HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

14. خرید و فروخت کے مسائل و احکام

الطحاوي

5358

۵۳۵۷ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّدَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ حَدَّثَہٗ أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِیْدٍ حَدَّثَہٗ ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ أَرْسَلَ غُلَامًا لَہٗ بِصَاعٍ مِنْ قَمْحٍ ہُوَ الْحِنْطَۃُ فَقَالَ لَہٗ : بِعْہُ ثُمَّ اشْتَرِ بِہٖ شَعِیْرًا ، فَذَہَبَ الْغُلَامُ فَأَخَذَ صَاعًا وَزِیَادَۃَ بَعْضِ صَاعٍ ، فَلَمَّا جَائَ مَعْمَرٌ أَخْبَرَہٗ، فَقَالَ لَہٗ مَعْمَرٌ : لِمَ فَعَلْتَ ؟ اِنْطَلِقْ فَرُدَّہٗ، وَلَا تَأْخُذْ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، فَاِنِّیْ کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الطَّعَامُ بِالطَّعَامِ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ وَکَانَ طَعَامُنَا یَوْمَئِذٍ ، الشَّعِیْرَ .قِیْلَ لَہٗ : فَاِنَّہٗ لَیْسَ مِثْلَہٗ۔، قَالَ : اِنِّیْ أَخَافُ أَنْ یُضَارِعَہُ أَنْ یُشْبِہَہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَلَّدُوْھُ ، وَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ بَیْعُ الْحِنْطَۃِ بِالشَّعِیْرِ ، اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِبَیْعِ الْحِنْطَۃِ بِالشَّعِیْرِ مُتَفَاضِلًا ، مِثْلَیْنِ بِمِثْلٍ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِی الْحَدِیْثِ الَّذِی احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ ، أَنَّ مَعْمَرًا أَخْبَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَسْمَعُہُ یَقُوْلُ الطَّعَامُ بِالطَّعَامِ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ثُمَّ قَالَ مَعْمَرٌ : وَکَانَ طَعَامُنَا یَوْمَئِذٍ الشَّعِیْرَ .فَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ الَّذِیْ حَکَاہُ عَنْہُ مَعْمَرٌ ، الطَّعَامَ الَّذِیْ کَانَ طَعَامَہُمْ یَوْمَئِذٍ ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ عَلَی الشَّعِیْرِ بِالشَّعِیْرِ ، فَلَا یَکُوْنُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ شَیْء ٌ مِنْ ذِکْرِ بَیْعِ الْحِنْطَۃِ بِالشَّعِیْرِ ، مِمَّا ذَکَرَ فِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاِنَّمَا ہُوَ مَذْکُوْرٌ عَنْ مَعْمَرٍ ، مِنْ رَأْیِہٖ، وَمِنْ تَأْوِیْلِہِ مَا کَانَ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .أَلَا تَرَی أَنَّہٗ قِیْلَ لَہٗ : فَاِنَّہٗ لَیْسَ مِثْلَہٗ۔، أَیْ : لَیْسَ مِنْ نَوْعِہٖ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَی مَنْ قَالَہٗ، وَکَانَ جَوَابُہٗ لَہُ اِنِّیْ أَخْشَی أَنْ یُضَارِعَہُ کَأَنَّہٗ خَافَ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ سَمِعَہٗ یَقُوْلُہٗ، وَہُوَ مَا ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِہِ عَلَی الْأَطْعِمَۃِ کُلِّہَا فَتَوَقَّیْ ذٰلِکَ وَتَنَزَّہَ عَنْہُ، لِلرَّیْبِ الَّذِی وَقَعَ فِیْ قَلْبِہٖ مِنْہُ. فَلَمَّا انْتَفَی أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ عَلٰی صَاحِبِہٖ ، نَظَرْنَا ہَلْ فِیْ غَیْرِہِ مَا یَدُلُّنَا عَلٰی حُکْمِ ذٰلِکَ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ۔
٥٣٥٧: بسر بن سعید نے معمر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے اپنے ایک غلام کو گندم کا صاع دے کر بھیجا پھر فرمایا کہ اس کے بدلے جو خرید لاؤ غلام گیا اور ایک صاع سے زائد جو لایا جب حضرت معمر (رض) کے پاس لایا تو آپ نے فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا۔ اسے واپس کرو اور برابر برابر بدلو۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا غلہ غلہ کے بدلے برابر ہونا چاہیے۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دنوں ہمارا غلہ جو تھا۔ ان سے کہا گیا کہ جو اس کی مثل نہیں تو فرمانے لگے مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ اس کے کہیں مشابہ نہ ہو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جیسا یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ گندم اور جو کی خریدو فروخت باہمی برابر سرابر کے علاوہ درست نہیں۔ دوسروں نے کہا جو اور گندم کی بیع کم زیادہ مقدار کے ساتھ جائز ہے خواہ گندم ایک مثل ہو اور جو اس سے دوگنا ہوں۔ فریق اوّل کا جواب : اس روایت میں حضرت معمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بات سنی ہے وہ اسی قدر ہے الطعام بالطعام مثلا بمثل پھر معمر کہتے ہیں کہ ہم ان دنوں بطور طعام جو استعمال کرتے تھے پس یہ جائز ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو کے مقابلے میں جو کی بیع ہو پس اس روایت میں گندم کے بدلے جو کی بیع کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں بقیہ آگے حضرت معمر (رض) نے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا اس کی تعبیر میں انھوں نے گندم و جو کے الگ نوع ہونے سے انکار نہیں فرمایا۔ بلکہ اپنے ہاں کمال احتیاط برتتے ہوئے محض اپنے شک کی بناء پر اس کو مثلا بمثل میں داخل مانا۔ اب جب یہ احتمال پیدا ہوا تو یہ روایت فریق اوّل کی دلیل نہ رہی کسی فیصلہ پر پہنچنے کے لیے دیگر روایات کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ جس معنی کی تائید مل جائے گی اسے تسلیم کرلیا جائے گا۔ روایت عبادہ بن صامت (رض) ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی المساقات ٩٣‘ مسند احمد ٦؍٤٠٠۔

5359

۵۳۵۸ : فَاِذَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّہٗ قَامَ فَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، اِنَّکُمْ قَدْ أَحْدَثْتُمْ بُیُوْعًا ، لَا أَدْرِی مَا ہِیَ ؟ وَاِنَّ الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ ، وَزْنًا بِوَزْنٍ ، تِبْرَہُ وَعَیْنَہٗ، وَالْفِضَّۃَ بِالْفِضَّۃِ ، وَزْنًا بِوَزْنٍ ، تِبْرَہَا وَعَیْنَہَا ، وَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ الذَّہَبِ بِالْفِضَّۃِ ، وَالْفِضَّۃُ أَکْثَرُہُمَا ، یَدًا بِیَدٍ ، وَلَا یَصْلُحُ نَسِیْئًا ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ ، مُدًّا بِمُد ، یَدًا بِیَدٍ ، وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ ، مُدًّا بِمُد ، یَدًا بِیَدٍ ، وَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ الشَّعِیْرِ بِالْبُرِّ ، وَالشَّعِیْرُ أَکْثَرُہُمَا ، یَدًا بِیَدٍ ، وَلَا یَصِحُّ نَسِیْئَۃً ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ ، حَتَّی عَدَّ الْمِلْحَ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ، مَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ ، فَقَدْ أَرْبٰی .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ قَدْ خَالَفَ مَعْمَرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہٰذَا الْکَلَامُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٣٥٨: ابوالاشعث نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو ! تم نے بیع کی کئی اقسام گھڑلی ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ سنو ! سونے کی ڈلی سونے کی ڈلی کے بدلے اور اس کا سکہ سکے کے بدلے برابر وزن میں اسی طرح چاندی کی ڈلی اور سکہ چاندی کے بدلے جب وزن میں برابر ہوں (تو فروخت کرو) اور اس میں حرج نہیں کہ سونے کو چاندی کے بدلے کم زیادہ نقدی میں لیا دیا جائے۔ یہ ادھار درست نہیں اور کھجور کے بدلے کھجور برابر دیا جائے اور نمک کو نمک کے بدلے برابر دیا جائے جس نے ان میں (جب جنس ایک ہو) کمی اضافہ کیا اس نے سود لیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت عبادہ (رض) نے معمر (رض) کے مؤقف کے خلاف بات کہی یہ بات صرف عبادہ (رض) کی اپنی رائے نہیں بلکہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ روایت عبادہ (رض) ملاحظہ ہو۔

5360

۵۳۵۹ : حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوْبَ السِّخْتِیَانِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، وَرَجُلٍ آخَرَ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَبِیْعُوْا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ ، وَلَا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ ، وَلَا الْبُرَّ بِالْبُرِّ ، وَلَا الشَّعِیْرَ بِالشَّعِیْرِ ، وَلَا التَّمْرَ بِالتَّمْرِ ، وَلَا الْمِلْحَ بِالْمِلْحِ اِلَّا سَوَائً بِسَوَائٍ ، عَیْنًا بِعَیْنٍ ، وَلٰـکِنْ بِیْعُوْا الذَّہَبَ بِالْوَرِقِ ، وَالْوَرِقَ بِالذَّہَبِ ، وَالْبُرَّ بِالشَّعِیْرِ ، وَالشَّعِیْرَ بِالْبُرِّ وَالتَّمْرَ بِالْمِلْحِ ، وَالْمِلْحَ بِالتَّمْرِ یَدًا بِیَدٍ ، کَیْفَ شِئْتُمْ .قَالَ : وَنَقَصَ أَحَدُہُمَا ، التَّمْرَ بِالْمِلْحِ ، وَزَادَ الْآخَرُ مَنْ زَادَ أَو ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبٰی .
٥٣٥٩: مسلم بن یسار اور ایک دوسرے شخص نے حضرت عبادہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سونا سونے کے بدلے ‘ اور چاندی۔ چاندی کے بدلے ‘ گندم گندم کے بدلے۔ جو جو کے بدلے ‘ کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے برابر فروخت کرو۔ مگر سونے کو چاندی اور چاندی کو سونے کے بدلے اسی طرح گندم کو جو کے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے اور کھجور کو نمک کے بدلے اور نمک کو کھجور کے بدلے نقداً جس طرح چاہو فروخت کرو۔ کھجور و نمک میں سے ایک چیز کم ہو اور دوسری زیادہ ہو تو یہ اضافہ درست ہے (اور جب جنس ایک ہو) تو جس نے زیادہ لیا اس نے سود کا کام کیا۔
تخریج : مسلم فی المساقات ٨٠‘ ناسئی فی البیوع باب ٥٠‘ مسند احمد ٥؍٣٢٠۔

5361

۵۳۶۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٣٦٠: وہیب نے ایوب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

5362

۵۳۶۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ الْکَیْسَانِیُّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ طَہْمَانَ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ أَبِیْ تَمِیْمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنِ ابْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ یَقُوْلُ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَبَایَعُوْا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ ، وَلَا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلَّا وَزْنًا بِوَزْنٍ وَلَا التَّمْرَ بِالتَّمْرِ وَلَا الْحِنْطَۃَ بِالْحِنْطَۃِ وَلَا الشَّعِیْرَ بِالشَّعِیْرِ وَلَا الْمِلْحَ بِالْمِلْحِ اِلَّا سَوَائً بِسَوَائٍ عَیْنًا بِعَیْنٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَی وَلٰـکِنْ بِیْعُوْا الذَّہَبَ بِالْوَرِقِ وَالْحِنْطَۃَ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرَ بِالْمِلْحِ یَدًا بِیَدٍ کَیْفَ شِئْتُمْ .
٥٣٦١: ابوالاشعث نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا یا اس طرح فرمایا تم سونے کو سونے کے بدلے اور نہ چاندی کو چاندی کے بدلے فروخت کرو مگر اس صورت میں جبکہ ان کا وزن برابر ہو۔ اسی طرح کھجور کو کھجور کے بدلے اور نہ گندم کو گندم کے عوض اور نہ جو کو جو کے عوض اور نہ نمک کو نمک کے عوض فروخت کرو مگر اس صورت میں جبکہ یہ برابر ہوں اور ایک ہی جنس ہوں پس جس نے بڑھایا اس نے سودی کاروبار کیا لیکن سونا چاندی کے بدلے اور گندم جو کے بدلے اور کھجور کے بدلے دست بدست جس طرح چاہو کم زیادہ دے سکتے ہو۔
تخریج : مسلم فی المساقاۃ ٨٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٣‘ نسائی فی البیوع باب ٤٢‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٤٨‘ مسند احمد ٥؍٣٢٠۔

5363

۵۳۶۲ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیْلِ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْمَکِّیِّ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ أَنْ یُبَاعَ الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ ، تِبْرُہُ وَعَیْنُہٗ، اِلَّا وَزْنًا بِوَزْنٍ ، وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ ، تِبْرُہَا وَعَیْنُہَا ، اِلَّا مَثَلًا بِمِثْلٍ ، وَذَکَرَ الشَّعِیْرَ بِالشَّعِیْرِ ، وَالتَّمْرَ بِالتَّمْرِ ، وَالْمِلْحَ بِالْمِلْحِ کَیْلًا بِکَیْلٍ ، فَمَنْ زَادَ ، أَوْ ازْدَادَ ، فَقَدْ أَرْبَی .وَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ الشَّعِیْرِ بِالْبُرِّ ، یَدًا بِیَدٍ ، وَالشَّعِیْرُ أَکْثَرُہُمَا۔
٥٣٦٢: اشعث صنعانی نے حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کا ٹکڑا اور سکہ سونے کے بدلے فروخت کرنے سے روکا مگر اس صورت میں جبکہ دونوں کا وزن برابر ہو۔ چاندی کا ٹکڑا اور اس کا سکہ بھی چاندی کے ٹکڑے کے بدلے برابر برابر وزن میں ہونا چاہیے۔ آپ نے جو کے بدلے جو اور کھجور کے بدلے کھجور ‘ نمک کے بدلے نمک کا ذکر فرمایا۔ کہ دونوں کا پیمانہ برابر ہو۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کیا فرمایا اس نے سود کمایا۔ البتہ گندم کو جو کے بدلے دست بدست فروخت کرنا کمی و اضافہ کے ساتھ دینے میں حرج نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ١٢‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٣‘ نسائی فی البیوع باب ٤‘ ٤٣؍٤٤‘ دارمی فی البیوع باب ٤١‘ مسند احمد ٥؍٣٢٠۔

5364

۵۳۶۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِہٖ .
٥٣٦٣: ابوالاشعث نے حضرت عبادہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5365

۵۳۶۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ عَنْ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : ثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ عَلْقَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، وَذَکَرَ آخَرَ حَدَّثَاہٗ، أَوحَدَّثَنَا قَالَ : جَمَعَ الْمَنْزِلُ بَیْنَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَمُعَاوِیَۃَ ، فِیْ کَنِیسَۃٍ أَوْ بِیْعَۃٍ .فَحَدَّثَ عُبَادَۃُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَبِیْعُوْا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ ، وَلَا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ ، وَلَا الْبُرَّ بِالْبُرِّ ، وَلَا الشَّعِیْرَ بِالشَّعِیْرِ ، وَلَا التَّمْرَ بِالتَّمْرِ ، وَلَا الْمِلْحَ بِالْمِلْحِ ، اِلَّا سَوَائً بِسَوَائٍ ، عَیْنًا بِعَیْنٍ قَالَ أَحَدُہُمَا ، وَلَمْ یَقُلْ الْآخَرُ : قَالَ عُبَادَۃُ : أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَبِیْعَ الذَّہَبَ بِالْفِضَّۃِ ، وَالْبُرَّ بِالشَّعِیْرِ ، وَالشَّعِیْرَ بِالْبُرِّ ، یَدًا بِیَدٍ ، کَیْفَ شِئْنَا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِبَاحَۃُ بَیْعِ الشَّعِیْرِ بِالْحِنْطَۃِ مِثْلَیْنِ بِمِثْلٍ ، فَقَدْ ثَبَتَ الْقَوْلُ بِذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ ، ثُمَّ الْتَمَسْنَا حُکْمَ ذٰلِکَ مِنَ الْحِنْطَۃِ کَمْ ہِیَ ؟ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : ہِیَ نِصْفُ صَاعٍ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : ہِیَ مُدٌّ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ .فَکَانَ الَّذِیْنَ جَعَلُوْہَا مِنَ الْحِنْطَۃِ نِصْفَ صَاعٍ ، یَجْعَلُوْنَہَا مِنِ الشَّعِیْرِ صَاعًا ، وَکَانَ الَّذِیْ جَعَلُوْہَا مِنَ الْحِنْطَۃِ مُدًّا ، یَجْعَلُوْنَہَا مِنِ الشَّعِیْرِ مُدَّیْنِ ، وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیدِہِ عَنْہُمْ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہُمَا نَوْعَانِ مُخْتَلِفَانِ ، لِأَنَّہُمَا لَوْ کَانَا مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ ، اِذًا لَأَجْزَأَ مِنْ أَحَدِہِمَا مَا یُجْزِئُ مِنَ الْآخَرِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّہٗ اِنَّمَا زِیْدَ فِی الشَّعِیْرِ ، عَلٰی مَا جُعِلَ فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْحِنْطَۃِ ، لِغُلُوِّ الْحِنْطَۃِ ، وَاتِّسَاعِ الشَّعِیْرِ .فَالْجَوَابُ لَہُ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّا رَأَیْنَا مَا یُعْطَی مِنْ جَیِّدِ الْحِنْطَۃِ وَمِنْ رَدِیئِہَا فِیْ کَفَّارَۃِ الْأَیْمَانِ سَوَائً ، وَکَذٰلِکَ الشَّعِیْرُ .أَلَا تَرَی أَنَّ مَنْ وَجَبَتْ عَلَیْہِ کَفَّارَۃُ یَمِیْنٍ ، فَأَعْطَی کُلَّ مِسْکِیْنٍ نِصْفَ مُد ، یُسَاوِی نِصْفَ صَاعٍ ، أَنَّ ذٰلِکَ لَا یُجْزِئُہُ مِنْ نِصْفِ صَاعٍ، وَلَا مِنْ مُد .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، وَکَانَ الشَّعِیْرُ یُؤَدَّی مِنْہُ کَفَّارَاتُ الْأَیْمَانِ مِثْلَی مَا یُؤَدَّی مِنَ الْحِنْطَۃِ ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ نَوْعٌ خِلَافُ الْحِنْطَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنْ لَا بَأْسَ بِبَیْعِہِ بِالْحِنْطَۃِ ، مِثْلَیْنِ بِمِثْلٍ وَأَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٣٦٤: محمد بن سیرین نے مسلم بن یسار اور دوسرے کا بھی ذکر کیا دونوں نے اس کو بیان یا ہم نے بیان کیا کہ عبادہ بن صامت (رض) اور حضرت معاویہ (رض) ایک جگہ جمع ہوئے جو عیسائیوں یا یہودیوں کا گرجا تھا۔ تو عبادہ نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سونا بدلے سونے کے اور چاندی کے بدلے چاندی اور جو کے بدلے جو مت فروخت کرو اور نہ کھجور کے بدلے کھجور اور نہ نمک کے بدلے نمک مگر برابر سرابر اور عین کے بدلے عین یہ ایک راوی نے آخری الفاظ کہے دوسرے نے نہیں کہے۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کی بیع گندم کے بدلے دو مثل ایک مثل کے بدلے جائز قرار دی ہے جب روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی اب گندم کی مقدار کا حکم تلاش کیا۔ کہ گندم و جو میں نسبت کیا ہوگی۔ بعض صحابہ کرام کا قول :
نمبر ١ ہر مسکین کو گندم کا نصف صاع۔
نمبر ٢ ہر مسکین کو ایک مد دیا جائے گا۔ جن حضرات نے گندم کے نصف صاع اور جو کا صاع برابر قرار دیا دوسروں سے گندم کا ایک مد اور جو دو مد۔ یہ صدقہ الفطر میں تفصیل سے ذکر کردیا گیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گندم اور جو ایک دوسرے سے الگ انواع ہیں کیونکہ اگر ان کی نوع ایک ہوتی تو پھر ایک میں جو چیز جائز ہے دوسری میں بھی مقدار اتنی ہی رہتی۔ جو میں اضافہ کی وجہ انواع کا مختلف ہونا نہیں بلکہ گندم کی گرانی اور جو کے سستا ہونے کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ ذرا توجہ تو فرمائیں گندم میں عمدہ ہو یا ردی کی مقدار یکساں رہے گی اور جو کا بھی یہی حال ہے مثلاً کسی پر قسم کا کفارہ لازم ہوا اس نے ہر مسکین کو نصف مد گندم دی جو قیمت میں نصف صاع متوسط گندم کے برابر ہے تو یہ کفارہ ادا نہ ہوگا۔ نہ نصف صاع متوسط گندم کے برابر ہے تو یہ کفارہ ادا نہ ہوگا نہ نصف صاع کے اعتبار سے نہ مد کے لحاظ سے۔ جب یہ بات ثابت شدہ ہے تو کفارات کی ادائیگی آج تک تو گندم سے دونے جو سے ادا کی جاتی رہی اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ الگ نوع ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ گندم کو ایک مثل یا دو مثل سے فروخت کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
عبادہ (رض) کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم سونے کو چاندی اور گندم کو جو اور جو کو گندم کے بدلے فروخت کریں جیسے چاہیں بدست بدست فروخت کریں۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کی بیع گندم کے بدلے دو مثل ایک مثل کے بدلے جائز قرار دی ہے جب روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی اب گندم کی مقدار کا حکم تلاش کیا۔ کہ گندم و جو میں نسبت کیا ہوگی۔ بعض صحابہ کرام کا قول :
نمبر ١ ہر مسکین کو گندم کا نصف صاع۔
نمبر ٢ ہر مسکین کو ایک مد دیا جائے گا۔
جن حضرات نے گندم کے نصف صاع اور جو کا صاع برابر قرار دیا دوسروں سے گندم کا ایک مد اور جو دو مد۔ یہ صدقہ الفطر میں تفصیل سے ذکر کردیا گیا۔
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گندم اور جو ایک الگ انواع ہیں کیونکہ اگر ان کی نوع ایک ہوتی تو پھر ایک میں جو چیز جائز ہے دوسری میں بھی مقدار اتنی ہی رہتی۔
اعتراض :
جو میں اضافہ کی وجہ انواع کا مختلف ہونا نہیں بلکہ گندم کی گرانی اور جو کے سستا ہونے کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔
جوابذرا توجہ تو فرمائیں گندم عمدہ ہو یا ردی اس کی مقدار یکساں رہے گی اور جو کا بھی یہی حال ہے مثلاً کسی پر قسم کا کفارہ لازم ہوا اس نے ہر مسکین کو نصف مد گندم دی جو قیمت میں نصف صاع متوسط گندم کے برابر ہے تو یہ کفارہ ادا نہ ہوگا۔ نہ نصف صاع متوسط گندم کے برابر ہے تو یہ کفارہ ادا نہ ہوگا نہ نصف صاع کے اعتبار سے نہ مد کے لحاظ سے۔ جب یہ بات ثابت شدہ ہے تو کفارات کی ادائیگی آج تک تو گندم سے دوگنا جو سے ادا کی جاتی رہی اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ الگ نوع ہے۔
اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ گندم کو ایک مثل یا دو مثل سے فروخت کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

5366

۵۳۶۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا وَأُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ حَدَّثَاہٗ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ مَوْلَی الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْیَانَ : أَنَّ زَیْدًا أَبَا عَیَّاشٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَأَلَ سَعْدًا ، عَنِ السُّلْتِ بِالْبَیْضَائِ ، فَقَالَ سَعْدٌ : شَہِدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسْأَلُ عَنِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ ، فَقَالَ أَیَنْقُصُ الرُّطَبُ اِذَا جَفَّ ؟ فَقَالُوْا : نَعَمْ ، قَالَ فَلَا اِذًا وَکَرِہَہُ .
٥٣٦٥ : زید ابو عیاش نے بتلایا کہ انھوں نے سعد سے پوچھا کہ چھلکے والے جو اور گندم کے متعلق دریافت کیا تو حضرت سعد کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تر کھجور اور خشک کھجور کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کیا تر کھجور خشک ہونے سے کم ہوجاتی ہے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا پھر جائز نہیں اور اس کو آپ نے ناپسند فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ١٨‘ ترمذی فی البیوع باب ١٤‘ نسائی فی البیوع باب ٣٦‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٥٣‘ مالک فی البیوع ٢٢‘ (بتغیر یسیر من اللفظ)

5367

۵۳۶۶ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ زَیْدٍ أَبِیْ عَیَّاشٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَلَّدُوْھُ وَجَعَلُوْھُ أَصْلًا ، وَمَنَعُوْا بِہٖ بَیْعَ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ : أَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَجَعَلُوْا الرُّطَبَ وَالتَّمْرَ ، نَوْعًا وَاحِدًا ، وَأَجَازُوْا بَیْعَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِصَاحِبِہٖ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ، وَکَرِہُوْھُ نَسِیْئَۃً .فَاعْتَبَرْنَا ہٰذَا الْحَدِیْثَ الَّذِی احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمْ مُخَالِفُہُمْ ، ہَلْ دَخَلَہُ شَیْء ٌ ؟
٥٣٦٦: زید ابو عیاش نے سعد (رض) وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح فرماتے سنا پھر اسی طرح روایت ذکر کی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کے پیش نظر بعض علماء نے تر کھجور کی خریدو فروخت خشک کھجور کے عوض ممنوع قرار دی ہے اور یہ امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔ دوسروں نے کہا تر کھجور یا خشک دونوں ایک قسم ہیں ان کی بیع نقد برابر برابر ایک دوسرے کے ساتھ درست ہے اور ادھار جائز نہیں۔ مؤقف اوّل کا جواب یہ ہے کہ جس حدیث سے استدلال کیا گیا دیگر آثار کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ جس چیز کی ممانعت کی گئی وہ ان کی ادھار بیع ہے پس فریق اوّل کی مستدل نہ رہی۔ روایت ملاحظہ فرمائیں۔

5368

۵۳۶۷ : فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ أَنَّ زَیْدًا ، أَبَا عَیَّاشٍ ، أَخْبَرَہٗ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ نَسِیْئَۃً .فَکَانَ ہَذَا أَصْلَ الْحَدِیْثِ فِیْہِ ذِکْرُ النَّسِیْئَۃِ ، زَادَہُ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَلٰی مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، فَہُوَ أَوْلَی .وَقَدْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَیْضًا ، غَیْرُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَلَی مِثْلِ مَا رَوَاہٗ، یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ أَیْضًا .
٥٣٦٧: ابو عیاش زید نے سعد (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تر کھجور کی خشک کھجور کے بدلے خرید ادھار کی صورت میں منع کی ہے۔ پس اصل روایت میں نسیہ (ادھار) کا لفظ موجود ہے اور یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت مالک بن انس کی روایت سے جو اضافہ پایا جاتا ہے یہی اولیٰ ہے۔ اس روایت کو یحییٰ کے علاوہ عبداللہ بن یزید نے بھی اسی طرح روایت کیا جیسا کہ یحییٰ نے کی ہے۔ روایت عبداللہ بن یزید ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ١٨۔
پس اصل روایت میں نسیہ (ادھار) کا لفظ موجود ہے اور یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت مالک بن انس کی روایت سے جو اضافہ پایا جاتا ہے یہی اولیٰ ہے۔
تائیدی روایت : اس روایت کو یحییٰ کے علاوہ عبداللہ بن یزید نے بھی اسی طرح روایت کیا جیسا کہ یحییٰ نے کی ہے۔ روایت عبداللہ بن یزید ملاحظہ ہو۔

5369

۵۳۶۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہٗ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ أَنَسٍ أَنَّ مَوْلًی لِبَنِیْ مَخْزُوْمٍ حَدَّثَہٗ ، أَنَّہٗ سُئِلَ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، عَنِ الرَّجُلِ یُسْلِفُ الرَّجُلَ الرُّطَبَ بِالتَّمْرِ اِلٰی أَجَلٍ ؟ فَقَالَ سَعْدٌ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ ہَذَا .فَہٰذَا عِمْرَانُ بْنُ أَبِیْ أَنَسٍ ، وَہُوَ رَجُلٌ مُتَقَدِّمٌ مَعْرُوْفٌ ، قَدْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ ، کَمَا رَوَاہُ یَحْیَی .فَکَانَ یَنْبَغِی فِیْ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ أَنْ یَکُوْنَ حَدِیْثُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ - لَمَّا اُخْتُلِفَ عَنْہُ فِیْہِ - أَنْ یَرْتَفِعَ وَیَثْبُتَ حَدِیْثُ عِمْرَانَ ہَذَا .فَیَکُوْنَ ہَذَا النَّہْیُ الَّذِیْ جَائَ فِیْ حَدِیْثِ سَعْدٍ ہٰذَا، اِنَّمَا ہُوَ لِعِلَّۃِ النَّسِیْئَۃِ لَا لِغَیْرِ ذٰلِکَ .فَہٰذَا سَبِیْلُ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْ بَیْعِ الرُّطَبِ بِالرُّطَبِ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ، أَنَّہٗ جَائِزٌ .وَکَذٰلِکَ التَّمْرُ بِالتَّمْرِ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ، وَاِنْ کَانَتْ فِیْ أَحَدِہِمَا رُطُوْبَۃٌ لَیْسَتْ فِی الْآخَرِ ، وَکُلُّ ذٰلِکَ یَنْقُصُ اِذَا بَقِیَ نُقْصَانًا مُخْتَلِفًا وَیَجِفُّ .فَلَمْ یَنْظُرُوْا اِلَی ذٰلِکَ فِیْ حَالِ الْجُفُوْفِ ، فَیُبْطِلُوْا الْبَیْعَ بِہٖ ، بَلْ نَظَرُوْا اِلَیْ حَالِہِ فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الْبَیْعِ ، فَعَمِلُوْا عَلٰی ذٰلِکَ وَلَمْ یُرَاعُوْا مَا یَئُوْلُ اِلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْ جُفُوْفٍ وَنُقْصَانَ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، الرُّطَبُ بِالتَّمْرِ ، یُنْظَرُ اِلَی ذٰلِکَ فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الْبَیْعِ ، وَلَا یُنْظَرُ اِلَی مَا یَئُوْلُ اِلَیْہِ مِنْ تَغْیِیْرٍ وَجُفُوْفٍ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَہُوَ النَّظْرُ عِنْدَنَا .
٥٣٦٨: عبداللہ نے عمران بن ابی انس سے روایت کی کہ بنی مخزوم کے ایک مولیٰ نے مجھے بیان کیا کہ میں نے سعد (رض) سے دریافت کیا گیا کہ جو آدمی خشک کھجور کے بدلے تر کھجور کی بیع سلم کرتا ہے تو سعد فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس سے منع فرمایا۔ عمران بن ابو انس معروف مشہور آدمی ہیں انھوں نے بھی روایت کو یحییٰ بن ابی کثیر کی طرح روایت کی ہے۔ معانی کو درست اور ان کے مابین تطبیق کا تقاضا یہ ہے کہ عبداللہ بن یزید کی روایت ان سے مختلف ہے تو وہ مرتفع ہوگئی اور عمران والی روایت جس کا مضمون سب روایات میں ہے وہ باقی رہی پس حضرت سعد (رض) والی روایت میں جس نہی کا تذکرہ ہے اس کا تعلق بس ادھار سے ہے۔ روایات کے لحاظ سے مطابقت ثابت کردی گئی تو اب نظری دلیل بھی پیش کی جا رہی ہے تر کھجور کو تر کھجور کے عوض برابر فروخت کرنے میں کسی کو کلام نہیں۔ اسی طرح خشک کھجور کو خشک کھجور کے عوض برابر فروخت کرنے میں سب جواز کے قائل ہیں۔ اگر ان میں سے کسی میں کم زیادہ رطوبت باقی ہو تو اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی کہ جس سے خشکی کی حالت کا اعتبار کر کے بیع کو باطل قرار دیں بلکہ خریدو فروخت کے وقت اس کی حالت کا لحاظ رکھا گیا اس کے آئندہ نفع و نقصان یا وزن میں کمی کا لحاظ نہیں کیا گیا۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ تر کھجور کے سلسلہ میں خریدو فروخت کے وقت اس کی حالت کا لحاظ کیا جائے گا آئندہ اس کے خشک ہو کر بدلنے کا لحاظ نہ ہوگا یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور ہمارے ہاں تقاضا نظر بھی یہی ہے۔
عمران بن ابو انس معروف مشہور آدمی ہیں انھوں نے بھی روایت کو یحییٰ بن ابی کثیر کی طرح روایت کیا ہے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) رطب کی بیع کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کو ترجیح دے کر اسی کے حق میں نظری دلیل پیش کی ہے اور خود طحاوی (رح) کا رجحان بھی یہی متبادر معلوم ہوتا ہے۔ (مترجم)

5370

۵۳۶۹ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، قَالَ : أَنَا سِمَاکٌ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسْتَقْبِلُوْا السُّوْقَ ، وَلَا یُنَفِّقْ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ .
٥٣٦٩: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بازار سے آگے مت بڑھو اور نہ ہی تم میں سے ایک دوسرے (چیز کے بازار میں آنے سے پہلے) ملاقات کرے۔
تخریج : ترمذی فی البیوع باب ٤١۔

5371

۵۳۷۰ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، قَالَ : ثَنَا سِمَاکٌ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسْتَقْبِلُوْا السُّوْقَ .
٥٣٧٠: عکرمہ نے ابن عباس (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بازار سے آگے مت بڑھو۔

5372

۵۳۷۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَلَقَّی السِّلَعُ حَتّٰی تَدْخُلَ الْأَسْوَاقَ .
٥٣٧١: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سامان کے بازار میں داخل ہونے سے پہلے اچکنے سے منع فرمایا۔
تخریج : مسلم فی البیوع ١٤‘ مسند احمد ٢؍١١‘ ٢٢۔
لغات : السلع۔ جمع سلعۃ۔ سامان تجارت۔ یتلقٰی۔ آگے بڑھ کر خرید لینا۔

5373

۵۳۷۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٣٧٢: ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابن نمیر سے روایت کی ہے پھر اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5374

۵۳۷۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَتَلَقَّوْا الْبُیُوْعَ .
٥٣٧٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشیاء کو آگے جا کر (سستے داموں) مت اچکو۔ (اس سے لوگوں کو نقصان و دھوکا پہنچتا ہے)
لغات : بیوع سے مراد فروخت ہونے والی اشیاء۔

5375

۵۳۷۴ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِیْزٍ الْأَیْلِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ ، عَنْ عُقَیْلٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی أَنْ یُتَلَقَّی السِّلَعُ ، حَتّٰی یَہْبِطَ أَیْ یَنْزِلَ بِہَا الْأَسْوَاقَ .
٥٣٧٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سامان آگے جا کر سودا کرلینے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ بازار میں نہ پہنچ جائے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ١٤‘ مسند احمد ٢؍٧‘ ١٤٢۔

5376

۵۳۷۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْخَیَّاطِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَلَقَّی الرُّکْبَانُ .
٥٣٧٥: مسلم الخیاط نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قافلہ کو آگے جا کر ملنے سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الاجارہ باب ١٤‘ مسلم فی البیوع ١١؍١٩‘ نسائی فی البیوع باب ١٨‘ مسند احمد ١؍٣٦٨‘ ٢؍٤٢۔

5377

۵۳۷۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَلَقَّوْا شَیْئًا مِنَ الْبَیْعِ ، حَتّٰی یَقْدَمَ سُوْقَکُمْ .
٥٣٧٦: داؤد بن صالح بن دینار نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی بیع کی چیز کے بارے میں بازار میں آنے سے پہلے تاجر کو مت ملو۔

5378

۵۳۷۷ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : نُہِیْنَا ، أَوْ نُہِیَ عَنِ التَّلَقِّی .
٥٣٧٧: ابو حازم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ ہمیں تجار کو آگے جا کر ملنے سے روکا گیا۔
تخریج : بخاری فی الشروط باب ١١‘ مسلم فی البیوع ١٢‘ نسائی فی البیوع باب ١٦‘ ١٧‘ مسند احمد ٢؍٢٠‘ ٤٠٢۔

5379

۵۳۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَلَقَّوْا الرُّکْبَانَ .
٥٣٧٨: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قافلوں کو آگے جا کر مت ملو (سامان خرید لانے کے لئے)
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٦٤‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٤٦‘ نسائی فی البیوع باب ١٧‘ مالک فی البیوع ٩٦‘ مسند احمد ٢؍١٥٦۔

5380

۵۳۷۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَلَقَّوْا الْجَلَبَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَاحْتَجَّ قَوْمٌ بِہٰذِہِ الْآثَارِ ، فَقَالُوْا : مَنْ تَلَقَّی شَیْئًا قَبْلَ دُخُوْلِہِ السُّوْقَ ، ثُمَّ اشْتَرَاہٗ، فَشِرَاؤُہُ بَاطِلٌ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : کُلُّ مَدِیْنَۃٍ یَضُرُّ التَّلَقِّی بِأَہْلِہَا ، فَالتَّلَقِّی فِیْہَا مَکْرُوْہٌ ، وَالشِّرَائُ جَائِزٌ ، وَکُلُّ مَدِیْنَۃٍ لَا یَضُرُّ التَّلَقِّی بِأَہْلِہَا ، فَلَا بَأْسَ بِالتَّلَقِّی فِیْہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٣٧٩: ابن ابی لیلیٰ نے ایک صحابی (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سو تاجروں کو آگے جا کر مت ملو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض نے ان آثار کو سامنے رکھ کر یہ کہا کہ جس نے آگے جا کر بازار میں آنے سے پہلے جس سامان کو خرید لیا اس کی بیع باطل ہے۔ دوسروں نے کہا جس شہر والوں کو باہر باہر سامان خرید لینے سے نقصان پہنچتا ہو وہ آگے جا کر سودا کرلینا مکروہ ہے مگر خرید لیا تو بیع جائز ہے اور اگر کسی شہر والوں کو اس سے نقصان نہیں پہنچتا تو اس میں کراہت بھی نہیں۔ اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : نسائی فی البیوع باب ١٨‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ١٦‘ دارمی فی البیوع باب ٣٢‘ مسند احمد ٢؍٤١٠‘ ٤٨٨۔ لغات : الجلب۔ اس سے مجلوب بھیڑ بکریاں وغیرہ سامان تجارت مراد ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض نے ان آثار کو سامنے رکھ کر یہ کہا کہ جس نے آگے جا کر بازار میں آنے سے پہلے جس سامان خرید لیا اس کی بیع باطل ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : جس شہر والوں کو باہر باہر سامان خرید لینے سے نقصان پہنچتا ہو اس کا آگے جا کر سودا کرلینا مکروہ ہے مگر خرید لیا تو بیع جائز ہے اور اگر کسی شہر والوں کو اس سے نقصان نہیں پہنچتا تو اس میں کراہت بھی نہیں۔ اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

5381

۵۳۸۰ : بِمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کُنَّا نَتَلَقَّی الرُّکْبَانَ ، فَنَشْتَرِی مِنْہُمْ الطَّعَامَ جُزَافًا ، فَنَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَبِیْعَہٗ، حَتَّی نُحَوِّلَہٗ مِنْ مَکَانِہٖ، أَوْ نَنْقُلَہٗ۔
٥٣٨٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے ہم قافلوں کو آگے جا کر مل لیتے اور ان سے غلہ سستا لے لیتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس وقت تک فروخت کرنے سے منع کردیا یہاں تک کہ ہم اس کو وہاں سے ہٹا یا منتقل نہ کرلیں۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٧٢۔

5382

۵۳۸۱ : وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُمْ کَانُوْا یَشْتَرُوْنَ الطَّعَامَ مِنِ الرُّکْبَانِ ، عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَیَبْعَثُ عَلَیْہِمْ مَنْ یَمْنَعُہُمْ أَنْ یَبِیْعُوْھُ حَیْثُ اشْتَرَوْہٗ، حَتَّی یُبَلِّغُوْھُ اِلَیْ حَیْثُ یَبِیْعُوْنَ الطَّعَامَ .فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ اِبَاحَۃُ التَّلَقِّی ، وَفِی الْأَوَّلِ ، النَّہْیُ عَنْہُ، فَأَوْلَی بِنَا أَنْ نَجْعَلَ ذٰلِکَ عَلٰی غَیْرِ التَّضَادِّ وَالْخِلَافِ .فَیَکُوْنُ مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنَ التَّلَقِّی ، لَمَا فِیْ ذٰلِکَ مِنْ الضَّرَرِ عَلٰی غَیْرِ الْمُتَلَقِّیْنَ الْمُقِیْمِیْنَ فِی الْأَسْوَاقِ .وَیَکُوْنُ مَا أُبِیْحَ مِنَ التَّلَقِّی ، ہُوَ الَّذِی لَا ضَرَرَ فِیْہِ عَلَی الْمُقِیْمِیْنَ فِی الْأَسْوَاقِ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذِہِ الْآثَارِ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ اِجَازَۃِ الشِّرَائِ مَعَ التَّلَقِّی الْمَنْہِیِّ عَنْہُ،
٥٣٨١: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے ہم زمانہ نبوت میں قافلوں سے غلہ خرید کرلیتے تھے آپ ان پر ایک آدمی مقرر فرما دیتے جو خریداری کے مقامات سے منتقل کرنے کے بغیر فروخت سے روک دیتا یہاں تک کہ خریدار اس مقام پر نہ پہنچاتے جہاں انھوں نے غلہ فروخت کرنا ہوتا۔ (منڈی میں) مندرجہ بالا آثار تلقی یا بیع کو درست قرار دے رہی ہیں جبکہ اس سے پہلی روایات ممانعت کی طرف مشیر ہیں پس ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ ہ ان کے تضاد و اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ پس جس سودے کو آگے جا کر کرنے کی ممانعت ہے جس سے بازار والوں اور آگے جا کر سودا نہ کرنے والوں کو نقصان (معتدبہ) پہنچے اور جو مباح کی گئی ہے اس سے مراد وہ ہے جس سے بازار میں ٹھہرنے والوں پر کوئی معتدبہ ضرر لازم نہ آتا ہو۔ ہم نے ان آثار کی باہمی تطبیق کردی۔ واللہ اعلم۔ پہلے ملاقات کر کے خریداری پر ممانعت کے باوجود بیع کے جواز کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٧٢‘ مسلم فی البیوع ٣٤‘ نسائی فی البیوع باب ٥٧‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٣٨‘ مسند احمد ٢‘ ١٣٥؍١٤٢۔
مندرجہ بالا آثار تلقی بالبیع کو درست قرار دے رہی ہیں جبکہ اس سے پہلی روایات ممانعت کی طرف مشیر ہیں پس ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ ہ ان کے تضاد و اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
پس سودے کو آگے جا کر کرنے کی ممانعت ہے جس سے بازار والوں اور آگے جا کر سودا نہ کرنے والوں کو (معتدبہٖ ) نقصان پہنچے اور جو مباح کی گئی ہے اس سے مراد وہ ہے جس سے بازار میں ٹھہرنے والوں پر کوئی معتدبہ ضرر لازم نہ آتا ہو۔ ہم نے ان آثار کی باہمی تطبیق کردی۔ واللہ اعلم۔
پہلے ملاقات کر کے خریداری پر ممانعت کے باوجود بیع کے جواز کی دلیل یہ روایات ہیں۔

5383

۵۳۸۲ : بِمَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَلَقَّوْا الْجَلَبَ ، فَمَنْ تَلَقَّاہُ فَاشْتَرٰی مِنْہُ شَیْئًا ، فَہُوَ بِالْخِیَارِ اِذَا أَتٰی بِالسُّوْقِ .
٥٣٨٢: محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا باہر تاجروں سے ملاقات مت کرو جس نے ملاقات کر کے اس سے سودا لے لیا اسے بازار میں آنے پر اختیار ہے۔
تخریج : روایت ٥٣٧٩ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔ نسائی فی البیوع باب ١٨۔

5384

۵۳۸۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسْتَقْبِلُوْا الْجَلَبَ ، وَلَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ ، وَالْبَائِعُ بِالْخِیَارِ اِذَا دَخَلَ السُّوْقَ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ تَلَقِّی الْجَلَبِ ، ثُمَّ جَعَلَ لِلْبَائِعِ فِیْ ذٰلِکَ الْخِیَارَ ، اِذَا دَخَلَ السُّوْقَ ، وَالْخِیَارُ لَا یَکُوْنُ اِلَّا فِیْ بَیْعٍ صَحِیْحٍ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ فَاسِدًا ، لَأُجْبِرَ بَائِعُہُ وَمُشْتَرِیْہِ عَلَی فَسْخِہٖ، وَلَمْ یَکُنْ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا ، الْاِبَائُ عَنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخِیَارَ فِیْ ذٰلِکَ لِلْبَیِّعِ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ صِحَّتُہٗ، وَاِنْ کَانَ مَعَہُ تَلَق مَنْہِیٌّ عَنْہُ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتُمْ لَا تَجْعَلُوْنَ الْخِیَارَ لِلْبَائِعِ الْمُتَلَقَّی ، کَمَا جَعَلَہُ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .فَجَوَابُنَا لَہُ فِیْ ذٰلِکَ ، وَبِاَللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثَبَتَ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا وَتَوَاتَرَتْ عَنْہُ الْآثَارُ بِذٰلِکَ ، وَسَنَذْکُرُہَا فِیْ مَوْضِعِہَا مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ ، أَنَّہُمَا اِذَا تَفَرَّقَا ، فَلَا خِیَارَ لَہُمَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتَ قَدْ جَعَلْتُ لِمَنْ اشْتَرَی ، مَا لَمْ یَرَ ، خِیَارَ الرُّؤْیَۃِ ، حَتّٰی یَرَاہُ فَیَرْضَاہٗ، فِیْمَا أَنْکَرْتُ أَنْ یَکُوْنَ خِیَارُ الْمُتَلَقَّیْ کَذٰلِکَ أَیْضًا ؟ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّ خِیَارَ الرُّؤْیَۃِ ، لَمْ نُوْجِبْہُ قِیَاسًا ، وَاِنَّمَا وَجَدْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَثْبَتُوْھُ وَحَکَمُوْا بِہٖ ، وَأَجْمَعُوْا عَلَیْہِ، وَلَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْہِ .وَاِنَّمَا جَائَ الِاخْتِلَافُ فِیْ ذٰلِکَ مِمَّنْ بَعْدَہُمْ ، فَجَعَلْنَا ذٰلِکَ خَارِجًا مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ حَتّٰی یَتَفَرَّقَا وَعَلِمْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَعْنِ ذٰلِکَ ، لِاِجْمَاعِہِمْ عَلَی خُرُوْجِہِ مِنْہٗ، کَمَا عَلِمْنَا بِاِجْمَاعِہِمْ عَلَی تَجْوِیزِ السَّلَمِ ، أَنَّہٗ خَارِجٌ مِنْ نَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَہَلْ رَوَیْتُمْ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ خِیَارِ الرُّؤْیَۃِ شَیْئًا ؟ قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ ،
٥٣٨٣: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا باہر جا کر تاجروں سے ملاقات مت کرو اور کوئی شہری دیہاتی سے بیع نہ کرے جب بازار میں داخل ہو تو بائع کو اختیار حاصل ہوگا کہ (فسخ کرے یا باقی رکھے) اس روایت میں آگے جا کر تاجروں سے سامان خریدنے کی ممانعت ہے پھر فروخت کرنے والے کو اختیار دیا جبکہ وہ منڈی میں پہنچ جائے اور خیار تو درست خریدو فروخت میں ہوتا ہے اگر بیع فاسد ہوتی تو خریدار اور بائع کو فسخ پر مجبور کیا جاتا اور کسی کو انکار کا اختیار نہ تھا۔ یہاں جب بائع کو خیار دے دیا تو اس سے اس کی درستی ثابت ہوگئی اگرچہ اس نے ممنوع ملاقات کی۔ اگر کوئی معترض کہے کہ تم ملاقات کئے جانے والے بائع کو اس طرح اختیار نہیں دیتے جیسے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا۔ تو اس کے جواب میں ہم یہ جواب دیں گے اس حال میں کہ توفیق الٰہی ہمارے شامل حال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے البیعان بالخیار کہ بائع و مشتری ہر دو کو اختیار ہے جب تک کہ وہ مجلس بیع سے جدا نہ ہوں اور متواتر روایت ہے جس کو اسناد کے ساتھ آئندہ ذکر کریں گے۔ پس اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ وہ جب مجلس بیع سے جدا ہوجائیں گے تو اختیار باقی نہ رہے گا۔ تمہارے ہاں تو مشتری کو مال دیکھنے تک خیار رویت حاصل ہوتا ہے جب دیکھ کر پسند آئے تو تب خیار ختم ہوتا ہے خیار تلقی والے کو بدرجہ اولیٰ حاصل ہونا چاہیے۔ تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ خیار رویت قیاس سے ثابت نہیں بلکہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجماع اور ان کے آثار و عمل سے ثابت ہے ان میں سے کسی سے اختلاف منقول نہیں۔ اس میں اختلاف بعد والوں سے منقول ہے اور ہم نے البیعان بالخیار حتی یتفرقا ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے خارج کردیا۔ ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اختیار مراد نہیں لیا۔ کیونکہ آپ کے ارشاد سے اس کے خارج ہونے پر اتفاق ہے جس طرح کہ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام کا بیع سلم کے جواز پر اجماع ہے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کہ جو تمہارے پاس موجود نہ ہو اس کو مت فروخت کرو۔ اس نہی سے بیع سلم خارج ہے۔ خیار رویت پر صحابہ کرام کے آثار اگر موجود ہیں تو ان کو پیش کرو۔ تو اس کے جواب میں ہم صحابہ کرام (رض) کے آثار بطور نمونہ ذکر رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٥٨‘ ٦٤؍٦٨‘ والاجارہ باب ١٤‘ والشروط باب ٨‘ مسلم فی البیوع ١١؍١٢‘ ترمذی فی البیوع باب ١٧‘ مالک فی البیوع ٩٦‘ مسند احمد ١؍١٦٤‘ ٢؍١٥٣‘ ٣؍٣٠٧‘ ٤؍٥‘ ٣١٤؍١١۔ باختلاف یسیر من اللفظ۔

5385

۵۳۸۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ شَاذَّانِ ، قَالَا : ثَنَا ہِلَالُ بْنُ یَحْیَی بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ أَبِیْ مَعْرُوْفٍ الْمَکِّیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیِّ قَالَ : اشْتَرَی طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مَالًا ، فَقِیْلَ لِعُثْمَانَ : اِنَّک قَدْ غُبِنْتَ وَکَانَ الْمَالُ بِالْکُوْفَۃِ وَہُوَ مَالُ آلِ طَلْحَۃَ الْآنَ بِہَا .فَقَالَ عُثْمَانُ : لِی الْخِیَارُ ، لِأَنِّیْ بِعْتُ مَا لَمْ أَرَ .فَقَالَ طَلْحَۃُ : اِلَیَّ الْخِیَارُ ، لِأَنِّیْ اشْتَرَیْتُ مَا لَمْ أَرَ .فَحَکَّمَا بَیْنَہُمَا جُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ ، فَقَضَی أَنَّ الْخِیَارَ لِطَلْحَۃَ ، وَلَا خِیَارَ لِعُثْمَانَ .وَالْآثَارُ فِیْ ذٰلِکَ قَدْ جَائَ تْ مُتَوَاتِرَۃً ، وَاِنْ کَانَ أَکْثَرُہَا مُنْقَطِعًا ، فَاِنَّہٗ مُنْقَطِعٌ ، لَمْ یُضَادَّہٗ مُتَّصِلٌ .وَفِیْ ہٰذَا أَیْضًا حُجَّۃٌ أُخْرَی ، وَہِیَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، جَعَلَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ لِلْمُتَلَقَّی الْبَائِعِ الْخِیَارَ ، فِیْمَا بَاعَ اِذَا دَخَلَ الْأَسْوَاقَ ، وَعَلِمَ بِالْأَسْعَارِ .فَأَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ ، ہَلْ ضَادَّ ذٰلِکَ شَیْء ٌ أَمْ لَا ؟ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ ،
٥٣٨٤: علقمہ بن وقاص لیثی بیان کرتے ہیں کہ طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے حضرت عثمان بن عفان (رض) سے کوئی چیز خریدی۔ حضرت عثمان (رض) کو کسی نے کہا تمہیں سودے میں نقصان ہے۔ اس وقت مال کوفہ میں تھا۔ وہ مال آل طلحہ کا تھا حضرت عثمان (رض) نے فرمایا مجھے اختیار ہے کیونکہ میں وہ چیز بیچ رہا ہوں جس کو میں نے نہیں دیکھا۔ اس سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں اگرچہ اکثر منقطع ہیں مگر اس کے متضاد کوئی متصل روایت موجود نہیں (پس وہ آثار قیاس سے اعلیٰ و اولیٰ ہیں) اس میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بائع کو اختیار دیا ہے جس سے باہر جا کر ملاقات کی گئی ہے کہ جب وہ منڈی میں آئے اور اسے گرانی کا علم ہوجائے (تو وہ سودا توڑ سکتا ہے) اب فیصلہ پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کسے بالمقابل کوئی واضح روایت مل جائے۔ روایت انس (رض) ملاحظہ ہو۔
حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا مجھے بھی اختیار ہے کیونکہ میں نے ایسی چیز خریدی ہے جس کو میں نے نہیں دیکھا۔
دونوں نے حضرت جبیر بن مطعم کو فیصل بنایا۔ تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت طلحہ (رض) کو اختیار ہے مگر حضرت عثمان (رض) کو اختیار نہیں۔
حاصل اثر : اس سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں اگرچہ اکثر منقطع ہیں مگر اس کے متضاد کوئی متصل روایت موجود نہیں (پس وہ آثار قیاس سے اعلیٰ و اولیٰ ہیں)
روایت میں دوسری دلیل : اس میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بائع کو اختیار دیا ہے جس سے باہر جا کر ملاقات کی گئی ہے کہ جب وہ منڈی میں آئے اور اسے گرانی کا علم ہوجائے (تو وہ سودا توڑ سکتا ہے) اب فیصلہ پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بالمقابل کوئی واضح روایت مل جائے۔ روایت انس (رض) ملاحظہ ہو۔

5386

۵۳۸۵ : فَاِذَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ حَفْصٍ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : نُہِیْنَا أَنْ یَبِیْعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ ، وَاِنْ کَانَ أَبَاہُ أَوْ أَخَاہُ .
٥٣٨٥: ابن سیرین نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے ہمیں اس بات سے منع کیا گیا کہ کوئی شہری دیہاتی کے ساتھ بیع نہ کرے اگرچہ وہ اس کا باپ یا بھائی ہو۔

5387

۵۳۸۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : نُہِیْنَا أَنْ یَبِیْعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ .
٥٣٨٦: محمد نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمیں اس بات سے روک دیا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی سے سودا کرے۔

5388

۵۳۸۷ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْخَیَّاطِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ .
٥٣٨٧: مسلم خیاط نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شہری دیہاتی سے بیع نہ کرے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٥٨‘ مسلم فی ابیوع ١١؍١٢‘ ٢٠؍٢١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٤٥‘ ترمذی فی البیوع باب ١٧‘ مالک فی البیوع ٩٦۔

5389

۵۳۸۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٣٨٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5390

۵۳۸۹ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَعْیَنَ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِی سُلَیْمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ وَلَا یَشْتَرِیْ لَہٗ۔
٥٣٨٩: مجاہد نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے ولا یشتری لہ اور نہ خریداری کرے۔

5391

۵۳۹۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ .
٥٣٩٠: داؤد بن صالح بن دینار نے اپنے والد سے انھوں نے ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کوئی شہری کسی دیہاتی سے سودا نہ کرے۔

5392

۵۳۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ .ح .
٥٣٩١: ابن مرزوق نے وہب سے نقل کیا ہے۔

5393

۵۳۹۲ : وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٣٩٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5394

۵۳۹۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَسْبَاطٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٣٩٣: ابن سیرین نے ابوہریرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5395

۵۳۹۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ ، یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٣٩٤: سعید بن مسیب نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5396

۵۳۹۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ حَفْصٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ نَبْہَانَ ، مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٣٩٥: صالح بن نبھان مولی التوامہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5397

۵۳۹۶ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ ، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : نَہَی أَوْ نُہِیَ ، أَنْ یَبِیْعَ الْمُہَاجِرُ لِلْأَعْرَابِیِّ .
٥٣٩٦: ابو حازم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا منع فرمایا یا منع کیا گیا کہ مہاجر کسی اعرابی کو کوئی چیز فروخت کرے۔

5398

۵۳۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ نَہَی أَنْ یَبِیْعَ الْحَاضِرُ لِبَادٍ .
٥٣٩٧: ابن ابی لیلیٰ نے ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ شہری کسی دیہاتی سے سودا کرے۔

5399

۵۳۹۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِی ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَشْتَرِیَ حَاضِرٌ لِبَادٍ .فَنَظَرْنَا فِی الْعِلَّۃِ الَّتِیْ لَہَا نَہَی الْحَاضِرَ أَنْ یَبِیْعَ لِلْبَادِی مَا ہِیَ ؟ فَاِذَا یُوْنُسُ قَدْ
٥٣٩٨: صالح مولی التوامہ نے کہا میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی سے بیع نہ کرے۔ ہم نے اس علت پر غور کیا جس کی وجہ سے شہری کو دیہاتی سے سودا کرنے سے منع کیا گیا۔ (چنانچہ وہ ان روایات میں مل گئی)

5400

۵۳۹۹ : حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ ، دَعُوا النَّاسَ ، یَرْزُقُ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ .
٥٣٩٩: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شہری کسی دیہاتی سے سودا نہ کرے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑو اللہ تعالیٰ ان کو ایک دوسرے سے رزق دے گا۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٢٠‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٤٥‘ ترمذی فی البیوع باب ١٣‘ نسائی فی البیوع باب ١٧‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ١٥‘ مسند احمد ٣؍٣٠٧‘ ٣٩٢؍٣٨٦۔

5401

۵۴۰۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ حَکِیْمِ بْنِ أَبِیْ یَزِیْدَ أَنَّہٗ جَائَ ہُ فِیْ حَاجَۃٍ ، قَالَ : فَحَدَّثَنِیْ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ دَعُوْا النَّاسَ ، فَلْیُصِبْ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ ، وَاِذَا اسْتَنْصَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاہٗ، فَلْیَنْصَحْ لَہٗ۔فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا نَہَی الْحَاضِرَ أَنْ یَبِیْعَ لِلْبَادِی ، لِأَنَّ الْحَاضِرَ یَعْلَمُ أَسْعَارَ الْأَسْوَاقِ فَیَسْتَقْصِیْ عَلَی الْحَاضِرِیْنَ ، فَلَا یَکُوْنُ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ رِبْحٌ ، وَاِذَا بَاعَہُمُ الْأَعْرَابِیُّ عَلَی غِرَّتِہٖ وَجَہْلِہٖ ، بِأَسْعَارِ الْأَسْوَاقِ ، رَبِحَ عَلَیْہِ الْحَاضِرُوْنَ .فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُخَلَّیْ بَیْنَ الْحَاضِرِیْنَ وَبَیْنَ الْأَعْرَابِ فِی الْبُیُوْعِ ، وَمَنَعَ الْحَاضِرِیْنَ أَنْ یَدْخُلُوْا عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ .فَاِذَا کَانَ مَا وَصَفْنَا کَذٰلِکَ ، وَثَبَتَ اِبَاحَۃُ التَّلَقِّی الَّذِی لَا ضَرَرَ فِیْہِ، بِمَا وَصَفْنَا مِنَ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، صَارَ شِرَی الْمُتَلَقِّی مِنْہُمْ ، شِرَیْ حَاضِرٍ مِنْ بَادٍ ، فَہُوَ دَاخِلٌ فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعُوْا النَّاسَ ، یَرْزُقُ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ وَبَطَلَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ خِیَارٌ لِلْبَائِعِ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ لَہُ فِیْہِ خِیَارٌ ، اِذًا لَمَا کَانَ لِلْمُشْتَرِی فِیْ ذٰلِکَ رِبْحٌ ، وَلَا أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاضِرًا أَنْ یَعْتَرِضَ عَلَیْہِ، وَلَا أَنْ یَتَوَلَّی الْبَیْعَ لِلْبَادِی مِنْہٗ، لِأَنَّہٗ یَکُوْنُ بِالْخِیَارِ فِیْ فَسْخِ ذٰلِکَ الْبَیْعِ ، أَوْ یَرُدُّ لَہُ ثَمَنَہٗ، اِلَی الْأَثْمَانِ الَّتِیْ تَکُوْنُ فِیْ بِیَاعَاتِ أَہْلِ الْحَضَرِ ، بَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ .فَفِیْ مَنْعِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَاضِرِیْنَ مِنْ ذٰلِکَ ، اِبَاحَۃُ الْحَاضِرِیْنَ الْتِمَاسَ غِرَّۃِ الْبَادِیْنَ فِی الْبَیْعِ مِنْہُمْ ، وَالشِّرَائِ مِنْہُمْ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٤٠٠: وہیب نے عطاء بن حکیم بن ابو زید سے روایت کی ہے کہ میں ایک کام کے لیے ان کے ہاں گیا تو انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کو چھوڑ دو بعض بعض سے فائدہ اٹھائیں گے جب تم میں سے کوئی نصیحت طلب کرے تو وہ اپنے بھائی کو مخلصانہ نصیحت کرے۔ ان روایات سے معلوم ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہری کو دیہاتی سے سودا کرنے سے اس وجہ سے منع فرمایا کیونکہ شہری کو منڈی کے بھاؤ معلوم ہیں۔ وہ شہریوں پر انتہائی بھاؤ لگائے گا اس طرح ان کو کچھ بھی نفع نہ ہوگا اور جب دیہاتی بازار کا بھاؤ معلوم نہ ہونے کی حالت میں پہنچے گا تو دوسرے شہریوں کو بھی نفع پہنچے گا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کو خریدو فروخت میں آزاد چھوڑ دیا جائے اور شہریوں کو اس سلسلہ میں ان کے ہاں جانے سے منع کردیا۔ اب جبکہ یہ بات اسی طرح ہے جیسا کہ ہم نے بیان کی تو اب آگے جا کر اس سودہ کرنے کی اباحت ثابت ہوئی جس میں شہریوں کو ضرر نہ ہو۔ جن روایات کو ہم نے ذکر کیا ہے اس میں باہر نکل کر خریدنے والے کا خریدنا وہ شہری کے دیہاتی سے خریدنے کی طرح ہوا۔ پس یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول دعوا الناس یرزق اللہ بعضہم من بعض میں داخل ہے اور اس سے بائع کے خیار کا بطلان بھی ثابت ہوگیا کیونکہ اگر اس کو اختیار ہوگا تو مشتری نفع سے قطعاً محروم رہے گا اور پھر آپ یہ بھی حکم نہ فرماتے کہ اس کے سلسلہ میں کوئی تعرض کرے اور نہ یہ فرماتے کہ کوئی دیہاتی کے لیے خریداری کا ذمہ دار نہ بنے کیونکہ اس کو تو خود ذاتی طور پر بیع کے فسخ کا اختیار حاصل ہے یا اس کی ثمن کے رد کرنے کا اختیار ان اثمان کے ساتھ حاصل ہے جو شہریوں کی بیوع میں ایک دوسرے کی طرف واپس ہوتی ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاضرین کو اس بات سے روک دینے سے شہریوں کے لیے اس بات کا جواز مل گیا کہ وہ دیہاتیوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھائیں اور ان سے سودا خریدیں۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٦٨‘ مسند احمد ٣؍٤١٨‘ ٤؍٢٥٩۔

5402

۵۴۰۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح .
٥٤٠١: ابراہیم بن مرزوق نے وہب سے انھوں نے شعبہ سے۔

5403

۵۴۰۲: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ .ح .
٥٤٠٢: ابراہیم نے ابو حذیفہ سے انھوں نے سفیان سے۔

5404

۵۴۰۳: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ .ح .
٥٤٠٣: ابو بکرہ نے مومل سے انھوں نے سفیان سے۔

5405

۵۴۰۴: وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالُوْا جَمِیْعًا ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کُلُّ بَیِّعَیْنِ فَلَا بَیْعَ بَیْنَہُمَا ، حَتّٰی یَتَفَرَّقَا ، أَوْ یَکُوْنَ بَیْعَ خِیَارٍ .
٥٤٠٤: نصر بن مرزوق نے علی بن معبد سے انھوں نے اسماعیل بن جعفر سے۔ تمام نے عبداللہ بن دینار سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خریدار اور بائع کے درمیان سودا اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یا اس خریدو فروخت میں وہ خیار طے کرلیں۔

5406

۵۴۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا قَالَ : أَوْ یَقُوْلُ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہٖ : اخْتَرْ وَرُبَّمَا قَالَ أَوْ یَکُوْنُ بَیْعَ خِیَارٍ .
٥٤٠٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا باہمی خریدو فروخت کرنے والوں کو جدا ہونے تک اختیار ہوتا ہے یا ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ دے کہ تمہیں اختیار ہے بعض اوقات اس طرح فرمایا یہ بیع خیار والی ہوگی۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ١٩؍٢٠‘ ٢٢؍٤٢‘ مسلم فی البیوع ٤٣؍٤٦‘ ٤٧‘ ابو داؤد فی البیوع با ٥١‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٦‘ نسائی فی البیوع باب ٤‘ ٨‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ١٧‘ دارمی فی البیوع باب ١٥‘ مالک فی البیوع ٧٩‘ مسند احمد ٤؍٩‘ ٣‘ ٤٠٢؍٤٠٣‘ ٥‘ ١٢؍٢٣۔

5407

۵۴۰۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ بَیِّعَیْنِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، أَوْ یَکُوْنُ بَیْعَ خِیَارٍ .
٥٤٠٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والوں کو جدا ہونے سے پہلے تک اختیار ہے یا بیع خیار ہے۔

5408

۵۴۰۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیْلِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ حَتّٰی یَتَفَرَّقَا أَوْ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، فَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا ، بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، وَاِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا ، مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا .
٥٤٠٧: عبداللہ بن حارث نے حکیم بن حزام (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا خریدار اور فروخت کنندہ کو اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں انھوں نے حتی یتفرقا یا مالم یتفرقا فرمایا۔ اگر وہ دونوں سچ بولنے اور بات واضح کرنے والے ہوں گے تو سودے میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر انھوں نے جھوٹ اور کتمان عیب سے کام لیا تو سودے کی برکت ختم کردی جائے گی۔
لغات : صدقا۔ یہاں شئی کی درست تعریف مراد ہے۔ محقت مٹائی جاتی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ١٩؍٢٢‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٥١‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٦‘ نسائی فی البیوع باب ٤؍٨‘ دارمی فی البیوع باب ١٥‘ مسند احمد ٣‘ ٤٠٢؍٤٣٤۔

5409

۵۴۰۸: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ أَبِی الْوَضِیْئِ ، عَنْ أَبِیْ بَرْزَۃَ ، أَنَّہُمْ اخْتَصَمُوْا اِلَیْہِ فِی رَجُلٍ بَاعَ جَارِیَۃً ، فَنَامَ مَعَہَا الْبَائِعُ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ لَا أَرْضَاہَا .فَقَالَ أَبُوْبَرْزَۃَ : اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، وَکَانَا فِیْ خِبَائِ شَعْرٍ .
٥٤٠٨‘ ابو الوضئی نے حضرت ابو برزہ (رض) روایت کی ہے کہ ان کے ہاں لوگ ایک لونڈی کی بیع کا مقدمہ لے کر آئے پھر بائع ان دونوں کے پاس سو گیا صبح ہوئی تو اس نے کہا مجھے لونڈی پسند نہیں۔ حضرت ابو برزہ (رض) نے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا۔ بائع اور مشتری کو اس وقت تک اختیار ہوتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور یہ دونوں ایک اونی خیمے میں تھے۔
لغات : خباء۔ خیمہ۔

5410

۵۴۰۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ جَمِیْلِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْوَضِیئِ ، قَالَ : نَزَلْنَا مَنْزِلًا ، فَبَاعَ صَاحِبٌ لَنَا مِنْ رَجُلٍ فَرَسًا ، فَأَقَمْنَا فِیْ مَنْزِلِنَا یَوْمَنَا وَلَیْلَتَنَا .فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ ، قَامَ الرَّجُلُ یُسْرِجُ فَرَسَہٗ، فَقَالَ لَہُ صَاحِبُہُ : اِنَّک قَدْ بِعْتَنِیْ فَاخْتَصَمَا اِلٰی أَبِیْ بَرْزَۃَ .فَقَالَ : اِنْ شِئْتُمَا ، قَضَیْتُ بَیْنَکُمَا بِقَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا وَمَا أَرَاکُمَا تَفَرَّقْتُمَا .
٥٤٠٩: ابوالوضئی کہتے ہیں کہ ہم ایک پڑاؤ پر اترے تو ہمارے ایک ساتھی نے ایک شخص کو گھوڑا فروخت کیا ہم اس منزل پر ایک دن رات ٹھہرے دوسرے دن وہ شخص کھڑا ہوا اور گھوڑے پر زین کسنے لگا خریدار نے کہا تم نے یہ میرے ہاتھ فروخت کردیا ہے پھر وہ اپنا جھگڑا لے کر حضرت ابو برزہ (رض) کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں تمہارے مابین جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والے فیصلے کے مطابق فیصلہ کردیتا ہوں میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا آپ نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والے کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور میرے خیال میں تم ایک دوسرے جدا نہیں ہوئے۔

5411

۵۴۱۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِی الْخَلِیْلِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ حَتّٰی یَتَفَرَّقَا أَوْ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا فَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا ، بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، فَاِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا ، فَعَسٰی أَنْ یَدُوْرَ بَیْنَہُمَا فَصْلٌ ، وَتُمْحَقَ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا .قَالَ ہَمَّامٌ : سَمِعْتُ أَبَا التَّیَّاحِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ہٰذَا الْحَدِیْثَ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِ ہٰذَا .
٥٤١٠: عبداللہ بن حارث نے حضرت حکیم بن حزام (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بائع و مشتری کو جدا ہونے تک خیار ہوتا ہے اگر وہ سچ کہیں گے اور چیز کی حقیقت بتلا دیں گے تو ان کو برکت دی جائے گی اور اگر وہ چھپائیں گے تو ممکن ہے کہ مال کی گردش تو باقی رہے مگر سودے کی برکت مٹ جائے۔ ہمام راوی کہتے ہیں میں نے الوالتیاح کو کہتے سنا کہ میں نے یہ روایت خود عبداللہ بن الحارث عن حکیم بن حزام عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسی سند سے اسی طرح سنی ہے۔
تخریج : روایت بخاری کتاب البیوع باب ٢٢‘ ٤٤‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٦‘ نسائی فی البیوع باب ٤‘ ٨‘ دارمی فی البیوع باب ١٥‘ مسند احمد ٣‘ ٤٠٢؍٤٠٣۔

5412

۵۴۱۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرِ بْنِ مَطَرٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَیُّوْبُ بْنُ عُتْبَۃَ ، عَنْ أَبِیْ کَثِیْرٍ الْغُبَرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، أَوْ یَکُوْنُ بَیْعَ خِیَارٍ .
٥٤١١: ابو کثیر غبری نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا خریدار اور فروخت کرنے والے کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یا بیع خیار ہو۔

5413

۵۴۱۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، وَیَأْخُذُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَا رَضِیَ مِنَ الْبَیْعِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَاخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا .فَقَالَ قَوْمٌ : ہَذَا عَلَی الِافْتِرَاقِ بِأَقْوَالٍ ، فَاِذَا قَالَ الْبَائِعُ قَدْ بِعْتُ مِنْکَ قَالَ الْمُشْتَرِی قَدْ قَبِلْت فَقَدْ تَفَرَّقَا وَانْقَطَعَ خِیَارُہُمَا .وَقَالُوْا : الَّذِیْ کَانَ لَہُمَا مِنَ الْخِیَارِ ، ہُوَ مَا کَانَ لِلْبَائِعِ أَنْ یُبْطِلَ قَوْلَہُ لِلْمُشْتَرِی قَدْ بِعْتُکَ ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفِ دِرْہَمٍ قَبْلَ قَبُوْلِ الْمُشْتَرِی .فَاِذَا قِبَلَ الْمُشْتَرِی ، فَقَدْ تَفَرَّقَ ہُوَ وَالْبَائِعُ ، وَانْقَطَعَ الْخِیَارُ .وَقَالُوْا : ہَذَا کَمَا ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الطَّلَاقِ فَقَالَ وَاِنْ یَتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلًّا مِنْ سَعَتِہِ .فَکَانَ الزَّوْجُ اِذَا قَالَ لِلْمَرْأَۃِ قَدْ طَلَّقْتُکِ عَلٰی کَذَا وَکَذَا فَقَالَتِ الْمَرْأَۃُ قَدْ قَبِلْت فَقَدْ بَانَتْ ، وَتَفَرَّقَا بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، وَاِنْ لَمْ یَتَفَرَّقَا بِأَبْدَانِہِمَا .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ قَدْ بِعْتُک عَبْدِیْ ہٰذَا، بِأَلْفِ دِرْہَمٍ فَقَالَ الْمُشْتَرِی قَدْ قَبِلْتُ فَقَدْ تَفَرَّقَا بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، وَاِنْ لَمْ یَتَفَرَّقَا بِأَبْدَانِہِمَا .وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ، وَفَسَّرَ ہَذَا التَّفْسِیْرَ ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَقَالَ عِیْسَی بْنُ أَبَانَ : الْفُرْقَۃُ الَّتِیْ تَقْطَعُ الْخِیَارَ الْمَذْکُوْرَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، ہِیَ الْفُرْقَۃُ بِالْأَبْدَانِ ، وَذٰلِکَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ لِلرَّجُلِ قَدْ بِعْتُکَ عَبْدِیْ ہَذَا بِأَلْفِ دِرْہَمٍ فَلِلْمُخَاطَبِ بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، أَنْ یَقْبَلَ ، مَا لَمْ یُفَارِقْ صَاحِبَہٗ، فَاِذَا افْتَرَقَا ، لَمْ یَکُنْ لَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ یَقْبَلَ .قَالَ : وَلَوْلَا أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ جَائَ ، مَا عَلِمْنَا ، مَا یَقْطَعُ مَا لِلْمُخَاطَبِ ، مِنْ قَبُوْلِ الْمُخَاطَبَۃِ الَّتِی خَاطَبَہٗ بِہَا صَاحِبُہٗ، وَأَوْجَبَ لَہُ بِہَا الْبَیْعَ .فَلَمَّا جَائَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، عَلِمْنَا أَنَّ افْتِرَاقَ أَبْدَانِہِمَا بَعْدَ الْمُخَاطَبَۃِ بِالْبَیْعِ ، یَقْطَعُ قَبُوْلَ تِلْکَ الْمُخَاطَبَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ ہَذَا التَّفْسِیْرُ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .قَالَ عِیْسَی : وَہٰذَا أَوْلَی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ تَفْسِیْرُ تَأْوِیْلِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لِأَنَّا رَأَیْنَا الْفُرْقَۃَ الَّتِیْ لَہَا حُکْمٌ فِیْمَا اتَّفَقُوْا عَلَیْہِ، ہِیَ الْفُرْقَۃُ فِی الصَّرْفِ ، فَکَانَتْ تِلْکَ الْفُرْقَۃُ اِنَّمَا یَجِبُ بِہَا فَسَادُ عَقْدٍ مُتَقَدِّمٍ ، وَلَا یَجِبُ بِہَا صَلَاحُہُ .فَکَانَتْ ہٰذِہِ الْفُرْقَۃُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ خِیَارِ الْمُتَبَایِعَیْنِ ، اِذَا جَعَلْنَاہَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، فَسَدَ بِہَا مَا کَانَ تَقَدَّمَ مِنْ عَقْدِ الْمُخَاطَبِ .وَاِنْ جَعَلْنَاہَا عَلٰی مَا قَالَ الَّذِیْنَ جَعَلُوْا الْفُرْقَۃَ بِالْأَبْدَانِ یَتِمَُ بِہَا الْبَیْعُ ، کَانَتْ بِخِلَافِ فُرْقَۃِ الصَّرْفِ وَلَمْ یَکُنْ لَہَا أَصْلٌ فِیْمَا اتَّفَقُوْا عَلَیْہِ، لِأَنَّ الْفُرْقَۃَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہَا ، اِنَّمَا یَفْسُدُ بِہَا مَا تَقَدَّمَہَا ، اِذَا لَمْ یَکُنْ تَمَّ ، حَتّٰی کَانَتْ .فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَجْعَلَ ہٰذِہِ الْفُرْقَۃَ الْمُخْتَلَفَ فِیْہَا ، کَالْفُرْقَۃِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْہَا ، فَیُجْبَرُ بِہَا فَسَادُ مَا قَدْ تَقَدَّمَہَا ، مِمَّا لَمْ یَکُنْ تَمَّ ، حَتّٰی کَانَتْ ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، مَا ذَکَرْنَا .وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہٰذِہِ الْفُرْقَۃُ الْمَذْکُوْرَۃُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہِیَ عَلَی الْفُرْقَۃِ بِالْأَبْدَانِ ، فَلَا یَتِمُّ الْبَیْعُ ، حَتّٰی تَکُوْنَ ، فَاِذَا کَانَتْ ، تَمَّ الْبَیْعُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِأَنَّ الْخَبَرَ ، أَطْلَقَ ذِکْرَ الْمُتَبَایِعَیْنِ فَقَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا . قَالُوْا : فَہُمَا قَبْلَ الْبَیْعِ مُتَسَاوِمَانِ ، فَاِذَا تَبَایَعَا ، صَارَا مُتَبَایِعَیْنِ ، فَکَانَ اسْمُ الْبَائِعِ ، لَا یَجِبُ لَہُمَا اِلَّا بَعْدَ الْعَقْدِ فَلَمْ یَجِبْ لَہُمَا الْخِیَارُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، بِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ اِذَا بَایَعَ رَجُلًا شَیْئًا ، فَأَرَادَ أَنْ لَا یَقْبَلَہٗ، قَامَ فَمَشٰی ، ثُمَّ رَجَعَ .قَالُوْا : وَہُوَ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلَہُ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا فَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَہُ - عَلَی التَّفَرُّقِ بِالْأَبْدَانِ ، وَعَلٰی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِذٰلِکَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا ، عَلٰی أَنَّ مُرَادَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِحَدِیْثِ أَبِیْ بَرْزَۃَ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ، فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، وَبِقَوْلِہٖ لِلرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ اخْتَصَمَا اِلَیْہِ مَا أَرَاکُمَا تَفَرَّقْتُمَا فَکَانَ ذٰلِکَ التَّفَرُّقُ عِنْدَہُ ہُوَ التَّفَرُّقَ بِالْأَبْدَانِ ، وَلَمْ یَتِمَّ الْبَیْعُ عِنْدَہٗ، قَبْلَ ذٰلِکَ التَّفَرُّقِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ - عِنْدَنَا - عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، لِأَہْلِ الْمَقَالَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ ، أَنَّ مَا ذَکَرُوْا مِنْ قَوْلِہِمْ لَا یَکُوْنَانِ مُتَبَایِعَیْنِ اِلَّا بَعْدَ أَنْ یَتَعَاقَدَا الْبَیْعَ ، وَہُمَا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتَسَاوِمَانِ غَیْرُ مُتَبَایِعَیْنِ فَذٰلِکَ اِغْفَالٌ مِنْہُمْ لِسَعَۃِ اللُّغَۃِ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَا سُمِّیَا مُتَبَایِعَیْنِ ، لِقُرْبِہِمَا مِنَ التَّبَایُعِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا تَبَایَعَا ، وَہٰذَا مَوْجُوْدٌ فِی اللُّغَۃِ قَدْ سُمِّیَ اِسْحَاقُ أَوْ اِسْمَاعِیْلُ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ ، ذَبِیْحًا لِقُرْبِہٖ مِنَ الذَّبْحِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ ذُبِحَ .فَکَذٰلِکَ یُطْلَقُ عَلَی الْمُتَسَاوِمَیْنِ ، اسْمُ الْمُتَبَایِعَیْنِ ، اِذَا قَرُبَا مِنَ الْبَیْعِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا تَبَایَعَا .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَسُوْمُ الرَّجُلُ عَلٰی سَوْمِ أَخِیْہِ وَقَالَ لَا یَبِیْعُ الرَّجُلُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ وَمَعْنَاہُمَا وَاحِدٌ .فَلَمَّا سَمَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْمُسَاوِمَ الَّذِیْ قَدْ قَرُبَ مِنَ الْبَیْعِ ، مُتَبَایِعًا ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ عَقْدِہِ الْبَیْعَ ، احْتَمَلَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الْمُتَسَاوِمَانِ ، سَمَّاہُمَا مُتَبَایِعَیْنِ ، لِقُرْبِہِمَا مِنَ الْبَیْعِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا عَقَدَا عُقْدَۃَ الْبَیْعِ ، فَہٰذِہِ مُعَارَضَۃٌ صَحِیْحَۃٌ .وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْا ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، مِنْ فِعْلِہِ الَّذِی اسْتَدَلُّوْا بِہٖ ، عَلَی مُرَادِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْفُرْقَۃِ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ قَدْ یَحْتَمِلُ - عِنْدَنَا - مَا قَالُوْا ، وَیَحْتَمِلُ غَیْرَ ذٰلِکَ .قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، أَشْکَلَتْ عَلَیْہِ تِلْکَ الْفُرْقَۃُ ، الَّتِیْ سَمِعَہَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا ہِیَ ؟ فَاحْتَمَلَتْ - عِنْدَہُ - الْفُرْقَۃَ بِالْأَبْدَانِ ، عَلٰی مَا ذَکَرَہُ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ .وَاحْتَمَلَتْ - عِنْدَہُ - الْفُرْقَۃَ بِالْأَبْدَانِ عَلٰی مَا ذَکَرَہُ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، الَّتِیْ ذٰہَبَ اِلَیْہَا عِیْسَی .وَاحْتَمَلَتْ - عِنْدَہُ - الْفُرْقَۃَ بِالْأَقْوَالِ ، عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ الْآخَرُوْنَ ، وَلَمْ یَحْضُرْہُ دَلِیْلٌ یَدُلُّہُ أَنَّہٗ بِأَحَدِہَا أَوْلَی مِنْہُ بِمَا سِوَاہُ مِنْہَا ، فَفَارَقَ بَائِعَہُ بِبَدَنِہٖ، احْتِیَاطًا .وَیُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ بَعْضَ النَّاسِ ، یَرَی أَنَّ الْبَیْعَ لَا یَتِمُّ اِلَّا بِذٰلِکَ ، وَہُوَ یَرَی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِغَیْرِہٖ۔ فَأَرَادَ أَنْ یَتِمَّ الْبَیْعُ فِیْ قَوْلِہٖ وَقَوْلِ مُخَالِفِہٖ، حَتّٰی لَا یَکُوْنَ لِبَائِعِہِ نَقْضُ الْبَیْعِ عَلَیْہِ، فِیْ قَوْلِہٖ ، وَلَا فِیْ قَوْلِ مُخَالِفِہٖ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ، مَا یَدُلُّ أَنَّ رَأْیَہٗ فِی الْفُرْقَۃِ ، کَانَ بِخِلَافِ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَنْ ذَہَبَ ، اِلٰی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِہَا .
٥٤١٢: حسن نے سمرہ بن جندب (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ وہ دونوں جدا نہ ہوں اور ہر ایک ان میں سے اس بیع کو اختیار کرے جس کو وہ پسند کرتا ہو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : لوگوں نے البیعان بالخیار مالم یتفرقا کی تاویل میں اختلاف کیا ہے۔ اس سے مراد اقوال میں جدائی ہے جب مالک نے کہا میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی خریدار نے کہا میں نے قبول کرلی اب گویا دونوں جدا ہوگئے اور ان کا اختیار جاتا رہا۔ چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں ان کو جو اختیار حاصل تھا وہ یہی تھا جو بائع کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مشتری کو کہتا ہے میں نے تمہیں یہ غلام ایک ہزار کے بدلے فروخت کیا یہ بات مشتری کے قبول کرنے سے پہلے تک ہوتی ہے اگر خریدار نے قبول کرلیا تو گویا اس میں اور فروخت کرنے والے میں جدائی ہوگئی اور خیار جاتا رہا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ (النساء ١٣٠) کہ اگر میاں بیوی علیحدگی اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دوسرے سے اپنی وسعت کے ساتھ مستغنی کر دے گا۔ تو خاوند نے جب عورت کو کہہ دیا قد طلقتک علی کذا وکذا عورت نے اس کے جواب میں قد قبلت کہہ دیا تو وہ عورت بائنہ ہوگئی اس بات کے کرتے ہی وہ جدا ہوجائیں گے اگرچہ وہ ابدان سے الگ نہ بھی ہوئے ہوں۔ اسی طرح جب ایک آدمی دوسرے کو کہتا ہے قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم اس کے جواب میں خریدار نے کہا قد قبلت مجھے قبول ہے تو یہ بات کہتے ہی وہ جدا ہوگئے (کیونکہ ان کی بات سابقہ مکمل ہو کر ختم ہوگئی) اگرچہ وہ ابدان کے لحاظ سے الگ نہ ہوئے ہوں۔ یہ امام محمد (رح) کا قول ہے۔ انھوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے۔ عیسیٰ بن ابان کا کہنا ہے کہ اس اثر میں جدائی سے مراد ابدان کا جدا ہونا ہے جیسے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو کہا قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم “ اب خریدار کو اپنے ساتھی سے جدا ہونے سے پہلے تک قبول و عدم قبول کا اختیا رہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو پھر وہ قبولیت معتبر شمار نہ ہوگی۔ دلیل یہ ہے کہ اگر یہ ارشاد نبوت وارد نہ ہوتا تو ہمیں معلوم نہ ہوسکتا کہ مخاطب کو جو بات کہی گئی ہے وہ کب منقطع ہوئی اور بیع کب لازم ہوئی۔ جب یہ روایت آگئی تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ خطاب بیع کے بعد جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تو خطاب کی قبولیت منقطع ہوگئی (بعد میں ہاں نہ معتبر نہیں) یہی تفسیر امام ابو یوسف (رح) سے بھی مروی ہے۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ اس روایت کی جتنی تفاسیر کی گئی ہیں ان میں سب سے بہتر یہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس جدائی پر سب کا اتفاق ہے وہ بیع صرف کی صورت میں (قبضہ کرلینے کے بغیر ) جدا ہوجانا ہے اس جدائی سے وہ عقد (سودا) فاسد ہوجاتا ہے جو کہ پہلے سے موجود تھا اس سے عقد کی درستگی لازم نہیں آتی۔ (بیع صرف سونے چاندی کی بیع کو کہتے ہیں) حاصل یہ ہے کہ یہ جدائی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بائع و مشتری کے خیار کے سلسلہ میں مروی ہے۔ جب ہم نے اس کو اس معنی پر محمول کیا تو اس سے مخاطب کا سابقہ معاہدہ فاسد ہوگیا اور اگر ہم امام ابو یوسف (رح) والے قول کے مطابق ابدان میں جدائی کو لازم قرار دیں تو یہ بیع مکمل ہوگئی مگر یہ بیع صرف کی جدائی کے مخالف ٹھہری اور جس پر ان کا اتفاق ہے اس میں اس کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی اس کی دلیل یہ ہے کہ متفق علیہ جدائی یہ ہے کہ وہ بیع کی تکمیل سے پہلے ہوتی ہے یعنی ابھی سے بیع مکمل نہیں ہوتی بلکہ وہ جدا ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔ پس زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ہم اس اختلافی جدائی کو متفق علیہ جدائی کی طرح قرار دیں۔ اس سے اس فساد کا ازالہ ہوجائے اور وہ بیع کا فساد ہے۔ جو کہ ابھی پوری نہ ہوئی تھی یہاں تک کہ جدائی ہوئی اس سے ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی۔” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ اس روایت میں جس فرقت کا تذکرہ ہے اس سے جسمانی علیحدگی مراد ہے پس جب تک یہ وقوع میں نہ آئے اس وقت تک سودا مکمل نہ ہوگا جب یہ پائی جائے گی تو بیع مکمل ہوجائے گی۔ اس روایت میں بائع و مشتری کا مطلق ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والے کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ تو سودا کرنے سے پہلے تو وہ بھاؤ لگانے والے تھے جب سودا کرلیتے ہیں تب بائع و مشتری بنتے ہیں پس ان پر بائع و مشتری کا لفظ عقد کے بعد بولا جاتا ہے پس ان کے لیے خیار لازم نہ ہوا۔ (کیونکہ وہ بھی بائع و مشتری نہیں بنے) اس کی دلیل حضرت ابن عمر (رض) کی یہ روایت ہے کہ جب آپ کسی سے سودا کرتے اور واپس کرنا نہ چاہتے تو کھڑے ہوجاتے کچھ دور جاتے اور پھر واپس لوٹ آئے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول سن رکھا تھا ” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ پس ان کے ہاں اس کا مطلب جسمانی جدائی تھا اور وہ اس سے بیع کو مکمل سمجھتے تھے پس ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد جسمانی جدائی ہے۔ دوسری دلیل حضرت ابو برزہ (رض) کی روایت ہے جو شروع باب میں مذکور ہوئی کہ دونوں مقدمہ لانے والوں کو آنے فرمایا میرے خیال میں تم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہو۔ (پس آپ نے فیصلہ بائع کے حق میں کردیا) اس سے ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بھی جسمانی جدائی مراد ہے اور اس جدائی کے عدم وقوع کی صورت میں بیع تام نہ ہوگی۔ یہ کہنا کہ عقد بیع کے بعد وہ بائع و مشتری بنتے ہیں۔۔۔ ان کو بائع و مشتری کہنا لغت کے توسع کے اعتبار سے ہے اور یہ اطلاق فروخت و خرید کے قریب والوں پر بولا جاسکتا ہے خواہ سودا نہ کیا ہو مثلاً اسحاق یا اسماعیل کو ذبیح کہنا قرب کی وجہ سے ہے اگرچہ وہ ذبح نہ ہوئے تھے بالکل اسی طرح بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری کہہ دینا جبکہ وہ بیع کے قریب ہوں اگرچہ بیع نہ کی ہو درست ہے۔ (حدیث میں یہ اطلاق ملاحظہ ہو) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے اور نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں لایسوم ‘ لایبیع۔ اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودا کرنے والے کو سودے کے قرب کی وجہ سے خریدو فروخت کرنے والا قرار دیا اگرچہ یہ بات عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری قرار دیا گیا ہو۔ اگرچہ اس نے عقد بیع نہ کیا ہو۔ یہ خوب جواب ہے۔ روایت ابن عمر (رض) میں جہاں تمہارا احتمال ہے تو ایک اور احتمال بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ابن عمر (رض) پر جدائی کا مفہوم مشتبہہ ہوگیا ہو جس کو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وہ جسمانی فرقت مراد ہو جو قول ثانی میں عیسیٰ بن ابان نے مراد لی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گفتگو سے جدائی مراد لیتے ہوں جیسا کہ قول اوّل کے قائلین کہتے ہیں اور ان تمام احتمالات میں عدم تعیین کی وجہ سے انھوں نے جسمانی فرقت کو احتیاطاً اختیار فرما لیا ہو اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے یہ عمل اس لیے کیا ہو کہ مخاطب اس کا قائل ہو۔ تو اس کے نزدیک بھی عقد کی تکمیل کرنے کے لیے قولی انقطاع اور جسمانی فرقت کو اختیار کیا ہو۔ تاکہ کسی کے مطابق توڑنے کا حق باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ایسی روایت پائی جاتی ہے جو فرقت کے سلسلہ میں آپ کی رائے کو ظاہر کرتی ہے اور وہ فرقت جسمانی سے بیع کی تکمیل کے قائلین کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : لوگوں نے البیعان بالخیار مالک یتفرقا کی تاویل میں اختلاف کیا ہے۔
امام محمد (رح) کا قول : اس سے مراد اقوال میں جدائی ہے جب مالک نے کہا میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی خریدار نے کہا میں نے قبول کرلی اب گویا دونوں جدا ہوگئے اور ان کا اختیار جاتا رہا۔
دلیل
نمبر 1: وہ یہ کہتے ہیں ان کو جو اختیار حاصل تھا وہ یہی تھا جو بائع کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مشتری کو کہتا ہے میں نے تمہیں یہ غلام ایک ہزار کے بدلے فروخت کیا یہ بات مشتری کے قبول کرنے سے پہلے تک ہوتی ہے اگر خریدار نے قبول کرلیا تو گویا اس میں اور فروخت کرنے والے میں جدائی ہوتی ہے اگر خریدار نے قبول کرلیا تو گویا اس میں اور فروخت کرنے والے میں جدائی ہوگئی اور خیار جاتا رہا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ان یتفرقا یغن اللہ کلا من سبعتہ (النساء ١٣٠) کہ اگر میاں بیوی علیحدگی اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک دوسرے سے اپنی وسعت کے ساتھ مستغنی کر دے گا۔
تو خاوند نے جب عورت کو کہہ دیا قد طلقتک علی کذا وکذا عورت نے اس کے جواب میں قد قبلت کہہ دیا تو وہ عورت بائنہ ہوگئی اس بات کے کرتے ہی وہ جدا ہوجائیں گے اگرچہ وہ ابدان سے الگ نہ بھی ہوئے ہوں۔
دلیل
نمبر 2: اسی طرح جب ایک آدمی دوسرے کو کہتا ہے قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم اس کے جواب میں خریدار نے کہا قد قبلت مجھے قبول ہے تو یہ بات کہتے ہی وہ جدا ہوگئے (کیونکہ ان کی بات سابقہ مکمل ہو کر ختم ہوگئی) اگرچہ وہ ابدان کے لحاظ سے الگ نہ ہوئے ہوں۔ یہ امام محمد (رح) کا قول ہے۔ انھوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے۔

نمبر 2: عیسیٰ بن ابان کا قول : اس اثر میں جدائی سے مراد ابدان کا جدا ہونا ہے جیسے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو کہا قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم “ اب خریدار کو اپنے ساتھی سے جدا ہونے سے پہلے تک قبول و عدم قبول کا اختیا رہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو پھر وہ قبولیت معتبر شمار نہ ہوگی۔
دلیل یہ ہے کہ اگر یہ ارشاد نبوت وارد نہ ہوتا تو ہمیں معلوم نہ ہوسکتا کہ مخاطب کو جو بات کہی گئی ہے وہ کب منقطع ہوئی اور بیع کب لازم ہوئی۔ جب یہ روایت آگئی تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ خطاب بیع کے بعد جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تو خطاب کی قبولیت منقطع ہوگئی (بعد میں ہاں نہ معتبر نہیں) یہی تفسیر امام ابو یوسف (رح) سے بھی مروی ہے۔
عیسیٰ کہتے ہیں کہ اس روایت کی جتنی تفاسیر کی گئی ہیں ان میں سب سے بہتر یہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس جدائی پر سب کا اتفاق ہے وہ بیع صرف کی صورت میں (قبضہ کرلینے کے بغیر ) جدا ہوجانا ہے اس جدائی سے وہ عقد (سودا) فاسد ہوجاتا ہے جو کہ پہلے سے موجود تھا اس سے عقد کی درستگی لازم نہیں آتی۔ (بیع صرف سونے چاندی کی بیع کو کہتے ہیں)
حاصل : یہ جدائی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بائع و مشتری کے خمار کے سلسلہ میں مروی ہے۔

نمبر 1: جب ہم نے اس کو اس معنی پر محمول کیا تو اس سے مخاطب کا سابقہ معاہدہ فاسد ہوگیا۔

نمبر 2: اور اگر ہم امام ابو یوسف (رح) والے قول کے مطابق ابدان میں جدائی کو لازم قرار دیں تو یہ بیع مکمل ہوگئی مگر یہ بیع صرف کی جدائی کے مخالف ٹھہری اور جس پر ان کا اتفاق ہے اس میں اس کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی اس کی دلیل یہ ہے کہ متفق علیہ جدائی یہ ہے کہ وہ بیع کی تکمیل سے پہلے ہوتی ہے یعنی ابھی سے بیع مکمل نہیں ہوتی بلکہ وہ جدا ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔
پس زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ہم اس اختلافی جدائی کو متفق علیہ جدائی کی طرح قرار دیں۔ اس سے اس فساد کا ازالہ ہوجائے اور وہ بیع کا فساد ہے۔ جو کہ ابھی پوری نہ ہوتی تھی یہاں تک کہ جدائی ہوئی اس سے ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی۔
بیع فرقت بالابدان کے قائلین اور ان کے دلائل :
” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ اس روایت میں جس فرقت کا تذکرہ ہے اس سے جسمانی علیحدگی مراد ہے پس جب تک یہ وقوع میں نہ آئے اس وقت تک سودا مکمل نہ ہوگا جب یہ پائی جائے گی تو بیع مکمل ہوجائے گی۔
دلیل
نمبر 1: اس روایت میں بائع و مشتری کا مطلق ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والے کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ تو سودا کرنے سے پہلے تو وہ بھاؤ لگانے والے تھے جب سودا کرلیتے ہیں تب بائع و مشتری بنتے ہیں پس ان پر بائع کا لفظ عقد کے بعد بولا جاتا ہے پس ان کے لیے خیار لازم نہ ہوا۔ (کیونکہ وہ ابھی بائع و مشتری نہیں بنے)
اس کی دلیل حضرت ابن عمر (رض) کی یہ روایت ہے کہ جب آپ کسی سے سودا کرتے اور واپس کرنا نہ چاہتے تو کھڑے ہوجاتے کچھ دور جاتے اور پھر واپس لوٹ آتے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول سن رکھا تھا ” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ پس ان کے ہاں اس کا مطلب جسمانی جدائی تھا اور وہ اس سے بیع کو مکمل سمجھتے تھے پس ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد جسمانی جدائی ہے۔
دلیل
نمبر 2: دوسری دلیل حضرت ابو برزہ (رض) کی روایت ہے جو شروع باب میں مذکور ہوئی کہ دونوں مقدمہ لانے والوں کو انھوں نے فرمایا میرے خیال میں تم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہو۔ (پس آپ نے فیصلہ بائع کے حق میں کردیا) اس سے ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بھی جسمانی جدائی مراد ہے اور اس جدائی کے عدم وقوع کی صورت میں بیع تام نہ ہوگی۔
پہلے دو اقوال کے قائلین کی طرف سے ان قول والوں کا جواب :

نمبر 1: یہ کہنا کہ عقد بیع کے بعد وہ بائع و مشتری بنتے ہیں۔۔۔ ان کو بائع و مشتری کہنا لغت کے توسع کے اعتبار سے ہے اور یہ اطلاق فروخت و خرید کے قریب والوں پر بولا جاسکتا ہے خواہ سودا نہ کیا ہو مثلاً اسحاق یا اسماعیل کو ذبیعح کہنا قرب کی وجہ سے ہے اگرچہ وہ ذبح نہ ہوئے تھے بالکل اسی طرح بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری کہہ دینا جبکہ وہ بیع کے قریب ہوں اگرچہ بیع نہ کی ہو درست ہے۔ (حدیث میں یہ اطلاق ملاحظہ ہو) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے اور نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں لایسوم ‘ لایبیع۔
حاصل : اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودا کرنے والے کو سودے کے قرب کی وجہ سے خریدو فروخت کرنے والا قرار دیا اگرچہ یہ بات عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری قرار دیا گیا ہو۔ اگرچہ اس نے عقد بیع نہ کیا ہو۔ یہ خوب جواب ہے۔
روایت ابن عمر (رض) کا جواب : روایت ابن عمر (رض) میں جہاں تمہارا احتمال ہے تو ایک اور احتمال بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ابن عمر (رض) پر جدائی کا مفہوم مشتبہ ہوگیا ہو جس کو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وہ جسمانی فرقت مراد ہو جو قول ثانی میں عیسیٰ بن ابان نے مراد لی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گفتگو سے جدائی مراد لیتے ہوں جیسا کہ قول اوّل کے قائلین کہتے ہیں اور ان تمام احتمالات میں عدم تعیین کی وجہ سے انھوں نے جسمانی فرقت کو احتیاطاً اختیار فرما لیا ہو۔
اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے یہ عمل اس لیے کیا ہو کہ مخاطب اس کا قائل ہو۔ تو اس کے نزدیک بھی عقد کی تکمیل کرنے کے لیے قولی انقطاع اور جسمانی فرقت کو اختیار کیا ہو۔ تاکہ کسی کے مطابق توڑنے کا حق باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ایسی روایت پائی جاتی ہے جو فرقت کے سلسلہ میں آپ کی رائے کو ظاہر کرتی ہے اور وہ فرقت جسمانی سے بیع کی تکمیل کے قائلین کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔

5414

۵۴۱۳: وَذٰلِکَ أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ شُعَیْبٍ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : مَا أَدْرَکَتِ الصَّفْقَۃُ حَیًّا فَہُوَ مِنْ مَالِ الْمُبْتَاعِ .
٥٤١٣: حمزہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا جو کچھ سودے میں سے زندہ موجود پایا جائے وہ خریدار کے مال کا حصہ ہے۔

5415

۵۴۱۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، قَدْ کَانَ یَذْہَبُ فِیْمَا أَدْرَکَتِ الصَّفْقَۃُ حَیًّا ، فَہَلَکَ بَعْدَہَا ، أَنَّہٗ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِیْ. فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ کَانَ یَرٰی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِالْأَقْوَالِ قَبْلَ الْفُرْقَۃِ ، الَّتِیْ تَکُوْنُ بَعْدَ ذٰلِکَ ، وَأَنَّ الْبَیْعَ یَنْتَقِلُ بِتِلْکَ الْأَقْوَالِ مِنْ مِلْکِ الْبَائِعِ اِلٰی مِلْکِ الْمُبْتَاعِ ، حَتّٰی یَہْلِکَ مِنْ مَالِہٖ اِنْ ہَلَکَ .فَہٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْنَا ، أَدَلُّ عَلٰی مَذْہَبِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فِی الْفُرْقَۃِ الَّتِیْ سَمِعَہَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِمَّا ذَکَرُوْا .وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْا ، عَنْ أَبِیْ بَرْزَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَا حُجَّۃَ لَہُمْ فِیْہِ أَیْضًا - عِنْدَنَا لِأَنَّ ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ اِنَّمَا ہُوَ فِیْمَا رَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ جَمِیْلِ بْنِ مُرَّۃَ ، أَنَّ رَجُلًا بَاعَ صَاحِبَہٗ فَرَسًا ، فَبَاتَا فِیْ مَنْزِلٍ ، فَلَمَّا أَصْبَحَا ، قَامَ الرَّجُلُ یُسْرِجُ فَرَسَہٗ، فَقَالَ لَہٗ بِعْتَنِی قَالَ أَبُوْبَرْزَۃَ اِنْ شِئْتُمَا قَضَیْتُ بَیْنَکُمَا بِقَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، حَتّٰی یَتَفَرَّقَا وَمَا أَرَاکُمَا تَفَرَّقْتُمَا .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہُمَا قَدْ کَانَا تَفَرَّقَا بِأَبْدَانِہِمَا ، لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّ الرَّجُلَ قَامَ یُسْرِجُ فَرَسَہٗ، قَدْ تَنَحّٰی بِذٰلِکَ مِنْ مَوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ .فَلَمْ یُرَاعِ أَبُوْبَرْزَۃَ ذٰلِکَ ، وَقَالَ مَا أَرَاکُمَا تَفَرَّقْتُمَا أَیْ لَمَّا کُنْتُمَا مُتَشَاجِرَیْنِ أَحَدُکُمَا یَدَّعِی الْبَیْعَ ، وَالْآخَرُ یُنْکِرُہٗ، لَمْ تَکُوْنَا تَفَرَّقْتُمَا الْفُرْقَۃَ ، الَّتِیْ یَتِمُّ بِہَا الْبَیْعُ ، وَہِیَ خِلَافُ مَا قَدْ تَفَرَّقَا بِأَبْدَانِہِمَا .ثُمَّ بَعْدَ ہٰذَا، فَقَدْ وَجَدْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمَبِیْعَ یَمْلِکُہُ الْمُشْتَرِیْ بِالْقَوْلِ ، دُوْنَ التَّفَرُّقِ بِالْأَبْدَانِ .وَذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا یَبِعْہُ حَتّٰی یَقْبِضَہٗ .فَکَانَ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّہٗ اِذَا قَبَضَہٗ، حَلَّ لَہُ بَیْعُہٗ، وَقَدْ یَکُوْنُ قَابِضًا لَہُ قَبْلَ افْتِرَاقِ بَدَنِہٖ وَبَدَنِ بَائِعِہٖ۔ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہٗ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہٗ وَسَنَذْکُرُ ہٰذِہِ الْآثَارَ فِیْ مَوَاضِعِہَا مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٥٤١٤: یونس نے ابن شہاب سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حضرت ابن عمر (رض) ہیں جن کے نزدیک سودے میں سے جو موجود میسر آجائے اس کے بعد کہ وہ مال ہلاک ہوگیا تو وہ مشتری کا مال ہے اس سے اس بات پر واضح دلالت مل گئی کہ ان کے ہاں عقد فریقین سے بیع مکمل ہوجاتی ہے اور یہ اس فرقت سے پہلے ہے جو اس کے بعد رونما ہوتی ہے اور مبیعہ عقد خریدو فروخت سے بائع کی ملکیت سے خارج ہو کر مشتری کی ملکیت میں داخل ہوجاتا ہے اس کی ہلاکت مشتری کے مال کی ہلاکت ہے۔ پس یہ بات دلالت میں واضح تر ہے کہ ابن عمر (رض) کا مذہب فرقت عاقدین کے سلسلہ میں جو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنا وہی ہے جو فریق اوّل و ثانی نے ذکر کیا ہے۔ روایت ابو برزہ (رض) کا جواب یہ ہے کہ فریق ثالث کی اس روایت میں بھی کوئی دلیل نہیں اس میں روایت گھوڑے کے فروخت ہونے اور پھر رات اپنی منزل میں گزار کر صبح کے وقت بائع کا گھوڑے کی زین کسنے کے لیے کھڑا ہونے کا تذکرہ ہے خریدنے والے نے اپنی خریداری کا ذکر کیا پھر وہ حضرت ابو برزہ (رض) کی خدمت میں جھگڑا لے کر گئے انھوں نے ان کی رضامندی سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق فیصلہ کردینے پر اطمینان کا اظہار کیا تو انھوں نے فرمایا بائع و مشتری کو جدا ہونے تک اختیار ہے اور میں تمہیں جدا ہونے والا خیال نہیں کرتا۔ اس روایت میں یہ دلالت پائی جاتی ہے کہ وہ جسمانی طور پر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تھے کیونکہ کھڑے ہو کر گھوڑے کی زین کسنے کا سلسلہ گھوڑا باندھنے کی جگہ میں ہوسکتا ہے اور حضرت ابو برزہ (رض) نے اس کا قطعاً لحاظ نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا میں تمہیں جدا ہونے والا خیال نہیں کرتا۔ کیونکہ تمہارا جھگڑا ہے ایک دعویٰ خرید کرتا ہے اور دوسرا منکر ہے تو یہ اصلاً فروخت کا عقد نہیں ہے جس سے سودا مکمل ہوتا ہے پس اس سے جسمانی جدائی تکمیل عقدکا باعث ہے۔ یہ بات تو ثابت نہ ہوسکی۔ پھر ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی باتیں پائیں جو اس بات پر دال ہیں کہ بات چیت سے ہی مشتری شئی کا مالک بن جاتا ہے جسمانی فرقت کی حاجت نہیں ہے اور وہ یہ روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ من ابتاع طعاما فلا یبیعہ حتی یقبضہ “ (بخاری باب ٥١) ہم مزید روایات اپنے موقعہ پر ذکر کریں گے ان شاء اللہ۔

5416

۵۴۱۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ .ح .
٥٤١٥: ابن وہب سے ابن لہیعہ سے روایت کی ہے۔

5417

۵۴۱۶: وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ وَرْدٍ ، أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ یَخْطُبُ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ کُنْتُ أَشْتَرِی التَّمْرَ ، فَأَبِیْعُہٗ بِرِبْحِ الْآصُعِ ، فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اشْتَرَیْتَ فَاکْتَلْ ، وَاِذَا بِعْتُ فَکِلْ .فَکَانَ مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا مُکَایَلَۃً ، فَبَاعَہُ قَبْلَ أَنْ یَکْتَالَہٗ، لَا یَجُوْزُ بَیْعُہٗ، فَاِذَا ابْتَاعَہٗ، فَاکْتَالَہٗ وَقَبَضَہٗ، ثُمَّ فَارَقَ بَیِّعَہٗ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ ، أَنَّہٗ لَا یَحْتَاجُ بَعْدَ الْفُرْقَۃِ اِلَیْ اِعَادَۃِ الْکَیْلِ وَخُوْلِفَ بَیْنَ اکْتِیَالِہِ اِیَّاہُ بَعْدَ الْبَیْعِ قَبْلَ التَّفَرُّقِ ، وَبَیْنَ اکْتِیَالِہِ اِیَّاہُ قَبْلَ الْبَیْعِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ اِذَا اکْتَالَہُ اکْتِیَالًا ، یَحِلُّ لَہُ بَیْعُہٗ، فَقَدْ کَانَ ذٰلِکَ الِاکْتِیَالُ مِنْہٗ، وَہُوَ لَہُ مَالِکٌ .وَاِذَا اکْتَالَہُ اکْتِیَالًا ، لَا یَحِلُّ لَہُ بَیْعُہٗ، فَقَدْ کَالَہُ وَہُوَ غَیْرُ مَالِکٍ لَہٗ۔فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، وُقُوْعُ مِلْکِ الْمُشْتَرِی فِی الْبَیْعِ بِابْتِیَاعِہِ اِیَّاہٗ، قَبْلَ فُرْقَۃٍ تَکُوْنُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَمْوَالَ تُمْلَکُ بِعُقُوْدٍ ، فِیْ أَبْدَانٍ ، وَفِیْ أَمْوَالٍ ، وَفِیْ مَنَافِعَ ، وَفِیْ أَبْضَاعٍ .فَکَانَ مَا یُمْلَکُ مِنَ الْأَبْضَاعِ ، ہُوَ النِّکَاحُ ، فَکَانَ ذٰلِکَ یَتِمُّ بِالْعَقْدِ ، لَا بِفُرْقَۃٍ بَعْدَہٗ.وَکَانَ مَا یُمْلَکُ بِہٖ الْمَنَافِعُ ، ہُوَ الْاِجَارَاتِ ، فَکَانَ ذٰلِکَ مَمْلُوْکًا بِالْعَقْدِ ، لَا بِالْفُرْقَۃِ بَعْدَ الْعَقْدِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الْأَمْوَالُ الْمَمْلُوْکَۃُ ، بِسَائِرِ الْعُقُوْدِ ، مِنَ الْبُیُوْعِ وَغَیْرِہِمَا ، تَکُوْنُ مَمْلُوْکَۃً بِالْأَقْوَالِ ، لَا بِالْفُرْقَۃِ بَعْدَہَا قِیَاسًا وَنَظَرًا ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٤١٦: سعید بن مسیب نے حضرت عثمان بن عفان (رض) سے سنا کہ وہ منبر پر فرما رہے تھے۔ میں کھجور خرید کر کچھ صاع کے نفع پر فروخت کرتا تھا تو مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب خریداری کرو تو کیل کرلیا کرو اور جب فروخت کرو تو کیل کرلیا کرو۔ پس جو شخص کیل (ماپ کر) کر کے غلہ خرید لے تو ماپنے سے پہلے اگر فروخت کردیا تو یہ جائز نہیں۔ لیکن جب خریدنے کے بعد ماپ لیا اور قبضہ کرلیا اور اس کے بعد مالک سے جدا ہوا تو اس پر سب کا اجماع ہے کہ اس کو فرقت کے بعد دوبارہ ماپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ سودا ہوجانے کے بعد اور جدا ہونے سے پہلے ماپنے اور سودے سے پہلے ماپنے کے متعلق اختلاف ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اگر وہ اس کا ایسا ماپ کرتا ہے جس کے بعد اس کی فروخت جائز ہے تو یہ ماپنا اس کی طرف سے ہوگا اور وہ اس کا مالک ہوگا اور اگر وہ ایسا کیل ہے جس کے بعد اس کو فروخت کرنا جائز نہیں تو اس نے گویا ایسی حالت میں کیل کیا ہے کہ وہ اس کا مالک نہیں ہے۔ اس سابقہ تفصیل سے واضح ہوا کہ خریدار کو جدا ہونے سے پہلے ہی صرف سودا کرلینے سے ملک حاصل ہوجاتی ہے۔ روایات کو سامنے رکھنے سے تو اس باب کا یہی مطلب ہوگا۔ اب طریق نظر سے اس کی وضاحت کی جاتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عقود کے ذریعہ اجسام ‘ اموال اور منافع بضع پر ملکیت حاصل ہوتی ہے اور یہ عقد سے مکمل ہوجاتے ہیں اس کے بعد جدا ہونے کے ذریعہ سے نہیں اور اجارات کے ذریعہ ہی منافع کا مالک بنتا ہے جدا ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ بیع وغیرہ کے ذریعہ جن اموال کی ملکیت حاصل ہوتی ہے ان کا بھی یہی حکم ہے عقد کے بعد فرقت پر موقوف نہیں۔ قیاس و غور و فکر سے ہماری اس تقریر کی تائید ہوتی ہے۔ یہی حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٥١‘ مسند احمد ١‘ ٦٢؍٧٥۔

5418

۵۴۱۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، وَخِلَاسُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اشْتَرَی شَاۃً مُصَرَّاۃً ، أَوْ لِقْحَۃً مُصَرَّاۃً ، فَحَلَبَہَا ، فَہُوَ بِخَیْرِ النَّظِیْرَیْنِ ، بَیْنَ أَنْ یَخْتَارَہَا ، وَبَیْنَ أَنْ یَرُدَّہَا ، وَاِنَائً مِنْ طَعَامٍ .
٥٤١٧: ابن سیرین اور خلاس بن عمرو نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے ایسی اونٹنی یا بکری خریدی جو مصراۃ تھی (جس کے تھنوں میں خریدار کو دھوکا دینے کے لیے دودھ روکا گیا ہو) تو اس کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا تو اس کو رکھ لے یا اسے واپس کر دے اور اس کے ساتھ (دودھ کے بدلے) غلہ سے بھرا ہوا برتن (جس میں دودھ دوہتے ہیں) بھی دے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٦٥‘ مسلم فی البیوع ٢٣؍٢٦‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٤٦‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٩‘ نسائی فی البیوع باب ١٤‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٤٢‘ دارمی فی البیوع باب ١٩‘ مسند احمد ٢‘ ٢٤٨؍٤٨١‘ ٤؍٣١٤۔

5419

۵۴۱۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ .
٥٤١٨: محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔
لغات : مصراۃ۔ تھنوں میں خریدار کو دھوکا دہی کے لیے دودھ روکنا۔ لقحہ۔ گابھن اونٹنی۔

5420

۵۴۱۹: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، ہُوَ ابْنُ سِیْرِیْنَ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنِ ابْتَاعَ مُصَرَّاۃً ، فَہُوَ بِالْخِیَارِ ، اِنْ شَائَ رَدَّہَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ ہٰکَذَا فِیْ حَدِیْثِ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ وَصَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرَائَ .
٥٤١٩: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جس نے مصراۃ خریدی اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ واپس کر دے محمد بن زیاد کی روایت میں اسی طرح ہے اور روایت ایوب میں ہے کہ کھجور کا ایک صاع ہو۔ گندم نہ ہو۔
لغات : سمراء۔ گندم۔

5421

۵۴۲۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ .ح .
٥٤٢٠: ربیع جیزی و صالح بن عبدالرحمن دونوں نے عبداللہ بن مسلمہ سے روایت کی ہے۔

5422

۵۴۲۱: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ .ح .
٥٤٢١: یونس نے عبداللہ بن نافع سے روایت کی ہے۔

5423

۵۴۲۲: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالُوْا : حَدَّثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ بَشَّارٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اشْتَرَی شَاۃً مُصَرَّاۃً ، فَلْیَنْقَلِبْ بِہَا ، فَلْیَحْلُبْہَا فَاِنْ رَضِیَ حِلَابَہَا أَمْسَکَہَا ، وَاِلَّا رَدَّہَا ، وَرَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ .
٥٤٢٢: موسیٰ بن بشار نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جس نے مصراۃ بکری خریدی وہ واپس لے جائے اس کا دودھ دوہے اگر پسند آجائے تو روک لے ورنہ اس واپس کرے اور اس کے ساتھ کھجور کا ایک صاع واپس کرے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٢٣۔
لغات : حلاب۔ دودھ۔ دودھ والا برتن۔

5424

۵۴۲۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٤٢٣: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5425

۵۴۲۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ ، وَعِکْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ اشْتَرَی شَاۃً مُصَرَّاۃً ، أَوْ لِقْحَۃً مُصَرَّاۃً ، وَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّہَا مُصَرَّاۃٌ ، فَاِنَّہٗ اِنْ شَائَ رَدَّہَا وَمَعَہَا صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، وَاِنْ شَائَ أَمْسَکَہَا .
٥٤٢٤: عبدالرحمن سعد ‘ عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے مصراۃ بکری خریدی یا گابھن مصراۃ خریدی اور اس کو معلوم نہ ہوا کہ وہ مصراۃ ہے اگر وہ پسند کرے تو لوٹا دے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے اور اگر چاہے تو اپنے پاس روک لے۔

5426

۵۴۲۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ أَبَا اِسْحَاقَ حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ اشْتَرٰی شَاۃً مُصَرَّاۃً ، فَلْیَنْقَلِبْ بِہَا ، فَلْیَحْلُبْہَا ، فَانٍ رَضِیَ حِلَابَہَا أَمْسَکَہَا ، وَاِلَّا رَدَّہَا وَرَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَقَدْ رُوِیَتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَمَا ذَکَرْنَا ، وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْہَا لِخِیَارِ الْمُشْتَرِی وَقْتًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ جَعَلَ الْخِیَارَ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ .
٥٤٢٥: ابو اسحاق نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے تھنوں میں دودھ روکی ہوئی بکری خرید لی وہ اس کو لوٹا کر اس کا دودھ دوہے اگر دودھ کی مقدار پسند آئے تو روک رکھے ورنہ مالک کو واپس کر دے اور کھجور کا ایک صاع بھی ساتھ دے۔ طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ان روایات میں تو مدت خیار کی کوئی تعیین مذکور نہیں مگر دیگر روایات میں مدت خیار تین دن مذکور ہے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٢٣۔

5427

۵۴۲۶: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الشَّاۃِ وَہِیَ مُحَفَّلَۃٌ فَاِذَا بَاعَہَا ، فَاِنَّ صَاحِبَہَا بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ، فَاِنْ کَرِہَہَا ، رَدَّہَا وَرَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ .
٥٤٢٦: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بکری کو فروخت سے منع فرمایا جس کے تھنوں میں دودھ زیادہ ظاہر کرنے کے لیے روکا گیا ہو جب اس نے فروخت کردی تو اب مشتری کو تین دن تک اختیار ہے اگر ناپسند کرے تو واپس کرے اور ایک صاع کھجور بھی واپس کرے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٦٤؍٧١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٤٦‘ نسائی فی البیوع باب ١٤‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٤٢‘ مسند احمد ١؍٤٣٠‘ ٢؍٢٤٨۔
لغات : محفلہ۔ جس بکری کے تھنوں میں دودھ روکا جائے۔

5428

۵۴۲۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ سُہَیْلَ بْنَ أَبِیْ صَالِحٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنِ ابْتَاعَ شَاۃً مُصَرَّاۃً ، فَہُوَ فِیْہَا بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ، فَاِنْ شَائَ أَمْسَکَہَا ، وَاِنْ شَائَ رَدَّہَا ، وَرَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ .
٥٤٢٧: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے جناب ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے مصراۃ بکری خریدی اسے تین دن کا اختیار ہے۔ خواہ روکے یا واپس کر دے اور ایک صاع کھجور بھی دیدے۔

5429

۵۴۲۸: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، وَہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، وَحَبِیْبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : رَدَّہَا وَصَاعًا مِنْ طَعَامٍ ، لَا سَمْرَائَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الشَّاۃَ الْمُصَرَّاۃَ اِذَا اشْتَرَاہَا رَجُلٌ فَحَلَبَہَا ، فَلَمْ یَرْضَ حِلَابَہَا ، فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ، کَانَ بِالْخِیَارِ ، اِنْ شَائَ أَمْسَکَہَا ، وَاِنْ شَائَ رَدَّہَا ، وَرَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ لَیْلَیْ اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : یَرُدُّہَا وَیَرُدُّ مَعَہَا قِیْمَۃَ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ أَیْضًا قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ فِیْ بَعْضِ أَمَالِیْہِ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِالْمَشْہُوْرِ عَنْہُ .وَخَالَفَ ذٰلِکَ کُلَّہٗ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَیْسَ لِلْمُشْتَرِیْ رَدُّہَا بِالْعَیْبِ ، وَلٰـکِنَّہٗ یَرْجِعُ عَلَی الْبَائِعِ بِنُقْصَانِ الْعَیْبِ .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، مِمَّا تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، مَنْسُوْخٌ .فَرُوِیَ عَنْہُمْ ہٰذَا الْکَلَامُ مُجْمَلًا ، ثُمَّ اُخْتُلِفَ عَنْہُمْ مِنْ بَعْدُ فِی الَّذِیْ نَسَخَ ذٰلِکَ مَا ہُوَ ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ ، فِیْمَا أَخْبَرَنِیْ عَنْہُ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، نَسَخَہُ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیدِہٖ، فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ .فَلَمَّا قَطَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْفُرْقَۃِ الْخِیَارَ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا خِیَارَ لِأَحَدٍ بَعْدَہَا اِلَّا لِمَنِ اسْتَثْنَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ہٰذَا الْحَدِیْثِ بِقَوْلِہٖ اِلَّا بَیْعَ الْخِیَارِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَہٰذَا التَّأْوِیْلُ ، عِنْدِی ، فَاسِدٌ لِأَنَّ الْخِیَارَ الْمَجْعُوْلَ فِی الْمُصَرَّاۃِ ، اِنَّمَا ہُوَ خِیَارُ عَیْبٍ ، وَخِیَارُ الْعَیْبِ لَا یَقْطَعُہُ الْفُرْقَۃُ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ اشْتَرَیْ عَبْدًا فَقَبَضَہٗ، وَتَفَرَّقَا ، ثُمَّ رَأَی بِہٖ عَیْبًا بَعْدَ ذٰلِکَ ، أَنَّ لَہٗ رَدَّہُ عَلَی بَائِعِہٖ، بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ ، لَا یَقْطَعُ ذٰلِکَ التَّفَرُّقُ ، الَّذِیْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْآثَارِ الْمَذْکُوْرَۃِ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ .فَکَذٰلِکَ الْمُبْتَاعُ لِلشَّاۃِ الْمُصَرَّاۃِ ، فَاِذَا قَبَضَہَا فَاحْتَلَبَہَا ، فَعَلِمَ أَنَّہَا عَلٰی غَیْرِ مَا کَانَ ظَہَرَ لَہٗ مِنْہَا ، وَکَانَ ذٰلِکَ لَا یَعْلَمُہٗ فِی احْتِلَابِہٖ مَرَّۃً وَلَا مَرَّتَیْنِ ، جُعِلَتْ لَہُ فِیْ ذٰلِکَ ہٰذِہِ الْمُدَّۃُ ، وَہِیَ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ ، حَتّٰی یَحْلُبَہَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَیَقِفَ عَلٰی حَقِیْقَۃِ مَا ہِیَ عَلَیْہِ .فَاِنْ کَانَ بَاطِنُہَا کَظَاہِرِہَا ، فَقَدْ لَزِمَتْہُ وَاسْتَوْفَی مَا اشْتَرَی .وَاِنْ کَانَ ظَاہِرُہَا بِخِلَافِ بَاطِنِہَا ، فَقَدْ ثَبَتَ الْعَیْبُ ، وَوَجَبَ لَہٗ رَدُّہَا بِہٖ .فَاِنْ حَلَبَہَا بَعْدَ الثَّلَاثَۃِ الْأَیَّامِ ، فَقَدْ حَلَبَہَا بَعْدَ عِلْمِہٖ بِعَیْبِہَا ، فَذٰلِکَ رِضَاء ٌ مِنْہُ بِہَا .فَلِہٰذِہِ الْعِلَّۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْتُ ، وَجَبَ فَسَادُ التَّأْوِیْلِ الَّذِی وَصَفْتُ .وَقَالَ عِیْسَی بْنُ أَبَانَ : کَانَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحُکْمِ فِی الْمُصَرَّاۃِ ، بِمَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، فِیْ وَقْتِ مَا کَانَتِ الْعُقُوْبَاتُ فِی الذُّنُوْبِ ، یُؤْخَذُ بِہَا الْأَمْوَالُ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الزَّکَاۃِ أَنَّہٗ مَنْ أَدَّاہَا طَائِعًا ، فَلَہٗ أَجْرُہَا ، وَاِلَّا أَخَذْنَاہَا مِنْہُ وَشَطْرَ مَالِہٖ ، عَزْمَۃً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا عَزَّ وَجَلَّ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ فِیْ سَارِقِ الثَّمَرَۃِ الَّتِیْ لَمْ تُحْرَزْ فَاِنَّہٗ یُضْرَبُ جَلَدَاتٍ ، وَیَغْرَمُ مِثْلَیْہَا .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیدِہِ فِی بَابِ وَطْئِ الرَّجُلِ جَارِیَۃَ امْرَأَتِہِ فَأَغْنَانَا ذٰلِکَ عَنْ اِعَادَۃِ ذِکْرِہَا ہٰہُنَا .قَالَ : فَلَمَّا کَانَ الْحُکْمُ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ کَذٰلِکَ حَتّٰی نَسَخَ اللّٰہُ الرِّبَا أُفْرِدَتِ الْأَشْیَائُ الْمَأْخُوْذَۃُ اِلٰی أَمْثَالِہَا ، اِنْ کَانَتْ لَہَا أَمْثَالٌ ، وَاِلَی قِیْمَتِہَا ، اِنْ کَانَتْ لَا أَمْثَالَ لَہَا ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہٰی عَنِ التَّصْرِیَۃِ ، وَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ .
٥٤٢٨: ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں یہ لفظ مختلف ہیں اس کا واپس کرنا ایک صاع طعام کے ساتھ ہو نہ کہ گیہوں کے ساتھ۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اگر کسی نے تھنوں میں دودھ روکی گئی بکری خرید لی پھر اس کا دودھ دوہتا رہے تین دن میں اگر دودھ پر مطمئن نہ ہو تو واپس کرتے وقت ایک کھجور کا صاع بھی دے یہ قول ابن ابی لیلیٰ نے اختیار کیا البتہ انھوں نے کھجور کی بجائے ایک صاع کی قیمت ذکر کی ہے امام ابو یوسف (رح) کے بعض امالی میں بھی یہ بات ملتی ہے مگر ان کے متعلق یہ معروف نہیں۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ عیب کی وجہ سے وہ مشتری واپس کرنے کا مجاز نہیں البتہ عیب کا نقصان وہ مالک سے لے سکتا ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) کا قول ہے۔ فریق اوّل کی روایات کا جواب یہ ہے کہ جس قدر روایات گزری ہیں یہ منسوخ ہیں انھوں نے یہ اجمالی بات کہی ہے اب ناسخ کے متعلق پچھلے علماء کا اختلاف ہے۔ محمد بن شجاع کہتے ہیں کہ ابن ابی عمران نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ان روایات کی یہ روایات البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ یہ روایت گزشتہ اوراق میں اسناد کے ساتھ ذکر کی جا چکی ہے۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرقت کے ذریعہ خیار کو ختم کردیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سودا مکمل ہونے کے بعد اب کسی کو بھی اختیار نہ ہوگا سوائے اس کے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” الا بیع الخیار “ سے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ تاویل غلط ہے کیونکہ تھنوں میں دودھ روکے جانے والے جانور کی بیع خیار عیب کی قسم سے ہے اور وہ بائع و مشتری کی جدائی سے بھی ختم نہیں ہوتی۔ سابقہ قول کے قائلین کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص غلام خرید کر اس پر قبضہ کرلے پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں اس کے بعد اس غلام میں عیب ظاہر ہو تو اس بات پر تمام کا اجماع ہے کہ اس کو واپس کرنے کا حق حاصل ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایات فرقت کے سلسلہ میں مروی ہیں وہ اس حق کو ختم نہیں کرتیں۔ بالکل اسی طرح مسئلہ مصراۃ میں بکری کا خریدار اس پر قبضہ کرلینے کے بعد اس کا دودھ دوہتا ہے اور ظاہر کے مخالف پاتا ہے اور اس نقص کا علم ایک دو بار دوہنے سے نہیں ہوتا تو اسے اتنا وقت دیا جائے گا جس کے ذریعہ وہ حقیقت سے آگاہ ہو اور وہ تین دن کی مدت ہے اگر وہ جانور ظاہر کی طرح نکلے تو بیع لازم ہوجائے گی اور جو خریدا اس کو مکمل وصول کرے اور اگر اس کے خلاف عیب ثابت ہوجائے تو لوٹانا واجب ہوجائے گا اور اگر اس نے تین دن کے بعد اس کا دودھ دوہا تو یہ علامت رضا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم نے جو علت ذکر کی ہے اس سے سابقہ تاویل کا فساد ظاہر ہوگیا۔ عیسیٰ بن ابان (رح) کا کہنا ہے کہ مصراۃ کے مسئلہ میں جس قدر روایات مالی ضمان کی وارد ہیں۔ یہ اس زمانے سے متعلق ہیں جب گناہ کی سزا مالی جرمانے سے دی جاتی تھی۔ اس کی دلیل یہ مسئلہ مصراۃ ہے اس کی دوسری مثال زکوۃ کا یہ حکم ہے۔ ” من اداھا طائعا فلہ اجرہا والااخزنا ہامنہ و شطرمالہ غرمۃ من غرمات ربنا عزوجل “ جو زکوۃ خوشی سے ادا کرے تو وہ اجر پائے گا ورنہ ہم اس سے زبردستی وصول کریں گے اور اس کے مال کا ایک حصہ بطور تاوان لیں گے جو کہ ہمارے رب تعالیٰ کی طرف سے مقررہ تاوان سے ہے۔ اس کی تیسری مثال عمرو بن شعیب کی چور کے سلسلے میں یہ روایت ہے کہ جس نے غیر محفوظ پھل کی چوری کی اسے کوڑے مارے جائیں گے اور بطور تاوان دوگنا پھل لیا جائے گا۔ ہم نے اسناد سمیت یہ روایت باب وطحأ الرجل جاریۃ امراتہ “ میں ذکر کی ہے اعادہ کی حاجت نہیں۔ جب اسلام کے ابتدائی دور میں حکم اسی طرح تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو منسوخ فرمایا اور اشیاء اپنی مثل کی طرف لوٹ گئیں جبکہ ان کی مثل ہو اور جن کی مثل نہ تھی وہ قیمت کی طرف لوٹ گئیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تھنوں میں دودھ جمع کرنے سے منع فرمایا جیسا کہ یہ روایات شاہد ہیں۔

5430

۵۴۲۹: فَذَکَرَ مَا قَدْ حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ ، عَنْ أَبِی الضُّحٰی ، عَنْ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : أَشْہَدُ عَلَی الصَّادِقِ الْمَصْدُوْقِ أَبِی الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ اِنَّ بَیْعَ الْمُحَفَّلَاتِ خِلَابَۃٌ ، وَلَا یَحِلُّ خِلَابَۃُ مُسْلِمٍ .فَکَانَ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ وَبَاعَ مَا قَدْ جَعَلَ یَبِیْعُہٗ اِیَّاہُ مُخَالِفًا لِمَا أَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدَاخِلًا فِیْمَا نَہٰی عَنْہُ، فَکَانَتْ عُقُوْبَتُہُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ یَجْعَلَ اللَّبَنَ الْمَحْلُوْبَ فِی الْأَیَّامِ الثَّلَاثَۃِ لِلْمُشْتَرِی بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ ، وَلَعَلَّہٗ یُسَاوِی آصُعًا کَثِیْرَۃً ، ثُمَّ نُسِخَتِ الْعُقُوْبَاتُ فِی الْأَمْوَالِ بِالْمَعَاصِی ، وَرُدَّتِ الْأَشْیَائُ اِلَی مَا ذَکَرْنَا .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَوَجَبَ رَدُّ الْمُصَرَّاۃِ بِعَیْنِہَا ، وَقَدْ زَایَلَہَا اللَّبَنُ ، عَلِمْنَا أَنَّ ذٰلِکَ اللَّبَنَ الَّذِی أَخَذَہُ الْمُشْتَرِی مِنْہَا ، قَدْ کَانَ بَعْضُہٗ فِیْ ضَرْعِہَا ، فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الْبَیْعِ عَلَیْہَا ، فَہُوَ فِیْ حُکْمِ الْمَبِیْعِ ، وَبَعْضُہٗ حَدَثَ فِیْ ضَرْعِہَا فِیْ مِلْکِ الْمُشْتَرِی ، بَعْدَ وُقُوْعِ الْبَیْعِ عَلَیْہَا ، فَذٰلِکَ لِلْمُشْتَرِی .فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ رَدَّ اللَّبَنَ ، بِکَمَالِہِ عَلَی الْبَائِعِ ، اِذَا کَانَ بَعْضُہٗ بِمَا لَمْ یَمْلِکْ بَیْعَہٗ، وَلَمْ یُمْکِنْ أَنْ یُجْعَلَ اللَّبَنُ کُلُّہُ لِلْمُشْتَرِیْ اِنْ کَانَ مَلَکَ بَعْضَہُ مِنْ قِبَلِ الْبَائِعِ بِبَیْعِہِ اِیَّاہُ الشَّاۃَ الَّتِی قَدْ رَدَّہَا عَلَیْہِ بِالْعَیْبِ ، وَکَانَ مِلْکُہُ لَہُ اِیَّاہُ بِجُزْئٍ مِنَ الثَّمَنِ اِذَا کَانَ وَقَعَ بِہٖ الْبَیْعُ ، فَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَرُدَّ الشَّاۃَ بِجَمِیْعِ الثَّمَنِ ، وَیَکُوْنَ ذٰلِکَ اللَّبَنُ سَالِمًا لَہُ بِغَیْرِ ثَمَنٍ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، مَنَعَ الْمُشْتَرِیَ مِنْ رَدِّہَا ، وَرَجَعَ عَلَی بَائِعِہِ بِنُقْصَانِ عَیْبِہَا ، قَالَ عِیْسَی فَہٰذَا وَجْہُ حُکْمِ بَیْعِ الْمُصَرَّاۃِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَالَّذِیْ قَالَ عِیْسَی مِنْ ہٰذَا ، یَحْتَمِلُ غَیْرَ مَا قَالَ ، اِنِّیْ رَأَیْتُ فِیْ ذٰلِکَ وَجْہًا ہُوَ أَشْبَہٗ، عِنْدِی ، بِنَسْخِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ ذٰلِکَ الْوَجْہِ الَّذِیْ ذٰہَبَ اِلَیْہِ عِیْسَی .وَذٰلِکَ أَنَّ لَبَنَ الْمُصَرَّاۃِ الَّذِی احْتَلَبَہُ الْمُشْتَرِی مِنْہَا ، فِی الثَّلَاثَۃِ الْأَیَّامِ الَّتِی احْتَلَبَہَا فِیْہَا ، قَدْ کَانَ بَعْضُہٗ فِیْ مِلْکِ الْبَائِعِ قَبْلَ الشِّرَائِ ، وَحَدَثَ بَعْضُہٗ فِیْ مِلْکِ الْمُشْتَرِیْ بَعْدَ الشِّرَائِ ، اِلَّا أَنَّہٗ قَدْ احْتَلَبَہَا مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ .فَکَانَ مَا کَانَ فِیْ یَدِ الْبَائِعِ مِنْ ذٰلِکَ مَبِیْعًا ، اِذَا أَوْجَبَ نَقْضَ الْبَیْعِ فِی الشَّاۃِ ، وَجَبَ نَقْضُ الْبَیْعِ فِیْہِ .وَمَا حَدَثَ فِیْ یَدِ الْمُشْتَرِی مِنْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّمَا کَانَ مَلَکَہٗ، بِسَبَبِ الْبَیْعِ أَیْضًا ، وَحُکْمُہٗ حُکْمُ الشَّاۃِ ، لِأَنَّہٗ مِنْ بَدَنِہَا ہَذَا عَلَی مَذْہَبِنَا .وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَعَلَ لِمُشْتَرِی الْمُصَرَّاۃِ بَعْدَ رَدِّہَا ، جَمِیْعَ لَبَنِہَا الَّذِیْ کَانَ حَلَبَہٗ مِنْہَا بِالصَّاعِ مِنَ التَّمْرِ الَّذِی أَوْجَبَ عَلَیْہِ رَدَّہُ مَعَ الشَّاۃِ .وَذٰلِکَ اللَّبَنُ حِیْنَئِذٍ قَدْ تَلِفَ ، أَوْ تَلِفَ بَعْضُہٗ فَکَانَ الْمُشْتَرِی قَدْ مَلَکَ لَبَنًا دَیْنًا ، بِصَاعِ تَمْرٍ دَیْنٍ ، فَدَخَلَ ذٰلِکَ فِیْ بَیْعِ الدَّیْنِ بِالدَّیْنِ ثُمَّ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدُ ، عَنْ بَیْعِ الدَّیْنِ بِالدَّیْنِ .
٥٤٢٩: مسروق نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے تھے میں گواہی دیتا ہوں کہ ابوالقاسم الصادق المصدوق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تھنوں میں دودھ روکے ہوئے جانوروں کی فروخت دھوکا ہے کسی مسلمان سے دھوکا کرنا جائز نہیں۔ تو جو شخص یہ حرکت کرنے والا ہے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے منہ موڑنے والا ہے یہ اس چیز میں داخل ہے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روکا ہے اب ایسی حرکت کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ تین دن میں جو دودھ اس سے حاصل کیا ہے وہ خریدار کو صرف ایک صاع کے بدلے میں حاصل ہوجائے گا عین ممکن ہے کہ وہ کئی صاع کے برابر ہو۔ اس کے بعد مالی جرمانے سے سزا کا حکم منسوخ ہوگیا اور اشیاء کو امثال کی طرف لوٹا دیا گیا (یعنی مثل صوری یا معنوی) جیسا ہم نے ذکر کیا جب بات کی اصل یہ ہے اور مصراۃ کو بعینہ واپس لوٹانا ضروری ہے اور دودھ اس سے زائل ہوچکا (جو جمع کیا گیا تھا) اس سے معلوم ہوا کہ جو دودھ خریدار کو حاصل ہوا ہے اس میں سے کچھ مقدار سودا کرتے وقت تھنوں میں ضرور موجود تھی وہ بیع کے حکم میں ہوگا اور کچھ دودھ خریدنے کے بعد مشتری کی ملکیت میں پہنچ کر پیدا ہو وہ مشتری کا ہی ہے جبکہ تمام دودھ کو بائع کی طرف لوٹایا نہیں جاتا اس لیے کہ وہ بعض دودھ کی بیع کا مالک نہیں اور تمام دودھ کے متعلق یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مشتری اس کا مالک ہے کیونکہ وہ اس مقدار دودھ کا مالک ہے جو جانور فروخت کرتے وقت اس کے تھنوں میں تھا جس جانور کو عیب کی وجہ سے واپس کردیا گیا اور مالک نے اس کو اتنی رقم کے ساتھ اس شئی کا مالک بنایا تھا جس پر ان کا سودا ہوا تھا۔ پس یہ بھی درست نہ ہوا کہ بکری کو پوری قیمت کے بدلے لوٹایا جائے اور یہ دودھ مکمل طور پر بلاقیمت اس خریدار کا ہوجائے۔ جب معاملہ اس طرح ہے تو خریدار کو واپس لوٹانے سے منع کیا جائے گا اور وہ عیب کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے سلسلہ میں بائع کی طرف رجوع کرے گا عیسیٰ بن ابان کہتے ہیں کہ مسئلہ مصراۃ کا حکم یہی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جو بات ابن ابان (رض) نے کہی اس میں اس کے علاوہ کی گنجائش ہے اور وہ اس روایت کی تنسیخ کے لیے اس سے بہت بہتر ہے وہ یہ ہے کہ مصراۃ کا وہ دودھ جو تین روز تک خریدار نے استعمال کیا اس میں سے کچھ دودھ تو سودے سے پہلے خریدار کی ملک تھا اور کچھ دودھ خریدنے کے بعد مشتری کی ملکیت میں پیدا ہوا البتہ اس نے بار بار دوھا تو جو کچھ خریدار کے قبضہ میں تھا وہ سودے میں شامل ہوگیا۔ جب اس جانور کی بیع کو توڑنا ضروری ہوگیا تو اس دودھ میں بھی بیع کا توڑنا ضروری ہوگیا اور جو دودھ خریدار کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے پیدا ہوا تو اس کی ملکیت بھی تو بیع کے سبب سے ہے اور اس کا حکم بھی بکری وغیرہ والا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ دودھ اس کے بدن سے نکلا ہے اور یہ بات ہمارے مذہب کے بالکل مطابق ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصراۃ کے خریدار کے لیے اس جانور کو لوٹانے کے بعد اس کے تمام دودھ کو جو اس نے اس دوران دوہا ہے ایک صاع کھجور کے بدلے قرار دیا جو صاع کھجوریں کہ وہ بکری وغیرہ کے ساتھ وہ بائع کو دیتا ہے اور اس وقت تک تو وہ دودھ تمام یا کم از کم اس کا بعض حصہ تلف ہوچکا ہوتا ہے پس خریدار اس دودھ کا کھجور کے قرض صاع کے بدلے مالک ہوچکا پس اس طرح وہ دودھ اس بیع القرض بالقرض میں داخل ہوا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض کی بیع قرض کے بدلے منع فرمائی ہے (پس یہ اس اعتبار سے منسوخ ہوا) قرض کے بدلے قرض کی بیع ممنوع ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی التجارات باب ٤٢‘ مسند احمد ١؍٤٣٣۔
حضرت عیسیٰ بن ابان کے قول پر طحاوی (رح) کا تبصرہ :
جو بات ابن ابان (رض) نے کہی اس میں اس کے علاوہ کی گنجائش ہے اور وہ اس روایت کی تنسیخ کے لیے اس سے بہت بہتر ہے وہ یہ ہے کہ مصراۃ کا وہ دودھ جو تین روز تک خریدار نے استعمال کیا اس میں سے کچھ دودھ تو سودے سے پہلے خریدار کی ملک تھا اور کچھ دودھ خریدنے کے بعد مشتری کی ملکیت میں پیدا ہوا البتہ اس نے بار بار دوھا تو جو کچھ خریدار کے قبضہ میں تھا وہ سودے میں شامل ہوگیا۔ جب اس جانور کی بیع کو توڑنا ضروری ہوگیا تو اس دودھ میں بھی بیع کا توڑنا ضروری ہوگیا اور جو دودھ خریدار کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے پیدا ہوا تو اس کی ملکیت بھی تو بیع کے سبب سے ہے اور اس کا حکم بھی بکری وغیرہ والا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ دودھ اس کے بدن سے نکلا ہے اور یہ بات ہمارے مذہب کے بالکل مطابق ہے۔

5431

۵۴۳۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، قَالَ أَبُو بَکْرَۃَ فِیْ حَدِیْثِہِ : أَخْبَرَنَا مُوْسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، وَقَالَ ابْنُ مَرْزُوْقٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ الزَّیْدِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الْکَالِئِ بِالْکَالِئِ یَعْنِی الدَّیْنَ بِالدَّیْنِ .فَنَسَخَ ذٰلِکَ مَا کَانَ تَقَدَّمَ مِنْہٗ، مِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِی الْمُصَرَّاۃِ ، مِمَّا حُکْمُہٗ حُکْمُ الدَّیْنِ .وَیُقَالُ لِلَّذِیْ ذٰہَبَ اِلَی الْعَمَلِ بِمَا رُوِیَ فِی الْمُصَرَّاۃِ ، مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ وَعَمِلَتْ بِذٰلِکَ الْعُلَمَائُ .
٥٤٣٠: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض کی قرض کے بدلے بیع سے منع فرمایا ہے۔ اس حکم کی بنا پر مصراۃ کا معاملہ جو کہ قرض کے بدلے قرض قرار پاتا ہے منسوخ ٹھہرا۔ روایات مصراۃ کے عاملین سے گزارش یہ ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” الخراج بالضمان “ اور اس پر بہت سے علماء کا عمل ہے۔ روایت بالسند ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : اس حکم کی بنا پر مصراۃ کا معاملہ جو کہ قرض کے بدلے قرض قرار پاتا ہے منسوخ ٹھہرا۔
فریق اوّل کی روایات کا جواب دوسرے رخ سے :
روایات مصراۃ کے عاملین سے گزارش یہ ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” الخراج بالضمان “ اور اس پر بہت سے علماء کا عمل ہے۔ روایت بالسند ملاحظہ ہو۔

5432

۵۴۳۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ .ح .
٥٤٣١: ابو عاصم نے ابن ابی الذئب سے روایت کی ہے۔

5433

۵۴۳۲: وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ۔
٥٤٣٢: ابن ابی الذئب نے مخلد بن خفاف انھوں نے عروہ سے ان سے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ضمان کے سبب خراج کا حقدار ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٧١‘ ترمذی فی البیوع باب ٥٣‘ نسائی فی البیوع باب ١٦‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٤٣‘ مسند احمد ٦‘ ٤٩؍٢٣٧‘ ٥‘ الخراج سے یہاں مراد۔

5434

۵۴۳۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا الزِّنْجِیُّ بْنُ خَالِدٍ ، سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : زَعَمَ لَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : اِنَّ رَجُلًا اشْتَرَیْ عَبْدًا فَاسْتَغَلَّہٗ ، ثُمَّ رَأَی بِہٖ عَیْبًا ، فَخَاصَمَہُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّہُ بِالْعَیْبِ .فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّہٗ قَدْ اسْتَغَلَّہٗ فَقَالَ لَہُ الْغَلَّۃُ بِالضَّمَانِ .
٥٤٣٣: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے غلام خریدا پھر چند دن اس سے کام لیا پھر اس میں عیب پایا تو وہ اپنا مقدمہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو عیب کے ساتھ مالک کو واپس لوٹا دیا مالک نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے چند دن اس سے کام لیا ہے آپ نے فرمایا ضمان کے سبب وہ نفع کا حقدار بن گیا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٨٠‘ ١١٦‘ ١٦١۔

5435

۵۴۳۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا مُطَّرِفُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : ثَنَا الزِّنْجِیُّ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہٗ .
٥٤٣٤: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5436

۵۴۳۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ الْمَاجِشُوْنِ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَتَلَقَّی الْعُلَمَائُ ہٰذَا الْخَبَرَ بِالْقَبُوْلِ ، وَزَعَمْتَ أَنْتَ أَنَّ رَجُلًا لَوْ اشْتَرَی شَاۃً فَحَلَبَہَا ، ثُمَّ أَصَابَ بِہَا عَیْبًا غَیْرَ التَّحْفِیلِ ، أَنَّہٗ یَرُدُّہَا وَیَکُوْنُ اللَّبَنُ لَہٗ۔وَکَذٰلِکَ لَوْ کَانَ مَکَانَ اللَّبَنِ وَلَدٌ وَلَدَتْہٗ، رَدَّہَا عَلَی الْبَائِعِ ، وَکَانَ الْوَلَدُ لَہٗ، وَکَانَ ذٰلِکَ ، عِنْدَکَ، مِنَ الْخَرَاجِ الَّذِیْ جَعَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْمُشْتَرِی بِالضَّمَانِ .فَلَیْسَ یَخْلُو الصَّاعُ الَّذِیْ تُوْجِبُہُ عَلَی مُشْتَرِی الْمُصَرَّاۃِ ، اِذَا رَدَّہَا اِلَی الْبَائِعِ بِالتَّصْرِیَۃِ أَنْ یَکُوْنَ عِوَضًا مِنْ جَمِیْعِ اللَّبَنِ الَّذِی احْتَلَبَہٗ مِنْہَا الَّذِیْ کَانَ بَعْضُہٗ فِیْ ضَرْعِہَا فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الْبَیْعِ ، وَحَدَثَ بَعْضُہٗ فِیْ ضَرْعِہَا بَعْدَ الْبَیْعِ أَوْ یَکُوْنُ عِوَضًا مِنَ اللَّبَنِ الَّذِیْ کَانَ فِیْ ضَرْعِہَا ، فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الْبَیْعِ خَاصَّۃً .فَاِنْ کَانَ عِوَضًا مِنْہُمَا ، فَقَدْ نَقَضْتَ بِذٰلِکَ أَصْلَکَ الَّذِیْ جَعَلْتَ الْوَلَدَ وَاللَّبَنَ لِلْمُشْتَرِیْ بَعْدَ الرَّدِّ بِالْعَیْبِ ، لِأَنَّکَ جَعَلْتَ حُکْمَہَا حُکْمَ الْخَرَاجِ الَّذِیْ جَعَلَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْمُشْتَرِی بِالضَّمَانِ .وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ الصَّاعُ عِوَضًا مِمَّا کَانَ فِیْ ضَرْعِہَا فِیْ وَقْتِ وُقُوْعِ الْبَیْعِ خَاصَّۃً ، وَالْبَاقِیْ سَالِمٌ لِلْمُشْتَرِی ، لِأَنَّہٗ مِنَ الْخَرَاجِ ، فَقَدْ جَعَلْتُ لِلْبَائِعِ صَاعًا دَیْنًا بِلَبَنٍ دَیْنٍ ، وَہٰذَا غَیْرُ جَائِزٍ فِیْ قَوْلِکَ ، وَلَا فِیْ قَوْلِ غَیْرِکَ .فَعَلٰی أَیِّ الْوَجْہَیْنِ کَانَ ہٰذَا الْمَعْنَیْ عَلَیْہِ، عِنْدَکَ ، فَأَنْتَ بِہٖ تَارِکٌ أَصْلًا مِنْ أُصُوْلِکَ .وَقَدْ کُنْتَ أَنْتَ بِالْقَوْلِ بِنَسْخِ ہٰذَا الْحَکَمِ فِی الْمُصَرَّاۃِ أَوْلَی مِنْ غَیْرِکَ ، لِأَنَّکَ أَنْتَ تَجْعَلُ اللَّبَنَ فِیْ حُکْمِ الْخَرَاجِ ، وَغَیْرُکَ لَا یَجْعَلُہٗ کَذٰلِکَ .
٥٤٣٥: عبدالملک بن عبدالعزیز نے مسلم بن خالد سے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اس کی مثل روایت نقل کی ہے۔ علماء نے اس روایت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور قبول کیا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں تمہارا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی بکری خریدے پھر اس کا دودھ دوہے اس کے بعد اس میں ایسا عیب پائے جو تھنوں میں دودھ کے جمع کرنے سے علاوہ ہو تو وہ اس کو لوٹا دے اور وہ دودھ کا مالک ہوجائے گا اور اگر دودھ کی بجائے بچہ جنے تو وہ جانور بائع کی طرف لوٹا دیا جائے گا مگر بچہ خریدار کا ہوگا اور تمہارے ہاں یہ وہ نفع ہے جس کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضمان کے بدلے مشتری کیلئے قرار دیا ہے پس ایک صاع کھجور جس کو تھنوں میں دودھ جمع کئے جانے والے جانور کو خریدنے والے پر لازم کرتے ہو کہ بائع کی طرف لوٹانے کی صورت میں یہ اس تمام دودھ کا عوضانہ ہے جو اس نے خریداری کے ایام میں استعمال کیا ہے جس میں سے کچھ تو سودا کے وقت بکری کے تھنوں میں تھا اور کچھ دودھ سودا کرلینے کے بعد اس کے تھنوں میں پیدا ہوا یا وہ کھجوروں کا صاع اس دودھ کا عوض ہے جو سودا کرتے وقت اس کے تھنوں میں موجود تھا۔ اگر بقول تمہارے یہ ان دونوں کے بدلے میں ہے تو اس سے تمہارا قاعدہ مقررہ ٹوٹ گیا کہ تم نے عیب کی وجہ سے بیع کو رد کرنے کی صورت میں دودھ اور بچے دونوں کو مشتری کی ملک قرار دیا کیونکہ تمہارے ہاں اس کا حکم اس نفع کی طرح ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضمان کی وجہ سے مشتری کے لیے قرار دیا اور اگر کھجوروں کا وہ صاع اس دودھ کا عوض ہے جو سودا کرتے وقت اس کے تھنوں میں پایا جاتا تھا اور باقی تمام کا تمام مشتری کیلئے ہوگا کیونکہ یہ نفع کا حصہ ہے تو تم نے قرض دودھ کے بدلے مالک کے لیے ایک صاع کھجور بطور قرض لازم کردیں اور یہ بات تمہارے اور دوسروں کے ہاں بھی جائز نہیں ہے۔ بہرحال ان دونوں باتوں میں سے جو بات بھی تمہارے ہاں درست ہو اس سے کسی نہ کسی قاعدہ کا ترک لازم آئے گا اگرچہ تمہارا قول دوسروں کے قول سے بہتر ہے کہ مصراۃ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ تم اس دودھ کو نفع کے حکم میں قرار دیتے ہو اور دوسروں کے ہاں اس طرح نہیں۔

5437

۵۴۳۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ وَہْبُ اللّٰہِ بْنُ رَاشِدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ وَاشْتِرَائِہٖ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہٗ .
٥٤٣٦: حضرت نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے ان کو بیچنے اور خریدنے سے منع فرماتے تھے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٢‘ مسلم فی البیوع ٥٢؍٥٤‘ نسائی فی البیوع باب ٢٨‘ ابن ماجہ باب ١٢‘ مسند احمد ٢؍٣٧‘ ٣؍٣٧٢‘ ٣٨١۔

5438

۵۴۳۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ .ح
٥٤٣٧: سالم نے ابن عمر (رض) اور وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اس وقت تک پھلوں کو نہ بیچو جب تک ان کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے۔

5439

۵۴۳۸: وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ قَالَا جَمِیْعًا، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ .ح
٥٤٣٨: لیثی اور عقیل نے ابن شہاب (رح) سے روایت کی ہے۔

5440

۵۴۳۹: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَبِیْعُوْا الثَّمَرَ ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہٗ .
٥٤٣٩: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے پھلوں کی بیع ان میں صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے مت کرو۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٢‘ والمساقاۃ باب ١٧‘ مسلم فی البیوع باب ٥١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢۔

5441

۵۴۴۰: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لَا تَبِیْعُوا الثَّمَرَ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہٗ .
٥٤٤٠: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اسے فروخت مت کرو۔

5442

۵۴۴۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ، ہُوَ الْغُدَانِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ ، فَکَانَ اِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاحِہَا ، قَالَ : حَتّٰی یَذْہَبَ عَاہَتُہَا .
٥٤٤١: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل فرمایا اور یہ اضافہ بھی ہے کہ جب ان کی صلاحیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا یہاں تک کہ ان کی آفت کا وقت ختم ہوجائے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤١۔

5443

۵۴۴۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سُرَاقَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ حَتّٰی تَذْہَبَ الْعَاہَۃُ ، قَالَ قُلْتُ : مَتَیْ ذٰاکَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ؟ قَالَ : طُلُوْعُ الثُّرَیَّا .
٥٤٤٢: عثمان بن عبداللہ بن سراقہ نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت کی ہے کہ آپ نے پھلوں کی بیع آفت کے خطرے تک ممنوع قرار دی۔ عثمان کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا اے ابو عبدالرحمن وہ کون سا وقت ہے ؟ تو فرمایا جب ثریا طلوع ہوجائے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٨‘ مسلم فی البیوع ٥٢‘ مسند احمد ٢؍٣٢۔

5444

۵۴۴۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ اِسْحَاقَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ ، أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہُ .
٥٤٤٣: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھلوں میں صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے ان کی بیع سے ممانعت فرمائی ہے۔

5445

۵۴۴۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مِیْنَائَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ ، حَتّٰی تُشْقِحَ .فَقِیْلَ لِجَابِرٍ : وَمَا تُشْقِحُ ؟ قَالَ : تَحْمَرُّ وَتَصْفَرُّ ، وَیُؤْکَلُ مِنْہَا .
٥٤٤٤: سعید بن مینا نے جابر بن عبداللہ (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھلوں کی بیع سے ممانعت فرمائی یہاں تک کہ وہ سرخ و زرد ہوجائیں۔ جابر (رض) نے تشقح کی تفسیر سرخ و زرد سے فرمائی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٥‘ مسلم فی البیوع ٨٤‘ ابو داؤد فی البیوع ٢٢‘ مسند احمد ٣؍٣٢٠۔

5446

۵۴۴۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَرَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: ثَنَا خَارِجَۃُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی الرِّجَالِ ، عَنْ أُمِّہٖ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ ، حَتّٰی تَنْجُوَ مِنَ الْعَاہَۃِ .
٥٤٤٥: ابوالرجال نے اپنی والدہ عمرہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت تک پھلوں کی بیع سے منع فرمایا یا یہاں تک کہ وہ آفت سے نکل جائیں۔
تخریج : مالک فی البیوع ١٢‘ مسند احمد ٦‘ ٧٠؍١٦٠۔

5447

۵۴۴۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبَاغَنْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلُ ، قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہٗ .
٥٤٤٦: خارجہ بن زید نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھل میں صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کی فروخت سے منع فرمایا۔

5448

۵۴۴۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ بْنِ الْقَاسِمِ الْیَمَامِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ ، وَالْمُخَاضَرَۃِ ، وَالْمُلَامَسَۃِ ، وَالْمُنَابَذَۃِ ، قَالَ عُمَرُ : فَسَّرَ لِی أَبِیْ فِی الْمُخَاضَرَۃِ ، قَالَ : لَا یَنْبَغِی أَنْ یُشْتَرَی شَیْء ٌ مِنْ ثَمَرِ النَّخْلِ حَتَّی یُوْنِعَ یَحْمَرَّ أَوْ یَصْفَرَّ .
٥٤٤٧: اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع محاقلہ اور مزابنہ ‘ مخاضرہ ‘ ملامسہ ‘ منابذہ سے منع فرمایا۔ عمر بن یونس کہتے ہیں کہ میرے والد فرماتے مخاضرہ۔ سبز پھل کی بیع کرنا یہ جائز نہیں جب تک سرخ و زرد نہ ہوجائے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٩٣‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥۔
لغات : محاقلہ۔ گندم جو سٹے میں ہو اس کی بیع خشک گندم کے بدلے۔ مزابنہ۔ درخت پر لگے ہوئے پھل کا اندازہ کر کے توڑے ہوئے مقررہ مقدار پھل کے بدلے فروخت کرنا۔ مخاضرہ۔ کھجور کے سبز پھل کی بیع۔ ملامسہ۔ یہ کہہ کر بیع کرنا کہ اس کی بیع اس وقت ہوگی جب میں نے یا تو نے ہاتھ لگا دیا۔ منابذہ۔ ان چیزوں میں سے جس پر کنکری گرے وہ اس قدر قیمت میں میں نے خرید لی (شروح مشکوٰۃ)

5449

۵۴۴۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُوْبَکْرٍ الصَّیْرَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرَۃِ ، حَتّٰی تَزْہُوَ ، وَعَنِ الْعِنَبِ ، حَتّٰی یَسْوَدَّ ، وَعَنِ الْحَبِّ ، حَتّٰی یَشْتَدَّ .
٥٤٤٨: حمید نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے کہ اس کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کی بیع سرخ ہونے سے پہلے اور انگور کی بیع سیاہ ہونے سے پہلے اور غلے کی بیع سخت ہونے سے پہلے منع فرمائی۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢‘ ترمذی فی البیوع باب ١٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٣٢‘ مسند احمد ٣‘ ٢٢١؍٢٥٠۔

5450

۵۴۴۹: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ حَتّٰی تَزْہُوَ .فَقُلْتُ لِأَنَسٍ: وَمَا زَہْوُہَا ؟ فَقَالَ : تَحْمَرُّ وَتَصْفَرُّ ، أَرَأَیْتَ اِنْ مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمَرَۃَ ؟ بِمَ یَسْتَحِلُّ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِیْہِ؟
٥٤٤٩: حمید نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے کھجوروں کی بیع سرخ و زرد پڑنے سے پہلے منع فرمائی ہے میں نے انس سے سوال کیا زہو کیا ہے تو فرمایا سرخ و زرد ہونا۔ ذرا غور کرو اگر اللہ تعالیٰ نے پھل کو روک دے تو کس چیز سے تم اپنے مسلمان بھائی کا مال اپنے لیے حلال قرار دو گے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٥‘ مسلم فی البیوع ٥٠‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢‘ ترمذی فی البیوع باب ١٥‘ نسائی فی البیوع باب ٤‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٣٢‘ مسند احمد ٢؍٥۔

5451

۵۴۵۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ ثَمَرَۃِ النَّخْلِ حَتّٰی تَزْہُوَ ، قِیْلَ لَہٗ : وَمَا تَزْہُو؟ قَالَ تَحْمَرُّ ، أَوْ تَصْفَرُّ .
٥٤٥٠: حمید نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کا پھل سرخ و زرد پڑنے سے پہلے فروخت کرنا منع کیا ان سے تزہو کا معنی پوچھا تو انھوں نے سرخ و زرد ہونا بتلایا۔

5452

۵۴۵۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَتَبَایَعُوْا الثِّمَارَ حَتّٰی تَزْہُوَ .قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : وَمَا تَزْہُو ؟ قَالَ تَحْمَرُّ أَوْ تَصْفَرُّ ، أَرَأَیْتَ اِنْ مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمَرَۃَ ؟ بِمَ یَسْتَحِلُّ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِیْہِ .
٥٤٥١: حمیدالطویل نے انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک پھل سرخ و زرد نہ ہوجائے فروخت مت کرو۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! زہو کیا ہے ؟ تو فرمایا سرخ و زرد ہونا۔ ذرا دھیان کرو اگر اللہ پھل کو روک دے تو تم کس طرح مسلمان بھائی کے مال کو اپنے لیے حلال کرو گے۔

5453

۵۴۵۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدٌ وَأَبُوْ سَلْمَۃَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَبِیْعُوْا الثَّمَرَ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہُ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ ، فَزَعَمُوْا أَنَّ الثِّمَارَ لَا یَجُوْزُ بَیْعُہَا فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ حَتّٰی تَحْمَرَّ أَوْ تَصْفَرَّ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : ہٰذِہِ الْآثَارُ کُلُّہَا عِنْدَنَا ، ثَابِتَۃٌ صَحِیْحٌ مَجِیْئُہَا ، فَنَحْنُ آخِذُوْنَ بِہَا ، غَیْرُ تَارِکِیْنَ لَہَا .وَلٰـکِنْ تَأْوِیْلُہَا عِنْدَنَا ، غَیْرُ مَا تَأَوَّلَہَا عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .وَذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہَا ، فَاحْتَمَلَ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی مَا تَأَوَّلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ بَیْعَ الثِّمَارِ ، قَبْلَ أَنْ یَکُوْنَ ، فَیَکُوْنَ الْبَائِعُ بَائِعًا لِمَا لَیْسَ عِنْدَہٗ، فَقَدْ نَہَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ ، فِیْ نَہْیِہِ عَنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ .
٥٤٥٢: حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھل کو بد و اصلاح سے قبل نہ بیچو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : سرخ یا زرد پڑنے سے پہلے کھجور کی بیع درخت پر درست نہیں۔ فریق اوّل کا یہ مؤقف ہے انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ فریق ثانی نے ان کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایات بالکل درست ہیں ہم ان کو اختیار کرنے والے ہیں ان کو چھوڑنے والے نہیں مگر ان کی تاویل وہ نہیں جو فریق اوّل نے کی ہے آپ کا ارشاد پھلوں کی بیع صلاحیت کے ظہور سے پہلے درست نہیں اس میں فریق اوّل کی تاویل کی جہاں گنجائش ہے تو اس کی ایک اور تاویل یہ ہے کہ اس سے پھلوں کی بیع مراد ہے جو کہ درخت پر آنے سے پہلے ہے اور اس صورت میں فروخت کرنے والا ایسی چیز فروخت کررہا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کئی سالوں کے لیے پھلوں کی بیع کی جائے۔ سعید اور ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پھلوں کو صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے مت فروخت کرو۔

5454

۵۴۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الْأَعْرَجِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَتِیْقٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ .قَالَ یُوْنُسُ : قَالَ لَنَا سُفْیَانُ ، ہُوَ بَیْعُ الثِّمَارِ ، قَبْلَ أَنْ یَبْدُوَ صَلَاحُہَا .
٥٤٥٣: سلیمان بن عتیق نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درختوں کی کئی سالوں کی بیع سے منع فرمایا ہے یونس کہتے ہیں کہ ہمیں سفیان نے بتلایا کہ یہ پھلوں کی بیع صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے کرنے کو کہتے ہیں (اس کا نام بیع معاومہ ہے)
تخریج : مسلم فی البیوع ٨٥؍٩٩‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٣‘ نسائی فی البیوع باب ٦٩‘ مسند احمد ٣‘ ٣٠٩؍٣١٤۔

5455

۵۴۵۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ ، ثَنَا کَہْمَسُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ .
٥٤٥٤: حسن نے سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی سالوں کی اکٹھی بیع سے منع فرمایا ہے۔

5456

۵۴۵۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُفَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَأَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ حَتَّی یُطْعَمَ .
٥٤٥٥: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھل کی اس وقت بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ کھانے کے قابل ہو۔
تخریج : مسلم فی البیوع نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ والبیوع باب ٢٨‘ مسند احمد ١؍٢٤٩‘ ٣‘ ١٦١؍٣٩٢۔

5457

۵۴۵۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٤٥٦: ابوالزبیر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5458

۵۴۵۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَأَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ ، فَقَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ ، حَتّٰی نَأْکُلَ مِنْہٗ، أَوْ حَتَّی یُؤْکَلَ مِنْہُ .
٥٤٥٧: ابوالبختری کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کھجور کی بیع کے متعلق دریافت کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کھجور کی بیع کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانے کے قابل ہونے سے پہلے کھجور کی بیع سے منع فرمایا ” حتی تاکل منہ یا یؤکل منہ “ کے الفاظ فرمائے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٥‘ مسلم فی البیوع ٥٥؍٨٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢‘ مالک فی البیوع ٣٧۔

5459

۵۴۵۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ الطَّائِیَّ یَقُوْلُ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ السَّلَمِ فَقُلْتُ اِنَّا نَدَعُ أَشْیَائَ، لَا نَجِدُ لَہَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تَحْرِیْمًا .قَالَ : اِنَّا نَفْعَلُ ذٰلِکَ ، نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ حَتَّی یُؤْکَلَ مِنْہُ .
٥٤٥٨: ابوالبختری طائی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے بیع سلم کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا ہم بعض اشیاء چھوڑتے ہیں حالانکہ ان کی حرمت کتاب اللہ میں نہیں پاتے کہنے لگے ہم یہ اس لیے کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھائے جانے کے قابل ہونے سے پہلے ہمیں کھجور کی بیع سے منع فرمایا۔
تخریج : روایت ٥٤٥٧ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5460

۵۴۵۹: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُکَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عَطَائَ بْنَ أَبِیْ رَبَاحٍ یُسْأَلُ عَنِ الرَّجُلِ یَبِیْعُ ثَمَرَۃَ أَرْضِہٖ، رُطَبًا کَانَ أَوْ عِنَبًا یُسْلِفُ فِیْہَا قَبْلَ أَنْ تَطِیْبَ ؟ فَقَالَ : لَا یَصْلُحُ ، اِنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ بَاعَ ثَمَرَۃَ أَرْضٍ لَہُ ثَلَاثَ سِنِیْنَ، فَسَمِعَ بِذٰلِکَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ فَخَرَجَ اِلَی الْمَسْجِدِ .فَقَالَ فِی النَّاسِ : مَنَعَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَبِیْعَ الثَّمَرَۃَ حَتّٰی تَطِیْبَ .
٥٤٥٩: خالد نے عطاء سے سنا ان سے پوچھا گیا کہ جو آدمی اپنی زمین کا پھل تر یا خشک کھجور کی صورت میں عمدہ ہونے سے پہلے بیچتا ہے تو انھوں نے فرمایا یہ اس کے لائق نہیں۔ ابن الزبیر نے اپنی ایک زمین کا پھل تین سال کے لیے فروخت کردیا جب یہ بات جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے سنی تو مسجد کی طرف نکل کر گئے اور لوگوں میں اعلان کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں پھلوں کو عمدہ بن جانے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٣‘ مسلم فی البیوع ٥٣؍٨٦‘ مسند احمد ٣؍٣١٢۔

5461

۵۴۶۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ السَّلَفِ فِی الثَّمَرِ ، فَقَالَ : نَہٰی عُمَرُ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ ، حَتّٰی یَصْلُحَ .فَدَلَّتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا ، عَلٰی أَنَّ الثِّمَارَ الْمَنْہِیَّ عَنْ بَیْعِہَا قَبْلَ بُدُوِّ صَلَاحِہَا ، مَا ہِیَ ؟ فَاِنَّہَا الْمَبِیْعَۃُ قَبْلَ کَوْنِہَا الْمُسْلَفَ عَلَیْہَا .فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ حَتّٰی یَکُوْنَ وَیُؤْمَنَ عَلَیْہَا الْعَاہَۃُ ، فَحِیْنَئِذٍ یَجُوْزُ السَّلَمُ فِیْہَا .أَفَلَا تَرٰی أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَمَّا سَأَلَہٗ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ ، عَنِ السَّلَمِ فِی النَّخْلِ ، کَانَ جَوَابُہٗ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا ذَکَرَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنِ النَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ ، حَتّٰی تُطْعَمَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ ، اِنَّمَا وَقَعَ فِی الْآثَارِ الَّتِی قَدَّمْنَا ذِکْرَہَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَلٰی بَیْعِ الثِّمَارِ ، قَبْلَ أَنْ تَکُوْنَ ثِمَارًا .أَلَا تَرَیْ اِلَی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَأَیْتَ اِنْ مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمَرَۃَ ، بِمَ یَأْخُذُ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِیْہٖ؟ .فَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَّا عَلَی الْمَنْعِ ، مِنْ ثَمَرَۃٍ لَمْ یَکُنْ لَہٗ أَنْ تَکُوْنَ .وَاِنَّمَا الَّذِیْ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، ہُوَ النَّہْیُ عَنِ السَّلَمِ فِی الثِّمَارِ فِیْ غَیْرِ حِیْنِہَا ، فَہٰذِہِ الْآثَارُ تَدُلُّ عَلَی النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ .فَأَمَّا بَیْعُ الثِّمَارِ فِیْ أَشْجَارِہَا ، بَعْدَمَا ظَہَرَتْ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ عِنْدَنَا جَائِزٌ صَحِیْحٌ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ ، مَا جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
٥٤٦٠: ابو البختری سے مروی ہے کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پھلوں میں بیع سلم کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ حضرت عمر (رض) نے بر و صلاح سے قبل پھلوں کی بیع سے منع کیا ہے۔ حاصل آثار : ان آثار سے معلوم ہوتا ہے جن پھلوں کی فروخت سے منانعت کی گئی ہے وہ وہی ہیں جن میں صلاحیت ظاہر نہیں ہوئی اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تو یہ وہ بیع ہے جو ان کے وجود میں آنے سے پہلے کی جائے۔ اس سے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا یہاں تک کہ آفت سے محفوظ ہوجائیں جب محفوظ ہو جائیں تو ان میں بیع سلم جائز ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ جب ابوالبختری ابن عمر (رض) سے دریافت کیا کہ کیا کھجور میں بیع سلم درست ہے تو ان کا جواب یہ تھا کہ پھلوں کی بیع اس وقت درست ہے جب وہ کھائے جانے کے قابل ہوجائیں۔ آثار میں جس ممانعت کا تذکرہ ہے وہ پھلوں کی بیع پھل بننے سے پہلے کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ملاحظہ ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے تو تم میں سے کون ہے پھر جو اپنے بھائی کا مال لے سکے گا۔ تو اب اس سے مراد ان پھلوں کی بیع سے ممانعت ہے جو ابھی تک پھل نہیں بنے۔ نیز ان آثار میں جس بیع سلم سے روکا گیا ہے وہ پھلوں کی بےوقت بیع سلم ہے۔ باقی درختوں پر ان پھلوں کی بیع جو ظاہر ہوچکے ہوں ہمارے ہاں جائز ہے۔ اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

5462

۵۴۶۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ بَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ یُؤَبَّرَ ، فَثَمَرَتُہَا لِلَّذِیْ بَاعَہَا اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ، وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا ، فَمَالُہُ لِلَّذِیْ بَاعَہُ اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ .
٥٤٦١: سالم نے ابن عمر (رض) روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جس شخص نے تا ٔبیر کے بعد کھجور کو فروخت کیا اس کا پھل بائع کا ہوگا مگر یہ کہ خریدار شرط لگالے اور جس نے غلام فروخت کیا تو اس کا مال فروخت کرنے والے کا ہوگا مگر یہ کہ خریدار شرط لگالے۔ (مال سے یہاں مراد غلام کے پاس جو کچھ کپڑے اور اشیاء ہوں)
تخریج : بخاری فی المساقاۃ باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٨٠‘ ترمذی فی البیوع باب ٢٥‘ نسائی فی البیوع باب ٧٦۔

5463

۵۴۶۲: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ اشْتَرَیْ عَبْدًا وَلَمْ یَشْتَرِطْ مَالَہٗ، فَلَا شَیْئَ لَہٗ، وَمَنْ اشْتَرَیْ نَخْلًا بَعْدَ تَأْبِیْرِہَا ، وَلَمْ یَشْتَرِطْ الثَّمَرَ ، فَلَا شَیْئَ لَہٗ۔
٥٤٦٢: سالم نے اپنے والد عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ جس آدمی نے غلام خریدا اور اس کے مال کی شرط نہ لگائی تو اس کی کوئی چیز مشتری کو نہ ملے گی۔ جس آدمی نے تابیر کے بعد کھجور کا درخت خریدا اور اس نے پھل کی شرط نہیں لگائی تو اس کو کچھ نہ ملے گا۔
تخریج : ترمذی فی البیوع باب ٢٥‘ بنحوہ۔

5464

۵۴۶۳: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُوْمِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا اشْتَرَیْ نَخْلًا قَدْ أَبَّرَہَا صَاحِبُہَا ، فَخَاصَمَہٗ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ أَنَّ الثَّمَرَۃَ لِصَاحِبِہَا الَّذِیْ أَبَّرَہَا اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطَ الْمُشْتَرِیْ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، ثَمَرَ النَّخْلِ لِبَائِعِہَا اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطَہَا مُبْتَاعُہَا ، فَیَکُوْنَ لَہُ بِاشْتِرَاطِہِ اِیَّاہَا ، وَیَکُوْنَ بِذٰلِکَ مُبْتَاعًا لَہَا .وَقَدْ أَبَاحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰہُنَا ، بَیْعَ ثَمَرَۃٍ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ قَبْلَ بُدُوِّ صَلَاحِہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْمَعْنَی الْمَنْہِیَّ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ خِلَافُ ہٰذَا الْمَعْنَی .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ مَا أُجِیْزَ ، ہُوَ بَیْعُ الثَّمَرِ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، لِأَنَّہٗ مَبِیْعٌ مَعَ غَیْرِہٖ، وَلَیْسَ فِیْ جَوَازِ بَیْعِہِ مَعَ غَیْرِہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ بَیْعَہُ وَحْدَہُ کَذٰلِکَ ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ تَدْخُلُ مَعَ غَیْرِہَا فِی الْبَیْعَاتِ ، وَلَا یَجُوْزُ اِفْرَادُہَا بِالْبَیْعِ .مِنْ ذٰلِکَ ، الطُّرُقُ وَالْأَفْنِیَۃُ ، تَدْخُلُ فِیْ بَیْعِ الدُّوْرِ ، وَلَا یَجُوْزُ أَنْ تُفْرَدَ بِالْبَیْعِ .فَجَوَابُنَا فِیْ ذٰلِکَ ، وَبِاَللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ، أَنَّ الطُّرُقَ وَالْأَفْنِیَۃَ ، تَدْخُلُ فِی الْبَیْعِ ، وَاِنْ لَمْ یُشْتَرَطْ ، وَلَا یَدْخُلُ الثَّمَرُ فِیْ بَیْعِ النَّخْلِ اِلَّا أَنْ یُشْتَرَطَ .فَاَلَّذِیْ یَدْخُلُ فِیْ بَیْعِ غَیْرِہٖ، لَا بِاشْتِرَاطٍ ، ہُوَ الَّذِی لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَبِیْعًا وَحْدَہٗ.وَالَّذِی لَا یَکُوْنُ دَاخِلًا فِیْ بَیْعِ غَیْرِہِ اِلَّا بِاشْتِرَاطٍ ، ہُوَ الَّذِیْ اِذَا اُشْتُرِطَ ، کَانَ مَبِیْعًا ، فَلَمْ یَجُزْ أَنْ یَکُوْنَ مَبِیْعًا مَعَ غَیْرِہِ اِلَّا وَبَیْعُہُ وَحْدَہُ جَائِزًا .أَلَا یَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ بَاعَ دَارًا ، وَفِیْہَا مَتَاعٌ ، أَنَّ ذٰلِکَ الْمَتَاعَ لَا یَدْخُلُ فِی الْبَیْعِ وَأَنَّ مُشْتَرِیَہَا لَوْ اشْتَرَطَہُ فِیْ شِرَائِہِ الدَّارَ ، صَارَ لَہُ بِاشْتِرَاطِہِ اِیَّاہُ .وَلَوْ کَانَ الَّذِیْ فِی الدَّارِ خَمْرًا أَوْ خِنْزِیرًا ، فَاشْتَرَطَہُ فِی الْبَیْعِ ، فَسَدَ الْبَیْعُ .فَکَانَ لَا یَدْخُلُ فِیْ شِرَائِہِ الدَّارَ بِاشْتِرَاطِہِ فِیْ ذٰلِکَ ، اِلَّا مَا یَجُوْزُ لَہُ شِرَاؤُہُ .وَلَوْ اشْتَرَی وَحْدَہٗ، وَکَانَ الثَّمَرُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا یَجُوْزُ لَہُ اشْتِرَاطُہُ مَعَ النَّخْلِ ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ ، اِلَّا لِأَنَّہٗ یَجُوْزُ بَیْعُہُ وَحْدَہٗ.أَوَ لَا یَرَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَقَرَنَہُ مَعَ ذِکْرِہِ النَّخْلَ مَنْ بَاعَ عَبْدًا لَہُ مَالٌ ، فَمَالُہُ لِلْبَائِعِ ، اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطَہُ الْمُبْتَاعُ .فَجَعَلَ الْمَالَ لِلْبَائِعِ ، اِذَا لَمْ یَشْتَرِطْہُ الْمُبْتَاعُ ، وَجَعَلَہُ لِلْمُبْتَاعِ بِاشْتِرَاطِہِ اِیَّاہٗ، وَکَانَ ذٰلِکَ الْمَالُ لَوْ کَانَ خَمْرًا أَوْ خِنْزِیرًا ، فَسَدَ بَیْعُ الْعَبْدِ ، اِذَا اشْتَرَطَہُ فِیْہِ .وَاِنَّمَا یَجُوْزُ أَنْ یَشْتَرِطَ مَعَ الْعَبْدِ مِنْ مَالِہٖ ، مَا یَجُوْزُ بَیْعُہُ وَحْدَہٗ، فَأَمَّا مَا لَا یَجُوْزُ بَیْعُہُ وَحْدَہٗ، فَلَا یَجُوْزُ اشْتِرَاطُہُ فِیْ بَیْعِہٖ، لِأَنَّہٗ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ مَبِیْعًا ، وَبَیْعُ ذٰلِکَ الشَّیْئِ ، لَا یَصْلُحُ ، فَذٰلِکَ أَیْضًا دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِی الثَّمَرَۃِ الدَّاخِلَۃِ فِیْ بَیْعِ النَّخْلِ بِالِاشْتِرَاطِ ، أَنَّہَا الثِّمَارُ الَّتِیْ یَجُوْزُ بَیْعُہَا عَلَی الِانْفِرَادِ ، دُوْنَ بَیْعِ النَّخْلِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ یَذْہَبُ اِلٰی أَنَّ النَّہْیَ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہٗ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، ہُوَ بَیْعُ الثَّمَرِ ، عَلٰی أَنْ یُتْرَکَ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ ، حَتّٰی یَبْلُغَ وَیَتَنَاہَی ، وَحَتَّی یُجَدَّ ، وَقَدْ وَقَعَ الْبَیْعُ عَلَیْہِ قَبْلَ التَّنَاہِی ، فَیَکُوْنُ الْمُشْتَرِی قَدْ ابْتَاعَ ثَمَرًا ظَاہِرًا ، وَمَا یُنَمِّیْہِ نَخْلُ الْبَائِعِ بَعْدَ ذٰلِکَ اِلٰی أَنْ یُجَدَّ ، فَذٰلِکَ بَاطِلٌ .قَالَ : فَأَمَّا اِذَا وَقَعَ الْبَیْعُ بَعْدَمَا تَنَاہَیْ عِظَمُہٗ، وَانْقَطَعَتْ زِیَادَتُہُ ، فَلَا بَأْسَ بِابْتِیَاعِہِ وَاشْتِرَاطِ تَرْکِہِ اِلَیْ حَصَادِہِ وَجِدَادِہٖ۔ قَالَ : فَاِنَّمَا وَقَعَ النَّہْیُ عَنْ ذٰلِکَ ، لِاشْتِرَاطِہِ التَّرْکَ لِمَکَانِ الزِّیَادَۃِ .قَالَ : وَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ الِاشْتِرَاطِ فِی ابْتِیَاعِہٖ، بَعْدَ عَدَمِ الزِّیَادَۃِ .حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ بِہٰذَا ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ مُحَمَّدٍ .وَتَأْوِیْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ فِیْ ہٰذَا أَحْسَنُ ، عِنْدَنَا ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَالنَّظْرُ أَیْضًا یَشْہَدُ لَہٗ، لِأَنَّہٗ اِذَا وَقَعَ الْبَیْعُ عَلَی الثِّمَارِ بَعْدَ تَنَاہِیہَا ، عَلٰی أَنْ تُتْرَکَ اِلَی الْحَصَادِ ، فَالنَّخْلُ ہَاہُنَا ، مُسْتَأْجَرَۃٌ ، لِیَکُوْنَ الثِّمَارُ فِیْہَا اِلَی وَقْتِ جِدَادِہَا عَنْہَا ، وَذٰلِکَ لَوْ کَانَ عَلَی الِانْفِرَادِ ، لَمْ یَجُزْ ، فَاِذَا کَانَ مَعَ غَیْرِہٖ، ہُوَ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : اِنَّ النَّہْیَ الَّذِیْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہَا ، لَمْ یَکُنْ مِنْہُ عَلَی تَحْرِیْمِ ذٰلِکَ ، وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ عَلَی الْمَشُوْرَۃِ عَلَیْہِمْ بِذٰلِکَ لِکَثْرَۃِ مَا کَانُوْا یَخْتَصِمُوْنَ اِلَیْہِ فِیْہِ وَرَوَوْا ذٰلِکَ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٥٤٦٣: عکرمہ بن خالد مخزومی نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ ایک آدمی نے کھجور کا تأبیر شدہ درخت خریدا۔ تأبیر بائع نے کی تھی وہ اپنا جھگڑا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گیا تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ پھل تأبیر والے کا ہوگا مگر جبکہ خریدار شرط لگالے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کا درخت خریدنے کی صورت میں پھل کا مالک تأبیر والے کو قرار دیا مگر جب کہ مشتری شرط لگائے کہ پھل میرا ہوگا اس سے وہ پھل کا فروخت کرنے والا بن جائے گا اور اس ارشاد میں کھجور کے درخت پر پھل کو صلاحیت کے ظہور سے پہلے قابل فروخت قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن آثار میں ممانعت پائی جاتی ہے وہ اس روایت کے خلاف ہیں۔ اگر کوئی معترض کہے کہ ان روایات میں جس بیع کا جواز ہے وہ پھلوں کی بیع ہے کیونکہ وہ دوسری چیز سے مل کر فروخت کئے جا رہے ہیں اور دوسری چیز سے ملا کر ان کی بیع اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ ان کی بیع الگ بھی جائز ہو۔ کیونکہ ہم بہت سی چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سودے میں دوسرے کے ساتھ شامل ہیں۔ مگر تنہا ان کی بیع جائز نہیں ہوئی مثلاً راستے اور صحن وغیرہ جن کی بیع مکانات کی بیع میں شامل ہوتی ہے ان کو الگ فروخت کرنا جائز نہیں۔ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ جناب راستے اور صحن تو بلاشرط بھی گھر کی بیع میں داخل ہوتے ہیں مگر درخت کی بیع میں پھل شرط کے بغیر داخل نہیں ہوتا تو جو کچھ دوسری چیز کے سوا میں کسی شرط کے بغیر داخل ہو اس کو تنہا فروخت کرنا جائز نہیں اور وہ چیز جو دوسری چیز کی بیع میں بلاشرط لگائے داخل نہ ہو تو وہ شرط کی صورت میں ہی مبیع بنے گی پس دوسری چیز کے ساتھ وہی چیز مبیع بن سکتی ہے جس کو الگ فروخت کیا جاسکتا ہو۔ اس معترض کو دیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص مکان فروخت کرے اور اس میں سامان ہو تو وہ سامان مکان کے سودے میں شامل نہیں ہوگا اور اگر خریدار سودے میں اس کی شرط رکھے تو اس شرط کی وجہ سے وہ سامان مشتری کا ہوجائے گا اور اگر گھر میں شراب یا خنزیر (جیسی ناجائز چیز ہو) اور وہ سودے میں اس کی شرط رکھے تو یہ بیع فاسد ہوگی۔ فلہذا مکان کی خریداری کے وقت شرط رکھنے سے وہی چیز سودے میں داخل ہوگی جس کو خریدا جاسکتا ہے خواہ انفرادی طور پر خرید لے۔ یہ پھل جس کا تذکرہ کیا گیا ہے درخت کے ساتھ اس کی شرط رکھنا درست ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پھل الگ بھی فروخت ہوسکتا ہے۔ معترض کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں اس کو درخت کے تذکرے کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا ہے۔ جس نے اپنا ایسا غلام فروخت کیا جس کے پاس مال تھا تو وہ مال بائع کا ہوگا البتہ یہ کہ خریدار یہ شرط لگالے (تو پھر مال خریدار کا ہوگا) آپ نے وہ مال شرط نہ رکھنے کی صورت میں مال بائع کا قرار دیا اور یہ شرط رکھنے کی وجہ کیا ہے اور بالفرض اگر یہ مال شراب یا خنزیر ہو تو شرط کی صورت میں بیع فاسد ہوجائے گی۔ (رہا یہ مسئلہ کہ غلام کے ساتھ یہ شرط کیوں کر جائز ہے) تو غلام کے ساتھ جواز کی وجہ اس کا الگ فروخت ہو سکنا ہے اور جس چیز کو الگ فروخت نہیں کرسکتے سودا کرتے وقت اس کی شرط رکھنا جائز نہیں کیونکہ اس وقت وہ مبیعہ بن جائے گی جبکہ اس میں مبیعہ بننے کی صلاحیت نہیں ہے اور یہ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے جو کہ ہم نے بیان کی کہ درخت کے سودے میں پھل صرف شرط قرار دینے کی صورت میں داخل ہوگا کیونکہ پھل کا سودا درخت کے بغیر بھی درست ہے۔ اس سے ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی اور یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کا مسلک ہے۔ باب کے شروع میں ممانعت کی روایات کا مطلب یہ ہے کہ پھلوں کو اس طرح فروخت کرنا کہ ان کو درخت کے اوپر چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ انتہاء کو پہنچ جائیں اور ان کو کاٹا جائے حالانکہ سودا تو ان کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے ہوا تو اس طرح خریدار ظاہری پھل کو خریدتا ہے اس کے بعد توڑنے تک جو اس میں اضافہ ہوتا ہے وہ بائع کے درخت پر ہوتا ہے اور یہ باطل ہے۔ البتہ جب پھل کا بڑھنا بند ہوجائے اور اب اس میں اضافہ نہ ہو سکے تو اس صورت میں اگر خریدنے اور توڑنے اور چننے تک درخت پر رکھنے کی شرط لگائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ درخت پر چھوڑنے کی شرط اس لیے ممنوع ہے کہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ اب اضافہ نہ ہونے کی صورت میں خریدتے وقت (درخت کے اوپر) شرط لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مجھے سلیمان بن شعیب نے اپنے والد کی وساطت سے امام محمد (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کا قول زیادہ اچھا ہے۔ قیاس بھی شیخین کے قول کی تائید کرتا ہے کیونکہ اگر پھل کے مکمل ہوجانے کے بعد اس کا سودا اس شرط پر کیا جائے کہ وہ کاٹنے تک درخت پر رہیں گے۔ اس صورت میں درخت کرایہ پر حاصل ہوگا۔ تاکہ کاٹنے تک پھل اسی پر قائم رہیں اور یہ بات درست نہیں تو دوسرے کے ساتھ مل کر بھی درست نہ ہوگی۔ پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے فروخت کی ممانعت کی وجہ بعض نے یہ بتلائی ہے کہ یہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں بلکہ بطور مشورہ ہے کیونکہ اس بناء پر لوگوں کا جھگڑا کثرت سے ہوجاتا ہے چنانچہ زید بن ثابت (رض) کا قول اس کی شہادت ہے۔

5465

۵۴۶۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ وَہْبُ اللّٰہِ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : قَالَ أَبُو الزِّنَادِ کَانَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ یُحَدِّثُ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَقُوْلُ : کَانَ النَّاسُ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَبَایَعُوْنَ الثِّمَارَ .فَاِذَا جَائَ الْبَائِعُ وَحَضَرَہُ لِلتَّقَاضِی .قَالَ الْمُبْتَاعُ اِنَّہٗ أَصَابَ الثَّمَرَ الْعَفَنُ الرَّمَادُ ، أَصَابَہُ مُرَاقٌ أَوْ أَصَابَہُ قُشَامٌ عَاہَاتٌ یَحْتَجُّوْنَ بِہَا ، وَالْقُشَامُ : شَیْء ٌ یُصِیْبُہٗ، حَتّٰی لَا یَرْطُبَ .قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - لَمَّا کَثُرَتْ عِنْدَہُ الْخُصُوْمَۃُ فِی ذٰلِکَ - لَا تَتَبَایَعُوْا ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ کَالْمَشُوْرَۃِ یُشِیْرُ بِہَا ، لِکَثْرَۃِ خُصُوْمَتِہِمْ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا رَوَیْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَہْیِہِ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ ، حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہَا ، اِنَّمَا کَانَ ہَذَا عَلَی الْمَعْنٰی، لَا عَلٰی مَا سِوَاہُ۔
٥٤٦٤: عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ انصاری (رض) نے بتلایا کہ حضرت زید بن ثابت (رض) فرمایا کرتے تھے کہ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں پھلوں کی تجارت کرتے جب فروخت کرنے والا خریدار سے رقم کا تقاضا کرتا تو وہ کہتا کہ پھل تو کسی آفت یا بیماری کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے کھجور تری کی وجہ سے خراب ہوگئی کھجور کا رنگ خاکستری ہوگیا گرنے کی وجہ سے پھل خراب ہوگیا پھر سرخ پڑ کر رطوبت جاتی رہی۔ یہ تمام کھجور کو پہنچنے والی بیماریاں تھیں جن سے وہ لوگ حجت کرنے لگے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھگڑوں کی کثرت کے پیش نظر اس بات سے منع فرمایا کہ اس وقت تک بیع نہ کرو جب تک پھل کی صلاحیت ظاہر نہ ہو۔ اس باب کے شروع میں ممانعت والی روایات اس معنی کے اعتبار سے ہیں۔ ظاہر سے متبادر مفہوم مراد نہیں ہے۔
اس باب کے شروع میں ممانعت والی روایات اس معنی کے اعتبار سے ہیں ‘ ظاہر سے متبادر مفہوم مراد نہیں ہے۔
حاصل کلام : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) کے قول کو راجح قرار دیا اور آخر میں حضرت زید بن ثابت (رض) والی روایت پیش کی اگر اس کو اختیار کیا جائے تو کسی جواب کی ضرورت نہیں رہتی۔ واللہ اعلم۔

5466

۵۴۶۵: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالثَّمَرِ .قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : وَحَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِی الْعَرَایَا .
٥٤٦٥: سالم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھل کی بیع پھل کے بدلے کرنے سے منع فرمایا ہے اور عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جناب زید بن ثابت (رض) نے ہمیں بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی رخصت عنایت فرمائی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٧٤‘ مسلم فی البیوع ٥٧‘ مسند احمد ٢؍٨‘ ١٥٠۔

5467

۵۴۶۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ .ح
٥٤٦٦: ابراہیم بن مرزوق نے کہا ہمیں عارم نے بیان کیا۔

5468

۵۴۶۷: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنِ الْمُزَابَنَۃِ .قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : وَأَخْبَرَنِیْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِی الْعَرَایَا .
٥٤٦٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزابنہ سے منع فرمایا ہے (درخت پر لگے ہوئے پھل کی بیع خشک توڑی کھجور کے بدلے کیل سے کرنا مزابنہ کہلاتا ہے) ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی رخصت دی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٧٥‘ ٨٢‘ مسلم فی البیوع ٥٩؍٦٧‘ ٧٢؍٧٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣١؍٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ١٤؍٥٥‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی التجارات ٥٤‘ دارمی فی المقدمہ باب ٢٨‘ مسند احمد ٢‘ ٥؍٧‘ ٣‘ ١٦؍٨۔

5469

۵۴۶۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِی الْعَرَایَا .
٥٤٦٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے زید بن ثابت (رض) سے نقل کی ہے کہ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی اجازت دی۔
تخریج : مالک فی البیوع ٢٣‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٥٤‘ بخاری فی الشرب باب ١٧‘ سابقہ روایت کی تخریج پیش نظر ہو۔

5470

۵۴۶۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ بِہٰذَا الْاِسْنَادِ ، قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ ، وَرَخَّصَ فِی الْعَرَایَا .
٥٤٦٩: علی بن شیبہ نے اس سند سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ سے منع فرمایا اسی طرح مزابنہ سے مگر عرایا کی اجازت دی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٤‘ مسلم فی البیوع ٧١؍٨٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ١٩؍٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٦٢؍٧٠‘ نسائی فی البیوع باب ٣٢؍٣٣‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٥٥‘ مسند احمد ٢‘ ٨؍١١‘ ٣؍٣١٣‘ ٤؍٢۔

5471

۵۴۷۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ خَارِجَۃُ بْنُ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا ، بِالتَّمْرِ أَوِ الرُّطَبِ .
٥٤٧٠: خارجہ بن زید نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع عرایا کی اجازت دی خواہ خشک کھجور ہو یا تازہ۔
تخریج : بخاری فی المساقاۃ باب ١٧‘ والبیوع باب ٨٣‘ مسلم فی البیوع ٦٤‘ ابو داؤد فی البیوع باب ١٩؍٢٠‘ نسائی فی البیوع باب ٣٤؍٣٥‘ مسند احمد ٢؍٥‘ ٥‘ ١٨١؍١٨٨۔

5472

۵۴۷۱: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ الشَّیْبَانِیِّ قَالَ : بِعْتُ مَا فِیْ رُئُوْسِ نَخْلِیْ بِمِائَۃِ وَسْقٍ ، وَاِنْ زَادَ فَلَہُمْ ، وَاِنْ نَقَصَ فَعَلَیْہِمْ .فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرَۃِ بِالتَّمْرِ ، اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِی الْعَرَایَا .
٥٤٧١: عمرو بن دینار نے اسماعیل شیبانی سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنے کھجور کے پھل کو ایک سو وسق کے بدلے فروخت کیا اگر بڑھ جائے انہی کی ہوگی اور اگر کم ہو تب بھی نقصان کے وہ ذمہ دار ہوں گے میں نے اس کے متعلق ابن عمر (رض) سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھلوں کی بیع خشک کھجور کے بدلے منع فرمائی ہے البتہ عرایا کی اجازت دی ہے۔
تخریج : ٥٤٦٥ روایت کی تخریج ملاحظہ فرمائیں۔

5473

۵۴۷۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَأَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ حَتّٰی یُطْعَمَ وَقَالَ لَا یُبَاعُ شَیْء ٌ مِنْہُ اِلَّا بِالدَّرَاہِمِ وَالدَّنَانِیْرِ ، اِلَّا الْعَرَایَا ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِیْہَا .
٥٤٧٢: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھل کی بیع سے اس وقت تک منع فرمایا یہاں تک کہ وہ کھانے کے لائق ہو اور فرمایا اس میں سے جو چیز فروخت ہو وہ دراہم و دنانیر کے بدلے ہو مگر عرایا کی اجازت عنایت فرمائی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٣‘ المساقاۃ باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٨١؍٨٢‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢‘ مسند احمد ٣؍٣٦٠۔

5474

۵۴۷۳: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَۃِ اِلَّا أَنَّہٗ أَرْخَصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا .
٥٤٧٣: عطاء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزابنہ سے منع فرمایا اور عرایا کی اجازت دی ہے۔
تخریج : روایت ٥٤٧٠ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5475

۵۴۷۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ وَسَعِیْدِ بْنِ مِیْنَائَ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ ، وَالْمُخَابَرَۃِ .وَقَالَ أَحَدُہُمَا : وَالْمُعَاوَمَۃِ ، وَقَالَ الْآخَرُ : وَبَیْعِ السِّنِیْنَ ، وَنَہٰی عَنِ الثُّنْیَا وَرَخَّصَ فِی الْعَرَایَا .
٥٤٧٤: سعید بن مینا نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ ‘ مزابنہ ‘ مخابرہ سے تو منع فرمایا اور ایک راوی نے کہا معاومہ اور دوسرے نے کہا کہ درخت کی کئی سالوں کے لیے بیع سے منع فرمایا ہے اور بیع ثنیا یعنی کسی چیز کے استثناء غیر معلوم کی ممانعت فرمائی اور عرایا کی رخصت دی۔
تخریج : بخاری فی المساقات باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٨١؍٨٥‘ ٩٣؍١٢١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ٥٥‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ والبیوع باب ٢٩؍٣٩‘ ٧٤‘ دارمی فی البیوع باب ٧٢‘ مسند احمد ٥‘ ١٨٧؍١٨٨۔
لغات : مخابرہ۔ ثلث یا ربع پر زمین کرائے پر دینا۔ ثنیا۔ غیر معلوم چیز کا بیع سے استثناء۔

5476

۵۴۷۵: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ ، اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِی الْعَرِیَّۃِ أَنْ یُبَاعَ بِخَرْصِہَا مِنَ التَّمْرِ ، یَأْکُلُہَا أَہْلُہَا رُطَبًا .
٥٤٥٧: بشیر بن یسار نے سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے بدلے منع فرمائی ہے مگر عرایا میں رخصت دی ہے کہ ان کو اندازہ کر کے تازہ کھجور کے بدلے فروخت کردیا جائے اور مالک کے گھر کے لوگ تازہ استعمال کرلیں۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٣‘ مسلم فی البیوع ٦١‘ مسند احمد ٥‘ ١٩٠؍٣٦٤۔

5477

۵۴۷۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَہْلِ دَارِہِمْ ، مِنْہُمْ سَہْلُ بْنُ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ ، وَقَالَ ذٰلِکَ الرِّبَا ذٰلِکَ الْمُزَابَنَۃُ اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرِیَّۃِ ، النَّخْلَۃِ وَالنَّخْلَتَیْنِ یَأْخُذُہَا أَہْلُ الْبَیْتِ بِخَرْصِہَا تَمْرًا ، یَأْکُلُوْنَہَا رُطَبًا .
٥٤٧٦: بشیر بن یسار نے اپنے علاقہ کے بعض اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا ان میں سے سہل بن ابی حثمہ ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خشک کھجور کی بیع پھل کے بدلے کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا یہ سود ہے یہ مزابنہ ہے البتہ عرایا کی اجازت دی ہے (وہ یہ ہے کہ) باغ والے ایک یا دو کھجوروں کا پھل غرباء کو ہدیہ کریں پھر ان کا پھل اندازہ کر کے ان سے خشک کھجور کے بدلے لے لیں اور تازہ کھجور خود استعمال میں لائیں۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٨٣‘ مسلم فی البیوع ٦١؍٦٧‘ ابو داؤد فی البیوع باب ١٩‘ نسائی فی البیوع باب ٣٥‘ مسند احمد ٤؍٢‘ ٥‘ ١٩٠۔

5478

۵۴۷۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَا : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مَوْلَی ابْنِ أَبِیْ أَحْمَدَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا ، فِیْ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ أَوْ فِیْ مَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، یَشُکُّ دَاوٗدَ فِیْ خَمْسَۃٍ أَوْ فِیْ مَا دُوْنَ خَمْسَۃٍ .
٥٤٧٧: مولیٰ ابن ابی احمد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی بیع کی اجازت پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم میں دی ہے۔ داؤد راوی کو خمسہ یا مادون خمسہ میں شک ہے۔

5479

۵۴۷۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّمِیْمِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِی الْعَرِیَّۃِ فِی الْوَسْقِ وَالْوَسْقَیْنِ وَالثَّلَاثَۃِ وَالْأَرْبَعَۃِ ، وَقَالَ فِیْ کُلِّ عَشْرَۃِ أَقْنَائٍ قِنْوٌ یُوْضَعُ فِی الْمَسْجِدِ لِلْمَسَاکِیْنِ .
٥٤٧٨: واسع بن حبان نے جابر (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایات کے سلسلہ میں ایک دو تین چار وسق تک اجازت دی ہے اور فرمایا ہر دس گچھوں میں سے ایک گچھا مسجد میں مساکین کے لیے رکھا جائے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٣٢‘ مسند احمد ٣؍٣٦٠۔

5480

۵۴۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : ثُمَّ قَالَ الْوَسْقِ وَالْوَسْقَیْنِ وَالثَّلَاثَۃِ وَالْأَرْبَعَۃِ وَلَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَقَدْ جَائَ تْ ہٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَوَاتَرَتْ فِی الرُّخْصَۃِ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا وَقَبِلَہَا أَہْلُ الْعِلْمِ جَمِیْعًا ، وَلَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْ صِحَّۃِ مَجِیْئِہَا ، وَتَنَازَعُوْا فِیْ تَأْوِیْلِہَا .فَقَالَ قَوْمٌ : الْعَرَایَا أَنَّ الرَّجُلَ یَکُوْنُ لَہُ النَّخْلَۃُ وَالنَّخْلَتَانِ ، فِیْ وَسَطِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ ، لِرَجُلٍ آخَرَ .قَالُوْا : وَقَدْ کَانَ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ ، اِذَا کَانَ وَقْتُ الثِّمَارِ ، خَرَجُوْا بِأَہْلِیْہِمْ اِلَیْ حَوَائِطِہِمْ ، فَیَجِیْئُ صَاحِبُ النَّخْلَۃِ أَوْ النَّخْلَتَیْنِ بِأَہْلِہٖ ، فَیَضُرُّ ذٰلِکَ بِأَہْلِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ .فَرَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ أَنْ یُعْطِیَ صَاحِبَ النَّخْلَۃِ أَوْ النَّخْلَتَیْنِ خَرْصَ مَا لَہٗ مِنْ ذٰلِکَ ، تَمْرًا ، لِیَنْصَرِفَ ہُوَ وَأَہْلُہٗ عَنْہُ، وَیَخْلُصَ تَمْرُ الْحَائِطِ کُلُّہُ لِصَاحِبِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ ، فَیَکُوْنُ فِیْہِ ہُوَ وَأَہْلُہُ .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْقَوْلُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ - رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ - فِیْمَا سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ ، یَذْکُرُ أَنَّہٗ سَمِعَہُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِمَاعَۃَ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ قَالَ - مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَنَا - أَنَّ یُعْرِیَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ثَمَرَ نَخْلَۃٍ مِنْ نَخْلِہِ فَلَا یُسْلِمُ ذٰلِکَ اِلَیْہِ حَتّٰی یَبْدُوَ لَہٗ، فَرَخَّصَ لَہٗ أَنْ یَحْبِسَ ذٰلِکَ ، وَیُعْطِیَہُ مَکَانَہٗ، خَرْصَہُ تَمْرًا .وَکَانَ ہَذَا التَّأْوِیْلُ أَشْبَہَ وَأَوْلَی ، مِمَّا قَالَ مَالِکٌ ، لِأَنَّ الْعَرِیَّۃَ اِنَّمَا ہِیَ الْعَطِیَّۃُ .أَلَا یَرَیْ اِلَی الَّذِیْ مَدَحَ الْأَنْصَارَ کَیْفَ مَدَحَہُمْ ، اِذْ یَقُوْلُ : لَیْسَتْ بِسَنْہَائٍ وَلَا رُجَّبِیَّۃٍ وَلٰـکِنْ عَرَایَا فِی السِّنِیْنَ الْجَوَائِحِ أَیْ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُعْرُوْنَہَا فِی السِّنِیْنَ الْجَوَائِحِ .فَلَوْ کَانَتِ الْعَرِیَّۃُ کَمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَالِکٌ ، اِذًا لَمَا کَانُوْا مَمْدُوْحِیْنَ بِہَا ، اِذْ کَانُوْا یُعْطُوْنَ کَمَا یُعْطُوْنَ ، وَلَکِنِ الْعَرِیَّۃُ بِخِلَافِ مَا قَالَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ ذَکَرْتُ فِیْ حَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ ، وَرَخَّصَ فِی الْعَرَایَا ، فَصَارَتِ الْعَرَایَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا ہِیَ بَیْعُ ثَمَرٍ بِتَمْرٍ ، قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ فِی الْحَدِیْثِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ ، اِنَّمَا فِیْہِ ذِکْرُ الرُّخْصَۃِ فِی الْعَرَایَا ، مَعَ ذِکْرِ النَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ ، وَقَدْ یُقْرَنُ الشَّیْئُ بِالشَّیْئِ وَحُکْمُہُمَا مُخْتَلِفٌ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ ذَکَرَ التَّوْقِیْفَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَلَی خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، وَفِی ذِکْرِہِ ذٰلِکَ ، مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ مَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَحُکْمِہٖ۔ قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْہِ مَا یَنْفِیْ شَیْئًا مِمَّا ذَکَرْتُ ، وَاِنَّمَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، لَوْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَکُوْنُ الْعَرِیَّۃُ اِلَّا فِیْ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، أَوْ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ .فَاِذَا کَانَ الْحَدِیْثُ اِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا فِیْ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، أَوْ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، فَذٰلِکَ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْہِ لِقَوْمٍ فِیْ عَرِیَّۃٍ لَہُمْ ہَذَا مِقْدَارُہَا .فَنَقَلَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ ، وَأَخْبَرَ بِالرُّخْصَۃِ فِیْمَا کَانَتْ ، وَلَا یَنْفِیْ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ الرُّخْصَۃُ جَارِیَۃً فِیْمَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ حَدِیْثِ عُمَرَ وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِی الْعَرَایَا فَصَارَ ذٰلِکَ مُسْتَثْنًی مِنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ بَیْعُ ثَمَرٍ بِتَمْرٍ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَصَدَ بِذٰلِکَ اِلَی الْمُعْرَی لَہٗ فَرَخَّصَ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ تَمْرًا ، بَدَلًا مِنْ تَمْرٍ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ ؛ لِأَنَّہٗ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ ، فِیْ مَعْنَی الْبَائِعِ ، وَذٰلِکَ لَہُ حَلَالٌ ، فَیَکُوْنُ الْاِسْتِثْنَائُ لِہٰذِہِ الْعِلَّۃِ .وَفِیْ حَدِیْثِ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرِیَّۃِ ، بِخَرْصِہَا تَمْرًا یَأْکُلُہَا أَہْلُہَا رُطَبًا فَقَدْ ذَکَرَ لِلْعَرِیَّۃِ أَہْلًا ، وَجَعَلَہُمْ یَأْکُلُوْنَہَا رُطَبًا ، وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَّا وَمَلَکَہَا الَّذِیْنَ عَادَتْ اِلَیْہِمْ بِالْبَدَلِ الَّذِی أُخِذَ مِنْہُمْ ، فَذٰلِکَ یُثْبِتُ قَوْلَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : لَوْ کَانَ تَأْوِیْلُ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ لَمَا کَانَ لِذِکْرِ الرُّخْصَۃِ فِیْہَا مَعْنًی .قِیْلَ لَہٗ : بَلْ لَہُ مَعْنًی صَحِیْحٌ ، وَلٰـکِنْ قَدْ اخْتَلَفَ فِیْہِ مَا ہُوَ .فَقَالَ عِیْسَی بْنُ أَبَانَ : مَعْنَی الرُّخْصَۃِ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ الْأَمْوَالَ کُلَّہَا ، لَا یَمْلِکُ بِہَا اِبْدَالًا ، اِلَّا مَنْ کَانَ مَالِکَہَا ، لَا یَبِیْعُ رَجُلٌ مَا لَا یَمْلِکُ بِبَدَلِہٖ ، فَیَمْلِکُ ذٰلِکَ الْبَدَلَ .وَاِنَّمَا یَمْلِکُ ذٰلِکَ الْبَدَلَ اِذَا مَلَکَہٗ، بِصِحَّۃِ مِلْکِہِ لِلشَّیْئِ الَّذِیْ ہُوَ بَدَلٌ مِنْہُ .قَالَ : فَالْمُعْرَی ، لَمْ یَکُنْ مَلَکَ الْعَرِیَّۃَ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ قَبَضَہَا ، وَالتَّمْرُ الَّذِیْ یَأْخُذُہُ بَدَلًا مِنْہَا ، قَدْ جُعِلَ طَیِّبًا لَہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَہُوَ بَدَلٌ مِنْ رُطَبٍ لَمْ یَکُنْ مَلَکَہُ .قَالَ : فَہٰذَا ہُوَ الَّذِیْ قَصَدَ بِالرُّخْصَۃِ اِلَیْہِ .وَقَالَ غَیْرُہٗ، الرُّخْصَۃُ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَعْرَی الرَّجُلَ الشَّیْئَ مِنْ ثَمَرِہٖ، وَقَدْ وَعَدَہُ أَنْ یُسَلِّمَہُ اِلَیْہِ لِیَمْلِکَہُ الْمُسَلَّمُ اِلَیْہِ بِقَبْضِہِ اِیَّاہٗ، وَعَلَی الرَّجُلِ فِیْ دِیْنِہِ أَنْ یَفِیَ بِوَعْدِہٖ، وَاِنْ کَانَ غَیْرَ مَأْخُوْذٍ بِہٖ فِی الْحُکْمِ ، فَرَخَّصَ لِلْمُعْرِی أَنْ یَحْتَبِسَ مَا أَعْرَی ، بِأَنْ یُعْطِیَ الْمُعْرَی خَرْصَہُ تَمْرًا ، بَدَلًا مِنْہٗ، مِنْ غَیْر أَنْ یَکُوْنَ آثِمًا ، وَلَا فِیْ حُکْم مِنْ اخْتَلَفَ مَوْعِدًا ، فَہٰذَا مَوْضِع الرُّخْصَۃ .وَہٰذَا التَّأْوِیْل الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃ ، رَحْمَۃ اللّٰہ عَلَیْہِ، أَوْلَی مِمَّا حُمِلَ عَلَیْہِ وَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْث ، لِأَنَّ الْآثَار قَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرَۃ ، بِالنَّہْیِ عَنْ بَیْع الثَّمَر بِالتَّمْرِ .فَمِنْہَا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّل ہَذَا .وَمِنْہَا
٥٤٧٩ : ابن اسحق نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ‘ البتہ اس نے یہ لفظ نقل کیے ہیں : ” الوسق والوسقین والثلاثہ والاربعۃ “ اس نے ” فی کل عشر “ ذکر نہیں کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بیع عرایا کی اجازت کے سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں تمام اہل علم نے ان کو قبول کیا ہے ان کی صحت میں کسی کو کلام نہیں البتہ عرایا کی تعریف میں اختلاف ہے۔ عرایا یہ ہے کہ کسی کے نخلستان کے درمیان دو یا ایک کھجور ہو ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اہل مدینہ پھلوں کے موسم میں اپنے گھر والوں کو باغات میں لے جاتے ایک یا دو درختوں کا مالک اپنے گھر والوں کے ساتھ آتا اس طرح زیادہ درختوں کے مالک کو تکلیف پہنچتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ درختوں والے کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ ایک یا دو درختوں کے مالک کو اس کی کھجوروں کے اندازے پر خشک کھجوریں دے دے تاکہ اس کے اہل خانہ واپس لوٹ جائیں اور باغ کی تمام کھجوریں زیادہ کھجوروں کے مالک کے لیے خاص ہوجائیں اور اب ان میں صرف اس کا اور اس کے اہل خانہ کا حق رہ جائے۔ یہ قول امام مالک بن انس (رح) کا ہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو اپنے درخت کا پھل بطور عطیہ دے اور پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس کے حوالے نہ کرے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ اس عطیہ کو روک کر اس کی جگہ اندازہ کر کے کھجوریں دے دے یہ قول امام مالک (رح) کے قول سے زیادہ عمدہ اور بہتر ہے کیونکہ عریہ کی حقیقت عطیہ ہے۔ ذرا توجہ تو فرمائیں کہ جس نے انصار کی تعریف کی ہے تو وہ کس طرح کی ہے۔ (شعر کا ترجمہ) ان کا عطیہ ان درختوں کی صورت میں نہیں ہوتا جو ایک سال میں ایک مرتبہ پھل دیتے ہیں اور دوسرے سال پھل نہیں دیتے اور نہ ایسے درخت ہیں کہ جن کو سہارے کے لیے ستون دیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ قحط کے سالوں میں عطیات دیتے ہیں۔ اگر عرایا کا وہ مفہوم لیا جائے جو امام مالک (رح) (فریق اول) کے ہاں ہے تو اس صورت میں ان کا فعل قابل مدح و ستائش نہیں۔ وہ تو عام اور ہر ایک کا فعل ہے مگر عرایا کا مفہوم اس کے خلاف ہے (یہ گویا قحط کے اوقات میں غرباء کو دیئے جانے والے عطیات ہیں) اگر کوئی معترض کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت زید بن ثابت (رض) میں ذکر فرمایا کہ تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے بدلے جائز نہیں ہے تو اس روایت میں بھی عرایا سے خشک کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع مراد ہے۔ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں حدیث میں تو ایسی بات نہیں ہے روایت میں صرف عرایا کی اجازت کا تذکرہ ہے اور اس کے ساتھ خشک کھجور کے بدلے تازہ کھجوروں کی ممانعت بھی مذکور ہے اور کبھی ایک چیز کو دوسری سے ملا کرلے آتے ہیں مگر ان کا حکم مختلف ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں تو عرایا کی پانچ وسق تک اجازت ثابت ہوتی ہے اس سے زائد کی نفی ظاہر ہے۔ نفی کی بات تو روایات میں موجود نہیں ہے یہ تو اس صورت میں ہے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح فرماتے کہ عطیہ صرف پانچ وسق میں ہے یا اس سے کم میں ہے۔ بلکہ روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی اجازت پانچ وسق یا اس سے کم میں دی تو ان کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ آپ نے جس خاص قوم کو عطیہ کی یہ اجازت دی ان کے عطیہ کی مقدار اتنی تھی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے اسی کو نقل کردیا اور جو اجازت دی گئی تھی اس کی اطلاع دے دی لیکن اس سے زائد میں عرایا کی نفی ہوتی۔ حضرت ابن عمر (رض) اور جابر (رض) کی روایات میں ہے ” الا انہ رخص فی العرایا “ تو خشک کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سے استثناء ہے اس سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بھی تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور کی بیع ہے (جو کہ ممنوع ہے) تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں ممکن ہے کہ آپ کا مقصود وہ آدمی ہو جس کو عرایا دیا گیا ہے تو اس کو اجازت دی گئی کہ درخت کے اوپر والی کھجوروں کے بدلے اتاری ہوئی کھجوریں لے لے کیونکہ اس طرح وہ معنوی اعتبار سے بائع کہلائے گا اور یہ اس کے لیے درست ہے پس اس علت کی بناء یہ استثناء ہے اور حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) کی روایت میں ہے : ” الا انہ رخص فی بیع العریہ بخرصھا تمرا “ کہ اندازے والی خشک کھجور کے بدلے عریہ فروخت کرنے کی اجازت ہے تاکہ مالک تازہ کھجوریں استعمال کرلے اور یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ وہ لوگ جن کے پاس یہ کھجوریں آہ ی ہیں عوض دے کر مالک بن جائیں اور یہ بات تو امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو ثابت کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اگر ان روایات کا وہ مفہوم ہو جو امام ابوحنیفہ (رح) نے لیا ہے تو اس کی اجازت کا کوئی معنی ہی نہیں (عطیہ تو خود اجازت ہے) عرایا کا یہ ایک درست معنی ہے جس کو امام صاحب نے اختیار کیا ہے البتہ دیگر حضرات نے اس کا دوسرا معنی بتلایا ہے۔ عیسیٰ بن ابان (رح) کا قول : عرایا کی اجازت کا مطلب یہ ہے بدل کے طور پر مالک کا مالک وہی شخص ہوسکتا ہے جو اس عطیہ کا مالک ہوجائے اور جو شخص کسی چیز کا بدل کی وجہ سے مالک ہوتا ہے وہ اس کو فروخت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ بدل کی وجہ سے مالک ہوا اسی طرح تو وہ اس بدل کا مالک ہوجائے گا وہ اس بدل کا مالک اسی صورت میں ہوتا جب بدلے میں دی جانے والی چیز کا صحیح طور پر وہ مالک ہو۔ پس جس کو عطیہ دیا گیا وہ اس عطیہ کا مالک نہیں کیونکہ اس نے اس پر قبضہ نہیں کیا اور جو کھجوریں وہ اس کے عوض میں لیتا ہے حدیث کے مطابق وہ اس کے لیے درست قرار دی گئیں ہیں اور وہ ان تازہ کھجوروں کا عوض ہے جن کا وہ مالک نہیں ہوا۔ ان کے ہاں رخصت کا یہی مطلب ہے۔ دیگر علماء کا کہنا ہے کہ اجازت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص جب کسی دوسرے آدمی کو اپنا کچھ پھل عرایا کے طور پر دیتا ہے اور اس سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسے اس کے حوالے کر دے گا۔ تاکہ وہ شخص جس کو دیا گیا ہے قبضہ کر کے اس کا مالک بن جائے اور قرض کے معاملے میں وعدے کو پورا کرنا آدمی پر لازم ہوتا ہے اگر اس کے حکم پر اس سے مواخذہ نہیں ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطیہ دینے والے کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اس چیز کو روک رکھے جو اس نے عطیہ دیا ہے اور اس کے بدلے میں اندازے سے کھجوریں دے دے اس میں وہ گناہ گار نہیں ہوگا اور نہ وہ وعدہ خلافی کرنے والوں میں شمار ہوگا تو رخصت کا یہ موقع ہے۔ اس روایت کی تمام توجیہات میں وہ توجیہ جس کو امام ابوحنیفہ (رح) نے اختیار کیا وہ سب سے بہتر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد روایات میں وارد ہے کہ خشک کھجوروں کی بیع تازہ کھجوروں کے بدلے درست نہیں ہے۔ ان میں سے چند روایات ہم شروع باب میں ذکر کر آئے ہیں اور بعض یہ ہیں :
لغات : قنو۔ گچھا جس میں تازہ کھجوریں لگی ہوں۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بیع عرایا کی اجازت کے سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں تمام اہل علم نے ان کو قبول کیا ہے ان کی صحت میں کسی کو کلام نہیں البتہ عرایا کی تعریف میں اختلاف ہے۔
فریق اوّل : عرایا یہ ہے کہ کسی کے نخلستان کے درمیان کسی کی دو یا ایک کھجور ہو ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اہل مدینہ پھلوں کے موسم میں اپنے گھر والوں کو باغات میں لے جاتے ایک یا دو درختوں کا مالک اپنے گھر والوں کے ساتھ آتا اس طرح زیادہ درختوں کے مالک کو تکلیف پہنچتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ درختوں والے کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ ایک یا دو درختوں کے مالک کو اس کی کھجوروں کے اندازے پر خشک کھجوریں دے دے تاکہ اس کے اہل خانہ واپس لوٹ جائیں اور باغ کی تمام کھجوریں زیادہ کھجوروں کے مالک کے لیے خاص ہوجائیں اور اب ان میں صرف اس کا اور اس کے اہل خانہ کا حق رہ جائے۔ یہ قول امام مالک بن انس (رح) کا ہے۔
فریق دوم : امام ابوحنیفہ (رح) کا قول : امام ابو یوسف (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو اپنے درخت کا پھل بطور عطیہ دے اور پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس کے حوالے نہ کرے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ اس عطیہ کو روک کر اس کی جگہ اندازہ کر کے کھجوریں دے دے یہ قول امام مالک (رح) کے قول سے زیادہ عمدہ اور بہتر ہے کیونکہ عریہ کی حقیقت عطیہ ہے۔ ذرا توجہ تو فرمائیں کہ جس شخص نے انصار کی تعریف کی ہے تو وہ اس طرح کی ہے۔ (شعر کا ترجمہ)
” ان کا عطیہ ان درختوں کی صورت میں نہیں ہوتا جو ایک سال میں ایک مرتبہ پھل دیتے ہیں اور دوسرے سال پھل نہیں دیتے اور نہ ایسے درخت ہیں کہ جن کو سہارے کے لیے ستون دیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ قحط کے سالوں میں عطیات دیتے ہیں۔ “
لغات : السنہاء ‘ الشنہاء۔ وہ کھجور جو ایک سال پھل دے دوسرے سال نہ دے۔ الرجبیۃ۔ جس درخت کو سہارے سے کھڑا کریں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر عرایا کا وہ مفہوم لیا جائے جو امام مالک (رح) (فریق اول) کے ہاں ہے تو اس صورت میں ان کا فعل قابل مدح و ستائش نہیں۔ وہ تو عام اور ہر ایک کا فعل ہے مگر عرایا کا مفہوم اس کے خلاف ہے (یہ گویا قحط کے اوقات میں غرباء کو دیئے جانے والے عطیات ہیں)
سوال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت زید بن ثابت (رض) میں ذکر فرمایا کہ تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے بدلے جائز نہیں ہے تو اس روایت میں بھی عرایا سے خشک کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع مراد ہے۔
جواب : آپ جو بات کہہ رہے ہیں حدیث میں تو ایسی بات نہیں ہے روایت میں صرف عرایا کی اجازت کا تذکرہ ہے اور اس کے ساتھ خشک کھجور کے بدلے تازہ کھجوروں کی ممانعت بھی مذکور ہے اور کبھی ایک چیز کو دوسری سے ملا کرلے آتے ہیں مگر ان کا حکم مختلف ہوتا ہے۔
سوال : حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں تو عرایا کی پانچ وسق تک اجازت ثابت ہوتی ہے اس سے زائد کی نفی ظاہر ہے۔
جواب : نفی کی بات تو روایات میں موجود نہیں ہے یہ تو اس صورت میں ہے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح فرماتے کہ عطیہ صرف پانچ وسق میں ہے یا اس سے کم میں ہے۔ بلکہ روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی اجازت پانچ وسق یا اس سے کم میں دی تو ان کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ آپ نے جس خاص قوم کو عطیہ کی یہ اجازت دی ان کے عطیہ کی مقدار اتنی تھی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے اسی کو نقل کردیا اور جو اجازت دی گئی تھی اس کی اطلاع دے دی لیکن اس سے زائد میں عرایا کی نفی نہیں ہوتی۔
سوال : حضرت ابن عمر (رض) اور جابر (رض) کی روایات میں ہے ” الا انہ رخص فی العرایا “ تو خشک کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سے استثناء ہے اس سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بھی تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور کی بیع ہے (جو کہ ممنوع ہے)
جواب : اس میں ممکن ہے کہ آپ کا مقصود وہ آدمی ہو جس کو عرایا دیا گیا ہے تو اس کو اجازت دی گئی کہ درخت کے اوپر والی کھجوروں کے بدلے اتاری ہوئی کھجوریں لے لے کیونکہ اس طرح وہ معنوی اعتبار سے بائع کہلائے گا اور یہ اس کے لیے درست ہے پس اس علت کی بناء یہ استثناء ہے اور حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) کی روایت میں ہے۔ ” الا انہ رخص فی بیع العریہ بخرصھا تمرا “ کہ اندازے والی خشک کھجور کے بدلے عریہ فروخت کرنے کی اجازت ہے تاکہ مالک تازہ کھجوریں استعمال کرلے اور یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ وہ لوگ جن کے پاس یہ کھجوریں آ ہی ہیں عوض دے کر مالک بن جائیں اور یہ بات تو امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو ثابت کرتی ہے۔
ایک اعتراض :
اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اگر ان روایات کا وہ مفہوم ہو جو امام ابوحنیفہ (رح) نے لیا ہے تو اس کی اجازت کا کوئی معنی ہی نہیں (عطیہ تو خود اجازت ہے)
نوٹ : اس روایت کی تمام توجیہات میں وہ توجیہ جس کو امام ابوحنیفہ (رح) نے اختیار کیا وہ سب سے بہتر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد روایات میں وارد ہے کہ خشک کھجوروں کی بیع تازہ کھجوروں کے بدلے درست نہیں ہے۔ ان میں سے چند روایات ہم شروع باب میں ذکر کر آئے ہیں اور بعض یہ ہیں۔

5481

۵۴۸۰: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْن شِہَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدٌ ، وَأَبُوْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَبَایَعُوْا الثَّمَر بِالتَّمْرِ .قَالَ ابْن شِہَابٍ : وَحَدَّثَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلہٗ سَوَائً .
٥٤٨٠: سعید و ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تازہ کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے فروخت نہ کرو۔ ابن شہاب کہتے ہیں مجھے سالم نے اپنے والد عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا ہے۔

5482

۵۴۸۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ ، عَنِ ابْن شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلہ .
٥٤٨١: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5483

۵۴۸۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُجَّاجِ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْد الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْن دِیْنَارٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْن عُمَرَ ، سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ اشْتَرٰی ثَمَرَۃً بِمِائَۃِ فَرْقٍ بِکَیْلٍ لَہٗ؟ قَالَ نَہٰی رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ہٰذَا، یَعْنِی الْمُزَابَنَۃَ
٥٤٨٢: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا جبکہ ان سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو سوفرہ (ایک پیمانہ) کے بدلے پھل خریدتا ہے اور کیل کر کے دیتا ہے تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا ہے یہ مزابنہ ہے۔

5484

۵۴۸۳: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْن مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْن عُمَرَ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ ثَمَرِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ ، کَیْلًا ، وَالزَّبِیْبِ بِالْعِنَبِ کَیْلًا ، وَالزَّرْعِ بِالْحِنْطَۃِ کَیْلًا .
٥٤٨٣: نافع نے ابن عمر (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تازہ پھل کی بیع کھجور خشک کے بدلے کیل کر کے منع فرمائی اسی طرح کشمش کو انگور کے بدلے کیل کر کے اور گندم کی کھیتی کو گندم کے بدلے ماپ کردینے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج : مسلم فی البیوع ٧٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ١٨۔

5485

۵۴۸۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ بَاعَ ثَمَرَۃَ أَرْضِہِ مِنْ رَجُلٍ بِمِائَۃِ فَرْقٍ .فَقَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ہٰذَا، وَہُوَ الْمُزَابَنَۃُ .
٥٤٨٤: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی زمین کا پھل ایک آدمی کو سو فرق کے بدلے فروخت کیا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ یہ مزابنہ ہے۔

5486

۵۴۸۵: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ وَہْبُ اللّٰہِ بْنُ رَاشِدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَۃِ قَالَ : وَالْمُزَابَنَۃُ أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ أَوْ یَبِیْعَ حَائِطَہُ بِتَمْرٍ کَیْلًا ، أَوْ کَرْمَہُ بِزَبِیْبٍ کَیْلًا ، وَأَنْ یَبِیْعَ الزَّرْعَ کَیْلًا ، بِشَیْئٍ مِنِ الطَّعَامِ .
٥٤٨٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزابنہ سے منع فرمایا اور فرمایا مزابنہ یہ ہے کہ کوئی آدمی باغ خریدے یا فروخت کرے خشک کھجور کے بدلے کیل کر کے یا باغ کی بیلیں کشمش کے بدلے کیل کر کے فروخت کرے اور کھیتی میں پائے جانے والے دانوں کو خشک گندم کے بدلے کیل سے فروخت کرنا۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٧٥؍٨٢‘ مسلم فی البیوع ٧٢؍٧٦‘ نسائی فی البیوع باب ٣٣‘ مالک فی البیوع ٢٣‘ مسند احمد ٢؍٦٣۔

5487

۵۴۸۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ .
٥٤٨٦: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔
تخریج : بخاری کتاب البیوع باب ٨٢‘ ٩٣‘ والمساقات باب ١٧‘ مسلم فی البیوع ٥٩‘ ٨١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣١‘ ٣٣‘ ترمذی فی البیوع باب ١٤‘ ٥٥‘ نسائی فی الایمان باب ٤٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٥٤‘ والرہوں باب ٧؍٨‘ دارمی فی المقدمہ باب ٢٨‘ مالک فی البیوع ٢٤؍٢٥‘ مسند احمد ١؍٢٢٤‘ ٢؍٣٩٢‘ ٣؍٦‘ ٥‘ ١٨٥؍١٩٠۔

5488

۵۴۸۷: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ أَنْ یَبِیْعَ الرَّجُلُ الزَّرْعَ بِمِائَۃِ فَرْقِ حِنْطَۃٍ ، وَالْمُزَابَنَۃُ : أَنْ یَبِیْعَ الثَّمَرَ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ بِمِائَۃِ فَرْقٍ .
٥٤٨٧: عطاء نے حضرت جابر (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے اور انھوں نے یہ اضافہ کیا کہ کوئی شخص کھڑی فصل کو گندم کے سو فرق کے بدلے فروخت کر دے اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت کے اوپر موجود پھل کو ایک سو فرق کے بدلے فروخت کرے۔

5489

۵۴۸۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُخَابَرَۃِ ، وَالْمُزَابَنَۃِ ، وَالْمُحَاقَلَۃِ .
٥٤٨٨: عمرو بن دینار نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع مخابرہ ‘ مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا۔

5490

۵۴۸۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ حَفْصٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَۃِ ، وَالْمُزَابَنَۃِ .قَالَ وَالْمُحَاقَلَۃُ : الشَّرْطُ فِی الزَّرْعِ ، وَالْمُزَابَنَۃُ : التَّمْرُ بِالثَّمَرِ ، فِی النَّخْلِ .فَہٰذِہِ الْآثَارُ ، قَدْ تَوَاتَرَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الْکَیْلِ مِنَ التَّمْرِ بِالتَّمْرِ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ .فَاِنْ حُمِلَ تَأْوِیْلُ الْعَرَایَا ، عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، کَانَ النَّہْیُ عَلَی عُمُوْمِہٖ، وَلَمْ یَبْطُلْ مِنْہُ شَیْء ٌ .وَاِنْ حُمِلَ عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَالِکٌ ، خَرَجَ مِنْہُ مَا تَأَوَّلَ ہُوَ الْعَرِیَّۃَ عَلَیْہِ، فَلَا یَنْبَغِی أَنْ یَخْرُجَ شَیْء ٌ مِنْ حَدِیْثٍ مُتَّفَقٍ عَلَیْہِ اِلَّا بِحَدِیْثٍ مُتَّفَقٍ عَلَیہ۔عَلَی تَأْوِیْلِہِ ، أَوْ بِدَلَالَۃٍ أُخْرَی مُتَّفَقٍ عَلَیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِی غَیْرِ ہَذَا الْمَوْضِعِ ، فِی النَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ .فَاِِنْ حَمَلْنَا مَعْنَی الْعَرِیَّۃِ .عَلَی مَا قَالَ مَالِکٌ ، ضَادَّ مَا رُوِیَ فِیْہَا .مَا رُوِیَ فِی النَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ .وَاِِنْ حَمَلْنَاہُ عَلَی مَا قَالَ أَبُو حَنِیْفَۃَ ، اتَّفَقَتْ مَعَانِیہَا ، وَلَمْ تَتَضَادَّ .وَالْأَوْلَی بِنَا ، فِی صَرْفِ وُجُوْہِ الْآثَارِ وَمَعَانِیہَا ، صَرْفُہَا اِلَی مَا لَیْسَ فِیْہِ تَضَادٌّ ، وَلَا مُعَارَضَۃٌ لِسُنَّۃٍ بِسُنَّۃٍ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا فِی مَعْنَی الْعَرَایَا ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُو حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاللّٰہُ وَلِیُّ التَّوْفِیقِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا أَنَّہٗ قَالَ : خَفِّفُوْا فِی الصَّدَقَاتِ ، فَاِِنَّ فِی الْمَالِ الْعَرِیَّۃَ وَالْوَصِیَّۃَ .
٥٤٨٩: عمر بن ابی سلمہ (رض) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا محاقلہ : کھیتی میں شرط رکھنے اور المزابنہ کھجور کے اوپر تازہ پھل خشک کھجور کے بدلے فروخت کرنا۔ یہ تواتر سے آنے والی روایات ہیں جن درختوں پر موجود پھل کو اتری ہوئی خشک کھجور یا پھل کے بدلے فروخت کی ممانعت کی گئی ہے اگر عرایا کا وہ مفہوم لیا جائے جو امام ابوحنیفہ (رح) نے لیا ہے تو نہی اپنے عموم پر رہے گی اور اس میں سے کچھ بھی باطل نہ ہوگا اور اگر اس کی تفسیر امام مالک (رح) والی اختیار کی جائے تو ممانعت سے ان کا بیان کردہ عریہ تو خرج ہوجائے گا اور کسی متفق علیہ والی روایت سے کسی چیز کو اسی صورت میں خارج کیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابل حدیث کے مفہوم پر اتفاق ہو یا کوئی اور دلالت موجود ہو جس پر اتفاق ہو۔ حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تر کھجوروں کو خشک کھجور کے بدلے فروخت کی ممانعت کے سلسلہ میں اور روایات بھی وارد ہیں اگر امام مالک (رح) والا معنی لیا جائے تو تر کھجوروں کو خشک کے بدلے فروخت کی ممانعت سے تضاد لازم آئے گا اور اگر امام ابوحنیفہ (رح) والا معنی لیا جائے اور ان کے قول پر محمول کیا جائے تو ان کے معانی متفق رہیں گے اور تضاد نہ ہوگا اور زیادہ بہتر یہی ہوتا ہے کہ روایات کو ایسی بات کی طرف پھیرا جائے جس میں سنت کا سنت سے تضاد نہ ہو اور ان میں معارضہ نہ پایا جائے۔ عرایا کے اس مفہوم سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوا واللہ التوفیق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ صدقات میں نرمی برتا کرو اس لیے کہ مال میں عریہ اور وصیت بھی ہے یہ بات مکحول نے نقل کی ہے۔
عرایا کے اس مفہوم سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوا واللہ التوفیق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ صدقات میں نرمی برتا کرو اس لیے کہ مال میں عریہ اور وصیت بھی ہے یہ بات مکحول نے نقل کی ہے۔

5491

۵۴۹۰: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : سَمِعْت قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ مَکْحُوْلٍ الشَّامِیِّ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْعَرِیَّۃَ ، اِنَّمَا ہِیَ شَیْء ٌ یُمَلِّکُہُ أَرْبَابُ الْأَمْوَالِ قَوْمًا فِیْ حَیَاتِہِمْ ، کَمَا یُمَلِّکُوْنَ الْوَصَایَا بَعْدَ وَفَاتِہِمْ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی فِیْ أَنَّ مَعْنَی الْعَرِیَّۃِ ، کَمَا قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، لَا کَمَا قَالَ مُخَالِفُہُ.
٥٤٩٠: مکحول شامی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کیا یا کہ صدقات میں تخفیف کرو کیونکہ اس میں وصیت اور عریہ بھی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عریہ وہ چیز ہے جس کو مالدار اپنی زندگی میں غرباء کو مالک بناتے ہیں جس طرح وصیت کے ذریعہ محروم لوگوں کو اپنے مرجانے کے بعد مالک بناتے ہیں عریہ کا امام ابوحنیفہ (رح) والا معنی درست ہونے پر دوسری دلیل یہ ہے۔

5492

۵۴۹۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَیُّوْبَ وَعُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی الْبَائِعَ وَالْمُبْتَاعَ عَنِ الْمُزَابَنَۃِ .قَالَ : وَقَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَخَّصَ فِی الْعَرَایَا ، فِی النَّخْلَۃِ وَالنَّخْلَتَیْنِ ، تُوْہَبَانِ لِلرَّجُلِ ، فَیَبِیْعُہُمَا بِخَرْصِہِمَا تَمْرًا .فَہٰذَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرُّخْصَۃَ فِی الْعَرِیَّۃِ ، فَقَدْ أَخْبَرَ أَنَّہَا الْہِبَۃُ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٥٤٩١: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دو درختوں کے عریہ کی اجازت دی ہے کہ وہ کسی آدمی کو بطور ہبہ دے دیئے جائیں۔ پھر وہ آدمی ان کو اندازے کے ساتھ خشک کھجوروں کے بدلے فروخت کرے لیجئے یہ حضرت زید بن ثابت (رض) جو عریہ کی اجازت نقل کرنے والے راویوں میں سے ہیں انھوں نے عرایا کو صاف لفظ میں ہبہ قرار دیا۔ واللہ اعلم۔
امام طحاوی (رح) نے جواز عریہ کا قول تو سب سے نقل کیا مگر اختلاف کی وجہ عریہ کی تفسیر میں اختلاف کو قرار دیا اور انھوں نے امام ابوحنیفہ (رح) کی تفسیر کو سب سے بہتر قرار دے کر مضبوط دلائل سے اس کا ہبہ ہونا ثابت کردیا جس سے روایات کا تضاد بھی جاتا رہا۔ جزاہ اللہ عنا وعن الامہ۔

5493

۵۴۹۲: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الْأَعْرَجِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَتِیْقٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ ، وَأَمَرَ بِوَضْعِ الْجَوَائِحِ .
٥٤٩٢: سلیمان بن عتیق نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی سالوں کی بیع سے منع فرمایا اور تباہ ہونے والے پھل کو اصل میں سے نکالنے کا حکم فرمایا۔
تخریج : مسلم فی المساقاۃ ١٧‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٢؍٥٨‘ نسائی فی البیوع باب ٣٠‘ مالک فی البیوع ١٦‘ مسند احمد ٣؍٣٠٩۔

5494

۵۴۹۳: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٤٩٣: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5495

۵۴۹۴: حَدَّثَنَا بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حُمَیْدٍ الْأَعْرَجِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَتِیْقٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِوَضْعِ الْجَائِحَۃِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَعْنٰی ہٰذِہِ الْجَوَائِحِ الَّتِیْ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَضْعِہَا ، ہِیَ الثِّمَارُ ، یَبْتَاعُہَا الرَّجُلُ فَیَقْبِضُہَا ، فَیُصِیْبُہَا فِیْ یَدِہِ جَائِحَۃٌ ، فَیَذْہَبُ بِثُلُثِہَا فَصَاعِدًا .قَالُوْا : فَذٰلِکَ یُبْطِلُ ثَمَنَہَا عَنِ الْمُشْتَرِی .قَالُوْا : وَمَا أَصَابَہَا ، فَأَذْہَبَ بِشَیْئٍ مِنْہَا دُوْنَ ثُلُثِہَا ، ذَہَبَ ذٰلِکَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِی ، وَلَمْ یَبْطُلْ عَنْہُ مِنْ ثَمَنِہِ شَیْء ٌ ، قَلِیْلٌ وَلَا کَثِیْرٌ .قَالُوْا : وَہٰذَا مِثْلُ الْحَدِیْثِ الْآخَرِ الْمَرْوِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٤٩٤: سلیمان بن عتیق نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلاک شدہ پھل کو نکال دینے کا حکم فرمایا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اس جائحہ (ہلاکت) جس کے نقصان کو اصل سے نکالنے کا حکم ان روایات میں مذکور ہے اس سے مراد پھلوں کا نقصان ہے اس کی شرط یہ ہے کہ خریدنے کے بعد اس کو قبضہ میں لے لے اور اس کے پاس پھل اتنا تباہ ہو کہ پھل کا تیسرا حصہ یا اس سے زیادہ تباہ کر دے وہ کہتے ہیں کہ اس آفت کی وجہ سے مشتری سے اس کی قیمت باطل ہوجاتی ہے اور اگر وہ ہلاکت معمولی نقصان کر دے تو وہ خریدار کے مال کا نقصان سمجھا جائے گا اور اس کی قیمت میں سے کوئی چیز کم نہ کی جائے گی نہ قلیل نہ کثیر۔ یہ اس روایت کی طرح ہے جس کو جابر (رض) نے روایت کیا ہے۔
تخریج : مسلم فی المساقات ١٧‘ نسائی فی البیوع باب ٣٠۔

5496

۵۴۹۵: فَذَکَرُوْا مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہٗ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنْ بِعْتَ مِنْ أَخِیْکَ ثَمَرًا فَأَصَابَتْہُ جَائِحَۃٌ ، فَلَا یَحِلُّ لَکَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُ شَیْئًا ، بِمَ تَأْخُذُ مَالَ أَخِیْکَ بِغَیْرِ حَقٍّ .
٥٤٩٥: ابوالزبیر نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اپنے بھائی کو پھل فروخت کرو پھر اس کو آفت پہنچ جائے تو تمہیں اس قیمت (نقصان شدہ) سے کچھ بھی لینا درست نہیں۔ تم کیوں اپنے بھائی کا مال ناحق لیتے ہو۔
تخریج : مسلم فی المساقاۃ ١٤‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٦‘ البیوع باب ٥٨‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٨٠؍٨٦‘ والبیوع باب ٣٠‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٣٣‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٣٧‘ مسند احمد ٣؍٤٧٧‘ ٥؍٦٠۔

5497

۵۴۹۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالُوْا .قَدْ بَیَّنَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ ، الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْنَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا ذَہَبَ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ شَیْئٍ ، قَلَّ أَوْ کَثُرَ ، بَعْدَ أَنْ یَقْبِضَہُ الْمُشْتَرِی ، ذَہَبَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِی .وَمَا ذَہَبَ فِیْ یَدِ الْبَائِعِ ، قَبْلَ أَنْ یَقْبِضَہُ الْمُشْتَرِی ، بَطَلَ ثَمَنُہٗ عَنِ الْمُشْتَرِی .وَقَالُوْا : مَا ہٰذِہِ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِیْ ذٰکَرْتُمُوْہَا ، فَمَقْبُوْلٌ صَحِیْحٌ عَلٰی مَا جَائَ .وَلَسْنَا نَدْفَعُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا لِصِحَّۃِ مَخْرَجِہٖ، وَلٰـکِنَّا نُخَالِفُ التَّأْوِیْلَ الَّذِیْ تَأَوَّلَہَا عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .وَنَقُوْلُ : اِنَّ مَعْنَی الْجَوَائِحِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْہَا ، ہِیَ الْجَوَائِحُ الَّتِیْ یُصَابُ النَّاسُ بِہَا ، وَیَجْتَاحُہُمْ فِی الْأَرْضِیْنَ الْخَرَاجِیَّۃِ الَّتِی خَرَاجُہَا لِلْمُسْلِمِیْنَ ، فَیُوْضَعُ ذٰلِکَ الْخَرَاجُ عَنْہُمْ - وَاجِبٌ لَازِمٌ ، لِأَنَّ فِیْ ذٰلِکَ صَلَاحًا لِلْمُسْلِمِیْنَ ، وَتَقْوِیَۃً لَہُمْ فِیْ عِمَارَۃِ أَرَضِیہمْ فَأَمَّا فِی الْأَشْیَائِ الْمَبِیْعَاتِ ، فَلَا .فَہٰذَا تَأْوِیْلُ حَدِیْثِ جَابِرٍ ، الَّذِیْ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ جَابِرٍ الثَّانِیْ، فَمَعْنَاہُ غَیْرُ ہٰذَا الْمَعْنَی ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ ذَکَرَ فِیْہِ الْبَیْعَ ، وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْہِ الْقَبْضَ .فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلَی الْبِیَاعَاتِ الَّتِیْ تُصَابُ فِیْ أَیْدِیْ بَائِعِیْہَا ، قَبْلَ قَبْضِ الْمُشْتَرِی لَہَا ، فَلَا یَحِلُّ لِلْبَاعَۃِ أَخْذُ أَثْمَانِہَا ، لِأَنَّہُمْ یَأْخُذُوْنَہَا بِغَیْرِ حَق .فَہٰذَا تَأْوِیْلُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَہُمْ .فَأَمَّا مَا قَبَضَہُ الْمُشْتَرُوْنَ ، وَصَارَ فِیْ أَیْدِیْہِمْ ، فَذٰلِکَ کَسَائِرِ الْبِیَاعَاتِ ، الَّتِیْ یَقْبِضُہَا الْمُشْتَرُوْنَ لَہَا ، فَیَحْدُثُ بِہَا الْآفَاتُ فِیْ أَیْدِیْہِمْ .فَکَمَا کَانَ غَیْرُ الثِّمَارِ ، یَذْہَبُ مِنْ أَمْوَالِ الْمُشْتَرِیْنَ لَہَا ، لَا مِنْ أَمْوَالِ بَاعَتِہَا ، فَکَذٰلِکَ الثِّمَارُ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ ، وَہُوَ أَوْلَی ، مَا حُمِلَ عَلَیْہِ ہٰذَا الْحَدِیْثُ .لِأَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٥٤٩٦: ابو عاصم نے ابن جریج سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس روایت نے فریق اوّل کے مؤقف کو خوب واضح کردیا۔ دوسروں نے کہا قبضہ کے بعد قلیل و کثیر جو کچھ نقصان ہوگا وہ خریدار کا ہوگا اور مالک کے ہاتھ میں جب تک وہ چیز موجود ہے اس وقت ہونے والے نقصان کی قیمت مشتری کے ذمہ نہ ہوگی۔ ان آثار مرویہ میں جو کچھ آیا وہ بالکل درست ہے اسناد کی درستی کی وجہ سے کوئی بھی قابل رد نہیں۔ البتہ ان کی وہ تاویل جو آپ نے کی ہے اس کو درست قرار نہیں دیتے۔ درست تاویل ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت جابر (رض) کی روایت اوّل کی تاویل یہ ہے کہ اس سے مراد وہ آفات ہیں جو خراجی زمینوں میں پہنچیں اور لوگوں کو محتاج کردیں تو اس وقت خراج کا ان سے ہٹانا لازم ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہے اور اراضی کی آبادی میں یہ چیز معاون ہے فروخت شدہ اشیاء سے اس کا تعلق نہیں۔ اس روایت میں بیع کا ذکر ہے قبضے کا اس میں تذکرہ ہی نہیں۔ ہمارے ہاں اس سے مراد وہ بیوع ہیں جن میں مشتری کا قبضہ ابھی ثابت نہ ہو تو اس آفت شدہ چیز کی قیمت خریدار سے لینا جائز نہیں کیونکہ وہ بلا بدل ہے۔ یہ اس روایت کی تاویل ہے باقی وہ بیوع جن پر مشتری قبضہ کرے تو دیگر تمام بیوع کی طرح اس میں پیش آمدہ آفت کا تعلق مشتری سے ہوگا جیسا کہ پھلوں کے علاوہ اشیاء میں وہ خریداروں کا مال جاتا ہے۔ مالکوں کا اس سے تعلق نہیں ہونا پھلوں کا بھی یہی حکم ہے۔ نظر کا تقاضا بھی یہی ہے اور اس حدیث کا اس پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔

5498

۵۴۹۷: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ .ح
٥٤٩٧: ابن وہب نے عمرو بن الحارث سے روایت کی ہے۔

5499

۵۴۹۸: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ .ح
٥٤٩٨: یونس نے عبداللہ بن یوسف سے روایت کی ہے۔

5500

۵۴۹۹: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ .ح
٥٤٩٩: ربیع المؤذن نے شعیب بن لیث سے روایت کی ہے۔

5501

۵۵۰۰: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ اِسْحَاقَ السَّیْلَحِیْنِیُّ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، قَالُوْا : جَمِیْعًا، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : أُصِیْبَ رَجُلٌ مِنْ ثِمَارٍ ابْتَاعَہَا ، فَکَثُرَ دَیْنُہُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقُوْا عَلَیْہِ فَتُصُدِّقَ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَبْلُغْ ذٰلِکَ وَفَائَ دَیْنِہٖ۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذُوْا مَا وَجَدْتُمْ، وَلَیْسَ لَکُمْ اِلَّا ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُبْطِلْ دَیْنَ الْغُرَمَائِ، بِذَہَابِ الثِّمَارِ ، وَفِیْہِمْ بَاعَتُہَا ، وَلَمْ یَرُدَّہُ عَلَی الْبَاعَۃِ بِالثَّمَنِ ، اِنْ کَانُوْا قَدْ قَبَضُوْا ذٰلِکَ مِنْہٗ، ثَبَتَ أَنَّ الْجَوَائِحَ الْحَادِثَۃَ فِیْ یَدِ الْمُشْتَرِی ، لَا تَکُوْنُ مُطَالِبَۃً عَنْہُ شَیْئًا مِنَ الثَّمَنِ ، الَّذِیْ عَلَیْہِ لِلْبَائِعِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ الثِّمَارَ لَا تُشْبِہُ سَائِرَ الْبِیَاعَاتِ لِأَنَّہَا مُعَلَّقَۃٌ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ ، لَا یَصِلُ اِلَیْہَا یَدُ مَنِ ابْتَاعَہَا اِلَّا بِقَطْعِہِ اِیَّاہَا ، وَسَائِرُ الْأَشْیَائِ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ .فَمَا یَکُوْنُ مَقْبُوْضًا بِغَیْرِ قَطْعٍ مُسْتَأْنَفٍ ، فَہُوَ الَّذِیْ یَذْہَبُ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِی .وَمَا کَانَ لَا یُقْبَضُ اِلَّا بِقَطْعٍ مُسْتَأْنَفٍ ، فَہُوَ الَّذِیْ یَذْہَبُ مِنْ مَالِ الْبَائِعِ .قِیْلَ لَہٗ : ہٰذَا الْکَلَامُ فَاسِدٌ مِنْ وَجْہَیْنِ : أَمَّا أَحَدُہُمَا ، فَاِنَّا رَأَیْنَا ہٰذِہِ الثِّمَارَ ، اِذَا بِیْعَتْ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ ، فَذَہَبَتْ بِکَمَالِہَا ، أَوْ ذَہَبَ مِنْہَا شَیْء ٌ فِیْ أَیْدِیْ بَاعَتِہَا ، ذَہَبَ ذٰلِکَ مِنْ أَمْوَالِہِمْ دُوْنَ أَمْوَالِ الْمُشْتَرِیْنَ ، فَکَانَ ذَہَابُ قَلِیْلِہَا وَکَثِیْرِہَا فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً ، لِأَنَّہُمْ لَمْ یَقْبِضُوْہَا فَاِذَا قَبَضُوْہَا ، فَذَہَبَ مِنْہَا مَا دُوْنَ الثُّلُثِ ، فَقَدْ أُجْمِعَ أَنَّہٗ ذَاہِبٌ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِی ، لِأَنَّہٗ ذَہَبَ بَعْدَ قَبْضِہِ اِیَّاہُ .فَلَمَّا اسْتَوَیْ ذٰہَابُ قَلِیْلِہِ وَکَثِیْرِہِ فِیْ یَدِ الْبَائِعِ ، فَکَانَ قَلِیْلُہُ اِذَا ذَہَبَ فِیْ یَدِ الْمُشْتَرِی ، ذَہَبَ مِنْ مَالِہٖ ، کَانَ ذَہَابُ کَثِیْرِہِ کَذٰلِکَ .وَکَانَ الْمُشْتَرِی - لِتَخْلِیَۃِ الْبَائِعِ بَیْنَہُ وَبَیْنَ ثَمَرِ النَّخْلِ - قَابِضًا لَہٗ، وَاِنْ لَمْ یَقْطَعْہٗ، فَہٰذَا وَجْہٌ .وَوَجْہٌ آخَرُ ، أَنَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الطَّعَامِ ، حَتَّی یُقْبَضَ ، وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَکَانَتْ الثِّمَارُ فِیْ ذٰلِکَ دَاخِلَۃً بِاتِّفَاقِہِمْ وَأَجْمَعُوْا أَنَّ الْمُشْتَرِیَ لَہَا لَوْ بَاعَہَا فِیْ یَدِ بَائِعہَا ، کَانَ بَیْعُہُ بَاطِلًا ، وَلَوْ بَاعَہَا بَعْدَ أَنْ خَلَّی الْبَائِعُ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا ، وَلَمْ یَقْطَعْہَا ، کَانَ بَیْعُہُ جَائِزًا ، فَصَارَ قَابِضًا لَہَا ، بِتَخْلِیَۃِ الْبَائِعِ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا ، قَبْلَ قَطْعِہِ اِیَّاہَا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ قَبْضَ الْمُشْتَرِی الْمُعَلَّقَۃَ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ ، ہُوَ بِتَخْلِیَۃِ الْبَائِعِ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا ، وَاِمْکَانِہِ اِیَّاہُ مِنْہَا .فَاِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ بِہٖ ، فَقَدْ صَارَتْ فِیْ یَدِہِ وَضَمَانِہٖ، وَبَرِئَ مِنْہَا الْبَائِعُ .فَمَا حَدَثَ فِیْہَا مِنْ جَائِحَۃٍ ، أَتَتْ عَلَیْہَا کُلِّہَا ، أَوْ عَلَی بَعْضِہَا ، فَہِیَ ذَاہِبَۃٌ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِی ، لَا مِنْ مَالِ الْبَائِعِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٥٠٠: تمام روات نے بکیر بن اشج سے ‘ انھوں نے عیاض بن عبداللہ سے انھوں نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کے خریدے ہوئے پھل آفت سے تباہ ہوگئے اس پر قرض ہوگیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پر صدقہ کرو۔ چنانچہ اسے صدقہ دیا گیا مگر وہ اتنی مقدار کو نہ پہنچا کہ جس سے قرض کی ادائیگی ہو تو آپ نے قرضداروں کو منع فرمایا یہ لے لو اور اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض داروں کا قرض پھل کے تباہ ہونے کے باوجود باطل قرار نہیں دیا اور ان قرض داروں میں فروخت کرنے والے بھی تھے اور نہ آپ نے ثمن کے ساتھ فروخت کرنے والے کی طرف لوٹایا کہ وہ اس پر قبضہ کرلیں۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مشتری کے ہاتھوں میں ہونے والے نقصان کی قیمت کے متعلق بائع سے کسی چیز کی کمی کا مطالبہ نہیں کرسکتا (اپنی مرضی سے کچھ چھوڑے یہ اس کی مرضی ہے) اگر کوئی معترض کہے کہ پھل کو دوسری بیوع کے حکم میں شامل نہیں کرسکتے کیونکہ یہ تو کھجور کے اوپر ہوتے ہیں جہاں فروخت کرنے والے کا ہاتھ تو پھل توڑنے کی صورت میں پہنچ سکتا ہے اور دیگر اشیاء ایسی نہیں۔ پس جو چیز کاٹنے کے بغیر قبضہ میں آتی ہے وہ خریدار کے مال سے جاتی ہے اور جو چیز کاٹنے کے بغیر قبضہ میں نہیں آتی وہ فروخت کرنے والے کے مال سے ضائع ہوگی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا تمہاری یہ بات دو اعتبار سے غلط ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب پھلوں کو درختوں کے اوپر فروخت کریں اور وہ مکمل طور پر یا کچھ حصہ فروخت کرنے والے کے قبضہ کی صورت میں ضائع ہوجائے تو وہ فروخت کرنے والے کے مال سے ضائع ہوتا ہے خریدار کے مال سے ضائع نہیں ہوتا اس میں قلیل و کثیر کا ضیاع برابر ہے کیونکہ خریدار نے ابھی قبضہ نہیں کیا جب وہ قبضہ کرلے اور تہائی سے کم حصہ ضائع ہو تو بالاتفاق خریدار کے مال سے ضائع ہوگا۔ کیونکہ یہ اس کے قبضہ کے بعد ضائع ہوا۔ پس جب فروخت کرنے والے کے ہاتھ میں تھوڑے اور زیادہ کا ضائع ہونا برابر ہے تو خریدار کے ہاتھ میں تھوڑے مال کا ضیاع جب اس کی طرف سے ضیاع شمار ہوتا ہے تو زیادہ کا ضیاع بھی اسی کی طرف سے ہوگا اور بائع کا خریدار کو اجازت دینا قبضہ قرار پائے گا یہ فاسد ہونے کی اوّل وجہ ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبضہ کے بغیر غلہ کی فروخت کی ممانعت فرمائی ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے اور پھل بھی سب کے نزدیک اس میں داخل ہیں اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر وہ خریدار کے قبضہ میں ہوں اور خریدار فروخت کر دے تو یہ بیع باطل ہوگی اور اگر وہ بائع کی طرف سے پھلوں تک رسائی کی اجازت دینے کے بعد فروخت کرے اور ابھی پھل نہ توڑے تو یہ بیع جائز ہے کیونکہ بائع کی طرف سے رکاوٹ کے خاتمہ پر وہ پھلوں پر قابض ہوگیا ہے اگر اس سے وہ پھل توڑے نہیں۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ درخت پر لگے ہوئے پھلوں پر خریدار کا قبضہ یہی ہے کہ مالک اسے پھلوں تک پہنچنے کی اجازت دے دے اور وہ ان پر قدرت پالے جب وہ ایسا کرے گا تو پھل اس کے قبضہ اور ضمان میں آگئے اور بائع ان سے بری الذمہ ہوگیا اب جو آفت ان پھلوں پر آئے گی خواہ تمام یا بعض کا ضیاع ہو وہ خریدار کے مال کی ہلاکت ہوگی بائع کے مال سے نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسلم فی المساقات ١٨‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٥٨‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٤‘ نسائی فی البیوع باب ٣٠؍٩٥‘ ابن ماجہ فی الاحکام ٢٥‘ مسند احمد ٣‘ ٣٦؍٥٨۔

5502

۵۵۰۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَعَفَّانُ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اشْتَرٰی طَعَامًا ، فَلَا یَبِیْعُہٗ حَتّٰی یَقْبِضَہٗ .
٥٥٠١: عبداللہ بن دینار نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جس نے غلہ خریدا اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے یہاں تک کہ وہ اس پر قبضہ کرے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٥٤؍٥٥‘ مسلم فی البیوع ٣٢؍٥٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٦٥‘ نسائی فی البیوع باب ٥٥‘ دارمی فی البیوع باب ٢٥‘ مالک فی البیوع ٤١‘ مسند احمد ١؍٣٥٦‘ ٢‘ ٦٤؍٧٩‘ ١٠٩؍١١١۔

5503

۵۵۰۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٥٠٢: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5504

۵۵۰۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٥٠٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے عمر بن خطاب (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5505

۵۵۰۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اشْتَرٰی طَعَامًا ، فَلَا یَبِیْعُہٗ، حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہٗ.
٥٥٠٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جس نے غلہ خریدا اس کو فروخت نہ کرے جب تک کہ پورے طور پر وصول نہ کرلے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٥١؍٥٥‘ مسلم فی البیوع ٢٩؍٣٤‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٦٥‘ ترمذی فی البیوع باب ٥٦‘ نسائی فی البیوع باب ٥٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٣٧‘ مالک فی البیوع ٤٠‘ مسند احمد ١؍٥٦‘ ٢؍٢٢۔

5506

۵۵۰۵: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اشْتَرٰی طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہٗ، حَتّٰی یَقْبِضَہُ .
٥٥٠٥: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو غلہ خریدے اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ قبضہ نہ کرے۔
تخریج : سابقہ تخری ٥٥٠١ کو ملاحظہ کریں۔

5507

۵۵۰۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، وَعُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمَالِکٌ وَغَیْرُہُمْ : أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَہُمْ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اشْتَرٰی طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہٗ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہٗ .
٥٥٠٦: نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ جس نے غلہ خریدا وہ اس کو پورے طور پر وصول کرنے کے بغیر فروخت نہ کرے۔
تخریج : روایت ٥٥٠٤ ملاحظہ ہو۔

5508

۵۵۰۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، قَالَ مَالِکٌ حَتّٰی یَقْبِضَہٗ۔
٥٥٠٧: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے ” حتی یقبضہ “ کے الفاظ نقل کئے ہیں کہ وہ قبضہ کرلے۔

5509

۵۵۰۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَغَیْرُہٗ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ عُبَیْدٍ الْمَدَنِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہَی أَنْ یَبِیْعَ أَحَدٌ طَعَامًا اشْتَرَاہُ بِکَیْلٍ ، حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہٗ .
٥٥٠٨: قاسم بن محمد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیل سے خریدا ہوا غلہ اس وقت تک فروخت کرنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ اس کو پورا قبضہ میں نہ لے لے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٦٥‘ نسائی فی البیوع باب ٥٦۔

5510

۵۵۰۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنِ اشْتَرٰی طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہُ حَتّٰی یَقْبِضَہُ .
٥٥٠٩: ابوالزبیر سے جابر (رض) نے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے غلہ خریدا وہ قبضہ کرنے تک فروخت نہ کرے۔

5511

۵۵۱۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ اشْتَرٰی طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہٗ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہٗ .
٥٥١٠: سلیمان بن یسار نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے غلہ خریدا وہ اس کو پورا پورا وصول کرنے تک (یعنی قبضہ کرنے تک) فروخت نہ کرے۔

5512

۵۵۱۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِصْمَۃَ الْجُشَمِیِّ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَمْ أُنَبَّأْ أَوْ أَلَمْ أُخْبِرْک أَنَّکَ تَبِیْعُ الطَّعَامَ ، فَلَا تَبِعْہُ حَتّٰی تَسْتَوْفِیَہُ .
٥٥١١: عبداللہ بن عصمہ جشمی نے حکیم بن حزام (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا مجھے اطلاع نہیں دی گئی یا میں نے تمہیں خبر نہیں دی کہ تم غلہ فروخت کرتے ہو ‘ پس قبضہ سے پہلے فروخت مت کرو۔
تخریج : نسائی فی البیوع باب ٥٥‘ مالک فی البیوع ٤٣‘ مسند احمد ٣؍٤٠٣۔

5513

۵۵۱۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَطَاء ٌ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ صَفِیٍّ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ حَتّٰی یَقْبِضَہٗ .
٥٥١٢: عبداللہ بن محمد بن صفی نے حکیم بن حزام (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے البتہ ” حتی یقبضہ “ کے لفظ زائد کہے ہیں۔

5514

۵۵۱۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ حِزَامِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ : کُنْتُ أَشْتَرِیْ طَعَامًا ، فَأَرْبَحُ فِیْہَا قَبْلَ أَنْ أَقْبِضَہُ فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : لَا تَبِعْہُ حَتّٰی تَقْبِضَہُ .قَالَ : أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنْ اشْتَرَی طَعَامًا مَا ، لَمْ یَجُزْ لَہُ بَیْعُہُ حَتّٰی یَقْبِضَہٗ، وَمَنْ اشْتَرَی غَیْرَ الطَّعَامِ ، حَلَّ لَہُ بَیْعُہُ وَاِنْ لَمْ یَقْبِضْہٗ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَقَالُوْا : لَمَّا قَصَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ اِلَی الطَّعَامِ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ غَیْرِ الطَّعَامِ فِیْ ذٰلِکَ ، بِخِلَافِ حُکْمِ الطَّعَامِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا ذٰلِکَ النَّہْیُ قَدْ وَقَعَ عَلَی الطَّعَامِ وَغَیْرِ الطَّعَامِ ، وَاِنْ کَانَ الْمَذْکُوْرُ فِی الْآثَارِ الَّتِی ذُکِرَ ذٰلِکَ النَّہْیُ فِیْہَا ہُوَ الطَّعَامُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٥١٣: عطاء نے حکیم بن حزام (رض) سے روایت کی ہے کہ میں غلہ خریدتا تھا میں قبضہ سے پہلے اس میں نفع لیتا تھا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو فرمایا۔ قبضہ سے پہلے اس کو فروخت نہ کرو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جو غلہ بھی خریدا جائے قبضہ سے پہلے اس کی فروخت درست نہیں اور غلہ کے علاوہ اشیاء کی فروخت قبضہ سے پہلے بھی درست ہے جیسا کہ ان آثار بالا سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جب غلے کی ممانعت کا قصد کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ غیر طعام کا حال اس سے مختلف ہے۔ اس ممانعت کا تعلق طعام وغیر طعام ہر دو سے ہے۔ اگرچہ آثار میں طعام کا خصوصاً تذکرہ ہے اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : نسائی فی البیوع باب ٥٥۔

5515

۵۵۱۴: بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ حُنَیْنٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ابْتَعْتُ زَیْتًا بِالسُّوْقِ ، فَلَمَّا اسْتَوْجَبْتُہٗ، لَقِیَنِیْ رَجُلٌ فَأَعْطَانِیْ بِہٖ رِبْحًا حَسَنًا ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلٰی یَدِہِ فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ خَلْفِیْ بِذِرَاعَیَّ ، فَالْتَفَتُّ اِلَیْہِ، فَاِذَا ہُوَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَقَالَ لَا تَبِعْہُ حَیْثُ ابْتَعْتَہُ حَتّٰی تَحُوْزَہُ اِلٰی رَحْلِکَ ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا أَنْ نَبِیْعَ السِّلَعَ حَیْثُ تُبْتَاعُ ، حَتّٰی تَحُوْزَہَا التُّجَّارُ اِلَیْ رِحَالِہِمْ .فَلَمَّا أَخْبَرَ زَیْدٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ الزَّیْتَ قَدْ دَخَلَ فِیْمَا کَانَ نَہٰی عَنْ بَیْعِہِ قَبْلَ قَبْضِہٖ، وَہُوَ غَیْرُ الطَّعَامِ الَّذِیْ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّہْیَ عَنْ بَیْعِہِ بَعْدَ ابْتِیَاعِہِ حَتَّی یُقْبَضَ ، وَعَمِلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی ذٰلِکَ ، فَأَرَادَ بَیْعَ الزَّیْتِ قَبْلَ قَبْضِہٖ، لِأَنَّہٗ لَیْسَ مِنِ الطَّعَامِ ، فَقَبِلَ ذٰلِکَ مِنْہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وَلَمْ یَکُنْ کَانَ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ قَصْدِہِ اِلَی الطَّعَامِ ، بِمَانِعِ أَنْ یَکُوْنَ غَیْرُ الطَّعَامِ فِیْ ذٰلِکَ بِخِلَافِ الطَّعَامِ ، ثُمَّ أَکَّدَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَانَا عَنِ ابْتِیَاعِ السِّلَعِ حَیْثُ تُبْتَاعُ ، حَتّٰی تَحُوْزَہَا التُّجَّارُ اِلَیْ رِحَالِہِمْ فَجَمَعَ فِیْ ذٰلِکَ کُلَّ السِّلَعِ ، وَفِیْہَا غَیْرُ الطَّعَامِ ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ شَیْئٍ اُبْتِیْعَ اِلَّا بَعْدَ قَبْضِ مُبْتَاعِہِ اِیَّاہٗ، طَعَامًا کَانَ أَوْ غَیْرَ الطَّعَامِ .وَقَدْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَقَدْ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصْدَہٗ بِالنَّہْیِ عَنْ بَیْعِ مَا لَمْ یُقْبَضْ اِلَی الطَّعَامِ .
٥٥١٤: عبید بن حنین نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے بازار سے زیتون کا تیل خریدا جب میں نے سودا کرلیا تو مجھے ایک اچھا بھلا نفع دے رہا تھا میں نے اس کے ساتھ بیع کو مکمل کرنا چاہا تو میرے پیچھے ایک آدمی نے میرے بازو کو پکڑا۔ میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو وہ زید بن ثابت (رض) تھے وہ کہنے لگے اس کو مت فروخت کرو جہاں تم نے خریدا ہے جب تک کہ تم اپنے کجاوے پر نہ لے جاؤ اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ سامان جہاں سے خریدا جائے وہیں اس کی بیع کا معاملہ کیا جائے جب تک کہ تجار اس کو اپنے کجاوے کی طرف منتقل نہ کرلیں۔ جب حضرت زید بن ثابت (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہوئے بتلا دیا کہ قبضہ سے پہلے فروخت کی ممانعت میں زیتون بھی شامل ہے اور زیتون تو غلہ سے غیر ہے جس کے متعلق حضرت ابن عمر (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علم حاصل ہوا کہ خریدنے کے بعد اس کو قبضہ کرنے سے پہلے فروخت نہ کیا جائے اور ابن عمر (رض) نے اس پر عمل کیا چنانچہ ابن عمر (رض) نے زیتون کو بیچنے کا ارادہ فرمایا کیونکہ وہ غلہ نہیں تو ابن عمر (رض) نے آپ سے اس بات کو قبول کیا اور انھوں نے ان روایات کے ضمن میں جن کو باب کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلہ کا ارادہ کرنے کے سلسلے میں کوئی ایسی بات نہیں سنی جو اس سلسلے میں غلہ کے علاوہ کے لیے مخالف حکم میں رکاوٹ بنتی ہو۔ پھر حضرت زید بن ثابت (رض) نے اس بات کو اور پختہ کردیا انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سامان کے اسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرماتے تھے جہاں سے وہ خریدا گیا یہاں تک کہ تاجر حضرات اسے اپنے گھروں میں لے جائیں تو آپ نے اس میں ہر قسم کے سامان کا تذکرہ فرمایا۔ جس میں غلہ کے علاوہ اشیاء بھی داخل ہیں۔ تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ جس چیز کو خریدا جائے وہ غلہ ہو یا کوئی دوسری چیز قبضہ کے بغیر اسے فروخت کرنا جائز نہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے بھی یہی بات فرمائی حالانکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ معلوم کرچکے تھے کہ آپ نے قبضہ سے پہلے فروخت کرنے کی ممانعت سے غلہ کا ارادہ فرمایا۔ ابن عباس (رض) کی روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٦٥‘ مسند احمد ٥؍١٩١۔
لغات : اضرب علی یدہ۔ یہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا تکمیل بیع کی علامت تھی۔ الحوز۔ جمع کرنا۔ الرحل۔ کجاوہ۔ رہائشگاہ۔

5516

۵۵۱۵: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوٗسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَمَّا الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَبَیْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُسْتَوْفَی .قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِرَأْیِہٖ وَأَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ۔ .فَہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، لَمْ یَمْنَعْہُ قَصْدُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ اِلَی الطَّعَامِ ، أَنْ یُدْخِلَ فِیْ ذٰلِکَ النَّہْیِ ، غَیْرَ الطَّعَامِ .وَقَدْ رَوَی ابْنُ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٥١٥: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے فرمایا سنو ! کہ جس چیز سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا وہ قبضہ کرنے سے پہلے غلے کی فروخت ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ہر چیز اس کی مثل ہے تو یہ ابن عباس (رض) ہیں ‘ جنہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہی سے غلہ مراد لینے کے باوجود ہر چیز کو اس ممانعت میں داخل کرنے سے کسی چیز نے نہیں روکا۔ حضرت جابر (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔

5517

۵۵۱۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، فِی الرَّجُلِ یَبْتَاعُ الْمَبِیْعَ ، فَیَبِیْعُہُ قَبْلَ أَنْ یَقْبِضَہٗ، قَالَ : أَکْرَہُہٗ .فَہٰذَا جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ سَوَّیْ بَیْنَ الْأَشْیَائِ الْمَبِیْعَۃِ فِیْ ذٰلِکَ ، وَقَدْ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصْدَہٗ بِالنَّہْیِ عَنِ الْبَیْعِ فِیْہِ حَتَّی یُقْبَضَ اِلَی الطَّعَامِ بِعَیْنِہٖ، فَدَلَّ ذٰلِکَ النَّہْیُ ، عَلٰی مَا قَدْ تَقَدَّمَ وَصْفُنَا لَہٗ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ ، فَکَیْفَ قَصَدَ بِالنَّہْیِ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی الطَّعَامِ بِعَیْنِہٖ، وَلَمْ یَعُمَّ الْأَشْیَائَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ وَجَدْنَا مِثْلَ ہَذَا فِی الْقُرْآنِ ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَا تَقْتُلُوْا الصَّیْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَأَوْجَبَ عَلَیْہِ الْجَزَائَ الْمَذْکُوْرَ فِی الْآیَۃِ .وَلَمْ یَخْتَلِفْ أَہْلُ الْعِلْمِ فِیْ قَاتِلِ الصَّیْدِ خَطَأً ، أَنَّ عَلَیْہِ مِثْلَ ذٰلِکَ ، وَأَنَّ ذِکْرَہُ الْعَمْدَ ، لَا یَنْفِی الْخَطَأَ .فَکَذٰلِکَ ذِکْرُہُ الطَّعَامَ ، فِی النَّہْیِ عَنْ بَیْعِہِ قَبْلَ الْقَبْضِ ، لَا یَنْفِیْ غَیْرَ الطَّعَامِ .وَقَدْ رَأَیْنَا الطَّعَامَ یَجُوْزُ السَّلَمُ فِیْہِ، وَلَا یَجُوْزُ السَّلَمُ فِی الْعُرُوْضِ ، وَکَانَ الطَّعَامُ أَوْسَعَ أَمْرًا فِی الْبُیُوْعِ مِنْ غَیْرِ الطَّعَامِ ؛ لِأَنَّ الطَّعَامَ یَجُوْزُ السَّلَمُ فِیْہِ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَ الْمُسْلَمِ اِلَیْہِ، وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَ الطَّعَامُ أَوْسَعَ أَمْرًا فِی الْبُیُوْعِ وَأَکْثَرَ جَوَازًا ، وَرَأَیْنَاہُ قَدْ نَہٰی عَنْ بَیْعِہِ حَتَّی یُقْبَضَ ، کَانَ ذٰلِکَ فِیْمَا لَا یَجُوْزُ السَّلَمُ فِیْہِ أَحْرَی أَنْ لَا یَجُوْزَ بَیْعُہُ حَتَّی یُقْبَضَ .فَقَصَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ اِلَی الَّذِیْ اِذَا نَہٰی عَنْہُ، دَلَّ نَہْیُہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہُ عَلٰی نَہْیِہِ عَنْ غَیْرِہٖ، وَأَغْنَاہُ ذِکْرُہُ لَہُ عَنْ ذِکْرِہِ لِغَیْرِہٖ، فَقَامَ ذٰلِکَ مَقَامَ النَّہْیِ ، لَوْ عَمَّ بِہٖ الْأَشْیَائَ کُلَّہَا .وَلَوْ قَصَدَ بِالنَّہْیِ اِلَی غَیْرِ الطَّعَامِ ، أَشْکَلَ حُکْمُ الطَّعَامِ فِیْ ذٰلِکَ عَلَی السَّامِعِ ، فَلَمْ یَدْرِ ، ہَلْ ہُوَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا ؟ لِأَنَّہٗ یَجِدُ الطَّعَامَ یَجُوْزُ السَّلَمُ فِیْہِ، وَلَیْسَ ہُوَ بِقَائِمٍ حِیْنَئِذٍ ، وَلَیْسَ یَجُوْزُ ذٰلِکَ فِی الْعُرُوْضِ ، فَیَقُوْلُ کَمَا خَالَفَ الطَّعَامُ الْعُرُوْضَ فِیْ جَوَازِ السَّلَمِ فِیْہِ، وَلَیْسَ عِنْدَ الْمُسْلَمِ اِلَیْہِ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ فِی الْعُرُوْضِ ، فَکَذٰلِکَ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مُخَالِفًا لَہُ فِیْ جَوَازِ بَیْعِہِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ غَیْرَ جَائِزٍ فِی الْعُرُوْضِ .فَہٰذَا ہُوَ الْمَعْنَی الَّذِی لَہُ قَصَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ عَنْ بَیْعِ مَا لَمْ یُقْبَضْ ، اِلَی الطَّعَامِ خَاصَّۃً .وَفِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ أُخْرَی ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْمَعْنَی الَّذِیْ حَرُمَ بِہٖ عَلَی مُشْتَرِی الطَّعَامِ بَیْعُہُ قَبْلَ قَبْضِہٖ، ہُوَ أَنْ لَا یَطِیْبَ لَہُ رِبْحُ مَا فِیْ ضَمَانِ غَیْرِہٖ، فَاِذَا قَبَضَہٗ، صَارَ فِیْ ضَمَانِہٖ، فَطَابَ لَہُ رِبْحُہُ فَجَازَ أَنْ یَبِیْعَہُ حَیْثُ أَحَبَّ .وَالْعُرُوْضُ الْمَبِیْعَۃُ ، ہٰذَا الْمَعْنَی بِعَیْنِہٖ، مَوْجُوْدٌ فِیْہَا ، وَذٰلِکَ أَنَّ الرِّبْحَ فِیْہَا قَبْلَ قَبْضِہَا ، غَیْرُ حَلَالٍ لِمُبْتَاعِہَا ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ نَہٰی عَنْ رِبْحِ مَا لَمْ یُضْمَنْ .فَکَمَا کَانَ ذٰلِکَ قَدْ دَخَلَ فِیْہِ الطَّعَامُ وَغَیْرُ الطَّعَامِ ، وَلَمْ یَکُنْ الرِّبْحُ یَطِیْبُ لِأَحَدٍ اِلَّا بِتَقَدُّمِ ضَمَانِہٖ، لِمَا کَانَ عَنْہُ وَذٰلِکَ الرِّبْحُ .فَکَذٰلِکَ الْأَشْیَائُ الْمَبِیْعَۃُ کُلُّہَا ، مَا کَانَ مِنْہَا یَطِیْبُ الرِّبْحُ فِیْہِ لِبَائِعِہٖ، فَحَلَالٌ لَہُ بَیْعُہٗ، وَمَا کَانَ مِنْہَا یَحْرُمُ الرِّبْحُ فِیْہِ عَلَی بَائِعِہٖ، فَحَرَامٌ عَلَیْہِ بَیْعُہٗ .وَقَدْ جَائَ تْ أَیْضًا آثَارٌ أُخَرُ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّہْیِ عَنْ بَیْعِ مَا لَمْ یُقْبَضْ ، لَمْ یَقْصِدْ فِیْہَا اِلَی الطَّعَامِ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ۔
٥٥١٦: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے اس آدمی کے بارے میں روایت کی ہے جو کسی چیز کو خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کرتا ہے انھوں نے جواب دیا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں۔ یہ حضرت جابر (رض) ہیں جنہوں نے اس سلسلہ میں تمام فروخت کی جانے والی اشیاء کو برابر رکھا حالانکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کرچکے تھے کہ قبضہ سے پہلے جن چیزوں کی فروخت سے ممانعت ہے اس سے غلہ مراد ہے پس یہ نہی اس بات پر دلالت کرتی ہے جس کو ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ یہ کس طرح معلوم ہوگیا کہ نہی سے مراد صرف غلہ ہے ممانعت عام مراد نہیں ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قرآن مجید میں اس کی مثال پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم حالت احرام میں ہو تو شکار کو قتل نہ کرو اور تم میں سے جو شخص اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا ” لاتقتلوا الصید وانتم حرم الایہ “ اس آیت میں جان بوجھ کر شکار کرنے والے کی سزا بیان کی گئی ہے اور اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ جو خطاء ً شکار کو قتل کرے اس کی سزا اس سے مختلف نہیں ہے تو جس طرح یہاں عمداً کا ذکر خطاء ً کی نفی نہیں کرتا اسی طرح قبضہ سے پہلے فروخت کی ممانعت کے سلسلہ میں غلہ کا تذکرہ اس کے علاوہ کی نفی کو لازم نہیں کرتا اور ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ غلہ میں بیع سلم جائز ہے اور سامان میں یہ بیع جائز نہیں ہے خریدار کے لیے فروخت کے سلسلہ میں غلہ میں زیادہ گنجائش پائی جاتی ہے کیونکہ اس میں بیع سلم کی اجازت ہے خواہ غلہ مسلم الیہ کے پاس موجود نہ ہو۔ مگر دیگر اشیاء میں یہ بیع جائز نہیں پس جب خریدو فروخت کے سلسلے میں غلہ میں زیادہ گنجائش ہے اور اس کا جواز بھی زیادہ ہے اور قبضہ کرنے سے پہلے اس کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں تو جن اشیاء میں بیع سلم جائز نہیں تو وہ اس بات کے زیادہ مناسب ہیں کہ قبضہ سے پہلے ان کا فروخت کرنا جائز نہ ہو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممانعت فرماتے ہوئے جس چیز کا ارادہ فرمایا وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے علاوہ اشیاء بھی اس نہی میں شامل ہوں اور اس کے تذکرے نے دوسری اشیاء کے تذکرہ سے بےنیاز کردیا تو یہی چیز اس کی نہی کے قائم مقام ہوجائے گی اگر تمام اشیاء مراد لی جائیں اور اگر ممانعت سے غلہ کے علاوہ کا قصد فرماتے تو سننے والے پر غلہ کا حکم مشتبہ ہوجاتا اور اس کو معلوم نہ ہوسکتا کہ کیا اس کا حکم بھی یہی ہے یا دیگر۔ کیونکہ یہ بات تو اس کے سامنے ہے کہ غلے میں بیع سلم جائز ہے حالانکہ وہ اس وقت موجود نہیں جب کہ سامان میں یہ جائز نہیں تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جس طرح بیع سلم کے جوز میں غلہ دوسرے اسباب سے مختلف ہے حالانکہ وہ مسلم الیہ کے پاس موجود نہیں۔ جبکہ یہ سامان کا حکم نہیں تو اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ باقی سامان کے برعکس غلہ کو قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کرنا جائز ہو۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جس کی خاطر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبضہ سے پہلے فروخت کرنے کی ممانعت میں صرف غلے کا ارادہ فرمایا۔ وہ مفہوم جس کی بناء پر مشتری کے لیے غلے کی فروخت قبضے سے قبل حرام قرار پائی وہ یہ ہے اس کو اس چیز کا نفع لینا مناسب نہیں جو دوسروں کی ضمان میں ہو پھر جب اس نے قبضہ کرلیا تو یہ چیز اس کی اپنی ضمان میں چلی گئی پس نفع لینا اس کے لیے مناسب ہوا پس وہ جہاں سینگ سمائیں فروخت کر دے۔ تو ہر فروخت ہونے والے سامان میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی خریدار کے لیے قبضہ سے پہلے نفع لینا حلال نہیں ہے۔ کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت تک نفع لینے سے روک دیا جب تک کہ وہ چیز اپنی ضمان میں نہ آجائے تو جس طرح اس میں غلہ اور اس کے علاوہ سامان داخل ہے اور کسی کے لیے بھی ضمان حاصل کرنے سے پہلے نفع لینا جائز نہیں کیونکہ یہ نفع ممنوع ہے تو اس طرح وہ تمام اشیاء جنہیں فروخت کیا جاسکے اگر قبل الضمان ان کا نفع لینا حلال ہے تو ان کا فروخت کرنا بھی جائز ہے اور اگر بائع پر اس کا نفع حرام ہے تو اس کا فروخت کرنا بھی حرام ہوگا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ اور روایات بھی مراد ہیں جن میں آپ نے قبضہ سے پہلے کسی چیز کی فروخت سے منع فرمایا ہے اور ان میں آپ نے غلے اور اس کے علاوہ کا قصد نہیں فرمایا۔ (بلکہ حکم عام ہے) روایات عبداللہ بن عصمہ (رض) ملاحظہ ہو۔

5518

۵۵۱۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ حَازِمٍ ، عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ ، قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ أَنَّ یَعْلَی بْنَ حَکِیْمٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ یُوْسُفَ بْنَ مَاہَکَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عِصْمَۃَ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ حَکِیْمَ بْنَ حِزَامٍ أَخْبَرَہٗ قَالَ : أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِیْ فَقَالَ اِذَا ابْتَعْتَ شَیْئًا ، فَلَا تَبِعْہُ حَتّٰی تَقْبِضَہٗ۔
٥٥١٧: یوسف بن ماھک نے حضرت عبداللہ بن عصمہ (رح) سے روایت کی کہ حضرت حکیم بن حزام (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا جب تم کوئی چیز خریدو تو قبضہ کرنے سے پہلے فروخت نہ کرو۔
تخریج : روایت ٥٥١٣ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5519

۵۵۱۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی ابْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَعْلَی بْنُ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ أَنَّ أَبَاہُ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنِّیْ أَشْتَرٰی بُیُوْعًا فَمَا یَحِلُّ لِیْ مِنْہَا ؟ .قَالَ : اِذَا اشْتَرَیْتَ بَیْعًا ، فَلَا تَبِعْہُ حَتّٰی تَقْبِضَہٗ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَبِہٰذَا نَأْخُذُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .غَیْرَ أَنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ قَالَ : لَا بَأْسَ بِبَیْعِ الدُّوْرِ وَالْأَرْضِیْنَ ، قَبْلَ قَبْضِ مُشْتَرِیْہَا اِیَّاہَا ، لِأَنَّہَا لَا تُنْقَلُ وَلَا تُحَوَّلُ ، وَسَائِرُ الْبَیْعَاتِ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ .وَالنَّظْرُ فِیْ ہٰذَا - عِنْدَنَا - أَنْ یَکُوْنَ الْعُرُوْض وَسَائِرُ الْأَشْیَائِ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا فِی الطَّعَامِ .
٥٥١٨: یعلیٰ بن حکیم نے حکیم بن حزام (رض) سے روایت کی کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا میں کئی سودے کرتا ہوں ان میں سے میرے لیے کیا کیا حلال ہے تو آپ نے فرمایا جب تم کوئی سودا لو تو قبضہ سے پہلے فروخت نہ کرو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ہم اسی بات کو اختیار کرتے ہیں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ مکانات اور اراضی کو خریدنے والا قبضہ سے پہلے فروخت کرسکتا ہے کیونکہ وہ غیر منقول ہیں اور اپنی جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوسکتیں جبکہ دیگر اشیاء کا یہ حال نہیں ہے۔ مگر ہمارے ہاں قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ سامان اور دیگر تمام اشیاء برابر ہیں جیسا کہ ہم نے غلہ کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔

5520

۵۵۱۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ کَانَ یَسِیْرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰیْ جَمَلٍ لَہٗ فَأَعْیَاہٗ، فَأَدْرَکَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا شَأْنُک یَا جَابِرُ ؟ فَقَالَ : أُعْیِیَ نَاضِحِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ أَمَعَک شَیْء ٌ ؟ فَأَعْطَاہُ قَضِیْبًا أَوْ عُوْدًا ، فَنَخَسَہُ بِہٖ ، أَوْ قَالَ ضَرَبَہٗ، فَسَارَ سَیْرَۃً لَمْ یَکُنْ یَسِیْرُ مِثْلَہَا .فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعْنِیْہِ بِأُوْقِیَّۃٍ قَالَ : قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہُوَ نَاضِحُک .قَالَ : فَبِعْتُہٗ بِأُوْقِیَّۃٍ ، وَاسْتَثْنَیْتُ حُمْلَانَہٗ، حَتّٰی أُقْدِمَ عَلٰی أَہْلِی ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَتَیْتُہٗ بِالْبَعِیْرِ فَقُلْتُ :ہَذَا بَعِیْرُک یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَعَلَّک تَرَی أَنِّیْ اِنَّمَا حَبَسْتُکَ، لِأَذْہَبَ بِبَعِیْرِکَ، یَا بِلَالُ ، أَعْطِہِ مِنَ الْعَیْبَۃِ أُوْقِیَّۃً وَقَالَ انْطَلِقْ بِبَعِیْرِکَ، فَہُمَا لَک .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا بَاعَ مِنْ رَجُلٍ دَابَّۃً ، بِثَمَنٍ مَعْلُوْمٍ ، عَلٰی أَنْ یَرْکَبَہَا الْبَائِعُ اِلَی مَوْضِعٍ مَعْلُوْمٍ ، أَنَّ الْبَیْعَ جَائِزٌ ، وَالشَّرْطَ جَائِزٌ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ جَابِرٍ ہَذَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، ثُمَّ افْتَرَقَ الْمُخَالِفُوْنَ لَہُمْ عَلَی فِرْقَتَیْنِ ، فَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : الْبَیْعُ جَائِزٌ ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ .وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : الْبَیْعُ فَاسِدٌ ، وَسَنُبَیِّنُ مَا ذَہَبَتْ اِلَیْہِ الْفِرْقَتَانِ جَمِیْعًا ، فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِہَاتَیْنِ الْفِرْقَتَیْنِ جَمِیْعًا ، عَلَی الْفِرْقَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، أَنَّ فِیْہِ مَعْنَیَیْنِ ، یَدُلَّانِ أَنْ لَا حُجَّۃَ لَہُمْ فِیْہِ .فَأَمَّا أَحَدُ الْمَعْنَیَیْنِ ، فَاِنَّ مُسَاوَمَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، اِنَّمَا کَانَتْ عَلَی الْبَعِیْرِ ، وَلَمْ یَشْتَرِطْ فِیْ ذٰلِکَ لِجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رُکُوْبًا ، قَالَ جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَبِعْتُہٗ وَاسْتَثْنَیْتُ حُمْلَانَہُ اِلٰی أَہْلِی .فَوَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْبَیْعَ اِنَّمَا کَانَ عَلٰی مَا کَانَتْ عَلَیْہِ الْمُسَاوَمَۃُ ، مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ کَانَ الْاِسْتِثْنَائُ لِلرُّکُوْبِ مِنْ بَعْدُ ، فَکَانَ ذٰلِکَ الْاِسْتِثْنَائُ مَفْصُوْلًا مِنَ الْبَیْعِ ، لِأَنَّہٗ اِنَّمَا کَانَ بَعْدَہٗ، فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ تَدُلُّنَا کَیْفَ حُکْمُ الْبَیْعِ ، لَوْ کَانَ ذٰلِکَ الْاِسْتِثْنَائُ مَشْرُوْطًا فِیْ عُقْدَتِہٖ، ہَلْ ہُوَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا ؟ وَأَمَّا الْحُجَّۃُ الْأُخْرَی ، فَاِنَّ جَابِرًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْبَعِیْرِ ، فَقُلْتُ :ہَذَا بَعِیْرُک یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .قَالَ لَعَلَّک تَرَی أَنِّیْ اِنَّمَا حَبَسْتُک لِأَذْہَبَ بِبَعِیْرِکَ، یَا بِلَالُ أَعْطِہِ أُوْقِیَّۃً ، وَخُذْ بَعِیْرَک .فَہُمَا لَک فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ الْأَوَّلَ ، لَمْ یَکُنْ عَلَی التَّبَایُعِ .فَلَوْ ثَبَتَ أَنَّ الِاشْتِرَاطَ لِلرُّکُوْبِ ، کَانَ فِیْ أَصْلِہِ بَعْدَ ثُبُوْتِ ہٰذِہِ الْعِلَّۃِ ، لَمْ یَکُنْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ ، لِأَنَّ الْمُشْتَرَطَ فِیْہِ ذٰلِکَ الشَّرْطُ ، لَمْ یَکُنْ بَیْعًا .وَلِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یَکُنْ مَلَکَ الْبَعِیْرَ عَلٰیْ جَابِرٍ ، فَکَانَ اشْتِرَاطُ جَابِرٍ لِلرُّکُوْبِ ، اشْتِرَاطًا فِیْمَا ہُوَ لَہُ مَالِکٌ .فَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی حُکْمِ ذٰلِکَ الشَّرْطِ ، لَوْ وَقَعَ فِیْ بَیْعٍ یُوْجِبُ الْمِلْکَ لِلْمُشْتَرِیْ کَیْفَ کَانَ حُکْمُہٗ؟ وَذَہَبَ الَّذِیْنَ أَبْطَلُوْا الشَّرْطَ فِیْ ذٰلِکَ ، وَجَوَّزُوْا الْبَیْعَ اِلَیْ حَدِیْثِ بَرِیْرَۃَ .
٥٥١٩: شعبی نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ایک اونٹ پر سفر کررہا تھا سفر نے اونٹ کو تھکا دیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ کر ملے اور فرمایا اے جابر ! کیا معاملہ ہے ؟ میں نے کہا میرا اونٹ چلنے سے رہ گیا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے میں نے آپ کو ایک کھجور کی شاخ تھمائی تو آپ نے اس اونٹ کو کچوکا دیا یا وہ چھڑی ماری تو وہ اونٹ اس تیزی سے چلنے لگا آج تک کبھی ایسا نہ چلا ہوگا۔ فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : حضرت جابر (رض) کی پیش کردہ روایت میں دو ایسی باتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس میں فریق اوّل کی دلیل ندارد ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے جب کوئی آدمی دوسرے کو مقرر ثمن کے بدلے کوئی چیز فروخت کر دے اور شرط یہ لگائے کہ وہ فلاں جگہ تک اس پر سواری کرے گا یہ بیع جائز ہے اور شرط بھی درست ہے اس کی دلیل یہ روایت جابر (رض) ہے۔ دوسروں نے کہا اس کے علماء دو جماعتوں میں بٹ گے
نمبر ١ بیع درست شرط باطل ہو۔
نمبر ٢ بیع فاسد ہوگی ان دونوں جماعتوں کے مؤقف کی عنقریب وضاحت کریں گے۔ حضرت جابر (رض) کی پیش کردہ روایت میں دو ایسی باتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس میں فریق اوّل کی دلیل ندارد ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت جابر (رض) سے نرخ مقرر فرمانا صرف اونٹ کے لیے تھا اور اس میں سواری کی کوئی شرط نہ تھی حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس کو فروخت کیا اور اپنے گھر آنے تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کیا تو روایت کا مطلب یہ ہوا کہ سودا تو صرف اونٹ کا ہوا اسی کا نرخ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اوقیہ چاندی مقرر فرمائی۔ سواری کا ستثناء بعد میں ہوا۔ پس یہ استثناء بیع سے الگ ہے کیونکہ وہ سودے کے بعد ہوا اس روایت میں بیع کے وقت استثناء کی شرط اور اس کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ منورہ آیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ اپنا اونٹ لے لیں تو آپ نے فرمایا شاید تمہارا خیال ہو کہ میں نے تمہیں اونٹ حاصل کرنے کے لیے روکا۔ اے بلال ایک اوقیہ چاندی دے دو اور اے جابر (رض) آپ اپنا ونٹ بھی لے جائیں یہ دونوں تمہارے ہیں۔ اس میں اس بات کی ظاہر دلالت ہے کہ پہلا قول سودے سے متعلق ہی نہ تھا اگر اس علت کے ثبوت کے بعد سواری کی شرط ثابت بھی ہوجائے کہ وہ اصل بیع میں تھی تو پھر بھی یہ حدیث فریق اوّل کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ جس میں یہ شرط ہو وہ سرے سے بیع ہی نہیں (کہ بیع کا اس پر حکم لگے) جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جابر (رض) کی طرف سے اونٹ کے مالک ہی نہیں بنے تو اب جابر (رض) کا سواری کی شرط لگانا اپنے اپنی سواری سے متعلق تھا۔ بالفرض اگر یہ شرط اس بیع میں واقع ہو جس سے خریدنے والے کے لیے ملک ثابت ہوجاتی ہے تو اس کے حکم پر بھی اس روایت میں کوئی دلالت نہیں پائی جاتی۔ جو حضرات بیع کو درست قرار دیتے ہیں مگر شرط کو خلاف عقد ہونے کی وجہ سے باطل کہتے ہیں ان کی دلیل روایت بریرہ (رض) ہے۔ روایت بریرہ ملاحظہ ہو۔

5521

۵۵۲۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عَائِشَۃَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِیَ بَرِیْرَۃَ فَتُعْتِقَہَا ، فَقَالَ لَہَا أَہْلُہَا نَبِیْعُکِہَا - عَلٰی أَنَّ وَلَائَ ہَا لَنَا .فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ ۔
٥٥٢٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت بریرہ (رض) کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کے گھر والوں نے کہا ہم اس شرط پر اس کو فروخت کرتے ہیں کہ اس کی ولاء ہمارے لیے ہوگی امّ المؤمنین (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یس مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا تمہارے لیے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اس کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٧٠‘ والشروط باب ٣؍١٠‘ والاطعمہ باب ٣١‘ والفرائض باب ١٩؍٢٠‘ والطلاق باب ١٤‘ والکفارات باب ٨‘ والنکاح باب ١٨‘ مسلم فی العتق ٥؍٦‘ ابو داؤد فی الفرائض باب ١٢‘ والعتاق باب ٣‘ ترمذی فی الفرائض باب ٢٠‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٩‘ والبیوع باب ٧٥؍٧٦‘ دارمی فی الطلاق باب ١٥‘ مسند احمد ١؍٢٨١‘ ٢؍٢٨‘ ٦‘ ٣٣؍٩٦۔

5522

۵۵۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ بَرِیْرَۃَ جَائَ تْ تَسْتَعِیْنُ عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ : اِنْ أَحَبَّ أَہْلُک أَنْ أَصُبَّ لَہُمْ ثَمَنَک صَبَّۃً وَاحِدَۃً وَأُعْتِقَکَ، فَعَلْتَ .فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ بَرِیْرَۃُ لِأَہْلِہَا ، فَقَالُوْا : لَا ، اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ وَلَاؤُک لَنَا .قَالَ مَالِکٌ : قَالَ یَحْیَی : فَزَعَمَتْ عَمْرَۃُ أَنَّ عَائِشَۃَ ذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَرِیْہَا ، فَأَعْتِقِیْھَا ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .
٥٥٢١: عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) سے روایت ہے کہ بریرہ (رض) حضرت عائشہ (رض) سے معاونت لینے آئیں تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اگر تمہارے مالک پسند کریں تو میں ان کو یکمشت رقم دے دوں اور تمہیں آزاد کر دوں۔ بریرہ (رض) نے یہ بات اپنے مالکوں کو ذکر کی تو انھوں نے کہا ہم اس شرط پر کرنے کو تیار ہیں کہ تمہاری ولاء ہمیں ملے۔ مالک کہتے ہیں کہ یحییٰ نے بتلایا کہ عمرہ کا خیال یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ذکر کی تو آپ نے ان کو خرید کر آزاد کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا ولاء تو آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔

5523

۵۵۲۲: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِیَ بَرِیْرَۃَ فَتُعْتِقَہَا ، فَاشْتَرَطَ مَوَالِیْہَا وَلَائَ ہَا .فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَرِیْہَا فَأَعْتِقِیْھَا ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .
٥٥٢٢: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے مالکوں نے ولاء کے حصول کی شرط لگائی حضرت عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا اس کو خرید کر آزاد کر دو ولاء کو آزاد کنندہ کو ملتا ہے۔

5524

۵۵۲۳: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ .عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ أَہْلَ بَیْتِ بَرِیْرَۃَ أَرَادُوْا أَنْ یَبِیْعُوْہَا وَیَشْتَرِطُوا الْوَلَائَ .فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَرِیْہَا فَأَعْتِقِیْھَا ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .
٥٥٢٣: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ بریرہ کے گھر والوں نے فروخت کا ارادہ کیا اور ولاء کی شرط لگائی تو انھوں نے یہ بات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذکر کی تو آپ نے فرمایا اس کو خرید کر آزاد کر دو ۔ ولاء تو آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔

5525

۵۵۲۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ بَرِیْرَۃَ جَائَ تْ تَسْتَعِیْنُہَا فِیْ کِتَابَتِہَا فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : اِنْ شَائَ أَہْلُکِ اشْتَرَیْتُکِ، وَنَقَدْتہمْ ثَمَنَک صَبَّۃً وَاحِدَۃً .فَذَہَبَتْ اِلٰی أَہْلِہَا ، فَقَالَتْ لَہُمْ ذٰلِکَ ، فَأَبَوْا اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَائُ لَہُمْ .فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَرِیْہَا ، وَلَا یَضُرُّکِ مَا قَالُوْا ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .قَالُوْا : فَلَمَّا کَانَ أَہْلُ بَرِیْرَۃَ أَرَادُوْا بَیْعَہَا عَلٰی أَنْ تُعْتَقَ ، وَیَکُوْنَ وَلَاؤُہَا لَہُمْ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : لَا یَضُرُّکَ ذٰلِکَ ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰکَذَا الشُّرُوْطُ کُلُّہَا ، الَّتِیْ تُشْتَرَطُ فِی الْبُیُوْعِ ، وَأَنَّہَا تَبْطُلُ ، وَتَثْبُتُ الْبُیُوْعُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ أَنَّ ہٰذِہِ الْآثَارَ ہٰکَذَا رُوِیَتْ أَنَّہَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِیَہَا فَتُعْتِقَہَا ، فَأَبَی أَہْلُہَا اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ وَلَاؤُہَا لَہُمْ .وَقَدْ رَوَاہَا آخَرُوْنَ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ .
٥٥٢٤: قاسم بن محمد نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی کہ بریرہ (رض) ان کی خدمت میں بدل کتابت میں معاونت کے لیے آئیں تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اگر تمہارے مالک چاہیں تو تمہیں نقد رقم یکمشت دے کر خرید لوں وہ اپنے مالکوں کے پاس گئیں اور ان کو یہ بات بتلائی تو انھوں نے ولاء کی شرط سے اس بات کو تسلیم کرنے کی بات رکھی حضرت عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا اسے خرید لو ان کی شرط تمہیں نقصان نہ دے گی اس لیے کہ ولاء تو آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔ جب حضرت بریرہ (رض) کے گھر والوں نے انھیں اس شرط پر فروخت کا ارادہ ظاہر کیا کہ ولاء ان کو ملے اور ان کو آزاد کیا جائے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا تمہارے لیے یہ بات مضر نہیں ہے۔ بلاشبہ ولاء تو آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے تو یہ اس بات کی دلالت ہے کہ بیع میں اس قسم کی شروط (جو خلاف عقد ہوں) وہ باطل ہوتی ہیں گویا یہ روایات فریق اوّل کے خلاف تب دلیل بن سکتی ہے جبکہ یہ آثار اسی طرح مروی ہوں کہ حضرت عائشہ (رض) نے خرید کر بریرہ (رض) کو آزاد کرنا چاہا اس کے مالکوں نے اس شرط پر فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ ولاء ان کو ملے۔ دوسرے فریق کا مؤقف یہ ہے کہ یہ شرط سرے سے باطل ہے انھوں نے اس روایت کو مندرجہ ذیل طرق سے روایت کیا ہے۔

5526

۵۵۲۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ رِجَالٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ ، مِنْہُمْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ ، وَاللَّیْثُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، حَدَّثَہُمْ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : جَائَ تْ بَرِیْرَۃُ اِلَیَّ ، فَقَالَتْ : یَا عَائِشَۃُ ، اِنِّیْ قَدْ کَاتَبْتُ أَہْلِیْ عَلَی تِسْعِ أَوَاقٍ ، فِیْ کُلِّ عَامٍ أُوْقِیَّۃٌ ، فَأَعِیْنِیْنِیْ، وَلَمْ تَکُنْ قَضَتْ مِنْ کِتَابَتِہَا شَیْئًا .فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ : ارْجِعِیْ اِلٰی أَہْلِکَ، فَاِنْ أَحَبُّوْا أَنْ أُعْطِیَہُمْ ذٰلِکَ جَمِیْعًا ، وَیَکُوْنَ وَلَاؤُک لِیْ فَعَلْتَ .فَذَہَبَتْ اِلٰی أَہْلِہَا ، فَعَرَضَتْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ ، فَأَبَوْا وَقَالُوْا : اِنْ شَائَ تْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَیْکَ فَلْتَفْعَلْ ، وَیَکُوْنَ وَلَاؤُک لَنَا .فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ مِنْہَا ابْتَاعِی وَأَعْتِقِی ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .وَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنَیْ عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، فَمَا بَالُ نَاسٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ، فَہُوَ بَاطِلٌ ، وَاِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ ، قَضَائُ اللّٰہِ أَحَقُّ ، وَشَرْطُ اللّٰہِ أَوْثَقُ ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ غَیْرُ مَا فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ، وَذٰلِکَ أَنَّ فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ، أَنَّ أَہْلَ بَرِیْرَۃَ ، أَرَادُوْا أَنْ یَبِیْعُوْہَا عَلٰی أَنْ تُعْتِقَہَا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، وَیَکُوْنَ وَلَاؤُہَا لَہُمْ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ ، اشْتَرِیْہَا فَأَعْتِقِیْھَا ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .فَکَانَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِبَاحَۃُ الْبَیْعِ ، عَلٰی أَنْ یُعْتِقَ الْمُشْتَرِی ، وَعَلٰی أَنْ یَکُوْنَ وَلَائُ الْمُعْتَقِ لِلْبَائِعِ ، فَاِذَا وَقَعَ ذٰلِکَ ، ثَبَتَ الْبَیْعُ ، وَبَطَلَ الشَّرْطُ ، وَکَانَ الْوَلَائُ لِلْمُعْتِقِ .وَفِیْ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَہَا : اِنْ أَحَبَّ أَہْلُک أَنْ أُعْطِیَہُمْ ذٰلِکَ تُرِیْدُ الْکِتَابَۃَ صَبَّۃً وَاحِدَۃً فَعَلْتُ ، وَیَکُوْنَ وَلَاؤُک لِی .فَلَمَّا عَرَضَتْ عَلَیْہِمْ بَرِیْرَۃُ ذٰلِکَ قَالُوْا : اِنْ شَائَ تْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَیْکَ فَلْتَفْعَلْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَا یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ مِنْہَا ، اشْتَرِیْہَا فَأَعْتِقِیْھَا ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .فَکَانَ الَّذِیْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مِمَّا کَانَ مِنْ أَہْلِ بَرِیْرَۃَ ، مِنْ اشْتِرَاطِ الْوَلَائِ ، لَیْسَ فِیْ بَیْعٍ ، وَلٰـکِنْ فِیْ أَدَائِ عَائِشَۃَ اِلَیْہِمُ الْکِتَابَۃَ عَنْ بَرِیْرَۃَ ، وَہُمْ تَوَلَّوْا عَقْدَ تِلْکَ الْکِتَابَۃِ ، وَلَمْ یَکُنْ تَقَدَّمَ ذٰلِکَ الْأَدَائُ مِنْ عَائِشَۃَ ، مِلْکٌ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ عَائِشَۃُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ مِنْہَا أَیْ : لَا تَرْجِعِیْنَ لِہٰذَا الْمَعْنَی ، عَمَّا کُنْتُ نَوَیْتُ فِیْ عَتَاقِہَا مِنَ الثَّوَابِ اشْتَرِیْہَا فَأَعْتِقِیْھَا فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .فَکَانَ ذِکْرُ ذٰلِکَ الشِّرَائِ ہَاہُنَا ابْتِدَائً ، مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَیْسَ مِمَّا کَانَ قَبْلَ ذٰلِکَ ، بَیْنَ عَائِشَۃَ ، وَبَیْنَ أَہْلِ بَرِیْرَۃَ ، فِیْ شَیْئٍ .ثُمَّ کَانَ قَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَخَطَبَ فَقَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ، فَہُوَ بَاطِلٌ ، وَاِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ اِنْکَارًا مِنْہُ عَلَی عَائِشَۃَ ، فِیْ طَلَبِہَا وَلَائَ مَنْ تَوَلَّی غَیْرُہَا کِتَابَتَہَا بِحَقِّ مِلْکِہِ عَلَیْہَا ثُمَّ نَبَّہَہَا وَعَلَّمَہَا بِقَوْلِہٖ فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ أَیْ : أَنَّ الْمُکَاتَبَ اِذَا أُعْتِقَ بِأَدَائِ الْکِتَابَۃِ ، فَمُکَاتِبُہُ ہُوَ الَّذِی أَعْتَقَہٗ، فَوَلَاؤُہُ لَہٗ۔فَہٰذَا حَدِیْثٌ فِیْہِ، ضِدُّ مَا فِیْ غَیْرِہِ مِنَ الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ، وَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی اشْتِرَاطِ الْوَلَائِ فِی الْبَیْعِ کَیْفَ حُکْمُہٗ؟ ہَلْ یَجِبُ بِہٖ فَسَادُ الْبَیْعِ أَمْ لَا ؟ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ ہِشَامَ بْنَ عُرْوَۃَ ، قَدْ رَوَاہٗ عَنْ أَبِیْہِ، فَزَادَ فِیْہِ شَیْئًا .قُلْنَا لَہٗ : صَدَقْتُ ،
٥٥٢٥: عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت امّ المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ آئیں اور کہنے لگیں۔ اے عائشہ (رض) ! میں نے ٩ اوقیہ چاندی پر اپنے مالکوں سے مکاتبت کی ہے اور ہر سال ایک اوقیہ دینے کا وعدہ کیا ہے تم میری بدل کتابت میں معاونت کرو۔ اس وقت تک بدل کتابت میں سے کچھ بھی ادائیگی نہ کی تھی حضرت عائشہ (رض) نے بریرہ کو کہا اپنے مالکوں کو کہو اگر ان کو پسند ہو تو تمام بدل کتابت دے دوں اور تیری ولاء میرے لیے ہوگی۔ وہ اپنے مالکوں کے پاس گئیں اور یہ بات پیس کی تو انھوں نے کہا اگر وہ چاہتی ہیں کہ تم پر صدقہ کردیں تو کر ڈالیں مگر تمہاری ولاء تو ہماری ہی ہوگی پھر حضرت عائشہ (رض) نے اسی سلسلہ میں آپ سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا یہ چیز تمہارے لیے رکاوٹ نہیں بن سکے گی تو خرید کر آزاد کر دو ۔ ولاء تو آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت کا مضمون پہلی روایات کے خلاف ہے حضرت بریرہ کے مالکوں نے ان کو اس شرط پر فروخت کرنا چاہا کہ عائشہ (رض) اس کو آزاد کرے اور ولاء بھی ان کو ملے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شرط تمہارے لیے رکاوٹ نہ بننی چاہیے تم خرید کر آزاد کر دو ۔ ولاء تو آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے۔ یہ روایت بیع کی اباحت کو اس شرط کے ساتھ ثابت کر رہی ہے کہ مشتری اس کو آزاد کر دے اور معتق کا ولاء بھی بائع کو ملے جب یہ بات اس طرح ہوجائے تو بیع ثابت ہوجائے گی اور شرط باطل ہوجائے گی اور ولاء معتق کو ملے گی اور روایت عروہ عن عائشہ (رض) میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے بریرہ (رض) کو فرمایا اگر تمہارے مالک پسند کریں تو میں ان کو تمام بدل کتابت ایک مرتبہ دے دوں گی مگر ولاء میرے لیے ہوگی جب یہ بات بریرہ (رض) اپنے مالکوں کو پیش کی تو انھوں نے کہا اگر وہ ثواب کمانا چاہتی ہیں تو کر ڈالیں مگر ولاء ہماری ہوگی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے عائشہ (رض) یہ شرط تمہیں اس کی خریداری اور آزادی سے مانع نہ ہوجائے ولاء معتق کا ہوتا ہے۔ پس اس روایت میں یہ ہے کہ بریرہ (رض) نے مالکوں کی طرف سے ولاء کی شرط بیع میں تو نہیں تھی لیکن حضرت عائشہ (رض) کی طرف سے کتابت کی ادائیگی میں شرط تھی وہ عقد کتابت کے ذمہ دار تھے اور اس اداء سے پہلے حضرت عائشہ (رض) کو ملک حاصل نہ تھی۔ حضرت عائشہ (رض) نے یہ بات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی تو آپ نے فرمایا ان کی شرط تمہیں اس عمل سے مانع نہ بننی چاہیے تم جو عتاق سے ثواب کی نیت کرچکی ہو اس کو پورا کرو ولاء کو معتق کو ہی ملتا ہے اور یہ شراء کا تذکرہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور ابتداء فرمایا اس سے پہلے حضرت عائشہ (رض) اور بریرہ کے مالکوں میں تو اس کا نشان بھی نہیں ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ دینا مذکور ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا جو ایسی شرائط مقرر کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ ہر وہ شرط جو کتاب میں نہیں وہ باطل ہے خواہ ایسی سو شرائط ہوں۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) کے طلب ولاء والے مطالبے سے انکار فرمایا جو حق ملک کی وجہ سے مکاتبہ کے مالک تھے پھر ان کو بتلایا کہ ولاء تو خود معتق ہی کو ملتا ہے یعنی بدل کتابت کی ادائیگی سے جب مکاتب آزاد کرا دیا جائے تو اب اس کا مکاتب وہ معتق ہے اس لیے ولاء اس کی طرف جائے گی۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور اس میں بیع کے اندر ولاء کی شرط لگانے کا بالکل ذکر نہیں کہ اس سے بیع فاسد ہوجائے گی یا نہیں۔ اگر کوئی معترض کہے کہ ہشام بن عروہ نے اس رایت کو نقل کیا تو اس میں کچھ اضافہ کردیا۔ ہم کہیں گے تم نے سچ کہا۔
خطبہ نبوت : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ ایسی شرائط لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ ہر ایسی شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے خواہ سو شرائط ہوں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ برحق ہے اللہ تعالیٰ کی شرط مضبوط ہے۔ ولاء آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : اس روایت کا مضمون پہلی روایات کے خلاف ہے حضرت بریرہ کے مالکوں نے ان کو اس شرط پر فروخت کرنا چاہا کہ عائشہ (رض) اس کو آزاد کرے اور ولاء بھی ان کو ملے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شرط تمہارے لیے رکاوٹ نہ بننی چاہیے تم خرید کر آزاد کر دو ۔ ولاء تو آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے۔
سوال :: ہشام بن عروہ نے اس رایت کو نقل کیا تو اس میں کچھ اضافہ کردیا
جواب : تم نے بالکل درست کہا چنانچہ ان کی روایت یہ ہے۔

5527

۵۵۲۶: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : جَائَ تْنِیْ بَرِیْرَۃُ فَقَالَتْ : اِنِّیْ کَاتَبْتُ أَہْلِیْ عَلَی تِسْعِ أَوَاقٍ ، فِیْ کُلِّ عَامٍ أُوْقِیَّۃٌ ، فَأَعِیْنِیْنِی .فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ : اِنْ أَحَبَّ أَہْلُک أَنْ أَعُدَّہَا لَہُمْ ، عَدَدْتُہَا لَہُمْ ، وَیَکُوْنُ وَلَاؤُک لِی ، فَعَلْتَ .فَذَہَبَتْ بَرِیْرَۃُ اِلٰی أَہْلِہَا ، فَقَالَتْ لَہُمْ ذٰلِکَ ، فَأَبَوْا عَلَیْہَا .فَجَائَ تْ مِنْ عِنْدِ أَہْلِہَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فَقَالَتْ : اِنِّیْ قَدْ عَرَضْتُ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ فَأَبَوْا اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَائُ لَہُمْ .فَسَمِعَ بِذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہَا ، فَأَخْبَرَتْہُ عَائِشَۃُ فَقَالَ خُذِیْہَا وَاشْتَرِطِیْ ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ فَفَعَلَتْ عَائِشَۃُ ، ثُمَّ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ ، فَذَکَرَ مِثْلَ مَا فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ .
٥٥٢٦: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ بریرہ میرے ہاں آ کر کہنے لگیں میں نے اپنے مالکوں سے ٩ اوقیہ چاندی پر مکاتبت کرلی ہے اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہے تم میری مدد کرو۔ تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اگر تمہارے مالک پسند کریں کہ میں ان کو گن دوں تو میں گن دوں گی اور ولاء میرے لیے ہوگی بریرہ اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کو یہ بات بتلائی تو انھوں نے انکار کردیا۔ تو وہ مالکان کے ہاں سے ہو کر آئیں اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے وہ کہنے لگیں میں نے ان کو وہ بات پیش کی مگر انھوں نے انکار کردیا اور ولاء کی شرط لگائی تو اس بات کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا اور اس سے دریافت کیا تو عائشہ (رض) نے بات بتلائی تو آپ نے فرمایا تو اس کو خرید لو اور شرط لگا لو ولاء تو معتق کو ملتا ہے۔ تو عائشہ (رض) نے اسی طرح کیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا پھر زہری کی طرح روایت نقل کی ہے۔

5528

۵۵۲۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مِثْلُ مَا فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ الَّذِیْ کَانَ فِیْہِ الِاشْتِرَاطُ مِنْ أَہْلِ بَرِیْرَۃَ ، أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَائُ لَہُمْ وَاِبَائُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَائُ لَہَا ہُوَ أَدَائُ عَائِشَۃَ ، عَنْ بَرِیْرَۃَ الْکِتَابَۃَ .فَقَدْ اتَّفَقَ الزُّہْرِیُّ وَہِشَامٌ عَلَی ہٰذَا، وَخَالَفَا فِیْ ذٰلِکَ أَصْحَابَ الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ، وَزَادَ ہِشَامٌ عَلَی الزُّہْرِیِّ ، قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذِیْہَا وَاشْتَرِطِیْ ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ ہٰکَذَا فِیْ حَدِیْثِ ہِشَامٍ وَمَوْضِعُ ہٰذَا الْکَلَامِ فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ ابْتَاعِی وَأَعْتِقِی ، فَاِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ .فَفِیْ ہٰذَا اخْتَلَفَ ہِشَامٌ وَالزُّہْرِیُّ .فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ یُعْتَبَرُ فِیْ ہٰذَا ، ہُوَ الضَّبْطُ وَالْحِفْظُ ، فَیُؤْخَذُ بِمَا رَوَی أَہْلُہٗ، وَیَتْرُکُ مَا رَوَی الْآخَرُوْنَ ، فَاِنَّ مَا رَوَی الزُّہْرِیُّ أَوْلَی ، لِأَنَّہٗ أَتْقَنُ وَأَضْبَطُ وَأَحْفَظُ ، مِنْ ہِشَامٍ .وَاِنْ کَانَ الَّذِیْ یُعْتَبَرُ فِیْ ذٰلِکَ ، ہُوَ التَّأْوِیْلُ ، فَاِنَّ قَوْلَہُ خُذِیْہَا قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَعْنَاہُ : ابْتَاعِیْہَا ، کَمَا یَقُوْلُ الرَّجُلُ لِصَاحِبِہٖ بِکَمْ آخُذُ ہٰذَا الْعَبْدَ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ بِکَمْ أَبْتَاعُ ہٰذَا الْعَبْدَ ؟ .وَکَمَا یَقُوْلُ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ خُذْ ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفِ دِرْہَمٍ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ الْبَیْعَ .ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاشْتَرِطِیْ فَلَمْ یُبَیِّنْ مَا تَشْتَرِطُ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ وَاشْتَرِطِیْ مَا یُشْتَرَطُ فِی الْبِیَاعَاتِ الصِّحَاحِ فَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ ہِشَامٍ ہَذَا لَمَّا کَشَفَ مَعْنَاہٗ، خِلَافٌ لِشَیْئٍ مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ ، وَلَا بَیَانٌ فِیْہِمَا کَیْفَ حُکْمُ الْبَیْعِ اِذَا وَقَعَ فِیْہِ مِثْلُ ہٰذَا الشَّرْطِ ، ہَلْ یَکُوْنُ فَاسِدًا ، أَوْ ہَلْ یَکُوْنُ جَائِزًا ؟ وَأَمَّا مَا احْتَجَّ بِہٖ الَّذِیْنَ أَفْسَدُوْا الْبَیْعَ بِذَلک الشَّرْطِ فَمَا
٥٥٢٧: ابن وہب نے مالک سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں بھی زہری کی روایت کی طرح ہے کہ بریرہ کے مالکان کی طرف سے ولاء کی شرط تھی اور انکار حضرت عائشہ (رض) کی طرف سے تھا کہ ولاء میری ہوگی تو میں یعنی عائشہ (رض) ، بریرہ کی طرف سے بدل کتابت ادا کر دوں گی۔ اب زہری اور ہشام دونوں اس بات پر متفق ہیں اور حدیث اوّل کے روات اس کے خلاف ہیں البتہ زہری نے ہشام سے چند الفاظ زائد بیان کئے ہیں۔ کہ ” خذیہا واشترطی ‘ فانما الولاء لمن اعتق ‘ کذا فی روایۃ ہشام “ روایت زہری میں کلام کی جگہ تو یہ الفاظ ہیں ” ابتاعی واعتقی ‘ فانما الولاء لمن اعتق “ اس میں ہشام و زہری کا اختلاف ہے۔ اگر ضبط و اتقان کا لحاظ کیا جائے تو ہشام سے زہری کا مرتبہ بڑھ کر ہے پس اس کی روایت کو لیا جائے اور دوسری روایت چھوڑ دی جائے۔ اگر تاویل کو دیکھا جائے تو ” خذیہا “ کا معنی خریدنا ہے جیسا کہ کہتے ہیں ” بکم اخذ ہذا العبد ؟ “ اس سے مراد خریدنا ہوتا ہے۔ جیسا کہتے ہیں ” خذ ہذا العبد بالف درہم “ مراد بیع کرنا ہے۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اشترطی “ مگر شرط کی وضاحت نہیں۔ تو ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ جو صحیح بیوع میں شرط لگاتے ہیں وہ لگا لو۔ روایت ہشام میں اس کا معنی ظاہر کرنے والی کوئی بات نہیں اور حدیث زہری کے کوئی بات مخالف بھی نہیں اور ان دونوں روایتوں میں یہ مذکور نہیں کہ جب ایسی شرط لگا دی جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ بیع فاسد ہوگی یا جائز ہوگی۔

5529

۵۵۲۸: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعٍ وَسَلَفٍ ، وَعَنْ شَرْطَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ .
٥٥٢٨: عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض اور بیع سے اور بیع میں دو شرطوں سے منع فرمایا ہے۔
تخریج : بخاری فی اسلم باب ٧‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٥٥‘ نسائی فی البیوع باب ٦١؍٧١‘ دارمی فی البیوع باب ٢٦‘ مالک فی البیوع ٦٩‘ مسند احمد ٢‘ ١٧٥؍٢٠٥۔

5530

۵۵۲۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیْعٌ ، وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ .
٥٥٢٩: عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قرض اور بیع حلال نہیں اور دو شرطیں بیع میں درست نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٦٨‘ ترمذی فی البیوع باب ١٩‘ نسائی فی البیوع باب ٦٠؍٧٢‘ مسند احمد ٢؍١٧٩۔

5531

۵۵۳۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ، ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٥٣٠: سلیمان بن حرب نے حماد بن زید سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5532

۵۵۳۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٥٣١: محمد بن فضل نے حماد بن زید سے پھر انھوں نے اسی طرح اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

5533

۵۵۳۲: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرْطَیْنِ فِیْ بَیْعٍ ، وَعَنْ سَلَفٍ وَبَیْعٍ .
٥٥٣٢: عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع میں دو شرائط اور قرض اور بیع سے منع فرمایا ہے۔

5534

۵۵۳۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٥٣٣: عمرو بن شعیب عن ابیہ وعن جدہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5535

۵۵۳۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ بَیْعٍ وَسَلَفٍ .قَالُوْا : فَالْبَیْعُ فِیْ نَفْسِہِ شَرْطٌ ، فَاِذَا شُرِطَ فِیْہِ شَرْطٌ آخَرُ ، فَکَانَ ہَذَا شَرْطَیْنِ فِیْ بَیْعٍ ، فَہٰذَا ہُوَ الشَّرْطَانِ الْمَنْہِیُّ عَنْہُمَا عِنْدَہُمْ ، الْمَذْکُوْرَانِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَدْ خُوْلِفُوْا فِیْ ذٰلِکَ فَقِیْلَ : الشَّرْطَانِ فِی الْبَیْعِ، ہُوَ: أَنْ یَقَعَ الْبَیْعُ عَلٰی أَلْفِ دِرْہَمٍ حَال أَوْ عَلَی مِائَۃِ دِیْنَارٍ اِلَیْ سَنَۃٍ ، فَیَقَعُ الْبَیْعُ عَلٰی أَنْ یُعْطِیَہُ الْمُشْتَرِی أَیَّہُمَا شَائَ ، فَالْبَیْعُ فَاسِدٌ ، لِأَنَّہٗ وَقَعَ بِثَمَنٍ مَجْہُوْلٍ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، مِمَّا قَدْ رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٥٥٣٤: عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ نے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع اور ادھار سے منع فرمایا۔ بیع بذات خود شرط ہے جب اس پر دوسری شرط لگا دیں تو یہ سودے میں دو شرطیں ہوگئیں جن کی ممانعت مندرجہ بالا روایت میں ہے۔ دو شرائط کی مراد کیا ہے :
نمبر ١ بیع اور ایک اور شرط لگانا جیسا ابھی کہا گیا ہے۔
نمبر ٢ دو شرائط سے مراد یہ ہے کہ اگر نقد لو تو ایک ہزار درہم قیمت اور اگر تم ایک سال بعد دو تو ایک سو دینار قیمت ہے تو اس سے سودا اس بات پر ہوا کہ خریدنے وال اجو چاہے دے تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ قیمت مجہول ہے۔ اس کی تائید اقوال صحابہ کرام سے سے ہوتی ہے۔

5536

۵۵۳۵: أَنَّ مُبَشِّرَ بْنَ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلْمَۃَ قَالَ : سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، یُحَدِّثُ عَنْ زَیْنَبَ، اِمْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّہَا بَاعَتْ عَبْدَ اللّٰہِ جَارِیَۃً ، وَاشْتَرَطَتْ خِدْمَتَہَا .فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِعُمَرَ فَقَالَ لَا یَقْرَبَنَّہَا ، وَلَا أَجِدُ فِیْہَا مَثُوْبَۃً .
٥٥٣٥: محمد بن عمرو بن الحارث حضرت زینب زوجہ ابن مسعود (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے ابن مسعود کو ایک لونڈی فروخت کی اور اس کی خدمت کی شرط لگائی۔ جب یہ بات حضرت عمر (رض) کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا وہ ہرگز اس کے قریب نہ جائیں میں اس میں کوئی ثواب نہیں پاتا۔

5537

۵۵۳۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَا یَحِلُّ فَرْجٌ اِلَّا فَرْجٌ ، اِنْ شَائَ صَاحِبُہُ بَاعَہٗ، وَاِنْ شَائَ وَہَبَہٗ، وَاِنْ شَائَ أَمْسَکَہٗ، لَا شَرْطَ فِیْہِ .
٥٥٣٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ کوئی فرج حلال نہیں مگر ایک فرج ‘ اگر اس کا مالک چاہے تو فروخت کر دے اور اگر چاہے تو اس کو ہبہ کر دے اور اگر چاہے تو اس کو روک کر رکھے اس میں کوئی شرط نہ ہو۔

5538

۵۵۳۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا یُوْنُسُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ الْأَمَۃَ ، عَلٰی أَنْ لَا یَبِیْعَ وَلَا یَہَبَ .فَقَدْ أَبْطَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، بَیْعَ عَبْدِ اللّٰہِ، وَتَابَعَہُ عَبْدُ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَلَمْ یُخَالِفْہُ فِیْہِ .وَقَدْ کَانَ لَہُ خِلَافُہٗ، أَنْ لَوْ کَانَ یَرَی خِلَافَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ مَا کَانَ مِنْ عُمَرَ ، لَمْ یَکُنْ عَلَی جِہَۃِ الْحُکْمِ ، وَاِنَّمَا کَانَ عَلَی جِہَۃِ الْفُتْیَا .وَتَابَعَتْہُمَا زَیْنَبُ ، امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَلَہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صُحْبَۃٌ .وَتَابَعَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، وَقَدْ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا کَانَ مِنْ قَوْلِہٖ لِعَائِشَۃَ فِیْ أَمْرِ بَرِیْرَۃَ ، عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَعْنَاہٗ، کَانَ عِنْدَہٗ، عَلٰی خِلَافِ مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ الَّذِیْنَ احْتَجُّوْا بِحَدِیْثِہٖ، وَلَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَنْ ذَکَرْنَا ، ذَہَبَ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی غَیْرِ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ عُمَرُ ، وَمَنْ تَابَعَہُ عَلٰی ذٰلِکَ ، مِمَّنْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ .فَکَانَ یَنْبَغِی أَنْ یَجْعَلَ ہَذَا أَصْلًا وَاِجْمَاعًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ ، وَلَا یُخَالِفُ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ، أَنَّ شُرُوْطًا صِحَاحًا ، قَدْ تُعْقَدُ فِی الشَّیْئِ الْمَبِیْعِ ، مِثْلُ الْخِیَارِ اِلٰی أَجَلٍ مَعْلُوْمٍ ، لِلْبَائِعِ وَلِلْمُبْتَاعِ ، فَیَکُوْنُ الْبَیْعُ عَلٰی ذٰلِکَ جَائِزًا .وَکَذٰلِکَ الْأَثْمَانُ ، قَدْ تُعْقَدُ فِیْہَا آجَالٌ یَشْتَرِطُہَا الْمُبْتَاعُ ، فَتَکُوْنُ لَازِمَۃً اِذَا کَانَتْ مَعْلُوْمَۃً وَیَکُوْنُ الْبَیْعُ بِہَا مُضَمَّنًا .وَرَأَیْنَا ذٰلِکَ الْأَجَلَ ، لَوْ کَانَ فَاسِدًا ، فَسَدَ بِفَسَادِہِ الْبَیْعُ ، وَلَمْ یَثْبُتِ الْبَیْعُ ، وَیَنْتَفِیْ ہُوَ اِذَا کَانَ مَعْقُوْدًا فِیْہِ .فَلَمَّا جُعِلَ الْبَیْعُ مُضَمَّنًا بِہٰذِہِ الشَّرَائِطِ الْمَشْرُوْطَۃِ فِیْ ثَمَنِہٖ، فِیْ صِحَّتِہَا وَفَسَادِہَا ، فَجُعِلَ جَائِزًا بِجَوَازِہَا ، وَفَاسِدًا بِفَسَادِہَا ، ثُمَّ کَانَ الْبَیْعُ اِذَا وَقَعَ عَلَی الْمَبِیْعِ ، وَکَانَ عَبْدًا ، عَلٰی أَنْ یَخْدُمَ الْبَائِعَ شَہْرًا ، فَقَدْ مَلَّکَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِیَ عَبْدَہُ عَلٰی أَنْ مَلَّکَہُ الْمُشْتَرِی أَلْفَ دِرْہَمٍ وَخِدْمَۃَ الْعَبْدِ شَہْرًا وَالْمُشْتَرِی حِیْنَئِذٍ ، غَیْرُ مَالِکٍ لِلْخِدْمَۃِ ، وَلَا لِلْعَبْدِ ، لِأَنَّ مِلْکَہُ لِلْعَبْدِ اِنَّمَا یَکُوْنُ بَعْدَ تَمَامِ الْبَیْعِ ، فَصَارَ الْبَیْعُ وَاقِعًا بِمَالٍ وَبِخِدْمَۃِ عَبْدٍ ، لَا یَمْلِکُہُ الْمُشْتَرِی فِیْ وَقْتِ ابْتِیَاعِہِ بِالْمَالِ ، وَبِخِدْمَتِہٖ، وَقَدْ رَأَیْنَاہُ لَوْ ابْتَاعَ عَبْدًا لِخِدْمَۃِ أَمَۃٍ ، لَا یَمْلِکُہَا ، کَانَ الْبَیْعُ فَاسِدًا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ الْبَیْعُ أَیْضًا کَذٰلِکَ اِذَا عَقَدَ لِخِدْمَۃِ مَنْ لَمْ یَکُنْ تَقَدَّمَ مِلْکُہُ لَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ الْعَقْدِ ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ نَہٰی عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک .وَلَمَّا کَانَتِ الْأَثْمَانُ مُضَمَّنَۃً بِالْآجَالِ الصَّحِیْحَۃِ وَالْفَاسِدَۃِ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا ، کَانَ کَذٰلِکَ ، الْأَشْیَائُ الْمَثْمُوْنَۃُ ، أَیْضًا الْمُضَمَّنَۃُ بِالشَّرَائِطِ الْفَاسِدَۃِ وَالصَّحِیْحَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْبَیْعَ ، لَوْ وَقَعَ وَاشْتُرِطَ فِیْہِ شَرْطٌ مَجْہُوْلٌ ، أَنَّ الْبَیْعَ یَفْسُدُ بِفَسَادِ ذٰلِکَ الشَّرْطِ عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَقَدِ انْتَفَی قَوْلُ مَنْ قَالَ یَجُوْزُ الْبَیْعُ وَیَبْطُلُ الشَّرْطُ وَقَوْلُ مَنْ قَالَ یَجُوْزُ الْبَیْعُ ، وَیَثْبُتُ الشَّرْطُ .وَلَمْ یَکُنْ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ قَوْلٌ غَیْرُ ہٰذَیْنِ الْقَوْلَیْنِ ، وَغَیْرُ الْقَوْلِ الْآخَرِ أَنَّ الْبَیْعَ یَبْطُلُ اِذَا اُشْتُرِطَ فِیْہِ مَا لَیْسَ مِنْہُ .فَلَمَّا انْتَفَی الْقَوْلَانِ الْأَوَّلَانِ ، ثَبَتَ ہٰذَا الْقَوْلُ الْآخَرُ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٥٣٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی کوئی لونڈی اس شرط پر خریدے کہ وہ نہ اس کو فروخت کرے گا اور نہ ہبہ کرے گا۔ حضرت عمر (رض) نے عبداللہ کی بیع کو باطل کردیا اور عبداللہ نے ان کی بات مان کر مخالفت نہیں کی اور وہ اس کی مخالفت کرسکتے تھے اگر ان کی رائے اس کے خلاف ہوتی کیونکہ عمر (رض) نے یہ بات بطور حکم نہیں فرمائی بلکہ بطور فتویٰ بات فرمائی اور پھر حضرت زینب (رض) نے ان کی اتباع کی اور وہ بھی صحابیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ابن عمر (رض) نے بھی ان کی اتباع کی ہے حالانکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد جو آپ نے حضرت عائشہ (رض) کو حضرت بریرہ (رض) کے سلسلہ میں فرمایا تھا ان کو معلوم تھا اور انہی کی روایت سے ہم نے باب میں ذکر کیا ہے۔ تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو اس حدیث سے استدلال کرنے والوں نے اپنایا ہے اور ان مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ کوئی ایسا صحابی ہمارے علم میں نہیں ہے جس نے اس سلسلہ میں حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے متبعین جن کا ان روایات میں ذکر ہوا کہ انھوں نے ان کے خلاف مذہب اختیار کیا ہو۔ فلہذا اس بات کو اصل اور صحابہ کرام کا اجماع قرار دیا جائے اور اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ روایات کے طریقہ سے اس باب کا بیان یہی ہے۔ اس اصل پر سب کا اتفاق ہے کہ فروخت کی جانے والی اشیاء میں صحیح شرائط رکھی جاتی ہیں مثلاً بائع یا مشتری کو ایک معلوم وقت تک خیار حاصل ہوتا ہے اس شرط پر بیع جائز ہوتی ہے اسی طرح قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے اور یہ خریدنے والے کی طرف سے شرط ہوتی ہے اور یہ لازم ہوجاتی ہے جبکہ معلوم ہو اور ان کے ساتھ بیع مشروط ہوجاتی ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ میعاد فاسدہو تو اس سے بیع بھی فاسد ہوجاتی ہے اور وہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نفی ہوتی ہے جبکہ اس کو عقد میں ذکر کیا جائے۔ تو جب سودے کی صحت و فساد قیمت میں رکھی جانے والی ان شرائط سے مشروط ہے تو ان کے جائز ہونے سے سودا جائز ہوگا اور ان کے فساد سے بیع بھی فاسد ہوگی پھر جب غلام کی بیع اس شرط پر کی جائے کہ وہ ایک ماہ فروخت کرنے والے کی خدمت کرے گا تو بلاشبہ بائع نے خرید والے کو اپنے غلام کا اس طرح مالک بنایا کہ وہ اسے ہزار درہم اور ایک مہینہ تک غلام کے اس کی خدمت کرنے کا مالک بنائے اور خریدنے والا اس وقت خدمت کا مالک نہیں اور نہ ہی غلام کا مالک ہے۔ کیونکہ اسے بیع کے مکمل ہونے کے بعد ملکیت حاصل ہوگی تو (اس طرح) یہ سودا مال اور غلام کے خدمت کرنے پر واقع ہوا اور مشتری مال اور خدمت کے بدلے اسے خریدنے وقت اس غلام کا مالک ہی نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ غلام کو اکسی ایسی لونڈی کی خدمت کے لیے خریدے۔ جس کا وہ مالک نہیں ہوا تو یہ بیع فاسد ہوتی ہے۔ تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا وہ اس عقد سے پہلے مالک نہیں ہوا اس کے خدمت کرنے کی شرط پر بیع کا حکم بھی یہی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کے سودے سے منع فرمایا۔ جو تمہارے پاس نہ ہو۔ تو جب قیمتیں صحیح اور فاسد میعاد کے ساتھ مشروط ہوجاتی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے تو اس طرح وہ اشیاء جن کی وہ قیمتیں ہیں وہ بھی شرائط فاسدہ اور صحیحہ کے ساتھ مشروط ہوں گی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر سودا اس طرح واقع ہو کہ اس میں مجہول شرط رکھی جائے اس کے فساد سے بیع فاسد ہوگی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ تو اس طرح ان لوگوں کے قول کی نفی ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط باطل ہوجائے گی اور جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط ثابت ہوگی اس باب میں ان دو قولوں اور اس قول کے سوا کوئی اور قول نہیں کہ جب بیع میں ایسی شرط لگائی جائے جو اس سے نہیں تو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے۔ پس دو قول باطل ہوگئے تو یہ تیسرا قول ثابت ہوگیا امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو اس حدیث سے استدلال کرنے والوں نے اپنایا ہے اور ان مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ کوئی ایسا صحابی ہمارے علم میں نہیں ہے جس نے اس سلسلہ میں حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے متبعین جن کا ان روایات میں ذکر ہوا کہ انھوں نے ان کے خلاف مذہب اختیار کیا ہو۔ فلہذا اس بات کو اصل اور صحابہ کرام کا اجماع قرار دیا جائے اور اس کی مخالفت نہ کی جائے۔
روایات کے طریقہ سے اس باب کا بیان یہی ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اس اصل پر سب کا اتفاق ہے کہ فروخت کی جانے والی اشیاء میں صحیح شرائط رکھی جاتی ہیں مثلاً بائع یا مشتری کو ایک معلوم وقت تک خیار حاصل ہوتا ہے اس شرط پر بیع جائز ہوتی ہے اسی طرح قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے اور یہ خریدنے والے کی طرف سے شرط ہوتی ہے اور یہ لازم ہوجاتی ہے جبکہ معلوم ہو اور ان کے ساتھ بیع مشروط ہوجاتی ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ میعاد فاسدہو تو اس سے بیع بھی فاسد ہوجاتی ہے اور وہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نفی ہوتی ہے جبکہ اس کو عقد میں ذکر کیا جائے۔
تو جب سودے کی صحت و فساد قیمت میں رکھی جانے والی ان شرائط سے مشروط ہے تو ان کے جائز ہونے سے سودا جائز ہوگا اور ان کے فساد سے بیع بھی فاسد ہوگی پھر جب غلام کی بیع اس شرط پر کی جائے کہ وہ ایک ماہ فروخت کرنے والے کی خدمت کرے گا تو بلاشبہ بائع نے خرید والے کو اپنے غلام کا اس طرح مالک بنایا کہ وہ اسے ہزار درہم اور ایک مہینہ تک غلام کے اس کی خدمت کرنے کا مالک بنائے اور خریدنے والا اس وقت خدمت کا مالک نہیں اور نہ ہی غلام کا مالک ہے۔ کیونکہ اسے بیع کے مکمل ہونے کے بعد ملکیت حاصل ہوگی تو (اس طرح) یہ سودا مال اور غلام کے خدمت کرنے پر واقع ہوا اور مشتری مال اور خدمت کے بدلے اسے خریدنے وقت اس غلام کا مالک ہی نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ غلام کو اکسی ایسی لونڈی کی خدمت کے لیے خریدے۔ جس کا وہ مالک نہیں ہوا تو یہ بیع فاسد ہوتی ہے۔
تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا وہ اس عقد سے پہلے مالک نہیں ہوا اس کی خدمت کرنے کی شرط پر بیع کا حکم بھی یہی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کے سودے سے منع فرمایا۔ جو تمہارے پاس نہ ہو۔
تو جب قیمتیں صحیح اور فاسد میعاد کے ساتھ مشروط ہوجاتی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے تو اس طرح وہ اشیاء جن کی وہ قیمتیں ہیں وہ بھی شرائط فاسدہ اور صحیحہ کے ساتھ مشروط ہوں گی۔
: پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر سودا اس طرح واقع ہو کہ اس میں مجہول شرط رکھی جائے اس کے فساد سے بیع فاسد ہوگی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ تو اس طرح ان لوگوں کے قول کی نفی ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط باطل ہوجائے گی اور جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط ثابت ہوگی اس باب میں ان دو قولوں اور اس قول کے سوا کوئی اور قول نہیں کہ جب بیع میں ایسی شرط لگائی جائے جو اس سے نہیں تو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے۔
پس دو قول باطل ہوگئے تو یہ تیسرا قول ثابت ہوگیا امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
حاصل کلام : امام طحاوی (رح) نے شرط فاسد سے بیع کے باطل ہونے کو ترجیح دی اور دلائل و نظر سے ثابت کیا۔

5539

۵۵۳۸: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا یَحِلُّ بَیْعُ بُیُوْتِ مَکَّۃَ وَلَا اِجَارَتُہَا .
٥٥٣٨: مجاہد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مکہ کے گھروں کی خریدو فروخت اور ان کو کرایہ پر دینا درست نہیں ہے۔

5540

۵۵۳۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ نَضْلَۃَ بِفَتْحِ وَسُکُوْنِ الْمُعْجَمَۃِ ، قَالَ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ ، وَرِبَاعُ مَکَّۃَ تُدْعَی السَّوَائِبَ مَنِ احْتَاجَ سَکَنَ ، وَمَنِ اسْتَغْنَی أَسْکَنَ .
٥٥٣٩: علقمہ بن نضلہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر ‘ عثمان (رض) کی وفات ہوگئی اور مکہ کی جگہوں کو سوائب کہا جاتا رہا جو ضرورت مند ہوتا وہ رہائش اختیار کرتا جو ضرورت مند نہ ہوتا وہ دوسرے کو ٹھہراتا۔
تخریج : ابن ماجہ فی المناسب باب ١٠٢۔
لغات : رباع جمع ربعہ۔ گھر ‘ مسکن۔ السوائب جمع سائبہ۔ جانور کو آزاد چھوڑنا کہ جہاں چاہیں آئیں جائیں۔

5541

۵۵۴۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِیْدٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ أَبِیْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ نَضْلَۃَ ، قَالَ : کَانَتْ الدُّوْرُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ ، مَا تُبَاعُ ، وَلَا تُکْرَی ، وَلَا تُدْعَیْ اِلَّا السَّوَائِبَ ، مَنْ احْتَاجَ سَکَنَ ، وَمَنِ اسْتَغْنَی أَسْکَنَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ بَیْعُ أَرْضِ مَکَّۃَ وَلَا اِجَارَتُہَا .وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَمُحَمَّدٌ ، وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَطَائٍ وَمُجَاہِدٍ .
٥٥٤٠: عثمان بن ابی سلیمان نے علقمہ بن نضلہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر ‘ عمرو عثمان (رض) کے زمانہ میں مکہ کے مکانات کو نہ فروخت کیا جاتا اور نہ کرایہ پر دیا جاتا۔ ان کو سوائب کہا جاتا تھا جو ضرورت مند ہوتا رہائش اختیار کرتا جس کو ضرورت نہ ہوتی وہ دوسرے کو ٹھہراتا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مکہ کی زمین کو فروخت کرنا اور کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کا قول ہے اور عطاء و مجاہد کا قول بھی یہی ہے۔

5542

۵۵۴۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا قُرَّۃُ بْنُ حَبِیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أُجُوْرَ بُیُوْتِ مَکَّۃَ .
٥٥٤١: عوام بن ھوشب نے عطاء بن ابی رباح کے متعلق نقل کیا کہ وہ مکہ کے مکانات کو کرایہ پر دینا مکروہ قرار دیتے تھے۔

5543

۵۵۴۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ ، قَالَ أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہٗ قَالَ : مَکَّۃُ مُبَاحٌ ، لَا یَحِلُّ بَیْعُ رِبَاعِہَا ، وَلَا اِجَارَۃُ بُیُوْتِہَا .وَخَالَفَہُمْ فِی ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِبَیْعِ أَرْضِہَا وَاِجَارَتِہَا ، وَجَعَلُوْہَا فِیْ ذٰلِکَ کَسَائِرِ الْبُلْدَانِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ ، أَبُوْ یُوْسُفَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٥٥٤٢: ابراہیم بن مہاجر نے مجاہد سے نقل کیا کہ وہ فرماتے مکہ مباح ہے اس کی زمین فروخت کرنا اور مکان کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ دوسروں نے کہا مکہ کی زمین کو فروخت کرنا اور کرایہ پر دینا جائز ہے جیسا کہ دوسرے شہروں کا حکم ہے یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے۔

5544

۵۵۴۳: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ حُسَیْنٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَہٗ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہٗ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَتَنْزِلُ فِیْ دَارِک بِمَکَّۃَ ؟ .فَقَالَ وَہَلْ تَرَکَ لَنَا عَقِیْلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُوْرٍ ؟ .وَکَانَ عَقِیْلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ ، ہُوَ وَطَالِبٌ ، وَلَمْ یَرِثْہُ جَعْفَرٌ ، وَلَا عَلِیٌّ ، لِأَنَّہُمَا کَانَ مُسْلِمَیْنِ ، وَکَانَ عَقِیْلٌ وَطَالِبٌ ، کَافِرَیْنِ .وَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ یَقُوْلُ لَا یَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْکَافِرَ .
٥٥٤٣: عمرو بن عثمان نے اسامہ بن زید (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مکہ میں اپنے گھر تشریف لے جائیں گے تو آپ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی رہائش اور مکان چھوڑا ہے۔ عقیل اور طالب ابو طالب کے وارث بنے جبکہ حضرت جعفر اور علی (رض) وارث نہیں ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل و طالب کافر تھے (بعد میں عقیل اسلام لائے) اسی لیے حضرت عمر (رض) فرماتے مؤمن کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٤٤‘ مسلم فی الحج ٤٣٩‘ ابن ماجہ فی الفرائض باب ٦۔

5545

۵۵۴۴: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ أَنَّ أَرْضَ مَکَّۃَ تُمْلَکُ ، وَتُوْرَثُ، لِأَنَّہٗ قَدْ ذَکَرَ فِیْہَا مِیْرَاثَ عَقِیْلٍ وَطَالِبٍ ، لَمَّا تَرَکَہُ أَبُو طَالِبٍ فِیْہَا مِنْ رِبَاعٍ وَدُوْرٍ ، فَہٰذَا خِلَافُ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .وَلَمَّا اخْتَلَفَا ، اُحْتِیجَ اِلَی النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ ، قَوْلًا صَحِیْحًا .وَلَوْ صَارَ اِلَی طَرِیْقِ اخْتِیَارِ الْأَسَانِیدِ ، وَصَرَفَ الْقَوْلَ اِلَی ذٰلِکَ ، لَکَانَ حَدِیْثُ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ أَصَحَّہُمَا اِسْنَادًا .وَلٰـکِنَّا نَحْتَاجُ اِلَیْ کَشْفِ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، الَّذِی کُلُّ النَّاسِ فِیْہِ سَوَائٌ، لَایَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَبْنِیَ فِیْہِ بِنَائً ، وَلَا یَحْتَجِرَ مِنْہُ مَوْضِعًا ، وَکَذٰلِکَ حُکْمُ جَمِیْعِ الْمَوَاضِعِ الَّتِیْ لَا یَقَعُ لِأَحَدٍ فِیْہَا مِلْکٌ ، وَجَمِیْعُ النَّاسِ فِیْہَا سَوَاء ٌ .أَلَا تَرَی أَنَّ عَرَفَۃَ لَوْ أَرَادَ رَجُلٌ أَنْ یَبْنِیَ فِی الْمَکَانِ الَّذِیْ یَقِفُ فِیْہِ النَّاسُ فِیْہَا بِنَائً لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ لَہٗ۔وَکَذٰلِکَ مِنًی لَوْ أَرَادَ أَنْ یَبْنِیَ فِیْہَا دَارًا ، کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مَمْنُوْعًا ، وَکَذٰلِکَ جَائَ الْأَثَرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٥٤٤: بحر بن نصر نے ابن وہب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ مکہ کی زمین کا مالک بنا جاسکتا ہے اور وراثت میں مل سکتی ہے کیونکہ اس میں عقیل و طالب کی وراثت کا اس جائداد کے متعلق تذکرہ ہے جو ابو طالب نے مرتے وقت چھوڑی اس میں زمین اور مکانات تھے یہ پہلی روایت کے مخالف ہے۔ جب اختلاف ہوا تو اب اس پر غور کی ضرورت ہے تاکہ صحیح ترین قول سامنے آجائے۔ اگر سند کو دیکھا جائے تو علی بن حسین والی روایت سند کے اعتبار سے مضبوط ہے۔ سوچ بچار سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام جس میں تمام لوگ برابر ہیں اس میں تعمیر کی کسی کو اجازت نہیں اور نہ ہی اس کے کسی حصے کو ممنوع قرار دینے کی اجازت ہے یہی حکم ان تمام مقامت کا ہے جن میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی اور ان میں تمام لوگ برابر ہوتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ میدان عرفات میں تمام لوگ وقوف کرتے ہیں کوئی شخص عمارت بنانا چاہے تو اس کو جائز نہیں اسی طرح اگر کوئی شخص منیٰ میں عمارت بنانا چاہے تو اس کو روکا جائے گا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایات وارد ہیں۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ مکہ کی زمین کا مالک بنا جاسکتا ہے اور وراثت میں مل سکتی ہے کیونکہ اس میں عقیل و طالب کی وراثت کا اس جائداد کے متعلق تذکرہ ہے جو ابو طالب نے مرتے وقت چھوڑی اس میں زمین اور مکانات تھے یہ پہلی روایت کے مخالف ہے۔
محاکمہ :
جب اختلاف ہوا تو اب اس پر غور کی ضرورت ہے تاکہ صحیح ترین قول سامنے آجائے۔

نمبر 1: اگر سند کو دیکھا جائے تو علی بن حسین والی روایت سند کے اعتبار سے مضبوط ہے۔

نمبر 2: سوچ بچار سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام جس میں تمام لوگ برابر ہیں اس میں تعمیر کی کسی کو اجازت نہیں اور نہ ہی اس کے کسی حصے کو ممنوع قرار دینے کی اجازت ہے یہی حکم ان تمام مقامات کا ہے جن میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی اور ان میں تمام لوگ برابر ہوتے ہیں۔
ذرا غور کریں کہ میدان عرفات میں تمام لوگ وقوف کرتے ہیں کوئی شخص عمارت بنانا چاہے تو اس کو جائز نہیں اسی طرح اگر کوئی شخص منیٰ میں عمارت بنانا چاہے تو اس کو روکا جائے گا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایات وارد ہیں۔

5546

۵۵۴۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مَرْوَانَ الضَّرِیْرُ الْکُوْفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَاہَکَ ، عَنْ أُمِّہٖ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قُلْتُ ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَلَا نَتَّخِذُ لَک بِ مِنًی شَیْئًا تَسْتَظِلُّ بِہٖ ؟ .فَقَالَ : یَا عَائِشَۃُ ، اِنَّہَا مُنَاخٌ لِمَنْ سَبَقَ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَأْذَنْ لَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوْا لَہُ فِیْہَا شَیْئًا یَسْتَظِلُّ بِہٖ ، لِأَنَّہَا مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ ، وَلِأَنَّ النَّاسَ کُلَّہُمْ فِیْہَا سَوَاء ٌ .
٥٥٤٥: یوسف بن ماھک نے اپنی والدہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم منیٰ میں آپ کے لیے کوئی چیز نہ بنادیں جس سے آپ سایہ حاصل کریں آپ نے فرمایا اے عائشہ ! وہ ان لوگوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے جو پہلے پہنچ جائیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اجازت مرحمت نہیں فرمائی کہ اس میں خیمہ بھی لگا سکیں کیونکہ وہ پہلے پہنچنے والے کے لیے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے۔ جہاں وہ بٹھا لے اور تمام لوگوں کا حق اس میں برابر ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک ص ٨٩‘ ترمذی فی الحج باب ٥١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٥٢‘ دارمی فی المناسک باب ٨٧‘ مسند احمد ٦؍١٨٧۔
لغات : المناخ۔ اونٹوں کا باڑہ۔

5547

۵۵۴۶: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .ح
٥٥٤٦: حسین بن صر نے فریابی سے روایت کی ہے۔

5548

۵۵۴۷: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَا : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَاہَکَ ، عَنْ أُمِّہٖ، وَکَانَتْ تَخْدُمُ عَائِشَۃَ أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَحَدَّثَتْہُ عَنْ عَائِشَۃَ ، مِثْلَہٗ۔قَالَ : وَسَأَلَتْ أُمِّی مَکَانَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بَعْدَمَا تُوُفِّیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُعْطِیَہَا اِیَّاہُ .فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ : لَا أُحِلُّ لَکَ وَلَا لِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِیْ أَنْ یَسْتَحِلَّ ہٰذَا الْمَکَانَ تَعْنِی مِنًی .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا حُکْمُ الْمَوَاضِعِ الَّتِی النَّاسُ فِیْہَا سَوَاء ٌ ، وَلَا مِلْکَ لِأَحَدٍ عَلَیْہَا ، وَرَأَیْنَا مَکَّۃَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ ، قَدْ أُجِیْزَ الْبِنَائُ فِیْہَا .رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَوْمَ دَخَلَہَا : مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ ، فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَیْہِ بَابَہٗ، فَہُوَ آمِنٌ .
٥٥٤٧: یوسف بن ماھک نے اپنی والدہ سے روایت کی ہے کہ جو حضرت عائشہ (رض) کی خدمت کرتی تھیں انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یوسف کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں سے سے سوال کیا کہ حضرت عائشہ (رض) کا مکان جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد وہ مجھے دے دیں تو میری والدہ کو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا وہ جگہ میں نہ تیرے لیے جائز سمجھتی ہوں اور نہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کے لیے (مراد منیٰ میں خیمہ والی جگہ) امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : یہ حکم ان تمام مقامات کا ہے جو تمام لوگوں کے لیے برابر ہیں کہ ان پر کسی کا ملکیت والا حق نہیں مگر مکہ مکرمہ کا حکم اس کے خلاف ہے اس میں عمارات کی تعمیر درست ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا اس کو امن ہے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس کو امن ہے۔
تخریج : مسلم فی الجہاد ٨٦‘ ابو داؤد فی الامارہ باب ٢٥۔

5549

۵۵۴۸: حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیّے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا کَانَتْ مَکَّۃُ مِمَّا تُغْلَقُ عَلَیْہِ الْأَبْوَابُ ، وَمِمَّا تُبْنٰی فِیْہَا الْمَنَازِلُ ، کَانَتْ صِفَتُہَا ، صِفَۃَ الْمَوَاضِعِ الَّتِیْ یَجْرِیْ عَلَیْہَا الْأَمْلَاکُ ، وَیَقَعُ فِیْہَا الْمَوَارِیْثُ .فَاِنْ احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَائَ اڑلْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَ فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذَا عَنِ الْمُتَقَدِّمِیْنَ
٥٥٤٨: عبداللہ بن رباح نے ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے (جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے) جب کہ مکہ مکرمہ کا یہ حال ہے کہ وہاں دروازے بند کئے جاتے ہیں اور یہ ان مقامات سے ہے جہاں عمارات بنائی جاتی ہیں تو اس کا حال ان مقامات کی طرح ہوگا جن پر ملک جاری ہوتی ہے اور وراثت نافذ ہوتی ہے۔ اگر کوئی دلیل پیش کرے کہ اگر کوئی آیت : { اَلْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ ١} (الحج ٢٥) کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اس کے معاملے میں برابر ہے تو دعویٰ ملک کیونکر درست ہوا۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٩٢‘ ابو داؤد فی الامارۃ باب ٢٥۔

5550

۵۵۴۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَوَائً الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ وَقَالَ : خَلْقُ اللّٰہِ فِیْہِ سَوَاء ٌ .
٥٥٤٩: حضرت سعید نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہاں کے باشندے اور باہر کے لوگ برابر ہیں سے مراد یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق برابر ہے۔

5551

۵۵۵۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ قَالَ : أَرَدْتُ أَنْ أَعْتَکِفَ ، فَسَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ وَأَنَا بِمَکَّۃَ فَقَالَ : أَنْتَ عَاکِفٌ ، ثُمَّ قَرَأَ سَوَائَ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ .
٥٥٥٠: سفیان نے ابو حصین سے روایت کی کہ میں نے اعتکاف کا ارادہ کیا تو میں نے سعید بن جبیر (رح) سے پوچھا اس وقت میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ انھوں نے فرمایا۔ تو مکہ کا رہنے والا ہے پھر یہ آیت تلاوت کی ” سواء العاکف فیہ والباد “ (الحج ٢٥)

5552

۵۵۵۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ سَوَائَ اڑلْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ قَالَ : اَلنَّاسُ فِی الْبَیْتِ سَوَاء ٌ ، لَیْسَ أَحَدٌ أَحَقَّ بِہٖ مِنْ أَحَدٍ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ اِنَّمَا قَصَدَ بِذٰلِکَ اِلَی الْبَیْتِ أَوْ اِلَی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، لَا اِلَیْ سَائِرِ مَکَّۃَ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .
٥٥٥١: عبدالملک نے عطاء سے روایت کی کہ ” سواء العاکف فیہ والباد “ کہ لوگ بیت اللہ میں برابر ہیں کوئی ایک دوسرے سے زیادہ حق نہیں رکھتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس سے مسجد حرام یا بیت اللہ مراد ہے کہ عبادت کے لحاظ سے اس میں سب کا حق برابر ہے تمام مکہ مراد نہیں یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
امام طحاوی (رح) نے یہاں امام ابو یوسف (رح) کے قول کو ترجیح دے کر اس کو دلائل سے ثابت کیا ہے ان کا اپنا رجحان اسی کی طرف ہے مکہ کی اراضی کو فروخت کرنا اور کرایہ پر دینا سب درست ہے۔ واللہ اعلم

5553

۵۵۵۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ ، وَمَہْرِ الْبَغِیِّ ، وَحُلْوَانِ الْکَاہِنِ .
٥٥٥٢: ابوبکر بن عبدالرحمن نے ابو مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی اجرت اور کاہن کے ہدیہ سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٢٥‘ ١١٣‘ والاجارہ باب ٢٠‘ الطلاق باب ٥١‘ والطب باب ٤٦‘ مسلم فی المساقات ٤٠‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢٦‘ ترمذی فی البیوع باب ٤٦‘ والطب باب ٢٣‘ نسائی فی الصید باب ١٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٩‘ دارمی فی البیوع باب ٣٤‘ مالک فی البیوع ٦٨‘ مسند احمد ١؍٢٣٥‘ ٤‘ ١١٨؍١١٩‘ ١٤٠؍١٤١‘ ٣٠٨۔
لغات : البغی۔ زنا۔ حلوان۔ مٹھائی۔ عطیہ۔ کاہن۔ نجومی۔

5554

۵۵۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٥٥٣: مالک نے زہری سے پھر انھوں نے اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5555

۵۵۵۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ ہُنَّ سُحْتٌ أَیْ حَرَامٌ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٥٥٥٤: ابوبکر نے ابی مسعود سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا تین چیزیں حرام ہیں پھر اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج : ٥٥٥٢ کی تخریج پیش نظر ہو۔

5556

۵۵۵۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْخَزَّازُ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَارِظٍ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ یَزِیْدَ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِیْجٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِیْثٌ وَمَہْرُ الْبَغْیِ خَبِیْثٌ ، وَثَمَنُ الْکَلْبِ خَبِیْثٌ .
٥٥٥٥: سائب بن یزید سے روایت ہے کہ رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سینگی لگانے والے کی کمائی گندی ہے اور زنا کی اجرت خبیث ہے اور کتے کی قیمت خبیث ہے۔
تخریج : مسلم فی المساقات ٤١؍٤٢‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٨‘ ترمذی فی البیوع باب ٤٦‘ نسائی فی البیوع باب ٩١‘ دارمی فی البیوع باب ٧٨‘ مسند احمد ٣‘ ٤٦٤؍٤٦٥۔

5557

۵۵۵۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، وَنَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَجِیْدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ خُبَیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ .
٥٥٥٦: عاصم بن ضمرہ نے علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتے کی قیمت سے منع فرمایا۔
تخریج : روایت ٥٥٥٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5558

۵۵۵۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیُّ، عَنْ قَیْسِ بْنِ حَبْتَرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَمَنُ الْکَلْبِ حَرَامٌ .
٥٥٥٧: قیس بن جتر نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت کی ہے کہ کتے کی قیمت حرام ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٥٦۔

5559

۵۵۵۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَا : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٥٥٨: عبیداللہ نے عبدالکریم سے پھر انھوں نے اپنے اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5560

۵۵۵۹: حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ التُّجِیْبِیُّ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ .ح
٥٥٥٩: عبداللہ تجیبی نے عثمان بن صالح سے روایت کی ہے۔

5561

۵۵۶۰: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ جَعْفَرٍ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَیْمٍ أَخْبَرَہٗ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ ، وَاِنْ کَانَ ضَارِیًا .
٥٥٦٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت سے منع کیا اگرچہ وہ شکاری ہی کیوں نہ ہو۔
لغات : ضاری۔ شکاری کتا۔ شکار پر ابھارنا۔

5562

۵۵۶۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ أَثْبَتَہٗ مَرَّۃً وَمَرَّۃً ، شَکَّ فِیْ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ .
٥٥٦١: اعمش نے ابو سفیان سے انھوں نے جابر (رض) سے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا۔ اعمش نے کبھی ابو سفیان کا ذکر کیا اور کبھی براہ راست جابر سے نقل کردی۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٦٢‘ ترمذی فی البیوع باب ٤٩‘ نسائی فی البیوع باب ٩٢‘ والصید باب ١٦‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ١٩‘ مسند احمد ٣؍٣٣٩‘ ٣٤٩۔

5563

۵۵۶۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَشُکِّ.
٥٥٦٢: ابو سفیان نے جابر (رض) سے انھوں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور اعمش نے شک سے بیان نہیں کی۔

5564

۵۵۶۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٥٦٣: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5565

۵۵۶۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَعْرُوْفُ بْنُ سُوَیْدٍ .أَنَّ عَلِیَّ بْنَ رَبَاحٍ حَدَّثَہُمْ ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَحِلُّ ثَمَنُ الْکَلْبِ .
٥٥٦٤: علی بن رباح نے ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کتے کی قیمت حلال نہیں۔

5566

۵۵۶۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حُمَیْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِیْ نَمِرٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ ، وَمَہْرِ الْبَغْیِ .
٥٥٦٥: عطاء بن یسار نے ابوہریرہ (رض) کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی اجرت سے منع فرمایا۔
تخریج : روایت ٥٥٥٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5567

۵۵۶۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا رَبَاحٌ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَمَنُ الْکَلْبِ مِنْ السُّحْتِ .
٥٥٦٦: عطاء نے ابوہریرہ (رض) روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کتے کی قیمت حرام ہے۔
٥٥٦٧: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ بْنِ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَیْلِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ ۔
٥٥٦٧: ابو حازم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔

5568

۵۵۶۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ بْنِ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَیْلِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ .
٥٥٦٧: ابو حازم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔

5569

۵۵۶۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ .ح
٥٥٦٨: ابو بکرہ نے ابوالولید سے روایت کی ہے۔

5570

۵۵۶۹: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ ، أَخْبَرَنِیْ عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٥٦٩: عون بن ابی جحیفہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5571

۵۵۷۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٥٧٠: عطاء نے ابوہریرہ (رض) نے حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5572

۵۵۷۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرًا ، عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ ، فَقَالَ : زَجَرَ عَنْ ذٰلِکَ ، رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ : أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی تَحْرِیْمِ أَثْمَانِ الْکِلَابِ کُلِّہَا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِأَثْمَانِ الْکِلَابِ کُلِّہَا ، الَّتِیْ یُنْتَفَعُ بِہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ ، مِنَ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، أَنَّ الْکِلَابَ ، قَدْ کَانَ حُکْمُہَا أَنْ تُقْتَلَ کُلُّہَا ، وَلَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ اِمْسَاکُ شَیْئٍ مِنْہَا ، فَلَمْ یَکُنْ بَیْعُہَا حِیْنَئِذٍ بِجَائِزِ ، وَلَا ثَمَنُہَا بِحَلَالٍ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ ،
٥٥٧١: ابوالزبیر نے بیان کیا کہ میں نے جابر (رض) سے کتے اور بلی کی قیمت کے متعلق دریافت کیا انھوں نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے جھڑکا ہے یعنی روکا ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : علماء کی ایک جماعت نے کلاب کی قیمت کو حرام قرار دیا اور ان کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ دوسروں نے کہا تمام اقسام کے کتوں کی قیمت میں کوئی حرج نہیں جن کتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو۔ فریق اوّل کے مؤقف کا جواب یہ ہے کہ شروع میں تمام کتوں کے قتل کا حکم تھا اور کسی کتے کو بھی رکھنے کی اجازت نہ تھی اور اس وقت ان کی خریدو فروخت اور اجرت حرام تھی یہ روایات اس کی شاہد ہیں۔ (گزشتہ روایات کا تعلق اس زمانے سے ہے)
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : علماء کی ایک جماعت نے کلاب کی قیمت کو حرام قرار دیا اور ان کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : تمام اقسام کے کتوں کی قیمت میں کوئی حرج نہیں جن کتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : شروع میں تمام کتوں کے قتل کا حکم تھا اور کسی کتے کو بھی رکھنے کی اجازت نہ تھی اور اس وقت ان کی خریدو فروخت اور اجرت حرام تھی یہ روایات اس کی شاہد ہیں۔ (گزشتہ روایات کا تعلق اس زمانے سے ہے)

5573

۵۵۷۲: مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ کُلِّہَا ، فَأَرْسَلَ فِیْ أَقْطَارِ الْمَدِیْنَۃِ أَنْ تُقْتَلَ .
٥٥٧٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کتوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا اور مدینہ کی اطراف میں آدمی بھیج کر قتل کا حکم دیا۔
تخریج : مسلم فی المساقات ٤٧۔

5574

۵۵۷۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْت رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَافِعًا صَوْتَہٗ ، یَأْمُرُ بِقَتْلِ الْکِلَابِ .
٥٥٧٣: سالم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلند آواز سے فرماتے سنا کہ کتوں کو قتل کردیا جائے۔

5575

۵۵۷۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ .
٥٥٧٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے قتل کا حکم فرمایا۔

5576

۵۵۷۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ بِنْتِ أَبِیْ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَفَعَ الْعَنَزَۃَ اِلٰی أَبِیْ رَافِعٍ ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَقْتُلَ کِلَابَ الْمَدِیْنَۃِ کُلَّہَا ، حَتّٰی أَفْضَی بِہٖ الْقَتْلُ اِلَیْ کَلْبٍ لِعَجُوْزٍ ، فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِہِ .
٥٥٧٥: ابن بنت ابی رافع نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو رافع کو نیزہ عنایت فرمایا اور مدینہ کے تمام کتوں کو قتل کا حکم فرمایا یہاں تک کہ وہ بڑھیا کے کتے تک پہنچے تو آپ نے اس کو بھی قتل کرنے کا حکم فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٩۔
لغات : العنزہ۔ برچھا۔

5577

۵۵۷۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ .ح
٥٥٧٦: ابو بکرہ نے ابو عامر عقدی سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5578

۵۵۷۷: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَا : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَحْلَائَ ، عَنْ أَبِی الرِّجَالِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : أَمَرَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِقَتْلِ الْکِلَابِ .فَخَرَجْتُ أَقْتُلُہَا ، لَا أَرَیْ کَلْبًا اِلَّا قَتَلْتُہٗ ، حَتّٰی أَتَیْتُ مَوْضِعَ کَذَا ، وَسَمَّاہٗ، فَاِذَا فِیْہِ کَلْبٌ یَدُوْرُ بِبَیْتٍ ، فَذَہَبْتُ لِأَقْتُلَہٗ۔فَنَادَانِیْ اِنْسَانٌ مِنْ جَوْفِ الْبَیْتِ : یَا عَبْدَ اللّٰہِ، مَا تُرِیْدُ أَنْ تَصْنَعَ ؟ قُلْتُ :اِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أَقْتُلَ ہٰذَا الْکَلْبَ .قَالَتْ : اِنِّیْ امْرَأَۃٌ بِدَارِ مَضْیَعَۃٍ وَاِنَّ ہٰذَا الْکَلْبَ یَطْرُدُ عَنِّیْ السِّبَاعَ ، وَیُؤْذِنُنِیْ بِالْجَائِی ، فَائِتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاذْکُرْ لَہُ ذٰلِکَ .فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ، فَأَمَرَنِیْ بِقَتْلِہِ .
٥٥٧٧: سالم بن عبداللہ نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کتوں کے قتل کا حکم فرمایا۔ تو میں ان کو قتل کرنے نکلا۔ جس کتے پر نظرپڑتی اس کو میں قتل کردیتا یہاں تک کہ میں فلاں جگہ پہنچا انھوں نے جگہ کا نام لیا اس میں ایک کتا پایا جو ایک گھر کے گرد گھوم رہا تھا پس میں اس کو قتل کرنے لگا تو گھر کے اندر سے مجھے ایک انسانی آواز سنائی دی۔ اے اللہ کے بندے ! تم کیا کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا میں اس کتے کو مارنا چاہتا ہوں۔ وہ کہنے لگی میں ایک ہلاکت والے گھر میں رہتی ہوں یہ کتا درندوں اور ایذاء دینے والی اشیاء سے حفاظت کرتا ہے۔ (میں نے اس کو چھوڑ دیا) اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے مجھے اس کے قتل کا حکم فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣٩١۔
لغات : المضیعۃ۔ ضائع ہونے کی جگہ۔ جوف۔ اندر۔ یطرد۔ دفاع کرنا۔

5579

۵۵۷۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیْفَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغَفَّلِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَوْلَا أَنَّ الْکِلَابَ أُمَّۃٌ مِنَ الْأُمَمِ ، لَأَمَرْتُ بِقَتْلِہَا ، فَاقْتُلُوْا مِنْہَا کُلَّ أَسْوَدَ بَھِیْمٍ .
٥٥٧٨: حسن نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اگر کتے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مستقل مخلوق نہ ہوتے تو میں ان کے قتل کا حکم جاری کرتا۔ پس تم خالص سیاہ کتے کو قتل کر دو ۔
تخریج : ابو داؤد فی الاضاحی باب ٢١‘ ترمذی فی الصید باب ١٦؍١٧‘ نسائی فی الصید باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الصید باب ٢‘ مسند احمد ٤؍٨٥‘ ٥؍٥٤۔
لغات : اسودبھیم۔ نہایت سیاہ۔ خالص سیاہ۔

5580

۵۵۷۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ، وَاعَدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَاعَۃٍ یَأْتِیْہِ فِیْہَا ، فَذَہَبَتِ السَّاعَۃُ ، وَلَمْ یَأْتِہٖ۔فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاِذَا بِجِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ عَلَی الْبَابِ ، فَقَالَ مَا مَنَعَکَ أَنْ تَدْخُلَ الْبَیْتَ ؟ .قَالَ اِنَّ فِی الْبَیْتِ کَلْبًا ، وَاِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ ، وَلَا صُوْرَۃٌ .فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْکَلْبِ فَأُخْرِجَ ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْکِلَابِ أَنْ تُقْتَلَ .
٥٥٧٩: ابو سلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت آنے کا وعدہ کیا جس وقت آتے تھے وہ وقت گزر گیا اور وہ نہ آئے۔
پس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے تو جبرائیل (علیہ السلام) دروازے پر تھے آپ نے فرمایا تمہیں گھر میں آنے سے کون سی رکاوٹ تھی ؟ انھوں نے کہا گھر میں کتا ہے اور ہم ایسے گھر میں نہیں جاتے جہاں کتا اور تصویر ہو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کو نکالنے کا حکم دیا وہ نکال دیا گیا پھر آپ نے قتل کلاب کا حکم جاری فرمایا۔
تخریج : بخاری فی بدء الخلق باب ٧؍١٧‘ والمغازی باب ١٢‘ واللباس باب ٨٩‘ والترمذی فی الادب باب ٤٤‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٦٧‘ والصید باب ٩؍١١‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٨٩‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٤٤‘ دارمی فی الاستیذان باب ٣٤‘ مسند احمد ١؍٨٠‘ ١٠٤‘ ٢؍٣٩٠‘ ٤‘ ٢٨؍٢٩‘ ٥؍٢٠٣‘ ٦‘ ١٤٣؍٣٣٠۔

5581

۵۵۸۰: وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلَّامٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ یَزِیْدَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ سُفْیَانَ بْنَ أَبِیْ زُہَیْرٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ أَمْسَکَ الْکَلْبَ فَاِنَّہٗ یَنْقُصُ مِنْ عَمَلِہٖ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطٌ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَکَانَ ہَذَا حُکْمُ الْکِلَابِ أَنْ تُقْتَلَ ، وَلَا یَحِلُّ اِمْسَاکُہَا وَلَا الِانْتِفَاعُ بِہَا .فَمَا کَانَ الِانْتِفَاعِ بِہٖ حَرَامًا وَاِمْسَاکُہٗ حَرَامًا فَثَمَنُہٗ حَرَامٌ .فَاِنْ کَانَ نَہْیُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ کَانَ وَہٰذَا حُکْمُہَا ، فَاِنَّ ذٰلِکَ قَدْ نُسِخَ ، فَأُبِیْحَ الِانْتِفَاعُ بِالْکِلَابِ .وَرُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٥٥٨٠: سائب بن یزید کہتے ہیں کہ سفیان بن زہیر (رض) نے بتلایا کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے کتا باندھ کر رکھا اس کے اجر سے ہر روز ایک قیراط کم ہوجاتا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کتوں کے متعلق قتل کا حکم ہوا ان کو رکھنا اور فائدہ اٹھانا درست نہ تھا جب تک انتفاع حرام تھا اس وقت تک رکھتا اور قیمت بھی حرام تھی اگر نہی کی وہ روایات ہیں تو یہ حکم بھی موجود ہے۔ اگر یہ منسوخ ہے۔ تو انتفاع بھی مباح ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢‘ ٤٢٨؍٤٧٣۔

5582

۵۵۸۱: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا حَنْظَلَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ اقْتَنَیْ کَلْبًا اِلَّا کَلْبًا ضَارِیًا بِالصَّیْدِ ، أَوْ کَلْبَ مَاشِیَۃٍ ، فَاِنَّہٗ یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِہِ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطَانِ .
٥٥٨١: سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کتا پالا سوائے شکاری کتے کے یا چوپایوں کے حفاظتی کتے کے اس کے اجر میں سے دو قیراط ہر روز کم ہوتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الذبائح باب ٦‘ مسلم فی المساقاۃ ٥١؍٦٠‘ ترمذی فی الصید باب ١٧‘ نسائی فی الصید ١٢؍١٣‘ دارمی فی الصید باب ٢‘ مالک فی الاستیذان ١٣‘ مسند احمد ٢‘ ٤؍٨‘ ٥٥؍٦٠‘ ١٠١؍١١٣۔

5583

۵۵۸۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اقْتَنَیْ کَلْبًا اِلَّا کَلْبَ صَیْدٍ أَوْ مَاشِیَۃٍ ، نَقَصَ مِنْ عَمَلِہِ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطَانِ .
٥٥٨٢‘ سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جس نے شکاری یا کھیتی کے کتے کے علاوہ کتا پالا۔ ہر روز اس کے عمل سے دو قیراط کم ہوجاتے ہیں۔
تخریج : ٥٥٨١‘ کو ملاحظہ کریں۔

5584

۵۵۸۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٥٨٣‘ نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5585

۵۵۸۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٥٨٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5586

۵۵۸۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ قِیْرَاطٌ .
٥٥٨٥: عبداللہ بن عبیداللہ نے نافع سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی البتہ انھوں نے قیراطان کی بجائے قیراط فرمایا ہے۔

5587

۵۵۸۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٥٥٨٦: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5588

۵۵۸۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ اِلَّا کَلْبَ صَیْدٍ ، أَوْ کَلْبَ مَاشِیَۃٍ .
٥٥٨٧: عمرو بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شکار اور کھیتی کے کتے کے علاوہ تمام کتوں کے قتل کا حکم فرمایا۔

5589

۵۵۸۸: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : حَدَّثَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْت رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ، رَافِعًا صَوْتَہٗ ، یَأْمُرُ بِقَتْلِ الْکِلَابِ ، وَکَانَتِ الْکِلَابُ تُقْتَلُ اِلَّا کَلْبَ صَیْدٍ أَوْ مَاشِیَۃٍ .
٥٥٨٨: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلند آواز سے فرماتے سنا کہ کتوں کو قتل کر دو ۔ شکار اور کھیتی کے کتوں کے علاوہ تمام کتے قتل کردیئے جاتے تھے۔

5590

۵۵۸۹ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : وَحَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اقْتَنَیْ کَلْبًا ، لَیْسَ بِکَلْبِ صَیْدٍ ، وَلَا مَاشِیَۃٍ ، وَلَا أَرْضٍ ، فَاِنَّہٗ یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِہِ قِیْرَاطَانِ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ .
٥٥٨٩: سعید بن المسیب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس سے چوپائے ‘ شکار اور کھیتی کی ضرورت کے علاوہ کتا پالا اس کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الحرث باب ٣‘ بدء الخلق ١٧‘ مسلم فی المساقاۃ ٥٠؍٥١‘ ٥٢؍٥٣‘ ترمذی فی الصید باب ١٧‘ نسائی فی الصلاۃ ١٢؍١٣‘ ابن ماجہ فی الصید باب ٢‘ دارمی فی الصید باب ٢‘ فی الاستیذان ١٢؍١٣‘ مسند احمد ٢؍٤‘ ٣؍٢١٩۔

5591

۵۵۹۰: وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اقْتَنٰی کَلْبًا ، غَیْرَ کَلْبِ زَرْعٍ وَلَا صَیْدٍ ، نَقَصَ مِنْ عَمَلِہٖ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطَانِ .
٥٥٩٠: ابوالحکم نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمایا کہ آپ نے فرمایا جس نے کھیتی ‘ شکار کے علاوہ کتا پالا تو اس کے عمل سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے ہیں۔
تخریج : نسائی فی الصید باب ٢٦‘ مسلم فی المساقاۃ ٤٦؍٥٦‘ ترمذی فی الصید باب ١٧‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ٢١‘ ابن ماجہ فی الصید باب ١‘ مسند احمد ٢‘ ٢٧؍٧٩۔

5592

ا۵۵۹: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی، عَنْ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : اِلَّا کَلْبًا ضَارِیًا أَوْ کَلْبَ مَاشِیَۃٍ .
٥٥٩١: نافع نے ابن عمر (رض) نے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے البتہ انھوں نے شکار اور چوپایوں کے کتے کو مستثنیٰ کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الذبائح باب ٦‘ نسائی فی الصید باب ١٣‘ مالک فی الستیذان ١٣‘ مسنداحمد ٢؍٤٧۔

5593

۵۵۹۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أُمَیَّۃُ بْنُ بِسْطَامٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ بُجَیْرِ بْنِ أَبِیْ بُجَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ الْکِلَابَ فَقَالَ: مَنِ اتَّخَذَ کَلْبًا لَیْسَ بِکَلْبِ قَنْصٍ أَوْ کَلْبِ مَاشِیَۃٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِہٖ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطٌ .
٥٥٩٢: بجیر بن ابی بجیر نے ابن عمر (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کا تذکرہ کیا پھر فرمایا جس نے شکار اور چوپایوں کے کتوں کے علاوہ کتا پالا اس کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٧۔

5594

۵۵۹۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ وَغَیْرِہٖ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْکِلَابِ، وَقَالَ لَا یَتَّخِذِ - الْکِلَابَ اِلَّا صَیَّادٌ ، أَوْ خَائِفٌ ، أَوْ صَاحِبُ غَنَمٍ .
٥٥٩٣: ابو سلمہ وغیرہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے پالنے سے منع فرمایا اور فرمایا شکار کے لیے یا خطرے والا یا بکریوں والا کتا پال سکتا ہے۔

5595

۵۵۹۴: وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَمْسَکَ کَلْبًا ، فَاِنَّہٗ یَنْقُصُ مِنْ عَمَلِہٖ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطٌ ، اِلَّا کَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاشِیَۃٍ .
٥٥٩٤: ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس نے کھیتی یا چوپایوں کے علاوہ کتا پالا تو اس کے اجر سے ہر روز ایک قیراط کم ہوجاتا ہے۔
تخریج : بخاری فی بدء الخلق باب ١٧‘ مسلم فی المساقاۃ ٥٣‘ نسائی فی الصید باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الصید باب ٢‘ مسند احمد ٢؍٤٢٥۔

5596

۵۵۹۵: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ طَیِّعَۃَ أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَأَلَ جَابِرًا ، أَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْکِلَابِ شَیْئًا ؟ قَالَ : أَمَرَ بِقَتْلِہِنَّ ، ثُمَّ أَذِنَ لِطَوَائِفَ .
٥٥٩٥: ابوالزبیر نے بتلایا کہ میں نے جابر (رض) سے سوال کیا۔ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے متعلق کچھ فرمایا ہے ؟ کہنے لگے ان کے قتل کا حکم دیا پھر بعض خانہ بدوشوں کو اجازت دے دی۔

5597

۵۵۹۶: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغَفَّلِ بِمُعْجَمَۃٍ وَفَائٍ مُشَدَّدَۃٍ قَالَ : أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ ، ثُمَّ قَالَ مَا - لِیْ وَلِلْکِلَابِ ؟ ثُمَّ رَخَّصَ فِیْ کَلْبِ الصَّیْدِ ، وَفِیْ کَلْبٍ آخَرَ، نَسِیَہٗ سَعِیْدٌ .
٥٥٩٦: مطرف نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے قتل کا حکم فرمایا پھر فرمایا میرا کتوں سے کیا واسطہ ؟ پھر آپ نے شکاری کتے کی اجازت دی اور ایک دوسرے کتے کی جس کو سعید بھول گئے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصید باب ١‘ دارمی فی الصید باب ٢‘ مسند احمد ٥؍٥٦۔

5598

۵۵۹۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خَصِیْفَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی السَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ أَنَّ سُفْیَانَ بْنَ أَبِیْ زُہَیْرٍ الشَّنَائِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ اقْتَنٰی کَلْبًا ، لَا یُغْنِیْ عَنْہُ فِیْ ضَرْعٍ ، وَلَا زَرْعٍ ، نَقَصَ مِنْ عَمَلِہٖ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطٌ .قَالَ : فَقَالَ السَّائِبُ لِسُفْیَانَ : أَنْتَ سَمِعْت ہٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : اِیْ وَرَبِّ الْقِبْلَۃِ .
٥٥٩٧: سائب بن یزید کہتے ہیں کہ سفیان بن ابی زہیر شنائی (رض) نے بتلایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جس نے کتا پالا اس کو دودھ والا جانور اور کھیتی کام نہ دے گی اس کے عمل سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا ہے۔ سائب نے سفیان سے پوچھا کیا تم نے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تو انھوں نے فرمایا۔ جی ہاں۔ مجھے ربّ کعبہ کی قسم میں نے سنا ہے۔

5599

۵۵۹۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خَصِیْفَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٥٩٨ : مالک نے یزید بن خصیفہ سے روایت کی ‘ پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5600

۵۵۹۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ خَصِیْفَۃَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔: غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ السَّائِبِ لِسُفْیَانَ أَسَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہٖ؟ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ ، فَلَمَّا ثَبَتَتِ الْاِبَاحَۃُ بَعْدَ النَّہْیِ ، وَأَبَاحَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ کِتَابِہٖ مَا أَبَاحَ بِقَوْلِہٖ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ اعْتَبَرْنَا حُکْمَ مَا یُنْتَفَعُ بِہٖ ، ہَلْ یَجُوْزُ بَیْعُہٗ، وَیَحِلُّ ثَمَنُہٗ أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا الْحِمَارَ الْأَہْلِیَّ قَدْ نُہِیَ عَنْ أَکْلِہٖ ، وَأُبِیْحَ کَسْبُہٗ وَالِانْتِفَاعُ بِہٖ ، فَکَانَ بَیْعُہٗ، اِذْ کَانَ ہَذَا حُکْمُہٗ، حَلَالًا ، وَثَمَنُہُ حَلَالٌ .وَکَانَ یَجِیْئُ فِی النَّظْرِ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، الْکِلَابُ ، لَمَّا أُبِیْحَ الِانْتِفَاعُ بِہَا ، حَلَّ بَیْعُہَا وَأَکْلُ ثَمَنِہَا .وَیَکُوْنُ مَا رُوِیَ فِیْ حُرْمَۃِ أَثْمَانِہَا کَانَ وَقْتَ حُرْمَۃِ الِانْتِفَاعِ بِہَا ، وَمَا رُوِیَ فِیْ اِبَاحَۃِ الِانْتِفَاعِ بِہَا ، دَلِیْلٌ عَلٰی حِلِّ أَثْمَانِہَا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٥٩٩: مالک نے یزید بن خصیفہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ سائب کا یہ قول مذکور نہیں۔ أسمعت ہذا من رسول اللہ ؟ طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ممانعت کے بعد جب اباحت کا ثبوت ان آثار سے مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس رشاد میں اباحت اتار دی : { وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ } (المائدہ : ٤) اب جس سے نفع اٹھایا جاسکے اس کے حکم کا اعتبار کیا۔ اب اس کے فروخت کا جواز اور اجرت کو حلال مانیں گے یا نہیں۔ اس کی فروخت کے جواز اور ثمن کے درست ہونے کے سلسلہ میں دیکھنا ہے چنانچہ پالتو گدھے کو دیکھیں کہ اس کے گوشت کا کھانا ممنوع ہے البتہ اس سے فائدہ اٹھانا اور کمائی میں معاونت لینا درست ہے پھر اس کی بیع کا حکم بھی یہی پایا جاتا ہے کہ وہ بھی حلال ہے اور اس کی اجرت بھی حلال ہے۔ تقاضا نظر یہی ہے کہ کتے کا بھی یہی حکم ہو کیونکہ اس سے انتفاع درست ہے اور اس کی فروخت اور قیمت کا کھانا جائز ہے اور وہ روایات جو اس کی ثمن کے حرام ہونے کے سلسلہ میں وارد ہیں وہ اس وقت سے متعلق ہیں جب انتفاع تھا اور جو انتفاع کے مباح ہونے کی روایت ہیں وہ اس کی ثمن کے حلال ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ (ہم گزشتہ سطور میں روایات ذکر کر آئے مگر ان روایات میں اضافہ ہے اس لیے ان کو بھی ذکر کیا جا رہا ہے) ۔
کیا ثمن کلب حلال ہے ؟ نظر طحاوی (رح) :
اس کی فروخت کے جواز اور ثمن کے درست ہونے کے سلسلہ میں دیکھنا ہے چنانچہ پالتو گدھے کو دیکھیں کہ اس کے گوشت کا کھانا ممنوع ہے البتہ اس سے فائدہ اٹھانا اور کمائی میں معاونت لینا درست ہے پھر اس کی بیع کا حکم بھی یہی پایا جاتا ہے کہ وہ بھی حلال ہے اور اس کی اجرت بھی حلال ہے۔
تقاضا نظر یہی ہے کہ کتے کا بھی یہی حکم ہو کیونکہ اس سے انتفاع درست ہے اور اس کی فروخت اور قیمت کا کھانا جائز ہے اور وہ روایات جو اس کی ثمن کے حرام ہونے کے سلسلہ میں وارد ہیں وہ اس وقت سے متعلق ہیں جب انتفاع جائز تھا اور جو انتفاع کے مباح ہونے کی روایت ہیں وہ اس کی ثمن کے حلال ہونے کا ثبوت ہیں۔
جواز و اباحت کی مزید تائید :
(ہم گزشتہ سطور میں روایات ذکر کر آئے مگر ان روایات میں اضافہ ہے اس لیے ان کو بھی ذکر کیا جا رہا ہے) ۔

5601

۵۶۰۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ سَلْمٰی أُمِّ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : جَائَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ عَلَیْہِ .فَأَذِنَ لَہٗ۔فَأَبْطَأَ فَأَخَذَ رِدَائَ ہٗ فَخَرَجَ .فَقَالَ قَدْ أَذِنَّا لَکَ قَالَ أَجَلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .وَلٰـکِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ وَلَا کَلْبٌ .فَنَظَرُوْا فَاِذَا فِیْ بَعْضِ بُیُوْتِہِمْ جِرْوٌ فَأَمَرَ أَبَا رَافِعٍ أَنْ لَا یَدَعَ کَلْبًا بِالْمَدِیْنَۃِ اِلَّا قَتَلَہٗ۔فَاِذَا بِامْرَأَۃٍ فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَدِیْنَۃِ لَہَا کَلْبٌ یَحْرُسُ غَنَمَہَا قَالَ : فَرَحِمْتُہَا فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنِیْ فَقَتَلْتُہٗ .فَأَتَاہُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .مَاذَا یَحِلُّ لَنَا مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ الَّتِیْ أَمَرْتَنَا بِقَتْلِہَا ؟ .قَالَ : فَنَزَلَتْ : یَسْأَلُوْنَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمْ الطَّیِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ .
٥٦٠٠: سلمیٰ (رض) ام رافع نے ابو رافع سے روایت کی ہے۔ کہ جبرائیل (علیہ السلام) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور اجازت طلب کی جو دے دی گئی مگر انھوں نے اندر آنے میں دیر کی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر مبارک لیے باہر تشریف لائے اور فرمایا ہم نے تمہیں اجازت دے دی جبرائیل بولے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جی ہاں۔ لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر اور کتا ہو۔ پس گھر والے لوگوں نے دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں کتے کا بچہ ہے پس آپ نے ابو رافع (رض) کو حکم فرمایا مدینہ منورہ میں جس کتے کو پائیں قتل کردیں اچانک وہ مدینہ کی ایک جانب میں پہنچے جہاں ایک عورت کے پاس ایک کتا پایا جو اس کی بکریوں کی حفاظت کرتا تھا۔ ابو رافع کہتے ہیں مجھے اس پر رحم آیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور صورت حال ذکر کردی تو آپ نے اس کے بھی مار ڈالنے کا حکم فرمایا۔ پھر آپ کی خدمت میں کچھ لوگ آ کر کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس مخلوق کے قتل کا حکم ملا ہے اس میں سے ہمارے لیے کیا جائز ہے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی یسئلونک ماذا احل لہم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین “ (المائدہ : ٤)

5602

۵۶۰۱: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمَانَ الْجُعْفِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُوْسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ .عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ .عَنْ سَلْمَی أُمِّ رَافِعٍ .عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : لَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ .أَتَاہُ نَاسٌ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .مَا یَحِلُّ لَنَا مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ الَّتِیْ أَمَرْتُ بِقَتْلِہَا ؟ فَنَزَلَتْ یَسْأَلُوْنَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمْ الطَّیِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا مِثْلُ مَا قَبْلَہٗ۔مِمَّا أَبَاحَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .بَعْدَ أَنْ أَمَرَ بِقَتْلِہَا .وَاِنْ کَانَ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .غَیْرَ مَا یُضَادُّ بِہٖ مِنْہَا .وَفِیْہِ زِیَادَۃٌ عَلٰی مَا قَبْلَہٗ مِنَ الْأَحَادِیْثِ .فِی الْاِبَاحَۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا .لِأَنَّ فِیْہِ نُزُوْلَ ہٰذِہِ الْآیَۃِ .بَعْدَ تَحْرِیْمِ الْکِلَابِ .وَأَنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ أَعَادَتِ الْجَوَارِحَ الْمُکَلِّبِیْنَ اِلٰی أَنْ صَیَّرَتْہَا حَلَالًا .وَاِذَا صَارَتْ کَذٰلِکَ .کَانَتْ فِیْ سَائِرِ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ ہِیَ حَلَالٌ .فِیْ حِلِّ اِمْسَاکِہَا .وَاِبَاحَۃِ أَثْمَانِہَا ، وَضَمَانِ مُتْلِفِیْہَا ، مَا أَتْلَفُوْا مِنْہَا کَغَیْرِہَا .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٦٠١: سلمیٰ ام رافع نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے قتل کا حکم فرمایا تو لوگوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس مخلوق میں سے جس کے قتل کا حکم ہوا ہمارے لیے کیا حلال ہے ؟ تو یہ آیت اتری۔ ” یسئلونک ماذا احل لہم الایہ “ (المائدہ۔ ٤) اس روایت میں بھی ماقبل کی طرح اس چیز کی اباحت ہے جس کے قتل کا پہلے حکم فرمایا۔ اگرچہ اس روایت میں شکاری کتے کے علاوہ دوسرے کتوں کا تذکرہ موجود نہیں ہے اور اس روایت میں پہلی روایت اباحت سے کچھ اضافہ ہے کیونکہ ان میں آیت کا شان نزول ذکر کیا گیا اس کے بعد کہ ان کا رکھنا حرام کیا گیا تھا۔ اس آیت میں شکاری کتوں کے رکھنے کو جائز قرار دیا دوبارہ ذکر کیا یہاں تک کہ ان کا رکھنا حلال قرار دیا جب یہ صورت حال ہے تو کتوں کو رکھنے اور ان کی قیمت کے حلال ہونے اور ان کو ضائع کرنے والے پر تاوان واجب ہونے کے سلسلہ میں ان کا حکم دوسری حلال اشیاء کی طرح ہوگیا۔

5603

۵۶۰۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ ، یُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّہٗ قَضٰی فِیْ کَلْبِ صَیْدٍ ، قَتَلَہٗ رَجُلٌ ، بِأَرْبَعِیْنَ دِرْہَمًا ، وَقَضٰی فِیْ کَلْبِ مَاشِیَۃٍ ، بِکَبْشٍ .
٥٦٠٢: عمرو بن شعیب نے عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے ایک شکاری کتے کے متعلق چالیس درہم قیمت کے ضمان کا فیصلہ فرمایا جس کو ایک آدمی نے قتل کردیا تھا اور چوپایوں کی حفاظت کرنے والے کتے کے لیے ایک دنبے کا فیصلہ فرمایا۔

5604

۵۶۰۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ ، وَالسِّنَّوْرِ اِلَّا کَلْبَ صَیْدٍ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَلَمْ یُفَسِّرْ أَیَّ کَلْبٍ ہُوَ ؟ فَلَمْ یَحِلَّ ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ .اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ خِلَافَ کِلَابِ الْمَنَافِعِ أَوْ یَکُوْنَ أَرَادَ کُلَّ الْکِلَابِ ، ثُمَّ ثَبَتَ عِنْدَہٗ نَسْخُ کَلْبِ الصَّیْدِ مِنْہَا ، فَاسْتَثْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٥٦٠٣: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کتے کی قیمت اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا مگر شکاری کتے کے سلسلہ میں اجازت دی ہم پہلے جابر (رض) کی روایت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول اس باب میں ذکر کر آئے ہیں کہ آپ نے کتے کی قیمت کی ممانعت فرمائی مگر اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سا کتا ہے ؟ تو اس طرح دونوں صورتوں میں سے ایک سے خالی نہیں۔ یا تو فائدہ دینے والے کتوں کا ارادہ فرمایا یا تمام کتے مراد ہیں۔ پھر جب ان کے ہاں شکاری کتے کے حکم کا منسوخ ہونا ثابت ہوگیا تو انھوں نے اس روایت میں اس کو مستثنیٰ کردیا۔

5605

۵۶۰۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لَا بَأْسَ بِثَمَنِ الْکَلْبِ السَّلُوْقِیِّ .فَہٰذَا عَطَاء ٌ یَقُوْلُ ہٰذَا، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ ثَمَنَ الْکَلْبِ مِنْ السُّحْتِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٥٦٠٤: اسرائیل نے جابر (رح) سے اور وہ حضرت عطاء (رح) سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں سلوقی (یمن کا ایک گاؤں) کتوں کی قیمت میں کوئی حرج نہیں۔ یہ حضرت عطاء یہاں اباحت ثمن کا فتویٰ دے رہے ہیں حالانکہ ان سے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت نقل کرچکے ہیں کہ کتے کی قیمت حرام ہے اسے جابر (رض) کی روایت میں مذکور معنی پر مزید دلالت مل گئی۔

5606

۵۶۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَقِیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہٗ قَالَ : اِذَا قُتِلَ الْکَلْبُ الْمُعَلَّمُ ، فَاِنَّہٗ یُقَوِّمُ قِیْمَتَہٗ فَیَغْرَمُہُ الَّذِیْ قَتَلَہٗ۔فَہٰذَا الزُّہْرِیُّ ، یَقُوْلُ ہٰذَا، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ ثَمَنَ الْکَلْبِ سُحْتٌ .فَالْکَلَامُ فِیْ ہٰذَا مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ .
٥٦٠٥: عقیل کہتے ہیں کہ ابن شہاب سے مروی ہے کہ جس شکاری کتے کو ہلاک کیا جائے تو اس کی قیمت لگا کر مارنے والے سے تاوان لیا جائے گا۔ زہری کا یہ فتویٰ ہے حالانکہ انھوں نے پہلے ابوبکر بن عبدالرحمن کے واسطہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت ذکر کی ہے کہ کتے کی قیمت حرام ہے تو اس روایت پر بھی حضرت جابر (رض) والی روایت کی طرح کلام ہوگا۔

5607

۵۶۰۶: حَدَّثَنَا بَحْرٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ الْأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : یُجْعَلُ فِی الْکَلْبِ الضَّارِیْ اِذَا قُتِلَ أَرْبَعُوْنَ دِرْہَمًا .
٥٦٠٦: یحییٰ بن سعید نے محمد بن یحییٰ انصاری سے روایت نق کی ہے کہ یہ کہا جاتا تھا کہ شکاری کتے کے قتل میں چالیس درہم مقرر کئے جائیں گے۔

5608

۵۶۰۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیْکٌ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیْرَۃَ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : لَا بَأْسَ بِثَمَنِ کَلْبِ الصَّیْدِ .
٥٦٠٧: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ شکاری کتے کی قیمت میں کوئی حرج نہیں۔
حاصل کلام : اس باب میں ثمن کلب کے سلسلہ میں فریق ثانی کے قول کو ترجیح دی ہے اور اس کے دلائل ذکر کر کے تائیدی اقوال بھی ذکر کردیئے۔

5609

۵۶۰۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَکْرًا فَقَدِمَتْ عَلَیْہِ اِبِلٌ مِنْ اِبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَأَمَرَ أَبَا رَافِعٍ أَنْ یَقْضِیَ الرَّجُلَ بَکْرَہٗ، فَرَجَعَ اِلَیْہِ أَبُوْ رَافِعٍ فَقَالَ : لَمْ أَجِدْ فِیْہَا اِلَّا جَمَلًا خِیَارًا رُبَاعِیًّا فَقَالَ أَعْطِہِ اِیَّاہٗ، اِنَّ خِیَارَ النَّاسِ ، أَحْسَنُہُمْ قَضَائً .
٥٦٠٨: عطاء بن یسار نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے نوعمر اونٹ بطور قرض لیا جب آپ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے تو حضرت ابو رافع کو حکم دیا کہ اس آدمی کو نو عمر اونٹ واپس کر دو ۔ ابو رافع دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں ان میں سے بہتر سات سالہ اونٹ ہی پاتا ہوں آپ نے فرمایا وہی دے دو ۔ بہترین لوگ وہ ہیں جو احسن طریقے پر قرض ادا کرتے ہیں۔
تخریج : مسلم فی المساقاۃ ١١٨‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٧٣‘ نسائی فی البیوع باب ٦٤‘ دارمی فی البیوع باب ٣١‘ مالک فی البیوع ٨٩۔

5610

۵۶۰۹: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَلْمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ لِرَجُلٍ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَیْنٌ فَتَقَاضَاہُ فَأَغْلَظَ عَلَیْہِ .فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہَمُّوْا بِہٖ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَرُوْھُ ، فَاِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ، اشْتَرُوْا لَہُ سِنًّا فَأَعْطُوْھُ اِیَّاہٗ، فَقَالُوْا : اِنَّا لَا نَجِدُ اِلَّا سِنًّا ہُوَ خَیْرٌ مِنْ سِنِّہٖ، قَالَ : فَاشْتَرُوْھُ فَأَعْطُوْھُ اِیَّاہٗ، فَاِنَّ خَیْرَکُمْ ، أَوْ مِنْ خَیْرِکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَائً .
٥٦٠٩: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی آدمی کا قرض تھا اس نے تقاضا کیا اور سختی سے پیش آیا صحابہ کرام اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس پر دست درازی کا ارادہ کیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو ۔ حق والا بات کرسکتا ہے اس کو ایک اونٹ خرید کر دے دو ۔ کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں اچھا ہو۔
تخریج : بخاری فی الاستقراض باب ٤‘ والوکالۃ باب ٦‘ مسلم فی المساقاۃ ١٢٠‘ مسند احمد ٤‘ ٢٦٨؍٤١٦۔
لغات : اغلظ۔ سختی کرنا۔ مقالا۔ باب کرنا۔

5611

۵۶۱۰: حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ سَلْمَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، اِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ اشْتَرُوْا لَہٗ وَقَالَ اُطْلُبُوْا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی اِجَازَۃِ اسْتِقْرَاضِ الْحَیَوَانِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ اسْتِقْرَاضُ الْحَیَوَانِ .وَقَالُوْا : یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ہٰذَا، کَانَ قَبْلَ تَحْرِیْمِ الرِّبَا ، ثُمَّ حُرِّمَ الرِّبَا بَعْدَ ذٰلِکَ ، وَحُرِّمَ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ، وَرُدَّتِ الْأَشْیَائُ الْمُسْتَقْرَضَۃُ اِلٰی أَمْثَالِہَا ، فَلَمْ یَجُزِ الْقَرْضُ اِلَّا فِیْمَا لَہٗ مِثْلٌ ، وَقَدْ کَانَ أَیْضًا - قَبْلَ نَسْخِ الرِّبَا - یَجُوْزُ بَیْعُ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ ، نَسِیْئَۃً .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ
٥٦١٠: سفیان نے ابو سلمہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت کی مگر اشتروا کی بجائے اطلبوا کا لفظ ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض علماء کہتے ہیں جانور کو قرض کے طور پر لینا جائز ہے اور انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی جانور کو بطور قرض لینا جائز نہیں عین ممکن ہے کہ روایت میں جس چیز کا تذکرہ ہے یہ حرمت سود سے پہلے کی بات ہو جب سود حرام ہوا تو ہر قرض جو نفع لائے اس کو حرام قرار دیا گیا اور قرض پر طلب کی جانے والی اشیاء کو ان کے اصل کی طرف لوٹا دیا گیا قرض انہی چیزوں میں درست ہے جن چیزوں کی مثل موجود ہو۔ سود کے حرام ہونے سے پہلے حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار جائز تھی۔ یہ روایت ابن ابو داؤد اس کی دلیل ہے۔

5612

۵۶۱۱: أَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ .ح وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہٗ أَنْ یُجَہِّزَ جَیْشًا ، فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَأْخُذَ فِیْ قِلَاصِ جَمْعُ قَلُوْصٍ: النَّاقَۃُ الشَّابَّۃُ الصَّدَقَۃِ ، فَجَعَلَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ اِلَیْ اِبِلِ الصَّدَقَۃِ ، ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ۔
٥٦١١: عمرو بن حریث نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک لشکر تیار کرنے کا حکم فرمایا اونٹ ختم ہوگئے تو آپ نے حکم دیا کہ صدقہ کی اونٹنیوں کے بدلے حاصل کرو۔ چنانچہ وہ صدقہ کی دو اونٹنیوں کے بدلے ایک اونٹ لینے لگے۔ پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ١٦۔

5613

۵۶۱۲: وَرُوِیَ فِیْہِ مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُحْرِزٍ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً .
٥٦١٢: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار ناجائز قرار دی۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ١٠٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٢١‘ نسائی فی البیوع باب ٦٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٥٦؍٥٧‘ دارمی فی البیوع باب ٣٠؍٣١‘ مالک فی البیوع ٦٣؍٦٤‘ مسند احمد ٣؍٣١٠‘ ٥؍١٢‘ ١٩‘ ٢١۔

5614

۵۶۱۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا شِہَابُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٦١٣: شہاب بن عباد نے داؤد بن عبدالرحمن سے انھوں نے معمر سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

5615

۵۶۱۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمُ الصَّیْرَفِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَمْرِو بْنِ صَالِحٍ الزُّہْرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَرٰی بَأْسًا بِبَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ ، اثْنَیْنِ بِوَاحِدٍ ، وَیَکْرَہُہٗ نَسِیْئَۃً .
٥٦١٤: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیوان کی فروخت حیوان کے بدلے۔ دو ایک کے بدلے فروخت کرنے میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے البتہ ادھار ناپسند کرتے تھے۔

5616

۵۶۱۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ سَالِمٍ الصَّائِغُ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ ، قَالُوْا : حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِیْنَارٍ الطَّاحِیُّ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً .
٥٦١٥: زیاد بن جبیر نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کی فروخت حیوان کے بدلے ادھار منع فرمائی۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٢١‘ نسائی فی البیوع باب ٦٥‘ مسند احمد ٥‘ ٢١‘ ٢٢‘ ٩٩۔

5617

۵۶۱۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٦١٦: حسن نے حضرت سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل فرمائی ہے۔

5618

۵۶۱۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٦١٧: حسن نے حضرت سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5619

۵۶۱۸: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَکَانَ ہَذَا نَاسِخًا لِمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اِجَازَۃِ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً فَدَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا اسْتِقْرَاضُ الْحَیَوَانِ .فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : ہَذَا لَا یَلْزَمُنَا ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْحِنْطَۃَ لَا یُبَاعُ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، وَقَرْضُہَا جَائِزٌ .فَکَذٰلِکَ الْحَیَوَانُ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، وَقَرْضُہُ جَائِزٌ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ فِیْ تَثْبِیتِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ نَہْیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً ، یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ لِعَدَمِ الْوُقُوْفِ مِنْہُ عَلَی الْمِثْلِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مِنْ قَبْلِ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِی الْحِنْطَۃِ فِی الْبَیْعِ وَالْقَرْضِ .فَاِنْ کَانَ اِنَّمَا نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ عَدَمِ وُجُوْدِ الْمِثْلِ ، ثَبَتَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ ، وَاِنْ کَانَ مِنْ قِبَلِ أَنَّہُمَا نَوْعٌ وَاحِدٌ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، لَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْأَشْیَائَ الْمَکِیْلَاتِ ، لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً وَلَا بَأْسَ بِقَرْضِہَا .وَرَأَیْنَا الْمَوْزُوْنَاتِ حُکْمُہَا فِیْ ذٰلِکَ کَحُکْمِ الْمَکِیْلَاتِ سَوَاء ٌ ، خَلَا الذَّہَبِ وَالْوَرِقِ .وَرَأَیْنَا مَا کَانَ مِنْ غَیْرِ الْمَکِیْلَاتِ وَالْمَوْزُوْنَاتِ ، مِثْلَ الثِّیَابِ ؛ وَمَا أَشْبَہَہَا ، فَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ ، وَاِنْ کَانَتْ مُتَفَاضِلَۃً ، وَبِیْعَ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، فِیْہِ اخْتِلَافٌ بَیْنَ النَّاسِ .فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ : مَا کَانَ مِنْہَا مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ ، فَلَا یَصْلُحُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً .وَمَا کَانَ مِنْہَا مِنْ نَوْعَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ ؛ فَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً .وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ .وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ : لَا بَأْسَ بِبَیْعِ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ ، یَدًا بِیَدٍ وَنَسِیْئَۃً ، وَسَوَاء ٌ عِنْدَہُ کَانَتْ مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ أَوْ مِنْ نَوْعَیْنِ .فَہٰذِہِ أَحْکَامُ الْأَشْیَائِ الْمَکِیْلَاتِ وَالْمَوْزُوْنَاتِ وَالْمَعْدُوْدَاتِ ، غَیْرِ الْحَیَوَانِ ، عَلٰی مَا نَشَرْنَا .فَکَانَ غَیْرُ الْمَکِیلِ وَالْمَوْزُوْنِ ، لَا بَأْسَ بِبَیْعِہٖ، بِمَا ہُوَ مِنْ خِلَافِ نَوْعِہٖ، نَسِیْئَۃً ، وَاِنْ کَانَ الْمَبِیْعُ وَالْمُبْتَاعُ بِہٖ ثِیَابًا کُلَّہَا ، وَکَانَ الْحَیَوَانُ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، وَاِنْ اخْتَلَفَتْ أَجْنَاسُہٗ، لَا یَجُوْزُ بَیْعُ عَبْدٍ بِبَعِیْرٍ ، وَلَا بِبَقَرَۃٍ وَلَا بِشَاۃٍ ، نَسِیْئَۃً .وَلَوْ کَانَ النَّہْیُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً ، اِنَّمَا کَانَ لِاتِّفَاقِ النَّوْعَیْنِ ، لَجَازَ بَیْعُ الْعَبْدِ بِالْبَقَرَۃِ نَسِیْئَۃً ، لِأَنَّہَا مِنْ غَیْرِ نَوْعِہٖ، کَمَا جَازَ بَیْعُ الثَّوْبِ الْکَتَّانِ ، بِالثَّوْبِ الْقُطْنِ الْمَوْصُوْفِ ، نَسِیْئَۃً .فَلَمَّا بَطَلَ ذٰلِکَ فِیْ نَوْعِہٖ، وَفِیْ غَیْرِ نَوْعِہِ ثَبَتَ أَنَّ النَّہْیَ فِیْ ذٰلِکَ ، اِنَّمَا کَانَ لِعَدَمِ وُجُوْدِ مِثْلِہٖ ، وَلِأَنَّہٗ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ .وَاِذَا کَانَ اِنَّمَا بَطَلَ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، لِأَنَّہٗ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ، بَطَلَ قَرْضُہُ أَیْضًا لِأَنَّہٗ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا ، مَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ فِی اسْتِقْرَاضِ الْاِمَائِ ، أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ ، رَہْنُ حَیَوَانٍ .فَاسْتِقْرَاضُ سَائِرِ الْحَیَوَانِ فِی النَّظَرِ أَیْضًا ، کَذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حَکَمَ فِی الْجَنِیْنِ بِغُرَّۃِ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ وَحَکَمَ فِی الدِّیَۃِ بِمِائَۃٍ مِنَ الْاِبِلِ ، وَفِیْ أُرُوْشِ الْأَعْضَائِ ، بِمَا قَدْ حَکَمَ بِہٖ ، مِمَّا قَدْ جَعَلَہُ فِی الْاِبِلِ ، وَکَانَ ذٰلِکَ حَیَوَانًا کُلَّہٗ یَجِبُ فِی الذِّمَّۃِ فَلِمَ لَا کَانَ کُلُّ الْحَیَوَانِ أَیْضًا کَذٰلِکَ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ حَکَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الدِّیَۃِ وَالْجَنِیْنِ بِمَا ذَکَرْتُ مِنَ الْحَیَوَانِ ، وَمَنَعَ مِنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا وَشَرَحْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .فَثَبَتَ النَّہْیُ فِیْ وُجُوْبِ الْحَیَوَانِ فِی الذِّمَّۃِ بِأَمْوَالٍ ، وَأُبِیْحَ وُجُوْبُ الْحَیَوَانِ فِی الذِّمَّۃِ بِغَیْرِ أَمْوَالٍ .فَہَذَانِ أَصْلَانِ مُخْتَلِفَانِ نُصَحِّحُہُمَا ، وَنَرُدُّ اِلَیْہِمَا سَائِرَ الْفُرُوْعِ .فَنَجْعَلُ مَا کَانَ بَدَلًا مِنْ مَالٍ ، حُکْمَہُ حُکْمَ الْقَرْضِ الَّذِی وَصَفْنَا ، وَمَا کَانَ بَدَلًا مِنْ غَیْرِ مَالٍ ، فَحُکْمُہٗ حُکْمُ الدِّیَاتِ .وَالْغُرَّۃُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ ، التَّزْوِیْجِ عَلٰی أَمَۃٍ وَسَطٍ ، أَوْ عَلَی عَبْدٍ وَسَطٍ ، وَالْخُلْعَ ، عَلٰی أَمَۃٍ وَسَطٍ ، أَوْ عَلَی عَبْدٍ وَسَطٍ .وَالدَّلِیْلُ عَلَیْ صِحَّۃِ مَا وَصَفْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَعَلَ فِیْ جَنِیْنِ الْحُرَّۃِ ، غُرَّۃً عَبْدًا ، أَوْ أَمَۃً .وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَجِبُ فِیْ جَنِیْنِ الْأَمَۃِ ، وَأَنَّ الْوَاجِبَ فِیْہِ دَرَاہِمُ أَوْ دَنَانِیرُ ، عَلٰی مَا اخْتَلَفُوْا .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : عُشْرُ قِیْمَۃِ الْجَنِیْنِ ، اِنْ کَانَ أُنْثَی ، وَنِصْفُ عُشْرِ قِیْمَتِہٖ، اِنْ کَانَ ذَکَرًا .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : نِصْفُ عُشْرِ قِیْمَۃِ أُمِّ الْجَنِیْنِ ، وَأَجْمَعُوْا فِیْ جَنِیْنِ الْبَہَائِمِ أَنَّ فِیْہِ مَا نَقَصَ أُمُّ الْجَنِیْنِ .وَکَانَتِ الدِّیَاتُ الْوَاجِبَۃُ مِنَ الْاِبِلِ ، عَلٰی مَا أَوْجَبَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَجِبُ فِیْ أَنْفُسِ الْأَحْرَارِ ، وَلَا یَجِبُ فِیْ أَنْفُسِ الْعَبِیْدِ .فَکَانَ مَا حَکَمَ فِیْہِ بِالْحَیَوَانِ الْمَجْعُوْلِ فِی الذِّمَمِ ، ہُوَ مَا لَیْسَ بِبَدَلٍ مِنْ مَالٍ ، وَمَنَعَ مِنْ ذٰلِکَ فِی الْأَبْدَالِ مِنَ الْأَمْوَالِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْقَرْضَ الَّذِیْ ہُوَ بَدَلٌ مِنْ مَالٍ ، لَا یَجِبُ فِیْہِ حَیَوَانٌ فِی الذِّمَمِ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ نَفَرٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٥٦١٨: حسن نے حضرت سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : یہ روایات جن میں حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار جائز قرار دی گئی تھی اس کی ناسخ بن جائیں گی اور حیوان کو کرایہ پر لینا بھی اسی میں داخل ہونے کی وجہ سے سے ناجائز ٹھہرے گا۔ فریق اوّل والے کہتے ہیں کہ یہ الزام ہم پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گندم گندم کے بدلے ادھار فروخت نہیں کرسکتے مگر اس کو قرض پر لینا جائز ہے بالکل اسی طرح حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار تو جائز نہیں مگر حیوان کو قرض پر لینا جائز ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا تو اس میں احتمال یہ ہے کہ ان حیوانات میں مماثلت معلوم نہیں ہوسکتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہی ہو جو فریق اوّل نے گندم پر قیاس کرتے ہوئے کہی ہے اگر عدم مماثلت ثابت ہوتی ہو تو اس سے دوسرے قول کا ثبوت ملتا ہے اور اگر ان کو ایک نوع تسلیم کیا جائے تو ان کو بطور ادھار ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں تو اس صورت میں دوسرے قول والوں کے لیے پہلے قول والوں کے خلاف دلیل نہ بن سکے گی۔ اب ہم اس کو جانچتے ہیں (مکیلی) ماپ کردی جانے والی اشیاء سے موازنہ کیا تو دیکھا کہ ماپی جانے والی اشیاء کی فروخت ادھار درست نہیں البتہ میں قرض جائز ہے اور دوسری طرف موزونی (وزن کی جانے والی) اشیاء کو دیکھا تو سونے چاندی کے علاوہ کا وہی حکم ہے جو مکیلی اشیاء کا ہے۔ اب ہم نے مکیلی اور موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو دیکھا مثلاً کپڑا وغیرہ تو ان کو ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہ پایا۔ خواہ وہ مقدار میں کم یا زیادہ ہو۔ مگر ان کو ایک دوسرے کے بدلے ادھار فروخت کرنے میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو ایک قسم سے تعلق رکھتی ہے ان کو تو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنا درست نہیں ہے اور جن کی اقسام مختلف ہیں انھیں ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔ دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے بدلے نقد و ادھار دونوں طرح فروخت کرنا درست ہے خواہ ان کی نوع ایک ہو یا الگ الگ یہ تفصیل مکیلی ‘ موزونی ‘ عددی اشیاء کے حکم کی کردی ہے۔ یہ حیوان کے علاوہ ہیں۔ پس مکیلی موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو جبکہ انواع الگ ہوں تو ادھار فروخت میں کوئی حرج نہیں۔ خواہ فروخت شدہ شئی اور اس کا بدل دونوں کپڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگر ان کی جنس مختلف ہو تب بھی ان کی بیع درست نہیں ہے مثلاً اونٹ گائے اور بکری کے بدلے غلام کو بطور ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حیوان ‘ حیوان کے بدلے ادھار فروخت کی ممانعت ان کے ایک نوع ہونے کی وجہ سے ہوتی تو گائے کے بدلے غلام کی فروخت تو جائز ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ ان میں تو نوع مختلف ہیں جیسا کہ ریشمی کپڑے کو سوتی کپڑے کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے۔ پس جب یہ حکم نوع اور غیر نوع دونوں میں باطل ٹھہرا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ممانعت کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اس کی مثل نہیں اور اس لیے بھی کہ اس کی موقوف علیہ نہیں تو جب ان میں ایک دوسرے کی آپس میں ادھار بیع باطل ہے کیونکہ اس پر اس کا دارومدار نہیں تو اس کو قرض پر لینا بھی باطل ہے کیونکہ اس کی مثل پر اطلاع نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلہ میں نظر کا تقاضا یہی ہے اور جو چیز کی مزید مؤید ہے وہ یہ ہے کہ لونڈیوں کو قرض پر لینا سب کے نزدیک ناجائز ہے اور وہ بھی حیوان کی جنس میں شامل ہیں پس قیاس کے طور پر تمام حیوانات کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناتمام بچے کو گرانے میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا حکم فرمایا ہے اور دیت کے طور پر سو اونٹ کا حکم ہے اسی طرح اعضاء کی دیت کا حکم تو وہ فقط اونٹوں میں مقرر فرمایا دیگر حیوانات میں نہیں حالانکہ ذمہ میں واجب ہونے والے تو سبھی حیوانات ہیں۔ ان کا حکم یکساں کیوں نہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت اور ناتمام بچوں کے تاوان میں وہ حیوان دینے کا حکم فرمایا جس کا تم نے ذکر کیا ہے اور حیوانات کو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع میں وضاحت سے ذکر کردیا ہے تو کسی کے ذمہ حیوان کے ثابت کرنے کی نفی ثابت ہوگئی اور غیر مال کے بدلے حیوان کا وجوب جائز قرار پایا۔ یہ دونوں الگ الگ قاعدے ہیں ان دونوں کو ہم درست قرار دے کر ان کے فروعات کو ان کی طرف لوٹاتے ہیں۔ جو چیز مال کے بدلے میں ہو اس کو ہم اس قرض کا حکم دیتے ہیں جو ہم نے بیان کیا اور جو چیز غیر مال کا بدل ہو اس کا حکم دیت اور غرہ (ناتمام بچے کا بدل) کا حکم قرار دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کردیا اور اسی قسم میں درمیانے قسم کی لونڈی یا غلام کے عوض نکاح کرنے کا مسئلہ ہے اسی طرح درمیانی قسم کی لونڈی یا غلام کے بدلے خلع کرنا ہے۔ اس کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد عورت کے جنین میں ایک غلام یا لونڈی مقرر فرمائی ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ لونڈی کے ناتمام بچے میں لونڈی لازم نہیں بلکہ اس میں دینارودرہم لازم ہیں جیسا کہ اس میں اختلاف ہے بعض نے اگر لڑکی ہو تو جنین کی قیمت کا دسواں حصہ اور لڑکا ہو تو اس کی قیمت کا بیسواں حصہ ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ علماء کا دوسرا گروہ فرماتا ہے جنین کی ماں کی جو قیمت ہے اس کا بیسواں حصہ ہے مگر جانوروں کے جنین کے سلسلہ میں اتفاق ہے کہ جنین کی ماں کی قیمت میں جتنا نقصان ہوا وہ واجب ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں نے اونٹوں کے ذریعہ جو دیت لازم فرمائی ہے وہ آزاد نفوس کے سلسلہ میں لازم ہے غلاموں میں نہیں۔ پس جن کے بدلے حیوانات کو رکھا گیا وہ اموال نہیں جبکہ اموال کے بدلے اس کی ممانعت کی گئی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرض جو کہ مال کا بدل ہے اس میں کسی کے ذمہ حیوان واجب نہ ہوں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : یہ روایات جن میں حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار جائز قرار دی گئی تھی اس کی ناسخ بن جائیں گی اور حیوان کو کرایہ پر لینا بھی اسی میں داخل ہونے کی وجہ سے سے ناجائز ٹھہرے گا۔
ایک اعتراض :
فریق اوّل والے کہتے ہیں کہ یہ الزام ہم پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گندم گندم کے بدلے ادھار فروخت نہیں کرسکتے مگر اس کو قرض پر لینا جائز ہے بالکل اسی طرح حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار تو جائز نہیں مگر حیوان کو قرض پر لینا جائز ہے۔
الجواب و نظر طحاوی (رح) :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا تو اس میں احتمال یہ ہے کہ ان حیوانات میں مماثلت معلوم نہیں ہو سکت اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہی ہو جو فریق اوّل نے گندم پر قیاس کرتے ہوئے کہی ہے اگر عدم مماثلت ثابت ہوتی ہو تو اس سے دوسرے قول کا ثبوت ملتا ہے اور اگر ان کو ایک نوع تسلیم کیا جائے تو ان کو بطور ادھار ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں تو اس صورت میں دوسرے قول والوں کے لیے پہلے قول والوں خلاف دلیل نہ بن سکے گی۔ اب ہم اس کو جانچتے ہیں (مکیلی) ماپ کردی جانے والی اشیاء سے موازنہ کیا تو دیکھا کہ ماپی جانے والی اشیاء کی فروخت ادھار درست نہیں البتہ میں قرض جائز ہے اور دوسری طرف موزونی (وزن کی جانے والی) اشیاء کو دیکھا تو سونے چاندی کے علاوہ کا وہی حکم ہے جو مکیلی اشیاء کا ہے۔
اب ہم نے مکیلی اور موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو دیکھا مثلاً کپڑا وغیرہ تو ان کو ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہ پایا۔ خواہ وہ مقدار میں کم یا زیادہ ہو۔ مگر ان کو ایک دوسرے کے بدلے ادھار فروخت کرنے میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔
ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو ایک قسم سے تعلق رکھتی ہے ان کو تو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنا درست نہیں ہے اور جن کی اقسام مختلف ہیں انھیں ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔
دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے بدلے نقد و ادھار دونوں طرح فروخت کرنا درست ہے خواہ ان کی نوع ایک ہو یا الگ الگ یہ تفصیل مکیلی ‘ موزونی ‘ عددی اشیاء کے حکم کی کردی ہے۔ یہ حیوان کے علاوہ ہیں۔ پس مکیلی موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو جبکہ انواع الگ ہوں تو ادھار فروخت میں کوئی حرج نہیں۔ خواہ فروخت شدہ شئی اور اس کا بدن دونوں کپڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگر ان کی جنس مختلف ہو تب بھی ان کی بیع درست نہیں ہے مثلاً اونٹ گائے اور بکری کے بدلے غلام کو بطور ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حیوان کی حیوان نہیں ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار فروخت کی ممانعت ان کے ایک نوع ہونے کی وجہ سے ہوتی تو گائے کے بدلے غلام کی فروخت تو جائز ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ ان میں تو نوع مختلف ہیں جیسا کہ ریشمی کپڑے کو سوتی کپڑے کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے۔
پس جب یہ حکم نوع اور غیر نوع دونوں میں باطل ٹھہرا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ممانعت کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اس کی مثل نہیں اور اس لیے بھی کہ اس کی موقوف علیہ نہیں تو جب ان میں ایک دوسرے کی آپس میں ادھار بیع باطل ہے کیونکہ اس پر اس کا دارومدار نہیں تو اس کو قرض پر لینا بھی باطل ہو کیونکہ اس کی مثل پر اطلاع نہیں ہوسکتی۔
اس سلسلہ میں نظر کا تقاضا یہی ہے اور جو چیز کی مزید مؤید ہے وہ یہ ہے کہ لونڈیوں کو قرض پر لینا سب کے نزدیک ناجائز ہے اور وہ بھی حیوان کی جنس میں شامل ہیں پس قیاس کے طور پر تمام حیوانات کا یہی حکم ہونا چاہیے۔
سوال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناتمام بچے کو گرانے میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا حکم فرمایا ہے اور دیت کے طور پر سو اونٹ کا حکم ہے اسی طرح اعضاء کی دیت کا حکم تو وہ فقط اونٹوں میں مقرر فرمایا دیگر حیوانات میں نہیں حالانکہ ذمہ میں واجب ہونے والے تو سبھی حیوانات ہیں۔ ان کا حکم یکساں کیوں نہیں۔
الجواب اور دو قاعدے :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت اور ناتمام بچوں کے تاوان میں وہ حیوان دینے کا حکم فرمایا جس کا تم نے ذکر کیا ہے اور حیوانات کو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع میں وضاحت سے ذکر کردیا ہے تو کسی کے ذمہ حیوان کے ثابت کرنے کی نفی ثابت ہوگئی اور غیر مال کے بدلے حیوان کا وجوب جائز قرار پایا۔ یہ دونوں الگ الگ قاعدے ہیں ان دونوں کو ہم درست قرار دے کر ان کے فروعات کو ان کی طرف لوٹاتے ہیں۔
جو چیز مال کے بدلے میں ہو اس کو ہم اس قرض کا حکم دیتے ہیں جو ہم نے بیان کیا اور جو چیز غیر مال کا بدل ہو اس کا حکم دیت اور غرہ (ناتمام بچے کا بدل) کا حکم قرار دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کردیا اور اسی قسم میں درمیانے قسم کی لونڈی یا غلام کے عوض نکاح کرنے کا مسئلہ ہے اسی طرح درمیانی قسم کی لونڈی یا غلام کے بدلے خلع کرنا ہے۔
اس کی دلیل : اس کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد عورت کے جنین میں ایک غلام یا لونڈی مقرر فرمائی ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ لونڈی کے ناتمام بچے میں لونڈی لازم نہیں بلکہ اس میں دینارودرہم لازم ہیں جیسا کہ اس میں اختلاف ہے بعض نے اگر لڑکی ہو تو جنین کی قیمت کا دسواں حصہ اور لڑکا ہو تو اس کی قیمت کا بیسواں حصہ ہے۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
علماء کا دوسرا گروہ : جنین کی ماں کی جو قیمت ہے اس کا بیسواں حصہ ہے مگر جانوروں کے جنین کے سلسلہ میں اتفاق ہے کہ جنین کی ماں کی قیمت میں جتنا نقصان ہوا وہ واجب ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے ذریعہ جو دیت لازم فرمائی ہے وہ آزاد نفوس کے سلسلہ میں لازم ہے غلاموں میں نہیں۔
پس جن کے بدلے حیوانات کو رکھا گیا وہ اموال نہیں جبکہ اموال کے بدلے اس کی ممانعت کی گئی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرض جو کہ مال کا بدل ہے اس میں کسی کے ذمہ حیوان واجب نہ ہوں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

5620

۵۶۱۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ الْکَیْسَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : أَسْلَمَ زَیْدُ بْنُ خُلَیْدَۃَ اِلٰی عِتْرِیْسِ بْنِ عُرْقُوْبٍ فِیْ قَلَائِصَ ، کُلُّ قَلُوْصٍ بِخَمْسِیْنَ ، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ جَائَ یَتَقَاضَاہُ، فَأَتَی ابْنَ مَسْعُوْدٍ یَسْتَنْظِرُہٗ فَنَہَاہُ عَنْ ذٰلِکَ ، وَأَمَرَہٗ أَنْ یَأْخُذَ رَأْسَ مَالِہٖ .
٥٦١٩: طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ زید بن خلیدہ نے عتریس بن عرقوب کے ساتھ اونٹنیوں میں بیع سلم کی ‘ ہر اونٹنی پچاس کے بدلے جب میعاد پوری ہوگئی تو وہ اونٹوں کا تقاضا کرنے آئے عتریس بن عرقوب حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے مہلت طلب کی جائے تو انھوں نے ان کو منع کردیا اور حکم فرمایا کہ اپنا اصل مال لے لو۔

5621

۵۶۲۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: اَلسَّلَفُ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ اِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی ، لَا بَأْسَ بِہٖ ، مَا خَلَا الْحَیَوَانِ .
٥٦٢٠: ابراہیم نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا حیوان کے علاوہ ہر چیز میں بیع سلم ہوسکتی ہے۔

5622

۵۶۲۱: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ حُذَیْفَۃُ یَکْرَہُ السَّلَمَ فِی الْحَیَوَانِ .
٥٦٢١: سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) حیوان میں بیع سلم کو ناپسند قرار دیتے تھے۔

5623

۵۶۲۲: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ، أَنَّہٗ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ السَّلَفِ فِی الْوُصَفَائِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِہٖ .قُلْتُ :فَاِنَّ أُمَرَائَ نَا یَنْہَوْنَنَا عَنْ ذٰلِکَ ، قَالَ : فَأَطِیْعُوْا أُمَرَائَ کُمْ ، وَأُمَرَاؤُنَا یَوْمَئِذٍ ، عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَمُرَۃَ ، وَأَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٦٢٢: ابو نضرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے غلاموں اور لونڈیوں میں بیع سلم کا حکم دریافت کیا تو فرمایا کوئی حرج نہیں میں نے ان سے کہا کہ ہمارے حکام تو اس سے منع کرتے ہیں انھوں نے فرمایا ان کی اطاعت کرو۔ ان دنوں ہمارے حکام عبدالرحمن بن سمرہ اور دیگر اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔