HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

32. فرائض کا بیان

الطحاوي

7283

۷۲۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَائَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، رَجُلٌ ہَلَکَ ، وَتَرَکَ عَمَّتَہُ وَخَالَتَہٗ۔ فَسَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ وَاقِفٌ عَلٰی حِمَارِہٖ، فَوَقَفَ ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہٖ، وَقَالَ اللّٰہُمَّ رَجُلٌ ہَلَکَ وَتَرَکَ عَمَّتَہُ وَخَالَتَہٗ، فَیَسْأَلُہُ الرَّجُلُ، وَیَفْعَلُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ لَا شَیْئَ لَہُمَا۔
٧٢٨٠: عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک انصاری جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایک آدمی فوت ہوگیا ہے اور اس نے صرف پھوپھی اور خالہ پیچھے چھوڑی ہے۔ اس شخص نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت سوال کیا جبکہ آپ گدھے پر سوار تھے پس آپ ٹھہر گئے پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور بارگاہ الٰہی میں اس طرح سوال کیا اے اللہ ! ایک آدمی ہلاک ہوگیا اور اس نے اپنی پھوپھی اور خالہ پیچھے چھوڑی ہے۔ وہ آدمی آپ سے سوال کرتا رہا اور آپ نے اسی طرح تین مرتبہ کیا پھر فرمایا ان دونوں کو کچھ نہ ملے گا۔
تخریج : دارمی فی الفرائض باب ٣٨۔
خلاصہ الزام :
جب کوئی مرجائے اور کوئی عصبہ نہ چھوڑے تو اس کی میراث کسی کو بھی نہ ملے گی بیت المال میں جائے گی۔
فریق ثانی : میت کے اگر کوئی عصبہ نہ ہو تو اس کی میراث ذوی الارحام کو جائے گی جس کے اور میت کے درمیان کوئی رشتہ ہو اس لیے پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو ایک ثلث ملے گا۔

7284

۷۲۸۱ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ ، وَہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زَیْدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُعِیَ اِلَی جِنَازَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ ، حَتّٰی اِذَا جَائَ ہَا قَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَرَکَ ؟ قَالُوْا : تَرَکَ عَمَّتَہُ وَخَالَتَہٗ۔ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَالَ قِفُوْا الْحِمَارَ فَوَقَّفُوْا الْحِمَارَ فَقَالَ : اللّٰہُمَّ رَجُلٌ تَرَکَ عَمَّتَہٗ وَخَالَتَہٗ فَلَمْ یَنْزِلْ عَلَیْہِ شَیْئٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا أَجِدُ لَہُمَا شَیْئًا۔
٧٢٨١: عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انصار کے ایک جنازہ کے لیے بلایا گیا جب آپ جنازہ کے پاس تشریف لے آئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میت نے کیا چھوڑا ؟ انھوں نے کہا اس نے پیچھے اپنی پھوپھی اور خالہ چھوڑی ہیں پھر آپ آگے بڑھے اور فرمایا۔ گدھے کو روکو ! لوگوں نے اسے ٹھہرایا تو آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے ” اللہم رجل “ ایک آدمی نے اپنی پھوپھی اور خالہ چھوڑی ہے اس وقت آپ پر وحی نازل نہ ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میں ان کے لیے کوئی چیز نہیں پاتا۔

7285

۷۲۸۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرَّفٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْمُحَبَّرِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : أَتَیْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعَالِیَۃِ ، رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ رَجُلًا ہَلَکَ ، وَتَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ، فَانْطَلِقْ فَقَسِّمْ مِیْرَاثَہٗ۔فَتَبِعَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی حِمَارٍ فَقَالَ : یَا رَبِّ رَجُلٌ تَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ثُمَّ سَارَ ہُنَیْہَۃً ثُمَّ قَالَ یَا رَبِّ رَجُلٌ تَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ثُمَّ سَارَ ہُنَیْہَۃً ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ رَجُلٌ تَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ثُمَّ قَالَ لَا أَرٰی یَنْزِلُ عَلِیَّ شَیْئٌ ، لَا شَیْئَ لَہُمَا۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا مَاتَ وَتَرَکَ ذَا رَحِمٍ ، لَیْسَ بِعَصَبَۃٍ ، وَلَمْ یَتْرُکْ عَصَبَۃً غَیْرَہٗ، أَنَّہٗ لَا یَرِثُ مِنْ مَالِہِ شَیْئًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : یَرِثُ ذُو الرَّحِمِ اِذَا لَمْ یَکُنْ عَصَبَۃً بِالرَّحِمِ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَیِّتِ ، کَمَا یُوْرَثُ بِالرَّحِمِ الَّذِیْ یُدْلِی ، فَیَکُوْنُ لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ ؛ لِأَنَّہَا تُدْلِیْ بِرَحِمِ الْأُمِّ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ الَّذِیْ یَحْتَجُّ بِہٖ عَلَیْہِمْ مُخَالِفُہُمْ ، حَدِیْثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَمِنْ مَذْہَبِ ہٰذَا الْمُخَالِفِ لَہُمْ ، أَنْ لَا یَحْتَجَّ بِمُنْقَطِعٍ .فَکَیْفَ یَحْتَجُّ عَلَیْہِمْ بِمَا لَوْ احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ ، لَمْ یُسَوِّغُوْھُمْ اِیَّاہُ .ثُمَّ لَوْ ثَبَتَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، لَمْ یَکُنْ فِیْہِ أَیْضًا ، عِنْدَنَا حُجَّۃٌ فِیْ دَفْعِ مَوَارِیْثِ ذَوِی الْأَرْحَامِ ، ؛ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ ، لَا شَیْئَ لَہُمَا ، أَیْ لَا فَرْضَ لَہُمَا مُسَمًّی ، کَمَا لِغَیْرِہِمَا مِنْ النِّسْوَۃِ اللَّاتِیْ یَرِثْنَ ، کَالْبَنَاتِ ، وَالْأَخَوَاتِ وَالْجَدَّاتِ ، فَلَمْ یَنْزِلْ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، فَقَالَ لَا شَیْئَ لَہُمَا عَلَی ھٰذَا الْمَعْنَی .وَیُحْتَمَلُ أَیْضًا ، لَا شَیْئَ لَہُمَا ، لَا مِیْرَاثَ لَہُمَا أَصْلًا ؛ لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَزَلَ عَلَیْہِ حِیْنَئِذٍ وَأُوْلُوْا الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ۔فَلَمَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِ جَعَلَ لَہُمَا الْمِیْرَاثَ .فَاِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا أَیْضًا۔
٧٢٨٢: زید بن اسلم نے حضرت عطاء بن یسار (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص اہل عالیہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایک آدمی مرگیا اور اس نے اپنی پھوپھی اور خالہ کو چھوڑا ہے آپ چل کر اس کی میراث تقسیم فرما دیں۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پیچھے گدے پر سواری کی حالت میں روانہ ہوئے اور بارگاہ الٰہی میں گزارش کی اے میرے رب ایک آدمی نے اپنے پیچھے پھوپھی اور خالہ چھوڑی۔ پھر تھوڑی دیر چلے پھر کہا اے میرے رب ایک آدمی ہے جس نے ایک پھوپھی اور خالہ چھوڑی ہے پھر تھوڑی دیر چلے پھر کہا اے میرے رب ایک آدمی اس نے اپنے پیچھے پھوپھی اور خالہ چھوڑی ہے۔ پھر کہا میرے خیال میں اس کے متعلق کچھ بھی نازل نہ ہوگا ان دونوں کو وراثت میں میرے خیال میں کوئی چیز نہ ملے گی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آدمی جب مرجائے اور وہ ذی رحم کو چھوڑ جائے جو کہ عصبہ نہ ہو اور اس کے علاوہ اس نے کوئی عصبہ نہ چھوڑا ہو تو وہ اس کے مال میں سے کسی چیز کا مالک نہ ہوگا اور انھوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے کہ جب عصبہ نہ ہو تو یہ قرابتدار اس قرابت کی وجہ سے جو اس کے اور میت کے درمیان پائی جاتی ہے یہ وارث بن جائے گا جیسا کہ اس قرابت کی وجہ سے وارث بنتا ہے جو اس کو رشتہ دار بناتی ہے پس پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو ایک تہائی ملے گی۔ کیونکہ وہ مال کی قرابت کی وجہ سے رشتہ دار بنتی ہے۔ فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : جس روایت سے استدلال کیا گیا ہے وہ روایت منقطع ہے اور منقطع ان کے ہاں قابل حجت نہیں۔ اگر یہی منقطع ان کے خلاف دلیل میں پیش کریں ان کو نہ بھائے گی تو اپنے حق کے لیے کیسے پیش کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو تب بھی ہمارے نزدیک اس میں قرابت داروں کی وراثت کو دور ہٹانے پر کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ لاشئی ک امطلب یہ ہو کہ ان کے لیے کوئی متعین و مقرر وراثت کا حصہ نہیں جیسا کہ ان کے علاوہ ان عورتوں کے لیے ہوتا ہے جو وارث بنتی ہیں مثلاً بیٹیاں ‘ بہنیں اور دادیاں۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھوپھی اور خالہ کے سلسلہ میں کچھ بھی نازل نہ ہوا تو آپ نے اس بنیاد پر فرمایا کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں۔ لاشئی میں ایک دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ ان دونوں کے لیے وراثت میں بالکل حصہ نہیں کیونکہ اس وقت تک آپ پر وحی الٰہی سے کچھ بھی نازل نہ ہوا تھا اور نہ یہ آیت اتری تھی : ” واولوا الارحام بعضہم اولی ببعض “ (الانفال : ٧٥) جب آپ پر حکم اتر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے میراث مقرر کردی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کے معاملے میں یہ روایت وارد ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آدمی جب مرجائے اور وہ ذی رحم کو چھوڑ جائے جو کہ عصبہ نہ ہو اور اس کے علاوہ اس نے کوئی عصبہ نہ چھوڑا ہو تو وہ اس کے مال میں سے کسی چیز کا مالک نہ ہوگا اور انھوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے کہ جب عصبہ نہ ہو تو یہ قرابتدار اس قرابت کی وجہ سے جو اس کے اور میت کے درمیان پائی جاتی ہے یہ وارث بن جائے گا جیسا کہ اس قرابت کی وجہ سے وارث بنتا ہے جو اس کو رشتہ دار بناتی ہے پس پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو ایک تہائی ملے گی۔ کیونکہ وہ مال کی قرابت کی وجہ سے رشتہ دار بنتی ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : جس روایت سے استدلال کیا گیا ہے وہ روایت منقطع ہے اور منقطع ان کے ہاں قابل حجت نہیں۔ اگر یہی منقطع ان کے خلاف دلیل میں پیش کریں ان کو نہ بھائے گی تو اپنے حق کے لیے کیسے پیش کرتے ہیں۔
اگر بالفرض یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو تب بھی ہمارے نزدیک اس میں قرابت داروں کی وراثت کو دور ہٹانے پر کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ لاشئی ک امطلب یہ ہو کہ ان کے لیے کوئی متعین و مقرر وراثت کا حصہ نہیں جیسا کہ ان کے علاوہ ان عورتوں کے لیے ہوتا ہے جو وارث بنتی ہیں مثلاً بیٹیاں ‘ بہنیں اور دادیاں۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھوپھی اور خالہ کے سلسلہ میں کچھ بھی نازل نہ ہوا تو آپ نے اس بنیاد پر فرمایا کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں۔
!: لاشئی میں ایک دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ ان دونوں کے لیے وراثت میں بالکل حصہ نہیں کیونکہ اس وقت تک آپ پر وحی الٰہی سے کچھ بھی نازل نہ ہوا تھا اور نہ یہ آیت اتری تھی : ” واولوا الارحام بعضہم اولی ببعض “ (الانفال : ٧٥) جب آپ پر حکم اتر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے میراث مقرر کردی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کے معاملے میں یہ روایت وارد ہے۔

7286

۷۲۸۳ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیٰی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ عَمِّہٖ وَاسِعِ بْنِ حَیَّانَ ، قَالَ : تُوُفِّیَ ثَابِتُ بْنُ الدَّحْدَاحِ ، وَکَانَ أَتِیًّا ، وَہُوَ الَّذِیْ لَیْسَ لَہٗ أَصْلٌ یُعْرَفُ فَقَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِعَاصِمِ بْنِ عَدِی : ہَلْ تَعْرِفُوْنَ لَہٗ فِیْکُمْ نَسَبًا ؟ قَالَ : لَا ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ بْنِ أَخِیْہٖ، فَأَعْطَاہُ مِیْرَاثَہٗ۔ فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ وَرَّثَ أَبَا لُبَابَۃَ ، مِنْ ثَابِتٍ ، بِرَحِمِہِ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَہٗ.فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، مَوَارِیْثُ ذَوِی الْأَرْحَامِ ، وَدَلَّ سُؤَالُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَبَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی فِیْ حَدِیْثِ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ الْعَمَّۃِ وَالْخَالَۃِ : ہَلْ لَہُمَا مِیْرَاثٌ أَمْ لَا ؟ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَزَلَ عَلَیْہِ شَیْئٌ فِیْمَا تَقَدَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا تَأَخُّرُ حَدِیْثِ وَاسِعِ ہٰذَا، عَنْ حَدِیْثِ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، فَکَانَ نَاسِخًا لَہٗ۔ فَاِنْ قُلْتُمْ : اِنَّ حَدِیْثَ وَاسِعٍ ہٰذَا مُنْقَطِعٌ .قِیْلَ لَکُمْ : وَحَدِیْثُ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، مُنْقَطِعٌ أَیْضًا ، فَمَنْ جَعَلَکُمْ أَوْلٰی بِثُبُوْتِ الْمُنْقَطِعِ ، فِیْمَا یُوَافِقُکُمْ ، مِنْ مُخَالِفِکُمْ ، فِیْمَا یُوَافِقُہٗ؟ وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ہٰذَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ آثَارٍ مُتَّصِلَۃِ الْأَسَانِیدِ .مِنْہَا۔
٧٢٨٣: واسع ابن حبان نے کہا کہ ثابت بن دحداح فوت ہوگئے اور یہ باہر سے آنے والے تھے جن کے خاندان کا کچھ پتہ نہ تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاصم بن عدی کو فرمایا کیا تم اپنے خاندان میں اس کا نسب پہچانتے ہو۔ انھوں نے کہا نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو آپ نے ان کے بھانجے ابو لبابہ بن عبدالمنذر کو بلایا اور اس کی میراث ان کو عنایت فرمائی۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رحم کی رشتہ داری کی وجہ سے ابو لبابہ کو ثابت کی وراثت دی تو اس سے ثابت ہوگیا کہ ذی رحم بھی وارث ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عطاء ابن یسار والی روایت میں پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وراثت سے متعلق سوال کرنا۔ آیا ان کو وراثت ملے گی یا نہیں یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ابھی اس وقت تک اس سلسلے میں آپ پر کوئی حکم نہیں اترا تھا چنانچہ اس سے یہ بات خود ثابت ہوگی کہ یہ واسع والی روایت عطاء کی روایت سے مؤخر ہے اور اس کی ناسخ ہے۔ ایک ابھرتا ہوا سوال یہ ہے کہ آپ کی مستدل روایت منقطع ہے۔ حدیث عطاء بن یسار بھی تو منقطع ہے پھر تمہیں کس نے حق دیا ہے جو منقطع تمہارے موافق ہو اس کو تو ثابت کرلو اور جو مخالف ہو اس کو منقطع کہہ کر رد کر دو ۔ اسی طرح کی روایات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متصل اسناد کے ساتھ بھی وارد ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج : دارمی فی الفرائض باب ٣٨۔
حاصل : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رحم کی رشتہ داری کی وجہ سے ابو لبابہ کو ثابت کی وراثت دی تو اس سے ثابت ہوگیا کہ ذی رحم بھی وارث ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عطاء ابن یسار والی روایت میں پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وراثت سے متعلق سوال کرنا۔ آیا ان کو وراثت ملے گی یا نہیں یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ابھی اس وقت تک اس سلسلے میں آپ پر کوئی حکم نہیں اترا تھا چنانچہ اس سے یہ بات خود ثابت ہوگی کہ یہ واسع والی روایت عطاء کی روایت سے مؤخر ہے اور اس کی ناسخ ہے۔
t: ایک ابھرتا ہوا سوال یہ ہے کہ آپ کی مستدل روایت منقطع ہے۔
u: حدیث عطاء بن یسار بھی تو منقطع ہے پھر تمہیں کس نے حق دیا ہے جو منقطع تمہارے موافق ہو اس کو تو ثابت کرلو اور جو مخالف ہو اس کو منقطع کہہ کر رد کر دو ۔
!: اسی طرح کی روایات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متصل اسناد کے ساتھ بھی وارد ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

7287

۷۲۸۴ : مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْحَنْظَلِیُّ ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، ح۔
٧٢٨٤: وکیع نے سفیان سے روایت کی ہے۔

7288

۷۲۸۵ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ حُنَیْفٍ ، عَنْ أَبِیْ أُسَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، أَنَّ رَجُلًا رَمٰی رَجُلًا بِسَہْمٍ فَقَتَلَہٗ، وَلَیْسَ لَہٗ وَارِثٌ اِلَّاخَالٌ .فَکَتَبَ فِیْ ذٰلِکَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ اِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ .فَکَتَبَ عُمَرُ : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ، مَوْلٰی مَنْ لَا وَلِیَّ لَہٗ، وَالْخَالُ وَارِثٌ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ۔
٧٢٨٥: عبادہ بن حنیف نے ابو اسامہ بن سہل بن حنیف سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو تیر مار کر ہلاک کردیا اور مرنے والے کا سوائے ماموں کے کوئی وارث نہ تھا تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کی طرف خط لکھا تو حضرت عمر (رض) نے ان کی طرف یہ لکھا کہ جس کا کوئی وارث نہ ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے وارث ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو ماموں اس کا وارث ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الفرائض باب ٨‘ ترمذی فی الفرائض باب ١٢‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٧‘ والفرائض باب ٩‘ دارمی فی الفرائض باب ٣٨‘ مسند احمد ٤؍١٣١۔

7289

۷۲۸۶ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ۔
٧٢٨٦: طاو ٗس نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماموں ان کا وارث ہے جن کا کوئی وارث نہ ہو۔

7290

۷۲۸۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَرْفَعْہُ .
٧٢٨٧: ابراہیم بن مرزوق نے ابو عاصم سے پھر انھوں نے اسی طرح اپنی سند سے روایت نقل کی ہے مگر اس کو مرفوع بیان نہیں کیا۔

7291

۷۲۸۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ یَحْیٰی بْنُ أَحْمَدَ بْنِ زَکَرِیَّا بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِیْ مَیْسَرَۃَ الْمَکِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، فَذَکَر بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْ یَحْیَی : وَأَرَاہُ قَدْ رَفَعَہُ .
٧٢٨٨: ہشام بن سلیمان سے ابن جریج سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ابو یحییٰ کہتے ہیں میرے خیال میں انھوں نے اس کو مرفوعاً نقل کیا ہے۔

7292

۷۲۸۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : یَزِیْدُ الْعُقَیْلِیُّ : أَخْبَرَنِیْ عُلَیّ بْنُ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْ عَامِرٍ الْہَوْزَنِیِّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یَکْرِبَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ تَرَکَ کَلًّا ، فَعَلَیَّ۔قَالَ شُعْبَۃُ : رُبَّمَا قَالَ : قَالَ وَمَنْ تَرَکَ مَالًا ، فَلِوَرَثَتِہٖ، وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ، أَعْقِلُ عَنْہُ وَأَرِثُہٗ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ، یَعْقِلُ عَنْہُ وَیَرِثُہٗ۔
٧٢٨٩: ابو عامر ہوزنی نے مقدام بن معدی کرب سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کوئی قرضہ چھوڑا وہ میرے ذمے ہے شعبہ کہتے ہیں بسا اوقات یہ بھی فرمایا کہ جس نے مال چھوڑا وہ اس کے ورثاء کا ہے اور میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو میں اس کی طرف سے چٹی ادا کروں گا اور اس کا وارث ہوں گا اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ وہ اس کی طرف سے دیت ادا کرے گا اور اس کا وارث ہوگا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الفرائض باب ٩‘ مسند احمد ٤؍١٣١۔

7293

۷۲۹۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَیْسَرَۃَ قَالَ : ثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُخْبِرِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٢٩٠: بذل بن مخبر نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی۔

7294

۷۲۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ بُدَیْلٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ أَرِثُ مَالَہٗ، وَأَفُکُّ عَانَہٗ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ، وَیَفُکُّ عَانَہٗ۔
٧٢٩١: حماد بن زید نے بدیل سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اس میں ال الفاظ کا فرق ہے کہ میں ان کے مال کا وارث ہوں گا اور اس کی گردن چھڑاؤں گا اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ اور وہ اس کی گردن کو چھڑائے گا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الفرائض باب ٨‘ مسند احمد ٤؍١٣٣۔

7295

۷۲۹۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَیْسَرَۃَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٧٢٩٢: سلیمان بن حرب کہتے ہیں کہ حماد بن زید نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

7296

۷۲۹۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ أَنَّہٗ سَمِعَ الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِ یَکْرِبَ ، یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ مَوْلٰی مَنْ لَا مَوْلٰی لَہٗ، یَرِثُ مَالَہٗ، وَیَفُکُّ عَنْوَہٗ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ، یَرِثُ مَالَہٗ وَیَفُکُّ عَنْوَہٗ۔فَہٰذِہِ آثَارٌ مُتَّصِلَۃٌ ، قَدْ تَوَاتَرَتْ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمَا یُوَافِقُ مَا رَوَی الْوَاسِعُ بْنُ حِبَّانَ ، وَیُخَالِفُ مَا رَوٰی عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ .وَقَدْ شَذَّ ذٰلِکَ کُلُّہُ وَبَیَّنَہُ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : وَأُوْلُوْا الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ۔فَقَالَ الْمُخَالِفُ لَنَا : لَا دَلِیْلَ لَکُمْ فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ ، عَلٰی مَا ذَہَبْتُمْ اِلَیْہِ مِنْ ہٰذَا ؛ لِأَنَّ النَّاسَ کَانُوْا یَتَوَارَثُوْنَ بِالتَّبَنِّیْ ، کَمَا تَبَنَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ ، فَکَانَ زَیْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَکَانَ مَنْ فَعَلَ ہٰذَا وَرِثَ الْمُتَبَنِّیْ مَالَہٗ، دُوْنَ سَائِرِ أَرْحَامِہِ، وَکَانَ النَّاسُ یَتَعَاقَدُوْنَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ یَرِثُ الرَّجُلَ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَأُوْلُوْا الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ دَفْعًا لِذٰلِکَ ، وَرَدًّا لِلْمَوَارِیْثِ اِلَی ذٰوِی الْأَرْحَامِ ، وَقَالَ : اُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ۔وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٩٣: راشد بن سعد نے مقدام بن معدیکرب (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بیان کرتے سنا کہ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول اس کا مولیٰ ہے جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو (یہاں مولیٰ سے وارث مراد ہے اس کا مطلب اس کے مال کا بیت المال میں جمع ہونا ہے) وہ اس کے مال کے وارث ہوں گے اور اس کی گردن چھڑائیں گے۔ اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو وہ اس کے مال کا وارث ہوگا اور اس کی گردن کو چھڑائے گا۔ یہ آثار متواتر و متصل روایت کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں یہ تمام واسع بن حبان کی روایت کی موافقت کر رہے ہیں اور عطاء بن یسار کی روایت کے مضمون کے خلاف ہیں۔ ان روایات نے اس آیت ” واولوالارحام بعضہم اولی ببعض “ (الانفال : ٧٥) کے مضمون کی وضاحت و تاکید کردی۔ اس آیت واولوا الارحام الایۃ میں تمہارے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ لوگ اس زمانہ میں متبنیٰ ہونے کی وجہ سے بھی وارث ہوتے تھے جیسا کہ حضرت زید بن حارثہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متبنیٰ بنایا۔ چنانچہ جو شخص متبنیٰ بناتا وہ اس کے مال کا بھی وارث ہوتا ذی الارحام مال کے وارث نہ بنتے گو زمانہ جاہلیت میں اس طرح بھی معاہدہ کرتے ایک آدمی دوسرے آدمی کا وارث بنے گا تو اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یہ آیت اتاری : ” واولوا الارحام بعضہم اولی ببعض۔۔۔“ تاکہ یہ رشم ختم ہوجائے اور میراث ذی الارحام کی طرف لوٹ آئے اور متبنیٰ کے بارے میں فرما دیا ” ادعوہم لآباہ م “ کہ ان کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو اسی طرح روایات میں وارد ہے روایت یہ ہے۔
حاصل : یہ آثار متواتر و متصل روایت کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں یہ تمام واسع بن حبان کی روایت کی موافقت کر رہے ہیں اور عطاء بن یسار کی روایت کے مضمون کے خلاف ہیں۔ ان روایات نے اس آیت ” واولوالارحام بعضہم اولی ببعض “ (الانفال : ٧٥) کے مضمون کی وضاحت و تاکید کردی۔
فریق اوّل کی طرف سے ایک اعتراض :
اس آیت واولوا الارحام الایۃ میں تمہارے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ لوگ اس زمانہ میں متبنیٰ ہونے کی وجہ سے بھی وارث ہوتے تھے جیسا کہ حضرت زید بن حارثہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متبنیٰ بنایا۔ چنانچہ جو شخص متبنیٰ بناتا وہ اس کے مال کا بھی وارث ہوتا ذی الارحام مال کے وارث نہ بنتے گو زمانہ جاہلیت میں اس طرح بھی معاہدہ کرتے ایک آدمی دوسرے آدمی کا وارث بنے گا تو اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یہ آیت اتاری : ” واولوا الارحام بعضہم اولی ببعض۔۔۔“ تاکہ یہ رشم ختم ہوجائے اور میراث ذی الارحام کی طرف لوٹ آئے اور متبنیٰ کے بارے میں فرما دیا ” ادعوہم لآباہ م “ کہ ان کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو اسی طرح روایات میں وارد ہے روایت یہ ہے۔

7297

۷۲۹۴ : مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ عِیْسَیْ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : کَانَ لِأَخِی شُرَیْحِ بْنِ الْحَارِثِ جَارِیَۃٌ ، فَوَلَدَتْ جَارِیَۃً ، فَشَبَّتْ فَزَوَّجَہَا ، فَوَلَدَتْ غُلَامًا ، وَمَاتَتِ الْجَدَّۃُ .فَاخْتَصَمَ شُرَیْحٌ وَالْغُلَامُ اِلَی شُرَیْحٍ قَالَ : فَجَعَلَ شُرَیْحٌ یَقُوْلُ: لَیْسَ لَہٗ مِیْرَاثٌ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، اِنَّمَا ہُوَ ابْنُ بِنْتٍ ، وَقَضٰی لِلْغُلَامِ بِالْمِیْرَاثِ ، قَالَ : وَأُوْلُوْا الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ : قَالَ : فَرَکِبَ مَیْسَرَۃُ بْنُ زَیْدٍ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، فَحَدَّثَہٗ بِاَلَّذِیْ قَضٰی بِہٖ شُرَیْحٌ .قَالَ : فَکَتَبَ ابْنُ الزُّبَیْرِ اِلَی شُرَیْحٍ : أَنَّ مَیْسَرَۃَ حَدَّثَنِیْ أَنَّک قَضٰیْتُ کَذَا ، وَقُلْت عِنْدَ ذٰلِکَ وَأُوْلُوْا الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاِنَّمَا کَانَتْ تِلْکَ الْآیَاتُ فِی الْعَصَبَاتِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَکَانَ الرَّجُلُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، یُعَاقِدُ الرَّجُلَ ، فَیَقُوْلُ : تَرِثُنِیْ وَأَرِثُک فَلَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ ، تَرَکَ ذٰلِکَ .قَالَ : فَقَدَّمَ الْکِتَابَ اِلَی شُرَیْحٍ فَقَرَأَہٗ وَقَالَ اِنَّمَا أَعْتَقَہَا حِیْتَانُ بَطْنِہَا ، وَأَبَی أَنْ یَرْجِعَ عَنْ قَضَائِہٖ۔ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ حَدِیْثِہِ ہٰذَا، أَنَّہُمْ کَانُوْا یَتَوَارَثُوْنَ بِالتَّعَاقُدِ دُوْنَ الْأَنْسَابِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، رَدًّا لِذٰلِکَ وَأُوْلُوْا الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ۔فَکَانَ فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ ، دَفْعُ الْمِیْرَاثِ بِالْعَاقِدَۃِ ، وَاِیجَابُہُ لِذَوِی الْأَرْحَامِ دُوْنَہُمْ .وَلَمْ یُبَیِّنْ لَنَا فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ أَنَّ ذَوِی الْأَرْحَامِ ، ہُمُ الْعَصَبَۃُ أَوْ غَیْرُہُمْ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنُوْا ہُمُ الْعَصَبَۃُ ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کُلُّ ذِیْ رَحِمٍ ، عَلٰی مَا جَائَ فِیْ تَفْصِیلِ الْمَوَارِیْثِ ، فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، ثَبَتَ أَنْ لَا حُجَّۃَ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَاِنَّمَا ہٰذَا الْحَدِیْثُ حُجَّۃٌ عَلٰی ذٰاہِبٍ ، لَوْ ذَہَبَ اِلٰی مِیْرَاثِ الْمُتَعَاقِدَیْنِ ، بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ ، لَا غَیْرَ ذٰلِکَ ، فَہٰذَا مَعْنَیْ حَدِیْثِ ابْنِ الزُّبَیْرِ .وَقَدْ ذَہَبَ أَہْلُ بَدْرٍ اِلٰی مَوَارِیْثِ ذَوِی الْأَرْحَامِ ، فَمَا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا، عَنْ عُمَرَ فِیْ کِتَابِہٖ اِلٰی أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجِرَاحِ .فَلَمْ یَذْکُرْ أَبُو عُبَیْدَۃَ ذٰلِکَ عَلَیْہٖ، فَدَلَّ أَنَّ مَذْہَبَہٗ فِیْہٖ، کَانَ کَمَذْہَبِہٖ .
٧٢٩٤: عیسیٰ بن حارث کہتے ہیں کہ میرے بھائی شریح بن حارث کی ایک لونڈی تھی اس نے ایک بیٹی جنی۔ انھوں نے اس کا نکاح کردیا اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا اور دادی مرگئی چنانچہ شریح کے بھائی اور وہ لڑکا اپنا مقدمہ قاضی شریح کے پاس لے آئے حضرت شریح کہنے لگے کہ قرآن مجید میں اس کے لیے میراث نہیں ہے کیونکہ وہ مرنے والی کو نواسہ ہے اور غلام کے لیے قاضی شریح نے میراث کا فیصلہ کیا اور دلیل یہ دی ” واولوالارحام “ الایۃ چنانچہ میسرہ بن زید حضرت ابن زبیر کی خدمت میں گئے اور شریح کے فیصلے کی اطلاع دی راوی کہتے ہیں کہ ابن زبیر نے قاضی شریح کو لکھا کہ مجھے میسرہ نے بتایا ہے کہ تم نے یہ فیصلہ کیا اور دلیل میں یہ آیت پڑھی : ” واولوا الارحام بعضہم۔۔۔“ یہ آیات تو جاہلیت میں جو عصبات بنتے تھے ان کے بارے میں اتری کہ آدمی جاہلیت میں دوسرے آدمی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے کہتا تو میرا وارث میں تیرا وارث جب یہ آیت اتری تو اس قسم کے معاہدے ختم کردیئے میسرہ نے وہ خط شریح کو آ کردیا شریح نے اس کو پڑھا اور اس کے بارے میں یہ کہا کہ اس کے پیٹ کی دو مچھلیوں نے اپنے پیٹ سے اس کو آزاد کیا ہے اور اپنے فیصلے سے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔ اور دوسروں کی ان قول والوں کے خلاف دلیل یہ ہے ‘ اس روایت میں جو عبداللہ ابن زبیر نے بیان کی اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں وہ لوگ باہمی معاہدے کے ذریعے وارث بنتے تھے نہ کہ نسب سے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید میں یہ آیت اتاری : ” واولوا الارحام بعضہم۔۔۔“ تو آیت میں معاہدے والی میراث کو رد کر کے ذی الارحام کے لیے اس کو لازم کردیا گیا ہے البتہ آیت میں یہ وضاحت نہیں کہ ذوی الارحام وہی عصبہ ہیں یا ان کے علاوہ عصبہ ہیں پس اس میں یہ دونوں احتمال ہیں کہ وہی عصبہ ہوں اور یہ بھی احتمال ہے ہر ذی رحم مراد ہو جیسا کہ دیگر روایات میں میراث کی تفصیل میں وارد ہوا جب یہ بات اسی طرح ہے تو اس سے یہ بات خودبخود ثابت ہوگئی کہ اس روایت میں فریقین میں سے کسی کی بھی دلیل نہیں البتہ اس حدیث میں ان لوگوں کے خلاف حجت ضرور ہے جو معاہدات کی وجہ سے میراث کا حق مانتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ہیں اس کے علاوہ نہیں یہ عبداللہ ابن زیبر کی روایت کا مفہوم ہے اور اہل بدر ذی الارحام کی میراث کو مانتے ہیں ان میں ایک روایت تو وہ ہے جو اسی کتاب میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کی طرف خط لکھا اور حضرت ابوعبیدہ (رض) نے ان کے بارے میں تنقید نہیں کی اس سے ثابت ہوا کہ ان کا مذہب بھی اس سلسلے میں وہی تھا (روایت یہ ہے) ۔
الجواب : اس روایت میں جو عبداللہ ابن زبیر نے بیان کی اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں وہ لوگ باہمی معاہدے کے ذریعے وارث بنتے تھے نہ کہ نسب سے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید میں یہ آیت اتاری : ” واولوا الارحام بعضہم۔۔۔“ تو آیت میں معاہدے والی میراث کو رد کر کے ذی الارحام کے لیے اس کو لازم کردیا گیا ہے البتہ آیت میں یہ وضاحت نہیں کہ ذوی الارحام وہی عصبہ ہیں یا ان کے علاوہ عصبہ ہیں پس اس میں یہ دونوں احتمال ہیں کہ وہی عصبہ ہوں۔
!: اور یہ بھی احتمال ہے ہر ذی رحم مراد ہو جیسا کہ دیگر روایات میں میراث کی تفصیل میں وارد ہوا جب یہ بات اسی طرح ہے تو اس سے یہ بات خودبخود ثابت ہوگئی کہ اس روایت میں فریقین میں سے کسی کی بھی دلیل نہیں البتہ اس حدیث میں ان لوگوں کے خلاف حجت ضرور ہے جو معاہدات کی وجہ سے میراث کا حق مانتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ہیں اس کے علاوہ نہیں یہ عبداللہ ابن زیبر کی روایت کا مفہوم ہے۔
اہلِ بدر سے ذوی الارحام کی میراث کا ثبوت :
ان میں ایک روایت تو وہ ہے جو اسی کتاب میں ہم ذکر کر آئے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کی طرف خط لکھا اور حضرت ابو عبیدہ (رض) نے ان کے بارے میں تنقید نہیں کی اس سے ثابت ہوا کہ ان کا مذہب بھی اس سلسلے میں وہی تھا (روایت یہ ہے)

7298

۷۲۹۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ھِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أَتَی زِیَادٌ فِیْ رَجُلٍ مَاتَ ، وَتَرَکَ عَمَّتَہٗ وَخَالَتَہٗ، فَقَالَ : ہَلْ تَدْرُوْنَ کَیْفَ قَضٰی عُمَرُ فِیْہَا ؟ .قَالُوْا : لَا .قَالَ : وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِقَضَائِ عُمَرَ فِیْہَا ، جَعَلَ الْعَمَّۃَ بِمَنْزِلَۃِ الْأَخِ ، وَالْخَالَۃَ بِمَنْزِلَۃِ الْأُخْتِ ، فَأَعْطَی الْعَمَّۃَ الثُّلُثَیْنِ ، وَالْخَالَۃَ الثُّلُثَ .
٧٢٩٥: شعبی کہتے ہیں کہ زیاد کے پاس ایک آدمی فیصلہ آیا کہ ایک شخص فوت ہوگیا اور اس نے پیچھے پھوپھی اور خالہ چھوڑی تو زیاد نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ حضرت عمر (رض) نے اس سلسلے میں کیا فیصلہ کیا۔ انھوں نے کہا نہیں تو زیاد کہنے لگے اللہ کی قسم مجھے اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) کے فیصلے کا سب سے زیادہ علم ہے چنانچہ انھوں نے پھوپھی کو بمنزلہ بھائی کے اور خالہ کو بمنزلہ بہن کے قرار دیا پس پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو تیسرا ثلث دیا۔
تخریج : دارمی فی الفرائض باب ٢٧۔

7299

۷۲۹۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : أَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، وَالْمُبَارَکُ بْنُ فَضَالَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہٗ جَعَلَ لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَیْنِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثَ .
٧٢٩٦: حسن نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو ایک ثلث دیا۔

7300

۷۲۹۷ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : أَتَیْ عَبْدُ اللّٰہِ فِیْ اِخْوَۃٍ لِأُم ، وَأُم ، فَأَعْطَی الْاِخْوَۃَ مِنَ الْأُمِّ الثُّلُثَ ، وَأَعْطَی الْأُمَّ سَائِرَ الْمَالِ وَقَالَ : الْأُمُّ عَصَبَۃُ مَنْ لَا عَصَبَۃَ لَہٗ وَکَانَ لَا یَرُدُّ عَلَی الْاِخْوَۃِ لِأُم مَعَ الْأُمِّ ، وَلَا عَلٰی ابْنَۃِ ابْنٍ ، مَعَ ابْنَۃِ الصُّلْبِ ، وَلَا عَلٰی أَخَوَاتٍ لِأَبٍ ، مَعَ أُخْتٍ لِأَبٍ وَأُم ، وَلَا عَلَی امْرَأَۃٍ ، وَلَا عَلٰی جَدَّۃٍ ، وَلَا عَلَی زَوْجٍ .
٧٢٩٧: مسروق کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے پاس ایک مقدمہ آیا جو ماں اور ماں جائی بہنوں کے سلسلے میں تھا تو انھوں نے ماں جائی بہنوں کو ثلث اور بقیہ تمام مال ماں کو دیا اور فرمایا ماں اس کا عصبہ ہے جس کا کوئی عصبہ نہ ہو اور عبداللہ ماں کی طرف سے حقیقی بھائی ماں کے ہوتے ہوئے ان پر میراث کو نہ لوٹاتے تھے اسی طرح حقیقی بیٹی کے ہوتے ہوئے پوتی پر میراث کو نہ لوٹاتے تھے اور اسی طرح حقیقی بہن کے ہوئے ہوئے باپ کی طرف سے بہنوں پر میراث کو نہ لوٹاتے تھے اور نہ ہی عورت اور نہ دادی اور نہ خاوند پر میراث کو لوٹاتے تھے۔

7301

۷۲۹۸ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : أَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ ، عَنْ یَحْیٰی بْنِ وَثَّابٍ ، عَنْ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ الْخَالَۃُ وَالِدَۃٌ۔
٧٢٩٨: مسروق نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ خالہ والدہ ہے یعنی والدہ کی طرح ہے۔

7302

۷۲۹۹ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا حَبِیْبُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، أَنَّ عُمَرَ قَضٰی لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَیْنِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثَ .
٧٢٩٩: جابر بن زید کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو ایک ثلث دیا۔

7303

۷۳۰۰ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ ، عَنْ بَکْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عُمَرَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٣٠٠: حمیدالطویل نے بکر سے انھوں نے عبداللہ سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7304

۷۳۰۱ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَبْدُ اللّٰہِ، یُوَرِّثَانِ الْأَرْحَامَ ، دُوْنَ الْوَلَائِ .قُلْتُ : اِنْ کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَشَدَّہُمْ فِیْ ذٰلِکَ .
٨٣٠١: ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت عثمان اور عبداللہ (رض) دونوں ذوی الارحام کو وارث رحم کی وجہ سے بناتے تھے ولاء کی وجہ سے نہیں۔ میں نے کہا اگر علی (رض) اس طرح کرتے ہوں ؟ تو انھوں نے کہا حضرت علی (رض) تو اس سلسلہ میں ان سب سے سخت تھے۔

7305

۷۳۰۲ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : أَنَا عُبَیْدَۃُ ، عَنْ حِبَّانَ الْجُعْفِیِّ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، أَنَّ رَجُلًا مَاتَ ، وَتَرَکَ ابْنَۃً ، وَامْرَأَۃً ، وَمَوْلَاۃً .قَالَ سُوَیْدٌ : اِنِّیْ جَالِسٌ عِنْدَ عَلِیٍّ ، اِذْ جَائَ تْہُ مِثْلُ ہٰذِہِ الْقِصَّۃِ ، فَأَعْطَی ابْنَتَہُ النِّصْفَ ، وَامْرَأَتَہٗ الثَّمَنَ ، ثُمَّ رَدَّ مَا بَقِیَ ، عَلٰی ابْنَتِہٖ، وَلَمْ یُعْطِ الْمَوْلٰی شَیْئًا .
٧٣٠٢: سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہوگیا اور اس نے ایک بیٹی ‘ بیوی اور ایک لونڈی چھوڑی ہے۔ سوید کہنے لگے میں اس وقت حضرت علی (رض) کے پاس بیٹھا تھا جبکہ ان کے ہاں اس قسم کا قصہ آیا تو انھوں نے بیٹی کو نصف اور بیوی کو آٹھواں دیا اور پھر جو بچ گیا وہ اس کی بیٹی کو لوٹا دیا لونڈی کو کچھ نہ دیا۔

7306

۷۳۰۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ عَنْ حِبَّانَ الْجُعْفِیِّ قَالَ : کَانَ عِنْدَ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٧٣٠٣: حبان جعفی کہتے ہیں کہ میں حضرت سوید بن غفلہ کے پاس تھا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی۔

7307

۷۳۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَرُدُّ بَقِیَّۃَ الْمَوَارِیْثِ ، عَلٰی ذٰوِی السِّہَامِ ، مِنْ ذَوِی الْأَرْحَامِ .
٧٣٠٤: جابر نے ابو جعفر سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) بقیہ میراث کو ذوای الارحام میں سے حصہ داروں کی طرف لوٹاتے تھے۔

7308

۷۳۰۵ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أُتِیَ زِیَادٌ فِیْ عَم لِأُم ، وَخَالَۃٍ .فَقَالَ : أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِقَضَائِ عُمَرَ فِیْہَا ؟ أَعْطَی الْعَمَّ لِلْأُمِّ الثُّلُثَیْنِ وَأَعْطَی الْخَالَۃَ الثُّلُثَ .
٧٣٠٥: مطرف نے شعبی سے نقل کیا کہ زیاد کے پاس ایک میراث کا فیصلہ آیا جو مال کے چچا اور خالہ کا تھا تو زیاد نے کہا کیا میں تمہیں حضرت عمر (رض) کے فیصلہ کی خبر نہ دوں ؟ چنانچہ انھوں نے ماں کے چچا کو دو ثلث اور خالہ کو ایک ثلث دیا۔

7309

۷۳۰۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ ثِنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ۔قُلْتُ : أَسَمِعْتِہٖ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ ؟ قَالَ : ہُوَ أَدَلُّ مَا سَمِعْتِہٖ مِنْہُ .
٧٣٠٦: سلیمان نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ پھوپھی کو دو ثلث اور خالہ کو ایک ثلث دیا جائے گا میں نے کہا کیا تم نے یہ ابراہیم سے سنا ہے تو اس نے کہا یہ تو پہلی بات ہے جو میں نے ان سے سنی تھی۔

7310

۷۳۰۷ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ : مِثْلَہٗ فَہٰذَاہُمْ ہٰؤُلَائِ ، أَہْلُ بَدْرٍ قَدْ وَرَّثُوْا ذَوِی الْأَرْحَامِ بِأَرْحَامِہِمْ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنُوْا عَصَبَۃً .فَاِنْ کَانَ اِلَی التَّقْلِیْدِ ، فَتَقْلِیْدُ ہٰؤُلَائِ أَوْلَی ، وَاِنْ کَانَ اِلٰی مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَدْ ذَکَرْنَا مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَاِنْ کَانَ اِلَی النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْعَصَبَۃَ یَرِثُوْنَ اِذَا کَانُوْا ذُکُوْرًا ، وَرَأَیْنَا بَعْضَہُمْ، اِذَا کَانَ لَہٗ مِنَ الْقُرْبِ ، مَا لَیْسَ لِبَعْضٍ ، کَانَ بِذٰلِکَ الْقُرْبِ أَوْلٰی بِالْمِیْرَاثِ ، مِمَّنْ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْہُ .وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ اِذَا لَمْ یَکُنْ لِلْمَیِّتِ عَصَبَۃٌ ، یَرِثُوْنَہُ جَمِیْعًا .فَاِذَا کَانَ بَعْضُہُمْ أَقْرَبَ اِلَیْہِ مِنْ بَعْضٍ ، فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، أَنْ یَکُوْنَ مِنْ قَرُبَ مِنْہُ أَوْلٰی بِالْمِیْرَاثِ ، مِمَّنْ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْہُ مِنَ الْمُتَوَفَّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .فَثَبَتَ بِالنَّظَرِ أَیْضًا ، مَا ذَکَرْنَا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا ، عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اخْتِلَافًا بَیْنَہُمْ فِیْ بَعْضِہَا ، وَبَعْدَ اجْتِمَاعِہِمْ عَلَی الْوِرَاثَۃِ بِالْأَرْحَامِ الَّتِیْ لَا تُعَصِّبُ أَہْلَہَا فَمِمَّنِ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ مِیْرَاثِ ذَوِی الْأَرْحَامِ دُوْنَ الْمَوَالِیْ، وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَلِی ، وَعَبْدِ اللّٰہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خِلَافُ ذٰلِکَ .
٧٣٠٧: ابراہیم نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ بدری صحابہ کرام ہیں کہ جنہوں نے ذوی الارحام کو رحم کی وجہ سے وارث قرار دیا اگرچہ وہ عصبہ نہ ہوں۔ پس اگر تقلید کی بات ہے تو ان حضرات کی تقلید اولیٰ ہے اور اگر روایات کو پیش نظر رکھنا ہو تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہم نے روایات اس باب میں نقل کردیں۔ اگر نظر و فکر کا لحاظ کرنا ہو تو لیجئے ہم نے دیکھا کہ عصبہ اس وقت وارث بنتا ہے جبکہ مذکر ہو۔ اور ہم ان عصبات کو دیکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک قریب ہوتا ہے اس قرابت سے جو دوسرے کو حاصل نہیں تو وہ قرب کی وجہ سے میراث کا زیادہ حقدار ہے اس کے مقابلے میں جو کہ اس سے دور ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب میت کا عصبہ نہ ہو تو تمام مسلمان اس کے وارث بن جاتے۔ پس جبکہ ان میں سے بعض دوسروں کی بنسبت اس سے قریب تر ہیں تو نظر کا تقاضا یہی ہے کہ اقرب کو دی جائے اور اس سے دور والے کو نہ دی جائے۔ پس نظر سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ میراث اقرب کو دی جائے گی یہی ہمارے ائمہ حضرات ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ ہم نے صحابہ کرام (رض) سے جو روایات نقل کی ہیں ان میں سے بعض میں ان کا اختلاف ذکر کیا ہے لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ عصبہ نہ ہونے کے باوجود قرابت وراثت کا باعث ہے۔ جن حضرات کو اس سلسلہ میں اختلاف ہے ان میں سے بعض نے تو قرابت داروں کی وراثت میں اختلاف کیا اور آزاد کردہ غلاموں کے متعلق اختلاف نہیں کیا۔ ہم نے یہ بات حضرت عمر ‘ علی ‘ ابن مسعود (رض) سے نقل کی ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف بھی مروی روایات ہیں ‘ ملاحظہ ہوں۔
حاصل : یہ بدری صحابہ کرام ہیں کہ جنہوں نے ذوی الارحام کو رحم کی وجہ سے وارث قرار دیا اگرچہ وہ عصبہ نہ ہوں۔ پس اگر تقلید کی بات ہے تو ان حضرات کی تقلید اولیٰ ہے اور اگر روایات کو پیش نظر رکھنا ہو تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہم نے روایات اس باب میں نقل کردیں۔
اوّل نظر طحاوی (رح) :
اگر نظر و فکر کا لحاظ کرنا ہو تو لیجئے ہم نے دیکھا کہ عصبہ اس وقت وارث بنتا ہے جبکہ مذکر ہو۔ اور ہم ان عصبات کو دیکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک قریب ہوتا ہے اس قرابت سے جو دوسرے کو حاصل نہیں تو وہ قرب کی وجہ سے میراث کا زیادہ حقدار ہے اس کے مقابلے میں جو کہ اس سے دور ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب میت کا عصبہ نہ ہو تو تمام مسلمان اس کے وارث بن جاتے۔
پس جبکہ ان میں سے بعض دوسروں کی بنسبت اس سے قریب تر ہیں تو نظر کا تقاضا یہی ہے کہ اقرب کو دی جائے اور اس سے دور والے کو نہ دی جائے۔ پس نظر سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ میراث اقرب کو دی جائے گی یہی ہمارے ائمہ حضرات ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
اختلاف کی نوعیت :
ہم نے صحابہ کرام (رض) سے جو روایات نقل کی ہیں ان میں سے بعض میں ان کا اختلاف ذکر کیا ہے لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ عصبہ نہ ہونے کے باوجود قرابت وراثت کا باعث ہے۔ جن حضرات کو اس سلسلہ میں اختلاف ہے ان میں سے بعض نے تو قرابت داروں کی وراثت میں اختلاف کیا اور آزاد کردہ غلاموں کے متعلق اختلاف نہیں کیا۔
ہم نے یہ بات حضرت عمر ‘ علی ‘ ابن مسعود (رض) سے نقل کی ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف بھی مروی روایات ہیں ‘ ملاحظہ ہوں۔

7311

۷۳۰۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا أَبَانُ بْنُ ثَعْلَبَ ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شِدَادِ بْنِ الْہَادِ ، أَنَّ ابْنَۃَ حَمْزَۃَ ، أَعْتَقَتْ مَوْلًیْ لَہَا ، فَمَاتَ الْمَوْلٰی، وَتَرَکَہَا ، وَتَرَکَ ابْنَتَہٗ فَأَعْطَاہَا النَّبِیُّ النِّصْفَ ، وَأَعْطٰی بِنْتَ حَمْزَۃَ النِّصْفَ۔
٧٣٠٨: عبداللہ بن شداد بن ہاد کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی نے اپنے ایک غلامکو آزاد کیا پھر وہ غلام مرگیا تو اس سے اپنی مالکہ اور ایک بیٹی چھوڑی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالکہ کو اس کی وراثت میں سے نصف عنایت فرمایا اور نصف اس کی بیٹی کو دیا۔

7312

۷۳۰۹ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شِدَادٍ یَقُوْلُ : ہِیَ أُخْتِیْ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٧٣٠٩: حضرت عبداللہ بن شداد کہتے تھے کہ وہ میری بہن ہے پھر اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7313

۷۳۱۰ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنَ کُہَیْلٍ ، قَالَ: انْتَہَیْتُ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شِدَادٍ ، وَہُوَ یُحَدِّثُ الْقَوْمَ ، وَہُوَ یَقُوْلُ : ہِیَ أُخْتِی .فَسَأَلْتہمْ فَقَالُوْا : کَانَ مَوْلًی لِابْنَۃِ حَمْزَۃَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٧٣١٠: سلمہ بن کھیل کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن شداد (رض) کے ہاں پہنچا اس وقت وہ لوگوں کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے وہ میری بہن ہے پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ یہ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کے غلام تھے پھر اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7314

۷۳۱۱ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ حَیَّانَ الْأَسَدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شِدَادٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٣١١: منصور بن حبان اسدی نے حضرت عبداللہ بن شداد (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

7315

۷۳۱۲ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ أَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ یَعْقُوْبَ ، وَأَبِیْ فَزَارَۃَ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شِدَادٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔ثُمَّ قَالَ : ہَلْ تَدْرُوْنَ مَا بَیْنِیْ وَبَیْنَہَا ؟ ہِیَ أُخْتِیْ مِنْ أُمِّی ، کَانَتْ أُمُّنَا أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ الْخَثْعَمِیَّۃَ۔فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ وَرَّثَ بِنْتَ حَمْزَۃَ مِنْ مَوْلَاہَا ، مَا بَقِیَ بَعْدَ نَصِیْبِ ابْنَتِہٖ، بِحَقِّ فَرْضِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لَہَا ، وَلَمْ یَرُدَّ مَا بَقِیَ عَلَی الْبِنْتِ۔فَدَلَّتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ ، أَنَّ مَوْلَی الْعَتَاقَۃِ ، أَوْلٰی بِالْمِیْرَاثِ مِنَ الرَّحِمِ الَّذِیْ لَیْسَ بِعَصَبَۃٍ ، وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ہٰذَا أَیْضًا عَنْ عَلِی .
٧٣١٢: محمد بن عبداللہ اور ابو فزارہ دونوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن شداد نے روایت کی پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ نے بنت حمزہ (رض) کو غلام کا وارث قرار دیا جو کچھ کہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ حصہ کے مطابق بیٹی کے نصف کے بعد بچا اور بقیہ کو آپ نے بیٹی کی طرف نہیں لوٹایا ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مولیٰ عتاقہ میراث میں اس رحم سے مقدم ہے جو عصبہ نہ ہو۔ اور اسی طرح کی روایت حضرت علی (رض) سے بھی مروی ہے۔ روایت علی (رض) ملاحظہ ہو۔
تشریح : پھر انھوں نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس کے اور میرے درمیان کیا رشتہ ہے ؟ پھر خود فرمایا وہ ماں کی طرف سے میری بہن ہے ہماری ماں اسماء بنت عمیس حثعمیہ تھیں۔
حاصل : یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ نے بنت حمزہ (رض) کو غلام کا وارث قرار دیا جو کچھ کہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ حصہ کے مطابق بیٹی کے نصف کے بعد بچا اور بقیہ کو آپ نے بیٹی کی طرف نہیں لوٹایا ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مولیٰ عتاقہ میراث میں اس رحم سے مقدم ہے جو عصبہ نہ ہو۔ اور اسی طرح کی روایت حضرت علی (رض) سے بھی مروی ہے۔ روایت علی (رض) ملاحظہ ہو۔

7316

۷۳۱۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا فِطْرٌ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ قَالَ : قَضٰی عَلِیٌّ فِیْ أُنَاسٍ مِنَّا فِیْ مَنْ تَرَکَ ابْنَتَہُ وَمَوْلَاتَہٗ فَأَعْطَی ابْنَتَہُ النِّصْفَ ، وَالْمُوْلَاۃَ النِّصْفَ.
٧٣١٣: حکم بن عتیبہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ہم میں سے بعض آدمیوں کے مابین فیصلہ کیا جنہوں نے اپنی بیٹی اور لونڈی ترکہ میں چھوڑی چنانچہ آپ نے بیٹی کو نصف وراثت اور بقیہ لونڈی کو آدھی دے دی۔

7317

۷۳۱۴ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ قَالَ : رَأَیْتُ الْمَرْأَۃَ الَّتِیْ وَرَّثَہَا عَلِیٌّ مِنْ أَبِیہَا النِّصْفَ ، وَوَرَّثَ مَوْلَاہَا النِّصْفَ .وَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا عِنْدَنَا ؛ لِأَنَّا رَأَیْنَا الْمَوْلٰی اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ بِنْتٌ وَرِثَ بِالتَّعْصِیْبِ ، کَمَا تَرِثُ الْعَصَبَۃُ مِنْ ذَوِی الْأَرْحَامِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ہُوَ ، اِذَا کَانَتْ مَعَہُ ابْنَۃٌ یَرِثُ مَعَہَا ، کَمَا تَرِثُ الْعَصَبَۃُ مِنْ ذَوِی الْأَرْحَامِ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَأَمَّا مَا ذَکَرْنَاہُ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، مِنْ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرُدُّ عَلَی اِخْوَۃٍ لِأُم ، مَعَ أُم شَیْئًا ، وَلَا عَلٰی ابْنَۃِ ابْنٍ مَعَ ابْنَۃِ الصُّلْبِ ، وَلَا عَلٰی أَخَوَاتٍ لِأَبٍ ، مَعَ أَخَوَاتٍ لِأَبٍ وَأُم شَیْئًا .فَقَدْ ذَکَرْنَا عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافَ ذٰلِکَ ، وَأَنَّہٗ کَانَ یَرُدُّ بَقِیَّۃَ الْمَوَارِیْثِ عَلٰی ذٰوِی السِّہَامِ مِنْ ذَوِی الْأَرْحَامِ .فَاِنَّ النَّظَرَ عِنْدَنَا فِیْ ذٰلِکَ ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ عَلِیٌّ ؛ لِأَنَّہُمْ جَمِیْعًا ، ذَوُوْ أَرْحَامٍ .وَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ فِیْ فَرَائِضِہِمْ الَّتِیْ فَرَضَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ ، فَقَدْ وَرِثُوْھَا جَمِیْعًا بِأَرْحَامٍ مُخْتَلِفَۃٍ .وَلَمْ یَکُنْ بَعْضُہُمْ بِقُرْبِ رَحِمِہٖ، أَوْلٰی بِالْمِیْرَاثِ مِنْ غَیْرِہِ مِنْہُمْ ، مِمَّنْ بَعْدَ رَحِمِہٖ۔ فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنُوْا جَمِیْعًا فِیْمَا یُرَدُّ عَلَیْہِمْ ، مِنْ فُضُوْلِ الْمَوَارِیْثِ کَذٰلِکَ ، وَأَنْ لَا یُقَدَّمَ مَنْ قَرُبَ رَحِمُہٗ عَلٰی مَنْ کَانَ أَبْعَدَ رَحِمًا مِنَ الْمَیِّتِ مِنْہُ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ فِیْمَا ذَکَرْنَاہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِعْطَائِہٖ بِنْتَ حَمْزَۃَ النِّصْفَ ، وَبِنْتَ مَوْلَاہَا النِّصْفَ ، أَنَّ ذٰلِکَ اِنَّمَا کَانَ طُعْمَۃً مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِابْنَۃِ حَمْزَۃَ .
٧٣١٤: سلمہ بن کھیل سے روایت ہے کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کو حضرت علی (رض) نے اس کے باپ کی میراث سے نصف دیا اور اس کے آزاد کرنے والے کو نصف کا وارث بنایا۔ ہمارے ہاں نظر و فکر کا تقاضا یہی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مولیٰ کے ساتھ مرنے والے کی بیٹی نہ ہو تو وہ عصبہ کی وجہ سے وارث بنتا ہے جیسا کہ قرابت والوں میں عصبہ وارث ہوتا ہے تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب اس کے ساتھ میت کی بیٹی ہو تو اس وقت بھی اس کا یہی حکم ہو۔ اور وہ لڑکی کے ساتھ اس طرح وارث ہوگا جیسا کہ قرابت والوں کے ساتھ عصبہ کی حیثیت سے وارث ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں قیاس یہی ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ حضرت عبداللہ ماں کے ساتھ ماں کی طرف سے جو بہنیں ان کی طرف نہیں لوٹاتے۔ اسی طرح حقیقی بہن کے ساتھ پوتی کی طرف نہیں لوٹاتے اور نہ حقیقی بہنوں کے ساتھ باپ کی طرف سے بہنوں کی طرف لوٹاتے ہیں۔ اور حضرت علی (رض) سے اس کے خلاف نقل کیا ہے کہ آپ بچنے والی میراث کو ان قرابت والوں کی طرف لوٹا دیتے ہیں جن کے حصے مقرر ہیں ہمارے نزدیک نظر کا تقاضا وہی ہے جس کی طرف حضرت علی (رض) گئے ہیں کیونکہ وہ سب ذوالارحام ہیں ہم نے ان کے ان فرضی حصوں کو جب دیکھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر کئے ہیں تو ہم نے یہ بات پائی کہ وہاں بھی وراثت مختلف رشتوں کی وجہ سے ملی وراثت کے حق دار دوسروں کے مقابلے میں رحم کے قرب کی وجہ سے نہیں ہوئے تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے وہ تمام جن پر وراثت کو لوٹایا جاتا ہے قریب رحم والا مرنے والے سے بعید رحم والے کی بنسبت مقدم نہ ہو یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ جیسا کہ ہم نے ابراہیم (رح) کی روایت ذکر کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو ان کے آزاد کردہ غلام کی وراثت میں سے نصف عنایت فرمائی اور نصف غلام کی بیٹی کو دی ابراہیم کہتے ہیں کہ یہ وراثت نہیں تھی بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو کھانے پینے کی اشیاء کے طور پر یہ مال دیا تھا جیسا کہ اس روایت میں بھی ہے۔

طحاوی (رح) کی نظر ثانی :
ہمارے ہاں نظر و فکر کا تقاضا یہی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مولیٰ کے ساتھ مرنے والے کی بیٹی نہ ہو تو وہ عصبہ کی وجہ سے وارث بنتا ہے جیسا کہ قرابت والوں میں عصبہ وارث ہوتا ہے تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب اس کے ساتھ میت کی بیٹی ہو تو اس وقت بھی اس کا یہی حکم ہو۔ اور وہ لڑکی کے ساتھ اس طرح وارث ہوگا جیسا کہ قرابت والوں کے ساتھ عصبہ کی حیثیت سے وارث ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں قیاس یہی ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کی وضاحت :
ہم نے پہلے ذکر کیا کہ حضرت عبداللہ ماں کے ساتھ ماں کی طرف سے جو بہنیں ان کی طرف نہیں لوٹاتے۔ اسی طرح حقیقی بہن کے ساتھ پوتی کی طرف نہیں لوٹاتے اور نہ حقیقی بہنوں کے ساتھ باپ کی طرف سے بہنوں کی طرف لوٹاتے ہیں۔ اور حضرت علی (رض) سے اس کے خلاف نقل کیا ہے کہ آپ بچنے والی میراث کو ان قرابت والوں کی طرف لوٹا دیتے ہیں جن کے حصے مقرر ہیں ہمارے نزدیک نظر کا تقاضا وہی ہے جس کی طرف حضرت علی (رض) گئے ہیں کیونکہ وہ سب ذوالارحام ہیں ہم نے ان کے ان فرضی حصوں کو جب دیکھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر کئے ہیں تو ہم نے یہ بات پائی کہ وہاں بھی وراثت مختلف رشتوں کی وجہ سے ملی وراثت کے حق دار دوسروں کے مقابلے میں رحم کے قرب کی وجہ سے نہیں ہوئے تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے وہ تمام جن پر وراثت کو لوٹایا جاتا ہے قریب رحم والا مرنے والے سے بعید رحم والے کی بنسبت مقدم نہ ہو یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصف وراثت دی :
جیسا کہ ہم نے ابراہیم (رح) کی روایت ذکر کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو ان کے آزاد کردہ غلام کی وراثت میں سے نصف عنایت فرمائی اور نصف غلام کی بیٹی کو دی ابراہیم کہتے ہیں کہ یہ وراثت نہیں تھی بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو کھانے پینے کی اشیاء کے طور پر یہ مال دیا تھا جیسا کہ اس روایت میں بھی ہے۔

7318

۷۳۱۵ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ. وَہٰذَا عِنْدَنَا ، کَلَامٌ فَاسِدٌ ؛ لِأَنَّ ابْنَۃَ مَوْلَی ابْنَۃِ حَمْزَۃَ ، اِنْ کَانَ وَجَبَ لَہَا جَمِیْعُ مِیْرَاثِ أَبِیہَا بِرَحِمِہَا مِنْہُ، فَمُحَالٌ أَنْ یُطْعِمَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنْتَ حَمْزَۃَ .وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ لَمْ یَجِبْ لَہَا کُلُّہٗ، وَاِنَّمَا وَجَبَ لَہَا نِصْفُہٗ، فَمَا بَقِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ النِّصْفُ ، رَاجِعٌ اِلٰی مَنْ أَعْتَقَہٗ، وَہِیَ ابْنَۃُ حَمْزَۃَ .فَاسْتَحَالَ مَا ذَکَرَ اِبْرَاھِیْمُ فِیْ ذٰلِکَ ، وَثَبَتَ أَنَّ مَا دَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی بِنْتِ حَمْزَۃَ ، کَانَ بِالْمِیْرَاثِ، لَا بِغَیْرِہٖ۔ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا ، آثَارٌ فِیْ تَوْرِیْثِ مَنْ لَیْسَ بِعَصَبَۃٍ وَلَا رَحِمٍ ۔
٧٣١٥: حسن بن صالح نے منصور سے انھوں نے ابارہیم سے روایت کی مگر ہمارے نزدیک یہ بات غلط ہے کیونکہ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کے آزاد کردہ غلام کی بیٹی کے لیے اس کی وراثت میں سے قرابت کے طور پر اگر تمام مال واجب ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں سے حمزہ کی بیٹی کے لیے بطور خوراک کچھ دیتے اور اگر تمام مال لازم نہ تھا بلکہ آدھا ہی لازم تھا پھر اس سے بچا ہوا آدھا مال آزاد کرنے والے کی طرف جانا ہی تھا تو گویا بنت حمزہ کو جو کچھ دیا گیا وہ بطور ولاء دیا گیا پس جو کچھ ابراہیم (رح) کے ذکر کیا وہ درست نہ ہوا بلکہ یہ ثابت ہوگیا کہ میراث میں سے جو کچھ ان کو دیا گیا وہ بطور حق میراث ہی تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات بھی وارد ہیں جن میں آپ نے ایسے لوگوں کو بھی وراثت دی جن کا نہ تو رحم کا رشتہ تھا اور نہ ہی وہ عصبات میں سے تھے ( روایت بطور نمونہ ملاحظہ ہو) ۔
t: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات بھی وارد ہیں جن میں آپ نے ایسے لوگوں کو بھی وراثت دی جن کا نہ تو رحم کا رشتہ تھا اور نہ ہی وہ عصبات میں سے تھے ( روایت بطور نمونہ ملاحظہ ہو) ۔

7319

۷۳۱۶ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ عَوْسَجَۃَ ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا مَاتَ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَتْرُکْ قَرَابَۃً اِلَّا عَبْدًا ہُوَ ، أَعْتَقَہٗ، فَأَعْطَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِیْرَاثَہٗ۔قَالَ : فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدْ وَرَّثَ الْمَوْلَی الْأَسْفَلَ ، مِنَ الْمَوْلَی الْأَعْلٰی، وَأَنْتُمْ لَا تَقُوْلُوْنَ بِہٰذَا .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَوْلَی الْأَسْفَلُ ، یَرِثُ الْمَوْلَی الْأَعْلَی۔وَاِنَّمَا فِیْہِ أَنَّہٗ دَفَعَ مِیْرَاثَہٗ، وَہُوَ تَرِکَتُہُ اِلَیْہٖ، وَلَیْسَ کَمَا رُوِیَ عَنْہُ فِی الْخَالِ ، أَنَّہٗ قَالَ ہُوَ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہٗ۔فَقَدْ یَحْتَمِلُ وُجُوْہًا .مِنْہَا أَنْ یَکُوْنَ دَفَعَہُ اِلَیْہِ ؛ لِأَنَّہٗ وَرَّثَہُ اِیَّاہُ بِمَالِ الْمَیِّتِ عَلَیْہِ مِنَ الْوَلَائِ .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَوْلَاہُ ذَا رَحِمٍ لَہٗ، فَدَفَعَ اِلَیْہِ مَالَہٗ بِالرَّحِمِ ، وَوَرَّثَہُ لَہٗ، لَا بِالْوَلَائِ .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ فِی الْحَدِیْثِ وَلَمْ یَتْرُکْ قَرَابَۃً اِلَّا عَبْدًا ہُوَ أَعْتَقَہٗ۔فَأَخْبَرَ أَنَّ الْعَبْدَ کَانَ قَرَابَۃً لَہٗ، فَوَرَّثَہُ بِالْقَرَابَۃِ .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ دَفَعَ اِلَیْہِ مِیْرَاثَہٗ۔ لِأَنَّ الْمَیِّتَ کَانَ أَمَرَ بِذٰلِکَ ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَہٗ، حَیْثُ أَمَرَ بِوَضْعِہٖ فِیْہٖ، کَمَا قَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ .
٧٣١٦: عوسجہ مولیٰ ابن عباس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں فوت ہوا اور اس نے کوئی رشتہ دار پیچھے نہ چھوڑا سوائے ایک غلام کے جس کو وہ آزاد کرچکا تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی وراثت اس غلام کو دے دی۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولاء اعلیٰ یعنی مالک کی وراثت مولاء اسفل یعنی آزاد کردہ غلام کو عنایت فرمائی حالانکہ تم اس کے قائل نہیں۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس روایت میں تو قطعا یہ مذکور نہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمایا ہو کہ مولاء اسفل مولاء اعلیٰ کا وارث ہوگا بس اتنی بات ہے کہ آپ نے غلام کو وہ وراثت عنایت فرما دی جو کہ اس کا ترکہ تھی یہ اس طرح نہیں جیسا کہ امموں کے بارے میں آپ نے صاف فرمایا کہ وہ اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو پس اس روایت میں کئی احتمالات ہیں۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو میت کا مال اس لیے عنایت فرمایا کہ وہ ولاء کے اعتبار سے اس مال کا حق دار تھا۔ ممکن ہے وہ غلام اس کا قرابت دار بھی ہو اور قرابت کی وجہ سے اس کو وہ مال ملا ہو ولاء کی وجہ سے نہ دیا ہو حدیث کے ان الفاظ سے ادھر اشارہ نکلتا ہے ” ولم یترک قرابتا الا عبدا ہو اعتقہ “ الحدیث کہ اس کا کوئی قرابت دار نہیں تھا سوائے اس غلام کے جس کو وہ آزاد کرچکا تھا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ غلام اس کا قرابت دار تھا اس کو قرابت کی وجہ سے وراثت ملی۔ اس کی میراث اس لیے دی گئی ممکن ہے میت نے اس کا حکم دیا ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مال وصیت کے مطابق لگا دیا جیسا کہ روایت ابن مسعود (رض) میں مذکور ہے (ملاحظہ ہو)
حاصل : یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولاء اعلیٰ یعنی مالک کی وراثت مولاء اسفل یعنی آزاد کردہ غلام کو عنایت فرمائی حالانکہ تم اس کے قائل نہیں۔
u: اس روایت میں تو قطعا یہ مذکور نہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمایا ہو کہ مولاء اسفل مولاء اعلیٰ کا وارث ہوگا بس اتنی بات ہے کہ آپ نے غلام کو وہ وراثت عنایت فرما دی جو کہ اس کا ترکہ تھی یہ اس طرح نہیں جیسا کہ امموں کے بارے میں آپ نے صاف فرمایا کہ وہ اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو پس اس روایت میں کئی احتمالات ہیں۔
: کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو میت کا مال اس لیے عنایت فرمایا کہ وہ ولاء کے اعتبار سے اس مال کا حق دار تھا۔
!: ممکن ہے وہ غلام اس کا قرابت دار بھی ہو اور قرابت کی وجہ سے اس کو وہ مال ملا ہو ولاء کی وجہ سے نہ دیا ہو حدیث کے ان الفاظ سے ادھر اشارہ نکلتا ہے ” ولم یترک قرابتا الا عبدا ہو اعتقہ “ الحدیث کہ اس کا کوئی قرابت دار نہیں تھا سوائے اس غلام کے جس کو وہ آزاد کرچکا تھا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ غلام اس کا قرابت دار تھا اس کو قرابت کی وجہ سے وراثت ملی۔
": اس کی میراث اس لیے دی گئی ممکن ہے میت نے اس کا حکم دیا ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مال وصیت کے مطابق لگا دیا جیسا کہ روایت ابن مسعود (رض) میں مذکور ہے (ملاحظہ ہو)

7320

۷۳۱۷ : فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عِیْسٰی ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیْلَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ حَیْ مِنَ الْعَرَبِ ، أَحْرَی أَنْ یَمُوْتَ الرَّجُلُ مِنْہُمْ ، وَلَا یُعْرَفَ لَہٗ وَارِثٌ مِنْکُمْ مَعْشَرَ ہَمْدَانَ فَاِذَا کَانَ کَذٰلِکَ فَلْیَضَعْ مَالَہٗ، حَیْثُ أَحَبَّ .قَالَ الْأَعْمَشُ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِاِبْرَاھِیْمَ فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ ہَمَّامُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیْلَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، مِثْلَہٗ۔
٧٣١٧: عمرو بن شرحبیل کہتے ہیں کہ مجھے ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہیں کہ ان کا کوئی آدمی مرجائے اور اے گروہ ہمدان تم میں سے کوئی اس کا وارث نہ بنے اگر ایسی صورت پیش آجائے تو پھر اس کا مال اس مقام پر لگا دے جہاں وہ پسند کرے۔ اعمش کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات ابراہیم کو بتلائی تو انھوں نے کہا کہ حمام بن حارث نے عمرو بن شرحبیل اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

7321

۷۳۱۸ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیْ عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ مِثْلَہٗ۔
٧٣١٨: سلمیٰ بن کھیل نے ابو عمرو شیبانی سے انھوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

7322

۷۳۱۹ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیْلَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ۔
٧٣١٩: ابراہیم نے عمرو بن شرحبیل سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7323

۷۳۲۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّیْبَانِیَّ ، یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : السَّائِبَۃُ یَضَعُ مَالَہٗ حَیْثُ أَحَبَّ .
٧٣٢٠: سلمہ بن کھیل کہتے ہیں کہ میں نے ابو عمرو شیبانی کو حضرت عبداللہ سے یہ بات بیان کرتے سنا کہ آزاد کردہ غلام جو لاوارث ہو وہ اپنا مال جہاں چاہے رکھے۔

7324

۷۳۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرٌ وَأَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیْلَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ۔
٧٣٢١: ابراہیم نے عمرو بن شرحبیل سے انھوں نے ابن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

7325

۷۳۲۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیْ عَمْرِو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، مِثْلَہٗ۔ وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَہُ الْمَوْلَی الْأَسْفَلَ‘ لِفَقْرِہٖ، کَمَا لِلْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ ، فِیْمَا فِیْ یَدِہٖ مِنَ الْأُمُوْرِ الَّتِیْ لَا رَبَّ لَہَا. وَقَدْ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ یَذْکُرُ أَنَّ ہٰذَا التَّأْوِیْلَ الْآخَرَ ، قَدْ رُوِیَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ آدَمَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، مَا ذَکَرْنَا ، لَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْمِلَہٗ عَلٰی تَأْوِیْلٍ مِنْہَا ، اِلَّا بِدَلِیْلٍ یَدُلُّہٗ عَلَیْہٖ، مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ، أَوْ مِنْ سُنَّۃِ رَسُوْلِہٖ ، أَوْ مِنْ اِجْمَاعٍ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ نَحْوٍ مِنْ ہٰذَا۔
٧٣٢٢: سلمہ بن کھیل نے ابو عمرو شیبانی سے انھوں نے حضرت عبداللہ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس میں احتمال یہ ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولیٰ اسفل کے فقیر ہونے کی وجہ سے اس کو یہ مال بطور خوراک دیا ہو جس طرح کہ امام کو یہ حق حاصل ہے کہ جن مالوں کا کوئی مالک نہ ہو وہ فقراء کو دیا جائے میں نے یہ بات ابن ابی عمران سے بھی سنی اور یحییٰ بن آدم سے بھی یہ مروی ہے جب اس روایت میں احتمال ہے تو پھر اس کو بطور دلیل کے کسی کو استعمال کا حق نہیں سوائے کسی اور دلیل کی معاونت کے جو کہ کتاب اللہ سنت رسول یا اجماع سے ہو اس طرح کی روایات بھی احادیث میں وارد ہیں۔

7326

۷۳۲۳ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَا: ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ: ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ أَحْمَدَ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیْھَا قَالَ: تُوُفِّیَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَۃَ، فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِیْرَاثِہِ فَقَالَ اُطْلُبُوْا لَہٗ وَارِثًا أَوْ ذَا قَرَابَۃٍ ہٰکَذَا قَالَ یُوْنُسُ .وَقَالَ ابْنُ خُزَیْمَۃَ أَوْ ذَا رَحِمٍ فَطَلَبُوْا فَلَمْ یَجِدُوْا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ادْفَعُوْا اِلٰی أَکْبَرِ خُزَاعَۃَ۔فَہٰذَا عِنْدَنَا ۔ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - عَلٰی مَا قَالَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ، الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا .
٧٣٢٣: ابوبکر بن احمد نے ابن بریرہ سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ بنو خزاعہ کا ایک آدمی مرگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کی میراث کا معاملہ آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا کوئی وارث یا قرابت والا تلاش کرو یونس راوی نے اسی طرح ذکر کیا ابن خزیمہ کی روایت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی رحم کے لفظ فرمائے چنانچہ انھوں نے تلاش کیا تو نہ پایا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میراث کو خزاعہ کے بڑے آدمی کے حوالے کر دو یہ ہمارے نزدیک ہے جیسا کہ یحییٰ بن آدم نے نقل کیا ہے جو کہ اس سے پہلے ہے۔

7327

۷۳۲۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ: ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ مَوْلًیْ لِلنَّبِیِّ وَقَعَ مِنْ نَخْلَۃٍ فَمَاتَ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْظُرُوْا ، ہَلْ لَہٗ وَارِثٌ ؟ قَالُوْا : لَا ، قَالَ : أَعْطُوْا مَالَہٗ بَعْضَ الْقَرَابَۃِ۔فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِذٰلِکَ ، قَرَابَتَہٗ وَہٰؤُلَائِ قَرَابَۃُ الْمَیِّتِ ، فَأَرَادَ أَنْ یَجْعَلَہٗ صِلَۃً مِنْہُ لَہُمْ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٧٣٢٤: مجاہد نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک غلام کھجور سے گر کر مرگیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو کیا اس کا کوئی وارث ہے انھوں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا اس کا مال اس کے بعض قرابت والوں کو دے دو ۔ عین ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد اس سے اس کی قرابت ہو اور یہ لوگ میت کے قرابت والے ہوں۔ پس آپ نے صلہ رحمی کا ارادہ فرما کر ان کو یہ مال دے دیا ہو۔ واللہ اعلم۔
قدتم الکتاب بعون اللہ الملک الوہاب والحمد اللہ اولا و آخرًا

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔