HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

31. وصیت کا بیان۔

الطحاوي

7239

۷۲۳۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ ، مَرَضًا أَشْفَیْتُ مِنْہُ عَلَی الْمَوْتِ .فَأَتَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُوْدنِیْ، فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ لِیْ مَالًا کَثِیْرًا ، وَلَیْسَ یَرِثُنِیْ اِلَّا ابْنَتِی أَفَأَتَصَدَّقُ بِمَالِیْ کُلِّہٖ؟ قَالَ لَا .قَالَ : أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَیْ مَالِیْ؟ قَالَ لَا قَالَ : فَالشَّطْرِ ؟ قَالَ لَا قَالَ : فَالثُّلُثِ ؟ قَالَ وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ۔
٧٢٣٦: عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ میں فتح مکہ والے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کو جھانکنے لگا تو میرے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے کیا میں اپنا تمام مال صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں میں نے دوبارہ استفسار کیا کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں تو فرمایا نہیں پھر تیسری مرتبہ پوچھا کہ نصف مال ؟ تو ارشاد ہوا نہیں پھر عرض کیا ایک ثلث مال تو فرمایا تیسرا حصہ اور تیسرا حصہ بہت ہے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٣٧‘ مانقب الانصار باب ٤٩‘ والفرائض باب ٦‘ والمرضیٰ باب ١٦‘ والدعوات باب ٤٣‘ والمغازی باب ٧٧‘ مسلم فی الوصیۃ باب ٥‘ ابو داؤد فی الوصایا باب ٢‘ نسائی فی الوصیۃ باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الوصیۃ باب ٥‘ مالک فی الوصایۃ ٤‘ مسند احمد ١؍١٧٩۔۔۔ خلاصہ الزام :
اس سلسلہ میں دو قول ہیں :
مکمل ٣؍١ میں وصیت کرے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ ٣؍١ سے کم میں وصیت کرے وہی نافذالعمل ہوگی ۔ یہ ائمہ احناف کا قول ہے۔
فریق اوّل کی مستداول روایات :

7240

۷۲۳۷ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِی ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : عَادَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت ، أُوْصِیْ بِمَالِیْ کُلِّہٖ ؟ قَالَ : لَا قُلْتُ : فَالنِّصْفِ ؟ قَالَ لَا قُلْتُ : فَالثُّلُثِ ؟ قَالَ نَعَمْ ، وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ۔
٧٢٣٧: مصعب بن سعد نے حضرت سعد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کیا میں اپنے تمام مال کی (صدقہ میں) وصیت کر جاؤں ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے کہا پھر آدھا۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ میں نے تیسری بار عرض کیا تیسرا حصہ آپ نے فرمایا ہاں۔ اور ثلث بہت ہے۔

7241

۷۲۳۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فَضْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : قَالَ سَعْدٌ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ ، فَتَکَلَّمَ النَّاسُ فِی الرَّجُلِ ، ہَلْ یَسَعُہُ أَنْ یُوْصِیَ بِثُلُثِ مَالِہٖ ، أَوْ یَنْبَغِی أَنْ یَقْصُرَ عَنْ ذٰلِکَ ؟ فَقَالَ قَوْمٌ : لَہٗ أَنْ یُوْصِیَ بِثُلُثِ مَالِہِ کَامِلًا ، فِیْمَا أَحَبَّ ، بِمَا یَجُوْزُ فِیْہِ الْوَصَایَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِاِبَاحَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَعْدٍ ، أَنْ یُوْصِیَ بِثُلُثِ مَالِہٖ ، بَعْدَ مَنْعِہِ أَنْ یُوْصِیَ بِمَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ .
٧٢٣٨: عطاء بن سائب نے ابو عبدالرحمن سے وہ کہتے ہیں کہ سعد (رض) نے کہا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : لوگوں نے اس آدمی کے متعلق اختلاف کیا ہے کہ آیا ثلث مال یا اس سے کم کی وصیت کرنا درست ہے۔
ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ ثلث کامل کی وصیت کرے جن اموال میں وصیت درست ہے انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کو ثلث حصہ مال کی وصیت کے لیے اجازت مرحمت فرمائی اس کے بعد کہ اس سے زائد سے روکا جیسا کہ سابقہ آثار میں مذکور ہوا۔

7242

۷۲۳۹ : وَبِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، وَبَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ طَلْحَۃُ بْنُ عَمْرٍو الْحَضْرَمِیُّ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ، جَعَلَ لَکُمْ ثُلُثَ أَمْوَالِکُمْ ، آخِرَ أَعْمَارِکُمْ ، زِیَادَۃً فِیْ أَعْمَالِکُمْ۔ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا یَنْبَغِیْ لِلْمُوْصِیْ أَنْ یَقْصُرَ فِیْ وَصِیَّتِہِ عَنْ ثُلُثِ مَالِہِ ؛ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثُّلُثُ ، وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ۔فَمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ ۔
٧٢٣٩: عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے ثلث مال کو مقرر فرمایا تاکہ آخری عمر میں اپنے اعمال میں اضافہ کرسکو۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ وصیت کرنے والے کو ثلث سے کم کی وصیت کرنی چاہیے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیسرا حصہ ‘ تیسرا حصہ تو بہت زیادہ ہے۔ اس قول کو متقدمین کی ایک جماعت سے اختیار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7243

۷۲۴۰ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ : اسْتَقْصِرُوْا عَنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّہٗ لَکَثِیْرٌ۔
٧٢٤٠: عروہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ انہ لکثیر کے ارشاد گرامی سے قلت کا معنی مراد لو۔

7244

۷۲۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : أَنَا حُمَیْدٌ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ أَقْصَیْتُ أَبِیْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْحِمْیَرِیِّ قَالَ : مَا کُنْتُ لِأَقْبَلَ وَصِیَّۃَ رَجُلٍ لَہٗ وَلَدٌ ، یُوْصِیْ بِالثُّلُثِ .فَمِنَ الْحُجَّۃِ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ أَنَّ الْوَصِیَّۃَ بِالثُّلُثِ ، لَوْ کَانَتْ جَوْرًا اِذًا ، لَأَنْکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ ، عَلٰی سَعْدٍ ، وَلَقَالَ لَہٗ : أَقْصِرْ عَنْ الثُّلُثِ ، فَلَمَّا تَرَکَ ذٰلِکَ ، کَانَ قَدْ أَبَاحَہُ اِیَّاہُ .وَفِیْ ذٰلِکَ ثُبُوْتُ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی . ثُمَّ تَکَلَّمَ النَّاسُ بَعْدَ ہٰذَا فِیْ ھِبَاتِ الْمَرِیْضِ وَصَدَقَاتِہٖ، اِذَا مَاتَ فِیْ مَرَضِہِ ذٰلِکَ .فَقَالَ قَوْمٌ ، وَہُمْ أَکْثَرُ الْعُلَمَائِ : ہِیَ مِنْ الثُّلُثِ کَسَائِرِ الْوَصَایَا ، وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : ہُوَ مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ ، کَأَفْعَالِہٖ ، وَہُوَ صَحِیْحٌ ، وَہٰذَا قَوْلٌ ، لَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ ، قَالَہٗ۔وَقَدْ رَوَیْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ ، مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : نَحَلَنِیْ أَبُوْبَکْرٍ جِدَادَ عِشْرِیْنَ وَسْقًا مِنْ مَالِہٖ ، بِالْعَالِیَۃِ .فَلَمَّا مَرِضَ ، قَالَ لِی : اِنِّیْ کُنْتُ نَحَلْتُک جِدَادَ عِشْرِیْنَ وَسْقًا مِنْ مَالِیْ بِالْعَالِیَۃِ ، فَلَوْ کُنْتُ جَدَدْتِیْہِ وَحُزْتِیْہٖ، کَانَ لَکَ، وَاِنَّمَا ہُوَ الْیَوْمَ مَالُ وَارِثٍ ، فَاقْتَسِمُوْھُ بَیْنَکُمْ ، عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالَی۔فَأَخْبَرَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہَا لَوْ قَبَضَتْ ذٰلِکَ فِی الصِّحَّۃ تَمَّ لَہَا مِلْکُہُ وَأَنَّہَا لَا تَسْتَطِیْعُ قَبْضَہُ فِی الْمَرَضِ قَبْضًا تَتِمُّ لَہَا بِہٖ مِلِکُہٗ، وَجَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ جَائِزٍ ، کَمَا لَا تَجُوْزُ الْوَصِیَّۃُ لَہَا ، وَلَمْ تُنْکِرْ ذٰلِکَ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، وَلَا سَائِرُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَذْہَبَہُمْ جَمِیْعًا فِیْہٖ، کَانَ مِثْلَ مَذْہَبِہٖ .فَلَوْ لَمْ یَکُنْ لِمَنْ ذَہَبَ اِلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنَ الْحُجَّۃِ ، لِقَوْلِہِمْ الَّذِیْ ذٰہَبُوْا اِلَیْہٖ، اِلَّا مَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَمَا تَرْکِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنَ الْاِنْکَارِ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی أَبِیْ بَکْرٍ - لَکَانَ فِیْہِ أَعْظَمُ الْحُجَّۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٧٢٤١: بکیر کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید بن عبدالرحمن حمیری سے یہ بات حاصل کی کہ وہ فرماتے تھے میں اس شخص کی وصیت قبول نہ کروں گا جس کی اولاد موجود ہو اور وہ ثلث مال کی وصیت کر جاتے۔ اگر ثلث کی وصیت ظلم و زیادتی ہوتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور اس کا انکار کرتے اور سعد کو منع کرتے ہوئے فرماتے کہ ثلث سے باز رہو۔ پس جب آپ نے ان کو اس حال میں چھوڑ دیا تو گویا آپ نے اس کو مباح قرار دیا اس سے فریق اوّل اور ان کی بات ثابت ہوگئی جنہوں نے اس کو اختیار کیا ہے۔ ان میں امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف (رح) محمد (رح) ہیں۔ علماء نے اس کے بعد مریض کے ہبات و صدقات میں کلام کیا ہے جبکہ وہ مریض اپنی اسی مرض میں مرجائے جس میں کلام کیا ہے۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ تمام وصایا کی طرح ثلث مال سے ہوگا امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ وہ اس کے تمام مال سے ہوگا جیسا کہ صحت کی حالت میں اس کے افعال کا حکم ہے ہمارے علم میں متقدمین میں سے یہ کسی کا بھی قول نہیں ہے۔ چنانچہ ہم اپنی اسی کتاب میں حضرت عائشہ (رض) کی یہ روایت نقل کرچکے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں جناب ابوبکر (رض) نے مجھے مقام عالیہ کی اتری ہوئی کھجوروں میں سے بیس وسق کھجوریں دیں۔ جب وہ بیمار ہوئے تو انھوں نے مجھے فرمایا میں نے تمہیں عالیہ کی بیس وسق اتری ہوئی کھجوریں دی تھیں اگر تم کاٹ کر ان کو اپنی حفاظت میں لے لیتیں تو وہ تمہاری ہوجاتیں اور آج وہ وارث کا مال بن چکی ہیں۔ ان کو اپنے مابین تقسیم کرلینا جیسا کہ قرآن مجید کا حکم ہے۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے اس ارشاد سے بتلا دیا اگر وہ ان کھجوروں کو ان کے مال میں سے الگ کر کے قبضہ کرلیتیں تو وہ انہی کی ملک تھیں وہ اس کی مالک بن جاتیں اب اس کو اسی طرح ناجائز قرار دیا جس طرح وصیت ان کے لیے ناجائز تھی اور حضرت عائشہ (رض) نے اس کا انکار نہ کیا اور نہ ہی دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار کیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ان تمام کا مذہب وہی تھا جو حضرت صدیق (رض) کا تھا جو لوگ اس طرف گئے ہیں اگر ان کے پاس اپنے مذہب کے لیے اور کوئی دلیل بھی نہ ہوتی تو یہی دلیل کافی تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے صدیق اکبر (رض) کے اس فعل پر انکار نہیں کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی روایات وارد ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔

7245

۷۲۴۲ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَجُلًا ، أَعْتَقَ سِتَّۃَ أَعْبُدٍ لَہٗ عِنْدَ الْمَوْتِ .لَا مَالَ لَہٗ غَیْرُہُمْ .فَأَقْرَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمْ ، فَأَعْتَقَ اثْنَیْنِ ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَۃً۔
٧٢٤٢: حسن نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے موت کے وقت چھ غلام آزاد کردیئے اور اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی مال نہیں تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کروائی اور ان میں سے دو کو آزاد کردیا اور چار کو غلام ہی باقی رکھا۔
تخریج : مسلم فی الایمان روایت ٧٦‘ ابو داؤد فی الاعتاق باب ١٠‘ نسائی فی الجنائز باب ٦٥‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٢٥‘ مسند احمد ٤؍٤٢٦‘ ٤٤٠‘ ٥؍٣٤١۔

7246

۷۲۴۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٢٤٣: حسن نے عمران سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7247

۷۲۴۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : ثَنَا عَطَائٌ الْخُرَاسَانِیُّ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، وَأَیُّوْبُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، وَقَتَادَۃُ ، وَحُمَیْدٌ ، وَسِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٧٢٤٤: ابن سیرین نے عمران ابن حصین سے اور حسن نے عمران ابن حصین سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

7248

۷۲۴۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ جَعَلَ الْعَتَاقَ فِی الْمَرَضِ ، مِنْ الثُّلُثِ ، فَکَذٰلِکَ الْہِبَاتُ وَالصَّدَقَاتُ .وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ أَیْضًا بِحَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَادَہٗ فِیْ مَرَضِہٖ فَقَالَ : أَتَصَدَّقُ بِمَالِیْ کُلِّہٖ؟ فَقَالَ لَا حَتّٰی رَدَّہُ اِلَی الثُّلُثِ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .قَالَ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ قَدْ جَعَلَ صَدَقَتَہُ فِیْ مَرَضِہِ مِنْ الثُّلُثِ ، کَوَصَایَاہُ مِنْ الثُّلُثِ ، مِنْ بَعْدِ مَوْتِہٖ۔وَیَدْخُلُ لِمُخَالِفِہِ عَلَیْہٖ، أَنَّ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ سُؤَالَہٗ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ ، اِنَّمَا کَانَ عَلَی الْوَصِیَّۃِ بِالصَّدَقَۃِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ، فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .فَلَیْسَ مَا احْتَجَّ ہُوَ بِہٖ ، مِنْ حَدِیْثِ عَامِرٍ ، بِأَوْلٰی مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِ مُخَالِفُہٗ، مِنْ حَدِیْثِ مَصْعَبٍ .ثُمَّ تَکَلَّمَ النَّاسُ بَعْدَ ہٰذَا، فِیْمَنْ أَعْتَقَ سِتَّۃَ أَعْبُدٍ لَہٗ عِنْدَ مَوْتِہٖ، لَا مَالَ لَہٗ غَیْرُہُمْ ، فَأَبَی الْوَرَثَۃُ أَنْ یُجِیزُوْا .فَقَالَ قَوْمٌ ، یُعْتَقُ مِنْہُمْ ثُلُثُہُمْ ، وَیَسْعَوْنَ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ قِیْمَتِہِمْ ، وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَالَ آخَرُوْنَ : یَعْتِقُ مِنْہُمْ ثُلُثُہُمْ ، وَیَکُوْنُ مَا بَقِیَ مِنْہُمْ ، رَقِیْقًا لِوَرَثَۃِ الْمُعْتِقِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : یُقْرَعُ بَیْنَہُمْ ، فَیُعْتَقُ مِنْہُمْ مَنْ قُرِعَ مِنْ الثُّلُثِ ، وَرُقَّ مَنْ بَقِیَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ حَدِیْثِ عِمْرَانَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَہْلِ الْمَقَالَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ أَنَّ مَا ذَکَرُوْا مِنَ الْقُرْعَۃِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْ حَدِیْثِ عِمْرَانَ ، مَنْسُوْخٌ لِأَنَّ الْقُرْعَۃَ قَدْ کَانَتْ فِیْ بَدْئِ الْاِسْلَامِ ، لَا تُسْتَعْمَلُ فِیْ أَشْیَائَ ، فَحُکِمَ بِہَا فِیْہَا ، وَیُجْعَلُ مَا قُرِعَ مِنْہَا وَہُوَ الشَّیْئُ الَّذِیْ کَانَتِ الْقُرْعَۃُ مِنْ أَجْلِہٖ بِعَیْنِہٖ۔ مِنْ ذٰلِکَ ، مَا کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَکَمَ بِہٖ ، فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْیَمَنِ .
٧٢٤٥: ابوالمہلب نے عمران سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض الموت میں آزادی کو ثلث مال میں نافذ فرمایا ہبر اور صدقہ کا بھی یہی حکم ہے۔ ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض الموت میں آزادی کو ثلث مال میں نافذ فرمایا ہبر اور صدقہ کا بھی یہی حکم ہے۔ اس مذہب کے بعض علماء نے زہری کی عامر بن سعد والی روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ آپ شدید بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت سعد نے تمام مال صدقہ کرنے کی اجازت طلب کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رد فرما کر تہائی مال میں اجازت دی جیسا کہ یہ روایت شروع باب میں ذکر کی گئی ہے اس روایت میں بیماری کے صدقہ کو موت کے بعد نافذ ہونے والی وصیت کی طرح تیسرا حصہ مال میں جائز قرار دیا گیا۔ مصعب بن سعد نے اس روایت کاس طرح بیان کیا کہ ان کا یہ سوال کرنا موت کے بعد صدقے کی وصیت کے سلسلے میں تھا جیسا کہ ہم نے شروع باب میں ذکر کیا۔ حضرت عامر کی روایت سے ان کا استدلال کرنا ان کے مخالفین کے اس استدلال سے بہتر نہیں جو انھوں نے مصہب کی روایت سے کیا ہے فقہاء نے اس شخص کے بارے میں جس نے موت کے بعد چھ غلام آزاد کئے اور اس کا اور مال بھی نہیں تھا اور ورثاء نے اس کی وصیت کو جائز بھی نہ قرار دیا بہت کچھ کلام کیا ہے۔ ان کا تہائی آزاد ہوجائے گا اور بقیہ غلام اپنی قیمت کے متعلق محنت و مشقت کریں گے اس بات کو امام ابوحنیفہ (رح) ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا۔ بعض علماء نے یہ کہا کہ دو غلام تو آزاد ہوجائیں گے اور بقیہ غلام ورثاء کی ملکیت میں برقرار رہیں گے۔ بعض نے یہ کہا ثلث کے بارے میں ان میں قرعہ اندازی کی جائے گی اور وہ آزاد ہوجائیں گے اور بقیہ غلامی میں برقرار رہیں گے اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عمران والی روایت کو دلیل بنایا۔ تیسرے قول والوں کے خلاف پہلے دو اقوال والوں کی دلیل یہ ہے کہ روایت عمران میں جس قرعہ اندازی کا تذکرہ ہے وہ منسوخ ہے کیونکہ قرعہ شروع اسلام میں تھا پھر یہ منسوخ ہوگیا شروع اسلام میں اس کے جائز ہونے کی وجہ یہ تھی تاکہ اشیاء پر اس کے ذریعے حکم لگایا جائے اور جس چیز کی وجہ سے قرعہ اندازی کی گئی ہے وہ بعینہٖ وہی سمجھی جائے جو قرعے میں نکلی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی (رض) نے یمن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اس کو استعمال فرمایا جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

7249

۷۲۴۶ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِسْحَاقَ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَوْ یَعْلَیْ بْنُ عُبَیْدٍ ، أَنَا أَشُکُّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْخَلِیْلِ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ أَتَاہُ رَجُلٌ مِنَ الْیَمَنِ ، وَعَلِیٌّ یَوْمَئِذٍ بِہَا .فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَتَیْ عَلِیًّا ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ یَخْتَصِمُوْنَ فِیْ وَلَدٍ قَدْ وَقَعُوْا عَلَی امْرَأَۃٍ فِیْ طُہْرٍ وَاحِدٍ ، فَأُقْرِعَ بَیْنَہُمْ ، فَقُرِعَ أَحَدُہُمْ، فَدُفِعَ اِلَیْہِ الْوَلَدُ .فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حَتّٰی ْ بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ، أَوْ قَالَ أَضْرَاسُہٗ۔ فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُنْکِرْ عَلَی عَلِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا حَکَمَ بِہٖ فِی الْقُرْعَۃِ ، فِیْ دَعْوَی النَّفَرِ الْوَلَدَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْحُکْمَ حِیْنَئِذٍ ، کَانَ کَذٰلِکَ ، ثُمَّ نُسِخَ بَعْدُ بِاتِّفَاقِنَا ، وَاتِّفَاقِ ہٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا .وَدَلَّ عَلٰی نَسْخِہٖ، مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ بَابِ الْقَافَۃِ ، مِنْ حُکْمِ عَلِیْ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا بِأَنْ جَعَلَ الْوَلَدَ بَیْنَ الْمُدَّعِیَیْنِ جَمِیْعًا یَرِثُہُمَا وَیَرِثَانِہِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْحُکْمَ کَانَ یَوْمَئِذٍ حُکْمَ عَلِیْ بِمَا حَکَمَ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلِ النَّسَبِ ، الَّذِیْ یَدَّعِیْہِ النَّفَرُ ، وَالْمَالِ الَّذِیْ یُوْصِیْ بِہٖ النَّفَرُ ، بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ ، قَدْ أَوْصَیْ بِہٖ لِکُلِّ وَاحِدٍ عَلٰی حِدَۃٍ ، أَوْ الْعَتَاقِ الَّذِیْ یَعْتِقُہُ الْعَبِیْدُ فِیْ مَرَضِ مُعْتِقِہِمْ ، أَنْ یُقْرَعَ بَیْنَہُمْ ، فَأَیُّہُمْ أُقْرِعَ اسْتَحَقَّ مَا ادَّعَیْ، وَمَا کَانَ وَجَبَ بِالْوَصِیَّۃِ وَالْعَتَاقِ ، ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ بِنَسْخِ الرِّبَا ، اِذْ رُدَّتِ الْأَشْیَائُ اِلَی الْمَقَادِیرِ الْمَعْلُوْمَۃِ الَّتِیْ فِیْہَا التَّعْدِیلُ ، الَّذِیْ لَا زِیَادَۃَ فِیْہٖ، وَلَا نُقْصَانَ .وَبَعْدَ ہٰذَا، فَلَیْسَ یَخْلُو مَا حَکَمَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنَ الْعَتَاقِ فِی الْمَرَضِ ، مِنَ الْقُرْعَۃِ ، وَجَعْلِہِ اِیَّاہُ مِنْ الثُّلُثِ ، مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ .اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ حُکْمًا دَلِیْلًا عَلٰی سَائِرِ أَفْعَالِ الْمَرِیْضِ فِیْ مَرَضِہٖ، مِنْ عَتَاقِہٖ، وَہِبَاتِہٖ، وَصَدَقَاتِہٖ۔أَوْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ حُکْمًا فِیْ عَتَاقِ الْمَرِیْضِ ، خَاصَّۃً ، دُوْنَ سَائِرِ أَفْعَالِہٖ ، وَہِبَاتِہٖ، وَصَدَقَاتِہٖ۔فَاِنْ کَانَ خَاصًّا فِی الْعَتَاقِ ، دُوْنَ مَا سِوَاہٗ، فَیَنْبَغِی أَنْ لَا یَکُوْنَ مَا جَعَلَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مِنَ الْعَتَاقِ فِی الثُّلُثِ ، دَلِیْلًا عَلَی الْہِبَاتِ وَالصَّدَقَاتِ أَنَّہَا کَذٰلِکَ .فَثَبَتَ قَوْلُ الَّذِیْ یَقُوْلُ : اِنَّہَا مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ ، اِذْ کَانَ النَّظَرُ شَہِدَ لَہٗ، وَاِنْ کَانَ ہٰذَا لَا یُدْرَکُ فِیْہِ خِلَافُ مَا قَالَ اِلَّا بِالتَّقْلِیْدِ ، وَلَا شَیْئَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ نَقَلَہٗ غَیْرُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَاِنْ کَانَ قَدْ جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ الْعَتَاقَ فِی الثُّلُثِ ، دَلِیْلًا لَنَا عَلٰی أَنَّ ہِبَاتِ الْمَرِیْضِ وَصَدَقَاتِہٖ کَذٰلِکَ .فَکَذٰلِکَ ہُوَ دَلِیْلٌ لَنَا عَلٰی أَنَّ الْقُرْعَۃَ قَدْ کَانَتْ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ، جَارِیَۃٌ یُحْکَمُ بِہَا .فَفِی ارْتِفَاعِہَا عِنْدَنَا ، وَعِنْدَ ہٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا ، مِنَ الْہِبَاتِ وَالصَّدَقَاتِ ، دَلِیْلُ أَنَّ ارْتِفَاعَہَا أَیْضًا مِنَ الْعَتَاقِ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ ، قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ اِلَی الْقُرْعَۃِ ، وَثَبَتَ أَحَدُ الْقَوْلَیْنِ الْآخَرَیْنِ .فَقَالَ مَنْ ذَہَبَ اِلَی تَثْبِیتِ الْقُرْعَۃِ : وَکَیْفَ تَکُوْنُ الْقُرْعَۃُ مَنْسُوْخَۃً ، وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْمَلُ بِہَا ، فِیْمَا قَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَی الْعَمَلِ بِہَا فِیْہِ مِنْ بَعْدِہٖ؟
٧٢٤٦: عبداللہ بن خلیل حضرمی نے حضرت زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس یمن سے ایک آدمی آیا ان دنوں حضرت علی (رض) یمن میں تھے اور اس نے بتلایا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی (رض) کے پاس تین آدمی حاضر ہوئے جو ایک بچے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ ایک ہی طہر میں جماع کیا تھا تو حضرت علی (رض) نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا۔ جس کے حق میں قرعہ نکلا لڑکا اس کے حوالے کردیا یہ سن کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر ہنسے کہ آپ کے نواجذ یا اضر اس ظاہر ہوگئیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑکے کے سلسلے میں حضرت علی (رض) کے قرعہ اندازی والے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس وقت حکم اسی طرح تھا پھر بالاتفاق یہ منسوخ ہوگیا اور اس کے منسوخ ہونے پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو باب القیافہ میں ذکر ہوچکی جیسے کہ حضرت علی (رض) نے اسی قسم کے معاملے میں جو ایک لڑکے کے بارے میں دونوں دعوے دار تھے تو آپ نے فرمایا وہ لڑکا ان دونوں کا وارث ہوگا اور وہ دونوں اس کے وارث بنیں گے اس سے یہ دلالت مل گئی کہ حکم ان دنوں ہر چیز کا اسی طرح تھا جیسا علی (رض) نے فیصلہ کیا کہ جس حصہ میں کئی دعوے دار ہوں یا جس مال کی وصیت میں کئی لوگ شامل ہوں اس کے بعد کہ ہر ایک کے لیے الگ الگ وصیت کی گئی ہو یا آزادی کی طرح کہ غلام اپنے آزاد کرنے والے کے مرض الموت میں آزاد ہوئے ہوں تو ایسے سب معاملات میں قرعہ اندازی سے ان کے درمیان فیصلہ ہوتا جس کے حق میں قرعہ نکل آتا اسی طرح جو وصیت اور آزادی سے واجب ہوا ہوتا اس کا یہی حکم تھا پھر سود کے منسوخ ہونے سے یہ سب چیزیں منسوخ ہوگئیں اور چیزوں کو ان کی مقررہ معلوم مقداروں کی طرف لوٹا دیا گی اجنمیں کہ برابری ہوسکتی تھی اور زیادتی اور نقصان نہ رہتا تھا اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیماری کی حالت میں آزاد کردینے والے شخص متعلق جو فیصلہ فرمایا ہے ایک تو وہ ثلث مال میں سے ہے دوسری بات یہ ہے کہ اس میں سے دو باتوں میں سے ایک ضرور ہے کہ مریض کے مرض الموت میں کئے جانے والے معاملات عتاق ‘ ہبہ ‘ صدقات وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جائے یا پھر مریض کے آزاد کردینے کے ساتھ خاص کیا جائے اور افعال سے اس کا تعلق نہ ہو۔ پس اگر ہم اس کو عتاق سے خاص کریں تو پھر یہ ہبات اور صدقات کے لیے دلیل نہ بن سکے گا تو اس سے ان لوگوں کی بات ثابت ہوجائے گی جو عتاق کو تمام مال میں نافذ قرار دیتے ہیں کیونکہ قیاس بھی اسی کا مؤید ہے۔ اگرچہ اس میں جو کچھ کہا گیا ہے تقلید کے بغیر اس میں مخالفت کا ادراک بھی نہیں کیا جاسکتا اور حال یہ ہے کہ اس باب میں اس حدیث کی نقل کے علاوہ اور کوئی روایت موجود نہیں اور اگر اس عتاق کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثلث میں سے قرار دیا ہے تو پھر یہ ہمارے مؤقف کی دلیل ہے کہ مریض کے ہبات و صدقات اسی طرح ہوں گے اسی طرح یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ان تمام معاملات میں قرعہ جاری تھا اور اس کے ذریعہ فیصلہ کیا جاتا تھا اور ہمارے نزدیک اور ہمارے مخالف کے نزدیک اس کا ہبہ اور صدقات سے حکم اٹھ چکا اب یہ ہمارے حق میں دلیل ہے کہ عتاق سے بھی یہ حکم اٹھ چکا ہے۔ پس اس سے جنہوں نے قرعہ والا قول کیا ہے وہ باطل ہوا اور آخری دو اقوال میں سے ایک ثابت ہوگیا۔ قرعہ کس طرح منسوخ ہوگیا حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر عمل کرتے تھے اور آپ کے بعد بھی مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہیں۔ (ثبوت ملاحظہ ہو)
تخریج : ابو داؤد فی الطلاق باب ٣٢۔

7250

۷۲۴۷ : فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، وَسَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَعَلْقَمَۃُ بْنُ وَقَّاصٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَرَادَ سَفَرًا ، أَقْرَعَ بَیْنَ نِسَائِہٖ، فَأَیَّتہنَّ خَرَجَ سَہْمُہَا ، خَرَجَ بِہَا مَعَہٗ۔
٧٢٤٧: علقمہ بن وقاص نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج کے مابین قرعہ ڈالتے پس جس کا نام نکلتا وہی اس سفر میں شریک ہوتیں۔ تخریج : بخاری فی الہبہ باب ١٥‘ والجہاد باب ٦٤‘ والشہادات باب ١٥؍٣٠‘ والمغازی باب ٣٤‘ والنکاح باب ٩٧‘ مسلم فی فضائل الصحابہ ٨٨‘ والتوبہ ٥٦‘ والنکاح ٣٨‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٤٧‘ والاحکام باب ٢٠‘ دارمی فی الجہاد باب ٣٠‘ والنکاح باب ٢٦‘ مسند احمد ٦‘ ١١٤؍١١٧‘ ١٩٧؍٢٦٩۔

7251

۷۲۴۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٢٤٨: یونس بن یزید نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7252

۷۲۴۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، وَعَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَعَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ ، وَسَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، وَیَحْیٰی بْنُ عَبَّادٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ۔
٧٢٤٩: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اور یحییٰ بن عباد نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی کی روایت کی ہے۔

7253

۷۲۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عِیْسَیْ بْنِ تَلِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَۃَ الْقِتْبَانِیُّ ، عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ ، عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ خَالَتِیْ عَمْرَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ ، مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَہٰذَا مَا یَنْبَغِیْ لِلنَّاسِ أَنْ یَفْعَلُوْھُ اِلَی الْیَوْمِ ، وَلَیْسَ بِمَنْسُوْخٍ ، فَمَا یُنْکِرُوْنَ أَنَّ الْقُرْعَۃَ فِی الْعَتَاقِ فِی الْمَرَضِ کَذٰلِکَ .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ، مَا یُغْنِیْ، وَلٰـکِنَّا نَذْکُرُ ہَاہُنَا ، مَا فِیْہِ أَیْضًا دَلِیْلُ أَنْ لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ہٰذَا اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی. أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُسَافِرَ اِلٰی حَیْثُ أَحَبَّ ، وَاِنْ طَالَ سَفَرُہُ ذٰلِکَ ، وَلَیْسَ مَعَہُ أَحَدٌ مِنْ نِسَائِہٖ، وَأَنَّ حُکْمَ الْقَسْمِ ، یَرْتَفِعُ عَنْہُ بِسَفَرِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، کَانَتْ قُرْعَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ نِسَائِہٖ، فِیْ وَقْتِ احْتِیَاجِہِ اِلَی الْخُرُوْجِ بِاِحْدَاہُنَّ لِتَطِیْبَ نَفْسُ مَنْ لَا یَخْرُجُ بِہَا مِنْہُنَّ ، وَلِیُعْلَمَ أَنَّہٗ لَمْ یُحَابِ الَّتِی خَرَجَ بِہَا عَلَیْہِنَّ ، لِأَنَّہٗ لَمَّا کَانَ لَہٗ أَنْ یَخْرُجَ وَیُخَلِّفَہُنَّ جَمِیْعًا ، کَانَ لَہٗ أَنْ یَخْرُجَ وَیُخَلِّفَ مَنْ شَائَ مِنْہُنَّ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْقُرْعَۃَ اِنَّمَا تُسْتَعْمَلُ فِیْمَا یَسَعُ تَرْکَہَا ، وَفِیْمَا لَہٗ أَنْ یُمْضِیَہُ بِغَیْرِہَا .وَمِنْ ذٰلِکَ ، الْخَصْمَانِ یَحْضُرَانِ عِنْدَ الْحَاکِمِ ، فَیَدَّعِیْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلٰی صَاحِبِہٖ دَعْوَی .فَیَنْبَغِیْ لِلْقَاضِی أَنْ یُقْرِعَ بَیْنَہُمَا ، فَأَیُّہُمَا أُقْرِعَ ، بَدَأَ بِالنَّظَرِ فِیْ أَمْرِہٖ، وَلَہٗ أَنْ یَنْظُرَ فِیْ أَمْرِ مَنْ شَائَ مِنْہُمَا بِغَیْرِ قُرْعَۃٍ .فَکَانَ الْأَحْسَنُ بِہٖ ؛ لِبُعْدِ الظَّنِّ بِہٖ فِیْ ہٰذَا اسْتِعْمَالَ الْقُرْعَۃِ ، کَمَا اسْتَعْمَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَمْرِ نِسَائِہٖ۔ وَکَذٰلِکَ عَمِلَ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ أَقْسَامِہِمْ بِالْقُرْعَۃِ ، فِیْمَا قَدْ عَدَلُوْھُ بَیْنَ أَہْلِہِمْ ، بِمَا لَوْ أَمْضَوْہُ بَیْنَہُمْ ، لَا عَنْ قُرْعَۃٍ ، کَانَ ذٰلِکَ مُسْتَقِیْمًا .فَأَقْرَعُوْا بَیْنَہُمْ ؛ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُہُمْ ، وَتَرْتَفِعَ الظِّنَّۃُ ، عَمَّنْ تَوَلّٰی لَہُمْ قِسْمَتَہُمْ .وَلَوْ أَقْرَعَ بَیْنَہُمْ ، عَلٰی طَوَائِفَ مِنَ الْمَتَاعِ ، الَّذِیْ لَہُمْ ، قَبْلَ أَنْ یُعَدِّلَ وَیُسَوِّیَ قِیْمَتَہٗ عَلٰی أَمْلَاکِہِمْ مِنْہٗ، کَانَ ذٰلِکَ الْقَسْمُ بَاطِلًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْقُرْعَۃَ اِنَّمَا فُعِلَتْ ، بَعْدَ أَنْ تَقَدَّمَہَا ، مَا یَجُوْزُ الْقَسْمُ بِہٖ ، وَأَنَّہَا اِنَّمَا أُرِیْدَتْ لِانْتِفَائِ الظَّنِّ ، لَا بِحُکْمٍ یَجِبُ بِہَا .فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ کُلُّ قُرْعَۃٍ تَکُوْنُ مِثْلَ ہٰذَا، فَہِیَ حَسَنَۃٌ ، وَکُلُّ قُرْعَۃٍ یُرَادُ بِہَا وُجُوْبُ حُکْمٍ ، وَقَطْعُ حُقُوْقٍ مُتَقَدِّمَۃٍ ، فَہِیَ غَیْرُ مُسْتَعْمَلَۃٍ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی الْقَوْلَیْنِ الْآخَرَیْنِ ، فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ حَکَمَ فِی الْعَبْدِ ، اِذَا کَانَ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، فَأَعْتَقَہُ أَحَدُہُمَا ، فَاِنَّہٗ حُرٌّ کُلُّہٗ، وَیَضْمَنُ اِنْ کَانَ مُوْسِرًا ، أَوْ اِنْ کَانَ مُعْسِرًا .فَفِیْ ذٰلِکَ مِنْ الْاِخْتِلَافِ ، مَا ذَکَرْنَاہُ فِی کِتَابِ الْعَتَاقِ۔ثُمَّ وَجَدْنَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِی الْمَلِیْحِ الْہُذَلِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ شِقْصًا لَہٗ، فِیْ مَمْلُوْکٍ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ حُرٌّ کُلُّہُ لَیْسَ لَہٗ شَرِیْکٌ۔فَبَیَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْعِلَّۃَ الَّتِیْ لَہَا عَتَقَ نَصِیْبُ صَاحِبِہٖ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْعَتَاقَ مَتَیْ وَقَعَ فِیْ بَعْضِ الْعَبْدِ ، انْتَشَرَ فِیْ کُلِّہِ .وَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حَکَمَ فِی الْعَبْدِ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، اِذَا أَعْتَقَہُ أَحَدُہُمَا ، وَلَا مَالَ لَہٗ، یُحْکَمُ عَلَیْہِ فِیْہِ بِالضَّمَانِ بِالسِّعَایَۃِ عَلَی الْعَبْدِ ، فِیْ نَصِیْبِ الَّذِیْ لَمْ یُعْتِقْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ ہٰؤُلَائِ الْعَبِیْدِ فِی الْمَرَضِ کَذٰلِکَ ، وَأَنَّہٗ لَمَّا اسْتَحَالَ أَنْ یَجِبَ عَلَی غَیْرِہِمْ ، ضَمَانُ مَا جَاوَزَ الثُّلُثَ ، الَّذِیْ لِلْمَیِّتِ ، أَنْ یُوْصِیَ بِہٖ ، وَیُمَلِّکَہُ فِیْ مَرَضِہٖ مَنْ حَبَّ مِنْ قِیْمَتِہِمْ ، وَجَبَ عَلَیْہِمْ السِّعَایَۃُ فِیْ ذٰلِکَ لِلْوَرَثَۃِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٧٢٥٠: عمرہ بنت عبدالرحمن نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ان روایات سے قرعہ کا ثبوت ملتا ہے پس لوگوں کو مناسب ہے کہ وہ آج اس کو اختیار کریں۔ یہ منسوخ نہیں مرض کی حالت میں عتاق میں قرعہ کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ ہم اس کا کافی و شافی جواب اپنے مقام پردے چکے مگر یہاں بھی ہم تھوڑا سا ذکر کئے دیتے ہیں جس سے مزید یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ ان روایات میں ثبوت قرعہ کی کوئی دلیل نہیں۔ ان شاء اللہ۔ مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ آدمی کو جہاں چاہے سفر درست ہے خواہ سفر طویل ہو اور اس کی بیویوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہ ہو۔ اور تقسیم میں برابری کا حکم سفر کے وقت اٹھ جاتا ہے جب یہ بات اسی طرح ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی ازواج مطہرات میں قرعہ اندازی کرنا جبکہ آپ کو نکلنے کی ضرورت پیش آتی یہ تطییب خاطر کے لیے تھا تاکہ نہ نکلنے والیوں کو یہ بات پیش نظر ہو کہ جس کو ساتھ لے جا رہے ہیں اس کے ساتھ ان کے مقابلہ میں محبت زیادہ نہیں کیونکہ آپ کو اکیلے نکلنا اور سب کو سفر میں نہ لے جانا یہ بھی درست تھا تو اسی طرح آپ کو یہ بھی جائز تھا کہ آپ نکلیں اور جس کو چاہیں ساتھ لے جائیں۔ پس اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی کہ قرعہ ان کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے جن میں چھوڑنے کی وسعت موجود ہو اور ان میں جن کا اس کے بغیر کر گزرنا درست ہو اسی قسم میں سے یہ بات ہے کہ جب دو آدمی جن کے مابین جھگڑا ہو دونوں حاکم کے پاس حاضر ہوں ان میں سے ہر ایک مدعی ہو تو اس وقت قاضی کے لیے مناسب ہے کہ وہ قرعہ اندازی کرے جس کے نام قرعہ نکلے پہلے اس کے معاملے کو دیکھے اور قاضی کے لیے یہ بھی درست ہے کہ قرعہ اندازی کر کے جس کے معاملے میں چاہے پہلے غور کرے البتہ قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کرنا بہتر ہے تاکہ بدگمانی پیدا نہ ہو۔ جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات کے سلسلہ میں اختیار فرمایا۔ مسلمانوں نے بھی اسی طرح قرعہ اندازی کا طریق کار اختیار کیا کہ جس میں انھوں نے لوگوں کے درمیان برابری برتنا چاہی۔ اگرچہ وہ اگر قرعہ اندازی کے بغیر فیصلہ کریں تو یہ بھی درست ہے ان کے مابین قرعہ اندازی اس لیے اختیار کی جاتی ہے تاکہ ان کے دل مطمئن رہیں اور ذمہ دار کے متعلق بدگمانی اٹھ جائے کہ اس نے جانب داری سے کام لیا ہے۔ اگر ذمہ دار لوگ ان کے مختلف النوع اموال اور املاک میں برابری کرنا چاہیں اور ان میں قیمتوں کی تعیین کے بغیر قرعہ اندازی کریں تو یہ باطل ہے اور یہ تقسیم کرنے والا غلط طرز اختیار کرنے والا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرعہ اندازی ان میں کی جائے گی جن میں اس کے ذریعہ تقسیم درست ہو اس سے کوئی حکم واجب نہ ہوگا یہ صرف بدگمانی کی نفی کے لیے ہے۔ پس ہر وہ قرعہ جو اسی انداز سے ہو وہ درست ہے اور وہ قرعہ جس سے حکم کا وجوب ثابت کرنا ہو اور گزشتہ حقوق کو طے کرنا وہ غیر مستعمل ہے۔ اب ہم آخری دونوں اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلام کے متعلق فیصلہ فرمایا جو دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک آزاد کر دے وہ تمام آزاد ہوجائے گا اور اگرچہ خوشحال یا تنگدست ہو دوسرے کے حصہ کا ضامن ہوگا اور اس میں جو اختلاف ہے وہ ہم کتاب العتاق میں ذکر کر آئے ہیں۔ پھر ہم نے ابوالملیح ہذلی کی روایت پا لی جس کو انھوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تمام کا تمام آزاد ہے اس کا کوئی حصہ دار نہیں ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں وہ علت بیان کردی جس کی وجہ سے اس کے ساتھ کا حصہ آزاد ہوگیا۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جب غلام کے بعض حصہ میں عناق واقع ہوگا تو وہ تمام میں پھیل جائے گا ہم نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کے مشترک غلام کے سلسلہ میں فیصلہ فرمایا جبکہ ان میں سے ایک نے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس غلام کے پاس کوئی مال نہیں کہ جس کے متعلق کمائی کے لیے ضمان کا فیصلہ غلام کے متعلق کیا جائے اس حصہ میں جو کہ آزاد نہیں کیا گیا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مرض کی حالت میں ان غلاموں کا یہی حکم ہے تو جب یہ ناممکن ہے کہ دوسروں پر اس مال کے ضمان کا فیصلہ لازم ہو جو کہ ثلث سے زیادہ ہے جس کی میت وصیت کرسکتا ہے اور اپنے مرض کے دوران اس کی قیمت کا جس کو چاہے مالک بنا دے تو ان غلاموں پر اس مال کے سلسلہ میں ورثاء کے لیے دوڑ دھوپ لازم ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٧٥۔

7254

۷۲۵۱ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ أَوْ قَالَ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا جَائَ أَبُو طَلْحَۃَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، حَائِطِیْ، الَّذِیْ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا ، لِلّٰہِ وَلَوِ اسْتَطَعْتُ أَنْ أُسِرَّہٗ، لَمْ أُعْلِنْہُ .فَقَالَ : اجْعَلْہُ فِیْ فُقَرَائِ قَرَابَتِکَ، أَوْ فُقَرَائِ أَہْلِک۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الرَّجُلِ یُوْصِیْ بِثُلُثِ مَالِہٖ ، لِقَرَابَۃِ فُلَانٍ مَنْہُمْ ؟ الْقَرَابَۃُ الَّذِیْنَ یَسْتَحِقُّوْنَ تِلْکَ الْوَصِیَّۃَ .فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ : ہُمْ کُلُّ ذِیْ رَحِمٍ مَحْرَمٍ ، مِنْ فُلَانٍ ، مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ‘ أَوْ مِنْ قِبَلِ أُمِّہٖ، غَیْرَ أَنَّہٗ یَبْدَأُ فِیْ ذٰلِکَ ، بِمَنْ کَانَتْ قَرَابَتُہُ مِنْہُمْ ، مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ‘ عَلٰی مَنْ کَانَتْ قَرَابَتُہٗ مِنْہٗ، مِنْ قِبَلِ أُمِّہِ .وَتَفْسِیْرُ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ لِلْمُوْصِیْ لِقَرَابَتِہٖ عَمٌّ ، وَخَالٌ ، فَقَرَابَۃُ عَمِّہٖ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ‘ کَقَرَابَۃِ خَالِہٖ مِنْہٗ، مِنْ قِبَلِ أُمِّہٖ، فَلْیَبْدَأْ فِیْ ذٰلِکَ ، بِعَمِّہٖ عَلَی خَالِہٖ، فَیَجْعَلُ الْوَصِیَّۃَ لَہٗ۔ وَقَالَ زَفَرُ رَحِمَہُ اللّٰہُ : الْوَصِیَّۃُ لِکُلِّ مَنْ قَرُبَ مِنْہُ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ‘ أَوْ مِنْ قِبَلِ أُمِّہٖ، دُوْنَ مَنْ کَانَ أَبْعَدَ مِنْہُ .وَسَوَائٌ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ ، بَیْنَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ ، ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ ، وَبَیْنَ مَنْ کَانَ ذَا رَحِمٍ غَیْرَ مُحَرَّمٍ .وَقَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی : الْوَصِیَّۃُ فِیْ ذٰلِکَ ؛ لِکُل مَنْ جَمَعَہٗ وَفُلَانًا ، أَبٌ وَاحِدٌ ، مُنْذُ کَانَتِ الْہِجْرَۃُ مِنْ قِبَلِ أَبِیْہِ‘ أَوْ مِنْ قِبَلِ أُمِّہِ. وَسَوَائٌ فِیْ ذٰلِکَ ، بَیْنَ مَنْ بَعُدَ مِنْہُمْ .وَبَیْنَ مَنْ قَرُبَ ، وَبَیْنَ مَنْ کَانَتْ رَحِمُہٗ غَیْرَ مُحَرَّمَۃٍ .وَلَمْ یُفَضِّلَا فِیْ ذٰلِکَ ، مَنْ کَانَتْ رَحِمُہُ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ ، عَلَی مَنْ کَانَتْ رَحِمُہٗ، مِنْ قِبَلِ الْأُمِّ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : الْوَصِیَّۃُ فِیْ ذٰلِکَ ، لِکُل مَنْ جَمَعَہٗ وَفُلَانًا ، أَبُوْھُ الرَّابِعُ اِلٰی مَا ہُوَ أَسْفَلُ مِنْ ذٰلِکَ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : الْوَصِیَّۃُ فِیْ ذٰلِکَ ؛ لِکُل مَنْ جَمَعَہٗ وَفُلَانًا ، أَبٌ وَاحِدٌ ، فِی الْاِسْلَامِ ، أَوْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، مِمَّنْ یَرْجِعُ بِآبَائِہٖ، أَوْ بِأُمَّہَاتِہِ اِلَیْہٖ، أَبًا غَیْرَ أَبٍ ، أَوْ أُمًّا غَیْرَ أُم ، اِلٰی أَنْ تَلْقَاہٗ، مِمَّا ثَبَتَتْ بِہٖ الْمَوَارِیْثُ ، أَوْ تَقُوْمُ بِہٖ الشَّہَادَاتُ .وَاِنَّمَا جَوَّزَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَاتِ الْوَصِیَّۃَ لِلْقَرَابَۃِ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ ، اِذَا کَانَتْ تِلْکَ الْقَرَابَۃُ قَرَابَۃً تُحْصَیْ وَتُعْرَفُ .فَاِنْ کَانَتْ لَا تُحْصٰی وَلَا تُعْرَفُ ، فَاِنَّ الْوَصِیَّۃَ بِہَا بَاطِلَۃٌ فِیْ قَوْلِہِمْ جَمِیْعًا اِلَّا أَنْ یُوْصِیَ بِہَا لِفُقَرَائِہِمْ ، فَتَکُوْنَ جَائِزَۃً لِمَنْ رَأَی الْوَصِیُّ دَفْعَہَا اِلَیْہِ مِنْہُمْ .وَأَقَلُّ مَنْ یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یَجْعَلَہَا مِنْہُمْ ، اثْنَانِ فَصَاعِدًا ، فِیْ قَوْلِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَقَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ : اِنْ دَفَعَہَا اِلٰی وَاحِدٍ مِنْہُمْ أَجْزَأَہٗ ذٰلِکَ .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِی الْقَرَابَۃِ مِنْہُمْ ، ہٰذَا الْاِخْتِلَافَ ، وَجَبَ أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِنَسْتَخْرِجَ مِنْ أَقَاوِیْلِہِمْ ہٰذِہٖ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ الْقَرَابَۃَ ، ہُمْ الَّذِیْنَ یَلْتَقُوْنَہٗ وَمَنْ یُقَارِبُوْنَہٗ، عِنْدَ أَبِیْہَ الرَّابِعِ فَأَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ .اِنَّمَا قَالُوْا ذٰلِکَ فِیْمَا ذَکَرُوْا، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ 5، لَمَّا قَسَمَ سَہْمَ ذِی الْقُرْبَیْ، أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ .وَاِنَّمَا یَلْتَقِیْ، ہُوَ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ ، عِنْدَ أَبِیْہَ الرَّابِعِ ؛ لِأَنَّہٗ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ ہَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ .وَالْآخَرُوْنَ بَنُو الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ ، یَلْتَقُوْنَہُمْ ، وَہُوَ عِنْدَ عَبْدِ مُنَافٍ ، وَہُوَ أَبُوْھُ الرَّابِعُ فَمِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ لِلْآخَرِیْنَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ 5، لَمَّا أَعْطٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، قَدْ حَرَمَ بَنِیْ أُمَیَّۃَ ، وَبَنِیْ نَوْفَلٍ ، وَقَرَابَتُہُمْ مِنْہٗ، کَقَرَابَۃِ بَنِی الْمُطَّلِبِ .فَلَمْ یَحْرِمْہُمْ ؛ لِأَنَّہُمْ لَیْسُوْا قَرَابَۃً ، وَلٰـکِنْ لِمَعْنًیْ غَیْرِ الْقَرَابَۃِ .فَکَذٰلِکَ مَنْ فَوْقَہُمْ ، لَمْ یَحْرِمْہُمْ ؛ لِأَنَّہُمْ لَیْسُوْا قَرَابَۃً ، وَلٰـکِنْ لِمَعْنًیْ غَیْرِ الْقَرَابَۃِ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ 5 فِی الْقَرَابَۃِ ، مِنْ غَیْرِ ہٰذَا الْوَجْہِ
٧٢٥١: حمید نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ (آل عمران : ٩٢) یا یہ آیت نازل ہوئی ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ (البقرہ : ٢٤٥) تو حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) آ کر کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا فلاں باغ جو فلاں جگہ واقع ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہے اگر آپ چاہیں کہ اس کو پوشیدہ رکھیں تو میں اس کو ظاہر نہ کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اپنے قرابت داروں میں سے فقراء پر تقسیم کر دو یا اپنے اہل میں سے فقراء پر تقسیم کر دو ۔
تخریج : ترمذی فی تفسیر سورة ٣‘ باب ٥‘ مسند احمد ٣‘ ١١٥؍١٧٤۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : اس آدمی کے متعلق علماء کا اختلاف ہے کہ جو شخص فلاں آدمی کے رشتہ داروں کے لیے اپنے تہائی مال کی وصیت کرتا ہے جس کے وہ رشتہ دار ہوں جو اس وصیت کے حقدار ہوں۔ : امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے اس کا ہر ذی رحم محرم مراد ہے خواہ وہ باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے۔ البتہ ابتداء باپ کے قربتداروں سے کی جائے گی ان کو مال کے قرابتداروں پر مقدم کیا جائے گا اس کی وضاحت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کو رشتہ داری کی وجہ سے چچا اور ماموں کا رشتہ حاصل ہے تو باپ کی طرف سے چچا کی رشتہ داری ماں کی طرف سے ماموں کی رشتہ داری کے مشابہہ ہے۔ پس اس وصیت میں ماموں پر چچا کو مقدم کر کے وصیت کو اس کے حق میں قرار دیں گے۔ !: امام زفر (رح) یہ وصیت ان لوگوں کو حاصل ہوگی جو خواہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ذی رحم محرم ہوں یہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصیت ان کے لیے نہ ہوگی جو دور سے رشتہ دار ہوں مگر وہ ذی رحم محرم ہو یا فقط ذی رحم ہوں اور محرم نہ ہوں۔ ": امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا کہنا ہے کہ یہ وصیت ان کے لیے ہوگی جو وصیت کرنے والے کے ساتھ ہجرت کے وقت سے لے کر ایک ماں باپ میں جمع ہوں خواہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے اس سلسلہ میں دور کا رشتہ اور قریب کا رشتہ ایک جیسا ہے۔ اسی طرح ذی رحم محرم اور غیر محرم دونوں برابر ہیں جس کو والد کی طرف سے رشتہ داری ہو وہ ماں کی طرف سے رشتہ داری پر فضیلت نہیں رکھتا۔ ایک اور فریق کا کہنا ہے کہ اس صورت میں وصیت ہر اس شخص کے لیے ہوگی جو اس وصیت کرنے والے کے ساتھ چوتھی پشت میں شریک ہے پھر نیچے بھی اسی طرح۔ ایک اور جماعت کا کہنا ہے کہ یہ وصیت اس شخص کے لیے ہوگی جو اس وصیت کرنے والے کے ساتھ ایک ماں یا ایک باپ میں جمع ہوں خواہ زمانہ اسلام میں یا زمانہ جاہلیت میں ان لوگوں میں سے جو اپنے باپوں یا ماؤں کے ساتھ اس باپ کی طرف لوٹے ہوں جو ان کا حقیقت باپ نہیں یا اس ماں کی طرف جو ان کی حقیقت ماں نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس سے ایسی بات (رشتہ) پائے جس سے وراثت ثابت ہوتی ہے یا شہادتین قائم ہوتی ہیں۔ ان تمام اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ وصیت کا مدار قرابت پر ہے بشرطیکہ وہ قرابت ایسی جو قرابت شمار ہو اور پہچانی جاسکے۔ اگر وہ قرابت شمار ہی نہیں ہوتی یا پہچانی ہی نہیں جاتی تو تمام کے ہاں وصیت باطل ٹھہرے گی البتہ اگر وصیت ان میں فقراء کے لیے ہو تو جائز و نافذ ہوگی اور ان میں سے جس کو فقیر پائے گا اس کو دے گا اور کم سے کم جن کو یہ دی جائے گی وہ دو پس اس سے زائد ہوں گے یہ امام محمد (رح) کا قول ہے اور امام ابو یوسف (رح) تو ایک کو بھی دے دینا جائز قرار دیتے ہیں۔ اب جب کہ علماء کے اقوال میں اس قدر اختلاف ہے تو درست قول کو نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے دلائل پر غور کریں۔ : اولاً ان حضرات کی دلیل پر غور کیا جو چوتھی پشت میں شراکت کو قربت کا مدار قرار دیتے ہیں ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قرابت داروں کا حصہ تقسیم کیا تو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو عطاء فرمایا آپ کا بنو مطلب کے ساتھ چوتھی پشت میں سلسلہ نسب ملتا ہے کیونکہ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم اور دوسرے بنو مطلب بن عبد مناف بھی عبد مناف پر مل جاتے ہیں جو کہ نسب میں چوتھا باپ ہے۔ اس دلیل کا جواب : جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو جب حصہ عنایت فرمایا تو بنو امیہ اور بنو نوفل کو محروم رکھا حالانکہ ان کے ساتھ وہی رشتہ تھا جو بنو مطلب کے ساتھ بنتا تھا۔ تو ان کی محرومی کی وجہ عدم قرابت نہ تھی بلکہ دوسری وجہ تھی اسی طرح ان سے اوپر والوں کو بھی اس لیے محروم نہیں کیا کہ ان کو قرابت حاصل نہ تھی بلکہ اس کے علاوہ محرومی کا دوسرا سبب تھا۔ !: جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت کے متعلق ایک دوسری بات مروی ہے۔ وہ یہ ہے۔
خلاصہ الزام :
فلاں آدمی کے رشتہ داروں کے لیے یہ مال ہوگا تو رشتہ داروں سے کون مراد ہوں گے۔
1 فریق اوّل پر ذی رحم محرم جو باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے وہ اس کا حقدار ہے۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) نے اختیار کیا۔
2: ذی رحم محرم کو وصیت پہنچے گی یہ امام زفر (رح) احمد (رح) کا قول ہے۔
3: ہجرت کے وقت سے ایک ماں باپ میں شریک ذی رحم محرم مراد ہوں گے۔ یہ امام ابو یوسف و محمدرحمہما کا قول ہے۔
4: چوتھی پشت میں شریک کے لیے وصیت ہوگی۔
5: کسی بھی دادا میں شریک ہوں خواہ جاہلیت میں یا اسلام میں وہ مراد ہوں گے۔

7255

۷۲۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، عَنْ ثُمَامَۃَ قَالَ : قَالَ أَنَسٌ : کَانَتْ لِأَبِیْ طَلْحَۃَ أَرْضٌ ، فَجَعَلَہَا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہٗ : اجْعَلْہَا فِیْ فُقَرَائِ قَرَابَتِک فَجَعَلَہَا لِحَسَّانٍ وَأُبَیُّ .قَالَ أَبِیْ عَنْ ثُمَامَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : فَکَانَا أَقْرَبَ اِلَیْہِ مِنِّیْ۔ فَہٰذَا أَبُو طَلْحَۃَ ، قَدْ جَعَلَہَا لِأُبَیِّ وَحَسَّانَ ، وَاِنَّمَا یَلْتَقِیْ ھُوَ وَأُبَیُّ ، عِنْدَ أَبِیْہَ السَّابِعِ ؛ لِأَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ ، اسْمُہٗ زَیْدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ حَرَامِ بْنِ عَمْرِو بْنِ زَیْدِ مَنَاۃَ ، بْنِ عَدِیِّ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ بْنِ النَّجَّارِ .وَأُبَیُّ بْنُ کَعْبِ بْنِ قَیْسِ بْنِ عَتِیْکِ بْنِ زَیْدِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَوْنِ بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّجَّارِ .فَلَمْ یُنْکِرْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَبِیْ طَلْحَۃَ ، مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا ، عَلٰی أَنَّ مَنْ کَانَ یَلْقَی الرَّجُلَ اِلٰی أَبِیْہَ الْخَامِسِ ، أَوْ السَّادِسِ ، أَوْ اِلٰی مَنْ فَوْقَ ذٰلِکَ مِنَ الْآبَائِ الْمَعْرُوْفِیْنَ قَرَابَۃً لَہٗ، کَمَا أَنَّ مَنْ یَلْقَاہٗ، اِلٰی أَبٍ دُوْنَہُ قَرَابَۃٌ أَیْضًا .وَقَدْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیَّہُ أَیْضًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ یُنْذِرَ عَشِیْرَتَہُ الْأَقْرَبِیْنَ .فَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٥٢: ثمامہ کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ حضرت ابو طلحہ (رض) کی ایک زمین تھی انھوں نے وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر مقرر کردی وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور گزارش کی تو آپ نے فرمایا اس کو اپنے قرابت دار فقراء پر تقسیم کر دو ۔ تو انھوں نے وہ باغ حضرت حسان اور ابی (رض) میں تقسیم کردیا۔ راوی محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد عبداللہ ثمامہ عن انس (رض) سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ دونوں مجھ سے زیادہ قریب تھے۔ تو یہ ابو طلحہ (رض) نے اپنا باغ حضرت ابی اور حسان (رض) کو دیا حالانکہ ان کا سلسلہ نسب ابو طلحہ سے ساتویں پشت میں ملتا ہے ملاحظہ ہو۔ ابو طلحہ زیدبن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عون بن مالک بن نجار تو نجار میں دونوں کا سلسلہ جمع ہوتا ہے جو کہ ساتویں پشت ہے مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار نہیں فرمایا بلکہ برقرار فرمایا۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ جو پانچویں ‘ چھٹے یا ساتویں یا اوپر تک آباء معروفین میں ملے وہ اس کی قرابت شمار ہوگی جس طرح کہ اس سے نیچے والوں میں قرابت ہے۔ ": اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے قریبی خاندان کو ڈرائیں۔ جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

7256

۷۲۵۳ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَخْلَدٍ الْأَصْفَہَانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ یَعْقُوْبَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوْسِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ : قَالَ عَلِیُّ لَمَّا أُنْزِلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ۔قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا عَلِیُّ ، اجْمَعْ لِیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَہُمْ أَرْبَعُوْنَ رَجُلًا ، أَوْ أَرْبَعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّہٗ قَصَدَ بَنِیْ أَبِیْہَ الثَّالِثِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٥٣: عباد بن عباد کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ (الشعرائ : ٢١٤) اتاری تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا اے علی (رض) ! تم میرے لیے بنو ہاشم کو جمع کرو اور ان کی تعداد چالیس یا ایک کم چالیس تھی پھر روایت اسی طرح بیان کی۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرابت سے تیسری پشت مراد لی ہے اور اس سلسلے میں اور روایت بھی وارد ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7257

۷۲۵۴ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَخْلَدٍ ، أَبُو الْحَسَنِ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ الرَّازِیّ قَالَ : ثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الْغَفَّارِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ اجْمَعْ لِیْ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ : وَہُمْ أَرْبَعُوْنَ رَجُلًا ، یَزِیْدُوْنَ رَجُلًا ، أَوْ یَنْقُصُوْنَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّہٗ قَصَدَ بَنِیْ أَبِیْہَ الثَّانِی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا ، فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٥٤: حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تم میرے لیے بنو عبدالمطلب کو جمع کرو اور کہتے ہیں کہ ان کی تعداد چالیس آدمی ایک کم یا ایک زائد آدمی تھا۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنے دادا کی اولاد کا قصد فرمایا گویا والد کے والد کی اولاد قرابت دار ہیں اور اس سلسلہ اور روایت ملاحظہ ہو۔

7258

۷۲۵۵ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ : قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ مُخَارِقَ ، وَزُہَیْرُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَا : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ انْطَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی رَضَمَۃٍ مِنْ جَبَلٍ ، فَعَلَا أَعْلَاہَا ، ثُمَّ قَالَ یَا بَنِیْ عَبْدِ مُنَافٍ ، اِنِّیْ نَذِیْرٌ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ قَصَدَ بَنِیْ أَبِیْہَ الرَّابِعِ. وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٥٥: قبیصہ بن مخارق اور زہیر بن عمرو دونوں کہتے ہیں کہ جب آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ (الشعرا ٢١٤) نازل ہوئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہاڑ کی ایک چٹان پر تشریف لے گئے اور اس کے اوپر چڑھ کر فرمایا یا بنی عبد مناف انی نذیر اے بنی عبد مناف بیشک میں منذر بن کر آیا ہوں۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے چوتھے باپ کی اولاد کا قصد فرمایا۔ اس سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بھی وارد ہے (ملاحظہ ہو)
تخریج : مسلم فی الایمان حدیث ٣٥٣‘ مسند احمد ٣؍٤٧٦۔

7259

۷۲۵۶ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، وَحَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ ، قَالَا : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ مُوْسَیْ بْنِ وَرْدَانَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ ، یَا بَنِیْ قُصَیِّ ، یَا بَنِیْ عَبْدِ مُنَافٍ ، أَنَا النَّذِیْرُ ، وَالْمَوْتُ الْمُغَیِّرُ ، وَالسَّاعَۃُ الْمَوْعُوْدُ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّہٗ دَعَا بَنِیْ أَبِیْہَ الْخَامِسِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٥٦: موسیٰ بن وردان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنی ہاشم ‘ اے بنی قصی ‘ اے بنی عبد مناف میں ڈرانے والا ہوں اور موت وہ لوٹ مار والا دشمن ہے اور قیامت کا وعدہ مقرر ہے۔ میں آپ نے اپنے پانچویں میں شامل لوگوں کو دعوت دی اور اس سلسلہ میں یہ بھی مروی ہے۔ (ملاحظہ ہو) ۔

7260

۷۲۵۷ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، وَعَفَّانُ ، عَنْ أَبِیْ عَوَانَۃَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُوْسَیْ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ قَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا بَنِیْ کَعْبِ بْنِ لُؤَی أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا بَنِیْ عَبْدِ مُنَافٍ أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ ، أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ، أَنْقِذِیْ نَفْسَک مِنَ النَّارِ ، فَاِنِّیْ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، غَیْرَ أَنَّ لَکُمْ رَحِمًا ، سَأَبُلُّہَا بِبِلَالِہَا فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ دَعَاہُمْ مَعَہُمْ ، بَنِیْ أَبِیْہَ السَّابِعِ ؛ لِأَنَّہٗ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ ہَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ بْنِ قُصَیِّ بْنِ کِلَابِ بْنِ مُرَّۃَ بْنِ کَعْبِ بْنِ لُؤَی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٥٧: موسیٰ بن طلحہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ (الشعرائ ٢١٤) نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ بنی کعب بن لوی تم اپنے کو آگ سے بچاؤ۔ اے بنی عبد مناف تم اپنے آپ کو بچاؤ۔ اے بنی ہاشم تم اپنے کو آگے سے بچاؤ۔ اے فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنے آپ کو آگے سے بچا ‘ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کے لیے کچھ کام نہ آؤں۔ البتہ تمہاری میرے ساتھ رحم کی رشتہ داری ہے اس کی تری سے میں تمہیں تر کروں گا (یعنی رحم کی وجہ سے جو حق بنتا ہے اس سے انکار نہیں) اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی کعب جو کہ ساتویں پشت ہے ان کو بھی بلایا اور ان کو قرابت میں شامل فرمایا۔ اس سلسلہ میں یہ بھی روایت وارد ہے (ملاحظہ ہو)
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٤‘ مسلم فی الایمان ٣٤٨‘ ترمذی فی تفسیر سورة ٢٦‘ باب ٢‘ نسائی فی الوصایا باب ٦‘ مسند احمد ٢‘ ٣٣٣؍٣٦٠۔

7261

۷۲۵۸ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ صَعِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الصَّفَّا فَجَعَلَ یُنَادِیْ یَا بَنِیْ فِہْرٍ ، یَا بَنِیْ عَدِیْ ، یَا بَنِیْ فُلَانٍ لِبُطُوْنٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، حَتّٰی اجْتَمَعُوْا .فَجَعَلَ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ ، وَجَائَ أَبُو لَہَبٍ وَقُرَیْشٌ ، فَاجْتَمَعُوْا .فَقَالَ : أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ خَیْلًا بِالْوَادِی تُرِیْدُ أَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ ، أَکُنْتُمْ تُصَدِّقُوْنِیْ. قَالُوْا : نَعَمْ ، مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا .قَالَ : فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَکُمْ ، بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٌ شَدِیدٌ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ دَعَا بُطُوْنَ قُرَیْشٍ کُلَّہَا .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ .
٧٢٥٨: سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ اتری تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پر چڑھے اور اس طرح آواز دینے لگے۔ اے بنی فہر ‘ اے بنی عدی ‘ اے بنی فلاں تمام بطون قریش کو بلایا یہاں تک کہ وہ اکٹھے ہوگئے۔ تو آدمیوں کا یہ حال ہوگیا کہ جو خود نہیں آسکتا تھا وہ اپنا نمائندہ بھیجنے لگا تاکہ وہ دیکھے کہ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ اور ابو لہب اور تمام خاندان قریش جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ ایک گھڑ سوار دستہ وادی میں تم پر شبخون مارنے کو تیار کھڑا ہے کیا تم میری اس بات کو سچ جانو گے۔ ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے اب تک آپ کے متعلق سچ کا تجربہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا میں تمہارے لیے سخت عذاب سے پہلے نذیر بن کر آیا ہوں۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی ساتویں پشت کے دادا کی اولاد کو شامل فرمایا اور وہ کعب بن لوی ہیں اور یہ بھی روایت وارد ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢٦‘ فی الترجمہ والوصایا باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٣٠٧۔

7262

۷۲۵۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ ، قَالَ : ثَنَا عُقَیْلٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ قَالَ : قَالَ سَعِیْدٌ وَأَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ : أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ أُنْزِلَ عَلَیْہِ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْأَقْرَبِیْنَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا بَنِیْ عَبْدِ مُنَافٍ ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، لَا أُغْنِیْ عَنْک مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ، لَا أُغْنِیْ عَنْک مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ، لَا أُغْنِیْ عَنْک مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔
٧٢٥٩: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اے گروہ قریش تم اپنے نفوس کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو۔ میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لیے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے بنی عبد مناف۔ تم اپنے نفوس کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو۔ میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لیے تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ کام نہ آؤں گا۔ اے صفیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھڑانے کے لیے تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ تعالیٰ سے بچانے کے لیے تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا۔
تخریج : بخاری فی الوصایا باب ١١‘ تفسیر سورة ٢٦‘ باب ٢‘ والمناقب باب ١٣‘ مسلم فی الایمان ٣٥١‘ نسائی فی الوصایا باب ٦‘ دارمی فی الرقاب باب ٢٣‘ مسند احمد ٢‘ ٣٥٠؍٣٩٩۔

7263

۷۲۶۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدٌ وَأَبُوْ سَلَمَۃَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ یَا صَفِیَّۃُ یَا فَاطِمَۃُ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا أَمَرَہٗ اللّٰہُ تَعَالٰی أَنْ یُنْذِرَ عَشِیْرَتَہُ الْأَقْرَبِیْنَ ، دَعَا عَشَائِرَ قُرَیْشٍ ، وَفِیْہِمْ مَنْ یَلْقَاہُ عِنْدَ أَبِیْہَ الثَّانِیْ، وَفِیْہِمْ مَنْ یَلْقَاہُ عِنْدَ أَبِیْہَ الثَّالِثِ ، وَفِیْہِمْ مَنْ یَلْقَاہٗ، عِنْدَ أَبِیْہَ الرَّابِعِ ، وَفِیْہِمْ مَنْ یَلْقَاہُ عِنْدَ أَبِیْہَ الْخَامِسِ ، وَفِیْہِمْ مَنْ یَلْقَاہٗ، عِنْدَ أَبِیْہَ السَّادِسِ ، وَفِیْہِمْ مَنْ یَلْقَاہُ عِنْدَ آبَائِہِ الَّذِیْنَ فَوْقَ ذٰلِکَ ، اِلَّا أَنَّہٗ مِمَّنْ قَدْ جَمَعْتُہٗ وَاِیَّاہُ قُرَیْشٌ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ قَوْلُ أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، وَثَبَتَ اِحْدَی الْمَقَالَاتِ الْأُخَرِ .وَنَظَرْنَا فِیْ قَوْلِ مَنْ قَدَّمَ مَنْ قَرُبَ رَحِمُہٗ، عَلَی مَنْ ہُوَ أَبْعَدُ رَحِمًا مِنْہُ .فَوَجَدْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا قَسَمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، عَمَّ بِہٖ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَبَعْضُ بَنِیْ ہَاشِمٍ أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ بَعْضٍ ، وَبَعْضُ بَنِی الْمُطَّلِبِ أَیْضًا أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ بَعْضٍ .فَلَمَّا لَمْ یُقَدِّمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ، مَنْ قَرُبَ رَحِمُہُ مِنْہٗ، عَلَی مَنْ ہُوَ أَبْعَدُ اِلَیْہِ رَحِمًا مِنْہٗ، وَجَعَلَہُمْ کُلَّہُمْ قَرَابَۃً لَہٗ، لَا یَسْتَحِقُّوْنَ مَا جَعَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِقَرَابَتِہٖ۔فَکَذٰلِکَ مَنْ بَعُدَتْ رَحِمُہٗ فِی الْوَصِیَّۃِ لِقَرَابَۃِ فُلَانٍ ، لَا یَسْتَحِقُّ بِقُرْبِ رَحِمِہِ مِنْہُ شَیْئًا ، مِمَّا جَعَلَ لِقَرَابَتِہِ اِلَّا کَمَا یَسْتَحِقُّ سَائِرَ قَرَابَتِہٖ، مِمَّنْ رَحِمُہُ مِنْہُ أَبْعَدُ مِنْ رَحِمِہٖ، فَہٰذِہِ حُجَّۃٌ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ ، لَمَّا أَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَجْعَلَ أَرْضَہٗ فِیْ فُقَرَائِ الْقَرَابَۃِ ، جَعَلَہَا لِحَسَّانَ ، وَلِأُبَیِّ .وَاِنَّمَا یَلْتَقِیْ ھُوَ وَأُبَیُّ عِنْدَ أَبِیْہَ السَّابِعِ ، وَیَلْتَقِیْ ھُوَ وَحَسَّانُ ، عِنْدَ أَبِیْہَ الثَّالِثِ .وَلِأَنَّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ حَرَامٍ .وَأَبُو طَلْحَۃَ زَیْدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ حَرَامٍ .فَلَمْ یُقَدِّمْ أَبُو طَلْحَۃَ فِیْ ذٰلِکَ حَسَّانًا ؛ لِقُرْبِ رَحِمِہِ مِنْہٗ، عَلٰی أُبَی ؛ لِبُعْدِ رَحِمِہِ مِنْہُ وَلَمْ یَرَوْا أَحَدًا مِنْہُمَا مُسْتَحِقًّا لِقَرَابَتِہِ مِنْہُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْہٗ، اِلَّا کَمَا یَسْتَحِقُّ مِنْہُ الْآخَرُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ فَسَادُ ہٰذَا الْقَوْلِ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، رَحِمَہُ اللّٰہٗ، فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا قَسَمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، أَعْطَیْ بَنِیْ ہَاشِمٍ جَمِیْعًا ، وَفِیْہِمْ مَنْ رَحِمُہٗ مِنْہٗ، رَحِمٌ مُحَرَّمَۃٌ ، وَفِیْہِمْ مِنْہٗ، مَنْ رَحِمُہٗ مِنْہُ غَیْرُ مُحَرَّمَۃٍ .وَأَعْطَیْ بَنِی الْمُطَّلِبِ مَعَہُمْ ، وَأَرْحَامُہُمْ جَمِیْعًا مِنْہٗ، غَیْرُ مُحَرَّمَۃٍ .وَکَذٰلِکَ أَبُو طَلْحَۃَ أَعْطٰی أُبَیًّا وَحَسَّانًا ، مَا أَعْطَاہُمَا ، عَلٰی أَنَّہُمَا قَرَابَۃٌ ، وَلَمْ یُخْرِجْہُمَا مِنْ قَرَابَتِہٖ، ارْتِفَاعُ الْحُرْمَۃِ مِنْ رَحِمِہِمَا مِنْہُ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ أَیْضًا ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہٖ، أَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ، فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَعْطَیْ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی ، بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، وَلَا یَجْتَمِعُ ہُوَ ، وَوَاحِدٌ مِنْہُمْ اِلٰی أَبٍ ، مُنْذُ کَانَتِ الْہِجْرَۃُ .وَاِنَّمَا یَجْتَمِعُ ہُوَ وَہُمْ ، عِنْدَ آبَائٍ کَانُوْا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .وَکَذٰلِکَ أَبُو طَلْحَۃَ وَأُبَیُّ ، وَحَسَّانُ ، لَا یَجْتَمِعُوْنَ عِنْدَ أَبٍ اِسْلَامِی ، وَاِنَّمَا یَجْتَمِعُوْنَ عِنْدَ أَبٍ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَلَمْ یَمْنَعْہُمْ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنُوْا قَرَابَۃً لَہٗ، یَسْتَحِقُّوْنَ مَا جُعِلَ لِلْقَرَابَۃِ .فَکَذٰلِکَ قَرَابَۃُ الْمُوْصِی ؛ لِقَرَابَتِہِ لَا یَمْنَعُہُمْ مِنْ تِلْکَ الْوَصِیَّۃِ اِلَّا أَنْ لَا یَجْمَعَہُمْ وَاِیَّاہُ أَبٌ ، مُنْذُ کَانَتِ الْہِجْرَۃُ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ، وَثَبَتَ الْقَوْلُ الْآخَرُ .فَثَبَتَ أَنَّ الْوَصِیَّۃَ بِذٰلِکَ : لِکُل مَنْ تَوَقَّفَ عَلٰی نَسَبِہٖ أَبًا غَیْرَ أَبٍ وَأُمًّا غَیْرَ أُم ، حَتّٰی یَلْتَقِیَ ہُوَ وَالْمُوْصِیْ لِقَرَابَتِہِ اِلَی جَد وَاحِدٍ ، فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، أَوْ فِی الْاِسْلَامِ ، بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ أُوْلٰئِکَ لِلْآبَائِ ، یَسْتَحِقُّ بِالْقَرَابَۃِ ہُمُ الْمَوَارِیْثُ ، فِیْ حَالٍ ، وَیَقُوْمُ بِالْاِنْسَانِ مِنْہُمْ الشَّہَادَاتُ ، عَلَی سِیَاقِہِ مَا بَیْنَ الْمُوْصِیْ لِقَرَابَتِہٖ وَبَیْنَہُمْ ، مِنَ الْآبَائِ وَمِنَ الْأُمَّہَاتِ ، فَہٰذَا الْقَوْلُ ، ہُوَ أَصَحُّ الْقَوْلَیْنِ ، عِنْدَنَا۔
٧٢٦٠: ابو سلمہ اور سعید نے روایت کی حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی البتہ اس میں یاصفیہ یافاطمہ کے الفاظ ہیں۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ وہ اپنے قریبی خاندان کو ڈرائیں تو آپ نے قریش کے خاندانوں کو بلایا ان میں بعض کا سلسلہ نسب دوسری پشت میں اور بعض کا تیسری پشت اور بعض کا چوتھی اور بعض کا پانچویں پشت میں ملتا تھا جبکہ بعض کا نسبی سلسلہ چھٹی اور بعض کا اس سے اوپر والے خاندانوں سے ملتا تھا البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ تمام قریش (یعنی کنانہ) کی اولاد تھے۔ پس اس سے ان لوگوں کی بات تو باطل ہوگئی اور بقیہ اقوال والوں کی بات ثابت ہوگئی۔ اب دوسرے قول پر غور کرتے ہیں کہ رحم کے اعتبار سے جو قریب ہے وہ رحم کے اعتبار سے جو بعید ہے اس سے مقدم ہوگا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ذوی القربیٰ کا حصہ تقسیم فرمایا تو آپ نے تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب کو عطاء فرمایا۔ حالانکہ بعض بنو ہاشم دوسروں کے مقابلہ میں آپ سے زیادہ قریب تھے۔ اسی طرح بعض بنو مطلب دوسروں کی بنسبت آپ کے زیادہ قریب ہیں تو جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے قریبی قرابت والوں کو دور کی قرابت والوں پر مقدم نہیں فرمایا اور ان سب کو اپنا رشتہ دار قرار دیا تو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ قرابت رحم کی وجہ سے اس کے حقدار نہ بن جائیں (بلکہ دوسرے بھی ان کے ساتھ اسی طرح حقدار ہوں گے) بالکل اسی طرح وصیت میں فلاں کی قرابت کی وجہ سے دو رحم والا بھی اسی طرح حقدار ہوگا جس طرح قرابت رحم والا حقدار ہے قرابت رحم اس کو حقدار نہ بنائے گی وہ بھی بقیہ قرابت داروں کی طرح حقدار ہوگا جیسا دور رحم والا حقدار ہوگا۔ یہ پہلی دلیل ہے۔ حضرت ابو طلحہ کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فقیر قرابت والوں میں تقسیم کا حکم فرمایا تو انھوں نے حضرت حسان و ابی (رض) کو دیا۔ حالانکہ ان کا سلسلہ حضرت ابی سے ساتویں پشت میں اور حسان سے تیسری پشت میں ملتا ہے حضرت حسان کا سلسلہ یہ ہے۔ حسان بن ثابت بن منذر بن حرام ابو طلحہ زید بن سہل بن اسود بن حرام حضرت ابو طلحہ نے حسان (رض) کو قرابت رحم کی وجہ سے مقدم نہیں کیا اور نہ ابی کو بعد قرابت کی وجہ سے موخر کیا بلکہ انھوں نے مطلق قرابت میں دوسرے حقداروں کی طرح ان کو حقدار قرار دے کردیا۔ پس اس سے قرابت رحم کی وجہ سے مقدم کرنے والوں کی بات کا غلط ہونا بھی ثابت ہوگیا۔ اب جس قول امام ابوحنیفہ (رض) نے اختیار اس کے متعلق عرض کرتے ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ذوی القربیٰ کا حصہ تقسیم فرمایا تو تمام بنی ہاشم کو دیا حالانکہ ان میں کچھ لوگ وہ تھے جن سے آپ کا رحم ذی محرم کا رشتہ تھا اور دوسرے ذی رحم تو تھے مگر محرم نہ تھے۔ آپ نے ان کے ساتھ بنی مطلب کو بھی دیا حالانکہ ان کے تمام رحم غیر محرم تھے۔ اسی طرح حضرت ابو طلحہ نے حضرت ابی و حسان (رض) کو دیا جو دیا اور اس طور پر دیا کہ وہ ان کے قرابت والے ہیں ان دونوں کو قرابت سے نہیں نکالا کہ تم ذی رحم محرم نہیں ہو۔ پس ان تین دلائل سے امام ابوحنیفہ (رح) والا قول درست ثابت نہ ہوا۔ اب ہم نے ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کے قول کو دیکھا۔ اس قول کا جواب ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کا حصہ۔ بنو ہاشم ‘ بنو مطلب کو دیا حالانکہ یہ دونون اور نہ ان میں سے کوئی ایک جمع ہو جیسے آپ نے ہجرت فرمائی آپ اور ان کا اجتماع ان آباء میں ہوتا ہے جو زمانہ جاہلیت کے آباء و اجداد ہیں۔ حضرت ابو طلحہ اور ابی ‘ حسان (رض) کسی اسلامی باپ میں جمع نہیں ہوئے بلکہ زمانہ جاہلیت کے باپوں میں جمع ہوجاتے ہیں اور یہ بات ان کے قرابتدار ہونے میں رکاوٹ نہ بن سکی کہ قرابت داروں کے لیے جو مقرر ہوا اس میں وہ حقدار نہ بن سکیں۔ پس اسی طرح وصیت کرنے والے کی قرابت ان کو قرابت داری کی وجہ سے وصیت کا مستحق بننے سے نہ روک سکے گی مگر صرف اس صورت میں کہ ان کو کوئی باپ ہجرت میں جمع نہ کرے۔ پس اس سے ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول بھی درست نہ ہوا اور آخری قول (ان دلائل کی روشنی میں) ثابت ہوگیا۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ موصی کی وصیت ہر اس آدمی کے لیے ثابت ہوجائے گی جس کا اپنے نسب میں اس موصی کے علاوہ اور باپ پر اور اس کی مال کے علاوہ اور مال پر دارومدار ہو یہاں تک کہ یہ اور موصی قرابت کی وجہ سے کسی ایک دادے میں جا ملیں خواہ وہ دادا زمانہ جاہلیت کا ہو یا زمانہ اسلام کا ہو۔ یہاں تک کہ وہ باپ قرابت کی وجہ سے کسی نہ کسی صورت میں میراث کے حق دار بنتے ہوں اور کسی بھی انسان کے ذریعہ ان پر شہادتیں قائم ہوجائیں کہ اس شخص اور موصی کے درمیان قرابت کی وجہ سے رابطہ اور جوڑ پایا جاتا ہے خواہ وہ ماؤں کی طرف سے ہے یا باپوں کی طرف سے ہے۔ یہ قول ہمارے ہاں ان دونوں اقوال میں صحیح تر ہے۔

7264

۷۲۶۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : أَنَا الْمُعَلَّیْ بْنُ أَسَدٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلْحِقُوْا الْمَالَ بِالْفَرَائِضِ ، فَمَا أَبْقَتِ الْفَرَائِضُ ، فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ۔
٧٢٦١: طاوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مال کو فرائض کے ساتھ ملاؤ اور جو فرائض سے بچ جائے تو سب سے زیادہ قریبی مرد کو وہ دیا جائے۔
تخریج : بخاری فی الفرائض باب ١٥‘ مسلم فی الفرائض روایت ٣‘ ٤‘ ابن ماجہ فی الفرائض باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٣١٣۔
خلاصہ الزام :
فریق : ماں اور حقیقی بیٹی کے ہوتے ہوئے میت کے مال سے حقیقی بھائی کو ملے گا حقیقی بہن کو کچھ نہ ملے گا۔
فریق ثانی : بیٹی سے زائد مال بھائی بہن کو ایک نسبت دو سے تقسیم ہوگا۔ ائمہ احناف نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
فریق اوّل کی مستدلات :

7265

۷۲۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أُمَیَّۃُ بْنُ بِسْطَامٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٢٦٢: طاوس نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7266

۷۲۶۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ .
٧٢٦٣: طاوس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے مگر عبداللہ نے ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا۔

7267

۷۲۶۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ، مِثْلَہٗ۔
٧٢٦٤: یزید ابن ہارون نے سفیان ثوری سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

7268

۷۲۶۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ أَنَا مَعْمَرٌ وَسُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ رَجُلًا ، لَوْ مَاتَ ، وَتَرَکَ ابْنَتَہٗ، وَأَخَاہُ لِأَبِیْہَ وَأُخْتِہِ لِأَبِیْہَ وَأُمِّہٖ، کَانَ لِابْنَتِہِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِأَخِیْہِ لِأَبِیْہَ وَأُمِّہٖ، دُوْنَ أُخْتِہِ لِأَبِیْہَ وَأُمِّہِ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَالُوْا أَیْضًا : لَوْ لَمْ یَکُنْ مَعَ الْاِبْنَۃِ أَخٌ ، وَکَانَتْ مَعَہَا أُخْتٌ وَعَصَبَۃٌ ، کَانَ لِلِابْنَۃِ ، النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ ، فَلِلْعَصَبَۃِ ، وَاِنْ بَعُدُوْا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔
٧٢٦٥: معمر اور سفیان نے ابن طاوس سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور وہ اپنی بیٹی اور باپ شریک بھائی اور باپ شریک بہن اور والدہ چھوڑ جائے تو بیٹی کو آدھا مال ملے گا اور بقیہ نصف اس کے بھائی اور ماں کا ہوگا اور اس کی حقیقی بہن کو کچھ بھی نہیں ملے گا انھوں نے اپنی اس بات کے لیے مندرجہ بالا روایت کو پیش کیا ہے۔ اور انھوں نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ اگر بیٹی کے ساتھ اس کا بھائی نہ ہو اور اس کے ساتھ ایک بہن اور عصبہ ہو تو اس صورت میں بیٹے کو نصف ملتا ہے اور بقیہ عصبہ کو جاتا ہے خواہ وہ دور کے رشتہ دار ہوں اور انھوں نے اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت کو دلیل بنایا ہے۔ (روایت یہ ہے)

7269

۷۲۶۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ۔قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَقُلْتُمْ أَنْتُمْ ، لَہَا النِّصْفُ ، وَاِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ لِلِابْنَۃِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ بَیْنَ الْأَخِ وَالْأُخْتِ ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ .وَاِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَ الْاِبْنَۃِ غَیْرُ الْأُخْتِ ، کَانَ لِلِابْنَۃِ النِّصْفُ ، وَلِلْأُخْتِ مَا بَقِیَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ عَبَّاسٍ الَّذِیْ ذٰکَرُوْا، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، لَیْسَ مَعْنَاہٗ، عِنْدَنَا ، عَلٰی مَا حَمَلُوْھُ عَلَیْہِ .وَلٰـکِنْ مَعْنَاہٗ، عِنْدَنَا، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - مَا أَبْقَتِ الْفَرَائِضُ بَعْدَ السِّہَامِ ، فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ کَعَمَّۃٍ وَعَم ، فَالْبَاقِیْ لِلْعَمِّ، دُوْنَ الْعَمَّۃِ، لِأَنَّہُمَا فِیْ دَرَجَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، مُتَسَاوِیَانِ فِی النَّسَبِ ، وَفَضْلُ الْعَمِّ عَلَی الْعَمَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ ، بِأَنْ کَانَ ذَکَرًا .فَہٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ مَا أَبْقَتِ الْفَرَائِضُ ، فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ وَلَیْسَ الْأُخْتُ مَعَ أَخِیہَا ، بِدَاخِلَیْنِ فِیْ ذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، مِنْ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ أَجْمَعُوْا فِیْ بِنْتٍ وَبِنْتِ ابْنٍ ، وَابْنِ ابْنٍ ، أَنَّ لِلِابْنَۃِ النِّصْفَ ، وَمَا بَقِیَ فَبَیْنَ ابْنِ الْاِبْنِ ، وَابْنَۃِ الْاِبْنِ ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ ، وَلَمْ یَجْعَلُوْا مَا بَقِیَ ، بَعْدَ نَصِیْبِ الْاِبْنَۃِ ، لِابْنِ الْاِبْنِ خَاصَّۃً ، دُوْنَ ابْنَۃِ الْاِبْنِ .وَلَمْ یَکُنْ مَعْنٰی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا أَبْقَتِ الْفَرَائِضُ ، فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ عَلٰی ذٰلِکَ ، اِنَّمَا ہُوَ عَلَی غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ ہٰذَا خَارِجٌ مِنْہُ بِاتِّفَاقِہِمْ ، وَثَبَتَ أَنَّ الْعَمَّ وَالْعَمَّۃَ ، دَاخِلَانِ فِیْ ذٰلِکَ بِاتِّفَاقِہِمْ ، اِذْ جَعَلُوْا مَا بَقِیَ بَعْدَ نَصِیْبِ الْاِبْنَۃِ لِلْعَمِّ ، دُوْنَ الْعَمَّۃِ .ثُمَّ اخْتَلَفُوْا فِی الْأُخْتِ مَعَ الْأَخِ ، فَقَالَ قَوْمٌ : ہُمَا کَالْعَمَّۃِ مَعَ الْعَمِّ ، وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہُمَا کَابْنِ الْاِبْنِ وَابْنَۃِ الْاِبْنِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ؛ لِنَعْطِفَ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنْہٗ، عَلٰی مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ .فَرَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہٖ، أَنَّ ابْنَ الْاِبْنِ وَابْنَۃَ الْاِبْنِ ، لَوْ لَمْ یَکُنْ غَیْرُہُمَا ، کَانَ الْمَالُ بَیْنَہُمَا ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ .فَاِذَا کَانَ مَعَہُمَا ابْنَۃٌ ، کَانَ لَہَا النِّصْفُ ، وَکَانَ مَا بَقِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ النِّصْفِ بَیْنَ ابْنِ الْاِبْنِ ، وَابْنَۃِ الْاِبْنِ ، عَلَی مِثْلِ مَا یَکُوْنُ لَہُمَا مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ ، لَوْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُمَا ابْنَۃٌ .وَکَانَ الْعَمُّ وَالْعَمَّۃُ ، لَوْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُمَا ابْنَۃٌ ، کَانَ الْمَالُ بِاتِّفَاقِہِمْ ، لِلْعَمِّ دُوْنَ الْعَمَّۃِ .فَاِذَا کَانَتْ ہُنَاکَ ابْنَۃٌ ، کَانَ لَہَا النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ ، فَہُوَ لِلْعَمِّ دُوْنَ الْعَمَّۃِ .فَکَانَ مَا بَقِیَ بَعْدَ نَصِیْبِ الْاِبْنَۃِ ، لِلَّذِیْ کَانَ یَکُوْنُ لَہٗ جَمِیْعُ الْمَالِ ، لَوْ لَمْ یَکُنِ ابْنَۃٌ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَکَانَ الْأَخُ وَالْأُخْتُ ، لَوْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُمَا ابْنَۃٌ ، کَانَ الْمَالُ بَیْنَہُمَا ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَا کَذٰلِکَ ، اِذَا کَانَتْ مَعَہُمَا ابْنَۃٌ ، فَوَجَبَ لَہَا نِصْفُ الْمَالِ ، لِحَقِّ فَرْضِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لَہَا ، وَأَنْ یَکُوْنَ مَا بَقِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ النِّصْفِ ، بَیْنَ الْأَخِ وَالْأُخْتِ ، کَمَا کَانَ یَکُوْنُ لَہُمَا جَمِیْعُ الْمَالِ ، لَوْ لَمْ یَکُنِ ابْنَۃٌ ، قِیَاسًا وَنَظَرًا ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ..
٧٢٦٦: طاوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ان امروا ہلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلہا نصف ماترک “ (النساء ١٧٦) کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو بلکہ اس کی بہن ہو تو اس کے لیے ترکہ کا آدھا ہوگا حضرت ابن عباس (رض) فرماتے پس تمہارا قول یہ ہے کہ اس کے لیے نصف ہوگا اگرچہ اس کی اولاد ہو۔ بیٹی کو آدھا ملے گا اور جو باقی بچ جائے گا وہ بہن ‘ بھائی کے درمیان ایک نسبت دو کے حساب سے ملے گا اور اگر بیٹی کے ساتھ بہن کے علاوہ کوئی نہ ہو تو باقی تمام مال بیٹی کو مل جائے گا۔ فریق اوّل کے مؤقف کا جواب یہ ہے کہ ابن عباس (رض) کی جو وہ روایت جو شروع باب میں پیش کی گئی اس کا مفہوم وہ نہیں جو آپ نے پیش کیا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مقررہ حصوں سے جو کچھ باقی بچ جائے تو وہ سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو ملے گا مثلاً چچا اور پھوپھی ہوں تو چچا کو مل جائے گا پھوپھی کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ یہ دونوں درجے میں برابر ہیں مرد ہونے کی وجہ سے چچا کو پھوپھی پر سبقت ملی۔ پس ان کے اس قول کا مطلب کہ جو باقی بچے وہ یہی ہے کہ بہن بھائی کے ساتھ اس حکم میں شامل نہیں اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر بیٹی ‘ پوتی اور پوتا اکٹھے ہوں تو بیٹی کو نصف ملے گا اور جو بچ رہے گا وہ پوتے اور پوتی کے درمیان ” للذکر مثل حظ الانثیین “ یعنی ایک نسبت دو سے تقسیم ہوگا یہاں باقی بچنے والے کو تمام میں بیٹی کے نصف الگ کرنے کے بعد پوتی کو چھوڑ کر خاص پوتے کو دینے کا حکم نہیں دیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد ” وما ابقت الفرائض “ الحدیث کو بھی اس بات پر محمول نہ کیا جائے گا بلکہ اس کا دوسرا معنی ہوگا۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ سب کے اتفاق سے اس حکم سے خارج ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ چچا اور پھوپھی بالاتفاق اس میں داخل ہیں اس لیے کہ سب نے بیٹی سے بچنے والے حصے کو چچا کے لیے تو قرار دیا مگر پھوپھی کے لیے نہیں۔ بہن جب بھائی کے ساتھ ہو اس میں اختلاف ہے : ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ چچا اور پھوپھی پر قیاس کریں گے۔ وہ پوتا پوتی کی طرح ہوں گے اب ہم اس میں غور کرتے ہیں تاکہ اس اختلافی بات کو اس اتفاقی بات کی طرف موڑ دیں چنانچہ ایک اہم متفقہ قائدہ یہ ہے کہ پوتا پوتی کے ساتھ اگر کوئی دوسرا وارث نہ ہو تو بقیہ تمام مال ان کے درمیان ایک نسبت دو سے تقسیم ہوگا۔ جب ان دونوں کے ساتھ مرنے والے کی بیٹی بھی ہو تو اس بیٹی کو آدھا ملتا ہے اور اس نصف سے جو بچے گا وہ پوتے پوتی کے درمیان اسی طرح ایک نسبت دو سے تقسیم ہوگا جبکہ ان کے ساتھ وہ بیٹی نہ ہوتی۔ اور چچا اور پھوپھی اگر ان کے ساتھ بیٹی نہ ہو تو بالاتفاق تمام مال چچا کو مل جاتا ہے پھوپھی کو کچھ نہیں ملتا پس جب ان کے ساتھ بیٹی ہوگی تو نصف اس کو مل جائے گا اور باقی چچا کو ملے گا پھوپھی کو نہیں ملے گا پس بیٹی کے حصہ کے بعد تمام مال اسی کا ہونا چاہیے کہ اگر بیٹی نہ ہوتی تو جس کو تمام مال ملنا تھا۔ پس جب یہ بات اسی طرح ہے تو بہن اور بھائی کے ساتھ اگر بیٹی نہ ہو تو تب بھی مال ان کے درمیان ” للذکر مثل حظ الانثیین “ کے مطابق تقسیم ہوگا پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ اسی طرح ہو جب ان کے ساتھ بیٹی ہو تو آدھا مال اس کا ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا اور آدھے کے بعد جو بچا ہے وہ بہن بھائی کے درمیان اسی طرح تقسیم ہوگا جیسا تمام مال تقسیم ہوتا اگر یہ بیٹی نہ ہوتی قیاس و نظر اسی طرح چاہتے ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا ارشاد مردی ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے۔

7270

۷۲۶۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسَی الْعَبْسِیُّ ، ح .
٧٢٦٧: یزید بن ہارون نے اور عبداللہ بن موسیٰ عبسی سے علی ابن شیبہ نے روایت نقل کی۔

7271

۷۲۶۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیْ قَیْسٍ ، عَنْ ہُذَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیْلَ ، قَالَ، أُتِیَ سُلَیْمَانُ بْنُ رَبِیْعَۃَ ، وَأَبُوْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ، فِی ابْنَۃٍ وَابْنَۃِ ابْنٍ ، وَأُخْتٍ .فَقَالَا : لِلِابْنَۃِ ، النِّصْفُ ، وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ ، ثُمَّ قَالَا : ائْتِ عَبْدَ اللّٰہِ، فَاِنَّہٗ سَیُتَابِعُنَا ، فَأَتَاہُ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : لَقَدْ ضَلَلْت اِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ ، وَلٰـکِنْ سَأَقْضِیْ فِیْہَا بِمَا قَضٰی بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِلِابْنَۃِ النِّصْفُ ، وَلِابْنَۃِ الْاِبْنِ السُّدُسُ ، تَکْمِلَۃً لِلثُّلُثَیْنِ وَمَا بَقِیَ ، فَلِلْأُخْتِ۔
٧٢٦٨: ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن ربیعہ اور ابو موسیٰ اشعری کی خدمت میں مرنے والے کی بیٹی ‘ پوتی اور بہن کا مسئلہ پیش ہوا دونوں نے کہا کہ بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف۔ پھر دونوں کہنے لگے کہ عبداللہ کے پاس جاؤ وہ بھی ہماری اتباع کریں گے وہ عبداللہ کے پاس آئے تو وہ کہنے لگے کہ میں تو اس وقت بھول میں پڑجاؤں گا اور سیدھی راہ پانے والوں میں سے نہ ہوں گا (اگر میں اسی طرح فیصلہ کرتا) میں تو اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نصف بیٹی کا ہوگا اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہوگا تاکہ یہ دو ثلث کی تکمیل ہوجائے اور بقیہ بہن کا ہوگا۔
تخریج : بخاری فی الفرائض باب ٨‘ ١٢‘ ترمذی فی الفرائض باب ٤‘ ابن ماجہ فی الفرائض باب ٢‘ مسند احمد ١؍٣٨٩‘ ٤٤٠۔

7272

۷۲۶۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃٌ ، عَنْ أَبِیْ قَیْسٍ ، عَنْ ہُذَیْلٍ ، مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، جَعَلَ لِلْأَخَوَاتِ ، مِنْ قِبَلِ الْأَبِ مَعَ الْاِبْنَۃِ عَصَبَۃً ، فَیَصِرْنَ مَعَ الْبَنَاتِ فِیْ حُکْمِ الذُّکُوْرِ مِنَ الْاِخْوَۃِ ، مِنْ قِبَلِ الْأَبِ .فَصَارَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا أَبْقَتِ الْفَرَائِضُ ، فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ ؛ لِأَنَّہٗ عَصَبَۃٌ ، وَلَا عَصَبَۃَ أَقْرَبُ مِنْہُ .فَاِذَا کَانَ ہُنَاکَ عَصَبَۃٌ ہِیَ أَقْرَبُ - مِنْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ ، فَالْمَالُ لَہَا .وَ عَلَی ھٰذَا الْمَعْنَی ، یَنْبَغِی أَنْ یُحْمَلَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، حَتّٰیْ لَا یُخَالِفَ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ہٰذَا، وَلَا یُضَادَّہُ .وَسَبِیْلُ الْآثَارِ ، أَنْ تُحْمَلَ عَلَی الْاِتِّفَاقِ ، مَا وُجِدَ السَّبِیْلُ اِلَی ذٰلِکَ ، وَلَا تُحْمَلُ عَلَی التَّنَافِیْ وَالتَّضَادِّ .وَلَوْ کَانَ حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَلٰی مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ الْمُخَالِفُ لَنَا ، وَجَبَ عَلَی مَذْہَبِہٖ أَنْ یُضَادَّ بِہٖ حَدِیْثَ - ابْنِ مَسْعُوْدٍ ؛ لِأَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ہٰذَا، مُسْتَقِیْمُ الْاِسْنَادِ ، صَحِیْحُ الْمَجِیْئِ .وَحَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ ، مُضْطَرِبُ الْاِسْنَادِ ؛ لِأَنَّہٗ قَدْ قَطَعَہٗ، مَنْ لَیْسَ بِدُوْنِ مَنْ رَفَعَہٗ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ مِنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : اِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ فَقَالُوْا : اِنَّمَا وَرَّثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْأُخْتَ اِذَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ وَلَدٌ۔فَالْحُجَّۃُ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَیْضًا وَہُوَ یَرِثُہَا اِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ۔وَقَدْ أَجْمَعُوْا جَمِیْعًا ، عَلٰی أَنَّہَا لَوْ تَرَکَتْ بِنْتَہَا وَأَخَاہَا لِأَبِیہَا ، کَانَ لِلِابْنَۃِ ، النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلْأَخِ .وَأَنَّ مَعْنٰی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ اِنَّمَا ہُوَ عَلَی وَلَدٍ ، یَحُوْزُ کُلَّ الْمِیْرَاثِ ، لَا عَلَی الْوَلَدِ الَّذِیْ لَا یَحُوْزُ کُلَّ الْمِیْرَاثِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَیْضًا ، أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہٗ عَزَّ وَجَلَّ اِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ ہُوَ عَلٰی وَلَدٍ یَحُوْزُ جَمِیْعَ الْمِیْرَاثِ ، لَا عَلَی وَلَدٍ لَا یَحُوْزُ جَمِیْعَ الْمِیْرَاثِ .فَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ مِنْ مَذْہَبِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّہٗ خَالَفَ فِیْہِ سَائِرَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِوَاہُ .فَمَا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٢٦٩: ابو قیس نے ہزیل سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ کی طرف سے جو بہنیں ہیں ان کو بیٹی کے ساتھ عصبہ قرار دیا ہے چنانچہ وہ بیٹوں کے ساتھ باپ کی طرف سے بھائی کی طرح ہوجائیں گی پس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد گرامی ” فما ابقت الفرائض فلا ولی رجل ذکر “ الحدیث کہ جو کچھ فرائض سے بچ جائے وہ قریب ترین مرد کو ملے گا کیونکہ وہ عصبہ ہے اور کوئی عصبہ سے زیادہ قریب نہیں بالفرض اگر کوئی وہاں عصبہ اس سے بھی قریب تر مل جائے گا تو مال اس کا ہوگا پس اس حدیث کا یہ مفہوم اس لیے لیا گیا تاکہ یہ روایت روایت ابن مسعود (رض) کے متضاد نہ رہے آثار کے سلسلے میں بہترین راہ یہی ہے کہ اس کو اتفاق پر محمول کیا جائے جہاں تک اس کے لیے راہ ملے اور تضاد و تنافی پر محمول نہ کرے۔ اگر ہم بھی روایت ابن عباس (رض) کو اپنے مخالف کی طرح اسی معنی پر محمول کریں تو پھر یہ روایت ابن مسعود (رض) کی روایت کے متضاد ہوگی جب کہ سند کے اعتبار سے روایت ابن مسعود صحیح الاسناد اور مرفوع روایت ہے اور اس کے بالمقابل روایت ابن عباس (رض) سند کے اعتبار سے مضطرب ہے کیونکہ اس کو منقطع آدمی نے بیان کیا جو اس کو مرفوع بیان کرنے والے سے درجہ میں کم نہیں۔ رہا ان کا اس آیت سے استدلال ” ان امرؤا ہلک “ (النساء : ١٧٦) کہ اللہ تعالیٰ نے بہن کو اس صورت میں وارث بنایا ہے جب کہ میت کی اولاد نہ ہو تو اس مفہوم کے متعلق ہم یہ عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ان لم یکن لہا ولد “ کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر عورت اپنی بیٹی اور باپ کی طرف سے حقیقی بھائی چھوڑ جائے تو بیٹی کو آدھا ملتا ہے اور باقی تمام بھائی کا ہوتا ہے تو اب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ” ان لم یکن لہا ولد “ کا مطلب وہ اولاد ہے جو تمام میراث لے جائے وہ اولاد مراد نہیں جس کو تمام میراث حاصل نہ ہو پس قیاس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” ان امرؤا ہلک لیس لہ ولد “ الایۃ اس سے وہی لڑکا مراد ہے جو تمام میراث لے جائے وہ اولاد مراد نہیں جو تمام میراث کو نہ لے جاسکے۔ مذہب ابن عباس (رض) جس سے فریق اوّل نے استدلال کیا وہ تمام اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہے (چنانچہ ان کی روایات ملاحظہ ہوں)

7273

۷۲۷۰ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ عُقَیْلٍ أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ شِہَابٍ یُخْبِرُ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَسَمَ الْمِیْرَاثَ بَیْنَ الْاِبْنَۃِ وَالْأُخْتِ ، نِصْفَیْنِ .
٧٢٧٠: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے بیٹی اور بہن کے درمیان میراث کو نصفا نصف تقسیم کیا۔

7274

۷۲۷۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ ، قَالَ : أَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَسَمَ الْمَالَ شَطْرَیْنِ ، بَیْنَ الْاِبْنَۃِ وَالْأُخْتِ .
٧٢٧١: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بیٹی اور بہن کے درمیان مال دو حصوں میں تقسیم کیا۔

7275

۷۲۷۲ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ قَالَ : أَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیْ وَعَبْدِ اللّٰہِ، فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ ، لِلِابْنَۃِ ، النِّصْفُ ، وَلِلْأُخْتِ ، النِّصْفُ .وَقَالَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ ، اِلَّا ابْنَ عَبَّاسٍ ، وَابْنَ الزُّبَیْرِ .
٧٢٧٢: شعبی نے حضرت علی (رض) اور ابن مسعود (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے بیٹی اور بہن کو نصفا نصف مال دیا۔ اور امام شعبی کہتے ہیں کہ تمام اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں اسی طرح ہے سوائے ابن عباس (رض) اور ابن الزبیر (رض) کے۔

7276

۷۲۷۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : أَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، وَأَبُو نُعَیْمٍ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، فِی ابْنَۃٍ ، وَأُخْتٍ ، وَجَد ، قَالَ : مِنْ أَرْبَعَۃٍ.
٧٢٧٣: مسروق نے حضرت عبداللہ (رض) سے بیٹی اور بہن اور دادا کے متعلق فرمایا کہ مال چار حصوں میں تقسیم ہوگا (نصف بیٹی اور بقیہ دونوں میں برابر برابر)

7277

۷۲۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ یَزِیْدَ یَقُوْلُ : قَضٰی فِیْنَا مُعَاذُ بِالْیَمَنِ ، فِیْ رَجُلٍ تَرَکَ ابْنَتَہٗ وَأُخْتَہٗ، فَأَعْطَی الْاِبْنَۃَ ، النِّصْفَ ، وَأَعْطَی الْأُخْتَ النِّصْفَ . قَالَ شُعْبَۃُ : وَأَخْبَرَنِی الْأَعْمَشُ ، قَالَ : سَمِعْتُ اِبْرَاھِیْمَ ، یُحَدِّثُ عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : قَضٰی فِیْنَا مُعَاذٌ بِالْیَمَنِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ ، مِثْلَہٗ۔
٧٢٧٤: اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں حضرت معاذ (رض) نے یمن میں ایک ایسے شخص کی وراثت کا فیصلہ فرمایا جس نے بیٹی اور بہن پیچھے چھوڑی تو آپ نے نصف بیٹی اور نصف بہن کو دیا۔ شعبہ کہتے ہیں کہ اسود نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں حضرت معاذ (رض) نے یمن میں اسی طرح فیصلہ کیا جبکہ ابھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں زندہ تھے۔

7278

۷۲۷۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : قَضٰی ابْنُ الزُّبَیْرِ ، فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ ، فَأَعْطَیْ لِلِابْنَۃِ ، النِّصْفَ ، وَأَعْطٰی لِلْعَصَبَۃِ ، سَائِرَ الْمَالِ .فَقُلْتُ :اِنَّ مُعَاذًا قَضٰی فِیْنَا بِالْیَمَنِ ، فَأَعْطَیْ لِلِابْنَۃِ النِّصْفَ، وَأَعْطَیْ لِلْأُخْتِ النِّصْفَ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ : فَأْتِ رَسُوْلِیْ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ فَتُحَدِّثُہٗ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَکَانَ قَاضِیَ الْکُوْفَۃِ .فَہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ ، قَدْ رَجَعَ عَنْ قَوْلِہٖ الَّذِیْ وَافَقَ فِیْہِ ابْنَ عَبَّاسٍ ، اِلٰی قَوْلِ الْآخَرِیْنَ .
٧٢٧٥: اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ابن الزبیر نے بیٹی اور بہن کے متعلق اس طرح فیصلہ فرمایا کہ بیٹی کو نصف دیا اور عصبہ کو بقیہ تمام مال دے دیا میں نے ابن زبیر (رض) سے کہا کہ ہمارے مابین حضرت معاذ (رض) نے یمن میں (اسی قسم کی صورت میں) بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دیا تو اس پر ابن زبیر (رض) کہنے لگے تم عبداللہ بن عقبہ قاضی کوفہ کے پاس میرے قاصد بن کر جاؤ اور ان کو یہ روایت بیان کر دو ۔ یہ حضرت ابن زبیر (رض) ہیں کہ انھوں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا جو ابن عباس (رض) کے موافق تھا اور یہ دوسروں کے قول کو اختیار کیا۔

7279

۷۲۷۶ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَرَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَا : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : قَدِمَ مُعَاذٌ اِلَی الْیَمَنِ ، فَسَأَلَ عَنِ ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ ، فَأَعْطٰی لِلِابْنَۃِ النِّصْفَ ، وَلِلْأُخْتِ النِّصْفَ .
٧٢٧٦: اسود بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) یمن آئے تو ان سے بیٹی اور بہن کا مسئلہ دریافت کیا گیا تو انھوں نے بیٹی کو نصف اور نصف بہن کو عنایت فرمایا۔

7280

۷۲۷۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فِی ابْنَتَیْنِ وَبَنَاتِ ابْنٍ ، وَبَنِی ابْنٍ ، وَفِیْ أُخْتَیْنِ لِأَبٍ وَأُم ، وَاِخْوَۃٍ وَأَخَوَاتٍ لِأَبٍ : أَنَّہَا أَشْرَکَتْ بَیْنَ بَنَاتِ الْاِبْنِ ، وَبَنِی الْاِبْنِ ، وَبَنِی الْاِخْوَۃِ وَالْأَخَوَاتِ ، مِنَ الْأَبِ ، فِیْمَا بَقِیَ .قَالَ : وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یُشْرِکُ بَیْنَہُمَا .وَقَالَ قَوْمٌ ، فِی ابْنَۃٍ وَعَصَبَۃٍ ، اِنَّ لِلِابْنَۃِ جَمِیْعَ الْمَالِ ، وَلَا شَیْئَ لِلْعَصَبَۃِ .فَکَفَیْ بِہِمْ جَہْلًا ، فِیْ تَرْکِہِمْ قَوْلَ کُلِّ الْفُقَہَائِ اِلٰی قَوْلٍ لَمْ یُعْلَمْ أَنَّہٗ قَالَ بِہٖ قَبْلَہُمْ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَا مِنْ تَابِعِیہِمْ ، مَعَ أَنَّ مَا ذَہَبُوْا اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ ، فَسَادُہُ بِنَصِّ الْقُرْآنِ ؛ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ یُوْصِیکُمُ اللّٰہُ فِیْ أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ۔فَبَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَنَا بِذٰلِکَ ، کَیْفَ حُکْمُ الْأَوْلَادِ فِی الْمَوَارِیْثِ ، اِذَا کَانُوْا ذُکُوْرًا ، أَوْ اِنَاثًا ثُمَّ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَاِنْ کُنَّ نِسَائً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ۔فَبَیَّنَ لَنَا حُکْمَ الْأَوْلَادِ فِی الْمَوَارِیْثِ ، اِذَا کَانُوْا نِسَائً .ثُمَّ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ، فَبَیَّنَ لَنَا ، کَمْ مِیْرَاثُ الْاِبْنَۃِ الْوَاحِدَۃِ .فَلَمَّا بَیَّنَ لَنَا مَوَارِیْثَ الْأَوْلَادِ عَلَی ھٰذِہِ الْجِہَاتِ ، عَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ مِیْرَاثِ الْوَاحِدَۃِ ، لَا یَخْرُجُ مِنْ ہٰذِہِ الْجِہَاتِ الثَّلَاثِ .وَاسْتَحَالَ أَنْ یُسَمِّیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، لِلِابْنَۃِ النِّصْفَ ، وَلِلْبَنَاتِ الثُّلُثَیْنِ وَلَہُنَّ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ اِلَّا لِمَعْنًی آخَرَ یُبَیِّنُہُ فِیْ کِتَابِہٖ ، أَوْ عَلَی لِسَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَمَا أَبَانَ فِیْ مَوَارِیْثِ ذَوِی الْأَرْحَامِ .وَلَوْ کَانَتْ الْاِبْنَۃُ تَرِثُ الْمَالَ کُلَّہٗ ، دُوْنَ الْعَصَبَۃِ ، لَمَا کَانَ لِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ النِّصْفَ مَعْنًی ، وَلَأَہْمَلَ أَمْرَہَا ، کَمَا أَہْمَلَ الْاِبْنَ .فَلَمَّا بَیَّنَ لَہَا مَا ذَکَرْنَا ، کَانَ تَوْفِیْقًا مِنْہٗ، عَزَّ وَجَلَّ ، اِیَّانَا ، عَلٰی مَا سَمَّیْ لَہَا مِنْ ذٰلِکَ ہُوَ سَہْمُہَا ، کَمَا کَانَ مَا سَمَّیْ لِلْأَخَوَاتِ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْأُمِّ بِقَوْلِہٖ وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُوْرَثُ کَلَالَۃً أَوْ امْرَأَۃٌ وَلَہٗ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا السُّدُسُ فَاِنْ کَانُوْا أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَائُ فِی الثُّلُثِ۔فَکَانَ مَا بَقِیَ ، بَعْدَ الَّذِیْ سُمِّیَ لَہُنَّ ، لِلْعَصَبَاتِ .وَکَذٰلِکَ مِمَّا سُمِّیَ لِلزَّوْجِ وَالْمَرْأَۃِ ، فِیْمَا بَقِیَ بَعْدَ الَّذِیْ سُمِّیَ لَہُمَا لِلْعَصَبَۃِ .فَکَذٰلِکَ الْاِبْنَۃُ أَیْضًا ، مَا بَقِیَ بَعْدَ الَّذِیْ سُمِّیَ لَہَا لِلْعَصَبَۃِ ، ہٰذَا دَلِیْلٌ قَائِمٌ صَحِیْحٌ فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلٰی قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ اِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَمْ یُبَیِّنْ لَنَا عَزَّ وَجَلَّ ہَاہُنَا ، مَنْ ذٰلِکَ الْوَلَدُ .فَدَلَّنَا مَا تَقَدَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ ، فِی الْآیَۃِ الَّتِیْ وَقَفْنَا فِیْہَا ، عَلٰی أَنْصِبَائِ الْأَوْلَادِ ، أَنَّ ذٰلِکَ الْوَلَدَ ، ہُوَ مَا تَقَدَّمَ ، مِنَ الْوَلَدِ الَّذِیْ سَمّٰی لَہُ الْفَرْضَ فِی الْآیَۃِ الْأُخْرَی .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا ذَکَرْنَا أَیْضًا .
٧٢٧٧: مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ میت کی دو بیٹیوں ‘ پوتیوں ‘ پوتوں اور دو حقیقی بہنیں اور باپ کی طرف سے بہن بھائی ‘ ان کو پوتوں پوتیوں اور باپ کی طرف سے بہنوں اور بھائیوں کو مابقی میں شریک کرتی تھیں مگر ابن مسعود (رض) ان کو شریک نہ کرتے تھے۔ کہ بیٹی اور عصبہ میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ بیٹی کو تمام مال ملے گا اور عصبہ کو کچھ بھی نہ ملے گا ان لوگوں کی جہالت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ انھوں نے تمام فقہاء کے قول کے خلاف ایسا قول اختیار کیا کہ جس کے متعلق حضرات صحابہ کرام اور تابعین (رض) سے کہیں نشان کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ ان کا قول قرآن مجید کی اس آیت سے غلط ثابت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” فان کن فوق اثنتین “ (النساء ١١) کہ اگر بیٹیاں دو سے زائد ہوں ان کو دو ثلث ملیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد میں کھول کر بیان فرما دیا کہ میراث میں اولاد کا حق کس طرح ہے جبکہ وہ تمام مذکر ہوں یا مونث ہوں (فقط مذکر ہوں باہمی برابر تقسیم کریں گے اور تمام بیٹیاں ہوں دو یا اس سے زائد ہوں تو دو ثلث سے زائد ان کو نہ ملے گا ایک ہو تو نصف کی مالک ہے اور اگر دونوں ہوں تو ٢؍١ سے تقسیم کریں گے) پھر ارشاد فرمایا ” فان کن نساء “ الایۃ اگر وہ بیٹیاں دو سے زائد ہوں تو ان کو متروکہ جائیداد کے دو ثلث ملیں گے۔ تو اس آیت میں کھول دیا کہ صرف مونث اولاد ہو تو اس کا کیا حکم ہے پھر فرمایا : ” وان کانت واحدۃ فلہا النصف “ تو اس میں وضاحت کردی کہ ایک بیٹی کی میراث کس قدر ہوگی۔ پس جب اللہ تعالیٰ اولاد کی وراثت ان جہات سے کھول کر بیان کردی تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ ایک کی میراث کا حکم ان تین صورتوں سے باہر نہیں۔ اور یہ بات ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بیٹی کے لیے نصف مقرر فرمائیں اور کئی بیٹیوں کے لیے دو ثلث فرمائیں اور ان کا حصہ اس سے بڑھ جائے۔ اس کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یا زبان نبوت سے بیان فرمائے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی الارحام کی میراث کو خوب ظاہر فرمایا۔ اگر بالفرض کوئی بیٹی عصبہ کے بغیر پورے مال کی براہ راست وارث ہوسکتی ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو نصف کا اعلان فرمایا ہے اس کا کوئی معنی نہ ہوگا۔ اور اس کا معاملہ بھی لڑکے کے معاملہ کی طرح مہمل ہوگا تو جب وہ بات بیان کردی جو کہ ہم نے ذکر کی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں مطلع کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا جو حصہ بیان فرمایا ہے۔ وہی اس کا حصہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی بہنوں کے سلسلہ میں اپنے اس قول میں فرمایا ” وان کان رجل یورث کلالۃ اوامراۃ ولہ اخ اواخت فلکل واحد منہما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فہم شرکاء فی الثلث “ کہ اگر وہ آدمی جس کی وراثت تقسیم ہوتی ہے۔ ل اور اث مرد یا لا وارث عورت ہے (اس کا اصل نسل میں سے کوئی نہیں) اس کی بہن یا بھائی ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر وہ اس سے زائد ہوں تو وہ تہائی حصہ میں شریک ہوں گے پس ان کے مقررہ حصوں سے جو مال زائد بچے گا وہ عصبات کے لیے ہوگا۔ اسی طرح خاوند اور بیوی کے لیے جو حصہ مقرر فرمایا گیا ہے اس سے جو باقی بچ رہے گا وہ بھی عصبہ کے لیے ہوگا۔ اس آیت میں یہ صحیح پختہ دلیل بیان کی گئی ہے۔ دوبارہ مضمون آیت ” ان امرؤا ہلک “ کی طرف لوٹتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس (ولد) یعنی اولاد کی وضاحت نہیں فرمائی تو اس سے پہلے ہم نے جس آیت سے اولاد کے حصے پر اطلاع پائی ہے وہ اس بت پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے وہی اولاد مراد ہے جس کا حصہ دوسری آیت میں مقرر فرمایا ہے ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات بھی وارد ہیں (ملاحظہ کریں)

7281

۷۲۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، وَبَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ امْرَأَۃَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیْعِ ، أَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ سَعْدًا قُتِلَ مَعَکَ، وَتَرَکَ ابْنَتَیْہِ وَتَرَکَنِیْ وَأَخَاہٗ، فَأَخَذَ أَخُوْھُ مَالَہٗ، وَاِنَّمَا یَتَزَوَّجُ النِّسَائُ بِمَالِہِنَّ .فَدَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعْطِ امْرَأَتَہٗ الثُّمُنَ ، وَابْنَتَیْہِ الثُّلُثَیْنِ ، وَلَک مَا بَقِیَ۔
٧٢٧٨: عبداللہ بن محمد نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ سعد بن ربیع (رض) کی بیوی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میں آئی اور کہنے لگیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سعد تو آپ کے ساتھ غزوہ میں شہید ہوگئے اور انھوں نے دو بیٹیاں اور مجھے اور اپنا بھائی پیچھے چھوڑا۔ اب اس کے بھائی نے اس کا مال لے لیا اور عورتوں سے ان کے مال کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلا کر فرمایا کہ اس مال کا آٹھواں حصہ ان کی بیوی کو دے دو ۔ اور دو ثلث ان کی بیٹیوں کو دے دو اور جو باقی ہے وہ تمہارا ہے۔
تخریج : ترمذی فی الا فرائض باب ٣۔

7282

۷۲۷۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَقَدْ وَافَقَ ہٰذَا أَیْضًا مَا ذَکَرْنَا ، وَبِہٰذَا کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، یَقُوْلُوْنَ ، وَبِہٖ نَقُوْلُ أَیْضًا .
٧٢٧٩: عبداللہ بن محمد بن عقیل نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ روایت بھی ہماری مذکور بات کے موافق ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) بھی اسی کو اختیار کرنے والے تھے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔