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھا آپ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار تھے ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ تیزی کرنے والے لوگوں سے بھی آگے نکل گئے تو لوگوں نے کہا کیا نماز کم ہوگئی اور لوگوں میں حضرت ابوبکر و عمر (رض) بھی تھے مگر ان دونوں نے رعب نبوت کی وجہ سے بات نہ کی۔ تو ایک لمبے ہاتھوں والا شخص کھڑے ہو کر کہنے لگا آپ اس کو ذوالیدین فرمایا کرتے تھے۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا نماز کم کردی گئی یا آپ بھول گئے ؟ آپ نے فرمایا نہ میں بھولا اور نہ نماز کم کی گئی اس نے کہا بلکہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بھول گئے۔ پس آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کیا ذوالیدین ؟ نے سچ کہا ؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں۔ پس آپ واپس تشریف لائے اور ہمیں باقی دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا اور تکبیر کہی پھر اسی قدر سجدہ کیا یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی اور اسی جیسا یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
تخریج : روایت نمبر ٢٥١٤ کی تخریج ملاحظہ ہو۔ ابو داؤد ١؍١٤٤‘ مسلم ١؍٢١٣۔

2517

۲۵۱۷: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ: ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ: ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ وَابْنِ عَوْنٍ‘ وَسَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ ۔
٢٥١٧ : محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ‘ پھر انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا۔

2518

۲۵۱۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ أَبِیْ تَمِیْمَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَیْنِ‘ فَقَالَ لَہٗ ذُو الْیَدَیْنِ : أَقَصُرَتِ الصَّلَاۃُ) .ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ مَا بَعْدَ ذٰلِکَ‘ فِیْ حَدِیْثِ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ .وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ نَحْوَ مَا ذَکَرَہٗ حَمَّادٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ، مِنْ (قَوْلِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٥١٨: محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو رکعات سے واپس لوٹے (یعنی نماز ختم کردی) تو آپ کو ذوالیدین نے کہا کیا نماز کم ہوگئی ؟ مابعد حماد بن زید والی روایت کی طرح ہے البتہ اس میں صلی بنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ نہیں لائے۔
تخریج : بخاری ١؍٩٦۔

2519

۲۵۱۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ‘ عَنْ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٥١٩: محمد نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عزاہ العینی الی البزاز۔

2520

۲۵۲۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ‘ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (صَلَّی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِحْدٰی صَلَاتَیِ الْعَشِیِّ) ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ‘ وَلَمْ یَقُلْ أَبُوْ بَکْرَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ " صَلّٰی بِنَا " .
٢٥٢٠: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں پچھلے پہر کی ایک نماز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھائی پھر اسی طرح روایت بیان کی اور ابو بکرہ نے اس روایت میں ” صلی “ بنا کے لفظ ذکر نہیں کئے۔
تخریج : بخاری ١؍١٢٤۔

2521

۲۵۲۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ لَبِیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٥٢١: ابو سلمہ سے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے صلی بنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عزاہ العینی الی مسند السراج۔

2522

۲۵۲۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ‘ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ‘ مَوْلَی ابْنِ أَبِیْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ (أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ ۔
٢٥٢٢: ابن ابی احمد کے مولیٰ ابو سفیان نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ صلی بنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢١٣۔

2523

۲۵۲۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ قَالَ : ثَنَا (أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ ۔
٢٥٢٣: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢١٤۔

2524

۲۵۲۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ .
٢٥٢٤: ابو بکرہ نے کہا ہمیں ابو داؤد نے بیان کیا۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٤٥۔

2525

۲۵۲۵: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : (سَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَکْعَتَیْنِ فَقِیْلَ لَہٗ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَقَصُرَتِ الصَّلَاۃُ؟ فَقَالَ : وَمَا ذَاکَ؟ فَأَخْبَرَ بِمَا صَنَعَ‘ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ) .
٢٥٢٥: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا ان سے کہا گیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا نماز کم ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا یہ پیش نہیں آیا۔ پس آپ کو آپ کے عمل کی اطلاع دی گئی تو آپ نے دو رکعت نماز ادا کی پھر سلام پھیرا پھر بیٹھ کر دو سجدے کئے۔
تخریج : نسائی ١؍١٨٢‘ ابن ابی شیبہ ١؍٣٩٢۔

2526

۲۵۲۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ أَنَسٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی یَوْمًا‘ فَسَلَّمَ فِیْ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ انْصَرَفَ‘ فَأَدْرَکَہٗ ذُو الشِّمَالَیْنِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَنَقَصَتِ الصَّلَاۃُ أَمْ نَسِیْت؟ فَقَالَ : لَمْ تَنْقُصْ وَلَمْ أَنْسَ .فَقَالَ : بَلٰی وَالَّذِیْ بَعَثَک بِالْحَقِّ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصَدَقَ ذُوالْیَدَیْنِ فَقَالُوْا: نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ فَصَلّٰی لِلنَّاسِ رَکْعَتَیْنِ).
٢٥٢٦: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن نماز پڑھی (یعنی پڑھائی) اور دو رکعت پر سلام پھیر کر نماز پوری کردی ذوالشمالین نے آپ کو آلیا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا نماز کم ہوگئی یا آپ بھول گئے ؟ آپ نے فرمایا نہ نماز کم ہوئی نہ میں بھولا آپ نے فرمایا کیوں نہیں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا کچھ تو ہوا ہے۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا ذوالیدین نے سچ کہا ؟ انھوں نے کہا جی ہاں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پھر آپ نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔
تخریج : نسائی ١؍١؍١٨٢۔

2527

۲۵۲۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِدْرِیْسُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَیَّاشٍ‘ عَنِ ابْنِ ہُرْمُزَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ وَزَادَ (وَسَجَدَ سَجْدَتَی السَّہْوِ بَعْدَ السَّلَامِ) .
٢٥٢٧: ابن ہرمز نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح نقل کیا اور یہ الفاظ زائد ہیں سجد سجدتی السہو بعدالسلام کہ سلام کے بعد دو سجدے سہو کے لئے۔

2528

۲۵۲۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (انْصَرَفَ مِنْ رَکْعَتَیْنِ) فَذَکَرَ نَحْوَ ذٰلِکَ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرِ السَّلَامَ الَّذِیْ قَبْلَ السُّجُوْدِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْکَلَامَ فِی الصَّلَاۃِ مِنَ الْمَأْمُوْمِیْنَ لِاِمَامِہِمْ لَمَّا کَانَ مِنْہُ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ وَأَنَّ الْکَلَامَ مِنَ الْاِمَامِ وَمِنَ الْمَأْمُوْمِیْنَ فِیْہَا عَلَی السَّہْوِ‘ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ مَذْہَبِہِمْ فِیْ کَلَامِ الْمَأْمُوْمِ لِلْاِمَامِ لِمَا قَدْ تَرَکَہٗ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ بِکَلَامِ ذِی الْیَدَیْنِ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا‘ وَفِیْ مَذْہَبِہِمْ فِی الْکَلَامِ عَلَی السَّہْوِ‘ أَنْ لَا یَقْطَعَ الصَّلَاۃَ (لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذِی الْیَدَیْنِ لَمْ تَقْصُرْ وَلَمْ أَنْسَ) وَہُوَ یَرٰی أَنَّہٗ لَیْسَ فِی الصَّلَاۃِ .قَالُوْا : فَلَمَّا بَنَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا صَلّٰی‘ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ قَاطِعًا عَلَیْہِ‘ وَلَا عَلٰی ذِی الْیَدَیْنِ الصَّلَاۃَ‘ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْکَلَامَ لِاِصْلَاحِ الصَّلَاۃِ‘ مُبَاحٌ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَأَنَّ الْکَلَامَ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی السَّہْوِ‘ غَیْرُ قَاطِعٍ لِلصَّلَاۃِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ وَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ الْکَلَامُ فِی الصَّلَاۃِ إِلَّا بِالتَّکْبِیْرِ‘ وَالتَّہْلِیْلِ‘ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ‘ وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَّتَکَلَّمَ فِیْہَا بِشَیْئٍ حَدَثَ مِنَ الْاِمَامِ فِیْہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٥٢٨: مقبری نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت مکمل کیں پھر اسی طرح روایت نقل کی البتہ سجدہ سے پہلے سلام کا ذکر نہیں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر امام اپنے مقتدیوں سے ایسی گفتگو کرے جو نماز سے متعلق ہو تو اس سے نماز فاسد نہ ہوگی اسی طرح امام اور مقتدیوں کے بھول کر گفتگو کرنے سے بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔ انھوں نے اپنی اس بات کے لیے حضرت ذوالیدین (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گفتگو سے استدلال کیا ہے۔ جیسا گزشتہ روایات میں مذکور ہے۔ اسی طرح بھول کر کلام سے امام اور مقتدیوں ہر دو کی نماز نہیں ٹوٹتی۔ اس کی دلیل بھی ذوالیدین کی یہ گفتگو ” اقصرت الصلاۃ ام نسیت یا رسول اللّٰہ “ اور آپ کا جواب ” کل ذلک لم یکن لم تقصر الصلاۃ ولم انس “ ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو جان رہا تھا کہ آپ نماز میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے پڑھی گئی نماز پر بناء کی تو یہ باتیں نہ ذوالیدین کے لیے نماز کو قطع کرنے والی بنیں اور نہ اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز ٹوٹی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ نماز میں نماز کی درست کے لیے گفتگو جائز ہے اور بھول چوک کر نماز میں گفتگو کرلینے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا نماز میں کلام تکبیر ‘ تہلیل اور قراءت قرآن مجید کے علاوہ جائز نہیں۔ امام کو اگر کوئی چیز پیش آجائے تو اسے بھی کلام جائز نہیں۔ ان کی دلیل ذیل کی روایات ہیں۔
تخریج : عزاہ العینی الی البزاز۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کو بھی نماز میں ہونے والی کمی سے متعلق گفتگو اور مقتدیوں کو نماز میں رہ جانے والی کمی سے متعلق گفتگو اور بھول کر کلام قاطع نماز نہیں ہے کیونکہ ذوالیدین کو واضح فرمایا گیا کہ نہ نماز میں کمی ہوئی نہ میں بھولا اور آپ اپنے کو نماز میں یقیناً نہ سمجھتے تھے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گزشتہ نماز پر بناء فرمائی ہے اور یہ گفتگو نہ آپ کی نماز کے لیے قاطع بنی اور نہ ذوالیدین کی نماز کے لیے قاطع بنی تو ایسا کلام جو اصلاح نماز سے تعلق رکھتا ہو وہ نماز میں مباح ہے اور بھول کر کلام بھی نماز کے لیے قاطع نہیں ہے۔

2529

۲۵۲۹: بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ ہِلَالِ بْنِ أَبِیْ مَیْمُوْنَۃَ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ (عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِیِّ قَالَ : بَیْنَمَا أَنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاۃٍ اِذْ عَطَسَ رَجُلٌ فَقُلْتُ : یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فَحَدَقَنِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِہِمْ‘ فَقُلْتُ : وَاثْکَلَ أُمَّاہُ مَا لَکُمْ تَنْظُرُوْنَ إِلَیَّ قَالَ : فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَیْدِیْہِمْ عَلٰی أَفْخَاذِہِمْ .فَلَمَّا رَأَیْتَہٗ مْ یُسَکِّتُوْنَنِیْ سَکَتّ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِہٖ دَعَانِیْ‘ فَبِأَبِیْ وَأُمِّی مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہٗ وَلَا بَعْدَہٗ‘ أَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ‘ وَاللّٰہِ مَا ضَرَبَنِیْ وَلَا کَہَرَنِیْ وَلَا سَبَّنِیْ‘ وَلٰـکِنْ قَالَ لِیْ إِنَّ صَلَاتَنَا ھٰذِہٖ لَا یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا ہِیَ التَّکْبِیْرُ وَالتَّسْبِیْحُ‘ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ) .
٢٥٢٩: معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز میں تھا جبکہ ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے یرحمکم اللہ کہا لوگوں نے مجھے تیز نگاہوں سے دیکھا میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں گم کرے تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھ رانوں پر مارے جس سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں نے خاموشی اختیار کرلی جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو میری ماں باب آپ پر قربان ہوں میں نے آپ سے پہلے اور بعد آپ سے بہتر تعلیم دینے والا نہیں دیکھا اللہ کی قسم نہ مجھے مارا نہ ڈانٹا نہ گالم گلوچ کی بلکہ مجھے فرمایا ہماری اس نماز میں لوگوں کی گفتگو میں سے کوئی چیز روا نہیں وہ تکبیر ‘ تسبیح ‘ تلاوت قرآن مجید کا نام ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجف نمبر ٣٣‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٧‘ نمبر ٩٣٠‘ نسائی فی السہو باب ٢٠‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٧٧۔
مؤقف فریق ثانی اور دلائل : نماز میں امام و مقتدی کے کسی قسم کے کلام سے نماز فاسد ہوجاتی ہے خواہ وہ کلام سہواً یا قصداً ۔ دلائل یہ ہیں۔

2530

۲۵۳۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَسُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَا : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٥٣٠: بشر بن بکر نے اوزاعی سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ کیا تمہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب معاویہ بن حکم (رض) کو فرمایا جبکہ انھوں نے نماز میں کلام کی۔ کہ ہماری اپنی نماز میں لوگوں کی کلام میں سے کوئی چیز جائز نہیں ‘ بلاشبہ وہ تسبیح ‘ تکبیر ‘ قراء ۃ قرآن مجید کا نام ہے اور جب آپ نے اس سے یہ بھی بات نہیں فرمائی کہ تمہارے امام نے جو چیز چھوڑ دی ہے تو فلاں چیز اس کی جگہ کام دے سکے گی تم اس سے کلام کرلو۔ تو اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ نماز میں تسبیح ‘ تکبیر ‘ قراءت قرآن کے علاوہ جو گفتگو بھی کی جائے گی وہ نماز کو قطع کر دے گی۔ پھر آپ نے لوگوں کو اس کے بعد یہ بات سکھائی کہ جب ایسا معاملہ پیش آجائے تو وہ کیا کریں۔ روایات ذی میں درج ہیں۔

2531

۲۵۳۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ ہِلَالِ بْنِ عَلِیٍّ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ‘ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ وَزَادَ (فَإِذَا کُنْتُ فِیْہَا فَلْیَکُنْ ذٰلِکَ شَأْنُکَ) .أَوَ لَا تَرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمَّا عَلَّمَ مُعَاوِیَۃَ بْنَ الْحَکَمِ‘ اِذْ تَکَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ قَالَ لَہٗ (إِنَّ صَلَاتَنَا ھٰذِہٖ لَا یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ‘ إِنَّمَا ہِیَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ‘ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ) .وَلَمَّا لَمْ یَقُلْ لَہٗ أَوْ یَنُوْبُک فِیْہَا شَیْئٌ مِمَّا تَرَکَہٗ إِمَامُکَ‘ فَتَکَلَّمْ بِہٖ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْکَلَامَ فِی الصَّلَاۃِ بِغَیْرِ التَّسْبِیْحِ وَالتَّکْبِیْرِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ یَقْطَعُہَا .ثُمَّ قَدْ عَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بَعْدَ ذٰلِکَ مَا یَفْعَلُوْنَ‘ لِمَا یَنُوْبُہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ .
٢٥٣١: عطاء بن یسار نے معاویہ بن حکم سلمی سے اپنی اسناد سے روایت بیان کی اس میں یہ اضافہ ہے فاذا کنت فیہا فلیکن ذلک شانک جب تم نماز میں ہو تو تمہارا حال اسی طرح ہونا مناسب ہے۔
حاصل روایات : اس روایت معاویہ میں غور کرو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب علم ہوا کہ معاویہ نے بات کی ہے تو آپ نے فرمایا ہماری نماز کے مناسب نہیں کہ اس میں انسانی گفتگو کی جائے کیونکہ نماز تسبیح و تکبیر اور قراءت قرآن کا نام ہے اور آپ نے ان کو یہ بھی نہیں فرمایا کہ فلاں چیز اس کے قائم مقام ہوگی جو تیرے امام نے ترک کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تسبیح تکبیر اور قراۃ قرآن کے علاوہ جو بھی کلام ہو وہ نماز کو قطع کر دے گی پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ چیز بتلائی جو اس کا قائم مقام بن سکتی ہے۔
نماز میں پیش آئند چیز کا بدل کیا ہے ؟ روایات ملاحظہ ہوں۔

2532

۲۵۳۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ نَابَہٗ شَیْئٌ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَلْیَقُلْ سُبْحَانَ اللّٰہِ‘ إِنَّمَا التَّصْفِیْحُ لِلنِّسَائِ، وَالتَّسْبِیْحُ لِلرِّجَالِ) .
٢٥٣٢: ابو حازم نے سہل بن سعد (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کو نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو وہ سبحان اللہ کہے مردوں کے لیے تسبیح اور عورتوں کے لیے تصفیح یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہے۔
تخریج : بخاری فی العمل فی الصلاۃ باب ١٦‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٠٢‘ نسائی فی السہو باب ٤‘ مسند احمد ٥؍٣٣٠۔

2533

۲۵۳۳: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْن مُنْقِذٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ‘ عَنِ الْمَسْعُوْدِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ ڑالسَّاعِدِیِّ‘ قَالَ : (انْطَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی قَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لِیُصْلِحَ بَیْنَہُمْ‘ فَجَائَ حِیْنَ الصَّلَاۃِ‘ وَلَیْسَ بِحَاضِرٍ‘ فَتَقَدَّمَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذٰلِکَ اِذْ جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَفَّحَ الْقَوْمُ‘ فَأَشَارَ إِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَثْبُتَ‘ فَأَبَیْ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی نَکَصَ‘ فَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی .فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ قَالَ لِأَبِیْ بَکْرٍ : مَا مَنَعَکَ أَنْ تَثْبُتَ کَمَا أَمَرْتُکَ قَالَ : لَمْ یَکُنْ لِابْنِ أَبِیْ قُحَافَۃَ أَنْ یَتَقَدَّمَ أَمَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : فَأَنْتُمْ مَا لَکُمْ صَفَّحْتُمْ؟ قَالُوْا لِنُؤْذِنَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : التَّصْفِیْحُ لِلنِّسَائِ، وَالتَّسْبِیْحُ لِلرِّجَالِ) .
٢٥٣٣: ابو حازم نے سہل بن سعد ساعدی سے نقل کیا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصار کے کسی قبیلہ کے ہاں صلح کرانے تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا آپ موجود نہ تھے تو ابوبکر (رض) بڑھے وہ ابھی اسی حال میں تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے لوگوں نے تصفیح شروع کردی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو اپنی جگہ قائم رہنے کا اشارہ فرمایا مگر ابوبکر (رض) نے پیچھے ہٹنے کے علاوہ ہر چیز سے انکار کردیا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی جب آپ نماز پڑھا چکے تو ابوبکر کو مخاطب کر کے فرمایا جب میں نے تمہیں حکم دیا تو تم اپنی جگہ قائم کیوں نہیں رہے تو انھوں نے کہا ابو قحافہ کے بیٹے کو مناسب نہیں کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھے پھر لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا تم نے تصفیح کیوں کی ؟ انھوں نے جواب دیا تاکہ ابوبکر (رض) کو اطلاع ہوجائے آپ نے فرمایا تصفیح عورتوں کے لیے ہے اور مردوں کے لیے تسبیح ہے۔
تخریج : بخاری فی الاحکام باب ٣٦‘ نسائی فی السہو باب ٤‘ مسند احمد ٥؍٣٣١۔

2534

۲۵۳۴: حَدَّثَنَا نَصْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٥٣٤: حصیب نے وہیب بن ابی حازم سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

2535

۲۵۳۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ نَابَہٗ فِیْ صَلَاتِہٖ شَیْئٌ فَلْیُسَبِّحْ‘ فَإِنَّ التَّسْبِیْحَ لِلرِّجَالِ‘ وَالتَّصْفِیْقَ لِلنِّسَائِ) .
٢٥٣٥: ابو حازم نے سہل بن سعد سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کو نماز میں کوئی چیز پیش آئے وہ تسبیح کہے یہ مردوں کے لیے ہے جبکہ تصفیق عورتوں کے لیے ہے۔
تخریج : بخاری فی العمل باب ٥‘ الاحکام باب ٣٦‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٩‘ لنکاح باب ٤٩‘ ترمذی فی المواقیت باب ١٥٥‘ نسائی فی السہو باب ١٥‘ الامامہ باب ١٥‘ ابن ماجی فی الاقامہ باب ٦٥‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٩٥‘ مسند احمد ١؍٢٤١‘ ٢؍٢٩٠۔

2536

۲۵۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (التَّسْبِیْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیْقُ لِلنِّسَائِ) .
٢٥٣٦: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ تسبیح مردوں اور تصفیق عورتوں کے لیے ہے۔

2537

۲۵۳۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (التَّسْبِیْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیْقُ لِلنِّسَائِ) .قَالَ الْأَعْمَشُ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِاِبْرَاہِیْمَ فَقَالَ : کَانَتْ أُمِّی تَفْعَلُ .
٢٥٣٧: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تسبیح مردوں اور تصفیق عورتوں کے لیے ہے اعمش کہنے لگے میں نے ابراہیم سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا میری والدہ تصفیق کرتی تھی۔

2538

۲۵۳۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَوْفٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدٌ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٥٣٨: محمد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔

2539

۲۵۳۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ یَعْقُوْبَ بْنِ غَنِیَّۃَ‘ عَنْ أَبِیْ غَطَفَانَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَعَلَّمَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ فِیْ کُلِّ نَائِبَۃٍ تَنُوْبُہُمْ فِی الصَّلَاۃِ‘ اَلتَّسْبِیْحَ‘ وَلَمْ یُبِحْ لَہُمْ غَیْرَہٗ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ کَلَامَ ذِی الْیَدَیْنِ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا کَلَّمَہُ بِہٖ، فِیْ حَدِیْثِ عِمْرَانَ‘ وَابْنِ عُمَرَ‘ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ قَبْلَ تَحْرِیْمِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا
٢٥٣٩: ابو ططفان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات میں نماز کے اندر پیش آنے والی تمام باتوں کے قائم مقام تسبیح کو قرار دیا گیا ہے۔
روایت ذوالیدین کا جواب : فصل اول کی روایات میں ذوالیدین (رض) کا جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام جس کا تذکرہ عمران ‘ ابن عمر ‘ ابوہریرہ (رض) کی روایات میں وارد ہے وہ کلام میں تحریم کا حکم اترنے سے پہلے کا ہے یہ روایت اس کی دلیل ہے۔

2540

۲۵۴۰: أَنَّ الرَّبِیْعَ الْمُؤَذِّنَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ سُوَیِْد بْنَ قَیْسٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ خَدِیْجٍ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی یَوْمًا وَانْصَرَفَ‘ وَقَدْ بَقِیَتْ مِنَ الصَّلَاۃِ رَکْعَۃٌ‘ فَأَدْرَکَہٗ رَجُلٌ فَقَالَ : بَقِیَتْ مِنَ الصَّلَاۃِ رَکْعَۃٌ‘ فَرَجَعَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ‘ فَصَلّٰی لِلنَّاسِ رَکْعَۃً .فَأَخْبَرْتُ بِذٰلِکَ النَّاسَ‘ فَقَالُوْا لِیْ : أَتَعْرِفُ الرَّجُلَ؟ قُلْتُ : لَا إِلَّا أَنْ أَرَاہُ‘ فَمَرَّ بِیْ فَقُلْتُ : ہُوَ ھٰذَا‘ فَقَالُوْا : ھٰذَا طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ) . فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ‘ ثُمَّ صَلّٰی مَا کَانَ تَرَکَ مِنْ صَلَاتِہٖ .وَلَمْ یَکُنْ أَمْرُہُ بِلَالًا بِالْأَذَانِ وَالْاِقَامَۃِ قَاطِعًا لِصَلَاتِہٖ، وَلَمْ یَکُنْ أَیْضًا مَا کَانَ مِنْ بِلَالٍ مِنْ أَذَانِہٖ وَإِقَامَتِہِ قَاطِعًا لِصَلَاتِہٖ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ فَاعِلًا لَوْ فَعَلَ ھٰذَا الْآنَ‘ وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ کَانَ بِہٖ قَاطِعًا لِلصَّلَاۃِ‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ جَمِیْعَ مَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاتِہٖ، فِیْ حَدِیْثِ مُعَاوِیَۃَ بْنِ خَدِیْجٍ ھٰذَا‘ وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ وَعِمْرَانَ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کَانَ وَالْکَلَامُ مُبَاحٌ فِی الصَّلَاۃِ‘ ثُمَّ نُسِخَ بِنَسْخِ الْکَلَامِ فِیْہَا .فَعَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بَعْدَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرَہٗ عَنْہُ مُعَاوِیَۃُ بْنُ الْحَکَمِ وَأَبُوْ ہُرَیْرَۃَ وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ یَوْمِ ذِی الْیَدَیْنِ‘ ثُمَّ قَدْ حَدَثَتْ بِہٖ تِلْکَ الْحَادِثَۃُ فِیْ صَلَاتِہٖ مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ فِیْہَا بِخِلَافِ مَا کَانَ مِنْ عَمَلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ .
٢٥٤٠: سوید بن قیس نے بتلایا کہ معاویہ بن خدیج (رض) نے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن نماز پڑھائی اور گھر لوٹ گئے حالانکہ نماز کی ایک رکعت ابھی باقی تھی آپ کو ایک آدمی پیچھے سے جا کر ملا اور عرض پیرا ہوا کہ نماز کی ابھی ایک رکعت باقی ہے پس آپ مسجد کی طرف لوٹے اور بلال کو حکم دیا انھوں نے نماز کی اقامت کہی تو آپ نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر میں نے لوگوں کو اس کی اطلاع دی تو لوگوں نے مجھے کہا کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں لیکن میں نے اسے دیکھا ہے پس اس کا میرے پاس سے گزر ہوا تو میں نے کہا وہ یہ آدمی ہے تو لوگوں نے کہا یہ تو طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو حکم فرمایا انھوں نے اذان دی اور تکبیر کہی ‘ پھر آپ نے باقی ماندہ نماز ادا فرمائی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلال کو اذان و اقامت کے لیے کہنا بھی قطع نماز نہ ہوا اور نہ حضرت بلال (رض) کے اذان و اقامت کہنے سے نماز ٹوٹی۔ حالانکہ اس پر تمام متفق ہیں کہ اب اگر کوئی اس طرح کرے اور وہ نماز میں ہو تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ پس اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ تمام گفتگو جو روایت ابن عمر ‘ عمران ‘ ابوہریرہ (رض) میں موجود ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ نماز میں گفتگو کی اجازت تھی۔ پھر جب نماز میں کلام کو منسوخ کیا گیا تو ساتھ یہ بھی منسوخ کردیا گیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو وہ سکھایا جو حضرت معاویہ بن حکم اور ابوہریرہ ‘ سہل بن سعد (رض) کے کلام میں موجود ہے اور اس پر جو چیز دلالت کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت (رض) ذوالیدین والے دن بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ موجود تھے۔ پھر خود ان کو اپنی نماز میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ واقعہ پیش آیا اس میں انھوں نے اس کے خلاف عمل کیا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالیدین والے واقعہ میں کیا تھا۔ روایت ذیل کو پڑھیں۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال (رض) کو اذان اور اقامت صلوۃ کا حکم دیا پھر چھوڑی ہوئی نماز ادا کی آپ کا بلال کو اذان و اقامت کا حکم یہ نماز کا قاطع نہ بنے گا اور بلال کی اذان و اقامت وہ بھی نماز کو قطع کرنے والی نہ ہوگی۔
اور سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی اب ایسا کرے تو یہ نماز کے لیے قاطع بنے گا ۔
حاصل کلام : پس اسے یہ نتیجہ نکلا کہ نماز میں جو کچھ بھی پیش آیا جس کا تذکرہ اس روایت میں ہے یا معاویہ بن خدیج اور ابن عمر ‘ عمران ‘ ابوہریرہ (رض) کی روایات میں موجود ہے یہ اور کلام نماز میں پہلے مباح تھے پھر کلام کے منسوخ ہونے سے منسوخ ہوگئے پس اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو وہ سکھایا جس کا تذکرہ معاویہ بن حکم سلمی اور ابوہریرہ (رض) کی روایت اور سہل بن سعد کی روایت میں پایا جاتا ہے۔
مزید استشہاد :
اس بات پر دلالت کے لیے یہ بات بھی کافی ہے کہ حضرت عمر (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یوم ذوالیدین میں موجود تھے پھر ان کی اپنی نماز میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوالیدین والے دن کے عمل کے خلاف عمل کیا۔ روایت ملاحظہ ہو۔

2541

۲۵۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائً یَقُوْلُ: صَلّٰی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِأَصْحَابِہٖ فَسَلَّمَ فِیْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ‘ فَقِیْلَ لَہٗ ذٰلِکَ فَقَالَ : : إِنِّیْ جَہَّزْتُ عِیْرًا مِنَ الْعِرَاقِ بِأَحْمَالِہَا وَأَحْقَابِہَا حَتّی وَرَدْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَصَلّٰی بِہِمْ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ .فَدَلَّ تَرْکُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَا قَدْ عَلِمَہٗ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا وَعَمَلُہُ بِخِلَافِہٖ عَلٰی نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ‘ وَعَلٰی أَنَّ الْحَکَمَ کَانَ فِیْ تِلْکَ الْحَادِثَۃِ فِیْ زَمَنِہِ‘ بِخِلَافِ مَا کَانَ فِیْ یَوْمِ ذِی الْیَدَیْنِ .وَقَدْ کَانَ فِعْلُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا أَیْضًا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْنَ قَدْ حَضَرَ بَعْضُہُمْ فِعْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ فِیْ صَلَاتِہٖ، فَلَمْ یُنْکِرُوْا ذٰلِکَ عَلَیْہٖ‘ وَلَمْ یَقُوْلُوْا لَہٗ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ خِلَافَ مَا فَعَلْتُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا عَمِلُوْا مِنْ نَسْخِ ذٰلِکَ‘ مَا قَدْ کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلِمَہٗ. وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ‘ وَأَنَّ الْعَمَلَ عَلٰی خِلَافِہٖ‘ أَنَّ الْأُمَّۃَ قَدِ اجْتَمَعَتْ أَنَّ رَجُلًا لَوْ تَرَکَ إِمَامُہُ مِنْ صَلَاتِہِ شَیْئًا‘ أَنَّہٗ یُسَبِّحُ بِہٖ، لِیُعْلِمَ إِمَامَہُ مَا قَدْ تَرَکَ‘ فَیَأْتِیْ بِہٖ، وَذُو الْیَدَیْنِ فَلَمْ یُسَبِّحْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ وَلَا أَنْکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلَامَہُ إِیَّاہُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ مَا عَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ مِنَ التَّسْبِیْحِ لِنَائِبَۃٍ تَنُوْبُہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ کَانَ مُتَأَخِّرًا عَنْ ذٰلِکَ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَیْضًا وَعِمْرَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا یَدُلُّ عَلَی النَّسْخِ وَذٰلِکَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (سَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ مَضٰی إِلٰی خَشَبَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ) .وَقَالَ عِمْرَانُ : (ثُمَّ مَضٰی إِلٰی حُجْرَتِہِ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ صَرَفَ وَجْہَہُ عَنِ الْقِبْلَۃِ‘ وَعَمِلَ عَمَلًا فِی الصَّلَاۃِ لَیْسَ مِنْہَا‘ مِنَ الْمَشْیِ وَغَیْرِہٖ فَیَجُوْزُ ھٰذَا لِأَحَدِ ڑ الْیَوْمَ أَنْ یُصِیْبَہٗ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ بَقِیَتْ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاتِہٖ بَقِیَّۃٌ‘ فَلاَ یُخْرِجُہٗ ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : نَعَمْ‘ لَا یُخْرِجُہُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ لِأَنَّہٗ فَعَلَہٗ وَلَا یَرٰی أَنَّہٗ فِی الصَّلَاۃِ .لَزِمَہٗ أَنْ یَقُوْلَ : لَوْ طَعِمَ أَیْضًا أَوْ شَرِبَ وَھٰذِہٖ حَالَتُہٗ، لَمْ یُخْرِجْہُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ کَذٰلِکَ إِنَّ بَاعَ أَوِ اشْتَرٰی‘ أَوْ جَامَعَ أَہْلَہٗ۔فَکَفٰی بِقَوْلِہٖ فَسَادًا أَنْ یَلْزَمَ ھٰذَا قَائِلَہٗ۔فَإِنْ کَانَ شَیْئٌ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ یَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنْ صَلَاتِہٖ، إِنْ فَعَلَہٗ عَلٰی أَنَّہٗ یَرٰی أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہَا کَذٰلِکَ الْکَلَامُ الَّذِیْ لَیْسَ مِنْہَا یُخْرِجُہُ مِنْ صَلَاتِہٖ وَإِنْ کَانَ قَدْ تَکَلَّمَ بِہٖ، وَہُوَ لَا یَرٰی أَنَّہٗ فِیْہَا .وَقَدْ زَعَمَ الْقَائِلُ بِحَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ یَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ‘ وَیَجِبُ بِہِ الْعَمَلُ‘ فَقَدْ أَخْبَرَ ذُو الْیَدَیْنِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا أَخْبَرَہٗ بِہٖ، وَہُوَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ مَأْمُوْنٌ‘ فَالْتَفَتَ بَعْدَ إِخْبَارِہِ إِیَّاہُ بِذٰلِکَ إِلٰی أَصْحَابِہٖ فَقَالَ : (أَقَصَرْتِ الصَّلَاۃَ؟) .فَکَانَ مُتَکَلِّمًا بِذٰلِکَ بَعْد عِلْمِہٖ بِأَنَّہٗ فِی الصَّلَاۃِ‘ عَلٰی مَذْہَبِ ھٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ مُخْرِجًا لَہٗ مِنَ الصَّلَاۃِ .فَقَدْ لَزِمَہُ بِھٰذَا عَلٰی أَصْلِہٖ، أَنَّ ذٰلِکَ الْکَلَامَ‘ کَانَ قَبْلَ نَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ : (أَصَدَقَ ذُو الْیَدَیْنِ) قَالُوْا : نَعَمْ .وَقَدْ کَانَ یُمْکِنُہُمْ أَنْ یُّوْمِئُوْا إِلَیْہِ بِذٰلِکَ فَیَعْلَمَہٗ مِنْہُمْ‘ فَقَدْ کَلَّمُوْہُ بِمَا کَلَّمُوْہُ بِہٖ، عَلٰی عِلْمٍ مِنْہُمْ أَنَّہُمْ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ‘ وَلَمْ یَأْمُرْہُمْ بِالْاِعَادَۃِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا ذَکَرْنَا‘ مِمَّا کَانَ فِیْ حَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ‘ کَانَ قَبْلَ نَسْخِ الْکَلَامِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ھٰذَا قَبْلَ نَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ وَأَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ حَاضِرًا ذٰلِکَ وَإِسْلَامُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا کَانَ قَبْلَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثِ سِنِیْنَ؟ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٥٤١: عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی اور دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور واپس لوٹ گئے تو لوگوں نے بتلایا تو انھوں نے فرمایا میں نے عراق سے ایک قافلہ ان کے بوجھ اور گھاٹیوں سمیت تیار کر کے مدینہ منورہ پہنچایا پھر آپ نے ان کو چار رکعت نماز پڑھائی تو فاروق (رض) کا اس فعل کے خلاف کرنا جو ذوالیدین والے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اس وقت حکم تھا اور نسخ کی وجہ سے اب وہی حکم ہے جو انھوں نے کیا ہے اور حضرت عمر (رض) کا یہ فعل صحابہ کرام (رض) کے سامنے تھا جن میں بہت سی تعداد ذوالیدین کے واقعہ میں موجود تھی انھوں نے انکار نہیں کیا اور نہ اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کے خلاف قرار دیا اس سے یہ بات مزید روشن ہوگئی کہ ان کو بھی نسخ کا علم ہوچکا تھا جو کہ عمر (رض) کو تھا۔ حضرت عمر (رض) کا اس پر عمل کو ترک کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایسے مواقع پر ان کو جو فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا وہ منسوخ ہوچکا تھا تبھی انھوں نے اس کے خلاف عمل کیا اور آپ کا اس حادثہ کے سلسلہ میں وہی عمل تھا جو حضرت عمر (رض) نے اختیار کیا بخلاف اس عمل کے جو حضرت ذوالیدین والے واقعہ میں پیش آیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) یہ عمل صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں کی جبکہ ان میں سے کئی حضرات خود واقعہ ذوالیدین کے موقعہ پر موجود تھے۔ مگر انھوں نے اس عمل میں فاروق اعظم (رض) کی مخالفت نہ کی اور یہ بھی نہ کہا کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوالیدین والے دن کے عمل کے خلاف ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کو بھی حضرت عمر (رض) کی طرح نسخ والے حکم کا علم تھا اور اس کے خلاف حکم پر ہی عمل کیا جائے گا۔ اس بات پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ اگر امام نماز میں سے کوئی چیز ترک کر دے تو وہ تسبیح کہے تاکہ اس کے امام کو اپنی کوتاہی کا علم ہوجائے اور وہ اس کا تدارک کرلے اور حضرت ذوالیدین نے نہ تو تسبیح کہی اور نہ اس کلام کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انوکھا سمجھا۔ پس اس سے بھی یہ دلالت میسر آگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جو تسبیح وغیرہ نماز میں پیش آنے والی غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے سکھائی وہ اس سے بعد کا معاملہ ہے اور حضرت ابوہریرہ اور عمران (رض) کی روایات میں ایسی دلالت ملتی ہے جو اس حکم کے نسخ کو ظاہر کرتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا ‘ پھر آپ مسجد میں ایک لکڑی کی طرف تشریف لے گئے اور حضرت عمران (رض) کہتے ہیں کہ آپ اپنے حجرہ مبارک کی طرف چل دیے۔ اس سے کم از کم یہ دلالت میسر آگئی کہ آپ کا چہرہ مبارک قبلہ سے پھر گیا اور آپ نے نماز میں ایسا عمل کیا جو نماز کا حصہ نہیں یعنی چلنا وغیرہ۔ پس آپ ہی بتلائیں کہ کیا آج کسی شخص کو یہ بات پیش آجائے تو اس کی نماز باقی رہ جائے گی اور وہ نماز سے نہ نکلے گا۔ پھر اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ ہاں اس کا یہ عمل اس کو نماز سے نہ نکالے گا کیونکہ یہ عمل کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو نماز میں مشغول نہیں سمجھتا۔ (ہم جواب میں کہیں گے) اگر بات اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں تو اس کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ بھی کہے کہ اگر اس سے کھا پی لیا تو اس کی یہ حالت اسے نماز سے خارج نہ کرے گی۔ اسی طرح اگر اس نے خریدو فروخت کی یا اپنے بیوی سے قربت کی تو تب بھی وہ نماز سے نہ نکلے گا۔ اس قائل کے قول کے فاسد ہونے کے لیے یہ لازم آنے والی بات کافی ہے۔ پس اگر یہ چیزیں اس نمازی کو نماز سے خارج کردیتی ہیں خواہ اس نے یہ خیال کر کے کی ہیں کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اپنی دلیل میں حدیث ذوالیدین کو پیش کیا ان کا خیال یہ ہے کہ خبر واحد سے حجت قائم ہو کر عمل لازم ہوجاتا ہے۔ حضرت ذوالیدین (رض) آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص ہیں وہ صحابی ہونے کے ناطے اس خبر دینے میں مامون و محفوظ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خبر دینے پر دیگر صحابہ کرام (رض) کی طرف التفات فرمائی۔ حضرت ذوالیدین (رض) نے کہا ” أقصرت الصلاۃ ام نسیت۔۔۔“ (الحدیث) وہ یہ کلام اس حالت میں کر رہے تھے کہ بقول اس قائل کے وہ اپنے آپ کو نماز میں خیال کر رہے تھے۔ پس یہ کلام ان کو نماز سے نکالنے والا نہ تھا۔ تو اصل قاعدہ کے مطابق اس پر یہ لازم آیا کہ یہ گفتگو نماز میں کلام کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا۔ کیا ذوالیدین نے درست کہا ؟ تو انھوں کہا جی ہاں۔ حالانکہ صحابہ کرام (رض) کے لیے ممکن تھا کہ وہ آپ کو اشارہ کر کے بتلا دیتے جس سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتا مگر انھوں نے مگر انھوں نے یہ جانتے ہوئے کلام کیا جو کلام کیا کہ وہ نماز میں نہیں۔ آپ نے ان کی اس بات کا انکار نہیں کیا اور نہ ان کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذی الیدین کی روایت میں جو کچھ مذکور ہے۔ وہ نماز میں گفتگو کے منسوخ سے پہلے کی بات ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ نسخ کلام کا حکم ملنے سے پہلے کا واقعہ نہیں کیونکہ ابوہریرہ (رض) اس میں خود موجود تھے اور ابوہریرہ (رض) کے اسلام کا زمانہ وفات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سال پہلے کا ہے۔ جیسا کہ روایت ذیل میں ہے۔
نسخ پر دوسرا استشہاد :
امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز پڑھے اور اس کا امام نماز میں سے کوئی چیز چھوڑ جائے تو اسے تسبیح کہنی ہوگی تاکہ امام کو معلوم ہوجائے کہ اس سے یہ چیز رہ گئی ہے اور وہ اسے کرلے اور ذوالیدین نے اس دن کوئی تسبیح نہ کہی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے کلام اور اس کے ساتھ کلام کو برا خیال نہیں کیا بلکہ دوسروں سے بھی دریافت کیا اس سے یہ دلالت ملتی ہے کہ لوگوں کو غلطی پر خبردار کرنے کے لیے تسبیح کی تعلیم اس سے متأخر ہے۔
ایک اور قرینہ نسخ :
روایت ابوہریرہ (رض) اور عمران (رض) میں بھی نسخ کا قرینہ موجود ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعتوں پر سلام پھیرا پھر مسجد میں گڑھی ہوئی ایک لکڑی کے پاس آپ جا کر کھڑے ہوگئے اور عمران کہتے ہیں کہ آپ حجرہ مبارک میں چلے گئے۔ (بخاری باب ٥‘ مسلم نمبر ١٠٢)
اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اپنا چہرہ قبلہ سے پھیرلیا تھا اور ایسا عمل کیا تھا جو نماز کا حصہ نہ تھا مثلاً چلنا ‘ لکڑی کے پاس کھڑے ہونا ‘ حجرہ کی طرف جانا وغیرہ۔
آپ خود فیصلہ فرمائیں اگر کسی کو نماز میں کوئی معاملہ پیش آجائے تو آج یہ سب کچھ جائز ہے حالانکہ اب تک اس کی نماز کا کچھ حصہ باقی ہے کیا یہ حرکات اسے نماز سے خارج نہ کریں گی۔
بالفرض اگر کوئی کہے کہ جی ہاں ! یہ چیزیں نماز سے باہر نہ کریں گی کیونکہ جب اس نے یہ کیا تو وہ اپنے آپ کو نماز میں خیال نہیں کرتا تھا۔
تو پھر ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ اگر وہ کھالے اور پی لے اور ایسی حالت بھی پیش آجائے تو یہ سب اسے نماز سے خارج نہ کریں گی بلکہ اگر اس نے خریدو فروخت اور جماع بھی کرلیا تو کیا تب بھی نماز کے لیے یہ چیزیں مفسد نہ ہوں گی ؟ تو اس آدمی کی غلطی اظہر من الشمس ہے۔
پس یہ مذکورہ اشیاء اگر آدمی کو ایسی حالت میں نماز سے خارج کردیتی ہیں جبکہ وہ یہ خیال کر کے کرے کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔ اسی طرح وہ کلام جو نماز سے نہ ہو وہ اس کو اس کی نماز سے نکال دے گی اگرچہ وہ کلام اس نے یہ نہ سمجھ کر کی ہو کہ وہ نماز میں ہے۔
ایک ضمنی سوال قدزعم الی اخرہ۔ اور جواب۔
حدیث ذوالیدین سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر واحد حجت اور قابل استدلال ہے۔
جواب : مگر یہ استدلال کمزور ہے البتہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو اس صحابی کی خبر کی بات تھی جو جھوٹ سے مامون ہیں عام لوگوں کی خبر پر اس سے استدلال درست نہیں دوسری بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے صحابہ سے پوچھا کہ ذوالیدین درست کہہ رہا ہے یا نہیں۔ تو یہ تو خبرواحد کے مستدل نہ ہونے کی دلیل بن گئی حاصل جواب یہ ہوا کہ جب دوران میں کھانا پینا درست نہیں تو کلام بھی درست نہیں یہ زمانہ نسخ سے پہلے کی بات ہے۔
ایک اور جواب سنئے۔
ذوالیدین نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا مگر پھر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیگر صحابہ کرام (رض) سے دریافت کیا تو سب نے ذوالیدین کی تصدیق کی حالانکہ اشارے سے بھی معلوم ہوسکتا تھا آپ کا زبانی دریافت کرنا اور صحابہ کرام (رض) کا زبانی جواب دینا اور آپ کا ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہ دینا یہ سب ایسے معاملات ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ یہ واقعہ کلام فی الصلاۃ کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے اس لیے اس سے استدلال چنداں درست نہیں۔
ایک اور اشکال :
حدیث ذوالیدین کا نسخ سے پہلے ہونا کیوں کر ممکن ہے کہ وہ واقعہ ذوالیدین میں خود موجود ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) تو وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سال پہلے اسلام لائے پس ذوالیدین کا واقعہ ٧ ہجری کے بعد پیش آیا ہوگا اور کلام فی الصلاۃ تو مکہ مکرمہ میں منسوخ ہوچکا تھا پس حدیث ذوالیدین کو منسوخ نہیں کہا جاسکتا۔ روایت ملاحظہ ہو۔

2542

۲۵۴۲ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْقَطَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ قَالَ : أَتَیْنَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقُلْنَا : حَدَّثَنَا .فَقَالَ : صَحِبْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ سِنِیْنَ .قَالُوْا : فَأَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا صَحِبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ سِنِیْنَ‘ وَہُوَ حَضَرَ تِلْکَ الصَّلَاۃَ‘ وَنَسْخُ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ کَانَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَکَّۃَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ فِیْ حَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ مِنَ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ مِمَّا لَمْ یُنْسَخْ بِنَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ إِنْ کَانَ مُتَأَخِّرًا عَنْ ذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : أَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ وَقْتِ إِسْلَامِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ فَہُوَ کَمَا ذَکَرْتَ .وَأَمَّا قَوْلُکَ إِنَّ نَسْخَ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ کَانَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ بِمَکَّۃَ‘ فَمَنْ رَوٰی لَک ھٰذَا‘ وَأَنْتَ لَا تَحْتَجُّ إِلَّا بِمُسْنَدٍ‘ وَلَا تُسَوِّغُ لِخَصْمِکَ الْحُجَّۃَ عَلَیْکَ إِلَّا بِمِثْلِہٖ، فَمَنْ أَسْنَدَ لَک ھٰذَا؟ وَعَمَّنْ رَوَیْتَہٗ ؟ .وَھٰذَا (زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ الْأَنْصَارِیُّ یَقُوْلُ : کُنَّا نَتَکَلَّمُ فِی الصَّلَاۃِ‘ حَتّٰی نَزَلَتْ (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) فَأُمِرْنَا بِالسُّکُوْتِ) ، وَقَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ عَنْہُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا وَصُحْبَۃُ زَیْدٍ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَتْ بِالْمَدِیْنَۃِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِحَدِیْثِہٖ ھٰذَا أَنَّ نَسْخَ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ کَانَ بِالْمَدِیْنَۃِ بَعْدَ قُدُوْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ‘ مَعَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَحْضُرْ تِلْکَ الصَّلَاۃَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْلًا‘ لِأَنَّ ذَا الْیَدَیْنِ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ‘ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ أَحَدُ الشُّہَدَائِ .قَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَغَیْرُہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ .
٢٥٤٢: قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں آئے اور ہم نے کہا ہمیں حدیث بیان کرو تو وہ کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت مبارکہ تین سال کی ہے۔ انھوں نے یہ کہتے ہوئے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین سال صحبت پائی ہے اور وہ اس واقعہ میں موجود تھے اور کلام تو مکی زندگی میں منسوخ ہوچکا تھا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ روایت ذوالیدین والا کلام منسوخ شدہ کلام میں شامل ہو کر منسوخ نہیں ہوا اگر یہ اس سے متأخر اور بعد کو ہے۔ اس کے جواب میں ہم اس طرح کہیں گے کہ اسلام ابوہریرہ (رض) والی روایت بالکل درست ہے۔ رہی آپ کی یہ بات کہ نماز میں گفتگو کرنا مکی زندگی میں منسوخ ہوچکا۔ یہ روایت تمہیں کس نے بیان کی اور تم تو مرفوع روایت کے علاوہ قبول نہیں کرتے اور اپنے مدمقابل سے بھی اسی طرح کی روایت کے طلبگار ہوتے ہو۔ آپ کی اس روایت کا کون راوی ہے بیان کرو ؟ لو یہ حضرت زید بن ارقم (رض) انصاری کہہ رہے ہیں کہ ہم نماز میں بات چیت کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ آیت { قوموا للّٰہ قانتین } (الآیۃ) نازل ہوئی تو ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حکم ملا اور ہم اس روایت کو دوسری جگہ اپنی اسی کتاب میں نقل کرچکے ہیں۔ یہ زید بن ارقم انصاری (رض) ہیں جنہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت مدینہ منورہ میں میسر آئی۔ تو ان کی اس روایت سے ثابت ہوا کہ نماز میں گفتگو کرنا مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کے بعد ہوا۔ نیز یہ بات بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس نماز میں موجود نہ تھے۔ کیونکہ ذوالیدین تو بدر کے شہداء میں سے ہیں ‘ اسی لڑائی میں شہادت پائی۔ جیسا محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہماری اس بات کا شاہد ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل یہ ہوا کہ اگر ابوہریرہ (رض) اس نماز میں موجود ہیں تو پھر یہ ٧ ہجری کے بعد کا واقعہ ہے اور نسخ کلام تو مکی زندگی میں ہوچکا تھا۔ تو مقدم مؤخر کا ناسخ کیوں کر ہوگیا۔
جواب : حضرت بو ہریرہ (رض) کا اسلام ٧ ہجری کا ہے اس میں کلام نہیں البتہ کلام کا مکہ میں منسوخ ہونا یہ کسی مستند روایت سے ثابت نہیں بلکہ کلام کا نماز میں منسوخ ہونا روایات سے تو مدینہ منورہ میں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نماز میں بات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ آیت وقوموا للّٰہ قانتین (البقرہ ٢٣٨) نازل ہوئی تو ہمیں نماز میں گفتگو سے خاموشی کا حکم ہوا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٢‘ مسلم فی المساجد نمبر ٣٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٨٠‘ باب ٣٣۔
اور حضرت زید بن ارقم (رض) تو انصاری صحابی ہیں وہ تو ہجرت مدینہ کے بعد اسلام لائے پس اس روایت نے ثابت کردیا کہ نسخ کلام مدینہ منورہ میں ہوا اور حضرت ابوہریرہ (رض) تو سرے سے اس نماز میں موجود نہیں تھے کیونکہ ذوالیدین تو بدر میں شہید ہوگئے جیسا سیرت ابن ہشام میں محمد بن اسحاق نے نقل کیا ہے۔
تائید جواب :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت اس بات کی تائید کے لیے کافی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

2543

۲۵۴۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ الْعُمَرِیِّ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ ذَکَرَ لَہٗ حَدِیْثَ ذِی الْیَدَیْنِ‘ فَقَالَ : کَانَ إِسْلَامُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَمَا قُتِلَ ذُو الْیَدَیْنِ .وَإِنَّمَا قَوْلُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ - عِنْدَنَا - صَاحَ بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْنِیْ بِالْمُسْلِمِیْنَ‘ وَھٰذَا جَائِزٌ فِی اللُّغَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ھٰذَا عَنِ النِّزَالِ بْنِ سَبْرَۃَ .
٢٥٤٣: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ ان کے سامنے ذوالیدین والی حدیث جو حضرت ابوہریرہ (رض) نے نقل کی ہے اس کا تذکرہ ہوا تو انھوں نے فرمایا حضرت ابوہریرہ (رض) کا اسلام ذوالیدین کی شہادت کے بعد ہے۔ البتہ اس اعتراض کا جواب کہ ابوہریرہ (رض) نے اس طرح کیوں کہا کہ محاورہ میں صلی بنا ای المسلمین کہنا درست ہے یہ نزال بن سبرہ کی روایت اس کی دلیل ہے ثبوت نمبر ١ روایت یہ ہے۔

2544

۲۵۴۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ وَأَبُوْ ذُرْعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْسَرَۃَ‘ عَنِ (النِّزَالِ بْنِ سَبْرَۃَ قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَإِیَّاکُمْ کُنَّا نُدْعَیْ بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ‘ فَأَنْتُمَ الْیَوْمَ‘ بَنُو عَبْدِ اللّٰہِ‘ وَنَحْنُ بَنُو عَبْدِ اللّٰہِ) یَعْنِیْ لِقَوْمِ النِّزَالِ .فَھٰذَا النِّزَالُ‘ یَقُوْلُ : قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَہُوَ لَمْ یَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ : قَالَ لِقَوْمِنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ طَاوٗسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ‘ فَلَمْ یَأْخُذْ مِنَ الْخَضْرَاوَاتِ شَیْئًا .وَطَاوٗسٌ لَمْ یُدْرِکْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّ مُعَاذًا إِنَّمَا کَانَ قَدْ قَدِمَ الْیَمَنَ‘ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَمْ یُوْلَدْ طَاوٗسٌ حِیْنَئِذٍ‘ فَکَانَ مَعْنٰی قَوْلِہِ : (قَدِمَ عَلَیْنَا) أَیْ قَدِمَ بَلَدَنَا .وَرُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ قَالَ : خَطَبَنَا عُتْبَۃُ بْنُ غَزْوَانَ‘ یُرِیْدُ خُطْبَتَہٗ بِالْبَصَرَۃِ .فَالْحَسَنُ لَمْ یَکُنْ بِالْبَصَرَۃِ حِیْنَئِذٍ‘ لِأَنَّ قُدُوْمَہٗ لَہَا إِنَّمَا کَانَ قَبْلَ صِفِّیْنَ بِعَامٍ .
٢٥٤٤: عبدالملک بن میسرہ نے نزال بن سبرہ سے نقل کیا : قال لنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ انا وایاکم کنا ندعی بنی عبد مناف فانتم الیوم بنو عبداللہ ونحن بنو عبداللہ “ تولنا سے مراد نزال کی قوم مراد ہے کیونکہ نزال نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھا۔ حضرت طاوس (رح) سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں معاذ بن جبل (رض) تشریف لائے۔ انھوں نے سبزیات میں سے کوئی زکوۃ وغیرہ نہیں لی۔ حالانکہ طاوس نے تو حضرت معاذ (رض) کا زمانہ ہی نہیں پایا۔ کیونکہ حضرت معاذ (رض) کی یمن آمد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوئی اور اس وقت تک طاوس کی پیدائش بھی ہوئی تھی۔ پس ان کے قول ” قدم علینا “ کا معنی ہمارے علاقہ میں تشریف لائے۔ اسی طرح حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ ہمیں عتبہ بن غزوان (رض) نے خطبہ دیا۔ اس سے مراد ان کا بصرہ والا خطبہ مراد ہے۔ تو حسن اس وقت بصرہ میں نہ تھے۔ کیونکہ ان کی بصرہ میں آمد جنگ صفین سے ایک سال پہلے ہے۔ خود ان کی زبان سے سنیں روایت ذیل میں ہے۔
دوسرا ثبوت :
طاؤس کہتے ہیں : قدم علینا معاذ بن جبل (رض) فلم یأخذ من الخضرات شیئا ۔ تو طاؤس نے حضرت معاذکا زمانہ نہیں پایا کیونکہ معاذ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف آخری وقت میں عامل بنا کر بھیجا اور اس وقت طاؤس پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ تو قدم علینا کا معنی قدم بلدنا وقومنا ہے ۔
تیسرا ثبوت :
حضرت حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ خطبنا عتبہ بن غزوان اس سے مراد بصرہ میں حضرت عتبہ کا خطبہ ہے اور اس وقت حسن بصری وہاں موجود نہ تھے بلکہ وہ تو جنگ صفین سے ایک سال پہلے بصرہ آئے یہ حضرت علی (رض) کے زمانہ کی بات ہے اور عتبہ ‘ عمر (رض) کے زمانہ میں بصرہ کے گورنر تھے۔

2545

۲۵۴۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا بْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ رَجَائٍ ‘ قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ : مَتٰی قَدِمْتَ الْبَصْرَۃَ؟ فَقَالَ : قَبْلَ صِفِّیْنَ بِعَامٍ .فَکَانَ مَعْنٰی قَوْلِ النِّزَالِ (قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) وَمَعْنٰی قَوْلِ طَاوٗسٍ (قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاذٌ) وَمَعْنٰی قَوْلِ الْحَسَنِ (خَطَبَنَا عُتْبَۃُ) .إِنَّمَا یُرِیْدُوْنَ بِذٰلِکَ قَوْمَہُمْ وَبَلْدَتَہُمْ‘ لِأَنَّہُمْ مَا حَضَرُوْا ذٰلِکَ‘ وَلَا شَہِدُوْہُ .فَکَذٰلِکَ قَوْلُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) إِنَّمَا یُرِیْدُ صَلّٰی بِالْمُسْلِمِیْنَ لَا عَلٰی أَنَّہٗ شَہِدَ ذٰلِکَ‘ وَلَا حَضَرَہٗ .فَانْتَفٰی بِمَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ قَوْلِہٖ (صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فِیْ حَدِیْثِ ذِی الْیَدَیْنِ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ‘ بَعْدَ نَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنَّ نَسْخَ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ کَانَ بِالْمَدِیْنَۃِ أَیْضًا
٢٥٤٥: شعبہ نے ابو رجاء سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حسن (رح) سے دریافت کیا تم کب بصرہ میں آئے ؟ تو کہنے لگے صفین سے ایک سال پہلے آیا۔ پس حضرت نزال (رض) کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری قوم کو فرمایا۔ اسی طرح طاوس (رض) کے قول کا مطلب ” قدم علینا معاذ (رض) “ یہ ہے کہ ہمارے علاقہ میں حضرت معاذ تشریف لائے اور حسن (رح) کے قول ” خطبنا عتبۃ (رض) “ کا مطلب بصرہ والوں کو خطبہ دیا۔ (اور یہ معنی اس لیے لینا پڑا) کیونکہ یہ حضرات ان مواقع میں موجود ہی نہ تھے اور نہ موقعہ پر حاضر تھے۔ پس اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول جو روایت ” ذوالیدین “ میں ہے ” صلی بنا رسول اللّٰہ ا “ سے مراد مسلمانوں کو نماز پڑھائی ‘ یہ معنی نہیں کہ وہ اس موقعہ پر موجود اور حاضر تھے۔ پس اس سے اس بات کی نفی ہوگئی کہ روایت ذوالیدین کے الفاظ صلی بنا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی دلالت میسر آئے جس سے ثابت ہو کہ یہ نماز میں کلام کے منسوخ ہونے کے بعد واقعہ پیش آیا اور مدینہ منورہ میں نماز میں کلام کے منسوخ ہونے کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔
پس نزال کے قول قال لنا رسول اللہ اور طاوس کے قول قدم علینا معاذ (رض) اور حسن کا قول خطبنا عتبہ (رض) سے مراد قوم اور شہر کے لوگ ہیں کیونکہ یہ لوگ ان مواقع میں موجود اور حاضر نہ تھے پس حضرت ابوہریرہ (رض) کے قول کا بھی حدیث ذوالیدین میں صلی بنا کہنا یہی معنی رکھتا ہے ای صلی المسلمین یہ مطلب نہیں کہ وہ خود وہاں موجود تھے اور حاضر تھے پس حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام سے نسخ کے متعلق استدلال باطل ہوگیا۔
مدینہ منورہ میں نسخ کلام کا مزید ثبوت کی روایات ملاحظہ ہوں۔

2546

۲۵۴۶:مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیِّ‘ قَالَ: کُنَّا نَرُدُّ السَّلَامَ فِی الصَّلَاۃِ‘ حَتّٰی نُہِیْنَا عَنْ ذٰلِکَ) .وَأَبُوْ سَعِیْدٍ فَلَعَلَّہٗ فِی السِّنِّ أَیْضًا دُوْنَ زَیْدِ ابْنِ أَرْقَمَ بِدَہْرٍ طَوِیْلٍ‘ وَہُوَ کَذٰلِکَ‘ فَہَا ہُوَ ذَا یُخْبِرُ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ أَدْرَکَ اِبَاحَۃَ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔
٢٥٤٦: عطاء بن یسار نے حضرت ابو سعید الخدری (رض) سے نقل کیا کہ ہم نماز میں سلام کا جواب دیتے تھے یہاں تک کہ ہمیں اس سے روک دیا گیا۔
حاصل روایات : اور ابو سعید (رض) کی عمر تو زید ارقم (رض) سے کافی کم تھی اور وہ بتلا رہے ہیں کہ انھوں نے نماز میں کلام کے مباح ہونے کا زمانہ اور پایا ہے۔

2547

۲۵۴۷: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَاصِمٌ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ‘ قَالَ : (قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : کُنَّا نَتَکَلَّمُ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَنَأْمُرُ بِالْحَاجَۃِ‘ فَقَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحَبَشَۃِ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ‘ فَأَخَذَنِیْ مَا قَدُمَ وَمَا حَدَثَ فَلَمَّا قَضَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاتَہٗ، قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ نَزَلَ فِیْ شَیْئٌ ؟ قَالَ لَا وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ مِنْ أَمْرِہٖ مَا شَائَ) .
٢٥٤٧: ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں ہم نماز میں کلام کیا کرتے تھے اور ضرورت کا کہہ دیا کرتے تھے جب ہم حبشہ سے آپ کی خدمت میں لوٹے اس وقت آپ نماز ادا فرما رہے تھے میں نے سلام کیا آپ نے میرے سلام کا جواب نہ دیا میں تو پریشان ہوگیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میرے متعلق کوئی چیز اتری ہے ؟ فرمایا نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنا نیا حکم جو چاہتے ہیں بھیجتے ہیں۔ یہ ابو سعید خدری (رض) شاید عمر میں حضرت زید بن ارقم (رض) سے بہت چھوٹے ہوں۔ واقعہ اسی طرح ہے وہ یہ بتلا رہے ہیں کہ انھوں نے نماز میں گفتگو کے مباح ہونے کا زمانہ پایا ہے اور اس سلسلہ حضرت ابن مسعود (رض) کا ارشاد ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی العمل فی الصلاۃ باب ٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٩٢٤۔

2548

۲۵۴۸: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ (وَأَنَّ مِمَّا أَحْدَثَ قَضٰی أَنْ لَا تَتَکَلَّمُوْا فِی الصَّلَاۃِ) .فَقَدْ أَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ‘ قَدْ نَسَخَ الْکَلَامَ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَلَمْ یَسْتَثْنِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی کُلِّ الْکَلَامِ الَّذِیْ کَانُوْا یَتَکَلَّمُوْنَ فِی الصَّلَاۃِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ یَدْخُلُ فِیْہَا الْعِبَادُ‘ تَمْنَعُہُمْ مِنْ أَشْیَائَ .فَمِنْہَا الصَّلَاۃُ تَمْنَعُہُمْ مِنَ الْکَلَامِ وَالْأَفْعَالِ الَّتِیْ لَا تُفْعَلُ فِیْہَا .وَمِنْہَا الصِّیَامُ‘ یَمْنَعُہُمْ مِنَ الْجِمَاعِ وَالطَّعَامِ وَالشَّرَابِ .وَمِنْہَا الْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ‘ یَمْنَعَانِہِمْ مِنَ الْجِمَاعِ وَالطِّیْبِ وَاللِّبَاسِ وَمِنْہَا لْاِعْتِکَافُ‘ یَمْنَعُہُمْ مِنَ الْجِمَاعِ وَالتَّصَرُّفِ .فَکَانَ مَنْ جَامَعَ فِیْ صِیَامِہٖ أَوْ أَکَلَ أَوْ شَرِبَ نَاسِیًا - مُخْتَلَفًا فِیْ حُکْمِہٖ۔ فَقَوْمٌ یَقُوْلُوْنَ : لَا یُخْرِجُہٗ ذٰلِکَ مِنْ صِیَامِہٖ، تَقْلِیْدًا لِآثَارٍ رَوَوْہَا .وَقَوْمٌ یَقُوْلُوْنَ : قَدْ أَخْرَجَہٗ ذٰلِکَ مِنْ صِیَامِہٖ، وَکُلُّ مَنْ جَامَعَ فِیْ حَجَّتِہٖ أَوْ عُمْرَتِہِ أَوْ اعْتِکَافِہِ‘ مُتَعَمِّدًا‘ أَوْ نَاسِیًا فَقَدْ خَرَجَ بِذٰلِکَ مِمَّا کَانَ فِیْہِ مِنْ ذٰلِکَ .فَکَانَ مَا یُخْرِجُہُ مِنْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ اِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ مُتَعَمِّدًا‘ فَہُوَ یُخْرِجُہٗ مِنْہَا اِذَا فَعَلَہٗ غَیْرَ مُتَعَمِّدٍ‘ وَکَانَ الْکَلَامُ فِی الصَّلَاۃِ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ اِذَا کَانَ عَلَی التَّعَمُّدِ کَذٰلِکَ .فَالنَّظَرُ - عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ- أَنْ یَّکُوْنَ أَیْضًا‘ یَقْطَعُہَا اِذَا کَانَ عَلَی السَّہْوِ‘ وَیَکُوْنُ حُکْمُ الْکَلَامِ فِیْہَا عَلَی الْعَمْدِ وَالسَّہْوِ سَوَائً ‘ کَمَا کَانَ حُکْمُ الْجِمَاعِ فِی الْاِعْتِکَافِ وَالْعُمْرَۃِ‘ عَلَی الْعَمْدِ وَالسَّہْوِ سَوَائً .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَقَدْ وَافَقَ مَا صَحَّحْنَا عَلَیْہِ مَعَانِیَ الْآثَارِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَإِنْ سَأَلَ سَائِلٌ عَنِ الْمَعْنَی الَّذِیْ لَہٗ‘ لَمْ یَأْمُرْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاوِیَۃَ بْنَ الْحَکَمِ بِإِعَادَۃِ الصَّلَاۃِ لَمَّا تَکَلَّمَ فِیْہَا .قِیْلَ لَہٗ ذٰلِکَ لِأَنَّ الْحُجَّۃَ لَمْ تَکُنْ قَامَتْ عِنْدَہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ بِتَحْرِیْمِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَلَمْ یَأْمُرْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِعَادَۃِ الصَّلَاۃِ لِذٰلِکَ .فَأَمَّا مَنْ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ بَعْدَ قِیَامِ الْحُجَّۃِ‘ بِنَسْخِ الْکَلَامِ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَعَلَیْہِ أَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ أَمَرَہٗ بِإِعَادَۃِ الصَّلَاۃِ‘ وَلٰـکِنْ لَمْ یُنْقَلْ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِہٖ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یَسْجُدْ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ .
٢٥٤٨: سفیان نے عاصم سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ نیا حکم یہ ملا ہے کہ تم نماز میں کلام مت کرو۔ پس اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں کلام کو منسوخ کردیا ہے اور آپ نے اس میں کسی چیز کو مستثنیٰ نہیں کیا۔ پس اس سے یہ دلالت میسر ہوگئی کہ ہر وہ کلام جس کو وہ نماز میں کرلیا کرتے تھے وہ منسوخ کردی گئی۔ یہ روایات کے معانی کو درست رکھنے کی ایک صورت ہے۔ البتہ بطور نظر وفکر اس کی صورت یہ ہوگی۔ ہم نے دیکھا کہ بعض چیزوں میں بندے جب داخل ہوتے ہیں تو ان کو بعض چیزوں سے منع کردیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک نماز ہے کہ یہ کلام اور ان افعال سے روک دیتی ہے جو اس سے غیر متعلق ہیں۔ اسی طرح دوسرے نمبر پر روزہ ہے۔ یہ جماع اور کھانے پینے سے روک دیتا ہے اور تیسرا حج وعمرہ ہیں جو کہ جماع ‘ خوشبو سے لباس سے روک دیتا ہے۔ ایک ان میں سے اعتکاف ہے جو کہ جماع اور تصرفات (تجارت) سے روک دیتا ہے۔ پس جس آدمی نے روزہ کی حالت میں جماع کرلیا یا بھول کر کھا پی لیا اس کا حکم مختلف فیہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آثار کی پیروی کرتے ہوئے اس کا روزہ نہ ٹوٹے گا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور جو شخص حج یا عمرہ یا اعتکاف کی حالت میں جان بوجھ کر یا بھول کر جماع کرلیتا ہے تو وہ ان اعمال سے باہر ہوجائے گا۔ پس جن امور کو جان بوجھ کر کرنے سے وہ عبادت سے خارج ہوجاتا ہے اگر وہ بلا قصد و ارادہ بھی کرلے تب بھی وہ اس عبادت سے نکل جاتا ہے اور نماز میں جان بوجھ کر کلام یہ نماز کو توڑ دیتا ہے۔ اس مذکور بات پر قیاس و نظر کا تقاضا یہ ہے کہ جب کلام بھول کر کی جائے تو تب بھی نماز ٹوٹ جائے اور جان بوجھ کر کلام یا بھول کر حکم برابر ہو جیسا کہ اعتکاف و حجر وعمرہ میں جماع کا حکم بھول اور قصد میں برابر ہے اور یہ بات معانی آثار کی تصحیح کے موافق ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہ قول ہے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاوی بن حکم (رض) کو نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا جبکہ انھوں نے اس میں گفتگو کی۔ تو ان کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ ان کے ہاں اس وقت تک کلام کے نماز میں حرام ہونے کی حجت قائم نہ ہوئی تھی اس وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اعادہ نماز کا حکم نہیں فرمایا۔ رہا وہ شخص جو کلام کے نماز میں منسوخ ہونے کی حجت کو جان چکا تو اسے کلام کی صورت میں لوٹانا لازم ہے اور اس بات کا احتمال بھی موجود ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نماز کے لوٹانے کا حکم فرمایا ہو مگر ان کی اپنی روایت میں وہ منقول نہ ہوا۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالیدین والے دن سجدہائے سہو بھی نہیں فرمائے۔ مستدل روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٣٤۔
حاصل روایات : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں یہ خبر دی ہے کہ نماز میں گفتگو کرنا منسوخ ہوچکا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کسی چیز کو مستثنیٰ نہیں فرمایا اس سے یہ خودبخود ثابت ہوگیا کہ پہلے جو کلام بھی نماز میں کرتے تھے وہ تمام کا تمام منسوخ کردیا گیا۔
آثار کو سامنے رکھ کر ہم نے ان کے معانی کا قریب ترین مفہوم بیان کردیا۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور سے دیکھا کہ تمام عبادات میں داخل ہونے سے جہاں کچھ چیزیں کرنا پڑتی ہیں تو دوسری چیزوں سے روک دیا جاتا ہے مثلاً جب نماز میں داخل ہوں تو کلام اور دیگر افعال کھانا پینا چلنا سب ممنوع قرار دیئے جاتے ہیں۔
جب روزے میں داخل ہوں تو جماع اور کھانے پینے سے روک دیا جاتا ہے۔
جب حج وعمرہ میں داخل ہوں تو جماع ‘ خوشبو اور سلے کپڑوں سے روک دیا جاتا ہے۔
جب اعتکاف میں داخل ہوں تو جماع اور تجارت وغیرہ کی ممانعت کردی جاتی ہے پس روزے میں جماع کرنے والا یا بھول کر کھانے والے کا حکم بعض کے ہاں یہ ہے کہ اس کا روزہ نہ ٹوٹے گا جیسا کہ آثار میں وارد ہے اور بعض کہتے ہیں اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔
حج وعمرہ میں جماع کرنے یا اعتکاف میں جماع کرنے والا خواہ عمداً ہو یا نسیاناً اس کا حج وعمرہ اعتکاف باطل ہوجائے گا اس کے متعلق عمد و غیر عمد کا ایک ہی حکم ہے۔
اب نماز کو لیا تو اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نماز میں عمداً کلام تو نماز کو فاسد کردیتا ہے پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ بھول کر کلام کرنے والے کا بھی یہی حکم ہو اور کلام کا حکم سہو و عمد میں برابر ہے۔
نظر کے اعتبار سے بھی ہم نے آثار کے معانی کے مطابق مسئلہ کو ثابت کردیا ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی مسلک ہے۔
ایک اشکال :
معاویہ بن حکم سلمی والی روایت میں کلام سے ممانعت تو فرمائی گئی مگر اعادہ کا حکم کیوں نہیں فرمایا۔
جواب : اعادہ کا حکم اس لیے نہیں فرمایا کہ کلام سے ممانعت کا حکم پہلے نہ ہوا تھا جب ممانعت کردی گئی تو اس کے بعد کرنے والے کو اعادہ کا حکم دیا جائے گا۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اعادہ کا حکم فرمایا جو اس روایت میں مذکور نہیں اور عدم ذکر عدم وجود کی علامت نہیں ہوتی۔
مسئلہ سجدہ سہو
حاصل روایات :: یہاں ایک مسئلہ سجدہ سہو سے متعلق ضمناً ذکر کر رہے ہیں سجدہ سہو کا باب تو گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے صرف یہاں زہری (رح) کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔
زہری (رض) کا قول یہ ہے کہ ذوالیدین والے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ سہو نہیں کیا جیسا اس روایت میں ہے۔

2549

۲۵۴۹: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : سَأَلْتُ أَہْلَ الْعِلْمِ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ فَمَا أَخْبَرَنِیْ أَحَدٌ مِنْہُمْ أَنَّہٗ صَلَّاہُمَا‘ یَعْنِیْ سَجْدَۃَ السَّہْوِ‘ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ .فَمَعْنٰی ھٰذَا عِنْدَنَا‘ وَاَللّٰہُ أَعْلَمُ‘ أَنَّہٗ إِنَّمَا یَجِبُ سُجُوْدُ السَّہْوِ فِی الصَّلَاۃِ اِذَا فَعَلَ فِیْہَا مَا لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَفْعَلَ فِیْہَا .مِثْلَ الْقِیَامِ مِنَ الْقُعُوْدِ‘ أَوِ الْقُعُوْدِ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِ الْقُعُوْدِ‘ أَوْ مَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ‘ مِمَّا لَوْ فُعِلَ عَلَی الْعَمْدِ‘ کَانَ فَاعِلُہٗ مُسِیْئًا .فَأَمَّا مَا فُعِلَ فِیْہَا‘ مِمَّا لَیْسَ بِمَکْرُوْہٍ فِیْہَا‘ فَلَیْسَ فِیْہِ سُجُوْدُ السَّہْوِ‘ وَکَانَ حُکْمُ الصَّلَاۃِ یَوْمَ ذِی الْیَدَیْنِ لَا بَأْسَ بِالْکَلَامِ فِیْہَا وَالتَّصَرُّفِ فِیْہَا .فَلَمَّا فَعَلَ ذٰلِکَ فِیْہَا عَلَی السَّہْوِ‘ وَکَانَ فَاعِلُہٗ عَلَی الْعَمْدِ غَیْرَ مُسِیْئٍ ‘ کَانَ فَاعِلُہُ عَلَی السَّہْوِ‘ غَیْرُ وَاجِبٍ سُجُوْدُ السَّہْوِ .فَھٰذَا مَذْہَبُ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَسْجُدْ یَوْمَئِذٍ .وَھٰذَا حُجَّۃٌ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الَّتِیْ بَیَّنَّاہَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَکَانَ مَذْہَبُ الَّذِیْنَ ذَکَرُوْا أَنَّہٗ سَجَدَ یَوْمَئِذٍ‘ أَنَّ الْکَلَامَ وَالتَّصَرُّفَ‘ وَإِنْ کَانَا قَدْ کَانَا مُبَاحَیْنِ فِی الصَّلَاۃِ یَوْمَئِذٍ فَلَمْ یَکُنْ مِنَ الْمُبَاحِ یَوْمَئِذٍ‘ أَنْ یُّسَلِّمَ فِی الصَّلَاۃِ قَبْلَ أَوَانِ السَّلَامِ .فَلَمَّا سَلَّمَ النَّبِیُّ فِیْہَا سَلَامًا أَرَادَ بِہِ الْخُرُوْجَ مِنْہَا‘ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ أَتَمَّہَا‘ وَکَانَ ذٰلِکَ مِمَّا لَوْ فَعَلَہٗ فَاعِلٌ عَلَی الْعَمْدِ‘ کَانَ مُسِیْئًا‘ لَا فَعَلَہٗ عَلَی السَّہْوِ‘ وَجَبَ فِیْہِ سُجُوْدُ السَّہْوِ .وَھٰذَا مَذْہَبُ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .
٢٥٤٩: ابو ذئب نے زہری سے نقل کیا ہے کہ میں نے مدینہ منورہ کے اہل علم سے سوال کیا تو ان میں سے کسی نے بھی ذوالیدین والی یہ خبر نہیں دی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن سہو کے سجدے کئے ہوں اس روایت کا مطلب ہمارے ہاں (واللہ اعلم) یہ ہے سجدہ سہو اس وقت لازم ہوتا ہے جبکہ نماز میں ایسا کام کرے جو کرنا مناسب نہ ہو مثلاً قعدے کو چھوڑ کر اٹھ جانا یا قعدے کی جگہ نہ تھی مگر قعدہ کردیا وغیرہ یعنی ایسے کام کہ اگر وہ جان بوجھ کر اختیار کرے تو وہ گناہ گار ہوگا اور اگر اس نے کوئی ایسا فعل کیا جو اس میں مکروہ نہیں تو اس میں سجدہ سہو نہیں ذوالیدین کے دن نماز میں کلام و تصرف میں پابندی نہ تھی جب انھوں نے بھول کر کیا جان بوجھ کر کرنے والا جب گناہ گار نہیں تو بھول کر کرنے والے پر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا یہ ان لوگوں کے قول کے مطابق ہے جو اس دن سجدہ سہو کے قائل نہیں یہ مرجوح مذہب ہے۔ البتہ جمہور کے نزدیک سجدہ سہو کیا رہا کلام وغیرہ اگر یہ ان دنوں مباح تھیں تو مباح پر سجدہ سہو نہیں مثلاً سلام سے پہلے سلام پھیرنا جب نماز سے نکلنے کی نیت سے سلام پھیرا یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ نماز پوری کرچکے اگر اس کو کوئی جان بوجھ کر کرے گا تو وہ گناہ گار ہے مگر آپ نے بھول کر کیا تو سہو کا سجدہ لازم ہوا۔ ہمارے نزدیک اس روایت کا مفہوم یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سجدہ سہو نماز میں اس وقت لازم ہے جب کوئی ایسا عمل کرے جس کا اس مقام پر کرنا درست نہ ہو۔ مثلاً قعدہ کی بجائے قیام کرنا اور قعدہ کے بغیر قعدہ کرنا اور اسی طرح وہ افعال کہ جن کو جان بوجھ کر کرے تو کرنے والا گناہ گار ہوگا۔ البتہ جو مکروہ نہ ہوں ان کے کرلینے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا اور ذوالیدین والے دن نماز میں کلام کرنے اور کلام میں کسی اور قسم کا تصرف کرنے میں کوئی حرج و گناہ نہ تھا اور انھوں نے یہ عمل بھول کر کیا۔ تو جب جان بوجھ کر کرنے والا بھی گناہ گار شمار نہ ہوتا تھا تو بھول کر کرنے پر سجدہ سہو کیوں کر لازم ہوگا یہ ان لوگوں کی بات ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن سجدہ سہو نہیں کیا اور یہ دلیل بھی انہی لوگوں کی ہے۔ مگر جو حضرات اس دن سجدہ کے قائل ہیں ان کا مذہب یہ ہے کہ اگرچہ اس موقع پر نماز میں کلام و تصرف درست تھا مگر وقت سلام سے پہلے سلام پھیرلینا جائز نہ تھا۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو اس وقت آپ نماز سے باہر آنے کا ارادہ فرما رہے تھے اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو قصد کے ساتھ کرنے میں گناہ گار ہوتا ہے اور بھول کرنے کی صورت میں سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے اور یہ ان لوگوں کا قول ہے جو اس روایت پر کلام کرتے ہیں۔

2550

۲۵۵۰: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ یَعْقُوْبَ بْنِ عُتْبَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ غَطَفَانَ بْنِ طَرِیْفٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (التَّسْبِیْحُ لِلرِّجَالِ‘ وَالتَّصْفِیْقُ لِلنِّسَائِ، وَمَنْ أَشَارَ فِیْ صَلَاتِہِ إِشَارَۃً تُفْہَمُ مِنْہُ فَلْیُعِدْہَا) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْاِشَارَۃَ الَّتِیْ تُفْہَمُ اِذَا کَانَتْ مِنَ الرَّجُلِ فِی الصَّلَاۃِ قَطَعَتْ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ، وَحَکَمُوْا لَہَا بِحُکْمِ الْکَلَامِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا تَقْطَعُ الْاِشَارَۃُ الصَّلَاۃَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٢٥٥٠: ابو عطفان بن ظریف نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تسبیح مردوں کے لیے اور تصفیق عورتوں کے لیے ہے اور جس نے نماز میں ایسا اشارہ کیا جو مقصد کو ظاہر کرتا ہے وہ نماز کا اعادہ کرے۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جب کوئی شخص نماز میں ایسا اشارہ کرے جو سمجھا جاتا ہو تو اس سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ انھوں نے اس پر کلام والا حکم لگایا اور انھوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ ان سے اختلاف کرتے ہوئے دوسرے علماء نے کہا کہ اشارہ نماز کو نہیں توڑتا۔ ان کی دلیل ذیل کی روایات ہیں۔
تخریج : روایت نمبر ٢٥٣٥ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔
حاصل روایات یہ ہے کہ ایسا اشارہ جس سے مقصد معلوم ہوجائے وہ نماز کو فاسد کردیتا ہے اور اشارے جس کا حکم کلام سے کمتر نہیں ہے۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: نماز کے دوران سلام اور دیگر امور کے لیے اشارہ جس سے مخاطب کو مقصد سمجھ آجائے یہ اہل ظواہر کے ہاں کلام کے حکم میں ہے اور مفسد صلوۃ ہے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ کے ہاں مفسد صلوۃ تو نہیں ہے البتہ مکروہ ضرور ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : ایسا اشارہ جس سے اشارہ کا مقصد معلوم ہوجائے وہ مفسد صلوۃ ہے اور اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اعادہ ضروری ہے جیسا اس روایت میں ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : اشارہ کرنے سے نماز تو نہیں ٹوٹتی البتہ مکروہ ضرور ہے دلیل یہ روایات ہیں۔

2551

۲۵۵۱: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ .ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتٰی قُبَائَ ‘ فَسَمِعَتْ بِہٖ الْأَنْصَارُ‘ فَجَائُ وْہُ یُسَلِّمُوْنَ عَلَیْہِ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ بِیَدِہٖ بَاسِطًا کَفَّہٗ وَہُوَ یُصَلِّیْ) .
٢٥٥١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبا میں تشریف لائے انصار کو اطلاع ہوئی وہ آ ٓآ کر سلام کرنے لگے آپ اس وقت نماز میں مصروف تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہتھیلی کو دراز کر کے ان کی طرف نماز میں اشارہ فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ ٩٢۔

2552

۲۵۵۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَقُلْتُ لِبِلَالٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَصُہَیْبٍ کَیْفَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرُدُّ عَلَیْہِمْ وَہُوَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ : یُشِیْرُ بِیَدِہٖ) .
٢٥٥٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ فرمایا ہے کہ میں نے بلال (رض) سے کہا اور صہیب (رض) سے کہ تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس طرح نماز میں ان کے سلام کا جواب دیتے پایا انھوں نے بتلایا آپ ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ١٤‘ نمبر ٣٦٨۔

2553

۲۵۵۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُوْحٍ‘ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ غَزْوَانَ‘ قَالَ : أَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (فَقُلْتُ لِبِلَالٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : کَیْفَ کَانَ یَرُدُّ عَلَیْہِمْ؟).
٢٥٥٣: ابو نوح عبدالرحمن بن غزوان نے ہشام بن سعد سے نقل کیا پھر اپنی اسناد سے روایت اسی طرح نقل کی ہے البتہ اس قدر فرق ہے کہ میں نے بلال کو کہا کہ کس طرح ان کو جواب دیتے تھے۔

2554

۲۵۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ .ح .
٢٥٥٤: ابن مرزوق نے ابوالولید سے نقل کیا۔

2555

۲۵۵۵: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ بُکَیْرٍ‘ عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَائِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ (صُہَیْبٍ قَالَ : مَرَرْتُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ‘ فَرَدَّ إِلَیَّ بِإِشَارَۃٍ) .قَالَ ابْنُ مَرْزُوْقٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ قَالَ لَیْثٌ أَحْسَبُہٗ قَالَ (بِإِصْبَعِہِ) .
٢٥٥٥: نابل صاحب عباء نے ابن عمر (رض) انھوں نے صہیب (رض) سے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایسے وقت گزرا جب آپ نماز ادا فرما رہے تھے میں نے سلام کیا آپ نے اس کے جواب میں میری طرف اشارہ فرمایا۔
ابن مرزوق کہتے ہیں کہ لیث نے کہا میرا خیال یہ ہے کہ کہا اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٩٢٥‘ دارمی ١؍٣٦٤‘ نسائی ١؍١٧٧۔

2556

۲۵۵۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَجْلَانَ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیِّ‘ (أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَیْہِ بِإِشَارَۃٍ وَقَالَ کُنَّا نَرُدُّ السَّلَامَ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَنُہِیْنَا عَنْ ذٰلِکَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا قَدْ دَلَّ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ وَقَدْ جَائَ تْ مَجِیْئًا مُتَوَاتِرًا‘ غَیْرَ مَجِیْئِ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ خَالَفَہَا‘ فَہِیَ أَوْلٰی مِنْہُ .وَلَیْسَتَ الْاِشَارَۃُ فِی النَّظَرِ مِنَ الْکَلَامِ فِیْ شَیْئٍ لِأَنَّ الْاِشَارَۃَ‘ إِنَّمَا ہِیَ حَرَکَۃُ عُضْوٍ‘ وَقَدْ رَأَیْنَا حَرَکَۃَ سَائِرِ الْأَعْضَائِ غَیْرَ الْیَدِ فِی الصَّلَاۃِ‘ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَکَذٰلِکَ حَرَکَۃُ الْیَدِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِذَا کَانَتَ الْاِشَارَۃُ فِی الصَّلَاۃِ عِنْدَکُمْ‘ قَدْ ثَبَتَ أَنَّہَا بِخِلَافِ الْکَلَامِ وَأَنَّہَا لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ کَمَا یَقْطَعُہَا الْکَلَامُ‘ وَاحْتَجَجْتُمْ فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْتُمُوْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلِمَ کَرِہْتُمْ رَدَّ السَّلَامِ مِنَ الْمُصَلِّیْ بِالْاِشَارَۃِ‘ وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا رَوَیْتُمُوْہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ؟ وَلَئِنْ کَانَ ذٰلِکَ حُجَّۃً لَکُمْ فِیْ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَإِنَّہٗ حُجَّۃٌ عَلَیْکُمْ فِیْ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا بَأْسَ بِہَا فِی الصَّلَاۃِ .قِیْلَ لَہٗ : أَمَّا مَا احْتَجَجْنَا بِھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ أَجْلِہٖ، وَہُوَ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَقَدْ ثَبَتَ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ عَلٰی مَا احْتَجَجْنَا بِہٖ مِنْہَا .وَأَمَّا مَا ذَکَرْتُ مِنْ اِبَاحَۃِ الْاِشَارَۃِ فِی الصَّلَاۃِ فِیْ رَدِّ السَّلَامِ؟ فَلَیْسَ فِیْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی ذٰلِکَ .وَذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ فِیْہَا ہُوَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَارَ إِلَیْہِمْ .فَلَوْ قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ تِلْکَ إِشَارَۃٌ أَرَدْتُ بِہَا رَدَّ السَّلَامِ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ کَذٰلِکَ حُکْمَ الْمُصَلِّیْ اِذَا سُلِّمَ عَلَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ .وَلٰـکِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا‘ فَاحْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ الْاِشَارَۃُ کَانَتْ رَدًّا مِنْہُ لِلسَّلَامِ کَمَا ذَکَرْتُمْ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَتْ مِنْہُ لَہْیًا لَہُمْ عَنِ السَّلَامِ عَلَیْہٖ‘ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ ‘ وَاحْتَمَلَتْ مِنَ التَّأْوِیْلِ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیْقَیْنِ‘ لَمْ یَکُنْ مَا تَأَوَّلَ أَحَدُ الْفَرِیْقَیْنِ أَوْلٰی مِنْہَا‘ مِمَّا تَأَوَّلَ الْآخَرُ إِلَّا بِحُجَّۃٍ یُقِیْمُہَا عَلٰی مُخَالِفِہِ‘ إِمَّا مِنْ کِتَابٍ‘ وَإِمَّا مِنْ سُنَّۃٍ‘ وَإِمَّا مِنْ إِجْمَاعٍ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا دَلِیْلُکُمْ عَلٰی کَرَاہَۃِ ذٰلِکَ؟ قِیْلَ لَہٗ ۔
٢٥٥٦: عطاء بن یسار نے ابو سعید (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اشارہ سے جواب دیا ہم نماز میں سلام کا جواب دے لیتے تھے پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں یہ آثار اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اشارے سے نماز نہیں ٹوٹتی اور کثیر روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں صرف ایک ہی روایت نہیں جیسا کہ روایت بالا ہے جو ان کے خلاف ہے۔ اشارہ عضو کی ایک حرکت ہے۔ یہ کلام نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر اعضاء جو ہاتھ کے علاوہ ہیں وہ جب حرکت کی وجہ سے نماز کو نہیں توڑتے تو ہاتھ کی حرکت کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر کوئی شخص معترض ہو کہ تمہارے نزدیک جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اشارہ کلام سے الگ چیز ہے اور کلام کی طرح یہ نماز کے لیے قاطع نہیں ہے اور تم نے ان آثار کو دلیل میں پیش کیا۔ تو جناب اشارہ سے نمازی کو سلام کا جواب دینے کو تم مکروہ قرار دیتے ہو ‘ حالانکہ یہ ان آثار میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے جن کو آپ نے اپنی دلیل میں پیش کیا ہے کہ اشارہ نماز کے لیے قاطع نہیں ہے۔ تو یہی روایات تمہارے خلاف شاہد ہیں کہ نماز میں اشارہ کرنے میں کچھ قباحت نہیں۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا۔ کہ ہم نے مندرجہ بالا روایات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اشارہ نماز کو نہیں توڑتا اور یہ بات ان روایات سے ثابت ہے جس طرح ہم نے استدلال کیا ہے۔ رہی وہ بات جو تم نے نکالی ہے کہ سلام کا جواب دینے کے لیے اشارہ ہاتھ سے جائز ہے۔ تو اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں۔ وہ اس طرح کہ اس روایت میں تو اس طرح ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اگر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ فرماتے کہ میں نے اس میں اشارہ اس لیے کیا ہے تاکہ اس آدمی کے سلام کا جواب دوں جس نے مجھے سلام کیا ہے ‘ تو اس سے ثابت ہوجائے گا کہ نمازی کو جب نماز میں سلام دیا جائے تو اس کا حکم یہ ہے۔ مگر آپ نے اس سلسلہ میں تو کوئی بات نہیں فرمائی۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ اشارہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب ہو جیسا کہ تم نے کہا اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ نماز کے دوران سلام کی ممانعت ہو۔ جب ان روایات میں ان میں سے کوئی بات ثابت نہیں ‘ ہر جماعت کے قول کے مطابق تاویل کا احتمال موجود ہے تو کسی ایک فریق کی تاویل کو قرآن و سنت و اجماع کی دلیل کے بغیر بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی کراہیت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔ تو جواب میں یہ روایت پیش کردیں گے۔
تخریج : عزاہ العینی الی البزاز۔
حاصل روایات : اس سے معلوم ہوگیا کہ اشارہ قاطع صلوۃ نہیں ہے اور بہت سی روایات میں وارد ہے کہ اشارہ کلام کی جگہ نہیں یہ ایک عضو کی حرکت ہے نماز میں ہاتھ کے علاوہ اعضاء کی حرکات پائی جاتی ہیں اور ان سے نماز منقطع نہیں ہوتی اسی طرح ہاتھ کی حرکت سے بھی نماز منقطع نہیں ہوتی۔
ایک سوال :
جب ان روایات سے اشارہ کلام کے حکم میں نہیں اور اس سے نماز منقطع نہیں ہوتی جیسا کہ روایات مذکورہ سے آپ نے استدلال کیا جب آپ نے اشارہ کیا تو تم اسے جائز کہنے کی بجائے مکروہ کیوں کر قرار دیتے ہو اگر یہ عدم قطع صلوۃ میں حجۃ ہیں تو پھر اشارہ میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے اور تم اس کو مکروہ کہتے ہو۔
جواب : ہم نے جو آثار پیش کئے ان میں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اشارہ قاطع صلوۃ نہیں اور ہم نے ان آثار سے اتنی ہی دلیل چاہی ہے باقی نماز میں رد سلام کے اشارے کو ان سے مباح ثابت کیا جائے تو اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس میں صرف اتنی بات ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف اشارہ کیا۔
اگر آپ فرماتے کہ میرا مقصد اس اشارے سے سلام کا جواب ہے تو پھر اشارے کا مباح ہونا ثابت ہوسکتا تھا کہ ہر نمازی کو جب سلام کیا جائے تو اس کا یہی حکم ہے مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا تو اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ اس اشارے سے مقصود سلام کا جواب مقصود ہو جیسا تم کہتے ہو۔
دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ سلام نہ کرنے کا اشارہ ہو کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں مجھے سلام مت کرو اب ہر دو احتمالوں میں سے ایک کو متعین کرنے کے لیے کتاب و سنت یا اجماع سے دلیل چاہیے اور بعض روایات سے رد سلام کی نفی ثابت ہوتی ہے اس لیے ممانعت کا نچلا درجہ کراہت کو قرار دینا ضروری ٹھہرا۔
(رح) : کراہت کی دلیل پیش کرو۔
جواب : یہ دلیل کراہت کو ثابت کرتی ہے۔

2557

۲۵۵۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَاصِمٌ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ‘ قَالَ : (قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ کُنَّا نَتَکَلَّمُ فِی الصَّلَاۃِ وَنَأْمُرُ بِالْحَاجَۃِ وَنَقُوْلُ السَّلَامُ عَلَی جِبْرَائِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَمِیْکَائِیْلَ وَکُلِّ عَبْدٍ صَالِحٍ یُعْلَمُ اسْمُہٗ فِی السَّمَائِ وَالْأَرْضِ .فَقَدِمْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحَبَشَۃِ وَہُوَ یُصَلِّی‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ‘ فَأَخَذَنِیْ مَا قَدُمَ وَمَا حَدَثَ .فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَزَلَ فِیْ شَیْئٌ ؟ قَالَ لَا‘ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ مِنْ أَمْرِہِ مَا یَشَائُ) .
٢٥٥٧: ابو وائل نے بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں ہم نماز میں سلام کا جواب دے لیتے اور ضرورت کی بات کہہ لیتے اور کہتے جبرائیل پر سلام ہو میکائیل پر سلام ہو اور ہر اس صالح بندے پر سلام ہو جس کا نام معلوم ہو خواہ زمین میں ہو یا آسمان میں۔ پس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حبشہ سے آیا تو آپ کو نماز پڑھتے پایا میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا تو میرے اوپر پریشانی طاری ہوگئی جب آپ نے نماز مکمل فرمائی تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میرے متعلق کوئی چیز اتری ہے ؟ فرمایا نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جس تازہ حکم کو چاہتے ہیں اتارتے ہیں۔ (یعنی کلام میں ممانعت کا حکم اتار دیا ہے)
تخریج : ای فی التوحید باب ٤٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٩٢٤۔

2558

۲۵۵۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ خَرَجْتُ فِیْ حَاجَۃٍ‘ وَنَحْنُ یُسَلِّمُ بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الصَّلَاۃِ‘ ثُمَّ رَجَعْتَ فَسَلَّمْتُ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ وَقَالَ (إِنَّ فِی الصَّلَاۃِ شُغْلًا) .
٢٥٥٨: ابوالاحوص نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں کسی کام سے نکلا ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کرلیا کرتے تھے پھر میں لوٹا اور میں نے سلام کیا مگر آپ نے جواب نہ دیا اور فرمایا بیشک نماز میں ایک خاص مشغولیت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر میں)
تخریج : بخاری فی العمل فی الصلاۃ باب ٢‘ ١٥‘ مسلم فی المساجد نمبر ٣٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٩٢٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٥٩‘ نمبر ١٠١٩ مسند احمد ١؍٣٦‘ ٤٠٩۔

2559

۲۵۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : (قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدِمْتُ مِنَ الْحَبَشَۃِ وَعَہْدِیْ بِہِمْ وَہُمْ یُسَلِّمُوْنَ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَیَقْضُوْنَ الْحَاجَۃَ‘ فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ .فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہٗ قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ لِلنَّبِیِّ مِنْ أَمْرِہٖ مَا یَشَائُ ‘ وَقَدْ أَحْدَثَ لَکُمْ أَنْ لَا تَتَکَلَّمُوْا فِی الصَّلَاۃِ‘ وَأَمَّا أَنْتَ أَیُّہَا الْمُسْلِمُ‘ فَالسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ) .
٢٥٥٩: ابراہیم نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ میں حبشہ سے لوٹا اور میرے زمانے میں نماز میں سلام کرتے تھے اور ضرورت کا کام کہہ لیتے تھے پس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں مصروف تھے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سلام کا جواب نہ دیا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز مکمل کرلی تو فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر پر جو نیا حکم چاہتا ہے اتارتا ہے اب نیا حکم تمہارے لیے یہ آیا ہے کہ تم نماز میں کلام مت کرو باقی تم اے سلام کرنے والے پس تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام و رحمت ہو۔
تخریج : بخاری فی التوحید باب نمبر ٤٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٩٢٤۔

2560

۲۵۶۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ‘ عَنْ مُطَرِّفٍ‘ عَنْ أَبِی الْجَہْمِ‘ عَنْ أَبِی الرَّضْرَاضِ‘ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ فَیَرُدُّ عَلَیَّ .فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ‘ سَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ‘ فَوَجَدْتُ فِیْ نَفْسِیْ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ إِنَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ مِنْ أَمْرِہٖ مَا یَشَائُ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَر : فَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ دَاوٗدَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّ عَلَی الَّذِیْ سَلَّمَ عَلَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ فَرَاغِہٖ مِنْہَا‘ فَذٰلِکَ دَلِیْلُ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ مِنْہُ فِی الصَّلَاۃِ رَدُّ السَّلَامِ عَلَیْہٖ‘ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُ لَأَغْنَاہُ عَنِ الرَّدِّ عَلَیْہِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الصَّلَاۃِ کَمَا یَّقُوْلُ الَّذِیْ یَرَی الرَّدَّ فِی الصَّلَاۃِ بِالْاِشَارَۃِ‘ وَأَنَّ الْمُصَلِّیَ اِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ بِمَنْ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ فِیْ صَلَاتِہٖ فَلاَ یَجِبُ عَلَیْہِ الرَّدُّ بَعْدَ فَرَاغِہٖ مِنْ صَلَاتِہٖ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ أَیْضًا عَنْ مُؤَمَّلٍ (فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ فَأَخَذَنِیْ مَا قَدُمَ وَمَا حَدَثَ) .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ رَدَّ أَصْلًا بِالْاِشَارَۃِ وَلَا غَیْرِہَا‘ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ رَدَّ عَلَیْہِ بِإِشَارَتِہٖ‘ لَمْ یَقُلْ (لَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ) وَلَقَالَ (رَدَّ عَلَیَّ إِشَارَۃً) وَلَمَّا أَصَابَہٗ مِنْ ذٰلِکَ مَا أَخْبَرَ أَنَّہٗ أَصَابَہٗ مِمَّا قَدُمَ وَمِمَّا حَدَثَ .وَفِیْ حَدِیْثِ عَلِیِّ بْنِ شَیْبَۃَ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ فِی الصَّلَاۃِ شُغْلًا) فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْمُصَلِّیَ مَعْذُوْرٌ بِذٰلِکَ الشُّغْلِ عَنْ رَدِّ السَّلَامِ عَلَی الْمُسَلِّمِ عَلَیْہِ‘ وَنَہْیٌ لِغَیْرِہِ عَنِ السَّلَامِ عَلَیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِنْ قَوْلِہٖ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٢٥٦٠: ابوالرضراض نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کرتا آپ نماز میں جواب دیتے ایک دن میں نے سلام کیا تو آپ نے جواب نہ دیا میں نے دل میں پریشانی محسوس کی اور اس کا تذکرہ آپ کو کردیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے نیا حکم اتارتا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کی روایت میں مذکور ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سلام کا جواب نماز سے فراغت کے بعد دیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نماز میں آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ کیونکہ اگر نماز ہی میں جواب مرحمت فرما چکے ہوتے تو یہ چیز فراغت کے بعد سلام کے جواب سے بےنیاز کردیتی ‘ جیسا کہ وہ لوگ کہتے ہیں جو اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب نماز میں درست مانتے ہیں اور جب نمازی نے سلام کرنے والے کو یہ اشارہ کردیا تو نماز سے فراغت کے بعد جواب اس پر لازم نہیں ہے اور تو مل (رح) نے جو روایت حضرت ابوبکرہ (رض) سے نقل کی اس کے الفاظ یہ ہیں : ” فلم یرد علی فاخذ لی ما قدم وما حدث “ آپ نے مجھے جواب نہ دیا تو مجھے اگلی پچھلی پڑگئی ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کسی طرح اشارہ وغیرہ سے جواب نہیں دیا۔ کیونکہ اشارہ سے جواب دیا ہوتا تو ” لم یرد علی “ کے الفاظ نہ ہوتے بلکہ کہتے ” ردّ علی اشارۃ “ اسی وجہ سے ان پر پریشانی سوار ہوگئی اور علی بن شیبہ (رض) کی روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ان فی الصلاۃ شغلا “ نماز میں ایک خاص مشغولیت ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی اس مشغولیت کی وجہ سے سلام کے جواب سے معذور ہے اور دوسرے کو اسی لیے نمازی کو سلام دینے سے منع فرمایا۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : پہلے نماز میں سلام کی اجازت تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت کردی اوپر گزرا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے بعد سلام کا جواب مرحمت فرمایا ابو بکرہ نے ابو داؤد سے بھی روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں کئے ہوئے سلام کا جواب بعد میں مرحمت فرمایا۔ یہ ثبوت ہے کہ سلام کے جواب میں اشارہ کرنے کا مقصد سلام کا جواب دینا نہیں تھا اگر ایسا ہو تو بعد میں جواب کی ضرورت نہ تھی جیسا کہ نماز میں جواب سلام کو جائز کرنے والے کہتے ہیں اگر نمازی نے نماز میں اشارہ کردیا تو نماز سے فراغت کے بعد جواب واجب نہیں۔
ابو بکرہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ فلم یرد فاخذنی ماقدم وحدث ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشارہ سے رد سلام مقصود نہ تھا اگر سلام کا جواب ہوجاتا تو ابن مسعود (رض) لم یرد علی نہ کہتے بلکہ کہتے کہ آپ نے اشارہ سے میرے سلام کا جواب دے دیا اور وہ یہ نہ کہتے کہ مجھے تو اپنی پڑگئی۔
اور علی بن شیبہ کی روایت میں مذکور ہے کہ نماز میں خاص مشغولیت ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی اس مشغولیت کی وجہ سے سلام کا جواب دینے سے معذور ہے اور دوسرے کو اسے سلام کرنا ممنوع ہے۔

2561

۲۵۶۱: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ کَرِہَ أَنْ یُّسَلَّمَ عَلَی الْقَوْمِ وَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ‘ نَظِیْرُ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
٢٥٦١: ابراہیم نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے نماز میں مشغول لوگوں کو سلام کہنا مکروہ قرار دیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا وہ روایت ابن مسعود (رض) کی نظیر ہے۔

2562

۲۵۶۲: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ‘ عَنْ (جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَبَعَثَنِیْ فِیْ حَاجَۃٍ‘ فَانْطَلَقْتُ إِلَیْہَا‘ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَیْہِ وَہُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہٖ‘ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ‘ وَرَأَیْتَہٗ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ‘ فَلَمَّا سَلَّمَ‘ رَدَّ عَلَیَّ) .
٢٥٦٢: ابوالزبیر (رض) نے جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ نے مجھے کسی کام بھیجا میں چلا گیا پھر میں جب لوٹا تو اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے میں نے سلام کیا آپ نے مجھے جواب نہ دیا میں نے آپ کو رکوع و سجدے کے اشارے کرتے پایاجب آپ نے سلام پھیر دیا تو میرے سلام کا جواب دیا۔
تخریج : مسلم فی المساجد نمبر ٣٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٦٦‘ نمبر ٩٢‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٥٩‘ فی الاقامہ باب ٥٩‘ نمبر ١٠١٨۔

2563

۲۵۶۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ : (فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ) وَقَالَ : (فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہٖ قَالَ : أَمَا إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ إِلَّا أَنِّیْ کُنْتُ أُصَلِّیْ) .فَھٰذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَیْضًا‘ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَرُدَّ عَلَیْہٖ‘ وَأَنَّہٗ لَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہٖ رَدَّ عَلَیْہِ .فَالْکَلَامُ فِیْ ھٰذَا مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْمَا رَوَیْنَاہُ قَبْلَہٗ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَفِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (أَمَا إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ إِلَّا أَنِّیْ کُنْتُ أُصَلِّیْ) فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ رَدَّ عَلَیْہِ شَیْئًا‘ فَذٰلِکَ یَنْفِیْ أَنْ یَّکُوْنَ رَدَّ عَلَیْہِ بِإِشَارَۃٍ أَوْ غَیْرِہَا .
٢٥٦٣: ابو بکرہ نے ابو داؤد سے اس نے ہشام سے بیان کیا انھوں نے اپنی سند سے روایت کی البتہ یہ الفاظ نقل نہیں کئے لم یرد علی بلکہ یہ ہیں جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے نماز مانع تھی۔ یہ حضرت جابر (رض) جو یہ بتلا رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری بات کا جواب نہ دیا اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو تب آپ نے سلام کا جواب دیا۔ پس اس کے متعلق گفتگو سابقہ روایت کی گفتگو کی طرح ہے جس کو حضرت ابن مسود (رض) نے نقل کیا ہے اور روایت جابر (رض) میں یہ بھی اضافہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اما انہ لم یمنعنی ان اردّ علیک الا انی کنت اصلّی “ ” بھئی میں نے نماز میں مصروفیت کی وجہ سے تمہارے سلام کا جواب نہیں دیا “ اور اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا کہ میں نے بالکل تمہارا جواب نہیں دیا۔ اس سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ آپ نے اشارہ یا اور کسی طریق سے جواب دیا ہو۔
حاصل روایات : یہی جابر بن عبداللہ (رض) بتلا رہے ہیں کہ آپ نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا اور جب نماز سے فارغ ہوگئے تو سلام کا جواب دیا پس یہ روایت بھی اشارے سے جواب سلام مراد لینے کے خلاف ہے جیسا ابن مسعود (رض) کی روایت کے متعلق ہم کہہ چکے۔ جابر میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اما انہ لم یمنعنی ان ارد علیک الا انی کنت اصلی اس میں آپ نے یہ بتلایا کہ مجھ پر سلام کا جواب لازم نہ تھا اس لیے اشارے سے جواب کا کوئی معنی ہی نہیں۔

2564

۲۵۶۴: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْن أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ‘ (عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہٗ لِبَعْضِ حَاجَتِہٖ ‘ فَجَائَ وَہُوَ یُصَلِّیْ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَسَکَتَ‘ ثُمَّ أَوْمٰی بِیَدِہٖ، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَیْہِ‘ فَسَکَتَ ثَلاَثًا‘ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ : أَمَّا إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ إِلَّا أَنِّیْ کُنْتُ أُصَلِّیْ) .فَھٰذَا جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْمٰی إِلَیْہِ بِیَدِہٖ حِیْنَ سَلَّمَ‘ ثُمَّ قَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاۃِ أَمَّا إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ إِلَّا أَنِّیْ کُنْتُ أُصَلِّیْ) .فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ رَدَّ عَلَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ تِلْکَ الْاِشَارَۃَ الَّتِیْ کَانَتْ مِنْہُ فِی الصَّلَاۃِ‘ لَمْ تَکُنْ رَدًّا‘ وَإِنَّمَا کَانَتْ نَہْیًا‘ وَھٰذَا جَائِزٌ .فَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ ۔
٢٥٦٤: ابوالزبیر (رض) نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کسی کام بھیجا جب میں آیا تو آپ اونٹنی پر سواری کی حالت میں نماز ادا فرما رہے تھے میں نے سلام کیا آپ خاموش رہے پھر ہاتھ سے اشارہ کیا پھر میں نے سلام کیا آپ تین بار خاموش رہے جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا میں نماز میں تھا اس لیے تیرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہ حضرت جابر (رض) جو اس روایت میں اطلاع دے رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کے وقت ان کی طرف اشارہ کیا ‘ پھر نماز سے فراغت کے بعد فرمایا ” سنو بھئی ! مجھے تمہارا جواب دینے سے نماز مانع تھی “۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی کہ میں نے نماز میں سلام کا جواب نہیں دیا۔ اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ آپ نے نماز میں جو اشارہ فرمایا یہ ان کے سلام کا جواب نہ تھا بلکہ یہ ممانعت تھی اور یہ درست ہے اور یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی جیسا ہم نے ذکر کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٥٦٦٢ کو ملاحظہ کریں۔
یہ حضرت جابر بتلا رہے ہیں کہ جب میں نے سلام کیا تو آپ نے میری طرف اشارہ کیا اور سلام پھیرنے کے بعد فرمایا تیرے سلام کا جواب دینے سے مجھے نماز مانع تھی اس میں آپ نے بتلایا دیا نماز میں سلام کا جواب لازم نہیں ۔
ان روایات نے یہ بات کھول دی کہ نماز میں جو اشارہ آپ نے فرمایا تھا وہ جواب سلام کے لیے نہ تھا وہ روکنے کے لیے تھا کہ سلام مت کرو اور یہ اشارہ درست ہے۔

2565

۲۵۶۵: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سُفْیَانَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : مَا أُحِبُّ أَنْ أُسَلِّمَ عَلَی الرَّجُلِ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ وَلَوْ سَلَّمَ عَلَیَّ لَرَدَدْتُ عَلَیْہِ .
٢٥٦٥: ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر (رض) کو فرماتے سنا میں نماز پڑھنے والے کو سلام کرنا پسند نہیں کرتا اور اگر وہ مجھے سلام کرتا تو میں اس کو لوٹا دیتا (یعنی منع کردیتا ہوں) یہ جابر بن عبداللہ (رض) ہیں کہ نمازی کو سلام کرنا مکروہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ انھوں نے خود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی حالت میں سلام کیا تھا اور آپ نے ان کو اشارہ فرمایا۔ اگر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کیا جانے والا اشارہ سلام کا جواب ہوتا تو جابر (رض) کبھی اس کو مکروہ قرار نہ دیتے ‘ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو منع نہیں کیا ‘ لیکن آپ نے اس کو ناپسند فرمایا۔ آپ کا اس وقت اشارہ نمازی کو سلام کرنے کی ممانعت تھی۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جابر (رض) نے تو اپنی اس روایت میں فرمایا اگر کوئی مجھے سلام کرے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ تو اس کے جواب میں اس طرح کہیں گے۔ کیا جابر (رض) نے یہ کہا کہ میں نماز میں جواب دوں گا۔ تو اس کے متعلق یہ کہنا درست ہوگیا کہ میں نماز سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دیتا ہوں اور ان کا طریق اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔

2566

۲۵۶۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِشْکَابَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَدْ کَرِہَ أَنْ یُسَلِّمَ عَلَی الْمُصَلِّیْ‘ وَقَدْ کَانَ سَلَّمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَأَشَارَ إِلَیْہِ .فَلَوْ کَانَتِ الْاِشَارَۃُ الَّتِیْ کَانَتْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدًّا لِلسَّلَامِ عَلَیْہِ اِذْ لَمَا کَرِہَ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَنْہَہُ عَنْہُ‘ وَلٰـکِنَّہٗ إِنَّمَا کَرِہَ ذٰلِکَ لِأَنَّ إِشَارَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ‘ کَانَتْ عِنْدَہٗ نَہْیًا مِنْہُ لَہٗ عَنِ السَّلَامِ عَلَیْہِ وَہُوَ یُصَلِّیْ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ قَالَ جَابِرٌ فِیْ حَدِیْثِکُمْ ھٰذَا (وَلَوْ سَلَّمَ عَلَیَّ لَرَدَدْتُ) قِیْلَ لَہٗ : أَفَقَالَ جَابِرٌ (لَرَدَدْتُ فِی الصَّلَاۃِ) قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ (لَرَدَدْتُ) أَیْ بَعْدَ فَرَاغِیْ مِنَ الصَّلَاۃِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ مِنْ مَذْہَبِہٖ ۔
٢٥٦٦: ابو معاویہ نے اعمش سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے روایت بیان کی۔
حاصل روایات : یہ جابر ہیں وہ نمازی کو سلام کرنا مکروہ قرار دے رہے ہیں انھوں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں سلام کیا تو آپ نے اشارہ کردیا۔
اگر یہ اشارہ سلام کا جواب ہوتا تو جابر (رض) آپ کو ناپسند کرتے کیونکہ آپ نے اس سے نہ روکا تھا اس کو جابر نے پسند اس لیے کیا کیونکہ آپ کا اشارہ جابر (رض) کے نزدیک نمازی کو سلام کی ممانعت پر دلالت کرتا تھا۔
اشکال :
حضرت جابر (رض) کے قول میں تو یہ لفظ ہیں کہ اگر مجھ پر کوئی سلام کرتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں۔
جواب : کیا حضرت جابر (رض) نے یہ کہا ہے کہ میں نماز ہی میں جواب دیتا ہوں اور یہ عین ممکن ہے کہ لرددت ای بعد فراغی من الصلاۃ مراد ہو۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت سے یہ دلالت میسر آگئی کہ حضرت جابر (رض) نے پہلی روایت میں جس سلام کے لوٹانے کا تذکرہ کیا ہے وہ نماز سے فراغت کے بعد جواب دینا ہے اور یہ اس روایت کو موافق ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہم نے نقل کی اور اس کا معنی اس پر دلالت کررہا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت آئی ہے۔ جو ذیل میں ہے۔
اور اگلی روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

2567

۲۵۶۷: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ قَالَ : سَأَلَ سُلَیْمَانُ بْنُ مُوْسٰی‘ عَطَائً : أَسَأَلْتُ جَابِرًا عَنِ الرَّجُلِ یُسَلِّمُ عَلَیْکَ وَأَنْتَ تُصَلِّیْ‘ فَقَالَ : لَا تَرُدُّ عَلَیْہِ حَتّٰی تَقْضِیَ صَلَاتَک؟ فَقَالَ : نَعَمْ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الرَّدَّ الَّذِیْ أَرَادَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ‘ ہُوَ الرَّدُّ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الصَّلَاۃِ‘ فَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ‘ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدَلَّ مِنْ مَعْنَاہُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ھٰذَا نَحْوٌ مِنْ ذٰلِکَ .
٢٥٦٧: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے سوال کیا کیا تم نے جابر (رض) سے اس آدمی کا حکم معلوم کیا جو نماز کے دوران تم کو سلام کہے تو کہنے لگے کہ نماز پوری کرنے تک اس کو جواب مت دو ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے اپنی نماز میں مصروفیت کی حالت میں سلام کرنے والے کے سلام کا جواب نماز میں نہیں دیا بلکہ اس کی حرکت کو ناپسند کرتے ہوئے ہاتھ سے کچوکا دیا۔ جب حضرت ابن مسعود اور جابر (رض) جن دونوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی حالت میں خود سلام کیا تھا۔ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کو ناپسند کیا۔ تو اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ آپ کا نماز میں اشارہ سلام کے جواب کی خاطر نہ تھا بلکہ ممانعت کے لیے تھا کیونکہ نماز سلام کی جگہ نہیں ‘ کیونکہ سلام تو کلام ہے۔ اس کا جواب بھی کلام شمار ہوگا۔ پس جب نماز کلام کی جگہ نہیں ہے تو سلام کا جواب بھی کلام ہے۔ تو نماز اس کی جگہ نہیں۔ حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جسم کے اطراف کو پر سکون رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ ذیل کی روایت ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : اس سے معلوم ہوا کہ جابر (رض) کے ہاں رد سے مراد نماز سے فراغت کے بعد جواب دینا ہے یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایت کے موافق ہے ابن عباس (رض) سے بھی اس کی تائید ملتی ہے ملاحظہ ہو۔

2568

۲۵۶۸: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ‘ قَالَ .ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ خَازِمٍ‘ عَنْ قَیْسٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سَلَّمَ عَلَیْہِ رَجُلٌ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ شَیْئًا‘ وَغَمَزَہُ بِیَدِہٖ۔ فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا لَمْ یَرُدَّ فِیْ صَلَاتِہِ عَلَی الَّذِیْ سَلَّمَ عَلَیْہِ وَہُوَ فِیْہَا‘ وَلٰـکِنَّہٗ غَمَزَہُ بِیَدِہٖ عَلَی الْکَرَاہَۃِ مِنْہُ لِمَا فَعَلَ .فَلَمَّا کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَقَدْ کَانَا سَلَّمَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ قَدْ کَرِہَا مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ عَلَی الْمُصَلِّیْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ مِنْ إِشَارَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِیْ قَدْ عِلْمَاہَا مِنْہُ‘ لَمْ تَکُنْ رَدًّا وَإِنَّمَا کَانَتْ نَہْیًا‘ لِأَنَّ الصَّلَاۃَ لَیْسَتْ بِمَوْضِعِ سَلَامٍ‘ لِأَنَّ السَّلَامَ کَلَامٌ‘ فَجَوَابُہٗ أَیْضًا کَذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَتِ الصَّلَاۃُ لَیْسَتْ بِمَوْضِعِ کَلَامٍ‘ یَکُوْنُ رَدُّ السَّلَامِ لَمْ یَکُنْ أَیْضًا بِمَوْضِعِ سَلَامٍ .وَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِتَسْکِیْنِ الْأَطْرَافِ فِی الصَّلَاۃِ .
٢٥٦٨: عطاء نے روایت کی ہے کہ ابن عباس (رض) کو ایک آدمی نے سلام کیا جبکہ وہ نماز میں مصروف تھے آپ نے اس آدمی کو جواب نہ دیا مگر ہاتھ سے اسے کچوکا لگایا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں سکون کا حکم فرمایا تو اشارہ سے سلام کا جواب اس حکم کی مخالفت ہے۔ کیونکہ اس میں ہاتھ کا بلند کرنا اور انگلیوں کا حرکت دینا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز میں تسکین کے حکم میں اعضاء و اطراف کو نماز میں پر سکون رکھنا بھی شامل ہے۔ یہ قول جو اس باب میں بیان ہوا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل کلام :
ابن عباس (رض) نے بھی نماز میں سلام کرنے والے کو جواب نہیں دیا بلکہ ناپسند کرتے ہوئے کچوکا لگایا اور ابن مسعود (رض) اور جابر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں سلام کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نمازی پر سلام کو ناپسندیدہ قرار دیا۔
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اشارہ مبارک جس کو انھوں نے معلوم کیا وہ سلام کا جواب نہ تھا بلکہ سلام سے منع کرنا مقصود تھا کیونکہ نماز سلام کی جگہ نہیں اس لیے کہ سلام کلام کی جنس ہے اور سلام کے جواب میں کلام انس ہے۔
اور نماز بالاتفاق کلام کی جگہ نہیں تو سلام کے جواب کی جگہ بھی نہ بنے گی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو تمام جوڑوں کو سکون و اطمینان سے رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔

2569

۲۵۶۹: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ‘ قَالَ : (دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فَرَأٰی قَوْمًا یُصَلُّوْنَ وَقَدْ رَفَعُوْا أَیْدِیَہُمْ .فَقَالَ : مَالِیْ أَرَاکُمْ تَرْفَعُوْنَ أَیْدِیَکُمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلِ شَمْسٍ‘ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ) .فَلَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسُّکُوْنِ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَکَانَ رَدُّ السَّلَامِ بِالْاِشَارَۃِ فِیْہِ خُرُوْجٌ مِنْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّ فِیْہِ رَفْعَ الْیَدِ وَتَحْرِیْکَ الْأَصَابِعِ‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ دَخَلَ فِیْمَا أَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَسْکِیْنِ الْأَطْرَافِ فِی الصَّلَاۃِ .وَھٰذَا الْقَوْلُ الَّذِیْ بَیَّنَّا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٥٦٩: مسیب بن رافع نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لائے آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں آپ نے فرمایا میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نماز میں گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھوں کو اٹھانے والے ہو نماز میں سکون اختیار کرو۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ١١٩۔
حاصل روایات : جب نماز میں تسکین اطراف کا حکم ہے تو اشارے سے سلام کرنا اس سے نکلنا ہے کیونکہ اس میں ہاتھ بلند ہوتا اور انگلیاں ہلتی ہیں اس سے ثابت ہوا کہ یہ بھی اس روایت کے تحت داخل ہے۔
یہ قول ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

2570

۲۵۷۰: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ یُوْنُسَ‘ وَمَنْصُوْرٌ‘ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الصَّامِتِ‘ عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْئٌ اِذَا کَانَ بَیْنَ یَدَیْہِ کَآخِرَۃِ الرَّحْلِ) وَقَالَ : (یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ الْمَرْأَۃُ‘ وَالْحِمَارُ‘ وَالْکَلْبُ الْأَسْوَدُ) .قَالَ (قُلْتُ : یَا أَبَا ذَرٍّ‘ مَا بَالُ الْکَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ وَالْأَبْیَضِ؟ فَقَالَ : یَا ابْنَ أَخِیْ سَأَلْتَنِیْ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنَّ الْکَلْبَ الْأَسْوَدَ شَیْطَانٌ) .
خلاصہ الزام :
نمبر 1: امام احمد (رح) اور اصحاب ظواہر نمازی کے آگے سے گزرنے پر نمازی کی نماز کو فاسد قرار دیتے ہیں۔
نمبر 2: دیگر تمام ائمہ ابوحنیفہ مالک و شافعی (رح) نمازی کے آگے گزرنے سے نماز کو فاسد قرار نہیں دیتے۔
مؤقف فریق اوّل و دلائل : نماز کے آگے سے کسی چیز کا بھی گزرنا اس کی نماز کو فاسد کردیتا ہے دلیل یہ ہے۔
٢٥٧٠: عبداللہ بن صامت نے حضرت ابوذر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی چیز نماز کو منقطع نہیں کرتی جبکہ نمازی اور گزرنے والے کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصہ کے برابر کوئی بلند چیز ہو اور فرمایا نماز کو عورت ‘ گدھا ‘ سیاہ کتا منقطع کردیتا ہے۔ عبداللہ ہیں میں نے دریافت کیا اے ابوذر ! سیاہ کتے کا سرخ وسفید کے مقالبے میں کیا فرق ہے تو انھوں نے فرمایا اے بھتیجے ! یہ سوال تو وہی ہے جو میں نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سیاہ کتا شیطان ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٢٦٥؍٢٦٦٦‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٩‘ مسند احمد ٥؍١٤٩‘ ١٦٠‘ ١٦١۔

2571

۲۵۷۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ إِلٰی سُتْرَۃٍ فَلْیَدْنُ مِنْہَا لَا یَقْطَعَ الشَّیْطَانُ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ)
٢٥٧١: نافع بن جبیر نے سہل بن ابی حشمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی سترے کی طرف نماز پڑھے تو اسے سترے قریب ہوجانا چاہیے تاکہ شیطان اس کی نماز کو منقطع نہ کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٦‘ نمبر ٦٦٩٥۔

2572

۲۵۷۲: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ رَفَعَہٗ شُعْبَۃُ‘ قَالَ : (یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْمَرْأَۃُ الْحَائِضُ‘ وَالْکَلْبُ) .
٢٥٧٢: قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید سے سنا وہ ابن عباس (رض) سے روایت بیان کرتے تھے شعبہ نے اسے مرفوع نقل کیا ہے۔
اس میں ہے کہ حائضہ عورت ‘ اور کتا نماز کو توڑ دیتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٩‘ نمبر ٧٠٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٣٨‘ نمبر ٩٤٩۔

2573

۲۵۷۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ عَنْ یَحْیَی‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَحْسَبُہٗ قَدْ أَسْنَدَہٗ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْمَرْأَۃُ الْحَائِضُ‘ وَالْکَلْبُ وَالْحِمَارُ‘ وَالْیَہُوْدِیُّ‘ وَالنَّصْرَانِیُّ. وَالْخِنْزِیْرُ‘ وَیَکْفِیْکَ اِذَا کَانُوْا مِنْکَ قَدْرَ رَمْیَۃٍ‘ لَمْ یَقْطَعُوْا عَلَیْکَ صَلَاتَکَ) .
٢٥٧٣: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے اور میرے خیال میں انھوں نے اس کی اسناد جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچائی ہے کہ فرمایا حائضہ عورت ‘ کتا اور گدھا نماز کو منقطع کردیتا ہے اسی طرح یہودی ‘ نصرانی ‘ خنزیر بھی۔ اور ایک تیر پھینکنے کے فاصلے پر ہوں پھر یہ گزر بھی جائیں تو تمہاری نماز منقطع نہ ہوگی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٩‘ نمبر ٧٠٤۔

2574

۲۵۷۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْکَلْبُ‘ وَالْحِمَارُ‘ وَالْمَرْأَۃُ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْکَلْبُ الْأَسْوَدُ‘ وَالْمَرْأَۃُ‘ وَالْحِمَارُ‘ اِذَا مَرُّوْا بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّیْ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْئٌ مِنْ ھٰذَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٥٧٤: حسن نے حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا کتا ‘ گدھا ‘ عورت نماز کو توڑ دیتے ہیں۔ کچھ علماء نے ان آثار کے پیش نظر فرمایا کہ سیاہ کتا ‘ عورت ‘ گدھا جب نمازی کے سامنے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کوئی چیز بھی نماز کے لیے گزرنے کی وجہ سے نماز کو توڑنے والی نہیں۔ ان کی دلیل یہ آثار ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٣٨٠ نمبر ٩٤٩؍٩٥١۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ کتا ‘ عورت اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
ان میں سے کوئی چیز بھی آگے سے گزرے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔ دلائل یہ ہیں۔

2575

۲۵۷۵: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ‘ وَنَحْنُ عَلٰی أَتَانٍ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ بِعَرَفَۃَ‘ فَمَرَرْنَا عَلٰی بَعْضِ الصَّفِّ‘ فَنَزَلْنَا عَنْہَا‘ وَتَرَکْنَاہَا تَرْتَعُ‘ فَلَمْ یَقُلْ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا) .
٢٥٧٥: عبیداللہ بن عبداللہ (رض) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں اور فضل گدھی پر سوار ہو کر آئے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو عرفات میں نماز پڑھا رہے تھے ہم بعض صفوف کے آگے سے گزرے پھر اتر گئے اور گدھی کو چرنے چھوڑا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کچھ نہ فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٩٠‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٥٤‘ ابو داؤد فی الصلاۃ بابنمبر ١١٢‘ نمبر ٧١٥‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٣٥‘ نمبر ٣٢٧‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٣٨‘ نمبر ٩٤٧‘ مسند احمد ١؍٢١٩۔

2576

۲۵۷۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ وَیُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : (وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ بِ مِنًی) .
٢٥٧٦: مالک و یونس نے ابن شہاب سے نقل کیا انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ یہ لفظ زائد ہیں : ورسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یصلی بالناس بمنٰی ۔

2577

۲۵۷۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ وَرَوْحٌ‘ وَوَہْبٌ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ صُہَیْبٍ‘ عَنِ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَرَرْتُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ وَأَنَا عَلٰی حِمَارٍ‘ وَمَعِیْ غُلَامٌ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ فَلَمْ یَنْصَرِفْ) .فَفِیْ حَدِیْثِ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہُمَا مَرَّا عَلَی الصَّفِّ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَا مَرَّا عَلَی الْمَأْمُوْمِیْنَ دُوْنَ الْاِمَامِ‘ فَکَانَ ذٰلِکَ غَیْرَ قَاطِعٍ عَلَی الْمَأْمُوْمِیْنَ وَلَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی حُکْمِ مُرُوْرِ الْحِمَارِ بَیْنَ یَدَیَ الْاِمَامِ .وَلٰـکِنْ فِیْ حَدِیْثِ صُہَیْبٍ‘ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ مَرَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَنْصَرِفْ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مُرُوْرَ الْحِمَارِ بَیْنَ یَدَیَ الْاِمَامِ أَیْضًا‘ غَیْرُ قَاطِعٍ لِلصَّلَاۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ أَنَّ الْحِمَارَ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ فِیْ أَشْیَائَ ذَکَرَہَا مَعَہٗ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ‘ قَالَ: (وَأَحْسَبُہٗ قَدْ أَسْنَدَہٗ) .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ وَصُہَیْبٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ مُخَالِفٌ لِذٰلِکَ‘ فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْلَمَ أَیُّہَا نَسَخَ الْأَمْرَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٥٧٧: صہیب نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا جبکہ آپ نماز ادا فرما رہے تھے اور میں گدھے پر سوار تھا اور میرے ساتھ بنی ہاشم کا ایک غلام تھا پس آپ نماز سے نہ پھرے۔ حضرت عبیداللہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ وہ دونوں صف کے آگے سے گزرے تو یہ ممکن ہے کہ ان کا گزر مقتدیوں کے سامنے سے ہو نہ کہ امام کے سامنے سے۔ پس اس سے مقتدیوں کی نماز نہیں ٹوٹتی۔ اس میں گدھے کے امام کے سامنے سے گزرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر حضرت صہیب نے ابن عباس (رض) سے جو روایت کی ہے وہ یہ ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سے گزرا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے نہ پھرے۔ اس سے اس بات پر دلالت مل گئی کہ امام کے سامنے سے گدھے کے گزر جانے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ جبکہ فصل اوّل میں منقولہ ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے کہ گدھا وغیرہ اشیاء مذکورہ نماز کو قطع کرنے والی ہیں اور وہ روایت ابن ابی داؤد نے مرفوع بیان کی ہے۔ یہ روایت جس کو صہیب و عبیداللہ نے ابن عباس (رض) سے بیان کیا ہے یہ اس کے خلاف ہے۔ پس اب ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ معلوم کریں کہ کس نے دوسری کو منسوخ ہوا۔ پس غور کے لیے مندرجہ روایات کو دیکھیں۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٩٠‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢‘ نمبر ٧١٦۔
عبیداللہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہم دونوں صف کے آگے سے گزرے اس میں یہ احتمال ہے کہ مقتدیوں کے آگے سے گزرے ہوں اور اس سے مقتدیوں کی نماز میں فرق نہیں پڑتا اس میں دلیل نہیں کہ گدھے کا امام کے آگے سے گزرنے کا کیا حکم ہے۔ اور روایت صہیب میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے سے گزرا مگر آپ نماز سے نہیں پھرے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حمار اگر امام کے سامنے سے گزرے تو نماز کو قطع کرنے والا نہیں۔
ایک اشکال :
گزشتہ فصل میں ابن عباس (رض) کی روایت میں گدھے کے گزرنے کو نماز کا توڑنے والا قرار دیا گیا اور ابن ابی داؤد نے بھی اس کو مسند قرار دیا ہے اور عبیداللہ اور صہیب کی روایت میں اس کا الٹ ہے ان میں کون ناسخ ہے۔
جواب : ہم روایات کو پیش کر کے غور کرتے ہیں۔

2578

۲۵۷۸: فَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ قَالَ : ثَنَا سِمَاکٌ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ؟ قَالُوْا : الْکَلْبُ وَالْحِمَارُ .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ) وَمَا یَقْطَعُ ھٰذَا‘ وَلٰـکِنَّہٗ یُکْرَہُ .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الْحِمَارَ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ) فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا رَوٰی عَنْہُ عُبَیْدُ اللّٰہِ وَصُہَیْبٌ‘ کَانَ مُتَأَخِّرًا عَمَّا رَوَاہُ عَنْہُ عِکْرِمَۃُ مِنْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْحِمَارَ‘ أَیْضًا‘ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ.
٢٥٧٨: عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے ہاں تذکرہ کیا گیا کہ کون سی چیز نماز کو قطع کرنے والی ہے انھوں نے کہا کتا اور گدھا۔ اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : الیہ یصعد الکلم الطیب (فاطر۔ ١٠٠) پھر یہ نماز کو نہیں توڑتے البتہ مکروہ ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد فرما رہے ہیں کہ ” گدھا نماز کو نہیں توڑتا “ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ عبیداللہ اور صہیبجواب روایت متاخر ہے جس کو عکرمہ نے ان سے بیان کیا۔ نیز فضل بن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس طرح کی روایت کی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ گدھا بھی نماز کو منقطع نہیں کرتا۔
تخریج : بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٢٧٧۔
حاصل روایات : یہ ابن عباس (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ گدھے کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی اس سے ثابت ہوگیا کہ عبیداللہ صہیب کی روایت متاخر روایت ہے۔
فضل بن عباس (رض) کی شہادت :
حضرت فضل (رض) بھی گدھے کے گزرنے کو قاطع صلوۃ نہیں مانتے۔
حاصل روایات : یہ ابن عباس (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ گدھے کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی اس سے ثابت ہوگیا کہ عبیداللہ صہیب کی روایت متاخر روایت ہے۔
فضل بن عباس (رض) کی شہادت :
حضرت فضل (رض) بھی گدھے کے گزرنے کو قاطع صلوۃ نہیں مانتے۔

2579

۲۵۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ .(الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : زَارَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَادِیَۃٍ لَنَا‘ وَلَنَا کُلَیْبَۃٌ وَحِمَارٌ تَرْعَیَانِ‘ فَصَلَّی الْعَصْرَ‘ وَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘ فَلَمْ یُزْجَرَا‘ وَلَمْ یُؤَخَّرَا) .
٢٥٧٩: عباس بن عبداللہ نے فضل بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری زمین پر تشریف لائے ہمارے پاس ایک کتیا اور گدھا تھا جو چر رہے تھے آپ نے ہمارے ہاں نماز عصر ادا فرمائی اور وہ دونوں آپ کے سامنے تھے نہ ان کو ڈانٹا اور نہ ان کو وہاں سے ہٹایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٣‘ نمبر ٧١٨۔

2580

۲۵۸۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ ۔
٢٥٨٠: ایوب نے محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب ] سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

2581

۲۵۸۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوْبَ ح ۔
٢٥٨١: عبداللہ بن صالح نے لیث سے ‘ انھوں نے یحییٰ بن ایوب سے نقل کیا۔

2582

۲۵۸۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ .وَقَالَ ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (زَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبَّاسًا) .فَقَدْ وَافَقَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ‘ حَدِیْثَ صُہَیْبٍ وَعُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اللَّذَیْنِ قَدَّمْنَا ذِکْرَہُمَا فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .ثُمَّ رَجَعْنَا إِلٰی حُکْمِ مُرُوْرِ الْکَلْبِ بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّی‘ کَیْفَ ہُوَ؟ وَہَلْ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ أَمْ لَا؟ .فَکَانَ أَحَدَ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَدْ رَوَیْنَا ذٰلِکَ عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .ثُمَّ قَدْ رَوَیْنَا فِیْ حَدِیْثِ الْفَضْلِ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَا مَا قَدْ خَالَفَہٗ .ثُمَّ رَوَیْنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بَعْدُ‘ مِنْ قَوْلِہٖ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ عِکْرَمَۃَ عَنْہُ‘ أَنَّ الْکَلْبَ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی ثُبُوْتِ نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ‘ وَعَلٰی أَنَّ مَا رَوَاہُ الْفَضْلُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ فَصَلَ بَیْنَ الْکَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنْ غَیْرِہِ مِنَ الْکِلَابِ‘ فَجَعَلَ الْأَسْوَدَ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ وَجَعَلَ مَا سِوَاہُ بِخِلَافِ ذٰلِکَ‘ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ : (اَلْأَسْوَدُ شَیْطَانٌ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْمَعْنَی الَّذِیْ وَجَبَ لَہٗ قَطْعُہٗ إِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّہٗ شَیْطَانٌ .فَأَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ ہَلْ عَارَضَ ذٰلِکَ شَیْئٌ ؟ .
٢٥٨٢ : عبداللہ بن صالح نے اپنی روایت میں محمد بن عمر بن حضرت علی (رض) سے نقل کیا۔ یہ روایت صہیب و عبیداللہ والی مذکورہ روایت کے موافق ہے جس کا فصل اوّل میں ہم تذکرہ کر آئے۔ ہم دوبارہ کتے کے نمازی کے سامنے سے گزرنے کے مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں کہ اس سے نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کی شروع باب میں جو روایت گزری ہے اس سے تو کتا گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر ہم نے حضرت فضل (رض) کی روایت بھی ذکر کی جو اس کے خلاف ہے۔ پھر ہم نے ابن عباس (رض) کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد فتویٰ ذکر کیا جو عکرمہ کی روایت سے نقل ہوا کہ کتا نماز کو نہیں توڑتا۔ اس سے اس بات کو ثبوت مل گیا کہ ان کے ہاں یہ حکم منسوخ ہوچکا اور فضل (رض) والی روایت ابن عباس (رض) کی روایت سے متأخر ہے۔ البتہ حضرت ابو ذر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ نے سیاہ اور دیگر کتوں میں فرق کیا ‘ سیاہ کتے کو نماز کے لیے توڑنے والا قرار دیا ان کے علاوہ کو عدم قاطع اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو فرمایا : سیاہ کتا شیطان ہے۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ توڑنے کا باعث سیاہ کتے کا شیطان ہونا ہے۔ اب ہم مزید روایات پر نظر ڈالتے ہیں کہ آیا اس کے معارض کوئی روایت موجود ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔ ابن ابی مریم نے اپنی روایت میں محمد بن عمر بن حضرت علی (رض) سے پھر اپنی سند سے روایت نقل کی ہے البتہ ان الفاظ کا فرق ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ عباس (رض) کے پاس آئے۔
حاصل کلام :
یہ روایت اور صہیب و عبیداللہ کی وہ روایت جو انھوں نے ابن عباس (رض) سے کی ہے اس کے موافق ہے جس میں گدھے کا گزرنا نماز کو نہ توڑنے والا بتلایا گیا ہے۔
کتے وغیرہ کے گزرنے سے نماز ٹوٹتی ہے یا نہیں :
فصل اول میں ابن عباس (رض) کی روایت تو ظاہر کرتی ہے کہ نماز ٹوٹ جاتی ہے مگر فضل (رض) کی روایت نمبر ٢٥٧٩ اس کے خلاف گزری پھر جناب ابن عباس (رض) کا فتویٰ عکرمہ کی زبان سے فضل (رض) کی روایت کی حمایت میں اوپر نقل کیا گیا کہ ان کا گزرنا نماز کو نہیں توڑتا۔
پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کے ہاں اپنی بات منسوخ ہوچکی اور اب حکم اسی کے مطابق ہے جو روایت فصل میں موجود ہے کہ آپ نے نماز عصر اس حالت میں ادا فرمائی کہ کتا اور گدھا آپ کے سامنے سے ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔
ایک سوال :
عام کتے سے نہیں ٹوٹتی مگر سیاہ کتے سے ٹوٹ جاتی ہے۔
جواب : آپ سے جب اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ شیطان ہے اس سے معلوم ہوا کہ ٹوٹنے کا سبب کتا نہیں بلکہ شیطان ہے۔
اب روایات پر غور کرتے ہیں کہ آیا اس کے کوئی روایت معارض موجود ہے یا موافق ہی ملتی ہیں۔

2583

۲۵۸۳: فَإِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ یُصَلِّیْ فَلاَ یَدَعَنَّ أَحَدًا یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ‘ وَلْیَدْرَأْہُ مَا اسْتَطَاعَ‘ فَإِنْ أَبٰی فَلْیُقَاتِلْہُ‘ فَإِنَّمَا ہُوَ شَیْطَانٌ) .
٢٥٨٣: عبدالرحمن نے اپنے والد ابو سعیدالخدری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ کسی کو اپنے سے آگے نہ گزرنے دے اور اسے دور کرے اور ہٹائے جہاں تک ممکن ہو اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑے بیشک وہ شیطان ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٥٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٧‘ نمبر ٦٩٧‘ نسائی فی الاقامہ باب ٤٨‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٣٩‘ نمبر ٩٥٤‘ موطا مالک فی اسفر نمبر ٣٣‘ مسند احمد ٣؍٣٤‘ ٤٤۔

2584

۲۵۸۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ظَفَرَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ‘ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیِّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٥٨٤ : ابو صالح نے ابوسعید خدری (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2585

۲۵۸۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ جَمِیْعًا‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ : أَنَّ کُلَّ مَارٍّ بَیْنَ یَدَیَ الْمُصَلِّیْ شَیْطَانٌ‘ وَقَدْ سَوّٰی فِیْ ھٰذَا بَیْنَ بَنِیْ آدَمَ وَبَیْنَ الْکَلْبِ الْأَسْوَدِ اِذَا مَرُّوْا بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّیْ .وَقَدْ رَوَوْا مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٥٨٥: زید بن اسلم اور عبدالرحمن بن ابو زید دونوں نے ابو سعیدالخدری (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی۔ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ نماز کے سامنے ہر گزرنے والا شیطان ہے اور اس میں انسان اور آگے گزرنے والے سیاہ کتے کو حکم میں برقرار دیا گیا ہے اور اسی طرح کی روایت حضرت ابن عمر (رض) نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ شے جو نمازی کے سامنے سے گزرے وہ شیطان ہے خواہ وہ انسان ہو یا کتا ہو یا گدھا وغیرہ۔
اس کی نظیر ابن عمر (رض) سے مروی ہے۔

2586

۲۵۸۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ‘ عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ‘ عَنْ صَدَقَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ یُصَلِّیْ‘ فَلاَ یَدَعَنَّ أَحَدًا یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ فَإِنْ أَبَی فَلْیُقَاتِلْہُ‘ فَإِنَّمَا ہُوَ شَیْطَانٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَمَعْنٰی ھٰذَا مَعْنَیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدٍ سَوَائٌ ‘ وَأَنَّ ابْنَ آدَمَ فِیْ مُرُوْرِہِ بَیْنَ یَدَیْ أَخِیْہِ الْمُصَلِّی‘ مُرُوْرٌ لِقَرِیْنِہِ أَیْضًا‘ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ وَہُوَ شَیْطَانٌ" .ثُمَّ قَدْ أُجْمِعَ عَلٰی أَنَّ مُرُوْرَ بَنِیْ آدَمَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ‘ فِیْ صَلَاتِہِمْ‘ لَا یَقْطَعُہَا‘ قَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ .
٢٥٨٦: صدقہ نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ کسی کو اپنے سامنے سے مت گزرنے دے اگر گزرنے والا انکار کرے تو اس سے لڑے اس لیے کہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب اور ابو سعید (رض) والی روایت کا ایک ہی مطلب ہے اور انسان کا نمازی بھائی کے سامنے سے گزرنا وہ قرین شیطان کا گزرنا ہے۔ پھر اس پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ انسانوں کے ایک دوسرے کے سامنے سے گزر جانے سے نماز منقطع نہیں ہوتی اور یہ بات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد روایات میں آئی ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٠٠‘ بدء الخلق نمبر ١١‘ الحدود باب ٣٩‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٥٨‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٠٧‘ نسائی فی القبلہ باب ٨‘ والقسامۃ باب ٤٧‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٢٥‘ مالک فی السفر نمبر ٣٣‘ مسند احمد ٣؍٣٤۔
حاصل کلام : اس روایت اور حدیث ابو سعید کا معنی یکساں ہے کہ انسان گزرے تو اس کے ساتھ بھی شیطان ہے جو نمازی کے سامنے سے اسے گزارتا ہے اور اس پر تو سب کا اتفاق ہے اگر انسان ایک دوسرے کے سامنے سے گزریں تو اس سے نماز تو نہیں ٹوٹتی اور یہ بات بہت سی روایات سے ثابت ہے۔
انسان کے گزرنے سے نماز نہ ٹوٹنے کی روایات ملاحظہ ہوں۔

2587

۲۵۸۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ کَثِیْرٍ‘ عَنْ بَعْضِ أَہْلِہٖ، أَنَّہٗ سَمِعَ (الْمُطَّلِبَ یَقُوْلُ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ‘ مِمَّا یَلِیْ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ‘ وَالنَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ وَلَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ شَیْئٌ)
٢٥٨٧: کثیر بن کثیر نے اپنے بعض گھر والے لوگوں سے سنا کہ اس آدمی نے مطلب کو کہتے سنا کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باب بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا اور لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے اور آپ کے قبلہ کے درمیان کوئی چیز نہ تھی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٣٦‘ نمبر ٩٤٠۔

2588

۲۵۸۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ یُحَدِّثُ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ کَثِیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِیْ وَدَاعَۃَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (لَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الطَّوَافِ سُتْرَۃٌ) .قَالَ سُفْیَانُ : فَحَدَّثَنَا کَثِیْرُ بْنُ کَثِیْرٍ بَعْدَمَا سَمِعْتُہٗ مِنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ بَعْضُ أَہْلِیْ، وَلَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ أَبِیْ.
٢٥٨٨: کثیر بن کثیر نے اپنے والد سے ‘ اپنے دادا مطلب بن ابی وداعہ سے نقل کیا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اتنی بات زائد ہے آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی سترہ نہ تھا۔ سفیان کہتے ہیں کہ ہمیں کثیر بن کثیر نے اس وقت بیان کیا جبکہ میں نے ابن جریج سے یہ روایت سنی کثیر کہنے لگے ہمارے گھر والوں میں سے کسی نے بتلایا ہے میں نے یہ روایت اپنے والد سے براہ راست نہیں سنی۔

2589

۲۵۸۹: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا ہِشَامٌ‘ أَرَاہُ عَنِ ابْنِ عَمِّ الْمُطَّلِبِ ابْنِ أَبِیْ وَدَاعَۃَ‘ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ کَثِیْرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِیْ وَدَاعَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٢٥٨٩: کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ اپنے والد اپنے دادا سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے۔

2590

۲۵۹۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مِہْرَانَ‘ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَیْحٍ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ أَنَّہٗ قَالَ : (تَذَاکَرُوْا عِنْدَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَقَالُوْا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ اِلْکَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَۃُ .فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : لَقَدْ عَدَلْتُمُوْنَا بِالْکِلَابِ وَالْحَمِیْرِ‘ وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ إِلٰی وَسَطِ السَّرِیْرِ وَأَنَا عَلَیْہِ مُضْطَجِعَۃٌ‘ وَالسَّرِیْرُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ‘ فَتَبْدُو لِیْ الْحَاجَۃُ فَأَکْرَہَ أَنْ أَجْلِسَ بَیْنَ یَدَیْہِ فَأُوْذِیْہُ‘ فَأَنْسَلُّ مِنْ قِبَلِ رِجُلَیْہِ انْسِلَالًا).
٢٥٩٠: مسروق کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ (رض) کے پاس اس بات پر مناظرہ کیا کہ کون سی چیز نماز کو توڑ دیتی ہے تو سب نے کہا کتا گدھا اور عورت نماز کو توڑ دیتے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تم نے ہمیں گدھے اور کتے کے برابر بنادیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چارپائی کے درمیان میں نماز ادا فرماتے اور میں آپ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی میری چارپائی آپ کے اور قبلہ کے درمیان ہوتی تھی اگر اس دوران مجھے کوئی ضرورت پیش آتی تو میں بیٹھنا ناپسند کرتی کہ آپ کو ناگوار گزرے تو میں آپ کے پاؤں کی جانب سے کھسک کر چلی جاتی۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٠٥‘ مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٧٠‘ مسند احمد ٦؍٣٢۔

2591

۲۵۹۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ وَأَنَا بَینَہٗ، وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ‘ فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُوْمَ‘ کَرِہْتُ أَنْ أَقُوْمَ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ فَأَنْسَلُّ انْسِلَالًا) .
٢٥٩١: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ‘ وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی ہوتی تھی جب میں کھڑے ہونے کا ارادہ کرتی تو آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے میں (پاؤں کی جانب سے) کھسک جاتی۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔

2592

۲۵۹۲: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ أَبِی النَّضْرِ .ح .
٢٥٩٢: عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ ہمیں مالک نے ابوالنضر سے روایت کی۔

2593

۲۵۹۳: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ وَأَشْہَبُ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنْ أَبِی النَّضْرِ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ أَمُدُّ رِجْلِیْ فِیْ قِبْلَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِیْ فَرَفَعْتُہُمَا‘ فَإِذَا قَامَ مَدَدْتُہُمَا) .
٢٥٩٣: ابو سلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں اپنی ٹانگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبلہ کی جانب سے پھیلائے رکھتی جبکہ آپ نماز میں مصروف ہوتے جب آپ نے سجدہ کرنا ہوتا تو میرے جسم کو ہاتھ سے دباتے میں ٹانگیں ہٹا لیتی پھر جب آپ قیام کرتے تو میں پھر ٹانگیں بچھا لیتی۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٠٤‘ مسلم فی الصلاۃ باب ٢٧٢‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١١‘ نمبر ٧١٢‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١١٩‘ موطا مالک فی صلوۃ اللیل نمبر ٢‘ مسند احمد ٦؍٤٤‘ ١٤٨‘ ٢٢٥‘ ٢٥٥۔

2594

۲۵۹۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : (أَخْبَرَتْنِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ‘ وَہِیَ مُعْتَرِضَۃٌ أَمَامَہُ فِی الْقِبْلَۃِ‘ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُوْتِرَ‘ غَمَزَہَا بِرِجْلِہِ فَقَالَ تَنَحِّیْ).
٢٥٩٤: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھا کرتے تھے اور میں آپ کے قبلہ والی جانب لیٹی ہوتی تھی جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو اپنے پاؤں سے آپ مجھے دبا کر پیچھے ہٹنے کا اشارہ فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١١‘ نمبر ٧١٤۔

2595

۲۵۹۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ الْبَصَرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَیُّوْبَ‘ عَنْ عَمِّہِ إِیَاسَ بْنِ عَامِرِ ڑ الْغَافِقِیِّ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَبِّحُ مِنَ اللَّیْلِ‘ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مُعْتَرِضَۃٌ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ) .
٢٥٩٥: ایاس بن عامر غافقی نے علی بن ابی طالب (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز پڑھتے اور حضرت عائشہ (رض) آپ کے اور قبلہ کے درمیان حائل ہوتی تھیں۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٢٢‘ مسند احمد ١؍٩٩۔

2596

۲۵۹۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ‘ وَأَنَا مُعْتَرِضَۃٌ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ‘ عَلَی الْفِرَاشِ الَّذِیْ یَرْقُدُ عَلَیْہِ ہُوَ وَأَہْلُہٗ‘ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُّوْتِرَ أَیْقَظَنِیْ فَأُوْتِرُ) .
٢٥٩٦: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان بستر پر لیٹی رہتی جس پر آپ آرام فرمایا کرتے تھے جب وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے (میں پاؤں سمیٹ لیتی) تو آپ وتر ادا فرماتے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ٢٦٧‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٤٠‘ مسند احمد ٦؍٦٦٤۔

2597

۲۵۹۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَطَائٌ ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ (عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ‘ وَہِیَ مُعْتَرِضَۃٌ بَیْنَ یَدَیْہِ).
٢٥٩٧ : عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز پڑھ رہے تھے اور میں آپ کے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔
تخریج : مسلم فی المسافرین ١٣٥‘ ابوداؤد فی الصلاۃ باب ١١‘ مسند احمد ٩ / ٦٤

2598

۲۵۹۸: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ (أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ یُفْرَشُ لِیْ حِیَالَ مُصَلّٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یُصَلِّیْ وَإِنِّیْ حِیَالُہٗ) .
٢٥٩٨: زینب بنت ابی سلمہ نے حضرت امّ سلمہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ اپنے مصلیٰ کے سامنے میرے لیے بستر بچھاتے اور آپ نماز پڑھتے رہتے اور میں لیٹی رہتی تھی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٤٠‘ ٩٥٧‘ مسند احمد۔

2599

۲۵۹۹: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا الشَّیْبَانِیُّ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَدَّادٍ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ خَالَتِیْ (مَیْمُوْنَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ‘ قَالَتْ : کَانَ فِرَاشِیْ حِیَالَ مُصَلّٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرُبَّمَا وَقَعَ ثَوْبُہٗ عَلَیَّ وَہُوَ یُصَلِّیْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ بِمَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ بَنِیْ آدَمَ لَا یَقْطَعُوْنَ الصَّلَاۃَ .وَقَدْ جُعِلَ کُلُّ مَارٍّ بَیْنَ یَدَیَ الْمُصَلِّیْ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِیْ سَعِیْدٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْطَانًا .وَأَخْبَرَ أَبُوْ ذَرٍّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْکَلْبَ الْأَسْوَدَ إِنَّمَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ لِأَنَّہٗ شَیْطَانٌ .فَکَانَتَ الْعِلَّۃُ الَّتِیْ لَہَا جَعَلَہٗ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ قَدْ جُعِلَتْ فِیْ بَنِیْ آدَمَ أَیْضًا .وَقَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ لَا یَقْطَعُوْنَ الصَّلَاۃَ‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ کُلَّ مَارٍّ بَیْنَ یَدَیَ الْمُصَلِّی‘ مِمَّا ہُوَ سِوٰی بَنِیْ آدَمَ کَذٰلِکَ أَیْضًا‘ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی صِحَّۃِ مَا ذَکَرْنَا أَیْضًا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ مَعَ رِوَایَتِہٖ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - قَدْ رَوٰی عَنْہُ مِنْ قَوْلِہِ مِنْ بَعْدِہٖ مَا ۔
٢٥٩٩: عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میری خالہ میمونہ بنت الحارث نے مجھے بیان کیا کہ میرا بستر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مصلیٰ کے سامنے ہوتا بسا اوقات آپ کا کپڑا مجھ پر آپڑتا جبکہ آپ نماز ادا فرما رہے ہوتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ کثیر روایات جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ انسان کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ بلکہ ابن عمر اور ابو سعید (رض) نے اپنی مرویات میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ ہر گزرنے والا شیطان ہے اور حضرت ابو ذر (رض) کی روایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بتلا رہی ہے کہ سیاہ کتا نماز کو توڑ دیتا ہے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ پس قطع کی علت جس نے نماز کو توڑ دیا ‘ شیطان بتلائی گئی جو حیوان و انسان جو نمازی کے آگے سے گزریں دونوں میں بتلائی اور دوسری روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت ہوچکی کہ انسان کا گزرنا قاطع صلوۃ نہیں ہے اور اس مذکورہ بالا بیان کی درستی کی دلیل یہ ہے کہ ابن عمر (رض) سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی وفات کے بعد ابن عمر (رض) کا یہ قول منقول ہے کہ مسلمان کی نماز کی کسی چیز کا گزرنا بھی قاطع نماز نہیں ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٠٧‘ مسلم فی الصلاۃ ٢٧٣‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٤٠‘ نمبر ٩٥٨۔
حاصل روایات : ان کثیر روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کے آگے سے گزرنے یا لیٹنے سے نماز منقطع نہیں ہوتی اور ابن عمر ‘ ابو سعید ] کی روایات میں تو نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو شیطان کہا گیا ہے اور ابو ذر (رض) کی روایت میں سیاہ کتے کو نماز توڑنے والا قرار دیا کیونکہ وہ شیطان ہے اس لیے نماز کو توڑ دیتا ہے اب نماز کو قطع کرنے والی علت تو ہر گزرنے والے میں موجود ہے خواہ وہ انسان ہو یا حیوان اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ انسانوں کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو انسان کے علاوہ بھی کسی چیز کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
روایت ابن عمر (رض) کا جواب :
حضرت ابن عمر (رض) کی وہ روایت جو فصل اول میں گزر چکی اس کے خلاف ان کا فتویٰ مذکور ہے ملاحظہ ہو۔

2600

۲۶۰۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ قَالَ : قِیْلَ لِابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ عَیَّاشِ بْنِ رَبِیْعَۃَ یَقُوْلُ (یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْکَلْبُ وَالْحِمَارُ) .فَقَالَ‘ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (لَا یَقْطَعُ صَلَاۃَ الْمُسْلِمِ شَیْئٌ) ۔
٢٦٠٠: سالم کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہا کہ عبداللہ بن عیاش بن ربیعہ کہتا ہے کہ کتا اور گدھا نمازی کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے تو ابن عمر (رض) کہنے لگے مسلمان کی نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔ یعنی کسی چیز کا گزرنا۔

2601

۲۶۰۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ وَسَالِمٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْئٌ ‘ وَادْرَئُ وْا مَا اسْتَطَعْتُمْ) .
٢٦٦٠١: سالم نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ نماز کو کوئی چیز آگے سے گزر نے سے نہیں توڑتی البتہ جہاں تک ممکن ہو اسے ہٹاؤ۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١٤‘ نمبر ٧٢٠۔

2602

۲۶۰۲: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ قَالَ ھٰذَا بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَقَدْ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَدْ دَلَّ ھٰذَا عَلٰی ثُبُوْتِ نَسْخِ مَا کَانَ سَمِعَہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ حَتّٰی صَارَ مَا قَالَ بِہٖ مِنْ ھٰذَا‘ أَوْلٰی عِنْدَہٗ .مِنْ ذٰلِکَ .وَأَمَّا الْقِتَالُ الْمَذْکُوْرُ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَأَبِیْ سَعِیْدٍ مِنَ الْمُصَلِّی‘ لِمَنْ أَرَادَ الْمُرُوْرَ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ فَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ أُبِیْحَ فِیْ وَقْتٍ کَانَتَ الْأَفْعَالُ فِیْہِ مُبَاحَۃً فِی الصَّلَاۃِ‘ ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ بِنَسْخِ الْأَفْعَالِ فِی الصَّلَاۃِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِی الْکَلْبِ غَیْرِ الْأَسْوَدِ‘ أَنَّ مُرُوْرَہُ بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّیْ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ .فَأَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ الْأَسْوَدِ‘ ہَلْ ہُوَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا؟ فَرَأَیْنَا الْکِلَابَ کُلَّہَا‘ حَرَامٌ أَکْلُ لُحُوْمِہَا‘ مَا کَانَ مِنْہَا أَسْوَدُ‘ وَمَا کَانَ مِنْہَا غَیْرَ أَسْوَدَ‘ فَلَمْ یَکُنْ حُرْمَۃُ لُحُوْمِہَا لِأَلْوَانِہَا‘ وَلٰـکِنْ لِعِلَلِہَا فِیْ أَنْفُسِہَا .وَکَذٰلِکَ کُلُّ مَا نُہِیَ أَکْلُہٗ مِنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ‘ وَکُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ‘ وَمِنَ الْحُمُرِ الْأَہْلِیَّۃِ‘ لَا یَفْتَرِقُ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمُ شَیْئٍ مِنْہَا‘ لِاخْتِلَافِ أَلْوَانِہَا‘ وَکَذٰلِکَ أَسْآرُہَا کُلُّہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ الْکِلَابِ کُلِّہَا فِیْ مُرُوْرِہَا‘ بَیْنَ یَدَیَ الْمُصَلِّیْ سَوَائً ‘ فَکَمَا کَانَ غَیْرُ الْأَسْوَدِ مِنْہَا لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَکَذٰلِکَ الْأَسْوَدُ .وَلَمَّا ثَبَتَ فِی الْکِلَابِ بِالنَّظَرِ مَا ذَکَرْنَا‘ کَانَ الْحِمَارُ أَوْلٰی أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ أَکْلِ لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْأَہْلِیَّۃِ‘ فَأَجَازَہُ قَوْمٌ‘ وَکَرِہَہُ آخَرُوْنَ .فَإِذْ کَانَ مَا لَا یُؤْکَلُ لَحْمُہُ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ‘ لَا یَقْطَعُ مُرُوْرُہُ الصَّلَاۃَ‘ کَانَ مَا اُخْتُلِفَ فِیْ أَکْلِ لَحْمِہٖ، أَحْرٰی أَنْ لَا یَقْطَعَ مُرُوْرُہُ الصَّلَاۃَ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ عَنْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ ذَکَرْنَا‘ بَعْدَمَا رُوِیَ عَنْہُمْ‘ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ۔
٢٦٠٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ یہ ابن عمر (رض) ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ کہہ رہے ہیں۔ یقیناً انھوں نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوگی۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جو کچھ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا وہ منسوخ ہوا ‘ تبھی تو یہ بات ان کے ہاں اس سے بہتر قرار پائی۔ اب رہی وہ روایت جس میں لڑنے کا تذکرہ ہے جس کو ابن عمر اور ابوسعید خدری (رض) نے روایت کیا ہے۔ اس میں احتمال ہے کہ یہ بھی اس وقت مباح تھا جب نماز میں کئی افعال مباح تھے پھر ان افعال کے منسوخ ہونے سے یہ بھی منسوخ ہوگیا۔ روایات کے معانی کی تصحیح کے لیے تو باب کا یہی مطلب ہے۔ اب نظر و فکر سے اس کو جانچتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ سیاہ کتے کے علاوہ کتا نمازی کے سامنے سے گزرے تو وہ نماز کو نہیں توڑتا۔ اب سیاہ کتے کا حکم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح ہے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ تمام کتوں کا گوشت حرام ہے خواہ سیاہ ہو یا سفید وغیرہ اور سیاہ کے علاوہ میں گوشت کی حرمت کا سبب ان کی رنگتوں کا فرق نہیں بلکہ حرمت کا سبب وہ علل ہیں جو ان کی ذات میں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ پرندے جو پنجے سے نوچ کر کھانے والے ہیں ان کے گوشت کی حرمت ان کی رنگت کی بناء پر نہیں اور گھریلو گدھے کا حکم ان کے رنگوں کے اختلاف سے مختلف نہیں ہوتا۔ ان کے جھوٹے کا بھی یہی حکم ہے۔ پس اس پر غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کتے نماز کے سامنے گزرنے میں برابر ہیں تو جس طرح غیر سیاہ کتا نماز کے لیے قاطع نہیں اسی طرح سیاہ کتا بھی قاطع نہیں۔ مذکورہ قیاس کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جائے گا کہ گدھا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا حکم بھی یہی ہو۔ کیونکہ گھریلو گدھے کے گوشت میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ‘ بعض نے اس کو جائز قرار دیا اور دوسروں نے اس کو مکروہ تحریمی قرار دیا۔ پس جب وہ جانور جن کا گوشت تمام مسلمان نہ کھانے پر متفق ہیں اس کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو جس کے گوشت میں اختلاف ہے اس کے گزرنے سے بدرجہ اولیٰ نماز نہ ٹوٹنی چاہیے۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور صحابہ کرام (رض) کی ایک عظیم جماعت سے مروی ہے۔ چند روایات اسی باب کے شروع میں گزریں۔ ان کی مرویات مزید ملاحظہ ہوں۔
حاصل روایات : یہ حضرت ابن عمر (رض) جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد فتویٰ دے رہے ہیں اور انھوں نے یقیناً جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہوگا۔
پس اس میں سابقہ روایت کے منسوخ ہونے کی واضح دلالت ہے کہ جو انھوں نے پہلے سنا تھا یہ اس سے اولیٰ تھا تبھی انھوں نے اختیار کیا۔
مسئلہ قتال کا جواب :
رہا یہ کہ روایت حضرت ابن عمر (رض) و ابو سعید (رض) میں گزرنے والے کے ساتھ لڑنے کا حکم ہے تو اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس وقت مباح تھا جب نماز میں کئی اور افعال مباح تھے پھر وہ افعال (کلام وغیرہ) جب منسوخ ہوئے تو یہ بھی منسوخ ہوگیا۔
یہ جو کچھ اب تک کہا گیا یہ آثار کے معانی کے تطبیق کو سامنے رکھ کر کہا گیا۔
نظر طحاوی (رح) :
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ سیاہ کتے کے علاوہ اگر کوئی کتا گزرے تو نماز نہیں ٹوٹتی اب ہم نے سیاہ کتے کے متعلق غور کیا کہ اس کا حکم وہی ہے یا مختلف ہے چنانچہ دیکھا کہ تمام کتوں کا گوشت حرام ہے خواہ کالے ہوں یا سرخ اور ان کے گوشت کی حرمت رنگت کی وجہ سے نہیں بلکہ بذات خود دوسری علتوں کی وجہ سے ہے جو دونوں میں پائی جاتی ہے اسی طرح ہر درندے کا گوشت کھانا حرام کیا گیا اور اسی طرح پنجے سے شکار کرنے والے پرندے کا گوشت بھی رحرام کیا گیا اس میں گھریلو پالتو گدھے وہ بھی حرمت میں شامل ہیں ان میں کوئی ایسا حرام جانور اور پرندہ نہیں کہ جن میں رنگت کے لحاظ سے حرمت کا فرق ہو بالکل اسی طرح ان کے جھوٹے پانی وغیرہ کا حکم بھی یکساں ہے نیلے پیلے کا چنداں فرق نہیں۔
پس تقاضائے نظریہ ہے کہ تمام کتوں کے گزرنے کا حکم نمازی کے سامنے سے یکساں ہونا چاہیے کہ اگر سفید کتا نماز کو نہیں توڑتا تو سیاہ کے گزرنے سے بھی نماز نہ ٹوٹنی چاہیے۔ جب کتے کے متعلق یہ بات ثابت ہوچکی تو گدھا اس حکم کا اس سے زیادہ حقدار ہے کیونکہ اس کے گوشت کے متعلق تو بعض لوگوں سے حلت کا قول کیا ہے اگرچہ جمہور کا مسلک حرمت کا ہی ہے پس جب وہ کتا جس کا گوشت بالاتفاق حرام ہے اس کا گزرنا نماز کو نہیں توڑتا تو جس کے گوشت میں اختلاف ہو وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے گزرنے سے نماز نہ ٹوٹے۔
یہ تقاضائے نظر ہے ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول یہی ہے۔

2603

۲۶۰۳: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ وَسَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ وَہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عَلِیًّا وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَا : لَا یَقْطَعُ صَلَاۃَ الْمُسْلِمِ شَیْئٌ ‘ وَادْرَئُ وْا عَنْہَا مَا اسْتَطَعْتُمْ .
٢٦٠٣: سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت علی ‘ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا مسلمان کی نماز کو کسی کا گزرنا نہیں توڑتا البتہ گزرنے والے کو حتی الامکان روکا جائے۔

2604

۲۶۰۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ عَنْ إِسْرَائِیْلَ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : لَا یَقْطَعُ صَلَاۃَ الْمُسْلِمِ‘ اَلْکَلْبُ‘ وَلَا الْحِمَارُ‘ وَلَا الْمَرْأَۃُ‘ وَلَا مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الدَّوَابِّ‘ وَادْرَئُ وْا مَا اسْتَطَعْتُمْ .
٢٦٠٤: حارث نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ مسلمان کی نماز کو آگے گزرنے سے کتا ‘ گدھا ‘ عورت میں سے کوئی چیز بھی نہیں توڑتی نہ اور کوئی جانور البتہ گزرنے والے کو حتی الامکان روکا جائے۔

2605

۲۶۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ‘ فَمَرَّ بَیْنَ یَدَیْہِ رَجُلٌ .قَالَ : فَمَنَعْتُہٗ فَغَلَبَنِیْ إِلَّا أَنْ یَّمُرَّ بَیْنَ یَدَیْ‘ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَکَانَ خَالَ ابْنِہٖ‘ فَقَالَ : لَا یَضُرُّکَ.
٢٦٠٥: شعبہ سے سعید بن ابراہیم انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کے سامنے سے آدمی گزرا انھوں نے اس کو روکا مگر وہ زور سے گزر گیا میں نے یہ بات عثمان (رض) کو بتلائی (٠ وہ ابراہیم کے ماموں لگتے تھے) تو انھوں نے فرمایا تیری نماز میں فرق نہیں پڑا (ابراہیم کی والدہ ام کلثوم (رض) بنت عقبہ حضرت عثمان کی اخیافی بہن تھیں)

2606

۲۶۰۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ بُکَیْرٍ أَنَّ بِشْرَ بْنَ سَعِیْدٍ‘ وَسُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ‘ حَدَّثَاہُ أَنَّ اِبْرَاہِیْمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ‘ حَدَّثَہُمَا أَنَّہٗ کَانَ فِیْ صَلَاۃٍ‘ فَمَرَّ بِہٖ سَلِیْطُ بْنُ أَبِیْ سَلِیْطٍ‘ فَجَذَبَہٗ اِبْرَاہِیْمُ فَخَرَّ فَشُجَّ .فَذَہَبَ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَرْسَلَ إِلَیَّ فَقَالَ لِیْ (مَا ھٰذَا؟) فَقُلْتُ : مَرَّ بَیْنَ یَدَیْ‘ فَرَدَدْتہ‘ لِئَلَّا یَقْطَعَ صَلَاتِیْ. قَالَ : وَیَقْطَعُ صَلَاتُکَ؟ قُلْتُ : أَنْتَ أَعْلَمُ‘ قَالَ : إِنَّہٗ لَا یَقْطَعُ صَلَاتَک .
٢٦٠٦: ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا کہ میں نماز میں مصروف تھا میرے سامنے سے سلیط بن ابی سلیط گزرا۔ ابراہیم نے اس کو کھینچا پس وہ گرپڑے اور ان کے سر پر زخم آگیا سلیط عثمان (رض) کے پاس گئے انھوں نے میری طرف پیغام بھیجا اور مجھے کہا یہ کیا حرکت ہے ؟ میں نے کہا یہ میرے سامنے سے گزرا میں نے اس کو روکا تاکہ یہ میری نماز نہ توڑ دے آپ نے فرمایا اس کے گزرنے سے تیری نماز ٹوٹ جائے گی ؟ میں نے کہا اس کا تو آپ کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا اس کے گزرنے سے تمہاری نماز نہیں ٹوٹتی تھی۔

2607

۲۶۰۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ قَالَ : ثَنَا الزِّبْرِقَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ کَعْبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُوْلُ : لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْئٌ ۔
٢٦٠٧: کعب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ (رض) کو فرماتے سنا کسی کے آگے سے گزر جانے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
حاصل روایات : امام طحاوی (رح) کا طرز عمل یہ ہے کہ جس مسئلہ کو دلائل سے مبرہن کر کے راجح قول کو ثابت کر چکتے ہیں تو اس پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے آخر میں صحابہ وتابعین کے اعمال کو پیش کرتے ہیں یہاں اسی طرح کیا ہے۔

2608

۲۶۰۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ حَفْصٍ الدَّارِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَسْلَمَۃُ بْنُ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ‘ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ مَوْلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ‘ عَنْ (ذِیْ مِخْبَرِ بْنِ أَخِی النَّجَاشِیِّ‘ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَنِمْنَا فَلَمْ نَسْتَیْقِظْ إِلَّا بِحَرِّ الشَّمْسِ فَتَنَحَّیْنَا مِنْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ .قَالَ : فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ‘ حِیْنَ بَزَغَتِ الشَّمْسُ أَیْ طَلَعَتْ‘ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَمَرَہٗ‘ فَأَقَامَ‘ فَصَلّٰی بِنَا الصَّلَاۃَ .ؑفَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَالَ ھٰذِہٖ صَلَاتُنَا بِالْأَمْسِ) .
٢٦٠٨: بنی ہاشم کے مولیٰ عباس بن عبدالرحمن نے ذی مخبر ابن اخی النجاشی سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھے پس ہم سو گئے اور سورج کی گرمی سے ہم بیدار ہوئے پھر ہم اس جگہ سے دور ہوئے ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی جب دوسرا دن ہوا اور سورج طلوع ہوا تو بلال کو اذان کا حکم فرمایا انھوں نے اذان دی پھر ان کو اقامت کا حکم فرمایا پس ہمیں نماز پڑھائی جب نماز مکمل ہوگئی تو فرمایا یہ ہماری کل والی نماز ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١١‘ نمبر ٤٤٥۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: بعض اہل ظواہر جو نماز رہ جائے اس کو دو مرتبہ پڑھنے کو کہتے ہیں ایک جب یاد آئے دوسرے جب اگلے دن اسی نماز کا وقت آئے۔
نمبر 2: بعض محدثین کا قول ہے بعد والی نماز کے فرائض سے متصل ادا کرے گا۔
نمبر 3: ائمہ اربعہ و جملہ محدثین (رح) کے ہاں جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھنی لازم ہے ائمہ ثلاثہ اوقات ممنوعہ میں بھی درست کہتے ہیں مگر احناف اوقات ممنوعہ کے علاوہ میں لازم قرار دیتے ہیں۔
مؤقف فریق اوّل اور دلائل : متروکہ نماز کو دو مرتبہ پڑھنا لازم ہے ‘ جب یاد آئے اور جب اگلے روز اس کا وقت آئے۔ دلائل یہ ہیں۔

2609

۲۶۰۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ‘ عَنْ أَبِیْ مِجْلَزٍ‘ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرہَا مِنَ الْغَدِ لِلْوَقْتِ) .
٢٦٠٩: ابو مجلز نے حضرت سمرہ بن جندب سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ جو آدمی نماز پڑھنا بھول گیا تو اسے اگلے روز میں جب یاد آئے تو پڑھے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٨۔

2610

۲۶۱۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُرَیْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الْجَوْہَرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ بِشْرِ ابْنِ الْحَارِثِ‘ سَمِعْتُ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا‘ فَقَالُوْا : ھٰکَذَا یَفْعَلُ مَنْ نَامَ عَنْ صَلَاۃٍ أَوْ نَسِیَہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یُصَلِّیْہَا مَعَ الَّتِیْ تَلِیْہَا مِنَ الْمَکْتُوْبَۃِ‘ وَلَیْسَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ۔
٢٦١٠: بشر بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے سمرہ بن جندب (رض) سے سنا کہ فرماتے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص نماز سے سو جائے یا بھول جائے جب یاد آئے پڑھ لے۔ انھوں نے مذکورہ بالا روایات سے استدلال کیا اور ان سے دیگر علماء نے اختلاف کیا اور کہا بلکہ وہ اس کو اپنی قریبی فرض نماز کے فرائض کے ساتھ ادا کرلے اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢٢۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص سو جائے یا بھول کر اس سے نماز رہ جائے تو وہ جب یاد آئے اس وقت ادا کرے اور اگلے روز اسی وقت میں دوبارہ ادا کرے۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل :
متروکہ نماز کو بعد میں آنے والی نماز کے فرائض کے ساتھ ادا کرے صرف ایک مرتبہ ہی ادائیگی لازم ہے۔ دلائل یہ ہیں :

2611

۲۶۱۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ سَعْدِ ڑالسَّمُرِیُّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ ابْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ حَبِیْبِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ سَمُرَۃَ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ سَمُرَۃَ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ (عَنْ سَمُرَۃَ أَنَّہٗ کَتَبَ إِلٰی بَنِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُہُمْ اِذَا شُغِلَ أَحَدُہُمْ عَنِ الصَّلَاۃِ‘ أَوْ نَسِیَہَا حَتّٰی یَذْہَبَ حِیْنُہَا الَّذِیْ تُصَلّٰی فِیْہِ أَنَّ یُصَلِّیَہَا مَعَ الَّتِیْ تَلِیْہَا مِنَ الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ) .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یُصَلِّیْہَا اِذَا ذَکَرَہَا‘ وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ دُخُوْلِ وَقْتِ الَّتِیْ تَلِیْہَا‘ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ أَبِیْ قَتَادَۃَ وَعِمْرَانَ‘ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ نَامَ عَنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ حَتَّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ‘ فَصَلَّاہُمَا بَعْدَمَا اسْتَوَتْ‘ وَلَمْ یَنْتَظِرْ دُخُوْلَ وَقْتِ الظُّہْرِ) ، وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہٖ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ .
٢٦١١: حبیب بن سلیمان نے سلیمان سے انھوں نے حضرت سمرہ (رض) سے نقل کیا کہ حضرت سمرہ (رض) نے اپنے بیٹوں کو لکھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس وقت حکم فرماتے جبکہ ہم میں سے کوئی نماز سے مشغول ہوجاتا (اور وہ نماز اس سے رہ جاتی) یا بھول جاتا اور نماز کا وقت گزر جاتا تو آپ فرماتے اس کو اس نماز کے ساتھ پڑھا جائے جو فرض نماز اس کے قریب ہے ‘ یہ دیگر حضرات نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔ بلکہ اسے اسی وقت ادا کرلے جب اسے یاد آئے خواہ اگلی نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی ہو۔ اس پر اس قضاء کے علاوہ کوئی چیز لازم نہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں ابو قتادہ اور عمران اور ابوہریرہ (رض) کی روایات سے استدلال کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز صبح سے سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا تو آپ نے اس کو سورج کی دھوپ کے برابر ہونے پر ادا فرما لیا ‘ اس میں ظہر کے وقت کے داخل ہونے کا انتظار نہیں کیا۔ ہم اس روایت کو اس کے مکمل اسناد کے ساتھ دوسری جگہ ذکر کرچکے ہیں۔ دیگر روایات درج ذیل ہیں۔
تخریج : المعجم الکبیر ٧؍٢٥٤۔
حاصل روایات : بھول جانے والی نماز آئندہ فرض نماز کے ساتھ ادا کی جائے اور یہ ایک ادائیگی اس پر لازم ہے اور کچھ نہیں۔
مؤقف فریق ثالث : بھولی ہوئی نماز کو جب یاد آئے اسی وقت اوقات مکروہ کو چھوڑ کر ادا کرے قریب والی نماز کا انتظار ضروری نہیں۔
دلائل روایات ابو قتادہ ‘ عمران ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایات ہیں۔

2612

۲۶۱۲: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ‘ عَنْ خَالِدٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (نَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ عَنْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ حَتّٰی طَلَعَتِ الشَّمْسُ‘ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلَالًا‘ فَأَذَّنَ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ‘ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ‘ فَصَلّٰی بِہِمَ الْمَکْتُوْبَۃَ) .
٢٦١٢: یزید بن مریم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نمازِ فجر سے قبل سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو حکم دیا انھوں نے اذان دی پھر دو رکعت سنت ادا فرمائی پھر ان کو اقامت کہنے کا حکم فرمایا انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے صحابہ کرام (رض) کو فرض نماز پڑھائی۔
تخریج : ١؍١٠٢‘ نسائی فی المواقیت۔

2613

۲۶۱۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : أَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ (ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ .فَلَمَّا کُنَّا بِدَہَاسٍ مِنَ الْأَرْضِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یَکْلَؤُنَا اللَّیْلَۃَ قَالَ بِلَالٌ : أَنَا‘ قَالَ اِذًا تَنَامُ فَنَامَ حَتّٰی طَلَعَتِ الشَّمْسُ‘ فَاسْتَیْقَظَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ‘ فَقَالُوْا تَکَلَّمُوْا حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ‘ فَاسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِفْعَلُوْا مَا کُنْتُمْ تَفْعَلُوْنَ‘ وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُ مَنْ نَامَ أَوْ نَسِیَ) .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ۔
٢٦١٣: عبدالرحمن بن علقمہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک میں تھے۔ جب ہم ایک ریتلی زمین پر پہنچے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آج رات کون ہماری نگرانی کرے گا بلال نے کہا میں۔ فرمایا پھر تو تو سو جائے گا وہ طلوع آفتاب تک سوتے رہے پس فلاں ‘ فلاں بیدار ہوئے انھوں نے آپس میں کہا بات کرو تاکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوجائیں چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوگئے تو آپ نے فرمایا تم وہی کرو جو تم کیا کرتے تھے اور ہر نماز سے سونے والا یا بھولنے والا اسی طرح کرتا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس سلسلہ میں روایات وارد ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٤٠‘ نمبر ٤٤٧‘ مسند احمد ١‘ ٣٨٦؍٤٦٤۔

2614

۲۶۱۴: مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا) .قَالَ ہَمَّامٌ : ثُمَّ سَمِعْتُ قَتَادَۃَ یُحَدِّثُ بِہٖ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَقَالَ : (أَقِمُ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِی).
٢٦١٤: قتادہ نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کوئی نماز بھول گیا اسے اس وقت پڑھ لینی چاہیے جب اسے یاد آئے۔ ہمام راوی کہتے ہیں میں نے قتادہ کو بیان کرتے سنا تو انھوں نے اقم الصلاۃ لذکری کے الفاظ بھی کہے۔
تخریج : بخاری فی المواقیت باب ٣٧‘ مسلم فی المساجد ٣٠٩؍٣١٤‘ ٣١٥؍٣١٦‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ١٧‘ نمبر ١٧٨‘ نسائی فی المواقیت باب ٥٢‘ ٥٣٠‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ١٠‘ ١١‘ ٢٦‘ والاقامہ باب ١٢٢‘ موطا مالک ٢٥‘ مسند احمد ٣؍٣١۔

2615

۲۶۱۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا) .
٢٦١٥: ابو عوانہ نے قتادہ سے انھوں نے حضرت انس (رض) اور انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے جو شخص کوئی نماز بھول جائے وہ یاد آنے پر پڑھ لے۔
تخریج : نسائی ١, ١٠٠ نحوہ۔

2616

۲۶۱۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنْ لَا شَیْئَ عَلَیْہِ غَیْرُ قَضَائِہٖ‘ لِأَنَّہٗ ذَکَرَ مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً‘ ثُمَّ أَخْبَرَ بِمَا عَلَیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ مَا قَدْ زَادَ عَلٰی ھٰذَا اللَّفْظِ .
٢٦١٦: عبداللہ بن رباح نے حضرت ابو قتادہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس پر قضاء کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ آپ نے بھولی ہوئی نماز کا تذکرہ فرمایا ۔ آپ نے جو اس پر لازم ہوتا تھا وہ بتلایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے علاوہ بھی روایات ہیں جن میں اس سے اضافہ ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز بھولنے والے پر سوائے قضا نماز کے کوئی چیز لازم نہیں ہے۔
یہ روایت اس کے علاوہ الفاظ سے بھی روایت کی گئی ہے اور اس میں بعض لفظ زائد ہیں۔

2617

۲۶۱۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا‘ لَا کَفَّارَۃَ لَہَا إِلَّا ذٰلِکَ) .قَالَ : ثُمَّ سَمِعْتُہٗ یُحَدِّثُ وَیُزِیْدُ فِیْہِ (أَقِمُ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْ) .
٢٦١٧: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کوئی نماز بھول جائے اسے اس نماز کو اس وقت پڑھ لینا چاہیے جب اسے یاد آئے اس پر نماز بھولنے کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔
راوی کہتے ہیں پھر میں نے ان کو خود بیان کرتے سنا تو وہ اس میں یہ اضافہ نقل کر رہے تھے۔ اقم الصلاۃ لذکری۔
(طٰہٰ : ١٤)
تخریج : بخاری و مسلم ‘ ابو داؤد۔

2618

۲۶۱۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ‘ قَالَ : أَنَا سَعِیْدٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً أَوْ نَامَ عَنْہَا‘ فَإِنَّ کَفَّارَتَہَا أَنْ یُّصَلِّیَہَا اِذَا ذَکَرَہَا) .فَلَمَّا قَالَ (لَا کَفَّارَۃَ لَہَا إِلَّا ذٰلِکَ) اسْتَحَالَ أَنْ یَّکُوْنَ عَلَیْہِ مَعَ ذٰلِکَ‘ غَیْرُہٗ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ عَلَیْہِ مَعَ ذٰلِکَ غَیْرُہٗ اِذًا لَمَا کَانَ ذٰلِکَ کَفَّارَۃً لَہَا .وَقَدْ رَوٰی الْحَسَنُ عَنْ (عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ فِیْ حَدِیْثِ النَّوْمِ عَنِ الصَّلَاۃِ حَتّٰی طَلَعَتِ الشَّمْسُ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّاہَا بِہِمْ .قَالَ : فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَلَا نَقْضِیْہَا لِوَقْتِہَا مِنَ الْغَدِ؟ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الرِّبَا وَیَقْبَلُہٗ مِنْکُمْ؟) وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ .فَلَمَّا سَأَلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ‘ فَأَجَابَہُمْ بِمَا ذَکَرْنَا‘ اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنُوْا عَرَفُوْا أَنْ یَقْضُوہَا مِنَ الْغَدِ إِلَّا بِمُعَایَنَتِہِمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ ذٰلِکَ فِیْمَا تَقَدَّمَ‘ أَوْ أَمَرَہُمْ بِہٖ أَمْرًا دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی نَسْخِ مَا رَوٰی ذُو مِخْبَرٍ وَسُمْرَۃُ‘ وَأَنَّ ھٰذَا کَانَ مُتَأَخِّرًا عَنْہُ‘ فَہُوَ أَوْلٰی مِنْہُ‘ لِأَنَّہٗ نَاسِخٌ لَہٗ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ‘ أَوْجَبَ الصَّلَاۃَ لِمَوَاقِیْتِہَا‘ وَأَوْجَبَ الصِّیَامَ لِمِیْقَاتِہِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ جَعَلَ عَلٰی مَنْ لَمْ یَصُمْ شَہْرَ رَمَضَانَ‘ عِدَّۃً مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ‘ فَجَعَلَ قَضَائَ ہُ فِیْ خِلَافِہِ مِنَ الشُّہُوْرِ‘ وَلَمْ یَجْعَلْ مَعَ قَضَائِہِ بِعَدَدِ أَیَّامِہِ قَضَائً مِثْلَہَا فِیْمَا بَعْدَ ذٰلِکَ .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الصَّلَاۃُ اِذَا نُسِیَتْ‘ أَوْ فَاتَتْ‘ أَنْ یَّکُوْنَ قَضَاؤُہَا یَجِبُ فِیْمَا بَعْدَہَا‘ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ دَخَلَ وَقْتُ مِثْلِہَا .وَلَا یَجِبُ مَعَ قَضَائِہَا مَرَّۃً قَضَاؤُہَا ثَانِیَۃً قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنَ الصِّیَامِ الَّذِیْ وَصَفْنَا .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٢٦١٨: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کوئی نماز بھول جائے یا اس سے سو جائے اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب یاد آئے وہ ادا کرے۔ جب آپ نے یہ فرمایا کہ ” لا کفارۃ لھا الا ذلک “ کہ اس کا یہی کفارہ ہے۔ تو اب یہ بات ناممکن ہے کہ اس کے ذمہ اس کے علاوہ اور چیز ہو۔ اگر اور کچھ لازم ہوتا تو اسی ہی کو کفارہ قرار نہ دیا جاتا اور حسن بصری (رح) نے حضرت عمران (رض) اس روایت میں تذکرہ کیا جس میں طلوع آفتاب تک نیند کا تذکرہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نماز پڑھائی۔ عمران کہتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم اس کو کل اس کے وقت میں قضاء نہ کریں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ تمہیں ربوا سے منع فرمائیں اور پھر تم سے قبول کریں۔ ہم نے اس روایت کو اس کی اسناد کے ساتھ اس کے علاوہ مقام میں ذکر کیا ہے۔ پس جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) نے سوال بھی کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مذکورہ جواب عنایت فرمایا تو یہ بات ناممکن ہے کہ انھوں نے قضاء کرنے کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی سابقہ عمل یا حکم کے بغیر معلوم کیا ہو۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ ذومخیمرہ اور سمرہ (رض) کی روایت کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے اور یہ حکم متاخر ہے اور اس کا ناسخ ہونے کی وجہ سے اس سے اولیٰ ہے۔ آثار کے پیش نظر تو یہ اس باب کا حکم ہے۔ رہا نظر و فکر کے اعتبار سے تو وہ ہم اس طرح پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں اپنے اپنے اوقات پر فرض فرمائی ہیں اور رمضان المبارک کے روزے کو ان کے وقت ماہ رمضان میں لازم فرمایا ہے۔ پھر جو رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اس کے لیے دوسرے دنوں سے گنتی کو مقرر فرمایا تو ان کی قضاء کو رمضان کے علاوہ مہینوں میں قرار دیا اور ان کی قضاء کے بعد اتنی تعداد اور اس کی مثل بطور قضاء رکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ پس غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کا حکم بھی یہی ہو کہ جب وہ بھول جائے کہ اس کی قضاء ہی اس کے ذمہ لازم ہو خواہ اسی جیسی نماز کا وقت نہ داخل ہوا ہو اور اس کی ایک مرتبہ قضاء کے بعد دوسری مرتبہ لازم نہ ہو۔ ہماری مذکورہ بالا بحث سے قیاس و نظر کا یہی تقاضا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے روزے کے متعلق بیان کیا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور متقدمین کی ایک جماعت سے بھی یہ بات مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤١۔
حاصل روایات : جب اس روایت میں صاف فرما دیا کہ اس پر کفارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اب یہ بات ناممکن ہے کہ اس کے ذمہ اس نماز پر اور کوئی چیز لازم ہو کیونکہ اگر ہوتی تو پھر یہ نہ فرمایا جاتا کہ نماز پڑھنے کے علاوہ اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔
اور حسن نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے حدیث : النوم عن الصلاۃ میں نقل فرمایا کہ سورج طلوع ہوگیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں وہ نماز پڑھائی عمران کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم اس کو اس کے وقت میں کل ادا نہ کریں تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ تمہیں تو سود سے منع فرمائے اور تم سے اس کو پھر قبول کرلے ؟ یہ روایت اپنی اسناد کے ساتھ پہلے مذکور ہوچکی ہے جب صحابہ کرام نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں سوال کیا اور آپ نے مذکورہ جواب عنایت فرمایا تو یہ ناممکن ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ وہ اس کو کل قضا کریں گے جبکہ وہ دیکھ چکے کہ آپ نے اس کو ابھی ادا فرمایا ہے یا ان کو ایسا حکم فرمایا ہے جو روایت ذومخمر اور سمرہ (رض) کے حکم کو منسوخ ثابت کررہا ہے اور یہ حکم اس کے بعد کا ہے اور ناسخ ہونے کی وجہ سے اولیٰ ہے۔
آثار کو سامنے رکھ کر یہ بات ہم نے عرض کردی کہ فریق اوّل و ثانی کی روایات منسوخ ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
ذرا غور سے نگاہ ڈالیں تو احکام الٰہی کے متعلق یہ بات نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کو اوقات پر لازم کیا ہے اور روزے شہر رمضان میں اپنے وقت پر فرض کئے ہیں پھر روزہ نہ رکھ سکنے والے پر رمضان کے دنوں کے برابر گنتی کو لازم کیا گیا ہے اور اس کی قضا علاوہ رمضان کسی بھی ماہ میں ادائیگی کی اجازت دی ہے ان کی قضا میں گنتی کو پورا کرنے کے علاوہ اور دنوں کی قضا کو ساتھ لاگو نہیں فرمایا۔
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کو بھول جانے کی صورت میں ادائیگی کرتے ہوئے بھی یہی حکم ہو کہ فقط اتنی قضاء لازم ہو نہ تو اگلے دن اس کے وقت کے داخلے کا انتظار لازم ہو اور نہ ہی اس کی قضا دو مرتبہ لازم ہو نظر و قیاس اسی بات کو چاہتے ہیں جیسا کہ روزے کے بارے میں ذکر کیا گیا یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

2619

۲۶۱۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً فَذَکَرَہَا مَعَ الْاِمَامِ فَلْیُصَلِّہٖ مَعَہٗ ثُمَّ لِیُصَلِّ الَّتِیْ نَسِیَ‘ ثُمَّ لِیُصَلِّ الْأُخْرٰی بَعْدَ ذٰلِکَ) .
٢٦١٩: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جو نماز کو بھول جائے اسے امام کے ساتھ یاد آئے تو اس کے ساتھ وقتی نماز ادا کرے پھر بھولی ہوئی نماز پڑھے پھر دوسری اس کے بعد پڑھے۔
تخریج : دارقطنی فی سننہ ١؍٢٤١‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٢٢١۔

2620

۲۶۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِبْرَاہِیْمَ التَّرْجُمَانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُمَحِیُّ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٦٢٠: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2621

۲۶۲۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .وَقَوْلُہٗ (فَلْیُصَلِّہٖ مَعَہٗ) فَذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ - عِنْدَنَا - أَنْ یَّفْعَلَ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہَا لَہٗ تَطَوُّعٌ
٢٦٢١: سعید بن عبدالرحمن نے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح نقل کی البتہ روایت کو مرفوع نقل نہیں کیا۔
فلیصلہ : جو اوپر روایت میں گزرا اس میں احتمال ہے کہ اس کو نفلی نماز سمجھ کر پڑھے۔

2622

۲۶۲۲: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا مُغِیْرَۃُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ فِیْ رَجُلٍ نَسِیَ الظُّہْرَ‘ فَذَکَرَہَا‘ وَہُوَ فِی الْعَصْرِ .قَالَ : یَنْصَرِفُ فَیُّصَلِّی الظُّہْرَ‘ ثُمَّ یُّصَلِّی الْعَصْرَ .
٢٦٢٢: مغیرہ نے ابراہیم سے خبر دی کہ ایک آدمی نماز بھول گیا اسے عصر کے وقت یاد آیا تو ابراہیم فرمانے لگے وہ نماز سے لوٹ جائے اور ظہر کی نماز پڑھے پھر عصر ادا کرے۔

2623

۲۶۲۳: حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا مَنْصُوْرٌ وَیُوْنُسُ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : (یُتِمُّ الْعَصْرَ الَّتِیْ دَخَلَ فِیْہَا‘ ثُمَّ یُّصَلِّی الظُّہْرَ بَعْدَ ذٰلِکَ) .
٢٦٢٣: حسن (رح) کہا کرتے تھے کہ یہ آدمی اس عصر کی نماز کو مکمل کرے پھر ظہر اس کے بعد ادا کرے۔
حاصل روایات : یہاں بھی امام طحاوی (رح) نے فریق ثالث کے مسلک کے رجحان پر کثرت سے دلائل ذکر کئے پھر نظر ڈالی اور تائید کے طور پر صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) کے فتاویٰ جات کو ذکر کیا۔ فجراہ اللہ عنا و عن جمیع الامۃ۔

2624

۲۶۲۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ وَوَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَکِیْمٍ‘ قَالَ : قُرِئَ عَلَیْنَا کِتَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِأَرْضِ جُہَیْنَۃَ‘ وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ أَنْ لَا تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِإِہَابٍ وَلَا عَصَبٍ) .
٢٦٢٤: ابن ابی لیلیٰ نے عبداللہ بن حکیم (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط مبارک ہم کو پڑھ کر سنایا گیا ہم اس وقت جہینہ کے علاقہ میں تھے میں اس وقت بھرپور جوان تھا خط کا مضمون یہ تھا مردار سے دباغت کر کے یا اس کے پٹھے سے ہرگز فائدہ مت اٹھاؤ۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ١٥١‘ الذبائح باب ٣‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٣٩‘ نمبر ٤١٢‘ ترمذی فی اللباس باب ٧‘ نمبر ١٧٢٩‘ نسائی فی الفرع والعتیرۃ باب ٤‘ ٥‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٢٦‘ نمبر ٣٦١٣‘ دارمی فی الاضاحی باب ٢٠‘ مسند احمد ٤؍٣١٠۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مردار جانور کا چمڑہ پاک نہیں ہوتا خواہ اس کو رنگ لیا جائے اور اس پر نماز بھی درست نہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا جب مردار کے چمڑے یا اس کے پٹھوں کو دباغت دے دی جائے تو وہ پاک ہوجاتے ہیں ان سے نفع اٹھانے اور ان پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ پہلے قول والوں کیء خلاف ان کی دلیل حضرت ابن ابی لیلیٰ (رض) والی روایت سے ہے۔ جس کو ہم نے ذکر کردیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” مردار کے چمڑے اور پٹھوں سے مت نفع حاصل کرو “ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تک وہ مردار ہے اور اس کو دباغت نہیں دی گئی اس وقت تک اس سے فائدہ حاصل نہ کرو۔ کیونکہ جب مردار کی چربی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کو اسی طرح کا جواب دیا۔ روایات ذیل میں ہیں۔
خلاصہ الزام : امام مالک و احمد جواب کے ہاں مردار کا چمڑہ پٹھے کی طرح دباغت سے پاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہڈی و سینگ بھی ناپاک ہیں۔ نمبر دو احناف و شوافع کے ہاں مردار کی کھال دباغت سے اور پٹھے سب پاک ہوجاتے ہیں البتہ شوافع سینگ وغیرہ کو ناپاک قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : مردار کی کھال دباغت سے ناپاک رہتی ہے اور پٹھے بھی اسی طرح ان سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ دلائل یہ ہیں۔

2625

۲۶۲۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ عُتْبَۃَ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (جَائَ نَا کِتَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٦٢٥: عبدالملک بن ابی عتبہ نے حکم سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : جاء نا کتاب رسول اللہ ﷺ ۔

2626

۲۶۲۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (کَتَبَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٦٢٦ : اسباط بن محمد نے شیبانی سے انھوں نے حکم سے روایت نقل کی پھر اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔ البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں : کتب الینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

2627

۲۶۲۷: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ خَالِدٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُکَیْمٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ (أَشْیَاخُ جُہَیْنَۃَ‘ قَالُوْا : أَتَانَا کِتَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ قُرِئَ إِلَیْنَا کِتَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِشَیْئٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ جُلُوْدَ الْمَیْتَۃِ لَا تَطْہُرُ‘ وَإِنْ دُبِغَتْ‘ وَلَا یَجُوْزُ الصَّلَاۃُ عَلَیْہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : اِذَا دُبِغَ جِلْدُ الْمَیْتَۃِ أَوْ عَصَبُہَا‘ فَقَدْ طَہُرَ‘ وَلَا بَأْسَ بِبَیْعِہٖ وَالْاِنْتِفَاعِ بِہٖ، وَالصَّلَاۃِ عَلَیْہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ‘ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِإِہَابٍ وَلَا عَصَبٍ) فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ مَا دَامَ مَیْتَۃً غَیْرَ مَدْبُوْغٍ فَإِنَّہٗ قَدْ کَانَ یَسْأَلُ عَنِ الِانْتِفَاعِ لِشَحْمِ الْمَیْتَۃِ‘ فَأَجَابَ الَّذِیْ سَأَلَہُ بِمِثْلِ ھٰذَا .
٢٦٢٧: عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ مجھے جھینہ کے شیوخ نے بیان کیا کہ ہمارے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط آیا یا ہمارے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط پڑھا گیا کہ مردار کی کسی چیز سے فائدہ مت اٹھاؤ۔ حضرت جابر (رض) نے سوال کے ذریعہ کہ جس کا جواب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ تھا کہ ” مردار سے نفع حاصل نہ کرو “ یہ خبر دی کہ یہ چربی سے فائدہ حاصل کرنے پر محمول ہے۔ مگر جس کو دباغت دی جائے یہاں تک کہ وہ مردار والی حالت سے نکل کر کسی اور معنی کو اختیار کرلے تو وہ پاک ہوجائے گی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں بہت سے صحیح و متواتر آثار وارد ہوئے ہیں جو اس معنی کی وضاحت کرنے والے ہیں اور اس دباغت سے اس کی پاکیزگی کی خبر دیتے ہیں۔ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٣٩‘ نمبر ٤١٢٨۔
حاصل روایات : مردار کا چمڑہ پاک نہیں ہوسکتا خواہ اس کی دباغت کرلی جائے اور اس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا اگر اس کو دباغت دے دی جائے تب بھی اس پر نماز درست نہیں۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل : مردار کا چمڑہ دباغت سے پاک ہوجاتا ہے اسی طرح اس کا پٹھہ بھی دباغت سے پاک ہوجاتا ہے تو وہ بھی پاک ہوجاتا ہے اس کو فروخت کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے اور اس پر نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ دلیل یہ ہے۔
سابقہ روایات کا جواب : لا تنتفعوا من المیتۃ اس روایت کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جب تک وہ غیر مدبوغ رہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مردار کی چربی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اسی طرح کا جواب دیا یعنی جب تک کھال کے ساتھ چربی لگی ہو تو حرام ہے اور دباغت سے چربی ختم ہوجاتی ہے اسی طرح اس سے مردار کی چربی کی حرمت مراد ہے۔
جیسا اگلی روایت سے واضح ہو رہا ہے۔

2628

۲۶۲۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ زَمْعَۃُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ (جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ جَائَ ہٗ نَاسٌ‘ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ إِنَّ سَفِیْنَۃً لَنَا انْکَسَرَتْ‘ وَإِنَّا وَجَدْنَا فَاقَۃً سَمِیْنَۃً مَیْتَۃً‘ فَأَرَدْنَا أَنَّ نَدْہُنَ بِہَا سَفِیْنَتَنَا‘ وَإِنَّمَا ہِیَ عُوْدٌ‘ وَہِیَ عَلَی الْمَائِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَا تَنْتَفِعُوْا بِشَیْئٍ مِنَ الْمَیْتَۃِ) .
٢٦٢٨: ابوالزبیر (رض) نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے اس وقت کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہماری ایک کشتی ٹوٹ گئی ہے ہم نے وہاں موٹی مردار اونٹنی پائی ہے ہم اس کی چربی کشتی پر مل کر اس کے سوراخ بند کرنا چاہتے ہیں اور وہ عود ہے اور کشتی پانی پر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردار کی کسی چیز سے نفع مت اٹھاؤ۔
تخریج : بخاری ١؍٢٩٨‘ مسلم ٢؍٢٣۔

2629

۲۶۲۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا زَمْعَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَأَخْبَرَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالسُّؤَالِ الَّذِیْ کَانَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَنْتَفِعُوْا بِالْمَیْتَۃِ) جَوَابًا لَہٗ‘ وَأَنَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّہْیِ عَنِ الْاِنْتِفَاعِ بِشُحُوْمِہَا .فَأَمَّا مَا کَانَ یُدْبَغُ مِنْہَا حَتّٰی یَخْرُجَ مِنْ حَالِ الْمَیْتَۃِ‘ وَیَعُوْدَ إِلٰی غَیْرِ مَعْنَی الْأُہُبِ‘ فَإِنَّہٗ یَطْہُرُ بِذٰلِکَ .وَقَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ مُتَوَاتِرَۃٌ صَحِیْحَۃُ الْمَجِیْئِ، مُفَسَّرَۃٌ الْمَعْنٰی‘ تُخْبِرُ عَنْ طَہَارَۃِ ذٰلِکَ الدِّبَاغِ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ
٢٦٢٩: ابو عاصم نے زمعہ سے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں جابر بن عبداللہ (رض) نے خبر دی کہ لاتنتفعوا بالمیتہ کا فرمان چربی کے متعلق کئے جانے والے سوال کا جواب ہے گویا مردار کی چربی سے انتفاع کی ممانعت مذکور ہے باقی دباغت والی کھال و پٹھے تو مردار کی حالت سے نکل جاتے ہیں کچے چمڑے کے حکم میں نہیں رہتے۔
دباغت کے بعد کھال کی طہارت کے سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں جنکا معنی بالکل واضح ہے ہم چند نقل کرتے ہیں۔

2630

۲۶۳۰: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرٌو‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَاۃٍ مَیْتَۃٍ لِمَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَ : لَوْ أَخَذُوْا إِہَابَہَا فَدَبَغُوْہُ فَانْتَفَعُوْا بِہٖ) .
٢٦٣٠: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک مردہ بکری کے پاس سے ہوا جو حضرت میمونہ (رض) کی تھی آپ نے فرمایا اگر اس کی کھال اتار کر ددباغت کرلیتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے تو مناسب تھا۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ١٠٢‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٣٨‘ نسائی فی الفرع باب ٥‘ مسند احمد ٤؍٣٢٩‘ ٣٣٤۔

2631

۲۶۳۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَنَا أُسَامَۃُ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَہْلِ شَاۃٍ مَاتَتْ : أَلَا نَزَعْتُمْ جِلْدَہَا فَدَبَغْتُمُوْہُ‘ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ) .
٢٦٣١ : عطاء بن ابی رباح نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بکری والوں کو کہ جو مرگئی تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ‘ پھر اس کو دباغت دے کر اس سے فائدہ اٹھاتے۔
تخریج : ترمذی فی اللباس باب ٧ ‘ ١٧٢٧۔

2632

۲۶۳۲: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑالرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَطَائٌ مُنْذُ حِیْنٍ‘ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : أَخْبَرَتْنِیْ مَیْمُوْنَۃُ عَنْ شَاۃٍ مَاتَتْ‘ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلَّا دَبَغْتُمْ إِہَابَہَا فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ) .
٢٦٣٢: عطاء نے کچھ وقت سے مجھے ابن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی کہ مجھے میمونہ نے مردہ بکری کے بارے میں بتلایا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اس کے چمڑے کو دباغت کر کے اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ١٠٣۔

2633

۲۶۳۳: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ وَأَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ‘ أَنَّہٗ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : (مَاتَتْ شَاۃٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَہْلِہَا أَلَا نَزَعْتُمْ جِلْدَہَا‘ فَدَبَغْتُمُوْہُ‘ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ) .
٢٦٣٣: عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ایک بکری مرگئی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بکری والوں کو فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتاری کہ اس کو دباغت دیتے اور فائدہ اٹھاتے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٦٣١ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

2634

۲۶۳۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَعْقُوْبَ بْنِ عَطَائٍ ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (مَاتَتْ شَاۃٌ لِمَیْمُوْنَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِإِہَابِہَا قَالُوْا : إِنَّہَا مَیْتَۃٌ‘ فَقَالَ : إِنَّ دِبَاغَ الْأَدِیْمِ طُہُوْرُہٗ) .
٢٦٣٤: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ میمونہ (رض) کی ایک بکری مرگئی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اس کی کھال کو دباغت کر کے اس سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا انھوں نے کہا وہ تو مردار ہے آپ نے فرمایا کچے چمڑے کی طہارت دباغت کرنے میں ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٧٢‘ ٣؍٤٧٦‘ ٥؍٦۔

2635

۲۶۳۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَعْلَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَیُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ‘ فَقَدْ طَہُرَ) .
٢٦٣٥: عبدالرحمن بن وعلہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کچی کھال دباغت دے لی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے یہ روایت کچھ الفاظ کے فرق سے ان مواضع میں موجود ہے۔
تخریج : مسلم فی الحیض ١٠٥‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٣٨‘ ترمذی فی اللباس باب ٧‘ نسائی فی الفرع باب ٤‘ دارمی فی الاضاحی باب ٢٠‘ موطا مالک فی العید نمبر ١٧‘ مسند احمد ١؍٢١٩‘ ٣٢٧‘ ٢٧٠‘ ٣٤٣‘ ٣٦٥‘ ٣٦٦۔

2636

۲۶۳۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنِ ابْنِ وَعْلَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا دُبِغَ الْأَدِیْمُ فَقَدْ طَہُرَ) .
٢٦٣٦: ابن وعلہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کچے چمڑے کو دباغت دے دی جائے وہ پاک ہوجاتا ہے۔
تخریج : نمبر ٢٦٣٤ کو ملاحظہ کریں۔

2637

۲۶۳۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ .ؑثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ‘ عَنْ (عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَعْلَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : إِنَّا نَغْزُوْ أَرْضَ الْمَغْرِبِ‘ وَإِنَّمَا أَسْقِیَتُنَا جُلُوْدُ الْمَیْتَۃِ .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : أَیُّمَا مَسْکٍ دُبِغَ‘ فَقَدْ طَہُرَ) .
٢٦٣٧: عبدالرحمن بن وعلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو کہا ہم مغرب کی زمین میں جہاد کرتے تھے اور ہمارے مشکیزے مردار جانوروں کی کھالوں کے تھے (کھالوں کو دباغت دینے کے بعد بنائے گئے تھے) حضرت ابن عباس (رض) کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جس کھال کو دباغت دے دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔
لغات : مسک۔ چمڑہ۔

2638

۲۶۳۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَکْرِ بْنِ مُضَرَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا الْخَیْرِ یُخْبِرُ (عَنِ ابْنِ وَعْلَۃَ أَنَّہٗ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ : إِنَّا نَغْزُوْ ھٰذَا الْمَغْرِبَ وَلَہُمْ قِرَبٌ یَکُوْنُ فِیْہَا الْمَائُ ‘ وَہُمْ أَہْلُ وَثَنٍ .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الدِّبَاغُ طُہُوْرٌ .فَقَالَ لَہُ ابْنُ وَعْلَۃَ : عَنْ رَأْیِکَ‘ أَمْ شَیْئٍ سَمِعَتْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ : بَلْ سَمِعْتُہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٦٣٨: ابن وعلہ کی روایت ہے کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ ہم اس مغرب کے علاقہ میں جہاد میں جاتے ہیں ان لوگوں کے پاس مشکیزے ہوتے ہیں جن میں پانی پایا جاتا ہے وہ لوگ بت پرست ہیں ان کے پانی کا کیا حکم ہے ابن عباس (رض) نے فرمایا دباغت کھال کو پاک کردیتی ہے ابن وعلۃ نے دوسرا سوال کیا یہ تم نے اپنے اجتہاد سے کہا یا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا انھوں نے جواب دیا میں نے یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ١٠٧۔

2639

۲۶۳۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ .ح .
٢٦٣٩: اسد بن موسیٰ نے عبدہ بن سلیمان سے روایت کی ہے۔

2640

۲۶۴۰: وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ سَہْلِ ڑ الْکُوْفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسَی الْعَبْسِیُّ‘ قَالَا جَمِیْعًا : عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ (عَنْ سَوْدَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : مَاتَتْ لَنَا شَاۃٌ فَدَبَغْنَا مَسْکَہَا فَمَا زِلْنَا نَنْتَبِذُ فِیْہِ حَتّٰی صَارَ شَنًّا) .
٢٦٤٠: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) انھوں نے امّ المؤمنین سودہ (رض) سے نقل کیا کہ ہماری ایک بکری مرگئی ہم نے اس کی کھال کو دباغت دی ہم اس میں نبیذ بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی مشک بن گئی۔
تخریج : بخاری فی الایمان باب ٢١‘ نسائی فی الفرع باب ٤‘ مسند احمد ٦؍٤٢٩۔
لغات : مسک۔ کھال ننتبذ۔ نبیذ کے لیے استعمال کرنا۔ شن۔ پرانی مشک۔

2641

۲۶۴۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (دِبَاغُ الْمَیْتَۃِ طُہُوْرُہَا) ھٰذَا لَفْظُ مُحَمَّدٍ .وَأَمَّا فَہْدٌ فَقَالَ (دِبَاغُ الْمَیْتَۃِ ذَکَاتُہَا) .
٢٦٤١: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردہ جانور کی کھال کو دباغت دینے سے وہ پاک ہوجاتی ہے۔
یہ روایت محمد کے الفاظ ہیں فہد کے الفاظ یہ ہیں : دباغ المیتۃ ذکا تھا۔

2642

۲۶۴۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْمَرْوَزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (دِبَاغُ الْمَیْتَۃِ طُہُوْرُہَا) .
٢٦٤٢: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردار کی کھال کو دباغت دینا اس کو پاک کردیتا ہے۔

2643

۲۶۴۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ قَالَ : ثَنَا أَصْحَابُنَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٦٤٣: اعمش کہتے ہیں ہمارے اصحاب نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2644

۲۶۴۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِیْدِ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ جُلُوْدِ الْمَیْتَۃِ فَقَالَتْ : لَعَلَّ دِبَاغَہَا یَکُوْنُ طُہُوْرُہَا .
٢٦٤٤: اسود کہتے ہیں کہ میں نے جناب حضرت عائشہ (رض) سے مردار کی کھال کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا ان کی دباغت ان کو یقیناً پاک کردیتی ہے۔

2645

۲۶۴۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ فَرْقَدٍ‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَالِکٍ بْنِ حُذَافَۃَ حَدَّثَہٗ، عَنْ أُمِّہِ (الْعَالِیَۃِ بِنْتِ سُبَیْعٍ‘ أَنَّ مَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْہَا أَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ‘ یَجُرُّوْنَ شَاۃً لَہُمْ مِثْلَ الْحِمَارِ .فَقَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ أَخَذْتُمْ إِہَابَہَا قَالُوْا : إِنَّہَا مَیْتَۃٌ قَالَ : یُطَہِّرُہَا الْمَائُ وَالْقَرَظُ) .
٢٦٤٥: عالیہ بنت سبیع (والدہ عبداللہ) کہتی ہیں کہ امّ المؤمنین میمونہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر قریش کے کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو ایک مردار بکری گدھے کی طرح کھینچ رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا اگر تم اس کی کھال اتار لیتے انھوں نے کہا یہ مردہ ہے فرمایا اس کو پانی اور بلوط کا چھلکا پاک کر دے گا۔ (یہ دباغت کا ان دنوں طریقہ تھا) القرط۔ بلوط کا درخت۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٣٨‘ نمبر ٤١٢٦‘ نسائی فی الفرع باب ٥‘ مسند احمد ٦؍٣٣٤۔

2646

۲۶۴۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَاللَّیْثُ‘ عَنْ کَثِیْرِ ۱بْنِ فَرْقَدٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٦٤٦: عمرو بن حارث اور لیث نے کثیر بن فرقد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ ہیں وہ آثار متواترہ جو دباغت سے چمڑے کی طہارت کو ثابت کرتے ہیں۔ اس کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ چنانچہ یہ عبداللہ بن عکیم (رض) کی روایت سے اولیٰ ہیں کیونکہ وہ ان آثار کے خلاف بات کی راہنمائی نہیں کرتی۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرلے کہ مردار کے چمڑوں کی دباغت کا مباح ہونا اور ان کی طہارت اس دباغت کے ذریعہ یہ مردار کی حرمت سے پہلے تھی۔ تو اس کے مخالف دلیل اور اس کی دلیل کہ یہ حکم مردار کی تحریم کے بعد اور اللہ تعالیٰ کی اس تحریم میں داخل نہیں ہے۔ مندرجہ روایت ہے۔

2647

۲۶۴۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَتَادَۃَ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْمُحَبِّقِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَا بِقِرْبَۃٍ مِنْ عِنْدِ امْرَأَۃٍ فِیْہَا مَائٌ ‘ فَقَالَتْ : إِنَّہَا مَیْتَۃٌ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَدَبَغْتِیْہَا؟ فَقَالَتْ : نَعَمْ .فَقَالَ : دِبَاغُہَا ذَکَاتُہَا) .فَقَدْ جَائَ تْ ھٰذِہِ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً فِیْ طُہُوْرِ جِلْدِ الْمَیْتَۃِ بِالدِّبَاغِ وَہِیَ ظَاہِرَۃُ الْمَعْنٰی .فَہِیَ أَوْلٰی مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُکَیْمٍ الَّذِیْ لَمْ یَدُلَّنَا عَلٰی خِلَافِ مَا جَائَ تْ بِہٖ ھٰذِہِ الْآثَارُ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ مَا کَانَ مِنْ اِبَاحَۃِ دِبَاغِ جُلُوْدِ الْمَیْتَۃِ وَطَہَارَتِہَا بِذٰلِکَ الدِّبَاغِ‘ إِنَّمَا کَانَ قَبْلَ تَحْرِیْمِ الْمَیْتَۃِ‘ فَإِنَّ الْحُجَّۃَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ بَعْدَ تَحْرِیْمِ الْمَیْتَۃِ وَأَنَّ ھٰذَا کَانَ غَیْرَ دَاخِلٍ فِیْمَا حَرُمَ مِنْہَا أَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ .
٢٦٤٧: حارث بن قتادہ نے سلمہ بن محبق (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مشک منگوائی جو ایک عورت کے پاس تھی اس نے کہا یہ مردہ جانور کی کھال سے ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اس کی دباغت کی ہے اس نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا دباغت اس کو پاک کردیتی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٣٨‘ نمبر ٤١٢٥‘ نسائی فی الفرع والعتیرۃ باب ٢١۔ حاصل روایات :
یہ متواتر آثار و روایات میتہ کی کھال کے دباغت کے بعد پاک ہونے پر کھلے طور پر دلالت کر رہے ہیں یہ عبداللہ بن حکیم کی روایت سے اولیٰ تر ہیں جس میں دور تک ان آثار میں پائی جانے والی بات کے خلاف کوئی بات نہیں پائی جاتی۔
ایک اشکال :
مردار کی کھال کا دباغت سے پاک ہوجانا یہ تحریم میتہ سے پہلے تھا میتہ کی تحریم کے بعد کھال کی تحریم بھی ثابت ہوگئی۔
جواب : تحریم میتہ کا حکم جب نازل ہوا تو اس حکم کا تعلق ان اجزاء سے تھا جو ماکولہ ہیں غیر ماکول اجزاء تو پہلے کی طرح اصل حکم پر رہے باقی یہ ارشادات تحریم میتہ کے بعد صادر فرمائے گئے ہیں پس تحریم میں تو داخل ہی نہیں۔ جیسا یہ روایات ثابت کر رہی ہیں۔

2648

۲۶۴۸: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ .ح .
٢٦٤٨: ابو عوانہ نے سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔

2649

۲۶۴۹: وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ سِمَاکٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (مَاتَتْ شَاۃٌ لِسَوْدَۃِ بِنْتِ زَمْعَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَاتَتْ فُلَانَۃُ‘ تَعْنِی الشَّاۃَ‘ قَالَ : فَلَوْلَا أَخَذْتُمْ مَسْکَہَا؟ .فَقَالَتْ : نَأْخُذُ مَسْکَ شَاۃٍ قَدْ مَاتَتْ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا قَالَ اللّٰہُ (قُلْ لَّا أَجِدُ فِیْمَا أُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَطْعَمُہٗ) الْآیَۃَ‘ فَإِنَّہٗ لَا بَأْسَ بِأَنْ تَدْبُغُوْہُ فَتَنْتَفِعُوْا بِہٖ .قَالَتْ : فَأَرْسَلْتُ إِلَیْہَا‘ فَسَلَخَتْ مَسْکَہَا فَدَبَغَتْہُ‘ فَاتَّخَذَتْ مِنْہُ قِرْبَۃً‘ حَتّٰی تَخَرَّقَتْ) : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَا سَأَلَتْہُ عَنْ ذٰلِکَ‘ قَرَأَ عَلَیْہَا الْآیَۃَ الَّتِیْ نَزَلَ فِیْہَا تَحْرِیْمُ الْمَیْتَۃِ .فَأَعْلَمَہَا بِذٰلِکَ أَنَّ مَا حَرُمَ عَلَیْہِمْ بِتِلْکَ الْآیَۃِ مِنَ الشَّاۃِ حِیْنَ مَاتَتْ إِنَّمَا ہُوَ الَّذِیْ یُطْعَمُ مِنْہَا اِذَا ذُکِّیَتْ لَا غَیْرُ‘ وَأَنَّ الْاِنْتِفَاعَ بِجُلُوْدِہَا اِذَا دُبِغَتْ‘ غَیْرُ دَاخِلٍ فِیْ ذٰلِکَ الَّذِیْ حَرُمَ مِنْہَا .وَقَدْ رَوٰی عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَیْضًا‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا نَحْوًا مِنْ ذٰلِکَ .
٢٦٤٩: عکرمہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سودہ (رض) کی بکری مرگئی اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بکری مرگئی آپ نے فرمایا تم اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ اس نے کہا کیا ہم مردہ بکری کی کھال اتار لیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : قل لا اجد فی ما اوحی انی محرما علی طاعم یطعمہ (٠ الانعام۔ ١٤٥) اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم اس کی کھال کو دباغت دے کر استعمال میں لاؤ۔ سودہ کہنے لگیں میں نے اس کی طرف پیغام بھیجا تو انھوں نے کھال اتروا کر اس کو دباغت دی پس اس سے میں نے ایک مشکیزہ بنایا (اس کو استعمال کرتی رہی) یہاں تک کہ وہ پھٹ گئی۔ اس روایت میں اس طرح ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سامنے تحریم مردار والی آیت تلاوت فرمائی اور اس کو بتلا دیا اس حکم کے ذریعہ مردار بکری کا کھانا حرام کردیا گیا خواہ اس کو ذبح کردیا جائے اس کے علاوہ نہیں اور دباغت کے بعد اس کے چمڑے سے فائدہ حاصل کرنا تو اس حرمت میں شامل نہیں۔ چنانچہ حضرت عبیداللہ نے ابن عباس (رض) سے بھی اس طرح کی روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات :
اس روایت میں صاف موجود ہے کہ جب حضرت سودہ (رض) نے سوال کیا تو آپ نے تحریم میتہ والی آیت استشہاد میں پڑھی اور اسے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے اس مردہ بکری سے گوشت کو حرام کیا ہے اگر وہ ذبح کرلی جائے تو گوشت حلال ہوگا آپ نے واضح فرما دیا کہ جب چمڑے کو دباغت دے دی جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے وہ اس تحریم والی آیت کی تحریم میں شامل ہی نہیں اور عبیداللہ بن عبداللہ کی روایت ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح کی موجود ہے۔ روایت یہ ہے۔

2650

۲۶۵۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَدَ شَاۃً مَیْتَۃً أَعْطَیْتَہٗ َا مَوْلَاۃٌ لِمَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنَ الصَّدَقَۃِ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِجِلْدِہَا قَالُوْا : إِنَّہَا مَیْتَۃٌ‘ قَالَ إِنَّمَا حَرُمَ أَکْلُہَا) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِیْ حَرُمَ مِنَ الشَّاۃِ بِمَوْتِہَا‘ ہُوَ الَّذِیْ یُرَادُ مِنْہَا لِلْأَکْلِ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ مِنْ جُلُوْدِہَا وَعَصَبِہَا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ الْعَصِیْرَ لَا بَأْسَ بِشُرْبِہٖ، وَالْاِنْتِفَاعِ بِہٖ، مَا لَمْ یَحْدُثْ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَمْرِ .فَإِذَا حَدَثَتْ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَمْرِ‘ حَرُمَ بِذٰلِکَ‘ ثُمَّ لَا یَزَالُ حَرَامٌ کَذٰلِکَ حَتّٰی تَحْدُثَ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَلِّ .فَإِذَا حَدَثَتْ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَلِّ حَلَّ .فَکَانَ یَحِلُّ بِحُدُوْثِ الصِّفَۃِ‘ وَیَحْرُمُ بِحُدُوْثِ صِفَۃٍ غَیْرِہَا‘ وَإِنْ کَانَ بَدَنًا وَاحِدًا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ جِلْدُ الْمَیْتَۃِ‘ یَحْرُمُ بِحُدُوْثِہِ صِفَۃُ الْمَوْتِ فِیْہٖ‘ وَیَحِلُّ بِحُدُوْثِ صِفَۃِ الْأَمْتِعَۃِ فِیْہِ مِنَ الثِّیَابِ وَغَیْرِہَا فِیْہِ .وَإِذَا دُبِغَ فَصَارَ کَالْجُلُوْدِ وَالْأَمْتِعَۃِ‘ فَقَدْ حَدَثَتْ فِیْہِ صِفَۃُ الْحَلَالِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّحِلَّ أَیْضًا بِحُدُوْثِ تِلْکَ الصِّفَۃِ فِیْہِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمَّا أَسْلَمُوْا‘ لَمْ یَأْمُرْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطَرْحِ نِعَالِہِمْ وَخِفَافِہِمْ وَأَنْطَاعِہِمْ‘ الَّتِیْ کَانُوْا اتَّخَذُوْہَا فِیْ حَالِ جَاہِلِیَّتِہِمْ‘ وَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْ مَیْتَۃٍ‘ أَوْ مِنْ ذَبِیْحَۃٍ .فَذَبِیْحَتُہُمْ حِیْنَئِذٍ إِنَّمَا کَانَتْ ذَبِیْحَۃَ أَہْلِ الْأَوْثَانِ‘ فَہِیَ - فِیْ حُرْمَتِہَا عَلٰی أَہْلِ الْاِسْلَامِ - کَحُرْمَۃِ الْمَیْتَۃِ .فَلَمَّا لَمْ یَأْمُرْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطَرْحِ ذٰلِکَ‘ وَتَرْکِ الْاِنْتِفَاعِ بِہٖ، ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ قَدْ خَرَجَ مِنْ حُکْمِ الْمَیْتَۃِ وَنَجَاسَتِہَا بِالدِّبَاغِ‘ إِلَی حُکْمِ سَائِرِ الْأَمْتِعَۃِ وَطَہَارَتِہَا .وَکَذٰلِکَ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحُوْا بُلْدَانَ الْمُشْرِکِیْنَ لَا یَأْمُرُہُمْ بِأَنْ یُتَحَامَوْا خِفَافَہُمْ وَنِعَالَہُمْ وَأَنْطَاعَہُمْ وَسَائِرَ جُلُوْدِہِمْ‘ فَلاَ یَأْخُذُوْا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا‘ بَلْ کَانَ لَا یَمْنَعُہُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ‘ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَیْضًا‘ عَلٰی طَہَارَۃِ الْجُلُوْدِ بِالدِّبَاغِ .وَلَقَدْ رُوِیَ فِیْ ھٰذَا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ
٢٦٥٠: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مردہ بکری پائی جو حضرت میمونہ (رض) کی لونڈی کو صدقہ میں دی گئی تھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا انھوں نے کہا کہ وہ مردہ ہے آپ نے فرمایا اس کا کھانا حرام ہے۔ اس روایت سے یہ دلالت مل گئی کہ بکری کی موت سے جو چیز حرام ہوئی وہ اس کے گوشت کا کھانا ہے نہ کہ پوست اور پٹھا۔ آثار کے پیش نظر اس باب کا یہی مفہوم ہے۔ البتہ نظر و فکر کے لحاظ سے تو ملاحظہ فرمائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اتفاقی قاعدہ انگور کے نچوڑ سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے جب تک کہ اس میں شراب کی خصوصیات پیدا نہ ہوں ‘ جب شراب کی صفات اس میں پیدا ہوجائیں تو اس سے وہ حرام ہوجائے گا۔ پھر وہ حرام باقی رہے گا جب تک اس میں سرکہ کی صفات پیدا نہ کی جائیں۔ پس جب اس میں سرکے والی صفات آجائیں گی تو وہ حلال ہوجائے گا۔ تو گویا وہ چند صفات کے آنے سے حرام ہوا اور جدید صفات کے پیدا ہونے سے حلال ہوگیا ‘ جو پہلے سے مختلف تھیں۔ اگرچہ اس کا وجود ایک ہی ہو۔ پس غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ مردار کے چمڑے کا حال بھی اسی طرح ہو۔ کہ جب اس میں صفات میت پیدا ہوجائیں تو حرام ہوجائے اور جب اس میں برتنے کی چیزوں والی صفات آجائیں تو وہ اس وقت حلال ہوجائیں مثلاً کپڑے وغیرہ۔ جب اس میں دباغت کرلی گئی تو وہ چمڑے اور سامان کی طرح ہوگیا۔ اس سے اس میں حلت کی صفت آگئی۔ اس گزشتہ بات پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس صفت کے آجانے سے وہ حلال ہوجائے۔ ایک اور دلیل سنیے ! ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) جب اسلام لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جوتے اور موزے اور چمڑے پھینک دینے کا حکم نہیں فرمایا جن کو انھوں نے زمانہ جاہلیت میں حاصل کیا تھا اور بلاشبہ وہ مردار کی کھال یا ذبیحہ کی کھال سے تھے اور ان کا ذبیحہ بھی تو بت پرستوں کا ذبیحہ ہے۔ بت پرستوں کا ذبیحہ مسلمان کے لیے مردار کا حکم رکھتا ہے۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پھینکنے کا حکم نہ فرمایا اور ان کو اس سے فائدہ حاصل کرنے دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ مردار کے حکم سے خارج تھے اور دباغت کی وجہ ان کی نجاست دوسرے سامان کی طرح طہارت میں بدل چکی تھی۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں اسی طرح رہتے تھے جب وہ مشرکین کے کسی علاقہ کو فتح کرتے تو آپ انھیں ان کے موزوں ‘ جوتوں ‘ چمڑوں دیگر کھالوں کو پھینکنے کا حکم نہ فرماتے تھے بلکہ ان کو ان میں سے کسی چیز کے استعمال سے نہ روکتے تھے۔ اس میں ان چمڑوں کے دباغت کے ساتھ پاک ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بات حضرت جابر (رض) سے اس طرح مروی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦١‘ مسلم فی الحیض نمبر ١٠١‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٣٨‘ نمبر ٤١٢٠‘ نسائی فی الفرع والعتیرہ باب ٤‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٢٥‘ نمبر ٣٦١٠‘ موطا مالک نمبر ١٦۔
حاصل روایات : مرنے سے بکری کا گوشت حرام ہوا اور وہی مراد ہے کھال اور پٹھے تو کھائے نہیں جاتے کہ وہ اس تحریم کے حکم میں آئیں۔
آثار کے طریقہ سے تو اس باب کا یہ حکم ہے۔ بطریق نظر اس کا حکم ہم بیان کئے دیتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ عصیر عنب وغیرہ کو پینا اور اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شراب کی خصوصیات پیدا نہ ہوں جب اس میں شراب کی خصوصیات آجائیں گی تو وہ حرام ہوگا اور پھر وہ حرام ہی رہے گا یہاں تک کہ اس میں سرکہ کی صفات پیدا نہ ہوں جب سرکہ کی صفات آجائیں تو حلال ہوجائے گا۔
تو گویا صفات کے پائے جانے سے اس کے حکم حلت و حرمت میں فرق پڑگیا خواہ وہ ایک ہی شے تھی۔ پس مردار کے چمڑے کا حال بھی کچھ اسی طرح نظر آتا ہے موت کی صفت پیدا ہوتے ہی حرام ہوگیا اور کپڑے وغیرہ استعمالی چیز کی صفت پیدا ہونے سے حلال بن گیا دباغت سے پہلے وہ ناپاک تھا اب دباغت کے بعد وہ پاک ہوگیا۔
نظر ثانی :
جب اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان لائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جوتے ‘ موزے ‘ بچھانے والے چمڑے پھینکنے کا حکم نہیں فرمایا جو انھوں نے زمانہ جاہلیت میں بنائے تھے حالانکہ وہ مردار جانور یا مذبوحہ جانوروں سے حاصل شدہ کھالوں سے بنے ہوئے تھے بلکہ ان کا ذبیحہ بھی بتوں کے نام نیازات کا ذبیحہ تھا اور وہ تو مسلمان کے لیے مردار سے کم درجہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پھینکنے دینے اور ان سے انتفاع ترک کرنے کا نہیں فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دباغت کی وجہ سے نجاست سے خارج ہوچکے تھے اور ان کا حکم عام سامان کی طرح طہارت کا ہوچکا تھا بالکل اسی طرح جب صحابہ کرام نے مشرکین کے علاقوں کو فتح کیا تو ان کے جوتوں ‘ موزوں اور تمام چمڑوں اور بچھانے والے چمڑوں سے بچنے کا حکم نہیں فرمایا کہ ان میں سے کسی چیز کو مت لو بلکہ ان کی کسی ایسی چیز سے نہیں روکا یہ بھی دلیل ہے کہ دباغت سے ان کے چمڑے وغیرہ پاک ہوگئے۔
اور صحابہ کرام (رض) سے روایات اس کی موید ہیں ملاحظہ ہوں۔

2651

۲۶۵۱: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ‘ عَنْ (جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا نُصِیْبُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَغَانِمِنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ الْأَسْقِیَۃَ‘ فَنَقْتَسِمُہَا وَکُلُّہَا مَیْتَۃٌ‘ فَنَنْتَفِعُ بِذٰلِکَ) ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَھٰذَا جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ ھٰذَا‘ وَقَدْ حَدَثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (لَا تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِشَیْئٍ) .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ - عِنْدَہٗ - بِمُضَادٍّ لِھٰذَا. فَثَبَتَ أَنَّ مَعْنٰی حَدِیْثِہٖ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِشَیْئٍ) غَیْرُ مَعْنٰی حَدِیْثِہِ الْآخَرِ‘ وَأَنَّ الشَّیْئَ الْمُحَرَّمَ مِنَ الْمَیْتَۃِ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ‘ ہُوَ غَیْرُ الْمُبَاحِ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .فَکَذٰلِکَ أَیْضًا مَا رَوٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُکَیْمٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِمَّا نُہِیَ عَنِ الْاِنْتِفَاعِ بِہٖ مِنَ الْمَیْتَۃِ‘ وَہُوَ غَیْرُ مَا أَبَاحَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ أُہُبِہَا الْمَدْبُوْغَۃِ‘ حَتّٰی تَتَّفِقَ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ وَلَا یُضَادُّ بَعْضُہَا بَعْضًا .وَھٰذَا الَّذِیْ ذَہَبْنَا إِلَیْہِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِنْ طَہَارَۃِ جُلُوْدِ الْمَیْتَۃِ بِالدِّبَاغِ‘ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٦٥١: عطاء بن ابی رباح نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین کے غنائم میں مشکیزے پاتے جو مردار کی کھالوں کے ہوتے ہم ان کو باہمی تقسیم کرتے اور ان سے نفع اٹھاتے۔ اس روایت مذکورہ سے یہ دلالت میسر آگئی کہ یہی جابر (رض) یہاں یہ فرما رہے ہیں اور دوسری طرف یہی اس ” لا تنتفعوا۔۔۔“ (الحدیث) والی روایت کے راوی ہیں۔ پس یہ روایت اس روایت کے متضاد نہیں ہوسکتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کی ” لا تنتفعوا۔۔۔“ (الحدیث) والی روایت کا معنی اس روایت سے مختلف ہے اور میتہ کی جو چیز حرام جس کا اس روایت میں تذکرہ ہے وہ اس چیز میں مذکور مباح چیز سے مختلف ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن عکیم (رض) نے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے جس میں مردار سے نفع اٹھانا حرام فرمایا وہ اس سے الگ چیز ہے جس کو ان آثار میں مباح قرار دیا گیا یعنی دباغت شدہ کھالیں اور یہ معنی اس لیے مانا تاکہ آثار کا باہمی تضاد ایک دوسرے سے نہ رہے اور یہ جس کی طرف ہم اس باب میں گئے ہیں یعنی دباغت سے مردار کی کھالوں کا پاک ہوجانا ‘ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : عزاہ العینی الی البزاز۔
پس یہ روایت اس بات کی واضح دلیل ہے جو ہم نے نظر کے عنوان سے ذکر کی ہے اور یہی حضرت جابر (رض) جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لا تنتفعوا من المیتہ بشیٔ کا ارشاد نقل کرنے والے ہیں پس یہ روایت اس کے متضاد اسی صورت میں نہیں بنتی کہ اس چیز میں جس چیز کو مباح کہا گیا ہے وہ اس سے مختلف ہو جس کی اس میں ممانعت کی گئی ہے اور وہ گوشت ہے اور چربی جس کے انتفاع کی اجازت نہیں اور اس روایت میں کھال پٹھے وغیرہ مراد ہیں جو دباغت کے بعد پاک ہونے کی وجہ سے قابل استعمال بن گئے اسی طرح عبداللہ بن حکیم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے اس میں مردار کی جس چیز سے انتفاع کی ممانعت کی گئی ہے وہ اس سے مختلف ہے جس کا دوسری احادیث میں اثبات ہے اور وہ چمڑے ہیں جن کو دباغت دے لی جائے یہ معنی اسی لیے لیا گیا تاکہ آثار میں موافقت ہوجائے یہ بات کہ دباغت کے بعد مردار کی کھال پاک ہوجاتی ہے امام ابوحنیفہ و ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
اس باب میں عام عادت کے خلاف طحاوی (رح) یکے بعد دیگرے دو نظیریں پیش کی ہیں اور دوسری نظر کے سلسلہ میں عمل صحابی کو ذکر کر کے زوردار انداز سے اس کا معمول بہا ہونا واضح کیا ہے۔

2652

۲۶۵۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ خَالِدٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْمَدِیْنِیِّ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ حَفْصَۃُ بِنْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ قَدْ وَضَعَ ثَوْبَہٗ بَیْنَ فَخِذَیْہِ‘ فَجَائَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَاسْتَأْذَنَ‘ فَأَذِنَ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ہَیْئَتِہٖ‘ ثُمَّ جَائَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِمِثْلِ ھٰذِہِ الصِّفَۃِ‘ ثُمَّ جَائَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ، وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہٖ ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَاسْتَأْذَنَ عَلَیْہِ‘ فَأَذِنَ لَہٗ‘ ثُمَّ أَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبَہٗ فَتَجَلَّلَہٗ، فَتَحَدَّثُوْا‘ ثُمَّ خَرَجُوْا .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ جَائَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِک‘ وَأَنْتَ عَلَی ہَیْئَتک‘ فَلَمَّا جَائَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ تَجَلَّلْتُ ثَوْبَکَ .فَقَالَ أَوَ لَا أَسْتَحْیِی مِمَّنْ تَسْتَحْیِی مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ؟) قَالَتْ : وَسَمِعْتُ أَبِیْ وَغَیْرَہٗ‘ یُحَدِّثُوْنَ نَحْوًا مِنْ ھٰذَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْفَخِذَ لَیْسَتْ مِنَ الْعَوْرَۃِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : اَلْفَخِذُ عَوْرَۃٌ‘ وَقَالُوْا : قَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ‘ عَلٰی غَیْرِ مَا رَوَاہُ الَّذِیْنَ احْتَجَجْتُمْ بِرِوَایَتِہِمْ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٦٥٢: عبداللہ بن سعید المدینی نے حفصہ بنت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن اپنا کپڑا اپنی رانوں کے درمیان رکھا تھا کہ ابوبکر (رض) آئے اور انھوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمائی جبکہ آپ اسی حالت میں رہے پھر عمر (رض) آئے تو آپ اپنی اسی ہئیت پر رہے پھر کچھ اور صحابہ کرام (رض) آئے تو آپ اپنی اسی حالت پر قائم تھے پھر عثمان (رض) آئے اور انھوں نے اجازت طلب کی تو ان کو اجازت مل گئی اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا کپڑا لے کر کھلے حصہ کو ڈھانپ لیا یہ حضرات آپ سے باتیں کرتے رہے پھر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابوبکر ‘ عمر ‘ علی ] آئے اور آپ کے کچھ اور اصحاب آئے اور آپ اپنی ہئیت پر تشریف فرما رہے جب عثمان (رض) آئے تو آپ نے اپنے کھلے حصہ کو ڈھانپ لیا تو آپ نے فرمایا کیا میں اس سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں حضرت حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ابی (رض) وغیرہ سے بھی سنا کہ وہ بھی اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ ران ستر کا حصہ نہیں اور انھوں نے اس روایت بالا کو دلیل بنایا ہے۔ دیگر علماء کی جماعت نے ان سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ ران ستر کا حصہ ہے۔ اس روایت کو اہل بیت کی ایک جماعت نے اس سے مختلف انداز میں نقل کیا جو تم نے نقل کر کے دلیل بنایا۔ چنانچہ ہم ان میں بعض کو ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٨٨۔
خلاصہ الزام :
نمبر 1: داؤد ظاہری وغیرہ کے ہاں ران ستر میں داخل نہیں ہے۔
نمبر 2: تمام ائمہ کے ہاں ران ستر میں داخل ہے۔
مؤقف اول : ران ستر میں داخل نہیں اس لیے اس کا حکم ستر میں وہ نہیں جو مستورہ اعضاء کا ہے دلیل یہ ہے۔
لغات :: تجلل۔ ڈھانپ لینا۔
نوٹ : ران کے کچھ حصہ کا ظاہر ہونا یہ بتلا رہا ہے کہ ران ستر نہیں ہے ورنہ آپ تو کشف ستر کرنے والے نہ تھے۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل : ران ستر کا حصہ ہے اور اس کو اسی طرح ڈھانپنا ضروری ہے جس طرح دیگر اعضاء مستورہ کو۔

2653

۲۶۵۳: مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ‘ قَالَ : أَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ (أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اسْتَأْذَنَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ لَابِسٌ مِرْطَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ فَأَذِنَ لَہٗ فَقَضَی إِلَیْہِ حَاجَتَہٗ ثُمَّ خَرَجَ .ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلَیْہِ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ‘ فَقَضٰی إِلَیْہِ حَاجَتَہٗ‘ ثُمَّ خَرَجَ فَاسْتَأْذَنَ عَلَیْہِ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَاسْتَوٰی جَالِسًا‘ وَقَالَ لِعَائِشَۃَ اجْمَعِیْ عَلَیْکَ ثِیَابَکَ .فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ لَہٗ عَائِشَۃُ : مَالَکَ لَمْ تَفْزَعْ لِأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَمَا فَزِعْتُ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَ : إِنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَجُلٌ کَثِیْرُ الْحَیَائِ، وَلَوْ أَذِنْتَ لَہٗ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ‘ خَشِیْتُ أَنْ یَّبْلُغَ فِیْ حَاجَتِہٖ) .
٢٦٥٣: یحییٰ بن سعید نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امّ المؤمنین کی چادر اوپر ڈالنے والے تھے آپ نے ان کو اجازت دے دی انھوں نے اپنی ضرورت پیش کی اور چلے گئے پھر حضرت عمر (رض) نے اجازت طلب کی آپ اس وقت اسی حال میں تھے آپ نے ان کی ضرورت کو پورا کردیا پھر وہ نکل کر چلے گئے تو حضرت عثمان (رض) نے اجازت طلب کی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ (رض) کو فرمایا اپنے اوپر اپنے کپڑے سمیٹ لو جب حضرت عثمان (رض) چلے گئے تو حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ آپ نے ابوبکر و عمر (رض) کے لیے اپنے کو اس طرح تیار نہیں کیا جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان (رض) کے لیے اپنے کو تیار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عثمان (رض) بہت شدید حیادار آدمی ہیں اگر اسی حالت میں ان کو اجازت دے دیتا مجھے خطرہ تھا کہ وہ اپنی ضرورت کی بات نہ کہہ سکتے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٣٢٦۔

2654

۲۶۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٦٥٤: یحییٰ بن سعید بن العاص نے اپنے والد سے انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2655

۲۶۵۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِیْزِ ڑالْأَیْلِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُقَیْلٌ‘ حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ أَنَّ سَعِیْدَ بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَخْبَرَہٗ (أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اسْتَأْذَنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٦٥٥: یحییٰ بن سعید بن العاص کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن العاص (رض) نے بتلایا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کے ہاں آنے کی اجازت مانگی پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ٢؍٢٧٧۔

2656

۲۶۵۶: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ‘ أَنَّ سَعِیْدَ بْنِ الْعَاصِ أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ حَدَّثَاہُ (أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اسْتَأْذَنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا أَصْلُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لَیْسَ فِیْہِ ذِکْرُ کَشْفِ الْفَخِذَیْنِ أَصْلًا. وَقَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ مُتَوَاتِرَۃٌ صِحَاحٌ فِیْہَا أَنَّ الْفَخِذَ مِنَ الْعَوْرَۃِ . فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٦٥٦: یحییٰ بن سعید بن العاص کہتے ہیں کہ سعید بن العاص (رض) نے خبر دی کہ عائشہ (رض) اور عثمان (رض) دونوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) آئے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی پھر اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ اس روایت اصل یہ ہے۔ اس میں رانوں کے ننگا کرنے کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر صحیح روایات میں وارد ہوا ہے کہ ران ستر کا حصہ ہے۔ ہم ذیل میں چند درج کرتے ہیں۔
تخریج : ٢؍٢٧٧۔
اس روایت کی اصل یہ ہے اس میں کشف فخذین کا اس میں سرے سے تذکرہ ہی نہیں کہ اس سے استدلال ہو بلکہ اس کے بالمقابل ران کے ستر ہونے سے متعلق بہت سی روایات وارد ہیں۔
ران ستر ہے روایات ملاحظہ ہوں۔

2657

۲۶۵۷: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (الْفَخِذُ عَوْرَۃٌ) .
٢٦٥٧: عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ران ستر ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٢‘ ترمذی فی الادب باب ٤٠۔

2658

۲۶۵۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ یَحْیٰی‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : (خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَأٰی فَخِذَ رَجُلٍ‘ فَقَالَ فَخِذُ الرَّجُلِ مِنْ عَوْرَتِہِ) .
٢٦٥٨: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور آپ نے ایک آدمی کے ران کو دیکھا تو فرمایا کہ آدمی کا ران اس کا ستر ہے۔
تخریج : بیہقی ٢؍٣٢٢‘ والترمذی ٢؍١٠٧‘ مثلہ۔

2659

۲۶۵۹: وَحَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلٰی مَعْمَرٍ بِفِنَائِ الْمَسْجِدِ‘ کَاشِفًا عَنْ طَرَفِ فَخِذِہٖ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَمِّرْ فَخِذَک یَا مَعْمَرُ‘ إِنَّ الْفَخِذَیْنِ عَوْرَۃٌ) .
٢٦٥٩: ابو کثیر نے محمد بن جحش (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر معمر کے پاس سے ہوا جبکہ وہ مسجد کے صحن میں تھا اور اس کے ران کی ایک جانب کھلی ہوئی تھی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معمر اپنی ران کو ڈھانپ۔ دونوں ران ستر ہیں۔
تخریج : ترمذی فی الادب باب ٤٠‘ مسند احمد ٣؍٤٧٨‘ ٥؍٢٩٠۔

2660

۲۶۶۰: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنِ الْعَلَائِ، عَنْ أَبِیْ کَثِیْرٍ مَوْلٰی مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
٢٦٦٠: ابو کثیر مولیٰ محمد بن جحش نے محمد بن جحش (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2661

۲۶۶۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ‘ وَعَبْدُ الْعَزِیْزِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ مَوْلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ (مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَحْشٍ‘ قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْشِیْ فِی السُّوقِ‘ فَمَرَّ بِمَعْمَرٍ جَالِسًا عَلَی بَابِہٖ، مَکْشُوْفَۃً فَخِذُہُ‘ فَقَالَ خَمِّرْ فَخِذَک‘ أَمَا عَلِمْتُ أَنَّہَا مِنَ الْعَوْرَۃِ) .
٢٦٦١: ابو کثیر مولیٰ محمد بن عبداللہ نے محمد بن عبداللہ بن جحش (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بازار جا رہا تھا آپ کا گزر معمر (رض) کے پاس سے ہوا جو اپنے دروازے پر بیٹھے تھے اور ان کی ران کھلی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے ران کو ڈھانپ ‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ ستر کا حصہ ہے۔

2662

۲۶۶۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُحْسِنُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ جَرْہَدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (فَخِذُ الرَّجُلِ مِنْ عَوْرَتِہِ) أَوْ قَالَ (مِنَ الْعَوْرَۃِ) .
٢٦٦٢: عبداللہ بن محمد بن عقیل نے عبداللہ بن مسلم بن جرہد نے اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کی ران اس کے ستر کا حصہ ہے یا من العورہ کے لفظ فرمائے۔

2663

۲۶۶۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَسَنٌ ہُوَ ابْنُ صَالِحِ بْنِ حَیٍّ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَرْہَدِ ڑالْأَسْلَمِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٦٦٣: عبداللہ بن محمد بن عقیل نے عبداللہ بن جرھد اسلمی نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2664

۲۶۶۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنْ أَبِی النَّضْرِ‘ عَنْ (زُرْعَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَرْہَدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّۃِ‘ أَنَّہٗ قَالَ : جَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدِیْ، وَفَخِذِیْ مُنْکَشِفَۃٌ فَقَالَ خَمِّرْ عَلَیْک‘ أَمَا عَلِمْتُ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَۃٌ) .
٢٦٦٤: ابوالنضر نے زرعہ بن عبدالرحمن بن جرھد نے اپنے والد سے نقل کیا یہ اصحاب صفہ میں سے تھے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے اپس تشریف فرما تھے میری ران کھل گئی تو آپ نے فرمایا ران کو ڈھانپ لو کیا تم نہیں جانتے کہ ران ستر ہے۔

2665

۲۶۶۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی عَنْ مِسْعَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزِّنَادِ‘ عَنْ عَمِّہِ زُرْعَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَرْہَدٍ‘ عَنْ جَدِّہٖ (جَرْہَدٍ‘ قَالَ : مَرَّ بِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَیَّ بُرْدَۃٌ‘ قَدْ کَشَفْتُ عَنْ فَخُذِیْ فَقَالَ غَطِّ فَخِذَکَ‘ الْفَخِذُ عَوْرَۃٌ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذِہِ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ تُخْبِرُ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَۃٌ‘ وَلَمْ یُضَادَّہَا أَثَرٌ صَحِیْحٌ .فَقَدْ ثَبَتَ بِہَا أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَۃٌ‘ تَبْطُلُ الصَّلَاۃُ بِکَشْفِہَا‘ کَمَا تَبْطُلُ بِکَشْفِ مَا سِوَاہَا مِنَ الْعَوْرَاتِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ یَنْظُرُ مِنَ الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ لَا مَحْرَمَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا إِلَی وَجْہِہَا وَکَفَّیْہَا‘ وَلَا یَنْظُرُ إِلٰی مَا فَوْقَ ذٰلِکَ‘ مِنْ رَأْسِہَا‘ وَلَا إِلٰی أَسْفَلِ مِنْہُ‘ مِنْ بَطْنِہَا‘ وَظَہْرِہَا‘ وَفَخِذَیْہَا‘ وَسَاقَیْہَا‘ وَرَأَیْنَاہُ فِیْ ذَاتِ الْمَحْرَمِ مِنْہُ لَا بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ مِنْہَا إِلٰی صَدْرِہَا‘ وَشَعْرِہَا‘ وَوَجْہِہَا‘ وَرَأْسِہَا‘ وَسَاقِہَا‘ وَلَا یَنْظُرُ إِلٰی مَا بَیْنَ ذٰلِکَ مِنْ بَدَنِہَا .وَکَذٰلِکَ رَأَیْنَاہُ یَنْظُرُ مِنَ الْأَمَۃِ الَّتِیْ لَا مِلْکَ لَہٗ عَلَیْہَا‘ وَلَا مَحْرَمَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا‘ فَکَانَ مَمْنُوْعًا مِنَ النَّظَرِ مِنْ ذَاتِ الْمَحْرَمِ مِنْہُ وَمِنَ الْأَمَۃِ الَّتِیْ لَیْسَتْ بِمَحْرَمٍ لَہٗ‘ وَلَا مِلْکَ لَہٗ عَلَیْہَا - إِلٰی فَخِذِہَا‘ کَمَا کَانَ مَمْنُوْعًا مِنَ النَّظَرِ إِلٰی فَرْجِہَا فَصَارَ حُکْمُ الْفَخِذِ مِنَ النِّسَائِ، کَحُکْمِ الْفَرَجِ‘ لَا کَحُکْمِ السَّاقِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الرِّجَالِ أَیْضًا کَذٰلِکَ‘ وَأَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ فَخِذِ الرَّجُلِ فِی النَّظَرِ إِلَیْہٖ‘ کَحُکْمِ فَرْجِہِ فِی النَّظَرِ إِلَیْہٖ‘ لَا کَحُکْمِ سَاقِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَ النَّظَرُ إِلٰی فَرْجِہِ مُحَرَّمًا‘ کَانَ کَذٰلِکَ النَّظَرُ إِلٰی فَخِذِہِ مُحَرَّمًا‘ وَکَذٰلِکَ کُلُّ مَا کَانَ حَرَامًا عَلَی الرَّجُلِ أَنْ یَنْظُرَ إِلَیْہِ مِنْہُ إِلٰی ذَاتِ الْمَحْرَمِ مِنْہُ‘ فَحَرَامٌ عَلَی الرِّجَالِ أَنْ یَنْظُرَ إِلَیْہِ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ .وَکُلُّ مَا کَانَ حَلَالًا أَنْ یَنْظُرَ ذُو الْمَحْرَمِ مِنَ الْمَرْأَۃِ ذَاتِ الْمَحْرَمِ مِنْہُ‘ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَہُ الرِّجَالُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ .فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ النَّظَرِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مَا جَائَ تْ بِہِ الرِّوَایَاتُ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی
٢٦٦٥: ابوالزناد نے اپنے چچا زرعہ بن عبدالرحمن بن جرہد کے واسطے سے اپنے دادا جرہد سے بیان کیا کہ میرے پاس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا اور میں چادر اوڑھے ہوئے تھا جس سے میری ران ظاہر ہوئی تو آپ نے فرمایا اپنی ران کو ڈھانپ لو ران ستر ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی آثار اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ران ستر ہے اور ان کے مقابلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے۔ پس ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ران ستر ہے اور اس کے کھل جانے سے نماز باطل ہوجاتی ہے جیسا بقیہ ستر کے مقامات کھل جانے سے نماز باطل ہوتی ہے۔ اب رہا غور و فکر کے انداز سے اس بات کو جانچتے ہیں۔ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ آدمی (ضرورت کے پیش نظر) غیر محرم عورت کے اعضاء چہرے اور ہتھیلیوں پر نگاہ ڈال سکتا ہے۔ اس سے اوپر والا حصہ سر اور اس سے نچلے حصہ پیٹ ‘ پشت ‘ ران ‘ پنڈلیوں کو نہیں دیکھ سکتا اور محرم کے لیے اس کے سینے ‘ بال ‘ چہرے ‘ سر ‘ پنڈلیوں تک کو دیکھنا مباح ہے۔ ان کے مابین بقیہ بدن کو دیکھنا اسے بھی درست نہیں۔ اسی طرح ہم نے دیکھا کہ لونڈی جو غیر کی ملکیت ہو اور ان کے مابین کوئی محرم بھی موجود نہ ہو تو اس کے بھی محرم والے اعضاء کو دیکھ سکتا ہے۔ پس محرم عورت اور غیر ملک لونڈی کی ران کو دیکھنا اس طرح ممنوع ہے جیسا کہ اس کی شرمگاہ کو دیکھنا ممنوع ہے۔ پس عورتوں کے سلسلہ میں ران اور شرمگاہ کا حکم ایک جیسا ہے۔ اس کا حکم پنڈلی والا نہیں۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ مردوں کے لیے بھی اسی طرح کا حکم ہو اور آدمی کی ران کو دیکھنا شرمگاہ کے دیکھنے کے حکم میں ہو نہ کہ پنڈلی کی طرح ہو۔ پس جب شرمگاہ کی طرف دیکھنا حرام ہے ران کی طرف دیکھنا بھی اسی طرح حرام ہے۔ اسی طرح ہر وہ چیز مرد کو دیکھنا محرم کے معاملے میں حرام ہے تو مردوں کے معاملے میں بھی ایک دوسرے مرد کو ان اعضاء کی طرف دیکھنا حرام ہے اور ہر وہ عضو جو محرم عورت کے لیے محرم مرد کو دیکھنا حلال ہے تو مردوں کو بھی ان اعضاء کو دیکھنا کچھ حرج نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں قیاس یہی چاہتا ہے اور اس کی مؤید وہ روایات ہیں جن کو ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اوپر نقل کرچکے ہیں اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ امام ابویوسف اور امام محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٧٨۔
حاصل روایات : ان تمام آثار مرویہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ران ستر کا حصہ ہے اور کوئی صحیح روایت ان کے متضاد موجود نہیں اس سے یہ ثابت ہوا کہ ران ستر ہے اور اس کے کھل جانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے جس طرح دوسرے مستورہ اعضاء کے کھل جانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
آثار کی تصحیح کے انداز سے تو یہی بات ثابت ہے اب نظر کے طریق سے ہم ثابت کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
شریعت کا حکم یہ ہے کہ غیر محرم عورت کی ہتھیلی ‘ چہرہ ‘ قدم کے علاوہ باقی کسی بھی حصہ کا دیکھنا حرام اور ناجائز ہے اور ذو رحم محرم اور دوسرے کی باندی کے سر کے بال ‘ سینہ ‘ پنڈلی ‘ بازو وغیرہ کا دیکھنا مباح اور جائز ہے۔
لیکن ان عورتوں کی فخذ اور ران کا دیکھنا اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح ان کے فرج کا دیکھنا حرام اور ناجائز ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کی ران کا حکم شرمگاہ کی طرح ہے۔ پس اسی طرح مردوں کی ران کا حکم بھی مردوں کی شرمگاہ کی طرح ہوگا کہ جس طرح مردوں کے شرمگاہ کا دیکھنا حرام ہے اسی طرح ان کے ران کا دیکھنا بھی حرام ہوگا فلہٰذا تمام مردوں پر ان کی ران کا چھپانا واجب ہے۔
نیز اس طرح اپنے ذی رحم محرم عورت کے جن اعضاء کا دیکھنا مرد کے لیے حرام ہے دوسرے مرد کے ان اعضاء کا دیکھنا بھی حرام ہوگا۔
ہماری یہ نظر روایات صحیح صریحہ کے عین موافق ہے اس لیے یہی حکم مسلم ہے ہمارے علماء ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ واللہ اعلم۔

2666

۲۶۶۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ وَخَدِیْجٌ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنِ (الْمُخَارِقِ‘ قَالَ : خَرَجْنَا حُجَّاجًا‘ فَمَرَرْنَا بِالرَّبَذَۃِ فَوَجَدْنَا أَبَا ذَرٍّ قَائِمًا یُصَلِّیْ‘ فَرَأَیْتَہٗ لَا یُطِیْلُ الْقِیَامَ‘ وَیُکْثِرُ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ فَقُلْتُ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ مَا أَلَوْتُ أَنْ أُحْسِنَ إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ رَکَعَ رَکْعَۃً‘ وَسَجَدَ سَجْدَۃً‘ رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً‘ وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃً) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ کَثْرَۃَ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ أَفْضَلُ فِیْ صَلَاۃِ التَّطَوُّعِ مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ وَالْقِرَائَ ۃِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : طُوْلُ الْقِیَامِ فِیْ ذٰلِکَ أَفْضَلُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سُئِلَ أَیُّ الصَّلَاۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ طُوْلُ الْقُنُوْتِ) وَفِیْ بَعْضِ مَا رَوَیْنَاہُ فِیْ ذٰلِکَ (طُوْلُ الْقِیَامِ) .فَفَضَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ إِطَالَۃَ الْقِیَامِ عَلٰی کَثْرَۃِ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ .وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ذَرٍّ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ خِلَافٌ لِھٰذَا عِنْدَنَا لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ رَکَعَ لِلّٰہِ رَکْعَۃً‘ وَسَجَدَ سَجْدَۃً) عَلٰی مَا قَدْ أُطِیْلَ قَبْلَہٗ مِنَ الْقِیَامِ .وَیَجُوْزُ أَیْضًا مَنْ (رَکَعَ لِلّٰہِ رَکْعَۃً‘ وَسَجَدَ سَجْدَۃً‘ رَفَعَہٗ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً‘ وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃً) وَإِنْ زَادَ مَعَ ذٰلِکَ طُوْلَ الْقِیَامِ‘ کَانَ أَفْضَلَ‘ وَکَانَ مَا یُعْطِیْہِ اللّٰہُ ذٰلِکَ مِنَ الثَّوَابِ أَکْثَرَ .فَھٰذَا أَوْلٰی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ مَعْنٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لِئَلَّا یُضَادَّ الْأَحَادِیْثَ الْأُخَرَ الَّتِیْ ذَکَرْنَا .وَمِمَّنْ قَالَ بِھٰذَا الْقَوْلِ الْآخَرِ‘ فِیْ إِطَالَۃِ الْقِیَامِ‘ وَأَنَّہٗ أَفْضَلُ مِنْ کَثْرَۃِ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ‘ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ .حَدَّثَنِیْ بِذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِمَاعَۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٦٦٦: ابو اسحاق نے المخارق سے نقل کیا کہ ہم حج کے لیے روانہ ہوئے تو ہمارا گزر مقام ربذہ کے پاس سے ہوا ہم نے وہاں ابو ذر (رض) کو نماز پڑھتے دیکھا چنانچہ انھیں دیکھا کہ وہ قیام طویل نہ فرماتے تھے البتہ رکوع و سجدے کثرت سے کرتے تھے میں نے ان سے اس سلسلے میں عرض کیا تو کہنے لگے مجھے اس کو خوب (طویل) کرنے کی پروا نہیں میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے ایک رکوع کیا اور ایک سجدہ کیا اللہ تعالیٰ اس سے اس کا ایک درجہ بڑھاتے ہیں اور ایک غلطی معاف فرماتے ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا قول ہے کہ نفل نماز میں طویل قیام اور قراءت کی نسبت رکوع اور سجدات کی کثرت افضل ہے اور انھوں نے روایت بالا کو دلیل بنایا۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ طویل قیام افضل ہے اور ان کی دلیل وہ روایت ہے جو اسی کتاب میں ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے کہ آپ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی نماز (نفلی) افضل ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ طویل قیام والی۔ بعض روایتوں میں قنوت کا لفظ آیا اور بعض میں قیام کا (ہر دو کا معنی ایک ہی ہے) ۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طویل قیام کو کثرت رکوع اور سجود سے افضل قرار دیا اور رہی روایت ابوذر جو ہم نے ذکر کی ہے اس میں ہماری اس بات کے خلاف کوئی چیز نہیں ‘ کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی کہ جس میں آپ نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رکوع کیا یا ایک سجدہ کیا وہ اس بات پر محمول ہو کہ جو اس سے پہلے لمبا قیام کیا ہو اور یہ بھی کہنا درست ہے کہ جس نے اللہ کے لیے ایک رکعت ادا کی اور ایک سجدہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کرتے ہیں اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتے ہیں اور اگر اس نے اس کے ساتھ ساتھ لمبے قیام کا اضافہ کرلیا تو یہ افضل ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بڑھ کر ثواب دیں گے۔ یہ معنی جو ہم نے بیان کیا اس روایت سے مراد لینا بہتر ہے۔ تاکہ وہ دوسری حدیث کے خلاف نہ ہو جس کو ہم نے پیچھے ذکر کیا۔ جنہوں نے اس طویل قیام کو افضل قرار دیا کہ وہ زیادہ رکوع اور سجود سے بہتر ہے وہ امام محمد بن حسن (رح) ہے اور مجھے یہ بات ابن ابی عمران نے نقل کی کہ یہی امام ابوحنیفہ اور ابویوسفجواب کا قول بھی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ ٢٢٥‘ عن ثوبان مولی رسول اللہ ۔

خلاصہ الزام :
نمبر 1: امام شافعی ‘ احمد جواب کے ہاں کثرت رکعات اور کثرت سجود زیادہ افضل ہے۔
نمبر 2: امام ابو یوسف امام ابوحنیفہ اور جمہور فقہاء (رح) کے ہاں طول قیام افضل ہے امام شافعی و احمد کا قول بھی اسی طرف ہے۔
مؤقف ِفریق اوّل : کثرت رکعات اور کثرت سجود افضل ہے دلائل یہ ہیں۔
حاصل روایت : اس روایت سے کثرت سجود رکوع کی افضلیت ثابت ہوتی ہے یہ طول قیام و قراءت سے افضل ہے۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل : طول قیام و قراءت نوافل میں کثرت رکوع و سجود سے افضل ہے۔ دلائل یہ ہیں۔
ہم پہلے مسلم فی المسافرین نمبر ١٦٤ کی روایت نقل کر آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دریافت کیا گیا کہ نفلی نمازوں میں کون سی نماز افضل ہے آپ نے فرمایا طویل قیام والی اس میں قنوت اور قیام دونوں لفظ وارد ہیں جن کا معنی ایک ہے تو اس ارشاد میں آپ نے طویل قیام کو کثرت رکوع و سجود سے افضل قرار دیا ہے اب روایات ابو ذر (رض) کا جواب ملاحظہ کریں۔
روایت ابو ذر (رض) میں طویل قیام کے خلاف ایک بات بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ اس ارشاد میں احتمالات ہیں۔
نمبر 1: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رکوع اور ایک سجدہ کیا اس کے ساتھ ساتھ کہ اس نے اس قیام کو لمبا کرلیا اس کو یہ عظیم الشان بدلہ ملے گا۔
نمبر 2: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رکوع ‘ ایک سجدہ کیا اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کریں گے اور گناہ مٹا دیں گے اور اگر اس سے قیام کو طویل کرلیا تو وہ اور بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر ثواب دیں گے۔
اس حدیث سے یہ معنی لینا اولیٰ ہے تاکہ دوسری احادیث کے خلاف نہ رہے۔
طول قیام کو افضل قرار دینے والوں میں ہمارے ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
اس قول کی تائید میں اگلی حدیث ملاحظ فرمائیں

2667

۲۶۶۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَرْطَاۃَ‘ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ‘ (أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا رَأٰی فَتًی وَہُوَ یُصَلِّیْ قَدْ أَطَالَ صَلَاتَہٗ۔ فَلَمَّا انْصَرَفَ مِنْہَا قَالَ مَنْ یَعْرِفُ ھٰذَا قَالَ رَجُلٌ : أَنَا‘ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : لَوْ کُنْتُ أَعْرِفُہٗ لَأَمَرْتُہٗ أَنْ یُطِیْلَ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ‘ فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا قَامَ الْعَبْدُ یُصَلِّیْ أَتٰی بِذُنُوْبِہٖ، فَجُعِلَتْ عَلٰی رَأْسِہٖ وَعَاتِقَیْہٖ‘ فَکُلَّمَا رَکَعَ أَوْ سَجَدَ‘ تَسَاقَطَتْ عَنْہُ) .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَفْضِیْلُ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ‘ عَلَی الْقِیَامِ .فَقِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْہِ مَا ذَکَرْتُ، وَإِنَّمَا فِیْہِ‘ مَا یُعْطَاہُ الْمُصَلِّیْ عَلَی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ مِنْ حَطَّ الذُّنُوْبِ عَنْہُ‘ وَلَعَلَّہٗ یُعْطٰی بِطُوْلِ الْقِیَامِ‘ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا فِیْہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ فَإِنَّ الَّذِیْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَفْضِیْلِہٖ طُوْلَ الْقِیَامِ‘ أَوْلٰی مِنْہُ ۔
٢٦٦٧: جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک نوجوان کو نماز پڑھتے دیکھا جو کہ اپنی نماز کو طویل کرنے والا تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا اس نوجوان سے کون واقف ہے ایک آدمی نے کہا اس کو میں جانتا ہوں عبداللہ کہنے لگے اگر میں اس کو جانتا تو اس کو کہتا کہ یہ رکوع اور سجود کو طویل کرے اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے جب بندہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہوں کو لایا جاتا ہے اور وہ اس کے کندھوں پر سر پر رکھ دیئے جاتے ہیں وہ جب بھی رکوع یا سجدہ کرتا ہے تو گناہ اس سے گرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس روایت میں تو رکوع اور سجدے کو قیام سے افضل کہا گیا ہے۔ تو اس کو جواب میں یوں کہا جائے گا کہ بلاشبہ بات ہے جو تم نے ذکر کی۔ دراصل اس روایت میں نمازی کو رکوع اور سجدے پر ملنے والا ثواب اور اس سے مٹائے جانے والے گناہ اس کا تذکرہ ہے اور ممکن ہے کہ طویل قیام سے یہ ثواب اور بھی بڑھ جائے۔ باقی حضرت عمر (رض) کی وہ روایت جو قیام کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہے وہ ہر اعتبار سے اولیٰ اور افضل ہے۔
اشکال :
اس روایت سے تو رکوع ‘ سجود کی قیام پر فضیلت معلوم ہو رہی ہے۔
نمبر 1:
اس روایت سے رکوع و سجود کی قیام پر فضیلت ثابت نہیں ہوتی فقط اس میں نماز کے رکوع و سجود کی طوالت پر ملنے والے اجر کا تذکرہ ہے طول قیام اس کے خلاف نہیں۔
نمبر 2:
قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو طویل قیام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے اس لیے وہ قول ابن عمر (رض) سے اعلیٰ و اولیٰ و افضل ہے اسی کو اختیار کیا جائے۔

تَمَّ کِتَابُ الصَّلَاۃِ

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔