HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

13. جہاد کا بیان

الطحاوي

4966

۴۹۶۵: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ نَضْلَۃَ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ رَجُلًا کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ فَضَرَبَتْ اِحْدَاہُمَا الْأُخْرَی بِعَمُوْدِ فُسْطَاطٍ أَوْ بِحَجَرٍ فَأَسْقَطَتْ .فَرُفِعَ ذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الَّذِیْ یُخَاصِمُ کَیْفَ یُعْقَلُ أَوْ کَیْفَ یُوْدَی مَنْ لَا صَاحَ فَاسْتَہَلَّ وَلَا شَرِبَ وَلَا أَکَلَ ؟ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسَجْعٌ کَسَجْعِ الْأَعْرَابِ فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ غُرَّۃً فَجَعَلَہٗ عَلَی قَوْمِہَا قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْغُرَّۃَ الْوَاجِبَۃَ فِی الْجَنِیْنِ اِنَّمَا تَجِبُ لِأُمِّ الْجَنِیْنِ لِأَنَّ الْجَنِیْنَ لَمْ یَعْلَمْ أَنَّہٗ کَانَ حَیًّا فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الضَّرْبَۃِ بِأُمِّہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ تِلْکَ الْغُرَّۃُ الْمَحْکُوْمُ بِہَا الْجَنِیْنُ ثُمَّ یَرِثُہَا مَنْ کَانَ یَرِثُہُ لَوْ کَانَ حَیًّا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَضَیْ عَلَی الْمَحْکُوْمِ عَلَیْہِ بِالْغُرَّۃِ قَالَ کَیْفَ یَعْقِلُ مَنْ لَا أَکَلَ وَلَا شَرِبَ وَلَا نَطَقَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ غُرَّۃٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَۃٌ وَلَمْ یَقُلْ لِلَّذِیْ سَجَعَ ذٰلِکَ السَّجْعَ اِنَّمَا حَکَمْتُ بِہٰذَا لِلْجِنَایَۃِ عَلَی الْمَرْأَۃِ لَا فِی الْجَنِیْنِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا رَوَیْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ فِیْ ہٰذَا الْکِتَابِ أَنَّ الْمَضْرُوْبَۃَ مَاتَتْ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْ الضَّرْبَۃِ فَقَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا بِالدِّیَۃِ مَعَ قَضَائِہِ بِالْغُرَّۃِ .فَلَوْ کَانَتِ الْغُرَّۃُ لِلْمَرْأَۃِ الْمَقْتُوْلَۃِ اِذًا لَمَا قَضَی لَہَا بِالْغُرَّۃِ وَلَکَانَ حُکْمُہَا حُکْمَ امْرَأَۃٍ ضَرَبَتْہَا امْرَأَۃٌ فَمَاتَتْ مِنْ ضَرْبِہَا فَعَلَیْہَا دِیَتُہَا وَلَا یَجِبُ عَلَیْہَا لِلضَّرْبَۃِ أَرْشٌ .فَلَمَّا حَکَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ دِیَۃِ الْمَرْأَۃِ بِالْغُرَّۃِ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْغُرَّۃَ دِیَۃٌ لِلْجَنِیْنِ لَا لَہَا فَہِیَ مَوْرُوْثَۃٌ عَنِ الْجَنِیْنِ کَمَا یُوَرَّثُ مَالُہُ لَہُ لَوْ کَانَ حَیًّا فَمَاتَ اتِّبَاعًا لِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٩٦٥: عبید بن نضلہ نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کی دو عورتیں تھیں ایک نے دوسری کو خیمے کا کھونٹا دے مارا یا پتھر مارا۔ جس سے اس نے بچہ گرا دیا تو یہ معاملہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو جھگڑا کرنے والے نے کہا اس کی کس طرح دیت ہوگی یا کس طرح اس کی دیت ادا کی جائے گی جو نہ چیخا ‘ نہ چلّایا اور نہ اس نے کھایا اور نہ پیا۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو دیہاتیوں کی طرح تک بندی کرتا ہے ‘ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ فرما کر اس مارنے والی عورت کی قوم پر دیت کو ڈالا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ جنین کی وجہ سے جو غلام لازم ہوگا وہ جنین کی ماں کے لیے ہوگا کیونکہ معلوم نہیں کہ ماں کو مارتے وقت جنین زندہ تھا یا مردہ۔ جس غلام کا فیصلہ ہوا وہ جنین کا ہوگا پھر اس کے ورثاء وہی ہوں گے جو بچے کے ورثاء ہیں یعنی زندہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے۔ فریق ثانی کی دلیل ان روایات کے ضمن میں پائی جاتی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب غلام دینے کا فیصلہ فرمایا تو اس نے کہا اس کی دیت کس طرح دی جائے جس نے نہ کھایا نہ پیا اور نہ کلام کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میں ایک غلام یا لونڈی ہے۔ آپ نے اس تک بندی والے کو یہ نہیں فرمایا کہ میں نے یہ حکم اس لیے دیا ہے کہ عورت کو نقصان پہنچایا گیا ہے جنین کی وجہ سے یہ حکم نہیں ہے۔ اس بات پر وہ روایات دلالت کرتی ہیں جو اس کتاب میں پہلے مذکور ہوئیں کہ ضرب کے بعد مضروبہ عورت مرگئی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام کے فیصلہ کے ساتھ ساتھ دیت کا فیصلہ بھی فرمایا۔ اگر بالفرض وہ غلام اس مقتولہ عورت کا ہوتا تو آپ غلام کا فیصلہ نہ فرماتے اور اس کا حال اس عورت جیسا ہوتا جس کو دوسری عورت مارتے اور وہ اس کی ضرب سے مرجائے تو اس (قاتلہ) پر اس کی دیت لازم ہوتی ہے مارنے کی وجہ سے تاوان نہیں ہوا۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کی دیت کے باوجود غلام کے ساتھ فیصلہ فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ غلام اس جنین کی دیت ہے اس عورت کی نہیں۔ وہ عورت اس بچے کے مال میں اس طرح وارث ہوگی جس طرح اس کے زندہ رہنے کی صورت میں بھی (مرجانے) کی صورت میں۔ اس کی وارث ہوتی۔ اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسلم فی القسامۃ ٣٧؍٣٨‘ ابو داؤد فی الدیات باب ١٩‘ نسائی فی القسامۃ باب ٤٠؍٤١‘ مسند احمد ٤‘ ٢٤٥؍٢٤٦‘ ٢٤٩۔
قول امام طحاوی (رح) : علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ جنین کی وجہ سے جو غلام لازم ہوگا وہ جنین کی ماں کے لیے ہوگا کیونکہ معلوم نہیں کہ ماں کو مارتے وقت جنین زندہ تھا یا مردہ۔
فریق ثانی کا مؤقف : جس غلام کا فیصلہ ہوا وہ جنین کا ہوگا پھر اس کے ورثاء وہی ہوں گے جو بچے کے ورثاء ہیں یعنی زندہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے۔
فریق ثانی کی دلیل ان روایات کے ضمن میں پائی جاتی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب غلام دینے کا فیصلہ فرمایا تو اس نے کہا اس کی دیت کس طرح دی جائے جس نے نہ کھایا نہ پیا اور نہ کلام کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میں ایک غلام یا لونڈی ہے۔ آپ نے اس تک بندی والے کو یہ نہیں فرمایا کہ میں نے یہ حکم اس لیے دیا ہے کہ عورت کو نقصان پہنچایا گیا ہے جنین کی وجہ سے یہ حکم نہیں ہے۔
دلالت روایات :
اس بات پر وہ روایات دلالت کرتی ہیں جو اس کتاب میں پہلے مذکور ہوئیں کہ ضرب کے بعد مضروبہ عورت مرگئی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام کے فیصلہ کے ساتھ ساتھ دیت کا فیصلہ بھی فرمایا۔ اگر بالفرض وہ غلام اس مقتولہ عورت کا ہوتا تو آپ غلام کا فیصلہ نہ فرماتے اور اس کا حال اس عورت جیسا ہوتا جس کو دوسری عورت مارے اور وہ اس کی ضرب سے مرجائے تو اس (قاتلہ) پر اس کی دیت لازم ہوتی ہے مارنے کی وجہ سے تاوان نہیں ہوتا۔
پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کی دیت کے باوجود غلام کے ساتھ فیصلہ فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ غلام اس جنین کی دیت ہے اس عورت کی نہیں۔ وہ عورت اس بچے کے مال میں اس طرح وارث ہوگی جس طرح اس کے زندہ رہنے کی صورت میں پھر (مرجانے) کی صورت میں۔ اس کی وارث ہوتی۔ اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات کی اتباع ہے۔
یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

4967

۴۹۶۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیْدٍ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِذَا أَمَّرَ رَجُلًا عَلٰی سَرِیَّۃٍ قَالَ لَہُ اِذَا لَقِیْتُ عَدُوَّک مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، فَادْعُہُمْ اِلَیْ اِحْدَی ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَیَّتُہُنَّ أَجَابُوْک اِلَیْہَا ، فَاقْبَلْ مِنْہُمْ ، وَکُفَّ عَنْہُمْ ، اُدْعُہُمْ اِلَی الْاِسْلَامِ ، فَاِنْ أَجَابُوْکَ، فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ، ثُمَّ اُدْعُہُمْ اِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ اِلَی دَارِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّہُمْ اِنْ فَعَلُوْا ذٰلِکَ ، أَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِیْنَ ، وَلَہُمْ مَا لَہُمْ ، فَاِنْ ہُمْ أَبَوْا ، فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّہُمْ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِیْنَ ، یَجْرِیْ عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللّٰہِ الَّذِیْ یَجْرِیْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ، وَلَا یَکُوْنُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیْمَۃِ شَیْء ٌ ، اِلَّا أَنْ یُجَاہِدُوْا مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَاِنْ ہُمْ أَبَوْا أَنْ یَدْخُلُوْا فِی الْاِسْلَامِ ، فَسَلْہُمْ اِعْطَائَ الْجِزْیَۃِ ، فَاِنْ أَجَابُوْا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ ، وَکُفَّ عَنْہُمْ ، فَاِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاَللّٰہِ وَقَاتِلْہُمْ قَالَ عَلْقَمَۃُ : فَحَدَّثْتُ بِہٖ مُقَاتِلَ بْنَ حَیَّانَ ، فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ مُسْلِمُ بْنُ ہَیْصَمٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقْرِنٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٤٩٦٦: علقمہ بن مرثد نے ابن بریدہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر فرماتے تو اس کو فرماتے جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے مقابل ہوجاؤ تو ان کو تین باتوں میں سے ایک کی طرف بلاؤ (آپ نے لفظ خلال یا خصال فرمایا دونوں کا ایک ہی معنی ہے) وہ ان میں سے جس بات کو تسلیم کرلیں تم ان کی طرف سے قبول کرلو اور ہاتھ روک لو۔ ان کو اسلام کی دعوت دو اگر وہ تسلیم کرلیں تو ان سے قبول کرلو اور ہاتھ روک لو۔ پھر ان کو اپنے علاقہ سے مسلمانوں کے ملک کی طرف ہجرت کی دعوت دو اور ان کو بتلاؤ کہ اگر وہ ایسا کرلیں تو ان پر وہی کچھ لازم ہوگا جو مہاجرین پر ہے اور انھیں وہی کچھ (حقوق) حاصل ہوں گے جو ان کو حاصل ہیں اور اگر وہ وہاں سے ہجرت کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا وہ حکم جاری ہوگا جو عام مؤمنوں پر جاری ہوتا ہے۔ مگر ان کے لیے غنیمت اور مال فئی میں کوئی حصہ نہ ہوگا البتہ اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شرکت کریں۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انھیں جزیہ دینے کی دعوت دو اگر وہ اس کو تسلیم کرلیں تو ان کی یہ بات قبول کرلو اور ان سے ہاتھ روک لو۔ اگر وہ اس سے انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو اور ان سے لڑو۔ حضرت علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مقاتل بن حیان سے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے مسلم بن ہیصم نے نعمان بن مقرن (رض) سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٢‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٨٢‘ ترمذی فی السیر ٣٠؍٤٧‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٨‘ دارمی فی السیر باب ٣٨‘ مسند احمد ٥‘ ٣٥٢؍٣٥٨۔

4968

۴۹۶۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ حَدِیْثَ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ مُقَاتِلٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ ہَیْصَمٍ
٤٩٦٧: ابو حذیفہ نے سفیان سے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے البتہ انھوں نے روایت میں علقمہ کی روایت کو عن مقاتل عن مسلم بن ہیصم کا تذکر نہیں کیا۔

4969

۴۹۶۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ أَبُوْ صَالِحٍ .ح وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَحِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ بْنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ الْحَضْرَمِیِّ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٩٦٨: شعبہ بن حجاج نے علقمہ بن مرثد حضرمی سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4970

۴۹۶۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَجَّہَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ اِلَی خَیْبَرَ وَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُقَاتِلُہُمْ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مِثْلَنَا ؟ .قَالَ اُنْفُذْ عَلٰی رِسْلِک حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ ، ثُمَّ اُدْعُہُمْ اِلَی الْاِسْلَامِ ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَہْدِیَ اللّٰہُ بِک رَجُلًا وَاحِدًا ، خَیْرٌ لَک مِنْ أَنْ تَکُوْنَ لَک حُمْرُ النَّعَمِ .
٤٩٦٩: ابو حازم نے سہل بن سعد ساعدی (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت علی (رض) کو خیبر کی طرف بھیجا اور ان کو جھنڈا عنایت فرمایا تو حضرت علی (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا میں ان سے لڑوں یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے طریقے پر چلتے رہو یہاں تک کہ تم ان کے میدان میں جا اترو۔ پھر ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو بتلاؤ کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق لازم ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت نصیب کر دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٤٣‘ فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب ٩‘ مسلم فی فضائل الصحابہ ٣٤‘ مسند احمد ٥؍٣٣٣۔

4971

۴۹۷۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ السَّفْطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَر ، عَنِ ابْنِ أَخِی أَنَسِ بْنَ مَالِکٍ ، عَنْ عَمِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ اِلَی قَوْمٍ یُقَاتِلُہُمْ ، ثُمَّ بَعَثَ فِیْ أَثَرِہِ یَدْعُوْھُ ، وَقَالَ لَہُ لَا تَأْتِہِ مِنْ خَلْفِہٖ، وَائْتِہِ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ قَالَ : وَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا أَنْ لَا یُقَاتِلَہُمْ ، حَتّٰی یَدْعُوَہُمْ .
٤٩٧٠: عمر بن ذر نے انس بن مالک کے بھتیجے سے وہ اپنے چچا انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ایک قوم کی طرف جہاد کے لیے روانہ فرمایا پھر ان کے پیچھے کسی کو بلانے کے لیے بھیجا اور فرمایا کہ ان کے پیچھے کی بجائے ان کے سامنے کی طرف سے آنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو حکم فرمایا۔ کہ جب تک ان (کفار) کو دعوت اسلام نہ دے لیں ان سے اس وقت تک لڑائی نہ کریں۔

4972

۴۹۷۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَا قَاتَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمًا ، حَتّٰی یَدْعُوَہُمْ .
٤٩٧١: ابن ابی نجیح نے اپنے والد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی قوم کو دعوت اسلام دینے کے بغیر ان سے لڑائی نہیں کی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٣١‘ ٢٣٦۔

4973

۴۹۷۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ ثَنَا الْحَجَّاجُ ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٩٧٢: حجاج نے عبداللہ بن نجیح سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4974

۴۹۷۳: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٩٧٣: حجاج نے ابن ابی نجیح سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4975

۴۹۷۴: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْاِمَامَ وَأَہْلَ السَّرَایَا ، اِذَا أَرَادُوْا قِتَالَ الْعَدُوِّ ، دَعَوْہُمْ قَبْلَ ذٰلِکَ اِلَی مِثْلِ مَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ بُرَیْدَۃَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَقَالُوْا : اِنْ قَاتَلَہُمُ الْاِمَامُ أَوْ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ سَرَایَاہٗ، مِنْ غَیْرِ ہٰذَا الدُّعَائِ فَقَدْ أَسَائُوْا فِیْ ذٰلِکَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِقِتَالِہِمْ وَالْغَارَۃِ عَلَیْہِمْ ، وَاِنْ لَمْ یُدْعَوْا قَبْلَ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٤٩٧٤: حفص بن غیاث نے حجاج سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ امام یا امیر لشکر جب دشمن سے قتال کا ارادہ کریں گے تو ان کو اسلام کی طرف دعوت دیں جیسا کہ روایت بریدہ (رض) میں نقل کیا گیا ہے اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے اور انھوں نے استدلال میں یہ بات کہی ہے کہ اگر امام ان سے لڑائی کرے یا چھوٹے لشکر کا کوئی آدمی لڑائی کرے اور دعوت نہ دی ہو تو وہ گناہ گار ٹھہریں گے۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ کفار سے بلادعوت قتال میں کوئی حرج نہیں اور ان پر شب خون مارنے میں بھی کوئی حرج نہیں خواہ ان کو دعوت نہ دی گئی ہو انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔

4976

۴۹۷۵: بِمَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِی الْأَخْضَرِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَغِرْ عَلٰی أُبْنَیْ صَبَاحًا ، ثُمَّ حَرِّقْ .
٤٩٧٥: عروہ بن زبیر نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا مقام ابنی پر صبح کے وقت لوٹ ڈالو پھر جلا ڈالو۔

4977

۴۹۷۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ .ح .وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ التَّیْمِیُّ .ح .وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ح .
٤٩٧٦: اگلی حدیث کی ایک سند یہ بھی ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٦‘ الجہاد باب ١٠٢‘ مسلم فی الصلاۃ ٩‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٩‘ ترمذی فی السیر باب ٤٨‘ دارمی فی السیر باب ٩۔

4978

۴۹۷۷: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالُوْا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُغِیْرُ عَلَی الْعَدُوِّ ، عِنْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ فَیَسْتَمِعُ ، فَاِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ ، وَاِلَّا أَغَارَ . حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٤٩٧٧: ثابت بنانی نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دشمن پر صبح کے وقت حملہ آور ہوتے اگر اذان کی آواز سنتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کردیتے۔ زاذان نے جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4979

۴۹۷۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنِ ابْنِ اِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ اِذَا غَزَا قَوْمًا ، لَمْ یُغِرْ عَلَیْہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ ، فَاِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ وَاِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ .فَنَزَلْنَا خَیْبَرَ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ وَلَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا ، رَکِبَ وَرَکِبْنَا مَعَہٗ، فَرَکِبَتْ خَلَفَ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، وَاِنَّ قَدَمِی لَتَمَسُّ قَدَمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْبَلَنَا عُمَّالُ خَیْبَرَ قَدْ أَخْرَجُوْا مَسَاحِیَہُمْ وَمَکَاتِلَہُمْ ، فَلَمَّا رَأَوْا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْجَیْشَ قَالُوْا مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیْسُ فَأَدْبَرُوْا ہِرَابًا .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ ، اِنَّا اِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ ، فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ .
٤٩٧٨: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم سے جہاد کرتے تو صبح ہونے تک ان پر حملہ نہ کرتے پس اگر اذان کی آواز سن پاتے تو حملے سے رک جاتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنتے تو حملہ کردیتے۔ پس ہم خیبر میں اترے جب صبح ہوئی اور آپ نے اذان نہ سنی تو آپ بھی سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوئے میں ابو طلحہ (رض) کے پیچھے سوار ہوا اور میرا پاؤں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کو چھو رہا تھا۔ پھر ہمارا سامنا خیبر کے مزدوروں سے ہوا وہ اپنی کدالیں اور ٹوکرے لیے نکلے۔ جب انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر سمیت آئے ہیں اور پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے فرمایا خیبر برباد ہوگیا۔ بیشک جب ہم کسی قوم کی زمین پر اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ٦‘ صلوۃ الخوف باب ٦‘ الجہاد باب ١٣٠‘ والمناقب باب ٢٨‘ المغازی باب ٣٨‘ مسلم فی الجہاد ١٢٠؍١٢١‘ ترمذی فی السیر باب ٣‘ نسائی فی الصید باب ٧٨‘ مالک فی الجہاد ٤٨‘ مسند احمد ٣‘ ١١١؍١٦٤‘ ٢٤٦؍٢٦٣۔

4980

۴۹۷۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ یَعْقُوْبِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَبِیْبٍ الْجُہَنِیِّ عَنْ جُنْدَبِ بْنِ مَکِیْثٍ الْجُہَنِیِّ قَالَ : بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَالِبَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ اللَّیْثِیَّ فِیْ سَرِیَّۃٍ کُنْتُ فِیْہِمْ ، وَأَمَرَہٗ أَنْ یَشُنَّ الْغَارَۃَ عَلٰی ابْنِ الْمُلَوِّحِ بِالْکَدِیْدِ قَالَ : فَرَاحَتِ الْمَاشِیَۃُ مِنْ اِبِلِہِمْ وَغَنَمِہِمْ ، فَلَمَّا احْتَلَبُوْا ، وَعَطَنُوْا ، وَاطْمَأَنُّوْا نِیَامًا ، شَنَنَّا عَلَیْہِمُ الْغَارَۃَ ، فَقَتَلْنَا وَاسْتَقْنَا النَّعَمَ ۔
٤٩٧٩: جندب بن مکیث جہنی (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غالب بن عبداللہ لیثی (رض) کو ایک دستے میں روانہ فرمایا میں بھی اس میں شامل تھا۔ اس کو حکم فرمایا کہ وہ قبیلہ ابن ملوح پر مقام کدید میں لوٹ ڈالیں۔ راوی کہتے ہیں کہ شام کو جب ان کے اونٹ اور بکریاں واپس لوٹ آئیں اور وہ دودھ دوھ چکے اور اونٹوں اور بکریوں کو بٹھا دیا پھر اطمینان سے سو گئے تو ہم نے ان پر چاروں اطراف سے حملہ کردیا اور ان کو قتل کر کے ان کے جانور ہانک لائے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٦٨۔

4981

۴۹۸۰: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ قَالَ : جَائَ أَبُو الْعَالِیَۃِ اِلَیَّ وَاِلَیْ صَاحِبٍ لِی ، فَانْطَلَقْنَا مَعَہٗ حَتّٰی أَتَیْنَا نَصْرَ بْنَ عَاصِمٍ اللَّیْثِیَّ ، فَقَالَ أَبُو الْعَالِیَۃِ حَدِّثْ ہٰذَیْنِ حَدِیْثَک .قَالَ : ثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ مَالِکٍ اللَّیْثِیُّ قَالَ : بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً ، فَأَغَارَتْ عَلَی الْقَوْمِ ، فَشَدَّ رَجُلٌ وَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَ السَّرِیَّۃِ ، ثُمَّ ذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا أَرَدْنَا مِنْہُ مَا فِیْہِ مِنْ ذِکْرِ الْغَارَۃِ .
٤٩٨٠: حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ میرے اور میرے ایک دوست کے پاس ابوالعالیہ آئے ہم ان کے ساتھ چل کر نصر بن عاصم لیثی کے ہاں گئے تو ان کو ابوالعالیہ نے کہا ان دو نے تمہاری روایت اس طرح بیان کی ہے ہمیں عقبہ بن مالک لیثی نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ روانہ فرمایا جس نے ایک قوم پر لوٹ ڈالی۔ تو آدمی نے حملہ کیا سریہ کے ایک آدمی نے اس کا پیچھا کیا پھر طویل روایت ذکر کی۔ ہمارا یہاں مقصود صرف اچانک حملے کا تذکرہ ہے۔

4982

۴۹۸۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ اِیَاسِ بْنِ سَلْمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : لَمَّا قَرُبْنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ أَمَرَنَا أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ ، فَشَنَنَّا عَلَیْہِمُ الْغَارَۃَ فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارُ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْغَارَۃِ ، وَالْغَارَۃُ لَا تَکُوْنُ وَقَدْ تَقَدَّمَہَا الدُّعَائُ وَالْاِنْذَارُ .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَحَدُ الْأَمْرَیْنِ مِمَّا رَوَیْنَا ، نَاسِخًا لِلْآخَرِ ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ
٤٩٨١: ایاس بن سلمہ بن اکوع سے اپنے والد سلمہ بن اکوع (رض) سے نقل کیا کہ جب ہم مشرکین کے قریب ہوگئے تو ابوبکر صدیق (رض) نے حملے کا حکم دیا ہم نے ان پر چاروں طرف سے حملہ کردیا۔ ان آثار میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکافروں پر لوٹ ڈالنے کا حکم دیا اور یہ اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ اس سے پہلے ان کو علم بھی نہ ہو۔ دعوت و انذار تو بعد کی بات ہے۔ اب یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ دو میں سے ایک بات دوسری کے لیے ناسخ ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل روایات پر غور کرنا ہوگا۔ چنانچہ یزید بن سنان کی روایت مل گئی وہ درج ذیل ہے۔

4983

۴۹۸۲: فَاِذَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُفْیَانَ الْجَحْدَرِیُّ .ح وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ بَکَّارٍ .ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِسْحَاقَ الضَّرِیْرُ قَالُوْا : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَوْنٍ قَالَ : کَتَبْتُ اِلٰی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنِ الدُّعَائِ قَبْلَ الْقِتَالِ فَقَالَ : اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ ، أَغَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ ، وَہُمْ غَارُّوْنَ ، وَأَنْعَامُہُمْ عَلَی الْمَائِ فَقَتَلَ مُقَاتِلَہُمْ ، وَسَبَیْ سَبْیَہُمْ ، وَأَصَابَ یَوْمَئِذٍ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ
٤٩٨٢: ابو اسحاق الضریر نے بتلایا کہ ہمیں عبداللہ بن عون نے خبر دی کہ میں نے نافع کو خط لکھ کر پوچھا کہ لڑائی سے پہلے کیا دعوت ضروری ہے تو انھوں نے جواباً لکھا کہ یہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی مصطلق پر اچانک حملہ کیا جبکہ وہ حالت غفلت میں تھے اور ان کے چوپائے پانی پر تھے ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا اور دوسروں کو قیدی بنا لیا اور اسی دن قیدیوں میں جویریہ بنت حارث کو پایا۔
لغات : غار۔ غافل ہونا۔
تخریج : بخافی فی العتق باب ١٣‘ مسلم فی الجہاد ١‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٩١‘ مسند احمد ٢؍٣١‘ ٣٢۔

4984

۴۹۸۳: وَحَدَّثَنِیْ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، وَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ الْجَیْشِ ، وَاِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، مِثْلَہٗ۔
٤٩٨٣: اس روایت کو عبداللہ بن عمر (رض) نے بھی بیان کیا وہ خود اس لشکر میں شامل تھے۔ سند یہ ہے۔ بشر بن عمر نے حماد بن زید سے انھوں نے ابن عون سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

4985

۴۹۸۴: وَاِذَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ قَالَ : کُلُّ ذٰلِکَ قَدْ کَانَ قَدْ کُنَّا نَغْزُو ، فَنَدْعُو وَلَا نَدْعُو .
٤٩٨٤: سلیمان تیمی نے ابو عثمان نہدی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے تھا ہم غزوہ میں جاتے دعوت دیتے اور کبھی نہ بھی دیتے۔

4986

۴۹۸۵: وَاِذَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الضَّرِیْرُ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ أَنَّ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیَّ أَخْبَرَہُمْ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ قَالَ : کُنَّا نَغْزُو ، فَنَدْعُوَ وَلَا نَدْعُو .
٤٩٨٥: سلیمان تیمی نے ابو عثمان نہدی سے خبر دی کہ ہم جہاد کرتے ہم دعوت دیتے اور نہ بھی دیتے تھے۔

4987

۴۹۸۶: وَاِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مُبَارَکٌ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُوْلُ : لَیْسَ عَلَی الرُّوْمِ دَعْوَۃٌ ، لِأَنَّہُمْ قَدْ دُعُوْا .
٤٩٨٦: ابن مبارک نے بیان کیا کہ حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ اہل روم کو دعوت کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو دعوت دی جا چکی۔

4988

۴۹۸۷: وَاِذَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ قَالَ : قُلْتُ لِاِبْرَاھِیْمَ : اِنَّ نَاسًا یَقُوْلُوْنَ ، اِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ یَنْبَغِی أَنْ یُدْعَوْا .فَقَالَ قَدْ عَلِمَتْ الرُّوْمُ عَلٰی مَا یُقَاتَلُوْنَ ، وَقَدْ عَلِمَتِ الدَّیْلَمُ عَلٰی مَا یُقَاتَلُوْنَ .
٤٩٨٧: ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے کہا بعض لوگ کہتے ہیں کہ مشرکین کو دعوت دینی چاہیے تو انھوں نے جواب میں فرمایا۔ اہل روم کو معلوم ہوچکا کہ کس بات پر ان سے لڑا جا رہا ہے اور اسی طرح دیلمیوں کو بھی معلوم ہوچکا کہ کس بات پر ان سے لڑا جا رہا ہے۔

4989

۴۹۸۸: وَاِذَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنْ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ دُعَائِ الدَّیْلَمِ فَقَالَ : قَدْ عَلِمُوْا مَا الدُّعَائُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَبَیَّنَ مَا رَوَیْنَا مِنْ ہٰذَا ، أَنَّ الدُّعَائَ اِنَّمَا کَانَ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ ، لِأَنَّ النَّاسَ حِیْنَئِذٍ ، لَمْ تَکُنْ الدَّعْوَۃُ بَلَغَتْہُمْ ، وَلَمْ یَکُوْنُوْا یَعْلَمُوْنَ عَلٰی مَا یُقَاتَلُوْنَ عَلَیْہِ، فَأَمَرَ بِالدُّعَائِ ، لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ تَبْلِیغًا لَہُمْ ، وَاِعْلَامًا لَہُمْ مَا یُقَاتَلُوْنَ عَلَیْہِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغَارَۃِ عَلٰی آخَرِیْنَ ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ اِلَّا لِمَعْنًی لَمْ یَحْتَاجُوْا مَعَہُ اِلَی الدُّعَائِ ، لِأَنَّہُمْ قَدْ عَلِمُوْا مَا یُدْعَوْنَ اِلَیْہِ لَوْ دُعُوْا وَمَا لَوْ أَجَابُوْا اِلَیْہِ لَمْ یُقَاتَلُوْا ، فَلَا مَعْنًی لِلدُّعَائِ .وَہٰکَذَا کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ یَقُوْلُوْنَ کُلُّ قَوْمٍ قَدْ بَلَغَتْہُمْ الدَّعْوَۃُ ، فَأَرَادَ الْاِمَامُ قِتَالَہُمْ ، فَلَہٗ أَنْ یُغِیْرَ عَلَیْہِمْ ، وَلَیْسَ عَلَیْہِ أَنْ یَدْعُوَہُمْ ، وَکُلُّ قَوْمٍ لَمْ تَبْلُغْہُمْ الدَّعْوَۃُ ، فَلَا یَنْبَغِی قِتَالُہُمْ ، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمُ الْمَعْنَی الَّذِیْ عَلَیْہِ یُقَاتَلُوْنَ ، وَالْمَعْنَی الَّذِیْ اِلَیْہِ یُدْعَوْنَ . وَقَدْ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِی الْمُرْتَدِّ عَنِ الْاِسْلَامِ ، أَیُسْتَتَابُ أَمْ لَا ؟ فَقَالَ قَوْمٌ : اِنِ اسْتَتَابَ الْاِمَامُ الْمُرْتَدَّ ، فَہُوَ أَحْسَنُ ، فَاِنْ تَابَ وَاِلَّا قُتِلَ .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .وَقَالَ الْآخَرُوْنَ : لَا یُسْتَتَابُ ، وَجَعَلُوْا حُکْمَہُ کَحُکْمِ الْحَرْبِیِّیْنَ - عَلٰی مَا ذَکَرْنَا - مِنْ بُلُوْغِ الدَّعْوَۃِ اِیَّاہُمْ ، وَمِنْ تَقْصِیْرِہَا عَنْہُمْ .وَقَالُوْا : اِنَّمَا تَجِبُ الْاِسْتِتَابَۃُ لِمَنْ خَرَجَ عَنِ الْاِسْلَامِ ، لَا عَنْ بَصِیْرَۃٍ مِنْہُ بِہٖ ، فَأَمَّا مَنْ خَرَجَ مِنْہُ اِلَی غَیْرِہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ ، فَاِنَّہٗ یُقْتَلُ وَلَا یُسْتَتَابُ .وَہٰذَا قَوْلٌ ، قَالَ بِہٖ أَبُوْ یُوْسُفَ ، فِیْ کِتَابِ الْاِمْلَائِ قَالَ أَقْتُلُہُ وَلَا أَسْتَتِیْبُہٗ، اِلَّا أَنَّہٗ اِنْ بِدَرَنِیْ بِالتَّوْبَۃِ ، خَلَّیْتُ سَبِیْلَہٗ، وَوَکَلْتُ أَمْرَہُ اِلَی اللّٰہِ .
٤٩٨٨: منصور کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے پوچھا کہ کیا دیلمیوں کو دعوت کی ضرورت ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کو دعوت کا بخوبی علم ہوچکا۔ امام جعفر طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان آثار سے واضح ہوا کہ یہ دعوت اسلام ‘ ابتداء اسلام میں تھی کیونکہ اس وقت تک ان کو دعوت نہ پہنچی تھی اور ان کو معلوم نہ تھا کہ ان سے جنگ کرنے کا کیا مقصد ہے فلہذا دعوت کا حکم دیا گیا تاکہ ان کو تبلیغ ہوجائے اور ان کو مطلع کردیا جائے کہ ان سے لڑائی کا سبب کیا ہے۔ پھر دوسرے لوگوں پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ دعوت کے محتاج نہ تھے کیونکہ ان کو یہ معلوم تھا کہ ان کو کس چیز کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ اگر ان کو دعوت دی گئی اور اگر وہ اس کو قبول کرلیتے تو ان سے لڑائی نہ کی جاتی۔ پس اس صورت میں دعوت دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اسی طرح کہتے تھے کہ ہر وہ قوم جن کو دعوت پہنچ جائے پھر امام ان سے قتال کا ارادہ کرے تو وہ ان پر بے خبری میں حملہ کرسکتا اس پر ان کو دعوت دینا لازم نہیں ہے اور جس قوم کو دعوت نہ پہنچی ہو تو ان سے قتل جائز نہیں ہے جب تک کہ ان کے سامنے مقصد قتال نہ واضح کردیا جائے اور مقصود دعوت نہ ذکر کردیا جائے مرتد کے متعلق لوگوں نے کلام کیا ہے کیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں۔ بعض لوگوں کا قول یہ ہے کہ اگر امام مرتد سے توبہ کرنے کا کہے تو مناسب ہے اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ دوسروں نے کہا اس کو توبہ کے لیے نہ کہا جائے گا اور انھوں نے اس کا حکم حربی کافر جیسا قرار دیا ہے جیسا ذکر ہوا کہ ان تک دعوت پہنچ چکی یا نہیں پہنچی۔ مطالبہ توبہ تو اس سے کیا جائے گا جو اسلام سے نکلا ہے اور اس کو اسلام کی سمجھ حاصل نہیں ہے۔ رہا وہ شخص جو جانچ پرکھ کے بعد دوسرے مذہب میں گیا اس کو قتل کیا جائے گا توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے گا۔ یہ امام ابو یوسف کا قول ہے انھوں نے کتاب الاملاء میں لکھا ہے کہ میں اس کو قتل کروں گا اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کروں گا۔ اگر وہ میرے پاس آنے سے پہلے توبہ کرے تو میں اس کا راستہ چھوڑ دوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دوں گا۔
امام ابوجعفر طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان آثار سے واضح ہوا کہ یہ دعوت اسلام ‘ ابتداء اسلام میں تھی کیونکہ اس وقت تک ان کو دعوت نہ پہنچی تھی اور ان کو معلوم نہ تھا کہ ان سے جنگ کرنے کا کیا مقصد ہے فلہذا دعوت کا حکم دیا گیا تاکہ ان کو تبلیغ ہوجائے اور ان کو مطلع کردیا جائے کہ ان سے لڑائی کا سبب کیا ہے۔ پھر دوسرے لوگوں پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ دعوت کے محتاج نہ تھے کیونکہ ان کو یہ معلوم تھا کہ ان کو کس چیز کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ اگر ان کو دعوت دی گئی اور اگر وہ اس کو قبول کرلیتے تو ان سے لڑائی نہ کی جاتی۔ پس اس صورت میں دعوت دینے کا کوئی مطلب نہیں۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اسی طرح کہتے تھے کہ ہر وہ قوم جن کو دعوت پہنچ جائے پھر امام ان سے قتال کا ارادہ کرے تو وہ ان پر بے خبری میں حملہ کرسکتا ہے ‘ اس پر ان کو دعوت دینا لازم نہیں ہے اور جس قوم کو دعوت نہ پہنچی ہو تو ان سے قتال جائز نہیں ہے جب تک کہ ان کے سامنے مقصد قتال نہ واضح کردیا جائے اور مقصود دعوت نہ ذکر کردیا جائے ۔

مرتد کا حکم :
مرتد کے متعلق لوگوں نے کلام کیا ہے کیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں ؟
فریق اوّل : اس کا قول یہ ہے کہ اگر امام مرتد سے توبہ کرنے کا کہے تو مناسب ہے اگر وہ توبہ کرے تو مناسب ہے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی : اس کو توبہ کے لیے نہ کہا جائے گا اور انھوں نے اس کا حکم حربی کافر جیسا قرار دیا ہے جیسا ذکر ہوا کہ ان تک دعوت پہنچ چکی یا نہیں پہنچی۔
طریق استدلال : مطالبہ توبہ تو اس سے کیا جائے گا جو اسلام سے نکلا ہے اور اس کو اسلام کی سمجھ حاصل نہیں ہے۔ رہا وہ شخص جو جانچ پرکھ کے بعد دوسرے مذہب میں گیا اس کو قتل کیا جائے گا توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے گا۔
قولِ ابو یوسف (رح) :
یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے انھوں نے کتاب الاملاء میں لکھا ہے کہ میں اس کو قتل کروں گا اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کروں گا۔ اگر وہ میرے پاس آنے سے پہلے توبہ کرے تو میں اس کا راستہ چھوڑ دوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دوں گا۔

4990

۴۹۸۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ بِذٰلِکَ أَیْضًا .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ اِسْتِتَابَۃِ الْمُرْتَدِّ وَفِیْ تَرْکِہَا ، اِخْتِلَافٌ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمِنْ ذٰلِکَ
٤٩٨٩: سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے انھوں نے ابو یوسف (رح) سے اس کو بیان کیا اور صحابہ کرام (رض) سے مرتد کی توبہ کے سلسلہ میں اختلاف مروی ہے۔ جن میں سے چند روایات یہ ہیں۔

4991

۴۹۹۰: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ : لَمَّا فَتَحْنَا تُسْتَرَ ، بَعَثَنِیْ أَبُوْ مُوْسَیْ اِلَی عُمَرَ فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَیْہِ قَالَ : مَا فَعَلَ حُجَیْبَۃُ وَأَصْحَابُہُ .وَکَانُوْا ارْتَدُّوْا عَنِ الْاِسْلَامِ ، وَلَحِقُوْا بِالْمُشْرِکِیْنَ ، فَقَتَلَہُمُ الْمُسْلِمُوْنَ .فَأَخَذْتُ بِہٖ فِیْ حَدِیْثٍ آخَرَ ، فَقَالَ : مَا فَعَلَ النَّفَرُ الْبَکْرِیُّوْنَ ؟ قُلْتُ :یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، اِنَّہُمْ ارْتَدُّوْا عَنِ الْاِسْلَامِ ، وَلَحِقُوْا مَعَہُمْ بِالْمُشْرِکِیْنَ ، فَقُتِلُوْا .فَقَالَ عُمَرُ : لَأَنْ یَکُوْنَ أَخَذْتہمْ سِلْمًا أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کَذَا وَکَذَا .قُلْتُ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، مَا کَانَ سَبِیْلُہُمْ لَوْ أَخَذْتہمْ سِلْمًا اِلَّا الْقَتْلَ ، قَوْمٌ ارْتَدُّوْا عَنِ الْاِسْلَامِ ، وَلَحِقُوْا بِالْمُشْرِکِیْنَ .فَقَالَ : لَوْ أَخَذْتہمْ سِلْمًا ، لَعَرَضْتُ عَلَیْہِمُ الْبَابَ الَّذِی خَرَجُوْا مِنْہٗ، فَاِنْ رَجَعُوْا ، وَاِلَّا اسْتَوْدَعْتُہُمْ السِّجْنَ .
٤٩٩٠: شعبی نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ جب ہم نے تستر فتح کرلیا تو ابو موسیٰ اشعری (رض) نے مجھے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں بھیجا۔ جب میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انھوں نے پوچھا حجیبہ اور اس کے ساتھیوں نے کیا کیا۔ یہ لوگ اسلام سے مرتد ہوگئے تھے اور مشرکین سے جا ملے تھے۔ پھر مسلمانوں نے ان کو قتل کردیا۔ پھر میں نے اور بات شروع کردی آپ نے پھر دریافت فرمایا۔ بکر قبیلہ کے لوگوں کا کیا معاملہ ہوا۔ میں نے عرض کیا وہ اسلام سے مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملے تھے۔ پس وہ قتل کردیئے گئے۔
تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا اگر میں ان کو سلامت پکڑتا تو اس سے مجھے زیادہ پسند تھا۔ میں نے عرض کیا اے امیرالمؤمنین ! اگر وہ صحیح سلامت پکڑ بھی لیے جاتے تب بھی قتل کے سوا چارا نہ تھا کیونکہ وہ لوگ اسلام سے ارتداد اختیار کر کے مشرکین سے جا ملے تھے۔
آپ نے فرمایا اگر میں ان کو زندہ پکڑتا تو میں ان پر اس دروازے کو وسیع کردیتا جس سے وہ نکلے تھے اگر وہ لوٹ آتے تو ٹھیک ورنہ میں ان کو قید کے سپرد کردیتا۔

4992

۴۹۹۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : أَخَذَ بِالْکُوْفَۃِ رِجَالٌ یُفْشُوْنَ حَدِیْثَ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابِ ، فَکَتَبَ فِیْہِمْ اِلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، فَکَتَبَ عُثْمَانُ أَنْ اعْرِضْ عَلَیْہِمْ دِیْنَ الْحَقِّ ، وَشَہَادَۃَ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَمَنْ قَبِلَہَا وَتَبَرَّأَ مِنْ مُسَیْلِمَۃَ فَلَا تَقْتُلْہٗ، وَمَنْ لَزِمَ دِیْنَ مُسَیْلِمَۃَ فَاقْتُلْہُ فَقَبِلَہَا رِجَالٌ مِنْہُمْ فَتُرِکُوْا ، وَلَزِمَ دِیْنَ مُسَیْلِمَۃَ رِجَالٌ فَقُتِلُوْا .
٤٩٩١: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ کوفہ میں کچھ ایسے لوگ گرفتار ہوئے جو مسیلمہ کذاب کا مذہب پھیلا رہے تھے۔ پس ان کے متعلق حضرت عثمان بن عفان (رض) کو لکھا تو حضرت عثمان (رض) نے جواباً لکھا کہ ان کے سامنے دین حق پیش کرو اور لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت پیش کرو۔ جو ان میں سے قبول کر کے مسیلمہ سے برأت کا اظہار کرے اس کو مت قتل کرو اور جو مسیلمہ کے دین کو اختیار کئے رہے اسے قتل کر دو ۔ چنانچہ ان میں سے بعض افراد سے قبول کر لیاتو ان کو چھوڑ دیا گیا اور دوسروں نے مسیلمہ کے دین کو اختیار کئے رکھا ان کو قتل کردیا گیا۔

4993

۴۹۹۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الزُّہْرِیُّ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ سَعْدٌ وَأَبُوْ مُوْسَی تُسْتَرَ ، أَرْسَلَ أَبُوْ مُوْسَیْ رَسُوْلًا .اِلَی عُمَرَ ، فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا .قَالَ : ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ عَلَی الرَّسُوْلِ فَقَالَ : ہَلْ کَانَتْ عِنْدَکُمْ مِنْ مُعْرِبَۃٍ خَبَرٌ؟ قَالَ : نَعَمْ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، أَخَذْنَا رَجُلًا مِنَ الْعَرَبِ کَفَرَ بَعْدَ اِسْلَامِہٖ .فَقَالَ عُمَرُ فَمَا صَنَعْتُمْ بِہٖ؟ قَالَ : قَدَّمْنَاہُ فَضَرَبْنَا عُنُقَہُ .فَقَالَ عُمَرُ أَفَلَا أَدْخَلْتُمُوْھُ بَیْتًا ، ثُمَّ طَیَّنْتُمْ عَلَیْہِ، ثُمَّ رَمَیْتُمْ اِلَیْہِ بِرَغِیفٍ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ، لَعَلَّہٗ أَنْ یَتُوْبَ أَوْ یُرَاجِعَ أَمْرَ اللّٰہٖ؟ اللّٰہُمَّ اِنِّیْ لَمْ آمُرْ ، وَلَمْ أَشْہَدْ ، وَلَمْ أَرْضَ اِذْ بَلَغَنِی .
٤٩٩٢: یعقوب بن عبدالرحمن زہری اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد اور ابو موسیٰ (رض) نے تستر فتح کرلیا تو ابو موسیٰ (رض) نے ایک قاصد حضرت عمر (رض) کی خدمت میں بھیجا پھر انھوں نے طویل روایت بیان کی۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت عمر (رض) قاصد کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی ظاہر خبر ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ! اے امیرالمؤمنین ہم نے ایک عرب کو پکڑا جس نے اسلام کے بعد کفر اختیار کرلیا تھا تو عمر (رض) نے پوچھا۔ تم نے اس کا کیا کیا ؟ اس نے بتلایا ہم نے اس کو سامنے بلایا پھر اس کی گردن اڑا دی۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا تم نے اس کو کسی گھر میں داخل نہ کیا پھر تم اس کا دروازہ بند کردیتے اور تین دن کا کھانا اس کی طرف پھینک دیتے۔ شاید وہ توبہ کرلیتا یا اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آتا۔ پھر یہ دعا کی۔ اے اللہ میں نے ان کو یہ حکم نہیں دیا اور میں وہاں موجود بھی نہ تھا اور جب یہ معاملہ مجھے پہنچا تو میں اس پر راضی بھی نہیں ہوا۔

4994

۴۹۹۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِیّ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّہٗ قَالَ : قَدِمَ عَلَی عُمَرَ رَجُلٌ مِنْ قِبَلِ أَبِیْ مُوْسٰی‘ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔فَہٰذَا سَعْدٌ وَأَبُوْ مُوْسَیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، لَمْ یَسْتَتِیْبَاہٗ، وَأَحَبَّ عُمَرُ أَنْ یُسْتَتَابَ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ کَانَ یَرْجُو لَہُ التَّوْبَۃَ ، وَلَمْ یُوْجِبْ بِقَتْلِہِمْ شَیْئًا ، لِأَنَّہُمْ فَعَلُوْا مَا لَہُمْ أَنْ یَرَوْہُ فَیَفْعَلُوْھُ ، وَاِنْ خَالَفَ رَأْیَ اِمَامِہِمْ .
٤٩٩٣: عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری نے اپنے والد اور اس نے اپنے دادا سے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) کے ہاں ایک آدمی حضرت ابو موسیٰ (رض) کی طرف سے آیا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ان روایات میں حضرت سعد اور ابو موسیٰ (رض) کے فعل کا تذکرہ ہے کہ انھوں نے اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا اور دوسری طرف ان کے قتلوں سے ان پر کوئی چیز (دیت وغیرہ) لازم نہیں کی اور حضرت عمر (رض) کو یہ پسند تھا کہ ان کو دعوت توبہ دی جاتی اور اس بات میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عمر (رض) اس کے متعلق توبہ کے امیدوار تھے اور ان کے قتل کی وجہ سے ان پر کوئی چیز لازم نہیں کیونکہ اس میں ان کو اپنی رائے (اجتہاد سے کرنے کا اختیار حاصل تھا پس انھوں نے کیا اگرچہ وہ امیرالمؤمنین کی رائے کے خلاف تھا۔
نوٹ : ان روایات میں حضرت سعد اور ابو موسیٰ (رض) کے فعل کا تذکرہ ہے کہ انھوں نے اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا اور دوسری طرف ان کے قتلوں سے ان پر کوئی چیز (دیت وغیرہ) لازم نہیں کی اور حضرت عمر (رض) کو یہ پسند تھا کہ ان کو دعوت توبہ دی جائی اور اس بات میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عمر (رض) اس کے متعلق توبہ کے امیدوار تھے اور ان کے قتل کی وجہ سے ان پر کوئی چیز لازم نہیں کیونکہ اس میں ان کو اپنی رائے (اجتہاد سے کرنے کا اختیار حاصل تھا پس انھوں نے کیا اگرچہ وہ امیرالمؤمنین کی رائے کے خلاف تھا۔

4995

۴۹۹۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ح .
٤٩٩٤: فہد نے ابو غسان سے روایت کی ہے۔

4996

۴۹۹۵: وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ وَائِلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ مُغِیْرٍ السَّعْدِیُّ ، قَالَ : خَرَجْتُ أَطْلُبُ فَرَسًا لِیْ بِالسَّحَرِ فَمَرَرْتُ عَلَی مَسْجِدٍ مِنْ مَسَاجِدِ بَنِیْ حَنِیْفَۃَ فَسَمِعْتُہُمْ یَشْہَدُوْنَ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُوْلُ اللّٰہِ .قَالَ : فَرَجَعْتُ اِلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ، فَذَکَرْتُ لَہٗ أَمْرَہُمْ ، فَبَعَثَ الشُّرَطَ فَأَخَذُوْھُمْ فَجِیْئَ بِہِمْ اِلَیْہِ، فَتَابُوْا ، وَرَجَعُوْا عَمَّا قَالُوْا ، وَقَالُوْا لَا نَعُوْدُ فَخَلَّیْ سَبِیْلَہُمْ .وَقَدَّمَ رَجُلًا مِنْہُمْ یُقَالُ لَہٗ : عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ النَّوَّاحَۃِ ، فَضَرَبَ عُنُقَہُ .فَقَالَ النَّاسُ : أَخَذَ قَوْمًا فِیْ أَمْرٍ وَاحِدٍ ، فَخَلَّیْتُ سَبِیْلَ بَعْضِہِمْ ، وَقَتَلْتُ بَعْضَہُمْ .فَقَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا ، فَجَائَ ابْنُ النَّوَّاحَۃِ ، وَرَجُلٌ مَعَہُ یُقَالُ لَہٗ : حُجْرُ بْنُ وَثَّالٍ وَافِدَیْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَیْلِمَۃَ .فَقَالَ لَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَشْہَدَانِ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہٖ؟ فَقَالَا : أَتَشْہَدُ أَنْتَ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُوْلُ اللّٰہٖ؟ فَقَالَ لَہُمَا : آمَنْتُ بِاَللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ ، لَوْ کُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا لَقَتَلْتُکُمَا فَلِذٰلِکَ قُلْتَ ہٰذَا .فَہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَدْ قَتَلَ ابْنَ النَّوَّاحَۃِ ، وَلَمْ یَقْبَلْ تَوْبَتَہٗ، اِذْ عَلِمَ أَنَّ ہٰکَذَا خُلُقُہٗ، یُظْہِرُ التَّوْبَۃَ اِذَا ظَفِرَ بِہٖ ، ثُمَّ یَعُوْدُ اِلٰی مَا کَانَ عَلَیْہِ اِذَا خُلِّیَ.
٤٩٩٥: ابو وائل کہتے ہیں کہ مجھے ابن مغیرہ السعدی نے بیان کیا کہ میں سحری کے وقت اپنے گھوڑے کی تلاش میں نکلا میرا گزر بنو حنفیہ کی مسجد کے پاس سے ہوا میں نے سنا کہ وہ گواہی دے رہے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں وہاں سے لوٹ کر عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے ان کے سامنے ان کا واقعہ ذکر کیا۔ انھوں نے پولیس کو بھیجا اور وہ پکڑ لیے گئے اور ان کو لایا گیا انھوں نے توبہ کی اور اپنی باتوں سے رجوع اختیار کیا اور کہنے لگے دوبارہ ایسا نہ کریں گے۔ پس ان کا راستہ چھوڑ دیا گیا۔ ان میں سے ایک آدمی آیا جس کا نام عبداللہ بن نواحہ تھا اس کی گردن اڑا دی گئی۔ لوگوں نے کہا تم نے ایک جماعت کو ایک ہی معاملے میں پکڑا پس بعض کو بالکل چھوڑ دیا اور بعض کو تم نے قتل کردیا تو انھوں نے بتلایا کہ میں جناب رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابن نواحہ ایک اور آدمی کے ساتھ آیا۔ اس آدمی کو حجر بن وثال کہتے تھے یہ دونوں مسیلمہ کی طرف سے وفد بن کر آئے تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم دونوں گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ دونوں کہنے لگے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے ؟ آپ نے ان کو فرمایا ” اٰمنت باللہ ورسولہ “ اگر میں کسی وفد میں آنے والے کو قتل کرتا تو تم دونوں کو قتل کروا دیتا۔ اسی وجہ سے میں نے اس کو قتل کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے ابن نواحہ کو قتل کردیا اور اس کی توبہ کو قبول نہ کیا اس لیے کہ ان کو علم تھا کہ یہ اس کی عادت ہے کہ جب اس پر قابو پا لیا جائے توبہ کا اظہار کرتا ہے اور جب اس کو الگ چھوڑو تو دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
تخریج : دارمی فی السیر باب ٦٠‘ مسند احمد ١؍١٠٤۔
حضرت ابن مسعود (رض) نے ابن نواحہ کو قتل کردیا اور اس کی توبہ کو قبول نہ کیا اس لیے کہ ان کو علم تھا کہ یہ اس کی عادت ہے کہ جب اس پر قابو پا لیا جائے توبہ کا اظہار کرتا ہے اور جب اس کو الگ چھوڑو تو دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

4997

۴۹۹۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ أَبِی الْجَہْمِ ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّ عَلِیًّا بَعَثَہٗ اِلٰی أَہْلِ النَّہْرَوَانِ ، فَدَعَاہُمْ ثَلَاثًا ..
٤٩٩٦: ابو جہم نے براء (رض) سے نقل کیا کہ مجھے حضرت علی (رض) نے اہل نہروان کے پاس بھیجا اور ان کو تین بار دعوت (حق) دی۔

4998

۴۹۹۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ قَیْسٍ الْمَاضِرِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : أَقْبَلَ عَلِیٌّ حَتّٰی نَزَلَ بِذِیْ قَارٍ ، فَأَرْسَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ اِلٰی أَہْلِ الْکُوْفَۃِ فَأَبْطَئُوْا عَلَیْہِ ثُمَّ دَعَاہُمْ عَمَّارٌ ، فَخَرَجُوْا .قَالَ زَیْدٌ : فَکُنْتُ فِیْمَنْ خَرَجَ مَعَہٗ۔ قَالَ : فَکَفَّ عَنْ طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ وَأَصْحَابِہِمْ ، وَدَعَاہُمْ حَتَّیْ بَدَئُوْا فَقَاتَلَہُمْ .
٤٩٩٧: زید بن وہب کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) متوجہ ہوئے یہاں تک کہ مقام ذی قار میں اترے پھر عبداللہ بن عباس (رض) کو اہل کوفہ کی طرف بھیجا انھوں نے دیر کی پھر ان کو عمار بن یاسر (رض) نے دعوت دی تب وہ نکلے۔ زید کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ نکلنے والوں میں سے تھا راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے طلحہ اور زبیر (رض) اور ان کے ساتھیوں سے درگزر کی اور ان کو رجوع کی دعوت دی یہاں تک کہ وہ سامنے آئے تو ان سے قتال کیا۔

4999

۴۹۹۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ رَجُلًا کَانَ نَصْرَانِیًّا فَأَسْلَمَ ، ثُمَّ تَنَصَّرَ فَأَتَی بِہٖ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ مَا حَمَلَک عَلٰی مَا صَنَعْتُ؟ قَالَ : وَجَدْت دِیْنَہُمْ خَیْرًا مِنْ دِیْنِکُمْ ، فَقَالَ لَہُ : مَا تَقُوْلُ فِیْ عِیْسَیْ؟ قَالَ : ہُوَ رَبِّی ، أَوْ ہُوَ رَبُّ عَلِی .فَقَالَ اُقْتُلُوْھُ فَقَتَلَہُ النَّاسُ .فَقَالَ عَلِیٌّ بَعْدَ ذٰلِکَ : اِنْ کُنْتُ لَمُسْتَتِیْبُہُ ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَرَأَ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ آمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا .
٤٩٩٨: شریک بن عبداللہ نے جابر (رض) سے انھوں نے شعبی سے نقل کیا کہ ایک نصرانی شخص اسلام لایا پھر دوبارہ نصرانی ہوگیا اسے حضرت علی (رض) کی خدمت میں لایا گیا۔ تو آپ نے اس کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ تمہیں اس حرکت پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ اس نے کہا میں نے نصرانیوں کا دین تمہارے دین سے بہتر پایا آپ نے پوچھا تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا وہ میرا رب ہے یا وہ علی کا رب ہے۔ اس پر آپ نے حکم فرمایا اس کو قتل کر دو ۔ تو اس کو لوگوں نے قتل کردیا۔ پھر آپ نے فرمایا مجھے اس کو تین مرتبہ دعوت دینا چاہیے تھی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ان الذین امنوا ثم کفروا ثم آمنوا ثم کفروا ثم ازدادوا کفرا “ (النساء ١٣٧) بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔

5000

۴۹۹۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّبِّیُّ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِیْ مُعَاوِیَۃَ الدُّہْنِیِّ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ أَنَّ قَوْمًا ارْتَدُّوْا ، وَکَانُوْا نَصَارَی ، فَبَعَثَ اِلَیْہِمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ مَعْقِلَ بْنَ قَیْسٍ التَّیْمِیَّ ، فَقَالَ لَہُمْ : اِذَا حَکَکْتُ رَأْسِی ، فَاقْتُلُوْا الْمُقَاتِلَۃَ ، وَاسْبُوْا الذُّرِّیَّۃَ .فَأَتٰی عَلَی طَائِفَۃٍ مِنْہُمْ ، فَقَالَ مَا أَنْتُمْ ؟ فَقَالُوْا : کُنَّا قَوْمًا نَصَارَی ، فَخُیِّرْنَا بَیْنَ الْاِسْلَامِ وَبَیْنَ دِیْنِنَا ، فَاخْتَرْنَا الْاِسْلَامَ ، ثُمَّ رَأَیْنَا أَنْ لَا دِیْنَ أَفْضَلُ مِنْ دِیْنِنَا الَّذِی کُنَّا عَلَیْہِ، فَنَحْنُ نَصَارَی .فَحَکَّ رَأْسَہٗ، فَقُتِلَتِ الْمُقَاتِلَۃُ ، وَسُبِیَتْ الذُّرِّیَّۃُ .قَالَ عَمَّارٌ : فَأَخْبَرَنِیْ أَبُوْ شُعْبَۃَ أَنَّ عَلِیًّا أَتَی بِذَرَارِیِّہِمْ ، فَقَالَ مَنْ یَشْتَرِیْہِمْ مِنِّیْ ؟ فَقَامَ مُسْتَقْتِلَۃُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ الشَّیْبَانِیُّ فَاشْتَرَاہُمْ مِنْ عَلِیْ بِمِائَۃِ أَلْفٍ ، فَأَتَاہُ بِخَمْسِیْنَ أَلْفًا .فَقَالَ عَلِیٌّ اِنِّیْ لَا أَقْبَلُ الْمَالَ اِلَّا کَامِلًا فَدَفَنَ الْمَالَ فِیْ دَارِہٖ، وَأَعْتَقَہُمْ ، وَلَحِقَ بِمُعَاوِیَۃَ ، فَنَفَّذَ عَلِیٌّ عِتْقَہُمْ .
٤٩٩٩: عمار بن ابی معاویہ دھنی نے ابوالطفیل سے روایت کی کہ کچھ لوگ مرتد ہوگئے وہ پہلے نصرانی تھے حضرت علی (رض) نے ان کی طرف معقل بن قیس تیمی کو بھیجا اور ان کو فرمایا جب میں سر کھجاؤں تو لڑنے والوں کو قتل کر دو اور ان کی اولاد کو قید کرلو۔ ان میں سے ایک گروہ کو لایا گیا آپ نے پوچھا تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا ہم لوگ پہلے نصرانی تھے ہمیں نصرانیت اور اسلام میں اختیار دیا گیا تو ہم نے اسلام کو اختیار کرلیا پھر ہم نے دیکھا کہ کوئی دین ہمارے دین سے افضل نہیں ہے جس پر کہ ہم پہلے تھے پس ہم نصرانی ہوگئے۔ حضرت علی (رض) نے اپنا سر کھجایا تو ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کردیا گیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا گیا۔ حضرت عمار (رض) کا بیان ہے کہ مجھے ابو شعبہ نے بتلایا کہ حضرت علی (رض) کے پاس ان کی اولاد کو لایا گیا تو آپ نے اعلان فرمایا۔ ان کو کون مجھ سے خریدے گا ؟ مصقلہ بن ہبیرہ شیبانی نے ان کو حضرت علی (رض) سے ایک لاکھ درہم کے بدلے خرید لیا۔ اس نے پچاس ہزار ادا کئے تو حضرت علی (رض) نے فرمایا میں مکمل مال لوں گا۔ اس نے مال کو اپنے گھر میں دفن کیا اور ان کو آزاد کردیا اور امیر معاویہ (رض) کے پاس چلا گیا۔ حضرت علی (رض) نے ان کے عتق و آزادی کو برقرار رکھا۔
نوٹ : اس باب میں دو مسائل ذکر کئے کفار کو دعوت دے کر ان سے لڑائی کی جائے گی یا دعوت کی اب حاجت نہیں ‘ مرتد کو دعوت دی جائے گی یا نہیں صحابہ کرام کے اقوال سے دونوں باتیں دعوت دینا اور کبھی نہ دینا دونوں ثابت ہے۔ موقعہ کے مناسب اختیار کیا جائے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل بھی اسی پر دال ہے۔ (مترجم)

5001

۵۰۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیّ بْنِ الْخِیَارِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَرَأَیْتُ اِنْ اخْتَلَفْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ضَرْبَتَیْنِ ، فَضَرَبَنِیْ فَأَبَانَ یَدِیْ ثُمَّ قَالَ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ أَقْتُلُہُ أَمْ أَتْرُکُہٗ؟ قَالَ : بَلْ اُتْرُکْہُ .قُلْتُ :وَقَدْ أَبَانَ یَدِی ، قَالَ : نَعَمْ ، فَاِنْ قَتَلْتُہٗ فَأَنْتَ مِثْلُہٗ قَبْلَ أَنْ یَقُوْلَہَا ، وَہُوَ بِمَنْزِلَتِک قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہٗ۔
٥٠٠٠: عبیداللہ بن عدی بن خیار نے مقداد بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میرا اور مشرکین کا مقابلہ میں وار کا تبادلہ ہوا اس نے میرے ہاتھ کو جدا کردیا پھر اس نے کہا لاالٰہ الاّ اللہ کیا میں اسے قتل کر دوں یا ترک کر دوں۔ آپ نے
تخریج : بخاری فی الدیات باب ١‘ المغازی باب ١٢‘ مسلم فی الایمان ١٥٥‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٩٥۔

5002

۵۰۰۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِیْ صَغِیْرَۃَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ ، أَخْبَرَہٗ أَنَّ أَبَاہُ أَوْسًا ، قَالَ : اِنَّا لَقُعُوْدٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصُّفَّۃِ ، وَہُوَ یَقُصُّ عَلَیْنَا ، وَیُذَکِّرُنَا اِذْ أَتَاہُ رَجُلٌ فَسَارَّہٗ، فَقَالَ : اذْہَبُوْا فَاقْتُلُوْھُ .فَلَمَّا وَلَّی الرَّجُلُ ، دَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَّا تَشْہَدُ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ : نَعَمْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اذْہَبُوْا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ فَاِنِّیْ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، ثُمَّ یَحْرُمُ دِمَاؤُہُمْ وَأَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا .
٥٠٠١: نعمان بن عمرو بن اوس نے بتلایا کہ میرے والد نے مجھے خبر دی کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں صفہ میں بیٹھے تھے۔ آپ ہمیں واقعات سنا رہے اور نصیحت فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سرگوشی کرنے لگا آپ نے فرمایا اسے لے جا کر قتل کر دو ۔ جب وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلایا اور فرمایا کیا تم لاالٰہ الا اللہ کی گواہی نہیں دیتے اس نے نعم سے جواب دیا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ۔ اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں کے لاالٰہ الا اللہ کہنے تک لوگوں سے لڑوں ! پھر ان کے خون اور اموال حق کے علاوہ حرام کردیئے گئے۔
تخریج : بنحوہ نسائی فی التحریم باب ١‘ ابن ماجہ فی الفتن باب ١‘ دارمی فی السیر باب ١٠‘ مالک فی السفر ٨٤۔

5003

۵۰۰۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہُ وَنَفْسَہُ اِلَّا بِحَقِّہٖ، وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ
٥٠٠٢: سعید بن المسیب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے یہاں تک کہ وہ لاالٰہ الاّ اللہ کہیں پس جس نے لا الٰہ الاّ اللہ کہہ دیا اس نے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی سوائے اس کے کہ اسلام کا کوئی حق ہو (اور اس کی وجہ سے لازم ہوجائے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔
تخریج : بخاری فی الاعتصام باب ٢‘ الجہاد باب ١٠٢‘ الاستتابہ باب ٣‘ مسلم فی الایمان ٣٢؍٣٣‘ ترمذی فی الایمان باب ١‘ نسائی فی الجہاد باب ١‘ والتحریم باب ١۔

5004

۵۰۰۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٠٣: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5005

۵۰۰۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٠٤: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5006

۵۰۰۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَعَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٠٥: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5007

۵۰۰۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٠٦: ابن عجلان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح بیان کرتے سنا۔

5008

۵۰۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَقَدْ صَارَ بِہَا مُسْلِمًا ، لَہٗ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ ، وَعَلَیْہِ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا لَہُمْ : لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا کَانَ یُقَاتِلُ قَوْمًا لَا یُوَحِّدُوْنَ اللّٰہَ تَعَالٰی ، فَکَانَ أَحَدُہُمْ اِذَا وَحَّدَ اللّٰہَ ، عُلِمَ بِذٰلِکَ تَرْکُہُ لِمَا قُوْتِلَ عَلَیْہِ وَخُرُوْجُہُ مِنْہٗ، وَلَمْ یَعْلَمْ بِذٰلِکَ دُخُوْلَہُ فِی الْاِسْلَامِ ، أَوْ فِیْ بَعْضِ الْمِلَلِ الَّتِیْ تُوَحِّدُ اللّٰہَ تَعَالٰی ، وَیَکْفُرُ بِجَحْدِہَا وَغَیْرَ ذٰلِکَ مِنَ الْوُجُوْہِ الَّتِیْ یَکْفُرُ بِہَا أَہْلُہَا مَعَ تَوْحِیدِہِمْ لِلّٰہِ .فَکَانَ حُکْمُ ہٰؤُلَائِ أَنْ لَا یُقَاتَلُوْا اِذَا وَقَعَتْ ہٰذِہِ الشُّبْہَۃُ ، حَتّٰی تَقُوْمَ الْحُجَّۃُ عَلَی مَنْ یُقَاتِلُہُمْ وُجُوْبُ قِتَالِہِمْ .فَلِہٰذَا کَفَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قِتَالِ مَنْ کَانَ یُقَاتِلُ بِقَوْلِہِمْ : لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ .فَأَمَّا مَنْ سِوَاہُمْ مِنَ الْیَہُوْدِ فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ یَشْہَدُوْنَ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَیَجْحَدُوْنَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَیْسُوْا بِاِقْرَارِہِمْ بِتَوْحِیدِ اللّٰہِ مُسْلِمِیْنَ اِنْ کَانُوْا جَاحِدِیْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِذَا أَقَرُّوْا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُلِمَ بِذٰلِکَ خُرُوْجُہُمْ مِنَ الْیَہُوْدِیَّۃِ ، وَلَمْ یَعْلَمْ بِہٖ دُخُوْلَہُمْ فِی الْاِسْلَامِ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا انْتَحَلُوْا قَوْلَ مَنْ یَقُوْلُ : اِنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی الْعَرَبِ خَاصَّۃً . وَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ ، حِیْنَ بَعَثَہُ اِلَی خَیْبَرَ وَأَہْلُہَا یَہُوْدٌ ۔
٥٠٠٧: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے لا الٰہ الاّ اللہ کہنے سے مسلمان ہوجاتا ہے اور اس کو ہوی حقوق مل جاتے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو مسلمانوں پر ہیں اور اس کی دلیل مندرجہ بالا آثار ہیں۔ دوسروں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس روایت میں تمہارے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لڑائی ان لوگوں سے تھی جو اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک نہیں مانتے تھے پس جب ان میں سے کوئی اقرار توحید کرلیتا تو اس سے یہ معلوم ہوجاتا کہ جس کی وجہ سے اس سے لڑا جا رہا ہے وہ اس سے نکل گیا ہے اس سے اس کا اسلام میں داخل ہونا یا کسی اور ملت میں داخل ہونا معلوم نہ ہوتا تھا جو اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مانتے ہوں اور اس کے انکار سے اور دوسری وجوہ کفر سے باوجود اقرار توحید کے ان کی تکفیر کی جاتی تھی۔ ایسے لوگوں کا حکم یہی تھا کہ اس شبہہ کے واقع ہونے کی وجہ سے ان سے قتال نہ کیا جائے جب تک کہ دلیل سے ان کا ایسے لوگوں میں شامل ہونا ثابت نہ ہوگا جن سے لڑائی واجب ہے یہی وجہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لڑائی کرنے والوں سے لاالٰہ الا اللہ کے کہنے پر لڑائی کو روک دیتے۔ ان کے علاوہ یہود کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ الاالٰہ الاّ اللہ کی گواہی دیتے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں یہ لوگ فقط اپنے اقرار توحید سے مسلمان شمار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے رہیں گے جب وہ آپ کی رسالت کا اقرار کرلیں گے تو اس سے معلوم ہوگا کہ وہ یہودیت سے نکل گئے ہیں البتہ ان کا اسلام میں داخل ہونا معلوم نہ ہو سکے گا کیونکہ عین ممکن ہے کہ انھوں نے اس قائل کی طرف اقرار رسالت کی نسبت کی ہو جو کہتا بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں البتہ ان کی بعثت خاص اہل عرب کے لیے ہے۔ (یعنی رسول تو ہیں مگر فقط اہل عرب کے) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو خیبر کے قلعہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے فرمایا۔ حالانکہ وہاں کے باشندے یہودی تھے۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد یہ ہے کہ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے لا الٰہ الاّ اللہ کہنے سے مسلمان ہوجاتا ہے اور اس کو وہی حقوق مل جاتے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو مسلمانوں پر ہیں اور اس کی دلیل مندرجہ بالا آثار ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف :
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : اس روایت میں تمہارے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لڑائی ان لوگوں سے تھی جو اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک نہیں مانتے تھے پس جب ان میں سے کوئی جب اقرار توحید کرلیتا تو اس سے یہ معلوم ہوجاتا کہ جس کی وجہ سے اس سے لڑا جا رہا ہے وہ اس سے نکل گیا ہے اس سے اس کا اسلام میں داخل ہونا یا کسی اور ملت میں داخل ہونا معلوم نہ ہوتا تھا جو اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مانتے ہوں اور اس کے انکار سے اور دوسری وجوہ کفر سے باوجود اقرار توحید کے ان کی تکفیر کی جاتی تھی۔
ایسے لوگوں کا حکم یہی تھا کہ اس شبہہ کے واقع ہونے کی وجہ سے ان سے قتال نہ کیا جائے جب تک کہ دلیل سے ان کا ایسے لوگوں میں شامل ہونا ثابت نہ ہوگا جن سے لڑائی واجب ہے یہی وجہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لڑائی کرنے والوں سے لاالٰہ الا اللہ کے کہنے پر لڑائی کو روک دیتے۔ ان کے علاوہ یہود کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ الاالٰہ الاّ اللہ کی گواہی دیتے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں یہ لوگ فقط اپنے اقرار توحید سے مسلمان شمار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے رہیں گے جب وہ آپ کی رسالت کا اقرار کرلیں گے تو اس سے معلوم ہوگا کہ وہ یہودیت سے نکل گئے ہیں البتہ ان کا اسلام میں داخل ہونا معلوم نہ ہو سکے گا کیونکہ عین ممکن ہے کہ انھوں نے اس قاتل کی طرف اقرار رسالت کی نسبت کی ہو جو کہتا بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں البتہ ان کی بعثت خاص اہل عرب کے لیے ہے۔ (یعنی رسول تو ہیں مگر فقط اہل عرب کے) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو خیبر کے قلعہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے فرمایا۔ حالانکہ وہاں کے باشندے یہودی تھے۔

5009

۵۰۰۸ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَفَعَ الرَّایَۃَ اِلَی عَلِیْ حِیْنَ وَجَّہَہُ اِلٰی خَیْبَرَ قَالَ امْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ ، حَتّٰی یَفْتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکَ .فَسَارَ عَلِیٌّ شَیْئًا ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ یَلْتَفِتْ فَصَرَخَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ عَلٰی مَاذَا أُقَاتِلُ ؟ .قَالَ قَاتِلْہُمْ حَتّٰی یَشْہَدُوْا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوْا مِنْک دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ أَبَاحَ لَہُ قِتَالَہُمْ وَاِنْ شَہِدُوْا أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حَتّٰی یَشْہَدُوْا مَعَ ذٰلِکَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، لِأَنَّہُمْ قَوْمٌ کَانُوْا یُوَحِّدُوْنَ اللّٰہَ وَلَا یُقِرُّوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا بِقِتَالِہِمْ حَتّٰی یَعْلَمَ خُرُوْجَہُمْ مِمَّا أَمَرَ بِقِتَالِہِمْ عَلَیْہِ مِنَ الْیَہُوْدِیَّۃِ ، کَمَا أَمَرَ بِقِتَالِ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ حَتّٰی یَعْلَمَ خُرُوْجَہُمْ مِمَّا قُوْتِلُوْا عَلَیْہِ .وَلَیْسَ فِیْ اِقْرَارِ الْیَہُوْدِ أَیْضًا بِأَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا یَجِبُ أَنْ یَکُوْنُوْا مُسْلِمِیْنَ .وَلٰـکِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِتَرْکِ قِتَالِہِمْ اِذَا قَالُوْا ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا أَرَادُوْا بِہٖ الْاِسْلَامَ أَوْ غَیْرَ الْاِسْلَامِ .فَأَمَرَ بِالْکَفِّ عَنْ قِتَالِہِمْ حَتّٰی یَعْلَمَ مَا أَرَادُوْا بِذٰلِکَ ، کَمَا ذَکَرْنَا فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَ مِنْ حُکْمِ مُشْرِکِی الْعَرَبِ وَقَدْ أَتَی الْیَہُوْدُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَقَرُّوْا بِنُبُوَّتِہٖ وَلَمْ یَدْخُلُوْا فِی الْاِسْلَامِ فَلَمْ یُقَاتِلْہُمْ عَلَی اِبَائِہِمُ الدُّخُوْلَ فِی الْاِسْلَامِ اِذْ لَمْ یَکُوْنُوْا - عِنْدَہُ بِذٰلِکَ الْاِقْرَارِ - مُسْلِمِیْنَ .
٥٠٠٨: سہل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے جناب ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت علی (رض) کو خیبر کی طرف روانہ فرمایا تو جھنڈا سپرد کرتے ہوئے فرمایا۔ چلتے جاؤ اور ادھر ادھر مت مڑو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم کو فتح عنایت فرما دیں۔ پس حضرت علی (رض) تھوڑی دور چل کر رک گئے مگر ادھر ادھر توجہ کرنے کے بغیر زور سے آواز دی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کس بات پر ان سے قتال کروں ؟ آپ نے فرمایا ان سے لاالٰہ الا اللہ محمدارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقرار تک لڑتے رہو۔ جب وہ یہ اقرار کرلیں تو انھوں نے تم سے اپنے مال و جان کو محفوظ کرلیا۔ سوائے اس کے کہ اسلام کا کوئی حق ہو اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ لڑائی کو مباح کیا اگرچہ وہ لاالٰہ الاّ اللہ کی شہادت دیں جب تک کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت نہ دیں کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک تو مانتے تھے۔ مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اقرار نہ کرتے تھے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ان سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا یہاں تک کہ ان کو معلوم ہو کہ کس چیز سے نکلنے کی بنا پر یہودی ہونے کے باوجود ان سے قتال کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ بت پرستوں کے خلاف اس وقت تک قتال کا حکم ہے ‘ یہاں تک کہ ان کو معلوم ہوجائے کہ کس چیز سے نکلنے کی بناء پر ان سے لڑا جا رہا ہے اور دوسری طرف یہود کے اقرار سے کہ لا الٰہ الاّ اللہ وان محمدارسول اللہ سے ان کا مسلمان ہونا لازم نہیں آتا لیکن جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے لڑائی چھوڑ دینے کا حکم دیا جبکہ وہ یہ اقرار کرلیں کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ انھوں نے اس سے اسلام کا ارادہ کیا ہو یا عدم اسلام کا۔ پس آپ نے ان سے لڑائی نہ کرنے کا حکم دیا جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ ان کی مراد کیا ہے جیسا کہ ہم نے مشرکین عرب کا حکم ذکر کیا۔ یہودی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ کی نبوت کا اعتراف کیا مگر وہ اسلام میں داخل نہ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اسلام میں داخل نہ ہونے کی بنا پر ان سے قتال نہیں فرمایا جبکہ آپ کے ہاں بھی وہ اپنے اس اقرار سے مسلمان نہ تھے۔
امام طحاوی (رح) کا قول : اس روایت سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ لڑائی کو مباح کیا اگرچہ وہ لاالٰہ الاّ اللہ کی شہادت دیں جب تک کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت نہ دیں کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک تو مانتے تھے۔ مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اقرار نہ کرتے تھے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ان سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا یہاں تک کہ ان کو معلوم ہو کہ کس چیز سے نکلنے کی بنا پر یہودی ہونے کے باوجود ان سے قتال کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ بت پرستوں کے خلاف اس وقت تک قتال کا حکم یہاں تک کہ ان کو معلوم ہوجائے کہ کس چیز سے نکلنے کی بناء پر ان سے لڑا جا رہا ہے۔
اور دوسری طرف یہود کے اقرار سے کہ لا الٰہ الاّ اللہ وان محمد رسول اللہ سے ان کا مسلمان ہونا لازم نہیں آتا لیکن جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے لڑائی چھوڑ دینے کا حکم دیا جبکہ وہ یہ اقرار کرلیں کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ انھوں نے اس سے اسلام کا ارادہ کیا ہو یا عدم اسلام کا۔ پس آپ نے ان سے لڑائی نہ کرنے کا حکم دیا جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ ان کی مراد کیا ہے جیسا کہ ہم نے مشرکین عرب کا حکم ذکر کیا۔ یہودی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ کی نبوت کا اعتراف کیا مگر وہ اسلام میں داخل نہ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اسلام میں داخل نہ ہونے کی بنا پر ان سے قتال نہیں فرمایا جبکہ آپ کے ہاں بھی وہ اپنے اس اقرار سے مسلمان نہ تھے۔

5010

۵۰۰۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، وَأَبُوْ أُمَیَّۃَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، وَعَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالُوْا : حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ .ح
٥٠٠٩: عبدالعزیز بن معاویہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالولید نے بیان کیا۔

5011

۵۰۱۰ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ .ح .
٥٠١٠: ابوبکر نے ابو داؤد سے بیان کیا۔

5012

۵۰۱۱ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ .
٥٠١١: ابو بشرالرقی نے کہا حجاج بن محمد نے بیان کیا۔

5013

۵۰۱۲ : ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلْمَۃَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ یَہُوْدِیًّا قَالَ لِصَاحِبِہٖ : تَعَالَ نَسْأَلْ ہَذَا النَّبِیَّ .فَقَالَ لَہُ الْآخَرُ : لَا تَقُلْ لَہُ نَبِیٌّ ، فَاِنَّہٗ اِنْ سَمِعَہَا صَارَتْ لَہٗ أَرْبَعَۃُ أَعْیُنٌ .فَأَتَاہُ فَسَأَلَہٗ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوْسَی تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَقَالَ لَا تُشْرِکُوْا بِاَللّٰہِ شَیْئًا ، وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ، وَلَا تَسْرِقُوْا ، وَلَا تَزْنُوْا ، وَلَا تَسْحَرُوْا ، وَلَا تَأْکُلُوْا الرَّبَّا ، وَلَا تَمْشُوْا بِبَرِیْئٍ اِلَیْ سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَہٗ، وَلَا تَقْذِفُوْا الْمُحْصَنَۃَ ، وَلَا تَفِرُّوْا مِنَ الزَّحْفِ ، وَعَلَیْکُمْ خَاصَّۃَ الْیَہُوْدِ ، أَنْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ قَالَ : فَقَبَّلُوْا یَدَہٗ ، وَقَالُوْا : نَشْہَدُ أَنَّک نَبِیٌّ ، قَالَ فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتْبَعُوْنِیْ؟ .قَالُوْا : اِنَّ دَاوٗدَ دَعَا أَنْ لَا یَزَالَ فِی ذُرِّیَّتِہِ نَبِیٌّ ، وَاِنَّا نَخْشَیْ اِنْ اتَّبَعْنَاکَ، أَنْ تَقْتُلَنَا الْیَہُوْدُ . قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْیَہُوْدَ قَدْ کَانُوْا أَقَرُّوْا بِنُبُوَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ تَوْحِیدِہِمْ لِلّٰہٖ، فَلَمْ یُقَاتِلْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی یُقِرُّوْا بِجَمِیْعِ مَا یُقِرُّ بِہٖ الْمُسْلِمُوْنَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا بِذٰلِکَ الْقَوْلِ مُسْلِمِیْنَ ، وَثَبَتَ أَنَّ الْاِسْلَامَ لَا یَکُوْنُ اِلَّا بِالْمَعَانِی الَّتِیْ تَدُلُّ عَلَی الدُّخُوْلِ فِی الْاِسْلَامِ ، وَتَرْکِ سَائِرِ الْمِلَلِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .
٥٠١٢: عبداللہ بن سلمہ نے صفوان بن عسال (رض) سے روایت کی کہ ایک یہودی نے اپنے دوست کو کہا۔ آؤ ہم اس نبی سے کچھ سوالات کریں۔ دوسرے یہودی نے کہا۔ اس کو نبی مت کہو اس نے اگر سن پایا تو اس کو چار آنکھیں لگ جائیں گی۔ وہ یہودی آپ کی خدمت میں آیا اور اس نے اس آیت کے متعلق سوال کیا : ” ولقد اتینا موسیٰ تسع آیات بینات “ (الاسراء : ١٠١) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا : ! ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ۔ " اور اس نفس کو مت قتل کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے حق کے بغیر حرام کیا۔ 3 فضول خرچی مت کرو۔ $زنا نہ کرو۔ %جادو مت کرو۔ & سود مت کھاؤ ۔ ' کسی بری الذمہ کو بادشاہ کے پاس مت لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے۔ (پاک دامنہ پر تہمت مت لگاؤ۔ ): میدانِ جنگ سے مت بھاگو اور خاص طور پر یہود کے لیے یہ بھی لازم کیا گیا کہ *ہفتہ کے معاملہ میں حد سے مت گزرا۔ راوی کہتا ہے وہ یہودی (سوال کا جواب سن کر) آپ کے ہاتھ چومنے لگا اور دونوں کہنے لگے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ تمہیں میری پیروی سے کون سی چیز مانع ہے۔ انھوں نے کہا داؤد (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ایک نبی ہوگا اور ہمیں ڈر یہ ہے کہ اگر ہم آپ کی اتباع کریں گے تو یہود ہمیں قتل کردیں گے۔
تخریج : ترمذی فی الاستیذان باب ٣٣‘ تفسیر سورة ١٧‘ باب ١٥‘ مسند احمد ٤؍٢٣٩۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہود آپ کی رسالت کا بھی اقرار کرتے تھے اور اس کے ساتھ وہ موحد بھی تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اس وقت تک قتال نہ کیا جب تک کہ انھوں نے ان تمام باتوں کا اقرار کیا جن کا اقرار مسلمان کرتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ فقط اس اقرار سے مسلمان نہ بنے تھے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلام ایسے مقاصد کو مان لینے کا نام ہے جو اسلام پر دلالت کرتے ہوں اور تمام ملتوں کو ترک کرنے پر دلالت کرتے ہوں اور یہ بات ہم انس بن مالک (رض) کی روایت کی بنا پر کہتے ہیں۔

5014

۵۰۱۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ ، حَتّٰی یَشْہَدُوْا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَاِذَا شَہِدُوْا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا ، وَاسْتَقْبَلُوْا قِبْلَتَنَا ، وَأَکَلُوْا ذَبِیْحَتَنَا ، حَرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَاؤُہُمْ وَأَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا ، لَہُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ ، وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَیْہِمْ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَدَلَّ مَا ذُکِرَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ یَحْرُمُ بِہٖ دِمَائُ الْکُفَّارِ ، وَیَصِیْرُوْنَ بِہٖ مُسْلِمِیْنَ ، لِأَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ تَرْکُ مِلَلِ الْکُفْرِ کُلِّہَا ، وَجَحْدُہَا . وَالْمَعْنَی الْأَوَّلُ مِنْ تَوْحِیدِ اللّٰہِ خَاصَّۃً ، ہُوَ الْمَعْنَی الَّذِیْ نَکُفُّ بِہٖ عَنِ الْقِتَالِ ، حَتّٰی نَعْلَمَ مَا أَرَادَ بِہٖ قَائِلُہٗ، الْاِسْلَامَ أَوْ غَیْرَہٗ، حَتّٰی تَصِحَّ ہٰذِہِ الْآثَارُ وَلَا تَتَضَادَّ .فَلَا یَکُوْنُ الْکَافِرُ مُسْلِمًا مَحْکُوْمًا لَہُ وَعَلَیْہِ، بِحُکْمِ الْاِسْلَامِ حَتّٰی یَشْہَدَ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَیَجْحَدُ کُلَّ دِیْنٍ سِوَی الْاِسْلَامِ ، وَیَتَخَلَّی مِنْہٗ، کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٥٠١٣: حمیدالطویل نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مجھے یہ حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ جب وہ لاالٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دے دیں اور ہماری نماز پڑھیں اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں تو ان کے خون اور مال ہم پر حرام ہیں مگر یہ کہ اسلام کے حق سے۔ ان کے مسلمانوں والے حقوق و فرائض ہوں گے۔ اس روایت میں جو کچھ مذکور ہوا اس سے اس مفہوم کا پتہ چل گیا جس سے کفار کے خون حرام ہوجاتے ہیں اور وہ مسلمان شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ اسی صورت میں حاصل ہوگا جبکہ وہ تمام ملتوں کو چھوڑ دیں اور انکار کردیں اور پہلی بات جو توحید باری تعالیٰ کے اقرار سے خاص طور پر متعلق ہے وہ ایسا مقصد ہے جس کی وجہ سے ہم لڑائی سے ہاتھ روک لیں گے یہاں تک کہ یہ معلوم ہوجائے توحید کا اقرار اسلام پر ہے یا غیر اسلام پر ہی ہے اور یہ تاویل اس لیے کی ہے تاکہ یہ آثار درست ہوں آپس میں متضاد نہ رہیں۔ پس کافر پر مسلمان کا حکم اس وقت نہیں لگایا جاسکتا جب تک کہ لا الٰہ الاّ اللہ وان محمدا رسول اللہ کی شہادت نہ دے دے اور اسلام کے علاوہ ہر دین کا انکار کر دے اور اس سے علیحدگی کا اظہار کرے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الایمان باب ١٧‘ الزکوۃ باب ١‘ الصلاۃ باب ٢٨‘ والاستتابہ باب ٣‘ والاعتصام باب ٢؍٢٨‘ مسلم فی الایمان ٣٢‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ١‘ الجہاد باب ٩٥‘ ترمذی فی الایمان باب ١‘ ٢‘ تفسیر سورة ٨٨‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٣‘ والایمان باب ١٥‘ والجہاد باب ١‘ والتحریم باب ١‘ ابن ماجہ فی المقدمہ باب ٩‘ والفتن باب ١‘ دارمی فی السیر باب ١٠‘ والتحریم باب ١‘ مسند احمد ١؍١١‘ ٢٢٤؍٣٣٢‘ ٣‘ ١٩٩؍٢٢٤‘ ٤؍٩‘ ٥؍٢٤٦۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
اس روایت میں جو کچھ مذکور ہوا اس سے اس مفہوم کا پتہ چل گیا جس سے کفار کے خون حرام ہوجاتے ہیں اور وہ مسلمان شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ اسی صورت میں حاصل ہوگا جبکہ وہ تمام ملتوں کو چھوڑ دیں اور انکار کردیں۔
اور پہلی بات جو توحید باری تعالیٰ کے اقرار سے خاص طور پر متعلق ہے وہ ایسا مقصد ہے جس کی وجہ سے ہم لڑائی سے ہاتھ روک لیں گے یہاں تک کہ یہ معلوم ہوجائے توحید کا اقرار اسلام پر ہے یا غیر اسلام پر ہی ہے اور یہ تاویل اس لیے کی ہے تاکہ یہ آثار درست ہوں آپس میں متضاد نہ رہیں۔
پس کافر پر مسلمان کا حکم اس وقت نہیں لگایا جاسکتا جب تک کہ لا الٰہ الاّ اللہ وان محمد رسول اللہ کی شہادت نہ دے دے اور اسلام کے علاوہ ہر دین کا انکار کر دے اور اس سے علیحدگی کا اظہار کرے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔

5015

۵۰۱۴ : فِیْمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو مَالِکٍ سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْیَمَ عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا : لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَیَتْرُکُوْا مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ، حَرُمَتْ عَلَیَّ دِمَاؤُہُمْ وَأَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی .
٥٠١٤: مروان بن معاویہ نے ابو مالک سعد بن طارق بن اثیم سے انھوں نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں یہاں تک کہ وہ لاالٰہ الاّ اللہ کا اقرار کریں اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی وہ پوجا کرتے ہیں وہ چھوڑ دیں جب وہ ایسا کرلیں تو ان کے خون اور اموال حق اسلام کے علاوہ حرام ہوگئے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔
تخریج : سابقہ روایت ٥٠١٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5016

۵۰۱۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : ثَنَا بَہْزُ بْنُ حَکِیْمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مَا آیَۃُ الْاِسْلَامِ ؟ قَالَ أَنْ تَقُوْلَ أَسْلَمْتُ وَجْہِی لِلّٰہٖ، وَتَخَلَّیْتُ ، وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ ، وَتُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ فَلَمَّا کَانَ جَوَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَۃَ ، لَمَّا سُئِلَ عَنْ آیَۃِ الْاِسْلَامِ أَنْ تَقُوْلَ أَسْلَمْتُ وَجْہِی لِلّٰہٖ، وَتَخَلَّیْتُ ، وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ ، وَتُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَکَانَ التَّخَلِّیْ ہُوَ تَرْکُ کُلِّ الْأَدْیَانِ اِلَی اللّٰہِ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ کُلَّ مَنْ لَمْ یَتَخَلَّ مِمَّا سِوَی الْاِسْلَامِ ، لَمْ یَعْلَمْ بِذٰلِکَ دُخُوْلَہُ فِی الْاِسْلَامِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٠١٥: بہز بن حکیم نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اسلام کی نشانی کیا ہے۔ آپ نے فرمایا تم اس طرح کہو میں نے اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا اور میں نے سب سے بیزاری اختیار کی اور نماز کو تو قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے اور مشرکین سے الگ ہو کر مسلمانوں کے ہاں آ جاؤ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب معاویہ بن حیدہ (رض) کو یہی تھا کہ جبکہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی نشانی دریافت کی کہ تم اسلمت وجہی اللہ کا اقرار کرے اور دوسروں (ادیان) سے بیزاری اختیار کرے نماز کو قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے اور مشرکین سے کٹ کر مسلمانوں کے ہاں آجائے۔ تخلی کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے دین کو اختیار کرے اور تمام ادیان کو چھوڑ دے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس نے اسلام کے علاوہ سے علیحدگی اختیار نہ کی تو اس کا اسلام میں داخلہ معلوم نہ ہو سکے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ او یوسف ‘ محمد (رح) کا مذہب ہے۔
تخریج : نسائی فی الزکوۃ باب ١‘ ٧٣‘ مسند احمد ٥؍٤‘ ٥۔
جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب معاویہ بن حیدہ (رض) کو یہی تھا کہ جبکہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی نشانی دریافت کی کہ تم اسلمت وجہی اللہ کا اقرار کرے اور دوسروں (ادیان) سے بیزاری اختیار کرے نماز کو قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے اور مشرکین سے کٹ کر مسلمانوں کے ہاں آجائے۔ تخلی کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے دین کو اختیار کرے اور تمام ادیان کو چھوڑ دے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس نے اسلام کے علاوہ سے علیحدگی اختیار نہ کی تو اس کا اسلام میں داخلہ معلوم نہ ہو سکے گا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ او یوسف ‘ محمد (رح) کا مذہب ہے۔
مسلمان بننے کے لیے شہادتین کے اقرار کے ساتھ ساتھ وہ علامات ہونی چاہئیں جس سے اس کا مسلمان ہونا ظاہر ہو۔ مثلاً نماز ادا کرنا ‘ زکوۃ دینا اور کفار سے علیحدگی اختیار کرنا وغیرہ۔ اقرار شہادتین سے اس کے قتل سے تو ہاتھ اٹھا لیا جائے گا اور اموال محفوظ ہوجائیں گے مگر مسلمان ہونا ان علامات کے ظاہر ہونے پر ثابت ہوگا۔

5017

۵۰۱۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ التَّمَّارُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ ، حَکَمَ عَلٰی بَنِیْ قُرَیْظَۃَ أَنْ یُقَتَّلَ مِنْہُمْ مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمُوْسٰی وَأَنْ یُقَسِّمَ أَمْوَالَہُمْ وَذَرَارِیَّہُمْ .فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَقَدْ حَکَمَ فِیْہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ حَکَمَ بِہٖ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ .
٥٠١٦: عامر بن سعد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ سعد بن معاذ (رض) نے بنی قریظہ کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ ان کے وہ لوگ جو زیر ناف استرا استعمال کرتے ہیں ان کو قتل کیا جائے اور ان کے اموال و اولاد کو تقسیم کیا جائے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جب اس فیصلے کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا سعد نے ان کے متعلق وہ فیصلہ کیا ہے جو ساتوں آسمانوں والی ذات کے فیصلہ کے مطابق ہے۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٦٨‘ المغازی باب ٣٠‘ مناقب الانصار باب ١٢‘ مسلم فی الجہاد ٦٥‘ مسند احمد ٣؍٢٢‘ ٦؍١٤٢۔

5018

۵۰۱۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ ، أَخْبَرَہٗ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ جَرَّدُوْھُ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ ، فَلَمْ یَرَوْا الْمُوْسَیْ جَرَتْ عَلَی شَعْرِہٖ، یُرِیْدُ عَانَتَہٗ، فَتَرَکُوْھُ مِنَ الْقَتْلِ .
٥٠١٧: مجاہد نے عطیہ سے انھوں نے بنی قریظہ کے ایک آدمی سے نقل کیا اس نے بتلایا کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے برہنہ کیا۔ انھوں نے زیر ناف بالوں کو مونڈا ہوا نہیں پایا اس کو قتل نہیں کیا۔

5019

۵۰۱۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ الْقُرَظِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ غُلَامًا یَوْمَ حَکَمَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فِیْ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ أَنْ یُقْتَلَ مُقَاتِلُہُمْ ، وَتُسْبَیْ ذٰرَارِیُّہُمْ فَشَکُّوْا فِی ، فَلَمْ یَجِدُوْنِیْ نَابِتَ الشَّعْرِ فَہَا أَنَا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ
٥٠١٨: عطیہ قرظی کہتے ہیں میں اس وقت بچہ تھا جب سعد بن معاذ (رض) نے بنی قریظہ کے سلسلہ میں فیصلہ فرمایا کہ ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا جائے اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا جائے میرے متعلق ان کو شک گزرا پھر انھوں نے مجھے زیر ناف بالوں کے بغیر پایا۔ لو میں تمہارے مابین موجود ہوں۔

5020

۵۰۱۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٠١٩: عبدالملک بن عمیر نے عطیہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5021

۵۰۲۰ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَطِیَّۃُ الْقُرَظِیّ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٢٠: عبدالملک بن عمیر نے عطیہ قرظی سے روایت کی پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5022

۵۰۲۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، نَحْوَہُ
٥٠٢١: ابو نجیح نے مجاہد سے انھوں نے عطیہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5023

۵۰۲۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَطِیَّۃُ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٢٢: عبدالملک بن عمیر نے عطیہ سے روایت نقل کی پھر اسی طرح روایت کی ہے۔

5024

۵۰۲۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ .ح
٥٠٢٣: ربیع المؤذن نے اسد سے روایت کی۔

5025

۵۰۲۴ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ .ح
٥٠٢٤: محمد بن خزیمہ نے حجاج سے روایت کی ہے۔

5026

۵۰۲۵ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالُوْا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ الْخِطْمِیِّ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ ، عَنْ کَثِیْرِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبْنَائُ قُرَیْظَۃَ أَنَّہُمْ عُرِضُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ فَمَنْ کَانَ مُحْتَلِمًا أَوْ نَبَتَتْ عَانَتُہُ قُتِلَ ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ احْتَلَمَ أَوْ لَمْ تَنْبُتْ عَانَتُہُ تُرِکَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ ، فَقَالُوْا : لَا یُحْکَمُ لِأَحَدٍ بِالْبُلُوْغِ اِلَّا بِالِاحْتِلَامِ أَوْ بِاِنْبَاتِ عَانَتِہٖ۔ذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَمَّنْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِہٖ۔
٥٠٢٥: عمارہ بن خزیمہ نے کثیر بن سائب سے روایت کی کہ مجھے بنو قریظہ کے لڑکوں نے بیان کیا کہ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں غزوہ قریظہ کے دن پیش کیا گیا پس جو ان میں بالغ یا اس کے زیر ناف بال نکلے ہوئے تھے ان کو قتل کردیا گیا اور جو نابالغ تھے یا ان کے زیر ناف بال نہ آئے تھے ان کو چھوڑ دیا گیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ بلوغت کا حکم دونوں باتوں سے لگایا جائے گا احتلام ہو ‘ زیر ناف بال نکل آئیں۔ انھوں نے بطور دلیل ان روایات سے استدلال کیا اور مزید تائید کے لیے ان اقوال صحابہ کرام کو پیش کیا ہے۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ بلوغت کا حکم دونوں باتوں سے لگایا جائے گا احتلام ہو ‘ زیر ناف بال نکل آئیں۔ انھوں نے بطور دلیل ان روایات سے استدلال کیا اور مزید تائید کے لیے ان اقوال صحابہ کرام کو پیش کیا ہے۔

5027

۵۰۲۶ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِلَی أُمَرَائِ الْأَجْنَادِ أَنْ لَا تَضْرِبُوْا الْجِزْیَۃَ اِلَّا عَلَی مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمُوْسَی .
٥٠٢٦: سالم مولیٰ عمر نے کہا کہ جناب عمر (رض) نے شہروں کے امراء کو تحریر فرمایا کہ ان ذمیوں پر جزیہ عاید کرو جن کے زیر ناف بال ظاہر ہوچکے ہوں۔

5028

۵۰۲۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَیُّوْبُ ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ ، عَنْ عُمَرَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٠٢٧: نافع نے اسلم سے انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5029

۵۰۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہَ أَحْسِبُہُ قَالَ : اِنَّ عُثْمَانَ أُتِیَ بِغُلَامٍ قَدْ سَرَقَ ، فَقَالَ اُنْظُرُوْا ، أَخْضَرَّ مِیزَرُہٗ؟ فَاِنْ کَانَ قَدْ اخْضَرَّ فَاقْطَعُوْھُ ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ اخْضَرَّ فَلَا تَقْطَعُوْھُ .
٥٠٢٨: عبداللہ بن عبید بن عمیر نے اپنے والد سے نقل کیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ حضرت عثمان (رض) کے پاس ایک لڑکا لایا گیا۔ جس نے چوری کی تھی آپ نے فرمایا کیا اس کا زیر ناف سبز ہوچکا ؟ (یہ بلوغت سے کنایہ ہے) اگر سبز ہوچکا تو اس کا ہاتھ کاٹ دو اور اگر سبز نہیں ہوا (زیر ناف بال نہیں آئے) تو مت کاٹو ۔

5030

۵۰۲۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ حَرْمَلَۃُ بْنُ عِمْرَانَ التُّجِیْبِیُّ ، أَنَّ تَمِیْمَ بْنَ فَرْعٍ الْفِہْرِیُّ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ کَانَ فِی الْجَیْشِ الَّتِیْ فَتَحُوا الْاِسْکَنْدَرِیَّۃ فِی الْمَرَّۃِ الْأَخِیْرَۃِ ، فَلَمْ یَقْسِمْ لِیْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مِنَ الْفَیْئِ شَیْئًا ، وَقَالَ غُلَامٌ لَمْ یَحْتَلِمْ حَتّٰی کَادَ یَکُوْنُ بَیْنَ قَوْمِیْ وَبَیْنَ نَاسٍ مِنْ قُرَیْشٍ فِیْ ذٰلِکَ ثَائِرَۃٌ .فَقَالَ الْقَوْمُ : فِیْکُمْ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلُوْھُمْ ، فَسَأَلُوْا أَبَا نَضْرَۃَ الْغِفَارِیَّ ، وَعُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُہَنِیُّ ، صَاحِبِیْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَا : اُنْظُرُوْا فَاِنْ کَانَ قَدْ أَنْبَتَ الشَّعْرُ ، فَاقْسِمُوْا لَہٗ قَالَ : فَنَظَرَ اِلَیَّ بَعْضُ الْقَوْمِ ، فَاِذَا أَنَا قَدْ أَنْبَتُّ ، فَقَسَمَ لِیْ. قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : قَدْ یَکُوْنُ الْبُلُوْغُ بِہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ ، وَبِمَعْنًی ثَالِثٍ ، وَہُوَ أَنْ یَمُرَّ عَلَی الصَّبِیِّ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، فَلَا یَحْتَلِمُ وَلَا یَنْبُتُ ، فَہُوَ أَیْضًا بِذٰلِکَ فِیْ حُکْمِ الْبَالِغِیْنَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٠٢٩: حرملہ بن عمران تجیبی نے بیان کیا کہ تمیم بن فرع فہری نے بیان کیا کہ میں اس لشکر میں تھا جنہوں نے آخری مرتبہ اسکندریہ کو فتح کیا عمرو بن عاص (رض) نے مجھے فئی میں سے کوئی حصہ نہ دیا اور یہ کہا یہ لڑکا نابالغ ہے۔ یہاں تک کہ قریب تھا کہ میرے خاندان اور بعض قریش کے لوگوں کے مابین فساد بھڑک اٹھتا ‘ لوگوں نے کہا تمہارے درمیان اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں۔ پس ان سے دریافت کرلو۔ چنانچہ انھوں نے حضرت ابو نضرہ غفاری اور عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے دریافت کیا ان دونوں کو شرف صحابیت حاصل تھا تو دونوں نے یہ کہا دیکھو اگر اس کے زیر ناف بال آئے ہیں تو مال فئی میں سے اس کو حصہ دو ۔ بعض لوگوں نے میرا معائنہ کیا تو میرے زیر ناف بال پائے چنانچہ انھوں نے مجھے مال غنیمت سے حصہ دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : دوسرے علماء کی جماعت کہتی ہے کہ ان دو کے علاوہ تیسری بلوغت کی علامت عمر کا پندرہ سال کو پہنچنا ہے اگرچہ نہ احتلام ہو اور نہ زیر ناف بال ہوں تب بھی بالغوں کے حکم میں ہوگا۔ انھوں نے مندرجہ ذیل آثار سے دلیل لی ہے۔

5031

۵۰۳۰ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : عُرِضْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَہُ سَنَۃً ، فَلَمْ یُجِزْنِیْ فِی الْمُقَاتَلَۃِ ، وَعُرِضْتُ عَلَیْہِ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، فَأَجَازَنِیْ فِی الْمُقَاتَلَۃِ .قَالَ نَافِعٌ : فَحَدَّثْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَالَ : ہَذَا أَشْبَہُ لِلْحَدِّ بَیْنَ الذَّرَارِیّ ، وَالْمُقَاتَلَۃِ ، فَأَمَرَ أُمَرَائَ الْأَجْنَادِ أَنْ یُفْرَضَ لِمَنْ کَانَ فِیْ أَقَلَّ مِنْ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً فِی الذُّرِّیَّۃِ ، وَمَنْ کَانَ فِیْ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، فِی الْمُقَاتَلَۃِ
٥٠٣٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں احد کے دن پیش کیا گیا اس وقت میری عمر چودہ سال تھی آپ نے مجھے لڑائی کی اجازت مرحمت نہ فرمائی خندق کے موقعہ پر میں پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ سال ہوچکی تھی تو آپ نے لڑائی کی اجازت مرحمت فرمائی۔ نافع کا بیان ہے کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کے سامنے یہ روایت بیان کی۔ تو انھوں نے فرمایا یہ بچوں اور لڑائی کے قابل لڑکوں کے مابین حد بندی کے لیے مناسب ہے پھر انھوں نے لشکروں کے امراء کو حکم فرمایا جس کی عمر پندرہ سال سے کم ہو اس کو بچوں میں شمار کیا جائے اور پندرہ سال والے لڑکے کو لڑنے والوں میں شامل کیا جائے۔
تخریج : ترمذی فی الجہاد باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٤۔

5032

۵۰۳۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ یَعْقُوْبَ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٠٣١: یعقوب بن ابراہیم ابو یوسف نے عبداللہ سے نقل کیا پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5033

۵۰۳۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَلَمْ یَذْکُرْ مَا فِیْہِ مِنْ قَوْلِ نَافِعٍ فَحَدَّثْتُ بِذٰلِکَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ اِلٰی آخِرِ الْحَدِیْثِ .قَالُوْا : فَلَمَّا أَجَازَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَ عُمَرَ لِخَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، وَرَدَّہُ لِمَا دُوْنَہَا ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ ابْنِ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، حُکْمُ الْبَالِغِیْنَ فِیْ أَحْکَامِہِ کُلِّہَا ، وَأَنَّ حُکْمَ مَنْ کَانَ سِنُّہُ دُوْنَہَا ، حُکْمُ غَیْرِ الْبَالِغِیْنَ فِیْ أَحْکَامِہِ کُلِّہَا اِلَّا مَنْ ظَہَرَ بُلُوْغُہُ قَبْلَ ذٰلِکَ ، لِمَعْنًی مِنَ الْمَعْنَیَیْنِ الْأَوَّلَیْنِ قَالُوْا : وَقَدْ شَدَّ ہٰذَا الْمَعْنَی أَخْذَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِہٖ، وَتَأْوِیْلَہُ ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ عَلَیْہِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ ، وَجَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِنَا ، غَیْرَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ ، کَانَ لَا یَرَی الْاِنْبَاتَ دَلِیْلًا عَلَی الْبُلُوْغِ .وَغَیْرُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، فَاِنَّہٗ کَانَ لَا یَرَی مَنْ مَرَّتْ عَلَیْہِ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، وَلَمْ یَحْتَلِمْ وَلَمْ یَنْبُتْ فِیْ مَعْنَی الْمُحْتَلِمِیْنَ ، حَتّٰی یَأْتِیَ عَلَیْہِ تِسْعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، فِیْمَا حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا خِلَافُ ذٰلِکَ
٥٠٣٢: عبداللہ بن المبارک نے عبیداللہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے اور اس میں نافع کا یہ قول ذکر نہیں کیا فحدثت بذلک۔۔۔ فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عمر (رض) کو پندرہ سال کی عمر میں اجازت دے دی اور اس سے کم عمر والوں کو واپس کردیا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ پندرہ سال کی عمر والے کا حکم تمام احکام میں بالغ والا ہے اور جس کی عمر اس سے کم ہو وہ تمام احکام میں نابالغوں کے حکم میں ہے مگر یہ کہ جس کا بلوغ اس سے پہلے دونوں میں سے کسی ایک صورت سے ظاہر ہوجائے اور اس معنی میں مزید پختگی اس سے بھی پیدا ہوگئی کہ اس کو حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے اختیار کیا اور اس حدیث کی اسی انداز سے تاویل کی ہے۔ یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ امام محمد (رح) کے ہاں زیر ناف بال کا اگنا بلوغت کی دلیل نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) پندرہ سال کی عمر کو حد بلوغت تسلیم نہیں کرتے جب تک کہ احتلام اور زیر ناف بال نہ اگیں۔ اس صورت میں حد بلوغت سلیمان بن شعیب عن ابیہ عن محمد بن الحسن کی روایت کے مطابق انیس سال شمار ہوگی اور امام صاحب سے اس سلسلہ میں مختلف روایات ہیں ملاحظہ ہوں۔
تشریح فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عمر (رض) پندرہ سال کی عمر میں اجازت دے دی اور اس سے کم عمر والوں کو واپس کردیا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ پندرہ سال کی عمر والے کا حکم تمام احکام میں بالغ والا ہے اور جس کی عمر اس سے کم ہو وہ تمام احکام میں نابالغوں کے حکم میں ہے مگر یہ کہ جس کا بلوغ اس سے پہلے دونوں میں سے کسی ایک صورت سے ظاہر ہوجائے اور اس معنی میں مزید پختگی اس سے بھی پیدا ہوگئی کہ اس کو حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے اختیار کیا اور اس حدیث کی اسی انداز سے تاویل کی ہے۔ یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
فریق ثالث امام ابوحنیفہ (رح) و محمد (رح) کا قول : امام محمد (رح) کے ہاں زیر ناف بال کا اگنا بلوغت کی دلیل نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) پندرہ سال کی عمر کو حد بلوغت تسلیم نہیں کرتے جب تک کہ احتلام اور زیر ناف بال نہ اگیں۔ اس صورت میں حد بلوغت سلیمان بن شعیب عن ابیہ عن محمد بن الحسن کی روایت کے مطابق انیس سال شمار ہوگی اور امام صاحب سے اس سلسلہ میں مختلف روایات ہیں ملاحظہ ہوں۔

5034

۵۰۳۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِمَاعَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا یُوْسُفَ یَقُوْلُ : قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ اِذَا أَتَتْ عَلَیْہِ ثَمَانِیْ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، فَقَدْ صَارَ بِذٰلِکَ فِیْ أَحْکَامِ الرِّجَالِ وَلَمْ یَخْتَلِفُوْا عَنْہُ جَمِیْعًا فِیْ ہَاتَیْنِ الرِّوَایَتَیْنِ فِی الْجَارِیَۃِ أَنَّہَا اِذَا مَرَّتْ عَلَیْہَا سَبْعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً أَنَّہَا تَکُوْنُ بِذٰلِکَ ، کَاَلَّتِیْ حَاضَتْ .وَکَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ : یَجْعَلُ الْغُلَامَ وَالْجَارِیَۃَ سَوَائً ، فِیْ مُرُوْرِ الْخَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً عَلَیْہِمَا ، وَیَجْعَلُہُمَا بِذٰلِکَ فِیْ حُکْمِ الْبَالِغِیْنَ .وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، یَذْہَبُ فِی الْغُلَامِ اِلَی قَوْلِ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، وَفِی الْجَارِیَۃِ اِلَی قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ ، لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، عَلٰی أَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ، فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّہٗ، وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، لَیْسَ لِأَنَّہٗ غَیْرُ بَالِغٍ ، وَلٰـکِنْ لِمَا رَأَی مِنْ ضَعْفِہٖ، وَأَجَازَہُ وَہُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، لَیْسَ لِأَنَّہٗ بَالِغٌ ، لٰـکِنْ لِمَا رَأَی مِنْ جَلَدِہِ وَقُوَّتِہٖ۔وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا عَلِمَ کَمْ سِنُّہُ فِی الْحَالَیْنِ جَمِیْعًا .وَقَدْ فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ہَذَا أَیْضًا .
٥٠٣٣: محمد بن سماعہ نے ابو یوسف (رح) سے نقل کیا کہ میں ان کو امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کرتے سنا کہ جب اس کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے تو اس کے احکام مردوں والے ہوں گے۔ ان دونوں روایات میں لڑکی کا حکم سترہ سال کی عمر میں حائضہ شمار کی جائے گی اور امام ابو یوسف (رح) کے ہاں پندرہ سال کی عمر ہی بلوغت شمار ہوگی اور ان کا حکم بالغ والا ہوگا اور امام محمد (رح) لڑکے کے سلسلے میں امام ابو یوسف والا قول اختیار کرتے ہیں اور لڑکی کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو اختیار کرنے والے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل : امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کے خلاف امام صاحب کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ابن عمر کو چودہ سال کی عمر میں واپس کردینا اس لیے نہ تھا کہ وہ بالغ نہیں تھے بلکہ اس میں احتمال یہ ہے کہ ان میں کمزوری ملاحظہ فرمائی اور پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ ان میں مضبوطی ملاحظہ فرما کر اور قوت دیکھ کر ان کو اجازت دے دی۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ دونوں حالتوں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی عمر معلوم نہ کی ہو سمرہ بن جندب (رض) کے ساتھ آپ کا یہ طرز عمل اس بات کا مؤید ہے اور امام ابو یوسف (رح) کے ہاں پندرہ سال کی عمر ہی بلوغت شمار ہوگی اور ان کا حکم بالغ والا ہوگا اور امام محمد (رح) لڑکے کے سلسلے میں امام ابو یوسف والا قول اختیار کرتے ہیں اور لڑکی کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو اختیار کرنے والے ہیں۔
امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل : امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کے خلاف امام صاحب کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ابن عمر کو چودہ سال کی عمر واپس کردینا اس لیے نہ تھا کہ وہ بالغ نہیں تھے بلکہ اس میں احتمال یہ ہے کہ ان میں کمزوری ملاحظہ فرمائی اور پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ ان میں مضبوطی ملاحظہ فرما کر اور وقت دیکھ کر ان کو اجازت دے دی۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ دونوں حالتوں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی عمر معلوم نہ کی ہو سمرہ بن جندب (رض) کے ساتھ آپ کا یہ طرز عمل اس بات کا مؤید ہے۔

5035

۵۰۳۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الْخَیَّاطُ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیْسَی الطَّبَّاعُ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیْدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ أُمَّہُ کَانَتِ امْرَأَۃً جَمِیْلَۃً مِنْ بَنِیْ فَزَارَۃَ ، فَذَہَبَتْ بِہٖ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ وَہُوَ صَبِیٌّ ، وَکَثُرَ خُطَّابُہَا فَجَعَلَتْ تَقُوْلُ لَا أَتَزَوَّجُ اِلَّا مَنْ یَکْفُلُ لِیْ بِابْنِیْ ہَذَا فَتَزَوَّجَہَا رَجُلٌ عَلٰی ذٰلِکَ فَلَمَّا فَرَضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِغِلْمَانِ الْأَنْصَارِ ، وَلَمْ یَفْرِضْ لَہٗ، کَأَنَّہٗ اسْتَضْعَفَہٗ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَدْ فَرَضْتُ لِصَبِیْ وَلَمْ تَفْرِضْ لِی ، أَنَا أَصْرَعُہٗ، قَالَ صَارِعْہُ فَصَرَعْتُہٗ ، فَفَرَضَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا أَجَازَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ لَمَّا صَارَعَ الْأَنْصَارِیَّ فَصَرَعَہٗ، لَا لِأَنَّہٗ قَدْ بَلَغَ ، احْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ أَیْضًا مَا فَعَلَ فِی ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، أَجَازَہُ حِیْنَ أَجَازَہٗ، لِقُوَّتِہِ لَا لِبُلُوْغِہٖ، وَرَدَّہُ حِیْنَ رَدَّہٗ، لِضَعْفِہِ لَا لِعَدَمِ بُلُوْغِہٖ۔ فَانْتَفَی بِمَا ذَکَرْنَا ، أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ لِأَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ لِاحْتِمَالِہِ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ لِأَنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، لَا یُنْکِرُ أَنْ یُفْرَضَ لِلصِّبْیَانِ اِذَا کَانُوْا یَحْتَمِلُوْنَ الْقِتَالَ ، وَیَحْضُرُوْنَ الْحَرْبَ ، وَاِنْ کَانُوْا غَیْرَ بَالِغِیْنَ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فِیْمَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَمْرِ ابْنِ عُمَرَ ، خِلَافُ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٥٠٣٤: عبدالحمید بن جعفر نے اپنے والد سے انھوں نے سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ میری والدہ بنو فزارہ کی ایک نہایت خوبصورت خاتون تھیں وہ سمرہ کو لے کر مدینہ طیبہ آگئیں اس وقت سمرہ ابھی بچے تھے۔ ان کی والدہ کو نکاح کے لیے بہت پیغام آئے تو وہ یہی کہتی تھیں میں تو اس سے نکاح کروں گی جو اس بچے کی پرورش کرے گا تو ایک شخص نے اس شرط کو قبول کرلیا اور ان سے نکاح کرلیا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کے بچوں کے لیے وظیفہ مقرر فرمایا اور ان کے لیے مقرر نہ فرمایا۔ گویا ان کو کمزور سمجھا گیا تو انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فلاں بچے کا وظیفہ مقرر فرمایا اور میرے لیے مقرر نہیں فرمایا میں اس کو کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں آپ نے فرمایا اس کو پچھاڑو۔ میں نے اس بچے کو پچھاڑ دیا چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے بھی وظیفہ مقرر فرما دیا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سمرہ (رض) کا وظیفہ اس وقت مقرر فرمایا جب انھوں نے انصاری بچے سے کشتی کر کے اس کو پچھاڑ دیا وظیفہ اس لیے مقرر نہیں فرمایا کہ وہ بالغ ہوچکے تھے بلکہ قوت کے مظاہرہ کی وجہ سے بالکل حضرت ابن عمر (رض) کے معاملے میں بھی اسی بات کا احتمال ہے کہ جب آپ نے ان کی قوت کو ملاحظہ فرمایا تو اجازت دے دی بلوغت کی وجہ سے نہیں اور جب ان کو واپس لوٹایا تو کمزوری ملاحظہ کی تب واپس کیا عدم بلوغ کی وجہ سے نہیں۔ پس اس گفتگو سے ثابت ہوگیا کہ اس روایت میں امام ابو یوسف (رح) کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس میں امام ابوحنیفہ (رح) کی کہی ہوئی بات کا احتمال ہے امام صاحب کو اس بات سے قطعاً انکار نہیں ہے۔ کہ جب بچے لڑنے کے قابل ہوجائیں تو ان کا حصہ مقرر کیا جائے اور ان کو لڑائی میں شریک کیا جائے خواہ وہ بالغ نہ ہوں۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت براء بن عازب (رض) نے ابن عمر (رض) کے معاملے میں جو بات خود ابن عمر (رض) نے نقل کی اس کے خلاف بات نقل کی ہے۔
جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سمرہ (رض) کا وظیفہ اس وقت مقرر فرمایا جب انھوں نے انصاری بچے سے کشتی کر کے اس کو پچھاڑ دیا وظیفہ اس لیے مقرر نہیں فرمایا کہ وہ بالغ ہوچکے تھے بلکہ قوت کے مظاہرہ کی وجہ سے بالکل حضرت ابن عمر (رض) کے معاملے میں بھی اسی بات کا احتمال ہے کہ جب آپ نے ان کی قوت کو ملاحظہ فرمایا تو اجازت دے دی بلوغت کی وجہ سے نہیں اور جب ان کو واپس لوٹایا تو کمزوری ملاحظہ کی تب واپس کیا عدم بلوغ کی وجہ سے نہیں۔
پس اس گفتگو سے ثابت ہوگیا کہ اس روایت میں امام ابو یوسف (رح) کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس میں امام ابوحنیفہ (رح) کی کہ ہوئی بات کا احتمال ہے امام صاحب کو اس بات سے قطعاً انکار نہیں ہے۔ کہ جب بچے لڑنے کے قابل ہوجائیں تو ان کا حصہ مقرر کیا جائے اور ان کو لڑائی میں شریک کیا جائے خواہ وہ بالغ نہ ہوں۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت براء بن عازب (رض) نے ابن عمر (رض) کے معاملے میں جو بات خود ابن عمر (رض) سے نقل کی اس کے خلاف بات نقل کی ہے۔

5036

۵۰۳۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : عَرَضَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ یَوْمَ بَدْرٍ ، فَاسْتَصْغَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَجَازَنَا یَوْمَ أُحُدٍ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجَازَ ابْنَ عُمَرَ یَوْمَ أُحُدٍ، وَہُوَ یَوْمَئِذٍ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً فَخَالَفَ ذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَلَمَّا انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ ، عَلَی الْفَرِیْقِ الْآخَرِ ، الْتَمَسْنَا حُکْمَ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَہَبَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ اِلٰی أَحَدِہِمَا ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ اِلَی الْآخَرِ مِنْہُمَا ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَا اللّٰہَ قَدْ جَعَلَ عِدَّۃَ الْمَرْأَۃِ ، اِذَا کَانَتْ مِمَّنْ تَحِیْضُ ، ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ ، وَجَعَلَ عِدَّتَہَا اِذَا کَانَتْ مِمَّنْ لَا تَحِیْضُ ، مِنْ صِغَرٍ أَوْ کِبَرٍ ، ثَلَاثَۃَ أَشْہُرٍ ، فَجَعَلَ بَدَلًا مِنْ حَیْضَۃٍ شَہْرًا ، وَقَدْ تَکُوْنُ الْمَرْأَۃُ تَحِیْضُ فِیْ أَوَّلِ الشَّہْرِ ، وَفِیْ آخِرِہِ فَیَجْتَمِعُ لَہَا فِیْ شَہْرٍ وَاحِدٍ حَیْضَتَانِ ، وَقَدْ یَکُوْنُ بَیْنَ حَیْضَتَیْہَا شَہْرَانِ وَالْأَکْثَرُ .فَجَعَلَ الْخَلَفَ فِی الْحَیْضَۃِ عَنْ أَغْلَبِ أُمُوْرِ النِّسَائِ ، لِأَنَّ أَکْثَرَہُنَّ تَحِیْضُ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ حَیْضَۃً وَاحِدَۃً .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَرَأَیْنَا الِاحْتِلَامَ یَجِبُ بِہٖ لِلصَّبِیِّ حُکْمُ الْبَالِغِیْنَ ، فَاِذَا عُدِمَ الِاحْتِلَامُ ، وَأُجْمِعَ أَنَّ ہُنَاکَ خَلَفًا مِنْہٗ، فَقَالَ قَوْمٌ : ہُوَ بُلُوْغُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ السِّنِیْنَ ، جُعِلَ ذٰلِکَ الْخَلَفُ عَلٰی أَغْلَبِ مَا یَکُوْنُ فِیْہِ الِاحْتِلَامُ ، فَہُوَ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، لِأَنَّ أَکْثَرَ الِاحْتِلَامِ احْتِلَامُ الصِّبْیَانِ ، وَحَیْضُ النِّسَائِ فِیْ ہٰذَا الْمِقْدَارِ ، یَکُوْنُ ، وَلَا یُجْعَلُ عَلٰی أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَا عَلٰی أَکْثَرَ لِأَنَّ ذٰلِکَ اِنَّمَا یَکُوْنُ فِی الْخَاصِّ ، وَلَا نَعْتَبِرُ حُکْمَ الْخَاصِّ فِیْ ذٰلِکَ ، وَلٰـکِنْ نَعْتَبِرُ أَمْرَ الْعَامِّ ، کَمَا لَمْ نَعْتَبِرْ أَمْرَ الْخَاصِّ فِیْمَا جُعِلَ خَلَفًا فِی الْحَیْضِ ، وَاعْتُبِرَ أَمْرُ الْعَامِّ .فَثَبَتَ بِالنَّظَرِ الصَّحِیْحِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ کُلِّہٖ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، بِالنَّظَرِ لَا بِالْأَثَرِ ، وَانْتَفَی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فِیْ ہٰذَا نَحْوٌ مِنْ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ الَّذِیْ رَوَاہُ .أَبُوْ یُوْسُفَ عَنْہُ .
٥٠٣٥: ابو اسحاق نے براء بن عازب (رض) سے نقل کیا وہ فرماتے ہیں بدر کے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اور ابن عمر (رض) کو بلایا پھر چھوٹا قرار دے کر اجازت نہ دی اور احد کے دن اجازت مرحمت فرما دی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عمر (رض) کو احد کے دن چودہ سال کی عمر میں لڑنے کی اجازت دے دی اور یہ بات روایت ابن عمر (رض) کے خلاف ہے اب ان میں کوئی روایت دوسرے کے خلاف حجت و دلیل نہیں بن سکی تو اب قیاس کے ذریعہ اس کا حکم تلاش کیا تاکہ دونوں میں اصح ترین قول کو پاسکیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے اقوال پر غور کیا تو غور و فکر میں یہ بات سامنے آئی کہ جس عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت تین قروء مقرر فرمائی گئی اور اگر نو عمری یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت تین ماہ مقرر فرمائی گئی تو ایک حیض کے بدلے میں شریعت نے ایک ماہ کو مقرر کردیا کیونکہ عورت کو بعض اوقات ہر ماہ کی ابتداء اور اس کی انتہاء میں حیض آجاتا ہے اس طرح ایک ماہ میں دو حیض اکٹھے ہوگئے اور بعض اوقات اس کے دو حیضوں کے درمیان دو ماہ یا اس سے بھی زیادہ فاصلہ ہوجاتا ہے۔ تو عام عورتوں کا لحاظ کر کے حیض کا قائم مقام مقرر فرما دیا یعنی تین ماہ کیونکہ عام عورتوں کو ہر ماہ میں ایک حیض آتا ہے جب یہ معاملہ اس طرح ہے تو ہم نے دوسری طرف نظر کی کہ احتلام سے بچوں کے لیے بالغوں کا حکم لازم ہوجاتا ہے اور جب احتلام نہ ہو تو اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کا کوئی نائب ہو ایک جماعت نے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جانا اس کا نائب قرار دیا۔ دوسروں نے کہا کہ اس سے کچھ زیادہ عمر اس کا نائب ہے یہ ٹھیک ہے کہ جس عمر میں عام طور پر احتلام ہوتا ہے وہ پندرہ سال ہے تو اسی وجہ سے نائب مقرر کیا گیا کیونکہ بچوں کے احتلام اور بچیوں کے حیض کی یہی عمر ہے اس سے کم یا زیادہ عمر کو مقرر نہیں فرمایا کیونکہ اس کا تعلق خصوصی حالات سے ہے اور اس سلسلے میں خاص کا حکم ہم معتبر قرار نہیں دیتے۔ بلکہ عام کے حکم کا اعتبار کرتے ہیں۔ جس طرح کہ حیض میں عمومی حکم کا اعتبار کر کے نائب (تین ماہ) مقرر کردیئے گئے پس اس سے امام ابو یوسف (رح) کا قول قیاس کے ساتھ موافق ثابت ہوا اور امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) کے قول کی نفی ہوگئی۔ حضرت سعید بن جبیر (رح) کا قول اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کے موافق ہے جس کو امام ابو یوسف (رح) نے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٦‘ مسند احمد ٤؍٢٩٨۔

5037

۵۰۳۶ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ أَشُدَّہٗ أَیْ ثَمَانِیْ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، وَمِثْلُہَا فِیْ سُوْرَۃِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ
٥٠٣٦: عطاء بن دینار نے سعید بن جبیر (رح) سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ہی احسن حتی یبلغ اشدہ “ یعنی اشدہ سے مراد اٹھارہ سال ہیں اور سورة بنی اسرائیل میں بھی اسی طرح ہے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) کے طرز سے کسی ایک طرف رجحان معلوم نہیں ہوتا کیونکہ دلائل میں امام صاحب (رح) کی تصویب کی ہے اور نظر میں امام ابو یوسف (رح) کی اور آخر میں قول تابعی امام ابوحنیفہ (رح) کی حمایت میں نقل کیا ہے۔

5038

۵۰۳۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہٗ عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ .فَکَتَبَ اِلَیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَقْتُلُہُمْ .
٥٠٣٧: قتادہ نے عکرمہ سے نقل کیا کہ نجدہ نے ابن عباس (رض) کی طرف لکھا کہ وہ لڑکوں کے قتل سے متعلق دریافت کررہا تھا تو انھوں نے لکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو قتل نہ کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ١٣٩‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١١١‘ مالک فی الجہاد ٨۔

5039

۵۰۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْتُ قِیْسَا یُحَدِّثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہُرْمُزَ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ اِلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہٗ ہَلْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْتُلُ مِنْ صِبْیَانِ الْمُشْرِکِیْنَ أَحَدًا .فَکَتَبَ اِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَأَنَا حَاضِرٌ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَقْتُلُ مِنْہُمْ أَحَدًا .
٥٠٣٨: یزید بن ہرمز نے کہا کہ نجدہ ابن عباس (رض) کی طرف خط لکھ کر سوال کررہا تھا کہ کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے تو ابن عباس (رض) نے ان کی طرف لکھا جبکہ میں موجود تھا۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کو بھی قتل نہ کرتے تھے۔

5040

۵۰۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا بَعَثَ جُیُوْشَہُ قَالَ لَا تَقْتُلُوْا الْوِلْدَانَ .
٥٠٣٩: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے لشکروں کو روانہ فرماتے تو ان کو فرماتے بچوں کو مت قتل کرنا۔

5041

۵۰۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُوْلَۃً فِیْ بَعْضِ الْمَغَازِی ، فَنَہَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ
٥٠٤٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں ایک غزوہ میں ایک عورت کو مقتول پایا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بچوں اور عورتوں کے قتل سے منع کردیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١١‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٠‘ دارمی فی السیر باب ٢٥‘ مالک فی الجہاد ٩‘ مسند احمد ٢؍٢٢‘ ٧٦؍١٠٠۔

5042

۵۰۴۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرْ ابْنَ عُمَرَ
٥٠٤١: نافع نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے انھوں نے سند میں ابن عمر (رض) کا ذکر نہیں کیا۔

5043

۵۰۴۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٤٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5044

۵۰۴۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَغَیْرُہٗ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ .
٥٠٤٣: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔
تخریج : روایت ٥٠٤٠ کی تخریج ملاحظہ کریں۔

5045

۵۰۴۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ عَمِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ، حِیْنَ بَعَثَ اِلَی ابْنِ أَبِی الْحَقِیْقِ .
٥٠٤٤: کعب بن مالک نے اپنے چچا سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا جبکہ آپ نے ابن ابی الحقیق یہودی کی طرف دستہ روانہ فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١١١‘ مالک فی الجہاد ٨۔

5046

۵۰۴۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی الَّذِیْنَ قَتَلُوْا ابْنَ أَبِی الْحَقِیْقِ ، حِیْنَ خَرَجُوْا اِلَیْہِ، عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَالنِّسْوَانِ .
٥٠٤٥: عبدالرحمن بن کعب نے اپنے والد کعب بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن ابی الحقیق یہودی کی طرف جانے والے دستہ کو روانہ کرتے وقت فرمایا بچوں اور عورتوں کو مت قتل کرنا۔

5047

۵۰۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَابِسٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ ثَعْلَبٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِیْ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً ، قَالَ لَہُمْ لَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا وَلَا امْرَأَۃً .
٥٠٤٦: علقمہ بن مرثد نے ابو بریدہ سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سریہ کو روانہ فرماتے تو انھیں حکم فرماتے کسی بچے اور عورت کو مت قتل کرنا۔

5048

۵۰۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ .ح وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا بَعَثَ جَیْشًا کَانَ مِمَّا یُوْصِیْہِمْ بِہٖ أَنْ لَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا قَالَ أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ فِیْ حَدِیْثِہٖ، قَالَ عَلْقَمَۃُ ، فَحَدَّثْتُ بِہٖ مُقَاتِلَ بْنَ حَیَّانَ ، فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ مُسْلِمُ بْنُ ہُشَیْمٍ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقْرِنٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٠٤٧: سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو من جملہ وصایا کے یہ بھی فرماتے کہ کسی بچے کو قتل مت کرنا۔ ابو بشر رقی نے اپنی روایت میں ذکر کیا کہ علقمہ نے کہا کہ میں نے مقاتل بن حیان کو یہ بات کہی تو انھوں نے کہا مجھے مسلم بن ہشیم نے نعمان بن مقرن (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5049

۵۰۴۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ .ح
٥٠٤٨: فہد نے عبداللہ بن صالح سے روایت نقل کی ہے۔

5050

۵۰۴۹ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ بْنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا بَعَثَ أَمِیْرًا عَلٰیْ جَیْشٍ أَوْ سَرِیَّۃٍ ، کَانَ مِمَّا یُوْصِیْہِ بِہٖ أَنْ لَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا .
٥٠٤٩: علقمہ بن مرثد حضرمی نے سلیمان بن بریدہ اسلمی سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی آدمی کو لشکر کا امیر یا سریہ کا قائد بناتے تو من جملہ وصایا کے یہ نصائح بھی ہوتے کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔

5051

۵۰۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ رَبِیْعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ عَطِیَّۃَ الْعَوْفِیِّ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ قَالَ ہُمَا لِمَنْ غَلَبَ .
٥٠٥٠: عطیہ عوفی نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کیا ہے اور فرمایا یہ دونوں غلبہ والے کے ہیں۔

5052

۵۰۵۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْمُرَقِّعُ بْنُ صَیْفِیِّ ، عَنْ جَدِّہِ رَبَاحِ بْنِ حَنْظَلَۃَ الْکَاتِبِ أَنَّہٗ خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزَاۃٍ غَزَاہَا ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ عَلَی مُقَدِّمَتِہٖ، حَتّٰی لَحِقَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی نَاقَتِہٖ، فَأَفْرَجُوْا عَنْ امْرَأَۃٍ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْہَا مَقْتُوْلَۃً ، فَبَعَثَ اِلٰی خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ یَنْہَاہُ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ .
٥٠٥١: مرقع بن صیفی نے اپنے دادا رباح بن حنظلہ الکاتب سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں گیا اس لشکر کے مقدمہ پر خالد بن ولید مقرر تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر ان سے جا ملے وہاں صحابہ کرام ایک مقتولہ عورت کو دیکھ رہے تھے انھوں نے اس کی طرف جانے کے لیے آپ کا راستہ خالی کردیا تو آپ نے خالد بن ولید (رض) کو پیغام بھیج کر عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کیا۔

5053

۵۰۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الْمُرَقِّعُ بْنُ صَیْفِیِّ عَنْ جَدِّہِ رَبَاحِ بْنِ رَبِیْعٍ أَنَّہٗ خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ لَا تَقْتُلُوْا ذُرِّیَّۃً وَلَا عَسِیْفًا
٥٠٥٢: مرقع بن صیفی نے اپنے دادا رباح بن ربیع (رض) سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں گیا پھر اسی طرح روایت نقل کی صرف اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ آپ نے فرمایا بچوں اور غلاموں کو مت قتل کرو۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٠‘ مسند احمد ٣؍٤٨٨‘ ٤؍١٧٨۔

5054

۵۰۵۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٠٥٣: سعید بن منصور نے مغیرہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5055

۵۰۵۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ذَکْوَانَ عَنِ الْمُرَقِّعِ بْنِ صَیْفِیِّ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ الْکَاتِبِ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ بِامْرَأَۃٍ لَہَا خُلُقٌ ، وَقَدْ اجْتَمَعُوْا عَلَیْہَا فَلَمَّا جَائَ أَفْرَجُوْا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا کَانَتْ ہٰذِہِ تُقَاتِلُ ثُمَّ اتَّبَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالِدًا أَنْ لَا تَقْتُلَ امْرَأَۃً ، وَلَا عَسِیْفًا ۔
٥٠٥٤: مرقع بن صیفی نے حنظلہ کاتب (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ آپ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور لوگ اس کے پاس اکٹھے تھے جب آپ تشریف لائے تو صحابہ کرام نے اس کی طرف جانے کا راستہ آپ کے لیے کھول دیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو لڑائی نہ کرتی تھی پھر آپ نے خالد (رض) کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی عورت اور غلام کو قتل نہ کریں۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١١١۔

5056

۵۰۵۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ قَتْلُ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ عَلٰی حَالٍ ، وَأَنَّہٗ لَا یَحِلُّ أَنْ یُقْصَدَ اِلَی قَتْلِ غَیْرِہِمْ ، اِذَا کَانَ لَا یُؤْمِنُ فِیْ ذٰلِکَ تَلَفُہُمْ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ أَہْلَ الْحَرْبِ اِذَا تَتَّرِسُوْا بِصِبْیَانِہِمْ ، فَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَمْیَہُمْ اِلَّا بِاِصَابَۃِ صِبْیَانِہِمْ ، فَحَرَامٌ عَلَیْہِمْ رَمْیُہُمْ فِیْ قَوْلِ ہٰؤُلَآئِ وَکَذٰلِکَ اِنْ تَحَصَّنُوْا بِحِصْنٍ وَجَعَلُوْا فِیْہِ الْوِلْدَانَ ، فَحَرَامٌ عَلَیْنَا رَمْیُ ذٰلِکَ الْحِصْنِ عَلَیْہِمْ ، اِذَا کُنَّا نَخَافُ مِنْ ذٰلِکَ اِصَابَۃَ صِبْیَانِہِمْ وَنِسَائِہِمْ وَاحْتَجُّوْا بِالْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا فِیْ صَدْرِ ہٰذَا الْبَابِ وَوَافَقَہُمْ آخَرُوْنَ عَلَیْ صِحَّۃِ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَ عَلَی تَوَاتُرِہَا ، وَقَالُوْا : وَقَعَ النَّہْیُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی الْقَصْدِ اِلَی قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ .فَأَمَّا عَلٰی طَلَبِ قَتْلِ غَیْرِہِمْ مِمَّنْ لَا یُوَصِّلُ اِلَی ذٰلِکَ مِنْہُ اِلَّا بِتَلَفِ صِبْیَانِہِمْ وَنِسَائِہِمْ ، فَلَا بَأْسَ بِذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٠٥٥: فریابی نے سفیان سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے اور امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ کسی عورت اور بچے کو کسی حالت میں قتل کرنا جائز نہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کو بھی قتل کا ارادہ کرنا درست نہیں جبکہ ان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو۔ مثلاً جب لڑنے والے لوگ جب اپنے بچوں کو ڈھال بنالیں اور مسلمان ان بچوں اور عورتوں پر تیر اندازی کے بغیر جنگجو لوگوں تک نہ پہنچا جاسکے تو ان پر تیراندازی حرام ہے اسی طرح اگر وہ قلعے میں بند ہوجائیں اور اس میں بچوں کو رکھیں تو اس قلعہ پر تیراندازی حرام ہے جبکہ یہ خطرہ ہو کہ یہ تیر ان عورتوں اور بچوں کو لگیں گے۔ انھوں نے مذکورہ بالا روایات کو اپنے استدلال میں پیش کیا۔ دوسروں نے کہا بچوں اور عورتوں کا قتل بلاشبہ درست نہیں مگر جب جنگجو لوگوں تک ان کو قتل کے بغیر نہ پہنچا جاسکتا ہو تو ان کا قتل اس وقت درست ہے ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ ان آثار کی صحت میں کلام نہیں۔ مگر ان کے سلسلہ میں ممانعت سے مراد بالقصد ان کا قتل کرنا ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔

5057

۵۰۵۶ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ قَالَ : سُئِلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَہْلِ الدَّارِ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ یَبِیتُوْنَ لَیْلًا ، فَیُصَابُ مِنْ نِسَائِہِمْ وَصِبْیَانِہِمْ ، فَقَالَ ہُمْ مِنْہُمْ .
٥٠٥٦: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے انھوں نے حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے روایت کی۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ ہم رات کو مشرکین کے گھروں پر شب خون مارتے ہیں اگر اس دوران بچے اور عورتیں مارے جائیں (تو ان کا کیا حکم ہے) آپ نے فرمایا ان کا حکم مشرکین والا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٧١۔

5058

۵۰۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ قَالَ : قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَوْطَأَتْ خَیْلُنَا أَوْلَادًا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُمْ مِنْ آبَائِہِمْ .
٥٠٥٧: عمرو بن دینار نے حضرت ابن عباس (رض) سے انھوں نے حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے نقل کیا آپ سے پوچھا گیا اگر ہمارے گھوڑے مشرکین کے بچوں کو روند ڈالیں ؟ (تو کیا حکم ہے) آپ نے فرمایا ان کا حکم مشرکین والا ہے۔
تخریج : ترمذی فی السیر باب ١٩‘ مسند احمد ٤؍٧١۔

5059

۵۰۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا شُرَیْحُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ قَالَ : قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلدَّارُ مِنْ دُوْرِ الْمُشْرِکِیْنَ نَفْتَحُہَا فِی الْغَارَۃِ ، فَنُصِیْبُ الْوِلْدَانَ تَحْتَ بُطُوْنِ الْخَیْلِ ، وَلَا نَشْعُرُ ؟ فَقَالَ اِنَّہُمْ مِنْہُمْ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَلَمَّا لَمَّا یَنْہَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْغَارَۃِ ، وَقَدْ کَانُوْا یُصِیْبُوْنَ فِیْہَا الْوِلْدَانَ وَالنِّسَائَ الَّذِیْنَ یَحْرُمُ الْقَصْدُ اِلٰی قَتْلِہِمْ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا أَبَاحَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ لِمَعْنًی غَیْرِ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہِ حُظِرَ مَا حُظِرَ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، وَأَنَّ مَا حُظِرَ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، ہُوَ الْقَصْدُ اِلَی قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ، وَالَّذِی أَبَاحَ ہُوَ الْقَصْدُ اِلَی الْمُشْرِکِیْنَ ، وَاِنْ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ تَلَفُ غَیْرِہِمْ، مِمَّنْ لَا یَحِلُّ الْقَصْدُ اِلَی تَلَفِہٖ، حَتّٰی تَصِحَّ ہٰذِہِ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَا تَتَضَادُّ .وَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْغَارَۃِ عَلَی الْعَدُوِّ ، وَأَغَارَ عَلَی الْآخَرِیْنَ فِیْ آثَارٍ عِدَّۃٍ ، قَدْ ذَکَرْنَاہَا فِی بَابِ الدُّعَائِ قَبْلَ الْقِتَالِ وَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ ذٰلِکَ مَا یُحِیطُ بِہٖ عِلْمُنَا ، أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَعْلَمُ أَنَّہٗ لَا یُؤْمَنُ مِنْ تَلَفِ الْوِلْدَانِ وَالنِّسَائِ فِیْ ذٰلِکَ ، وَلٰـکِنَّہٗ أَبَاحَ ذٰلِکَ لَہُمْ ، لِأَنَّ قَصْدَہُمْ کَانَ اِلَی غَیْرِ تَلَفِہِمْ .فَہٰذَا یُوَافِقُ الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْتُ مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ الْعَصْبِ ، وَالنَّظْرُ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی الَّذِیْ عَضَّ ذِرَاعَہُ رَجُلٌ ، فَانْتَزَعَ ذِرَاعَہُ فَسَقَطَتْ ثَنِیَّتَا الْعَاضِّ ، أَنَّہٗ أَبْطَلَ ذٰلِکَ وَتَوَاتَرَتْ عَنْہُ الْآثَارُ فِیْ ذٰلِکَ فَمِنْہَا ۔
٥٠٥٨: عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے انھوں نے حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم مشرکین کے گھروں میں کسی گھر کو شب خون میں فتح کرتے ہیں وہاں ہمارے قصد کے بغیر گھوڑوں کے پاؤں کے نیچے بچے روندے جانے کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ انہی میں سے ہیں۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو شب خون سے منع نہیں فرمایا اور اس میں تو وہ بچوں اور عورتوں تک کو پہنچتے ہیں کہ جن کا قتل حرام ہے تو اس سے یہ دلیل مل گئی کہ ان روایات میں جواز کا وہ سبب نہیں جس کی ممانعت گزشتہ روایات میں وارد ہے یعنی عورتوں اور بچوں کو قصداً قتل کرنا اور جواز کی صورت جس کا ان روایات سے ثبوت ملتا ہے وہ بلاقصد ہے کہ اصل تو مشرکین کے قتل کا ارادہ ہو خواہ اس میں وہ ہلاک ہوں جن کے قتل کا ارادہ نہیں۔ اب اس تاویل سے احادیث کا تضاد ختم ہوجائے گا اور تمام احادیث اپنے اپنے مقام پر درست قرار پائیں گی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمن پر شب خون اور لوٹ کا حکم دیا اور متعدد بار آپ نے خود شب خون میں شرکت فرمائی جیسا کہ باب الدعاء قبل القتال میں ہم تذکرہ کرچکے اور جہاں تک ہمارا علم ہے کسی روایت میں شب خون کی ممانعت ثابت نہیں ہے اور یہ بات جانی پہچانی ہے کہ شب خون والی حالت میں آپ کے سامنے یہ بات معلوم تھی کہ اس میں بچوں اور عورتوں کی ہلاکت ہوگی مگر آپ نے دشمن پر اس کو جائز رکھا کیونکہ اصل مقصود تو دوسروں کو قتل کرنا ہوتا تھا اور یہ بات حضرت صعب بن جثامہ (رض) والی روایت کے مفہوم کے موافق ہے اور نظر بھی اسی کی تائید کرتی ہے کیونکہ قصد تو جنگجو لوگوں کا قتل ہے۔ حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایت وارد ہے جو اس شخص سے متعلق ہے جس کے بازو کو ایک شخص نے دانتوں سے کاٹا۔ اس آدمی نے اپنے بازو کو قوت سے اس کے دانتوں سے چھڑایا تو (جھٹکے کی وجہ سے) کاٹنے والے کے دو سامنے والے دانت گرگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بدلے کو باطل قرار دیا اور اس سلسلے میں متواتر روایات وارد ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٧٣۔

5060

۵۰۵۹ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ عَمَّیْہِ سَلْمَۃَ بْنِ أُمَیَّۃَ وَیَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ ، قَالَا : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ ، وَمَعَنَا صَاحِبٌ لَنَا ، فَقَاتَلَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَہٗ فَجَبَذَہَا مِنْ فِیْہِ، فَنَزَعَ ثَنِیَّتَہٗ۔ فَأَتَی الرَّجُلُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَلْتَمِسُ الْعَقْلَ ، فَقَالَ یَنْطَلِقُ أَحَدُکُمْ اِلٰی أَخِیْہِ فَیَعَضَّہٗ عَضِیْضَ الْفَحْلِ ، ثُمَّ یَأْتِیْ یَطْلُبُ الْعَقْلَ ؟ لَا عَقْلَ لَہُمَا فَأَبْطَلَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٥٠٥٩: صفوان بن عبداللہ بن صفوان نے اپنے دونوں چچاؤں سلمہ بن امیہ اور یعلیٰ بن امیہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے۔ ہمارے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھا وہ ایک مسلمان سے لڑ پڑا۔ اس نے اس کے بازو کو دانتوں سے کاٹا۔ اس ہمارے ساتھی نے اپنے بازو کو اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دانت نکل گئے۔ اس نے جا کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دیت کا مطالبہ کردیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے ایک آدمی اپنے مسلمان بھائی کو جا کر اونٹ کی طرح کاٹتا ہے پھر آ کر دیت کا مطالبہ کرتا ہے ان دونوں کے لیے دیت نہیں ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے لیے دیت کو باطل قرار دیا۔
تخریج : نسائی فی القسامہ باب ٢٠‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٠۔

5061

۵۰۶۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ ، حَدَّثَہٗ عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : کَانَ لِی أَجِیرٌ فَقَاتَلَ اِنْسَانًا، فَعَضَّ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہٗ، فَانْتَزَعَ أُصْبُعَہُ فَسَقَطَتْ ثَنِیَّتَاہُ فَجَائَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَہْدَرَ ثَنِیَّتَہُ قَالَ عَطَاء ٌ : حَسِبْتُ أَنَّ صَفْوَانَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیَدَعُ یَدَہٗ فِیْ فِیْکَ ، فَتَقْضِمَہَا کَقَضْمِ الْجَمَلِ ؟
٥٠٦٠: عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے یعلی بن امیہ (رض) سے بیان کیا کہ میرے ایک مزدور نے ایک آدمی سے لڑائی کی ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانتوں سے کاٹا۔ اس نے اپنی انگلی کو اس کے منہ دے اس قوت سے کھینچا کہ کاٹنے والے کے دو سامنے والے دانت گرگئے۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کے دانتوں کے بدلے کو باطل قرار دیا۔ عطاء (رح) کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ صفوان نے اس طرح کہا : قال رسول اللہ أیدع یدہ فی فیک فتقضمھما کقضم الجمل ؟ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں چھوڑتا تاکہ تو اونٹ کی طرح اس کو چباتا۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ ٢٧؍٢٨‘ نسائی فی القسامۃ باب ٢٠‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٠‘ مسند احمد ٣؍٣٢١۔

5062

۵۰۶۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ کَقَضْمِ الْبَکْرِ .
٥٠٦١ : مجاہد نے یعلی بن امیہ سے روایت کی ‘ پھر انھوں نے اسی طرح ذکر کیا مگر یہ الفاظ مختلف ہیں : کقضم البکر (جواں سال اونٹ) ۔

5063

۵۰۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَجُلًا عَضَّ ذِرَاعَ رَجُلٍ ، فَانْتَزَعَ ذِرَاعَہٗ، فَسَقَطَتْ ثَنِیَّتَا الَّذِیْ عَضَّہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَدْتُ أَنْ تَقْضِمَ یَدَ أَخِیْکَ کَمَا یَقْضِمُ الْفَحْلُ؟ فَأَبْطَلَہَا .
٥٠٦٢: زرارہ بن اوفیٰ نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کے بازو کو دانتوں سے کاٹا۔ اس آدمی نے اپنا بازو زور سے کھینچ لیا جس سے کاٹنے والے کے سامنے والے دو دانت گرگئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اپنے بھائی کے ہاتھ کو نر اونٹ کی طرح چبانے کی کوشش کی ہے۔ پس آپ نے اس کے بدلے کو باطل قرار دیا۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٢٠‘ مسلم فی الزکوۃ ٢٨‘ والقسامۃ ٢٠؍٢١‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩‘ والقسامۃ باب ١٨‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٠‘ مسند احمد ٤‘ ٢٢٢؍٢٢٤‘ ٤٢٨؍٤٣٠۔

5064

۵۰۶۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَلَمَّا کَانَ الْمَعْضُوْضُ نَزَعَ یَدَہٗ ، وَاِنْ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ تَلَفُ ثَنَایَا غَیْرِہٖ، وَکَانَ حَرَامًا عَلَیْہِ الْقَصْدُ اِلَی نَزْعِ ثَنَایَا غَیْرِہِ بِغَیْرِ اِخْرَاجِ یَدِہِ مِنْ فِیْہِ، وَلَمْ یَکُنِ الْقَصْدُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی غَیْرِ التَّلَفِ ، کَالْقَصْدِ اِلَی التَّلَفِ فِی الْاِثْمِ ، وَلَا فِیْ وُجُوْبِ الْعَقْلِ ، کَانَ کَذٰلِکَ کُلُّ مَنْ لَہٗ أَخْذُ شَیْئٍ ، وَفِیْ أَخْذِہِ اِیَّاہُ تَلَفُ غَیْرِہٖ، مِمَّا یَحْرُمُ عَلَیْہِ الْقَصْدُ اِلَی تَلَفِہِ کَانَ لَہُ الْقَصْدُ اِلٰی أَخْذِ مَا لَہٗ أَخْذُہُ مِنْ ذٰلِکَ وَاِنْ کَانَ فِیْہِ تَلَفُ مَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ الْقَصْدُ اِلَی تَلَفِہِ فَکَذٰلِکَ الْعَدُوُّ ، قَدْ جُعِلَ لَنَا قِتَالُہُمْ ، وَحَرُمَ عَلَیْنَا قَتْلُ نِسَائِہِمْ وَوِلْدَانِہِمْ .فَحَرَامٌ عَلَیْنَا الْقَصْدُ اِلَی مَا نُہِیْنَا عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ ، وَحَلَالٌ لَنَا الْقَصْدُ اِلَی مَا أُبِیْحَ لَنَا ، وَاِنْ کَانَ فِیْہِ تَلَفُ مَا قَدْ حَرُمَ عَلَیْنَا مِنْ غَیْرِہِمْ ، وَلَا ضَمَانَ عَلَیْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ
٥٠٦٣: شعبہ نے قتادہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ ان روایات سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے۔ جس آدمی کا ہاتھ کاٹا گیا جب اس نے اپنا ہاتھ کھینچا اگرچہ اس کی وجہ سے دوسرے آدمی کے دانت گرگئے اس کے منہ سے ہاتھ کو نکالنے کے بغیر دانتوں کو کسی اور طریقے سے نکالنے کا قصد کرنا بھی حرام تھا اور اس سلسلے میں دانتوں کے تلف کرنے کا قصد بھی نہیں تھا اور یہ اسی قصد کی طرح ہے جو تلف کرنے میں گناہ ہے اور دیت کے لازم ہونے کے اعتبار سے برابر نہیں تو بالکل اسی طرح ہر وہ آدمی جس کو کسی چیز کے لینے کا اختیار ہو اور اس کے لینے میں کسی دوسرے کا ایسا نقصان ہوتا ہو جس کا ارادہ کرنا حرام ہے۔ اس کے باوجود بھی وہ آدمی اپنی چیز لے سکتا ہے خواہ دوسرے کی وہ چیز ضائع ہوجائے جس کا قصداً ضائع کرنا حرام ہے بالکل اسی طرح معاملہ دشمن کا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے لڑنے کا حکم دیا اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا بھی ہم پر حرام کردیا پس جس بات سے ہمیں روکا گیا ہے اس کا ارادہ کرنا حرام ہے لیکن جس چیز کو ہمارے لیے جائز کیا گیا ہے اس کا ارادہ کرنا بھی جائز ہے اگرچہ اس کے حصول کے لیے کوئی ایسی چیز ضائع ہوتی ہو جس کا ضائع کرنا حرام ہو۔ فلہذا اس سلسلے میں ہم ہر کوئی تاوان بھی لازم نہیں ہوگا۔ ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا یہی قول ہے۔

5065

۵۰۶۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ کُرَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی‘ قَالَ : لَمَّا فَرَغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَیْنٍ ، بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلٰیْ جَیْشٍ اِلٰی أَوْطَاسٍ ، فَلَقِیَ دُرَیْدِ بْنِ الصِّمَّۃِ ، فَقُتِلَ دُرَیْدٌ ، وَہَزَمَ اللّٰہُ أَصْحَابَہُ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِقَتْلِ الشَّیْخِ الْکَبِیْرِ فِی الْحَرْبِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَبِأَنَّ دُرَیْدًا قَدْ کَانَ حِیْنَئِذٍ فِیْ حَالِ مَنْ لَا یُقَاتِلُ .وَرَوَوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٥٠٦٤: یزید بن عبداللہ بن ابی بردہ سے ابو بردہ سے انھوں نے ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو ابو عامر کو اوطاس کی طرف ایک لشکر دے کر روانہ فرمایا تو اس کی درید بن صمہ سے لڑائی ہوئی درید مارا گیا اور اس کے ساتھی شکست کھا گئے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ لڑائی زیادہ بوڑھے کو بھی قتل میں کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا کیونکہ دیرد بن صمہ اس وقت خود لڑائی کی حالت والے لوگوں سے نہ تھا اور مزید دلیل کے طور پر اس روایت کو بھی پیش کیا۔

5066

۵۰۶۵ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، قَالَ : وَجَّہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِبَلَ أَوْطَاسٍ ، فَأَدْرَکَ دُرَیْدَ بْنَ الصِّمَّۃِ رَبِیْعُ بْنُ رُفَیْعٍ ، فَأَخَذَ بِخِطَامِ جَمَلِہِ وَہُوَ یَظُنُّ أَنَّہٗ امْرَأَۃٌ ، فَاِذَا ہُوَ شَیْخٌ کَبِیْرٌ ، قَالَ مَاذَا تُرِیْدُ مِنِّیْ ؟ قَالَ : أَقْتُلُکَ، ثُمَّ ضَرَبَہٗ بِسَیْفِہٖ، قَالَ : فَلَمْ یُغْنِ شَیْئًا قَالَ : بِئْسَمَا سَلَّحَتْکَ أُمُّکَ، خُذْ سَیْفِیْ ہٰذَا مِنْ مُؤَخِّرِ رَحْلِی ، ثُمَّ اضْرِبْ، وَارْفَعْ عَنِ الْعِظَامِ ، وَارْفَعْ عَنِ الدِّمَاغِ فَاِنِّیْ کَذٰلِکَ کُنْتُ أَقْتُلُ الرِّجَالَ قَالُوْا : فَلَمَّا قُتِلَ دُرَیْدٌ ، وَہُوَ شَیْخٌ کَبِیْرٌ فَانٍ ، لَا یَدْفَعُ عَنْ نَفْسِہٖ، فَلَمْ یَعِبْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الشَّیْخَ الْفَانِیْ یُقْتَلُ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَأَنَّ حُکْمَہٗ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمُ الشُّبَّانِ لَا حُکْمُ النِّسْوَانِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ قَتْلُ الشُّیُوْخِ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، کَالنِّسَائِ وَالذُّرِّیَّۃِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٥٠٦٥: عبداللہ بن ادریس نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوطاس کی جانب ایک لشکر بھیجا تو حضرت ربیع بن رفیع (رض) نے درید بن صمہ کو پا لیا اور اس کے اونٹ کی لگام لے کر چل دیئے ان کا خیال تھا کہ وہ عورت ہے۔ تو اچانک انھوں نے دیکھا کہ یہ تو بوڑھا آدمی ہے اس نے کہا۔ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا میں تمہیں قتل کروں گا پھر اس کو تلوار ماری تو اس سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ اس نے کہا تمہاری ماں تمہیں ہتھیار پکڑنے کا بدترین طریقہ سکھایا ہے اس نے کہا میری تلوار میرے کجاوے کے پیچھے لٹکی ہے اسے لے کر مارو مگر اسے ہڈیوں اور دماغ سے الگ رکھنا میں اسی طرح قتل کیا کرتا تھا۔ جبکہ انتہائی بوڑھا درید جو اپنی طرف سے دفاع بھی نہ کرسکتا تھا وہ قتل ہوا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان صحابہ کو ملامت نہ کی تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دارالحرب میں اگر نہایت بوڑھا قتل ہو۔ تو اس کا حکم جوانوں والا ہے۔ عورتوں والا نہیں۔ دارالحرب میں بھی انتہائی بوڑھوں کا قتل درست نہیں ان کا حکم اس میں بچوں اور عورتوں کی طرح ہے دلیل یہ ہے۔
طریق استدلال : جبکہ انتہائی بوڑھا درید جو اپنی طرف سے دفاع بھی نہ کرسکتا تھا وہ قتل ہوا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان صحابہ کو ملامت نہ کی تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دارالحرب میں اگر نہایت بوڑھا قتل ہو۔ تو اس کا حکم جوانوں والا ہے۔ عورتوں والا نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : دارالحرب میں بھی انتہائی بوڑھوں کا قتل درست نہیں ان کا حکم اس میں بچوں اور عورتوں کی طرح ہے دلیل یہ ہے۔

5067

۵۰۶۶ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَابِسٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ ثَعْلَبٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً یَقُوْلُ لَا تَقْتُلُوْا شَیْخًا کَبِیْرًا فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الْمَنْعُ مِنْ قَتْلِ الشُّیُوْخِ ، وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ حَدِیْثِ مُرَقِّعِ بْنِ صَیْفِیِّ فِی الْمَرْأَۃِ الْمَقْتُوْلَۃِ مَا کَانَتْ ہٰذِہِ تُقَاتِلُ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَنْ أُبِیْحَ قَتْلُہُ ہُوَ الَّذِیْ یُقَاتِلُ ، وَلٰـکِنْ لَمَّا رُوِیَ حَدِیْثُ دُرَیْدٍ ہٰذَا، وَہٰذِہِ الْأَحَادِیْثُ الْأُخَرُ ، وَجَبَ أَنْ تُصَحَّحَ ، وَلَا یُدْفَعُ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ .فَالنَّہْیُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قَتْلِ الشُّیُوْخِ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، ثَابِتٌ فِی الشُّیُوْخِ الَّذِیْنَ لَا مَعُوْنَۃَ لَہُمْ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الْحَرْبِ ، مِنْ قِتَالٍ وَلَا رَأْیٍ وَحَدِیْثُ دُرَیْدٍ عَلَی الشُّیُوْخِ الَّذِیْنَ لَہُمْ مَعُوْنَۃٌ فِی الْحَرْبِ کَمَا کَانَ لِدُرَیْدٍ ، فَلَا بَأْسَ بِقَتْلِہِمْ وَاِنْ لَمْ یَکُوْنُوْا یُقَاتِلُوْنَ لِأَنَّ تِلْکَ الْمَعُوْنَۃَ الَّتِیْ تَکُوْنُ مِنْہُمْ أَشَدُّ مِنْ کَثِیْرٍ مِنَ الْقِتَالِ ، وَلَعَلَّ الْقِتَالَ لَا یَلْتَئِمُ لِمَنْ یُقَاتِلُ اِلَّا بِہَا ، فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، قُتِلُوْا وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ حَدِیْثِ رَبَاحٍ أَخِیْ حَنْظَلَۃَ ، فِی الْمَرْأَۃِ الْمَقْتُوْلَۃِ مَا کَانَتْ ہٰذِہِ تُقَاتِلُ أَیْ : فَلَا تُقْتَلُ ، فَاِنَّہَا لَا تُقَاتِلُ ، فَاِذَا قَاتَلَتْ قُتِلَتْ ، وَارْتَفَعَتِ الْعِلَّۃُ الَّتِیْ لَہَا مَنَعَ مِنْ قَتْلِہَا .وَفِیْ قَتْلِہِمْ دُرَیْدَ بْنَ الصِّمَّۃِ لِلْعِلَّۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِقَتْلِ الْمَرْأَۃِ ، اِذَا کَانَتْ أَیْضًا ذَاتَ تَدْبِیْرٍ فِی الْحَرْبِ کَالشَّیْخِ الْکَبِیْرِ ذِی الرَّأْیِ فِیْ أُمُوْرِ الْحَرْبِ .فَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، ہُوَ الَّذِیْ یُوْجِبُہُ تَصْحِیْحُ مَعَانِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ .وَقَدْ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ قَتْلِ أَصْحَابِ الصَّوَامِعِ .
٥٠٦٦: علقمہ بن مرثد نے ابن بریدہ سے انھوں نے حضرت بریدہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو ان کو ہدایت فرماتے انتہائی بوڑھے کو قتل مت کرنا۔ اس روایت میں بوڑھوں کو قتل کرنے کی صاف ممانعت ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرقع بن صیفی کی روایت میں مقتولہ عورت کے متعلق فرمایا۔ یہ لڑائی تو نہ کرتی تھی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس بوڑھے کا قتل مباح کیا گیا وہ لڑنے والا ہے لیکن جب روایت درید اور دوسری احادیث وارد ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے مابین تضاد نہ رہے۔ دارالحرب میں شیوخ کے قتل والی روایت وہ ان شیوخ کے متعلق ثابت ہے جن کو لڑائی کے معاملات میں کس طرح کی دلچسپی نہ ہو اور نہ ان کی رائے کی حیثیت رہے اور روایت درید کا تعلق ایسے بوڑھے لوگوں سے ہے جو لڑائی میں معاونت کرسکتے ہوں جیسا کہ درید کو یہ بات حاصل تھی ایسے لوگوں کے قتل میں کچھ حرج نہیں اگرچہ وہ براہ راست لڑائی میں حصہ نہ لیتے ہوں مگر لڑائی کے سلسلہ میں ان کی اعانت وہ قتال سے بڑھ کر ہے اور شاید کہ لڑنے والے کی لڑائی اسی سے ہی درست ہو جو وہ رائے دے تو جب ایسا ہی ہے تو ایسے لوگوں کو قتل کیا جائے گا اور اس کی دلیل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول (جو حدیث رباح میں موجود ہے جو کہ حنظلہ کے بھائی تھے) جو اس مقتولہ عورت کے متعلق فرمایا کہ یہ تو لڑتی نہ تھی۔ اگر وہ لڑے تو اس کو قتل کیا جائے کیونکہ جو وجہ اس کے قتل نہ کرنے کی تھی وہ ختم ہوگئی اور اس مذکورہ علت کی وجہ سے صحابہ کرام کا درید بن صمہ کا قتل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عورت لڑائی کے مشورے دینے والی ہو تو اس کو قتل کرنے میں حرج نہیں۔ جیسا کہ لڑائی کے معاملات میں ماہرانہ رائے دینے والے بوڑھے کا قتل کرنا جائز ہے۔ روایات کے معانی کی تصحیح سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہی ہے جس کا ہم نے ذکر کردیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں کو قتل کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ اس روایت میں۔
تخریج : اخرج بنحوہ ابو داؤد فی الجہاد باب ٨٢۔
اس روایت میں بوڑھوں کو قتل کرنے کی صاف ممانعت ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرقع بن صیفی کی روایت میں مقتولہ عورت کے متعلق فرمایا۔ یہ لڑائی تو نہ کرتی تھی۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس بوڑھے کا قتل مباح کیا گیا وہ لڑنے والا ہے لیکن جب روایت درید اور دوسری احادیث وارد ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے مابین تضاد نہ رہے۔
صورت تطبیق : دارالحرب میں شیوخ کے قتل والی روایت وہ ان شیوخ کے متعلق ثابت ہے جن کو لڑائی کے معاملات میں کس طرح کی دلچسپی نہ ہو اور نہ ان کی رائے کی حیثیت رہے اور روایت درید کا تعلق ایسے بوڑھے لوگوں سے جو لڑائی میں معاونت کرسکتے ہیں جیسا کہ درید کو یہ بات حاصل تھی ایسے لوگوں کے قتل میں کچھ حرج نہیں اگرچہ وہ براہ راست لڑائی میں حصہ نہ لیتے ہوں مگر لڑائی کے سلسلہ میں ان کی اعانت وہ قتال سے بڑھ کر ہے اور شاید کہ لڑنے والے کی لڑائی اسی سے ہی درست ہو جو وہ رائے دے تو جب ایسا ہی ہے تو ایسے لوگوں کو قتل کیا جائے گا۔
دلیل نمبر 1: اور اس کی دلیل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول جو حدیث رباح میں موجود ہے جو کہ حنظلہ کے بھائی تھے جو اس مقتولہ عورت کے متعلق فرمایا کہ یہ تو لڑتی نہ تھی۔ اگر وہ لڑے تو اس کو قتل کیا جائے کیا ن کہ جو وجہ اس کے قتل نہ کرنے کی تھی وہ ختم ہوگئی اور اس مذکورہ علت کی وجہ سے صحابہ کرام کا درید بن صمہ کا قتل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عورت لڑائی کے مشورے دینے والی ہو تو اس کو قتل کرنے میں حرج نہیں۔ جیسا کہ لڑائی کے معاملات میں ماہرانہ رائے دینے والے بوڑھے کا قتل کرنا جائز ہے۔
نوٹ : روایات کے معانی کی تصحیح سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہی ہے جس کا ہم نے ذکر کردیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں کو قتل کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ اس روایت میں۔

5068

۵۰۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبَۃَ الْأَشْہَلِیُّ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا بَعَثَ جُیُوْشَہٗ، قَالَ لَا تَقْتُلُوْا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ فَلَمَّا جَرَتْ سُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَلٰی تَرْکِ قَتْلِ أَصْحَابِ الصَّوَامِعِ الَّذِیْنَ حَبَسُوْا أَنْفُسَہُمْ عَنِ النَّاسِ ، وَانْقَطَعُوْا عَنْہُمْ ، وَأَمِنَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ نَاحِیَتِہِمْ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ کُلَّ مَنْ أَمِنَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ نَاحِیَتِہٖ، مِنْ امْرَأَۃٍ أَوْ شَیْخٍ فَانٍ ، أَوْ صَبِیْ کَذٰلِکَ أَیْضًا ، لَا یُقْتَلُوْنَ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ ، وَہٰذَا قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، وَہُوَ قِیَاسُ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ
٥٠٦٧: داؤد بن حصین نے عکرمہ سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے لشکر روانہ فرماتے تو ارشاد فرماتے کہ عبادت خانہ میں گوشہ نشینوں کو مت قتل کرنا۔ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ مبارک یہ جاری ہے کہ جو لوگ دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر عبادت گاہوں میں گوشہ نشین ہوجاتے ہیں ان کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ ان کی کنارہ کشی سے مسلمان بےخطر ہوجاتے ہیں۔ تو اس سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمان جس شخص سے بھی اس کی علیحدگی کی وجہ سے بےخطر ہوجائے وہ خواہ عورت ہو یا بہت بوڑھا آدمی ی ابچہ ان میں سے کسی کو قتل نہ کیا جائے گا یہ قول امام محمد بن الحسن (رح) کا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کے قول کا قیاس بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٠٠۔

5069

۵۰۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ الْمَاجِشُوْنِ ، قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، جَعَلَ السَّلَبَ لِلْقَاتِلِ ۔
٥٠٦٨: صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عود نے اپنے والد انھوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے کہ مقتول کا سامان قاتل کو ملے گا۔
تخریج : بنحوہ مسلم فی الجہاد ٤٥‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٣٧؍١٣٨‘ مسند احمد ٦‘ ٢٨؍٢٦۔

5070

۵۰۶۹ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ ، عَنْ شَرِیْکٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : انْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الزُّبَیْرَ فَخَرَجَ اِلَیْہِ فَقَتَلَہٗ، فَجَعَلَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَلَبَہٗ .
٥٠٦٩: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک مشرک نے لڑائی کی دعوت دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر کو حکم فرمایا وہ اس کی طرف نکلے اور اس کو قتل کردیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے مقتول کا سامان مقرر فرمایا۔

5071

۵۰۷۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ صَفْوَانِ بْنِ عَمْرٍو السَّکْسَکِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ ، وَعَوْفِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَضٰی بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ .
٥٠٧٠: عبدالرحمن بن جبیر بن نضیر نے اپنے والد سے انھوں نے خالد بن ولید اور عوف بن مالک (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتل کے لیے مقتول کے سامان کا فیصلہ فرمایا۔
تخریج : روایات ٥٠٦٨ کو ملاحظہ کریں۔

5072

۵۰۷۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ یَوْمَ مَوْتِہِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُخَمِّسْ السَّلَبَ ؟ قَالَ : بَلَی .
٥٠٧١: عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر نے عوف بن مالک اشجعی (رض) سے نقل کیا کہ میں نے خالد بن ولید (رض) کو موتہ کے دن کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقتول کے سامان کا خمس نہیں لیا انھوں نے کہا کیوں نہیں۔
تخریج : بخاری فی الخمس باب ١٨‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٣٨‘ مسند احمد ٤؍٩٠‘ ٦؍٢٦۔

5073

۵۰۷۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ کَثِیْرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِیْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ أَبَا قَتَادَۃَ ، سَلَبَ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ
٥٠٧٢: ابو محمد نے ابو قتادہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو قتادہ کو مقتول کا سامان حصہ غنیمت سے زائد عنایت فرمایا۔

5074

۵۰۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ کَثِیْرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِیْ مُحَمَّدٍ ، مَوْلٰی أَبِیْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِی أَنَّہٗ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ حَنِیْنٍ .فَلَمَّا الْتَقَیْنَا کَانَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ جَوْلَۃٌ .قَالَ : فَرَأَیْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَاسْتَدَرْتُ لَہٗ، حَتّٰی أَتَیْتُہٗ مِنْ وَرَائِہٖ، فَضَرَبْتُہٗ بِالسَّیْفِ عَلٰی حَبْلِ عَاتِقِہِ ضَرْبَۃً حَتَّی قَطَعَتْ حَبْلَ الدِّرْعِ ، فَأَقْبَلَ عَلَیَّ فَضَمَّنِی ضَمَّۃً حَتَّی وَجَدْتُ مِنْہَا رِیْحَ الْمَوْتِ ، ثُمَّ أَدْرَکَہُ الْمَوْتُ ، فَأَرْسَلَنِی .فَلَقِیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقُلْتُ :مَا بَالُ النَّاسِ ؟ فَقَالَ : أَمْرُ اللّٰہِ، ثُمَّ اِنَّ النَّاسَ رَجَعُوْا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا لَہٗ عَلَیْہِ بَیِّنَۃٌ ، فَلَہُ سَلَبُہٗ قَالَ فَقُمْتُ فَقُلْتُ :مَنْ یَشْہَدُ لِیْ؟ ثُمَّ جَلَسْتُ ، ثُمَّ قَالَ ذٰلِکَ الثَّانِیَۃَ ، ثُمَّ قَالَ ذٰلِکَ الثَّالِثَۃَ فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا بَالُک یَا أَبَا قَتَادَۃَ ؟ فَقَصَصْتُ عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : صَدَقَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَسَلَبُ ذٰلِکَ الْقَتِیْلِ عِنْدِی ، فَأَرْضِہِ مِنِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ لَا ہَائَ اللّٰہٗ، اِذَا لَا یَعْمِدُ اِلٰی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللّٰہِ، یُقَاتِلُ عَنِ اللّٰہِ وَعَنْ رَسُوْلِہٖ ، فَیُعْطِیک سَلَبَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَ ، فَأُعْطِہِ اِیَّاہُ فَقَالَ أَبُو قَتَادَۃَ فَأَعْطَانِیْہِ، فَبِعْت الدِّرْعَ ، فَابْتَعْتُ بِہٖ مَخْرَفًا فِیْ بَنِیْ سَلْمَۃَ فَاِنَّہٗ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُہٗ فِی الْاِسْلَامِ
٥٠٧٣: ابو محمد مولیٰ ابو قتادہ نے حضرت ابو قتادہ بن ربعی (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین کے سال نکلے جب ہمارا کفار سے سامنا ہوا تو مسلمانوں نے حملہ کیا کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان پر حملے میں غالب آ رہا ہے میں اس کی طرف گھوما یہاں تک کہ میں نے اس کو پیچھے سے آ کر کندھے کی رگ پر تلوار ماری جس سے اس کی زرہ کی زنجیر کٹ گئی وہ میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے زور سے پکڑ کر دبایا یہاں تک کہ میں نے اس سے موت کی بو محسوس کی پھر وہ مرگیا اور مجھے چھوڑ دیا تو میں عمر (رض) کو ملا اور ان سے پوچھا لوگوں کا کیا حال ہے انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ کا حکم اسی طرح تھا۔ پھر لوگ واپس لوٹ گئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس آدمی نے کسی (مشرک) کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس قتل کا ثبوت بھی ہو تو اس کو مقتول کا سامان ملے گا ابو قتادہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور میں نے پکار کر کہا کون میرے متعلق گواہی دے گا ؟ پھر میں بیٹھ گیا آپ نے یہ بات پھر دوسری مرتبہ فرمائی اور تیسری مرتبہ فرمائی تو میں کھڑا ہوا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابو قتادہ تمہیں کیا ہے ؟ تو میں نے اپنا واقعہ بیان کردیا ایک صحابی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے سچ کہا اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کو میری طرف سے راضی کردیں حضرت ابوبکر (رض) کہنے لگے نہیں اللہ کی قسم ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کے لیے لڑتا ہے اور اس کا سامان تمہیں دے دیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوبکر نے ٹھیک کہا۔ وہ سامان اس کو دے دو حضرت ابو قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ سامان اس نے مجھے دے دیا میں نے وہ زرہ فروخت کر کے بنی سلمہ میں کھجوروں کے درخت خرید لئے۔ یہ اسلام میں پہلا مال تھا جو مجھے ملا۔
تخریج : بخاری فی الخمس باب ١٨‘ المغازی باب ٥٤‘ مسلم فی الجہاد ٤٢‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٣٦‘ ترمذی فی السیر باب ١٣‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ٢٩‘ مالک فی الجہاد ١٨‘ مسند احمد ٥؍١٢‘ ٢٩٥‘ ٣٠٦۔

5075

۵۰۷۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ، قَالَ : ثَنَا الْمُبَارَکُ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ أَنَّہٗ قَتَلَ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، فَنَفَّلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَلَبَہُ وَدِرْعَہٗ، فَبَاعَہٗ بِخَمْسِ أَوَاقٍ .
٥٠٧٤: اعرج نے حضرت ابو قتادہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے ایک مشرک کو قتل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی زرہ اور سامان مجھے غنیمت کے طور پر عنایت فرمائی میں نے اس کو پانچ اوقیہ چاندی کے بدلے فروخت کردیا۔

5076

۵۰۷۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلْمَۃَ ، عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَوْمَ حُنَیْنٍ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ فَقَتَلَ أَبُو طَلْحَہُ یَوْمَئِذٍ عِشْرِیْنَ رَجُلًا ، فَأَخَذَ أَسْلَابَہُمْ .
٥٠٧٥: اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے دن فرمایا۔ جس نے کسی مشرک کو قتل کیا تو اسے اس کا سامان ملے گا۔ حضرت ابو طلحہ نے اس دن بیس مشرکوں کو قتل کیا اور ان کا سامان حاصل کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٣٦‘ دارمی فی السیر باب ٤٣۔

5077

۵۰۷۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِیَاسُ بْنُ سَلْمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَلَمَۃُ بْنُ الْأَکْوَعِ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَوَازِنَ ، فَقَتَلْتُ رَجُلًا مِنْہُمْ ، ثُمَّ جِئْتُ بِجَمَلِہِ أَقُوْدُہٗ، عَلَیْہِ رَحْلُہُ وَسِلَاحُہٗ، فَاسْتَقْبَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالنَّاسُ مَعَہٗ، فَقَالَ مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ ؟ فَقَالُوْا : ابْنُ الْأَکْوَعِ ، فَقَالَ لَہٗ سَلَبُہٗ أَجْمَعُ .
٥٠٧٦: ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ہوازن سے لڑائی کی۔ تو میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا۔ پھر میں اس کے اونٹ کو کھینچ لایا اس پر اس کا کجاوہ اور اسلحہ بھی تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے ساتھ مجھے سامنے سے ملے اور فرمایا۔ کس نے اس آدمی کو قتل کیا ہے تو لوگوں نے کہا ابن اکوع نے تو آپ نے فرمایا اسے اس کا تمام سامان ملے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٠٠۔

5078

۵۰۷۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَیْسٍ ، عَنِ ابْنِ الْأَکْوَعِ عَنْ أَبِیْہٖ قَالَ : أَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَیْنٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، وَہُوَ فِیْ سَفَرٍ ، فَجَلَسَ یَتَحَدَّثُ عِنْدَ أَصْحَابِہٖ ثُمَّ انْسَلَّ ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ اُطْلُبُوْھُ فَاقْتُلُوْھُ فَسَبَقَتْہُمْ اِلَیْہِ فَقَتَلْتُہٗ وَأَخَذْتُ سَلَبَہٗ، فَنَفَّلَنِیْ اِیَّاہُ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ کُلَّ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، فَلَہُ سَلَبُہٗ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا لَا یَکُوْنُ السَّلَبُ لِلْقَاتِلِ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ الْاِمَامُ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ فَاِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ ، لِیُحَرِّضَ النَّاسَ عَلَی الْقِتَالِ ، فِیْ وَقْتٍ یَحْتَاجُ فِیْہِ اِلَی تَحْرِیْضِہِمْ عَلٰی ذٰلِکَ ، فَہُوَ کَمَا قَالَ .وَاِنْ لَمْ یَقُلْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ، فَمَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا ، فَسَلَبُہُ غَنِیْمَۃٌ ، وَحُکْمُہٗ حُکْمُ الْغَنَائِمِ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فَمَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمْ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، مِنَ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا ، أَنَّ قَوْلَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ ، وَعَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ ، لِقَوْلٍ کَانَ تَقَدَّمَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ ، جَعَلَ بِہٖ سَلَبَ کُلِّ مَقْتُوْلٍ لِمَنْ قَتَلَہٗ، وَکَذٰلِکَ مَا ذُکِرَ فِیْہِ مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّلَبَ لِلْقَاتِلِ ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ لِہٰذَا الْمَعْنٰی أَیْضًا وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ السَّلَبَ لَا یَجِبُ لِلْقَاتِلِ ۔
٥٠٧٧: ابن سلمہ بن اکوع نے اپنے والد سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مشرکین کا ایک جاسوس آیا جبکہ آپ حالت سفر میں تھے وہ آپ کے صحابہ کرام کے پاس باتیں کرتا رہا پھر کھسک گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو تلاش کر کے قتل کر دو تو میں نے اس کو سب سے پہلے آلیا اور اس کو قتل کردیا اور اس کے سامان کو لے لیا تو آپ نے وہ مجھے زائد دے دیا۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جس نے دارالحرب میں کسی کافر کو قتل کیا اس کو اس کا تمام سامان ملے گا اور انھوں نے مندرجہ بالا آثار سے دلیل پیش کی ہے۔ مقتول کا سامان قاتل کو نہ ملے گا البتہ اگر امام اور کمانڈر اس کا اعلان کر دے تو پھر مل جائے گا اگر اس نے لوگوں کو قتال پر برانگیختہ کرنے کو کہا تو جس طرح اس نے اعلان کیا اسی طرح کیا جائے گا۔ اگر ایسا اعلان نہ کیا ہو تو پھر سلب مال غنیمت ہوگا اور اس کا حکم عام غنائم جیسا ہوگا۔ ان کی دلیل گزشتہ روایات میں بھی موجود ہے جن کو فریق اوّل نے اپنی دلیل میں پیش کیا کہ حضرت خالد بن ولید اور عوف بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سامان کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا یہ فعل اس لیے ہو کہ آپ نے پہلے اعلان کردیا تھا کہ ہر قاتل کو مقتول کا سامان ملے گا اور ان آثار میں قاتل کو مقتول کا سامان اسی بنا پر دیا گیا ہو۔ مقتول کا سامان قاتل کو دینا ضروری نہیں اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٧٣‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٠٠‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ٢٩‘ دارمی فی السیر باب ١٤؍٤٣‘ مسند احمد ٤؍٥١۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جس نے دارالحرب میں کسی کافر کو قتل اس کو اس کا تمام سامان ملے گا اور انھوں نے مندرجہ بالا آثار سے دلیل پیش کی ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : مقتول کا سامان قاتل کو نہ ملے گا البتہ اگر امام اور کمانڈر اس کا اعلان کر دے تو پھر مل جائے گا اگر اس نے لوگوں کو قتال پر برانگیختہ کرنے کو کہا تو جس طرح اس نے اعلان کیا اسی طرح کیا جائے گا۔ اگر ایسا اعلان نہ کیا ہو تو پھر سلب مال غنیمت ہوگا اور اس کا حکم عام غنائم جیسا ہوگا۔ ان کی دلیل گزشتہ روایات میں بھی موجود ہے جن کو فریق اوّل نے اپنی دلیل میں پیش کیا کہ حضرت خالد بن ولید اور عوف بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سامان کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا یہ فعل اس لیے ہو کہ آپ نے پہلے اعلان کردیا تھا کہ ہر قاتل کو مقتول کا سامان ملے گا اور ان آثار میں قاتل کو مقتول کا سامان اسی بنا پر دیا گیا ہو۔
عدم وجوب کی دوسری دلیل : مقتول کا سامان قاتل کو دینا ضروری نہیں اس کی دلیل یہ روایت ہے۔

5079

۵۰۷۸ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ حَمْزَۃَ الزُّبَیْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ مَاجِشُوْنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ صَالِحُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ اِنِّیْ لَقَائِمٌ یَوْمَ بَدْرٍ بَیْنَ غُلَامَیْنِ حَدِیْثَۃٌ أَسْنَانُہُمَا ، تَمَنَّیْتُ لَوْ أَنِّیْ بَیْنَ أَضْلُعٍ مِنْہُمَا فَغَمَزَنِیْ أَحَدُہُمَا ، فَقَالَ : یَا عَمُّ ، أَتَعْرِفُ أَبَا جَہْلٍ ؟ فَقُلْتُ :مَا حَاجَتُک اِلَیْہِ یَا ابْنَ أَخِیْ ؟ قَالَ : أُخْبِرَتْ أَنَّہٗ یَسُبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَئِنْ رَأَیْتُہٗ ، لَا یُفَارِقُ سَوَادِیْ سَوَادُہٗ، حَتّٰی یَمُوْتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا ، فَعَجِبْتُ لِذٰلِکَ ، فَغَمَزَنِی الْآخَرُ فَقَالَ : مِثْلَہَا فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ اِلٰی أَبِیْ جَہْلٍ یَتَرَجَّلُ فِی النَّاسِ ، فَقُلْتُ :أَلَا تَرَیَانِ ہَذَا صَاحِبُکُمْ الَّذِیْ تَسْأَلَانِ عَنْہُ، فَابْتَدَرَاہٗ، فَضَرَبَاہُ بِسَیْفَیْہِمَا حَتَّی قَتَلَاہُ ثُمَّ أَتَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاہٗ، فَقَالَ أَیُّکُمَا قَتَلَہٗ؟ قَالَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا ، أَنَا قَتَلْتُہٗ .قَالَ أَمَسَحْتُمَا سَیْفَیْکُمَا ؟ قَالَا : لَا ، قَالَ : فَنَظَرَ فِی السَّیْفَیْنِ ، فَقَالَ کِلَاکُمَا قَتَلَہُ وَقَضَی بِسَلَبِہٖ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوْحِ وَالرَّجُلَانِ ، مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوْحِ ، وَالْآخَرُ مُعَاذُ ابْنُ عَفْرَائَ أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ لَہُمَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنْتُمَا قَتَلْتُمَاہٗ؟ ثُمَّ قَضَی بِالسَّلَبِ لِأَحَدِہِمَا دُوْنَ الْآخَرِ فَفِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ أَنَّ السَّلَبَ لَوْ کَانَ وَاجِبًا لِلْقَاتِلِ بِقَتْلِہِ اِیَّاہٗ، لَکَانَ قَدْ وَجَبَ سَلَبُہٗ لَہُمَا ، وَلَمْ یَکُنْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْتَزِعُہُ مِنْ أَحَدِہِمَا فَیَدْفَعَہُ اِلَی الْآخَرِ أَلَا تَرَی أَنَّ الْاِمَامَ لَوْ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ فَقَتَلَ رَجُلَانِ قَتِیْلًا ، أَنَّ سَلَبَہُ لَہُمَا نِصْفَیْنِ ، وَأَنَّہٗ لَیْسَ لِلْاِمَامِ أَنْ یَحْرِمَہُ أَحَدَہُمَا ، وَیَدْفَعَہُ اِلَی الْآخَرِ ، لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا لَہُ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ ، مِثْلُ مَا لِصَاحِبِہٖ ، وَہُمَا أَوْلَی بِہٖ مِنَ الْاِمَامِ .فَلَمَّا کَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَلَبِ أَبِیْ جَہْلٍ أَنْ یَجْعَلَہُ لِأَحَدِ قَاتِلَیْہِ دُوْنَ الْآخَرِ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ کَانَ أَوْلَی بِہٖ مِنْہُمَا ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ قَالَ یَوْمَئِذٍ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا ، فَلَہُ سَلَبُہُ
٥٠٧٨: صالح بن ابراہیم نے اپنے والد سے انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے روایت کی کہ میں بدر کے روز دو نو عمر بچوں کے درمیان کھڑا تھا میں تمنا کررہا تھا کاش کہ میں دو مضبوط آدمیوں کے درمیان ہوتا۔ ان میں سے ایک نے مجھے اشارہ کیا اور کہا اے چچا کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے کہا اے بھتیجے تمہیں اس سے کیا کام ؟ اس نے کہا مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیتا ہے مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا جسم اس کے جسم سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ ہم میں سے جلدی کرنے والا مر نہ جائے گا۔ مجھے اس کی بات پر تعجب ہوا۔ پھر مجھے دوسرے نے اشارہ اور اسی جیسی بات کہی زیادہ دیر نہ گزرنے پائی تھی کہ میری نظر ابو جہل پر پڑی وہ لوگوں کے درمیان ٹہل رہا تھا۔ میں نے کہا کیا تم دونوں دیکھ رہے ہو یہی وہ شخص ہے جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ پس دونوں نے اس کی طرف جلدی کی اور اپنی تلواروں سے اسے قتل کردیا پھر دونوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور اس بات کی اطلاع دی آپ نے استفسار فرمایا تم دونوں میں سے کس نے قتل کیا ؟ ہر ایک نے کہا اس کو میں نے قتل کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تم دونوں نے اپنی تلواروں کو پونچھ ڈالا ہے ؟ دونوں نے کہا نہیں آپ نے ان دونوں کی تلواروں کو ملاحظہ فرمایا اور ارشاد فرمایا تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے اور اس کے سامان کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن جموح (رض) کے حق میں فرمایا اور یہ دونوں جوان معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرا معاذ بن عفراء تھے۔ ذرا غور کرو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو فرمایا کیا تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے ؟ پھر آپ نے سامان کا فیصلہ ایک کے حق میں فرمایا۔ اس میں اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اگر مقتول کا سامان قاتل کو دینا لازم ہوتا تو پھر اس کا سامان دونوں کو ملتا اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کا حصہ چھین کر دوسرے کو دے دیا ہو۔ حاشا و کلا۔ نمبر 2: توجہ طلب یہ بات ہے کہ اگر امام یہ اعلان کرے ” من قتل قتیلا فلہ سلبہ “ ایک آدمی کو دو نے قتل کیا تو اس کا سامان دونوں کو نصفا نصف ملے گا اور امام کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان دونوں میں سے ایک کو محروم کرے اور دوسرے کو تمام دے دے۔ کیونکہ اس میں ہر ایک کا اتنا حق ہے جتنا دوسرے کا اور وہ دونوں امام سے بھی زیادہ حقدار ہیں۔ نمبر 3: جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو جہل کا سامان اس کے قاتلوں میں ایک کو دے دیا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ کا حق اس مال پر قاتلوں کی بنسبت زیادہ تھا۔ کیونکہ اس دن آپ نے یہ اعلان من قتل قتیلا فلہ سلبہ کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔ یہ روایت اس کی دلیل ہے۔
تخریج : بخاری فی الخمس باب ١٨‘ مسلم فی الجہاد ٤٢‘ مسند احمد ١؍١٩٣۔

5080

۵۰۷۹ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَّامٍ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْ بَدْرٍ ، فَلَقِیَ الْعَدُوَّ ، فَلَمَّا ہَزَمَہُمْ اللّٰہُ تَعَالٰی ، اتَّبَعَتْہُمْ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُوْنَہُمْ ، وَأَحْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاسْتَوْلَتْ طَائِفَۃٌ بِالْعَسْکَرِ وَالنُّہَبِ فَلَمَّا نَفَی اللّٰہُ الْعَدُوَّ ، وَرَجَعَ الَّذِیْنَ طَلَبُوْھُمْ ، قَالُوْا : لَنَا النَّفَلُ ، نَحْنُ طَلَبْنَا الْعَدُوَّ ، وَبِنَا نَفَاہُمْ اللّٰہُ وَہَزَمَہُمْ ، وَقَالَ الَّذِیْنَ أَحْدَقُوْا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ مِنَّا ، بَلْ ہُوَ لَنَا ، نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا یَنَالُ مِنْہُ الْعَدُوُّ غُرَّۃً وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتَوْلَوْا عَلَی الْعَسْکَرِ وَالنُّہَبِ : وَاللّٰہِ مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ بِہٖ مِنَّا ، نَحْنُ حَوَیْنَاہُ وَاسْتَوْلَیْنَاہُ .فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِلَی قَوْلِہٖ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَقَسَمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمْ عَنْ فَوَاقٍ أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یُفَضِّلْ فِیْ ذٰلِکَ ، الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا الْقَتْلَ ، عَلَی الْآخَرِیْنَ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ سَلَبَ الْمَقْتُوْلِ ، لَا یَجِبُ لِلْقَاتِلِ بِقَتْلِہِ صَاحِبَہٗ، اِلَّا بِجَعْلِ الْاِمَامِ اِیَّاہُ لَہٗ، عَلٰی مَا فِیْہِ صَلَاحُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنَ التَّحْرِیْضِ عَلَی قِتَالِ عَدُوِّہِمْ .
٥٠٧٩: حضرت ابو امامہ باہلی (رض) نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف نکلے پھر دشمن سے مقابلہ ہوگیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی تو مسلمانوں کی ایک جماعت نے کفار کا پیچھا کیا اور ایک جماعت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کرنے اور ایک جماعت کفار کے لشکر پر غلبہ پانے اور مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھی۔ اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو فضیلت نہیں دی ‘ نہ ان لوگوں کو جنہوں نے مشرکین کو قتل کیا اور نہ دوسروں کو پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مقتول کا سامان قاتل کو دینا لازم نہیں ہاں امام مقرر کر دے تو وہ لڑائی پر ابھارنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے۔ اگلی دو روایات اس کی مؤید ہیں۔
تشریح جب دشمن کا لشکر بھاگ گیا اور ان کا پیچھا کرنے والے واپس لوٹ آئے تو انھوں نے کہا یہ غنیمت ہمارے لیے ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ہماری وجہ سے دور کیا ہے اور بھگایا ہے اور جو لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کر رہے تھے انھوں نے کہا تم ہم سے زیادہ حق نہیں رکھتے بلکہ غنیمت تو ہمارے لیے ہے کیونکہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کرتے رہے تاکہ دشمن دھوکا سے آپ پر حملہ نہ کر دے اور جن لوگوں نے دشمن کے لشکر کو قابو میں رکھا اور مال حاصل کیا انھوں نے کہا اللہ کی قسم ! تم لوگ ہم سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔ ہم نے مال غنیمت کو اکٹھا کیا اور قبضہ میں رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ آپ سے غنائم کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ” قل الانفال اللہ والرسول “ (الانفال۔ ١) پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مابین مال غنیمت کو کامل طور پر تقسیم کردیا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٣٢٤۔
حاصل روایت : اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو فضیلت نہیں ان لوگوں کو جنہوں نے مشرکین کو قتل کیا اور نہ دوسروں کو پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مقتول کا سامان قاتل کو دینا لازم نہیں ہاں امام مقرر کر دے تو لڑائی پر ابھارنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے۔ اگلی دو روایات اس کی مؤید ہیں۔

5081

۵۰۸۰ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ بُدَیْلُ بْنُ مَیْسَرَۃَ الْعُقَیْلِیُّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِیْنَ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ بِوَادِی الْقُرٰی فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لِمَنِ الْمَغْنَمُ ؟ قَالَ لِلّٰہِ سَہْمٌ ، وَلِہٰؤُلَائِ أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ فَقُلْتُ :فَہَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِشَیْئٍ مِنَ الْمَغْنَمِ مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالَ : لَا ، حَتَّی السَّہْمَ یَأْخُذُہُ أَحَدُکُمْ مِنْ جَنْبِہٖ ، فَلَیْسَ ہُوَ بِأَحَقَّ بِہٖ مِنْ أَخِیْہِ
٥٠٨٠: بدیل بن میسرہ عقیلی نے عبداللہ بن شقیق سے مقام بلقین کے ایک آدمی سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جبکہ آپ وادی القریٰ میں تھے۔ میں نے سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! غنیمت کس کا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کا اور چار حصے ان غازیوں کے۔ میں نے پوچھا کیا کوئی شخص غنیمت میں سے کسی چیز کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہاں تک کہ وہ تیر جو دشمن کے جسم سے قاتل نکالے اس کا بھی وہ دوسرے مسلمان سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔

5082

۵۰۸۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِیْنَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْغَنِیْمَۃَ ، خُمُسًا مِنْہَا لِلّٰہِ تَعَالٰی ، وَأَرْبَعَۃُ أَخْمَاسٍ لِأَصْحَابِہٖ وَبَیَّنَ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ حَتّٰی لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ رَمَی بِسَہْمٍ فِیْ جَنْبِہٖ فَنَزَعَہٗ، لَمْ یَکُنْ أَحَقَّ بِہٖ مِنْ أَخِیْہِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ کُلَّ مَا تَوَلَّاہُ الرَّجُلُ فِی الْقِتَالِ ، وَکُلَّ مَا تَوَلَّی غَیْرُہُ مِمَّنْ ہُوَ حَاضِرٌ الْقِتَالَ ، أَنَّہُمَا فِیْہِ سَوَاء ٌ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ الَّذِیْ ذٰکَرْتُمُوْھُ مِنْ سَلَبِ أَبِیْ جَہْلٍ ، وَمِمَّا ذَکَرْتُمُوْھُ فِیْ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ ، اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ فِیْ یَوْمِ بَدْرٍ ، قَبْلَ أَنْ یُجْعَلَ الْأَسْلَابُ لِلْقَاتِلِیْنَ ، ثُمَّ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ الْأَسْلَابَ لِلْقَاتِلِیْنَ ، فَقَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ فَنَسَخَ ذٰلِکَ ، مَا تَقَدَّمَہُ .قِیْلَ لَہٗ : مَا دَلَّ مَا ذَکَرْتُ عَلٰی نَسْخِ شَیْئٍ مِمَّا تَقَدَّمَہٗ، لِأَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ الَّذِیْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فِیْ تِلْکَ الْحَرْبِ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ کَمَا قَالَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ مَنْ أَلْقَیْ سِلَاحَہُ فَہُوَ آمِنٌ فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلَی کُلِّ مَنْ أَلْقَیْ سِلَاحَہٗ، فِیْ غَیْرِ تِلْکَ الْحَرْبِ وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ مَا کَانَ قَبْلَ حُنَیْنٍ ، أَنَّ الْأَسْلَابَ لَا تَجِبُ لِلْقَاتِلِیْنَ ، ثُمَّ حَدَثَ فِیْ یَوْمِ حُنَیْنٍ ہٰذَا الْقَوْلُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ نَاسِخًا لَمَا تَقَدَّمَ ، وَاحْتَمَلَ أَنْ لَا یَکُوْنَ نَاسِخًا لَہٗ، لَمْ نَجْعَلْہُ نَاسِخًا لَہٗ، حَتّٰی نَعْلَمَ ذٰلِکَ یَقِیْنًا وَمِمَّا قَدْ دَلَّ أَیْضًا ، عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ لَیْسَ بِنَاسِخٍ لَمَا کَانَ قَبْلَہٗ مِنَ الْحَکَمِ ، أَنَّ یُوْنُسَ
٥٠٨١: خالد حذاء نے عبداللہ بن شقیق سے انھوں نے مقام بلقین کے ایک آدمی سے بیان کیا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان روایات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم فرمایا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کا اور چار حصے غازیوں کے لیے اور اس میں واضح کردیا کہ دشمن کے جسم سے کھینچے جانے والے تیر کا بھی دوسرے غازی سے زیادہ حقدار نہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لڑائی میں جو کچھ لڑنے والا خود پاتا ہے یا اس کے علاوہ دوسرا پا لیتا ہے جو لڑائی کے وقت موجود ہو تو حق میں دونوں برابر ہیں۔ تم نے جو کچھ سامان ابو جہل اور حدیث عبادہ کے سلسلہ میں ذکر کیا یہ بدر کے دن کی بات ہے جبکہ قتال کرنے والوں کے لیے سامان کی بات مقرر نہ کی گئی تھی۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے روز سامان کو قاتلین کے لیے یہ اعلان کر کے مقرر کردیا ” من قتل قتیلا فلہ سلبہ “ تو اس ارشاد سے پہلی بات منسوخ ہوگئی۔ آپ نے جو روایت ذکر کی ہے اس میں ماسبق کے نسخ کی کوئی دلالت موجود نہیں۔ کیونکہ حنین کے دن کا یہ ارشاد خاص اسی لڑائی سے متعلق ہوسکتا ہے عموم پر دلالت نہیں جیسا کہ فتح مکہ کے دن ارشاد فرمایا من القی سلامہ فہو امن ہتھیار پھینک دینے والا مامون ہوگا۔ حالانکہ یہ حکم فتح مکہ کے ساتھ خاص ہے اور کسی لڑائی کا نہیں ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ حنین سے پہلے حکم یہی تھا کہ سامان قاتلین کو دینا ضروری نہ تھا پھر حنین کے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ نیا حکم صادر ہوا تو اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ ماقبل کا ناسخ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ناسخ نہ ہو۔ ہم اس کو اس وقت تک ناسخ قرار نہ دیں گے جب تک کہ یقین سے نہ جان لیں گے۔ یہ قول ماقبل کے حکم کا ناسخ نہیں کیونکہ یونس بن مالک کی روایت دلالت کرتی ہے کہ سامان مقتول کا قاتل کو دینا واجب نہیں۔ روایت یہ ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان روایات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم فرمایا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کا اور چار حصے غزات کے لیے اور اس میں واضح کردیا کہ دشمن کے جسم سے کھینچا جانے والا تیر کا بھی دوسرے غازی سے زیادہ حقدار نہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لڑائی میں جو کچھ لڑنے والا خود پاتا ہے یا اس کے علاوہ دوسرا پا لیتا ہے جو لڑائی کے وقت موجود ہو تو حق میں دونوں برابر ہیں۔
اعتراض :
تم نے جو کچھ سامان ابو جہل اور حدیث عبادہ کے سلسلہ میں ذکر کیا یہ بدر کے دن کی بات ہے جبکہ قتال کرنے والوں کے لیے سامان کی بات مقرر نہ کی گئی تھی۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے روز سامان کو قاتلین کے لیے یہ اعلان کر کے مقرر کردیا ” من قتل قتیلا فلہ سلبہ “ تو اس ارشاد سے پہلی بات منسوخ ہوگئی۔
جواب آپ نے جو روایت ذکر کی ہے اس میں ماسبق کے نسخ کی کوئی دلالت موجود نہیں۔ کیونکہ حنین کے دن کا یہ ارشاد خاص اسی لڑائی سے متعلق ہوسکتا ہے عموم پر دلالت نہیں جیسا کہ فتح مکہ کے دن ارشاد فرمایا من القی سلامہ فہو امن ہتھیار پھینک دینے والا مامون ہوگا۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٨٦‘ ابو داؤد فی الامارہ باب ٢٥۔
حالانکہ یہ حکم فتح مکہ کے ساتھ خاص ہے اور کسی لڑائی کا نہیں ہے۔
جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ حنین سے پہلے حکم یہی تھا کہ سامان مقتول ‘ قاتلین کو دینا ضروری نہ تھا پھر حنین کے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ نیا حکم صادر ہوا تو اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ ماقبل کا ناسخ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ناسخ نہ ہو۔ ہم اس کو اس وقت تک ناسخ قرار نہ دیں گے جب تک کہ یقین سے نہ جان لیں گے۔
دلیل نمبر 1: یہ قول ماقبل کے حکم کا ناسخ نہیں کیونکہ یونس بن مالک کی روایت دلالت کرتی ہے کہ سامان مقتول کا قاتل کو دینا واجب نہیں۔ روایت یہ ہے :

5083

۵۰۸۲ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ الْبَرَائَ بْنَ مَالِکٍ ، أَخَا أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، بَارَزَ مَرْزُبَانَ الضَّرَارَۃَ فَطَعَنَہُ طَعْنَۃً ، فَکَسَرَ الْقَرَبُوْسَ وَخَلَصْتُ اِلَیْہِ فَقَتَلَہٗ فَقَوَّمَ سَلَبَہُ ثَلَاثِیْنَ أَلْفًا ، فَلَمَّا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ غَدَا عَلَیْنَا عُمَرُ ، فَقَالَ لِأَبِیْ طَلْحَۃَ : اِنَّا کُنَّا لَا نُخَمِّسُ الْأَسْلَابَ ، وَاِنَّ سَلَبَ الْبَرَائِ قَدْ بَلَغَ مَالًا وَلَا أَرَانَا اِلَّا خَامِسِیْہِ فَقَوَّمْنَاہُ ثَلَاثِیْنَ أَلْفًا ، فَدَفَعْنَا اِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ سِتَّۃَ آلَافٍ فَہٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَقُوْلُ اِنَّا کُنَّا لَا نُخَمِّسُ الْأَسْلَابَ ثُمَّ خَمَّسَ سَلَبَ الْبَرَائِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یُخَمِّسُوْنَ ، وَلَہُمْ أَنْ یُخَمِّسُوْا ، وَأَنَّ الْأَسْلَابَ ، لَا یَجِبُ لِلْقَاتِلِیْنَ دُوْنَ أَہْلِ الْعَسْکَرِ .وَقَدْ حَضَرَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، مَا کَانَ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عِنْدَہُ عَلَی کُلِّ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فِیْ تِلْکَ الْحَرْبِ خَاصَّۃً وَقَدْ کَانَ أَبُو طَلْحَۃَ حَضَرَ ذٰلِکَ أَیْضًا بِحُنَیْنٍ ، وَقَضَی لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَسْلَابِ الْقَتْلَی الَّذِیْنَ قَتَلَہُمْ فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عِنْدَہُ مُوْجِبًا ، بِخِلَافِ مَا أَرَادَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ سَلَبِ الْمَرْزُبَانِ وَقَدْ کَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ حَاضِرًا ذٰلِکَ أَیْضًا ، مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ بِحُنَیْنٍ ، وَمِنْ عُمَرَ فِیْ یَوْمِ الْبَرَائِ فَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَہُ - عَلٰی مَا رَأَیْ عُمَرُ ، عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، لَمْ یَجْعَلُوْا قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ عَلَی النَّسْخِ لِلْحُکْمِ الْمُتَقَدِّمِ لِذٰلِکَ ، فِیْ یَوْمِ بَدْرٍ۔
٥٠٨٢: حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کے بھائی براء بن مالک (رض) نے مرزبان ضرارہ سے مقابلہ کیا۔ انھوں نے اس کو ایک نیزہ مارا جو زین کی اگلی جانب کو توڑتا ہوا اس کو جا لگا جس سے وہ ہلاک ہوگیا اس کے سامان کی قیمت تیس ہزار لگی۔ جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو ہمارے پاس حضرت عمر (رض) آئے اور حضرت ابو طلحہ (رض) کو کہنے لگے۔ ہم مقتول کے سامان کا خمس نہیں لیا کرتے مگر براء کا سامان ایک بڑی مقدار مال کو پہنچ گیا ہے ہمارا خیال ہے کہ اس کا خمس لیں ہم نے اس کی قیمت کا اندازہ تیس ہزار لگایا۔ پس ہم نے چھ ہزار حضرت عمر (رض) کو دے دیا۔ یہ عمر (رض) فرما رہے ہیں ہم سامان مقتول کا خمس نہیں لیتے۔ پھر براء (رض) کے سامان سے خمس وصول کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سامان مقتول کا خمس نہ تھا اور وہ خمس لے بھی سکتے تھے کیونکہ وہ سامان قاتلین کو دینا لازم نہ تھا کہ اس میں کسی اور لشکری کو شریک نہ کیا جائے۔ حالانکہ صرف حضرت عمر (رض) بھی حنین کے روز جب ” من قتل قتیلا فلہ سلبہ “ فرمایا گیا موجود تھے۔ تو ان کے نزدیک اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ فقط حنین کی لڑائی کے لیے ہے اور حضرت ابو طلحہ (رض) خود حنین میں موجود تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے ان تمام مقتولین کے سامان کا فیصلہ فرمایا۔ جو ان کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ وہ سامان ان کے ہاں لازم نہ تھا۔ بخلاف اس کے جس کا ارادہ فاروق (رض) نے مرزبان کے سامان میں کیا اور غزوہ حنین میں تو حضرت انس (رض) خود موجود تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حنین کے روز فرمایا اور حضرت عمر (رض) سے جو براء (رض) کے دن پیش آیا وہ ان کے ہاں بھی اس ارشاد کے خلاف تھا۔ پس ان اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم حنین والے ارشاد ” من قتل قتیلا فلہ سلبہ “ کو یوم بدر والے حکم کا ناسخ قرار نہیں دیا۔

5084

۵۰۸۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَأَلَ مَکْحُوْلًا أَیُخَمَّسُ السَّلَبُ ؟ فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ الْبَرَائَ بْنَ مَالِکٍ ، بَارَزَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِ فَارِسٍ ، فَقَتَلَہٗ فَأَخَذَ الْبَرَائُ سَلَبَہُ فَکَتَبَ فِیْہِ اِلَی عُمَرَ .فَکَتَبَ عُمَرُ اِلَی الْأَمِیْرِ أَنْ اقْبِضْ اِلَیْکَ خُمُسَہٗ، وَادْفَعْ اِلَیْہِ مَا بَقِیَ فَقَبَضَ الْأَمِیْرُ خُمُسَہُ فَہٰذَا مَکْحُوْلٌ ، قَدْ ذَہَبَ أَیْضًا فِی الْأَسْلَابِ اِلَی مَا ذَکَرْنَا۔
٥٠٨٣: عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان نے بیان کیا کہ ان کے والد نے ان کو بتلایا کہ انھوں نے مکحول سے پوچھا کیا مقتول کے سامان سے قاتل خمس ادا کرے گا تو انھوں نے انس بن مالک (رض) سے یہ روایت بیان کی کہ براء بن مالک (رض) نے ایک فارسی سردار کا مقابلہ کر کے اس کو قتل کردیا۔ حضرت براء (رض) نے اس کا سامان لے لیا تو اس سلسلہ میں حضرت عمر (رض) کو لکھا گیا۔ حضرت عمر (رض) نے امیر لشکر کی طرف لکھا کہ ان سے خمس لے لو اور بقیہ ان کے حوالے کر دو امیر نے خمس لے لیا۔ عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان نے بیان کیا کہ ان کے والد نے ان کو بتلایا کہ انھوں نے مکحول سے پوچھا کیا مقتول کے سامان سے قاتل خمس ادا کرے گا تو انھوں نے انس بن مالک (رض) سے یہ روایت بیان کی کہ براء بن مالک (رض) نے ایک فارسی سردار کا مقابلہ کر کے اس کو قتل کردیا۔ حضرت بارء (رض) نے اس کا سامان لے لیا تو اس سلسلہ میں حضرت عمر (رض) کو لکھا گیا۔ حضرت عمر (رض) امیر لشکر کی طرف لکھا کہ ان سے خمس لے لو اور بقیہ ان کے حوالے کر دو امیر نے خمس لے لیا۔
تو مکحول نے بھی سامان مقتول میں وہی بات ذکر کی جو ہم نے بیان کی۔

5085

۵۰۸۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلًا یَسْأَلُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْأَنْفَالِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : الْفَرَسُ مِنَ النَّفْلِ ، ثُمَّ عَادَ لِمَسْأَلَتِہِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ذٰلِکَ أَیْضًا ثُمَّ قَالَ الرَّجُلُ : الْأَنْفَالُ الَّتِی قَالَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ مَا ہِیَ ؟ قَالَ الْقَاسِمُ : فَلَمْ یَزَلْ یُحَالُہُ حَتّٰی کَادَ یُخْرِجُہُ .
٥٠٨٤: زہری نے قاسم بن محمد سے نقل کیا کہ میں نے ایک آدمی سے سنا جو ابن عباس (رض) سے مال غنیمت کے متعلق پوچھ رہا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا۔ اس کا سامان اور گھوڑا وہ مال غنیمت سے ہے اس نے پھر سوال دھرایا تو ابن عباس (رض) نے پھر بھی یہی جواب دیا آدمی نے پھر کہا وہ مال غنیمت جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ قاسم کہنے لگے وہ سوال کو بار بار دھراتا رہا یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ اس کو باہر نکال دیں۔

5086

۵۰۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْأَنْفَالِ فَقَالَ اَلسَّلَبُ وَالْفَرَسُ مِنَ الْأَنْفَالِ .
٥٠٨٥: زہری نے قاسم بن محمد سے بیان کیا کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) سے مال غنیمت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا۔ اس کا سامان اور گھوڑا مال غنیمت سے ہے۔

5087

۵۰۸۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَرَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَا : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنِی الزُّہْرِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَہٗ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ فَسَأَلَہٗ عَنِ السَّلَبِ ، فَقَالَ السَّلَبُ مِنَ النَّفْلِ ، وَفِی النَّفْلِ الْخُمُسُ فَہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ جَعَلَ فِی السَّلَبِ الْخُمُسَ ، وَجَعَلَہٗ مِنَ الْأَنْفَالِ ، وَقَدْ کَانَ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ تَسْلِیْمِہِ اِلَی الزُّبَیْرِ سَلَبَ الْقَتِیْلِ الَّذِیْ کَانَ قَتَلَہٗ۔فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا تَقَدَّمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ ، لَمْ یَکُنْ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَنْسُوْخًا ، وَأَنْ مَا قَضَی بِہٖ مِنْ سَلَبِ الْقَتِیْلِ الَّذِیْ قَتَلَہُ الزُّبَیْرُ ، اِنَّمَا کَانَ لِقَوْلٍ کَانَ قَدْ تَقَدَّمَ مِنْہٗ، أَوْ لِمَعْنًی غَیْرِ ذٰلِکَ فَہٰذَا حُکْمُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْاِمَامَ لَوْ بَعَثَ سَرِیَّۃً ، وَہُوَ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَتَخَلَّفَ ہُوَ وَسَائِرُ الْعَسْکَرِ عَنِ الْمُضِیِّ مَعَہَا ، فَغَنِمَتْ تِلْکَ السَّرِیَّۃُ غَنِیْمَۃً ، کَانَتْ تِلْکَ الْغَنِیْمَۃُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ سَائِرِ أَہْلِ الْعَسْکَرِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنُوْا تَوَلَّوْا مَعَہُمْ قِتَالًا ، وَلَا تَکُوْنُ ہٰذِہِ السَّرِیَّۃُ أَوْلَی بِمَا غَنِمَتْ ، مِنْ سَائِرِ أَہْلِ الْعَسْکَرِ ، وَاِنْ کَانَتْ قَاتَلَتْ حَتّٰی کَانَ عَنْ قِتَالِہَا مَا غَنِمَتْ وَلَوْ کَانَ الْاِمَامُ نَفَّلَ تِلْکَ السَّرِیَّۃَ - لَمَّا بَعَثَہَا - الْخُمُسَ مِمَّا غَنِمَتْ ، کَانَ ذٰلِکَ لَہَا عَلٰی مَا نَفَّلَہَا اِیَّاہُ الْاِمَامُ ، وَکَانَ مَا بَقِیَ مِمَّا غَنِمَتْ بَیْنَہَا وَبَیْنَ سَائِرِ أَہْلِ الْعَسْکَرِ فَکَانَتِ السَّرِیَّۃُ الْمَبْعُوْثَۃُ لَا تَسْتَحِقُّ مِمَّا غَنِمَتْ دُوْنَ سَائِرِ أَہْلِ الْعَسْکَرِ اِلَّا مَا خَصَّہَا بِہٖ الْاِمَامُ دُوْنَہُمْ فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ کُلُّ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْعَسْکَرِ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، لَا یَسْتَحِقُّ أَحَدٌ مِنْہُمْ شَیْئًا مِمَّا تَوَلَّی أَخْذَہُ مِنْ أَسْلَابِ الْقَتْلَی وَغَیْرِہَا ، اِلَّا کَمَا یَسْتَحِقُّ مِنْہُ سَائِرُ أَہْلِ الْعَسْکَرِ ، اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ الْاِمَامُ نَفَّلَہٗ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ لَہُ بِتَنْفِیلِ الْاِمَامِ لَا بِغَیْرِ ذٰلِکَ فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَیْضًا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٠٨٦: زہری نے قاسم بن محمد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں ان کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عراقی آیا اور اس نے سامان مقتول کے متعلق پوچھا۔ تو انھوں نے فرمایا اس کا سامان مال غنیمت ہے اور مال غنیمت میں خمس ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو سامان کے متعلق خمس کا حکم لگا رہے ہیں اور اس کے سامان کو مال غنیمت قرار دے رہے ہیں حالانکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ جان چکے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) کو اس مقتول کا سامان عنایت فرمایا جس کو انھوں نے قتل کیا تھا۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن جو کچھ کیا وہ ابن عباس (رض) کے ہاں منسوخ نہ تھا اور جس مقتول کو زبیر (رض) نے قتل کیا تھا اس کا سامان ان کو اسی بات کے پیش نظر دیا گیا جو ہم نے ذکر کیا یا اس کا کچھ اور مطلب تھا۔ معانی آثار کو درست کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ قیاس کے لحاظ سے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اگر امام کوئی لشکر روانہ کرے اور وہ لشکر دارالحرب میں ہو اور امام اور بقیہ لشکر اس چھوٹے لشکر کے ساتھ شریک نہ ہو۔ پھر وہ لشکر مال غنیمت لے آئیں تو یہ غنیمت ان کے اور باقی لشکر کے مابین تقسیم ہوگی۔ خواہ وہ لڑائی میں ان کے ساتھ شریک نہ تھے اور یہ چھوٹا لشکر اس مال غنیمت کا دوسروں سے زیادہ حقدار نہ ہوگا اگرچہ جنگ فقط انہی نے لڑی ہے اور ان کی وجہ سے مال غنیمت ملا ہے اور اگر امام اس لشکر کو روانہ کرتے وقت غنیمت میں سے پانچواں حصہ ان کے لیے مقرر کر دے تو ان کو وہ ملے گا جو امام نے ان کے لیے مقرر کیا اور باقی مال ان کے اور باقی لشکر کے درمیان تقسیم ہوگا فلہذا یہ لشکر باقی لشکر سے الگ صرف اتنے مال کا حقدار ہوگا۔ جو امام نے ان کے لیے مخصوص کیا ہے تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دارالحرب میں جتنا لشکر ہے ان میں سے کوئی بھی اس سامان کا حقدار نہیں ہوگا جو اس نے مقتول افراد کے سامان وغیرہ سے حاصل کیا بلکہ وہ باقی لشکر کی طرح استحقاق رکھتا ہے البتہ یہ کہ امام اس کے لیے اس میں سے کچھ حصہ مقرر فرما دے فلہذا یہ اسے امام کے مقرر کرنے سے ملے گا نہ کہ کسی اور وجہ سے۔ اس باب میں قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مذہب یہی ہے۔
یہ ابن عباس (رض) ہیں جو سامان کے متعلق خمس کا حکم لگا رہے ہیں اور اس کے سامان کو مال غنیمت قرار دے رہے ہیں حالانکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ جان چکے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) کو اس مقتول کا سامان عنایت فرمایا جس کو انھوں نے قتل کیا تھا۔
اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن جو کچھ کیا وہ ابن عباس (رض) کے ہاں منسوخ نہ تھا اور جس مقتول کو زبیر (رض) نے قتل کیا تھا اس کا سامان ان کو اسی بات کے پیش نظر دیا گیا جو ہم نے ذکر کی یا اس کا کچھ اور مطلب تھا۔ معانی آثار کو درست کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
قیاس کے لحاظ سے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اگر امام کوئی لشکر روانہ کرے اور وہ لشکر دارالحرب میں ہو اور امام اور بقیہ لشکر اس چھوٹے لشکر کے ساتھ شریک نہ ہو۔ پھر وہ لشکر مال غنیمت لے آئیں تو یہ غنیمت ان کے اور باقی لشکر کے مابین تقسیم ہوگی۔
خواہ وہ لڑائی میں ان کے ساتھ شریک نہ تھے اور یہ چھوٹا لشکر اس مال غنیمت کا دوسروں سے زیادہ حقدار نہ ہوگا اگرچہ جنگ فقط انہی نے لڑی ہے اور ان کی وجہ سے مال غنیمت ملا ہے اور اگر امام اس لشکر کو روانہ کرتے وقت غنیمت میں سے پانچواں حصہ ان کے لیے مقرر کر دے تو ان کو وہ ملے گا جو امام نے ان کے لیے مقرر کیا اور باقی مال ان کے اور باقی لشکر کے درمیان تقسیم ہوگا فلہذا یہ لشکر باقی لشکر سے الگ صرف اتنے مال کا حقدار ہوگا۔ جو امام نے ان کے لیے مخصوص کیا ہے۔
تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دارالحرب میں جتنا لشکر ہے ان میں سے کوئی بھی اس سامان کا حقدار نہیں ہوگا جو اس نے مقتول افراد کے سامان وغیرہ سے حاصل کیا بلکہ وہ باقی لشکر کی طرح استحقاق رکھتا ہے البتہ یہ کہ امام اس کے لیے اس میں سے کچھ حصہ مقرر فرما دے فلہذا یہ اسے امام کے مقرر کرنے سے ملے گا نہ کہ کسی اور وجہ سے۔ اس باب میں قیاس کا تقاضا یہی ہے۔
تائیدی دلیل کہ سلب لشکری کو دینا لازم نہیں :

5088

۵۰۸۷ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْہَرَوِیُّ ، قَالَ ثَنَا دُحَیْمٌ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَوْفٍ قَالَ الْوَلِیْدُ : وَحَدَّثَنِیْ ثَوْرٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَیْرٍ ، عَنْ عَوْفٍ وَہُوَ ابْنُ مَالِکٍ ، أَنَّ مَدَدِیًّا رَافَقَہُمْ فِیْ غَزْوَۃِ مُؤْتَۃَ ، وَأَنَّ رُوْمِیًّا کَانَ یَشُدُّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَیُغْرِی بِہِمْ ، فَتَلَطَّفَ لَہُ ذٰلِکَ الْمَدَدِیُّ ، فَقَعَدَ لَہُ تَحْتَ صَخْرَۃٍ فَلَمَّا مَرَّ بِہٖ ، عَرْقَبَ فَرَسَہٗ، وَخَرَّ الرُّوْمِیُّ لِقَفَاہٗ، فَعَلَاہُ بِالسَّیْفِ فَقَتَلَہٗ، فَأَقْبَلَ بِفَرَسِہٖ، وَسَیْفِہٖ، وَسَرْجِہٖ، وَلِجَامِہٖ، وَمِنْطَقَتِہٖ، وَسِلَاحِہٖ، کُلُّ ذٰلِکَ مُذَہَّبٌ بِالذَّہَبِ وَالْجَوْہَرِ ، اِلَی خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ ، فَأَخَذَ مِنْہُ خَالِدٌ طَائِفَۃً ، وَنَفَّلَہُ بَقِیَّتَہٗ۔ فَقُلْتُ :یَا خَالِدُ ، مَا ہَذَا ؟ أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ الْقَاتِلَ السَّلَبَ کُلَّہٗ .قَالَ بَلَی ، وَلٰـکِنِّیْ اسْتَکْثَرْتُہٗ فَقُلْتُ :اِنِّیْ وَاللّٰہِ لِأُعَرِّفَنکہَا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ عَوْفٌ : فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْتُہٗ خَبَرَہٗ، فَدَعَاہُ وَأَمَرَہٗ أَنْ یَدْفَعَ اِلَی الْمَدَدِیِّ بَقِیَّۃَ سَلَبِہٖ ، فَوَلَّی خَالِدٌ لِیَدْفَعَ سَلَبَہُ .فَقُلْتُ :کَیْفَ رَأَیْتُ یَا خَالِدُ ؟ أَوَلَمْ أَفِ لَک بِمَا وَعَدْتُک ؟ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ یَا خَالِدُ ، لَا تُعْطِہِ فَأَقْبَلَ عَلَیَّ فَقَالَ ، ہَلْ أَنْتُمْ تَارِکُو أُمَرَائِیْ؟ لَکُمْ صَفْوَۃُ أَمْرِہِمْ ، وَعَلَیْہِمْ کَدَرُہُ أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ أَمَرَ خَالِدًا بِدَفْعِ بَقِیَّۃِ السَّلَبِ اِلَی الْمَدَدِیِّ فَلَمَّا تَکَلَّمَ عَوْفٌ بِمَا تَکَلَّمَ بِہٖ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالِدًا أَنْ لَا یَدْفَعَہُ اِلَیْہِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ السَّلَبَ لَمْ یَکُنْ وَاجِبًا لِلْمَدَدِیِّ ، بِقَتْلِہِ الَّذِیْ کَانَ ذٰلِکَ السَّلَبُ عَلَیْہِ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ وَاجِبًا لَہُ بِذٰلِکَ اِذًا ، لَمَا مَنَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَلَامٍ کَانَ مِنْ غَیْرِہٖ۔ وَلٰـکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ خَالِدًا بِدَفْعِہِ اِلَیْہِ، وَلَہُ دَفْعُہُ اِلَیْہِ، وَأَمَرَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِمَنْعِہِ مِنْہٗ، وَلَہُ مَنْعُہُ مِنْہٗ، کَقَوْلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ لِأَبِیْ طَلْحَۃَ ، فِیْ حَدِیْثِ .الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ اِنَّا کُنَّا لَا نُخَمِّسُ الْأَسْلَابَ ، وَاِنَّ سَلَبَ الْبَرَائِ قَدْ بَلَغَ مَالًا عَظِیْمًا ، وَلَا أَرَانَا اِلَّا خَامِسِیْہِ قَالَ : فَخَمَّسَہُ .فَأَخْبَرَ عُمَرُ أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یُخَمِّسُوْنَ الْأَسْلَابَ ، وَلَہُمْ أَنْ یُخَمِّسُوْہَا ، وَأَنَّ تَرْکَہُمْ تَخْمِیْسُہَا ، اِنَّمَا کَانَ بِتَرْکِہِمْ ذٰلِکَ لَا لِأَنَّ الْأَسْلَابَ قَدْ وَجَبَتْ لِلْقَاتِلِیْنَ ، کَمَا تَجِبُ لَہُمْ سُہْمَانُہُمْ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ .فَکَذٰلِکَ مَا فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، مِنْ أَمْرِہِ خَالِدًا بِمَا أَمَرَہٗ بِہٖ ، وَمِنْ نَہْیِہِ اِیَّاہُ بَعْدَ ذٰلِکَ عَمَّا نَہَاہُ عَنْہُ، اِنَّمَا أَمَرَہٗ بِمَا لَہٗ أَنْ یَأْمُرَ بِہٖ ، وَنَہَاہُ عَمَّا لَہٗ أَنْ یَنْہَاہُ عَنْہُ وَفِیْمَا ذَکَرْنَا دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ أَنَّ السَّلَبَ لَا یَجِبُ لِلْقَاتِلِیْنَ مِنْ ہٰذِہِ الْجِہَۃِ
٥٠٨٧: عبدالرحمن بن جبیر نے اپنے والد سے انھوں نے عوف بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ غزوہ موتہ کے موقع پر ایک لشکری میرے ساتھ ہو لیا ایک رومی مسلمانوں پر حملہ کرتا تھا اور ان کا پیچھا کرتا تھا اس لشکری نے اس رومی کے ساتھ نرمی کا سلسلہ اختیار کر کے اس کو مہلت دی اور اس کی تاک میں ایک چٹان کے نیچے بیٹھ گیا جب وہ وہاں سے گزرا تو اس نے اس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے رومی اپنی گردن کے بل جا گرا لشکری نے اس پر تلوار کے وار کر کے قتل کردیا پھر وہ اس کا گھوڑا ‘ تلوار ‘ زین ‘ کمر بند ‘ لگام اور اسلحہ لے کر حضرت خالد بن ولید (رض) کی خدمت میں آیا یہ تمام سامان سونے اور جواہرات سے مرصع تھا۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے اس سے کچھ مال لے لیا اور باقی اس کو دے دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد (رض) سے کہا یہ کیا ہے ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتل کو مقتول کا تمام سامان دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں لیکن میرے خیال میں یہ بہت زیادہ مال ہے۔ عوف کہنے لگے میں نے کہا میں یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ضرور عرض کروں گا۔ حضرت عوف (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو میں نے آپ تک یہ بات پہنچائی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد (رض) کو بلایا اور فرمایا لشکری کا باقی مال بھی اسے دے دو ۔ حضرت خالد (رض) وہ مال واپس دینے کو لوٹے تو میں نے کہا اے خالد (رض) ! تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا میں نے تم سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوگئے اور فرمایا اے خالد ! اسے مت دو ۔ پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا۔ کیا تم لوگ میرے مقرر کردہ امراء کو چھوڑ دو گے کہ تمہارے لیے تو عمدہ اشیاء اور ان کے لیے خراب مال ہو۔ ذرا غور کرو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو حکم فرمایا کہ باقی مال بھی اس مجاہد کو واپس کردیا جائے۔ پھر جب حضرت عوف (رض) نے ان کے متعلق کچھ طنز والی بات کی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد (رض) کو حکم فرمایا کہ اس کو مال مت واپس دو ۔ تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ سامان قتل کی وجہ سے لشکری کو دینا واجب نہیں ہے اگر وہ قتل کی وجہ سے واجب ہوتا تو کسی دوسرے شخص کی گفتگو کے باوجود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سامان کو نہ روکتے بلکہ ضرور دیتے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ مال دے دو ۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ کو دینے کا حق تھا اور پھر منع فرما دیا تو اس سے ثابت ہوا روکنے کا بھی حق حاصل تھا۔ جیسا کہ حضرت براء (رض) کی روایت میں حضرت عمر (رض) کا قول ہے اور ہم نے اس کو اس باب میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہم پانچواں حصہ نہیں لیتے لیکن حضرت براء (رض) کو جو سامان ملا ہے وہ بہت بڑا مال ہے اور ہم اس کا پانچواں حصہ لیں گے۔ چنانچہ انھوں نے خمس لیا۔ تو اس سے حضرت عمر (رض) نے بتلا دیا کہ وہ مقتول کے مال سے خمس نہیں لیتے تھے لیکن خمس لینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ ان کا خمس نہ لینا اس اختیار کی وجہ سے ہے۔ اس وجہ سے ہرگز نہیں کہ وہ قتل کرنے والوں کے لیے لازم ہوگیا جیسا کہ ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ لازم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حضرت عوف (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ کیا کہ حضرت خالد (رض) کو حکم فرمایا پھر آپ نے منع فرما دیا۔ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اس کا حکم دینے اور منع کرنے ہر دو باتوں کا اختیار رکھتے تھے۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے۔ اب اس میں اس بات کی واضح دلیل مل گئی کہ قاتلین کو مقتول مشرکین کا سامان دینا لازم نہیں ہے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٤٤‘ سمدنا حمد ٦؍٢٧۔

5089

۵۰۸۸ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ فَعَلَ کَذَا وَکَذَا ، فَلَہُ کَذَا وَکَذَا .فَذَہَبَ شُبَّانُ الرِّجَالِ ، وَجَلَسَتِ الشُّیُوْخُ تَحْتَ الرَّایَاتِ .فَلَمَّا کَانَتِ الْغَنِیْمَۃُ ، جَائَ تِ الشُّبَّانُ یَطْلُبُوْنَ نَفْلَہُمْ فَقَالَ الشُّیُوْخُ : لَا تَسْتَأْثِرُوْا عَلَیْنَا ، فَاِنَّا کُنَّا تَحْتَ الرَّایَاتِ ، وَلَوْ انْہَزَمْتُمْ کُنَّا رِدْئً ا لَکُمْ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ فَقَرَأَ حَتَّیْ بَلَغَ کَمَا أَخْرَجَک رَبُّک مِنْ بَیْتِک بِالْحَقِّ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِہُوْنَ یَقُوْلُ : أَطِیْعُوْنِیْ فِیْ ہٰذَا الْأَمْرِ ، کَمَا رَأَیْتُمْ عَاقِبَۃَ أَمْرِی ، حَیْثُ خَرَجْتُمْ وَأَنْتُمْ کَارِہُوْنَ ، فَقَسَمَ بَیْنَہُمْ بِالسَّوَائِ بِمَا قَسَمَ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشُّبَّانَ ، مَا کَانَ جَعَلَہُ لَہُمْ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْأَسْلَابَ لَا تَجِبُ لِلْقَاتِلِیْنَ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَمَا مَنَعَہُمْ مِنْہَا ، وَلَا أَعْطَاہُمْ أَسْلَابَ مَنِ اسْتَأْثَرُوْا بِقَتْلِہٖ ، دُوْنَ مَنْ سِوَاہُمْ ، مِمَّنْ تَخَلَّفَ عَنْہُمْ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا وَجْہُ مَنْعِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُمْ مَا کَانَ جَعَلَہُ لَہُمْ ؟ قِیْلَ لَہٗ : لِأَنَّ مَا کَانَ جَعَلَہُ لَہُمْ ، فَاِنَّمَا کَانَ لَأَنْ یَفْعَلُوْا مَا ہُوَ صَلَاحٌ لِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَیْسَ مِنْ صَلَاحِ الْمُسْلِمِیْنَ تَرْکُہُمْ الرَّایَاتِ ، وَالْخُرُوْجُ عَنْہَا ، وَاِضَاعَۃُ الْحَافِظِیْنَ لَہَا فَلَمَّا خَرَجُوْا عَنْ ذٰلِکَ ، کَانُوْا قَدْ خَرَجُوْا عَنِ الْمَعْنَی الَّذِی بِہٖ یَسْتَحِقُّوْنَ مَا جُعِلَ لَہُمْ ، فَمَنَعَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ ، وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ .
٥٠٨٨: عکرمہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اس طرح کیا اس کو یہ یہ ملے گا۔ تو جو ان آگے نکل گئے اور بوڑھے جھنڈوں کے نیچے بیٹھے رہے۔ جب غنیمت کا مال آیا تو نوجوان اپنا اضافی حصہ طلب کرنے لگے۔ بوڑھوں نے کہا تمہیں ہم پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔ ہم جھنڈوں کے نیچے تھے اگر تمہیں (خدانخواستہ) شکست ہوتی تو ہم تمہارے لیے پشت پناہ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی ” یسئلونک عن الانفال تا کما اخرجک ربک من بیتک بالحق وان فریقا من المؤمنین لکارہون “ (الانفال ٥) آپ نے پہلی پانچ آیات پڑھ کر سنائیں اور فرمایا تم اس معاملے میں میری بات مانو جیسا کہ تم میری کہی ہوئی بات کا انجام دیکھ چکے ہو۔ جبکہ تم گھر سے اس حال میں نکلے کہ تم (لڑائی کو) ناپسند کرتے تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مابین برابر تقسیم کردیا۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوجوانوں سے اس چیز کو روک لیا جو بطور انعام ان کے لیے مقرر فرمائی تھی۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے مقتول کا سامان مجاہد کو دینا لازم نہیں۔ اگر ایسا تسلیم نہ کیا جائے تو آپ ان سے اس سامان کو نہ روکتے اور قاتلین کے علاوہ دوسروں کو نہ دیتے جو پیچھے جھنڈوں کی حفاظت میں مصروف تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرما کر پھر کیونکر عنایت نہیں فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے جو مقرر فرمایا وہ اس طور پر مقرر فرمایا تھا کہ وہ کام تمام مسلمانوں کے لیے کریں اور جھنڈوں کا چھوڑ کر جانا اس میں عام مسلمانوں کے لیے بہتری نہ تھی۔ بلکہ اس سے حفاظت کرنے والوں کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ جب وہ اس سے نکل گئے تو استحقاق کی خصوصی وجہ جاتی رہی۔ اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کے باوجود ان کو عنایت نہ فرمایا۔ واللہ اعلم۔
اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوجوانوں سے اس چیز کو روک لیا جو بطور انعام ان کے لیے مقرر فرمائی تھی۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے مقتول کا سامان مجاہد کو دینا لازم نہیں۔ اگر ایسا تسلیم نہ کیا جائے تو آپ ان سے اس سامان کو نہ روکتے اور قاتلین کے علاوہ دوسروں کو نہ دیتے جو پیچھے جھنڈوں کی حفاظت میں مصروف تھے۔
ایک اعتراض :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرما کر پھر کیونکر عنایت نہیں فرمایا۔
جواب نمبر ١: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے جو مقرر فرمایا وہ اس طور پر مقرر فرمایا تھا کہ وہ کام تمام مسلمانوں کے لیے کریں اور جھنڈوں کا چھوڑ کر جانا اس میں عام مسلمانوں کے لیے بہتری نہ تھی۔ بلکہ اس سے حفاظت کرنے والوں کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ جب وہ اس سے نکل گئے تو استحقاق کی خصوصی وجہ جاتی رہی۔ اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کے باوجود ان کو عنایت نہ فرمایا۔ واللہ اعلم
نمبر 2: اس سے زیادہ آسان بات یہ ہے کہ وہ دینا ان کو واجب نہ تھا آپ کی مرضی پر موقوف تھا آپ نے ان کو دینا مناسب نہ سمجھا اس لیے نہیں دیا۔ (مترجم)

5090

۵۰۸۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِیْ لَیْلَی یُحَدِّثُ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ أَنَّ فَاطِمَۃَ أَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَشْکُو اِلَیْہِ أَثَرَ الرَّحْی فِیْ یَدِہَا وَقَدْ بَلَغَہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَاہُ سَبْیٌ ، فَأَتَتْہُ تَسْأَلُہُ خَادِمًا ، فَلَمْ تَلْقَہٗ، وَلَقِیَتْہَا عَائِشَۃُ ، فَأَخْبَرَتْہَا الْحَدِیْثَ فَلَمَّا جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْہُ بِذٰلِکَ قَالَ : فَأَتَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا ، فَذَہَبْنَا لِنَقُوْمَ فَقَالَ مَکَانَکُمَا فَقَعَدَ بَیْنَنَا حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَیْہِ عَلٰی صَدْرِی فَقَالَ أَلَا أَدُلُّکُمَا عَلَی خَیْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا تُکَبِّرَانِ اللّٰہَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِیْنَ ، وَتُسَبِّحَانِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ ، وَتَحْمَدَانِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ ، اِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَکُمَا ، فَاِنَّہٗ خَیْرٌ لَکُمَا مِنْ خَادِمٍ
٥٠٨٩: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں ہاتھوں میں چکی کے نشانات کی شکایت کر رہی تھیں اور حاضری اس وقت ہوئی جب ان کو اطلاع ملی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو وہ ایک خادم کا مطالبہ لے کر حاضر ہوئیں مگر آپ سے ملاقات نہ ہوئی۔ حضرت عائشہ (رض) ان سے ملیں حضرت فاطمہ (رض) نے ان کو بات بتلائی۔ پس جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا اپنی اپنی جگہ پر رہو پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدمین مبارک کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی اور آپ نے ارشاد فرمایا۔ کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز نہ بتلا دوں جو اس سے بہت بہتر ہے جو تم نے مجھ سے مانگی ہے۔ تم دونوں ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر اور ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ‘ ٣٣ مرتبہ الحمداللہ اس وقت پڑھا کرو جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے۔
تخریج : بخاری فی فضائل الصحابہ باب ٩‘ والنفقات باب ٦‘ والدعوات باب ١٠‘ مسلم فی الذکر ٨٠؍٨١‘ ابو داؤد فی الادب باب ١٠٠‘ ترمذی فی الدعوات باب ٢٤۔

5091

۵۰۹۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِیِّ أَنَّہٗ قَالَ لِفَاطِمَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ قَدْ جَائَ اللّٰہُ أَبَاک بِسَعَۃٍ وَرَقِیْقٍ فَأْتِیْہِ فَاطْلُبِیْ مِنْہُ خَادِمًا فَأَتَتْہٗ، فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ وَاللّٰہِ لَا أُعْطِیکُمَا وَأَدَعُ أَہْلَ الصُّفَّۃِ یَطْوُوْنَ بُطُوْنَہُمْ ، وَلَا أَجِدُ مَا أُنْفِقُ عَلَیْہِمْ ، وَلٰـکِنْ أَبِیْعُہَا ، وَأُنْفِقُ عَلَیْہِمْ ، أَلَا أَدُلُّکُمَا عَلَی خَیْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا ؟ عَلَّمَنِیْہِ جَبْرَائِیْلُ ، کَبِّرَا فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرًا ، وَسَبِّحَا عَشْرًا ، وَاحْمَدَا عَشْرًا ، وَاِذَا آوَیْتُمَا اِلَی فِرَاشِکُمَا ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ مَا فِیْ حَدِیْثِ سُلَیْمَانَ .
٥٠٩٠: عطاء بن سائب نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فاطمہ (رض) کو ایک دن کہا کہ تمہارے والد کے ہاں خوش حالی مال کی صورت میں اور غلام آئے ہیں۔ تم اپنے والد کے ہاں جاؤ اور ان سے خادم طلب کرو۔ حضرت فاطمہ (رض) آئیں اور اس بات کا تذکرہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کیا تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اصحاب صفہ کو بھوک میں لپٹتا چھوڑ کر تم دونوں کو خادم نہ دوں گا۔ میرے پاس ان پر خرچ کے لیے کچھ نہیں۔ میں غلاموں کو فروخت کر کے ان پر خرچ کروں گا۔ کیا میں تم دونوں کو اس سوال سے بہتر چیز نہ بتلا دوں۔ وہ چیز مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے سکھائی ہے ہر نماز کے بعد ١٠ مرتبہ اللہ اکبر ‘ ١٠ مرتبہ سبحان اللہ ‘ ١٠ مرتبہ الحمد للہ پڑھ لیا کرو اور جب بستروں پر لیٹ جاؤ تو پڑھ لیا کرو۔ پھر اس طرح ذکر کیا جیسا کہ سلیمان کی روایت ٥٠٨٩ میں ہے۔

5092

۵۰۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَیَّاشُ بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْفَضْلُ بْنُ حَسَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَکَمِ ، أَنَّ أُمَّہُ حَدَّثَتْہُ أَنَّہَا ذَہَبَتْ ہِیَ وَأُمُّہَا حَتّٰی دَخَلَتْ عَلَی فَاطِمَۃَ ، فَخَرَجْنَ جَمِیْعًا فَأَتَیْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَقْبَلَ مِنْ بَعْضِ مَغَازِیْہِ، وَمَعَہُ رَقِیْقٌ ، فَسَأَلَتْہُ أَنْ یَخْدُمَہُنَّ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَبَقَکُنَّ یَتَامَی أَہْلِ بَدْرٍ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ ذَوِی قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا سَہْمَ لَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ مَعْلُوْمٌ ، وَلَا حَظَّ لَہُمْ مِنْہُ خِلَافُ حَظِّ غَیْرِہِمْ قَالُوْا وَاِنَّمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَہُمْ مَا جَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ : وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَبِقَوْلِہٖ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ بِحَالِ فَقْرِہِمْ وَحَاجَتِہِمْ ، فَأَدْخَلَہُمْ مَعَ الْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ فَکَمَا یَخْرُجُ الْفَقِیْرُ وَالْیَتِیْمُ وَالْمِسْکِیْنُ مِنْ ذٰلِکَ ، لِخُرُوْجِہِمْ مِنَ الْمَعْنَی الَّذِی بِہٖ اسْتَحَقُّوْا مَا اسْتَحَقُّوْا مِنْ ذٰلِکَ ، فَکَذٰلِکَ ذَوُو قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَضْمُوْمُوْنَ مَعَہُمْ ، اِنَّمَا کَانُوْا ضُمُّوْا مَعَہُمْ لِفَقْرِہِمْ ، فَاِذَا اسْتَغْنَوْا ، خَرَجُوْا مِنْ ذٰلِکَ وَقَالُوْا : لَوْ کَانَ لِقَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ حَظٌّ ، لَکَانَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمْ ، اِذْ کَانَتْ أَقْرَبَہُمْ اِلَیْہِ نَسَبًا ، وَأَمَسَّہُمْ بِہٖ رَحِمًا ، فَلَمْ یَجْعَلْ لَہَا حَظًّا فِی السَّبْیِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، وَلَمْ یُخْدِمْہَا مِنْہُ خَادِمًا وَلٰـکِنَّہٗ وَکَلَہَا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، لِأَنَّ مَا تَأْخُذُ مِنْ ذٰلِکَ ، اِنَّمَا حُکْمُہَا فِیْہِ حُکْمُ الْمَسَاکِیْنِ ، فِیْمَا تَأْخُذُ مِنِ الصَّدَقَۃِ فَرَأَی أَنَّ تَرْکَہَا ذٰلِکَ وَالْاِقْبَالَ عَلَی ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَتَسْبِیْحِہِ وَتَہْلِیْلِہٖ ، خَیْرٌ لَہَا مِنْ ذٰلِکَ وَأَفْضَلُ وَقَدْ قَسَمَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعَ الْخُمُسِ ، فَلَمْ یَرَیَا لِقَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ حَقًّا ، خِلَافَ حَقِّ سَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ہَذَا ہُوَ الْحَکَمُ عِنْدَہُمَا ، وَثَبَتَ - اِذْ لَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِمَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُخَالِفْہُمَا فِیْہِ - أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ رَأْیَہُمْ فِیْہِ أَیْضًا .وَاِذَا ثَبَتَ الْاِجْمَاعُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَمِنْ جَمِیْعِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَبَتَ الْقَوْلُ بِہٖ وَوَجَبَ الْعَمَلُ بِہٖ ، وَتَرْکُ خِلَافِہِ ثُمَّ ہَذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمَّا صَارَ الْأَمْرُ اِلَیْہِ، حَمَلَ النَّاسَ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٠٩١: فضل بن حسن بن عمرو بن حکم بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے بیان کیا کہ میں اور میری والدہ دونوں حضرت فاطمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں ہم سب مل کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی غزوہ سے تشریف لائے تھے اور اس وقت آپ کے ساتھ غلام تھے میں نے آپ سے سوال کیا کہ ہمیں خادم عنایت فرمائیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اہل بدر کے یتیم تم سے سبقت کر گئے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں کے لیے خمس غنیمت میں سے کوئی مقدار معلوم و متعین نہیں اور دوسروں کے حصہ سے الگ کوئی حصہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے وہ حصہ مقرر فرمایا جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہے۔ واعلموا انما غنمتم من شیٔ ۔۔۔ وابن السبیل)) (الانفال : ٤١) ” وما افاء اللہ علی رسولہ ۔۔۔ المساکین “ (الحشر : ٧) اور تم جان لو کہ جو کوئی چیز تمہیں مال غنیمت سے ملے سو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا پانچواں حصہ ہے اور رسول کے لیے اور قرابت داروں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مساکین کے لیے اور مسافروں کے لیے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فئی دلوایا سو تم نے اس کے لیے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہے غلبہ دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو (دوسری) بستیوں والوں سے بطور فئی دلوائے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے اور رسول کا اور (رسول کے) قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مساکین کا اور مسافروں کا۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ ان کے فقروحاجت کے وقت ہے اسی لیے ان کو فقراء و مساکین میں داخل فرمایا ہے۔ تو جس طرح فقیر ‘ یتیم و مساکین استحقاق کا سبب ختم ہوجانے سے اس سے نکل جاتے ہیں بالکل اسی طرح اقرباء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ان کے ساتھ ملایا گیا تو فقر کی وجہ سے ملایا گیا پس جب وہ مالدار ہوجائیں گے تو اس سے نکل جائیں گے۔ یہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر خالص قرابت نبوت کی وجہ سے ان کا حصہ مقرر ہوتا تو حضرت فاطمہ (رض) بھی ان میں سے ہوئیں کیونکہ نسبی اعتبار سے وہ آپ کے قریب تر تھیں اور رحم کے اعتبار سے نزدیک تر تھیں۔ لیکن آپ نے ان کے لیے ان قیدیوں میں حصہ نہیں رکھا جن کا ہم نے تذکرہ کیا اور ان کو کوئی خادم عنایت نہیں فرمایا۔ بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے حوالے کیا کیونکہ آپ اس میں سے جو کچھ حاصل کرتیں تو آپ صدقہ لینے کی وجہ سے مساکین سے شمار ہوتیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیال فرمایا کہ ان کا اس مطالبہ سے دست بردار ہونا اور اللہ تعالیٰ کے ذکروتسبیح اور تہلیل کی طرف متوجہ ہونا اس سے بہتر اور افضل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے تمام خمس تقسیم فرما دیا اور قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ان کے لیے عام مسلمانوں کے حق سے کوئی الگ حق خیال نہیں کیا۔ پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بھی یہی حکم ہے اور جب کسی صحابی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا اور نہ ہی ان کی مخالفت کی تو ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام کی رائے بھی اس سلسلہ میں یہی تھی۔ پس جب حضرت ابوبکر و عمر (رض) اور تمام صحابہ کرام (رض) کا اس پر اجماع ہوگیا تو یہ قول ثابت ہوگیا اور اس پر عمل کرنا لازم اور اس کے خلاف کو چھوڑنا ضروری ہوگیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب حضرت علی المرتضیٰ (رض) کو خلافت ملی تو انھوں نے بھی لوگوں کو اسی بات کی ترغیب دی۔ جیسا کہ اس روایت میں مذکور ہے۔

5093

۵۰۹۲ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ فَقُلْتُ :رَأَیْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ حَیْثُ وَلِیَ الْعِرَاقَ ، وَمَا وَلِیَ مِنْ أُمُوْرِ النَّاسِ ، کَیْفَ صَنَعَ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی قَالَ : سَلَکَ بِہٖ - وَاللّٰہِ - سَبِیْلَ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قُلْتُ :وَکَیْفَ ؟ وَأَنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ مَا تَقُوْلُوْنَ ؟ قَالَ : اِنَّہٗ - وَاللّٰہِ - مَا کَانَ أَہْلُہُ یَصْدُرُوْنَ اِلَّا عَنْ رَأْیِہِ قُلْتُ :فَمَا مَنَعَہٗ؟ قَالَ : کَرِہَ - وَاللّٰہِ - أَنْ یُدَّعَیْ عَلَیْہِ خِلَافُ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَہٰذَا عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَدْ أَجْرَاہُ عَلٰی مَا کَانَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَجْرَیَاہُ عَلَیْہِ، لِأَنَّہٗ رَأَیْ ذٰلِکَ عَدْلًا وَلَوْ کَانَ رَأْیُہٗ، خِلَافَ ذٰلِکَ ، مَعَ عِلْمِہٖ، وَدِیْنِہٖ، وَفَضْلِہِ - اِذًا لَرَدَّہٗ اِلٰی مَا رَأٰی وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٠٩٢: محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر (رح) سے پوچھا کہ حضرت علی (رض) کو جب عراق کی حکومت ملی اور لوگوں کے معاملات ان کے سپرد ہوئے تو آپ نے قرابت داروں کے حصہ کے سلسلہ میں کیا عمل کیا۔ انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! وہ ابوبکر و عمر (رض) کے راستہ پر چلے۔ میں نے پوچھا کیسے ؟ حالانکہ تم فلاں فلاں بات کہتے ہو ؟ وہ کہنے لگے اللہ کی قسم ! ان کے گھر والے تو ان کی رائے سے لوٹنے والے تھے۔ میں نے کہا پھر انھوں نے کیوں نہ کیا ؟ کہنے لگے۔ انھوں نے اس بات کو ناپسند سمجھا کہ لوگ ان کے خلاف یہ کہیں گے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے طرز عمل کے خلاف کیا۔ یہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) ہیں کہ انھوں نے اسی بات کو ہی جاری رکھا جس کو ابوبکر و عمر (رض) نے جاری کیا تھا کیونکہ انھوں نے اسی کو عدل سمجھا۔ اگر ان کی رائے اس کے مخالف ہوتی تو علم ‘ فضل اور دینی عظمت کے تقاضے سے وہ ضرور اس رائے کو رد فرما دیتے۔ انھوں نے اس روایت کو بھی بطور دلیل پیش کیا۔
یہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) ہیں کہ انھوں نے اسی بات کو ہی جاری رکھا جس کو ابوبکر و عمر (رض) نے جاری کیا تھا کیونکہ انھوں نے اسی کو عدل سمجھا۔ اگر ان کی رائے اس کے مخالف ہوتی تو علم ‘ فضل اور دینی عظمت کے تقاضے سے وہ ضرور اس رائے کو رد فرما دیتے۔

5094

۵۰۹۳ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنَ عَلِی ، عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ قَالَ : أَمَّا قَوْلُہٗ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ فَہُوَ مِفْتَاحُ کَلَامٍ ، لِلّٰہِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ ، لِلرَّسُوْلِ ، وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ .وَاخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قَوْمٌ : مِنْہُمْ سَہْمُ ذَوِی الْقُرْبَی لِقَرَابَۃِ الْخَلِیْفَۃِ .وَقَالَ قَوْمٌ : سَہْمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِہِ ثُمَّ أَجْمَعُوْا رَأْیَہُمْ أَنْ جَعَلُوْا ہٰذَیْنِ السَّہْمَیْنِ فِی الْخَیْلِ وَالْعُدَّۃِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - وَکَانَ ذٰلِکَ فِیْ اِمَارَۃِ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالُوْا : أَفَلَا تَرَی أَنَّ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ أَجْمَعَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ رَجَعَ اِلَی الْکُرَاعِ وَالسِّلَاحِ الَّذِیْ تَکُوْنُ عُدَّۃً لِلْمُسْلِمِیْنَ ، لِقِتَالِ عَدُوِّہِمْ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ لِذَوِی قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَا مُنِعُوْا مِنْہٗ، وَلَمَا صُرِفُوْا اِلَی غَیْرِہِمْ ، وَلَا خَفِیَ ذٰلِکَ عَلَی الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، مَعَ عِلْمِہِ فِیْ أَہْلِہٖ ، وَتَقَدُّمِہِ فِیْہِمْ وَقَدْ قَالَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ جَوَابِہٖ لِنَجْدَۃَ ، لَمَّا کَتَبَ اِلَیْہِ یَسْأَلُہٗ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٠٩٣: قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد بن علی سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق دریافت کیا واعلموا انما غنمتم من شئی فان اللہ خمسہ “ (الانفال ٤١) تو کہنے لگے فان اللہ خمسہ سے تو کلام کو شروع فرمایا عبارت اس طرح ہے ” اللہ الدنیا والآخرہ وللرسول ولذی القربٰی والیتامٰی والمساکین ای خمسہ “ دنیا و آخرت اللہ تعالیٰ کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرابت داروں اور یتامی اور مساکین کے لیے خمس ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صحابہ کرام اس بارے میں مختلف ہوئے۔ ایک جماعت کہتی تھی کہ رشتہ داروں کا حق خلیفہ کی قرابت کی وجہ سے ہے۔ بعض نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ کا حصہ خلیفہ وقت کے لیے ہوگا۔ پھر اس بات پر سب متفق ہوگئے کہ ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لیے صرف کیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی خلافت میں یہی طریق رائج رہا۔ ذرا غور فرمائیں کہ یہ صحابہ کرام کا متفقہ فیصلہ ہے اور یہ حصہ ان گھوڑوں اور اسلحہ کی طرف لوٹتا ہے۔ جس کو دشمن کے بالمقابل مسلمانوں نے تیار کیا ہے اور اگر یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کی وجہ سے حصہ مقرر ہوتا تو وہ اس کو نہ روکتے اور اس کو قطعاً کسی دوسرے مصرف میں نہ لگاتے اور یہ بات حسن بن محمد (رح) جیسے مستند علم کے شہ سوار پر ہرگز مخفی نہ رہتی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے نجدہ کے خط کے جواب میں ذی القربیٰ کا حصہ دریافت کرنے پر یہی بات فرمائی۔ روایت یہ ہے۔

5095

۵۰۹۴ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ ، قَالَ ثِنَا عَمِّی جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ یَزِیْدَ بْنَ ہُرْمُزَ ، حَدَّثَہٗ أَنَّ نَجْدَۃَ صَاحِبَ الْیَمَامَۃِ کَتَبَ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہٗ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی فَکَتَبَ اِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ اِنَّہٗ لَنَا وَقَدْ کَانَ دَعَانَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِیُنْکِحَ مِنْہُ أَیِّمَنَا ، وَیَقْضِیْ عَنْہُ مِنْ غَارِمِنَا ، فَأَبِیْنَا اِلَّا أَنْ یُسَلِّمَہُ لَنَا کُلَّہٗ ، وَرَأَیْنَا أَنَّہٗ لَنَا .
٥٠٩٤: ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ یزید بن ہرمز نے مجھے بیان کیا کہ یمامہ کے حکمران نجدہ نے ابن عباس (رض) کی طرف خط لکھا جس میں وہ ان سے ذوی القربیٰ کا حصہ دریافت کررہا تھا تو ابن عباس (رض) نے اس کی طرف لکھ بھیجا۔ کہ یہ حصہ ہمارے لیے ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ہمیں بلایا تھا کہ وہ اس حصہ میں سے ہماری بیواؤں کا نکاح کردیں اور قرض داروں کا قرض اتار دیں۔ تو ہم نے انکار کردیا اور ہم نے کہا کہ ہم اس صورت میں لیں گے کہ آپ تمام حصہ ہمیں دے دیں اور ہمارا خیال یہی تھا کہ یہ ہمارے لیے ہے اور ہمارا حق ہے۔
تخریج : نسائی فی الفئی باب ١‘ مسند احمد ١؍٣٢٠۔

5096

۵۰۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْت قَیْسًا یُحَدِّثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہُرْمُزَ قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ بْنُ عَامِرٍ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْأَلُہٗ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی الَّذِیْ ذٰکَرَ اللّٰہٗ، وَفَرَضَ لَہُمْ فَکَتَبَ اِلَیْہِ وَأَنَا شَاہِدٌ کُنَّا نَرَی أَنَّہُمْ قَرَابَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا فَہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا یُخْبِرُ أَنَّ قَوْمَہُمْ أَبَوْا عَلَیْہِمْ أَنْ یَکُوْنَ لَہُمْ ، وَلَمْ یُظْلَمْ مَنْ أَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا أُرِیْدَ فِیْ ذٰلِکَ بِقَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ مَا ذَکَرْنَا مِنَ الْفَقْرِ وَالْحَاجَۃِ فَہٰذِہِ حُجَجُ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ ذَوِی الْقُرْبَی ، لَا سَہْمَ لَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ ، وَأَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا مَنْ بَعْدَہُ وَقَدْ خَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : کَانَ لَہُمْ سَہْمٌ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ خُمُسُ الْخُمُسِ ، وَکَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَضَعَہُ فِیْمَنْ شَائَ مِنْہُمْ وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٠٩٥: یزید بن ہرمز نے بیان کیا کہ نجدہ بن عامر نے ابن عباس (رض) کی طرف لکھا کہ ذوی القربیٰ کے حصہ کا کیا حکم ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا اور اس کو ان کے لیے مقرر کیا۔ تو انھوں نے لکھا اور میں اس موقعہ پر موجود تھا۔ کہ ہمارا خیال یہی تھا کہ اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت مراد ہے۔ مگر ہماری قوم نے ہمیں دینے سے انکار کردیا۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ ہماری قوم نے یہ حصہ ہمیں دینے سے انکار کردیا مگر جنہوں نے انکار کیا انھوں نے انکار کیے جانے والوں پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت سے یہاں وہی مراد ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا یعنی فقرومحتاجی کی صورت میں ان کو دیا جائے گا۔ یہ فریق اوّل کے دلائل کا تذکرہ ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لیے خمس میں سے کوئی حصہ مقرر نہیں نہ تو آپ کے زمانہ میں تھا اور نہ بعد میں ہے سوائے اس سبب کے جس کا تذکرہ ہوا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ذوی القربیٰ کا حصہ مقرر تھا اور وہ خمس الخمس یعنی خمس کا پانچواں حصہ ہوتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار تھا کہ جس کو چاہیں عنایت فرما دیں ان کی دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ١٤٠‘ دارمی فی السیر باب ٣٢‘ مسند احمد ١؍٢٤٨۔

5097

۵۰۹۶ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرِ بْنِ مَطَرٍ ، وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ الْبَغْدَادِیَّانِ ، قَالَا : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ : لَمَّا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَلَمْ یُعْطِ بَنِیْ أُمَیَّۃَ شَیْئًا ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ فَأَتَیْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہٰؤُلَائِ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، فَضَّلَہُمْ اللّٰہُ بِکَ، فَمَا بَالُنَا وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ؟ وَاِنَّمَا نَحْنُ وَہُمْ فِی النَّسَبِ شَیْء ٌ وَاحِدٌ فَقَالَ اِنَّ بَنِی الْمُطَّلِبِ لَمْ یُفَارِقُوْنِیْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَلَا فِی الْاِسْلَامِ قَالُوْا : فَلَمَّا أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ السَّہْمَ بَعْضَ الْقَرَابَۃِ ، وَحَرَمَ مِنْ قَرَابَتِہِ مِنْہُ کَقَرَابَتِہِمْ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ لَمْ یُرِدْ بِمَا جَعَلَ لِذَوِی الْقُرْبَی ، کُلَّ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاِنَّمَا أَرَادَ بِہٖ خَاصًّا مِنْہُمْ ، وَجَعَلَ الرَّأْیَ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَضَعُہٗ فِیْمَنْ شَائَ مِنْہُمْ ، وَاِذَا مَاتَ فَانْقَطَعَ رَأْیُہٗ، انْقَطَعَ مَا جُعِلَ لَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، کَمَا قَدْ جَعَلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَصْطَفِیَ مِنَ الْمَغْنَمِ لِنَفْسِہِ سَہْمَ الصَّفِیِّ ، فَکَانَ ذٰلِکَ مَا کَانَ حَیًّا ، یَخْتَارُ لِنَفْسِہِ مِنَ الْمَغْنَمِ مَا شَائَ ، فَلَمَّا مَاتَ انْقَطَعَ ذٰلِکَ وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ہٰذَا الْقَوْلِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ ذَوُو الْقُرْبَی الَّذِیْنَ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ مَا جَعَلَ ، ہُمْ : بَنُوْ ہَاشِمٍ ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ فَأَعْطَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَاہُمْ ، مِنْ ذٰلِکَ بِجَعْلِ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - ذٰلِکَ لَہُمْ ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ حِیْنَئِذٍ أَنْ یُعْطِیَ غَیْرَہُمْ مِنْ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ ، لِأَنَّہُمْ لَمْ یَدْخُلُوْا فِی الْآیَۃِ وَاِنَّمَا دَخَلَ فِیْہَا مِنْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَنُوْ ہَاشِمٍ ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ہٰذَا ہَذَا الِاخْتِلَافَ ، فَذَہَبَ کُلُّ فَرِیْقٍ اِلَی مَا ذَکَرْنَا وَاحْتَجَّ لِقَوْلِہٖ بِمَا وَصَفْنَا ، وَجَبَ أَنْ نَکْشِفَ کُلَّ قَوْلٍ مِنْہَا ، وَمَا ذَکَرْنَا مِنْ حُجَّۃِ قَائِلِہٖ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ ہٰذِہِ الْأَقَاوِیْلِ قَوْلًا صَحِیْحًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَابْتَدَأْنَا بِقَوْلِ الَّذِیْ نَفَی أَنْ یَکُوْنَ لَہُمْ فِی الْآیَۃِ شَیْء ٌ بِحَقِّ الْقَرَابَۃِ ، وَأَنَّہٗ اِنَّمَا جَعَلَ لَہُمْ فِیْہَا مَا جَعَلَ لِحَاجَتِہِمْ وَفَقْرِہِمْ ، کَمَا جَعَلَ لِلْمِسْکِیْنِ وَالْیَتِیْمِ فِیْہَا مَا جَعَلَ ، لِحَاجَتِہِمَا وَفَقْرِہِمَا ، فَاِذَا ارْتَفَعَ الْفَقْرُ عَنْہُمْ جَمِیْعًا ارْتَفَعَتْ حُقُوْقُہُمْ مِنْ ذٰلِکَ فَوَجَدْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ قَسَّمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی حِیْنَ قَسَّمَہٗ فَأَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَعَمَّہُمْ بِذٰلِکَ جَمِیْعًا ، وَقَدْ کَانَ فِیْہِمُ الْغَنِیُّ وَالْفَقِیْرُ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ کَانَ مَا جَعَلَ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، ہُوَ لِعِلَّۃِ الْفَقْرِ ، لَا لِعِلَّۃِ الْقَرَابَۃِ ، اِذَا لَمَا دَخَلَ أَغْنِیَاؤُہُمْ فِیْ فُقَرَائِہِمْ فِیْمَا جُعِلَ لَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَقَصَدَ اِلَی الْفُقَرَائِ مِنْہُمْ ، دُوْنَ الْأَغْنِیَائِ فَأَعْطَاہُمْ ، کَمَا فَعَلَ فِی الْیَتَامَی فَلَمَّا أَدْخَلَ أَغْنِیَائَ ہُمْ فِیْ فُقَرَائِہِمْ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ ، أَنَّہٗ قَصَدَ بِذٰلِکَ اِلٰی أَعْیَانِ الْقَرَابَۃِ لِعِلَّۃِ قَرَابَتِہِمْ ، لَا لِعِلَّۃِ فَقْرِہِمْ وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْا مِنْ حَدِیْثِ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، حَیْثُ سَأَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُخْدِمَہَا خَادِمًا ، مِنَ السَّبْیِ الَّذِیْ کَانَ قَدِمَ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَفْعَلْ ، وَوَکَلَہَا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَالتَّسْبِیْحِ فَہٰذَا لَیْسَ فِیْہِ - عِنْدَنَا - دَلِیْلٌ لَہُمْ عَلٰی مَا ذَکَرُوْا ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقُلْ لَہَا حِیْنَ سَأَلَتْہُ لَا حَقَّ لَک فِیْہِ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، لَبَیَّنَ ذٰلِکَ لَہَا کَمَا بَیَّنَہُ لِلْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ ، وَرَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، حِیْنَ سَأَلَا أَنْ یَسْتَعْمِلَہُمَا عَلَی الصَّدَقَۃِ ، لِیُصِیْبَا مِنْہَا ، فَقَالَ لَہُمَا اِنَّمَا ہِیَ أَوْسَاخُ النَّاسِ ، وَأَنَّہَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ ، وَلَا لِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ لَمْ یُعْطِہَا الْخَادِمَ حِیْنَئِذٍ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ قَسَمَ ، فَلَمَّا قَسَمَ أَعْطَاہَا حَقَّہَا مِنْ ذٰلِکَ ، وَأَعْطَی غَیْرَہَا أَیْضًا حَقَّہُ فَیَکُوْنُ تَرْکُہٗ اِعْطَائَ ہَا اِنَّمَا کَانَ لِأَنَّہٗ لَمْ یُقْسِمْ ، وَدَلَّہَا عَلَی تَسْبِیْحِ اللّٰہِ، وَتَحْمِیْدِہٖ، وَتَہْلِیْلِہِ الَّذِیْ یَرْجُو لَہَا بِہٖ الْفَوْزَ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی ، وَالزُّلْفَیْ عِنْدَہُ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ أَخْدَمَہَا مِنْ ذٰلِکَ ، بَعْدَمَا قَسَّمَ ، وَلَا نَعْلَمُ فِی الْآثَارِ مَا یَدْفَعُ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَنَعَہَا مِنْ ذٰلِکَ ، اِنْ کَانَ مَنَعَہَا مِنْہٗ، لِأَنَّہَا لَیْسَتْ قَرَابَۃً ، وَلٰـکِنْ أَقْرَبُ مِنَ الْقَرَابَۃِ ، لِأَنَّ الْوَلَدَ لَا یُقَالُ ہُوَ مِنْ قَرَابَۃِ أَبِیْہِ، اِنَّمَا یُقَالُ ذٰلِکَ لِمَنْ غَیْرُہُ أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْہُ أَلَا تَرَی ، اِلَی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ فَجَعَلَ الْوَالِدَیْنِ غَیْرَ الْأَقْرَبِیْنَ ، لِأَنَّہُمْ أَقْرَبُ مِنَ الْأَقْرَبِیْنَ فَکَمَا کَانَ الْوَالِدُ یَخْرُجُ مِنْ قَرَابَۃِ وَلَدِہٖ، فَکَذٰلِکَ الْوَلَدُ یَخْرُجُ مِنْ قَرَابَۃِ وَالِدِہِ وَقَدْ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، نَحْوًا مِمَّا ذَکَرْنَا فِیْ رَجُلٍ قَالَ قَدْ أَوْصَیْتُ بِثُلُثِ مَالِی ، لِقَرَابَۃِ فُلَانٍ أَنَّ وَالِدَیْہِ وَوَلَدَہُ لَا یَدْخُلُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہُمْ أَقْرَبُ مِنَ الْقَرَابَۃِ ، وَلَیْسُوْا بِقَرَابَۃٍ ، وَاحْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآیَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا ، فَہٰذَا وَجْہٌ آخَرُ فَارْتَفَعَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ لَہُمْ أَیْضًا بِحَدِیْثِ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ہٰذَا، حُجَّۃٌ فِیْ نَفْیِ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنْ فِعْلِہِمَا ، وَأَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُنْکِرُوْا ذٰلِکَ عَلَیْہِمَا ، فَاِنَّ ہَذَا مِمَّا یَسَعُ فِیْہِ اجْتِہَادُ الرَّأْیِ ، فَرَأَیَا ہُمَا ذٰلِکَ ، وَاجْتَہَدَا ، فَکَانَ مَا أَدَّاہُمَا اِلَیْہِ اجْتِہَادُہُمَا ، ہُوَ مَا رَأَیَا فِیْ ذٰلِکَ فَحَکَمَا بِہٖ ، وَہُوَ الَّذِیْ کَانَ عَلَیْہِمَا ، وَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ مُثَابَانِ مَأْجُوْرَانِ .وَأَمَّا قَوْلُہُمْ : وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُنْکِرَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمَا أَحَدٌ ، وَہُمَا اِمَامَانِ عَدْلَانِ ، رَأَیَا رَأْیًا فَحَکَمَا بِہٖ ، فَفَعَلَا فِیْ ذٰلِکَ الَّذِی کُلِّفَا ؟ وَلٰـکِنْ قَدْ رَأَی فِیْ ذٰلِکَ غَیْرُہُمَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخِلَافِ مَا رَأَیَا ، فَلَمْ یُعَنِّفُوْھُمَا فِیْمَا حَکَمَا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ، اِذْ کَانَ الرَّأْیُ فِیْ ذٰلِکَ وَاسِعًا ، وَالِاجْتِہَادُ لِلنَّاسِ جَمِیْعًا فَأَدَّی أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا رَأْیَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ اِلَی مَا رَأَیَا وَحَکَمَا ، وَأَدَّی غَیْرُہُمَا مِمَّنْ خَالَفَہُمَا اجْتِہَادَہُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی مَا رَآہٗ ، وَکُلٌّ مَأْجُوْرٌ فِی اجْتِہَادِہِ فِیْ ذٰلِکَ ، مُثَابٌ مُؤَد لِلْفَرْضِ الَّذِیْ عَلَیْہِ، وَلَمْ یُنْکِرْ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ قَوْلَہٗ، لِأَنَّ مَا خَالَفَ اِلَیْہِ ہُوَ رَأْیٌ ، وَالَّذِیْ قَالَہُ مُخَالِفُہُ ہُوَ رَأْیٌ أَیْضًا ، وَلَا تَوْقِیْفَ مَعَ وَاحِدٍ مِنْہُمَا لِقَوْلِہٖ ، مِنْ کِتَابٍ ، وَلَا سُنَّۃٍ ، وَلَا اِجْمَاعٍ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَدْ کَانَا خُوْلِفَا فِیْمَا رَأَیَا مِنْ ذٰلِکَ ، قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ کُنَّا نَرَی أَنَّا نَحْنُ ہُمْ قَرَابَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا فَأَخْبَرَ أَنَّہُمْ رَأَوْا فِیْ ذٰلِکَ رَأْیًا ، أَبَاہُ عَلَیْہِمْ قَوْمُہُمْ ، وَأَنَّ عُمَرَ دَعَاہُمْ اِلٰی أَنْ یُزَوِّجَ مِنْہُ أَیِّمَہُمْ وَیَکْسُوَ مِنْہُ عَارِیَہُمْ ، قَالَ فَأَبَیْنَا عَلَیْہِ اِلَّا أَنْ یُسَلِّمَہُ لَنَا کُلَّہٗ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا عَلَی ہٰذَا الْقَوْلِ فِیْ خِلَافَۃِ عُمَرَ بَعْدَ أَبِیْ بَکْرٍ ، وَأَنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا نَزَعُوْا عَمَّا کَانُوْا رَأَوْا مِنْ ذٰلِکَ ، لِرَأْیِ أَبِیْ بَکْرٍ وَلَا رَأْیِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ کَانَ عِنْدَ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ ، وَعِنْدَ سَائِرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَحُکْمِ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تُخْتَلَفُ فِیْہَا الَّتِیْ یَسَعُ فِیْہَا اجْتِہَادُ الرَّأْیِ .وَأَمَّا قَوْلُہُمْ ثُمَّ أُفْضِیَ الْأَمْرُ اِلَی عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَمْ یُغَیِّرْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ ، عَمَّا کَانَ وَضَعَہُ عَلَیْہِ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالُوْا : فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ رَأَی فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، مِثْلَ الَّذِیْ رَأَیَا فَلَیْسَ ذٰلِکَ کَمَا ذَکَرُوْا ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ بَقِیَ فِیْ یَدِ عَلِیْ مِمَّا کَانَ وَقَعَ فِیْ یَدِ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ لِأَنَّہُمَا لَمَّا کَانَ ذٰلِکَ ، وَقَعَ فِیْ أَیْدِیْہِمَا ، أَنْفَذَاہُ فِیْ وُجُوْہِہِ الَّتِیْ رَأَیَاہَا فِیْ ذٰلِکَ الَّذِیْ کَانَ عَلَیْہِمَا ، ثُمَّ أُفْضِیَ الْأَمْرُ اِلَی عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، فَلَمْ یُعْلَمْ أَنَّہٗ سَبَی أَحَدًا وَلَا ظَہَرَ عَلٰی أَحَدٍ مِنَ الْعَدُوِّ ، وَلَا غَنِمَ غَنِیْمَۃً یَجِبُ فِیْہَا خُمُسٌ لِلّٰہٖ، لِأَنَّہٗ اِنَّمَا کَانَ شُغْلُہُ فِیْ خِلَافَتِہِ کُلِّہَا ، بِقِتَالِ مَنْ خَالَفَہٗ، مِمَّنْ لَا یُسْبَی وَلَا یُغْنَمُ وَاِنَّمَا یُحْتَجُّ بِقَوْلِ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ لَوْ سَبَی وَغَنِمَ ، فَفَعَلَ فِیْ ذٰلِکَ مِثْلَ مَا کَانَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ فَعَلَا فِی الْأَخْمَاسِ وَأَمَّا اِذَا لَمْ یَکُنْ سَبَی وَلَا غَنِمَ ، فَلَا حُجَّۃَ لِأَحَدٍ فِیْ تَغْیِیْرِ مَا کَانَ فُعِلَ قَبْلَہٗ مِنْ ذٰلِکَ وَلَوْ کَانَ بَقِیَ فِیْ یَدِہِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ ، مِمَّا کَانَ غَنِمَہٗ مِنْ قَبْلِہٖ ، فَحَرَمَہُ ذَوِی قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَا کَانَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا حُجَّۃٌ تَدُلُّ عَلَی مَذْہَبِہٖ فِیْ ذٰلِکَ کَیْفَ کَانَ ؟ لِأَنَّ ذٰلِکَ اِنَّمَا صَارَ اِلَیْہِ بَعْدَمَا نَفَذَ فِیْہِ الْحَکَمُ مِنَ الْاِمَامِ الَّذِیْ کَانَ قَبْلَہٗ فَلَمْ یَکُنْ لَہُ اِبْطَالُ ذٰلِکَ الْحُکْمِ ، وَاِنْ کَانَ ہُوَ یَرَی خِلَافَہٗ، لِأَنَّ ذٰلِکَ الْحُکْمَ مِمَّا یَخْتَلِفُ فِیْہِ الْعُلَمَائُ ، وَلَوْ کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَأَی فِیْ ذٰلِکَ مَا کَانَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا رَأَیَاہُ فِیْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَدْ خَالَفَہٗ، لِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کُنَّا نَرَی أَنَّا نَحْنُ ہُمْ ، فَأَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا فَہٰذَا جَوَابَاتُ الْحُجَجِ الَّتِی احْتَجَّ بِہَا الَّذِیْنَ نَفَوْا سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی أَنْ یَکُوْنَ وَاجِبًا لَہُمْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا فِیْ حَیَاتِہٖ، وَأَنَّہُمْ کَانُوْا فِیْ ذٰلِکَ کَسَائِرِ الْفُقَرَائِ فَبَطَلَ ہٰذَا الْمَذْہَبُ ، فَثَبَتَ أَحَدُ الْمَذَاہِبِ الْأُخَرِ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ قَوْلِ مَنْ جَعَلَہُ لِقَرَابَۃِ الْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَجَعَلَ سَہْمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِہِ ہَلْ لِذٰلِکَ وَجْہٌ ؟ فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ فَضَّلَ سَہْمَ الصَّفِیِّ وَبِخُمُسِ الْخُمُسِ ، وَجُعِلَ لَہُ مَعَ ذٰلِکَ فِی الْغَنِیْمَۃِ سَہْمٌ کَسَہْمِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ثُمَّ رَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ سَہْمَ الصَّفِیِّ لَیْسَ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَّ حُکْمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافُ حُکْمِ الْاِمَامِ مِنْ بَعْدِہٖ۔ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ حُکْمَہُ فِیْ خُمُسِ الْخُمُسِ ، خِلَافُ حُکْمِ الْاِمَامِ مِنْ بَعْدِہِ ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہُ فِیْمَا وَصَفْنَاہُ خِلَافُ حُکْمِ الْاِمَامِ مِنْ بَعْدِہٖ، ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ قَرَابَتِہِ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافُ حُکْمِ قَرَابَۃِ الْاِمَامِ مِنْ بَعْدِہٖ، قُلِّبَ أَحَدُ الْقَوْلَیْنِ مِنَ الْآخَرَیْنِ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِذَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَکَانَ سَہْمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَارِیًا لَہٗ، مَا کَانَ حَیًّا اِلٰی أَنْ مَاتَ ، وَانْقَطَعَ بِمَوْتِہٖ، وَکَانَ سَہْمُ الْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا کَانَ قَبْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ اخْتَلَفُوْا فِیْہِمْ فِیْ ذٰوِی الْقُرْبَی ، فَقَالَ قَوْمٌ : ہُوَ لَہُمْ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَمَا کَانَ لَہُمْ فِیْ حَیَاتِہٖ۔وَقَالَ قَوْمٌ : قَدِ انْقَطَعَ عَنْہُمْ بِمَوْتِہٖ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ جَمَعَ کُلَّ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قَوْلِہٖ وَلِذِی الْقُرْبَی فَلَمْ یَخُصَّ أَحَدًا مِنْہُمْ دُوْنَ أَحَدٍ ثُمَّ قَسَمَ ذٰلِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَعْطَی مِنْہُمْ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً ، وَحَرَمَ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ ، وَقَدْ کَانُوْا مَحْصُوْرِیْنَ مَعْدُوْدِیْنَ ، وَفِیْمَنْ أَعْطَی الْغَنِیُّ وَالْفَقِیْرُ ، وَفِیْمَنْ حَرَمَ کَذٰلِکَ فَثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ السَّہْمَ کَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَجَعَلَہُ فِیْ أَیِّ قَرَابَتِہِ شَائَ ، فَصَارَ بِذٰلِکَ حُکْمُہٗ حُکْمَ سَہْمِہِ الَّذِیْ کَانَ یَصْطَفِیْ لِنَفْسِہِ فَکَمَا کَانَ ذٰلِکَ مُرْتَفِعًا بِوَفَاتِہٖ، غَیْرَ وَاجِبٍ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِہٖ، کَانَ ہَذَا أَیْضًا کَذٰلِکَ مُرْتَفِعًا بِوَفَاتِہٖ، غَیْرَ وَاجِبٍ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِہٖ۔ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٠٩٦: سعید بن المسیب نے جبیر بن مطعم (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت داروں کا حصہ تقسیم فرمایا تو بنو ہاشم اور بنو مطلب کو عنایت فرمایا۔ مگر بنو امیہ اور بنو نوفل کو نہ دیا۔ چنانچہ میں اور حضرت عثمان (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بنو ہاشم کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی وجہ سے فضیلت دی تو ہمارا اور بنو مطلب کا کیا فرق ہے ؟ حالانکہ ہم اور وہ نسب کے لحاظ سے ایک ہیں۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بنو مطلب نے دور جاہلیت اور اسلام میں مجھ سے جدائی اختیار نہیں کی۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض قرابت داروں کو یہ حصہ عنایت فرمایا اور دوسروں کو محروم فرمایا جبکہ وہ قرابت میں برابر تھے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے جن قرابت داروں کا جو حصہ مقرر فرمایا ہے اس سے تمام قرابت دار مراد نہیں بلکہ بعض خاص لوگ مراد ہیں اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چناؤ پر موقوف تھا۔ کہ ان میں سے جس کو چاہیں عنایت فرما دیں۔ پس جب آپ کا وصال ہوگیا اور یہ رائے سے انتخاب کا سلسلہ ختم ہوگیا تو ان رشتہ داروں کا جو حصہ مقرر کیا گیا تھا وہ بھی ختم ہوگیا جس طرح آپ کا اپنے لیے مال غنیمت میں سے حصہ کا چناؤ بھی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔ فریق ثالث نے اس قول کی مخالفت کی کہ ذوی القربیٰ وہ ہیں جن کا حصہ مقرر کیا گیا وہ بنو ہاشم ‘ بنو مطلب ہیں۔ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جتنا دیا وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کرنے سے دیا اور اس وقت ان کے علاوہ آپ بنو امیہ اور بنو نوفل کو نہ دے سکتے تھے۔ کیونکہ وہ آیت کے حکم میں داخل نہ تھے۔ بنو ہاشم ہوں یا بنو مطلب وہ خصوصی قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے داخل ہوئے۔ جب اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اس قدر اختلاف پایا گیا اور ان میں سے ہر فریق نے اپنے مؤقف کو پیش کر کے اس پر دلائل پیش کئے جو کہ سابقہ سطور میں ہم بیان کر آئے۔ اب ہم ان اقوال اور ان کے دلائل کی حقیقت منکشف کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان میں سے صحیح ترین کو نکال سکیں۔ چنانچہ ہم نے غور و فکر کر کے فریق اوّل کے قول کی حقیقت اور اس کا جواب انھوں نے آیت کریمہ میں قرابت داروں کے حصہ کی نفی کرتے ہوئے حاجت اور مسکنت کو حصہ کا باعث قرار دیا۔ کہ جس طرح مساکین اور یتامیٰ کو ان کی حاجات اور فقر کے باعث حصہ دیا جاتا ہے اور فقر کے ختم ہونے پر حصہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کے حقوق بھی ختم ہوجاتے ہیں یہاں بھی اسی طرح ہوگا۔ مگر ہمیں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقسیم کے وقت قرابت داروں کو بلاتفریق غنی و فقیر دیا اور وہ قرابت دار صرف بنو ہاشم و بنو مطلب تھے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ اگر ان کا حصہ فقر و احتیاج کی وجہ سے ہوتا قرابت داری سے نہ ہو تو اس کی تقسیم میں صرف فقراء آتے مالدار شریک نہ ہوتے اور نہ ان کو حصہ دیا جاتا صرف محتاجوں کو دیا جاتا۔ جیسا کہ یتامیٰ کے سلسلہ میں کہا گیا ہے تو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فقراء کے علاوہ مالداروں کو بھی داخل فرمایا تو اس سے ثابت ہوا کہ یہ حصہ قرابت داری کی وجہ سے تھا نہ کہ کسی اور وجہ سے۔ فریق اوّل نے اپنی دلیل میں روایت فاطمہ (رض) نقل کی ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان قیدیوں میں سے ایک غلام طلب کیا جو آپ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے عنایت نہ فرمایا بلکہ ان کو ذکروتسبیح کی طرف متوجہ کیا۔ اس روایت میں ان کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ان کے سوال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ اس میں تمہارا حق نہیں بنتا۔ اگر یہ بات ہوتی تو آپ ان کو بھی اسی طرح فرماتے جیسا کہ فضل بن عباس اور ربیعہ بن حارث (رض) کو فرمایا تھا کہ یہ صدقہ کا مال لوگوں کی میل کچیل ہے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت میں سے کسی کے لیے درست نہیں۔ حضرت فاطمہ (رض) کے مطالبہ پر اس لیے نہ دیا ہو کہ اس وقت ابھی تقسیم نہ ہوا ہو۔ جب تقسیم ہوا تو ان کا حق ان کو دے دیا گیا اور دوسری کو بھی ان کا حق عنایت فرمایا تو نہ دینے کی وجہ عدم استحقاق نہیں عدم تقسیم ہے اور آپ نے ان کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ کی حمدوتسبیح کا راستہ بتلایا کیونکہ ان کلمات سے آپ قرب خداوندی اور اس میں کامیابی کی امید رکھتے تھے۔ ممکن ہے تقسیم کے بعد ان کو عنایت فرمایا ہو۔ کیونکہ روایات میں اس کے خلاف کوئی روایت میسر نہیں آئی۔ شاید ان کو اس لیے غلام عنایت نہ فرمایا کہ وہ قرابت والوں میں شامل نہ تھیں بلکہ اقرب من القرابۃ میں شامل تھیں۔ کیونکہ بیٹے بیٹی کو قرابت والا نہیں کہا جاتا۔ بلکہ باپ کی طرف سے دوسرے رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس پر شاہد ہے۔ ” ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین “ (البقرہ ٢١٥) تو ماں باپ پر اقربین کا عطف کر کے ان کو اقربین کا غیر قرار دیا کیونکہ وہ تو اقرب القربیٰ ہیں تو جس طرح قرابت سے والدین نکل جاتے ہیں اسی طرح اولاد والد کے لیے اس کی قرابت سے نکل جاتی ہے۔ امام محمد بن حسن (رح) نے اس شخص کے متعلق لکھا ہے کہ جو یہ کہے میں نے اپنے مال کے ثلث کی اپنے قرابت داروں کو وصیت کی تو اس کی اس وصیت میں اس کے ماں و باپ اور اولاد شامل نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ قرابت سے زیادہ قریب ہیں۔ قرابت دار نہیں ہیں۔ امام محمد (رح) نے دلیل میں اسی آیت کا حوالہ دیا ہے۔ ان وجوہات سے حضرت فاطمہ (رض) والی روایت سے قرابت داروں کے حصہ کی نفی پر استدلال کی مکمل نفی ہوگئی۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر (رض) کے عمل اور صحابہ کرام کے انکار نہ کرنے سے استدلال کیا گیا ہے کہ انھوں نے اجتہاد کیا اور اس کے مطابق درست فیصلہ کیا جو باعث اجر وثواب ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ کسی نے انکار نہیں کیا اور انکار کرتے بھی کیسے جبکہ وہ دونوں امام عادل تھے اور اجتہاد میں ان کی ایک رائے تھی جس پر انھوں نے فیصلہ کیا وہ اسی کے مکلف بنائے گئے تھے۔ دیگر صحابہ کرام کی رائے ان کے خلاف تھی مگر انھوں نے ان پر سختی نہیں کی کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش تھی اور اجتہاد کا معاملہ تمام لوگوں کے لیے برابر تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے ایک رائے کو اختیار کر کے فیصلہ کیا لیکن دیگر حضرات نے دوسری رائے کو پسند کیا جو ان کے اجتہاد کا تقاضا تھا اور بلاشبہ یہ تمام حضرات اپنے اجتہاد کا ثواب پائیں گے۔ انھوں نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا اور پورا کیا اسی وجہ سے انھوں نے ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ ہر ایک کی اجتہادی رائے ہے جس میں قرآن و سنت اور اجماع سے صریح نص میسر نہیں ہے۔ اس بات کی واضح دلیل کہ ان دونوں حضرات کی رائے کی مخالفت کی گئی وہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ہمارے خیال میں ہم ہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں مگر ہماری قوم نے اس بات کا انکار کردیا۔ اس میں ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ اس سلسلے میں ان کی قوم (قریش) نے ان کی رائے سے اختلاف کیا حضرت عمر (رض) نے ان کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ اس حصے میں سے ان کی بیوگان کا نکاح کردیں گے اور ان میں سے بلالباس لوگوں کو کپڑے پہنا دیں گے۔ مگر بقول ابن عباس (رض) ہم نے اس میں سے اس بات کو اس شرط پر تسلیم کرنے کے لیے کہا کہ وہ تمام مال ہمیں دیں۔ مگر انھوں نے اس سے انکار کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت ابوبکر (رض) کے بعد حضرت عمر (رض) کے زمانے میں بھی اس رائے پر قائم تھے اور انھوں نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی رائے کی وجہ سے اپنی رائے کو نہ چھوڑا۔ پس مذکورہ بالا بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) اور دیگر صحابہ کرام کے ہاں یہ ان اشیاء میں سے تھی جن میں اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ان میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ یہ کہنا کہ حضرت علی (رض) نے اپنے دور خلافت میں اس طریق کار میں کوئی تبدیلی نہیں کی جو کہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے وضع کیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی (رض) کی رائے وہی تھی جو ان دونوں حضرات کی رائے تھی۔ مگر یہ کہنا درست نہیں کیونکہ جو کچھ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے پاس تھا وہ حضرت علی (رض) کے قبضہ میں نہ تھا۔ کیونکہ جو کچھ ان کو حاصل ہوا انھوں نے اپنی رائے کے مطابق جہاں مناسب خیال کیا اس کو خرچ کیا اور جب حضرت علی (رض) کو خلافت حاصل ہوئی تو یہ بات معلوم نہیں کہ انھوں نے کسی کو قیدی بنایا اور کسی دشمن پر کامیابی حاصل کی۔ نہ تو انھوں نے ایسی غنیمت حاصل کی جس میں خمس لازم ہوتا کیونکہ پورا دور خلافت ان کے خلاف لڑائی میں گزرا جن سے نہ قیدی بنایا جاسکتا تھا اور نہ مال غنیمت حاصل ہوسکتا تھا۔ حضرت علی (رض) کے قول کی ضرورت تو تب ہوتی۔ جب کسی کو قیدی بناتے اور ان کو مال غنیمت حاصل ہوتا اور اس پر عمل کرتے جو حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے خمس غنیمت کے سلسلہ میں کیا لیکن جب قیدی اور غلام ہی نہ تھے تو کوئی شخص اس بات کو دلیل نہیں بنا سکتا کہ پہلے سے جاری عمل میں تبدیلی ترک کی گئی۔ بلکہ اگر ان کے پاس پہلے سے بچا ہوا مال غنیمت ہوتا پھر وہ اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت والوں پر (خرچ کو) نادرست قرار دیتے تب بھی یہ فریق اوّل کی دلیل نہ بنتی اور یہ دلیل بن بھی کیسے سکتی ہے کیونکہ یہ مال تو ان کو اس وقت ملا ہے جبکہ ان سے پہلے امام کا حکم اس میں لاگو ہوچکا تو ان کو اس کے باطل کرنے کا اختیار نہ تھا۔ خواہ ان کی اپنی رائے اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ ان احکامات سے ہے جس میں علماء کی رائے مختلف ہے اور اگر بالفرض حضرت علی المرتضیٰ (رض) کی رائے قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق وہی رائے ہو جو حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی تھی۔ کچھ ایسے لوگ تھے جو قول ابن عباس (رض) کی وجہ سے کہ ہم قرابتدار ہیں اور حقدار ہیں مگر ہماری قوم نے اس کا انکار کردیا۔ جن حضرات نے قرابت داروں کے حصہ کی نفی کی ہے ان کے دلائل کے جوابات ذکر کردیئے۔ ان کا یہ خیال باطل ٹھہرا کہ وہ تمام فقراء کی طرح ہیں اور ان کا کوئی حصہ قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے آپ کی زندگی میں اور وفات کے بعد کسی طور پر واجب نہیں۔ اب پچھلے دو مذاہب میں سے ایک ثابت ہوگا پس اب ان کے قول کی طرف ہم غور کرتے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حصہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خلیفہ کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ اس کی وجہ تلاش کی جو کہ مل گئی۔ مال غنیمت کے سلسلہ میں آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ منتخب شئی اور خمس کا خمس اور اس کے ساتھ ساتھ غنیمت ایک عام مسلمان کو جو حصہ ملتا تھا وہ بھی آپ کا الگ رکھا جاتا تھا۔ پھر دوبارہ غور سے معلوم ہوا کہ اس بات پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ منتخب حصہ تو آپ کے بعد کسی کو نہ ملے گا وہ خصوصیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم دوسرے خلفاء کے خلاف ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آپ کا حکم خمس الخمس میں بھی دوسرے خلفاء کے خلاف ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ آپ کا حکم غنیمت کے سلسلہ میں مختلف ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی قرابت کا حکم بھی بعد والے حکمرانوں کی قرابت سے مختلف ہے پس ایک قول ثابت ہوا۔ ثابت قول یہ ہے۔ ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان اللہ خمسہ وللرسول والذی القربٰی والیتامٰی والمساکین وابن السبیل “ (الانفال : ٤١) پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ زندگی میں جاری رہے گا اور وفات سے منقطع ہوگیا اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی اسی طرح جاری رہے گا۔ ذوی القربیٰ کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی اسی طرح قائم رہے گا جس طرح آپ کی حیات مبارکہ میں تھا۔ ذوی القربیٰ کا حصہ آپ کی وفات سے منقطع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے تمام قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کلمہ میں اکٹھا ذکر کردیا اور وہ ” ولذی القربٰی “ (الحشر : ٧) ان میں سے کسی کو چھوڑ کر دوسرے کو مخصوص نہیں فرمایا۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تقسیم فرمائی اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کو خاص کر کے عنایت فرمایا۔ دوسرے دونوں بنی امیہ ‘ بنی نوفلکو محروم رکھا حالانکہ وہ گنے چنے افراد تھے اور جن کو دیا ان کو بلاتفریق مالدار اور محتاج ہر ایک کو دیا اور جن کو محروم کیا ان کے فقراء کو بھی نہیں دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلہ میں اختیار تھا کہ اس کو اپنے قرابت والوں میں سے جس کے لیے چاہیں مقرر فرما دیں۔ اس سے اس کا حکم بھی اس حصے کی طرح بن گیا جس کو آپ مال غنیمت میں سے اپنے لیے منتخب فرماتے تھے۔ پس جس طرح وہ ذات مبارکہ سے مخصوص حصہ وفات سے منقطع ہوگیا۔ بعد والے خلیفہ کو درست نہیں۔ یہ حصہ ذوی القربیٰ جس کو دینے میں آپ کو مکمل اختیار تھا۔ وہ بھی آپ کی وفات اور کسی کو دینا ضروری نہ ہوگا۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
تخریج : نسائی فی الفئی باب ٤٥‘ مسند احمد ٤؍٨٤۔
فریق ثانی کا طریق استدلال : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض قرابت داروں کو یہ حصہ عنایت فرمایا اور دوسروں کو محروم فرمایا جبکہ وہ قرابت میں برابر تھے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے جن قرابت داروں کا جو حصہ مقرر فرمایا ہے اس سے تمام قرابت دار مراد نہیں بلکہ بعض خاص لوگ مراد ہیں اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چناؤ پر موقوف تھا۔ کہ ان میں سے جس کو چاہیں عنایت فرما دیں۔ پس جب آپ کا وصال ہوگیا اور یہ رائے سے انتخاب کا سلسلہ ختم ہوگیا تو ان رشتہ داروں کا جو حصہ مقرر کیا گیا تھا وہ بھی ختم ہوگیا جس طرح آپ کا اپنے لیے مال غنیمت میں سے حصہ کا چناؤ بھی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔
فریق ثالث : نے اس قول کی مخالفت کی کہ ذوی القربیٰ وہ ہیں جن کا حصہ مقرر کیا گیا وہ بنو ہاشم ‘ بنو مطلب ہیں۔ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جتنا دیا وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کرنے سے دیا اور اس وقت ان کے علاوہ آپ بنو امیہ اور بنو نوفل کو نہ دے سکتے تھے۔ کیونکہ وہ آیت کے حکم میں داخل نہ تھے۔ بنو ہاشم ہوں یا بنو مطلب وہ خصوصی قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے داخل ہوئے۔
تبصرہ طحاوی (رح) : جب اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اس قدر اختلاف پایا گیا اور ان میں سے ہر فریق نے اپنے مؤقف کو پیش کر کے اس پر دلائل پیش کئے جو کہ سابقہ سطور میں ہم بیان کر آئے۔ اب ہم ان اقوال اور ان کے دلائل کی حقیقت منکشف کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان میں سے صحیح ترین کو نکال سکیں۔ چنانچہ ہم نے غور و فکر کر کے فریق اوّل کے قول کی حقیقت اور اس کا جواب جو انھوں نے آیت کریمہ میں قرابت داروں کے حصہ کی نفی کرتے ہوئے حاجت اور مسکنت کو حصہ کا باعث قرار دیا۔ کہ جس طرح مساکین اور یتامیٰ کو ان کی حاجات اور فقر کے باعث حصہ دیا جاتا ہے اور فقر کے ختم ہونے پر حصہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کے حقوق بھی ختم ہوجاتے ہیں یہاں بھی اسی طرح ہوگا۔ مگر ہمیں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقسیم کے وقت قرابت داروں کو بلاتفریق غنی و فقیر دیا اور وہ قرابت دار صرف بنو ہاشم و بنو مطلب تھے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ اگر ان کا حصہ فقر و احتیاج کی وجہ سے ہوتا اور قرابتداری سے نہ ہوتا تو اس کی تقسیم میں صرف فقراء آتے مالدار شریک نہ ہوتے اور نہ ان کو حصہ دیا جاتا صرف محتاجوں کو دیا جاتا۔ جیسا کہ یتامیٰ کے سلسلہ میں کہا گیا ہے تو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فقراء کے علاوہ مالداروں کو بھی داخل فرمایا تو اس سے ثابت ہوا کہ یہ حصہ قرابت داری کی وجہ سے تھا نہ کہ کسی اور وجہ سے۔
روایت حضرت فاطمہ (رض) کا جواب : فریق اوّل نے اپنی دلیل میں روایت فاطمہ (رض) نقل کی ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان قیدیوں میں سے ایک غلام طلب کیا جو آپ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے عنایت نہ فرمایا بلکہ ان کو ذکروتسبیح کی طرف متوجہ کیا۔ اس روایت میں ان کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عدم ثبوت کی چار وجوہ :
وجہ اوّل : ان کے سوال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ اس میں تمہارا حق نہیں بنتا۔ اگر یہ بات ہوتی تو آپ ان کو بھی اسی طرح فرماتے جیسا کہ فضل بن عباس اور ربیعہ بن حارث (رض) کو فرمایا تھا کہ یہ صدقہ کا مال لوگوں کی میل کچیل ہے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت میں سے کسی کے لیے درست نہیں۔
وجہ ثانی : حضرت فاطمہ (رض) کے مطالبہ پر اس لیے نہ دیا ہو کہ اس وقت ابھی تقسیم نہ ہوا ہو۔ جب تقسیم ہوا تو ان کا حق ان کو دے دیا گیا اور دوسروں کو بھی ان کا حق عنایت فرمایا تو نہ دینے کی وجہ عدم استحقاق نہیں عدم تقسیم ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ کی حمدوتسبیح کا راستہ بتلایا کیونکہ ان کلمات سے آپ قرب خداوندی اور اس میں کامیابی کی امید رکھتے تھے۔
وجہ ثالث : ممکن ہے تقسیم کے بعد ان کو عنایت فرمایا ہو۔ کیونکہ روایات میں اس کے خلاف کوئی روایت میسر نہیں آئی۔
وجہ رابع : شاید ان کو اس لیے غلام عنایت نہ فرمایا کہ وہ قرابت والوں میں شامل نہ تھیں بلکہ اقرب من القرابۃ میں شامل تھیں۔ کیونکہ بیٹے بیٹی کو قرابت والا نہیں کہا جاتا۔ بلکہ باپ کی طرف سے دوسرے رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس پر شاہد ہے۔ ” ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین “ (البقرہ ٢١٥) تو ماں باپ پر اقربین کا عطف کر کے ان کو اقربین کا غیر قرار دیا کیونکہ وہ تو اقرب القربیٰ ہیں تو جس طرح قرابت سے والدین نکل جاتے ہیں اسی طرح اولاد والد کے لیے اس کی قرابت سے نکل جاتی ہے۔
امام محمد (رح) کے قول سے اس وجہ کی تائید :
امام محمد بن حسن (رح) نے اس شخص کے متعلق لکھا ہے کہ جو یہ کہے میں نے اپنے مال کے ثلث کی اپنے قرابت داروں کو وصیت کی تو اس کی اس وصیت میں اس کے ماں و باپ اور اولاد شامل نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ قرابت سے زیادہ قریب ہیں۔ قرابت دار نہیں ہیں۔ امام محمد (رح) نے دلیل میں اسی آیت کا حوالہ دیا ہے۔
نوٹ : ان وجوہات سے حضرت فاطمہ (رض) والی روایت سے قرابت داروں کے حصہ کی نفی پر استدلال کی مکمل نفی ہوگئی۔
دوسری دلیل کا جواب : حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر (رض) کے عمل اور صحابہ کرام کے انکار نہ کرنے سے استدلال کیا گیا ہے کہ انھوں نے اجتہاد کیا اور اس کے مطابق درست فیصلہ کیا جو باعث اجر وثواب ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ کسی نے انکار نہیں کیا اور انکار کرتے بھی کیسے جبکہ وہ دونوں امام عادل تھے اور اجتہاد میں ان کی ایک رائے تھی جس پر انھوں نے فیصلہ کیا وہ اسی کے مکلف بنائے گئے تھے۔ دیگر صحابہ کرام کی رائے ان کے خلاف تھی مگر انھوں نے ان پر سختی نہیں کی کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش تھی اور اجتہاد کا معاملہ تمام لوگوں کے لیے برابر تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے ایک رائے کو اختیار کر کے فیصلہ کیا لیکن دیگر حضرات نے دوسری رائے کو پسند کیا جو ان کے اجتہاد کا تقاضا تھا اور بلاشبہ یہ تمام حضرات اپنے اجتہاد کا ثواب پائیں گے۔ انھوں نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا اور پورا کیا اسی وجہ سے انھوں نے ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ ہر ایک کی اجتہادی رائے ہے جس میں قرآن و سنت اور اجماع سے صریح نص میسر نہیں ہے۔
اختلاف ِرائے کا ثبوت :
اس بات کی واضح دلیل کہ ان دونوں حضرات کی رائے کی مخالفت کی گئی وہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اپنے خیال میں ہم ہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں مگر ہماری قوم نے اس بات کا انکار کردیا۔
حاصل ارشاد : اس میں ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ اس سلسلے میں ان کی قوم (قریش) نے ان کی رائے سے اختلاف کیا حضرت عمر (رض) نے ان کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ اس حصے میں سے ان کی بیوگان کا نکاح کردیں گے اور ان میں سے بلالباس لوگوں کو کپڑے پہنا دیں گے۔ مگر بقول ابن عباس (رض) ہم نے اس میں سے اس بات کو اس شرط پر تسلیم کرنے کے لیے کہا کہ وہ تمام مال ہمیں دیں۔ مگر انھوں نے اس سے انکار کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت ابوبکر (رض) کے بعد حضرت عمر (رض) کے زمانے میں بھی اس رائے پر قائم تھے اور انھوں نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی رائے کی وجہ سے اپنی رائے کو نہ چھوڑا۔ پس مذکورہ بالا بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) اور دیگر صحابہ کرام کے ہاں یہ ان اشیاء میں سے تھی جن میں اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ان میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔
دلیل ثالث کا جواب : یہ کہنا کہ حضرت علی (رض) نے اپنے دور خلافت میں اس طریق کار میں کوئی تبدیلی نہیں کی جو کہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے وضع کیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی (رض) کی رائے وہی تھی جو ان دونوں حضرات کی رائے تھی۔ مگر یہ کہنا درست نہیں کیونکہ جو کچھ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے پاس تھا وہ حضرت علی (رض) کے قبضہ میں نہ تھا۔ کیونکہ جو کچھ ان کو حاصل ہوا انھوں نے اپنی رائے کے مطابق جہاں مناسب خیال کیا اس کو خرچ کیا۔ رہی یہ بات کہ پھر جب حضرت علی (رض) کی خلافت آئی تو انھوں نے طریق کار میں کوئی تبدیلی نہیں کی جو حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے وضع کیا تھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں حضرت علی (رض) کی رائے وہی تھی جو ان دو حضرات کی تھی۔ مگر یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ جو کچھ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے پاس تھا وہ حضرت علی (رض) کے قبضہ میں نہ تھا۔ کیونکہ جو کچھ ان کو حاصل ہوا وہ انھوں نے اپنی رائے و اجتہاد کے مطابق صرف کیا اور جب حضرت علی (رض) کو خلافت حاصل ہوئی تو یہ بات معلوم نہیں کہ انھوں نے کسی کو قیدی بنایا اور کسی دشمن پر کامیابی حاصل کی۔ نہ تو انھوں نے ایسی غنیمت حاصل کی جس میں خمس لازم ہوتا کیونکہ پورا دور خلافت ان کے خلاف لڑائی میں گزرا جن سے نہ قیدی بنایا جاسکتا تھا اور نہ مال غنیمت حاصل ہوسکتا تھا۔ حضرت علی (رض) کے قول کی ضرورت تو تب ہوئی۔ جب کسی کو قیدی بناتے اور ان کو مال غنیمت حاصل ہوتا اور اس پر عمل کرتے جو حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے خمس غنیمت کے سلسلہ میں کیا لیکن جب قیدی اور غلام ہی نہ تھے تو کوئی شخص اس بات کو دلیل نہیں بنا سکتا کہ پہلے سے جاری عمل میں تبدیلی ترک کی گئی۔ بلکہ اگر ان کے پاس پہلے سے بچا ہوا مال غنیمت ہوتا پھر وہ اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت والوں پر (خرچ کو) نادرست قرار دیتے تب بھی یہ فریق اوّل کی دلیل نہ بنتی اور یہ دلیل بن بھی کیسے سکتی ہے کیونکہ یہ مال تو ان کو اس وقت ملا ہے جبکہ ان سے پہلے امام کا حکم اس میں لاگو ہوچکا تو ان کو اس کے باطل کرنے کا اختیار نہ تھا۔ خواہ ان کی اپنی رائے اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ ان احکامات سے ہے جس میں علماء کی رائے مختلف ہے اور اگر بالفرض حضرت علی المرتضیٰ (رض) کی رائے قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق وہی رائے ہو جو حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی تھی۔ کچھ ایسے لوگ تھے جو قول ابن عباس (رض) کی وجہ سے (کنا نرٰی انا نحن ہم فابی ذلک علینا قومنا) ہمارا خیال تھا کہ ہم بھی قرابتدار ہیں اور حقدار ہیں مگر ہماری قوم نے اس کا انکار کردیا۔
نوٹ : جن حضرات نے قرابت داروں کے حصہ کی نفی کی ہے ان کے دلائل کے جوابات ذکر کردیئے۔ ان کا یہ خیال باطل ٹھہرا کہ وہ تمام فقراء کی طرح ہیں اور ان کا کوئی حصہ قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے آپ کی زندگی میں اور وفات کے بعد کسی طور پر واجب نہیں۔
اب پچھلے دو مذاہب میں سے ایک ثابت ہوگا پس اب ان کے قول کی طرف ہم غور کرتے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حصہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خلیفہ کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ اس کی وجہ تلاش کی جو کہ مل گئی۔
خلیفہ کے حصہ کی دلیل : مال غنیمت کے سلسلہ میں آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ منتخب شئی اور خمس کا خمس اور اس کے ساتھ ساتھ غنیمت میں سے ایک عام مسلمان کو جو حصہ ملتا تھا وہ بھی آپ کا الگ رکھا جاتا تھا۔ پھر دوبارہ غور سے معلوم ہوا کہ اس بات پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ منتخب حصہ تو آپ کے بعد کسی کو نہ ملے گا وہ خصوصیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم دوسرے خلفاء کے خلاف ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آپ کا حکم خمس الخمس میں بھی دوسرے خلفاء کے خلاف ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ آپ کا حکم غنیمت کے سلسلہ میں مختلف ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی قرابت کا حکم بھی بعد والے حکمرانوں کی قرابت سے مختلف ہے پس ایک قول ثابت ہوا۔ ثابت قول یہ ہے۔
ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا واعلموا انما غنمتم من شیء فان اللہ خمسہ وللرسول والذی القربٰی والیتامٰی والمساکین وابن السبیل “ (الانفال ٤١) پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ زندگی میں جاری رہے گا اور وفات سے منقطع ہوگیا اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی اسی طرح جاری رہے گا۔
ذوی القربیٰ کے حصہ کا مسئلہ :
فریق اوّل : ذوی القربیٰ کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی اسی طرح قائم رہے گا جس طرح آپ کی حیات مبارکہ میں تھا۔
فریق ثانی : ذوی القربیٰ کا حصہ آپ کی وفات سے منقطع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے تمام قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کلمہ میں اکٹھا ذکر کردیا اور وہ ” ولذی القربٰی “ (الحشر ٧) ان میں سے کسی کو چھوڑ کر دوسرے کو مخصوص نہیں فرمایا۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تقسیم فرمائی اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کو خاص کر کے عنایت فرمایا۔ دوسرے دونوں بنی امیہ ‘ بنی نوفلکو محروم رکھا حالانکہ وہ گنے چنے افراد تھے اور جن کو دیا ان کو بلاتفریق مالدار اور محتاج ہر ایک کو دیا اور جن کو محروم کیا ان کے فقراء کو بھی نہیں دیا۔
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلہ میں اختیار تھا کہ اس کو اپنے قرابت والوں میں سے جس کے لیے چاہیں مقرر فرما دیں۔ اس سے اس کا حکم بھی اس حصے کی طرح بن گیا جس کو آپ مال غنیمت میں سے اپنے لیے منتخب فرماتے تھے۔ پس جس طرح وہ ذات مبارکہ سے مخصوص حصہ وفات سے منقطع ہوگیا۔ بعد والے خلیفہ کو درست نہیں۔ یہ حصہ ذوی القربیٰ جس کو دینے میں آپ کو مکمل اختیار تھا۔ وہ بھی آپ کی وفات کے بعد اور کسی کو دینا ضروری نہ ہوگا۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
حاصل کلام : اس باب میں تین فریق کا ذکر کیا فریق ثانی کے قول کو ثابت کیا اور فریق اوّل اور ثالث کے مؤقف کی تفصیل سے جوابات دے کر تردید فرمائی۔ حاصل یہی ہے کہ ذوالقربیٰ کا حصہ وفات شریف سے ختم ہوگیا۔ اب اگر کسی کو دیا جائے گا تو فقراء و مساکین ‘ ابن سبیل کی حیثیت سے دیا جائے گا۔

5098

۵۰۹۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ فِیْ بَدْأَتِہِ الرُّبُعَ ، وَفِیْ رَجْعَتِہِ الثُّلُثَ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْاِمَامَ لَہٗ أَنْ یُنَفِّلَ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ مَا أَحَبَّ ، بَعْدَ اِحْرَازِہِ اِیَّاہَا ، قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَہَا کَمَا کَانَ لَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَیْسَ لِلْاِمَامِ أَنْ یُنَفِّلَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ اِلَّا مِنَ الْخُمُسِ ، فَأَمَّا مِنْ غَیْرِ الْخُمُسِ فَلَا ، لِأَنَّ ذٰلِکَ قَدْ مَلَکَتْہُ الْمُقَاتِلَۃُ ، فَلَا سَبِیْلَ لِلْاِمَامِ عَلَیْہِ وَقَالُوْا : قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُنَفِّلُہُ فِی الرَّجْعَۃِ ، ہُوَ ثُلُثُ الْخُمُسِ بَعْدَ الرُّبُعِ الَّذِیْ نَفَّلَہٗ، کَانَ فِی الْبَدْأَۃِ ، فَلَا یَخْرُجُ مِمَّا قُلْنَا فَقَالَ لَہُمُ الْآخَرُوْنَ : اِنَّ الْحَدِیْثَ اِنَّمَا جَائَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُنَفِّلُ فِی الْبَدْأَۃِ الرُّبُعَ ، وَفِی الرَّجْعَۃِ الثُّلُثَ ، وَکَمَا کَانَ الرُّبُعُ الَّذِیْ کَانَ یُنَفِّلُہُ فِی الْبَدْأَۃِ ، ہُوَ الرُّبُعَ قَبْلَ الْخُمُسِ ، فَکَذٰلِکَ الثُّلُثُ الَّذِیْ کَانَ یُنَفِّلُہُ فِی الرَّجْعَۃِ ، ہُوَ الثُّلُثُ أَیْضًا قَبْلَ الْخُمُسِ ، وَاِلَّا لَمْ یَکُنْ لِذِکْرِ الثُّلُثِ مَعْنًی .قِیْلَ لَہُمْ : بَلْ لَہُ مَعْنًی صَحِیْحٌ ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْمَذْکُوْرَ مِنْ نَفْلِہِ فِی الْبَدْأَۃِ ہُوَ الرُّبُعُ ، مِمَّا یَجُوْزُ لَہُ النَّفَلُ مِنْہٗ، فَکَذٰلِکَ نَفْلُہُ فِی الرَّجْعَۃِ ہُوَ الثُّلُثُ ، مِمَّا یَجُوْزُ لَہُ النَّفَلُ مِنْہُ وَہُوَ الْخُمُسُ .وَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : فَقَدْ رُوِیَ حَدِیْثُ حَبِیْبٍ ہٰذَا، بِلَفْظٍ یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْنَا ۔
٥٠٩٧: زیاد بن جاریہ نے حبیب بن مسلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع میں چوتھا حصہ اور واپسی پر تیسرا حصہ لیتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ امام کو مال غنیمت جمع کرنے کے بعد اور تقسیم سے پہلے جس قدر چاہے لینے کا حق ہے جس طرح کہ اس سے پہلے لینے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا امام کو مال غنیمت جمع کرنے کے بعد اس میں سے صرف پانچواں حصہ لینے کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ وہ نہیں لے سکتا کیونکہ یہ مال مجاہدین کی ملکیت ہے۔ فلہذا امام کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ فریق اوّل کے استدلال کا جواب یہ ہے کہ کہا جائے گا کہ مذکورہ روایت میں جو مذکور ہے اس میں احتمال یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو واپسی پر لیتے تھے وہ پانچویں حصہ کا تہائی ہو اور شروع میں چوتھائی حصہ لیتے ہوں اور یہ بھی ہمارے اس قول میں داخل ہے ‘ ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث میں تو واضح طور پر تیسرا حصہ واپسی پر اور چوتھا حصہ شروع میں لینے کا ذکر وارد ہے اور ابتداء میں آپ جو لیتے تھے وہ چوتھا حصہ ہوتا اور وہ خمس سے پہلے ہوتا اسی طرح واپسی پر تیسرا حصہ لیتے وہ خمس سے پہلے ہوتا۔ ورنہ تہائی کے ذکر کا کوئی مفہوم نہیں۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ اس روایت کا یہ مفہوم نہیں بلکہ اس کا درست مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جس چوتھے کا ذکر ہے جو اس مال میں سے تھا جس کو آپ کے لیے لینا جائز تھا اور وہ خمس تھا اور اسی طرح تیسرے سے بھی اسی مال کا ثلث مراد جس کا لینا آپ کے لیے درست تھا اور وہ خمس تھا۔ آپ کی یہ تاویل تو تب چل سکتی ہے جبکہ یہ روایت انہی الفاظ سے ہو جو اوپر مذکور ہوئی۔ حبیب بن مسلمہ (رض) کی یہ روایت ان الفاظ سے بھی مذکور ہے جو ہمارے استدلال کی مؤید ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٦‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٥‘ مسند احمد ٤؍١٦٠‘ ٥؍٣٢٠۔
امام طحاوی (رح) کا قول : علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ امام کو مال غنیمت جمع کرنے کے بعد اور تقسیم سے پہلے جس قدر چاہے لینے کا حق ہے جس طرح کہ اس سے پہلے لینے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : امام کو مال غنیمت جمع کرنے کے بعد اس میں سے صرف پانچواں حصہ لینے کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ وہ نہیں لے سکتا کیونکہ یہ مال مجاہدین کی ملکیت ہے۔ فلہذا امام کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
فریق اوّل کے استدلال کا جواب : مذکورہ روایت میں جو مذکور ہے اس میں احتمال یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو واپسی پر لیتے تھے وہ پانچویں حصہ کا تہائی ہو اور شروع میں چوتھائی حصہ لیتے ہوں اور یہ بھی ہمارے اس قول میں داخل ہے۔
فریق اوّل کی طرف سے جواب الجواب : حدیث میں تو واضح طور پر تیسرا حصہ واپسی پر اور چوتھا حصہ شروع میں لینے کا ذکر وارد ہے اور ابتداء میں آپ جو لیتے تھے وہ چوتھا حصہ ہوتا اور وہ خمس سے پہلے ہوتا اسی طرح واپسی پر تیسرا حصہ لیتے وہ خمس سے پہلے ہوتا۔ ورنہ تہائی کے ذکر کا کوئی مفہوم نہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے جواب : اس روایت کا یہ مفہوم نہیں بلکہ اس کا درست مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جس چوتھے کا ذکر ہے جو اس مال میں سے تھا جس کو آپ کے لیے لینا جائز تھا اور وہ خمس تھا اور اسی طرح تیسرے سے بھی اسی مال کا ثلث مراد جس کا لینا آپ کے لیے درست تھا اور وہ خمس تھا۔
فریق اوّل کا جواب درجواب : آپ کی یہ تاویل تو تب چل سکتی جبکہ یہ عوایت انہی الفاظ سے ہو اور جو اوپر مذکور ہو۔ حبیب بن مسلمہ (رض) کی یہ روایت ان الفاظ سے بھی مذکور ہے جو ہمارے استدلال کی مؤید ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5099

۵۰۹۸ : فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُنَفِّلُ فِی الْبَدْأَۃِ الرُّبُعَ ، وَفِی الرَّجْعَۃِ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ .
٥٠٩٨: زیاد بن جاریہ نے حبیب بن مسلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع میں چوتھا حصہ لیتے اور واپسی پر خمس کے بعد ثلث لیتے تھے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٥‘ ترمذی السیر باب ١٢‘ مسند احمد ٥؍٣٢٠۔

5100

۵۰۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ سُفْیَانَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ .
٥٠٩٩: زیاد بن جاریہ نے حبیب بن مسلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس کے بعد ثلث لیا۔
تخریج : ترمذی فی السیر باب ١٢‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٥‘ دارمی فی السیر باب ٤٣‘ مسند احمد ٤‘ ١٥٩؍١٦٠۔

5101

۵۱۰۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُنَفِّلُ فِی الْغَزْوِ الرُّبُعَ بَعْدَ الْخُمُسِ ، وَیُنَفِّلُ اِذَا قَفَلَ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ قَالُوْا : فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ ذٰلِکَ الثُّلُثَ الَّذِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُنَفِّلُ فِی الرَّجْعَۃِ ، ہُوَ الثُّلُثُ بَعْدَ الْخُمُسِ .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ یَحْتَمِلُ ہٰذَا أَیْضًا مَا ذَکَرْنَا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا
٥١٠٠: زیاد بن جاریہ نے حبیب بن مسلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ غزوہ میں خمس کے بعد چوتھائی اور لوٹتے وقت خمس کے بعد ثلث لیتے تھے۔ ان روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس کے بعد ثلث ربع لیتے تھے۔ اس روایت میں اس بات کا بھی احتمال ہے جو ہم نے ذکر کی اور دلیل یہ روایت ہے جس کو عبادہ بن صامت (رض) نے روایت کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٦۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس کے بعد ثلث وربع لیتے تھے۔
فریق ثانی کی طرف سے جواب : اس روایت میں اس بات کا بھی احتمال ہے جو ہم نے ذکر کی اور دلیل یہ روایت ہے جس کو عبادہ بن صامت (رض) نے روایت کیا ہے۔

5102

۵۱۰۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَّامٍ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُنَفِّلُہُمْ اِذَا خَرَجُوْا بَادِیْنِ الرُّبُعَ ، وَیُنَفِّلُہُمْ اِذَا قَفَلُوْا الثُّلُثَ قِیْلَ لَہُمْ : وَہٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا قَدْ یَحْتَمِلُ مَا احْتَمَلَہُ حَدِیْثُ حَبِیْبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ الَّذِی أَرْسَلَہٗ أَکْثَرُ النَّاسِ عَنْ مَکْحُوْلٍ ، أَنَّہٗ کَانَ یُنَفِّلُ فِی الْبَدْأَۃِ الرُّبُعَ، وَفِی الرَّجْعَۃِ الثُّلُثَ وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ عُبَادَۃُ عَنِیَ بِقَوْلِہٖ وَیُنَفِّلُہُمْ اِذَا قَفَلُوْا الثُّلُثَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ عَلَی قُفُوْلٍ مِنْ قِتَالٍ اِلَی قِتَالٍ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَکَانَ الثُّلُثُ الْمُنَفَّلُ ، ہُوَ الثُّلُثَ قَبْلَ الْخُمُسِ ، فَذٰلِکَ جَائِزٌ - عِنْدَنَا - أَیْضًا ، لِأَنَّہٗ یُرْجَی بِذٰلِکَ صَلَاحُ الْقَوْمِ ، وَتَحْرِیْضُہُمْ عَلَی قِتَالِ عَدُوِّہِمْ فَأَمَّا اِذَا کَانَ الْقِتَالُ قَدْ ارْتَفَعَ ، فَلَا یَجُوْزُ النَّفَلُ ، لِأَنَّہٗ لَا مَنْفَعَۃَ لِلْمُسْلِمِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا ،
٥١٠١: ابو سلام نے ابو امامہ باہلی سے انھوں نے عبادہ بن صامت (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں چوتھا حصہ عنایت فرماتے جب ابتداء میں نکلتے اور جب ہم واپس لوٹتے تو تیسرا حصہ عنایت فرماتے۔ اس روایت میں وہی احتمال ہے جو حبیب بن مسلمہ (رض) کی روایت میں مذکور ہے کہ آپ ابتداء میں چوتھا حصہ لیتے اور واپسی تیسرا حصہ لیتے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عبادہ (رض) اپنے قول ” وینفلہم اذا قفلوا الثلث “ سے ایک لڑائی سے دوسری لڑائی میں جانا اور لوٹنا مراد لیا ہو۔ اگر یہ بات اسی طرح ہو اور غنیمت کا تیسرا حصہ دیا گیا ہو تو اس سے وہ ثلث مراد ہے جو خمس سے پہلے ہو اور ہمارے ہاں بھی یہ بات جائز ہے۔ کیونکہ اس سے لوگوں کی بہتر کارکردگی کی امید ہوسکتی ہے اور دشمنوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جب لڑائی ختم ہوگئی ہو تو اس وقت مال غنیمت سے حصہ دینا درست نہیں کیونکہ اس میں مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ فریق اوّل کی ایک اور دلیل یہ روایت ہے۔
الجواب نمبر 1: اس روایت میں وہی احتمال ہے جو حبیب بن مسلمہ (رض) کی روایت میں مذکور ہے کہ آپ ابتداء میں چوتھا حصہ لیتے اور واپسی تیسرا حصہ لیتے تھے۔
جواب نمبر 2: اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عبادہ (رض) اپنے قول ” وینفلہم اذا قفلوا الثلث “ سے ایک لڑائی سے دوسری لڑائی میں جانا اور لوٹنا مراد لیا ہو۔ اگر یہ بات اسی طرح ہو اور غنیمت کا تیسرا حصہ دیا گیا ہو تو اس سے وہ ثلث مراد ہے جو خمس سے پہلے ہو اور ہمارے ہاں بھی یہ بات جائز ہے۔ کیونکہ اس سے لوگوں کی بہتر کارکردگی کی امید ہوسکتی ہے اور دشمنوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جب لڑائی ختم ہوگئی ہو تو اس وقت مال غنیمت سے حصہ دینا درست نہیں کیونکہ اس میں مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں۔

5103

۵۱۰۲ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ الْحَنَفِیُّ ، قَالَا: ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ اِیَاسِ بْنِ سَلْمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ لَمَّا قَرُبْنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ أَمَرَنَا أَبُوْبَکْرٍ فَشَنَنَّا الْغَارَۃَ عَلَیْہِمْ ، فَنَفَّلَنِیْ أَبُوْبَکْرٍ امْرَأَۃً مِنْ فَزَارَۃَ أَتَیْتُ بِہَا مِنَ الْغَارَۃِ فَقَدِمْتُ بِہَا الْمَدِیْنَۃَ ، فَاسْتَوْہَبَہَا مِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَوَہَبْتُہَا لَہٗ، فَفَادَی بِہَا أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ نَفَّلَ سَلْمَۃَ قَبْلَ انْقِطَاعِ الْحَرْبِ أَوْ بَعْدَ انْقِطَاعِہَا ، فَلَا حُجَّۃَ فِیْ ذٰلِکَ وَاحْتَجُّوْا لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا
٥١٠٢: ایاس بن سلمہ بن اکوع نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جب ہم مشرکین کے قریب ہوئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ہمیں حکم فرمایا ہم نے ان پر اچانک حملہ کردیا۔ اس پر حضرت ابوبکر (رض) نے مجھے بنو فزارہ کی ایک عورت بطور غنیمت عنایت فرمائی جس کو میں لوٹ مار میں سے لایا تھا۔ جب میں اس کو مدینہ طیبہ لایا تو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ہبہ کرنے کے لیے فرمایا میں نے وہ آپ کو ہبہ کردی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کئی مسلمانوں کے بدلے میں بطور فدیہ (اس کی قوم کو) دیا۔ اس روایت میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے مال غنیمت کا حصہ لڑائی کے انقطاع سے پہلے عنایت فرمایا یا انقطاع کے بعد دیا پس اس میں فریق اوّل کی کوئی دلیل نہیں۔ فریق اوّل کا ایک اور روایت سے استدلال : وہ روایت ابن عمر (رض) ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٤٧۔

5104

۵۱۰۳ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِیَّۃً فِیْہَا ابْنُ عُمَرَ ، فَغَنِمُوْا غَنَائِمَ کَثِیْرَۃً ، فَکَانَتْ غَنَائِمُہُمْ لِکُلِّ اِنْسَانٍ ، اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیْرًا ، وَنَفَّلَ کُلَّ اِنْسَانٍ مِنْہُمْ بَعِیْرًا بَعِیْرًا ، سِوٰی ذٰلِکَ قَالُوْا : فَہٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ أَنَّہُمْ قَدْ نُفِّلُوْا بَعْدَ سِہَامِہِمْ ، بَعِیْرًا بَعِیْرًا ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قِیْلَ لَہُمْ : مَا لَکُمْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ حُجَّۃٍ ، وَلَہُوَ اِلَی الْحُجَّۃِ عَلَیْکُمْ أَقْرَبُ مِنْہُ اِلَی الْحُجَّۃِ لَکُمْ لِأَنَّہٗ فِیْہِ، فَبَلَغَتْ سُہْمَانُہُمْ اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیْرًا ، وَنُفِّلُوْا بَعِیْرًا بَعِیْرًا .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ مَا نُفِّلُوْا مِنْہُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَانَ مِنْ غَیْرِ مَا کَانَتْ فِیْہِ سُہْمَانُہُمْ وَہُوَ الْخُمُسُ ، فَلَا حُجَّۃَ لَکُمْ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ فِی النَّفْلِ مِنْ غَیْرِ الْخُمُسِ فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ مِنَ الْآثَارِ ، مَا یَجِبُ بِہٖ مَا قَالُوْا ، أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرَی لِقَوْلِہِمْ مِنَ الْآثَارِ أَیْضًا ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٥١٠٣: عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چھوٹا لشکر روانہ فرمایا جس میں ابن عمر (رض) بھی تھے انھیں بہت سا مال غنیمت ملا چنانچہ ہر شریک لشکر کو بارہ بارہ اونٹ ملے۔ اس کے علاوہ بھی ان کو ایک ایک اونٹ ملا۔ یہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنے حصہ سے ایک ایک زائد حاصل کیا اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ یہ روایت تو آپ کے حق میں کیا ہوتی آپ کے خلاف ہے کیونکہ اس روایت میں ہے کہ بارہ بارہ اونٹ بطور غنیمت ملے اور پھر ایک ایک اونٹ بطور غنیمت زائد ملا۔ اس سے تو یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ انھوں نے جو کچھ حاصل کیا وہ ان کے حصہ میں خمس کے علاوہ آیا اور اس بات کی تو کوئی دلیل نہیں کہ وہ زائد مال بغیر خمس کے لیا گیا تھا۔ فریق اوّل نے اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے جو روایات پیش کی تھیں جب ان کے حق میں کوئی دلیل بھی ثابت نہ ہوسکی نہ مؤقف ثابت ہوا۔ فریق ثانی کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ فریق ثانی کی دلیل اوّل روایت عبادہ بن صامت (رض) ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٣٧‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٥‘ مسند احمد ٢‘ ١٠؍٥٥‘ ٨٠؍١٥١۔

5105

۵۱۰۴ : فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی ، عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَّامٍ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ یَوْمَ حُنَیْنٍ وَبَرَۃً مِنْ جَنْبِ بَعِیْرٍ ، ثُمَّ قَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَنَّہٗ لَا یَحِلُّ لِیْ مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ اِلَّا الْخُمُسُ ، وَالْخُمُسُ مَرْدُوْدٌ فِیْکُمْ ، فَأَدُّوا الْخَیْطَ وَالْمَخِیْطَ قَالَ : وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ الْأَنْفَالَ ، وَقَالَ لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی ضَعِیْفِہِمْ أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَحِلُّ لِیْ مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ اِلَّا الْخُمُسُ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا سِوَی الْخُمُسِ مِنَ الْغَنَائِمِ لِلْمُقَاتِلَۃِ ، لَا حُکْمَ لِلْاِمَامِ فِیْ ذٰلِکَ ثُمَّ کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَنْفَالَ وَقَالَ لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُسْلِمِیْنَ عَلَی ضَعِیْفِہِمْ أَیْ لَا یُفَضَّلُ أَحَدٌ مِنْ أَقْوِیَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ لِقُوَّتِہِ عَلَی ضَعِیْفِہِمْ لِضَعْفِہٖ، وَیَسْتَوُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ وَاسْتَحَالَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ مِنَ الْأَنْفَالِ مَا کَانَ یَکْرَہٗ، فَکَانَ النَّفَلُ الَّذِیْ لَیْسَ بِمَکْرُوْہٍ ہُوَ النَّفَلُ فِی الْخُمُسِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَہٗ، مِمَّا رَوَاہُ عُبَادَۃُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہُوَ مِنَ الْخُمُسِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلَیْ صِحَّۃِ ہٰذَا الْمَذْہَبِ
٥١٠٤: حضرت ابو امامہ باہلی (رض) نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے دن ایک اونٹ کی اون میں سے ایک بال لے کر فرمایا۔ اے لوگو ! شان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مال غنیمت دیا ہے اس میں سے میرے لیے صرف خمس (پانچواں حصہ) حلال ہے اس کے علاوہ کوئی چیز حلال نہیں اور خمس بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے۔ پس تم دھاگے اور سوئی تک ادا کر دو ۔ عبادہ (رض) کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غنیمت کو (اپنے لئے) ناپسند فرماتے تھے۔ اس لیے فرمایا کہ طاقت ور مؤمنوں کو ضعیفوں پر لوٹا دینا چاہیے۔ اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مال غنیمت اللہ تعالیٰ نے تمہیں عنایت فرمایا اس میں سے صرف خمس میرے لیے حلال ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ غنیمت میں خمس کے علاوہ بقیہ مجاہدین کے لیے ہے۔ اس میں امام کا حکم جاری نہ ہوگا۔ نیز اس میں یہ بھی موجود ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت لینا ناپسند فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ مالدار مسلمان کمزوروں کی طرف لوٹا دیں مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو مال غنیمت عنایت کیا گیا ہے۔ اس میں طاقت والوں کو طاقت کی وجہ سے کمزوروں پر ان کی کمزوری کی وجہ سے کوئی برتری حاصل نہیں بلکہ سب برابر ہیں اور یہ بات کسی طرح بھی قابل تسلیم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت کو ناپسند جاننے کے باوجود اس میں لے لیتے ہوں۔ پس آپ اسی مال سے لیتے تھے جو آپ کے لیے لینا مکروہ نہ تھا اور وہ مال غنیمت میں سے خمس تھا۔ اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ اس روایت میں حضرت عبادہ (رض) نے جس زائد مال غنیمت کا ذکر کیا ہے وہ خمس میں سے ہے نہ کہ اس کے علاوہ۔ فریق ثانی کے قول کی صحت کے لیے یہ روایت ابو عوانہ کافی ثبوت ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجہاد باب ٣٥‘ دارمی فی السیر باب ٤٤‘ مسند احمد ٥؍٣٢٤‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٩‘ نسائی فی الفی باب ٦‘ مالک فی الجہاد ٢٢‘ مسند احمد ٥؍٣٣٠۔

5106

۵۱۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِی الْجُوَیْرِیَۃِ ، عَنْ مَعْنِ بْنِ یَزِیْدَ السُّلَمِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا نَفْلَ اِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ وَمَعْنَی قَوْلِہٖ اِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ، أَیْ حَتَّی یُقْسَمَ الْخُمُسُ ، وَاِذَا قُسِمَ الْخُمُسُ انْفَرَدَ حَقُّ الْمُقَاتِلَۃِ ، وَہُوَ أَرْبَعَۃُ أَخْمَاسٍ فَکَانَ ذٰلِکَ النَّفَلُ الَّذِیْ یُنَفِّلُہُ الْاِمَامُ مِنْ بَعْدِ أَنْ آثَرَ بِہٖ ، أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ مِنَ الْخُمُسِ ، لَا مِنَ الْأَرْبَعَۃِ الْأَخْمَاسِ الَّتِیْ ہِیَ حَقُّ الْمُقَاتِلَۃِ وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا
٥١٠٥: ابو جویریہ نے معن بن یزید سلمی (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا۔ زائد مال خمس کے بعد ہی ہوتا ہے۔ بعدالخمس کا ہمارے نزدیک معنی یہ ہے۔ خمس کو الگ کرلینے کے بعد جب وہ الگ ہوگیا تو بقیہ چار حصے مقاتلین کے رہ گئے وہ زائد اسی خمس میں سے منتخب کرسکتا ہے مقاتلین کے چار حصوں سے نہیں لے سکتا۔ جو کہ مجاہدین کا حق ہے اور ہماری اس بات پر حضرت انس (رض) کی روایت دلالت کر رہی ہے۔ (روایت یہ ہے)
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٨‘ مسند احمد ٣؍٤٧٠۔
نوٹ : بعدالخمس کا ہمارے نزدیک معنی یہ ہے کہ خمس کو الگ کرلینے کے بعد جب وہ الگ ہوگیا تو بقیہ چار حصے مقاتلین کے رہ گئے وہ زائد اسی خمس میں سے منتخب کرسکتا ہے مقاتلین کے چار حصوں سے نہیں لے سکتا۔ جو کہ مجاہدین کا حق ہے اور ہماری اس بات پر حضرت انس (رض) کی روایت دلالت کر رہی ہے۔ (روایت یہ ہے)

5107

۵۱۰۶ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، کَانَ مَعَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرَۃَ فِیْ غَزَاۃٍ غَزَاہَا ، فَأَصَابُوْا سَبْیًا ، فَأَرَادَ عُبَیْدُ اللّٰہِ أَنْ یُعْطِیَ أَنَسًا مِنَ السَّبْیِ قَبْلَ أَنْ یَقْسِمَ .فَقَالَ أَنَسٌ : لَا ، وَلٰـکِنَ اقْسِمْ ثُمَّ اعْطِنِیْ مِنَ الْخُمُسِ قَالَ : فَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ لَا ، اِلَّا مِنْ جَمِیْعِ الْغَنَائِمِ فَأَبَی أَنَسٌ أَنْ یَقْبَلَ مِنْہُ، وَأَبٰی عُبَیْدُ اللّٰہِ أَنْ یُعْطِیَہٗ مِنَ الْخُمُسِ شَیْئًا۔
٥١٠٦: ابن سیرین روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) ایک لڑائی میں حضرت عبیداللہ بن ابی بکرہ (رض) کے ساتھ تھے۔ ان کو کچھ قیدی ملے۔ حضرت عبیداللہ (رض) نے ارادہ کیا کہ تقسیم سے پہلے ان میں سے کچھ حضرت انس (رض) کو دیں تو حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ تم پہلے تقسیم کرو پھر مجھے دو ۔ راوی فرماتے ہیں حضرت عبیداللہ نے فرمایا نہیں میں تو پورے مال غنیمت میں سے دوں گا۔ لیکن حضرت انس (رض) نے لینے سے انکار کردیا اور حضرت عبیداللہ نے خمس میں سے کچھ دینے سے انکار کردیا۔

5108

۵۱۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ کَہْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَہُ فَہٰذَا أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، لَمْ یَقْبَلْ النَّفَلَ اِلَّا مِنَ الْخُمُسِ ، وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ عَمْرٍو
٥١٠٧: محمد بن سیرین نے حضرت انس (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ یہ حضرت انس (رض) ہیں نے خمس کے علاوہ لینے سے انکار کردیا اور جبلہ بن عمرو (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت موجود ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
یہ حضرت انس (رض) ہیں جنہوں نے خمس کے علاوہ لینے سے انکار کردیا اور جبلہ بن عمرو (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت موجود ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5109

۵۱۰۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہُمْ کَانُوْا مَعَ مُعَاوِیَۃَ بْنِ خَدِیْجٍ فِیْ غَزْوَۃِ الْمَغْرِبِ ، فَنَفَّلَ النَّاسَ ، وَمَعَنَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ یَرُدُّوْا ذٰلِکَ غَیْرَ جَبَلَۃَ بْنِ عَمْرٍو .
٥١٠٨: بکیر بن اشجع نے سلیمان بن یسار سے روایت نقل کی ہے کہ ہم حضرت معاویہ بن خدیج (رض) کے ساتھ غزوہ مغرب میں تھے۔ انھوں نے لوگوں کو مال غنیمت دیا ہمارے ساتھ کچھ صحابہ کرام (رض) بھی تھے تو حضرت جبلہ بن عمرو (رض) کے علاوہ کسی نے اس کو واپس نہ کیا۔

5110

۵۱۰۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ ، عَنِ النَّفْلِ فِی الْغَزْوِ فَقَالَ : لَمْ أَرَ أَحَدًا صَنَعَہُ غَیْرَ ابْنِ خَدِیْجٍ ، نَفَّلَنَا بِاِفْرِیْقِیَّۃَ النِّصْفَ بَعْدَ الْخُمُسِ ، وَمَعَنَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ الْأَوَّلِیْنَ أُنَاسٌ کَثِیْرٌ ، فَأَبَیْ جَبَلَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا شَیْئًا فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِوَیْ جَبَلَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، قَدْ قَبِلُوْا قِیْلَ لَہٗ : قَدْ صَدَقْتُ ، وَنَحْنُ فَلَمْ نُنْکِرْ أَنَّ النَّاسَ قَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ ، فَمِنْہُمْ مَنْ أَجَازَ لِلْاِمَامِ النَّفَلَ قَبْلَ الْخُمُسِ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ یُجِزْہُ وَأَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانُوْا فِیْ ذٰلِکَ مُخْتَلِفِیْنَ وَاِنَّمَا أَرَدْنَا بِمَا رَوَیْنَا عَنْ أَنَسٍ وَجَبَلَۃَ ، أَنَّہُمَا یُخَیَّرَانِ قَوْلَنَا ہَذَا مَعَ مَنْ قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ فِیْ ہٰذَا۔
٥١٠٩: خالد بن ابی عمران سے روایت ہے۔ کہ میں نے سلیمان بن یسار سے جہاد میں نفل (زائد مال) دینے سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا میں نے حضرت معاویہ بن خدیج (رض) کے علاوہ کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا انھوں نے ہمیں افریقہ میں خمس کے بعد آدھا مال دیا اور ہمارے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے اولین مہاجرین صحابہ کرام (رض) تھے۔ حضرت جبلہ بن عمرو (رض) نے صرف اس میں سے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حضرت عمرو (رض) کے علاوہ اس کو بقیہ صحابہ کرام (رض) نے کیوں کر قبول کرلیا۔ ان کو جواب میں کہے کہ تم نے درست کہا ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اس میں صحابہ کرام (رض) کا اختلاف تھا بعض نے خمس نکالنے سے پہلے کسی کو عطا کرنا امام کے لیے جائز قرار دیا اور بعض کے ہاں یہ درست نہیں۔ اس سلسلہ میں یقیناً اختلاف رائے صحابہ کرام کے مابین موجود ہے۔ یہاں تو صرف ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ جن اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہم نے تذکرہ کیا ان کے ساتھ ساتھ حضرت انس ‘ جبلہ بن عمرو (رض) کی روایات ہمارے اس مؤقف کی حامی ہیں۔
ایک اعتراض :
حضرت جبلہ بن عمرو (رض) کے علاوہ اس کو بقیہ صحابہ کرام (رض) نے کیوں کر قبول کرلیا۔
جواب : تم نے درست کہا ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اس میں صحابہ کرام (رض) کا اختلاف تھا بعض نے خمس نکالنے سے پہلے کسی کو عطا کرنا امام کے لیے جائز قرار دیا اور بعض کے ہاں یہ درست نہیں۔ اس سلسلہ میں یقیناً اختلاف رائے صحابہ کرام کے مابین موجود ہے۔ یہاں تو صرف ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ جن اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہم نے تذکرہ کیا ان کے ساتھ ساتھ حضرت انس ‘ جبلہ بن عمرو (رض) کی روایات ہمارے اس مؤقف کی حامی ہیں۔

5111

۵۱۱۰ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِہِ یُقَالُ لَہُ بِشْرُ بْنُ عَلْقَمَۃَ قَالَ : بَارَزْتُ رَجُلًا یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ فَقَتَلْتُہٗ ، فَبَلَغَ سَلَبُہُ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، فَنَفَّلَنِیْہِ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ سَعْدٌ نَفَّلَہُ ذٰلِکَ ، وَالْقِتَالُ لَمْ یَرْتَفِعْ ، فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، فَہٰذَا قَوْلُنَا أَیْضًا وَاِنْ کَانَ اِنَّمَا نَفَّلَہُ بَعْدَ ارْتِفَاعِ الْقِتَالِ ، فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ جَعَلَ ذٰلِکَ مِنَ الْخُمُسِ فَاِنْ کَانَ جَعَلَہٗ مِنْ غَیْرِ الْخُمُسِ ، فَہٰذَا فِیْہِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ الِاخْتِلَافِ ، فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ حُجَّۃٌ ، اِذْ کَانَ قَدْ یُحْتَمَلُ مَا قَدْ صَرَفَہُ اِلَیْہِ مُخَالِفُہُ وَوَجَبَ بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ یُکْشَفَ وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ ، لِنَعْلَمَ کَیْفَ حُکْمُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَکَانَ الْأَصْلُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ الْاِمَامَ اِذَا قَالَ فِیْ حَالِ الْقِتَالِ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ أَنَّ ذٰلِکَ جَائِزٌ وَلَوْ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ کَذَا وَکَذَا دِرْہَمًا کَانَ ذٰلِکَ جَائِزًا أَیْضًا وَلَوْ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا ، فَلَہُ عُشْرُ مَا أَصَبْنَا لَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ ہَذَا لَوْ جَازَ ، جَازَ أَنْ تَکُوْنَ الْغَنِیْمَۃُ کُلُّہَا لِلْمُقَاتِلِیْنَ ، فَیَبْطُلُ حَقُّ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْہَا مِنَ الْخُمُسِ فَکَانَ النَّفَلُ لَا یَکُوْنُ قَبْلَ الْقِتَالِ ، اِلَّا فِیْمَا أَصَابَہُ الْمُنَفَّلُ بِسَیْفِہٖ، وَلَا یَجُوْزُ فِیْمَا أَصَابَ غَیْرُہُ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ فِیْمَا حُکْمُہٗ حُکْمُ الْاِجَارَۃِ فَیَجُوْزُ ذٰلِکَ ، کَمَا تَجُوْزُ الْاِجَارَۃُ کَقَوْلِہٖ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ عَشَرَۃُ دَرَاہِمَ فَذٰلِکَ جَائِزٌ فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، وَلَمْ یَجُزْ النَّفَلُ اِلَّا فِیْمَا أَصَابَہُ الْمُنَفَّلُ بِسَیْفِہٖ، أَوْ فِیْمَا جُعِلَ لَہُ لِعَمَلِہٖ ، وَلَمْ یَحُزْ أَنَّ یُنَفَّلَ مِمَّا أَصَابَہُ غَیْرُہٗ، کَانَ النَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ أَحْرَی أَنْ لَا یَجُوْزَ أَنْ یُنَفَّلَ مِمَّا أَصَابَ غَیْرُہُ فَفَسَدَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ أَجَازَ النَّفَلَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ ، وَرَجَعْنَا اِلَی حُکْمِ مَا أَصَابَہُ ہُوَ ، فَکَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یُنَفِّلَہُ الْاِمَامُ اِیَّاہٗ، قَدْ وَجَبَ حَقُّ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْ خُمُسِہٖ، وَحَقُّ الْمُقَاتِلَۃِ فِیْ أَرْبَعَۃِ أَخْمَاسِہِ فَلَوْ أَجَزْنَا النَّفَلَ اِذًا لَکَانَ حَقُّہُمْ قَدْ بَطَلَ بَعْدَ وُجُوْبِہٖ ، وَاِنَّمَا یَجُوْزُ النَّفَلُ فِیْمَا یَدْخُلُ فِیْ مِلْکِ الْمُنَفِّلِ ، مِنْ مِلْکِ الْعَدُوِّ وَأَمَّا مَا قَدْ زَالَ عَنْ مِلْکِ الْعَدُوِّ قَبْلَ ذٰلِکَ ، وَصَارَ فِیْ مِلْکِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَلَا نَفْلَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنْ لَا نَفْلَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ عَلٰی مَا قَدْ فَصَّلْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، وَبَیَّنَّا وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥١١٠: اسود بن قیس نے اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کیا جس کو بشر بن علقمہ کہا جاتا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں نے قادسیہ کے دن ایک آدمی سے مقابلہ کر کے اس کو قتل کردیا تو اس کا سامان بارہ ہزار کی قیمت کو پہنچا۔ تو حضرت سعد (رض) نے وہ مجھے زائد عنایت فرمایا۔ یہ عین ممکن ہے کہ حضرت سعد (رض) نے لڑائی ختم ہونے سے پہلے ان کو دیا ہو۔ اگر یہ اسی طرح ہو تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں اور اگر لڑائی کے بعد ہے تو پھر یہ احتمال ہے کہ یہ خمس میں سے دیا ہو اور بالفرض اگر انھوں نے خمس کے علاوہ مال سے دیا ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ اسی اختلاف کا ہم پہلے ذکر کر آئے۔ اس صورت میں یہ روایت کسی فریق کی دلیل نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ہر دو احتمالات کی طرف پھیرا جاسکتا ہے۔ اب ضروری ہوا کہ نظر و فکر سے غور کر کے مسئلہ کی اختلافی باڑ سے نکلیں۔ تاکہ نظر سے اس کا حکم معلوم ہو سکے۔ نظر کی راہ سے اس باب کا حکم معلوم کرنا ضروری ہوگیا۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ سپہ سالار اگر اعلان کر دے کہ جو شخص کسی (کافر) کو قتل کرے تو اسے مقتول کا سامان ملے گا۔ اس کا یہ اعلان جائز و درست ہے اور اگر کوئی کہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو اسے اتنے درہم ملیں گے تو یہ بھی درست ہے اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کو مال غنیمت میں سے دسواں حصہ ملے گا تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا درست ہوتا تو پھر تمام مال مجاہدین ہی کے لیے ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا حق یعنی خمس باطل ہوجاتا۔ اسی وجہ سے لڑائی سے پہلے نفل اسی مال سے ہوگا جس کو نفل حاصل کرنے والا اپنی تلوار کے ذریعہ حاصل کرے یا اس کی کارگردگی کی وجہ سے اس کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ جو کچھ دوسروں کو حاصل ہوا وہ اس کے لیے قرار نہ دیا جائے گا البتہ ایک صورت ہے کہ جس کا حکم اجارہ والا ہو وہ جائز ہے۔ جیسا کہ امام کہے : ” من قتل قتیلا فلہ عشرہ دراہم “ تو یہ درست ہے۔ جب یہ بات اسی طرح ہے تو نفل اتنا ہی جائز ہے جتنا حاصل کرنے والا اپنی تلوار سے حاصل کرے یا وہ جو اس کے عمل پر مقرر کیا جائے۔ اس میں سے اس کو دینا جائز نہیں جو دوسروں سے پایا ہو۔ تو نظر کا تقاضا یہی ہے کہ مال غنیمت کے جمع ہونے کے بعد نفل (زائد) اس میں سے نہ دیا جائے جو کہ دوسروں نے جمع کیا ہو۔ اس سے ان لوگوں کا قول باطل ٹھہرا جو مال غنیمت کے جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) مجاہد کو دینے کے قائل ہیں۔ پس یہ حکم اس چیز کی طرف لوٹ گیا جو اس نے خود حاصل کی ہے۔ تو امام کے اسے نفل دینے سے پہلے خمس میں امام کا اور چار حصوں میں مجاہدین کا حق لازم تھا۔ اگر ہم اس کو دینا جائز قرار دیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حق لازم ہونے کے بعد باطل ہوگیا۔ بلاشبہ نفل صرف اس چیز میں ہوگا جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر مجاہد کی ملکیت میں آئی ہو۔ رہی وہ چیز جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر عامۃ المسلمین کی ملکیت میں داخل ہوچکی اس میں نفل جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مال غنیمت جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) دینا جائز نہیں جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر آئے۔ ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ جو امدادی دستے میدان جنگ سے نکلنے سے پہلے پہلے آ ملیں گے ان سب کو مال غنیمت سے حصہ دیا جائے گا۔ اس قول کو امام شعبی ‘ ثوری ‘ اوزاعی ائمہ احناف (رح) اجمعین نے اختیار کیا ہے اور اپنے مؤقف کے لیے دلائل پیش کئے ہیں۔ مال غنیمت سے ان لوگوں کو حصہ ملے گا جو واقعہ میں موجود ہوں گے۔ یہ شعبی ‘ اوزاعی ‘ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
تشریح یہ عین ممکن ہے کہ حضرت سعد (رض) نے لڑائی ختم ہونے سے پہلے ان کو دیا ہے۔ اگر یہ اسی طرح ہو تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں۔
اور اگر لڑائی کے بعد ہے تو پھر یہ احتمال ہے کہ یہ خمس میں سے دیا ہو اور بالفرض اگر انھوں نے خمس کے علاوہ مال سے دیا ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ اسی اختلاف کا ہم پہلے ذکر کر آئے۔ اس صورت میں یہ روایت کسی فریق کی دلیل نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ہر دو احتمالات کی طرف پھیرا جاسکتا ہے۔ اب ضروری ہوا کہ نظر و فکر سے غور کر کے مسئلہ کی اختلافی باڑ سے نکلیں۔ تاکہ نظر سے اس کا حکم معلوم ہو سکے۔
نظر طحاوی (رح) :
نظر کی راہ سے اس باب کا حکم معلوم کرنا ضروری ہوگیا۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ سپہ سالار اگر اعلان کر دے کہ جو شخص کسی (کافر) کو قتل کرے تو اسے مقتول کا سامان ملے گا۔ اس کا یہ اعلان جائز و درست ہے اور اگر کوئی کہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو اسے اتنے درہم ملیں گے تو یہ بھی درست ہے اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کو مال غنیمت میں سے دسواں حصہ ملے گا تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا درست ہوتا تو پھر تمام مال مجاہدین ہی کے لیے ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا حق یعنی خمس باطل ہوجاتا۔ اسی وجہ سے لڑائی سے پہلے نفل اسی مال سے ہوگا جس کو نفل حاصل کرنے والا اپنی تلوار کے ذریعہ حاصل کرے یا اس کی کارگردگی کی وجہ سے اس کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ جو کچھ دوسروں کو حاصل ہوا وہ اس کے لیے قرار نہ دیا جائے گا البتہ ایک صورت ہے کہ جس کا حکم اجارہ والا ہو وہ جائز ہے۔ جیسا کہ امام کہے ” من قتل قتیلا فلہ عشرہ دراہم “ تو یہ درست ہے۔
جب یہ بات اسی طرح ہے تو نفل اتنا ہی جائز ہے جتنا حاصل کرنے والا اپنی تلوار سے حاصل کرے یا وہ جو اس کے عمل پر مقرر کیا جائے۔ اس میں سے اس کو دینا جائز نہیں جو دوسروں سے پایا ہو۔ تو نظر کا تقاضا یہی ہے کہ مال غنیمت کے جمع ہونے کے بعد نفل (زائد) اس میں سے نہ دیا جائے جو کہ دوسروں نے جمع کیا ہو۔ اس سے ان لوگوں کا قول باطل ٹھہرا جو مال غنیمت کے جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) مجاہد کو دینے کے قائل ہیں۔ پس یہ حکم اس چیز کی طرف لوٹ گیا جو اس نے خود حاصل کی ہے۔
تو امام کے اسے نفل دینے سے پہلے خمس میں امام کا اور چار حصوں میں مجاہدین کا حق لازم تھا۔ اگر ہم اس کو دینا جائز قرار دیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حق لازم ہونے کے بعد باطل ہوگیا۔
بلاشبہ نفل صرف اس چیز میں ہوگا جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر مجاہد کی ملکیت میں آئی ہو۔ رہی وہ چیز جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر عامۃ المسلمین کی ملکیت میں داخل ہوچکی اس میں نفل جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مال غنیمت جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) دینا جائز نہیں جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر آئے۔
ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
لغات : نفل۔ زائد مال جو بطور انعام دیا جائے۔ خمس۔ غنیمت کا پانچواں حصہ۔ الخیط والمخیط۔ سوئی دھاگہ۔ الرجعۃ۔ جنگ سے لوٹنا یا دوسری لڑائی کی طرف لوٹنا۔
لغات : اس باب میں فریق اوّل کے قول کی تردید میں دلائل کے علاوہ اعتراضات کے جوابات اور قیاس و نظر سے بھی اپنے قول کی تائید پیش کی اور اپنے قول کی برتری ثابت کی کہ امام کو خمس غنیمت کے علاوہ غنیمت کے جمع ہونے کے بعد مزید لینے یا دینے کا اختیار نہیں۔ انعام بھی آواز غنیمت سے پہلے ہے اور مجاہد کی اپنی تلوار کے جوہر سے ہے۔ (مترجم)

5112

۵۱۱۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِیْدِ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ ، أَنَّ عَنْبَسَۃَ بْنَ سَعِیْدٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَانَ بْنَ سَعِیْدٍ عَلٰی سَرِیَّۃٍ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ قِبَلَ نَجْدٍ فَقَدِمَ أَبَانُ وَأَصْحَابُہُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ ، بَعْدَمَا فَتَحْنَا ، وَأَنَّ حُزُمَ خَیْلِہِمْ لَلِیْفٌ فَقَالَ أَبَانُ : اقْسِمْ لَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَقَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ ، فَقُلْتُ :لَا تَقْسِمْ لَہُمْ شَیْئًا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَالَ أَبَانُ : أَتَیْتُ بِہَدَایَا وَفْدِ نَجْدٍ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِجْلِسْ یَا أَبَانُ فَلَمْ یَقْسِمْ لَہُمْ شَیْئًا قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا یُسْہَمُ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ اِلَّا لِمَنْ حَضَرَ الْوَقْعَۃَ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : یُقْسَمُ لِکُلِّ مَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ، وَلِمَنْ کَانَ غَائِبًا عَنْہَا فِیْ شَیْئٍ مِنْ أَسْبَابِہَا فَمِنْ ذٰلِکَ مَنْ خَرَجَ یُرِیْدُہَا ، فَلَمْ یَلْحَقْ بِالْاِمَامِ حَتَّی ذٰہَبَ الْقِتَالُ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَحِقَ بِہٖ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، قَبْلَ خُرُوْجِہِ مِنْہَا ، قُسِمَ لَہُ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥١١١: ابن شہاب نے عنبسہ بن سعید سے نقل کیا کہ انھوں نے ابوہریرہ (رض) کو سنا کہ وہ سعید بن عاص (رض) سے یہ بات بیان کر رہے تھے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابان بن سعید (رض) کو مدینہ منورہ سے ایک سریہ پر نگران بنا کر نجد کی طرف بھیجا۔ حضرت ابان اور ان کے ساتھی خیبر میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ حاضری فتح خیبر کے بعد تھی۔ ان کے گھوڑوں کی لگامیں کھجور کی چھال سے بنی ہوئی تھیں۔ ابان (رض) کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں بھی مال غنیمت سے حصہ دو ۔ ابوہریرہ (رض) کہنے لگے میں نے کہا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بالکل مال غنیمت سے حصہ نہ دیں۔ ابان کہنے لگے میں وفد نجد کے ہدایا لایا ہوں۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابان بیٹھ جاؤ۔ آپ نے ان کو مال غنیمت میں سے کوئی چیز نہ دی۔ امام طحاوی (رح) کا ارشاد : ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے صرف ان کو حصہ ملے گا جو واقعہ میں موجود ہوں۔ مال غنیمت ہر اس آدمی پر تقسیم ہوگا جو واقعہ میں موجود ہو اور واقعہ کے اسباب میں سے کسی بھی کام کی وجہ سے غائب ہو۔ جیسے وہ آدمی جو غزوہ کا ارادہ کر کے نکلا مگر امام کے پاس اس وقت پہنچا جب لڑائی ختم ہوچکی تھی۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ دارالحرب میں پہنچ جائے جبکہ امام ابھی وہاں سے نہ نکلا ہو۔ تو مال غنیمت میں اس کو حصہ دیا جائے گا۔ انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : بخاری باب المغازی باب ٣٨‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٠۔

5113

۵۱۱۲ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا کُلَیْبُ بْنُ وَائِلٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہَانِئُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ قَالَ : کُنْتُ قَاعِدًا اِلٰیْ جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ ، فَأَتَاہٗ رَجُلٌ فَقَالَ ہَلْ شَہِدَ عُثْمَانُ بَدْرًا ؟ فَقَالَ : لَا ، وَلٰـکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ اِنَّ عُثْمَانِ انْطَلَقَ فِیْ حَاجَۃِ اللّٰہِ، وَحَاجَۃِ رَسُوْلِہٖ فَضَرَبَ لَہٗ بِسَہْمٍ ، وَلَمْ یَضْرِبْ لِأَحَدٍ غَابَ غَیْرِہٖ۔
٥١١٢: حبیب بن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پہلو میں بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آ کر دریافت کرنے لگا۔ کیا حضرت عثمان (رض) بدر میں شریک تھے ؟
انھوں نے جواب دیا نہیں۔ لیکن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا حصہ مقرر فرمایا۔ ان کے علاوہ کسی غائب رہنے والے کا حصہ مقرر نہیں فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٤٠۔

5114

۵۱۱۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ بْنُ عَمْرٍو الْأَزْدِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِسْحَاقَ الْفَزَارِیّ ، عَنْ کُلَیْبِ بْنِ وَائِلٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔اِلَّا ہُنَا أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ ضَرَبَ لِعُثْمَانَ فِیْ غَنَائِمِ بَدْرٍ ، بِسَہْمٍ وَلَمْ یَحْضُرْہَا ، لِأَنَّہٗ کَانَ غَائِبًا فِیْ حَاجَۃِ اللّٰہِ، وَحَاجَۃِ رَسُوْلِہٖ ، فَجَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَمَنْ حَضَرَہَا فَکَذٰلِکَ کُلُّ مَنْ غَابَ عَنْ وَقْعَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ بِأَہْلِ الْحَرْبِ بِشُغْلٍ یَشْغَلُہُ بِہٖ الْاِمَامُ مِنْ أُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ ، مِثْلُ أَنْ یَبْعَثَہُ اِلَیْ جَانِبٍ آخَرَ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ ، لِقِتَالِ قَوْمٍ آخَرِیْنَ ، فَیُصِیْبُ الْاِمَامُ غَنِیْمَۃً بَعْدَ مُفَارَقَۃِ ذٰلِکَ الرَّجُلِ اِیَّاہٗ، أَوْ یَبْعَثُ بِرَجُلٍ مِمَّنْ مَعَہُ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ ، لِیَمُدَّہُ بِالسِّلَاحِ وَالرِّجَالِ ، فَلَا یَعُوْدُ ذٰلِکَ الرَّجُلُ اِلَی الْاِمَامِ حَتّٰی یَغْنَمَ غَنِیْمَۃً ، فَہُوَ شَرِیْکٌ فِیْہَا ، وَہُوَ کَمَنْ حَضَرَہَا وَکَذٰلِکَ مَنْ أَرَادَہُ فَرَدَّہُ الْاِمَامُ عَنْہَا ، وَشَغَلَہُ بِشَیْئٍ مِنْ أُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَہُوَ کَمَنْ حَضَرَہَا .وَ عَلَی ہٰذَا الْوَجْہِ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَسْہَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِیْ غَنَائِمِ بَدْرٍ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا أَسْہَمَ لَہٗ، کَمَا لَمْ یُسْہِمْ لِغَیْرِہِ مِمَّنْ غَابَ عَنْہَا ، لِأَنَّ غَنَائِمَ بَدْرٍ ، وَکَانَتْ وَجَبَتْ لِمَنْ حَضَرَہَا دُوْنَ مَنْ غَابَ عَنْہَا ، اِذًا لَمَا ضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِغَیْرِہِمْ فِیْہَا بِسَہْمٍ ، وَلٰـکِنَّہَا وَجَبَتْ لِمَنْ حَضَرَ الْوَقْعَۃَ ، وَلِکُلِّ مَنْ بَذَلَ نَفْسَہُ لَہَا فَصَرَفَہُ الْاِمَامُ عَنْہَا وَشَغَلَہُ بِغَیْرِہَا مِنْ أُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ ، کَمَنْ حَضَرَہَا وَأَمَّا حَدِیْثُ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاِنَّمَا ذٰلِکَ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَّہَ أَبَانًا اِلَی نَجْدٍ قَبْلَ أَنْ یَتَہَیَّأَ خُرُوْجُہُ اِلَی خَیْبَرَ فَتَوَجَّہَ أَبَانُ فِیْ ذٰلِکَ ، ثُمَّ حَدَثَ مِنْ خُرُوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی خَیْبَرَ مَا حَدَثَ ، فَکَانَ مَا غَابَ فِیْہِ أَبَانٌ مِنْ ذٰلِکَ عَنْ حُضُوْرِ خَیْبَرَ ، وَلَیْسَ ہُوَ شُغْلًا شَغَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حُضُوْرِہَا بَعْدَ اِرَادَتِہِ اِیَّاہٗ، فَیَکُوْنُ کَمَنْ حَضَرَہَا فَہَذَانِ الْحَدِیْثَانِ أَصْلَانِ ، فَکُلُّ مَنْ أَرَادَ الْخُرُوْجَ مَعَ الْاِمَامِ اِلَی قِتَالِ الْعَدُوِّ ، فَرَدَّہُ الْاِمَامُ عَلٰی ذٰلِکَ بِأَمْرٍ آخَرَ مِنْ أُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَتَشَاغَلَ بِہٖ حَتَّی غَنِمَ الْاِمَامُ غَنِیْمَۃً ، فَہُوَ کَمَنْ حَضَرَ مَعَ الْاِمَامِ ، یُسْہَمُ لَہُ فِی الْغَنِیْمَۃِ ، کَمَا یُسْہَمُ لِمَنْ حَضَرَہَا وَکُلُّ شَیْئٍ تَشَاغَلَ بِہٖ رَجُلٌ مِنْ شُغْلِ نَفْسِہٖ، أَوْ شُغْلِ الْمُسْلِمِیْنَ مِمَّا کَانَ دُخُوْلُہُ فِیْہِ مُتَقَدِّمًا ، ثُمَّ حَدَثَ لِلْاِمَامِ قِتَالُ الْعَدُوِّ ، فَتَوَجَّہَ لَہٗ فَغَنِمَ ، فَلَا حَقَّ لِذٰلِکَ الرَّجُلِ فِی الْغَنِیْمَۃِ ، وَہِیَ بَیْنَ مَنْ حَضَرَہَا وَبَیْنَ مَنْ حُکْمُہٗ حُکْمُ الْحَاضِرِ لَہَا وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا ،
٥١١٣: ابو اسحاق فزاری نے کلیب بن وائل سے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت یہاں تک نقل کی ہے۔ اس روایت میں غور فرمائیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنائم بدر میں حضرت عثمان (رض) کو حصہ دیا حالانکہ وہ موجود نہ تھے ۔ کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کام میں مصروف تھے اس لیے ان کو حاضر شمار کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ سے غائب ہو کہ امام اس کو مسلمانوں کے کسی کام میں مشغول رکھے۔ نمبر 1: مثلاً اس کو دارالحرب کی کسی دوسری جانب دوسرے لوگوں کے ساتھ لڑائی کے لیے بھیجے پھر اس کے جانے کے بعد امام کو مال غنیمت مل جائے۔ دارالحرب میں موجود لوگوں میں سے کسی کو دارالاسلام میں بھیجے تاکہ وہ اسلحہ اور آدمیوں سے اس کی مدد کرے۔ پھر یہ نمائندہ امام کے غنیمت حاصل کرنے تک واپس نہ آئے تو وہ مال غنیمت میں شریک ہوگا۔ وہ موجود لوگوں کی طرح ہوگا۔ وہ آدمی جو جنگ میں جانے کا ارادہ کرے لیکن اس کو واپس کر کے مسلمانوں کے کسی کام میں مصروف کر دے تو وہ بھی اس جنگ میں حاضر لوگوں کی طرح شمار ہوگا۔ ہمارے نزدیک اسی بناء پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو غنائم بدر میں حصہ عنایت فرمایا (واللہ اعلم) اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عثمان (رض) کو بھی اسی طرح حصہ نہ دیتے جیسا کہ دوسروں کو نہ دیا جو کہ وہاں موجود نہ تھے۔ کیونکہ بدر کے غنائم انہی کے لیے لازم کئے گئے جو وہاں موجود تھے۔ غائبین کے لیے نہ تھے۔ ورنہ اس میں دوسروں کا بھی حصہ ضرور لگاتے۔ لیکن وہ غنائم موجودین کے لیے لازم کئے گئے تھے اور ہر ایسے آدمی کے لیے جس نے اپنے آپ کو بدر کے لیے پیش کیا مگر آپ نے اس کو امور مسلمین میں مصروف کر کے وہاں سے ہٹا دیا۔ روایت ابوہریرہ (رض) کا جواب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابان (رض) کو نجد کی طرف اس وقت روانہ فرمایا جبکہ خیبر کی طرف یلغار کی تیاری بھی نہیں تھی۔ پس ابان کو نجد بھیج دیا (واللہ اعلم) پھر آپ نے خیبر کی تیاری فرمائی۔ پس ابان کا اس حاضری خیبر سے غائب رہنا اس وجہ سے نہ تھا کہ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی کام میں مشغولیت نے شرکت کے ارادہ کے باوجود الگ کردیا تاکہ ان کو حاضر کی طرح شمار کیا جائے۔ ان دو روایات سے دو قاعدے معلوم ہوتے ہیں کہ جو شخص امام کے ساتھ دشمن کے خلاف قتال میں نکلنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ پھر اس کو خود امام نے مسلمانوں کے کسی دوسرے کام کی ذمہ داری سونپ دی اور وہ اس میں مشغول رہا یہاں تک کہ امام نے قتال میں غنیمت پا لی تو یہ آدمی قتال میں حاضر باش لوگوں میں شمار ہوگا اس کا غنیمت حاضر جیسا حصہ ہوگا۔ ہر وہ چیز جس میں آدمی مشغول رہا اور وہ اس کی ذاتی مشغولیت تھی۔ یا مسلمانوں کا کام تھا مگر وہ قتال میں جانے سے پہلے اس میں مشغول چلا آ رہا تھا۔ پھر امام کو دشمن کے خلاف لڑائی پیش آگئی۔ جس میں اس کو غنیمت مل گئی تو اس آدمی کا غنیمت میں کوئی حق نہیں۔ یہ قتال میں حاضر اور وہ جن کا حکم حاضر جیسا ہے ان کے درمیانی درجے کا آدمی ہے۔ فریق اوّل کی ایک اور دلیل ملاحظہ ہو۔

5115

۵۱۱۴ : بِمَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : سَمِعْتُ طَارِقَ بْنَ شِہَابٍ ، أَنَّ أَہْلَ الْبَصْرَۃِ غَزَوْا نَہَاوَنْدَ وَأَمَدَّہُمْ أَہْلُ الْکُوْفَۃِ فَظَفِرُوْا فَأَرَادَ أَہْلُ الْبَصْرَۃِ أَنْ لَا یَقْسِمُوْا لِأَہْلِ الْکُوْفَۃِ ، وَکَانَ عَمَّارٌ عَلٰی أَہْلِ الْکُوْفَۃِ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ عُطَارِدٍ : أَیُّہَا الْأَجْدَعُ ، تُرِیْدُ أَنْ تُشَارِکَنَا فِیْ غَنَائِمِنَا ؟ فَقَالَ : أُذُنِیْ سَیَنْبَتُّ ، قَالَ : فَکَتَبَ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَتَبَ عُمَرُ اِنَّ الْغَنِیْمَۃَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ قَالُوْا : فَہٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ ذَہَبَ أَیْضًا اِلٰی أَنَّ الْغَنِیْمَۃَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ، فَقَدْ وَافَقَ ہَذَا قَوْلُنَا قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ نَہَاوَنْدُ فُتِحَتْ وَصَارَتْ دَارَ الْاِسْلَامِ ، وَأُحْرِزَتِ الْغَنَائِمُ ، وَقُسِمَتْ قَبْلَ وُرُوْدِ أَہْلِ الْکُوْفَۃِ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، فَاِنَّا نَحْنُ نَقُوْلُ أَیْضًا اِنَّ الْغَنِیْمَۃَ فِیْ ذٰلِکَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ، وَاِنْ کَانَ جَوَابُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لَمَّا کَتَبَ بِہٖ اِلَیْہِ، اِنَّمَا ہُوَ لِہَذَا السُّؤَالِ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ مِمَّا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ وَاِنْ کَانَ عَلٰی أَنَّ أَہْلَ الْکُوْفَۃِ لَحِقُوْا بِہِمْ قَبْلَ خُرُوْجِہِمْ مِنْ دَارِ الشِّرْکِ ، بَعْدَ ارْتِفَاعِ الْقِتَالِ ، فَکَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنَّ الْغَنِیْمَۃَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ فَاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ أَہْلَ الْکُوْفَۃِ قَدْ کَانُوْا طَلَبُوْا أَنْ یَقْسِمَ لَہُمْ ، وَفِیْہِمْ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، وَمَنْ کَانَ فِیْہِمْ غَیْرُہٗ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُمْ مِمَّنْ یُکَافَأُ قَوْلُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِقَوْلِہِمْ فَلَا یَکُوْنُ وَاحِدٌ مِنَ الْقَوْلَیْنِ أَوْلَی مِنَ الْآخَرِ اِلَّا بِدَلِیْلٍ عَلَیْہِ، اِمَّا مِنْ کِتَابٍ ، أَوْ مِنْ سُنَّۃٍ ، وَاِمَّا مِنْ نَظَرٍ صَحِیْحٍ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَا السَّرَایَا الْمَبْعُوْثَۃَ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ اِلَیْ بَعْضِ أَہْلِ الْحَرْبِ أَنَّہُمْ مَا غَنِمُوْا ، فَہُوَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ سَائِرِ أَصْحَابِہِمْ وَسَوَاء ٌ فِیْ ذٰلِکَ مَنْ کَانَ خَرَجَ فِیْ تِلْکَ السَّرِیَّۃِ ، وَمَنْ لَمْ یَخْرُجْ ، لِأَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا بَذَلُوْا مِنْ أَنْفُسِہِمْ ، مَا بَذَلَ الَّذِیْنَ أُسِرُوْا فَلَمْ یُفَضَّلْ فِیْ ذٰلِکَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ .وَاِنْ کَانَ مَا لَقُوْا مِنَ الْقِتَالِ مُخْتَلِفًا ، فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ مَنْ بَذَلَ نَفْسَہُ بِمِثْلِ مَا بَذَلَ بِہٖ نَفْسَہُ مَنْ حَضَرَ الْوَقْعَۃَ ، فَہُوَ فِیْ ذٰلِکَ کَمَنْ حَضَرَ الْوَقْعَۃَ ، اِذَا کَانَ عَلَی الشَّرَائِطِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٥١١٤: قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے سنا کہ اہل بصرہ نے نہاوند کی لڑائی لڑی اور اہل کوفہ نے ان کی امداد کی جس سے نہاوند فتح ہوگیا۔ اہل بصرہ نے چاہا کہ اہل کوفہ کو غنیمت میں حصہ نہ ملے۔ اس وقت عمار (رض) کوفہ کے گورنر تھے۔ بنی عطارد کے ایک آدمی نے کہا۔ اے کان کٹے ! کیا تم ہماری غنیمتوں میں شرکت چاہتے ہو ؟ انھوں نے کہا میرے کان عنقریب اگ آئیں گے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عمر (رض) کی طرف لکھا تو حضرت عمر (رض) نے لکھا جو واقعہ میں موجود تھے ان سب کو غنیمت ملے گی۔ حضرت عمر (رض) نے اس ارشاد میں غنیمت کا حق انہی کو دیا جو اقعہ میں موجود تھے اور یہ بات ہمارے قول کی مؤید ہے۔ ان کو جواب میں کہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ نہاوند فتح ہو کر دارالاسلام بن چکا ہو اور غنائم جمع ہو کر اہل کوفہ کے پہنچنے سے پہلے تقسیم ہوچکی ہوں۔ اگر یہ بات اسی طرح ثابت ہوجائے تو ہم کہیں گے کہ غنیمت ان لوگوں کو ہی ملے گی جو واقعہ میں موجود تھے۔ اگر فاروق اعظم (رض) کا جواب اس سوال سے متعلق ہے۔ تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں اور اگر اہل کوفہ اہل بصرہ کے دارالشرک سے نکلنے سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہوں اور لڑائی اس وقت ختم ہوچکی ہو۔ تو عمر (رض) نے لکھا کہ غنیمت واقعہ میں موجود سب کو ملے گی۔ اس روایت میں یہ دلالت موجود ہے کہ اہل کوفہ نے تقسیم میں اپنے حصہ کا مطالبہ کیا اور ان میں عمار بن یاسر (رض) اور ان کے علاوہ اور بھی اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے کہ جن کی بات وزن میں قول عمر (رض) کی برابری کرسکتی تھی۔ اب ان دونوں اقوال میں کسی ایک کو بلادلیل ترجیح نہیں دی جاسکتی خواہ وہ دلیل قرآن مجید سے ہو یا سنت نبوی سے۔ اب ہم قیاس صحیح سے ایک قول کو ترجیح دیتے ہیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دارالحرب سے دارالحرب کے کسی حصہ کی طرف روانہ کئے جانے والے چھوٹے لشکر جو غنیمت حاصل کریں گے وہ ان تمام کے مابین تقسیم کی جائے گی۔ خواہ اس لشکر میں گیا ہو یا نہ گیا ہو کیونکہ انھوں نے (بڑے لشکر میں شامل ہو کر اور دارالحرب میں اقامت سے) اپنی جان کی بازی لگا دی اس لیے ان میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت حاصل نہ ہوگی۔ اگر مختلف دشمنوں کے ساتھ ان کی لڑائیاں الگ الگ پیش آئیں۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ بالکل اسی طرح جس نے اپنے آپ کو اسی طرح صرف کیا جس طرح واقعہ میں موجود لوگوں نے کیا تو وہ واقعہ میں حاضر شمار ہوں گے جب کہ وہ ان شرائط کے مطابق ہوں جن کا ہم ذکر کر آئے۔
حاصل روایت اور طریق استدلال : حضرت عمر (رض) نے اس ارشاد میں غنیمت کا حق انہی کو دیا جو واقعہ میں موجود تھے اور یہ بات ہمارے قول کی مؤید ہے۔
جواب یہ عین ممکن ہے کہ نہاوند فتح ہو کر دارالاسلام بن چکا ہو اور غنائم جمع ہو کر اہل کوفہ کے پہنچنے سے پہلے تقسیم ہوچکی ہوں۔ اگر یہ بات اسی طرح ثابت ہوجائے تو ہم کہیں گے کہ غنیمت ان لوگوں کو ہی ملے گی جو واقعہ میں موجود تھے۔ اگر فاروق اعظم (رض) کا جواب اس سوال سے متعلق ہے۔ تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں اور اگر اہل کوفہ اہل بصرہ ان کے دارالشرک سے نکلنے سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہوں اور لڑائی اس وقت ختم ہوچکی ہو۔ تو عمر (رض) نے لکھا کہ غنیمت واقعہ میں موجود سب کو ملے گی۔ اس روایت میں یہ دلالت موجود ہے کہ اہل کوفہ نے تقسیم میں اپنے حصہ کا مطالبہ کیا اور ان میں عمار بن یاسر (رض) اور ان کے علاوہ اور بھی اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے کہ جن کی بات وزن میں قول عمر (رض) کی برابری کرسکتی تھی۔ اب ان دونوں اقوال میں کسی ایک کو بلادلیل ترجیح نہیں دی جاسکتی خواہ وہ دلیل قرآن مجید سے ہو یا سنت نبوی سے۔ اب ہم قیاس صحیح سے ایک قول کو ترجیح دیتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دارالحرب سے دارالحرب کے کسی حصہ کی طرف روانہ کئے جانے والے چھوٹے لشکر جو غنائم حاصل کریں گے وہ ان تمام کے مابین تقسیم کی جائے گی۔ خواہ اس لشکر میں گیا ہو یا نہ گیا ہو کیونکہ انھوں نے (بڑے لشکر میں شامل ہو کر اور دارالحرب میں اقامت سے) اپنی جان کی بازی لگا دی اس لیے ان میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت حاصل نہ ہوگی۔ اگر مختلف دشمنوں کے ساتھ ان کی لڑائیاں الگ الگ پیش آئیں۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ بالکل اسی طرح جس نے اپنے آپ کو اسی طرح صرف کیا جس طرح واقعہ میں موجود لوگوں نے کیا تو وہ واقعہ میں حاضر شمار ہوں گے جب کہ وہ ان شرائط کے مطابق ہوں جن کا ہم ذکر کر آئے۔
اس باب میں اگرچہ امام طحاوی (رح) کا رجحان تو قول ثانی کی طرف ہے مگر ان کو ترجیح کے لیے ان کو کوئی واضح روایت میسر نہیں آئی اسی لیے مبہم انداز میں ترجیح کو ذکر کیا۔ واللہ اعلم۔

5116

۵۱۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ : لَوْلَا أَنْ یَکُوْنَ النَّاسُ یَبَابًا لَیْسَ لَہُمْ شَیْء ٌ ، مَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَی قَرْیَۃٍ اِلَّا قَسَمْتُہَا ، کَمَا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ .
٥١١٥: زید بن اسلم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر بعد والوں کی ویرانی کا خطرہ نہ ہوتا کہ ان کے لیے کوئی چیز نہ رہے گی تو میں جس بستی کو فتح کرتا اس کو تقسیم کردیتا جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم فرمایا۔

5117

۵۱۱۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُوْلُ ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْاِمَامَ اِذَا فَتَحَ أَرْضًا عَنْوَۃً ، وَجَبَ عَلَیْہِ أَنْ یَقْسِمَہَا کَمَا یَضُمُّ الْغَنَائِمَ ، وَلَیْسَ لَہٗ احْتِبَاسُہَا ، کَمَا لَیْسَ لَہُ احْتِبَاسُ سَائِرِ الْغَنَائِمِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : الْاِمَامُ بِالْخِیَارِ ، اِنْ شَائَ خَمَّسَہَا وَقَسَمَ أَرْبَعَۃَ أَخْمَاسِہَا ، وَاِنْ شَائَ تَرَکَہَا أَرْضَ خَرَاجٍ وَلَمْ یَقْسِمْہَا .
٥١١٦: زید بن اسلم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے عمر (رض) کو فرماتے سنا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام جب کسی زمین کو زبردستی فتح کرے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اسی طرح اس کو تقسیم کر دے جیسے مال غنیمت کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کو اس علاقہ کے روک رکھنے کا حق حاصل نہیں جیسا کہ وہ مال غنیمت کو روک نہیں سکتا۔ انھوں نے اسی روایت کو دلیل بنایا ہے۔ دوسروں نے کہا دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ وہ اس کا خمس لے کر بقیہ چار حصے تقسیم کرے اور اگر مناسب خیال کرے تو خراجی زمین کے طور پر چھوڑ دے اور اس کو تقسیم نہ کرے۔
قول طحاوی (رح) : امام جب کسی زمین کو زبردستی فتح کرے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اسی طرح اس کو تقسیم کر دے جیسے مال غنیمت کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کو اس علاقہ کے روک رکھنے کا حق حاصل نہیں جیسا کہ وہ مال غنیمت کو روک نہیں سکتا۔ انھوں نے اسی روایت کو دلیل بنایا ہے۔

5118

۵۱۱۷ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَسُفْیَانَ بِذَلکَ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمِنْ ذٰلِکَ
٥١١٧: عبداللہ بن المبارک نے ابوحنیفہ اور سفیان (رح) سے ایسا ہی نقل کیا ہے۔ اس قول کو امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے اس کی دلیل مندرجہ روایت ہے۔

5119

۵۱۱۸ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ بِالشَّطْرِ ، ثُمَّ أَرْسَلَ ابْنَ رَوَاحَۃَ ، فَقَاسَمَہُمْ .
٥١١٨: قاسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی زمین حصہ پردے دی پھر عبداللہ بن رواحہ (رض) کو بھیج کر ان کے مابین تقسیم کردیا۔
تخریج : بخاری فی الاجارہ باب ٢٢ مسلم فی المساقاہ ٢۔

5120

۵۱۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ خَیْبَرَ ، عَامَلَ أَہْلَ خَیْبَرَ بِشَطْرِ مَا خَرَجَ مِنَ الزَّرْعِ .
٥١١٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے پھر انھوں نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والے سال اہل خیبر سے معاملہ کیا اور اہل خیبر سے کھیتی کی آمدنی کے نصف پر معاملہ ہوا۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ٨‘ ٩‘ مسلم فی المساقات ١؍٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٩‘ ترمذی فی الاحکام باب ٤١‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ١٤‘ دارمی فی البیوع باب ٧١‘ مسند احمد ٢؍١٧‘ ٢٢‘ ٣٧۔

5121

۵۱۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ الزِّیَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : أَفَائَ اللّٰہُ خَیْبَرَ ، فَأَقَرَّہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا کَانُوْا ، وَجَعَلَہَا بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ .فَبَعَثَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ رَوَاحَۃَ ، فَخَرَصَہَا عَلَیْہِمْ .
٥١٢٠: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ خیبر بطور غنیمت عنایت فرمایا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پہلی حالت پر برقرار رکھا اور اس کو اپنے اور ان کے مابین برابر رکھا۔ پھر عبداللہ بن رواحہ (رض) کو بھیجا تو انھوں نے پھل و کھیتی کا اندازہ لگایا۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٣٥‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٨‘ مالک فی المساقاۃ ١؍٢‘ مسند احمد ٢؍٢٤‘ ٣‘ ٢٩٦؍٣٦٧‘ ٦؍١٦٣۔

5122

۵۱۲۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ قَسَمَ خَیْبَرَ بِکَمَالِہَا ، وَلٰـکِنَّہٗ قَسَمَ طَائِفَۃً مِنْہَا ، عَلٰی مَا احْتَجَّ بِہٖ عُمَرُ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، وَتَرَکَ طَائِفَۃً مِنْہَا فَلَمْ یَقْسِمْہَا ، عَلٰی مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ ، وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الْأُخَرِ .وَالَّذِیْ کَانَ قُسِمَ مِنْہَا ہُوَ الشِّقُّ وَالْبِطَاہٗ، وَتُرِکَ سَائِرُہَا ، فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّہٗ قَسَمَ ، وَلَہٗ أَنْ یَقْسِمَ ، وَتَرَکَ ، وَلَہٗ أَنْ یَتْرُکَ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ ہٰکَذَا حُکْمُ الْأَرْضِیْنَ الْمُفْتَتَحَۃِ لِلْاِمَامِ ، فَیَقْسِمُہَا اِنْ رَأَیْ ذٰلِکَ صَلَاحًا لِلْمُسْلِمِیْنَ ، کَمَا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَسَمَ مِنْ خَیْبَرَ .وَلَہُ تَرْکُہَا اِنْ رَأَی فِیْ ذٰلِکَ صَلَاحًا لِلْمُسْلِمِیْنَ أَیْضًا ، کَمَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَرَکَ مِنْ خَیْبَرَ ، یَفْعَلُ ذٰلِکَ مَا رَأَی مِنْ ذٰلِکَ عَلَی التَّحْرِیْس مِنْہٗ، لِصَلَاحِ الْمُسْلِمِیْنَ .وَقَدْ فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَرْضِ السَّوَادِ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا ، فَتَرَکَہَا لِلْمُسْلِمِیْنَ أَرْضَ خَرَاجٍ ، لِیَنْتَفِعَ بِہَا مَنْ یَجِیْئُ مِنْ بَعْدِہِ مِنْہُمْ ، کَمَا یَنْتَفِعُ بِہَا مَنْ کَانَ فِیْ عَصْرِہِ مِن الْمُسْلِمِیْنَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمْ یَفْعَلْ فِی السَّوَادِ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ ، مِنْ جِہَۃِ مَا قُلْتُمْ ، وَلٰـکِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ ، جَمِیْعًا رَضُوْا بِذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا رَضُوْا بِذٰلِکَ ، أَنَّہٗ جَعَلَ الْجِزْیَۃَ عَلٰی رِقَابِہِمْ ، فَلَمْ یَخْلُ ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ .اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ جَعَلَہَا عَلَیْہِمْ ضَرِیْبَۃً لِلْمُسْلِمِیْنَ ، لِأَنَّہُمْ عَبِیْدٌ لَہُمْ .أَوْ یَکُوْنُ جَعَلَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ ، کَمَا یَجْعَلُ الْجِزْیَۃَ عَلَی الْأَحْرَارِ ، لِیَحْقِنَ بِذٰلِکَ دِمَائَ ہُمْ .فَرَأَیْنَا قَدْ أُہْمِلَ نِسَاؤُہُمْ وَمَشَائِخُہُمْ ، وَأَہْلُ الزَّمَانَۃِ مِنْہُمْ ، وَصِبْیَانُہُمْ ، وَاِنْ کَانُوْا قَادِرِیْنَ عَلَی الِاکْتِسَابِ ، أَکْثَرَ مِمَّا یَقْدِرُ عَلَیْہِ بَعْضُ الْبَالِغِیْنَ .ؓفَلَمْ یَجْعَلْ عَلٰی أَحَدٍ مِمَّنْ ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ، فَدَلَّ مَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ مَا أَوْجَبَ لَیْسَ لِعِلَّۃِ الْمِلْکِ ، وَلٰـکِنَّہٗ .لِعِلَّۃِ الذِّمَّۃِ وَقَبْلَ ذٰلِکَ جَمِیْعُ مَا اُفْتُتِحَ مِنْ تِلْکَ الْأَرْضِ أَخْذُہُمْ ذٰلِکَ مِنْہُمْ دَلِیْلٌ عَلَی اِجَارَتِہِمْ لَمَّا کَانَ عُمَرُ فَعَلَ ذٰلِکَ .ثُمَّ رَأَیْنَا وَضَعَ عَلَی الْأَرْضِ شَیْئًا مُخْتَلِفًا ، فَوَضَعَ عَلٰیْ جَرِیْبِ الْکَرْمِ شَیْئًا مَعْلُوْمًا ، وَوَضَعَ عَلٰیْ جَرِیْبِ الْحِنْطَۃِ شَیْئًا مَعْلُوْمًا ، وَأَہْمَلَ النَّخْلَ فَلَمْ یَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا .فَلَمْ یَخْلُ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ ، اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ مَلَکَ بِہٖ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ قَدْ ثَبَتَ حُرْمَتُہُمْ بِثِمَارِ أَرْضِیہِمْ ، وَالْأَرْضُ مِلْکٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ .أَوْ یَکُوْنَ جَعَلَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ ، کَمَا جَعَلَ الْخَرَاجَ عَلٰی رِقَابِہِمْ ، وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْخَرَاجُ یَجِبُ اِلَّا فِیْمَا مَلَکَہُ لِغَیْرِ أَخْذِ الْخَرَاجِ .فَاِنْ حَمَلْنَا ذٰلِکَ عَلَی التَّمْلِیکِ ، مِنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِیَّاہُمْ ثَمَرَ النَّخْلِ وَالْکَرْمِ ، بِمَا جَعَلَ عَلَیْہِمْ مِمَّا ذَکَرْنَا ، جَعَلَ فِعْلَہُ ذٰلِکَ قَدْ دَخَلَ فِیْمَا قَدْ نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ ، وَمِنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک ، فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ الْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ .وَلٰـکِنَّ الْأَمْرَ عِنْدَنَا عَلٰی أَنَّ تَمْلِیْکَہُ لَہُمُ الْأَرْضَ الَّتِیْ أَوْجَبَ ہَذَا عَلَیْہِمْ فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَ ، عَلٰی أَنْ یَکُوْنَ مِلْکُہُمْ ذٰلِکَ ، مِلْکَ خَرَاجِی .فَہٰذَا حُکْمُہٗ فِیْمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ فِیْہِ، وَقَبِلَ النَّاسُ جَمِیْعًا مِنْہُ ذٰلِکَ ، وَأَخَذُوْا مِنْہُ مَا أَعْطَاہُمْ مِمَّا أَخَذَ مِنْہُمْ .فَکَانَ قَبُوْلُہُمْ لِذٰلِکَ اِجَازَۃً مِنْہُمْ لِفِعْلِہٖ .قَالُوْا فَلِہٰذَا جَعَلْنَا أَہْلَ السَّوَادِ مَالِکِیْنَ لِأَرْضِہِمْ ، وَجَعَلْنَاہُمْ أَحْرَارًا بِالْعِلَّۃِ الْمُتَقَدِّمَۃِ ، وَکُلُّ ہَذَا اِنَّمَا کَانَ بِاِجَازَۃِ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ غَنِمُوْا تِلْکَ الْأَرْضَ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا جَازَ ، وَلَکَانُوْا عَلَی مِلْکِہِمْ .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ : کُلُّ أَرْضٍ مُفْتَتَحَۃٍ عَنْوَۃً ، فَحُکْمُہَا أَنْ تُقْسَمَ کَمَا تُقْسَمُ الْأَمْوَالُ ، خُمُسُہَا لِلّٰہٖ، وَأَرْبَعَۃُ أَخْمَاسِہَا لِلَّذِیْنَ افْتَتَحُوْہَا ، لَیْسَ لِلْاِمَامِ مَنْعُہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، اِلَّا أَنْ تَطِیْبَ أَنْفُسُ الْقَوْمِ بِتَرْکِہَا ، کَمَا طَابَتْ أَنْفُسُ الَّذِیْنَ افْتَتَحُوْا السَّوَادَ لِعُمَرَ بِمَا ذَکَرْنَا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ : أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّ أَرْضَ السَّوَادِ لَوْ کَانَتْ کَمَا ذَکَرَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، لَکَانَ قَدْ وَجَبَ فِیْہَا خُمُسُ اللّٰہِ بَیْنَ أَہْلِہِ الَّذِیْنَ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَہُمْ ، وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لِلْاِمَامِ أَنْ یَجْعَلَ ذٰلِکَ الْخُمُسَ وَلَا شَیْئًا مِنْہُ لِأَہْلِ الذِّمَّۃِ .وَقَدْ کَانَ أَہْلُ السَّوَادِ الَّذِیْنَ أَقَرَّہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَارُوْا أَہْلَ الذِّمَّۃِ ، وَقَدْ کَانَ السَّوَادُ بِأَسْرِہِ فِیْ أَیْدِیْہِمْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا فَعَلَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَانَ مِنْ جِہَۃٍ غَیْرِ الْجِہَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرُوْا ، وَہُوَ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ وَجَبَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ ذٰلِکَ خُمُسٌ .کَذٰلِکَ مَا فَعَلَ فِیْ رِقَابِہِمْ ، فَمَنَّ عَلَیْہِمْ بِأَنْ أَقَرَّہُمْ فِیْ أَرْضِیہِمْ ، وَنَفَی الرِّقَّ مِنْہُمْ ، وَأَوْجَبَ الْخَرَاجَ عَلَیْہِمْ فِیْ رِقَابِہِمْ وَأَرْضِیہِمْ ، فَمَلَکُوْا بِذٰلِکَ أَرْضِیہِمْ ، وَانْتَفَی الرِّقُّ عَنْ رِقَابِہِمْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ لِلْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ ہَذَا بِمَا اُفْتُتِحَ عَنْوَۃً ، فَنَفَیْ عَنْ أَہْلِہَا رَقَّ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَعَنْ أَرْضِیہِمْ مِلْکَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَیُوْجِبُ ذٰلِکَ لِأَہْلِہَا ، وَیَضَعُ عَلَیْہِمْ مَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ وَضْعُہٗ، مِنَ الْخَرَاجِ ، کَمَا فَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَاحْتَجَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ .ثُمَّ قَالَ لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ فَأَدْخَلَہُمْ مَعَہُمْ ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُوْا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ الْأَنْصَارَ ، فَأَدْخَلَہُمْ مَعَہُمْ .ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِیْنَ جَائُوْا مِنْ بَعْدِہِمْ فَأَدْخَلَ فِیْہَا جَمِیْعَ مَنْ یَجِیْئُ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ ، فَلِلْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ ، وَیَضَعَہُ حَیْثُ رَأَی وَضْعَہٗ، فِیْمَا سَمَّی اللّٰہُ فِیْ ہٰذِہِ السُّوْرَۃِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَسُفْیَانُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .فَاِنِ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ مُحْتَجٌّ ۔
٥١٢١: محمد بن سابق نے ابراہیم بن طھمان سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو مکمل طور پر تقسیم نہ فرمایا تھا۔ بلکہ اس میں سے کچھ حصہ تقسیم فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عمر (رض) والی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور کچھ حصہ بلا تقسیم چھوڑ دیا۔ جیسا کہ ابن عباس ‘ ابن عمر ‘ اور جابر (رض) کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شق اور بطاۃ نامی قلعوں اور ان کی زمینوں کو تقسیم کردیا اور بقیہ کو چھوڑ دیا اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ آپ نے تقسیم کیا اس لیے کہ آپ کو تقسیم کا حق حاصل تھا اور کچھ حصہ چھوڑ دیا تو آپ کو چھوڑ دینے کا بھی اختیار تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مفتوحہ زمینوں کا حکم امام کے لیے یہی ہے۔ کہ اگر مسلمانوں کی مصلحت خیال کرے تو ان کو تقسیم کر دے۔ جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا کچھ تقسیم فرمایا اور اگر مسلمانوں کی مصلحت تقسیم نہ کرنے میں ہو تو نہ تقسیم کرے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا کچھ حصہ تقسیم نہ فرمایا۔ مسلمانوں کی بھلائی کے لیے جس کام میں خیر ہو وہ کرے۔ حضرت عمر (رض) نے عراق کی زمین کے ساتھ اسی طرح کیا اس زمین کو مسلمانوں کے لیے خراجی زمین کے طور پر چھوڑ دیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی اس سے اسی طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح اس دور کے مسلمانوں نے نفع اٹھایا۔ یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے عراق کی سرزمین میں یہ تقسیم والا عمل اس وجہ سے اختیار نہ کیا ہو جو تم نے بیان کیا بلکہ اس زمانے کے مسلمانوں نے اس پر رضامندی ظاہر کی ہو اور اسی رضا کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا اور یہ جزیہ د وحال سے خالی نہیں۔ نمبر ایک اس لیے مقرر فرمایا کہ وہ لوگ ان کے غلام تھے۔ نمبردو اس لیے مقرر فرمایا جس طرح آزاد لوگوں پر مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کی جانوں کی حفاظت کی جائے جب ہم غور کرتے ہیں بچے بوڑھے اور عورتیں اس سے مستثنیٰ نظر آتی ہیں۔ خواہ وہ بعض بالغوں سے زیادہ کمائی کرنے پر قدرت رکھتے تھے لیکن مذکورہ افراد میں سے کسی پر کچھ بھی مقرر نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ باقی لوگوں پر جو لازم کیا گیا وہ ان کی ملکیت کی بناء پر نہ تھا۔ بلکہ ذمی ہونے کی بناء پر تھا۔ اس سے پہلے جتنے مفتوحہ مقبوضات سے وصول کرنا ان کے اجارہ کی دلیل ہے۔ کیونکہ حضرت عمر (رض) نے اسی طرح کیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے زمین پر مختلف چیزیں مقرر کیں مگر انگور والی زمین پر ایک معین و مخصوص مقدار مقرر فرمائی اسی طرح گندم والی زمین پر بھی ایک مقررہ مقدار متعین کی لیکن کھجور کو چھوڑ دیا اور اس سے کچھ بھی نہ لیا اب یہ دو حال سے خالی نہیں۔ نمبر ایک ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کی حرمت ان کی زمین کے پھلوں کے سبب ثابت ہو اور زمین مسلمانوں کی ملکیت ہی رہے گی۔ نمبردو یہ ان پر اسی طرح لگایا گیا جیسا کہ ان کی گردنوں پر خراج مقرر کیا گیا اور جب تک خراج لیے بغیر مالک نہ ہوگا اس وقت تک خراج واجب ہی نہ ہوگا اور اگر ہم اس کو اس بات پر محمول کریں کہ حضرت عمر (رض) نے محصول کے بدلے ان کو کھجوروں اور انگور کے پھل کا مالک بنایا۔ پھر اگر ہم اس کو تملیک پر محمول کریں کہ حضرت عمر (رض) نے ان کو کھجور اور انگور کے پھل کا مالک بنادیا تھا اس محصول کے بدلے جو ان پر لگایا تھا۔ تو اس طرح یہ فعل اس نہی میں داخل ہوجائے گا۔ یعنی کئی سالوں کی بیع اور اس چیز کی بیع جو پاس نہ ہو۔ مگر اس بات کا اس طرح ہونا ناممکن ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ معاملہ اس طرح ہے کہ آپ نے ان کو اس زمین کا مالک بنایا تھا جو پہلے ان کو اجرت پر دی تھی کہ اب یہی زمین ان کی خراجی ملکیت ہوگی (یعنی اس کا خراج ادا کریں گے) اور جو کچھ ان پر واجب ہوا اس کا یہی حکم ہے اور تمام لوگوں نے آپ کے اس فیصلے کو قبول کیا اور آپ نے ان سے جو کچھ لیا تھا اس میں سے جو کچھ آپ نے ان کو واپس دیا وہ انھوں نے قبول کرلیا فلہذا ان کا اس بات کو قبول کرنا ان کی طرف سے آپ کے اس عمل کی اجازت تھی۔ وہ حضرات فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم نے اہل سواد کو ان کی زمینوں کا مالک قرار دیا اور پہلی علت کے مطابق ہم نے ان کو آزاد قرار دیا اور یہ تمام باتیں ان لوگوں کی اجازت سے تھیں جنہوں نے اس زمین کو بطور غنیمت لیا تھا اگر ان کی اجازت نہ ہوتی تو یہ جائز نہ ہوتا اور یہ زمین ان کی ملک رہتی۔ وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ جو زمین لڑائی کے بغیر فتح کی جائے اس کا حکم یہ ہے کہ اسے بھی دیگر اموال کی طرح تقسیم کیا جائے۔ کہ پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ اور چار حصے فتح کرنے والوں کے ہوں گے۔ امام ان کو روک نہیں سکتا۔ البتہ یہ قوم خوشی سے اس کے چھوڑنے پر رضامند ہوجائیں جیسا کہ سواد کی زمین فتح کرنے والوں نے اس زمین کو فاروق اعظم (رض) کے لیے چھوڑ دیا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ دوسرے لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اس بات کو ہم جانتے ہیں کہ اگر سواد کی زمین اس طرح ہوتی جس طرح فریق اوّل نے کہا ہے تو اس میں خمس لازم ہوتا۔ جو اللہ تعالیٰ اور ان لوگوں کے درمیان ہوتا جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے قرار دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ امام کے لیے پانچواں حصہ یا اس میں سے کوئی چیز ذمی لوگوں کو دینا جائز نہیں اور سواد کے جن لوگوں کو حضرت عمر (رض) نے برقرار رکھا وہ ذمی بن چکے تھے اور سواد کا تمام علاقہ ان کے قبضہ میں تھا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عمر (رض) کا یہ عمل اس وجہ سے نہ تھا کہ جو ان حضرات نے ذکر کی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے خمس واجب نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح جو کچھ ان کی گردنوں کے سلسلہ میں کیا تو آپ نے ان پر احسان فرمایا۔ کہ ان کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا اور ان سے غلامی کو اٹھا دیا اور ان کی گردنوں اور زمینوں پر خراج لازم کیا۔ اس طرح وہ اپنی زمینوں کے مالک بن گئے اور ان کی گردنوں سے غلامی کو دور کیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس زمین کو امام نے لڑائی کے ذریعے فتح کیا وہ اس میں یہ عمل اختیار کرسکتا ہے وہ ان کو مسلمانوں کے غلام ہونے اور ان کی زمینوں کو مسلمانوں کی ملکیت ہونے سے بچا کر ان پر خراج مقرر کرسکتا ہے۔ جس طرح حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں ایسا کیا۔ اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے۔ ماافاء اللہ علی رسولہ من اہل القری فللّٰہ وللرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل “ (الحشر۔ ٧) پھر فرمایا ” للفقراء المہاجرین “ (الحشر۔ ٨) پس ان کے ساتھ ان کو داخل کیا پھر فرمایا ” والذین تبوؤ الدار والایمان من قبلہم “ (الحشر۔ ٩) اس سے مراد انصار ہیں پس ان کو ان کے ساتھ داخل کیا۔ پھر فرمایا ” والذین جاؤ من بعدہم “ (الحشر۔ ١٠) اسی طرح ان کے بعد آنے والے تمام مؤمنوں کو بھی اس میں شامل کیا۔ تو امام کو اس بات کا حق ہے اور وہ ان لوگوں کو جن کا اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ذکر فرمایا مناسب خیال کرے ان کو دے۔ جو ہم نے ذکر کیا اس سے امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری (رح) کا قول ثابت ہوگیا اور اسی کو امام ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔

5123

۵۱۲۲ : بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ ، قَالَ : لَمَّا وَفَدَ جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فِیْ أُنَاسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ عُمَرُ لِجَرِیْرِ یَا جَرِیْرُ ، وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنِّیْ قَاسِمٌ مَسْئُوْلٌ ، لَکُنْتُمْ عَلٰی مَا قَسَمْتُ لَکُمْ وَلٰـکِنِّیْ أَرَی أَنْ أَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، فَرَدَّہُ . وَکَانَ رُبْعُ السَّوَادِ لِبُجَیْلَۃَ ، فَأَخَذَہُ مِنْہُمْ وَأَعْطَاہُمْ ثَمَانِیْنَ دِیْنَارًا .
٥١٢٢: قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ جب حضرت جریر بن عبداللہ اور عمار بن یاسر (رض) مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اے جریر ! اگر میں ایسا تقسیم کرنے والا نہ ہوتا کہ جس سے سوال ہوگا۔ تو میں تمہیں اسی پر چھوڑ دیتا جو میں تم کو عطا کرتا ہوں۔ پس میرا تو خیال یہ ہے کہ ہم اس کو بھی مسلمانوں پر واپس کردیں انھوں نے وہ مال لوٹا دیا جریر کہتے ہیں کہ پھر مجھے اسی دینار کی اجازت مرحمت فرمائی۔ سواد کا چوتھائی حصہ بجیلہ والوں کا تھا آپ نے وہ وصول کر کے ان کو اسی دینار عنایت فرمائے۔

5124

۵۱۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ جَرِیْرٍ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ قَدْ أَعْطَیْ بَجِیْلَۃَ رُبْعَ السَّوَادِ ، فَأَخَذْنَاہُ ثَلَاثَ سِنِیْنَ .فَوَفَدَ بَعْدَ ذٰلِکَ جَرِیْرٌ اِلَی عُمَرَ ، وَمَعَہُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَاللّٰہٗ، لَوْلَا أَنِّیْ قَاسِمٌ مَسْئُوْلٌ ، لَتَرَکْتُکُمْ عَلٰی مَا کُنْتُ أَعْطَیْتُکُمْ فَأَرَی أَنْ نَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ فَفَعَلَ ، قَالَ : فَأَجَازَنِیْ عُمَرُ بِثَمَانِیْنَ دِیْنَارًا .قَالُوْا : فَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ عُمَرَ قَدْ کَانَ قَسَمَ السَّوَادَ بَیْنَ النَّاسِ ، ثُمَّ أَرْضَاہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ بِمَا أَعْطَاہُمْ ، عَلٰی أَنْ یَعُوْدَ لِلْمُسْلِمِیْنَ .قِیْلَ لَہٗ : مَا یَدُلُّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ظَاہِرُہٗ، عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ ، وَلٰـکِنْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ مَا فَعَلَ ، فِیْ طَائِفَۃٍ مِنَ السَّوَادِ ، فَجَعَلَہَا لِبُجَیْلَۃَ ، ثُمَّ أَخَذَ ذٰلِکَ مِنْہُمْ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، وَعَوَّضَہُمْ مِنْہُمْ ، عِوَضًا مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ .فَکَانَ تِلْکَ الطَّائِفَۃُ الَّتِیْ جَرٰی فِیْہَا ہٰذَا الْفِعْلُ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، بِمَا عَوَّضَ عُمَرُ أَہْلَہَا مَا عَوَّضَہُمْ مِنْہَا ، مِنْ ذٰلِکَ ، وَمَا بَقِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنَ السَّوَادِ فَعَلَی الْحُکْمِ الَّذِیْ قَدْ بَیَّنَّا ، فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَکَانَتْ أَرْضُ السَّوَادِ أَرْضَ عُشْرٍ ، وَلَمْ یَکُنْ أَرْضَ خَرَاجٍ .فَاِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٥١٢٣: قیس نے حضرت جریر (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے بجیلہ کو سوا کا چوتھائی حصہ دیا پھر ہم نے ان سے تین سال تک لیا۔ پھر اس کے بعد حضرت جریر ‘ عماربن یاسر (رض) سمیت حضرت عمر (رض) کے پاس آئے حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم ! اگر میں ایسا تقسیم کرنے والا نہ ہوتا جس سے سوال ہوگا تو میں تمہیں اس چیز پر چھوڑ دیتا جو تمہیں دی ہے۔ لیکن میرا خیال یہ ہے اسے مسلمانوں کی طرف لوٹا دینا چاہیے چنانچہ انھوں نے اسی طرح کیا حضرت جریر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے آپ نے اسی دینار کی اجازت دی۔ وہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر (رض) نے سواد کی زمین کو لوگوں پر تقسیم فرمایا پھر ان حضرات کو عطیہ دے کر اسے مسلمانوں کی طرف لوٹانے پر راضی کیا۔ اس حدیث کے ظاہر میں تو اس بات کی دلالت موجود نہیں جو تمہارے استدلال کی تائید کرے اگر بالفرض ہو تو ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے یہ عمل سواد کے کسی ایک گروہ کے لیے کیا ہو پس اس کو بجیلہ قبیلہ کے لیے مقرر کردیا۔ پھر اس قبیلہ سے لے کر مسلمانوں کے مال سے معاوضہ دے کر مسلمانوں کو دے دی۔ پس یہی وہ گروہ تھا جس میں مسلمانوں کی خاطر یہ معاوضہ والا فعل جاری ہوا۔ کہ قبیلہ بجیلہ والوں کو عوضانہ دیا گیا اور بقیہ سواد میں وہی حکم جاری رہا جو ہم اس میں ذکر کر آئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو سواد کی زمین عشری ہوتی خراجی نہ ہوتی۔ اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جس کو قیس بن ابو حازم نے حضرت عمر (رض) سے نقل کیا ہے۔
وہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر (رض) نے سواد کی زمین کو لوگوں پر تقسیم فرمایا پھر ان حضرات کو عطیہ دے کر اسے مسلمانوں کی طرف لوٹانے پر راضی کیا۔
جواباس حدیث کے ظاہر میں تو اس بات کی دلالت موجود نہیں جو تمہارے استدلال کی تائید کرے اگر بالفرض ہو تو ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے یہ عمل سواد کے کسی ایک گروہ کے لیے کیا ہو پس اس کو بجیلہ قبیلہ کے لیے مقرر کردیا۔ پھر اس قبیلہ سے لے کر مسلمانوں کے مال سے معاوضہ دے کر مسلمانوں کو دے دی۔ پس یہی وہ گروہ تھا جس میں مسلمانوں کی خاطر یہ معاوضہ والا فعل جاری ہوا۔ کہ قبیلہ بجیلہ والوں کو عوضانہ دیا گیا اور بقیہ سواد میں وہی حکم جاری رہا جو ہم اس میں ذکر کر آئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو سواد کی زمین عشری ہوتی خراجی نہ ہوتی۔
ایک اور روایت سے استدلال :
اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جس کو قیس بن ابو حازم نے حضرت عمر (رض) سے نقل کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔

5125

۵۱۲۴ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ ابْنِ أَبِیْ خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ ، قَالَ : جَائَ تِ امْرَأَۃٌ مِنْ بَجِیْلَۃَ اِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَتْ اِنَّ قَوْمِیْ رَضُوْا مِنْک مِنَ السَّوَادِ ، بِمَا لَمْ أَرْضَ ، وَلَسْتُ أَرْضَی ، حَتّٰی تَمْلَأَ کَفِّیْ ذٰہَبًا ، أَوْ جَمَلِیْ طَعَامًا أَوْ کَلَامًا ہَذَا مَعْنَاہٗ، فَفَعَلَ ذٰلِکَ بِہَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .قِیْلَ لَہُمْ : ذٰلِکَ أَیْضًا ، عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ، بِالْجُزْئِ الَّذِیْ کَانَ سَلَّمَہُ عُمَرُ لَبَجِیْلَۃَ ، فَمَلَکُوْھُ ، ثُمَّ أَرَادَ انْتِزَاعَہُ مِنْہُمْ ، بِطِیْبِ أَنْفُسِہِمْ فَلَمْ یَخْرُجْ حَقُّ تِلْکَ الْمَرْأَۃِ مِنْہَا اِلَّا بِمَا طَابَتْ بِہٖ نَفْسُہَا ، فَأَعْطَاہَا عُمَرُ مَا طَلَبَتْ ، حَتّٰی رَضِیَتْ ، فَسَلَّمَتْ مَا کَانَ لَہَا مِنْ ذٰلِکَ ، کَمَا سَلَّمَ سَائِرُ قَوْمِہَا حُقُوْقَہُمْ .فَہٰذَا - عِنْدَنَا - وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ کُلِّہِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ ، وَمِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، عَلٰی مَا بَیَّنَّا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَرْضِ مِصْرَ أَیْضًا ،
٥١٢٤: قیس بن ابی حازم نے نقل کیا کہ ایک عورت جس کا تعلق بجیلہ قبیلہ سے تھا وہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی میری قوم تو سواد کے سلسلہ میں راضی ہوگئی مگر میں اس عوض پر راضی نہیں اور راضی بھی نہ ہوں گی یہاں تک کہ تو میری ہتھیلی سونے سے یا میرے اونٹ کو غلہ سے بھر نہ دے یا اسی کے ہم معنی بات تھی جناب عمر (رض) نے اسی طرح کردیا۔ فریق اوّل سے یہی عرض کریں گے کہ ہمارے ہاں اس واقعہ کا تعلق بھی اسی جز سے جس کو عمر (رض) نے بجیلہ کے سپرد کردیا تھا اور وہ مالک بن گئے پھر ان سے لینے کا ارادہ فرمایا تو ان کی خوش دلی سے عوضانہ دے کر اس کو واپس کرلیا اس عورت کو اس کی خوشدلی سے جو اس نے مانگا وہ اس کو عنایت فرما دیا جیسا کہ اس کی قوم کو ان کے حقوق دے کر راضی کردیا۔ آثار کو پیش نظر اور نظری لحاظ سے اس بات کا یہی حکم ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔ سر زمین مصر کے متعلق حضرت عمر (رض) کا ارشاد اس کی تائید کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
جواب : فریق اوّل سے یہی عرض کریں گے کہ ہمارے ہاں اس واقعہ کا تعلق بھی اسی جز سے جس کو عمر (رض) نے بجیلہ کے سپرد کردیا تھا اور وہ مالک بن گئے پھر ان سے لینے کا ارادہ فرمایا تو ان کی خوش دلی سے عوضانہ دے کر اس کو واپس کرلیا اس عورت کو اس کی خوشدلی سے جو اس نے مانگا وہ اس کو عنایت فرما دیا جیسا کہ اس کی قوم کو ان کے حقوق دے کر راضی کردیا۔
حاصل روایت : آثار کے پیش نظر اور نظری لحاظ سے اس بات کا یہی حکم ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
تائیدی قول :
سر زمین مصر کے متعلق حضرت عمر (رض) کا ارشاد اس کی تائید کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

5126

۵۱۲۵ : مَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْن قَیْسَ السَّکُوْنِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ لَمَّا فَتَحَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ أَرْضَ مِصْرَ ، جَمَعَ مَنْ کَانَ مَعَہُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاسْتَشَارَہُمْ فِیْ قِسْمَۃِ أَرْضِہَا بَیْنَ مَنْ شَہِدَہَا ، کَمَا قَسَمَ بَیْنَہُمْ غَنَائِمَہُمْ ، وَکَمَا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ بَیْنَ مَنْ شَہِدَہَا أَوْ یُوْقِفُہَا ، حَتّٰی رَاجَعَ فِیْ ذٰلِکَ رَأْیَ أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ .فَقَالَ نَفَرٌ مِنْہُمْ - فِیْہِمْ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَامّ - وَاللّٰہِ مَا ذَاکَ اِلَیْکَ، وَلَا اِلَی عُمَرَ ، اِنَّمَا ہِیَ أَرْضٌ فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْنَا ، وَأَوْجَفْنَا عَلَیْہَا خَیْلنَا وَرِجَالَنَا ، وَحَوَیْنَا مَا فِیْہَا ، فَمَا قِسْمَتُہَا بِأَحَقَّ مِنْ قِسْمَۃِ أَمْوَالِہَا .وَقَالَ نَفَرٌ مِنْہُمْ لَا نَقْسِمُہَا حَتَّی نُرَاجِعَ رَأْیَ أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْہَا .فَاتَّفَقَ رَأْیُہُمْ عَلٰی أَنْ یَکْتُبُوْا اِلَی عُمَرَ فِیْ ذٰلِکَ ، وَیُخْبِرُوْھُ فِی کِتَابِہِمْ اِلَیْہِ، بِمَقَالَتِہِمْ .فَکَتَبَ اِلَیْہِمْ عُمَرُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَقَدْ وَصَلَ اِلَیَّ مَا کَانَ مِنْ اِجْمَاعِکُمْ عَلٰی أَنْ تَغْتَصِبُوْا عَطَایَا الْمُسْلِمِیْنَ ، وَمُؤَنَ مَنْ یَغْزُو أَہْلَ الْعَدُوِّ ، وَأَہْلَ الْکُفْرِ ، وَاِنِّیْ اِنْ قَسَمْتُہَا بَیْنَکُمْ ، لَمْ یَکُنْ لِمَنْ بَعْدَکُمْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ مَادَّۃً یُقَوُّوْنَ بِہٖ عَلَی عَدُوِّکُمْ ، وَلَوْلَا مَا أَحْمِلُ عَلَیْہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَأَدْفَعُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ مُؤَنِہِمْ ، وَأَجْرِیْ عَلَی ضُعَفَائِہِمْ وَأَہْلِ الدِّیْوَانِ مِنْہُمْ ، لَقَسَمْتُہَا بَیْنَکُمْ ، فَأَوْقِفُوْہَا فَیْئًا ، عَلَی مَنْ بَقِیَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی یَنْقَرِضَ آخِرُ عِصَابَۃٍ تَغْزُو مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ .قَالَہٗ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا قَدْ دَلَّ فِیْ حُکْمِ الْأَرْضِیْنَ الْمُفْتَتَحَۃِ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، وَأَنَّ حُکْمَہُمَا ، خِلَافُ حُکْمِ مَا سِوَاہَا مِنْ سَائِرِ الْأَمْوَالِ الْمَغْنُوْمَۃِ مِنَ الْعَدُوِّ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ذَکَرَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ قَسَمَ خَیْبَرَ بَیْنَ مَنْ کَانَ شَہِدَہَا ، فَذٰلِکَ یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ فِیْمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ خَیْبَرَ حُجَّۃً لِمَنْ ذَہَبَ اِلَی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَسُفْیَانُ ، وَمَنْ تَابَعَہُمَا ، فِیْ اِیْقَافِ الْأَرْضِیْنَ الْمُفْتَتَحَۃِ لِنَوَائِبِ الْمُسْلِمِیْنَ .قِیْلَ لَہٗ : ہَذَا حَدِیْثٌ لَمْ یُفَسِّرْ لَنَا فِیْہِ کُلَّ الَّذِیْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ خَیْبَرَ .وَقَدْ جَائَ غَیْرُہُ فَبَیَّنَ لَنَا مَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا .
٥١٢٥ : قیس سکونی نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ جب حضرت عمرو بن العاص (رض) نے سرزمین مصر کو فتح کرلیا تو ان کے ساتھ جو بھی اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے ان کو جمع کیا اور ان سے اس کی زمین ان لوگوں کے مابین تقسیم کرنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا جو واقعہ میں موجود تھے۔ جس طرح ان کے مابین غنائم کو تقسیم کردیا اور جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعہ خیبر میں حاضر لوگوں کے درمیان خیبر کو تقسیم فرما دیا یا پھر اس کو امیرالمؤمنین کی رائے آنے تک توقف کیا جائے (دو رائے آئیں) نمبر 1: ان میں سے ایک جماعت نے کہا جن میں حضرت زبیر بن العوام (رض) بھی تھے کہ اللہ کی قسم ! یہ معاملہ نہ تو تیرے اختیار میں ہے اور نہ عمر (رض) کے۔ اس زمین کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فتح کیا ہم نے اپنے گھوڑ سوار اور پیدل اس پر دوڑائے اور جو کچھ اس میں ہے اس کو جمع کیا۔ اس کی زمین اس کے اموال کی طرح تقسیم کی حقدار ہے۔ نمبر 2: ان میں سے دوسری جماعت نے کہا ہم اس کو امیرالمؤمنین کی طرف رجوع سے پہلے تقسیم نہ کریں۔ پھر اس پر اتفاق رائے ہوگیا کہ حضرت عمر (رض) کی طرف لکھا جائے اور ان کے خط میں ان آراء کی بھی اطلاع کردی جائے (چنانچہ حضرت عمرو بن عاص (رض) کا خط پہنچا) تو حضرت عمر (رض) نے ان کی طرف یہ خط لکھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم حمدوصلاۃ کے بعد مجھے تمہاری طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اس بات پر متفق ہو کہ تم مسلمانوں کے عطیات اور دشمن نیز کفار کے مقابلے میں لڑنے والوں کی محنت کو چھین لو۔ اگر میں اس کو تمہارے درمیان تقسیم کر دوں تو تمہارے بعد والے مسلمانوں کے لیے ایسی کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ جس کے ذریعہ وہ تمہارے دشمنوں کے خلاف مضبوط ہو سکیں۔ اگر وہ چیزیں نہ ہوتیں جس سے میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں آمادہ کروں اور مسلمانوں سے ان کا بوجھ دور کروں اور ان کے کمزوروں اور دیوان والوں پر اسے جاری کرنا نہ ہوتا تو میں اس کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا فلہذا اسے بقیہ مسلمانوں کے لیے بطور غنیمت رہنے دو یہاں تک کہ مسلمانوں کی آخری جماعت کفار سے جنگ کرے۔ والسلام علیکم۔ امام طحاوی فرماتے ہیں اس روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مفتوحہ زمینوں کا مسئلہ دشمن سے حاصل شدہ دیگر تمام غنائم سے مختلف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ اس روایت میں مذکور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر ان لوگوں میں تقسیم کردیا جو فتح میں شریک تھے پس اس سے اس بات کی نفی ہوگئی جس کو ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری (رح) اور ان کے پیروکاروں نے اختیار کیا کہ یہ اراضی مفتوحہ مصائب مسلمین کے لیے روک لی جائیں گی۔ اس روایت میں خیبر کے متعلق پوری تفصیل موجود نہیں ہے خیبر کے متعلق تفصیلی روایت اس بات کو واضح کرتی ہے۔ وہ روایت یہ ہے۔
حاصل روایت : اس روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے مفتوحہ کہ زمینوں کا مسئلہ دشمن سے حاصل شدہ دیگر تمام غناتم سے مختلف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔
سوال : اس روایت میں مذکور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر ان لوگوں میں تقسیم کردیا جو فتح میں شریک تھے پس اس سے اس بات کی نفی ہوگئی جس کو ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری (رح) اور ان کے پیروکاروں نے اختیار کیا کہ یہ اراضی مفتوحہ مصائب مسلمین کے لیے روک لی جائیں گی۔
جواب : اس روایت میں خیبر کے متعلق پوری تفصیل موجود نہیں ہے خیبر کے متعلق تفصیلی روایت اہل بات کو واضح کرتی ہے۔ وہ روایت یہ ہے۔

5127

۵۱۲۶ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سُفْیَانُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ ، قَالَ قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ نِصْفَیْنِ ، نِصْفًا لِنَوَائِبِہٖ وَحَاجَتِہٖ، وَنِصْفًا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَقَسَمَہَا بَیْنَہُمْ عَلَی ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ بَیَانُ مَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ خَیْبَرَ ، وَأَنَّہٗ أَوْقَفَ نِصْفَہَا لِنَوَائِبِہٖ وَحَاجَتِہٖ، وَقَسَمَ نِصْفَہَا بَیْنَ مَنْ شَہِدَہَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .فَاَلَّذِیْ کَانَ أَوْقَفَہُ مِنْہَا ، ہُوَ الَّذِیْ کَانَ دَفَعَہُ اِلَی الْیَہُوْدِ مُزَارَعَۃً ، عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا ، وَہُوَ الَّذِیْ تَوَلَّیْ عُمَرُ قِسْمَتَہُ فِیْ خِلَافَتِہِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ لَمَّا أَجْلَی الْیَہُوْدَ عَنْ خَیْبَرَ .وَفِیْمَا بَیَّنَّا مِنْ ذٰلِکَ تَقْوِیَۃً لِمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَسُفْیَانُ ، فِیْ اِیْقَافِ الْأَرْضِیْنَ ، وَتَرْکِ قِسْمَتِہَا اِذَا رَأَی الْاِمَامُ ذٰلِکَ .
٥١٢٦: بشیر بن یسار نے سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو دو برابر حصوں حصوں میں تقسیم فرمایا کہ نصف حصہ اپنی ضروریات مصائب کے لیے رکھا اور باقی نصف مسلمانوں کے مابین اٹھارہ حصوں میں تقسیم فرمایا۔ اس روایت سے خیبر کے سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل معلوم ہو رہا ہے کہ آپ نے نصف اپنے مصائب و حوائج کے لیے رکھا اور نصف کو واقعہ میں شامل حضرات پر تقسیم کردیا۔ جو حصہ اپنے لیے رکھا اسی کو یہود کے ہاتھوں میں مزارعت پر دیا جیسا کہ روایت حضرت ابن عمر ‘ جابر (رض) میں مذکور ہوا اور یہ وہی حصہ ہے کہ جس کو مسلمانوں میں اس وقت تقسیم کیا گیا جبکہ حضرت عمر (رض) نے اپنے دور میں یہود کو جلاوطن کیا۔ یہ جو کچھ مذکور ہوا یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کے مؤقف کی تائید کرتا ہے کہ اگر امام چاہے تو ان مفتوحہ زمینوں کو وقف کر دے اور تقسیم نہ کرے۔
حاصل روایت : اس روایت سے خیبر کے سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل معلوم ہو رہا ہے کہ آپ نے نصف اپنے مصائب و حوائج کے لیے رکھا اور نصف کو واقعہ میں شامل حضرات پر تقسیم کردیا۔ جو حصہ کہ اپنے لیے رکھا اسی کو یہود کے ہاتھوں میں مزارعت پر دیا جیسا کہ روایت حضرت ابن عمر ‘ جابر (رض) میں مذکور ہوا اور یہ وہی حصہ ہے کہ جس کو مسلمانوں میں اس وقت تقسیم کیا گیا جبکہ حضرت عمر (رض) نے اپنے دور میں یہود کو جلاوطن کیا۔ یہ جو کچھ مذکور ہوا یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کے مؤقف کی تائید کرتا ہے کہ اگر امام چاہے تو ان مفتوحہ زمینوں کو وقف کر دے اور تقسیم نہ کرے۔
نوٹ : فریق ثانی کے مؤقف کو دلائل سے خوب ثابت کیا ہے اور خود امام طحاوی (رح) کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مفتوحہ زمینوں کو امام مناسب خیال کرے تو تقسیم کرے یا ویسے رہنے دے۔

5128

۵۱۲۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ مَرْزُوْقٍ التُّجِیْبِیِّ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رُوَیْفِعٍ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ عَامَ خَیْبَرَ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ، فَلَا یَأْخُذُ دَابَّۃً مِنَ الْمَغَانِمِ فَیَرْکَبُہَا، حَتّٰی اِذَا أَنْقَصَہَا رَدَّہَا فِی الْمَغَانِمِ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ، فَلَا یَلْبَسُ ثَوْبًا مِنَ الْمَغَانِمِ ، حَتّٰی اِذَا أَخْلَقَہٗ رَدَّہَا فِی الْمَغَانِمِ .
٥١٢٧: حنش بن عبداللہ نے حضرت رویفع بن ثابت (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے سال فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ غنائم میں سے کوئی جانور سواری کے لیے نہ لے کہ اس کو کمزور کر کے پھر اس کو غنائم میں واپس کر دے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ غنائم میں سے کوئی کپڑا پہننے کے لیے نہ لے کہ جب وہ پرانا ہوجائے تو غنائم میں واپس کر دے۔

5129

۵۱۲۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ سُلَیْمٍ التُّجِیْبِیِّ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ رُوَیْفِعٍ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ .فَذَہَبَ قَوْمٌ ، مِنْہُمُ الْأَوْزَاعِیُّ ، اِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یَأْخُذَ الرَّجُلُ السِّلَاحَ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ ، فَیُقَاتِلُ بِہٖ فِیْ مَعْمَعَۃِ الْقِتَالِ مَا کَانَ اِلٰی ذٰلِکَ مُحْتَاجًا ، وَلَا یَنْتَظِرُ بِرَدِّہِ الْفَرَاغَ مِنَ الْحَرْبِ ، فَتُعَرِّضَہٗ لِلْہَلَاکِ وَکَسَادُ الثَّمَنِ ، فِیْ طُوْلِ مُکْثِہٖ، فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، مِنْہُمْ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
٥١٢٨: حنش نے رویفع بن ثابت (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ایک جماعت جس میں اوزاعی بھی شامل ہیں ان کا مؤقف یہ ہے کہ مال غنیمت میں ملنے والے ہتھیاروں کے ذریعہ لڑنے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس کو ضرورت رہے مگر واپس لوٹانے کے لیے لڑائی کے ختم کا منتظر نہ رہے کیونکہ دارالحرب میں زیادہ دیر ٹھہرنے کی وجہ سے وہ اسلحہ ضائع ہوجائے گا یا اس کی قیمت میں کمی آجائے گی۔ اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ دوسرے حضرات نے ان کی مخالفت کی جن میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں۔ جیسا کہ اس اثر سے واضح ہو رہا ہے۔

5130

۵۱۲۹ : فِیْمَا حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ أَنْ یَأْخُذَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ السِّلَاحَ ، اِذَا احْتَاجَ اِلَیْہِ، بِغَیْرِ اِذْنِ الْاِمَامِ ، فَیُقَاتِلُ بِہٖ ، حَتّٰی یَفْرُغَ مِنَ الْحَرْبِ ، ثُمَّ یَرُدُّہُ فِی الْمَغْنَمِ .قَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ : وَقَدْ بَلَغَنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا احْتَجَّ بِہٖ الْأَوْزَاعِیُّ ، وَلِحَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَانٍ وَوُجُوْہٌ وَتَفْسِیْرٌ لَا یَفْہَمُہٗ وَلَا یُبْصِرُہُ اِلَّا مَنْ أَعَانَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ .فَہٰذَا الْحَدِیْثُ - عِنْدَنَا - عَلَی مَنْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ، وَہُوَ عَنْہُ غَنِیٌّ ، یَبْقَی بِذٰلِکَ عَلَی دَابَّتِہٖ، وَعَلَی ثَوْبِہٖ ، أَوْ یَأْخُذُ ذٰلِکَ یُرِیْدُ بِہٖ الْخِیَانَۃَ .فَأَمَّا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، لَیْسَ مَعَہُ دَابَّۃٌ ، وَلَیْسَ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ فَضْلٌ یَحْمِلُوْنَہُ اِلَّا دَوَابُّ الْغَنِیْمَۃِ ، وَلَا یَسْتَطِیْعُ أَنْ یَمْشِیَ ، فَاِنَّ ہَذَا لَا یَحِلُّ لِلْمُسْلِمِیْنَ تَرْکُہُ وَلَا بَأْسَ أَنْ یَرْکَبَہَا ہٰذَا، شَائُوْا ، أَوْ کَرِہُوْا ، وَکَذٰلِکَ ہٰذِہِ الْحَالُ فِی الثِّیَابِ ، وَکَذٰلِکَ ہٰذِہِ الْحَالُ فِی السِّلَاحِ ، وَالْحَالُ أَبْیَنُ وَأَوْضَحُ .أَلَا تَرَی أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ لَوْ تَکَسَّرَتْ سُیُوْفُہُمْ ، أَوْ ذَہَبَتْ ، وَلَہُمْ غِنًیْ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ ، أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یَأْخُذُوْا سُیُوْفًا مِنَ الْغَنِیْمَۃِ ، فَیُقَاتِلُوْا بِہَا ، مَا دَامُوْا فِیْ دَارِ الْحَرْبِ .أَرَأَیْتُ ، وَلَوْ لَمْ یَحْتَاجُوْا اِلَیْہَا فِیْ مَعْمَعَۃِ الْقِتَالِ ، وَاحْتَاجُوْا اِلَیْہَا بَعْدَ ذٰلِکَ بِیَوْمَیْنِ أَغَارَ عَلَیْہِمُ الْعَدُوُّ ، أَیَقُوْمُوْنَ ہٰکَذَا فِیْ وُجُوْہِ الْعَدُوِّ بِغَیْرِ سِلَاحٍ ؟ کَیْف یَصْنَعُوْنَ ؟ أَیَسْتَأْسِرُوْنَ ؟ ہَذَا الرَّأْیُ فِیْہِ تَوْہِینٌ لِمَکِیدَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ .وَکَیْفَ یَحِلُّ ہَذَا فِی الْمَعْمَعَۃِ ، وَیُحَرَّمُ بَعْدَ ذٰلِکَ ؟
٥١٢٩: سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے انھوں نے ابو یوسف (رح) سے نقل کیا کہ اس آدمی کو غنیمت کا اسلحہ لینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ ضرورت پیش آئے امام سے اجازت کی ضرورت نہیں اس اسلحہ سے قتال کرے جب لڑائی سے فارغ ہو تو غنائم میں لوٹا دے امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ ہمیں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات پہنچی ہے جس سے امام اوزعی نے دلیل پیش کی ہے اور حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ معانی اور وجوہ اور تفسیر ہوتی ہے جن کی سمجھ بوجھ وہی رکھتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اعانت فرمائے۔ ہمارے ہاں اس روایت میں جو کچھ بتلایا گیا اس کا تعلق مالدار سے ہے جو کہ ضرورت کے بغیر جانور یا کپڑا لیتا ہے یا خیانت کے طور پر لیتا ہے مگر جس مسلمان کے پاس دارالحرب میں کوئی جانور نہ ہو اور دوسرے مسلمانوں کے پاس غنیمت کے علاوہ کوئی زائد جانور نہ ہو اور وہ پیدل بھی نہ چل سکتا ہو تو مسلمانوں کے لیے اسے بغیر سواری چھوڑنا جائز نہیں اور اس پر سواری میں کوئی حرج نہیں۔ خواہ دوسرے مسلمان اس کو پسند کریں یا ناپسند کریں۔ کپڑے کا اور ہتھیاروں کا بھی حال ہے اور یہ حکم تو ظاہر تر ہے کیا تم اس بات پر نظر نہیں ڈالتے کہ اگر مسلمانوں کی تلواریں ٹوٹ جائیں یا ان کے پاس تلواریں نہ رہیں اور مسلمانوں کے پاس سے انھیں کچھ نہ مل سکے تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ مال غنیمت سے تلواریں لے کر ان کے ساتھ لڑیں جب تک کہ وہ دارالحرب میں ہو۔ ذرا توجہ تو کرو کہ اگر ان کو ان تلواروں کی ضرورت عین گھمسان کی جنگ کے موقعہ پر نہ ہو اور اس کے دو دن بعد ان کو ان کی اس لیے ضرورت ہو کہ دشمن کے شب خون کا خطرہ ہو آپ ہی بتلائیں کہ آیا وہ دشمن کے سامنے یوں بلا اسلحہ کھڑے ہوں گے ؟ وہ کیا کریں گے کیا وہ اس رائے کو ترجیح دیں گے جس میں مسلمانوں کی جنگی چال کی تذلیل ہے (یا کچھ اور کریں گے) پھر یہ عین گھمسان میں کیسے حلال ہوا کہ جو بعد میں حرام ہوگیا ؟

5131

۵۱۳۰ :عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی الْمَجَالِدِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ أَوْفَی ، صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ یَأْتِیْ أَحَدُنَا اِلَی طَعَامٍ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ ، فَیَأْخُذُ مِنْہُ حَاجَتَہٗ۔فَاِذَا کَانَ الطَّعَامُ لَا بَأْسَ بِأَخْذِہِ وَأَکْلِہِ وَاسْتِہْلَاکِہِ لِحَاجَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَی ذٰلِکَ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا ، لَا بَأْسَ بِأَخْذِ الدَّوَابِّ وَالسِّلَاحِ وَالثِّیَابِ وَاسْتِعْمَالِہَا ، لِلْحَاجَۃِ اِلَی ذٰلِکَ ، حَتّٰی لَا یَکُوْنَ الَّذِی أُرِیْدَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ أَوْفَیْ ہٰذَا، غَیْرُ مَا أُرِیْدُ بِہٖ مِنْ حَدِیْثِ رُوَیْفِعٍ ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّانِ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ، وَبِہٖ نَأْخُذُ .
٥١٣٠: محمد بن ابی المجالد نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت کی ہے جو کہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیبر میں تھے ہم میں سے ہر ایک غنائم کے کھانے کی طرف آتا اور وہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے لیتا تھا۔ اس روایت سے کھانے کا استعمال ثابت ہوا تو اگر کھانا ضرورت کے وقت استعمال کرنے اور اس کے کھانے اور اسے حاجت مسلم میں لگانے میں حرج نہیں تو بالکل اسی طرح جانوروں ہاتھیاروں اور کپڑوں کو لے کر ضرورت کے وقت استعمال میں کوئی حرج نہیں اور یہ مفہوم اس لیے مراد لیا گیا ہے تاکہ دونوں روایات عبداللہ بن ابی اوفیٰ اور روایت رویفع (رض) مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مخالف نہ ہوں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں۔

5132

۵۱۳۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الشَّامِیُّ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ غَیْلَانَ بْنَ سَلْمَۃَ ، أَسْلَمَ وَتَحْتَہٗ عَشْرُ نِسْوَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ خُذْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرَ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَسْلَمَ ، وَعِنْدَہٗ أَکْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَۃٍ ، قَدْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَہُوَ مُشْرِکٌ ، أَنَّہٗ یَخْتَارُ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا ، فَیُمْسِکُہُنَّ ، وَیُفَارِقُ سَائِرَہُنَّ ، وَسَوَاء ٌ عِنْدَہُمْ ، کَانَ تَزْوِیْجُہٗ اِیَّاہُنَّ فِیْ عُقْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، أَوْ فِیْ عُقَدٍ مُتَفَرِّقَۃٍ ، وَمِمَّنْ قَالَ ہٰذَا الْقَوْلَ ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : اِنْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، فَنِکَاحُہُنَّ کُلُّہُنَّ بَاطِلٌ ، وَیُفَرَّقُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہُنَّ .وَاِنْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقَدٍ مُتَفَرِّقَۃٍ ، فَنِکَاحُ الْأَرْبَعِ الْأُوَلِ مِنْہُنَّ ثَابِتٌ ، وَیُفَرَّقُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ سَائِرِہِنَّ ، وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ مُنْقَطِعٌ ، لَیْسَ کَمَا رَوَاہُ عَبْدُ الْأَعْلٰی وَأَصْحَابُہُ الْبَصْرِیُّوْنَ عَنْ مَعْمَرٍ .اِنَّمَا أَصْلُہٗ۔
٥١٣١: سالم نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت غیلان بن سلمہ (رض) نے اسلام قبول کیا اور ان کی اس وقت دس بیویاں تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا۔ ان میں سے چار کو رکھ لو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ جب آدمی اسلام قبول کرلے اور اس کے پاس چار سے زائد بیویاں ہوں اور اس نے شرک کی حالت میں دارالحرب میں ان سے نکاح کیا ہو تو اسے ان میں سے چار کے چناؤ کا اختیار ہے کہ ان کو اپنے ہاں رکھے اور بقیہ کو جدا کر دے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ ان سے اکٹھی شادی کی ہو یا الگ الگ عقد کیا ہو۔ یہ امام محمد (رح) کا بھی قول ہے۔ اگر ان سب سے ایک عقد سے نکاح کیا ہو تو تمام سے نکاح ٹوٹ جائے گا اور اس کے اور ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور اگر الگ الگ عقد سے نکاح ہوا تو پہلی چار سے نکاح درست رہے گا۔ بقیہ سے تفریق کردی جائے گی اس قول کو امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف (رح) اور دیگر علماء نے اختیار کیا ہے۔ اس روایت کو جس طرح عبدالاعلیٰ اور اس کے شاگردوں نے معمر (رح) سے جس طرح بیان کیا یہ اس طرح نہیں بلکہ اس کی اصل یہ ہے۔
تخریج : ترمذی فی النکاح باب ٣٣‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٤٠‘ مسند احمد ٢‘ ١٣؍١٤‘ ٤٤؍٨٣۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ جب آدمی اسلام قبول کرلے اور اس کے پاس چار سے زائد بیویاں ہوں اور اس نے شرک کی حالت میں دارالحرب میں ان سے نکاح کیا ہو تو اسے ان میں سے چار کے چناؤ کا اختیار ہے کہ ان کو اپنے ہاں رکھے اور بقیہ کو جدا کر دے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ ان سے اکٹھی شادی کی ہو یا الگ الگ عقد کیا ہو۔ یہ امام محمد (رح) کا بھی قول ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اگر ان سب سے ایک عقد سے نکاح کیا ہو تو تمام سے نکاح ٹوٹ جائے گا اور اس کے اور ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور اگر الگ الگ عقد سے نکاح ہوا تو پہلی چار سے نکاح درست رہے گا۔ بقیہ سے تفریق کردی جائے گی اس قول کو امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف (رح) اور دیگر علماء نے اختیار کیا ہے۔
فریق اوّل کی روایت کا جواب : اس روایت کو جس طرح عبدالاعلیٰ اور اس کے شاگردوں نے معمر (رح) سے بیان کیا یہ اس طرح نہیں بلکہ اس کی اصل یہ ہے۔

5133

۵۱۳۲ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہٗ قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ ثَقِیْفٍ أَسْلَمَ وَعِنْدَہٗ أَکْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَۃٍ أَمْسِکْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا ، وَفَارِقْ سَائِرَہُنَّ .
٥١٣٢: مالک نے ابن شہاب سے روایت کیا کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثقیف کے ایک اسلام لانے والے شخص کو فرمایا جبکہ اس کے پاس چار سے زیادہ بیویاں تھیں۔ ان میں سے چار کو روک لو اور بقیہ کو جدا کر دو ۔
تخریج : موطا مالک فی الطلاق ٧٦۔

5134

۵۱۳۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ الْمَکِّیُّ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حَمِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ .
٥١٣٣: معمر نے ابن شہاب انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

5135

۵۱۳۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ .فَہٰذَا ہُوَ أَصْلُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، کَمَا رَوَاہُ مَالِکٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَکَمَا رَوَاہُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَقَدْ رَوَاہُ أَیْضًا عُقَیْلٌ ، عَنِ الزُّہْرِیُّ ، مَا یَدُلُّ عَلَی الْمَوْضِعِ الَّذِیْ أَخَذَہُ الزُّہْرِیُّ مِنْہُ .
٥١٣٤: معمر نے ابن شہاب سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ اس روایت کی اصل ہے جیسا کہ مالک (رح) نے زہری (رح) سے اور عبدالرزاق اور ابن عیینہ نے معمر اور انھوں نے زہری سے روایت کی ہے عقیل نے بھی زہری سے روایت کی ہے جس سے اس روایت کا وہ ماخذ معلوم ہوتا ہے جہاں سے زہری نے لی ہے۔ روایت یہ ہے۔

5136

۵۱۳۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : بَلَغَنِیْ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ سُوَیْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِغَیْلَانَ بْنِ سَلْمَۃَ الثَّقَفِیِّ ، حِیْنَ أَسْلَمَ وَتَحْتَہُ عَشْرُ نِسْوَۃٍ خُذْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا ، وَفَارِقْ سَائِرَہُنَّ .فَبَیَّنَ عُقَیْلٌ فِیْ ہٰذَا ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، مَخْرَجَ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَأَنَّہٗ اِنَّمَا أَخَذَہُ عَمَّا بَلَغَہٗ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ الزُّہْرِیُّ عِنْدَہٗ فِیْ ہٰذَا شَیْء ٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، فَیَدَعُ الْحُجَّۃَ بِہٖ ، وَیَحْتَجُّ بِمَا بَلَغَہٗ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ سُوَیْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلٰـکِنْ اِنَّمَا أَتَی مَعْمَرٌ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ لِأَنَّہٗ کَانَ عِنْدَہُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، فِیْ قِصَّۃِ غَیْلَانِ حَدِیْثَانِ ، ہَذَا أَحَدُہُمَا .وَالْآخَرُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّ غَیْلَانَ بْنَ سَلْمَۃَ ، طَلَّقَ نِسَائَ ہٗ، وَقَسَمَ مَالَہٗ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ عُمَرُ ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَرْتَجِعَ نِسَائَ ہٗ وَمَالَہُ وَقَالَ : لَوْ مِتَّ عَلٰی ذٰلِکَ ، لَرَجَمْت قَبْرَکَ، کَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِیْ وَغَّالٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .فَأَخْطَأَ مَعْمَرٌ فَجَعَلَ اِسْنَادَ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِیْ فِیْہِ کَلَامُ عُمَرَ ، لِلْحَدِیْثِ الَّذِی فِیْہِ کَلَامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَفَسَدَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ جِہَۃِ الْاِسْنَادِ .ثُمَّ لَوْ ثَبَتَ ، عَلٰی مَا رَوَاہٗ عَبْدُ الْأَعْلٰی، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، لَمَا کَانَتْ أَیْضًا فِیْہِ حُجَّۃٌ عِنْدَنَا ، عَلَی مَنْ ذَہَبَ اِلَی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا فِیْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ تَزْوِیْجَ غَیْلَانَ ذٰلِکَ اِنَّمَا کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٥١٣٥: عقیل نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ مجھے عثمان بن محمد بن ابی سوید (رض) سے بات پہنچی ہے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) کو مسلمان ہوتے وقت فرمایا ان میں سے چار رکھ لو اور بقیہ سے جدائی اختیار کرلو اس لیے کہ ان کی دس بیویاں تھیں۔ اس روایت میں عقیل نے زہری سے اس روایت کا مخرج بتلایا کہ اس سے عثمان بن محمد بن ابی سوید عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ روایت اخذ کی ہے۔ پس یہ بات ناممکن ہے کہ زہری کے پاس اس سلسلے میں سالم عن ابیہ سے کوئی چیز موجود ہو اور وہ اس کو چھوڑ کر عثمان بن محمد بن ابی سوید عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہنچی ہوئی روایت بیان کریں۔ لیکن اس روایت میں معمر آئے ہیں کیونکہ ان کے پاس حضرت غیلان (رض) کے واقعہ کے سلسلہ میں دو روایات تھیں۔ ان میں سے ایک یہ روایت بالا اور دوسری جو حضرت سالم عن ابیہ سے مروی ہے کہ حضرت غیلان (رض) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی اور اپنا مال تقسیم کردیا۔ یہ بات حضرت عمر (رض) کو پہنچی تو انھوں نے حکم دیا کہ بیویوں سے رجوع کرو اور مال کو واپس لو اگر تم اسی حالت میں مرگئے تو میں تمہاری قبر کو اسی طرح سنگسار کروں گا جس طرح زمانہ جاہلیت میں لوگ ابو رغال کی قبر کو سنگسار کرتے تھے۔ اس روایت میں معمر (رح) سے خطاء ہوئی اور انھوں نے اس روایت کی سند کو جس میں حضرت عمر (رض) کا کلام تھا اس روایت کی سند کے ساتھ ملا دیا جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام تھا تو سند کے لحاظ سے یہ روایت فاسد ہوگئی۔ (پس استدلال درست نہ رہا) اگر بالفرض یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچ جائے جس طرح کہ عبدالاعلیٰ نے بواسطہ معمر زہری سے روایت کی ہے پھر بھی اس میں ہمارے ہاں امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ حضرت غیلان (رض) کا نکاح دور جاہلیت میں ہوا تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت سعید بن ابی عروبہ نے معمر سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔
اس روایت میں عقیل نے زہری سے اس روایت کا مخرج بتلایا کہ اس سے عثمان بن محمد بن ابی سوید عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت اخذ کی ہے۔ پس یہ بات ناممکن ہے کہ زہری کے پاس اس سلسلے میں سالم عن ابیہ سے کوئی چیز موجود ہو اور وہ اس کو چھوڑ کر عثمان بن محمد بن ابی سوید عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہنچی ہوئی روایت بیان کریں۔
سند کے اعتبار سے فساد :
لیکن اس روایت میں معمر آئے ہیں کیونکہ ان کے پاس حضرت غیلان (رض) کے واقعہ کے سلسلہ میں دو روایات تھیں۔ ان میں سے ایک یہ روایت بالا اور دوسری جو حضرت سالم عن ابیہ سے مروی ہے کہ حضرت غیلان (رض) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے اور اپنا مال تقسیم کردیا۔ یہ بات حضرت عمر (رض) کو پہنچی تو انھوں نے حکم دیا کہ بیویوں سے رجوع کرو اور مال کو واپس لو اگر تم اسی حالت میں مرگئے تو میں تمہاری قبر کو اسی طرح سنگسار کروں گا جس طرح زمانہ جاہلیت میں لوگ ابو رغال کی قبر کو سنگسار کرتے تھے۔ اس روایت میں معمر (رح) سے خطاء ہوئی اور انھوں نے اس روایت کی سند کو جس میں حضرت عمر (رض) کا کلام تھا اس روایت کی سند کے ساتھ ملا دیا جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام تھا تو سند کے لحاظ سے یہ روایت فاسد ہوگئی۔ (پس استدلال درست نہ رہا)
دوسرا جواب :
اگر بالفرض یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچ جائے جس طرح کہ عبدالاعلیٰ نے بواسطہ معمر زہری سے روایت کی ہے پھر بھی اس میں ہمارے ہاں امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ حضرت غیلان (رض) کا نکاح دور جاہلیت میں ہوا تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت سعید بن ابی عروبہ نے معمر سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔

5137

۵۱۳۶ : حَدَّثَنَا خَلَّادٌ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَاسِطِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیْدُ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِ حَدِیْثِ أَحْمَدَ بْنِ دَاوٗدَ ، وَزَادَ اِنَّہٗ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .فَکَانَ تَزْوِیْجُ غَیْلَانَ لِلنِّسْوَۃِ اللَّاتِیْ کُنَّ عِنْدَہُ حِیْن أَسْلَمَ ، فِیْ وَقْتٍ کَانَ تَزَوُّجُ ذٰلِکَ الْعَدَدِ جَائِزًا ، وَالنِّکَاحُ عَلَیْہِ ثَابِتٌ .وَلَمْ یَکُنْ لِلْوَاحِدَۃِ حِیْنَئِذٍ ، مِنْ ثُبُوْتِ النِّکَاحِ اِلَّا مَا لِلْعَاشِرَۃِ مِثْلُہٗ ، ثُمَّ أَحْدَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ حُکْمًا آخَرَ ، وَہُوَ تَحْرِیْمُ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ ، فَکَانَ ذٰلِکَ حُکْمًا طَارِئًا ، طَرَأَتْ بِہٖ حُرْمَۃٌ حَادِثَۃٌ عَلَی نِکَاحِ غَیْلَانَ ، فَأَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ ، أَنْ یُمْسِکَ مِنْ النِّسَائِ الْعَدَدَ الَّذِی أَبَاحَہُ اللّٰہٗ، وَیُفَارِقُ مَا سِوٰی ذٰلِکَ ، وَجَعَلَ کَرَجُلٍ لَہٗ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، فَطَلَّقَ اِحْدَاہُنَّ ، فَحُکْمُہٗ أَنْ یَخْتَارَ مِنْہُنَّ وَاحِدَۃً فَیَجْعَلُ ذٰلِکَ الطَّلَاقَ عَلَیْہَا ، وَیُمْسِکُ الْأُخْرَی .وَکَذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ یَقُوْلَانِ فِیْ ہٰذَا .فَأَمَّا مَنْ تَزَوَّجَ عَشْرَ نِسْوَۃٍ ، بَعْدَ تَحْرِیْمِ اللّٰہِ مَا جَاوَزَ الْأَرْبَعَ فِیْ عُقْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، فَاِنَّہٗ اِنَّمَا عَقَدَ النِّکَاحَ عَلَیْہِنَّ عَقْدًا فَاسِدًا ، فَلَا یَثْبُتُ بِذٰلِکَ لَہُ نِکَاحٌ .أَلَا تَرَی أَنَّہٗ لَوْ تَزَوَّجَ ذَاتَ رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنْہُ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَہُوَ مُشْرِکٌ ، ثُمَّ أَسْلَمَ ، أَنَّہَا لَا تُقَرُّ تَحْتَہٗ، وَاِنْ کَانَ عَقْدُہُ لِذٰلِکَ کَانَ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَہُوَ مُشْرِکٌ .فَلَمَّا کَانَ ہَذَا یُرَدُّ حُکْمُہٗ فِیْہِ اِلَی حُکْمِ نِکَاحَاتِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْمَا یَعْقِدُوْنَ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا حُکْمُہٗ فِی الْعَشْرِ نِسْوَۃً اللَّاتِیْ تَزَوَّجَہُنَّ وَہُوَ مُشْرِکٌ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، یُرَدُّ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِکَاحَاتِہِمْ .فَاِنْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، فَنِکَاحُہُنَّ بَاطِلٌ ، وَاِنْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقَدٍ مُتَفَرِّقَۃٍ ، جَازَ نِکَاحُ الْأَرْبَعِ الْأُوَلِ مِنْہُنَّ ، وَبَطَلَ نِکَاحُ سَائِرِہِنَّ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ تَرَکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ قَوْلَہُمَا ، فِیْ شَیْئٍ قَالَاہُ فِیْ ہٰذَا الْمَعْنَی .وَذٰلِکَ أَنَّہُمَا قَالَا فِیْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ سُبِیَ وَلَہٗ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، وَسُبِیْنَ مَعَہُ : اِنَّ نِکَاحَہُنَّ کُلِّہِنَّ قَدْ فَسَدَ وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُنَّ .قَالَ : فَقَدْ کَانَ یَنْبَغِی - عَلٰی مَا حَمَلَا عَلَیْہِ حَدِیْثَ غَیْلَانَ - أَنْ یَجْعَلَا لَہٗ أَنْ یَخْتَارَ مِنْہُنَّ اثْنَیْنِ فَیُمْسِکُہُمَا ، وَیُفَارِقُ الِاثْنَتَیْنِ الْبَاقِیَتَیْنِ ، لِأَنَّ نِکَاحَ الْأَرْبَعِ قَدْ کَانَ کُلُّہُ ثَابِتًا صَحِیْحًا ، وَاِنَّمَا طَرَأَ الرِّقُّ عَلَیْہِ، فَحَرَّمَ عَلَیْہِ مَا فَوْقَ الِاثْنَتَیْنِ کَمَا أَنَّہٗ لَمَّا طَرَأَ حُکْمُ اللّٰہِ فِیْ تَحْرِیْمِ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ ، أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْلَانَ بِاخْتِیَارِ أَرْبَعٍ مِنْ نِسَائِہٖ، وَفَارَقَ سَائِرَہُنَّ .قِیْلَ لَہٗ : مَا خَرَجَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ بِمَا ذَکَرْتُ ، عَنْ أَصْلِہِمَا ، وَلٰکِنَّہُمَا ذَہَبَا اِلَی مَا قَدْ خَفِیَ عَلَیْکَ .وَذٰلِکَ أَنَّ ہَذَا کَانَ تَزَوَّجَ الْأَرْبَعَ فِیْ وَقْتٍ مَا تَزَوَّجَہُنَّ بَعْدَمَا حُرِّمَ عَلَی الْعَبْدِ تَزَوُّجِ مَا فَوْقَ الِاثْنَتَیْنِ . فَاِذَا تَزَوَّجَ ، وَہُوَ حَرْبِیٌّ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، مَا فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ، ثُمَّ سُبِیَ وَسُبِیْنَ مَعَہٗ، رُدَّ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ تَحْرِیْمٍ ، قَدْ کَانَ قَبْلَ نِکَاحِہٖ، فَصَارَ کَأَنَّہٗ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقَدٍ بَعْدَمَا صَارَ رَقِیْقًا ، وَہُوَ فِیْ ذٰلِکَ ، کَرَجُلٍ تَزَوَّجَ صَبِیَّتَیْنِ صَغِیْرَتَیْنِ ، فَجَائَ تِ امْرَأَۃٌ فَأَرْضَعَتْہُمَا مَعًا ، فَاِنَّہُمَا تَبِیْنَانِ مِنْہُ جَمِیْعًا ، وَلَا یُؤْمَرُ بِأَنْ یَخْتَارَ اِحْدَاہُمَا فَیُمْسِکُہَا ، وَیُفَارِقُ الْأُخْرَی ، لِأَنَّ حُرْمَۃَ الرَّضَاعِ طَرَأَتْ عَلَیْہِ بَعْدَ نِکَاحِہِ اِیَّاہُمَا .وَکَذٰلِکَ الرِّقُّ الطَّارِئُ عَلَی النِّکَاحِ ، الَّذِی وَصَفْنَا ، حُکْمُہٗ حُکْمُ ہَذَا الرَّضَاعِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا .وَہُمَا جَمِیْعًا مُفَارِقَانِ ، لِمَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْلَانَ بْنِ سَلْمَۃَ ، لِأَنَّ غَیْلَانَ لَمْ یَکُنْ حُرْمَۃُ اللّٰہِ لِمَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ ، تَقَدَّمَتْ نِکَاحَہُ فَیُرَدُّ حُکْمُ نِکَاحِہِ اِلَیْہَا ، وَاِنَّمَا طَرَأَتِ الْحُرْمَۃُ عَلَی نِکَاحِہِ بَعْدَ ثُبُوْتِہِ کُلِّہٖ، فَرُدَّتْ حُرْمَۃُ مَا حَرَّمَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمٍ حَادِثٍ بَعْدَ النِّکَاحِ ، فَوَجَبَ لَہُ بِذٰلِکَ الْخِیَارُ ، کَمَا یَجِبُ لَہُ فِی الطَّلَاقِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا .فَاِنْ احْتَجُّوْا أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ ،
٥١٣٦: سعید بن ابی عروبہ نے معمر سے انھوں نے زہری سے انھوں نے سالم بن عبداللہ عن ابیہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احمد بن داؤد نے روایت کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ کہ اس نے ان عورتوں سے شادی زمانہ جاہلیت میں کی تھی۔ تو غیلان (رض) کے اسلام لانے کے وقت ان کی جو بیویاں موجود تھیں ان سے انھوں نے اس وقت نکاح کیا تھا جب اتنی تعداد میں بیویاں رکھنا جائز تھا اور ان سے نکاح ثابت تھا اور ایک سے ثبوت نکاح اور دسویں عورت سے ثبوت نکاح دونوں برابر تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوسرا حکم ظاہر فرمایا اور وہ چار بیویوں سے بیک وقت نکاح سے زائد نکاح کی حرمت تھی پس یہ جدید حکم حضرت غیلان (رض) کے نکاح پر طاری ہوا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وجہ سے ان کو حکم فرمایا کہ اپنی بیویوں میں سے اتنی تعداد (چار) کو رکھ لیں جس کو اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا اور باقی کو جدا کردیں ان کو اس آدمی کی طرح قرار دیا گیا جس کی چار بیویاں ہوں پھر وہ ان میں سے ایک کو طلاق دے تو اس کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو طلاق کے لیے اختیار کر کے اسے طلاق دے اور دوسری (چار) کو رکھ لے۔ س سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) یہی فرماتے ہیں۔ وہاں وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عقد میں چار عورتوں سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت کے بعد دس عورتوں سے نکاح کیا تو اس کا نکاح ان سے فاسد عقد ہوگا فلہذا اس سے ان کا نکاح ثابت نہ ہوگا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے دارالحرب میں اپنی ذی رحم محرم سے نکاح کیا جبکہ وہ شرک کی حالت میں تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا تو وہ عورت اس کے نکاح میں برقرار نہ رہ سکے گی۔ اگرچہ اس کا عقد شرک کی حالت میں دارالحرب میں ہوا تھا۔ پس جب اس کا حکم مسلمان منکوحہ عورتوں سے نکاح کی طرف لوٹایا جاتا ہے جیسا کہ وہ دارالاسلام میں کرتے ہیں تو بالکل دس عورتوں سے نکاح کو بھی جو کہ شرک کی حالت میں دارالحرب میں واقع ہوا اس کو بھی مسلمانوں کے نکاحوں کی طرف لوٹایا جائے گا اور اگر اس نے ایک عقد میں نکاح کیا ان سے اس کا نکاح باطل ہوگا اور اگر متفرق عقدوں میں کیا تو پہلی چار سے نکاح تو جائز ہوگا اور بقیہ کا نکاح باطل ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اپنا قول چھوڑ دیا اور وہ اس طرح کہ جو شخص حربی ہو اور وہ قید ہو کر آئے اس کی چار بیویاں ہوں جو اس کے ساتھ قید ہوئیں ان سب کا نکاح فاسد ہوجائے گا اب اس کے اور زوجات کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔ حالانکہ حدیث غیلان (رض) کو جس بات پر امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے محمول کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو دو عورتوں کے چننے کا اختیار ہو کہ وہ ان کو روک لے اور باقی دو کو چھوڑ دے کیونکہ چاروں کا نکاح صحیح ثابت تھا۔ اب اس پر غلامی طاری ہوئی جس سے دو عورتوں سے زائد حرام ہوگئیں۔ جس طرح کہ جب چار سے زائد عورتوں کی حرمت کا حکم لگا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت غیلان (رض) کو اپنی ازواج میں سے چار کو چن لینے اور باقی کو چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا۔ جو کچھ تم نے ذکر کیا امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اس وجہ سے ضابطہ کو ترک نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایسی بات اختیار کی ہے جو آپ پر مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت اس نے چار عورتوں سے نکاح کیا اس وقت غلام پر دو عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہوچکا تھا۔ پس جب اس نے دارالحرب میں حربی ہونے کی حیثیت سے دو سے زیادہ عورتوں سے نکاح کیا۔ پھر وہ قید ہوگیا اور اس کے ساتھ وہ عورتیں بھی قیدی بن گئیں تو اس کا حکم اس تحریم کی طرف لوٹ گیا جو اس کے نکاح سے پہلے موجود تھی۔ گویا اس نے غلام بننے کے بعد ان سے ایک عقد میں نکاح کیا اس سلسلے میں وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے دو چھوٹی بچیوں سے نکاح کیا۔ پھر کسی عورت نے آ کر ان دونوں کو دودھ پلا دیا تو وہ دونوں اس سے جدا ہوجائیں گی اسے اس بات کا حکم نہ دیا جائے گا کہ ان میں سے ایک کو اختیار کر کے روک لے اور دوسری کو جدا کر دے کیونکہ دودھ کی وجہ سے حرمت ان دونوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بعد طاری ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جو غلامی اس نکاح کے بعد طاری ہوئی ہو جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تو اس کا حکم اس رضاعت کی طرح ہوگا جس کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے اور یہ دونوں صورتیں اس صورت سے قطعاً مختلف ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت غیلان (رض) کے سلسلہ میں وارد ہے کیونکہ حضرت غیلان (رض) کے نکاح سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چار عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کا حرام ہونا وارد نہ ہوا تھا کہ جس کی بناء پر ان کے نکاح کا حکم اس کی طرف لوٹایا جاتا بلکہ نکاح کی حرمت اس وقت طاری ہوئی جب نکاح مکمل طور پر ثابت ہوچکا تھا فلہذا اب جو کچھ ان پر حرام ہوگا اس کی نسبت نکاح کے بعد پیدا ہونے والے حکم کی طرف ہوگی۔ فلہذا اس سے ان کے لیے اختیار کا پایا جانا ضروری ہوگیا جیسا کہ اس طلاق میں اختیار واجب ہے جس کو کہ ہم نے بیان کیا۔ اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جس کو حمیضہ بنت شمردل نے حضرت حارث بن قیس (رض) سے روایت کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔
تشریح ہاں وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عقد میں چار عورتوں سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت کے بعد دس عورتوں سے نکاح کیا تو اس کا نکاح ان سے فاسد عقد ہوگا فلہذا اس سے ان کا نکاح ثابت نہ ہوگا۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے دارالحرب میں اپنی ذی رحم محرم سے نکاح کیا جبکہ وہ شرک کی حالت میں تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا تو وہ عورت اس کے نکاح میں برقرار نہ رہ سکے گی۔ اگرچہ اس کا عقد شرک کی حالت میں دارالحرب میں ہوا تھا۔
پس جب اس کا حکم مسلمان منکوحہ عورتوں سے نکاح کی طرف لوٹایا جاتا ہے جیسا کہ وہ دارالاسلام میں کرتے ہیں تو بالکل دس عورتوں سے نکاح کو بھی جو کہ شرک کی حالت میں دارالحرب میں واقع ہوا اس کو بھی مسلمانوں کے نکاحوں کی طرف لوٹایا جائے گا اور الٰہی کا حکم ہوگا اور اگر اس نے ایک عقد میں نکاح کیا ان سے اس کا نکاح باطل ہوگا اور اگر متفرق عقدوں میں کیا تو پہلی چار سے نکاح تو جائز ہوگا اور بقیہ کا نکاح باطل ہوگا۔
سوال : اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اپنا قول چھوڑ دیا اور وہ اس طرح کہ جو شخص حربی ہو اور وہ قید ہو کر آئے اس کی چار بیویاں ہوں جو اس کے ساتھ قید ہوئیں ان سب کا نکاح فاسد ہوجائے گا اب اس کے اور زوجات کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔ حالانکہ حدیث غیلان (رض) کو جس بات پر امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے محمول کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو دو عورتوں کے چننے کا اختیار ہو کہ وہ ان کو روک لے اور باقی دو کو چھوڑ دے کیونکہ چاروں کا نکاح صحیح ثابت تھا۔ اب اس پر غلامی طاری ہوئی جس سے دو عورتوں سے زائد حرام ہوگئیں۔ جس طرح کہ جب چار سے زائد عورتوں کی حرمت کا حکم لگا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت غیلان (رض) کو اپنی ازواج میں سے چار کو چن لینے اور باقی کو چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا۔
جوابجو کچھ تم نے ذکر کیا امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اس وجہ سے ضاطبہ کو ترک نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایسی بات اختیار کی ہے جو آپ پر مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت اس نے چار عورتوں سے نکاح کیا اس وقت غلام پر دو عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہوچکا تھا۔ پس جب اس نے دارالحرب میں حربی ہونے کی حیثیت سے دو سے زیادہ عورتوں سے نکاح کیا۔ پھر وہ قید ہوگیا اور اس کے ساتھ وہ عورتوں بھی قدی بن گئیں تو اس کا حکم اس تحریم کی طرف لوٹ گیا جو اس کے نکاح سے پہلے موجود تھی۔ گویا اس نے غلام بننے کے بعد ان سے ایک عقد میں نکاح کیا اس سلسلے میں وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے دو چھوٹی بچیوں سے نکاح کیا۔ پھر کسی عورت نے آ کر ان دونوں کو دودھ پلا دیا تو وہ دونوں اس سے جدا ہوجائیں گی اسے اس بات کا حکم نہ دیا جائے گا کہ ان میں سے ایک کو اختیار کر کے روک لے اور دوسری کو جدا کر دے کیونکہ دودھ کی وجہ سے حرمت ان دونوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بعد طاری ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جو غلامی اس نکاح کے بعد طاری ہوئی ہو جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تو اس کا حکم اس رضاعت کی طرح ہوگا جس کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے اور یہ دونوں صورتیں اس صورت سے قطعاً مختلف ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت غیلان (رض) کے سلسلہ میں وارد ہے کیونکہ حضرت غیلان (رض) کے نکاح سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چار عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کا حرام ہونا وارد نہ ہوا تھا کہ جس کی بناء پر ان کے نکاح کا حکم اس کی طرف لوٹایا جاتا بلکہ نکاح کی حرمت اس وقت طاری ہوئی جب نکاح مکمل طور پر ثابت ہوچکا تھا جلہٰذا اب جو کچھ ان پر حرام ہوگا اس کی نسبت نکاح کے بعد پیدا ہونے والے حکم کی طرف ہوگی۔ فلہذا اس سے ان کے لیے اختیار کا پایا جانا ضروری ہوگیا جیسا کہ اس طلاق میں اختیار واجب ہے جس کو کہ ہم نے بیان کیا۔
ایک اور روایت سے استدلال :
اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جس کو حمیضہ بنت شمردل نے حضرت حارث بن قیس (رض) سے روایت کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔

5138

۵۱۳۷ : بِمَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ حُمَیْضَۃَ بِنْتِ الشَّمَرْدَلِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : أَسْلَمْتُ وَعِنْدِیْ ثَمَانِیْ نِسْوَۃٍ ، فَأَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أَخْتَارَ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا .
٥١٣٧: حمیضہ بنت شمر دل نے حضرت حارث بن قیس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ان میں سے چار کو اختیار کرلوں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٥۔

5139

۵۱۳۸ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُغِیْرَۃُ ، عَنْ بَعْضِ وَلَدِ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَحْوَہٗ۔قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَحْتَمِلُ ذٰلِکَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ حَدِیْثِ غَیْلَانَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ لَہُ اخْتَرْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا أَیْ اخْتَرْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا ، فَتَزَوَّجْہُنَّ .وَلَا دَلَالَۃَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَلَی وَاحِدٍ مِنْ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ .وَاِنْ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ،
٥١٣٨: مغیرہ نے حضرت حارث بن قیس (رض) کے کسی بیٹے سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں بھی اس بات کا احتمال ہے جس کو ہم نے حضر غیلان (رض) والی روایت کے ضمن میں بیان کرچکے اور یہ بھی احتمال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی کہ ان میں سے چار کو چن لو۔ کا مطلب یہ ہو کہ ان میں سے چار کو ناپسند کر کے ان سے نکاح کرلو اور اس روایت میں تو ان دونوں میں سے کسی معنی کی دلالت نہیں پائی جاتی۔ (پس اسے اعتراض کے لیے پیش نہیں کیا جاسکتا) اگر وہ ضحاک بن فیروز دیلمی کی روایت سے استدلال کریں جو انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ روایت یہ ہے۔
جواب : نمبر 1: اس روایت میں بھی اس بات کا احتمال ہے جس کو ہم نے حضرت غیلان (رض) والی روایت کے ضمن میں بیان کرچکے۔
نمبر 2: اور یہ بھی احتمال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی کہ ان میں سے چار کو چن لو۔ کا مطلب یہ ہو کہ ان میں سے چار کو پسند کر کے ان سے نکاح کرلو اور اس روایت میں تو ان دونوں میں سے کسی معنی کی دلالت نہیں پائی جاتی۔ (پس اسے اعتراض کے لیے پیش نہیں کیا جاسکتا)
ایک دوسری روایت سے استدلال :
اگر وہ ضحاک بن فیروز دیلمی کی روایت سے استدلال کریں جو انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ روایت یہ ہے۔

5140

۵۱۳۹ : بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، وَحَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ ، قَالَا : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِیْ وَہْبٍ الْجَیَشَانِیِّ ، عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ فَیْرُوْزَ الدَّیْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : أَسْلَمْتُ وَعِنْدِی أُخْتَانِ ، فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ طَلِّقْ اِحْدَاہُمَا .
٥١٣٩: ضحاک بن فیروز دیلمی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں اسلام لایا تو اس وقت میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں سے ایک کو طلاق دے دو ۔
تخریج : ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٥‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٣٩‘ مسند احمد ٤؍٢٣٢۔

5141

۵۱۴۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوْبَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِیْ وَہْبٍ الْجَیَشَانِیِّ ، عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ فَیْرُوْزَ الدَّیْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : أَسْلَمْتُ وَعِنْدِی أُخْتَانِ ، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ طَلِّقْ أَیَّتَہمَا شِئْت .قِیْلَ لَہُمْ : ہَذَا یُوْجِبُ الِاخْتِیَارَ ، کَمَا ذَکَرْتُمْ ، وَہُوَ أَوْضَحُ مِنْ حَدِیْثِ حَارِثِ بْنِ قَیْسٍ .وَلٰـکِنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا خَیَّرَہٗ، لِأَنَّ نِکَاحَہُ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَبْلَ تَحْرِیْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ .فَیَکُوْنُ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مِثْلُ مَعْنَیْ حَدِیْثِ غَیْلَانَ بْنِ سَلْمَۃَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا بَیَّنَّا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ، وَفَسَدَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَقَدْ ذَہَبَ اِلَی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، بَعْضُ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٥١٤٠: ضحاک بن فیروز دیلمی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جب میں اسلام لایا تو میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں میں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ان میں سے جس کو چاہو طلاق دو ۔ تو اسے جواباً عرض ہے کہ یہ روایت تو اختیا رکو واجب کرتی ہے جیسا کہ تم نے کہا اور یہ روایت حضرت حارث بن قیس (رض) کی روایت سے واضح تر ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اختیار اس وجہ سے دیا ہو کہ ان کا نکاح زمانہ جاہلیت کے زمانہ میں ہوا جبکہ چار سے زائد عورتوں سے نکاح حرام نہ تھا۔ پس اس روایت کا مفہوم حضرت غیلان (رض) والی روایت کے مطابق ہوگا۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کا مؤقف ثابت ہوگیا اور امام محمد بن حسن (رح) کا مؤقف فاسد ہوا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مؤقف کو بعض متقدمین نے بھی اختیار کیا جیسا کہ اس اثر سے واضح ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد باب الطلاق باب ٢٥۔
جواب : جواباً عرض ہے کہ یہ روایت تو اختیا رکو واجب کرتی ہے جیسا کہ تم نے کہا اور یہ روایت حضرت حارث بن قیس (رض) کی روایت سے واضح تر ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اختیار اس وجہ سے دیا ہو کہ ان کا نکاح زمانہ جاہلیت کے زمانہ میں ہوا جبکہ چار سے زائد عورتوں سے نکاح حرام نہ تھا۔ پس اس روایت کا مفہوم حضرت غیلان (رض) والی روایت کے مطابق ہوگا۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کا مؤقف ثابت ہوگیا اور امام محمد بن حسن (رح) کا مؤقف فاسد ہوا۔
تابعین سے مؤقف کی تائید :
امام ابوحنیفہ (رح) کے مؤقف کو بعض متقدمین نے بھی اختیار کیا جیسا کہ اس اثر سے واضح ہوتا ہے۔

5142

۵۱۴۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ ، قَالَ : ثَنَا غُنْدَرٌ ، أَوْ عَبْدُ الْأَعْلٰی، عَنْ سَعِیْدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : یَأْخُذُ الْأُوْلٰی وَالثَّانِیَۃَ وَالثَّالِثَۃَ وَالرَّابِعَۃَ .
٥١٤١: سعید نے قتادہ (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ فرماتے تھے کہ وہ چار سے زائد بیویوں والا پہلی دوسری ‘ تیسری و چوتھی بیوی کو چن لے۔

5143

۵۱۴۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : رَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِبْنَتَہٗ زَیْنَبَ ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیْعِ ، عَلَی النِّکَاحِ الْأَوَّلِ ، بَعْدَ ثَلَاثِ سِنِیْنَ .
٥١٤٢: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی زینب کو تین سال بعد حضرت ابوالعاص بن ربیع (رض) (کے اسلام لانے پر ان) کی زوجیت میں لوٹا دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٤‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٦٠‘ مسند احمد ١‘ ٢١٧؍٢٥١۔

5144

۵۱۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : رَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی عِکْرَمَۃَ بْنِ أَبِیْ جَہْلٍ ، أُمَّ حَکِیْمٍ بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ بَعْدَ أَشْہُرٍ ، أَوْ قَرِیْبٍ مِنْ سَنَۃٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرَ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْمَرْأَۃَ اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَجَائَ تْنَا مُسْلِمَۃً ، ثُمَّ جَائَ زَوْجُہَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَأَدْرَکَہَا وَہِیَ فِی الْعِدَّۃِ ، فَہِیَ امْرَأَتُہُ عَلٰی حَالِہَا ، وَاِنْ لَمْ یُدْرِکْہَا حَتّٰی تَخْرُجَ مِنَ الْعِدَّۃِ ، فَلَا سَبِیْلَ لَہٗ عَلَیْہَا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا سَبِیْلَ لَہٗ عَلَیْہَا فِی الْوَجْہَیْنِ جَمِیْعًا ، وَخُرُوْجُہَا عِنْدَہُمْ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ ، بِقَطْعِ الْعِصْمَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا ، وَیُبِیْنُہَا مِنْہُ .فِیْ ذٰلِکَ ،
٥١٤٣: زہری نے ابوبکر بن عبدالرحمن (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عکرمہ بن ابی جہل (کے اسلام لانے پر) ام حکیم بنت الحارث بن ہشام (رض) کو کئی ماہ بعد یا سال کے قریب عرصہ کے بعد ان کی زوجیت میں واپس کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ جب کوئی عورت دارالحرب سے مسلمان ہو کر دارالاسلام میں آجائے اس کے بعد اس کا خاوند اگر حالت عدت میں آجائے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہوگی اور اگر اس کی عدت ختم ہوگئی اور وہ بعد میں آیا تو اب اس کا اس عورت سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا خاوند اگر بعد میں آئے خواہ عورت ایام عدت میں ہو یا نہ ہو بہرصورت وہ اس کی زوجیت میں نہ رہے گی۔ کیونکہ عورت کے مسلمان ہو کر دارالحرب سے نکل جانے سے ہی وہ عصمت ختم ہوجائے گی جو اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان تھی اور وہ عورت اس سے جدا ہوجائے گی انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔
تخریج : مالک فی النکاح ٤٦‘ بنحوہ۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ جب کوئی عورت دارالحرب سے مسلمان ہو کر دارالاسلام میں آجائے اس کے بعد اس کا خاوند اگر حالت عدت میں آجائے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہوگی اور اگر اس کی عدت ختم ہوگئی اور وہ بعد میں آیا تو اب اس کا اس عورت سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : خاوند اگر بعد میں آئے خواہ عورت ایام عدت میں ہو یا نہ ہو بہرصورت وہ اس کی زوجیت میں نہ رہے گی۔ کیونکہ عورت کے مسلمان ہو کر دارالحرب سے نکل جانے سے ہی وہ عصمت ختم ہوجائے گی جو اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان تھی اور وہ عورت اس سے جدا ہوجائے گی انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔

5145

۵۱۴۴ : بِمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ ، یَعْنِی ابْن غِیَاثٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ رَدَّ زَیْنَبَ عَلٰی أَبِی الْعَاصِ بِنِکَاحٍ جَدِیْدٍ .
٥١٤٤: عمرو بن شعیب نے اپنے والد اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب (رض) کو ابوالعاص (رض) پر نئے نکاح سے لوٹایا۔
تخریج : ترمذی فی النکاح باب ٤٢‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٦٠‘ مسند احمد ٢؍٢٠٨۔

5146

۵۱۴۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ دَاوٗدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، مِثْلُہٗ .قَالُوْا : فَفِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ہٰذَا، خِلَافُ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَقَدْ وَافَقَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَلٰی ذٰلِکَ ، عَامِرَ الشَّعْبِیَّ ، مَعَ عِلْمِہٖ بِمَغَازِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا : فَہٰذَا أَوْلَی مِمَّا قَدْ خَالَفَہٗ، لِمَعَانٍ سَنُبَیِّنُہَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، عَلٰی مَنْ ذَہَبَ اِلَی الْقَوْلِ الْأَوَّلِ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اِنَّمَا فِیْ حَدِیْثِہٖ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّہَا ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ ، عَلَی النِّکَاحِ الْأَوَّلِ .فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ رَدَّہَا اِلَیْہِ، لِأَنَّہَا فِی الْعِدَّۃِ ، وَلَا کَیْفَ کَانَ الْحُکْمُ یَوْمَئِذٍ فِی الْمُشْرِکَۃِ تُسْلِمُ وَزَوْجُہَا مُشْرِکٌ ، أَیُبِیْنُہَا ذٰلِکَ مِنْہُ، أَوْ تَکُوْنُ زَوْجَۃً لَہٗ عَلٰی حَالِہَا ؟ .وَاِنَّمَا یَکُوْنُ حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حُجَّۃً لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، لَوْ کَانَ فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّہَا عَلٰی أَبِی الْعَاصِ لِأَنَّہٗ أَدْرَکَہَا وَہِیَ فِی الْعِدَّۃِ .فَأَمَّا اِذَا لَمْ یَتَبَیَّنْ لَنَا الْعِلَّۃُ ، الَّتِیْ لَہَا رَدَّہَا عَلَیْہِ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الْعِدَّۃَ ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ ، لِأَنَّ الْاِسْلَامَ لَمْ یَکُنْ حِیْنَئِذٍ یُبِیْنُہَا مِنْہُ، وَلَا یُزِیلُہَا عَنْ حُکْمِہَا الْمُتَقَدِّمِ .
٥١٤٥: داؤد نے شعبی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کی روایت ‘ روایت ابن عباس (رض) کے خلاف ہے اور شعبی نے مغازی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق واقفیت کے باجود عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت کی موافقت کی ہے اور یہ روایت شروع باب والی روایت ابن عباس (رض) سے چند وجوہ کی بنا پر اولیٰ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت زینب (رض) کو ابوالعاص (رض) کی لوٹانے کا تذکرہ تو ضرور ہے مگر اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو عدت کے باقی رہنے کی وجہ سے لوٹایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو مشرکہ اسلام لائے اور اس کا خاوند مشرک ہو تو کیا وہ عورت اس خاوند سے جدا ہوجائے گی یا اسی طرح اس کی بیوی رہے گی ؟ روایت ابن عباس (رض) فریق اوّل کی دلیل تب بنتی جب روایت میں یہ موجود ہوتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب (رض) کو ابوالعاص (رض) پر اس لیے واپس کردیا کہ وہ عدت میں تھیں۔ پس جبکہ ہمارے سامنے وہ علت بیان نہیں کی گئی جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کو واپس کیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ عدت میں ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ ابھی اسلام میں اس کے متعلق حکم نہ آیا اور وہ ان سے جدا نہ ہوئی ہوں اور سابقہ حکم بھی ان کو اس سے زائل کرنے والا نہ تھا۔
فریق ثانی کی طرف سے جواب نمبر 1: عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کی روایت ‘ روایت ابن عباس (رض) کے خلاف ہے اور شعبی نے مغازی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق واقفیت کے باجود عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت کی موافقت کی ہے اور یہ روایت شروع باب والی روایت ابن عباس (رض) سے چند وجوہ کی بنا پر اولیٰ ہے۔
فریق ثانی کی دلیل : حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت زینب (رض) کو ابوالعاص (رض) کی طرف لوٹانے کا تذکرہ تو ضرور ہے مگر اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو عدت کے باقی رہنے کی وجہ سے لوٹایا اور نہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو مشرکہ اسلام لائے اور اس کا خاوند مشرک ہو تو کیا وہ عورت اس خاوند سے جدا ہوجائے گی یا اسی طرح اس کی بیوی رہے گی ؟ روایت ابن عباس (رض) فریق اوّل کی دلیل تب بنتی جب روایت میں یہ موجود ہوتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب (رض) کو ابوالعاص (رض) پر اس لیے واپس کردیا کہ وہ عدت میں تھیں۔ پس جبکہ ہمارے سامنے وہ علت بیان نہیں کی گئی جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کو واپس کیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ عدت میں ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ ابھی اسلام میں اس کے متعلق حکم نہ آیا اور وہ ان سے جدا نہ ہوئی ہوں اور سابقہ حکم بھی ان کو اس سے زائل کرنے والا نہ تھا۔

5147

۵۱۴۶ : وَلَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍ ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ تَوْبَۃَ الرَّبِیْعُ بْنُ نَافِعٌ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ مِنْ أَیْنَ جَائَ اخْتِلَافُہُمْ فِیْ زَیْنَبَ ؟ .فَقَالَ : بَعْضُہُمْ رَدَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَبِی الْعَاصِ عَلَی النِّکَاحِ الْأَوَّلِ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : رَدَّہَا بِنِکَاحٍ جَدِیْدٍ أَتَرَی کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ لَمْ یَجِئْ اخْتِلَافُہُمْ مِنْ ہٰذَا الْوَجْہٖ، وَاِنَّمَا جَائَ اخْتِلَافُہُمْ أَنَّ اللّٰہَ اِنَّمَا حَرَّمَ أَنْ تَرْجِعَ الْمُؤْمِنَاتُ اِلَی الْکُفَّارِ فِیْ سُوْرَۃِ الْمُمْتَحَنَۃِ ، بَعْدَمَا کَانَ ذٰلِکَ جَائِزًا حَلَالًا - ، فَعَلِمَ ذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، ثُمَّ رَأَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رَدَّ زَیْنَبَ ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ ، بَعْدَمَا کَانَ عَلِمَ حُرْمَتَہَا عَلَیْہِ، بِتَحْرِیْمِ اللّٰہِ الْمُؤْمِنَاتِ عَلَی الْکُفَّارِ ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عِنْدَہُ اِلَّا بِنِکَاحٍ جَدِیْدٍ ، فَقَالَ : رَدَّہَا عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنِکَاحٍ جَدِیْدٍ .وَلَمْ یَعْلَمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، بِتَحْرِیْمِ اللّٰہِ - عَزَّ وَجَلَّ - الْمُؤْمِنَاتِ عَلَی الْکُفَّارِ ، حَتَّی عَلِمَ بِرَدِّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْنَبَ ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ فَقَالَ : رَدَّہَا عَلَیْہِ بِالنِّکَاحِ الْأَوَّلِ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ، بَیْنَ اِسْلَامِہٖ وَاِسْلَامِہَا ، فَسْخٌ لِلنِّکَاحِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُمَا .قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، فَمِنْ ہَاہُنَا جَائَ اخْتِلَافُہُمْ ، لَا مِنْ اخْتِلَافٍ سَمِعُوْھُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ذِکْرِہٖ، مَا رَدَّ زَیْنَبَ بِہٖ عَلٰی أَبِی الْعَاصِ أَنَّہٗ النِّکَاحُ الْأَوَّلُ ، أَوْ النِّکَاحُ الْجَدِیْدُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَقَدْ أَحْسَنَ مُحَمَّدٌ فِیْ ہٰذَا ، وَصَحِیْحُ الْآثَارِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی الصَّحِیْحِ ، یُوْجِبُ صِحَّۃَ مَا قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، قَدْ کَانَ یَقُوْلُ فِی النَّصْرَانِیَّۃِ اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، وَزَوْجُہَا کَافِرٌ .
٥١٤٦: ابو توبہ الربیع بن نافع کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد (رح) سے دریافت کیا کہ حضرت زینب (رض) کے متعلق یہ اختلاف کیسے پیدا ہوا کہ بعض کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حضرت ابوالعاص (رض) کی طرف پہلے نکاح کے ساتھ واپس کردیا جبکہ دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ نئے نکاح سے واپس کیا۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ان میں سے ہر گروہ وہی بات کہتا ہے جو اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن پائی۔ (میرے سوال پر) امام محمد (رح) نے جواباً فرمایا یہ اختلاف نقل روایت کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة ممتحنہ میں فرمایا (فلا ترجعوہن الی الکفار۔۔۔) کہ مؤمنہ عورتوں کو کفار کی طرف مت واپس کرو۔ اس آیت کے نزول سے پہلے یہ جائز و حلال تھا حضرت عبداللہ عمر (رض) کو یہ بات معلوم تھی۔ پھر انھوں نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کو حضرت ابوالعاص (رض) کی طرف (ان کے مسلمان ہونے پر) لوٹا دیا اس سے پہلے انھیں یہ معلوم تھا کہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنہ عورتوں کو کفار کی طرف لوٹانا حرام قرار دیا تھا۔ تو ان کے نزدیک (عمل نبوت اور آیت میں موافقت کے لئے) جدید نکاح سے لوٹانا تھا۔ اسی لیے انھوں نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نکاح جدید سے لوٹایا۔ جبکہ دوسری طرف ابن عباس (رض) کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنہ عورتوں کو کفار کی طرف لوٹانا حرام قرار دیا ہے یہاں تک کہ ان کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت زینب (رض) کو حضرت ابوالعاص (رض) کی طرف لوٹانے کا علم ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ آپ نے ان کو نکاح اوّل کے ساتھ واپس کیا کیونکہ ان کے نزدیک حضرت ابوالعاص (رض) کے اسلام لانے اور حضرت زینب (رض) کے اسلام لانے کے درمیانی عرصہ میں نکاح فسخ نہیں ہوا اسی وجہ سے انھوں نے لوٹا دیا۔ امام محمد (رح) فرمانے لگے : اس وجہ سے اختلاف ہوا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب کو حضرت ابوالعاص (رض) کی طرف لوٹانے کا تذکرہ سن کر کہا کہ آیا آپ نے پہلے نکاح کے ساتھ لوٹایا یا جدید نکاح کے ساتھ واپس کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ امام محمد (رح) نے کتنی شاندار بات فرمائی ہے اس صحیح بات کی بنا پر روایات کے معانی کی تصحیح سے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کے قول کی تصحیح لازم ہوگئی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) اس نصرانیہ عورت کے متعلق فرماتے ہیں جو دارالاسلام میں مسلمان ہوگئی جبکہ اس کا خاوند کافر ہو تو مسلمان ہوتے ہی اس کا نکاح ختم ہوگیا ان میں تفریق کردی جائے گی۔

5148

۵۱۴۷ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِی الْیَہُوْدِیَّۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃ ، تَکُوْنُ تَحْتَ النَّصْرَانِیِّ أَوْ الْیَہُوْدِیِّ ، فَتُسْلِمُ ہِیَ ، قَالَ یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ، الْاِسْلَامُ یَعْلُو وَلَا یُعْلَی عَلَیْہِ .
٥١٤٧: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ یہودی یا نصرانی عورت جو کسی یہودی یا نصرانی کے نکاح میں تھی وہ اگر اسلام لے آئے گی تو ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی کیونکہ اسلام بلند ہے اور اس پر اور کوئی دین بلند نہیں۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٧٩ بنحوہ۔

5149

۵۱۴۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجُوْرِیِّ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلُہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ الْاِسْلَامُ یَعْلُو وَلَا یُعْلَی .أَفَیَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ النَّصْرَانِیَّۃُ عِنْدَہُ اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ وَزَوْجُہَا نَصْرَانِیٌّ ، أَنَّہَا تَبِیْنُ مِنْہٗ، وَلَا یُنْتَظَرُ بِہَا اِسْلَامُہُ اِلٰی أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْعِدَّۃِ ، وَتَکُوْنُ الْحَرْبِیَّۃُ الَّتِیْ لَیْسَتْ بِکِتَابِیَّۃٍ ، اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، ثُمَّ جَائَ تْنَا مُسْلِمَۃً ، یُنْتَظَرُ بِہَا اِلْحَاقُ زَوْجِہَا بِہَا مُسْلِمًا ، فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ خُرُوْجِہَا مِنَ الْعِدَّۃِ ؟ ہَذَا مُحَالٌ ، لِأَنَّ اِسْلَامَہَا فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ اِذَا کَانَ یُبِیْنُہَا مِنْ زَوْجِہَا النَّصْرَانِیِّ الذِّمِّیِّ ، فَاِسْلَامُہَا فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَخُرُوْجُہَا اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ ، وَتَرْکُہَا زَوْجَہَا الْمُشْرِکَ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ أَنْ یُبِیْنَہَا .فَثَبَتَ بِہٰذَا ، مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، أَنَّہٗ کَانَ یَرَی الْعِصْمَۃَ مُنْقَطِعَۃً بِاِسْلَامِ الْمَرْأَۃِ ، لَا لِخُرُوْجِہَا مِنَ الْعِدَّۃِ .وَاِذَا ثَبَتَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہٖ ، اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ تَرْکُ مَا قَدْ کَانَ ثَبَتَ عِنْدَہٗ، مِنْ حُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ رَدِّہِ زَیْنَبَ ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ ، عَلَی النِّکَاحِ الْأَوَّلِ ، وَصَارَ اِلَی خِلَافِہٖ، اِلَّا بَعْدَ ثُبُوْتِ نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظْرُ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الْمَرْأَۃَ اِذَا أَسْلَمَتْ وَزَوْجُہَا کَافِرٌ ، فَقَدْ صَارَتْ اِلَیْ حَالٍ لَا یَجُوْزُ أَنْ یَسْتَأْنِفَ نِکَاحَہُ عَلَیْہَا ، لِأَنَّہَا مُسْلِمَۃٌ وَہُوَ کَافِرٌ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ اِلَی مَا یَطْرَأُ عَلَی النِّکَاحِ ، مِمَّا لَا یَجُوْزُ مَعَہُ الْاِسْتِقْبَالُ لِلنِّکَاحِ ، کَیْفَ حُکْمُہٗ؟ فَرَأَیْنَا اللّٰہَ - عَزَّ وَجَلَّ - قَدْ حَرَّمَ الْأَخَوَاتِ مِنَ الرَّضَاعَۃِ ، وَکَانَ مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً صَغِیْرَۃً لَا رَضَاعَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا فَأَرْضَعَتْہَا أُمُّہٗ، حُرِّمَتْ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ ، وَانْفَسَخَ النِّکَاحُ ، فَکَانَ الرَّضَاعُ الطَّارِئُ عَلَی النِّکَاحِ ، فِیْ حُکْمِ الرَّضَاعِ الْمُتَقَدِّمِ لِلنِّکَاحِ فِیْ أَشْبَاہٍ لِذٰلِکَ ، یَطُوْلُ الْکِتَابُ بِذِکْرِہَا .وَکَانَتْ ثَمَّۃَ أَشْیَائَ ، یَخْتَلِفُ فِیْہَا الْحُکْمُ اِذَا کَانَتْ مُتَقَدِّمَۃً لِلنِّکَاحِ ، أَوْ طَرَأَتْ عَلَی النِّکَاحِ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ نِکَاحَ الْمَرْأَۃِ فِیْ عِدَّتِہَا مِنْ زَوْجِہَا ، وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ الْعِدَّۃَ مِنَ الْجِمَاعِ فِی النِّکَاحِ الْفَاسِدِ ، یَمْنَعُ مِنْ النِّکَاحِ ، کَمَا یَمْنَعُ اِذَا کَانَتْ بِسَبَبِ نِکَاحٍ صَحِیْحٍ .وَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ لَوْ وُطِئَتْ بِشُبْہَۃٍ ، وَلَہَا زَوْجٌ ، فَوَجَبَتْ عَلَیْہَا بِذَلک عِدَّۃٌ ، لَمْ تَبِنْ بِذٰلِکَ مِنْ زَوْجِہَا ، وَلَمْ یُجْعَلْ ہٰذِہِ الْعِدَّۃُ کَالْعِدَّۃِ الْمُتَقَدِّمَۃِ لِلنِّکَاحِ .فَفُرِّقَ فِیْ ہٰذَا ، بَیْنَ حُکْمِ الْمُسْتَقْبَلِ وَالْمُسْتَدْبَرِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْمَرْأَۃِ اِذَا أَسْلَمَتْ وَزَوْجُہَا کَافِرٌ ، ہَلْ تَبِیْنُ مِنْہُ بِذٰلِکَ ، وَیَکُوْنُ حُکْمُ مُسْتَقْبِلِ ذٰلِکَ وَمُسْتَدْبِرِہِ سَوَائً ، کَمَا کَانَ ذٰلِکَ فِی الرِّضَاعِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ؟ أَوْ لَا تَبِیْنُ مِنْہُ بِاِسْلَامِہَا ، فَلَا یَکُوْنُ حُکْمُ اِسْلَامِہَا الْحَادِثِ کَہُوَ ، اِذَا کَانَ قَبْلَ النِّکَاحِ ، کَالْعِدَّۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا الَّتِیْ فُرِّقَ بَیْنَ حُکْمِ الْمُسْتَقْبِلِ فِیْہَا وَحُکْمِ الْمُسْتَدْبِرِ ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَوَجَدْنَا الْعِدَّۃَ الطَّارِئَۃَ عَلَی النِّکَاحِ ، لَا یَجِبُ فِیْہَا فُرْقَۃٌ فِیْ حَالِ وُجُوْبِہَا ، وَلَا یُعَدُّ ذٰلِکَ .وَکَانَ الرَّضَاعُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، یَجِبُ بِہٖ الْفُرْقَۃُ فِیْ حَالِ کَوْنِہٖ، وَلَا یُنْتَظَرُ بِہَا شَیْء ٌ بَعْدَہٗ، وَکَانَ الْاِسْلَامُ الطَّارِئُ عَلَی النِّکَاحِ ، کُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ فُرْقَۃً تَجِبُ بِہٖ .فَقَالَ قَوْمٌ : تَجِبُ فِیْ وَقْتِ اِسْلَامِ الْمَرْأَۃِ ، وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا .وَقَالَ آخَرُوْنَ لَا تَجِبُ الْفُرْقَۃُ ، حَتّٰی تَعْرِضَ عَلَی الزَّوْجِ الْاِسْلَامَ فَیَأْبَاہٗ، فَیُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَرْأَۃِ أَوْ تَخْتَارُہٗ، فَتَکُوْنُ امْرَأَتُہُ عَلٰی حَالِہَا وَہُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَقَالَ آخَرُوْنَ ہِیَ امْرَأَتُہُ مَا لَمْ یُخْرِجْہَا مِنْ أَرْضِ الْہِجْرَۃِ وَہُوَ قَوْلُ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَسَنَأْتِی بِأَسَانِیدَ ہٰذِہِ الرِّوَایَاتِ فِیْ آخِرِ ہٰذَا الْبَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ اِسْلَامَ الزَّوْجَۃِ الطَّارِئَ عَلَی النِّکَاحِ یُوْجِبُ الْفُرْقَۃَ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَبَیْنَ زَوْجِہَا ، فِیْ حَالِ مَا ثَبَتَ ، أَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ بِحُکْمِ الرَّضَاعِ ، أَشْبَہٗ مِنْہُ بِحُکْمِ الْعِدَّۃِ .فَلَمَّا کَانَ الرَّضَاعُ تَجِبُ بِہٖ الْفُرْقَۃُ سَاعَۃَ یَکُوْنُ ، وَلَا یَنْتَظِرُ بِہٖ خُرُوْجَ الْمَرْأَۃِ مِنْ عِدَّتُہَا ، کَانَ کَذٰلِکَ ، الْاِسْلَامُ .فَہٰذَا وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّ الْمَرْأَۃَ تَبِیْنُ مِنْ زَوْجِہَا بِاِسْلَامِہَا ، فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ کَانَتْ ، أَوْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، یُخَالِفُوْنَ ہٰذَا، وَیَقُوْلُوْنَ فِی الْحَرْبِیَّۃِ ، اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَزَوْجُہَا کَافِرٌ ، اِنَّہَا امْرَأَتُہٗ، مَا لَمْ تَحِضْ ثَلَاثَ حِیَضٍ ، أَوْ تَخْرُجْ اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ ، فَأَیُّ ذٰلِکَ کَانَتْ بَانَتْ بِہٖ مِنْ زَوْجِہَا .وَقَالُوْا : کَانَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا ، أَنْ تَبِیْنَ مِنْ زَوْجِہَا بِاِسْلَامِہَا سَاعَۃَ أَسْلَمَتْ .وَقَالُوْا : اِذَا أَسْلَمَتْ ، وَزَوْجُہَا فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، فَہِیَ امْرَأَتُہُ عَلٰی حَالِہَا ، حَتّٰی یَعْرِضَ الْقَاضِیْ عَلَی زَوْجِہَا الْاِسْلَامَ فَیُسْلِمُ ، فَتَبْقَیْ تَحْتَہٗ، أَوْ یَأْبَی ، فَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا .وَقَالُوْا : کَانَ النَّظْرُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ تَبِیْنَ مِنْہُ بِاِسْلَامِہَا ، سَاعَۃَ أَسْلَمَتْ ، وَلٰـکِنَّا قَلَّدْنَا مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَذَکَرُوْا
٥١٤٨: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے البتہ ” الاسلام یعلو ولا یعلٰی “ کے الفاظ نقل نہیں کئے۔ کیا یہ درست ہے کہ دارالاسلام میں کوئی نصرانیہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند نصرانی ذمی ہو وہ عورت اسی وقت اس سے جدا ہوجائے اور اس عورت کے عدت میں سے نکلنے لگے تک اس خاوند کے اسلام لانے کا تو انتظار نہ کیا جائے اور حربیہ عورت جو کہ کتابیہ بھی نہیں وہ دارالحرب میں اسلام لے آئے پھر دارالاسلام میں داخل ہوجائے تو اس کے سلسلہ میں اس کے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کیا جائے کہ وہ اس کی عدت کے اندر اندر مسلمان ہوجائے۔ یہ بات بالکل ناممکن ہے کیونکہ جب دارالاسلام میں اسلام قبول کرلینا اس کے خاوند نصرانی ذمی سے اس کو الگ کردیتا ہے تو دارالحرب میں اس کا اسلام لانا مشرک خاوند سے اس کو کیونکر الگ نہ کرے گا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابن عباس (رض) بھی عورت کے اسلام لانے سے اس کا نکاح کافر خاوند سے ٹوٹ جانے کے قائل تھے عدت تک خاوند کے اسلام کے انتظار کرنے کے قائل نہ تھے۔ اب جبکہ ان کے اپنے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوگئی تو اب یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ اس کو ترک کریں جو ان کے ہاں حضرت زینب (رض) کے ابوالعاص (رض) پر واپس کرنے کے سلسلے میں ثابت شدہ ہے کہ پہلے نکاح پر واپس کردیا اور مخالف قول کو اختیار کریں بس یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ ان کے ہاں پہلے قول کا منسوخ ہونا ثابت ہو۔ آثار کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو اس باب کا یہی مفہوم ہے۔ اب نظری اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عورت اسلام قبول کرے اور اس کا خاوند کافر ہی رہے تو وہ عورت ایسے حال میں ہوجاتی ہے کہ اس آدمی کا نکاح اس عورت کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے اور وہ کافر ہے۔ تو ہم نے چاہا کہ اس حالت کا حکم معلوم کریں جو نکاح پر طاری ہوتی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نکاح کا سامنا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعی بہن سے نکاح کو حرام کیا ہے وہ آدمی جس نے چھوٹی بچی سے نکاح کیا کہ آدمی اور اس منکوحہ کے مابین رضاعت کا رشتہ نہ تھا۔ نکاح کے بعد اس خاوند کی ماں نے اس لڑکی کو دودھ پلا دیا تو وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور اس وجہ سے نکاح فسخ ہوجائے گا۔ ایسے مواقع میں وہ رضاعت جو اب طاری ہوئی ہے یہ پہلے پیش آنے والی رضاعت کی طرح ہے اس میں طویل بحث ہے اس میں بعض صورتیں اگرچہ مختلف فیہ ہیں جبکہ نکاح سے پہلے ہوں یا نکاح کے بعد پیش آئیں ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ خاوند کی عدت میں ہوتے ہوئے نکاح کو حرام کیا ہے اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح فاسد میں جماع کی وجہ سے جو عدت لازم آتی ہے وہ بھی نکاح سے مانع ہے جس طرح کہ صحیح نکاح کی عدت مانع ہے اور اگر عورت سے بالشبہ وطی ہوئی حالانکہ اس کا خاوند موجود تھا تو وطی بالشبہہ کی وجہ سے اس عورت پر عدت لازم ہے۔ مگر اس عدت کے باوجود وہ اپنے خاوند سے بائنہ نہ ہوگی اور یہ عدت اس عدت کی طرح نہ ہوگی جو نکاح سے پہلے عورت کسی اور خاوند کی عدت گزارتی ہے تو اس صورت میں مقدم (وہ نکاح جس کی موجودگی میں عدت گزارے تو وہ نکاح قائم رہے گا) اور موخر (عورت میں کیا جانے والا نکاح جائز نہیں یہ موخر ہے) میں فرق کیا جائے گا۔ پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس عورت کے بارے میں معلوم کریں جو کہ مسلمان ہوگئی اور اس کا خاوند کافر ہے کیونکہ وہ اس وجہ سے اس سے جدا ہوجائے گی اس میں مقدم و موخر کا حکم ایک جیسا ہوگا جیسا کہ رضاعت کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا یا اسلام کی وجہ سے اس سے جدا نہ ہوگی اور اس کے ابھی اسلام قبول کرنے کو نکاح سے پہلے والے اسلام کی طرح قرار نہیں دیا جائے گا جیسا کہ عدت کا مسئلہ ہم نے ذکر کیا کہ اس میں مقدم و موخر کا فرق کیا گیا ہے۔ پس غور کے بعد معلوم ہوا کہ نکاح پر طاری ہونے والی عدت میں واجب ہونے کی حالت اور اس کے بعد تفریق لازم نہیں ہے اور دوسری طرف جس رضاعت کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے تفریق لازم ہوجاتی ہے اور اس کے طاری ہونے کے بعد کسی اور بات کی قطعاً انتظار نہیں کی جاتی۔ وہ اسلام جو نکاح کے بعد آتا ہے اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ اس سے جدائی واجب ہوجاتی ہے تو ایک جماعت کے ہاں عورت کے اسلام لاتے ہی جدائی واجب ہوجاتی ہے اور یہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ جب تک خاوند پر اسلام کو پیش نہ کیا جائے اور وہ انکار نہ کر دے تو اس وقت ان میں تفریق کردی جائے گی اور اگر وہ اقرار کرے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہے یہ حضرت عمر (رض) کا قول ہے۔ ایک تیسری جماعت کا قول یہ ہے کہ وہ اس کی بیوی ہے جب تک کہ وہ اس کو دارالحرب سے نہ نکالے اور یہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کا قول ہے۔ اسناد کے ساتھ یہ روایات باب کے آخر میں ہم ذکر کریں گے۔ کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت کا نکاح کے بعد اسلام لانا خاوند اور بیوی کے درمیان تفریق کو لازم کردیتا ہے خواہ اس کی حالت کوئی بھی ہو۔ تو اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ اس کے حکم کی مشابہت عدت کی بجائے رضاعت سے زیادہ ہے تو جب رضاعت کی وجہ سے جدائی لازم ہوجاتی ہے جب بھی رضاعت پائی جائے پہلے یا بعد۔ عورت کے عدت سے نکلنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ پس اس پر قیاس کرتے ہوئے اسلام لانے کا حکم بھی یہی ہوگا۔ پس اس سلسلہ میں تقاضائے نظر یہی ہے۔ کہ عورت اسلام لاتے ہی اپنے کافر خاوند سے جدا ہوا جائے گی خواہ وہ دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں۔ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول اس کے خلاف ہے۔ حربیہ کا حکم : وہ حربیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند دارالحرب میں کافر ہے تو وہ اس کی بیوی رہے گی جب تک کہ اس عورت کو تین حیض نہ آجائیں یا پھر وہ عورت دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کر جائے ان دو میں سے جو صورت پیش آجائے اس سے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیاس اسی بات کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے اسلام لاتے ہی جدا ہوجائے۔ اگر وہ اسلام لائی جبکہ اس کا خاوند دارالاسلام میں تھا تو وہ اس کی اسی طرح بیوی ہے یہاں تک کہ قاضی اس کے خاوند پر اسلام پیش کرے اور وہ اسلام لے آئے تو وہ اس کے تحت باقی رہے گی یا انکار کر دے تو ان میں تفریق کردی جائے گی۔ یہاں نظر قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ اسلام لاتے ہی اپنے اسلام کی وجہ سے خاوند سے جدا ہوجائے مگر ہم نے حضرت عمر (رض) کے قول کی تقلید کی۔
نوٹ : کیا یہ درست ہے کہ دارالاسلام میں کوئی نصرانیہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند نصرانی ذمی ہو وہ عورت اسی وقت اس سے جدا ہوجائے اور اس عورت کے عدت میں سے نکلنے لگ تک اس خاوند کے اسلام لانے کا تو انتظار نہ کیا جائے اور حربیہ عورت جو کہ کتابیہ بھی نہیں وہ دارالحرب میں اسلام لے آئے پھر دارالاسلام میں داخل ہوجائے تو اس کے سلسلہ میں اس کے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کیا جائے کہ وہ اس کی عدت کے اندر اندر مسلمان ہوجائے۔
یہ بات بالکل ناممکن ہے کیونکہ جب دارالاسلام میں اسلام قبول کرلینا اس کے خاوند نصرانی ذمی سے اس کو الگ کردیتا ہے تو دارالحرب میں اس کا اسلام لانا مشرک خاوند سے اس کو کیونکر الگ نہ کرے گا۔
پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابن عباس (رض) بھی یہی رائے رکھتے تھے کہ عورت کے اسلام لانے سے اس کا نکاح کافر خاوند سے ٹوٹ جانے کے قائل تھے عدت تک خاوند کے اسلام کے انتظار کرنے کے قائل نہ تھے۔ اب جبکہ ان کے اپنے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوگئی تو اب یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ اس کو ترک کریں جو ان کے ہاں حضرت زینب (رض) کے ابوالعاص (رض) پر واپس کرنے کے سلسلے میں ثابت شدہ ہے کہ پہلے نکاح پر واپس کردیا اور مخالف قول کو اختیار کریں بس یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ ان کے ہاں پہلے قول کا منسوخ ہونا ثابت ہو۔
آثار کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو اس باب کا یہی مفہوم ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اب نظری اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عورت اسلام قبول کرے اور اس کا خاوند کافر ہی رہے تو وہ عورت ایسے حال میں ہوجاتی ہے کہ اس آدمی کا نکاح اس عورت کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے اور وہ کافر ہے۔
تو ہم نے چاہا کہ اس حالت کا حکم معلوم کریں جو اس نکاح پر طاری ہوتی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نکاح کا سامنا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعی بہن سے نکاح کو حرام کیا ہے وہ آدمی جس نے چھوٹی بچی سے نکاح کیا کہ آدمی اور اس منکوحہ کے مابین رضاعت کا رشتہ نہ تھا۔ نکاح کے بعد اس خاوند کی ماں نے اس لڑکی کو دودھ پلا دیا تو وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور اس وجہ سے نکاح فسخ ہوجائے گا۔ ایسے مواقع میں وہ رضاعت جو اب طاری ہوئی ہے یہ پہلے پیش آنے والی رضاعت کی طرح ہے اس میں طویل بحث ہے اس میں بعض صورتیں اگرچہ مختلف فیہ ہیں جبکہ نکاح سے پہلے ہوں یا نکاح کے بعد پیش آئیں ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ خاوند کی عدت میں ہوتے ہوئے نکاح کو حرام کیا ہے اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح فاسد میں جماع کی وجہ سے جو عدت لازم آتی ہے وہ بھی نکاح سے مانع ہے جس طرح کہ صحیح نکاح کی عدت مانع ہے۔
اور اگر عورت سے بالشبہ وطی ہوئی حالانکہ اس کا خاوند موجود تھا تو وطی بالشبہہ کی وجہ سے اس عورت پر عدت لازم ہے۔ مگر اس عدت کے باوجود وہ اپنے خاوند سے بائنہ نہ ہوگی اور یہ عدت اس عدت کی طرح نہ ہوگی جو نکاح سے پہلے عورت کسی اور خاوند کی عدت گزارتی ہے تو اس صورت میں مقدم (وہ نکاح جس کی موجودگی میں عدت گزارے تو وہ نکاح قائم رہے گا) اور موخر (عورت میں کیا جانے والا نکاح جائز نہیں یہ موخر ہے) میں فرق کیا جائے گا۔
پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس عورت کے بارے میں معلوم کریں جو کہ مسلمان ہوگئی اور اس کا خاوند کافر ہے کیونکہ وہ اس وجہ سے اس سے جدا ہوجائے گی اس میں مقدم و موخر کا حکم ایک جیسا ہوگا جیسا کہ رضاعت کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا یا اسلام کی وجہ سے اس سے جدا نہ ہوگی اور اس کے ابھی اسلام قبول کرنے کو نکاح سے پہلے والے اسلام کی طرح قرار نہیں دیا جائے گا جیسا کہ عدت کا مسئلہ ہم نے ذکر کیا کہ اس میں مقدم و موخر کا فرق کیا گیا ہے۔
پس غور کے بعد معلوم ہوا کہ نکاح پر طاری ہونے والی عدت میں واجب ہونے کی حالت اور اس کے بعد تفریق لازم نہیں ہے۔
اور دوسری طرف جس رضاعت کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے تفریق لازم ہوجاتی ہے اور اس کے طاری ہونے کے بعد کسی اور بات کی قطعاً انتظار نہیں کی جاتی۔
نکاح کے بعد اسلام کا حکم :
نکاح کے بعد اسلام کا حکم : وہ اسلام جو نکاح کے بعد آتا ہے اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ اس سے جدائی واجب ہوجاتی ہے تو ایک جماعت کے ہاں عورت کے اسلام لاتے ہی جدائی واجب ہوجاتی ہے اور یہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ جب تک خاوند پر اسلام کو پیش نہ کیا جائے اور وہ انکار نہ کر دے تو اس وقت تک ان میں فرقت نہ ہوگی۔ اگر وہ انکار کر دے تو ان میں تفریق کردی جائے گی اور اگر وہ اقرار کرے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہے یہ حضرت عمر (رض) کا قول ہے۔
ایک تیسری جماعت کا قول یہ ہے کہ وہ اس کی بیوی ہے جب تک کہ وہ اس کو دارالحرب سے نہ نکالے اور یہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کا قول ہے۔ اسناد کے ساتھ یہ روایات باب کے آخر میں ہم ذکر کریں گے۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت کا نکاح کے بعد اسلام لانا خاوند اور بیوی کے درمیان تفریق کو لازم کردیتا ہے خواہ اس کی حالت کوئی بھی ہو۔ تو اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ اس کے حکم کی مشابہت عدت کی بجائے رضاعت سے زیادہ ہے تو جب رضاعت کی وجہ سے جدائی لازم ہوجاتی ہے جب بھی رضاعت پائی جائے پہلے یا بعد۔ عورت کے عدت سے نکلنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ پس اس پر قیاس کرتے ہوئے اسلام لانے کا حکم بھی یہی ہوگا۔
پس اس سلسلہ میں تقاضائے نظر یہی ہے۔ کہ عورت اسلام لاتے ہی اپنے کافر خاوند سے جدا ہوا جائے گی خواہ وہ دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں۔
ائمہ احناف کا مسلک : اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول اس کے خلاف ہے۔
حربیہ کا حکم : وہ حربیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند دارالحرب میں کافر ہے تو وہ اس کی بیوی رہے گی جب تک کہ اس عورت کو تین حیض نہ آجائیں یا پھر وہ عورت دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کر جائے ان دو میں سے جو صورت پیش آجائے اس سے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیاس اسی بات کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے اسلام لاتے ہی جدا ہوجائے۔
دارالاسلام میں مقیمہ کا حکم : اگر وہ اسلام لائی جبکہ اس کا خاوند دارالاسلام میں تھا تو وہ اس کی اسی طرح بیوی ہے یہاں تک کہ قاضی اس کے خاوند پر اسلام پیش کرے اور وہ اسلام لے آئے تو وہ اس کے تحت باقی رہے گی یا انکار کر دے تو ان میں تفریق کردی جائے گی۔ یہاں نظر قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ اسلام لاتے ہی اپنے اسلام کی وجہ سے خاوند سے جدا ہوجائے مگر ہم نے حضرت عمر (رض) کے قول کی تقلید کی۔

5150

۵۱۴۹ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ السِّفَاحِ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ کُرْدُوْسَ قَالَ : کَانَ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ بَنِیْ تَغْلِبَ نَصْرَانِیٌّ ، تَحْتَہُ امْرَأَۃٌ نَصْرَانِیَّۃٌ فَأَسْلَمَتْ ، فَرُفِعَتْ اِلَی عُمَرَ فَقَالَ لَہُ أَسْلَمْتُ وَاِلَّا فَرَّقْتُ بَیْنَکُمَا .فَقَالَ لَہُ لَمْ أَدَعْ ہَذَا اِلَّا اسْتِحْیَائً مِنَ الْعَرَبِ أَنْ یَقُوْلُوْا : اِنَّہٗ أَسْلَمَ عَلَی بُضْعِ امْرَأَۃٍ قَالَ : فَفَرَّقَ عُمَرُ بَیْنَہُمَا .
٥١٤٩: داؤد بن کردوس نے بیان کیا کہ ہم میں بنی تغلب کا ایک نصرانی آدمی تھا۔ اس کی بیوی بھی نصرانی تھی وہ اسلام لے آئی اس نے اپنا معاملہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کو فرمایا کیا تو اسلام لاتا ہے ورنہ میں تمہارے مابین تفریق کر دوں گا۔ اس نے جواب دیا میں اس بات کو صرف عربوں کے اس قول سے بچنے کی خاطر چھوڑتا ہوں (اسلام نہیں لاتا) کہ وہ کہیں کہ بیوی کی خاطر اسلام لایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ان کے مابین تفریق کردی۔

5151

۵۱۵۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ہِلَالُ بْنُ یَحْیٰی ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیُّ ، عَنِ السِّفَاحِ ، عَنْ کُرْدُوْسَ بْن دَاوٗدَ التَّغْلِبِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ، نَحْوُہٗ .فَقَلَّدُوْا مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الَّذِیْ أَسْلَمَتِ امْرَأَتُہُ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، وَجَعَلُوْا لِلَّذِیْ أَسْلَمَتِ امْرَأَتُہُ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ أَجَلًا ، اِنْ أَسْلَمَ فِیْہِ، وَاِلَّا وَقَعَتِ الْفُرْقَۃُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ امْرَأَتِہٖ، بَدَلًا مِنَ الْعَرْضِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْرِضُوْنَہٗ عَلَیْہِ، لَوْ کَانَ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، وَہُوَ الْعِدَّۃُ ، اِلَّا أَنْ تَخْرُجَ الْمَرْأَۃُ قَبْلَ ذٰلِکَ اِلٰی دَارِ الْاِسْلَامِ ، فَیَنْقَطِعُ الْأَجَلُ بِذٰلِکَ ، وَتَجِبُ بِہٖ الْبَیْنُوْنَۃُ .وَنَحْنُ فِیْ ہٰذَا عَلٰی مَا رَوَیْنَا ، عَنِ ابْن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، مِنْ وُجُوْب الْبَیْنُوْنَۃ بِالْاِسْلَامِ ، سَاعَۃَ یَکُوْنُ مِنَ الْمَرْأَۃِ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ،
٥١٥٠: کردوس بن داؤد تغلبی نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ائمہ احناف (رح) نے دارالاسلام میں اسلام لانے والی عورت کے کافر خاوند کے سلسلہ میں حضرت عمر (رض) کے اس قول کی تقلید کی ہے جو مذکورہ روایت میں حضرت عمر (رض) نے اختیار فرمایا اور دارالحرب میں مسلمان ہونے والی عورت کے لیے خاوند کو اسلام لانے کے لیے ایک موقعہ دیا ہے۔ اگر وہ اسلام قبول کرے تو مناسب ہے ورنہ اس کی بیوی اس سے جدا ہوجائے گی۔ یہ اس اسلام کا بدل ہے جو دارالاسلام میں ہونے کی صورت میں اس پر پیش کیا جاتا اور وہ عدت کا وقت گزرنا یا دارالاسلام کی طرف اس کا نکال دیا جانا ہے جس سے وہ مہلت ختم ہو کر جدائی لازم ہوجائے گی۔ ہم اس سلسلہ میں ابن عباس (رض) کی روایت کو اختیار کرتے ہیں کہ اسلام لاتے ہی عورت جدا ہوجائے گی۔

5152

۵۱۵۱ : فَمَا حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ ہُوَ أَحَقُّ بِنِکَاحِہَا ، مَا کَانَتْ فِیْ دَارِ ہِجْرَتُہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الزُّہْرِیِّ وَقَتَادَۃَ ، فِیْ رَدِّ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْنَب ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ ، أَنَّ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ ، وَاخْتَلَفَا فِیْمَا نَسَخَہٗ .
٥١٥١: قتادہ نے حضرت سعید بن المسیب سے روایت کی کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا جب تک وہ عورت دارالحرب میں ہے اس وقت تک خاوند کو اس سے نکاح کا زیادہ حق ہے۔
زہری و قتادہ (رح) کا قول : زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کو حضرت ابوالعاص (رض) پر واپس کردیا یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے۔ البتہ ناسخ کے متعلق دونوں کا قول مختلف ہے۔

5153

۵۱۵۲ : حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُؤَدِّبُ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَامّ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ أَبَا الْعَاصِ بْنَ رَبِیْعَۃَ أُخِذَ أَسِیْرًا یَوْمَ بَدْرٍ ، فَأُتِیَ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَدَّ عَلَیْہِ ابْنَتَہٗ۔قَالَ الزُّہْرِیُّ : وَکَانَ ہَذَا قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ الْفَرَائِضَ ، یَعْنِی ابْنَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَدَّہَا عَلَی زَوْجِہَا .
٥١٥٢: سفیان بن حسین نے زہری سے روایت کی ہے کہ ابوالعاص بن ربیعہ (رض) بدر کے دن قیدی بنا لیے گئے پس ان کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر اپنی بیٹی (زینب (رض) ) کو واپس کردیا۔ زہری کہتے ہیں کہ یہ نزول فرائض سے پہلے کی بات ہے (یعنی زینب (رض) کو ابوالعاص (رض) کے سابقہ نکاح سے واپس کردینا) ۔

5154

۵۱۵۳ : وَحَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَامّ ، عَنْ سَعِیْدِ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّ عَلٰی أَبِی الْعَاصِ اِبْنَتَہٗ۔ قَالَ قَتَادَۃُ : کَانَ ہٰذَا قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ سُوْرَۃُ بَرَائَ ۃٍ .
٥١٥٣: سعید نے قتادہ (رح) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوالعاص (رض) کی طرف اپنی بیٹی کو واپس کردیا (یعنی سابقہ نکاح کو بحال رکھا) قتادہ (رح) کہتے ہیں یہ سورة برأۃ کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ غزوہ بدر کے بعد کا واقعہ ہے کہ وہ تجارتی قافلے میں واپسی پر قیدی بنا لیے گئے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کو ترجیح دی ہے اور اس سے دفاع کے لیے زور صرف کیا ہے۔ روایات کا ظاہر دوسرے قول کا زیادہ مؤید نظر آتا ہے۔ واللہ اعلم (مترجم)

5155

۵۱۵۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ اِیَاسِ بْنِ سَلْمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : نَفَلَنِیْ أَبُوْبَکْرٍ امْرَأَۃً مِنْ فَزَارَۃَ ، أَتَیْتُ بِہَا مِنَ الْغَارَۃِ ، فَقَدِمْتُ بِہَا الْمَدِیْنَۃَ ، فَاسْتَوْہَبَہَا مِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَفَادَی بِہَا أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .
٥١٥٤: ایاس بن سلمہ بن اکوع نے اپنے والد سلمہ بن اکوع (رض) سے نقل کیا کہ جناب حضرت ابوبکر (رض) نے بنو فزارہ کی ایک عورت مجھے بطور غنیمت عنایت فرمائی جس کو میں لڑائی کی لوٹ مار سے لایا تھا ‘ میں اسے مدینہ منورہ لایا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ مجھے ہبہ کر دو میں نے وہ آپ کو ہبہ کردی تو اس کو کئی مسلمان قیدیوں کے فدیہ میں دے کر ان کو چھڑا لیا۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٤٧۔

5156

۵۱۵۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عُمَیْرُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ کَانُوْا أُسَارٰی بِمَکَّۃَ .
٥١٥٥: عمیر بن یونس نے عکرمہ سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور یہ اضافہ بھی ہے کہ وہ قیدی مکہ میں مقید تھے۔

5157

۵۱۵۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ عَمِّہٖ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَادَی بِرَجُلٍ مِنَ الْعَدُوِّ ، رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .
٥١٥٦: ابو قلابہ نے اپنے چچا سے انھوں نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کے ایک آدمی کے فدیہ میں دو مسلمانوں کو چھڑایا۔
تخریج : دارمی فی السیر باب ٢٧۔

5158

۵۱۵۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدُ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَیْ رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، بِرَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ بَنِیْ عَقِیْلٍ .
٥١٥٧: ابوالمہلب نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی عقیل کے ایک مشرک کو فدیہ میں دے کر دو مسلمانوں کو چھڑایا۔
تخریج : مسند احمد ٤‘ ٤٢٦؍٤٣٢۔

5159

۵۱۵۸ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَدَّاکِ ، جَبْرُ بْن نَوْفٍ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : أَصَبْنَا صَبِیًّا فَأَرَدْنَا نُفَادِی بِہِنَّ ، فَسَأَلْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، الرَّجُلُ یَکُوْنُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُصِیْبُ مِنْہَا ، فَیَعْزِلُ عَنْہَا مَخَافَۃَ أَنْ تَعْلَقَ مِنْہٗ؟ فَقَالَ افْعَلُوْا مَا بَدَا لَکُمْ ، فَمَا یَقْضِی مِنْ أَمْرٍ یَکُنْ ، وَاِنْ کَرِہْتُمْ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یُفْدَی مَا فِیْ أَیْدِی الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ أَسْرَی الْمُسْلِمِیْنَ بِمَنْ قَدْ مَلَکَہُ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ ، مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ہٰذَا الْقَوْلِ ، أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَرِہَ آخَرُوْنَ أَنْ یُفَادَی بِمَنْ قَدْ وَقَعَ مِلْکُ الْمُسْلِمِیْنَ عَلَیْہِ، لِأَنَّہٗ قَدْ صَارَتْ لَہُ ذِمَّۃٌ بِمِلْکِ الْمُسْلِمِیْنَ اِیَّاہُ فَمَکْرُوْہٌ أَنْ یُرَدَّ حَرْبِیًّا ، بَعْدَ أَنْ کَانَ ذِمَّۃً .وَقَالُوْا : اِنَّمَا کَانَ الْفِدَائُ الْمَذْکُوْرُ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، فِیْ وَقْتٍ کَانَ لَا بَأْسَ أَنْ یُفَادَی فِیْہِ بِمَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ فَیَرُدُّوْا اِلَی الْمُشْرِکِیْنَ ، عَلٰی أَنْ یَرُدُّوْا اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ أَسَرُوْا مِنْہُمْ ، کَمَا صَالَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ مَکَّۃَ عَلٰی أَنْ یَرُدَّ اِلَیْہِمْ مَنْ جَائَ اِلَیْہِ مِنْہُمْ ، وَاِنْ کَانَ مُسْلِمًا .فَمِمَّا بَیَّنَ أَنَّ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ خُزَیْمَۃَ
٥١٥٨: جبر بن نوف نے حضرت ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نے کچھ کافر قید کئے پس ہم نے چاہا کہ ان کو ہم فدیہ میں دیں تو ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی کے ہاں لونڈی ہو تو وہ حاملہ ہونے کے خطرہ سے اس سے عزل کرسکتا ہے آپ نے فرمایا جو چاہو تم کرو۔ جس کام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرما لیا ہے وہ ہو کر رہے گا خواہ تمہیں ناپسند ہو۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مسلمانوں کو اہل حرب سے جو مرد یا عورتیں ہاتھ آئیں ان کو ان مسلمان قیدیوں کے فدیہ میں دے دینے میں کوئی حرج نہیں جو کہ مشرکین کی قید میں ہوں۔ ان کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ اس قول کو امام ابو یوسف (رح) نے اختیار کیا ہے۔ دوسروں نے کہا کہ قیدیوں کو مسلمانوں کے فدیہ میں دینا مکروہ ہے کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کی ملکیت میں آنے پر ذمی بن چکے ہیں تو ذمی بننے کے بعد ان کو حربی بنانا نادرست اور مکروہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان روایات میں جس فدیہ کا ذکر ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ اہل حرب میں سے جو لوگ مسلمان ہوجاتے تھے وہ بطور فدیہ مشرکین کی طرف لوٹادیئے جاتے تھے تاکہ وہ مسلمان قیدیوں کو مسلمانوں کی طرف واپس کردیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے اس شرط پر صلح فرمائی کہ ان میں سے جو آپ کے پاس مسلمان ہو کر آجائے گا اس کو ان کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو۔ جیسا کہ یہ روایات ثابت کر رہی ہیں۔
طحاوی (رح) کا قول : ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مسلمانوں کو اہل حرب سے جو مرد یا عورتیں ہاتھ آئیں ان کو ان مسلمان قیدیوں کے فدیہ میں دے دینے میں کوئی حرج نہیں جو کہ مشرکین کی قید میں ہوں۔ ان کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ اس قول کو امام ابو یوسف (رح) نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے کہ قیدیوں کو مسلمانوں کے فدیہ میں دینا مکروہ ہے کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کی ملکیت میں آنے پر ذمی بن چکے ہیں تو ذمی بننے کے بعد ان کو حربی بنانا نادرست اور مکروہ ہے۔
فریق اوّل کے استدلال کا جواب : ان روایات میں جس فدیہ کا ذکر ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ اہل حرب میں سے جو لوگ مسلمان ہوجاتے تھے ان کو بطور فدیہ مشرکین کی طرف لوٹ ادیئے جاتے تھے (صلح حدیبیہ کے موقعہ پر) تاکہ وہ مسلمان قیدیوں کو مسلمانوں کی طرف واپس کردیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے اس شرط پر صلح فرمائی کہ ان میں سے جو آپ کے پاس مسلمان ہو کر آجائے گا اس کو ان کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو۔ جیسا کہ یہ روایات ثابت کر رہی ہیں۔

5160

۵۱۵۹ : حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : أَسَرَتْ ثَقِیْفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَۃَ ، فَمَرَّ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُوْثَقٌ .فَأَقْبَلَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَلَامَ اُحْتُبِسَ ؟ قَالَ : بِجَرِیْرَۃِ حُلَفَائِکَ، ثُمَّ مَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَادَاہُ فَأَقْبَلَ اِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ الْأَسِیْرُ اِنِّیْ مُسْلِمٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتُہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَک أَفْلَحْت کُلَّ الْفَلَاحِ .ثُمَّ مَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَادَاہُ أَیْضًا فَأَقْبَلَ فَقَالَ اِنِّیْ جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْفُذُک حَاجَتَک ثُمَّ اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَادَاہُ بِالرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ کَانَتْ ثَقِیْفُ أَسَرَتْہُمَا.
٥١٥٩: ابو مہلب نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ قبیلہ بنو ثقیف نے دو صحابہ کرام (رض) کو قیدی بنا لیا۔ صحابہ کرام نے بنو عامر بن صعصعہ کے ایک آدمی کو گرفتار کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے گزرے تو وہ بندھا ہوا تھا۔ آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ کہنے لگا مجھے کیوں قید کیا گیا ہے آپ نے فرمایا تمہارے حلیفوں کے جرم میں۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے گئے تو اس نے آواز دی آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو قیدی کہنے لگا میں تو مسلمان ہوگیا ہوں آپ نے فرمایا اگر تو اس وقت یہ بات کہتا جب تو اپنے معاملے کا مالک تھا تو مکمل طور پر فلاح و کامیابی پا لیتا۔
پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے گئے تو اس نے دوبارہ آواز دی آپ کے متوجہ ہونے پر کہنے لگا میں بھوکا ہوں آپ نے فرمایا میں تمہاری حاجت کو پورا کروں گا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ان دو آدمیوں کے عوض چھوڑ دیا جن کو بنو ثقیف نے گرفتار کیا تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی الایمان باب ٢١‘ مسند احمد ٤‘ ٤٣٠؍٤٣٤۔

5161

۵۱۶۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ : کَانَتِ الْعَضْبَائُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِیْ عَقِیْلٍ أُسِرَ ، فَأُخِذَتِ الْعَضْبَائُ مِنْہٗ، فَأُتِیَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، عَلَامَ تَأْخُذُوْنِیْ، وَتَأْخُذُوْنَ سَابِقَۃَ الْحَاجِّ ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ ؟ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخُذُک بِجَرِیْرَۃِ حُلَفَائِکَ وَکَانَتْ ثَقِیْفُ قَدْ أَسَرَتْ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی حِمَارٍ ، عَلَیْہِ قَطِیْفَۃٌ .فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، اِنِّیْ جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِیْ، وَظَمْآنُ فَاسْقِنِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ حَاجَتُک .ثُمَّ اِنَّ الرَّجُل فُدِیَ بِرَجُلٍ ، وَحَبَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَائَ لِرَحْلِہِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا الْحَدِیْثُ مُفَسَّرٌ ، قَدْ أَخْبَرَ فِیْہِ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَادَی بِذٰلِکَ الْمَأْسُوْرَ ، بَعْدَ أَنَّ أَقَرَّ بِالْاِسْلَامِ ، وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ ، وَأَنَّہٗ لَیْسَ لِلْاِمَامِ أَنْ یَفْدِیَ مَنْ أُسِرَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، بِمَنْ فِیْ یَدَیْہِ مِنْ أَسْرَی أَہْلِ الْحَرْبِ الَّذِیْنَ قَدْ أَسْلَمُوْا ، وَأَنَّ قَوْلَ اللّٰہِ تَعَالٰی لَا تَرْجِعُوْھُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ قَدْ نَسَخَ أَنْ یُرَدَّ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الْاِسْلَامِ اِلَی الْکُفَّارِ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِذٰلِکَ ، وَثَبَتَ أَنْ لَا یُرَدَّ اِلَی الْکُفَّارِ مَنْ جَائَ نَا مِنْہُمْ بِذِمَّۃٍ ، وَثَبَتَ أَنَّ الذِّمَّۃَ تُحَرِّمُ مَا حَرَّمَہُ الْاِسْلَامُ ، مِنْ دِمَائِ أَہْلِہَا وَأَمْوَالِہِمْ ، وَأَنَّہٗ یَجِبُ عَلَیْنَا مَنْعُ أَہْلِہَا مِنْ نَقْضِہَا وَالرُّجُوْعِ اِلَی دَارِ الْحَرْبِ ، کَمَا یُمْنَعُ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ نَقْضِ اِسْلَامِہِمْ وَالْخُرُوْجِ اِلَی دَارِ الْحَرْبِ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَکَانَ مَنْ أَصَبْنَاہُ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ ، فَمَلَکْنَاہٗ، صَارَ بِمِلْکِنَا اِیَّاہُ ذِمَّۃً لَنَا ، وَلَوْ أَعْتَقْنَاہُ لَمْ یَعُدْ حَرْبِیًّا بَعْدَ ذٰلِکَ ، وَکَانَ لَنَا أَخْذُہُ بِأَدَائِ الْجِزْیَۃِ اِلَیْنَا ، کَمَا نَأْخُذُ بِسَائِرِ ذِمَّتِنَا ، وَعَلَیْنَا حِفْظُہٗ، مِمَّا یَحْفَظُہُمْ مِنْہٗ، وَکَانَ حَرَامًا عَلَیْنَا أَنْ نُفَادِیَ بِعَبِیْدِنَا الْکُفَّارَ الَّذِیْنَ قَدْ وُلِدُوْا فِیْ دَارِنَا ، لِمَا قَدْ صَارَ لَہُمْ مِنْ الذِّمَّۃِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ہٰذَا الْحَرْبِیُّ اِذَا أَسَرْنَاہُ فَصَارَ ذِمَّۃً لَنَا ، وَقَعَ مِلْکُنَا عَلَیْہِ، أَنْ یُحْرَم عَلَیْنَا الْمُفَادَاۃُ بِہٖ ، وَرَدُّہُ اِلٰی أَیْدِی الْمُشْرِکِیْنَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٥١٦٠: ابوالمہلب نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ عضباء اونٹنی بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی جس کو قید کیا گیا تھا اس سے وہ اونٹنی لے لی گئی اس شخص کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے مجھے کس بات پر پکڑا ہے اور اس اونٹنی کو بھی پکڑا ہے جو تمام حاجیوں سے سبقت کرنے والی ہے حالانکہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہیں تمہارے حلفاء کے جرم میں پکڑا ہے اور بنو ثقیف نے دو صحابہ کرام (رض) کو قیدی بنا لیا تھا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درازگوش پر سوار تھے اور آپ نے ایک دھاری دار چادر زیب تن کر رکھی تھی۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیں۔ میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلائیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہاری ضرورت ہے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے عوض ایک صحابی کو چھڑایا اور اونٹنی کو اپنی سواری کے لیے رکھ لیا۔ اس روایت میں پہلی کی بنسبت زیادہ وضاحت ہے اس میں حضرت عمران بن حصین (رض) نے خبر دی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو اظہار اسلام کے باوجود مقید صحابی کے عوض میں دے کر اسے چھڑایا اور اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ بات منسوخ ہے اور امام کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اہل حرب میں سے حاصل ہونے والے قیدیوں کو جو کہ اسلام لے آئیں مسلمان قیدیوں کے عوض دیں اور اس آیت : فلا ترجعوہن الی الکفار “ الایہ نے کسی مسلمان کے کفار کی طرف لوٹانے والے حکم کو منسوخ کر دیاجب کہ اس حکم کا منسوخ ہونا ثابت ہوچکا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو شخص ذمی بن کر ہمارے پاس آئے تو اسے کفار کی طرف نہ لوٹایا جائے اور ثابت ہوا کہ جس طرح اسلام کی وجہ سے خونوں اور مالوں کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح کسی سے عہد و پیمان کرلینے سے یہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں اور ہم پر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اہل ذمہ کو اس ذمہ داری کے توڑنے اور دارالحرب کی طرف لوٹنے سے منع کریں گے جس طرح کہ مسلمانوں کو اسلام کے ترک کرنے اور دارالحرب کی طرف جانے سے روکا جاتا ہے۔ جن اہل حرب کو ہم حاصل کریں گے ان کے ہما ملک بن جائیں گے اس سے ملکیت سے ان کا ذمہ ہونا ثابت ہوگا اور اگر ہم ان کو آزاد کردیں وہ اس کے بعد حربی چمار نہ ہوں گے اور اداء جزیہ کے ساتھ ان کو دارالاسلام میں لینا درست ہو گا جیسا کہ دیگر ذمیوں کا معاملہ ہے اور ہمارے ذمہ ان کی تمام چیزوں سے ان کی حفاظت ضروری جن سے مسلمانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لیے حرام ہے کہ وہ غلام جو ہمارے ملک میں پیدا ہوتے اور ذمی بن گئے ان کو فدیہ میں دے کر دارالحرب سے مسلمانوں کا چھڑانا جائز نہیں۔ اس لیے کہ وہ ذمی بن چکے ہیں۔ اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حربی جس کو ہم نے قید کرلیا وہ ہماری ذمہ داری میں آگیا اور ہم اس کے مالک بن گئے اس کو بھی فدیہ میں دے کر دوسرے مسلمان کو چھڑانا جائز نہیں اور اس کا مشرکین کی طرف (مسلمان ہونے کی صورت میں) واپس کرنا درست نہیں یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسلم فی النذر ٨‘ ابو داؤد فی الایمان باب ٢١‘ دارمی فی السیر باب ٦١‘ مسند احمد ٤‘ ٤٣٠؍٤٣٣۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : اس روایت میں پہلی کی بنسبت زیادہ وضاحت ہے اس میں حضرت عمران بن حصین (رض) نے خبر دی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو اظہار اسلام کے باوجود مقید صحابی کے عوض میں دے کر اسے چھڑایا اور اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ بات منسوخ ہے اور امام کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اہل حرب میں سے حاصل ہونے والے قیدیوں کو جو کہ اسلام لے آئیں ان کو مسلمان قیدیوں کے عوض دیں اور اس آیت نے فلا ترجعوہن الی الکفار “ الایہ نے کسی مسلمان کے کفار کی طرف لوٹانے والے حکم کو منسوخ کردیا۔
نوٹ : جبکہ اس حکم کا منسوخ ہونا ثابت ہوچکا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو شخص ذمی بن کر ہمارے پاس آئے تو اسے کفار کی طرف نہ لوٹایا جائے اور ثابت ہوا کہ جس طرح اسلام کی وجہ سے خونوں اور مالوں کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح کسی سے عہد و پیمان کرلینے سے یہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں اور ہم پر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اہل ذمہ کو اس ذمہ داری کے توڑنے اور دارالحرب کی طرف لوٹنے سے منع کریں گے جس طرح کہ مسلمانوں کو اسلام کے ترک کرنے اور دارالحرب کی طرف جانے سے روکا جاتا ہے۔
نمبر 2: جن اہل حرب کو ہم حاصل کریں گے ان کے ہم مالک بن جائیں گے اس ملکیت سے ان کا ذمی ہونا ثابت ہوگا اور اگر ہم ان کو آزاد کردیں تو وہ اس کے بعد حربی شمار نہ ہوں گے اور اداء جزیہ کے ساتھ ان کو دارالاسلام میں لینا درست ہو گا جیسا کہ دیگر ذمیوں کا معاملہ ہے اور ہمارے ذمہ ان کی تمام چیزوں سے ان کی حفاظت ضروری جن سے مسلمانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لیے حرام ہے کہ وہ غلام جو ہمارے ملک میں پیدا ہوئے اور ذمی بن گئے ان کو فدیہ میں دے کر دارالحرب سے مسلمانوں کا چھڑانا جائز نہیں۔ اس لیے کہ وہ ذمی بن چکے ہیں۔

نظر طحاوی (رح) :
اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حربی جس کو ہم نے قید کرلیا وہ ہماری ذمہ داری میں آگیا اور ہم اس کے مالک بن گئے اس کو بھی فدیہ میں دے کر دوسرے مسلمان کو چھڑانا جائز نہیں اور اس کا مشرکین کی طرف (مسلمان ہونے کی صورت میں) واپس کرنا درست نہیں یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثانی کے مؤقف کی طرف معلوم ہوتا ہے عقلی دلائل سے اس مؤقف کی تائید کی مگر نقلی دلیل اس کے حق میں ایک بھی نہیں لائی گئی جبکہ تمام نقلی دلائل فریق اوّل کے حق میں نظر آتے ہیں۔ واللہ اعلم (مترجم)

5162

۵۱۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : کَانَتِ الْعَضْبَائُ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ ، فَأَغَارَ الْمُشْرِکُوْنَ عَلٰی سَرْحِ الْمَدِیْنَۃِ ، فَذَہَبُوْا بِہٖ ، وَفِیْہِ الْعَضْبَائُ وَأَسَرُوْا امْرَأَۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَکَانُوْا اِذَا نَزَلُوْا یُرْسِلُوْنَ اِبِلَہُمْ فِیْ أَفْنِیَتِہِمْ .فَلَمَّا کَانَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، قَامَتِ الْمَرْأَۃُ وَقَدْ نُوِّمُوْا ، فَجَعَلَتْ لَا تَضَعُ یَدَہَا عَلَی بَعِیْرٍ اِلَّا رَغَا ، حَتّٰی اِذَا أَتَتْ عَلَی الْعَضْبَائِ فَأَتَتْ عَلٰی نَاقَۃٍ ذَلُوْلٍ فَرَکِبَتْہَا ، وَتَوَجَّہَتْ قِبَلَ الْمَدِیْنَۃِ ، وَنَذَرَتْ ، لَئِنْ نَجَّاہَا اللّٰہُ عَلَیْہَا ، لَتَنْحَرَنَّہَا .فَلَمَّا قَدِمَتْ ، عَرَفَتْ النَّاقَۃَ فَأَتَوْا بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْہُ الْمَرْأَۃُ بِنَذْرِہَا فَقَالَ بِئْسَ مَا جَزَیْتُہُا أَوْ وَفَّیْتُہُا ، لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ غَنِیْمَۃَ أَہْلِ الْحَرْبِ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ، مَرْدُوْدٌ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ قَبْلَ الْقِسْمَۃِ وَبَعْدَہَا ، لِأَنَّ أَہْلَ الْحَرْبِ فِیْ قَوْلِہِمْ ، لَا یَمْلِکُوْنَ أَمْوَالَ الْمُسْلِمِیْنَ بِأَخْذِہِمْ اِیَّاہَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .وَقَالُوْا : قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْمَرْأَۃِ الَّتِیْ أَخَذَتِ الْعَضْبَائَ لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہَا لَمْ تَکُنْ مَلِکَتُہَا بِأَخْذِہَا اِیَّاہَا مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ ، وَأَنَّ أَہْلَ الْحَرْبِ لَمْ یَکُوْنُوْا مَلَکُوْہَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا أَخَذَہُ أَہْلُ الْحَرْبِ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَأَحْرَزُوْھُ فِیْ دَارِہِمْ ، فَقَدْ مَلَکُوْھُ وَزَالَ عَنْہُ مِلْکُ الْمُسْلِمِیْنَ .فَاِذَا أَوْجَفَ عَلَیْہِمُ الْمُسْلِمُوْنَ ، فَأَخَذُوْھُ مِنْہُمْ ، فَاِنْ جَائَ صَاحِبُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ ، أَخَذَہُ بِغَیْرِ شَیْئٍ ، وَاِنْ جَائَ بَعْدَمَا قُسِمَ ، أَخَذَہُ بِالْقِیْمَۃِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ اِنَّمَا کَانَ قَبْلَ أَنْ تَمْلِکَ الْمَرْأَۃُ النَّاقَۃَ ، لِأَنَّہَا قَالَتْ ذٰلِکَ وَہِیَ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَکُلُّ النَّاسِ یَقُوْلُ : اِنَّ مَنْ أَخَذَ شَیْئًا مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ ، فَلَمْ یَتَحَوَّلْ بِہٖ اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ ، أَنَّہٗ غَیْرُ مُحْرَزٍ لَہٗ، وَغَیْرُ مَالِکٍ ، وَاِنْ مَلَکَہُ لَا یَقَعُ عَلَیْہِ حَتّٰی یَخْرُجَ بِہٖ اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ فَاِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ ، فَقَدْ غَنِمَہُ وَمَلَکَہُ .فَلِہٰذَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ شَأْنِ الْمَرْأَۃِ مَا قَالَ ، لِأَنَّہَا نَذَرَتْ قَبْلَ أَنْ تَمْلِکَہَا لَئِنْ نَجَّاہَا اللّٰہُ عَلَیْہَا ، لَتَنْحَرَنَّہَا فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِیْمَا لَا یَمْلِکُہُ لِأَنَّ نَذْرَہَا ذٰلِکَ کَانَ مِنْہَا قَبْلَ أَنْ تَمْلِکَہَا .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْمُشْرِکِیْنَ قَدْ کَانُوْا مَلَکُوْہَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَخْذِہِمْ اِیَّاہَا مِنْہُ أَمْ لَا وَلَا عَلٰی أَنَّ أَہْلَ الْحَرْبِ یَمْلِکُوْنَ مَا أُوْجِفُوْا عَلَیْہِ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ أَیْضًا أَمْ لَا .وَالَّذِیْ فِیْہِ الدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ ،
٥١٦١: ابوالمہلب نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ عضباء اونٹنی تمام حجاج سے آگے نکلنے والی تھی۔ مشرکین مدینہ منورہ کی چراگاہ پر لوٹ ڈال کر چراگاہ کے جانور ہانک کرلے گئے اس میں عضباء اونٹنی بھی تھی۔ انھوں نے ایک مسلمان عورت کو بھی قیدی بنا لیا۔ ان کی عادت یہ تھی کہ جب وہ کسی جگہ اترتے تو اپنے اونٹوں کو ان کے میدانوں میں چھوڑ دیتے تھے۔ ایک رات وہ عورت اس حالت میں جاگی کہ وہ لوگ سو چکے تھے۔ وہ جس اونٹ پر ہاتھ رکھتی وہ شور مچاتا یہاں تک کہ وہ عضباء اونٹنی کے پاس پہنچی تو گویا وہ ایک فرمان بردار اونٹنی کے پاس آئی وہ اس پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوئی اور نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو نجات دی تو وہ اس اونٹنی کو ذبح کرے گی جب وہ مدینہ طیبہ پہنچی تو اونٹنی پہچانی گئی۔ چنانچہ صحابہ کرام (رض) اس عورت کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے اس نے آپ کو اپنی نذر کے متعلق اطلاع دی تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر تم یہ نذر پوری کرو تو تم نے برا بدلہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور غیر مملوک چیز میں نذر پوری نہیں کی جاتی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اموال میں سے جو کچھ اہل حرب سے بطور غنیمت حاصل ہو اس کو تقسیم سے پہلے اور بعد مسلمانوں کو واپس کردیا جائے گا۔ ان کے بقول اہل حرب مسلمانوں کے مال ان سے لینے کی صورت میں مالک نہیں بن سکتے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو فرمایا جس نے عضباء اونٹنی لی تھی کہ انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اسے اہل حرب سے لینے کی صورت میں بھی مالک نہیں بنتا۔ اہل حرب کو اس اونٹنی پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ملکیت حاصل نہ ہوئی تھی۔ دوسروں نے کہا مشرکین مسلمانوں کا جو مال حاصل کر کے اس کو دارالحرب میں محفوظ کرلیں گے وہ اس کے مالک بن جائیں گے اور اس مال پر مسلمانوں کی ملکیت نہ رہے گی پھر جب مسلمان دوبارہ اس پر گھوڑے دوڑائیں اور ان سے واپس حاصل کریں پھر تقسیم سے قبل اس کا سابقہ مسلمان مالک آجائے تو وہ اسے کسی عوض کے بغیر حاصل کرے گا اور اگر تقسیم کردیا گیا تو قیمت دے کر حاصل کرے گا۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی کہ غیر مملوک چیز میں انسان کی نذر ماننا معتبر نہیں۔ عورت کا نذر ماننا اونٹنی کی ملکیت کے حاصل ہونے سے پہلے تھا۔ کیونکہ اس نے یہ بات دارالحرب میں کہی تھی اور سب لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو شخص دارالحرب والوں سے کچھ لے اور اسے دارالاسلام کی طرف نہ لائے تو وہ اس کا محافظ ومالک نہیں ہوگا۔ اس چیز پر اس کی ملک واقع نہ ہوگی جب تک اسے لے کر دارالاسلام کی طرف نہ نکلے جب وہ ایسا کرے گا تو وہ مال غنیمت ہوگا اور یہ شخص اس کا مالک بن جائے گا۔ اسی وجہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے متعلق فرمایا جو کچھ کہ فرمایا کیونکہ اس نے مالک بننے سے پہلے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو نجات دی تو وہ اسے ذبح کرے گی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا۔ کہ انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اس میں اس کی نذر صحیح نہیں کیونکہ اس نے اس اونٹنی کی مالک بننے سے پہلے اس کی نذر مان لی تھی (جو کہ معتبر نہیں) جب اس روایت کا یہ مطلب ہے اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ مشرکین اس اونٹنی کے لوٹنے کے بعد مالک بن گئے تھے یا نہیں اور نہ اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ حربی لوگ مسلمانوں کے جس مال کو لوٹ کرلے جائیں وہ اس کے مالک بن جائیں گے۔
تخریج : مسلم فی النذر ٨‘ ابو داؤد فی الایمان باب ١٢‘ ترمذی فی النذور باب ١‘ نسائی فی الایمان باب ١٧‘ ٣١؍٤١‘ ابن ماجہ فی الکفارات باب ١٦‘ دارمی فی السیر باب ٦١‘ والنذور باب ٣‘ مسند احمد ١؍١٢٩‘ ٢؍٢٠٧‘ ٣؍٢٩٧‘ ٦؍٢٤٧۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : ایک جماعت علماء کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اموال میں سے جو کچھ اہل حرب سے بطور غنیمت حاصل ہو اس کو تقسیم سے پہلے اور بعد مسلمانوں کو واپس کردیا جائے گا۔ ان کے بقول اہل حرب مسلمانوں کے مال ان سے لینے کی صورت میں مالک نہیں بن سکتے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو فرمایا جس نے عضباء اونٹنی لی تھی کہ انسان جس چیز کا مالک نہ اسے اہل حرب سے لینے کی صورت میں بھی مالک نہیں بنتا۔ اہل حرب کو اس اونٹنی پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ملکیت حاصل نہ ہوئی تھی۔
فریق ثانی کا مؤقف : مشرکین مسلمانوں کا جو مال حاصل کر کے اس کو دارالحرب میں محفوظ کرلیں گے وہ اس کے مالک بن جائیں گے اور اس مال پر مسلمانوں کی ملکیت نہ رہے گی پھر جب مسلمان دوبارہ اس پر گھوڑے دوڑائیں اور ان سے واپس حاصل کریں پھر تقسیم سے قبل اس کا سابقہ مسلمان مالک آجائے تو وہ اسے کسی عوض کے بغیر حاصل کرے گا اور اگر تقسیم کردیا گیا تو قیمت دے کر حاصل کرے گا۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی کہ غیر مملوک چیز میں انسان کی نذر ماننا معتبر نہیں۔ عورت کا نذر ماننا اونٹنی کی ملکیت کے حاصل ہونے سے پہلے تھا۔ کیونکہ اس نے یہ بات دارالحرب میں کہی تھی اور سب لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو شخص دارالحرب والوں سے کچھ لے اور اسے دارالاسلام کی طرف نہ لوٹے تو وہ اس کا محافظ ومالک نہیں ہوگا۔ اس چیز پر اس کی ملک واقع نہ ہوگی جب تک اسے لے کر دارالاسلام کی طرف نہ نکلے جب وہ ایسا کرے گا تو وہ مال غنیمت ہوگا اور یہ شخص اس کا مالک بن جائے گا۔ اسی وجہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے متعلق فرمایا جو کچھ کہ فرمایا کیونکہ اس نے مالک بننے سے پہلے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو نجات دی تو وہ اسے ذبح کرے گی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا۔ کہ انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اس میں اس کی نذر صحیح نہیں کیونکہ اس نے اس اونٹنی کی مالک بننے سے پہلے اس کی نذر مان لی تھی (جو کہ معتبر نہیں) جب اس روایت کا یہ مطلب ہے اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ مشرکین اس اونٹنی کے لوٹنے کے بعد مالک بن گئے تھے یا نہیں اور نہ اس بات کی کوئی دلیل ہے۔ حربی لوگ مسلمانوں کے جس مال کو لوٹ کر جائیں وہ اس کے مالک بن جائیں گے۔

5163

۵۱۶۲ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طَرَفَۃَ الطَّائِیِّ أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ لَہُ الْعَدُوُّ بَعِیْرًا ، فَاشْتَرَاہُ رَجُلٌ مِنْہُمْ ، فَجَائَ بِہٖ فَعَرَفَہُ صَاحِبُہٗ، فَخَاصَمَہُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنْ شِئْتُ أَعْطَیْتُہٗ ثَمَنَہُ الَّذِی اشْتَرَاہُ بِہٖ وَہُوَ لَکَ، وَاِلَّا فَہُوَ لَہٗ۔
٥١٦٢: سماک بن حرب نے تمیم بن طرفہ طائی سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کا اونٹ دشمنوں نے چھین لیا (انہوں نے فروخت کردیا) تو ایک دوسرا شخص اسے خرید لایا مالک نے اپنا اونٹ پہچان لیا۔ وہ اپنا مقدمہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو اس شخص کو اس کی اتنی قیمت دے دو جس میں اس نے خریدا ہے تو یہ اونٹ تمہارا ہوگا ورنہ اسی کا ہوگا۔

5164

۵۱۶۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ حَفْصٍ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طَرَفَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوُہُ .فَہٰذَا ہُوَ الَّذِیْ فِیْہِ وَجْہُ الْحُکْمِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ کَیْفَ ہُوَ ؟ وَقَدْ رُوِیَ ہَذَا عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ
٥١٦٣: سماک بن حرب نے تمیم بن طرفہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس باب کا یہی حکم ہے جو ان روایات میں مذکور ہوا۔ متقدمین کی ایک جماعت نے اس کو نقل کیا ہے۔
اس باب کا یہی حکم ہے جو ان روایات میں مذکور ہوا۔ متقدمین کی ایک جماعت نے اس کو نقل کیا ہے۔

5165

۵۱۶۴ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیِّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : فِیْمَا أَحْرَزَ الْمُشْرِکُوْنَ فَأَصَابَہُ الْمُسْلِمُوْنَ فَعَرَفَہٗ صَاحِبُہُ قَالَ اِنْ أَدْرَکَہٗ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ ، فَہُوَ لَہٗ، وَاِنْ جَرَتْ فِیْہِ السِّہَامُ ، فَلَا شَیْئَ لَہٗ۔
٥١٦٤: قتادہ (رح) نے رجاء بن حیوہ سے انھوں نے قبیصہ بن ذؤیب سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جس مال پر مشرکین کا قبضہ ہوجائے پھر (دوبارہ) مسلمان اسے حاصل کرلیں اور ان میں سے مال کے مالکان اپنی اشیاء پہچان لیں۔ آپ نے فرمایا اگر تقسیم سے پہلے پالیں تو وہ اس کا ہوگا اور اگر تقسیم کردیا گیا تو سابقہ مالک کو کچھ نہ ملے گا۔

5166

۵۱۶۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَزْہَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، وَأَبَا عُبَیْدَۃَ قَالَا ذٰلِکَ .
٥١٦٥: ابن عون نے رجاء بن حیوہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) اور ابو عبیدہ (رض) دونوں نے یہ فرمایا ہے۔

5167

۵۱۶۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، مِثْلُہٗ .
٥١٦٦: سلیمان بن یسار نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے اسی کی مثل روایت کی ہے۔

5168

۵۱۶۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ زَائِدَۃَ بْنِ قُدَامَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : اِذَا أَصَابَ الْمُشْرِکُوْنَ السَّبْیَ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، فَأَصَابَہُ الْمُسْلِمُوْنَ ، فَقَدْ رَدَّ عَلَیْہِ صَاحِبُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ ، فَہُوَ لَہٗ، وَاِنْ قَدَرَ عَلَیْہِ بَعْدَ الْقِسْمَۃِ ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ ، بِالثَّمَنِ الَّذِی أَخَذَ بِہٖ .
٥١٦٧: لیث نے مجاہد (رح) سے نقل کیا کہ جب مشرکین مسلمانوں کے قیدی قبضہ میں کرلیں پھر مسلمانوں نے (حملہ کر کے ان کو) پا لیا تقسیم سے پہلے تو مالک پر لوٹا دی جائے گی اور وہ اسی کی ملکیت ہوگی اور اگر تقسیم کے بعد قدرت ملی تو جس قیمت پر اس کو خرید کیا گیا وہ قیمت ادا کردینے سے اس کا زیادہ حق دار ہے۔

5169

۵۱۶۸ : حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْأَسَدِیُّ ، قَالَ ابْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ غُلَامًا لِابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَبَقَ اِلَی الْعَدُوِّ ، وَظَہَرَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَیْہِ، فَرَدَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَمْ یَکُنْ قُسِمَ .
٥١٦٨: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک غلام دشمن کی طرف بھاگ گیا مسلمانوں نے اس پر غلبہ کر کے پکڑ لیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے میری طرف واپس کردیا۔ اس وقت غنائم کی تقسیم عمل میں نہ آئی تھی۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٢٥‘ مالک فی الجہاد ١٧‘ مسند احمد ٤؍٤٢٨‘ ٥؍١٢۔

5170

۵۱۶۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ وَحَبِیْبٍ وَہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ جَارِیَۃً مِنَ الْعَدُوِّ فَوَطِئَہَا ، فَوَلَدَتْ مِنْہٗ، فَجَائَ صَاحِبُہَا ، فَخَاصَمَہُ اِلَی شُرَیْحٍ فَقَالَ الْمُسْلِمُ أَحَقُّ أَنْ یَرُدَّ عَلٰی أَخِیْہِ بِالثَّمَنِ قَالَ : فَاِنَّہَا قَدْ وَلَدَتْ مِنْہٗ، فَقَالَ : أَعْتِقْہَا ، قَضَائُ الْأَمِیْرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٥١٦٩: ایوب ‘ حبیب ‘ ہشام تینوں نے محمد (رح) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے دشمن سے ایک لونڈی خریدی پھر اس سے وطی کی جس سے لڑکا پیدا ہوگیا تو لونڈی کا مالک آگیا۔ دونوں اپنا مقدمہ حضرت شریح (رح) کی خدمت میں لے گئے تو انھوں نے فیصلہ فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ اس لونڈی کو قیمت خرید پر واپس کر دے اس نے کہا اس سے تو میرا بچہ پیدا ہوا ہے۔ تو شریح نے فرمایا اسے آزاد کر دو یہ حضرت عمر (رض) کا فیصلہ ہے۔

5171

۵۱۷۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ ابْنِ اِبْرَاھِیْمَ وَعَامِرٍ ، قَالَ : وَقَالَ قَتَادَۃُ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُمْ قَالُوْا فِیْمَا أَصَابَ الْمُشْرِکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، ثُمَّ أَصَابَہُ الْمُسْلِمُوْنَ بَعْدُ ، قَالُوْا : اِنْ جَائَ صَاحِبُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ .
٥١٧٠: قتادہ نے حضرت عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ تمام صحابہ نے فرمایا کہ اگر مشرکین مسلمانوں کا مال قبضہ میں لے لیں پھر دوبارہ مسلمان اس مال کو پالیں تو اگر اس کا مالک تقسیم سے پہلے آجائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔

5172

۵۱۷۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ الْمُشْرِکِیْنَ أَصَابُوْا فَرَسًا لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، فَأَصَابَہُ الْمُسْلِمُوْنَ بَعْدُ ، فَأَخَذَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ قَبْلَ أَنْ یَقْسِمَ الْقَاسِمُ .وَلَمْ یَذْکُرْ نَافِعٌ ہُنَا قَبْلَ أَنْ یَقْسِمَ الْقَاسِمُ اِلَّا أَنَّ الْحُکْمَ بَعْدَمَا یَقَعُ الْمُقَاسِمُ ، بِخِلَافِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ .
٥١٧١: نافع روایت کرتے ہیں کہ دشمن حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا گھوڑا لے گئے پھر مسلمانوں نے اس پر قبضہ کرلیا تو حضرت عبداللہ (رض) نے تقسیم سے پہلے وہ لے لیا۔ حضرت نافع (رح) نے یہاں یہ ذکر نہیں کیا کہ انھوں نے تقسیم سے پہلے لیا مگر ابن عمر (رض) کے ہاں تقسیم کے بعد اس کا حکم اس کے خلاف ہے۔

5173

۵۱۷۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خَلَاصٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ قَالَ مَنْ اشْتَرَی مَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ ، فَہُوَ جَائِزٌ .
٥١٧٢: قتادہ (رح) نے خلاص سے انھوں نے حضرت علی المرتضیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا اگر دشمن کسی چیز کو قابو کرے تو اس کے بعد اس کو خریدنا جائز ہے۔

5174

۵۱۷۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ وَالْحَسَنِ ، قَالَا : مَا أَحْرَزَ الْمُشْرِکُوْنَ ، فَہُوَ فَیْء ٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، لَا یُرَدُّ مِنْہُ شَیْء ٌ .فَکُلُّ ہٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ رَوَیْنَا عَنْہُمْ ہٰذِہِ الْآثَارَ ، قَدْ ثَبَّتَ مِلْکَ الْمُشْرِکِیْنَ لِمَا أَحْرَزُوْا ، مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَاِنَّمَا اخْتِلَافُہُمْ فِیْمَا بَعْدَ ذٰلِکَ .فَقَالَ الْحَسَنُ وَالزُّہْرِیُّ : اِنَّ مَا أَحْرَزَ الْمُشْرِکُوْنَ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ، ثُمَّ قَدَرَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ ، فَلَا سَبِیْلَ لِصَاحِبِہٖ عَلَیْہِ .وَقَدْ خَالَفَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ شُرَیْحٌ ، وَمُجَاہِدٌ ، وَاِبْرَاھِیْمُ ، وَعَامِرٌ ، وَمَنْ تَقَدَّمَہُمْ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عُمَرُ ، وَعَلِیٌّ ، وَأَبُوْ عُبَیْدَۃَ ، وَابْنُ عُمَرَ ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَشَذَّ مَا قَالُوْھُ مِنْ ذٰلِکَ ، مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ تَمِیْمِ بْنِ طَرَفَۃَ ، فَذٰلِکَ أَوْلَی مِمَّا ذَہَبْنَا اِلَیْہِ، وَاِنْ کَانَ النَّظْرُ مُخَالِفًا لِمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ الْفَرِیْقَانِ جَمِیْعًا .وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْمُسْلِمِیْنَ یَسْبُوْنَ أَہْلَ الْحَرْبِ وَأَمْوَالَہُمْ ، فَیَمْلِکُوْنَ أَمْوَالَہُمْ ، کَمَا یَمْلِکُوْنَ رِقَابَہُمْ ، وَکَانَ الْمُشْرِکُوْنَ اِذَا أَسَرُوْا الْمُسْلِمِیْنَ ، لَمْ یَمْلِکُوْا رِقَابَہُمْ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ لَا یَمْلِکُوْا أَمْوَالَہُمْ ، وَیَکُوْنُ حُکْمُ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ، کَحُکْمِ رِقَابِہِمْ ، کَمَا کَانَ حُکْمُ أَمْوَالِ الْمُشْرِکِیْنَ ، کَحُکْمِ رِقَابِہِمْ .وَلٰـکِنَّا مُنِعْنَا مِنْ ذٰلِکَ ، بِمَا حَکَمَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَبِمَا حَکَمَ بِہٖ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ بَعْدِہٖ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ مَا حَکَمُوْا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ، فَنَظَرْنَا اِلَی مَا اُخْتُلِفَ فِیْہِ، مِنْ حُکْمِ مَا قَدَرَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ ، فَأَخَذُوْھُ مِنْ أَیْدِی الْمُشْرِکِیْنَ ، فَجَائَ صَاحِبُہُ بَعْدَمَا قُسِمَ ، ہَلْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَہُ بِالْقِیْمَۃِ ، کَمَا قَالَ بَعْضُ مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَوْ لَا یَأْخُذُہُ بِقِیْمَۃٍ وَلَا غَیْرِہَا ، کَمَا قَدْ قَالَ بَعْضُ مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَیْضًا ؟ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ حَکَمَ فِیْ مُشْتَرِی الْبَعِیْرِ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ أَنَّ لِصَاحِبِہٖ أَنْ یَأْخُذَہُ مِنْہُ بِالثَّمَنِ ، وَکَانَ ذٰلِکَ الْبَعِیْرُ قَدْ مَلَکَہُ الْمُشْتَرِی مِنَ الْحَرْبِیِّیْنَ ، کَمَا یَمْلِکُ الَّذِیْ یَقَعُ فِیْ سَہْمِہِ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ مَا یَقَعُ فِیْ سَہْمِہِ مِنْہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ الْاِمَامُ اِذَا قَسَمَ الْغَنِیْمَۃَ ، فَوَقَعَ شَیْء ٌ مِنْہَا فِیْ یَدِ رَجُلٍ ، وَقَدْ کَانَ أَسَرَ ذٰلِکَ مِنْ یَدِ آخَرَ ، أَنْ یَکُوْنَ الْمَأْسُوْرُ مِنْ یَدِہِ کَذٰلِکَ وَأَنْ یَکُوْنَ لَہٗ أَخْذُ مَا کَانَ أُسِرَ مِنْ یَدِہِ مِنْ یَدَیْ الَّذِی وَقَعَ فِیْ سَہْمِہٖ بِقِیْمَتِہٖ، کَمَا یَأْخُذُہُ مِنْ یَدِ مُشْتَرِیْہِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا بِثَمَنِہٖ۔ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥١٧٣: زہری اور حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ جو چیز مشرکین کے قابو میں ہو وہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت ہے۔ اس سے کچھ بھی واپس نہ کیا جائے گا۔ ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز مسلمانوں کی مشرک اپنے قبضہ میں لے لیں وہ ان کی ملکیت بن جاتی ہے۔ مگر اس سلسلہ میں اختلاف ہے زہری و حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ مشرکین مسلمانوں کے اموال میں سے جو کچھ قابو میں لیں پھر دوسری بار مسلمانوں کو ان پر قبضہ مل جاتا ہے تو اس مال میں مالک کا اب کوئی حق نہیں۔ مگر دوسری طرف حضرت مجاہد ‘ شریح ‘ ابن عمر ‘ حضرت عمر ‘ علی المرتضیٰ ابو عبیدہ ‘ زید بن ثابت (رض) نے ان دونوں کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے اپنے قول کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی سے پختہ و مضبوط کیا ہے جس کو ہم نے حضرت تمیم بن طرفہ (رض) کی روایت میں ذکر کیا ہے یہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف ہم گئے ہیں۔ اگرچہ قیاس کا تقاضا ان دونوں کے خلاف ہے۔ وہ اس طرح کہ۔ اگرچہ قیاس ہر دو فریق کے خلاف ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اہل حرب کو قیدی بناتے اور ان کے مال پر قبضہ کر کے ان کے مالک بن جاتے ہیں جس طرح کہ وہ ان کی گردنوں کے مالک بن جاتے ہیں اور مشرکین جب مسلمانوں کو قیدی بناتے ہیں تو وہ ان کی گردنوں کے مالک تو نہیں بنتے مگر مالوں کے مالک بن جاتے ہیں اگرچہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان اموال کے بھی مالک نہ بنیں اور مسلمانوں کے اموال کا حکم بھی ان کی گردنوں جیسا ہو۔ جیسا کہ مشرکین کے اموال کا حکم ان کی گردنوں کی طرح ہے۔ مگر ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد والے مسلمانوں کے فیصلے کی وجہ سے اس قیاس کو ترک کردیا۔ تو اب جبکہ اس سلسلہ میں ان کا فیصلہ ثابت ہوگیا تو ہم نے مختلف فیہ مسئلہ سے متعلق بھی غور کیا یعنی جبکہ مسلمان اس پر قادر ہو کر مشرکین کے ہاتھوں سے لے لیں اور پھر تقسیم کے بعد اس کا مالک آجائے تو وہ قیمت کے ساتھ لے سکتا ہے۔ جیسا کہ ان بعض حضرات کا قول گزرا جس سے ہم نے اس باب میں روایت کیا ہے یا قیمت سے بھی نہیں لے سکتا اور نہ اور کسی طریقہ سے جیسا کہ دوسروں نے کہا جن کی روایات کا تذکرہ کردیا گیا۔ تو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل حرب سے اونٹ خریدنے والے کے سلسلہ میں فیصلہ فرمایا کہ وہ مذکورہ قیمت سے لے لے اور اس اونٹ کو حربیوں سے خرید کر مشتری مالک بن چکا تھا۔ جس طرح وہ مالک بن جاتا ہے جس کا حصہ غنیمت میں آئے۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ امام نے غنیمت کو جب تقسیم کردیا اور اس کا کوئی حصہ کسی آدمی کے ہاتھ میں آیا اور وہ چیز دوسرے ہاتھوں سے مقید ہوئی تھی تو اس کے ہاتھ میں مقید ہونے والی چیز کا حکم بھی اسی طرح ہونا چاہیے اور جو اس کے اپنے ہاتھوں سے مقید ہوئی اس کو قیمت کے ساتھ اس آدمی سے لینا درست ہے جس کے وہ حصہ میں آئی ہے جیسا کہ خریدار سے ثمن کے بدلے وہ لے سکتا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اگرچہ قیاس ہر دو فریق کے خلاف ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اہل حرب کو قیدی بناتے اور ان کے مال پر قبضہ کر کے ان کے مالک بن جاتے ہیں جس طرح کہ وہ ان کی گردنوں کے مالک بن جاتے ہیں اور مشرکین جب مسلمانوں کو قیدی بناتے ہیں تو وہ ان کی گردنوں کے مالک تو نہیں بنتے مگر مالوں کے مالک بن جاتے ہیں اگرچہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان اموال کے بھی مالک نہ بنیں اور مسلمانوں کے اموال کا حکم بھی ان کی گردنوں جیسا ہو۔ جیسا کہ مشرکین کے اموال کا حکم ان کی گردنوں کی طرح ہے۔ مگر ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد والے مسلمانوں کے فیصلے کی وجہ سے اس قیاس کو ترک کردیا۔ تو اب جبکہ اس سلسلہ میں ان کا فیصلہ ثابت ہوگیا تو ہم نے مختلف فیہ مسئلہ سے متعلق بھی غور کیا یعنی جبکہ مسلمان اس پر قادر ہو کر مشرکین کے ہاتھوں سے لے لیں اور پھر تقسیم کے بعد اس کا مالک آجائے تو وہ قیمت کے ساتھ لے سکتا ہے۔ جیسا کہ ان بعض حضرات کا قول گزرا جن سے ہم نے اس باب میں روایت کیا ہے یا قیمت سے بھی نہیں لے سکتا اور نہ اور کسی طریقہ سے جیسا کہ دوسروں نے کہا جن کی روایات کا تذکرہ کردیا گیا۔
تو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل حرب سے اونٹ خریدنے والے کے سلسلہ میں فیصلہ فرمایا کہ وہ مذکورہ قیمت سے لے لے اور اس اونٹ کو حربیوں سے خرید کر مشتری مالک بن چکا تھا۔ جس طرح وہ مالک بن جاتا ہے جس کے حصہ غنیمت میں آئے۔
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ امام نے غنیمت کو جب تقسیم کردیا اور اس کا کوئی حصہ کسی آدمی کے ہاتھ میں آیا اور وہ چیز دوسرے ہاتھوں سے مقید ہوئی تھی تو اس کے ہاتھ میں مقید ہونے والی چیز کا حکم بھی اسی طرح ہونا چاہیے اور جو اس کے اپنے ہاتھوں سے مقید ہوئی اس کو قیمت کے ساتھ اس آدمی سے لینا درست ہے جس کے وہ حصہ میں آئی ہے جیسا کہ خریدار سے ثمن کے بدلے وہ لے سکتا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : حربی لوگ مسلمانوں کے جس مال پر قبضہ کرلیں تو وہ ان کی ملکیت بن جائے گا اگر دوبارہ مسلمان اس پر قابو پالیں تو تقسیم سے قبل وہ اپنی چیز لے سکتے ہیں تقسیم کے بعد خرچ شدہ قیمت کے ساتھ لے سکتے ہیں ورنہ اس کے لینے کا کوئی راستہ نہیں۔ امام طحاوی (رح) نے اسی کی طرف رجحان ظاہر کر کے اس کو دلیل نظری سے مؤید کیا ہے۔ (مترجم)

5175

۵۱۷۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ ، وَلَا الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ .
٥١٧٤: عمرو بن عثمان نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٤٨‘ والفرائض باب ٢٦‘ مسلم فی الفرائض ١‘ ابو داؤد فی الفرائض باب ١٠‘ ترمذی فی الفرائض باب ١٥‘ ابن ماجہ فی الفرائض باب ٦‘ دارمی فی الفرائض باب ٢٩‘ مالک فی الفرائض ١٠‘ مسند احمد ٢‘ ٢٠٠؍٢٠٨۔

5176

۵۱۷۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥١٧٥: یونس نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5177

۵۱۷۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْمُرْتَدَّ اِذَا قُتِلَ عَلٰی رِدَّتِہٖ، أَوْ مَاتَ عَلَیْہَا ، کَانَ مَالُہُ لِبَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مِیْرَاثُہُ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، أَنَّ ذٰلِکَ الْکَافِرَ الَّذِیْ عَنَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لَمْ یُبَیِّنْ لَنَا فِیْہِ أَیَّ کَافِرٍ ہُوَ ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ الْکَافِرُ الَّذِی لَہُ مِلَّۃٌ ، وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ الْکَافِرُ ، کُلُّ کُفْرٍ ، کَانَ مَا کَانَ ، مِلَّۃً أَوْ غَیْرَ مِلَّۃٍ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ لَمْ یَجُزْ أَنْ یُصْرَفَ اِلٰی أَحَدِ الْمَعْنَیَیْنِ دُوْنَ الْآخَرِ اِلَّا بِدَلِیْلٍ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا ، ہَلْ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْآثَارِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا أَرَادَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ؟
٥١٧٦: عمرو بن عثمان نے اسامہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ مسلمان کافر کا وارث نہ ہوگا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کہ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جب مرتد ہونے والا اپنے ارتداد پر قتل ہوجائے یا مرجائے تو اس کا مال بیت المال میں جائے گا اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ دوسروں نے کہا مرتد کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کو ملے گی۔ فریق اوّل کے مؤقف کا جواب یہ ہے کہ اس ارشاد میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعلقہ کافر کی وضاحت نہیں فرمائی کہ اس سے کون سا کافر مراد ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے وہ کافر مراد ہو جس کا کسی ملت سے تعلق ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مطلق کافر مراد ہو۔ خواہ اس کا کسی ملت سے تعلق ہو یا نہ ہو۔ تو جب اس بات کا احتمال ہے تو کسی دلیل کے بغیر کسی ایک جانب کو متعین نہیں کیا جاسکتا۔ اب دونوں معانی میں سے ایک کی تعیین نہیں کی جاسکتی جو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد پر دلالت کرتی ہے۔

5178

۵۱۷۷ : فَاِذَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَلِیُّ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَتَوَارَثُ أَہْلُ مِلَّتَیْنِ ، لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ ، وَلَا یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ .فَلَمَّا جَائَ ہَذَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ذَکَرْنَا ، عَلِمْنَا أَنَّہٗ أَرَادَ الْکَافِرَ، ذَا الْمِلَّۃِ .فَلَمَّا رَأَیْنَا الرِّدَّۃَ لَیْسَتْ بِمِلَّۃٍ ، وَرَأَیْنَاہُمْ مُجْمِعِیْنَ أَنَّ الْمُرْتَدِّیْنَ لَا یَرِثُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، لِأَنَّ الرِّدَّۃَ لَیْسَتْ بِمِلَّۃٍ ، ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ مِیْرَاثِہِمْ ، حُکْمُ مِیْرَاثِ الْمُسْلِمِیْنَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتَ لَا تُوَرِّثُہُمْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَکَذٰلِکَ لَا تُوَرِّثُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْہُمْ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ لَک عَلٰی مَا ذَکَرْتُ ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا مَنْ یَمْنَعُ الْمِیْرَاثَ بِفِعْلٍ کَانَ مِنْہٗ، وَلَا یَمْنَعُ ذٰلِکَ الْفِعْلَ أَنْ یُوْرَثَ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْقَاتِلَ لَا یَرِثُ مَنْ قَتَلَ ، وَرَأَیْنَا لَوْ جَرَحَ رَجُلًا جِرَاحَۃً ، ثُمَّ مَاتَ الْمَجْرُوْحُ مِنَ الْجِرَاحَۃِ ، وَالْجَارِحُ أَبُو الْمَجْرُوْحِ ، أَنَّہٗ یَرِثُہُ .فَقَدْ صَارَ الْمَقْتُوْلُ یَرِثُ مِمَّنْ قَتَلَہٗ، وَلَا یَرِثُ الْقَاتِلُ مِمَّنْ قَتَلَ ، لِأَنَّ الْقَاتِلَ عُوْقِبَ بِقَتْلِہٖ ، فَمُنِعَ الْمِیْرَاثُ مِمَّنْ قَتَلَہٗ، وَلَمْ یُمْنَعْ الْمَقْتُوْلُ مِنَ الْمِیْرَاثِ مِمَّنْ جَرَحَہُ الْجِرَاحَۃَ الَّتِی قَتَلَتْہٗ، اِذْ کَانَ لَمْ یَفْعَلْ شَیْئًا .فَکَذٰلِکَ الْمُرْتَدُّ ، مُنِعَ مِنْ مِیْرَاثِ غَیْرِہٖ، عُقُوْبَۃً لِمَا أَتَاہُ وَلَمْ یُمْنَعْ غَیْرُہُ مِنَ الْمِیْرَاثِ مِنْہٗ، اِذْ لَمْ یَکُنْ مِنْہُ مَا یُعَاقَبُ عَلَیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، قَوْلُ مَنْ یُوَرِّثُ مِنَ الْمُرْتَدِّ وَرَثَتَہُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ أَیْضًا .
٥١٧٧: عمرو بن عثمان نے اسامہ بن زید (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کافر کا وارث نہ ہوگا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوتا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کافر سے اہل ادیان مراد ہیں اور مرتد ہونا تو کوئی دین نہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے کہ مرتد ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے کیونکہ خود ارتداد کوئی دین نہیں اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان کی وراثت کا حکم مسلمانوں کی وراثت جیسا ہے۔ تمہارے ہاں جب مسلمان کے وہ وارث نہیں تو مسلمان ان کے کس طرح وارث ہوئے۔ تمہاری بات کی کوئی دلیل اس روایت میں نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل کی وجہ میراث سے محروم ہوجائے تو وہ فعل اس کے وارث بننے میں رکاٹ نہ بنے گی اسی سلسلہ کی یہ بات ہے کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں بنتا اور ہم نے دیکھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو زخمی کرتا ہے پھر زخمی کرنے والا خود طبعی موت مرگیا کچھ وقت بعد اسی زخم کی وجہ سے یہ زخمی شخص مرگیا اور زخمی کرنے والا اس زخمی شخص کا والد ہے تو اب یہ زخمی شخص اپنے زخم لگانے والے والد کا وارث بن جائے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مقتول اپنے قاتل کا وارث بن جاتا ہے۔ مگر قاتل مقتول کا وارث نہیں بنتا اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل کو اس کے فعل قتل کی سزا دی گئی۔ اس وجہ سے وہ مقتول کی وراثت سے محروم ہوگیا لیکن اس کے بالمقابل مقتول اس شخص کی وراثت سے محروم نہیں ہوتا کہ جس نے اسے جانبر نہ ہونے والا زخم لگایا۔ جس سے وہ مرگیا کیونکہ اس نے ایسا کوئی فعل نہیں کیا (جس سے اسے محروم کیا جائے) اسی طرح مرتد کو اس کے عمل کی سزا دیتے ہوئے دوسروں کی وراثت سے تو محروم رکھا جائے گا لیکن دوسروں کو اس کی وراثت سے محروم نہ رکھا جائے گا کیونکہ دوسروں نے تو کوئی ایسا فعل نہیں کیا جس کی سزا میں ان کو وراثت سے محروم کردیا جائے۔ اس سے فریق ثانی کا قول ثابت ہوگیا کہ وہ مرتد کے مسلمان ورثاء کو اس کی وراثت دینے کے قائل ہیں۔
تخریج : دارمی فی الفرائض باب ٢٩۔
حاصل روایات اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کافر سے اہل ادیان مراد ہیں اور مرتد ہونا تو کوئی دین نہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے کہ مرتد ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے کیونکہ خود ارتداد کوئی دین نہیں اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان کی وراثت کا حکم مسلمانوں کی وراثت جیسا ہے۔

5179

۵۱۷۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَلِی أَنَّہٗ جَعَلَ مِیْرَاثَ الْمُسْتَوْرِدِ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.
٥١٧٨: ابو عمرو شیبانی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے مستورد کی وراثت اس کے مسلمان ورثاء کو دی۔

5180

۵۱۷۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ ابْنِ عُبَیْدِ بْنِ الْأَبْرَصِ ، أَنَّ عَلِیًّا قَالَ لِلْمُسْتَوْرِدِ عَلَی دِیْنِ مَنْ أَنْتَ ؟ .قَالَ : عَلَی دِیْنِ عِیْسَی ، قَالَ عَلِیٌّ وَأَنَا عَلَی دِیْنِ عِیْسَی ، فَمَنْ رَبُّک ؟ فَزَعَمَ الْقَوْمُ أَنَّہٗ قَالَ : اِنَّہٗ رَبُّہُ فَقَالَ اُقْتُلُوْھُ وَلَمْ یَتَعَرَّضْ لِمَالِہٖ .
٥١٧٩: ابن عبید بن ابرص نے بیان کیا کہ حضرت علی (رض) نے مستورد کو فرمایا تم کس دین پر ہو ؟ اس نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر ہوں۔ تو آپ نے فرمایا میں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر ہوں آپ نے دوبارہ سوال کیا تمہارا رب کون ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) میرا رب ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا اس کو قتل کر دو ۔ مگر آپ نے اس کے مال کو نہ چھیڑا۔

5181

۵۱۸۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : اِذَا مَاتَ الْمُرْتَدُّ وَرِثَہُ وَلَدُہُ .
٥١٨٠: قاسم بن عبدالرحمن نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جب مرتد مرجائے تو اس کی اولاد اس کی وارث ہوتی ہے۔

5182

۵۱۸۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ قَالَ : مِیْرَاثُہُ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .
٥١٨١: حکم بن عتیبہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا مرتد کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کو ملے گی۔

5183

۵۱۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ مِیْرَاثِ الْمُرْتَدِّ ، فَقَالَ : ہُوَ لِأَہْلِہٖ .
٥١٨٢: موسیٰ بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب (رح) سے دریافت کیا کہ مرتد لوگوں کی وراثت کا کیا حکم ہے۔ تو انھوں نے فرمایا وہ اس کے گھر والوں کو ملے گی۔

5184

۵۱۸۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ عَنِ الْمُرْتَدِّیْنَ ، فَقَالَ : نَرِثُہُمْ وَلَا یَرِثُوْنَنَا .
٥١٨٣: موسیٰ بن ابی کثیر نے حضرت سعید بن المسیب (رح) سے دریافت کیا کہ مرتد کا کیا حکم ہے تو انھوں نے فرمایا ہم ان کے وارث ہوں گے لیکن وہ ہمارے وارث نہ ہوں گے۔

5185

۵۱۸۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ وَسُفْیَانُ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، مِثْلُہٗ .
٥١٨٤: موسیٰ بن ابی کثیر نے حضرت سعید بن المسیب (رح) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5186

۵۱۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ الصَّبَّاحِ ، وَقَالَ مَرَّۃً عَنْ أَبِی الصَّبَّاحِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، مِثْلُہٗ .
٥١٨٥: مرہ نے ابو الصباح سے انھوں نے حضرت سعید بن المسیب (رح) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5187

۵۱۸۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ فِی الْمُرْتَدِّ یَلْحَقُ بِدَارِ الْحَرْبِ فَقَالَ : مَالُہُ بَیْنَ وَلَدِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، عَلَیْ کِتَابِ اللّٰہِ .
٥١٨٦: اشعث نے حضرت حسن (رح) سے روایت کی ہے (اس مرتد سے متعلق جو دارالحرب میں چلا جائے) فرمایا اس کی میراث اس کے مسلمان بچوں کو ملے گی۔ قرآن مجید کے مطابق۔

5188

۵۱۸۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ الْحَسَنَ قَالَ : مِیْرَاثُہُ لِوَارِثِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اِذَا ارْتَدَّ عَنِ الْاِسْلَامِ .فَہٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ ذَکَرْنَا ، قَدْ جَعَلُوْا مِیْرَاثَ الْمُرْتَدِّ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَشَذَّ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہِمْ مَا قَدْ وَصَفْتہ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، مِمَّا یُوْجِبُہُ النَّظْرُ .وَفِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ أُخْرَی مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ أَیْضًا ، وَہِیَ أَنَّا رَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْمُرْتَدَّ قَبْلَ رِدَّتِہٖ، مَحْظُوْرٌ دَمُہُ وَمَالُہٗ، ثُمَّ اِذَا ارْتَدَّ ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْحَظْرَ الْمُتَقَدِّمَ ، قَدْ ارْتَفَعَ عَنْ دَمِہٖ، وَصَارَ دَمُہٗ مُبَاحًا ، وَمَالُہُ مَحْظُوْرًا فِیْ حَالَۃِ الرِّدَّۃِ ، بِالْحَظْرِ الْمُقَدَّمِ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْحَرْبِیِّیْنَ حُکْمُ دِمَائِہِمْ وَحُکْمُ أَمْوَالِہِمْ سَوَاء ٌ ، قُتِلُوْا أَوْ لَمْ یُقْتَلُوْا .فَلَمْ یَکُنْ الَّذِیْ یُحَلُّ بِہٖ أَمْوَالُہُمْ ہُوَ الْقَتْلُ ، بَلْ کَانَ الْکُفْرَ ، وَکَانَ الْمُرْتَدُّ لَا یَحِلُّ مَالُہُ بِکُفْرِہٖ، فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ مَالَہُ لَا یَحِلُّ بِکُفْرِہٖ، ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یَحِلُّ بِقَتْلِہٖ .وَقَدْ رَأَیْنَا أَمْوَالَ الْحَرْبِیِّیْنَ تَحِلُّ بِالْغَنَائِمِ ، فَتُمْلَکُ بِہَا ، وَرَأَیْنَا مَا وَقَعَ مِنْ أَمْوَالِہِمْ فِیْ دَارِنَا ، مَلَکْنَاہُ عَلَیْہِمْ وَغَنِمْنَاہُ بِالدَّارِ ، وَاِنْ لَمْ نَقْتُلْہُمْ .فَلَمَّا کَانَ مَالُ الْمُرْتَدِّ غَیْرَ مَغْنُوْمٍ بِرِدَّتِہٖ، کَانَ فِی النَّظَرِ أَیْضًا ، غَیْرُ مَغْنُوْمٍ بِسَفْکِ دَمِہٖ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ مَالَہُ لَا یَدْخُلُ فِیْ حُکْمِ الْغَنَائِمِ ، لَمْ یَخْلُ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ ، اِمَّا أَنْ یَرِثَہُ وَرَثَتُہُ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَہُ لَوْ مَاتَ عَلَی الْاِسْلَامِ ، أَوْ یَصِیْرَ لِلْمُسْلِمِیْنَ .فَاِنْ صَارَ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَہُوَ کَمَا قُلْنَا ، وَاِنْ صَارَ لِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَقَدْ وَرِثَ الْمُسْلِمُوْنَ مُرْتَدًّا .فَلَمَّا کَانَ الْمُرْتَدُّ فِیْ حَالِ مَنْ یَرِثُہُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَمْ یَخْرُجْ بِرِدَّتِہِ مِنْ ذٰلِکَ ، کَانَ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَہٗ، ہُمْ وَرَثَتُہُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَرِثُوْنَہُ لَوْ مَاتَ فِی الْاِسْلَامِ لَا غَیْرُہُمْ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَاِنَّمَا زَالَ مِلْکُ الْمُرْتَدِّ بِاللُّحُوْقِ بِدَارِ الْحَرْبِ ، لِخُرُوْجِہِ مِنْ دَارِنَا اِلَی دَارِ الْحَرْبِ ، عَلَی طَرِیْقِ الْاِسْتِحْقَاقِ مَعَ کَوْنِہِ مُقَاتِلًا لَنَا ، مُبَاحَ الدَّمِ فِیْ دَارِنَا ، بِدَلِیْلِ الْحَرْبِیِّ یَدْخُلُ اِلَیْنَا اِذَا عَادَ اِلَی دَارِ الْحَرْبِ ، وَخَلَّفَ مَالًا ہَاہُنَا ، لَمْ یَزُلْ عَنْہُ مِلْکُہُ مَعَ وُجُوْدِ ہٰذَا، وَلَمْ یَخْرُجْ مُسْتَحِقًّا ، لِأَنَّہٗ فِیْ أَمَانِنَا اِلٰی أَنْ یَدْخُلَ دَارَ الْحَرْبِ .
٥١٨٧: قتادہ (رح) نے حضرت حسن (رض) سے نقل کیا ہے ‘ انھوں نے فرمایا اس کی میراث مسلمان ورثاء کو ملے گی جبکہ وہ اسلام سے مرتد ہوجائے۔ ان تمام حضرات کے قول کے مطابق مرتد کی وراثت اس کے مسلمان ورثاء کو ملے گی اور ان کے اس قول کو نظری دلیل اور زیادہ پختہ کردیتی ہے۔ ملاحظہ ہو۔ مرتد ہوجانے سے پہلے تو بالاتفاق اس کے خون کی حرمت اور مال کی حرمت موجود ہوتی ہے پھر جب وہ ارتداد اختیار کرتا ہے تو اس پر بھی تمام کا اتفاق ہے کہ سابقہ عظمت و محفوظیت ختم ہوگئی اور وہ مباح الدم ہوگیا اور مال ارتداد کی حالت میں بھی محفوظ رہتا ہے سابقہ ممانعت و حفاظت کی وجہ سے۔ جب مرتد کا مال اس کے ارتداد کی وجہ سے مال غنیمت نہیں بن جاتا تو قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا خون بہانے کے سبب سے بھی اس کا مال غنیمت نہ بنے۔ جب اس کا مال غنائم میں داخل نہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اس کی وراثت اصل ورثاء کو ملے۔ عام مسلمانوں کو ملے۔ اب اگر وراثت اصل ورثاء اسلامی کو ملتی ہے تو یہی بات ہم نے کہی اور اگر عام مسلمانوں کو ملے تو پھر بھی مقصود ثابت کہ مسلمان کافر کا وارث بن گیا۔ تو جب مرتد اس مسلمان کی طرح ہے جس کی وراثت مسلمان ورثاء کو حاصل ہوتی ہے اور وہ ارتداد کی وجہ سے اس حکم سے خارج نہیں ہوتا تو اس کے وارث وہی لوگ ہوں گے۔ جو حالت اسلام پر مرنے کی صورت میں وارث ہوتے۔ دوسرے لوگ وارث نہ ہوں گے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
ان تمام حضرات کے قول کے مطابق مرتد کی وراثت اس کے مسلمان ورثاء کو ملے گی اور ان کے اس قول کو نظری دلیل اور زیادہ پختہ کردیتی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
نظر طحاوی (رح) :
مرتد ہوجانے سے پہلے تو بالاتفاق اس کے خون کی حرمت اور مال کی حرمت موجود ہوتی ہے پھر جب وہ ارتداد اختیار کرتا ہے تو اس پر بھی تمام کا اتفاق ہے کہ سابقہ عظمت و محفوظیت ختم ہوگئی اور وہ مباح الدم ہوگیا اور مال ارتداد کی حالت میں بھی محفوظ رہتا ہے سابقہ ممانعت و حفاظت کی وجہ سے۔
جب مرتد کا مال اس کے ارتداد کی وجہ سے مال غنیمت نہیں بن جاتا تو قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا خون بہانے کے سبب سے بھی اس کا مال غنیمت نہ بنے۔ جب اس کا مال غنائم میں داخل نہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں۔
نمبر 1: اس کی وراثت اصل ورثاء کو ملے۔
نمبر 2: عام مسلمانوں کو ملے۔ اب اگر وراثت اصل ورثاء اسلامی کو ملتی ہے تو یہی بات ہم نے کہی اور اگر عام مسلمانوں کو ملے تو پھر بھی مقصود ثابت کہ مسلمان کافر وارث بن گیا۔ تو جب مرتد اس مسلمان کی طرح ہے جس کی وراثت مسلمان ورثاء کو حاصل ہوتی ہے اور وہ ارتداد کی وجہ سے اس حکم سے خارج نہیں ہوتا تو اس کے وارث وہی لوگ ہوں گے۔ جو حالت اسلام پر مرنے کی صورت میں وارث ہوتے۔ دوسرے لوگ وارث نہ ہوں گے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

ازالہ شبہہ :
مرتد کے دارالحرب میں چلے جانے سے اس کی ملک اس وجہ سے زائل ہوجاتی ہے کیونکہ وہ بطور استحقاق ہمارے ملک سے نکل کر دارالحرب میں چلا گیا حالانکہ ہمارے ملک میں ہمارے ساتھ لڑنے کی وجہ سے اس کا خون مباح ہوچکا تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی حربی کافر ہمارے ملک میں داخل ہو کر پھر دارالحرب کی طرف لوٹ جائے اور دارالاسلام میں مال چھوڑ جائے تو اس کے باوجود اس کی ملکیت زائل نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ دارالحرب کا حقدار ہو کر نہیں نکلا اس لیے کہ وہ دارالحرب میں داخل ہونے تک ہماری حفاظت میں ہے۔
حاصل روایت : مرتد کے حالت ارتداد میں ہلاکت کی صورت میں اس کا مال مسلمان ورثاء کو ملے گا اسی کو امام طحاوی (رح) نے ترجیح دے کر ثابت کیا ہے۔

5189

۵۱۸۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْیَشْکُرِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحَاطَ حَائِطًا عَلٰی أَرْضٍ ، فَہِیَ لَہٗ۔
٥١٨٨: سلیمان یشکری نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی زمین (حکومت کی افتادہ زمین جو کسی کی ملک نہ ہو) پر احاطہ بنا لیا وہ اسی کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارہ باب ٣٨‘ مسند احمد ٣؍٣٨١‘ ٥‘ ١٢؍٢١۔

5190

۵۱۸۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا کَثِیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَوَاتًا مِنْ أَرْضٍ ، فَہِیَ لَہٗ، وَلَیْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ .
٥١٨٩: کثیر بن عبداللہ نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی مردہ زمین کو آباد کیا وہ اسی کے لیے ہے۔ ظالم کے پسینے کا اس میں کوئی حق نہیں۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ١٥‘ ابو داؤد فی الامارہ باب ٣٧‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٨‘ مالک فی الاقضیہ ٢٦‘ مسند احمد ٥؍٣٢٧۔

5191

۵۱۹۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحَاطَ عَلٰی شَیْئٍ ، فَہُوَ لَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ اِلٰی أَنَّ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَیِّتَۃً فَہِیَ لَہٗ، أَذِنَ لَہُ الْاِمَامُ فِیْ ذٰلِکَ أَوْ لَمْ یَأْذَنْ ، وَجَعَلَہَا لَہُ الْاِمَامُ ، أَوْ لَمْ یَجْعَلْہَا لَہٗ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا ، وَقَالُوْا : لَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَیِّتَۃً فَہِیَ لَہُ فَقَدْ جُعِلَ حُکْمُ اِحْیَائِ ذٰلِکَ اِلَی مَنْ أَحَبَّ فَلَا أَمْرَ لِلْاِمَامِ فِیْ ذٰلِکَ ، وَقَالُوْا : قَدْ دَلَّتْ عَلٰی ہَذَا أَیْضًا شَوَاہِدُ النَّظَرِ .أَلَا تَرَی أَنَّ الْمَائَ الَّذِیْ فِی الْبِحَارِ وَالْأَنْہَارِ ، مَنْ أَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا مَلَکَہُ بِأَخْذِہِ اِیَّاہٗ، وَاِنْ لَمْ یَأْمُرْہُ الْاِمَامُ بِأَخْذِہٖ، وَیَجْعَلُہُ لَہٗ۔وَکَذٰلِکَ الصَّیْدُ ، مَنْ اصْطَادَہٗ، فَہُوَ لَہٗ، وَلَا یَحْتَاجُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَیْ اِبَاحَۃٍ مِنَ الْاِمَامِ ، وَلَا اِلَی تَمْلِیکٍ ، وَالْاِمَامُ فِیْ ذٰلِکَ ، وَسَائِرُ النَّاسُ سَوَاء ٌ .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ الْأَرْضُ الْمَیِّتَۃُ الَّتِیْ لَا مِلْکَ لِأَحَدٍ عَلَیْہَا ، فَہِیَ کَالطَّیْرِ الَّذِی لَیْسَ بِمَمْلُوْکٍ ، فَمَنْ أَخَذَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَہُوَ لَہٗ أَخْذُہُ اِیَّاہٗ، وَلَا یَحْتَاجُ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی أَمْرٍ مِنَ الْاِمَامِ ، وَلَا اِلَی تَمْلِیکِہٖ، کَمَا لَا یَحْتَاجُ اِلَی ذٰلِکَ مِنْہُ فِی الْمَائِ وَالصَّیْدِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، مِنْہُمْ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ، فَقَالُوْا : لَا تَکُوْنُ الْأَرْضُ تَحْیَا اِلَّا بِأَمْرِ الْاِمَامِ فِیْ ذٰلِکَ لِمَنْ یُحْیِیہَا وَجَعَلَہَا لَہٗ۔وَقَالُوْا : لَیْسَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا ذُکِرَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، بِدَافِعٍ لِمَا قُلْنَا ، لِأَنَّ ذٰلِکَ الْاِحْیَائَ الَّذِیْ جَعَلَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَرْضَ لِلَّذِی أَحْیَاہَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ لَمْ یُفَسَّرْ لَنَا مَا ہُوَ ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ بِأَمْرِ الْاِمَامِ ، فَیَکُوْنُ قَوْلُہٗ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَیِّتَۃً فَہِیَ لَہُ أَیْ : مَنْ أَحْیَاہَا عَلَی شَرَائِطِ الْاِحْیَائِ ، فَہِیَ لَہٗ۔وَمِنْ شَرَائِطِہِ تَحْظِیْرُہَا وَاِذْنُ الْاِمَامِ لَہُ فِیْہَا ، وَتَمْلِیکُہُ اِیَّاہَا .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہَذَا ہُوَ مَعْنَی الْحَدِیْثِ ، وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی مَا تَأَوَّلَہٗ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا ، اِلَّا أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُقْطَعَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقَوْلِ ، أَنَّہٗ أَرَادَ مَعْنًیْ اِلَّا بِالتَّوْقِیْفِ مِنْہٗ، أَوْ بِاِجْمَاعٍ مِمَّنْ بَعْدَہٗ، أَنَّہٗ أَرَادَ ذٰلِکَ الْمَعْنَی .فَنَظَرْنَا اِذْ لَمْ نَجِدْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ حُجَّۃً لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ فِیْ غَیْرِہِ مِنَ الْأَحَادِیْثِ ، ہَلْ فِیْہَا مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَاِذَا یُوْنُسُ
٥١٩٠: حسن نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے (زمین کے کسی حصہ پر) احاطہ کرلیا وہ اس کی ہے۔ (جبکہ وہ حکومت کی افتادہ ہو) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ جس نے افتادہ زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے خواہ امام اس کو اجازت دے یا نہ دے امام خواہ اس کے لیے مقرر کرے یا نہ کرے۔ مندرجہ آثار سے ثبوت پیش کیا۔ اس قول کو اختیار کرنے والوں میں امام ابو یوسف ‘ محمد (رح) بھی ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا ” من احیا ارضامیتہ فہی لہ “ اس ارشاد میں زمین آباد کرنے والے کے متعلق فرمایا امام کی طرف نسبت نہیں فرمائی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس کا مالک ہے۔ اس پر نظری شواہد دلالت کرتے ہیں ذرا غور تو کرو کہ سمندروں اور نہروں کے پانی میں سے اگر کوئی شخص اس میں سے کچھ پانی حاصل کرے تو وہ اس کے قبضہ کرنے سے مالک بن جاتا ہے۔ خواہ اس کو امام نے لینے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ اس کے لیے مقرر اور طے کیا ہو۔ اس کی دوسری نظیر شکار ہے۔ جو شخص شکار کرتا ہے وہ اسی کا ہوتا ہے وہ اس سلسلہ میں امام کی طرف سے اس شکار کے مباح قرار دینے اور مالک بنانے کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں امام اور دوسرے لوگ برابر ہوتے ہیں۔ افتادہ غیر مملوکہ زمین کا حکم بھی یہی ہے کہ وہ غیر مملوک پرندے کی طرح ہے کہ جو شخص اسے حاصل کرتا ہے وہ محض اس کے پکڑنے سے اس کا مالک ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں وہ امام کے حکم یا تملیک کے محتاج نہیں ہوتا جس طرح وہ پانی اور شکار کے متعلق محتاج نہیں ہوتا جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔ دوسروں نے کہا امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے حامی علماء کا قول یہ کہ زمین افتادہ کو حاکم کے حکم سے آباد کیا جاسکتا ہے پھر جو اس طرح آباد کرے گا تو وہ اسی کی ہوگی اور حاکم اسی کے لیے قرار دے گا۔ اس روایت میں جس آباد کاری کی بنیاد پر زمین کی ملکیت آباد کار کے لیے قرار دی گئی اس کی وضاحت نہیں فرمائی گئی اس میں دو احتمال ہیں۔ اس سے مراد وہ زمین ہو جو حکمران کے حکم کے مطابق شرائط کا لحاظ کر کے آباد کی گئی ہو۔ اس کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کسی کے تصرف میں نہ ہو۔ پس حکمران کی اجازت ہی اس کو مالک بنانا ہے۔ ممکن ہے کہ امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کی تاویل کے مطابق ہو۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فلاں معنی مراد لیا ہے۔ جب تک کہ آپ کی طرف سے آگاہی حاصل نہ ہو یا آپ کے بعد والوں کا اس پر اجماع نہ ہو کہ آپ نے فلاں معنی مراد لیا ہے۔ جب اس روایت میں کسی ایک فریق کی بھی دلیل نہیں تو اب دیگر روایات کو دیکھتے ہیں جو اس پر دلالت کرنے والی ہوں۔
تخریج : روایت ٥١٨٨ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء کا قول یہ ہے کہ جس نے افتادہ زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے خواہ امام اس کو اجازت دے یا نہ دے امام خواہ اس کے لیے مقرر کرے یا نہ کرے۔ مندرجہ آثار سے ثبوت پیش کیا۔ اس قول کو اختیار کرنے والوں میں امام ابو یوسف ‘ محمد (رح) بھی ہیں۔ طرزِ استدلال : جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا ” من احیا ارضامیتہ فہی لہ “ اس ارشاد میں زمین آباد کرنے والے کے متعلق فرمایا امام کی طرف نسبت نہیں فرمائی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس کا مالک ہے۔ اس پر نظری شواہد دلالت کرتے ہیں ذرا غور تو کرو کہ سمندروں اور نہروں کے پانی میں سے اگر کوئی شخص اس میں سے کچھ پانی حاصل کرے تو وہ اس کے قبضہ کرنے سے مالک بن جاتا ہے۔ خواہ اس کو امام نے لینے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ اس کے لیے مقرر اور طے کیا ہو۔ اس کی دوسری نظیر شکار ہے۔ جو شخص شکار کرتا ہے وہ اسی کا ہوتا ہے وہ اس سلسلہ میں امام کی طرف سے اس شکار کے مباح قرار دینے اور مالک بنانے کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں امام اور دوسرے لوگ برابر ہوتے ہیں۔ افتادہ غیر مملوکہ زمین کا حکم بھی یہی ہے کہ وہ غیر مملوک پرندے کی طرح ہے کہ جو شخص اسے حاصل کرتا ہے وہ محض اس کے پکڑنے سے اس کا محتاج ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں وہ امام کے حکم یا تملیک کا محتاج نہیں ہوتا جس طرح ہو پانی اور شکار کے متعلق محتاج نہیں ہوتا جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے حامی علماء کا قول یہ ہے کہ زمین افتادہ کو حاکم کے حکم سے آباد کیا جاسکتا ہے پھر جو اس طرح آباد کرے گا تو وہ اسی کی ہوگی اور حاکم اسی کے لیے قرار دے گا۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : اس روایت میں جس آباد کاری کی بنیاد پر زمین کی ملکیت آباد کار کے لیے قرار دی گئی اس کی وضاحت نہیں فرمائی گئی اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: اس سے مراد وہ زمین ہو جو حکمران کے حکم کے مطابق شرائط کا لحاظ کر کے آباد کی گئی ہو۔ اس کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کسی کے تصرف میں نہ ہو۔ پس حکمران کی اجازت ہی اس کو مالک بنانا ہے۔
نمبر 2: ممکن ہے کہ امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کی تاویل کے مطابق ہو۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فلاں معنی مراد لیا ہے۔ جب تک کہ آپ کی طرف سے آگاہی حاصل نہ ہو یا آپ کے بعد والوں کا اس پر اجماع نہ ہو کہ آپ نے فلاں معنی مراد لیا ہے۔ جب اس روایت میں کسی ایک فریق کی بھی دلیل نہیں تو اب دیگر روایات کو دیکھتے ہیں جو اس پر دلالت کرنے والی ہوں۔

5192

۵۱۹۱ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا حِمٰی اِلَّا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ .
٥١٩١: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کے لیے چراگاہ نہیں۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٤٦‘ المساقاۃ باب ١١‘ مسند احمد ٤‘ ٣٨؍٧١۔

5193

۵۱۹۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ الْبَقِیْعَ وَقَالَ لَا حِمٰی اِلَّا لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہِ .
٥١٩٢: حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بقیع کو حرام قرار دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ چراگاہ کسی کے لیے نہیں ہے۔

5194

۵۱۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حِمَیْ اِلَّا لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہِ .فَلَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حِمَیْ اِلَّا لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہِ وَالْحِمَی : مَا حُمِیَ مِنَ الْأَرْضِ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ الْأَرْضِیْنَ اِلَی الْأَئِمَّۃِ ، لَا اِلَی غَیْرِہِمْ ، وَأَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ غَیْرُ حُکْمِ الصَّیْدِ .وَقَدْ بَیَّنَّا مَا یَحْتَمِلُہُ الْأَثَرُ الْأَوَّلُ ، فَکَانَ الْأَوْلَی مِنَ الْأَشْیَائِ بِنَا ، أَنْ نَحْمِلَ وَجْہَہُ عَلٰی مَا لَا یُخَالِفُ ہٰذَا الْأَثَرَ الثَّانِیَ .وَأَمَّا مَا یَدْخُلُ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ جِہَۃِ النَّظَرِ ، مِمَّا یُفَرِّقُ بِہٖ بَیْنَ الْأَرْضِ الْمَوَاتِ ، وَبَیْنَ مَائِ الْأَنْہَارِ وَالصَّیْدِ أَنَّا رَأَیْنَا الصَّیْدَ وَمَائَ الْأَنْہَارِ ، لَا یَجُوْزُ لِلْاِمَامِ تَمْلِیکُ ذٰلِکَ أَحَدًا .وَرَأَیْنَاہُ لَوْ مَلَّکَ رَجُلًا أَرْضًا مَیِّتَۃً ، ثُمَّ مَلَّکَہَا لِرَجُلٍ آخَرَ ، جَازَ ، وَکَذٰلِکَ لَوْ احْتَاجَ الْاِمَامُ اِلَیْ بَیْعِہَا فِیْ نَائِبَۃٍ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، جَازَ بَیْعُہُ لَہَا ، وَلَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ فِیْ مَائِ نَہْرٍ ، وَلَا صَیْدِ بَر ، وَلَا بَحْرٍ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ اِلَی الْاِمَامِ فِی الْأَرْضِیْنَ - ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَہَا اِلَیْہِ، وَأَنَّہَا فِیْ یَدِہِ کَسَائِرِ الْأَمْوَالِ الَّتِیْ فِیْ یَدِہِ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، لَا رَدَّ لَہَا بِعَیْنِہٖ، وَلَا یَمْلِکُہَا أَحَدٌ بِأَخْذِہِ اِیَّاہَا ، حَتّٰی یَکُوْنَ الْاِمَامُ یُمَلِّکُہَا اِیَّاہٗ، عَلٰی حُسْنِ النَّظَرِ مِنْہُ لِلْمُسْلِمِیْنَ .وَلَمَّا کَانَ الصَّیْدُ وَالْمَائُ ، لَیْسَ اِلَی الْاِمَامِ بَیْعُہُمَا ، وَلَا تَمْلِیکُہُمَا أَحَدًا ، کَانَ الْاِمَامُ فِیْہِمَا ، کَسَائِرِ النَّاسِ ، وَکَانَ مِلْکُہُمَا یَجِبُ بِأَخْذِہِمَا دُوْنَ الْاِمَامِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ لِمَا وَصَفْنَا مِنَ الْآثَارِ وَالدَّلَائِلِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا .فَاِنْ احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ ذٰلِکَ
٥١٩٣: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چراگاہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا کہ ” لا حمی ال اللہ ولرسولہ “ اور چراگاہ وہ زمین ہی ہوتی ہے جس کو محفوظ کیا جاتا ہے تو اس سے اس پر ظاہر دلالت مل گئی کہ افتادہ زمینوں کا اختیار حاکم کو حاصل ہے دوسروں کو نہیں اور اس کا حکم شکار جیسا نہیں ہے فریق اوّل نے جوا روایت پیش کی ہم نے اس کے ایک احتمال کو بیان کردیا جو سب سے بہتر محمل ہے اس سے دوسری روایت کے ساتھ اس کا تضاد جاتا رہا۔ امام ابوحنیفہ (رح) افتادہ زمین اور شکار میں فرق قرار دیتے ہیں جو ذرا غور سے سمجھ آسکتا ہے وہ اس طرح کہ امام کو یہ جائز نہیں کہ وہ شکار یا نہروں کے پانی کا کسی کو مالک بنائے اور اس کے بالمقابل افتادہ زمین کا اگر وہ کسی کو مالک بنائے پھر کسی دوسرے کو بنا دے تو یہ بھی جائز ہے اگر مسلمانوں کے مفادات کی خاطر ان کو فروخت کی ضرورت محسوس کرے تو ان زمینوں کا فروخت کرنا جائز ہے۔ مگر نہر کے پانی اور سمندر یا خشکی کے شکار کے سلسلے میں یہ بات جائز نہیں ہے۔ پس جب امام کو اراضی کے متعلق یہ اختیار حاصل ہے تو اس سے یہ دلالت خود مل گئی کہ ان زمینوں کا حکم بھی حکمران کے اختیار میں ہے اور یہ اراضی اس کے قبضہ میں اسی طرح ہیں جس طرح مسلمانوں کے دیگر اموال اس کے قبضہ میں ہیں۔ نہ اموال کو نہ تو کوئی معین طور پر رد کرسکتا ہے اور نہ کوئی شخص ان کا مالک بن سکتا ہے جب تک کہ حکمران مسلمانوں کی مصلحت خیال کر کے اس کو مالک نہ بنا دے۔ تو جب حکمران شکار اور پانی کو فروخت نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی کو ان کا مالک بنا سکتا ہے تو ان دونوں اشیاء کے متعلق حکمران دوسرے لوگوں کی طرح ہے ان دونوں چیزوں کو حاصل کرلینے سے اس کی ملکیت لازم ہوجاتی ہے اس میں حکمران کا دخل نہیں۔ روایات کی روشنی میں جو بات کہی گئی ہے اس سے امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک خوب ثابت ہوگیا۔
جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا کہ ” لا حمی ال اللہ ولرسولہ “ اور چراگاہ وہ زمین ہی ہوتی ہے جس کو محفوظ کیا جاتا ہے تو اس سے اس پر ظاہر دلالت مل گئی کہ افتادہ زمینوں کا اختیار حاکم کو حاصل ہے دوسروں کو نہیں اور اس کا حکم شکار جیسا نہیں ہے فریق اوّل نے جو روایت پیش کی ہم نے اس کے ایک احتمال کو بیان کردیا جو سب سے بہتر محمل ہے اس سے دوسری روایت کے ساتھ اس کا تضاد جاتا رہا۔
افتادہ اراضی اور شکار کے مابین فرق کی نظری دلیل :
امام ابوحنیفہ (رح) افتادہ زمین اور شکار میں فرق قرار دیتے ہیں جو ذرا غور سے سمجھ آسکتا ہے وہ اس طرح کہ امام کو یہ جائز نہیں کہ وہ شکار یا نہروں کے پانی کا کسی کو مالک بنائے اور اس کے بالمقابل افتادہ زمین کا اگر وہ کسی کو مالک بنائے پھر کسی دوسرے کو بنا دے تو یہ بھی جائز ہے اگر مسلمانوں کے مفادات کی خاطر ان کو فروخت کی ضرورت محسوس کرے تو ان زمینوں کا فروخت کرنا جائز ہے۔ مگر نہر کے پانی اور سمندر یا خشکی کے شکار کے سلسلے میں یہ بات جائز نہیں ہے۔
پس جب امام کو اراضی کے متعلق یہ اختیار حاصل ہے تو اس سے یہ دلالت خود مل گئی کہ ان زمینوں کا حکم بھی حکمران کے اختیار میں ہے اور یہ اراضی اس کے قبضہ میں اسی طرح ہیں جس طرح مسلمانوں کے دیگر اموال اس کے قبضہ میں ہیں۔ اموال کو نہ تو کوئی معین طور پر رد کرسکتا ہے اور نہ کوئی شخص ان کا مالک بن سکتا ہے جب تک کہ حکمران مسلمانوں کی مصلحت خیال کر کے اس کو مالک بنا دے۔ تو جب حکمران شکار اور پانی کو فروخت نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی کو ان کا مالک بنا سکتا ہے تو ان دونوں اشیاء کے متعلق حکمران دوسرے لوگوں کی طرح ہے ان دونوں چیزوں کو حاصل کرلینے سے اس کی ملکیت لازم ہوجاتی ہے اس میں حکمران کا دخل نہیں۔ روایات کی روشنی میں جو بات کہی گئی ہے اس سے امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک خوب ثابت ہوگیا۔
سوال : اگر کوئی اس روایت سے استدلال کرے کہ لوگ زمین کو پتھر لگا کر روک لیتے تھے تو حضرت عمر (رض) نے اعلان کیا جو مردہ زمین کو زندہ کرے وہ اس کی ہے۔

5195

۵۱۹۴ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا وَیُوْنُسَ بْنَ یَزِیْدَ أَخْبَرَاہُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَیِّتَۃً فَہِیَ لَہُ وَذٰلِکَ أَنَّ رِجَالًا کَانُوْا یَتَحَجَّرُوْنَ - مِنَ الْأَرْضِ .
٥١٩٤: سالم بن عبداللہ نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا جس نے مردہ زمین کو زندہ کیا وہ اسی کی ہے۔ آپ نے یہ بات اس لیے فرمائی کیونکہ لوگ زمین کے ارد گرد پتھر لگا کر اس کو روک لیتے تھے۔

5196

۵۱۹۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیرِ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُمَرَ مِثْلَہٗ۔قِیْلَ لَہٗ : لَا حُجَّۃَ لَک فِیْ ہٰذَا ، وَمَعْنٰی ہٰذَا - عِنْدَنَا - عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہٗ، مِنْ مَعْنَی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَیِّتَۃً فَہِیَ لَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مُرَادَہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہُوَ مَا ذَکَرْنَاہُ
٥١٩٥: زہری نے سالم سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں تمہارے لیے کوئی دلیل نہیں۔ ہمارے ہاں اس کا مفہوم وہی ہے جو ہم نے ارشاد نبوت ” من احٰی ارضا میتۃ فہی لہ “ میں ذکر کیا ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ خود حضرت عمر (رض) سے اس روایت کے ظاہر کے خلاف روایت وارد ہے جو ہمارے بیان کردہ مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ روایت حضرت عمر (رض) ملاحظہ ہو۔
جواب : اس روایت میں تمہارے لیے کوئی دلیل نہیں۔ ہمارے ہاں اس کا مفہوم وہی ہے جو ہم نے ارشاد نبوت ” من احیٰ ارضا میتۃ فہی لہ “ میں ذکر کیا ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ خود حضرت عمر (رض) سے اس روایت کے ظاہر کے خلاف روایت وارد ہے جو ہمارے بیان کردہ مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ روایت حضرت عمر (رض) ملاحظہ ہو۔

5197

۵۱۹۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ : خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ یُقَالُ لَہٗ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ، اِلَی عُمَرَ فَقَالَ : اِنَّ بِأَرْضِ الْبَصْرَۃِ أَرْضًا لَا تَضُرُّ بِأَحَدِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَیْسَتْ مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ ، فَاِنْ شِئْتُ أَنْ تُقْطِعَنِیْہَا - ، أَتَّخِذُہَا قَضْبًا وَزَیْتُوْنًا ، وَنَخْلًا فِیْ نَخِیلِی فَافْعَلْ فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ أَحْدَثَ الْفَلَایَا بِأَرْضِ الْبَصْرَۃِ .قَالَ : فَکَتَبَ عُمَرُ اِلٰی أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ اِنْ کَانَتْ حِمًی - ، فَأَقْطِعْہَا اِیَّاہُ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ عُمَرَ لَمْ یَجْعَلْ لَہٗ أَخْذَہَا ، وَلَا جَعَلَ لَہُ مِلْکَہَا اِلَّا بِاِقْطَاعِ خَلِیْفَتِہِ ذٰلِکَ الرَّجُلَ اِیَّاہَا ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَکَانَ یَقُوْلُ : لَہٗ : وَمَا حَاجَتُک اِلَیْ اِقْطَاعِیْ اِیَّاکَ ، لِأَنَّ لَک أَنْ تُحْیِیَہَا دُوْنِیْ، وَتَعْمُرَہَا فَتَمْلِکُہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْاِحْیَائَ عِنْدَ عُمَرَ ، ہُوَ مَا أَذِنَ الْاِمَامُ فِیْہِ، لِلَّذِیْ یَتَوَلَّاہُ وَمَلَّکَہُ اِیَّاہُ .وَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥١٩٦: محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا کہ بصرہ کا ایک آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا بصرہ کی سرزمین میں ایک جگہ ایسی ہے اگر آپ پسند کریں تو اسے میرے لیے خاص کردیں میں اس میں سبزی ‘ زیتون ‘ کھجوریں لگا لوں گا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے بصرہ میں جنگل کو حاصل کیا۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو لکھا کہ وہ جگہ اگر چراگاہ ہے تو اسے اس شخص کے لیے مختص کردیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ حضرت عمر (رض) نے اس زمین کا لینا اور حاصل کرنا اپنے نائب کی تقسیم کے بغیر ناجائز قرار دیا اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ فرماتے کہ میری تقسیم کی کیا حاجت ہے تم میری اجازت کے بغیر بھی اس کو لے سکتے ہو اور آباد کر کے مالک بن سکتے ہو یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حضرت عمر (رض) کے ہاں یہ زمین آباد کرنے کے باوجود اسی کی ہوگی جس کے لیے حکمران اختیار دے گا اور مالک بنائے گا۔ حضرت عمر (رض) کا یہ اثر بھی اس کی مزید تائید کرتا ہے ملاحظہ ہو۔
ذرا غور فرمائیں کہ حضرت عمر (رض) نے اس زمین کا لینا اور حاصل کرنا اپنے نائب کی تقسیم کے بغیر ناجائز قرار دیا اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ فرماتے کہ میری تقسیم کی کیا حاجت ہے تم میری اجازت کے بغیر بھی اس کو لے سکتے ہو اور آباد کر کے مالک بن سکتے ہو یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حضرت عمر (رض) کے ہاں یہ زمین آباد کرنے کے باوجود اسی کی ہوگی جس کے لیے حکمران اختیار دے گا اور مالک بنائے گا۔
مزید تائیدی قول :
حضرت عمر (رض) کا یہ اثر بھی اس کی مزید تائید کرتا ہے ملاحظہ ہو۔

5198

۵۱۹۷ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : لَنَا رِقَابُ الْأَرْضِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ رِقَابَ الْأَرْضِیْنَ - کُلَّہَا اِلٰی أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَأَنَّہَا لَا تَخْرُجُ مِنْ أَیْدِیْہِمْ اِلَّا بِاِخْرَاجِہِمْ اِیَّاہَا اِلَی مَا رَأَوْا ، عَلٰی حُسْنِ النَّظَرِ مِنْہُمْ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، فِیْ عِمَارَۃِ بِلَادِہِمْ ، وَصَلَاحِہَا ، فَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٥١٩٧: ابن عون نے محمد سے روایت کی کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا زمینوں کی ملکیت ہمارے اختیار میں ہے۔ ان آثار سے دلالت مل گئی کہ تمام زمینوں کی ملکیت مسلمان حکمران کو حاصل ہے ان کے ہاتھ سے اس وقت نکلے گی جب وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کی آبادکاری اور بہتری کے لیے مسلمانوں کے حوالے کریں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
امام طحاوی (رح) کا تبصرہ : ان آثار سے دلالت مل گئی کہ تمام زمینوں کی ملکیت مسلمان حکمران کو حاصل ہے ان کے ہاتھ سے اس وقت نکلے گی جب وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کی آبادکاری اور بہتری کے لیے مسلمانوں کے حوالے کریں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) کا رجحان امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی طرف ہے اس کو دلائل نقلیہ اور نظریہ سے اچھی طرح واضح کیا ہے کہ زمین افتادہ حاکم کی اجازت سے آبادکار کی ملکیت بنے گی اپنی مرضی سے قبضہ کر کے آباد کرنے سے اس کی ملکیت نہ بنے گی۔ (مترجم)

5199

۵۱۹۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ أَبِیْ رَزِینٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ قَالَ : أَہْدَیْتُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَغْلَۃً ، فَرَکِبَہَا ، فَقَالَ عَلِیٌّ : لَوْ حَمَلْنَا الْحَمِیْرَ عَلَی الْخَیْلِ ، لَکَانَ لَنَا مِثْلُ ہٰذِہٖ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ .
٥١٩٨: ابو رزین نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک خچر ہدیۃً دی گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر سواری کی۔ حضرت علی (رض) نے عرض کیا اگر ہم گدھے سے گھوڑی کو جفتی کرائیں تو ہمارے لیے بھی اسی طرح کے جانور ہوں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کام تو بےعلم لوگ کرتے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ٥٣‘ نسائی فی الخیل باب ١٠‘ مسند احمد ١‘ ٧٨؍١٠٠‘ ١٣٢؍١٥٨۔

5200

۵۱۹۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عُثْمَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوُہُ .
٥١٩٩: عثمان بن علقمہ نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5201

۵۲۰۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ح .
٥٢٠٠: ربیع موذن نے اسد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5202

۵۲۰۱ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ جَہْضَمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : مَا اخْتَصَّنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ دُوْنَ النَّاسِ ، اِلَّا بِثَلَاثٍ : اِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ ، وَأَنْ لَا نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ ، وَأَنْ لَا نُنْزِی الْحُمُرَ عَلَی الْخَیْلِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا، فَکَرِہُوْا اِنْزَائَ الْحُمُرِ عَلَی الْخَیْلِ ، وَحَرَّمُوْا ذٰلِکَ وَمَنَعُوْا مِنْہٗ، وَاحْتَجُّوْا بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِذٰلِکَ بَأْسًا ، وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ لَوْ کَانَ مَکْرُوْہًا ، لَکَانَ رُکُوْبُ الْبِغَالِ مَکْرُوْہًا ، لِأَنَّہٗ لَوْلَا رَغْبَۃُ النَّاسِ فِی الْبِغَالِ وَرُکُوْبِہِمْ اِیَّاہَا ، لَمَا أُنْزِیَتِ الْحُمُرُ عَلَی الْخَیْلِ .أَلَا تَرَی أَنَّہٗ لَمَّا نَہٰی عَنْ اِخْصَائِ بَنِی آدَمَ ، کَرِہَ بِذٰلِکَ اتِّخَاذَ الْخُصْیَانِ ، لِأَنَّ فِی اتِّخَاذِہِمْ ، مَا یُحْمَلُ مِنْ تَحْضِیضِہِمْ عَلَی اِخْصَائِہِمْ ، لِأَنَّ النَّاسَ اِذَا تَحَامَوْا اتِّخَاذَہُمْ ، لَمْ یَرْغَبْ أَہْلُ الْفِسْقِ فِیْ اِخْصَائِہِمْ .
٥٢٠١: عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں لوگوں کو چھوڑ کر کسی بات میں خاص نہیں کیا سوائے ان تین چیزوں کے۔ مکمل وضو کرنا ‘ صدقہ نہ کھانا ‘ گھوڑی اور گدھے کا ملاپ نہ کرائیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ گدھے کی گھوڑی سے جفتی مکروہ و حرام اور ممنوع ہے اس کی دلیل مندرجہ بالا آثار ہیں۔ علماء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ مکروہ ہوتا تو خچر پر سواری بھی مکروہ ہوتی اگر لوگوں کی اس پر سواری میں رغبت نہ ہو تو لوگ یہ جفتی نہ کرائیں۔ اس کی نظریہ ہے کہ غلاموں کو خصی کرنا ممنوع ہے تو خصی غلاموں کی خریدو فروخت بھی منع ہے۔ کیونکہ ان کی خریداری خصی کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ جب لوگ اس سے گریز کریں گے۔ تو اہل فسق غلاموں کو خصی کرنے کی طرف رغبت نہیں کریں گے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ ترمذی فی الجہاد باب ٢٣‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٠٥‘ الخیل باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٧٨‘ ٢٢٥؍٢٣٤‘ ٢٤٩۔

5203

۵۲۰۲ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَفِیْفُ بْنُ سَالِمٍ ، قَالَ : ثَنَا الْعَلَائُ بْنُ عِیْسَی الذَّہَبِیُّ قَالَ : أَتٰی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِخَصِی فَکَرِہَ أَنْ یَبْتَاعَہُ وَقَالَ : مَا کُنْتُ لِأُعِیْنَ عَلَی الْاِخْصَائِ .فَکُلُّ شَیْئٍ فِیْ تَرْکِ کَسْبِہٖ تَرْکٌ لِبَعْضِ أَہْلِ الْمَعَاصِی لِمَعْصِیَتِہِمْ فَلَا یَنْبَغِیْ کَسْبُہُ .فَلَمَّا أُجْمِعَ عَلَی اِبَاحَۃِ اتِّخَاذِ الْبِغَالِ وَرُکُوْبِہَا ، دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ الَّذِیْ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، لَمْ یُرَدْ بِہٖ التَّحْرِیْمُ ، وَلٰـکِنَّہٗ أُرِیْدَ بِہٖ مَعْنًی آخَرُ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رُکُوْبِ الْبِغَالِ ،
٥٢٠٢: علاء بن عیسیٰ ذہبی کہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز (رح) کے پاس خصی غلام لایا گیا انھوں نے اس کی خریدارای کو ناپسند کیا اور فرمایا یہ خصی پن کی اعانت کرنے والا نہیں۔ اصول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کی کمائی چھوڑ دینے سے اہل معاصی کے گناہ چھوڑنے میں مدد ملتی ہو اس کا چھوڑنا ضروری ہے۔ خچر کو خریدنا اور ان کو سواری کے لیے استعمال کرنا جب سب کے ہاں درست ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اثر اوّل میں ممانعت سے تحریمی مراد نہیں۔ بلکہ اس سے دوسرا مفہوم مراد ہے۔
نوٹ : اصول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کی کمائی چھوڑ دینے سے اہل معاصی کے گناہ چھوڑنے میں مدد ملتی ہو اس کا چھوڑنا ضروری ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : خچر کو خریدنا اور ان کو سواری کے لیے استعمال کرنا جب سب کے ہاں درست ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اثر اوّل میں ممانعت سے تحریمی مراد نہیں۔ بلکہ اس سے دوسرا مفہوم مراد ہے۔

5204

۵۲۰۳ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَائِ یَا أَبَا عُمَارَۃَ وَلَّیْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ ؟ .فَقَالَ : لَا وَاللّٰہِ، مَا وَلَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلٰـکِنْ وَلَّیْ سَرَعَانُ النَّاسِ ، تَلَقَّتْہُمْ ہَوَازِنُ بِالنَّبْلِ ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَلَی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَائِ ، وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِلِجَامِہَا ، وَہُوَ یَقُوْلُ أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ .
٥٢٠٣: ابو اسحاق نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے حضرت براء (رض) سے کہا اے ابو عمارہ ! تم حنین کے دن شکست کھا کر بھاگے ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں اللہ کی قسم ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میدان سے نہیں بھاگے۔ لیکن جلد باز لوگ بھاگے۔ ان کو ہوازن نے تیروں سے آلیا۔ واقعۃً میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفید خچر پر سوار پایا جبکہ ابو سفیان بن حارث (رض) خچر کی لگام تھامے ہوئے تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر یہ کلمات تھے میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا (پوتا) ہوں (یعنی بزدل نہیں) ۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٦١‘ ترمذی فی الجہاد باب ١٥‘ مسند احمد ٤؍٢٨٩۔

5205

۵۲۰۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ اِسْحَاقَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٢٠٤: شعبہ نے ابو اسحاق سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5206

۵۲۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، مِثْلُہٗ .
٥٢٠٥: زہیر بن ابی اسحاق نے حضرت براء (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5207

۵۲۰۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَاہُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ : شَہِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ ، رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ نُفَارِقْہٗ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَلَی بَغْلَۃٍ لَہُ بَیْضَائَ أَہْدَاہَا لَہٗ فَرْوَۃُ بْنُ نَفَّاثَۃَ الْجُذَامِیُّ .
٥٢٠٦: کثیر بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کے والد عباس بن عبدالمطلب (رض) نے بتلایا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین کے دن موجود تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لمحہ بھر بھی جدا نہیں ہوئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو فروہ بن نفاثہ جذامی نے بطور ہدیہ دی تھی۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٧٦۔

5208

۵۲۰۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّہْرِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ الْعَبَّاسِ ، عَنْ أَبِیْہٖ، نَحْوَہٗ۔
٥٢٠٧: زہری نے کثیر بن عباس سے انھوں نے اپنے والد محترم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5209

۵۲۰۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حُصَیْنٍ ، قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بَغْلَتِہِ .
٥٢٠٨: قاسم بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ میں حنین کے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خچر پر سوار تھے۔

5210

۵۲۰۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّہِ قَالَتْ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ ، عِنْدَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ ، وَہُوَ عَلَی بَغْلَتِہِ .
٥٢٠٩: سلیمان بن عمرو بن احوص نے اپنی والدہ محترمہ سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نحر کے دن جمرہ عقبہ کے پاس اس وقت دیکھا جبکہ آپ اپنے خچر پر سوار تھے۔

5211

۵۲۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّہٗ قَالَ : أَتَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُمْ ، وَہُوَ رَاکِبٌ عَلَی بَغْلَتِہِ .
٥٢١٠: عبداللہ بن بشر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں آئے اس وقت آپ اپنے خچر پر سوار تھے۔

5212

۵۲۱۱ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ اِیَاسٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، وَحُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بَغْلَتِہِ شَہْبَائَ ، فَمَرَّ عَلٰی حَائِطٍ لِبَنِی النَّجَّارِ ، فَاِذَا قَبْرٌ یُعَذَّبُ صَاحِبُہٗ، فَحَاصَبَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوْا ، لَدَعَوْت اللّٰہَ یُسْمِعَکُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ .
٥٢١١: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے آپ اپنے شہباء نامی خچر پر سوار تھے۔ آپ کا گزر بنی نجار کے ایک احاطہ کے پاس سے ہوا۔ اچانک ایک قبر کو پایا قبر والے کو عذاب ہو رہا تھا۔ آپ کا خچر ڈر گیا۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اس بات کا خطرہ نہ ہوتا کہ تم قبور میں دفن کرنا بند کر دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنا دیتا۔
تخریج : مسلم فی الجنۃ ٦٧؍٦٨‘ نسائی فی الجنائز باب ١١٤‘ مسند احمد ٣؍١٠٣‘ ٢٠١؍٢٧٣‘ ٢٨٤۔

5213

۵۲۱۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّافِعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسٰی ، قَالَ : ثَنَا فَائِدٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّہٗ رَأَیْ بَغْلَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہْبَائَ ، وَکَانَتْ عِنْدَ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ .
٥٢١٢: عبیداللہ بن علی بن ابی رافع نے اپنے والد سے بیان کیا کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خچر شہباء دیکھا ہے۔ وہ علی بن حسین (امام زین العابدین (رح) ) کے پاس تھا۔

5214

۵۲۱۳ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِیَاسُ بْنُ سَلْمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُنَیْنًا ، فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا فِیْہِ فَمَرَرْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُنْہَزِمًا وَہُوَ عَلَی بَغْلَتِہِ الشَّہْبَائَ۔
٥٢١٣: ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے بیان کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں غزوہ حنین میں شرکت کی پھر انھوں نے طویل روایت بیان کی۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ غزوہ حنین میں بھاگتے ہوئے میرا گزر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہوا جبکہ آپ اپنے شہباء نامی خچر پر سوار تھے۔

5215

۵۲۱۴ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِلَالٍ ، عَنْ أَسْلَمَ بْنِ أَبِیْ عِمْرَانَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَغْلَتَہٗ، فَاتَّبَعْتُہٗ ، ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاِبَاحَۃِ رُکُوْبِ الْبِغَالِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ،
٥٢١٤: اسلم بن ابی عمران نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خچر پر سوار ہوئے۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا پھر انھوں نے روایت ذکر کی۔ متواتر روایات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خچر پر سوار ہونا ثابت ہے جس سے خچر کی سواری کا مباح ہونا ثابت ہوگیا۔ خچر پر سواری کے مباح ہونے پر حضرت کی روایات ملاحظہ ہوں۔
متواتر روایات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خچر پر سوار ہونا ثابت ہے جس سے خچر کی سواری کا مباح ہونا ثابت ہوگیا۔
خچر پر سواری کے مباح ہونے پر حضرت علی (رض) کی روایات ملاحظہ ہوں۔

5216

۵۲۱۵ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیْبٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَشَوْعَ عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا أَتَی بِبَغْلَۃٍ یَوْمَ الْأَضْحٰی فَرَکِبَہَا ، فَلَمْ یَزَلْ یُکَبِّرُ حَتّٰی أَتَی الْجَبَّانَۃَ .
٥٢١٥: حنش بن معتمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا کہ عیدالاضحی کے دن ان کے لیے ایک خچر لایا گیا پس آپ اس پر سوار ہوئے اور تکبیر کہتے رہے یہاں تک کہ صحرا میں پہنچے۔
لغات : الجبانۃ۔ صحراء۔ بلند ہموار بےدرخت زمین۔

5217

۵۲۱۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ خَرَجَ یَوْمَ النَّحْرِ عَلَی بَغْلَۃٍ بَیْضَائَ ، یُرِیْدُ الصَّلَاۃَ ، فَجَائَ رَجُلٌ فَأَخَذَ بِخِطَامِ بَغْلَتِہٖ، فَسَأَلَہٗ عَنْ یَوْمِ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ ، فَقَالَ ہُوَ یَوْمُک ہٰذَا، خَلِّ سَبِیْلَہَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنَی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ قَالَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِیْ ذٰلِکَ مَعْنَاہُ اِنَّ الْخَیْلَ قَدْ جَائَ فِی ارْتِبَاطِہَا ، وَاکْتِسَابِہَا ، وَعَلَفِہَا الْأَجْرُ ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ فِی الْبِغَالِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا یُنْزَی فَرَسٌ عَلَی فَرَسٍ ، حَتّٰی یَکُوْنَ عَنْہُمَا مَا فِیْہِ الْأَجْرُ ، وَیَحْمِلُ حِمَارًا عَلَی فَرَسٍ فَیَکُوْنُ عَنْہُمَا بَغْلٌ لَا أَجْرَ فِیْہِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ أَیْ لِأَنَّہُمْ یَتْرُکُوْنَ بِذٰلِکَ اِنْتَاجَ مَا فِی ارْتِبَاطِہِ الْأَجْرُ ، وَیُنْتِجُوْنَ مَا لَا أَجْرَ فِی ارْتِبَاطِہِ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الثَّوَابِ فِی ارْتِبَاطِ الْخَیْلِ ،
٥٢١٦: یحییٰ بن جزار نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ یوم نحر کو اپنے سفید خچر پر سوار ہو کر نکلے۔ آپ نماز کے لیے جا رہے تھے تو ایک آدمی نے خچر کی لگام تھام لی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ حج اکبر کا دن کون سا ہے تو آپ نے فرمایا وہ تمہارا یہی دن ہے۔ اس نے آپ کا راستہ چھوڑ دیا۔ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” انما یفعل ذلک الذین لا یعلمون “ اہل علم سے اسی قسم کا معنی منقول ہے ” ان الخیل قد جاء فی ارتباطھا و اکتسابہا “ کہ گھوڑے کو باندھنے ‘ حاصل کرنے ‘ چارہ ڈالنے میں اجر ہے اور خچر میں یہ اجر منقول نہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھوڑے کا ملاپ اسی جنس سے ہوتا کہ اس سے پیدا شدہ بچے میں اجر ہو اور اگر گدھے کو گھوڑی پر جفتی کرائیں گے تو اس سے خچر پیدا ہوگا جس میں کوئی اجر نہیں۔ ان لوگوں کو بےعلم کہا کیونکہ اس جفتی سے اس جانور کو حاصل کیا جس کے پالنے میں اجر نہیں اور اس کو چھوڑا جس میں اجر ہے۔
سوال : اس بات کا کیا مطلب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” انما یفعل ذلک الذین لا یعلمون “
جواب : اہل علم سے اسی قسم کا معنی منقول ہے ” ان الخیل قد جاء فی ارتباطھا و اکتسابہا “ کہ گھوڑے کو باندھنے ‘ حاصل کرنے ‘ چارہ ڈالنے میں اجر ہے اور خچر میں یہ اجر منقول نہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھوڑے کا ملاپ اسی جنس سے ہوتا کہ اس سے پیدا شدہ بچے میں اجر ہو اور اگر گدھے کو گھوڑی پر جفتی کرائیں گے تو اس سے خچر پیدا ہوگا جس میں کوئی اجر نہیں۔ ان لوگوں کو بےعلم کہا کیونکہ اس جفتی سے ایسا جانور حاصل کیا جس کے پالنے میں اجر نہیں اور اس کو چھوڑا جس میں اجر ہے۔

5218

۵۲۱۷ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَیْلِ ، فَقَالَ ہِیَ لِثَلَاثَۃٍ : لِرَجُلٍ أَجْرٌ ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ ، وَلِرَجُلٍ وِزْرٌ ، فَأَمَّا مَنْ رَبَطَہَا عُدَّۃً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَاِنَّہٗ لَوْ طَوَّلَ لَہَا فِیْ مَرْجٍ خَصِیْبٍ ، أَوْ رَوْضَۃٍ خَصِیْبَۃٍ ، کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ عَدَدَ مَا أَکَلَتْ حَسَنَاتٍ ، وَعَدَدَ أَرْوَاثِہَا حَسَنَاتٍ ، وَلَوْ انْقَطَعَ طُوْلُہَا ذٰلِکَ فَاعْتَلَتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِ ، کَتَبَ اللّٰہُ عَدَدَ آثَارِہَا حَسَنَاتٍ ، وَلَوْ مَرَّتْ بِنَہْرٍ عَجَاجٍ لَا یُرِیْدُ السَّقْیَ بِہٖ ، فَشَرِبَتْ مِنْہٗ، کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ ، وَمَنْ ارْتَبَطَہَا تَغَنِّیًا وَتَعَفُّفًا ، ثُمَّ لَمْ یَنْسَ حَقَّ اللّٰہِ فِیْ رِقَابِہَا وَظُہُوْرِہَا ، کَانَتْ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ ، وَمَنْ ارْتَبَطَہَا فَخْرًا وَرِیَائً وَنَوَاہُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، کَانَتْ لَہُ بُوْرًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .قَالُوْا : فَالْخَمْرُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہٖ؟ قَالَ : لَمْ یَنْزِلْ عَلَیَّ فِی الْخَمْرِ شَیْء ٌ اِلَّا ہٰذِہِ الْآیَۃُ الْفَاذَّۃُ فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ .
٥٢١٧: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کے لئے۔ باعث اجر ‘ باعث ستر ‘ باعث بوجھ ہے۔ پہلا شخص جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی تیاری کے لیے گھر میں گھوڑا باندھے اور اس کو عرصہ تک سرسبز و شاداب چراگاہ یا سرسبز باغ میں رکھتا ہے تو جس قدر وہ کھاتا ہے اور جس قدر وہ لید کرتا ہے۔ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نیکیاں لکھتا ہے اور اگر وہ زیادہ دیر نہ چرلے بلکہ ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھے تو اس کے قدموں کے نشانات کے مطابق اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اگر وہ ٹھاٹھیں مارتے دریا سے گزرے اور پانی پلانے کا ارادہ نہ ہو لیکن اس نے پی لیا تو جس قدر اس نے پانی پیا اللہ تعالیٰ اس کے مطابق اسی شخص کے لیے نیکیاں لکھ دیتا ہے۔
نمبر 2: اور جو شخص گھوڑے کو مالداری کے حصول اور دوسروں کے آگے دست سوال سے بچنے کے لیے کرتا ہے پھر اس کی گردن اور پشت میں اللہ تعالیٰ کا حق نہیں بھلاتا وہ گھوڑا اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ اور رکاوٹ کا باعث ہے۔
نمبر 3: گھوڑے کو تکبر کے لیے باندھنے والا اور مسلمانوں سے دشمنی کی خاطر باندھنے والا ہو۔ تو وہ گھوڑا قیامت کے دن اس کے لیے بوجھ ہوگا۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گدھوں کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا۔ گدھوں کے متعلق مجھ پر ایک آیت کے سواء کچھ بھی نازل نہیں ہوا جو شخص ایک ذرہ کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو آدمی ایک ذرہ کے برابر برائی کرے گا وہ بھی اسے پالے گا۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٤٨‘ والاعتصام باب ٢٤‘ مسلم فی الزکوۃ ٢٤؍٢٦‘ ترمذی فی فضائل الجہاد باب ١٠‘ نسائی فی الخیل باب ١‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ١٤‘ مالک فی الجہاد ٣‘ مسند احمد ٢؍٢٦٢۔

5219

۵۲۱۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُکَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِنَحْوِ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٢١٨: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5220

۵۲۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ ، اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .
٥٢١٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں سے بھلائی وابستہ ہے۔
تخریج : بخاری فی المناقب باب ٢٨‘ مسلم فی الزکوۃ ٢٥‘ الامرہ ٩٦؍٩٩‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٤١‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٢٩‘ الجہاد باب ١٤‘ دارمی فی الجہاد باب ٣٣‘ مالک فی الجہاد ٤٤‘ مسند احمد ٥؍١٨١۔

5221

۵۲۲۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلُہٗ .
٥٢٢٠: نافع نے ابن عمر سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5222

۵۲۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلُہٗ .
٥٢٢١: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5223

۵۲۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلُہٗ .
٥٢٢٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5224

۵۲۲۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا طَلْحَۃُ بْنُ أَبِیْ سَعِیْدٍ أَنَّ سَعِیْدًا الْمَقْبُرِیَّ حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ احْتَبَسَ فَرَسًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اِیْمَانًا بِاَللّٰہٖ، وَتَصْدِیْقًا بِوُعُوْدِ اللّٰہِ، کَانَ شِبَعُہُ وَرَیُّہٗ، وَرَوْثُہٗ، حَسَنَاتٍ فِیْ مِیزَانِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .
٥٢٢٣: سعید مقبری نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھوڑا باندھا۔ اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا اور اس کے وعدوں پر یقین کرنے والا تھا۔ تو اس گھوڑے کا سیر ہونا ‘ لید کرنا ‘ کل قیامت کے روز اس کے میزان میں حسنات کا باعث ہوگا۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٤٥‘ نسائی فی الخیل باب ١١‘ مسند احمد ٢؍٣٧٤۔

5225

۵۲۲۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُتْبَۃُ بْنُ أَبِیْ حَکِیْمٍ ، عَنِ الْحُصَیْنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ الْمَہْدِیِّ ، عَنْ أَبِی الْمُصَبِّحِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَیْلُ فِیْ نَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ وَالنَّیْلُ ، اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَقَلِّدُوْہَا، وَلَا تُقَلِّدُوْہَا الْأَوْتَارَ .
٥٢٢٤: ابوالمصبح نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی اور ثواب کا حصول لکھ دیا گیا ان کو قلادہ ڈالو تانت کا قلادہ مت ڈالو۔

5226

۵۲۲۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ ، عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، الْأَجْرُ وَالْغَنِیْمَۃُ .
٥٢٢٥: ابو زرعہ نے جریر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے اجر اور خیر لکھ دی گئی ہے۔

5227

۵۲۲۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ یُوْنُسَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٢٢٦: یزید بن زریع نے یونس سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

5228

۵۲۲۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : سَمِعْت مُعَاوِیَۃَ بْنَ صَالِحٍ یُحَدِّثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ زِیَادُ بْنُ نُعَیْمٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا کَبْشَۃَ یُحَدِّثُ صَاحِبَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ ، وَأَہْلُہَا مُعَانُوْنَ عَلَیْہَا ، وَالْمُنْفِقُ عَلَیْہَا کَالْبَاسِطِ یَدَیْہِ بِالصَّدَقَۃِ .
٥٢٢٧: زیاد بن نعیم کہتے ہیں کہ میں نے صحابی ابو کبشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی لکھ دی ہے اور ان کو رکھنے والے ان پر مشقت برداشت کرتے رہیں گے۔ ان پر خرچ کرنے والا اس طرح ہے جیسا سخاوت کے دونوں ہاتھ پھیلانے والا ہو۔

5229

۵۲۲۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ اِدْرِیْسَ وَابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَیْرُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِی الْخَیْلِ .فَقِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مِمَّ ذٰلِکَ ؟ قَالَ الْأَجْرُ وَالْغَنِیْمَۃُ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَزَادَ فِیْہِ ابْنُ اِدْرِیْسَ وَالْاِبِلُ عِزٌّ لِأَہْلِہَا ، وَالْغَنَمُ بَرَکَۃٌ .
٥٢٢٨: حضرت عروہ بارقی (رض) نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بھلائی گھوروں کی پیشانی سے وابستہ ہے۔ آپ سے عرض کیا گیا یاسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کس طرح ؟ فرمایا قیامت تک ثواب اور مال غنیمت ملتا رہے گا اور ابن ادریس کی روایت میں یہ اضافہ بھی موجود ہے اونٹ اونٹوں والوں کے لیے عزت کا باعث ہیں اور بکریاں برکت کا باعث ہیں۔

5230

۵۲۲۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ ، قَالَ : ثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، قَالَ : وَقَفَ عَلَیْنَا عُرْوَۃُ الْبَارِقِیُّ وَنَحْنُ فِیْ مَجْلِسِنَا ، فَحَدَّثَنَا فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْخَیْرُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِی الْخَیْلِ أَبَدًا اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .
٥٢٢٩: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عروہ بارقی (رض) آ کر کھڑے ہوئے جبکہ ہم اپنی مجلس میں تھے اور ہمیں فرمانے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود فرماتے سنا کہ بھلائی گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ قیامت تک کے لیے وابستہ کردی گئی ہے۔

5231

۵۲۳۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلُہٗ .
٥٢٣٠: عیزار بن حریث نے حضرت عروہ بارقی (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5232

۵۲۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ وَزَادَ الْأَجْرُ وَالْغَنِیْمَۃُ .
٥٢٣١: جابر بن عامر نے حضرت عروہ بارقی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے اجر اور غنیمت ملے گا۔

5233

۵۲۳۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَالِمٍ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْأَفْطَسُ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُرَشِیُّ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نَفِیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَلَمَۃُ بْنُ نُفَیْلٍ السَّکُوْنِیُّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَأَہْلُہَا مُعَانُوْنَ عَلَیْہَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنَی اخْتِصَاصِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَنِیْ ہَاشِمٍ بِالنَّہْیِ عَنْ اِنْزَائِ الْحَمِیْرِ عَلَی الْخَیْلِ ؟ قِیْلَ لَہٗ :
٥٢٣٢: جبیر بن نفیر نے بیان کیا کہ مجھے سلمہ بن قیس سکونی (رض) نے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ گھوڑوں کی پیشانیوں سے خیر قیامت تک کے لیے منسلک کردی گئی اور گھوڑا رکھنے والے ان پر مشقت اٹھاتے رہیں گے۔ گزشتہ روایات میں بنی ہاشم کو گدھے کی گھوڑی پر جفتی سے کیوں منع فرمایا گیا۔ اس خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟ تو اس کے جواب میں کہے بنی ہاشم میں گھوڑوں کی قلت تھی اس وجہ سے ان کو گھوڑے کی نسل بڑھانے کی ترغیب اور کچر کی نسل کشی سے منع کیا گیا جیسا اس اثر میں موجود ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب :
گزشتہ روایات میں بنی ہاشم کو گدھے کی گھوڑی پر جفتی سے کیوں منع فرمایا گیا۔ اس خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : بنی ہاشم میں گھوڑوں کی قلت تھی اس وجہ سے ان کو گھوڑے کی نسل بڑھانے کی ترغیب اور خچر کی نسل کشی سے منع کیا گیا جیسا اس اثر میں موجود ہے۔

5234

۵۲۳۳ : لِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمُرَجَّی ، ہُوَ ابْنُ رَجَائَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْجَہْضَمً ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : مَا اخْتَصَّنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَّا بِثَلَاثٍ : أَنْ لَا نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ ، وَأَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوْئَ ، وَأَنْ لَا نُنْزِیَ حِمَارًا عَلَی فَرَسٍ .قَالَ : فَلَقِیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَسَنِ وَہُوَ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ ، فَحَدَّثْتہ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، کَانَتِ الْخَیْلُ قَلِیْلَۃً فِیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ فَأَحَبَّ أَنْ تَکْثُرَ فِیْہِمْ .فَبَیَّنَ عَبْدُ اللّٰہُ بْنُ الْحَسَنِ - بِتَفْسِیْرِہِ ہَذَا - الْمَعْنَی الَّذِی لَہُ اخْتَصَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَنِیْ ہَاشِمٍ أَنْ لَا تَنْزُوْا الْحِمَارَ عَلَی فَرَسٍ ، وَأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ لِلتَّحْرِیْمِ ، وَاِنَّمَا کَانَتِ الْعِلَّۃُ ، قِلَّۃَ الْخَیْلِ فِیْہِمْ ، فَاِذَا ارْتَفَعَتْ تِلْکَ الْعِلَّۃُ ، وَکَثُرَتِ الْخَیْلُ فِیْ أَیْدِیْہِمْ ، صَارُوْا فِیْ ذٰلِکَ کَغَیْرِہِمْ .وَفِی اخْتِصَاصِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ ، دَلِیْلٌ عَلَی اِبَاحَتِہِ اِیَّاہُ لِغَیْرِہِمْ .وَلِمَا کَانَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَعَلَ فِی ارْتِبَاطِ الْخَیْلِ ، مَا ذَکَرْنَا مِنَ الثَّوَابِ وَالْأَجْرِ ، وَسُئِلَ عَنْ ارْتِبَاطِ الْحَمِیْرِ ، فَلَمْ یَجْعَلْ فِی ارْتِبَاطِہَا شَیْئًا ، وَالْبِغَالُ الَّتِیْ ہِیَ خِلَافُ الْخَیْلِ مِثْلُہَا - کَانَ مِنْ تَرْکِ أَنْ تُنْتِجَ مَا فِی ارْتِبَاطِہِ وَکَسْبِہٖ ثَوَابٌ ، وَأَنْتَجَ مَا لَا ثَوَابَ فِی ارْتِبَاطِہِ وَکَسْبِہٖ ، مِنْ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، اِبَاحَۃُ نَتْجِ الْبِغَالِ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَغَیْرِہِمْ ، وَاِنْ کَانَ اِنْتَاجُ الْخَیْلِ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ . کِتَابُ وُجُوْہِ الْفَیْئِ وَخُمُسِ الْغَنَائِمِ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ .وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَکَانَ مَا ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْآیَۃِ الْأُوْلٰی ، ہُوَ فِیْمَا صَالَحَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ أَہْلَ الشِّرْکِ مِنَ الْأَمْوَالِ ، وَفِیْمَا أَخَذُوْھُ مِنْہُمْ فِیْ جِزْیَۃِ رِقَابِہِمْ ، وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .وَکَانَ مَا ذَکَرَہُ فِی الْآیَۃِ الثَّانِیَۃِ ، ہُوَ خُمُسُ مَا غَلَبُوْا عَلَیْہِ بِأَسْیَافِہِمْ ، وَمَا أَشْبَہَہٗ، مِنَ الرِّکَازِ الَّذِیْ جَعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلَی لِسَانِ رَسُوْلِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْخُمُسَ ، وَتَوَاتَرَتْ بِذٰلِکَ الْآثَارُ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٢٣٣: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین باتوں سے ہمیں خاص کیا ہے۔ صدقہ نہ کھائیں ‘ مکمل وضو کریں ‘ گھوڑی اور گدھے کا ملاپ نہ کرائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن حسن سے ملا جبکہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور میں نے ان کو یہ حدیث سنائی (اور اس کا معنی دریافت کیا) تو فرمانے لگے آپ نے سچ فرمایا بنو ہاشم میں گھوڑوں کی قلت تھی پس آپ نے چاہا کہ ان کی نسل کشی ہو تاکہ وہ زیادہ ہوجائیں۔ عبداللہ بن حسن (رح) نے اپنی وضاحت سے بتلا دیا کہ بنو ہاشم کو اس سلسلہ میں خاص کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ گدھے کی جفتی حرام ہے بلکہ اس کی وجہ بنی ہاشم میں گھوڑوں کی قلت ہے۔ جب وہ علت ختم ہوگئی تو حکم بھی ختم ہوگیا اس میں وہ دوسرں کی طرح ہوگئے اور نہی میں خاص کردینا یہ بھی دوسروں کے لیے اباحت کی دلیل بن گیا۔ جب کہ گھوڑے کو پالنے میں اتنا بڑا ثواب و اجر ہے اور گدھے کے باندھنے کا اجر تو ذکر نہیں فرمایا مگر ان کے باندھنے کو گناہ بھی قرار نہیں دیا گیا اور خچر بھی گدھے کی طرح ہے تو وہ آدمی جب اس کی نسل کشی کو ترک کر کے جس کی نسل کشی میں ثواب ہی ثواب ہے۔ اس کی نسل کشی کا سلسلہ جاری کرے جس میں ثواب نہیں تو ایسا آدمی بےعلم کہلانے کا حقدار ہے کہ نری خیر کو چھوڑ کر وقتی معمولی فائدے کو اپنانے والا ہے۔ آخری اثر سے بنی ہاشم کے لیے بھی خچر کی نسل کشی کا جواز ثابت اور دوسروں کے لیے تو پہلے بھی درست ہی تھا۔ اگرچہ گھوڑے کی نسل کشی افضل ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں جس مال کا ذکر فرمایا ہے اس کا تعلق اس مال سے ہے جس کو مسلمان مشرکین سے بطور صلح حاصل کریں اور وہ مال جس کو ان سے بطور جزیہ جانوں کے بدلے میں لیا جائے اور اسی قسم کے جو دوسرے اموال ہیں اور آیت دوم میں جس مال کا تذکرہ ہے اس سے مراد وہ مال ہے جو تلواروں کے ذریعہ غلبہ سے حاصل ہو۔ یا مدفون خزانہ ہو اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے پانچواں حصہ مقرر کیا اور اس سلسلہ میں متواتر روایات پائی جاتی ہیں۔ دو روایات بطور نمونہ ذکر کی جاتی ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ ترمذی فی الجہاد باب ٢٣‘ نسائی فی الطہارۃ والخیل باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٧٨۔
نوٹ : نمبر 1: عبداللہ بن حسن (رح) نے اپنی وضاحت سے بتلا دیا کہ بنو ہاشم کو اس سلسلہ میں خاص کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ گدھے کی جفتی حرام ہے بلکہ اس کی وجہ بنی ہاشم میں گھوڑوں کی قلت ہے۔ جب وہ علت ختم ہوگئی تو حکم بھی ختم ہوگیا اس میں وہ دوسرں کی طرح ہوگئے۔
نمبر 2: اور نہی میں خاص کردینا یہ بھی دوسروں کے لیے اباحت کی دلیل بن گیا۔
نمبر 3: جب کہ گھوڑے کو پالنے میں اتنا بڑا ثواب و اجر ہے اور گدھے کے باندھنے کا اجر تو ذکر نہیں فرمایا مگر ان کے باندھنے کو گناہ بھی قرار نہیں دیا گیا اور خچر بھی گدھے کی طرح ہے تو وہ آدمی جب اس کی نسل کشی کو ترک کر کے جس کی نسل کشی میں ثواب ہی ثواب ہے۔ اس کی نسل کشی کس سلسلہ جاری کیا جس میں ثواب نہیں وہ ایسا آدمی بےعلم کہلانے کا حقدار ہے کہ نری خیر کو چھوڑ کر وقتی معمولی فائدے کو اپنانے والا ہے۔
آخری اثر سے بنی ہاشم کے لیے بھی خچر کی نسل کشی کا جواز ثابت اور دوسروں کے لیے تو پہلے بھی درست ہی تھا۔ اگرچہ گھوڑے کی نسل کشی افضل ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایت : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے اس مؤقف کو ثابت کیا کہ جس طرح خچر کی سواری اور اس کو پالنا درست ہے اسی طرح اس کی نسل کشی بھی حرام نہیں بلکہ درست و جائز ہے۔ (مترجم)

5235

۵۲۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، وَعَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الرِّکَازِ ، الْخُمُسُ .
٥٢٣٤: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دفن شدہ مال میں خمس یعنی پانچواں حصہ ہے۔
تخریج : بخاری فی المساقاۃ باب ٣‘ والزکوۃ باب ٦٦‘ مسلم فی الحدود ٤٥؍٤٦‘ ابو داؤد فی اللقطہ ١٧١٠‘ والامارۃ باب ٤٠‘ والدیات باب ٢٧‘ الترمذی فی الاحکام باب ٣٧‘ ابن ماجہ فی اللقطہ باب ٤‘ مالک فی الزکوۃ ٩‘ مسند احمد ١؍٣١٤‘ ٢؍١٨٠‘ ١٨٦‘ ٢٠٣‘ ٣؍١٢٨‘ ٣٣٥‘ ٣٣٦۔
دوسرا مسئلہ خمس غنیمت۔ آیت میں مذکور مصارف پر خرچ ہوگا۔ اب آپ کی وفات کے بعد اس کے متعلق اختلاف ہے پہلا قول۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذوی القربیٰ کا حصہ آپ کی وفات کی وجہ سے ساقط ہوا اب تین حصول میں تقسیم ہوگا۔ ذوی القربیٰ کا حصہ بقول امام شافعی بوجہ قرابت ہے ہر فقیر و غنی اس کا حق دار ہے اور احناف کے ہاں بوجہ نصرت حق ہے اور وہ ساقط ہے۔ (التعلیق ج ٤‘ المرقات ج ٨)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ما افاء اللہ ۔۔۔ (الحشر : ٧ )
اللہ تعالیٰ کا ارشارد ہے : واعلموا انما غنمتم من شیء ۔۔۔ (الانفال : ٢)
نمبر 1: اور جو اللہ تعالیٰ بستیوں والوں سے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطاء کرے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرابت والوں اور یتیموں اور مساکین ‘ مسافروں کے لیے ہے۔
نمبر 2: اور جان جو کچھ تم مال غنیمت سے حاصل کرو تو بلاشبہ اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرابت داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں جس مال کا ذکر فرمایا ہے اس کا تعلق اس مال سے ہے جس کو مسلمان مشرکین سے بطور صلح حاصل کریں اور وہ مال جس کو ان سے بطور جزیہ جانوں کے بدلے میں لیا جائے اور اسی قسم کے جو دوسرے اموال ہیں۔
اور آیت دوم میں جس مال کا تذکرہ ہے اس سے مراد وہ مال ہے جو تلواروں کے ذریعہ غلبہ سے حاصل ہو۔ یا مدفون خزانہ ہو اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے پانچواں حصہ مقرر کیا اور اس سلسلہ میں متواتر روایات پائی جاتی ہیں۔
دو روایات بطور نمونہ ذکر کی جاتی ہیں۔

5236

۵۲۳۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلُہٗ .فَقَالَ لَہُ السَّائِلُ : یَا أَبَا مُحَمَّدٍ ، أَمَعَہٗ أَبُوْ سَلْمَۃَ ؟ فَقَالَ اِنْ کَانَ مَعَہٗ، فَہُوَ مَعَہٗ فَکَانَ حُکْمُ جَمِیْعِ الْفَیْئِ ، وَخُمُسُ الْغَنَائِمِ ، حُکْمًا وَاحِدًا .ثُمَّ تَکَلَّمَ النَّاسُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ فَلِلّٰہِ وَفِی الْغَنِیْمَۃِ فَأَنَّ لِلّٰہِ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : قَدْ وَجَبَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِذٰلِکَ سَہْمٌ فِی الْفَیْئِ ، وَفِیْ خُمُسِ الْغَنِیْمَۃِ ، فَجَعَلَ ذٰلِکَ السَّہْمَ فِیْ نَفَقَۃِ الْکَعْبَۃِ .وَرَوَوْا ذٰلِکَ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ کَتَبَ عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ،
٥٢٣٥: سعید بن المسیب نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ایک سائل کہنے لگا اے سفیان ابو محمد کیا ابو سلمہ ان کے ساتھ ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا اگر ابو سلمہ ان کے ساتھ ہوں تب بھی حکم میں ان کے ساتھ ہیں یعنی یہی حکم دینے والے ہیں۔ تمام فئی کا یہی حکم ہے اور خمس غنائم بھی اسی حکم میں ہے۔ لوگوں نے اس آیت فئی کے متعلق مختلف کلام کیا ہے۔ واعلموا انما غنمتم من شیء فان اللہ خمسہ والرسول ولذی القربی والیتامٰی والمساکین وابن السبیل “ (الایہ ٤١ سورة الانفال) اسی طرح غنیمت کے متعلق بھی کلام کیا ہے۔ فئی میں ایک حصہ لازم ہے اسی طرح غنیمت کے خمس میں بھی لازم ہے انھوں نے اس حصے کو بیت اللہ شریف پر خرچ کے لیے قرار دیا ہے۔ انھوں نے یہ ابوالعالیہ سے روایت کی ہے۔

5237

۵۲۳۶ : حَدَّثَنِیْ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ الرَّازِیِّ ، عَنِ الرَّبِیْعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤْتَی بِالْغَنِیْمَۃِ ، فَیَضْرِبُ بِیَدِہٖ، فَمَا وَقَعَ فِیْہَا مِنْ شَیْئٍ ، جَعَلَہُ لِلْکَعْبَۃِ ، وَہُوَ سَہْمُ بَیْتِ اللّٰہِ، ثُمَّ یَقْسِمُ مَا بَقِیَ خَمْسَۃً ، فَیَکُوْنُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمٌ ، وَلِذِی الْقُرْبَیْ سَہْمٌ ، وَلِلْیَتَامَیْ سَہْمٌ ، وَلِلْمَسَاکِیْنِ سَہْمٌ ، وَلِابْنِ السَّبِیْلِ سَہْمٌ .قَالَ : وَالَّذِیْ جَعَلَہُ لِلْکَعْبَۃِ ، ہُوَ السَّہْمُ الَّذِیْ جَعَلَہُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .وَذَہَبَ آخَرُوْنَ اِلَی مَا أَضَافَ اللّٰہُ - جَلَّ ثَنَاؤُہُ - اِلَی نَفْسِہِ مِنْ ذٰلِکَ ، أَنَّہٗ مِفْتَاحُ کَلَامٍ ، افْتَتَحَ بِہٖ مَا أَمَرَ مِنْ قِسْمَۃِ الْفَیْئِ ، وَخَمَّسَ الْغَنَائِمَ فِیْہِ، قَالُوْا : وَکَذٰلِکَ مَا أَضَافَہُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَرَوَوْا ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا .
٥٢٣٦: میری طرف علی بن عبدالعزیز (رح) نے لکھا کہ مجھے ابو عبیداللہ نے اپنی سند کے ساتھ ابوالعالیہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مال غنیمت لایا جاتا تو آپ اس میں ہاتھ ڈالتے اس میں سے جو کچھ ہاتھ میں آجاتا اس کو بیت اللہ شریف کے لیے قرار دے دیتے وہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہوتا پھر جو کچھ بچتا اس کو پانچ حصوں میں تقسیم فرماتے۔ ایک حصہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایک حصہ آپ کے قرابت داروں کے لیے ایک حصہ یتیموں کے لئے۔ ایک حصہ محتاجوں کے لیے اور ایک حصہ مسافروں کے لیے بیت اللہ شریف کے لیے وہی حصہ مقرر فرماتے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا۔ آیت میں فان اللہ خمسہ الایہ اس میں جس حصے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے تو نسبت آغاز کلام کے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غنائم کے خمس کی تقسیم کے حکم کی ابتداء فرمائی اور جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب ہے اس کا یہی مقصد ہے کہ کلام کا آغاز کرنے کے لیے یہ نسبت ذکر کی (کیوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خمس کو تقسیم کرنے والے ہیں) یہ بات حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے۔

5238

۵۲۳۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُجَّاجِ بْن سُلَیْمَانَ الْحَضْرَمِیُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ بْنِ رَاشِدٍ الْبَصْرِیُّ ، وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الْکُوْفِیُّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ، قَالُوْا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ کَانَتِ الْغَنِیْمَۃُ تُقْسَمُ عَلَی خَمْسَۃِ أَخْمَاسٍ ، فَأَرْبَعَۃٌ مِنْہَا لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہَا ، وَخُمُسٌ وَاحِدٌ یُقْسَمُ عَلٰی أَرْبَعَۃٍ ، فَرُبْعٌ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہِ وَلِذِی الْقُرْبَی ، یَعْنِی : قَرَابَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَمَا کَانَ لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ ، فَہُوَ لِقَرَابَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَمْ یَأْخُذْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخُمُسِ شَیْئًا ، وَالرُّبْعُ الثَّانِیْ لِلْیَتَامَی ، وَالرُّبْعُ الثَّالِثُ لِلْمَسَاکِیْنِ ، وَالرُّبْعُ الرَّابِعُ لِابْنِ السَّبِیْلِ ، وَہُوَ الضَّیْفُ الْفَقِیْرُ الَّذِیْ یَنْزِلُ الْمُسْلِمِیْنَ .وَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَعْنَی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ مِفْتَاحُ کَلَامٍ ، وَأَنَّ قَوْلَہُ وَلِلرَّسُوْلِ یَجِبُ بِہٖ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ سَہْمٌ ، وَکَذٰلِکَ مَا أَضَافَہُ اِلَی مَنْ ذَکَرَہُ فِیْ آیَۃٍ خُمُسِ الْغَنَائِمِ جَمِیْعًا .وَرَوَوْا ذٰلِکَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .
٥٢٣٧: علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ مال غنیمت پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا چار حصے غازیوں کے ہوتے اور ایک خمس چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا۔ ایک چوتھائی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور آپ کے قرابت والوں کے لیے ہوتا یعنی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ ہوتا وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت والوں کے لیے ہوتا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس میں سے کوئی چیز نہ لیتے تھے۔ دوسرا چوتھائی یتیموں اور تیسرا چوتھائی مساکین اور چوتھا چوتھائی مسافروں کے لیے اس سے مراد وہ فقیر مہمان ہیں جو مسلمانوں کے پاس آئے۔ آیت ” فان اللہ خمسہ “ یہ تو افتتاح کلام کے لیے ہے اور للرسول کے الفاظ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک حصہ کا لازم کرنا مراد ہے اور اسی طرح غنائم کے خمس میں جن تمام کا تذکرہ ہوا ان کے لیے حصہ کو لازم کرنا مراد ہے اور یہ حسن بن محمد بن علی (رض) سے مروی ہے۔ روایت یہ ہے۔
تیسرا قول : آیت ” فان اللہ خمسہ “ یہ تو افتتاح کلام کے لیے ہے اور للرسول کے الفاظ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک حصہ کا لازم کرنا مراد ہے اور اسی طرح غنائم کے خمس میں جن تمام کا تذکرہ ہوا ان کے لیے حصہ کو لازم کرنا مراد ہے اور یہ حسن بن محمد بن علی (رض) سے مروی ہے۔ روایت یہ ہے۔

5239

۵۲۳۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، مُوْسَی بْنُ مَسْعُوْدٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ح .
٥٢٣٨: موسیٰ بن مسعود نے سفیان ثوری (رح) سے روایت کی ہے۔

5240

۵۲۳۹ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیْ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ الْآیَۃَ .قَالَ : أَمَّا قَوْلُہٗ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ فَہُوَ مِفْتَاحُ کَلَامِ اللّٰہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ .فَاخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ قَائِلٌ : سَہْمُ ذَوِی الْقُرْبَی لِقَرَابَۃِ الْخَلِیْفَۃِ .وَقَالَ قَائِلٌ : سَہْمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِہٖ۔ ثُمَّ أَجْمَعَ رَأْیُہُمْ عَلٰی أَنْ جَعَلُوْا ہٰذَیْنِ السَّہْمَیْنِ فِی الْخَیْلِ وَالْعِدَّۃِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَکَانَ ذٰلِکَ فِیْ اِمَارَۃِ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْمَا یُقْسَمُ عَلَیْہِ الْفَیْئُ وَخُمُسُ الْغَنَائِمِ ہَذَا الِاخْتِلَافِ ، فَقَالَ کُلُّ فَرِیْقٍ مِنْہُمْ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ .وَجَبَ أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ أَقْوَالِہِمْ فِیْہِ قَوْلًا صَحِیْحًا . فَاعْتَبَرْنَا قَوْلَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّہُمَا یُقْسَمَانِ عَلَی سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَجَعَلُوْا مَا أَضَافَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلَی نَفْسِہِ مِنْ ذٰلِکَ یَجِبُ بِہٖ سَہْمٌ ، یُصْرَفُ فِیْ حَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی ، کَمَا ذَکَرُوْا ، ہَلْ لَہُ مَعْنَی أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا الْغَنِیْمَۃَ قَدْ کَانَتْ مُحَرَّمَۃً عَلَی مَنْ سِوَیْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ مِنَ الْأُمَمِ ، ثُمَّ أَبَاحَہُ اللّٰہُ لِہٰذِہِ الْأُمَّۃِ رَحْمَۃً مِنْہُ اِیَّاہَا وَتَخْفِیْفًا مِنْہُ عَنْہَا ، وَجَائَ تْ بِذٰلِکَ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٢٣٩: عبداللہ بن المبارک نے سفیان ثوری سے انھوں نے قیس بن مسلم سے نقل کیا ہے کہ میں نے حسن بن محمد بن علی (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق دریافت کیا۔ واعلموا انما غنمتم من شیٔ فان اللہ ۔ الایۃ وہ کہنے لگے ” فان اللہ خمسہ “ یہ ابتدا کلام ہے دنیا و آخرت میں کلام کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے نام سے ہے۔ وللرسول ولذی القربی الایۃ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذی القربیٰ ‘ یتامیٰ مساکین اور مسافروں کا تذکرہ حصوں کی تقسیم کے لیے ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کا حصہ باقی ہوگا یا نہیں۔ اس کے متعلق دو رائے ہوئیں۔ ذوالقربیٰ کا حصہ خلفاء کے قرابت داروں کے لیے ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ آپ کے بعد خلیفہ کے لیے ہوگا۔ پھر اس پر اتفاق صحابہ ہوا کہ یہ دونوں حصے گھوڑے اور جہاد کے اسلحہ کے لیے استعمال ہوں گے۔ یہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی خلافت میں تھا۔ اب جبکہ فئی اور خمس غنائم کی تقسیم میں یہ اختلاف ہوا اور ہر فریق نے وہ بات کہی جس کا ہم نے تذکرہ کیا تو اب ضروری ہوگیا کہ ہم ان کے اقوال سے صحیح قول سامنے لائیں۔ پس ہم نے اولاً اس قول کا جائزہ لیا جو اس کو چھ حصوں میں تقسیم کے قائل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والے حصہ کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنا لازم کیا (بیت اللہ کے لئے) جیسا کہ انھوں نے ذکر کیا کیا اس کا کوئی مطلب بنتا ہے یا نہیں۔ پس ہم نے غور کیا کہ اس امت کے علاوہ دیگر امتوں پر غنیمت کا استعمال حرام تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت کرتے ہوئے اور اس امت پر تخفیف کرتے ہوئے اس کو حلال فرمایا اور اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی آثار وارد ہیں ملاحظہ ہوں۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کا حصہ باقی ہوگا یا نہیں۔ اس کے متعلق دو رائے ہوئیں۔
نمبر 1: ذوالقربیٰ کا حصہ خلفاء کے قرابت داروں کے لیے ہے۔
نمبر 2: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ آپ کے بعد خلیفہ کے لیے ہوگا۔ پھر اس پر اتفاق صحابہ ہوا کہ یہ دونوں حصے گھوڑے اور جہاد کے اسلحہ کے لیے استعمال ہوں گے۔ یہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی خلافت میں تھا۔ اب جبکہ فئی اور خمس غنائم کی تقسیم میں یہ اختلاف ہوا اور ہر فریق نے وہ بات کہی جس کا ہم نے تذکرہ کیا تو اب ضروری ہوگیا کہ ہم ان کے اقوال سے صحیح قول سامنے لائیں۔
پس ہم نے اولاً اس قول کا جائزہ لیا جو اس کو چھ حصوں میں تقسیم کے قائل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والے حصہ کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنا لازم کیا (بیت اللہ کے لئے) جیسا کہ انھوں نے ذکر کیا کیا اس کا کوئی مطلب بنتا ہے یا نہیں۔
پس ہم نے غور کیا کہ اس امت کے علاوہ دیگر امتوں پر غنیمت کا استعمال حرام تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت کرتے ہوئے اور اس امت پر تخفیف کرتے ہوئے اس کو حلال فرمایا اور اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی آثار وارد ہیں ملاحظہ ہوں۔

5241

۵۲۴۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ ذَکْوَانَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : لَمْ تَحِلَّ الْغَنِیْمَۃُ لِأَحَدٍ سُوْدِ الرُّئُوْسِ قَبْلَنَا ، کَانَتِ الْغَنِیْمَۃُ تَنْزِلُ النَّارَ فَتَأْکُلُہَا ، فَنَزَلَتْ لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِی الْکِتَابِ السَّابِقِ .
٥٢٤٠: ذکوان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم سے پہلے یہ غنائم سیاہ سروں والی کسی قوم کے لیے حلال نہ تھی۔ آسمان سے آگ اتر کر غنیمت کو جلا دیتی تو یہ آیت اتری : لو لا کتاب من اللہ سبق۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھا ہوا سبقت نہ کرچکا ہوتا تو سابقہ لکھے کے مطابق تمہیں درد ناک عذاب پہنچتا۔
تخریج : ترمذی فی تفسیر سورة ٨‘ باب ٧‘ مسند احمد ٢؍٢٥٢۔

5242

۵۲۴۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ تَحِلَّ الْغَنِیْمَۃُ لِقَوْمٍ سُوْدِ الرُّئُوْسِ قَبْلَکُمْ ، کَانَتْ تَنْزِلُ نَارٌ مِنَ السَّمَائِ فَتَأْکُلُہَا حَتّٰی کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ ، فَوَقَعُوْا فِی الْغَنَائِمِ فَاخْتَلَفَ بِہِمْ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا .ثُمَّ اِنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوْا فِی الْأَنْفَالِ ، فَانْتَزَعَہَا اللّٰہُ مِنْہُمْ ، ثُمَّ جَعَلَہَا لِرَسُوْلِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ .
٥٢٤١: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ غنائم تم سے پہلے کسی سیاہ بالوں والی قوم کے لیے حلال نہ تھے بلکہ آسمان سے آگ آ کر ان کو جلا دیتی تھی یہاں تک کہ بدر کا دن آیا اور وہ غنائم میں مبتلا ہوئے اور اس کے متعلق ان میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لو لا کتاب من اللہ سبق۔۔۔ پھر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنیمت کے (تقسیم کے) متعلق اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے تقسیم کا حق چھین کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عنایت فرمایا اور یہ آیت اتاری : یسئلونک عن الانفال قل الانفال اللہ والرسول۔۔۔ آپ سے غنائم کے متعلق پوچھتے ہو تو آپ فرما دیں یہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہیں۔
تخریج : ترمذی فی تفسیر سورة ٨‘ باب ٧‘ مسند احمد ٢؍٢٥٢۔

5243

۵۲۴۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْحَارِسِ ، عَنْ سُلَیْمَانِ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْ بَدْرٍ ، فَلَقِیَ الْعَدُوَّ .فَلَمَّا ہَزَمَہُمْ اللّٰہٗ، اتَّبَعَتْہُمْ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُوْنَہُمْ وَأَحْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاسْتَوْلَتْ طَائِفَۃٌ بِالْعَسْکَرِ وَالنَّہْبِ .فَلَمَّا نَفَی اللّٰہُ الْعَدُوَّ ، وَرَجَعَ الَّذِیْنَ طَلَبُوْھُمْ ، قَالُوْا : لَنَا النَّفَلُ ، نَحْنُ طَلَبْنَا الْعَدُوَّ ، وَبِنَا نَفَاہُمْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہَزَمَہُمْ .وَقَالَ الَّذِیْنَ أَحْدَقُوْا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ مِنَّا ، نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا یَنَالُ الْعَدُوُّ مِنْہُ غُرَّۃً .وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتَوْلَوْا عَلَی الْعَسْکَرِ وَالنَّہْبِ : وَاللّٰہِ مَا أَنْتُمْ أَحَقُّ بِہٖ مِنَّا ، نَحْنُ حَوَیْنَاہُ وَاسْتَوْلَیْنَاہُ .فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِلَی قَوْلِہٖ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَقَسَمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمْ عَنْ فَوَاقٍ .
٥٢٤٢: حضرت ابو امامہ باہلی (رض) نے حضرت عبادہ بن الصامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف تشریف لے گئے پھر دشمن سے ٹکراؤ ہوا۔ پس جب اللہ نے دشمن کو شکست دے دی تو مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کا پیچھا کر کے ان کو قتل کیا اور ایک جماعت نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور ایک جماعت لشکر پر غلبہ پا کر مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی اور وہ لوگ لوٹ کر آئے جنہوں نے دشمن کا پیچھا کیا تھا وہ کہنے لگے غنیمت ہمارا حق ہے ہم نے دشمن کو ڈھونڈا اور ہماری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھگایا اور شکست دی۔ وہ لوگ جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا تھا وہ کہنے لگے تم ہم سے زیادہ غنیمت کے حقدار نہیں ہو۔ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور دشمن دھوکا دہی سے بھی آپ تک نہیں پہنچ سکا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے لشکر کی حفاظت کی اور لوٹ کر اکٹھا کیا وہ کہنے لگے اللہ کی قسم تم ہم سے زیادہ حقدار نہیں ہو۔ ہم نے لشکر کی حفاظت کی اور غنیمت پر قبضہ جمایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی : یسئلونک عن الانفال قل الانفال اللہ والرسول ۔۔۔ ان کنتم مؤمنین۔۔۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مکمل طور پر برابر تقسیم فرما دیا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٣٢٤۔

5244

۵۲۴۳ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا أَبُو النَّصْرِ ، قَالَ : ثَنَا الْأَشْجَعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ مَکْحُوْلٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَّامٍ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَحْوُہُ .وَلَمْ یَذْکُرْ عُبَادَۃَ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَقَسَمَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ فَوَاقٍ بَیْنَہُمْ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : اِنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَعْنٰی .
٥٢٤٣: ابو سلام نے ابو سلام نے حضرت ابو امامہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے اس میں حضرت عبادہ کا تذکرہ نہیں البتہ یہ لفظ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے مابین مکمل طور پر برابر تقسیم فرما دیا اور قرآن مجید کی یہ آیت اتری۔ یسئلونک عن الانفال الایہ۔
بعض علماء کا قول یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہ نہیں جیسا کہ یہ روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔

5245

۵۲۴۴ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ فِیْ قَوْلِہٖ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ .قَالَ : مَا نَدَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ غَیْرِ قِتَالٍ ، مِنْ دَابَّۃٍ وَنَحْوِ ذٰلِکَ ، فَہُوَ نَفْلٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَالَ : وَالدَّلِیْلُ عَلَیْ صِحَّۃِ ہَذَا التَّأْوِیْلِ ، مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَمْرِ أَبِیْ بَکْرَۃَ .
٥٢٤٤: عبدالملک بن سلیمان نے عطاء (رح) سے اس آیت کے متعلق نقل کیا۔ یسئلونک عن الانفال قل الانفال اللہ والرسول الایۃ۔ کہنے لگے مشرکین کا جو اونٹ ‘ غلام وغیرہ مسلمانوں کی طرف بلا قتال بھاگ کر آجائے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نفل ہے اور عطاء (رح) کہنے لگے اس تاویل کے درست ہونے کی دلیل وہ روایت ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بکرہ کے بارے میں فرمائی۔ (وہ روایت یہ ہے)

5246

۵۲۴۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : کَانَ مَنْ خَرَجَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الطَّائِفِ أَعْتَقَہٗ، فَکَانَ أَبُوْبَکْرَۃَ مِنْہُمْ ، فَہُوَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٢٤٥ : مقسم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ طائف کی لڑائی کے روز جو غلام قلعہ سے بھاگ کر آگئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو آزاد کردیا۔ حضرت ابو بکرہ انہی میں سے تھے۔ پس یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام تھے۔

5247

۵۲۴۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ الْخَلِیْلِ الْکُوْفِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : أَعْتَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الطَّائِفِ ، مَنْ خَرَجَ اِلَیْہِ مِنْ عَبِیْدِ الطَّائِفِ ، فَکَانَ مِمَّنْ عَتَقَ یَوْمَئِذٍ ، أَبُوْبَکْرَۃَ وَغَیْرُہٗ، فَکَانُوْا مَوَالِیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٢٤٦: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کی لڑائی کے روز قلعہ سے نکلنے والے تمام غلاموں کو آزاد کردیا ان آزاد ہونے والوں میں حضرت ابو بکرہ بھی شامل تھے۔ وہ سب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام تھے۔

5248

۵۲۴۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مُہَلْہَلٍ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ، عَنِ الشِّبَاکِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیْفٍ قَالَ : سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَرُدَّ اِلَیْنَا أَبَا بَکْرَۃَ ، فَأَبَیْ عَلَیْنَا وَقَالَ ہُوَ طَلِیْقُ اللّٰہِ، وَطَلِیْقُ رَسُوْلِہِ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْتَقَ أَبَا بَکْرَۃَ ، وَمَنْ نَزَلَ اِلَیْہِ مِنْ عَبِیْدِ الطَّائِفِ ، عِتْقًا صَارُوْا بِہٖ مَوَالِیَہٗ؟ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مِلْکَہُمْ کَانَ وَجَبَ لَہُ قَبْلَ الْعَتَاقِ ، دُوْنَ سَائِرِ مَنْ کَانَ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَأَنَّہُمْ اِذَا أُخِذُوْا بِغَیْرِ قِتَالٍ ، کَمَا لَوْ لَمْ یُوْجَفْ عَلَیْہِ بِخَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ ، وَذٰلِکَ لِرَسُوْلِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، دُوْنَ مَنْ سِوَاہٗ، مِمَّنْ کَانَ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : اِنَّ تَأْوِیْلَ ہٰذِہِ الْآیَۃِ أُرِیْدُ بِہٖ مَعْنًی غَیْرَ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ .
٥٢٤٧: شباک نے شعبی (رح) سے انھوں نے ثقیف کے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ وہ ابو بکرہ کو ہمیں واپس کردیں تو آپ نے انکار فرما دیا اور فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر آزاد شدہ ہے اور اللہ کے رسول نے اس کو آزاد کیا ہے۔ ان روایات میں غور فرمائیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بکرہ کو آزاد فرما دیا اور ان تمام غلاموں کو بھی آزاد فرما دیا جو قلعہ سے اتر کر آگئے تھے وہ آپ کے موالی بن گئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان پر آپ کی ملک عتاق سے قبل کامل تھی اور مسلمانوں کو ان پر ملک حاصل نہ ہوئی تھی۔ اس لیے کہ وہ بغیر لڑائی کے حاصل ہوئے تھے۔ جس طرح کہ وہ بستیاں جن پر پیدل و سوار فوج کو چڑھا کرلے جانے کی ضرورت نہ پڑی۔ یہ خاص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تھے دوسروں کا اس میں حق نہ تھا۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٦٨‘ ٣١٠۔
حاصل روایات : ان روایات میں غور فرمائیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بکرہ کو آزاد فرما دیا اور ان تمام غلاموں کو بھی آزاد فرما دیا جو قلعہ سے اتر کر آگئے تھے وہ آپ کے موالی بن گئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان پر آپ کی ملک عتاق سے قبل کامل تھی اور مسلمانوں کو ان پر ملک حاصل نہ ہوئی تھی۔ اس لیے کہ وہ بغیر لڑائی حاصل ہوئے تھے۔ جس طرح کہ وہ بستیاں جن پر پیدل و سوار فوج کو چڑھا کرلے جانے کی ضرورت نہ پڑی۔ یہ خاص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تھے دوسروں کا اس میں حق نہ تھا۔
(تو گویا نفل سے مراد وہ اموال ہیں جو بغیر لڑائی کے حاصل ہوں اور وہ اس آیت کی مراد ہیں (واللہ اعلم)
اس آیت کی ایک اور تفسیر ملاحظہ ہو۔
مندرجہ بالا دو معانی کے علاوہ بھی اس آیت کی تفسیر کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے۔

5249

۵۲۴۸ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمَ بَدْرٍ ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ فَعَلَ کَذَا وَکَذَا ، فَلَہُ کَذَا وَکَذَا .فَذَہَبَ شُبَّانُ الرِّجَالِ ، وَجَلَسَ شُیُوْخٌ تَحْتَ الرَّایَاتِ .فَلَمَّا کَانَتِ الْغَنِیْمَۃُ ، جَائَ الشُّبَّانُ یَطْلُبُوْنَ نَفْلَہُمْ ، فَقَالَ الشُّیُوْخُ : لَا تَسْتَأْثِرُوْا عَلَیْنَا ، فَاِنَّا کُنَّا تَحْتَ الرَّایَاتِ ، وَلَوْ انْہَزَمْتُمْ ، کُنَّا رِدْئً ا لَکُمْ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ فَقَرَأَ حَتَّیْ بَلَغَ کَمَا أَخْرَجَک رَبُّک مِنْ بَیْتِک بِالْحَقِّ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِہُوْنَ .یَقُوْلُ : أَطِیْعُوْا فِیْ ہٰذَا الْأَمْرَ ، کَمَا رَأَیْتُمْ عَاقِبَۃَ أَمْرِی ، حَیْثُ خَرَجْتُمْ وَأَنْتُمْ کَارِہُوْنَ ، فَقَسَمَ بَیْنَہُمْ بِالسَّوِیَّۃِ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَسَمَہُ کُلَّہٗ بَیْنَہُمْ کَمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ .وَکَانَ مَا أَضَافَہُ اللّٰہُ اِلَی نَفْسِہٖ، عَلٰی سَبِیْلِ الْفَرْضِ ، وَمَا أَضَافَہُ اِلٰی رَسُوْلِہٖ ، عَلٰی سَبِیْلِ التَّمْلِیکِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ وَجْہٌ آخَرُ أَیْضًا .
٥٢٤٨: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب بدر کا دن آیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جس نے فلاں کام اس طرح انجام دیا اس کو اتنا ملے گا جس نے اس طرح کیا اس کو یہ دیا جائے گا۔ جوان آگے بڑھ گئے اور بوڑھے جھنڈوں کے نیچے رہے۔ جب غنیمت جمع ہوگئی تو نوجوانوں نے اپنی خصوصی غنیمت کا مطالبہ کیا۔ بوڑھے بولے تم ہمارے مقابلے میں قابل ترجیح نہیں ہو۔ ہم تو جھنڈوں کی حفاظت میں ان کے نیچے رہے۔ اگر تم شکست کھا کر پیچھے ہٹتے تو ہم تمہارے لیے دفاعی معاون تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری یسئلونک عن الانفال الایۃ آپ نے یہ آیت لکارہون (آیت ٥ الانفال) تک تلاوت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اس غنیمت کے سلسلہ میں میرا حکم مانو ! جیسا کہ تم نے میرے حکم کا انجام پہلے دیکھ لیا کہ تم ناپسندیدگی کے ساتھ نکلے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں فتح دے دی۔ پس آپ نے ان کے مابین برابر تقسیم کردیا۔ ذرا غور سے دیکھو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مال غنیمت کو ان کے مابین تقسیم کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یسئلونک عن الانفال الایہ اتار کر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی طرف اس کی نسبت بطور فرض کے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بطور تملیک کے فرمائی ہے۔

5250

۵۲۴۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : نَزَلَتْ فِیْ أَرْبَعُ آیَاتٍ ، أَصَبْتُ سَیْفًا یَوْمَ بَدْرٍ ، فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، نَفِّلْنِیْہِ، فَقَالَ ضَعْہُ مِنْ حَیْثُ أَخَذْتُہُ .ثُمَّ قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ ، نَفِّلْنِیْہِ، فَقَالَ ضَعْہُ مِنْ حَیْثُ أَخَذْتہ قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، نَفِّلْنِیْہِ، فَقَالَ ضَعْہُ مِنْ حَیْثُ أَخَذْتہ ، أَتَجْعَلُ کَمَنْ لَا غِنَی لَہٗ، أَوْ قَالَ : أَوْ جَعَلَ کَمَنْ لَا غِنَی لَہُ الشَّکُّ مِنِ ابْنِ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : وَنَزَلَ یَسْأَلُوْنَک عَنِ الْأَنْفَالِ اِلَی آخَرِ الْآیَۃِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا ، الَّتِیْ أَبَاحَتِ الْغَنَائِمَ اِنَّمَا جُعِلَتْ فِیْ بَدْئِ تَحْلِیْلِہَا ، لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ .فَلَمْ یَکُنْ مَا أَضَافَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی مِنْہَا اِلَی نَفْسِہٖ، عَلٰی أَنْ یُصْرَفَ شَیْء ٌ مِنْہَا فِیْ حَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی ، فَیُصْرَفُ ذٰلِکَ فِیْ ذٰلِکَ الْحَقِّ بِعَیْنِہٖ، لَا یَجُوْزُ أَنْ یَتَعَدَّیْ اِلَی غَیْرِہٖ، وَیُصْرَفَ بِعَیْنِہَا اِلَیْ سَہْمٍ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَتَکُوْنُ مُقَسَّمَۃً عَلٰی سَہْمَیْنِ ، مَصْرُوْفَۃً فِیْ وَجْہَیْنِ ، بَلْ جُعِلَتْ کُلُّہَا مُتَصَرِّفَۃً فِیْ وَجْہٍ وَاحِدٍ ، وَہُوَ اِنْ جَعَلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ یَسْتَأْثِرْ بِہَا عَلٰی أَصْحَابِہٖ ، وَلَمْ یَخُصَّ بِہَا بَعْضَہُمْ دُوْنَ بَعْضٍ ، بَلْ عَمَّہُمْ بِہَا جَمِیْعًا ، وَسَوَّیْ بَیْنَہُمْ فِیْہَا ، وَلَمْ یُخْرِجْ مِنْہَا لِلّٰہِ خُمُسًا ، لِأَنَّ آیَۃَ الْخُمُسِ فَیْئُ الْأَفْیَائِ ، وَآیَۃُ الْغَنَائِمِ لَمْ تَکُنْ نَزَلَتْ عَلَیْہِ حِیْنَئِذٍ .فَفِیْمَا ذَکَرْنَا ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَمَّا نَزَلَتْ آیَۃُ الْغَنَائِمِ ، وَہِیَ الَّتِی وَقَعَ فِیْ تَأْوِیْلِہَا مِنْ الِاخْتِلَافِ مَا قَدْ ذَکَرْنَا ، أَنْ لَا یَکُوْنَ مَا أَضَافَ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْہَا اِلَی نَفْسِہِ مِنَ الْغَنَائِمِ ، یَجِبُ بِہٖ لِلّٰہِ فِیْہَا سَہْمٌ ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ السَّہْمُ ، خِلَافَ سَہْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا .وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ مِنْہُ عَلٰی أَنَّہٗ لَہٗ، عَزَّ وَجَلَّ ، فَرَضَ أَنْ یُقْسَمَ عَلٰی مَا سَمَّاہُ مِنَ الْوُجُوْہِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا .فَبَطَل بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ الْغَنِیْمَۃَ تُقْسَمُ عَلَی سِتَّۃِ أَسْہُمٍ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّہَا تُقْسَمُ عَلٰی أَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ ، اِلَی مَا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ فِیْ صَدْرِ ہٰذَا الْکِتَابِ ، وَاِنْ کَانَ خَبَرًا مُنْقَطِعًا ، لَا یَثْبُتُ مِثْلُہٗ ، غَیْرَ أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْآثَارِ یَقُوْلُوْنَ : اِنَّہٗ صَحِیْحٌ ، وَاِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، وَاِنْ کَانَ لَمْ یَکُنْ رَأَیْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَاِنَّمَا أَخَذَ ذٰلِکَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَعِکْرَمَۃَ ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٥٢٤٩: مصعب بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی کہ وہ فرمانے لگے میرے متعلق چار آیات نازل ہوئیں میں نے بدر کے دن ایک تلوار پائی۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بطور غنیمت مجھے عنایت فرما دیں آپ نے فرمایا اس کو وہیں رکھ دو جہاں سے تم نے یہ لی ہے۔ میں نے پھر کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ مجھے مال غنیمت میں مجھے عنایت فرما دیں آپ نے فرمایا تم نے یہ جہاں سے لی وہیں رکھ دو ۔ میں نے تیسری مرتبہ کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ بطور غنیمت مجھے عنایت ہو۔ آپ نے پھر فرمایا اس کو وہیں رکھ دو جہاں سے تم نے اس کو اٹھایا ہے۔ کیا تم اس طرح کر رہے ہو جیسے وہ شخص کرتا ہے جس کو اس چیز کے بغیر چارہ نہ ہو۔ (یہ شک ابن مرزوق راوی کو ہے) سعد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : یسئلونک عن الانفال۔۔۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان تمام آثار سے جن میں غنائم کا مباح ہونا مذکور ہوا تو شروع میں ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے مقرر کیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو اپنی ذات کے لیے منسوب کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حق پر خرچ کیا جائے۔ وہ بعینہ اس کے حق میں خرچ ہو اور کسی دوسری طرف اس کا پھیرنا درست نہ ہو اور اس کو اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ کی طرف پھیرا جائے اور اس کو دو حصوں پر تقسیم کر کے دو مقام پر خرچ کرنا لازم ہو۔ بلکہ اصل یہ ہے کہ تمام مال ایک ہی مصرف پر لگایا جائے گا اور وہ مصرف یہ ہے کہ اسے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ قرار دیا جائے اور اس میں آپ اپنے کو تقسیم میں صحابہ کرام سے نہ تو ترجیح دیں اور نہ ان کے مابین بعض کو عطاء اور بعض کو عدم عطاء والا معاملہ کریں بلکہ اس کو ان میں برابر تقسیم کریں اور اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) بھی نہ نکالا جائے۔ کیونکہ آیت خمس مال فئی سے متعلق نازل ہوئی اس وقت تک غنائم کے سلسلہ میں آیت نازل نہ ہوئی تھی۔ ہم نے جو ذکر کیا ہے اس میں اس بات پر دلالت پائی جاتی ہے کہ جب غنائم والی آیت نازل ہوئی اور وہ : یسئلونک عن الانفال قل الانفال اللہ وللرسول والذی القربٰی۔۔۔ ہے اس میں غنائم کے ایک حصے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا الگ حصہ مراد نہیں بلکہ وہی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ ہے وہ وہی حصہ ہے اس سے الگ نہیں۔ لیکن اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا تاکہ یہ بات لازم قرار دی جائے کہ جن جن کے حصے مقرر کئے گئے ہیں انہی پر تقسیم کئے جائیں۔ مال غنیمت میں چھ حصے ماننے والوں کی تردید : جب ان مقامات پر صرف کرنا لازم ہوا تو اس نے ان لوگوں ک اقول باطل ہوگیا جو غنیمت کو چھ حصوں میں تقسیم کے قائل ہیں۔ غنائم کے چار حصوں میں تقسیم کرنے والوں کے قول کی تردید : جو لوگ غنائم کو چار حصوں میں تقسیم کے قائل ہیں ان کی دلیل کا موازنہ کرتے ہیں اس سلسلہ میں روایت ابن عباس (رض) منقطع ہے وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ البتہ اہل علم کے کچھ آثار سے اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ غنیمت صدقہ ہے اور علی بن ابی طلحہ نے اگرچہ ابن عباس (رض) کو نہیں دیکھا مگر اس نے مجاہد و عکرمہ مولیٰ ابن عباس (رض) سے یہ قول اخذ کیا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل اثر سے ظاہر ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان تمام آثار سے جن میں غنائم کا مباح ہونا مذکور ہوا تو شروع میں ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے مقرر کیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو اپنی ذات کے لیے منسوب کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حق پر خرچ کیا جائے۔ وہ بعینہ اس کے حق میں خرچ ہو اور کسی دوسری طرف اس کا پھیرنا درست نہ ہو اور اس کو اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ کی طرف پھیرا جائے اور اس کو دو حصوں پر تقسیم کر کے دو مقام پر خرچ کرنا لازم ہو۔ بلکہ اصل یہ ہے کہ تمام مال ایک ہی مصرف پر لگایا جائے گا اور وہ مصرف یہ ہے کہ اسے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ قرار دیا جائے اور اس میں آپ اپنے کو تقسیم میں صحابہ کرام سے نہ تو ترجیح دیں اور نہ ان کے مابین بعض کو عطاء اور بعض کو عدم عطاء والا معاملہ کریں بلکہ اس کو ان میں برابر تقسیم کریں اور اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) بھی نہ نکالا جائے۔ کیونکہ آیت خمس مال فئی سے متعلق نازل ہوئی اس وقت تک غنائم کے سلسلہ میں آیت نازل نہ ہوئی تھی۔ ہم نے جو ذکر کیا ہے اس میں اس بات پر دلات پائی جاتی ہے کہ جب غنائم والی آیت نازل ہوئی اور وہ یہ یسئلونک عن الانفال قل الانفال اللہ وللرسول والذی القربٰی الایہ ہے اس میں غنائم کے ایک حصے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا الگ حصہ مراد نہیں بلکہ وہی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ ہے وہ وہی حصہ ہے اس سے الگ نہیں۔ لیکن اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا تاکہ یہ بات لازم قرار دی جائے کہ جن جن کے حصے مقرر کئے گئے ہیں انی پر تقسیم کئے جائیں۔
مالِ غنیمت میں چھ حصے ماننے والوں کی تردید :
جب ان مقامات پر صرف کرنا لازم ہوا تو اس نے ان لوگوں ک اقول باطل ہوگیا جو غنیمت کو چھ حصوں میں تقسیم کے قائل ہیں۔
غنائم کے چار حصوں میں تقسیم کرنے والوں کے قول کی تردید :
جو لوگ غنائم کو چار حصوں میں تقسیم کے قائل ہیں ان کی دلیل کا موازنہ کرتے ہیں اس سلسلہ میں روایت ابن عباس (رض) منقطع ہے وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ البتہ اہل علم کے کچھ آثار سے اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ غنیمت صدقہ ہے اور علی بن ابی طلحہ نے اگرچہ ابن عباس (رض) کو نہیں دیکھا مگر اس نے مجاہد و عکرمہ مولیٰ ابن عباس (رض) سے یہ قول اخذ کیا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل اثر سے ظاہر ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

5251

۵۲۵۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ فَہْمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ یَقُوْلُ لَوْ أَنَّ رَجُلًا رَحَلَ اِلَی مِصْرٍ ، فَانْصَرَفَ مِنْہَا بِکِتَابِ التَّأْوِیْلِ لِمُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، مَا رَأَیْتُ رِحْلَتہ ذَہَبَتْ بَاطِلَۃً .فَوَجَدْنَا مَا أُضِیْفَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالتَّحِیَّۃَ فِیْ آیَۃِ الْأَنْفَالِ ، قَدْ کَانَ التَّمْلِیکُ ، لَا عَلٰی مَا سِوَاہُ .فَقَدْ کَانَ فِیْ ہٰذَا حُجَّۃٌ قَاطِعَۃٌ ، تُغْنِیْنَا عَنْ الِاحْتِجَاجِ بِمَا سِوَاہَا ، عَلٰی أَہْلِ ہٰذَا الْقَوْلِ .وَلٰـکِنَّا نُرِیْدُ فِی الِاحْتِجَاجِ عَلَیْہِمْ فَنَقُوْلُ : قَدْ وَجَدْنَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَضَافَ اِلٰی رَسُوْلِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا مِنَ الْفَیْئِ فِیْ غَیْرِ الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ قَدَّمْنَا ذِکْرَہُمَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، فَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی التَّمْلِیکِ مِنْہُ اِیَّاہٗ، مَا أَضَافَہُ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ .
٥٢٥٠: علی بن حسین بن عبدالرحمن بن فہم کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل (رح) کو فرماتے سنا کہ اگر کوئی مصر کا سفر کرے اور وہاں سے معاویہ بن صالح کی کتاب التاویل لے آئے تو اس کا سفر بےکار نہیں گیا۔ پس ہمارے ہاں آیت انفال میں جو کچھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ تملیک کو ظاہر کرنے کے لیے ہے اور کسی مقصد کے لیے نہیں۔ اس میں خود ایسی قطعی دلیل ہے جو کہ کسی اور روایت کے ان قول والوں کے خلاف دلیل بنانے سے ہمیں بےنیاز کرتی ہے مگر اتمام حجت کے طور پر ہم مزید دلیل پیش کئے دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات کے علاوہ بھی فئی کی نسبت اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی ہے۔ جو اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ وہ اضافت تملیک کے لیے ہے جیسا کہ سورة حشر کی یہ آیت : وما افاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب (الحشر : ٦) روایت ملاحظہ ہو۔

5252

۵۲۵۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَأَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَا : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ النَّضْرِیِّ ، قَالَ : أَرْسَلَ اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ اِنَّہٗ قَدْ حَضَرَ الْمَدِیْنَۃَ أَہْلُ أَبْیَاتِ قَوْمِکَ، وَقَدْ أَمَرْنَا لَہُمْ بِرَضْخٍ ، فَاقْسِمْہُ بَیْنَہُمْ .فَبَیْنَا أَنَا کَذٰلِکَ ، اِذْ جَائَ ہُ حَاجِبُہُ یَرْفَأُ ، فَقَالَ : ہَذَا عُثْمَانُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، وَسَعْدٌ ، وَالزُّبَیْرُ ، وَطَلْحَۃُ یَسْتَأْذِنُوْنَ عَلَیْکَ فَقَالَ ائْذَنْ لَہُمْ .ثُمَّ مَکَثْنَا سَاعَۃً فَقَالَ : ہٰذَا الْعَبَّاسُ وَعَلِیٌّ یَسْتَأْذِنَانِ عَلَیْکَ فَقَالَ ائْذَنْ لَہُمَا .فَدَخَلَ الْعَبَّاسُ ، قَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، اقْضِ بَیْنِیْ وَبَیْنَ ہَذَا الرَّجُلِ ، وَہُمَا - حِیْنَئِذٍ - فِیْمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِی النَّضِیرِ .فَقَالَ الْقَوْمُ : اقْضِ بَیْنَہُمَا یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَأَرِحْ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَنْ صَاحِبِہٖ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ الَّذِی بِاِذْنِہِ تَقُوْمُ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ، أَتَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُوْرَثُ ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃً قَالُوْا : قَدْ قَالَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُمَا مِثْلَ ذٰلِکَ ، فَقَالَا : نَعَمْ .قَالَ : فَاِنِّیْ سَأُخْبِرُکُمْ عَنْ ہٰذَا الْفَیْئِ ، اِنَّ اللّٰہ خَصَّ نَبِیَّہُ بِشَیْئٍ لَمْ یُعْطِہٖ غَیْرَہُ فَقَالَ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوَجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ فَوَاللّٰہِ مَا احْتَازَہَا دُوْنَکُمْ ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِہَا عَلَیْکُمْ ، وَلَقَدْ قَسَمَہَا بَیْنَکُمْ ، وَبَثَّہَا فِیْکُمْ ، حَتَّیْ بَقِیَ مِنْہَا ہٰذَا الْمَالُ ، وَکَانَ یُنْفِقُ مِنْہُ عَلٰی أَہْلِہٖ رِزْقَ سَنَۃٍ ، ثُمَّ یَجْمَعُ مَا بَقِیَ مَجْمَعَ مَالِ اللّٰہِ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ قَوْلَہُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ ہُوَ عَلَی فَیْئٍ تَمَلَّکَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنَ سَائِرِ النَّاسِ ، لَیْسَ عَلَی مِفْتَاحِ الْکَلَامِ الَّذِیْ یَجِبُ لَہُ بِہٖ مِلْکٌ .فَکَذٰلِکَ مَا أَضَافَہُ اِلَیْہِ أَیْضًا فِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ وَفِیْ آیَۃِ الْغَنِیْمَۃِ اللَّتَیْنِ قَدَّمْنَا ذِکْرَہُمَا فِیْ صَدْرِ ہٰذَا الْکِتَابِ ، ہُوَ عَلَی التَّمْلِیکِ مِنْہٗ، لَیْسَ لَہٗ عَلَی افْتِتَاحِ الْکَلَامِ الَّذِی لَا یَجِبُ لَہُ بِہٖ مِلْکٌ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْفَیْئَ وَالْخُمُسَ مِنَ الْغَنَائِمِ ، قَدْ کَانَا فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصْرَفَانِ فِیْ خَمْسَۃِ أَوْجُہٍ ، لَا فِیْ أَکْثَرَ مِنْہَا ، وَلَا فِیْمَا دُوْنَہَا .وَقَدْ کَتَبَ اِلَیَّ عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ
٥٢٥١: مالک بن اوس نضری کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے میری طرف پیغام بھیج کر فرمایا تمہاری قوم کے لوگ مدینہ منورہ میں آئے ہیں ہم نے ان کے لیے تھوڑے سے عطیے کا فیصلہ کیا ہے پس تم آ کر ان میں تقسیم کر دو ۔ میں اسی حالت میں تھا کہ آپ کا دربان یرفا ٔ آگیا اور کہنے لگا یہ عثمان ‘ عبدالرحمن ‘ سعد ‘ زبیر ‘ طلحہ (رض) آپ کے پاس حاضری کی اجازت چاہتے ہیں آپ نے فرمایا ان کو اجازت دے دو ۔ پھر ابھی ذرا سی دیر گزری تھی کہ یرفأ نے آ کر کہا یہ عباس و علی (رض) آپ کے ہاں آنے کی اجازت چاہتے ہیں انھوں نے فرمایا ان کو اجازت دے دو ۔ پس عباس (رض) نے داخل ہوتے ہی کہا اے امیرالمؤمنین میرے اور اس آدمی کے درمیان فیصلہ کر دو ۔ وہ دونوں اموال بنی نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے متعلق جھگڑ رہے تھے۔ تمام حاضرین نے کہا اے امیرالمؤمنین ان کے مابین فیصلہ فرما کر ہر ایک کو دوسرے سے راحت پہنچائیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ” لا نورث ماترکناہ صدقۃً “ دونوں نے جواب میں کہا بالکل آپ نے یہ بات فرمائی ہے پھر دوسری مرتبہ یہی بات کہی انھوں نے جواب میں نعم کہا۔ پھر فرمایا میں تمہیں اس فئی کے متعلق بتلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں سے کس چیز کے ساتھ خاص کیا وہ دوسروں کو نہ دی چنانچہ فرمایا وما افاء اللہ علی رسول (الحشر : ٦) اللہ کی قسم اس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے علاوہ اور کسی کے لیے اٹھا نہیں رکھا اور نہ اس کے سلسلے میں تمہارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی۔ آپ نے وہ مال تم پر تقسیم کردیا اور تم میں پھیلا دیا یہاں تک کہ اس میں سے یہ بچ گیا۔ آپ اس میں سے اپنے اہل کے لیے ایک سال کا خرچہ لیتے تھے۔ پھر بقیہ مال کو اللہ تعالیٰ کا مال قرار دے کر جمع کردیتے۔ اس ارشاد الٰہی : ماافاء اللہ علی رسول منہم (الحشر ٦) اس میں اس فئی کا ذکر ہے جو لوگوں کی بجائے آپ کی ملک ہے۔ یہ افتتاح کلام میں نہیں کہ جس سے ملک لازم نہ ہوتی ہو۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ فئی اور خمس غنائم سے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں پانچ مواقع میں اس کو صرف کیا جاتا تھا۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ پس چار حصوں میں تقسیم غنائم والا قول غلط ٹھہرا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : روایت لا نورث ما ترکنا صدقہ کی اسناد یہ ہیں۔ بخاری فی الخمس باب ١‘ فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب ١٢‘ المغازی باب ١٤‘ النفقات باب ٣‘ الفرائض باب ٣‘ الاعتصام باب ٥‘ مسلم فی الجہاد ٤٩؍٥٢‘ ابو داؤد فی الامارہ باب ١٩‘ ترمذی فی السیر باب ٤٤‘ نسائی فی الفی باب ٩‘ ١٦‘ مالک فی الکلام ٢٧‘ مسند احمد ١؍٤‘ ٦٠‘ ١٦٤‘ ٢؍٤٦٣‘ ٦؍١٤٥۔
نوٹ : اس ارشاد الٰہی ماافاء اللہ علی رسولہ منہم (الحشر : ٦) اس میں اس فئی کا ذکر ہے جو لوگوں کی بجائے آپ کی ملک ہے۔ یہ افتتاح کلام میں نہیں کہ جس سے مالک لازم نہ ہوتی ہو۔
پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ فئی اور خمس غنائم سے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں پانچ مواقع میں اس کو صرف کیا جاتا تھا۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ پس چار حصوں میں تقسیم غنائم والا قول غلط ٹھہرا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

5253

۵۲۵۲ : یُحَدِّثُنِیْ، عَنْ أَبِیْ عُبَیْدٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُفَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ جَعْفَرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : رَأَیْتُ الْغَنَائِمَ تُجَزَّأُ خَمْسَۃَ أَجْزَائٍ ، ثُمَّ تُسْہَمُ عَلَیْہِمْ ، فَمَا أَصَابَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ لَہٗ، لَا تُحْتَازُ .
٥٢٥٢: میری طرف علی بن عبدالعزیز نے یہ روایت لکھی کہ نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے غنائم کو دیکھا کہ وہ پانچ حصوں میں تقسیم کئے جاتے تھے۔ جو اس میں سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہوتا وہ اور کسی کے لیے جمع نہ کیا جاتا۔
لغات : تحتاز۔ جمع کرنا۔ تجزاء۔ اجزاء بنانا۔

5254

۵۲۵۳ : ثُمَّ حَدَّثَنِیْہِ یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، وَسَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ ، فَذَکَرَہٗ بِاِسْنَادِہِ وَمَتْنِہِ عَنْہُمَا .
٥٢٥٣: یحییٰ بن عثمان نے اپنے والد اور سعید بن عفیر سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5255

۵۲۵۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : مِمَّا أَصَابَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ لَہٗ، وَیَقْسِمُ الْبَقِیَّۃَ بَیْنَہُمْ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ، وَعَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ .
٥٢٥٤: ابن المبارک نے ابن لہیعہ سے پھر اس نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ یہ الفاظ مختلف ہیں جو حصہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچتا وہ آپ ہی کے ساتھ خاص ہوتا اور بقیہ ان کے مابین تقسیم کردیا جاتا اور یہ روایت یحییٰ بن جزار اور عطاء بن ابی رباح (رح) سے بھی مروی ہے۔

5256

۵۲۵۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ الْجَزَّارِ یَقُوْلُ : سَہْمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ .
٥٢٥٥: موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار کو کہتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ خمس کا خمس ہوتا تھا۔

5257

۵۲۵۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ خُمُسُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَخُمُسُ الرَّسُوْلِ ، وَاحِدٌ . ثُمَّ تَکَلَّمُوْا فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ وَلِذِی الْقُرْبَی مَنْ ہُمْ ؟ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : ہُمْ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، الَّذِیْنَ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃَ ، لَا مَنْ سِوَاہُمْ مِنْ ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُمْ مِنَ الْفَیْئِ ، وَمِنْ خُمُسِ الْغَنَائِمِ ، مَا جَعَلَ لَہُمْ مِنْہَا بَدَلًا مِمَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنِ الصَّدَقَۃِ .وَقَالَ قَوْمٌ : ہُمْ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً ، دُوْنَ مَنْ سِوَاہُمْ مِنْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَالَ قَوْمٌ : ہُمْ قُرَیْشٌ کُلُّہَا ، الَّذِیْنَ یَجْمَعُہُ وَاِیَّاہُمْ أَقْصَی آبَائِہِ مِنْ قُرَیْشٍ ، دُوْنَ مَنْ سِوَاہُمْ ، مِمَّنْ یُقَارِبُہٗ مِنْ قِبَلِ أُمَّہَاتِہٖ، مِمَّنْ لَیْسَ مِنْ قُرَیْشٍ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ أَنْ یَعُمَّہُمْ ، اِنَّمَا کَانَ عَلَیْہِ أَنْ یُعْطِیَ مَنْ رَأَیْ اِعْطَائَ ہُ مِنْہُمْ دُوْنَ بَقِیَّتِہِمْ .وَقَالَ قَوْمٌ : ہُمْ قَرَابَتُہُ مِنْ قِبَلِ آبَائِہِ اِلٰی أَقْصَی أَبٍ لَہٗ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَمِنْ قِبَلِ أُمَّہَاتِہِ اِلٰی أَقْصَی أُم ، لِکُلِّ أُم مِنْہُنَّ مِنَ الْعَشِیْرَۃِ الَّتِیْ ہِیَ مِنْہَا .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ أَنْ یَعُمَّہُمْ بِعَطِیَّتِہٖ، اِنَّمَا یُعْطِیْ مَنْ رَأَیْ اِعْطَائَ ہُ مِنْہُمْ .وَقَدْ احْتَجَّ کُلُّ فَرِیْقٍ مِنْہُمْ لِمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ ، بِمَا سَنَذْکُرُہٗ فِیْ کِتَابِنَا ہٰذَا، وَنَذْکُرُ مَعَ ذٰلِکَ مَا یَلْزَمُہُ مِنْ مَذْہَبِہٖ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَأَمَّا أَہْلُ الْقَوْلِ الْأَوَّلِ الَّذِیْنَ جَعَلُوْھُ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ خَاصَّۃً ، فَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَصَّہُمْ بِذٰلِکَ ، بِتَحْرِیْمِہٖ الصَّدَقَۃَ عَلَیْہِمْ .فَاِنَّ قَوْلَہُمْ ہَذَا - عِنْدَنَا - فَاسِدٌ ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَا حُرِّمَتِ الصَّدَقَۃُ عَلَی بَنِیْ ہَاشِمٍ ، قَدْ حَرَّمَہَا عَلَی مَوَالِیْہِمْ کَتَحْرِیْمِہِ اِیَّاہَا عَلَیْہِمْ ، وَتَوَاتَرَتْ عَنْہُ الْآثَارُ بِذٰلِکَ .
٥٢٥٦: عبدالملک بن ابی سلیمان نے عطاء (رح) سے روایت کی کہ خمس اللہ تعالیٰ کا اور خمس الرسول یہ ایک ہی چیز ہے۔ بعض نے کہا اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ولذی القربٰی (الحشر ٧) کے متعلق کلام کیا گیا کہ اس سے مراد کون ہیں ؟ مراد بنو ہاشم ہیں کہ جن پر صدقہ حرام کیا گیا ان کے علاوہ آپ کے قرابت والوں کا فئی میں حصہ نہیں۔ صدقہ کے ان پر حرام کردینے کے بدلے ان کے لیے خمس غنائم مقرر کیا گیا۔ اس سے مراد خاص بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں۔ اس کے علاوہ قرابت داران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں شامل نہیں۔ تمام قریش مراد ہیں جو آپ کے ساتھ قریش (بنو کنانہ) ہونے میں شریک ان کے علاوہ مراد نہیں جو کہ والدہ کی طرف سے تو اقارب پر لازم نہیں تھا کہ تمام کو دیں آپ کو اختیار تھا کہ جن کو مناسب خیال فرمائیں دیں۔ مراد وہ قرابت دار ہیں باپ کی طرف سے قریش کے آخری والد تک اور والدہ کی طرف۔ آخری ماں تک ہر ماں کا وہ قبیلہ جس سے وہ ہے۔ البتہ ان تمام کو عطیہ دینا لازم نہ تھا۔ آپ کی رائے پر موقوف تھا جس کو مناسب خیال کریں دیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے قول کے لیے دلیل پیش کی جو آئندہ ذکر کی جائے گی۔ ہم وہاں اس قول کے لوازمات میں ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ پہلا قول یہ ہے کہ یہ بنی ہاشم کے ساتھ مخصوص ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریم صدقہ کے ساتھ خاص کیا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک ان کا یہ قول غلط ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صدقہ کو حرام کیا تو موالی بنی ہاشم کے لیے بھی حرام کیا۔ جیسا کہ بنی ہاشم پر حرام کیا اور اس سلسلہ میں بہت سی روایات ہیں چند نقل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ولذی القربٰی (الحشر ٧) کے متعلق کلام کیا گیا کہ اس سے مراد کون ہیں ؟
نمبر 1: مراد بنو ہاشم ہیں کہ جن پر صدقہ حرام کیا گیا ان کے علاوہ آپ کے قرابت والوں کا فئی میں حصہ نہیں۔ صدقہ کے ان پر حرام کردینے کے بدلے ان کے لیے خمس غنائم مقرر کیا گیا۔
نمبر 2: اس سے مراد خاص بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں۔ اس کے علاوہ قرابت داران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں شامل نہیں۔
نمبر 3: تمام قریش مراد ہیں جو آپ کے ساتھ قریش (بنو کنانہ) ہونے میں شریک ان کے علاوہ مراد نہیں جو کہ والدہ کی طرف سے تو اقارب تھے مگر قریش نہ تھے (اوپر والے اجداد میں شریک تھے) البتہ آپ پر لازم نہیں تھا کہ تمام کو دیں آپ کو اختیار تھا کہ جن کو مناسب خیال فرمائیں دیں۔
نمبر 4: مراد وہ قرابت دار ہیں باپ کی طرف سے قریش کے آخری والد تک اور والدہ کی طرف۔ آخری ماں تک ہر ماں کا وہ قبیلہ جس سے وہ ہے۔ البتہ ان تمام کو عطیہ دینا لازم نہ تھا۔ آپ کی رائے پر موقوف تھا جس کو مناسب خیال کریں دیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے قول کے لیے دلیل پیش کی جو آئندہ ذکر کی جائے گی۔ ہم وہاں اس قول کے لوازمات میں ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
پہلا قول اور اس کی حقیقت :
پہلا قول یہ ہے کہ یہ بنی ہاشم کے ساتھ مخصوص ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریم صدقہ کے ساتھ خاص کیا ہے۔
مگر ہمارے نزدیک ان کا یہ قول غلط ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صدقہ کو حرام کیا تو موالی بنی ہاشم کے لیے بھی حرام کیا۔ جیسا کہ بنی ہاشم پر حرام کیا اور اس سلسلہ میں بہت سی روایات ہیں چند نقل کرتے ہیں۔

5258

۵۲۵۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الْمِقْسَمِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اسْتَعْمَلَ أَرَقْمَ بْنَ أَرْقَمَ عَلَی الصَّدَقَاتِ ، فَاسْتَتْبَعَ أَبَا رَافِعٍ ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ فَقَالَ یَا أَبَا رَافِعٍ ، اِنَّ الصَّدَقَۃَ حَرَامٌ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَاِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ .
٥٢٥٧: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارقم بن ارقم کو صدقات کا عامل بنایا تو انھوں نے ابو رافع (رض) جو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ ابو رافع جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ سے اجازت مانگی تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ اے ابو رافع صدقہ محمد اور آل محمد پر حرام ہے اور قوم کا غلام انہی میں سے ہوتا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٨۔

5259

۵۲۵۸ : حَدَّثَنَا بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ ، وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ رَافِعٍ ، مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ مَخْزُوْمٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ لِأَبِیْ رَافِعٍ : اصْحَبْنِیْ کَیْمَا نُصِیْبُ مِنْہَا .فَقَالَ : حَتّٰی أَسْتَأْذِنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَہٗ، فَقَالَ اِنَّ آلَ مُحَمَّدٍ ، لَا یَحِلُّ لَہُمْ الصَّدَقَۃُ ، وَاِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ .
٥٢٥٨ حکم نے ابن ابی رافع مولی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے اپنے والد ابو رافع (رض) سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مخزوم کے ایک آدمی کو صدقہ کا عامل بنایا اس نے ابو رافع (رض) کو کہا کہ تم میرے ساتھ چلو تاکہ ہم اس میں سے اپنا حصہ پائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت حاصل کرلوں۔
تشریح چنانچہ ابو رافع (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اجازت کے لیے حاضر ہوئے اور اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ آل محمد کے لیے صدقہ حلال نہیں اور قوم کا غلام انہی میں سے ہوتا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١۔

5260

۵۲۵۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ کُلْثُوْمٍ ، ابْنَۃِ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَقَالَتْ : اِنَّ مَوْلًی لَنَا یُقَالُ لَہُ ہُرْمُزُ ، أَوْ کَیْسَانُ ، أَخْبَرَ أَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَدَعَانِیْ فَقَالَ یَا أَبَا فُلَانٍ ، اِنَّا أَہْلُ بَیْتٍ قَدْ نُہِیْنَا أَنْ نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ ، وَاِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ ، فَلَا تَأْکُلْ الصَّدَقَۃَ .فَلَمَّا کَانَتِ الصَّدَقَۃُ الْمُحَرَّمَۃُ عَلَی بَنِیْ ہَاشِمٍ ، قَدْ دَخَلَ فِیْہِمْ مَوَالِیْہمْ ، وَلَمْ یَدْخُلْ مَوَالِیْہمْ مَعَہُمْ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ فَسَادُ قَوْلِ مَنْ قَالَ اِنَّمَا جُعِلَتْ لِذَوِی الْقُرْبَی فِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ ، وَفِیْ آیَۃِ خُمُسِ الْغَنِیْمَۃِ ، بَدَلًا مِمَّا حَرَّمَ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃَ .وَیَفْسُدُ ہٰذَا الْقَوْلُ أَیْضًا مِنْ جِہَۃٍ أُخْرَی ، وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الصَّدَقَۃَ لَوْ کَانَتْ حَلَالًا لِبَنِیْ ہَاشِمٍ ، کَہِیَ لِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ ، لَکَانَتْ حَرَامًا عَلٰی أَغْنِیَائِہِمْ ، کَحُرْمَتِہَا عَلٰی أَغْنِیَائِ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ مِمَّنْ سِوَاہُمْ .وَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ بَنِیْ ہَاشِمٍ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ جَمِیْعًا ، وَفِیْہِمُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ ، وَقَدْ کَانَ مُوْسِرًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَالْاِسْلَامِ جَمِیْعًا .أَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ تَعَجَّلَ مِنْہُ زَکَاۃَ مَالِہِ عَامَیْنِ ؟ فَلَمَّا رَأَیْنَا یَسَارَہُ لَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، وَکَانَ ذٰلِکَ الْیَسَارُ یَمْنَعُہٗ مِنِ الصَّدَقَۃِ قَبْلَ تَحْرِیْمِ اللّٰہِ اِیَّاہَا عَلَی بَنِیْ ہَاشِمٍ ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی لَمْ یُجْعَلْ لِمَنْ یُجْعَلُ لَہُ خَلَفًا مِنِ الصَّدَقَۃِ الَّتِی حُرِّمَتْ عَلَیْہِ .وَأَمَّا الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ ذَوِی الْقُرْبَی فِی الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ قَدَّمْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْکِتَابِ ، ہُمْ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً .فَاِنَّہُمْ احْتَجُّوْا لِقَوْلِہِمْ بِمَا رَوَی جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .
٥٢٥٩: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ میں حضرت امّ کلثوم بنت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے فرمایا ہے ہمارے ایک غلام کا نام ہرمز ہے یا کیسان ہے۔ اس نے بتلایا کہ میرا گزر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہوا آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا اے ابو فلاں۔ ہم اہل بیت نبوت کو صدقہ کھانے سے منع کیا گیا ہے اور قوم کا غلام انہی سے ہوتا ہے پس صدقہ مت کھانا۔ صدقہ بنی ہاشم پر جس طرح حرام ہے ان کے موالی پر بھی حرام کیا گیا ہے مگر تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ ذوالقربیٰ کے حصہ میں موالی کو داخل نہیں کیا گیا۔ اس سے ان لوگوں کی دلیل کی کمزوری ظاہر ہوگئی کہ آیت فئی اور آیت خمس غنیمت میں ذوی القربیٰ کے حصہ کی وجہ صدقہ کی حرمت ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس کا عوض دیا ہے۔ نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ اگر صدقہ تمام بنی ہاشم کے لیے عام مسلمانوں کی طرح حلال ہوتا تو ان کے مالداروں پر حرام ہو جیسا کہ عامۃ المسلمین میں مالداروں پر صدقہ حرام ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذوی القربیٰ کے حصہ میں امیر و غریب کے احتیاز کے بغیر سب ہی شامل ہیں حضرت عباس (رض) کو بھی یہ حصہ ملتا تھا حالانکہ وہ جاہلیت و اسلام دونوں میں خوشحال تھے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے دو سال کی پیشگی زکوۃ طلب کی (تو زکوۃ مالدار پر لازم ہے) جب حضرت عباس (رض) کی خوشحالی ذوی القربیٰ کے حصہ سے ان کے لیے مانع نہ تھی اور یہ خوش حالی صدقے کو بنی ہاشم پر حرام ہونے سے بھی ان پر صدقہ حرام کرنے والی تھی۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ بنی ہاشم کے لیے ذوی القربیٰ کا حصہ صدقہ کی حرمت کے بدلے نہیں ہے۔ ان لوگوں کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ذوی القربیٰ سے مراد دونوں آیات میں بنو ہاشم اور بنو مطلب مراد ہیں انھوں نے اپنی دلیل میں حضرت جبیر بن مطعم (رض) کی روایت کو پیش کیا ہے۔

5261

۵۲۶۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَحْرِ بْنِ مَطَرٍ الْبَغْدَادِیَّانِ ، قَالَا : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی بِہٖ أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَلَمْ یُعْطِ بَنِیْ أُمَیَّۃَ شَیْئًا .فَأَتَیْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ ، رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہٰؤُلَائِ بَنُوْ ہَاشِمٍ فَضَّلَہُمْ اللّٰہُ بِکَ، فَمَا بَالُنَا وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ؟ وَاِنَّمَا نَحْنُ وَہُمْ فِی النَّسَبِ شَیْء ٌ وَاحِدٌ .فَقَالَ اِنَّ بَنِی الْمُطَّلَبِ لَمْ یُفَارِقُوْنِیْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَالْاِسْلَامِ .قَالُوْا : فَلَمَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ عَمَّ بِعَطِیَّتِہِ مَا أُمِرَ أَنْ یُعْطِیَہُ ذَوِیْ قُرْبَاہٗ، بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَحَرَمَ مَنْ فَوْقَہُمْ ، فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَنْ فَوْقَہُمْ لَیْسُوْا مِنْ ذَوِیْ قُرْبَاہُ .وَہٰذَا الْقَوْلُ أَیْضًا - عِنْدَنَا - فَاسِدٌ ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُ قَدْ حَرَمَ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ ، وَلَمْ یُعْطِہِمْ شَیْئًا ، لِأَنَّہُمْ لَیْسُوْا قَرَابَۃً ، وَکَیْف لَا یَکُوْنُوْنَ قَرَابَۃً ، وَمَوْضِعُہُمْ مِنْہٗ، کَمَوْضِعِ بَنِی الْمُطَّلِبِ ؟ فَلَمَّا کَانَ بَنُو أُمَیَّۃَ وَبَنُو نَوْفَلٍ ، لَمْ یَخْرُجُوْا مِنْ قَرَابَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِتَرْکِہِ اِعْطَائَ ہُمْ ، کَانَ کَذٰلِکَ مَنْ فَوْقَہُمْ ، مِنْ سَائِرِ بُطُوْنِ قُرَیْشٍ ، لَا یَخْرُجُوْنَ مِنْ قَرَابَتِہٖ، بِتَرْکِہِ اِعْطَائَ ہُمْ وَقَدْ أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی مَنْ لَیْسَ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَلَا مِنْ بَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَلٰـکِنَّہٗ مِنْ قُرَیْشٍ ، مِمَّنْ یَلْقَاہُ اِلٰی أَبٍ ، ہُوَ أَبْعَدُ مِنَ الْأَبِ ، مِنْ الَّذِیْ یَلْقَاہُ عَنْہُ بَنُو أُمَیَّۃَ ، وَبَنُو نَوْفَلٍ ، وَہُوَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَامِّ .
٥٢٦٠: سعید بن المسیب نے حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے روایت کی ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کا حصہ تقسیم فرمایا تو بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا مگر بنو امیہ کو بالکل عنایت نہیں فرمایا۔ چنانچہ میں اور عثمان (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بنو ہاشم کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی وجہ سے فضیلت عنایت فرمائی ہمارا اور بنی مطلب کا کیا فرق ہے ؟ ہم اور وہ نسب کے قرابت میں ایک شے ہیں۔ آپ نے فرمایا بنی عبدالمطلب جاہلیت و اسلام دونوں زمانوں میں میرے ساتھ رہے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ نے حکم الٰہی کے مطابق اپنے عطیہ کو بنی ہاشم و بنی مطلب دونوں قرابت والوں پر بلاتفریق تقسیم فرمایا اور ان سے اوپر والوں کو محروم رکھا اور انھیں کوئی چیز عنایت نہ فرمائی اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان سے اوپر نسب میں شریک ذوی القربیٰ میں شامل نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ قول بھی درست نہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بنو امیہ اور بنو نوفل دونوں کو محروم کیا گیا اور ان کو کچھ نہیں دیا گیا۔ (ابو لہب کی اولاد بھی محروم رہی) کیونکہ وہ قرابت دار نہ تھے حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ قرابت میں ان کا مرتبہ بنو مطلب کے برابر تھا۔ اب جبکہ بنو امیہ اور بنو نوفل قرابت نبوت میں شامل رہے اگرچہ ذوی القربیٰ کے عطیہ میں سے ان کو حصہ نہیں دیا گیا۔ اسی طرح وہ لوگ جو ان سے اوپر ہیں تمام بطون قریش قرابت میں تو داخل رہیں گے اگرچہ ذوی القربیٰ کے حصہ میں سے ان کو نہ دیا جائے گا اور دوسری طرف ملاحظہ کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کے اس حصہ میں سے بنو ہاشم کے علاوہ بنو مطلب کو بھی عنایت فرمایا جو کہ فقط قریش سے تھے جو والد کی طرف سے دور والے جد میں شریک تھے۔ حالانکہ بنو امیہ ‘ بنو نوفل یعنی زبیر بن عوام آپ کے والد کی طرف سے قریب تر تھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : نسائی فی الفئی باب ٥‘ مسند احمد ٤؍٨١۔

5262

۵۲۶۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُمَحِیُّ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ جَدِّہٖ، أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ خَیْبَرَ ، لِلزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ بِأَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ ، سَہْمٍ لِلزُّبَیْرِ ، وَسَہْمٍ لِذِی الْقُرْبٰی ، لِصَفِیَّۃَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أُمِّ الزُّبَیْرِ ، وَسَہْمَیْنِ لِلْفَرَسِ .
٥٢٦١: یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اپنے دادا سے روایت کیا کہ وہ فرماتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والے سال زبیر بن عوام کو چار حصے عنایت فرمائے۔ زبیر کا حصہ ‘ قرابت کا حصہ ام الزبیر صفیہ بنت عبدالمطلب کی وجہ سے اور دو حصے گھوڑے کے۔
تخریج : نسائی فی الخیل باب ١٧۔

5263

۵۲۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ الْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ دَاوٗدَ الزُّبَیْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ یَوْمَ خَیْبَرَ أَرْبَعَۃَ أَسْہُمٍ ، سَہْمًا لَہٗ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَسَہْمَیْنِ لِلْفَرَسِ ، وَسَہْمًا لِذِی الْقُرْبَی .
٥٢٦٢: ابوالزناد نے خارجہ بن زید بن ثابت (رض) نے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والے سال زبیر بن عوام کو چار حصے عنایت فرمائے ایک حصہ عام مسلمانوں کے ساتھ۔ دو حصے گھوڑے کے اور ایک حصہ قرابت داری کا۔

5264

۵۲۶۳ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمَخْزُوْمِیُّ - ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کَانَ الزُّبَیْرُ یُضْرَبُ لَہُ فِی الْغَنَمِ بِأَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ ، سَہْمَیْنِ لِفَرَسِہٖ، وَسَہْمًا لِذِی الْقُرْبَی .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَی الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ ، لِقَرَابَتِہِ مِنْہٗ، مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، وَالزُّبَیْرُ لَیْسَ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَلَا بَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَقَدْ جَعَلَہٗ فِیْمَا أَعْطَاہُ مِنْ ذٰلِکَ کَبَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ذَوِی الْقُرْبَی لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُمْ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ ، وَمَنْ سِوَاہُمْ مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ الزُّبَیْرَ ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، فَاِنَّ أُمَّہُ مِنْہُمْ ، وَہِیَ صَفِیَّۃُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ ہَاشِمٍ فَبِہٰذَا أَعْطَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَاہُ فَقَامَ عِنْدَہُ بِمَوْضِعِہٖ مِنْہُ بِأُمِّہِ مَقَامَ غَیْرِہِ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ .قِیْلَ لَہٗ : لَوْ کَانَ مَا وَصَفْت کَمَا ذَکَرْتُ ، اِذًا لَأَعْطَی مَنْ سِوَاہُ مِنْ غَیْرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، مِمَّنْ أُمُّہُ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَقَدْ کَانَ بِحَضْرَتِہِ مِنْ غَیْرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، مِمَّنْ أُمَّہَاتُہُمْ ہَاشِمِیَّاتٌ ، مِمَّنْ ہُوَ أَمَسُّ بِرَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَسَبِ أُمِّہِ رَحِمًا ، مِنَ الزُّبَیْرِ ، مِنْہُمْ أُمَامَۃُ ابْنَۃُ أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیْعِ ، وَقَدْ حَرَمَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُعْطِہَا شَیْئًا مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ اِذْ حَرَمَ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَہِیَ مِنْ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَلَمْ یُعْطِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأُمِّہَا الْہَاشِمِیَّۃِ ، وَہِیَ زَیْنَبُ ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ - عَنْہَا .وَحَرَمَ أَیْضًا جَعْدَۃَ بْنَ ہُبَیْرَۃَ الْمَخْزُوْمِیَّ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا ، وَأُمُّہُ أُمُّ ہَانِئٍ ، ابْنَۃُ أَبِیْ طَالِبِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ ہَاشِمٍ فَلَمْ یُعْطِہِ بِأُمِّہِ شَیْئًا ، اِذْ کَانَتْ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْمَعْنَی الَّذِی أَعْطَی بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ ، مَا أَعْطَاہُ مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، لَیْسَ لِقَرَابَتِہِ لِأُمِّہٖ، وَلٰـکِنَّہٗ لِمَعْنًی غَیْرِ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُمْ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ ، وَمَنْ سِوَاہُمْ ، مِمَّنْ ہُوَ لَہُ قَرَابَۃٌ مِنْ غَیْرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَمِنْ غَیْرِ بَنِی الْمُطَّلِبِ .أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ رَسُوْلَہُ فِیْ غَیْرِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ فَلَمْ یَقْصِدْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنِّذَارَۃِ ، بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً ، بَلْ قَدْ أَنْذَرَ مِنْ قَوْمِہٖ، مِمَّنْ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْہُ رَحِمًا مِنْ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَمِنْ بَنِیْ نَوْفَلٍ .
٥٢٦٣: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت زبیر (رض) کو غنیمت میں چار حصے دیئے جاتے ایک حصہ عامۃ المسلمین کے ساتھ دو حصے گھوڑے کے اور ایک حصہ قرابت کا۔ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر بن عوام (رض) کو ذوی القربیٰ کے حصہ میں سے قرابت کا حصہ دیا۔ حالانکہ زبیر بنو ہاشم سے نہ تھے اور نہ بنی مطلب سے تھے اور ان کو اس عطیے میں بنو ہاشم اور بنو مطلب کی طرح قرار دیا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ذوی القربیٰ تو بنو ہاشم و بنو مطلب ہی ہیں مگر ان کے علاوہ (قریش) وہ آپ کے قرابت دار ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ حضرت زبیر (رض) بنو ہاشم سے نہ تھے مگر ان کی والدہ تو بنو ہاشم سے تھیں۔ اسی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی عنایت فرمایا جتنا عنایت فرمایا۔ وہ والدہ کی وجہ سے دوسرے بنی ہاشم کی طرح ہوگئے۔ اگر بات اسی طرح ہوتی جیسا کہ تم نے بیان کی تو ان کے علاوہ بھی دیگر غیر بنو ہاشم کو آپ عنایت فرماتے جن کی مائیں بنو ہاشم سے تھیں اور کئی غیر بنی ہاشم آپ کے پاس موجود تھے جن کی مائیں ہاشمی تھیں اور والدہ کی طرف سے رشتہ داری میں وہ آپ سے زبیر کی نسبت بہت قریب تر تھے۔ جیسے امامہ بنت ابوالعاص بن ربیع (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو محروم رکھا کوئی چیز ذوی القربیٰ کے حصہ سے عنایت نہیں فرمائی جب کہ بنو امیہ محروم رہے اور وہ بھی بنو امیہ سے تھیں۔ آپ نے ان کو ان کی والدہ ہاشمیہ زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے کچھ بھی عنایت نہیں فرمایا۔ اسی طرح جعدہ بن ہبیرہ مخزومی بھی محروم رہا اس کو بھی کوئی چیز نہیں دی حالانکہ ان کی والدہ ام ہانی (رض) ہاشمیہ تھیں وہ ابو طالب بن عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ تو جعدہ کو اپنی ہاشمیہ ماں کی وجہ سے کچھ نہیں دیا گیا جبکہ وہ بنو ہاشم و بنو مطلب دونوں سے متعلق تھے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کے حصہ سے زبیر (رض) کو جو کچھ عنایت فرمایا وہ والدہ کی وجہ سے نہیں تھا۔ بلکہ کسی اور وجہ سے تھا۔ پس مذکورہ تفصیل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوی القربیٰ میں بنو ہاشم ‘ بنو مطلب اور ان کے علاوہ جن کو بنی ہاشم اور بنی مطلب کے علاوہ سے قرابت حاصل ہے وہ سب شامل ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت کے علاوہ دوسری آیت : وانذر عشیرتک الاقربین (الشعراء : ٢١٤) میں حکم فرمایا کہ اپنے قریبی خاندان کو ڈراؤ۔ آپ نے اس ڈرانے میں بنو ہاشم و بنو مطلب کو خاص نہیں کیا بلکہ اپنی قوم بطون قریش سب کو شامل کیا ان میں ان سے دور والے بنو امیہ اور بنو نوفل بھی شامل تھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5265

۵۲۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ یَعْقُوْبَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوْسِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا عَلِیُّ ، اجْمَعْ لِیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَہُمْ أَرْبَعُوْنَ رَجُلًا ، أَوْ أَرْبَعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا ، ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ قَصَدَ بِالنِّذَارَۃِ اِلَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ خَاصَّۃً .
٥٢٦٤: عباد بن عبداللہ نے حضرت علی (رض) یس روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وانذر عشیرتک الاقربین (الشعراء : ٢١٤) تو مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا اے علی ! تم میرے لیے بنی ہاشم کو جمع کرو ان کی تعداد چالیس تھی یا ایک کم چالیس تھی پھر اسی طرح روایت ذکر کی۔
ابو جعفر طحاوی (رح) نے اس روایت میں خاص بنو ہاشم کو انذار کرنا مراد لیا ہے۔

5266

۵۲۶۵ : فَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الْغَفَّارِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مِثْلُہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ اجْمَعْ لِیْ بَنِی الْمُطَّلِبِ .
٥٢٦٥: عبداللہ بن حارث نے حضرت ابن عباس (رض) سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ اس میں یہ زائد ہے بنو مطلب کو میرے لیے اکٹھا کرو۔

5267

۵۲۶۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْہَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ مُخَارِقٍ ، وَزُہَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَا : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ انْطَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی رَضْفَۃٍ مِنْ جَبَلٍ ، فَعَلَا أَعْلَاہَا ، ثُمَّ قَالَ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ ، اِنِّیْ نَذِیْرٌ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، اِدْخَالُہُ بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ ، مَعَ مَنْ ہُوَ أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْہُمْ ، مِنْ قَرَابَتِہٖ۔
٥٢٦٦: ابو عثمان نہدی نے قبیصہ بن مخارق اور زہیر بن عمرو سے روایت کی ہے دونوں کا بیان ہے کہ جب : وانذر عشیرتک الاقربین الایۃ نازل ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہاڑ کے گرم پتھر کی طرف گئے اور اس پر چڑھ کر آواز دی۔ اے بنی عبد مناف بیشک میں نذیر ہوں۔
تخریج : بخاری فی تفسیر ٢٦‘ باب ٢‘ مسند احمد ٥؍٦٠۔

5268

۵۲۶۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، وَحَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ ، قَالَا : ثَنَا ضِمَامُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، عَنِ ابْنِ وَرْدَانَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ ، یَا بَنِیْ قُصَیِّ ، یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ أَنَا النَّذِیْرُ ، وَالْمَوْتُ الْمُغَیِّرُ ، وَالسَّاعَۃُ الْمَوْعِدُ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ دَعَا بَنِیْ قُصَیٍّ ، مَعَ مَنْ ہُوَ أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْہُمْ .
٥٢٦٧: ابن وردان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس طرح اعلان فرمایا۔ اے بنی ہاشم ‘ اے بنی قصی ‘ اے بنی عبد مناف میں نذیر ہوں اور موت تم پر لوٹ ڈالنے والا دشمن ہے اور قیامت وعدے کی جگہ اور وقت ہے۔
طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت میں بنی قصی کو بھی بلایا حالانکہ ان سے قریب تر لوگ موجود تھے۔

5269

۵۲۶۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، وَعَفَّانُ ، عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ قَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَادَیْ یَا بَنِیْ کَعْبِ بْنِ لُؤَی ، أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ ، أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا فَاطِمَۃَ ابْنَۃَ مُحَمَّدٍ ، أَنْقِذِیْ نَفْسَک مِنَ النَّارِ ، فَاِنِّیْ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، غَیْرَ أَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّہَا بِبِلَالِہَا .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَنْذَرَ بَنِیْ کَعْبِ بْنِ لُؤَی ، مَعَ مَنْ ہُوَ أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْہُمْ .وَفِی الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّہٗ جَعَلَہُمْ جَمِیْعًا ، ذَوِیْ أَرْحَامٍ .
٥٢٦٨: موسیٰ بن طلحہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب آیت : وانذر عشیرتک الاقربین۔۔۔ نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے نبی کھڑے ہوئے اور آواز دی اے بنی کعب بن لوی اپنے آپ کو آگ سے نکالو۔ اے بنی عبد مناف تم اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔ اے بنی عبدالمطلب اپنے آپ کو آگے سے چھڑاؤ۔ اے بنی ہاشم تم اپنے آپ کو آگے سے رہائی دلاؤ۔ اے بنی عبدالمطلب تم اپنے آپ کو آگے سے بچاؤ۔ اے فاطمبہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا البتہ تمہارے میرے ساتھ رشتہ داری اس میں تمہارے رحم کا پاس کروں گا۔ اس روایت میں آپ نے بنو کعب بن لوی کو ان لوگوں سے ساتھ رکھا جو ان کے مقابلہ میں بہت قریب تھے۔ اس روایت میں یہ بتلایا کہ تمہارے ساتھ میری رحم کی رشتہ داری ہے۔ گویا سب کو ذوی الارحام فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٤‘ مسلم فی الایمان ٣٤٨‘ ترمذی فی تفسیر سورة ٢٦‘ نسائی فی الوصایا باب ٦‘ مسند احمد ٢‘ ٣٣؍٣٦٠۔
اس روایت میں آپ نے بنو کعب بن لوی کو ان لوگوں کے ساتھ رکھا جو ان کے مقابلہ میں بہت قریب تھے۔ اس روایت میں یہ بتلایا کہ تمہارے ساتھ میری رحم کی رشتہ داری ہے۔ گویا سب کو ذوی الارحام فرمایا۔

5270

۵۲۶۹ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ صَعِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الصَّفَا فَجَعَلَ یُنَادِیْ یَا بَنِیْ عَدِی ، یَا بَنِیْ فُلَانٍ لِبُطُوْنِ قُرَیْشٍ ، حَتَّی اجْتَمَعُوْا ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَخْرُجَ ، أَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ .وَجَائَ أَبُو لَہَبٍ وَقُرَیْشٌ ، فَاجْتَمَعُوْا ، فَقَالَ أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ خَیْلًا بِالْوَادِی تُرِیْدُ أَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ ، أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ ؟ .قَالُوْا : نَعَمْ مَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا ، قَالَ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَکُمْ ، بَیْنَ یَدَیَّ عَذَابٌ شَدِیْدٌ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ دَعَا بُطُوْنَ قُرَیْشٍ کُلَّہَا .
٥٢٦٩: سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب آیت وانذر عشیرتک الاقربین (الشعراء) نازل ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر چڑھے اور اس طرح آواز دی اے بنی عدی اے بنی فلاں تمام بطون قریش کو آواز دی یہاں تک کہ وہ تمام جمع ہوگئے پس جو کوئی آدمی نہ آسکتا تھا۔ اس نے اپنی طرف سے قاصد بھیجا تاکہ بات کو معلوم کرے۔ ابو لہب اور قریش آ کر اکٹھے ہوئے۔ تو آپ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا۔ تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ وادی میں گھڑ سوار دستہ تم پر لوٹ ڈالنا چاہتا ہے کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے۔ انھوں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے تمہارے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا تم سچ بولتے ہو۔ آپ نے فرمایا میں سخت عذاب سے ڈرانے کے لیے تمہارے پاس نذیر بن کر آیا ہوں۔ اس روایت میں تمام بطون قریش کو دعوت دینا مذکور ہے۔

5271

۵۲۷۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ ، وَأَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ أَنْزَلَ عَلَیْہِ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا بَنِیْ عَبْدَ مَنَافٍ ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، لَا أُغْنِیْ عَنْک مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْک مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ ابْنَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْک مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا .
٥٢٧٠: سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اے قریش کے گروہ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفوس کو خرید لو۔ میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے بچانے کے لیے کوئی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنی عبد مناف ! تم اپنے نفوس کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو۔ میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے چھڑانے کے لیے ذرہ بھر کام نہ آؤں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب میں اللہ تعالیٰ سے چھڑانے کے لیے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ عمۃ الرسول ! اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھڑانے کے لیے میں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت رسول اللہ ! میں اللہ تعالیٰ سے چھڑانے کے لیے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔
تخریج : بخاری فی الوصایا باب ١١‘ تفسیر سورة ٢٦‘ باب ٢‘ دارمی فی الرقاق باب ٢٣‘ مسند احمد ١؍٢٠٦۔

5272

۵۲۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدٌ وَأَبُوْ سَلْمَۃَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ یَا صَفِیَّۃُ ، یَا فَاطِمَۃُ .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَمَرَہٗ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، أَنْ یُنْذِرَ عَشِیْرَتَہُ الْأَقْرَبِیْنَ ، أَنْذَرَ قُرَیْشًا ، بَعِیْدَہَا وَقَرِیْبَہَا ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ جَمِیْعًا ذَوُو قَرَابَتِہٖ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَقَصَدَ بِاِنْذَارِہِ اِلَی ذٰوِی قَرَابَتِہِ مِنْہُمْ ، وَتَرَکَ مَنْ لَیْسَ مِنْہُمْ بِذَوِی قَرَابَۃٍ لَہٗ، فَلَمْ یُنْذِرْہُ کَمَا لَمْ یُنْذِرْ مَنْ یَجْمَعُہٗ، وَاِیَّاہُ أَبٌ غَیْرُ قُرَیْشٍ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّہٗ اِنَّمَا جَمَعَ قُرَیْشًا کُلَّہَا فَأَنْذَرَہَا ، لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَہٗ أَنْ یُنْذِرَ عَشِیْرَتَہُ الْأَقْرَبِیْنَ ، وَلَا عَشِیْرَۃَ لَہٗ أَقْرَبُ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَلِذٰلِکَ دَعَا قُرَیْشًا کُلَّہَا ، اِذْ کَانَتْ بِأَجْمَعِہَا ، عَشِیْرَتَہُ الَّتِیْ ہِیَ أَقْرَبُ الْعَشَائِرِ اِلَیْہِ .قِیْلَ لَہٗ : لَوْ کَانَ کَمَا ذَکَرْتُ ، اِذًا کَانَ یَقُوْلُ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْقُرْبَی وَلٰـکِنَّہٗ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَقُلْ لَہُ کَذٰلِکَ ، وَقَالَ لَہُ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ .فَأَعْلَمَہُ أَنَّ کُلَّ أَہْلِ ہٰذِہِ الْعَشِیْرَۃِ مِنْ أَقْرَبِیْھِ .فَبَطَلَ بِمَا ذَکَرْنَا ، قَوْلُ مَنْ جَعَلَ ذَا قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً .وَفِیْمَا ذَکَرْنَا مِنْ بَعْدِ ہٰذِہِ الْحُجَّۃِ الَّتِی احْتَجَجْنَا بِہَا ، مَا یُغْنِیْنَا عَنْ الِاحْتِجَاجِ لِقَوْلِ مَنْ قَالَ : اِنَّ ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہُمْ قُرَیْشٌ کُلُّہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی مَا یَدُلُّ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا .
٥٢٧١: سعید اور ابو سلمہ نے بتلایا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی۔ بس اس میں یہ اضافہ ہے اے صفیہ اے فاطمہ۔ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قریبی خاندان والوں کو ڈرانے کا حکم ہوا تو آپ نے قریش کے بعید و قریب سب رشتہ داروں کو دعوت دی۔ اس سے دلالت مل گئی کہ یہ تمام آپ کے قرابت والے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرابت والوں کو ڈراتے وقت ان کو ڈراتے جو زیادہ قرابت والے تھے اور جو قرابت دار نہ تھے ان کو چھوڑ دیتے۔ جیسا کہ آپ نے غیر قریش کو چھوڑ دیا اور ان کو اقربین کے انذار میں شامل نہیں کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام قریش کو جمع کیا اور ڈرایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عشیرہ اقربین کو ڈرانے کا حکم فرمایا تھا اور قریش سے قریب تر آپ کا اور خاندان نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے تمام قریش کو جو کہ تمام قبائل آپ سے قریب تر تھے دعوت دی۔ تو اس کا جواب یہ ہے اگر آپ کی بات درست تسلیم کرلی جائے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا تو وانذر عشیرتک القربٰی ہونا چاہیے تھا حالانکہ آیت میں تو وانذر عشیرتک الاقربین (الشعراء : ٢١٤) فرمایا گیا ہے۔ آپ کو اس سے یہ بتلایا کہ خاندان قریش کے سب لوگ آپ کے اقارب ہیں پس اس سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہوگئی جنہوں نے ذوالقربیٰ کو فقط بنو ہاشم و بنو مطلب کے ساتھ خاص کیا۔ ذوالقربیٰ سے تمام قریش مراد ہیں۔ اگرچہ یہ بات ہم نے ثابت کردی کہ ذوی القربیٰ سے فقط بنو ہاشم و بنو مطلب مراد نہیں بلکہ تمام قریش مراد ہیں۔ اس مؤقف کے لیے ہم ایسی دلیل پیش کرنا چاہیے جو تمام دلائل سے بےنیاز کرنے والی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی (الشورٰی : ٢٣) کی تفسیری روایت اس معنی پر دلالت کرتی ہے۔
جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قریبی خاندان والوں کو ڈرانے کا حکم ہوا تو آپ نے قریش کے بعید و قریب سب رشتہ داروں کو دعوت دی۔ اس سے دلالت مل گئی کہ یہ تمام آپ کے قرابت والے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرابت والوں کو ڈراتے وقت ان کو ڈراتے جو زیادہ قرابت والے تھے اور جو قرابت دار نہ تھے ان کو چھوڑ دیتے۔ جیسا کہ آپ نے غیر قریش کو آپ نے چھوڑ دیا اور ان کو اقربین کے انذار میں شامل نہیں کیا۔
M: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام قریش کو جمع کیا اور ڈرایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عشیرہ اقربین کو ڈرانے کا حکم فرمایا تھا اور قریش سے قریب تر آپ کا اور خاندان نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے تمام قریش کو جو کہ تمام قبائل آپ سے قریب تر تھے دعوت دی۔
جواباس کا جواب یہ ہے اگر آپ کی بات درست تسلیم کرلی جائے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا تو وانذر عشیرتک القربٰی ہونا چاہیے تھا حالانکہ آیت میں تو وانذر عشیرتک القربین (الشعراء ٢١٤) فرمایا گیا ہے۔ آپ کو اس سے یہ بتلایا کہ خاندان قریش کے سب لوگ آپ کے اقارب ہیں پس اس سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہوگئی جنہوں نے ذوالقربیٰ کو فقط بنو ہاشم و بنو مطلب کے ساتھ خاص کیا۔ ذوالقربیٰ سے تمام قریش مراد ہیں۔
اگرچہ یہ بات ہم نے ثابت کردی کہ ذوی القربیٰ سے فقط بنو ہاشم و بنو مطلب مراد نہیں بلکہ تمام قریش مراد ہیں۔ اس مؤقف کے لیے ہم ایسی دلیل پیش کرنا چاہیے جو تمام دلائل سے بےنیاز کرنے والی ہے۔
نمبر 1: حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی (الشوریٰ : ٢٣) کی تفسیری روایت اس معنی پر دلالت کرتی ہے۔

5273

۵۲۷۲ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فِیْ قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی قَالَ أَنْ یَصِلُوْا قَرَابَتِی ، وَلَا یُکَذِّبُوْنِی فَہٰذَا عَلَی الْخِطَابِ لِقُرَیْشٍ کُلِّہَا ، فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ ، عَلٰی أَنَّ قُرَیْشًا کُلَّہَا ، ذَوُو قَرَابَتِہٖ۔وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عِکْرَمَۃَ مَا یَدُلُّ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا .
٥٢٧٢: امام شعبی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے آیت قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی (الشوریٰ ۔ ٢٣) کے متعلق تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم سے صرف اسی بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ تم میری قرابت کا لحاظ کرو اور میری تکذیب نہ کرو۔ یہ تم قریش کو خطاب ہے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تمام قریش آپ کے قرابت والے تھے۔ روایت عکرمہ (رح) سے تائید۔ عکرمہ (رح) کی روایت اس کی مؤید ہے۔

5274

۵۲۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ الْبَجَلِیُّ قَالَ : سَأَلْت عِکْرَمَۃَ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی قَالَ : کَانَتْ قَرَابَاتُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بُطُوْنِ قُرَیْشٍ کُلِّہَا ، فَکَانُوْا أَشَدَّ النَّاسِ لَہٗ أَذًی ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْہِمْ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۔
٥٢٧٣: یحییٰ بن ایوب بجلی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ (رح) سے اس آیت قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی (الشوریٰ ) کے متعلق سوال کیا تو فرمانے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام بطون قریش میں قرابت تھی اور قریش ہی ایذاء میں سب سے بڑھ کر تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت تمام بطون قریش کے متعلق اتاری۔

5275

۵۲۷۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ نُصَیْرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ فَرُّوْخَ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : أَتَیْ رَجُلٌ عِکْرَمَۃَ فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ، قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی قَالَ : أَسَبَائِیٌّ أَنْتَ ؟ قَالَ : لَسْتُ بِسَبَائِی ، وَلٰـکِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أَعْلَمَ .قَالَ : اِنْ کُنْتُ تُرِیْدُ أَنْ تَعْلَمَ ، فَاِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ حَیٌّ مِنْ أَحْیَائِ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ عَرِقَ فِیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ کَانَتْ قُرَیْشٌ یَصِلُوْنَ أَرْحَامَہُمْ مِنْ قِبَلِہِ فَمَا عَدَا اِذَا جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَاہُمْ اِلَی الْاِسْلَامِ ، فَقَطَعُوْھُ وَمَنَعُوْھُ ، وَحَرَمُوْھُ ، فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی أَنْ تَصِلُوْنِیْ لِمَا کُنْتُمْ تَصِلُوْنَ بِہٖ قَرَابَتَکُمْ قَبْلِی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ مُجَاہِدٍ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی .
٥٢٧٤: عمر بن فروخ نے حبیب بن زبیر سے روایت کی کہ ایک آدمی حضرت عکرمہ کی خدمت میں آیا اور کہا اے ابو عبداللہ ! اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کیا معنی ہے قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی انھوں نے فرمایا کیا تو سبائی گروہ سے تعلق رکھتا ہے میں نے کہا میں سبائی تو نہیں لیکن میں تفسیر معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا اگر تفسیر جاننا چاہتے ہو تو (سنو) قبائل قریش میں کوئی خاندان ایسا نہ تھا کہ جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رشتہ داری نہ ہو اور قریش پہلے صلہ رحمی کرتے تھے اور کوئی حد بڑھنے والا نہ تھا جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسلام کی طرف بلایا تو انھوں نے قطع رحمی کی آپ کے ساتھ میل و ملاپ کو روکا اور محروم کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی “ اب بھی تم مجھ سے اسی طرح صلہ رحمی کرو جیسا کہ اس سے پہلے صلہ رحمی کرتے تھے۔
مجاہد (رح) کے قول سے تائید۔ حضرت مجاہد کا قول بھی اسی معنی کی تائید کرتا ہے۔

5276

۵۲۷۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِیْ قَوْلِہٖ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ وَتُصَدِّقُوْنِیْ، وَتَصِلُوْا رَحِمِی .فَفِیْ مَا رَوَیْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وَعَنْ عِکْرَمَۃَ ، وَعَنْ مُجَاہِدٍ ، فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ قُرَیْشًا کُلَّہَا ذَوُو قَرَابَۃٍ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَاہُ فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ غَیْرَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَجْہٌ یُخَالِفُ ہٰذَا الْوَجْہَ .
٥٢٧٥: ابن ابی نجیح نے حضرت مجاہد (رح) سے اس آیت قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی “ کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا (اے قریش) تم میری اتباع کرو اور میری تصدیق کرو اور میرے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آؤ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور ان کے دونوں شاگرد عکرمہ و مجاہد (رح) نے اس آیت کی تفسیر میں جو فرمایا اس سے معلوم ہوت ا ہے کہ تمام قریش آپ کے قرابت دار ہیں اور یہ بات اس تاویل کے موافق ہے جو ہم نے وانذر عشیرتک الاقربین “ کی گزشتہ سطور میں کی ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) کا قول اس تاویل کے خلاف ہے۔

5277

۵۲۷۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ ، عَنْ ہُشَیْمٍ ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ زَاذَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ فِیْ قَوْلِہٖ قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی قَالَ : التَّقَرُّبُ اِلَی اللّٰہِ بِالْعَمَلِ الصَّالِحِ .فَأَمَّا مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ قُرَیْشًا مِنْ ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَّ مِنْ ذَوِی الْقُرْبَی أَیْضًا مَنْ مَسَّہُ بِرَحِمٍ مِنْ قِبَلِ أُمَّہَاتِہِ اِلٰی أَقْصَی کُلِّ أَبٍ ، لِکُلِّ أُم مِنْ أُمَّہَاتِہِ مِنَ الْعَشِیْرَۃِ الَّتِیْ ہِیَ مِنْہَا ، فَاِنَّہٗ احْتَجَّ لِمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ بِالنَّظَرِ ، وَقَالَ : رَأَیْتُ الرَّجُلَ بِنِسْبَتِہِ مِنْ أَبِیْھَاوَمِنْ أُمِّہِ مُخْتَلِفًا ، وَلَمْ یَمْنَعْہُ اخْتِلَافُ نَسَبِہٖ مِنْہُمَا اِنْ کَانَ ابْنًا لَہُمَا ، ثُمَّ رَأَیْنَاہُ یَکُوْنُ لَہُ قَرَابَۃٌ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا ، فَیَکُوْنُ بِمَوْضِعِہٖ مِنْ أَبِیْھَاقَرَابَۃٌ لِذِیْ قَرَابَۃِ أَبِیْہِ، وَیَکُوْنُ بِمَوْضِعِہٖ مِنْ أُمِّہِ قَرَابَۃٌ لِذِیْ قُرْبَی أُمِّہِ .أَلَا تَرَی أَنَّہٗ یَرِثُ اِخْوَتَہُ لِأَبِیْھَاوَاِخْوَتَہُ لِأُمِّہٖ، وَتَرِثُہُ اِخْوَتُہُ لِأَبِیْھَاوَاِخْوَتُہُ لِأُمِّہٖ، وَاِنْ کَانَ مِیْرَاثُ فَرِیْقٍ مِمَّنْ ذَکَرْنَا ، مُخَالِفًا لِمِیْرَاثِ الْفَرِیْقِ الْآخَرِ ، وَلَیْسَ اخْتِلَافُ ذٰلِکَ بِمَانِعٍ مِنْہُ الْقَرَابَۃَ .فَلَمَّا کَانَ ذَوُو قُرْبَی أُمِّہِ قَدْ صَارُوْا لَہُ قَرَابَۃً ، کَمَا أَنَّ ذَوِیْ قُرْبَی أَبِیْھَاقَدْ صَارُوْا لَہُ قَرَابَۃً ، کَانَ مَا یَسْتَحِقُّہُ ذَوُو قُرْبَی أَبِیْھَابِقَرَابَتِہِمْ مِنْہٗ، یَسْتَحِقُّ ذَوُو قُرْبَی أُمِّہِ بِقَرَابَتِہِمْ مِنْہُ مِثْلُہٗ .وَقَدْ تَکَلَّمَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا، فِیْ رَجُلٍ أَوْصَی لِذِیْ قَرَابَۃِ فُلَانٍ بِثُلُثِ مَالِہٖ ، فَقَالُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَقْوَالًا سَنُبَیِّنُہَا ، وَنُبَیِّنُ مَذْہَبَ صَاحِبِ کُلِّ قَوْلٍ مِنْہَا ، الَّذِی أَدَّاہُ اِلَی قَوْلِہٖ الَّذِیْ قَالَہٗ مِنْہَا ، فِیْ کِتَابِنَا ہٰذَا، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی قَالَ : ہِیَ کُلُّ ذِیْ رَحِمِ مَحْرَمٍ مِنْ فُلَانِ الْمُوْصِی لِقَرَابَتِہٖ، بِمَا أَوْصَی لَہُمْ بِہٖ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ، وَمِنْ قِبَلِ أُمِّہٖ، غَیْرَ أَنَّہٗ یَبْدَأُ فِیْ ذٰلِکَ بِمَنْ کَانَتْ قَرَابَتُہُ مِنْہُ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ، عَلَی مَنْ کَانَتْ قَرَابَتُہُ مِنْہُ مِنْ قِبَلِ أُمِّہِ .وَتَفْسِیْرُ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ لَہُ عَمٌّ وَخَالٌ ، فَقَرَابَۃُ عَمِّہِ مِنْہٗ، مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ، کَقَرَابَۃِ خَالِہِ مِنْہُ مِنْ قِبَلِ أُمِّہٖ، فَیَبْدَأُ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّہٗ، عَلَی خَالِہٖ ، فَیَجْعَلُ الْوَصِیَّۃَ لَہٗ۔وَکَانَ زُفَرُ بْنُ الْہُذَیْلِ یَقُوْلُ : الْوَصِیَّۃُ لِکُلِّ مَنْ قَرُبَ مِنْہُ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہَ أَوْ مِنْ قِبَلِ أُمِّہٖ، دُوْنَ مَنْ کَانَ أَبْعَدَ مِنْہُ مِنْہُمْ ، وَسَوَاء ٌ فِیْ ذٰلِکَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ ذَا رَحِمٍ لِلْمُوْصِی لِقَرَابَتِہٖ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْہُمْ ذَا رَحِمٍ .وَقَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا : الْوَصِیَّۃُ فِیْ ذٰلِکَ لِکُلِّ مَنْ جَمَعَہٗ وَفُلَانًا أَبٌ وَاحِدٌ ، مُنْذُ کَانَتِ الْہِجْرَۃُ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ، أَوْ مِنْ قِبَلِ أُمِّہِ .وَسَوَّیَا فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ مَنْ بَعُدَ مِنْہُمْ وَبَیْنَ مَنْ قَرُبَ ، وَبَیْنَ مَنْ کَانَتْ رَحِمُہُ مَحْرَمَۃً مِنْہُمْ ، وَبَیْنَ مَنْ کَانَتْ رَحِمُہُ مِنْہُمْ غَیْرَ مَحْرَمَۃٍ .وَلَمْ یُفَضِّلَا فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ مَنْ کَانَتْ رَحِمُہُ مِنْہُمْ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ ، عَلَی مَنْ کَانَتْ رَحِمُہُ مِنْہُمْ مِنْ قِبَلِ الْأُمِّ .وَکَانَ آخَرُوْنَ یَذْہَبُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی أَنَّ الْوَصِیَّۃَ بِمَا وَصَفْنَا ، لِکُلِّ مَنْ جَمَعَہٗ وَالْمُوْصِی لِقَرَابَتِہِ أَبُوْھُ الثَّالِثُ اِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَانَ یَذْہَبُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی أَنَّ الْوَصِیَّۃَ لِکُلِّ مَنْ جَمَعَہٗ وَفُلَانًا الْمُوْصِی لِقَرَابَتِہِ أَبُوْھُ الرَّابِعُ اِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَانَ آخَرُوْنَ یَذْہَبُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی أَنَّ الْوَصِیَّۃَ فِیْمَا ذَکَرْنَا ، لِکُلِّ مَنْ جَمَعَہٗ وَفُلَانًا الْمُوْصِی لِقَرَابَتِہٖ، أَبٌ وَاحِدٌ فِی الْاِسْلَامِ أَوْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مِمَّنْ یَرْجِعُ بِآبَائِہِ أَوْ بِأُمَّہَاتِہِ اِلَیْہِ، اِمَّا عَنْ أَبٍ ، وَاِمَّا عَنْ أُم اِلٰی أَنْ یَلْقَاہُ یَثْبُتُ بِہٖ الْمَوَارِیْثُ وَیَقُوْمُ بِہٖ الشَّہَادَاتُ .فَأَمَّا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ، مِمَّا ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ فَفَاسِدٌ - عِنْدَنَا - لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَسَمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَأَکْثَرُہُمْ غَیْرُ ذَوِیْ أَرْحَامٍ مَحْرَمَۃٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَمَرَ أَبَا طَلْحَۃَ أَنْ یَجْعَلَ شَیْئًا مِنْ مَالِہٖ ، قَدْ جَائَ بِہٖ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ .فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَجْعَلَ فِیْ فُقَرَائِ قَرَابَتِہٖ، فَجَعَلَہٗ أَبُو طَلْحَۃَ لِأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، وَلِحِسَانِ بْنِ ثَابِتٍ .فَأَمَّا حَسَّانٌ فَیَلْقَاہُ عِنْدَ أَبِیْہَ الثَّالِثِ ، وَأَمَّا أُبَیٌّ ، فَیَلْقَاہُ عِنْدَ أَبِیْہَ السَّابِعِ ، وَلَیْسَا بِذَوِیْ أَرْحَامٍ مِنْہُ مَحْرَمَۃٍ ، وَجَائَ تْ بِذٰلِکَ الْآثَارُ .
٥٢٧٦: منصور بن زاذان نے حضرت حسن (رح) سے : ” قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربٰی “ آیت کی تفسیر میں نقل کیا کہ اس سے اعمال صالحہ کے ساتھ قرب خداوندی حاصل کرنا مراد ہے۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد قریش کی قرابت داری ہے اور ماں کی طرف سے صلہ رحمی کا تعلق رکھنے والے مراد ہیں اور یہ سلسلہ آپ کی امہات کے قبیلہ کی طرف سے ان کے اعلیٰ جد تک پہنچتا ہے ان کی قیاسی و نظری دلیل یہ ہے کہ آدمی کو اپنے باپ اور ماں کی طرف سے مختلف نسبت حاصل ہوتی ہے اگر وہ ان دونوں کی اولاد سے ہے تو اس نسبت سے اس کو اختلاف نسب مانع نہیں ہے۔ پھر یہ بھی دیکھی بھالی بات ہے کہ اس کو ان دونوں میں سے ہر ایک سے قرابت حاصل ہے۔ پھر وہ والد کی قرابت کے سبب اس کے قرابت داروں میں سے ہوگا اور والدہ کی طرف سے قرابت کے باعث وہ اس کے قرابت داروں میں سے ہوگا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ باپ کی طرف سے بھائیوں کا وارث بھی ہوتا ہے اور ماں کی طرف سے بھائیوں کا بھی وارث بنتا ہے۔ اسی طرح اس کے باپ کی طرف سے بھائی اور ماں کی طرف سے بھائی اس کے وارث بنتے ہیں اگرچہ ان فریقوں کی میراث ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ لیکن یہ اختلاف قرابت سے مانع نہیں تو جب ماں کے قرابت دار اس کے بھی قرابت دار ہوئے جیسے کہ باپ کے قرابت دار اس کے قرابتدار ہوتے ہیں تو جس چیز کے حق دار اس کے باپ کے قرابت دار ہوں گے اس کی ماں کے قرابت دار بھی قرابت کی وجہ سے مستحق ہوں گے۔ اگر ایک آدمی مرنے سے پہلے یہ وصیت کرے کہ میرا تہائی مال میرے قرابتداروں کو دیا جائے اس سے کون لوگ مراد ہوں گے اس میں ائمہ احناف کے مابین ابھی اختلاف ہے۔ یہ مال اس آدمی کے ذی رحم محرموں کو ملے گا جن کو اس کے باپ اور ماں کی طرف سے رشتہ داری حاصل ہے۔ البتہ باپ کی طرف کے قرابت داروں کو مال کے قرابت داروں پر ترجیح حاصل ہوگی۔ مثلاً میت کے چچا کو ماموں پر ترجیح حاصل ہوگی۔ وصیت کو چچا کے حق میں مانیں گے۔ یہ وصیت ہر اس رشتہ دار کے حق میں ہے جو باپ کی طرف اور ماں کی طرف سے قریبی رشتہ والا ہے۔ دور والے رشتہ دار مراد نہ ہوں گے۔ اس میں وصیت کرنے والے کے ذی رحم محرم اور غیر ذی رحم برابر ہوں گے۔ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو وصیت کرنے والے کے ساتھ جد اعلیٰ میں شریک ہیں جب سے ہجرت ہوئی خواہ وہ ماں کی طرف سے شریک ہوں یا باپ کی طرف سے شریک ہوں اس میں دور اور نزدیک کے ذی رحم محرم اور غیر ذی رحم محرم برابر ہیں۔ گویا ابو یوسف و محمد (رح) باپ اور ماں کے رشتہ داروں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ بعض دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ یہ وصیت ہر اس شخص کے حق میں ہے جس کو اور موصی کو تیسرا باپ جمع کرے اور اس سے نیچے رشتہ میں شریک ہوں۔ یہ وصیت ہر اس شخص کے لیے ہے جو وصیت کرنے والے کے ساتھ چوتھے باپ میں اور اس سے نیچے کی قرابت میں شراکت رکھتا ہو۔ اس وصیت میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو وصیت کرنے والے کے ساتھ اسلام یا جاہلیت کے زمانہ میں ایک باپ کی قرابت میں ہوں اور وہ اپنے باپوں یا ماؤں کے ساتھ اس کی طرف لوٹتا ہو یا باپ کی طرف سے یہاں تک کہ وہ اس سے مل جائے اور اسی رشتہ داری سے وراثت ثابت ہوگی اور اسی کے ساتھ شہادتیں قائم ہوں گی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان اقوال میں قول اوّل جو امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف منسوب ہے وہ درست نہیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت والوں کے حصہ کی تقسیم کر کے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا حالانکہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو ذی رحم محرم نہ تھے۔ جیسا کہ یہ روایت شاہد ہیں۔ مروی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو طلحہ (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ جو مال لائے ہیں اس میں سے کچھ حصہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے مقرر کردیں پھر ان کو حکم فرمایا کہ باقی مال اپنے محتاج قرابت داروں میں صرف کردیں۔ تو حضرت ابو طلحہ (رض) نے اس کو حضرت ابن بی کعب اور حسان بن ثابت کے لیے مقرر کردیا حالانکہ حضرت حسان (رض) سے ان کا رشتہ تیسرے باپ میں ملتا تھا اور حضرت ابی بن کعب (رض) کے ساتھ ساتویں پشت میں رشتہ ملتا تھا اور دونوں ان کے ذی رحم محرم نہ تھے۔ قرابت دار سے ذی رحم مراد نہیں مطلقاً رشتہ دار مراد ہیں۔ اس سلسلہ کی روایات ملاحظہ ہوں۔

5278

۵۲۷۷ : فَمِنْہَا مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمَاجِشُوْنِ ، عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ جَائَ أَبُو طَلْحَۃَ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، قَالَ : وَکَانَ دَارُ أَبِیْ جَعْفَرٍ وَالدَّارُ الَّتِیْ تَلِیْہَا ، اِلَی قَصْرِ بَنِیْ حُدَیْلَۃَ حَوَائِطَ فَقَالَ : وَکَانَ قَصْرُ بَنِیْ حُدَیْلَۃَ حَوَائِطَ لِأَبِیْ طَلْحَۃَ ، فِیْہَا بِئْرٌ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُہَا فَیَشْرَبُ مِنْ مَائِہَا ، وَیَأْکُلُ ثَمَرَہَا .فَجَائَ ہُ أَبُو طَلْحَۃَ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ : اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ فَاِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِیْ اِلَیَّ ، ہٰذِہِ الْبِئْرُ ، فَہِیَ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ ، أَرْجُو بِرَّہُ وَذُخْرَہٗ، اجْعَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ حَیْثُ أَرَاک اللّٰہُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَخٍ یَا أَبَا طَلْحَۃَ ، مَالٌ رَابِحٌ ، قَدْ قَبِلْنَاہُ مِنْکَ، وَرَدَدْنَاہُ عَلَیْکَ، فَاجْعَلْہُ فِی الْأَقْرَبِیْنَ .قَالَ : فَتَصَدَّقَ أَبُو طَلْحَۃَ عَلٰی ذٰوِیْ رَحِمِہٖ، فَکَانَ مِنْہُمْ أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ .قَالَ : فَبَاعَ حَسَّانُ نَصِیْبَہٗ مِنْ مُعَاوِیَۃَ ، فَقِیْلَ لَہٗ : اِنَّ حَسَّانًا یَبِیْعُ صَدَقَۃَ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، فَقَالَ : لَا أَبِیْعُ صَاعًا بِصَاعٍ مِنْ دَرَاہِمَ .
٥٢٧٧: اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔۔۔“ (آل عمران : ٩٢) تو حضرت ابو طلحہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ منبر پر تشریف فرما تھے حضرت ابو جعفر کا گھر اور وہ گھر جس کے قریب قصر حدیلہ ہے وہاں ابو طلحہ کے باغات تھے اور یہ قصر حدیلہ یہ ابو طلحہ کا باغ تھا جس میں کنواں تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا پانی نوش فرماتے اور پھل کھاتے تھے۔ تو ابو طلحہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے اور ابو طلحہ کہنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں :” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔۔۔“ میرا سب سے محبوب ترین مال یہ کنواں ہے پس یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے۔ میں اس کی نیکی اور ذخیرے کا امیدوار ہوں۔ اس کو یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں پسند کریں لگا دیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ واہ ‘ واہ ‘ اے ابو طلحہ ! یہ تو نفع بخش مال ہے ہم نے اس کو تمہاری طرف سے قبول کیا اور تیری طرف لوٹا دیا اس کو اپنے اقربین میں خرچ کر دو ۔ انس کہتے ہیں کہ ابو طلحہ نے اپنے ذی رحم پر تقسیم کردیا۔ ان میں حضرت ابی بن کعب اور حسان بن ثابت (رض) بھی تھے۔ انس کہتے ہیں کہ حضرت حسان (رض) نے اپنا حصہ حضرت معاویہ (رض) کے ہاتھ فروخت کردیا تو ان سے کہا گیا کہ حسان ابو طلحہ کا صدقہ فروخت کرتے ہیں۔ تو حضرت ابی (رض) نے جواب دیا کہ میں ایک صاع کھجور کو دراہم کے ایک صاع کے بدلے بھی فروخت نہ کروں گا۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
حضرت ابو طلحہ نے یہ باغ حضرت ابی بن کعب اور حسان بن ثابت (رض) میں تقسیم کیا حالانکہ حضرت ابی کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں ان سے ملتا ہے کیونکہ ابو طلحہ کا نام زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے اور حسان کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ حسان بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی ذی رحم محرم نہیں ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ قول غلط ہے کہ قرابت دار وہ ذی رحم محرم ہو۔ ہم نے اس فصل میں جو کچھ بیان کیا اس سے امام زفر کے قول کا فساد بھی ظاہر ہوگیا کیونکہ یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بنی ہاشم و بنی مطلب کو دیا تو ان میں قریب و بعید رحم میں حصے کے لحاظ سے فرق نہیں کیا کیونکہ یہ سب آپ کے قرابت دار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ قرابت والوں کو دو اگر قریب والا دور والے کے لیے رکاوٹ ہوتا تو قریب کے ہوتے ہوئے بعید کو عنایت نہ فرماتے حالانکہ سب کو دیا۔ ان ابو طلحہ انصاری ہیں جنہوں نے اپنے عطیہ میں ابی بن کعب اور حسان بن ثابت (رض) کو جمع کیا حالانکہ ایک قریب تر اور دوسرا بعید تھا مگر قرابت والے ہونے کی وجہ سے دونوں کو دیا اور ابو طلحہ کا یہ فعل امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف نہیں تھا جیسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی مطلب کو بنی ہاشم کے ساتھ قرابت کی وجہ دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے نہ تھے جو کہ اللہ تعالیٰ نے قرابت والوں کو دینے کا حکم فرمایا تھا۔ دوسرے اور تیسرے قول کی تردید : وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ قرابتدار وہ ہیں جو چوتھے یا تیسرے باپ میں موصی کے ساتھ شریک ہوں یہ قول بھی فاسد ہے کیونکہ انھوں نے بڑی دلیل یہ ذکر کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت داروں کا حصہ بنو مطلب کو دیا اور وہ چوتھی پشت میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور آپ نے پانچویں پشت یا اس سے اوپر والے شرکاء کو حصہ عنایت نہیں فرمایا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو امیہ اور بنو نوفل کو محروم کیا اور ان کو کچھ نہیں دیا ۔ کیونکہ وہ آپ کے قرابت داروں سے نہ تھے اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ جب آپ نے اوپر کے لوگوں کو محروم رکھا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ قرابت دار نہیں تھے۔ دیکھئے یہ ابو طلحہ ہیں۔ جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اپنے بعض ایسے قرابت داروں کو عطاء فرمایا جو ساتویں پشت میں آپ کے ساتھ جمع ہوئے تھے۔ اس فعل میں حضرت ابو طلحہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی نہیں فرمائی اور نہ ہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس عمل پر کسی قسم کا اعتراض فرمایا۔ (اس نے اس قول کا فساد ظاہر ہوگیا) بالکل اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرابت دار وہ ہیں جو تیسری پشت میں شریک ہوں ان کی اہم دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ذوی القربیٰ کا حصہ تقسیم فرمایا تو تمام بنو ہاشم کو دیا اس لیے کہ وہ آپ کے ساتھ تیسری پشت میں شریک تھے۔ پس ان کو آپ سے قرابت حاصل تھی اور بنو مطلب کو اس لیے عنایت فرمایا کہ وہ آپ کے حلیف تھے۔ اگر آپ ان کو قرابت داری کی وجہ سے عطاء فرماتے تو جو قرابت داری میں ان کے مماثل تھے جیسے بنو امیہ اور بنو نوفل تو ان کو بھی عطاء فرماتے۔ اس دلیل کا جواب یہ ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو مطلب کو معاہدے اور حلیف ہونے کی وجہ سے عطاء کرتے تو قرابت داری کی وجہ سے عطاء نہ فرماتے بلکہ دیگر حلفاء کو بھی عنایت فرماتے بنو خزاعہ آپ کے حلیف تھے۔ عمرو بن سالم خزاعی آپ کی خدمت میں حلف کے متعلق یہ اشعار پڑھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٤٤‘ والوصایا باب ١٧‘ ٢٦‘ والوکالہ باب ١٥‘ و تفسیر سورة ٣؍٥‘ والاشربہ باب ١٣‘ مسلم فی الزکوۃ ٤٣‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٢٣‘ مسند احمد ٣‘ ١٤١؍٢٥٦‘ ٢٨٥۔

5279

۵۲۷۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ قَالَ : أَوْ قَالَ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا جَائَ أَبُو طَلْحَۃَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، حَائِطِی الَّذِی بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا ، لَوِ اسْتَطَعْتُ أَنْ أُسِرَّہُ لَمْ أُعْلِنْہٗ، قَالَ اجْعَلْہُ فِیْ فُقَرَائِ قَرَابَتِکَ، وَفُقَرَائِ أَہْلِک .
٥٢٧٨: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب آیت لن تنالوا البر حتی تنفقو مما تحبون “ (آ (رح) عمران۔ ٩٢) نازل ہوئی یا یہ کہا کہ آیت ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ (البقرہ۔ ٢٤٥) نازل ہوئی تو ابو طلحہ آ کر کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا وہ باغ جو فلاں مقام پر واقع ہے۔ اگر میں اس کو چھپا سکتا ہوتا تو میں اس کو ظاہر بھی نہ کرتا۔ آپ نے فرمایا۔ اس کو اپنے غریب قرابت داروں اور فقراء اہل پر خرچ کر دو ۔
تخریج : ترمذی فی التفسیر سورة ٣‘ باب ٥‘ مسند احمد ٣‘ ١٠٥؍١٧٤۔

5280

۵۲۷۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ ثُمَامَۃَ قَالَ : قَالَ أَنَسٌ : کَانَتْ لِأَبِیْ طَلْحَۃَ أَرْضٌ فَجَعَلَہَا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَجَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اجْعَلْہَا فِیْ فُقَرَائِ قَرَابَتِک فَجَعَلَہَا لِحَسَّانٍ وَأُبَیُّ ، قَالَ أُبَیٌّ ، عَنْ ثُمَامَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وَکَانَا أَقْرَبَ اِلَیْہِ مِنِّیْ .
٥٢٧٩: ثمامہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ابو طلحہ کے پاس ایک زمین تھی جس کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کردیا۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو تو انھوں نے حضرت حسان و ابی (رض) کو دے دی۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ دونوں ابو طلحہ کے مجھ سے زیادہ قریبی رشتہ دار تھے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١١٥‘ ١٧٤۔

5281

۵۲۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْل : کَانَ أَبُو طَلْحَۃَ أَکْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِیْنَۃِ مَالًا ، مِنْ نَخْلٍ ، وَکَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِہِ اِلَیْہِ حَائِطًا حُدَیْلَۃَ ، وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَۃَ الْمَسْجِدِ ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُہَا وَیَشْرَبُ مِنْ مَائٍ فِیْہَا طَیِّبٍ .قَالَ أَنَسٌ : فَلَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ قَامَ أَبُو طَلْحَۃَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ فِیْ کِتَابِہٖ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَاِنَّ أَحَبَّ الْأَمْوَالِ اِلَیَّ ، الْحَائِطُ ، فَاِنَّہَا صَدَقَۃٌ أَرْجُو بِرَّہَا وَذُخْرَہَا عِنْدَ اللّٰہِ، فَضَعْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، حَیْثُ شِئْتَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَخٍ ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ، بَخٍ ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتُ فِیْہِ، وَأَنَا أَرَی أَنْ تَجْعَلَہَا فِی الْأَقْرَبِیْنَ .فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : أَفْعَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَقَسَمَہَا أَبُو طَلْحَۃَ فِیْ أَقَارِبِہٖ وَبَنِیْ عَمِّہِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا أَبُو طَلْحَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ جَعَلَہَا فِی أُبَی وَحَسَّانٍ ، وَاِنَّمَا یَلْتَقِیْ ہُوَ وَأُبَیُّ ، عِنْدَ أَبِیْہَ السَّابِعِ ، لِأَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ ، اسْمُہٗ زَیْدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ حَرَامِ بْنِ عَمْرِو بْنِ زَیْدِ مَنَاۃَ بْنِ عَدِیِّ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّجَّارِ .وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ حَرَامِ بْنِ عَمْرِو بْنِ زَیْدِ مَنَاۃَ بْنِ عَدِیِّ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّجَّارِ ، وَکِلَاہُمَا لَیْسَ بِذِیْ رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنْہُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی فَسَادِ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْقَرَابَۃَ لَیْسَتْ اِلَّا مَنْ کَانَتْ رَحِمُہُ رَحِمًا مَحْرَمَۃً .وَأَمَّا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ زُفَرُ بْنُ الْہُذَیْلِ بِمَا قَدْ حَکَیْنَا عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ ، فَفَاسِدٌ أَیْضًا ، لِأَنَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ مَا أَعْطَاہُمْ ، مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی - قَدْ سَوَّیْ بَیْنَ مَنْ قَرُبَتْ رَحِمُہُ مِنْہٗ، وَبَیْنَ مَنْ بَعُدَتْ رَحِمُہُ مِنْہُمْ مِنْہُ وَہُمْ جَمِیْعًا لَہُ ذَوُو قَرَابَۃٍ .فَلَوْ کَانَ مَنْ قَرُبَ مِنْہُ یَحْجُبُ مَنْ بَعُدَ مِنْہُ اِذًا لَمَا أَعْطَاہُ بَعِیْدًا مَعَ قَرِیْبٍ ، لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ اِنَّمَا أَمَرَہٗ أَنْ یُعْطِیَ ذَا قَرَابَتِہٖ، وَلَمْ یَکُنْ لِیُخَالِفَ مَا أَمَرَہٗ بِہٖ .وَہٰذَا أَبُو طَلْحَۃَ ، فَقَدْ جَمَعَ فِیْ عَطِیَّتِہِ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، وَحَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ ، وَأَحَدُہُمَا أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنَ الْآخَرِ ، اِنْ کَانَا مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ۔وَلَمْ یَکُنْ لِمَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ ، مُخَالِفًا لِمَا أَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِعْطَائِہِ بَنِی الْمُطَّلِبِ مَعَ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، مُخَالِفًا أَمْرَ اللّٰہِ فِیْ اِعْطَائِہِ مَنْ أَمَرَہٗ بِاِعْطَائِہِ مِنْ قَرَابَتِہٖ۔وَأَمَّا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ الَّذِیْنَ قَالُوْا : قَرَابَۃُ الرَّجُلِ کُلُّ مَنْ جَمَعَہٗ وَاِیَّاہُ أَبُوْھُ الرَّابِعُ اِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ مِنْ آبَائِہٖ، فَفَاسِدٌ أَیْضًا ، لِأَنَّ أَہْلَہُ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلَیْہِ أَیْضًا وَلَہُمْ عَلَیْہِ فِیْمَا ذَکَرُوْا ، اِعْطَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ بَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَہُمْ بَنُو أَبِیْہَ الرَّابِعِ ، وَلَمْ یُعْطِ بَنِیْ أَبِیْہَ الْخَامِسِ ، وَلَا بَنِیْ أَحَدٍ مِنْ آبَائِہِ الَّذِیْنَ فَوْقَ ذٰلِکَ .وَقَدْ رَأَیْنَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَمَ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ ، فَلَمْ یُعْطِہِمْ شَیْئًا ، لَیْسَ لِأَنَّہُمْ لَیْسُوْا مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ۔فَکَذٰلِکَ یُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ، اِذْ حَرَمَ مَنْ فَوْقَہُمْ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ مِنْہٗ، لَیْسَ لِأَنَّہُمْ لَیْسُوْا مِنْ قَرَابَتِہٖ۔وَہٰذَا أَبُو طَلْحَۃَ ، فَقَدْ أَعْطَی مَا أَمَرَہٗ اللّٰہُ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاِعْطَائِہِ اِیَّاہُ ذَا قَرَابَتِہِ الْفُقَرَائِ ، بَعْضَ بَنِیْ أَبِیْہَ السَّابِعِ .فَلَمْ یَکُنْ بِذٰلِکَ أَبُو طَلْحَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لِمَا أَمَرَہٗ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُخَالِفًا ، وَلَا أَنْکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا فَعَلَہٗ مِنْ ذٰلِکَ .فَأَمَّا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَنَّ قَرَابَۃَ الرَّجُلِ ، کُلُّ مَنْ جَمَعَہٗ وَاِیَّاہُ أَبُوْھُ الثَّالِثُ اِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّہُمْ قَالُوْا : لَمَّا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ جَمِیْعًا ، وَہُمْ بَنُو أَبِیْہَ الثَّالِثِ ، فَکَانُوْا قَرَابَتُہُمْ مِنْہٗ، وَأَعْطَیْ بَنِی الْمُطَّلِبِ مَا أَعْطَاہُمْ ، لِأَنَّہُمْ حُلَفَاؤُہٗ، وَلَوْ کَانَ أَعْطَاہُمْ ، لِأَنَّہُمْ قَرَابَتُہٗ، لَأَعْطَی مَنْ ہُوَ فِی الْقَرَابَۃِ مِثْلُہُمْ ، مِنْ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ .فَہٰذَا الْقَوْلُ - عِنْدَنَا - فَاسِدٌ ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ کَانَ أَعْطَیْ بَنِی الْمُطَّلِبِ بِالْحِلْفِ لَا بِالْقَرَابَۃِ ، لَأَعْطَیْ جَمِیْعَ حُلَفَائِہٖ، فَقَدْ کَانَتْ خُزَاعَۃُ حُلَفَائَ ہٗ، وَلَقَدْ نَاشَدَہُ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ الْخُزَاعِیُّ بِذٰلِکَ الْحِلْفِ .
٥٢٨٠: اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) کو کہتے سنا کہ ابو طلحہ انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے لحاظ سے مالدار تھے۔ ان کو سب نے زیادہ حدیلہ نامی باغ پسند تھا۔ وہ مسجد کے سامنے تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں داخل ہوتے اور اس کا عمدہ پانی نوش فرماتے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت : ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ نازل ہوئی اور جناب ابو طلحہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ” لن تنالوا البر الایہ۔۔۔“ میرا سب سے زیادہ محبوب وہ باغ ہے۔ وہ صدقہ ہے میں اس کی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ذخیرہ ہونے کی امید ہے۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کو جہاں چاہیں اس کو صرف کریں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بہت خوب بہت خوب۔ یہ نفع بخش مال ہے۔ جو تم نے کہا وہ میں نے سن لیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ تم اسے اقربین میں تقسیم کر دو ۔ ابو طلحہ کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں ایسا ہی کروں گا۔ تو ابو طلحہ نے اپنے اقارب اور بنی عم چچازاد میں تقسیم کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نے یہ باغ حضرت ابی بن کعب اور حسان بن ثابت (رض) میں تقسیم کیا حالانکہ حضرت ابی کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں ان سے ملتا ہے کیونکہ ابو طلحہ کا نام زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے اور حسان کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ حسان بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی ذی رحم محرم نہیں ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ قول غلط ہے کہ قرابت دار وہ ذی رحم محرم ہوتا ہے۔ قول زفر (رح) کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اس فصل میں جو کچھ بیان کیا اس سے امام زفر کے قول کا فساد بھی ظاہر ہوگیا کیونکہ یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بنی ہاشم و بنی مطلب کو دیا تو ان میں قریب و بعید رحم میں حصے کے لحاظ سے فرق نہیں کیا کیونکہ یہ سب آپ کے قرابت دار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ قرابت والوں کو دو اگر قریب والا دور والے کے لیے رکاوٹ ہوتا تو قریب کے ہوتے ہوئے بعید کو عنایت نہ فرماتے حالانکہ سب کو دیا۔ یہ ابو طلحہ انصاری ہیں جنہوں نے اپنے عطیہ میں ابی بن کعب اور حسان بن ثابت (رض) کو جمع کیا حالانکہ ایک قریب تر اور دوسرا بعید تھا مگر قرابت والے ہونے کی وجہ سے دونوں کو دیا اور ابو طلحہ کا یہ فعل امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف نہیں تھا جیسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی مطلب کو بنی ہاشم کے ساتھ قرابت کی وجہ سے دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے نہ تھے جو کہ اللہ تعالیٰ نے قرابت والوں کو دینے کا حکم فرمایا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ قرابتدار وہ ہیں جو چوتھے یا تیسرے باپ میں موصی کے ساتھ شریک ہوں یہ قول بھی فاسد ہے کیونکہ انھوں نے بڑی دلیل یہ ذکر کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت داروں کا حصہ بنو مطلب کو دیا اور وہ چوتھی پشت میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور آپ نے پانچویں پشت یا اس سے اوپر والے شرکاء کو حصہ عنایت نہیں فرمایا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو امیہ اور بنو نوفل کو محروم کیا اور ان کو کچھ نہیں دیا ۔ کیونکہ وہ آپ کے قرابت داروں سے نہ تھے اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ جب آپ نے اوپر کے لوگوں کو محروم رکھا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ قرابت دار نہیں تھے۔ دیکھئے یہ ابو طلحہ ہیں۔ جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اپنے بعض ایسے قرابت داروں کو عطاء فرمایا جو ساتویں پشت میں آپ کے ساتھ جمع ہوئے تھے۔ اس فعل میں حضرت ابو طلحہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی نہیں فرمائی اور نہ ہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس عمل پر کسی قسم کا اعتراض فرمایا۔ (اس سے اس قول کا فساد ظاہر ہوگیا) بالکل اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرابت دار وہ ہیں جو تیسری پشت میں شریک ہوں ان کی اہم دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ذوی القربیٰ کا حصہ تقسیم فرمایا تو تمام بنو ہاشم کو دیا اس لیے کہ وہ آپ کے ساتھ تیسری پشت میں شریک تھے۔ پس ان کو آپ سے قرابت حاصل تھی اور بنو مطلب کو اس لیے عنایت فرمایا کہ وہ آپ کے حلیف تھے۔ اگر آپ ان کو قرابت داری کی وجہ سے عطاء فرماتے تو جو قرابت داری میں ان کے مماثل تھے جیسے بنو امیہ اور بنو نوفل تو ان کو بھی عطاء فرماتے۔ اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو مطلب کو معاہدے اور حلیف ہونے کی وجہ سے عطاء کرتے تو قرابت داری کی وجہ سے عطاء نہ فرماتے بلکہ دیگر حلفاء کو بھی عنایت فرماتے بنو خزاعہ آپ کے حلیف تھے۔ عمرو بن سالم خزاعی آپ کی خدمت میں حلف کے متعلق یہ اشعار پڑھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5282

۵۲۸۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا وَادَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ مَکَّۃَ ، وَکَانَتْ خُزَاعَۃُ حُلَفَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَکَانَتْ بَنُوْبَکْرٍ حُلَفَائَ قُرَیْشٍ ، فَدَخَلَتْ خُزَاعَۃُ فِیْ صُلْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَتْ بَنُوْبَکْرٍ فِیْ صُلْحِ قُرَیْشٍ .فَکَانَتْ بَیْنَ خُزَاعَۃَ وَبَیْنَ بَکْرٍ بَعْدُ قِتَالٍ ، فَأَمَدَّتْہُمْ قُرَیْشٌ بِسِلَاحٍ وَطَعَامٍ وَظَلَّلُوْا عَلَیْہِمْ ، وَظَہَرَتْ بَنُوْبَکْرٍ عَلَی خُزَاعَۃَ ، فَقَتَلُوْا فِیْہِمْ .فَقَدِمَ وَافِدُ خُزَاعَۃَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَ بِمَا صَنَعَ الْقَوْمُ ، وَدَعَاہُ اِلَی النُّصْرَۃِ ، وَأَنْشَدَ فِیْ ذٰلِکَ : لَا ہُمَّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدَا حِلْفَ أَبِیْنَا وَأَبِیْہَ الْأَتْلَدَا وَالِدًا کُنَّا وَکُنْتُ وَلَدَا اِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوْک الْمَوْعِدَا وَزَعَمُوْا أَنْ لَسْتُ أَدْعُو أَحَدَا وَنَقَضُوْا مِیْثَاقَک الْمُؤَکَّدَا وَجَعَلُوْا لِیْ بِکَدَائَ رُصَّدَا وَہُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا وَہُمْ أَتَوْنَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدَا وَقَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَسُجَّدَا ثَمَّتَ أَسْلَمْنَا وَلَمْ نَنْزِعْ یَدَا فَانْصُرْ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَصْرًا أَعْتَدَا وَابْعَثْ جُنُوْدَ اللّٰہِ تَأْتِْی مَدَدَا فِیْ فَیْلَقٍ کَالْبَحْرِ یَأْتِی مُزْبِدَا فِیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَدْ تَجَرَّدَا اِنْ سِیْمَ خَسْفًا وَجْہُہُ تَرَبَّدَا .قَالَ حَمَّادُ : وَہٰذَا الشِّعْرُ ، بَعْضُہٗ عَنْ أَیُّوْبَ ، وَبَعْضُہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ حَازِمٍ ، وَأَکْثَرَہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ .
٥٢٨١: ایوب نے حضرت عکرمہ سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے صلح کا معاہدہ کرلیا۔ بنو خزاعہ زمانہ جاہلیت سے آپ کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جبکہ بنو بکر قریش کے حلیف تھے۔ تو بنو خزاعہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلح میں داخل ہوئے اور بنو بکر قریش کی صلح میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد بنو خزاعہ اور بنو بکر کے مابین لڑائی پیش آئی۔ قریش نے ہتھیاروں اور رسد سے بنو بکر کی معاونت کی اور ان کی پشت پناہی کی بنو بکر کو بنو خزاعہ پر غلبہ ملا تو انھوں نے ان کے آدمیوں کو قتل کیا بنو خزاعہ کا وفد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں نے جو کچھ کیا تھا اس کی اطلاع دی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصرت کی طرف بلایا اور یہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے۔
نمبر 1: اے اللہ ! میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باپ اور دادا کے درمیان ہونے والا معاہدہ یاد دلاتا ہوں۔
نمبر 2: آپ فرزند تھے اور ہم والد تھے (عمر میں بڑے تھے) بلاشبہ قریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
نمبر 3: ان کا خیال یہ تھا کہ میں کسی کو نہ بلاؤں گا انھوں نے آپ سے کیا ہوا پختہ وعدہ توڑ دیا۔
نمبر 4: اور کداء (ایک مقام کا نام ہے جو مکہ کے بلند حصہ میں واقع ہے) میں انھوں نے میرے لیے گھات بنا رکھی تھی وہ نہایت کمزور اور قلیل تعداد میں تھے۔
نمبر 4: وہ مقام وتیر میں تہجد کے وقت آئے جبکہ ہم رکوع و سجدہ میں قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے۔
نمبر 6: اس جگہ ہم نے امن پسندی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے ہاتھ نہیں کھینچا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری نہایت مضبوط مدد فرمائیں۔
نمبر 8: آپ مدد کے لیے ایسا خدائی لشکر روانہ فرمائیں جو ایسے دستوں پر مشتمل ہوں جو سمندر کی طرح جوش سے جھاگ نکال رہے ہوں۔
نمبر 9: ان دستوں میں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےنیام تلوار کے ساتھ ہوں اور لڑائی کی پوری تیاری کرنے والے ہوں۔ اگر آپ سے جھک جانے کا مطالبہ ہو آپ کا چہرہ ناراضگی سے بدل جائے۔
بقول حماد بعض اشعار تو ایوب سے اور بعض یزید بن حازم سے نقل کئے اور اکثر محمد بن اسحاق سے لیے گئے ہیں۔
مگر ابن ہشام نے ان اشعار کو زیادہ درست اور پختہ انداز سے لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو سیرۃ ابن ہشام۔ (مترجم) ۔
لغات : ناشد۔ یاد دلانا۔ الاتلد۔ نہایت پرانا۔ ولدا۔ اس سے اشارہ کیا بنو عبد مناف اور قصی کی والدہ خزاعیہ ہے) اعتدا۔ تیار۔ المدد۔ معاونت۔ تجرد۔ تیاری کرنا۔ سیم۔ مطالبہ کرنا۔ الخسف۔ ذلت۔ تربد۔ بدلنا۔

5283

۵۲۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ وَغَیْرِہٖ، نَحْوُہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ ذَکَرَ أَنَّ الْمُنَاشِدَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٰذَا الشِّعْرِ ، عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَدْخُلْ خُزَاعَۃَ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِلْحِلْفِ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ ، اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ اِعْطَائُ بَنِی الْمُطَّلِبِ لِلْحِلْفِ ، وَلَوْ کَانَ اِعْطَاؤُہُمْ لِلْحِلْفِ أَیْضًا ، لَأَعْطَی مَوَالِیَ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَہُوَ فَلَمْ یُعْطِہِمْ شَیْئًا .وَأَمَّا مَا ذَہَبَ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا ، مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُمَا ، فَہُوَ أَحْسَنُ ہٰذِہِ الْأَقْوَالِ کُلِّہَا عِنْدَنَا ، لِأَنَّا رَأَیْنَا النَّاسَ فِیْ دَہْرِنَا ہٰذَا، یُنْسَبُوْنَ اِلَی الْعَبَّاسِ ، وَکَذٰلِکَ آلُ عَلِی ، وَآلُ جَعْفَرٍ ، وَآلُ عَقِیْلٍ ، وَآلُ الزُّبَیْرِ ، وَطَلْحَۃَ ، کُلُّ ہٰؤُلَائِ لَا یُنْسَبُ أَوْلَادُہُمْ اِلَّا اِلٰی أَبِیْھِمُ الْأَعْلٰی، فَیُقَالُ : بَنُو الْعَبَّاسِ ، وَبَنُوْ عَلِی ، وَبَنُو مَنْ ذَکَرْنَا ، حَتَّی قَدْ صَارَ ذٰلِکَ یَجْمَعُہُمْ ، وَحَتَّی قَدْ صَارُوْا بِآبَائِہِمْ مُتَفَرِّقِیْنَ کَأَہْلِ الْعَشَائِرِ الْمُخْتَلِفَۃِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَسَمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، اِنَّمَا جَعَلَہٗ فِیْمَنْ یَجْمَعُہُ وَاِیَّاہُ أَبٌ جَاہِلِیٌّ ، فَکَانَ بَنُو ذٰلِکَ الْأَبِ مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ، وَکَذٰلِکَ مَنْ أَعْطَاہُ أَبُو طَلْحَۃَ ، مَا أَعْطَاہُ مِمَّنْ ذَکَرْنَا ، فَاِنَّمَا یَجْمَعُہُمْ وَاِیَّاہُ أَبٌ جَاہِلِیٌّ .فَلِمَ قُلْتُمْ : اِنَّ قَرَابَۃَ الرَّجُلِ ہِیَ مَنْ جَمَعَہٗ وَاِیَّاہُ أَقْصَی آبَائِہِ فِی الْاِسْلَامِ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ ذَکَرْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَّا ، فِیْ کِتَابِنَا ہٰذَا، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی قَرَابَۃً ، وَمَنَعَ قَرَابَۃً ، وَقَدْ کَانَ کُلُّ مَنْ أَعْطَاہُ وَکُلُّ مَنْ حَرَمَہٗ، مِمَّنْ لَمْ یُعْطِہٖ، مِمَّنْ مَوْضِعُہُ مِنْہٗ، وَمَوْضِعُ الَّذِی أَعْطَاہُ یَجْمَعُہُ وَاِیَّاہُمْ عَشِیْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ ، یُنْسَبُوْنَ اِلَیْہَا حَتَّی یُقَالَ لَہُمْ جَمِیْعًا ہٰؤُلَائِ الْقُرَیْشِیُّوْنَ وَلَا یُنْسَبُوْنَ اِلَی مَا بَعْدَ قُرَیْشٍ ، فَیُقَالُ ہٰؤُلَائِ الْکِنَانِیُّوْنَ فَصَارَ أَہْلُ الْعَشِیْرَۃِ جَمِیْعًا بَنِیْ أَبٍ وَاحِدٍ وَقَرَابَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، وَبَانُوْا مِمَّنْ سِوَاہُمْ ، فَلَمْ یُنْسَبُوْا اِلَیْہِ فَکَذٰلِکَ أَیْضًا کُلُّ أَبٍ حَدَثَ فِی الْاِسْلَامِ صَارَ فَخِذًا أَوْ صَارَ عَشِیْرَۃً یُنْسَبُ وَلَدُہُ اِلَیْہِ فِی الْاِسْلَامِ فَکَانَ ہُوَ وَوَلَدُہُ یُنْسَبُوْنَ جَمِیْعًا اِلَی عَشِیْرَۃٍ وَاحِدَۃٍ قَدْ تَقَدَّمَتِ الْاِسْلَامَ فَہُمْ جَمِیْعًا مِنْ أَہْلِ تِلْکَ الْعَشِیْرَۃِ ، ہَذَا أَحْسَنُ الْأَقْوَالِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عِنْدَنَا ، وَاللّٰہَ نَسْأَلُہُ التَّوْفِیْقَ . ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی مَا أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَوِیْ قُرْبَاہٗ، فَوَجَدْنَا النَّاسَ قَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : أَعْطَاہُ بِحَق قَدْ وَجَبَ لَہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِیَّاہُمْ فِیْ آیَۃِ الْغَنَائِمِ ، وَفِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ ، وَلَمْ یَکُنْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْعُہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَا التَّخَطِّی بِہٖ عَنْہُمْ اِلَی غَیْرِہِمْ وَلِأَنْفُسِہِمْ ، مِنْ خُمُسِ جَمِیْعِ الْفَیْئِ ، وَمِنْ خُمُسِ خُمُسِ جَمِیْعِ الْغَنَائِمِ ، کَمَا لَیْسَ لَہٗ مِنْہٗ، مَنْعُ الْمُقَاتِلَۃِ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَخْمَاسِ الْغَنَائِمِ ، وَلَا التَّخَطِّی بِہٖ عَنْہُمْ اِلَی غَیْرِہِمْ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : لَمْ یَجِبْ لِذِیْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقٌّ فِی الْفَیْء ، وَلَا فِیْ خُمُسِ الْغَنَائِمِ بِالْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ ذَکَرْتُہٗ مَا فِیْ أَوَّلِ کِتَابِنَا ہٰذَا، وَاِنَّمَا وَکَّدَ اللّٰہُ أَمْرَہُمْ بِذِکْرِہِ اِیَّاہُمْ فِیْ ہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ ، ثُمَّ لَا یَجِبُ بَعْدَ ذٰلِکَ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَخُمُسِ الْغَنَائِمِ اِلَّا کَمَا یَجِبُ لِغَیْرِہِمْ مِنْ سَائِرِ فُقَرَائِ الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْنَ لَا قَرَابَۃَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْقَوْلُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ .
٥٢٨٢: محمد بن اسحاق نے زہری وغیرہ سے اسی طرح بیان کی البتہ اس نے یہ بیان کیا کہ ان اشعار سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد دلانے والا عمرو بن سالم خزاعی ہے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اور خزاعہ کے درمیان معاہدے کی وجہ سے ان کو قرابت داروں کے حصے میں شریک نہیں فرمایا تو یہ بات ناممکن ہے کہ بنو مطلب کو معاہدے کی وجہ سے عطاء فرمایا۔ اگر آپ معاہدے کی وجہ سے عطاء فرماتے تو بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلاموں کو بھی دیتے لیکن آپ نے ان کو کچھ نہیں دیا ۔ ان تمام اقوال میں سب سے بہتر قول وہ ہے جس کو امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔ ان اقوال میں سب سے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے زمانے میں حضرت عباس (رض) کی طرف منسوب ہو کر آل عباس اور آل علی ‘ آل جعفر ‘ آل عقیل ‘ آل زبیر ‘ آل طلحہ (رض) وغیرہ کہلاتے ہیں۔ تو ان تمام کی اولاد اپنے جد اعلیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے گویا ان اولاد کو جد اعلیٰ کا ایک ہونا جمع کرتا ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی وجہ سے اسی طرح الگ الگ ہوتے ہیں جیسے مختلف قبائل ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قرابت داروں کا حصہ تقسیم فرمایا تو ان لوگوں کو عنایت فرمایا جو آپ کے ساتھ دور جاہلیت کے باپ میں شریک تھے تو اس باپ کی اولاد آپ کے قرابتدار تھے۔ اسی طرح حضرت ابو طلحہ (رض) نے جن لوگوں کو عطاء فرمایا ان کی بھی یہی صورت تھی۔ تو پھر یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ قرابت میں وہ لوگ شریک ہیں جس کے ساتھ وہ اسلام میں جد اولیٰ کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ ہم جیسا کہ پہلے ذکر کر آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعض قرابتداروں کو دیا اور بعض کو محروم کردیا اور روک لیا۔ تو آپ نے جن کو دیا اور جن کو نہ دیا وہ تمام آپ کے ساتھ ایک ہی قبیلہ میں جمع ہوتے ہیں اور اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کو قریش کہا جاتا ہے وہ قریش کے بعد کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے کہ ان کو کنانی کہا جائے تو وہ تمام ایک قبیلے کے افراد ہوئے ایک باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی قرابت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح وہ باقی لوگوں سے جدا ہوگئے ان کی طرف منسوب نہیں ہوتے اسی طرح جو باپ اسلام میں سامنے آیا تو وہ فخذ یا عشیرہ کہلایا ان کی اولاد اسلام میں اس کی طرف منسوب ہوتی ہے تو وہ اور اس کی اولاد سب کے سب ایک قبیلہ (عشیرہ) کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو اسلام سے پہلے ہو اور وہ سب اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے نزدیک یہ سب سے اچھا قول ہے۔ اس مضمون کی طرف ہم پھر لوٹ آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قرابت داروں کو کس طرح عطاء فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ حق عنایت فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آیت غنیمت اور آیت فئی میں ذکر کر کے لازم کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار نہ تھا کہ آپ ان سے اس حق کو روکتے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو عنایت فرماتے۔ ان کو یہ تمام مال فئی کے خمس اور تمام غنائم کے خمس سے دیا جاتا جیسا کہ غنائم کے پانچ حصوں میں سے چار حصے مجاہدین سے روکنے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو دینے کا آپ کو اختیار نہ تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لیے فئی اور غنائم کے خمس میں جو حق لازم ہوا وہ ان دو آیات کی وجہ سے نہیں جنہیں اس کتاب کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس حق کا ذکر تاکید سے فرمایا پھر ان کے لیے فئی اور غنیمت کے خمس میں اسی طرح لازم ہوا جیسا کہ دیگر فقراء اسلام کے لیے واجب ہے جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت کا حق حاصل نہ تھا۔ یہ قول حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ہے۔
تشریح جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اور بنو خزاعہ کے درمیان معاہدے کی وجہ سے ان کو قرابت داروں کے حصے میں شریک نہیں فرمایا تو یہ بات ناممکن ہے کہ بنو مطلب کو معاہدے کی وجہ سے عطاء فرمایا۔ اگر آپ معاہدے کی وجہ سے عطاء فرماتے تو بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلاموں کو بھی دیتے لیکن آپ نے ان کو کچھ نہیں دیا۔
تمام اقوال میں بہتر قول :
ان تمام اقوال میں سب سے بہتر قول وہ جس کو امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔
وجہ ترجیح : ان اقوال میں سب سے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے زمانے میں حضرت عباس (رض) کی طرف منسوب ہو کر آل عباس اور آل علی ‘ آل جعفر ‘ آل عقیل ‘ آل زبیر ‘ آل طلحہ (رض) وغیرہ کہلاتے ہیں۔ تو ان تمام کی نسبت اپنے جد اعلیٰ کی طرف ہے گویا ان اولاد کو جد اعلیٰ کا ایک ہونا جمع کرتا ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی وجہ سے اسی طرح الگ الگ ہوتے ہیں جیسے مختلف قبائل ہیں۔
M: اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قرابت داروں کا حصہ تقسیم فرمایا تو ان لوگوں کو عنایت فرمایا جو آپ کے ساتھ دور جاہلیت کے باپ میں شریک تھے تو اس باپ کی اولاد آپ کے قرابتدار تھے۔ اسی طرح حضرت ابو طلحہ (رض) نے جن لوگوں کو عطاء فرمایا ان کی بھی یہی صورت تھی۔ تو پھر یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ قرابت میں وہ لوگ شریک ہیں جس کے ساتھ وہ اسلام میں جد اولیٰ کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔
جوابہم جیسا کہ پہلے ذکر کر آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعض قرابتداروں کو دیا اور بعض کو محروم کردیا اور روک لیا۔ تو آپ نے جن کو دیا اور جن کو نہ دیا وہ تمام آپ کے ساتھ ایک ہی قبیلہ میں جمع ہوتے ہیں اور اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کو قریش کہا جاتا ہے وہ قریش کے بعد کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے کہ ان کو کنانی کہا جائے تو وہ تمام ایک قبیلے کے افراد ہوئے ایک باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی قرابت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح وہ باقی لوگ سے جدا ہوگئے ان کی طرف منسوب نہیں ہوتے اسی طرح جو باپ اسلام میں سامنے آیا تو وہ فخذ یا عشیرہ کہلایا ان کی اولاد اسلام میں اس کی طرف منسوب ہوتی ہے تو وہ اور اس کی اولاد سب کے سب ایک قبیلہ (عشیرہ) کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو اسلام سے پہلے ہو اور وہ سب اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے نزدیک یہ سب سے اچھا قول ہے۔
لغات : عشیرہ۔ ایک باپ کی اولاد۔ فخذ۔ اسلام میں جد اعلیٰ کی اولاد۔
قرابتداروں کا حق کس طور دیا گیا :
اس مضمون کی طرف ہم پھر لوٹ آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قرابت داروں کو کس طرح عطاء فرمایا۔
قول اوّل : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ حق عنایت فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آیت غنیمت اور آیت فئی میں ذکر کر کے لازم کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار نہ تھا کہ آپ ان سے اس حق کو روکتے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو عنایت فرماتے۔ ان کو یہ تمام مال فئی کے خمس اور تمام غنائم کے خمس سے دیا جاتا جیسا کہ غنائم کے پانچ حصوں میں سے چار حصے مجاہدین سے روکنے یا ان کو چھوڑ کر دوسروں کو دینے کا آپ کو اختیار نہ تھا۔
دوسرا قول : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لیے فئی اور غنائم کے خمس میں جو حق لازم ہوا وہ ان دو آیات کی وجہ سے نہیں جنہیں اس باب کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس حق کا ذکر تاکید سے فرمایا پھر ان کے لیے فئی اور غنیمت کے خمس میں اسی طرح لازم ہوا جیسا کہ دیگر فقراء اسلام کے لیے واجب ہے جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت کا حق حاصل نہ تھا۔ یہ قول حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ہے۔

5284

۵۲۸۳ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ یَعْقُوْبَ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ، عَنْ عَمِّہِ أَبِیْ سُہَیْلِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : ہَذَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ فِی الْفَیْئِ وَالْمَغْنَمِ .أَمَّا بَعْدُ ، فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَ الْقُرْآنَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَصَائِرَ وَرَحْمَۃً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ ، فَشَرَعَ فِیْہِ الدِّیْنَ ، وَأَبْہَجَ بِہٖ السَّبِیْلَ ، وَصَرَفَ بِہٖ الْقَوْلَ ، وَبَیَّنَ مَا یُؤْتَی مِمَّا یُنَالُ بِہٖ مِنْ رِضْوَانِہٖ، وَمَا یُنْتَہَیْ عَنْہُ مِنْ مَنَاہِیْہِ وَمَسَاخِطِہٖ۔ ثُمَّ أَحَلَّ حَلَالَہُ الَّذِی وَسَّعَ بِہٖ ، وَحَرَّمَ حَرَامَہٗ، فَجَعَلَہُ مَرْغُوْبًا عَنْہُ، مَسْخُوْطًا عَلٰی أَہْلِہٖ ، وَجَعَلَ مِمَّا رَحِمَ بِہٖ ہٰذِہِ الْأُمَّۃَ ، وَوَسَّعَ بِہٖ عَلَیْہِمْ مَا أَحَلَّ مِنَ الْمَغْنَمِ ، وَبَسَطَ مِنْہُ وَلَمْ یَحْظُرْہُ عَلَیْہِمْ ، کَمَا ابْتَلَی بِہٖ أَہْلَ النُّبُوَّۃِ وَالْکِتَابِ ، مِمَّنْ کَانَ قَبْلَہُمْ .فَکَانَ مِنْ ذٰلِکَ ، مَا نَقَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِخَاصَّۃٍ دُوْنَ النَّاسِ ، مِمَّا غَنِمَہٗ مِنْ أَمْوَالِ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیرِ ، اِذْ یَقُوْلُ اللّٰہُ حِیْنَئِذٍ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلَی مَنْ یَشَائُ وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ .فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَمْوَالُ خَالِصَۃً لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَجِبْ فِیْہَا خُمُسٌ وَلَا مَغْنَمٌ ، لِیُوَلِّیَ اللّٰہُ وَرَسُوْلَہٗ أَمْرَہُ .وَاخْتَارَ أَہْلَ الْحَاجَۃِ بِہَا ، السَّابِقَۃَ عَلٰی مَا یُلْہِمُہُ مِنْ ذٰلِکَ ، وَیَأْذَنُ لَہُ بِہٖ ، فَلَمْ یَضُرَّ بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَخْتَرْہَا لِنَفْسِہٖ، وَلَا لِأَقَارِبِہٖ ، وَلَمْ یُخَصِّصْ بِہٰذَا مِنْہُمْ بِفَرْضٍ وَلَا سُہْمَانَ ، وَلٰـکِنْ آثَرَ ، بِأَوْسَعِہَا وَأَکْثَرِہَا أَہْلَ الْحَقِّ وَالْقُدُمَۃَ ، مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ ، یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ، أُوْلٰئِکَ ہُمْ الصَّادِقُوْنَ .وَقَسَمَ اللّٰہُ طَوَائِفَ مِنْہَا فِیْ أَہْلِ الْحَاجَۃِ مِنَ الْأَنْصَارِ ، وَحَبَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرِیْقًا مِنْہَا لِنَائِبَتِہٖ وَحَقِّہٖ، وَمَا یَعْرُوْھُ أَیْ یَعْرِضُ لَہُ وَیَعْتَرِیْہِ غَیْرُ مُفْتَقِدٍ شَیْئًا مِنْہَا وَلَا مُسْتَأْثِرٍ بِہٖ ، وَلَا مُرِیْدٍ أَنْ یُؤْتِیْہِ أَحَدٌ بَعْدَہٗ، فَجَعَلَہُ صَدَقَۃً لَا یُوْرَثُ لِأَحَدٍ فِیْہِ ہَادَّۃٌ فِی الدُّنْیَا ، وَمَحْقَرَۃٌ لَہَا وَأَثَرَۃٌ لِمَا عِنْدَ اللّٰہِ، فَہٰذَا الَّذِی لَمْ یُوْجَفْ فِیْہِ خَیْلٌ وَلَا رِکَابٌ .وَمِنَ الْأَنْفَالِ الَّتِی آثَرَ اللّٰہُ بِہَا رَسُوْلَہُ وَلَمْ یَجْعَلْ لِأَحَدٍ فِیْہَا مِثْلَ الَّذِیْ جَعَلَ لَہٗ مِنَ الْمَغْنَمِ ، الَّذِیْ فِیْہِ اخْتِلَافُ مَنْ اخْتَلَفَ ، قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَائِ مِنْکُمْ .ثُمَّ قَالَ وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْھُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَاتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ .فَأَمَّا قَوْلُہٗ فَلِلّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی غَنِیٌّ عَنِ الدُّنْیَا وَأَہْلِہَا وَکُلِّ مَا فِیْہَا ، وَلَہُ ذٰلِکَ کُلُّہٗ، وَلٰـکِنَّہٗ یَقُوْلُ : اجْعَلُوْھُ فِیْ سَبِیْلِہِ الَّتِیْ أَمَرَ بِہَا .وَقَوْلُہٗ وَلِلرَّسُوْلِ فَاِنَّ الرَّسُوْلَ لَمْ یَکُنْ لَہُ حَظٌّ فِی الْمَغْنَمِ اِلَّا کَحَظِّ الْعَامَّۃِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلٰـکِنَّہٗ یَقُوْلُ : اِلَی الرَّسُوْلِ قِسْمَتُہُ وَالْعَمَلُ بِہٖ وَالْحُکُوْمَۃُ فِیْہِ .فَأَمَّا قَوْلُہٗ وَلِذِی الْقُرْبَی فَقَدْ ظَنَّ جَہَلَۃٌ مِنَ النَّاسِ ، أَنَّ لِذِیْ قُرْبَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمًا مَفْرُوْضًا مِنَ الْمَغْنَمِ ، قُطِعَ عَنْہُمْ وَلَمْ یُؤْتَہُ اِیَّاہُمْ .وَلَوْ کَانَ کَذٰلِکَ ، لَبَیَّنَہُ کَمَا بَیَّنَ فَرَائِضَ الْمَوَارِیْثِ ، فِی النِّصْفِ ، وَالرُّبْعِ ، وَالسُّدُسِ ، وَالثُّمُنِ ، وَلَمَا نَقَصَ حَظُّہُمْ مِنْ ذٰلِکَ غِنَاء ٌ ، کَانَ عِنْدَ أَحَدِہِمْ ، أَوْ فَقْرٌ ، کَمَا لَا یَقْطَعُ ذٰلِکَ حَظُّ الْوَرَثَۃِ مِنْ سِہَامِہِمْ .وَلٰـکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَفَلَ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا مِنَ الْمَغْنَمِ ، مِنَ الْعَقَارِ ، وَالسَّبْیِ ، وَالْمَوَاشِیْ ، وَالْعُرُوْضِ ، وَالصَّامِتِ .وَلٰـکِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ فَرْضٌ یُعْلَمُ ، وَلَا أَثَرٌ یُقْتَدَی بِہٖ ، حَتَّی قَبَضَ اللّٰہُ نَبِیَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَّا أَنَّہٗ قَدْ قَسَمَ فِیْہِمْ قِسْمًا یَوْمَ خَیْبَرَ ، لَمْ یَعُمَّ بِذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ عَامَّتَہُمْ ، وَلَمْ یُخَصِّصْ قَرِیْبًا دُوْنَ آخَرَ أَحْوَجَ مِنْہُ .لَقَدْ أَعْطَیْ یَوْمَئِذٍ مَنْ لَیْسَتْ لَہُ قَرَابَۃٌ ، وَذٰلِکَ لَمَّا شَکَوْا لَہٗ مِنَ الْحَاجَۃِ ، وَمَا کَانَ مِنْہُمْ فِیْ جَنْبِہٖ مِنْ قَوْمِہِمْ ، وَمَا خَلَصَ اِلَی حُلَفَائِہِمْ مِنْ ذٰلِکَ ، فَلَمْ یُفَضِّلْہُمْ عَلَیْہِمْ لِقَرَابَتِہِمْ .وَلَوْ کَانَ لِذِی الْقُرْبَیْ حَقٌّ ، کَمَا ظَنَّ أُوْلٰئِکَ ، لَکَانَ أَخْوَالُہُ ذَوِیْ قُرْبَی ، وَأَخْوَالُ أَبِیْھَاوَجَدِّہٖ، وَکُلُّ مَنْ ضَرَبَہٗ بِرَحِمٍ ، فَاِنَّہَا الْقُرْبَی کُلُّہَا .وَکَمَا لَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَمَا ظَنُّوْا ، لَأَعْطَاہُمْ اِیَّاہُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، بَعْدَمَا وَسِعَ الْفَیْئُ وَکَثُرَ .وَأَبُو الْحَسَنِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِیْنَ مَلَکَ مَا مَلَکَ ، وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ فِیْہِ قَائِلٌ ، أَفَلَا عَلَّمَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ أَمْرًا یَعْمَلُ بِہٖ فِیْہِمْ ، وَیُعْرَفُ بَعْدَہٗ.وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَمَا زَعَمُوْا ، لَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَائِ مِنْکُمْ فَاِنَّ مِنْ ذَوِی قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَنْ کَانَ غَنِیًّا ، وَکَانَ فِیْ سَعَۃٍ یَوْمَ یَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَبَعْدَ ذٰلِکَ .فَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ السَّہْمُ جَائِزًا لَہُ وَلَہُمْ ، کَانَتْ تِلْکَ دُوْلَۃٌ ، بَلْ کَانَتْ مِیْرَاثًا لِقَرَابَتِہٖ، لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ قَطْعُہَا وَلَا نَقْضُہَا .وَلٰـکِنَّہٗ یَقُوْلُ : لِذِیْ قُرْبَی ، بِحَقِّہِمْ وَقَرَابَتِہِمْ فِی الْحَاجَۃِ .وَالْحَقُّ اللَّازِمُ کَحَقِّ الْمُسْلِمِیْنَ ، فِیْ مَسْکَنَتِہٖ وَحَاجَتِہٖ، فَاِذَا اسْتَغْنَی ، فَلَا حَقَّ لَہٗ۔وَالْیَتِیْمُ فِیْ یُتْمِہٖ، وَاِنْ کَانَ الْیَتِیْمُ وَرِثَ عَنْ وَارِثِہٖ، فَلَا حَقَّ لَہٗ۔وَابْنُ السَّبِیْلِ ، فِیْ سَفَرِہِ وَصَیْرُوْرَتِہِ - اِنْ کَانَ کَبِیْرَ الْمَالِ - مُوَسَّعًا عَلَیْہِ، فَلَا حَقَّ لَہُ فِیْہِ، وَرُدَّ ذٰلِکَ الْحَقُّ اِلٰی أَہْلِ الْحَاجَۃِ .وَبَعَثَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ بَعَثَ ، وَذَکَرَ الْیَتِیْمَ ذَا الْمَقْرَبَۃِ وَالْمِسْکِیْنَ ذَا الْمَتْرَبَۃِ ، کُلُّ ہٰؤُلَائِ ہٰکَذَا ، لَمْ یَکُنْ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا صَالِحُ مَنْ مَضَی لِیَدَعُوْا حَقًّا فَرَضَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِذِیْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَقُوْمُوْنَ لَہُمْ بِحَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ کَمَا قَالَ أَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَآتُوْا الزَّکَاۃَ وَأَحْکَامَ الْقُرْآنِ ، وَلَقَدْ أَمْضَوْا عَلٰی ذٰلِکَ عَطَایَا مِنْ عَطَایَا وَضَعَہَا فِیْ أَفْیَائِ النَّاسِ وَاِنَّ بَعْضَ مَنْ أُعْطِیْ مِنْ تِلْکَ الْعَطَایَا لَمَنْ ہُوَ عَلٰی غَیْرِ دِیْنِ الْاِسْلَامِ ، فَأَمْضَوْا ذٰلِکَ لَہُمْ ، فَمَنْ زَعَمَ غَیْرَ ہَذَا کَانَ مُفْتَرِیًا مُتَقَوِّلًا عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُوْلِہٖ ، وَصَالِحِ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا غَیْرَ الْحَقِّ . وَأَمَّا قَوْلُ مَنْ یَقُوْلُ فِی الْخُمُسِ : اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَہُ فَرَائِضَ مَعْلُوْمَۃً ، فِیْہَا حَقُّ مَنْ سَمَّی ، فَاِنَّ الْخُمُسَ فِیْ ہٰذَا الْأَمْرِ بِمَنْزِلَۃِ الْمَغْنَمِ .وَقَدْ آتَی اللّٰہُ نَبِیَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْیًا ، فَأَخَذَ مِنْہُ أُنَاسًا ، وَتَرَک ابْنَتَہٗ، وَقَدْ أَرَتْہُ یَدَیْہَا مِنْ مَحَلِّ الرَّحَی ، فَوَکَلَہَا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالتَّسْبِیْحِ ، فَہٰذِہِ ادَّعَتْ حَقًّا لِقَرَابَتِہٖ۔وَلَوْ کَانَ ہٰذَا الْخُمُسُ وَالْفَیْئُ ، عَلٰی مَا ظَنَّ مَنْ یَقُوْلُ ہٰذَا الْقَوْلَ ، کَانَ ذٰلِکَ حَیْفًا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، وَاعْتِزَامًا لِمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ، وَلَمَا عُطِّلَ قَسْمُ ذٰلِکَ فِیْمَنْ یَدَّعِی فِیْہِ بِالْقَرَابَۃِ وَالنَّسَبِ وَالْوِرَاثَۃِ ، وَلَدَخَلَتْ فِیْہِ سُہْمَانُ الْعَصَبَۃِ وَالنِّسَائُ أُمَّہَاتُ الْأَوْلَادِ .وَیَرَی مَنْ تَفَقَّہَ فِی الدِّیْنِ أَنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ مُوَافِقٍ لِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا سَأَلْتُکُمْ مِنْ أَجْرٍ فَہُوَ لَکُمْ وَ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ وَقَوْلِ الْأَنْبِیَائِ لِقَوْمِہِمْ مِثْلَ ذٰلِکَ .وَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَدَّعِیَ مَا لَیْسَ لَہٗ، وَلَا لِیَدَعَ حَظًّا وَلَا قَسْمًا لِنَفْسِہِ وَلَا لِغَیْرِہٖ، وَاخْتَارَہٗ اللّٰہُ لَہُمْ وَامْتَنَّ عَلَیْہِمْ فِیْہِ، وَلَا لِیَحْرِمَہُمْ اِیَّاہُ .وَلَقَدْ سَأَلَہُ نِسَائُ بَنِیْ سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ ، الْفِکَاکَ وَتَخْلِیَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ سَبَایَاہُمْ ، بَعْدَمَا کَانُوْا فَیْئًا ، فَفَکَّکَہُمْ وَأَطْلَقَہُمْ .وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَسْأَلُ مِنْ أَنْعَامِہِمْ شَجَرَۃً بِرِدَائِہٖ، فَظَنَّ أَنَّہُمْ نَزَعُوْھُ عَنْہُ لَوْ کَانَ عَدَدُ شَجَرِ تِہَامَۃَ نَعَمًا لَقَسَمْتہ بَیْنَکُمْ ، وَمَا أَنَا بِأَحَقَّ بِہٖ مِنْکُمْ بِقَدْرِ وَبَرَۃٍ آخُذُہَا مِنْ کَاہِلِ الْبَعِیْرِ اِلَّا الْخُمُسَ ، فَاِنَّہٗ مَرْدُوْدٌ فِیْکُمْ .فَفِیْ ہٰذَا بَیَانُ مَوَاضِعِ الْفَیْئِ الَّتِی وَجَّہَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ، بِحُکْمِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، وَعَدْلِ قَضَائِہٖ۔ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ ہٰذَا، أَوْ أَلْحَدَ فِیْہِ، وَسَمَّیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَیْرِ مَا سَمَّاہُ بِہٖ رَبُّہٗ، کَانَ بِذٰلِکَ مُفْتَرِیًا مُکَذِّبًا ، مُحَرِّفًا لِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَنْ مَوَاضِعِہٖ، مُصِرًّا بِذٰلِکَ وَمَنْ تَابَعَہُ عَلَیْہِ عَلَی التَّکْذِیْبِ ، وَاِلَی مَا صَارَ اِلَیْہِ ضَلَالُ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ الَّذِیْنَ یَدَّعُوْنَ عَلٰی أَنْبِیَائِہِمْ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَقَالَ آخَرُوْنَ اِنَّمَا جَعَلَ اللّٰہُ أَمْرَ الْخُمُسِ اِلَی نَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَضَعہُ فِیْمَنْ رَأَی وَضْعَہُ فِیْہِ، مِنْ قَرَابَتِہٖ، غَنِیًّا کَانَ أَوْ فَقِیْرًا ، مَعَ مَنْ أَمَرَ أَنْ یُعْطِیَہُ مِنَ الْخُمُسِ سِوَاہُمْ ، مِمَّنْ تَبَیَّنَ فِیْ آیَۃِ الْخُمُسِ ، وَلِذٰلِکَ أَمَرَہُ فِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ أَیْضًا .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ہٰذَا ، الِاخْتِلَافَ الَّذِی وَصَفْنَا ، وَجَبَ أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ أَقْوَالِہِمْ ہٰذِہٖ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَاعْتَبَرْنَا قَوْلَ مَنْ قَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی مِنْ قَرَابَتِہِ مَنْ أَعْطَی ، مَا أَعْطَاہُ بِحَق وَاجِبٍ لَہُمْ لَمْ یَذْکُرْ اللّٰہُ اِیَّاہُمْ فِیْ آیَۃِ الْغَنَائِمِ ، وَفِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ .فَوَجَدْنَا ہٰذَا الْقَوْلَ فَاسِدًا ، لِأَنَّا رَأَیْنَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی قَرَابَۃً وَمَنَعَ قَرَابَۃً .فَلَوْ کَانَ مَا أَضَافَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلَیْہِمْ فِیْ آیَۃِ الْغَنَائِمِ ، وَفِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ ، عَلَی طَرِیْقِ الْفَرْضِ مِنْہُ لَہُمْ ، اِذًا لَمَا حَرَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمْ أَحَدًا ، وَلَعَمَّہُمْ بِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَہُمْ ، حَتّٰی لَا یَکُوْنَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ خَارِجًا عَمَّا أَمَرَہٗ اللّٰہُ بِہٖ فِیْہِمْ .أَلَا یَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ أَوْصَی لِذِیْ قَرَابَۃِ فُلَانٍ بِثُلُثِ مَالِہٖ ، وَہُمْ یَخُصُّوْنَ وَیَعْرِفُوْنَ أَنَّ الْقَائِمَ بِوَصِیَّتِہِ لَیْسَ لَہُ وَضْعُ الثُّلُثِ فِیْ بَعْضِ الْقَرَابَۃِ دُوْنَ بَقِیَّتِہِمْ ، حَتّٰی یَعُمَّہُمْ جَمِیْعًا بِالثُّلُثِ الَّذِیْ یُوْصِی لَہُمْ بِہٖ ، وَیُسَوِّیْ بَیْنَہُمْ فِیْہِ، وَاِنْ فَعَلَ فِیْہِ مَا سِوٰی ذٰلِکَ ، کَانَ مُخَالِفًا لِمَا أَمَرَ بِہٖ .وَحَاشَ لِلّٰہٖ، أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ فِعْلِہِ لِمَا أَمَرَہٗ اللّٰہُ بِہٖ مُخَالِفًا ، وَلِحُکْمِہِ تَارِکًا .فَلَمَّا کَانَ مَا أَعْطَی مِمَّا صَرَفَہُ فِیْ ذٰوِیْ قُرْبَاہٗ، لَمْ یَعُمَّ بِہٖ قَرَابَتَہُ کُلَّہَا ، اسْتَحَالَ بِذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، لِقَرَابَتِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ مَنَعَہُمْ مِنْہٗ، لِأَنَّ قَرَابَتَہُ لَوْ کَانَ جُعِلَ لَہُمْ شَیْء ٌ بِعَیْنِہٖ، کَانُوْا کَذَوِی قَرَابَۃِ فُلَانٍ الْمُوْصِی لَہُمْ بِثُلُثِ الْمَالِ ، الَّذِی لَیْسَ لِلْوَصِیِّ مَنْعُ بَعْضِہِمْ وَلَا اِیْثَارُ أَحَدِہِمْ دُوْنَ أَحَدٍ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ ، ہٰذَا الْقَوْلُ .ثُمَّ اعْتَبَرْنَا قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا لَمْ یَجِبْ لِذِیْ قَرَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقٌّ فِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ ، وَلَا فِیْ آیَۃِ الْغَنَائِمِ ، وَاِنَّمَا وَکَّدَ أَمْرَہُ بِذِکْرِ اللّٰہِ اِیَّاہُمْ أَیْ : فَیُعْطَوْنَ لِقَرَابَتِہِمْ وَلِفَقْرِہِمْ، وَلِحَاجَتِہِمْ .فَوَجَدْنَا ہٰذَا الْقَوْلَ فَاسِدًا لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَمَا قَالُوْا ، لَمَا أَعْطٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَغْنِیَائَ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، مِنْہُمُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ، فَقَدْ أَعْطَاہُ مَعَہُمْ ، وَکَانَ مُوْسِرًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَالْاِسْلَامِ ، حَتّٰی لَقَدْ تَعَجَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذِی الْقُرْبٰی لَیْسَ لِلْفَقْرِ ، لٰـکِنْ لِمَعْنًی سِوَاہُ .وَلَوْ کَانَ لِلْفَقْرِ أَعْطَاہُمْ ، لَکَانَ مَا أَعْطَاہُمْ مَا سَبِیْلُہٗ سَبِیْلَ الصَّدَقَۃِ ، وَالصَّدَقَۃُ مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ .
٥٢٨٣: مالک بن انس (رح) نے اپنے چچا ابو سہیل بن مالک (رح) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ فئی اور غنیمت کے متعلق حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا یہ خط ہے۔ حمد و صلوۃ کے بعد ! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس طرح نازل فرمایا کہ وہ ایمان والوں کے لیے باعث بصیرت و رحمت ہو۔ اس میں دین ظاہر کیا اور راستے کو مقرر فرمایا اور بات کو پھیر پھیر کر بیان کیا اور رضاء الٰہی کے حصول والی چیزوں کو اس میں ذکر کیا اور ایسی چیزوں کو بیان کردیا جن سے اس کی ناراضی اور غضب کے مقامات سے بچا جاتا ہے۔ پھر بعض چیزوں کو حلال کر کے اس میں وسعت عنایت فرمائی اور کچھ چیزوں کو حرام کر کے ان سے نفرت کا حکم دیا اور ان کو حاصل کرنے والوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اس امت پر جن چیزوں کے ذریعہ وسیع رحمت فرمائی ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے لیے مال غنیمت کو حلال کیا اور اس کے متعلق کشادگی عنایت فرمائی اور ان کو اس سے منع نہیں کیا جیسا کہ اس سے پہلے انبیاء اور اہل کتاب کو اس میں مبتلا کیا گیا اور اسی میں سے وہ مال ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنو قریظہ اور بنو نضیر سے بطور فئی حاصل ہوا وہ مال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا لوگوں کے لیے نہ تھا۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” ما افاء اللہ علی رسولہٖ ۔۔۔ واللہ علی کل شیئٍ قدیر “ (الحشر : ٦) اور جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عنایت فرمایا ان پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس پر چاہے مسلط کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے۔ یہ مال جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھے ان میں خمس واجب نہ تھا اور نہ یہ مال خمس غنیمت تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا اختیار دیتا اور آپ اللہ تعالیٰ کے فرمانے سے ان میں سے پہلے حاجت مندوں کا انتخاب فرماتے۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو تقسیم نہ فرمایا اور اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے لیے اسے اختیار بھی نہ کیا اور نہ ہی ان میں سے کسی کو مقرر کر کے یا حصہ دے کر خاص کیا بلکہ اس میں سے زیادہ اور وسیع مال کے ساتھ مستحق اور قدیم مہاجرین کو ترجیح دی جنہیں ان کے گھروں اور مالوں سے نکالا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرنے والے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار ہیں۔ وہی لوگ سچے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کا حصہ انصار میں سے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم فرمایا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کچھ اپنی ضروریات اور حقوق کے لیے رکھا اور وہ مال جو آپ کے پاس اس طرح ہوتا کہ آپ اس میں سے کسی چیز کو گم نہ پاتے اور نہ اس میں کسی کو ترجیح دیتے اور نہ ہی اس کے بعد کسی کو دینے کا ارادہ فرماتے اسے آپ صدقہ قرار دیتے اس میں سے کسی کو وراثت نہ ملتی۔ وہ دنیا میں سخاوت کرتے ہوئے اور دنیا کو حقیر قرار دیتے ہوئے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کو ترجیح دیتے ہوئے ایسا کرتے رہے ‘ یہ وہ مال ہے جس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے گئے اور یہ اس مال غنیمت سے ہے۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ترجیح دی اور اس میں کسی شخص کے لیے اس مال غنیمت کی طرح حصہ قرار نہیں دیا۔ جس میں اختلاف کرنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اختلاف کیا : ” ماافاء اللہ علی رسولہ من اہل القرٰی۔۔۔ بین الاغنیاء منکم “ تک کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ بستیوں والوں کے مال سے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ (مال) تمہارے دولت مند لوگوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :” ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقوا اللہ ان اللہ شدید العقاب۔۔۔“ کہ جو کچھ تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں اس کو لے لو اور جس سے تم کو منع کریں اس سے باز رہو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو بیشک اللہ تعالیٰ سخت بدلہ لینے والے ہیں۔ رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فللّٰہ تو اللہ تعالیٰ کائنات اور اس کے رہنے والوں اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بے پروا ہیں۔ یہ سب کچھ اس کی ملکیت ہے لیکن وہ فرماتے ہیں کہ اسے اس کی راہ میں صرف کرو جس طرح اس نے حکم دیا اور رہا یہ ارشاد خداوندی للرسول تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ مال غنیمت میں عام مسلمانوں کے حصہ کی طرح تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی تقسیم اور اس پر عمل کروانے اور فیصلے کا اختیار حاصل تھا اور ارشاد خداوندی : ولذی القربٰی کے متعلق جاہل لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے حصے مقرر ہوئے ہیں آپ نے وہ حصہ ان سے منقطع کردیا اور ان کو نہ دیا۔ حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ بیان فرما دیتے جیسا کہ ورثاء کے سلسلہ میں نصف ‘ چوتھائی ‘ چھٹا ‘ آٹھواں حصہ بیان فرما دیا اور ان کا حصہ اس سے کم نہیں کیا جاسکتا خواہ غناء ہو یا فقر جیسا کہ ورثاء کا حصہ ان سے روکا نہیں جاتا۔ بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مال غنیمت سے کچھ مال ‘ زمین ‘ قیدی ‘ سامان اور سونا چاندی عنایت فرمایا۔ لیکن جو کچھ عنایت فرمایا ان میں سے کچھ بھی فرض نہ تھا جو کہ معلوم کیا جائے اور نہ سنت تھا کہ جس کی پیروی اور اقتداء کی جائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبض کیا۔ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مابین خیبر کے دن کچھ تقسیم فرمایا مگر عمومی طور پر ان کے عام لوگوں کو عنایت نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی قریبی کی تخصیص دوسرے کو چھوڑ کر فرائی جو اس سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ بلکہ اس دن ان کو بھی عنایت فرمایا۔ جن کے ساتھ آپ کو قرابت حاصل نہیں تھی اور یہ اس وقت عنایت فرمایا جب انھوں نے آپ کی خدمت میں حاجت کی شکایت کی اور جو ان میں سے ان کی قوم میں سے آپ کے پہلو میں تھے اور جو ان کے حلفاء تھے ان کو قرابت کی وجہ سے فضیلت نہیں دی۔ اگر بالفرض ذی القربیٰ کا حق تھا جیسا کہ ان لوگوں کا گمان ہے تو وہ (انصار) آپ کے ماموں اور والد اور دادا کے ماموں ذوی القربیٰ میں ہوتے۔ ہر وہ جس کا رحم سے تعلق ہو وہ تمام ذوی القربیٰ تھے۔ اگر یہ بات اسی طرح ہوتی جس طرح ان حضرات کا خیال ہے تو مال فئی کے زیادہ ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) ان کو عطاء کرتے اور حضرت ابوالحسن علی مرتضیٰ (رض) کو جب حکومت ملی اور اس وقت تو کوئی ان پر اعتراض کرنے والا بھی نہ تھا تو اس وقت ان رشتہ داروں نے ان کو وہ بات یاد نہ دلائی جس پر عمل کیا جائے اور ان کے بعد معمول بھی ہو۔ اگر بقول ان کے یہ بات اسی طرح ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتے کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم “ کیونکہ آیت کے اترنے کے وقت آپ کے قرابت والوں میں کچھ لوگ مالدار تھے اگر یہ حصہ ان کے لیے مقرر ہوتا تو یہ ان کے مابین گردش کرنے والی دولت بنتی بلکہ قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے مال وراثت بن جاتا اور کسی کو اس کے منقطع کرنے کا حق نہ ہوتا۔ لیکن وہ فرماتے ہیں کہ قرابت والوں کا حق ان کی قرابت کی وجہ سے حاجت و ضرورت کے وقت ہے اور حق لازم محتاجی اور حاجت کے وقت مسلمانوں کے حق کی طرح ہے پس جب وہ ضرورت مند نہ رہے تو اس کا کوئی حق نہیں اور حق یتیم یتیمی کی حالت سے متعلق ہے اگر وہ اپنے وارث سے حصہ لے لیتا ہے تو اب اس کا کوئی حق نہیں۔ ابن السبیل کا حق سفر کی حالت میں ہے اور اگر وہ زیادہ مالدار ہے اور اس کے پاس وسیع مال ہے تو اس کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ یہ حق ضرورت مند لوگوں کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا اور قرابت دار یتیم کا تذکرہ فرمایا اور اس مسکین کا ذکر کیا جو محتاج ہے۔ ان تمام کا یہی حکم ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی آپ کے قرابت داروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ حق کو چھوڑنے والا نہ تھا بلکہ وہ سب ان کا حق ادا کرنے والے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اقیموا الصلاۃ واٰتوا الزکوۃ “ نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو وغیرہ احکام قرآن (پر وہ عمل پیرا تھے) بلاشبہ انھوں نے ان عطایا کو جاری رکھا جو ان عطیات سے تھے جن کو لوگوں کے مال غنیمت میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے بعض عطیات ایسے لوگوں کے لیے بھی تھے جو دین اسلام پر نہ تھے مگر انھوں نے ان کو بھی جاری رکھا اور بند نہ کیا۔ پس اس کے باوجود جو یہ خیال کرے (کہ انھوں نے حق بنتا تھا اور اس کو روک لیا) وہ مفتری اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والے صالح بندے جو حق میں ان کی پیروی کرنے والے تھے ان پر جھوٹ باندھنے والا ہے۔ رہا ان لوگوں کا قول جو خمس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے مقررہ فرائض کی طرح مقرر کیا ہے اس میں ان کا حق لازم ہے جن کا نام لیا گیا ہے خمس اس سلسلہ میں غنیمت کے مال کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ قیدی عنایت فرمائے پس اس سے بعض لوگوں کو عنایت فرمائے اور اپنی بیٹی کو چھوڑ دیا حالانکہ بیٹی نے اپنے ہاتھوں پر چکی پیس کر پڑنے والے نشانات بتلائے آپ نے بیٹی کو ذکراللہ اور تسبیح کے حوالے کیا حالانکہ انھوں نے اپنا حق قرابت مانگا۔ اگر یہ خمس اور فئی اسی طرح ہوتا جیسا کہ اس قائل کا خیال ہے تو پھر یہ مسلمانوں پر زیادتی بنتی اور ان کے اس حصے کو دور کرنا جو اللہ تعالیٰ نے فئی میں ان کے لیے مقرر کیا ہے اور اس کی تقسیم ان لوگوں میں معطل نہ ہوتی جو قرابت ‘ نسب اور وارثت کی وجہ سے دعویدار تھے اور اس میں دو حصے اور بھی داخل ہوتے ایک عصبات کا اور دوسرا امہات الاولاد کا۔ مگر جس کو دین کی ذرا سی سمجھ ہے وہ کہے گا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے خلاف ہے جو اس نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمائی : قل ما اسئلکم علیہ من اجرو ما انا من المتکلفین اور سورة صٓ : ٨٦ میں ہے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے بھی اپنی اقوام کو اسی طرح کی بات فرمائی۔ اور کسی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ایسی چیز کا مدعی جو اس کے لیے مناسب نہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ کسی کے مقرر شدہ حصہ کو چھوڑے اور نہ کسی حصہ کو اپنے لیے یا دوسرے کے لیے تقسیم کرے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو چنا اور مخلوق پر امین بنایا ہوتا ہے ان کے حصص سے محروم کرنے والا نہیں بنایا ہوتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنو سعد بن بکر نے سوال کیا کہ ان کو آزاد کردیا جائے اور ان کے مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے اور یہ مطالبہ مال فئی بن جانے کے بعد کیا تو آپ نے ان کو آزاد کردیا اور چھوڑ دیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت ارشاد فرمایا جب قبیلہ بنو سعد آپ سے اپنے جانور مانگ رہے تھے جبکہ آپ کی چادر ایک درخت سے اٹک گئی اور آپ کو خیال ہوا کہ انھوں نے کھینچ لی ہے۔ اگر تہامہ کے درختوں کی تعداد میں میرے پاس چوپائے ہوتے تو میں ان کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا اور اس میں سے سوائے خمس کے اونٹ کے کوہان سے لی گئی اون کے ایک بال کے برابر بھی حق نہیں رکھتا اور وہ بھی تمہاری طرف ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔ (نسائی فی الہبہ باب : ١) اس روایت میں صاف وضاحت ہے کہ فئی کے خرچ کے وہی مقامات ہیں جن پر اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خرچ کیا اور عادلانہ فیصلہ کے مطابق صرف کیا۔ پس آدمی نے اس تقسیم سے اعراض کیا یا اس میں الحاد کی راہ اپنائی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام اور رکھا جو اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھا تو اس سبب سے مفتری ‘ مکذب اور قرآن مجید کا محرف بنے گا اور وہ اور اس کے پیروکار اس تکذیب میں اہل کتاب کے اس انجام کو پانے والے ہوں گے جنہوں نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) پر جھوٹے دعوے کئے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ایک اور قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خمس کا معاملہ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کیا کہ وہ جہاں چاہے لگائیں یعنی اپنے قرابت دار خواہ غنی ہوں یا فقیر ان پر صرف کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر بھی جن کو ان کے علاوہ خمس میں سے دینے کا حکم فرمایا۔ جس کو آیت خمس میں واضح کیا گیا اور اسی لیے آیت فئی میں بھی اس کا حکم دیا گیا۔ جب اس سلسلہ میں اس قدر اختلاف ہے تو لازم ہے کہ اس سلسلہ میں غور کر کے صحیح قول کو نکالیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قرابت داروں میں سے جن کو دیا جو کچھ دیا حق واجب کی وجہ سے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا تذکرہ آیت غنیمت اور آیت فئی میں نہیں کیا۔ یہ قول اس لیے فاسد ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعض قرابت والوں کو دیا اور بعض قرابت والوں کو نہیں دیا۔ آیت غنیمت اور آیت فئی میں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے نسبت کی ہے اگر اس سے فرضیت مراد ہو تو پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کو بھی محروم نہ فرماتے اور جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ سب کو عنایت فرماتے تاکہ کوئی چیز ان میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نکلی ہوئی نہ ہوتی۔ کیا یہ ثابت نہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنے قرابت والوں کے متعلق ثلث مال کی وصیت کرتا ہے وہ لوگ خصوصی طور پر جانتے ہیں کہ اس آدمی کی وصیت پر صحیح عمل کرنے والا وہی کہلائے گا جو تمام قرابت داروں کو دے نہ کہ وہ جو بعض کو محروم اور بعض کو نوازے۔ اگر اس نے اس طرح کردیا تو یہ اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا ہوگا۔ پناہ بخدا ! کہ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو ذرہ بھر چھوڑنے اور ذرہ بھر اس کی مخالفت کرنے والا ہو۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ مال دیا جس کو آپ اپنے قرابت والوں پر صرف کریں اور آپ نے وہ مال اپنے تمام قرابت داروں پر صرف نہیں کیا تو یہ بات ناممکن ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قرابتداروں کے لیے مقرر کیا اور آپ نے روک لیا۔ کیونکہ اگر آپ کے قرابت والوں کے لیے کوئی معینہ چیز مقرر فرمائی گئی تو ان کی مثال اس وصیت والے کی ہوگئی جس نے قرابت والوں کے لیے ثلث مال کی وصیت کی ہو۔ تو وصی کو یہ حق نہیں بنتا کہ کسی قرابت دار کو دوسرے پر ترجیح دے یا بعض کو دے اور بعض کو محروم کرے۔ پس اس سے یہ قول باطل ٹھہرا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت والوں کے لیے فئی اور غنائم میں کوئی حق واجب نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نام کا تذکرہ کر کے حکم میں تاکید فرمائی۔ مطلب یہ ہوا کہ ان کو قرابت ‘ فقر اور حاجت کے طور پر دیا جائے گا۔ یہ قول بھی فاسد ہے کیونکہ اگر یہ بات درست ہوتی تو آپ بنی ہاشم کے مالداروں کو نہ دیتے جن میں عباس بن عبدالمطلب (رض) ہیں آپ نے ان کو ان کے ساتھ عنایت فرمایا حالانکہ یہ تو جاہلیت و اسلام میں خوشحال لوگوں میں سے تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت داروں کو جو فوری طور پر عنایت فرمایا وہ فقر کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے عنایت فرمایا اگر فقر کی وجہ سے ہوتا تو ان کو جو کچھ دیا وہ بطور صدقہ ہوگا حالانکہ صدقہ تو ان پر حرام ہے۔

5285

۵۲۸۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ السَّعْدِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا تَحْفَظُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : أَذْکُرُ أَنِّیْ أَخَذْتُ تَمْرَۃً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ ، فَجَعَلْتُہَا فِیْ فِی ، فَأَخْرَجَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَلْقَاہَا فِی التَّمْرِ .فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مَا کَانَ عَلَیْکَ فِیْ ہٰذِہِ التَّمْرَۃِ لِہَذَا الصَّبِیِّ .فَقَالَ : اِنَّا - آلَ مُحَمَّدٍ - لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ .
٥٢٨٤: ابو لجوزاء سعدی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بن علی (رض) سے دریافت کیا کہ تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا بات یاد ہے ؟ کہنے لگے مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے صدقہ کی کھجوروں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو میرے منہ سے نکال کر صدقہ کی کھجوروں میں واپس ڈال دیا ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس بچے کے اس ایک کھجور کھانے سے آپ پر کیا الزام تھا تو آپ نے فرمایا : ہم آلِ محمد کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ ١٦١‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٩‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢١٤‘ مسند احمد ١؍٢٠٠۔

5286

۵۲۸۵ : حَدَّثَنَا بَکَّارٌ بْنُ قُتَیْبَۃَ ، وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ سِنَانٍ قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ فِیْ آخِرِہٖ وَلَا لِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِہٖ .
٥٢٨٥: ربیعہ بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے حسن (رض) کو کہا پھر اسی طرح روایت کی البتہ آخر میں یہ الفاظ ہیں ان کے اہل میں سے بھی کسی کے لیے جائز نہیں۔

5287

۵۲۸۶ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ وَسَعِیْدٌ ، ابْنَا زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ جَہْضَمَ ، مُوْسَی بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَ : دَخَلْنَا عَلٰی اِبْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ مَا اخْتَصَّنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ دُوْنَ النَّاسِ اِلَّا بِثَلَاثٍ : اِسْبَاغِ الْوُضُوْئِ ، وَأَنْ لَا نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ ، وَأَنْ لَا نُنْزِیَ الْحُمُرَ عَلَی الْخَیْلِ .
٥٢٨٦: عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں تین چیزوں کے ساتھ خاص کیا ہے کامل وضو کریں ہم صدقہ نہ کھائیں گدھے کی گھوڑی سے جفتی نہ کرائیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ ترمذی فی الجہاد باب ٢٣‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٠٥‘ والخیل باب ١٠‘ مسند احمد ١‘ ٧٨؍٩٥‘ ٢٢٥؍٢٣٤۔

5288

۵۲۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شَبَّابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ .
٥٢٨٧: محمد بن خزیمہ نے علی بن جعد (رح) سے اسی طرح روایت کی۔

5289

۵۲۸۸ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : أَخَذَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تَمْرَۃً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ ، فَأَدْخَلَہَا فِیْ فِیْہِ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کِخْ کِخْ ، أَلْقِہَا أَلْقِہَا ، أَمَا عَلِمْتُ أَنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ .
٥٢٨٨: حضرت عبدالرحمن بن زیاد سے روایات ہے کہ حسن بن علی (رض) نے صدقہ کی ایک کھجور لے کر اسے اپنے منہ میں ڈال لیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کخ۔ کخ۔ اس کو پھینک دو پھینک دو ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦٠‘ الجہاد باب ١٨٨‘ دارمی فی الزکوۃ باب ١٦‘ مسند احمد ٢‘ ٤٠٩؍٤٤٤۔
لغات : کخ کخ۔ یہ ڈانٹ کا کلمہ ہے۔

5290

۵۲۸۹ : حَدَّثَنَا بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہٖ، قَالَ : سَمِعْت رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِیْ اِبِلٍ سَائِمَۃٍ فِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ ، مَنْ أَعْطَاہَا مُؤْتَجِرًا ، فَلَہٗ أَجْرُہَا ، وَمَنْ مَنَعَہَا فَأَنَا آخِذُہَا مِنْہُ، وَشَطْرَ اِبِلِہٖ ، عَزْمَۃٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا ، لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ مِنَّا مِنْہَا شَیْء ٌ .
٥٢٨٩: بہز بن حکیم نے اپنے والد انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ چرنے والے اونٹوں میں اس طرح زکوۃ ہے۔ ہر چالیس میں بنت لبون (اونٹ کا تین سالہ بچہ) جس نے اجر کی خاطر دیا اسے اس کا ثواب ملے گا اور جس نے زکوۃ روک لی تو میں اس سے (زبردستی) لے لوں گا اور اونٹوں کا یہ حصہ (زکوۃ ) یہ ہمارے ربّ کے فرائض سے ہے۔ ہمارے (گھرانہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) میں سے کسی کے لیے اس میں سے کوئی چیز جائز نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٥‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٤‘ ٧‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٣٦‘ مسند احمد ٥؍٢‘ ٤۔

5291

۵۲۹۰ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مَرْوَانَ الضَّرِیْرُ .ح
٥٢٩٠: علی بن معبد نے کہا ہمیں حکم بن مروان الضریر نے بیان کی۔

5292

۵۲۹۱ : وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَا : ثَنَا مَعْرُوْفُ بْنُ وَاصِلٍ السَّعْدِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَفْصَۃَ فِیْ سَنَۃِ تِسْعِیْنَ قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ فِیْ حَدِیْثِہِ ابْنَۃُ طَلْقٍ تَقُوْلُ : ثَنَا رَشِیدُ بْنُ مَالِکٍ وَأَبُوْ عُمَیْرٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَی بِطَبَقٍ عَلَیْہِ تَمْرٌ فَقَالَ أَصَدَقَۃٌ أَمْ ہَدِیَّۃٌ فَقَالَ : بَلْ صَدَقَۃٌ ، قَالَ : فَوَضَعَہٗ بَیْنَ یَدَی الْقَوْمِ وَالْحَسَنُ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَأَخَذَ الصَّبِیُّ تَمْرَۃً فَجَعَلَہَا فِیْ فِیْہِ، فَأَدْخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُصْبُعَہُ وَجَعَلَہُ یَتَرَفَّقُ بِہٖ ، فَأَخْرَجَہَا ، فَقَذَفَہَا ، ثُمَّ قَالَ اِنَّا - آلَ مُحَمَّدٍ - لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ .
٥٢٩١: معروف بن واصل سعدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حفصہ سے ٩٠ ھ میں سنا ابن ابی داؤد نے اپنی روایت میں ذکر کیا کہ یہ حفصہ بنت طلق ہے وہ کہتی ہیں کہ ہمیں رشید بن مالک اور ابو عمیر (رض) نے بیان کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھے آپ کے پاس ایک کھجوروں کا تھال لایا گیا آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ صدقہ ہے یا ہدیہ۔ اس نے جواب دیا یہ صدقہ ہے آپ نے اسے لوگوں کے سامنے رکھ دیا جو آپ کے سامنے بیٹھے تھے۔ بچے نے ایک کھجور لے کر منہ میں رکھ لی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلی اس کے منہ میں ڈالی اور اس سے نرمی اختیار کر کے اسے نکال لیا پھر فرمایا ہم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ نہیں کھاتے۔
تخریج : بخاری فی اہبہ باب ٧‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٥‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٨‘ مسند احمد ٣؍٤٩٠۔

5293

۵۲۹۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَکِیْمٍ الْأَوْدِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْتَ الصَّدَقَۃِ ، فَتَنَاوَلَ الْحَسَنُ تَمْرَۃً فَأَخْرَجَہَا مِنْ فِیْہِ وَقَالَ اِنَّا - أَہْلَ بَیْتٍ - لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ .
٥٢٩٢: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیت الصدقہ میں داخل ہوا۔ تو حسن نے ایک کھجور لے لی آپ نے وہ اس کے منہ سے نکال دی اور فرمایا ہم اہل بیت کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
تخریج : بنحوہ فی مسند احمد ٤؍٣٤٨۔

5294

۵۲۹۳ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ .فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : اِنَّا - أَہْلَ بَیْتٍ - لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ وَلَمْ یَشُکَّ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَفَلَا یَرٰی أَنَّ الصَّدَقَۃَ الَّتِیْ تَحِلُّ لِسَائِرِ الْفُقَرَائِ مِنْ غَیْرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ مِنْ جِہَۃِ الْفَقْرِ ، لَا تَحِلُّ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ مِنْ حَیْثُ تَحِلُّ لِغَیْرِہِمْ .فَکَذٰلِکَ الْفَیْئُ وَالْغَنِیْمَۃُ ، لَوْ کَانَ مَا یُعْطَوْنَ مِنْہَا عَلٰی جِہَۃِ الْفَقْرِ ، اِذًا لَمَا حَلَّ لَہُمْ .فَأَمَّا مَا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ ہٰذَا الْقَوْلِ لِقَوْلِہِمْ ، مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاطِمَۃَ بِالتَّسْبِیْحِ ، عِنْدَمَا سَأَلَتْہُ أَنْ یُخْدِمَہَا خَادِمًا عِنْدَ قُدُوْمِ السَّبْیِ عَلَیْہِ، فَوَکَّلَہَا اِذًا ، بِمَا أَمَرَہَا بِہٖ مِنَ التَّسْبِیْحِ وَلَمْ یُخْدِمْہَا مِنَ السَّبْیِ أَحَدًا .
٥٢٩٣: محمد بن سعید اصبھانی کہتے ہیں کہ ہمیں شریک نے خبر دی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ ہم اہل بیت کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے اور انھوں نے یہ روایت بغیر شک کے الفاظ کے نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ جو صدقہ تمام فقراء کے لیے جو بنی ہاشم کے علاوہ ہوں حلال ہے۔ وہ بنو ہاشم کے لیے اس طرح حلال نہیں جس طرح دوسروں کے لیے حلال ہے مال فئی اور مال غنیمت کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر ان کو یہ مال فقر کی وجہ سے دیا جاتا تو اس صورت میں حلال نہ ہوتا۔ ان حضرات کی بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نے جب قیدیوں کی آمد پر ایک خادم کی درخواست کی تو آپ نے انھیں تسبیح کا حکم فرمایا اور قیدیوں میں سے کوئی غلام مرحمت نہ فرمایا۔

5295

۵۲۹۴ : فَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی یُحَدِّثُ عَنْ عَلِی أَنَّ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا أَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَشْکُو اِلَیْہِ أَثَرَ الرَّحَی فِیْ یَدَیْہَا ، وَبَلَغَہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَاہُ سَبْیٌ ، فَأَتَتْہُ تَسْأَلُہُ خَادِمًا ، فَلَمْ تَلْقَہُ وَلَقِیَتْہَا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَأَخْبَرَتْہَا الْحَدِیْثَ .فَلَمَّا جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْہُ بِذٰلِکَ .قَالَ : فَأَتَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا ، فَذَہَبْنَا أَنْ نَقُوْمَ فَقَالَ أَلَا أَدُلُّکُمَا عَلَی خَیْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا ؟ تُکَبِّرَانِ اللّٰہَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِیْنَ ، وَتُسَبِّحَانِ اللّٰہَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ ، وَتَحْمَدَانِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ ، اِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَکُمَا ، فَاِنَّہٗ خَیْرٌ لَکُمَا مِنْ خَادِمٍ .
٥٢٩٤: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت علی (رض) سے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ہاتھوں میں چکی کے اثرات کی شکایت کر رہی تھیں ان کو یہ اطلاع ملی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں کچھ قیدی آئے ہیں تو وہ آپ سے خادم طلب کرنے آئیں چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی تو حضرت عائشہ (رض) سے ملاقات ہوئی انھوں نے ان کے سامنے بات ذکر کی پھر جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو عائشہ (رض) نے آپ کو اس بات کی اطلاع دی حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت ہمارے ہاں تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں پر جا چکے تھے۔ ہم آپ کی آمد پر اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر چیز نہ بتلا دوں جو تم نے مانگی ہے ؟ ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر ‘ ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ‘ ٣٣ مرتبہ الحمدللہ اس وقت پڑھ لیا کرو جبکہ بستر پر لیٹو یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔
تخریج : بخاری فی فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب ٩‘ والنفقات باب ٦‘ مسلم فی الذکر ٨٠‘ ابو داؤد فی الادب باب ١٠٠‘ مسند احمد ١؍٩٦۔

5296

۵۲۹۵ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ لِفَاطِمَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ قَدْ جَائَ اللّٰہُ أَبَاکِ بِسَعَۃٍ مِنْ رَقِیْقٍ فَاسْتَخْدِمِیْہِ فَأَتَتْہُ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ وَاللّٰہِ لَا أُعْطِیکُمَا ، وَأَدَعُ أَہْلَ الصُّفَّۃِ یَطْوُوْنَ بُطُوْنَہُمْ وَلَا أَجِدُ مَا أُنْفِقُ عَلَیْہِمْ ، وَلٰـکِنْ أَبِیْعُہَا وَأُنْفِقُ عَلَیْہِمْ ، أَلَا أَدُلُّکُمَا عَلَی خَیْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا عَلَّمَنِیْہِ جِبْرِیْلُ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کَبِّرَا فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرًا ، وَاحْمَدَا عَشْرًا ، وَسَبِّحَا عَشْرًا فَاِذَا أَوَیْتُمَا اِلَی فِرَاشِکُمَا ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ مَا ذَکَرَ فِیْ حَدِیْثِ سُلَیْمَانَ بْنِ شُعَیْبٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُخْدِمْہَا مِنَ السَّبْیِ خَادِمًا ، وَلَوْ کَانَ لَہَا فِیْہِ حَقٌّ بِمَا ذَکَرَ اللّٰہُ مِنْ ذَوِی الْقُرْبَی فِیْ آیَۃِ الْغَنِیْمَۃِ ، وَفِیْ آیَۃِ الْفَیْئِ اِذًا لَمَا مَنَعَہَا مِنْ ذٰلِکَ وَآثَرَ غَیْرَہَا عَلَیْہَا .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ وَاللّٰہِ لَا أُعْطِیکُمَا وَأَدَعُ أَہْلَ الصُّفَّۃِ یَطْوُوْنَ بُطُوْنَہُمْ ، وَلَا أَجِدُ مَا أُنْفِقُ عَلَیْہِمْ .قِیْلَ لَہٗ : مَنْعُہُ اِیَّاہَا ، یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ لِأَنَّہَا لَمْ تَکُنْ عِنْدَہُ قَرَابَۃٌ ، وَلٰـکِنَّہَا کَانَتْ عِنْدَہٗ أَقْرَبَ مِنَ الْقَرَابَۃِ ، لِأَنَّ الْوَلَدَ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُقَالَ ہُوَ قَرَابَۃُ أَبِیْہِ، وَاِنَّمَا الْقَرَابَۃُ مِنْ بَعْدِ الْوَلَدِ .أَلَا یَرَیْ اِلَی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہٖ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ فَجَعَلَ الْوَالِدَیْنِ غَیْرَ الْأَقْرَبِیْنَ .فَکَمَا کَانَ الْوَالِدَانِ یَخْرُجَانِ مِنْ قَرَابَۃِ وَلَدِہِمَا ، فَکَذٰلِکَ وَلَدُہُمَا یَخْرُجُ مِنْ قَرَابَتِہِمَا .وَلَقَدْ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ، فِیْ رَجُلٍ أَوْصَی بِثُلُثِ مَالِہِ لِذِیْ قَرَابَۃِ فُلَانٍ اِنَّ وَالِدَیْہِ وَوَلَدَہٗ، لَا یَدْخُلُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہُمْ أَقْرَبُ مِنَ الْقَرَابَۃِ .فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُعْطِ فَاطِمَۃَ مَا سَأَلَتْہٗ، لِہٰذَا الْمَعْنَی .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ غَیْرِ فَاطِمَۃَ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ مِثْلَ ہَذَا أَیْضًا ،
٥٢٩٥: عطاء بن سائب نے اپنے والد سے انھوں نے جناب حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فاطمہ (رض) کو ایک دن کہا تمہارے والد کو اللہ تعالیٰ نے غلاموں کی وسعت دی ہے تم ان سے ایک خادم طلب کرلو۔ حضرت فاطمہ (رض) آئیں اور آپ کی خدمت میں یہ بات ذکر کی تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اہل صفہ کو بھوک سے لپٹتا چھوڑ کر تم دونوں کو نہ دوں گا جبکہ میرے پاس ان پر خرچ کے لیے کوئی چیز نہیں لیکن میں ان کو فروخت کر کے ان پر خرچ کروں گا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہت بہتر چیز نہ دے دوں جو مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے سکھائی ہے ؟ تم دونوں ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ اللہ اکبر ‘ دس دس مرتبہ الحمدللہ ‘ دس دس مرتبہ سبحان اللہ اسی طرح جب کہ تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو۔ پھر سلیمان بن شعیب جیسی روایت ذکر کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں میں سے کوئی خادم نہیں دیا۔ اگر آیت غنیمت اور آیت فئی میں قرابت داروں کے ذکر کی وجہ سے ان کا حق ہوتا تو آپ ان سے نہ روکتے اور دوسروں کو ان پر ترجیح نہ دیتے کیا تم نہیں دیکھتے کہ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اہل صفہ کو چھوڑ کر تمہیں نہ دوں گا وہ بھوک سے لپٹ رہے ہیں اور میرے پاس ان پر خرچ کرنے کی کوئی چیز نہیں جو ان پر خرچ کرسکوں۔ آپ کے ان کو عنایت نہ فرمانے میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ان کو آپ سے قرابت نہ ہو کیونکہ وہ تو قرابت سے بھی بڑھ کر بہت قریب تھیں۔ کیونکہ اولاد سے متعلق یہ بات کہنا جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے والد کے قریبی ہیں اس لیے کہ قرابت تو اولاد کے بعد شروع ہوتی ہے کیا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو نہیں دیکھتے کہ فرمایا۔ ” قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین الایۃ “ (البقرہ ٢١٥) فرما دیں جو مال خرچ کرو وہ والدین اور اقربین کے لیے ہے۔ اس آیت میں ماں باپ کو غیر قریبی قرار دیا۔ تو جس طرح والدین اولاد کی قرابت سے خارج ہیں بالکل اسی طرح ان کی اولاد بھی ان کی قرابت سے خارج ہے۔ امام محمد (رح) کے قول سے تائید : امام محمد بن حسن (رح) نے تحریر فرمایا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میرا فلاں تہائی مال قرابت داروں کو دیا جائے وہ فرماتے ہیں کہ اس فلاں کے والدین اور اولاد اس میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ وہ قرابت سے بڑھ کر قریب ہیں تو اس بات کا احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کے سوال پر اس مذکورہ بالا وجہ سے غلام عطاء نہ فرمایا ہو۔ (اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال) اس میں حضرت فاطمہ (رض) کی کیونکر تخصیص ہے جبکہ یہ بات اور بنو ہاشم کے متعلق بھی مروی ہے۔ جیسا کہ یہ روایت ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں میں سے کوئی خادم نہیں دیا۔ اگر آیت غنیمت اور آیت فئی میں قرابت داروں کے ذکر کی وجہ سے ان کا حق ہوتا تو آپ ان سے نہ روکتے اور دوسروں کو ان پر ترجیح نہ دیتے کیا تم نہیں دیکھتے کہ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اہل صفہ کو چھوڑ کر تمہیں نہ دوں گا وہ بھوک سے لپٹ رہے ہیں اور میرے پاس ان پر خرچ کرنے کی کوئی چیز نہیں جو ان پر خرچ کرسکوں۔
جواب : آپ کے ان کو عنایت نہ فرمانے میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ان کو آپ سے قرابت نہ ہو کیونکہ وہ تو قرابت سے بھی بڑھ کر بہت قریب تھیں۔ کیونکہ اولاد سے متعلق یہ بات کہنا جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے والد کے قریبی ہیں اس لیے کہ قرابت تو اولاد کے بعد شروع ہوتی ہے کیا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو نہیں دیکھتے کہ فرمایا : ” قُلْ مَآاَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ۔۔۔“ (البقرہ : ٢١٥) فرما دیں جو مال خرچ کرو وہ والدین اور اقربین کے لیے ہے۔ اس آیت میں ماں باپ کو غیر قریبی قرار دیا۔ تو جس طرح والدین اولاد کی قرابت سے خارج ہیں بالکل اسی طرح ان کی اولاد بھی ان کی قرابت سے خارج ہے۔
امام محمد (رح) کے قول سے تائید : امام محمد بن حسن (رح) نے تحریر فرمایا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میرا فلاں تہائی مال قرابت داروں کو دیا جائے وہ فرماتے ہیں کہ اس فلاں کے والدین اور اولاد اس میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ وہ قرابت سے بڑھ کر قریب ہیں تو اس بات کا احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کے سوال پر اس مذکورہ بالا وجہ سے غلام عطاء نہ فرمایا ہو۔ (اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال)
سوال : اس میں حضرت فاطمہ (رض) کی کیونکر تخصیص ہے جبکہ یہ بات اور بنو ہاشم کے متعلق بھی مروی ہے۔ جیسا کہ یہ روایت ہے۔

5297

۵۲۹۶ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَیَّاشُ بْنُ عُقْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْفَضْلُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَکِیْمِ أَنَّ أُمَّہُ حَدَّثَتْہُ أَنَّہَا ذَہَبَتْ ہِیَ وَأُمُّہَا ، حَتَّی دَخَلَتَا عَلَی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَخَرَجْنَ جَمِیْعًا ، فَأَتَیْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَقْبَلَ مِنْ بَعْضِ مَغَازِیْہِ، وَمَعَہُ رَقِیْقٌ ، فَسَأَلْنَہُ أَنْ یُخْدِمَہُنَّ فَقَالَ صَرِیْعُکُنَّ یَتَامَی أَہْلِ بَدْرً .
٥٢٩٦: عمرو بن حکیم سے روایت ہے کہ ان کی والدہ نے ان سے بیان کیا کہ وہ اور ان کی والدہ حضرت فاطمہ (رض) کی خدمت میں گئیں پھر وہ وہاں سے نکل کر جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اس وقت آپ کسی غزوہ سے تشریف لائے تھے آپ کے ساتھ کچھ غلام تھے حضرت فاطمہ (رض) نے ان سب کے لیے غلام مانگے تو آپ نے فرمایا اہل بدر کے یتیم تمہاری بنسبت زیادہ پچھاڑے ہوئے ہیں (ضرورت مند ہیں)

5298

۵۲۹۷ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلْمَۃَ الْمُرَادِیُّ ، قَالَ أَمْلَی عَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عُقْبَۃَ الْحَضْرَمِیِّ ، أَنَّ الْفَضْلَ بْنَ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ ، حَدَّثَہٗ أَنَّ ابْنَ أُمِّ الْحَکِیْمِ ، أَوْ ضُبَاعَۃَ ابْنَتَیْ الزُّبَیْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، حَدَّثَہٗ عَنْ اِحْدَاہُمَا أَنَّہَا قَالَتْ : أَصَابَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْیًا ، فَذَہَبْتُ أَنَا وَأُخْتِیْ فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَکَوْنَا اِلَیْہِ مَا نَحْنُ فِیْہِ، وَسَأَلْنَا أَنْ یُعْطِیَنَا شَیْئًا مِنَ السَّبْیِ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبَقَکُنَّ یَتَامَیْ بَدْرٍ ، وَلٰـکِنْ سَأَدُلُّکُنَّ عَلٰی مَا ہُوَ خَیْرٌ لَکُنَّ ، تُکَبِّرْنَ اللّٰہَ عَلَی اِثْرِ کُلِّ صَلَاۃٍ ، ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ تَکْبِیْرَۃً ، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ تَسْبِیْحَۃً ، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ تَحْمِیْدَۃً ، وَلَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمَلِکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ .وَاحِدَۃٌ . قَالَ عَیَّاشٌ : وَہُمَا ابْنَتَا عَمِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٥٢٩٧: ام حکیم یا ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کے بیٹے نے بیان کیا کہ ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیدی ملے پھر میں اور میری بہن فاطمہ بنت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ہم نے (پریشانی کی) شکایت کی اور گزارش کی کہ آپ ہمیں کچھ قیدی عنایت فرما دیں۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سے بدر کے یتیم سبقت کر گئے لیکن میں تمہیں اس سے زیادہ بہتر کی راہنمائی کرتا ہوں ہر نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ اللہ اکبر اور ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ اور ٣٣ مرتبہ الحمد للہ اور ایک مرتبہ لاالٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیٔ قدیر پڑھیں۔
عیاش راوی کہتے ہیں کہ یہ دونوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زبیر کی بیٹیاں ہیں۔

5299

۵۲۹۸ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَصْبُغُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : وَلَا أَدْرِی ، مَا اسْمُ الرَّجُلِ ، وَلَا اسْمُ أَبِیْھَا؟ قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ ہَذَا حُجَّۃً لَک عَلَی مَنْ أَوْجَبَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِأَنَّہٗ اِنَّمَا یُوْجِبُہُ لِمَنْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیْثَارَہُ بِہٖ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ آثَرَ بِہٖ ذَا قُرْبَاہُ مِنْ یَتَامَی أَہْلِ بَدْرٍ ، وَمِنْ الضُّعَفَائِ الَّذِیْنَ قَدْ صَارُوْا لِضَعْفِہِمْ مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ .فَلَمَّا انْتَفَی قَوْلُ مَنْ رَأَیْ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی وَاحِدٌ بِجُمْلَتِہِمْ ، عَلٰی أَنَّہُمْ عِنْدَہُ بَنُوْ ہَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً ، لَا یُتَخَطَّوْنَ اِلَی غَیْرِہِمْ وَقَوْلُ مَنْ قَالَ : اِنَّ حَقَّ ذَوِی الْقُرْبَی فِیْ خُمُسٍ فِی الْغَنَائِمِ ، وَفِی الْفَیْئِ بِفَقْرِہِمْ وَلِحَاجَتِہِمْ ، بِمَا احْتَجَجْنَا بِہٖ عَلَی کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الْقَوْلَیْنِ .ثَبَتَ الْقَوْلُ الْآخَرُ ، وَہُوَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ لَہٗ أَنْ یَخُصَّ بِہٖ مَنْ شَائَ مِنْہُمْ ، وَأَنْ یَحْرِمَ مَنْ شَائَ مِنْہُمْ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَمَا دَلِیْلُک عَلٰی ذٰلِکَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ ذَکَرْنَا مِنْ الدَّلَائِلِ عَلٰی ذٰلِکَ ، فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ ، مَا یُغْنِیْنَا عَنْ اِعَادَتِہِ ہَاہُنَا ، مَعَ أَنَّا نَزِیْدُ فِیْ ذٰلِکَ بَیَانًا أَیْضًا .
٥٢٩٨: اضبع بن فرج کہتے ہیں کہ عبداللہ بن وہب نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت ذکر کی ہے۔ البتہ اتنی بات کہی کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ آدمی کا اور اس کے باپ کا کیا نام ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تمہارے لیے ان لوگوں کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی جو کہ قرابت داروں کے حصہ کو لازم قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ اسے ان لوگوں کے لیے واجب قرار دیتا ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ترجیح دینا مناسب سمجھیں۔ تو عین ممکن ہے کہ آپ نے اس کے ساتھ اپنے قرابت داروں میں اہل بدر کے یتیموں اور ان کمزوروں کو ترجیح دی ہو جو اپنی کمزوری کی وجہ سے اہل صفہ میں سے ہوگئے۔ جب ہمارے دلائل سے دونوں قولوں کی نفی ہوگئی یعنی اس آدمی کے قول کی بھی جو کہ قرابت داروں کے لیے ایک ہی حصہ قرار دیتا ہے یعنی اس کے نزدیک وہ صرف بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق ہے دوسروں کی طرف تجاوز نہ کرے گا اور دوسرا یہ قول جو غنائم اور فئی میں ان کا حصہ ان کی محتاجی اور حاجت کی وجہ سے قرار دیتا ہے۔ تو تیسرا قول خود ثابت ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار تھا کہ جس کو چاہیں اس کے ساتھ خاص کریں اور جس کو چاہیں محروم کریں۔ اس قول کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے۔ اس قول کے دلائل کا پہلے تذکرہ کیا جا چکا ہے البتہ چند اضافی دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔
جواباس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تمہارے لیے ان لوگوں کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی جو کہ قرابت داروں کے حصہ کو لازم قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ اسے ان لوگوں کے لیے واجب قرار دیتا ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ترجیح دینا مناسب سمجھیں۔
تو عین ممکن ہے کہ آپ نے اس کے ساتھ اپنے قرابت داروں میں اہل بدر کے یتیموں اور ان کمزوروں کو ترجیح دی ہو جو اپنی کمزوری کی وجہ سے اہل صفہ میں سے ہوگئے۔ جب ہمارے دلائل سے دونوں قولوں کی نفی ہوگئی یعنی اس آدمی کے قول کی بھی جو کہ قرابت داروں کے لیے ایک ہی حصہ قرار دیتا ہے یعنی یہ کہ وہ صرف بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق ہے دوسروں کی طرف تجاوز نہ کرے گا اور دوسرا اس کا قول جو غنائم اور فئی میں ان کا حصہ ان کی محتاجی اور حاجت کی وجہ سے قرار دیتا ہے۔ تو تیسرا قول خود ثابت ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار تھا کہ جس کو چاہیں اس کے ساتھ خاص کریں اور جس کو چاہیں محروم کریں۔
سوال : اس قول کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے۔
جواب : اس قول کے دلائل کا پہلے تذکرہ کیا جا چکا ہے البتہ چند اضافی دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔

5300

۵۲۹۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ ، قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَہٗ قَالَ : اجْتَمَعَ رَبِیْعُہُ بْنُ الْحَارِثِ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَا لَوْ بَعَثْنَا ہٰذَیْنِ الْغُلَامَیْنِ لِیْ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ فَأَدَّیَا مَا یُؤَدِّی النَّاسُ وَأَصَابَا مَا یُصِیْبُ النَّاسُ .قَالَ : فَبَیْنَا ہُمَا فِیْ ذٰلِکَ ، جَائَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ وَوَقَفَ عَلَیْہِمَا ، فَذُکِرَ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ عَلِیٌّ لَا تَفْعَلَا ، فَوَاللّٰہِ مَا ہُوَ بِفَاعِلٍ .فَقَالَا : مَا یَمْنَعُک ہَذَا اِلَّا نَفَاسَۃٌ عَلَیْنَا ، فَوَاللّٰہِ لَقَدْ نِلْت صِہْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا نَفِسْنَا عَلَیْکَ .فَقَالَ عَلِیٌّ أَنَا أَبُوْ حَسَنٍ ، أَرْسِلَاہُمَا فَانْطَلَقَا وَاضْطَجَعَ ، فَلَمَّا صَلَّی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ ، سَبَقْنَاہُ اِلَی الْحُجْرَۃِ فَقُمْنَا عِنْدَہَا حَتّٰیْ جَائَ فَأَخَذَ بِآذَانِنَا فَقَالَ أَخْرِجَا مَا تُضْمِرَانِ ثُمَّ دَخَلَ وَدَخَلْنَا عَلَیْہِ، وَہُوَ یَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَیْنَبَ ابْنَۃِ جَحْشٍ فَتَوَاکَلْنَا الْکَلَامَ .ثُمَّ تَکَلَّمَ أَحَدُنَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُ النَّاسِ وَبَلَغْنَا النِّکَاحَ ، وَقَدْ جِئْنَاک لِتُؤَمِّرَنَا عَلَی بَعْضِ الصَّدَقَاتِ فَنُؤَدِّیَ اِلَیْکَ کَمَا یُؤَدُّوْنَ ، وَنُصِیْبَ کَمَا یُصِیْبُوْنَ فَسَکَتَ حَتّٰی أَرَدْنَا أَنْ نُکَلِّمَہٗ، وَجَعَلَتْ زَیْنَبُ تَلْمَعُ اِلَیْنَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ : أَنْ لَا تُکَلِّمَاہٗ، فَقَالَ اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَنْبَغِیْ لِآلِ مُحَمَّدٍ اِنَّمَا ہِیَ أَوْسَاخُ النَّاسِ ، اُدْعُ اِلَیَّ مَحْمِیَّۃَ - وَکَانَ عَلَی الْخُمُسِ - وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَجَائَ اہُ .فَقَالَ لِمَحْمِیَّۃَ أَنْکِحْ ہٰذَا الْغُلَامَ ابْنَتَک لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ، فَأَنْکَحَہُ .وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ أَنْکِحْ ہٰذَا الْغُلَامَ فَأَنْکَحَنِی .فَقَالَ لِمَحْمِیَّۃَ أَصْدِقْ عَنْہُمَا مِنَ الْخُمُسِ کَذَا وَکَذَا .أَفَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ مَحْمِیَّۃَ أَنْ یُصْدِقَ عَنْہُمَا مِنَ الْخُمُسِ ، وَلَمْ یَقْسِمُ الْخُمُسَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنْ عَدَدِ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، فَیُعْلَمُ مِقْدَارُ مَا لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ . فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ أَتَی مَا سَمَّی اللّٰہُ لِذَوِی الْقُرْبَی فِی الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا ، فِیْ صَدْرِ کِتَابِنَا ہٰذَا، لَیْسَ لِقَوْمٍ بِأَعْیَانِہِمْ لِقَرَابَتِہِمْ .لَوْ کَانَ ذٰلِکَ اِذًا ، لَوَجَبَ التَّسْوِیَۃُ فِیْہِ بَیْنَہُمْ ، وَاِذًا لَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْبِسُہٗ فِیْ یَدِ مَحْمِیَّۃَ دُوْنَ أَہْلِہِ حَتّٰی یَضَعَہُ فِیْہِمْ ، کَمَا لَمْ یَحْبِسْ أَرْبَعَۃَ أَخْمَاسِ الْغَنَائِمِ عَنْ أَہْلِہَا وَلَمْ یُوَلِّ عَلَیْہَا حَافِظًا دُوْنَ أَہْلِہَا .فَفِیْ تَوْلِیَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْخُمُسِ مِنَ الْغَنَائِمِ مَنْ یَحْفَظُہُ حَتّٰی یَضَعَہُ فِیْمَنْ یَأْمُرُہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضْعُہٗ، فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ حُکْمَہُ اِلَیْہِ فِیْمَنْ یَرَی فِیْ ذٰوِیْ قُرْبَاہُ وَلَوْ کَانَ لِذَوِی الْقُرْبَیْ حَقٌّ بِعَیْنِہٖ، لَا یَجُوْزُ أَنْ یُصْرَفَ سَہْمٌ عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ حَظُّہُ مِنْہُ اِلَی مَنْ سِوَاہٗ، وَاِنْ کَانُوْا أُوْلِیْ قُرْبٰی، لَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْبِسُ حَقًّا لِلْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَلَا لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ وَلَا عَنْ غَیْرِہِمَا ، حَتَّی یُؤَدِّیَ اِلَی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ حَقَّہٗ، وَلَمَا احْتَاجَ الْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِیْعَۃَ أَنْ یُصَدِّقَ عَنْہُمَا شَیْئًا قَدْ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَہُمَا بِالْآیَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرَہُمْ فِیْہَا .فَفِی انْتِفَائِ مَا ذَکَرْنَا ، دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ وَحُجَّۃٌ قَائِمَۃٌ ، أَنَّ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَہُ فِیْ ذٰوِیْ قُرْبَاہُ الَّذِیْنَ جَعَلَہُ فِیْہِمْ ، وَمَا قَدْ کَانَ لَہُ صَرْفُہُ عَنْہُمْ اِلَی ذٰوِیْ قُرْبَاہُ مِثْلُہُمْ ، وَاِنَّ بَعْضَہُمْ لَمْ یَکُنْ أَوْلَی بِہٖ مِنْ بَعْضٍ ، اِلَّا مَنْ رَأَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضْعَہُ فِیْہِ مِنْہُمْ ، فَیَکُوْنُ بِذٰلِکَ أَوْلَی مِمَّنْ رَأَیْ یُحْظِیْہِ بِہٖ مِنْہُمْ .وَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا حُجَّۃٌ أُخْرَی وَہِیَ : أَنَّ فَہْدَ بْنَ۔
٥٢٩٩: عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث نے بیان کیا کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے اور باہمی گفتگو کی کہ اگر ہم ان دو بچوں (عبدالمطلب اور فضل) کو صدقہ کی وصولی کے لیے بھیجیں تو جو کچھ لوگ دیتے ہیں یہ بھی دیں اور جو کچھ لوگ حاصل کرتے ہیں یہ بھی حاصل کریں۔ راوی کہتے ہیں وہ دونوں اسی حالت میں تھے کہ حضرت علی (رض) تشریف لے آئے اور ان دونوں کے پاس کھڑے ہوگئے انھوں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کریں گے۔ ان دونوں نے کہا تم ہمارے ساتھ حسد کی وجہ سے اس بات سے رک رہے ہو۔ اللہ کی قسم تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دامادی ملی ہم نے تو حسد نہیں کیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا میں ابو حسن ہوں (یعنی حسد نہیں کرتا) پس تم ان دونوں کو بھیج دو ۔ پھر وہ دونوں چلے گئے اور حضرت علی (رض) لیٹ گئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز ادا فرما چکے تو ہم آپ سے پہلے حجرہ مبارکہ میں پہنچ گئے اور وہاں کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے اور آپ نے (شفقت سے) ہم دونوں کے کان پکڑے اور فرمایا جو کچھ تمہارے دل میں ہے ظاہر کرو۔ پھر آپ اندر تشریف لے گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اندر گئے۔ آپ ان دنوں حضرت زینب بنت جحش (رض) کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو بات کرنے کا وکیل بنایا۔ پھر ہم میں سے ایک نے کلام کیا اور کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ نیکی کرنے والے اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے ہیں ہم دونوں نکاح کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ ہم آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں بعض صدقات (پر عامل) مقرر فرمائیں تاکہ ہم بھی دوسروں کی طرح آپ تک (وصول شدہ) مال پہنچائیں اور دوسروں کی طرح ہم بھی فائدہ حاصل کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی اختیار فرمائی یہاں تک کہ ہم نے ارادہ کیا کہ آپ سے (دوسری مرتبہ) کلام کریں۔ مگر حضرت زینب (رض) پردہ کے پیچھے سے ہمیں گفتگو نہ کرنے کا اشارہ فرما رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا۔ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے صدقہ حلال نہیں یہ لوگوں کی میل کچیل ہے تم محمیہ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ یہ خمس پر نگران تھے اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بھی بلاؤ۔ جب وہ دونوں آگئے تو آپ نے حضرت محمیہ (رض) کو فرمایا اس لڑکے یعنی فضل بن عباس سے تم اپنی بیٹی کا نکاح کر دو ۔ چنانچہ انھوں نے نکاح کردیا اور نوفل بن حارث کو فرمایا اس لڑکے عبدالمطلب بن ربیعہ سے تم اپنی بیٹی کا نکاح کر دو ۔ تو انھوں نے میرے ساتھ نکاح کردیا۔ پھر حضرت محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کی طرف سے خمس میں سے اتنا اتنا مہر ادا کر دو ۔ کیا معترض کو یہ معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت محمیہ (رض) کو خمس میں سے دونوں کا مہر ادا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے بعد بنو ہاشم اور بنو مطلب کی تعداد کے مطابق خمس تقسیم نہیں فرمایا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے کتنی مقدار ہے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں جن کو ہم نے شروع باب میں ذکر کیا ہے۔ قرابتداروں کو جو حصہ بیان فرمایا ہے وہ قرابت کی وجہ سے کسی معین جماعت کے لیے نہیں اگر ایسا ہوتا تو اس صورت میں ان کے درمیان برابری ضروری ہوتی اور اس صورت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اہل بیت سے علیحدہ کر کے حضرت محمیہ (رض) کے پاس نہ رکھتے حتیٰ کہ وہ ان سب کو عطا فرماتے جیسا کہ آپ نے غنیمت کے چار حصے ان کے حقداروں سے نہیں روکے اور ان سے روک کر اس پر کوئی محافظ مقرر نہیں فرمایا۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غنیمت کے خمس پر کسی کو مقرر کرنا پھر آپ کے حکم سے اس کا کسی کو عطاء ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا اختیار آپ کو حاصل تھا کہ قرابت داروں میں سے جس کو مناسب سمجھیں عطاء فرمائیں۔ اگر قرابت داروں کا مقررہ حصہ ہوتا تو آپ کسی قرابت دار کا حصہ دوسرے کو عطاء نہ فرماتے خواہ وہ کتنا ہی قریبی ہو اور آپ یقیناً حضرت فضل بن عباس اور عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور ان کے علاوہ دوسروں کا حق نہ روکتے بلکہ ان میں سے ہر ایک کو اس کا حق دیتے اور اس صورت میں حضرت فضل بن عباس اور عبدالمطلب بن ربیعہ (رض) کو اس بات کی محتاجی نہ ہوتی کہ ان کی طرف سے کوئی چیز بطور مہر ادا کی جائے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ کے ذریعہ ان کا حق واجب قرار دیا۔ ہم نے جو کچھ ذکر کیا یہ اس بات کی نفی پر صحیح اور مضبوط دلیل ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو عمل کیا کہ بعض کو عطا فرمایا اور دوسروں کو محروم کردیا حالانکہ ان میں سے بعض دوسروں سے زیادہ قریبی نہ تھے تو اس کی صاف وجہ یہی تھی کہ آپ کو اس بات کا اختیار تھا کہ ان میں سے جس کو چاہیں مقدم کریں اور حصہ عنایت فرمائیں۔ اس سلسلہ کی دوسری دلیل یہ ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ ١٦٧‘ مسند احمد ٤؍١٦٦۔

5301

۵۳۰۰ : سُلَیْمَانَ بْنِ یَحْیَی قَدْ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِیْنَ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِوَادِی الْقُرَی ، فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لِمَنِ الْمَغْنَمُ ؟ فَقَالَ لِلّٰہِ سَہْمٌ ، وَلِہٰؤُلَائِ أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ .قُلْتُ :فَہَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِشَیْئٍ مِنَ الْمَغْنَمِ مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالَ لَا ، حَتَّی السَّہْمُ یَأْخُذُہُ أَحَدُکُمْ مِنْ جَنَّتِہِ فَلَیْسَ بِأَحَقَّ بِہٖ مِنْ أَخِیْہِ .
٥٣٠٠: بدیل بن میسرہ نے عبداللہ بن شقیق سے انھوں نے بلقین کے ایک آدمی سے روایت کی کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ اس وقت وادی قریٰ میں تھے میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مال غنیمت کس کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان لوگوں (غازیوں ٩ کے لیے چار حصے میں نے پوچھا کیا کوئی شخص دوسرے کی بنسبت غنیمت کا زیادہ حقدار ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں یہاں تک کہ تم میں سے جو حصہ لیتا ہے تو وہ اپنے بھائی کی بنسبت اس کا زیادہ حق دار نہیں ہے۔

5302

۵۳۰۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِیْنَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ .
٥٣٠١: خالد حذاء نے عبداللہ بن شقیق سے انھوں نے بلقین کے ایک آدمی سے اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5303

۵۳۰۲ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُرَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ اِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَیْسِ لَمَّا أَتَوْا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ الْقَوْمُ ؟ أَوْ مَنِ الْوَفْدُ ؟ قَالُوْا : رَبِیْعَۃُ ، قَالَ مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ ، أَوْ بِالْوَفْدِ ، غَیْرَ خَزَایَا وَلَا نَادِمِیْنَ .قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّا لَا نَسْتَطِیْعُ أَنْ نَأْتِیَک اِلَّا فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ ، فَمُرْنَا بِأَصْلٍ فَصْلٍ نُخْبِرُ بِہٖ مَنْ وَرَائَ نَا وَنَدْخُلُ بِہٖ الْجَنَّۃَ .قَالَ أَتَدْرُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاَللّٰہِ وَحْدَہٗ؟ قَالُوْا : اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ شَہَادَۃُ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَاِقَامُ الصَّلَاۃِ ، وَاِیْتَائُ الزَّکَاۃِ ، وَصِیَامُ رَمَضَانَ ، وَأَنْ یُعْطُوْا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ .
٥٣٠٢: ابو حمزہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے بیٹھا تھا وہ فرمانے لگے کہ وفد عبدالقیس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ نے ان سے ریافت فرمایا۔ تم کون لوگ ہو ؟ یا تم کون وفد ہو ؟ انھوں نے جواب دیا ہم ربیعہ سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے فرمایا قوم یا وفد کو مرحبا ہو۔ نہ رسوائی ہو نہ شرمندگی۔ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں رجب ‘ ذوالقعدہ ‘ ذوالحجہ ‘ محرم میں آسکتے ہیں (باقی مہینوں میں لڑائی کا خطرہ ہوتا ہے) آپ ہمیں اصل اور فیصلہ کن بات بتلائیں تاکہ ہم اپنے پچھلوں کو بتلائیں اور اس کے ذریعہ ہم جنت میں داخل ہوں آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان کیا ہے۔ انھوں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا۔ اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ دو ۔
تخریج : بخاری فی الایمان باب ٤٠‘ والعلم باب ٢٥‘ والادب باب ٩٨‘ دالاحاد باب ٥‘ مسلم فی الایمان ٢٤‘ نسائی فی الاشربہ باب ٤٨‘ مسند احمد ١؍٢٨٨۔

5304

۵۳۰۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقِیْسِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَعَلِمَ أَنَّہٗ قَدْ أَضَافَ الْخُمُسَ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَلَمْ یُضِفْ اِلَیْہِ أَرْبَعَۃَ أَخْمَاسِہَا ، وَأَنَّ مَا سِوَاہُ مِنْہَا لِقَوْمٍ بِغَیْرِ أَعْیَانِہِمْ ، یَضَعُہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمْ عَلٰی مَا یَرَی ، وَلَوْ کَانَ لِذِی الْقُرْبَی الْمَعْلُوْمِ عَدَدُہُمْ ، لَمْ یَکُنْ کَذٰلِکَ .أَفَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ یَأْخُذُ الْخُمُسَ ، لِیَضَعَہُ فِیْمَا یَرَی وَضْعَہٗ، وَیَقْسِمُ مَا بَقِیَ بَعْدَہُ عَلَی السُّہْمَانِ .فَدَلَّ أَنَّ مَا کَانَ یَقْسِمُہُ عَلَی السُّہْمَانِ أَنَّہٗ لِقَوْمٍ بِأَعْیَانِہِمْ ، لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ مَنْعُہُمْ مِنْہٗ، وَأَنَّ الَّذِیْ یَأْخُذُہٗ، لَا یَقْسِمُہٗ حَتَّی یُدْخِلَ فِیْہِ رَأْیَہُ ہُوَ الَّذِی لَیْسَ لِقَوْمٍ بِأَعْیَانِہِمْ ، وَأَنَّہٗ مَرْدُوْدٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی یَضَعَہُ فِیْمَا یَرَی . ثُمَّ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِیْ حُکْمِ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضَعُہٗ فِیْ ذٰوِیْ قُرْبَاہُ فِیْ حَیَاتِہٖ، کَیْفَ حُکْمُہُ بَعْدَ وَفَاتِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ قَائِلُوْنَ : ہُوَ رَاجِعٌ مِنْ قَرَابَتِہِ اِلَی قَرَابَۃِ الْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِہِ وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہُوَ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَلِبَنِی الْمُطَّلِبِ خَاصَّۃً .وَقَالَ آخَرُوْنَ : وَہُمْ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ مَا کَانَ فِیْ حَیَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمَنْ رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضْعَہُ فِیْہِ مِنْ قَرَابَتِہِ ہُوَ مُنْقَطِعٌ عَنْہُمْ بِوَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ہٰذِہِ الْأَقْوَالِ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنْہَا قَوْلًا صَحِیْحًا ، فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِیْ حَیَاتِہِ فِی الْمَغْنَمِ ، سَہْمُ الصَّفِیِّ لَا اخْتِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْہِ،
٥٣٠٣: عبدالقیس ‘ ابو حمزہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وفد عبدالقیس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اس سے ان کو معلوم ہوا کہ خمس غنیمت کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور چار حصے آپ کی طرف منسوب نہیں کئے اور ان کے علاوہ مال لوگوں کے لیے بلا تعیین ہے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی رائے کے مطابق استعمال فرمائیں گے۔ اگر یہ ذی القربیٰ مقرر ہوتے اور انہی کو دیا جاسکتا تو اس طرح نہ ہوتا۔
طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کیا یہ جانی پہچانی بات نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس لیتے تاکہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق صرف کریں اور باقی کو دو حصوں میں بانٹ دیں اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ جس کے دو حصے کئے جاتے وہ معین لوگوں کے لیے تھا کہ کسی کو یہ جائز نہ تھا کہ اس حصہ سے ان کو محروم کرے اور جس کو اپنی رائے کے مطابق صرف کرنے کے لیے رکھتے وہ متعین لوگوں کے لیے نہ تھا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹایا جانے والا تھا تاکہ جہاں چاہیں صرف فرمائیں۔ اس میں تین قول ہیں ایک یہ حصہ آپ کے قرابت والوں سے ہٹ کر خلفاء کے قرابت والوں کو ملے گا۔ وہ حصہ بنی ہاشم و بنو مطلب کو بعد میں بھی ملتا رہے گا۔ ان کا قول یہ ہے کہ جو حصہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اس طرح تھا کہ جس کو قرابت والوں میں پسند فرماتے عنایت فرماتے ‘ وہ حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقطع ہوجائے گا۔ اب ان تمام اقوال پر غور کرتے ہیں تاکہ صحیح قول کو دوسرے اقوال سے الگ کیا جائے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے ایک وہ منتخب حصہ ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں لیتے تھے اور اہل علم کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات میں وارد ہے۔
جو حصہ ذوی القربیٰ کا آپ اپنی زندگی میں دیتے رہے وفات کے بعد اس کا حکم کیا ہے ؟
اس میں تین اقوال ہیں ایک یہ حصہ آپ کے قرابت والوں سے ہٹ کر خلفاء کے قرابت والوں کو ملے گا۔
نمبر 2: وہ خاصہ بنی ہاشم و بنو مطلب بعد میں بھی ملتا رہے گا۔
نمبر 3: ان کا قول یہ ہے کہ جو حصہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اس طرح تھا کہ جس کو قرابت والوں میں پسند فرماتے عنایت فرماتے وہ حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقطع ہوجائے گا۔
تمام اقوال پر غور :
اب ان تمام اقوال پر غور کرتے ہیں تاکہ صحیح قول کو دوسرے اقوال سے الگ کیا جائے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے ایک وہ منتخب حصہ ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں لیتے تھے اور اہل علم کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات میں وارد ہے۔

5305

۵۳۰۴ : مَا حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُرَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھِلَالٍ الرَّاسِبِیُّ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَیْسِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : اِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ مُضَرَ ، وَاِنَّا لَا نَسْتَطِیْعُ أَنْ نَأْتِیَک اِلَّا فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَأْخُذُ بِہٖ ، وَنُحَدِّثُ بِہٖ مَنْ بَعْدَنَا .قَالَ آمُرُکُمْ بِأَرْبَعٍ ، وَأَنْہَاکُمْ عَنْ أَرْبَعٍ ، شَہَادَۃِ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَأَنْ تُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ ، وَتُؤْتُوْا الزَّکَاۃَ ، وَتُعْطُوْا سَہْمَ اللّٰہِ مِنَ الْغَنَائِمِ وَالصُّفّٰی ، وَأَنْہَاکُمْ عَنِ الْحَنْتَمِ ، وَالدُّبَّائِ ، وَالنَّقِیْرِ ، وَالْمُزَفَّتِ .
٥٣٠٤: ابو حمزہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عبدالقیس کا وفد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگے ہمارے اور آپ کے مابین یہ مضر کا قبیلہ آباد ہے اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ تک پہنچ نہیں سکتے پس آپ ہمیں ایسی باتوں کا حکم فرمائیں جن کو ہم خود اختیار کریں اور پچھلے لوگوں کو بیان کرسکیں۔ آپ نے فرمایا تمہیں چاروں باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار سے روکتا ہوں۔ ! اقرار شہادتین۔ " نماز کو قائم کرو۔ 3 زکوۃ ادا کرو۔$غنائم سے اللہ تعالیٰ کا اور منتخب حصہ نکالو اور جن باتوں سے منع کرتا ہوں وہ یہ ہیں شراب کے تمام اقسام کے برتنوں سے منع کرتا ہوں۔ ! سبز گھڑے۔ " کدو۔ 3 لکڑی کھود کر بنائے ہوئے۔ $تارکول لگے ہوئے برتن سے۔ (جب برتنوں کا استعمال ممنوع ہوا تو شراب تو پہلے ہی حرام تھی۔ )

5306

۵۳۰۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَنَفَّلَ سَیْفَہُ ذَا الْفَقَارِ یَوْمَ بَدْرٍ .
٥٣٠٥: عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن بطور زائد کے لیا۔
تخریج : ترمذی فی السیر باب ١٢‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ١٨‘ مسند احمد ١؍٢٧١۔

5307

۵۳۰۶ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ یَحْیَی الْہَمْدَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ : ثَنَا الْأَشْجَعِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : سَأَلْت الشَّعْبِیَّ عَنْ سَہْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَسَہْمِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَکَانَ الصَّفِیُّ یُصَفَّی بِہٖ اِنْ شَائَ عَبْدًا ، وَاِنْ شَائَ أَمَۃً ، وَاِنْ شَائَ فَرَسًا .
٥٣٠٦: مطرف کہتے ہیں کہ میں نے شعبی (رح) سے پوچھا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ مال غنیمت میں مسلمانوں کے حصہ کی طرح تھا اور منتخب حصہ وہ آپ کی مرضی پر غلام یا لونڈی یا گھوڑے کی صورت میں جو چاہتے لیتے تھے۔

5308

۵۳۰۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا قَالَ : تَنَفَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفَہُ ذَا الْفَقَارِ یَوْمًا ، وَہُوَ الَّذِیْ رَأَی فِیْہِ الرُّؤْیَا ، یَوْمَ أُحُدٍ .
٥٣٠٧: عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالفقار کو بدر کے دن اپنے لیے زائد منتخب فرمایا۔ یہی وہ تلوار ہے جس کے متعلق احد کے دن خواب میں دیکھا کہ اس میں دندانے ہیں (تو اس کی تعبیر صحابہ کرام کی شہادت سے فرمائی)

5309

۵۳۰۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ اللَّیْثِیِّ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ فِیْمَا یَحْتَجُّ بِہٖ ، کَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَایَا ، بَنِی النَّضِیرِ ، وَخَیْبَرَ ، وَفَدَکَ .فَأَمَّا بَنُو النَّضِیرِ ، فَکَانَتْ ، فَجَزَّأَہَا ثَلَاثَۃَ أَجْزَائٍ ، فَقَسَمَ مِنْہَا جُزْئً ا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَحَبَسَ جُزْئً ا لِلنَّفَقَۃِ ، فَمَا فَضَلَ عَنْ أَہْلِہٖ ، رَدَّہُ اِلَی فُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .
٥٣٠٨: مالک بن اوس کہتے ہیں حضرت عمر (رض) نے اپنی دلیل میں ذکر کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے منتخب مال تین تھے۔ نمبر ١ بنو نضیر۔ نمبر ٢ خیبر۔ نمبر ٣ فدک سے حاصل شدہ مال۔ پھر اموال بنو نضیر کو آپ نے تین حصوں میں تقسیم فرمایا۔ نمبر ١ ایک حصہ عام مسلمانوں کے لئے۔ نمبر ٢ ایک حصہ ذاتی خرچہ جات کے لئے۔ نمبر ٣ فقراء مہاجرین کے لئے۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارۃ باب ١٩۔

5310

۵۳۰۹ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ یَحْیَی الْہَمْدَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِی الْعَلَائِ ، قَالَ : بَیْنَمَا أَنَا مَعَ مُطَرِّفٍ بِأَعْلَی الْمِرْبَدِ ، فِیْ سُوْقِ الْاِبِلِ اِذْ أَتٰی عَلَیْنَا أَعْرَابِیٌّ مَعَہُ قِطْعَۃُ أَدِیْمٍ ، أَوْ قِطْعَۃُ جِرَابٍ ، شَکَّ الْجُرَیْرِیُّ .فَقَالَ : ہَلْ فِیْکُمْ مَنْ یَقْرَأُ ؟ فَقُلْتُ :أَنَا أَقْرَأُ ، قَالَ : ہَا ، فَاقْرَأْہٗ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَہُ لَنَا .فَاِذَا فِیْہِ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ ، لِبَنِی زُہَیْرِ بْنِ قَیْسٍ ، حَی مِنْ عُکْلٍ ، اِنَّہُمْ شَہِدُوْا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَفَارَقُوْا الْمُشْرِکِیْنَ ، وَأَقَرُّوْا بِالْخُمُسِ فِیْ غَنَائِمِہِمْ ، وَسَہْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَفِیِّہٖ، فَاِنَّہُمْ آمِنُوْنَ بِأَمَانِ اللّٰہِ .فَقَالَ لَہُ بَعْضُہُمْ : ہَلْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا تُحَدِّثُنَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَذْہَبَ عَنْہُ وَحَرُ الصَّدْرِ ، فَلْیَصُمْ شَہْرَ الصَّبْرِ ، وَثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ .فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : أَنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَلَا أَرَاکُمْ تَرَوْنَنَا ، أَنِّیْ أَکْذِبُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ لَا حَدَّثْتُکُمُ الْیَوْمَ حَدِیْثًا ، فَأَخَذَہَا ، ثُمَّ انْطَلَقَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَأَجْمَعُوْا جَمِیْعًا أَنَّ ہَذَا السَّہْمَ لَیْسَ لِلْخَلِیْفَۃِ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہِ کَالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا کَانَ الْخَلِیْفَۃُ لَا یَخْلُفُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا کَانَ لَہٗ، مِمَّا خَصَّہُ اللّٰہُ بِہٖ دُوْنَ سَائِرِ الْمُقَاتِلِیْنَ مَعَہٗ، کَانَتْ قَرَابَتُہُ أَحْرَی أَنْ لَا تَخْلُفَ قَرَابَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْمَا کَانَ لَہُمْ فِیْ حَیَاتِہِ مِنَ الْفَیْئِ وَالْغَنِیْمَۃِ .فَبَطَلَ بِہٰذَا ، قَوْلُ مَنْ قَالَ : اِنَّ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَیْ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَرَابَۃِ الْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِہٖ۔ ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی مَا قَالَ النَّاسُ ، سِوَیْ ہٰذَا الْقَوْلِ مِنْ ہٰذِہِ الْأَقْوَالِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ .فَأَمَّا مَنْ خَصَّ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، دُوْنَ مَنْ سِوَاہُمْ مِنْ ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَجَعَلَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی لَہُمْ خَاصَّۃً ، فَقَدْ ذَکَرْنَا فَسَادَ قَوْلِہٖ فِیْمَا تَقَدَّمَ ، فِیْ کِتَابِنَا ہٰذَا، فَأَغْنَانَا ذٰلِکَ عَنْ اِعَادَتِہِ ہَاہُنَا .وَکَذٰلِکَ مَنْ جَعَلَہُ لِفُقَرَائِ قَرَابَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنَ أَغْنِیَائِہِمْ ، وَجَعَلَہُمْ کَغَیْرِہِمْ مِنْ سَائِرِ فُقَرَائِ الْمُسْلِمِیْنَ .فَقَدْ ذَکَرْنَا أَیْضًا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ ، فَسَادَ قَوْلِہٖ ، فَأَغْنَانَا عَنْ اِعَادَتِہِ ہَاہُنَا وَبَقِیَ قَوْلُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَہٗ أَنْ یَضَعَہُ فِیْمَنْ رَأَی وَضْعَہُ فِیْہِ، مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ وَأَنَّ أَحَدًا مِنْہُمْ لَا یَسْتَحِقُّ مِنْہُ شَیْئًا حَتَّی یُعْطِیَہُ اِیَّاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ کَانَ لَہٗ أَنْ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَغْنَمِ لِنَفْسِہِ مَا رَأَی .فَکَانَ ذٰلِکَ مُنْقَطِعًا بِوَفَاتِہٖ، غَیْرَ وَاجِبٍ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِ وَفَاتِہٖ۔فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، مَا لَہٗ أَنْ یَخُصَّ بِہٖ مَنْ رَأَی مِنْ ذَوِیْ قُرْبَاہٗ، دُوْنَ مَنْ سِوَاہُ مِنْ ذَوِیْ قُرْبَاہُ فِیْ حَیَاتِہٖ، اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ اِلٰی أَحَدٍ مِنْ بَعْدِ وَفَاتِہٖ۔وَلَمَّا بَطَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ اِلٰی أَحَدٍ بَعْدَ وَفَاتِہٖ، بَطَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ السَّہْمُ لِأَحَدٍ مِنْ ذَوِی قَرَابَتِہٖ، بَعْدَ وَفَاتِہٖ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ أَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْکُمْ ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، ثُمَّ ذَکَرَ .
٥٣٠٩: ابوالعلاء کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ اونٹوں کے بازار میں مربد کے بالائی حصہ میں موجود تھا کہ ہمارے پاس ایک بدو کھال کا ٹکڑا یا تلوار کے خول کا ٹکڑا لایا۔ جریری کو اس میں شک ہے کہ کون سا ابوالعلاء نے بتلایا اور کہنے لگا کیا تم میں کوئی پڑھا لکھا ہے میں نے کہا میں پڑھ سکتا ہوں۔ اس نے کہا لو یہ پڑھو۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں لکھ کردیا۔ اس میں یہ لکھا تھا۔ یہ محمد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بنی زہیر بن قیس کے نام ہے جو عکل کا ایک خاندان ہے۔ انھوں نے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دی ہے اور مشرکین سے جدائی اختیار کرلی ہے اور انھوں نے اپنے غنائم میں خمس کا اقرار کیا ہے اور یہ بھی اقرار کیا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ اور منتخب حصہ دیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی امان کے سبب امن میں آنے والے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس دیہاتی سے کہا کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی چیز سنی ہے اگر سنی ہے تو تم ہمیں بیان کرو ؟ اس نے کہا ہاں میں نے آپ کو کہتے سنا جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے سینے سے بخل نکل جائے تو وہ صبر (رمضان) کے مہینہ کے روزے اور ہر ماہ کے تین روزے رکھے مجمع میں سے ایک نے کہا کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے ؟ کیا تم میرے بارے میں یہ خیال کرتے ہو کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جھوٹی بات بتاؤں گا ؟ میں آج تم سے کوئی حدیث بیان نہ کروں گا پھر اس نے وہ چمڑے کا ٹکڑا لیا اور پھر چلا گیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ حصہ خلیفہ کے لیے نہیں اس لیے کہ خلیفہ اس حکم میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح نہیں۔ پس جب خلیفۃ المسلمین اس خصوصی مال میں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے علاوہ آپ کے ساتھ خاص کیا تو آپ کے قرابت داران خلیفہ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ جو قرابت نبوت کی وجہ سے آپ کے قرابت والوں کو ملتا تھا وہ اس کے مستحق نہ وہ خواہ وہ مال فئی ہو یا غنیمت۔ پس اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو ذوی القربیٰ کے حصہ کو وفات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ کے قرابت والوں کو اس کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ جنہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حصص بنو ہاشم و بنو مطلب کے ساتھ خاص ہوں گے دیگر ذوالقربیٰ کو نہ ملے گا انہی کے ساتھ یہ حصہ خاص رہے گا اس قول کا ابطال ہم پہلے کرچکے جس کو دہرانے کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ قول بھی باطل ہے کہ جنہوں نے یہ کہا کہ یہ فقراء قرابت داروں کو دیا جائے گا مالدروں کو نہ دیا جائے گا اور یہ عام مسلمان فقراء کا حکم رکھتے ہیں اس کا ابطال طاہر کردیا گیا دوبارہ دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس قول کے قائلین کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی پر موقوف تھا جہاں اور جس پر چاہتے خرچ کرسکتے تھے ان میں سے کوئی قرابت دار دوسرے کے مقابلے میں زیادہ استحقاق نہ رکھتا تھا اور آپ کو اپنے ذات کے لیے مال غنیمت جس کو چاہیں چننے کا اختیار تھا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ آپ کی وفات سے یہ منقطع ہوگیا وفات کے بعد کسی کے لیے لازم نہیں ہے۔ نظر کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں اختیار تھا اپنے قرابت داروں میں سے جسے چاہیں عطا فرمائیں اور دوسروں کو چھوڑ دیں آپ کے وصال کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں تو پھر جب آپ کے وصال کے بعد کسی کے لیے اس اختیار کا ہو ان باطل ہوگیا تو آپ کی وفات کے بعد اس حصے کا آپ کے کسی قرابتدار کے لیے ہونا بھی باطل ہوگیا۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے اس بات کا انکار کیا ہے۔
لغات : مربد۔ اونٹوں کا باڑہ۔ ادیم۔ چمڑے کا ٹکڑا۔
تخریج : نسائی فی الفئی ‘ مسند احمد ٥؍٧٨۔
قول اوّل کا ابطال : امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ حصہ خلیفہ کے لیے نہیں اس لیے کہ خلیفہ اس حکم میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح نہیں۔ پس جب خلیفۃ المسلمین اس خصوصی مال میں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے علاوہ آپ کے ساتھ خاص کیا تھا تو خلیفہ کے قرابتدار اس کے کس طرح حقدار ہوں گے جبکہ آپ کے قرابتدار آپ کی وفات کے بعد اس کے حقدار نہیں۔
پس اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو ذوی القربیٰ کے حصہ کو وفات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ کے قرابت والوں کو اس کا مستحق قرار دیتے ہیں۔
قول ثانی کا ابطال : جنہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حصص بنو ہاشم و بنو مطلب کے ساتھ خاص ہوں گے دیگر ذوالقربیٰ کو نہ ملے گا انہی کے ساتھ یہ حصہ خاص رہے گا اس قول کا ابطال ہم پہلے کرچکے جس کو دہرانے کی چنداں حاجت نہیں ہے۔
قول ثالث کا ابطال : اسی طرح یہ قول بھی باطل ہے کہ جنہوں نے یہ کہا کہ یہ فقراء قرابت داروں کو دیا جائے گا مالدروں کو نہ دیا جائے گا اور یہ عام مسلمان فقراء کا حکم رکھتے ہیں اس کا ابطال طاہر کردیا گیا دوبارہ دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
قول رابع : اس قول کے قائلین کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی پر موقوف تھا جہاں اور جس پر چاہتے خرچ کرسکتے تھے ان میں سے کوئی قرابت دار دوسرے کے مقابلے میں زیادہ استحقاق نہ رکھتا تھا اور آپ کو اپنی ذات کے لیے مال غنیمت جس کو چاہیں چننے کا اختیار تھا۔
اس کا حکم : یہ ہے کہ آپ کی وفات سے یہ منقطع ہوگیا وفات کے بعد کسی کے لیے لازم نہیں ہے۔
نظری دلیل : نظر کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں اختیار تھا اپنے قرابت داروں میں سے جسے چاہیں عطا فرمائیں اور دوسروں کو چھوڑ دیں آپ کے وصال کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں تو پھر جب آپ کے وصال کے بعد کسی کے لیے اس اختیار کا ہونا باطل ہوگیا تو آپ کی وفات کے بعد اس حصے کا آپ کے کسی قرابتدار کے لیے ہونا بھی باطل ہوگیا۔
سوال : عبداللہ بن عباس (رض) نے اس بات کا انکار کیا ہے۔

5311

۵۳۱۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمِّی ، جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہُرْمُزَ حَدَّثَہٗ أَنَّ نَجْدَۃَ ، صَاحِبُ الْیَمَامَۃِ ، کَتَبَ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، یَسْأَلُہٗ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی .فَکَتَبَ اِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِنَّہٗ لَنَا ، وَقَدْ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ دَعَانَا لِیُنْکَحَ مِنْہُ أَیِّمُنَا ، وَیُقْضَی مِنْہُ غَارِمُنَا ، فَأَبَی أَنْ یُسَلِّمَہُ لَنَا کُلَّہٗ ، وَرَأَیْنَا أَنَّہٗ لَنَا .
٥٣١٠: یزید بن ہرمز نے بیان کیا کہ یمامہ کے حکمران نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کی طرف لکھا وہ ذوی القربیٰ کے حصہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے حضرت ابن عباس (رض) نے لکھا کہ وہ حصہ ہمارے لیے تھا حضرت عمر (رض) نے ہمیں بلایا تاکہ وہ ہمارے رنڈوں کا نکاح کریں اور اس سے ہمارے قرضوں کو ادا کریں تو ہم نے انکار کیا مگر یہ کہ وہ تمام مال ہمیں دیں۔ ہمارا یہی خیال ہے کہ وہ ہمارا حق ہے۔
تخریج : نسائی بنحوہ فی الفئی باب ١ مسند احمد ١؍٣٢٠۔

5312

۵۳۱۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْت قَیْسًا یُحَدِّثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہُرْمُزَ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، یَسْأَلُہٗ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی الَّذِیْنَ ذَکَرَہُمْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، وَفَرَضَ لَہُمْ .فَکَتَبَ اِلَیْہِ وَأَنَا شَاہِدٌ کِتَابَہُ اِنَّہُمْ قَرَابَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّا لَمْ نَدْفَعْ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ خُوْلِفْنَا فِیْمَا ذَہَبْنَا اِلَیْہِ مِمَّا ذَکَرْنَا ، وَلٰـکِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ ، رَأَی فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ثَابِتٌ ، وَأَنَّہُمْ بَنُوْ ہَاشِمٍ ، فِیْ حَیَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَعْدَ وَفَاتِہٖ، وَقَدْ أَخْبَرَ أَنَّ قَوْمَہُ أَبَوْا ذٰلِکَ عَلَیْہِ، وَفِیْہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَمَنْ تَابَعَہُ مِنْہُمْ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .وَ عَلٰی ذٰلِکَ فَمِثْلُ مَنْ ذَکَرْنَا ، یَکُوْنُ قَوْلُہٗ مُعَارِضًا لِقَوْلِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا .
٥٣١١: یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کی طرف لکھا ان سے ذوی القربیٰ کے حصہ کے متعلق پوچھا جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا اور حصہ مقرر کیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے ان کو لکھا اور میرے سامنے لکھا کہ ہم ہی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں لیکن ہماری قوم نے ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ہمارے مؤقف کی مخالفت نہیں کی گئی لیکن ابن عباس (رض) کا اس سلسلہ میں خیال یہ ہے کہ ذوی القربیٰ کا حق ثابت ہے اور وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ اور وفات کے بعد بھی اسی طرح ثابت ہے اور انھوں نے یہ بتلایا کہ ان کی قوم نے ان کی اس بات کا انکار کیا اور ان انکار کرنے والوں میں حضرت عمر (رض) ان کی اتباع کرنے والے لوگ ہیں چنانچہ اس کے مطابق جن کا ہم نے تذکرہ کیا ان کا قول عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کا معارضہ کرسکتا ہے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ١٤٠‘ دارمی فی السیر باب ٣٢‘ مسند احمد ١؍٢٤٨۔
جواب : ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ہمارے مؤقف کی مخالفت نہیں کی گئی لیکن ابن عباس (رض) کا اس سلسلہ میں خیال یہ ہے کہ ذوی القربیٰ کا حق ثابت ہے اور وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ اور وفات کے بعد بھی اسی طرح ثابت ہے اور انھوں نے یہ بتلایا کہ ان کی قوم نے ان کی اس بات کا انکار کیا اور ان انکار کرنے والوں میں حضرت عمر (رض) ان کی اتباع کرنے والے لوگ ہیں چنانچہ اس کے مطابق جن کا ہم نے تذکرہ کیا ان کا قول عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کا معارضہ کرسکتا ہے۔

5313

۵۳۱۲ : وَلَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بِشْرٍ الْخَثْعَمِیِّ ، عَنِ ابْنِ حُمَیْدٍ ، قَالَ : وَقَعَتْ جَرَّۃٌ فِیْہَا وَرِقٌ مِنْ دَیْرِ حَرْبٍ فَأَتَیْتُ بِہَا عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ اقْسِمْہَا عَلَی خَمْسِہِ أَخْمَاسٍ فَخُذْ أَرْبَعَۃً ، وَہَاتِ خُمُسًا .فَلَمَّا أَدْبَرْت قَالَ : أَفِیْ نَاحِیَتِکَ مَسَاکِیْنُ فُقَرَائُ ؟ فَقُلْتُ :نَعَمْ ، قَالَ فَخُذْہٗ، فَاقْسِمْہُ بَیْنَہُمْ .أَفَلَا یَرَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَدْ أَمَرَہٗ أَنْ یَقْسِمَ الْخُمُسَ مِنَ الرِّکَازِ فِیْ فُقَرَائِ نَاحِیَتِہٖ، فَلَمْ یُوْجِبْ عَلَیْہِ دَفْعَ شَیْئٍ مِنْہُ اِلٰی أَحَدٍ مِنْ ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَہٰذَا خِلَافُ مَا کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، رَآہٗ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ
٥٣١٢: عبداللہ بن بشر خثعمی نے ابن حمید سے نقل کیا کہ میں نے ایک گھڑا پایا جس میں برباد گرجے کی چاندی تھی میں وہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں لایا تو آپ نے فرمایا اس کو پانچ حصوں میں تقسیم کرو اور چار خود لے لو اور پانچواں حصہ میرے پاس لے آؤ۔ (میں نے ایسا کردیا) جب میں پیٹھ پھیر کر چل دیا تو فرمایا کیا تمہاری طرف فقراء و مساکین ہیں میں نے کہا جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا اس کو لے جاؤ اور ان کے مابین تقسیم کر دو ۔ اس معترض کو دیکھنا چاہیے کہ حضرت علی (رض) گڑھے ہوئے مال کے خمس کو اس طرف کے فقراء میں تقسیم کا حکم فرمایا اور اس میں سے کوئی چیز اقارب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دینی لازم نہیں کی۔ چنانچہ حضرت علی (رض) کی رائے بھی ابن عباس (رض) کی رائے کے خلاف ہے۔

5314

۵۳۱۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَزْہَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَیْرُ بْنُ اِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُمَیَّۃَ اللّٰہُمَّ ، أَوْ حَدَّثَ الْقَوْمَ وَأَنَا فِیْہِمْ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ قَالَ : أَرْسَلَ اِلَیَّ عُمَرُ ظُہْرًا ، فَأَتَیْتُہٗ فَلَمَّا انْتَہَیْتُ اِلَی الْبَابِ سَمِعْتُ نَحِیْبًا شَدِیْدًا ، فَقُلْت اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ أَعْیَیْ عُمَرُ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَدَخَلْتُ حَتَّی جِئْتُ فَوَقَعَتْ یَدِیْ عَلَیْہِ فَقُلْتُ :لَا بَأْسَ بِک یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَقَالَ : أَعْجَبَکَ مَا رَأَیْتُ ؟ قُلْتُ :نَعَمْ ، قَالَ : ہَا اِنَّ الْخَطَّابَ عَلَی اللّٰہِ لَوْ کَرَّسْنَا عَلَیْہِ، کَانَ حَذَا اِلَیْ صَاحِبِیْ قَبْلِی .قَالَ : ثُمَّ قَالَ : اجْلِسْ بِنَا نَتَفَکَّرُ ، فَکَتَبْنَا الْمُحِقِّیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَکَتَبْنَا أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ دُوْنَ ذٰلِکَ ، فَأَصَابَ الْمُحِقِّیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَرْبَعَۃُ آلَافٍ ، وَأَصَابَ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ - رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِنَّ - وَمَنْ دُوْنَ ذٰلِکَ ، أَلْفٌ حَتَّی وَزَّعْنَا الْمَالَ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ عُمَرَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ ، قَدْ سَوَّیَا بَیْنَ الْمُحِقِّیْنَ ، وَبَیْنَ أَہْلِ الدَّرَجَۃِ الَّتِیْ بَعْدَہُمْ ، وَلَمْ یُدْخِلَا فِیْ ذٰلِکَ ، ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَرَابَتِہِمْ ، کَمَا أَدْخَلَا الْاِسْتِحْقَاقَ بِاسْتِحْقَاقِہِمْ .
٥٣١٣: عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم عبداللہ بن عبداللہ بن امیہ نے مجھے یا لوگوں کو بیان کیا اور میں اس میں موجود تھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمن بن عوف (رض) نے بیان کیا کہ میری طرف حضرت عمر (رض) نے ظہر کے وقت کسی آدمی کو بھیجا جب میں ان کے پاس آیا دروازے پر پہنچا تو میں نے زوردار رونے کی آواز سنی میں نے انا اللہ وانا الیہ راجعونکہا۔ یہ بات امیرالمؤمنین عمر (رض) کو پیش آئی ہے۔ میں داخل ہو کر ان کے پاس پہنچا اور ہاتھ ان پر پڑا تو میں نے کہا امیرالمؤمنین آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ نے فرمایا تم نے جو دیکھا اس پر تعجب کیا ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے مخاطبات پر اگر سختی سے ہم عمل کریں گے تو تب اپنے سے پہلے ساتھی کے قدم بقدم چل سکیں گے۔ پھر فرمانے لگے ہمارے ساتھ بیٹھو ہم سوچ بچار کرتے ہیں ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو حقدار ہیں ان کے نام لکھے ہیں ہم نے ازواج مطہرات (رض) اور ان کے علاوہ دوسروں کے نام بھی لکھے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں حقدار ہیں ان کو چار ہزار ملے گا جبکہ ازواج مطہرات (رض) اور ان کے علاوہ ہیں ان کو ایک ایک ہزار ملا یہاں تک کہ انھوں نے مال کو تقسیم کردیا۔ غور فرمائیں کہ حضرت عمر (رض) اور عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حقدار اور بعد کے درجہ والوں کے درمیان برابری برتی اور قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ذوالقربیٰ کو اس طرح شامل نہیں کیا جیسا کہ حقداروں کو ان کے استحقاق کی وجہ سے داخل کیا۔

5315

۵۳۱۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَیْضًا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ رَجَائٍ الْہَاشِمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، مَوْلَی غَفِرَۃَ ، قَالَ : لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَوُلِّیَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَدِمَ عَلَیْہِ مَالٌ مِنَ الْبَحْرَیْنِ ، فَقَالَ مَنْ کَانَ لَہٗ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِدَۃٌ فَلْیَأْتِنِیْ، وَلْیَأْخُذْ. فَأَتَیْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ فَقَالَ : وَعَدَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَتَاہُ مَالٌ مِنَ الْبَحْرَیْنِ ، أَعْطَانِیْ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا ، وَہٰکَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، مِلْئَ کَفَّیْہِ قَالَ : خُذْ بِیَدِکَ، فَأَخَذَ بِیَدِہٖ، فَوَجَدَہَا خَمْسَمِائَۃٍ فَقَالَ : اُعْدُدْ اِلَیْہَا أَلْفًا .ثُمَّ أَعْطِ مَنْ کَانَ وَعَدَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا ، ثُمَّ قَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ مَا بَقِیَ ، فَأَصَابَ کُلُّ اِنْسَانٍ مِنْہُمْ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ .فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ ، جَائَ ہُ مَالٌ کَثِیْرٌ أَکْبَرُ مِنْ ذٰلِکَ ، فَقَسَمَہٗ بَیْنَ النَّاسِ ، فَأَصَابَ کُلَّ اِنْسَانٍ عِشْرُوْنَ دِرْہَمًا ، وَفَضَلَ مِنَ الْمَالِ فَضْلٌ .فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، قَدْ فَضَلَ فَضْلٌ ، وَلَکُمْ خَدَمٌ یُعَالِجُوْنَ لَکُمْ ، وَیَعْمَلُوْنَ لَکُمْ ، فَاِنْ شِئْتُمْ رَضَخْنَا لَہُمْ ، فَرَضَخَ لَہُمْ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ ، خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ .فَقِیْلَ : یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ فَضَّلْتُ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارَ بِفَضْلِہِمْ .قَالَ : اِنَّمَا أُجُوْرُہُمْ عَلَی اللّٰہِ، اِنَّمَا ہَذَا مَغَانِمُ ، وَالْأُسْوَۃُ فِی الْمَغَانِمِ أَفْضَلُ مِنَ الْأَثَرَۃِ .فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَاسْتُخْلِفَ عُمَرُ ، فُتِحَتْ عَلَیْہِ الْفُتُوْحُ ، وَجَائَ ہُمْ مَالٌ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالَ کَانَ لِأَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْمَالِ رَأْیٌ وَلِیْ رَأْیٌ آخَرُ ، رَأَی أَبُوْبَکْرٍ أَنْ یَقْسِمَ بِالسَّوِیَّۃِ ، وَرَأَیْتُ أَنْ أُفَضِّلَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارَ ، وَلَا أَجْعَلُ مَنْ قَاتَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَنْ قَاتَلَ مَعَہٗ۔ فَفَضَّلَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارَ ، فَجَعَلَ لِمَنْ شَہِدَ بَدْرًا مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ ، وَمَنْ کَانَ لَہُ اِسْلَامٌ مَعَ اِسْلَامِہِمْ ، اِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَشْہَدْ بَدْرًا ، أَرْبَعَۃَ آلَافٍ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ ، وَلِلنَّاسِ عَلٰی قَدْرِ اِسْلَامِہِمْ وَمَنَازِلِہِمْ .وَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، لِکُلِّ امْرَأَۃٍ مِنْہُنَّ ، اِلَّا صَفِیَّۃَ وَجُوَیْرِیَۃَ ، فَرَضَ لَہُمَا سِتَّۃَ آلَافٍ ، سِتَّۃَ آلَافٍ ، فَأَبَتَا أَنْ تَأْخُذَا .فَقَالَ : اِنَّمَا فَرَضْتُ لَکُنَّ بِالْہِجْرَۃِ ، فَقَالَتَا : اِنَّمَا فَرَضْتُ لَہُنَّ لِمَکَانِہِنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَنَا مِثْلُ مَکَانِہِنَّ ، فَأَبْصَرَ ذٰلِکَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَجَعَلَہُنَّ سَوَائً .وَفَرَضَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، لِقَرَابَتِہِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَرَضَ لِنَفْسِہِ خَمْسَۃَ آلَافٍ ، وَفَرَضَ لِعَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خَمْسَۃَ آلَافٍ ، وَرُبَّمَا زَادَ الشَّیْئَ ، وَفَرَضَ لِلْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، خَمْسَۃَ آلَافٍ خَمْسَۃَ آلَافٍ ، أَلْحَقَہُمَا بِأَبِیْھِمَا لِقَرَابَتِہِمَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَرَضَ لِأُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، أَرْبَعَۃَ آلَافٍ ، وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، ثَلَاثَۃَ آلَافٍ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : بِأَیِّ شَیْئٍ زِدْتُہٗ عَلَیَّ ؟ قَالَ : فَبِمَا ، فَمَا کَانَ لِأَبِیْھَامِنَ الْفَضْلِ ، مَا لَمْ یَکُنْ لَکَ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ مِنَ الْفَضْلِ مَا لَمْ یَکُنْ لِیْ فَقَالَ : اِنَّ أَبَاہُ کَانَ أَحَبَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِیکَ، وَکَانَ ہُوَ أَحَبَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْک .وَفَرَضَ لِأَبْنَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ ، مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا ، أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ فَمَرَّ بِہٖ عُمَرُ بْنُ أَبِیْ سَلْمَۃَ فَقَالَ : زِدْہُ أَلْفًا یَا غُلَامُ .وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَحْشٍ : لِأَیِّ شَیْئٍ زِدْتُہٗ عَلَیَّ ؟ وَاللّٰہِ مَا کَانَ لِأَبِیْھَامِنَ الْفَضْلِ مَا لَمْ یَکُنْ لِآبَائِنَا .قَالَ : فَرَضْتُ لِأَبِیْ سَلْمَۃَ أَلْفَیْنِ ، وَزِدْتُہٗ لِأُمِّ سَلْمَۃَ أَلْفًا ، فَلَوْ کَانَتْ لَک أُمٌّ مِثْلَ أُمِّ سَلْمَۃَ ، زِدْتُک أَلْفًا . وَفَرَضَ لِأَہْلِ مَکَّۃَ ثَمَانِیْ مِائَۃٍ فِی الشَّرَفِ مِنْہُمْ ، ثُمَّ النَّاسُ عَلٰی قَدْرِ مَنَازِلِہِمْ ، وَفَرَضَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَمْرٍو ، ثَمَانِیْ مِائَۃٍ ، وَفَرَضَ لِلنَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ فِیْ أَلْفَیْ دِرْہَمٍ .فَقَالَ لَہُ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ : جَائَ ک ابْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَمْرٍو ، وَنَسَبُہُ اِلَیْ جَدِّہٖ، فَفَرَضْتُ لَہُ ثَمَانِیْ مِائَۃٍ ، وَجَائَ ک ہِنْبَۃُ مِنَ الْأَنْصَارِ ، فَفَرَضْتُ لَہُ فِیْ أَلْفَیْنِ .فَقَالَ : اِنِّیْ لَقِیْتُ أَبَا ہٰذَا، یَوْمَ أُحُدٍ ، فَسَأَلَنِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ :مَا أَرَاہُ اِلَّا قَدْ قُتِلَ ، فَسَلَّ سَیْفَہٗ، وَکَسَرَ غِمْدَہٗ، وَقَالَ : اِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُتِلَ ، فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ، وَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ، وَہٰذَا یَرْعَی الْغَنَمَ بِمَکَّۃَ أَفَتَرَانِیْ أَجْعَلُہُمَا سَوَائً ؟ ، .قَالَ : فَعَمِلَ عُمَرُ ، عُمْرَہُ کُلَّہٗ بِہٰذَا ، حَتّٰی اِذَا کَانَ فِیْ آخِرِ السَّنَۃِ الَّتِیْ قُتِلَ فِیْہَا سَنَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ ، حَجَّ فَقَالَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ : لَوْ مَاتَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ، قُمْنَا اِلَی فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ ، فَبَایَعْنَاہُ .قَالَ أَبُو مَعْشَرٍ : یَعْنُوْنَ طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ فَلَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الْمَدِیْنَۃَ ، خَطَبَ ، فَقَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ رَأَی أَبُوْبَکْرٍ فِیْ ہٰذَا الْمَالِ رَأْیًا ، رَأَی أَنْ یَقْسِمَ بَیْنَہُمْ بِالسَّوِیَّۃِ وَرَأَیْتُ أَنْ أُفَضِّلَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارَ بِفَضْلِہِمْ ، فَاِنْ عِشْت ہٰذِہِ السَّنَۃَ أَرْجِعُ اِلٰی رَأْیِ أَبِیْ بَکْرٍ ، فَہُوَ خَیْرٌ مِنْ رَأْیِی .أَفَلَا تَرَی أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمَّا قَسَمَ ، سَوَّیْ بَیْنَ النَّاسِ جَمِیْعًا ، فَلَمْ یُقَدِّمْ ذَوِیْ قُرْبَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ ، وَلَمْ یَجْعَلْ لَہُمْ سَہْمًا فِیْ ذٰلِکَ الْمَالِ أَبَانَہُمْ بِہٖ عَنِ النَّاسِ .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرَی لَہُمْ بَعْدَ مَوْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقًّا فِیْ مَالِ الْفَیْئِ ، سِوَی مَا یَأْخُذُوْنَہُ کَمَا یَأْخُذُ مَنْ لَیْسَ بِذَوِی الْقُرْبَی .ثُمَّ ہَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمَّا أَفْضَیْ اِلَیْہِ الْأَمْرُ وَرَأَی التَّفْضِیْلَ بَیْنَ النَّاسِ عَلَی الْمَنَازِلِ، لَمْ یَجْعَلْ لِذَوِی الْقُرْبَیْ سَہْمًا یَبِیْنُوْنَ أَیْ یَمْتَازُوْنَ بِہٖ عَلَی النَّاسِ ، وَلٰـکِنَّہٗ جَعَلَہُمْ وَسَائِرَ النَّاسِ سَوَائً ، وَفَضَّلَ بَیْنَہُمْ بِالْمَنَازِلِ ، غَیْرَ مَا یَسْتَحِقُّوْنَہُ بِالْقَرَابَۃِ ، لَوْ کَانَ لِأَہْلِہَا سَہْمٌ قَائِمٌ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَہَبْنَا اِلَیْہِ مِنْ ارْتِفَاعِ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَدِیْثٍ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
٥٣١٤: غفرہ کے آزاد کردہ غلام عمر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور ابوبکر صدقی (رض) خلیفہ ہوئے تو ان کے پاس بحرین کا مال آیا۔ تو انھوں نے اعلان فرمایا۔ جس آدمی کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی وعدہ ہو۔ وہ آئے اور لے لے۔ پس حضرت جابر بن عبداللہ (رض) آئے اور کہنے لگے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب بحرین کا مال آئے گا تو مجھے اتنا۔ اتنا ۔ اتنا عنایت فرمائیں گے آپ نے تین مرتبہ دونوں ملا کر بھر کر فرمایا۔ ابوبکر (رض) کہنے لگے اپنے ہاتھ سے لے لو۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے لیا تو شمار کرنے پر پانچ سو نکلے انھوں نے فرمایا ان کے ساتھ ایک ہزار اور گن لو۔ پھر انھوں نے جن کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ بھی وعدہ فرمایا تھا ان کو دیا۔ بقیہ مال لوگوں میں تقسیم کردیا۔ ہر آدمی کو بیس بیس درہم ملے پھر بھی مال میں سے کچھ بچ گیا۔ تو اسی طرح عمر (رض) کے قول فہی لھؤلاء۔ سے ذوالقربیٰ کے حصہ کا اس وقت تک کے لیے باقی رہنا لازم نہیں آتا جس میں اس کے متعلق وہ کہا گیا جو کہا گیا۔ حضرت مالک بن اوس کی یہ روایت عبداللہ بن عباس (رض) کی اس روایت کے جو ذوی القربیٰ کے حصہ سے متعلق ہے یہ روایت مخالف اور معارض ہے اور صحیح معارض ہے۔ (پس اس پر اعتراض باطل ہوا) ذرا غور تو کرو کہ حضرت ابوبکر (رض) نے لوگوں کے درمیان مال کو برابر تقسیم کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابتداروں کو دوسروں سے مقدم نہ کیا ان کے لیے اس مال میں ایسا حصہ مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے امتیاز والے ہوں اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد آپ کے قرابت داروں کے لیے مال فئی میں صرف وہی حصہ خیال کرتے تھے جو وہ غیر قرابت داروں کو دیتے تھے۔ پھر حضرت عمر (رض) کو جب حکومت ملی تو انھوں نے صحابہ کرام میں درجات کے لحاظ سے فضیلت دینا مناسب خیال کیا تو انھوں نے بھی اہل قرابت کے لیے کوئی ایسا حصہ مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے انھیں دوسرے لوگوں پر برتری حاصل ہو بلکہ انھوں نے ان کو اور باقی لوگوں کو برابر رکھا اور ان کے مابین صرف مراتب کے لحاظ سے فضیلت کو قائم کیا نہ کہ جس کے وہ قرابت کے لحاظ سے حقدار تھے اگر ان کا کوئی مقررہ حصہ ہوتا تو وہ ضرور قائم کرتے۔ کہ ذوی القربیٰ کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرتفع ہوگیا جیسا کہ روایت عمر (رض) بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے آیت واعلموا انما غنمتم الایہ تلاوت فرمائی پھر فرمایا یہ غنیمت ان لوگوں کے لیے ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذوی القربیٰ کا حصہ ان کے ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی ثابت تھا۔ جیسا کہ آپ کی حیات مبارکہ میں ثابت تھا۔ تو یہ ابن عباس (رض) بتلا رہے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ذوی القربیٰ کا حصہ ان کو دینے سے انکار فرمایا کیونکہ ان کے نزدیک یہ ان حضرات کا حق نہ بنتا تھا تو اس بات کے ہوتے ہوئے پھر یہ دعویٰ مالک بن اوس (رض) کی روایت سے کس طرح کیا جاسکتا ہے کہ وہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس حصے کے قائل تھے۔ بلکہ اس روایت سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حصہ ان لوگوں کے لیے ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی تو اس وقت یہ ان کا حصہ تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمایا۔ جس طرح کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ کی اضافت آپ کی طرف فرمانے کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ آپ کی حیات مبارکہ میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے لیے نہ تھا بلکہ آپ کی زندگی میں تو جاری تھا مگر وفات شریفہ سے منقطع ہوگیا بالکل اسی طرح جو کچھ آپ کے قرابت داروں کی طرف منسوب ہوا وہ بھی آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی وفات طیبہ سے یہ حصہ مرتفع (ختم) ہوگیا۔ انھوں نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کچھ مال بچ گیا ہے تمہارے لیے کچھ لوگ مقدم ہیں جو تمہارے لیے کام کرتے اور مشقت اٹھاتے ہیں اگر تم پسند کرتے ہو تو ہم ان کو دے دیتے ہیں پس ان کو پانچ پانچ درہم عنایت فرمائے۔ آپ سے کہا گیا اے خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ مہاجرین و انصار کو ان کی فضیلت کی وجہ سے زیادہ دیتے تو مناسب تھا۔ آپ نے فرمایا ان کے اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں یہ تو غنائم ہیں ان میں ترجیح کی بنسبت برابری افضل ہے۔ پھر جب حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوگئی اور حضرت عمر (رض) خلیفہ بنے اور ان کے ہاتھوں خوب فتوحات ہوئیں اور ان کے پاس اس سے زیادہ اموال آئے تو انھوں نے فرمایا اس مال کے متعلق ایک حضرت ابوبکر (رض) کی رائے تھی اور ایک میری رائے ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کی رائے برابر تقسیم کی تھی اور میری رائے یہ ہے کہ میں مہاجرین و انصار کو فضیلت دوں اور ان کو جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف لڑائی کے (زمانہ کفر میں) ان کی طرح قرار نہ دوں جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر (ہمیشہ کفر کے خلاف) لڑائی کی۔ پس آپ نے مہاجرین و انصار کو فضیلت دی بدریین کو پانچ ہزار اور جو ان کے ساتھ اسلام لائے مگر بدر میں حاضر نہیں ہوئے ان کے لیے چار ہزار اور دیگر لوگوں کو ان کے اسلام اور مراتب کے مطابق دیا۔ اور ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بارہ ہزار مقرر کیا یہ مقدار تمام کے لیے یکساں رکھی مگر صفیہ اور جویریہ (رض) کی طرف چھ ہزار بھیجا انھوں نے لینے سے انکار کیا تو آپ نے فرمایا میں نے ہجرت کی وجہ سے مقرر کیا۔ دونوں نے کہا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ان کے لیے مقرر کیا ہے اور ہمارا مرتبہ بھی بحیثیت زوجہ ان کے ساتھ برابر ہے۔ حضرت عمر (رض) اس کو سمجھ گئے اور ان کا حصہ برابر کردیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت کی وجہ سے حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) کے لیے بارہ ہزار مقرر فرمائے اور اپنے لیے پانچ ہزار مقرر فرمائے حضرت علی (رض) کے لیے بھی پانچ ہزار مقرر کئے اور بعض اوقات زائد بھی دیئے حضرت حسن و حسین (رض) کے لیے بھی پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ قرابت کی وجہ سے ان دنوں حضرات کو ان کے والد کے ساتھ ملا دیا حضرت اسامہ بن زید (رض) کے لیے چار ہزار اور عبداللہ بن عمر (رض) کے لیے تین ہزار مقرر فرمائے۔ انھوں نے گزارش کی کہ آپ نے کس وجہ سے انھیں مجھ سے زیادہ دیا ان کے والد کو آپ کی طرح فضیلت حاصل نہیں اور انھیں مجھ سے بڑھ کر فضیلت نہیں۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے والد تمہارے والد سے زیادہ محبوب تھے۔ انصار و مہاجرین کے بچوں کے لیے دو دو ہزار مقرر فرمائے۔ عمر بن ابی سلمہ (رض) وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا اے غلام ! ان کو کچھ زیادہ دے دو اس پر محمد بن عبداللہ بن جحش (رض) نے عرض کیا آپ نے ان کو مجھ سے زیادہ کس وجہ سے دیئے تو فرمایا ان کے والد کو اللہ کی قسم ! ہمارے آباؤاجداد سے زیادہ فضیلت حاصل نہیں ہے آپ نے فرمایا میں نے حضرت ابو سلمہ کے لیے تو دو ہزار مقرر کئے ہیں اور حضرت امّ سلمیٰ (رض) کی وجہ سے ایک ہزار کا اضافہ کیا ہے۔ اگر تمہاری ماں بھی حضرت امّ سلمہ (رض) جیسی ہوتی تو میں تمہیں بھی ایک ہزار زائد دیتا۔ اہل مکہ کے لیے ان کے احترام و اعزاز میں آٹھ سو مقرر کیا پھر ان کو ان کے مرتبے کے مابق عنایت فرمایا حضرت عثمان بن عبداللہ بن عثمان بن عمرو کے لیے آٹھ سو مقرر فرمائے جبکہ نضر بن انس (رض) کے لیے دو ہزار۔ اس پر حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے عرض کیا کہ آپ کے پاس حضرت عثمان بن عمرو (رض) کا بیٹا آیا (اور دادا کی طرف نسبت بتلائی) تو آپ نے اس کو آٹھ سو دیئے اور انصار کا ایک سست آدمی آیا تو آپ نے اس کے لیے دو ہزار مقرر کردیئے۔ آپ نے فرمایا میں نے غزوہ احد کے دن اس کے باپ سے ملاقات کی تو اس نے مجھ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق دریافت کیا میں نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوگئے ہیں چنانچہ اس نے تلوار لے کر اس کا پرتلہ توڑ ڈالا اور کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر شہید ہوگئے تو خدا تو زندہ ہے اسے موت نہ آئے گی اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے اور یہ شخص مکہ میں بکریاں چراتا رہا تمہارا کیا خیال ہے کہ میں ان کو برابر کر دوں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت اپنے دور خلافت میں اسی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ جب آخری سال آیا جس میں جام شہادت نوش کیا ٢٣ ھ کو تو آپ نے حج کیا بعض لوگوں نے کہا اگر امیرالمؤمنین وفات پاجائیں تو ہم فلاں فلاں کی بیعت کرلیں گے۔ حضرت ابو معشر راوی کہتے ہیں ان کی مراد حضرت طلحہ بن عبیداللہ تھے جب عمر (رض) مدینہ منورہ واپس لوٹے تو آپ نے خطبہ دیا اور اپنے خطبہ میں فرمایا۔ اس مال کے متعلق ایک رائے حضرت ابوبکر (رض) کی تھی کہ ان کے مابین برابر تقسیم کیا جائے اور میری رائے یہ تھی کہ مہاجرین و انصار کو ان کی فضیلت کے باعث ترجیح دوں اگر میں اس سال زندہ رہا تو میں حضرت ابوبکر (رض) کی رائے کی طرف رجوع کروں گا ان کی رائے میری رائے سے بہتر ہے۔ ذرا غور تو کرو کہ حضرت ابوبکر (رض) نے لوگوں کے درمیان مال کو برابر تقسیم کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابتداروں کو دوسروں سے مقدم نہ کیا ان کے لیے اس مال میں ایسا حصہ مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے امتیاز والے ہوں اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد آپ کے قرابت داروں کے لیے مال فئی میں صرف وہی حصہ خیال کرتے تھے وہ جو غیر قرابت داروں کو دیتے تھے۔ پھر حضرت عمر (رض) کو جب حکومت ملی تو انھوں نے صحابہ کرام میں درجات کے لحاظ سے فضیلت دینا مناسب خیال کیا تو انھوں نے بھی اہل قرابت کے لیے کوئی ایسا حصہ مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے انھیں دوسرے لوگوں پر برتری حاصل ہو بلکہ انھوں نے ان کو اور باقی لوگوں کو برابر رکھا اور ان کے مابین صرف مراتب کے لحاظ سے فضیلت کو قائم کیا نہ کہ جس کے وہ قرابت کے لحاظ سے حقدار تھے اگر ان کا کوئی مقررہ حصہ ہوتا تو وہ ضرور قائم کرتے۔
حاصل روایت : کہ ذوی القربیٰ کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرتفع ہوگیا جیسا کہ روایت عمر (رض) بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

5316

۵۳۱۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ ہِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا اِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَجَائَ ہُ عَلِیٌّ وَالْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَخْتَصِمَانِ .قَالَ الْعَبَّاسُ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، اقْضِ بَیْنِیْ وَبَیْنَ ہٰذَا الْکَذَا الْکَذَا .قَالَ حَمَّادٌ : أَنَا أُکَنِّیْ عَنِ الْکَلَامِ .فَقَالَ : وَاللّٰہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا ، اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا تُوُفِّیَ وَوُلِّیَ أَبُوْبَکْرٍ صَدَّقْتُہُ فَقَوِیَ عَلَیْہَا ، وَأَدَّی فِیْہَا الْأَمَانَۃَ ، فَزَعَمَ ہَذَا أَنَّہٗ خَانَ وَفَجَرَ ، وَکَلِمَۃً قَالَہَا أَیُّوْبُ ، قَالَ : وَاللّٰہُ یَعْلَمُ أَنَّہٗ مَا خَانَ وَلَا فَجَرَ ، وَلَا کَذَا قَالَ حَمَّادٌ : وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ عَنْ مَالِکٍ ، وَغَیْرِ وَاحِدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہٗ قَالَ لَقَدْ کَانَ فِیْہَا رَاشِدًا تَابِعًا لِلْحَقِّ ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ .فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وُلِّیتُہَا بَعْدَہٗ، فَقَوِیتُ عَلَیْہَا فَأَدَّیْتُ فِیْہَا الْأَمَانَۃَ ، وَزَعَمَ ہَذَا أَنِّیْ خُنْتُ ، وَلَا فَجَرْتُ ، وَلَا تِیْکَ الْکَلِمَۃُ .وَفِیْ حَدِیْثِ عَمْرٍوْ عَنِ الزُّہْرِیِّ وَلَقَدْ کُنْتُ فِیْہَا رَاشِدًا تَابِعًا لِلْحَقِّ .ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْ حَدِیْثِ عِکْرَمَۃَ ، ثُمَّ أَتَیَانِیْ فَقَالَا : ادْفَعْ اِلَیْنَا صَدَقَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَفَعْتُہَا اِلَیْہِمَا ، فَقَالَ ہَذَا لِہَذَا : أَعْطِنِیْ نَصِیْبِیْ مِنِ ابْنِ أَخِی ، وَقَالَ ہَذَا لِہٰذَا، أَعْطِنِیْ نَصِیْبِیْ مِنْ امْرَأَتِی مِنْ أَبِیْھَا ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُوْرَثُ مَا تَرَکَ صَدَقَۃً .وَفِیْ حَدِیْثِ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِنَّا لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃً .ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْ حَدِیْثِ عِکْرَمَۃَ ، ثُمَّ تَلَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا الْآیَۃَ .فَہٰذِہِ لِہٰؤُلَائِ ، ثُمَّ تَلَا وَاعْلَمُوْا أَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی اِلَی آخَرِ الْآیَۃِ .ثُمَّ قَالَ : وَہٰذِہِ لِہٰؤُلَائِ .وَفِیْ حَدِیْثِ عَمْرٍوْ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ اِلَی آخَرِ الْآیَۃِ .فَکَانَتْ ہٰذِہِ خَاصَّۃً لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ یُوْجِفْ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْہِ خَیْلًا وَلَا رِکَابًا ، فَکَانَ یَأْخُذُ مِنْ ذٰلِکَ قُوْتَہُ وَقُوْتَ أَہْلِہٖ ، وَیَجْعَلُ بَقِیَّۃَ الْمَالِ لِأَہْلِہِ ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ ، ثُمَّ تَلَا مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی اِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ ، ثُمَّ لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ حَتَّیْ بَلَغَ أُوْلٰئِکَ ہُمْ الصَّادِقُوْنَ فَہٰؤُلَائِ الْمُہَاجِرُوْنَ ، ثُمَّ قَرَأَ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُوْا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتَّیْ بَلَغَ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ قَالَ : فَہٰؤُلَائِ الْأَنْصَارُ .قَالَ : ثُمَّ قَرَأَ وَالَّذِیْنَ جَائُوْا مِنْ بَعْدِہِمْ حَتَّیْ بَلَغَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ .فَہٰذِہِ الْآیَۃُ اسْتَوْعَبَتِ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّا لَہُ حَقٌّ ، اِلَّا مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ رَقِیْقِکُمْ ، فَاِنْ أَعِشْ - اِنْ شَائَ اللّٰہُ - لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّا سَآتِیْہِ حَقَّہٗ، حَتّٰی رَاعِی الثُّلَّۃِ یَأْتِیْہِ حَظُّہٗ، أَوْ قَالَ حَقُّہُ .قَالَ : فَہٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ تَلَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَاعْلَمُوْا أَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی اِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ .ثُمَّ قَالَ : وَہٰذِہِ لِہٰؤُلَائِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی قَدْ کَانَ ثَابِتًا عِنْدَہُ لَہُمْ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا کَانَ لَہُمْ فِیْ حَیَاتِہِ قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ فِیْمَا ذَکَرْتُ ، عَلٰی مَا ذَہَبْتُ اِلَیْہِ، وَکَیْفَ یَکُوْنُ لَک فِیْہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی مَا ذَہَبْتُ اِلَیْہِ، وَقَدْ کَتَبَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِلَی نَجْدَۃَ حِیْنَ کَتَبَ ، یَسْأَلُہٗ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی قَدْ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ دَعَانَا اِلٰی أَنْ یُنْکَحَ مِنْہُ أَیِّمُنَا وَیَکْسُو مِنْہُ عَارِیْنَا ، فَأَبَیْنَا عَلَیْہِ اِلَّا أَنْ یُسَلِّمَہُ لَنَا کُلَّہٗ ، فَأَبَیْ ذٰلِکَ عَلَیْنَا .فَہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُخْبِرُ أَنَّ عُمَرَ أَبَیْ عَلَیْہِمْ دَفْعَ السَّہْمِ اِلَیْہِمْ ، لِأَنَّہُمْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ لَہُمْ ، فَکَیْفَ یُتَوَہَّمُ عَلَیْہِ فِیْمَا رَوٰی عَنْہُ مَالِکُ بْنُ أَوْسٍ غَیْرَ ذٰلِکَ ؟ وَلٰـکِنْ مَعْنَی مَا رَوٰی عَنْہُ مَالِکُ بْنُ أَوْسٍ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ قَوْلِہٖ فَہٰذِہِ لِہٰؤُلَائِ أَیْ : فَہِیَ لَہُمْ عَلَی مَعْنَی مَا جَعَلَہَا اللّٰہُ لَہُمْ فِیْ وَقْتِ اِنْزَالِہِ الْآیَۃَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمْ ، وَعَلَی مِثْلِ مَا عَنَی بِہٖ عَزَّ وَجَلَّ ، مَا جَعَلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا مِنَ السَّہْمِ الَّذِی أَضَافَہُ اِلَیْہِ .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ السَّہْمُ جَارِیًا لَہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَیَاتِہٖ وَبَعْدَ وَفَاتِہٖ غَیْرَ مُنْقَطِعٍ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، بَلْ کَانَ جَارِیًا لَہُ فِیْ حَیَاتِہِ مُنْقَطِعًا عَنْہُ بِمَوْتِہٖ۔وَکَذٰلِکَ مَا أَضَافَہُ فِیْہَا اِلَی ذٰوِیْ قُرْبَاہُ کَذٰلِکَ أَیْضًا وَاجِبًا لَہُمْ فِیْ حَیَاتِہٖ، یَضَعُہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْمَنْ شَائَ مِنْہُمْ ، مُرْتَفِعًا بِوَفَاتِہٖ، کَمَا لَمْ یَکُنْ قَوْلَ عُمَرَ فَہٰذِہِ لِہٰؤُلَائِ ، لَا یَجِبُ بِہٖ بَقَائُ سَہْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی الْوَقْتِ الَّذِیْ قَالَ فِیْہِ مَا قَالَ کَانَ ذٰلِکَ قَوْلُہٗ ، فَہِیَ لِہٰؤُلَائِ لَا یَجِبُ بِہٖ بَقَائُ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ اِلَی الْوَقْتِ الَّذِیْ قَالَ فِیْہِ مَا قَالَ ، مُعَارَضَۃً صَحِیْحَۃً بَاقِیَۃً ، أَنْ یَکُوْنَ حَدِیْثُ مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ ہَذَا عَنْ عُمَرَ مُخَالِفًا لِحَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی .
٥٣١٥: مالک بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا اچانک حضرت علی (رض) اور عباس (رض) جھگڑتے ہوئے آئے حضرت عباس (رض) نے کہا اے امیرالمؤمنین میرے اور اس کے مابین جو ایسا۔ ایسا ہے ضرور فیصلہ فرمائیں۔ حماد راوی کہتے ہیں کہ میں کلام سے کنایہ کرتا ہوں۔ تو حضرت عمر (رض) کہنے لگے میں اللہ کی قسم تمہارے مابین ضرور فیصلہ کروں گا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اور ابوبکر (رض) آپ کے صدقہ کے ذمہ دار بنے تو وہ اس پر مضبوط رہے اور انھوں نے اس میں امانت کو ادا کیا اس شخص کو خیال ہوا کہ انھوں نے خیانت کی اور گناہ کیا۔ ایوب راوی نے یہ بات نقل کی ہے اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ انھوں نے نہ خیانت کی اور نہ بکواس کی اور اس طرح کیا۔ حماد کہتے ہیں کہ ہمیں عمرو بن دینار نے مالک سے اور بہت سے روات نے زہری سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا ابوبکر اس بات میں ہدایت پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر ایوب والی روایت کے الفاظ کی طرف رجوع کیا کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوئی اور میں اس صدقے کا ان کے بعد ذمہ دار بنا۔ تو میں اس پر مضبوط رہا اور اس میں امانت ادا کرتا رہا اور ان کو خیال ہوا کہ میں نے خیانت کی اور گناہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے نہ خیانت کی اور نہ گناہ میں مبتلا ہوا اور نہ وہ کلمہ کہا۔ روایت عمرو عن الزہری میں ہے ‘ میں اس میں سیدھی راہ چلنے والا تھا پھر عکرمہ کی روایت کی طرف بات لوٹ آتی ہے کہ یہ دونوں حضرات آئے اور مجھے کہنے لگے تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقہ کو ہمارے حوالہ کرو میں نے وہ ان کے حوالے کردیا پھر اس نے اس کو کہا میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ دے دو اور اس نے اس کو کہا میری بیوی کا حصہ جو ان کے والد کی طرف سے بنتا ہے وہ دے دو حالانکہ اس کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی وراثت نہیں ہوتی جو چھوڑ جائیں صدقہ ہوتا ہے۔ روایت عمرو عن الزہری میں ہے بیشک میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہماری وراثت نہیں ہوتی جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ پھر روایت عکرمہ کی طرف بات لوٹی۔ کہ پھر حضرت عمر (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی انماالصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا (التوبہ : ٦٢) بیشک صدقات فقراء مساکین اور عمال کا حق ہے۔ پھر عمر (رض) نے فرمایا یہ صدقات ان کا حق ہیں (جن کا آیت میں ذکر ہے) کہ حضرت عمر (رض) نے یہ آیت پڑھی ” ما افاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب الی آخر الایۃ “ کہ جو اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور فئی عنایت فرمایا پس تم اس پر گھوڑے اور اونٹ چڑھا کر نہیں لے گئے۔ پھر یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خاص تھا کہ جس پر مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ پس آپ اس سے اپنی اور اہل و عیال کا خرچہ لیتے اور بقیہ مال اپنے گھر والوں کے لیے رکھ لیتے۔ پھر روایت حدیث ایوب کی طرف لوٹی۔ پھر انھوں نے یہ آیت تلاوت کی :” ما افاء اللہ الی اولپک ہم الصادقون “ (الحشر : ٧) آیت کے آخر تک۔ (کہ وہی لوگ سچے ہیں) پھر یہ آیت تلاوت کی ” للفقراء المہاجرین الذین اخرجوا من دیارہم واموالہم “ (الحشر : ٨) ” اولئک ہم الصادقون “ (الحشر : ٨) پس یہ مہاجرین ہیں پھر آیت : ” والذین تبوا الدار “ پڑھی یہاں تک کہ حماد ” فاولئک ہم المفلحون “ (الحشر : ٩) تک پہنچے پس یہ انصار ہیں راوی کہتے ہیں پھر پڑھا والذین جاء وا من بعدہم “ (الحشر : ١٠) یہاں تک کہ ” رؤف رحیم “ (الحشر : ١٠) تک پہنچے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس آیت نے تمام مسلمانوں کے لیے حق کو ثابت کردیا سوائے ان غلاموں کے جن کے وہ مالک ہوں۔ اگر میں زندہ رہا تو (ان شاء اللہ) تو کوئی مسلمان ایسا باقی نہ رہے گا جس کو میں حصہ نہ دوں یہاں تک بھیڑوں کا ریوڑ چرانے والے کو بھی اس کا حق دوں گا۔ آپ نے حظ یا حق کا لفظ استعمال فرمایا دونوں کا معنی ایک ہے۔ اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے آیت واعلموا انما غنمتم۔۔۔تلاوت فرمائی پھر فرمایا یہ غنیمت ان لوگوں کے لیے ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذوی القربیٰ کا حصہ ان کے ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی ثابت تھا۔ جیسا کہ آپ کی حیات مبارکہ میں ثابت تھا۔ اس روایت میں جو تم نے پیش کی تمہارے مستدل کی کوئی گنجائش نہیں اور دلیل کیسے بنتی جبکہ حضرت ابن عباس (رض) کا وہ خط موجود ہے جو انھوں نے نجدہ حاکم یمامہ کے استفسار کے جواب میں لکھا۔ اس میں صاف موجود ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں بلایا تاکہ وہ اس مال میں سے ہمارے رنڈوں کا نکاح کریں اور ہمارے بلاپوشاک لوگوں کو لباس پہنائیں تو ہم نے وہ لینے سے انکار کردیا۔ تو یہ ابن عباس (رض) بتلا رہے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ذوی القربیٰ کا حصہ ان کو دینے سے انکار فرمایا کیونکہ ان کے نزدیک یہ ان حضرات کا حق نہ بنتا تھا تو اس بات کے ہوتے ہوئے پھر یہ دعویٰ مالک بن اوس (رض) کی روایت سے کس طرح کیا جاسکتا ہے کہ وہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس حصے کے قائل تھے۔ بلکہ اس روایت سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حصہ ان لوگوں کے لیے ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی تو اس وقت یہ ان کا حصہ تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمایا۔ جس طرح کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ کی اضافت آپ کی طرف فرمانے کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ آپ کی حیات مبارکہ میں تھا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے لیے نہ تھا بلکہ آپ کی زندگی میں تو جاری تھا مگر وفات شریفہ سے منقطع ہوگیا بالکل اسی طرح جو کچھ آپ کے قرابت داروں کی طرف منسوب ہوا وہ بھی آپ کی حیات طیبہ تھا ‘ میں آپ کی وفات طیبہ سے یہ حصہ مرتفع (ختم) ہوگیا۔ تو جس طرح حضرت عمر (رض) کے قول کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہے ‘ اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ کا اس وقت تک کے لیے باقی رہنا لازم نہیں آتا جس وقت اس حصہ کے متعلق کہا گیا جو کہا گیا تو اسی طرح عمر (رض) کے قول فہی لھؤلاء۔ سے ذوالقربیٰ کے حصہ کا اس وقت تک کے لیے باقی رہنا لازم نہیں آتا جس میں اس کے متعلق وہ کہا گیا جو کہا گیا۔ حضرت مالک بن اوس کی یہ روایت عبداللہ بن عباس (رض) کی اس روایت کے جو ذوی القربیٰ کے حصہ سے متعلق ہے یہ روایت مخالف اور معارض ہے اور صحیح معارض ہے۔ (پس اس پر اعتراض باطل ہوا)

5317

۵۳۱۶ : وَلَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنِ الْکَلْبِیِّ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ أَنَّ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ یَا أَبَا بَکْرٍ مَنْ یَرِثُک اِذَا مِتَّ ؟ قَالَ : وَلَدِی وَأَہْلِی .قَالَتْ : فَمَا لَک تَرِثُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنِیْ؟ .قَالَ : یَا ابْنَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا وَرَّثَ أَبُوْک دَارًا وَلَا ذَہَبًا ، وَلَا غُلَامًا .قَالَتْ : وَلَا سَہْمَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، الَّذِیْ جَعَلَہُ لَنَا وَصَافِیَتَنَا الَّتِی بِیَدِک .فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِنَّمَا ہِیَ طُعْمَۃٌ أَطْعَمَنِیْہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَاِذَا مِتَّ ، کَانَتْ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ .
٥٣١٦: ابو صالح نے ام ہانی (رض) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ (رض) کہنے لگیں اے ابوبکر جب تم مرجاؤ گے تو تمہارا کون وارث ہوگا ؟ انھوں نے کہا میری اولاد اور بیوی۔ کہنے لگیں پھر کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت میری بجائے آپ لیتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا اے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی آپ کے والد محترم وراثت میں نہ کوئی گھر چھوڑا اور نہ سونا اور نہ غلام۔ حضرت فاطمہ (رض) کہنے لگیں کیا اس حصے کے بھی وارث نہ بنے جو اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے جو اس نے ہمارے لیے مقررر کیا اور وہ ہمارا وہ خالص حصہ جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے جواب دیا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا وہ لقمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے کو دیا۔ جب میں مرجاؤں تو وہ مسلمانوں میں تقسیم ہوگا۔

5318

۵۳۱۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أُمِّ ہَانِیْئٍ أَنَّ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ لِأَبِیْ بَکْرٍ : مَنْ یَرِثُک اِذَا مِتَّ ؟ قَالَ : وَلَدِی وَأَہْلِی .قَالَتْ : فَمَا لَک تَرِثُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنَنَا .قَالَ : یَا ابْنَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا وَرَّثَ أَبُوْک دَارًا ، وَلَا مَالًا ، وَلَا غُلَامًا ، وَلَا ذَہَبًا ، وَلَا فِضَّۃً .قَالَتْ : فَدَکُ الَّتِیْ جَعَلَہَا اللّٰہُ لَنَا ، وَصَافِیَتَنَا الَّتِی بِیَدِک لَنَا .قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّمَا طُعْمَۃٌ أَطْعَمَنِیْہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَاِذَا مِتَّ ، فَہِیَ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ .أَفَلَا یَرَی أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَا کَانَ یُعْطِیْہِ ذَوِیْ قُرْبَاہٗ، فَاِنَّمَا کَانَ مِنْ طُعْمَۃٍ أَطْعَمَہَا اللّٰہُ اِیَّاہُ وَمَلَّکَہُ اِیَّاہَا حَیَاتَہٗ، وَقَطَعَہَا عَنْ ذَوِی قَرَابَتِہِ بِمَوْتِہٖ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ صَدْرِ ہٰذَا الْکِتَابِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّہٗ قَالَ : اخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ قَائِلٌ : سَہْمُ ذَوِی الْقُرْبَی لِقَرَابَۃِ الْخَلِیْفَۃِ ، وَقَالَ قَائِلٌ : سَہْمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِیْفَۃِ مِنْ بَعْدِہٖ، ثُمَّ اجْتَمَعَ رَأْیُہُمْ عَلٰی أَنْ جَعَلُوْا ہٰذَیْنِ السَّہْمَیْنِ فِی الْخَیْلِ وَالْعُدَّۃِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَکَانَ ذٰلِکَ فِیْ اِمَارَۃِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَلَمَّا أَجْمَعُوْا بَعْدَمَا کَانُوْا اخْتَلَفُوْا ، کَانَ اِجْمَاعُہُمْ حُجَّۃً .وَفِیْمَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ ، بُطْلَانُ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی مِنَ الْمَغَانِمِ وَالْفَیْئِ ، بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْھُ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاِنَّمَا کَانَ فِیْمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ ، مُتَابِعًا لِأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، کَرَاہَۃَ أَنْ یَدَّعِیَ عَلَیْہِ خِلَافَہُمَا .
٥٣١٧: ابو صالح نے ام ہانی (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا تمہارا کون وارث ہوگا جب تم مرجاؤ گے ؟ انھوں نے کہا میری اولاد اور بیوی۔ وہ کہنے لگیں پھر کیا وجہ ہے کہ تم ہمارے بجائے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت کے حقدار بن گئے ابوبکر کہنے لگے اے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی۔ تمہارے والد محترم نے وراثت میں نہ مال چھوڑا نہ غلام ‘ نہ ہی سونا اور چاندی۔ انھوں نے کہا فدک کی وہ زمینیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقرر کیں اور ہمارا وہ خالص حصہ جو تمہارے پاس ہے ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے ! اے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ وہ مال تو لقمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے کو دیا ہے۔ جب میں فوت ہوجاؤں وہ مسلمانوں کے لیے وقف ہوگی۔ کیا معترض کو یہ بات نظر نہیں آتی کہ حضرت ابوبکر (رض) نے اس میں یہ اطلاع دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ذوی القربیٰ کو جو زندگی میں عنایت فرمایا یہ لقمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو کھلایا ہے اور حیاۃ مقدسہ میں اس کا مالک بنایا ہے اور آپ کی وفات سے اس کو منقطع کردیا ہے۔ ہم نے اس کتاب کے شروع میں حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا لوگوں کا اس بارے میں اختلاف ہوا کہ ذوی القربیٰ کو وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حصہ ملے گا یا نہیں۔ تو بعض نے کہا کہ ذوی القربیٰ کا حصہ خلیفہ کے قرابت والوں کے لیے ہوگا۔ دوسروں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ آپ کے بعد خلیفہ کو ملے گا پھر اس پر اجماع ہوا کہ یہ دونوں حصے گھوڑوں اور جہاد کے اسلحہ کے لیے صرف کئے جائیں اور یہ اجماع خلافت صدیقی (رض) میں ہوا جب صحابہ کرام کا اختلاف کے بعد اجماع ہوگیا تو ان کا اجماع حجت ہے۔ ذوی القربیٰ کا جو حصہ مغانم و فئی میں تھا وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس اجماع سے منقطع ہوگیا۔ حضرت علی (رض) کی جو روایت تم نے بیان کی ہے وہ بات انھوں نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی متابعت میں کی ہے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ وہ ان کی مخالفت کرنے والے ہیں۔ اسے اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے۔
کیا معترض کو یہ بات نظر نہیں آتی کہ حضرت ابوبکر (رض) نے اس میں یہ اطلاع دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ذوی القربیٰ کو جو زندگی میں عنایت فرمایا یہ لقمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو کھلایا ہے اور حیاۃ مقدسہ میں اس کا مالک بنایا ہے اور آپ کی وفات سے اس کو منقطع کردیا ہے۔
ہم نے اس کتاب کے شروع میں حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا لوگوں کا اس بارے میں اختلاف ہوا کہ ذوی القربیٰ کو وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حصہ ملے گا یا نہیں۔
نمبر 1: تو بعض نے کہا کہ ذوی القربیٰ کا حصہ خلیفہ کے قرابت والوں کے لیے ہوگا۔
نمبر 2: دوسروں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ آپ کے بعد خلیفہ کو ملے گا پھر اس پر اجماع ہوا کہ یہ دونوں حصے گھوڑوں اور جہاد کے اسلحہ کے لیے صرف کئے جائیں اور یہ اجماع خلافت صدیقی (رض) میں ہوا جب صحابہ کرام کا اختلاف کے بعد اجماع ہوگیا تو ان کا اجماع حجت ہے۔ ذوی القربیٰ کا جو حصہ مغانم و فئی میں تھا وہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس اجماع سے منقطع ہوگیا۔
سوال : حضرت علی (رض) کی جو روایت تم نے بیان کی ہے وہ بات انھوں نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) کی متابعت میں کی ہے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ وہ ان کی مخالفت کرنے والے ہیں جیسا کہ حضرت ابو جعفر (رح) کی یہ روایت ہے۔

5319

۵۳۱۸ : وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ، قُلْتُ :أَرَأَیْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَیْثُ وَلِیَ الْعِرَاقَ وَمَا وَلِیَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ ، کَیْفَ صَنَعَ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ؟ قَالَ : سَلَکَ بِہٖ - وَاللّٰہِ - سَبِیْلَ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .قُلْتُ :وَکَیْفَ ، وَأَنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ ؟ قَالَ : أَمَا وَاللّٰہِ، مَا کَانَ أَہْلُہُ یَصْدُرُوْنَ اِلَّا عَنْ رَأْیِہٖ۔ قُلْتُ :فَمَا مَنَعَہٗ؟ قَالَ : کَرِہَ - وَاللّٰہِ - أَنْ یُدَّعَیْ عَلَیْہِ خِلَافَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .قِیْلَ لَہٗ : ہَذَا تَأَوَّلَہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیْ عَلَی عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فِیْ تَرْکِہِ خِلَافَ أَبِیْ بَکْرِ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وَہُوَ یَرَی فِی الْحَقِیْقَۃِ ، خِلَافَ مَا رَأَیَا .لَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلَی عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَا یُتَوَہَّمُ عَلَی مِثْلِہٖ ، فَکَیْفَ یُتَوَہَّمُ عَلَیْہِ وَقَدْ خَالَفَ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ أَشْیَائَ ، وَخَالَفَ عُمَرَ وَحْدَہُ فِیْ أَشْیَائَ أُخَرَ ؟ مِنْہَا : مَا رَأَی مِنْ جَوَازِ بَیْعِ أُمَّہَاتِ الْأَوْلَادِ بَعْدَ نَہْیِ عُمَرَ عَنْ بَیْعِہِنَّ ، وَمِنْ ذٰلِکَ مَا رَأَی مِنَ التَّسْوِیَۃِ بَیْنَ النَّاسِ فِی الْعَطَائِ ، وَقَدْ کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُفَضِّلُ بَیْنَہُمْ عَلٰی قَدْرِ سَوَابِقِہِمْ .وَلَعَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ أَعْرَفَ بِاَللّٰہِ مِنْ أَنْ یُجْرِیَ شَیْئًا عَلٰی مَا الْحَقُّ عِنْدَہٗ فِیْ خِلَافِہٖ، وَلٰـکِنَّہٗ أَجْرَی الْأَمْرَ بِسَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَیْ عَلٰی مَا رَآہٗ حَقًّا وَعَدْلًا ، فَلَمْ یُخَالِفْ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْہِ، وَلَقَدْ کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْہِ یُخَالِفُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَیَاتِہِمَا فِیْ أَشْیَائَ قَدْ رَأَیَا فِیْ ذٰلِکَ خِلَافَ مَا رَأَی ، فَلَا یَرَی الْأَمْرَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ دَنَفًا ، وَلَا یَمْنَعَانِہِ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَا یُؤَاخِذَانِہِ عَلَیْہِ، فَکَیْفَ یَسَعُہُ ہَذَا فِیْ حَالٍ ، الْاِمَامُ فِیْہَا غَیْرُہٗ، ثُمَّ بَصَقَ عَلَیْہِ فِیْ حَالٍ ہُوَ الْاِمَامُ فِیْہَا نَفْسُہٗ، ہَذَا - عِنْدَنَا - مُحَالٌ .
٥٣١٨: محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر (رح) سے پوچھا کہ حضرت علی (رض) جب عراق کے حکمران ہوئے تو اس وقت ذوی القربیٰ کے حصہ کے سلسلہ میں انھوں نے کیا کیا ؟ انھوں نے جواب دیا اللہ کی قسم ! انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی راہ اختیار کی۔ میں نے کہا۔ یہ کیسے حالانکہ تم اور کچھ کہتے ہو ؟ انھوں نے فرمایا۔ سنو ! اللہ کی قسم ! ان کے اہل و عیال تو ان کی رائے پر چلتے تھے۔ میں نے کہا پھر ان کو کیا رکاوٹ تھی ؟ ابوجعفر کہنے لگے اللہ کی قسم ! انھوں نے ناپسند کیا کہ لوگ ان پر ابوبکر (رض) کی مخالفت کا الزام لگائیں۔ یہ محمد بن علی (رح) کا تاویل کرتے ہوئے حضرت علی (رض) کے متعلق یہ کہنا کہ انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی مخالفت کے الزام سے بچنے کے لیے ان کی رائے کی موافقت کی حالانکہ ان کی رائے اس کے خلاف تھی۔ ہمارے نزدیک حضرت علی (رض) کے متعلق یہ الزام لگانا غلط ہے بلکہ ہم تو ان کے متعلق ایسا وہم کرنا بھی درست نہیں سمجھتے اور کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ کئی مواقع میں انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی رائے کی مخالفت کی ہے اور حضرت عمر (رض) سے کئی چیزوں میں اختلاف منقول ہے چند مسائل یہ ہیں۔ حضرت عمر (رض) ام ولدہ کی بیع کو منع کیا مگر حضرت علی (رض) اس کے جواز کے قائل تھے اور رہے۔ عطیات میں برابری کی جائے جبکہ حضرت عمر (رض) سبقت کرنے والوں کو دوسروں سے فضیلت کے قائل و عامل تھے اور حضرت علی (رض) اللہ تعالیٰ کی خوب پہچان کرنے والے تھے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ خلاف حق دیکھیں اور اس کو جاری رہنے دیں۔ لیکن انھوں نے ذوی القربیٰ کے معاملے نافذ حکم کو حق و انصاف پایا اس لیے انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت علی (رض) شیخین کی کئی معاملات میں ان کی زندگی میں مخالفت کرتے تھے اور اس کو معیوب نہ سمجھا جاتا تھا اور نہ وہ دونوں حضرات ان کو اس بات سے روکتے تھے اور نہ اس پر کوئی مواخذہ کرتے تھے۔ جب یہ بات اس وقت بھی ان کے متعلق کہی نہیں جاسکتی جبکہ دوسرا امام ہو۔ تو اس صورت میں اسی پر قائم رہنا اور بھی بعید تر ہے جبکہ وہ خود حاکم ہوں۔ ہمارے ہاں یہ محال ہے پس وہ تاویل درست نہیں۔ اس کی تائیدی دلیل ملاحظہ ہو۔
جوابمحمد بن علی (رح) کا تاویل کرتے ہوئے حضرت علی (رض) کے متعلق یہ کہنا کہ انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی مخالفت کے الزام سے بچنے کے لیے ان کی رائے سے موافقت کی حالانکہ ان کی رائے اس کے خلاف تھی۔
ہمارے نزدیک حضرت علی (رض) کے متعلق یہ الزام لگانا غلط ہے بلکہ ہم تو ان کے متعلق ایسا وہم کرنا بھی درست نہیں سمجھتے اور کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ کئی مواقع میں انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی رائے کی مخالفت کی ہے اور حضرت عمر (رض) سے کئی چیزوں میں اختلاف منقول ہے چند مسائل یہ ہیں۔
نمبر 1: حضرت عمر (رض) ام ولدہ کی بیع کو منع کیا مگر حضرت علی (رض) اس کے جواز کے قائل تھے اور رہے۔
نمبر 2: عطیات میں برابری کی جائے جبکہ حضرت عمر (رض) سبقت کرنے والوں کو دوسروں سے فضیلت کے قائل و عامل تھے۔
اور حضرت علی (رض) اللہ تعالیٰ کی خوب پہچان کرنے والے تھے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ خلاف حق دیکھیں اور اس کو جاری رہنے دیں۔ لیکن انھوں نے ذوی القربیٰ کے معاملے میں نافذ حکم کو حق و انصاف پایا اس لیے انھوں نے ابوبکر و عمر (رض) کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت علی (رض) شیخین کی کئی معاملات میں ان کی زندگی میں مخالفت کرتے تھے اور اس کو معیوب نہ سمجھا جاتا تھا اور نہ وہ دونوں حضرات ان کو اس بات سے روکتے تھے اور نہ اس پر کوئی مواخذہ کرتے تھے۔ جب یہ بات اس وقت بھی ان کے متعلق کہی نہیں جاسکتی جبکہ دوسرا امام ہو۔ تو اس صورت میں اسی پر قائم رہنا اور بھی بعید تر ہے جبکہ وہ خود حاکم ہوں۔ ہمارے ہاں یہ محال ہے پس وہ تاویل درست نہیں۔ اس کی تائیدی دلیل ملاحظہ ہو۔
لغات : دنف۔ تکلیف۔ بصق علیہ۔ زبردستی چلانا۔

5320

۵۳۱۹ : وَلَقَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ عِیْسَی بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَلِیْ فَتَذَاکَرْنَا الْخِیَارَ ، فَقَالَ : أَمَّا أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَدْ سَأَلَنِیْ عَنْہُ فَقُلْتُ :اِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَہِیَ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ أَحَقُّ بِہَا ، وَاِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ فَقَالَ عُمَرُ لَیْسَ کَذٰلِکَ ، وَلٰـکِنَّہَا اِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَہِیَ وَاحِدَۃٌ وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، وَاِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا ، فَلَا شَیْئَ فَلَمْ أَسْتَطِعْ اِلَّا مُتَابَعَۃَ أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ .فَلَمَّا آلَ الْأَمْرُ اِلَیَّ ، عَرَفْتُ أَنِّیْ مَسْئُوْلٌ عَنِ الْفُرُوْجِ ، فَأَخَذْتُ بِمَا کُنْتُ أَرَی .فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِہٖ : رَأْیٌ رَأَیْتُہٗ ، تَابَعَک عَلَیْہِ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ، أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ رَأْیٍ انْفَرَدْتُ بِہٖ .فَقَالَہٗ : أَمَا وَاللّٰہِ، لَقَدْ أَرْسَلَ اِلَیَّ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَخَالَفَنِیْ وَاِیَّاہُ فَقَالَ اِذَا اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَۃٌ وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا وَاِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَثَلَاثٌ ، لَا تَحِلَُ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ .أَفَلَا یَرَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ لَمَا خَلَصَ اِلَیْہِ الْأَمْرُ وَعَرَفَ أَنَّہٗ مَسْئُوْلٌ عَنِ الْفَرْجِ أَخَذَ بِمَا کَانَ یَرَی ، وَأَنَّہٗ لَمْ یَرَ تَقْلِیْدَ عُمَرَ فِیْمَا یَرَی خِلَافَہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا.وَکَذٰلِکَ أَیْضًا لَمَّا خَلَصَ اِلَیْہِ الْأَمْرُ اسْتَحَالَ - مَعَ مَعْرِفَتِہِ بِاَللّٰہٖ، وَمَعَ عِلْمِہِ أَنَّہٗ مَسْئُوْلٌ عَنِ الْأَمْوَالِ - أَنْ یَکُوْنَ یُبِیْحُہَا مَنْ یَرَاہُ مِنْ غَیْرِ أَہْلِہَا ، وَیَمْنَعَ مِنْہَا أَہْلَہَا .وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ الْقَوْلُ عِنْدَہٗ، فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، کَالْقَوْلِ فِیْمَا کَانَ عِنْدَ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَأَجْرَی الْأَمْرَ عَلٰی ذٰلِکَ ، لَا عَلٰی مَا سِوَاہُ .فَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ، فَاِنَّ الْمَشْہُوْرَ عَنْہُمْ فِیْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، أَنَّہٗ قَدْ ارْتَفَعَ بِوَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَّ الْخُمُسَ مِنَ الْغَنَائِمِ ، وَجَمِیْعِ الْفَیْئِ ، یُقْسَمَانِ فِیْ ثَلَاثَۃِ أَسْہُمٍ ، لِلْیَتَامَی ، وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ .
٥٣١٩: عیسیٰ بن عاصم نے زاذان سے روایت کی ہے کہ ہم حضرت علی (رض) کے پاس موجود تھے۔ ہم نے باہمی خیار عورت کے متعلق مذاکرہ کیا تو فرمانے لگے امیرالمؤمنین عمر (رض) نے اس سلسلہ میں مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا اگر وہ عورت اپنے خاوند کی طرف لوٹ آئے تو ایک طلاق رجعی ہے اور وہ خاوند اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ عورت اپنے نفس کو اختیار کرے تو ایک بائنہ طلاق ہوگی۔ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا یہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ اگر وہ اپنے نفس کو اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی ہوگی اور وہ خاوند اس کا سب سے زیادہ حقدار ہوگا اور اگر وہ اپنے خاوند کو اختیار کرلیتی ہے تو اس پر کچھ نہیں (کوئی طلاق ہی نہیں) تو اس وقت میرے لیے امیرالمؤمنین کی اتباع کے علاوہ چارہ نہ تھا۔ اب جبکہ معاملہ میرے پاس آیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ کل مجھ سے ان شرمگاہوں کے متعلق سوال ہوگا تو میں نے اپنے اجتہاد کو اختیار کیا۔ اس پر ان کے بعض ساتھیوں نے کہا اگر امیرالمؤمنین تمہاری رائے پر چلتے تو یہ بات مجھے زیادہ پسند تھی کہ آپ اپنی تنہا رائے پر چلتے تو انھوں نے فرمایا۔ سنو صاحب ! حضرت عمر (رض) نے زید بن ثابت (رض) کی طرف آدمی بھیج کر دریافت کیا تو انھوں نے میری اور ان کی رائے کے خلاف رائے دی انھوں نے کہا اگر وہ عورت اپنے خاوند کو اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی اور وہ خاوند اس کا دوسروں سے زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ عورت اپنے نفس کو پسند کرلیتی ہے تو تین واقع ہوجائیں گی اور وہ عورت اور خاوند سے نکاح کے بغیر اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔ معترض کو نظر نہیں آتا کہ حضرت علی (رض) نے اس ارشاد میں یہ خبر دی کہ جب ان کو حکومت ملی تو انھوں نے عورتوں کے سلسلہ میں اپنی ذمہ دار خیال کرتے ہوئے کہ وہ مسؤل ہیں اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور جس بات میں حضرت عمر (رض) کی رائے خلاف رائے تھی اس پر ان کی تقلید کو جائز قرار نہیں دیا۔ تو اب جب آپ کو خلافت ملی تو یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا علم رکھنے کے باوجود وہ اموال کے سلسلہ میں مسؤل ہونے کے باوجود غیر مستحق لوگوں کو دیتے رہے اور اہل لوگوں سے روک لیا۔ ازخود ثابت ہوا کہ ان کا قول قرابت داروں کے سلسلہ میں ان کے قول کے موافق تھا فلہذا انھوں نے اسی حکم کو جاری رکھا اس کے علاوہ کو اختیار نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کے متعلق مشہور یہی ہے کہ وہ اسی بات کے قائل تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد قرابت داروں کا حصہ منقطع ہوگیا اور مال فئی اور خمس غنائم اب تین حصوں میں بانٹیں گے۔ یتامیٰ ۔ محتاج۔ مسافر۔ جیسا یہ اثر ہے۔

5321

۵۳۲۰ : وَکَذٰلِکَ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ الرَّبِیْعِ اللُّؤْلُئِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ .وَہٰکَذَا یُعْرَفُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، فِیْ جَمِیْعِ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ رَأْیِہٖ، وَمِمَّا حَکَاہُ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .
٥٣٢٠: یعقوب بن ابراہیم نے امام ابوحنیفہ (رح) سے اسی طرح روایت کی ہے اور امام محمد (رح) کی تمام مرویات میں یہی رائے پائی جاتی ہے اور انھوں نے ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف (رح) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ اصحاب امالی کا قول یہ ہے۔

5322

۵۳۲۱ : فَأَمَّا أَصْحَابُ الْاِمْلَائِ فَاِنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ الْوَلِیْدِ قَالَ : أَمْلَی عَلَیْنَا أَبُوْ یُوْسُفَ فِیْ رَمَضَانَ فِیْ سَنَۃِ اِحْدَی وَثَمَانِیْنَ وَمِائَۃٍ ، قَالَ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَہٰذَا ، فِیْمَا بَلَغَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - فِیْمَا أَصَابَ مِنْ عَسَاکِرِ أَہْلِ الشِّرْکِ مِنَ الْغَنَائِمِ ، وَالْخُمُسُ مِنْہَا ، عَلٰی مَا سَمَّی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہٖ أَرْبَعَۃُ أَخْمَاسِہَا بَیْنَ الْجُنْدِ الَّذِیْنَ أَصَابُوْا ذٰلِکَ ، لِلْفَرَسِ سَہْمٌ ، وَلِلرَّجُلِ سَہْمٌ ، عَلٰی مَا جَائَ مِنَ الْأَحَادِیْثِ وَالْآثَارِ .وَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی : لِلرَّجُلِ سَہْمٌ ، وَلِلْفَرَسِ سَہْمٌ ، وَالْخُمُسُ یُقْسَمُ عَلَی خَمْسَۃِ أَسْہُمٍ ، خُمُسُ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ وَاحِدٌ ، وَخُمُسُ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِکُلِّ صِنْفٍ سَمَّاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ خُمُسُ الْخُمُسِ .فَفِیْ ہٰذِہِ الرِّوَایَۃِ ثُبُوْتُ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی قَالُوْا : وَأَمْلَی عَلَیْنَا أَبُوْ یُوْسُفَ فِیْ مَسْأَلَۃٍ قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ : اِذَا ظَہَرَ الْاِمَامُ عَلَی بَلَدٍ مِنْ بِلَادِ أَہْلِ الشِّرْکِ فَہُوَ بِالْخِیَارِ ، یَفْعَلُ فِیْہِ الَّذِیْ یَرَی أَنَّہٗ أَفْضَلُ وَخَیْرٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، اِنْ رَأَی أَنْ یُخَمِّسَ الْأَرْضَ وَالْمَتَاعَ ، وَیَقْسِمَ أَرْبَعَۃَ أَخْمَاسِہِ بَیْنَ الْجُنْدِ الَّذِیْنَ افْتَتَحُوْا مَعَہٗ، فَعَلَ ، وَیَقْسِمُ الْخُمُسَ عَلَی ثَلَاثَۃِ أَسْہُمٍ ، لِلْفُقَرَائِ ، وَالْمَسَاکِیْنِ ، وَابْنِ السَّبِیْلِ .وَاِنْ رَأَی أَنْ یَتْرُکَ الْأَرْضِیْنَ وَیَتْرُکَ أَہْلَہَا فِیْہَا ، وَیَجْعَلُہَا ذِمَّۃً ، وَیَضَعُ عَلَیْہِمْ وَعَلٰی أَرْضِہِمُ الْخَرَاجَ ، وَکَمَا فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالسَّوَادِ ، کَانَ ذٰلِکَ کُلُّہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذِہِ الرِّوَایَۃِ ، سُقُوْطُ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، وَہٰذَا الْقَوْلُ ہُوَ الْمَشْہُوْرُ عَنْہُمْ .وَالَّذِی اتَّفَقَتْ عَلَیْہِ ہَاتَانِ الرِّوَایَتَانِ فِی الْفَیْئِ ، وَفِیْ خُمُسِ الْغَنِیْمَۃِ أَنَّہُمَا اِذَا خَلَصَا جَمِیْعًا ، وُضِعَ خُمُسُ الْغَنَائِمِ فِیْمَا یَجِبُ وَضْعُہٗ فِیْہِ، مِمَّا ذَکَرْنَا .وَأَمَّا الْفَیْئُ ، فَیُبْدَأُ مِنْہُ بِاِصْلَاحِ الْقَنَاطِرِ ، وَبِنَائِ الْمَسَاجِدِ ، وَأَرْزَاقِ الْقُضَاۃِ ، وَأَرْزَاقِ الْجُنْدِ ، وَجَوَائِزِ الْوُفُوْدِ ، ثُمَّ یُوْضَعُ مَا بَقِیَ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ مِثْلِ مَا یُوْضَعُ فِیْہِ خُمُسُ الْغَنَائِمِ سَوَاء ٌ .فَہٰذِہِ وُجُوْھُ الْفَیْئِ وَأَخْمَاسُ الْغَنَائِمِ الَّتِیْ کَانَتْ تَجْرِیْ عَلَیْہَا فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی أَنْ تُوُفِّیَ .وَمَا یَجِبُ أَنْ یَمْتَثِلَ فِیْہَا بَعْدَ وَفَاتِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، فَقَدْ بَیَّنَّا ذٰلِکَ وَشَرَحْنَاہُ بِغَایَۃِ مَا مَلَکْنَا ، وَاللّٰہَ نَسْأَلُ التَّوْفِیْقَ .وَأَمَّا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، فَاِنَّہٗ ثَنَا مَالِکُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ : ثَنَا الْأَشْجَعِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ سَہْمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخُمُسِ ، ہُوَ خُمُسُ الْخُمُسِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِہٰذِہِ الطَّبَقَاتِ الَّتِیْ سَمَّی اللّٰہٗ، وَالْأَرْبَعَۃُ الْأَخْمَاسِ لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہِ .
٥٣٢١: بشر بن ولید بیان کرتے ہیں کہ ہمیں امام ابو یوسف نے رمضان ١٨١ ھ میں یہ لکھوایا اللہ تعالیٰ کا قول۔ ” واعلموا انما غنمتم “ (الانفال ٤١) اور تم جان لو ! کہ جو کچھ تم مال غنیمت سے حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور آپ کے قرابت داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تو یہ اس چیز کے بارے میں جیسا کہ ہم تک بات پہنچی (اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں) کہ مشرکین کے لشکروں سے جو مال غنیمت کے طور پر حاصل ہو ‘ اس میں سے خمس ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور چار حصے اس لشکر کے ہوں گے جس نے اس کو حاصل کیا ایک حصہ گھوڑے کا اور ایک حصہ اس آدمی کا۔ جیسا کہ احادیث و آثار میں مروی ہے۔ حاصل اثر : اس میں ذوی القربیٰ کے لیے خمس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس میں ذوی القربیٰ کے لیے خمس کا ثبوت ملتا ہے۔ اصحاب امالی کی دوسری روایت : (بشر بن ولید وغیرہ) نے بیان کیا کہ ہمیں امام ابو یوسف (رح) نے ایک مسئلہ اس طرح املاء کروایا امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ جب امام کو مشرکین کے کسی علاقہ پر غلبہ حاصل ہو تو اسے اختیار ہے کہ وہ اس کے متعلق وہ طرز عمل اختیار کرے جو بہتر اور مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث ہو۔ اگر اس کی رائے ہو کہ وہ زمین اور سامان کا خمس لے لے اور چار حصے بقیہ فاتح لشکریوں میں تقسیم کر دے تو اس کو اس کی اجازت ہے اور خمس کو تین حصوں میں تقسیم کرے۔ نمبر ١ فقراء۔ نمبر ٢ مساکین۔ نمبر ٣ مسافر اور اگر وہ مناسب خیال کرے زمینوں کو وہاں کے قابضین کو اس میں چھوڑ دے اور ان کو ذمی بنائے اور ان کی زمینوں پر خراج اور ان پر خراج مقرر کر دے جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے سواد عراق کے متعلق کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ ذوی القربیٰ کا حصہ ساقط ہوگا۔ ہمارے ائمہ کا مشہور قول یہی ہے۔ ان دونوں روایات کے اتفاق سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے فئی اور خمس غنائم جب حاصل ہوجائیں تو اہل حق کو دیا جائے۔ فئی کے مصارف وفود کے اخراجات و انعامات ہیں پھر ان سے جو بچ رہے وہ خمس غنائم کو جہاں خرچ کیا جاتا ہے وہیں صرف کیا جائے۔ ان میں کچھ فرق نہیں۔ خمس غنائم اور فئی کی وہ صورتیں جن پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں وفات تک عمل ہوتا رہا اور جو صورتہائے عمل آپ کی وفات کے بعد قیامت تک کے لیے واجب التعمیل تھیں ان کو حتی الامکان ہم نے اپنی ہمت کے مطابق وضاحت سے ذکر کردیا۔ جہاں تک سفیان ثوری (رح) کا تعلق ہے ہمیں مالک بن یحییٰ نے انھوں نے ابوالنضر انھوں نے اشجعی سے انھوں نے سفیان سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ خمس میں خمس الخمس ہے اور خمس کے باقی چار حصے ان طبقات میں تقسیم ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا اور کل کے چار حصے مقاتلین کے ہوں گے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ ذوی القربیٰ کا حصہ ساقط ہوگا۔ ہمارے ائمہ کا مشہور قول یہی ہے۔
ان دونوں روایات کے اتفاق سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے فئی اور خمس غنائم جب حاصل ہوجائیں تو اہل حق کو دیا جائے۔
فئی کے مصارف : وفود کے اخراجات و انعامات پھر ان سے جو بچ رہے وہ خمس غنائم کو جہاں خرچ کیا جاتا ہے وہیں صرف کیا جائے۔ ان میں کچھ فرق نہیں۔
خمس غنائم اور فئی کی وہ صورتیں جن پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں وفات تک عمل ہوتا رہا اور جو صورتہائے عمل آپ کی وفات کے بعد قیامت تک کے لیے واجب التعمیل تھیں ان کو حتی الامکان ہم نے اپنی ہمت کے مطابق وضاحت سے ذکر کردیا۔ اللّٰہ نسال التوفیق۔
حضرت سفیان ثوری (رح) کا مسلک :
جہاں تک سفیان ثوری (رح) کا تعلق ہے ہمیں مالک بن یحییٰ نے انھوں نے ابوالنضر انھوں نے اشجعی سے انھوں نے سفیان سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ خمس میں خمس الخمس ہے اور خمس کے باقی چار حصے ان طبقات میں تقسیم ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا اور کل کے چار حصے مقاتلین کے ہوں گے۔
حاصل روایت : اس باب میں طویل الذیل تفصیلات کے بعد امام ابوحنیفہ (رح) اور ابویوسف (رح) اور محمد (رح) کے معروف مسلک کو راجح قرار دیا۔ جس میں ذوی القربیٰ کا حصہ وفات سے ساقط ہے۔ (واللہ اعلم) (مترجم)

5323

۵۳۲۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا وَادَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ مَکَّۃَ ، وَکَانَتْ خُزَاعَۃُ حُلَفَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَکَانَتْ بَنُوْبَکْرٍ حُلَفَائَ قُرَیْشٍ .فَدَخَلَتْ خُزَاعَۃُ فِیْ صُلْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَدَخَلَتْ بَنُوْبَکْرٍ فِیْ صُلْحِ قُرَیْشٍ ، فَکَانَ بَیْنَ خُزَاعَۃَ وَبَیْنَ بَنِیْ بَکْرٍ بَعْدُ قِتَالٌ ، فَأَمَدَّہُمْ قُرَیْشٌ بِسِلَاحٍ وَطَعَامٍ ، وَظَلَّلُوْا عَلَیْہِمْ ، وَظَہَرَتْ بَنُوْبَکْرٍ عَلَی خُزَاعَۃَ ، فَقَتَلُوْا فِیْہِمْ .فَخَافَتْ قُرَیْشٌ أَنْ یَکُوْنُوْا عَلَی قَوْمٍ قَدْ نَقَضُوْا ، فَقَالُوْا لِأَبِیْ سُفْیَانَ : اذْہَبْ اِلَی مُحَمَّدٍ فَأَجِدَّ الْحِلْفَ ، وَأَصْلِحْ بَیْنَ النَّاسِ وَأَنْ لَیْسَ فِیْ قَوْمٍ ظَلَّلُوْا عَلَی قَوْمٍ وَأَمَدُّوْھُمْ بِسِلَاحٍ وَطَعَامٍ مَا اِنْ یَکُوْنُوْا نَقَضُوْا .فَانْطَلَقَ أَبُوْ سُفْیَانَ وَسَارَ ، حَتَّی قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَائَ کُمْ أَبُوْ سُفْیَانَ ، وَسَیَرْجِعُ رَاضِیًا بِغَیْرِ حَاجَۃٍ .فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ أَجِدَّ الْحِلْفَ وَأَصْلِحْ بَیْنَ النَّاسِ أَوْ بَیْنَ قَوْمِکَ، قَالَ : فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْأَمْرُ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِلَی رَسُوْلِہٖ ، وَقَدْ قَالَ فِیْمَا قَالَ لَہُ بِأَنْ لَیْسَ فِیْ قَوْمٍ ظَلَّلُوْا عَلَی قَوْمٍ وَأَمَدُّوْھُمْ بِسِلَاحٍ وَطَعَامٍ ، مَا اِنْ یَکُوْنُوْا نَقَضُوْا .قَالَ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : الْأَمْرُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَاِلٰی رَسُوْلِہٖ .قَالَ : ثُمَّ أَتٰی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ لَہُ نَحْوًا مِمَّا ذَکَرَ لِأَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنَقَضْتُمْ ؟ فَمَا کَانَ مِنْہُ جَدِیْدًا ، فَأَبْلَاہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ، وَمَا کَانَ مِنْہُ شَدِیْدًا ، أَوْ قَالَ مَتِینًا ، فَقَطَعَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : وَمَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ شَاہِدَ عَشَرَۃٍ .ثُمَّ أَتَی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَقَالَ لَہَا : یَا فَاطِمَۃُ ، ہَلْ لَک فِیْ أَمْرٍ تَسُوْدِیْنَ فِیْہِ نِسَائَ قَوْمِکَ ، ثُمَّ ذَکَرَ لَہَا نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِأَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، ثُمَّ قَالَ لَہَا : فَتُجَدِّدِیْنَ الْحِلْفَ ، وَتُصْلِحِیْنَ بَیْنَ النَّاسِ .فَقَالَتْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : لَیْسَ اِلَّا اِلَی اللّٰہِ وَاِلٰی رَسُوْلِہٖ .قَالَ : ثُمَّ أَتٰی عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِأَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ رَجُلًا أَصِلُ ، أَنْتَ سَیِّدُ النَّاسِ فَأَجِدَّ الْحِلْفَ وَأَصْلِحْ بَیْنَ النَّاسِ .فَضَرَبَ أَبُوْ سُفْیَانَ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرَی وَقَالَ قَدْ أَخَذْتُ بَیْنَ النَّاسِ بَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ .قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّی قَدِمَ ، وَاللّٰہِ مَا أَتَیْتُنَا بِحَرْبٍ فَیَحْذَرُ ، وَلَا أَتَیْتُنَا بِصُلْحٍ فَیَأْمَنُ ، ارْجِعْ ارْجِعْ .قَالَ وَقَدِمَ وَفْدُ خُزَاعَۃَ عَلٰی رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہٗ بِمَا صَنَعَ الْقَوْمُ ، وَدَعَاہُ بِالنُّصْرَۃِ وَأَنْشَدَ فِیْ ذٰلِکَ : لَاہُمَّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدَا حِلْفَ أَبِیْنَا وَأَبِیْہَ الْأَتْلَدَا وَالِدًا کُنَّا وَکُنْتَ وَلَدَا اِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَنَقَضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا وَجَعَلُوْا لِیْ بِکَدَائَ رُصَّدَا وَزَعَمُوْا أَنْ لَسْتَ تَدْعُوَا أَحَدَا وَہُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا وَہُمْ أَتَوْنَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدَا نَتْلُوْا الْقُرْآنَ رُکَّعًا وَسُجَّدَا ثَمَّتَ أَسْلَمْنَا وَلَمْ نَنْزِعْ یَدَا فَانْصُرْ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَصْرًا أَعْتَدَا وَابْعَثْ جُنُوْدَ اللّٰہِ تَأْتِْی مَدَدَا فِیْ فَیْلَقٍ کَالْبَحْرِ یَأْتِی مُزْبِدَا فِیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَدْ تَجَرَّدَا اِنْ سِیْمَ خَسْفًا وَجْہُہُ تَرَبَّدَا .قَالَ حَمَّادٌ : ہٰذَا الشَّعْرُ بَعْضُہٗ عَنْ أَیُّوْبَ ، وَبَعْضُہٗ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَازِمٍ ، وَأَکْثَرُہٗ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ .ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ قَالَ : مَا قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَتَانِیْ وَلَمْ أَشْہَدْ بِبَطْحَائِ مَکَّۃ رِجَالَ بَنِیْ کَعْبٍ تُحَزُّ رِقَابُہَا وَصَفْوَانُ عَوْدٍ خَرَّ مِنْ وَدْقِ اسْتِہِ فَذَاکَ أَوَانُ الْحَرْبِ حَانَ غِضَابُہَا فَیَا لَیْتَ شِعْرِیْ ہَلْ لَنَا مَرَّۃً سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو حَوْلَہَا وَعِقَابُہَا قَالَ : فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّحِیلِ فَارْتَحَلُوْا فَسَارُوْا ، حَتّٰی نَزَلُوْا بِمَرِّ الظَّہْرَانِ .قَالَ : وَجَائَ أَبُوْ سُفْیَانَ حَتّٰی نَزَلَ لَیْلًا ، فَرَأَی الْعَسْکَرَ وَالنِّیْرَانَ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ قِیْلَ : ہٰذِہِ تَمِیْمٌ ، أَمْحَلَتْ بِلَادُہَا فَانْتَجَعَتْ بِلَادَکُمْ .قَالَ : ہٰؤُلَائِ وَاللّٰہِ أَکْثَرُ مِنْ أَہْلِ مِنًی ، أَوْ مِثْلُ أَہْلِ مِنًی .فَلَمَّا عَلِمَ أَنَّہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَنَکَّرَ وَقَالَ : دُلُّوْنِیْ عَلَی الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَأَتَی الْعَبَّاسَ فَأَخْبَرَہُ الْخَبَرَ وَانْطَلَقَ بِہٖ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَی بِہٖ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قُبَّۃٍ لَہٗ فَقَالَ یَا أَبَا سُفْیَانَ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ قَالَ : وَکَیْفَ أَصْنَعُ بِاللَّاتَ وَالْعُزَّی ؟ قَالَ أَیُّوْبُ : حَدَّثَنِیْ أَبُو الْخَلِیْلِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ : قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ خَارِجٌ مِنْ التِّیْہِ مَا قُلْتُہَا أَبَدًا .قَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوْا : عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَأَسْلَمَ أَبُوْ سُفْیَانَ فَانْطَلَقَ بِہٖ الْعَبَّاسُ ، فَلَمَّا أَصْبَحُوْا ، ثَارَ النَّاسُ لِظُہُوْرِہِمْ .قَالَ : فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : یَا أَبَا الْفَضْلِ ، مَا لِلنَّاسِ أُمِرُوْا فِیْ شَیْئٍ ؟ قَالَ : فَقَالَ : لَا ، وَلٰـکِنَّہُمْ قَامُوْا اِلَی الصَّلَاۃِ فَأَمَرَہُ فَتَوَضَّأَ ، وَانْطَلَقَ بِہٖ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ ، کَبَّرَ ، فَکَبَّرَ النَّاسُ ، ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعُوْا ، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوْا .فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ طَاعَۃَ قَوْمٍ جَمَعَہُمْ مِنْ ہَاہُنَا وَہَا ہُنَا ، وَلَا فَارِسَ الْأَکَارِمَ وَلَا الرُّوْمَ ذَاتَ الْقُرُوْنِ بِالطَّوْعِ مِنْہُمْ .قَالَ حَمَّادٌ : وَزَعَمَ زَیْدُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ قَالَ : قَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : یَا أَبَا الْفَضْلِ أَصْبَحَ ، وَاللّٰہِ، ابْنُ أَخِیْکَ عَظِیْمَ الْمُلْکِ ، قَالَ : لَیْسَ بِمُلْکٍ وَلٰـکِنَّہَا نُبُوَّۃٌ ، قَالَ : أَوْ ذَاکَ أَوْ ذَاکَ قَالَ : ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ عَنْ عِکْرِمَۃِ قَالَ : فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : وَاصَبَاحَ قُرَیْشٍ .قَالَ : فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَوْ أَذِنْتَ لِیْ فَأَتَیْتُ أَہْلَ مَکَّۃَ فَدَعَوْتُہُمْ وَأَمَّنْتُہُمْ ، وَجَعَلْتُ لِأَبِیْ سُفْیَانَ شَیْئًا یُذْکَرُ بِہٖ .قَالَ : فَانْطَلَقَ فَرَکِبَ بَغْلَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّہْبَائَ ، وَانْطَلَقَ .قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُدُّوْا عَلَیَّ أَبِیْ، رُدُّوْا عَلَیَّ أَبِیْ، اِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ، اِنِّیْ أَخَافُ أَنْ تَفْعَلَ بِکَ قُرَیْشٌ ، کَمَا فَعَلَتْ ثَقِیْفٌ بِعُرْوَۃِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ، دَعَاہُمْ اِلَی اللّٰہِ فَقَتَلُوْھُ ، أَمَا وَاللّٰہِ لَئِنْ رَکِبُوْہَا مِنْہٗ، لَأُضْرِمَنَّہَا عَلَیْہِمْ نَارًا .قَالَ : فَانْطَلَقَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَقَالَ یَا أَہْلَ مَکَّۃَ ، أَسْلِمُوْا تَسْلَمُوْا ، فَقَدِ اسْتَبْطَنْتُمْ بِأَشْہَبَ بَازِلٍ .قَالَ : وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ الزُّبَیْرَ مِنْ قِبَلِ أَعْلَی مَکَّۃَ ، وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ مِنْ قِبَلِ أَسْفَلِ مَکَّۃَ .قَالَ : فَقَالَ لَہُمْ : ہَذَا الزُّبَیْرُ مِنْ قِبَلِ أَعْلَی مَکَّۃَ ، وَہٰذَا خَالِدٌ مِنْ قِبَلِ أَسْفَلِ مَکَّۃَ ، وَخَالِدٌ وَمَا خَالِدٌ ، وَخُزَاعَۃُ مُجَدَّعَۃُ الْأُنُوْفِ .ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَلْقَیْ سِلَاحَہُ فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ .ثُمَّ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَتَرَامَوْا بِشَیْئٍ مِنَ النَّبْلِ ، ثُمَّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ظَہَرَ عَلَیْہِمْ فَأَمَّنَ النَّاسَ اِلَّا خُزَاعَۃَ عَنْ بَنِیْ بَکْرٍ ، وَذَکَرَ أَرْبَعَۃً ، مِقْیَسَ بْنَ ضَبَابَۃَ ، وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِیْ سَرْحٍ ، وَابْنَ خَطَلٍ ، وَسَارَۃَ مَوْلَاۃَ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، قَالَ حَمَّادٌ : سَارَۃ فِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ ، أَوْ فِیْ حَدِیْثِ غَیْرِہٖ۔ قَالَ : فَقَاتَلَہُمْ خُزَاعَۃُ اِلَی نِصْفِ النَّہَارِ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَکَثُوْا أَیْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ اِلَی قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ قَالَ خُزَاعَۃُ وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوْبِہِمْ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَی مَنْ یَشَائُ . قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : اِجْتَمَعَتِ الْأُمَّۃُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، صَالَحَ أَہْلَ مَکَّۃِ قَبْلَ افْتِتَاحِہِ اِیَّاہَا ، ثُمَّ افْتَتَحَہَا بَعْدَ ذٰلِکَ .فَقَالَ قَوْمٌ : کَانَ افْتِتَاحُہٗ اِیَّاہَا بَعْدَ أَنْ نَقَضَ أَہْلُ مَکَّۃَ الْعَہْدَ وَخَرَجُوْا مِنِ الصُّلْحِ ، فَافْتَتَحَہَا یَوْمَ افْتَتَحَہَا وَہِیَ دَارُ حَرْبٍ ، لَا صُلْحَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ أَہْلِہَا ، وَلَا عَقْدَ وَلَا عَہْدَ .وَمِمَّنْ قَالَ ہٰذَا الْقَوْلَ : أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَالْأَوْزَاعِیُّ ، وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، وَسُفْیَانُ بْنُ سَعِیْدٍ الثَّوْرِیُّ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ .وَقَالَ قَوْمٌ : بَلْ افْتَتَحَہَا صُلْحًا .ثُمَّ احْتَجَّ کُلُّ فَرِیْقٍ مِنْ ہٰذَیْنِ الْفَرِیْقَیْنِ لِقَوْلِہٖ ، مِنَ الْآثَارِ بِمَا سَنُبَیِّنُہٗ فِیْ کِتَابِیْ ہٰذَا، وَنَذْکُرُ مَعَ ذٰلِکَ ، صِحَّۃَ مَا احْتَجَّ بِہٖ أَوْ فَسَادَہٗ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَانَ حُجَّۃُ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَہَا صُلْحًا ، أَنْ قَالَ أَمَّا الصُّلْحُ فَقَدْ کَانَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَہْلِ مَکَّۃَ ، فَأَمِنَ کُلُّ فَرِیْقٍ مِنْہُ وَمِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، مِنَ الْفَرِیْقِ الْآخِرِ ، ثُمَّ لَمْ یَکُنْ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا یُوْجِبُ نَقْضَ الصُّلْحِ .وَاِنَّمَا کَانَ بَنُو نُفَاثَۃَ ، وَہُمْ غَیْرٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، قَاتَلُوْا خُزَاعَۃَ ، وَأَعَانَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَثَبَتَ بَقِیَّۃُ أَہْلِ مَکَّۃَ عَلَی صُلْحِہِمْ ، وَتَمَسَّکُوْا بِعَہْدِہِمْ الَّذِیْ عَاہَدُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَتْ بَنُو نُفَاثَۃَ ، وَمَنْ تَابَعَہُمْ ، عَلٰی مَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ مِنِ الصُّلْحِ ، وَثَبَتَ بَقِیَّۃُ أَہْلِ مَکَّۃَ عَلَی الصُّلْحِ الَّذِیْ کَانُوْا صَالَحُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا : وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا افْتَتَحَہَا ، لَمْ یَقْسِمْ فِیْہَا فَیْئًا ، وَلَمْ یَسْتَعْبِدْ فِیْہَا أَحَدًا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ لِمُخَالِفِہِمْ ، أَنَّ عِکْرَمَۃَ ، مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وَمُحَمَّدَ بْنَ مُسْلِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیَّ ، وَعَلَیْہِمَا یَدُوْرُ أَکْثَرُ أَخْبَارِ الْمَغَازِی ، قَدْ رُوِیَ عَنْہُمَا مَا یَدُلُّ عَلَی خُرُوْجِ أَہْلِ مَکَّۃَ مِنِ الصُّلْحِ الَّذِیْ کَانُوْا صَالَحُوْا عَلَیْہِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَحْدَاثٍ أَحْدَثُوْھَا .
٥٣٢٢: ایوب نے عکرمہ سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے صلح کرلی قبیلہ بنو خزاعہ زمانہ جاہلیت سے آپ کا حلیف چلا آ رہا تھا اور بنو بکر قبیلہ قریش کا حلیف تھا۔ بنو خزاعہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بنو بکر قریش کے معاہدہ صلح میں شامل ہوگئے اس کے بعد بنو خزقعہ اور بنو بکر میں باہمی لڑائی ہوگئی قریش نے اسلحہ اور رسد سے ان کی معاونت کی اور ان کی پیٹھ ٹھونکی چنانچہ بنو بکر کو بنو خزاعہ پر غلبہ حاصل ہوا تو انھوں نے ان کو خوب قتل کیا قریش کو معاہدہ توڑنے والے گروہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے خطرہ محسوس ہوا۔ چنانچہ انھوں نے ابو سفیان بن حرب سے کہا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر معاہدہ کی تجدید کرلو۔ لوگوں کے مابین صلح کرواؤ اور یہ کہو کہ اگر کچھ لوگوں نے ان کی ہتھیاروں اور رسد سے مدد کی اور سایہ بھی کیا تو یہ نقض عہد ہرگز نہیں ہے۔ (حضرت) ابو سفیان وہاں سے چل کر مدینہ طیبہ پہنچا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابو سفیان تمہارے پاس آ رہے ہیں مگر یہ بےنیل و مرام خوش ہو کر لوٹ جائے گا۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ اے ابوبکر ! معاہدے کی تجدید کرو اور لوگوں کے درمیان کہا یا اپنی قوم کہا کے درمیان صلح کراؤ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا یہ معاملہ اللہ تعالیٰ اور س کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہے۔ انھوں نے اس دوران یہ بھی کہا کہ اگر کچھ لوگوں نے ان لوگوں پر سایہ کیا اور ہتھیاروں اور رسد سے بنو بکر کی امداد کی ہے تو یہ کوئی عہد کو توڑنا نہیں راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا معاملہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہے۔ راوی کہتے ہیں وہ پھر حضرت عمر (رض) کے پاس گیا اور ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابوبکر (رض) سے کہی تھی حضرت عمر (رض) نے فرمایا تم نے عہد شکنی کی ہے جو عہد نیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے پرانا کردیا اور وہ جو اس میں سے سخت تھا یا مضبوط تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے بودا کردیا ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے آج کے دن جیسا سخت دن نہیں دیکھا۔ پھر وہ حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں گیا اور ان کو کہا اے فاطمہ (رض) ! کیا تم کسی معاملے میں اپنی قوم کی عورتوں کی سرداری کرو گی پھر ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابوبکر (رض) سے کہی تھی۔ پھر ان سے کہا کہ معاہدہ کی تجدید کرا دو اور لوگوں کے درمیان صلح کرا دو ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا کہ معاملہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابوبکر (رض) سے کہی تھی۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا میں نے آج کے دن کی طرح کوئی آدمی نہیں دیکھا جو زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو تم لوگوں کے سردار ہو۔ تم خود حلف کی تجدید کرو اور صلح کراؤ۔ ابو سفیان نے اپنا ایک پاؤں دوسرے پر مارا اور کہا کہ میں نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا پھر چل دیا اور واپس لوٹ آیا۔ تو کفار قریش کہنے لگے اللہ کی قسم ! تو ہمارے پاس نہ تو لڑائی کی خبر لایا کہ ہم احتیاط برتیں اور نہ صلح کی اطلاع لایا کہ مطمئن ہوجائیں جلد واپس جاؤ۔ جاؤ۔ ادھر بنو خزاعہ کا وفد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور جو کفار قریش نے کارروائی کی تھی اس کی اطلاع دی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدد کی درخواست کی اور یہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے۔ نمبر 1: اے اللہ۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کے جد امجد کا حلف یاد دلانے والا ہوں۔ نمبر 2: ہم والد کی جگہ تھے اور آپ اولاد کی جگہ تھے بلاشبہ قریش نے آپ سے بدعہدی کی ہے۔ نمبر 3: آپ کے ساتھ پختہ عہد کو توڑ ڈالا ہے اور مقام کداء میں میرے خلاف بھی مورچہ بندی کی۔ نمبر$: ان کا خیال یہ ہے کہ آپ کسی کے بلاوے کا جواب نہ دیں گے قریش کمزور اور گنتی میں کم ہیں۔ نمبر%: وہ مقام وتیر میں ہم پر حملہ آور ہوئے جبکہ تہجد کے وقت ہم تلاوت قرآن مجید اور رکوع و سجود کی حالت میں تھے۔ نمبر &: اسی جگہ ہم نے صلح کی تھی اس لیے ہم نے ہاتھ نہ کھینچا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری بھرپور مدد فرمائیں۔ نمبر ': آپ اتنے بڑے لشکر کو بھیج دیں جو سمندر کی طرح جوش سے جھاگ نکال رہا ہو۔ نمبر (: اس لشکر میں اللہ کے رسول ہوں جو تلوار کو بےنیام کرنے والے ہوں اگر قوم کو ذلت پہنچے تو آپ کا چہرہ مبارک اس سے دوری اختیار کرنے والا ہو۔ حماد راوی کا بیان ہے کہ ان میں سے بعض اشعار ایوب جبکہ دوسرے یزید بن حازم سے نقل کئے گئے ہیں اور اکثر اشعار محمد بن اسحاق سے لیے گئے ہیں۔ پھر راوی اس روایت کی طرف لوٹا جو ایوب نے عکرمہ سے نقل کی ہے اور اس نے وہ بیان کیا جو حضرت حسان بن ثابت (رض) نے فرمایا اس کا ترجمہ یہ ہے۔ نمبر 1: میرے پاس بنو کعب کے وہ لوگ بطحاء مکہ میں حاضر ہوئے جن گردنوں کو تن سے جدا ہونا تھا مگر میں وہاں موجود نہ تھا۔ نمبر 2: اور اس لکڑی کی صفائی کا کیا کہنا جو اپنی جڑ کے کنارے سے کاٹی گئی ہو پس یہ تو لڑائی کا زمانہ ہے جو مشکل وقت تک آن پہنچا ہے۔ نمبر 3: کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میری مدد کا جوش و جذبہ اور بدلے کا جذبہ سہیل بن عمرو تک پہنچ جائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم دیا صحابہ کرام (رض) روانہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ مرظہران میں اترے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو سفیان آیا اور وہاں رات کو اترا اور لشکر اور آگ کو دیکھا تو کہا یہ کیا ؟ کسی نے کہا یہ قبیلہ تمیم ہے جن کے ملک میں قحط سالی پڑگئی ہے اور وہ رزق کی تلاش میں تمہارے علاقے میں آئے ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگے ! اللہ کی قسم یہ تو منیٰ والوں سے زیادہ ہیں یا منیٰ والوں جتنے ہیں جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو اس کی حالت خراب ہوگئی پھر کہا کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب کے متعلق میری راہنمائی کرو اور حضرت عباس (رض) کے پاس آ کر ماجرا ذکر کیا تو وہ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر گئے آپ ایک خیمہ میں تھے آپ نے فرمایا۔ اے ابوسفیان ایمان لے آؤ بچ جاؤ گے انھوں نے کہا لات و عزیٰ کا کیا کروں ؟ ایوب کہتے ہیں مجھے ابوالخلیل نے سعید بن جبیر (رح) سے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) باہر میدان میں تھے وہ فرمانے لگے میں نے یہ کبھی نہیں کہا ابو سفیان نے پوچھا یہ کون ہے ! انھوں نے کہا یہ عمر (رض) ہیں اسی وقت ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا۔ ابوالفضل عباس ان کو (اپنے خیمے میں) لے گئے جب صبح ہوئی تو لوگ اپنی سواریوں کی طرف تیزی سے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو سفیان کہنے لگے اے ابوالفضل لوگوں کو کیا ہوا۔ کیا ان کو کسی چیز کا حکم ملا ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں۔ لیکن وہ نماز کے لیے تیار ہو رہے ہیں عباس (رض) نے ان کو وضو کا کہا تو انھوں نے وضو کیا اور ان لے کر خدمت نبوی کی طرف روانہ ہوئے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں داخل ہونے کے لیے تکبیر کہی تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ پھر آپ نے رکوع کیا تو انھوں نے رکوع کیا پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو انھوں نے رکوع سے سر اٹھایا۔ ابو سفیان کہنے لگے میں نے آج کے دن جیسی اطاعت یہاں سے وہاں اں تک اکٹھی کسی قوم میں نہیں دیکھی۔ معزز فارسی قلعوں والے رومی اطاعت میں ان جیسے نہیں ہیں۔ حماد کا قول : حماد کہتے ہیں کہ یزید بن حازم نے عکرمہ سے اپنے خیال کے مطابق یہ بیان کیا کہ ابو سفیان نے کہا اے ابوالفضل تمہارا بھتیجا تو بڑا بادشاہ بن گیا۔ حضرت عباس کہنے لگے یہ بادشاہی نہیں بلکہ یہ نبوت ہے۔ اس نے کہا وہ ہو یا وہ ہو۔ (بہرحال وہ بڑا بن گیا ہے) راوی کہتے ہیں کہ پھر بات روایت ایوب عن عکرمہ کی طرف لوٹ آئی کہ ابو سفیان کہنے لگے پھر تو قریش کی بربادی ! راوی کہتے ہیں کہ عباس (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ مجھے اجازت مرحمت فرماتے تو میں اہل مکہ کے ہاں جاتا اور ان کو دعوت دیتا اور ان کو امان دیتا اور آپ ابو سفیان کے لیے کوئی ایسی قابل تذکرہ چیز ٹھہرا دیں راوی کہتے ہیں وہ چل دیئے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہباء نامی خچر پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ راوی کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میرے باپ کو میری طرف واپس لوٹاؤ میرے باپ کو میری طرف لوٹاؤ۔ بلاشبہ آدمی کا چچا اور باپ ایک ہی اصل سے ہوتے ہیں مجھے خطرہ ہے کہ قریش تمہارے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو عروہ بن مسعود (رض) کے ساتھ قوم ثقیف نے کیا کہ اس نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی تو انھوں نے اسے قتل کردیا۔ خبردار ! اللہ کی قسم ! اگر انھوں نے بھی ایسا ہی کیا میں ان پر آگ برساؤں گا۔ راوی کہتے ہیں عباس روانہ ہوئے اور اعلان فرمایا۔ اے اہل مکہ اسلام لاؤ۔ بچ جاؤ گے۔ تم دشوار اور سخت معاملے میں الجھ گئے ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر (رض) کو بالائی مکہ کی طرف سے اور خالد بن ولید کو مسفلہ مکہ کی طرف سے روانہ فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ عباس (رض) نے اور ان کو اعلان فرمایا یہ زبیر مکہ کی بالائی جانب سے اور یہ خالد مکہ کے مسفلہ کی جانب سے آ رہے ہیں اور خالد تو خالد ہے اور خزاعہ ناک کاٹنے والے ہیں۔ عباس نے پھر فرمایا۔ جو ہتھیار ڈال دے اسے امن ہے جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امن ہے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اہل مکہ نے ان کی طرف کچھ تیر پھینکے ادھر سے بھی پھینکے گئے آپ ان پر غالب آگئے تو لوگ امن میں آگئے خزاعہ بنی بکر سے امن میں نہ تھے اور چار کا تذکرہ فرمایا مقیس بن ضبابہ ‘ عبداللہ بن ابی سرح ‘ ابن خطل ‘ بنی ہاشم کی لونڈی سارہ ان کو امن حاصل نہ تھا۔ حماد کا قول : حماد نے حدیث ایوب یا کسی دوسری روایت میں سارہ بتلایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ بنو خزاعہ نے ان سے نصف نہار تک لڑائی کی پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ الا تقاتلوں قوما نکثوا ایمانہم وہموا باخراج الرسول “ (التوبہ۔ ١٥) تم ان لوگوں سے کیوں کر نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالنے کا ارادہ کیا۔ آیت کے آخر تک۔

امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : اس بات پر تو امت کا اتفاق ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے فتح کرنے سے پہلے صلح کی پھر اس کے بعد اس کو فتح کیا۔ اس کے متعلق دو رائے ہیں۔
فریق اوّل : آپ نے اہل مکہ کے نقض عہد کے بعد اس کو فتح کیا وہ اس وقت صلح سے نکل چکے تھے۔ جب مکہ کو فتح کیا تو اس وقت وہ دارالحرب تھا۔ آپ کے اور وہاں کے رہنے والوں کے درمیان نہ کوئی عہد و معاہدہ تھا اور نہ ہی صلح تھی۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ اوزاعی ‘ مالک ‘ سفیان ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی کا قول : آپ نے صلح کے طور پر اس کو فتح کیا۔ ہر فریق نے اپنی دلیل میں آثار و روایات کو پیش کیا ہم آئندہ سطور میں ان کا تذکرہ کریں گے اور پھر ان میں جن کے دلائل میں کمزوری ہے وہ بھی ان شاء اللہ ظاہر کریں گے۔
فریق ثانی کی دلیل : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مابین صلح ہوگئی تھی اور ہر گروہ دوسرے سے بےخوف ہوچکا تھا بنو نفاثہ (بنو بکر۔ (ابن ہشام)) جو کہ اہل مکہ سے نہ تھے انھوں نے بنو خزاعہ سے لڑائی کی اور قریش کے کچھ آدمیوں نے اس لڑائی میں بنو نفاثہ کی معاونت کی۔ بقیہ اہل مکہ تو اسی طرح اپنی صلح پر برقرار رہے اور انھوں نے اپنے اس عہد کی پابندی کی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ کرچکے تھے۔ البتہ بنو نفاثہ اور ان کے پیرو اس صلح سے اپنی حرکت کی بناء پر خارج ہوگئے۔ بقیہ اہل مکہ اپنی اس صلح پر قائم رہے جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تھی۔
قیام صلح کی دلیل : اس کی دلیل یہ ہے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو فتح کیا تو مال فئی تقسیم نہیں کیا اور نہ کسی کو غلام بنایا۔
فریق اوّل کی دلیل : حضرت عکرمہ جو کہ عبداللہ بن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام تھے اور محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب زہری جن کے گرد مغازی کی خبریں گھومتی ہیں اور انہی دونوں سے مروی ہیں ان دونوں کا بیان ہے کہ اہل مکہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے صلح سے خارج ہوچکے تھے جو حرکت انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کی تھی۔ روایت عکرمہ ملاحظہ ہو۔

5324

۵۳۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ اِسْحَاقَ یَقُوْلُ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیُّ وَغَیْرُہٗ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ صَالَحَ قُرَیْشًا عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ عَلٰی أَنَّہٗ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ عَقْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَہْدِہِ دَخَلَ فِیْہِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ دَخَلَ فِیْہِ .فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَۃُ وَبَنُو کَعْبٍ وَغَیْرُہُمْ مَعَہُمْ ، فَقَالُوْا : نَحْنُ فِیْ عَقْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَہْدِہٖ۔ وَتَوَاثَبَتْ بَنُوْبَکْرٍ ، فَقَالُوْا : نَحْنُ فِیْ عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ .وَقَامَتْ قُرَیْشٌ عَلَی الْوَفَائِ بِذٰلِکَ سَنَۃً وَبَعْضَ سَنَۃٍ ، ثُمَّ اِنَّ بَنِیْ بَکْرٍ عَدَوْا عَلَی خُزَاعَۃَ ، عَلٰی مَا لَہُمْ بِأَسْفَلِ مَکَّۃَ .فَقَالَ لَہُ الزُّبَیْرُ : بَیَّتُوْھُمْ فِیْہِ، فَأَصَابُوْا مِنْہُمْ رَجُلًا وَتَجَاوَزَ الْقَوْمُ فَاقْتَتَلُوْا ، وَرَفَدَتْ قُرَیْشٌ بَنِیْ بَکْرٍ بِالسِّلَاحِ وَقَاتَلَ مَعَہُمْ مَنْ قَاتَلَ مِنْ قُرَیْشٍ بِالنَّبْلِ مُسْتَخْفِیًا ، حَتَّیْ جَاوَزُوْا خُزَاعَۃَ اِلَی الْحَرَمِ ، وَقَائِدُ بَنِیْ بَکْرٍ یَوْمَئِذٍ ، نَوْفَلُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، فَلَمَّا انْتَہَوْا اِلَی الْحَرَمِ قَالَتْ بَنُوْبَکْرٍ : یَا نَوْفَلُ اِلَہَکَ اِلَہَکَ ، اِنَّا قَدْ دَخَلْنَا الْحَرَمَ .فَقَالَ کَلِمَۃً عَظِیْمَۃً : لَا اِلَہَ لَہُ الْیَوْمَ یَا بَنِیْ بَکْرٍ ، أَصِیْبُوْا ثَأْرَکُمْ ، قَدْ کَانَتْ خُزَاعَۃُ أَصَابَتْ قَبْلَ الْاِسْلَامِ نَفَرًا ثَلَاثَۃً ، وَہُمْ مُتَحَرِّفُوْنَ ، دُوَیْبًا ، وَکُلْثُوْمًا ، وَسُلَیْمَانَ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ زُرَیْقِ بْنِ یَعْمُرَ ، فَلَعَمْرِیْ یَا بَنِیْ بَکْرٍ ، اِنَّکُمْ تَسْرِقُوْنَ فِی الْحَرَمِ ، أَفَلَا تُصِیْبُوْنَ ثَأْرَکُمْ فِیْہٖ؟ قَالَ : وَقَدْ کَانُوْا أَصَابُوْا مِنْہُمْ رَجُلًا لَیْلَۃَ بَیَّتُوْھُمْ بِالْوَتِیرِ ، وَمَعَہُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِہِ یُقَالُ لَہُ مُنَبِّہٌ رَجُلًا مُفْرَدًا فَخَرَجَ ہُوَ وَتَمِیْمٌ .فَقَالَ مُنَبِّہٌ : یَا تَمِیْمُ ، اُنْجُ بِنَفْسِکَ ، فَأَمَّا أَنَا ، فَوَاللّٰہِ، اِنِّیْ لَمَیِّتٌ ، قَتَلُوْنِیْ أَوْ لَمْ یَقْتُلُوْنِی .فَانْطَلَقَ تَمِیْمٌ فَأُدْرِکَ مُنَبِّہٌ فَقَتَلُوْھُ وَأَفْلَتَ تَمِیْمٌ ، فَلَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ ، لَحِقَ اِلَی دَارِ بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَائَ ، وَدَارِ رَافِعٍ مَوْلًی لَہُمْ .وَخَرَجَ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ ، حَتَّی قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ عَمْرٌو : لَا ہُمَّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدَا حِلْفَ أَبِیْنَا وَأَبِیْہَ الْأَتْلَدَا وَالِدًا کُنَّا وَکُنْتَ وَلَدَا ثُمَّۃَ أَسْلَمْنَا فَلَمْ نَنْزِعْ یَدَا فَانْصُرْ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَصْرًا أَعْتَدَا وَادْعُ عِبَادَ اللّٰہِ یَأْتُوْا مَدَدَا فِیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَدْ تَجَرَّدَا اِنْ سِیْمَ خَسْفًا وَجْہُہُ تَرَبَّدَا فِیْ فَیْلَقٍ کَالْبَحْرِ یَأْتِی مُزْبِدَا اِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَنَقَضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا وَجَعَلُوْا لِیْ فِیْ کَدَائَ رُصَّدَا وَزَعَمُوْا أَنْ لَسْتُ أَدْعُو أَحَدًا وَہُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا ہُمْ بَیَّتُوْنَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدَا فَقَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَسُجَّدَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَصَرْتُ بَنِیْ کَعْبٍ .ثُمَّ خَرَجَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ فِیْ نَفَرٍ مِنْ خُزَاعَۃَ حَتَّی قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَأَخْبَرُوْھُ بِمَا أُصِیْبَ مِنْہُمْ وَقَدْ رَجَعُوْا .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَأَنَّکُمْ بِأَبِیْ سُفْیَانَ قَدْ قَدِمَ لِیَزِیْدَ فِی الْعَہْدِ ، وَیَزِیْدَ فِی الْمُدَّۃِ .ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ عَنْ عِکْرَمَۃَ فِیْ طَلَبِ أَبِیْ سُفْیَانَ الْجَوَابَ مِنْ أَبِیْ بَکْرٍ ، وَمِنْ عُمَرَ ، وَمِنْ عَلِی ، وَمِنْ فَاطِمَۃَ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ ، وَجَوَابِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ لَہُ بِمَا أَجَابَہُ فِیْ ذٰلِکَ ، عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، وَلَمْ یَذْکُرْ خَبَرَ أَبِیْ سُفْیَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَا أَمَانَ الْعَبَّاسِ اِیَّاہُ وَلَا اِسْلَامَہٗ، وَلَا بَقِیَّۃَ الْحَدِیْثِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ أَنَّ الصُّلْحَ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَہْلِ مَکَّۃَ ، دَخَلَتْ خُزَاعَۃُ فِیْ صُلْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْحِلْفِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہٗ، وَدَخَلَتْ بَنُوْبَکْرٍ فِیْ صُلْحِ قُرَیْشٍ ، لِلْحِلْفِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہٗ.فَصَارَ حُکْمُ حُلَفَائِ کُلِّ فَرِیْقٍ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِنْ قُرَیْشٍ فِی الصُّلْحِ ، کَحُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحُکْمِ قُرَیْشٍ .وَکَانَ بَیْنَ حُلَفَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ حُلَفَائِ قُرَیْشٍ مِنَ الْقِتَالِ ، مَا کَانَ ، فَکَانَ ذٰلِکَ نَقْضًا مِنْ حُلَفَائِ قُرَیْشٍ لِلصُّلْحِ الَّذِیْ کَانُوْا دَخَلُوْا فِیْہِ، وَخُرُوْجًا مِنْہُمْ بِذٰلِکَ مِنْہُ .فَصَارُوْا بِذٰلِکَ ، حَرْبًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .ثُمَّ أَمَدَّتْ قُرَیْشٌ حُلَفَائَ ہَا ہٰؤُلَائِ بِمَا قَوَّوْہُمْ بِہٖ عَلَی قِتَالِ خُزَاعَۃَ ، حَتَّی قُتِلَ مِنْہُمْ مَنْ قُتِلَ وَقَدْ کَانَ الصُّلْحُ مَنَعَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ .فَکَانَ فِیْمَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ ، نَقْضًا لِلْعَہْدِ ، وَخُرُوْجًا مِنِ الصُّلْحِ ، فَصَارَتْ قُرَیْشٌ بِذٰلِکَ ، حَرْبًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلِأَصْحَابِہٖ .فَقَالَ الْآخَرُوْنَ : وَکَیْفَ یَکُوْنُ بِمَا ذَکَرْتُمْ کَمَا وَصَفْتُمْ ، وَقَدْ رَوَیْتُمْ أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ وَفَدَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ بَعْدَ أَنْ کَانَ بَیْنَ بَنِیْ بَکْرٍ وَبَیْنَ خُزَاعَۃَ مِنَ الْقِتَالِ مَا کَانَ ، وَبَعْدَ أَنْ کَانَ مِنْ قُرَیْشٍ لِبَنِیْ بَکْرٍ مِنَ الْمَعُوْنَۃِ لَہُمْ مَا کَانَ عَلِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَوْضِعِہٖ، فَلَمْ یَصِلْہُ وَلَمْ یَعْرِضْ لَہٗ۔فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ عِنْدَہٗ فِیْ أَمَانِہِ عَلٰی حَالِہٖ ، غَیْرَ خَارِجٍ مِنْہُ مِمَّا کَانَ مِنْ بَنِیْ بَکْرٍ فِیْ قِتَالِ خُزَاعَۃَ ، وَمَا کَانَ مِنْ قُرَیْشٍ فِیْ مَعُوْنَۃِ بَنِیْ بَکْرٍ بِمَا أَعَانُوْھُمْ بِہٖ مِنِ الطَّعَامِ وَالسِّلَاحِ وَالتَّظْلِیْلِ ، غَیْرِ نَاقِضٍ لِأَمَانِہِ بِصُلْحِہِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرَ مُخْرِجٍ لَہٗ مِنْہُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ أَنَّ تَرْکَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّعَرُّضَ لِأَبِیْ سُفْیَانَ ، لَمْ یَکُنْ لِأَنَّ الصُّلْحَ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَبَیْنَ أَہْلِ مَکَّۃَ قَائِمٌ ، وَلٰـکِنَّہٗ تَرَکَہٗ، لِأَنَّہٗ کَانَ وَافِدًا اِلَیْہِ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، طَالِبًا الصُّلْحَ الثَّانِیَ ، سِوَی الصُّلْحِ الْأَوَّلِ ، لِانْتِقَاضِ الصُّلْحِ الْأَوَّلِ ، فَلَمْ یَعْرِضْ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلٍ وَلَا غَیْرِہٖ، لِأَنَّ مِنْ سُنَّۃِ الرُّسُلِ أَنْ لَا یُقْتَلُوْا .
٥٣٢٣: محمد بن مسلم بن شہاب زہری وغیرہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے حدیبیہ والے سال اس شرط پر صلح کی کہ جو قبیلہ چاہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاہدے میں شامل ہوجائے اور جو آدمی چاہے وہ عقد قریش میں داخل ہو۔ تو بنو خزاعہ اور بنو کعب وغیرہ اور ان کے حامی قبائل کود پڑے اور کہنے لگے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد اور عہد میں شامل ہوتے ہیں قریش نے اس معاہدے کی ایک سال اور دوسرے سال کا کچھ حصہ پاسداری کی۔ پھر اسفل مکہ میں بنو بکر نے بنو خزاعہ کے مال پر حملہ کر کے لوٹ لیا۔ زبیر نے کہا ان پر رات کو حملہ کر دو ۔ چنانچہ انھوں نے ان کے ایک آدمی کو مار ڈالا وہ لوگ آگے بڑھے اور باہمی لڑنے لگے۔ قریش نے اسلحہ سے بنو بکر کی امداد کی اور قریش نے خفیہ طور پر تیروں کے ذریعہ لڑائی میں شرکت کی۔ یہاں تک کہ بنو خزاعہ حرم تک پہنچ گئے اس وقت بنو بکر کا سپہ سالار نوفل بن معاویہ تھا۔ جب وہ حرم تک پہنچے تو بنو بکر کہنے لگے اے نوفل۔ ہلاکت سے بچ۔ ہلاکت سے بچ۔ اب ہم حرم میں داخل ہوچکے۔ تو اس نے بڑی بری بات کہی۔ آج اس کا کوئی معبود نہیں۔ اے بنی بکر تم اپنا بدلہ چکاؤ اسلام سے پہلے بنو خزاعہ نے ان کے تین آدمی قتل کئے تھے اور وہ لڑائی سے الگ تھے ان کے نام یہ تھے
نمبر ١ ذویب۔
نمبر ٢ کلثوم۔
نمبر ٣ سلیمان بن اسود بن زریق یعمری۔ اے بنی بکر۔ میری عمر کی قسم ! اگرچہ تم حرم میں پہنچ رہے ہو کیا تم اس میں اپنا بدلہ نہ لو گے ؟ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے بنو خزاعہ کے ایک آدمی کو مقام و تیر میں شب خون مار کر قتل کردیا تھا اس وقت اس کے ساتھ اس کی قوم کا ایک منبّہ نامی آدمی تھا وہ اکیلا آدمی تھا چنانچہ وہ اور تمیم دونوں نکلے۔ منبّہ نے کہا اے تمیم تم اپنے آپ کو بچاؤ‘ اللہ کی قسم ! میں مارا جاؤں گا۔ خواہ وہ مجھے قتل کریں یا اور کچھ۔ تمیم چلا گیا انھوں نے منبّہ کو پا کر قتل کردیا اور تمیم بچ نکلا۔ جب وہ مکہ میں داخل ہوا تو بدیل بن ورقاء اور ان کے غلام رافع سے ملا اور عمرو بن سالم خزاعی وہاں سے نکلا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کھڑا ہوگیا اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے اور اس نے یہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے۔
نمبر 1: اے اللہ ! میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا اور اپنے دادا کا پرانا عہد یاد دلاتا ہوں۔
نمبر 2: ہم تمہارے لیے باپ کی جگہ تھے اور تم بیٹوں کی جگہ بلاشبہ قریش نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا ہے۔
نمبر 3: اور آپ کے پکے وعدے کو توڑ دیا ہے اور انھوں نے میرے لیے بھی مقام کداء میں مورچہ بنایا۔
نمبر 4: اے اللہ کے رسول آپ مضبوط مدد کریں اللہ کے بندوں کو بلاؤ وہ مدد کے لیے آئیں گے۔
نمبر 5: ہم وہاں اسلام لائے اور آج تک بیعت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری مضبوط مدد فرمائیں۔
نمبر 6: اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بلاؤ۔ وہ مدد کے لیے آئیں گے۔
نمبر 7: ان میں اللہ کا رسول ہے جنہوں نے تلوار کو سونتا ہے اگر کسی نے ذلت کا ارادہ کیا تو آپ کا چہرہ محفوظ کردیا جاتا ہے۔
نمبر 8: وہ بہت بڑے لشکر میں ہیں جو جھاگ مارنے والے سمندر کی طرح ہے۔
نمبر 9: اور ان کا خیال یہ تھا کہ میں کسی کو نہ بلاؤں گا حالانکہ وہ زیادہ ذلیل اور عدد میں کم ہیں۔
نمبر 10: تہجد کے وقت مقام و تیر میں انھوں نے ہم پر شب خون مار کر رکوع و سجدہ میں ہمیں قتل کردیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی کعب کی مدد کی جائے گی پھر بدیل بن ورقاء بنو خزاعہ کے ایک وفد کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور اپنے اوپر گزری ہوئی واردات سنا کر واپس آگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس ابو سفیان معاہدے کی طوالت اور مدت میں اضافے کے لیے آئے گا۔ پھر اسی قسم کی روایت بیان کی کہ ابو سفیان نے حضرت ابوبکر ‘ عمر اور علی المرتضیٰ ‘ فاطمہ الزہراء (رض) اجمعین کے ساتھ بات کی اور ان حضرات نے جو جوابات دیئے وہ ذکر کئے۔ ایوب نے اپنی روایت میں ابو سفیان کی عباس (رض) سے گفتگو اور ان امن دینے اور ان کے اسلام لانے کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کا باقی حصہ نقل کیا ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں ‘ ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صلح جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل مکہ میں ہوئی بنو خزاعہ قبیلہ اس میں داخل ہوگیا اس لیے کہ وہ پہلے سے آپ کے حلیف چلے آ رہے تھے اور بنو بکر قریش کی صلح میں شامل ہوگئے کیونکہ ان کے اور قریش کے مابین پہلے سے معاہدہ چلا آ رہا تھا اور ہر فریق کے حلیف کا حکم بھی اصل معاہدہ کرنے والوں جیسا ہوگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلفاء اور قریش کے حلفاء میں لڑائی ہوگئی اس سے حلفاء قریش اس معاہدے سے خارج ہوگئے اس سے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کے خلاف لڑنے والے بن گئے پھر اس سے بڑھ کر قریش نے اپنے حلفاء کی امداد کر کے ان کو بنو خزاعہ کے قتل کے لیے تقویت پہنچائی اور ان کے کئی آدمی مقتول ہوئے حالانکہ صلح اس کے لیے رکاوٹ تھی۔ پس ان کی یہ حرکت بھی نقص عہد تھا اور صلح سے نکلنا تھا اس سے قریش بھی آپ کے اور اصحاب کے محارب بن گئے۔ جو تم نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ابو سفیان جبکہ ابو سفیان مدینہ منورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور یہ حاضری بنو بکر و بنو خزاعہ کی لڑائی کے بعد تھی اور قریش اس سے قبل بنو بکر کی مدد کرچکے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابو سفیان کی اس حالت کا علم تھا مگر اس کے باوجود نہ تو آپ نے صلہ رحمی فرمائی اور نہ ہی اس پر تعرض فرمایا تو کیا یہ اس بات کی کھلی دلیل نہیں کہ آپ کے نزدیک وہ امان میں تھا بنو بکر و بنو خزاعہ کی لڑائی کی وجہ سے وہ امان سے خارج نہ ہوا تھا اور قریش نے بنو بکر کی اسلحہ اور کھانے سے جو معاونت کی تھی اس کے باوجود وہ صلح ختم نہ ہوئی تھی۔ جو ان کے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ہوئی تھی اور نہ وہ اس سے خارج ہوئے تھے۔ فریق اوّل کا کہنا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابو سفیان سے تعرض نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ جو صلح آپ کے اور مکہ والوں کے درمیان ہوئی تھی وہ باقی تھی بلکہ آپ کے چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کی خدمت میں تجدید صلح کے لیے آیا تھا۔ کیونکہ پہلی صلح ٹوٹ چکی تھی (جیسا کہ روایات میں یہ بات واضح ہے) اس کی آمد کی غرض سے آپ نے بذریعہ وحی پہلے مطلع کیا) باقی قتل کے لیے تعرض نہ کرنے کی وجہ صلح کا نہ ٹوٹنا نہیں بلکہ یہ وجہ تھی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔ جیسا مندرجہ ذیل روایت اس کی شاہد ہے۔
نوٹ : ان اشعار کو بیروت ‘ رحمانیہ کے نسخوں میں قدیمی کتب خانہ کے نسخہ سے مختلف نقل کیا گیا ہے ‘ ہم نے تمام کا ترجمہ کردیا ۔
(مترجم)

5325

۵۳۲۴ : ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ مَالِکُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ وَائِلٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ مُعِیْرٍ السَّعْدِیُّ ، قَالَ : خَرَجْتُ أَسْتَبِقُ فَرَسًا لِیْ بِالشَّجَرِ ، فَمَرَرْتُ عَلَی مَسْجِدٍ مِنْ مَسَاجِدِ بَنِیْ حَنِیْفَۃَ ، فَسَمِعْتُہُمْ یَشْہَدُوْنَ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَرَجَعْتُ اِلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَذَکَرْتُ لَہٗ أَمْرَہُمْ ، فَبَعَثَ الشُّرَطَ فَأَخَذُوْھُمْ ، وَجِیْئَ بِہِمْ اِلَیْہِ، فَتَابُوْا وَرَجَعُوْا عَمَّا قَالُوْا ، وَقَالُوْا لَا نَعُوْدُ ، فَخَلَّیْ سَبِیْلَہُمْ .وَقَدِمَ رَجُلًا مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ النَّوَّاحَۃِ ، فَضَرَبَ عُنُقَہُ فَقَالَ النَّاسُ : أَخَذْت قَوْمًا فِیْ أَمْرٍ وَاحِدٍ ، فَخَلَّیْتُ سَبِیْلَ بَعْضِہِمْ ، وَقَتَلْتُ بَعْضَہُمْ .فَقَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فَجَائَ ہُ ابْنُ النَّوَّاحَۃِ وَرَجُلٌ مَعَہُ یُقَالُ لَہُ ابْنُ وَثَّالِ بْنِ حَجَرٍ ، وَافِدَیْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَیْلِمَۃَ .فَقَالَ لَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَشْہَدَانِ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہٖ؟ فَقَالَا : أَتَشْہَدُ أَنْتَ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُوْلُ اللّٰہٖ؟ فَقَالَ آمَنْتُ بِاَللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ ، لَوْ کُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا ، لَقَتَلْتُکُمَا فَلِذٰلِکَ قَتَلْتَ ہٰذَا .
٥٣٢٤: ابو وائل نے ابن معیر سعدی سے روایت کی ہے کہ میں مقام شجرہ میں اپنے گھوڑے کو دوڑ لگوانے کے لیے نکلا ‘ میرا گزر بنو حنیفہ کی ایک مسجد کے پاس سے ہوا میں نے سنا کہ وہ یہ گواہی دے رہے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ میں اسی دم حضرت ابن مسعود (رض) کی طرف لوٹ کر آیا اور میں نے ان کا معاملہ ان کے سامنے رکھا انھوں نے پولیس بھیج کر ان کو گرفتار کرا لیا اور ان کو ابن مسعود (رض) کے سامنے لایا گیا (ترغیب دلانے پر) انھوں نے توبہ کر کے اپنی بات سے رجوع کیا اور انھوں نے وعدہ کیا کہ ہم دوبارہ یہ حرکت نہ کریں گے آپ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔ ان میں ایک آدمی آیا جس کو عبداللہ بن نواحہ کہتے تھے چنانچہ اس کی گردن اڑا دی گئی تو لوگ کہنے لگے تم نے ایک گروہ کو ایک ہی معاملے میں پکڑا اور ان میں سے بعض کو جانے دیا اور بعض کو قتل کردیا (یہ تفاوت کیوں ؟ ) تو آپ نے فرمایا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ابن النواحہ آپ کی خدمت میں آیا اور اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو ابن وثال بن حجر کے نام سے پکارا جاتا تھا یہ دونوں مسیلمہ کی طرف سے وفد بن کر آئے تھے۔ ان دونوں کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم میری رسالت کی گواہی دیتے ہو ؟ دونوں کہنے لگے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے ؟ آپ نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہوں اگر میں وفد کو قتل کرتا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کردیتا تو اس شخص کو میں نے اسی وجہ سے قتل کیا ہے۔
تخریج : دارمی فی السیر باب ٦٠‘ مسند احمد ١؍٤٠٤۔

5326

۵۳۲۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَشَجِّ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ أَقْبَلَ بِکِتَابٍ مِنْ قُرَیْشٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : فَلَمَّا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُلْقِیَ فِیْ قَلْبِی الْاِسْلَامُ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ وَاللّٰہِ لَا أَرْجِعُ اِلَیْہِمْ أَبَدًا .رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَا اِنِّیْ لَا أَخِیسُ بِالْعَہْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرْدَ ، وَلٰـکِنْ ارْجِعْ ، فَاِنْ کَانَ فِیْ قَلْبِکَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِکَ الْآنَ فَارْجِعْ .قَالَ : فَرَجَعْتُ ثُمَّ أَقْبَلْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَسْلَمْتُ. قَالَ بُکَیْر : وَأَخْبَرَنِیْ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ کَانَ قِبْطِیًّا .
٥٣٢٥: حسن بن علی بن ابی رافع نے بیان کیا کہ مجھے ابو رافع نے بتلایا کہ میں قریش کی طرف سے ایک خط لے کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام ڈال دیا گیا تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو کبھی قریش کی طرف لوٹ کر نہ جاؤں گا۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ قاصدوں کو روکتا ہوں لیکن تم لوٹ کر جاؤ۔ اگر تیرے دل میں وہی رہے جو تیرے دل میں اب ہے تو واپس لوٹ آؤ۔ ابو رافع کا بیان ہے کہ میں واپس لوٹ آیا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا۔
بکیر راوی کا بیان ہے کہ یہ ابو رافع قبطی (مصری) قوم سے تعلق رکھتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٥١‘ مسند احمد ٦؍٨۔
لغات : اخبس۔ توڑنا۔ البرد۔ قاصد ‘ ڈاک۔

5327

۵۳۲۶ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ کُرَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ ، عَنْ مَسْلَمَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ جَائَ ہٗ رَسُوْلُ مُسَیْلِمَۃَ بِکِتَابِہٖ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَہُمَا : وَأَنْتُمَا تَقُوْلَانِ مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ؟ فَقَالَا : نَعَمْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَا لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ ، لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی خُرُوْجِ أَہْلِ مَکَّۃَ مِنِ الصُّلْحِ ، بِمَا کَانَ بَیْنَ بَنِیْ بَکْرٍ وَبَیْنَ خُزَاعَۃَ ، وَبِمَا کَانَ مِنْ مَعُوْنَۃِ قُرَیْشٍ لِبَنِیْ بَکْرٍ فِیْ ذٰلِکَ ، طَلَبُ أَبِیْ سُفْیَانَ تَجْدِیْدَ الْحِلْفِ ، وَتَوْکِیدَ الصُّلْحِ عِنْدَ سُؤَالِ أَہْلِ مَکَّۃَ اِیَّاہُ ذٰلِکَ .وَلَوْ کَانَ الصُّلْحُ لَمْ یَنْتَقِضْ ، اِذًا لَمَا کَانَ بِہِمْ اِلَی ذٰلِکَ حَاجَۃٌ ، وَلَکَانَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَعَلِیٌّ ، وَفَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَا سَأَلَہُمْ أَبُوْ سُفْیَانَ مَا سَأَلَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ یَقُوْلُوْنَ : مَا حَاجَتُکَ وَحَاجَۃُ أَہْلِ مَکَّۃَ اِلَی ذٰلِکَ ؟ اِنَّہُمْ جَمِیْعًا فِیْ صُلْحٍ وَفِیْ أَمَانٍ ، لَا تَحْتَاجُوْنَ مَعَہُمَا اِلَی غَیْرِہِمَا .ثُمَّ ہَذَا عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ ، وَاحِدُ خُزَاعَۃَ ، یُنَاشِدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا مِنْ مُنَاشَدَتِہِ اِیَّاہٗ، فِیْ حَدِیْثِ عِکْرَمَۃَ ، وَالزُّہْرِیِّ ، وَسَأَلَہُ فِیْ ذٰلِکَ النَّصْرَ وَیَقُوْلُ فِیْمَا یُنَاشِدُہُ مِنْ ذٰلِکَ : اِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَنَقَضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ ثُمَّ کَشَفَ لَہُ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ الْمَعْنَی الَّذِی بِہٖ کَانَ نَقْضُ قُرَیْشٍ ، مَا کَانُوْا عَاہَدُوْھُ عَلَیْہِ، وَوَافَقُوْھُ بِأَنْ قَالَ : وَہُمْ أَتَوْنَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدَا فَقَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَسُجَّدَا وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْ ذٰلِکَ أَحَدًا غَیْرَ قُرَیْشٍ ، مِنْ بَنِیْ نُفَاثَۃَ ، وَلَا مِنْ غَیْرِہِمْ .ثُمَّ أَنْشَدَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ فِی الشِّعْرِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عَنْہُ، فِیْ حَدِیْثِ عِکْرَمَۃَ ، الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرَہُ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ فِی الشِّعْرِ الَّذِیْ نَاشَدَ بِہٖ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ رِجَالَ بَنِیْ کَعْبٍ ، أَصَابَہُمْ مِنْ نَقْضِ قُرَیْشٍ الَّذِی بِہٖ خَرَجُوْا مِنْ عَہْدِہِمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ ، أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ : أَتَانِیْ وَلَمْ أَشْہَدْ بِبَطْحَائِ مَکَّۃ رِجَالَ بَنِیْ کَعْبٍ تُحَزُّ رِقَابُہَا ثُمَّ ذَکَرَ مَا بَیَّنَّاہُ لِمَنْ کَانَ سَبَبًا مِنْ ذٰلِکَ قُرَیْشٌ وَرِجَالُہَا فَقَالَ : فَیَا لَیْتَ شِعْرِیْ ہَلْ لَنَا لِزُمْرَۃٍ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو حَوْلُہَا وَعِتَابُہَا وَسُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو ، ہُوَ کَانَ أَحَدَ مَنْ عَاقَدَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصُّلْحَ .فَأَمَّا مَا ذُکِرَ لَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا افْتَتَحَہَا ، لَمْ یَقْسِمْ مَالًا ، وَلَمْ یَسْتَعْبِدْ أَحَدًا ، وَلَمْ یَغْنَمْ أَرْضًا ، فَکَیْفَ یَسْتَعْبِدُ قَدْ مَنَّ عَلَیْہِ فِیْ دَمِہٖ وَمَالِہٖ .فَأَمَّا أَرْضُ مَکَّۃَ ، فَاِنَّ النَّاسَ قَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْ تَرْکِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّعَرُّضَ لَہَا .فَمَنْ یَذْہَبُ اِلٰی أَنَّہٗ افْتَتَحَہَا عَنْوَۃً فَقَالَ : تَرَکَہَا مِنَّۃً عَلَیْہِمْ ، کَمِنَّتِہِ عَلَیْہِمْ فِیْ دِمَائِہِمْ ، وَفِیْ سَائِرِ أَمْوَالِہِمْ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ ، لِأَنَّہٗ کَانَ یَذْہَبُ اِلٰی أَنَّ أَرْضَ مَکَّۃَ ، تَجْرِیْ عَلَیْہَا الْأَمْلَاکُ ، کَمَا تَجْرِیْ عَلٰی سَائِرِ الْأَرْضِیْنَ .وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَمْ تَکُنْ أَرْضُ مَکَّۃَ مِمَّا وَقَعَتْ عَلَیْہِ الْغَنَائِمُ ، لِأَنَّ أَرْضَ مَکَّۃَ عِنْدَہُمْ ، لَا تَجْرِیْ عَلَیْہَا الْأَمْلَاکُ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ الْآثَارَ الَّتِیْ رَوَاہَا کُلُّ فَرِیْقٍ ، مِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃُ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ، فِیْ کِتَابِ الْبُیُوْعِ ، مِنْ شَرْحِ مَعَانِی الْآثَارِ الْمُخْتَلِفَۃِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَحْکَامِ فَأَغْنَانَا ذٰلِکَ عَنْ اِعَادَتِہِ ہٰہُنَا .ثُمَّ رَجَعَ الْکَلَامُ اِلَی مَا یُثْبِتُ أَنَّ مَکَّۃَ فُتِحَتْ عَنْوَۃً .فَاِنْ قُلْتُمْ اِنَّ حَدِیْثَیْ الزُّہْرِیِّ وَعِکْرَمَۃَ اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَا ، مُنْقَطِعَانِ .قِیْلَ لَکُمْ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَدِیْثٌ یَدُلُّ عَلٰی مَا رَوَیْنَاہُ .
٥٣٢٦: مسلمہ بن نعیم نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت موجود تھا جبکہ آپ کے پاس مسیلمہ کا قاصد خط لے کر آیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو فرمایا کیا تم دونوں اسی طرح کہتے ہو جیسے وہ کہتا ہے ؟ انھوں نے ہاں کہہ کر اقرار کیا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہ قاعدہ نہ ہوتا کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا۔ بنو بکر اور بنو خزاعہ کے باہمی پیش آنے والے قتال سے اہل مکہ کے صلح سے نکل جانے کی دلیل ہے۔
نمبر ١ قریش نے بنو بکر کی مدد کی۔
نمبر ٢ ابو سفیان نے تجدید معاہدہ کی درخواست کی اور جب اہل مکہ سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے اس کو صلح کی تاکید قرار دیا۔ اگر صلح ٹوٹی نہ تھی تو قریش کو اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
نمبر 3: اور دوسری طرف حضرت ابوبکر ‘ عمر ‘ علی ‘ فاطمہ (رض) اجمعین سے ابو سفیان ہرگز اس کا سوال نہ کرتا جبکہ انھوں نے یہی جواب دیا کہ جب وہ صلح وامان میں ہیں تو مزید صلح وامان کی چنداں ضرورت نہیں۔
نمبر 4: نیز یہ عمرو بن سالم خزاعی قسم دے کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کرتا ہے جیسا عکرمہ زہری کی روایت میں موجود ہے اور آپ سے مدد کا سوالی ہے یاددہانی کا ایک شعر یہ ہے۔ ان قریشا اخلفوک الموعدا۔ ونقضوا میثاقک المؤکدا ۔ اس شعر کو سن کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذرا انکار نہیں فرمایا۔ پھر عمر بن سالم قریش کے عہد توڑنے کی وضاحت کرتا ہے کہ قریش نے جس بات پر معاہدہ کیا تھا اسی کو توڑ ڈالا۔ شعر یہ ہے۔ وہم اتونا بالوتیر ہجدا۔ فقتلونا رکعا سجدا۔ اور اس شعر میں قریش کے علاوہ بنو نفاثہ وغیرہ کسی کا تذکرہ نہیں کیا۔
نمبر 5: پھر حضرت حسان بن ثابت (رض) نے روایت عکرمہ میں وہی مفہوم ذکر کیا جو عمرو بن سالم خزاعی نے اپنے شعر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد دلایا۔ اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ بنو کعب کے لوگوں کو قریش کا عہد توڑنا پہنچا جس کی وجہ سے بطن مکہ میں معاہدے سے نکل گئے حضرت حسان (رض) فرماتے ہیں اتانی ولہو اشہد ببطحاء مکہ۔ رجال بنی کعب تحزرقابہا۔
نمبر 6: پھر حضرت حسان قریش اور اس کے لوگوں کا تذکرہ کیا جو اس کا باعث بنے فیالیت شعری ہل لنا لزمرۃ۔ سہیل بن عمرو حولہا وعقابھا۔ بعض نے ہل لنالزمرۃ کی بجائے تنالن نصرتی ذکر کیا اور حولہا کی بجائے حرھا ذکر کیا۔ مطلب یہ ہے کاش سہیل بن عمرو کے گروہ کو معلوم ہوجاتا کہ ہمارے لیے ان پر قابو اور سزا دینے کا اختیار ہے یا کاش مجھے معلوم ہوجاتا کہ میری مدد کا جذبہ و جوش سہیل بن عمرو کو پہنچ جائے گا اور سہیل بن عمرو وہ شخص ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاہدہ میں ان کی طرف سے پیش پیش تھا۔ باقی یہاں یہ سوال کہ مکہ کو فتح کیا تو مال غنیمت نہ لیا نہ کسی کو غلام بنایا نہ زمین کو غنیمت کا مال قرار دیا۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ لوگوں کو کس طرح غلام بنا سکتے تھے۔ جبکہ آپ ان کے اموال و خون کے سلسلہ میں احسان کر کے امان دے چکے تھے۔ رہا زمین مکہ کا معاملہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس پر تعرض نہ فرمانے کی وجہ جان و مال کی طرح اس کو بھی امان دے دی تھی۔
نمبر ٢ سر زمین مکہ ان زمینوں میں شامل ہی نہیں کہ جن کو بطور غنیمت لیا جاتا ہے گویا یہ مستثنیٰ ہے۔ (واللہ اعلم) قول اوّل : کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین میں ملکیت جاری ہوگی جیسا کہ بقیہ تمام زمینوں میں جاری ہوتی ہے یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ قول ثانی : سرزمین مکہ ان زمینوں میں شامل نہیں جن پر غنائم کا حکم جاری ہو۔ کیونکہ سرزمین مکہ کا کوئی مالک نہیں یہ امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری (رح) کا مؤقف ہے۔ کتاب البیوع میں اس کا تذکرہ تفصیل سے آئے گا۔ اب دوبارہ فتح مکہ پر غلبہ کی نوعیت کی طرف بات لوٹ آئی ہے۔ آپ نے جو روایات اس سلسلہ میں ذکر کی ہیں وہ دونوں ہی منقطع ہیں جن سے احتجاج ہی درست نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٥٤‘ دارمی فی السیر باب ٥٩۔
ایک ضمنی مسئلہ
مکہ کی زمین کا حکم کیا ہے ؟
قول اوّل : کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین میں ملکیت جاری ہوگی جیسا کہ بقیہ تمام زمینوں میں جاری ہوتی ہے یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
قول ثانی : سرزمین مکہ ان زمینوں میں شامل نہیں جن پر غنائم کا حکم جاری ہو۔ کیونکہ سرزمین مکہ کا کوئی مالک نہیں یہ امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری (رح) کا مؤقف ہے۔
ایک سرسری سوال :
آپ نے جو روایات اس سلسلہ میں ذکر کی ہیں وہ دونوں ہی منقطع ہیں جن سے احتجاج ہی درست نہیں۔
جواب : حضرت ابن عباس (رض) سے بھی ایسی روایات منقول ہیں جو اس پر دلالت کرنے والی ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

5328

۵۳۲۷ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ الزُّہْرِیُّ حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَضَی لِسَفْرَۃٍ وَخَرَجَ لِعَشْرٍ مَضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ ، فَصَامَ وَصَامَ النَّاسُ مَعَہٗ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِالْکَدِیْدِ أَفْطَرَ ثُمَّ مَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حَتّٰی نَزَلَ مَرَّ الظَّہْرَانِ فِیْ عَشَرَۃِ آلَافٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَسَمِعَتْ سُلَیْمٌ وَمُزَیْنَۃُ .فَلَمَّا نَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّہْرَانِ ، وَقَدْ عَمِیَتِ الْأَخْبَارُ عَلٰی قُرَیْشٍ ، فَلَا یَأْتِیہِمْ خَبَرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا یَدْرُوْنَ مَا ہُوَ فَاعِلٌ ، وَخَرَجَ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ أَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ ، وَحَکِیْمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ ، یَنْظُرُوْنَ ہَلْ یَجِدُوْنَ خَیْرًا ، أَوْ یَسْمَعُوْنَہٗ.فَلَمَّا نَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّہْرَانِ ، قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قُلْتُ : وَاصَبَاحَ قُرَیْشٍ ، لَئِنْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ عَنْوَۃً قَبْلَ أَنْ یَأْتُوْھُ فَیَسْتَأْمِنُوْھُ ، اِنَّہٗ لَہَلَاکُ قُرَیْشٍ اِلٰی آخِرِ الدَّہْرِ .قَالَ : فَجَلَسْتُ عَلَی بَغْلَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیْضَائِ ، فَخَرَجْتُ عَلَیْہَا حَتَّی دَخَلْتُ الْأَرَاکَ ، فَلَقِیَ بَعْضَ الْحَطَّابَۃِ ، أَوْ صَاحِبَ لَبَنٍ ، أَوْ ذَا حَاجَۃٍ یَأْتِیہِمْ ، یُخْبِرُہُمْ بِمَکَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَخْرُجُوْا اِلَیْہِ .قَالَ : فَاِنِّیْ لَأُشِیْرُ عَلَیْہِ، وَأَلْتَمِسُ مَا خَرَجْتُ لَہٗ، اِذْ سَمِعْتُ کَلَامَ أَبِیْ سُفْیَانَ وَبُدَیْلٍ ، وَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ ، وَأَبُوْ سُفْیَانَ یَقُوْلُ : مَا رَأَیْتُ کَاللَّیْلَۃِ نِیْرَانًا قَطُّ وَلَا عَسْکَرًا .قَالَ بُدَیْلٌ : ہٰذِہٖ، وَاللّٰہِ خُزَاعَۃُ حَمَشَتْہَا الْحَرْبُ .فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : خُزَاعَۃُ وَاللّٰہِ، أَذَلُّ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ ہٰذِہِ نِیْرَانَہُمْ .فَعَرَفْتُ صَوْتَ أَبِیْ سُفْیَانَ ، فَقُلْتُ : یَا أَبَا حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : فَعَرَفَ صَوْتِیْ فَقَالَ : أَبُو الْفَضْلِ ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : مَا لَکَ فِدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ؟ قَالَ قُلْتُ : وَیْلَکَ ، ہٰذَا، وَاللّٰہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِی النَّاسِ ، وَاصَبَاحَ قُرَیْشٍ وَاللّٰہِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ عَنْوَۃً قَبْلَ أَنْ یَأْتُوْھُ فَیَسْتَأْمِنُوْھُ ، اِنَّہٗ لَہَلَاکُ قُرَیْشٍ اِلٰی آخِرِ الدَّہْرِ .قَالَ : فَمَا الْحِیْلَۃُ ، فِدَاک أَبِیْ وَأُمِّیْ؟ قَالَ قُلْتُ : لَا وَاللّٰہِ اِلَّا أَنْ تَرْکَبَ فِیْ عَجُزِ ہٰذِہِ الدَّابَّۃِ فَآتِیَ بِک رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنَّہٗ وَاللّٰہِ لَئِنْ ظَفِرَ بِکَ، لِیَضْرِبَنَّ عُنُقَکَ .قَالَ : فَرَکِبَ فِیْ عَجُزِ الْبَغْلَۃِ ، وَرَجَعَ صَاحِبَاہُ .قَالَ : وَکُلَّمَا مَرَرْتُ بِنَارٍ مِنْ نِیْرَانِ الْمُسْلِمِیْنَ قَالُوْا : مَنْ ہَذَا ؟ فَاِذَا نَظَرُوْا ، قَالُوْا : عَمُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بَغْلَتِہِ حَتَّی مَرَرْتُ بِنَارِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ وَقَامَ اِلَیَّ ، فَلَمَّا رَآہٗ عَلَی عَجُزِ الدَّابَّۃِ ، عَرَفَہُ وَقَالَ : أَبُوْ سُفْیَانَ عَدُوُّ اللّٰہٖ؟ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَمْکَنَ مِنْک .وَخَرَجَ یَشْتَدُّ نَحْوَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَکَضْتُ الْبَغْلَۃَ فَسَبَقْتُہٗ، کَمَا تَسْبِقُ الدَّابَّۃُ الْبَطِیْئَۃُ الرَّجُلَ الْبَطِیْئَ ، ثُمَّ اقْتَحَمْتُ عَنِ الْبَغْلَۃِ وَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَجَائَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَدَخَلَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہَذَا أَبُوْ سُفْیَانَ ، قَدْ أَمْکَنَ اللّٰہُ مِنْہُ بِلَا عَقْدٍ وَلَا عَہْدٍ ، فَدَعْنِیْ فَأَضْرِبْ عُنُقَہُ .قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ قَدْ أَجَرْتُہُ .قَالَ : ثُمَّ جَلَسْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَخَذْتُ بِرَأْسِہِ فَقُلْتُ : وَاللّٰہِ لَا یُنَاجِیْہِ رَجُلٌ دُوْنِی .قَالَ : فَلَمَّا أَکْثَرَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ شَأْنِہٖ، فَقُلْتُ : مَہْلًا یَا عُمَرُ وَاللّٰہِ لَوْ کَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ عَدِیِّ بْنِ کَعْبٍ مَا قُلْتَ ہٰذَا، وَلٰـکِنْ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّہٗ رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ .قَالَ فَقَالَ : مَہْلًا یَا عَبَّاسُ لَاِسْلَامُکَ یَوْمَ أَسْلَمْتَ ، کَانَ أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ اِسْلَامِ الْخَطَّابِ وَمَا لِیْ اِلَّا أَنِّیْ قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ اِسْلَامَکَ کَانَ أَحَبَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اِسْلَامِ الْخَطَّابِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اذْہَبْ بِہٖ اِلٰی رَحْلِکَ فَاِذَا أَصْبَحْتَ فَأْتِنَا بِہٖ .قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ بِہٖ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَآہٗ قَالَ وَیْحَک یَا أَبَا سُفْیَانَ ، أَلَمْ یَأْنِ لَکَ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہٗ؟ .قَالَ : بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّی فَمَا أَحْلَمَکَ وَأَکْرَمَکَ وَأَوْصَلَکَ ، أَمَا وَاللّٰہِ لَقَدْ کَادَ یَقَعُ فِیْ نَفْسِی أَنْ لَوْ کَانَ مَعَ اللّٰہِ غَیْرُہُ لَقَدْ أَغْنَیْ شَیْئًا بَعْدُ .وَقَالَ : وَیْلَکَ یَا أَبَا سُفْیَانَ أَلَمْ یَأْنِ لَکَ أَنْ تَشْہَدَ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہٖ؟ .قَالَ : بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّی مَا أَحْلَمَکَ وَأَکْرَمَکَ وَأَوْصَلَکَ أَمَا وَاللّٰہِ ہٰذِہِ فَاِنَّ فِی النَّفْسِ مِنْہَا حَتَّی الْآنَ شَیْئًا .قَالَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : قُلْتُ : وَیْلَکَ أَسْلِمْ وَاشْہَدْ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ قَبْلَ أَنْ یُضْرَبَ عُنُقُکَ .قَالَ : فَشَہِدَ شَہَادَۃَ الْحَقِّ وَأَسْلَمَ .قَالَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ یُحِبُّ ہٰذَا الْفَخْرَ فَاجْعَلْ لَہُ شَیْئًا .قَالَ نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَیْہِ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ .فَلَمَّا ذَہَبْتُ لِأَنْصَرِفَ قَالَ یَا عَبَّاسُ احْبِسْہُ بِمَضِیْقِ الْوَادِیْ عِنْدَ حَطِیْمِ الْجُنْدِ حَتّٰی یَمُرَّ بِہٖ جُنُوْدُ اللّٰہِ فَیَرَاہَا .قَالَ : فَحَبَسْتُہُ حَیْثُ أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَمَرَّتْ بِہٖ الْقَبَائِلُ عَلٰی رَایَاتِہَا بِہَا فَکُلَّمَا مَرَّتْ قَبِیْلَۃٌ قَالَ : مَنْ ہٰذِہٖ؟ قُلْتُ : بَنُو سُلَیْمٍ قَالَ : یَقُوْلُ : مَا لِیْ وَلِبَنِیْ سُلَیْمٍ ثُمَّ تَمُرُّ بِہٖ قَبِیْلَۃٌ فَیَقُوْلُ : مَنْ ہٰذِہِ فَأَقُوْلُ : مُزَیْنَۃُ فَقَالَ : مَا لِیْ وَلِمُزَیْنَۃَ .حَتّٰی نَفِدَتِ الْقَبَائِلُ لَا تَمُرُّ بِہٖ قَبِیْلَۃٌ اِلَّا سَأَلَنِیْ عَنْہَا فَأُخْبِرُہُ اِلَّا قَالَ : مَا لِیْ وَلِبَنِیْ فُلَانٍ . حَتَّی مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْخَضْرَائِ کَتِیْبَۃٍ فِیْہَا الْمُہَاجِرُوْنَ ، وَالْأَنْصَارُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ لَا یُرَی مِنْہُمْ اِلَّا الْحَدَقُ فِی الْحَدِیْدِ .فَقَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ مَنْ ہٰؤُلَائِ یَا عَبَّاسُ ؟ قُلْتُ : ہَذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُہَاجِرِیْنَ ، وَالْأَنْصَارِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .فَقَالَ : مَا لِأَحَدٍ بِہٰؤُلَائِ قِبَلٌ وَاللّٰہِ یَا أَبَا الْفَضْلِ لَقَدْ أَصْبَحَ مُلْکُ ابْنِ أَخِیْکَ الْغَدَاۃَ عَظِیْمًا .قَالَ : قُلْتُ : وَیْلَکَ یَا أَبَا سُفْیَانَ اِنَّہَا النُّبُوَّۃُ قَالَ : فَنَعَمْ .قَالَ : قُلْتُ الْتَجِئْ اِلَی قَوْمِکَ اُخْرُجْ اِلَیْہِمْ ، حَتّٰی اِذَا جَائَ ہُمْ صَرَخَ بِأَعْلَیْ صَوْتِہِ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ہَذَا مُحَمَّدٌ قَدْ جَائَ کُمْ فِیْمَا لَا قِبَلَ لَکُمْ بِہٖ فَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ .فَقَامَتْ اِلَیْہِ ہِنْدُ بِنْتُ عُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ فَأَخَذَتْ شَارِبَہُ فَقَالَتْ : اُقْتُلُوْا الدَّہْمَ الْأَحْمَسَ فَبِئْسَ طَلِیْعَۃُ قَوْمٍ .قَالَ : وَیْلَکُمْ لَا تَغُرَّنَّکُمْ ہٰذِہِ مِنْ أَنْفُسِکُمْ وَاِنَّہٗ قَدْ جَائَ مَا لَا قِبَلَ لَکُمْ بِہٖ مَنْ دَخَلَ دَارِ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ .قَالُوْا : قَاتَلَکَ اللّٰہُ وَمَا یُغْنِیْ غَنَائَ دَارِکَ قَالَ : وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَیْہِ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ .فَہٰذَا حَدِیْثٌ مُتَّصِلُ الْاِسْنَادِ صَحِیْحٌ مَا فِیْہِ مَعْنًیْ یَدُلُّ عَلَی فَتْحِ مَکَّۃَ عَنْوَۃً وَیَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ صُلْحًا وَیُثْبِتُ أَنَّ الْہُدْنَۃَ الَّتِیْ کَانَتْ تَقَدَّمَتْ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ قُرَیْشٍ قَدْ کَانَتْ انْقَطَعَتْ وَذَہَبَتْ قَبْلَ وُرُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ .أَلَا یَرَیْ اِلَی قَوْلِ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَاصَبَاحَ قُرَیْشٍ وَاللّٰہِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ عَنْوَۃً قَبْلَ أَنْ یَأْتُوْھُ فَیَسْتَأْمِنُوْھُ اِنَّہٗ لَہَلَاکُ قُرَیْشٍ اِلٰی آخِرِ الدَّہْرِ .أَفَتَرَی الْعَبَّاسَ - عَلَی فَضْلِ رَأْیِہِ وَعَقْلِہِ - یَتَوَہَّمُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَرَّضُ قُرَیْشًا وَہُمْ مِنْہُ فِیْ أَمَانٍ وَصُلْحٍ وَہُدْنَۃٍ ؟ ہَذَا مِنَ الْمُحَالِ الَّذِی لَا یَجُوْزُ کَوْنُہُ وَلَا یَنْبَغِیْ لِذِی لُب أَوْ لِذِیْ عَقْلٍ أَوْ لِذِی دِیْنٍ أَنْ یَتَوَہَّمَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ .ثُمَّ ہٰذَا الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ خَاطَبَ أَبَا سُفْیَانَ بِذٰلِکَ فَقَالَ وَاللّٰہِ لَئِنْ ظَفِرَ بِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَقْتُلَنَّکَ وَاللّٰہِ اِنَّہٗ لَہَلَاکُ قُرَیْشٍ اِنْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ عَنْوَۃً .فَلَا یَدْفَعُ أَبُوْ سُفْیَانَ قَوْلَہُ وَلَا یَقُوْلُ لَہُ وَمَا خَوْفِیْ وَخَوْفِ قُرَیْشٍ مِنْ دُخُوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ وَنَحْنُ فِیْ أَمَانٍ مِنْہٗ؟ اِنَّمَا یَقْصِدُ بِدُخُوْلِہِ أَنْ یَنْتَصِفَ خُزَاعَۃَ مِنْ بَنِیْ نُفَاثَۃَ دُوْنَ قُرَیْشٍ وَسَائِرِ أَہْلِ مَکَّۃَ .وَلَمْ یَقُلْ لَہٗ أَبُوْ سُفْیَانَ وَلِمَ یَضْرِبُ عُنُقِیْ؟ اِذْ قَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَاللّٰہِ لَئِنْ ظَفِرَ بِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَضْرِبَنَّ عُنُقَکَ وَأَنَا فِیْ أَمَانٍ مِنْہُ .ثُمَّ ہَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - لَمَّا رَأَی أَبَا سُفْیَانَ - یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ہَذَا أَبُوْ سُفْیَانَ قَدْ أَمْکَنَ اللّٰہُ مِنْہُ بِلَا عَہْدٍ وَلَا عَقْدٍ فَدَعْنِیْ أَضْرِبْ عُنُقَہُ .وَلَمْ یُنْکِرْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ اِذْ کَانَ أَبُوْ سُفْیَانَ - عِنْدَہُ - لَیْسَ فِیْ أَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا فِیْ صُلْحٍ مِنْہُ .ثُمَّ لَمْ یُحَاجَّ أَبُوْ سُفْیَانَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذٰلِکَ وَلَا حَاجَّہُ عَنْہُ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَلْ قَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنِّیْ قَدْ أَجَرْتُہُ .فَلَمْ یُنْکِرْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی عُمَرَ وَلَا عَلَی الْعَبَّاسِ مَا کَانَ مِنْہُمَا مِنَ الْقَوْلِ الَّذِی ذَکَرْنَاہُ عَنْہُمَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْلَا جِوَارُ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذًا لَمَا مَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْمَا أَرَادَ مِنْ قَتْلِ أَبِیْ سُفْیَانَ .فَأَیُّ خُرُوْجٍ مِنِ الصُّلْحِ مُنْعَدِمٍ ؟ وَأَیُّ نَقْضٍ لَہُ یَکُوْنُ أَبْیَنَ مِنْ ہٰذَا ؟ ثُمَّ أَبُوْ سُفْیَانَ لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ بَعْدَ ذٰلِکَ نَادَی بِأَعْلَیْ صَوْتِہِ بِمَا جَعَلَہُ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ .وَلَمْ یَقُلْ لَہُ قُرَیْشٌ وَمَا حَاجَتُنَا اِلَی دُخُوْلِنَا دَارَکَ وَاِلَیْ اِغْلَاقِنَا أَبْوَابِنَا وَنَحْنُ فِیْ أَمَانٍ قَدْ أَغْنَانَا عَنْ طَلَبِ الْأَمَانِ بِغَیْرِہٖ۔ وَلٰـکِنَّہُمْ عَرَفُوْا خُرُوْجَہُمْ مِنَ الْأَمَانِ الْأَوَّلِ وَانْتِقَاضَ الصُّلْحِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَّہُمْ عِنْدَمَا خُوْطِبُوْا بِمَا خُوْطِبُوْا بِہٖ مِنْ ہٰذَا الْکَلَامِ غَیْرُ آمَنِیْنَ اِلَّا أَنْ یَفْعَلُوْا مَا جَعَلَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ آمَنِیْنَ أَنْ یَفْعَلُوْھُ مِنْ دُخُوْلِہِمْ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ أَوْ مِنْ اِغْلَاقِہِمْ أَبْوَابَہُمْ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّۃَ وَہِیَ دَارُ حَرْبٍ لَا دَارَ أَمَانٍ .
٥٣٢٧: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان المبارک کی گیارہ تاریخ کو سفر پر روانہ ہوئے۔ صحابہ کرام نے آپ کے ساتھ روزہ رکھا تھا۔ یہاں تک کہ جب مقام کدید پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ افطار کردیا پھر چلتے رہے یہاں تک کہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مرظہران پر پہنچے۔ تو قبیلہ بنو سلیم اور مزینہ نے سنا قریش پر آپ کی اطلاع بند تھی پس ان کو آپ کی آمد کی اطلاع نہ مل سکی اور نہ ان کو یہ معلوم ہوسکا کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔ اس رات ابو سفیان بن حرب ‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء یہ دیکھنے نکلے کہ ان کو آپ کی کوئی خبر اور اطلاع ملے۔ آپ سے متعلق وہ کچھ سن پائیں جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرء الظہران میں رونق افروز ہوئے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) نے فرمایا قریش کے لیے صبح بری ہوگی اگر وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن طلب نہ کریں اور آپ مکہ مکرمہ میں بطور غلبہ داخل ہوئے تو قریش کے لیے عمر بھر کی بربادی اور ہلاکت ہے۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفید خچر پر بیٹھ کر پیلو کے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوا تاکہ لکڑیاں کاٹنے والوں دودھ دوہنے والوں اور مزدوری کرنے والوں سے ملاقات کر کے ان کو بتلا دوں کہ وہ قریش کو جا کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہاں پہنچنے کی اطلاع دیں اور ان کو بتلا دیں کہ وہ آپ کی خدمت میں آئیں۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے مقصد کی تلاش میں تھا کہ اچانک ابو سفیان اور بدیل کی گفتگو سنائی دی وہ دونوں واپس لوٹ رہے تھے ابو سفیان کہہ رہے تھے آج رات جیسی آگ میں کبھی نہیں دیکھی اور نہ ایسا لشکر دیکھا۔ بدیل بولا۔ اللہ کی قسم ! یہ خزاعہ ہیں جو لڑنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ابو سفیان ! اللہ کی قسم وہ تو نہایت کمزور ہیں ان کی آگ ایسی کہاں ؟ (نہ ان کی تعداد نہ اتنے خیمے نہ آگ) حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابو سفیان کی آواز کو پہچان لیا اور میں نے آواز دے کر کہا ابو حنظلہ ہو۔ اس نے میری آواز پہچان کر کہا ابوالفضل ہو ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ ابو سفیان : میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کو کیا ہوا ؟ حضرت عباس (رض) : تمہارے لیے ہلاکت ہو۔ اللہ کی قسم ! یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب ہیں۔ قریش کی صبح پر افسوس ! اگر قریش نے اس سے پہلے آپ سے امان نہ طلب کی کہ آپ مکہ مکرمہ میں غلبہ سے داخل ہوں تو قریش دائمہ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے۔ ابو سفیان : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اس کی کیا صورت ہے ؟ عباس (رض) : اللہ کی قسم اس کی کوئی تدبیر نہیں بس یہی ہے کہ تم میری سواری پر پیچھے بیٹھ جاؤ اور میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے جاؤں گا۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر قابو پا لیا تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔ چنانچہ ابو سفیان تو میرے پیچھے خچر پر سوار ہوگئے اور ان کے دونوں ساتھی واپس لوٹ گئے۔ جب میں مسلمانوں کی کسی آگے کے پاس سے گزرتا تو وہ پوچھتے یہ کون ہے ؟ جب دیکھتے تو کہتے یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ہیں جو آپ کے خچر پر سوار ہیں۔ یہاں تک کہ میری سواری حضرت عمر (رض) کی آگ کے پاس سے گزری تو انھوں نے فرمایا۔ یہ کون ہے ؟ اور پھر میری طرف (احتراما) اٹھے جب ابو سفیان کو سواری پر میرے پیچھے دیکھا تو اسے پہچان لیا اور فرمایا اللہ کا دشمن ابو سفیان ! الحمد للہ کہ آج اللہ تعالیٰ نے اس کو میرے قابو میں دے دیا اور تیزی سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھاگے۔ میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی اور بس ان سے اتنا آگے نکلا جتنا سست جانور سست آدمی سے آگے بڑھتا ہے پھر جلدی سے میں خچر سے نیچے کود کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا ہی تھا کہ ادھر سے عمر (رض) آگئے اور وہ آپ کی خدمت میں داخل ہو کر کہنے لگے۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ابو سفیان ہے اللہ تعالیٰ کے بغیر عقد و عہد کے اس پر قابو عنایت فرمایا ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ حضرت عباس (رض) : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اس کو پناہ دی ہے عباس (رض) کہتے ہیں کہ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے آپ کے سر مبارک کو پکڑا اور کہا اللہ کی قسم ! آپ سے میرے سوا اور کوئی سرگوشی نہ کرے گا۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب عمر (رض) نے اس کے متعلق بہت اصرار کیا تو میں نے کہا۔ بس کرو اے عمر (رض) ! اگر کوئی بنو عدی بن کعب کا آدمی ہوتا تو تم یہ باتیں نہ کرتے لیکن تم جانتے ہو کہ یہ عبد مناف کا آدمی ہے عباس (رض) کہتے ہیں انھوں نے مجھے کہا اے عباس (رض) رک جاؤ! جس دن تم اسلام لائے وہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ میرا باپ خطاب اسلام لاتا اور اس میں صرف اتنی بات تھی کہ تمہارا اسلام لانا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسند تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے اپنے کجاوے کی طرف لے جاؤ صبح کے وقت اس کو میرے پاس لاؤ۔ عباس (رض) کہتے ہیں جب صبح ہوئی تو میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اسے لے کر گیا جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھا تو فرمایا اے ابو سفیان تم پر افسوس ہے کیا تیرے لیے وقت نہیں آیا کہ تو لاالٰہ الا اللہ کی گواہی دے۔ ابو سفیان : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ بڑے حلیم ‘ کریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں سنیں اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہ آرہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہوتا تو اب تک کچھ فائدہ تو پہنچاتا۔ آپ نے فرمایا اے ابو سفیان ! تم پر افسوس کیا تیرا وہ وقت نہیں آیا کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ؟ ابو سفیان ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ بڑے حلیم ‘ کریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں سنئے ! اللہ کی قسم ! اس کے متعلق دل میں ابھی تک کچھ وسوسہ باقی ہے۔ حضرت عباس (رض) : تو ہلاک ہوا اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور اسلام قبول کرلو اس سے پہلے پہلے کہ تیری گردن اڑائی جائے۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور حق کی گواہی دی۔ اس موقعہ پر میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابو سفیان دنیاوی فخر کو پسند کرنے والا آدمی ہے پس اس کے لیے کوئی ایسی چیز مقرر کردیں۔ آپ نے فرمایا۔ جی ہاں (میں مقرر کئے دیتا ہوں) جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوا اس کو امن ہے جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کو امن ہے جب میں واپس لوٹنے لگا تو فرمایا۔ اے عباس (رض) ! اس کو وادی کے تنگ موڑ پر روکو جو لشکر کی گزرگاہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے لشکروں کو یہ گزرتا دیکھ لے۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں میں نے ان کو وہیں روک رکھا جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ چنانچہ وہاں سے اپنے اپنے جھنڈوں کے ساتھ قبائل گزرنے لگے۔ جب کوئی قبیلہ گزرتا تو وہ پوچھتے یہ کون ہیں ؟ میں جواب میں کہتا یہ بنو سلیم ہیں تو وہ کہتے مجھے بنی سلیم سے کیا واسطہ۔ پھر اور قبیلہ گزرتا تو وہ پوچھتے یہ کون ہیں ؟ میں نے جواب میں کہا مزینہ ہیں تو وہ جواب میں کہتے مجھے مزینہ سے کیا غرض یہاں تک کہ تمام قبائل گزرتے گئے جب کسی قبیلہ کا گزر ہوتا تو مجھ سے دریافت کرتے میں ان کو بتلاتا تو یہی کہتے مجھے بنی فلاں سے کیا غرض۔ یہاں تک کہ آپ سبز پوش دستے میں گزرے جس میں مہاجرین و انصار (رض) تھے اور جن سے لوہے کے سوا اور کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ تو ابو سفیان بولے۔ سبحان اللہ۔ اے عباس (رض) یہ کون لوگ ہیں میں نے کہا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین و انصار (رض) کے دستہ میں ہیں۔ تو وہ بول اٹھے ! ان کے مقابلے کی کسی میں ہمت نہیں۔ اللہ کی قسم اے ابوالفضل ! تیرے بھتیجے کی بادشاہی آج صبح بہت بڑی ہے میں نے کہا اے ابو سفیان تم پر افسوس ہے یہ نبوت ہے تو انھوں نے کہا ہاں (یہ نبوت ہے) حضرت عباس (رض) کہتے ہیں میں نے کہا تم اپنی قوم کے پاس جاؤ اور ان کو پیغام دو جب ابو سفیان مکہ والوں کے ہاں پہنچے تو بلند آواز سے پکارا ! اے گروہ قریش ! یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر ایسا لشکر لے کر چڑھ آئے ہیں جس کے مقابلے کی تم میں تاب نہیں۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے۔ اس پر ہند بنت عتبہ بن ربیعہ کھڑی ہوئی اور ان کی مونچھوں سے پکڑ کر کہنے لگی اس خالص صاف رنگ والے موٹے کو قتل کر دو ۔ تو قوم کا بد ترین مخبر ہے۔ ابو سفیان ! کہنے لگے افسوس ! اے لوگو ! اپنے متعلق اس عورت کے دھوکا میں مت پڑجانا۔ یقینی بات ہے کہ وہ ایسا لشکر لے کر آئے ہیں جس کے مقابلے کی تم میں طاقت نہیں ! جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے۔ انھوں نے کہا اللہ تمہیں سمجھے ! تیرا گھر ہم سب کے لیے کیا کفایت کرے گا۔ ابو سفیان کہنے لگے جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کو امن ہے۔ (یہ متصل سند والی صحیح روایت ہے۔ اس میں مکہ کے زور سے فتح ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور صلح سے اس کے فتح ہونے کی نفی ہے اور یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ وہ صلح جو آپ کے اور قریش کے مابین ہوئی تھی وہ آپ کے مکہ پر چڑھائی سے پہلے منقطع ہوچکی تھی۔ ہمارے معترض کو یہ نظر نہیں آتا کہ عباس (رض) نے کہا۔ واصباح قریش واللہ لئن دخل رسول اللہ T۔۔۔ ذرا غور فرمائیں کہ قریش اگر امن و صلح میں ہوتے تو حضرت عباس (رض) جیسا عقل و رائے والا آدمی یہ خیال نہ کرتا کہ قریش پر آپ تعرض کریں گے اور وہ اس سے ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ ناممکن بات ہے کوئی صاحب عقل کسی صاحب دین کے متعلق یہ سوچ نہیں سکتا۔ پھر حضرت عباس (رض) ابو سفیان کو یہ کیوں فرماتے : واللہ لئن ظفربک۔۔۔ کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں اس حالت میں پالیں تو ضرور قتل کردیں گے۔ اللہ کی قسم اس میں قریش کی بربادی ہے اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زور سے مکہ میں داخل ہوگئے اور ابو سفیان نے کہیں ان کو یہ جواب نہیں دیا : وما خوفی و خوف قریش من دخول رسول اللہ مکۃ ‘ ونحن فی امان منہ ؟ مجھے اور قریش کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں داخلے کا کیا خطرہ ہے جبکہ ہم ان سے امان میں ہیں اور آپ کے داخلے کا مقصد تو خزاعہ کا بنو نفاثہ سے بدلہ دلانا ہے قریش اور دوسرے اہل مکہ سے اس کا کیا تعلق ہے۔ ابو سفیان ! عباس (رض) کو یہ بھی کہتے نظر نہیں آتے کہ میری گردن کیوں ماری جائے گی ؟ جبکہ عباس (رض) ان کو بڑی قسموں سے یہ کہہ رہے ہیں اگر انھوں نے تم پر قابو پا لیا تو وہ تمہاری گردن اڑا دیں گے۔ میں تو ان کی طرف سے امن وامان میں ہوں۔ یہ عمر (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرتے ہیں جبکہ انھوں نے ابو سفیان کو دیکھا۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ابو سفیان ہے اس پر اللہ تعالیٰ بلاعہد و پیمان قابو دے دیا ہے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا بالکل انکار نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ جب ابو سفیان آپ کے پاس تھے اس وقت وہ نہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امان میں تھے اور نہ صلح میں۔ پھر ابو سفیان نے اس سلسلہ میں عمر (رض) سے کوئی جھگڑا نہیں کیا اور نہ ہی عباس (رض) نے ان سے جھگڑا کیا۔ بلکہ عباس (رض) نے یہ بات کہی کہ میں نے اس کو پناہ دی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباس و عمر (رض) کی باہمی گفتگو میں سے کسی چیز کا انکار نہیں فرمایا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر عباس (رض) نے پناہ نہ دی ہوتی تو آپ عمر (رض) کو ان کے ارادے سے منع نہ فرماتے یعنی قتل ابو سفیان۔ اب انصاف سے آپ ہی بتلائیں کہ کون سا صلح سے نکلنا اس کو ختم کرنے والا ہے اور صلح کا کون سا توڑنا اس سے زیادہ واضح ہوگا۔ پھر اس کے بعد ابو سفیان مکہ میں داخل ہو کر بلند آواز سے وہ بات کہتے ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے مقرر فرمائی تھی۔ من دخل دار ابی سفیان فہو آمن۔۔۔ کہ ابو سفیان کے گھر میں داخل ہونے والے کو امن ہے اور اپنا دروازہ بند کرلینے والے کو امن ہے۔ مگر اس کے باوجود قریش ان کو یہ نہیں کہتے جناب ہمیں آپ کے گھر میں داخلے اور اپنے گھروں کے دروازے بند کرنے کی کیا حاجت ہے ہم تو امن میں ہیں اور ہمیں کسی امان کی ضرورت نہیں لیکن قریش سمجھتے تھے کہ وہ پہلے امان سے نکل چکے ہیں اور صلح ٹوٹ چکی ہے ان کلمات سے ان کا خطاب کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ قطعاً امن میں نہ تھے۔ ان کے لیے اب ایک ہی راستہ ہے جس سے وہ امن میں داخل ہوسکتے ہیں کہ وہ اس بات کو اپنا لیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمائی ہے ابو سفیان کے گھر میں یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیں۔ پھر ام ہانی بنت ابی طالب (رض) سے بھی ایسی روایت وارد ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ میں جب داخلہ ہوا تو اس وقت مکہ دارالحرب تھا دار امان و صلح نہ تھا۔ روایات ام ہانی (رض) ملاحظہ ہو۔ )
لغات : الحمیت۔ صاف رنگ۔ الدسم۔ چربی والا۔ الحدق۔ دیکھنا۔ احاطہ کرنا۔
نوٹ : یہ متصل سند والی صحیح روایت ہے۔
نمبر 1: اس میں مکہ کے زور سے فتح ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور صلح سے اس کے فتح ہونے کی نفی ہے۔
نمبر 2: اور یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ وہ صلح جو آپ کے اور قریش کے مابین ہوئی تھی وہ آپ کے مکہ پر چڑھائی سے پہلے منقطع ہوچکی تھی۔

نمبر 3: ہمارے معترض کو کیا یہ نظر نہیں آتا کہ عباس (رض) نے کہا : واصباح قریش واللہ لئن دخل رسول T۔۔۔

نمبر 4: ذرا غور فرمائیں کہ قریش اگر امن و صلح میں ہوتے تو حضرت عباس (رض) جیسا عقل و رائے والا آدمی یہ خیال نہ کرتا کہ قریش پر آپ تعرض کریں گے اور وہ اس سے ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ ناممکن بات ہے کوئی صاحب عقل کسی صاحب دین کے متعلق یہ سوچ نہیں سکتا۔

نمبر 5: پھر حضرت عباس (رض) ابو سفیان کو یہ کیوں فرماتے واللہ لئن ظفربک۔۔۔ کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں اس حالت میں پالیں تو ضرور قتل کردیں گے۔ اللہ کی قسم اس میں قریش کی بربادی ہے اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زور سے مکہ میں داخل ہوگئے اور ابو سفیان نے کہیں ان کو یہ جواب نہیں دیا وما خوفی و خوف قریش من دخول رسول مکۃ ‘ ونحن فی امان منہ ؟ مجھے اور قریش کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں داخلے کا کیا خطرہ ہے جبکہ ہم ان سے امان میں ہیں اور آپ کے داخلے کا مقصد تو خزاعہ کا بنو نفاثہ سے بدلہ دلانا ہے قریش اور دوسرے اہل مکہ سے اس کا کیا تعلق ہے۔

نمبر 6: ابو سفیان ! عباس (رض) کو یہ بھی کہتے نظر نہیں آتے کہ میری گردن کیوں ماری جائے گی ؟ جبکہ عباس (رض) ان کو بڑی قسموں سے یہ کہہ رہے ہیں اگر انھوں نے تم پر قابو پا لیا تو وہ تمہاری گردن اڑا دیں گے۔ میں تو ان کی طرف سے امن وامان میں ہوں۔

نمبر 7: یہ عمر (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرتے ہیں جبکہ انھوں نے ابو سفیان کو دیکھا۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ابو سفیان ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے بلاعہد و پیمان قابو دے دیا ہے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا بالکل انکار نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ جب ابو سفیان آپ کے پاس تھے اس وقت وہ نہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امان میں تھے اور نہ صلح میں۔

نمبر 9 پھر ابو سفیان نے اس سلسلہ میں عمر (رض) سے کوئی جھگڑا نہیں کیا اور نہ ہی عباس (رض) نے ان سے جھگڑا کیا۔ بلکہ عباس (رض) نے یہ بات کہی کہ میں نے اس کو پناہ دی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباس (رض) و عمر (رض) کی باہمی گفتگو میں سے کسی چیز کا انکار نہیں فرمایا۔
حاصل : اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر عباس (رض) نے پناہ نہ دی ہوتی تو آپ عمر (رض) کو ان کے ارادے سے منع نہ فرماتے یعنی قتل ابو سفیان۔ اب انصاف سے آپ ہی بتلائیں کہ کون سا صلح سے نکلنا اس کو ختم کرنے والا ہے اور صلح کا کون سا توڑنا اس سے زیادہ واضح ہوگا۔

نمبر 10 پھر اس کے بعد ابو سفیان مکہ میں داخل ہو کر بلند آواز سے کہتے ہیں وہ بات کہتے ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے مقرر فرمائی تھی۔ من دخل دار ابی سفیان فہو آمن۔۔۔ کہ ابو سفیان کے گھر میں داخل ہونے والے کو امن ہے اور اپنا دروازہ بند کرلینے والے کو امن ہے۔ مگر اس کے باوجود قریش ان کو یہ نہیں کہتے جناب ہمیں آپ کے گھر میں داخلے اور اپنے گھروں کے دروازے بند کرنے کی کیا حاجت ہے ہم تو امن میں ہیں اور ہمیں کسی آمان کی ضرورت نہیں۔
لیکن قریش سمجھتے تھے کہ وہ پہلے امان سے نکل چکے ہیں اور صلح ٹوٹ چکی ہے ان کلمات سے ان کا خطاب کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ قطعاً امن میں نہ تھے۔ ان کے لیے اب ایک ہی راستہ تھا جس سے وہ امن میں داخل ہوسکتے تھے کہ وہ اس بات کو اپنا لیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمائی ہے ابو سفیان کے گھر میں یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیں۔

نمبر 11: پھر ام ہانی بنت ابی طالب (رض) سے بھی ایسی روایت وارد ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ میں جب داخلہ ہوا تو اس وقت مکہ دارالحرب تھا دار امان و صلح نہ تھا۔ روایات ام ہانی (رض) ملاحظہ ہو۔

5329

۵۳۲۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ مَوْلٰی عَقِیْلِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ أَنَّ أُمَّ ہَانِئٍ بِنْتَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : لَمَّا نَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ فَرَّ اِلَیَّ رَجُلَانِ مِنْ أَحْمَائِی مِنْ بَنِیْ مَخْزُوْمٍ وَکَانَتْ عِنْدَ ہُبَیْرَۃَ بْنِ أَبِیْ وَہْبٍ الْمَخْزُوْمِیِّ فَدَخَلَ عَلَیَّ أَخِیْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : لَأَقْتُلَنَّہُمَا .فَغَلَّقْتُ عَلَیْہِمَا بَیْتِی ثُمَّ جِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ فَوَجَدْتُہُ یَغْتَسِلُ فِیْ جَفْنَۃٍ اِنَّ فِیْہَا أَثَرَ الْعَجِیْنِ وَفَاطِمَۃُ ابْنَتُہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَسْتُرُہُ بِثَوْبٍ .فَلَمَّا اغْتَسَلَ أَخَذَ ثَوْبَہُ فَتَوَشَّحَ بِہٖ ثُمَّ صَلَّی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ الضُّحَی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَیَّ فَقَالَ مَرْحَبًا وَأَہْلًا بِأُمِّ ہَانِئٍ مَا جَائَ بِکِ ؟ فَأَخْبَرْتُہٗ خَبَرَ الرَّجُلَیْنِ وَخَبَرَ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ .
٥٣٢٨: ابو مرہ عقیل بن ابی طالب کے غلام نے ام ہانی (رض) سے بیان کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کی بالائی جانب میں نازل ہوئے تو میرے پاس میرے دو دیور جن کا تعلق بنو مخزوم سے تھا بھاگ کر آئے حضرت ام ہانی (رض) کی شادی ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی سے ہوئی تھی۔ میرے بھائی حضرت علی (رض) میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں ان دونوں کو ضرور قتل کروں گا۔ میں نے (ان دونوں کو گھر میں داخل کر کے) باہر سے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا پھر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مکہ کے بالائی حصہ میں حاضر ہوئی میں نے آپ کو ایک ٹب میں غسل کرتے پایا جس میں آٹے کے اثرات تھے حضرت فاطمہ (رض) کپڑے سے غسل کے موقعہ پر آپ کو پردہ کئے ہوئے تھیں جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو آپ نے کپڑا لیا اور اس میں اپنے جسم مبارک کو لپیٹا پھر نماز چاشت کی آٹھ رکعت ادا فرمائی پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ام ہانی (رض) کو مرحبا اور خوش آمدید ہو۔ کیسے آمد ہوئی ہے ؟ میں نے آپ کو ان دو آدمیوں کی بات اور علی (رض) کی بات بتلائی تو آپ نے فرمایا جس کو تم نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دی جس کو تو نے امان دی ہم نے بھی امان دی۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٥٥‘ مسند احمد ٦‘ ٣٤١؍٣٤٣۔

5330

۵۳۲۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ مَوْلَی عَقِیْلٍ عَنْ فَاخِتَۃَ أُمِّ ہَانِئٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اغْتَسَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ ثُمَّ صَلَّی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُخَالِفًا بَیْنَ طَرَفَیْہِ .قَالَتْ : فَقُلْتُ : اِنِّیْ أَجَرْتُ حَمَوَیَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَاِنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُفَلِّتُ عَلَیْہِمَا لِیَقْتُلَہُمَا .قَالَتْ : فَقَالَ مَا کَانَ لَہُ ذٰلِکَ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَرَادَ قَتْلَ الْمَخْزُوْمِیِّیْنَ لِمَکَّۃَ ؟ وَلَوْ کَانَا فِیْ أَمَانٍ لَمَا طَلَبَ ذٰلِکَ مِنْہُمَا فَأَمَّنَتْہُمَا أُمُّ ہَانِئٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لِیَحْرُمَ بِذٰلِکَ دِمَاؤُہُمَا عَلَی عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَلَمْ تَقُلْ لَہُ مَا لَکَ اِلَی قَتْلِہِمَا مِنْ سَبِیْلٍ لِأَنَّہُمَا وَسَائِرَ أَہْلِ مَکَّۃَ فِیْ صُلْحٍ وَأَمَانٍ .ثُمَّ أَخْبَرَتْ أُمُّ ہَانِئٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا کَانَ مِنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَبِمَا کَانَ مِنْ جِوَارِ ہٰذَیْنِ الْمَخْزُوْمِیِّیْنَ .فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ وَلَمْ یُعَنِّفْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فِیْ اِرَادَتِہِ قَتْلَہُمَا قَبْلَ جِوَارِ أُمِّ ہَانِئٍ اِیَّاہُمَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْلَا جِوَارُہَا لَصَحَّ قَتْلُہُمَا وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ لَہُ قَتْلُہُمَا وَثَمَّۃَ أَمَانٌ قَائِمٌ وَصُلْحٌ مُتَقَدِّمٌ لَہُمَا وَہٰذَا دُخُوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ فَأَیُّ شَیْئٍ أَبْیَنُ مِنْ ہٰذَا ؟ ثُمَّ قَدْ رَوَی أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ مَا ہُوَ أَبْیَنُ مِنْ ہٰذَا.
٥٣٢٩: ابن ابی الذئب نے سعید مقبری (رض) سے انھوں نے ابو مرہ مولیٰ عقیل سے انھوں نے ام ہانی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن غسل فرمایا پھر ایک کپڑے میں لپٹ کر جس کی دونوں اطراف ایک دوسرے کے خلاف ڈالنے والے تھے آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی۔ ذرا غور فرمائیں کہ جناب علی (رض) نے مکہ کے دو مخزومیوں کو قتل کرنا چاہا اگر اہل مکہ امان میں تھے تو حضرت علی (رض) ان کے قتل کے درپے نہ ہوتے اور ام ہانی (رض) کو انھیں امان دینے کی کیا ضرورت تھی کہ جس سے علی (رض) پر ان کا قتل حرام ہوجائے۔
نمبر ٢ ام ہانی (رض) نے حضرت علی (رض) کو یہ نہیں کہا کہ تم ان کو قتل نہیں کرسکتے کیونکہ یہ اور تمام اہل مکہ صلح اور امان میں ہیں۔ پھر ام ہانی (رض) نے علی (رض) کے طرز عمل اور اپنے پناہ دینے کا تذکرہ کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی پناہ کو تو بحال رکھا مگر علی (رض) کو ام ہانی کی امان سے پہلے ان کے ارادہ قتل پر کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں فرمائی۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی اگر ام ہانی (رض) ان کو پناہ نہ دیتیں تو ان کا قتل درست تھا۔ اگر صلح قائم و دائم تھی تو پھر ان کا قتل محال و ناممکن تھا۔ اب اس سے زیادہ واضح اور کیا دلیل ہو کہ مکہ میں آپ کا داخلہ زور سے ہوا۔ پھر اس سے واضح تر روایت حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٨٤؍٨٥‘ ٨٦‘ مسند احمد ٢؍٥٣٨۔

5331

۵۳۳۰ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا أُمَیَّۃُ بْنُ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ : وَفَدْنَا اِلَی مُعَاوِیَۃَ ، وَفِیْنَا أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ فَقَالَ : أَلَا أُخْبِرْکُمْ بِحَدِیْثٍ مِنْ حَدِیْثِکُمْ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ؟ ثُمَّ ذَکَرَ فَتْحَ مَکَّۃَ فَقَالَ : أَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ قَدِمَ مَکَّۃَ فَبَعَثَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ عَلٰی اِحْدَی الْمُجَنَّبَتَیْنِ وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ عَلَی الْمُجَنَّبَۃِ الْأُخْرٰی وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْحُسَّرِ فَأَخَذُوْا بَطْنَ الْوَادِی وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کَتِیْبَۃٍ فَنَظَرَ فَرَآنِیْ فَقَالَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ فَقُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَالَ : اہْتِفْ لِیْ بِالْأَنْصَارِ وَلَا یَأْتِنِیْ اِلَّا أَنْصَارِیٌّ .قَالَ : فَہَتَفَ بِہِمْ حَتّٰی اِذَا طَافُوْا بِہٖ وَقَدْ وَبَّشَتْ قُرَیْشٌ أَوْبَاشَہَا وَأَتْبَاعَہَا فَقَالُوْا : تَقَدَّمَ ہٰؤُلَائِ فَاِنْ کَانَ لَہُمْ شَیْء ٌ کُنَّا مَعَہُمْ وَاِنْ أُصِیْبُوْا أُعْطِیْنَا الَّذِیْ سَأَلْنَا .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ - حِیْنَ طَافُوْا بِہٖ - اُنْظُرُوْا اِلٰی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ ثُمَّ قَالَ بِاِحْدَیْ یَدَیْہِ عَلَی الْأُخْرَی اُحْصُدُوْھُمْ حَصَادًا حَتّٰی تُوَافُوْنِیْ بِالصَّفَا فَانْطَلَقُوْا فَمَا یَشَائُ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ مَا شَائَ اِلَّا قَتَلَ وَمَا تَوَجَّہَ اِلَیْنَا أَحَدٌ مِنْہُمْ .فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أُبِیْحَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ وَلَا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ فَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَہُمْ .وَأَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی أَتَی الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَیْتِ فَأَتٰی عَلٰی صَنَمٍ اِلَیْ جَنْبِ الْبَیْتِ یَعْبُدُوْنَہٗ، وَفِیْ یَدِہِ قَوْسٌ فَہُوَ آخِذٌ بِسِیَۃِ الْقَوْسِ .فَلَمَّا أَنْ أَتٰی عَلَی الصَّنَمِ جَعَلَ یَطْعَنُ فِیْ عَیْنَیْہِ وَیَقُوْلُ جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا .حَتّٰی اِذَا فَرَغَ مِنْ طَوَافِہِ أَتَی الصَّفَا فَصَعِدَ عَلَیْہَا حَتّٰی نَظَرَ اِلَی الْبَیْتِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ فَجَعَلَ یَحْمَدُ اللّٰہَ وَیَدْعُوْھُ بِمَا شَائَ اللّٰہٗ، وَالْأَنْصَارُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ تَحْتَہٗ۔ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِیْ قَرَابَتِہٖ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیْرَتِہٖ۔فَقَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : وَجَائَ ہُ الْوَحْیُ بِہٖ وَکَانَ اِذَا جَائَ لَمْ یَخْفَ عَلَیْنَا فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَرْفَعُ رَأْسَہُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی یُقْضَی الْوَحْیُ .قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَقُلْتُمْ : أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِیْ قَرَابَتِہٖ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیْرَتِہٖ؟ قَالُوْا : لَوْ کَانَ ذَکَرَ .قَالَ کَلًّا اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ہَاجَرْتُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَاِلَیْکُمْ ، وَالْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ ، وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ فَأَقْبَلُوْا یَبْکُوْنَ اِلَیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ : وَاللّٰہِ مَا قُلْنَا الَّذِیْ قُلْنَا اِلَّا ضَنًّا بِاَللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ قَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ یُصَدِّقَانِکُمْ وَیَعْذِرَانِکُمْ .فَہٰذَا أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ قُرَیْشًا عِنْدَ دُخُوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ وَبَّشَتْ أَوْبَاشَہَا وَأَتْبَاعَہَا فَقَالُوْا : تَقَدَّمَ ہٰؤُلَائِ فَاِنْ کَانَ لَہُمْ شَیْء ٌ کُنَّا مَعَہُمْ وَاِنْ أُصِیْبُوْا أُعْطِیْنَا الَّذِیْ سَأَلْنَا وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلٰی ذٰلِکَ مِنْہُمْ فَقَالَ لِلْأَنْصَارِ اُنْظُرُوْا اِلٰی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ ثُمَّ قَالَ بِاِحْدَیْ یَدَیْہِ عَلَی الْأُخْرَی اُحْصُدُوْھُمْ حَصَادًا حَتّٰی تُوَافُوْنِیْ بِالصَّفَا فَمَا یَشَائُ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ مَنْ شَائَ اِلَّا قَتَلَ وَمَا تَوَجَّہَ اِلَیْنَا أَحَدٌ مِنْہُمْ فَیَکُوْنُ مِنْ ہٰذَا دُخُوْلًا عَلٰی أَمَانٍ ثُمَّ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذٰلِکَ الْمَنُّ عَلَیْہِمْ ، وَالصَّفْحُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ زِیَادَۃٌ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ .
٥٣٣٠: ثابت بنانی نے عبداللہ بن رباح سے روایت ہے کہ ہم حضرت معاویہ (رض) کے پاس آئے اور اس وفد میں حضرت ابوہریرہ (رض) بھی تھے تو وہ کہنے لگے اے انصاریو ! کیا میں تمہارے متعلقہ روایات میں سے ایک روایت تمہیں نہ سناؤں۔ پھر انھوں نے فتح مکہ کا تذکرہ کیا اور بتلایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ میں داخلہ فرمایا تو وہ اس طرح تھا کہ حضرت زبیر بن العوام (رض) کو لشکر کے ایک حصہ پر اور خالد بن ولید (رض) کو لشکر کے دوسرے حصہ پر اور ابو عبیدہ (رض) کو پیدل دستے پر مقرر فرمایا۔ انھوں نے بطن وادی کا راستہ اختیار کیا۔ جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر کے ایک دستے پر تھے آپ کی نگاہ مجھ پر پڑی تو فرمایا۔ اے ابوہریرہ (رض) ! میں نے کہا اے اللہ کے نبی میں حاضر ہوں آپ نے فرمایا میرے لیے انصار کو بلا لاؤ اور صرف میرے انصار ہی میرے پاس آئیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ان کو آواز دی گئی جب وہ سب جمع ہوگئے قریش نے اپنے اوباشوں اور بدمعاشوں کو جمع کیا وہ کہنے لگے یہ لوگ آگے بڑھے ہیں اگر ان کو کامیابی مل گئی تو ہم ان کے ساتھ ہوجائیں گے اور اگر یہ لوگ مارے گئے تو ہم ان کو اتنا مال دیں گے جتنا وہ ہم سے مانگیں گے۔ جب انصار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا قریش کے اوباشوں اور چیلوں چانٹوں کو دیکھو پھر آپ نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر فرمایا تم ان کو کھیتی کی طرح کاٹ ڈالو یہاں تک کہ صفا کے پاس مجھے آ ملو۔ پس انصار روانہ ہوئے۔ پس ہم میں سے جو بھی چاہتا جس کو قتل کرتا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک بھی ہماری طرف متوجہ نہ ہوا ابو سفیان کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قریش کے نوجوانوں کا خون مباح کردیا گیا۔ آج کے دن کے بعد قریش نہ رہیں گے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے وہ امان میں ہے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہے۔ اس پر لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لئے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے ہوئے حجر اسود کے پاس پہنچے اور اس کا استلام فرمایا۔ پھر بیت اللہ کا طواف کیا پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں کھڑے ہوئے بت کے قریب آئے جس کی مشرک پوجا کرتے تھے اس وقت آپ کے دست اقدس میں کمان تھی اور اس کا سرا آپ پکڑنے والے تھے۔ جب آپ بت کے قریب پہنچے تو کمان کا سرا اس کی دونوں آنکھوں میں چبھونے لگے اور زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے۔ جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا حق آگیا اور باطل بھاگ گیا بلاشبہ باطل بھاگنے والا ہے جب آپ طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پر اس قدر بلند ہوئے کہ بیت اللہ نظر آنے لگا پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کی تعریفیں بیان کر کے جو چاہا دعائیں فرمائیں اس وقت انصار پہاڑی کے نیچے تھے۔ بعض انصار ایک دوسرے کو کہنے لگے آپ کو قرابت کی رغبت اور خاندان کی مہربانی نے آلیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا جب آپ پر وحی آتی تھی تو ہم پر مخفی نہ رہتی تھی ہم میں سے کوئی آدمی اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سر اٹھا کر اس وقت تک نہ دیکھ سکتا تھا یہاں تک کہ وحی مکمل ہو۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے گروہ انصار ! کیا تم نے بات کہی ہے اس آدمی کو تو اس کی قرابت داری کی رغبت اور قبیلہ پر مہربانی نے آلیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا شاید ایسا تذکرہ ہوا ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ یقینی بات ہے بیشک میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ میری زندگی تمہاری زندگی کے ساتھ اور میری موت بھی تمہارے ساتھ ہے انصار رو رو کر کہہ رہے تھے اللہ کی قسم ! ہم نے یہ بات اور جو کچھ ہم نے کہا وہ اللہ اور اس کے رسول کے متعلق بخل کرتے ہوئے کہا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرنے والے اور تمہارے عذر کو قبول کرنے والے ہیں۔ (یہ حضرت ابوہریرہ (رض) بتلا رہے ہیں کہ قریش نے اس وقت جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اپنے اوباشوں اور پیروکاروں کو ابھارا اور کہنے لگے یہ لوگ آئے ہیں اگر ان کو کامیابی ہوگئی تو ہم ان کے ساتھ ہوجائیں گے اور اگر یہ ہلاک ہوئے تو ہم ان کو وہ انعام دیں گے جو یہ طلب کریں گے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (وحی سے) اس کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انصار کو کہا کہ تم قریش کے اوباشوں سے پیروکاروں کا خیال کرو اور آپ نے ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر فرمایا نا کو کھیتی کی طرح کاٹ ڈالو یہاں تک صفا کے پاس تم مجھ سے مل جاؤ۔ پس ہم میں سے جو جس کو چاہتا قتل کررہا تھا ان میں سے کسی ایک نے بھی ہمارا سامنا نہ کیا کہ وہ اس سے امان میں داخل ہوتے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ابو سفیان کی درخواست) ان پر احسان و درگزر فرمایا۔ اس روایت میں سلیمان بن مغیرہ والی روایت سے کچھ اضافہ روایت یہ ہے یہ روایات قاسم بن سلام کی ہے۔ )
تخریج : مسلم فی الجہاد ٨٤؍٨٥‘ ٨٦‘ مسند احمد ٢؍٥٣٨۔
یہ حضرت ابوہریرہ (رض) بتلا رہے ہیں کہ قریش نے اس وقت جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اپنے اوباشوں اور پیروکاروں کو ابھارا اور کہنے لگے یہ لوگ آئے ہیں اگر ان کو کامیابی ہوگئی تو ہم ان کے ساتھ ہوجائیں گے اور اگر یہ ہلاک ہوئے تو ہم ان کو وہ انعام دیں گے جو یہ طلب کریں گے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (وحی سے) اس کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انصار کو کہا کہ تم قریش کے اوباشوں سے پیروکاروں کا خیال کرو اور آپ نے ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر فرمایا کہ ان کو کھیتی کی طرح کاٹ ڈالو یہاں تک صفا کے پاس تم مجھ سے مل جاؤ۔ پس ہم میں سے جو جس کو چاہتا قتل کررہا تھا ان میں سے کسی ایک نے بھی ہمارا سامنا نہ کیا کہ وہ اس سے امان میں داخل ہوتے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ابو سفیان کی درخواست پر) ان پر احسان و درگزر فرمایا۔
اس روایت میں سلیمان بن مغیرہ والی روایت سے کچھ اضافہ ہے ‘ روایت قاسم بن سلام کی ہے۔

5332

۵۳۳۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامٍ بْنِ مِسْکِیْنٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ: ثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - حِیْنَ سَارَ اِلَی مَکَّۃَ لِیَسْتَفْتِحَہَا - فَسَرَّحَ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ ، وَالزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .فَلَمَّا بَعَثَہُمْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اہْتِفْ بِالْأَنْصَارِ فَنَادَی : یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَجِیْبُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائُوْا کَمَا کَانُوْا عَلَی مُعْتَادٍ .ثُمَّ قَالَ : اُسْلُکُوْا ہَذَا الطَّرِیْقَ وَلَا یُشْرِفَنَّ أَحَدٌ اِلَّا أَیْ : قَتَلْتُمُوْھُ .وَسَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنْ قَتْلَ یَوْمَئِذٍ الْأَرْبَعَۃِ .قَالَ : ثُمَّ دَخَلَ صَنَادِیْدُ قُرَیْشٍ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ الْکَعْبَۃَ وَہُمْ یَظُنُّوْنَ أَنَّ السَّیْفَ لَا یُرْفَعُ عَنْہُمْ ثُمَّ طَافَ وَصَلَّیْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ أَتَی الْکَعْبَۃَ فَأَخَذَ بِعِضَادَتَی الْبَابِ فَقَالَ مَا تَقُوْلُوْنَ وَمَا تَظُنُّوْنَ ؟ .فَقَالُوْا : نَقُوْلُ أَخٌ وَابْنُ عَم حَلِیْمٌ رَحِیْمٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقُوْلُ کَمَا قَالَ یُوْسُفُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ .قَالَ : فَخَرَجُوْا کَأَنَّمَا نُشِرُوْا مِنَ الْقُبُوْرِ فَدَخَلُوْا فِی الْاِسْلَامِ .فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَابِ الَّذِیْ یَلِی الصَّفَا فَخَطَبَ ، وَالْأَنْصَارُ أَسْفَلَ مِنْہُ .فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ أَمَا اِنَّ الرَّجُلَ أَخَذَتْہُ الرَّأْفَۃُ بِقَوْمِہٖ وَأَدْرَکَتْہُ الرَّغْبَۃُ فِیْ قَرَابَتِہٖ۔قَالَ : فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ الْوَحْیَ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَقُلْتُمْ : أَخَذَتْہُ الرَّأْفَۃُ بِقَوْمِہٖ وَأَدْرَکَتْہُ الرَّغْبَۃُ فِیْ قَرَابَتِہِ فَمَا نَبِیٌّ أَنَا اِذًا کَلًّا وَاللّٰہِ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا اِنَّ الْمَحْیَا لَمَحْیَاکُمْ وَاِنَّ الْمَمَاتَ لَمَمَاتُکُمْ .قَالُوْا : وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قُلْنَا اِلَّا مَخَافَۃَ أَنْ تُفَارِقَنَا اِلَّا ضِنًّا بِک .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْتُمْ صَادِقُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ .قَالَ : فَوَاللّٰہِ مَا بَقِیَ مِنْہُمْ رَجُلٌ اِلَّا نَکَّسَ نَحْرَہُ بِدُمُوْعِ عَیْنَیْہِ .أَفَلَا یَرَی أَنَّ قُرَیْشًا بَعْدَ دُخُوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ قَدْ کَانُوْا یَظُنُّوْنَ أَنَّ السَّیْفَ لَا یُرْفَعُ عَنْہُمْ أَفَتُرَاہُمْ کَانُوْا یَخَافُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَمَّنَہُمْ قَبْلَ ذٰلِکَ ؟ ہَذَا وَاللّٰہِ غَیْرُ مَخُوْفٍ مِنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلٰـکِنَّہُمْ عَلِمُوْا أَنَّ اِلَیْہِ قَتْلَہُمْ اِنْ شَائَ وَأَنَّ اِلَیْہِ الْمَنَّ عَلَیْہِمْ اِنْ شَائَ وَأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَظْہَرَہُ عَلَیْہِمْ وَصَیَّرَہُمْ فِیْ یَدِہِ یَحْکُمُ فِیْہِمْ بِمَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ قَبْلُ ، وَمَنَّ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ وَعَفَا عَنْہُمْ .ثُمَّ قَالَ لَہُمْ یَوْمَئِذٍ لَا تُغْزَی مَکَّۃُ بَعْدَ ہٰذَا الْیَوْمِ أَبَدًا .
٥٣٣١: ثابت بنانی نے روایت کو عبداللہ بن رباح سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو آپ نے ابو عبیدہ بن جراح ‘ زبیر بن العوام ‘ خالد بن ولید (رض) کی سرکردگی میں لشکر روانہ فرمائے۔ جب ان کو روانہ کیا جا چکا تو آپ نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرمایا تم انصار کو آواز دو ۔ انھوں نے اے نصار کے گروہ ! کہہ کر آواز دی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنو ! وہ اپنی عادت کے مطابق آئے پھر آپ نے فرمایا تم اس راستہ سے چلو۔ جس کا سامنا ہو اسے قتل کر دو ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے رہے اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی۔ اس میں قتل ہونے والے چار آدمی تھے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قریشی مشرک سردار کعبہ میں داخل ہوگئے ان کا خیال یہ تھا کہ وہ قتل سے نہ بچ سکیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر کعبہ شریف کے پاس آئے اور دروازے کی چوکھٹ کی دونوں جانبین پکڑ کر فرمایا تم کیا کہتے اور کیا گمان کرتے ہو ؟ انھوں نے کہا آپ بھائی ہیں اور مہربان حوصلہ مند چچا کے بیٹے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں وہی بات کہتا ہوں جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمائی تھی : { لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ١ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ چ وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ } (یوسف : ٩٢)
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں وہ بیت اللہ سے اس طرح نکلے گویا وہ قبور سے اٹھے ہیں۔ پھر وہ اسلام لے آئے۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا کے قریبی دروازہ سے نکلے اور آپ نے صفا پر خطبہ دیا۔ انصار نچلی جانب وادی میں تھے وہ کہنے لگے اس شخص کو اپنی قوم پر نرمی نے آلیا اور قوم کی طرف میلان نے پا لیا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی اتاری۔ آپ نے فرمایا : اے انصار ! کیا تم نے یہ کہا : اخذتہ الرافۃ بقومہ وادرکتہ الرغبۃ فی قرابتہ۔ اس صورت میں تو میں نبی نہ ہوں گا اللہ کی قسم میں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہوں۔ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم یہ بات آپ کی جدائی کے خطرے سے بخل کرتے ہوئے کہی۔ آپ نے فرمایا تم اللہ اور اس کے رسول کے ہاں سچے ہو۔۔ ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جس کا سینہ آنکھوں کے آنسوؤں کی وجہ سے جھکا نہ ہو۔
کیا اس معترض کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں داخلہ کے بعد کفار قریش کا گمان یہی تھا کہ وہ تلوار کی کاٹ سے بچ نہ سکیں گے یہ کس طرح ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے وہ امن وامان میں ہوں اور پھر ڈر رہے ہوں اللہ کی قسم ! یہ موقعہ تو آپ سے پھر ڈرنے کا نہیں تھا۔ لیکن وہ سمجھ گئے کہ آپ کی مرضی ہے کہ خواہ ان کو قتل کردیں یا احسان کر کے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو غلبہ دیا اور آپ کے قابو میں کردیا ہے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو پہلے یا بعد حکم دیا اسی طرح عمل پیرا ہوں گے اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو معاف کردیا پھر ان کو یہ بھی فرمایا۔ آج کے دن کے بعد مکہ میں لڑائی نہ کی جائے گی۔ جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

5333

۵۳۳۲ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ الْبَرْصَائِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ یَقُوْلُ لَا تُغْزٰی مَکَّۃُ بَعْدَ ہٰذَا الْیَوْمِ أَبَدًا .قَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : تَفْسِیْرُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ لِأَنَّہُمْ لَا یَکْفُرُوْنَ أَبَدًا فَلَا یُغْزَوْنَ عَلَی الْکُفْرِ ، ہَذَا لَا یَکُوْنُ اِلَّا وَدُخُوْلُہُ اِیَّاہَا دُخُوْلُ غَزْوٍ .ثُمَّ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُقْتَلُ قُرَشِیٌّ بَعْدَ ہٰذَا الْیَوْمِ صَبْرًا .
٥٣٣٢: شعبی نے حارث بن برصاء (رض) روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس دن کہ مکہ فتح ہوا آج کے بعد کبھی مکہ پر لڑائی کے لیے چڑھائی نہ کی جائے گی۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ والے کبھی کفر اختیار نہ کریں گے کہ ان سے کفر کو ہٹانے کے لیے جہاد کرنا پڑے۔ پھر آپ نے فرمایا آج کے دن کے بعد کوئی قرشی قید میں جکڑ کر قتل نہ کیا جائے گا۔
تخریج : ترمذی فی السیر باب ٤٥‘ مسند احمد ٣؍٤١٢‘ ٤‘ ٢١٣؍٣٤٣۔

5334

۵۳۳۳ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُطِیْعٍ : سَمِعْتُ مُطِیْعًا یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ یَقُوْلُ : لَا یُقْتَلُ قُرَشِیٌّ صَبْرًا بَعْدَ ہٰذَا الْیَوْمِ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .قَالَ : فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ دِمَائَ قُرَیْشٍ اِنَّمَا حُرِّمَتْ بَعْدَ ذٰلِکَ الْیَوْمِ لِمَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُرْمَتُہُ یَوْمَئِذٍ عَلَیْہِمْ .ثُمَّ خَطَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ خُطْبَۃً بَیَّنَ فِیْہَا حُکْمَ مَکَّۃَ قَبْلَ دُخُوْلِہِ اِیَّاہَا وَحُکْمَہَا وَقْتَ دُخُوْلِہِ اِیَّاہَا وَحُکْمَہَا بَعْدَ ذٰلِکَ .
٥٣٣٣‘ شعبی نے عبداللہ بن مطیع سے نقل کیا کہ میں نے مطیع (رض) سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا آج کے بعد قیامت تک کوئی قرشی پکڑ جکڑ کر قتل نہ کیا جائے گا۔ اس روایت سے یہ دلالت مل گئی کہ قریش کے خون اس دن کے بعد حرام ہوئے اس دن ان کے خون جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حرام نہ تھے۔ پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اس میں مکہ میں داخلے سے پہلے جو اس کا حکم تھا وہ بتلایا اور داخلہ کے وقت اور بعد کا حکم بتلایا۔ جیسا کہ یہ روایت دلالت کر رہی ہے عمرو بن عون کی روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٨٨‘ دارمی فی الدیات باب ٢٤‘ مسند احمد ٣‘ ٤١٢‘ ٤‘ ٢١٣۔

5335

۵۳۳۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنِ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ ، وَالْأَرْضَ ، وَالشَّمْسَ ، وَالْقَمَرَ وَوَضَعَہَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْأَخْشَبَیْنِ ثُمَّ لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَلَمْ تَحِلَّ لِیْ اِلَّا سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ وَلَا یُخْتَلَی خَلَاہَا وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُہَا وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہَا وَلَا یَرْفَعُ لُقَطَتُہَا اِلَّا مُنْشِدُہَا .فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِلَّا الْاِذْخِرَ .
٥٣٣٤: عمرو بن عون بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن سے حرام قرار دیا جس دن کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو پیدا کیا اور مکہ کو ان دو اخشبین کے درمیان رکھا پھر یہ میرے علاوہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال ہوا۔ اس کے گھاس کو نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے درخت کو کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے اور نہ اس کی گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے سوائے اس آدمی کے جس کی گم ہوئی ہو۔ عباس (رض) نے کہا مگر اذخر گھاس (آپ نے فرمایا مگر اذخر)
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٧٦‘ والعلم باب ٣٩‘ والصید باب ٩‘ المغازی باب ٥٣‘ مسلم فی الحج ٤٤٥؍٤٤٠‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٧٩؍٩٥‘ نسائی فی الحج باب ١١٠؍١٢٠‘ مسند احمد ١؍١١٩‘ ٣؍١٩٩۔

5336

۵۳۳۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ثَنَا یَحْیَیْ عَنْ أَبِیْ ذِئْبٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ الْمَقْبُرِیُّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا شُرَیْحٍ الْکَعْبِیَّ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ فَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاَللّٰہِ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یَسْفِکَنَّ فِیْہَا دَمًا وَلَا یَعْضِدَنَّ فِیْہَا شَجَرًا ، فَاِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ فَقَالَ قَدْ أُحِلَّتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنَّ اللّٰہَ أَحَلَّہَا لِیْ وَلَمْ یُحِلَّہَا لِلنَّاسِ وَاِنَّمَا أَحَلَّہَا لِیْ سَاعَۃً .
٥٣٣٥: سعید مقبری کہتے ہیں کہ میں نے ابو شریح کعبی (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرام کیا لوگوں نے اس کو حرام نہیں کیا۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اس میں کوئی خون نہ بہائے اور نہ کسی درخت کو کاٹے ‘ اگر کوئی بتکلف رخصت رخصت بنانے کی کوشش کرے (تو اسے کہتا ہوں) کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اللہ کے رسول کے لیے حلال کیا اور وہ بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے ‘ لوگوں کے لیے اس کو حلال نہیں کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الدیات باب ١٣‘ مسند احمد ٦؍٣٨٥۔

5337

۵۳۳۶ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ قَالَ : وَحَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیُّ عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ : لَمَّا بَعَثَ عَمْرُو بْنُ سَعِیْدٍ الْبَعْثَ اِلَی مَکَّۃَ لِغَزْوِ ابْنِ الزُّبَیْرِ أَتَاہُ أَبُوْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیُّ فَکَلَّمَہُ بِمَا سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ اِلَی نَادِی قَوْمِہِ فَجَلَسَ فَقُمْتُ اِلَیْہِ فَجَلَسْتُ مَعَہُ فَحَدَّثَ عَمَّا حَدَّثَ عَمْرَو بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَمَّا جَائَ بِہٖ عَمْرُو بْنُ سَعِیْدٍ .قَالَ : قُلْتُ لَہُ : اِنَّا کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْن افْتَتَحَ مَکَّۃَ فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ عَدَتْ خُزَاعَۃُ عَلٰی رَجُلٍ مِنْ ہُذَیْلٍ فَقَتَلُوْھُ بِمَکَّۃَ وَہُوَ مُشْرِکٌ .قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْنَا خَطِیْبًا فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ ، وَالْأَرْضَ فَہِیَ حَرَامٌ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ یُؤْمِنُ بِاَللّٰہٖ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ بِہَا دَمًا وَلَا یَعْضِدَ بِہَا شَجَرًا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِیْ وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِی وَلَمْ تَحِلَّ لِیْ اِلَّا ہٰذِہِ السَّاعَۃَ غَضَبًا أَلَا ثُمَّ عَادَتْ کَحُرْمَتِہَا أَلَا فَمَنْ قَالَ لَکُمْ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَحَلَّہَا فَقُوْلُوْا : اِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَلَّہَا لِرَسُوْلِہِ وَلَمْ یُحِلَّہَا لَک .یَا مَعْشَرَ خُزَاعَۃَ کُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ فَقَدْ قَتَلْتُمْ قَتِیْلًا لَأَدِیَنَّہٗ فَمَنْ قُتِلَ بَعْدَ مَقَامِیْ ہَذَا فَہُوَ بِخَیْرِ نَظَرَیْنِ اِنْ أَحَبَّ فَدَمُ قَاتِلِہِ وَاِنْ أَحَبَّ فَعَقْلُہُ .قَالَ : انْصَرِفْ أَیُّہَا الشَّیْخُ فَنَحْنُ أَعْلَمُ بِحُرْمَتِہَا مِنْک اِنَّہَا لَا تَمْنَعُ سَافِکَ دَمٍ وَلَا مَانِعَ حُرْمَۃٍ لَا خَالِعَ طَاعَۃٍ .قَالَ : قُلْتُ قَدْ کُنْتُ شَاہِدًا وَکُنْتَ غَائِبًا وَقَدْ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَلِّغَ شَاہِدُنَا غَائِبَنَا قَدْ أَبْلَغْتُکَ .
٥٣٣٦: سعید بن مقبری نے ابو شریح خزاعی (رض) سے نقل کیا کہ جب عمرو بن سعید نے عمروہ ابن زبیر کے خلاف فوج کشی کے لیے مکہ لشکر بھیجا تو ابو شریح (رض) اس کے پاس گئے اور اس سے بات کرتے ہوئے وہ بات بتلائی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی پھر وہاں سے نکل کر اپنی قوم کی مجلس میں پہنچے اور بیٹھ گئے میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے پاس بیٹھ گیا او انھوں نے وہ روایت بیان کی جو عمرو بن سعید کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر کے سنائی تھی اور پھر عمرو بن سعید نے جو اس کا جواب دیا۔ (وہ بھی ذکر کیا) ۔ ابو شریح کہنے لگے میں اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا جبکہ آپ نے مکہ فتح کیا جبکہ فتح کے دن کی صبح ہوئی تو بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر زیادتی کرتے ہوئے اس کو مکہ میں شرک کی حالت میں قتل کر ڈالا۔
ابو شریح کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مکہ کو آسمان و زمین کی پیدائش سے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی کرے اور اس کے درخت کو کاٹے اور یہ کسی کے لیے مجھ سے پہلے حلال نہیں ہوا اور میرے بعد کسی کے لیے حلال نہ ہوگا اور میرے لیے بھی اسی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا اور اس کا مقصد بھی غضب الٰہی کا قریش پر ظاہر کرنا مقصود تھا۔
خبردار ! پھر اس کی حرمت پہلے کی طرح واپس لوٹ آئی۔
خبردار ! جو شخص تم سے کہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حلال کیا تو اس کو جواب دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس کو حلال کیا ہے۔ تیرے لیے اس کو حلال نہیں کیا۔
اے گروہ خزاعہ اپنے ہاتھ روک لو۔ تم نے ایک آدمی مار ڈالا ہے میں ضرور اس کی دیت ادا کروں گا۔ جس آدمی نے میرے خطبے کے بعد قتل کیا۔ اس کو دو میں سے ایک چیز اختیار کرنا ہوگی اگر وہ پسند کرے تو اپنے قاتل کا خون بہا ادا کر دے اور اگر پسند کرے تو اس کی دیت ادا کرے۔
ابو شریح کہتے ہیں کہ (یہ بات سن کر وہ کہنے لگا) اے شیخ واپس چلے جاؤ۔ ہم اس کی حرمت کو تم سے زیادہ جانتے ہیں وہ (مکہ) خون بہانے والے حرمت سے رواکنے والے اور باغی (کو پکڑنے) کے لیے مانع نہیں میں نے کہا میں تو وہاں موجود تھا اور تو غائب تھا اور ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا ہے کہ ہم موجودین غائبین کو پہنچا دیں میں نے آپ کا حکم پہنچا دیا۔

5338

۵۳۳۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامٍ الرُّعَیْنِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیَّ یَقُوْلُ لِعَمْرِو بْنِ سَعِیْدٍ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ حِیْنَ قَطَعَ بَعْثًا اِلٰی مَکَّۃَ لِقِتَالِ ابْنِ الزُّبَیْرِ .یَا ہَذَا اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ مَکَّۃَ حَرَامٌ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ وَاِنَّ اللّٰہَ اِنَّمَا أَحَلَّ لِی الْقِتَالَ بِہَا سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ وَلَعَلَّہٗ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدِیْ رِجَالٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْقِتَالَ بِہَا فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مِنْہُمْ فَقُوْلُوْا : اِنَّ اللّٰہَ أَحَلَّہَا لِرَسُوْلِہِ وَلَمْ یُحِلَّہَا لَکَ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ .وَلَوْلَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِیُبَلِّغْ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ مَا حَدَّثْتُکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .قَالَ عَمْرٌو : اِنَّک شَیْخٌ قَدْ خَرِفْتَ وَقَدْ ہَمَمْتُ بِکَ قَالَ : أَمَا وَاللّٰہِ لَأَتَکَلَّمَنَّ بِالْحَقِّ وَاِنْ شَدَدْتَ رِقَابَنَا .
٥٣٣٧: سعید مقبری بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو شریح خزاعی (رض) سے سنا جبکہ وہ عمرو بن سعید کو فرما رہے تھے اور وہ منبر پر بیٹھا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب اس نے ابن زبیر (رض) کے ساتھ لڑائی کے لیے لشکر روانہ کیا۔
اے صاحب ! میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرام قرار دیا ہے اس کو لوگوں نے حرام قرار نہیں دیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں لڑائی کو جائز قرار دیا اور ممکن ہے کہ میرے بعد کچھ لوگ اس میں لڑائی کو جائز و حلال قرار دیں تو جو ایسا کرے اس سے کہو ! بیشک اس کو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال قرار دیا تمہارے لیے حلال قرار نہیں دیا (اور فرمایا) تم میں سے جو موجود ہیں وہ غائب لوگوں کو یہ بات پہنچا دیں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات نہ فرمائی ہوتی کہ حاضر غائب کو پہنچا دے تو میں تمہیں یہ بات نہ کہتا۔ عمرو بن سعید یہ سن کر کہنے لگا۔ تم بوڑھے ہوگئے جس کی وجہ سے تمہاری عقل سٹھیا گئی ہے۔ میں تو تمہیں سزا دینے کا پختہ ارادہ کرچکا۔ حضرت ابو شریح فرمانے لگے ہم ضروربضرور حق بات کہیں گے خواہ تم ہماری مشکیں کس دو ۔

5339

۵۳۳۸ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ عَنْ شُعَیْبِ بْنِ اللَّیْثِ عَنْ أَبِیْہٖ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ مَعْنَیْ حَدِیْثِ فَہْدٍ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٥٣٣٨: ابو سعید مقبری کہتے ہیں کہ حضرت ابو شریح خزاعی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی روایت کے ہم معنی روایت نقل کی ہے۔

5340

۵۳۳۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْحَجُوْنِ ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ اِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ اِلَی اللّٰہِ لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِیْ وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِی وَمَا أُحِلَّتْ لِیْ اِلَّا سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ وَہِیَ بَعْدَ سَاعَتِہَا ہٰذِہِ حَرَامٌ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .
٥٣٣٩: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجون پہاڑ پر کھڑے ہوئے پھر فرمایا اللہ کی قسم ! بیشک اللہ تعالیٰ کی زمین پر تو سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پیاری زمین ہے مجھ سے پہلے کسی کے لیے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے یہ حلال ہوگی اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں حلال ہوئی اب اس گھڑی کے بعد قیامت تک کے لیے حرام ہے۔

5341

۵۳۴۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ وَأَبُوْ سَلْمَۃَ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٣٤٠: حماد بن سلمہ نے محمد بن عمرو سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5342

۵۳۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ یَحْیَی قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی رَسُوْلِہِ مَکَّۃَ قَتَلَتْ ہُذَیْلٌ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ بِقَتِیْلٍ کَانَ لَہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .قَالَ : فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ أَہْلِ مَکَّۃَ الْفِیْلَ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُوْلَہُ وَالْمُؤْمِنِیْنَ ، وَاِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِی وَاِنَّمَا أُحِلَّتْ لِیْ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ وَاِنَّہَا سَاعَتِیْ ہٰذِہِ حَرَامٌ لَا یُعْضَدُ شَجَرُہَا وَلَا یُخْتَلَی شَوْکُہَا وَلَا یُلْتَقَطُ سَاقِطَتُہَا اِلَّا لِمُنْشِدِہَا .
٥٣٤١: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ کو فتح کردیا تو ہذیل نے بنو لیث کا ایک آدمی مار ڈالا اور یہ قتل اس آدمی کے بدلے کیا جو زمانہ جاہلیت میں بنو ہذیل کا ہوا تھا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے ہاتھیوں کو دفع کردیا اور اپنے رسول اور ایمان والوں کو مکہ پر غلبہ دیا یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے بعد بھی کسی کے لیے حلال نہ ہوگا میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں حلال کیا گیا۔ پس بلاشبہ وہ یہی گھڑی ہے جو حرام کی گئی اس کے درخت کو نہ کاٹا جائے گا اور نہ اس کے کانٹے کو توڑا جائے گا اور نہ اس کی گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے گا سوائے اس آدمی کے جس کی گم کردہ ہو۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣٩‘ والشروط باب ١٥‘ مسلم فی الحج ٤٤٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٩‘ والجہاد باب ١٥٦‘ مسند احمد ٢؍٢٣٨‘ ٤؍٣٢٣۔

5343

۵۳۴۲ : حَدَّثَنَا بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ أَہْلِ مَکَّۃَ الْفِیْلَ وَقَالَ لَا یُلْتَقَطُ ضَالَّتُہَا اِلَّا لِمُنْشِدٍ .أَفَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخْبَرَ بِہٖ فِیْ خُطْبَتِہِ ہٰذِہِ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَحَلَّ لَہُ مَکَّۃَ سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ ثُمَّ عَادَتْ حَرَامًا اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .فَلَوْ کَانَ لَا حَاجَۃَ بِہٖ اِلَی الْقِتَالِ فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ اِذًا لَکَانَتْ فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ ، وَفِیْمَا قَبْلَہَا وَفِیْمَا بَعْدَہَا عَلَی مَعْنًی وَاحِدٍ وَکَانَ حُکْمُہَا فِیْ تِلْکَ الْأَوْقَاتِ کُلِّہَا حُکْمًا وَاحِدًا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّمَا أُبِیْحَ لَہُ اِظْہَارُ السِّلَاحِ بِہَا لَا غَیْرُ .قِیْلَ لَہٗ : وَأَیُّ حَاجَۃٍ بِہٖ اِلَیْ اِظْہَارِ السِّلَاحِ اِذَا کَانَ لَا یَسْتَطِیْعُ أَنْ یُقَاتِلَ بِہٖ أَحَدًا فِیْہَا ؟ ہَذَا مُحَالٌ عِنْدَنَا وَلَا یَجُوْزُ اِظْہَارُ السِّلَاحِ بِہَا اِلَّا وَہُوَ مُبَاحٌ لَہُ الْقِتَالُ بِہٖ .وَقَدْ بَیَّنَ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ فِیْ حَدِیْثِہِ الَّذِیْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ ہٰذَا الْمَعْنٰی فَقَالَ فِیْہِ وَاِنَّ اللّٰہَ اِنَّمَا أَحَلَّ لِی الْقِتَالَ فِیْہَا سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ .أَفَیَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یُحِلَّ لَہُ قِتَالَ مَنْ ہُوَ فِیْ ہُدْنَۃٍ مِنْہُ وَأَمَانٍ ؟ ہَذَا لَا یَجُوْزُ .ثُمَّ قَدْ کَانَ دُخُوْلُہُ اِیَّاہَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُخُوْلَ مُحَارِبٍ لَا دُخُوْلَ آمِنٍ لِأَنَّہٗ دَخَلَہَا وَعَلٰی رَأْسِہِ الْمِغْفَرُ .
٥٣٤٢: حرب بن شداد نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی۔ البتہ انھوں نے یہ کہا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے ہاتھی والوں کو روک دیا اور یہ بھی کہا۔ اس کی گری پڑی چیز کو وہی اٹھاسکتا ہے جس کی گم ہوئی ہو۔ کیا معترض کو یہ معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس خطبہ میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو دن کی ایک گھڑی میں حلال کیا پھر اس کی حرمت قیامت تک کے لیے لوٹ کر آئی اگر اس موقعہ پر قتال کی حاجت نہ ہوتی تو اس گھڑی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد اوقات اس کا تو مفہوم ایک ہی تھا اور اس کا حکم ان تمام اوقات میں ایک ہی تھا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ آپ کے لیے اس لیے مباح ہوا تاکہ اسلحہ کو ظاہر کرسکیں اس کے علاوہ کوئی مقصد نہ تھا۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسلحہ کے اظہار کی آخر کیا ضرورت تھی جبکہ اس کے ساتھ کسی کو لڑنے کی اجازت ہی نہ تھی ؟ ہمارے نزدیک تو یہ بات ناممکن ہے اسلحہ کا اظہار بھی وہاں اس کو جائز ہے جس کے لیے قتال مباح ہو اور شروع باب میں اسی معنی کی روایت ابو سعید مقبری سے گزر چکی جس میں یہ مذکور ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں قتال کو دن کی ایک گھڑی میں حلال کیا ہے یہ کیوں کر جائز ہے کہ ادھر تو وہ لوگ امان اور صلح میں ہوں اور ادھر ان سے قتال کیا جائے یہ ہرگز جائز نہیں۔ آپ کا مکہ میں داخل ایک محارب کی طرح تھا امن کا داخلہ نہ تھا کیونکہ آپ کے سر مبارک پر مغفر (خود) رکھا ہوا تھا۔ جیسا اس روایت میں ہے۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣٩‘ مسلم فی الحج ٤٤٧‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٨٩‘ مسند احمد ٢؍٢٣٨۔

5344

۵۳۴۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلٰی رَأْسِہِ الْمِغْفَرُ .فَلَمَّا نَزَعَہٗ جَائَ ہٗ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ہَذَا ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُقْتُلُوْھُ .قَالَ مَالِکٌ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ وَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا .
٥٣٤٣: ابن شہاب نے حضرت انس (رض) بن مالک سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح والے سال جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر خود تھا جب آپ نے اس کو اتارا تو ایک شخص آ کر عرض کرنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ابن خطل ہے جو کعبہ شریف کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے آپ نے فرمایا اس کو قتل کر دو ۔
امام مالک کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے بتلایا کہ اس دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت احرام میں نہ تھے۔
تخریج : بخاری فی الصید ١٨‘ والجہاد باب ١٦٩‘ والمغازی باب ٤٨‘ واللباس باب ١٧‘ مسلم فی الحج ٤٥٠‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١١٧‘ ترمذی فی الجہاد باب ١٨‘ نسائی فی المناسک باب ١٠٧‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ١٨‘ دارمی فی المناسک باب ٨٨‘ والسیر باب ٢٠‘ مالک فی الموطا ٢٤٧‘ فی الحج مسند احمد ٣؍١٠٩۔

5345

۵۳۴۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَلَمْ یَقُلْ وَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا .وَقِیْلَ : اِنَّہٗ دَخَلَہَا وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ .
٥٣٤٤: ابوالولید نے مالک بن انس (رض) سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ نہیں کہ آپ اس وقت حالت احرام میں نہ تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ سیاہ پگڑی پہنے ہوئے تھے۔

5346

۵۳۴۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ .
٥٣٤٥: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سیاہ پگڑی پہن رکھی تھی۔
تخریج : مسلم فی الحج ٤٥١؍٤٥٤‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٦‘ ٢٠‘ ترمذی فی اللباس باب ١١‘ والجہاد باب ٩‘ تفسیر سورة ٦٩؍٢‘ نسائی فی المناسک باب ١٠٧‘ والزینہ باب ١٠٩‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٤‘ والجہاد باب ٢٢‘ دارمی فی المناسک باب ٨٨‘ مسند احمد ٣‘ ٣٦٣‘ ٤‘ ٣٠٧۔

5347

۵۳۴۶ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٣٤٦: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5348

۵۳۴۶ : حَدَّثَنَا فَہْدُ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلِمَۃَ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ .
٥٣٤٧: حماد بن مسلم نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں جب داخل ہوئے تو آپ سیاہ عمامہ پہنے ہوئے تھے۔
تخریج : مسلم فی الحج ٤٥١؍٤٥٤‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٤‘ ١٥‘ والجہاد باب ٢٢۔

5349

۵۳۴۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَکِیْمٍ الْأَوْدِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَلَوْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ دُخُوْلِہِ اِیَّاہَا غَیْرَ مُحَارِبٍ اِذًا لَمَّا دَخَلَہَا .وَہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِحْلَالَ اللّٰہِ مَکَّۃَ لَہُ کَمَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ قَدْ مَنَعَ النَّاسَ أَنْ یَدْخُلُوْا الْحَرَمَ غَیْرَ مُحْرِمِیْنَ .
٥٣٤٨: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخلہ کے وقت محارب نہ ہوتے تو مکہ میں داخلہ کی ضرورت نہ تھی یہ عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جو ان رواۃ میں سے ہیں جنہوں نے یہ روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو ان کے لیے حلال کردیا تھا جیسا کہ ہم نے ابھی روایت نقل کی ہے۔ حالانکہ حرم کی سرزمین میں بلا احرام داخلہ ممنوع ہے۔

5350

۵۳۴۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : حَمَّادٌ عَنْ قَیْسٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَا یَدْخُلُ أَحَدٌ مَکَّۃَ اِلَّا مُحْرِمًا .
٥٣٤٩: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کوئی آدمی بلا احرام مکہ میں داخل نہ ہو۔

5351

۵۳۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْہَیْثَمِ بْنِ الْجَہْمِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : قَالَ عَطَاء ٌ قَالَ : ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَا عُمْرَۃَ عَلَی الْمَکِّیِّ اِلَّا أَنْ یَخْرُجَ مِنَ الْحَرَمِ فَلَا یَدْخُلُہُ اِلَّا حَرَامًا .فَقِیْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : فَاِنْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ مَکَّۃَ قَرِیْبًا ؟ قَالَ : نَعَمْ یَقْضِیْ حَاجَتَہُ وَیَجْعَلُ مَعَ قَضَائِہَا عُمْرَۃً .
` ٥٣٥٠: عطاء کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا مکی آدمی کے عمرہ کی صورت یہ ہے کہ وہ حرم سے باہر جائے پھر احرام سے مکہ میں داخل ہو۔ ابن عباس (رض) سے کسی نے سوال کیا اگر کوئی آدمی نکل کر مکہ کے قریبی علاقہ میں جائے تو انھوں نے فرمایا تب بھی احرام لازم ہے وہ اپنی ضرورت بھی پوری کرے اور عمرہ بھی ادا کرے۔

5352

۵۳۵۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : لَا یَدْخُلُ مَکَّۃَ تَاجِرٌ وَلَا طَالِبُ حَاجَۃٍ اِلَّا وَہُوَ مُحْرِمٌ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ اِحْلَالَ اللّٰہِ اِیَّاہَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا کَانَ لِحَاجَتِہِ اِلَی الْقِتَالِ مِنْہَا لَا لِغَیْرِ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آمَنَ النَّاسَ جَمِیْعًا اِلَّا سِتَّۃَ نَفَرٍ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ
٥٣٥١: عطاء بن ابی رباح نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کوئی تاجر اور طالب حاجت بھی مکہ میں بلا احرام داخل نہیں ہوسکتا۔ ان روایات سے یہ دلالت مل گئی کہ دخول مکہ کے لیے احرام ضروری ہے آپ کا بلا احرام داخلہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے مکہ کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حاجت قتال کی وجہ سے حلال کیا اور قتال کے لیے بلا احرام ہونا لازم ہے۔ فلا جدال) اگر کوئی معترض کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کو امن دیا مگر چھ آدمی مستثنیٰ تھے اور یہ روایت اس کی دلیل ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے دخول مکہ کے لیے احرام ضروری ہے آپ کا بلا احرام داخلہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے مکہ کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حاجت قتال کی وجہ سے حلال کیا اور قتال کے لیے بلا احرام ہونا لازم ہے۔ فلا جدال)
سوال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کو امن دیا مگر چھ آدمی مستثنیٰ تھے اور یہ روایت اس کی دلیل ہے۔

5353

۵۳۵۲ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: زَعَمَ السُّدِّیُّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّۃَ آمَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ اِلَّا أَرْبَعَۃَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَیْنِ وَقَالَ اُقْتُلُوْھُمْ وَاِنْ وَجَدْتُمُوْھُمْ مُتَعَلِّقِیْنَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ عِکْرَمَۃَ بْنَ أَبِیْ جَہْلٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ خَطَلٍ وَمِقْیَسَ بْنَ ضَبَابَۃَ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ سَرْحٍ .فَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَطَلٍ فَأُتِیَ وَہُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ فَاسْتَبَقَ اِلَیْہِ سَعِیْدُ بْنُ حُرَیْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِیْدٌ عَمَّارًا وَکَانَ أَشَدَّ الرَّجُلَیْنِ فَقَتَلَہٗ۔وَأَمَّا مِقْیَسُ بْنُ ضَبَابَۃَ فَأَدْرَکَہُ النَّاسُ فِی السُّوْقِ فَقَتَلُوْھُ .وَأَمَّا عِکْرِمَۃُ بْنُ أَبِیْ جَہْلٍ فَرَکِبَ الْبَحْرَ فَأَصَابَتْہُمْ رِیْحٌ عَاصِفٌ فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِیْنَۃِ لِأَہْلِ السَّفِیْنَۃِ أَخْلِصُوْا فَاِنَّ آلِہَتَکُمْ لَا تُغْنِیْ عَنْکُمْ شَیْئًا ہَاہُنَا .فَقَالَ عِکْرِمَۃُ : وَاللّٰہِ لَئِنْ لَمْ یُنَجِّنِیْ فِی الْبَحْرِ اِلَّا الْاِخْلَاصُ لَمْ یُنَجِّنِیْ فِی الْبِرِّ غَیْرُہٗ اَللّٰہُمَّ اِنَّ لَک عَلَیَّ عَہْدًا اِنْ أَنْتَ أَنْجَیْتَنِیْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ أَنِّیْ آتِیَ مُحَمَّدًا ثُمَّ أَضَعُ یَدِی فِیْ یَدِہِ فَلَأَجِدَنَّہٗ عَفُوًّا کَرِیْمًا فَأَسْلَمَ .قَالَ : وَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ سَرْحٍ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمَّا دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ اِلَی الْبَیْعَۃِ جَائَ بِہٖ حَتّٰی أَوْقَفَہُ عَلٰی رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ بَایِعْ عَبْدَ اللّٰہِ قَالَ : فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَنَظَرَ اِلَیْہِ ثَلَاثًا کُلُّ ذٰلِکَ نَائِیًا فَبَایَعَہُ بَعْدَ ثَلَاثٍ .ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی أَصْحَابِہٖ فَقَالَ أَمَا کَانَ فِیْکُمْ رَجُلٌ یَقُوْمُ اِلَی ہَذَا حِیْنَ رَآنِیْ کَفَفْتُ یَدِیْ عَنْ بَیْعَتِہِ فَیَقْتُلَہٗ۔قَالُوْا : مَا دَرَیْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا فِیْ نَفْسِک فَہَلَّا أَوْمَأْتَ اِلَیْنَا بِعَیْنِکَ .فَقَالَ اِنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ لِنَبِیْ أَنْ تَکُوْنَ لَہٗ خَائِنَۃُ عَیْنٍ .
٥٣٥٢: اسباط بن نصر کہتے ہیں کہ سدی کا زعم یہ ہے کہ مصعب بن سعد نے اپنے والد سے یہ بات نقل کی ہے کہ جب فتح مکہ کا دن آیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں کو امن دیا سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے۔ ان کے متعلق فرمایا ان کو قتل کر ڈالو خواہ یہ کعبہ کے پردوں سے لٹکنے والے ہوں :
نمبر 1 عکرمہ بن ابی جہل۔
نمبر 2 عبداللہ بن خطل۔
نمبر 3 مقیس بن ضبابہ۔
نمبر 4 عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔
تشریح عبداللہ بن خطل کو کعبہ کے پردوں سے لپٹا پایا گیا سعید بن حریث اور عمار بن یاسر (رض) دونوں اس کی طرف دوڑے سعید آگے نکل گئے وہ زور میں زیادہ تھے اور اس کو قتل کردیا اور مقیس بن ضبابہ کو لوگوں نے بازار میں پا کر قتل کردیا باقی عکرمہ (یمن کی طرف) کشتی میں سوار ہو کر چل دیئے طوفان آگیا کشتی والے ایک دوسرے کو کہنے لگے خالص کر کے اللہ کو پکارو تمہارے معبود یہاں کام نہیں دیتے۔ عکرمہ کہنے لگے۔ اگر یہ سمندر میں بچا نہیں سکتے تو خشکی میں بھی بچا نہیں سکتے۔ خشکی میں بھی وہی بچا سکتا ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں اگر تو مجھے اس طوفان سے بچا لے گا تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں رکھ دوں گا میں امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے مہربانی سے معاف فرما دیں گے۔ پس وہ اسلام لے آئے۔ باقی عبداللہ بن ابی سرح ‘ حضرت عثمان بن عفان (رض) کے ہاں چھپ گیا جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان (رض) کو بلایا تو انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ کو بیعت کرلیجئے۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک اٹھا کر تین مرتبہ اس کی طرف دیکھا۔ ہر مرتبہ آپ نگاہ کو دور کرلیتے پھر تین مرتبہ کے بعد اس کو بیعت کرلیا۔
پھر صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کیا تم میں کوئی ایسا آدمی نہ تھا کہ اس کی طرف اٹھ کر اس وقت اس کو قتل کر ڈالتا جبکہ میں نے اس کی بیعت سے ہاتھ روک لیا تھا انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی بات ہم بوجھ نہیں سکے۔ آپ نے ہماری طرف آنکھ سے کیوں اشارہ نہ کردیا آپ نے فرمایا۔ کسی نبی کی آنکھ بھی خیانت کرنے والی نہیں ہوتی۔ (یعنی وہ کسی چیز کو نظر چرا کر نہیں دیکھتے)
تخریج : بخاری فی الصید باب ١٨‘ والجہاد باب ١٦٩‘ المغازی باب ٤٨‘ مسلم فی الحج ٤٥٠‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١١٧‘ ترمذی فی الجہاد باب ١٨‘ نسائی فی الحج باب ١٠٧‘ والتحریم باب ١٤‘ دارمی فی المناسک باب ٨٨‘ والسیر باب ١٩‘ مالک فی الحج ٢٤٧‘ مسند احمد ٣؍١٦٤‘ ١٨٦‘ ٤؍٤٢٣۔

5354

۵۳۵۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قِیْلَ لَہٗ : ہٰذَا مَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَظْفَرَہٗ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ .أَلَا یَرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا کَانَ صَالَحَ أَوَّلًا قَدْ کَانَ دَخَلَ فِیْ صُلْحِہِ ذٰلِکَ ہٰؤُلَائِ السِّتَّۃُ النَّفَرُ وَأَنَّ دِمَائَ ہُمْ قَدْ حَلَّتْ بَعْدَ ذٰلِکَ بِأَسْبَابٍ حَدَثَتْ مِنْہُمْ بَعْدَ الصُّلْحِ وَکَذٰلِکَ أَبُوْ سُفْیَانَ أَیْضًا کَانَ فِی الصُّلْحِ .ثُمَّ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ أَتَاہُ بِہٖ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ہٰذَا أَبُوْ سُفْیَانَ قَدْ أَمْکَنَ اللّٰہُ مِنْہُ بِغَیْرِ عَقْدٍ وَلَا عَہْدٍ .فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی أَجَارَہُ الْعَبَّاسُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِحَقْنِ دَمِہِ لِجِوَارِہِ .وَکَذٰلِکَ ہُبَیْرَۃُ بْنُ أَبِیْ وَہْبٍ الْمَخْزُوْمِیُّ وَابْنُ عَمِّہِ اللَّذَانِ کَانَا لَحِقَا بَعْدَ دُخُوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ اِلَی أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَأَرَادَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ یَقْتُلَہُمَا وَقَدْ کَانَا دَخَلَا فِی الصُّلْحِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قَدْ حَلَّتْ دِمَاؤُہُمَا بَعْدَ ذٰلِکَ بِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ کَانَتْ مِنْہُمَا حَتّٰی أَجَارَتْہُمَا أُمُّ ہَانِئٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَحَرُمَتْ بِذٰلِکَ دِمَاؤُہُمَا .وَکَذٰلِکَ مَنْ لَمْ یَدْخُلْ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ وَلَا مَنْ لَمْ یُغْلِقْ عَلَیْہِ بَابَہٗ قَدْ کَانَ دَخَلَ فِی الصُّلْحِ الْأَوَّلِ عَلٰی غَیْرِ اِشْرَاطٍ عَلَیْہِ فِیْہِ دُخُوْلُ دَارِ أَبِیْ سُفْیَانَ وَلَا بِغَلْقِ بَابَ نَفْسِہٖ عَلَیْہِ ثُمَّ حَلَّ دَمُہٗ بَعْدَ الصُّلْحِ الْأَوَّلِ بِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ کَانَتْ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .
٥٣٥٣: ابو امیہ نے احمد بن فضل سے روایت کی اور پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ معاملات تو اس وقت سے متعلق ہیں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان پر فتح و کامیابی عنایت فرما دی۔ ذرا غور تو کرو۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء میں صلح کی یہ چھ لوگ بھی صلح میں داخل تھے ان کے خون ان اسباب کی وجہ سے حلال ہوئے ہیں جن کا ارتکاب انھوں نے صلح کے بعد کیا ہے اسی طرح ابو سفیان بھی صلح میں داخل تھا (جب صلح توڑ دی) تو عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت کہا جب ابو سفیان کو عباس (رض) لے کر خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوئے کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ابو سفیان دشمن خدا پر اللہ تعالیٰ بلا عہد و معاہدہ قابو عنایت فرمایا ہے مجھے اس کے قتل کی اجازت دیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کے خون کی حفاظت کے لیے عباس (رض) نے ان کو پناہ دی اپنے قرب کی وجہ سے۔ اسی طرح ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی اور اس کا ابن عم جنہوں نے ام ہانی (رض) کے ہاں پناہ لی یہ داخلہ مکہ کے بعد کی بات ہے حضرت علی (رض) ان کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں بھی پہلی صلح میں تو محفوظ دم تھے پھر ان کے خون بعد میں ان کی حرکات کی وجہ سے مباح ہوئے یہاں تک کہ ام ہانی (رض) نے پناہ دی تو تب وہ محفوظ الدم بنے۔ اسی طرح وہ لوگ جو ابو سفیان کے گھر میں فتح مکہ کے دن داخل نہ ہوئے اور نہ انھوں نے اپنے دروازے بند کئے وہ پہلی صلح میں تو بلاشرط داخل تھے کہ ابو سفیان کے گھر میں داخلہ یا دروازہ بند کرنا پھر صلح کے بعد انھوں نے ایسے اسباب پیدا کئے جو ان کے خون کو مباح کرنے والے تھے۔
جوابیہ معاملات تو اس وقت سے متعلق ہیں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان پر فتح و کامیابی عنایت فرما دی۔
ذرا غور تو کرو۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء میں صلح کی یہ چھ لوگ بھی صلح میں داخل تھے ان کے خون ان اسباب کی وجہ سے حلال ہوئے ہیں جن کا ارتکاب انھوں نے صلح کے بعد کیا ہے اسی طرح ابو سفیان بھی صلح میں داخل تھا (جب صلح توڑ دی) تو عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت کہا جب ابو سفیان کو عباس (رض) لے کر خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوئے کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ابو سفیان دشمن خدا پر اللہ تعالیٰ بلا عہد و معاہدہ قابو عنایت فرمایا ہے مجھے اس کے قتل کی اجازت دیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کے خون کی حفاظت کے لیے عباس (رض) نے ان کو پناہ دی اپنے قرب کی وجہ سے۔
اسی طرح ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی اور اس کا ابن عم جنہوں نے ام ہانی (رض) کے ہاں پناہ لی یہ داخلہ کے مکہ کے بعد کی بات ہے حضرت علی (رض) ان کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں بھی پہلی صلح میں تو محفوظ دم تھے پھر ان کے خون بعد میں ان کی حرکات کی وجہ سے مباح ہوئے یہاں تک کہ ام ہانی (رض) نے پناہ دی تو تب وہ محفوظ الدم بنے۔
اسی طرح وہ لوگ جو ابو سفیان کے گھر میں فتح مکہ کے دن داخل نہ ہوئے اور نہ انھوں نے اپنے دروازے بند کئے وہ پہلی صلح میں تو بلاشرط داخل تھے کہ ابو سفیان کے گھر میں داخلہ یا دروازہ بند کرنا پھر صلح کے بعد انھوں نے ایسے اسباب پیدا کئے جو ان کے خون کو مباح کرنے والے تھے۔

5355

۵۳۵۴ : فَدَلَّ بِمَا حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ یُوْنُسَ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ الطُّوْسِیُّ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُطِیْعِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْھَاوَکَانَ اسْمُہُ الْعَاصِ فَسَمَّاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُطِیْعًا قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - حِیْنَ أَمَرَ بِقَتْلِ ہٰؤُلَائِ الرَّہْطِ بِمَکَّۃَ - یَقُوْلُ لَا تُغْزَی مَکَّۃُ بَعْدَ الْیَوْمِ أَبَدًا وَلَا یُقْتَلُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ صَبْرًا بَعْدَ الْعَامِ .فَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ غَزْوُہَا فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ بِخِلَافِہِ فِیْمَا بَعْدَہٗ مِنَ الْأَعْوَامِ ، وَفِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ لَا أَمَانَ لِأَہْلِہَا فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ لِأَنَّہٗ لَا یُغْزَی مَنْ ہُوَ فِیْ أَمَانٍ .وَقَوْلُہٗ لَا یُقْتَلُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ صَبْرًا بَعْدَ ذٰلِکَ الْعَامِ لِذٰلِکَ .وَفِیْمَا رَوَیْنَا وَذَکَرْنَا مِنَ الْآثَارِ وَکَشَفْنَا مِنْ الدَّلَائِلِ مَا تَقُوْمُ الْحُجَّۃُ بِہٖ فِیْ کَشْفِ مَا اخْتَلَفْنَا فِیْہِ وَاِیْضَاحِ فَتْحِ مَکَّۃَ أَنَّہٗ عَنْوَۃٌ وَبِاَللّٰہِ التَّوْفِیْقُ .وَلَقَدْ رُوِیَ فِیْ أَمْرِ مَکَّۃَ مَا یَمْنَعُ أَنْ یَکُوْنَ صُلْحًا
٥٣٥٤: شعبی نے عبداللہ بن مطیع بن اسود سے انھوں نے اپنے والد حضرت مطیع سے روایت کی ہے ان کا نام پہلے عاص تھا (جس کا معنی نافرمان ہے) آپ نے اس کا نام مطیع رکھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جب کہ آپ نے مکہ میں اس گروہ کے قتل کا حکم فرمایا تو ارشاد فرمایا آج کے بعد مکہ پر (کفر کی وجہ سے) جہاد نہ کیا جائے گا اور نہ کوئی قریشی قید و بند میں اس سال کے بعد مقتول ہوگا۔ اس روایت سے یہ دلالت ملتی ہے کہ آپ کا یہ غزوہ دوسرے سالوں کے غزوات سے الگ نوعیت کا تھا۔ اس غزوہ میں اہل مکہ کو امان حاصل نہ تھی کیونکہ جو امان میں ہو اس سے لڑائی درست نہیں اور لایقتل رجل من قریش والا ارشاد بھی اسی خاطر تھا۔ ہم نے آثار و دلائل پیش کر کے یہ ثابت کردیا کہ فتح مکہ زور سے ہوئی تھی فریق ثانی نے جس طرح کہا اس طرح نہیں۔ وباللہ التوفیق۔
تخریج : روایت ٥٣٣٢‘ ٥٣٣٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5356

۵۳۵۵ : مَا حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ح .
٥٣٥٥: یحییٰ بن عثمان بن صالح نے عبداللہ بن صالح سے روایت کی۔

5357

۵۳۵۶ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عُرْوَۃَ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : لَقَدْ أَظْہَرَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْاِسْلَامَ فَأَسْلَمَ أَہْلُ مَکَّۃَ وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاۃُ حَتّٰی اِنْ کَانَ لَیَقْرَأُ بِالسَّجْدَۃِ وَیَسْجُدُ فَیَسْجُدُوْنَ فَمَا یَسْتَطِیْعُ بَعْضُہُمْ أَنْ یَسْجُدَ مِنْ الزِّحَامِ وَضِیْقِ الْمَکَانِ لِکَثْرَۃِ النَّاسِ حَتَّی قَدِمَ رُئُوْسُ قُرَیْشٍ الْوَلِیْدُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ وَأَبُوْجَہْلٍ وَغَیْرُہُ فَکَانُوْا بِالطَّائِفِ فِیْ أَرَضِیہِمْ فَقَالَ : أَتَدَعُوْنَ دِیْنَ آبَائِکُمْ فَکَفَرُوْا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ اِسْلَامَ أَہْلِ مَکَّۃَ قَدْ کَانَ تَقَدَّمَ وَأَنَّہُمْ کَفَرُوْا بَعْدَ ذٰلِکَ .فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُؤَمِّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمًا مُرْتَدِّیْنَ بَعْدَ قُدْرَتِہِ عَلَیْہِمْ ؟ ہَذَا لَا یَجُوْزُ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ جَمِیْعًا أَنَّ الْمُرْتَدَّ یُحَالُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الطَّعَامِ اِلَّا مَا یَقُوْمُ بِنَفْسِہِ وَأَنَّہٗ یُحَالُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعَۃِ الْعَیْشِ ، وَالتَّصَرُّفِ فِیْ أَرْضِ اللّٰہِ حَتَّی یُرَاجِعَ دِیْنَ اللّٰہِ تَعَالٰی أَوْ یَأْبَیْ ذٰلِکَ فَیَمْضِیَ عَلَیْہِ حُکْمُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَأَنَّہٗ لَوْ سَأَلَ الْاِمَامَ أَنْ یُؤَمِّنَہٗ عَلٰی أَنْ یُقِیْمَ مُرْتَدًّا آمِنًا فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ أَنَّ الْاِمَامَ لَا یُجِیْبُہٗ اِلٰی ذٰلِکَ وَلَا یُعْطِیْہِ مَا سَأَلَ .فَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا مِنْ اِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ وَحُجَّۃٌ قَاطِعَۃٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُؤَمِّنْ أَہْلَ مَکَّۃَ بَعْدَ قُدْرَتِہٖ عَلَیْہِمْ وَظَفَرِہٖ بِہِمْ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ .
٥٣٥٦: عروہ نے مسور بن مخرمہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کو غالب و ظاہر فرمایا تو اہل مکہ اسلام لے آئے اور یہ نماز کی فرضیت سے پہلے کی بات ہے یہاں تک کہ جب آپ آیت سجدہ پڑھتے اور آپ سجدہ کرتے تو وہ بھی سجدہ کرتے بعض جگہ کی تنگی اور بھیڑ کی وجہ سے سجدہ نہ کر پاتے کیونکہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی قریش کا سربراہ ولید بن مغیرہ ‘ ابو جہل وغیرہ وہ طائف میں اپنے علاقے میں تھے وہ کہنے لگے کیا تم اپنے آباء کا دین چھوڑ رہے ہو ‘ چنانچہ انھوں نے انکار کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ اہل مکہ کا اسلام پہلے تھا اور انھوں نے پھر انکار کیا۔ پھر یہ کیسے درست ہے کہ قدرت کے بعد اس قوم کو امان دی جائے جو مرتد ہوئے تھے ؟ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق سوچنا بھی غلط ہے۔ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرتد کے کھانے میں رکاوٹ ڈالی جائے گی سوائے اس مقدار کے جس سے اس کی جان بچ جائے اس کے اور خوشحالی اور زمین میں تصرف و کاروبار میں رکاوٹ ڈالی جائے گی تاکہ وہ دین کی طرف لوٹ آئے یا انکار کر دے پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا حکم (قتل) نافذ کردیا جائے اگر وہ یہ مطالبہ کرے کہ حاکم اس کو امن دے تاکہ وہ ارتداد کی حالت میں دارالاسلام میں مقیم رہے تو اس کی یہ درخواست قبول نہ کی جائے گی۔ اس دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو قدرت و کامیابی کے امان نہیں دی۔ واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ اہل مکہ کا اسلام پہلے تھا اور انھوں نے پھر انکار کیا۔ پھر یہ کیسے درست ہے کہ قدرت کے بعد اس قوم کو امان دی جائے جو مرتد ہوئے تھے ؟ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق سوچنا بھی غلط ہے۔
اجماعی مسئلہ :
مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرتد کے کھانے میں رکاوٹ ڈالی جائے گی سوائے اس مقدار کے جس سے اس کی جان بچ جائے اس کے اور خوشحالی اور زمین میں تصرف و کاروبار میں رکاوٹ ڈالی جائے گی تاکہ وہ دین کی طرف لوٹ آئے یا انکار کر دے پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا حکم (قتل) نافذ کردیا جائے اگر وہ یہ مطالبہ کرے کہ حاکم اس کو امن سے تاکہ وہ ارتداد کی حالت میں دارالاسلام میں مقیم رہے تو اس کی یہ درخواست قبول نہ کی جائے گی۔
اس دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو قدرت و کامیابی کے امان نہیں دی۔ واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
حاصل کلام : امام طحاوی (رح) نے یہاں فریق اوّل کے مؤقف کو ترجیح دی اور اس کے لیے طویل بحث کر کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کو واضح کیا اس باب میں بھی اپنے مزاج کے خلاف تذکرہ فریق اوّل کا پہلے کر کے ترجیح اسی کو دی حالانکہ وہ راجح مسلک کو اکثر و بیشتر بعد میں ذکر کرتے ہیں۔ اس باب میں ثابت کیا کہ مکہ مکرمہ زور سے فتح کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔