HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

8. طلاق کا بیان۔

الطحاوي

4508

۴۵۰۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ وَفَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسَی بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَسْمَعُ ، عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، فَقَالَ ہِیَ فِیْ کُلِّ رَمَضَانَ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہَا فِیْ کُلِّ رَمَضَانَ فَقَالَ قَوْمٌ : ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہَا قَدْ تَکُوْنُ فِیْ أَوَّلِہٖ ، وَفِیْ وَسَطِہٖ، کَمَا قَدْ تَکُوْنُ آخِرَہٗ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کُلِّ رَمَضَانَ ہٰذَا الْمَعْنٰی ، وَیَحْتَمِلُ أَنَّہَا فِیْ کُلِّ رَمَضَانَ تَکُوْنُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .مَعَ أَنَّ أَصْلَ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَوْقُوْفٌ ، کَذٰلِکَ رَوَاہُ الْأَثْبَاتُ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ۔
٤٥٠٨: سعید بن جبیر سے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق دریافت کیا گیا اور میں خود سن رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تمام رمضان میں ہوتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ لیلۃ القدر تمام رمضان میں ہے اسی وجہ سے ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ رمضان کی ابتداء ‘ درمیان اور کبھی آخر میں ہوئی ہے۔ یہ پہلا احتمال ہے۔ لیلۃ القدر قیامت تک آنے والے ہر رمضان میں ہے (یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی میں ہو اور کسی میں نہ ہو) یہ روایت موقوف ہے جیسا کہ ثقہ روات نے اس کو ابو اسحاق سے روایت کیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ لیلۃ القدر تمام رمضان میں ہے اسی وجہ سے ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ رمضان کی ابتداء ‘ درمیان اور کبھی آخر میں ہوئی ہے۔ یہ پہلا احتمال ہے۔
دوسرا احتمال : لیلۃ القدر قیامت تک آنے والے ہر رمضان میں ہے (یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی میں ہو اور کسی میں نہ ہو)

4509

۴۵۰۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَرْفَعْہُ
٤٥٠٩: ابو اسحاق نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت کی مگر مرفوع روایت نہیں کی۔

4510

۴۵۱۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیِّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔وَقَدْ رَوٰی ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ بِلَفْظٍ غَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ ۔
٤٥١٠: شعبہ نے ابو اسحاق ہمدانی سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4511

۴۵۱۱: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَقَالَ ہِیَ فِیْ رَمَضَانَ کُلِّہِ .فَاِنْ کَانَ ہَذَا ہُوَ لَفْظُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَدْ ثَبَتَ بِہٖ أَنَّ مَعْنَی قَوْلِہٖ ہِیَ فِیْ کُلِّ رَمَضَانَ یُرِیْدُ أَنَّہَا فِیْ کُلِّ الشَّہْرِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ۔
٤٥١١: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے لیلۃ القدر کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا وہ تمام رمضان میں ہے۔ پس اگر بعینہٖ لفظ یہی ہوں تو اس سے ہی فی کل رمضان مطلب یہ ہے کہ وہ تمام مہینے میں ہوتی ہے۔ حالانکہ ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایت نقل کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4512

۴۵۱۲: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَقَالَ تَحَرَّوْہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ .
٤٥١٢: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس کو رمضان المبارک کے آخر سات دنوں میں تلاش کرو۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٢٠٦‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٥‘ ٤‘ لک فی الاعتکاف باب ١١‘ مسند احمد ٢؍١١٣۔
لغات : تحریٰ ۔ خوب کوشش سے تلاش کرنا۔

4513

۴۵۱۳: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٥١٣: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4514

۴۵۱۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الزُّہْرِیُّ ، عَنْ حَدِیْثِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْتَمِسُوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ
٤٥١٤: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر آخری سات دنوں میں تلاش کرو۔ مسند احمد ٢؍٣٧۔

4515

۴۵۱۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٥١٥: زہری نے سالم سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

4516

۴۵۱۶: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلٰی مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٥١٦: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4517

۴۵۱۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ ہَذَا .
٤٥١٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور ابن عمر (رض) کے علاوہ بھی صحابہ کرام سے اس جیسی روایت مروی ہے۔

4518

۴۵۱۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ زُمَیْلٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا ذَر فَقُلْتُ :أَسَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ قَالَ : نَعَمْ کُنْتُ أَسْأَلُ النَّاسَ عَنْہَا قَالَ عِکْرِمَۃُ یَعْنِیْ أُشْبِعَ سُؤَالًا .قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَخْبِرْنِیْ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، أَفِیْ رَمَضَانَ ہِیَ ، أَوْ فِیْ غَیْرِہٖ؟ قَالَ : فِیْ رَمَضَانَ قُلْتُ :وَتَکُوْنُ مَعَ الْأَنْبِیَائِ مَا کَانُوْا ، فَاِذَا رَفَعُوْا رُفِعَتْ ؟ قَالَ : بَلْ ہِیَ اِلَیْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ قُلْتُ :فِیْ أَیِّ رَمَضَانَ ہِیَ ؟ قَالَ : فِی الْعَشْرِ الْأُوَلِ ، أَوْ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ .ثُمَّ حَدَّثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثْتُ ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فِیْ أَیِّ الْعِشْرِیْنَ ہِیَ ؟ قَالَ : الْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، لَا تَسْأَلْنِیْ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَہَا .ثُمَّ حَدَّثَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَ فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ بِحَقِّیْ عَلَیْکَ لَتُخْبِرَنِیْ فِیْ أَیِّ الْعَشْرِ ہِیَ ؟ فَغَضِبَ عَلَیَّ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ عَلَیَّ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ ، ثُمَّ قَالَ : اِنَّ اللّٰہَ لَوْ شَائَ لَأَطْلَعَکُمْ عَلَیْہَا ، الْتَمِسُوْہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، لَا تَسْأَلْنِیْ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَہَا
٤٥١٨: ابو زمیل نے مالک بن مرثد سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے ابو ذر (رض) سے پوچھا اور کہا کیا آپ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق پوچھا تھا ؟ وہ فرمانے لگے۔ ہاں ! میں اس کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ سوال کرنے والا تھا عکرمہ کی روایت میں ” اشبع سوالًا “ سوال پر حریص ہے میں نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے لیلۃ القدر کے متعلق بتلائیں کیا یہ رمضان میں ہے یا غیر رمضان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ رمضان میں ہے۔ میں نے دوسرا سوال کیا کیا یہ انبیاء (علیہم السلام) کی حیات تک رہتی ہے جب ان کو اٹھا لیا جاتا ہے تو یہ بھی اٹھ جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا بلکہ یہ قیامت کے دن تک ہوگی۔ میں نے کہا یہ کون سے رمضان میں ہوتی ہے یعنی اس کے کس حصے میں ہوتی ہے آپ نے فرمایا اوّل عشرہ میں یا آخری عشرہ میں۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بات کی اور میں نے بھی بات کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کون سے بیس دنوں میں ہوتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور آئندہ کسی چیز سے متعلق اس طرح سوال مت کرو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باتیں کرتے رہے اور میں بھی باتیں کرتا رہا میں نے پھر کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو اس حق کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں جو میرا آپ پر ہے۔ آپ مجھے یہ تو ضرور بتلا دیں کہ وہ کون سے عشرہ میں ہوتی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر اس قدر ناراض ہوئے کہ پہلے اور بعد میں بھی کبھی اتنے ناراض نہیں ہوئے۔ پھر آپ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ مناسب خیال فرماتے تو ضرور تمہیں اس کی اطلاع دے دیتے اس کو تم آخری سات روز میں تلاش کرو۔ اس کے بعد مجھ سے کسی چیز کے متعلق مت سوال کرنا۔
تخریج : ابو داؤد فی رمضان باب ٢: مسند احمد ٥‘ ١٣٠؍١٣١‘ ٣٢١۔

4519

۴۵۱۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَابِرٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُنَیْسٍ الْأَنْصَارِیَّ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ، وَقَدْ خَلَتْ اثْنَتَانِ وَعِشْرُوْنَ لَیْلَۃً ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلْتَمِسُوْہَا فِیْ ہٰذِہِ السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ الَّتِیْ یَبْقَیْنَ مِنَ الشَّہْرِ۔
٤٥١٩: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ جابر (رض) نے مجھے بتلایا کہ عبداللہ بن انیس انصاری (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا اس وقت ٢٢ راتیں گزر چکی تھیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس رات کو مہینہ کی ان سات بقیہ راتوں میں تلاش کرو۔
تخریج : بخاری فی لیلۃ القدر باب ٢‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٥‘ دارمی الصوم باب ٥٦‘ مالک فی الاعتکاف ١١؍١٤‘ مسند احمد ٥؍١٣١۔

4520

۴۵۲۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُبَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُبَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ أَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْتَمِسُوْہَا اللَّیْلَۃَ وَتِلْکَ اللَّیْلَۃَ ، لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ .فَقَالَ رَجُلٌ : ہٰذَا اِذًا أُوْلَی ثَمَانٍ ، فَقَالَ بَلْ أُوْلٰی سَبْعٍ ، فَاِنَّ الشَّہْرَ لَا یَتِمُّ .فَقَدْ ثَبَتَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، وَأَنَّہٗ اِنَّمَا قَصَدَ لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ ، لِأَنَّ ذٰلِکَ الشَّہْرَ کَانَ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ
٤٥٢٠: عبداللہ بن عبداللہ بن حبیب نے عبداللہ بن انیس (رض) سے روایت کی ہے کہ ان سے لیلۃ القدر کے متعلق پوچھا گیا تو کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے۔ اس خصوصی رات کو تلاش کرو اور وہ رات تیئیسویں کی رات ہے۔ ایک آدمی کہنے لگا یہ تو بقیہ آٹھ میں سے پہلی ہوئی آپ نے فرمایا بقیہ سات میں سے پہلی کیونکہ مہینہ بسا اوقات پورا نہیں ہوتا۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ آخری سات راتوں میں ہے اور ان کا قصد تیئیسویں کی رات تھی کیونکہ وہ مہینہ انتیس کا تھا۔

4521

۴۵۲۱: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زَیْدِ بْنُ أَبِی الْقَمَرِ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِیْ عَلَی الْبَابِ ، اِذْ مَرَّ بِنَا ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ فَقَالَ أَبِی : مَا سَمِعْتَ مِنْ أَبِیْکَ یَذْکُرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ رَجُلٌ یُنَازِعُنِی الْبَادِیَۃُ ، فَمُرْنِیْ بِلَیْلَۃٍ آتِ فِیْہَا الْمَدِیْنَۃَ ، فَقَالَ ائْتِ فِیْ لَیْلَۃِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ
٤٥٢١: یعقوب بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں اپنے والد کے ساتھ دروازہ پر بیٹھا تھا جبکہ ہمارے پاس سے عبداللہ بن انیس (رض) کا بیٹا گزرا تو میرے والد نے اس کو بلا کر مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق کیا سنا ہے ؟ تو اس نے بتلایا میں نے اپنے والد کو کہتے سنا وہ کہتے تھے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں ایسا آدمی ہوں کہ جنگل مجھے بھاتا ہے آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں کون سی رات مدینہ میں آ کر گزاروں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیئیسویں رات کو آ گزارو۔

4522

۴۵۲۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَخِیْہِ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، وَکَانَ رَجُلٌ فِیْ زَمَنِ عُمَرَ ، قَالَ : جَلَسَ اِلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُنَیْسٍ فِیْ مَجْلِسِ جُہَیْنَۃَ فِیْ آخِرِ رَمَضَانَ ، فَقُلْتُ لَہٗ : یَا أَبَا یَحْیَی ، ہَلْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ الْمُبَارَکَۃِ شَیْئًا ؟ .فَقَالَ : نَعَمْ ، جَلَسْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ آخِرِ ہٰذَا الشَّہْرِ فَقُلْنَا : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، مَتَیْ نَلْتَمِسُ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃَ الْمُبَارَکَۃَ ؟ فَقَالَ الْتَمِسُوْہَا ہٰذِہِ اللَّیْلَۃَ لِمَسَائِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ .فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : فَہِیَ اِذًا أُوْلَی ثَمَانٍ ، فَقَالَ اِنَّہَا لَیْسَتْ بِأُوْلَی ثَمَانٍ ، وَلٰـکِنَّہَا أُوْلَیْ سَبْعٍ ، مَا تُرِیْدُ بِشَہْرٍ لَا یَتِمُّ ؟
٤٥٢٢: معاذ بن عبداللہ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ فاروق اعظم (رض) کے زمانہ میں ایک آدمی تھا وہ کہنے لگا کہ ہمارے پاس عبداللہ بن انیس (رض) قبیلہ جہینہ کی ایک مجلس میں جو آخر رمضان میں تھی آ بیٹھے تو میں نے ان سے کہا اے ابو یحییٰ ! کیا تم نے اس مبارک رات کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ سنا ؟ انھوں نے کہا جی ہاں ! ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس ماہ کے آخر میں بیٹھے تھے ہم نے عرض کیا یا نبی اللہ ! اس مبارک رات کو ہم کب تلاش کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس رات کو تیئیسویں کی رات سے تلاش کرو۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا پھر وہ آٹھ میں سے پہلی ہوئی۔ آپ نے فرمایا سات میں سے پہلی ہے تیری مہینے سے کیا مراد ہے کبھی وہ پورا نہیں ہوتا۔

4523

۴۵۲۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ الْہَادِ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ ، قَالَ : کُنَّا بِالْبَادِیَۃِ فَقُلْنَا : اِنْ قَدِمْنَا بِأَہْلِنَا ، شَقَّ ذٰلِکَ عَلَیْنَا ، وَاِنْ خَلَّفْنَاہُمْ أَصَابَہُمْ ضَیْعَۃٌ فَبَعَثُوْنِیْ، وَکُنْتُ أَصْغَرَہُمْ ، اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ، فَأَمَرَنَا بِلَیْلَۃِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ
٤٥٢٣: عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے عبداللہ بن انیس (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم دیہات میں رہتے تھے ہم نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے تمام اہل و عیال کو لائیں گے تو یہ ہمارے لیے گراں ہوگا اور اگر ان کو پیچھے چھوڑیں گے تو وہ ضائع ہوجائیں گے۔ پس انھوں نے مجھے بھیج دیا میں ان میں سب سے چھوٹا تھا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تئیسویں کی رات کا حکم فرمایا۔

4524

۴۵۲۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ : ثَنَا بُکَیْرُ بْنُ الْأَشَجِّ قَالَ : سَأَلْتُ ضَمْرَۃَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ تَحَرَّوْہَا لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ فَکَانَ یَنْزِلُ کَذٰلِکَ .
٤٥٢٤: بکیر بن اشجع کہتے ہیں کہ میں نے ضمرہ بن عبداللہ بن انیس سے لیلۃ القدر کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق بیان کرتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو تیئیسویں کی رات تلاش کرو۔ چنانچہ عبداللہ بن انیس (رض) تیئیسویں رات کو مدینہ منورہ آتے تھے۔

4525

۴۵۲۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَیْتنِیْ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ کَأَنِّیْ أَسْجُدُ فِیْ مَائٍ وَطِیْنٍ فَأَصَابَتْنَا لَیْلَۃُ مَطَرٍ ، فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ فَرَأَیْتُہٗ یَسْجُدُ فِیْ مَائٍ وَطِیْنٍ ، فَاِذَا ہِیَ لَیْلَۃُ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ .فَأَمَّا مَا رَوَیْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَأَبِیْ ذٰر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، فَاِنَّ فِیْہِ الْأَمْرَ بِتَحَرِّیہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ فِیْ تِلْکَ السَّبْعِ ، دُوْنَ سَائِرِ الشَّہْرِ ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ فِیْ تِلْکَ السَّبْعِ ، وَأَنْ تَکُوْنَ فِیْ غَیْرِہَا مِنِ الشَّہْرِ اِلَّا أَنَّہَا أَکْثَرُ مَا تَکُوْنُ فِیْ تِلْکَ السَّبْعِ ، فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّحَرِّی فِیْہَا کَذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَمَرَہُمْ بِأَنْ یَتَحَرَّوْہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنَ الشَّہْرِ۔
٤٥٢٥: بشر بن سعید نے عبداللہ بن انیس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں لیلۃ القدر کی رات پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں چنانچہ ایک رات بارش ہوگئی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز صبح پڑھائی تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے ہیں اور یہ تئیسویں شب تھی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ہم نے اس باب میں حضرت ابن عمر ‘ ابو ذر (رض) کی جو روایات نقل کی ہیں ان میں رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کا حکم ہے اس میں تین احتمال ہیں۔ وہ آخری سات راتوں میں ہو بقیہ مہینہ میں نہ ہو۔ ان سات راتوں میں ہو اور ممکن ہے مہینہ کی ان کے علاوہ راتوں میں ہو۔ مگر اکثر و بیشتر انہی سات راتوں میں آتی ہو ‘ اس لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں تحری کا حکم فرمایا اور حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کریں۔ جیسا کہ یہ روایت ہے۔
تخریج : بخاری فی لیلۃ القدر باب ٢‘ ٣‘ مسلم فی الصیام ٢١٣؍٢١٤‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٣‘ مالک فی الاعکاف ٩‘ مسند احمد ٣‘ ٧٠؍٦٠۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ہم نے اس باب میں ابن عمر ‘ ابو ذر (رض) کی جو روایات نقل کی ہیں ان میں رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کا حکم ہے اس میں تین احتمال ہیں۔
نمبر 1: وہ آخری سات راتوں میں ہو بقیہ مہینہ میں نہ ہو۔
نمبر 2: ان سات راتوں میں اور ممکن ہے مہینہ کی ان کے علاوہ راتوں میں ہو۔ مگر اکثر و بیشتر انہی سات راتوں میں آتی ہے اس لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں تحری کا حکم فرمایا
نمبر 3: اور ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کریں۔ جیسا کہ یہ روایت ہے۔

4526

۴۵۲۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلْتَمِسُوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ، فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ۔
٤٥٢٦: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔
تخریج : بخاری فی الاعتکاف باب ١‘ ٩‘ لیلۃ القدر باب ٢‘ ٣‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٢‘ ٣‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٥٦‘ دارمی فی الصوم باب ٥٦۔

4527

۴۵۲۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : رَأَیْ رَجُلٌ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی النَّوْمِ ، کَأَنَّہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، فِیْ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، أَوْ تِسْعٍ وَعِشْرِیْنَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنِّیْ أَرَیْ رُؤْیَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ ، بِالْہَمْزِ أَیْ : اتَّفَقَتْ فَالْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، فِی الْوِتْرِ فَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْمَا رَوٰی عَنْہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنْ تُتَحَرَّی فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، کَمَا أَمَرَ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ، قَبْلَ ہٰذَا، مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَیْضًا أَنْ یَتَحَرَّوْا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ فَلَمْ یَکُنْ مَا رُوِیَ عَنْہُ مِنْ أَمْرِہِ اِیَّاہُمْ بِالْتِمَاسِہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ تُلْتَمَسُ أَیْضًا فِیْمَا قَبْلَہٗ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَلَمْ یَدُلَّنَا مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، دُوْنَ سَائِرِ الشَّہْرِ ، اِلَّا أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ السَّبْعُ الْأَوَاخِرُ ، أُمِرَ بِالْتِمَاسِہَا فِیْہَا ، بَعْدَمَا أُمِرَ بِالْتِمَاسِہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ذٰر ، فَتَکُوْنُ فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ تُتَحَرَّی ، دُوْنَ مَا سِوَاہَا مِنِ الشَّہْرِ ، وَذٰلِکَ تَحَر لَا حَقِیْقَۃَ مَعَہٗ۔ فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْلَمَ ، ہَلْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ ؟
٤٥٢٧: سالم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے لیلۃ القدر خواب میں دیکھی گویا کہ وہ آخری عشرہ کی ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ تمام خواب موافقت کرنے والے ہیں اور متفق ہونے والے ہیں پس اس کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کہ ابن عمر (رض) کی اس روایت میں حکم فرمایا کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ جیسا کہ اس کو پہلی روایات میں آخری سات راتوں میں تلاش کرنے کا حکم ہے سات راتوں میں تلاش کا حکم دس راتوں میں تلاش کے مخالف اور منافی نہیں ہے۔ ابن عمر (رض) کی روایت سے بس اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ سات دنوں میں ہے تمام مہینہ میں نہیں۔ صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ سات دنوں میں تلاش کا حکم دس دنوں میں تلاش کے بعد کا ہے جیسا کہ حضرت ابو ذر (رض) کی روایت میں وارد ہے تو اب سات دنوں میں تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مہینے کے دوسرے دنوں میں نہیں اور یہ تلاش بھی کوئی قطعی اور یقینی بات نہیں۔ اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ آیا اس مفہوم پر دلالت کرنے والی کوئی بات حضرت ابن عمر (رض) کے واسطہ سے براہ راست جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے یا نہیں۔ تو ابن عمر (رض) کی روایت مل گئی۔
تخریج : بخاری فی التہجد باب ٢١‘ لیلۃ القدر باب ٢‘ مسلم فی الصیام ٢٠٥‘ مالک فی الاعتکاف ١٤‘ مسند احمد ٢‘ ٦؍٨۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کہ ابن عمر (رض) کی اس روایت میں حکم فرمایا کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ جیسا کہ اس کو پہلی روایات میں آخری سات راتوں میں تلاش کا حکم ہے سات راتوں میں تلاش کا حکم دس راتوں میں تلاش کے مخالف اور منافی نہیں ہے۔ ابن عمر (رض) کی روایت سے بس اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ سات دنوں میں ہے تمام مہینہ میں نہیں۔ صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ سات دنوں میں تلاش کا حکم دس دنوں میں تلاش کے بعد کا ہے جیسا کہ حضرت ابو ذر (رض) کی روایت میں وارد ہے تو اب سات دنوں میں تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مہینے کے دوسرے دنوں میں نہیں اور یہ تلاش بھی کوئی قطعی اور یقینی بات نہیں۔
اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ آیا اس مفہوم پر دلالت کرنے والی کوئی بات آیا حضرت ابن عمر (رض) کے واسطہ سے براہ راست جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے یا نہیں۔ تو ابن عمر (رض) کی روایت مل گئی۔

4528

۴۵۲۸: فَاِذَا بَکْرُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا آدَمُ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ حُرَیْثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ أَنَّہٗ قَالَ الْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، فَاِنْ عَجَزَ أَحَدُکُمْ وَضَعُفَ ، فَلَا یُغْلَبَنَّ عَلَی السَّبْعِ الْبَوَاقِی .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا مِنْ ہٰذَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہَا قَدْ تَکُوْنُ فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ أَحْرَی مِنْ أَنْ تَکُوْنَ فِیْمَا قَبْلَہٗ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وَأَمَّا مَا ذَکَرْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاِنَّ فِیْہِ الْأَمْرَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَہٗ أَنْ یَلْتَمِسَہَا لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ ، وَاحْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ تُلْتَمَسُ فِیْ کُلِّ شَہْرِ رَمَضَانَ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ بِعَیْنِہَا فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ قَبْلَ السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، فَیَخْرُجُ ذٰلِکَ مِمَّا أَمَرَ فِیْہِ بِالْتِمَاسِہَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، لِأَنَّ الشَّہْرَ ، قَدْ یَجُوْزُ أَنْ لَا یَنْقُصَ عَنْ ثَلَاثِیْنَ ، فَتَکُوْنُ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ أُوْلَی ثَمَانٍ بَقِیْنَ .فَدَلَّ عَلَی مَعْنَی مَا أَشْکَلَ مِنْ ذٰلِکَ مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا أَمَرَہٗ بِذٰلِکَ فِیْ شَہْرٍ کَانَ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ ، فَکَانَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ أُوْلَیْ سَبْعٍ ، لَا أُوْلَی ثَمَانٍ فَقَدْ دَخَلَ ذٰلِکَ أَیْضًا فِیْمَا أَمَرَ فِیْہِ بِالْتِمَاسِ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ، وَذٰلِکَ کُلُّہُ عَلَی التَّحَرِّی ، لَا عَلَی الْیَقِیْنِ .
٤٥٢٨: عقبہ بن حریث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے سنا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے تھے کہ اس کو آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ اگر تم عاجز آ جاؤ یا ایسا نہ کرسکو تو بقیہ سات راتوں میں وہ سستی غالب نہ آنی چاہیے۔ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت سے دلالت مل گئی کہ یہ رات آخری سات راتوں میں زیادہ قرین قیاس ہے اس سے کہ آخری دس راتوں میں ہو۔ باقی رہی عبداللہ بن انیس (رض) والی روایت اس میں تیئیسویں رات میں اس کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ ہر رمضان میں اس متعین رات میں تلاش کریں۔ جب یہ بات اسی طرح ہے تو اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ ممکن ہے کہ وہ سات راتوں سے پہلے بھی ہو۔ تو اس سے یہ آخری ہفتہ میں تلاش کرنے والے حکم سے نکل جائے گا کیونکہ مہینہ بعض اوقات تیس دنوں سے کم نہیں ہوتا تو اس طرح یہ رات آخری آٹھ راتوں میں سے پہلی رات ٹھہرے گی۔ اب اس اشکال کا حل جو یہاں پیدا ہوتا ہے خود عبداللہ بن انیس (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس بات کا حکم انتیس دنوں والے مہینہ میں دیا تھا۔ تو اس سے ظاہر ہوا کہ یہ رات آخری سات راتوں میں سے پہلی رات ہوگی۔ آٹھ راتوں میں سے نہیں ہوگی تو اس طرح یہ بھی اس حکم میں شامل ہوگی اور شامل رہے گی جو سات آخری ایام میں تلاش کرنے سے متعلق ہے۔ مگر ان سب باتوں کی بیاد آ جا کر تحری پر ہوگی یقین پر نہ ہوگی۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٢٠٩‘ مسند احمد ٢؍٩١۔

4529

۴۵۲۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنِّیْ أَکُوْنُ بِبَادِیَۃٍ یُقَالُ لَہَا الْوَطْأَۃُ ، وَاِنِّیْ - بِحَمْدِ اللّٰہِ - أُصَلِّی بِہِمْ فَمُرْنِیْ بِلَیْلَۃٍ مِنْ ہٰذَا الشَّہْرِ ، أَنْزِلُہَا اِلَی الْمَسْجِدِ فَأُصَلِّیہَا فِیْہِ .قَالَ انْزِلْ لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ ، فَصَلِّہَا فِیْہِ، وَاِنْ أَحْبَبْتُ أَنْ تَسْتَتِمَّ آخِرَ الشَّہْرِ فَافْعَلْ ، وَاِنْ أَحْبَبْتُ فَکُفَّ فَکَانَ اِذَا صَلَّی صَلَاۃَ الْعَصْرِ ، دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَلَا یَخْرُجُ اِلَّا لِحَاجَۃٍ حَتَّی یُصَلِّیَ الصُّبْحَ ، فَاِذَا صَلَّی الصُّبْحَ ، کَانَتْ دَابَّتُہُ بِبَابِ الْمَسْجِدِ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ قَدْ جَعَلَ لِلَیْلَۃِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ فِی التَّحَرِّی ، مَا لَمْ یَحْصُلْ لِسَائِرِ السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ .
٤٥٢٩: عبداللہ بن انیس (رض) کے بیٹے ان سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں جنگل و دیہات میں ہوتا ہوں اس کا نام الوطاۃ ہے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے لوگوں کو نماز پڑھاتا ہوں۔ آپ مجھے اس مہینہ کی ایک رات کو حکم فرما دیں کہ جس میں مسجد نبوی میں حاضر ہو کر نماز ادا کروں آپ نے ارشاد فرمایا تم تیئیسویں رات کو آجانا اور اس میں نماز ادا کرو اور اگر تم پسند کرو تو مہینہ کو آخر تک مکمل کرلینا اور اگر پسند کر وتو رک جانا (یعنی آئندہ دنوں میں نہ آنا) اس روایت میں تحری کے سلسلہ میں تیئیسویں شب کو جو اہمیت دی گئی وہ بقیہ ہفتہ کی راتوں کو نہیں دی گئی۔
چنانچہ عبداللہ بن انیس (رض) جب عصر کی نماز (٢٢ رمضان کو) پڑھ لیتے تو مسجد نبوی میں داخل ہوتے اور صبح تک فقط قضائے حاجت کے علاوہ نہ نکلتے پس جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو ان کا گھوڑا مسجد کے دروازہ پر تیار ہوتا۔ (اس پر سوار ہو کر واپس لوٹ جاتے) ۔
اس روایت میں تحری کے سلسلہ میں تیئیسویں شب کو جو اہمیت دی گئی وہ بقیہ ہفتہ کی راتوں کو نہیں دی گئی۔

4530

۴۵۳۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ بِلَالِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ ، عَنْ أَبِیْھَابِلَالِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْہِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ أَنَّہٗ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، فَقَالَ اِنِّیْ رَأَیْتُہُا فَأُنْسِیتُہَا ، فَتَحَرَّہَا فِی النِّصْفِ الْآخَرِ .ثُمَّ عَادَ فَسَأَلَہٗ، فَقَالَ فِیْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ تَمْضِی مِنِ الشَّہْرِ قَالَ عَبْدُ الْعَزِیْزِ : فَأَخْبَرَنِیْ أَبِیْ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُنَیْسٍ کَانَ یُحْیِیْ لَیْلَۃَ سِتَّ عَشْرَۃَ اِلَی لَیْلَۃِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ ، ثُمَّ تُقْصَرُ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہٗ أَنْ یَتَحَرَّاہَا فِی النِّصْفِ الْأَخِیرِ مِنِ الشَّہْرِ ، ثُمَّ أَمَرَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ یَتَحَرَّاہَا لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ .فَقَدْ رَجَعَ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَی مَعْنَی مَا رَوَیْنَا قَبْلَہُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَمَرَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُنَیْسٍ بِتَحَرِّی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ فِی اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، عَلٰی أَنَّ تَحَرِّیَہُ ذٰلِکَ اِنَّمَا تَکُوْنُ فِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ کَذٰلِکَ لِرُؤْیَاہُ الَّتِیْ کَانَ رَآہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاِنْ کَانَتْ قَدْ تَکُوْنُ فِیْ غَیْرِہَا مِنْ السِّنِیْنَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ فَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ رُؤْیَاہُ الَّتِیْ کَانَ رَآہَا ، مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہَا عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خِلَافُ ذٰلِکَ .
٤٥٣٠: عطیہ بن عبداللہ نے اپنے والد عبداللہ بن انیس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا۔ میں نے لیلۃ القدر کو دیکھا ہے وہ مجھے بھلا دی گئی پس تم اس کو نصف آخر میں تلاش کرلو۔ پھر لوٹ کر سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب مہینے کی تیئیس راتیں گزر جائیں تو اس کو تلاش کرو۔ عبدالعزیز کہتے ہیں میرے والد محترم نے بتلایا کہ عبداللہ بن انیس (رض) سترہ سے تیئیسویں تک راتوں میں جاگ کر تلاش کرتے پھر اگلی راتوں میں کم کردیتے۔
یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ان کو آخری نصف ماہ میں تلاش کا حکم فرمایا پھر تیئیسویں رات میں تحری کا حکم فرمایا۔ اس طرح اس روایت کا معنی بھی عبداللہ بن انیس (رض) کی پہلی روایت کی طرف لوٹ آیا۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن انیس (رض) کو خاص طور پر اسی رات میں لیلۃ القدر کی تلاش کا حکم فرمایا ہو کہ آپ کی تحری اس سال سے متعلق اسی رات کی ہو کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں اسی طرح دیکھا۔ اگرچہ دوسرے سالوں میں ممکن ہے اس کے خلاف ہو۔
ایک اشکال :
جو بشر بن معید نے عبداللہ بن انیس (رض) سے نقل کیا اس کے برخلاف ابو سعید خدری (رض) سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ روایت ابو سعید خدری (رض) ملاحظہ ہو۔

4531

۴۵۳۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی أَنَّ أَبَا سَلْمَۃَ حَدَّثَہٗ ، قَالَ : أَتَیْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ ، فَقُلْتُ : ہَلْ سَمِعْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، فَلَمَّا کَانَ صَبِیْحَۃُ عِشْرِیْنَ ، قَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْنَا فَقَالَ مَنْ کَانَ خَرَجَ فَلْیَرْجِعْ فَاِنِّیْ أُرِیْتُ اللَّیْلَۃَ وَاِنِّیْ أُنْسِیتُہَا وَاِنِّیْ رَأَیْتُ أَنِّیْ أَسْجُدُ فِیْ مَائٍ وَطِیْنٍ ، فَالْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، فِیْ وِتْرٍ قَالَ أَبُوْ سَعِیْدٍ : وَمَا نَرَی فِی السَّمَائِ قَزَعَۃً ، فَلَمَّا کَانَ اللَّیْلُ ، اِذَا سَحَابٌ مِثْلُ الْجِبَالِ فَمُطِرْنَا حَتَّی سَالَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ ، وَسَقْفُہُ یَوْمَئِذٍ ، مِنْ جَرِیْدِ النَّخْلِ ، حَتّٰی رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فِیْ مَائٍ وَطِیْنٍ، حَتّٰی رَأَیْتُ أَثَرَ الطِّیْنِ فِیْ أَنْفِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہَا کَانَتْ عَامَئِذٍ ، فِیْ لَیْلَۃِ اِحْدَی وَعِشْرِیْنَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْعَامُ ، ہُوَ عَامٌ آخَرُ ، خِلَافُ الْعَامِ الَّذِیْ کَانَتْ فِیْہِ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ، وَذٰلِکَ أَوْلَی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ ہَذَانِ الْحَدِیْثَانِ ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّا .
٤٥٣١: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید خدری (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا کیا تم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کا تذکرہ سنا ہے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رمضان المبارک درمیانے عشرہ کا اعتکاف کیا جب بیس کی صبح ہوئی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا۔ جو مسجد سے نکل چکے انھیں واپس لوٹ آنا چاہیے مجھے رات دکھایا گیا اور مجھے بھلا دیا گیا۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اپنی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں۔ پس اس کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر اس سال اکیسویں شب میں تھی۔ ممکن ہے یہ سال اس سال کے علاوہ ہے جو عبداللہ بن انیس (رض) کی روایت میں ہے کہ جس میں تئیسویں شب میں لیلۃ القدر تھی اور ان دونوں روایتوں کو اس طرح محمول کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ دونوں روایتوں کا باہم تضاد نہ ہو۔
ابو سعید (رض) کا بیان ہے ہم آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ جب رات ہوئی تو پہاڑوں کی طرح بادل چھا گیا۔ پس بارش ہوگئی جس سے مسجد کی چھت ٹپک گئی اس وقت مسجد کی چھت کھجور کی شاخوں کی بنی ہوئی تھی یہاں تک کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتے دیکھا اور گیلی مٹی کا نشان میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناک پر پایا۔
تخریج : بخاری فی لیلۃ القدر باب ٢‘ ٣‘ الاعتکاف باب ١‘ مسلم فی الصیام روایت ٢١٣؍٢١٨‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٣‘ نسائی فی السہو باب ٩٨‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٥٦‘ مالک فی الاعتکاف ٩‘ مسند احمد ٣؍٢٤‘ ٤٩٥۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر اس سال اکیسویں شب میں تھی۔
جواب ممکن ہے یہ سال اس سال کے علاوہ ہے جو عبداللہ بن انیس (رض) کی روایت میں ہے کہ جس میں تئیسویں شب میں لیلۃ القدر تھی اور ان دونوں روایتوں کو اس طرح محمول کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ دونوں روایتوں کا باہم تضاد نہ ہو۔

4532

۴۵۳۲: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَنَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَیْ رَجُلَانِ ، فَقَالَ خَرَجْتُ لِأُخْبِرَکُمْ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، فَتَلَاحَی فُلَانٌ وَفُلَانٌ ، فَرُفِعَتْ ، وَعَسَی أَنْ تَکُوْنَ خَیْرًا لَکُمْ ، فَالْتَمِسُوْہَا فِی التَّاسِعَۃِ وَالسَّابِعَۃِ وَالْخَامِسَۃِ
٤٥٣٢: انس نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تاکہ لیلۃ القدر کی اطلاع دیں دو آدمی باہم جھگڑ رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں لیلۃ القدر کے متعلق اطلاع دینے نکلا مگر فلاں فلاں جھگڑ رہے تھے پس اس کا خصوصی علم اٹھا لیا گیا اور ممکن ہے کہ اسی میں خیر ہو۔ پس اس کو تم انتیسویں ستائیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔
لغات : تلاحی۔ باہمی تنازع اور جھگڑا۔
تخریج : بخاری فی الایمان باب ٣٦‘ لیلۃ القدر باب ٤‘ والادب باب ٤٤‘ دارمی فی الصوم باب ٥٦‘ مالک فی الاعکاف ١٣‘ مسند احمد ٥‘ ٣١٣؍٣١٩۔

4533

۴۵۳۳: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِسْحَاقَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ثَابِتٌ وَحُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآہَا فِیْ لَیْلَۃٍ بِعَیْنِہَا ، وَقَدْ أَمَرَہُمْ - بَعْدَ رُؤْیَتِہِ اِیَّاہَا- أَنْ یَتَحَرَّوْہَا فِیْمَا بَعْدُ ، فِی التَّاسِعَۃِ ، وَالسَّابِعَۃِ ، وَالْخَامِسَۃِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہَا قَدْ تَکُوْنُ فِیْ عَامٍ ، فِیْ لَیْلَۃٍ بِعَیْنِہَا ، ثُمَّ تَکُوْنُ فِیْمَا بَعْدُ ، فِیْ لَیْلَۃٍ غَیْرِ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَہَبْنَا اِلَیْہِ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أُنَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
٤٥٣٣: انس نے عبادہ بن صامت (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات کو معینہ طور پر دیکھا اور اس کو دیکھنے کے بعد ان کو حکم دیا کہ وہ اب اس کی تحری کریں اور وہ نویں ‘ ساتویں اور پانچویں رات میں ہو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی سال میں معینہ رات ہوگی اور پھر اگلے سال وہ کسی اور رات میں ہوگی پس اس روایت کا مفہوم بھی وہی ہوگیا جو ہم نے عبداللہ بن انیس (رض) کی روایت کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے اور یہ مفہوم تو حدیث ابوہریرہ (رض) میں بھی موجود ہے۔

4534

۴۵۳۴: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُرِیْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ، ثُمَّ أَیْقَظَنِیْ بَعْضُ أَہْلِیْ فَنَسِیتُہَا ، فَالْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْغَوَابِرِ جَمْعُ غَابِرٍ أَی الْبَوَاقِی
٤٥٣٤: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی پھر مجھے میرے گھر والوں میں سے کسی نے جگا دیا تو مجھے بھلا دی گئی۔ پس تم اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو۔
لغات : الغوابر۔ جمع غابر۔ باقی رہنے والا۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٢٠٨‘ دارمی فی الصوم باب ٥٦۔

4535

۴۵۳۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ یَحْیٰی ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُرِیْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ، فَأُنْسِیتُہَا فَالْتَمِسُوْہَا فِی الْعَشْرِ الْغَوَابِرِ۔
٤٥٣٥: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی اور وہ مجھے بھلا دی گئی۔ پس تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔
تخریج : ٤٥٣٤ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4536

۴۵۳۶: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْتَمِسُوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ، فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نُسِّیَ اللَّیْلَۃَ الَّتِیْ کَانَتْ أُرِیَہَا ، أَنَّہَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، وَذٰلِکَ قَبْلَ کَوْنِ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ ، فَأَمَرَ بِالْتِمَاسِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ فِیْمَا بَعْدُ ، مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَہٰذَا خِلَافُ مَا فِیْ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، اِلَّا أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ فِیْ عَامَیْنِ فَرَأَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَحَدِہِمَا مَا ذَکَرَہٗ عَنْہُ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَبْلَ کَوْنِ اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ ہِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، وَذٰلِکَ لَا یَنْفِیْ أَنْ تَکُوْنَ فِیْمَا بَعْدَ ذٰلِکَ الْعَامِ ، مِنَ الْأَعْوَامِ الْجَائِیَۃِ فِیْمَا قَبْلَ ذٰلِکَ مِنِ الشَّہْرِ وَیَکُوْنُ مَا ذَکَرَہُ عُبَادَۃُ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُقِفَ فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ عَلَی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ بِعَیْنِہَا ، ثُمَّ خَرَجَ لِیُخْبِرَہُمْ بِہَا فَرُفِعَتْ ، ثُمَّ أَمَرَہُمْ بِالْتِمَاسِہَا فِیْمَا بَعْدَ ذٰلِکَ مِنَ الْأَعْوَامِ ، فِی السَّابِعَۃِ ، وَالْخَامِسَۃِ ، وَالتَّاسِعَۃِ ، وَذٰلِکَ أَیْضًا کُلُّہٗ عَلَی التَّحَرِّیْ لَا عَلَی الْیَقِیْنِ .
٤٥٣٦: عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو رات دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی کہ یہ لیلۃ القدر ہے اور یہ اس رات کے آنے سے پہلے کی بات ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد میں اس مہینہ کے آخری عشرہ میں تلاش کا حکم فرمایا۔ یہ بات عبادہ بن صامت (رض) والی روایت کے خلاف ہے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ دو الگ سالوں کا ہو۔ ایک سال آپ نے وہ کچھ دیکھا جس کا تذکرہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں کیا گیا۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلۃ القدر کو اس کی آمد سے پہلے دیکھا اور اس میں اس بات کی نفی نہیں کہ آئندہ سالوں میں آپ نے اسے مہینے کے آنے سے پہلے دیکھا ہو اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) نے جو کچھ ذکر کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیلۃ القدر کے بارے میں ایک متعین رات کے متعلق اطلاع ہوچکی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کو بتلانے کے لیے باہر تشریف لائے تو اسے بھلا دیا گیا اور اس کا علم اٹھا لیا گیا پھر اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو آنے والے سالوں میں پچیس ستائیس ‘ انتیس کی راتوں میں تلاش کرنے کا حکم فرمایا اور یہ تمام کا تمام تلاش اور غور و فکر پر مبنی ہے۔ قطعی اور یقینی بات نہیں۔ روایت ابو سعید (رض) ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الاعتکاف باب ١‘ ٩‘ لیلۃ القدر باب ٢‘ ٣‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٢‘ ٣‘ نسائی فی السہو باب ٩٨‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٥٦‘ دارمی فی الصوم باب ٥٦۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو رات دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی کہ یہ لیلۃ القدر ہے اور یہ اس رات کے آنے سے پہلے کی بات ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد میں اس مہینہ کے آخری عشرہ میں تلاش کا حکم فرمایا۔
تبصرہ طحاوی (رح) : یہ بات عبادہ بن صامت (رض) والی روایت کے خلاف ہے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ دو الگ سالوں کا ہو۔ ایک سال آپ نے وہ کچھ دیکھا جس کا تذکرہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں کیا گیا۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلۃ القدر کو اس کی آمد سے پہلے دیکھا اور اس میں اس بات کی نفی نہیں کہ آئندہ سالوں میں آپ نے اسے مہینے کے آنے سے پہلے دیکھا ہو اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) نے جو کچھ ذکر کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیلۃ القدر کے بارے میں ایک متعین رات کے متعلق اطلاع ہوچکی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کو بتلانے کے لیے باہر تشریف لائے تو اسے بھلا دیا گیا اور اس کا علم اٹھا لیا گیا پھر اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو آنے والے سالوں میں پچیس ستائیس ‘ انتیس کی راتوں میں تلاش کرنے کا حکم فرمایا اور یہ تمام کا تمام تلاش اور غور و فکر پر مبنی ہے۔ قطعی اور یقینی بات نہیں۔

4537

۴۵۳۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اُطْلُبُوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ تِسْعًا یَبْقَیْنَ وَسَبْعًا یَبْقَیْنَ ، وَخَمْسًا یَبْقَیْنَ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الْعَامَ الَّذِیْ کَانَ اعْتَکَفَ فِیْہِ وَأُرِیَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَأُنْسِیہَا ، اِلَّا أَنَّہٗ کَانَ عَلِمَ أَنَّہَا فِیْ وِتْرٍ ، فَأَمَرَہُمْ بِالْتِمَاسِہَا فِیْ کُلِّ وِتْرٍ مِنْ ذٰلِکَ الْعَشْرِ ، ثُمَّ جَائَ الْمَطَرُ ، فَاسْتَدَلَّ بِہَا أَنَّہَا کَانَتْ فِیْ عَامِہِ ذٰلِکَ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ بِعَیْنِہَا .وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی وَقْتِہَا فِی الْأَعْوَامِ الْجَائِیَۃِ بَعْدَ ذٰلِکَ ، ہَلْ ہِیَ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ بِعَیْنِہَا أَوْ فِیْمَا قَبْلَہَا ، أَوْ فِیْمَا بَعْدَہَا ؟ وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ مَا حَکَاہُ أَبُوْ نَضْرَۃَ فِیْ ہٰذَا ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ الْأَعْوَامُ کُلُّہَا .فَیَعُوْدُ مَعْنٰی ذٰلِکَ اِلَی مَعْنَی مَا رَوَیْنَاہُ مُتَقَدِّمًا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، اِلَّا أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ زِیَادَۃُ مَعْنًی وَاحِدٍ ، وَہُوَ اِنَّمَا تَکُوْنُ فِی الْوِتْرِ مِنْ ذٰلِکَ .
٤٥٣٧: ابو نضرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی نو راتیں اور سات راتیں اور پانچ راتیں باقی ہوں تو تلاش کرو۔ عین ممکن ہے کہ اس سے وہ سال مراد ہو جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعتکاف فرمایا اور جس سال لیلۃ القدر دکھا کر بھلا دی گئی۔ البتہ اس سے آپ نے یہ جان لیا کہ یہ طاق راتوں میں ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کا حکم فرمایا پھر بارش کا نزول ہوا تو اس سے استدلال کیا گیا کہ وہ رات اس سال اس معینہ رات میں تھی۔ مگر اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئندہ سالوں میں بھی اسی طرح ہوگی اسی معینہ رات میں ہوگی یا اس سے پہلے یا اس کے بعد ہوگی اور یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ ابو نضرہ نے جو ابو سعید (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بیان کیا وہ آئندہ تمام سالوں میں اسی طرح ہو۔ اس صورت میں اس روایت کا معنی وہی ہوجائے گا جو ہم نے اس باب میں پہلے ابن عمر (رض) سے بیان کیا البتہ ابو سعید (رض) کی روایت میں ایک معنی زائد ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ طاق راتوں میں ہوگی۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٤‘ ٤٣‘ ٢؍٢٩١۔
تبصرہ طحاوی (رح) : عین ممکن ہے کہ اس سے وہ سال مراد ہو جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعتکاف فرمایا اور جس سال لیلۃ القدر دکھا کر بھلا دی گئی۔ البتہ اس سے آپ نے یہ جان لیا کہ یہ طاق راتوں میں ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کا حکم فرمایا پھر بارش کا نزول ہوا تو اس سے استدلال کیا گیا کہ وہ رات اس سال اس معینہ رات میں تھی۔
مگر اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئندہ سالوں میں بھی اسی طرح ہوگی اسی معینہ رات میں ہوگی یا اس سے پہلے یا اس کے بعد ہوگی اور یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ ابو نضرہ نے جو ابو سعید (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بیان کیا وہ آئندہ تمام سالوں میں اسی طرح ہو۔ اس صورت میں اس روایت کا معنی وہی ہوجائے گا جو ہم نے اس باب میں پہلے ابن عمر (رض) سے بیان کیا البتہ ابو سعید (رض) کی روایت میں ایک معنی زائد ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ طاق راتوں میں ہوگی۔

4538

۴۵۳۸: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِی الْجُعْفِیُّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْتَمِسُوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ، وِتْرًا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَالْکَلَامُ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
٤٥٣٨: ابن عباس (رض) نے عمر (رض) سے انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اس روایت کا مفہوم بھی وہی ہے جو روایت ابو نضرہ کا ہے جو کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے۔

4539

۴۵۳۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحَرَّوْہَا لِعَشْرٍ یَبْقَیْنَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَالْکَلَامُ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا ، مِثْلُ الْکَلَامِ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٤٥٣٩: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر رمضان کے بقیہ دس دنوں میں تلاش کرو۔ اس روایت کے متعلق بھی کلام اسی طرح ہے جو حدیث ابو نضرہ عن ابی سعید (رض) میں کی ہے۔

4540

۴۵۴۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : تَحَرَّوْہَا لَیْلَۃَ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ یَعْنِیْ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ
٤٥٤٠: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ لیلۃ القدر کو ستائیسویں شب میں تلاش کرو۔

4541

۴۵۴۱: حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : أَنَا آدَم ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٥٤١: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4542

۴۵۴۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ أَبُو النُّعْمَانِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَرَیْ رُؤْیَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ ، أَنَّہَا لَیْلَۃُ السَّابِعَۃِ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، فَمَنْ کَانَ مُتَحَرِّیہَا فَلْیَتَحَرَّہَا لَیْلَۃَ السَّابِعَۃِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ہَذَا أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ فِیْ عَامٍ بِعَیْنِہٖ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ کُلِّ الْأَعْوَامِ کَذٰلِکَ ، اِلَّا أَنَّ ذٰلِکَ کُلَّہٗ عَلَی التَّحَرِّی ، لَا عَلَی الْیَقِیْنِ وَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَاہُ قَبْلَ ہٰذَا، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ ، مِمَّا أَمَرَہٗ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ، یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی التَّحَرِّی مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہَا فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ ، لِمَا قَدْ کَانَ أُرِیَہُ مِنْ وَقْتِہَا الَّذِیْ تَکُوْنُ فِیْہِ فَأُنْسِیہَا .فَلَمْ یَکُنْ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَا یَدُلُّنَا عَلَی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، أَیُّ لَیْلَۃٍ ہِیَ بِعَیْنِہَا ؟ غَیْرَ أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ذٰر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ ہِیَ عَشْرُ الْأُوَلِ ، أَوْ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ اِذْ سَأَلَہُ عَنْ وَقْتِہَا عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ حَدِیْثِہِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ فَنَفَی بِذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ فِی الْعَشْرِ الْأَوْسَطِ ، وَثَبَتَ أَنَّہَا فِیْ اِحْدَی الْعَشْرَیْنِ ، اِمَّا فِی الْأُوَلِ ، وَاِمَّا فِی الْآخَرِ .وَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا ، رُجُوْعُ أَبِیْ ذٰر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالسُّؤَالِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَیِّ الْعَشْرَیْنِ ہِیَ ؟ وَجَوَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُ بِأَنْ یَتَحَرَّاہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ .فَنَظَرْنَا فِیْمَا رُوِیَ فِیْ غَیْرِہِمَا مِنَ الْآثَارِ ، ہَلْ فِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہَا فِیْ لَیْلَۃٍ مِنْ ہٰذَیْنِ الْعَشْرَیْنِ بِعَیْنِہَا ؟ فَاِذَا
٤٥٤٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا خیال ہے کہ تمہارے خواب موافقت کرنے والے ہیں۔ وہ آخری عشرہ کی ساتویں رات ہے جو اس کو تلاش کرے تو وہ ستائیسویں رات میں اس کو تلاش کرے۔ اس روایت میں بھی یہ احتمال ہے کہ یہ اسی سال کے ساتھ خاص ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ تمام سالوں میں یہی رات ہو مگر یہ تمام باتیں تحری و غور سے متعلق ہیں۔ یقین سے نہیں کہی جا سکتیں۔ اسی طرح اس سے پہلے عبداللہ بن انیس (رض) والی روایت جس میں ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا اور یہ بھی احتمال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلۃ القدر کے لیے اس سال کے لیے یہ تحری کی ہو۔ اس لیے کہ وہ آپ کو اپنے وقت کے ساتھ دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی۔ ان تمام آثار میں کوئی ایسی دلالت نہیں کہ جس سے ہم لیلۃ القدر کی تعیین کرسکیں ؟ سوائے اس روایت کے جس کو ابو ذر (رض) نے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا وہ پہلے عشرہ میں یا رمضان کے پچھلے عشرہ میں ہے۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فرمائی جب ابو ذر (رض) نے آپ سے اس کا وقت دریافت کیا اس روایت سے درمیانہ عشرہ کی نفی ہوگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ وہ بیس میں سے ایک رات ہے خواہ عشرہ اوّل میں ہو خواہ عشرہ اخیر میں ہو۔ اس روایت میں بھی بات روایت ابو ذر (رض) کی طرف لوٹ جاتی ہے کہ جس میں یہ سوال کیا گیا کہ وہ کون سے بیس دنوں میں ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب دیا کہ وہ آخری عشرہ میں اس کی تحری کریں اب ہم نے غور کیا کہ ان کے علاوہ آثار میں کوئی ایسا اثر موجود ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ ان بیس میں سے کوئی معینہ رات ہے ؟
تخریج : بخاری فی لیلۃ القدر باب ٢‘ ٣‘ والتہجد باب ٢١‘ مسلم فی الصیام ٢٠٥؍٢٠٦‘ ابو داؤد فی رمضان باب ٥‘ ترمذی فی الصوم باب ٧١‘ مالک فی الاعتکاف ١٠؍١١‘ ١٤‘ مسند احمد ٢؍٢‘ ٢٧‘ ٦٢‘ ١٥٧‘ ١٥٨۔
تبصرہ طحاوی (رح) : اس روایت میں بھی یہ احتمال ہے کہ یہ اسی سال کے سال کے ساتھ خاص ہو اور یہ بھی بھی احتمال ہے کہ تمام سالوں میں یہی رات ہو مگر یہ تمام باتیں تحری و غور سے متعلق ہیں۔ یقین سے نہیں کہی جا سکتیں۔ اسی طرح اس سے پہلے عبداللہ بن انیس (رض) والی روایت جس میں ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا اور یہ بھی احتمال ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلۃ القدر کے لیے اس سال کے لیے یہ تحری کی ہو۔ اس لیے کہ وہ آپ کو اپنے وقت کے ساتھ دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی۔
نوٹ : ان تمام آثار میں کوئی ایسی دلالت نہیں کہ جس سے ہم لیلۃ القدر کی تعیین کرسکیں ؟ سوائے اس روایت کے جس کو ابو ذر (رض) نے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا وہ پہلے عشرہ میں یا رمضان کے پچھلے عشرہ میں ہے۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فرمائی جب ابو ذر (رض) نے آپ سے اس کا وقت دریافت کیا اس روایت سے درمیانہ عشرہ کی نفی ہوگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ وہ بیس میں سے ایک رات ہے خواہ عشرہ اوّل میں ہو خواہ عشرہ اخیر میں ہو۔
اس روایت میں بھی بات روایت ابو ذر (رض) کی طرف لوٹ جاتی ہے کہ جس میں یہ سوال کیا گیا کہ وہ کون سے بیس دنوں میں ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب دیا کہ وہ آخری عشرہ میں اس کی تحری کریں اب ہم نے غور کیا کہ ان کے علاوہ آثار میں کوئی ایسا اثر موجود ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ ان بیس میں سے کوئی معینہ رات ہے ؟

4543

۴۵۴۳: ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ الصُّنَابِحِیِّ ، عَنْ بِلَالٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، لَیْلَۃُ أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّہَا فِیْ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ بِعَیْنِہَا ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ
٤٥٤٣: یزید بن ابی حبیب نے ابوالخیر صنابحی سے انھوں نے بلال (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا لیلۃ القدر چوبیسویں رات ہے۔
روایات : اس روایت میں ہے کہ لیلۃ القدر اس معین رات میں ہے حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایات وارد ہیں۔
روایت ابی بن کعب (رض) :
٤٥٤٤: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّہٖ ، قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ ، عَنْ أَبِیْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدَۃُ بْنُ أَبِیْ لُبَابَۃَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ وَعَلَامَتُہَا أَنَّ الشَّمْسَ تَصْعَدُ ، لَیْسَ لَہَا شُعَاعٌ کَأَنَّہَا طَسْتٌ ۔
٤٥٤٤: زربن حبیش نے ابی بن کعب (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ٹھوس ہوتا ہے جیسے تھال ہے یعنی اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
لغات : اصمہ۔ ٹھوس ہونا۔
تخریج : ابو داؤد فی رمضان باب ٢‘ مسند احمد ٥؍١٣٠‘ ١٣١‘ ٣٢١۔

4544

۴۵۴۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّہٖ، قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ ، عَنْ أَبِیْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدَۃُ بْنُ أَبِیْ لُبَابَۃَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ وَعَلَامَتُہَا أَنَّ الشَّمْسَ تَصْعَدُ ، لَیْسَ لَہَا شُعَاعٌ کَأَنَّہَا طَسْتٌ ۔
٤٥٤٤: زربن حبیش نے ابی بن کعب (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ٹھوس ہوتا ہے جیسے تھال ہے یعنی اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
لغات : اصمہ۔ ٹھوس ہونا۔
تخریج : ابو داؤد فی رمضان باب ٢‘ مسند احمد ٥؍١٣٠‘ ١٣١‘ ٣٢١۔

4545

۴۵۴۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدَۃُ بْنُ أَبِیْ لُبَابَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ زِرُّ بْنُ حُبَیْشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، وَبَلَغَہٗ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ قَالَ مَنْ قَامَ السَّنَۃَ کُلَّہَا ، أَصَابَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ . فَقَالَ أُبَیٌّ وَاللّٰہِ الَّذِی لَا اِلَہَ اِلَّا ہُوَ ، اِنَّہَا لَفِیْ رَمَضَانَ ، وَاللّٰہِ الَّذِی لَا اِلَہَ اِلَّا ہُوَ ، اِنِّیْ لَأَعْلَمُ أَیَّ لَیْلَۃٍ ہِیَ ؟ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَقُوْمَہَا لَیْلَۃَ صَبِیْحَۃِ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ
٤٥٤٥: زربن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے سنا۔ ان کو یہ بات پہنچی کہ ابن مسعود (رض) نے کہا ہے جو تمام سال قیام کرے گا وہ لیلۃ القدر کو پالے گا۔ تو ابی (رض) کہنے لگے مجھے اس اللہ کی قسم ہے جس کے سواء کوئی معبود نہیں بلاشبہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے اور اس اللہ کی قسم جس کے سواء کوئی معبود نہیں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ وہ کون سی رات ہے ؟ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس رات کو قیام کا حکم دیا جس کی صبح کو ستائیسیوں تاریخ ہے۔

4546

۴۵۴۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُوْدِ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، اِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ کَانَ یَقُوْلُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ مَنْ قَامَ الْحَوْلَ أَدْرَکَہَا فَقَالَ : رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، أَمَا وَالَّذِیْ یُحْلَفُ بِہٖ ، لَقَدْ عَلِمَ أَنَّہَا لَفِیْ رَمَضَانَ ، وَأَنَّہَا لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ قَالَ : فَلَمَّا رَأَیْتُہٗ یَحْلِفُ لَا یَسْتَثْنِیْ قُلْتُ :مَا عَلَّمَک بِذٰلِکَ ؟ قَالَ : بِالْآیَۃِ الَّتِیْ أَخْبَرَنَا بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَحَسَبْنَا وَعَدَدْنَا ، فَاِذَا ہِیَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، یَعْنِیْ أَنَّ الشَّمْسَ لَیْسَ لَہَا شُعَاعٌ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا أُبَیٌّ بْنُ کَعْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، وَیَنْفِیْ قَوْلَ عَبْدِ اللّٰہِ مَنْ یَقُمُ الْحَوْلَ یُصِبْہَا .غَیْرَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ أَنَّہَا فِیْ رَمَضَانَ ، عَلٰی مَا قَدْ حَلَفَ عَلَیْہِ أُبَیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ قَدْ عَلَّمَہُ وَلٰـکِنَّہٗ فِیْ خِلَافِ لَیْلَۃِ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ
٤٥٤٦: زربن حبیش کہتے ہیں میں نے ابی بن کعب (رض) سے کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جس نے تمام سال قیام کیا اس نے لیلۃ القدر کو پا لیا۔ تو ابی فرمانے لگے۔ اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم کرے۔ خبردار ! اچھی طرح سن لو۔ مجھے اس اللہ کی قسم ہے جس کے نام کی قسم اٹھائی جاتی ہے۔ وہ یقیناً جانتے ہیں کہ یہ رمضان المبارک میں ہے اور یہ ستائیسویں رات ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حضرت ابی بن کعب (رض) ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اطلاع دے رہے ہیں کہ وہ ستائیسویں کی رات ہے اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کی نفی کر رہے ہیں کہ پورے سال میں قیام کرنے والا لیلۃ القدر کو پانے والا ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ عبداللہ (رض) سے یہ مروی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک میں ہے جیسا کہ ابی (رض) کہہ رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک کی رات ہے۔ لیکن ان کے ہاں ستائیس کے علاوہ ہے۔ جیسا کہ یہ روایت شاہد ہے۔ زر کہتے ہیں جب میں نے ان کو دیکھا کہ وہ ان شاء اللہ کہنے کے بغیر قسم اٹھا رہے ہیں تو میں نے کہا آپ کو اس کا کیسے علم ہوا ؟ اس نشانی کے ذریعہ جس کی اطلاع ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی پس ہم نے گنا اور شمار کیا تو وہ ستائیسویں رات تھی کہ جب سورج نکلتے وقت بلاشعاع تھا۔
تبصرہ طحاوی (رح) : یہ ابی بن کعب (رض) جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اطلاع دے رہے ہیں کہ وہ ستائیسویں کی رات ہے اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کی نفی کر رہے ہیں کہ پورے سال میں قیام کرنے والا لیلۃ القدر کو پانے والا ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ عبداللہ (رض) سے یہ مروی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک میں ہے جیسا کہ ابی (رض) کہہ رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک کی رات ہے۔ لیکن ان کے ہاں ستائیس کے علاوہ ہے۔ جیسا کہ یہ روایت شاہد ہے۔

4547

۴۵۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، عَنْ اِسْرَائِیْلَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ حُجَیْرٍ التَّغْلِبِیِّ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ الْتَمِسُوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ، فِیْ لَیْلَۃِ تِسْعٍ وَعَشَرَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ ، صَبِیْحَتُہَا صَبِیْحَۃُ بَدْرٍ ، وَاِلَّا فَفِیْ لَیْلَۃِ اِحْدَی وَعِشْرِیْنَ ، أَوْ فِیْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ .فَأَمَّا مَا ذَکَرْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہَا فِیْ لَیْلَۃِ تِسْعَ عَشْرَۃَ فَقَدْ نَفَاہُ مَا حَکَاہُ أَبُو ذَرٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا فِی الْعَشْرَیْنِ مِنِ الشَّہْرِ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٥٤٧: اسود نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے تھے لیلۃ القدر کو انیس رمضان کی رات میں تلاش کرو کہ یہ بدر کی صبح تھی ورنہ اکیس رمضان یا تئیس رمضان میں تلاش کرو۔ باقی اس روایت میں عبداللہ سے انیس رمضان کی جو بات مروی ہے اس کی نفی تو ابو ذر (رض) والی روایت کر رہی ہے جس کو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ وہ بیس دنوں یعنی اوّل عشرہ اور آخری عشرہ میں ہے اور خود عبداللہ (رض) سے بھی اس سلسلہ میں تصدیقی روایت موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تبصرہ طحاوی (رح) : اس روایت میں عبداللہ سے انیس رمضان کی جو بات مروی ہے اس کی نفی تو ابو ذر (رض) والی روایت کر رہی ہے جس کو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ وہ بیس دونوں یعنی اوّل عشرہ اور آخری عشرہ میں ہے اور خود عبداللہ (رض) سے بھی اس سلسلہ میں تصدیقی روایت موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4548

۴۵۴۸: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ جَعْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَقَالَ أَیُّکُمْ یَذْکُرُ لَیْلَۃَ الصَّہْبَاوَاتِ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : أَنَا وَاللّٰہِ، بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَبِیَدِیْ تَمَرَاتٌ أَتَسَحَّرُ بِہِنَّ ، وَأَنَا مُسْتَتِرٌ بِمُؤَخِّرَۃِ رَحْلِیْ مِنَ الْفَجْرِ ، وَذٰلِکَ حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا سُئِلَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، أَخْبَرَہُمْ أَیَّ لَیْلَۃٍ ہِیَ ، وَأَنَّہَا لَیْلَۃُ الصَّہْبَاوَاتِ فَوَصَفَہَا عَبْدُ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، بِمَا وَصَفَہَا بِہٖ مِنْ ضَوْئِ الْقَمَرِ ، عِنْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ ، وَذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ اِلَّا فِیْ آخِرِ الشَّہْرِ .فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی مَا قَالَ أُبَیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَفِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا یَدُلُّ أَنَّ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ خَاصَّۃً .قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ حم وَالْکِتَابِ الْمُبِیْنِ اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ فَأَخْبَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ اللَّیْلَۃَ الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ فَہِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، وَہِیَ اللَّیْلَۃُ الَّتِیْ أُنْزِلَ فِیْہَا الْقُرْآنُ ثُمَّ قَالَ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، وَاحْتَجْنَا اِلٰی أَنْ نَعْلَمَ أَیَّ لَیْلَۃٍ مِنْ لَیَالِیِہٖ؟ .فَکَانَ الَّذِیْ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ ، مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ بِلَالٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا لَیْلَۃُ أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ ، وَالَّذِیْ رُوِیَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہَا لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ مُعَاوِیَۃَ أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا رُوِیَ عَنْ أُبَیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٤٥٤٨: ابو عبیدہ نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا۔ تم میں سے کس کو صہباوات کی رات یاد ہے۔ عبداللہ کہنے لگے اللہ کی قسم میرے ماں ‘ باپ آپ پر قربان ہوں مجھے یاد ہے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں جن سے میں سحری کررہا ہوں اور میں اپنے کجاوے کے پچھلے حصہ کی آڑ میں صبح سے بچاؤ کے لیے چھپ رہا ہوں اور یہ طلوع فجر کا وقت ہے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب لیلۃ القدر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو خبر دی کہ وہ کون سی رات ہے اس کو لیلۃ الصہباوات سے تعبیر فرمایا۔ تو عبداللہ (رض) نے اس کی چاند کی روشنی سے وضاحت کی کہ چاند کی روشنی طلوع فجر کے وقت جب اس انداز سے ہو (تو وہ لیلۃ القدر ہے) اور چاند کی روشنی اس طرح مہینے کے آخر میں ہوتی ہے پس یہ روایت تو اسی بات پر دلالت کر رہی ہے جس پر ابی (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے۔ قرآن مجید کی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ لیلۃ القدر خاص طور پر رمضان کے اندر ہے جیسے قولہ تعالیٰ : { حٰمٓ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ } (الدخان : ١۔ ٤) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ رات جس میں ہر حکمت والا معاملہ طے ہوتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے اور یہی وہ رات ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا۔ پھر فرمایا گیا : { شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ۔۔۔} (البقرہ : ١٨٥) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ رات رمضان المبارک میں ہے اب اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کون سی رات ہے ؟ اس پر سب سے پہلی دلالت وہ روایت ہے جو بلال (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے کہ وہ چوبیس کی رات ہے۔ ابی بن کعب (رض) کی جو روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے وہ ستائیسویں شب سے متعلق ہے اور معاویہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابی بن کعب (رض) جیسی روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٧٦‘ ٣٩٦‘ ٤٥٣۔
تبصرہ طحاوی (رح) : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب لیلۃ القدر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو خبر دی کہ وہ کون سی رات ہے اس کو لیلۃ الصہباوات سے تعبیر فرمایا۔ تو عبداللہ (رض) نے اس کی چاند کی روشنی سے وضاحت کی کہ چاند کی روشنی طلوع فجر جب اس انداز سے ہو (تو وہ لیلۃ القدر ہے) اور چاند کی روشنی اس طرح مہینے کے آخر میں ہوتی ہے پس یہ روایت تو اسی بات پر دلالت کر رہی ہے جس پر ابی (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے۔
قرآن مجید کی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ لیلۃ القدر خاص طور پر رمضان کے اندر ہے۔ قولہ تعالیٰ حمٓ والکتاب المبین انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین فیہا یفرق کل امر حکیم (الدخان ١۔ ٤) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ رات جس میں ہر حکمت والا معاملہ طے ہوتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے اور یہی وہ رات ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا۔ پھر فرمایا گیا۔ شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن (البقرہ ١٨٥) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ رات رمضان المبارک میں ہے اب اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کون سی رات ہے ؟
نمبر 1: اس پر سب سے پہلی دلالت وہ روایت ہے جو بلال (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے کہ وہ چوبیس کی رات ہے۔
نمبر 2: ابی بن کعب (رض) کی جو روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے وہ ستائیسویں شب سے متعلق ہے۔
نمبر 3: اور معاویہ (رض) نے ابی بن کعب (رض) جیسی روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔

4549

۴۵۴۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : سَمِعْت مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یُحَدِّثُ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، قَالَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ .فَہٰذَا مُنْتَہَی مَا وَقَفْنَا عَلَیْہِ، مِنْ عِلْمِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، أَیُّ لَیْلَۃٍ ہِیَ ؟ مِمَّا دَلَّنَا عَلَیْہِ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَسُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَمَّا مَا رُوِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنِ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَتَابِعِیْہِمْ ، فَمَعْنَاہُ دَاخِلٌ فِی الْمَعَانِی الَّتِیْ ذٰکَرْنَا .وَاِنَّمَا احْتَجْنَا اِلَی ذِکْرِ مَا رُوِیَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، لِمَا قَدْ اخْتَلَفَ فِیْہِ أَصْحَابُنَا فِیْ قَوْلِ الرَّجُلِ لِامْرَأَتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ مَتَیْ یَقَعُ بِہٖ الطَّلَاقُ .فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ اِنْ قَالَ لَہَا ذٰلِکَ قَبْلَ شَہْرِ رَمَضَانَ ، لَمْ یَقَعْ الطَّلَاقُ حَتّٰی یَمْضِیَ شَہْرُ رَمَضَانَ ، لِمَا قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ مَوْضِعِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ مِنْ لَیَالِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا ہٰذَا الْبَابَ ، مِمَّا رُوِیَ أَنَّہَا فِی الشَّہْرِ کُلِّہٖ، وَمِمَّا قَدْ رُوِیَ أَنَّہَا فِیْ خَاص مِنْہُ قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَلَا أَحْکُمُ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ، اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ الشَّہْرِ ، لِأَنِّیْ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ مَضَی الْوَقْتُ الَّذِی أَوْقَعَ الطَّلَاقَ فِیْہِ، وَأَنَّ الطَّلَاقَ قَدْ وَقَعَ .قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَاِنْ قَالَ ذٰلِکَ لَہَا فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، فِیْ أَوَّلِہٖ ، أَوْ فِیْ آخِرِہٖ، أَوْ فِیْ وَسَطِہٖ، لَمْ یَقَعْ الطَّلَاقُ ، حَتّٰی یَمْضِیَ مَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ ، وَحَتّٰی یَمْضِیَ شَہْرُ رَمَضَانَ أَیْضًا کُلُّہٗ، مِنَ السَّنَۃِ الْقَابِلَۃِ قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ فِیْمَا مَضَی مِنْ ہٰذَا الشَّہْرِ الَّذِیْ ہُوَ فِیْہِ، فَلَا یَقَعُ الطَّلَاقُ حَتّٰی یَمْضِیَ شَہْرُ رَمَضَانَ کُلُّہٗ، مِنَ السَّنَۃِ الْجَائِیَۃِ ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ الَّذِیْ ہُوَ فِیْہِ، فَیَقَعُ الطَّلَاقُ فِیْہَا ، فَیَکُوْنُ کَمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِہٖ، قَبْلَ شَہْرِ رَمَضَانَ أَنْتِ طَالِقٌ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَیَکُوْنُ الطَّلَاقُ لَا یُحْکَمُ بِہٖ عَلَیْہِ اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ شَہْرِ رَمَضَانَ قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَلَمَّا أَشْکَلَ ذٰلِکَ ، لَمْ أَحْکُمْ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ اِلَّا بَعْدَ عِلْمِی بِوُقُوْعِہٖ، وَلَا أَعْلَمُ ذٰلِکَ ، اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ شَہْرِ رَمَضَانَ ، الَّذِیْ ہُوَ فِیْہِ، وَشَہْرِ رَمَضَانَ الْجَائِیْ بَعْدَہُ .فَہٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، قَالَ مَرَّۃً بِہٰذَا الْقَوْلِ أَیْضًا ، وَقَالَ مَرَّۃً أُخْرَی اِذَا قَالَ لَہَا ذٰلِکَ الْقَوْلَ فِیْ بَعْضِ شَہْرِ رَمَضَانَ ، لَمْ یُحْکَمْ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ حَتّٰی یَمْضِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ الْوَقْتِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، مِنَ السَّنَۃِ الْجَائِیَۃِ . قَالَ لِأَنَّ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ ، فَقَدْ کَمُلَ حَوْلٌ ، مُنْذُ قَالَ ذٰلِکَ الْقَوْلَ وَہِیَ فِیْ کُلِّ حَوْلٍ فَعِلْمنَا بِذٰلِکَ وُقُوْعَ الطَّلَاقِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَہٰذَا قَوْلٌ - عِنْدِی - لَیْسَ بِشَیْئٍ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ لَنَا ، اِنَّ کُلَّ حَوْلٍ یَکُوْنُ فَفِیْہِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْحَوْلَ لَیْسَ فِیْہِ شَہْرُ رَمَضَانَ بِکَمَالِہِ مِنْ سَنَۃٍ وَاحِدَۃٍ وَاِنَّمَا قِیْلَ لَنَا : اِنَّہَا فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ مِنْ کُلِّ سَنَۃٍ ، ہٰکَذَا دَلَّنَا عَلَیْہِ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَقَالَہُ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، احْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ اِذَا قَالَ لَہَا فِیْ بَعْضِ شَہْرِ رَمَضَانَ أَنْتِ طَالِقٌ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ أَنْ تَکُوْنَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ فِیْمَا مَضَی مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ .فَیَکُوْنُ اِذَا مَضَیْ حَوْلٌ مِنْ حِیْنَئِذٍ ، اِلَی مِثْلِہِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، مِنَ السَّنَۃِ الْجَائِیَۃِ ، لَا لَیْلَۃَ قَدْرٍ فِیْہِ .فَفَسَدَ بِمَا ذَکَرْنَا ، قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ الَّذِی وَصَفْنَا ، وَثَبَتَ - عَلٰی ہَذَا التَّرْتِیْبِ - مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ مَرَّۃً أُخْرَی اِذَا قَالَ لَہَا الْقَوْلَ فِیْ بَعْضِ شَہْرِ رَمَضَانَ : اِنَّ الطَّلَاقَ لَا یَقَعُ ، حَتّٰی یَمْضِیَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ وَذَہَبَ فِیْ ذٰلِکَ - فِیْمَا نَرَی وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - اِلٰی أَنَّ مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ أَنَّہَا فِیْ لَیْلَۃٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِعَیْنِہَا ہُوَ حَدِیْثُ بِلَالٍ ، وَحَدِیْثُ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فَاِذَا مَضَتْ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، عُلِمَ أَنَّ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ قَدْ کَانَتْ ، فَحَکَمَ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ وَقِیْلَ ذٰلِکَ فَلَیْسَ بِعِلْمِ کَوْنِہَا فَکَذٰلِکَ لَمْ یُحْکَمْ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ .وَہٰذَا الْقَوْلُ تَشْہَدُ لَہُ الْآثَارُ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا ، فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٥٤٩: قتادہ نے مطرف بن عبداللہ سے نقل کیا وہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ یہ ان روایات میں سے آخری روایت ہے جو لیلۃ القدر کے متعلق معلومات کے سلسلہ میں ہمیں میسر و مہیا ہوئیں۔ کہ وہ کون سی رات ہے ؟ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی کچھ معلوم ہوا ہے البتہ جو صحابہ کرام اور تابعین سے منقول ہے اس کا مفہوم تقریباً اس سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں ہمیں لیلۃ القدر کے متعلق تفصیل کی اس لیے ضرورت پیش آئی کہ ہمارے علماء کا اس سلسلہ میں باہمی اختلاف کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے انت طالق فی لیلۃ القدر تو اس عورت کو کب طلاق ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ اگر یہ بات رمضان سے پہلے کہی تو جب تک رمضان کا مہینہ نہ گزرے گا طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس میں اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کی کون سی رات میں ہے جیسا ہم نے اس سلسلہ میں بیان کردیا کہ بعض روایات سے اس کا تمام ماہ میں دائر ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض روایات سے خاص راتوں میں پایا جانا معلوم ہوتا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں طلاق کے وقوع کا اس وقت حکم لگاؤں گا جبکہ مہینہ گزر جائے گا کیونکہ مجھے اس سے پختہ طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ وقت گزر گیا کہ جس میں اس نے طلاق واقع کی اور طلاق واقع ہوگئی۔ امام صاحب فرماتے ہیں اگر اس نے کہا فی شہر رمضان۔ ابتداء یا انتہا میں یا درمیان میں تو طلاق اس وقت تک واقع نہ ہوگی جب تک مہینے کا بقیہ حصہ نہ گزر جائے اور تمام رمضان نہ گزرے جو آئندہ سال آ رہا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مہینے کا جو حصہ گزرا وہ اس میں گزر چکی تو اس کو طلاق سارا رمضان گزرنے تک نہ ہوگی جو کہ آئندہ سال آ رہا ہے کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رات مہینے کا جو حصہ باقی ہے اس میں ہو تو اس میں طلاق واقع ہوجائے۔ اس صورت میں اس شخص کی طرح ہوگا۔ جس نے اپنی بیوی کو رمضان سے پہلے کہا : انت طالق لیلۃ القدر تو اس کے متعلق طلاق کا فیصلہ ماہ رمضان گزرنے کے بعد ہو سکے گا۔ امام صاحب فرماتے ہیں جب اس میں اشکال پیدا ہوگیا تو میں اس کے متعلق طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ اس وقت ہی کروں گا جب مجھے معلوم ہوجائے گا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے اور اس کا مجھے علم نہیں جب تک کہ پورا رمضان نہ گزر جائے جس میں لیلۃ القدر پائی جاتی ہے اور وہ رمضان جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے وہ بھی۔ یہ تو امام ابوحنیفہ (رح) کا اس سلسلہ میں مذہب ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے کہ بعض اوقات تو وہ بھی یہی فرماتے ہیں اور بعض اوقات یہ فرماتے ہیں جب اس نے یہ بات رمضان المبارک کے بعض دنوں میں کہی تو اس پر طلاق کا اس وقت حکم کیا جائے گا جب آئندہ سال کے رمضان سے اتنے دن گزر جائیں۔ ابو یوسف کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ رات مکمل سال میں ہے اور جب اس قول پر پورا سال گزر گیا تو ہم نے یقین سے جان لیا کہ وہ رات اس میں آگئی پس طلاق واقع ہوجائے گی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ میرے نزدیک یہ قول کچھ وزن نہیں رکھتا کیونکہ ہمیں یہ نہیں کہا گیا کہ لیلۃ القدر تمام سال میں اس طور پر کہ جس میں رمضان کا مہینہ ایک سال میں مکمل نہ آتا ہو۔ بلکہ ہمیں یہ
بتلایا گیا کہ ہر سال کے رمضان المبارک میں یہ رات پائی جاتی ہے۔ کتاب و سنت کی دلالت اس پر ہے جیسا کہ اس باب میں ہم پہلے ذکر کر آئے۔ پس جب یہ اسی طرح ہے۔ تو متکلم کا کلام جب کہ اس نے رمضان المبارک کا کچھ حصہ گزرنے پر کیا ” انت طلاق لیلۃ القدر “ میں احتمال ہوا لیلۃ القدر اس مہینہ کے گزشتہ دنوں میں اور اس وقت سے لے کر اگلے سال کے رمضان تک ہو جس میں لیلۃ القدر نہیں۔ حالانکہ مذکورہ بات سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ اس ترتیب سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔ امام ابویوسف (رح) کا دوسرا قولہ ہے کہ امام ابو یوسف (رح) بعض اوقات یہ کہتے ہیں کہ اگر رمضان المبارک کے کسی حصہ میں اس کو یہ بات کہے تو جب تک ستائیسویں شب نہ گزرنے پائے طلاق واقع نہ ہوگی۔ ہمارے نزدیک انھوں نے یہ مسلک اس روایت کی بنیاد پر اپنایا ہے کہ جس میں لیلۃ القدر رمضان المبارک کی ایک مخصوص رات ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب اور بلال (رض) کی روایات میں وارد ہے اس بناء پر جب ستائیس رمضان گزر جائے گی تو لیلۃ القدر گزر چکی جس سے طلاق کو مشروط کیا تھا۔ فلہذا اس کو طلاق پڑجائے گی اور وقوع طلاق کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس سے پہلے چونکہ اس کے گزرنے کا علم نہیں ہوا پس وقوع طلاق کا حکم نہ دیا جائے گا۔ اس قول کی شاہد وہ روایات ہیں جو ہم گزشتہ اوراق میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے ہیں۔
لیلۃ القدر کے متعلق تفصیل کی وجہ : یہاں ہمیں لیلۃ القدر کے متعلق تفصیل کی اس لیے ضرورت پیش آئی کہ ہمارے علماء کا اس سلسلہ میں باہمی اختلاف کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے انت طالق فی لیلۃ القدر تو اس عورت کو کب طلاق ہوگی۔
امام ابوحنیفہ (رح) کا قول : اگر یہ بات رمضان سے پہلے کہی تو جب تک رمضان کا مہینہ نہ گزرے گا طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس میں اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کی کون سی رات میں ہے جیسا ہم نے اس سلسلہ میں بیان کردیا کہ بعض روایات سے اس کا تمام ماہ میں دائر ہو اور بعض روایات سے خاص راتوں میں پایا جانا معلوم ہوتا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں طلاق کے وقوع کو اس وقت حکم لگاؤں گا جبکہ مہینہ گزر جائے گا کیونکہ مجھے اس سے پختہ طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ وقت گزر گیا کہ جس میں اس سے طلاق واقع کی اور طلاق واقع ہوگئی۔
امام صاحب فرماتے ہیں اگر اس نے کہا فی شہر رمضان۔ ابتداء یا انتہا میں یا درمیان میں تو طلاق اس وقت تک واقع نہ ہوگی جب تک مہینے کا بقیہ حصہ نہ گزر جائے اور تمام رمضان نہ گزرے جو آئدنہ سال والا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مہینے کا جو حصہ گزرا وہ اس میں گزر چکی تو اس کو طلاق سارا رمضان گزرنے تک نہ ہوگی جو کہ آئندہ سال آ رہا ہے کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رات مہینے کا جو حصہ باقی ہے اس میں ہو تو اس میں طلاق واقع ہوجائے۔ اس صورت میں اس شخص کی طرح ہوگا۔ جس نے اپنی بیوی کو رمضان سے پہلے کہا انت طلاق لیلۃ القدر تو اس کے متعلق طلاق کا فیصلہ ماہ رمضان گزرنے کے بعد ہو سکے گا۔ امام صاحب فرماتے ہیں جب اس میں اشکال پیدا ہوگیا تو میں اس کے متعلق طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ اس وقت ہی کروں گا جب مجھے معلوم ہوجائے گا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے اور اس کا مجھے علم نہیں جب تک کہ پورا رمضان نہ گزر جائے جس میں لیلۃ القدر پائی جاتی ہے اور وہ رمضان جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے وہ بھی۔ یہ تو امام ابوحنیفہ (رح) کا اس سلسلہ میں مذہب ہے۔
امام ابو یوسف (رح) کا قول : بعض اوقات تو وہ بھی یہی فرماتے ہیں اور بعض اوقات یہ فرماتے ہیں جب اس نے یہ بات رمضان المبارک کے بعض دنوں میں کہی تو اس پر طلاق کا اس وقت حکم کیا جائے گا جب آئندہ سال کے رمضان سے اتنے دن گزر جائیں۔
ابو یوسف کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ رات مکمل سال میں ہے اور جب اس قول پر پورا سال گزر گیا تو ہم نے یقین سے جان لیا کہ وہ رات اس میں آگئی پس طلاق واقع ہوجائے گی۔
تبصرہ طحاوی (رح) : میرے نزدیک یہ قول کچھ وزن نہیں رکھتا کیونکہ ہمیں یہ نہیں کہا گیا کہ لیلۃ القدر تمام سال میں اس طور پر ہے کہ جس میں رمضان کا مہینہ ایک سال میں مکمل نہ آتا ہو۔ بلکہ ہمیں یہ بتلایا گیا کہ ہر سال کے رمضان المبارک میں یہ رات پائی جاتی ہے۔ کتاب و سنت کی دلالت اس پر ہے جیسا کہ اس باب میں ہم پہلے ذکر کر آئے۔ پس جب یہ اسی طرح ہے۔ تو متکلم کا کلام جب کہ اس نے رمضان المبارک کا کچھ حصہ گزرنے پر کیا ” انت طالق لیلۃ القدر “ میں احتمال ہوا لیلۃ القدر اس مہینہ کے گزشتہ دنوں میں ہو اور اس وقت سے لے کر اگلے سال کے رمضان تک ہو جس میں لیلۃ القدر نہیں۔ حالانکہ یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔
اس ترتیب سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔
امام ابویوسف (رح) کا دوسرا قول : امام ابو یوسف (رح) بعض اوقات یہ کہتے ہیں کہ اگر رمضان المبارک کے کسی حصہ میں اس کو یہ بات کہے تو جب تک ستائیسویں شب نہ گزرنے پائے طلاق واقع نہ ہوگی۔
تبصرہ طحاوی (رح) : ہمارے نزدیک انھوں نے یہ مسلک اس روایت کی بنیاد پر اپنایا ہے کہ جس میں لیلۃ القدر رمضان المبارک کی ایک مخصوص رات ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب اور بلال (رض) کی روایات میں وارد ہے اس بناء پر جب ستائیس رمضان گزر جائے گی تو لیلۃ القدر گزر چکی جس سے طلاق کو مشروط کیا تھا۔ فلہذا اس کو طلاق پڑجائے گی اور وقوع طلاق کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس سے پہلے چونکہ اس کے گزرنے کا علم نہیں ہوا پس وقوع طلاق کا حکم نہ دیا جائے گا۔ اس قول کی شاہد وہ روایات ہیں جو ہم گزشتہ اوراق میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے ہیں۔
: اس باب کے عنوان کے مضمون کی اس قدر تفصیل اور توجیہہ نہیں جتنی ضمنی مسئلہ تعیین لیلۃ القدر کی کی گئی لیلۃ القدر کی مکمل تحقیق بمع دلائل و جوابات یہاں ذکر کردی اور روایات کی تطبیق کی شاندار کوشش فرمائی۔ جزاہ اللہ عنا جمیعا وعن جمیع الامہ ۔

4550

۴۵۵۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَجَاوَزَ اللّٰہُ لِیْ عَنْ أُمَّتِی ، الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ ، وَمَا اُسْتُکْرِہُوْا عَلَیْہِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أُکْرِہَ عَلَی طَلَاقٍ ، أَوْ نِکَاحٍ ، أَوْ یَمِیْنٍ ، أَوْ اِعْتَاقٍ ، أَوْ مَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ حَتَّی فَعَلَہُ مُکْرَہًا ، أَنَّ ذٰلِکَ کُلَّہٗ بَاطِلٌ ، لِأَنَّہٗ قَدْ دَخَلَ فِیْمَا تَجَاوَزَ اللّٰہُ فِیْہِ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أُمَّتِہٖ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یَلْزَمُہٗ مَا حَلَفَ بِہٖ فِیْ حَالِ الْاِکْرَاہٖ، مِنْ یَمِیْنٍ ، وَیَنْفُذُ عَلَیْہِ طَلَاقُہٗ، وَعَتَاقُہٗ، وَنِکَاحُہٗ، وَمُرَاجَعَتُہُ لِزَوْجَتِہِ الْمُطَلَّقَۃِ ، اِنْ کَانَ رَاجَعَہَا .وَتَأَوَّلُوْا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَعْنًی غَیْرَ الْمَعْنَی الَّذِیْ تَأَوَّلَہٗ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فَقَالُوْا : اِنَّمَا ذٰلِکَ فِی الشِّرْکِ خَاصَّۃً ، لِأَنَّ الْقَوْمَ کَانُوْا حَدِیْثِیْ عَہْدٍ بِکُفْرٍ ، فِیْ دَارٍ کَانَتْ دَارَ کُفْرٍ ، فَکَانَ الْمُشْرِکُوْنَ اِذَا قَدَرُوْا عَلَیْہِمْ ، اسْتَکْرَہُوْھُمْ عَلَی الْاِقْرَارِ بِالْکُفْرِ ، فَیُقِرُّوْنَ بِذٰلِکَ بِأَلْسِنَتِہِمْ ، قَدْ فَعَلُوْا ذٰلِکَ بِعَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَبِغَیْرِہِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ ، فَنَزَلَتْ فِیْہِمْ اِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَرُبَّمَا سَہْوًا ، فَتَکَلَّمُوْا بِمَا جَرَتْ عَلَیْہِ عَادَتُہُمْ قَبْلَ الْاِسْلَامِ ، وَرُبَّمَا أَخْطَئُوْا فَتَکَلَّمُوْا بِذٰلِکَ أَیْضًا ، فَتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ عَنْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہُمْ غَیْرُ مُخْتَارِیْنَ لِذٰلِکَ ، وَلَا قَاصِدِیْنَ اِلَیْہِ .وَقَدْ ذَہَبَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ اِلَی ہَذَا التَّفْسِیْرِ أَیْضًا حَدَّثَنَاہُ الْکَیْسَانِیُّ ، عَنْ أَبِیْھَا.فَالْحَدِیْثُ یَحْتَمِلُ ہٰذَا الْمَعْنَی ، وَیَحْتَمِلُ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ ، احْتَجْنَا اِلَیْ کَشْفِ مَعَانِیْہِ، لِیَدُلَّنَا عَلٰی أَحَدِ التَّأْوِیْلَیْنِ ، فَنَصْرِفُ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَیْہِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَوَجَدْنَا الْخَطَأَ ، ہُوَ مَا أَرَادَ الرَّجُلُ غَیْرَہٗ، فَفَعَلَہٗ، لَا عَنْ قَصْدٍ مِنْہُ اِلَیْہِ، وَلَا اِرَادَۃٍ مِنْہُ اِیَّاہٗ، وَکَانَ السَّہْوُ مَا قَصَدَ اِلَیْہِ، فَفَعَلَہٗ عَلَی الْقَصْدِ مِنْہُ اِلَیْہِ، عَلٰی أَنَّہٗ سَاہٍ عَنِ الْمَعْنَی الَّذِیْ یَمْنَعُہٗ مِنْ ذٰلِکَ الْفِعْلِ وَکَانَ الرَّجُلُ اِذَا نَسِیَ أَنْ تَکُوْنَ ہٰذِہِ الْمَرْأَۃُ لَہُ زَوْجَۃً ، فَقَصَدَ اِلَیْہَا ، فَطَلَّقَہَا ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ طَلَاقَہُ عَامِلٌ وَلَمْ یُبْطِلُوْا ذٰلِکَ لِسَہْوِہٖ، وَلَمْ یَدْخُلْ ذٰلِکَ السَّہْوُ فِی السَّہْوِ الْمَعْفُوِّ عَنْہُ فَاِذَا کَانَ السَّہْوُ الْمَعْفُوُّ عَنْہُ، لَیْسَ فِیْہِ مَا ذَکَرْنَا مِنِ الطَّلَاقِ وَالْأَیْمَانِ ، وَالْعَتَاقِ ، کَانَ کَذٰلِکَ الْاَسْتِکْرَاہُ الْمَعْفُوُّ عَنْہُ، لَیْسَ فِیْہِ أَیْضًا مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، فَسَادُ قَوْلِ الَّذِیْنَ أَدْخَلُوْا الطَّلَاقَ وَالْعَتَاقَ وَالْأَیْمَانَ فِیْ ذٰلِکَ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَیْضًا لِقَوْلِہِمْ ، بِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ :
٤٥٥٠: عبید بن عمیر (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطاء ‘ نسیان اور جس پر ان کو مجبور کیا جائے ان کا گناہ معاف کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کسی کو طلاق پر مجبور کیا جائے یا زبردستی نکاح یا قسم لی جائے یا آزاد کیا جائے یا اس کے مشابہہ جو دیگر افعال ہیں وہ کرائے جائیں اور اس نے ان کو مجبوری میں کرلیا۔ تو یہ سب باطل ہیں نافذ نہ ہوں گے۔ کیونکہ یہ اس چیز میں داخل ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے معاف کردیا اور اس کی دلیل یہ روایت ہے۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کیا ہے کہ اکراہ کی حالت میں جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا وہ نافذ ہوجائے گا۔ مثلاً قسم ‘ طلاق ‘ عتاق ‘ نکاح ‘ مطلقہ کی مراجعت اگر وہ اس سے رجوع کرنے والا ہو۔ اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو تم نے لیا ہے بلکہ اس ارشاد کا تعلق شرک وغیرہ سے ہے کیونکہ وہ لوگ دارالکفر میں مقیم تھے اور نئے نئے اسلام لانے والے تھے اس لیے کفار کا جب بھی ان پر بس چلتا وہ انھیں اقرار کفر پر مجبور کرتے۔ چنانچہ بسا اوقات وہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کرتے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر (رض) اور بعض دیگر صحابہ کرام (رض) سے یہی معاملہ کیا گیا۔ اس وقت ان کے حق میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی ” الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان “ اور بعض اوقات وہ بھول کر اسلام سے پہلے کی عادت کے مطابق کلمہ کفر زبان سے نکال بیٹھتے اور کبھی غلطی سے بھی اس قسم کا کلام ہوجاتا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمایا کیونکہ اس میں ان کو کوئی اختیار نہ تھا اور نہ ہی وہ ایسا ارادہ سے کرتے تھے۔ امام ابو یوسف (رح) نے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے اور ہم نے کیسانی کی سند سے امام ابو یوسف (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔ پس حدیث میں اس معنی کا احتمال بھی ہے اور دوسرا احتمال وہ ہے جس کو فریق اوّل نے ذکر کیا ہے جب احتمال ہوا تو اس روایت کے معنی کی پڑتال ضروری ہوئی تاکہ دونوں میں سے ایک مفہوم کی طرف راہنمائی ہو اور پھر ہم اس روایت کو اس معنی کی طرف پھیر دیں۔ ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے مگر اس کام کی بجائے جس کا ارادہ ہو دوسرے کام کو کر ڈالے تو یہ خطاء ہے کیونکہ اس نے اس کام کا قصد نہیں کیا اور سہو و نسیان یہ ہے کسی کام کو تو ارادہ سے کرے مگر اس میں جو رکاوٹ تھی وہ بھول گیا۔ (مثلاً روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لیا) اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے متعلق بھول جائے کہ وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس کے باوجود قصداً اس کو طلاق دے دے تو سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی یہ طلاق واقع ہوجائے گی اور وہ بھول کی وجہ سے اس طلاق کو باطل قرار نہیں دے سکتا اور یہ بھول اس بھول میں داخل شمار نہیں ہوتی جس کو معاف کردیا گیا تو جب بھول کردی جانے والی طلاق قسم اور آزادی سب میں بھول کا دخل نہیں اور اس بھول میں شامل نہیں جو معاف کردی گئی تو جبر کے موقعہ پر مندرجہ امور بھی اس اکراہ میں شامل نہ ہوں گے جو معاف کردیا گیا ہے۔ پس اس سے ان لوگوں کے قول کی غلطی ظاہر و ثابت ہوگئی جنہوں نے طلاق ‘ آزادی اور قسم کو اس میں شامل کیا۔ دلیل میں فریق اوّل کہتے ہیں کہ مندرجہ ذیل روایت بھی تو اس مؤقف کی تائید کرتی ہے روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطلاق باب ١٦۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کسی کو طلاق پر مجبور کیا جائے یا زبردستی نکاح یا قسم لی جائے یا آزاد کیا جائے یا اس کے مشابہہ دیگر افعال ہیں وہ کرائے جائیں اور اس نے ان کو مجبوری میں کرلیا۔ تو یہ سب باطل ہیں نافذ نہ ہوں۔ کیونکہ یہ اس چیز میں داخل ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے معاف کردیا اور اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اکراہ کی حالت میں جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا وہ نافذ ہوجائے گا۔ مثلاً قسم ‘ طلاق ‘ عتاق ‘ نکاح ‘ مطلقہ کی مراجعت اگر وہ اس سے رجوع کرنے والا ہو۔
اول فریق کے مؤقف کا جواب : اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو تم نے لیا ہے بلکہ اس ارشاد کا تعلق شرک وغیرہ سے ہے کیونکہ وہ لوگ دارالکفر میں مقیم تھے اور نئے نئے اسلام لانے والے تھے اس لیے کفار کا جب بھی ان پر بس چلتا وہ انھیں اقرار کفر پر مجبور کرتے۔ چنانچہ بسا اوقات وہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کرتے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر (رض) اور بعض دیگر صحابہ کرام (رض) سے یہی معاملہ کیا گیا۔ اس وقت ان کے حق میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی ” الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان “ اور بعض اوقات وہ بھول کر اسلام سے پہلے کی عادت کے مطابق کلمہ کفر پر زبانی سے نکال بیٹھتے اور کبھی غلطی سے بھی اس قسم کا کلام ہوجاتا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمایا کیونکہ اس میں ان کو کوئی اختیار نہ تھا اور نہ ہی وہ ایسا ارادہ سے کرے تھے۔
امام ابو یوسف (رح) سے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے اور ہم نے کیسانی کی سند سے امام ابو یوسف (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔
پس حدیث میں اس معنی کا احتمال بھی ہے اور دوسرا احتمال وہ جس کو فریق اوّل نے ذکر کیا ہے جب احتمال ہوا تو اس روایت کے معنی کی پڑتال ضروری ہوئی تاکہ دونوں میں سے ایک مفہوم کی طرف راہنمائی ہو اور پھر ہم اس روایت کو اس معنی کی طرف پھیر دیں۔
خطاء و نسیان کے معانی پر غور : ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی کسی کا مکا ارادہ کرے مگر اس کام کی بجائے جس کا ارادہ ہو دوسرے کام کو کر ڈالے تو یہ خطاء ہے کیونکہ اس نے اس کام کا قصد نہیں کیا اور سہو و نسیان یہ ہے کسی کام کو تو رادہ سے کرے مگر اس میں جو رکاوٹ تھی وہ بھول گیا۔ (مثلاً روزہ کی حالت میں بھول کا کھا پی لیا) اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے متعلق بھول جائے کہ وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس کے باوجود قصداً اس کو طلاق دے دے تو سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی یہ طلاق واقع ہوجائے گی اور وہ بھول کی وجہ سے اس طلاق کو باطل قرار نہیں دے سکتا اور یہ بھول اس بھول میں داخل شمار نہیں ہوتی جس کو معاف کردیا گیا تو جب بھول کردی جانے والی طلاق قسم اور آزادی سب میں بھول کا دخل نہیں اور اس بھول میں شامل نہیں جو معاف کردی گئی تو جبر کے موقعہ پر مندرجہ امور بھی اس اکراہ میں شامل نہ ہوں گے جو معاف کردیا گیا ہے۔
پس اس سے ان لوگوں کے قول کی غلطی ظاہر و ثابت ہوگئی جنہوں نے طلاق ‘ آزادی اور قسم کو اس میں شامل کیا۔

4551

۴۵۵۱: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی ، فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ اِلَی دُنْیَا یُصِیْبُہَا أَوْ اِلَی امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا ، فَہِجْرَتُہُ اِلَی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ .
٤٥٥١: علقمہ بن وقاص لیثی (رح) نے حضرت عمر (رض) کو منبر پر یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہو کہ اس کو حاصل کرے یا کسی عورت کے لیے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوگی جس کی جانب اس نے ہجرت کی ہے۔
تخریج : بخاری فی بدء الوحی باب ١‘ الایمان باب ٤١‘ الاکراہ فی الترجمہ والنکاح باب ٥‘ الطلاق باب ١١‘ مناقب الانصار باب ٤٥‘ العتق باب ٦‘ الایمان باب ٢٣‘ والحیل باب ١‘ مسلم فی الامارہ ١٥٥‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ١١‘ ترمذی فی فضائل الجہاد باب ١٦‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٥٩‘ والطلاق باب ٢٤‘ والایمان باب ١٩‘ ابن ماجہ فی الزہد ٢٦‘ مسند احمد ١‘ ٢٥؍٤٣۔

4552

۴۵۵۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ قَالُوْا : فَلَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ثَبَتَ أَنَّ عَمَلًا لَا یَنْفُذُ مِنْ طَلَاقٍ ، وَلَا عَتَاقٍ ، وَلَا غَیْرِہِ اِلَّا أَنْ تَکُوْنَ مَعَہُ نِیَّۃٌ فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا الْکَلَامَ لَمْ یُقْصَدْ بِہٖ اِلَی الْمَعْنَیْ اِلَی الَّذِیْ ذٰکَرَہُ ہٰذَا الْمُخَالِفُ ، وَاِنَّمَا قَصَدَ بِہٖ اِلَی الْأَعْمَالِ الَّتِیْ یَجِبُ بِہَا الثَّوَابُ .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی یُرِیْدُ ، مِنَ الثَّوَابِ ثُمَّ قَالَ : فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ، فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ، وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ اِلَی دُنْیَا یُصِیْبُہَا أَوْ اِلَی امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا ، فَہِجْرَتُہُ اِلَی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ فَذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ اِلَّا جَوَابًا لِسُؤَالٍ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّا لِلْمُہَاجِرِ فِیْ عَمَلِہٖ ، أَیْ : ہِجْرَتِہِ فَقَالَ : اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ حَتّٰی أَتٰی عَلَی الْکَلَامِ الَّذِیْ فِی الْحَدِیْثِ وَلَیْسَ ذٰلِکَ مِنْ أَمْرِ الْاِکْرَاہِ عَلَی الطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ وَالرَّجْعَۃِ وَالْأَیْمَانِ ، فِیْ شَیْء فَانْتَفَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ فِیْہِ حُجَّۃٌ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الَّتِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہَا ، عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الَّتِی ثَنَّیْنَا بِذِکْرِہَا وَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ لِقَوْلِہِمْ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ،
٤٥٥٢: حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ الاعمال بالنیات تو اس سے ثابت ہوا کہ کوئی عمل اس وقت تک نافذ نہ ہوگا جب تک نیت نہ ہو وہ عمل طلاق ‘ عتاق وغیرہ جو بھی ہو۔ دوسروں نے اپنی دلیل دیتے ہوئے کہا جو معنی آپ نے مراد لیا وہ مقصود نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اعمال جن پر ثواب ملتا ہے ان کا دارومدار نیتوں پر ہے اگر نیت درست نہ ہوگی تو ثواب نہ ملے گا ذرا غور تو کرو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی ہے پس اس سے ثواب مراد ہے پھر آپ نے فرمایا جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کی غرض سے ہوگی کہ اسے حاصل کرے یا کسی عورت کے لیے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے یہ کلام کسی سوال کا جواب ہے گویا اس طرح مہاجر کے عمل ہجرت کا ثواب دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیت پر ہے یہاں تک کہ آپ نے وہ بات فرمائی جو روایت میں وارد ہوئی ہے اس روایت کا تعلق اکراہ سے طلاق ‘ عتاق ‘ رجوع ‘ قسم سے نہیں ہے۔ پس اس سے فریق اوّل کا اعتراض بالکل زائل ہوگیا۔ اس روایت میں ان کی دلیل نہ رہی جن کے تذکرہ سے ہم نے ابتداء کی تھی۔ اب فریق ثانی کی حجت ذکر کی جا رہی ہے جو وہ پیش کرتے ہیں۔
طریق استدلال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ الاعمال بالنیات تو اس سے ثابت ہوا کہ کوئی عمل اس وقت تک نافذ نہ ہوگا جب تک نہ ہو وہ عمل طلاق ‘ عتاق وغیرہ جو بھی ہو۔
جواب فریق ثانی : جو معنی آپ نے مراد لیا وہ مقصود نہیں بلکہ اس مراد یہ ہے کہ وہ اعمال جن پر ثواب ملتا ہے ان کا دارومدار نیتوں پر ہے اگر نیت درست نہ ہوگی تو ثواب نہ نلے گا ذرا غور تو کرو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی ہے پس اس سے ثواب مراد ہے پھر آپ نے فرمایا جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کی غرض سے ہوگی تو اسے حاصل کر یا کسی عورت کے لیے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے یہ کلام کسی سوال کا جواب ہے گویا اس طرح مہاجر کے عمل ہجرت کا ثواب دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیت پر ہے یہاں تک کہ آپ وہ بات فرمائی جو روایت میں وارد ہوئی ہے اس روایت کا تعلق اکراہ سے طلاق ‘ عتاق ‘ رجوع ‘ قسم سے نہیں ہے۔

4553

۴۵۵۳: مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ جُمَیْعٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الطُّفَیْلِ ، قَالَ : ثَنَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ، قَالَ مَا مَنَعَنِیْ أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا ، اِلَّا أَنِّیْ خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِیْ، فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ ، فَقَالُوْا : اِنَّکُمْ تُرِیْدُوْنَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا : مَا نُرِیْدُ اِلَّا الْمَدِیْنَۃَ فَأَخَذُوْا مِنَّا عَہْدَ اللّٰہِ وَمِیْثَاقَہٗ لَنَنْصَرِفَنَّ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ ، وَلَا نُقَاتِلُ مَعَہٗ فَأَتَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاہُ فَقَالَ انْصَرِفَا مِنَ الْوَفَائِ نَفِیْ ضِدُّ الْغَدْرِ لَہُمْ بِعُہُوْدِہِمْ ، وَنَسْتَعِیْنُ اللّٰہَ عَلَیْہِمْ
٤٥٥٣: ابوالطفیل نے حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت کی ہے کہ میں غزوہ بدر میں شریک ہونے سے اس لیے رکا کہ میرے والد اور میں دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنا چاہتے ہو ؟ ہم نے کہا ہم تو صرف مدینہ طیبہ کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھوں نے ہم سے اللہ تعالیٰ کے نام سے پختہ عہد لیا کہ ہم مدینہ منورہ کی طرف لوٹ جائیں گے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی میں شریک نہ ہوں گے۔ چنانچہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا تم واپس جاؤ۔ ہم ان کے عہد کو پورا کریں گے اور مشرکین کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں گے۔

4554

۴۵۵۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ ، عَنِ الْوَلِیْدِ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِیْ حُسَیْلٍ ، وَنَحْنُ نُرِیْدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔قَالُوْا : فَلَمَّا مَنَعَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ حُضُوْرِ بَدْرٍ ، لِاسْتِحْلَافِ الْمُشْرِکِیْنَ الْقَاہِرِیْنَ لَہُمَا ، عَلٰی مَا اسْتَحْلَفُوْھُمَا عَلَیْہِ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْحَلِفَ عَلَی الطَّوَاعِیَۃِ وَالْاِکْرَاہِ سَوَاء ٌ ، کَذٰلِکَ الطَّلَاقُ وَالْعَتَاقُ وَہٰذَا أَوْلَی مَا فُعِلَ فِی الْآثَارِ ، اِذَا وُقِفَ عَلَی مَعَانِیْ بَعْضِہَا أَنْ یُحْمَلَ مَا بَقِیَ مِنْہَا عَلٰی مَا لَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ الْمَعْنَی ، مَتَی مَا قَدَرَ عَلٰی ذٰلِکَ ، حَتّٰی لَا تَضَادَّ فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الشِّرْکِ ، وَحَدِیْثَ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الطَّلَاقِ وَالْأَیْمَانِ ، وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ وَأَمَّا حُکْمُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّ فِعْلَ الرَّجُلِ مُکْرَہًا ، لَا یَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ الْمُکْرَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْفِعْلِ اِذَا فَعَلَہُ مُکْرَہًا ، فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَفْعَلْہٗ، فَلَا یَجِبُ عَلَیْہِ شَیْء ٌ أَوْ یَکُوْنَ فِیْ حُکْمِ مَنْ فَعَلَہٗ، فَیَجِبُ عَلَیْہِ، مَا یَجِبُ عَلَیْہِ لَوْ فَعَلَہُ غَیْرَ مُسْتَکْرَہٍ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِی الْمَرْأَۃِ اِذَا أَکْرَہَہَا زَوْجُہَا وَہِیَ صَائِمَۃٌ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ أَوْ حَاجَّۃٌ ، فَجَامَعَہَا ، أَنَّ حَجَّہَا یَبْطُلُ ، کَذٰلِکَ صَوْمُہَا وَلَمْ یُرَاعُوْا فِیْ ذٰلِکَ الْاَسْتِکْرَاہٖ، فَیُفَرِّقُوْا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الطَّوَاعِیَۃِ ، وَلَا جُعِلَتِ الْمَرْأَۃُ فِیْہِ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَفْعَلْ شَیْئًا ، بَلْ قَدْ جُعِلَتْ فِیْ حُکْمِ مَنْ قَدْ فَعَلَ فِعْلًا یَجِبُ عَلَیْہِ الْحُکْمُ ، وَرُفِعَ عَنْہَا الْاِثْمُ فِیْ ذٰلِکَ خَاصَّۃً وَکَذٰلِکَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَکْرَہَ رَجُلًا عَلَی جِمَاعِ امْرَأَۃٍ اُضْطُرَّتْ اِلَی ذٰلِکَ ، کَانَ الْمَہْرُ ، فِی النَّظَرِ ، عَلَی الْمُجَامِعِ ، لَا عَلَی الْمُکْرِہٖ، وَلَا یَرْجِعُ بِہٖ الْمُجَامِعُ عَلَی الْمُکْرِہٖ، لِأَنَّ الْمُکْرِہَ لَمْ یُجَامِعْ ، فَیَجِبُ عَلَیْہِ بِجِمَاعِہِ مَہْرٌ ، وَمَا یَجِبُ فِیْ ذٰلِکَ الْجِمَاعِ ، فَہُوَ عَلَی الْمُجَامِعِ ، لَا عَلَی غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ فِیْ ہٰذِہِ الْأَشْیَائِ أَنَّ الْمُکْرَہَ عَلَیْہَا مَحْکُوْمٌ عَلَیْہِ بِحُکْمِ الْفَاعِلِ کَذٰلِکَ فِی الطَّوَاعِیَۃِ ، فَیُوْجِبُوْنَ عَلَیْہِ فِیْہَا مِنَ الْأَمْوَالِ ، مَا یَجِبُ عَلَی الْفَاعِلِ لَہَا فِی الطَّوَاعِیَۃِ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ کَذٰلِکَ الْمُطَلِّقُ وَالْمُعْتِقُ وَالْمُرَاجِعُ فِی الْاِسْتِکْرَاہٖ، یُحْکَمُ عَلَیْہِ بِحُکْمِ الْفَاعِلِ ، فَیَلْزَمُ أَفْعَالَہُ کُلَّہَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَلِمَ لَا أَجَزْتُ بَیْعَہُ وَاِجَارَتَہٗ؟ قِیْلَ لَہٗ : اِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْبُیُوْعَ وَالْاِجَارَاتِ ، قَدْ تُرَدُّ بِالْعُیُوْبِ وَبِخِیَارِ الرُّؤْیَۃِ ، وَبِخِیَارِ الشَّرْطِ ، وَلَیْسَ النِّکَاحُ کَذٰلِکَ ، وَلَا الطَّلَاقُ وَلَا الْمُرَاجَعَۃُ وَلَا الْعِتْقُ .فَمَا کَانَ قَدْ تُنْقَضُ بِالْخِیَارِ لِلشُّرُوْطِ فِیْہِ وَبِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ فِیْ أَصْلِہِ مِنْ عَدَمِ الرُّؤْیَۃِ وَالرَّدِّ بِالْعُیُوْبِ ، نُقِضَ بِالْاِکْرَاہٖ، وَمَا لَا یَجِبُ نَقْضُہُ بِشَیْئٍ بَعْدَ ثُبُوْتِہٖ، لَمْ یُنْقَضْ بِاِکْرَاہٍ وَلَا بِغَیْرِہِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، وَقَدْ رَأَیْنَا مِثْلَ ہَذَا قَدْ جَائَ تْ بِہٖ السُّنَّۃُ
٤٥٥٤: حضرت ابوالطفیل نے حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں اور میرا والد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنے کا ارادہ لے کر نکلے پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بدر کی حاضری سے اس لیے منع کردیا کہ ظالم مشرکوں نے ان سے زبردستی وعدہ لیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ خوشی اور مجبوری دونوں حالتوں کی قسم کا حکم برابر ہے اور طلاق و عتاق کا بھی یہی حکم ہے۔ جب بعض روایات کے معنی کی اطلاع ہوگئی تو بقیہ آثار کو بھی اس معنی پر محمول کرنا زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے تاکہ وہ اس معنی کے خلاف نہ ہوں اور روایات میں باہم تضاد نہ ہو۔ مذکورہ بالا بحث کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عباس (رض) کی روایت کا تعلق شرک وغیرہ اعتقادیات سے ہے اور حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی روایت کا تعلق قسم ‘ طلاق و عتاق جیسے معاملات سے ہے جب فریق ثانی کا مؤقف ثابت بالآثار ہوگیا تو اب بطریق نظر بھی اس کو ثابت کیا جاتا ہے۔ چنانچہ غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی آدمی کا مجبوری کی حالت میں کوئی کام کرنا دو حالتیں رکھتا ہے۔ وہ شخص اس فعل کے کرنے سے اس آدمی کے حکم میں ہوجائے جس نے یہ عمل نہیں کیا تو اب اس شخص پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔ وہ شخص عمل کرنے والے کے حکم میں ہوگا تو اس صورت میں اس پر وہ چیز لازم ہوگی جو مجبور نہ کرنے کی صورت میں عمل کی وجہ سے واجب ہوتی ہے۔ پس ہم نے اس سلسلہ میں جب غور کیا تو دیکھا کہ ان حضرات کا اس عورت کے بارے میں اختلاف نہیں ہے کہ جس کا خاوند اس کو جماع پر مجبور کرے اور اس نے رمضان المبارک کا روزہ رکھا ہوا تھا اور حج کا احرام باندھ رکھا تھا۔ اب جماع سے اس کا حج باطل ہوجائے گا اسی طرح روزہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ فریق اوّل نے اس جبر میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی کہ وہ اس مجبوری عمل اور مرضی سے عمل کرنے میں فرق کرتے اور اس ضمن میں عورت کو عمل نہ کرنے والے کے حکم میں شمار نہ کرتے بلکہ اس مقام میں وہ عورت کو اس کے حکم میں شمار کرتے ہیں جس نے کوئی فعل کیا ہو اور اس پر حکم لازم ہوا ہو البتہ اس سے صرف گناہ اٹھا لیا گیا ہو۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی ایسی عورت سے جماع کرنے پر مجبور کرے جو جماع کے لیے بےقرار ہو۔ تو قیاس کے مطابق مہر جماع کرنے والے پر ہوگا جبر کرنے والے پر نہ ہوگا کیونکہ جماع جبر کرنے والے نے نہیں کیا کہ اس کے جماع کرنے سے مہر لازم ہو تو اس جماع کی صورت میں جماع کرنے والے پر مہر لازم ہوگا کسی دوسرے پر لازم نہ ہوگا۔ پس جب ان تمام اشیاء میں ثابت ہوگیا کہ فاعل وہی شخص کہلاتا ہے جس پر جبر کیا گیا ہے جس طرح کہ مرضی سے کام کرنے والے کو فاعل کہتے ہیں اور اس پر مال کو اسی طرح لازم کرتے ہیں جس طرح مرضی سے عمل کرنے والے پر لازم قرار دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ جبر کی صورت میں طلاق دینے والے ‘ آزاد کرنے اور رجوع کرنے والے پر فاعل جیسا حکم لگایا جائے گا اور اس کے تمام افعال لازم و نافذ شمار ہوں گے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ جبر کی حالت میں اجارہ اور تجارت کو تو آپ بھی جائز قرار نہیں دیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے خریدو فروخت اور اجارہ پر غور کیا کہ ان کو خیار عیب ‘ خیار رؤیت ‘ خیار شرط پر رد کردیا جاتا ہے۔ مگر نکاح طلاق و عتاق ایسی چیز نہیں جس کو رد کیا جاسکے۔ پس جو چیز خیار شرط کی وجہ سے ٹوٹ جائے اور اصل میں پائے جانے والے اسباب عدم رویت سے ٹوٹ جائے اور عیوب کی وجہ سے اس کو مسترد کیا جائے تو وہ مجبوری کی صورت میں بدرجہ اولیٰ ٹوٹ جانی اور رد ہونی چاہیے اور جو چیز ثابت ہونے کے بعد کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی تو وہ جبر واکراہ سے بھی نہ ٹوٹنی چاہیے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے روایت ابوہریرہ (رض) یہ ہے۔
طریق استدلال : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بدر کی حاضری سے اس لیے منع کردیا کہ ظالم مشرکوں نے ان سے زبردستی عدہ لیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ خوشی اور مجبوری دونوں حالتوں کی قسم کا حکم برابر ہے اور طلاق و عتاق کا بھی یہی حکم ہے۔
جب بعض روایات کے معنی کی اطلاع ہوگئی تو بقیہ آثار کو بھی اس معنی پر محمول کرنا زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے تاکہ وہ اس معنی کے خلاف نہ ہوں اور روایات میں باہم تضاد نہ ہو۔
فریق اوّل کے مستدل کا جواب : مذکور بالا بحث کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عباس (رض) کی روایت کا تعلق شرک وغیرہ اعتقادیات سے ہے اور حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی روایت کا تعلق قسم ‘ طلاق و عتاق جیسے معاملات سے ہے جب فریق ثانی کا مؤقف ثابت بالآثار ہوگیا تو اب بطریق نظر بھی اس کو ثابت کیا جاتا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی آدمی کا مجبوری کی حالت میں کوئی کام کرنا دو حالتیں رکھتا ہے۔
نمبر 1: وہ شخص اس فعل کے کرنے سے اس آدمی کے حکم میں ہوجائے جس نے یہ عمل نہیں کیا تو اب اس شخص پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔
نمبر 2: وہ شخص عمل کرنے والے کے حکم میں ہوگا تو اس صورت میں اس پر وہ چیز لازم ہوگی جو مجبور نہ کرنے کی صورت میں عمل کی وجہ سے واجب ہوتی ہے۔ پس ہم نے اس سلسلہ میں جب غور کیا تو دیکھا کہ ان حضرات کا اس عورت کے بارے میں اختلاف نہیں ہے کہ جس کا خاوند اس کو جماع پر مجبور کرے اور اس نے رمضان المبارک کا روزہ رکھا ہوا تھا اور حج کا احرام باندھ رکھا تھا۔ اب جماع سے اس کا حج باطل ہوجائے گا اسی طرح روزہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ فریق اوّل نے اس جبر میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی کہ وہ اس مجبوری عمل اور مرضی سے عمل کرنے میں فرق کرتے اور اس ضمن میں عورت کو عمل نہ کرنے والے کے حکم میں شمار نہیں کرتے بلکہ اس مقام میں وہ عورت کو اس کے حکم میں شمار کرتے ہیں جس نے کوئی فعل کیا ہو اور اس پر حکم لازم ہوا ہو البتہ اس سے صرف گناہ اٹھا لیا گیا ہو۔
بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی ایسی عورت سے جماع کرنے پر مجبور کرے جو جماع کے لیے بےقرار ہو۔ تو قیاس کے مطابق مہر جماع کرنے والے پر ہوگا جبر کرنے والے پر نہ ہوگا کیونکہ جماع جبر کرنے والے نے نہیں کیا کہ اس کے جماع کرنے سے مہر لازم ہو تو اس جماع کی صورت میں جماع کرنے والے پر مہر لازم ہوگا کسی دوسرے پر لازم نہ ہوگا۔
پس جب ان تمام اشیاء میں ثابت ہوگیا کہ فاعل وہی شخص کہلاتا ہے جس پر جبر کیا گیا ہے جس طرح کہ مرضی سے کام کرنے والے کو فاعل کہتے ہیں اور اس پر مال کو اسی طرح لازم کرتے ہیں جس طرح مرضی سے عمل کرنے والے پر لازم قرار دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ جبر کی صورت میں طلاق دینے والے ‘ اذاد کرنے اور رجوع کرنے والے پر فاعل جیسا حکم لگایا جائے گا اور اس کے تمام افعال لازم و نافذ شمار ہوں گے۔
سوال : جبر کی حالت میں اجارہ اور تجارت کو تو آپ بھی جائز قرار نہیں دیتے۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے خریدو فروخت اور اجارہ پر غور کیا کہ ان کو خیار عیب ‘ خیار روایت ‘ خیار شرط پر رد کردیا جاتا ہے۔ مگر نکاح طلاق و عتاق ایسی چیز نہیں جس کو رد کیا جاسکے۔ پس جو چیز خیار شرط کی وجہ سے ٹوٹ جائے اور اصل میں پائے جانے والے اسباب عدم رویت سے ٹوٹ جائے اور عیوب کی وجہ سے اس کو مسترد کیا جائے تو وہ مجبوری کی صورت میں بدرجہ اولیٰ ٹوٹ جانی اور رد ہونی چاہیے اور جو چیز ثابت ہونے کے بعد کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی تو وہ جبرو اکراہ سے بھی نہ ٹوٹنی چاہیے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
اور حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے روایت ابوہریرہ (رض) سے۔

4555

۴۵۵۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ حَبِیْبِ بْنِ أَرْدَکَ أَنَّہٗ سَمِعَ عَطَائَ بْنَ أَبِیْ رَبَاحٍ یَقُوْلُ : أَخْبَرَنِیْ یُوْسُفُ بْنُ مَاہَکَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ ، وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ ، النِّکَاحُ ، وَالطَّلَاقُ ، وَالرَّجْعَۃُ ۴۵۵۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ وَأَسَدٌ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَبِیْبِ بْنِ أَرْدَکَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، عَنِ ابْنِ مَاہَکَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٥٥٥: یوسف بن ماہک نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو یہ فرمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کرتے سنا۔ کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو مزاح میں بھی سنجیدگی شمار ہوتی ہیں اور سنجیدگی میں تو سنجیدگی ہی وہ نکاح ‘ طلاق ‘ رجعت ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطلاق باب ٩‘ ترمذی فی الطلاق باب ٩‘ ابن ماجہ فی المقرمہ باب ٧‘ والطلاق باب ١٣۔

4556

۴۵۵۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ وَأَسَدٌ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَبِیْبِ بْنِ أَرْدَکَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، عَنِ ابْنِ مَاہَکَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٥٥٦: یوسف بن ماہک نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4557

۴۵۵۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ الْأَنْصَارِیُّ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَرْدَکَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، عَنِ ابْنِ مَاہَکَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔فَلَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ وَہَزْلُہُنَّ جِد فَمَنَعَ النِّکَاحَ مِنَ الْبُطْلَانِ بَعْدَ وُقُوْعِہٖ، وَکَذٰلِکَ الطَّلَاقُ وَالْمُرَاجَعَۃُ وَلَمْ نَرَ الْبُیُوْعَ حُمِلَتْ عَلٰی ذٰلِکَ الْمَعْنَی ، بَلْ حُمِلَتْ عَلَی ضِدِّہٖ، فَجُعِلَ مَنْ بَاعَ لَاعِبًا ، کَانَ بَیْعُہُ بَاطِلًا ، وَکَذٰلِکَ مَنْ أَجَرَ لَاعِبًا ، کَانَتْ اِجَارَتُہُ بَاطِلَۃً .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - اِلَّا لِأَنَّ الْبُیُوْعَ وَالْاِجَارَاتِ ، مِمَّا یُنْقَضُ بِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، فَنُقِضَتْ بِالْہَزْلِ ، کَمَا نُقِضَتْ بِذٰلِکَ .وَکَانَتِ الْأَشْیَائُ الْأُخَرُ مِنِ الطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ وَالرَّجْعَۃِ ، لَا یَبْطُلُ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ، فَجُعِلَتْ غَیْرَ مَرْدُوْدٍ بِالْہَزْلِ .فَکَذٰلِکَ أَیْضًا فِی النَّظَرِ ، مَا کَانَ یُنْقَضُ بِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، نُقِضَ بِالْاِکْرَاہٖ، وَمَا کَانَ لَا یُنْقَضُ بِتِلْکَ الْأَسْبَابِ ، لَمْ یُنْقَضْ بِالْاِکْرَاہِ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ۔
٤٥٥٧: امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے حمل کی اپنے سے نفی کرے تو قاضی ان کے درمیان اس حمل کی وجہ سے لعان کرائے گا اور وہ حمل اس کی ماں کی طرف منسوب کر دے گا اور اس عورت کو مرد سے جدا کر دے گا۔ ان کی دلیل یہ روایت ہے جس کو علقمہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمل کی وجہ سے یہاں لعان کیا ہے امام ابو یوسف (رح) نے یہ بات فرمائی تھی مگر ان کا مشہور مسلک یہ نہیں ہے۔ دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ حمل کی وجہ سے لعان نہ کیا جائے گا کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ حمل نہ ہو کیونکہ جو کچھ طاہر ہو رہا ہے اور اس کے ذریعہ اس کے حاملہ ہونے کا وہم کیا جا رہا ہے اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ واقعی وہ حمل ہے وہ تو ایک وہم ہے۔ لہٰذا وہم کرنے والے کی نفی سے لعان لازم نہیں ہوتا۔ پہلے قول والوں کے خلاف ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ جس روایت سے تم نے استدلال کیا ہے وہ مختصر ہے اس کے راوی نے اس کو مختصر کر کے اس میں غلطی کی ہے اصل روایت یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مابین حالت حمل میں ملاعنت کرائی اور ہمارے نزدیک یہ لعان قذف کی وجہ سے ہے حمل کی نفی کرنے کی وجہ سے لعان نہ تھا راوی کو وہم ہوا کہ یہ حمل کی وجہ سے لعان ہے اس لیے اس نے روایت کو اختصار سے بیان کردیا جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا۔ یہ روایت فہد کی سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین چیزیں سنجیدگی میں بھی سنجیدگی شمار ہوتی ہیں اور مزاح کی صورت میں بھی سنجیدگی شمار ہوتی ہے تو آپ نے نکاح کے واقع ہونے کے بعد اس کو باطل کرنے سے منع کردیا اور طلاق و رجوع کا بھی یہی حکم ہے اور اس کے بالمقابل تم خریدو فروخت کو دیکھتے ہو کہ اسے اس معنی پر محمول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس معنی پر محمول کیا جاتا ہے فلہذا جو آدمی ہنسی مذاق میں کوئی چیز فروخت کرتا ہے اس کو بیع باطل کہتے ہیں۔ اسی طرح جو آدمی بطور کھیل اجارہ کرتا ہے تو اس کا اجارہ بھی باطل ہے اور ہمارے ہاں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ خریدو فروخت اور اجارہ ان اسباب سے ٹوٹ جاتے ہیں جن کا تذکرہ ہوا تو جس طرح وہ ان چیزوں سے ٹوٹ جاتے ہیں مذاق بھی ٹوٹ جائیں اور رہے طلاق ‘ عتاق اور رجعت وغیرہ تو یہ ان میں سے کسی چیز سے نہیں ٹوٹتے پس اسی وجہ سے ان کو مذاق سے بھی ٹوٹنے والا قرار دیا گیا۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ جو ان اسباب مذکورہ سے ٹوٹ جاتے ہیں وہ اکراہ و جبر سے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور جو ان اسباب سے نہیں ٹوٹتے وہ اکراہ و جبر سے بھی نہیں ٹوٹتے۔
جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین چیزیں سنجیدگی میں بھی سنجیدگی شمار ہوتی ہیں اور مزاح کی صورت میں بھی سنجیدگی شمار ہوتی ہے تو آپ نے نکاح کے واقع ہونے کے بعد اس کو باطل کرنے سے منع کردیا اور طلاق و رجوع کا بھی یہی حکم ہے۔
اور اس کے بالمقابل تم خریدو فروخت کو دیکھتے ہو کہ اسے اس معنی پر محمول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس معنی پر محمول کیا جاتا ہے فلہذا جو آدمی ہنسی مذاق میں کوئی چیز فروخت کرتا ہے اس کو بیع باطل کہتے ہیں۔ اسی طرح جو آدمی بطور کھیل اجارہ کرتا ہے تو اس کا اجارہ بھی باطل ہے اور ہمارے ہاں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ خریدو فروخت اور اجارہ ان اسباب سے ٹوٹ جاتے ہیں جن کا تذکرہ ہوا تو جس طرح وہ ان چیزوں سے ٹوٹ جاتے ہیں مذاق بھی ٹوٹ جائیں اور رہے طلاق ‘ عتاق اور رجعت وغریہ تو ان میں سے کسی چیز سے نہیں ٹوٹتے پس اسی وجہ سے ان کو مذاق سے بھی ٹوٹنے والا قرار دیا گیا۔
پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ جو ان اسباب مذکورہ سے ٹوٹ جاتے ہیں وہ اکراہ و جبر سے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور جو ان اسباب سے نہیں ٹوٹتے وہ اکراہ و جبر سے بھی نہیں ٹوٹتے۔

4558

۴۵۵۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعَلَّافُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ سَوَائٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سِنَانٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ یَقُوْلُ : طَلَاقُ السَّکْرَانِ وَالْمُکْرَہِ جَائِزٌ. قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : ذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا نَفَیْ حَمْلَ امْرَأَتِہٖ، أَنْ یَکُوْنَ مِنْہٗ، لَاعَنَ الْقَاضِیْ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ بِذٰلِکَ الْحَمْلِ ، وَأَلْزَمَہُ أُمَّہٗ، وَأَبَانَ الْمَرْأَۃَ مِنْ زَوْجِہَا وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثٍ یُحَدِّثُہُ عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاعَنَ بِالْحَمْلِ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ مَرَّۃً ، وَلَیْسَ ہُوَ بِالْمَشْہُوْرِ مِنْ قَوْلِہٖ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یُلَاعِنُ بِحَمْلٍ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ لَا یَکُوْنَ حَمْلًا ، لِأَنَّ مَا یَظْہَرُ مِنَ الْمَرْأَۃِ مِمَّا یُتَوَہَّمُ بِہٖ أَنَّہَا حَامِلٌ ، لَیْسَ یُعْلَمُ بِہٖ حَمْلٌ عَلٰی حَقِیْقَۃٍ ، اِنَّمَا ہُوَ تَوَہُّمٌ ، فَنَفْیُ الْمُتَوَہَّمِ لَا یُوْجِبُ اللِّعَانَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، أَنَّ الْحَدِیْثَ الَّذِی احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ ، حَدِیْثٌ مُخْتَصَرٌ ، اخْتَصَرَہُ الَّذِیْ رَوَاہُ فَغَلِطَ فِیْہِ وَاِنَّمَا أَصْلُہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاعَنَ بَیْنَہُمَا وَہِیَ حَامِلٌ ، فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - لِعَانٌ بِالْقَذْفِ ، لَا لِعَانٌ بِنَفْیِ الْحَمْلِ فَتَوَہَّمَ الَّذِیْ رَوَاہُ أَنَّ ذٰلِکَ لِعَانٌ بِالْحَمْلِ ، فَاخْتَصَرَ الْحَدِیْثَ کَمَا ذَکَرْنَا وَأَصْلُ الْحَدِیْثِ فِیْ ذٰلِکَ ،
٤٥٥٨: ابو سنان (رح) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز (رح) کو فرماتے سنا کہ نشر والے اور مکرہ (جبر والا) کی طلاق نافذ ہے۔
تخریج : مسلم فی اللعان ١٠‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٧‘ نسائی فی الطلاق باب ٣٨‘ ابن ماجہ فی الطلاق باب ٢٧‘ مسند احمد ١؍٤٢٢۔
لغات : جلد کوڑے لگانا۔ ابتلی بہ۔ مبتلا ہوا۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : ایک جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے حمل کی اپنے سے نفی کرے تو قاضی ان کے درمیان اس حمل کی وجہ سے لعان کرائے گا اور وہ حمل اس کی ماں کی طرف منسوب کر دے گا اور اس عورت کو مرد سے جدا کر دے گا۔ ان کی دلیل یہ روایت ہے جس کو علقمہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمل کی وجہ سے یہاں لعان کیا ہے امام ابو یوسف (رح) نے یہ بات فرمائی تھی مگر ان کا مشہور مسلک یہ نہیں ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ حمل کی وجہ سے لعان نہ کیا جائے گا کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ حمل نہ ہو کیونکہ جو کچھ طاہر ہو رہا ہے اور اس کے ذریعہ اس کے حاملہ ہونے کا وہم کیا جا رہا ہے اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ واقعی وہ حمل ہے وہ تو ایک وہم ہے۔ لہٰذا وہم کرنے والے کی نفی سے لعان لازم نہیں ہوتا۔
فریق اوّل کے مستدل کا جواب : جس روایت سے تم نے استدلال کیا ہے وہ مختصر ہے اس کے راوی نے اس کو مختصر کر کے اس میں غلطی کی ہے اصل روایت یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مابین حالت حمل میں ملاعنت کرائی اور ہمارے نزدیک یہ لعان قذف کی وجہ سے ہے حمل کی نفی کرنے کی وجہ سے لعان نہ تھا راوی کو وہم ہوا کہ یہ حمل کی وجہ سے لعان ہے اس لیے اس نے روایت کو اختصار سے بیان کردیا جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا۔

4559

۴۵۵۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ عَشِیَّۃً فِی الْمَسْجِدِ اِذْ قَالَ رَجُلٌ : اِنَّ أَحَدَنَا رَأَی مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا ، فَاِنْ قَتَلَہُ قَتَلْتُمُوْھُ ، وَاِنْ ہُوَ تَکَلَّمَ جَلَدْتُمُوْھُ ، وَاِنْ ہُوَ سَکَتَ ، سَکَتَ عَلَی غَیْظٍ ، لَأَسْأَلَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ، فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ أَحَدَنَا رَأَی مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا ، فَاِنْ قَتَلَہُ قَتَلْتُمُوْھُ ، وَاِنْ ہُوَ تَکَلَّمَ جَلَدْتُمُوْھُ ، وَاِنْ سَکَتَ ، سَکَتَ عَلَی غَیْظٍ ، اللّٰہُمَّ اُحْکُمْ فَأُنْزِلَتْ آیَۃُ اللِّعَانِ ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : فَکَانَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ ، أَوَّلُ مَنْ اُبْتُلِیَ بِہٖ۔
٤٥٥٩: علقمہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم شام کے وقت مسجد میں تھے کہ ایک شخص نے آ کر کہا اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے پھر اگر وہ اسے قتل کر دے تو تم اسے قتل کرو گے (قصاص میں) اور اگر وہ اس کے متعلق بات کرلے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے اور اگر وہ خاموشی اختیار کرے تو وہ غصے کی حالت میں وہ خاموشی اختیار کرنے والا ہوگا۔ میں اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرور دریافت کروں گا۔ چنانچہ اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا اور کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر کوئی شخص ہم میں سے اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو دیکھے پھر اسے اگر وہ قتل کر دے تو آپ اس کو قتل (قصاص میں) کردیں گے اور اگر وہ اس کے متعلق کلام کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں گے اور اگر وہ خاموش رہے تو غصے کی حالت میں خاموشی اختیار کرنے والا ہوگا اے اللہ اس سلسلے میں تو حکم نازل فرمایا۔ پس لعان کی آیت نازل ہوئی ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ یہ شخص سب سے پہلے اس میں مبتلا ہوا۔ مسئلہ لعان میں روایت ابن مسعود (رض) کی اصل یہ ہے۔ یہ لعان قذف ہے جو اس مرد نے اپنی بیوی کے متعلق حمل کی حالت میں الزام لگایا۔ یہ حمل کی وجہ سے لعان نہیں ہے اور اس روایت کو اس طرح ابن مسعود (رض) کے علاوہ دیگر صحابہ کرام (رض) نے بھی روایت کیا ہے۔
لغات : مہ۔ رک جا۔ باز آ۔ الجعد۔ گھنگھریالے بال۔

4560

۴۵۶۰: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا حَکِیْمُ بْنُ سَیْفٍ ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : قَامَ رَجُلٌ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ ، فَقَالَ أَرَأَیْتُمْ اِنْ وَجَدَ رَجُلٌ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا ؟ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ وَزَادَ فِیْہِ وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : فَابْتُلِیَ بِہٖ ، وَکَانَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَائَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَاعَنَ امْرَأَتَہٗ، فَلَمَّا أَخَذَتِ امْرَأَتُہُ تَلْتَعِنُ ، قَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَہْ فَالْتَعَنَتْ ، فَلَمَّا أَدْبَرَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَلَّہَا أَنْ تَجِیْئَ بِہٖ أَسْوَدَ جَعْدًا فَجَائَ تْ بِہٖ أَسْوَدَ جَعْدًا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ شَقِیْقٍ ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَہٰذَا ہُوَ أَصْلُ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی اللِّعَانِ ، وَہُوَ لِعَانٌ بِقَذْفٍ کَانَ مِنْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ لِامْرَأَتِہٖ وَہِیَ حَامِلٌ ، لَا بِحَمْلِہَا .وَقَدْ رَوَاہٗ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا غَیْرُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
٤٥٦٠: علقمہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے ؟ پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ یہی اس میں پہلے مبتلا ہوا یہ ایک انصاری آدمی تھا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے اپنی بیوی سے لعان کیا۔ جب بیوی لعان کرنے لگی تو اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ رک جا اور لعان سے باز رہ مگر اس نے لعان کی جب وہ واپس مڑی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شاید اس کے ہاں۔ گھنگھریالے بالوں والا سیاہ بچہ پیدا ہو۔ چنانچہ سیاہ گھنگھریالے بالوں والا بچہ پیدا ہوا۔ جریر نے اعمش سے روایت کی پھر اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) والی روایت کی اصل یہ ہے اور یہ لعان قذف ہے جو اس آدمی نے اس عورت کے متعلق حاملہ ہونے کی حالت میں الزام تراشی کی۔ یہ حمل کی وجہ سے لعان نہیں ہے۔
اس روایت کو ابن مسعود (رض) کے علاوہ صحابہ کرام نے بھی روایت کیا ہے۔ روایات ابن عباس (رض) ملاحظہ ہوں۔

4561

۴۵۶۱: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاعَنَ بَیْنَ الْعَجْلَانِیِّ وَامْرَأَتِہٖ وَکَانَتْ حُبْلَی .فَقَالَ زَوْجُہَا : وَاللّٰہِ مَا قَرُبْتُہَا مُنْذُ عَفَرْنَا ، وَالْعَفْرُ : أَنْ یُسْقَی النَّخْلُ بَعْدَ أَنْ تُتْرَکَ مِنَ السَّقْیِ بَعْدَ الْاِبَارِ بِشَہْرَیْنِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہُمَّ بَیِّنْ فَزَعَمُوْا أَنَّ زَوْجَ الْمَرْأَۃِ کَانَ حَمْشَ الذِّرَاعَیْنِ وَالسَّاقَیْنِ ، أَصْہَبَ الشَّعَرَۃِ ، وَکَانَ الَّذِیْ رُمِیَتْ بِہٖ ابْنُ السَّحْمَائِ قَالَ : فَجَائَ تْ بِغُلَامٍ أَسْوَدَ جَعْدٍ ، قَطَطٍ ، عَبْلِ الذِّرَاعَیْنِ ، خَدْلِ السَّاقَیْنِ قَالَ الْقَاسِمُ : فَقَالَ ابْنُ شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ ، یَا أَبَا عَبَّاسٍ ، أَہِیَ الْمَرْأَۃُ الَّتِی قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ کُنْتُ رَاجِمًا بِغَیْرِ بَیِّنَۃٍ لَرَجَمْتُہَا ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَا : وَلٰـکِنْ تِلْکَ امْرَأَۃٌ کَانَتْ قَدْ أَعْلَنَتْ فِی الْاِسْلَامِ ۔
٤٥٦١: قاسم بن محمدنے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا وہ حاملہ تھیں اس کے خاوند نے کہا اللہ کی قسم جب سے ہم نے عفر کیا (کھجور کے درختوں کی پیوند کاری کے دو ماہ بعد کھجور کو سیراب کیا جائے) تو میں اس کے قریب نہیں گیا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ خوب واضح فرما۔ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اس عورت کا خاوند پتلے بازو اور پنڈلیوں والا ہے اس کے بالوں کا رنگ سرخ سیاہی مائل ہے اور جس شخص کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام تھا وہ ابن السحماء تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ سیاہ گھنگھریالے بالوں والا بچہ پیدا ہوا جس کے ہاتھ اور پنڈلیاں موٹی تھیں۔
ابن شداد بن الہاد نے کہا اے ابن عباس (رض) ! کیا یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اگر میں بلا گواہوں کے کسی کو سنگسار کرتا تو اس عورت کو کرتا۔ ابن عباس (رض) کہنے لگے نہیں ! البتہ یہ پہلی عورت ہے جس کو اسلام میں سب سے پہلے لعان کیا گیا۔

4562

۴۵۶۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَحْوَہٗ۔
٤٥٦٢: ابی الزناد نے قاسم سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4563

۴۵۶۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ سُؤَالَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَدَّادٍ ، اِلٰی آخِرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ۔
٤٥٦٣: قاسم بن محمد نے ابن عباس (رض) سے اسی جیسی روایت بیان کی البتہ انھوں نے عبداللہ بن شداد کا سوال آخر روایت تک ذکر نہیں کیا۔

4564

۴۵۶۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا جَائَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَا لِیْ عَہْدٌ بِأَہْلِیْ مُنْذُ عَفَرْنَا النَّخْلَ ، فَوَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِیْ رَجُلًا .وَزَوْجُہَا نِضْوٌ حَمْشٌ ، سَبِطُ الشَّعْرِ ، وَالَّذِیْ رُمِیَتْ بِہٖ اِلَی السَّوَادِ جَعْدٌ قَطَطٌ شَدِیْدُ الْجُعُوْدَۃِ أَوْ حَسَنُہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہُمَّ بَیِّنْ ثُمَّ لَاعَنَ بَیْنَہُمَا ، فَجَائَ تْ بِہٖ یُشْبِہُ الَّذِیْ رُمِیَتْ بِہٖ
٤٥٦٤: قاسم بن محمد نے ابن عباس (رض) سے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا میں نے اپنے گھر والوں سے اس وقت سے ملاپ نہیں کیا جب سے ہم نے کھجوروں کی تابیر و پیوند کاری کی ہے۔ پس میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو مشغول پایا ہے۔ اس عورت کا خاوند کمزور ‘ پتلی پنڈلیوں والا اور سیدھے بالوں والا شخص تھا اور وہ شخص جس کے ساتھ اس کو الزام دیا گیا تھا وہ سیاہ رنگ گھنگھریالے بالوں والا تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا یا اللہ ! واضح حکم نازل فرما پھر ان دونوں کے درمیان لعان کیا۔ پھر اس کے ہاں اس شخص کے مشابہہ بچہ پیدا ہوا جس کے ساتھ اسے الزام دیا گیا تھا۔
لغات : نضو۔ کمزور۔ حمش۔ باریک پنڈلیوں والا۔ سبط الشعر۔ سیدھے بال۔

4565

۴۵۶۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ ہِلَالَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ شَرِیْکَ ابْنَ سَحْمَائَ بِامْرَأَتِہٖ، فَرُفِعَ ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ائْتِ بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ ، وَاِلَّا فَحَدٌّ فِیْ ظَہْرِک .فَقَالَ : وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ اِنِّیْ لَصَادِقٌ قَالَ : فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَہٗ أَرْبَعَۃٌ وَاِلَّا فَحَدٌّ فِیْ ظَہْرِک قَالَ : وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ اِنِّیْ لَصَادِقٌ ، یَقُوْلُ ذٰلِکَ مِرَارًا وَلَیُنْزِلَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ مَا یُبَرِّئُ بِہٖ ظَہْرِی مِنَ الْجَلْدِ فَنَزَلَتْ آیَۃُ اللِّعَانِ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ اِلَّا أَنْفُسُہُمْ قَالَ : فَدُعِیَ ہِلَالٌ فَشَہِدَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاَللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنِ الصَّادِقِیْنَ ، وَالْخَامِسَۃُ أَنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ قَالَ : ثُمَّ دُعِیَتِ الْمَرْأَۃُ فَشَہِدَتْ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاَللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ ، فَلَمَّا کَانَ عِنْدَ الْخَامِسَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِفُوْہَا فَاِنَّہَا مُوْجِبَۃٌ قَالَ فَتَکَأْکَأَتْ حَتَّی مَا شَکَکْنَا أَنْ سَتُقِرُّ ، ثُمَّ قَالَتْ لَا أَفْضَحُ قَوْمِیْ سَائِرَ الْیَوْمِ فَمَضَتْ عَلَی الْیَمِیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْظُرُوْا ، فَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ أَبْیَضَ سَبِطًا قَضِیئَ الْعَیْنَیْنِ ، فَہُوَ لِہِلَالِ بْنِ أُمَیَّۃَ ، وَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ أَکْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَیْنِ ، فَہُوَ لِشَرِیْکِ ابْنِ سَحْمَائَ .قَالَ : فَجَائَ تْ بِہٖ أَکْحَلَ ، جَعْدًا ، حَمْشَ السَّاقَیْنِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا مَا سَبَقَ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، کَانَ لِیْ وَلَہَا شَأْنٌ قَالَ : الْقَضِیئُ الْعَیْنَیْنِ : طَوِیْلُ شَعْرِ الْعَیْنَیْنِ ، لَیْسَ بِمَفْتُوْحِ الْعَیْنَیْنِ
٤٥٦٥: ابن سیرین نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ ہلال بن امیہ نے شریک بن سحماء پر الزام لگایا کہ وہ اس کی بیوی سے ناجائز تعلق رکھتا ہے یہ معاملہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے ھلال کو فرمایا۔ چار گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پشت پر حد لگے گی اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم ! بیشک اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں سچا ہوں۔ یہ بات ہلال نے کئی مرتبہ دھرائی اور ضروربضرور اللہ تعالیٰ آپ پر ایسی وحی اتار دیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پشت کو آپ کے کوڑوں سے بچا لیں گے۔ پس آیت لعان نازل ہوئی۔ ” والذین یرمون ازواجہم ولم یکن لہم شہداء الا انفسہم “ (النور۔ ٦) راوی کہتے ہیں کہ ہلال (رض) کو بلایا گیا انھوں نے چار مرتبہ قسم اٹھا کر گواہی دی کہ وہ اس کے متعلق الزام لگانے میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ اس طرح کہا اگر میں جھوٹا الزام لگاؤں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار ہو۔ راوی کہتے ہیں پھر عورت کو بلایا گیا اس نے چار مرتبہ قسم اٹھا کر شہادت دی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے جب وہ پانچویں مرتبہ قسم اٹھانے لگی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے روک دو ۔ بیشک یہ قسم لازم کرنے والی ہے راوی کہتے ہیں وہ پیچھے کو ہٹی یہاں تک کہ ہمیں اس میں شک نہ رہا کہ وہ اقرار کرے گی پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کے لیے اپنی قوم کو رسوا نہ کروں گی چنانچہ اس نے قسم اٹھالی۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ دیکھنا اگر اس نے سفید رنگ سیدھے بالوں اور سرخ آنکھوں والا بچہ جنا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور اگر سرمگیں آنکھوں گھنگھریالے بالوں اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس عورت نے سرمگیں آنکھیں اور گھنگھریالے بالوں پتلی پنڈلیوں والے بچے کو جنم دیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تقدیر الٰہی کی بات سبقت کرنے والی نہ ہوتی تو میں اس کے ساتھ اور معاملہ کرتا (مراد چار گواہوں کی شرط ہے) یعنی حد لگاتا۔ راوی کہتے ہیں۔ قضی العینین کا معنی۔ جس کی آنکھوں کے بال لمبے ہوں اور اس کی آنکھیں کھلی نہ ہوں۔
لغات : تکأکأت۔ پیچھے کو ہٹنا۔ السبط۔ سیدھے بال۔ قضی العینین۔ سرخی یا زیادہ آنسوؤں سے بگڑی آنکھیں۔ اکحل۔ آنکھ کی پلک کی سیاہی۔ حمش الساق۔ پتلی پنڈلی۔

4566

۴۵۶۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ ہِلَالَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ امْرَأَتَہٗ بِشَرِیْکِ ابْنِ سَحْمَائَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْظِرُوْہَا ، فَاِنْ جَائَ تْ ، بِہٖ أَبْیَضَ سَبِطًا قَضِیْئَ الْعَیْنَیْنِ فَہُوَ لِہِلَالِ بْنِ أُمَیَّۃَ ، وَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ أَکْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَیْنِ ، فَہُوَ لِشَرِیْکِ ابْنِ سَحْمَائَ فَجَائَ تْ بِہٖ أَکْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَیْنِ
٤٥٦٦: محمد نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ ہلال بن امیہ (رض) نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ وہ شریک بن سحماء سے ناجائز تعلق رکھتی ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو دیکھنا اگر اس نے سفید ‘ سیدھے بالوں ‘ بگڑی آنکھوں والا بچہ جنا تو وہ ہلال بن امیہ (رض) کا ہے اور اگر گھنگھریالے بال ‘ سرمگیں آنکھوں پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے تو اس عورت نے سرمگیں آنکھوں ‘ پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا۔
تخریج : اس کی تخریج کے لیے ٤٥٦٤ روایت کی تخریج ملاحظہ کریں۔

4567

۴۵۶۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ .ح وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَا : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ ، أَنَّ عُوَیْمِرًا جَائَ اِلَی عَاصِمِ بْنِ عَدِی فَقَالَ : أَرَأَیْتُ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا فَقَتَلَہٗ، أَتَقْتُلُوْنَہُ بِہٖ ؟ سَلْ لِیْ یَا عَاصِمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَجَائَ عَاصِمٌ ، فَسَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَۃَ وَعَابَہَا ، فَقَالَ عُوَیْمِرٌ وَاللّٰہِ لَآتِیَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : قَدْ أَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْکُمْ قُرْآنًا ، فَدَعَاہُمَا ، فَتَقَدَّمَا ، فَتَلَاعَنَا ، ثُمَّ قَالَ : کَذَبْتُ عَلَیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ أَمْسَکْتُہَا فَفَارَقَہَا وَمَا أَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِہَا ، فَجَرَتِ السُّنَّۃُ فِی الْمُتَلَاعِنَیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْظُرُوْا ، فَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ أَحْمَرَ قَصِیْرًا ، مِثْلَ وَحَرَۃٌ فَلَا أُرَاہُ اِلَّا وَقَدْ کَذَبَ عَلَیْہَا ، وَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ أَسْحَمَ أَعْیَنَ ذَا أَلْیَتَیْنِ فَلَا أَحْسَبُہُ اِلَّا وَقَدْ صَدَقَ عَلَیْہَا قَالَ : فَجَائَ تْ بِہٖ عَلَی الْأَمْرِ الْمَکْرُوْہِ فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، أَنْ لَا حُجَّۃَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ لِمَنْ یُوْجِبُ اللِّعَانَ بِالْحَمْلِ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ فِیْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ جَائَ تْ بِہٖ کَذَا فَہُوَ لِزَوْجِہَا ، وَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ کَذَا فَہُوَ لِفُلَانٍ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْحَمْلَ ہُوَ الْمَقْصُوْدُ اِلَیْہِ بِالْقَذْفِ وَاللِّعَانِ فَجَوَابُنَا لَہُ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ اللِّعَانَ لَوْ کَانَ بِالْحَمْلِ ، اِذًا لَکَانَ مُنْتَفِیًا مِنَ الزَّوْجِ ، غَیْرَ لَاحِقٍ بِہٖ ، أَشْبَہَہُ أَوْ لَمْ یُشْبِہْہُ .أَلَا تَرَی أَنَّہَا لَوْ کَانَتْ وَضَعَتْہُ قَبْلَ أَنْ یَقْذِفَہَا ، فَنُفِیَ وَلَدُہَا ، وَکَانَ أَشْبَہَ النَّاسِ بِہٖ ، أَنَّہٗ یُلَاعَنُ بَیْنَہُمَا وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ، وَیَلْزَمُ الْوَلَدُ أُمَّہٗ، وَلَا یَلْحَقُ بِالْمُلَاعِنِ لِشَبَہِہِ بِہٖ ؟ فَلَمَّا کَانَ الشَّبَہُ لَا یَجِبُ بِہٖ ثُبُوْتُ نَسَبٍ ، وَلَا یَجِبُ بِعَدَمِہِ انْتِفَائُ نَسَبٍ ، وَکَانَ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنْ جَائَ تْ بِہٖ کَذَا ، فَہُوَ لِلَّذِی لَاعَنَہَا دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ اللِّعَانُ نَافِیًا لَہٗ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ نَافِیًا لَہٗ، اِذًا لَمَا کَانَ شَبَہُہُ بِہٖ دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّہٗ مِنْہٗ، وَلَا بُعْدُ شَبَہِہِ اِیَّاہٗ، دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّہٗ مِنْ غَیْرِہِ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْأَعْرَابِیِّ الَّذِیْ سَأَلَہٗ، فَقَالَ : اِنَّ امْرَأَتِی وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ :
٤٥٦٧: سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی کے ہاں آیا اور کہنے لگا تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو مصروف پائے اور وہ اس کو قتل کر دے کیا تم اس کو قتل کر دو گے (قصاص میں) اے عاصم تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مسئلہ پوچھو چنانچہ عاصم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس کو سخت سست کہا عویمر عجلانی کہنے لگے میں خود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جاؤں گا۔ (پس وہ حاضر ہوئے) تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے متعلق قرآن مجید اتار دیا ہے پس ان دونوں کو بلایا وہ آگے بڑھے اور دونوں نے لعان کیا۔ پھر عویمر (رض) کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو میں اس پر جھوٹا الزام لگانے والا بنتا ہوں پس اس نے اس کو جدا کردیا حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جدا کرنے کا حکم نہ فرمایا تھا پس لعان کرنے والوں میں یہ طریقہ جاری ہوگیا (جب آپ کے سامنے ہوا اور آپ نے روکا نہیں تو گویا خاموشی سے تصدیق فرما دی۔ ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی جو حمل کے سبب لعان کو واجب قرار دیتے ہیں ان روایات میں ان کی کوئی دلیل نہیں۔ اگر کوئی کہنے والا یہ کہنے لگے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد فان جاءت بہ کذا فہو لزوجہا وان جاءت بہ کذا فہو لفلان ان الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ لعان و قذف سے مقصود حمل ہے۔ اگر لعان حمل کی وجہ سے ہوتا تو پھر خاوند کے ذمہ نہ ہوتا بلکہ اس سے نفی کی جاتی اس کے ساتھ اس کو نہ ملایا جاتا خواہ اس کے مشابہہ ہو یا نہ ہو۔ اس بات میں ذرا غور کرو کہ اگر قذف سے پہلے وہ جنتی پھر وہ اس کے لڑکے کی نفی کرتا حالانکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اس کے مشابہہ ہے تو اس وقت بھی ان کے درمیان لعان کی صورت میں تفریق کردی جاتی اور لڑکے کو ماں سے ملا دیا جاتا اور مشابہت کی وجہ سے لعان کرنے والے کے حوالے نہ کیا جاتا۔ پس جب مشابہت ثبوت نسب کو لازم نہیں کرتی اور عدم مشابہت انتفاء نسب کو لازم نہیں کرتا۔ رہی وہ روایت جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” ان جاءت بہ کذا فہو للذی لا عنہا “ اس سے یہ ثبوت ملا کہ لعان اس کے منافی اور خلاف نہیں۔ اگر لعان اس سے لڑکے کی نفی کرنے والا ہو تو پھر بچے کی اس کے ساتھ مشابہت اس کا بچہ ہونے کی دلیل نہ ہوتی اور نہ ہی اس سے مشابہت کی دوری اس بات کی دلیل ہے کہ وہ غیر سے ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دیہاتی کو فرمایا جس نے یہ سوال کیا کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ لڑکا جنا ہے شاید کہ اس کی کسی رگ نے کھینچا ہو۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پر نگاہ رکھنا اگر وہ سرخ چھوٹے قد والا بچہ جنے جیسے جیسا کہ وحدہ (چھپکلی کی طرح زہریلا جاندار ہے) تو پھر میرے خیال میں اس کے خاوند نے اس پر جھوٹ بولا ہے اور اگر لمبا بڑی آنکھوں ‘ لمبے ہاتھوں والا جنا تو میرے گمان میں اس سے اس کے متعلق سچی بات کہی۔ راوی کہتے ہیں اس عورت نے برے معاملے کے مطابق جنا۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٤‘ باب ١‘ الطلاق باب ٣٠‘ الحدود باب ٤٣‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٧‘ ابن ماجہ فی الطلاق باب ٢٧‘ مسند احمد ٥؍٣٣٤۔

لغات : الوحرہ۔ چھپکلی جیسا زہریلا جانور۔ اشجم۔ لانبا۔ اعین۔ بڑی آنکھوں والا۔ ذوالیدین۔ لمبے ہاتھوں والا۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی جو حمل کے سبب لعان کو واجب قرار دیتے ہیں ان روایات میں ان کی کوئی دلیل نہیں۔
ایک اشکال :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد فان جاءت بہ کذا فہو لزوجہا وان جاءت بہ کذا فہو لفلان ان الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ لعان و قذف سے مقصود حمل ہے۔
جواب اگر لعان حمل کی وجہ سے ہوتا تو پھر خاوند کے ذمہ نہ ہوتا بلکہ اس سے نفی کی جاتی اس کے ساتھ اس کو نہ ملایا جاتا خواہ اس کے مشابہہ ہو یا نہ ہو۔ اس بات میں ذرا غور کرو کہ اگر قذف سے پہلے وہ جنتی پھر وہ اس کے لڑکے کی نفی کرتا حالانکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اس کے مشابہہ ہے تو اس وقت بھی ان کے درمیان لعان کی صورت میں تفریق کردی جاتی اور لڑکے کو ماں سے ملا دیا جاتا اور مشابہت کی وجہ سے لعان کرنے والے کے حوالے نہ کیا جاتا۔
پس جب مشابہت ثبوت نسب کو لازم نہیں کرتی اور عدم مشابہت انتفاء نسب کو لازم نہیں کرتا۔ رہی وہ روایت جس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” ان جاءت بہ کذا فہو للذی لا عنہا “ اس سے یہ ثبوت ملا کہ لعان اس کے منافی اور خلاف نہیں۔ اگر لعان اس سے لڑکے کی نفی کرنے والا ہو تو پھر بچے کی اس کے ساتھ مشابہت اس کا بچہ ہونے کی دلیل نہ ہوتی اور نہ ہی اس سے مشابہت کی دوری اس بات کی دلیل ہے کہ وہ غیر سے ہے۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دیہاتی کو فرمایا جس نے یہ سوال کیا کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ لڑکا جنا ہے شاید کہ اس کی کسی رگ نے کھینچا ہو۔
روایت اعرابی تفصیلی روایت آگے ملاحظہ ہے۔

4568

۴۵۶۸: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ أَعْرَابِیًّا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : اِنَّ امْرَأَتِی وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ ، وَاِنَی أَنْکَرْتُہٗ .فَقَالَ لَہُ ہَلْ لَک مِنْ اِبِلٍ قَالَ : نَعَمْ .قَالَ مَا أَلْوَانُہَا ؟ .قَالَ : حُمْرٌ ، قَالَ ہَلْ فِیْہَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ : اِنَّ فِیْہَا لَوَرَقًا .قَالَ فَأَنَّیْ تَرَیْ ذٰلِکَ جَائَ ہَا ؟ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، عِرْقٌ نَزَعَہَا .قَالَ فَلَعَلَّ ہٰذَا عِرْقٌ نَزَعَہُ .
٤٥٦٨: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دیہاتی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا بیشک میری بیوی نے سیاہ لڑکا جنا ہے اور میں نے اس کو ناپسند کیا ہے آپ نے اس کو فرمایا کیا تیرے پاس اونٹ ہیں۔ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا ان کے کیا رنگ ہیں ؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ نے فرمایا کیا ان میں گندمی رنگ بھی ہیں اس نے جواب دیا ان میں گندم رنگ سیاہی مائل بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے خیال کے مطابق وہ رنگ ان میں کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کسی رگ نے کھینچا ہوگا آپ نے فرمایا یہ تیرا بیٹا جو سیاہ ہے یہ بھی کسی رگ نے کھینچا ہوگا۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ٢٦‘ الحدود باب ٤١‘ والاعتصام باب ١٢‘ مسلم فی اللعان ١٨؍٢٠‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٨‘ ترمذی فی الولاء باب ٤‘ نسائی فی الطلاق باب ٤٠‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٥٨‘ مسند احمد ٢‘ ٢٣٣؍٢٣٤‘ ٢٣٩؍٢٧٩۔

4569

۴۵۶۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، وَابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، وَسُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ فَلَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُرَخِّصْ لَہُ فِیْ نَفْیِہِ لِبُعْدِ شَبَہِہِ مِنْہٗ، وَکَانَ الشَّبَہٗ، غَیْرَ دَلِیْلٍ عَلٰی شَیْئٍ ، ثَبَتَ أَنَّ جَعْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَدَ الْمُلَاعَنَۃِ مِنْ زَوْجِہَا ، اِنْ جَائَ تْ بِہٖ عَلَی شَبَہِہٖ، دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ اللِّعَانَ ، لَمْ یَکُنْ نَفَاہُ مِنْہُ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، فَسَادُ مَا احْتَجَّ بِہٖ الَّذِیْنَ یَرَوْنَ اللِّعَانَ بِالْحَمْلِ وَفِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ أُخْرَی ، وَہِیَ أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنْظِرُوْہَا ، فَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ کَذَا ، فَلَا أَرَاہُ اِلَّا وَقَدْ کَذَبَ عَلَیْہَا ، وَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ کَذَا ، فَلَا أَرَاہُ اِلَّا وَقَدْ صَدَقَ عَلَیْہَا فَکَانَ ذٰلِکَ الْقَوْلُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الظَّنِّ ، لَا عَلَی الْیَقِیْنِ ، وَذٰلِکَ مِمَّا قَدْ دَلَّ أَیْضًا أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ مِنْہُ جَرَی فِی الْحَمْلِ حُکْمٌ أَصْلًا .فَثَبَتَ فَسَادُ قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ اِلَی اللِّعَانِ بِالْحَمْلِ وَاِنَّمَا احْتَجَجْنَا بِہٖ لِمَنْ ذَہَبَ اِلَی خِلَافِہِ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، مِمَّنْ أَبَی اللِّعَانَ بِالْحَمْلِ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَمُحَمَّدٍ ، وَقَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ الْمَشْہُوْرُ .
٤٥٦٩: سعید بن المسیب (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ پس جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشابہت بعیدہ کی وجہ سے نفی ولد کی اجازت نہیں دی اور مشابہت کسی چیز کی دلیل نہیں اس سے ثابت ہوگیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ملاعنہ کے بچے کو اسی کے خاوند سے قرار دینا اگر وہ اس کے مشابہہ جنے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لعان نے اس بچے کی نفی اس سے نہیں کی تھی۔ اس مذکورہ بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ جن لوگوں نے لعان کو حمل کے سبب سے قرار دیا ان کا یہ نظریہ غلط ہے۔ اس میں ایک اور بھی دلیل ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سہل بن سعد (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس عورت کے متعلق دیکھنا کہ اگر وہ اس قسم کا بچہ جنے تو میرے خیال میں اس شخص نے اس پر بہتان طرازی کی ہے اور اگر وہ اس طرح کا بچہ جنے تو میرے خیال میں اس نے اس عورت کے متعلق سچی بات کہی ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول گمان کی بنیاد پر تھا یقین کی بنیاد پر نہ تھا اور یہ بات انہی باتوں میں سے ہے جو حالت حمل میں حکم کے قطعی طور پر جاری نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ تو اس سے بھی ان لوگوں کی غلطی ثابت ہوگئی جو حمل کی وجہ سے لعان کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ہماری یہ تمام تر تحقیق ان حضرات کی موافقت میں جو حمل کو لعان کا سبب قرار نہیں دیتے بلکہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ حمل لعان کا سبب ہوا ہو۔ ہم شروع باب میں ان کا تذکرہ کر آئے ہیں وہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کا مشہور قول یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
حاصل روایات : جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشابہت بعیدہ کی وجہ سے نفی ولد کی اجازت نہیں دی اور مشابہت کسی چیز کی دلیل نہیں اس سے ثابت ہوگیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ملاعنہ کے بچے کو اسی کے خاوند سے قرار دینا اگر وہ اس کے مشابہہ جنے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لعان نے اس بچے کی نفی اس سے نہیں کی تھی۔ اس مذکورہ بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ جن لوگوں نے لعان کو حمل کے سبب سے قرار دیا ان کا یہ نظریہ غلط ہے۔
ایک مزید دلیل : اس میں ایک اور بھی دلیل ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سہل بن سعد (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس عورت کے متعلق دیکھنا کہ اگر وہ اس قسم کا بچہ جنے تو میرے خیال میں اس شخص نے اس پر بہتان طرازی کی ہے اور اگر وہ اس طرح کا بچہ جنے تو میرے خیال میں اس نے اس عورت کے متعلق سچی بات کہی ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول گمان کی بنیاد پر تھا یقین کی بنیاد پر نہ تھا۔ اور یہ بات انہی باتوں میں سے ہے جو حالت حمل میں حکم کے قطعی طور پر جاری نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ تو اس سے بھی ان لوگوں کی غلطی ثابت ہوگئی جو حمل کی وجہ سے لعان کو قرار دیتے ہیں۔
ہمارا مؤقف : ہماری یہ تمام تر تحقیق ان حضرات کی موافقت میں ہے جو حمل کو لعان کا سبب قرار نہیں دیتے بلکہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ حمل لعان کا سبب ہوا ہو۔ ہم شروع باب میں ان کا تذکرہ کر آئے ہیں وہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کا معروف قول اگرچہ ان کے موافق ہے مگر ان کی طرف ایک قول پہلے مؤقف کے موافق ہے۔ واللہ اعلم۔

4570

۴۵۷۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ .ح وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ یَعْقُوْبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ رَبِیْعٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ،
٤٥٧٠: ابراہیم بن مرزوق نے حبان سے روایت نقل کی ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف :
نفی ولد سے نہ تو نفی ہوگی اور نہ لعان لازم ہوگا ان کی مستدل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔

4571

۴۵۷۱: مَوْلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ رَبَاحٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَقَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ .
٤٥٧١: مولیٰ حسن بن علی نے رباح سے روایت کی کہ میں عثمان بن عفان (رض) کی خدمت میں آیا وہ فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا لڑکا خاوند کا (یا لونڈی کے آقا کا)

4572

۴۵۷۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِکٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ۔
٤٥٧٢: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لڑکا بستر والے (خاوند ‘ آقا) کا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔
تخریج : بخاری فی الوصایا باب ٤‘ البیوع باب ٣؍١٠٠‘ والمغازی باب ٥٣‘ والفرائض باب ١٨‘ ٢٨‘ الحدود باب ٢٣‘ والاحکام باب ٢٩‘ مسلم فی الرضاع ٣٦؍٣٨‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٣٤‘ ترمذی فی الرضاع باب ٨‘ والوصایا باب ٥‘ نسائی فی الطلاق باب ٤٨‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٥٩‘ والوصایا باب ٦‘ دارمی فی النکاح باب ٤١‘ الفرائض باب ٤٥‘ مالک فی الاقبضیہ ٢٠‘ مسند احمد ١؍٥٩‘ ٦٥؍١٠٤‘ ٤؍١٨٦‘ ٢٣٨؍٢٣٩‘ ٥‘ ٢٦٧؍٣٢٦‘ ٦‘ ١٢٩؍٢٣٧‘ ٢٤٧۔

4573

۴۵۷۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٤٥٧٣: محمد بن زیاد نے کہا کہ میں نے جناب ابوہریرہ (رض) کو سنا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے ہیں۔

4574

۴۵۷۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِیِّ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٤٥٧٤: شرحبیل بن مسلم خولانی نے ابو امامہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4575

۴۵۷۵: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْہٖ، سَمِعَ عُمَرَ یَقُوْلُ قَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْوَلَدِ لِلْفِرَاشِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ ، اِذَا نَفَی وَلَدَ امْرَأَتِہٖ، لَمْ یَنْتِفْ بِہٖ ، وَلَمْ یُلَاعِنْ بِہٖ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَقَالُوْا : فَالْفِرَاشُ یُوْجِبُ حَقَّ الْوَلَدِ ، فِیْ ثَبَاتِ نَسَبِہٖ مِنَ الزَّوْجِ وَالْمَرْأَۃِ فَلَیْسَ لَہُمَا اِخْرَاجُہُ مِنْہُ لِلِعَانٍ وَلَا غَیْرِہٖ۔ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یُلَاعِنُ بِہٖ ، وَیَنْتَفِیْ نَسَبُہُ وَیَلْزَمُ أُمَّہٗ، وَذٰلِکَ اِذَا کَانَ لَمْ یُقِرَّ بِہٖ ، وَلَمْ یَکُنْ مِنْہُ مَا حُکْمُہٗ حُکْمُ الْاِقْرَارِ وَلَمْ یَتَطَاوَلْ ذٰلِکَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٤٥٧٥: سفیان نے عبیداللہ بن ابی یزید سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے عمر (رض) سے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ خاوند کا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی نفی کرے تو اس سے اس کی نفی ثابت نہ ہو سکے گی اور نہ لعان کیا جائے گی انھوں نے مندرجہ بالا روایات کو دلیل بنایا ہے۔ بستر (خاوند ہونا) لڑکے کے ثبوت کو لازم کرتا ہے کہ اس کا نسب بیوی ‘ خاوند سے ثابت ہو۔ وہ اس وجوب سے لعان وغیرہ سے نکل نہیں سکتے۔ اس سے اختلاف کر کے علماء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ ان کے مابین لعان ہوگا اور خاوند سے نسب کی نفی ہو کر ماں کے ساتھ بچے کو لازم کردیا جائے گا اور یہ اس وقت ہے جبکہ خاوند اس بچے کا اقرار نہ کرے اور نہ ہی اس سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو اقرار کا حکم رکھتی ہے اور نہ اس دعویٰ میں تاخیر ہوتی ہو۔ ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی نفی کرے تو اس سے اس کی نفی ثابت نہ ہو سکے گی اور نہ لعان کی جائے گی انھوں نے مندرجہ بالا روایات کو دلیل بنایا ہے۔
طرزِ استدلال :
بستر (خاوند ہونا) لڑکے کے ثبوت کو لازم کرتا ہے کہ اس کا نسب بیوی ‘ خاوند سے ثابت ہو۔ وہ اس وجوب سے لعان وغیرہ سے نکل نہیں سکتے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
علماء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ ان کے مابین لعان ہوگا اور خاوند سے نسب کی نفی ہو کر ماں کے ساتھ بچے کو لازم کردیا جائے گا اور یہ اس وقت ہے جبکہ خاوند اس بچے کا اقرار نہ کرے اور نہ ہی اس سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو اقرار کا حکم رکھتی ہے اور نہ اس دعویٰ میں تاخیر ہوئی ہو۔ ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔

4576

۴۵۷۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَیْنَ الْمُتَلَاعِنَیْنِ ، وَأَلْزَمَ الْوَلَدَ أُمَّہُ .قَالُوْا : فَہٰذِہِ سُنَّۃٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ نَعْلَمْ شَیْئًا عَارَضَہَا وَلَا نَسَخَہَا .فَعِلْمنَا بِہَا أَنَّ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ لَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ اللِّعَانُ بِہٖ وَاجِبًا ، اِذَا نُفِیَ ، اِذْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ ، وَأَجْمَعَ أَصْحَابُہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مِنْ بَعْدِہٖ، عَلٰی مَا حَکَمُوْا فِیْ مِیْرَاثِ ابْنِ الْمُلَاعَنَۃِ ، فَجَعَلُوْھُ لَا أَبَ لَہٗ، وَجَعَلُوْھُ مِنْ قَوْمِ أُمِّہِ وَأَخْرَجُوْھُ مِنْ قَوْمِ الْمُلَاعَنِ بِہٖ .ثُمَّ اتَّفَقَ عَلٰی ذٰلِکَ تَابِعُوْھُمْ مِنْ بَعْدِہِمْ ، ثُمَّ لَمْ یَزَلْ النَّاسُ عَلٰی ذٰلِکَ اِلٰی أَنْ شَذَّ ہٰذَا الْمُخَالِفُ لَہُمْ ، فَالْقَوْلُ - عِنْدَنَا - فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی مَا فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مِنْ بَعْدِہِ وَتَابِعُوْھُمْ مِنْ بَعْدِہِمْ عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٥٧٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والوں میں تفریق کردی اور لڑکا ماں کے ساتھ لازم کردیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معارض روایات موجود نہیں اور نہ ہی کوئی ناسخ ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ” الولد للفراش “ لعان کے واجب ہونے کی نفی نہیں کرتا جبکہ خاوند اس کی نفی کرے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کیا اور آپ کے بعد صحابہ کرام (رض) نے اس بات پر اجماع کیا کہ انھوں نے لعان کرنے والی عورت کے بچے کے لیے میراث کے سلسلے میں اسے باب کے بغیر قرار دیا اور اسے ماں کی قوم کا فرد قرار دیا اور لعان کرنے والے کی قوم سے اس کو خارج کردیا پھر ان کے بعد تابعین (رض) نے بھی اسی بات پر اتفاق کیا۔ پھر بعد والے لوگوں نے مسلسل اس پر عمل کیا۔ حتیٰ کہ اس مخالفت نے ان سے علیحدگی اختیار کی۔ ہمارے نزدیک اس سلسلے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رض) کے عمل کے مطابق قول کیا جائے گا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد (رض) کا یہی قول ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢٤‘ باب ٤‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٧‘ دارمی فی النکاح باب ٣٩۔

4577

۴۵۷۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی النَّیْسَابُوْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ ، ضَمِنَ لِشُرَکَائِہِ حِصَصَہُمْ .
٤٥٧٧: حبیب بن ابی ثابت نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اپنے غلام کا معین حصہ آزاد کردیا تو وہ آدمی دوسرے شرکاء کے حصوں کا ضامن ہوگا۔
تخریج : بخاری فی العتق باب ٥‘ واشر کہ باب ٥؍١٤‘ مسلم فی العتق ٣‘ والایمان ٥٣؍٥٤‘ ابو داؤد فی العتاق باب ٥‘ ترمذی فی الاحکام باب ١٤‘ ابن ماجہ فی العتق باب ٧‘ مسند احمد ٢؍١٥‘ ٣٢٦‘ ٤؍٣٧‘ ٥؍٧٤‘ ٧٥۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔