HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

11. حدود کا بیان

الطحاوي

4729

۴۷۲۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الرَّقَاشِیِّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذُوْا عَنِّیْ فَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الْبِکْرُ تُجْلَدُ وَتُنْفٰی ، وَالثَّیِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ
٤٧٢٩: حطان بن عبداللہ الرقاشی نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ سے یہ اچھی طرح حاصل کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راستہ مقرر کردیا ہے۔ کنوارہ کنواری سے زنا کرے اور شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو کنوارے لڑکے اور لڑکی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور جلا وطن کیا جائے گا اور شادی شدہ جوڑے کو کوڑے لگائے جائیں گے اور سنگسار کیا جائے گا۔

4730

۴۷۳۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ دَلْہَمٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ حُرَیْثٍ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْمُحَبِّقِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذُوْا عَنِّیْ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ ، وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ .
٤٧٣٠: قبیصہ بن حریث نے سلمہ بن محبق (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا مجھ سے حاصل کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راستہ نکال دیا۔ کنوارے جوڑے کو سو کوڑے اور سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ جوڑے کو سو کوڑے اور سنگ ساری کی سزا دی جائے گی۔
تخریج : مسلم فی الحدود ١٢؍١٣‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٣‘ ترمذی فی الحدود باب ٨‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٧‘ دارمی فی الحدود باب ١٩‘ مسند احمد ٥؍٣١٣‘ ٣١٧؍٣١٨‘ ٣٢١؍٣٢٧۔

4731

۴۷۳۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَعِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْغَافِقِیُّ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ وَشِبْلٍ قَالُوْا : کُنَّا قُعُوْدًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ اِلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ أَنْشُدُک اللّٰہَ اِلَّا قَضَیْتُ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَقَالَ خَصْمُہٗ وَکَانَ أَفْقَہَ مِنْہُ فَقَالَ : صَدَقَ اقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاِیذَنْ لِی .قَالَ قُلْ قَالَ : اِنَّ ابْنِیْ کَانَ عَسِیْفًا عَلٰی ہَذَا فَزَنَی بِامْرَأَتِہٖ، فَافْتَدَیْتُ مِنْہُ بِمِائَۃِ شَاۃٍ وَخَادِمٍ ثُمَّ سَأَلْت رِجَالًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُوْنِیْ أَنَّ عَلٰی ابْنِیْ جَلْدَ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبَ عَامٍ ، وَعَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا الرَّجْمَ .فَقَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ، لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ الْمِائَۃُ الشَّاۃُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْکَ، وَعَلٰی ابْنِک جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَامٍ ، وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ اِلَی امْرَأَۃِ ہٰذَا، فَاِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا فَغَدَا عَلَیْہَا فَاعْتَرَفَتْ ، فَرَجَمَہَا .
٤٧٣١: عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد جہنی (رض) اور شبل (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں آپ کو قسم دیتا ہوں ! کہ آپ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرما دیں۔ اس کے مخالف نے کہا وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا۔ اس نے سچ کہا ہے ہمارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے کہنے کی اجازت دیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہو ! اس نے کہا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ میں نے ایک سو بکریاں اور غلام اس کے فدیہ میں دیا ہے۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انھوں نے بتلایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس کی بیوی پر سنگساری ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ میں تمہارے درمیان ضرور کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا سو بکریاں اور خادم تجھ پر واپس لوٹائے جائیں گے اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہوگی اور اے انیس تم صبح عورت کے ہاں جاؤ۔ پھر اگر وہ اعتراف کرے تو اس کو سنگ سار کر دو ۔ انیس (رض) صبح اس کے ہاں گئے تو اس نے اعتراف کرلیا پھر انھوں نے اس کو سنگسار کردیا۔
تخریج : والایمان باب ٣‘ الحدود ٣٠؍٣٤‘ ٣٨؍٤٦‘ مسلم فی الحدود ٢٥‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٥‘ ترمذی فی الحدود باب ٨‘ نسائی فی القضاء باب ٢٢‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٧‘ دارمی فی الحدود باب ١٢‘ مالک فی الحدود ٦‘ مسند احمد ٣؍١١٥‘ ١١٦۔
لغات : العسیف۔ مزدور۔ جلد۔ کوڑے لگانا۔

4732

۴۷۳۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ وَمَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ قَالَا : کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْبِکْرَ اِذَا زَنَی ، فَعَلَیْہِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَامٍ جَمِیْعًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : حَدُّ الْبِکْرِ اِذَا زَنَیْ جَلْدُ مِائَۃٍ وَلَا نَفْیَ عَلَیْہِ مَعَ الْجَلْدِ اِلَّا أَنْ یَرَی الْاِمَامُ أَنْ یَنْفِیَہُ لِلدِّعَارَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ مِنْہُ فَیَنْفِیْہِ اِلَیْ حَیْثُ أَحَبَّ کَمَا یُنْفَی الدُّعَّارُ وَغَیْرُ الزُّنَاۃِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٤٧٣٢: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد جہنی (رض) دونوں سے روایت کی ہے کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کنوارہ اگر زنا کرے تو اس پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے دونوں سزائیں ہوں گی اور انھوں نے مذکورہ بالا روایات کو مستدل بنایا ہے۔ دوسروں نے کہا کہ کنوارہ اگر زنا کرے تو سو کوڑے فقط حد ہے اور جلا وطنی اس کے ساتھ سزا نہیں اگر حاکم مناسب خیال کرے تو فسق کی وجہ سے جو اس سے صادر ہو اس کو جہاں مناسب ہو جلا وطن کر دے جیسا کہ فساق اور زانیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو جلا وطن کیا جاتا ہے۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ کنوارہ اگر زنا کرے تو اس پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے دونوں سزائیں ہوں گی اور انھوں نے مذکورہ بالا روایات کو مستدل بنایا ہے۔

4733

۴۷۳۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْأَمَۃِ اِذَا زَنَتْ وَلَمْ تُحْصَنْ .فَقَالَ اِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ اِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ، ثُمَّ اِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ بِیْعُوْہَا وَلَوْ بِضَفِیْرٍ .قَالَ مَالِکٌ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ لَا أَدْرِیْ أَبَعْدَ الثَّالِثَۃِ أَوْ الرَّابِعَۃِ .
٤٧٣٣: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لونڈی کے متعلق دریافت کیا گیا کہ جب وہ زنا کرے اور وہ شادی شدہ نہ ہو تو آپ نے فرمایا جب وہ زنا کرے اسے کوڑے مارو۔ پھر اگر زنا کرے پھر اس کو کوڑے مارو پھر اگر وہ زنا کرے تو اسے کوڑے مارو پھر اس کو فروخت کر دو اگرچہ بالوں کی رسی کے بدلے ہو۔
مالک کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے کہا مجھے معلوم نہیں کہ آیا تیسری بار یا چوتھی بار کے بعد آپ نے یہ بات فرمائی۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ٣٥‘ والبیوع باب ٦٦‘ مسلم فی الحدود ٣٢‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣٢‘ ترمذی فی الحدود باب ٨‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ١٤‘ دارمی فی الحدود باب ١٨‘ مالک فی الحدود ١٤‘ مسند احمد ٢؍٢٤٩‘ ٤‘ ١١٦؍١١٧‘ ٦؍٦٥۔

4734

۴۷۳۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، أَنَّ شِبْلَ بْنَ خَالِدٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَالِکٍ الْأَوْسِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَلِیْدَۃُ اِذَا زَنَتْ مِثْلَہٗ۔اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ أَوْ الرَّابِعَۃِ الْبَیْعُ وَأَخْبَرَہُ زَیْدُ بْنُ خَالِدٍ صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : ہَذَا خَطَأٌ شِبْلٌ ہَذَا ابْنُ خُلَیْدٍ الْمُزَنِیّ .
٤٧٣٤: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے روایت کی ہے کہ مجھے حضرت شبل بن خالد (رض) نے بتلایا کہ عبداللہ بن مالک اوسی نے اسے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لونڈی جب زنا کرے) اسی طرح فرمایا البتہ انھوں نے فی الثالثۃ ا والرابعۃ کے لفظ بولے کہ پھر فروخت کر دے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی زید بن خالد (رض) نے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ یہ شبل ابن خلید مزنی کا بیٹا ہے۔
تخریج : ٤٧٣٣ کی تخریج پیش نظر رہے۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
یہ غلط ہے کیونکہ یہ شبل ابن خلید مزنی کا بیٹا ہے۔

4735

۴۷۳۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ ہُوَ ابْنُ الْوَلِیْدِ عَنِ الزُّبَیْدِیِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ شِبْلَ بْنَ خُلَیْدٍ الْمُزَنِیَّ ، أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَالِکٍ الْأَوْسِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَلِیْدَۃُ اِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ، ثُمَّ اِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ اِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ اِنْ زَنَتْ فَبِیْعُوْہَا وَلَوْ بِضَفِیْرٍ وَالضَّفِیْرُ : اَلْحَبْلُ .
٤٧٣٥: شبل بن خلید مزنی نے بتلایا کہ عبداللہ بن مالک اوسی (رض) نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لونڈی جب زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو پھر اگر وہ (دوبارہ) زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ پھر (تیسری بار) اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ پھر اگر وہ زنا کرے (چوتھی بار) تو اس کو فروخت کر دو ۔ خواہ بالوں کی بٹی ہوئی رسی کے برابر ہو۔
تخریج : روایت ٤٧٣٣ کی تخریج ملاحظہ کریں۔

4736

۴۷۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا زَنَتْ أَمَۃُ أَحَدِکُمْ فَلْیَجْلِدْہَا الْحَدَّ ، وَلَا یُثَرِّبْ عَلَیْہَا قَالَ ذٰلِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ أَوْ الرَّابِعَۃِ ثُمَّ بِیْعُوْہَا وَلَوْ بِضَفِیْرٍ .
٤٧٣٦: عراک بن مالک نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کسی کی لونڈی زنا کرے تو وہ اسے کوڑوں کی حد لگائے اور کوڑوں کے بعد ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے۔ یہ بات آپ نے تین بار دہرائی پھر تیسری بار فرمایا یا چوتھی مرتبہ فرمایا۔ پھر تم اس کو فروخت کر دو اگرچہ ایک بالوں کی رسی کے عوض ہو۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ٣٦‘ والبیوع باب ٦٦‘ ١١٠‘ مسلم فی الحدود ٣٠‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣٢‘ مسند احمد ٢؍٢٤٩‘ ٤٩٤۔
لغات : یثرب۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔ (نہایہ)

4737

۴۷۳۷: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہٗ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٤٧٣٧: سعید مقبری نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔

4738

۴۷۳۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٤٧٣٨: سعید مقبری نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4739

۴۷۳۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ أُوَیْسٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَمِّہِ وَکَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا زَنَتِ الْأَمَۃُ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ اِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ اِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوْہَا ثُمَّ بِیْعُوْہَا وَلَوْ بِضَفِیْرٍ .
٤٧٣٩: عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے جو کہ صحابی (رض) تھے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب لونڈی زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ۔ پھر (دوسری بار) زنا کرے تو کوڑے لگائے پھر (تیسری بار) جب وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ۔ پھر اس کو فروخت کر دو اگرچہ بالوں کی رسی کے بدلے میں ہو۔
تخریج : ٤٧٣٣ روایت کی تخریج پیش نظر رہے۔

4740

۴۷۴۰: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ عَنْ أَبِیْ أُوَیْسٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ مِثْلَہٗ۔
٤٧٤٠: عبیداللہ بن عبداللہ نے زید بن خالد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4741

۴۷۴۱: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ أَبِیْ فَرْوَۃَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ مُسْلِمٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ عُرْوَۃَ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ عَمْرَۃَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ حَدَّثَتْہُ أَنَّ عَائِشَۃَ حَدَّثَتْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٤٧٤١: عمرہ بنت عبدالرحمن نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4742

۴۷۴۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی التَّغْلِبِیِّ ، عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَلِیْ قَالَ : أُخْبِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَمَۃٍ لَہُمْ فَجَرَتْ فَأَرْسَلَنِیْ اِلَیْہَا فَقَالَ اذْہَبْ فَأَقِمْ عَلَیْہَا الْحَدَّ .فَانْطَلَقْتُ فَوَجَدْتُہَا لَمْ تَجِفَّ مِنْ دَمِہَا ، فَرَجَعْتُ اِلَیْہِ فَقَالَ لِیْ فَرَغْتُ؟ فَقُلْتُ :وَجَدْتُہَا لَمْ تَجِفَّ مِنْ دَمِہَا .فَقَالَ اِذَا ہِیَ جَفَّتْ مِنْ دَمِہَا فَاجْلِدْہَا .قَالَ عَلِیٌّ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقِیْمُوا الْحُدُوْدَ عَلٰی مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ .قَالُوْا : فَلَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَمَۃِ اِذَا زَنَتْ أَنْ تُجْلَدَ وَلَمْ یَأْمُرْ مَعَ الْجَلْدِ بِنَفْیٍ وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ مَا یَجِبُ عَلَی الْاِمَائِ - اِذَا زَنَیْنَ - ہُوَ نِصْفُ مَا یَجِبُ عَلَی الْحَرَائِرِ اِذَا زَنَیْنَ .ثُمَّ ثَبَتَ أَنْ لَا نَفْیَ عَلَی الْأَمَۃِ اِذَا زَنَتْ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا أَنْ لَا نَفْیَ عَلَی الْحُرَّۃِ اِذَا زَنَتْ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہَذَا أَنَّہٗ نَہَی أَنْ تُسَافِرَ امْرَأَۃٌ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ اِلَّا مَعَ مَحْرَمٍ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَیْضًا أَنْ لَا تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فِیْ حَدِّ الزِّنَا بِغَیْرِ مَحْرَمٍ ، وَفِیْ ذٰلِکَ اِبْطَالُ النَّفْیِ عَنْ النِّسَائِ فِی الزِّنَا ، فَاِذَا انْتَفَی أَنْ یَکُوْنَ یَجِبُ عَلَی النِّسَائِ اللَّاتِی غَیْرُ الْمُحْصَنَاتِ نَفْیٌ فِی الزِّنَا انْتَفَیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ الرِّجَالِ .وَکَانَ دَرْئُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُ عَنِ الْاِمَائِ فِیْمَا ذَکَرْنَا کَانَ دَرْئً ا عَنِ الْحَرَائِرِ ، وَفِیْ دَرْئِہِ اِیَّاہُ عَنِ الْحَرَائِرِ دَلِیْلٌ عَلَی دَرْئِہِ اِیَّاہُ عَنِ الْأَحْرَارِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ نَفْیَ الْأَمَۃِ اِذَا زَنَتْ سِتَّۃَ أَشْہُرٍ مِثْلُ مَا تُنْفَی الْحَرَّۃُ ؟ وَقَالَ : لَمْ یَنْفِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّفْیَ فِیْمَا ذَکَرْتُمُوْھُ عَنْہُ مِنْ جَلْدِ الْأَمَۃِ اِذَا زَنَتْ وَلَا بِقَوْلِہٖ ثُمَّ بِیْعُوْہَا فِی الْمَرَّۃِ الرَّابِعَۃِ .فَکَانَ ہٰذَا الْقَائِلُ یُخَالِفُ کُلَّ مَنْ تَقَدَّمَہٗ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَخَرَجَ مِنْ أَقَاوِیْلِہِمْ .فَیُقَالُ لَہٗ : بَلْ فِیْمَا رَوَیْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ اِذَا زَنَتْ أَمَۃُ أَحَدِکُمْ فَلْیَجْلِدْہَا ثُمَّ قَالَ فِی الرَّابِعَۃِ فَلْیَبِعْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا نَفْیَ عَلَیْہَا لِأَنَّہٗ اِنَّمَا عَلَّمَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ مَا یَفْعَلُوْنَ بِاِمَائِہِمْ اِذَا زَنَیْنَ .فَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ یُقَصِّرُ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ جَمِیْعِ مَا یَجِبُ عَلَیْہِنَّ وَمُحَالٌ أَنْ یَأْمُرَ بِبَیْعِ مَنْ لَا یَقْدِرُ مُبْتَاعُہُ عَلَی قَبْضِہِ مِنْ بَائِعِہٖ، وَلَا تَصِلُ اِلَی ذٰلِکَ اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ سِتَّۃِ أَشْہُرٍ .وَیُقَالُ لَہٗ أَیْضًا : قَدْ زَعَمْتُ أَنْتَ أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اُغْدُ عَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا فَاِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا جَلْدَ عَلَیْہَا مَعَ ذٰلِکَ ، وَاِنْ کَانَ اِبْطَالُ الْجَلْدِ لَمْ یُذْکَرْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَجَعَلْتُ ذٰلِکَ مُعَارِضًا لِمَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ .فَاِذَا کَانَ ہٰذَا عِنْدَک دَلِیْلًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فَمَا تُنْکِرُ عَلَی خَصْمِک أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا زَنَتْ أَمَۃُ أَحَدِکُمْ فَلْیَجْلِدْہَا عِنْدَہُ دَلِیْلًا عَلَی اِبْطَالِ النَّفْیِ عَلَی الْأَمَۃِ .فَاِذَا کَانَ مَا ذَکَرْنَا فِی السُّکُوْتِ عَنْ نَفْیِ الْأَمَۃِ لَیْسَ یَرْفَعُ النَّفْیَ عَنْہَا فِیْمَا ذَکَرْتُ أَنْتَ أَیْضًا فِی السُّکُوْتِ عَنِ الْجَلْدِ مَعَ الرَّجْمِ لَا یَرْفَعُ الْجَلْدَ عَنِ الثَّیِّبِ الزَّانِیْ مَعَ الرَّجْمِ .وَمَا یَلْزَمُ خَصْمَک فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا زَنَتْ أَمَۃُ أَحَدِکُمْ فَلْیَجْلِدْہَا شَیْء ٌ اِلَّا لَزِمَک مِثْلُہٗ فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَاِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا .وَیُقَالُ لَہٗ : رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّفْیِ غَیْرُ الزِّنَا مَا قَدْ
٤٧٤٢: ابو حمید نے علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی کہ ان کی ایک لونڈی نے زنا کیا ہے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کی طرف بھیج کر فرمایا کہ تم جاؤ اور اس پر حد قائم کرو۔ میں گیا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اس کا خون خشک نہیں ہوا۔ پس میں آپ کی خدمت میں لوٹا تو آپ نے مجھے فرمایا کیا تم فارغ ہوگئے ہو تو میں نے عرض کیا ابھی اس کا خون خشک نہیں ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا جب وہ اپنے خون سے فارغ ہوجائے تو اس کو کوڑے لگا۔ حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے غلاموں ‘ لونڈیوں پر حدود قائم کیا کرو۔ انھوں نے کہا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زانیہ کے متعلق کوڑوں کا حکم دیا ہے مگر کوڑے کے ساتھ جلا وطنی کا حکم نہیں فرمایا اور ارشاد الٰہی ہے۔ فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب (النساء ٢٥) اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ جب لونڈیاں زنا کریں تو آزاد کی بنسبت ان پر نصف سزا ہے جبکہ وہ زنا کریں پھر روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لونڈی پر زنا کی صورت میں حد کے علاوہ جلاوطنی نہیں ہے۔ آزاد عورت پر جب وہ ارتکاب زنا کرے اسی طرح جلاوطنی لازم نہیں۔ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے اسی کتاب میں ذکر کر آئے کہ آپ نے عورت کو اکیلے تین دن کے سفر سے منع فرمایا مگر اس صورت میں جبکہ ذی رحم محرم اس کے ساتھ ہو۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگیا کہ عورت تین دن کا سفر حد زنا میں بغیر محرم کے نہیں کرسکتی۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ زانیہ کے سلسلہ میں جلاوطنی نہیں ہے پس جب غیر محصنہ عورت پر جلاوطنی زنا میں واجب نہیں تو مردوں میں بھی جلاوطنی نہ ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لونڈی سے حد کو دفع کرنا چاہا تو آزاد سے بھی اسی طرح دفع کریں گے اور آزاد عورتوں سے اس کا دور کرنا آزاد مردوں سے دور کرنے کی دلیل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مذہب ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے لونڈی کی جلاوطنی زنا کی صورت میں چھ ماہ ہے جیسا کہ آزاد عورت کی جلاوطنی کا نصف ہو اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ روایات میں لونڈی کو کوڑے مارنے کا جہاں ذکر فرمایا تو جلاوطنی کی نفی نہیں فرمائی اور بار بار زنا کے باوجود چوتھی مرتبہ اس کو بیچنے کا حکم فرمایا مگر اس میں بھی جلاوطنی کی نفی نہیں ہے۔ تو ایسا کہنے والا اپنے سے پہلے تمام اہل علم کی مخالفت کرنے والا اور ان کے اقوال سے نکلنے والا بن جائے گا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ روایت کیا ہے۔ ” اذا زنت امۃ احدکم فلیجلدھا “ پھر چوتھی مرتبہ فرمایا ” فلیبعھا “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر جلاوطنی لازم نہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ بات سکھائی جس کو وہ لونڈیوں کے زنا کرنے کی صورت میں اختیار کریں پس یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس سلسلے میں جو لازم تھا اس میں کمی کردی اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ایسی عورت کی فروخت کا حکم دیں کہ جس کو خریدنے والا اپنے قبضے میں لینے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور وہ اس کو چھ ماہ بعد ملے اور ہم جواباً یہ بھی کہیں گے کہ پھر تمہارے خیال میں تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انیس کو فرمایا کہ تم اس آدمی کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف کرے تو اس کو رجم کر دو بقول آپ کے اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ساتھ اس پر کوڑے نہیں ہوں گے اگرچہ کوڑوں کی نفی اس حدیث میں مذکور نہیں ہے اور اس طرح تو تم نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی شادی شدہ جوڑا جب زنا کرے تو اسے کوڑے لگائے جائیں اور سنگسار کیا جائے کے مخالف و معارض کردیا پس اگر یہ تمہارے نزدیک اس بات کی دلیل ہے۔ جیسے ہم نے ذکر کیا تو آپ کو اپنے مخالف اس پر اعتراض کا حق حاصل نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو وہ اسے کوڑے لگائے۔ یہ اس کے نزدیک لونڈی سے جلاوطنی کی نفی کی دلیل ہے۔ تو جو کچھ ہم نے ذکر کیا کہ لونڈی سے جلاوطنی کی نفی سے خاموشی اختیار کی گئی ہے (یہ خاموشی اس سے جلاوطنی کو نہیں اٹھاتی جیسا کہ تم نے بیان کیا کہ رجم کے ساتھ کوڑوں کے تذکرہ سے خاموشی شادی شدہ زانی سے رجم کی سزا کے ساتھ کوڑے مارنے کی نفی نہیں کرتا تو جو کچھ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے کہ جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے مارنے کے سلسلے میں تمہارے مخالف پر لازم ہوگا جو اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے جو انیس (رض) کی روایت میں فرمایا گیا تم پر لازم ہوگا کہ جب وہ زنا کا اعتراف کرے تو تم اس کو رجم کر دو ۔ محترم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو جلاوطنی کا تذکرہ زنا کے علاوہ بھی مذکور ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٩٥‘ ١٣٥؍١٣٦‘ ١٤٥۔
طرزِ استدلال : جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زانیہ کے متعلق کوڑوں کا حکم دیا ہے مگر کوڑے کے ساتھ جلا وطنی کا حکم نہیں فرمایا اور ارشاد الٰہی ہے : فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب (النساء : ٢٥) اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ جب لونڈیاں زنا کریں تو آزاد کی بنسبت ان پر نصف سزا ہے جبکہ وہ زنا کریں پھر روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لونڈی پر زنا کی صورت میں حد کے علاوہ جلاوطنی نہیں ہے۔ آزاد عورت پر جب وہ ارتکاب زنا کرے اسی طرح جلاوطنی لازم نہیں۔
ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے اسی کتاب میں ذکر کر آئے کہ آپ نے عورت کو اکیلے تین دن کے سفر سے منع فرمایا مگر اس صورت میں جبکہ ذی رحم محرم اس کے ساتھ ہو۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت تین دن کا سفر حد زنا میں بغیر محرم کے نہیں کرسکتی۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ زانیہ کے سلسلہ میں جلاوطنی نہیں ہے پس جب غیر محصنہ عورت پر جلاوطنی زنا میں واجب نہیں تو مردوں میں بھی جلاوطنی نہ ہوگی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لونڈی سے حد کو دفع کرنا چاہا تو آزاد سے بھی اسی طرح دفع کریں گے اور آزاد عورتوں سے اس کا دور کرنا آزاد مردوں سے دور کرنے کی دلیل ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مذہب ہے۔
سوال : لونڈی کی جلاوطنی زنا کی صورت میں چھ ماہ ہے جیسا کہ آزاد عورت کی جلاوطنی کا وہ نصف ہو اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ روایات میں لونڈی کو کوڑے کا جہاں ذکر فرمایا تو جلاوطنی کی نفی نہیں فرمائی اور بار بار زنا کے باوجود چوتھی مرتبہ اس کو بیچنے کا حکم فرمایا مگر اس میں بھی جلاوطنی کی نفی نہیں ہے۔ تو ایسا کہنے والا اپنے سے پہلے تمام اہل علم کی مخالفت کرنے والا اور ان کے اقوال سے نکلنے والا بن جائے گا۔
الجواب نمبر ١:
ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ روایت کیا ہے۔ ” اذا زنت امۃ احدکم فلیجلدھا “ پھر چوتھی مرتبہ فرمایا ” فلیبعھا “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر جلاوطنی لازم نہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ بات سکھائی جس کو وہ لونڈیوں کے زنا کرنے کی صورت میں اختیار کریں پس یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس سلسلے میں جو لازم تھا اس میں کمی کردی اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ایسی عورت کی فروخت کا حکم دیں کہ جس کو خریدنے والا اپنے قبضے میں لینے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور وہ اس کو چھ ماہ بعد ملے۔
الجواب نمبر ٢:
اور ہم جواباً یہ بھی کہیں گے کہ پھر تمہارے خیال میں تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انیس کو فرمایا کہ تم اس آدمی کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف کرے تو اس کو رجم کر دو بقول آپ کے اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ساتھ اس پر کوڑے نہیں ہوں گے اگرچہ کوڑوں کی نفی اس حدیث میں مذکور نہیں ہے اور اس طرح تو تم نے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی شادی شدہ جوڑا جب زنا کرے تو اسے کوڑے لگائے جائیں اور سنگسار کیا جائے کے مخالف و معارض کردیا پس اگر یہ تمہارے نزدیک اس بات کی دلیل ہے۔ جیسے ہم نے ذکر کیا تو آپ کو اپنے مخالف اس پر اعتراض کا حق حاصل نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو وہ اسے کوڑے لگائے۔ یہ اس کے نزدیک لونڈی سے جلاوطنی کی نفی کی دلیل ہے۔ تو جو کچھ ہم نے ذکر کیا کہ لونڈی سے جلاوطنی کی نفی سے خاموشی اختیار کی گئی ہے (یہ خاموشی اس سے جلاوطنی کو نہیں اٹھائی جیسا کہ تم نے بیان کیا کہ رجم کے ساتھ کوڑوں کے تذکرہ سے خاموشی شادی شدہ زانی سے رجم کی سزا کے ساتھ کوڑے مارنے کی نفی نہیں کرتا تو جو کچھ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے کہ جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے مارنے کے سلسلے میں تمہارے مخالف پر لازم ہوگا جو اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے جو انیس (رض) کی روایت میں فرمایا گیا تم پر لازم ہوگا کہ جب وہ زنا کا اعتراف کرے تو تم اس کو رجم کر دو ۔
الجواب نمبر ٣:
محترم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو جلاوطنی کا تذکرہ زنا کے علاوہ بھی مذکور ہے۔

4743

۴۷۴۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ الْوَاسِطِیُّ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ عَبْدَہُ مُتَعَمِّدًا فَجَلَدَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِائَۃً ، وَنَفَاہُ سَنَۃً وَمَحَا أَرَاہُ سَہْمَہٗ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَمَرَہٗ أَنْ یَعْتِقَ رَقَبَۃً .فَلَمْ یَکُنْ مَا فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا مِنْ نَفْیِہِ الْقَاتِلَ سَنَۃً دَلِیْلًا عِنْدَنَا وَلَا عِنْدَکَ، عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ حَدٌّ وَاجِبٌ لَا یَنْبَغِیْ تَرْکُہُ .وَاِنْ کَانَ عَلٰی أَنَّہٗ لِلدِّعَارَۃِ لَا لِأَنَّہٗ حَدٌّ .فَمَا تُنْکِرُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَمَرَ بِہٖ ، مِنْ نَفْیِ الزَّانِیْ، عَلٰی أَنَّہٗ لِلدِّعَارَۃِ ، لَا لِأَنَّہٗ حَدٌّ وَاجِبٌ کَوُجُوْبِ الْجَلْدِ وَالرَّجْمِ .
٤٧٤٣: عمرو بن شعیب نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایک سو کوڑے مارے اور جلا وطن کردیا اور میرے خیال میں مسلمانوں سے اس کا حصہ مٹا دیا اور اس کو ایک گردن آزاد کرنے کا حکم دیا۔ اب اس روایت میں مذکور فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ جلاوطنی جو کہ ایک سال کے لیے تھی وہ ہمارے اور تمہارے کسی کے نزدیک بھی حد واجب میں شامل نہیں ہے کہ اس کا ترک نہ ہوسکتا ہو۔ (بلکہ قاضی کی صوابدید پر موقوف چیزوں سے ہے) اور اس روایت میں اس کی جلاوطنی فسق کی وجہ سے تھی۔ حد کی بناء پر نہ تھی۔ پھر آپ کو اس روایت کے سلسلہ میں کیونکر انکار ہے جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زانی کی جلاوطنی فسق کے سلسلہ میں مروی ہے۔ نہ کہ حد واجب کے طور پر جیسا کہ کوڑے اور سنگساری حد واجب نہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنایات باب ٢٤۔
اب اس روایت میں مذکور جلاوطنی جو کہ ایک سال کے لیے تھی وہ ہمارے اور تمہارے کسی کے نزدیک بھی حد واجب میں شامل نہیں ہے کہ اس کا ترک نہ ہوسکتا ہے۔ (بلکہ قاضی کی صوابدید پر موقوف چیزوں سے ہے) اور اس روایت میں اس کی جلاوطنی فسق کی وجہ سے تھی۔ حد کی بناء پر نہ تھی۔ پھر آپ کو اس روایت کے سلسلہ میں کیونکر انکار ہے جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زانی کی جلاوطنی فسق کے سلسلہ میں مروی ہے۔ نہ کہ حد واجب کے طور پر جیسا کہ کوڑے اور سنگساری حد واجب ہے۔

4744

۴۷۴۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلًا زَنٰی فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجُلِدَ ثُمَّ أَخْبَرَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ أَحْصَنَ فَأَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ اِلَی ہَذَا قَوْمٌ ، فَقَالُوْا : ہٰکَذَا حَدُّ الْمُحْصَنِ اِذَا زَنَی ، الْجَلْدُ وَالرَّجْمُ جَمِیْعًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ حَدُّہُ الرَّجْمُ ، دُوْنَ الْجَلْدِ .وَقَالُوْا : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا رَجَمَہُ لَمَّا أُخْبِرَ أَنَّہٗ مُحْصَنٌ لِأَنَّ الْجَلْدَ الَّذِیْ کَانَ جَلَدَہُ اِیَّاہٗ، لَیْسَ مِنْ حَدِّہِ فِیْ شَیْئٍ لِأَنَّ حَدَّہُ کَانَ الرَّجْمَ دُوْنَ الْجَلْدِ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَجَمَہُ لِأَنَّ ذٰلِکَ الرَّجْمَ ہُوَ حَدُّہُ مَعَ الْجَلْدِ وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَیْضًا لِقَوْلِہِمْ بِمَا ۔
٤٧٤٤: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے زنا کیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو کوڑے لگائے جائیں پھر آپ کو اطلاع ملی کہ یہ شادی شدہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کو کوڑے اور سنگساری دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ ان کی دلیل مذکور بالا روایت ہے۔ ثانی کا مؤقف یہ ہے کہ فقط رجم ہوگا کوڑے نہ مارے جائیں گے۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولین اطلاع کے مطابق اس کو کوڑے مارے مگر جب اس کا شادی شدہ ہونا ثابت ہوگیا تو رجم کا حکم فرمایا۔ کیونکہ اس کی اصل حد یہی تھی اور اس روایت کا یہ بھی مفہوم ہوا کہ عین ممکن ہے کہ اس کا وہی مطلب ہو جو تم لے رہے ہو کہ رجم بمعہ کوڑے حد ہو۔ پہلے قول والوں نے یہ دلائل بھی ذکر کیے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض علماء کا خیال یہ شادی شدہ زانی کو کوڑے اور سنگساری دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
فریق ثانی کا مؤقف : فقط رجم ہوگا کوڑے نہ مارے جائیں گے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولین اطلاع کے مطابق اس کو کوڑے مارے مگر جب اس کا شادی شدہ ہونا ثابت ہوگیا تو رجم کا حکم فرمایا۔ کیونکہ اس کی اصل حد یہی تھی اور اس روایت کا یہ بھی مفہوم ہوا کہ عین ممکن ہے کہ اس کا وہی مطلب ہو جو آپ لے رہے ہیں کہ رجم بمع کوڑے حد ہو۔

4745

۴۷۴۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الرَّقَاشِیِّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ خُذُوْا عَنِّیْ فَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ یُجْلَدُ وَیُنْفٰی وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ یُجْلَدُ وَیُرْجَمُ .
٤٧٤٥: حطان بن عبداللہ رقاشی نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ سے حاصل کرلو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راہ نکال دی اور وہ کنوارے جوڑے کو کوڑے مارے جائیں گے اور جلاوطن بھی کیا جائے گا اور شادی شدہ جوڑے کو رجم کیا جائے گا اور کوڑے بھی مارے جائیں گے۔
تخریج : روایت ٤٧٣١ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4746

۴۷۴۶: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَنْصُوْرُ بْنُ زَاذَانَ عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ثَنَا حِطَّانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الرَّقَاشِیُّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذُوْا عَنِّیْ فَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَامٍ ، وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ .قَالُوْا : فَبِہٰذَا نَقُوْلُ نَرَی أَنْ یُجْلَدَ الْمُحْصَنُ ، ثُمَّ یُرْجَمَ بَعْدَ ذٰلِکَ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ . وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَمْرِہِ أُنَیْسًا الْأَسْلَمِیَّ بِرَجْمِ الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ أَمَرَہٗ أَنْ یَغْدُوَ عَلَیْہَا فَیَرْجُمَہَا اِنْ اعْتَرَفَتْ وَلَمْ یَأْمُرْہُ أَنْ یَجْلِدَہَا .وَقَدْ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ بِاِسْنَادِہِ فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ وَفِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّ الَّذِی قَامَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ : اِنِّیْ سَأَلْت رِجَالًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُوْنِیْ أَنَّ عَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا الرَّجْمَ ، وَلَمْ یَذْکُرْ مَعَہُ الْجَلْدَ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ ہَذَا أَنَّ جَمِیْعَ مَا کَانَ عَلَیْہَا مِنَ الْجَلْدِ فِی الزِّنَا الَّذِیْ کَانَ مِنْہَا ہُوَ الرَّجْمُ دُوْنَ الْجَلْدِ .وَقَدْ شَدَّ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا فَعَلَ بِمَاعِزٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٤٧٤٦: حطان بن عبداللہ رقاشی نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مجھ سے دین کی باتیں اچھی طرح حاصل کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راستہ پیدا فرما دیا کہ کنوارے جوڑے کو سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی اور شادی شدہ جوڑے کو سو کوڑے اور سنگساری کی سزا دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس قول کو اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں محصن کو کوڑے مارے جائیں پھر سنگسار کیا جائے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ دوسرے ان کے خلاف حضرت انیس (رض) والی روایت کو پیش کرتے ہیں جس میں آپ نے اس عورت کو صبح جا کر اعتراف کی صورت میں سنگسار کرنے کا حکم فرمایا ان کو کوڑے مارنے کا حکم نہیں فرمایا۔ یہ روایت مکمل اسناد کے ساتھ باب اوّل میں مذکور ہوچکی اور اس روایت میں مزید یہ بات بھی مذکور ہے کہ جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں کھڑا ہوا اس نے کہا میں نے کئی اہل علم سے دریافت کیا ہے تو انھوں نے مجھے بتلایا ہے کہ اس عورت پر سنگساری کی سزا ہے اور اس آدمی نے اس کے ساتھ کوڑوں کا تذکرہ نہیں کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار بھی نہیں فرمایا۔ پس اس سے حاصل یہی ہوا کہ اس سے سرزد ہونے والے زنا کی سزا سنگساری تھی نہ کہ کوڑے اور اس کی تائید ماعز اسلمی (رض) والی روایت سے بھی ہوتی ہے۔

4747

۴۷۴۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا الْأَسْوَدُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ مَاعِزًا ، وَلَمْ یَذْکُرْ جَلْدًا .فَفِیْمَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ أَنَّ حَدَّ الْمُحْصَنِ ہُوَ الرَّجْمُ دُوْنَ الْجَلْدِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَلِمَ لَا کَانَ مَا فِیْہِ الرَّجْمُ وَالْجَلْدُ أَوْلَی مِمَّا فِیْہِ الرَّجْمُ خَاصَّۃً ؟ قِیْلَ لَہٗ : لِدَلَالَۃٍ دَلَّتْ عَلٰی نَسْخِ الْجَلْدِ مَعَ الرَّجْمِ ، وَہِیَ أَنَّا رَأَیْنَا أَصْلَ مَا کَانَ عَلَی الزَّانِیْ قَبْلَ أَنْ نُفَرِّقَ بَیْنَ حُکْمِہِ اِذَا کَانَ مُحْصَنًا ، وَبَیْنَ حُکْمِہِ اِذَا کَانَ غَیْرَ مُحْصَنٍ مَا وَصَفَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہٖ بِقَوْلِہٖ وَاللَّاتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا فَکَانَ ہَذَا ہُوَ حَدَّ الزَّانِیَۃِ ، أَنْ تُمْسَکَ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی تَمُوْتَ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا .ثُمَّ نُسِخَ بِقَوْلِہٖ خُذُوْا عَنِّیْ فَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا فَذَکَرَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ فَکَانَ ذٰلِکَ ہُوَ السَّبِیْلَ الَّذِیْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا فَجَعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ السَّبِیْلَ ، عَلٰی مَا قَدْ بَیَّنَہٗ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَرَضَ فِیْ ذٰلِکَ الْجَلْدَ وَالرَّجْمَ عَلَی الثَّیِّبِ وَالْجَلْدَ وَالنَّفْیَ عَلٰی غَیْرِ الثَّیِّبِ .فَعَلِمْنَا أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ قَدْ کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ نُزُوْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَأَنَّہٗ لَمْ یَتَقَدَّمْ نُزُوْلَ الْآیَۃِ وُجُوْبُ الرَّجْمِ عَلَی الزَّانِیْ لِأَنَّ حَدَّہُ کَانَ عَلٰی مَا وَصَفَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہٖ مِنَ الْحَبْسِ فِی الْبُیُوْتِ .وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَ قَوْلِہٖ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا وَبَیْنَ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ حُکْمٌ آخَرُ فَعَلِمْنَا أَنَّ حَدِیْثَ عُبَادَۃَ کَانَ بَعْدَ نُزُوْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَأَنَّ حَدِیْثَ مَاعِزٍ الَّذِیْ سَأَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ عَنْ اِحْصَانِہٖ، لِتَفْرِقَتِہِ بَیْنَ حَدِّ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ وَحَدِیْثَ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہٗ فَرَّقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ بَیْنَ حُکْمِ الْبِکْرِ وَالثَّیِّبِ فَجَعَلَ عَلَی الْبِکْرِ جَلْدَ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبَ عَامٍ وَعَلَی الثَّیِّبِ الرَّجْمَ - مُتَأَخِّرٌ عَنْہُ .فَکَانَ ذٰلِکَ نَاسِخًا لَہُ لِأَنَّ مَا تَأَخَّرَ مِنْ حُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْسَخُ مَا تَقَدَّمَ مِنْہُ .فَلِہٰذَا کَانَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ حَدِیْث أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ وَحَدِیْثِ مَاعِزٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، أَوْلَی مِنْ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ مَعَ مَا قَدْ شَذَّ مِنَ النَّظَرِ الصَّحِیْحِ .وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْعُقُوْبَاتِ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہَا فِی انْتِہَاکِ الْحُرُمَاتِ کُلِّہَا اِنَّمَا ہِیَ شَیْء ٌ وَاحِدٌ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا أَنَّ السَّارِقَ عَلَیْہِ الْقَطْعُ لَا غَیْرُ وَالْقَاذِفَ عَلَیْہِ الْجَلْدُ لَا غَیْرُ .فَکَانَ النَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الزَّانِی الْمُحْصَنُ ، عَلَیْہِ شَیْء ٌ وَاحِدٌ لَا غَیْرُ فَیَکُوْنُ عَلَیْہِ الرَّجْمُ الَّذِیْ قَدْ اُتُّفِقَ أَنَّہٗ عَلَیْہِ، وَیَنْتَفِیْ عَنْہُ الْجَلْدُ الَّذِی لَمْ یَتَّفِقْ أَنَّہٗ عَلَیْہِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْن ذٰلِکَ مَنْسُوْخًا وَقَدْ عَمِلَ بِہٖ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَذَکَرَ مَا قَدْ۔
٤٧٤٧: سماک نے جابر بن سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز کو سنگ سار کیا اور کوڑوں کا تذکرہ جابر نے نہیں کیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شادی شدہ کی حد رجم ہے کوڑے نہیں۔ جن روایات میں رجم اور کوڑے دونوں کا تذکرہ ہے وہ فقط رجم والی روایت سے اولیٰ ہیں (اور اضافہ ثقہ کا معتبر ہے) تو اس کا جواب یہ ہے کہ رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا منسوخ ہونے پر دلالت پائی جاتی ہے یہاں ایک ضابطہ زانی کے سلسلہ میں پایا جاتا ہے شادی شدہ اور کنوارے میں تفریق سے پہلے اس آیت مبارکہ کو دیکھیں : { وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآپکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ٥ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً }(النساء : ١٥) تو شروع میں زانیہ عورت کی یہی سزا تھی کہ اس کو گھر میں روک دیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے جس کا تذکرہ عبادہ بن صامت (رض) والی روایت میں موجود ہے یہ حکم منسوخ ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا اللہ تعالیٰ نے وہ راستہ مقرر کردیا تو گویا جس سبیل کا اس آیت شریفہ میں وعدہ تھا اللہ تعالیٰ نے وہ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے بیان کردیا اور اس سلسلے میں شادی شدہ پر کوڑے اور رجم اور کنوارے پر کوڑے اور جلاوطنی مقرر فرمائی۔ تو اب اس سے معلوم ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس آیت کے نزول کے بعد کا ہے اور نزول آیت سے پہلے کا نہیں۔ کیونکہ آیت میں مذکور سزا حبس دوام فی البیوت تھا اور ارشاد میں زانی پر رجم کو لازم کیا گیا ہے اور آیت : او یجعل اللہ ہلن سبیلا اور حدیث عبادہ کے درمیان اور کوئی حکم موجود نہیں پس اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ حدیث عبادہ آیت کے نزول کے بعد ہے اور ماعز (رض) والی روایت جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق دریافت کیا کہ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ۔ کیونکہ دونوں کے درمیان حکم میں فرق ہے اور روایت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد جہنی (رض) میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنوارے اور شادی شدہ میں فرق کیا ہے پس کنوارے جوڑے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی مقرر کی گئی اور شادی شدہ پر سنگساری۔ یہ روایات اس سے متاخر ہیں پس یہ اس کے لیے ناسخ قرار پائیں گی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو حکم مقدم ہے بعد والا حکم اس کو منسوخ کرنے والا ہے۔ پس ہم نے جو روایات ابوہریرہ (رض) ‘ زید بن خالد اور حدیث ماعز (رض) پیش کی ہیں۔ یہ عبادہ (رض) سے اولیٰ ہیں اور لفظ و فکر صحیح بھی ان روایات کی مؤید ہے۔ وہ سزائیں جو عزتوں کو برباد کرنے کی صورت میں مقرر کی گئی ہیں وہ ایک چیز ہے مثلاً ان میں ایک سزا چور کی ہے۔ چور کی سزا میں صرف قطع ید ہے اور کچھ نہیں۔ بہتان تراش پر صرف کوڑے ہیں (اسی کوڑے) پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ زانی محصن کی سزا میں صرف ایک چیز ہو۔ نہ کچھ اور پس اس پر متفق علیہ سزا رجم ہی ہوگی اور کوڑوں پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نفی کی جائے گی۔ یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس حکم کے منسوخ ہونے کا دعویٰ درست نہیں جبکہ حضرت علی (رض) نے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد عمل کیا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ٢٨‘ مسلم فی الحدود باب ١٢‘ ٢٣‘ ابن ابو داؤد فی الحدود باب ٧‘ ٢٣؍٢٤‘ ترمذی فی الحدود باب ٤‘ ٥‘ ٨‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٩‘ دارمی فی الحدود باب ١٢‘ ١٣‘ ١٤‘ مسند احمد ١؍٨‘ ٢٣٨‘ ٢٠؍٢٨١‘ ٣؍٢‘ ٦٢‘ ٤‘ ٤٢٣؍٨٦‘ ٨٧۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شادی شدہ کی حد رجم ہے کوڑے نہیں۔
سوال : جن روایات میں رجم اور کوڑے دونوں کا تذکرہ ہے وہ فقط رجم والی روایت سے اولیٰ ہیں۔ (اضافہ ثقہ کا معتبر ہے)
جواب : رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا منسوخ ہونے پر روایات میں دلالت پائی جاتی ہے یہاں ایک ضابطہ زانی کے سلسلہ میں پایا جاتا ہے شادی شدہ اور کنوارے میں تفریق سے پہلے اس آیت مبارکہ کو دیکھیں
جواب : رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا منسوخ ہونے پر روایات میں دلالت پائی جاتی ہے یہاں ایک ضابطہ زانی کے سلسلہ میں پایا جاتا ہے شادی شدہ اور کنوارے میں تفریق سے پہلے اس آیت مبارکہ کو دیکھیں :{ وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآپکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ٥ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً } (النساء : ١٥) تو شروع میں زانیہ عورت کی یہی سزا تھی کہ اس کو گھر میں روک دیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔
پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے جس کا تذکرہ عبادہ بن صامت (رض) والی روایت میں موجود ہے یہ حکم منسوخ ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا اللہ تعالیٰ نے وہ راستہ مقرر کردیا تو گویا جس سبیل کا اس آیت شریفہ میں وعدہ تھا اللہ تعالیٰ نے وہ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے بیان کردیا اور اس سلسلے میں شادی شدہ پر کوڑے اور رجم اور کنوارے پر کوڑے اور جلاوطنی مقرر فرمائی۔
تو اب اس سے معلوم ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس آیت کے نزول کے بعد کا ہے اور نزول آیت سے پہلے کا نہیں۔ کیونکہ آیت میں مذکور سزا حبس دوام فی البیوت تھا اور ارشاد میں زانی پر رجم کو لازم کیا گیا ہے۔
اور آیت : او یجعل اللہ لھن سبیلا اور حدیث عبادہ کے درمیان اور کوئی حکم موجود نہیں پس اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ حدیث عبادہ آیت کے نزول کے بعد ہے اور ماعز (رض) والی روایت جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق دریافت کیا کہ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ۔ کیونکہ دونوں کے درمیان حکم میں فرق ہے اور روایت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد جہنی (رض) میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنوارے اور شادی شدہ میں فرق کیا ہے پس کنوارے جوڑے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی مقرر کی گئی اور شادی شدہ پر سنگساری۔ یہ روایات اس سے متاخر ہیں پس یہ اس کے لیے ناسخ قرار پائیں گی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو حکم مقدم ہے بعد والا حکم اس کو منسوخ کرنے والا ہے۔
نوٹ : پس ہم نے جو روایات ابوہریرہ (رض) ‘ زید بن خالد اور حدیث ماعز (رض) پیش کی ہیں۔ یہ عبادہ (رض) سے اولیٰ ہیں اور لفظ و فکر صحیح بھی ان روایات کی مؤید ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
وہ سزائیں جو عزتوں کو برباد کرنے کی صورت میں مقرر کی گئی ہیں وہ ایک چیز ہے مثلاً ان میں ایک سزا چور کی ہے۔ چور کی سزا میں صرف قطع ید ہے اور کچھ نہیں۔ بہتان تراش پر صرف کوڑے ہیں (اسی کوڑے)
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ زانی محصن کی سزا میں صرف ایک چیز ہو۔ نہ کچھ اور پس اس پر متفق علیہ سزا رجم ہی ہوگی اور کوڑوں پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نفی کی جائے گی۔
یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔
سوال : اس حکم کے منسوخ ہونے کا دعویٰ درست نہیں جبکہ حضرت علی (رض) نے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد عمل کیا۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

4748

۴۷۴۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی قَالَ : جَائَ تِ امْرَأَۃٌ مِنْ ہَمْدَانَ یُقَالُ لَہَا شُرَاحَۃُ اِلَی عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَتْ اِنِّیْ زَنَیْتُ فَرَدَّہَا حَتَّی شَہِدَتْ عَلٰی نَفْسِہَا أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ فَأَمَرَ بِہَا فَجُلِدَتْ ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَرُجِمَتْ .
٤٧٤٨: سماک نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے کہ ایک عورت ہمدان سے آئی اس کا نام شراحہ تھا۔ وہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی کہ میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اس کو رد کردیا یہاں تک کہ اس نے اپنے متعلق چار مرتبہ گواہی دی پھر آپ نے اس کو کوڑے لگانے کا حکم دیا پھر اس کو سنگساری کا حکم فرمایا۔ پس اسے سنگسار کردیا گیا۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٤٠۔

4749

۴۷۴۹: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٤٩: یوسف بن عدی نے ابوالاحوص سے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4750

۴۷۵۰: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکَّارِ بْنِ بِلَالٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الرَّضْرَاضِ بْنِ أَسْعَدَ قَالَ : شَہِدْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جَلَدَ شُرَاحَۃَ ثُمَّ رَجَمَہَا
٤٧٥٠: قتادہ نے رضراض بن اسعد سے روایت کی ہے کہ میں اس وقت علی (رض) کی خدمت میں موجود تھا جب شراحہ نامی عورت کو کوڑے لگائے گئے پھر اس کو انھوں نے سنگسار کیا۔

4751

۴۷۵۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَعْیَنَ عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ عَنْ حَبَّۃَ الْعَوْفِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَتْہُ شُرَاحَۃُ فَأَقَرَّتْ عِنْدَہٗ أَنَّہَا زَنَتْ فَقَالَ لَہَا عَلِیٌّ فَلَعَلَّک غَصَبْتِ نَفْسَکِ قَالَتْ : أَتَیْتُ طَائِعَۃً غَیْرَ مُکْرَہَۃٍ قَالَ : فَأَخَّرَہَا حَتّٰی وَلَدَتْ وَفَطَمَتْ وَلَدَہَا ، ثُمَّ جَلَدَہَا الْحَدَّ بِاِقْرَارِہَا ثُمَّ دَفَنَہَا فِی الرَّحْبَۃِ أَی الْفَضَائِ الْوَاسِعِ اِلٰی مَنْکِبِہَا ثُمَّ رَمَاہَا ہُوَ أَوَّلَ النَّاسِ ثُمَّ قَالَ ارْمُوْا ثُمَّ قَالَ جَلَدْتُہَا بِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَرَجَمْتُہَا بِسُنَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٧٥١: حبہ عوفی نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ شراحہ نامی عورت آپ کی خدمت میں آئی اور اس نے آپ کے سامنے اقرار کیا کہ اس نے زنا کیا ہے۔ تو اس کو علی (رض) نے فرمایا۔ شاید تو غصہ سے آئی ہو۔ وہ کہنے لگی میں خود اپنی مرضی سے آئی ہوں۔ مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ پس آپ نے اس کی سزا کو موخر فرمایا یہاں تک کہ اس نے بچہ جنا اور اس کا دودھ چھڑایا پھر اس کے اقرار پر اس کو کوڑے لگائے پھر وسیع جگہ میں کندھوں تک گڑھا کھود کر دبا دیا پھر لوگوں میں سب سے پہلے آپ نے اس کو پتھر مارا پھر فرمایا اس کو سنگسار کرو۔ پھر فرمایا میں نے اس کو کتاب اللہ کے حکم سے کوڑے لگائے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے رجم کیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٤١‘ ١٤٣‘ ١٥٣۔

4752

۴۷۵۲: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَلْمَۃَ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : جَلَدَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ شُرَاحَۃَ یَوْمَ الْخَمِیْسِ وَرَجَمَہَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَقَالَ جَلَدْتُہَا بِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَرَجَمْتُہَا بِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّ ہَذَا وَاِنْ کَانَ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَمَا ذَکَرْنَا ، فَاِنَّ غَیْرَ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوٰی عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافَ مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا
٤٧٥٢: شعبی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے شراحہ کو جمعرات کے دن کوڑے لگائے اور جمعہ کے دن سنگسار کیا اور حضرت علی (رض) نے فرمایا میں نے قرآن مجید کے حکم سے کوڑے لگائے اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سنگسار کیا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت علی (رض) سے کوڑے اور سنگساری دونوں کا ثبوت اس بات کی کافی دلیل ہے کہ یہی حکم جیسا کہ ہم نے ذکر کیا حضرت علی (رض) کے علاوہ دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف حکم مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حضرت علی (رض) سے کوڑے اور سنگساری دونوں کا ثبوت اس بات کی کافی دلیل ہے کہ یہی حکم ہے۔
جواباگرچہ یہ روایت حضرت علی (رض) سے مروی ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا حضرت علی (رض) کے علاوہ دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف حکم مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4753

۴۷۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ أَبَا وَاقِدٍ اللَّیْثِیَّ ثُمَّ الْأَشْجَعِیُّ أَخْبَرَہٗ - وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ عُمَرَ مُقْدَمَہُ الشَّامَ بِالْجَابِیَۃِ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، اِنَّ امْرَأَتِیْ زَنَتْ بِغُلَامِیْ فَہِیَ ہٰذِہِ تَعْتَرِفُ بِذٰلِکَ ، فَأَرْسَلَنِیْ فِیْ رَہْطٍ اِلَیْہَا نَسْأَلُہَا عَنْ ذٰلِکَ فَجِئْتُہَا فَاِذَا ہِیَ جَارِیَۃٌ حَدِیْثَۃُ السِّنِّ .فَقُلْتُ :اللّٰہُمَّ أَفْرِجْ فَاہَا الْیَوْمَ عَمَّا شِئْتُ ، فَسَأَلْتُہَا وَأَخْبَرْتُہَا بِاَلَّذِیْ قَالَ زَوْجُہَا ، فَقَالَتْ : صَدَقَ ، فَبَلَّغْنَا ذٰلِکَ عُمَرَ فَأَمَرَ بِرَجْمِہَا .
٤٧٥٣: عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابو واقد لیثی اشجعی (رض) نے بتلایا (یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہیں) کہ ہم حضرت عمر (رض) کی شام تشریف آوری کے موقعہ پر مقام جابیہ میں تھے کہ ان کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا۔ اے امیرالمؤمنین ! میری بیوی نے میرے غلام سے زنا کیا ہے اور وہ اس بات کی معترف ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایک وفد میں مجھے بھیجا تاکہ اس سلسلہ میں اس سے دریافت کیا جائے۔ پس میں اس کے پاس آیا تو وہ نوجوان کم عمر لڑکی ہے۔ میں نے دعا کی اے اللہ آج تو اس کے منہ کو اس بات کے لیے کھول دے جو تو چاہتا ہے۔ پس میں نے اس سے پوچھا اور اس بات کی اطلاع دی جو اس کے خاوند نے کہی تھی۔ اس نے کہا اس نے سچ کہا۔ پس ہم نے یہ بات عمر (رض) تک پہنچائی۔ تو آپ نے اسے سنگسار کرنے کا حکم فرمایا۔

4754

۴۷۵۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیْ وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَاہُ رَجُلٌ وَہُوَ بِالشَّامِّ فَذَکَرَ لَہٗ أَنَّہٗ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا ، فَبَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبَا وَاقِدٍ اللَّیْثِیَّ اِلَی امْرَأَتِہِ لِیَسْأَلَہَا عَنْ ذٰلِکَ ، فَأَتَاہَا وَعِنْدَہَا نِسْوَۃٌ حَوْلَہَا فَذَکَرَ لَہَا الَّذِیْ قَالَہُ زَوْجُہَا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَأَخْبَرَہَا أَنَّہَا لَا تُؤْخَذُ بِقَوْلِہٖ ، وَجَعَلَ یُلَقِّنُہَا أَشْبَاہَ ذٰلِکَ لِتَنْتَزِعَ فَأَبَتْ أَنْ تَنْتَزِعَ وَثَبَتَتْ عَلَی الِاعْتِرَافِ فَأَمَرَ بِہَا عُمَرُ ، فَرُجِمَتْ .فَہٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَجْلِدْہَا قَبْلَ رَجْمِہِ اِیَّاہَا .فَہٰذَا خِلَافٌ لِمَا فَعَلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِشُرَاحَۃَ ، مِنْ جَلْدِہٖ اِیَّاہَا قَبْلَ رَجْمِہَا فَہٰذَا أَوْلَی الْفِعْلَیْنِ عِنْدَنَا لِمَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .
٤٧٥٤: سلیمان بن یسار نے ابو واقد لیثی (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس شام میں ایک شخص آیا اور ان کو بیان کیا کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو پایا (ہم بستر) پس عمر (رض) نے ابو واقد لیثی (رض) کو اس کی بیوی کے پاس بھیجا تاکہ اس سے اس کے متعلق دریافت کیا جائے۔ پس وہ اس کے پاس گیا جبکہ اس کے پاس اور عورتیں بیٹھیں تھیں۔ تو ابو واقد نے اس کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا جو اس کے خاوند نے حضرت عمر (رض) کو کہی تھی اور اس کو بتلایا کہ اس کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے گا اور اس کو اسی طرح کی باتوں سے تلقین کرنے لگے۔ تاکہ وہ اپنے دعویٰ سے ہٹ جائے۔ مگر اس نے اپنا دعویٰ چھوڑنے سے انکار کردیا اور اعتراف پر قائم رہی پس عمر (رض) نے اس کو رجم کا حکم دیا چنانچہ اس کو رجم کیا گیا۔ پس یہ حضرت عمر (رض) ہیں ‘ جو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں اس کو سنگساری سے پہلے کوڑے نہیں لگا رہے۔ یہ اس کے خلاف ہے جو کہ حضرت علی (رض) کا فعل شراحہ کے سلسلہ میں مذکور ہوا کہ انھوں نے سنگساری سے پہلے اس کو کوڑے مارے۔ ہمارے نزدیک دونوں میں یہ اولیٰ ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں :
یہ عمر (رض) جو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں اس کو سنگساری سے پہلے رجم نہیں کر رہے۔ یہ اس کے خلاف ہے جو کہ حضرت علی (رض) کا فعل شراحہ کے سلسلہ میں مذکور ہوا کہ انھوں نے سنگساری سے پہلے اس کو کوڑے مارے۔ ہمارے نزدیک دونوں میں یہ اولیٰ ہے اور اس کی وجوہ باب میں ہم پہلے ذکر کر آئے۔
: اس باب میں فریق ثانی کے مؤقف کی اولویت کو روایات و دلائل نظر سے ثابت کیا زمانہ نبوت میں واقعہ ماعز اور واقعہ غامدیہ دونوں اس بات کے لیے واضح شہادت ہیں کہ عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محصن کو سنگسار کرنے کا تھا۔ واللہ اعلم۔

4755

۴۷۵۵: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزَیْ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّ مَاعِزًا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ . قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : ذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَقَرَّ بِالزِّنَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً أُقِیْمَ عَلَیْہِ حَدُّ الزِّنَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْکِتَابِ مِنْ قَوْلِہٖ لِأُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : اُغْدُ یَا أُنَیْسُ عَلَی امْرَأَۃِ ہٰذَا، فَاِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا .قَالُوْا : فَفِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الِاعْتِرَافَ بِالزِّنَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً یُوْجِبُ الْحَدَّ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ حَدُّ الزِّنَا عَلَی الْمُعْتَرِفِ بِالزِّنَا ، حَتَّی یُقِرَّ بِہٖ عَلٰی نَفْسِہِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْمَا ذَکَرْتُمْ مِنْ حَدِیْثِ أُنَیْسٍ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا قَدْ وَصَفْتُمْ ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُنَیْسٌ قَدْ کَانَ عَلِمَ الِاعْتِرَافَ الَّذِیْ یُوْجِبُ حَدَّ الزِّنَا عَلَی الْمُعْتَرَفِ بِہٖ - مَا ہُوَ - بِمَا أَعْلَمَہُمْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَاعِزٍ وَغَیْرِہٖ، فَخَاطَبَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٰذَا الْخِطَابِ بَعْدَ عِلْمِہِ أَنَّہٗ قَدْ عَلِمَ الِاعْتِرَافَ الَّذِیْ یُوْجِبُ الْحَدَّ مَا ہُوَ ؟ .وَقَدْ جَائَ غَیْرُ ہٰذَا الْأَثَرِ مِنَ الْآثَارِ مَا قَدْ بَیَّنَ الِاعْتِرَافَ بِالزِّنَا الَّذِیْ یُوْجِبُ الْحَدَّ عَلَی الْمُعْتَرِفِ مَا ہُوَ ؟ .فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٤٧٥٥: شعیب نے عبدالرحمن بن ابزی سے اور انھوں نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز کو چار مرتبہ واپس کیا۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ جس نے ایک مرتبہ زنا کا اعتراف کرلیا اس پر حد زنا قائم کی جائے گی اور انھوں نے حضرت (رض) انیس والی روایت جو پہلے ہم ذکر کر آئے اس کو دلیل میں پیش کیا۔ کہ آپ نے فرمایا۔ اے انیس ! تم صبح اس عورت کے ہاں جاؤ۔ پس اگر وہ اعتراف کرلے تو اس کو سنگسار کر دو ۔ وہ حضرات کہتے ہیں کہ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ زنا کا ایک مرتبہ اعتراف حد کو لازم کرنے والا ہے۔ دوسروں نے کہا زنا کا ایک مرتبہ اعتراف کرنے والے پر حد زنا قائم نہ کی جائے گی جب تک کہ وہ چار مرتبہ اعتراف نہ کرلے۔ انھوں نے جواب میں کہا روایت انیس (رض) میں تمہارے قول کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ انیس (رض) کو اس اعتراف کا اچھی طرح علم ہوچکا ہو جو حد کو لازم کرتا ہے اور وہ ماعز وغیرہ سے متعلق اس اعتراف کی حقیقت سمجھ چکے ہوں۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس معلوم کرلینے کے بعد ان کو اس انداز سے خطاب فرمایا (ان کو اس موقعہ پر دہرانے کی ضرورت نہ تھی) اس ایک اثر کے علاوہ دیگر بہت سے آثار پائے جاتے ہیں جن میں اعتراف کا قابل اعتبار طریق جو حد کو لازم کرتا ہے وہ ذکر کیا گیا ہے۔
نمبر 1: ایک مرتبہ اعتراف زنا سے حد لازم ہوجاتی ہے اسی قول کو ائمہ ثلاثہ اور حماد بن سلیمان (رح) نے اختیار کیا ہے۔
نمبر 2: علماء کی دوسری جماعت جب تک چار مرتبہ اعتراف بالزنا نہ ہو حد لازم نہیں ہے اس جماعت میں امام سفیان ثوری ‘ ائمہ احناف اور امام احمد (رح) شامل ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف : زنا کے ایک مرتبہ اعتراف کرلینے سے ہی اس پر حد قائم کردی جائے گی اس کی دلیل وہ روایت ہے جس کو انیس (رض) نے روایت کیا ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض علماء کہتے ہیں کہ جس نے ایک مرتبہ زنا کا اعتراف کرلیا اس پر حد زنا قائم کی جائے گی اور انھوں نے حضرت انیس (رض) والی روایت جو پہلے ہم ذکر کر آئے اس کو دلیل میں پیش کیا۔ کہ آپ نے فرمایا۔ اے انیس ! تم صبح اس عورت کے ہاں جاؤ۔ پس اگر وہ اعتراف کرلے تو اس کو سنگسار کر دو ۔
طریق استدلال : فریق اوّل کہتے ہیں کہ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ زنا کا ایک مرتبہ اعتراف حد کو لازم کرنے والا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : زنا کا ایکمرتبہ اعتراف کرنے والے پر حد زنا قائم نہ کی جائے گی جب تک کہ وہ چار مرتبہ اعتراف نہ کرلے۔
فریق اوّل کا جواب : روایت انیس (رض) میں تمہارے قول کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ انیس (رض) کو اس اعتراف کا اچھی طرح علم ہوچکا ہو جو حد کو لازم کرتا ہے اور وہ ماعز وغیرہ سے متعلق اس اعتراف کی حقیقت سمجھ چکے ہوں۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس معلوم کرلینے کے بعد ان کو اس انداز سے خطاب فرمایا (ان کو اس موقعہ پر دہرانے کی ضرورت نہ تھی)
اس ایک اثر کے علاوہ دیگر بہت سے آثار پائے جاتے ہیں جن میں اعتراف کا قابل اعتبار طریق جو حد کو لازم کرتا ہے وہ ذکر کیا گیا ہے۔
قابل اعتبار اعتراف کی روایات یہ ہیں :

4756

۴۷۵۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الطَّائِفِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمِقْدَامِ عَنِ ابْنِ الشَّدَّادِ عَنْ أَبِیْ ذٰر قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ ، فَأَتَاہٗ رَجُلٌ فَأَقَرَّ عِنْدَہُ بِالزِّنَا ، فَرَدَّہُ أَرْبَعًا ثُمَّ نَزَلَ فَأَمَرَنَا فَحَفَرْنَا لَہُ حُفْرَۃً ، لَیْسَتْ بِالطَّوِیْلَۃِ ، فَأَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ .فَارْتَحَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَئِیْبًا حَزِینًا ، فَسِرْنَا حَتّٰی نَزَلْنَا مَنْزِلًا فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا أَبَا ذَر أَلَمْ تَرَ اِلَیْ صَاحِبِکُمْ غُفِرَ لَہُ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ .
٤٧٥٦: ابن شداد نے ابو ذر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حالت سفر میں تھے کہ ایک آدمی آپ کی خدمت میں آیا اور اس نے زنا کا اعتراف کیا آپ نے اس کو چار مرتبہ واپس کردیا پھر آپ اترے اور ہمیں اس کے لیے گڑھا کھودنے کا حکم دیا جو زیادہ لمبا نہ تھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق حکم دیا تو اس کو رجم کردیا گیا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غم گین اور پریشان حالت میں وہاں سے روانہ ہوئے ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ایک منزل پر اترے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا اے ابو ذر ! کیا تم نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اسے بخش دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍١٧٩۔

4757

۴۷۵۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ الزِّبْرِقَانُ وَأَبُوْخَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنِ الْحَجَّاجِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٥٧: ابراہیم زبرقان اور ابو خالد احمر دونوں نے حجاج سے روایت نقل کی ہے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی۔

4758

۴۷۵۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزٍ أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِیْ عَنْک ؟ قَالَ : وَمَا بَلَغَک عَنِّیْ ؟ قَالَ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ أَتَیْتُ جَارِیَۃَ آلِ فُلَانٍ فَأَقَرَّ عَلٰی نَفْسِہٖ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ، فَأَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ .
٤٧٥٨: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز (رض) سے فرمایا تمہارے بارے میں مجھے جو خبر پہنچی ہے آپ نے فرمایا مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے فلاں کی لونڈی سے زنا کیا ہے انھوں نے اپنے متعلق اس بات کا چار مرتبہ اعتراف کیا تو آپ کے حکم سے ان کو رجم کیا گیا۔

4759

۴۷۵۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ :
٤٧٥٩: ابو غسان نے ابو عوانہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4760

۴۷۶۰: أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ أَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ ، فَنَادَاہُ فَحَدَّثَہٗ أَنَّہٗ زَنَی فَأَعْرَضَ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَتَنَحَّی لِشِقِّہِ الَّذِی أَعْرَضَ قِبَلَہٗ، فَأَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ زَنَی ، وَشَہِدَ عَلٰی نَفْسِہِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .فَدَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ہَلْ بِکَ جُنُوْنٌ ؟ قَالَ : لَا قَالَ فَہَلْ أُحْصِنْتُ؟ قَالَ : نَعَمْ .فَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرْجَمَ بِالْمُصَلَّی فَلَمَّا أَذْلَقَتْہُ الْحِجَارَۃُ جَمَزَ حَتّٰی أُدْرِکَ بِالْحَرَّۃِ فَقُتِلَ بِہَا رَجْمًا
٤٧٦٠: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے روایت کیا کہ ایک شخص جس کا تعلق قبیلہ اسلم سے تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اس نے آپ کو آواز دی اور آپ کے سامنے بیان کیا کہ اس سے زنا کا ارتکاب ہوا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منہ پھیرلیا وہ ادھر سے ہٹ کر اس طرف گیا جدھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخ فرمایا تھا اور بتایا کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا۔ اس نے اپنے متعلق چار مرتبہ گواہی دی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلایا اور فرمایا کیا تم پاگل ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا کیا تم شادی شدہ ہو۔ اس نے کہا جی ہاں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو عید گاہ میں رجم کا حکم فرمایا۔ جب اس پر پتھر پڑنے لگے تو وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ پتھریلی زمین میں پکڑا گیا اور رجم کے طور پر ہلاک کیا گیا۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ١١‘ والحدود باب ٢٩۔
لغات : جمز۔ تیزی سے بھاگا۔ اذلقتہ۔ پہنچے۔

4761

۴۷۶۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَشْعَرُ قَصِیْرٌ ذُوْ عَضَلَاتٍ فَأَقَرَّ لَہُ بِالزِّنَا فَأَعْرَضَ عَنْہُ فَأَتَاہُ مِنْ قِبَلِ وَجْہِہِ الْآخَرِ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ قَالَ : لَا أَدْرِی مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَأَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ .قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِسَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَقَالَ : رَدَّہُ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .
٤٧٦١: سماک بن حرب نے جابر بن سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک آدمی لایا گیا۔ جو زیادہ بالوں ‘ چھوٹے قد ‘ موٹے جسم والا تھا۔ اس نے اپنے متعلق زنا کا اقرار کیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ پھر لیا وہ دوسری طرف سے آیا آپ نے پھر اس سے منہ پھیرلیا۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ دو مرتبہ ایسا ہوا یا تین مرتبہ ایسا ہوا پھر آپ کے حکم سے اسے رجم کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں حضرت سعید بن جبیر سے یہ بات ذکر کی گئی تو انھوں نے ذکر کیا کہ آپ نے اس کو چار مرتبہ لوٹایا۔
تخریج : مسلم فی الحدود ١٨‘ مسند احمد ٥؍١٠٣۔

4762

۴۷۶۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : رُدَّہُ مَرَّتَیْنِ .فَقَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا أَنَّہٗ حَدٌّ بَعْدَ اِقْرَارِہِ أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعِ مَرَّاتٍ .قِیْلَ لَہٗ : فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عِلَّۃٌ ، وَذٰلِکَ أَنَّ رَبِیْعًا الْمُؤَذِّنَ
٤٧٦٢: وہب کہتے ہیں کہ ہمیں شعبہ نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ انھوں ردہ مرتین کے لفظ ذکر کئے ہیں۔ اس روایت میں مذکور ہے کہ چار سے کم مرتبہ اقرار پر اس کو حد لگائی گئی۔ یہ روایت معلول ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری روایت میں مذکور ہے۔ تفصیلی روایت ملاحظہ ہو۔

4763

۴۷۶۳: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ فَاعْتَرَفَ مَرَّتَیْنِ فَقَالَ اذْہَبُوْا بِہٖ ثُمَّ رُدُّوْھُ فَاعْتَرَفَ مَرَّتَیْنِ حَتّٰی اعْتَرَفَ أَرْبَعًا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْہَبُوْا بِہٖ فَارْجُمُوْھُ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَقَرَّ مَرَّتَیْنِ ، ثُمَّ ذَہَبُوْا بِہٖ ثُمَّ رَدُّوْھُ فَأَقَرَّ مَرَّتَیْنِ .فَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَضَرَ الْمَرَّتَیْنِ الْآخِرَتَیْنِ وَلَمْ یَحْضُرْ مَا کَانَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ ، وَحَضَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَلْاِقْرَارَ کُلَّہٗ وَکَذٰلِکَ مَنْ وَافَقَہٗ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ أَرْبَعًا .
٤٧٦٣: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ماعز بن مالک کو لایا گیا۔ تو انھوں نے دو مرتبہ اعتراف زنا کیا۔ آپ نے فرمایا اس کو لے جاؤ پھر اس کو لوٹاؤ۔ پس اس نے دو مرتبہ اعتراف کیا یہاں تک کہ اعتراف چار مرتبہ ہوچکا۔ اس روایت میں یہ اعتراف موجود ہے کہ دو مرتبہ اقرار کیا پھر ان کو واپس لے گئے پھر ان کو لوٹایا تو اس نے دو مرتبہ اعتراف کیا پس یہ عین ممکن ہے کہ جابر بن سمرہ (رض) پچھلی دو مرتبہ کے وقت موجود تھے اور اس سے پہلے دو مرتبہ میں ہو موجود نہ تھے اور ابن عباس (رض) ہر دو اقرار میں موجود تھے اور ابن عباس (رض) تمام اقراروں کے وقت موجود تھے۔ اسی طرح وہ حضرات جنہوں نے ان کی موافقت کرتے ہوئے چار اقرار بتلائے (وہ تمام اقراروں میں موجود تھے) ۔
تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو لے جا کر سنگسار کر دو ۔

4764

۴۷۶۴: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ہَضَّاضٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ ، زَنٰی فَأَتَیْ ہُزَالًا فَأَقَرَّ لَہٗ أَنَّہٗ زَنَی فَقَالَ لَہُ ہُزَالٌ : اِیتُ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْہُ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ فِیْکَ قُرْآنٌ .فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنِّیْ زَنَیْتُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ حَتَّی قَالَ ذٰلِکَ أَرْبَعًا ، فَأَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ .
٤٧٦٤: عبدالرحمن بن ہضاض نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ماعز بن مالک نے زنا کیا پھر وہ ہزال کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے زنا کیا ہے حضرت ہزال (رض) نے کہا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اطلاع دو اس سے پہلے کہ تمہارے متعلق قرآن مجید کی کوئی آیت اترے۔ پس ماعز (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا میں نے زنا کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا۔ یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ اقرار کیا۔ پھر آپ نے اس کو رجم کا حکم دیا پس ان کو رجم کردیا گیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٧‘ ترمذی فی الحدود باب ٨‘ مالک فی الحدود ٣‘ مسند احمد ٥‘ ٢١٦؍٢١٧۔

4765

۴۷۶۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ وَسَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ : أَتَیْ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ فَنَادَاہٗ، فَحَدَّثَہٗ أَنَّہٗ زَنَی ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَنَحَّی لِشِقِّہِ الَّذِیْ أَعْرَضَ قِبَلَہٗ فَأَخْبَرَہٗ بِأَنَّہٗ زَنَی وَشَہِدَ عَلٰی نَفْسِہِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .فَدَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ہَلْ بِک جُنُوْنٌ ؟ قَالَ : لَا ، قَالَ فَہَلْ أُحْصِنْتُ؟ قَالَ : نَعَمْ .فَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرْجَمَ بِالْمُصَلَّی
٤٧٦٥: ابو سلمہ اور سعید بن مسیب دونوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک اسلمی آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس حال میں آیا کہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور اس نے بیان کیا کہ اس نے زنا کیا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا وہ اسی جانب گیا جس طرف آپ نے منہ پھیرا تھا۔ اس نے پھر بتلایا کہ اس نے زنا کیا ہے اور اس نے اپنے متعلق چار مرتبہ یہ گواہی دی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلا کر فرمایا۔ کیا تو مجنون ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا جائے۔
تخریج : بخاری فی الاحکام باب ١٩‘ مسلم فی الحدود ١٦؍٢٢‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٣‘ ترمذی فی الحدود باب ٥‘ مسند احمد ٢؍٤٥٣۔

4766

۴۷۶۶: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا بَشِیْرُ بْنُ الْمُہَاجِرِ الْغَنَوِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَرِیْرَۃَ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہٗ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ فَقَالَ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ اِنِّیْ قَدْ زَنَیْتُ وَاِنَی أُرِیْدُ أَنْ تُطَہِّرَنِیْ فَقَالَ لَہُ ارْجِعْ .فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاہُ أَیْضًا فَاعْتَرَفَ عِنْدَہُ بِالزِّنَا فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ارْجِعْ ثُمَّ أَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی قَوْمِہِ فَسَأَلَہُمْ عَنْہُ فَقَالَ مَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ مَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ ؟ ہَلْ تَرَوْنَ بِہٖ بَأْسًا ، أَوْ تُنْکِرُوْنَ مِنْ عَقْلِہِ شَیْئًا ؟ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا نَرَی بِہٖ بَأْسًا وَمَا نُنْکِرُ مِنْ عَقْلِہِ شَیْئًا .ثُمَّ عَادَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّالِثَۃَ فَاعْتَرَفَ أَیْضًا عِنْدَہُ بِالزِّنَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، طَہِّرْنِی .فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی قَوْمِہِ فَسَأَلَہُمْ عَنْہُ فَقَالُوْا لَہُ کَمَا قَالُوْا فِی الْمَرَّۃِ الْأُوْلٰی : مَا نَرَی بِہٖ بَأْسًا وَمَا نُنْکِرُ مِنْ عَقْلِہِ شَیْئًا .ثُمَّ رَجَعَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّابِعَۃَ فَاعْتَرَفَ عِنْدَہُ بِالزِّنَا ، فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحُفِرَتْ لَہُ حُفْرَۃٌ ، فَجُعِلَ فِیْہَا اِلَیْ صَدْرِہِ ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ یَرْجُمُوْھُ .قَالَ بُرَیْدَۃُ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ بَیْنَنَا - أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ لَوْ جَلَسَ فِیْ رَحْلِہِ بَعْدَ اعْتِرَافِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَمْ یَطْلُبْہٗ، وَاِنَّمَا رَجَمَہُ عِنْدَ الرَّابِعَۃِ فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَرْجُمْہُ بِاِقْرَارِہِ مَرَّۃً وَلَا مَرَّتَیْنِ ، وَلَا ثَلَاثًا دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْحَدَّ لَمْ یَکُنْ وَجَبَ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ الْاِقْرَارِ ثُمَّ رَجَمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاِقْرَارِہِ فِی الْمَرَّۃِ الرَّابِعَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْاِقْرَارَ بِالزِّنَا الَّذِیْ یُوْجِبُ الْحَدَّ عَلَی الْمُقِرِّ ہُوَ اِقْرَارُہُ بِہٖ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .فَمَنْ أَقَرَّ کَذٰلِکَ حُدَّ ، وَمَنْ أَقَرَّ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ لَمْ یُحَدَّ .وَقَدْ ذَکَرَ ہٰذَا الْمَعْنَی مَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ بُرَیْدَۃَ ، مِمَّا کَانَ یَقُوْلُہُ ہُوَ ، وَأَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِوَاہُ فِیْ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ فَہْدٍ عَنْ أَبِیْ نُعَیْمٍ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُہَاجِرِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ عَمِلَ بِذٰلِکَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فِیْ شُرَاحَۃَ ، فَرَدَّہَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .
٤٧٦٦: عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا تھا تو ان کے پاس ایک آدمی آیا جس کو ماعز بن مالک کہا جاتا تھا۔ اس نے کہا اے اللہ کے نبی ! میں نے زنا کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کریں آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ۔ جب اگلا دن ہوا تو وہ پھر آیا اور آپ کے پاس زنا کا اعتراف کیا۔ اس پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم لوٹ جاؤ۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی قوم کے پاس پیغام بھیج کر اس کے متعلق احوال دریافت فرمائے۔ تمہارا ماعز بن مالک کے متعلق کیا خیال ہے ؟ کیا تم اس میں کوئی تکلیف پاتے ہو یا اس کی عقل میں خرابی محسوس کرتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم اسے کسی تکلیف میں نہیں دیکھتے اور نہ اس کی عقل میں خرابی پاتے ہیں۔ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ایک مربتہ اقرار سے اس کو سنگسار نہیں کیا اور نہ ہی دو اور تین مرتبہ اقرار سے سنگسار کیا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ اقرار سے اس پر حد واجب نہ ہوتی تھی۔ پھر اس کے چوتھی مرتبہ اقرار پر اس کو سنگسار کردیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی۔ کہ ایسا اقرار بالزنا جو حد کو واجب کرتا ہے وہ چار مرتبہ کا اقرار ہے۔ پس جو اسی طرح اقرار کرے گا اس کو حد لگائی جائے گی اور جو اس سے کم مرتبہ اقرار کرے گا اس پر حد نہ لگے گی اور یہ بات حضرت بریدہ اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ہم روایت ٤٧٦٦ فہد عن ابی نعیم عن بشر بن مہاجر میں ذکر کر آئے ہیں۔ یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے اور حضرت علی (رض) نے بھی شراحہ نامی عورت کے سلسلہ میں اس پر عمل کیا جیسا کہ ہم نقل کر آئے کہ آپ نے اس کو چار مرتبہ لوٹا دیا۔
تشریح پھر وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تیسری بار لوٹا اور آپ کے پاس زنا کا اعتراف کیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے پاک کیجئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی قوم کی طرف پیغام بھیج کر ان سے اس کے احوال دریافت کئے۔ تو انھوں نے اسی طرح بتلائے جیسے پہلی مرتبہ دریافت کرنے سے بتلائے تھے۔ ہم اس میں کوئی تکلیف نہیں دیکھتے اور نہ اس کی عقل میں کوئی خرابی پاتے ہیں۔
وہ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں چوتھی مرتبہ لوٹا اور آپ کے پاس زنا کا اعتراف کیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے گڑھا کھودنے کا حکم فرمایا جس میں سینے تک دب جاتا تھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجم کا حکم فرمایا۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم آپس میں بات چیت میں مصروف تھے۔ ماعز بن مالک اگر تین بار اعتراف کے بعد اپنے کجاوے میں بیٹھا رہتا (اور حاضر خدمت) نہ ہوتا تو اس کو تلاش نہ کیا جاتا۔ اس کا سنگسار کرنا تو چوتھی مرتبہ جانے کی وجہ سے ہوا۔
تخریج : مسلم فی الحدود ٢٢؍٢٣‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٣‘ دارمی فی الحدود باب ١٧‘ مسند احمد ٥‘ ٣٤٧؍٣٤٨۔
نوٹ : جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ایک مربتہ اقرار سے اس کو سنگسار نہیں کیا اور نہ ہی دو اور تین مرتبہ اقرار سے سنگسار کیا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ اقرار سے اس پر حد واجب نہ ہوتی تھی۔ پھر اس کے چوتھی مرتبہ اقرار پر اس کو سنگسار کردیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی۔ کہ ایسا اقرار بالزنا جو حد کو واجب کرتا ہے وہ چار مرتبہ کا اقرار ہے۔
پس جو اسی طرح اقرار کرے گا اس کو حد لگائی جائے گی اور جو اس سے کم مرتبہ اقرار کرے گا اس پر حد نہ لگے گی اور یہ بات حضرت بریرہ اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ہم روایت ٤٧٦٦ فہد عن ابی نعیم عن بشر بن مہاجر میں ذکر کر آئے ہیں۔
یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے اور حضرت علی (رض) نے بھی شراحہ نامی عورت کے سلسلہ میں اس پر عمل کیا جیسا کہ ہم نقل کر آئے کہ آپ نے اس کو چار مرتبہ لوٹا دیا۔

4767

۴۷۶۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ بَکَّارٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ جَوْنِ بْنِ قَتَادَۃَ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْمُحَبِّقِ کَالْمُحَدِّثِ صَحَابِیٌّ أَنَّ رَجُلًا زِنَا بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہٖ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنْ کَانَ اِسْتَکْرَہَہَا فَہِیَ حُرَّۃٌ وَعَلَیْہَا مِثْلُہَا وَاِنْ کَانَتْ طَاوَعَتْہُ فَعَلَیْہِ مِثْلُہَا
٤٧٦٧: قتادہ نے سلمہ بن محبق (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر اس شخص نے اس کو مجبور کیا تھا تو وہ آزاد ہے اور بیوی کو اس کی مثل لونڈی دینی پڑے گی اور اگر اس کی رضامندی شامل تھی تو اس مرد پر اس کی مثل لونڈی بیوی کو دینا پڑے گی (اور لونڈی خاوند کی ہوجائے گی)
تخریج : بخاری فی الاکراہ باب ٦‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٧‘ النسائی فی النکاح باب ٧٠‘ مسند احمد ٥؍٦۔

4768

۴۷۶۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ مِسْکِیْنٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ الرَّجُلِ یَقَعُ بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہٖ۔فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ قَبِیْصَۃُ بْنُ حُرَیْثٍ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْمُحَبِّقِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ وَزَادَ وَلَمْ یُقِمْ عَلَیْہِ حَدًّا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا، وَقَالُوْا : ہٰذَا الْحُکْمُ فِیْمَنْ زَنَی بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ سَلْمَۃَ ہَذَا .وَقَالُوْا : قَدْ عَمِلَ بِذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہُ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٤٧٦٨: قاسم بن سلام کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بیان کیا کہ میں نے حسن بصری (رح) سے پوچھا جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کرے اس کا کیا حکم ہے۔ انھوں نے کہا مجھے قبیصہ بن حریث انصاری نے سلمہ بن محبق (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور اس میں ولم یقم علیہ حدا کہ اس پر آپ نے حد نہیں لگائی کے الفاظ زائد ہیں۔ طحاوی (رح) کا قول : کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کرے اس کا حکم یہی ہے جو روایت سلمہ میں موجود ہے اور اس حکم پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد عبداللہ بن مسعود (رض) نے عمل کیا۔ جیسا کہ اس روایت میں موجود ہے۔
طحاوی (رح) کا قول : کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کرے اس کا حکم یہی ہے جو روایت سلمہ میں موجود ہے اور اس حکم پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد عبداللہ بن مسعود (رض) نے عمل کیا۔ جیسا کہ اس روایت میں موجود ہے۔

4769

۴۷۶۹: مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا وَہْبٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ عَمِّہِ ابْنِ حَیَّانَ ، أَنَّ رَجُلًا أَتٰی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ فَقَالَ : اِنِّیْ زَنَیْتُ فَقَالَ : کَیْفَ صَنَعْتُ؟ قَالَ : وَقَعْتُ عَلٰیْ جَارِیَۃِ امْرَأَتِی .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ : اللّٰہُ أَکْبَرُ اِنْ کُنْتُ اسْتَکْرَہْتُہَا ، فَأَعْتِقْہَا وَاِنْ کَانَتْ طَاوَعَتْکَ، فَأَعْتِقْ وَعَلَیْکَ مِثْلُہَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ نَرَیْ عَلَیْہِ الرَّجْمَ اِنْ کَانَ مُحْصَنًا وَالْجَلْدَ اِنْ کَانَ غَیْرَ مُحْصَنٍ .وَکَانَ مَا ذَہَبُوْا اِلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٤٧٦٩: منصور نے اپنے چچا ابن حیان سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے زنا کیا ہے تو انھوں نے پوچھا تو نے کیسے کیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا۔ حضرت عبداللہ (رض) نے اللہ اکبر بلند آواز سے کہا ! اور فرمایا اگر تو نے اس کو مجبور کیا تو اس کو آزاد کر دو اور اگر اس نے اپنی مرضی سے کروایا ہے تو اس کو آزاد کر دو تم پر اس کی مثل ہے یعنی لونڈی اپنی بیوی کو دینی پڑے گی۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس پر رجم آئے گا اور اگر غیر شادی شدہ ہو تو کوڑے لگیں گے اور انھوں نے مندرجہ ذیل آثار سے استدلال کیا ہے۔

4770

۴۷۷۰: مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیْرٍ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ سَالِمٍ أَنَّ رَجُلًا وَقَعَ بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ فَأَتَتِ امْرَأَتُہُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ فَأَخْبَرَتْہُ .فَقَالَ : أَمَا اِنَّ عِنْدِی فِیْ ذٰلِکَ خَبَرًا ثَابِتًا أَخَذْتہ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .اِنْ کُنْتُ أَذِنْتُ لَہُ جَلَدْتُہُ مِائَۃً ، وَاِنْ کُنْتُ لَمْ تَأْذَنِیْ لَہٗ رَجَمْتُہُ .
٤٧٧٠: ابو بشیر نے حبیب بن سالم سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تو اس کی بیوی حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی خدمت میں آئی اور ان کو اطلاع دی تو انھوں نے فرمایا۔ سنو ! میرے پاس اس کے متعلق روایت موجود ہے جو میں نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کی ہے۔ اگر تم نے اس کو اجازت دی تھی تو میں اس کو سو کوڑے ماروں گا اور اگر تم نے اسے اجازت نہیں دی تھی تو میں اس کو سنگسار کروں گا۔

4771

۴۷۷۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : سُئِلَ قَتَادَۃُ عَنْ رَجُلٍ وَطِئَ جَارِیَۃَ امْرَأَتِہِ فَحَدَّثَنَا عَنْ حَبِیْبِ بْنِ یَسَافٍ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ سَالِمٍ أَنَّہَا رُفِعَتْ اِلَی النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ فَقَالَ : لَأَقْضِیَنَّ فِیْہَا بِقَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .اِنْ کَانَتْ أَحَلَّتْہَا لَہُ جَلَدْتُہُ مِائَۃً وَاِنْ لَمْ تَکُنْ أَحَلَّتْہَا لَہٗ رَجَمْتہ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ خِلَافُ مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّہَا اِنْ لَمْ تَکُنْ أَذِنَتْ لَہُ رُجِمَ .وَأَمَّا قَوْلُہٗ وَاِنْ کُنْتُ أَذِنْتُ لَہُ جَلَدْنَاہُ مِائَۃً فَتِلْکَ الْمِائَۃُ - عِنْدَنَا - تَعْزِیرٌ کَأَنَّہٗ دَرَأَ عَنْہُ الْحَدَّ بِوَطْئِہِ بِالشُّبْہَۃِ وَعَزَّرَہٗ بِرُکُوْبِہٖ مَا لَا یَحِلُّ لَہٗ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَیَجُوْزُ التَّعْزِیرُ بِمِائَۃٍ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ قَدْ عَزَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِائَۃٍ فِیْ حَدِیْثٍ قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِیْ رَجُلٍ قَتَلَ عَبْدَہُ مُتَعَمِّدًا فِی بَابِ حَدِّ الْبِکْرِ فِیْ ہٰذَا الْکِتَابِ .فَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرَ النُّعْمَانُ - عِنْدَنَا - نَاسِخٌ لِمَا رَوَاہُ سَلَمَۃُ بْنُ الْمُحَبِّقِ .وَذٰلِکَ أَنَّ الْحُکْمَ کَانَ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ یُوْجِبُ عُقُوْبَاتٍ بِأَفْعَالٍ فِیْ أَمْوَالٍ وَیُوْجِبُ عُقُوْبَاتٍ فِیْ أَبْدَانٍ بِاسْتِہْلَاکِ أَمْوَالٍ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِی بَابِ تَحْرِیْمِ الصَّدَقَۃِ عَلَی بَنِیْ ہَاشِمٍ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - فِیْ مَانِعِ الزَّکَاۃِ - اِنَّا آخِذُوْہَا مِنْہُ وَشَطْرَ مَالِہِ عُقُوْبَۃً لَہُ لِمَا قَدْ صَنَعَ .وَمِنْ ذٰلِکَ
٤٧٧١: قتادہ سے دریافت کیا گیا کہ جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کرے اس کا کیا حکم ہے تو انھوں نے یہ روایت بیان کی کہ ہمیں حبیب بن یساف نے حبیب بن سالم سے روایت کی ہے کہ وہ عورت اپنا مقدمہ نعمان بن بشیر کی خدمت میں لے گئی تو انھوں نے فرمایا۔ میں اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا۔ اگر اس عورت نے اس کو خاوند کے لیے حلال کردیا تھا تو میں اس کو سو کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اس کے لیے حلال نہیں کیا تو میں اس کو سنگسار کروں گا۔ اس روایت میں پہلی روایت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں مذکور ہے اگر اس نے اس کو اجازت نہیں دی تو رجم کیا جائے گا۔ اس روایت میں پہلی روایت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں مذکور ہے اگر اس نے اس کو اجازت نہیں دی تو رجم کیا جائے گا اور وہاں یہ قول (وان کنت اذنت لہ جلدناہ مائۃ) یہ سو کوڑے ہمارے ہاں تعزیر ہے۔ گویا انھوں نے اس سے وطی بالشبہ کے سبب حد سے اس کو بچانے کی کوشش کی کہ شبہہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے اور حرام جگہ سواری کی وجہ سے اس کو سزا دی۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ کیا سو کوڑے بطور تعزیر لگائے جاسکتے ہیں (جبکہ تعزیر حد سے کم ہوتی ہے) تو اس کو کہا جائے گا جی ہاں ! سو کوڑے بطور تعزیر درست ہیں اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سو کوڑے بطور تعزیر لگوائے جیسا کہ اس روایت میں موجود ہے کہ جس نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کردیا تھا (باب حدالبکر۔ طحاوی) یہ روایت جس کو نعمان (رض) نے ذکر کیا ہے وہ سلمہ بن محبق (رض) کی روایت کی ناسخ ہے (عندنا) اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں بعض گناہوں کی مالی سزا واجب ہوتی تھی اور مال کو تباہ کرنے کی صورت میں جسمانی سزا لازم ہوتی تھی۔ باب تحریم الصدقۃ علی بنی ہاشم میں زکوۃ نہ دینے والے کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول میں اس سے زکوۃ لوں گا اور اس کے مال کا ایک حصہ بطور سزا اس سے لیا جائے گا۔ انا اخذوھا منہ وشطر مالہ عقوبۃ لہ عاقد صنع “ (نسائی فی الزکوۃ باب ٧ مسنداحمد ٥‘ ٢؍٣) اسی قسم میں سے ہے۔ ان میں سے یہ روایات بھی ہیں۔
تشریح اور وہاں یہ قول (وان کنت اذنت لہ جلدناہ مائۃ) یہ سو کوڑے ہمارے ہاں تعزیر ہے۔ گویا انھوں نے اس سے وطی بالشبہ کے سبب حد سے اس کو بچانے کی کوشش کی کہ شبہہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے اور حرام جگہ سواری کی وجہ سے اس کو سزا دی۔
سوال : کیا سو کوڑے بطور تعزیر لگائے جاسکتے ہیں (جبکہ تعزیر حد سے کم ہوتی ہے)
جواب : جی ہاں۔ سو کوڑے بطور تعزیر درست ہیں اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سو کوڑے بطور تعزیر لگوائے جیسا کہ اس روایت میں موجود جس نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کردیا تھا (باب حدالبکر۔ طحاوی)
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : یہ روایت جس کو نعما (رض) نے ذکر کیا یہ وہ سلمہ بن محبق (رض) کی روایت کی ناسخ ہے (عندانا) اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں بعض گناہوں کی مالی سزا واجب ہوتی تھی اور مال کو تباہ کرنے کی صورت میں جسمانی سزا لازم ہوتی تھی۔ باب تحریم الصدقۃ علی بنی ہاشم میں زکوۃ نہ دینے والے کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول میں اس سے زکوۃ لوں گا اور اس کے مال کا ایک حصہ بطور سزا اس سے لیا جائے گا۔ انا اخذوھا منہ وشطر مالہ عقوبۃ لہ عاقد صنع “ (نسائی فی الزکوۃ باب ٧ مسنداحمد ٥‘ ٢؍٣) اسی قسم میں سے ہے۔

4772

۴۷۷۲: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ ثَوْرٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ أَحْسَبُہُ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ ضَالَّۃِ الْاِبِلِ الْمَکْتُوْمَۃِ غَرَامَتُہَا وَمِثْلُہَا مَعَہَا .
٤٧٧٢: معمر نے عمرو بن مسلم سے ‘ انھوں نے عکرمہ سے میرا خیال ہے کہ انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ گم شدہ اونٹ جس کو چھپالیا جائے تو اس کا تاوان بھی ادا کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ مزید اس کی مثل بھی دینا پڑے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی اللقطۃ باب ١٨۔

4773

۴۷۷۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَہِشَامٌ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہٖ، عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ مُزَیْنَۃَ أَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ تَرَی فِیْ حَرِیْسَۃِ الْجَبَلِ ؟ .فَقَالَ : لَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْمَاشِیَۃِ قَطْعٌ اِلَّا مَا أَوَاہُ الْمِرَاحُ فَبَلَغَ ثَمَنُہُ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِیْہِ قَطْعُ الْیَدِ ، وَمَا لَمْ یَبْلُغْ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِیْہِ غَرَامَۃُ مِثْلَیْہِ وَجَلَدَاتُ نَکَالٍ .قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ تَرَی فِی الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ قَالَ : ہُوَ وَمِثْلُہٗ مَعَہٗ، وَالنَّکَالُ وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ قَطْعٌ اِلَّا مَا أَوَاہُ الْجَرِیْنُ فَمَا أُخِذَ مِنَ الْجَرِیْنِ فَبَلَغَ ثَمَنُہُ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِیْہِ الْقَطْعُ وَمَا لَمْ یَبْلُغْ ثَمَنَ الْمِجَنِّ ، فَفِیْہِ غَرَامَۃُ مِثْلَیْہِ وَجَلَدَاتُ نَکَالٍ .کَانَتِ الْعُقُوْبَاتُ جَارِیَۃً فِیْمَا ذُکِرَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ عَلٰی مَا ذُکِرَ فِیْہَا حَتَّی نُسِخَ ذٰلِکَ بِتَحْرِیْمِ الرِّبَا ، فَعَادَ الْأَمْرُ اِلٰی أَنْ لَا یُؤْخَذَ مِمَّنْ أَخَذَ شَیْئًا اِلَّا مِثْلُ مَا أَخَذَ وَاِنَّ الْعُقُوْبَاتِ لَا تَجِبُ فِی الْأَمْوَالِ بِانْتِہَاکِ الْحُرُمَاتِ الَّتِیْ ہِیَ غَیْرُ أَمْوَالٍ .فَحَدِیْثُ سَلْمَۃَ - عِنْدَنَا - کَانَ فِی الْوَقْتِ الْأَوَّلِ فَکَانَ الْحُکْمُ عَلَی مَنْ زَنَی بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ مُسْتَکْرِہًا لَہَا ، عَلَیْہِ أَنْ تَعْتِقَ عُقُوْبَۃً لَہُ فِیْ فِعْلِہٖ ، وَیَغْرَمَ مِثْلَہَا لِامْرَأَتِہٖ۔وَاِنْ کَانَتْ طَاوَعَتْہُ أَلْزَمَہَا جَارِیَۃً زَانِیَۃً وَأَلْزَمَہُ مَکَانَہَا جَارِیَۃً طَاہِرَۃً وَلَمْ تَعْتِقْ ہِیَ بِطَوَاعِیَتِہَا اِیَّاہُ .وَفَرَّقَ فِی ذٰلِکَ ، بَیْنَمَا اِذَا کَانَتْ مُطَاوِعَۃً لَہٗ، وَبَیْنَمَا اِذَا کَانَتْ مُسْتَکْرَہَۃً ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ فَرُدَّتِ الْأُمُوْرُ اِلٰی أَنْ لَا یُعَاقَبَ أَحَدٌ بِانْتِہَاکِ حُرْمَۃٍ لَمْ یَأْخُذْ فِیْہَا مَالًا بِأَنْ یَغْرَمَ مَالًا ، وَوَجَبَتْ عَلَیْہِ الْعُقُوْبَۃُ الَّتِیْ أَوْجَبَ اللّٰہُ عَلٰی سَائِرِ الزُّنَاۃِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مَا رَوَی النُّعْمَانُ وَنُسِخَ مَا رَوَیْ سَلَمَۃُ بْنُ الْمُحَبِّقِ .وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْا مِنْ فِعْلِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمَذْہَبِہٖ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی مِثْلِ مَا رَوَیْ سَلَمَۃُ فَقَدْ خَالَفَہُ فِیْہِ غَیْرُہُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٧٧٣: عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ قبیلہ مزینہ کا ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہاڑ میں محفوظ جانور چرانے کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا باڑے میں محفوظ جانور چرانے کے علاوہ اور کسی جانور کی وجہ سے ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے اور اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ اس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو ہاتھ کاٹے جائیں گے اور اگر ڈھال کے برابر نہ ہو تو اس میں دو مثل چٹی اور عبرت کے لیے کوڑے۔ اس نے سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لٹکے ہوئے پھل کا کیا حکم ہے آپ نے فرمایا وہ اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی (دینی پڑے گی) اور سزا بھی ہوگی۔ البتہ لٹکے ہوئے پھلوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مگر وہ پھل جس کو سٹور میں رکھا جائے۔ پس جو پھل اس محفوظ مقام سے لیا جائے اگر اس کی قیمت ڈھال کو پہنچ جائے تو اس میں ہاتھ کاٹنا ہے اور اگر ڈھال کی قیمت کو نہ پہنچے تو اس میں دو گنا تاوان اور بطور سزا کوڑے مارنا ہے۔ ان روایات کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سزائیں جاری رہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سود کی حرمت کا حکم ہوا تو (جرمانے ‘ دو گنا) والی سزائیں منسوخ ہوگئیں اور حکم اس بات کی طرف لوٹ گیا کہ جس نے کوئی چیز چوری کی ہے اس سے جس قدر لی ہے اسی کی مثل واپس کرے اور غیر مالی حرمات کو توڑنے میں مالی تاوان نہ ہوگا۔ پس ہمارے نزدیک حضرت سلمہ (رض) کی یہ روایت ابتدائی زمانہ سے متعلق ہے۔ کہ اس زمانے میں جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی کو مجبور کر کے اس سے زنا کرتا تو اس پر بطور سزا لازم تھا کہ وہ اس لونڈی کو آزاد کرے اور اپنی بیوی کو اسی جیسی لونڈی بطور تاوان دے اور اگر اس عورت کی مرضی ہوتی تو پھر (قاضی) زانیہ لونڈی اس کی مالکہ کے حوالے کردیتا اور اس کی جگہ خاوند پر ایک پاکیزہ لونڈی لازم کردیتا اور وہ لونڈی اس مرد کی بات ماننے کی وجہ سے آزاد نہ ہوتی اور اس سلسلے میں ان دونوں کے حکم میں فرق ہوتا۔ اگر اس لونڈی کی مرضی شامل ہوتی (تو آزاد نہ ہوتی) اور اگر وہ ناپسند کرتی تو (آزاد ہوجاتی) پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بات اس طرف لوٹ گئی کہ کسی ایسی حرمت کو توڑنے پر جس میں اس نے مالی نقصان نہیں کیا مالی تاوان کے ساتھ سزا نہ دی جائے اور اس پر صرف وہی سزا لازم ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمام زناکاروں پر واجب کی ہے تو جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے حضرت نعمان (رض) والی روایت ثابت ہوگئی اور حضرت سلمہ بن محبق (رض) والی روایت کی تنسیخ ثابت ہوئی اور رہی وہ روایت جس میں حضرت ابن مسعود (رض) کے فعل کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ حضرت سلمہ (رض) کی روایت کی طرح ہے اس سلسلے میں دیگر صحابہ کرام نے ان کی مخالفت کی ہے۔
نوٹ : یہ ہے ان روایات کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سزائیں جاری رہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سود کی حرمت کا حکم ہوا تو (جرمانے ‘ دو گنا) والی سزائیں منسوخ ہوگئیں اور حکم اس بات کی طرف لوٹ گیا کہ جس نے کوئی چیز چوری کی ہے اس سے جس قدر لی ہے اسی کی مثل واپس کرے اور غیر مالی حرمات کو توڑنے میں مالی تاوان نہ ہوگا۔
روایات سلمہ (رض) کا جواب :
پس ہمارے نزدیک حضرت سلمہ (رض) کی یہ روایت ابتدائی زمانہ سے متعلق ہے۔ کہ اس زمانے میں جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی کو مجبور کر کے اس سے زنا کرتا تو اس پر بطور سزا لازم تھا کہ وہ اس لونڈی کو آزاد کرے اور اپنی بیوی کو اسی جیسی لونڈی بطور تاوان دے اور اگر اس عورت کی مرضی ہوتی تو پھر (قاضی) زانیہ لونڈی اس کی مالکہ کے حوالے کردیتا اور اس کی جگہ خاوند پر ایک پاکیزہ لونڈی لازم کردیتا اور وہ لونڈی اس مرد کی بات ماننے کی وجہ سے آزاد نہ وہتی اور اس سلسلے میں ان دونوں کے حکم میں فرق ہوتا۔
وہ فرق یہ ہے : اگر اس لونڈی کی مرضی شامل ہوتی (تو آزاد نہ ہوتی) اور اگر وہ ناپسند کرتی تو (آزاد ہوجاتی)
پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بات اس طرف لوٹ گئی کہ کسی ایسی حرمت کو توڑنے پر جس میں اس نے مالی نقصان نہیں کیا مالی تاوان کے ساتھ سزا نہ دی جائے اور اس پر صرف وہی سزا لازم ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمام زناکاروں پر واجب کی ہے تو جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے حضرت نعمان (رض) والی روایت ثابت ہوگئی اور حضرت سلمہ بن حبق (رض) والی روایت کی تنسیخ ثابت ہوئی اور رہی وہ روایت جس میں حضرت ابن مسعود (رض) کے فعل کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ حضرت سلمہ (رض) کی روایت کی طرح ہے اس سلسلے میں دیگر صحابہ کرام نے ان کی مخالفت کی ہے۔
لغات : حریسۃ الجبل۔ پہاڑ میں محفوظ۔ المراح۔ باڑا۔ الجرین۔ سٹور۔ المجن۔ ڈھال۔

4774

۴۷۷۴: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیِّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ قَالَ : کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ یَقُوْلُ لَا أُوْتٰی بِرَجُلٍ وَقَعَ عَلٰیْ جَارِیَۃِ امْرَأَتِہٖ اِلَّا رَجَمْتُہٗ .
٤٧٧٤: ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے تھے جو شخص میرے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا ہوگا تو میں اس کو رجم کروں گا۔

4775

۴۷۷۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَۃَ عَنْ عَمْرٍو الْأَسْلَمِیِّ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ عُمَرَ بَعَثَہُ مُصَدِّقًا عَلٰی سَعْدِ بْنِ ہُذَیْمٍ. فَأَتَیْ حَمْزَۃَ بِمَالٍ لِیُصَدِّقَہُ .فَاِذَا رَجُلٌ یَقُوْلُ لِامْرَأَتِہِ : أَدِّیْ صَدَقَۃَ مَالِ مَوْلَاکَ وَاِذَا الْمَرْأَۃُ تَقُوْل لَہٗ : بَلْ أَنْتَ أَدِّ صَدَقَۃَ مَالِ ابْنِک .فَسَأَلَ حَمْزَۃُ عَنْ أَمْرِہِمَا وَقَوْلِہِمَا فَأُخْبِرَ أَنَّ ذٰلِکَ الرَّجُلَ زَوْجُ تِلْکَ الْمَرْأَۃِ ، وَأَنَّہٗ وَقَعَ عَلٰیْ جَارِیَۃٍ لَہَا فَوَلَدَتْ وَلَدًا فَأَعْتَقَتْہُ امْرَأَتُہُ .قَالُوْا : فَہٰذَا الْمَالُ لِابْنِہِ مِنْ جَارِیَتِہَا .فَقَالَ حَمْزَۃُ : لَأَرْجُمَنَّکَ بِأَحْجَارِک .فَقِیْلَ لَہٗ : أَصْلَحَک اللّٰہُ اِنَّ أَمْرَہُ قَدْ رُفِعَ اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَلَدَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِائَۃً وَلَمْ یَرَ عَلَیْہِ الرَّجْمَ .فَأَخَذَ حَمْزَۃُ بِالرَّجُلِ کَفِیلًا حَتَّی قَدِمَ عَلَی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَسَأَلَہٗ عَمَّا ذَکَرَ مِنْ جَلْدِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اِیَّاہُ وَلَمْ یَرَ عَلَیْہِ الرَّجْمَ .فَصَدَّقَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بِذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہِمْ ، وَقَالَ : اِنَّمَا دَرَأَ عَنْہُ الرَّجْمَ أَنَّہٗ عَذَرَہٗ بِالْجَاہِلِیَّۃِ .فَہٰذَا حَمْزَۃُ بْنُ عَمْرٍو صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَی أَنَّ عَلَی مَنْ زَنَی بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ الرَّجْمَ ، وَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مَا کَانَ عُمَرُ رَأَی مِنْ ذٰلِکَ حِیْنَ کَفَلَ الرَّجُلَ حَتّٰی یَجِیْئَ أَمْرُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ اِقَامَۃِ الْحَدِّ عَلَیْہِ. فَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا رَوَاہُ النُّعْمَانُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ مَا فِیْ حَدِیْثِ حَمْزَۃَ أَیْضًا مِنْ جَلْدِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ الرَّجُلَ مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ، تَعْزِیرٌ بِحَضْرَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَدْ دَلَّ عَلٰی مَا رَوَی النُّعْمَانُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ جَلْدِ الزَّانِیْ بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ مِائَۃً ، أَنَّہٗ أَرَادَ بِذٰلِکَ ، التَّعْزِیْرَ أَیْضًا .فَقَدْ وَافَقَ کُلَّ مَا فِیْ حَدِیْثِ حَمْزَۃَ ہَذَا مَا رَوَی النُّعْمَانُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَکَانَ عَلِمَ الْحُکْمَ الْأَوَّلَ الَّذِیْ رَوَاہُ سَلَمَۃُ بْنُ الْمُحَبِّقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَمْ یَعْلَمْ مَا نَسَخَہُ مِمَّا رَوَاہُ النُّعْمَانُ وَعَلِمَ ذٰلِکَ عُمَرُ وَعَلِیٌّ وَحَمْزَۃُ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالُوْا بِہٖ .وَقَدْ أَنْکَرَ عَلَی عَلِیْ عَبْدُ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا قَضَائَ ہٗ، بِمَا قَدْ نُسِخَ .
٤٧٧٥: عمرو اسلمی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ مجھے عمر (رض) نے قبیلہ سعد بن ہذیم کے ہاں زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیجا تو حضرت حمزہ بن عمرو (رض) مال لے کر آئے تاکہ اس کی زکوۃ ادا کریں تو انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا کہ اپنے غلام کے مال کا صدقہ دو اور اس کی بیوی کہہ رہی تھی کہ تم اپنے بیٹے کے مال کا صدقہ دو ۔ حضرت حمزہ نے ان دونوں سے ان کی گفتگو اور معاملہ کے متعلق دریافت کیا تو ان کو بتلایا گیا کہ اس شخص نے اس عورت (بیوی) کی لونڈی سے زنا کیا ہے اور اس سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کو اس کی بیوی نے آزاد کردیا۔ لوگوں نے بتلایا کہ یہ مال اس بچے کا ہے جو لونڈی سے پیدا ہوا۔ حضرت حمزہ نے فرمایا میں تجھے تیرے ہی پتھروں سے رجم کروں گا۔ لوگوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا بھلا کرے اس کا معاملہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پیش ہو تو آپ نے اس شخص کو سو کوڑے مارے اور اس کے لیے رجم کی سزا تجویز نہیں فرمائی۔ حضرت حمزہ (رض) نے اس آدمی کا ضامن لیا یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کوڑوں کے متعلق دریافت کیا جنکا تذکرہ ہوا تھا اور رجم کو مناسب خیال نہ کیا گیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے اس بات کی تصدیق فرمائی اور فرمایا کہ عذر جاہلیت کی وجہ سے اس سے رجم کو ساقط کیا گیا۔ تو یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی حضرت حمزہ بن عمرو (رض) ہیں جن کے خیال میں بیوی کی لونڈی سے زنا کرنے والے شخص کی سزا رجم ہی ہے اور حضرت عمر (رض) نے بھی ان کی بات کی تغلیط نہیں کی بلکہ قیام حد کے سلسلہ میں حمزہ (رض) نے اس آدمی پر اس وقت تک کے لیے ایک وکیل بنایا یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) کا حکم آجائے تو یہ بات بھی حضرت علی (رض) اور حضرت نعمان (رض) کی روایات کے موافق ہے۔ پھر روایت حمزہ (رض) میں سو کوڑے مارنے کا تذکرہ موجود ہے تو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں یہ فعل بطور تعزیر ہے جو اس شخص پر قائم کی گئی۔ پس یہ بھی اس روایت نعمان (رض) کے مضمون پر دلالت ہے روایت نعمان (رض) میں ہے کہ عورت کی لونڈی سے زنا کرنے پر سو کوڑے مارے گئے۔ تو حضرت عمر (رض) کا مقصود بھی تعزیر ہے اب روایت حمزہ (رض) تمام تر روایت نعمان (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موافق ہوگئی۔ یہ ہے حضرت سلمہ بن محبق (رض) کی روایت میں جس عمل کا تذکرہ ہے اس کو تو انھوں نے جانا مگر وہ عمل جو اس کا ناسخ تھا جس کو روایت نعمان (رض) میں ذکر کیا گیا اس کا عمل نہ ہوا۔ حضرت عمر ‘ علی ‘ حمزہ بن عمرو (رض) نے اس عمل کو جان لیا اسی لیے انھوں نے اسی کا فتویٰ دیا۔ حضرت علی (رض) نے عبداللہ (رض) کے (سلمہ کی روایت کے مطابق) فیصلے کا انکار کیا کہ یہ حکم تو منسوخ ہوچکا ہے۔
نوٹ : تو یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی حضرت حمزہ بن عمرو (رض) ہیں جن کے خیال میں بیوی کی لونڈی سے زنا کرنے والے شخص کی سزا رجم ہی ہے اور حضرت عمر (رض) نے بھی ان کی بات کی تغلیظ نہیں کی۔ بلکہ قیام حد کے سلسلہ میں حمزہ (رض) نے اس آدمی پر اس وقت تک کے لیے ایک وکیل بنایا یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) کا حکم آجائے تو یہ بات بھی حضرت علی (رض) اور حضرت نعمان (رض) کی روایات کے موافق ہے۔
پھر روایت حمزہ (رض) میں سو کوڑے مارنے کا تذکرہ موجود ہے تو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں یہ فعل بطور تعزیر ہے جو اس شخص پر قائم کی گئی۔ پس یہ بھی اس روایت نعمان (رض) کے مضمون پر دلالت ہے روایت نعمان (رض) میں ہے کہ عورت کی لونڈی سے زنا کرنے پر سو کوڑے مارے گئے۔ تو حضرت عمر (رض) کا مقصود بھی تعزیر ہے اب روایت حمزہ (رض) تمام تر روایت نعمان (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موافق ہوگئی۔
روایت ابن مسعود (رض) کا جواب : یہ ہے حضرت سلمہ بن حبق (رض) کی روایت میں جس عمل کا تذکرہ ہے اس کو تو انھوں نے جانا مگر وہ عمل جو اس کا ناسخ تھا جس کو روایت نعمان (رض) میں ذکر کیا گیا اس کا عمل نہ ہوا۔
حضرت عمر ‘ علی ‘ حمزہ بن عمرو (رض) نے اس عمل کو جان لیا اسی لیے انھوں نے اسی کا فتویٰ دیا۔

4776

۴۷۷۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَاصِمٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ : ذُکِرَ لِعَلِیْ شَأْنُ الرَّجُلِ الَّذِی أَتَی ابْنَ مَسْعُوْدٍ وَامْرَأَتِہِ قَدْ وَقَعَ عَلٰیْ جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ فَلَمْ یَرَ عَلَیْہِ حَدًّا .فَقَالَ عَلِیٌّ : لَوْ أَتَانِیْ صَاحِبُ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ، لَرَضَخْتُ رَأْسَہُ بِالْحِجَارَۃِ فَلَمْ یَدْرِ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ مَا حَدَثَ بَعْدَہُ فَلَمْ یَعْلَمُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ بِذٰلِکَ .فَأُخْبِرَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تَعَلَّقَ فِیْ ذٰلِکَ بِأَمْرٍ قَدْ کَانَ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَہُ فَلَمْ یَعْلَمُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذٰلِکَ .وَقَدْ خَالَفَ عَلْقَمَۃُ فِیْ ذٰلِکَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا وَمَالَ اِلَی قَوْلِ مَنْ خَالَفَہُ عَلٰی أَنَّہٗ أَعْلَمُ أَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٤٧٧٦: محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے سامنے اس آدمی کی حالت بیان کی گئی جو ابن مسعود (رض) کی خدمت میں بیوی سمیت آیا کہ اس نے بیوی کی لونڈی سے زنا کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس پر حد نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) سنکر فرمانے لگے اگر ابن ام عبد والا آدمی میرے پاس آتا تو میں پتھر سے اس کا سر پھوڑ دیتا۔ ابن ام عبد (رض) کو معلوم نہیں ہوا کہ اس کے بعد کیا پیش آیا ؟ ابن مسعود (رض) کو اس کا علم نہیں ہوا تو علی (رض) کو بتلایا گیا کہ ابن مسعود (رض) نے اس سلسلہ میں ایسے معاملے سے اس بات کو جوڑا ہے جو پہلے تھی ‘ پھر منسوخ ہوگئی مگر ابن مسعود (رض) کو اس نسخ کا علم نہ ہوا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علقمہ (رض) جو حضرت ابن مسعود (رض) کے جلیل القدر شاگردوں سے ہیں۔ انھوں نے ابن مسعود (رض) کے قول کی مخالفت کی اور ان کے مخالف کا قول ذکر کیا گیا۔ روایت علقمہ (رح) یہ ہے۔

4777

۴۷۷۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ أَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَتَیْ جَارِیَۃَ امْرَأَتِہٖ۔فَقَالَ : مَا أُبَالِیْ اِیَّاہَا أَتَیْتُ أَوْ جَارِیَۃَ امْرَأَۃِ عَوْسَجَۃَ .فَہٰذَا عَلْقَمَۃُ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَہُوَ أَجَلُّ أَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَعْلَمُہُمْ قَدْ تَرَکَ قَوْلَ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ ذٰلِکَ مَعَ جَلَالَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ - عِنْدَہُ - وَصَارَ اِلَی غَیْرِہٖ۔ وَذٰلِکَ عِنْدَنَا - لِثُبُوْتِ نَسْخِ مَا کَانَ ذَہَبَ اِلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ : مَنْ زَنَی بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ حُدَّ اِلَّا أَنْ یَدَّعِیَ شُبْہَۃً مِثْلَ أَنْ یَقُوْلَ ظَنَنْتُ أَنَّہَا تَحِلُّ لِی أَوْ تَکُوْنَ الْمَرْأَۃُ أَحَلَّتْہَا لَہٗ، فَیُدْرَأَ عَنْہُ الْحَدُّ وَیُعَزَّرَ وَیَجِبَ عَلَیْہِ الْعُقْرُ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٧٧٧: علقمہ (رض) کی روایت ہے کہ ان سے بیوی کی لونڈی سے زنا کرنے والے کا حکم پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا مجھے کوئی پروا نہیں کہ بیوی کی لونڈی سے تم نے زنا کیا یا عوسجہ کی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا برابر ہیں۔ یہ علقمہ (رح) ہیں یہ ابن مسعود (رض) کے افاضل شاگردوں سے ہیں انھوں نے ابن مسعود (رض) کا قول چھوڑ دیا حالانکہ عظمت میں وہ عبداللہ (رض) کو بلند مانتے ہیں۔ انھوں نے دوسروں کا قول اختیار کرلیا۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے جو بات اختیار کی تھی علقمہ (رح) کے ہاں اس کا نسخ ثابت تھا۔ پس ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کرے اس کو حد لگائی جائے گی البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر وہ شبہ کا دعویٰ کرے مثلاً کہے کہ طننت انہا تحل لی وہ میرے گمان میں میرے لیے حلال تھی یا کہے کہ بیوی نے اسے میرے لیے حلال کردیا تو اس سے حد ساقط ہوجائے گی اور اس کو صرف تعزیر کی جائے گی۔ نیز مہر لازم ہوگا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

4778

۴۷۷۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ السُّدِّیِّ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : لَقِیْتُ خَالِیْ وَمَعَہُ الرَّایَۃُ .فَقُلْتُ :أَیْنَ تَذْہَبُ ؟ فَقَالَ : أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیْھَامِنْ بَعْدِہِ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ أَوْ أَقْتُلَہٗ۔
٤٧٧٨: عدی بن ثابت نے براء (رض) سے روایت کی کہ میں اپنے ماموں سے ملا اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں جھنڈا تھا تو میں نے اسے کہا تم کہاں جا رہے ہو ؟ اس نے کہا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایسے آدمی کی طرف بھیجا ہے کہ جس نے اپنے والد کے بعد اپنے والد کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے آپ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اس کی گردن اتار دوں یا اسے قتل کر دوں۔
تخریج : ترمذی فی الاحکام باب ٢٥‘ والحدود باب ٢٩‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٣٥‘ مسند احمد ١؍٤٣٠‘ ٤٤٧‘ ٤‘ ٢٩١؍٢٩٢‘ ٢٩٥؍٢٩٧۔

4779

۴۷۷۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ہُوَ ابْنُ مُنَازِلٍ وَأَبُوْ سَعِیْدٍ الْأَشَجُّ قَالَا : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : مَرَّ بِیْ خَالِی أَبُوْ بُرْدَۃَ بْنُ نِیَارٍ الْأَسْلَمِیُّ مَعَہُ اللِّوَائُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ آتِیْہِ بِرَأْسِہِ .
٤٧٧٩: عدی بن ثابت نے براء (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے پاس سے میرے ماموں ابو بردہ بن نیار اسلمی گزرے۔ پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی البتہ ان الفاظ کا فرق ہے اس میں ” آتیہ براسہ “ ہے کہ میں اس کا سر لاؤں۔
تخریج : گزشتہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4780

۴۷۸۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ یَعْقُوْبَ الطَّالَقَانِیُّ قَالَ : ہُشَیْمٌ حَدَّثَنَاہُ قَالَ : أَخْبَرَنَا الْأَشْعَثُ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : مَرَّ بِی الْحَارِثُ بْنُ عَمْرٍو ، وَمَعَہُ لِوَاء ٌ قَدْ عَقَدَہُ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ :اِلٰی أَیِّ شَیْئٍ بَعَثَک ؟ قَالَ : اِلٰی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیْہَ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ .
٤٧٨٠: عدی بن ثابت نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے پاس سے حارث بن عمرو گزرے ان کے ہاتھ میں ایک جھنڈا تھا جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھا تھا۔ میں نے پوچھا تمہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدھر بھیجا ہے ؟ کہنے لگے ایک ایسے آدمی کی طرف جس نے اپنے باپ کی منکوحہ سے شادی کرلی ہے۔ مجھے بھیجا تاکہ اس کی گردن اڑا دوں۔
تخریج : روایات ٤٤٧٨ کو ملاحظہ کریں۔

4781

۴۷۸۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ ہُوَ ابْنُ مُنَازِلٍ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ أَشْعَثَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٨١: حفص بن غیاث نے اشعث سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔

4782

۴۷۸۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ مُطَّرِفٍ عَنْ أَبِی الْجَہْمِ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : ضَلَّتْ اِبِلٌ لِیْ فَخَرَجْتُ فِیْ طَلَبِہَا فَاِذَا الْخَیْلُ قَدْ أَقْبَلَتْ فَلَمَّا رَأٰی أَہْلُ الْمَائِ الْخَیْلَ انْضَمُّوْا اِلَیَّ وَجَائُوْا اِلَی خِبَائٍ مِنْ تِلْکَ الْأَخْبِیَۃِ فَاسْتَخْرَجُوْا مِنْہَا رَجُلًا فَضَرَبُوْا عُنُقَہُ قَالُوْا : ہَذَا رَجُلٌ أَعْرَسَ بِامْرَأَۃِ أَبِیْہِ، فَبَعَثَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی مَنْ تَزَوَّجَ ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْہُ وَہُوَ عَالِمٌ بِحُرْمَتِہَا عَلَیْہِ، فَدَخَلَ بِہَا أَنَّ حُکْمَہُ حُکْمُ الزَّانِیْ، وَأَنَّہٗ یُقَامُ عَلَیْہِ حَدُّ الزِّنَا الرَّجْمُ أَوْ الْجَلْدُ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ فِیْ ہٰذَا حَدُّ الزِّنَا ، وَلٰـکِنْ یَجِبُ فِیْہِ التَّعْزِیرُ وَالْعُقُوْبَۃُ الْبَلِیغَۃُ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .
٤٧٨٢: ابو جہم نے براء بن عازب (رض) سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ میرے اونٹ گم ہوگئے تو میں ان کی تلاش میں نکلا۔ اچانک میں نے گھوڑے آتے ہوئے دیکھے۔ جب پانی والوں نے گھوڑوں کو دیکھا تو وہ میری سمت آئے اور ان خیموں میں ایک کے پاس آئے اور ان میں سے ایک آدمی کو نکالا اور اس کی گردن اڑا دی اور کہنے لگے یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے باپ کی منکوحہ سے شادی کرلی تھی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف یہ دستہ بھیج کر اس کو قتل کرا دیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص اپنے باپ کی منکوحہ سے شادی کرلے اور اس کو اس کی حرمت کا علم بھی ہو۔ پھر اس سے جماع کیا۔ اس کا حکم زانی جیسا ہے زانی کی حد اس پر قائم کی جائے گی یعنی سنگسار یا کوڑے لگانا۔ انھوں نے مندرجہ بالا آثار کو دلیل بنایا یہ امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ہے اور ان سے اختلاف کرتے ہوئے دوسروں نے کہا ہے کہ یہ نکاح کرنے والے پر زانی کی حد نہ لگے گی۔ مگر تعزیر لازم ہے اور زبردست سزا دی جائے گی (جو حد سے کم ہو) یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٢٦۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص اپنے باپ کی منکوحہ سے شادی کرے اور اس کو اس کی حرمت کا علم بھی ہو۔ پھر اس سے جماع کیا۔ اس کا حکم زانی جیسا ہے زانی کی حد اس پر قائم کی جائے گی یعنی سنگسار یا کوڑے لگانا۔ انھوں نے مندرجہ بالا آثار کو دلیل بنایا یہ امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : نکاح کرنے والے پر زانی کی حد نہ لگے گی۔ مگر تعزیر لازم ہے اور زبردست سزا دی جائے گی (جو حد سے کم ہو)
یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کا قول ہے۔

4783

۴۷۸۳: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ بِذٰلِکَ .
٤٧٨٣: ابو یوسف نے امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ روایت نقل کی ہے۔

4784

۴۷۸۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ یَقُوْلُ فِیْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْہُ فَدَخَلَ بِہَا قَالَ : لَا حَدَّ عَلَیْہِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَی الَّذِیْنَ احْتَجُّوْا عَلَیْہِمَا بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ فِیْ تِلْکَ الْآثَارِ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقَتْلِ وَلَیْسَ فِیْہَا ذِکْرُ الرَّجْمِ ، وَلَا ذِکْرُ اِقَامَۃِ الْحَدِّ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا جَمِیْعًا أَنَّ فَاعِلَ ذٰلِکَ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ قَتْلٌ اِنَّمَا یَجِبُ عَلَیْہِ - فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُ عَلَیْہِ الْحَدَّ - عَلَیْہِ الرَّجْمُ اِنْ کَانَ مُحْصَنًا .فَلَمَّا لَمْ یَأْمُرْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّسُوْلَ بِالرَّجْمِ ، وَاِنَّمَا أَمَرَہٗ بِالْقَتْلِ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَتْلَ لَیْسَ بِحَد لِلزِّنَا ، وَلٰـکِنَّہٗ لِمَعْنًی خِلَافَ ذٰلِکَ .وَہُوَ أَنَّ ذٰلِکَ الْمُتَزَوِّجَ ، فَعَلَ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ عَلَی الْاِسْتِحْلَالِ کَمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَصَارَ بِذٰلِکَ مُرْتَدًّا ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفْعَلَ بِہٖ مَا یُفْعَلُ بِالْمُرْتَدِّ .وَہٰکَذَا کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانُ رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ، یَقُوْلَانِ فِیْ ہٰذَا الْمُتَزَوِّجِ اِذَا کَانَ أَتَی فِیْ ذٰلِکَ عَلَی الْاِسْتِحْلَالِ أَنَّہٗ یُقْتَلُ .فَاِذَا کَانَ لَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَنْفِیْ مَا یَقُوْلُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانُ ، لَمْ یَکُنْ فِیْہِ حُجَّۃٌ عَلَیْہِمَا لِأَنَّ مُخَالِفَہُمَا لَیْسَ بِالتَّأْوِیْلِ أَوْلَی مِنْہُمَا .وَفِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَدَ لِأَبِیْ بُرْدَۃَ الرَّایَۃَ وَلَمْ تَکُنَ الرَّایَاتُ تُعْقَدُ اِلَّا لِمَنْ أَمَرَ بِالْمُحَارَبَۃِ ، وَالْمَبْعُوْثُ عَلَی اِقَامَۃِ حَدِّ الزِّنَا ، غَیْرُ مَأْمُوْرٍ بِالْمُحَارَبَۃِ .وَفِی الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّہٗ بَعَثَہُ اِلٰی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیْھَاوَلَیْسَ فِیْہِ أَنَّہٗ دَخَلَ بِہَا .فَاِذَا کَانَتْ ہٰذِہِ الْعُقُوْبَۃُ وَہِیَ الْقَتْلُ مَقْصُوْدًا بِہَا اِلَی الْمُتَزَوِّجِ لِتَزَوُّجِہِ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہَا عُقُوْبَۃٌ وَجَبَتْ بِنَفْسِ الْعَقْدِ لَا بِالدُّخُوْلِ وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَّا وَالْعَاقِدُ مُسْتَحِلٌّ لِذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہُوَ عِنْدَنَا عَلٰی أَنَّہٗ تَزَوَّجَ وَدَخَلَ بِہَا .قِیْلَ لَہٗ : وَہُوَ عِنْدَ مُخَالِفِک عَلٰی أَنَّہٗ تَزَوَّجَ وَاسْتَحَلَّ .فَاِنْ قَالَ : لَیْسَ لِلِاسْتِحْلَالِ ذِکْرٌ فِی الْحَدِیْثِ .قِیْلَ لَہٗ : وَلَا لِلدُّخُوْلِ ذِکْرٌ فِی الْحَدِیْثِ فَاِنْ جَازَ أَنْ تَحْمِلَ مَعْنَی الْحَدِیْثِ عَلَی دُخُوْلٍ غَیْرِ مَذْکُوْرٍ فِی الْحَدِیْثِ جَازَ لِخَصْمِک أَنْ یَحْمِلَہٗ عَلَی اسْتِحْلَالٍ غَیْرِ مَذْکُوْرٍ فِی الْحَدِیْثِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ حَرْفٌ زَائِدٌ عَلٰی مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .
٤٧٨٤: ابو نعیم نے سفیان سے روایت کی ہے کہ اس آدمی کے متعلق جس نے ذی رحم محرم سے شادی کر کے اس سے جماع کیا ہو تو اس پر حد نہیں لگے گی اور ان دلائل سے جو انھوں نے دونوں کے خلاف قائم کئے ہیں ان میں یہ آثار ہیں۔ ان آثار مذکورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کا حکم فرمایا ہے اس میں نہ رجم کا تذکرہ ہے اور نہ حد کے قائم کرنے کا تذکرہ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محرم سے نکاح کے مرتکب پر قتل لازم نہیں جو لوگ حد کو لازم کرتے ہیں ان کے ہاں تو رجم چاہیے جبکہ وہ شادی شدہ ہو تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم نہیں فرمایا بلکہ قتل کا حکم دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ قتل حد زنا کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ اس کی کوئی اور وجہ تھی اور وہ وجہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کی زبانی یہ ہے کہ شادی کرنے والے نے اس فعل کو حلال سمجھ کر کیا جیسا کہ جاہلیت میں وہ لوگ کرتے تھے یہ حلال سمجھنے سے مرتد ہوگیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ساتھ مرتد والا معاملہ فرمایا اور روایت میں تو ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو امام ابوحنیفہ (رح) کی تاویل کے خلاف ہو اور ان کے خلاف حجت بن سکے اور رہی فریق اوّل کی تاویل تو وہ اس تاویل سے اولیٰ نہیں۔ اس روایت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ” عقد لابی بردۃ الرایۃ “ حالانکہ جھنڈے تو کفار سے محاربہ کے لیے باندھے جاتے تھے اور زانی کو حد لگانے کے لیے جو شخص جائے وہ محاربہ کے لیے تو نہیں جاتا۔ اس روایت میں یہ ہے کہ اس نے والد کی بیوی سے شادی کی ہے اس میں جماع کا تذکرہ نہیں۔ جب یہ سزائے قتل محرم سے فقط شادی کرنے والے کے لیے ہے تو یہ اس بات کی واضح دلالت ہے کہ یہ بطور عقوبت ہے جو نفس عقد سے لازم ہوجاتی ہے ‘ دخول سے متعلق نہیں اور یہ اتنی بڑی سزا تبھی ہوسکتی ہے جبکہ عقد کرنے والا اس کو حلال سمجھ کر کرے اگر کوئی معترض کہے کہ فریق ثانی کے ہاں یہ شادی کرنے اور اس سے جماع کرنے پر موقوف ہے۔ تو ان کو جواب میں کہا جائے گا یہ بات بلاشبہ ہمارے ہاں ہے مگر اس صورت میں جبکہ وہ اس کو حلال سمجھ کر کرنے والا ہو۔ اگر کوئی معترض کہے کہ جناب حدیث میں تو حلال قرار دینے کا تذکرہ نہیں ملتا۔ تو اس کو کہا جائے گا کہ حدیث میں جس طرح دخول کا تذکرہ نہیں اسی طرح حلال قرار دینے کا بھی تذکرہ نہیں۔ پس اگر حدیث کے معنی میں دخول غیر مذکور ہونے کے باوجود مراد لینا درست ہے۔ تو فریق ثانی کو حلال قرار دینے کا معنی غیر مذکور ہونے کی وجہ سے مراد لینا کیونکر درست نہیں۔ اس روایت میں دیگر روات سے مزید الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : ان آثار مذکورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کا حکم فرمایا ہے اس میں نہ رجم کا تذکرہ ہے اور نہ حد کے قائم کرنے کا تذکرہ ہے۔
نمبر 2: اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محرم سے نکاح کے مرتکب پر قتل لازم نہیں جو لوگ حد کو لازم کرتے ہیں ان کے ہاں تو رجم چاہیے جبکہ وہ شادی شدہ ہو تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم نہیں فرمایا بلکہ قتل کا حکم دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ قتل حد زنا کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ اس کی کوئی اور وجہ تھی اور وہ وجہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کی زبانی یہ ہے کہ شادی کرنے والے نے اس فعل کو حلال سمجھ کر کیا جیسا کہ جاہلیت میں ہو لوگ کرتے تھے حلال سمجھنے سے مرتد ہوگیا۔
پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ساتھ مرتد والا معاملہ فرمایا اور روایت میں کو ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو امام ابوحنیفہ (رح) کی تاویل کے خلاف ہو اور ان کے خلاف حجت بن سکے اور رہی فریق اوّل کی تاویل تو وہ اس تاویل سے اولیٰ نہیں۔
روایت کی پڑتال : اس روایت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ” عقد لابی بردۃ الرایۃ “ حالانکہ جھنڈے تو کفار سے محاربہ کے لیے باندھے جاتے تھے اور زانی کو حد لگانے کے لیے جو شخص جائے وہ محاربہ کے لیے تو نہیں جاتا۔
نمبر 2: اس روایت میں یہ ہے کہ اس نے والد کی بیوی سے شادی کی ہے اس میں جماع کا تذکرہ نہیں۔ جب یہ سزائے قتل محرم سے فقط شادی کرنے والے کے لیے ہے تو یہ اس بات کی واضح دلالت ہے کہ یہ بطور عقوبت ہے جو نفس عقد سے لازم ہوجاتی ہے دخول سے متعلق نہیں اور یہ اتنی بڑی سزا تبھی ہوسکتی ہے جبکہ عقد کرنے والا اس کو حلال سمجھ کر کرے۔
سوال : فریق ثانی کے ہاں یہ شادی کرنے اور اس سے جماع کرنے پر موقوف ہے۔
جواب : یہ بات بلاشبہ ہمارے ہاں ہے مگر اس صورت میں جبکہ وہ اس کو حلال سمجھ کر کرنے والا ہو۔
سوال : جناب حدیث میں تو حلال قرار دینے کا تذکرہ نہیں ملتا۔
جوابحدیث میں جس طرح دخول کا تذکرہ نہیں اسی طرح حلال قرار دینے کا بھی تذکرہ نہیں۔ پس اگر حدیث کے معنی میں دخول غیر مذکور ہونے کے باوجود مرد لینا درست ہے۔ تو فریق ثانی کو حلال قرار دینے کا معنی غیر مذکور ہونے کی وجہ سے مراد لینا کیونکر درست نہیں۔ اس روایت میں دیگر روات سے مزید الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

4785

۴۷۸۵: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْبَرَائِ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : لَقِیَ خَالَہُ وَمَعَہُ رَایَۃٌ فَقُلْتُ لَہٗ : اِلٰی أَیْنَ تَذْہَبُ ؟ فَقَالَ : بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی رَجُلٍ نَکَحَ امْرَأَۃَ أَبِیْہَ أَنْ أَقْتُلَہُ وَآخُذَ مَالَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ نَحْوُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ غَیْرِ الْبَرَائِ
٤٧٨٥: جابر جعفی نے یزید بن براء سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میرے والد اپنے ماموں سے اس حالت میں ملے کہ ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھا انھوں نے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ تو انھوں نے بتلایا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے مجھے اس کے قتل کا حکم فرمایا اور اس کے مال لینے کا حکم دیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٢٦‘ نسائی فی النکاح باب ٥٨‘ دارمی فی النکاح باب ٤٣۔
حضرت براء (رض) کے علاوہ دیگر روات نے بھی اس کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو :

4786

۴۷۸۶: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ ، وَفَہْدٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَرْدِ قَالُوْا : حَدَّثَنَا یُوْسُفُ بْنُ مُنَازِلٍ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی کَرِیْمَۃَ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَدَّہُ مُعَاوِیَۃَ اِلٰی رَجُلٍ عَرَّسَ بِامْرَأَۃِ أَبِیْہَ أَنْ یَضْرِبَ عُنُقَہُ وَیُخَمِّسَ مَالَہٗ۔فَلَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ بِأَخْذِ مَالِ الْمُتَزَوِّجِ وَتَخْمِیْسِہِ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْمُتَزَوِّجَ کَانَ بِتَزَوُّجِہِ مُرْتَدًّا مُحَارِبًا فَوَجَبَ أَنْ یُقْتَلَ لِرِدَّتِہٖ، وَکَانَ مَالُہُ کَمَالِ الْحَرْبِیِّیْنَ لِأَنَّ الْمُرْتَدَّ الَّذِی لَمْ یُحَارِبْ کُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ فِیْ أَخْذِ مَالِہٖ ، عَلٰی خِلَافِ التَّخْمِیْسِ .فَقَالَ قَوْمٌ وَہُمْ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَصْحَابُہُ وَمَنْ قَالَ بِقَوْلِہِمْ مَالُہُ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .وَقَالَ مُخَالِفُوْھُمْ : مَالُہُ کُلٌّ فَیْء ٌ وَلَا تَخْمِیْسَ فِیْہِ لِأَنَّہٗ لَمْ یُوْجِفْ عَلَیْہِ بِخَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ .فَفِیْ تَخْمِیْسِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَ الْمُتَزَوِّجِ - الَّذِیْ ذٰکَرْنَا - دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَتْ مِنْہُ الرِّدَّۃُ وَالْمُحَارَبَۃُ جَمِیْعًا .فَانْتَفَی بِمَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا ذٰلِکَ النِّکَاحَ نِکَاحًا لَا یَثْبُتُ فَکَانَ یَنْبَغِیْ اِذَا لَمْ یَثْبُتْ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ حُکْمِ مَا لَمْ یَنْعَقِدْ فَیَکُوْنُ الْوَاطِئُ عَلَیْہِ کَالْوَاطِئِ لَا عَلَی نِکَاحٍ فَیُحَدُّ .قِیْلَ لَہٗ : اِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، فَلِمَ کَانَ سُؤَالُک اِیَّانَا مَا ذَکَرْت ذِکْرَ التَّزْوِیْجِ کَانَ یَنْبَغِی أَنْ تَقُوْلَ رَجُلٌ زَنَی بِذَاتِ مَحْرَمٍ مِنْہُ .فَاِنْ قُلْتُ ذٰلِکَ کَانَ جَوَابُنَا لَک أَنْ نَقُوْلَ : عَلَیْہِ الْحَدُّ وَاِنْ أَطْلَقْت اسْمَ التَّزَوُّجِ ، وَسَمَّیْتُ ذٰلِکَ النِّکَاحَ نِکَاحًا وَاِنْ لَمْ یَکُنْ ثَابِتًا فَلَا حَدَّ عَلَی وَاطِئٍ عَلَی نِکَاحٍ جَائِزٍ وَلَا فَاسِدٍ .وَقَدْ رَأَیْنَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَضَی فِی الْمُتَزَوِّجِ فِی الْعِدَّۃِ الَّتِیْ لَا یَثْبُتُ فِیْہَا نِکَاحُ الْوَاطِئِ عَلَی ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ عَلٰی خِلَافِ مَذْہَبِک .وَذٰلِکَ أَنَّ اِبْرَاھِیْمَ بْنَ مَرْزُوْقٍ
٤٧٨٦: معاویہ بن قرہ نے اپنے والد سے نقل کیا انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے دادا معاویہ (رض) کو ایک ایسے آدمی کی طرف بھیجا جس نے اپنے والد کی بیوی سے نکاح کرلیا تھا کہ اس کی گردن اڑا دیں اور اس کے مال کا پانچواں حصہ لے لیں۔ جب ان دونوں روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شادی کرنے کا ‘ مال لینے اور اس کا پانچواں حصہ نکالنے کا حکم فرمایا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جب ان دونوں روایات سے معلوم ہو رہا ہے کہ شادی کرنے والے نے یہ حلال قرار دے کر کیا جس سے وہ مرتد و محارب بن گیا تو اس کا قتل ارتداد کی وجہ سے لازم آیا اور اس کا مال حربی کے مال کی مثل ہوگیا کیونکہ وہ مرتد جو محارب نہ ہو۔ تمام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کا مال لیا جائے گا پانچویں حصہ میں اختلاف ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا کہ اس کا مال اس کے مسلمان ورثاء کو ملے گا۔ فریق اوّل کا قول یہ ہے اس کا مال مال فئی کے حکم میں ہے اور اس میں سے خمس نہ لیا جائے گا کیونکہ اس پر گھوڑے اور اونٹوں سے چڑھائی کی ضرورت نہیں پڑی۔ پس نکاح کرنے والے کے مال سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خمس وصول کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ مرتد و محارب تھا گزشتہ سطور میں ہم نے جو ذکر کیا اس سے اس بات کی نفی ہوگئی کہ یہ روایت امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کے خلاف حجت ہے۔ جب یہ نکاح ثابت نہیں ہوتا تو مناسب یہ ہے کہ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے یہ اس نکاح کے حکم میں ہو جو سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ پس اس صورت میں وطی کرنے والا ایسا ہوگا جیسا اس نے نکاح کے بغیر وطی کی ہے اور (بلا نکاح وطی زنا ہے) اس کی سزا تو حد ہے۔ اگر بات اسی طرح ہے جیسا آپ فرماتے ہیں تو آپ کے سوال میں تزویج کا لفظ کیوں لایا گیا۔ پھر تو آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ جو محرم رشتہ دار سے زنا کرے اگر تم یہ سوال کرتے تو جواب حد ہی ہوتا اور جب تم نے اس پر نکاح کا لفظ بولا ہے اور اس کو نکاح قرار دیتے ہو تو خواہ وہ ثابت نہ ہو مگر نکاح کرنے والے پر حد نہیں ہونی چاہیے خواہ نکاح نافذ ہو یا فاسد۔ جناب عمر (رض) نے عدت میں نکاح کرنے والے کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا جو آئندہ سطور میں مذکور ہے۔ عدت میں نکاح ثابت نہیں ہوتا۔ وہ فیصلہ فریق اوّل کے مذہب کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٢٩٥۔

4787

۴۷۸۷: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنِ قَعْنَبٍ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیْدِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ طُلَیْحَۃَ نَکَحَتْ فِیْ عِدَّتِہَا فَأُتِیَ بِہَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَضَرَبَہَا ضَرَبَاتٍ بِالْمِخْفَقَۃِ وَضَرَبَ زَوْجَہَا وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَقَالَ أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ فِیْ عِدَّتِہَا فُرِّقَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا الَّذِیْ نَکَحَتْ ثُمَّ اعْتَدَّتْ بَقِیَّۃَ عِدَّتِہَا مِنَ الْأَوَّلِ ، ثُمَّ اعْتَدَّتْ مِنَ الْآخَرِ وَاِنْ کَانَ دَخَلَ بِہَا الْآخَرُ ثُمَّ لَمْ یَنْکِحْہَا أَبَدًا ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ دَخَلَ بِہَا اِعْتَدَّتْ مِنَ الْأَوَّلِ وَکَانَ الْآخَرُ خَاطِبًا مِنَ الْخُطَّابِ .
٤٧٨٧: سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار نے نقل کیا کہ طلیحہ نے ایک عورت کی عدت میں اس سے نکاح کیا اس عورت کو حضرت عمر (رض) کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے اس عورت کو درہ سے خفیف ضربات لگائیں اور اس کے خاوند کی بھی مرمت کی اور ان کے درمیان تفریق کردی اور فرمایا جو عورت اپنی عدت میں نکاح کرے۔ اس کے اور اس کے خاوند میں تفریق کردی جائے گی جس نے اس سے اب نکاح کیا ہے پھر وہ عورت اپنے پہلے خاوند کی بقیہ عدت گزارے گی پھر دوسرے کی عدت گزارے گی اگر اس دوسرے نے اس سے جماع کیا ہے تو پھر وہ اس سے کبھی بھی نکاح نہ کرے اور اگر اس نے اس سے جماع نہیں کیا تو فقط پہلے خاوند کی عدت گزارے اور دوسرا خاوند اب صرف پیغام نکاح دینے والوں میں شمار ہوگا۔
تخریج : مالک فی النکاح ٢٧۔

4788

۴۷۸۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٨٨: یونس نے ابن شہاب سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت ذکر کی۔

4789

۴۷۸۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فِیْ عِدَّتِہَا ، فَرُفِعَ اِلَی عُمَرَ فَضَرَبَہَا دُوْنَ الْحَدِّ وَجَعَلَ لَہَا الصَّدَاقَ وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَقَالَ لَا یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا .قَالَ : وَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا جَعَلْتُہُمَا مَعَ الْخُطَّابِ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ ضَرَبَ الْمَرْأَۃَ وَالزَّوْجَ الْمُتَزَوِّجَ فِی الْعِدَّۃِ بِالْمِخْفَقَۃِ فَاسْتَحَالَ أَنْ یَضْرِبَہُمَا وَہُمَا جَاہِلَانِ بِتَحْرِیْمِ مَا فَعَلَا لِأَنَّہٗ کَانَ أَعْرَفَ بِاَللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَنْ یُعَاقِبَ مَنْ لَمْ تَقُمْ عَلَیْہِ الْحُجَّۃُ .فَلَمَّا ضَرَبَہُمَا دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْحُجَّۃَ قَدْ کَانَتْ قَامَتْ عَلَیْہِمَا بِالتَّحْرِیْمِ قَبْلَ أَنْ یَفْعَلَا ثُمَّ ہُوَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یُقِمْ عَلَیْہِمَا الْحَدَّ وَقَدْ حَضَرَہُ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَابَعُوْھُ عَلٰی ذٰلِکَ وَلَمْ یُخَالِفُوْھُ فِیْہِ .فَہٰذَا دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ أَنَّ عَقْدَ النِّکَاحِ اِذَا کَانَ وَاِنْ کَانَ لَا یَثْبُتُ ، وَجَبَ لَہُ حُکْمُ النِّکَاحِ فِیْ وُجُوْبِ الْمَہْرِ بِالدُّخُوْلِ الَّذِیْ یَکُوْنُ بَعْدَہُ وَفِی الْعِدَّۃِ مِنْہُ وَفِیْ ثُبُوْتِ النَّسَبِ وَمَا کَانَ یُوْجِبُ مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ فَیَسْتَحِیلُ أَنْ یَجِبَ فِیْہِ حَدٌّ لِأَنَّ الَّذِیْ یُوْجِبُ الْحَدَّ ہُوَ الزِّنَا ، وَالزِّنَا لَا یُوْجِبُ ثُبُوْتَ نَسَبٍ وَلَا مَہْرٍ وَلَا عِدَّۃٍ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ ہَذَا الَّذِیْ ذٰکَرْتُ مِنْ وَطْئِ ذَاتِ الْمَحْرَمِ مِنْہُ عَلَی النِّکَاحِ الَّذِی وَصَفْتہ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ زِنًا فَہُوَ أَغْلَظُ مِنْ الزِّنَا فَأَحْرَی أَنْ یَجِبَ فِیْہِ مَا یَجِبُ فِی الزِّنَا .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ أَخْرَجْتُہٗ بِقَوْلِک ہَذَا مِنْ أَنْ یَکُوْنَ زِنًا وَزَعَمْتُ أَنَّہٗ أَغْلَظُ مِنْ الزِّنَا وَلَیْسَ مَا کَانَ مِثْلَ الزِّنَا أَوْ مَا کَانَ أَعْظَمَ مِنْ الزِّنَا مِنَ الْأَشْیَائِ الْمُحَرَّمَۃِ یَجِبُ فِی انْتِہَاکِہَا مِنَ الْعُقُوْبَاتِ مَا یَجِبُ فِی الزِّنَا لِأَنَّ الْعُقُوْبَاتِ اِنَّمَا تُؤْخَذُ مِنْ جِہَۃِ التَّوْقِیْفِ لَا مِنْ جِہَۃِ الْقِیَاسِ .أَلَا تَرَی أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ کَمَا حَرَّمَ الْخَمْرَ ، وَقَدْ جَعَلَ عَلَی شَارِبِ الْخَمْرِ حَدًّا لَمْ یُجْعَلْ مِثْلُہٗ عَلٰی أَکْلِ لَحْمِ الْخِنْزِیرِ ، وَلَا عَلٰی أَکْلِ لَحْمِ الْمَیْتَۃِ وَاِنْ کَانَ تَحْرِیْمُ مَا أَتَی بِہٖ کَتَحْرِیْمِ مَا أَتَیْ ذٰلِکَ .وَکَذٰلِکَ قَذْفُ الْمُحْصَنَۃِ جَعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ جَلْدَ ثَمَانِیْنَ وَسُقُوْطَ شَہَادَۃِ الْقَاذِفِ وَاِلْزَامَ اسْمِ الْفِسْقِ .وَلَمْ یَجْعَلْ ذٰلِکَ فِیْمَنْ رَمَیْ رَجُلًا بِالْکُفْرِ ، وَالْکُفْرُ فِیْ نَفْسِہِ أَعْظَمُ وَأَغْلَظُ مِنَ الْقَذْفِ .فَکَانَتِ الْعُقُوْبَاتُ قَدْ جُعِلَتْ فِیْ أَشْیَائَ خَاصَّۃٍ ، وَلَمْ یُجْعَلْ فِیْ أَمْثَالِہَا وَلَا فِیْ أَشْیَائَ ہِیَ أَعْظَمُ مِنْہَا وَأَغْلَظُ .فَکَذٰلِکَ مَا جَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنَ الْحَدِّ فِی الزِّنَا لَا یَجِبُ بِہٖ أَنْ یَکُوْنَ وَاجِبًا فِیْمَا ہُوَ أَغْلَظُ مِنْ الزِّنَا .فَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ہُوَ النَّظْرُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٧٨٩: قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے اس کی عدت کے دوران نکاح کیا اس کا قضیہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں لایا گیا آپ نے اس عورت کو حد سے کم درے لگائے اور اس کا مہر ادا کرایا اور ان کے درمیان تفریق کردی اور فرمایا۔ یہ دونوں ہرگز جمع نہیں ہوسکتے اور حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر وہ دونوں توبہ کر کے درستی کرلیں تو میں ان دونوں کو پیغام نکاح دینے والوں میں سے شمار کروں گا۔ (یعنی ان کا نکاح درست ہوگا) کیا تم غور نہیں کرتے کہ حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو اور اس شخص کو جس نے دوران عدت نکاح کیا تھا۔ ہلکے درے لگائے اور یہ بات ناممکن ہے کہ آپ ان کو اس صورت میں درے لگائیں جبکہ وہ اس فعل کے حرام ہونے سے لاعلم ہوں۔ اس لیے کہ حضرت عمر (رض) اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنے والے اور تقویٰ والے تھے وہ دلیل کے قیام کے بغیر کسی کو سزا دینے والے نہ تھے تو جب آپ نے ان کو سزا دی تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے ان دونوں کے متعلق حرمت کی دلیل قائم ہوچکی تھی تبھی آپ نے ان پر حد قائم فرمائی اور جب حد قائم کی تو اس وقت صحابہ کرام بھی موجود تھے انھوں نے بھی آپ کی مخالفت نہیں کی بلکہ اتباع کی۔ تو یہ اس بات کی صحیح دلیل ہے کہ جب عقد نکاح ہو اگرچہ وہ ثابت نہ ہو مگر اس کا حکم نکاح کا ہی ہوگا یعنی اس میں جماع سے مہر لازم ہوجائے گا اور اس کی عدت بھی گزارنی پڑے گی اور اگر حمل ٹھہر گیا تو اس سے نسب بھی ثابت ہوجائے گا۔ تو جس عمل سے یہ مذکورہ چیزیں ثابت ہو رہی ہوں اس میں حد کا واجب ہونا محال ہے کیونکہ حد تو زنا سے واجب ہوتی ہے اور اس سے نسب ‘ مہر اور عدت میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہوتی۔ محرم سے وطی والی بات جس کا آپ نے تذکرہ کیا اگرچہ یہ زنا نہ بھی شمار ہو لیکن یہ تو زنا سے بھی بدتر ہے تو کیا مناسب نہیں کہ جو زنا کی صورت میں سزا واجب ہوتی ہے وہی اس پر بھی واجب ہو۔ تو اس کے جواب میں کہے کہ آپ نے اپنے بقول اس کو زنا سے خارج کردیا اب رہا یہ خیال کہ یہ زنا سے بدتر ہے تو اس کی سزا زنا جیسی تو ہونی چاہیے تو وہ حرام امور جن کی خلاف ورزی پر سزا دی جاتی ہے خواہ وہ عمل زنا کی طرح ہوں یا اس سے بڑے ہوں تو ان کی سزا وہ نہیں ہوتی جو سزا زنا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سزائیں تو توقیفی ہیں وہ قیاس سے ثابت نہیں ہوتیں۔ ذرا غور کرو ! کہ اللہ تعالیٰ نے مردار ‘ خون ‘ خنزیر کے گوشت کو اسی طرح حرام قرار دیا جس طرح شراب کو حرام قرار دیا مگر شراب نوشی کرنے والے پر وہ سزا مقرر فرمائی جو خنزیر کا گوشت اور مردار کھانے والے پر مقرر نہیں فرمائی۔ اگر اس کی حرمت بھی اس کی حرمت کی طرح ہے۔ اسی طرح پاک دامن عورت پر زنا کا الزام لگانے کی سزا اللہ تعالیٰ نے اسی درے مقرر فرمائی ہے اور اس کی گواہی کو غیر مقبول قرار دیا اور اس کا نام فاسق رکھا جبکہ کوئی آدمی کسی کو کافر کہے تو اس کی یہ سزا نہیں ہے۔ حالانکہ ذات کے لحاظ سے کفر قذف سے بڑا گناہ ہے اور زیادہ برا ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں خاص سزائیں مقرر کی گئیں جو ان جیسے دوسرے معاملات میں نہیں رکھی گئیں اور نہ ہی ان سے بڑے اور زیادہ برے گناہوں میں رکھی گئیں پس اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زنا کے سلسلہ میں جو حد مقرر فرمائی وہ زنا سے زیادہ برے عمل میں واجب نہ ہوگی۔ یہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا قیاس کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ اور سفیان ثوری (رح) کا مسلک یہی ہے۔
ذرا توجہ فرمائیں کہ حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو اور اس شخص کو جس نے دوران عدت نکاح کیا تھا۔ ہلکے درے لگائے اور یہ بات ناممکن ہے کہ آپ ان کو اس صورت میں درے لگائیں جبکہ وہ اس فعل کے حرام ہونے سے لاعلم ہوں۔ اس لیے کہ حضرت عمر (رض) اللہ سے بہت ڈرنے والے اور تقویٰ والے تھے وہ دلیل کے قیام کے بغیر کسی کو سزا دینے والے نہ تھے تو جب آپ نے ان کو سزا دی تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے ان دونوں کے متعلق حرمت کی دلیل قائم ہوچکی تھی تبھی آپ نے ان پر حد قائم فرمائی اور جب حد قائم کی تو اس وقت صحابہ کرام بھی موجود تھے انھوں نے بھی آپ کی مخالفت نہیں کی بلکہ اتباع کی۔ تو یہ اس بات کی صحیح دلیل ہے کہ جب عقد نکاح ہو اگرچہ وہ ثابت نہ ہو مگر اس کا حکم نکاح کا ہی ہوگا یعنی اس میں جماع سے مہر لازم ہوجائے گا اور اس کی عدت بھی گزارنی پڑے گی اور اگر حمل ٹھہر گیا تو اس سے نسب بھی ثابت ہوجائے گا۔ تو جس عمل سے یہ مذکورہ چیزیں ثابت ہو رہی ہوں اس میں حد کا واجب ہونا محال ہے کیونکہ حد تو زنا سے واجب ہوتی ہے اور اس سے نسب ‘ مہر اور عدت میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہوتی۔
آخری اعتراض : محرم سے وطی والی بات جس کا آپ نے تذکرہ کیا اگرچہ یہ زنا نہ بھی شمار ہو لیکن یہ تو زنا سے بھی بدتر ہے تو کیا مناسب نہیں کہ جو زنا کی صورت میں سزا واجب ہوتی ہے وہی اس پر بھی واجب ہو۔
جوابہم عرض کریں گے کہ آپ نے اپنے بقول اس کو زنا سے خارج کردیا اب رہا یہ خیال کہ یہ زنا سے بدتر ہے تو اس کی سزا زنا جیسی تو ہونی چاہیے تو وہ حرام امور جن کی خلاف ورزی پر سزا دی جاتی ہے خواہ وہ عمل زنا کی طرح ہوں یا اس سے بڑے ہوں تو ان کی سزا وہ نہیں ہوتی جو سزا زنا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سزائیں تو توقیفی ہیں وہ قیاس سے ثابت نہیں ہوتیں۔
ذرا غور کرو ! کہ اللہ تعالیٰ نے مردار ‘ خون ‘ خنزیر کے گوشت کو اسی طرح حرام قرار دیا جس طرح شراب کو حرام قرار دیا مگر شراب نوشی کرنے والے پر وہ سزا مقرر فرمائی جو خنزیر کا گوشت اور مردار کھانے والے پر مقرر نہیں فرمائی۔ اگرچہ اس کی حرمت بھی اس کی حرمت کی طرح ہے۔
اسی طرح پاکدامن عورت پر زنا کا الزام لگانے کی سزا اللہ تعالیٰ نے اسی درے مقرر فرمائی ہے اور اس کی گواہی کو غیر مقبول قرار دیا اور اس کا نام فاسق رکھا جبکہ کوئی آدمی کسی کو کافر کہے تو اس کی یہ سزا نہیں ہے۔ حالانکہ ذات کے لحاظ سے کفر قذف سے بڑا گناہ ہے اور زیادہ برا ہے۔
پس اس سے معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں خاص سزائیں مقرر کی گئیں جو ان جیسے دوسرے معاملات میں نہیں رکھی گئیں اور نہ ہی ان سے بڑے اور زیادہ برے گناہوں میں رکھی گئیں پس اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زنا کے سلسلہ میں جو حد مقرر فرمائی وہ زنا سے زیادہ برے عمل میں واجب نہ ہوگی۔
یہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا قیاس کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ اور سفیان ثوری (رح) کا مسلک یہی ہے۔

4790

۴۷۹۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْہَدٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنِ الدَّانَاجِ عَنْ حُضَیْنِ بْنِ الْمُنْذِرِ الرَّقَاشِیِّ ، أَبِیْ سَاسَانَ عَنْ عَلِیْ قَالَ : جَلَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْخَمْرِ أَرْبَعِیْنَ ، وَأَبُوْبَکْرٍ أَرْبَعِیْنَ وَکَمَّلَہَا عُمَرُ ثَمَانِیْنَ ، وَکُلٌّ سُنَّۃٌ .
٤٧٩٠: حصین بن منذر رقاشی ابو ساسان نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی پر چالیس کوڑے لگائے اور ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے لگائے اور عمر (رض) نے ان کو اسی مار کر مکمل کردیا اور یہ سب سنت ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٢‘ ٤‘ ٥‘ مسلم فی الحدود ٣٥؍٣٦‘ ٣٨‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣٦‘ ٣٦‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ١٦‘ دارمی فی الحدود باب ٩‘ مسند احمد ١؍٨٢‘ ١٤٠‘ ١٤٤۔

4791

۴۷۹۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الدَّانَاجِ ، قَالَ : ثَنَا حُضَیْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ الرَّقَاشِیُّ قَالَ : شَہِدْت عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَقَدْ أُتِیَ بِالْوَلِیْدِ بْنِ عُقْبَۃَ وَقَدْ صَلَّی بِأَہْلِ الْکُوْفَۃِ الصُّبْحَ أَرْبَعًا وَقَالَ أَزِیْدُکُمْ قَالَ : فَشَہِدَ عَلَیْہِ حُمْرَانُ وَرَجُلٌ آخَرُ .قَالَ : فَشَہِدَ أَحَدُہُمَا أَنَّہٗ رَآہٗ یَشْرَبُہَا وَشَہِدَ الْآخَرُ أَنَّہٗ رَآہٗ یَقِیئُہَا .قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ اِنَّہٗ لَمْ یَقِئْہَا حَتَّی شَرِبَہَا فَقَالَ عُثْمَانُ لِعَلِی : أَقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ فَقَالَ عَلِیٌّ لِابْنِہِ الْحَسَنِ : أَقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ .قَالَ : فَقَالَ الْحَسَنُ : وَلِّ حَارَّہَا مَنْ تَوَلَّی قَارَّہَا .قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ أَقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ فَأَخَذَ السَّوْطَ فَجَعَلَ یَجْلِدُہُ وَعَلِیٌّ یَعُدُّ حَتَّیْ بَلَغَ أَرْبَعِیْنَ ثُمَّ قَالَ لَہٗ : أَمْسِکْ .ثُمَّ قَالَ : اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَلَدَ أَرْبَعِیْنَ وَجَلَدَ أَبُوْبَکْرٍ أَرْبَعِیْنَ وَجَلَدَ عُمَرُ ثَمَانِیْنَ وَکُلٌّ سُنَّۃٌ وَہٰذَا أَحَبُّ اِلَیَّ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْحَدَّ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَی شَارِبِ الْخَمْرِ ہَذَا أَرْبَعُوْنَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ وَادَّعَوْا فَسَادَ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَأَنْکَرُوْا أَنْ یَکُوْنَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا لِأَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ مَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ وَیَدْفَعُہٗ .وَہُوَ ۔
٤٧٩١: حصین بن منذر رقاشی نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان (رض) کی خدمت میں موجود تھا کہ ولید بن عقبہ کو لایا گیا اس نے اہل کوفہ کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی اور کہا کیا اور اضافہ کروں۔ راوی کہتے ہیں ان کے خلاف حمران اور ایک اور آدمی نے گواہی دی۔ ایک نے گواہی دی کہ اس نے ان کو شراب پیتے دیکھا اور دوسرے نے گواہی دی کہ میں نے اس کو شراب کی قے کرتے دیکھا۔ تو حضرت عثمان (رض) نے کہا اس نے شراب کی قے تبھی کی جبکہ اس نے پی ہے۔ پھر حضرت عثمان (رض) نے حضرت علی (رض) کو کہا اس پر حد قائم کرو۔ حضرت علی (رض) نے اپنے بیٹے حسن (رض) کو کہا اس پر حد قائم کرو۔ پس حضرت حسن (رض) کہنے لگے۔ اس کی مشقت کا ذمہ دار اسی کو بناؤ جو اس کی راحت کا ذمہ دار ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ شراب پینے والے کی حد چالیس کوڑے ہے اور انھوں نے مذکورہ بالا آثار کو اپنا مستدل بنایا ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ شراب نوشی کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی جیسا کہ آئندہ روایات سے ثابت ہوگا اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اس روایت میں سقم ہے کیونکہ حضرت علی (رض) سے اس کے خلاف روایات وارد ہیں جن کو ہم نقل کر رہے ہیں۔ راوی کہتا ہے پھر حضرت علی (رض) نے عبداللہ بن جعفر (رض) کو کہا اس پر حد کو قائم کرو۔ چنانچہ انھوں نے کوڑا پکڑا اور اس کو کوڑے لگانے لگے اور حضرت علی (رض) شمار کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب چالیس تک پہنچ گئے تو فرمایا بس کر دو ۔ پھر فرمایا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس کوڑے لگائے اور ابوبکر نے چالیس لگائے اور عمر (رض) نے اسی لگائے اور یہ دونوں سنت ہیں یہ مجھے زیادہ پسند ہے یعنی چالیس۔
تخریج : مسلم فی الحدود ٣٨‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣٥‘ دارمی فی المقدمہ باب ٢٠۔
لغات : ول حارھا من تولٰی قارھا۔ مشقت کا ذمہ دار اسی کو بناؤ جو راحت کا ذمہ ہے۔ حار۔ گرم سے مراد مشقت۔ قار۔ ٹھندک والا مراد آرام۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء کا قول یہ ہے کہ شراب پینے والے کی حد چالیس کوڑے ہے اور انھوں نے مذکورہ بالا آثار کو اپنا مستدل بنایا ہے
فریق ثانی کا مؤقف : شراب نوشی کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی جیسا کہ آئندہ روایات سے ثابت ہوگا۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : اس روایت میں سقم ہے کیونکہ حضرت علی (رض) سے اس کے خلاف روایات وارد ہیں جن کو ہم نقل کر رہے ہیں۔

4792

۴۷۹۲: مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ النَّخَعِیِّ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَجَلَدْنَاہُ فَمَاتَ وَدَیْنَاہُ لِأَنَّہٗ شَیْء ٌ صَنَعْنَاہُ
٤٧٩٢: عمیر بن سعید نخعی نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ جو شراب پئے گا ہم اس کو کوڑے لگائیں گے پھر وہ مرگیا تو ہم اس کی دیت ادا کریں گے کیونکہ یہ کام ہم نے کیا ہے۔

4793

۴۷۹۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَلِیْ قَالَ : مَا حَدَدْتُ أَحَدًا حَدًّا فَمَاتَ فِیْہِ فَوَجَدْتُ فِیْ نَفْسِی شَیْئًا اِلَّا الْخَمْرَ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُسِنَّ فِیْہَا شَیْئًا .فَہٰذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یُخْبِرُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ سَنَّ فِیْ شُرْبِ الْخَمْرِ حَدًّا .ثُمَّ الرِّوَایَۃُ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ شَارِبِ الْخَمْرِ ، فَعَلٰی خِلَافِ مَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ أَیْضًا مِنْ اخْتِیَارِہِ الْأَرْبَعِیْنَ عَلَی الثَّمَانِیْنَ .
٤٧٩٣: عمیر بن سعید نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے کسی شخص کو کوئی حد نہیں لگائی جس سے وہ مرگیا ہو تو اس کی وجہ سے میں دل میں کچھ غم محسوس کروں سوائے حد شراب کے کیونکہ اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی طریق مقرر نہیں فرمایا۔ ذرا غور فرمائیں یہ حضرت علی (رض) خبر دے رہے ہیں کہ شراب نوشی میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ حضرت علی (رض) کی یہ روایت پہلی روایت جو شروع باب میں گزری اس کے خلاف ہے اس میں اسی کوڑوں کا مارنا ثابت ہو رہا ہے جبکہ شروع باب والی روایت اسی پر چالیس کوڑوں پر ترجیح دینا مذکور ہے۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ٤‘ مسلم فی الحدود ٣٩‘ مسند احمد ١؍١٢٥‘ ١٣٠۔

4794

۴۷۹۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ مَرْوَانَ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِالنَّجَاشِیِّ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِیْ رَمَضَانَ فَضَرَبَہُ ثَمَانِیْنَ ثُمَّ أَمَرَ بِہٖ اِلَی السِّجْنِ ثُمَّ أَخْرَجَہُ مِنَ الْغَدِ فَضَرَبَہُ عِشْرِیْنَ ثُمَّ قَالَ اِنَّمَا جَلَدْتُک ہٰذِہِ الْعِشْرِیْنَ ، لِاِفْطَارِک فِیْ رَمَضَانَ ، وَجُرْأَتِک عَلَی اللّٰہِ .
٤٧٩٤: عطاء بن ابی مروان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک نجاشی آدمی لایا گیا جس نے رمضان المبارک کے مہینہ میں شراب پی تھی۔ آپ نے اس کو اسی کوڑے لگائے پھر اس کو قید خانے میں ڈالنے کا حکم فرمایا دوسرے دن اس کو نکالا تو بیس کوڑے اور لگائے پھر فرمایا میں نے تمہیں بیس کوڑے اس لیے لگائے کہ تم نے رمضان المبارک میں روزہ توڑا اور اللہ تعالیٰ پر جرأت کی ہے۔

4795

۴۷۹۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ مُصْعَبٍ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ رَجُلًا شَرِبَ الْخَمْرَ فِیْ رَمَضَانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
٤٧٩٥: ابو مصعب نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے شراب پی اس کے بعد انھوں نے پہلی روایت جیسی روایت نقل کی۔

4796

۴۷۹۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَجُلًا مِنْ کَلْبٍ اسْمُ قَبِیْلَۃٍ مِنَ الْعَرَبِ یُقَالُ لَہُ وَبْرَۃُ أَخْبَرَہٗ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیْقَ کَانَ یَجْلِدُ فِی الشَّرَابِ أَرْبَعِیْنَ وَکَانَ عُمَرُ یَجْلِدُ فِیْہَا أَرْبَعِیْنَ .قَالَ : فَبَعَثَنِیْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَدِمْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ :یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِنَّ خَالِدًا بَعَثَنِیْ اِلَیْکَ .قَالَ : فِیْمَ ؟ قُلْتُ :اِنَّ النَّاسَ قَدْ تَخَاوَفُوْا الْعُقُوْبَۃَ وَانْہَمَکُوْا فِی الْخَمْرِ فَمَا تَرَی فِیْ ذٰلِکَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ لِمَنْ حَوْلَہٗ : مَا تَرَوْنَ ؟ فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ : نَرَیْ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً فَقَبِلَ ذٰلِکَ عُمَرُ .فَکَانَ خَالِدُ أَوَّلَ مَنْ جَلَدَ ثَمَانِیْنَ ثُمَّ جَلَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نَاسًا بَعْدَہٗ.
٤٧٩٦: حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا کہ ایک کلبی آدمی نے جس کو وبرہ کہا جاتا تھا۔ اس نے بتلایا کہ ابوبکر (رض) شراب نوشی کرنے والے کو چالیس کوڑے مارتے اور عمر (رض) بھی اس پر چالیس کوڑے مارتے۔ راوی کہتے ہیں مجھے خالد بن ولید (رض) نے عمر (رض) کی خدمت میں بھیجا چنانچہ میں ان کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا اے امیرالمؤمنین ! مجھے خالد (رض) نے بھیجا ہے انھوں نے پوچھا کس لیے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا انھوں نے پوچھا ہے کہ لوگ سزا سے ڈرتے ہیں اور شراب نوشی میں منہمک ہوگئے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے ارد گرد والوں سے دریافت کیا تمہاری کیا رائے ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا امیرالمؤمنین ! اسی کوڑے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے اس بات کو قبول فرمایا۔ تو سب سے پہلے خالد بن ولید (رض) نے اسی کوڑے لگائے۔ پھر اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے کچھ لوگوں کو کوڑے لگائے۔

4797

۴۷۹۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْر أَنَّہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ عُمَرَ فَوَجَدَتْ عِنْدَہُ عَلِیًّا ، وَطَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ أَوْ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ وَہُمْ مُتَّکِئُوْنَ فِی الْمَسْجِدِ فَذَکَرَ مِثْلَ مَا فِیْ حَدِیْثِ یُوْنُسَ .غَیْرَ أَنَّہٗ زَادَ فِیْ کَلَامِ عَلِی أَنَّہٗ قَالَ اِذَا سَکِرَ ہَذَی وَاِذَا ہَذَی افْتَرَی وَعَلَی الْمُفْتَرِی ثَمَانُوْنَ وَتَابَعَہُ أَصْحَابُہُ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ ، ضَرَبَ أَمْثَالَ الْحُدُوْدِ کَیْفَ ہِیَ ثُمَّ اسْتَخْرَجَ مِنْہَا حَدًّا بِرَأْیِہٖ، فَجَعَلَہُ کَحَدِّ الْمُفْتَرِی .وَلَوْ کَانَ عِنْدَہٗ فِیْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ مُوَقَّتٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَغْنَاہُ عَنْ ذٰلِکَ وَلَوْ کَانَ عِنْدَ أَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْء ٌ اِذًا لَأَنْکَرُوْا عَلَیْہِ أَخْذَ ذٰلِکَ مِنْ جِہَۃِ الْاِسْتِنْبَاطِ وَضَرْبِ الْأَمْثَالِ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا مِنْہُ وَمِنْہُمْ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْء ٌ فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُقْبَلَ بَعْدَ ہَذَا عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، مَا یُخَالِفُ ہَذَا ؟
٤٧٩٧: روح بن عبادہ نے اسامہ بن زید لیثی سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ یہ فرق ہے فاتیت عمر فوجدت عندہ علیا۔ اس روایت میں غور کرو کہ جب حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) سے دریافت کیا تو انھوں نے حدود کی مثال بیان کر کے پھر اس سے اپنی رائے اور اجتہاد سے اس کی سزا نکالی اور اس کی حد مفتری جیسی قرار دی۔ اگر حضرت علی (رض) کے پاس کوئی مقررہ چیز ہوتی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوتی تو وہ ان کو اس اجتہاد سے مستغنی کرنے والی تھی اور اسی طرح اگر عشرہ مبشرہ (رض) کے پاس اور چیز ہوتی تو پھر علی (رض) سے اس کے خلاف قبول نہ کرتے (پس ثابت ہوا کہ اس میں کوئی مقرر حد نہ تھی تبھی انھوں نے قبول کرلی) کہ میں عمر (رض) کے پاس آیا تو وہاں میں نے علی (رض) اور طلحہ (رض) زبیر (رض) یا عبدالرحمن بن عوف (رض) کو پایا وہ مسجد میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے پھر اسی طرح روایت نقل کی جو یونس کی روایت میں ہے۔ البتہ اس میں علی مرتضیٰ (رض) کے کلام میں یہ اضافہ ہے : اذ اسکرہذی واذا ہذی افترٰی وعلی المفتری ثمانون کہ جب نشہ میں ہوتا ہے تو ہذیان بکتا ہے اور افتراء پردازی کرتا ہے اور مفتری پر اسی کوڑے ہیں۔ ان کے ساتھیوں نے ان کی اتباع کی پھر حدیث کو اسی طرح ذکر کیا۔
تخریج : موطا مالک فی الاشربہ ٢۔

4798

۴۷۹۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ ، عَنْ عَلِیْ قَالَ : شَرِبَ نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ الْخَمْرَ وَعَلَیْہِمْ یَوْمَئِذٍ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ وَقَالُوْا ہِیَ حَلَالٌ وَتَأَوَّلُوْا لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْا الْآیَۃَ .فَکَتَبَ فِیْہِمْ اِلَی عُمَرَ .فَکَتَبَ عُمَرُ أَنِ ابْعَثْ بِہِمْ اِلَیَّ قَبْلَ أَنْ یُفْسِدُوْا مَنْ قِبَلَک .فَلَمَّا قَدِمُوْا عَلَی عُمَرَ اسْتَشَارَ فِیْہِمْ النَّاسَ فَقَالُوْا : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ نَرَی أَنَّہُمْ قَدْ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وَشَرَعُوْا فِیْ دِیْنِہِمْ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ فَاضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ وَعَلِیٌّ سَاکِتٌ .فَقَالَ مَا تَقُوْلُ یَا أَبَا الْحَسَنِ ؟ قَالَ أَرَی أَنْ تَسْتَتِیْبَہُمْ ، فَاِنْ تَابُوْا ضَرَبْتہمْ ثَمَانِیْنَ ثَمَانِیْنَ لِشُرْبِہِمُ الْخَمْرَ ، وَاِنْ لَمْ یَتُوْبُوْا ضَرَبْتُ أَعْنَاقَہُمْ فَاِنَّہُمْ قَدْ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ، وَشَرَعُوْا فِیْ دِیْنِہِمْ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ فَاسْتَتَابَہُمْ فَتَابُوْا ، فَضَرَبَہُمْ ثَمَانِیْنَ ثَمَانِیْنَ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا سَأَلَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ حَدِّہِمْ ، أَجَابَہُ أَنَّہٗ ثَمَانُوْنَ وَلَمْ یَقُلْ اِنْ شِئْتُ جَعَلْتُہٗ أَرْبَعِیْنَ وَاِنْ شِئْتُ جَعَلْتُہٗ ثَمَانِیْنَ .فَہٰذَا یَنْفِیْ مَا فِیْ حَدِیْثِ الدَّانَاجِ ، مِمَّا ذُکِرَ فِیْہِ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَرْبَعِیْنَ وَمِنْ اخْتِیَارِہِ ہُوَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ أَنَّ السَّوْطَ الَّذِی ضَرَبَ بِہٖ الْوَلِیْدُ کَانَ لَہُ طَرَفَانِ ، فَکَانَتْ الضَّرْبَۃُ ضَرْبَتَیْنِ .
٤٧٩٨: ابو عبدالرحمن سلمی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل شام کی ایک جماعت نے شراب پی اس وقت ان کے حاکم حضرت یزید بن ابی سفیان (رض) تھے اور ان لوگوں نے کہا یہ حلال ہے اور اس آیت کی تاویل کی : لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا (المائدہ : ٩٣) پس انھوں نے ان کے معاملے کو حضرت عمر (رض) کے پاس لکھ بھیجا ۔ حضرت عمر (رض) نے جواب میں لکھا کہ ان کو میرے پاس بھیج دو ۔ اس سے پہلے کہ تمہارے جانب والے لوگوں کو بگاڑیں۔ پس جب وہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا اے امیرالمؤمنین ! ہمارے خیال میں انھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا ہے اور اپنے دین میں اس بات کو جائز قرار دیا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔ پس ان کی گردنیں اڑا دیں۔ اس موقعہ پر حضرت علی (رض) خاموش تھے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا اے ابوالحسن تم کیا کہتے ہو ؟ انھوں نے کہا میرا خیال یہ ہے کہ ان کو توبہ کرنے کیلئے کہا جائے پھر اگر یہ توبہ کرلیں تو ان پر شراب کی حد اسی کوڑے مارو اور اگر یہ توبہ نہ کریں تو ان کی گردنیں اڑا دیں کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا ہے اور اپنے دین میں اس چیز کو جائز قرار دیا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی پس ان کو توبہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے توبہ کرلی پھر ان کو اسی اسی کوڑے مارے گئے۔ اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) سے ان کی حد کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اسی کوڑے بتلائے اور انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو چالیس لگائیں اور اگر پسند کریں تو اسی لگائیں۔ تو یہ بات ابن داناج والی روایت میں جو حضرت علی (رض) سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس کوڑے لگائے یہ اس کی نفی کر رہی ہے اور یہ بھی ثابت کر رہی ہے کہ یہ بات آپ نے اس کے بعد اختیار کی ہے نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ولید کو جس کوڑے سے حد لگائی وہ دو شاخوں والا تھا تو ایک ضرب دو کا کام دیتی تھیں۔
اس روایت میں حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) سے ان کی حد کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اسی کوڑے بتلائے اور انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو چالیس لگائیں اور اگر پسند کریں تو اسی لگائیں۔
فریق اوّل کے استدلال کا جواب : تو یہ بات ابن داناج والی روایت میں جو حضرت علی (رض) سے نقل کی گئی موجود ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس کوڑے لگائے یہ اس کی نفی کر رہی ہے اور یہ بھی ثابت کر رہی ہے کہ یہ بات آپ نے اس کے بعد اختیار کی ہے نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ولید کو جس کوڑے سے حد لگائی وہ دو شاخوں والا تھا تو ایک ضرب دو کا کام دیتی تھیں۔ ملاحظہ ہو۔

4799

۴۷۹۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی أَنَّ عَلِیًّا جَلَدَ الْوَلِیْدَ أَرْبَعِیْنَ ، بِسَوْطٍ لَہُ طَرَفَانِ .
٤٧٩٩: عمرو بن دینار نے محمد بن علی سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ولید کو چالیس کوڑے ایسے کوڑے سے لگائے جس کی دو شاخیں تھیں۔

4800

۴۸۰۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُو الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ أَنَّ عَلِیًّا جَلَدَ الْوَلِیْدَ بْنَ عُقْبَۃَ بِسَوْطٍ لَہُ ذَنَبَانِ ، أَرْبَعِیْنَ جَلْدَۃً فِی الْخَمْرِ قَالَ : وَذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ضَرَبَہُ ثَمَانِیْنَ لِأَنَّ کُلَّ سَوْطٍ مِنْ تِلْکَ الْأَسْوَاطِ سَوْطَانِ .فَاسْتَحَالَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : اِنَّ الْأَرْبَعِیْنَ أَحَبُّ اِلَیَّ مِنَ الثَّمَانِیْنَ ثُمَّ یَجْلِدُ ہُوَ ثَمَانِیْنَ .فَہٰذَا دَلِیْلٌ أَیْضًا عَلَی فَسَادِ حَدِیْثِ الدَّانَاجِ .وَقَدْ رَوَی آخَرُوْنَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خِلَافَ ذٰلِکَ کُلِّہِ .
٤٨٠٠: عروہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے ولید بن عقبہ کو ایسے کوڑے سے حد لگائی جس کی دو دمیں تھیں یہ شراب کے سلسلہ میں چالیس کوڑے لگائے اور یہ حضرت عثمان (رض) کی خلافت کا زمانہ تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوگیا کہ آپ نے اس کو اسی کوڑے لگائے کیونکہ دو دموں والا کوڑا ایک دو کے قائم مقام ہے تو اس کی چالیس ضربات اسی بن جائیں گی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ داناج والی روایت کے یہ الفاظ کہ مجھے اسی کی بنست چالیس زیادہ محبوب ہیں یہ لفظ حضرت علی (رض) نہیں کہہ سکتے۔ پس اس روایت کے سقم ہم نے ظاہر کردیئے۔ حضرت علی (رض) سے دیگر حضرات نے بھی روایت داناج کے خلاف روایت کی ہے۔
اس روایت سے ثابت ہوگیا کہ آپ نے اس کو اسی کوڑے لگائے کیونکہ دو دموں والا کوڑا ایک دو کے قائم مقام ہے تو اس کی چالیس ضربات اسی بن جائیں گی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ داناج والی روایت کے یہ الفاظ کہ مجھے اسی کی بنست چالیس زیادہ محبوب ہیں یہ لفظ حضرت علی (رض) نہیں کہہ سکتے۔ پس اس روایت کی کمزوری ہم نے ظاہر کردی۔
مزید استشہادات :
حضرت علی (رض) سے دیگر حضرات نے بھی روایت داناج کے خلاف روایت کی ہے۔

4801

۴۸۰۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ .ح .
٤٨٠١: فہد نے حسین بن عبداللہ سے روایت کی ہے

4802

۴۸۰۲: وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوٗدَ وَعُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ قَالُوْا : حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِلَالٍ عَنْ نَبِیْھِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ جَلَدَ رَجُلًا فِی الْخَمْرِ ثَمَانِیْنَ غَیْرَ أَنَّ صَالِحًا قَالَ فِیْ حَدِیْثِہِ : جَلَدَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ حَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ .وَہٰذَا - عِنْدَنَا - أَیْضًا فَاسِدٌ لَا یَثْبُتُ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِمَا قَدْ رَوَاہٗ عَنْہُ سَعِیْدٌ مِنْ قَوْلِہٖ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَلَمْ یُسِنَّ فِی الْخَمْرِ حَدًّا ، وَأَنَّہُمْ جَعَلُوْھُ بَعْدَہُ ثَمَانِیْنَ ، بِالتَّمْثِیْلِ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَلَا یَجُوْزُ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ - أَنْ یَکُوْنَ یَحْتَاجُ فِی اسْتِخْرَاجِ حَدِّ الْخَمْرِ مِنْ ذٰلِکَ ، وَعِنْدَہٗ فِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَقْصِدُ فِیْ حَدِّ الشَّارِبِ اِلَی عَدَدٍ مِنْ الضَّرْبِ مَعْلُوْمٍ حَتّٰی لَقَدْ بَیَّنَ فِیْ بَعْضِ مَا رُوِیَ عَنْہُ نَفْیَ ذٰلِکَ مِثْلُ مَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَلَمْ یُسِنَّ فِیْہِ حَدًّا .فَمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ
٤٨٠٢: محمد بن علی نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو شراب کی وجہ سے اسی کوڑے مارے۔ صالح کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ انھوں نے بنی حارث بن خزرج کے ایک آدمی کو کوڑے مارے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت بھی درست نہیں کیونکہ یہ حضرت علی (رض) سے ثابت نہیں۔ عدم ثبوت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علی (رض) سے سعید نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور آپ نے شراب کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی اور صحابہ کرام نے اس کو مشابہت کی وجہ سے اسی کوڑے قرار دیا جیسا پہلے ذکر کر آئے دوسری بات یہ ہے کہ حضرت علی (رض) کو چنداں ضرورت نہ تھی اگر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب کی مقررہ حد ہوتی جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب پینے کی حد کے سلسلے میں کسی معلوم و مقرر تعداد کا ارادہ نہیں فرمایا۔ بلکہ بعض روایات تو اس کی نفی کرتی ہیں جیسا کہ ہم نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتقال فرمایا اور اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔ من جملہ ان روایات میں سے یہ بھی ہے۔

4803

۴۸۰۳: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَزْہَرَ قَالَ : کَأَنِّیْ أَنْظُرُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْآنَ وَہُوَ فِی الرِّحَالِ ، یَلْتَمِسُ رَحْلَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ یَوْمَ حُنَیْنٍ .فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذٰلِکَ ، أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَقَالَ لِلنَّاسِ اضْرِبُوْھُ .فَمِنْہُمْ مَنْ ضَرَبَہٗ بِالنِّعَالِ وَمِنْہُمْ مَنْ ضَرَبَہٗ بِالْعَصَا ، وَمِنْہُمْ مَنْ ضَرَبَہٗ بِالْمِیْتَحَۃِ ، یُرِیْدُ الْجَرِیْدَۃَ الرَّطْبَۃَ .ثُمَّ أَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُرَابًا مِنَ الْأَرْضِ ، فَرَمَی بِہٖ فِیْ وَجْہِہِ .
٤٨٠٣: حضرت عبدالرحمن بن ازہر (رض) سے روایت کی ہے کہ گویا وہ منظر اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین کے دن کجاوے میں تشریف فرما تھے اور خالد بن ولید (رض) کا کجاوہ تلاش کر رہے تھے آپ اسی حال میں تھے کہ آپ کے پاس ایک شرابی لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو مارو۔ پھر تو کچھ لوگ جوتوں سے مار رہے تھے اور کچھ لاٹھیوں سے۔ کچھ کھجور کی تر شاخوں سے۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین سے مٹی اٹھا کر اس کے چہرے پر پھینکی۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ٤‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣٥‘ ٣٦۔
حاصل روایات : یلتمس۔ تلاش کرنا۔ المتیخہ۔ ترشاخ۔

4804

۴۸۰۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَزْہَرَ الزُّہْرِیُّ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ یَتَخَلَّلُ النَّاسَ أَیْ یَدْخُلُ بَیْنَہُمْ یَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ .فَأُتِیَ بِسَکْرَانَ فَأَمَرَ مَنْ کَانَ عِنْدَہُ فَضَرَبُوْھُ بِمَا کَانَ فِیْ أَیْدِیْہِمْ ، ثُمَّ حَثَا عَلَیْہِ التُّرَابَ أَیْ رَمَی بِیَدِہِ عَلَیْہِ التُّرَابَ ثُمَّ أُتِیَ أَبُوْبَکْرٍ بِسَکْرَانَ فَتَوَخَّی الَّذِیْ کَانَ مِنْ ضَرْبِہِمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَہُ أَرْبَعِیْنَ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ، اِنَّمَا کَانَ ضَرَبَ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِیْنَ عَلَی التَّحَرِّی مِنْہٗ، لِضَرْبِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ وَقَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی شَیْئٍ بَیَّنَہُ .
٤٨٠٤: ابن شہاب نے عبدالرحمن بن ازہر زہری (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حنین کے دن دیکھا کہ لوگوں کے درمیان داخل ہو کر خالد بن ولید (رض) کے خیمہ کو پوچھ رہے تھے۔ اسی حالت میں آپ کے پاس ایک نشہ والا آدمی لایا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قریب صحابہ کرام (رض) کو فرمایا (کہ اس کو مارو) تو انھوں نے جو کچھ ان کے ہاتھ میں تھا اس سے مارنا شروع کیا۔ پھر آپ نے اس پر مٹی پھینکی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کے پاس ایک نشہ والا لایا گیا تو آپ نے اس کو بلایا جو ان لوگوں میں سے تھا جس نے آپ کے سامنے شراب نوشوں کو مارا تھا۔ پس اس نے اس کو چالیس کوڑے مارے۔ اس روایت کو ملاحظہ نہیں کرتے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ کے مارنے پر غور کیا اور چالیس کوڑے مروائے۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس سلسلہ میں کسی معین مقدار سے آگاہ نہیں فرمایا تھا۔ جیسا یہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں۔

4805

۴۸۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ بْنُ التَّیَّاحِ عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ : لَا أَشْرَبُ نَبِیْذًا بِجَر بَعْدَ اِذْ أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَشْوَانَ ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا شَرِبْتُ خَمْرًا اِنَّمَا شَرِبْتُ نَبِیْذَ تَمْرٍ وَزَبِیْبٍ فِیْ دُبَّائَ .فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنُہِرَ بِالْأَیْدِی وَخُفِقَ بِالنِّعَالِ .
٤٨٠٥: ابوالوداک نے ابو سعید (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک نشہ والا لایا گیا اس وقت سے میں گھڑے میں بنایا گیا نبیذ نہیں پیتا۔ اس آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے شراب نہیں پی۔ میں نے کدو کے برتن میں کھجور اور کشمش کا بنا ہوا نبیذ پیا ہے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کو مکوں اور جوتوں سے پیٹا گیا۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٥١‘ ٣؍٣٤۔

4806

۴۸۰۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ یَزِیْدَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أُتِیَ بِشَارِبٍ فَقَالَ اضْرِبُوْھُ فَمِنْہُمْ مَنْ ضَرَبَہٗ بِیَدِہٖ، وَبِثَوْبِہٖ وَبِنَعْلِہِ .
٤٨٠٦: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک نشہ والا لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا اس کو مارو۔ تو کسی نے ہاتھ اور کسی نے کپڑے اور کسی نے جوتے سے مارا۔
تخریج : روایت ٤٨٠٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4807

۴۸۰۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْہَادِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٤٨٠٧: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4808

۴۸۰۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ وَالزُّہْرِیُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَزْہَرَ قَالَ : أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَارِبٍ یَوْمَ حُنَیْنٍ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ قُوْمُوْا اِلَیْہِ فَقَامَ النَّاسُ ، فَضَرَبُوْھُ بِنِعَالِہِمْ ۔
٤٨٠٨: ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور محمد بن ابراہیم اور زہری نے عبدالرحمن بن ازہر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شراب نوش کو حنین کے روز لایا گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو فرمایا اس کی طرف اٹھو پس لوگ کھڑے ہو کر جوتوں سے اس کو مارنے لگے۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٣٦۔

4809

۴۸۰۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ الْأَسَدِ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : أُتِیَ بِالنُّعْمَانِ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَکْرَانُ .قَالَ : فَشَقَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَشَقَّۃً شَدِیْدَۃً قَالَ : فَأَمَرَ مَنْ کَانَ فِی الْبَیْتِ أَنْ یَضْرِبُوْھُ ، قَالَ : فَضَرَبُوْھُ بِالنِّعَالِ وَالْجَرِیْدِ .قَالَ عُقْبَۃُ : کُنْتُ فِیْمَنْ ضَرَبَہٗ .
٤٨٠٩: عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ بن حارث (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نعمان کو نشہ کی حالت میں لایا گیا تو آپ کو سخت گرانی ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ گھر میں موجود افراد اس کو ماریں تو انھوں نے اس کو جوتوں اور کھجور کی شاخوں سے مارا۔ عقبہ کہتے ہیں کہ میں بھی مارنے والوں میں شامل تھا۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ٤‘ ٥‘ مسند احمد ٤؍٨۔

4810

۴۸۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ بِالنُّعْمَانِ أَوِ ابْنِ النُّعْمَانِ .
٤٨١٠: سلیمان بن حرب نے وہیب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ انھوں نے نعمان کہا یا ابن النعمان کہا۔

4811

۴۸۱۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُوْقِفْہُمْ فِیْ حَدِّ الْخَمْرِ عَلَی ضَرْبٍ مَعْلُوْمٍ کَمَا وَقَفَہُمْ فِیْ حَدِّ الزِّنَا لِغَیْرِ الْمُحْصَنِ وَفِیْ حَدِّ الْقَذْفِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ فِی الْخَمْرِ بِنَعْلَیْنِ أَرْبَعِیْنَ أَرْبَعِیْنَ .فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِکُلِّ نَعْلٍ سَوْطًا .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ صَدَقْت
٤٨١١: عفان نے وہیب سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تو ہم نے جو کچھ ذکر کیا وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو شراب نوشی کی حد کے سلسلہ میں مقررہ تعداد میں مارنے سے آگاہ نہیں فرمایا جیسا کہ غیر شادی شدہ زانی کی حد اور قذف (الزام تراشی) کی حد کے متعلق مطلع فرمایا تھا۔ اگر کوئی کہے کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کے سلسلہ میں چالیس چالیس جوتے مارے اور حضرت عمر (رض) نے ہر جوتے کو ایک کوڑا قرار دیا ‘ تو اسے کہا جائے گا کہ تم نے یہ بات درست کہی۔ جیسا کہ یہ روایت دلالت کر رہی ہے۔

4812

۴۸۱۲: قَدْ حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرٍ ہُوَ ابْنُ مَطَرٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدَ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ عَنْ أَبِی الصِّدِّیْقِ أَوْ أَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ .وَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا ، مَا یَدُلُّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصَدَ بِذٰلِکَ الضَّرْبَ اِلَی ثَمَانِیْنَ .قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَصَدَ اِلَی ضَرْبٍ غَیْرِ مَعْلُوْمٍ فَضَرَبَ النَّاسُ فَکَانَ ضَرْبُہُمْ فِیْ جُمْلَتِہِ ثَمَانِیْنَ .فَتَوَخَّیْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ لِمَا أَرَادَ أَنْ یُوْقِفَ النَّاسَ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی شَیْئٍ مَعْلُوْمٍ فَجَعَلَ مَکَانَ کُلِّ نَعْلٍ سَوْطًا .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا
٤٨١٢: ابوالصدیق یا ابو نضرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مارنے سے اسی کوڑوں تک کا قصد فرمایا ہو۔ ہاں اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے غیر معلوم ضرب کا ارادہ کیا پھر لوگوں نے مارا۔ ان کی ضربات مجموعی طور پر اسی تک پہنچ گئی ہوں۔ تو عمر (رض) نے قصد فرمایا اور چاہا کہ لوگ اس سلسلے میں معلوم شئی سے واقف ہوجائیں تو انھوں نے ہر جوتے کے بدلے ایک کوڑا مقرر کردیا۔

4813

۴۸۱۳: أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ حَشِیْشٍ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَلَدَ فِی الْخَمْرِ بِالْجَرِیْدِ ، وَالنِّعَالِ وَجَلَدَ أَبُوْبَکْرٍ أَرْبَعِیْنَ .فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ دَعَا النَّاسَ فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ فِیْ حَدِّ الْخَمْرِ ؟ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ : أَرَی أَنْ تَجْعَلَہُ کَأَخْذِ الْحُدُوْدِ ، وَتَجْعَلَ فِیْہِ ثَمَانِیْنَ .فَلَوْ کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ عَلِمَ أَنَّ مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ تَوْقِیْفًا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ عَلٰی حَدِّ الْخَمْرِ أَنَّہٗ ثَمَانُوْنَ اِذًا لَمَا احْتَاجَ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی شُوْرَی .وَلٰـکِنَّہٗ اِنَّمَا شَاوَرَ لِیَسْتَنْبِطُوْا وَقْتًا مَعْلُوْمًا فِیْ ذٰلِکَ لَا یُجَاوِزُہُ اِلَی مَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْہُ وَلَا یَنْقُصُہُ اِلٰی أَقَلَّ مِنْہُ .
٤٨١٣: قتادہ نے انس (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب پینے والے کو کھجور کی چھڑی اور جوتے سے مارا اور ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے لگوائے۔ جب عمر (رض) خلیفہ بنے تو انھوں نے لوگوں کو بلایا اور سوال کیا کہ تم شرابی کی حد کتنی خیال کرتے ہو ؟ عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا میری رائے میں اس کو بھی ہم حدود کی طرح کردیں اور اسی کوڑے اس میں مقرر کردیں۔ اگر عمر (رض) کو معلوم ہوتا جو کہ روایت ابو سعید (رض) میں ہم نے ذکر کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو شراب کی حد کے سلسلہ میں واقفیت کرائی ہے کہ وہ اسی کوڑے ہے تو عمر (رض) کو شوریٰ سے مشورہ کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن آپ نے مشورہ کیا تاکہ لوگ اس سے ایک معلوم مقدار جان لیں اس سے زیادہ اور کم کی طرف تجاوز نہ کرسکیں۔

4814

۴۸۱۴: وَقَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح
٤٨١٤: ان راویوں سے بھی یہ حدیث بیان کی گئی ہے۔

4815

۴۸۱۵: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَا جَمِیْعًا : عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِرَجُلٍ شَرِبَ الْخَمْرَ ، فَأَمَرَ بِہٖ فَضُرِبَ بِجَرِیْدَتَیْنِ نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِیْنَ ثُمَّ صَنَعَ أَبُوْبَکْرٍ مِثْلَ ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ عُمَرُ ، اسْتَشَارَ النَّاسَ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَخَفُّ الْحُدُوْدِ ثَمَانُوْنَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ التَّوْقِیْفَ فِیْ حَدِّ الْخَمْرِ عَلٰیْ جَلْدٍ مَعْلُوْمٍ اِنَّمَا کَانَ فِیْ زَمَنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَنَّ مَا وَقَفُوْا عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ کَانَ ثَمَانِیْنَ وَلَمْ یُخَالِفْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَحَدٌ مِنْہُمْ .فَلَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَدَعَ ذٰلِکَ وَیَقُوْلَ بِخِلَافِہِ لِأَنَّ اِجْمَاعَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُجَّۃٌ ، اِذَا کَانَ بَرِیْئًا مِنَ الْوَہْمِ وَالزَّلَلِ .وَہُوَ کَنَقْلِہِمُ الْحَدِیْثَ الْبَرِیْئَ مِنَ الْوَہْمِ وَالزَّلَلِ .فَکَمَا کَانَ نَقْلُہُمْ الَّذِیْ نَقَلُوْھُ جَمِیْعًا حُجَّۃً ، لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ خِلَافُہُ فَکَذٰلِکَ رَأْیُہُمْ الَّذِیْ رَأَوْہُ جَمِیْعًا حُجَّۃٌ لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ خِلَافُہُ .وَقَدْ ۔
٤٨١٥: قتادہ نے انس بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا تو اس کو کھجور کی دو شاخوں سے قریباً چالیس ضربات ماری گئیں پھر ابوبکر (رض) نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انھوں نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا اے امیرالمؤمنین ! سب سے کم درجہ کی حد اسی کوڑے ہیں چنانچہ آپ نے اسی طرح کردیا۔ اس سارے کلام سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شراب کی حد میں ایک مقررہ مقدار حضرت عمر (رض) سے شروع ہوئی اور جس پر وہ آ کر رکے وہ اسی کوڑے تھے اور اس سلسلہ میں ان میں سے کسی ایک نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ پس اب کسی کو مناسب نہیں کہ وہ اس کو چھوڑ کر اس کے خلاف کہے کیونکہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجماع حجت ہے اس لیے کہ وہ وہم اور لغزش سے بچے ہوئے تھے۔ وہ اسی طرح ہیں جیسے وہ وہم و لغزش سے بری روایت نقل کریں پس جس طرح ان میں سے ہر ایک کی نقل کردہ روایت حجت ہے۔ کسی کو اس کی مخالفت جائز نہیں تو اسی طرح ان تمام کا اجتہاد جو انھوں نے بالاتفاق کیا وہ حجت ہے کسی کو اس کی مخالفت جائز نہیں۔

4816

۴۸۱۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ ، أَنَّ عُمَرَ صَلّٰی عَلٰی جِنَازَۃٍ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَخَذَ بِیَدِ ابْنٍ لَہُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ ، اِنِّیْ وَجَدْتُ مِنْ ہٰذَا رِیْحَ الشَّرَابِ وَاِنِّیْ سَائِلٌ عَنْہُ فَاِنْ کَانَ سَکِرَ جَلَدْنَاہُ. قَالَ السَّائِبُ : فَرَأَیْتُ عُمَرَ جَلَدَ ابْنَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ الْحَدَّ ثَمَانِیْنَ .
٤٨١٦: سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے نماز جنازہ پڑھائی جب نماز سے لوٹے تو ایک بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا مجھے اس سے شراب کی بو آتی ہے اور میں اس کے متعلق تم سے پوچھتا ہوں۔ اگر اس نے نشہ کیا ہے تو ہم اس کو کوڑے لگائیں گے۔ حضرت سائب کہتے ہیں کہ پھر میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ آپ نے اس کو اسّی کوڑے حد لگائی۔

4817

۴۸۱۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : ثَنَا السَّائِبُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔وَہٰذَا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی مُتَابَعَتِہِمْ لَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِی التَّوْقِیْفِ عَلٰی حَدِّ الْخَمْرِ أَنَّہٗ ثَمَانُوْنَ حَدِیْثٌ اِنْ کَانَ ثَابِتًا .
٤٨١٧: زہری نے سائب سے روایت کی پھر انھوں نے اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ہوا ان میں سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ تمام نے آپ کی پیروی کی اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی شراب کی حد میں اسی پر اکتفاء کی روایت ہے بشرطیکہ وہ روایت سنداً ثابت ہوجائے ‘ وہ روایت یہ ہے :

4818

۴۸۱۸: وَہُوَ مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ أَبِیْ اِسْرَائِیْلَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ یُوْسُفَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ صَخْرٍ الْأَفْرِیْقِیِّ عَنْ جَمِیْلِ بْنِ کُرَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ شَرِبَ بَسْقَۃَ خَمْرٍ ، فَاجْلِدُوْھُ ثَمَانِیْنَ .فَہٰذَا الَّذِی وَجَدْنَا فِیْہِ التَّوْقِیْفَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِّ الْخَمْرِ وَہُوَ ثَمَانُوْنَ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ ثَابِتًا فَقَدْ ثَبَتَ بِہٖ الثَّمَانُوْنَ ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ ثَابِتًا ، فَقَدْ ثَبَتَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ اِجْمَاعِہِمْ عَلَی الثَّمَانِیْنَ وَمِنِ اسْتِنْبَاطِہِمْ اِیَّاہَا مِنْ أَخَفِّ الْحُدُوْدِ ، فَذٰلِکَ مِنْ اِجْمَاعِہِمْ بَعْدَمَا کَانَ خِلَافَہُ کَاِجْمَاعِہِمْ عَلَی الْمَنْعِ مِنْ بَیْعِ أُمَّہَاتِ الْأَوْلَادِ ، وَتَکْبِیْرَاتِ الْجَنَائِزِ ، وَقَدْ کَانَ خِلَافَہٗ۔ فَکَمَا لَا یَنْبَغِی خِلَافُہُمْ فِیْ تَرْکِ بَیْعِ أُمَّہَاتِ الْأَوْلَادِ ، فَکَذٰلِکَ لَا یَنْبَغِی خِلَافُہُمْ فِیْ تَوْقِیْتِہِمْ الثَّمَانِیْنَ فِیْ حَدِّ الْخَمْرِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ .
٤٨١٨: عبداللہ بن یزید نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے شراب کا ایک گھونٹ پیا تم اس کو اسی کوڑے مارو۔ یہ وہ روایت ہے جس سے شراب کی حد کے اسی کوڑے ہونے پر اطلاع ملی ہے اگر یہ روایت ثابت ہوجائے تو اس سے اسی کوڑے خود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوجائیں گے اور اگر یہ ثابت نہ ہو سکے تو پھر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کوڑوں کی سزا ثابت ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ ان کا اتفاق ہے انھوں نے کم از کم حد کو سامنے رکھ کر اجتہاد کیا ہے تو یہ ان کا اجماع ہے جبکہ پہلے اس کے خلاف حکم تھا جیسا کہ انھوں نے ام ولد لونڈیوں کی فروخت اور نماز جنازہ کی تکبیرات پر اجماع کیا ہے جبکہ پہلے اس کے خلاف تھا تو جس طرح ام ولد لونڈیوں کی خریدو فروخت ترک کرنے میں ان کی مخالفت جائز نہیں اسی طرح شراب کی حد کے سلسلے میں اسی کوڑے مقرر کرنے میں ان کی مخالفت جائز نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایت :: شراب کی حد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توقیفی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اجتہاد اور اجماع سے ثابت ہے اس کی خلاف ورزی جائز نہیں۔

4819

۴۸۱۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ ذَکْوَانَ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنْ شَرِبُوْا خَمْرًا ، فَاجْلِدُوْھُمْ ثُمَّ اِنْ شَرِبُوْا فَاجْلِدُوْھُمْ ، ثُمَّ اِنْ شَرِبُوْا عِنْدَ الرَّابِعَۃِ فَاقْتُلُوْھُمْ .
٤٨١٩: ابو صالح نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر وہ شراب پئیں تو ان کو کوڑے مارو۔ پھر اگر وہ پئیں تو ان کو کوڑے مارو۔ پھر اگر وہ چوتھی دفعہ پئیں تو ان کو قتل کر دو ۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٣٦۔

4820

۴۸۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ مَعْبَدٍ الْقَاصِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْجَدَلِیِّ عَنْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٢٠: عبدالرحمن بن عبداللہ الجدلی نے معاویہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4821

۴۸۲۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا قُرَّۃُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ائْتُوْنِیْ بِرَجُلٍ أُقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، فَاِنْ لَمْ أَقْتُلْہُ فَأَنَا کَذَّابٌ .
٤٨٢١: حسن نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ فرمانے لگے میرے پاس ایسا آدمی لاؤ جس پر تین مرتبہ حد قائم ہوچکی ہو۔ اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو میں جھوٹا ہوں۔

4822

۴۸۲۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہَدْبَۃُ بِفَتْحِ أَوَّلِہِ وَسُکُوْنِ الدَّالِ وَبَعْدَہَا مُوَحَّدَۃٌ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو
٤٨٢٢: شہر بن حوشب نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ عبداللہ بن عمرو کا قول ذکر نہیں کیا۔

4823

۴۸۲۳: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عَمْرٍو الزَّہْرَانِیُّ .ح .
٤٨٢٣: ابراہیم بن مرزوق نے بشر بن عمرو الزہرانی سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4824

۴۸۲۴: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٢٤: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4825

۴۸۲۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ یَزِیْدَ الّأَوْدِیُّ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ جَرِیْرٍ عَنْ جَرِیْرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٢٥: خالد بن جریر نے حضرت جریر (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4826

۴۸۲۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ ہُبَیْرَۃُ أَنَّ أَبَا سُلَیْمَانَ، مَوْلَی أُمِّ سَلْمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَہٗ أَنَّ أَبَا رَمْثَۃَ الْبَلَوِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَجُلًا مِنْہُمْ شَرِبَ الْخَمْرَ ، فَأَتَوْا بِہٖ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَہٗ، ثُمَّ شَرِبَ الثَّانِیَۃَ ، فَأَتَوْا بِہٖ فَضَرَبَہٗ، ثُمَّ شَرِبَ فَأَتَوْا بِہٖ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا أَدْرِی قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ أَوْ الرَّابِعَۃِ فَأَمَرَ بِہٖ فَجُعِلَ عَلَی الْعَجَلِ ، ثُمَّ ضُرِبَ عُنُقُہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ ، فَقَلَّدُوْہَا وَزَعَمُوْا أَنَّ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ فَحَدُّہُ الْقَتْلُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : حَدُّہُ فِی الرَّابِعَۃِ ، کَحَدِّہِ فِی الْأُوْلٰی .وَاحْتَجُّوْا عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ
٤٨٢٦: حضرت امّ المؤمنین امّ سلمہ (رض) کے آزاد کردہ غلام نے بیان کیا کہ ابو رمثہ بلوی (رض) نے بتلایا کہ ایک شخص نے شراب پی لوگ اس کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے تو آپ نے اس کو حد لگائی پھر دوسری بار شراب پی تو وہ پھر اسے لائے آپ نے اسے مارا پھر اس نے شراب پی تو وہ پھر اسے لائے آپ نے اسے مارا پھر اس نے شراب پی تو لوگ اس کو بارگاہ نبوت میں لائے راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ انھوں (ابو رمثہ (رض) ) نے تیسری بار یا چوتھی بار کے متعلق فرمایا کہ پھر اس کے متعلق حکم دیا اور راہٹ پر رکھ کر اس کی گردن مار دی گئی۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص چار مرتبہ شراب پی لے اور اس کو تین مرتبہ حد بھی لگائی گئی مگر وہ باز نہ آیا تو اس کی حد اب قتل ہے۔ انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ اس کی حد چوتھی مرتبہ بھی وہی ہے جو پہلی مرتبہ ہے اور ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔

4827

۴۸۲۷: بِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ .
٤٨٢٧: یزید بن سنان نے حبان بن ہلال سے روایت کی ہے۔

4828

۴۸۲۸: وَبِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ أُمَامَۃَ بْنَ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ہٰکَذَا قَالَ ابْنُ مَرْزُوْقٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ .وَقَالَ یَزِیْدُ فِیْ حَدِیْثِہِ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَہُوَ مَحْصُوْرٌ فَقَالَ : عَلَامَ تَقْتُلُوْنِیْ؟ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ ، اِلَّا بِاِحْدَی ثَلَاثٍ ، النَّفْسُ بِالنَّفْسِ ، وَالثَّیِّبُ الزَّانِیْ، وَالْمُفَارِقُ دِیْنَہُ التَّارِکُ لِلْجَمَاعَۃِ .
٤٨٢٨: حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی کہ امامہ بن سہل بن حنیف (رض) نے حضرت عثمان (رض) سے نقل کیا یہ ابن مرزوق کی روایت میں ہے اور یزید نے اپنی روایت میں عن ابی امامہ بن سہل بن حنیف (رض) کہا ہے۔ کہ ہم حضرت عثمان (رض) کے پاس تھے جبکہ وہ محصور تھے آپ نے محاصرہ کرنے والوں کو فرمایا۔ تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو ؟ حالانکہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ کسی مسلمان کا خون تین باتوں میں سے ایک کی وجہ سے حلال ہے۔
نمبر 1: جان بدلے جان کے یعنی اگر وہ کسی کو قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اسے قتل کیا جائے گا۔
نمبر 2: شادی شدہ زانی یعنی اس کو رجم کیا جائے گا۔
نمبر 3: دین سے جدائی اختیار کر کے مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ دے یعنی ارتداد اختیار کرے۔
تخریج : بخاری فی الدیات باب ٦‘ مسلم فی النتسامہ ٢٥؍٢٦‘ ابو داؤد فی الحدود باب ١‘ ترمذی فی الحدود باب ١٥‘ الدیات باب ١٠‘ نسائی فی التحریم باب ٥‘ القسامہ باب ٦‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ١‘ دارمی فی الحدود باب ٢‘ اسیر باب ١١‘ سمدن احمد ١‘ ٢١؍٦٣‘ ٦٥؍٧٠‘ ١٦٣؍٣٨٢‘ ٤٢٨؍٤٤٤‘ ٤٦٥۔

4829

۴۸۲۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنِ ابْنِ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٢٩: عبداللہ بن مرہ نے مسروق سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4830

۴۸۳۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ وَأَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی‘ قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٣٠: شیبان سے اعمش سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4831

۴۸۳۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٣١: سفیان نے اعمش سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4832

۴۸۳۲: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ .ح .
٤٨٣٢: محمد بن سابق نے زائدہ سے روایت نقل کی ہے۔

4833

۴۸۳۳: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ .ح .
٤٨٣٣: علی بن شیبہ نے عبیداللہ سے روایت نقل کی ہے۔

4834

۴۸۳۴: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ أَیْضًا قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ وَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فِیْ حَدِیْثِہِ عَنِ الْأَعْمَشِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ سُلَیْمَانُ فَحَدَّثْتُ بِہٖ اِبْرَاھِیْمَ فَقَالَ : حَدَّثَنِی الْأَسْوَدُ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٣٤: ابو امیہ نے کہا ہمیں عبیداللہ نے اور اس نے کہا ہمیں زائدہ نے بیان کیا اور محمد بن سابق نے کہا ہمیں سلیمان نے اعمش سے بیان کیا اور عبیداللہ نے اپنی روایت میں عن الاعمش کہا ہے پھر اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے۔ سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے یہ روایت ابراہیم کو بیان کی تو انھوں نے کہا مجھے اسود نے عائشہ (رض) سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔

4835

۴۸۳۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ قَالَ : دَخَلَ الْأَشْتَرُ عَلَی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ : أَرَدْت قَتْلَ ابْنِ أُخْتِیْ؟ فَقَالَ : لَقَدْ حَرَصَ عَلَی قَتْلِیْ وَحَرَصْتُ عَلَی قَتْلِہٖ .فَقَالَتْ : أَمَا اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فَذَکَرْتُ مِثْلَہٗ۔فَہٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا تُعَارِضُ الْآثَارَ الْأُوَلَ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَنَعَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ أَنْ یَحِلَّ الدَّمُ اِلَّا بِاِحْدَی الثَّلَاثِ الْخِصَالِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْہَا غَیْرَ أَنَّہٗ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ ہٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا نَاسِخَۃً لِلْآثَارِ الْأُوَلِ ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ شَیْئًا مِنَ الْآثَارِ یَدُلُّ عَلَیْہٖ؟ .
٤٨٣٥: عمرو بن غالب کہتے ہیں کہ اشتر حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں آیا تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تم میرے بھانجے کو قتل کرنا چاہتے ہو اس نے کہا وہ میرے قتل کا خواہاں ہے اور میں اس کے قتل کا۔ تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا۔ میں نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اور اسی طرح میں نے نقل کردیا۔ یہ آثار پہلی روایات جن کو فریق اوّل سے دلیل بنایا اس کے خلاف ہیں کیونکہ تین باتوں کے علاوہ کسی مسلمان کی جان لینے کی اجازت نہیں۔ اب ایک ہی صورت ہے کہ ان آثار کو ان کا ناسخ تسلیم کیا جائے۔ آثار کو دیکھنے سے ایسے شواہد میسر آگئے۔ چنانچہ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٨١۔

4836

۴۸۳۶: فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ عَنْ شَرِیْکٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوْھُ ثُمَّ اِنْ عَادَ فَاجْلِدُوْھُ ثُمَّ اِنْ عَادَ فَاجْلِدُوْھُ ثُمَّ اِنْ عَادَ فَاجْلِدُوْھُ ، قَالَ : فَثَبَتَ الْجَلْدُ وَدُرِئَ الْقَتْلُ .
٤٨٣٦: محمد بن منکدر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شراب پئے اسے کوڑے مارو۔ پھر اگر وہ دوبارہ کرے تو اسے کوڑے لگاؤ۔ پھر دوبارہ شراب نوشی کرے تو اسے کوڑے مارو ‘ پھر اگر یہ دوبارہ شراب نوشی کرے تو اسے کوڑے مارو ‘ پس کوڑے مارنا باقی رہا اور قتل کرنا موقوف کردیا گیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٣٦‘ ترمذی فی الحدود باب ١٥‘ نسائی فی الاشربہ باب ٤٢‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ١٧‘ ١٨‘ دارمی فی اشربہ باب ١٠‘ مسند احمد ٢؍١٣٦‘ ١٦٦؍١٩١‘ ٤‘ ٩٣؍٩٥‘ ٢٣٤؍٣٨٩‘ ٥؍٣٦٩۔

4837

۴۸۳۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْکَدِرِ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ بَلَغَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ شَارِبِ الْخَمْرِ اِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوْھُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ فِی الرَّابِعَۃِ فَاقْتُلُوْھُ فَأُتِیَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَجَلَدَہٗ، ثُمَّ أُتِیَ بِہِ الرَّابِعَۃَ فَجَلَدَہٗ، وَوَضَعَ الْقَتْلَ عَنِ النَّاسِ .
٤٨٣٧: محمد بن منکدر نے بیان کیا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب پینے والے کے متعلق فرمایا۔ اگر وہ شراب نوشی کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ یہ تین مرتبہ کہا پھر چوتھی مرتبہ میں فرمایا۔ کہ اس کو قتل کر دو ۔ پھر ایک آدمی کو تین مرتبہ شراب نوشی کی حالت میں لایا گیا۔ تو انھوں نے اسے کوڑے لگائے پھر اسے چوتھی مرتبہ لایا گیا تو اس کو کوڑے لگائے اور قتل کو ہٹا لیا۔

4838

۴۸۳۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ قَبِیْصَۃِ بْنِ ذُؤَیْبٍ الْکَعْبِیِّ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ بَلَغَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔سَوَائً .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْقَتْلَ بِشُرْبِ الْخَمْرِ فِی الرَّابِعَۃِ مَنْسُوْخٌ فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .ثُمَّ عُدْنَا اِلَی النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ ؛ لِنَعْلَمَ مَا ہُوَ ؟ فَرَأَیْنَا الْعُقُوْبَاتِ الَّتِیْ تَجِبُ بِانْتِہَاکِ الْحُرُمَاتِ مُخْتَلِفَۃً .فَمِنْہَا حَدُّ الزِّنَا وَہُوَ الْجَلْدُ فِیْ غَیْرِ الْاِحْصَانِ فَکَانَ مَنْ زَنَی وَہُوَ غَیْرُ مُحْصَنٍ فَحُدَّ ثُمَّ زَنَی ثَانِیَۃً کَانَ حَدُّہُ کَذٰلِکَ أَیْضًا ثُمَّ کَذٰلِکَ حَدُّہُ فِی الرَّابِعَۃِ ، لَا یَتَغَیَّرُ عَنْ حَدِّہِ فِیْ أَوَّلِ مَرَّۃٍ .وَکَانَ مَنْ سَرَقَ مَا یَجِبُ فِیْہِ الْقَطْعُ فَحَدُّہُ قَطْعُ الْیَدِ ثُمَّ اِنْ سَرَقَ ثَانِیَۃً فَحَدُّہُ قَطْعُ الرِّجْلِ ثُمَّ اِنْ سَرَقَ ثَالِثَۃً فَفِیْ حُکْمِہِ اخْتِلَافٌ بَیْنَ النَّاسِ .فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ : تُقْطَعُ یَدُہٗ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ : لَا تُقْطَعُ فَہٰذِہِ حُقُوْقُ اللّٰہِ الَّتِیْ تَجِبُ فِیْمَا دُوْنَ الْأَنْفُسِ .وَأَمَّا حُدُوْدُ اللّٰہِ الَّتِیْ تَجِبُ فِی الْأَنْفُسِ ، وَہِیَ الْقَتْلُ فِی الرِّدَّۃِ وَالرَّجْمُ فِی الزِّنَا اِذَا کَانَ الزَّانِیْ مُحْصَنًا .فَکَانَ مَنْ زَنَی مِمَّنْ قَدْ أُحْصِنَ رُجِمَ وَلَمْ یُنْتَظَرْ بِہٖ أَنْ یَزْنِیَ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ وَکَانَ مَنْ ارْتَدَّ عَنِ الْاِسْلَامِ قُتِلَ ، وَلَمْ یُنْتَظَرْ بِہٖ أَنْ یَرْتَدَّ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .وَأَمَّا حُقُوْقُ الْآدَمِیِّیْنَ فَمِنْہَا أَیْضًا مَا یَجِبُ فِیْمَا دُوْنَ النَّفْسِ .فَمِنْ ذٰلِکَ حَدُّ الْقَذْفِ ، فَکَانَ مَنْ قَذَفَ مَرَّاتٍ فَحُکْمُہٗ فِیْمَا یَجِبُ عَلَیْہِ بِکُلِّ مَرَّۃٍ مِنْہَا فَہُوَ حُکْمٌ وَاحِدٌ لَا یَتَغَیَّرُ ، وَلَا یَخْتَلِفُ مَا یَجِبُ فِیْ قَذْفِہِ اِیَّاہُ فِی الْمَرَّۃِ الرَّابِعَۃِ ، وَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ بِقَذْفِہِ اِیَّاہُ فِی الْمَرَّۃِ الْأُوْلٰی .فَکَانَتِ الْحُدُوْدُ لَا تَتَغَیَّرُ فِی انْتِہَاک الْحُرُمِ وَحُکْمُہَا کُلُّہَا حُکْمٌ وَاحِدٌ .فَمَا کَانَ مِنْہَا جَلْدٌ فِیْ أَوَّلِ مَرَّۃٍ فَحُکْمُہُ کَذٰلِکَ أَبَدًا وَمَا کَانَ مِنْہَا قَتْلٌ قُتِلَ الَّذِی وَجَبَ عَلَیْہِ ذٰلِکَ الْفِعْلُ أَوَّلَ مَرَّۃٍ ، وَلَمْ یُنْتَظَرْ بِہٖ أَنْ یَتَکَرَّرَ فِعْلُہُ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .فَلَمَّا کَانَ مَا وَصَفْنَا کَذٰلِکَ وَکَانَ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ مَرَّۃً فَحَدُّہُ الْجَلْدُ لَا الْقَتْلُ کَانَ فِی النَّظَرِ أَیْضًا عُقُوْبَتُہُ فِیْ شُرْبِہٖ اِیَّاہَا بَعْدَ ذٰلِکَ أَبَدًا کُلَّمَا شَرِبَہَا الْجَلْدَ لَا الْقَتْلَ ، وَلَا تَزِیْدُ عُقُوْبَتُہُ بِتَکَرُّرِ أَفْعَالِہٖ ، کَمَا لَمْ تَزِدْ عُقُوْبَۃُ مَنْ وَصَفْنَا بِتَکَرُّرِ أَفْعَالِہٖ .فَہٰذَا الَّذِی وَصَفْنَا ہُوَ النَّظْرُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٨٣٨: ابن شہاب نے قبیصہ بن ذویب کعبی سے بیان کیا کہ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات پہنچی ہے پھر برابر اسی طرح ذکر کیا ہے۔ مندرجہ بالا روایات سے ثابت ہوا کہ قتل کا حکم چوتھی مرتبہ شراب نوشی کرنے والے سے منسوخ ہے۔ آثار کو سامنے رکھ کر تو اس باب کا یہی حکم ہے۔ اب ہم نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ ہم حقیقت جان لیں۔ حرمات کی توہین کرنے کی سزائیں مختلف ہیں۔ ان میں ایک حد زنا ہے وہ غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے۔ پس جو شخص زنا کرے اور وہ غیر شادی شدہ ہو تو اس کو حد لگائی جائے گی۔ پھر دوسری مرتبہ زنا کرنے سے بھی اسی طرح حد لگائی جائے گی پھر اسی طرح چوتھی بار بھی اس کی حد یہی ہوگی۔ پہلی مرتبہ والی حد تبدیل نہ ہوگی۔ اسی طرح جو شخص اتنی چوری کرے جس سے ہاتھ کاٹنا لازم ہو تو اس کی حد ہاتھ کاٹنا ہے پھر اگر اس نے دوسری مرتبہ چوری کی تو اس کی حد پاؤں کاٹنا ہے۔ پھر اگر اس نے تیسری مرتبہ چوری کی تو اس کے متعلق اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور دوسروں نے کہا کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے یہ وہ حقوق ہیں جو نفس سے کم میں لازم ہوتے ہیں۔ البتہ وہ حقوق جو نفس کے سلسلے میں لازم و واجب ہیں وہ قتل ہے جو ارتداد کی صورت میں رجم زنا کی صورت میں جبکہ وہ شادی شدہ ہو لازم ہوتا ہے۔ پس جب زانی شادی شدہ ہو تو اس کو سنگ سار کیا جائے گا اور اس بات کا انتظار نہ کیا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ زنا کرے (اور پھر اس کو قتل کیا جائے) اسی طرح جو اسلام سے پھر جائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس بات کا انتظار نہ کیا جائے گا کہ وہ چار بار ارتداد اختیار کرے۔ جہاں تک انسانی حقوق ہیں تو ان میں بھی بعض تو نفس سے کم میں واجب ہوتے ہیں ان میں ایک حد قذف ہے۔ تو جو شخص بےگناہ پر بار بار الزام بازی کرے تو ہر بار ایک ہی حکم ہوگا اس میں تبدیلی نہ ہوگی قذف سے چوتھی بار لازم ہونے والی سزا اور پہلی مرتبہ لازم ہونے والی سزا ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوگی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ شرعی احکام کی مخالفت پر جو سزائیں مقرر ہیں ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ ان کا حکم ایک ہی رہتا ہے۔ جو کو پہلی مرتبہ کسی جرم کی سزا میں کوڑے لگائے جائیں گیتو اسے اس جرم کے اعادہ کی صورت میں دوبارہ بھی کوڑے ہی لگائے جائیں گے اور جس کی سزا قتل ہے تو اسے اس جرم کی سزا میں پہلی بار ہی قتل کیا جائے گا اس کے چار مرتبہ اس فعل کے کرنے کا انتظار نہ کیا جائے گا جب حدود کے سلسلہ میں یہ اسی طرح ہے جس طرح ہم نے بیان کی۔ تو جو شخص ایک مرتبہ شراب نوشی کرے اس کی سزا کوڑے ہیں قتل نہیں تو تقاضا قیاس یہی ہے کہ اس کی سزا ہمیشہ یہی رہے کہ جب بھی وہ شراب نوشی کرے اس کو کوڑے مارے جائیں۔ قتل نہ کیا جائے اور تکرار فعل کی وجہ سے سزا میں اضافہ نہ ہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کی سزا میں تکرار فعل سے اضافہ نہیں ہوتا جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے قیاس کا تقاضا اسی طرح ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : مندرجہ بالا روایات سے ثابت ہوا کہ قتل کا حکم چوتھی مرتبہ شراب نوشی کرنے والے سے منسوخ ہے۔ آثار کو سامنے رکھ کر تو اس باب کا یہی حکم ہے۔ اب ہم نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ ہم حقیقت جان لیں۔
نظر طحاوی (رح) :
حرمات کی توہین کرنے کی سزائیں مختلف ہیں۔ ان میں ایک حد زنا ہے وہ غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے۔ پس جو شخص زنا کرے اور وہ غیر شادی شدہ ہو تو اس کو حد لگائی جائے گی۔ پھر دوسری مرتبہ زنا کرنے سے بھی اسی طرح حد لگائی جائے گی پھر اسی طرح چوتھی بار بھی اس کی حد یہی ہوگی۔ پہلی مرتبہ والی حد تبدیل نہ ہوگی۔
اسی طرح جو شخص اتنی چوری کرے جس سے ہاتھ کاٹنا لازم ہو تو اس کی حد ہاتھ کاٹنا ہے پھر اگر اس نے دوسری مرتبہ چوری کی تو اس کی حد پاؤں کاٹنا ہے۔ پھر اگر اس نے تیسری مرتبہ چوری کی تو اس کے متعلق اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور دوسروں نے کہا کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے یہ وہ حقوق ہیں جو نفس سے کم میں لازم ہوتے ہیں۔
البتہ وہ حقوق جو نفس کے سلسلے میں لازم و واجب ہیں وہ قتل ہے جو ارتداد کی صورت میں رجم زنا کی صورت میں جبکہ وہ شادی شدہ ہو ۔
پس جب زانی شادی شدہ ہو تو اس کو سنگ سار کیا جائے گا اور اس بات کا انتظار نہ کیا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ زنا کرے (اور پھر اس کو قتل کیا جائے) اسی طرح جو اسلام سے پھر جائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس بات کا انتظار نہ کیا جائے گا کہ وہ چار بار ارتداد اختیار کرے۔
جہاں تک انسانی حقوق ہیں تو ان میں بھی بعض تو نفس سے کم میں واجب ہوتے ہیں ان میں ایک حد قذف ہے۔ تو جو شخص بےگناہ پر بار بار الزام بازی کرے تو ہر بار ایک ہی حکم ہوگا اس میں تبدیلی نہ ہوگی قذف سے چوتھی بار لازم ہونے والی سزا اور پہلی مرتبہ لازم ہونے والی سزا ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوگی۔
پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ شرعی احکام کی مخالفت پر جو سزائیں مقرر ہیں ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ ان کا حکم ایک ہی رہتا ہے۔ جس کسی کو پہلی مرتبہ کسی جرم کی سزا میں کوڑے لگائے جائیں گے تو اسے اس جرم کے اعادہ کی صورت میں دوبارہ بھی کوڑے ہی لگائے جائیں گے اور جس کی سزا قتل ہے تو اسے اس جرم کی سزا میں پہلی بار ہی قتل کیا جائے گا اس کے چار مرتبہ اس فعل کے کرنے کا انتظار نہ کیا جائے گا جب حدود کے سلسلہ میں یہ اسی طرح ہے جس طرح ہم نے بیان کیا تو جو شخص ایک مرتبہ شراب نوشی کرے اس کی سزا کوڑے ہیں قتل نہیں تو تقاضا قیاس یہی ہے کہ اس کی سزا ہمیشہ یہی رہے کہ جب بھی وہ شراب نوشی کرے اس کو کوڑے مارے جائیں۔ قتل نہ کیا جائے اور تکرار فعل کی وجہ سے سزا میں اضافہ نہ ہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کی سزا میں تکرار فعل سے اضافہ نہیں ہوتا جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے قیاس کا تقاضا اسی طرح ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : شراب نوشی بار بار کرنے کی سزا کوڑے ہی رہے گی تکرار فعل سے سزا میں اضافہ تلف نفس والا نہ ہوگا یہ حکم شروع میں تھا پھر منسوخ ہوگیا۔

4839

۴۸۳۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ الْعُمَرِیُّ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَطَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مِجَن قِیْمَتُہٗ ثَلَاثَۃُ دَرَاہِمَ .
٤٨٣٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ڈھال کے بدلے جس کی قیمت تین درہم تھی ہاتھ کاٹا۔
تخریج : مسلم فی الحدود باب ٦‘ ابو داؤد فی الحدود باب ١٢‘ ترمذی فی الحدود باب ١٦‘ نسائی فی السارق باب ٨؍١٠‘ ابن ماجی فی الحدود باب ٢٢‘ مالک فی الحدود ٢١‘ دارمی فی الحدود باب ٤‘ مسند احمد ٢؍٦‘ ٥٤‘ ٦٤‘ ٢‘ ٤٣۔
لغات : المجن۔ ڈھال۔

4840

۴۸۴۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٤٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4841

۴۸۴۱: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٤١: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4842

۴۸۴۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٤٢: ابن وہب نے مالک سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4843

۴۸۴۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ ، قَدْ سَرَقَ جَحْفَۃً ثَمَنُہَا ثَلَاثَۃُ دَرَاہِمَ ، فَقَطَعَہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَکَانَ الَّذِیْ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِیْ جَحْفَۃٍ ، قِیْمَتُہَا ثَلَاثَۃُ دَرَاہِمَ ، وَلَیْسَ فِیْہَا أَنَّہٗ لَا یُقْطَعُ فِیْمَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِذَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ،
٤٨٤٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے چمڑے کی ایک ڈھال چوری کی تھی جس کی قیمت تین درہم تھی۔ آپ نے اس کے ہاتھ کو کاٹ دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جحفہ چمڑے کی ڈھال جس کی قیمت تین دراہم تھی ہاتھ کاٹ دیا۔ اس روایت میں یہ مذکور نہیں کہ اس سے کم مقدار چرانے میں ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا۔ اس سے کم پر غور کے لیے یہ روایت ملاحظہ ہو۔
لغات : الجحفۃ۔ چمڑے کی ڈھال۔ الترس۔ لوہے کی ڈھال۔
امام طحاوی (رح) کا قول : ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جحفۃ چمڑے کی ڈھال جس کی قیمت تین دراہم تھی کے بدلہ میں ہاتھ کاٹ دیا۔ اس روایت میں یہ مذکور نہیں کہ اس سے کم مقدار چرانے میں ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا۔
اس سے کم پر غور کے لیے یہ روایت ملاحظہ ہو۔

4844

۴۸۴۴: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا صَالِحٌ أَبُوْ وَاقِدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا یُقْطَعُ السَّارِقُ اِلَّا فِیْ ثَمَنِ الْمِجَنِّ .فَعَلِمْنَا بِہٰذَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَفَہُمْ عِنْدَ قَطْعِہِ فِی الْمِجَنِّ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یُقْطَعُ فِیْمَا قِیْمَتُہُ أَقَلُّ مِنْ قِیْمَۃِ الْمِجَنِّ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ السَّارِقَ یُقْطَعُ فِیْ ہٰذَا الْمِقْدَارِ ، الَّذِیْ قَدَّرَہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ثَمَنِ الْمِجَنِّ ، وَہُوَ ثَلَاثَۃُ دَرَاہِمَ ، وَلَا یُقْطَعُ فِیْمَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رَوَوْہُ مِنْ ہٰذَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یُقْطَعُ السَّارِقُ اِلَّا فِیْمَا یُسَاوِیْ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ فَصَاعِدًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٤٨٤٤: عامر بن سعد نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت کی ہے کہ چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر جبکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈھال کی قیمت پر ہاتھ کاٹنے کو موقوف کیا ہے اور اس سے کم میں ہاتھ کو کاٹا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ علماء کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ چور کا ہاتھ اسی مقدار میں کاٹا جائے گا جس کا اندازہ ابن عمر (رض) نے ڈھال کی قیمت سے بتلایا ہے اور وہ مقدار تین درہم ہے اور اس سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹ سکتے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ کہ دس درہم سے کم قیمت کی چیز میں ہاتھ کو کاٹا نہیں جاسکتا۔ یا پھر اس سے زیادہ انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : نسائی فی السارق باب ١٠۔
اس سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈھال کی قیمت پر ہاتھ کاٹنے کو موقوف کیا ہے اور اس سے کم میں ہاتھ کو کاٹا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ علماء کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ چور کا ہاتھ اسی مقدار میں کاٹا جائے گا جس کا اندازہ ابن عمر (رض) نے ڈھال کی قیمت سے بتلایا ہے اور وہ مقدار تین درہم ہے اور اس سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹ سکتے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دس درہم سے کم قیمت کی چیز میں ہاتھ کو کاٹا نہیں جاسکتا۔ یا پھر اس سے زیادہ انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔

4845

۴۸۴۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَا : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی‘ عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ قِیْمَۃُ الْمِجَنِّ الَّذِیْ قَطَعَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ .
٤٨٤٥: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس ڈھال کی قیمت جس میں آپ نے ہاتھ کاٹا اس کی قیمت دس درہم تھی۔

4846

۴۸۴۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَا : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، مِثْلَہٗ۔
٤٨٤٦: عمرو بن شعیب نے اپنے والد انھوں نے اپنے دادا سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4847

۴۸۴۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَعَطَائٍ ، عَنْ أَیْمَنَ الْحَبَشِیِّ ، قَالَ قَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَدْنَی مَا یُقْطَعُ فِیْہِ السَّارِقُ ، ثَمَنُ الْمِجَنِّ قَالَ : وَکَانَ یُقَوَّمُ ، یَوْمَئِذٍ دِیْنَارًا .
٤٨٤٧: مجاہد وعطاء نے ایمن حبشی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے کم درجہ جس میں چور کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے وہ ڈھال کی قیمت ہے اور اس وقت اس کا اندازہ ایک دینار سے لگایا جاتا تھا۔
تخریج : نسائی فی السارق باب ١٠۔

4848

۴۸۴۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَیْمَنَ بْنِ أُمِّ أَیْمَنَ ، عَنْ أُمِّ أَیْمَنَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ اِلَّا فِیْ جَحْفَۃٍ وَقُوِّمَتْ یَوْمَئِذٍ - عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - دِیْنَارًا ، أَوْ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ .فَلَمَّا اُخْتُلِفَ فِیْ قِیْمَۃِ الْمِجَنِّ ، الَّذِیْ قَطَعَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اُحْتِیْطَ فِیْ ذٰلِکَ ، فَلَمْ یُقْطَعْ اِلَّا فِیْمَا قَدْ أُجْمِعَ أَنَّ فِیْہِ وَفَائً بِقِیْمَۃِ الْمِجَنِّ الَّتِیْ جَعَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِقْدَارًا لَا یُقْطَعُ فِیْمَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہَا ، وَہِیَ عَشَرَۃُ دَرَاہِمَ .وَقَدْ ذَہَبَ آخَرُوْنَ اِلٰی أَنَّہٗ لَا یُقْطَعُ اِلَّا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٤٨٤٨: عطاء نے ایمن بن ام ایمن سے انھوں نے ام ایمن (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ چمڑے کی ڈھال کے بدلے کاٹا جائے اس کی قیمت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک دینار یا دس درہم لگائی گئی۔ اب جب کہ اس ڈھال کی قیمت میں اختلاف ہوا جس کے بدلے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کاٹا تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کم قطع کی مقدار بتلایا اسی کو اختیار کریں گے اور وہ مقدار دس درہم ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ربع دینار یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس دلیل سے استدلال کیا ہے۔

4849

۴۸۴۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْطَعُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا قِیْلَ لَہُمْ : لَیْسَ ہَذَا حُجَّۃً أَیْضًا ، عَلَی مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّہٗ لَا یُقْطَعُ اِلَّا فِیْ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ ، لِأَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اِنَّمَا أَخْبَرَتْ عَمَّا قَطَعَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّہَا قَوَّمَتْ مَا قَطَعَ فِیْہِ، فَکَانَتْ قِیْمَتُہٗ عِنْدَہَا رُبْعَ دِیْنَارٍ ، فَجَعَلَتْ ذٰلِکَ مِقْدَارَ مَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْطَعُ فِیْہِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ،
٤٨٤٩: زہری نے عمرہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ربع دینار یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا یہ بھی دلیل نہیں بن سکتی جو اس طرف گئے ہیں کہ دس درہم میں ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بتلایا جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کاٹا پس اس میں یہ احتمال ہے کہ انھوں نے ڈھال یا چیز کی قیمت چوتھائی دینار لگائی ان کے ہاں اس کی قیمت یہی تھی۔ اس لیے انھوں نے اسی کو ہاتھ کاٹنے کی مقدار قرار دیا۔
تخریج : مسلم فی الحدود ١‘ ابو داؤد فی الحدود باب ١٢‘ ترمذی فی الحدود باب ١٦‘ نسائی فی السارق باب ٩؍١٠‘ مسند احمد ٦؍٣٦۔

4850

۴۸۵۰: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ وَعَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .فَقَالُوْا : ہَذَا اِخْبَارٌ مِنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا عَنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَدَلَّ ذٰلِکَ ، أَنَّ مَا ذَکَرْنَا عَنْہَا فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، مِنْ قَطْعِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا ، اِنَّمَا أَخَذَتْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا وَقَفَہَا عَلَیْہِ عَلٰی مَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لَا مِنْ جِہَۃِ تَقْوِیْمِہَا ؛ لِمَا کَانَ قَطَعَ فِیْہِ .قِیْلَ لَہُمْ : ہَذَا کَمَا ذَکَرْتُمْ ، لَوْ لَمْ یَخْتَلِفْ فِیْ ذٰلِکَ عَنْہَا .فَقَدْ رَوَی ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْفَصْلِ فَکَانَ ذٰلِکَ اِخْبَارًا مِنْہَا عَنْ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا عَنْ قَوْلِہٖ .وَیُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ - عِنْدَکُمْ - لَا یُقَارِبُ ابْنَ عُیَیْنَۃَ، فَکَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِمَا رَوَی ، وَتَدَعُوْنَ مَا رَوَی ابْنُ عُیَیْنَۃَ ؟ قَالُوْا : فَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا ، مِنْ غَیْرِ ہٰذَا الْوَجْہِ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، کَمَا رَوَاہُ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ .فَذَکَرُوْا
٤٨٥٠: عروہ اور عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔ یہ حضرت عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات ہیں پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ پہلی روایات میں ربع دینار یا اس سے زائد قیمت میں ہاتھ کا کاٹنا یہ بذات خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیا گیا جو آپ نے ان کو بتلایا اس طرح نہیں جیسے سمجھا گیا کہ جس ڈھال کے بدلے میں ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت لگائی گئی۔ (جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوا تو پھر اس میں اجتہاد کی ضرورت نہیں) ۔ یہ بات جو آپ نے نقل کی ہے بالکل اسی طرح ہوگی اگر اس روایت میں اختلاف نہ ہو۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ زہری نے عمرہ عن عائشہ (رض) سے روایت کی جو اس سے پہلی فصل میں ہم نے نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کی خبر دی ہے نہ کہ قول کی۔ اس روایت کی سند میں یونس بن یزید ہے اور وہ آپ کے ہاں بھی ابن عیینہ کے ہم پلہ تو کیا ہوتے ان کے قریب بھی نہیں پھر اس کی روایت کو تم بطور دلیل اختیار کرتے ہو اور ابن عیینہ کی روایت کو چھوڑتے ہو۔ یہ روایت دیگر طرق سے بھی مروی ہے اور وہ بھی یونس کی طرح دیگر روات سے عمرہ عن عائشہ (رض) روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔ مخرمہ بن بکیر عن ابیہ۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ١٣‘ مسلم فی الحدود ٢‘ ابو داؤد فی الحدود باب ١٢‘ نسائی فی السارق باب ٩؍١٠‘ مسند احمد ٦؍١٠٤۔

4851

۴۸۵۱: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَخْرَمَۃُ بْنُ بُکَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ اِلَّا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .قِیْلَ لَہُمْ : کَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِہٰذَا ، وَأَنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ أَنَّ مَخْرَمَۃَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیْھَاحَرْفًا ، وَأَنَّ مَا رُوِیَ عَنْہُ مُرْسَلٌ ، وَأَنْتُمْ لَا تَحْتَجُّوْنَ بِالْمُرْسَلِ ؟ فَمَا یَذْکُرُوْنَ مِمَّا یَنْفُوْنَ بِہٖ سَمَاعَ مَخْرَمَۃَ عَنْ أَبِیْہِ،
٤٨٥١: مخرمہ بن بکیر عن ابیہ عن سلیمان بن یسار نے عمرہ عن عائشہ (رض) روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ میں کاٹا جائے۔ اس روایت کو آپ کس طرح دلیل بناتے ہیں جبکہ مخرمہ (رح) کے متعلق آپ کا خیال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے کوئی ایک حرف بھی نہیں سنا اور انھوں نے جو روایات نقل کی ہیں وہ مرسل ہیں اور مرسل روایت تو آپ کے ہاں قابل حجت نہیں۔ مخرمہ کے اپنے والد سے نہ سننے کے متعلق یہ روایت ہے۔
تخریج : مسلم فی الحدود ٤؍٥‘ نسائی فی السارق باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٢‘ مسند احمد ٦؍٢٤٩‘ ٢٥٢۔

4852

۴۸۵۲: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، عَنْ خَالِہِ مُوْسَی بْنِ سَلْمَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مَخْرَمَۃَ بْنَ بُکَیْرٍ : ہَلْ سَمِعْتُ مِنْ أَبِیک شَیْئًا ؟ فَقَالَ : لَا .قَالُوْا : فَاِنَّہٗ قَدْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ عَمْرَۃَ ، کَمَا رَوَاہُ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْہَا ، یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ أَیْضًا .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٤٨٥٢: ابن ابی مریم نے اپنے ماموں موسیٰ بن سلمہ سے نقل کیا کہ میں نے مخرمہ بن بکیر سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے والد سے کچھ سنا ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ یہ روایت یونس بن یزید کی طرح یحییٰ بن سعید نے بھی روایت کی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
فریق ثالث کا ایک اور دعویٰ :
یہ روایت یونس بن یزید کی طرح یحییٰ بن سعید نے بھی روایت کی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

4853

۴۸۵۳: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ ، عَنْ یَحْیَی ، مَنْ ہُوَ أَثْبَتُ مِنْ أَبَانَ ، فَأَوْقَفَہُ عَلَی عَائِشَۃَ ، وَلَمْ یَرْفَعْہُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٨٥٣: عن یحییٰ بن سعید نے عمرہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار اور اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔ اس روایت کو ابان بن یزید سے زیادہ پختہ روات نے یحییٰ بن سعید سے بیان کیا مگر انھوں نے اس کو حضرت عائشہ (رض) پر موقوف بیان کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع بیان نہیں کیا ملاحظہ فرمائیں۔

4854

۴۸۵۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ عَائِشَۃَ ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : مَا طَالَ عَلَیَّ أَیْ مَا طَالَ الزَّمَانُ عَلَیَّ وَلَا نَسِیتُ :الْقَطْعُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .
٤٨٥٤: مالک نے یحییٰ بن سعید سے انھوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت کی کہ حضرت امّ المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ نہ مجھے اتنا عرصہ گزرا اور نہ مجھے بھول ہوئی کہ ہاتھ کاٹنا چوتھائی دینار اور اس سے زائد میں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ١٢‘ نسائی فی السارق باب ٩؍١٠‘ مالک فی الحدود ٢٤؍٢٥۔

4855

۴۸۵۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الْمَکِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَرْبَعَۃٌ عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، لَمْ یَرْفَعْہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ وَزُرَیْقُ بْنُ حَکِیْمٍ الْأَیْلِیُّ ، وَیَحْیَی ، وَعَبْدُ رَبِّہِ ابْنَا سَعِیْدٍ ، وَالزُّہْرِیُّ أَحْفَظُہُمْ کُلُّہُمْ اِلَّا أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ یَحْیَی مَا قَدْ دَلَّ عَلَی الرَّفْعِ مَا نَسِیتُ وَلَا طَالَ عَلَیَّ ، الْقَطْعُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .
٤٨٥٥: حمیدی نے سفیان سے نقل کیا کہ عمرہ عن عائشہ (رض) والی ہمیں چار نے بیان کی مگر کسی نے مرفوع نقل نہیں کی وہ چار یہ ہیں۔ ایک عبداللہ بن ابی بکر ‘ دوم زریق بن حکیم ایلی ‘ سوم یحییٰ اور عبد ربہ (جو دونوں سعید کے بیٹے ہیں) ‘ چہارم زہری اور زہری ان میں سب سے زیادہ حافظہ والے ہیں مگر یحییٰ بن سعید کی روایت میں ایک لفظ ایسا ہے جو اس روایت کے رفع پر دلالت کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نہ تو میں بھولی اور نہ ہی زیادہ عرصہ گزرا کہ چور کا ہاتھ ربع دینار اور اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔

4856

۴۸۵۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ عَمْرَۃُ أَنَّہَا سَمِعَتْ عَائِشَۃَ تَقُوْلُ الْقَطْعُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .فَکَانَ أَصْلُ حَدِیْثِ یَحْیَی ، عَنْ عَمْرَۃَ ، ہُوَ مَا ذَکَرْنَا مِمَّا رَوَاہٗ عَنْہُ أَہْلُ الْحِفْظِ وَالْاِتْقَانِ ، مَالِکٌ ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ ، لَا کَمَا رَوَاہُ أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ .فَقَدْ عَادَ حَدِیْثُ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اِلَی نَفْسِہَا ، اِمَّا لِتَقْوِیْمِہَا مَا قَدْ خُوْلِفَ فِیْ تَوْقِیْتِہٖ، وَلَمْ یَثْبُتْ فِیْہِ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْء ٌ .وَأَمَّا مَا اسْتَدَلَّ بِہٖ ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَلٰی أَنَّ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِمَّا رَوَاہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ عَنْہَا مَرْفُوْعٌ بِقَوْلِہَا مَا طَالَ عَلَیَّ ، وَلَا نَسِیت .فَاِنَّ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - لَا دَلَالَۃَ فِیْہِ، عَلٰی مَا ذُکِرَ ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَعْنَاہَا فِیْ ذٰلِکَ : مَا طَالَ عَلَیَّ وَلَا نَسِیتُ مَا قَطَعَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا کَانَتْ قِیْمَتُہُ عِنْدَہَا رُبْعَ دِیْنَارٍ ، وَقِیْمَتُہُ عِنْدَ غَیْرِہَا أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ ، فَیَعُوْدُ مَعْنَیْ حَدِیْثِہَا ہَذَا اِلَی مَعْنَی مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہَا قَبْلَ ہَذَا مِنْ ذِکْرِہَا مَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْطَعُ فِیْہِ، وَمِنْ تَقْوِیْمِہَا اِیَّاہُ بِرُبْعِ دِیْنَارٍ .فَاِنْ قَالُوْا : فَقَدْ رَوَاہُ أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِثْلَ مَا رَوَاہُ أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٤٨٥٦: یحییٰ بن سعید نے عمرہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) کو فرماتے سنا کہ ربع دینار اور اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ یحییٰ نے عمرہ سے اصل روایت اسی طرح نقل کی جس قدر ہے وہ وہی ہے جس کو حفاظ حدیث نے بیان کیا وہ حفاظ امام مالک ‘ ابن عیینہ (رح) جیسے ثقہ لوگ ہیں نہ اس طرح جیسا کہ ابان بن یزید نے روایت کی ہے۔ اب روایت یحییٰ بن سعید عن عمرہ عن عائشہ (رض) حضرت عائشہ (رض) پر موقوف ہے اور حضرت عائشہ (رض) کی طرف لوٹ آئی یا تو اس چیز کی قیمت لگانے میں جس کی قیمت میں اختلاف کیا گیا (یعنی ڈھال) یا پھر اس مقدار کے مقرر کرنے جس کے مقرر کرنے میں اختلاف کیا گیا تو اس سلسلہ میں اس روایت میں حضرت عائشہ (رض) سے کوئی بات مرفوع جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہوتی۔ البتہ ابن عیینہ کا یہ کہنا کہ : ماطال علی ولا نسیت کے لفظوں سے مرفوع ہونا معلوم ہوتا ہے۔ تو ہمارے ہاں ! اس میں اس قسم کی کوئی دلالت نہیں پائی جاتی کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوتھائی دینار قیمت کی چیز چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا اس واقعہ کو پیش آئے طویل عرصہ نہیں ہوا اور نہ ہی مجھے یہ واقعہ بھولا اور اس ڈھال کی قیمت حضرت عائشہ (رض) کے ہاں چوتھائی حصہ دینار ہو اور اس کی قیمت دوسروں کے ہاں اس سے زیادہ ہو۔ اب اس روایت کا مطلب بھی اس روایت کی طرف لوٹ گیا جو ہم نے ان سے روایت کی ہے اور اس میں انھوں نے ذکر کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی چوری پر ہاتھ کاٹتے تھے اور اس کی قیمت ربع دینار سے لگائی۔ اس کی ایک سند ایسی جو اعتراض سے بری ہے۔ ملاحظہ ہو۔ اس روایت کو ابوبکر بن عمرو بن حزم نے عمرہ عن عائشہ (رض) ذکر کیا اور وہ بالکل ابان بن یزید عن عمرہ عن عائشہ (رض) کی روایت کی طرح ہے۔ روایت یہ ہے۔

4857

۴۸۵۷: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الْمَکِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ اِلَّا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .
٤٨٥٧: ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرہ بنت عبدالرحمن عن عائشہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا نہ جائے گا مگر یہ کہ ربع دینار اور اس سے زائد (قیمت والی چیز) میں۔

4858

۴۸۵۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْہَادِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٥٨: عبداللہ بن جعفر نے یزید بن ھاد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4859

۴۸۵۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ ، فَذَکَر بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٥٩: عبداللہ بن صالح نے لیث سے انھوں نے ابن الہاد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

4860

۴۸۶۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ رُوِیَ ہَذَا کَمَا ذَکَرْتُمْ ، وَلٰـکِنَّہٗ لَا یَجِبُ عَلٰی أُصُوْلِکُمْ ، أَنْ تُعَارِضُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا رَوَی الزُّہْرِیُّ ، وَلَا مَا رَوَیْ یَحْیَی وَعَبْدُ رَبِّہٖ، ابْنَا سَعِیْدٍ ؛ لِأَنَّ أَبَا بَکْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنَ الْاِتْقَانِ وَلَا مِنَ الْحِفْظِ ، مَا لِوَاحِدٍ مِنْ ہٰؤُلَائِ ، وَلَا لِمَنْ رَوَیْ ہَذَا الْحَدِیْثَ أَیْضًا ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، وَہُوَ ابْنُ الْہَادِ وَمُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عِنْدَکُمْ مِنَ الْاِتْقَانِ لِلرِّوَایَۃِ وَالْحِفْظِ مَا لِمَنْ رَوَیْ حَدِیْثَ الزُّہْرِیِّ وَیَحْیَی وَعَبْدِ رَبِّہِ ابْنَیْ سَعِیْدٍ عَنْہُمْ .وَقَدْ خَالَفَ أَیْضًا أَبَا بَکْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ فِیْمَا رَوٰی عَنْ عَمْرَۃَ مِنْ ہٰذَا ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ.
٤٨٦٠: ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرہ عن عائشہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کو اسی طرح روایت کیا گیا جیسا کہ تم نے ذکر کیا مگر تمہارے اصول کے مطابق : ! یہ روایت سند کے لحاظ سے روایت زہری اور یحییٰ و عبد ربہ بن سعید کی روایات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ ابوبکر بن عمرو بن حزم کا حفظ و اتقان ان میں سے کسی کے برابر نہیں ہے " اور نہ ابوبکر سے روایت کرنے والے مثلاً ابن الہاد ‘ محمد بن اسحاق وغیرہ و حفظ و اتقان میں زہری اور ابنائے سعید سے روایت کرنے والوں کے ہم پلہ ہیں۔ 3 ابوبکر بن محمد نے جو روایت عن عمرہ نقل کی ہے ان کے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر نے اس کے خلاف روایت کی ہے ملاحظہ ہو۔

4861

۴۸۶۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ عَمْرَۃَ قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَۃُ الْقَطْعُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا وَقَدْ خَالَفَہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا رُزَیْقُ بْنُ حَکِیْمٍ فَرَوَاہٗ عَنْ عَمْرَۃَ مِثْلَ مَا رَوَاہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ وَیَحْیَی وَعَبْدُ رَبِّہِ عَنْہَا .قَالَ : فَاِنْ کَانَ ہٰذَا الْأَمْرُ یُؤْخَذُ مِنْ جِہَۃِ کَثْرَۃِ الرُّوَاۃِ فَاِنَّ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثَ عَمْرَۃَ عَنْہَا بِخِلَافِ مَا رَوَاہٗ عَنْہَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَکْثَرُ عَدَدًا .وَاِنْ کَانَ یُؤْخَذُ مِنْ جِہَۃِ الْاِتْقَانِ فِی الرُّوَاۃِ وَالْحِفْظِ فَاِنَّ لِمَنْ رَوَیْ حَدِیْثَ عَمْرَۃَ عَنْہَا مِنْ یَحْیَی وَعَبْدِ رَبِّہِ مِنَ الْاِتْقَانِ فِی الرِّوَایَۃِ وَالضَّبْطِ لَہَا مَا لَیْسَ لِأَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ .فَاِنْ قَالُوْا : فَقَدْ رَوَاہُ أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَغَیْرُہُ عَنْ عَمْرَۃَ مِثْلَ مَا رَوَاہٗ عَنْہَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٤٨٦١: عبداللہ بن ابی بکر عن عمرہ وہ کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ہاتھ کاٹنا ربع دینار اور اس سے زائد میں ہے۔ زریق بن حکیم نے عمرہ سے ابوبکر کے خلاف اور عبداللہ بن ابی بکر ‘ یحییٰ ‘ عبد ربہ کی روایت کے موافق روایت کی ہے۔ پس اگر کثرت روات کے اعتبار سے دیکھیں تو عمرہ سے ابوبکر بن محمد کے خلاف روایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر رواۃ میں اتقان و حفظ کا لحاظ کرتے ہو تو تب بھی یحییٰ و عبد ربہ جیسا حافظہ و پختگی ابوبکر بن محمد وغیرہ میں نہیں پائی جاتی۔
نوٹ : پس حاصل یہ ہوا کہ ابوبکر کی روایت کے مقابلہ میں یہ روایات بہرحال پختہ ہیں انہی کو لیا جائے گا۔
ایک اور سند سے ثبوت :
اس روایت کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن وغیرہ نے عمرہ سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسا کہ ابوبکر بن محمد نے روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4862

۴۸۶۲: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ حَارِثَۃَ وَأَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَکَثِیْرِ بْنِ حُنَیْشٍ أَنَّہُمْ تَنَازَعُوْا فِی الْقَطْعِ فَدَخَلُوْا عَلَی عَمْرَۃَ یَسْأَلُوْنَہَا .فَقَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَۃُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا قَطْعَ اِلَّا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ .قِیْلَ لَہُمْ : أَمَّا أَبُوْ سَلْمَۃَ فَلَا نَعْلَمُ لِجَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ مِنْہُ سَمَاعًا وَلَا نَعْلَمُہُ لَقِیَہُ أَصْلًا فَکَیْفَ یَجُوْزُ لَکُمْ أَنْ تَحْتَجُّوْا بِمِثْلِ ہٰذَا عَلٰی مُخَالِفِکُمْ وَتَعَارَضُوْا بِہٖ مَا قَدْ رَوَاہٗ عَنْ عَمْرَۃَ مَنْ قَدْ ذَکَرْنَا ؟ وَاِنْ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِحَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ
٤٨٦٢: ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور کثیر بن حنیش دونوں نے قطع ید کے متعلق تنازعہ کیا۔ چنانچہ دونوں عمرہ کی خدمت میں دریافت کے لیے گئے تو انھوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ ربع دینار سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا۔ جعفر بن ربیعہ کا ابو سلمہ سے سماع و ملاقات ہی ثابت نہیں پھر منقطع روایت کو اپنے مخالف پر بطور حجت کیسے پیش کرتے ہو اور پھر ایسے رواۃ سے معارضہ کرتے ہو جن کی اسناد متصل ہیں۔ روایت زہری سے آخری استدلال روایت یہ ہے۔

4863

۴۸۶۳: فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ قَالَ: أَخْبَرَتْنِیْ عَمْرَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہَا سَمِعَتْ عَائِشَۃَ تَقُوْلُ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یُقْطَعُ السَّارِقُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .
٤٨٦٣: زہری نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت کی ہے اس نے حضرت عائشہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ ربع دینار پس اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔

4864

۴۸۶۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّارِقُ اِذَا سَرَقَ رُبْعَ دِیْنَارٍ قُطِعَ .
٤٨٦٤: زہری نے عمرہ عن عائشہ (رض) وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چور جب ربع دینار (کی مقدار چیز) چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

4865

۴۸۶۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقْطَعُ الْیَدُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ رَوَیْنَا ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنِ الزُّہْرِیِّ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ مِمَّا مَعْنَاہُ خِلَافُ ہٰذَا الْمَعْنَی .وَہُوَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْطَعُ فِیْ رُبْعِ الدِّیْنَارِ فَصَاعِدًا .فَلَمَّا اضْطَرَبَ حَدِیْثُ الزُّہْرِیِّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَاخْتُلِفَ عَنْ غَیْرِہِ عَنْ عَمْرَۃَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا ارْتَفَعَ ذٰلِکَ کُلُّہُ فَلَمْ تَجِبْ الْحُجَّۃُ بِشَیْئٍ مِنْہُ اِذَا کَانَ بَعْضُہٗ یَنْفِیْ بَعْضًا .وَرَجَعْنَا اِلٰی أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فِیْ کِتَابِہٖ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِنَ اللّٰہِ .فَأَجْمَعُوْا أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَعْنِ بِذٰلِکَ کُلَّ سَارِقٍ وَأَنَّہٗ اِنَّمَا عَنَی بِہٖ خَاصًّا مِنْ السُّرَّاقِ لِمِقْدَارٍ مِنَ الْمَالِ مَعْلُوْمٍ فَلَا یَدْخُلُ فِیْمَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَنَی بِہٖ خَاصًّا اِلَّا مَا قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَنَاہُ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ عَنَیْ سَارِقَ الْعَشَرَۃِ الدَّرَاہِمِ وَاخْتَلَفُوْا فِیْ سَارِقِ مَا ہُوَ دُوْنَہَا .فَقَالَ قَوْمٌ : ہُوَ مِمَّنْ عَنَی اللّٰہُ تَعَالٰی ، وَقَالَ قَوْمٌ : لَیْسَ ہُوَ مِنْہُمْ .فَلَمْ یَجُزْ لَنَا - لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ - أَنْ نَشْہَدَ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی أَنَّہٗ عَنَی مَا لَمْ یَجْمَعُوْا أَنَّہٗ عَنَاہُ .وَجَازَ لَنَا أَنْ نَشْہَدَ فِیْمَا أَجْمَعُوْا أَنَّ اللّٰہَ عَنَاہُ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّہٗ عَنَاہُ .فَجَعَلْنَا سَارِقَ الْعَشَرَۃِ الدَّرَاہِمِ فَمَا فَوْقَہَا دَاخِلًا فِی الْآیَۃِ فَقَطَعْنَاہُ بِہَا وَجَعَلْنَا سَارِقَ مَا دُوْنَ الْعَشَرَۃِ خَارِجًا مِنَ الْآیَۃِ فَلَمْ نَقْطَعُہُ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَعَطَائٍ وَعَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ .
٤٨٦٥: زہری نے عمرہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاتھ ربع دینار اور اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ ہم اسی باب میں یہ روایت ابن عیینہ کی سند سے زہری سے ان کے علاوہ دیگر الفاظ سے نقل کر آئے ہیں جس کا مطلب اس روایت کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے۔ کان رسول اللہ یقطع فی ربع الدینار فصاعدا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دینار کی چوتھائی اور اس سے زائد میں ہاتھ کاٹتے تھے۔ پس جب زہری کی روایت بھی الفاظ کے اعتبار سے مضطرب اور دوسرے روات کے ساتھ عمرہ سے نقل کرنے میں مختلف ہے تو تمام استدلال کے لحاظ سے مرتفع ہوگئیں اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں۔ اب جب روایات تعیین میں شدید طور پر مختلف ہیں بلکہ ایک دوسری کے منافی ہیں تو اب قرآن مجید کے ارشاد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما جزاء بماکسبا نکالا من اللہ (المائدہ ٣٨) چوری کرنے والے مرد اور چور عورت کا ہاتھ کاٹو ان کے عمل کے سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سزا۔ نمبر 1: اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کا چور مراد نہیں لیا۔ بلکہ ایک خاص معلوم مقدار کی چوری کرنے والے اشخاص مراد ہیں پس اس اجماع میں وہ لوگ ہی داخل ہوں گے جن پر سب کا اتفاق ہے۔ نمبر 2: اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دس درہم کی چوری کرنے والا شخص مراد لیا ہے۔ اس سے کم چوری کرنے والے سے متعلق اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی ان میں شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہاں مراد لیا ہے۔ جبکہ دوسروں نے کہا کہ وہ ان میں شامل ہی نہیں (کہ اس پر چور کا اطلاق ہو) پس ہمارے لیے جائز نہیں (جبکہ علماء کا اس میں اختلاف ہے) کہ ہم اللہ تعالیٰ کے متعلق غیر اجماعی چیز کے مراد الٰہی ہونے کی گواہی دیں۔ البتہ یہ جائز ہے کہ متفق علیہ چیز کو مراد الٰہی کہیں۔ (کیونکہ زبان نبوت سے امت کا اجماع ضلالت پر ناممکن ہے) پس دس درہم یا اس سے زائد چرانے والے کو آیت کے تحت داخل مان کر اس میں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جائے گا اور دس درہم سے کم کی چوری کرنے والے کو آیت کے حکم قطع سے خارج مانیں گے۔ پس اس کا ہاتھ نہ کاٹیں گے۔ (البتہ تعزیر ہوگی) فریق ثانی کا مؤقف مبرہن و ثابت ہوگیا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ کم از کم ربع دینار یا پھر اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔
جواب : ہم اسی بات میں یہ روایت ابن عیینہ کی سند سے زہری سے روایت ان کے علاوہ دیگر الفاظ سے نقل کر آئے ہیں جس کا مطلب اس روایت کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے۔ کان رسول اللہ یقطع فی ربع الدینار فصاعدا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دینار کی چوتھائی اور اس سے زائد میں ہاتھ کاٹتے تھے۔
پس جب زہری کی روایت بھی الفاظ کے اعتبار سے مضطرب اور دوسرے روایت کے ساتھ عمرہ سے نقل کرنے میں مختلف ہے تو تمام استدلال کے لحاظ سے مرتفع ہوگئیں اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں۔
رجوع الی الاصل :
اب جب روایات تعیین میں شدید طور پر مختلف ہیں بلکہ ایک دوسری کے منافی ہیں تو اب قرآن مجید کے ارشاد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما جزاء بماکسبا نکالا من اللہ (المائدہ : ٣٨)
چوری کرنے والے مرد اور چور عورت کا ہاتھ کاٹو ان کے عمل کے سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سزا۔
نمبر 1: اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اسے سے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کا چور مراد نہیں لیا۔ بلکہ ایک خاص معلوم مقدار کی چوری کرنے والے اشخاص مراد ہیں پس اس اجماع میں وہ لوگ ہی داخل ہوں گے جن پر سب کا اتفاق ہے۔
نمبر 2: اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ دس درہم کی چوری کرنے والا شخص مراد لیا ہے۔ اس سے کم چوری کرنے والے سے متعلق اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی ان میں شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہاں مراد لیا ہے۔ جبکہ دوسروں نے کہا کہ وہ ان میں شامل ہی نہیں (کہ اس پر چور کا طلاق ہو)
پس ہمارے لیے جائز نہیں (جبکہ علماء کا اس میں اختلاف ہے) کہ ہم اللہ تعالیٰ کے متعلق غیر اجماعی چیز کے مراد الٰہی ہونے کی گواہی دیں۔ البتہ یہ جائز ہے کہ متفق علیہ چیز کو مراد الٰہی کہیں۔ (کیونکہ زبان نبوت سے امت کا اجماع ضلالت پر ناممکن ہے) پس دس درہم یا اس سے زائد چرانے والے کو آیت کے تحت داخل مان کر اس میں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جائے گا اور دس درہم سے کم کی چوری کرنے والے کو آیت کے حکم قطع سے خارج مانیں گے۔ پس اس کا ہاتھ نہ کاٹیں گے۔ (البتہ تعزیر ہوگی) فریق ثانی کا مؤقف مبرہن و ثابت ہوگیا۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
اقوال صحابہ (رض) وتابعین (رح) سے تائید :
یہ بات ابن مسعود (رح) اور عطاء ‘ عمرو بن شعیب (رح) سے مروی ہے۔

4866

۴۸۶۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنِ الْمَسْعُوْدِیِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ قَالَ لَا تُقْطَعُ الْیَدُ اِلَّا فِی الدِّیْنَارِ أَوْ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ
٤٨٦٦: قاسم بن عبدالرحمن نے روایت کی کہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا ہاتھ دینار یا دس درہم کے بدلے کاٹا جائے گا۔

4867

۴۸۶۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : کَانَ قَوْلُ عَطَائٍ عَلَی قَوْلِ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ لَا تُقْطَعُ الْیَدُ فِیْ أَقَلَّ مِنْ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ .
٤٨٦٧: ابن جریج بیان کرتے تھے کہ عطاء کا قول عمرو بن شعیب کے قول کے موافق تھا کہ دس درہم سے کم (چوری کرنے) میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔

4868

۴۸۶۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَوْنٍ مَوْلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : أُتِیَ بِسَارِقٍ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ ہَذَا سَرَقَ فَقَالَ مَا اِخَالُہُ سَرَقَ فَقَالَ السَّارِقُ : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ اذْہَبُوْا بِہٖ فَاقْطَعُوْھُ ثُمَّ احْسِمُوْھُ ثُمَّ ائْتُوْنِیْ بِہٖ قَالَ : فَذُہِبَ بِہٖ فَقُطِعَ ثُمَّ حُسِمَ ثُمَّ أُتِیَ بِہٖ فَقَالَ تُبْ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ : تُبْتُ اِلَی اللّٰہِ، فَقَالَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْکَ
٤٨٦٨: محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک چور خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لایا گیا تو انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے چوری کی ہے آپ نے فرمایا میرے خیال میں تو اس نے چوری نہیں کی۔ چور کہنے لگا۔ کیوں نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا اس کو لے جا کر اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر اس کو ابلتے تیل میں ڈال دو (تاکہ خون بہنے سے وہ ہلاک نہ ہوجائے) پھر اس کو میرے پاس لاؤ۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں اس کو لے جا کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا پھر داغا گیا پھر اس کو آپ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ تو اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ آپ نے دعا فرمائی اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ کو قبول فرمائے۔
تخریج : نسائی فی السارق باب ٣‘ دارمی فی الحدود باب ٦۔
لغات : مااخالہ۔ میں خیال نہیں کرتا۔ احسموہ گرم تیل سے داغو۔

4869

۴۸۶۹: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٦٩: یزید بن خصیفہ نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4870

۴۸۷۰: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٧٠: سفیان نے یزید بن خصیفہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اس کی مثل روایت کی ہے۔

4871

۴۸۷۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ یُحَدِّثُ أَنَّ یَزِیْدَ بْنَ خُصَیْفَۃَ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٨٧١: یزید بن خصیفہ نے بتلایا کہ میں نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان کو سنا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے تھے۔

4872

۴۸۷۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ عَمْرَو بْنَ سَمُرَۃَ بْنِ حَبِیْبِ بْنِ عَبْدِ نَحْسٍ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ سَرَقْتُ جَمَلًا لَبَنِیْ فُلَانٍ .فَأَرْسَلَ اِلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : اِنَّا فَقَدْنَا جَمَلًا لَنَا فَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُطِعَتْ یَدُہُ .قَالَ ثَعْلَبَۃُ : أَنَا أَنْظُرُ اِلَیْہِ حِیْنَ قُطِعَتْ یَدُہُ وَہُوَ یَقُوْلُ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی طَہَّرَنِیْ مِمَّا أَرَادَ أَنْ یُدْخِلَ جَسَدِی النَّارَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَقَرَّ بِالسَّرِقَۃِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً قُطِعَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ وَمِنْہُمْ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَقَالُوْا : لَا تُقْطَعُ حَتَّی یُقِرَّ مَرَّتَیْنِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٤٨٧٢: عبدالرحمن بن ثعلبہ انصاری نے اپنے والد سے بیان کیا کہ عمرو بن سمرہ بن حبیب بن عبد شمس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے بنی فلاں کا ایک اونٹ چرایا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیغام بھیجا تو انھوں نے کہا ہمارا ایک اونٹ گم ہوا ہے۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا تو میں نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ فقہاء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی آدمی ایک مرتبہ سرقہ کا اعتراف کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) محمد بن الحسن (رح) نے اختیار کیا ہے۔ دوسروں نے کہا امام ابو یوسف (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ دو مرتبہ اقرار کے بغیر اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات سے ہے۔
تشریح ثعلبہ کہتے ہیں کہ جب اس کا ہاتھ کاٹا گیا تو میری نگاہ اسی پر تھی وہ کہہ رہا تھا۔ الحمد للہ الذی طہرنی مما اراد ان یدخل جسدی النار “ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے اس گناہ سے پاک کردیا جس نے یہ چاہا کہ میرا جسم اس کی وجہ سے آگ میں داخل ہو۔
تخریج : ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٤۔
امام طحاوی (رح) کا قول : فقہاء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی آدمی ایک مرتبہ سرقہ کا اعتراف کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) محمد بن الحسن (رح) نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : امام ابو یوسف (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ دو مرتبہ اقرار کے بغیر اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات سے ہے۔

4873

۴۸۷۳: بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ الزُّبَیْرِیُّ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ اِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَبِی الْمُنْذِرِ مَوْلَی أَبِیْ ذٰر عَنْ أَبِیْ أُمَیَّۃَ الْمَخْزُوْمِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِلِص اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ یُوْجَدْ مَعَہُ الْمَتَاعُ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اِخَالُکَ سَرَقْتَ قَالَ : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَأَعَادَہَا عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا ، قَالَ : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَأَمَرَ بِہٖ فَقُطِعَ .ثُمَّ جِیْئَ بِہٖ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ قَالَ : أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقْطَعْہُ بِاِقْرَارِہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً حَتّٰی أَقَرَّ ثَانِیَۃً .فَہٰذَا أَوْلَی مِنَ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ لِأَنَّ فِیْہِ زِیَادَۃً عَلٰی مَا فِی الْأَوَّلِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَحَدُہُمَا قَدْ نَسَخَ الْآخَرَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ رَجَعْنَا اِلَی النَّظَرِ فَوَجَدْنَا السُّنَّۃَ قَدْ قَامَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُقِرِّ بِالزِّنَا أَنَّہٗ رَدَّہُ أَرْبَعًا وَأَنَّہٗ لَمْ یَرْجُمْہُ بِاِقْرَارِہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً وَأُخْرَجَ ذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ الْاِقْرَارِ بِحُقُوْقِ الْآدَمِیِّیْنَ الَّتِیْ یُقْبَلُ فِیْہَا الْاِقْرَارُ مَرَّۃً وَاحِدَۃً وَرَدَّ حُکْمَ الْاِقْرَارِ بِذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ الشَّہَادَۃِ عَلَیْہِ .فَکَمَا کَانَتِ الشَّہَادَۃُ عَلَیْہِ غَیْرَ مَقْبُوْلَۃٍ اِلَّا مِنْ أَرْبَعَۃٍ فَکَذٰلِکَ جَعَلَ الْاِقْرَارَ بِہٖ لَا یُوْجِبُ الْجَلْدَ اِلَّا بِاِقْرَارِہِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ الْاِقْرَارِ بِالسَّرِقَۃِ أَیْضًا لِذٰلِکَ یُرَدُّ اِلَی حُکْمِ الشَّہَادَۃِ عَلَیْہَا .فَکَمَا کَانَتِ الشَّہَادَۃُ عَلَیْہِ لَا یَجُوْزُ اِلَّا مِنْ اثْنَیْنِ فَکَذٰلِکَ الْاِقْرَارُ بِہَا لَا یُقْبَلُ اِلَّا مَرَّتَیْنِ .وَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ جَمِیْعًا لَمَّا رَوَوْا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُقِرِّ بِالزِّنَا لَمَّا ہَرَبَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا خَلَّیْتُمْ سَبِیْلَہٗ۔فَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَہُمْ عَلٰی أَنَّ رُجُوْعَہُ مَقْبُوْلٌ وَاسْتَعْمَلُوْا ذٰلِکَ فِیْ سَائِرِ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَجَعَلُوْا مَنْ أَقَرَّ بِہَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ رُجُوْعِہِ وَلَمْ یَخُصُّوْا الزِّنَا بِذٰلِکَ دُوْنَ سَائِرِ حُدُوْدِ اللّٰہِ .فَکَذٰلِکَ لَمَّا جُعِلَ الْاِقْرَارُ فِی الزِّنَا لَا یُقْبَلُ اِلَّا بِعَدَدِ مَا یُقْبَلُ عَلَیْہِ مِنَ الْبَیِّنَۃِ ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یُقْبَلُ الْاِقْرَارُ بِسَائِرِ حُدُوْدِ اللّٰہِ اِلَّا بِعَدَدِ مَا یُقْبَلُ عَلَیْہَا مِنَ الْبَیِّنَۃِ .فَأَدْخَلَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ہٰذَا عَلٰی أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَقَالَ لَوْ کَانَ لَا یُقْطَعُ فِی السَّرِقَۃِ حَتَّی یُقِرَّ بِہَا سَارِقُہَا مَرَّتَیْنِ لَکَانَ اِذَا أَقَرَّ أَوَّلَ مَرَّۃٍ صَارَ مَا أَقَرَّ بِہٖ عَلَیْہِ دَیْنًا وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ الْقَطْعُ بَعْدَ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ السَّارِقُ لَا یُقْطَعُ فِیْمَا قَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ بِأَخْذِہِ اِیَّاہُ دَیْنًا .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا لِأَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ لَزِمَ ذٰلِکَ أَبَا یُوْسُفَ فِی السَّرِقَۃِ لَلَزِمَ مُحَمَّدًا مِثْلُہٗ فِی الزِّنَا أَیْضًا اِذْ کَانَ الزَّانِیْ فِیْ قَوْلِہِمْ لَا یُحَدُّ فِیْمَا وَجَبَ عَلَیْہِ فِیْہِ مَہْرٌ کَمَا لَا یُقْطَعُ السَّارِقُ فِیْمَا قَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ دَیْنًا .فَلَوْ کَانَتْ ہٰذِہِ الْعِلَّۃُ الَّتِی احْتَجَّ بِہَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ عَلٰی أَبِیْ یُوْسُفَ یَجِبُ بِہَا فَسَادُ قَوْلِ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِی الْاِقْرَارِ بِالسَّرِقَۃِ لَلَزِمَ مُحَمَّدًا مِثْلُ ذٰلِکَ فِی الْاِقْرَارِ بِالزِّنَا .وَذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمَّا أَقَرَّ بِالزِّنَا مَرَّۃً لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ حَدٌّ وَقَدْ أَقَرَّ بِوَطْئٍ لَا یُحَدُّ فِیْہِ بِذٰلِکَ الْاِقْرَارِ فَوَجَبَ عَلَیْہِ مَہْرٌ فَلَا یَنْبَغِی أَنْ یُحَدَّ فِیْ وَطْئٍ قَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ فِیْہِ مَہْرٌ .فَاِذَا کَانَ مُحَمَّدٌ رَحِمَہُ اللّٰہُ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ حُجَّۃٌ فِی الْاِقْرَارِ بِالزِّنَا فَکَذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ حُجَّۃٌ فِی الْاِقْرَارِ بِالسَّرِقَۃِ .وَقَدْ رَدَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِی أَقَرَّ عِنْدَہُ بِالسَّرِقَۃِ مَرَّتَیْنِ .
٤٨٧٣: ابو ذر کے مولیٰ ابو منذر نے ابو امیہ مخزومی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک چور لایا گیا اس نے اعتراف تو اچھی طرح کیا مگر اس کے پاس سامان نہ پایا گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا میرے خیال میں تو تم نے چوری نہیں کی۔ اس نے کہا کیوں نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو اس کے سامنے دو تین مرتبہ دھرایا اس نے کہا کیوں نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اس کا ہاتھ ایک مرتبہ اقرار سے نہیں کاٹا جب تک کہ اس نے دوسری مرتبہ اقرار نہیں کیا۔ یہ روایت پہلی روایت سے اس لیے اولیٰ ہے کہ اس میں پہلی سے اضافہ پایا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری روایت سے پہلی کو منسوخ کردیا ہو۔ اب جبکہ روایت میں احتمال ہے تو نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ جب روایات میں احتمال ہے۔ تو نظر کی طرف رجوع کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طریقہ مبارک پایا کہ آپ نے زنا کا اقرار کرنے والے کو چار مرتبہ واپس کیا اور ایک مرتبہ اقرار کرنے پر اس کو رجم نہیں کیا اور اسے ان انسانی حقوق سے جن میں ایک بار کا اقرار قابل قبول ہوتا ہے ان سے نکال دیا اور اس اقرار کا وہی حکم قرار دیا جو گواہی کا ہوتا ہے تو جس طرح اس کے خلاف چار گواہوں سے کم گواہوں کی گواہی قابل قبول نہیں زنا کے اقرار کو بھی اسی طرح قرار دیا گیا تو جس مجرم کا چار مرتبہ اقرار نہ ہو حد واجب نہ ہوگی۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ چوری کے اقرار کو اس کی گواہی کی طرف لوٹایا جائے گا تو جس طرح اس کے خلاف دو سے کم کی گواہی مقبول نہیں اس طرح اقرار بھی دو بار ہوگا تب قبول کیا جائے گا اور ہم نے غور کیا کہ ان تمام روات نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زنا کا اقرار کرنے والے کے بارے میں روایت کی ہے کہ جب اس نے اقرار کیا تو آپ نے اس کو چار مرتبہ واپس کیا اور ایک بار کے اقرار پر اس کو رجم نہیں فرمایا۔ اب اس کو ان انسانی حقوق سے کہ جن میں ایک بار کا اقرار مقبول ہوتا ہے خارج کردیا اور اس اقرار کے حکم کو گواہی کے حکم کی طرف لوٹا دیا۔ تو جس طرح اس کے خلاف چار سے کم گواہوں کی گواہی مقبول نہیں زنا کے اقرار کو بھی اسی طرح قرار دیا گیا کہ جب تک وہ چار مرتبہ اقرار نہ کرے حد واجب نہ ہوگی۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ چوری کے اقرار کو بھی اس کی گواہی کی طرف لوٹایا جائے گا تو جس طرح اس کے خلاف دو آدمیوں سے کم کی گواہی قابل قبول نہیں اسی طرح اقرار بھی دو بار ہوگا تو تب قبول کیا جائے گا۔ ہم سب اس بات کو مانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زنا کے اقراری مجرم کے متعلق روایت یہ ہے کہ جب وہ بھاگ گیا تو آپ نے فرمایا تم نے اس کا راستہ کیوں نہ چھوڑ دیا تو فقہاء کے ہاں اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کا رجوع ان کے ہاں مقبول ہے اور انھوں نے تمام حدود میں اس پر عمل کیا۔ چنانچہ انھوں نے یہ مقرر کیا ہے کہ جو شخص اقرار کے بعد رجوع کرے اس کا رجوع قابل قبول ہے۔ فقہاء نے اس بات کو باقی حدود کو چھوڑ کر صرف زنا سے متعلق نہیں کیا۔ تو اس طرح زنا کے اقرار میں وہی تعداد معتبر ہے جو گواہی کے لیے قبول کی جاتی ہے۔ تو تمام حدود میں اسی طرح اتنی بار کا اقرار مقبول ہوگا جتنی گواہی دی جاتی ہے۔ امام ابو یوسف (رح) پر اعتراض یہ ہے کہ امام محمد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر چور کا ہاتھ اس وقت تک نہ کاٹا جائے جب تک کہ وہ دوسری مرتبہ اقرار نہ کرے تو جب اس نے پہلی مرتبہ اقرار کیا تو یہ مال اس پر قرض ہوگیا اور جب وہ قرض ہوگیا تو اس پر ہاتھ کا کاٹنا جائز نہ ہوگا کیونکہ جو چیز اس کے لینے سے اس پر قرض ہوگئی ہو اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔ پس دوبارہ اقرار کو لازم کرنا درست نہ ہوا۔ ان کو جواب میں کہے کہ امام ابو یوسف کی طرف سے اس کا ایک الزامی جواب دیا جا رہا ہے کہ اگر چوری کے سلسلہ میں یہ بات امام ابو یوسف (رح) پر لازم کرتے ہیں تو آپ کو زنا کے سلسلہ میں اس قسم کی بات خود اپنے حق میں تسلیم کرنا پڑے گی (حالانکہ آپ اس کو تسلیم نہیں کرتے) کہ جب زانی پر مہر لازم ہوگا تو بالاتفاق اس پر حد واجب نہ ہوگی جس طرح کہ چور پر مال کے قرض ہوجانے کی صورت میں اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جاتا۔ پس جس علت کی وجہ سے امام محمد (رح) نے امام ابو یوسف (رح) پر اعتراض کیا ہے۔ اسی علت کی وجہ سے خود ان پر اعتراض لازم آتا ہے تو جس طرح اقرار زنا کے سلسلہ میں امام محمد (رح) جب اس پر نہ لزوم مہر کے قائل ہیں اور نہ سقوط حد کے قائل ہیں۔ کیونکہ جس وطی میں وجوب مہر ہو اس واطی پر حد واجب نہیں ہوتی۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ جب زنا کے اقرار کی صورت میں ایک بار کے اقرار سے امام محمد (رح) حد کو ساقط نہیں مانتے تو یہ بات چوری کے سلسلہ میں بھی امام ابو یوسف (رح) کے خلاف سقوط حد سرقہ کے لیے تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ حضرت علی (رض) نے اس شخص کو جس نے آپ کے ہاں چوری کا اقرار دو بار کیا آپ نے اس کو لوٹا دیا۔
پس آپ نے حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس کو لایا گیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا تم کہو میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ اس نے کہا استغفر اللہ واتوب الیہ “ پھر آپ نے دعا فرمائی ” اللہم تب علیہ “ اے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ٩‘ نسائی فی السارق باب ٣‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٩‘ دارمی فی الحدود باب ٦‘ مسند احمد ٥؍٢٩٣۔
حاصل روایت اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اس کا ہاتھ ایک مرتبہ اقرار سے نہیں کاٹا جب تک کہ اس نے دوسری مرتبہ اقرار نہیں کیا۔
روایت اوّل کا جواب : یہ روایت پہلی روایت سے اس لیے اولیٰ ہے کہ اس میں پہلی سے اضافہ پایا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری روایت سے پہلی کو منسوخ کردیا ہو۔ اب جبکہ روایت میں احتمال ہے تو نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔
نظر طحاوی (رح) :
جب روایات میں احتمال ہے۔ تو نظر کی طرف رجوع کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طریقہ مبارک پایا کہ آپ نے زنا کا اقرار کرنے والے کو چار مرتبہ واپس کیا اور ایک مرتبہ اقرار کرنے پر اس کو رجم نہیں کیا اور اسے ان انسانی حقوق سے جن میں ایک بار کا اقرار قابل قبول ہوتا ہے ان سے نکال دیا اور اس اقرار کا وہی حکم قرار دیا جو گواہی کا ہوتا ہے تو جس طرح اس کے خلاف چار گواہوں سے کم گواہوں کی گواہی قابل قبول نہیں زنا کے اقرار کو بھی اسی طرح قرار دیا گیا تو جس مجرم کا چار مرتبہ اقرار نہ ہو حد واجب نہ ہوگی۔
نوٹ : یہ ہوا کہ جب زنا کے اقرار کی صورت میں ایک بار کے اقرار سے امام محمد (رح) حد کو ساقط نہیں مانتے تو یہ بات چوری کے سلسلہ میں بھی امام ابو یوسف (رح) کے خلاف سقوط حد سرقہ کے لیے تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
حضرت علی (رض) کا ارشاد :
حضرت علی (رض) نے اس شخص کو جس نے آپ کے ہاں چوری کا اقرار دو بار کیا آپ نے اس کو لوٹا دیا۔

4874

۴۸۷۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ أَنَّ رَجُلًا أَقَرَّ عِنْدَہُ بِسَرِقَۃٍ مَرَّتَیْنِ فَقَالَ : قَدْ شَہِدْتُ عَلٰی نَفْسِک شَہَادَتَیْنِ قَالَ : فَأَمَرَ بِہٖ فَقُطِعَ وَعَلَّقَہَا فِیْ عُنُقِہٖ۔ أَفَلَا تَرَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رَدَّ حُکْمَ الْاِقْرَارِ بِالسَّرِقَۃِ اِلَی حُکْمِ الشَّہَادَۃِ عَلَیْہَا فِیْ عَدَدِ الشُّہُوْدِ فَکَذٰلِکَ الْاِقْرَارُ بِحُدُوْدِ اللّٰہِ کُلِّہَا لَا یُقْبَلُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَّا بِعَدَدِ مَا یُقْبَلُ مِنِ الشُّہُوْدِ عَلَیْہَا .
٤٨٧٤: قاسم بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے متعلق بیان کیا کہ ان کے ہاں ایک آدمی نے چوری کا دو مرتبہ اقرار کیا تو آپ نے فرمایا تو نے اپنے نفس کے خلاف دو مرتبہ گواہی دی پھر آپ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا اور وہ ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا۔ اس روایت میں غور فرمائیں کہ حضرت علی (رض) نے چوری کے اقرار کو اس کے سلسلہ میں گواہوں کی تعداد کی طرف لوٹایا ہے تمام حدود اللہ میں اقرار کا حکم گواہی کی طرح ہوگا ان کے متعلق جتنی گواہی مطلوب ہوتی ہے۔ اقرار بھی اسی مقدار سے معتبر مانا جائے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک عورت زیورات عاریت کے طور پر لیتی اور ان کو واپس نہ کرتی۔ پس اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٣۔
حاصل روایت : اس روایت میں غور فرمائیں کہ حضرت علی (رض) نے چوری کے اقرار کو اس کے سلسلہ میں گواہوں کی تعداد کی طرف ولٹایا ہے تمام حدود اللہ اقرار کا حکم گواہی کی طرح ہوگا ان کے متعلق جتنی گواہی مطلوب ہوتی ہے۔ اقرار بھی اسی مقدار سے معتبر مانا جائے گا۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے امام ابو یوسف (رح) کے مذہب کو ترجیح دی اور اقرار سرقہ کو اقرار شہادت کے مماثل قرار دیا اور نظر کو ان کی دلیل کی تائید میں لائے۔

4875

۴۸۷۵: حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ رَحَّالٍ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ : ثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَتِ امْرَأَۃٌ مَخْزُوْمِیَّۃٌ تَسْتَعِیْرُ الْمَتَاعَ وَتَجْحَدُہُ فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ یَدِہَا .فَأَتَی أَہْلُہَا أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ فَکَلَّمُوْھُ فَکَلَّمَ أُسَامَۃُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا أُسَامَۃُ ، لَا أَرَاک تُکَلِّمُنِیْ فِیْ حَد مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ قَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطِیْبًا فَقَالَ اِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَنَّہٗ اِذَا سَرَقَ فِیْہِمْ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْھُ وَاِذَا سَرَقَ فِیْہِمْ الضَّعِیْفُ قَطَعُوْھُ وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ لَقَطَعْتُ یَدَہَا فَقَطَعَ یَدَ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنِ اسْتَعَارَ شَیْئًا فَجَحَدَہُ وَجَبَ أَنْ یُقْطَعَ فِیْہِ وَکَانَ عِنْدَہُمْ بِذٰلِکَ فِیْ مَعْنَی السَّارِقِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یُقْطَعُ وَیَضْمَنُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ قَدْ رَوَاہُ مَعْمَرٌ کَمَا ذَکَرُوْا وَقَدْ رَوَاہُ غَیْرُہُ فَزَادَ فِیْہِ أَنَّ تِلْکَ الْمَرْأَۃَ الَّتِیْ کَانَتْ تَسْتَعِیْرُ الْحُلِیَّ فَلَا تَرُدُّہُ سَرَقَتْ فَقَطَعَہَا فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَرِقَتِہَا .فَمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : رُوِیَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ امْرَأَۃً کَانَتْ تَسْتَعِیْرُ الْحُلِیَّ وَلَا تَرُدُّہُ قَالَ : فَأُتِیَ بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُطِعَتْ
٤٨٧٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک مخزومی عورت لوگوں سے عاریت کے طور پر سامان لے کر پھر انکار کردیتی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم فرمایا۔ اس کے عزیز و اقارب اسامہ بن زید (رض) کے پاس آئے ان سے بات کی اور اسامہ (رض) نے ان کے کہنے پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ کو فرمایا تم مجھ سے اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق بات کرتے ہو۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو ! تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاکت کا شکار ہوتے کہ ان میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور جب کمزور و کم درجہ چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتے۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ چنانچہ مخزومیہ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جس نے کوئی چیز عاریت کے طور پر لی اور پھر اس کا انکار کردیا۔ تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنا لازم ہے ایسی عاریت ان کے ہاں سرقہ کے مفہوم میں شامل ہے انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عاریت کے طور پر سامان لے کر انکار کرنے والے پر قطع ید نہیں ہے البتہ ضمان لیا جائے گا۔ اس روایت کو معمر نے اسی طرح روایت کیا جیسا آپ نے ذکر کیا ہے مگر ان کے علاوہ دیگر روات نے اس روایت میں اضافہ نقل کیا ہے : ان تلک المرۃ التی کانت تسعیرالحلی فلا تردہ ‘ سرقت فقطعہا فیہ رسول اللہ 5 لسرقتہا “ کہ اس عورت کا ہاتھ سرقہ کی وجہ سے کاٹا گیا۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الحدود ١٠‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٤‘ ١٦‘ نسائی فی السارق باب ٥‘ ٦‘ مسند احمد ٦؍١٦٢۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جس نے کوئی چیز عاریت کے طور پر لی اور پھر اس کا انکار کردیا۔ تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنا لازم ہے ایسی عاریت ان کے ہاں سرقہ کے مفہوم میں شامل ہے انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔
فریق ثانی کا مؤقف و دلیل : عاریت کے طور پر سامان لے کر انکار کرنے والے پر قطع ید نہیں ہے البتہ ضمان لیا جائے گا۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : اس روایت کو معمر نے اسی طرح روایت کیا جیسا آپ نے ذکر کیا ہے مگر ان کے علاوہ دیگر روات نے اس روایت میں اضافہ نقل کیا ہے : ان تلک المرأۃ التی کانت تستعیرالحلی فلا تردہ ‘ سرقت فقطعہا فیہ رسول اللہ 5 لسرقتہا “ کہ اس عورت کا ہاتھ سرقہ کی وجہ سے کاٹا گیا۔ روایت ملاحظہ ہو :

4876

۴۸۷۶: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ عُرْوَۃَ ابْنَ الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہٗ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ اِمْرَأَۃً سَرَقَتْ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْفَتْحِ فَأَمَرَ بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُقْطَعَ .فَکَلَّمَہُ فِیْہَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ فَتَلَوَّنَ أَیْ تَغَیَّرَ مِنَ الْغَضَبِ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتَشْفَعُ فِیْ حَد مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ .فَقَالَ لَہُ أُسَامَۃُ : اسْتَغْفِرْ لِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .فَلَمَّا کَانَ الْعَشِیُّ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَیْ عَلَی اللّٰہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَاِنَّمَا أَہْلَکَ النَّاسَ مِنْ قَبْلِکُمْ أَنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْہِمْ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْھُ وَاِذَا سَرَقَ فِیْہِمْ الضَّعِیْفُ أَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا ثُمَّ أَمَرَ بِتِلْکَ الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقُطِعَتْ یَدُہَا .
٤٨٧٦: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک عورت نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں فتح مکہ کے دنوں چوری کی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا حضرت اسامہ بن زید (رض) نے اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی تو غصہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک بدل گیا تو آپ نے فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کرتے ہو ؟ حضرت اسامہ نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے معاف فرما دیں۔
جب پچھلا پہر ہوا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی خوب تعریف کی جس کا وہ حقدار ہے پھر فرمایا اما بعد ! تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئے کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرلیتا تو اس پر حد قائم کرتے مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر بالفرض فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ پھر آپ نے اس عورت کے متعلق حکم دیا جس نے چوری کی تھی پس اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا۔
تخریج : بخافی فی الحدود باب ١٢‘ مسلم فی الحدود ٨؍٩‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٤‘ ترمذی فی الحدود باب ٦‘ نسائی فی السارق باب ٦‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٦‘ دارمی فی الحدود باب ٥۔

4877

۴۸۷۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ عَنْ أَبِیْھَاعَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ قُرَیْشًا أَہَمَّہُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْا : مَنْ یَجْتَرِئُ یُکَلِّمُ فِیْہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالُوْا : وَمَنْ یَجْتَرِئُ عَلَیْہِ اِلَّا أُسَامَۃُ ؟ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ مَعْنَاہُ .فَثَبَتَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْقَطْعَ کَانَ بِخِلَافِ الْمُسْتَعَارِ الْمَجْحُوْدِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدْفَعُ الْقَطْعَ فِی الْخِیَانَۃِ
٤٨٧٧: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش نے مخزومی عورت کے معاملے کو بڑی اہمیت دی جس نے چوری کی تھی آپس میں کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس موقعہ پر گفتگو میں کون جرأت کرے گا پھر کہنے لگے اسامہ کے علاوہ اور کوئی جرأت نہیں کرسکتا پھر اس کی ہم معنی روایت نقل کی ہے۔ ان روایات سے ثابت ہوا کہ مستعار زیورات جن کا وہ انکار کردیتی تھی یہ چوری اس سے زائد تھی مستعار زیورات کو دبانا یہ خیانت ہے اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہاتھ کاٹنے کی نفی منقول ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی احادیث الانبیاء باب ٥٤‘ فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب ١٨‘ والحدود باب ١٢‘ مسلم فی الحدود ٨؍٩‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٤‘ نسائی فی السارق باب ٦‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٦‘ دارمی فی الحدود باب ٥۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوا کہ مستعار زیورات جن کا وہ انکار کردیتی تھی یہ چوری اس سے زائد تھی مستعار زیورات کو دبانا یہ خیانت ہے اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہاتھ کاٹنے کی نفی منقول ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4878

۴۸۷۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ عَلَی الْخَائِنِ وَلَا عَلَی الْمُخْتَلِسِ وَلَا عَلَی الْمُنْتَہِبِ قَطْعٌ .
٤٨٧٨: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خائن ‘ اچکے ‘ لٹیرے پر قطع ید نہیں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ١٤‘ ترمذی فی الحدود باب ١٨‘ نسائی فی السارق باب ١٣‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٦‘ دارمی فی الحدود باب ٨۔

4879

۴۸۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْبَلْخِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٨٧٩: مکی بن ابراہیم بلخی نے ابن جریج سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4880

۴۸۸۰: حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ رَحَّالٍ حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔فَلَمَّا کَانَ الْخَائِنُ لَا قَطْعَ عَلَیْہِ وَفَرَّقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ السَّارِقِ وَأُحْکِمَتِ السُّنَّۃُ أَمْرَ السَّارِقِ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْہِ الْقَطْعُ أَنَّہٗ الَّذِیْ یَسْرِقُ مِقْدَارًا مِنَ الْمَالِ مَعْلُوْمًا مِنْ حِرْزٍ وَکَانَ الْمُسْتَعِیْرُ أَخَذَ الْمَالَ الْمُسْتَعَارَ مِنْ غَیْرِ حِرْزٍ ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا قَطْعَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ لِعَدَمِ الْحِرْزِ .وَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا مِمَّا صَحَّحْنَا عَلَیْہِ مَعَانِیَ ہٰذِہِ الْآثَارِ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ
٤٨٨٠: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ جبکہ خائن پر قطع ہی نہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خائن اور چور میں فرق فرمایا ہے اور چور کے معاملے میں یہ پختہ طریقہ ثابت ہے کہ جب وہ مال کی ایک مخصوص مقدار (درس درہم) کسی محفوظ مقام سے لے تو تب اس پر قطع آئے گا اور عاریت کے طور پر لینے والے نے تو محفوظ مقام سے بلااجازت نہیں لیا بلکہ اس کے ہاتھ لے لیا ہے مال کے محفوظ مقام پر نہ ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ ہوگی۔ یہ جو اوپر مذکور ہوا جس سے ہم نے آثار کے معانی کا باہمی درست ہونا ثابت کیا ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف (رح) محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : جبکہ خائن پر قطع ہی نہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خائن اور چور میں فرق فرمایا ہے اور چور کے معاملے میں یہ پختہ طریقہ ثابت ہے کہ جب وہ مال کی ایک مخصوص مقدار (درس درہم) کسی محفوظ مقام سے لے تو تب اس پر قطع آئے گا اور عاریت کے طور پر لینے والے تو محفوظ مقام سے بلااجازت نہیں لیا بلکہ اس کے ہاتھ لے لیا ہے مال کے محفوظ مقام پر نہ ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ ہوگی۔
یہ جو اوپر مذکور ہوا جس سے ہم نے آثار کے معانی کا باہمی درست ہونا ثابت کیا ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف (رح) محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں فریق ثانی کے مسلک کو ثابت کیا اور فریق اوّل کی دلیل کا جواب میں دے دیا۔ روایات کا ایسا معنی لیا جس سے روایات کا قضاء اٹھ جائے۔

4881

۴۸۸۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ أَنَّ عَبْدًا سَرَقَ وَدِیًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ فَغَرَسُہٗ فِیْ حَائِطِ سَیِّدِہِ فَخَرَجَ صَاحِبُ الْوَدِیِّ یَلْتَمِسُ وَدِیَّہُ فَوَجَدَہُ فَاسْتَعْدَیْ عَلَی الْعَبْدِ عِنْدَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ فَسَجَنَ الْعَبْدَ وَأَرَادَ قَطْعَ یَدِہِ فَانْطَلَقَ سَیِّدُ الْعَبْدِ اِلٰی رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ فَأَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : لَا قَطْعَ فِیْ ثَمَرٍ وَلَا کَثَرٍ فَقَالَ الرَّجُلُ : فَاِنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ أَخَذَ غُلَامِی وَہُوَ یُرِیْدُ قَطْعَ یَدِہِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَمْشِیَ مَعِیْ اِلَیْہِ فَتُخْبِرَہُ بِاَلَّذِیْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمَشٰی مَعَہُ رَافِعٌ حَتّٰی أَتَی مَرْوَانَ فَقَالَ : أَخَذْتُ عَبْدًا لِہَذَا ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مَا أَنْتَ صَانِعٌ بِہٖ ؟ قَالَ : أَرَدْت قَطْعَ یَدِہٖ۔ فَقَالَ لَہٗ رَافِعٌ : اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : لَا قَطْعَ فِیْ ثَمَرٍ وَلَا کَثَرٍ فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِالْعَبْدِ فَأُرْسِلَ .
٤٨٨١: یحییٰ بن سعید نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت کی ہے کہ ایک غلام نے ایک آدمی کی حویلی سے کھجور کی پنیری چوری کی اور اسے اپنے آقا کی حویلی میں لگا دیا۔ پنیری کا مالک اپنی پنیری کے پودے کو تلاش کرنے نکلا اور اس غلام کو پا لیا اور اس کو مروان بن حکم حاکم مدینہ کے پاس لے گیا۔ مروان نے غلام کو قید خانہ میں ڈال دیا اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا۔ غلام کا مالک رافع بن خدیج (رض) کی خدمت میں گیا اور ان کو اس بات کی اطلاع دی تو انھوں نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھلوں اور پنیری کے پودوں کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔ اس شخص نے کہا کہ مروان نے میرے غلام کو قید کر رکھا ہے اور وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ ان کے ہاں چلیں اور جو کچھ آپ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے اس کو بتلائیں۔ چنانچہ حضرت رافع (رض) اس کے ساتھ تشریف لے گئے مروان کے ہاں پہنچے اور فرمایا تم نے اس کا غلام پکڑا ہوا ہے اس نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گے ؟ اس نے کہا میں اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہوں حضرت رافع (رض) نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ آپ نے فرمایا پھلوں اور پنیری کے پودوں پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چنانچہ مروان نے (یہ سن کر) حکم دیا پس غلام کو چھوڑ دیا گیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الحدود باب ١٣‘ مالک فی الحدود ٣٢۔

4882

۴۸۸۲: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ أَنَّ عَبْدًا سَرَقَ وَدِیًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ فَجَائَ بِہٖ فَغَرَسُہٗ فِیْ مَکَان آخَرَ .فَأَتَی بِہٖ مَرْوَانَ فَأَرَادَ أَنْ یَقْطَعَہُ فَشَہِدَ رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا قَطْعَ فِیْ ثَمَرٍ وَلَا کَثَرٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا یُقْطَعُ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الثَّمَرِ وَلَا مِنَ الْکَثَرِ وَسَوَاء ٌ عِنْدَہُمْ أَخَذَ مِنْ حَائِطِ صَاحِبِہٖ أَوْ مَنْزِلِہِ بَعْدَمَا قَطَعَہُ وَأَحْرَزَہُ فِیْہِ .وَقَالُوْا : لَا قَطْعَ أَیْضًا فِیْ جَرِیْدِ النَّخْلِ وَلَا فِیْ خَشَبِہٖ لِأَنَّ رَافِعًا لَمْ یَسْأَلْ عَنْ قِیْمَۃِ مَا کَانَ فِی الْوَدِیَّۃِ الْمَسْرُوْقَۃِ مِنَ الْجَرِیْدِ وَلَا عَنْ قِیْمَۃِ جِذْعِہَا وَدَرَأَ الْقَطْعَ عَنِ السَّارِقِ فِیْ ذٰلِکَ لِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا قَطْعَ فِیْ کَثَرٍ وَہُوَ الْجُمَّارُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا قَطْعَ فِی الْجُمَّارِ وَلَا فِیْمَا یَکُوْنُ عِنْدَہُ مِنَ الْجَرِیْدِ وَالْخَشَبِ وَالثَّمَرِ .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : ہَذَا الَّذِیْ حَکَاہُ رَافِعٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِ لَا قَطْعَ فِیْ ثَمَرٍ وَلَا کَثَرٍ وَہُوَ عَلَی الثَّمَرِ وَالْکَثَرِ الْمَأْخُوْذَیْنِ مِنَ الْحَائِطِ الَّتِیْ لَیْسَتْ بِحِرْزٍ لِمَا فِیْہَا .فَأَمَّا مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ أُحْرِزَ فَحُکْمُہٗ حُکْمُ سَائِرِ الْأَمْوَالِ وَیَجِبُ الْقَطْعُ عَلَی مَنْ سَرَقَ مِنْ ذٰلِکَ الْمِقْدَارِ الَّذِیْ یَجِبُ الْقَطْعُ فِیْہِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْکِتَابِ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْبَابِ لَمَّا سُئِلَ عَنِ التَّمْرِ الْمُعَلَّقِ فَقَالَ : لَا قَطْعَ فِیْہِ اِلَّا مَا أَوَاہُ الْجَرِیْنُ وَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِیْہِ الْقَطْعُ وَمَا لَمْ یَبْلُغْ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِیْہِ غَرَامَۃُ مِثْلِہِ وَجَلَدَاتُ نَکَالٍ .
٤٨٨٢: یحییٰ بن سعید نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے انھوں نے اپنے چچا واسع بن حبان سے روایت کی ہے کہ ایک غلام نے کسی آدمی کے احاطہ سے پنیری کا ایک پودا چوری کیا اور لے جا کر دوسری جگہ بو دیا۔ اس غلام کو مروان کے پاس لایا گیا تو اس نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا اس پر حضرت رافع بن خدیج (رض) نے گواہی دی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھلوں اور پنیری کے پودے میں ہاتھ کاٹنا نہیں ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا قول یہ ہے کہ پھلوں کی کسی چیز میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے اور اسی طرح پودوں کی پنیری میں بھی خواہ اس نے احاطہ سے اکھاڑا یا مکان سے لیا جہاں انھوں نے اس کو محفوظ کردیا یا کاٹ کر رکھا ہو۔ اسی طرح کھجور کی شاخوں اور اس کی لکڑی میں بھی ہاتھ نہ کاٹا جائے گا کیونکہ اس موقعہ پر حضرت رافع (رض) پنیری کے پودے کی قیمت کا سوال نہیں کیا اور نہ اس کے تنے کی قیمت دریافت کی اور اس طرح سے چور ہاتھ کٹنے سے بچ گیا۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاقطع فی کثر پنیری کے پودے میں قطع ید نہیں ہے۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ پنیری کے پودے میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور نہ ہی کھجور کی شاخوں ‘ لکڑی اور پھل میں۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ دوسروں نے کہا مال محفوظ کی قسم میں سے جو چیز بھی دس درہم کی قیمت کو پہنچ جائے اس پر قطع ید ہے اس کی دلیل مطلقا قطع ید والی روایات ہیں۔ علماء کی دوسری جماعت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس روایت کا مفہوم مخصوص ہے اس سے مراد ایسے پھل اور پنیری کے پودے مراد ہیں جو کسی محفوظ مقام میں نہ ہوں باقی جو محفوظ مقام میں ہوں گے اس کا حکم دیگر اموال کی طرح ہے اور ان اموال میں سے دس درہم کی مقدار چرا لینے پر ہاتھ کاٹنا ہازم ہے۔ انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا جو سرقہ کے سلسلہ میں کتاب میں دوسرے مقام پر منقول ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھلوں کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا۔ لٹکے پھل ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے مگر اس صورت میں کہ جن کو سٹور میں محفوظ کردیا گیا ہو اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے جس کی قیمت ڈھال تک نہ پہنچے اس میں اسی مقدار میں تاوان اور عبرت کے لیے کوڑے ہیں۔ روایت یہ ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : ایک جماعت علماء کا قول یہ ہے کہ پھلوں کی کسی چیز میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے اور اسی طرح پودوں کی پنیری میں بھی خواہ اس نے احاطہ سے اکھاڑا یا مکان سے لیا جہاں انھوں نے اس کو محفوظ کردیا یا کاٹ کر رکھا ہو۔ اسی طرح کھجور کی شاخوں اور اس کی لکڑی میں بھی ہاتھ نہ کاٹا جائے گا کیونکہ اس موقعہ پر حضرت رافع (رض) نے پنیری کے پودے کی قیمت کا سوال نہیں کیا اور نہ اس کے تنے کی قیمت دریافت کی اور اس طرح سے چور ہاتھ کٹنے سے بچ گیا۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاقطع فی کثر پنیری کے پودے میں قطع ید نہیں ہے۔
پس اس سے ثابت ہوگیا کہ پنیری کے پودے میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور نہ ہی کھجور کی شاخوں ‘ لکڑی اور پھل میں۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : مال محفوظ کی قسم میں سے جو چیز بھی دس درہم کی قیمت کو پہنچ جائے اس پر قطع ید ہے اس کی دلیل مطلقاً قطع ید والی روایات ہیں۔
روایت رافع کا جواب :
علماء کی دوسری جماعت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس روایت کا مفہوم مخصوص ہے اس سے مراد ایسے پھل اور پنیری کے پودے مراد ہیں جو کسی محفوظ مقام میں نہ ہوں باقی جو محفوظ مقام میں ہوں گے ان کا حکم دیگر اموال کی طرح ہے اور ان اموال میں سے دس درہم کی مقدار چرا لینے پر ہاتھ کاٹنا لازم ہے۔
مؤقف ِثانی کی دلیل :
انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا جو سرقہ کے سلسلہ میں کتاب میں دوسرے مقام پر منقول ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھلوں کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا۔ لٹکے پھل پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے مگر اس صورت میں کہ جن کو سٹور میں محفوظ کردیا گیا ہو اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے جس کی قیمت ڈھال تک نہ پہنچے اس میں اسی مقدار میں تاوان اور عبرت کے لیے کوڑے ہیں۔ روایت یہ ہے۔

4883

۴۸۸۳: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ أَیْضًا .فَفَرَّقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الثِّمَارِ الْمَسْرُوْقَۃِ بَیْنَ مَا أَوَاہُ الْجَرِیْنُ مِنْہَا وَبَیْنَ مَا لَمْ یَأْوِہِ وَکَانَ فِیْ شَجَرِہِ فَجَعَلَ فِیْمَا أَوَاہُ الْجَرِیْنُ مِنْہَا الْقَطْعَ وَفِیْمَا لَمْ یَأْوِہِ الْجَرِیْنُ الْغُرْمَ وَالنَّکَالَ .فَتَصْحِیْحُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَمَا رَوَاہُ رَافِعٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ لَا قَطْعَ فِیْ ثَمَرٍ وَلَا کَثَرٍ أَنْ یُجْعَلَ مَا رَوَیْ رَافِعٌ ہُوَ عَلٰی مَا کَانَ فِی الْحَوَائِطِ الَّتِیْ لَمْ یُحْرَزْ مَا فِیْہَا عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو مِمَّا زَادَ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ رَافِعٍ فَہُوَ خِلَافُ مَا فِیْ حَدِیْثِ رَافِعٍ فَفِیْ ذٰلِکَ الْقَطْعُ وَلَا قَطْعَ فِیْمَا سِوٰی ذٰلِکَ ، یَسْتَوِیْ ہَذَانِ الْأَثَرَانِ وَلَا یَتَضَادَّانِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٤٨٨٣: عمرو بن شعیب نے اپنے والد ‘ انھوں نے اپنے دادا سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو روایت کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چرائے ہوئے پھلوں اور سٹور میں محفوظ پھلوں اور جو درخت پر ہوں اور محفوظ نہ کئے گئے ہوں ان میں سے سٹور میں محفوظ پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور جو محفوظ نہ ہوں ان میں چٹی اور سزا کا حکم فرمایا۔ تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ حضرت رافع (رض) والی روایت ” لاقطع فی ثمر ولا کثر “ اس کو ایسے احاطوں والا قرار دیں جن کو دروازے و چوکیدار سے محفوظ نہ کیا گیا ہو جیسا کہ حدیث عبداللہ بن عمرو میں ہے جو حدیث رافع کے علاوہ میں ہے حدیث رافع کے خلاف ہے اس میں ہاتھ کاٹے جائیں گے اس کے علاوہ میں قطع نہیں ہے اب یہ دونوں آثار برابر ہوگئے متضاد نہ رہے یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں طحاوی (رح) نے فریق ثانی یعنی امام ابو یوسف (رح) کے مؤقف کو ترجیح دی ہے اور وہی ان کے ہاں راجح معلوم ہوتا ہے حضرت امام صاحب کے ہاں یہ اشیاء گویا مسروقہ اموال کی تعریف میں شامل نہیں۔ جب کہ امام ابو یوسف (رح) اس کو حدود سرقہ میں داخل مان کر اس میں ہاتھ کاٹنے کو لازم کہتے ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔