HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

19. رہن کا بیان

الطحاوي

5754

۵۷۵۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الظَّہْرُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہِ اِذَا کَانَ مَرْہُوْنًا وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہِ اِذَا کَانَ مَرْہُوْنًا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ لِلرَّاہِنِ أَنْ یَرْکَبَ الرَّہْنَ بِحَقِّ نَفَقَتِہِ عَلَیْہِ وَیَشْرَبَ لَبَنَہُ أَیْضًا بِحَقِّ نَفَقَتِہِ عَلَیْہِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَیْسَ لِلرَّاہِنِ أَنْ یَرْکَبَ الرَّہْنَ وَلَا یَشْرَبَ لَبَنَہُ وَہُوَ رَہْنٌ مَعَہٗ وَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یَنْتَفِعَ مِنْہُ بِشَیْئٍ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ الَّذِی احْتَجُّوْا بِہٖ حَدِیْثٌ مُجْمَلٌ لَمْ یُبَیِّنْ فِیْہِ مَنِ الَّذِیْ یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ اللَّبَنَ ؟ فَمِنْ أَیْنَ جَازَ لَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوْھُ الرَّاہِنَ دُوْنَ أَنْ یَجْعَلُوْھُ الْمُرْتَہِنَ ؟ ہٰذَا لَا یَکُوْنُ لِأَحَدٍ اِلَّا بِدَلِیْلٍ یَدُلُّہُ عَلٰی ذٰلِکَ اِمَّا مِنْ کِتَابٍ .أَوْ سُنَّۃٍ أَوْ اِجْمَاعٍ .وَمَعَ ذٰلِکَ فَقَدْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ ہُشَیْمٌ وَبَیَّنَ فِیْہِ مَا لَمْ یُبَیِّنْ یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ .
٥٧٥٣: شعبی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ مرہونہ جانور پر اس کے خرچہ کے بدلے سواری کرنا اور دودھ والے جانور کے خرچہ کے عوض اس کا دودھ دوہنا ‘ پینا جائز ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ رہن رکھنے والے کو مرہونہ چیز پر خرچے کے عوض سواری کرنا اور اس کا دودھ استعمال کرنا جائز ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا رہن رکھنے والے کو مرہونہ جانور پر سواری اور اس کا دودھ استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ وہ اس شئی سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ جس حدیث سے استدلال کیا گیا وہ مجمل ہے اس میں وضاحت نہیں ہے کہ سواری کس کو جائز ہے اور دودھ کون پی سکتا ہے فریق اول کو یہ حق نہیں کہ اس نفع اٹھانے والے سے راہن مراد لیں اور مرتہن قرار نہ دیں۔ کوئی شخص بھی کسی ایسی دلیل کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا جو اس بات پر صاف دلالت کرے خواہ وہ دلیل قرآن مجید سے ہو یا حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا اجماع امت سے۔ اس روایت کو ہشیم نے اپنی سند سے بیان کیا اور اس میں وہ وضاحت ذکر کی جو کہ یزید بن ہارون نے ذکر نہیں کی۔ روایت ہشیم یہ ہے۔
تخریج : بخاری فی الرہن باب ٤‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٧٦‘ ترمذی فی البیوع باب ٣١‘ ابن ماجہ فی الرہوں باب ٢‘ مسند احمد ٢‘ ٢٢٨؍٤٧٢۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ رہن رکھنے والے کو مرہونہ چیز پر خرچے کے عوض سواری کرنا اور اس کا دودھ استعمال کرنا جائز ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : رہن رکھنے والے کو مرہونہ جانور پر سواری اور اس کا دودھ استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ وہ اس شئی سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
فریق اول کی دلیل کا جواب نمبر 1: جس حدیث سے استدلال کیا گیا وہ مجمل ہے اس میں وضاحت نہیں ہے کہ سواری کس کو جائز ہے اور دودھ کون پی سکتا ہے فریق اول کو یہ حق نہیں کہ اس نفع اٹھانے والے سے راہن مراد لیں اور مرتہن قرار نہ دیں۔ کوئی شخص بھی کسی ایسی دلیل کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا جو اس بات پر صاف دلالت کرے خواہ وہ دلیل قرآن مجید سے یا حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا اجماع امت سے۔
نمبر 2: اس روایت کو ہشیم نے اپنی سند سے بیان کیا اور اس میں وہ وضاحت ذکر کی جو کہ یزید بن ہارون نے ذکر نہیں کی۔ روایت ہشیم ملاحظہ ہو۔
نمبر 1: مرہونہ جانور کا خرچہ دے کر اس پر سواری وغیرہ کی جاسکتی ہے اس قول کو امام اسحاق ‘ احمد رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔ نمبر 2: امام ابوحنیفہ ‘ مالک ‘ شافعی ‘ جمہور علماء رحمہم اللہ کے ہاں مرتہن مرہونہ شئی سے نفع حاصل نہیں کرسکتا۔
تخریج : البذل ج ٤ ٢٩٤‘ استعلیق ج ٣‘ ٣٣٦۔
فریق اول کا قول : راہن کو مرہونہ شئی اگر جانور ہو تو اس پر سواری اور اس کا دودھ استعمال کرنا اس خرچہ کے عوض جو اس پر کیا جائے جائز ہے۔ یہ روایت اس کی دلیل ہے۔

5755

۵۷۵۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ السَّائِغُ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ زَکَرِیَّا عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ذَکَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا کَانَتْ الدَّابَّۃُ مَرْہُوْنَۃً فَعَلَی الْمُرْتَہِنِ عَلَفُہَا وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ وَعَلَی الَّذِیْ یَشْرَبُ نَفَقَتُہَا وَیَرْکَبُ .فَدَلَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ الْمَعْنِیَّ بِالرُّکُوْبِ وَشُرْبِ اللَّبَنِ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ہُوَ الْمُرْتَہِنُ لَا الرَّاہِنُ فَجَعَلَ ذٰلِکَ لَہٗ وَجُعِلَتْ النَّفَقَۃُ عَلَیْہِ بَدَلًا مِمَّا یَتَعَوَّضُ مِنْہُ مِمَّا ذَکَرْنَا .وَکَانَ ہٰذَا عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - فِیْ وَقْتِ مَا کَانَ الرِّبَا مُبَاحًا وَلَمْ یُنْہَ حِیْنَئِذٍ عَنِ الْقَرْضِ الَّذِیْ یَجُرُّ مَنْفَعَۃً وَلَا عَنْ أَخْذِ الشَّیْئِ بِالشَّیْئِ وَاِنْ کَانَا غَیْرَ مُتَسَاوِیَیْنِ ثُمَّ حُرِّمَ الرِّبَا بَعْدَ ذٰلِکَ وَحُرِّمَ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا وَأَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنَّ نَفَقَۃَ الرَّہْنِ عَلَی الرَّاہِنِ لَا عَلَی الْمُرْتَہِنِ وَأَنَّہٗ لَیْسَ لِلْمُرْتَہِنِ اسْتِعْمَالُ الرَّہْنِ .فَمَا رُوِیَ فِیْ نَسْخِ الرِّبَا
٥٧٥٤: ہشیم عن زیادہ عن شعبی انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جانور مرہونہ نہ ہو تو مرتہن کے ذمہ اس کا چارہ ہے اور وہ اس کے دودھ کو استعمال کرسکتا ہے اور خرچہ اس کے ذمہ ہے جو دودھ استعمال کرے وہ سواری کرسکتا ہے اور اس پر اس جانور کا خرچہ ہے۔ اس حدیث سے یہ دلالت مل گئی کہ پہلی روایت میں سوار ہونے دودھ پینے اور نفع اٹھانے کا حکم مرتہن کے لیے ہے۔ راہن کے لیے نہیں اس بات کی اجازت بھی اسی کو دی گئی اور خرچہ بھی اسی پر لازم کیا گیا جو کہ اس کے نفع اٹھانے کا عوض ہے۔ ہمارے ہاں یہ حرمت ربا سے پہلے کی بات ہے اس وقت تک نفع والا قرض ممنوع نہ تھا اور کسی چیز کو دوسری چیز کے بدلے لینے کی ممانعت نہیں تھی اگرچہ وہ مساوی نہ ہوں پھر جب سود کو حرام کیا گیا تو ہر وہ قرض جو نفع لائے اس کو حرام قرار دے دیا گیا اور تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ مال مرہونہ کا نفقہ راہن پر ہے مرتہن کے ذمہ نہیں مرتہن کو رہن کے استعمال کا حق نہیں ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٢٨۔
نسخ ربا کی روایت :

5756

۵۷۵۵: مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ وَالْأَعْمَشِ عَنْ أَبِی الضُّحَیْ عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لَمَّا نَزَلَتِ الْآیَاتُ الَّتِیْ فِیْ آخِرِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَہُنَّ عَلَی النَّاسِ ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَۃَ فِیْ بَیْعِ الْخَمْرِ .
٥٧٥٥: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورة بقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور ان آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھا پھر شراب فروخت کرنے کی تجارت کو حرام قرار دیا گیا۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢‘ باب ٤٩‘ مسلم فی المساقات ٧٠‘ ابن ماجہ فی الاشربہ باب ٧‘ دارمی فی البیوع باب ٣٥‘ مسند احمد ٦؍٤٦‘ ١٠٠‘ ١٩٠۔

5757

۵۷۵۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَیْ عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَنْصُوْرٌ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ۔فَلَمَّا حُرِّمَ الرِّبَا حُرِّمَتْ أَشْکَالُہُ کُلُّہَا وَرُدَّتِ الْأَشْیَائُ الْمَأْخُوْذَۃُ اِلٰی أَبْدَالِہَا الْمُسَاوِیَۃِ لَہَا وَحُرِّمَ بَیْعُ اللَّبَنِ فِی الضُّرُوْعِ فَدَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ النَّہْیُ عَنِ النَّفَقَۃِ الَّتِیْ یَمْلِکُ بِہَا الْمُنْفِقُ لَبَنًا فِی الضُّرُوْعِ وَتِلْکَ النَّفَقَۃُ فَغَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَی مِقْدَارِہَا وَاللَّبَنُ کَذٰلِکَ أَیْضًا .فَارْتَفَعَ بِنَسْخِ الرِّبَا أَنْ تَجِبَ النَّفَقَۃُ عَلَی الْمُرْتَہِنِ بِالْمَنَافِعِ الَّتِیْ یَجِبُ لَہٗ عِوَضُہَا مِنْہَا وَبِاللَّبَنِ الَّذِیْ یَحْتَلِبُہٗ فَیَشْرَبُہُ وَیُقَالُ لِمَنْ صَرَفَ ذٰلِکَ اِلَی الرَّاہِنِ فَجَعَلَ لَہٗ اسْتِعْمَالَ الرَّہْنِ : أَیَجُوْزُ لِلرَّاہِنِ أَنْ یَرْہَنَ رَجُلًا دَابَّۃً ہُوَ رَاکِبُہَا ؟ فَلَا یَجِدُ بُدًّا مِنْ أَنْ یَقُوْلَ : لَا .فَیُقَالُ لَہٗ : فَاِذَا کَانَ الرَّاہِنُ لَا یَجُوْزُ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ مُخَلًّیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمُرْتَہِنِ فَیَقْبِضُہُ وَیَصِیرُ فِیْ یَدِہِ دُوْنَ یَدِ الرَّاہِنِ کَمَا وَصَفَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الرَّہْنَ بِقَوْلِہٖ فَرِہَانٌ مَقْبُوْضَۃٌ فَیَقُوْلُ : نَعَمْ .فَیُقَالُ لَہٗ : فَلَمَّا لَمْ یَجُزْ أَنْ یَسْتَقْبِلَ الرَّہْنَ عَلٰی مَا الرَّاہِنُ رَاکِبُہٗ لَمْ یَجُزْ ثُبُوْتُہُ فِیْ یَدِہِ بَعْدَ ذٰلِکَ رَہْنًا بِحَقِّہِ اِلَّا لِذٰلِکَ أَیْضًا لِأَنَّ دَوَامَ الْقَبْضِ لَا بُدَّ مِنْہُ فِی الرَّہْنِ اِذَا کَانَ الرَّاہِنُ اِنَّمَا ہُوَ احْتِبَاسُ الْمُرْتَہِنِ لِلشَّیْئِ الْمَرْہُوْنِ بِالدَّیْنِ وَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا یَمْنَعُ الْمُرْتَہِنَ مِنِ اسْتِخْدَامِ الْأَمَۃِ الرَّہْنِ لِأَنَّہَا تَرْجِعُ بِذٰلِکَ اِلٰی حَالٍ لَا یَجُوْزُ عَلَیْہَا اسْتِقْبَالُ الرَّہْنِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْأَمَۃَ الرَّہْنَ لَیْسَ لِلرَّاہِنِ أَنْ یَطَأَہَا وَلِلْمُرْتَہِنِ مَنْعُہُ مِنْ ذٰلِکَ .فَکَمَا کَانَ الْمُرْتَہِنُ یَمْنَعُ الرَّاہِنَ بِحَقِّ الرَّہْنِ مِنْ وَطْئِہَا کَانَ لَہٗ أَیْضًا أَنْ یَمْنَعَہُ بِحَقِّ الرَّہْنِ مِنِ اسْتِخْدَامِہَا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .
٥٧٥٦: مسلم نے مسروق سے انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ پس جب سود حرام کردیا گیا اور اس کی تمام صورتیں حرام ہوگئیں اور وہ سب اشیاء جو لی جاتی تھیں اپنے ہم شکل برابر بدل کی طرف لوٹ گئیں اور تھنوں میں دودھ کی فروخت کو حرام کردیا گیا تو اس میں اس نفقہ کی ممانعت بھی شامل ہوگئی جس سے خرچ کرنے والا تھنوں کے اندر دودھ کا مالک بن جاتا تھا نہ تو وہ خرچہ کسی مقدار پر موقوف تھا اور نہ ہی دودھ کی کوئی مقدار متعین تھی تو سود کی حرمت سے اس نفقہ کا وجوب اٹھ گیا جو ان منافع کے عوض ہوتا ہے جو اسے اس خرچہ کے سبب حاصل ہوتا ہے اور اس دودھ کے سبب (نفقہ لازم ہوتا تھا) جس کو وہ دوہتا اور پیتا ہے۔ جنہوں نے اس کو راہن کی طرف پھیرا اور اس کے لیے رہن کا استعمال جائز قرار دیا ان سے یہ سوال ہے کہ کیا راہن کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی شخص کے پاس ایک ایسا جانور رہن رکھے جس پر وہ خود سوار ہوتا ہو تو اس کو لازماً یہی جواب دینا پڑے گا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا یعنی اپنی سواری کو رہن نہیں رکھ سکتا پس جب رہن اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ مرہونہ شئی اور مرتہن کے درمیان تنہائی کردی جائے اور وہ اس پر قبضہ بھی کرے اس طرح وہ چیز مرتہن کے قبضہ میں آجائے گی راہن کے پاس نہ رہے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” فرہان مقبوضۃ “ پس وہ رہن ہو جس پر قبضہ کرلیا گیا ہو تو وہ اس کے جواب میں۔ ہاں ! کہے گا۔ اب ہم اس سے کہیں گے کہ جب شروع میں ایسی چیز کا رہن بننا صحیح نہیں جس پر راہن سوار ہو تو مرتہن کے قبضہ میں داخل ہونے کے بعد مرہونہ شئی میں یہ بات کس طرح صحیح ہوگی (تصرف راہن درست نہ ہوگا) کیونکہ مرہونہ چیز پر قبضہ کا ہمیشہ پایا جانا ضروری ہے کیونکہ رہن کا مطلب ہی یہ ہے کہ مرتہن قرض کے بدلے میں مرہونہ شئی کو اپنے ہاں روک کر رکھے اور اس صورت میں وہ بات پائی جاتی ہے جو راہن کو مرہونہ لونڈی سے ہمبستری سے مانع ہے۔ کیونکہ اس فعل سے وہ اس حالت کی طرف لوٹ جائے گی جو چیز رہن کی ابتداء میں بھی جائز نہ تھی (قبضہ کا کسی وقت نہ پایا جانا) دوسری دلیل یہ ہے کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ مرہونہ لونڈی سے راہن جماع نہیں کرسکتا بلکہ مرتہن کو یہ حق حاصل یہ ہے کہ وہ اسے روکے تو جس طرح مرتہن رہن کی وجہ سے راہن کو وطی امہ مرہونہ سے منع کرسکتا ہے اسی طرح وہ حق رہن کی وجہ سے خدمت لینے سے بھی روک سکتا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
امام شعبی (رح) کا قول :

5758

۵۷۵۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ لَا یُنْتَفَعُ مِنَ الرَّہْنِ بِشَیْئٍ .فَہٰذَا الشَّعْبِیُّ یَقُوْلُ ہٰذَا وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا ذَکَرْنَا .فَیَجُوْزُ عَلَیْہِ أَنْ یَکُوْنَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ یُحَدِّثُہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ ثُمَّ یَقُوْلُ ہُوَ بِخِلَافِہِ وَلَمْ یَثْبُتْ النَّسْخُ عِنْدَہٗ؟ فَلَئِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَلَقَدْ صَارَ مُتَّہَمًا فِیْ رَأْیِہِ وَاِذَا کَانَ مُتَّہَمًا فِیْ رَأْیِہِ کَانَ مُتَّہَمًا فِیْ رِوَایَتِہٖ وَاِذَا ثَبَتَتْ لَہُ الْعَدَالَۃُ فِیْ رِوَایَتِہِ ثَبَتَ لَہُ الْعَدَالَۃُ فِیْ تَرْکِ خِلَافِہَا وَاِنْ وَہَبَ سُقُوْطَ أَحَدِ الْأَمْرَیْنِ وَہَبَ سُقُوْطَ الْآخَرِ .وَالْمُحْتَجُّ عَلَیْنَا بِحَدِیْثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ ہٰذَا یَقُوْلُ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ أَعْلَمُ بِتَأْوِیْلِہٖ .فَکَانَ یَجِیْئُ عَلٰی أَصْلِہِ وَیَلْزَمُہٗ فِی قَوْلِہٖ أَنْ یَقُوْلَ لِمَ قَالَ الشَّعْبِیُّ مَا ذَکَرْنَا مِمَّا یُخَالِفُ مَا رُوِیَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلٰی نَسْخِہٖ۔
٥٧٥٧: اسماعیل بن ابی خالد نے شعبی (رح) سے نقل کیا مرہونہ شئی سے ذرہ بھر نفع نہیں اٹھایا جاسکتا۔ یہ امام شعبی (رح) ہیں جنہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے وہ روایت نقل کی ہے۔ اگر نسخ نہ مانا جائے تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی پھر وہ شعبی خود اس کے خلاف فتویٰ دے رہے ہیں (حالانکہ پہلی روایت کے راوی خود شعبی ہیں) اگر یہ بات اسی طرح ہوتی تو رائے کے سلسلہ میں وہ متہم ہوئے اور جو رائے میں متہم ہے تو روایت میں بدرجہ اولیٰ متہم ہوا۔ حالانکہ روایت میں ان کی عدالت ثابت شدہ ہے تو روایت کی مخالفت کے چھوڑنے میں بھی عدالت ثابت ہے۔ اگر ان دونوں میں سے ایک کو ساقط کرنا لازم ہے تو دوسری کا ساقط کرنا بھی لازم ہے۔ حالانکہ ہمارے خلاف اس روایت سے استدلال کرنے والا یہ تسلیم کرتا ہے کہ جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کرتا ہے وہ اس روایت کی تاویل کو خوب جانتا ہے۔ پس اسے اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا اور اس پر لازم ہوجائے گا کہ وہ وہی بات کہے جو امام شعبی (رح) نے کہی جس کو ہم نے ذکر کیا جو کہ روایت ابوہریرہ (رض) کے خلاف ہے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روایت منسوخ ہے۔ (ورنہ شعبی (رح) جو اس کے مرکزی راوی ہیں یہ اس کے خلاف نہ کہتے)

5759

۵۷۵۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّہٗ سَمِعَ مَالِکًا وَیُوْنُسَ وَابْنَ أَبِیْ ذِئْبٍ یُحَدِّثُوْنَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یُغْلَقُ الرَّہْنُ .قَالَ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : وَکَانَ ابْنُ الْمُسَیِّبِ یَقُوْلُ الرَّہْنُ لِصَاحِبِہٖ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ .
٥٧٥٨: ابن شہاب نے ابن مسیب سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رہن کو بند نہ کیا جائے۔
ابن شہاب کہتے ہیں کہ ابن مسیب فرماتے تھے کہ رہن مالک کے لیے غنیمت کی چیز ہے اور اس کا تاوان بھی اسی پر ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الرہوں باب ٣‘ مالک فی الاقضیہ ١٣۔
مرہونہ شئی اگر ضائع ہوجائے تو اس کی قیمت سے زائد ضمان نہ ہوگا ائمہ احناف رحمہم اللہ کا یہی قول ہے اور انھوں نے یہ حضرت عمر (رض) اور ابراہیم نخعی (رح) سے اخذ کیا ہے اور غصب پر قیاس کیا ہے۔ فریق ثانی کا قول مرتہن تاوان کا ذمہ دار ہوگا اس کو حضرت سعید بن مسیب (رح) نے اختیار کیا ہے۔

5760

۵۷۵۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ وَسُلَیْمَانَ بْنِ مُوْسَی قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُغْلَقُ الرَّہْنُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَقَالَ قَائِلٌ : فَلَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُغْلَقُ الرَّہْنُ لِصَاحِبِہٖ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الرَّہْنَ لَا یَضِیعُ بِالدَّیْنِ وَأَنَّ لِصَاحِبِہٖ غُنْمَہُ وَہُوَ سَلَامَتُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ وَہُوَ غُرْمُ الدَّیْنِ بَعْدَ ضَیَاعِ الرَّہْنِ .وَہٰذَا تَأْوِیْلٌ قَدْ أَنْکَرَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ جَمِیْعًا بِاللُّغَۃِ وَزَعَمُوْا أَنْ لَا وَجْہَ لَہٗ عِنْدَہُمْ .وَالَّذِیْ حَمَلَنَا عَلٰی أَنْ نَأْتِیَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَاِنْ کَانَ مُنْقَطِعًا احْتِجَاجُ الَّذِیْ یَقُوْلُ بِالْمُسْنَدِ بِہٖ عَلَیْنَا وَدَعْوَاہُ أَنَّا خَالَفْنَاہُ .وَقَدْ کَانَ یَلْزَمُہُ عَلٰی أَصْلِہِ لَوْ أَنْصَفَ خَصْمَہُ أَنْ لَا یَحْتَجَّ بِمِثْلِ ہٰذَا اِذَا کَانَ مُنْقَطِعًا وَہُوَ لَا یَقُوْمُ الْحُجَّۃُ عِنْدَہُ بِالْمُنْقَطِعِ .فَاِنْ قَالَ : اِنَّمَا قَبِلْتُہٗ وَاِنْ کَانَ مُنْقَطِعًا لِأَنَّہٗ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ وَمُنْقَطِعُ سَعِیْدٍ یَقُوْمُ مَقَامَ الْمُتَّصِلِ .قِیْلَ لَہٗ : وَمَنْ جَعَلَ لَک أَنْ تَخُصَّ سَعِیْدًا ہٰذَا وَتَمْنَعَ مِنْہُ مِثْلَہٗ۔مِنْ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مِثْلَ أَبِیْ سَلَمَۃَ وَالْقَاسِمِ وَسَالِمٍ وَعُرْوَۃَ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَأَمْثَالِہِمْ مِنْ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَالشَّعْبِیِّ وَاِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ وَأَمْثَالِہِمَا رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ مِنْ أَہْلِ الْکُوْفَۃِ وَالْحَسَنِ وَابْنِ سِیْرِیْنَ وَأَمْثَالِہِمَا رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ وَکَذٰلِکَ مَنْ کَانَ فِیْ عَصْرِ مَنْ ذَکَرْنَا مِنْ سَائِرِ فُقَہَائِ الْأَمْصَارِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَمَنْ کَانَ فَوْقَہُمْ مِنِ الطَّبَقَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ التَّابِعِیْنَ مِثْلَ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ وَعَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیْلَ وَعُبَیْدَۃَ وَشُرَیْحٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ؟ .لَئِنْ کَانَ ہٰذَا لَک مُطْلَقًا فِیْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَاِنَّہٗ مُطْلَقٌ لِغَیْرِک فِیْمَنْ ذَکَرْنَا .وَاِنْ کَانَ غَیْرُک مَمْنُوْعًا مِنْ ذٰلِکَ فَاِنَّک مَمْنُوْعٌ مِنْ مِثْلِہِ لِأَنَّ ہٰذَا تَحَکُّمٌ وَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْکُمَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ بِالتَّحَکُّمِ .وَقَدْ قَالَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَا ذَکَرْت .
٥٧٥٩: عطاء اور سلیمان بن موسیٰ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رہن کو بند نہ کیا جائے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں فرمایا رہن کو بند نہ کیا جائے اور اس کے مالک کو اس کا فائدہ ہے اور اس کا تاوان اسی پر ہے تو اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ رہن قرض کے بدلے ضائع نہ ہوگا اور اس کے مالک کے لیے اس کا نفع ہے اور وہ اس مرہونہ چیز کا سلامت رہنا ہے اور اسی کے ذمہ اس کا تاوان ہے اس کا معنی یہ ہے کہ مرہونہ شئی کے ضائع ہونے کے بعد ا سپر قرض کا تاوان ہوگا۔ ان کو جواب میں کہیں گے کہ تمام اہل لغت نے اس تاویل کا انکار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس معنی کی کوئی صورت نہیں ہے اگرچہ یہ روایت منقطع ہے لیکن اس کے باوجود اس کے لانے پر اس وجہ سے مجبور ہوئے ہیں کہ مخالف نے اسی سے ہمارے خلاف استدلال کر کے ہمیں اس حدیث کے مخالف گردانا ہے۔ حالانکہ اگر ہمارے ساتھ انصاف سے پیش آتا تو خود اپنے قاعدے کے مطابق اس سے استدلال ہی نہ کرتا۔ کیونکہ یہ منقطع ہے اور حدیث منقطع ان کے ہاں حجت نہیں۔ بالفرض اگر وہ کہیں کہ منقطع ہونے کے باوجود اس کو اس لیے قبول کیا کہ سعید بن مسیب کی منقطع بھی متصل کے قائم مقام ہے۔ تو اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ بات سعید بن مسیب کے ساتھ خاص کرنے کا حق آپ کو کہاں سے مل گیا حالانکہ ان کے برابر اہل مدینہ کے علماء مثلاً ابو سلمہ ‘ قاسم ‘ سالم ‘ عروہ ‘ سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے ایسی منقطع روایت کا آپ انکار کرتے ہیں اسی طرح ان جیسے اہل کوفہ کے علماء شعبی ابراہیم نخعی رحمہم اللہ اور اہل بصرہ کے حسن اور ابن سیرین رحمہم اللہ اور ان جیسی دیگر شخصیات سے بھی تسلیم نہیں کرتے اسی دور کے تمام فقہاء کرام اور جو ان سے بھی اوپر کے درجہ کے لوگ اور طبقہ اولیٰ تابعین سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً علقمہ ‘ اسود ‘ عمر بن شرحبیل ‘ عبیدہ ‘ شریح رحمہم اللہ سے بھی تسلیم نہیں کرتے اگر منقطع روایت کا قبول کرلینا آپ کے لیے مطلقاً سعد بن مسیب (رح) کے متعلق درست ہے تو دوسروں کے لیے ان حضرات کی ایسی روایت مطلقاً درست ہوگئی اور اگر دوسروں کے لیے یہ بات جائز نہیں مانتے تو آپ کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ورنہ تو یہ محض ضد ہے اور کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے دین میں ایسی ضد بازی کی قطعاً اجازت نہیں۔
اس روایت کی ایک اور تاویل :

5761

۵۷۶۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ فِیْمَا أَعْلَمُ فَاِنْ لَمْ یَکُنْ فَقَدْ دَخَلَ فِیْمَا کَانَ أَجَازَہُ لِی .قَالَ : ثَنَا أَبُو عُبَیْدٍ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رَجُلٍ دَفَعَ اِلٰی رَجُلٍ رَہْنًا وَأَخَذَ مِنْہُ دَرَاہِمَ وَقَالَ : اِنْ جِئْتُک بِحَقِّک اِلٰی کَذَا وَکَذَا وَاِلَّا وَفَّی الرَّہْنُ لَک بِحَقِّک .فَقَالَ اِبْرَاھِیْمُ لَا یُغْلَقُ الرَّہْنُ قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ : أَنَجْعَلُہُ جَوَابًا لِمَسْأَلَتِہٖ؟ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ طَاوُسٍ نَحْوٌ مِنْ ہٰذَا بَلَغَنِیْ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرٍوْ عَنْ طَاوُسٍ .قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ : وَأَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیْ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَسُفْیَانَ بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّہُمَا کَانَ یُفَسِّرَانِہِ عَلَی ہٰذَا التَّفْسِیْرِ .
٥٧٦٠: مغیرہ نے ابراہیم سے اس آدمی کے متعلق بیان کیا جس نے ایک آدمی کو رہن حوالے کیا اور اس سے کچھ دراہم لیے اور اسے کہا اگر میں نے تمہارا حق فلاں وقت تک ادا کردیا تو مناسب ورنہ رہن تمہارے لیے تمہارے حق کے بدلے ہوجائے گا۔ تو ابراہیم کہنے لگے۔ رہن بند نہ ہوگا۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے اس سوال کا جواب قرار دیا اور ابن عیینہ نے عمرو بن طاوس سے نقل کیا کہ وہ بھی یہی تاویل کرتے تھے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ مالک بن انس اور سفیان بن سعید دونوں بھی یہ تفسیر کرتے تھے۔

5762

۵۷۶۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ بِذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٧٦١: ابن وہب نے مالک بن انس سے بھی یہی نقل کی ہے۔

5763

۵۷۶۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قَالَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُغْلَقُ الرَّہْنُ .فَبِذٰلِکَ یُمْنَعُ صَاحِبُ الرَّہْنِ أَنْ یَبْتَاعَہُ مِنْ الَّذِیْ رَہَنَہُ عِنْدَہُ حَتّٰی یُبَاعَ مِنْ غَیْرِہٖ۔ فَذَہَبَ الزُّہْرِیُّ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ الْغَلْقِ اِلٰی أَنَّہٗ فِی الْبَیْعِ لَا فِی الضَّیَاعِ فَہٰؤُلَائِ الْمُتَقَدِّمُوْنَ یَقُوْلُوْنَ بِمَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا
٥٧٦٢: زہری نے کہا کہ سعید بن مسیب (رح) نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رہن بند نہ کیا جائے گا۔
اسی وجہ سے مرتہن کو منع کیا گیا کہ راہن سے وہ چیز خریدے جو اس نے اس کے ہاں رہن رکھی ہوئی ہے یہاں تک کہ وہ دوسرے آدمی پر فروخت کی جائے پس زہری بھی غلق میں بیع کی طرف گئے ہیں ہلاک ہوجانے کے متعلق نہیں۔ متقدمین نے بھی وہی بات کہی جو ہم نے ذکر کی ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد نبوت ملاحظہ ہو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔

5764

۵۷۶۳: مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ أَنَّ رَجُلًا ارْتَہَنَ فَرَسًا فَمَاتَ الْفَرَسُ فِیْ یَدِ الْمُرْتَہِنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَہَبَ حَقُّک .فَدَلَّ ہٰذَا مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بُطْلَانِ الدَّیْنِ بِضَیَاعِ الرَّہْنِ .فَاِنْ قَالَ : ہٰذَا مُنْقَطِعٌ قِیْلَ لَہٗ : وَالَّذِیْ تَأَوَّلْتُہٗ أَیْضًا مُنْقَطِعٌ فَاِنْ کَانَ الْمُنْقَطِعُ حُجَّۃً لَک عَلَیْنَا فَالْمُنْقَطِعُ أَیْضًا حُجَّۃٌ لَنَا عَلَیْکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ جِہَۃٍ أُخْرَی مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٧٦٣: مصعب بن ثابت نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے گھوڑا بطور رہن لیا وہ مرتہن کے پاس مرگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیرا حق (قرض) جاتا رہا۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے دلالت مل گئی کہ رہن کے ضائع ہونے سے قرض باطل ہوجاتا ہے۔ اگر معترض کہے کہ یہ منقطع روایت ہے۔ (استدلال کیسے درست ہے) ان کو جواب دیا جائے گا کہ آپ نے جو تاویل کی وہ بھی منقطع ہے اگر تمہاری منقطع ہمارے خلاف حجت ہے تو یہ منقطع ہماری طرف سے تمہارے خلاف حجت ہے۔ ایک دوسری سند سے یہی روایت مروی ہے۔
حاصل روایت : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے دلالت مل گئی رہن کے ضائع ہونے سے قرض باطل ہوجاتا ہے۔
ایک اعتراض :
یہ منقطع روایت ہے۔ (استدلال کیسے درست ہے) جواب : آپ نے جو تاویل کی وہ بھی منقطع ہے اگر تمہاری منقطع ہمارے خلاف حجت ہے تو یہ منقطع ہماری طرف سے تمہارے خلاف حجت ہے۔
ایک دوسری سند سے یہی روایت : ایک دوسرے سند سے یہی روایت مروی ہے۔

5765

۵۷۶۴: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَامّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْمُرَادِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ الْأَیْلِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کَانَ مَنْ أَدْرَکْتُ مِنْ فُقَہَائِنَا الَّذِیْنَ یَنْتَہِیْ اِلَی قَوْلِہِمْ مِنْہُمْ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ وَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَالْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُوْبَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَخَارِجَۃُ بْنُ زَیْدٍ وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ مَشْیَخَۃٍ مِنْ نُظَرَائِہِمْ أَہْلَ فِقْہٍ وَصَلَاحٍ وَفَضْلٍ فَذَکَرَ جَمِیْعَ مَا جَمَعَ مِنْ أَقَاوِیْلِہِمْ فِیْ کِتَابِہٖ عَلَی ہٰذِہِ الصِّفَۃِ أَنَّہُمْ قَالُوْا الرَّہْنُ بِمَا فِیْہِ اِذَا ہَلَکَ وَعَمِیَتْ قِیْمَتُہُ وَیَرْفَعُ ذٰلِکَ مِنْہُمْ الثِّقَۃُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَہٰؤُلَائِ أَئِمَّۃُ الْمَدِیْنَۃِ وَفُقَہَاؤُہَا یَقُوْلُوْنَ : اِنَّ الرَّہْنَ یَہْلِکُ بِمَا فِیْہِ وَیَرْفَعُہُ الثِّقَۃُ مِنْہُمْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَیُّہُمْ مَا حَکَاہُ فَہُوَ حُجَّۃٌ لِأَنَّہٗ فَقِیْھٌ اِمَامٌ ثُمَّ قَوْلُہُمْ جَمِیْعًا بِذٰلِکَ وَاِجْمَاعُہُمْ عَلَیْہِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِہٖ صِحَّۃُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ وَہُوَ الْمَأْخُوْذُ عَنْہٗ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُغْلَقُ الرَّہْنُ .وَقَدْ زَعَمَ ہٰذَا الْمُخَالِفُ لَنَا أَنَّ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ أَعْلَمُ بِتَأْوِیْلِہِ حَتّٰی قَالَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الَّذِیْ رَوَاہُ سَیْفٌ لَنَا عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ قَالَ عَمْرٌو : فِی الْأَمْوَالِ .فَجَعَلَ ہُوَ قَوْلَ عَمْرٍو فِیْ ہٰذَا حُجَّۃً وَدَلِیْلًا لَہٗ أَنَّ ذٰلِکَ الْحَکَمَ فِی الْأَمْوَالِ دُوْنَ سَائِرِ الْأَشْیَائِ .فَلَئِنْ کَانَ قَوْلُ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ : ہٰذَا تَأْوِیْلُہُ یَجِبُ بِہٖ حُجَّۃً فَاِنَّ قَوْلَ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا وَتَأْوِیْلَہٗ فِیْمَا رَوَی أَحْرَی أَنْ یَکُوْنَ حُجَّۃً وَہٰذَا الْمُخَالِفُ لَنَا قَدْ زَعَمَ أَنَّہٗ یَقُوْلُ بِالْاِتِّبَاعِ فَعَمَّنْ أَخَذَ قَوْلَہٗ ہٰذَا وَمَنْ اِمَامُہٗ فِیْہِ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَہُ وَعَنْ تَابِعِی أَصْحَابِہٖ خِلَافُہُ أَیْضًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَئِمَّۃِ أَصْحَابِہٖ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٧٦٤: ابوالزناد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جن فقہاء کو میں نے پایا کہ ان کے قول پر بات ختم ہوتی ہے ان میں سعید بن مسیب عروہ بن زبیر ‘ قاسم بن محمد ‘ ابوبکر بن عبدالرحمن ‘ خارجہ بن زید اور عبیداللہ بن عبداللہ رحمہم اللہ یہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں بڑے ہیں یہ اہل فقہ ‘ اہل صلاح و فضل ہیں۔ پھر انھوں نے ان تمام کے اقوال اپنی کتاب میں اس طرح جمع کئے کہ وہ کہتے ہیں جب مرہونہ شئی ہلاک ہوجائے اور اس کی قیمت نامعلوم ہو تو وہ رہن کے مقابلے میں ہے جس کے بدلے رکھی گئی ان حضرات میں ثقہ لوگ اس روایت کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مرفوع بیان کرتے ہیں۔ یہ مدینہ منورہ کے ائمہ و فقہاء کہہ رہے ہیں رہن اس کے بدلے میں سمجھا جائے گا جب وہ ہلاک ہوجائے اور ان میں سے ثقہ علماء اس کو مرفوعاً نقل کرتے ہیں تو ان میں سے جو بھی نقل کرے وہ حجت ہے کیونکہ وہ فقیہ و امام ہے پھر تمام کا قول اور ان کا اجماع تو (بدرجہ اولیٰ حجت ہوگا) اور خود سعید بن مسیب جنہوں نے ” لایغلق الرہن “ والا ارشاد گرامی نقل کیا اس کی صحت ان سے بھی ثابت ہوگئی۔ ہمارے مخالف نے یہ خیال کرلیا کہ جو شخص کسی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روایت کرے وہ اس کے مفہوم کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے حضرت ابن عباس (رض) کی وہ روایت جو ہم نے سیف سے انھوں نے قیس بن سعدی سے انھوں نے عمرو بن دینار سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم اور گواہ کے ساتھ فیصلہ فرمایا عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ اموال کے سلسلے میں فیصلہ فرمایا۔ ہمارے اس مخالف نے عمرو بن دینار کے قول کو حجت قرار دیا اور اس بات کی دلیل بنایا کہ یہ حکم صرف اموال میں ہے ‘ دیگر اشیاء میں یہ حکم نہیں ہے۔ اگر عمرو بن دینار کا یہ قول اس حدیث کے معنی میں ضروری حجت ہے تو پھر سعید بن مسیب (رح) کا بیان کردہ مفہوم جس کا ہم نے تذکرہ کیا وہ حجت بننے کے زیادہ لائق ہے ہمارے مخالف کا زعم یہ ہے کہ وہ اتباع کررہا ہے۔ تو (ہم پوچھتے ہیں کہ) اس نے یہ قول کہاں سے اور کس سے لیا اور اس سلسلے میں اس کا امام کون ہے ؟ حالانکہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایت ذکر کی ہے اسی طرح تابعین کرام سے اس کے خلاف قول موجود ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کبار اصحاب (رض) سے بھی اس کے خلاف قول مروی ہے۔
ہمارے مخالف کا ایک غلط خیال :
ہمارے مخالف نے یہ خیال کرلیا کہ جو شخص کسی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روایت کرے وہ اس کے مفہوم کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے حضرت ابن عباس (رض) کی وہ روایت جو ہم نے سیف سے انھوں نے قیس بن سعدی سے انھوں نے عمرو بن دینار سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم اور گواہ کے ساتھ فیصلہ فرمایا عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ اموال کے سلسلے میں فیصلہ فرمایا۔
ہمارے اس مخالف نے عمرو بن دینار کے قول کو حجت قرار دیا اور اس بات کی دلیل بنایا کہ یہ حکم صرف اموال میں ہے دیگر اشیاء میں یہ حکم نہیں ہے۔ اگر عمرو بن دینار کا یہ قول اس حدیث کے معنی میں ضروری حجت ہے تو پھر سعید بن مسیب (رح) کا بیان کردہ مفہوم جس کا ہم نے تذکرہ کیا وہ حجت بننے کے زیادہ لائق ہے ہمارے مخالف کا زعم یہ ہے کہ وہ اتباع کررہا ہے۔ تو (ہم پوچھتے ہیں کہ) اس نے یہ قول کہاں سے اور کس سے لیا اور اس سلسلے میں اس کا امام کون ہے ؟
حالانکہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف ذکر کی ہے اسی طرح تابعین کرام سے اس کے خلاف قول موجود ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کبار اصحاب (رض) سے بھی اس کے خلاف قول مروی ہے۔
اقوال صحابہ کرام (رض) :

5766

۵۷۶۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی الْعَوَامّ عَنْ مَطَرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ فِی الرَّجُلِ یَرْتَہِنُ الرَّہْنَ فَیَضِیعُ قَالَ : اِنْ کَانَ بِأَقَلَّ رَدُّوْا عَلَیْہِ وَاِنْ کَانَ بِأَفْضَلَ فَہُوَ أَمِیْنٌ فِی الْفَضْلِ .
٥٧٦٥: عطاء نے عبید بن عمیر سے نقل کیا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس آدمی کے متعلق جو رہن رکھے اور وہ ضائع ہوجائے فرمایا اگر وہ کم مالیت کے مقابلے میں ہے تو وہ راہن کو باقی مال واپس کردیں اور اگر زائد مالیت والا ہے تو وہ زائد میں امین ہے۔

5767

۵۷۶۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ عَنْ اِسْرَائِیْلَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی التَّغْلِبِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ اِذَا رَہَنَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ رَہْنًا فَقَالَ لَہُ الْمُعْطَی : لَا أَقْبَلُہُ اِلَّا بِأَکْثَرَ مِمَّا أُعْطِیْکَ فَضَاعَ رَدَّ عَلَیْہِ الْفَضْلَ وَاِنْ رَہَنَہُ وَہُوَ أَکْثَرُ مِمَّا أَعْطَی بِطِیْبِ نَفْسٍ مِنَ الرَّاہِنِ فَضَاعَ فَہُوَ بِمَا فِیْہِ .
٥٧٦٦: محمد بن حنفیہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی کے پاس رہن رکھے اور قرض دینے والا اس کو یہ کہے کہ میں اس کو قبول نہیں کرتا مگر اس سے زیادہ کے ساتھ جو میں نے تم کو دیا۔ پھر وہ ضائع ہوجائے تو زائد رقم لوٹائے اور اگر وہ رہن رکھے اور مرہونہ شئی اس قرض سے زائد مالیت کی ہو اور راہن اپنی مرضی سے دے پھر وہ ضائع ہوجائے تو وہ قرض کے بدلے میں ہی ہوگی۔

5768

۵۷۶۷: حَدَّثَنَا نَصْرٌ قَالَ : ثَنَا الْخَطِیْبُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ خِلَاسٍ ہُوَ ابْنُ عَمْرٍو أَنَّ عَلِیًّا قَالَ : اِذَا کَانَ فِی الرَّہْنِ فَضْلٌ فَأَصَابَتْہُ جَائِحَۃٌ فَہُوَ بِمَا فِیْہِ وَاِنْ لَمْ تُصِبْہُ جَائِحَۃٌ وَاتُّہِمَ فَاِنَّہٗ یَرُدُّ الْفَضْلَ .
٥٧٦٧: خلاس بن عمرو نے بیان کیا کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا جب رہن میں (قرض کے مقابلہ میں) زیادہ مالیت ہو پھر اس کو ہلاکت پہنچ جائے تو وہ اپنے عوض کے مقابلے میں ہوگا اور اگر ہلاکت نہ پہنچے بلکہ تہمت لگائی گئی ہو تو وہ زائد کو واپس کر دے۔

5769

۵۷۶۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا حُمَامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ وَخِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ عَلِیًّا قَالَ فِی الرَّہْنِ یَتَرَادَّانِ الزِّیَادَۃَ وَالنُّقْصَانَ جَمِیْعًا فَاِنْ أَصَابَتْہُ جَائِحَۃٌ بَرِئَ .فَہٰذَا عُمَرُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ أَجْمَعَا أَنَّ الرَّہْنَ الَّذِی قِیْمَتُہُ مِقْدَارُ الدَّیْنِ یَضِیعُ بِالدَّیْنِ وَاِنَّمَا اخْتِلَافُہُمَا فِیْمَا زَادَ مِنْ قِیْمَۃِ الرَّہْنِ عَلَی مِقْدَارِ الدَّیْنِ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ : ہُوَ أَمَانَۃٌ .وَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہٗ فِیْ حَدِیْثِ نَصْرِ بْنِ مَرْزُوْقٍ وَأَحْمَدَ بْنِ دَاوٗدَ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنِ الْحَسَنِ وَشُرَیْحٍ مِنْ ذٰلِکَ
٥٧٦٨: حسن اور فلاس بن عمرو دونوں نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ رہن کے متعلق فرمایا کہ راہن و مرتہن اضافہ اور نقصان کو ایک دوسرے کی طرف واپس کریں اور اگر ہلاک ہوجائے تو مقروض بری الذمہ ہوجائے گا۔ یہ حضرت عمر ‘ حضرت علی (رض) ہیں جن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس مرہونہ شئی کی قیمت قرض کے برابر ہو وہ تو قرض کے بدلے ہلاک ہوگی جب رہن کی مقدار قرض کی مقدار سے زیادہ ہو تو اس میں حضرت عمر (رض) کا قول یہ ہے کہ وہ امانت ہے اور حضرت علی (رض) فرماتے ہیں وہ ہلاکت کی صورت میں اپنے عوض کے مقابلہ میں ہے جیسا کہ نصر بن مرزوق اور احمد بن داؤد کی روایت میں ہے۔
اقوال کبار تابعین (رض) : حضرت حسن و شریح (رح) کے اقوال :

5770

۵۷۶۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا نَصْرٌ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ الْحَسَنَ وَشُرَیْحًا قَالَا : الرَّہْنُ بِمَا فِیْہِ .
٥٧٦٩: قتادہ کہتے ہیں کہ حسن و شریح رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ رہن اس چیز کے بدلے ہے جس کے مقابلے میں ہے۔

5771

۵۷۷۰: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ قَالَ : سَمِعْت شُرَیْحًا یَقُوْلُ ذَہَبَتْ الرِّہَانُ بِمَا فِیْہَا .
٥٧٧٠: ابو حصین کہتے ہیں کہ میں نے شریح کو فرماتے ہوئے سنا رہن اس چیز کے مقابلے میں چلی گئی جس میں اس کو رہن رکھا گیا تھا۔

5772

۵۷۷۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ عِیْسَی بْنِ جَابَانَ قَالَ : رَہَنْتُ حُلِیًّا وَکَانَ أَکْثَرَ مِمَّا فِیْہِ فَضَاعَ فَاخْتَصَمْنَا اِلَی شُرَیْحٍ فَقَالَ الرَّہْنُ بِمَا فِیْہِ .فَہٰذَا الْحَسَنُ وَشُرَیْحٌ قَدْ رَأَیَا الرَّہْنَ یَبْطُلُ ذَہَابُہٗ بِالدَّیْنِ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ .
٥٧٧١: یزید بن ابی زیاد نے عیسیٰ بن جابان سے روایت کی ہے کہ میں نے کچھ زیور رہن رکھا اور وہ اس چیز کے مقابلے میں زیادہ تھا جس کے لیے رہن رکھا گیا تھا پھر وہ ضائع ہوگیا تو وہ دونوں اپنا مقدمہ حضرت شریح (رح) کی خدمت میں لائے تو انھوں نے فرمایا رہن اس چیز کے بدلے میں ہے جس کے عوض میں رہن رکھا گیا۔ یہ حضرت حسن و شریح رحمہم اللہ جن کا مذہب یہی ہے کہ رہن کی ہلاکت قرض کو باطل کردیتی ہے ابراہیم نخعی (رح) کا بھی اسی طرح قول ہے۔

5773

۵۷۷۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَامُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ أَنَّہٗ قَالَ فِی الرَّہْنِ یَہْلِکُ فِیْ یَدَی الْمُرْتَہِنِ اِنْ کَانَتْ قِیْمَتُہُ وَالدَّیْنِ سَوَائً ضَاعَ بِالدَّیْنِ وَاِنْ کَانَتْ قِیْمَتُہُ أَقَلَّ مِنْ الدَّیْنِ رَدَّ عَلَیْہِ الْفَضْلَ وَاِنْ کَانَتْ قِیْمَتُہُ أَکْثَرَ مِنْ الدَّیْنِ فَہُوَ أَمِیْنٌ فِی الْفَضْلِ .وَرُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ
٥٧٧٢: حماد نے ابراہیم (رح) سے نقل کیا کہ انھوں نے اگر رہن مرتہن کے ہاتھوں میں ہلاک ہوجائے اگر اس کی قیمت اور قرض ہر دو برابر ہوں تو وہ قرض کے بدلے ہلاک ہوا اور اگر اس کی قیمت قرض سے کم ہو تو زائد کو لوٹا دیا جائے گا اور اگر اس کی قیمت قرض سے زیادہ ہو تو وہ مرتہن زائد میں امین ہوگا۔
اور عطاء بن ابی رباح (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

5774

۵۷۷۳: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ فِیْ رَجُلٍ رَہَنَ رَجُلًا جَارِیَۃً فَہَلَکَتْ قَالَ ہِیَ بِحَقِّ الْمُرْتَہِنِ .فَہٰذَا عَطَائٌ یَقُوْلُ بِہٰذَا وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لَا یَغْلَقُ الرَّہْنُ .فَہٰذَا أَیْضًا حُجَّۃٌ عَلَی مُخَالِفِنَا اِذَا کَانَ مِنْ أَصْلِہِ أَنَّ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَأْوِیْلُہُ فِیْہِ حُجَّۃٌ .فَقَدْ خَالَفَ ہٰذَا کُلَّہٗ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَخَالَفَ مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنْ عُمَرَ وَعَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَمَّنْ ذَکَرْنَا مِنْ التَّابِعِیْنَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ فَمَنْ اِمَامُہٗ فِیْ ہٰذَا ؟ أَوْ بِمَنْ اقْتَدَی بِہٖ ؟ .ثُمَّ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا یَدْفَعُ مَا قَالَ وَمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ اِذْ جَعْلُ الرَّہْنِ أَمَانَۃً یَضِیعُ بِغَیْرِ شَیْئٍ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْأَمَانَاتِ لِرَبِّہَا أَنْ یَأْخُذَہَا وَحَرَامٌ عَلَی الْمُرْتَہِنِ مَنْعُہُ مِنْہَا .وَالرَّہْنُ مُخَالِفٌ لِذٰلِکَ اِذَا کَانَ لِلْمُرْتَہِنِ حَبْسُہُ وَمَنْعُ مَالِکِہِ مِنْہُ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَ دَیْنَہٗ فَخَرَجَ بِذٰلِکَ حُکْمُہُ مِنْ حُکْمِ الْأَمَانَاتِ .وَرَأَیْنَا الْأَشْیَائَ الْمَغْصُوْبَۃَ حَرَامٌ عَلَی الْغَاصِبِیْنَ حَبْسُہَا وَحَلَالٌ لِلْمَغْصُوْبِیْنَ مِنْہُمْ أَخْذُہَا وَالرَّہْنُ لَیْسَ کَذٰلِکَ لِأَنَّ الْمُرْتَہِنَ حَلَالٌ لَہٗ حَبْسُ الرَّہْنِ وَمَنْعُ الرَّاہِنِ مِنْہُ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَ مِنْہُ دَیْنَہٗ.وَرَأَیْنَا الْعَوَارِیَّ لِلْمُسْتَعِیْرِ الْاِنْتِفَاعُ بِہَا وَلِلْمُعِیْرِ أَخْذُہَا مِنْہُ مَتَی أَحَبَّ .وَالرَّہْنُ لَیْسَ کَذٰلِکَ لِأَنَّ الْمُرْتَہِنَ حَرَامٌ عَلَیْہِ اسْتِعْمَالُ الرَّہْنِ وَلَیْسَ لِلرَّاہِنِ أَخْذُہُ مِنْہُ حَتّٰی یُوْفِیَہُ دَیْنَہٗ.فَبَانَ حُکْمُ الرَّہْنِ عَنْ حُکْمِ الْوَدَائِعِ وَالْغُصُوْبِ وَالْعَوَارِیِّ وَثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہُ بِخِلَافِ حُکْمِ ذٰلِکَ کُلِّہِ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ لِلْمُرْتَہِنِ حَبْسَہُ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَ الدَّیْنَ وَحَلَالٌ لِلرَّاہِنِ أَخْذُہُ اِذَا بَرِئَ مِنْ الدَّیْنِ .فَلَمَّا کَانَ حَبْسُ الرَّہْنِ مُضَمَّنًا بِحَبْسِ الدَّیْنِ وَسُقُوْطُ حَبْسِہِ مُضَمَّنًا بِسُقُوْطِ حَبْسِ الدَّیْنِ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا ثُبُوْتُ الدَّیْنِ مُضَمَّنًا بِثُبُوْتِ الرَّہْنِ فَمَا کَانَ الرَّہْنُ ثَابِتًا فَالدَّیْنُ ثَابِتٌ وَمَتَیْ کَانَ الرَّہْنُ غَیْرَ ثَابِتٍ فَالدَّیْنُ غَیْرُ ثَابِتٍ .وَکَذٰلِکَ رَأَیْنَا الْمَبِیْعَ فِی قَوْلِنَا وَقَوْلِ ہٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا لِلْبَائِعِ حَبْسُہُ بِالثَّمَنِ وَمَتَی ضَاعَ فِیْ یَدِہِ ضَاعَ بِالثَّمَنِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا اجْتَمَعَا عَلَیْہِ نَحْنُ وَہُوَ مِنْ ہٰذَا أَنْ یَکُوْنَ الرَّہْنُ کَذٰلِکَ وَأَنْ یَکُوْنَ ضَیَاعُہُ یُبْطِلُ الدَّیْنَ کَمَا کَانَ ضَیَاعُ الْمَبِیْعِ یُبْطِلُ الثَّمَنَ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ غَیْرَ أَنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ وَأَبَا یُوْسُفَ وَمُحَمَّدًا رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ذَہَبُوْا فِی الرَّہْنِ اِلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ وَاِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ فِی الْغَصْبِ فَقَالُوْا : رَأَیْنَا الْأَشْیَائَ الْمَغْصُوْبَۃَ لَا یُوْجِبُ ضَیَاعُہَا مِنْ غَصْبِہَا أَکْثَرَ مِنْ ضَمَانِ قِیْمَتِہَا وَغَصْبُہَا حَرَامٌ .قَالُوْا : فَالْأَشْیَائُ الْمَرْہُوْنَۃُ الَّتِی قَدْثَبَتَ أَنَّہَا مَضْمُوْنَۃٌ أَحْرَی أَنْ لَا یَجِبَ بِضَمَانِہَا عَلَی مَنْ قَدْ ضَمِنَہَا أَکْثَرُ مِنْ مِقْدَارِ قِیْمَتِہَا .وَکَانُوْا یُذْہِبُوْنَ فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ لَہٗ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ اِلٰی أَنَّ ذٰلِکَ فِی الْبَیْعِ .یُرِیْدُوْنَ اِذَا بِیْعَ الرَّہْنُ بِثَمَنٍ فِیْہِ نَقْصٌ عَنِ الدَّیْنِ غَرِمَ الْمُرْتَہِنُ ذٰلِکَ النَّقْصَ وَہُوَ غُرْمُہُ الْمَذْکُوْرُ فِی الْحَدِیْثِ وَاِذَا بِیْعَ بِفَضْلٍ عَنِ الدَّیْنِ أَخَذَ الرَّاہِنُ ذٰلِکَ الْفَضْلَ وَہُوَ غُنْمُہُ الْمَذْکُوْرُ فِی الْحَدِیْثِ .
٥٧٧٣: ابن جریج نے عطائ (رح) سے دریافت کیا کہ اگر کسی آدمی نے ایک آدمی کے پاس لونڈی رہن رکھی وہ مرگئی (تو کیا حکم ہے) فرمایا وہ مرتہن کے حق (قرض) کے بدلے ہے۔ یہ عطاء بھی یہی فرما رہے ہیں اور ہم نے عطائؒ کے واسطہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” لایغلق الرہن “ کی روایت نقل کی ہے۔ یہ روایت بھی خاص طور پر ہمارے مخالفین کے خلاف دلیل ہے اس لیے کہ ان کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرے وہ اس کی تاویل کو زیادہ جانتا ہے۔ تو ہمارے مخالف نے اس پورے باب میں اپنے اس قانون کی خلاف ورزی کی اور اس کی بھی مخالفت کی جو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عمر ‘ علی (رض) اور جلیل القدر تابعین رحمہم اللہ سے نقل کیا۔ تو اس سلسلہ میں ہمارے مخالف کا کون امام ہے یا انھوں نے کس کی پیروی کی ہے ؟ پھر قیاس بھی ہمارے مخالف کے مذہب کی نفی کرتا ہے کیونکہ اس نے رہن کو امانت قرار دیا ہے اور اس کے متعلق کہا کہ وہ بلاعوض ضائع ہوجائے گا۔ حالانکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ امانتوں کے مالک کو ان کے لینے کا حق ہے اور مرتہن کو لینے سے روکنا حرام ہے اور رہن کا معاملہ اس کے خلاف ہے اس لیے کہ مرتہن اس کو اپنے ہاں روک سکتا ہے اور مالک کو قرض کی ادائیگی کاملہ تک منع کرسکتا ہے۔ پس اس علت کی وجہ سے رہن کا حکم امانتوں سے خارج ہوگیا۔ اور ہم نے مغصوبہ اشیاء پر نگاہ ڈالی اس کا روکنا غاصب پر حرام ہے اور مغصوبین کو ان میں سے لینا جائز ہے اور رہن اس طرح نہیں ہے کیونکہ مرتہن کو رہن کا روکنا حلال ہے اور ادائیگی قرض تک راہن کو اس سے منع کرنا بھی جائز ہے۔ ہم نے ادھار لی ہوئی اشیاء پر نظر ڈالی۔ عاریت لینے والا ان سے انتفاع تو حاصل کرسکتا ہے اور عاریت دینے والا جب پسند کرے وہ اس سے لے سکتا ہے۔ حالانکہ رہن اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ مرتہن کو رہن کا استعمال کرنا حرام ہے اور راہن قرض کی ادائیگی تک اس سے وصول کا حق بھی نہیں رکھتا۔ (اب تک کے کلام سے ثابت ہوگیا) کہ رہن کا حکم امانتوں ‘ مغصوبہ اشیاء اور عاریۃ حاصل کی ہوئی اشیاء سے مختلف ہے اور یہ ثابت ہوا کہ رہن کا حکم ان سب سے جدا ہے۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ مرتہن رہن کو اس وقت تک روک سکتا ہے جب تک کہ وہ قرض ادا نہ کرے اور جب قرض سے وہ بری ہوجائے تو اس چیز کا راہن کو لینا حلال ہے۔ جب رہن کا روکنا قرض کو روکنے سے مشروط ہے اور یہ روکنا اس وقت ساقط ہوگا جبکہ ادائیگی قرض کی رکاوٹ نہ رہے گی تو قرض کا ثبوت بھی رہن کے ثبوت سے مشروط ہوگا جب تک رہن کا ثبوت ہوگا قرض بھی ثابت ہوگا۔ جب رہن ثابت نہیں رہے گا تو قرض بھی ثابت نہ ہوگا۔ اسی طرح ہم نے بیع کو دیکھا کہ ہمارے اور ہمارے مخالف کے قول کے مطابق اس کو قیمت کی وصولی کے لیے روکا جاسکتا ہے اور جب وہ بائع کے ہاتھ میں ہلاک ہوگا تو قیمت کے عوض ہلاک ہوگا جس بات پر ہم اور ہمارا مخالف متفق ہے اس پر قیاس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ رہن کا حکم بھی یہ ہو۔ اس کا ضائع ہونا قرض کو باطل کردیتا ہے جس طرح مبیع کا ضائع ہونا قیمت کو باطل کردیتا ہے۔ اس باب میں تقاضا قیاس یہی ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ نے اس باب میں وہ راستہ اختیار کیا ہے جو حضرت عمر (رض) اور ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں غصب پر استدلال کیا جس کے متعلق سب کا اتفاق ہے وہ فرماتے ہیں کہ مغصوبہ اشیاء کو ضائع کرنے سے ان کی قیمت سے زیادہ تاوان لازم نہیں ہوتا حالانکہ غصب حرام ہے۔ جو اشیاء رہن رکھی گئی ہوں جن کا ضمان والا ہونا ثابت ہوگیا ان میں زیادہ مناسب ہے کہ ان کا ضمان بھی قیمت سے زائد لازم نہ ہو۔ وہ سعید بن مسیب (رح) کے قول لہ غنمہ وعلیہ غرمہ “ کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ یہ بیع سے متعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مرہونہ شئی کو اتنی قیمت میں فروخت کیا جائے جو قرض سے کم ہو تو مرتہن پر اس کا تاوان ہوگا حدیث میں اسی تاوان کا تذکرہ ہے اور اگر قرض سے زائد رقم پر فروخت ہو تو راہن یہ اضافہ اس سے وصول کرے گا اور یہ اس کا نفع ہے جس کا تذکرہ روایت میں کیا گیا ہے۔
زمین کی پیداوار کے کسی ثلث ربع وغیرہ حصہ پر زمین کو دینا مکروہ ہے زمین کو سونے ‘ چاندی کے بدلے کرایہ پر دینا تمام ائمہ کے ہاں بالاتفاق جائز ہے۔
زمین کی پیداوار کے کسی حصہ کے بدلے مزارعت امام احمد اور صاحبین وثوری رحمہم اللہ کے نزدیک جائز ہے لیکن امام شافعی ‘ لیث و نخعی ‘ ابوحنیفہ رحمہم اللہ کے ہاں یہ صورت بھی جائز نہیں ہے اور مساقات ان کے ہاں مزارعت کے معنی میں ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ البتہ ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ اس میں کراہت ہے۔ (العین ج ٥ ص ٧٢٤)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔