HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

5. روزوں کا بیان

الطحاوي

3089

۳۰۸۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ‘ عَنْ (زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ‘ قَالَ : تَسَحَّرْتُ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ‘ فَمَرَرْتُ بِمَنْزِلِ حُذَیْفَۃَ‘ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ‘ فَأَمَرَ بِلِقْحَۃٍ فَحُلِبَتْ‘ وَبِقِدْرٍ فَسُخِّنَتْ‘ ثُمَّ قَالَ کُلْ فَقُلْتُ إِنِّیْ أُرِیْدُ الصَّوْمَ قَالَ : وَأَنَا أُرِیْدُ الصَّوْمَ .قَالَ : فَأَکَلْنَا‘ ثُمَّ شَرِبْنَا‘ ثُمَّ أَتَیْنَا الْمَسْجِدَ‘ فَأُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ‘ قَالَ : ہٰکَذَا فَعَلَ بِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَوْ صَنَعْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قُلْتُ : بَعْدَ الصُّبْحِ ؟ قَالَ : بَعْدَ الصُّبْحِ‘ غَیْرَ أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ عَنْ حُذَیْفَۃَ أَنَّہٗ أَکَلَ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ وَہُوَ یُرِیْدُ الصَّوْمَ وَیَحْکِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ‘ فَہُوَ مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہٗ فِیْ کِتَابِنَا ھٰذَا أَنَّہٗ قَالَ (إِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ‘ فَکُلُوْا وَأَشْرَبُوْا‘ حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ) .وَأَنَّہٗ قَالَ (لَا یَمْنَعَنَّ أَحَدَکُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ‘ فَإِنَّہٗ إِنَّمَا یُؤَذِّنُ لِیَنْتَبِہَ نَائِمُکُمْ‘ وَلِیَرْجِعَ قَائِمُکُمْ) ثُمَّ وَصَفَ الْفَجْرَ بِمَا قَدْ وَصَفَہٗ بِہٖ۔ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ ہُوَ الْمَانِعُ لِلطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَمَا سِوٰی ذٰلِکَ‘ مِمَّا یُمْنَعُ مِنْہُ الصَّائِمُ .فَھٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذَکَرْنَا مُخَالِفَۃٌ لِحَدِیْثِ حُذَیْفَۃَ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ حَدِیْثُ حُذَیْفَۃَ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ قَبْلَ نُزُوْلِ قَوْلِہٖ تَعَالٰی (وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوْا الصِّیَامَ إِلَی اللَّیْلِ) .
٣٠٨٩: زر بن حبیش سے روایت ہے کہ میں نے سحری کا کھانا کھایا پھر میں مسجد کی طرف روانہ ہوگیا میں حضرت حذیفہ (رض) کے مکان کے پاس سے گزرا تو ان کے ہاں مکان میں داخل ہوا انھوں نے ایک اونٹنی کا دودھ دھونے کا حکم دیا وہ دوھا گیا اور ہانڈی گرم کی گئی پھر مجھے فرمانے لگے کھاؤ میں نے کہا میں نے کہا میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں انھوں نے کہا میں بھی روزہ رکھنا چاہتا ہوں پھر ہم نے کھایا اور مسجد میں آئے تو جماعت کھڑی ہوگئی حذیفہ کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ساتھ ایسا ہی کیا یا یہ کہا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ایسا کیا میں نے تعجب سے پوچھا کیا صبح کے بعد بھی کھانے کی اجازت ہے بس سورج نکلنے کی کسر باقی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ حضرت حذیفہ (رض) کی اس روایت میں مذکور ہے کہ میں نے طلوع فجر کے بعد کھایا اور میرا روزے کا ارادہ تھا اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس طرح کی روایت کی ہے۔ حالانکہ جناب رسول اللہ سے اس کے خلاف روایات بھی آتی ہیں اور وہ وہی روایات ہیں جن کو ہم پہلے ذکر کر آئے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ۔ بلال (رض) تو رات ہی کو اذان دے دیتا ہے۔ تم اس وقت تک کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام کلثوم اذان دے ‘ ‘ اور یہ بھی فرمایا : لا یمنعن احد کھر۔۔۔ ہرگز تمہیں بلال کی اذان سحری سے نہ روکے اس لیے کہ وہ تو اذان دیتے ہیں تاکہ سونے والا جاگ جائے اور قیام والا واپس لوٹ آئے ۔ پھر فجر کی تعریف فرمائی جس طرح فرمائی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صبح کا وجود کھانے اور پینے اور دیگر اشیاء جو روزہ دار کے لیے ممنوع ہیں ان کے لیے رکاوٹ ہے۔ یہ روایات مذکورہ حضرت حذیفہ (رض) والی روایت کے خلاف ہیں اور حضرت حذیفہ (رض) والی روایت کی یہ تاویل بھی ہوسکتی ہے (واللہ اعلم) یہ حکم آیت کلوا واشربوا حتی یتیبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسورمن الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل۔۔۔ کے نزول سے پہلے کی بات ہے۔ جیسا ذیل کی روایات مشیر ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٣٩٦۔
اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ حذیفہ (رض) روزے کا ارادہ ہونے کے باوجود صبح صادق کے بعد کھایا پیا اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی طرح کی بات نقل کی ہے۔
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں صبح صادق کے بعد کھانا پینا جماع جائز نہیں ہے۔
صبح صادق کے بعد کھانا ‘ پینا اور جماع سب ناجائز ہیں اس سے روزہ باقی نہ رہے گا اس کے کچھ دلائل کی روایات جو اوقات اذان کے سلسلہ میں بیان کی گئیں جیسے آپ نے فرمایا بلال رات کو اذان دے دیتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ بخاری فی الصوم باب ١٧‘ اسی طرح فرمایا تمہیں اذان بلال سحری سے منع نہ کر دے وہ اس لیے اذان دیتے ہیں تاکہ سونے والا بیدار ہوجائے اور قیام کرنے والا لوٹ آئے۔ مسلم فی الصیام نمبر ٣٩‘ پھر آپ نے صبح صادق کی بھی وضاحت فرمائی ان روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ صبح صادق کا طلوع کھانے پینے وغیرہ سے مانع ہے۔
روایات حذیفہ (رض) کے متعلق جواب یہ ہے۔
نمبر 1: یہ اس آیت کے نزول سے پہلے کی بات ہے کلوا واشربوا حتی یتبیین لکم الخیط الابیض۔۔۔ (البقرہ۔ ١٨٧) اُتری جیسا کہ اگلی روایات سے بھی ایسے اشارات ملتے ہیں۔

3090

۳۰۹۰ : فَإِنَّہٗ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : أَنَا حُصَیْنٌ وَمُجَالِدٌ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنَا (عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ‘ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ (وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَـکُمَ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ) عَمَدْتُ إِلٰی عِقَالَیْنِ‘ أَحَدُہُمَا أَسْوَدُ‘ وَالْآخَرُ أَبْیَضُ‘ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَیْہِمَا‘ فَلاَ یَتَبَیَّنُ لِی الْأَبْیَضُ مِنَ الْأَسْوَدِ .فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَأَخْبَرْتُہٗ بِالَّذِیْ صَنَعْتُ‘ فَقَالَ إِنَّ وِسَادَکَ لَعَرِیْضٌ‘ إِنَّمَا ذٰلِکَ بَیَاضُ النَّہَارِ وَسَوَادُ اللَّیْلِ .)
٣٠٩٠: شعبی نے عدی بن حاتم (رض) سے نقل کیا کہ جب وکلوا واشربوا حتٰی یتبین لکم الخیط الابیض (البقرہ۔ ١٨٧) آیت اتری تو میرے پاس سیاہ وسفید دو عقال تھے میں نے ان پر نگاہ ڈالنا شروع کی مجھے سفید سے سیاہ ممتاز نہ ہو رہا تھا صبح کے وقت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی آپ نے فرمایا تیرا تکیہ تو بڑا عریض ہے اس سے مراد دن کا سپید اور رات کا اندھیرا ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢‘ باب ٢٨‘ مسلم فی الصیام ٣٣‘ ابو داؤد فی الصوم باب ١٧‘ دارمی فی الصوم باب ٧۔

3091

۳۰۹۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا حُصَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ عَدِیِّ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٠٩١: شعبی نے عدی سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3092

۳۰۹۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیْسَ الْأَوْدِیُّ‘ عَنْ حُصَیْنٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠٩٢: عبداللہ بن ادریس اودی نے حصین سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

3093

۳۰۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْفُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ (وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمَ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ) جَعَلَ الرَّجُلُ یَأْخُذُ خَیْطًا أَبْیَضَ وَخَیْطًا أَسْوَدَ‘ فَیَضَعُہُمَا تَحْتَ وِسَادَۃٍ‘ فَیَنْظُرُ مَتٰی یَسْتَبِیْنُہُمَا فَیَتْرُکُ الطَّعَامَ .قَالَ : فَبَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ‘ وَنَزَلَتْ (مِنَ الْفَجْرِ) .فَلَمَّا کَانَ حُکْمُ ھٰذِہِ الْآیَۃِ قَدْ کَانَ أَشْکَلَ عَلٰی أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ مَا بَیَّنَ‘ وَحَتّٰی أَنْزَلَ (مِنَ الْفَجْرِ) بَعْدَمَا قَدْ کَانَ أَنْزَلَ (حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ) فَکَانَ الْحُکْمُ أَنْ یَأْکُلُوْا وَیَشْرَبُوْا‘ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ ذٰلِکَ لَہُمْ‘ حَتّٰی نَسَخَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِقَوْلِہٖ (مِنَ الْفَجْرِ) عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ مَا قَدْ بَیَّنَہٗ سَہْلٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ .وَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ مَا رَوٰی حُذَیْفَۃُ مِنْ ذٰلِکَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَبْلَ نُزُوْلِ تِلْکَ الْآیَۃِ‘ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ تِلْکَ الْآیَۃَ‘ أَحْکَمَ ذٰلِکَ‘ وَرَدَّ الْحُکْمَ إِلٰی مَا بَیَّنَ فِیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ۔
: ابو حازم نے سہل بن سعد ساعدی (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب آیت : وکلوا واشربوا حتٰی یتبین لکم۔۔۔ (البقرہ : ١٨٧) نازل ہوئی تو لوگ سیاہ اور سفید دھاگہ لے کر تکئے کے نیچے رکھتے اور ان کو دیکھتے رہتے جب ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے تو اس وقت کھانا چھوڑتے۔ سہل کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی اور ” من الفجر “ کے الفاظ اتار دیئے۔ جب اس آیت کا حکم صحابہ پر قابل اشکال ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجرِ سے اس کی وضاحت کردی کہ صبح کے اچھی طرح سپید ہونے تک کھاپی سکتے ہو اور پہلے حکم کو منسوخ کردیا جیسا کہ ہم حضرت سہل (رض) کی روایت کے ضمن میں ذکر کر آئے ہیں اور دوسرا احتمال وہ بھی ہے جو پیچھے ہم نے ذکر کیا کہ حضرت حذیفہ (رض) والی روایت کا حکم نزول آیت سے پہلے کا ہے جب اللہ تعالیٰ نے وہ آیت اتار دی تو اس حکم کو اصل کی طرف لوٹا کر محکم کردیا جیسا کہ ذیل کی روایت واضح کر رہی ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١٦‘ مسلم دی الصیام نمبر ٣٤۔
جب اس آیت نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اشکال پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ نے وضاحت کردی اور ” من الفجر “ کے الفاظ اتارے اس کے بعد کہ حتٰی یتبین لکم الخیط الابیض (البقرہ۔ ١٨٧) پہلے کھانے پینے کا حکم تھا یہاں تک کہ ” من الفجر “ سے اس کو منسوخ کردیا اور روایت نمبر ٣٠٩٣ میں یہ مذکورہوا۔
٣٠٩٣: ابو حازم نے سہل بن سعد ساعدی (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب آیت : وکلوا واشربوا حتٰی یتبین لکم۔۔۔ (البقرہ : ١٨٧) نازل ہوئی تو لوگ سیاہ اور سفید دھاگہ لے کر تکئے کے نیچے رکھتے اور ان کو دیکھتے رہتے جب ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے تو اس وقت کھانا چھوڑتے۔ سہل کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی اور ” من الفجر “ کے الفاظ اتار دیئے۔ جب اس آیت کا حکم صحابہ پر قابل اشکال ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجرِ سے اس کی وضاحت کردی کہ صبح کے اچھی طرح سپید ہونے تک کھاپی سکتے ہو اور پہلے حکم کو منسوخ کردیا جیسا کہ ہم حضرت سہل (رض) کی روایت کے ضمن میں ذکر کر آئے ہیں اور دوسرا احتمال وہ بھی ہے جو پیچھے ہم نے ذکر کیا کہ حضرت حذیفہ (رض) والی روایت کا حکم نزول آیت سے پہلے کا ہے جب اللہ تعالیٰ نے وہ آیت اتار دی تو اس حکم کو اصل کی طرف لوٹا کر محکم کردیا جیسا کہ ذیل کی روایت واضح کر رہی ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١٦‘ مسلم دی الصیام نمبر ٣٤۔
جب اس آیت نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اشکال پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ نے وضاحت کردی اور ” من الفجر “ کے الفاظ اتارے اس کے بعد کہ حتٰی یتبین لکم الخیط الابیض (البقرہ۔ ١٨٧) پہلے کھانے پینے کا حکم تھا یہاں تک کہ ” من الفجر “ سے اس کو منسوخ کردیا اور روایت نمبر ٣٠٩٣ میں یہ مذکورہوا۔
نمبر 2: دوسرا احتمال یہ ہے کہ حذیفہ (رض) نے جو بات نقل کی وہ نزول آیت سے پہلے کی ہو جب آیت اتار کر وضاحت کردی اور اس حکم کو محکم کردیا۔
اور اس سلسلہ میں اگلی روایت مؤید ہے۔

3094

۳۰۹۴ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ وَالْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعٍ‘ قَالَا : ثَنَا مُلَازِمُ ابْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَدْرٍ السُّحَیْمِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَدِّیْ قَیْسُ بْنُ طَلْقٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا یَہِیْدَنَّکُمُ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ‘ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَعْتَرِضَ لَکُمُ الْأَحْمَرُ وَأَشَارَ بِیَدِہٖ وَأَعْرَضَہَا) .فَلاَ یَجِبُ تَرْکُ آیَۃٍ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی نَصًّا‘ وَأَحَادِیْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرَۃً قَدْ قَبِلَتْہَا الْأُمَّۃُ‘ وَعَمِلَتْ بِہَا مِنْ لَدُنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْیَوْمِ ۔ إِلٰی حَدِیْثٍ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَنْسُوْخًا بِمَا ذَکَرْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٠٩٤: قیس بن طلق کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ جناب نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کھاتے پیتے رہو تمہیں اوپر کو چڑھنے والی روشنی نہ روکے۔ اس وقت تک کھاؤ یہاں تک کہ سامنے چوڑائی میں سرخی ظاہر ہو اور دست مبارک سے اس کی چوڑائی کی طرف اشارہ کیا۔ تو اس سے قرآن مجید کی کسی نص یا حدیث متواتر میں سے کسی کا ترک بھی لازم نہیں آتا جن احادیث کو امت نے آج تک قبول کر کے اس پر عمل قائم کیا ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ روایت اس آیت سے منسوخ ہو جیسا کہ ہم اسی باب میں ذکر کر آئے۔ یہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
اس روایت اور دیگر روایات اور آیت سے صبح صادق کے بعد کھانے کی اجازت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے روایات حذیفہ (رض) کے بالمقابل نہ تو کسی آیت کا نسخ لازم آتا ہے بلکہ امت کا متواتر اجماعی عمل روایت حذیفہ کے نسخ کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لیے اس روایت پر عمل ہرگز درست نہ ہوگا بلکہ نصوص متواترہ امت کے اجماعی عمل اور اشارۃ النص پر ہی عمل کیا جائے گا۔
یہ امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) محمد (رح) کا قول ہے۔
اس باب میں پہلی مرتبہ تذکرہ مذاہب کے بغیر روایت کا ذکر کر کے اس کا نسخ روایات و اجماع امت سے ثابت کیا ہے باقی سنداً بھی یہ روایت درجہ رابع کی کتب سے متعلق ہے۔ واللہ اعلم۔

3095

۳۰۹۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (مَنْ لَمْ یُبَیِّتِ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ‘ فَلاَ صِیَامَ لَہٗ) .
٣٠٩٥: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے حفصہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ جس نے فجر سے پہلے رات کو نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں۔
تخریج : نسائی فی الصیام باب ٦٨‘ دارمی فی الصوم باب ١٠۔
قضاء رمضان ‘ نذر غیر معین اور کفارہ کے روزوں کی نیت سب کے ہاں بالاتفاق رات سے کرنا شرط ہے ورنہ روزہ ادا نہ ہوگا البتہ نفلی روزے کے متعلق ! امام مالک رات سے نیت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور " باقی تمام ائمہ کے نزدیک رات کو نیت ضروری نہیں ماقبل الزوال تک نیت کی جاسکتی ہے اور ! رمضان المبارک اور نذر معین کے روزے میں ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ رات سے نیت ضروری قرار دیتے ہیں ورنہ روزہ درست نہ ہوگا " مگر احناف ان میں بھی نوافل کی طرح زوال سے پہلے تک نیت کو درست مانتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
رمضان المبارک کے وقتی روزے ‘ نذر معین میں رات سے نیت لازم ہے نفل کی طرح زوال آفتاب تک نیت کی رخصت ہرگز نہیں ان کا حکم نوافل سے مختلف ہے دلیل یہ روایت ہے۔

3096

۳۰۹۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠٩٦: عبداللہ بن یوسف نے ابن لہیعہ سے نقل کیا پھر اس نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3097

۳۰۹۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامٍ الرُّعَیْنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوْبَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا لَمْ یَنْوِ الدُّخُوْلَ فِی الصِّیَامِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ لَمْ یُجْزِہٖ أَنْ یَصُوْمَ یَوْمَہُ ذٰلِکَ‘ بِنِیَّۃٍ تَحْدُثُ لَہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَاحْتَجُّوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : ھٰذَا الْحَدِیْثُ لَا یَرْفَعُہُ الْحُفَّاظُ الَّذِیْنَ یَرْوُونَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ وَیَخْتَلِفُوْنَ عَنْہُ فِیْہِ اخْتِلَافًا یُوْجِبُ اضْطِرَابَ الْحَدِیْثِ بِمَا ہُوَ دُوْنَہٗ.وَلٰـکِنْ- مَعَ ذٰلِکَ ۔ نُثْبِتُہٗ ، وَنَجْعَلُہٗ عَلٰی خَاصٍّ مِنَ الصَّوْمِ‘ وَہُوَ الصَّوْمُ الْفَرْضُ‘ الَّذِیْ لَیْسَ فِیْ أَیَّامٍ بِعَیْنِہَا‘ مِثْلَ الصَّوْمِ فِی الْکَفَّارَاتِ‘ وَقَضَائِ رَمَضَانَ‘ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .
٣٠٩٧: لیث بن سعد نے یحییٰ بن ایوب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت اس طرف رائے رکھتی ہے کہ اگر کوئی آدمی طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے تو اس دن اس کے بعد نیت کر کے روزہ رکھنا اس کو جائز نہیں۔ مذکورہ بالا روایات سے انھوں نے استدلال کیا ہے۔ جبکہ علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ ابن شہاب سے جن حفاظ محدثین نے روایت نقل کی ہے وہ اس کو مرفوع نقل نہیں کرتے اور اس کے بارے میں ایسا اختلاف ذکر کرتے ہیں جو نیچے والے حضرات میں حدیث کے اضطراب کا باعث ہے۔ مگر اس کمزوری کے باوجود ہم اسے تسلیم کرتے ہوئے خاص روزے سے متعلق کرتے ہیں یعنی وہ فرض روزہ جو اپنے معینہ دنوں کی بجائے دیگر دنوں میں رکھا جائے جیسا کہ کفارات اور قضائے رمضان کے روزے ۔ رہا حدیث کا حفاظ کے ہاں اختلاف تو وہ مندرجہ روایات سے ظاہر ہے۔
حاصل روایات ان روایات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ رات سے روزے کی نیت ضروری ہے ورنہ روزہ درست نہ ہوگا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
رمضان المبارک اور نذر معین کے روزے کی نیت رات سے کرنا ضروری ہے نفل کی طرح اس کی نیت میں زوال آفتاب تک تاخیر نیت جائز نہیں ہے دلائل آئندہ سطور میں مذکور ہیں۔ اولاً سابقہ روایت کا جواب ملاحظہ ہو۔
سابقہ روایت سے استدلال کا جواب :
نمبر 1: اس روایت کا دارومدار ابن شہاب پر ہے اور ان کے چار شاگرد اس روایت کو نقل کرتے ہیں امام مالک ‘ ابن عیینہ ‘ معمر ‘ عبداللہ بن ابی بکر رحمہم اللہ ہیں۔ عبداللہ بن ابی بکر کے علاوہ بقیہ سب نے اس کو موقوف نقل کیا صرف انھوں نے مرفوع نقل کیا یہ روایت حفاظ حدیث کی نقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہ ہوگی۔

3098

۳۰۹۸ : فَأَمَّا مَا ذَکَرْنَا مِنْ رِوَایَۃِ الْحُفَّاظِ لِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ وَمِنَ اخْتِلَافِہِمْ عَنْہُ فِیْہِ۔
٣٠٩٨: مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت شروع باب میں مذکور ہوئی ہے۔

3099

۳۰۹۹ : فَإِنَّ اِبْرَاہِیْمَ بْنَ مَرْزُوْقٍ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ بِذٰلِکَ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .
٣٠٩٩: ابن عینیہ نے عن ابن شہاب سے انھوں نے حمزہ بن عبداللہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حصرت حفصہ سے ‘ انھوں نے بھی مرفوع نقل نہیں کی۔

3100

۳۱۰۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ حَفْصَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ بِذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .
٣١٠٠: معمر نے زہری سے انھوں نے سالم سے ‘ انھوں نے ابن عمر (رض) سے ‘ انھوں نے حفصہ (رض) سے ‘ انھوں نے بھی مرفوع نقل نہیں کی۔
ان تینوں حفاظ حدیث کے علاوہ بھی اس روایت کو نقل کیا گیا ہے اور اس میں ابن عمر (رض) کا تذکرہ ہے امّ المؤمنین (رض) کا تذکرہ سند میں نہیں کیا گویا ابن عمر (رض) سے بھی موقوف منقول ہے۔
ملاحظہ ہو :

3101

۳۱۰۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ‘ قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .فَھٰذَا مَالِکٌ‘ وَمَعْمَرٌ‘ وَابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ وَہُمُ الْحُجَّۃُ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْ إِسْنَادِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ کَمَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رَوَاہُ أَیْضًا عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ غَیْرُ ہٰؤُلَا ٓئِ ‘ عَلٰی خِلَافِ مَا رَوَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ أَیْضًا .
٣١٠١: صالح بن ابی الاخضر نے ابن شہاب سے انھوں نے سالم سے ‘ انھوں نے اپنے والد سے ‘ انھوں نے نہ تو روایت کو مرفوع قرار دیا اور نہ امّ المؤمنین حفصہ (رض) کا ذکر کیا۔ یہ امام مالک اور معمر وابن عیینہ ہیں جو کہ امام زہری کی اسناد میں حجت سمجھے جاتے ہیں ان تینوں کا ہی اس کی سند میں اختلاف ہے اور عبداللہ بن ابی بکر نے بھی زہری سے اس کو اس طرح نقل کیا ہے۔

3102

۳۱۰۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ حَدَّثَہٗ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ بِذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَذْکُرْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .
٣١٠٢: صالح بن ابی الاخضر نے ابن شہاب سے انھوں نے سائب بن یزید سے انھوں نے وہب بن ابی وداعہ سے انھوں نے حفصہ (رض) سے ‘ انھوں نے بھی موقوف نقل کی ہے۔

3103

۳۱۰۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ شِہَابٍ‘ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِیْ وَدَاعَۃَ‘ عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .ثُمَّ قَدْ رَوَاہُ نَافِعٌ أَیْضًا‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا بِذٰلِکَ‘ وَلَمْ یَذْکُرْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا‘ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .
٣١٠٣: موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے انھوں نے ابن (رض) سے اس طرح موقوف نقل کی ہے۔ پھر اس روایت کو ابن عمر (رض) سے نافع نے نقل کیا اور انھوں نے بھی نہ تو حضرت حفصہ کا واسطہ ذکر کیا اور نہ اس کو مرفوع نقل کیا۔
حاصل روایات : ان اسناد بالا نے یہ حقیقت کھول دی کہ یہ روایت موقوف ہے مرفوع نہیں اس کو خواہ امّ المؤمنین حفصہ (رض) پر موقوف مانا جائے یا ابن عمر (رض) پر موقوف تسلیم کیا جائے مرفوع روایات کے بالمقابل اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
جواب نمبر 2: اس روایت سے مراد قضاء رمضان ‘ نذر غیر معین اور صوم کفارہ ہیں اب یہ موقوف بھی اپنے مقام پر معمول بھی رہے گی۔
دلائل آگے ملاحظہ ہوں

3104

۳۱۰۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ یُوْنُسَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ اِبَاحَۃِ الدُّخُوْلِ فِی الصِّیَامِ‘ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ .
٣١٠٤ : حضرت نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے ‘ اس روایت کی اصل ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلوع فجر کے بعد روزے میں داخل ہونے کا ارشاد منقول ہے ‘ ذیل میں ملاحظہ ہو {

3105

۳۱۰۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالُوْا : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی‘ عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ طَعَامًا‘ فَجَائَ یَوْمًا فَقَالَ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ ذٰلِکَ الطَّعَامِ ؟ فَقُلْتُ : لَا‘ قَالَ فَإِنِّیْ صَائِمٌ) .
٣١٠٤: عائشہ بنت طلحہ نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک خاص کھانے کو پسند فرماتے تھے ایک دن آپ تشریف لائے اور فرمایا کیا وہ کھانا تمہارے پاس موجود ہے میں نے عرض کیا نہیں فرمایا پھر میں نے روزہ کی نیت کرلی۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ١٧٠‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٧٢‘ نمبر ٢٤٥٥‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٢٦۔

3106

۳۱۰۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنِ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ طَلْحَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَذٰلِکَ عِنْدَنَا‘ عَلَی خَاصٍّ مِنَ الصَّوْمِ أَیْضًا‘ وَہُوَ التَّطَوُّعُ یَنْوِیْہِ الرَّجُلُ‘ بَعْدَمَا یُصْبِحُ فِیْ صَدْرِ النَّہَارِ الْأَوَّلِ .وَقَدْ عَمِلَ بِذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ۔
٣١٠٥: ثوری نے طلحہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ یہ ہمارے ہاں صوم نفلی کے ساتھ خاص ہے کہ صبح کرنے کے بعد دن کے پہلے حصے میں اس کی نیت کرسکتا ہے اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت بڑی جماعت نے اس پر عمل کیا ہے۔ چنانچہ یہ آثار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات میں نفلی روزہ مراد ہے اور اس میں رات کو نیت کرنا سوائے امام مالک کے سب کے ہاں درست ہے۔

3107

۳۱۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ وَرَوْحٌ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (اِذَا أَصْبَحَ أَحَدُکُمْ ثُمَّ أَرَادَ الصَّوْمَ بَعْدَمَا أَصْبَحَ‘ فَإِنَّہُ بِأَحَدِ النَّظَرَیْنِ).
٣١٠٦: ابوالاحوص نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی روزے کا ارادہ رکھتا ہو اور صبح ہوچکی تو وہ دو حال میں ہے ایک جس کو چاہے اپنائے۔

3108

۳۱۰۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (مَتٰی أَصْبَحْتَ یَوْمًا‘ فَأَنْتَ عَلٰی أَحَدِ النَّظَرَیْنِ‘ مَا لَمْ تَطْعَمْ أَوْ تَشْرَبْ‘ إِنْ شِئْتَ فَصُمْ‘ وَإِنْ شِئْتُ فَأَفْطِرْ) .
٣١٠٧: ابوالاحوص نے عبداللہ سے نقل کیا کہ جب تو اس حال میں صبح کرے کہ تیرے سامنے دو صورتیں ہیں جب تک کہ کھایا پیا نہ جائے روزہ رکھ لو یا روزہ نہ رکھو۔

3109

۳۱۰۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مِثْلَہٗ .
٣١٠٨: ابو اسحاق نے حارث اعور سے انھوں نے علی (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3110

۳۱۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ أَنَّ حُذَیْفَۃَ بَدَا لَہٗ الصَّوْمُ‘ بَعْدَمَا زَالَتِ الشَّمْسُ‘ فَصَامَ .
٣١٠٩: سعید بن عبیدہ نے ابو عبدالرحمن سے نقل کیا کہ حذیفہ (رض) خیال ہوا کہ میں (نفلی) روزہ رکھوں اس وقت سورج ڈھل چکا تھا تو انھوں نے روزہ رکھ لیا۔

3111

۳۱۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ‘ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ‘ أَنَّہٗ لَزِمَ غَرِیْمًا لَہٗ‘ فَأَتَی ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : إِنِّیْ لَزِمْت غَرِیْمًا لِیْ مِنْ مُرَادٍ إِلٰی قَرِیْبٍ مِنَ الظُّہْرِ‘ وَلَمْ أَصُمْ‘ وَلَمْ أُفْطِرْ .قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَصُمْ‘ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ .
٣١١٠: سلمہ بن کھیل نے مستورد سے نقل کیا کہ بنی اسد کے ایک آدمی نے بنی اسد کے ایک آدمی سے نقل کیا کہ اس نے اپنے قرضہ والے کو پکڑا اور ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے ظہر کے قریب تک اپنے قرض والے کو لازم پکڑنا ہے میں نے نہ تو روزہ رکھا ہے اور نہ کچھ کھایا پیا ہے انھوں نے فرمایا تمہاری مرضی ہے روزہ رکھ لو یا افطار کرلو۔

3112

۳۱۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِأَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ : إِنِّیْ تَسَحَّرْتُ‘ ثُمَّ بَدَا لِیْ أَنْ أُفْطِرَ .قَالَ : إِنْ شِئْتُ فَأَفْطِرْ‘ کَانَ أَبُوْ طَلْحَۃَ یَجِیْئُ فَیَقُوْلُ (ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ طَعَامٍ ؟) فَإِنْ قَالُوْا (لَا) قَالَ (إِنِّیْ صَائِمٌ)
٣١١١: ابو بشر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے انس بن مالک (رض) سے کہا میں نے سحری کھائی پھر میرا دل چاہا کہ میں افطار کرلوں (اور روزہ نہ رکھوں) انھوں نے کہا اگر تم چاہو تو افطار کرلو۔ ابو طلحہ (رض) گھر میں آتے اور کہتے کیا تمہارے پاس کھانا ہے ؟ اگر وہ نفی میں جواب دیتے تو یہ کہتے میں نے روزہ رکھ لیا۔

3113

۳۱۱۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیْدَ الرَّحَبِیُّ‘ عَنْ شَہْرِ بْنِ أَبِیْ حُبَیْشٍ‘ وَلَمْ یَکُنْ بَقِیَ مِمَّنْ شَہِدَ قَتْلَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ غَیْرُہٗ، أَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَصْبَحَ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ قُتِلَ فِیْہِ فَقَالَ : إِنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَتَیَانِیْ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ‘ فَقَالَا لِی (یَا عُثْمَانُ إِنَّکَ مُفْطِرٌ عِنْدَنَا اللَّیْلَۃَ) (وَإِنِّیْ أُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَوْجَبْتُ الصِّیَامَ)
٣١١٢: محمد بن یزید رحبی نے شہر بن ابی حبیش سے نقل کیا قتل عثمان کے موقعہ پر جو موجود ہے ان میں سے اس کے سواء اور کوئی نہ بچا کہ حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے دن صبح کی اور فرمانے لگے میں نے خواب دیکھا کہ ابوبکر و عمر ] آج رات میرے پاس آئے اور دونوں کہنے لگے اے عثمان رات کی افطاری تمہاری ہمارے ہاں ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے لیے روزہ کو لازم کرلیا۔

3114

۳۱۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ أَبِیْ عَمْرٍو‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ کَانَ یُصْبِحُ حَتّٰی یُظْہِرَ‘ ثُمَّ یَقُوْلُ (وَاللّٰہِ لَقَدْ أَصْبَحْتُ‘ وَمَا أُرِیْدُ الصَّوْمَ‘ وَمَا أَکَلْتُ مِنْ طَعَامٍ وَلَا شَرَابٍ مُنْذُ الْیَوْمِ‘ وَلَأَصُوْمَنَّ یَوْمِیْ ھٰذَا) .
٣١١٣: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ صبح سے دوپہر تک وقت گزر جاتا پھر فرماتے جب صبح ہوتی تو میں روزے سے نہ تھا لیکن میں نے آج اب تک کچھ کھایا پیا نہیں میں آج ضرور روزہ رکھوں گا۔

3115

۳۱۱۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ‘ أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ کَانَ یَأْتِیْ أَہْلَہٗ مِنَ الضُّحَی فَیَقُوْلُ : ہَلْ عِنْدَکُمْ غَدَاء ٌ ؟ فَإِنْ قَالُوْا " لَا " صَامَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ.
٣١١٤: قتادہ نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ ابو طلحہ چاشت کے وقت اپنے گھر تشریف لاتے اور فرماتے کیا تمہارے ہاں صبح کا کھانا موجود ہے ؟ اگر وہ نفی میں جواب دیتے تو اس دن کا روزہ رکھ لیتے۔

3116

۳۱۱۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْفَیْضِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سِیَارٍ الدِّمَشْقِیَّ‘ قَالَ : سَاوَمَ أَبُو الدَّرْدَائِ رَجُلًا بِفَرَسٍ‘ فَحَلَفَ أَنْ لَا یَبِیْعَہُ .فَلَمَّا مَضَی‘ قَالَ : تَعَالَ إِنِّیْ أَکْرَہُ أَنْ أُؤَثِّمَکَ‘ إِنِّیْ لَمْ أَعُدَ الْیَوْمَ مَرِیْضًا‘ وَلَمْ أُطْعِمْ مِسْکَیْنَا‘ وَلَمْ أُصَلِّ الضُّحٰی‘ وَلٰـکِنِّیْ بَقِیَّۃَ یَوْمِیْ صَائِمٌ .
٣١١٥: عبداللہ بن سیار و مشقی کہتے ہیں کہ ابوالدرداء (رض) نے ایک آدمی سے گھوڑے کا سودا کیا اس آدمی نے قسم اٹھالی کہ میں اسے فروخت نہ کروں گا۔ جب وہ چل دیا تو آپ نے اسے بلا کر فرمایا میں تمہیں گناہ میں ڈالنا نہیں چاہتا میں آج کسی مریض کی عیادت نہ کروں گا اور کسی مسکین کو کھانا نہ کھلاؤں گا اور چاشت کے نفل نہ پڑھوں گا لیکن میں بقیہ دن روزہ رکھوں گا۔

3117

۳۱۱۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَنَا أَیُّوْبُ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنَا أُمُّ الدَّرْدَائِ ‘ أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ کَانَ یَجِیْئُ فَیَقُوْلُ : (ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ طَعَامٍ ؟) فَإِنْ قَالُوْا (لَا) قَالَ : (إِنِّیْ صَائِمٌ) .
٣١١٦: ایوب نے ابو قلابہ سے روایت کی ہے کہ ہمیں ام الدرداء (رض) نے بیان کیا کہ ابوالدرداء (رض) باہر سے تشریف لاتے اور فرماتے کیا آپ کے ہاں کھانا موجود ہے ؟ اگر گھر والے نفی میں جواب دیتے تو کہتے میں نے روزہ رکھ لیا۔

3118

۳۱۱۷ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ ثَابِتٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ عُتْبَۃَ‘ أَنَّ أَبَا أَیُّوْبَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٣١١٧: عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ابو ایوب انصاری (رض) بھی اسی طرح کرتے تھے۔

3119

۳۱۱۸ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : زَعَمَ عَطَاء ٌ أَنَّہٗ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .فَھٰذَا الصِّیَامُ الَّذِیْ یُجْزِئُ فِیْہِ النِّیَّۃُ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ الَّذِیْ جَائَ فِیْہِ الْحَدِیْثُ‘ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَمِلَ بِہٖ مَنْ ذَکَرْنَا مِنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ‘ ہُوَ صَوْمُ التَّطَوُّعِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا (أَنَّہٗ أَمَرَ النَّاسَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ بَعْدَمَا أَصْبَحُوْا أَنْ یَصُوْمُوْا) ، وَہُوَ حِیْنَئِذٍ عَلَیْہِمْ صَوْمُہٗ فَرْضٌ‘ کَمَا صَارَ صَوْمُ رَمَضَانَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ فَرْضًا‘ وَرُوِیَتْ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ آثَارٌ سَنَذْکُرُہَا فِیْ بَابِ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ فِیْمَا بَعْدَ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَلَمَّا جَائَ تْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ لَمْ یَجُزْ أَنْ یُجْعَلَ بَعْضُہَا مُخَالِفًا لِبَعْضٍ‘ فَتَنَافٰی‘ وَیَدْفَعُ بَعْضُہَا بَعْضًا‘ مَا وَجَدْنَا السَّبِیْلَ إِلَی تَصْحِیْحِہَا‘ وَتَخْرِیْجِ وَجْہِہَا .فَکَانَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ فِیْ صَوْمِ التَّطَوُّعِ‘ فَکَذٰلِکَ وَجْہُہُ عِنْدَنَا .وَکَانَ مَا رُوِیَ فِیْ عَاشُوْرَائَ فِی الصَّوْمِ الْمَفْرُوْضِ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ بِعَیْنِہٖ۔ فَکَذٰلِکَ حُکْمُ الصَّوْمِ الْمَفْرُوْضِ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ جَائِزُ أَنْ یُعْقَدَ لَہٗ النِّیَّۃُ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ .وَمِنْ ذٰلِکَ شَہْرُ رَمَضَانَ فَہُوَ فَرْضٌ فِیْ أَیَّامٍ بِعَیْنِہَا کَیَوْمِ عَاشُوْرَائَ اِذَا کَانَ فَرْضًا فِیْ یَوْمٍ بِعَیْنِہٖ۔ فَکَمَا کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَائَ یُجْزِئُ مَنْ نَوَیْ صَوْمَہُ بَعْدَمَا أَصْبَحَ‘ فَکَذٰلِکَ شَہْرُ رَمَضَانَ یُجْزِئُ مَنْ نَوَیْ صَوْمَ یَوْمٍ مِنْہُ کَذٰلِکَ .وَبَقِیَ بَعْدَ ھٰذَا مَا رَوَیْنَا فِیْ حَدِیْثِ حَفْصَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ - عِنْدَنَا - فِی الصَّوْمِ الَّذِیْ ھُوَ خِلَافُ ہٰذَیْنِ الصَّوْمَیْنِ‘ مِنْ صَوْمِ الْکَفَّارَاتِ‘ وَقَضَائِ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ حَتّٰی لَا یُضَادَّ ذٰلِکَ شَیْئًا مِمَّا ذَکَرْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَغَیْرِہٖ۔ وَیَکُوْنُ حُکْمُ النِّیَّۃِ الَّتِیْ یَدْخُلُ بِہَا فِی الصَّوْمِ‘ عَلَی ثَلاَثَۃِ أَوْجُہٍ .فَمَا کَانَ مِنْہُ فَرْضًا فِیْ یَوْمٍ بِعَیْنِہِ‘ کَانَتْ تِلْکَ النِّیَّۃُ مُجْزِئَۃً قَبْلَ دُخُوْلِ ذٰلِکَ الْیَوْمِ فِی اللَّیْلِ‘ وَفِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ أَیْضًا وَمَا کَانَ مِنْہُ فَرْضًا لَا فِیْ یَوْمٍ بِعَیْنِہِ‘ کَانَتْ النِّیَّۃُ الَّتِیْ یَدْخُلُ بِہَا فِی اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ قَبْلَہٗ، وَلَمْ تَجُزْ بَعْدَ دُخُوْلِ الْیَوْمِ .وَمَا کَانَ مِنْہُ تَطَوُّعًا کَانَتْ النِّیَّۃُ الَّتِیْ یَدْخُلُ بِہَا فِیْہِ فِی اللَّیْلِ الَّذِیْ قَبْلَہٗ، وَفِی النَّہَارِ الَّذِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَھٰذَا ہُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ یُخَرَّجُ عَلَیْہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذَکَرْنَا‘ وَلَا تَتَضَادَّ‘ فَہُوَ أُوْلَیْ مَا حُمِلَتْ عَلَیْہِ .وَإِلٰی ذٰلِکَ کَانَ یَذْہَبُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .إِلَّا أَنَّہُمْ کَانُوْا یَقُوْلُوْنَ (مَا کَانَ مِنْہُ یُجْزِئُ النِّیَّۃُ فِیْہِ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ‘ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ فَإِنَّہَا تُجْزِئُ فِیْ صَدْرِ النَّہَارِ الْأَوَّلِ‘ وَلَا تُجْزِئُ فِیْمَا بَعْدَ ذٰلِکَ) .
٣١١٨: ابن جریج نے بیان کیا کہ عطاء کا خیال یہ ہے کہ ابو ایوب (رض) ایسا کرتے تھے۔ یہ روزے جن میں طلوع فجر کے بعد نیت کرنا درست ہے ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت آئی ہے اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے بعد اس پر عمل کیا ہے اور یہ نفلی روزہ ہی ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ عاشوراء کے دن جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کے بعد لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہ روزہ اس وقت ان پر فرض تھا جس طرح رمضان کا روزہ بعد میں فرض ہوا اور اس سلسلے میں ہم روایات اسی کتاب میں ذکر کریں گے۔ پس جب یہ آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح ثابت ہیں جیسا ہم نے بیان کیا تو ان کو ایک دوسرے کا متضاد قرار دینا بھی درست نہیں کیونکہ اس طرح سے وہ ایک دوسرے کے منافی ہو کر ایک دوسرے ہی کی تردید کریں گی جس سے ہم صحیح معانی کو نہیں نکال سکیں گے ۔ اسی وجہ سے ہم نے اس باب میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت جس کو ذکر کر آئے ہیں وہ نفلی روزے سے متعلق ہے جیسا ہم نے بیان کردیا ۔ ہمارے ہاں اس کا یہی معنیٰ ہے اور عاشورہ کے سلسلہ میں آنے والی روایت وہ معین دن میں فرضی روزے سے متعلق ہے۔ معین دنوں کے فرض روزے کی نیت طلوع فجر کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کا یہی حکم ہے۔ کیونکہ وہ بھی معین دنوں کی طرح معین فرض روزے ہیں۔ پس جس طرح عاشورہ کے دن طلوع فجر کے بعد روزنے کی نیت درست تھی رمضان المبارک کے روزے کا حکم بھی یہی ہے۔ کہ اس کا روزہ جائز ہوگا۔ اب رہی وہ روایت جس کو حضرت حفصہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے۔ تو ہمارے ہاں اس کا تعلق ان دو اقسام یعنی کفارے اور قضاء رمضان کے روزے سے متعلق ہے اور معنیٰ اس وجہ سے اختیار کیا تاکہ یہ روایت دیگر روایات کے خلاف نہ ہو جو اس باب میں مذکور ہوئیں۔ پس روزے کی نیت کے سلسلہ میں تین صورتیں ہوتیں نمبر ١ وہ روزے جو مقررہ دنوں میں فرض ہیں ان کو رات کی نیت اور دن کی نیت سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے نمبر ٢ وہ روزے غیر معینہ دونوں میں فرض ہیں ان کی نیت رات کو صرف ہوسکتی ہے۔ طلوع فجر کے بعد نہیں جاسکتی۔ اور نفلی روزے کی نیت سابقہ رات اور آئندہ دن (کے نصف) میں کی جاسکتی ہے۔ یہی وہ صورت ہے جس میں آثار پر عمل ہوسکتا ہے اور کسی میں تضاد نہیں ہوتا اور اس پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مسلک ہے البتہ امام ابو یوسف ومحمد جواب کہتے ہیں کہ جن روزوں میں طلوع فجر کے بعد نیت کرنا درست ہے ان میں دن کے ابتدائی حصہ میں نیت کی جاسکتی ہے۔ اور اس کے بعد درست نہیں۔
حاصل روایات : ان تمام روایات میں طلوع فجر کے بعد روزہ کی نیت کرنے کا تذکرہ اور صحابہ کرام کا عمل اسی کی تائید کرتا ہے یہ نفلی روزہ ہے۔
دوسری طرف یوم عاشورہ کے روزے کے سلسلہ میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلوع آفتاب کے بعد اس کے روزہ کی نیت کا حکم فرمایا تھا اور ان دنوں یہ روزہ فرض تھا جیسا کہ بعد میں رمضان فرض ہوا اس سلسلہ کی روایات ہم یوم عاشورہ کے باب میں ذکر کریں گے۔
یہ مذکورہ بالا آثار ہم نے ذکر کردیئے اس میں یہ طرز عمل تو درست نہیں کہ بعض آثار کو ایک دوسرے کے مخالف قرار دے کر بعض کو رد کریں اور دوسروں کو قبول کریں اور موافقت کی صورت نہ پائیں۔
پس روایت عائشہ (رض) تو نفلی روزے کے سلسلہ میں ہے اور یوم عاشورہ والی روایت فرض روزہ کے معین دن میں ہونے سے متعلق ہے۔
پس جس طرح عاشورہ کے روزہ کی نیت طلوع آفتاب کے بعد درست ہے رمضان المبارک کا روزہ یہی حکم رکھتا ہے طلوع فجر کے بعد نیت کرسکتا ہے۔
اب رہی روایت حفصہ (رض) جو شروع باب میں مذکور ہوئی وہ ان دونوں کے مخالف ہے اس کو صوم کفارات اور قضاء رمضان پر محمول کریں گے اب اس طرح تمام روایات میں تو افق پیدا ہوگیا۔
روزہ میں نیت سے داخلہ کی تین صورتیں :
جو روزے معین دنوں کے ہیں ان کی نیت تو اگلے دن کے لیے رات سے اور دن کے وقت بھی نیت درست ہے۔
1 فرض غیر معین میں رات سے نیت ضروری ہے دن کو جائز نہیں ہے۔
2 اور نفلی روزے کی نیت رات سے کرو یا نصف یوم سے پہلے کرلو ہر دو طرح درست ہے۔
یہ تطبیق جو ہم نے پیش کی ہے اس سے روزہ سے متعلق تمام روایات اپنے مقام پر فٹ ہوگئیں تضاد باقی نہیں رہا ہمارے ہاں یہی اولیٰ ہے۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ بس اس میں اس قدر اور اضافہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد زوال سے پہلے تک تو ان میں نیت درست ہے جن میں نیت طلوع کے بعد کی جاسکتی ہے البتہ پچھلے پہر نیت درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
: اس باب سے صرف اس ارشاد نبوت کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں اس میں علماء کی تین جماعتیں ہیں۔
نمبر 1: امام احمد فرماتے ہیں کہ ایک سال میں یہ دو مہینے ٢٩ کے نہیں ہوتے۔ ایک ٢٩ تو دوسرا تیس کا ہوگا۔
نمبر 2: امام اسحاق (رح) کہتے ہیں ثواب کے لحاظ سے ان میں کمی نہیں آتی خواہ ٢٩ کے ہوں یا تیس کے۔
نمبر 3: جمہور فقہاء نے دونوں اقوال کو جمع کیا کہ ایک سال میں دونوں مہنے ٢٩ کے نہیں ہوتے اور اگر ایک انتیس کا ہو تب بھی ثواب میں کمی نہیں آتی امام طحاوی کا رجحان تیسرے قول کی طرف معلوم ہوتا ہے۔

3120

۳۱۱۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَعَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَا : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (شَہْرَا عِیْدٍ‘ لَا یَنْقُصَانِ‘ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّۃِ) .
٣١١٩: عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ عید کے دو مہینے ‘ کم نہیں ہوتے یعنی رمضان و ذوالحجہ۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١٢‘ مسلم فی الصیام ٣١؍٣٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٤‘ ترمذی فی الصوم باب ٨‘ ابن ماجہ فی الصوم باب ٩‘ مسند احمد ٥‘ ٣٨؍٤٨‘ ٥٠؍٥١۔

3121

۳۱۲۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ أَنَّ ہٰذَیْنِ الشَّہْرَیْنِ‘ لَا یَنْقُصَانِ‘ فَتَکَلَّمَ النَّاسُ فِیْ مَعْنٰی ذٰلِکَ .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَنْقُصَانِ‘ أَیْ لَا یَجْتَمِعُ نُقْصَانُہُمَا فِیْ عَامٍ وَاحِدٍ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَنْقُصَ أَحَدُہُمَا .وَھٰذَا قَوْلٌ قَدْ دَفَعَہُ الْعِیَانُ‘ لِأَنَّا قَدْ وَجَدْنَاہُمَا یَنْقُصَانِ فِیْ أَعْوَامٍ‘ وَقَدْ یُجْمَعُ ذٰلِکَ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا .فَدَفَعَ ذٰلِکَ قَوْمٌ‘ بِھٰذَا وَبِحَدِیْثِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ‘ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ : (صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ، وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَعُدُّوْا ثَلاَثِیْنَ) .وَبِقَوْلِہِ : (إِنَّ الشَّہْرَ قَدْ یَکُوْنُ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ‘ وَقَدْ یَکُوْنُ ثَلاَثِیْنَ) .فَأَخْبَرَ أَنَّ ذٰلِکَ جَائِزٌ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ مِنَ الشُّہُوْرِ .وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا إِنْ شَائَ اللّٰہُ .وَذَہَبَ آخَرُوْنَ إِلَی تَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا‘ وَقَالُوْا : أَمَّا قَوْلُہٗ (صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ‘ وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ) فَإِنَّ الشَّہْرَ قَدْ یَکُوْنُ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ‘ وَقَدْ یَکُوْنُ ثَلاَثِیْنَ‘ فَذٰلِکَ کُلُّہُ کَمَا قَالَ‘ وَہُوَ مَوْجُوْدٌ فِی الشُّہُوْرِ کُلِّہَا .وَأَمَّا قَوْلُہٗ (شَہْرَا عِیْدٍ لَا یَنْقُصَانِ‘ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّۃِ) فَلَیْسَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلٰی نُقْصَانِ الْعَدَدِ‘ وَلٰـکِنَّہُمَا فِیْہِمَا مَا لَیْسَ فِیْ غَیْرِہِمَا مِنَ الشُّہُوْرِ‘ فِیْ أَحَدِہِمَا الصِّیَامُ‘ وَفِی الْآخَرِ الْحَجُّ .فَأَخْبَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمَا لَا یَنْقُصَانِ‘ وَإِنْ کَانَا تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ‘ وَہُمَا شَہْرَانِ کَامِلَانِ‘ کَانَا ثَلاَثِیْنَ ثَلاَثِیْنَ أَوْ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ‘ لِیُعْلَمَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْأَحْکَامَ فِیْہِمَا‘ وَإِنْ کَانَا تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ‘ مُتَکَامِلَۃٌ فِیْہِمَا‘ غَیْرُ نَاقِصَۃٍ عَنْ حُکْمِہَا اِذَا کَانَا ثَلاَثِیْنَ ثَلاَثِیْنَ .فَھٰذَا وَجْہُ تَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٣١٢٠: عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس روایت میں مذکور ہے کہ یہ دو مہینے کم نہیں ہوتے لوگوں نے اس روایت کے معنیٰ میں کافی کلام کیا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر یہ مہینے اکٹھے کم نہیں ہوتے یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک کم ہو ۔ اس قول کو مشاہدے نے مسترد کردیا کیونکہ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ یہ کئی سالوں میں اکٹھے کم ہوتے اور بعض اوقات ان میں سے ہر ایک میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ دوسرے لوگوں نے اس کا جواب اس روایت سے دیا جس کو دوسرے موقع پر ہم نے ذکر کیا ہے۔ کہ آپ نے فرمایا ۔ رمضان المبارک کا روزہ چاند دیکھ کر رکھو اور افطار رمضان بھی چاند دیکھ کر کرو۔ اگر چاند تم پر غائب رہے تو مہینے کی گنتی تیس دن سے پوری کرلو اور آپ کا دوسرا یہ ارشاد کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس روز کا ہوتا ہے۔ تو اس میں آپ نے یہ بات واضح کردی کہ مہینے کا کم ہونا ہر ماہ میں پایا جانا ممکن ہے۔ ہم ان روایات کو اسناد کے ساتھ اپنے موقعہ پر لائیں گے ان شاء اللہ۔ مگر علماء کی دوسری جماعت نے ان روایات کی تصحیح اس طرح کی ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے مہینہ گھٹتا اور بڑھتا ٢٩‘ ٣٠ کا ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب مہینوں کے لیے برابر ہے۔ رہا خصوصی طور پر ان دو مہینوں کے متعلق یہ فرمانا کہ کم نہیں ہوتے اس سے گنتی میں کمی مراد نہیں بلکہ ان مہینوں میں جو اعمال ہو ادا کیے جاتے ہیں ایک میں روزے اور دوسرے میں حج ۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی کہ یہ دونوں کم نہیں ہوتے اگرچہ انتیس کے ہوں بلکہ یہ دونوں مہینے کامل ہیں خواہ تیس تیس کے ہوں یا انتیس انتیس دن کے ہوں ۔ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے احکام انتیس یا تیس ہونے سے ناقص نہیں ہوتے یعنی ان کا ثواب کامل و مکمل رہتا ہے۔ اس باب کے آثار کی تصحیح اسی طرح سے ہوسکتی ہے۔ واللہ اعلم۔
مؤقف اول : کہ دونوں مہنے ایک سال میں ٢٩ کے نہیں ہوتے ایک ٢٩ کا ہوگا تو دوسرا تیس کا ہوگا۔
الجواب نمبر 1: اس قول کو بڑے علماء نے مسترد کردیا کہ بارہا دونوں مہینے ٢٩ کے ہوئے اور کبھی دونوں تیس کے ہوئے تجربہ نے اس معنی کو مسترد کردیا۔
نمبر 2: بعض نے کہا کہ اس حدیث کی وجہ سے یہ مفہوم غلط ثابت ہوتا ہے صوموا لرویتہ و افطر والرویتہ فان غم علیکم فعدوا ثلاثین “ بخاری فی الصوم
باب ١١: مسلم فی الصیام ١٨؍١٩‘ اور آپ کا یہ ارشاد : ان الشہر قد یکون تسحار وعشرین وقد یکون ثلاثین “ کہ مہینہ کبھی ٢٩ اور کبھی تیس کا ہوتا ہے اور یہ ہر مہینے سے متعلق ہے کسی کی تخصیص نہیں فرمائی پس سابقہ مطلب اس کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہوا۔
ایک اور جماعت کا قول یہ ہے کہ یہ تمام آثار درست ہیں آپ کا ارشاد صوموا الرویتہ وافطر والرویتہ ‘ مہینہ کبھی ٢٩ اور کبھی تیس کا ہوتا ہے اور یہ بات مہینوں میں اسی طرح موجود ہے رہا ۔ شہر عید لا ینقصان ‘ اس سے مراد گنتی کی کمی نہیں ہے بلکہ ان میں دو ایسی عبادات پائی جاتی ہیں جو دوسرے مہینوں میں نہیں پائی جاتیں روزے اور حج۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خبر دی کہ یہ دونوں مہینے ثواب کے لحاظ سے کامل ہیں جو گنتی میں ٢٩ کے ہوں یا تیس کے ان کے احکام اسی طرح ثابت ہیں خواہ گنتی میں کم ہوجائیں۔
حاصل کلام : اس آخری توجیہ سے تمام آثار اپنے اپنے مقام پر درست رہتے ہیں واللہ اعلم۔
یہ باب بھی مذاہب کا نام لیے بغیر ذکر کیا ہے اور آخری قول کا انداز اس کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے اور امام موصوف کا میلان بھی اسی کی طرف ہے۔

3122

۳۱۲۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ لَہٗ أَنَّہٗ اِحْتَرَقَ‘ فَسَأَلَہٗ عَنْ أَمْرِہٖ فَقَالَ : وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِیْ فِیْ رَمَضَانَ .فَأُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِکْتَلٍ یُدْعَی الْعَرْقَ‘ فِیْہِ تَمْرٌ‘ فَقَالَ : أَیْنَ الْمُحْتَرِقُ ؟ فَقَامَ الرَّجُلُ .فَقَالَ : تَصَدَّقْ بِھٰذَا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ وَقَعَ بِأَہْلِہٖ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَعَلَیْہِ أَنْ یَتَصَدَّقَ‘ فَلاَ یَجِبُ عَلَیْہِ مِنَ الْکَفَّارَۃِ غَیْرُ الصَّدَقَۃِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : بَلْ یَجِبُ عَلَیْہِ أَنْ یُعْتِقَ رَقَبَۃً‘ أَوْ یَصُوْمَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘ أَوْ یُطْعِمَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘ أَیَّ ذٰلِکَ مَا شَائَ فَعَلَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ .
٣١٢١: عباد بن عبداللہ بن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ کے سامنے اس نے بیان کیا کہ وہ تباہ ہوگیا ہے آپ نے اس کے معاملے کی تفصیل دریافت کی تو اس نے بتلایا میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک عرق نام کا برتن لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا محترق کہاں ہے ؟ وہ کھڑا ہوا تو آپ نے فرمایا لو اس کو صدقہ کر دو ۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے جماع کرے اس پر صدقہ لازم ہے۔ اس صدقہ کے علاوہ اس پر کچھ کفارہ نہیں ۔ انھوں نے اپنی دلیل میں اس اوپر والی روایت سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٢٩‘ مسلم فی الصیام ٨٥‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٣٨۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اپنی بیوی سے رمضان میں جماع کرے اس پر قضاء لازم ہوگئی کفارہ نہ ہوگا صرف صدقہ کرے گا جس کی مقدار بھی متعین نہیں جیسا کہ ایک مکتل کھجور اس کے لیے کافی قرار دی گئی۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
رمضان کا روزہ جس نے جماع سے توڑا اس پر قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں مگر کفارے میں اسے تینوں میں سے جس کا چاہے اختیار ہے ترتیب لازم نہیں ہے۔ دلیل یہ اگلی روایات ہیں۔

کفارہ صوم میں ائمہ ثلاثہ مؤمن غلام کا آزاد کرنا ضروری قرار دیتے ہیں احناف کے ہاں کوئی سا غلام کافی ہے اسی طرح کفارہ میں گندم کی مقدار ائمہ ثلاثہ ربع صاع ٤؍١ بھی کافی قرار دیتے ہیں مگر احناف نصف صاع کی مقدار کو لازم کہتے ہیں اور کھانے پینے سے روزے کو اگر فاسد کردیا تو امام شافعی و احمد صرف قضاء کو واجب کہتے ہیں جبکہ حنفیہ اور مالکیہ قضاء کے ساتھ کفارہ بھی واجب قرار دیتے ہیں اور بھول کر کھانے پینے اور جماع سے امام احمد مظاہر یہ قضاء کے ساتھ کفارہ کو لازمی مانتے ہیں مگر احناف و شوافع کسی چیز کو لازم نہیں مانتے بلکہ روزے کو درست کہتے ہیں اب رہا کہ جماع سے روزے کو توڑنے میں کفارہ اور اس کی ترتیب یہ ہے۔
نمبر 1: امام عبداللہ مصری کے ہاں مفارہ نہیں صرف قضا ضروری ہے۔
نمبر 2: مالکیہ و حنابلہ قضاء و کفارہ دونوں کو لازم کہتے ہیں مگر کفارہ میں ترتیب کو ضروری نہیں کہتے۔
نمبر 3: احناف ‘ شوافع ‘ قضاء و کفارہ اور کفارہ میں ترتیب کو لازم کہتے ہیں یہاں یہی آخری مسئلہ زیر بحث آئے گا۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : جان بوجھ کر جماع سے صرف قضا ضروری ہے کفارہ لازم نہیں مستدل یہ روایت ہے۔

3123

۳۱۲۲ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَجُلًا أَفْطَرَ فِیْ رَمَضَانَ‘ فِیْ زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُکَفِّرَ بِعِتْقِ رَقَبَۃٍ‘ أَوْ صِیَامِ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘ أَوْ إِطْعَامِ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘ فَقَالَ : لَا أَجِدُ فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرْقٍ فِیْہِ تَمْرٌ‘ فَقَالَ : خُذْ ھٰذَا فَتَصَدَّقْ بِہٖ۔ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ إِنِّیْ لَا أَجِدُ أَحَدًا أَحْوَجَ إِلَیْہِ مِنِّیْ‘ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہٗ، ثُمَّ قَالَ : کُلْہٗ) .
٣١٢٢: حمید بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے رمضان کا روزہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں توڑ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایک گردن آزاد کرنے یا مسلسل دو ماہ روزہ رکھنے یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا اس نے کہا میرے پاس ان کی طاقت نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک کھجوروں کا ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے اسے فرمایا یہ لو اور اس کو صدقہ کر دو اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنے سے زیادہ کسی کو محتاج نہیں پاتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں پھر فرمایا تم اسے کھالو۔

3124

۳۱۲۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا‘ أَفْطَرَ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ أَنْ یُعْتِقَ رَقَبَۃً أَوْ صِیَامَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘ أَوْ إِطْعَامَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا .) قَالُوْا : فَإِنَّمَا أَعْطَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا أَعْطَاہُ مِمَّا أَمَرَہُ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِہٖ، بَعْدَ أَنْ أَخْبَرَہٗ بِمَا عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ‘ مِمَّا بَیَّنَہُ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِہِ ھٰذَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ أَیْضًا‘ فَقَالُوْا : بَلْ بِعِتْقِ رَقَبَۃٍ إِنْ کَانَ لَہَا وَاجِدًا‘ أَوْ یَصُوْمُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘ إِنْ کَانَ لِلرَّقَبَۃِ غَیْرَ وَاجِدٍ‘ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ ذٰلِکَ‘ أَطْعَمَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا الْفَصْلِ قَدْ دَخَلَ فِیْہِ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَمَا ذَکَرُوْا .وَأَصْلُ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ فِیْہِ مِنَ التَّبْدِئَۃِ بِالرَّقَبَۃِ إِنْ کَانَ الْمُجَامِعُ‘ لَہَا وَاجِدًا‘ وَالتَّثْنِیَۃِ بِالصِّیَامِ بَعْدَہَا‘ إِنْ کَانَ الْمُجَامِعُ‘ لِلرَّقَبَۃِ غَیْرَ وَاجِدٍ‘ وَالتَّثْلِیْثِ بِالْاِطْعَامِ بَعْدَہُمَا إِنْ کَانَ الْمُجَامِعُ ؛ لَہُمَا غَیْرَ وَاجِدٍ‘ ہٰکَذَا أَصْلُ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَاہُ الزُّہْرِیُّ فِیْ ذٰلِکَ .کَذٰلِکَ رَوَاہٗ عَنْہُ سَائِرُ النَّاسِ غَیْرَ مَالِکٍ وَابْنِ جُرَیْجٍ‘ وَبَیَّنُوْا فِیْہِ الْقِصَّۃَ بِطُوْلِہَا کَیْفَ کَانَتْ‘ وَکَیْفَ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْکَفَّارَۃِ فِیْ ذٰلِکَ .
٣١٢٣: حمید بن عبدالرحمن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو حکم دیا جس نے رمضان کا روزہ توڑ دیا تھا کہ وہ گردن آزاد کرے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ انھوں نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جو کچھ دیا وہ اسے صدقہ کرنے کے لیے دیا یہ اس کے بعد ہے کہ آپ نے اسے بتلایا کہ اس پر کیا لازم ہے۔ وہ وہی ہے جس کو حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس حدیث میں بیان فرمایا۔ مگر علماء کی ایک اور جماعت ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس کو غلام میسر ہو تو اسے آزاد کرے ۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو دو ماہ مساکین کو کھانا کھلائے اور انھوں نے اپنی دلیل میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ روایت پیش کی ہے جس کا فصل اول میں ہم نے تذکرہ کیا ہے اور اس میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت بھی شامل ہے جیسا انھوں نے ذکر کیا ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کی اصل گردن کی آزادی سے ابتداء کرتا ہے جب کہ جماع کرنے والے کو میسر ہو۔ دوسرے نمبر پر روزہ ہے جب کہ جماع کرنے والا غلام نہ رکھتا ہو پھر تیسرا نمبر کھانا کھلانا ہے۔ اگر جماع کرنے والے کے پاس ان دونوں میں سے کوئی نہ ہو ۔ اس روایت کی اصل جیسی اصل زہری والی روایت کی بھی ہے۔ مالک بن جریج جواب کے علاوہ رواۃ نے زہری سے اسی طرح روایت کی ہے۔ انھوں نے طویل قصہ تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفارے کا حکم کس طرح دیا۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ اسے دیا اور اس کے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا وہ اس کو اس کی اطلاع دینے کے بعد کہ اس پر یہ یہ چیزیں لازم ہیں جیسا کہ روایت ابوہریرہ (رض) میں مذکور ہے ان روایات سے ثابت ہوا کہ ان میں سے کسی ایک چیز کا کرنا اس کے ذمہ تھا جس کو چاہے وہ اختیار کرے ان میں ترتیب کی پابندی نہیں۔ اَوْ تخییر کو ظاہر کرتا ہے۔
مؤقف فریق ثالث :
کہ جماع سے روزہ توڑنے والے پر قضاء و کفارہ ضروری ہے اور ہر سہ میں ترتیب ضروری ہے کہ اولاً گردن آزاد کرے اگر میسر آئے اور اگر میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔
مؤقف ثانی اور اول کا جواب :
روایت عائشہ (رض) مجمل ہے اور روایت ابوہریرہ (رض) مفصل ہے پس مجمل کو مفصل پر محمول کیا جائے گا اور اس مفصل روایت کو مالک ‘ ابن جریج نے اپنے استاذ زہری سے نقل کیا مگر دیگر تمام شاگردوں نے زہری سے جو روایت نقل کی ہے اس میں پوری ترتیب کی وضاحت ہے اس لیے اس طویل روایت کو اختیار کریں گے جس کو دیگر ائمہ نے زہری سے نقل کیا ہے ہم وہ تفصیلی روایت نقل کرتے ہیں۔

3125

۳۱۲۴ : حَدَّثَنِیْ فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ہَلَکْتُ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیْلَکَ‘ مَا لَکَ قَالَ .وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِیْ‘ وَأَنَا صَائِمٌ فِیْ رَمَضَانَ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہَلْ تَجِدُ رَقَبَۃً تُعْتِقُہَا ؟ فَقَالَ : لَا .فَقَالَ : فَہَلْ تَسْتَطِیْعُ أَنْ تَصُوْمَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ ؟ قَالَ : لَا وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .قَالَ فَہَلْ تَجِدُ طَعَامَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ؟ قَالَ : لَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَبَیْنَمَا نَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرْقٍ فِیْہِ تَمْرٌ‘ وَالْعَرْقُ : الْمِکْتَلُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْنَ السَّائِلُ آنِفًا ؟ خُذْ ھٰذَا فَتَصَدَّقْ بِہٖ۔ فَقَالَ الرَّجُلُ : أَعَلٰی أَہْلٍ أَفْقَرَ مِنِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہٖ؟ فَوَاللّٰہِ مَا بَیْنَ لَابَتَیْہَا یُرِیْدُ الْحَرَّتَیْنِ أَفْقَرُ مِنْ أَہْلِ بَیْتِی. فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہٗ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْہُ أَہْلَکَ) .قَالَ : فَصَارَتِ الْکَفَّارَۃُ إِلٰی عِتْقِ رَقَبَۃٍ‘ أَوْ صِیَامِ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘ أَوْ إِطْعَامِ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا .
٣١٢٤: عبدالرحمن بن خالد نے ابن شہاب سے انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھے ایک آدمی آ کر کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تباہ ہوگیا آپ نے فرمایا تم پر افسوس ہے تم کیا کہتے ہو اس نے کہا کہ میں نے رمضان کے روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا کیا تم گردن آزاد کرنے کے لیے پاتے ہو اس نے کہا نہیں پھر آپ نے فرمایا کیا تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی طاقت پاتے ہو اس نے کہا نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ آپ نے فرمایا کیا تم ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی طاقت پاتے ہو اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسا نہیں کرسکتا اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے ہم اسی حالت میں تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا آپ نے دریافت فرمایا ابھی سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ یہ کھجور لے کر اس کو صدقہ کر دو ۔
وہ آدمی کہنے لگا کیا میں ان لوگوں پر تقسیم کروں جو مجھ سے زیادہ فقیرومحتاج ہوں ؟ اللہ کی قسم مدینہ کے دونوں سنگلاخوں کے درمیان میرے گھر والوں سے زیادہ محتاج کوئی نہیں۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں پھر آپ نے فرمایا اپنے گھر والوں کو کھلا دو ۔
راوی کہتے ہیں کہ کفارہ گردن آزاد کرنا یا دو ماہ کے مسلسل روزے یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوا۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣١۔

3126

۳۱۲۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْیَمَانِ‘ قَالَ : أَنَا شُعَیْبٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ہُوَ الْحَدِیْثُ عَلٰی وَجْہِہٖ‘ وَإِنَّمَا جَائَ حَدِیْثُ مَالِکٍ‘ وَابْنِ جُرَیْجٍ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَلٰی لَفْظِ قَوْلِ الزُّہْرِیِّ‘ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ : فَصَارَتِ الْکَفَّارَۃُ إِلٰی عِتْقِ رَقَبَۃٍ‘ أَوْ صِیَامِ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘ أَوْ إِطْعَامِ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا .فَالتَّخْیِیْرُ ہُوَ کَلَامُ الزُّہْرِیِّ عَلٰی مَا تَوَہَّمَ‘ مَنْ لَمْ یَحْکِہٖ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٣١٢٥: شعیب نے زہری سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ یہ روایت اپنے اصل انداز سے ہے البتہ اس میں مالک اور ابن جریج کی روایت زہری سے زہری کے الفاظ سے جو اس حدیث میں آتے ہیں آئی ہے۔ پس کفارہ گردن آزاد کرنے یا دو ماہ کے مسلسل روزے یا ساٹھ مساکین پر مشتمل ہے اور جن لوگوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت میں تخییر کا ذکر کیا انھوں نے اپنے وہم کے مطابق اسے زہری کا کلام قرار دیا ہے۔
حاصل کلام : یہ ہے کہ اس روایت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تخییر کے الفاظ جو امام مالک اور ابن جریج رحمہم اللہ کی روایت میں موجود ہیں وہ کلام زہری ہے جیسا کہ کلام زہری اس روایت میں موجود ہے باقی کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو ترتیب ہے تخییر کا لفظ موجود نہیں ہے جیسا کہ زہری سے دیگر جن روات نے نقل کیا تخییر کے بغیر نقل کیا ہے۔
روایات ملاحظہ ہوں :

3127

۳۱۲۶ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہٗ (فَصَارَتْ سُنَّۃً) إِلَی آخِرِ الْحَدِیْثِ .
٣١٢٦: سفیان بن عینیہ نے زہری سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے فقط ” فصارت ستۃً “ کے الفاظ نہیں ہیں۔

3128

۳۱۲۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٢٧: حجاج بن منہال نے سفیان سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3129

۳۱۲۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ‘ یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٢٨: نعمان بن راشد نے زہری سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔

3130

۳۱۲۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حَفْصَۃَ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٢٩: محمد بن ابی حفصہ نے ابن شہاب سے روایت اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح نقل کی ہے۔

3131

۳۱۳۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، وَقَالَ (خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا تَمْرًا) وَلَمْ یَشُکَّ .
٣١٣٠: منصور نے زہری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے صرف انھوں نے بغیر شک کے پندرہ صاع کھجور نقل کی ہیں۔

3132

۳۱۳۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ‘ قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیُّ‘ عَنْ رَجُلٍ جَامَعَ امْرَأَتَہٗ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ. فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرِ الْآصُعَ .فَکَانَ مَا رَوَیْنَا فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ قَدْ دَخَلَ فِیْہِ مَا فِی الْحَدِیْثَیْنِ الْأَوَّلَیْنِ‘ لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ (أَتَجِدُ رَقَبَۃً ؟ قَالَ : لَا‘ قَالَ فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ .قَالَ : مَا أَسْتَطِیْعُ‘ قَالَ فَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ؟) .فَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَہٗ بِکُلِّ صِنْفٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَصْنَافِ الثَّلَاثَۃِ لِمَا لَمْ یَکُنْ وَاجِدًا لِلصِّنْفِ الَّذِیْ ذَکَرَہٗ لَہٗ قَبْلَہٗ۔فَلَمَّا أَخْبَرَہُ الرَّجُلُ أَنَّہٗ غَیْرُ قَادِرٍ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرْقٍ فِیْہِ تَمْرٌ‘ فَکَانَ ذِکْرُ الْعَرْقِ وَمَا کَانَ مِنْ دَفْعِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ إِلَی الرَّجُلِ‘ وَأَمْرِہٖ إِیَّاہُ بِالصَّدَقَۃِ ۔ ہُوَ الَّذِیْ رَوَتْہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ حَدِیْثِہَا الَّذِیْ بَدَأْنَا بِرِوَایَتِہٖ۔ فَحَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا أَوْلٰی مِنْہُ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ کَانَ قَبْلَ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا شَیْء ٌ قَدْ حَفِظَہٗ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَلَمْ تَحْفَظْہُ عَائِشَۃُ‘ فَہُوَ أَوْلٰی‘ لِمَا قَدْ زَادَہٗ.وَأَمَّا حَدِیْثُ مَالِکٍ وَابْنِ جُرَیْجٍ‘ فَہُمَا عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا‘ وَقَدْ بَیَّنَّا الْعِلَّۃَ فِیْ ذٰلِکَ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْکَفَّارَۃِ فِی الْاِفْطَارِ بِالْجِمَاعِ فِی الصِّیَامِ‘ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ مَا فِیْ حَدِیْثِ مَنْصُوْرٍ‘ وَابْنِ عُیَیْنَۃَ‘ وَمَنْ وَافَقَہُمَا‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی
٣١٣١: اوزاعی نے بیان کیا کہ میں نے زہری سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جس نے اپنی بیوی سے رمضان میں جماع کیا تو انھوں نے مجھے اس طرح روایت بیان کی کہ مجھے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی مگر صاع کی مقدار کا تذکرہ نہیں کیا۔ تو جو کچھ ہم نے اس روایت میں ذکر کیا اس میں پہلی دو روایات بھی شامل ہوگئیں ۔ کیونکہ اس میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا کیا تمہارے پاس آزادی کے لیے گردن موجود ہے۔ اس نے جواب دیا نہیں ۔ آپ نے فرمایا دو ماہ کے روزے رکھو اس نے عرض کیا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا ۔ آپ نے فرمایا ساٹھ مساکین کو کھانا دو ‘ ‘ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تینوں اقسام میں سے ہر ایک کا حکم اس صورت میں دیا کہ جب وہ ان سے پہلی کو نہ پائے پس جب اس شخص نے یہ خبر دی کہ وہ ان میں سے کسی کی قدرت نہیں رکھتا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کے بعد کھجوروں کا ٹوکرا آیا ۔ تو ٹوکرے کا تذکرہ اور اس کا آدمی کے حوالے کرنا اور اس کے صدقہ کا حکم تو روایت عائشہ صدیقہ (رض) میں بھی موجود ہے جس کا شروع میں ہم تذکرہ کر آئے۔ پس حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت اس سے اولیٰ ہے کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں جس بات کا تذکرہ ہے وہ وہی روایت ہے جس سے ہم نے ابتداء کی ہے۔ پس روایت ابوہریرہ (رض) اس سے اولیٰ اور بہتر ہے۔ کیونکہ پہلے کی وہ بات جو حدیث عائشہ صدیقہ (رض) میں ہے اس کو ابوہریرہ (رض) نے تو یاد رکھا اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے یاد نہیں رکھا۔ پس روایت ابوہریرہ صدیقہ اولیٰ ہے اس لیے کہ اس میں اضافہ ہے رہی روایت مالک وابن جریج تو ان دونوں زہری ہی سے روایت کی ہے جیسا ہم نے ذکر کردیا اور اس کی وجہ سے اسی باب میں ذکر دی۔ اس سے وہ کفارہ ثابت ہوا جو رمضان المبارک میں جماع کی صورت میں لازم ہوتا جیسا کہ حضرت منصور ‘ اور ابن عیینہ جواب اور ان کے موافق حضرات نے زہری کی وساطت سے حمید سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے یہی امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
نوٹ : جو روایت ہم نے نقل کی ہے اس میں وہ دونوں پہلی احادیث داخل ہیں جو شروع باب میں عائشہ صدیقہ (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے مروی ہیں۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا کیا تمہارے پاس غلام ہے اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو اس نے کہا میں اس کی استطاعت نہیں پاتا آپ نے فرمایا پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ“ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو تین اقسام کا حکم فرمایا اور جب پہلی قسم کا میسر نہ ہونا معلوم ہوا تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری اور پھر تیسری قسم ذکر فرمائی۔ جب اس نے سب سے عجز کا اظہار کیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک ٹوکرا کھجور لائی گئی پھر ٹوکرے اور اس کی کھجوروں کے عنایت فرمانے کا تذکرہ ہے اور اس بات کا تذکرہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص طور پر اسی کو صدقہ کا حکم فرمایا اور حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں بھی اسی کا تذکرہ ہے تو اس روایت میں جس قدر تفصیل ہے وہ روایت عائشہ (رض) میں محفوظ نہیں ہے اور ثقہ راوی کا اضافہ بالاتفاق معتبر ہے اور مالک و ابن جریج والی روایت کی وجہ بھی ہم ذکر کر آئے۔
پس اس سے ثابت ہوگیا کہ رمضان کے روزہ کو جماع سے توڑنے میں کفارہ کی کیفیت وہی ہوگی جو روایت منصور ‘ ابن عینیہ اور ان کے موافق روات سے ذکر کی ہے۔
یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ کا قول ہے یعنی ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ۔

3133

۳۱۳۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَرَأٰی زِحَامًا‘ وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَیْہِ‘ فَسَأَلَ مَا ھٰذَا ؟ .فَقَالُوْا : صَائِمٌ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ أَنْ تَصُوْمُوْا فِی السَّفَرِ) .
٣١٣٢: محمد بن عمرو بن الحسن نے جابر (رض) سے نقل کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں تھے آپ نے لوگوں کا اکٹھ دیکھا کہ ایک آدمی ہے اور اس پر لوگ سایہ کرنے والے ہیں آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انھوں نے بتلایا کہ یہ روزہ دار ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں تمہارا روزہ رکھنا نیکی نہیں۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٦‘ مسلم فی الصیام ٩٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ١٨‘ نسائی فی الصیام باب ٤٦‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١١‘ دارمی فی الصوم باب ١٥‘ مسند احمد ٣؍٥٦٢٩٩؍٤٣٤۔
سفر میں روزہ سے متعلق علماء کی معروف رائے یہ ہیں :
نمبر 1: حضرت حسن بصری (رح) اور اہل ظواہر سفر میں روزے کو ناجائز قرار دیتے ہیں رکھ لیا تو اس کا اعادہ واجب ہے۔
نمبر 2: امام احمد و شعبی و مجاہد رحمہم اللہ کے ہاں روزہ ناجائز تو نہیں مگر افضل روزہ نہ رکھنا ہے اگر رکھ لیا تو اعادہ کی ضرورت نہیں۔
نمبر 3: عبداللہ بن مبارک اور سفیان ‘ لیث رحمہم اللہ روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں کی حیثیت برابر ہے۔
نمبر 4: امام ابوحنیفہ و شافعی ومالک رحمہم اللہ کے ہاں روزے میں مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : سفر میں روزہ جائز نہیں رکھ لیا تو اعادہ لازم ہے حتی قال بعضہم سے یہی لوگ مراد ہیں۔ دلیل یہ ہے۔

3134

۳۱۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٣٣: ابوالولید نے شعبہ سے روایت اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔

3135

۳۱۳۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنَ الْبَغْدَادِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : (مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ فِیْ سَفَرٍ‘ فِیْ ظِلِّ شَجَرَۃٍ یُرَشُّ عَلَیْہِ الْمَائُ فَقَالَ مَا بَالُ ھٰذَا ؟ .قَالُوْا : صَائِمٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ قَالَ لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ‘ فَعَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّتِیْ رَخَّصَ لَکُمْ فَاقْبَلُوْہَا) .
٣١٣٤: محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک درخت کے سایہ کے نیچے سے ہوا جس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا یہ کس مقصد کے لیے ہے ؟ انھوں نے بتلایا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ روزہ دار ہے آپ نے فرمایا سفر میں روزہ نیکی نہیں تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رخصت کو جو اس نے عنایت کی ہے قبول کرو۔

3136

۳۱۳۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفّٰی‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْأَبْرَشُ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ) .
٣١٣٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔

3137

۳۱۳۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ‘ أَنَّ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ صَفْوَانَ أَخْبَرَہٗ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ‘ عَنْ کَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ الْأَشْعَرِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ أَنْ تَصُوْمُوْا فِی السَّفَرِ) .
٣١٣٦: صفوان نے ام الدرداء سے انھوں نے کعب بن عاصم اشعری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔

3138

۳۱۳۷ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حَفْصَۃَ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ‘ عَنْ کَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ) .
٣١٣٧: صفوان بن عبداللہ نے ام الدرداء (رض) سے انھوں نے کعب بن عاصم (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔

3139

۳۱۳۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ السَّقَطِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ الزُّہْرِیَّ یَقُوْلُ (أَخْبَرَنِیْ صَفْوَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ) .قَالَ سُفْیَانُ : فَذُکِرَ لِیْ أَنَّ الزُّہْرِیَّ کَانَ یَقُوْلُ‘ وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَا مِنْہُ (لَیْسَ مِنْ البر الصیام فِی السفر) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی الْاِفْطَارِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ‘ زَعَمُوْا أَنَّہٗ أَفْضَلُ مِنَ الصِّیَامِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ‘ حَتّٰی قَالَ بَعْضُہُمْ : إِنَّ مَنْ صَامَ فِی السَّفَرِ لَمْ یُجْزِہٖ الصَّوْمَ‘ وَعَلَیْہِ قَضَاؤُہٗ فِیْ أَہْلِہٖ، وَرَوَوْہُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٣١٣٨: سفیان کہتے ہیں کہ میں نے زہری کو کہتے سنا کہ وہ فرماتے تھے مجھے صفوان بن عبداللہ نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ بعض علماء اس بات کو اختیار کرنے والے ہیں کہ رمضان المبارک میں جو شخص سفر کرے اسے افطار کرنا روزے کی بنسبت افضل ہے ‘ انھوں نے ان آثار بالا کو اپنی دلیل میں پیش کیا ۔ جب کہ دوسروں نے کہا جس نے سفر رمضان میں اختیار کیا اور روزہ رکھا اس کا روزہ درست نہ ہوگا۔ اور وہ گھر جا کر اس کی قضاء کرے اسے حضرت عمر (رض) کا اثر قرار دیا ہے ۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤٣٤۔
سفیان کہتے ہیں کہ مجھے بتلایا گیا کہ زہری کہا کرتے تھے میں نے خود نہیں سنا لیس من ید ۔۔۔ یہ بلا الف لام لائے یا الف اور میم لے آئے ہیں یہ دونوں طرح درست ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ درست نہیں اور اگر کسی نے رکھ لیا تو اس پر قضا لازم ہوگی کیونکہ روزہ پایا ہی نہ گیا۔
حضرت عمر (رض) کے یہ ارشاد اس مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔

3140

۳۱۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَاصِمٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَمَرَ رَجُلًا صَامَ فِی السَّفَرِ أَنْ یُعِیْدَ وَرَوَوْہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا
٣١٣٩: عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے اس آدمی کو جس نے سفر میں روزہ رکھا تھا روزہ لوٹانے کا حکم فرمایا اور اس باب کو ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت کیا ہے۔

3141

۳۱۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ مَالِکُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ النَّہْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیُّ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : صُمْتُ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ‘ فَأَمَرَنِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ أُعِیْدَ الصِّیَامَ فِیْ أَہْلِی .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : إِنْ شَائَ صَامَ‘ وَإِنْ شَائَ أَفْطَرَ‘ وَلَمْ یُفَضِّلُوْا فِیْ ذٰلِکَ فِطْرًا عَلٰی صَوْمٍ‘ وَلَا صَوْمًا عَلٰی فِطْرٍ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ‘ فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ) أَنَّہٗ قَدْ یَحْتَمِلُ غَیْرَ مَا حَمَلُوْہُ عَلَیْہِ .یَحْتَمِلُ (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الَّذِیْ ھُوَ أَبَرُّ الْبِرِّ‘ وَأَعْلَیْ مَرَاتِبِ الْبِرِّ‘ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ‘ وَإِنْ کَانَ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ بِرًّا إِلَّا أَنَّ غَیْرَہُ مِنَ الْبِرِّ‘ أَبَرُّ مِنْہٗ) .کَمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ بِالطَّوَّافِ الَّذِیْ تَرُدُّہُ التَّمْرَۃُ وَالتَّمْرَتَانِ‘ وَاللُّقْمَۃُ وَاللُّقْمَتَانِ .قَالُوْا : فَمَنِ الْمِسْکِیْنُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہٖ؟ قَالَ الَّذِیْ یَسْتَحْیِیْ أَنْ یَسْأَلَ‘ وَلَا یَجِدُ مَا یُغْنِیْہِ‘ وَلَا یُفْطَنُ لَہٗ فَیُعْطٰی).
٣١٤٠: عطاء نے محرر بن ابی ہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے سفر میں رمضان کا روزہ رکھا تو مجھے ابوہریرہ (رض) نے گھر پہنچنے پر روزہ لوٹانے کا حکم دیا۔ اور علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مرضی پر موقوف ہے خواہ روزہ رکھے یا افطار کرے انھوں افطار کو روزہ پر فضیلت نہیں دی اور نہ روزے کو افطار پر ۔ پہلے قول والوں کے خلاف ان کی وہ دلیل ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد میں ہے۔ لیس من البر الصیام من السفر۔ کہ اس میں ایک احتمال تو یہ ہے جو پہلے قول والوں نے لیا ہے اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کوئی اعلیٰ درجے کی نیکی نہیں اور اعلیٰ مراتب والی نیکی نہیں کہ آدمی سفر میں روزہ رکھے اگرچہ روزہ رکھنا سفر میں مطلقًا نیکی ہے۔ مگر دوسری نیکیاں اس سے بڑھ کر ہیں اور اس کی نظیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لیس المسکین با لطواف الذی تردہ التمرۃ و التمرتان واللقمۃ واللقمتان ۔ کہ کامل مسکین وہ نہیں جو لوگوں پر گھومتا پھرے اور اس کو ایک کھجور اور دو کھجور اور ایک لقمہ اور دو لقمے دے کر لوٹا دیا جائے۔ صحابہ نے عرض کیا پھر یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکین کون ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا جس کو سوال سے حیا آتی ہے مگر اس کے پاس اتنا مال نہیں جو اس کو دوسروں سے بےنیاز کردے اور لوگ اس کو مسکین بھی نہیں جانتے کہ اس کو دیں یعنی اس میں کامل مسکین کی نفی کی گئی ہے۔
ان روایات و فتاویٰ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھ لینے سے روزے کا دوبارہ رکھنا ضروری ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
اور دلیل سفر میں روزہ رکھنا درست ہے روزہ رکھنا نہ رکھنا برابر ہے۔
دلیل : سطور بالا میں مذکور تمام روایات ان کی مستدل ہیں لیس من البرالصیام فی السفر اس روایت میں اور احتمال بھی ہے البر سے کمال بر کی نفی مراد ہو تو روزہ کے کمال کی سفر میں نفی کی ہے۔ اس بات کی نفی نہیں کہ مطلقاً رکھنے والے کا روزہ ہی نہ ہوگا اور دوبارہ قضا کرنا پڑے گا گویا اس میں اس کا روزہ رکھنا اور نہ رکھنا برابر قرار دیا گیا اور اس کی نظیر یہ روایت ہے لیس المسکین بالطواف الذی تردہ التمرۃ والتمرتان واللقمہ واللقمتان کہ وہ شخص مسکین نہیں جو لوگوں کے ہاں جائے اور ایک دو لقمے یا کھجوریں اس کو واپس کردیں یعنی ہر ایک سے مانگتا پھرے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ پھر مسکین کون ہے تو فرمایا جو لوگوں سے سوال کرنے میں حیاء کرے اور اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کو مستغنی کر دے اور نہ اس کو غریب سمجھا جاتا ہو کہ اسے کوئی دے دے اس روایت کو (بخاری فی الزکوۃ باب ٥٥‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٠١‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤) نے نقل کیا ہے۔
اس مفہوم کی تائید اگلی روایات کرتی ہیں

3142

۳۱۴۱ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ الْہَجَرِیِّ‘ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٣١٤١: ابوالاحوص نے عبداللہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔

3143

۳۱۴۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْہَجَرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٤٢: سفیان نے ابراہیم ہجری سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے ذکر کیا ہے۔

3144

۳۱۴۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ أَبِی الْوَلِیْدِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ نَحْوَہٗ۔
٣١٤٣: ابوالولید نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3145

۳۱۴۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَیَّاشٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْن الْفَضْلِ‘ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣١٤٤: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3146

۳۱۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ‘ عَنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .فَلَمْ یَکُنْ مَعْنٰی قَوْلہ (لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ بِالطَّوَافِ) عَلٰی مَعْنَی إخْرَاجِہِ إِیَّاہُ مِنْ أَسْبَابِ الْمَسْکَنَۃِ کُلِّہَا‘ وَلٰکِنَّہٗ أَرَادَ بِذٰلِکَ (لَیْسَ الْمِسْکِیْنَ الْمُتَکَامِلُ الْمَسْکَنَۃَ‘ وَلٰـکِنَّ الْمِسْکِیْنَ الْمُتَکَامِلَ الْمَسْکَنَۃِ‘ الَّذِیْ لَا یَسْأَلُ النَّاسَ‘ وَلَا یُعْرَفُ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْہِ) .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ) لَیْسَ ذٰلِکَ عَلَی إخْرَاجِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ بِرًّا‘ وَلٰکِنَّہٗ عَلٰی مَعْنَی (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الَّذِیْ ھُوَ أَبَرُّ الْبِرِّ‘ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ) ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَکُوْنُ الْاِفْطَارُ ہُنَاکَ أَبَرَّ مِنْہُ اِذَا کَانَ عَلَی التَّقَوِّی لِلِقَائِ الْعَدُوِّ‘ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .فَھٰذَا مَعْنًی صَحِیْحٌ‘ وَہُوَ أُوْلَیْ مَا حُمِلَ عَلَیْہِ مَعْنَی ھٰذِہِ الْآثَارِ حَتّٰی لَا تَتَضَادَّ ہِیَ وَغَیْرُہَا‘ مِمَّا قَدْ رُوِیَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ أَیْضًا .
٣١٤٥: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد لیس المسکین بالطواف کا معنیٰ یہ نہیں کہ اس میں مسکینی کا کوئی سبب نہیں پایا جاتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ کامل مسکنت والا مسکین نہیں کامل مسکنت والا مسکین وہ ہے جو نہ تو لوگوں سے سوال کرتا ہے اور نہ اس کو لوگ مسکین سمجھتے ہیں کہ اس کو صدقہ دیں پس اسی طرح روایت لیس من البر الصیام فی السفر ( الحدیث) اس میں روزے کو مطلقًا نیکی سے نہیں نکالا گیا بلکہ اس کو اعلیٰ درجے کی نیکی سے نکالا گیا ہے کیونکہ بسا اوقات افطار کرنا اس سے زیادہ نیکی ہے مثلاً جب کہ دشمن سے سامنے کا خطرہ ہو وغیرہ ۔ یہی مطلب درست ہے اور اس معنیٰ سے یہ زیادہ بہتر ہے جس پر قول اول والوں نے محمول کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے تاکہ اس باب کی منقولہ روایات میں تضاد نہ رہے ۔ چنانچہ ان روایات کو ملاحظہ فرمائیں۔
یہی ہے کہ مسکنت کی نفی سے تمام اسباب مسکنت کی نفی مراد نہیں بلکہ اس سے کامل المسکنت شخص مراد ہے بالکل اسی طرح لیس من البر والی روایت میں روزے کو مطلق نیکی کے کام سے نکالنا مقصود نہیں بلکہ کامل بر کی نفی ہے کہ سفر میں روزہ کامل نیکی نہیں کیونکہ سفر کے بعض مواقع ایسے ہیں جہاں افطار اس سے زیادہ بڑی نیکی بن جاتی ہے مثلاً جب دشمن کا سامنا مقصود ہو۔
یہ معنی درست ہے اور اس معنی سے اولیٰ ہے جس پر فریق اوّل سے محمول کیا ہے اور اس کا مقصد روایات سے تضاد کا دور کرنا ہے۔

3147

۳۱۴۶ : فَإِنَّہٗ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلٰی مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَصَامَ حَتّٰی بَلَغَ الْکَدِیْدَ‘ ثُمَّ أَفْطَرَ‘ فَأَفْطَرَ النَّاسُ مَعَہٗ، وَکَانُوْا یَأْخُذُوْنَ بِالْأَحْدَثِ فَالْأَحْدَثِ مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .)
٣١٤٦: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے انھوں نے روزے رکھے یہاں تک کہ آپ مقام کدید میں پہنچے پھر آپ نے افطار کردیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کردیا صحابہ کرام آپ کے حکم میں سے جو نیا ہوتا اس کو اختیار کرنے والے تھے (کیونکہ وہ سابقہ کا ناسخ ہوتا)
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٤‘ مسلم فی الصیام ٨٨‘ ابو داؤد باب ٤٣۔

3148

۳۱۴۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ وَابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَا : أَنَا ابْنُ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٤٧: مالک و ابن جریج دونوں نے کہا کہ ہمیں ابن شہاب نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3149

۳۱۴۸ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (حَتّٰی أَتٰی عُسْفَانَ).
٣١٤٨: منصور نے مجاہد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے صرف یہاں کدید کی بجائے عسفان کا تذکرہ ہے۔

3150

۳۱۴۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٤٩: ابو داؤد نے شعبہ سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے۔

3151

۳۱۵۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ.
٣١٥٠: منصور نے مجاہد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3152

۳۱۵۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ‘ حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَصَامَ حَتّٰی بَلَغَ الْکَدِیْدَ‘ فَبَلَغَہٗ أَنَّ النَّاسَ شَقَّ عَلَیْہِمْ الصِّیَامُ .فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ‘ فَأَمْسَکَہُ فِیْ یَدِہٖ‘ حَتّٰی رَآہٗ النَّاسُ وَہُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ حَوْلَہٗ، ثُمَّ شَرِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَأَفْطَرَ‘ فَنَاوَلَہٗ رَجُلًا إِلٰی جَنْبِہِ فَشَرِبَ .فَصَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ وَأَفْطَرَ .)
٣١٥١: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور کدید تک پہنچنے تک روزے رکھتے رہے آپ کو اطلاع ملی کہ لوگوں پر روزہ گراں ہوگیا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ کا پیالہ منگوایا اور اس کو اپنے ہاتھ میں تھاما۔ یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھ لیا آپ آپنی اونٹنی پر سوار تھے پھر اس کو پیا اور روزہ افطار کردیا پھر اس پیالے کو آپ کے ایک جانب شخص نے لے کر پی لیا۔

3153

۳۱۵۲ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَافَرَ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَاشْتَدَّ الصَّوْمُ عَلٰی رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِہٖ، فَجَعَلَتْ رَاحِلَتُہٗ تَہِیْمُ بِہٖ تَحْتَ الشَّجَرِ .فَأُخْبِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَمْرِہٖ‘ فَدَعَا بِإِنَائٍ ‘ فَلَمَّا رَآہٗ النَّاسُ عَلٰی یَدِہٖ‘ أَفْطَرُوْا) .
٣١٥٢: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں سفر کیا آپ کے صحابہ میں سے ایک پر روزہ گراں ہوا اس کی اونٹنی اس کو لے کر درخت کے نیچے گھومنے لگی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی آپ نے ایک برتن منگوایا جب لوگوں نے آپ کے دست اقدس میں برتن دیکھا تو انھوں نے بھی افطار کردیا۔

3154

۳۱۵۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْہَادِ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَصَامَ حَتّٰی بَلَغَ کُرَاعَ الْغَمِیمِ‘ فَصَامَ النَّاسُ مَعَہٗ۔ فَبَلَغَہٗ أَنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَیْہِمُ الصِّیَامُ‘ یَنْظُرُوْنَ فِیْمَا فَعَلَ‘ فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَائٍ بَعْدَ الْعَصْرِ‘ فَشَرِبَ وَالنَّاسُ یَنْظُرُوْنَ .فَبَلَغَہٗ أَنَّ نَاسًا صَامُوْا بَعْدُ‘ فَقَالَ أُوْلٰٓئِکَ الْعُصَاۃُ) .
٣١٥٣: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح والے سال رمضان میں روانہ ہوئے آپ کراع غمیم کے مقام تک روزے سے رہے اور لوگ بھی روزہ رکھتے رہے آپ کو اطلاع ملی کہ روزہ لوگوں پر گراں ہوگیا ہے۔ وہ آپ کے فعل کے منتظر ہیں آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اس وقت عصر کے بعد کا وقت تھا۔ آپ نے لوگوں کو دیکھتے ہوئے نوش فرما لیا۔ پھر آپ کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگوں نے اس کے بعد بھی روزے رکھے ہیں تو آپ نے فرمایا : اولئک العصاۃ وہ نافرمان ہیں۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ٩٠۔

3155

۳۱۵۴ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنْ (قَزْعَۃَ‘ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَعِیْدٍ عَنْ صِیَامِ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ .فَقَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ عَامَ الْفَتْحِ‘ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُوْمُ وَنَصُوْمُ‘ حَتّٰی بَلَغَ مَنْزِلًا مِنَ الْمَنَازِلِ فَقَالَ إِنَّکُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ‘ وَالْفِطْرُ أَقْوٰی لَکُمْ. فَأَصْبَحْنَا‘ مِنَّا الصَّائِمُ‘ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ‘ ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا‘ فَقَالَ إِنَّکُمْ تُصَبِّحُوْنَ عَدُوَّکُمْ‘ وَالْفِطْرُ أَقْوٰی لَکُمْ‘ فَأَفْطِرُوْا فَکَانَتْ عَزِیْمَۃً مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ لَقَدْ رَأَیْتُنِیْ أَصُوْمُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذٰلِکَ وَبَعْدَ ذٰلِکَ) .
٣١٥٤: قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید (رض) سے رمضان کے روزہ سے متعلق دریافت کیا کہ وہ سفر میں درست ہے یا نہیں تو وہ کہنے لگے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فتح والے سال رمضان المبارک میں ہی مکہ کی طرف نکلے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی روزہ رکھتے رہے اور ہم بھی یہاں تک کہ ایک منزل پر پہنچے تو آپ نے فرمایا اب تم اپنے دشمن سے بالکل قریب پہنچ گئے ہو اس وقت افطار تمہارے لیے زیادہ قوت کا باعث ہے ہم نے اس حال میں صبح کی کہ بعض ہم میں سے روزہ رکھنے والے اور بعض افطار کرنے والے تھے پھر ہم چلتے رہے اور ایک پڑاؤ پر آپ نے فرمایا صبح تمہارا دشمن سے سامنا ہوگا اس لیے افطار زیادہ قوت کا باعث ہے پس تم افطار کر دو یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حتمی بات تھی۔
پھر اس کے بعد میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے کو روزہ رکھتے اور افطار کرتے دونوں حالتوں میں پایا۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٠٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٤٣۔

3156

۳۱۵۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ أَنَّ بَکْرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہٗ قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِیْ سَفَرٍ وَمَعَہٗ أَصْحَابُہٗ، فَشَقَّ عَلَیْہِمُ الصَّوْمُ‘ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِنَائٍ ‘ فَشَرِبَ وَہُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ‘ وَالنَّاسُ یَنْظُرُوْنَ إِلَیْہِ) .
٣١٥٥: بکر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے انس (رض) سے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں تھے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے ان پر روزہ گراں گزرا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک برتن منگوایا اور اس حال میں پانی پیا کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوگ اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔

3157

۳۱۵۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ سُمَیٍّ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ (عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ فِی الْحَرِّ وَہُوَ یَصُبُّ عَلٰی رَأْسِہِ الْمَائَ ‘ وَہُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ‘ أَوْ مِنَ الْحَرِّ .ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَلَغَ الْکَدِیْدَ أَفْطَرَ)
٣١٥٦: ابوبکر بن عبدالرحمن نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام عرج میں دیکھا گرمی کا موسم تھا اور آپ اپنے سر مبارک پر پانی ڈال رہے تھے پیاس یا گرمی کی شدت سے آپ پانی ڈال رہے تھے پھر جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام کدید میں پہنچے تو آپ نے روزہ افطار کردیا۔

3158

۳۱۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ‘ قَالَ : ثَنَا عَطِیَّۃُ بْنُ قَیْسٍ‘ عَنْ قَزْعَۃَ بْنِ یَحْیٰی‘ عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلَیْلَتَیْنِ مَضَتَامِنْ رَمَضَانَ‘ فَخَرَجْنَا صُوَّامًا حَتّٰی بَلَغَ الْکَدِیْدَ‘ فَأَمَرَنَا بِالْاِفْطَارِ‘ فَأَصْبَحْنَا‘ وَمِنَّا الصَّائِمُ‘ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ .فَلَمَّا بَلَغْنَا مَرَّ الظُّہْرَانِ‘ أَعْلَمَنَا بِلِقَائِ الْعَدُوِّ‘ وَأَمَرَنَا بِالْاِفْطَارِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ إِثْبَاتُ جَوَازِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ‘ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ تَرْکُہُ إِیَّاہُ اِبْقَائً عَلٰی أَصْحَابِہٖ۔ أَفَیَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَقُوْلَ فِیْ ذٰلِکَ الصَّوْمِ : إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ بِرًّا ؟ لَا یَجُوْزُ ھٰذَا وَلٰـکِنَّہٗ بِرٌّ .وَقَدْ یَکُوْنُ الْاِفْطَارُ أَبَرَّ مِنْہُ اِذَا کَانَ یُرَادُ بِہِ الْقُوَّۃُ لِلِقَائِ الْعَدُوِّ‘ الَّذِیْ أَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ بِالْفِطْرِ مِنْ أَجْلِہٖ. وَلِھٰذَا الْمَعْنٰی قَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ) عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی الَّذِیْ ذَکَرْنَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ فِطْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَأَمْرَہُ أَصْحَابِہٖ بِذٰلِکَ بَعْدَ صَوْمِہٖ وَصَوْمِہِمْ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ یَنْہَاہُمْ عَنْہُ .نَاسِخٌ لِحُکْمِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ أَصْلًا .قِیْلَ لَہٗ : وَمَا دَلِیْلُکَ عَلٰی مَا ذَکَرْتَ ؟ وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا أَنَّہٗ کَانَ یَصُوْمُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِی السَّفَرِ بَعْدَ ذٰلِکَ ؟ فَدَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی أَنَّ الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ بَعْدَ إِفْطَارِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَذْکُوْرِ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ مُبَاحٌ .وَقَدْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ إِفْطَارِ النَّبِیِّ مَا ذَکَرْنَا۔
٣١٥٧: قزعہ بن یحییٰ نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جب (مکہ کی طرف) نکلے تو تیسری تاریخ رمضان المبارک کی تھی ہم روزہ کے ساتھ سفر کرتے رہے یہاں تک کہ مقام کدید میں پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں افطار کا حکم فرمایا اگلی صبح ہم میں بعض روزہ دار تھے اور بعض افطار کرنے والے تھے جب ہم مرالظہران میں پہنچ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمن کا سامنا کرنے کی اطلاع دی اور ہمیں افطار کا حکم دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں روزہ جائز ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صحابہ کی دشواری کے پیش نظر چھوڑا۔ تو آپ ہی بتلایئے کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ یہ روزہ نیکی نہیں ہے یہ کہنا بالکل جائز نہیں روزہ نیکی ہے۔ لیکن افطار اس سے بڑی نیکی ہے جب کہ اس افطار سے مقصود دشمن سے مقابلہ کے لیے اپنے کو تیار کرنا ہو۔ چنانچہ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ارشاد فرمایا۔ لیس من البر الصیامر فی السفر۔ اس ارشاد کا یہی مفہوم ہے پھر اگر کوئی معترض یہ کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ رکھنے کے بعد افطار کرنا اور صحابہ کو اس کا حکم کرنا وہ روزہ کہ جس سے آپ نے پہلے ان کو منع نہیں کیا تھا تو قطعی طور پر سفر میں روزہ کے حکم کو منسوخ کرنے والا ہے۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ آپ کے پاس اپنی بات کی کیا دلیل ہے حالانکہ حضرت ابو سعید خدری والی روایت جس کو ہم پہلی فصل میں ذکر آئے اس میں یہ بات موجود ہے کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں اس کے بعد بھی روزے رکھتے رہے ۔ تو اس روایت سے یہ دلالت مل گئی ۔ کہ سفر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزہ افطار کرنے کے بعد بھی روزہ مباح تھا اور ابن عباس (رض) جو اس افطار والی روایت کے روات میں سے ایک ہیں وہ بھی یہی بات فرماتے ہیں۔ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : نمبر ٣١٥٥ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
روایت میں نیکی سے کمال بر مراد لیا جائے گا اور کبھی افطار کرنا اس سے زیادہ نیکی بن جاتی ہے جبکہ دشمن سے مقابلہ ہو جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کا حکم فرمایا اس موقعہ کے باوجود جنہوں نے روزہ رکھا تھا ان کو فرمایا لیس من البر الحدیث اور دوسرے ارشاد میں ان کو عصاۃ فرمایا موقعہ و محل کے اعتبار سے یہ روایت اپنے محل میں واضح ہے۔
ایک ضمنی اشکال :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود افطار کرنا اور صحابہ کرام کو افطار کا حکم دینا واضح کرتا ہے کہ سفر کے روزے کو یہ چیز مطلقاً منسوخ کرنے والی ہے۔
ازالہ :
تم اپنی بات کی دلیل پیش کرو حالانکہ حدیث ابو سعید (رض) میں اس کے خلاف موجود ہے کہ آپ اس کے بعد سفر میں روزہ رکھ بھی لیتے اور افطار بھی کرلیتے تھے اس روایت سے ثابت ہوا کہ یہ ناسخ نہیں بلکہ آپ کا عمل اس کا موضح ہے کہ باہمت کو روزہ رکھنا چاہیے اگر چھوڑے تب بھی مباح ہے اور یہ بات ابن عباس (رض) جو اس روایت کے راوی ہیں انھوں نے بھی کہی ہے۔
روایت ابن عباس (رض) ملاحظہ ہو۔
ان روایات سے یہ روزروشن کی طرح واضح ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور صحابہ کرام کی خاطر اس کو افطار فرما دیا پس یہ کہنا درست نہیں کہ سفر میں روزہ نیکی ہی نہیں

3159

۳۱۵۸ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ ابْنِ مَالِکٍ‘ عَنْ طَاوٗسٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (إِنَّمَا أَرَادَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْفِطْرِ فِی السَّفَرِ التَّیْسِیْرَ عَلَیْکُمْ‘ فَمَنْ یَسُرَ عَلَیْہِ الصِّیَامُ فَلْیَصُمْ‘ وَمَنْ یَسُرَ عَلَیْہِ الْفِطْرُ فَلْیُفْطِرْ) .
٣١٥٨: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سفر میں افطار کا حکم دے کر تم پر آسانی فرمائی ہے۔ پس جس کو ہمت ہو وہ روزہ رکھے اور جس کو افطار میں آسانی ہو وہ افطار کرے۔

3160

۳۱۵۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ (إِنْ شَائَ صَامَ‘ وَإِنْ شَائَ أَفْطَرَ) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ یَجْعَلْ إِفْطَارَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ بَعْدَ صِیَامِہٖ فِیْہِ‘ نَاسِخًا لِلصَّوْمِ فِی السَّفَرِ‘ وَلٰکِنَّہٗ جَعَلَہٗ عَلٰی جِہَۃِ التَّیْسِیْرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنٰی قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الَّذِیْ ذَکَرْتَہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ (وَکَانُوْا یَأْخُذُوْنَ بِالْأَحْدَثِ فَالْأَحْدَثِ مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ؟ .قِیْلَ لَہٗ : مَعْنٰی ذٰلِکَ - عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا عَلِمُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ أَنَّ لِلْمُسَافِرِ أَنْ یُفْطِرَ فِی السَّفَرِ‘ کَمَا لَیْسَ لَہٗ أَنْ یُفْطِرَ فِی الْحَضَرِ .وَکَانَ حُکْمُ الْحَضَرِ وَحُکْمُ السَّفَرِ فِیْ ذٰلِکَ - عِنْدَہُمْ - سَوَائً حَتّٰی أَحْدَثَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ الْفِعْلَ الَّذِیْ أَبَاحَہُ لَہُمَ الْاِفْطَارَ فِیْ أَسْفَارِہِمْ‘ فَأَخَذُوْا ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ لَہُمَ الْاِفْطَارَ عَلَی الْاِبَاحَۃِ‘ وَلَہُمْ تَرْکُ الْاِفْطَارِ .فَھٰذَا مَعْنَیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ھٰذَا‘ وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ مِنْ قَوْلِہِ الَّذِی وَصَفْنَا‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ قَرِیْبًا‘ مِمَّا ذَکَرْنَاہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسٍ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَہٗ‘ مِثْلُ مَعْنَاہُ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣١٥٩: منصور نے مجاہد سے انھوں نے ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ اگر چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو افطار کرے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر میں روزہ رکھنے کے بعد افطار کرلینے کو آئندہ سفر میں روزے کو ناسخ نہیں بنایا بلکہ اس کو سہولت کا حکم قرارد یا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ابن عباس کی روایت جو عبداللہ بن عبداللہ نے ان سے نقل کی ہے اس کے یہ الفاظ : کا نوایا خذون بالا حدث فالاحدث من امررسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ کہ صحابہ کرام جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نئے سے نئے حکم کو اختیار کرنے والے تھے۔ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا۔ واللہ اعلم کہ صحابہ کرام کو اس سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ مسافر سفر میں افطار کرسکتا ہے جیسا کہ اس کو اقامت کی حالت میں روزہ کے ترک کی اجازت نہیں ہے اور حضر اور سفر کا حکم ان کے ہاں یکساں تھا ۔ یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ نیا فعل کیا جس نے ان کے لیے سفر کے لیے افطار کو مباح کردیا پس ان نے اس حکم کو اس طور پر اختیار کیا کہ ان کے لیے افطار بھی مباح ہے اور ترک افطار بھی۔ حضرت ابن عباس کی روایت کا یہی معنیٰ ہے اور اس پر دوسری دلالت وہ ہے جس کو ہم نے پہلے بیان کردیا ہے اور ہم نے اس کے قریب قریب روایت حضرت انس بن مالک (رض) کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے ہیں جس کو ہم نے اور اسی کے قریب حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے پھر حضرت انس (رض) سے بھی اس مفہوم کی روایت آئی ہے جس کو ہم ابن عباس (رض) سے پہلے ذکر کر آئے ہیں۔
نوٹ : : ابن عباس (رض) نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افطار کو ناسخ قرار نہیں دیا بلکہ اس کو امت کی سہولت والی جانب قرار دیا ہے۔
اشکال :
ابن عباس (رض) کی اس روایت کا کیا معنی ہے کا نوایأخذون بالاحدث فالاحدث من امر رسول اللہ ا ؟ اس سے تو نسخ کا ثبوت مل رہا ہے۔
ازالہ :
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے صحابہ کرام کو معلوم نہ تھا کہ مسافر کو حالت سفر میں افطار کی اجازت ہے جیسا کہ صحت کے ساتھ گھر میں موجود ہوتے ہوئے وہ افطار نہیں کرسکتا۔ حکم سفر و سفر اولاً برابر تھا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کو سفر میں مباح قرار دیا پس صحابہ کرام نے اسی کو اختیار کیا کہ سفر میں روزے رکھنا اور افطار کرنا مباح قرار دیا۔
ابن عباس (رض) کے اس قول کا یہی مطلب ہے اور اس پر خود ان کا وہ قول بھی دلالت کررہا ہے اور انس (رض) کی وہ روایت اور ابن عباس (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کردہ روایت بھی دلالت کر رہی ہے۔ پھر انس (رض) نے خود یہی معنی اس قول کا بیان فرمایا ہے۔ روایت آگے ملاحظہ ہو۔

3161

۳۱۶۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ وَہُوَ الْأَحْوَلُ‘ قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ‘ عَنْ صَوْمِ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ فِی السَّفَرِ فَقَالَ (الصَّوْمُ أَفْضَلُ) .
٣١٦٠: عاصم احول کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے سوال کیا کہ رمضان میں سفر کی حالت میں روزے کا کیا حکم ہے تو انھوں نے فرمایا روزہ افضل ہے۔

3162

۳۱۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ (إِنْ أَفْطَرْتَ فَرُخْصَۃٌ‘ وَإِنْ صُمْتُ فَالصَّوْمُ أَفْضَلُ) .
٣١٦١: حسن بن صالح نے عاصم سے انھوں نے انس (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا اگر تم افطار کرو تو تیرے لیے رخصت ہے اور اگر وزہ رکھو تو روزہ افضل ہے۔

3163

۳۱۶۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَاصِمًا یُحَدِّثُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ (إِنْ شِئْتَ فَصُمْ‘ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ‘ وَالصَّوْمُ أَفْضَلُ) .وَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَیْضًا أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ دَفْعِہِمُ الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ‘ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ‘ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصِّیَامَ .) قَالُوْا : فَلَمَّا کَانَ الصِّیَامُ مَوْضُوْعًا عَنْہُ‘ کَانَ اِذَا صَامَہٗ، فَقَدْ صَامَہٗ، وَہُوَ غَیْرُ مَفْرُوْضٍ عَلَیْہٖ‘ فَلاَ یُجْزِیْہِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ الصِّیَامُ الَّذِی وَضَعَہُ عَنْہُ‘ ہُوَ الصِّیَامُ الَّذِیْ لَا یَکُوْنُ لَہٗ مِنْہُ بُدٌّ فِیْ تِلْکَ الْأَیَّامِ‘ کَمَا لَا بُدَّ لِلْمُقِیْمِ مِنْ ذٰلِکَ‘ وَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنَی .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ (وَعَنِ الْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ) .أَفَلاَ تَرٰی أَنَّ الْحَامِلَ وَالْمُرْضِعَ اِذَا صَامَتَا رَمَضَانَ أَنَّ ذٰلِکَ یُجْزِیْہِمَا أَوْ أَنَّہُمَا لَا تَکُوْنَانِ‘ کَمَنْ صَامَ قَبْلَ وُجُوْبِ الصَّوْمِ عَلَیْہِ بَلْ جَعَلَ مَا یَجِبُ الصَّوْمُ عَلَیْہِمَا بِدُخُوْلِ الشَّہْرِ‘ فَجَعَلَ لَہُمَا‘ تَأْخِیْرَہٗ لِلضَّرُوْرَۃِ وَالْمُسَافِرُ فِیْ ذٰلِکَ مِثْلُہُمَا .وَھٰذَا أُوْلَیْ مَا حُمِلَ عَلَیْہِ ھٰذَا الْأَثَرُ‘ حَتّٰی لَا یُضَادَّ غَیْرَہُ مِنَ الْآثَارِ الَّتِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی الَّتِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہَا لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃٖ،الَّتِیْ وَصَفْنَاہَا - أَنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَبَاحَ لَہُمُ الْاِفْطَارَ فِی السَّفَرِ یَصُوْمُوْنَ فِیْہِ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣١٦٢: عاصم نے انس (رض) سے بیان کیا کہ اگر تم چاہو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو مگر روزہ افضل ہے۔ ان روایات میں سے جن سے پہلے قول والوں نے سفر میں روزے کے متعلق اس روایت کو بھی پیش کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اللہ وضع عن المسافر الصیام کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزے کو اٹھا لیا ہے انھوں نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ جب اللہ نے اس سے روزے کو اٹھا لیا اور اس نے اگر روزہ رکھ لیا تو اس نے صرف روزہ رکھا جو کہ اس پر فرض نہیں تھا پس وہ فرضی روزے کی جگہ کام نہیں دے گا۔ دوسرے علماء کی طرف سے ان کے جواب میں یہ کہا گیا کہ عین ممکن ہے کہ جس روزے کو اس سے ہٹا یا گیا وہ وہی روزہ ہو جس کو انہی دنوں میں رکھنا ضروری تھا جیسا کہ مقیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ رمضان کے انہی دنوں میں روزے رکھے اور یہ روایت ہمارے اس مفہوم پر دلالت کر رہی ہے کیا ہم نہیں جانتے ہو کہ حاملہ اور مرضعہ سے بھی روزے کو اٹھا لیا گیا ہے تو جناب کیا فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ اور مرضعہ رمضان المبارک کا روزہ رکھ لیں تو ان کے لیے کافی ہوجائے گا ؟ یا وہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں گی کہ جس نے روزے کے لازم ہونے سے پہلے روزے کو رکھ لیا ۔ بلکہ مہینے کے داخل ہوتے ہی ان پر روزہ لازم ہوجاتا ہے۔ البتہ ضرورت کی وجہ سے ان کے لیے تاخیر کی اجازت دی گئی ۔ مسافر کا حال بھی اس سلسلے میں انہی کی طرح ہے اور اس معنیٰ پر اس اثر کو محمول کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ یہ اثر اس باب میں مذکورہ روایات کے خلاف نہ ہو اور پہلے قول والوں کے خلاف ایک اور دلیل بھی موجود ہے جس کو ہم بیان کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے بعد بھی روزہ رکھتے رہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے سفر میں افطار کو مباح کردیا چنانچہ اس سلسلہ کی روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
اشکال ثالث :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ان اللہ وضع عن المسافر الصیام۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٤٣‘ ترمذی فی الصوم باب ٢١‘ نسائی فی الصیام باب ٥٠‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٢‘ مسند احمد ٤؍٣٤٧‘ ٥؍٢٩۔
جب اس روایت کے مطابق روزہ اس سے ہٹا لیا گیا جب وہ روزہ رکھے بھی تو وہ ایسا روزہ رکھ رہا ہے جو اس پر فرض نہیں۔ پس اس کا فرض سمجھ کر رکھنا جائز نہ ہوگا۔
ازالہ :
یہ عین ممکن ہے کہ یہ روزہ جو اس سے ہٹایا گیا وہ روزہ ہو جس کے رکھنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو جیسا کہ مقیم صحیح کو روزہ کے بغیر چارہ کار نہیں اور خود اس روایت میں عن الحامل والمرضع کے الفاظ اس مفہوم کی تائید کرتے ہیں آپ غور کریں کہ حاملہ اور مرضعہ اگر رمضان کا روزہ رکھ لیں تو کفایت کر جائے گا وہ ان کی طرح ہرگز شمار نہ ہوں گی جو وجوب صوم سے پہلے روزہ رکھ لیں بلکہ ان کا وہی روزہ شمار ہوگا جو مہینہ کے داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے یعنی فرض روزہ اور تاخیر کے لیے ان کے حق میں گنجائش رکھی گئی اور مسافر کو ان کی مثل قرار دیا گیا یہ تاویل اس بات سے بہتر ہے کہ روایات کو باہمی متضاد ماننا پڑے۔
سفر میں روزے کے مباح ہونے کے مزید دلائل ملاحظہ ہوں۔

3164

۳۱۶۳ : مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ وَرَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالُوْا : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَیَّانَ الدِّمَشْقِیِّ‘ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : (قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ فِیْ یَوْمٍ شَدِیْدِ الْحَرِّ‘ حَتّٰی إِنَّ الرَّجُلَ لِیَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی رَأْسِہٖ مِنْ شِدَّۃِ الْحَرِّ‘ وَمَا مِنَّا صَائِمٌ إِلَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ) .
٣١٦٣: عثمان بن حیان دمشقی نے ام الدرداء (رض) سے نقل کیا کہ ابوالدرداء (رض) فرماتے تھے ہم نے اپنے کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ایک سخت گرم دن میں سفر میں پایا۔ گرمی اس قدر شدید تھی کہ لوگ سخت حرارت کی وجہ سے گرمی سے حفاظت کے لیے سروں پر ہاتھ رکھ رہے تھے اور ہم میں سے صرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عبداللہ بن رواحہ روزے سے تھے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٥‘ مسلم فی الصیام ١٠٨؍١٠٩۔

3165

۳۱۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ (جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَمِنَّا الصَّائِمُ‘ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ‘ فَلَمْ یَکُنْ یَعِیْبُ بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ) .
٣١٦٤: ابو نضرہ نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھے ہم میں سے بعض روزہ سے تھے اور بعض افطار کرنے والے تھے اور کوئی ایک دوسرے پر نکتہ چینی نہ کرتا تھا (کہ تو نے روزہ کیوں رکھا اور کیوں نہیں رکھا)
تخریج : مسلم فی الصیام ٩٧۔

3166

۳۱۶۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ لِتِسْعٍ عَشْرَۃَ أَوْ لِسَبْعٍ عَشْرَۃَ‘ مِنْ رَمَضَانَ‘ فَصَامَ صَائِمُوْنَ‘ وَأَفْطَرَ مُفْطِرُوْنَ‘ فَلَمْ یَعِبْ ہٰؤُلَائِ عَلٰی ہٰؤُلَآئِ ‘ وَلَا ہٰؤُلَآئِ عَلٰی ہٰؤُلَآئِ) .
٣١٦٥: ابو نضرہ نے ابو سعید الخدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ١٩ رمضان یا سترہ رمضان کو فتح مکہ کے دن موجود تھے بعض روزہ رکھنے والوں نے روزہ رکھا اور افطار کرنے والوں نے افطار کیا لیکن کسی نے ایک دوسرے کو عیب نہیں لگایا (روزہ رکھنے نہ رکھنے کا)
تخریج : مسلم فی الصیام ٩٣‘ ٩٤۔

3167

۳۱۶۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (لِاثْنَتَیْ عَشْرَۃَ) .
٣١٦٦: سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ انھوں نے ١٢ رمضان بتلایا۔

3168

۳۱۶۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (لِثَمَانِ عَشْرَۃَ) .
٣١٦٧: ہشام بن ابو عبداللہ نے قتادہ سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی تاریخ ١٨ رمضان بتلائی۔

3169

۳۱۶۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٦٨: وہب نے ہشام سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔

3170

۳۱۶۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ فَتْحَ مَکَّۃَ
٣١٦٩: مسلم بن ابراہیم نے ہشام سے روایت نقل کی ہے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ فتح مکہ کا تذکرہ نہیں کیا۔

3171

۳۱۷۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ‘ عَنْ عَاصِمٍ‘ عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِیِّ‘ عَنْ (أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ‘ فَنَزَلْنَا فِیْ یَوْمٍ شَدِیْدِ الْحَرِّ‘ فَمِنَّ الصَّائِمُ‘ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ‘ فَنَزَلْنَا فِیْ یَوْمٍ حَارٍّ وَأَکْثَرُنَا ظِلًّا صَاحِبُ الْکِسَائِ ‘ وَمِنَّا مَنْ یَسْتُرُ الشَّمْسَ بِیَدِہٖ، فَسَقَطَ الصُّوَّامُ‘ وَقَامَ الْمُفْطِرُوْنَ‘ فَضَرَبُوا الْأَبْنِیَۃَ‘ وَسَقُوا الرِّکَابَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَہَبَ الْمُفْطِرُوْنَ بِالْأَجْرِ الْیَوْمَ) .
٣١٧٠: مورق عجلی نے انس (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں گئے ہم ایک پڑاؤ میں اترے سخت گرمی کا موسم تھا ہم سے بعض روزے سے تھے اور بعض افطار کرنے والے تھے وہ دن سخت گرمی کا تھا اور ہماری اکثریت کپڑوں والوں سے سایہ حاصل کرنے والی تھی اور بعض دھوپ کو اپنے ہاتھ سے روکنے والے تھے۔ (منزل پر پہنچ کر) تو روزہ دار گرپڑے اور بےروزہ اٹھے انھوں نے خیمے نصب کئے اور سواریوں کو پانی پلایا اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آج تو افطار کرنے والے اجر میں بڑھ گئے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٠٠۔

3172

۳۱۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ‘ عَنْ (أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سَافَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَلَمْ یَعِبْ الصَّائِمُ عَلَی الْمُفْطِرِ‘ وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ) .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ أَنَّ مَا کَانَ مِنْ إِفْطَارِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَمْرِہٖ أَصْحَابَہٗ بِذٰلِکَ‘ لَیْسَ عَلَی الْمَنْعِ مِنَ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ‘ وَأَنَّہٗ عَلَی الْاِبَاحَۃِ لِلْاِفْطَارِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَامَ فِی السَّفَرِ وَأَفْطَرَ .
٣١٧١: حمیدالطویل نے انس (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رمضان میں سفر کیا روزہ دار افطار والے کی عیب جوئی کرنے والا نہ تھا۔ ہم نے گزشتہ سطور میں جو آثار ذکر کیے وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افطار کرنا اور صحابہ کرام کو افطار کا حکم دینا وہ سفر میں روزہ کی ممانعت کے لیے نہ تھا بلکہ اس سے افطار کا ان کے لیے مباح کرنا مقصود تھا ‘ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر میں روزہ رکھنے اور افطار کرنے ہر دو کی روایات وارد ہیں۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٧‘
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سفر میں روزے سے روکنا اس لیے تھا تاکہ سفر میں افطار کی اجازت ثابت ہوجائے اور جو لوگ سختی سے روزہ کو سفر میں لازم کرنے والے تھے ان پر واضح ہوجائے کہ ہر دو صورت جائز ہیں بقدر ہمت جس کو اختیار کیا جائے مباح ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود بنفس نفیس سفر میں افطار اور روزہ دونوں طرح کے ثبوت ملتے ہیں۔
روایات ملاحظہ ہوں۔

3173

۳۱۷۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُوْمُ فِی السَّفَرِ وَیُفْطِرُ) .
٣١٧٢: علقمہ نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں روزہ رکھتے اور افطار کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٨٩‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٠۔

3174

۳۱۷۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُعَافَی بْنُ عِمْرَانَ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ بْنِ زِیَادٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ صَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِی السَّفَرِ وَأَفْطَرَ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ لِلْمُسَافِرِ أَنْ یَصُوْمَ‘ وَلَہٗ أَنْ یُفْطِرَ .وَقَدْ (سَأَلَ حَمْزَۃُ الْأَسْلَمِیُّ‘ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ‘ فَقَالَ لَہٗ إِنْ شِئْتَ فَصُمْ‘ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ).
٣١٧٣: عطاء نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا ہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنا اور چھوڑنا بھی جائز ہے اور حضرت حمزہ اسلمی (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر کے روزے سے متعلق وال کیا تو آپ نے فرمایا اگر چاہو تو روزہ رکھ لو اور اگر چاہو تو افطار کرو۔ روایات ذیل میں درج ہیں۔
اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اختیار حاصل ہے خود حمزہ اسلمی (رض) نے سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا اگر چاہو تو روزہ رکھ لو اور اگر چاہو تو افطار کرلو۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٣‘ مسلم فی الصوم ١٠٣‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٤٣‘ ترمذی فی الصوم باب ١٩۔

3175

۳۱۷۴ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ وَہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِیِّ .
٣١٧٤: سلیمان بن یسار نے حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3176

۳۱۷۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ جَعْفَرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عِمْرَانُ بْنُ أَبِیْ أَنَسٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِیِّ‘ مِثْلَہٗ .
٣١٧٥: سلیمان بن یسار نے حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3177

۳۱۷۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّ حَمْزَۃَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِیِّ‘ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصُوْمُ فِی السَّفَرِ ؟ وَکَانَ کَثِیْرَ الصِّیَامِ .فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ إِنْ شِئْتَ فَصُمْ‘ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ) .فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَبَاحَ الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ لِمَنْ شَائَ ذٰلِکَ‘ وَالْفِطْرَ لِمَنْ شَائَ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِھٰذَا وَبِمَا ذَکَرْنَاہُ قَبْلَہٗ أَنَّ صَوْمَ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ جَائِزٌ .وَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّہٗ لَا فَضْلَ لِمَنْ صَامَ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ‘ عَلٰی مَنْ أَفْطَرَ وَقَضَاہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .وَقَالُوْا : لَیْسَ أَحَدُہُمَا أَفْضَلَ مِنَ الْآخَرِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِتَخْیِیْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ حَمْزَۃَ بْنَ عَمْرٍو‘ بَیْنَ الْاِفْطَارِ فِی السَّفَرِ‘ وَالصَّوْمِ‘ وَلَمْ یَأْمُرْہُ بِأَحَدِہِمَا دُوْنَ الْآخَرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ أَفْضَلُ مِنَ الْاِفْطَارِ .وَقَالُوْا لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا (لَیْسَ فِیْمَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ تَخْیِیْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَمْزَۃَ‘ بَیْنَ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ‘ وَالْفِطْرِ .دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ أَحَدُہُمَا أَفْضَلَ مِنَ الْآخَرِ‘ وَلٰـکِنْ إِنَّمَا خَیَّرَہٗ بِمَا لَہٗ أَنْ یَفْعَلَہٗ، مِنَ الْاِفْطَارِ وَالصَّوْمِ‘ وَقَدْ رَأَیْنَا شَہْرَ رَمَضَانَ یَجِبُ بِدُخُوْلِہٖ الصَّوْمُ عَلَی الْمُسَافِرِیْنَ‘ وَالْمُقِیْمِیْنَ جَمِیْعًا اِذَا کَانُوْا مُکَلَّفِیْنَ) .فَلَمَّا کَانَ دُخُوْلُ رَمَضَانَ‘ ہُوَ الْمُوْجِبُ لِلصِّیَامِ عَلَیْہِمْ جَمِیْعًا‘ کَانَ مَنْ عَجَّلَ مِنْہُمْ أَدَائَ مَا وَجَبَ عَلَیْہِ‘ أَفْضَلَ‘ مِمَّنْ أَخَّرَہُ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ‘ أَفْضَلُ مِنَ الْفِطْرِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَعَنْ نَفَرٍ مِنَ التَّابِعِیْنَ .
٣١٧٦: عروہ نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ حمزہ اسلمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ یہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا یہ تمہاری مرضی ہے روزہ رکھ لو یا نہ رکھو بلکہ افطار کرلو۔ یہ جناب رسول اللہ ہیں کہ آپ نے سفر میں روزہ کے رکھنے کو مباح قرار دیا ۔ اس سے اور جو ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ رمضان المبارک کا روزہ سفر میں درست ہے۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو شخص رمضان المبارک میں سفر کے دوران روزہ رکھے اور وہ شخص جو رمضان کا روزہ سفر کی وجہ سے بعد میں قضاء کرے ان کے روزے برابر ہیں کوئی ایک دوسرے سے افضل نہیں ہے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں حضرت حمزہ بن عمرو (رض) کو اختیار دینے سے استدلال کیا ہے۔ کہ آپ نے ان میں سے کسی ایک کا حکم نہیں فرمایا۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کا روزہ حالت سفر میں اس کے افطار سے افضل ہے۔ انھوں نے پہلے قول والوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ اسلمی (رض) کو روزہ رکھنے اور چھوڑنے کا اختیار دیا اس میں کسی کو دوسرے پر افضل نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ آپ نے ان کو رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار دیا اور ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماہ رمضان کی آمد پر مکلفین پر روزہ فرض ہوجاتا ہے جب روزہ فرض ہوا تو ادائیگی میں جلدی کرنے والا اس کو مؤخر کرنے والے سے افضل ہے۔ پس اس مذکورہ بات سے ثابت ہوگیا سفر میں روزہ رکھنا اس کے ترک سے افضل ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے اور تابعین کی ایک جماعت اور حضرت انس بن مالک (رض) سے بھی یہی مروی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کو مباح قرار دیا ان روایات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سفر میں روزہ جائز ہے گناہ نہیں۔
فریق ثالث کا مؤقف اور دلیل : سفر میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا دونوں حالتیں برابر ہیں ان میں سے کسی کو دوسرے پر افضلیت نہیں دی جاسکتی دلیل میں حضرت حمزہ اسلمی (رض) کی روایت جو اوپر گزری کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان شئت فصم وان شئت فافطر ٣١٧٦ سے جواب مرحمت فرمایا جس سے دونوں حالتوں کی برابری ظاہری ہوتی ہے کسی کی برتری ثابت نہیں ہوتی۔
فریق رابع کا مؤقف اور دلائل اور سابقہ اقوال کے جوابات :
رمضان المبارک کے مہینے میں مسافر کا روزہ رکھنا اس کے افطار سے بہتر ہے۔
سابقہ اقوال کا جواب : تم نے حضرت حمزہ اسلمی (رض) کی روایت سے جو تخییر اخذ کی ہے کہ سفر میں روزہ اور فطر برابر ہے یہ درست نہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنی مرضی پر عمل کا اختیار دیا خواہ افطار کرے یا روزہ رکھے باقی ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ رمضان کی آمد سے مسافرین اور مقیم تمام پر روزہ فرض ہوجاتا ہے جبکہ وہ بالغ ہوں تو دخول رمضان تمام پر روزے کو لازم کرنے والا ہے تو جو آدمی اپنے فریضہ کی جلد ادائیگی چاہتا ہو تو اپنے فریضہ میں تاخیر کرنے والے سے افضل ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ روزہ سفر میں افطار سے افضل ہے۔
اور یہ ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تائیدی اقوال تابعین رحمہم اللہ :
حضرت انس بن مالک (رض) سے بھی یہ قول مروی ہے اور اسی طرح تابعین کی ایک عظیم جماعت اسی پر عمل پیرا ہے۔

3178

۳۱۷۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ قَالَ (الصَّوْمُ أَفْضَلُ‘ وَالْاِفْطَارُ رُخْصَۃٌ) یَعْنِیْ : فِی السَّفَرِ۔
٣١٧٧: حماد نے سعید بن جبیر (رح) سے نقل کیا کہ سفر میں روزہ افضل اور افطار رخصت ہے۔

3179

۳۱۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حَمَّادٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ وَسَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ وَمُجَاہِدٍ أَنَّہُمْ قَالُوْا فِی الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ (إِنْ شِئْتَ صُمْتَ‘ وَإِنْ شِئْتَ أَفْطَرْتَ‘ وَالصَّوْمُ أَفْضَلُ) .
٣١٧٨: حماد نے ابراہیم اور سعید بن جبیر اور مجاہد رحمہم اللہ سے نقل کیا کہ سفر میں روزہ اگر چاہو تو رکھ لو اور چاہو افطار کرلو مگر روزہ افضل ہے۔

3180

۳۱۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَبِیْبٌ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ‘ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ صِیَامِ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ .فَقَالَ (یَصُوْمُ مَنْ شَائَ اِذَا کَانَ یَسْتَطِیْعُ ذٰلِکَ‘ مَا لَمْ یَتَکَلَّفْ أَمْرًا یَشُقُّ عَلَیْہٖ‘ وَإِنَّمَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِالْاِفْطَارِ‘ التَّیْسِیْرَ عَلٰی عِبَادِہِ) .
٣١٧٩: عمرو بن ھرم کہتے ہیں کہ جابر بن زید سے پوچھا گیا کہ رمضان کے دوران سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟ تو فرمایا۔ اگر طاقت رکھتا ہو تو جو چاہے روزہ رکھے جب تک کہ کسی امر میں تکلف سے کام نہ لینا پڑے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے سفر میں افطار کی اجازت سے بندوں پر آسانی فرمائی ہے۔

3181

۳۱۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تَصُوْمُ فِی السَّفَرِ فِی الْحَرِّ .فَقُلْتُ : مَا حَمَلَہَا عَلٰی ذٰلِکَ ؟ فَقَالَ : إِنَّہَا کَانَتْ تُبَادِرُ .فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَانَتْ تَرَی الْمُبَادَرَۃَ بِصَوْمِ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ‘ أَفْضَلَ مِنْ تَأْخِیْرِ ذٰلِکَ إِلَی الْحَضَرِ .وَکَانَ أَیْضًا‘ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ مَنْ کَرِہَ الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ۔
٣١٨٠: قاسم بن محمد نے عائشہ (رض) سے نقل کیا وہ گرمی کے اسفار میں بھی روزہ رکھتی تھیں میں نے پوچھا ان کو اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ اس نے جواب دیا وہ اعمال میں جلدی کرنے والی تھیں۔ تو یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں جو رمضان المبارک کے روزے کو سفر میں جلدی رکھنے کو گھر پہنچ کر اسے تاخیر سے رکھنے سے افضل جانتی تھیں۔ جو لوگ سفر میں روزے کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا۔
عائشہ صدیقہ (رض) رمضان المبارک میں سفر میں روزہ رکھنے والی تھیں اس سے عمل میں سبقت اور مبادرت مقصود تھی اور یہ گھر میں واپس آ کر ادا کرنے سے افضل و اعلیٰ تھا تبھی تو وہ اس پر عمل پیرا تھیں۔
ضمنی اشکال :
مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ افضل کیا ہوتا بلکہ ناپسند اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کے خلاف ہے۔
روایت ملاحظہ ہو۔

3182

۳۱۸۱ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ .ح وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ الْکَلْبِیِّ‘ أَنَّ دِحْیَۃَ بْنَ خَلِیْفَۃَ‘ خَرَجَ مِنْ قَرْیَتِہٖ بِدِمَشْقَ‘ إِلٰی قَدْرِ قَرْیَۃِ عُقْبَۃَ فِیْ رَمَضَانَ‘ فَأَفْطَرَ وَمَعَہُ أُنَاسٌ‘ وَکَرِہَ آخَرُوْنَ أَنْ یُفْطِرُوْا .فَلَمَّا رَجَعَ إِلٰی قَرْیَتِہٖ، قَالَ (وَاللّٰہِ لَقَدْ رَأَیْتُ الْیَوْمَ أَمْرًا‘ مَا کُنْتُ أَظُنُّ أَنْ أَرَاہُ : إِنَّ قَوْمًا رَغِبُوْا عَنْ ہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہِ) یَقُوْلُ ذٰلِکَ لِلَّذِیْنَ صَامُوْا‘ ثُمَّ قَالَ (اللّٰہُمَّ اقْبِضْنِیْ إِلَیْکَ) .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلَّذِیْنَ اسْتَحَبُّوْا الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ أَنَّ دِحْیَۃَ إِنَّمَا ذَمَّ مَنْ رَغِبَ عَنْ ہَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ، فَمَنْ صَامَ فِیْ سَفَرِہِ کَذٰلِکَ‘ فَہُوَ مَذْمُوْمٌ‘ وَمَنْ صَامَ فِیْ سَفَرِہٖ غَیْرَ رَاغِبٍ عَنْ ہَدْیِہِ‘ بَلْ عَلَی التَّمَسُّکِ بِہَدْیِہِ فَہُوَ مَحْمُوْدٌ۔
٣١٨١: منصور کلبی روایت کرتے ہیں حضرت دحیہ کلبی (رض) اپنی بستی سے نکلے جو دمشق میں واقع تھی آپ قریہ عقبہ (رض) جو معمولی فاصلہ کی مقدار پر واقع تھی رمضان میں سفر کرنا چاہتے تھے انھوں نے افطار کیا اور کچھ لوگ بھی ان کے ساتھ تھے جنہوں نے افطار کیا اور دوسروں نے افطار نہ کیا جب وہ اپنی بستی کی طرف لوٹے تو کہنے لگے اللہ کی قسم میں نے آج ایسا معاملہ دیکھا ہے میرے تو خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ مجھے دیکھنے کا موقعہ ملے گا۔ پس جو لوگ سفر میں روزے بہتر قرار دیتے ہیں اس روایت میں ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت کلبی (رض) نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی سیرت سے اعراض کیا پس جس شخص نے اپنے سفر میں صحابہ کرام اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت سے اعراض کرتے ہوئے روزہ رکھا وہ قابل مذمت ہے اور جو شخص اپنے سفر میں آپ کے عمل سے گریز نہ کرتے ہوئے بلکہ اس کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے روزہ رکھے تو وہ قابل تعریف ہے۔
کچھ لوگوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل سے منہ موڑ لیا۔ (یہ بات آپ نے ان لوگوں کو کہی جنہوں نے روزہ رکھا تھا پھر کہنے لگے اللہم اقبضنی الیک)
اس روایت میں حضرت دحیہ (رض) نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کی خلاف ورزی کر کے سفر میں روزہ رکھا پس جو شخص سفر میں روزہ رکھے وہ قابل مذمت ہے نہ کہ قابل مدح۔ پس سفر میں روزے کی افضلیت کہاں رہی۔
u: گزشتہ روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے سفر میں اس کا جواز اور مباح ہونا تو ثابت ہوچکا جس سے مذمت والا پہلو ختم ہوگیا وہ ان صحابی (رض) کا اجتہاد ہے باقی افضلیت کے ثبوت کے لیے آخر میں روایت پیش کرتے ہیں۔

3183

۳۱۸۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ یُحَدِّثُ‘ عَنْ أَبِیْ مُرَاوِحٍ الْأَسْلَمِیِّ‘ عَنْ (حَمْزَۃَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِیِّ‘ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ إِنِّیْ أَسْرُدُ الصِّیَامَ‘ أَفَأَصُوْمُ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا ہِیَ رُخْصَۃٌ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لِلْعِبَادِ‘ مَنْ قَبِلَہَا فَحَسَنٌ جَمِیْلٌ‘ وَمَنْ تَرَکَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ) .قَالَ : وَکَانَ حَمْزَۃُ یَصُوْمُ الدَّہْرَ فِی السَّفَرِ وَالْحَضَرِ‘ وَکَانَ أَبُوْ مُرَاوِحٍ کَذٰلِکَ‘ وَکَانَ عُرْوَۃُ کَذٰلِکَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الصَّوْمَ فِی السَّفَرِ أَفْضَلُ مِنَ الْاِفْطَارِ‘ وَأَنَّ الْاِفْطَارَ إِنَّمَا ہُوَ رُخْصَۃٌ .
٣١٨٢: ابو مراوح اسلمی نقل کرتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) نے خود سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں اس لیے حالت سفر میں بھی روزہ رکھتا ہوں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں روزہ کے افطار کی بندوں کو رخصت ملی ہے جس نے اس کو قبول کرلیا تو بہت اچھا اور خوب ہے اور جس نے اس کو ترک کیا (روزہ رکھا) اس پر کوئی گناہ نہیں۔ پس جو کچھ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ روزہ سفر میں افطار سے افضل ہے اور بلاشبہ افطار کی رخصت ہے۔
عروہ (رح) کا بیان ہے کہ حمزہ ہمیشہ سفر و حضر میں روزہ رکھتے اور ابو مراوح بھی اسی طرح روزہ رکھتے بلکہ خود عروہ بھی اسی طرح کرتے۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ١٠٧۔
اس روایت سے ثابت ہوا کہ روزہ سفر میں افطار سے افضل ہے اور افطار تو رخصت ہے۔
روایت عائشہ (رض) ملاحظہ ہو۔

3184

۳۱۸۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَانَتْ تَصُوْمُ الدَّہْرَ‘ فِی السَّفَرِ‘ وَالْحَضَرِ .
٣١٨٣: عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) ہمیشہ روزہ رکھتیں خواہ سفر ہو یا حضر۔
اس باب میں فریق اوّل کے ساتھ تو جائز و ناجائز کا اختلاف ہے جبکہ بقیہ تین فریق کا اختلاف افضل و غیر افضل کا ہے طحاوی (رح) کا رجحان سب سے آخری قول کی طرف ہے اس لیے اس کے متعلق اگر کسی روایت سے ذرا اشکال ہوا تو وہ بھی نقل کر کے جواب میں روایت ذکر کردی ایسا معلوم دیتا ہے کہ یہ روایت تکمیل باب سے پہلے یاد آئی اس لیے وہیں ذکر کر کے جواب دے دیا۔

3185

۳۱۸۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ .ح .وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ .
٣١٨٤: بشر بن بکر نے فہد سے انھوں نے ابو نعیم سے روایت نقل کی ہے۔
عرفہ کا دن اسلام میں ایک عظیم مقام رکھتا ہے اس کو قرآن مجید میں یوم مشہود فرمایا گیا ہے احناف و شوافع اس کو جمعہ کے دن سے افضل ٹھہراتے ہیں جبکہ حنابلہ جمعہ کو افضل مانتے ہیں اس دن کا روزہ حجاج و غیر حجاج کے لیے یوم النحر کے روزے کی طرح ممنوع ہے۔ ! یہ ظاہریہ کا قول ہے " مگر ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین حاجی کے لیے عرفات میں روزے کو مکروہ کہتے ہیں مگر غیر حاجی کے لیے اس دن کے روزے کو افضل و باعث ثواب قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل :
عرفہ کے دن کو صاف صاف عید کا دن فرمایا گیا اور عید کے دن روزہ حرام ہے پس اس دن بھی حجاج و غیر حجاج کے لیے روزہ حرام ہے۔ دلیل ملاحظہ ہو۔

3186

۳۱۸۵ : ح وَحَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئِ‘ قَالُوْا : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ عَلِیٍّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُقْبَۃَ .وَقَالَ بَکْرٌ وَصَالِحٌ فِیْ حَدِیْثِہِمَا : قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یُحَدِّثُ‘ عَنْ عُقْبَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ أَیَّامَ الْأَضْحَی وَأَیَّامَ التَّشْرِیْقِ‘ وَیَوْمَ عَرَفَۃَ‘ یَوْمُ عِیْدِ أَہْلِ الْاِسْلَامِ‘ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَکَرِہُوْا بِہٖ صَوْمَ یَوْمِ عَرَفَۃَ‘ وَجَعَلُوْا صَوْمَہُ کَصَوْمِ یَوْمِ النَّحْرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِنَہْیِہٖ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ بِالْمَوْقِفِ‘ لِأَنَّہٗ ہُنَاکَ عِیْدٌ وَلَیْسَ فِیْ غَیْرِہِ کَذٰلِکَ‘ وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٣١٨٥: بکر و صالح نے اپنی روایات میں اپنے والد سے نقل کیا انھوں نے عقبہ اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ ایام اضحی اور ایام تشریق اور یوم عرفہ یہ سب عید کے ایام ہیں اہل اسلام کے لیے کھانے پینے کے دن ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اس روایت کو اختیار کرتے ہوئے کہا کہ عرفہ کے دن کا روزہ مکروہ ہے اور اس کو وہ بوم نحر کے روزے کی طرح قرار دیتے ہیں۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد میدان عرفات میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہو ۔ کیونکہ وہاں وہ عید کی ہے جب کہ دوسرے مقامات پر اس طرح نہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کو اسی طرح بیان فرمایا روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ١٤٢‘ ابو داؤد فی الاضافی باب ١٠‘ ترمذی فی الصوم باب ٥٨‘ نسائی فی الحج باب ١٥٣‘ والفرع والعتیرۃ باب ٢‘ والایمان باب ٧‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٣٥‘ دارمی فی الصوم باب ٤٧‘ موطا مالک نمبر ١٣٥‘ مسند احمد ٤؍١٥٢‘ ٥؍٧٥‘ ٢٢٤۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل و جوابات :
حجاج کے لیے عرفہ کے روز عرفات میں روزہ مکروہ ہے تاکہ وقوف میں خلل نہ آئے البتہ دیگر مقامات میں روزہ افضل ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
روایت میں ممانعت کا تعلق میدان عرفات میں موجود حجاج سے متعلق ہے دوسرے مقامات پر وہ وجہ نہیں پائی جاتی تو حکم نہ لگے گا دوسرے مقام کے لیے وہ عید نہیں اور ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
روایت ابوہریرہ (رض) ملاحظہ ہو۔

3187

۳۱۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الْمَکِّیُّ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ .ح .
٣١٨٦: محمد بن ادریس مکی اور ابن ابی داؤد دونوں نے سلیمان بن حرب سے روایت نقل کی ہے۔

3188

۳۱۸۷ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا حَوْشَبُ بْنُ عَقِیْلٍ‘ عَنْ مَہْدِیٍّ الْہَجَرِیِّ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ قَالَ : (کُنَّا مَعَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فِیْ بَیْتِہٖ، فَحَدَّثَنَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ صِیَامِ یَوْمِ عَرَفَۃَ بِعَرَفَۃَ) .فَأَخْبَرَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّہْیَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ‘ إِنَّمَا ہُوَ بِعَرَفَۃَ خَاصَّۃً .فَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا۔
٣١٨٧: عکرمہ کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے ساتھ ان کے گھر میں بیٹھے تھے انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفات میں عرفہ کے دن روزے سے منع فرمایا۔ پس حضرت ابوہریرہ (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفہ کے دن روزے کی جو ممانعت فرمائی ہے وہ میدان عرفات کے ساتھ خاص ہے۔ اول قول والوں نے اس روایت کو بھی اپنی دلیل میں پیش کیا ہے روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٦٣‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤٠۔
حاصل روایات : اس روایت میں ابوہریرہ (رض) نے بتلایا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص میدان عرفات میں عرفہ کے دن روزے سے منع کیا ہے پس غیر حجاج کو عرفات یا دیگر مقامات پر روزے کی ممانعت نہ ہوگی۔
اشکال :
انہوں نے اس روایت کو بھی دلیل بنایا ہے۔

3189

۳۱۸۸ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ قَالَ : (لَمْ یَصُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا أَبُوْ بَکْرٍ‘ وَلَا عُمَرُ‘ وَلَا عُثْمَانُ وَلَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَوْمَ عَرَفَۃَ) .قِیْلَ لَہُمْ ھٰذَا أَیْضًا - عِنْدَنَا - عَلَی الصِّیَامِ یَوْمَ عَرَفَۃَ بِالْمَوْقِفِ‘ وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .
٣١٨٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر اور عثمان و علی ] میں سے کسی نے بھی عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا۔ ان کے جواب میں ہم کہیں گے اس روایت سے مراد ہمارے ہاں میدان عرفات میں روزہ کی ممانعت ہے اور اس کا ثبوت ابن عمر (رض) کی اس روایت ذیل سے واضح ہوتی ہے۔
ازالہ :
ہمارے ہاں اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ مؤقف عرفات میں ان میں سے کسی نے بھی روزہ نہیں رکھا اور دوسرے مقام کے روزے کی اس سے نفی ثابت نہیں ہوتی خود عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ معنی اس روایت کے علاوہ میں ذکر کیا ہے۔
روایت ابن عمر (رض) ملاحظہ ہو۔

3190

۳۱۸۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ وَأَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَجُلٍ (أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ بِالْمَوْقِفِ‘ فَقَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَصُمْہُ وَمَعَ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمْ یَصُمْہُ‘ وَمَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَلَمْ یَصُمْہُ‘ وَمَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَلَمْ یَصُمْہُ‘ وَأَنَا لَا أَصُوْمُہٗ، وَلَا آمُرُکَ وَلَا أَنْہَاکَ‘ فَإِنْ شِئْتُ فَلاَ تَصُمْہٗ) .فَبَیَّنَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ مَا رَوَی نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ہُوَ عَلَی الصَّوْمِ فِی الْمَوْقِفِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الْأَمْرِ بِصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ۔
٣١٨٩: عبداللہ بن ابی نجیح نے اپنے والد سے انھوں نے ایک آدمی سے بیان کیا کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ عرفہ کے دن میدان عرفات میں روزے کا کیا حکم تو انھوں نے جواب دیا ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ میدان عرفات کی طرف نکلے آپ روزے سے نہ تھے اور ابوبکر کے ساتھ میدان عرفات کی طرف نکلے انھوں نے بھی روزہ نہ رکھا اور عمر (رض) کے ساتھ نکلے انھوں نے بھی روزہ نہ رکھا اور عثمان (رض) کے ساتھ نکلے اور انھوں نے بھی روزہ نہ رکھا اور میں بھی روزہ نہیں رکھتا اور تجھے روزہ کا حکم نہیں کرتا اور نہ اس سے روکتا ہوں اگر تم مناسب سمجھو تو روزہ نہ رکھو۔ تو اس روایت نے واضح کردیا کہ سابقہ روایت میں نافع نے جو ابن عمر (رض) سے عرفہ کے روز روزہ کی نفی کی ہے اس کا تعلق مؤقف عرفات سے ہے۔ مزید ثبوت میں روایت ذیل ملاحظہ کریں۔
تخریج : ترمذی فی الصوم باب ٤٧۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس روزے کی عرفہ کے دن ممانعت ہے وہ میدان عرفات میں روزہ رکھنا ہے جو کہ کسی نے نہیں رکھا۔

3191

۳۱۹۰ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَقَبَۃُ‘ عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ‘ وَیَوْمِ عَرَفَۃَ‘ فَأَمَرَ بِصِیَامِہِمَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ثَوَابِ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَأَبِیْ قَتَادَۃَ الْأَنْصَارِیِّ۔
٣١٩٠: جبلہ بن سحیم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا جبکہ ان سے جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے ان دونوں دنوں کے روزے کا حکم فرمایا۔ خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا ثواب منقول ہے وہ ابن عمر (رض) اور ابو قتادہ انصاری (رض) دونوں کی روایات میں وارد ہے۔
روایت ابو قتادہ انصاری (رض) یہ ہے۔

3192

۳۱۹۱ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ غَیْلَانَ بْنَ جَرِیْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ الْأَنْصَارِیِّ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ فَقَالَ : یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ وَالْبَاقِیَۃَ) ..
٣١٩١: عبداللہ بن محمد نے ابو قتادہ انصاری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوم عرفہ کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف کردیتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٤٦۔

3193

۳۱۹۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : سَمِعْتُ غَیْلَانَ بْنَ جَرِیْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِیِّ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنِّیْ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ فِیْ صِیَامِ یَوْمِ عَرَفَۃَ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِیْ قَبْلَہٗ، وَالسَّنَۃَ الَّتِیْ بَعْدَہٗ)
٣١٩٢: عبداللہ بن معبد زمانی نے ابو قتادہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ یوم عرفہ کے روزے پر ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف کر دے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب ہے اور صبح کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کو روزے کا حکم دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب کوئی دن روزے کا مقرر ہو اور رات کو نیت نہ کی جاسکے تو صبح کے بعد قبل الزوال وہ نیت کرسکتا ہے جب کہ اہل علم نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا ہے۔ یوں عاشوراء کے روزے کے سلسلہ میں اس سے زائد روایات بھی وارد ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصیام باب ٤٠۔

3194

۳۱۹۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُعْتَمِرُ‘ قَالَ : قَرَأْتُ عَلَی الْفَضِیْلِ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ حَرِیْزٍ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُوْلُ : (سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ‘ قَالَ : کُنَّا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعْدِلُہٗ بِصَوْمِ سَنَۃٍ) .فَثَبَتَ بِھٰذَا الْأَثَرِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّرْغِیْبُ فِیْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا کُرِہَ مِنْ صَوْمِہٖ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ‘ ہُوَ لِلْعَارِضِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا مِنَ الْوُقُوْفِ بِعَرَفَۃَ‘ لِشِدَّۃِ تَعَبِہِمْ‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٣١٩٣: ابو حریز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) کو کہتے سنا کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ یوم عرفہ کا روزہ کیا مقام رکھتا ہے تو کہنے لگے ہم اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سال کے روزے کے برابر سمجھتے تھے۔ جناب رسول اللہ کے متعلق اس اثر سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی ترغیب ثابت ہوئی ۔ پس اس سے ثبوت مل گیا کہ پہلی روایات کے مطابق اس دن روزہ رکھنے کی کراہت اس وجہ سے ہے جو ہم نے بیان کی ہے یعنی وقوف عرفات کیونکہ اس میں کافی مشقت ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
ان روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عرفہ کے دن کا روزہ عرفات کے علاوہ دوسرے مقام پر بڑا درجہ رکھتا ہے۔ جیسا کہ ان دو ترغیبی روایات سے ثابت ہوتا ہے اور جن روایات سے ممانعت معلوم ہوتی ہے وہ کسی عارضہ کی وجہ سے ہے مثلاً وقوف عرفات وغیرہ میں کیونکہ وہاں مشقت شدید ہوتی ہے۔
ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

3195

۳۱۹۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ (حَبِیْبِ بْنِ ہِنْدِ بْنِ أَسْمَائَ ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی قَوْمِیْ مِنْ أَسْلَمَ فَقَالَ قُلْ لَہُمْ فَلْیَصُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَائَ فَمَنْ وَجَدْتَ مِنْہُمْ قَدْ أَکَلَ مِنْ صَدْرِ یَوْمِہٖ، فَلْیَصُمْ آخِرَہٗ) .
٣١٩٤: حبیب بن ہند بن اسماء نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے میری قوم اسلم کی طرف روانہ فرمایا تو فرمایا ان کو کہو کہ وہ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھیں جس کو تم اس حالت میں پاؤ کہ وہ شروع دن میں کھاچکا ہے تو وہ دن کے آخری حصہ تک کھانے سے رکا رہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٩۔
دس محرم الحرام کو عاشورہ کہا جاتا ہے اس کی وجہ تسمیہ خواہ دس انبیاء (علیہم السلام) پر اکرام خداوندی کا نزول ہو یا اور کچھ۔ اس میں بڑے بڑے واقعات پیش آئے جیسے غرق فرعون وغیرہ بعض فقہاء نے اس دن کھانے کی گھر میں وسعت کو مستحب کہا ہے نزول رمضان سے پہلے یہ روزہ فرض تھا اب یہ استحباب کے درجہ میں ہے نزول سے قبل کی حیثیت واضح کرنے کے لیے یہ باب لایا گیا ہے امام ابوحنیفہ و احمد رحمہم اللہ کے ہاں اس کا روزہ رمضان سے پہلے فرض تھا اب مستحب ہے۔
نمبر 2: رمضان سے پہلے بھی مسنون تھا اب استحباب کے درجہ میں ہے۔
نمبر 3: بالقصد تنہا عاشورہ کا روزہ مکروہ ہے یہ ابن عمر (رض) کا قول ہے۔
مؤقف فریق اوّل و دلائل : نزول رمضان سے قبل اس کا روزہ فرض تھا اب فرضیت منسوخ ہو کر استحباب رہ گیا دلائل یہ روایات ہیں۔

3196

۳۱۹۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَلْمَۃَ الْخُزَاعِیِّ‘ ہُوَ أَبُوَ الْمِنْہَالِ‘ عَنْ عَمِّہٖ قَالَ : غَدَوْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَبِیْحَۃَ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ وَقَدْ تَغَدَّیْنَا‘ فَقَالَ : أَصُمْتُمْ ھٰذَا ھٰذَا الْیَوْمَ ؟ فَقُلْنَا : قَدْ تَغَدَّیْنَا‘ قَالَ : فَأَتِمُّوْا بَقِیَّۃَ یَوْمِکُمْ) .
٣١٩٥: عبدالرحمن بن سلمہ خزاعی یہی ابن المنہال ہیں انھوں نے اپنے چچا سے نقل کیا ہے کہ ہم صبح سویرے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس دن عاشورہ تھا اور ہم نے صبح کا کھانا کھالیا تھا آپ نے فرمایا کیا تم نے آج کا روزہ رکھا ہے ؟ ہم نے کہا ہم تو صبح کا کھانا کھاچکے ہیں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنا بقیہ دن (بغیر کھائے پئے) پورا کرو۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٦٥‘ نمبر ٣٤٤٧‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤١‘ مسند احمد ٥؍٤٠٩۔

3197

۳۱۹۶ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْمِنْہَالِ‘ یُحَدِّثُ عَنْ عَمِّہٖ‘ وَکَانَ مِنْ أَسْلَمَ‘ (أَنَّ أُنَاسًا أَتَوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ بَعْضَہُمْ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ فَقَالَ : أَصُمْتُمَ الْیَوْمَ ؟ فَقَالُوْا : لَا‘ وَقَدْ أَکَلْنَا فَقَالَ : فَصُوْمُوْا بَقِیَّۃَ یَوْمِکُمْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ: فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ وُجُوْبُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ وَفِیْ أَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُمْ بِصَوْمِہٖ، بَعْدَمَا أَصْبَحُوْا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَنْ کَانَ فِیْ یَوْمٍ عَلَیْہِ صَوْمُہُ بِعَیْنِہِ ؛ وَلَمْ یَکُنْ نَوٰی صَوْمَہٗ مِنَ اللَّیْلِ ؛ أَنَّہٗ یُجْزِیْہِ أَنْ یَنْوِیَ صَوْمَہٗ بَعْدَمَا أَصْبَحَ‘ اِذَا کَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ الزَّوَالِ‘ عَلٰی مَا قَالَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ مَا زَادَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا.
٣١٩٦: قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمنہال کو اپنے چچا سے یہ بات بیان کرتے سنا یہ اسلم قبیلہ سے تھے کہ کچھ لوگ عاشورہ کے روز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے آپ نے ان کو فرمایا کیا تم نے روزہ رکھا ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں ہم تو کھانا کھاچکے آپ نے فرمایا اپنا بقیہ دن (کھانے پینے سے) رکے رہو۔
تخریج : اسی طرح کی روایت ابو داؤد فی الصوم باب ٦٥‘ نسائی فی الصیام باب ٦٥‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤١‘ مسند احمد ٤؍٧٨‘ ٥؍٤٠٩۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشورہ کے دن کے روزہ کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم فرمایا جبکہ وہ کھانا کھاچکے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اس روز کو شروع میں پائے اس پر معینہ دن کا روزہ لازم ہے اور جو رات کو نیت نہ کرسکے اگر کچھ نہ کھایا پیا ہو تو وہ روزہ کی نیت کرسکتا ہے اور یہ زوال سے پہلے تک گنجائش ہے۔

3198

۳۱۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ یَزِیْدَ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَکْوَانَ ؛ عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ؛ قَالَ : سَأَلْتُہَا عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ .فَقَالَتْ : (بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَمْصَارِ مَنْ کَانَ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْیَقُمْ عَلٰی صَوْمِہٖ، وَمَنْ کَانَ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْیُتِمَّ آخِرَ یَوْمِہٖ) فَلَمْ نَزَلْ نَصُوْمُہٗ بَعْدُ وَنُصَوِّمُہٗ صِبْیَانَنَا وَہُمْ صِغَارٌ وَنَتَّخِذُ لَہُمْ اللُّعْبَۃَ مِنَ الْعِہْنِ ؛ فَإِذَا سَأَلُوْنَا الطَّعَامَ أَعْطَیْنَاہُمْ اللُّعْبَۃَ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَمْنَعُوْنَ صِبْیَانَہُمْ الطَّعَامَ‘ وَیُصَوِّمُوْنَہُمْ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ .وَھٰذَا - عِنْدَنَا - غَیْرُ جَائِزٍ‘ لِأَنَّ الصِّبْیَانَ غَیْرُ مُتَعَبَّدِیْنَ بِصِیَامٍ وَلَا بِصَلَاۃٍ‘ وَلَا بِغَیْرِ ذٰلِکَ .وَکَیْفَ یَکُوْنُوْنَ مُتَعَبَّدِیْنَ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ رَفَعَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْہُمَ الْقَلَمَ ؟‘ ‘ .
٣١٩٧: خالد بن ذکوان کہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذ (رض) سے یوم عاشورہ کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہروں میں آدمی روانہ کر کے حکم فرمایا۔ جس نے صبح روزہ کی حالت میں کی ہے وہ اپنے روزے پر قائم رہے اور جس نے صبح کے وقت کچھ کھا پی لیا ہے وہ اپنے دن کا اجر پورا کرے (یعنی دن کو کھانے سے گریز کرے) چنانچہ ہم یہ روزہ رکھتے رہے اور ہمارے بچے بھی رکھتے رہے حالانکہ وہ چھوٹے تھے اور ہم ان کو بہلانے کے لیے کھلونے دیتے جو کہ اون سے بہلاوے کے لیے بنائے جاتے تاکہ وہ کھانے سے رکے رہیں (یہ بچوں میں روزہ کا شوق پیدا کرنے کے لئے) ۔ پس اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بچوں سے کھانے کو روک کر ان سے عاشوراء کا روزہ رکھوائے ہمارے ہاں یہ طریق درست نہیں ۔ کیونکہ بچے تو نماز روے کے مکلف نہیں وہ ان عبادات کے کس طرح ذمہ دار ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مرفوع القلم قرارد یا۔
تخریج : مسلم فی الصیام روایت ٣٦۔
اس روایت میں بچوں کے روزے رکھنے کا ذکر ہے بچوں پر غیر مکلف ہونے کی وجہ سے روزہ فرض نہیں ہے البتہ ترغیب اور روزے کے شوق کو تیز کرنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے جیسا کہ دس سال کے بچوں کو مار کر نماز پڑھانے کا حکم ہے البتہ اس سے فرضیت روزہ پر استدلال چنداں درست نہیں کیونکہ بچے تو مرفوع القلم ہیں جیسا اس روایت میں موجود ہے۔

3199

۳۱۹۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ أَبِیْ ظَبْیَانَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃٍ‘ عَنِ الصَّبِیِّ حَتّٰی یَکْبَرَ‘ وَعَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ‘ وَعَنِ الْمَجْنُوْنِ حَتّٰی یُفِیْقَ) .
٣١٩٨: عبداللہ بن عباس (رض) نے علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمی مرفوع القلم ہیں بچہ یہاں تک کہ وہ بالغ ہو اور سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو اور مجنون سے یہاں تک کہ اس کو افاقہ ہو۔ عاشوراء کے دن کے روزہ کی منسوخی کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح روایات مروی ہیں۔ ذیل میں ملاحظہ کی جائیں۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ١١‘ والحدود باب ٢٢‘ ابو داؤد فی الحدود باب ١٧‘ نسائی فی الطلاق باب ٢١‘ ابن ماجہ فی الطلاق باب ١٥‘ دارمی فی الحدود باب ١‘ مسند احمد ١؍١١٨‘ ٦؍١٠١۔

3200

۳۱۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ نَسْخِ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ صَحِیْحَۃٌ .
٣١٩٩: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3201

۳۲۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُبَارَکُ بْنُ فَضَالَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنْ شَقِیْقِ بْنِ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی ابْنِ مَسْعُوْدٍ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ ‘ وَعِنْدَہٗ رُطَبٌ‘ فَقَالَ : (اُدْنُہٗ) فَقُلْتُ : إِنَّ ھٰذَا یَوْمُ عَاشُوْرَائَ ‘ وَأَنَا صَائِمٌ‘ فَقَالَ (إِنَّ ھٰذَا الْیَوْمَ أُمِرْنَا بِصِیَامِہٖ قَبْلَ رَمَضَانَ) .
٣٢٠٠: شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود (رض) کے پاس عاشورہ کے دن گیا ان کے ہاں تازہ کھجور پڑی تھی وہ فرمانے لگے قریب آ جاؤ میں نے کہا یہ عاشورہ کا دن ہے اور میں نے روزہ رکھا ہوا ہے تو انھوں نے فرمایا کہ ہمیں اس دن کے روزے کا حکم رمضان کی فرضیت سے پہلے تھا۔

3202

۳۲۰۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ السَّکَنِ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ‘ قَالَ : أَتَاہُ رَجُلٌ وَہُوَ یَأْکُلُ‘ فَقَالَ لَہٗ : ہَلُمَّ‘ فَقَالَ : إِنِّیْ صَائِمٌ‘ فَقَالَ لَہٗ عَبْدُ اللّٰہِ (کُنَّا نَصُوْمُہٗ، ثُمَّ تُرِکَ) یَعْنِیْ : یَوْمَ عَاشُوْرَائَ .
٣٢٠١: قیس بن سکن نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا جبکہ وہ کھانا کھا رہے تھے انھوں نے کہا آ جاؤ! اس آدمی نے کہا میں روزے سے ہوں اس کو عبداللہ نے فرمایا ہم یہ روزہ رکھتے تھے پھر یہ چھوڑ دیا گیا۔
تخریج : مسلم فی الصوم نمبر ١٢٣۔

3203

۳۲۰۲ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَخْبَرَتْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصِیَامِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ قَبْلَ أَنْ یُفْرَضَ رَمَضَانُ‘ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ‘ فَقَالَ مَنْ شَائَ صَامَ عَاشُوْرَائَ ‘ وَمَنْ شَائَ أَفْطَرَ) .
٣٢٠٢: عروہ بن زبیر نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاشورہ کے روزہ کا حکم دیا اور یہ رمضان کی فرضیت سے پہلے کی بات ہے جب رمضان فرض ہوا تو پھر اختیار دیا گیا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٨‘ مسلم فی الصیام نمبر ١١٦‘ نسائی فی الصیام باب ٥٥ ٦١‘ موطا مالک ٣٤۔

3204

۳۲۰۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ وَشُعَیْبٌ‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ أَنَّ عِرَاکًا أَخْبَرَہٗ أَنَّ عُرْوَۃَ أَخْبَرَہٗ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٢٠٣: عروہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3205

۳۲۰۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ‘ عَنِ الْأَشْعَثِ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ ثَوْرٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا بِصَوْمِ عَاشُوْرَائَ وَیُحِثُّنَا عَلَیْہِ وَیَتَعَاہَدُنَا عَلَیْہٖ‘ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ‘ لَمْ یَأْمُرْنَا‘ وَلَمْ یَنْہَنَا‘ وَلَمْ یَتَعَاہَدْنَا عَلَیْہِ) .
٣٢٠٤: ابو ثور نے جابر بن سمرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاشورہ کے روزہ کا حکم فرماتے اور اس کی خوب نگرانی و اہتمام فرماتے تھے پھر جب رمضان المبارک فرض ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ حکم فرمایا اور نہ منع فرمایا اور نہ اہتمام فرمایا اور نہ دیکھ بھال فرمائی۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ١٢٥۔

3206

۳۲۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ شُعْبَۃَ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ عَمَّارٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ قَالَ (أُمِرْنَا بِصَوْمِ عَاشُوْرَائَ قَبْلَ أَنْ یُفْرَضَ رَمَضَانُ‘ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ نُؤْمَرْ‘ وَلَمْ نُنْہَ عَنْہُ‘ وَنَحْنُ نَفْعَلُہٗ) .
٣٢٠٥: ابو عمارہ نے قیس بن سعد بن عبادہ (رض) سے نقل کیا کہ ہمیں رمضان کی فرضیت سے پہلے روزے کا حکم تھا جب رمضان فرض ہوگیا تو ہمیں نہ حکم دیا گیا اور نہ منع کیا گیا مگر ہم اس کو ادا کرتے رہے۔
تخریج : اسی طرح کی روایت بخاری فی الصوم باب ١‘ ٦٩‘ مسلم فی الصیام ١١٣؍١١٦‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٦٣‘ دارمی فی الصوم باب ٤٦‘ مالک فی الصوم ٣٣۔

3207

۳۲۰۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ الْحَکَمَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَیْمِرَۃَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیْلِ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ‘ مِثْلَہٗ .
٣٢٠٦: عروہ بن شرحبیل نے قیس بن سعد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3208

۳۲۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ نَسْخُ وُجُوْبِ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ وَدَلِیْلُ أَنَّ صَوْمَہٗ قَدْ رُدَّ إِلَی التَّطَوُّعِ‘ بَعْد أَنْ کَانَ فَرْضًا .وَقَدْ رُوِیَتْ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ أُخَرُ‘ فِیْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ صَوْمَہٗ، کَانَ اخْتِیَارًا‘ لَا فَرْضًا۔
٣٢٠٧: حکم نے قاسم بن مخیمرہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ ان روایات میں عاشوراء کے دن روزہ کا منسوخ ہو نامذکور ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس دن کے روزے کو نفل قراردیا گیا جب کہ یہ پہلے فرض تھا ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے علاوہ روایات بھی وارد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اس روزہ کے رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار تھا فرض نہ تھا ۔ ان میں سے چند ذیل میں ہیں۔
ان روایات سے ثابت ہوا کہ رمضان المبارک کی فرضیت سے پہلے یہ روزہ فرض تھا پھر فرضیت منسوخ ہو کر دوبارہ تطوع اور نفل کی طرف لوٹ آیا۔
مؤقف فریق ثانی :
یہ روزے فرض نہ تھے نہ ہوئے کہ ان کے منسوخ ہونے کی نوبت آئی بس جو حیثیت پہلے تھی وہی باقی رہی شروع میں بھی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار تھا تو آخر میں بھی یہی رہا۔
جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔

3209

۳۲۰۸ : .فَمِنْہَا مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَا : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ قَالَ (لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ‘ وَجَدَ الْیَہُوْدَ یَصُوْمُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ ‘ فَسَأَلَہُمْ ؛ فَقَالُوْا : ھٰذَا الْیَوْمُ الَّذِیْ أَظْہَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْہِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ عَلٰی فِرْعَوْنَ .فَقَالَ أَنْتُمْ أَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْہُمْ‘ فَصُوْمُوْہُ .) فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ إِنَّمَا صَامَہٗ شُکْرًا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ إظْہَارِ مُوْسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ‘ فَذٰلِکَ عَلَی الِاخْتِیَارِ‘ لَا عَلَی الْفَرْضِ .
٣٢٠٨: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے پایا آپ نے ان سے دریافت کیا (کہ یہ روزہ کیوں کر رکھتے ہو) تو انھوں نے کہا اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا تو آپ نے فرمایا تم ان کی نسبت موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ قریب ہو۔ پس تم روزہ رکھو۔ اس روایت نے واضح کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن کا روزہ اس شکریہ میں رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون پر جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو غلبہ عنایت فرمایا۔ پس اس روزے میں اختیار ہوا نہ کہ فرضیت۔ ذیل کی روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٩‘ مسلم فی الصیام ١٢٧۔
اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہود شکریہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس طرح کے روزے تو اختیاری ہوتے ہیں نہ کہ فرض۔
ابن عباس (رض) کی روایت ملاحظہ ہو۔

3210

۳۲۰۹ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ یَزِیْدَ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ (ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ مَا عَلِمْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَحَرَّیْ صِیَامَ یَوْمٍ عَلٰی غَیْرِہِ‘ إِلَّا ھٰذَا الْیَوْمَ‘ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ ‘ أَوْ شَہْرَ رَمَضَانَ) .
٣٢٠٩: ابو یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو فرماتے سنا کہ میرے علم میں نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن کے روزہ کا جس قدر اہتمام فرماتے تھے اور کسی (نفلی) روزہ کا اتنا اہتمام نہ ہوتا تھا یا پھر رمضان کا اہتمام ہوتا۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٣١۔

3211

۳۲۱۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْرَقِیُّ‘ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْوَرْدِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ یَزِیْدَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یَوْمٍ فِی الصِّیَامِ‘ إِلَّا شَہْرَ رَمَضَانَ‘ وَیَوْمَ عَاشُوْرَائَ) .
٣٢١٠: عبیداللہ بن ابی یزید نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمایا کہ کسی دن کے روزے کو دوسرے دن کے روزے پر فضیلت حاصل نہیں سوائے رمضان المبارک اور عاشورہ کے روزے کے۔

3212

۳۲۱۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَاجِبُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ (الْحَکَمَ بْنَ الْأَعْرَجِ‘ یَقُوْلُ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبِرْنِیْ عَنْ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ .قَالَ عَنْ أَیِّ بَالِہِ تَسْأَلُ ؟ قُلْتُ : أَسْأَلُ عَنْ صِیَامِہٖ، أَیَّ یَوْمٍ أَصُوْمُ ؟ قَالَ اِذَا أَصْبَحْتَ مِنْ تَاسِعَۃٍ‘ فَأَصْبِحْ صَائِمًا .قُلْتُ : کَذٰلِکَ کَانَ یَصُوْمُ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ نَعَمْ .) فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ .وَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی صَوْمِہٖ، ذٰلِکَ أَنَّہٗ کَانَ اخْتِیَارًا لَا فَرْضًا‘ مَا قَدْ رَوَاہُ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ إخْبَارِہِ بِالْعِلَّۃِ الَّتِی مِنْ أَجْلِہَا صَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمئِذٍ .
٣٢١١: حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا کہ آپ مجھے یوم عاشورہ کے متعلق بتلائیں تو وہ کہنے لگے کیا تم اس کے روزے سے متعلق پوچھتے ہو کہ میں کسی دن روزہ رکھوں تو فرمانے لگے جب تم نویں کی صبح کرو تو روزہ رکھو۔ میں نے پوچھا ؟ کیا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روزہ رکھتے تھے اس پر انھوں نے کہا جی ہاں ! تو یہ حضرت ابن عباس (رض) ہیں جن کی روایت گزری کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا روزہ نفلی تھا نہ کہ فرض۔ حضرت ابو سعید الخدری (رض) نے ان روایات میں جو انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کی ہیں۔ ان میں اس علت کو واضح کیا جس کی بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن روزہ رکھا ۔ روایت ملاحظہ کریں۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ١٣٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٦٤۔
یہ ابن عباس (رض) بتلا رہے ہیں کہ وہ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے یہ بھی دلیل ہے کہ روزہ اختیاری تھا فرض نہ تھا ابن عباس (رض) کی سعید بن جبیر والی روایت میں مذکور علت بھی اس بات کی مؤید نظر آتی ہے۔

3213

۳۲۱۲ : وَقَدْ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ جَابِرٍ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ) .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْن ذٰلِکَ أَیْضًا‘ مِنْ أَجْلِ الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٢١٢: ابو عبدالرحمن نے علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ اس روایت میں جو کچھ مذکور ہے ممکن ہے کہ یہ اسی بنیاد پر ہو جو روایت ابن عباس (رض) میں منقول ہوئی یعنی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار تھا تاکید نہ تھی۔

3214

۳۲۱۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ ثُوْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ : ھٰذَا یَوْمُ عَاشُوْرَائَ فَصُوْمُوْہُ‘ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِصَوْمِہٖ) .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ لِلْعِلَّۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا أَیْضًا .
٣٢١٣: ثور کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر سے میں نے سنا یہ عاشورہ کا دن ہے پس تم روزہ رکھو اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے روزے کا حکم فرماتے تھے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ممکن ہے کہ یہ روزے کا حکم اس علت کی بنا پر ہو جس کا ہم نے تذکرہ کیا۔

3215

۳۲۱۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ‘ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَیْسَرَۃَ الْوَاسِطِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَزِیْدَۃُ بْنُ جَابِرٍ‘ عَنْ أُمِّہِ‘ أَنَّ عُثْمَانَ اسْتَعْمَلَ أَبَا مُوْسٰی عَلَی الْکُوْفَۃِ‘ فَقَالَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ (صُوْمُوْا ھٰذَا الْیَوْمَ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُوْمُہٗ) .فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یَحْتَمِلُ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَیْضًا .
٣٢١٤: مزیدہ بن جابر نے اپنی والدہ سے نقل کیا کہ عثمان (رض) نے ابو موسیٰ (رض) کو کوفہ کا عامل بنایا تو انھوں نے عاشورہ کے دن کہا آج کے دن روزہ رکھو اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ رکھتے تھے۔
اس روایت میں بھی وہی احتمال ہے جو روایت ابن عباس (رض) میں ہم نے ذکر کیا۔

3216

۳۲۱۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّیَّاحِ‘ عَنْ ہُنَیْدَۃَ بْنِ خَالِدٍ‘ عَنْ امْرَأَتِہٖ‘ عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُوْمُ تِسْعَ ذِی الْحِجَّۃِ‘ وَیَوْمَ عَاشُوْرَائَ ‘ وَثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ‘) فَھٰذَا أَیْضًا‘ مِثْلُ الَّذِیْ قَبْلَہٗ۔
٣٢١٥: ہبیرہ بن خالد نے اپنی بیوی سے نقل کیا اس نے ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو ذی الحجہ اور یوم عاشورہ ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھتے تھے یہ روایت بھی ماقبل کی طرح ہے۔

3217

۳۲۱۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَیْسٍ‘ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ‘ عَنِ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (قَدْ کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَائَ یَوْمًا یَصُوْمُہُ الْیَہُوْدُ‘ وَیَتَّخِذُوْنَہُ عِیْدًا‘ فَصُوْمُوْہُ أَنْتُمْ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصَوْمِہٖ، لِأَنَّ الْیَہُوْدَ کَانَتْ تَصُوْمُہُ .وَقَدْ أَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثِہِ بِالْعِلَّۃِ الَّتِی مِنْ أَجْلِہَا کَانَتَ الْیَہُوْدُ تَصُوْمُہٗ، أَنَّہَا عَلَی الشُّکْرِ مِنْہُمْ لِلّٰہِ تَعَالٰی فِیْ إظْہَارِہٖ مُوْسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ‘ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا صَامَہٗ، کَذٰلِکَ‘ وَالصَّوْمُ لِلشُّکْرِ اخْتِیَارٌ‘ لَا فَرْضٌ .
٣٢١٦: ابن شہاب نے ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عاشورہ کا دن وہ تھا جس میں یہود روزہ رکھتے تھے اور اس کو عید کے طور پر مناتے تھے پس تم بھی روزہ رکھو۔ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ نے اس دن کے روزے کا حکم فرمایا اور یہود یہ روزہ اس شکریہ کے طور پر رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی طور پر روزہ رکھا اور شکر کا روزہ اختیار ہوتا ہے نہ کہ فرض ۔ ذیل کی روایات۔ ملاحظہ کریں۔ اس روایت میں آپ نے ان کو روزے کا حکم فرمایا جس کا مقصد گناہوں کا کفارہ اور ثواب کا حصول تھا اور یہ ہماری پیش کردہ روایت ابن عباس (رض) کے خلاف نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اس بات پر شکر گزاری کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے ادا کرتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے ذریعہ شکریہ ادا کیا پس اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ گزشتہ سال کے گناہ مٹا دیتے ہوں
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٩‘ مسلم فی الصیام ١٢٩۔
روایات بالا اور خصوصاً یہ روایت ظاہر کر رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ رکھنے کا اس لیے حکم فرمایا کیونکہ یہودی نجات بنی اسرائیل اور غرق فرعون کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے تھے گویا یہ صوم تشکر تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بطور تشکر رکھنے کا حکم فرمایا تشکر میں تو اختیار ہوتا ہے نہ کہ فرضیت۔

3218

۳۲۱۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (مَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَصُوْمَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ فَلْیَصُمْہُ‘ وَمَنْ لَمْ یُحِبَّ فَلْیَدَعْہُ) .
٣٢١٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تم میں روزہ رکھنا پسند کرے تو وہ عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١١٧‘ ١١٨‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٦٤‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤١۔

3219

۳۲۱۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِیْ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ (إِنَّ ھٰذَا یَوْمٌ کَانَتْ قُرَیْشٌ تَصُوْمُہٗ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ‘ فَمَنْ شَائَ أَنْ یَصُوْمَہٗ فَلْیَصُمْہُ‘ وَمَنْ شَائَ أَنْ یَتْرُکَہُ فَلْیَتْرُکْہُ)
٣٢١٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ‘ جو آدمی چاہے پس اس کا روزہ رکھ لے اور جو چھوڑنا چاہے وہ چھوڑ دے۔
تخریج : سابقہ تخریج نمبر ٣٢١٨۔

3220

۳۲۱۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَمِعْتُ غَیْلَانَ بْنَ جَرِیْرٍ‘ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْبَدٍ‘ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ قُلْتُ (الْأَنْصَارِیِّ ؟) قَالَ : الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ (إِنِّیْ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِیْ قَبْلَہٗ) .
٣٢١٩: عبداللہ بن معبد نے ابو قتادہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے عاشورہ کے روزے کے متعلق فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس کے ذریعہ ایک سال پہلے کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٩٦‘ ١٩٧‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٥٣‘ ترمذی فی الصوم باب ٤٦‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤٠‘ مسند احمد ٥؍٣٠٨۔

3221

۳۲۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : سَمِعْتُ غَیْلَانَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٢٢٠: وہب بن جریر نے اپنے والد سے نقل کیا انھوں نے غیلان سے سنا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3222

۳۲۲۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُوْنَ‘ وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ غَیْلَانَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَمَرَہُمْ بِصَوْمِہٖ احْتِسَابًا لِمَا ذَکَرَ فِیْہِ مِنَ الْکَفَّارَۃِ‘ وَلَیْسَ ھٰذَا بِمُخَالِفٍ - عِنْدَنَا - لِحَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ یَصُوْمُہُ شُکْرًا لِلّٰہِ‘ لَمَّا أَظْہَرَ مُوْسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ‘ فَیَشْکُرُ اللّٰہَ بِہٖ، مَا شَکَرَہٗ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَیُکَفِّرُ بِہٖ عَنِ السَّنَۃِ الْمَاضِیَۃِ .
٣٢٢١: مہدی بن میمون اور حماد بن زید نے غیلان سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت ذکر کی ہے۔
اس روایت میں احتساب کا تذکرہ ہے مگر یہ حدیث ابن عباس کے خلاف نہیں کیونکہ حصول ثواب کی غرض تو شکریہ کے روزے سے بھی پوری ہوتی ہے اور اس شکریہ کی وجہ سے سال گزشتہ کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہوں کیونکہ لإِن شکرتم لازیدنکم (الایہ) کا وعدہ بھی تو موجود ہے پس اس سے بھی وجوب ثابت نہ ہوا۔

3223

۳۲۲۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ مُعَاوِیَۃَ عَامَ حَجَّ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ : یَا أَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ‘ أَیْنَ عُلَمَاؤُکُمْ‘ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ " ھٰذَا یَوْمُ عَاشُوْرَائَ ‘ وَلَمْ یُکْتَبْ عَلَیْکُمْ صِیَامُہٗ، وَأَنَا صَائِمٌ‘ فَمَنْ شَائَ فَلْیَصُمْ‘ وَمَنْ شَائَ فَلْیُفْطِرْ " .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ (وَلَمْ یُکْتَبْ عَلَیْکُمْ صِیَامُہٗ) أَیْ صِیَامُ ذٰلِکَ الْیَوْمِ فِیْ ذٰلِکَ الْعَامِ .وَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا نَفْیُ أَنْ یَّکُوْنَ قَدْ کَانَ کُتِبَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ فِیْمَا تَقَدَّمَ ذٰلِکَ الْعَامَ مِنَ الْأَعْوَامِ‘ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا تَقَدَّمَ مِنَ الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ .فَقَدْ ثَبَتَ نَسْخُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ الَّذِیْ کَانَ فَرْضًا‘ وَأَمَرَ بِذٰلِکَ عَلَی الِاخْتِیَارِ‘ وَأَخْبَرَ بِمَا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الثَّوَابِ فَصَوْمُہٗ حَسَنٌ‘ وَہُوَ الْیَوْمُ الْعَاشِرُ‘ قَدْ قَالَ ذٰلِکَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ الْحَکَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ‘ وَذَکَرَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٢٢٢: حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حج والے سال حضرت معاویہ (رض) سے سنا جبکہ وہ منبر پر خطبہ میں کہہ رہے تھے اے اہل مدینہ تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس دن کے متعلق کہتے سنا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اس کا روزہ تم پر فرض نہیں کیا گیا جو چاہے اس کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے وہ افطار کرے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے قول ولم یُکتَب علیکم صیامہ “ سے اس دن کا روزہ اس سال کا مراد لیا ہو۔ اس میں اس بات کی نفی نہیں کہ یہ پہلے گزشتہ سالوں میں فرض تھا پھر یہ منسوخ کیا گیا ۔ جیسا کہ پہلی مذکورہ روایات میں گزرا۔ پس یوم عاشوراء کے دن روزہ منسوخ ہوا ۔ اس کے بعد کہ یہ پہلے فرض تھا اور اس کا حکم اختیاری کردیا گیا اور اس کے ثواب کی اطلاع دی ‘ اس کا روزہ رکھنا بہت بہتر ہے اور وہ دسویں تاریخ کا روزہ ہے۔ حکم بن اعرج والی روایت میں یہ ابن عباس (رض) سے نقل کیا گیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایت کیا گیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزید روایات ذیل میں ہیں۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٩‘ مسلم فی الصیام ١٢٦۔
اس روایت بالا میں لم یکتب علیکم صیامہ کے الفاظ سے مراد اس دن کا روزہ اس سال فرض نہیں کیا گیا اس میں فرض ہو کر منسوخ ہونے کی نفی نہیں بلکہ حضرت معاویہ اس کی موجودہ حالت بتلا رہے ہیں کہ اب اس کے روزے کی حیثیت فرضیت والی نہیں ہے باقی فرض ہو کر نسخ کی روایت گزشتہ سطور میں ذکر کی جا چکی ہیں اب روزہ رکھ لیا جائے تو ثواب ہے نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ابن عباس (رض) کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دسویں کا دن ہی ہے اس سے نویں تاریخ مراد لینا درست نہیں ہے۔
روایت ملاحظہ ہو۔

3224

۳۲۲۳ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَئِنْ عِشْتُ الْعَامَ الْقَابِلَ‘ لَأَصُوْمَنَّ یَوْمَ التَّاسِعِ یَعْنِیْ عَاشُوْرَائَ) .
٣٢٢٣: عبداللہ بن عمیر (رض) نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو میں نویں تاریخ یعنی عاشورہ کا روزہ رکھوں گا۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٣٤‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٦٥‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤١۔

3225

۳۲۲۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ وَأَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (لَأَصُوْمَنَّ عَاشُوْرَائَ ‘ یَوْمَ التَّاسِعِ) .
٣٢٢٤: ابو عامر اور ابو داؤد دونوں نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح بیان کیا صرف فرق یہ ہے کہ لَأَصُوْمَنَّ عَاشُوْرَاء پہلے اور یَوْمَ التَّاسِعِ بعد میں لائے۔

3226

۳۲۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَا : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ سُلَیْمَانَ .فَقَوْلُہٗ (لَأَصُوْمَنَّ عَاشُوْرَائَ ‘ یَوْمَ التَّاسِعِ) إخْبَارٌ مِنْہُ‘ عَلٰی أَنَّہٗ یَکُوْنُ ذٰلِکَ الْیَوْمُ‘ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ ‘ وَقَوْلُہٗ (لَأَصُوْمَنَّ یَوْمَ التَّاسِعِ) یَحْتَمِلُ (لَأَصُوْمَنَّ یَوْمَ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ) أَیْ لِئَلَّا أَقْصِدَ بِصَوْمِی إِلٰی یَوْمِ عَاشُوْرَائَ بِعَیْنِہِ‘ کَمَا یَفْعَلُ الْیَہُوْدُ‘ وَلٰـکِنْ أَخْلِطُہٗ بِغَیْرِہِ‘ فَأَکُوْنُ قَدْ صُمْتُہٗ، بِخِلَافِ مَا تَصُوْمُہُ یَہُوْدٌ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنَی .
٣٢٢٥: روح نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت اسی طرح نقل کی جیسا حدیث سلیمان میں وارد ہے۔ آپ کے ارشاد : ” لا صومن عاشوراء یوم التاسع “ اس میں آپ نے یہ خبر دی کہ یہ دن عاشورہ کا دن ہے اور نویں تاریخ کے روزہ کا مطلب یہ ہے۔ کہ میں نویں تاریخ کو دسویں کے ساتھ ملا کر روزہ رکھوں گا تاکہ دسویں دن کے روزہ رکھنے سے یہود جیسا قصد نہ ہونے پاتے کہ وہ صرف دسویں کا روزہ رکھتے ہیں بلکہ میں اسے دوسرے روزے سے ملا کر رکھوں گا تاکہ میرا روزہ یہود کے روزہ سے مختلف رہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے اس معنیٰ کی روایات وارد ہیں جو ذیل میں ہے۔
ان روایات میں نویں کو عاشورہ کہا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں دسویں کے ساتھ نویں کو ملا کر روزہ رکھوں گا تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے وہ فقط دسویں کا روزہ رکھتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے گزشتہ روایات کا خود معنی یہی بتلایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

3227

۳۲۲۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَطَاء ٌ أَنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ (خَالِفُوا الْیَہُوْدَ‘ وَصُوْمُوْا یَوْمَ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ‘ قَدْ صَرَفَ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَئِنْ عِشْتُ إِلٰی قَابِلٍ لَأَصُوْمَنَّ یَوْمَ التَّاسِعِ) إِلٰی مَا صَرَفْنَاہُ إِلَیْہِ .وَقَدْ جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٢٢٦: عطا نے ابن عباس (رض) کو فرماتے سنا یہود کی مخالفت کرو اور نویں اور دسویں کا روزہ ملا کر رکھو۔ اس روایت سے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد لئن عشت لا صو من یوم التاسع کا معنیٰ وہی لیا ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے اور یہ معنیٰ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے جیسا کہ ذیل کی روایت میں ہے۔
ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی ساتھ رکھوں گا اور ابن عباس (رض) نے یہ مفہوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے پیش نظر کیا ہے۔ وہ ارشاد یہ ہے۔

3228

۳۲۲۷ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ عَلِیٍّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ صُوْمُوْہُ‘ وَصُوْمُوْا قَبْلَہٗ یَوْمًا‘ أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا‘ وَلَا تَتَشَبَّہُوْا بِالْیَہُوْدِ)
٣٢٢٧: داؤد بن علی نے اپنے والد سے اور اپنے ابن دادا ابن عباس (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوم عاشورہ کے روزے کے متعلق نقل کیا ہے کہ اس کا روزہ رکھو اور اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھو اور یہود کی مشابہت مت اختیار کرو۔

3229

۳۲۲۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَثَبَتَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا ذَکَرْنَاہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِصَوْمِ التَّاسِعِ‘ أَنْ یُدْخِلَ صَوْمَہٗ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ ‘ فِیْ غَیْرِہٖ مِنَ الصِّیَامِ‘ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ مَقْصُوْدًا إِلٰی صَوْمِہٖ بِعَیْنِہٖ۔ کَمَا جَائَ عَنْہُ فِیْ صَوْمِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ .
٣٢٢٨: ابو شہاب نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی اور انھوں نے پھر اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔ پس اس روایت سے ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی کہ نویں تاریخ کے روزے سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ عاشوراء کے روزے کو دوسرے میں داخل کردیا جائے تاکہ معین دن کا روزہ مقصود نہ رہے جیسا کہ جمعہ کے روزے کے بارے میں آیا ہے جو ذیل کی روایات سے معلوم ہو رہا ہے۔
ان روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یوم تاسع یعنی نویں تاریخ کا تذکرہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں اس لیے فرمایا تاکہ اس کے روزہ کو بھی یوم عاشورہ میں داخل فرمائیں تاکہ معینہ دن کا روزہ ہی مقصود نہ رہے اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ جمعہ کے دن کے روزہ کے سلسلہ میں وارد ہے۔
روایت یہ ہے۔

3230

۳۲۲۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ‘ قَالَ أَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ وَہُوَ ابْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مُسَیِّبٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو‘ قَالَ : (دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی جُوَیْرِیَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ‘ وَہِیَ صَائِمَۃٌ .فَقَالَ لَہَا أَصُمْتِ أَمْسِ ؟ قَالَتْ : لَا‘ قَالَ أَفَلاَ تَصُوْمِیْنَ غَدًا ؟ قَالَتْ : لَا‘ قُلْتَ فَأَفْطِرِیْ اِذًا) .
٣٢٢٩: عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت جویریہ (رض) کے ہاں جمعہ کے دن تشریف لے گئے وہ روزے سے تھیں آپ نے فرمایا کیا تم نے کل گزشتہ روزہ رکھا ہے اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم کل روزہ رکھو گی ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر افطار کر دو (کیونکہ تم نے جمعہ کے روزے کو اپنی طرف سے لازم قرار دے دیا)
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٣۔

3231

۳۲۳۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أَیُّوْبَ الْعَتَکِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ‘ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْہَا‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٢٣٠: قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب عتکی کو جویریہ (رض) سے یہ روایت نقل کرتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لائے اور پھر گزشتہ روایت کی طرح روایت نقل کی ہے۔

3232

۳۲۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ وَحَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ وَہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٢٣١: شعبہ اور حماد بن سلمہ اور ہمام نے قتادہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٣‘ مسلم فی الصیام ١٤٧۔

3233

۳۲۳۳ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا آدَم‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ کَعْبٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ بِمِثْلِ مَعْنَاہُ .
٣٢٣٣: عبدالملک بن عمیر کہتا ہے کہ میں نے بنی حارث بن کعب کے ایک آدمی سے سنا جو ابوہریرہ (رض) سے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کے ہم معنی روایت نقل کرتا تھا۔

3234

۳۲۳۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ زِیَادٍ الْحَارِثِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٢٣٤: عبدالملک بن عمیر نے زید حارثی سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3235

۳۲۳۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ مِسْکِیْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ صِیَامِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ‘ فَقَالَ (نُہِیَ عَنْہُ إِلَّا فِیْ أَیَّامٍ مُتَتَابِعَۃٍ) .ثُمَّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ رَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ (نَہٰی عَنْ صِیَامِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ إِلَّا فِیْ أَیَّامٍ قَبْلَہٗ، أَوْ بَعْدَہٗ) .
٣٢٣٥: قاسم بن سلام بن مسکین نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے حسن سے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا اس سے منع کیا گیا ہے مگر یہ کہ پے در پے روزوں کے دوران آجائے پھر کہنے لگے کہ مجھے ابو رافع نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کے دن (خصوصاً ) روزہ رکھنے سے منع فرمایا البتہ اس سے ایک یا کئی دن پہلے یا بعد روزہ رکھا جائے۔

3236

۳۲۳۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ أَنَّ أَبَا الْخَیْرِ حَدَّثَہٗ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ الْبَارِقِیَّ حَدَّثَہٗ، أَنَّ جُنَادَۃَ بْنَ أَبِیْ أُمَیَّۃَ الْأَزْدِیَّ حَدَّثَہٗ، (أَنَّہُمْ دَخَلُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ‘ فَقَرَّبَ إِلَیْہِمْ طَعَامًا فَقَالَ کُلُوْا فَقَالُوْا : نَحْنُ صِیَامٌ .فَقَالَ أَصُمْتُمْ أَمْسِ قَالُوْا : لَا‘ قَالَ أَفَصَائِمُوْنَ غَدًا ؟ قَالُوْا : لَا‘ قَالَ فَأَفْطِرُوْا) .
٣٢٣٦: حذیفہ بارقی نے بیان کیا کہ جنادہ بن ابی امیہ ازدی (رض) نے بتلایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جمعہ کے دن حاضر ہوئے ہمارے سامنے کھانا رکھا گیا اور آپ نے فرمایا کھاؤ۔ ہم نے عرض کیا ہم روزے سے ہیں آپ نے پوچھا کیا تم نے کل گزشتہ کا روزہ رکھا ہے ہم نے عرض کیا نہیں پھر آپ نے فرمایا کیا تمہارا کل روزہ رکھنے کی نیت ہے کہا گیا نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر افطار کر دو ۔

3237

۳۲۳۷ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ لُدَیْنٍ الْأَشْعَرِیِّ‘ أَنَّہٗ سَأَلَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ صِیَامِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ‘ فَقَالَ : عَلَی الْخَبِیْرِ وَقَعْتَ‘ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (إِنَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ عِیْدُکُمْ‘ فَلاَ تَجْعَلُوْا یَوْمَ عِیْدِکُمْ‘ یَوْمَ صِیَامِکُمْ‘ إِلَّا أَنْ تَصُوْمُوْا قَبْلَہٗ، أَوْ بَعْدَہٗ) .فَکَمَا کُرِہَ أَنْ یُقْصَدَ إِلٰی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ بِعَیْنِہِ بِصِیَامٍ إِلَّا أَنْ یُخْلَطَ بِیَوْمٍ قَبْلَہٗ، أَوْ بِیَوْمٍ بَعْدَہٗ‘ فَیَکُوْنُ قَدْ دَخَلَ فِیْ صِیَامٍ‘ حَتَّی صَارَ مِنْہُ .وَکَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - سَائِرُ الْأَیَّامِ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَقْصِدَ إِلٰی صَوْمِ یَوْمٍ مِنْہَا بِعَیْنِہِ‘ کَمَا لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُقْصَدَ إِلٰی صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ أَوْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ لِأَعْیَانِہِمَا .وَلٰـکِنْ یَقْصِدُ إِلَی الصِّیَامِ فِیْ أَیِّ الْأَیَّامِ کَانَ .وَإِنَّمَا أُرِیْدَ بِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْکَرَاہَۃِ الَّتِی وَصَفْنَا‘ التَّفْرِقَۃُ بَیْنَ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ وَبَیْنَ سَائِرِ مَا یَصُوْمُ النَّاسُ غَیْرَہُ .لِأَنَّ شَہْرَ رَمَضَانَ مَقْصُوْدٌ بِصَوْمِہٖ إِلَی شَہْرٍ بِعَیْنِہِ‘ لِأَنَّ فَرِیْضَۃَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی عِبَادِہٖ، صَوْمُہُمْ إِیَّاہُ بِعَیْنِہٖ إِلَّا مِنْ عُذِرَ مِنْہُمْ‘ بِمَرَضٍ‘ أَوْ سَفَرٍ‘ وَغَیْرُہُ مِنَ الشُّہُوْرِ لَیْسَ کَذٰلِکَ .فَھٰذَا وَجْہُ مَا رُوِیَ فِیْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ بَیَّنَّاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَشَرَحْنَاہُ
٣٢٣٧: عامر بن لدین اشعری کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا تم نے جاننے والے سے پوچھا۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جمعہ کا دن تمہاری عید ہے پس اپنی عید کے دن کو اپنے روزے کا دن مت بناؤ۔ البتہ اگر اس سے پہلے یا بعد روزہ رکھو اور (ساتھ ملا کر اس کا روزہ رکھو تو درست ہے) تو جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ کوئی شخص جمعہ کے روزہ کو مقصود بنا کر رکھے ۔ البتہ یہ صورت ہوسکتی ہے کہ بعد یا پہلے کا دن روزہ بھی رکھ لے۔ اس طرح وہ مسلسل روزوں میں شامل ہوجائے گا ۔ ہمارے نزدیک تمام دنوں کا یہی حکم ہے کسی معین دن کا قصد کرنا مناسب نہیں جیسا کہ عاشوراء یا جمعہ کے دن کا روزہ قصد کر کے رکھنا مناسب نہیں بلکہ جس دن چاہے روزہ رکھنے کا ارادہ کرلے ۔ رہی وہ کراہت جس کا ہم نے تذکرہ کیا تو اس کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبارک اور دوسرے دنوں میں فرق کرنا چاہیے کیونکہ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا معین طور پر مقصود ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو فرضی روزہ کے لیے معین فرما دیا جس کو صرف بیماری اور سفر کے عذر کی وجہ سے چھوڑا جاسکتا ہے مگر دوسرے مہینوں کا معاملہ اس طرح نہیں عاشوراء کے روزے کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو ارشاد آتے ہیں ان کا مطلب وہی ہے جس کی تشریح ہم اس بات میں کرچکے ہیں۔
جس طرح ان روایات میں جمعہ کے نفلی روزہ کو مقصود بالذات بنا کر رکھنے کی ممانعت کی گئی بالکل اسی طرح عاشورہ کے روزے کو مقصود بالذات بنا کر رکھنے کی ممانعت کی گئی ہاں اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کو ملا لیا جائے تو پھر دوسرے روزوں میں داخل ہونے کی وجہ سے درست ہوجائے گا۔
ہمارے ہاں تو تمام نفلی روزوں کے سلسلہ میں یہی حکم ہے کہ ان میں سے کسی دن کو مقصود بنا کر روزہ رکھو کہ اس کے علاوہ کو نہ شامل کرے بلکہ عملی طور پر درست نہ سمجھے تو یہ جائز نہیں ہے اس سے ہماری مراد کراہت ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا تاکہ رمضان المبارک اور دیگر غیر فرضی روزے مقصود بالذات ہیں اس لیے کہ وہ فریضہ خداوندی ہے اور اس معین مہینہ کے روزے بندوں پر لازم ہیں ہاں اگر کوئی عذر مرض ‘ سفر وغیرہ کا پیش آئے وہ الگ بات ہے کسی دوسرے مہینہ یا دن کو معین کر کے اس کا روزہ ہمیشہ لازم کرلینے کی اجازت نہیں ہے یہ صورت ان روایات کی ہے جو یوم عاشورہ کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ہم نے ضروری وضاحت کردی ہے۔
امام طحاوی (رح) نے فرضیت صوم عاشورہ کے نسخ کے بعد استحباب پر پانچ صحابہ کی روایات پیش کی ہیں اور جو ابتداء فرضیت کے ہی قائل نہیں۔ ان کے ہاں اب بھی پہلی حالت استحباب پر باقی ہے اس کے لیے آٹھ صحابہ سے روایات نقل کی ہیں اور ایک دن پہلے یا بعد ملا کر اب بھی اس کا روزہ رکھنے میں عدم حرج کی روایات پانچ صحابہ سے ذکر کی ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا رجحان بقائے استحباب کے ساتھ ساتھ اس طرف ہے کہ اس دن کا اکیلا روزہ مکروہ ہے بعض روایات مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے (مسلم ٣٥٨ ج ١) اور دوسری روایات میں یہود مدینہ کو روزہ رکھتے دیکھنے کی روایت ہے تو ان میں چنداں تضاد نہیں عام مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں جا کر معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں بھی رکھتے تھے۔

3238

۳۲۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ہُوَ اِبْرَاہِیْمُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ‘ عَنْ أُخْتِہٖ (الصَّمَّائِ ‘ قَالَتْ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَصُوْمُنَّ یَوْمَ السَّبْتِ فِیْ غَیْرِ مَا اُفْتُرِضَ عَلَیْکُنَّ‘ وَلَوْ لَمْ تَجِدْ إِحْدَاکُنَّ إِلَّا لِحَائَ شَجَرَۃٍ‘ أَوْ عُوْدَ عِنَبٍ‘ فَلْتَمْضُغْہٗ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَکَرِہُوْا صَوْمَ یَوْمِ السَّبْتِ تَطَوُّعًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَلَمْ یَرَوْا بِصَوْمِہٖ بَأْسًا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّہٗ قَدْ جَائَ الْحَدِیْثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ (نَہٰی عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ إِلَّا أَنْ یُصَامَ قَبْلَہٗ یَوْمٌ‘ أَوْ بَعْدَہُ یَوْمٌ .) وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہٖ، فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ فَالْیَوْمُ الَّذِیْ بَعْدَہٗ‘ ہُوَ یَوْمُ السَّبْتِ .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فِیْ ھٰذَا‘ اِبَاحَۃُ صَوْمِ یَوْمِ السَّبْتِ تَطَوُّعًا‘ وَہِیَ أَشْہَرُ وَأَظْہَرُ فِیْ أَیْدِی الْعُلَمَائِ ‘ مِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الشَّاذِّ‘ الَّذِیْ قَدْ خَالَفَہَا .وَقَدْ (أَذِنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَوْمِ عَاشُوْرَائَ وَحَضَّ عَلَیْہِ) ، وَلَمْ یَقُلْ إِنْ کَانَ یَوْمَ السَّبْتِ فَلاَ تَصُوْمُوْہُ .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی دُخُوْلِ کُلِّ الْأَیَّامِ فِیْہِ .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ‘ صِیَامُ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ‘ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا‘ وَیُفْطِرُ یَوْمًا) وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ التَّسْوِیَۃُ بَیْنَ یَوْمِ السَّبْتِ‘ وَبَیْنَ سَائِرِ الْأَیَّامِ .وَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا بِصِیَامِ أَیَّامِ الْبِیْضِ وَرُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٢٣٨: خالد بن معدان نے عبداللہ بن بسر سے انھوں نے اپنی بہن صماء بنت بسر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ہفتے کے دن کا روزہ فرض روزوں کے علاوہ مت رکھو اگر اس دن کوئی چیز کھانے کی میسر نہ ہو تو درخت کا چھلکا یا انگور کی لکڑی لے کر اس کو چبا لو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اس روایت کے پیش نظریہ بات اختیار کی کہ ہفتہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہفتے کے دن روزہ رکھنے میں کچھ حرج نہیں ۔ پہلے قول کے قائلین کے خلاف ان کی دلیل وہ روایت ہے کہ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا ممنوع ہے مگر یہ کہ ایک دن اس سے پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ رکھا جائے۔ یہ روایت ہم اسی کتاب میں گزشتہ ابواب میں ذکر کرچکے ہیں۔ تو جمعے کے بعد والا دن یہی ہفتہ کا دن بنتا ہے۔ ان روایات میں ہفتے کے دن روزہ رکھنے کا جواز ملتا ہے اور یہ روایت محدثین کے ہاں اس شاذ روایت سے زیادہ مشہور ہے جو اس کے خلاف وارد ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاشوراء کے روزہ کی اجازت ہی مرحمت نہیں فرمائی بلکہ اس کی ترغیب بھی فرمائی ۔ مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر یہ دن ہفتے والے دن کے برابر آجائے تو روزہ مت رکھو ۔ تو اس میں اس بات کا خود ثبوت مل گیا کہ تمام دنوں کا روزہ رکھنا اس میں شامل ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی کہ اللہ کے ہاں محبوب روزہ داؤد (علیہ السلام) کا ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے ہم اپنی اسی کتاب میں اس روایت کو اسناد کے ساتھ نقل کریں گے (ان شاء اللہ) اس میں ہفتے کا دن اور دوسرے دن کے برابر ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیض کے دنوں کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ جیسا ذیل کی روایت میں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٥٢‘ ترمذی فی الصوم باب ٤٣‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٣٨‘ باختلاف یسیر من اللفظ۔
حاصل کلام : یہ کہ اس دن کے روزے کی اس سختی سے ممانعت فرمائی گئی کہ اگر کھانے کی کوئی چیز میسر نہ ہو تو لکڑی چبا کر افطار کرلینے کی تاکید فرمائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کا روزہ شدید کراہت رکھتا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جوابات :
اس دن کے روزے میں کراہت نہیں آگے پیچھے ایک دن ساتھ ملا لیا جائے تو بہت بہتر ہے۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں جمعہ کے دن اکیلا روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہے البتہ اس سے پہلے ایک دن یا بعد والادن ملا لیا جائے تو قباحت نہیں گزشتہ سطور میں یہ روایت مذکور ہے اب جمعہ کے بعد والا دن ساتھ ملا کر رکھنے کی اجازت دی تو جمعہ کے بعد ہفتہ ہی ہے تو ہفتے کے روزے کا جواز تو ثابت ہوگیا حرمت کی نفی تو ثابت ہوگئی۔ نیز یہ روایت جس سے ہفتہ کے دن کا روزہ مباح ثابت ہو رہا ہے یہ مشہور روایت ہے اور فریق اوّل کی مستدل تو شاذ روایت ہے پس اس کے مقابل نہ ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہ ہوگی۔
دوسرا زاویہ نگاہ :
مزید ملاحظہ کریں عاشورہ کے روزے پر آمادہ کیا مگر اس میں یہ تو بالکل نہیں کہا کہ اگر ہفتہ کا دن اس دن میں پڑجائے تو تم روزہ نہ رکھو ایسا نہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام ایام اس حکم میں داخل ہیں عاشورہ کا روزہ تو نفل ہے جس کا ہفتہ کے دن ثبوت مل رہا ہے۔ پس ہفتہ کے روزہ کی ممانعت تحریمی ثابت نہ رہی۔
ایک اور زاویہ نگاہ سے :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ : احب الصیام الی اللہ عزوجل صیام داؤد کان یصوم یوما و یفطر یوما تو ظاہر ہے کہ یہ روزے نفلی تھے اور ایک دن افطار اور ایک دن روزہ رکھنے میں دو ہفتوں کے دوران ایک مرتبہ تو ہفتہ کا دن ضرور آئے گا اس روایت سے ہفتہ اور دیگر ایام میں کم از کم برابری کا ثبوت مہیا ہوتا ہے۔
تخریج : یہ روایت بخاری باب ٥٦‘ احادیث الانبیاء باب ٣٧‘ مسلم فی الصیام ١٨١‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٥٣‘ نسائی فی الصیام باب ٧٥‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٣١‘ مسند احمد ٢؍١٥٨‘ ٥؍٢٩٧ میں موجود ہے۔
ذرا غور فرمائیں : ایام بیض کے روزے ان کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا اور آپ سے ان کا خود رکھنا بھی ثابت ہے مگر ان روایات میں یہ استثناء کہیں نہیں کہ اگر ہفتہ کا دن آجائے تو روزہ مت رکھو اس سے ثابت ہوا کہ ہفتہ کے روزہ کی ممانعت تحریمی نہیں ہوسکتی ایام بیض کی روایات ‘ بخاری باب الصوم
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٠‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٦٧‘ نسائی فی الصیام باب ٧٠‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٢٩‘ دارمی فی ا (رح) صوم باب ٣٨‘ مسند احمد ٤؍٥‘ ١٦٥؍٢٨۔ میں موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جمعہ کے دن کو خصوصی فضیلت والا بنا کر امت مسلمہ کو عنایت کیا گیا اسی طرح یہود کے لیے ہفتہ اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا دن ان کے ہاں باعظمت شمار ہوتا ہے۔ ! اس دن کے روزے کا حکم مجاہد ‘ طاؤس اور ابراہیم رحمہم اللہ کے ہاں کراہت تحریمی کا ہے " اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں روزہ درست ہے۔ #البتہ احناف کے ہاں ایک دن آگے پیچھے ساتھ ملانے کے بغیر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
ہفتہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے دلیل یہ روایت ہے۔
نیز صماء بنت بسر والی روایت شاذ اور مضطرب ہے جس سے کیا جانے والا استدلال اتنی صریح روایات کے بالمقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
ایام بیض کے سلسلہ کی روایات آگے ملاحظہ ہوں۔

3239

۳۲۳۹ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَحَکِیْمٌ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ‘ عَنِ ابْنِ الْحَوْتَکِیَّۃِ‘ عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ‘ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ أَمَرَہٗ بِصِیَامِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ‘ وَأَرْبَعَ عَشْرَۃَ‘ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ) .
٣٢٣٩: ابن حوتکیہ نے ابو ذر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو تیرہ ‘ چودہ ‘ پندرہ تاریخ کے روزہ کا حکم فرمایا۔

3240

۳۲۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا حُمَامٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَنَسُ بْنُ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ قَتَادَۃَ بْنِ مِلْحَانَ الْقَیْسِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا أَنْ نَصُوْمَ لَیَالِیَ الْبِیْضِ‘ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ‘ وَأَرْبَعَ عَشْرَۃَ‘ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ‘ وَقَالَ ہِیَ کَہَیْئَۃِ الدَّہْرِ) وَقَدْ یَدْخُلُ السَّبْتُ فِیْ ھٰذِہِ‘ کَمَا یَدْخُلُ فِیْہَا غَیْرُہٗ، مِنْ سَائِرِ الْأَیَّامِ .فَفِیْہَا أَیْضًا اِبَاحَۃُ صَوْمِ یَوْمِ السَّبْتِ تَطَوُّعًا .وَلَقَدْ أَنْکَرَ الزُّہْرِیُّ حَدِیْثَ الصَّمَّائَ فِیْ کَرَاہَۃِ صَوْمِ یَوْمِ السَّبْتِ‘ وَلَمْ یَعُدَّہٗ مِنْ حَدِیْثِ أَہْلِ الْعِلْمِ‘ بَعْدَ مَعْرِفَتِہِ بِہٖ۔
٣٢٤٠: انس بن سیرین نے عبدالملک بن قتادہ بن ملحان قیسی نے اپنے والد سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ایام بیض میں یعنی تیرہ ‘ چودہ ‘ پندرہ تاریخ کو روزہ کا حکم فرماتے تھے اور آپ فرماتے یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اس نے ہمیشہ روزے رکھے۔ اس میں ہفتہ دوسرے دنوں کی طرح داخل ہے اور اس سے ہفتے کے دن کے نفلی روزہ کا مباح ہونا ثابت ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ امام زہری (رح) علیہ نے ہفتے کے دن روزے کی کراہت والی حضرت صماء والی روایت کو منکر قرارد یا اور اس کی پہچان کے بعد اس کو اہل علم کی روایت میں شمار نہیں کیا جیسا کہ اگلے اثر سے ثابت ہو رہا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٦٧‘ نمبر ٣٤٤٩۔
ایام بیض میں روزے کا حکم فرمایا تو کبھی نہ کبھی تو ان دنوں میں ہفتہ ضرور آتا ہے اس سے کراہت تحریمی کی نفی ہو کر یوم سبت میں روزے کی اباحت ثابت ہوگئی۔
امام زہری (رح) نے یوم سبت کے دن روزہ کی ممانعت والی روایت کا انکار کیا ہے ‘ چنانچہ ان سے جب اس کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کو ثقہ راویوں کی روایت قرار نہیں دیا۔

3241

۳۲۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامٍ الرُّعَیْنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : سُئِلَ الزُّہْرِیُّ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ السَّبْتِ‘ فَقَالَ (لَا بَأْسَ بِہِ) .فَقِیْلَ لَہٗ : فَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کَرَاہَتِہٖ‘ فَقَالَ ذَاکَ حَدِیْثٌ حِمْصِیٌّ‘ فَلَمْ یَعُدَّہُ الزُّہْرِیُّ حَدِیْثًا یُقَالُ بِہٖ، وَضَعَّفَہُ .وَقَدْ یَجُوْزُ عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ‘ إِنْ کَانَ ثَابِتًا‘ أَنْ یَّکُوْنَ إِنَّمَا نُہِیَ عَنْ صَوْمِہٖ، لِئَلَّا یَعْظُمَ بِذٰلِکَ‘ فَیُمْسَکَ عَنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَالْجِمَاعِ فِیْہٖ‘ کَمَا یَفْعَلُ الْیَہُوْدُ .فَأَمَّا مَنْ صَامَہُ لَا لِاِرَادَۃِ تَعْظِیْمِہٖ، وَلَا لِمَا تُرِیْدُ الْیَہُوْدُ بِتَرْکِہَا السَّعْیَ فِیْہٖ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ مَکْرُوْہٍ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَخَّصَ فِیْ صِیَامِ أَیَّامٍ بِعَیْنِہَا مَقْصُوْدَۃٍ بِالصَّوْمِ‘ وَہِیَ أَیَّامُ الْبِیْضِ‘ فَھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا بَأْسَ بِالْقَصْدِ بِالصَّوْمِ إِلٰی یَوْمٍ بِعَیْنِہٖ۔ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّہٗ قَدْ قِیْلَ إِنَّ أَیَّامَ الْبِیْضِ إِنَّمَا أُمِرَ بِصَوْمِہَا‘ لِأَنَّ الْکُسُوفَ یَکُوْنُ فِیْہَا‘ وَلَا یَکُوْنُ فِیْ غَیْرِہَا‘ وَقَدْ أُمِرْنَا بِالتَّقَرُّبِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِالصَّلَاۃِ وَالْعَتَاقِ (لَیْلَتَہٗ) وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ عِنْدَ الْکُسُوفِ .فَأَمَرَ بِصِیَامِ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ‘ لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ بِرًّا مَفْعُولًا بِعَقِبِ الْکُسُوفِ‘ فَذٰلِکَ صِیَامٌ غَیْرُ مَقْصُوْدٍ بِہٖ إِلٰی یَوْمٍ بِعَیْنِہِ فِیْ نَفْسِہٖ۔ وَلٰکِنَّہٗ صِیَامٌ مَقْصُوْدٌ بِہٖ فِیْ وَقْتٍ شُکْرًا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لِعَارِضٍ کَانَ فِیْہٖ‘ فَلاَ بَأْسَ بِذٰلِکَ .کَذٰلِکَ أَیْضًا یَوْمُ الْجُمُعَۃِ اِذَا صَامَہُ رَجُلٌ شُکْرًا لِعَارِضٍ‘ مِنْ کُسُوفِ شَمْسٍ أَوْ قَمَرٍ‘ أَوْ شُکْرًا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ‘ فَلاَ بَأْسَ بِذٰلِکَ‘ وَإِنْ لَمْ یَصُمْ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ یَوْمًا .
٣٢٤١: لیثی نے بیان کیا کہ زہری سے یوم سبت کے روزے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا اس میں کچھ قباحت نہیں سائل نے کہا کہ اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کراہت کی روایت منقول ہے تو انھوں نے فرمایا وہ حمصی روایت ہے اس کو انھوں نے روایت ہی شمار نہیں کیا کہ جس پر ضعف کا حکم لگائیں۔ ہمارے نزدیک اگر یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کے متعلق یہ کہنا ممکن ہے (واللہ اعلم) کہ اس دن روزہ رکھنے کی اس وجہ سے ممانعت فرمائی تاکہ کہیں اس دن کی تعظیم کی خاطر یہ اس دن کھانے پینے اور جماع سے نہ رک جائے جیسا یہود کے ہاں مروج ہے۔ اگر ترک سے یہ مقصود نہ ہو تو پھر روزے میں کچھ قباحت نہیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ معین دنوں کے روزہ کی بالقصد اجازت دی گئی ہے اور وہ ایام بیض کے روزے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ بالقصد کسی دن کو متعین کر کے روزہ رکھنے میں کچھ حرج نہیں اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ کہ ایام بیض کے روزے کا حکم ایک قول کے مطابق اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ سورج گرہن انہی دنوں میں (عموماً ) ہوتا ہے۔ دوسرے دنوں میں نہیں ہوتا اور اس موقعہ پر ہمیں نماز اور غلاموں کو آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا حکم ہے۔ تو ان دنوں میں روزے کا حکم ہے تاکہ کسوف کے بعد یہ نیک عمل ہو ۔ معینہ دنوں میں روزے مقصود نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایسے روزے ہیں جن سے بارگاہ الٰہی میں شکر مقصود ہے جو ایک عارضہ کی وجہ سے ادا کیا جا رہا ہے پس ان میں کچھ حرج نہیں۔ اسی طرح جمعہ کا روزہ بھی جب کوئی شخص کسی عارضہ کسوف وخوف کی وجہ سے بطور شکریہ رکھے یامطلق شکریہ مقصود ہو اس میں کچھ حرج نہیں اگر اس کے بعد یا پہلے روزہ نہ رکھے۔
ایک تاویل :
بصورت تسلیم ہم کہیں گے کہ اس کے روزے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تعظیم پیدا نہ ہو اور یہود کی طرح مسلمان اس دن کھانے پینے اور جماع کو غلط قرار نہ دے لیں البتہ جو شخص اس کی تعظیم کا خیال کئے بغیر روزہ رکھے اور یہود کی باتوں کا خیال کئے بغیر روزہ رکھے اس میں کچھ کراہت نہیں ہے۔
اشکال :
روزے کے لیے ایام کو مقصد بنا کر روزہ رکھنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا جبکہ ایام بیض کے روزے بطور نمونہ موجود ہیں۔ تو اسی طرح بالقصد کسی معینہ دن کا روزہ ضمنی نہ ہوا۔ پس بالقصد ہفتہ کا دن معین کر کے روزہ ممنوع نہ ہوا۔
ازالہ :
ایام بیض میں روزے رکھنے کا حکم اس وجہ سے ہوا کیونکہ چاند گرہن انہی دنوں میں ہوتا ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہوتا اور کسوف کے موقعہ پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہونے والے اعمال نماز غلام آزاد کرنا وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے پس ان ایام میں روزے کا حکم دیا تاکہ کسوف کے بعد یہ نیک اعمال ہوں ذاتی اعتبار سے یہ مقصود بالذات دن کے روزے نہیں بلکہ اس دن کو اللہ تعالیٰ کے شکریہ کے لیے بوجہ عارضہ مقصود بنایا گیا ہے پس ان کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی شخص جمعہ کے دن کا روزہ کسی عارضہ کی وجہ سے بطور شکریہ رکھے جیسے سورج ‘ چاند گرہن یا بارگاہ الٰہی میں بطور تشکر رکھے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے خواہ اس سے پہلے اور بعد روزہ نہ رکھے۔
یہ باب امام طحاوی (رح) نے روایت کا جواب دینے میں زیادہ تر وقت صرف کیا اپنے مؤقف کی روایات کم تعداد میں ذکر کی ہیں اور الزامی جوابات بھی ایک گونہ اصل دلیل کا کام دیتے ہیں اصل جب کراہت میں تحریمی ہونے کا ثبوت مسترد کردیا گیا تو اب اصل کا ثبوت خود مہیا ہوگیا اس باب میں بھی ائمہ احناف کی طرف منسوب کر کے کوئی قول پیش نہیں کیا گیا۔

3242

۳۲۴۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ وَیَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْقَاصُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَا صَوْمَ بَعْدَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ حَتّٰی رَمَضَانَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی کَرَاہَۃِ الصَّوْمِ بَعْدَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی رَمَضَانَ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِصَوْمِ شَعْبَانَ کُلِّہٖ‘ وَہُوَ حَسَنٌ غَیْرُ مَنْہِیٍّ عَنْہُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٢٤٢: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے نقل کیا انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کے بعد رمضان تک کوئی روزہ نہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کرام نے نصف سے رمضان المبارک تک روزے کو مکروہ قرار دیا ہے اور انھوں نے اس روایت کو اپنی دلیل میں پیش کیا ہے۔ دیگر علماء کرام نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ تمام شعبان کے روزے رکھنے میں کچھ حرج نہیں خوب ہے اور اس کی ممانعت نہیں ان روایات سے انھوں نے استدلال کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ١٣‘ باختلاف سیرین اللفظ ترمذی فی الصوم باب ٣٨‘ باختلاف لفظ یسیر۔
حاصل روایات نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
نصف شعبان کے بعد رمضان سے پہلے روزہ رکھنا کسی قسم کے حرج سے خالی ہے اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود روزہ رکھنا ثابت ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

3243

۳۲۴۳ : بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ‘ عَنْ لَیْثٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرِنُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ) .
٣٢٤٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شعبان کو (روزے کے ذریعہ) رمضان سے ملاتے تھے۔

3244

۳۲۴۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ (أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ) .
٣٢٤٤: ابو سلمہ نے امّ سلمہ امّ المؤمنین (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی دو ماہ کے مسلسل روزے سوائے شعبان رمضان کے رکھتے نہیں پایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ١٢‘ ترمذی فی الصوم باب ٣٧۔

3245

۳۲۴۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْغُصْنِ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُوْمُ یَوْمَیْنِ مِنْ کُلِّ جُمُعَۃٍ‘ لَا یَدَعُہُمَا فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ رَأَیْتُکَ لَا تَدَعُ صَوْمَ یَوْمَیْنِ مِنْ کُلِّ جُمُعَۃٍ .قَالَ أَیُّ یَوْمَیْنِ ؟ قُلْتُ : یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ‘ قَالَ ذَاکَ یَوْمَانِ‘ تُعْرَضُ فِیْہَا الْأَعْمَالُ عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ فَأُحِبُّ أَنْ یُعْرَضَ عَمَلِیْ وَأَنَا صَائِمٌ) .
٣٢٤٥: ابو سعید مقبری نے اسامہ بن زید (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جمعہ سے (سات دنوں میں سے) دو دن کے روزے رکھتے اور ان کو ترک نہ فرماتے تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہر جمعہ کے دنوں میں دو دن کا روزہ ضرور رکھتے ہیں اور ان کو ترک نہیں فرماتے آپ نے فرمایا کون سے دو دن ؟ میں نے کہا سوموار اور جمعرات آپ نے فرمایا یہ دو دن ایسے ہیں جن میں بندوں کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں پس میں نے پسند کیا کہ میرا عمل بھی ایسی حالت میں پیش ہو کہ میں روزے سے ہوں۔
تخریج : ترمذی فی الصوم باب ٤٤‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٤٢۔

3246

۳۲۴۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا ثَابِتٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .وَزَادَ (قَالَ : (وَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُوْمُ مِنْ شَہْرٍ‘ مَا یَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ‘ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ رَأَیْتُک تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ‘ مَا لَا تَصُوْمُ مِنْ غَیْرِہِ مِنَ الشُّہُوْرِ قَالَ ہُوَ شَہْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ‘ بَیْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ‘ وَہُوَ شَہْرُ یُرْفَعُ فِیْہِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ فَأُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِیْ وَأَنَا صَائِمٌ) .
٣٢٤٦: عبدالرحمن بن مہدی نے کہا ہمیں ثابت نے بیان کیا پھر ثابت نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی ماہ میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنا کہ آپ شعبان میں رکھا کرتے تھے میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے دیکھا کہ آپ شعبان میں اتنے زیادہ روزے رکھتے ہیں جو دوسرے مہینوں میں نہیں رکھتے آپ نے فرمایا یہ وہ شان والا مہینہ ہے جس کے متعلق لوگ غفلت کا شکار ہیں یہ رجب و رمضان کے درمیان میں واقع ہے اس میں اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال ایسی حالت میں پیش ہوں کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔
تخریج : نسائی فی الصیام باب ٧٠‘ مسند احمد ٥؍٢٠١۔

3247

۳۲۴۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا نَافِعٌ‘ عَنْ یَزِیْدَ‘ یَعْنِیْ یَزِیْدَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُسَامَۃَ‘ أَنَّ ابْنَ الْہَادِ حَدَّثَہٗ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ اِبْرَاہِیْمَ حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ (مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُوْمُ فِیْ شَہْرٍ‘ مَا کَانَ یَصُوْمُ فِیْ شَعْبَانَ‘ کَانَ یَصُوْمُہٗ کُلَّہٗ إِلَّا قَلِیْلًا‘ بَلْ کَانَ یَصُوْمُہٗ کُلَّہٗ) .
٣٢٤٧: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کسی ماہ میں اتنے روزے نہ رکھا کرتے تھے جتنے کہ شعبان میں رکھتے تھے آپ چند دن چھوڑ کر سارا شعبان روزے سے گزارتے بلکہ اس طرح کہہ لو کہ سارا شعبان ہی روزے رکھتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٥٩‘ ترمذی فی الصوم باب ٣٧۔

3248

۳۲۴۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ یَحْیَی‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَصُوْمُ مِنَ السَّنَۃِ أَکْثَرَ مِنْ صِیَامِہٖ فِیْ شَعْبَانَ‘ فَإِنَّہٗ کَانَ یَصُوْمُہٗ کُلَّہٗ) .
٣٢٤٨: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سال میں شعبان سے زیادہ کسی ماہ میں روزے نہ رکھتے تھے بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آپ تمام شعبان روزہ رکھتے تھے۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو نمبر ٣٢٤٨۔

3249

۳۲۴۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا بِشْرٌ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٢٤٩: ابو سلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی پھر اسی طرح بیان کی ہے۔

3250

۳۲۵۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا عَمِّی‘ قَالَ : ثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ (أَبِیْ سَلْمَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ صِیَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ کَانَ یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ لَا یُفْطِرُ‘ وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُوْلَ لَا یَصُوْمُ‘ وَکَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ‘ أَوْ عَامَّۃَ شَعْبَانَ) .
٣٢٥٠: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزے کے سلسلہ میں دریافت کیا تو وہ فرمانے لگیں آپ جب روزہ رکھنا شروع فرماتے تو ہم محسوس کرتیں کہ اب آپ افطار نہ فرمائیں گے اور جب افطار کرتے تو اس طرح لگتا کہ آپ روزہ نہ رکھیں گے آپ شعبان کے روزے رکھتے یا شعبان کے اکثر دنوں کا روزہ رکھتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٥٩۔

3251

۳۲۵۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ الرِّشْکُ‘ عَنْ مُعَاذَۃَ الْعَدَوِیَّۃِ قَالَتْ : (سُئِلَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُوْمُ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ؟ قَالَتْ نَعَمْ .فَقِیْلَ لَہَا : مِنْ أَیِّہِ .قَالَتْ : مَا کَانَ یُبَالِیْ مِنْ أَیِّ الشَّہْرِ صَامَہَا) قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا بَأْسَ بِصَوْمِ شَعْبَانَ کُلِّہٖ فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ الْأَوَّلِیْنَ عَلَیْہِمْ‘ أَنَّ الَّذِی رُوِیَ فِیْ ھٰذِہِ الْأَخْبَارِ إِنَّمَا ہُوَ إخْبَارٌ عَنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَمَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘ مِمَّا فِیْہِ النَّہْیُ‘ إخْبَارٌ عَنْ قَوْلِہِ فَکَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ یُصَحَّحَ الْحَدِیْثَانِ جَمِیْعًا .فَجُعِلَ مَا فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مُبَاحًا لَہٗ‘ وَمَا نَہٰی عَنْہُ کَانَ مَحْظُوْرًا عَلٰی غَیْرِہِ‘ فَیَکُوْنُ حُکْمُ غَیْرِہٖ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافَ حُکْمِہِ حَتّٰی یَصِحَّ الْحَدِیْثَانِ جَمِیْعًا وَلَا یَتَضَادَّانِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ أُسَامَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ شَعْبَانَ (ہُوَ شَہْرُ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْ صَوْمِہٖ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ صَوْمَہُمْ إِیَّاہُ أَفْضَلُ مِنَ الْاِفْطَارِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا۔
٣٢٥١: معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے پھر پوچھا گیا یہ کس ماہ کی بات ہے ؟ کہنے لگیں آپ اس بات کی پروا نہ کرتے تھے کہ کس ماہ میں رکھ رہے ہیں (یعنی ہر ماہ میں رکھتے تھے) وہ علماء ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمام شعبان کے روزے رکھنے میں قباحت نہیں ۔ ان روایات کا جواب دیتے ہوئے فریق اوّل نے کہا کہ ان روایات میں تو عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مذکور ہے اور پہلی روایات جن میں ممانعت مذکور ہے وہ آپ کا قول ہے تو دونوں روایات کی تطبیق وتصحیح کا تقاضا ہے کہ عمل کو آپ سے مخصوص قرار دیا جائے اور ممانعت امت کے لیے تسلیم کی جائے ۔ پس دوسروں کا حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ ہوا تاکہ دونوں روایات میں تصحیح ثابت ہو کر تضاد نہ رہے۔ دوسرے قول والوں کی طرف سے ان کے خلاف دلیل یہ ہے حضرت اسامہ نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں لوگ روزہ رکھنے سے غافل ہیں ‘ ‘ تو اس ارشاد سے دلالت حاصل ہوگئی کہ اس میں لوگوں کو روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے اور جناب رسول اللہ کا ارشاد اس بات کی تائید کرتا ہے روایات ذیل ملاحظہ کریں۔
ان روایات میں اس بات کا ثبوت مہیا ہوگیا کہ آپ شعبان میں روزے رکھتے بلکہ کثرت سے رکھتے تھے پس شعبان میں روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
فریق اوّل کا اشکال :
یہ تمام روایات جو آپ نے ذکر کی ہیں ان میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کی خبر ہے اور فعل میں تو تخصیص کا احتمال ہے پس یہ فعل تو آپ کی ذات سے خاص ہوا اور پہلی روایت میں آپ کے قول و ارشاد کا ذکر ہے پس ممانعت کا تعلق امت سے ہے اس لیے یہ روایات ہمارے مؤقف کے حق میں ہیں ان میں سے کوئی روایت ہمارے مؤقف کے خلاف نہیں۔
الجواب :
آپ کا یہ جواب کافی نہیں ہر فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ خاص نہیں جب تک کہ اس میں تخصیص کی خاص دلیل نہ پائی جائے جبکہ یہاں تخصیص کی بجائے حکم کے عام ہونے کا ثبوت مل رہا ہے مثلاً روایت اسامہ میں وارد ہے ” ہو شہر یغفل الناس عن صومہ “ اس روایت میں واضح اشارہ ہے کہ لوگوں کا روزہ رکھنا اس ماہ میں ان کے افطار سے بہتر ہے اور اس کے متعلق یہ کہنا درست نہ رہا کہ یہ آپ کی خصوصیت ہے باقی صراحت کے ساتھ دیگر روایات میں یہ بات پائی جاتی ہے۔

3252

۳۲۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ مُوْسٰی عَنْ ثَابِتُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَعْبَانُ) .
٣٢٥٢: ثابت نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رمضان کے فرض روزوں کے بعد (نفلی روزوں میں) سب سے زیادہ فضیلت والے روزے ماہ شعبان کے ہیں۔

3253

۳۲۵۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِیُّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ مُوْسٰی عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (سُئِلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ ؟ یَعْنِیْ بَعْدَ رَمَضَانَ قَالَ صَوْمُ شَعْبَانَ تَعْظِیْمًا لِرَمَضَانَ) .
٣٢٥٣: ثابت نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کون سے روزے افضل ہیں ؟ یعنی رمضان کے بعد۔ آپ نے فرمایا شعبان کے روزے رمضان کی عظمت کی خاطر رکھنا سب سے افضل ہے۔
تخریج : ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٨۔

3254

۳۲۵۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ قَالَ : أَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشِّخِّیْرِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ ہَلْ صُمْتُ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ ؟ قَالَ : لَا .قَالَ فَإِذَا أَفْطَرْتَ رَمَضَانَ فَصُمْ یَوْمَیْنِ) .
٣٢٥٤ : مطرف بن عبداللہ بن شخیر نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا جب رمضان مکمل کرلو تو پھر دو روزے رکھو۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٢‘ مسلم فی الصیام نمبر ١٩٩‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٨‘ مسند احمد ٤؍٤٢٨‘ ٤٤٤۔
لغات : سُرَرِ شعبان۔ شعبان کی آخری راتیں۔

3255

۳۲۵۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ قَالَ : أَنَا حَمَّادٌ عَنِ الْجُرَیْرِیِّ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ عَنْ مُطَرَّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ہُوَ ابْنُ الشِّخِّیْرِ عَنْ عِمْرَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (صُمْ یَوْمًا) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَھٰذَا فِیْ آخِرِ شَعْبَانَ فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمَّتَہُ مَا قَدْ وَافَقَ فِعْلَہٗ۔ وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٢٥٥: مطرف بن عبداللہ اور یہی ابن شخیر ہیں انھوں نے عمران (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا صرف فرق یہ ہے۔ ” صم یوما “ یومین کی بجائے مذکور ہے۔ اور یہ روایت بھی وارد ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ یہ شعبان کا اواخر ہے۔ ان آثار میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو وہ حکم فرمایا جو آپ کے فعل کے مناسب ہے نیز آپ سے اس سلسلہ کی روایات بھی آئی ہیں۔ ذیل میں موجود ہیں۔

3256

۳۲۵۶ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَقَدَّمُوْا رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ وَلَا یَوْمَیْنِ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ رَجُلٌ کَانَ یَصُوْمُ صِیَامًا فَلْیَصُمْہٗ)
٣٢٥٦: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ مت رکھو البتہ اس شخص کے ان دنوں میں یہ روزہ آجائے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو وہ روزہ رکھ لے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١٤‘ مسلم فی الصیام ٢١‘ ابو داؤد فی الصیام باب ٤‘ ١١‘ ترمذی فی الصوم باب ٢‘ ٤‘ ٣٨‘ نسائی فی الصیام باب ١٣‘ ٣١‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٥‘ دارمی فی الصوم ٢‘ ٤‘ مسند احمد ١؍٢‘ ٢٢١‘ ٢٣٤‘ ٤٠٨؍٤٧٧۔

3257

۳۲۵۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ.
٣٢٥٧: مسلم بن ابراہیم نے ہشام سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3258

۳۲۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٢٥٨: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی انھوں نے اسی طرح روایت بیان فرمائی۔

3259

۳۲۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ سَلْمَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ الْأَوْزَاعِیَّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٢٥٩: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3260

۳۲۶۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنٌ الْمُعَلِّمُ وَہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یَحْیٰی فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔۔
٣٢٦٠: حسین المعلم اور ہشام بن ابی عبداللہ نے یحییٰ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3261

۳۲۶۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ یَعْنِیْ یَحْیَی بْنَ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٢٦١: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3262

۳۲۶۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِلَّا أَنْ یُوَافِقَ ذٰلِکَ صَوْمًا کَانَ یَصُوْمُہٗ أَحَدُکُمْ فَلْیَصُمْہٗ) دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی دَفْعِ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی وَعَلٰی أَنَّ مَا بَعْدَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی رَمَضَانَ حُکْمُ صَوْمِہِ حُکْمُ صَوْمِ سَائِرِ الدَّہْرِ الْمُبَاحِ صَوْمُہُ فَلَمَّا ثَبَتَ ھٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْنَا دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ النَّہْیَ الَّذِیْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ لَمْ یَکُنْ إِلَّا عَلَی الْاِشْفَاقِ مِنْہُ عَلَی صُوَّامِ رَمَضَانَ لَا لِمَعْنًی غَیْرِ ذٰلِکَ وَکَذٰلِکَ نَأْمُرُ مَنْ کَانَ الصَّوْمُ بِقُرْبِ رَمَضَانَ یَدْخُلُہٗ بِہِ ضَعْفٌ یَمْنَعُہٗ مِنْ صَوْمِ رَمَضَانَ أَنْ لَا یَصُوْمَ حَتّٰی یَصُوْمَ رَمَضَانَ لِأَنَّ صَوْمَ رَمَضَانَ أَوْلٰی بِہٖ مِنْ صَوْمِ مَا لَیْسَ عَلَیْہِ صَوْمُہُ فَھٰذَا ہُوَ الْمَعْنَی الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُحْمَلَ عَلَیْہِ مَعْنٰی ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ حَتّٰی لَا یُضَادَّ غَیْرَہُ مِنْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا أَمَرَ بِہٖ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٣٢٦٢: عبدالوہاب نے محمد بن عمرو سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ : ” الا ان یوافق ذلک صوما کان یصومہ احد کم فلیصمہ “ مگر یہ کہ اس روزے کے موافق ہوجائے جس کو وہ رکھتا رہتا ہے تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس روایت نے اول قول والوں کی بات کی تردید کردی اور یہ بات بھی ثابت کردی کہ نصف شعبان کے بعد رمضان تک روزق رکھنے کا حکم بقیہ دنوں کے روزہ کی طرح ہے۔ تو جب یہ معنیٰ ثابت ہوگیا تو اس سے یہ دلالت مسیر آگئی کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں جس ممانعت کا تذکرہ ہے جسے شروع باب میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے رمضان المبارک کا روزہ رکھنے والوں کے لیے کمزوری کا فطرہ محسوس کیا اور کوئی اس کی وجہ نہیں اسی طرح ہم بھی اس آدمی کو جو روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہوجاتا ہے۔ یہی حکم دیتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک تک روزہ نہ رکھے کیونکہ رمضان المبارک کا روزہ تو اس غیر فرضی روزے سے افضل ہے۔ (کہیں رمضان کا روزہ کمزوری کی وجہ سے نہ چھوٹ جائے) تو اس روایت کو اس معنیٰ پر محمول کریں گے تاکہ دیگر روایات کے متضاد نہ ہو اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اس میں یہ دلالت پائی جاتی ہے۔ روایات ذیل میں درج ہیں۔
جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں یہ بات فرما دی ہاں اگر وہ آخری دن کا روزہ اگر تم میں سے کسی کے ہمیشہ رکھے جانے والے روزے کے دن کے موافق آجائے تو وہ روزہ رکھے اس سے فریق اوّل کے ہر دو دعوؤں کی تردید ہوتی ہے کہ نصف شعبان سے ابتداء رمضان تک روزہ رکھنا آپ کی خصوصیت ہے اور دوسروں کے لیے درست نہیں۔ اور ان روایات سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ ایام ممنوعہ کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں نفلی روزہ درست ہے جب یہ معنی ثابت ہوگیا تو اب نہی والی روایت جو ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان کا روزہ رکھنے والے پر شفقت کرتے ہوئے آپ نے چند دن رمضان سے قبل روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی تاکہ یہ نفلی روزے کی وجہ سے نقاہت کا شکار ہو کر فرضی روزہ سے محروم نہ رہ جائے نفلی روزے تو بعد میں رکھے جاسکتے ہیں رمضان المبارک کا روزہ چھوٹ جانے پر اپنا بدل نہیں رکھتا اس معنی پر روایت کو محمول کیا جائے گا تاکہ روایات میں باہمی تضاد نہ ہو اور عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت میں یہ بات موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔ صیام داؤد (علیہ السلام) ۔

3263

۳۲۶۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیْفٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ صِیَامُ دَاوٗدَ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا)
٣٢٦٣: ثقیف کے ایک آدمی نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا ‘ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو تمام صیام میں زیادہ محبوب داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٥٦‘ احادیث الانبیاء باب ٣٧‘ مسلم فی الصیام ١٨١؍١٨٨‘ ٢٠١؍٢٠٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٥٣‘ نسائی فی الصیام باب ٧٥‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٣١‘ مسند احمد ٢؍١٥٨‘ ٥‘ ٢٩٧؍٣١١۔

3264

۳۲۶۴ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا آدَم .
٣٢٦٤: بکر بن ادریس نے آدم سے روایت نقل کی ہے۔

3265

۳۲۶۵ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی الْفَیَّاضِ قَالَ : سَمِعْت عِیَاضًا قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٢٦٥: عیاض نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3266

۳۲۶۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَا ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (أَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ صِیَامُ دَاوٗدَ وَکَانَ یَصُوْمُ نِصْفَ الدَّہْرِ) .
٣٢٦٦: عمرو بن اوس نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب روزے داؤد (علیہ السلام) کے ہیں وہ آدھا زمانہ روزے رکھتے تھے یعنی ایک دن چھوڑ کر۔

3267

۳۲۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ یَعْنِی اِبْرَاہِیْمَ قَالَ ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ قَالَ : ثَنَا ثَابِتٌ عَنْ شُعَیْبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہٗ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْنِیْ فَسَأَلَہٗ عَنِ الصِّیَامِ فَقَالَ لَہٗ صُمْ یَوْمًا وَلَک عَشَرَۃُ أَیَّامٍ قَالَ : زِدْنِیْ یَا رَسُوْلَ فَإِنِّیْ بِیْ قُوَّۃً قَالَ صُمْ یَوْمَیْنِ وَلَک تِسْعَۃُ أَیَّامٍ قَالَ : زِدْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَإِنَّ بِیْ قُوَّۃً قَالَ صُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ وَلَک ثَمَانِیَۃُ أَیَّامٍ)
٣٢٦٧: شعیب نے اپنے والد عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے نفلی روزوں کے سلسلہ میں دریافت کیا آپ نے فرمایا ایک دن روزہ رکھو تمہارے لیے دس دن ہیں یعنی مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اپنے میں اس سے زائد کی قوت پاتا ہوں آپ نے فرمایا پھر دو دن روزہ رکھو اور تیرے لیے نو دن ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس سے زیادہ کی قوت پاتا ہوں انھوں نے کہا تین دن روزے رکھو اور تیرے لیے آٹھ دن ہیں۔

3268

۳۲۶۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ حَسْبِک أَنْ تَصُوْمَ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرَۃُ أَمْثَالِہَا فَذٰلِکَ صَوْمُ الدَّہْرِ کُلِّہٖ فَشَدَدْتُ عَلٰی نَفْسِی فَشَدَّدَ عَلَیَّ .فَقُلْتُ : إِنِّیْ أُطِیْقُ غَیْرَ ذٰلِکَ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ .فَقَالَ صُمْ صَوْمَ نَبِیِّ اللّٰہِ دَاوٗدَ قُلْتُ : وَمَا صَوْمُ دَاوٗدَ نَبِیِّ اللّٰہِ .قَالَ نِصْفَ الدَّہْرِ)
٣٢٦٨: ابو سلمہ نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ صوم الدھر کی طرح بن جائے گا پس میں نے اپنے اوپر سختی کی تو مجھ پر سختی کردی گئی میں نے کہا میں تو اس کے علاوہ کی طاقت رکھتا ہوں جو اس سے زیادہ ہو۔ تو آپ نے فرمایا تو تم اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت داؤد (علیہ السلام) والے روزے رکھو میں نے کہا وہ صوم داؤد کیا ہیں آپ نے فرمایا وہ آدھا زمانہ کے روزے ہیں یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار۔

3269

۳۲۶۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا بِشْرٌ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٢٦٩: اوزاعی نے یحییٰ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3270

۳۲۷۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حَفْصَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ وَأَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : بَلَغَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنِّیْ أَقُوْلُ لَأَصُوْمَنَّ الدَّہْرَ فَقَالَ صُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ قُلْتُ : فَإِنِّیْ أُطِیْقُ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ صُمْ یَوْمًا وَأَفْطِرْ یَوْمَیْنِ .قُلْتُ : فَإِنِّیْ أُطِیْقُ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ فَصُمْ یَوْمًا وَأَفْطِرْ یَوْمًا فَذٰلِکَ صَوْمُ دَاوٗدَ وَہُوَ أَعْدَلُ الصِّیَامِ)
٣٢٧٠: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میری یہ بات پہنچی کہ میں یہ کہتا ہوں میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا تم ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھا کرو میں نے کہا میں تو اس سے زائد کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو میں نے کہا میں اس سے زائد کی ہمت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو یہ صوم داؤد ہیں اور یہ تمام (نفلی) روزوں میں متوسط درجہ کے روزے ہیں۔

3271

۳۲۷۱ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ سَعِیْدًا أَخْبَرَہُ وَأَبَا سَلْمَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ : أَخْبَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٢٧١: ابو سلمہ نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے متعلق اطلاع ملی پھر انھوں نے اسی طرح روایت ذکر کی۔

3272

۳۲۷۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٢٧٢: ابو سلمہ نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3273

۳۲۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَرَوْحٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ ہِلَالٍ أَوْ ہِلَالِ بْنِ طَلْحَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُوْلُ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَبْدَ اللّٰہِ صُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا .قُلْتُ : إِنِّیْ أُطِیْقُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ صُمْ صَوْمَ دَاوٗدَ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا)
٣٢٧٣: طلحہ بن ہلال یا ہلال بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا اے عبداللہ ! ہر ماہ میں تین دن روزے رکھا کرو ارشاد الٰہی ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ (الانعام ١٦) نیکی کرنے والے کو دس گنا بدلہ ملے گا میں نے عرض کی ! میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا تو تم داؤد (علیہ السلام) والے روزے رکھا کرو وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

3274

۳۲۷۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ قِلَابَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوَ الْمَلِیْحِ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَبِیک زَیْدِ بْنِ عَمْرٍو عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَحَدَّثَنَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذُکِرَ لَہٗ صَوْمَہٗ قَالَ : فَدَخَلَ عَلَیَّ فَأَلْقَیْتُ لَہٗ وِسَادَۃً مِنْ أُدْمٍ حَشْوُہُ لِیْفٌ فَجَلَسَ عَلَی الْأَرْضِ وَقَالَ لِی إِنَّمَا یَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَخَمْسَۃُ أَیَّامٍ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَسَبْعَۃُ أَیَّامٍ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَتِسْعَۃُ أَیَّامٍ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ : فَأَحَدَ عَشْرَ یَوْمًا قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ : أَظُنُّہٗ قَالَ : ثَلاَثَۃَ عَشَرَ یَوْمًا قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا صِیَامَ فَوْقَ صِیَامِ دَاوٗدَ شَطْرَ الدَّہْرِ صِیَامُ یَوْمٍ وَإِفْطَارُ یَوْمٍ)
٣٢٧٤: ابوالملیح نے بیان کیا کہ میں ابو قلابہ کے والد زید بن عمرو کے ساتھ عبداللہ بن عمرو کی خدمت میں گیا تو انھوں نے ہمیں بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے میرے روزے کا تذکرہ ہوا تو آپ میرے ہاں تشریف لائے میں نے آپ کے لیے چمڑے کا گدا بچھایا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا تھا آپ زمین پر بیٹھ گئے اور مجھے فرمایا اے عبداللہ ! تمہیں ہر ماہ تین دن کے روزے کافی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (میں اس سے زائد کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا پھر پانچ دن۔ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا پھر سات دن میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا پھر نو دن۔ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) تو آپ نے فرمایا گیارہ دن۔ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے تیرہ دن فرمائے میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس سے زائد کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا۔ پھر کوئی روزہ صیام داؤد (علیہ السلام) سے افضل نہیں آدھا زمانہ۔ ایک دن روزہ ایک دن افطار۔

3275

۳۲۷۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَیْفَ تَصُوْمُ ؟ قُلْتُ : أَصُوْمُ فَلاَ أُفْطِرُ قَالَ صُمْ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ قُلْتُ : إِنِّیْ أَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ ؟ قَالَ : فَلَمْ یَزَلْ یُنَاقِصُنِیْ وَأُنَاقِصُہٗ حَتّٰی قَالَ فَصُمْ أَحَبَّ الصِّیَامِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ صَوْمَ دَاوٗدَ صَوْمَ یَوْمٍ وَإِفْطَارَ یَوْمٍ) .
٣٢٧٥: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کیسے روزے رکھتے ہو ؟ میں نے کہا کہ میں روزے مسلسل رکھتا ہوں آپ نے فرمایا تم ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھا کرو۔ میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں عبداللہ ! کہتے ہیں آپ مجھ سے سوال جواب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا پھر تم اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین روزے رکھو اور وہ صیام داؤد (علیہ السلام) ہیں ایک دن کا روزہ اور ایک دن کا افطار۔

3276

۳۲۷۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ قَادِمٍ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِی الْعَاصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَمْ أُنَبَّأْ أَنَّک تَصُوْمُ الدَّہْرَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ ؟ قَالَ : قُلْتُ إِنِّیْ أَقْوَیْ قَالَ إِنَّک اِذَا فَعَلْتُ نَفِہَتْ لَہُ النَّفْسُ وَہَجَمَتْ لَہُ الْعَیْنُ قَالَ : قُلْتُ : إِنِّیْ أَقْوَیْ قَالَ فَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ قَالَ : قُلْتُ : إِنِّیْ أَقْوَیْ قَالَ فَصُمْ صَوْمَ أَخِیْ دَاوٗدَ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا وَلَا یَفِرُّ اِذَا لَاقَی) .
٣٢٧٦: ابوالعاص نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا مجھے بتلایا نہیں گیا کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو عبداللہ کہتے ہیں میں نے کہا میں اس کی ہمت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا اگر تم ایسا کرو گے تو نفس تھک جائے گا اور آنکھ دھنس جائے گی میں نے کہا میں اس کی طاقت رکھتاہوں آپ نے فرمایا پھر تین دن کے روزے ہر ماہ میں رکھو میں نے کہا میں اس کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا پھر میرے بھائی داؤد (علیہ السلام) کے روزے رکھو وہ ایک دن افطار کرتے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے۔ اور جب دشمن کا سامنا ہوتا تو فرار اختیار نہ کرتے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٥٩‘ احادیث الانبیاء باب ٣٧‘ مسلم فی الصیام ١٨٨‘ نسائی فی الصیام باب ٧٨۔

3277

۳۲۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ وَکَانَ شَاعِرًا وَکَانَ لَا یُتَّہَمُ فِی الْحَدِیْثِ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٢٧٧: حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعباس سے سنا یہ ایک مکی آدمی تھا شاعر تھا مگر احادیث کی نقل میں متہم نہیں تھا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے سنا پھر انھوں نے اسی طرح روایت ذکر کی۔

3278

۳۲۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا شُرَیْحٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا حُصَیْنٌ وَمُغِیْرَۃُ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ صُمْ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٣٢٧٨: مجاہد نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھو پھر اسی طرح روایت نقل کی۔

3279

۳۲۷۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : سَمِعْت غَیْلَانَ بْنَ جَرِیْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِیِّ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ : (سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمَّنْ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا .قَالَ ذَاکَ صَوْمُ دَاوٗدَ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَکَیْفَ مَنْ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمَیْنِ قَالَ وَدِدْتُ أَنِّیْ طُوِّقْتُ عَلٰی ذٰلِکَ) فَلَمَّا أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمُتَوَاتِرَۃِ صَوْمَ یَوْمٍ وَإِفْطَارَ یَوْمٍ مِنْ سَائِرِ الدَّہْرِ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ صَوْمَ مَا بَعْدَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ مِمَّا قَدْ دَخَلَ فِیْ اِبَاحَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٢٧٩: عبداللہ بن معبدالزمانی نے ابو قتادہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے آپ نے فرمایا یہ داؤد (علیہ السلام) والے روزے ہیں اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ آدمی کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھتا اور دو دن افطار کرتا ہے آپ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میں اس کی طاقت پاتا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار متواترہ میں ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کی ہمیشہ اجازت مرحمت فرمائی ۔ تو اس سے واضح دلالت مل گئی کہ اس اباحت میں شعبان کا آخری آدھا حصہ بھی داخل ہے۔ جس کی رخصت عبداللہ بن عمرو (رض) کو دی ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٩٦‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٥٣‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٣١‘ مسند احمد ٥؍٣١١۔
حاصل روایات : ان آثار متواترہ میں ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کو جب عبداللہ بن عمرو (رض) کے لیے مباح قرار دیا گیا ہے اور تمام دنوں کے لیے ایسا کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو نصف شعبان کے دن بھی اس میں شامل ہیں ورنہ استثناء کیا جاتا جو کہ کسی روایت میں موجود نہیں پس نفلی روزے کی اباحت ایام ممنوعہ کے علاوہ تمام دنوں میں ثابت ہوگئی۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں بھی کراہت اور اباحت کا اختلاف ہے امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثانی کی طرف ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شعبان کے روزے رکھنے کو نو روایات سے پیش کیا اور شعبان کے روزے کی فضیلت والی روایات کو پانچ اسناد سے ذکر کیا پھر آخر میں صیام داؤد کی افضلیت کو جو شعبان وغیر شعبان سب کو شامل ہے سولہ اسناد سے نقل کیا ہے جس سے اباحت خوب ثابت ہوگئی۔

3280

۳۲۸۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ زَیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِیْ یَزِیْدَ الضَّبِّیِّ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ قَالَتْ : (سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ فَقَالَ أَفْطَرَا جَمِیْعًا) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : لَیْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یُقَبِّلَ فِیْ صَوْمِہٖ وَإِنْ قَبَّلَ فَقَدْ أَفْطَرَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا
٣٢٨٠: ابو یزید ضبی نے میمونہ بنت سعد (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روزہ دار کے لیے بوسہ سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے روایت بالا کو اختیار کر کے کہا کہ روزہ کی حالت میں بوسہ کی اجازت نہیں اگر اس نے بوسہ لیا تو اس کا روزہ جاتا رہا اور انھوں مزید ان روایات کو بھی دلیل میں پیش کیا روایات ذیل میں درج ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصیام باب ١٩۔

3281

۳۲۸۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْحَنْظَلِیُّ قَالَ : قُلْت لِأَبِیْ أُسَامَۃَ : أَحَدَّثَکُمْ عُمَرُ بْنُ حَمْزَۃَ ؟ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ عُمَرُ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ فَرَأَیْتُہٗ لَا یَنْظُرُنِیْ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا شَأْنِیْ؟ قَالَ : " أَلَسْت الَّذِیْ تُقَبِّلُ وَأَنْتَ صَائِمٌ " فَقُلْتُ : وَاَلَّذِیْ بَعَثَک بِالْحَقِّ إِنِّیْ لَا أُقَبِّلُ بَعْدَ ھٰذَا وَأَنَا صَائِمٌ فَأَقَرَّ بِہِ ثُمَّ قَالَ " نَعَمْ " وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٣٢٨١ : سالم نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ عمر (رض) کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دیکھا میں نے آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ میری طرف دیکھتے ہی نہیں میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا کیا معاملہ ہے ؟ (کہ جس سے آپ اعراض فرما رہے ہیں) آپ نے فرمایا کیا تو وہی نہیں جو روزے کی حالت میں بوسہ لیتا ہے ؟ میں نے کہا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں آئندہ روزہ کی حالت میں کبھی بوسہ نہ لوں گا میں اس پر برقرار رہوں گا تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اور انھوں نے اس سلسلہ میں ابن مسعود (رض) کی ان روایات سے بھی استدلال کیا ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔

3282

۳۲۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافٍ عَنْ ہَانِئٍ وَکَانَ یُسَمَّی الْہِزْہَازَ قَالَ : سُئِلَ عَبْدُ اللّٰہِ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ فَقَالَ (یَقْضِیْ یَوْمًا آخَرَ)
٣٢٨٢: ھانی جس کا لقب ہزھاز ہے کہتے ہیں کہ عبداللہ سے روزہ دار کے بوسہ کے سلسلہ میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا وہ اس روزے کی قضا کرے۔

3283

۳۲۸۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ ہِلَالٍ عَنِ الْہِزْہَازِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ مِنْ قَوْلِہٖ .
٣٢٨٣: سفیان نے منصور سے انھوں نے ھلال عن ھزھاز سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3284

۳۲۸۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَنْہٰی عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ.
٣٢٨٤: سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ عمر (رض) روزہ دار کو بوسہ سے منع فرماتے تھے۔

3285

۳۲۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زَاذَانَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَأَنْ أَعَضَّ عَلٰی جَمْرَۃٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أُقَبِّلَ وَأَنَا صَائِمٌ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا رُوِیَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ .
٣٢٨٥: عمران بن مسلم نے زادان سے نقل کیا کہ عمر (رض) نے فرمایا کہ میں کسی انگارے کو منہ میں ڈالوں یہ مجھے روزہ کی حالت میں بوسہ سے زیادہ محبوب ہے۔

3286

۳۲۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ أَعْیَنَ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فِی الرَّجُلِ یُقَبِّلُ امْرَأَتَہٗ وَہُوَ صَائِمٌ فَقَالَ : یَنْقُضُ صَوْمُہُ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَلَمْ یَرَوْا بِالْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا اِذَا لَمْ یُخَفْ مِنْہَا أَنْ تَدْعُوَہُ إِلٰی غَیْرِہَا مِمَّا یُمْنَعُ مِنْہُ الصَّائِمُ .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِہِمْ فِیْمَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمْ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِبَاحَتِہِ الْقُبْلَۃَ لِلصَّائِمِ مَا ہُوَ أَظْہَرُ مِنْ حَدِیْثِ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ وَأَوْلٰی أَنْ یُؤْخَذَ بِہٖ وَہُوَ مَا۔
٣٢٨٦: سعید بن المسیب سے عبدالکریم نے سوال کیا کہ روزہ دار کے بوسہ کا کیا حکم ہے تو فرمایا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ روزہ دار کے لیے بوسہ میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ اس کو خطرہ نہ ہو کہ وہ ان چیزوں میں مبتلا ہوجائے گا جو روزہ دار کے لیے ممنوع ہیں۔ قول اول والوں کے خلاف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات نقل کی ہیں جو حضرت میمونہ بنت سعد کی روایات سے زیادہ ظاہر اور استدلال کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔
حاصل روایات : ان تمام روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو بوسہ ممنوع ہے اور ایسا کرنے کی صورت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل اور سابقہ دلائل کے جوابات :
روزہ دار کو بوسہ میں حرج نہیں جبکہ اس سے روزہ دار کے کسی ممنوعہ چیز میں ابتلاء کا خطرہ نہ ہو۔
الجواب نمبر 1: میمونہ بنت سعد (رض) کی روایت سے زیادہ واضح اور پختہ روایات بوسہ کی اباحت کو ثابت کرتی ہیں پس ان کو اختیار کرنا اس سے زیادہ اولیٰ ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

3287

۳۲۸۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ (عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ ہَشَشْتُ یَوْمًا فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ فَعَلْتُ الْیَوْمَ أَمْرًا عَظِیْمًا قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَأَیْتُ لَوْ تَمَضْمَضْتُ بِمَائٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ .فَقُلْتُ : لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَفِیْمَ ؟) .
٣٢٨٧: جابر بن عبداللہ نے عمر بن خطاب (رض) سے نقل کیا ایک دن مجھے نشاط آئی تو میں نے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لے لیا پھر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا آج میں نے بڑا گناہ کیا ہے کہ روزے کی حالت میں ‘ میں نے بوسہ لے لیا اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر تم روزہ کی حالت میں مضمضمہ کرو تو میں نے کہا اس میں تو کچھ حرج نہیں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو پھر بوسہ سے کیا حرج لازم آئے گا۔ یعنی کچھ حرج نہیں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٣٣‘ دارمی فی الصوم باب ٣١‘ مسند احمد ٢١١‘ ٥٢۔
لغات : ھششت۔ خوشی میں آنا۔ نشاط میں آنا۔

3288

۳۲۸۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارِ قَالَ : أَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَھٰذَا الْحَدِیْثُ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ مَعْرُوْفٌ لِلرُّوَاۃِ وَلَیْسَ کَحَدِیْثِ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ الَّذِیْ رَوَاہٗ عَنْہَا أَبُوْ یَزِیْدَ الضَّبِّیُّ وَہُوَ رَجُلٌ لَا یُعْرَفُ فَلاَ یَنْبَغِیْ أَنْ یُعَارَضَ حَدِیْثُ مَنْ ذَکَرْنَا بِحَدِیْثِ مِثْلِہِ مَعَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ حَدِیْثُہُ ذٰلِکَ عَلٰی مَعْنَی خِلَافِ مَعْنَیْ حَدِیْثِ عُمَرَ ھٰذَا وَیَکُوْنُ جَوَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ فِیْہِ جَوَابًا لِسُؤَالٍ سُئِلَ فِیْ صَائِمَیْنِ بِأَعْیَانِہِمَا عَلٰی قِلَّۃِ ضَبْطِہِمَا لِأَنْفُسِہِمَا فَقَالَ ذٰلِکَ فِیْہِمَا أَیْ أَنَّہٗ اِذَا کَانَتَ الْقُبْلَۃُ مِنْہُمَا فَقَدْ کَانَ مَعَہَا غَیْرُہَا مِمَّا قَدْ یَضُرُّہُمَا وَھٰذَا أَوْلٰی مِمَّا حُمِلَ عَلَیْہِ مَعْنَاہُ حَتّٰی لَا یُضَادَّ غَیْرَہٗ وَأَمَّا حَدِیْثُ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ فَلَیْسَ أَیْضًا إِسْنَادُہُ کَحَدِیْثِ بُکَیْرٍ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَا لِأَنَّ عُمَرَ بْنَ حَمْزَۃَ لَیْسَ مِثْلَ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ جَلَالَتِہٖ وَمَوْضِعِہٖ مِنَ الْعِلْمِ وَإِتْقَانِہِ مَعَ أَنَّہُمَا لَوْ تَکَافَئَا لَکَانَ حَدِیْثُ بُکَیْرٍ أَوْلَاہُمَا لِأَنَّہٗ قَوْلٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْیَقَظَۃِ وَذٰلِکَ قَوْلٌ قَدْ قَامَتْ بِہِ الْحُجَّۃُ عَلٰی عُمَرَ وَحَدِیْثُ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ إِنَّمَا ہُوَ عَلٰی قَوْلٍ حَکَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ وَذٰلِکَ مِمَّا لَا تَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ فَھُمَا تَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ أَوْلَی مِمَّا لَا تَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ ثُمَّ ھٰذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ حَدَّثَ عَنْ أَبِیْہِ بِمَا حَکَاہُ عُمَرُ بْنُ حَمْزَۃَ فِیْ حَدِیْثِہٖ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ أَبِیْہِ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .
٣٢٨٨: شبابہ بن سوار کہتے ہیں کہ ہمیں لیث بن سعد نے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی۔ یہ روایت صحیح سند اور معروف روات والی ہے یہ میمونہ بنت سعد والی روایت کی طرح نہیں جس کو ابو یزید ضبی جیسے غیر معروف آدمی نے روایت کیا ہے۔ پس یہ اس روایت کی معارض نہیں بن سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس کا مفہوم حضرت عمر (رض) والی روایت کے خلاف ہو۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب ان دو مخصوص روزہ داروں متعلق ہو جن کا اپنے اوپر پورا قابو نہ تھا۔ تو ان دونوں کے متعلق یہ بات فرمائی ۔ کہ جب اس مزاج کے لوگ بوسہ لیں تو یہ بوسہ ان کے لیے دوسرے شرع کے خلاف کاموں میں ابتلاء کے خطرے کی وجہ سے نقصان دہ ہوگا۔ اس روایت یہ مفہوم اس بات سے اولیٰ ہے جس پر اس کو محمول کیا گیا ہے تاکہ یہ روایت دیگر روایات سے متضاد نہ ہو ۔ اسی طرح حضرت عمر بن حمزہ کی روایت اپنی سند کے لحاظ سے حضرت بکیر کی روایت جیسی نہیں جس کو ہم نے نقل کیا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر بن حمزہ اپنے مقام علمی اور عظمت وشان اور ثقاہت میں بکیر بن عبداللہ کے برابر نہیں اگر بالفرض برابر مان بھی لیں پھر بھی بکیر کی روایت دونوں میں سے اولیٰ ہے۔ کیونکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حالت بیداری کا قول ہے۔ اور اس روایت کے ساتھ حضرت عمر (رض) کے خلاف حجت قائم ہوچکی ہے اور حضرت عمر بن حمزہ والی روایت وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خواب میں مذکورہ واقعہ ہے اور ایسی روایت جس سے حجت قائم ہوتی ہو وہ اس روایت سے اولیٰ ہے جس سے دلیل نہ بن سکتی ہو ۔ پھر ابن عمر (رض) نے اپنے والد سے وہی بات نقل کی جو ان کو عمر بن حمزہ نے اپنی حدیث میں کہی پھر اپنے والد کے بعد اس کے خلاف فتویٰ دیا ملاحظہ ہو۔
نوٹ : یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور ان کے راوی بھی معروف ہیں اس کے برخلاف میمونہ والی روایت میں ابو یزید ضبی نامی راوی آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ کون ہے پس متروک و مجہول روات والی روایت اس صحیح روایت کی مقابل نہ ہوگی اگر بالفرض اس کو درست مان لیں تو وہ عمومی حکم کو ثابت نہیں کرسکتی بلکہ اس کا معنی یہ ہوگا کہ خاص ایسے آدمیوں نے اس کے متعلق پوچھا جو نفس پر قابو نہ رکھ سکتے تھے تو آپ نے ان کو یہ جواب دیا پس اس طرح یہ روایت اس صحیح روایت کے متضاد بھی نہ رہے گی۔
نمبر 2: عمر بن حمزہ والی روایت کی اسناد بھی حدیث بکیر جیسی نہیں ہیں کیونکہ عمر بن حمزہ بکیر سے جلالت علم و اتقان میں کم درجہ ہے۔
اگر بالفرض اس سے چشم پوشی کرلیں تب بھی حدیث بکیر اس روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ وہ بیداری میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اور اس کے بالمقابل خواب کی بات ہے جس سے کسی کے خلاف حجت قائم نہیں کی جاسکتی۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ ابن عمر (رض) اس روایت میں تو عمر (رض) سے یہ بات نقل کر رہے ہیں مگر خود فتویٰ اس کے خلاف دے رہے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک بھی یہ فتویٰ اس روایت سے اولیٰ ہے۔

3289

۳۲۸۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنْ مُوَرِّقٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ فَأَرْخَصَ فِیْہَا لِلشَّیْخِ وَکَرِہَہَا لِلشَّابِّ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ھٰذَا کَانَ - عِنْدَہٗ - أَوْلَی مِمَّا حَدَّثَہُ بِہِ عُمَرُ مِمَّا ذَکَرَہُ عُمَرُ بْنُ حَمْزَۃَ فِیْ حَدِیْثِہٖ .وَأَمَّا مَا قَدْ احْتَجُّوْا بِہٖ مِنْ قَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا خِلَافُ ذٰلِکَ
٣٢٨٩: مورق نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ ان سے روزہ دار کے بوسہ کے سلسلہ میں پوچھا گیا تو انھوں نے بوڑھے کے حق میں اس کی اجازت دی اور جو ان کے حق میں ممانعت فرمائی اور ناپسند قرار دیا۔ اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ یہ ان کے ہاں اس سے بہتر تھا ۔ جو ان کو حضرت عمر (رض) نے ان کو بیان کی اور جس کو عمر بن حمزہ اپنی روایت میں لائے ۔ باقی قول ابن مسعود (رض) جس کو انھوں نے اپنا مستدل بنایا تو ان سے اس کے خلاف روایت بھی مروی ہے جیسا ذیل میں ہے۔
اس فتویٰ سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ عمر بن حمزہ والی منامی روایت سے ابن عمر (رض) کے ہاں یہ عمل اولیٰ و بہتر تھا۔
نمبر 3: روایت ابن مسعود (رض) کا جواب یہ ہے کہ راوی کا خود اپنا عمل اس روایت کے خلاف ہے اس روایت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

3290

۳۲۹۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ طَارِقٍ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُبَاشِرُ امْرَأَتَہٗ وَہُوَ صَائِمٌ فَقَدْ تَکَافَأَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ وَمَا رَوَی الْہِزْہَازُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْہُ مِنْ قَوْلِ سَعِیْدٍ یَعْنِی ابْنَ الْمُسَیِّبِ أَنَّہٗ یَنْقُضُ صَوْمُہُ فَإِنَّ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَشْبِیْہِہٖ ذٰلِکَ بِالْمَضْمَضَۃِ أَوْلٰی مِنْ قَوْلِ سَعِیْدٍ ثُمَّ قَالَ بِذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا سَنَذْکُرُ ذٰلِکَ عَنْہُمْ فِیْ آخِرِ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرَۃً بِأَنَّہٗ کَانَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٣٢٩٠: حکیم بن جابر کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) اپنی بیوی سے روزہ کی حالت میں بوس و کنار کرتے تھے۔ تو ان کی یہ روایت اور ہزہاز والی روایت دونوں ایک دوسری کے خلاف ہوگئیں۔ اب رہا ابن مسیب (رح) کا قول کو بوس وکنار والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں اس کو کلی سے مشابہت دی وہ ابن مسیب (رح) کے قول سے بہتر ہے۔ پھر اس کو صحابہ کرام کی ایک جماعت نے نقل کیا جس کو باب کے اخر میں ہم ذکر کریں گے ان شاء اللہ) اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے متواتر روایات آئی ہیں کہ آپ حالت روزہ میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔
اب عمل راوی جب فتویٰ کے خلاف ہوا تو وہ روایت متروک و منسوخ ہوئی۔
نمبر$: سعید بن المسیب (رح) کا فتویٰ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سعید کا یہ فتویٰ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مضمضہ والے ارشاد کے خلاف ہے اس لیے مسترد ہوگا اور سعید بن المسیب کی روایت سے جو عمر (رض) کا قول ہے وہ حضرت عمر (رض) والی روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردار و مسترد ہوگا۔

3291

۳۲۹۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصِیْبُ مِنَ الرُّئُ وْسِ وَہُوَ صَائِمٌ)
٣٢٩١: عبداللہ بن شقیق نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں چہرے سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
لغات : یصیب من الرؤس۔ یہ چہرہ کے بوسہ سے کنایہ ہے۔ چہرہ سر کا حصہ ہے۔

3292

۳۲۹۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ أَیُّوْبَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَقِیْقٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ فَمَا دَرَیْتُ مَا ہُوَ حَتّٰی قِیْلَ : الْقُبْلَۃُ
٣٢٩٢: عبداللہ بن شقیق نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت اسی طرح نقل کی ہے عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں اس کنایہ کو نہ سمجھ سکا یہاں تک کہ بتلایا گیا کہ اس سے (قُبلہ یعنی بوسہ مراد ہے۔

3293

۳۲۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا الْوَہْبِیُّ ہُوَ أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِیْ سَلْمَۃَ (عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُہَا وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٢٩٣ : زینب بنت ابی سلمہ نے امّ سلمہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں اسے بوسہ دے لیا کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٢٤‘ مسلم فی الصیام ٦٢‘ ٦٣‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٣٤‘ دارمی فی المقدمہ باب ٥٣‘ الوضو باب ١٠٧‘ الصوم باب ٢١‘ مسند احمد ٦؍٣٩‘ ٢٨٠۔

3294

۳۲۹۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یَحْیٰی عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٢٩٤: یحییٰ نے ابو سلمہ (رض) سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3295

۳۲۹۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِیْ سَلْمَۃَ (عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ قَبَّلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٢٩٥: زینب بنت ابی سلمہ نے امّ سلمہ (رض) سے نقل کیا وہ فرماتی ہیں مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ کی حالت میں بوسہ دیا۔

3296

۳۲۹۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : أَنَا طَلْحَۃُ بْنُ یَحْیٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ فَرُّوْخَ قَالَ : (أَتَتْ أُمَّ سَلْمَۃَ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ : إِنَّ زَوْجِیْ یُقَبِّلُنِیْ وَأَنَا صَائِمَۃٌ .فَقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُنِیْ وَہُوَ صَائِمٌ وَأَنَا صَائِمَۃٌ)
٣٢٩٦: عبداللہ بن فروخ کہتے ہیں کہ ایک عورت امّ سلمہ (رض) کی خدمت میں آئی کہ میرا خاوند مجھے اس حال میں بوسہ دیتا ہے کہ میں روزہ سے ہوتی ہوں تو امّ سلمہ (رض) نے جواب دیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں میرا بوسہ لیتے تھے اور میں بھی روزے سے ہوتی تھی۔

3297

۳۲۹۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَیْحٍ عَنْ شُتَیْرِ بْنِ شَکَلٍ عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ قَبَّلَ وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٢٩٧: شتیر بن شکل نے حفصہ بنت عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق نقل کیا کہ آپ روزہ کی حالت میں میرا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ٧٣۔

3298

۳۲۹۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ مُسْلِمٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٢٩٨: ابو عوانہ نے منصور سے انھوں نے مسلم سے روایت نقل کی اور اپنی اسناد سے اسی طرح نقل کی ہے۔

3299

۳۲۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ أَخْبَرَہٗ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُہَا وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٢٩٩: علی بن حسین نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٦٩؍٧٢‘ ٧٣۔

3300

۳۳۰۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ۔
٣٣٠٠: علی بن حسین نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3301

۳۳۰۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الْخَزَّازُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَرُوْبَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ۔
٣٣٠١: ابو سلمہ نے عروبۃ بن زبیر سے انھوں نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3302

۳۳۰۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ قَالَ .أَنَا سَعِیْدٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .
٣٣٠٢: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کیا انھوں نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3303

۳۳۰۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ہِشَامٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٣٠٣: حماد نے ہشام سے روایت نقل کی ہے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3304

۳۳۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ وَزَادَ (وَکَانَتْ تَقُوْلُ : وَأَیُّکُمْ أَمْلَکُ لِأَرَبِہٖ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟) .
٣٣٠٤: عبیداللہ بن عمر نے قاسم سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح سے روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے حضرت عائشہ (رض) فرمانے لگیں تم میں سے کون ہے جس کو اپنی خواہش پر اس طرح کنٹرول ہو جس طرح آپ کو تھا ؟
تخریج : بخاری فی الحیض باب ٥‘ الصوم باب ٢٣‘ مسلم فی الحیض حدیث نمبر ٢‘ الصیام ٦٤‘ ٦٥‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ١٠٦‘ الصوم باب ٣٣‘ ترمذی فی الصوم باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١٠٦‘ الصیام باب ١٩‘ مسند احمد ٦؍٤٠‘ ٩٨‘ ١١٣‘ ١٢٦‘ ٢٠١‘ ٢٠٤‘ ٢٠٦‘ ٢١٦‘ ٢٣٠۔
لغات :: املک زیادہ قدرت والا۔ لِأَر بِہٖ : حاجت۔

3305

۳۳۰۵ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : قُلْت لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ أَحَدَّثَک أَبُوْکَ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُہَا وَہُوَ صَائِمٌ) ؟ قَالَ : فَطَأْطَأَ (أَیْ خَفَضَ) رَأْسَہٗ وَاسْتَحْیَا قَلِیْلًا وَسَکَتَ ثُمَّ قَالَ (نَعَمْ)
٣٣٠٥: سفیان کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے کہا کیا تمہارے والد نے تمہیں کوئی عائشہ (رض) کی روایت بیان کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں بوسہ دے لیا کرتے تھے ؟ سفیان کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنا سر شرم سے جھکایا اور کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا جی ہاں۔ درست ہے۔

3306

۳۳۰۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ہُوَ ابْنُ مَیْمُوْنٍ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ ہُوَ ابْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ عَنْ یَحْیٰی۔
٣٣٠٦: ابو سلمہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں اس کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔

3307

۳۳۰۷ : قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُہَا وَہُوَ صَائِمٌ) حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ ثَنَا بِشْرٌ ہُوَ ابْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٣٠٧: ابن بکر نے اوزاعی سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3308

۳۳۰۸ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلْمَۃَ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٣٠٨: ابو سلمہ نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3309

۳۳۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ قَالَ : عَبْدُ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : جَمَعَ لِیْ أَبِیْ أَہْلِیْ فِیْ رَمَضَانَ فَأَدْخَلَہُمْ عَلَیَّ فَدَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلْتُہَا عَنِ الْقُبْلَۃِ یَعْنِیْ لِلصَّائِمِ فَقَالَتْ لَیْسَ بِذٰلِکَ بَأْسٌ قَدْ کَانَ مَنْ ہُوَ خَیْرُ النَّاسِ یُقَبِّلُ) .
٣٣٠٩: نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میرے والد نے میرے گھر والوں کو رمضان میں میرے ساتھ جمع کیا اور میرے ہاں داخل کیا میں عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا اور ان سے بوسہ کے متعلق دریافت کیا کہ کیا وہ روزہ دار کو درست ہے تو انھوں نے جواب دیا اس میں حرج نہیں اور لوگوں میں سب سے بہتر ہستی وہ بھی روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیتے تھے (یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ۔

3310

۳۳۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ عَنِ اللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٣١٠: یحییٰ بن سعید نے عمرۃ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔

3311

۳۳۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْمَرٍ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : أَرَادَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقَبِّلَنِیْ فَقُلْتُ : إِنِّیْ صَائِمَۃٌ فَقَالَ وَأَنَا صَائِمٌ فَقَبَّلَنِیْ) .
٣٣١١: طلحہ بن عبیداللہ بن معمر نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتی تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بوسہ دینے کا ارادہ فرمایا تو میں نے کہا میں روزہ سے ہوں آپ نے فرمایا میں بھی روزہ سے ہوں پھر آپ نے میرا بوسہ لیا۔

3312

۳۳۱۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیِّ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْتَنِعُ مِنْ وُجُوْہِنَا وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٣١٢: اسود نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ روزہ کی حالت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے چہرہ سے کوئی چیز نہ روکتی تھی (یعنی بوسے سے)

3313

۳۳۱۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ (الْأَسْوَدِ قَالَ : انْطَلَقْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نَسْأَلُہَا عَنِ الْمُبَاشَرَۃِ ثُمَّ خَرَجْنَا وَلَمْ نَسْأَلْہَا .فَرَجَعْنَا فَقُلْنَا : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَاشِرُ وَہُوَ صَائِمٌ .قَالَتْ : نَعَمْ وَکَانَ أَمْلَکَکُمْ لِأَرَبِہٖ) فَسُؤَالُ عَبْدِ اللّٰہِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ فِیْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی أَخْبَرَتْہُ بِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا رُوِیَ عَنْہُ مِمَّا قَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ کَانَ مُتَأَخِّرًا عَمَّا رُوِیَ عَنْہُ مِمَّا خَالَفَ ذٰلِکَ
٣٣١٣: اسود کہتے ہیں کہ میں اور ابن مسعود (رض) عائشہ (رض) کی خدمت میں گئے کہ ہم عائشہ (رض) سے جسم سے جسم ملانے کے متعلق دریافت کریں پھر ہم بغیر پوچھے واپس آگئے مگر پھر ہم نے لوٹ کر پوچھا اے امّ المؤمنین ! کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں اپنا جسم جسم سے ملاتے تھے انھوں نے کہا جی ہاں ! مگر آپ اپنی خواہش پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سوال اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو اس سلسلہ میں کوئی چیز معلوم نہ تھی پھر حضرت صدیقہ (رض) نے ان کو بتلائی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو ان سے اس کے موافق مروی ہے وہ بعد میں ہے اور جو اس کے مخالف مروی ہے وہ پہلے کی بات ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٢٣‘ مسلم فی الصیام نمبر ٦٨‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٢٠۔
نکتہ : عبداللہ (رض) کا استفسار بتلا رہا ہے کہ ان کے پاس اس سلسلہ کی پہلے کوئی روایت موجود نہ تھی یہاں تک کہ عائشہ (رض) نے ان کو اس کی اطلاع دی اس سے معلوم ہوا کہ ان کی جو روایت اس کے خلاف ہے وہ اس مسئلہ کے معلوم کرنے سے پہلے کی ہے اور جو موافق ہے وہ اس سے بعد کی ہے۔

3314

۳۳۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ (الْأَسْوَدِ وَمَسْرُوْقٍ قَالَا : سَأَلْنَا عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَاشِرُ وَہُوَ صَائِمٌ ؟ فَقَالَتْ نَعَمْ وَلٰکِنَّہٗ کَانَ أَمْلَکَ لِأَرَبِہٖ مِنْکُمَا أَوْ لِأَمْرِہٖ) الشَّکُّ مِنْ أَبِیْ عَاصِمٍ .
٣٣١٤: اسود و مسروق کہتے ہیں کہ ہم دونوں نے عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جسم کو جسم سے روزے کی حالت میں ملاتے (بوس و کنار کرنا) تو انھوں نے کہا۔ جی ہاں۔ لیکن آپ تم میں سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قدرت رکھتے تھے۔ ابو عاصم راوی کو اربہ یا امرہ میں شبہ ہے۔

3315

۳۳۱۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ عَنْ حُرَیْثِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ مَسْرُوْقٍ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ رُبَّمَا قَبَّلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَاشَرَنِیْ وَہُوَ صَائِمٌ وَأَمَّا أَنْتُمْ فَلاَ بَأْسَ بِہٖ لِلشَّیْخِ الْکَبِیْرِ الضَّعِیْفِ) .
٣٣١٥: مسروق نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ کی حالت میں بارہا مجھ سے بوس و کنار کیا ہے مگر تم میں (یعنی تمہارے لیے اجازت نہیں) البتہ زیادہ بوڑھے کے لیے حرج نہیں۔

3316

۳۳۱۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ ہُوَ الْأَوْدِیُّ قَالَ : (سَأَلْنَا عَائِشَۃَ عَنِ الرَّجُلِ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ) .
٣٣١٦: عمرو بن میمون الاودی کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ (رض) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو روزہ کی حالت میں بوسہ لے تو فرمانے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیتے تھے۔

3317

۳۳۱۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ زِیَادٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُنِیْ وَأَنَا صَائِمَۃٌ) .
٣٣١٧: عمرو بن میمون نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں میرا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔

3318

۳۳۱۸ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَزِیْدَ الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ عَلِیٍّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ : حَدَّثَنِی (أَبُوْ قَیْسٍ مَوْلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ : بَعَثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو إِلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سَلْہَا أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَإِنْ قَالَتْ لَا فَقُلْ : إِنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ .فَأَتَیْتُ أُمَّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَأَبْلَغْتُہَا السَّلَامَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو وَقُلْتُ : أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ ؟ فَقَالَتْ : لَا فَقُلْتُ : إِنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّہٗ کَانَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَقَالَتْ لَعَلَّہٗ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَتَمَالَکُ عَنْہَا حُبًّا أَمَّا إِیَّایَ فَلاَ) .وَقَدْ تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْقُبْلَۃَ غَیْرُ مُفْطِرَۃٍ لِلصَّائِمِ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : کَانَ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ خُصَّ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَا تَرَی إِلٰی قَوْلِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (وَأَیُّکُمْ کَانَ أَمْلَکَ لِأَرَبِہٖ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟‘) قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ قَوْلَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ھٰذَا إِنَّمَا ہُوَ عَلٰی أَنَّہَا لَا تَأْمَنُ عَلَیْہِمْ وَلَا یَأْمَنُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمَنُہُ عَلٰی نَفْسِہٖ لِأَنَّہٗ کَانَ مَحْفُوظًا وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّ الْقُبْلَۃَ عِنْدَہَا لَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ (فَأَمَّا أَنْتُمْ فَلاَ بَأْسَ بِہِ لِلشَّیْخِ الْکَبِیْرِ الضَّعِیْفِ) أَرَادَتْ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا یُخَافُ مِنْ أَرَبِہِ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَنْ لَمْ یَخَفْ مِنَ الْقُبْلَۃِ وَہُوَ صَائِمٌ شَیْئًا آخَرَ وَأَمِنَ عَلٰی نَفْسِہِ أَنَّہَا لَہٗ مُبَاحَۃٌ وَقَدْ ذَکَرْنَا عَنْہَا فِیْ بَعْضِ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہَا سُئِلَتْ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ فَقَالَتْ - جَوَابًا لِذٰلِکَ السُّؤَالِ - (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ) .فَلَوْ کَانَ حُکْمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدَہَا خِلَافَ حُکْمِ غَیْرِہِ مِنَ النَّاسِ اِذًا لَمَا کَانَ مَا عَلِمَتْہُ مِنْ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَوَابًا لِمَا سُئِلَتْ عَنْہُ مِنْ فِعْلِ غَیْرِہِ وَقَدْ سَأَلَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ لَمَّا جَمَعَ لَہٗ أَبُوْہُ أَہْلَہُ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ عَنْ مِثْلِ ذٰلِکَ فَقَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ) .وَھٰذَا عِنْدَنَا لِأَنَّہَا کَانَتْ تَأْمَنُ عَلَیْہِ فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلَی اسْتِوَائِ حُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَائِرِ النَّاسِ - عِنْدَہَا - فِیْ حُکْمِ الْقُبْلَۃِ اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہَا الْخَوْفُ عَلٰی مَا بَعْدَہَا مِمَّا تَدْعُو إِلَیْہِ وَہُوَ أَیْضًا فِی النَّظَرِ کَذٰلِکَ لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْجِمَاعَ وَالطَّعَامَ وَالشَّرَابَ قَدْ کَانَ ذٰلِکَ کُلُّہُ حَرَامًا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صِیَامِہِ کَمَا ہُوَ حَرَامٌ عَلٰی سَائِرِ أُمَّتِہِ فِیْ صِیَامِہِمْ ثُمَّ ھٰذِہِ الْقُبْلَۃُ قَدْ کَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَالًا فِیْ صِیَامِہٖ فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ أَیْضًا حَلَالًا لِسَائِرِ أُمَّتِہٖ فِیْ صِیَامِہِمْ أَیْضًا وَیَسْتَوِیْ حُکْمُہٗ وَحُکْمُہُمْ فِیْہَا کَمَا یَسْتَوِیْ فِیْ سَائِرِ مَا ذَکَرْنَا وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلَی اسْتِوَائِ حُکْمِہٖ وَحُکْمِ أُمَّتِہٖ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٣١٨: ابو قیس مولیٰ عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن عمر (رض) نے امّ سلمہ (رض) کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ آئیں کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لے لیا کرتے تھے چنانچہ میں امّ سلمہ (رض) کی خدمت میں آیا اور ابن عمر کا سلام ان کو پہنچایا۔ اور میں نے کہا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے انھوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا عائشہ (رض) نے لوگوں کو خبر دی ہے کہ آپ روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے وہ کہنے لگیں شاید ان سے متعلق ایسا ہو کیونکہ اس کی محبت کے بارے میں آپ اختیار نہ رکھتے تھے (یعنی ان سے شدید محبت تھی) یعنی ان کا بوسہ لیا ہو عین ممکن ہے مگر میرے سلسلہ میں یہ بات پیش نہیں آئی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ حالت روزہ میں بوسہ لے لیا کرتے تھے ۔ اس سے یہ ثبوت مسیر آگیا کہ بوسہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت تھی ۔ کیا تم حضرت صدیقہ (رض) کے اس قول کو نہیں جانتے وایکم کان املک لا ربہ من رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ ‘ کہ تم میں سے کس کو آپ کی طرح اپنے اوپر قابو ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے ۔ کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا یہ قول اس بات پر دلالت کررہا ہے ان کو ان لوگوں کے نفوس کے سلسلہ میں اطمینا نہ تھا ۔ جو اطمینان جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے نفس پر تھا کیونکہ آپ معصوم و محفوظ تھے ۔ رہی اس بات کی دلیل کہ بوسہ آپ کے ہاں افطار صوم کا باعث نہ تھا۔ گزشتہ سطور میں ذکر کیا فاما انتم فلا باس بہ للشیخ الکبیر ۔ الحدیث باقی رہے تم تو بوڑھے کمزور کے لیے کچھ حرج نہیں۔ ان کا مقصد اس سے یہ ہے کہ جس کو اپنے متعلق شہوت کا ڈرنہ ہو اور اسے اپنے اوپر اطمینان ہو تو بوسہ اس کے لیے جائز ہے۔ ہم نے بعض روایات انہی سے ذکر کیں کہ ان سے روزہ دار کے بوسہ سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے ۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم لوگوں کے متعلق اس سے مختلف ہوتا تو پھر وہ اس کا جواب آپ عمل سے ظاہر ہونے والا نہ دیتیں اور ابن عمر (رض) نے ان سے اس وقت سوال کیا جب کہ ان کے والد نے ان کے گھر والوں کو رمضان المبارک میں ایک جگہ جمع کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ” کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یفعل ذلک “ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ عمل کرتے تھے۔ ہمارے ہاں اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ ابن عمر (رض) کے متعلق مطمئن تھیں ۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر لوگوں کا حکم بوسہ کے سلسلہ میں برابر ہے جب کہ اس کو اس بات کا خوف نہ ہو جس کی طرف بوسہ دعوت دیتا ہے۔ اور نظر کے لحاظ سے بھی اسی طرح حکم رکھتا ہے کیونکہ ہم یہ بات پاتے ہیں کہ روزے کی حالت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھانا ‘ پینا اور جماع اسی طرح حرام تھا جیسا دوسرے لوگوں پر ۔ پھر یہ بوسہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال تھا۔ تو نظر و فکر کا تقاضایہ ہے کہ ہماری مذکورہ بات کے مطابق یہ تمام لوگوں کے لیے بھی جائز و حلال ہو اور آپ کا حکم اور باقی امت کا حکم اس میں برابر ہو جیسا بقیہ امور میں برابر ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس میں آپ کا اور امت کا حکم برابر ہے۔ ذیل میں ملاحظہ کریں۔
ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ بوسہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ اس سے کسی اگلے فعل کا ارتکاب نہ کرے اور نہ اس میں مبتلا ہو۔
سرسری اشکال :
یہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت معلوم ہوتی ہے جیسا کہ ایکم کان املک لاربہ من رسول اللہ ا ؟ کے لفظ اس پر دلیل ہیں۔
الجواب بالصواب :
حضرت عائشہ (رض) نے یہ بات ان کے نفوس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہی اور ظاہر ہے کہ ان کو بھی اپنے نفوس پر وہ اعتماد حاصل نہ تھا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی ذات پر تھا کیونکہ آپ تو معصوم و محفوظ من اللہ تھے۔
باقی بوسہ ان کے ہاں بھی روزہ کے لیے مفطر نہ تھا جیسا فاما انتم۔ فلا بأس بہ للشیخ الکبیرالضعیف کا قول بتلا رہا ہے ان کی مراد یہ تھی کہ آپ کو اپنی خواہش کے سلسلہ میں خطرہ نہ تھا چنانچہ جس کو خطرہ نہ ہو کہ اس کی خواہش غالب آ کر اگلے کام میں مبتلا کر دے گی تو اس کے لیے مباح اور جائز ہے بعض آثار میں ان سے سوال کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے اگر ان کے ہاں اور لوگوں کا حکم الگ ہوتا تو وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل ان کے جواب میں نقل نہ فرمائیں یہ فعل نقل کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دوسرے لوگوں کا بھی حکم یہی ہے اور عبداللہ بن عمر نے خود اپنے متعلق اس قسم کا سوال کیا تو انھوں نے فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جواب دیا معلوم ہوا کہ دوسرے لوگوں کا حکم بھی یہی تھا کہ بوسہ مفطر صوم نہیں ہے۔
اور ہمارے ہاں یہ حکم اس لیے تھا کہ آپ کو اپنی خواہش پر پوری قدرت تھی اور عائشہ (رض) کی روایات سے یہ دلالت بھی ملتی ہے کہ جب خواہش کا خوف نہ ہو تو یہی حکم ہے اور خوف ہو تو باز رہے جس طرح روایات سے یہ بات ثابت ہے تقاضائے نظر بھی اسی طرح ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
روزے کی حالت میں کھانا ‘ پینا ‘ جماع یہ سب چیزیں جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حرام تھیں اسی طرح تمام امت پر بھی روزے کی حالت میں یہ حرام ہیں اور روزے کی حالت میں جب بوس و کنار آپ کے لیے حلال ہے تو بلا کراہت امت کے لیے بھی حلال ہونا چاہیے پس جس طرح جماع میں حکم یکساں ہے اسی طرح بوسہ میں بھی حکم یکساں ہونا چاہیے ۔ یہ روایات مزید اس پر دلالت کرتی ہیں۔

3319

۳۳۱۹ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ (أَنَّ رَجُلًا قَبَّلَ امْرَأَتَہٗ وَہُوَ صَائِمٌ فَوَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ وَجْدًا شَدِیْدًا فَأَرْسَلَ امْرَأَتَہٗ تَسْأَلُ لَہٗ عَنْ ذٰلِکَ فَدَخَلَتْ عَلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہَا فَأَخْبَرَتْہَا أُمُّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَرَجَعَتْ فَأَخْبَرَتْ بِذٰلِکَ زَوْجَہَا فَزَادَہُ شَرًّا وَقَالَ : لَسْنَا مِثْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِلُّ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِرَسُوْلِہِ مَا شَائَ ثُمَّ رَجَعَتِ الْمَرْأَۃُ إِلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَوَجَدَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَہَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا بَالُ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃِ ؟ فَأَخْبَرَتْہُ أُمُّ سَلْمَۃَ فَقَالَ أَلَا أَخْبَرْتِیْہَا أَنِّیْ أَفْعَلُ ذٰلِکَ .فَقَالَتْ أُمُّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : قَدْ أَخْبَرْتُہٗ َا فَذَہَبَتْ إِلَی زَوْجِہَا فَأَخْبَرَتْہُ فَزَادَہٗ شَرًّا وَقَالَ یُحِلُّ اللّٰہُ لِرَسُوْلِہِ مَا شَائَ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنِّیْ لَأَتْقَاکُمْ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَعْلَمُکُمْ بِحُدُوْدِہٖ) " .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْمُتَقَدِّمِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٣١٩: زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر اسے اس کا بہت غم ہوا اس نے اپنی بیوی کو بھیجا تاکہ وہ اس سلسلہ میں پوچھے۔ وہ امّ سلمہ (رض) امّ المؤمنین کی خدمت میں گئی اور اس کا تذکرہ کیا تو امّ سلمہ (رض) نے اسے اطلاع دی کہ آپ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے۔ وہ لوٹ کر اپنے خاوند کے ہاں آئی اور اس کو اطلاع دی مگر اس بات نے اس کے غم کو اور بڑھا دیا وہ کہنے لگا ہم تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح نہیں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لیے جو چیز چاہے حلال کرے وہ عورت دوبارہ لوٹ کر امّ سلمہ (رض) کی خدمت میں گئی تو اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے مکان میں پایا آپ نے فرمایا اس عورت کا کیا معاملہ ہے امّ سلمہ (رض) نے آپ کو اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کیا تم نے اس کو نہیں بتلایا کہ میں ایسا کرتا ہوں امّ سلمہ (رض) کہنے لگیں میں نے اس کو اطلاع دی ہے مگر یہ اپنے خاوند کے ہاں گئی اور اس کو اس بات کی اطلاع دی تو اس کے غم میں اضافہ ہوا اور اس نے کہا اللہ تعالیٰ تو اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہے حلال کر دے اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا اور فرمایا میں تم میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ اس کی حدود سے واقف ہوں۔ اس سے بات پر دلالت مل گئی جو ہم نے بیان کی ہے۔ آثار کو سامنے رکھتے ہوئے اس باب کی یہی صورت ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے اور متقد میں سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ آثار ذیل میں ہیں۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ٧٤۔
یہ روایت دلالت کر رہی ہے کہ جو حکم اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے وہی حکم دیگر افراد کا بھی ہے آثار کے لحاظ سے اس باب کا یہ حکم ہم نے ثابت کردیا۔
ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

3320

۳۳۲۰ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ سَالِمٌ الدَّوْسِیِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ وَسَأَلَہٗ رَجُلٌ : أَتُبَاشِرُ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ فَقَالَ (نَعَمْ) .
٣٣٢٠: سالم دوسی کہتے ہیں سعد بن ابی وقاص (رض) سے کسی نے سوال کیا کیا روزہ کی حالت میں بوس و کنار کرتے ہو انھوں نے کہا۔ ہاں۔

3321

۳۳۲۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ فِیْہَا لِلشَّیْخِ وَکَرِہَہَا لِلشَّابِّ .
٣٣٢١: عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے روزہ کے بوسہ کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بوڑھے کو اجازت دی اور نوجوان کے لیے اس کو ناپسند قرار دیا۔

3322

۳۳۲۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِی النَّضْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ بِنْتَ طَلْحَۃَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَیْہَا زَوْجُہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ وَہُوَ صَائِمٌ فَقَالَتْ لَہٗ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (مَا یَمْنَعُک أَنْ تَدْنُوَ مِنْ أَہْلِک فَتُقَبِّلَہَا ؟) قَالَ : أُقَبِّلُہَا وَأَنَا صَائِمٌ .قَالَتْ لَہٗ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (نَعَمْ) .
٣٣٢٢: عائشہ بنت طلحہ نے بتلایا کہ میں امّ المؤمنین عائشہ (رض) کے ہاں تھی اس وقت میرا خاوند عبداللہ بن عبدالرحمن ان کے ہاں آیا وہ روزہ سے تھا تو حضرت عائشہ (رض) نے اسے فرمایا تمہیں اپنے اہل سے قریب ہو کر اس کو بوسہ لینے میں کون سی چیز مانع ہے تو عبداللہ نے کہا کیا روزہ کی حالت میں ‘ میں اس کا بوسہ لوں ؟ عائشہ (رض) نے فرمایا۔ ہاں۔

3323

۳۳۲۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ مَوْلٰی عَقِیْلٍ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ عِقَالٍ أَنَّہٗ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (مَا یَحْرُمُ عَلَیَّ مِنْ امْرَأَتِی وَأَنَا صَائِمٌ ؟) قَالَتْ (فَرْجُہَا) فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَقُوْلُ فِیْمَا یَحْرُمُ عَلَی الصَّائِمِ مِنْ امْرَأَتِہٖ وَمَا یَحِلُّ لَہٗ مِنْہَا مَا قَدْ ذَکَرْنَا فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْقُبْلَۃَ کَانَتْ مُبَاحَۃً عِنْدَہَا لِلصَّائِمِ الَّذِیْ یَأْمَنُ عَلٰی نَفْسِہِ وَمَکْرُوْہَۃً لِغَیْرِہِ لَیْسَ لِأَنَّہَا حَرَامٌ عَلَیْہِ وَلٰـکِنَّہٗ لِأَنَّہٗ لَا یَأْمَنُ اِذَا فَعَلَہَا مِنْ أَنْ تَغْلِبَہٗ شَہْوَتُہٗ حَتّٰی یَقَعَ فِیْمَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ۔
٣٣٢٣: حکیم بن عقال کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ روزے کی حالت میں مجھ پر میری بیوی کی کون سی چیز حرام ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ شرمگاہ۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں جو یہ بتلارہی ہیں کہ روزہ دار کو اپنی بیوی سے کیا چیز حرام ہے اور کیا چیز جائز و حلل ہے جس کو ہم نے ذکر کردیا ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ان کے ہاں اس روزہ دار کے لیے بوسہ جائز تھا جس کو اپنے اوپر اطمینان اور دوسرے کے لیے مکروہ تھا۔ یہ بات نہیں کہ وہ اس پر حرام تھا ۔ لیکن اس بات کے پیش نظر کہ جب وہ بوسہ لے گا اور اسے اپنے اوپر اطمینان نہیں تو اس پر اس کی شہوت غالب آکر وہ اس کو حرام میں مبتلا کردے گی۔
یہ عائشہ (رض) فرما رہی ہیں کہ روزہ دار کے لیے جماع کے علاوہ اپنی بیوی سے ہر چیز حلال ہے پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بوسہ اس کے لیے مباح تھا جس کو اپنے نفس پر قابو ہو اور جس کو قابو نہ ہو اس کے لیے وہ درست قرار نہ دیتی تھیں اس بناء پر نہیں کہ وہ بوسہ اس کے لیے حرام ہے بلکہ اس وجہ سے کہ کہیں وہ غلبہ شہوت میں حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے گویا احتیاطاً ممانعت فرماتی تھیں۔

3324

۳۳۲۴ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ صُعَیْرٍ الْعُذْرِیِّ ہٰکَذَا قَالَ ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ- وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَسَحَ وَجْہَہٗ- أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَوْنَ الصَّائِمَ عَنِ الْقُبْلَۃِ وَیَقُوْلُوْنَ إِنَّہَا تَجُرُّ إِلٰی مَا ہُوَ أَکْبَرُ مِنْہَا فَقَدْ بَیَّنَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ کَرِہَہَا مَنْ کَرِہَہَا لِلصَّائِمِ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا ہُوَ خَوْفُہُمْ عَلَیْہِ مِنْہَا أَنْ یَجُرَّہٗ إِلٰی مَا ہُوَ أَکْبَرُ مِنْہَا فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ اِذَا ارْتَفَعَ ذٰلِکَ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ مَنَعُوْہُ مِنْہَا أَنَّہَا لَہٗ مُبَاحَۃٌ .
٣٣٢٤: ابن شہاب نے ثعلبہ بن صعیر عذری سے نقل کیا ابن ابی مریم نے اس طرح کہا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چہرے پر مسح کیا تھا اور اس نے بتلایا کہ میں نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ وہ روزہ دار کو بوسہ سے منع کرتے تھے اور کہتے یہ چیز اس سے بڑے فعل کی طرف کھینچ کرلے جانے والی ہے۔ اس روایت میں اس مطلب کو واضح طور پر ذکر کردیا گیا جس کی بناء پر بوسے کو روزہ دار کے لیے منع کیا گیا اور جن کے لیے ناپسند کیا گیا وہ اس بات کا خوف ہے کہ یہ بوسہ ان کو اس سے بڑی بات میں مبتلا نہ کردے ۔ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ جب بات نہ پائی جاتی ہو تو وہ بوسہ اس کے لیے مباح ہوگا۔
حاصل روایات : اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ ممانعت کی وجہ اور کراہت کی وجہ حرمت نہیں بلکہ اس کی وجہ روزہ دار کا اس کی وجہ سے اس سے بڑے فعل میں ابتلاء کا خطرہ ہے یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جس میں یہ وجہ نہ پائی جائے اس پر ممانعت کا حکم نہ لگے گا بلکہ اس کے لیے مباح ہوگا۔

3325

۳۳۲۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الدِّمَشْقِیُّ الْعَطَّارُ قَالَ : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ حَیَّانَ التَّیْمِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ قُبْلَۃِ الصَّائِمِ .فَقَالَ عَلِیٌّ (یَتَّقِی اللّٰہَ وَلَا یَعُوْدُ) فَقَالَ عُمَرُ : إِنْ کَانَتْ ھٰذِہٖ لَقَرِیْبَۃٌ مِنْ ھٰذِہِ فَقَوْلُ عَلِیٍّ (یَتَّقِی اللّٰہَ وَلَا یَعُوْدُ) یَحْتَمِلُ (وَلَا یَعُوْدُ لَہَا ثَانِیَۃً) أَیْ لِأَنَّہَا مَکْرُوْہَۃٌ لَہٗ مِنْ أَجْلِ صَوْمِہٖ وَیَحْتَمِلُ (وَلَا یَعُوْدُ) أَیْ یُقَبِّلُ مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ فَیَکْثُرُ ذٰلِکَ مِنْہُ فَیَتَحَرَّکُ لَہٗ شَہْوَتُہُ فَیُخَافُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ مُوَاقَعَۃُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَقَوْلُ عُمَرَ (ھٰذِہِ قَرِیْبَۃٌ مِنْ ھٰذِہِ) أَیْ أَنَّ ھٰذِہِ الَّتِیْ کَرِہْتُہَا لَہٗ قَرِیْبَۃٌ مِنَ الَّتِی أَبَحْتُہَا لَہٗ أَوْ إِنَّ ھٰذِہِ الَّتِیْ أَبَحْتُہَا لَہٗ قَرِیْبَۃٌ مِنَ الَّتِیْ کَرِہْتُہَا لَہٗ فَلاَ دَلَالَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ وَلٰـکِنَّ الدَّلَالَاتِ فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَہٗ مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ قَبْلَہٗ.
٣٣٢٥: ابو حبان تیمی نے اپنے والد سے روایت کی کہ عمر (رض) نے علی (رض) سے روزہ دار کے بوسہ کے سلسلہ میں سوال کیا تو علی (رض) نے کہا وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور دوبارہ ایسا نہ کرے تو عمر (رض) نے کہا ان کانت ہذہ لقریبۃ من ہذہ تو علی (رض) نے دوبارہ یہی جملہ فرمایا۔ اس روایت میں اگرچہ کوئی دلالت ایسی نہیں لیکن اس سے پہلی روایات میں ایسی دلالتیں موجود ہیں جو ہم پہلے ذکر کرچکے
یتقی اللہ ولا یعود اس جملے میں دو احتمال ہیں۔
نمبر 1: کہ ایک دفعہ بوس و کنار کرلیا تو دوبارہ نہ کرے کیونکہ روزے کی وجہ سے یہ مکروہ ہے۔
نمبر 2: ایک بوسہ دے دیا تو بس بار بار بوسہ نہ شروع کر دے کہ یہ چیز اس کی شہوت کو ابھار دے گی اور کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز میں مبتلا نہ ہوجائے۔ قول عمر (رض) ہذہ قریبۃ من ہذہ آپ کا قول تو اس کے قریب ہے جس کو میں نے مکروہ سمجھا ہے۔
نمبر 2: میں نے جس کو مباح قرار دیا ہے وہ آپ کے اس قول کے قریب ہے جس کو آپ نے مکروہ قرار دیا ہے۔
یہ مجمل مکالمہ ہے جس سے کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی مگر ماقبل آثار اور صحابہ کرام کے ارشادات میں ایسے دلائل ہیں جو کسی مزید دلیل کے محتاج نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔

3326

۳۳۲۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ یَعِیْشَ بْنِ الْوَلِیْدِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائَ فَأَفْطَرَ) قَالَ : فَلَقِیَتْ ثَوْبَانَ فِیْ مَسْجِدٍ دِمَشْقِیٍّ فَقَالَ (صَدَقَ أَنَا صَبَبْتُ لَہٗ وَضُوْئَ ہٗ)
٣٣٢٦: معدان بن ابی طلحہ نے ابوالدرداء (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قے کی پس روزہ افطار کردیا معدان کہتے ہیں کہ میں ثوبان (رض) سے ملا وہ جامع مسجد دمشق میں تھے تو انھوں نے کہا ابوالدرداء (رض) نے درست کہا ہے میں نے ہی آپ کے لیے وضو کا پانی ڈالا۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٣٢‘ دارمی فی الصوم باب ٢٤‘ مسند احمد ٥؍١٩٥‘ ٦؍٤٤٣۔
حاصل روایات : منہ بھر کر قے جان بوجھ کر کر ڈالی یا منہ بھر کر قے بلاقصد آئی مگر قصداً اسے لوٹا لیا ان دونوں صورتوں میں سب کے ہاں بالاتفاق روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس کے علاوہ جتنی صورتیں ہیں ان میں اختلاف ہے۔
نمبر 1: امام اوزاعی و عطا کے ہاں قے بلااختیار یا بالاختیار خواہ کم ہو یا زیادہ بہرحال اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
نمبر 2: اوپر مذکور دونوں صورتیں اور بالقصد جان بوجھ کر کم مقدار قے میں امام ابو یوسف تو روزہ کو فاسد نہیں مانتے جبکہ امام محمد کے ہاں روزہ فاسد ہوجاتا ہے ان تینوں صورتوں کے علاوہ بقیہ صورتوں میں روزے کے فساد اور عدم فساد میں اختلاف ہے امام اوزاعی ہر حال میں فساد صوم کے قائل ہیں جبکہ دیگر تمام ائمہ فقہاء روزہ کو فاسد نہیں مانتے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : قے کم ہو یا زیادہ بالقصد ہو یا بلااختیار اس سے بہرحال روزہ ٹوٹ جاتا ہے دلائل یہ روایات ہیں۔

3327

۳۳۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ یَعِیْشَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ طَلْحَۃَ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ أَبُوْ مَعْمَرٍ ہٰکَذَا قَالَ عَبْدُ الْوَارِثِ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو .
٣٣٢٧: معدان بن طلحہ نے ابوالدرداء سے روایت نقل کی پھر اسی طرح بیان کی ابن ابی داؤد نے کہا کہ ابو معمر نے کہا اسی طرح عبدالوارث ‘ عبداللہ بن عمرو نے کہا۔

3328

۳۳۲۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْجُوْدِیِّ عَنْ بَلْجٍ رَجُلٍ مِنْ مَہْرَۃَ عَنْ أَبِیْ شَیْبَۃَ الْمَہْرِیِّ قَالَ : قُلْت لِثَوْبَانَ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائَ فَأَفْطَرَ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الصَّائِمَ اِذَا قَائَ فَقَدْ أَفْطَرَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : إِنِ اسْتَقَائَ أَفْطَرَ وَإِنْ ذَرَعَہُ الْقَیْئُ لَمْ یُفْطِرْ وَقَالُوْا : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ قَوْلُہٗ (قَائَ فَأَفْطَرَ) أَیْ قَائَ فَضَعُفَ فَأَفْطَرَ وَقَدْ یَجُوْزُ ھٰذَا فِی اللُّغَۃِ وَاحْتَجَّ الْأَوَّلُوْنَ لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا.
٣٣٢٨: ابو شیبہ مھری کہتے ہیں کہ میں نے ثوبان سے کہا ہم کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سناؤ انھوں نے کہا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے قے کی پھر روزہ افطار کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ روزہ دار جو جب قے آگئی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ انھوں نے اپنی دلیل میں اس روایت کو پیش کیا ہے ‘ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ‘ اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ جاتا رہا اور اس کو قے آگئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قے آئی پھر آپ نے روزہ افطار کردیا روزہ قے سے ٹوٹا تو تبھی بعد میں آپ نے مفطرات کو استعمال فرمایا ورنہ ضرورت نہ تھی۔
الجواب : ان روایات میں تو مذکور نہیں کہ قے سے روزہ ٹوٹ گیا بلکہ بعد میں آپ نے افطار کردیا تو اس سے یہ تو لازم نہ آیا کہ قے سے روزہ ٹوٹا ہے بلکہ عین ممکن ہے قے آئی جس کی وجہ سے کمزوری ضعف پیدا ہوا تو آپ نے روزہ افطار کردیا اور لغوی اعتبار سے یہ اطلاق ہوتا رہتا ہے۔

3329

۳۳۲۹ : بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ مَرْزُوْقٍ عَنْ حَنَشٍ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ : (دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَقَالَ لَہٗ بَعْضُنَا أَلَمْ تُصْبِحْ صَائِمًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بَلَی وَلٰـکِنِّیْ قِئْت)۔
٣٣٢٩: حنش نے فضالہ بن عبید سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا ہم میں سے بعض نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے آج روزہ نہیں رکھا آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ لیکن مجھے قے آگئی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصیام باب ١٦‘ مسند احمد ٦؍١٨‘ ٢٠؍٢١۔

3330

۳۳۳۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ .ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ .
٣٣٣٠: محمد بن خزیمہ کہتے ہیں ہمیں حجاج نے بیان کیا۔

3331

۳۳۳۱ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالُوْا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ أَبِیْ مَرْزُوْقٍ عَنْ حَنَشٍ عَنْ فَضَالَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ قِیْلَ لَہُمْ : وَھٰذَا أَیْضًا مِثْلُ الْأَوَّلِ یَجُوْزُ (وَلٰـکِنِّیْ قِئْتُ فَضَعُفْتُ عَنِ الصَّوْمِ فَأَفْطَرْتُ) وَلَیْسَ فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْقَیْئَ کَانَ مُفْطِرًا لَہٗ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّہٗ قَائَ فَأَفْطَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ وَقَدْ رُوِیَ فِیْ حُکْمِ الصَّائِمِ اِذَا قَائَ أَوِ اسْتَقَائَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُفَسَّرًا۔
٣٣٣١: حنش نے فضالہ بن عبید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ان دونوں روایات میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ قے سے روزہ ٹوٹا ۔ البتہ اس میں اتنی بات ہے کہ آپ نے قے کی پھر اس کے بعد روزہ افطار کردیا اور قے آنے اور جان بوجھ کر کرنے میں روزے کے حکم سے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واضح روایت وارد ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
الجواب : ان روایات کا مفہوم بھی تو وہی ہے کہ مجھے قے آئی جس کی وجہ سے ضعف پیدا ہوا پس میں نے افطار کرلیا تفصیلی روایات ہمارے اس جواب کی مؤید ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف :
اگر کوئی جان بوجھ کر منہ بھر کر قے کر دے تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور قے آگئی تو اس کا روزہ نہ ٹوٹے گا۔ دلائل یہ ہیں۔

3332

۳۳۳۲ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ ذَرَعَہُ الْقَیْئُ وَہُوَ صَائِمٌ فَلَیْسَ عَلَیْہِ قَضَاء ٌ وَمَنِ اسْتَقَائَ فَلْیَقْضِ) " فَبَیَّنَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ کَیْفَ حُکْمُ الصَّائِمِ اِذَا ذَرَعَہُ الْقَیْئُ أَوِ اسْتَقَائَ وَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ تُحْمَلَ الْآثَارُ عَلٰی مَا فِیْہِ اتِّفَاقُہَا وَتَصْحِیْحُہَا لَا عَلٰی مَا فِیْہِ تَنَافِیْہَا وَتَضَادُّہَا فَیَکُوْنُ مَعْنَی الْحَدِیْثَیْنِ الْأَوَّلَیْنِ عَلٰی مَا وَصَفْنَا حَتّٰی لَا یُضَادَّ مَعْنَاہُمَا مَعْنٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ وَأَمَّا حُکْمُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْقَیْئَ حَدَثًا فِیْ قَوْلِ بَعْضِ النَّاسِ وَغَیْرَ حَدَثٍ فِیْ قَوْلِ الْآخَرِیْنَ وَرَأَیْنَا خُرُوْجَ الدَّمِ کَذٰلِکَ وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ الصَّائِمَ اِذَا فَصَدَ عِرْقًا أَنَّہٗ لَا یَکُوْنُ بِذٰلِکَ مُفْطِرًا وَکَذٰلِکَ لَوْ کَانَتْ بِہٖ عِلَّۃٌ فَانْفَجَرَتْ عَلَیْہِ دَمًا مِنْ مَوْضِعٍ مِنْ بَدَنِہِ فَکَانَ خُرُوْجُ الدَّمِ مِنْ حَیْثُ ذَکَرْنَا مِنْ بَدَنِہِ وَاسْتِخْرَاجُہُ إِیَّاہُ سَوَائً فِیْمَا ذَکَرْنَا وَکَذٰلِکَ ہُمَا فِی الطَّہَارَۃِ .وَکَانَ خُرُوْجُ الْقَیْئِ مِنْ غَیْرِ اسْتِخْرَاجٍ مِنْ صَاحِبِہٖ إِیَّاہُ لَا یَنْقُضُ الصَّوْمَ فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ خُرُوْجُہُ بِاسْتِخْرَاجِ صَاحِبِہٖ إِیَّاہُ کَذٰلِکَ لَا یَنْقُضُ الصَّوْمَ فَلَمَّا کَانَ الْقَیْئُ لَا یُفْطِرُہُ فِی النَّظَرِ کَانَ مَا ذَرَعَہُ مِنَ الْقَیْئِ أَحْرٰی أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَلٰـکِنَّ اتِّبَاعَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْلٰی وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَعَامَّۃِ الْعُلَمَائِ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ
٣٣٣٢: محمد بن سیرین نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کو قے پیش آئے اور وہ روزے سے تھا تو اس پر روزے کی قضا نہیں (اس کا روزہ باقی ہے) جس نے خود جان بوجھ کر قے کی تو وہ قضا کرے (کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا) اس روایت نے یہ بات کھول دی کہ جب قے آجائے یا جب وہ جان بوجھ کر قے کر ڈالے دونوں کا کیا حکم ہے اور بہتر یہ ہے کہ آثار کو ایسی بات پر محمول کریں جس میں روایات کے معانی میں باہمی تضاد نہ ہو ۔ آثار کے معانی کی تصحیح کے پیش نظر اس باب کی یہی صورت ہے۔ باقی نظر وفکر کے لحاظ سے اس کا حکم اس طرح ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض علماء قے کو حرث میں شمار کرتے اور دوسرے کہتے ہیں کہ وہ حرث نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خون نکلنے کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ سب کا اس بات پر اتفاق ہے۔ اگر روزہ دار اپنی رگ سے خون نکلوائے تو اس سے روزہ نہیں جاتا ۔ اسی طرح کسی تکلیف کی وجہ سے اگر جسم کے کسی حصہ سے خون نکلے تو اس ضمن میں خون کا نکلنا اور نکالنا دونوں برابر ہیں اور طہارت کے سلسلہ میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اور قے جب تک خود نہ نکالی جائے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ اسی طرح خود قے کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ جب قیاس کے مطابق اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو وہ قے جو غالب آئے اور مجبور کردے اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ افر غور و فکر کے انداز سے لیا جائے تو اس لحاظ سے بھی اس کا حکم یہی ہے مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی اتباع زیادہ بہتر ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ اور عام علماء کا قول ہے اور متقدمین کی ایک جماعت کی ایک جماعت سے بھی یہی بات منقول ہے۔ آثار متقدمین ذیل میں ہیں۔
لغات : ذرعہ غالب آجائے ‘ زبردستی نکل جائے۔ استقاء جان بوجھ کر قے کی۔ یقض قضاء کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٣٢‘ ترمذی فی الصوم باب ٢٥‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٦‘ دارمی فی الصوم باب ٢٥‘ مالک فی الصیام ٤٧‘ مسند احمد ٢؍٤٩٨۔
سب سے بہتر طریق :
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ آثار کو ایسی بات پر محمول کریں جو اتفاقی ہو ایسی بات پر محمول نہ کرنا چاہیے جس سے روایات میں تضاد و منافات پیدا ہو۔ چنانچہ پہلی دو روایات کا معنی وہی ہے آپ کو قے آگئی جس سے ضعف ہوا تو آپ نے روزہ افطار کرلیا اس سے روایات میں تضاد پیدا نہیں ہوتا اسی طرح جان بوجھ کر قے کرنے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
آثار کے پیش نظر اس باب کا یہی حکم ہے۔ طریق نظر سے بھی ملاحظہ فرمائیں۔

نظر طحاوی (رض) :
قے کو بعض ائمہ حدث (وضو توڑنے والی) مانتے ہیں اور دوسروں کے ہاں یہ حدث نہیں اسی طرح خون کا جسم کے کسی حصہ سے نکلنا بعض کے ہاں حدث بعض کے ہاں حدث کا سبب نہیں۔ اور اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ جب روزہ دار فصد کروائے تو اس کا روزہ نہ ٹوٹے گا اسی طرح حکم ہے جب اس کو کوئی تکلیف ہو اور بدن کی کسی جگہ سے خون پھوٹ پڑا تو یہی حکم ہے۔
تو خون کا جسم کے کسی مقام سے نکلنا اور نکلوانا دونوں حکم میں برابر ہیں کہ مفطر صوم نہیں تو طہارت کے متعلق بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔
پس قے کا نکلنا بغیر کسی قصد و ارادہ کے روزے کو نہ توڑے گا تو نظر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا زبردستی نکالنا بھی اسی طرح روزے کو نہ توڑے مگر ہم نے اس میں نص پر عمل کرتے ہوئے قیاس کو چھوڑ دیا اس کو ناقص بوجہ نص کہا اور بلاقصد کو اپنے اصل پر باقی رکھا کہ زبردستی نکلنے والی قے سے زیادہ مناسب ہے کہ روزہ نہ ٹوٹے۔
ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی قول ہے اور عام علماء بھی یہی کہتے ہیں۔

3333

۳۳۳۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ وَصَخْرُ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ قَالَ (مَنِ اسْتَقَائَ وَہُوَ صَائِمٌ فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ وَمَنْ ذَرَعَہٗ الْقَیْئُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ الْقَضَائُ) .
٣٣٣٣: نافع نے ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ جس نے روزے کی حالت میں جان بوجھ کر قے کی اس پر قضا لازم ہے اور جس کو قے خود پیش آگئی اس پر قضا نہیں یعنی اس کا روزہ درست ہے۔

3334

۳۳۳۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ۔
٣٣٣٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
روزے کی حالت میں پچھنے لگوانے سے روزہ میں فساد و کراہت ہے یا دونوں میں سے کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل اور اوزاعی رحمہم اللہ کے ہاں پچھنے لگوانے سے دونوں کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔
ائمہ احناف اور دیگر تمام ائمہ کے ہاں پچھنے لگوانے بلاکراہت درست ہیں کسی کا روزہ بھی فاسد نہیں ہوتا۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : پچھنے لگانے اور لگوانے والا اگر دونوں روزہ دار ہوں تو ان کے روزے فاسد ہوجائیں گے قضا لازم ہوگی۔

3335

۳۳۳۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ یَعْنِی ابْنَ سَلْمَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ مِثْلَہٗ۔
٣٣٣٥: حماد بن سلمہ نے حماد سے انھوں نے ابراہیم سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3336

۳۳۳۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَہٗ۔
٣٣٣٦: حجاج نے حماد سے انھوں نے حمید سے انھوں نے حسن بصری (رح) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3337

۳۳۳۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حِبَّانَ السُّلَمِیِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ مِثْلَہٗ۔
٣٣٣٧: حجاج نے حماد سے انھوں نے حبان سلمی سے انھوں نے قاسم بن محمد (رح) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
نوٹ : اس مسئلہ میں بھی روزے کے فساد اور عدم فساد کا اختلاف ہے نص صریح کی وجہ سے مجمل نصوص کو اس پر محمول کر کے عمل کیا گیا ہے۔ یہاں قیاس نص کے مخالف آیا تو نص کو ترجیح دے کر قیاس کو ترک کردیا گیا۔

3338

۳۳۳۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ مَطَرِ الْوَرَّاقِ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزَنِیِّ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی أَبِیْ مُوْسٰی وَہُوَ یَحْتَجِمُ لَیْلًا فَقُلْتُ : لَوْلَا کَانَ ھٰذَا نَہَارًا فَقَالَ (أَتَأْمُرُنِیْ أَنْ أُہْرِیْقَ دَمِیْ وَأَنَا صَائِمٌ) .وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) "
٣٣٣٨: ابو رافع کہتے ہیں کہ میں ابو موسیٰ (رض) کی خدمت میں گیا وہ رات کو سینگی لگوا رہے تھے میں نے کہا یہ دن کو کیوں نہ لگوائی تو کہنے لگے کیا تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میرا خون روزے کی حالت میں بہایا جائے حالانکہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : افطر الحاجم والمحجوم۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٢٨‘ ترمذی فی الصوم باب ٥٩‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٨‘ دارمی فی الصوم باب ٢٦‘ مسند احمد ٢؍٣٦٤‘ ٣؍٤٦٥‘ ٤؍١٢٣‘ ١٢٤‘ ٥؍٢١٠‘ ٦؍١٢‘ ١٥٧۔

3339

۳۳۳۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) .
٣٣٣٩: عمرو بن شعیب نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنگی لگوانے اور لگانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔

3340

۳۳۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَیْدٍ وَأَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَا : ثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ : شَہِدَ عِنْدِی نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مِنْہُمَ الْحَسَنُ بْنُ أَبِی الْحَسَنِ عَنْ مَعْقِلٍ الْأَشْجَعِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : (مَرَّ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَحْتَجِمُ لِثَمَانِ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ فَقَالَ أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ)
٣٣٤٠: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ میرے پاس اہل بصرہ کے ایک گروہ نے گواہی دی جس میں حسن بن ابی الحسن بھی تھے کہ معقل اشجعی (رض) نے بتایا کہ میرے پاس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا اور میں پچھنے لگوا رہا تھا۔ یہ اٹھارہ رمضان کی بات ہے تو آپ نے فرمایا سینگی لگانے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔

3341

۳۳۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنْمٍ الْأَشْعَرِیِّ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) .
٣٣٤١: عبدالرحمن بن غنم اشعری نے ثوبان مولیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سینگی لگانے اور لگوانے والے کا روزہ جاتا رہا۔

3342

۳۳۴۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٣٤٢: سعید بن عامر کہتے ہیں کہ ہمیں سعید نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3343

۳۳۴۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْبَابْلُتِّیُّ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ قِلَابَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ أَسْمَائَ الرَّحَبِیُّ عَنْ ثَوْبَانَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِیْ رَمَضَانَ فِیْ ثَمَانِیَ عَشْرَۃَ فَمَرَّ بِرَجُلٍ یَحْتَجِمُ فَقَالَ أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) .
٣٣٤٣: ابو اسماء رحبی نے ثوبان (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھارہ رمضان کو نکلے آپ کا گزر ایک آدمی کے پاس سے ہوا جو سینگی لگوا رہا تھا تو آپ نے فرمایا حاجم و محجوم کا روزہ جاتا رہا۔

3344

۳۳۴۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ یَحْیٰی قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ قِلَابَۃَ أَنَّ أَبَا أَسْمَائَ حَدَّثَہٗ أَنَّ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَہٗ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ.
٣٣٤٤: ابو قلابہ نے بیان کیا کہ ابو اسماء نے مجھے بیان کیا کہ ثوبان (رض) جو مولیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انھوں نے مجھے بیان کیا ہے پھر اسی طرح روایت ذکر کی ہے۔

3345

۳۳۴۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ عَنْ لَیْثٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) .
٣٣٤٥: عطاء نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : افطرالحاجم والمحجوم ‘

3346

۳۳۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : ثِنَا ہُشَیْمٌ عَنْ خَالِدٍ وَمَنْصُوْرٍ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِیْ رَمَضَانَ عَلٰی رَجُلٍ یَحْتَجِمُ فَقَالَ أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ)
٣٣٤٦: اشعث صنعانی نے شداد بن اوس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر رمضان میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے ہوا جو سینگی لگوا رہا تھا تو آپ نے فرمایا : افطرالحاجم والمحجوم ۔

3347

۳۳۴۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٣٤٧: پچھلی حدیث کے مثل ہی ہے

3348

۳۳۴۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعَطَّارِ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمُسْتَحْجِمُ)
٣٣٤٨: ۔۔۔

3349

۳۳۴۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْحِجَامَۃَ تُفْطِرُ الصَّائِمَ حَاجِمًا کَانَ أَوْ مَحْجُوْمًا وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا تُفْطِرُ الْحِجَامَۃُ حَاجِمًا وَلَا مَحْجُوْمًا وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْمَا رَوَیْتُمُوْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِہٖ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) مَا یَدُلُّ أَنَّ ذٰلِکَ الْفِطْرَ کَانَ مِنْ أَجْلِ الْحِجَامَۃِ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ أَنَّہُمَا أَفْطَرَا بِمَعْنًی آخَرَ وَصَفَہُمَا بِمَا کَانَا یَفْعَلَانِہِ حِیْنَ أَخْبَرَ عَنْہُمَا بِذٰلِکَ کَمَا یَقُوْلُ (فَسَقَ الْقَائِمُ) لَیْسَ إِنَّہٗ فَسَقَ بِقِیَامِہٖ وَلٰکِنَّہٗ فَسَقَ بِمَعْنًی غَیْرِ الْقِیَامِ وَقَدْ رُوٰی عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رَوَیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ فِیْ ھٰذَا الْمَعْنٰی۔
٣٣٤٩: سعید بن مسیب نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا : افطرالحاجم والمحجوم۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ سینگی لگانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے انھوں نے ان آثار کو اپنا مستدل بنایا اور دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سینگی لگانے اور لگوانے والے کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (ان روایات کے جواب میں انھوں نے کہا) کہ ان روایات میں ” افطر الحاجم والمحجوم “ میں تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ سینگی لگانے کی وجہ سے ٹوٹا۔ عین ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی اور بناء پر ان کے روزہ ٹوٹنے کا ذکر فرمایا ہو ۔ مگر بیان کرتے ہوئے ان کے وقتی عمل کا ذکر کیا ۔ جیسا کوئی اس طرح کہے کہ کھڑا ہونے والا فاسق ہوگیا ۔ اس کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ وہ کھڑا ہونے کی وجہ سے فاسق ہوا بلکہ فسق کی اور کوئی وجہ ہے اس مفہوم کو ابو الاشعث صنعانی نے بھی اپنی روایت میں ذکر کیا ہے اور وہ اس حدیث میں من جملہ روات کے ہیں ‘ روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی لگوانے اور لگانے والا اگر دونوں روزہ دار ہوں تو دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور ان پر قضا لازم ہوگی۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جواب :
سینگی لگوانے اور لگانے والے میں سے کسی کا بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جب ٹوٹا نہیں تو قضا کیسی۔ باقی روایت کے سلسلہ میں گزارش یہ ہے۔
u: اس روایت سے آپ کا استدلال درست نہیں کیونکہ یہ روایت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ یہ سینگی لگانا یا لگوانا۔ روزہ ٹوٹنے کا باعث ہے ممکن ہے کہ افطار تو کسی اور سبب سے ہو اور آپ نے موقعہ کے فعل کو افطار سے تعبیر کردیا جیسا کہ ابوالاشعث صنعانی کی روایت خود اس پر دلالت کرتی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افطرالحاجم والمحجوم۔ کیونکہ وہ دونوں اس وقت غیبت میں مصروف تھے اور افطار سے بھی وہ افطار مراد نہیں جو کھانے پینے اور جماع سے ہوتا ہے بلکہ افطار اس اعتبار سے فرمایا کہ ان کا عمل ضائع ہوگیا ان کا روزہ رکھنا اور افطار کرنا برابر ٹھہرا۔ یہ غیبت والا افطار قضا کا باعث نہیں۔ روایت آگے ملاحظہ ہو۔

3350

۳۳۵۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ رَبِیْعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ قَالَ : إِنَّمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) لِأَنَّہُمَا کَانَا یَغْتَابَانِ وَھٰذَا الْمَعْنٰی مَعْنًی صَحِیْحٌ وَلَیْسَ إِفْطَارُہُمَا ذٰلِکَ کَالْاِفْطَارِ بِالْأَکْلِ وَالشُّرْبِ وَالْجِمَاعِ وَلٰـکِنَّہٗ حَبِطَ أَجْرُہُمَا بِاغْتِیَابِہِمَا فَصَارَا بِذٰلِکَ مُفْطِرَیْنِ لَا أَنَّہٗ إِفْطَارٌ یُوْجِبُ عَلَیْہِمَا الْقَضَائَ وَھٰذَا کَمَا قِیْلَ : الْکَذِبُ یُفْطِرُ الصَّائِمَ لَیْسَ یُرَادُ بِہِ الْفِطْرُ الَّذِیْ یُوْجِبُ الْقَضَائَ إِنَّمَا ہُوَ عَلَیْ حُبُوْطِ الْأَجْرِ بِذٰلِکَ کَمَا یُحْبَطُ بِالْأَکْلِ وَالشُّرْبِ .وَھٰذَا نَظَرُ مَا حَمَلْنَاہُ نَحْنُ عَلَیْہِ مِنَ التَّأْوِیْلِ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ وَقَدْ رَوَیْ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ مَعْنًی آخَرَ
٣٣٥٠: ابوالاشعث صنعانی کہتے ہیں بلاشبہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطرالحاجم والمحجوم فرمایا کیونکہ وہ دونوں غیبت میں مصروف تھے۔ روایت کا یہ معنیٰ درست ہے اور ان دونوں کا افطار اس طرح کا نہیں جیسا کھانے ‘ پینے اور جماع کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بلکہ غیبت کے سبب ان کا ثواب جاتا رہا اس طرح وہ روزہ توڑنے والے قرار پائے۔ یہ ٹوٹنا اس طرح کا نہیں جس سے قضاء لازم ہوتی ہو اور یہ اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ جھوٹ روزہ دار کا روزہ توڑ دیتا ہے۔ اس سے مراد قضاء لازم آنے والا ٹوٹنا نہیں بلکہ اس سے اجر کا ضائع ہو نامراد ہے جیسا بظاہر کھانے پینے سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے اور اجر بھی پھوٹ جاتا ہے۔ یہ مذکورہ تاویل جیسی نظر ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت نے اس سلسلہ میں ایک اور معنی بھی نقل کیا ہے۔ ذیل کی روایات میں ملاحظہ ہو۔
یہ مفہوم درست ہے جیسا کہتے ہیں الکذب یفطرالصائم اس سے وہ افطار مراد نہیں ہوتا جس سے قضا لازم ہوتی ہے بلکہ ضیاع اجر والا افطار مراد ہے جیسا کہ کھانے پینے سے روزہ بظاہراً بھی ٹوٹ جاتا ہے اور اجر بھی حبط ہوجاتا ہے۔

3351

۳۳۵۱ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ الْکَیْسَانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیْ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ (إِنَّمَا کَرِہْنَا أَوْ کُرِہَتِ الْحِجَامَۃُ لِلصَّائِمِ مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ)
٣٣٥١: ابوالمتوکل ناجی نے ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم نے سینگی کو اس لیے ناپسند کیا کہ یہ ضعف و کمزوری کا باعث بنتی ہے تو گویا ضعف کا باعث ہونے کی وجہ سے اس کو مفطر کہہ دیا گیا۔

3352

۳۳۵۲ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ : سَأَلَ ثَابِتُ الْبُنَانِیُّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ (ہَلْ کُنْتُمْ تَکْرَہُوْنَ الْحِجَامَۃَ لِلصَّائِمِ ؟) قَالَ (لَا إِلَّا مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ) .
٣٣٥٢: حمید کہتے ہیں کہ ثابت بنانی نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ کیا تم روزہ دار کے لیے سینگی کو ناپسند کرتے ہو انھوں نے کہا نہیں۔ البتہ کمزوری کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

3353

۳۳۵۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ قَالَ : سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ فَقَالَ (مَا کُنْتُ أَرَی الْحِجَامَۃَ تُکْرَہُ لِلصَّائِمِ إِلَّا مِنَ الْجَہْدِ)
٣٣٥٣: حمیدالطویل کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا کہ روزہ دار کے لیے سینگی کا کیا حکم ہے تو فرمایا میں سینگی کو روزہ دار کے لیے اس لیے ناپسند کرتا ہوں کہ اس سے کمزوری ومشقت پیدا ہوتی ہے۔

3354

۳۳۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہَدِیَّۃُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (مَا کُنَّا نَدَعُ الْحِجَامَۃَ إِلَّا کَرَاہَۃَ الْجَہْدِ) .
٣٣٥٤: سلیمان بن المغیرہ نے ثابت سے انھوں نے انس (رض) سے نقل کیا کہ ہم تھکن و تکلیف کی ناپسندیدگی کی وجہ سے روزہ دار کے لیے سینگی کو ترک کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٣٢‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٣٠۔

3355

۳۳۵۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ وَسَالِمٍ عَنْ سَعِیْدٍ وَمُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ وَلَیْثٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (إِنَّمَا کُرِہَتِ الْحِجَامَۃُ لِلصَّائِمِ مَخَافَۃَ الضَّعْفِ) فَدَلَّتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَلٰی أَنَّ الْمَکْرُوْہَ مِنْ أَجْلِہِ الْحِجَامَۃُ فِی الصِّیَامِ ہُوَ الضَّعْفُ الَّذِیْ یُصِیْبُ الصَّائِمَ فَیُفْطِرُ مِنْ أَجْلِہٖ بِالْأَکْلِ وَالشُّرْبِ وَقَدْ رُوِیَ نَحْوٌ مِنْ ھٰذَا الْمَعْنَیْ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ
٣٣٥٥: ابراہیم و لیث نے مجاہد سے انھوں عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں روزہ دار کے لیے سینگی کو اس لیے ناپسند کرتا ہوں کہ اس سے ضعف پیدا نہ ہوجائے۔ روایات سے یہ وضاحت مل گئی کہ روزے کی حالت سینگی لگونے کی کراہت کا اصل باعث وہ کمزوری ہے جو اس کی بناء پر پیش آتی ہے اور وہ اس کمزوری کے لیے کھانے کی بناء پر روزہ توڑ دیتا ہے۔ حضرت ابو العالیہ (رح) نے بھی قریبا اسی مفہوم کو ذکر کیا ہے۔ روایت ذیل میں ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے میں سینگی کے ناپسند ہونے کی وجہ ضعف کا خطرہ ہے جو کہ خون کے نکلنے کی وجہ سے روزہ دار کو پیش آتا ہے اور اس کے ازالہ کے لیے پھر وہ کھا پی کر روزہ افطار کردیتا ہے گویا یہ سبب کا سبب ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔

3356

۳۳۵۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ أَنَّ أَبَا الْعَالِیَۃِ قَالَ (إِنَّمَا کُرِہَتْ مَخَافَۃَ أَنْ یُغْشٰی عَلَیْہِ) قَالَ فَأَخْبَرْتُ بِذٰلِکَ أَبَا قِلَابَۃَ فَقَالَ لِی إِنْ غُشِیَ عَلَیْہِ یُسْقَی الْمَائَ وَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْمَعْنٰی أَیْضًا بِعَیْنِہٖ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ۔
٣٣٥٦: حماد نے عاصم احول سے بیان کیا کہ ابوالعالیہ کہنے لگے میں سینگی کو روزہ دار کے لیے اس وجہ سے ناپسند کرتا ہوں کہ کہیں اس کی وجہ سے اس پر غشی نہ آجائے حماد کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ کو یہ بات بیان کی تو وہ مجھے فرمانے لگے اگر اس پر غشی طاری ہوجائے تو اس کو پانی پلایا جائے۔ یہی مفہوم من وعن سالم بن عبداللہ (رح) نے بھی بیان کیا ہے۔

3357

۳۳۵۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ وَہُوَ یَذْکُرُ قَوْلَ النَّاسِ (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ) فَقَالَ الْقَاسِمُ : لَوْ أَنَّ رَجُلًا حَجَمَ یَدَہُ أَوْ بَعْضَ جَسَدِہِ مَا یُفْطِرُہُ ذٰلِکَ فَقَالَ سَالِمٌ : إِنَّمَا کُرِہَتَ الْحِجَامَۃُ لِلصَّائِمِ مَخَافَۃَ أَنْ یُغْشَیْ عَلَیْہِ فَیُفْطِرَ وَالْمَعْنَی الَّذِی رُوِیَ فِیْ تَأْوِیْلِ ذٰلِکَ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ کَأَنَّہٗ أَشْبَہٗ بِذٰلِکَ لِأَنَّ الضَّعْفَ لَوْ کَانَ ہُوَ الْمَقْصُوْدَ بِالنَّہْیِ إِلَیْہِ لَمَا کَانَ الْحَاجِمُ دَاخِلًا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا کَانَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ قَدْ جُمِعَا فِیْ ذٰلِکَ أَشْبَہَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ لِمَعْنًی وَاحِدٍ ہُمَا فِیْہِ سَوَاء ٌ مِثْلُ الْغَیْبَۃِ الَّتِیْ ھُمَا فِیْہَا سَوَاء ٌ کَمَا قَالَ أَبُوَ الْأَشْعَثِ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنِ الشَّعْبِیِّ وَإِبْرَاہِیْمَ أَنَّہُمَا قَالَا (إِنَّمَا کُرِہَتْ مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ أَیْضًا)
٣٣٥٧: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد کو افطرالحاجم والمحجوم کا تذکرہ کرتے سنا تو قاسم کہنے لگے اگر کوئی آدمی اس کے ہاتھ یا جسم کے کسی حصہ پر سینگی لگائے تو یہ چیز اس کے روزے کو نہ توڑے گی سالم کہنے لگے میں تو روزہ دار کے لیے سینگی اس لیے ناپسند کرتا ہوں کہ کہیں اس کی وجہ سے روزہ دار پر غشی نہ آجائے اور پھر اسے روزہ توڑنا پڑے۔ حضرت اشعث کی تاویل میں جس معنیٰ کو ذکر کیا گیا وہ زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ اگر ممانعت کی وجہ کمزوری ہوتی تو سینگی لگانے والا اس میں شامل نہ ہوتا ۔ پھر جب اس میں سینگی لگانے اور لگوانے والا شامل ہیں تو وہ بات سب سے بہتر ہوگی جو ان دونوں میں پائی جائے گی مثلاً غیبت دونوں میں برابر ہے۔ جیسا کہ ابو الاشعث نے فرمایا اور حضرت شعبی اور ابراہیم سے بھی مروی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ کمزوری کی وجہ سے مکروہ ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
استدراک : ابوالاشعث کی اس تاویل میں ضعف کو مقصود مانا جائے تو پھر محجوم تو اس کا شکار ہے مگر حاجم پر وہ درست نہ بیٹھے گی البتہ جو تاویل ان دونوں کو جمع کرنے والی ہے وہ غیبت وغیرہ والی ہے کہ توبیخ کے طور پر دونوں کو فرمایا اور غیبت میں تو شریک بھی دونوں ہیں۔

3358

۳۳۵۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ہُوَ ابْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْقَطَّانُ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ : سَأَلْتُ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ فَقَالَ (إِنَّمَا کُرِہَتْ مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ) .
٣٣٥٨: اعمش کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے پوچھا کہ سینگی کا کیا حکم ہے تو انھوں نے کہا میں کمزوری کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے اس کو ناپسند کرتا ہوں۔

3359

۳۳۵۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ .وَقَالَ الشَّعْبِیُّ (إِنَّمَا کُرِہَتِ الْحِجَامَۃُ لِأَنَّہَا تُضْعِفُہٗ) وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِبَاحَۃِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ۔
٣٣٥٩: داؤد نے شعبی سے خبر دی کہ حسن بن علی (رض) نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی شعبی کہنے لگے میں تو سینگی کو اس لیے ناپسند کرتا ہوں کیونکہ اس سے ضعف پیدا ہوتا ہے۔

3360

۳۳۶۰ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ صَائِمٌ)
٣٣٦٠: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور آپ اس وقت روزے سے تھے۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ١١‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٢٨‘ ٢٩‘ ٣٠‘ ترمذی فی الصوم باب ٥٩؍٦١‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٨‘ مالک فی الصیام ٣٠؍٣٢۔

3361

۳۳۶۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ وَہُوَ النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْمُرَادِیُّ قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٣٦١: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3362

۳۳۶۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٣٦٢: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3363

۳۳۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ الشَّہِیْدِ عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ) .
٣٣٦٣: میمون بن مہران نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام کی حالت میں جبکہ آپ روزے سے تھے سینگی کھینچوائی۔

3364

۳۳۶۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا مَسْعُوْدُ بْنُ سَعْدٍ الْجُعْفِیُّ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ (احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ وَہُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ)
٣٣٦٤: مقسم نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی جبکہ آپ مدینہ اور مکہ کے درمیان میں روزے سے تھے اور احرام باندھ رکھا تھا۔

3365

۳۳۶۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .
٣٣٦٥: حسین بن نصر نے کہا کہ ہمیں فریابی نے بیان کیا۔

3366

۳۳۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ وَأَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالُوْا : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَزِیْدَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٣٦٦: ابو عاصم اور ابو حذیفہ نے بیان کیا کہ سفیان نے یزید سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3367

۳۳۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ)
٣٣٦٧: مقسم نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی۔

3368

۳۳۶۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .وَزَادَ (وَہُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ) .
٣٣٦٨: عبدالعزیز بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یزید بن ابی زیاد نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور یہ اضافہ ہے وھو صائم محرم کہ آپ روزے سے تھے اور احرام باندھا ہوا تھا۔

3369

۳۳۶۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ) .
٣٣٦٩: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی جبکہ آپ احرام کی حالت میں روزے سے تھے اور یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کا واقعہ ہے۔

3370

۳۳۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِکٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ أَبَا طَیْبَۃَ حَجَّمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ صَائِمٌ فَأَعْطَاہُ أَجْرَہٗ) وَلَوْ کَانَ حَرَامًا مَا أَعْطَاہُ .فَدَلَّ فِعْلُہٗ ھٰذَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَنَّ الْحِجَامَۃَ لَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ وَلَوْ کَانَتْ مِمَّا یُفْطِرُ الصَّائِمَ اِذًا لَمَا احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ الْآثَارِ وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا خُرُوْجَ الدَّمِ أَغْلَظَ أَحْوَالِہِ أَنْ یَّکُوْنَ حَدَثًا یَنْتَقِضُ بِہِ الطَّہَارَۃُ وَقَدْ رَأَیْنَا الْغَائِطَ وَالْبَوْلَ خُرُوْجُہُمَا حَدَثٌ یُنْتَقَضُ بِہِ الطَّہَارَۃُ وَلَا یَنْقُضُ الصِّیَامَ فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ الدَّمُ کَذٰلِکَ وَقَدْ رَأَیْنَا الصَّائِمَ لَا یُفْطِرُہٗ فَصْدُ الْعِرْقِ فَالْحِجَامَۃُ فِی النَّظَرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٣٣٧٠: عاصم نے انس (رض) سے نقل کیا کہ ابو طیبہ نے آپ کی سینگی لگائی جبکہ آپ روزے سے تھے پھر آپ نے اس کو اس کی سینگی لگانے کی اجرت عنایت فرمائی اگر اجرت حرام ہوتی تو آپ اس کو عنایت نہ فرماتے۔ آپ کا یہ فعل اس پر دلالت کرتا ہے کہ سینگی سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر اس سے روزہ ٹوٹتا تو آپ سینگی نہ لگواتے جب کہ آپ تو روزے سے تھے ۔ آثار و روایات کی درستی کے لحاظ سے اس باب کی یہی صورت ہے۔ باقی نظر وفکر کے لحاظ سے ہم یہ بات پاتے ہیں کہ خون نکلنے کی سخت ترین صورت یہ ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح بول وبراز کے نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے مگر روزہ نہیں ٹوٹتا پس غور و فکر اسی بات کو چاہتا ہے کہ خون کا بھی یہی حکم ہو اور ہم یہ بھی پاتے ہیں اگر رگ میں سے خون نکالا جاتے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو قیاس یہی چاہتا ہے کہ سینگی سے روزہ نہ ٹوٹے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٣٩‘ ٩٥‘ والاجارہ باب ١٧‘ والطب باب ١٣‘ مسلم فی المساقاۃ ٦٢‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٨‘ ترمذی فی البیوع باب ٤٨‘ دارمی فی البیوع باب ٧٩‘ مالک فی الستیذان ٢٦‘ مسند احمد ٣؍١٠٠‘ ١٧٤‘ ١٨٢۔
البتہ روزے کا تذکرہ صحاح میں موجود نہیں ہے جبکہ روایت ابن عباس (رض) میں موجود ہے نمبر ٣٣٦١۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حجامت کرانا یہ دلالت کررہا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اگر اس سے روزہ ٹوٹتا ہوتا تو آپ سینگی نہ لگواتے جبکہ آپ روزہ کی حالت میں تھے نمبر ٣٣٦٠ میں صراحت سے موجود ہے۔
تصحیح آثار کے طور پر تو یہ صورت ذکر کردی اب طریق نظر سے ملاحظہ کرلیں۔
نظر طحاوی بقلم طحاوی (رح) :
خروج دم کی سب سے سخت حالت یہ ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جائے اور طہارت ختم ہوجائے اور پیشاب و پاخانہ کے خروج سے بھی طہارۃ ٹوٹ جاتی ہے مگر ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا نظر کا تقاضا یہ ہے کہ خون بھی اسی طرح ہو اور ہم نے نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ رگ کسے فصد سے روزہ نہیں ٹوٹتا پس پچھنے اور سینگی بھی ظاہر میں اسی طرح ہے بلکہ اس سے کم تر ہے۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا بھی یہی قول ہے۔

3371

۳۳۷۱ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ کَانَا لَا یَرَیَانِ بِالْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا وَقَالَا : أَرَأَیْتُ لَوْ اِحْتَجَمَ عَلٰی ظَہْرِ کَفِّہٖ أَکَانَ ذٰلِکَ یُفْطِرُہٗ؟
٣٣٧١: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ اور قاسم بن محمد دونوں روزہ دار کے حق میں سینگی لگوانے میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے۔ اور وہ کہا کرتے تھے کہ تم بتلاؤ اگر ہتھیلی کی پشت پر سینگی لگوائی جائے تو کیا یہ اس کے روزے کو توڑ دے گی ؟ (جب اس کو کوئی بھی مفطر صوم خیال نہیں کرتا تو اسی طرح پشت و کمر وغیرہ پر سینگی سے کیوں کر ٹوٹ جائے گا۔
حاصل روایات : اس باب میں روزے کے فساد و عدم فساد کا اختلاف ہے امام طحاوی (رح) کی رائے فریق ثانی کے ساتھ ہے اس لیے سات صحابہ سے نقل کردہ روایت کا جواب خوب تطبیقی انداز سے دیا پھر تین صحابہ سے دس اسناد کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روزے کی حالت سینگی لگوانے کا ثبوت پیش کیا۔ پھر تائید میں نظری دلیل اور اقوال تابعین کو ذکر کیا۔

3372

۳۳۷۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ : أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ سُمَیٍّ مَوْلٰی أَبِیْ بَکْرٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یَقُوْلُ : کُنْتُ أَنَا وَأَبِیْ عِنْدَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ وَہُوَ أَمِیْرُ الْمَدِیْنَۃِ فَذَکَرَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَقُوْلُ : " مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا أَفْطَرَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ " فَقَالَ مَرْوَانُ : أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ لَتَذْہَبَنَّ إِلٰی أُمَّیِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَتَسْأَلُہُمَا عَنْ ذٰلِکَ قَالَ : فَذَہَبَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ وَذَہَبْتُ مَعَہٗ حَتّٰی دَخَلْنَا عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَلَّمَ عَلَیْہَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ثُمَّ قَالَ : (یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ إِنَّا کُنَّا عِنْدَ مَرْوَانَ فَذُکِرَ لَہٗ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَقُوْلُ (مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا أَفْطَرَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ) فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِئْسَ مَا قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ أَتَرْغَبُ عَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ؟ " فَقَالَ : لَا وَاللّٰہِ .قَالَ : " (فَأَشْہَدُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ غَیْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ یَصُوْمُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ) .قَالَ : ثُمَّ خَرَجْنَا حَتّٰی دَخَلْنَا عَلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلَہَا عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَتْ کَمَا قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَخَرَجْنَا حَتَّی جِئْنَا إِلٰی مَرْوَانَ فَذَکَرَ لَہٗ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ مَا قَالَتَا فَقَالَ مَرْوَانُ : أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ یَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَتَرْکَبَنَّ دَابَّتِیْ فَإِنَّہَا بِالْبَابِ فَلْتَذْہَبَنَّ إِلٰی أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِأَرْضِہِ بِالْعَقِیْقِ فَلَتُخْبِرَنَّہُ بِذٰلِکَ فَرَکِبَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ وَرَکَبْتُ مَعَہٗ حَتّٰی أَتَیْنَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَتَحَدَّثَ مَعَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ سَاعَۃً ثُمَّ ذَکَرَ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (لَا عِلْمَ لِیْ بِذٰلِکَ إِنَّمَا أَخْبَرَنِیْہِ مُخْبِرٌ)۔
٣٣٧٢: سمیی مولیٰ ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کو کہتے سنا کہ میں اور میرے والد دونوں مروان بن حکم حاکم مدینہ کے ہاں تھے اس کے ہاں یہ تذکرہ چلا کہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جس نے صبح صادق جنابت کی حالت میں کی اس کا روزہ نہ ہوگا۔
مروان نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم دونوں امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) اور امّ المؤمنین امّ سلمہ (رض) کے ہاں جاؤ اور ان دونوں سے اس کے متعلق پوچھ کرآؤ چنانچہ عبدالرحمن گئے اور میں بھی ان کے ساتھ گیا ہم دونوں عائشہ (رض) کی خدمت میں پہنچے اور عبدالرحمن نے سلام پیش کیا پھر کہا۔ اے امّ المؤمنین ! ہم مروان کے ہاں تھے ان کے ہاں ابوہریرہ (رض) کی یہ بات ذکر کی گئی کہ جس نے جنابت کی حالت میں صبح کی اس کا روزہ درست نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ (رض) نے کہا اے عبدالرحمن ! ابوہریرہ (رض) نے غلط کہا کیا تم اس سے اعراض کرو گے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے ؟ عبدالرحمن نے جواب دیا نہیں۔ اللہ کی قسم !
وہ کہنے لگیں میں گواہی دیتی ہوں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جماع اہل کے ساتھ جنابت کی حالت میں صبح کرتے نہ کہ احتلام سے پھر آپ اس دن کا روزہ اسی حالت میں رکھتے۔
عبدالرحمن کہتے ہیں پھر وہاں سے نکلے اور امّ سلمہ (رض) کی خدمت میں پہنچے اور ان سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو انھوں نے وہی کہا جو عائشہ (رض) نے فرمایا تھا۔
پھر ان کے ہاں سے نکل کر ہم مروان کے پاس آئے اور عبدالرحمن نے امہات المؤمنین کا قول اس کے سامنے نقل کیا۔
تو مروان نے کہا۔ اے ابو محمد میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم میرے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ وہ دروازہ کے باہر موجود ہے اور مقام عقیق میں ابوہریرہ (رض) کی زمین پر جا کر ان کو اس بات کی اطلاع دو ۔
چنانچہ عبدالرحمن سوار ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا یہاں تک کہ ہم ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں آئے عبدالرحمن نے پہلے ان کے ساتھ کچھ دیر باتیں کیں پھر ان کے سامنے اس مسئلہ کا تذکرہ کیا۔
ابوہریرہ (رض) کہنے لگے مجھے اس بات کا کچھ علم نہیں مجھے تو ایک بتلانے والے نے بتلایا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٢٢‘ مسلم فی الصیام ٧٥‘ مسند احمد ٦؍٣٤‘ ٣٦۔
جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی اس کا روزہ درست ہے یا نہیں۔
نمبر 1: حسن بصری عطاء بن رباح رحمہم اللہ وغیرہ نے طلوع فجر تک غسل کو مؤخر کرنے کی صورت میں روزے کو درست قرار نہیں دیا قضاء لازم ہوگی۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ جمہور صحابہ وتابعین نے اس کے روزے کو ہر حال میں درست قرار دیا خواہ غفلت و نسیان سے غسل میں تاخیر کرے یا قصداً تاخیر کی ہو۔
فریق اوّل کا مؤقف و دلائل : جو شخص جنابت سے صبح کرے اور صبح صادق سے قبل غسل نہ کرے اس کا روزہ درست نہ ہوگا اسے روزے کی قضا لازم ہے۔

3373

۳۳۷۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَوْنٍ عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ عَنْ یَعْلَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ : أَصْبَحْتُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِیْدُ الصَّوْمَ فَأَتَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ لِی " أَفْطِرْ " فَأَتَیْتُ مَرْوَانَ فَسَأَلْتُہٗ وَأَخْبَرْتُہٗ بِقَوْلِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَبَعَثَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْحَارِثِ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلَہَا فَقَالَتْ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ وَرَأْسُہٗ یَقْطُرُ مِنْ جِمَاعٍ ثُمَّ یَصُوْمُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ) .فَرَجَعَ إِلٰی مَرْوَانَ فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ: ائْتِ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبِرْہُ فَأَتَاہُ فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ : (أَمَّا إِنِّیْ لَمْ أَسْمَعْہُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا حَدَّثَنِیْہِ الْفَضْلُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
٣٣٧٣: رجاء بن حیوہ نے یعلی بن عقبہ سے نقل کیا کہ میں نے جنابت کی حالت میں صبح کی ہے اور میں روزہ رکھنا چاہتا تھا چنانچہ میں ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں آیا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے کہا تم افطار کرو یعنی تمہارا روزہ نہ ہوگا۔
پھر میں مروان کے پاس آیا اور میں نے اس سے پوچھا اور میں نے اس کو ابوہریرہ (رض) کے قول کی اطلاع دی تو انھوں نے عبدالرحمن بن حارث کو عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیج کر ان سے سوال کیا تو انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ جماع کے غسل سے آپ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوتے تھے پھر آپ اس دن کا روزہ بھی رکھ لیتے۔ پس عبدالرحمن مروان کی طرف لوٹ کر آیا اور اس کو اس بات کی اطلاع دی تو اس نے کہا تم ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں جاؤ اور ان کو اطلاع دے دو عبدالرحمن ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں گئے اور ان کو اطلاع دی تو انھوں نے کہا میں نے جو بات بیان کی ہے وہ میں نے خود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں سنی ہے بلکہ مجھے تو فضل بن عباس نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی ہے۔

3374

۳۳۷۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا ابْنُ عَوْنٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ نَحْوَہٗ۔قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : فَقُلْت لِرَجَائٍ مَنْ حَدَّثَک عَنْ یَعْلَیْ؟ قَالَ : إِیَّایَ حَدَّثَ یَعْلَی .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ إِلٰی مَا رَوٰی أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ عَنِ الْفَضْلِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا بِہٖ وَقَلَّدُوْہُ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : یَغْتَسِلُ وَیَصُوْمُ یَوْمَہُ ذٰلِکَ وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی مَا رَوَیْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ عَنْ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٣٣٧٤: یزید بن ہارون نے ابن عون سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے حضرت ابوہریرہ (رض) والی ان روایات کو لیا جن کو فضل (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا اور اسی کو اپنایا۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ غسل کرے اور اس دن کا روزہ رکھے اور اس سلسلہ میں انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ اور سلمہ (رض) کی روایات جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہیں ان سے استدلال کیا ہے۔
ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے رجاء کو کہا تمہیں یعلیٰ سے یہ بات کس نے بیان کی اس نے کہا مجھے خود یعلیٰ نے یہ بات بیان کی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات بالا سے جن کو ابوہریرہ (رض) نے نقل کیا معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی جنابت کی حالت میں صبح صادق کرے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا اگر رکھے گا تو اس کا روزہ نہ ہوگا بلکہ فاسد ہوگا کچھ لوگوں نے اسی کو اختیار کر کے اپنایا۔
فریق ثانی کا مؤقف :
جنابت کی حالت میں صبح صادق کرنے والے کا روزہ ہر حال میں درست ہے اس کے لیے حضرت عائشہ (رض) اور امّ سلمہ (رض) کی روایات شاہد ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

3375

۳۳۷۵ : .وَإِلٰی مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ وَرَوْحٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْنِی (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصْبِحُ جُنُبًا ثُمَّ یَغْتَسِلُ ثُمَّ یَغْدُو إِلَی الْمَسْجِدِ وَرَأْسُہٗ یَقْطُرُ ثُمَّ یَصُوْمُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ) فَأَخْبَرْتُہٗ مَرْوَانَ فَقَالَ : ائْتِ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبِرْہُ بِذٰلِکَ فَقُلْتُ : إِنَّہُ لِیْ صَدِیْقٌ فَأَعْفِنِیْ فَقَالَ : عَزَمْتُ عَلَیْکَ لَتَأْتِیَنَّہُ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبِیْ إِلٰی أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبَرْتُ بِذٰلِکَ فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَعْلَمُ مِنِّیْ .قَالَ شُعْبَۃُ : وَفِی الصَّحِیْفَۃِ " أَعْلَمُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنِّیْ " .
٣٣٧٥: حکم کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو اپنے والد سے یہ بات بیان کرتے سنا کہ میں عائشہ (رض) امّ المؤمنین کی خدمت میں گیا انھوں نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر غسل فرماتے پھر مسجد کی طرف اس حالت میں جاتے کہ آپ کے سر مبارک سے غسل کے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہوتے تھے پھر آپ اس دن کا روزہ بھی رکھ لیتے۔
پس میں نے اس بات کی اطلاع مروان کو دی تو اس نے کہا تم ابوہریرہ (رض) کے ہاں جاؤ اور ان کو اس بات کی اطلاع دو ۔
میں نے کہا وہ میرے دوست ہیں اس لیے ان کے ہاں جانے سے میں معذرت کرتا ہوں مروان نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم ضرور بضرور جاؤ۔ چنانچہ میں اور میرے والد دونوں ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں آئے اور میں نے ان کو اس کی اطلاع دی تو ابوہریرہ (رض) کہنے لگے۔ عائشہ (رض) مجھ سے زیادہ علم والی ہیں شعبہ کہتے ہیں رجسٹر میں اس طرح ہے اعلم برسول اللہ منی کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجھ سے زیادہ جاننے والی ہیں۔

3376

۳۳۷۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَخِیْہِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہٗ کَانَ یَصُوْمُ وَلَا یُفْطِرُ فَدَخَلَ عَلٰی أَبِیْہِ یَوْمًا وَہُوَ مُفْطِرٌ فَقَالَ لَہٗ : مَا شَأْنُکَ الْیَوْمَ مُفْطِرًا ؟ قَالَ : إِنِّیْ أَصَابَتْنِیْ جَنَابَۃٌ فَلَمْ أَغْتَسِلْ حَتّٰی أَصْبَحْتُ فَأَفْتَانِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ أُفْطِرَ فَأَرْسَلُوْا إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَسْأَلُوْنَہَا فَقَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُصِیْبُہٗ الْجَنَابَۃُ فَیَغْتَسِلُ بَعْدَمَا یُصْبِحُ ثُمَّ یَخْرُجُ وَرَأْسُہٗ یَقْطُرُ مَائً فَیُصَلِّیْ لِأَصْحَابِہِ ثُمَّ یَصُوْمُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ) .
٣٣٧٦: عمر بن عبدالرحمن نے اپنے بھائی ابوبکر بن عبدالرحمن کے متعلق نقل کیا کہ وہ مسلسل روزہ رکھتے اور افطار نہ کرے ایک دن وہ اپنے والد کی خدمت میں گئے اور انھوں نے روزہ نہیں رکھا تھا تو ابوبکر نے کہا کیا معاملہ ہے کہ تم نے آج روزہ نہیں رکھا ؟ وہ کہنے لگے مجھے جنابت کی حالت نے آلیا اور میں غسل نہ کرسکا یہاں تک کہ پو پھوٹ پڑی اور مجھے ابوہریرہ (رض) نے فتویٰ دیا کہ میں روزہ نہیں رکھ سکتا۔
سب نے حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں آدمی بھیجا ان سے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنابت کی حالت پیش آئی پھر آپ صبح کے طلوع ہونے کے بعد غسل فرماتے پھر نماز کے لیے اس حال میں نکلتے کہ آپ کے سر مبارک سے غسل کے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہوتے تھے اور آپ اپنے صحابہ کرام کو نماز فجر پڑھاتے پھر اس دن کا روزہ بھی رکھ لیتے۔

3377

۳۳۷۷ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ عَنْ أَبِیْ عِیَاضٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ بَعَثَہُ إِلٰی أُمِّ سَلْمَۃَ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : فَلَقِیْتُ غُلَامَہَا نَافِعًا یَعْنِیْ أُمَّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَ : فَأَرْسَلْتُہٗ إِلَیْہَا فَرَجَعَ إِلَیَّ فَأَخْبَرَنِیْ أَنَّہَا قَالَتْ : (إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَیْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ یُصْبِحُ صَائِمًا) ثُمَّ أَتَیْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا غُلَامَہَا ذَکْوَانَ أَبَا عَمْرٍو فَأَخْبَرَتْہُ (أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَیْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ یُصْبِحُ صَائِمًا) فَأَتَیْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ فَأَخْبَرَتْہٗ بِقَوْلِہِمَا فَقَالَ : (أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ لَتَأْتِیَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ فَلَتُخْبِرَنَّہُ بِقَوْلِہِمَا فَأَتَیْتُہٗ فَأَخْبَرْتُہٗ) فَقَالَ : (ہُنَّ أَعْلَمُ)
٣٣٧٧: ابو عیاض نے عبدالرحمن بن حارث بن ہشام سے نقل کیا کہ مروان بن حکم نے مجھے امّ سلمہ اور عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ میں ان کے غلام نافع کو ملا یعنی امّ سلمہ (رض) کے غلام نافع کو۔ اور میں نے اس کو ان کی خدمت میں بھیجا وہ میرے پاس لوٹ کر آیا اور مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلا احتلام جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر صبح روزہ بھی رکھ لیتے پھر یعنی میں عائشہ (رض) کی خدمت میں آیا اور ان کے ہاں ان کے غلام ذکوان ابو عمرو کو بھیجا تو انھوں نے بتلایا کہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلا احتلام جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر صبح کو روزہ بھی رکھتے چنانچہ میں مروان کے پاس آیا اور اس کو اس کی اطلاع دی تو اس نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم ضرور ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں جاؤ اور ان کو عائشہ اور امّ سلمہ (رض) کے قول کی اطلاع دو چنانچہ میں ان کی خدمت میں پہنچا اور ان کو اس کی اطلاع دی تو انھوں نے سن کر فرمایا وہ مجھ سے زیادہ آپ کی ذات گرامی کو جاننے والی ہیں۔
تخریج : مسلم فی الصیام نمبر ٧٧۔

3378

۳۳۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سُمَیٍّ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصْبِحُ جُنُبًا ثُمَّ یَصُوْمُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ) .
٣٣٧٨: سمیی نے ابوبکر سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر اس دن کا روزہ رکھ لیتے۔

3379

۳۳۷۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَۃَ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ إِلٰی صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَرَأْسُہٗ یَقْطُرُ مِنْ غُسْلِ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ یَصُوْمُ یَوْمَہٗ) .
٣٣٧٩: عمارہ نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازِ فجر کے لیے نکلتے اور غسل جنابت کے پانی کے قطرات آپ کے سر مبارک سے ٹپک رہے ہوتے تھے پھر آپ اس دن روززہ بھی رکھتے تھے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الصیام باب ٢٧۔

3380

۳۳۸۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا زَوْجَیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُدْرِکُہُ الْفَجْرُ وَہُوَ جُنُبٌ ثُمَّ یَصُوْمُ) .
٣٣٨٠: ابن شہاب نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے انھوں نے عائشہ (رض) اور امّ سلمہ (رض) امہات المؤمنین سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنابت کی حالت میں فجر کا وقت ہوجاتا پھر آپ روزہ بھی رکھ لیتے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٢٢‘ مسلم فی الصیام ٧٦‘ ٧٧۔

3381

۳۳۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا زَوْجَیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمَا حَدَّثَتَاہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٣٣٨١: عبدارلحمان بن حارث بن ہشام نے ابوبکر بن عبدالرحمن عن ابیہ سے روایت کی اس نے حضرت عائشہ و امّ سلمہ (رض) امہات المؤمنین سے نقل کیا کہ ان دونوں نے اس کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

3382

۳۳۸۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہٖ وَزَادَ (فِیْ رَمَضَانَ)
٣٣٨٢: عبد ربہ بن سعید نے ابوبکر بن عبدالرحمن نے عائشہ و امّ سلمہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اس میں صرف ” فی رمضان “ کا اضافہ ہے۔

3383

۳۳۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ سُمَیٍّ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٣٨٣: سمیی نے ابوبکر سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3384

۳۳۸۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٣٣٨٤: ابو اسحاق نے اسود سے اس نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3385

۳۳۸۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٣٣٨٥: عطاء نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3386

۳۳۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ
٣٣٨٦: ابو صالح نے عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو نقل کیا ہے۔

3387

۳۳۸۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ الْقُرَشِیُّ عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ
٣٣٨٧: ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو روایت کیا ہے۔

3388

۳۳۸۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَ : أَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ عَامِرِ بْنِ أَبِیْ أُمَیَّۃَ عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ أَیْضًا
٣٣٨٨: عامر بن ابی امیہ نے امّ سلمہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو نقل کیا ہے۔

3389

۳۳۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٣٨٩: ہمام نے قتادہ سے پھر اس نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

3390

۳۳۹۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٣٩٠: سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے پھر اس نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3391

۳۳۹۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ .ح وَ
٣٣٩١: ابو بکرہ نے روح سے اس نے شعبہ سے روایت نقل کی ہے۔

3392

۳۳۹۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ہُوَ ابْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْقَطَّانُ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ (فَرَدَّ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فُتْیَاہُ عَلٰی ھٰذَا الْخَبَرِ) قَالُوْا : فَلَمَّا تَوَاتَرَتِ الْآثَارُ بِمَا ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُجِزْ لَنَا خِلَافُ ذٰلِکَ إِلٰی غَیْرِہِ فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ قَالُوْا : ھٰذَا الَّذِیْ رَوَتْہُ أُمُّ سَلْمَۃَ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا إِنَّمَا أَخْبَرَتَا بِہٖ عَنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرَ الْفَضْلُ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ حُکْمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرَتْ عَائِشَۃُ وَأُمُّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِہِمَا وَیَکُوْنُ حُکْمُ سَائِرِ النَّاسِ عَلٰی مَا ذَکَرَہُ الْفَضْلُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَکُوْنُ الْخَبَرَانِ غَیْرَ مُتَضَادَّیْنِ عَلٰی مَا یُخَرَّجُ عَلَیْہِ مَعَانِی الْآثَارِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرَیْنِ عَلَیْہِمْ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہُوَ الَّذِیْ رَوَیْ حَدِیْثَ الْفَضْلِ وَقَدْ رَجَعَ عَنْ فُتْیَاہُ إِلٰی قَوْلِ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَدَّ ذٰلِکَ أَوْلٰی مِمَّا حَدَّثَہُ الْفَضْلُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَھٰذَا حُجَّۃٌ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی : أَنَّا قَدْ وَجَدْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلَیْ حُکْمِ النَّاسِ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا کَحُکْمِہٖ۔
٣٣٩٢: شعبہ نے قتادہ سے پھر اس نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی اور یہ اضافہ کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اپنے فتویٰ کو چھوڑ کر اس روایت کو اختیار کرلیا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایات کثرت کے ساتھ وارد ہیں تو اب کے خلاف دوسری طرف جانا جائز نہیں۔ اول قول کے قائلین نے اپنے قول کی حمایت میں دوسرے قول والوں کے خلاف یہ دلیل پیش کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ اور امّ سلمہ (رض) کی روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک عمل کی اطلاع دی گئی ہے۔ دوسری طرف حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضرت فضل (رض) سے اس کے خلاف خبر نقل کی ہے۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وہی عمل ہو ۔ حضرت عائشہ صدیقہ اور امّ سلمہ (رض) کی روایات میں مذکور ہے اور امت کے لیے وہ عمل ہے جو روایت حضرت فضل (رض) میں منقول ہے۔ جب یہ معنیٰ آثار کا لیا جائے تو روایات کا باہمی تضاد نہیں رہتا مگر دوسرے حضرات کی طرف سے ان کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہی حضرت فضل (رض) جن سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے۔ انھوں نے آپ کی وفات کے بعد ایسا فتویٰ دیا جو حضرت عائشہ صدیقہ اور امّ سلمہ (رض) کے قول کے بالکل موافق ہے اور خود فضل (رض) نے اس کو اس سے اولیٰ قرار دیا جو انھوں نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا تھا۔ پس اس باب میں یہی دلیل ہے۔ اس سلسلہ کی دوسری دلیل یہ ہے۔ کہ اس معاملے میں وہی حکم عام لوگوں کا ہے جو کہ آپ کے لیے ہے۔ جیسا مندرجہ روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
حاصل روایات : ان متواتر روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جنابت سے صبح کرنے والے کا روزہ درست ہے ان متواتر روایات کی خلاف ورزی درست نہیں۔
سرسری اشکال :
فریق اوّل نے کہا کہ ان روایات میں حضرت عائشہ و امّ سلمہ (رض) نے فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کیا جبکہ وہ آپ کے ساتھ مخصوص ہے ۔
اور اس کے بالمقابل روایت ابوہریرہ (رض) عن فضل (رض) میں قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جو امت کے لیے حکم ہے پس یہ تمام روایات تو ہمارے مدعیٰ کے خلاف نہیں اور کوئی دلیل ہے تو پیش کرو۔
u: ابوہریرہ (رض) جو اس کے راوی ہیں انھوں نے خود اپنی بات سے امہات المؤمنین (رض) کے قول کی طرف رجوع کرلیا ان کا یہ رجوع فضل (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے پس ہماری دلیل اپنے مقام پر قائم رہی جبکہ فریق اوّل کی دلیل کی بنیاد ہی ختم ہوگئی ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حکم کا عام ہونا ثابت کرتے ہیں وہ بھی ملاحظہ کرلیں۔

3393

۳۳۹۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیْ یُوْنُسَ مَوْلٰی عَائِشَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ وَاقِفٌ عَلَی الْبَابِ وَأَنَا أَسْمَعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ أُصْبِحُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِیْدُ الصَّوْمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَأَنَا أُصْبِحُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِیْدُ الصَّوْمَ فَأَغْتَسِلُ وَأَصُوْمُ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّک لَسْتُ مِثْلَنَا قَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَاللّٰہِ إِنِّیْ لِأَرْجُوَ أَنْ أَکُوْنَ أَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَعْلَمَکُمْ بِمَا أَتَّقِی) فَلَمَّا کَانَ جَوَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ السَّائِلِ ہُوَ إخْبَارَہُ عَنْ فِعْلِ نَفْسِہٖ فِیْ ذٰلِکَ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَہُ فِیْ ذٰلِکَ وَحُکْمَ غَیْرِہِ سَوَاء ٌ فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ صَائِمًا لَوْ نَامَ نَہَارًا فَأَجْنَبَ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یُخْرِجُہُ عَنْ صَوْمِہِ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ أَنَّہٗ ہَلْ یَکُوْنُ دَاخِلًا فِی الصَّوْمِ وَہُوَ کَذٰلِکَ ؟ أَوْ یَکُوْنُ حُکْمُ الْجَنَابَۃِ اِذَا طَرَأَتْ عَلَی الصَّوْمِ خِلَافَ حُکْمِ الصَّوْمِ اِذَا طَرَأَ عَلَیْہَا ؟ فَرَأَیْنَا الْأَشْیَائَ الَّتِیْ تَمْنَعُ مِنَ الدُّخُوْلِ فِی الصَّوْمِ مِنَ الْحَیْضِ وَالنِّفَاسِ اِذَا طَرَأَ ذٰلِکَ عَلَی الصَّوْمِ أَوْ طَرَأَ عَلَیْہِ الصَّوْمُ فَہُوَ سَوَاء ٌ أَلَا تَرٰی أَنَّہٗ لَیْسَ لِحَائِضٍ أَنْ تَدْخُلَ فِی الصَّوْمِ وَہِیَ حَائِضٌ وَأَنَّہَا لَوْ دَخَلَتْ فِی الصَّوْمِ طَاہِرًا ثُمَّ طَرَأَ عَلَیْہَا الْحَیْضُ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ أَنَّہَا بِذٰلِکَ خَارِجَۃٌ مِنَ الصَّوْمِ فَکَانَتَ الْأَشْیَائُ الَّتِیْ تَمْنَعُ مِنَ الدُّخُوْلِ فِی الصَّوْمِ ہِیَ الْأَشْیَائَ الَّتِیْ اِذَا طَرَأَتْ عَلَی الصَّوْمِ أَبْطَلَتْہُ .وَکَانَتَ الْجَنَابَۃُ اِذَا طَرَأَتْ عَلَی الصَّوْمِ بِاتِّفَاقِہِمْ جَمِیْعًا لَمْ تُبْطِلْہُ فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ اِذَا طَرَأَ عَلَیْہَا الصَّوْمُ لَمْ تَمْنَعْ مِنَ الدُّخُوْلِ فِیْہِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا قَدْ وَافَقَ مَا رَوَتْہُ أُمُّ سَلْمَۃَ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی
٣٣٩٣: ابو یونس مولیٰ عائشہ نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ ایک شخص نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جبکہ وہ دروازے کے باہر کھڑا تھا اور میں اندر کی جانب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب سن رہی تھی۔ میں جنابت کی حالت میں صبح کروں اور میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو تو کیا درست ہے ؟ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں تو میں غسل کرتا ہوں اور روزے کی نیت کرلیتا ہوں اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہم جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کردیں یہ بات سن کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا اور فرمایا اللہ کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور زیادہ تقویٰ والی چیزوں کو تم سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کو اپنے فعل کی اطلاع دی تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں آپ کا اور دوسروں کا حکم برابر تھا۔ اس باب کے معانیٰ کی تصحیح کے لحاظ سے اس باب کی یہ صورت تھی البتہ غور وفکر کے لحاظ سے اس کا حکم کچھ اس طرح ہے۔ کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اس بات پر تو تمام کا اتفاق ہے کہ اگر روزہ دار کو دن کے اوقات میں احتلام پیش آجائے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ پس اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حالت جنابت میں روزہ کی ابتداء کرنے والے اور اس کا حکم اس کے موافق ہے یا خلاف کہ جو دن کے وقت حالت جنابت والا ہوجاتا ہے۔ ہم نے غور کیا کہ کون کون سی چیزیں روزے میں داخلے کے لیے مانع ہیں ان میں سے حیض ونفاس ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حائضہ اور نفساء روزہ نہیں رکھ سکتی اگر یہ چیزیں اسے حالت روزہ میں پیش آجائیں تو اس کے روزے کو توڑ دیتی ہیں۔ اس پر تمام متفق ہیں کہ روزہ کی حالت میں جنابت والی حالت سے روزہ نہیں ٹوٹتا قیاس کا تقاضا ہمارے مذکورہ بیان کے مطابق یہی ہے کہ روزے کی ابتداء کے لیے جنابت مانع نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت امّ سلمہ (رض) کی روایات کے مطابق ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ٧٩‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٣٦‘ مالک فی الصیام ٩‘ مسند احمد ٦؍٦٧‘ ١٢٢‘ ٢٤٥‘ ٢٢٦۔
حاصل روایات : جب اس سائل کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سوال کا جواب دیا تو یہ آپ کی طرف سے اس بات کی اطلاع ہے کہ جو میرا فعل ہے اور اس کا جو حکم ہے بعینہ تمہارے اس فعل کا حکم وہی ہے اس میں کچھ فرق نہیں۔
آثار کے معنی کی تصحیح کے لیے تو ہم نے روایات میں پوری تطبیق کردی البتہ نظری طریق سے بھی فریق ثانی کی بات بھاری ہے اور درست ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر روزہ دار کو دن میں احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ فاسد نہ ہوگا اب ذرا توجہ فرمائیں کہ آیا جنابت کی حالت میں وہ روزے میں داخل ہوسکتا ہے یا نہیں کیا اس بات میں کوئی فرق نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ جب روزے پر جنابت کی حالت ڈالی جائے تو جو روزے کا حال رہتا ہے آیا وہی رہتا ہے جبکہ جنابت پر روزے کو ڈالا جائے یا مختلف ہوجاتا ہے۔
ذرا غور کریں حائض روزے میں داخل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ حائض ہے اور اگر وہ طہارت کی حالت میں روزے میں داخل ہوئی مگر اسی دن اس کو حیض شروع ہوگیا تو حیض کی وجہ سے وہ روزے سے نکل جائے گی۔
حاصل کلام : پس نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اشیاء جو روزے میں داخل ہونے سے رکاوٹ ہیں وہی جب روزے پر طاری ہوجائیں تو روزے کو باطل کرتی ہیں۔ اور جو ایسی نہیں ان کا یہ حکم نہیں پس جنابت جب روزے پر طاری ہوئی تو بالاتفاق روزہ قائم رہا باطل نہ ہوا پس نظر کا تقاضہ یہ ہے کہ جب جنابت پر روزہ طاری کیا جائے گا تو وہ جنابت روزے میں داخل ہونے کے لیے رکاوٹ نہ بنے گی۔
پس تقاضا نظر نے بھی روایت عائشہ و امّ سلمہ (رض) کو ثابت کردیا
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں بھی روزے کے فساد اور عدم فساد کا اختلاف ہے فریق اوّل کی طرف سے ایک دلیل اور اشکال ہے فریق دوم کی طرف سے جواب اور دلائل اور فریق اوّل کا رجوع تک منقول ہے پھر آخر میں نظری دلیل ہے البتہ اقوال تابعین کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

3394

۳۳۹۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ .
٣٣٩٤: ابن مرزوق نے ابوالولیدالطیالسی سے نقل کیا۔
امام شافعی و امام مالک رحمہم اللہ دیگر علماء کے ہاں نفلی روزہ عذر یا بلاعذر توڑنے سے قضا لازم نہ ہوگی۔
نمبر 2: اکابر صحابہ (رض) امام ابوحنیفہ ومالک رحمہم اللہ کے ہاں نفل روزہ عذر و بلاعذر توڑنے میں بہرصورت قضاء لازم ہوگی۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : نفلی روزے کا حکم نفل والا ہے اس کو توڑنے اور مکمل کرنے کا مکمل اختیار ہے بلاعذر توڑنے سے بھی قضا لازم نہ ہوگی کہ اپنے اصل سے نہ بدلے گا دلائل آگے ملاحظہ ہوں۔

3395

۳۳۹۵ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ .
٣٣٩٥: علی بن شیبہ نے روح بن عبادہ سے نقل کیا۔

3396

۳۳۹۶ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالُوْا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ ہَارُوْنَ بْنِ أُمِّ ہَانِئٍ أَوْ ابْنِ بِنْتِ أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ (أُمِّ ہَانِئٍ قَالَتْ : دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا صَائِمَۃٌ فَنَاوَلَنِیْ فَضْلَ شَرَابِہِ فَشَرِبْتُ ثُمَّ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ صَائِمَۃً وَإِنِّیْ کَرِہْتُ أَنْ أَرُدَّ سُؤْرَک فَقَالَ إِنْ کَانَ مِنْ قَضَائِ یَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ فَصُوْمِیْ یَوْمًا مَکَانَہُ وَإِنْ کَانَ تَطَوُّعًا فَإِنْ شِئْتُ فَاقْضِیْہِ وَإِنْ شِئْتُ فَلاَ تَقْضِیْہِ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَزَعَمُوْا أَنَّ مَنْ دَخَلَ فِیْ صَوْمٍ تَطَوُّعًا ثُمَّ أَفْطَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْ عُذْرٍ أَوْ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ أَنَّہٗ لَا قَضَائَ عَلَیْہِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : عَلَیْہِ قَضَائُ یَوْمٍ مَکَانَہُ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ حَدِیْثَ أُمِّ ہَانِئٍ إِنَّمَا رَوَاہُ کَمَا ذَکَرُوْا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ وَقَدْ رَوَاہُ غَیْرُہُ مِمَّنْ لَیْسَ فِی الضَّبْطِ بِدُوْنِہٖ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ
٣٣٩٦: سماک بن حرب نے ہارون بن ام ہانی یا ابن بنت ام ہانی عن ام ہانی نقل کیا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گئی میں روزے سے تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا جوٹھا پانی مجھے عنایت فرمایا تو میں نے پی لیا پھر میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے تو روزہ رکھا تھا مگر میں نے آپ کے جو ٹھے کو مسترد کرنا مناسب نہ سمجھا آپ نے فرمایا۔ اگر تمہارا روزہ قضا رمضان کا ہے تو اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا اور اگر وہ نفلی روزہ ہے تو تمہاری مرضی ہے قضا کرلو یا نہ قضا کرو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جو شخص نفلی روزہ رکھے پھر اسے توڑدے اس پر قضاء نہیں مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک دن کا روزہ قضاء کرنا ہوگا۔ اوّل قول کے قائلین کے متعلق ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ام ہانی (رض) کی روایت کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے۔ جب کہ ان کے برابر درجہ کے حفاظ اس کے خلاف روایت کرتے ہیں۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٦٩‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٧٢‘ ترمذی فی الصوم باب ٣٤‘ مسند احمد ٦؍٣٤٣‘ ٤٢٤۔
حاصل روایت : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نفلی روزہ عذر و بلاعذر توڑنے کی صورت میں اس کی قضا لازم نہیں ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
نفلی روزے کو رکھنے کے بعد اگر توڑ دیا جائے تو قضا لازم آئے گی مندرجہ روایات اس کی دلیل ہیں۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
مندرجہ بالا روایت کو حماد بن سلمہ سے نقل کیا گیا ہے جبکہ حماد کے علاوہ دیگر روات نے اس سے مختلف انداز سے نقل کیا ہے جو ضبط و اتقان میں حماد کے برابر کے لوگ ہیں۔

3397

۳۳۹۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ .
٣٣٩٧: احمد بن داؤد نے مسدد سے نقل کیا۔

3398

۳۳۹۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ ابْنِ أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ ہَانِئٍ سَمِعَہٗ مِنْہَا قَالَتْ (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِشَرَابٍ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَنَاوَلَنِیْ فَشَرِبْتُہٗ وَکُنْتُ صَائِمَۃً فَکَرِہْتُ أَنْ أَرُدَّ فَضْلَ سُؤْرِہِ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ صَائِمَۃً فَقَالَ لَہَا تَقْضِیْنَ عَنْکَ شَیْئًا ؟ قَالَتْ : لَا قَالَ فَلاَ یَضُرُّک) .
٣٣٩٨: احمد بن داؤد نے المقدمی سے دونوں نے ابو عوانہ عن سماک بن حرب عن ابن ام ہانی نے اپنی دادی ام ہانی سے خود سن کر بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فتح مکہ کے دن مشروب لایا گیا پس آپ نے وہ مجھے دیا تو میں نے پی لیا حالانکہ میں نے اس وقت روزہ رکھا تھا مگر میں نے آپ کے بچے ہوئے پانی کو مسترد کرنا پسند نہ کیا۔ پھر میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے تو روزہ رکھا تھا آپ نے فرمایا اپنی طرف سے کیا قضا کرلو گی تو میں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا (پھر تمہیں گناہ نہیں) پس نقصان دہ نہیں۔
تخریج : سابقہ روایت نمبر ٣٣٩٧ کی تخریج ملاحظہ ہو۔ مسلم ١٦٩۔

3399

۳۳۹۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔ح
٣٣٩٩: اسد بن موسیٰ نے ابو عوانہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3400

۳۴۰۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ الرَّجُلِ مِنْ آلِ جَعْدَۃَ بْنِ ہُبَیْرَۃَ عَنْ جَدَّتِہِ (أُمِّ ہَانِئٍ قَالَتْ : دَخَلْتُ أَنَا وَفَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَجَلَسْتُ عَنْ یَمِیْنِہِ فَدَعَا بِشَرَابٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِیْ فَشَرِبْتُ وَأَنَا صَائِمَۃٌ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أُرَانِیْ إِلَّا قَدْ أَثِمْتُ أَوْ أَتَیْتُ حِنْثًا عَرَضْتُ عَلَیَّ وَأَنَا صَائِمَۃٌ فَکَرِہْتُ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ .فَقَالَ ہَلْ کُنْتُ تَقْضِیْنَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ .فَقَالَتْ : لَا قَالَ فَلاَ بَأْسَ)
٣٤٠٠: سماک بن حرب نے آل جعدہ بن ہبیرہ کے ایک آدمی سے اس نے اپنی دادی ام ہانی (رض) سے نقل کیا کہتی ہیں کہ میں اور فاطمہ فتح مکہ کے روز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گئیں میں آپ کے دائیں جانب بیٹھ گئی آپ نے پانی منگوایا اور اس میں سے کچھ پیا پھر مجھے عنایت فرمایا تو میں نے پی لیا حالانکہ میں روزے سے تھی میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے خیال میں ‘ میں نے گناہ کا ارتکاب کیا یا میری قسم ٹوٹ گئی ہے آپ نے مجھے پانی دیا جبکہ میں روزے سے تھی تو میں نے اسی طرح واپس کرنا ناپسند کیا آپ نے فرمایا کیا تم رمضان کے روزے کی قضا کر رہی تھی ؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر تم پر کوئی حرج نہیں۔

3401

۳۴۰۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ .ح
٣٤٠١: فہد نے حسن بن ربیع سے روایت کی ہے۔

3402

۳۴۰۲ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَا : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاکٍ عَنِ ابْنِ أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (فَلاَ یَضُرُّک) فَقَدْ خَالَفَ مَا رَوَیْ قَیْسٌ وَأَبُوْ عَوَانَۃَ وَأَبُوَ الْأَحْوَصِ مَا رَوَیْ حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ لِأَنَّ حَمَّادًا قَالَ فِیْ حَدِیْثِہٖ (إِنْ کَانَ قَضَائً مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُوْمِیْ یَوْمًا مَکَانَہُ وَإِنْ کَانَ تَطَوُّعًا فَإِنْ شِئْتُ فَاقْضِیْہِ وَإِنْ شِئْتُ لَا تَقْضِیْہِ) فَکَانَ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجِبُ الْقَضَائُ عَلَیْہَا اِذَا کَانَ تَطَوُّعًا وَقَالَ الْآخَرُوْنَ فِیْ حَدِیْثِہِمْ (أَتَقْضِیْنَ شَیْئًا مِنْ رَمَضَانَ ؟ قَالَتْ : لَا قَالَ فَلاَ یَضُرُّک) أَیْ أَنَّک لَسْتُ بِآثِمَۃٍ فِیْ إِفْطَارِک مِنْ ھٰذَا التَّطَوُّعِ وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ مَا یَنْفِیْ أَنْ یَّکُوْنَ عَلَیْہَا قَضَائُ یَوْمٍ مَکَانَہٗ فَقَدْ اضْطَرَبَ حَدِیْثُ سِمَاکٍ ھٰذَا ثُمَّ نَظَرْنَا ہَلْ رَوٰی عَنْ غَیْرِہِ مِمَّا فِیْہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟
٣٤٠٢: سماک نے ابن ام ہانی سے اس نے ام ہانی (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اس میں فقط اتنا فرق ہے۔ فلا یضرک اس سے تمہارا کچھ نقصان نہ ہوگا۔ یعنی گناہ نہ ہوگا۔ پس جو قیس ‘ ابو عوانہ (رح) ‘ اور ابو الاحوص (رح) نے روایت کیا وہ حماد بن سلمہ (رح) کی روایت کے خلاف ہے۔ کیونکہ حماد کی روایت میں ہے : ان کان قضاء من شھر رمضان فصوصی یو مام مالکانہ ‘۔۔۔ کہ اگر وہ قضاء رمضان کا روزہ ہو تو اس کی جگہ ایک روزہ رکھنا اور اگر نفلی روزہ ہو تو قضاء کرنے یا نہ کرنے میں تمہاری مرضی ہے اس سے معلوم ہوا کہ نفلی روزے کی قضاء نہیں۔ مگر دیگر حضرات اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم رمضان کے روزے کی قضاء کر رہی ہو۔ تو اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھ لو۔ اور اگر نفلی روزہ ہے تو خواہ تو قضاء کرلے یا نہ کرے “ پس نفل میں قضاء کا مرضی پر موقوف ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ قضاء لازم نہ ہو اور دوسرے حضرات نے اپنی روایت کے الفاظ ” اتقضین شیئا من رمضان ؟ قالت : لا قال لا یضرک) کیا تم نے رمضان کے کسی روزے کی قضاء کی ہے انھوں نے کہا تو آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کچھ نقصان نہیں ( کیونکہ تاخیر میں کچھ حرج نہیں ہے) مطلب یہ ہے۔ کہ تم اپنے اس نفلی روزے کو افطار کرلینے میں گناہ گار نہیں ہو اور اس میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ اس پر ایک دن کی قضاء اس کی جگہ لازم ہو ۔ سماک راوی کی یہ روایت مضطرب ہے۔ پھر ہم نے دیگر روایات پر نظر ڈالی کہ آیا ان میں سے کسی میں ان باتوں میں سے کسی پر کچھ دلالت ملتی ہو۔ تو یہ ربیع الجیزی کی روایت مل گئی ۔ ذیل میں ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات : قیس ‘ ابو عوانہ ‘ ابوالاحوص کی روایات حماد بن سلمہ کی روایت کے خلاف ہیں وہاں ان کان قضاء من رمضان ‘ فصومی یوما مکانہ وان کان تطوعا۔ فان شئت فاقضیہ وان شئت فلا تقضیہ “ اس سے قضا کا اس پر لازم نہ ہونا صاف معلوم ہو رہا ہے جبکہ نفلی روزہ ہو اور دیگر روایت کے الفاظ أتقضین شیئا من رمضان ؟ قالت لا۔ قال فلا یضرک۔ مطلب یہ ہے کہ تم افطار کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہو۔ اس میں قضا کی نفی نہیں۔ پس سماک کی یہ روایت مضطرب ہے پس اس سے عدم قضا پر استدلال درست نہیں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا کوئی روایت ایسی ملتی ہے۔ جو ان میں سے کسی ایک طرف کو متعین کر دے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔

3403

۳۴۰۳ : فَإِذَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِیُّ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ أَصْبَحْتُ أَنَا وَحَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا صَائِمَتَیْنِ مُتَطَوِّعَتَیْنِ فَأُہْدِیَ لَنَا طَعَامٌ فَأَفْطَرْنَا عَلَیْہِ فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاہُ فَقَالَ اقْضِیَا یَوْمًا مَکَانَہٗ) فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ الْاِفْطَارِ فِی الصَّوْمِ التَّطَوُّعِ أَنَّہٗ مُوْجِبٌ لِلْقَضَائِ فَکَانَ مِمَّا یَحْتَجُّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ فَسَادِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ أَصْلَہُ لَیْسَ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ وَإِنَّمَا أَصْلُہٗ مَوْقُوْفٌ عَلٰی مَنْ دُوْنَ عُرْوَۃَ وَذٰلِکَ أَنَّ یُوْنُسَ۔
٣٤٠٣: ابن شہاب نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے اور حفصہ (رض) نے نفلی روزے رکھ لیے ہمارے پاس ہدیہ کے طور پر کھانا بھیجا گیا (انہوں نے کھانے پر مجبور کیا) تو ہم نے آپ سے اس سلسلہ میں استفسار کیا آپ نے فرمایا اس کی جگہ ایک دن قضا کرلینا۔ اس روایت میں اس بات کی دلیل مل گئی کہ نفلی روزہ افطار کرلینے کی صورت میں قضاء واجب ہے۔ رہی وہ روایت جس کو قول اول کے قائلین نے دلیل بنایا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت میں شدید کمزوری ہے کہ اس کی اصل حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ثابت نہیں بلکہ یہ عروہ سے نچلے روات پر موقوف ہے۔ ذیل کا اثر ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ٧٣‘ ترمذی فی الصوم باب ٣٦۔
حاصل روایات : اس روایت میں صاف دلیل ہے کہ نفلی روزے میں افطار کرنے سے قضا لازم ہے۔
روایت زہری پر اشکال :
اس روایت کا مدار زہری پر ہے اور زہری نے اس کو عروہ سے نقل کیا مگر زہری خود معترف ہے کہ میں نے عروہ سے یہ روایت نہیں سنی جیسا کہ ہم مندرجہ روایات سے ثابت کرتے ہیں۔

3404

۳۴۰۴ : حَدَّثَنَا قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ عَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَصْبَحَتَا صَائِمَتَیْنِ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ قَالُوْا : فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ قَالُوْا : وَقَدْ سُئِلَ الزُّہْرِیُّ عَنْ ذٰلِکَ : ہَلْ سَمِعَہُ مِنْ عُرْوَۃَ ؟ فَقَالَ : لَا وَذَکَرُوْا مَا
٣٤٠٤: ابن وہب نے خبر دی کہ مالک نے ابن شہاب سے نقل کیا کہ عائشہ و حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے روزے کی حالت میں صبح کی پھر اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔
یہ اس حدیث کی اصل ہے زہری سے خود دریافت کیا گیا کہ کیا اس نے عروہ سے سنا ہے تو اس نے نفی میں جواب دیا۔

3405

۳۴۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُیَیْنَۃَ یَقُوْلُ (سُئِلَ الزُّہْرِیُّ) عَنْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَصْبَحْتُ أَنَا وَحَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا صَائِمَتَیْنِ) فَقِیْلَ لَہٗ : أَحَدَّثَک عُرْوَۃُ ؟ فَقَالَ : لَا .
٣٤٠٥: ابن عیینہ کہتے ہیں کہ زہری سے حدیث عائشہ (رض) کے متعلق دریافت کیا گیا کہ اصبحت انا و حفصہ (رض) صائمتین “ کیا تم سے عروہ نے بیان کی ہے انھوں نے کہا نہیں۔

3406

۳۴۰۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : قُلْت لِابْنِ شِہَابٍ : أَحَدَّثَک عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ (مَنْ أَفْطَرَ مِنْ تَطَوُّعِہِ فَلْیَقْضِہِ) ؟) فَقَالَ : لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَۃَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا وَلٰـکِنْ حُدِّثْتُ فِیْ خِلَافَۃِ سُلَیْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ
٣٤٠٦: ابن جریج کا بیان ہے کہ میں نے ابن شہاب کو کہا کیا تمہیں عروہ بن زبیر نے عائشہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ روایت بیان کی ہے کہ من افطر من تطوعہ فلیقضۃ ؟ تو اس نے کہا میں نے عروہ سے اس سلسلہ میں کوئی بات نہیں سنی لیکن مجھے کسی نے سلیمان بن عبدالملک کی خلافت کے زمانہ میں یہ بات بیان کی۔

3407

۳۴۰۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ (وَلٰـکِنْ حَدَّثَنِیْ فِیْ خِلَافَۃِ سُلَیْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ أُنَاسٌ عَنْ بَعْضِ مَنْ کَانَ یَسْأَلُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا) أَنَّہَا قَالَتْ (أَصْبَحْتُ أَنَا وَحَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا صَائِمَتَیْنِ) ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ یَعْنِیْ نَحْوَ حَدِیْثِ رَبِیْعٍ الْجِیْزِیِّ فَقَدْ فَسَدَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ بِمَا قَدْ دَخَلَ فِیْ إِسْنَادِہِ مِمَّا ذَکَرْنَا وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الْوَجْہِ۔
٣٤٠٧: ابو بکرہ نے روح سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے لیکن مجھے خلافت سلیمان بن عبدالملک کے زمانہ میں ایسے شخص نے بتلائی جو عائشہ (رض) سے پوچھتا رہتا تھا کہ انھوں نے فرمایا اصبحت انا و حفصہ (رض) صائمتین “ پھر انھوں نے ربیع الجیزی کی طرح روایت بیان کی۔ یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس کے علاوہ دوسری سند سے مروی ہے۔
پس یہ روایت مجہول راوی کی وجہ سے ساقط اعتبار ہوگئی قابل استدلال نہ رہی اور دوسرے اعتبار سے موقوف ثابت ہوتی ہے تو موقوف روایت سے کیونکر استدلال درست ہوگا۔
u: وقدروی فی ذلک سے دیا گیا۔
اس روایت کو اس سند کے علاوہ دوسری سند سے نقل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

3408

۳۴۰۸ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ رَبِیْعٍ الْجِیْزِیِّ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (فَبَدَرْتنِیْ حَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِالْکَلَامِ وَکَانَتِ ابْنَۃَ أَبِیْہَا) .
٣٤٠٨: جریر بن حازم نے یحییٰ بن وعید سے انھوں نے عمرہ سے اس نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے جیسا کہ ربیع الجیزی کی روایت ہے صرف ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ فبدرتنی حفصہ (رض) بالکلام و کانت ابنۃ ابیھا ‘ کہ حفصہ (رض) نے کلام میں مجھ سے سبقت کی آخر وہ عمر کی بیٹی ہے۔

3409

۳۴۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِیْسَی الْمِصْرِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ إِفْسَادِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّ حَمَّادَ بْنَ زَیْدٍ قَدْ رَوَاہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ مَوْقُوْفًا لَیْسَ فِیْہِ عَمْرَۃُ.
٣٤٠٩: احمد بن عیسیٰ مصری نے ابن وہب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے یہ روایت عمرہ کے واسطہ کے بغیر بھی مذکور ہے۔

3410

۳۴۱۰ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ الرَّمَادِیُّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِیْنِیِّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ بِذٰلِکَ یَعْنِیْ : وَلَمْ یَذْکُرْ عَمْرَۃَ فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا فِیْ ھٰذَا مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الْوَجْہِ۔
٣٤١٠: حماد بن زید عن یحییٰ بن سعید نے عمرہ کے تذکرہ کے بغیر موقوف نقل کی ہے۔ یہ اس روایت کی اصل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی اس سند کے علاوہ مروی ہے۔
مگر موقوف ہونا چنداں نقصان دہ نہیں کیونکہ دوسری سند سے مرفوع منقول ہے وہ روایت یہ ہے۔

3411

۳۴۱۱ : مَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی بْنِ طَلْحَۃَ عَنْ عَمَّتِہِ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّا قَدْ خَبَّأْنَا لَکَ حَیْسًا فَقَالَ أَمَا إِنِّیْ کُنْتُ أُرِیْدُ الصَّوْمَ وَلٰـکِنْ قَرِّبِیْہِ سَأَصُوْمُ یَوْمًا مَکَانَ ذٰلِکَ) قَالَ مُحَمَّدٌ ہُوَ ابْنُ إِدْرِیْسَ سَمِعْتُ سُفْیَانَ عَامَّۃَ مُجَالَسَتِی إِیَّاہُ لَا یَذْکُرُ فِیْہِ (سَأَصُوْمُ یَوْمًا مَکَانَ ذٰلِکَ) ثُمَّ إِنِّیْ عَرَضْتُ عَلَیْہِ الْحَدِیْثَ قَبْلَ أَنْ یَمُوْتَ بِسَنَۃٍ فَأَجَازَ فِیْہِ (سَأَصُوْمُ یَوْمًا مَکَانَ ذٰلِکَ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ذَکَرَ وُجُوْبَ الْقَضَائِ وَفِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا قَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ أُمِّ ہَانِئٍ مَا یُخَالِفُ مَا قَدْ ذَکَرْنَا فَأَقَلُّ أَحْوَالِ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ وَعَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنْ یَّکُوْنَ مَوْقُوْفًا عَلٰی مَنْ ہُوَ دُوْنَہُمَا وَقَدْ وَافَقَہُ حَدِیْثٌ مُتَّصِلٌ وَہُوَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ فَالْقَوْلُ بِذٰلِکَ مِنْ جِہَۃِ الْحَدِیْثِ أَوْلَی مِنَ الْقَوْلِ بِخِلَافِہِ وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ تَجِبُ عَلَی الْعِبَادِ بِإِیْجَابِہِمْ إِیَّاہَا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ مِنْہَا الصَّلَاۃُ وَالصَّدَقَۃُ وَالصِّیَامُ وَالْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ فَکَانَ مَنْ أَوْجَبَ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی نَفْسِہِ فَقَالَ (لِلّٰہِ عَلَیَّ کَذَا وَکَذَا) وَجَبَ عَلَیْہِ الْوَفَائُ بِذٰلِکَ .وَرَأَیْنَا أَشْیَائَ یَدْخُلُ فِیْہَا الْعِبَادُ فَیُوْجِبُوْنَہَا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ بِدُخُوْلِہِمْ فِیْہَا مِنْہَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالْحَجُّ وَمَا ذَکَرْنَا فَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِیْ حَجَّۃٍ أَوْ عُمْرَۃٍ ثُمَّ أَرَادَ اِبْطَالَہَا وَالْخُرُوْجَ مِنْہَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ وَکَانَ بِدُخُوْلِہِ فِیْہَا فِیْ حُکْمِ مَنْ قَالَ (لِلّٰہِ عَلَیَّ حَجَّۃٌ) فَعَلَیْہِ الْوَفَائُ بِہَا فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا مَنَعْنَاہُ مِنَ الْخُرُوْجِ مِنْہُمَا لِأَنَّہٗ لَا یُمْکِنُہُ الْخُرُوْجُ مِنْہَا إِلَّا بِتَمَامِہَا وَلَیْسَتِ الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ کَذٰلِکَ لِأَنَّہُمَا قَدْ یَبْطُلَانِ وَیَخْرُجُ مِنْہُمَا بِالْکَلَامِ وَالطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَالْجِمَاعِ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الْحَجَّۃَ وَالْعُمْرَۃَ وَإِنْ کَانَا کَمَا ذَکَرْتُ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاک تَزْعُمُ أَنَّ مَنْ جَامَعَ فِیْہِمَا فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہُمَا وَالْقَضَائُ یَدْخُلُ فِیْہِ بَعْدَ خُرُوْجِہٖ مِنْہُمَا فَقَدْ جَعَلْتُ عَلَیْہِ الدُّخُوْلَ فِیْ قَضَائِہِمَا إِنْ شَائَ أَوْ أَبَی مِنْ أَجْلِ إِفْسَادِہٖ لَہُمَا فَھٰذَا الَّذِیْ یَقْضِیْہِ بَدَلٌ مِنْہُ مِمَّا کَانَ وَجَبَ عَلَیْہِ بِدُخُوْلِہٖ فِیْہِ لَا بِإِیْجَابٍ کَانَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ فَلَوْ کَانَ الْعِلَّۃُ فِیْ لُزُوْمِ الْحَجَّۃِ وَالْعُمْرَۃِ إِیَّاہُ حِیْنَ أَحْرَمَ بِہِمَا وَبُطْلَانِ الْخُرُوْجِ مِنْہُمَا ہِیَ مَا ذَکَرْتُ مِنْ عَدَمِ رَفْضِہِمَا وَلَوْلَا ذٰلِکَ کَانَ لَہُ الْخُرُوْجُ مِنْہُمَا کَمَا کَانَ لَہُ الْخُرُوْجُ مِنَ الصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ بِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تَخْرُجُ مِنْہُمَا اِذًا لَمَا وَجَبَ عَلَیْہِ قَضَاؤُہُمَا لِأَنَّہٗ غَیْرُ قَادِرٍ عَلٰی أَنْ لَا یَدْخُلَ فِیْہِ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ غَیْرَ مُبْطِلٍ عَنْہُ وُجُوْبَ الْقَضَائِ وَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ کَمَنْ عَلَیْہِ قَضَائُ حَجَّۃٍ قَدْ أَوْجَبَہَا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَفْسِہِ بِلِسَانِہِ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا فِی النَّظَرِ مَنْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃٍ أَوْ صِیَامٍ فَأَوْجَبَ ذٰلِکَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَفْسِہِ بِدُخُوْلِہِ فِیْہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْہُ فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہُ وَیُقَالُ لَہٗ أَیْضًا : وَقَدْ رَأَیْنَا الْعُمْرَۃَ مِمَّا قَدْ یَجُوْزُ رَفْضُہَا بَعْدَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا فِیْ قَوْلِنَا وَقَوْلِکَ وَبِذٰلِکَ جَائَ تِ السُّنَّۃُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ (قَوْلِہِ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا دَعِیْ عَنْکَ الْعُمْرَۃَ وَأَہِلِّیْ بِالْحَجِّ) وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَلَمْ یَکُنْ لِلدَّاخِلِ فِی الْعُمْرَۃِ اِذَا کَانَ قَادِرًا عَلٰی رَفْضِہَا وَالْخُرُوْجِ مِنْہَا أَنْ یَخْرُجَ مِنْہَا فَیُبْطِلَہَا ثُمَّ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ قَضَاؤُہَا .وَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِیْہَا بِغَیْرِ إِیْجَابٍ مِنْہُ لَہَا قَبْلَ ذٰلِکَ لَیْسَ لَہُ الْخُرُوْجُ مِنْہَا قَبْلَ تَمَامِہَا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ فَإِنْ خَرَجَ مِنْہَا فَأَبْطَلَہَا بِعُذْرٍ أَوْ بِغَیْرِ عُذْرٍ فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہَا فَالصَّلَاۃُ وَالصَّوْمُ أَیْضًا فِی النَّظَرِ کَذٰلِکَ لَیْسَ لِمَنْ دَخَلَ فِیْہِمَا الْخُرُوْجُ مِنْہُمَا وَإِبْطَالُہُمَا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ وَإِنْ خَرَجَ مِنْہُمَا قَبْلَ إِتْمَامِہٖ إِیَّاہُمَا بِعُذْرٍ أَوْ بِغَیْرِ عُذْرٍ فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہُمَا فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٣٤١١: طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ نے اپنی پھوپھی عائشہ بنت طلحہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کے لیے حلوا چھپا کر رکھا ہے آپ نے فرمایا میں روزے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن لاؤ (میں استعمال کرتا ہوں) میں اس کے بدلے کسی اور دن روزہ رکھ لوں گا۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ میں نے سفیان سے عام طور پر مجالس میں یہ روایت سنی وہ اس میں : ” ساصوم یوما مکان ذلک “ کے الفاظ بیان نہیں کرتے تھے پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے ان کو یہ روایت سنائی تو انھوں نے ساصوم یوما فکان ذلک “ کے اضافہ کو درست قرار دیا۔ اس روایت میں قضاء کے واجب ہونے کا ذکر ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت بھی اس کے موافق ہے اور ام ہانی (رض) کی روایت میں اس کے خلاف کوئی بات نہیں باقی حضرت عروہ اور عمرہ والی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت کم ازکم ان سے نیچے والے روات پر موقوف ہے اور اس کے موافق حضرت عائشہ بنت طلحہ (رض) کی متصل روایت ہے۔ پس حدیث کے اصول کے لحاظ سے یہ اس کے خلاف قول اختیار کرنے سے اولیٰ ہے۔ اس سلسلہ میں نظر وفکر کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض امور بندے پر لازم کرنے سے لازم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ عمرہ اور صدقہ ہے۔ تو جو شخص اس میں سے کسی چیز کے متعلق یہ کہے کہ ” للہ علی ّ کذا وکذا “ کہ مجھ پر اللہ کے لیے ان میں سے فلاں چیز اس طرح اس طرح ہے۔ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نذر کو پورا کرے اور بعض ایسے امور ہیں کہ بندے ان میں داخل ہو کر ان کو اپنے اوپر واجب کرنے والے ہیں مثلاً نماز ‘ ‘ حج اور جن کا ہم نے ذکر کیا ۔ پس جو شخص حج یا عمرہ میں داخل ہو کر پھر ان کو باطل کرنے کا ارادہ کرے یا ان سے نکلنا چاہے۔ تو اس کے لیے اس کا اختیار نہیں۔ تو اس کو شروع کرنے سے اس آدمی کے حکم میں ہوگیا جس نے کہا : ” للہ علی حجۃ ‘ ‘ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مجھ پر حج لازم ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم نے اس کو نکلنے سے اس وجہ سے روکتے ہیں کیونکہ ان کو مکمل کرنے کے بغیر وہ اس سے باہر نہیں آسکتا اس کے بخلاف روزے اور نماز کی یہ صورت نہیں اس لیے کہ وہ بعض اوقات گفتگو ‘ کھانے ‘ پینے اور جماع کے ساتھ بھی ان سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں ہم کہیں گے اگرچہ حج وعمرہ کی صورت تو اسی طرح ہے جیسا تم کہتے ہو ۔ مگر ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ بقول تمہارے جو شخص ان میں جماع کرے اس پر ان کی قضاء لازم ہے اور قضاء میں اس وقت داخل ہوگا جب کہ وہ ان سے نکلے تم نے اس پر قضاء کرنا لازم کردیا خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے اس لیے کہ اس نے دونوں کو فاسد کردیا ہے۔ یہ قضاء تو اس کا بدل ہے جو اس میں داخل ہونے کی وجہ سے اس کے ذمہ واجب ہوچکا تھا ۔ اس کے محض واجب کردینے سے نہیں۔ اگر حج وعمرہ کا احرام باندھنے کے بعد حج وعمرہ کے اس کے ذمہ لازم ہونے اور ان سے الگ نہ ہونے کا سبب وہی ہے جو تم نے ذکر کیا کہ وہ ان کو ترک نہیں کرسکتا اور اگر یہ علت مذکورہ نہ ہوتی تو اسے فراغت جائز تھی جیسا کہ وہ نماز ‘ روزے وغیرہ اشیاء کو چھوڑ سکتا ہے۔ تو اس صورت میں اس پر ان کی قضاء لازم نہ ہوگی کیونکہ وہ اس قضاء کو شروع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ پس جب اس کی عدم قدرت اس کے ذمہ سے قضاء کو باطل نہیں کرتی اور اس کا حال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس کے ذمہ ایسے حج کی قضاء ہو جس کو اس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے اوپر زبان سے لازم کیا ہو۔ نظرکا بھی یہی تقاضا ہے کہ جو آدمی نماز ‘ روزے کو شروع کرے اور ان کو شروع کر کے رضائے الٰہی کے لیے اپنے اوپر لازم کرے پھر ان سے نکل جائے تو اس پر قضاء لازم ہوگی اور اس کو یہ کہا جائے گا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ عمرہ ان کاموں میں سے ہے جس کو ہمارے اور تمہارے نزدیک شروع کرنے کے بعد چھوڑنا






جائز ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو فرمایا عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھو۔ تو یہ چیز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے ثابت ہے۔ ہم اس روایت کو اسی کتاب میں اس کے مقام پر ذکر کریں گے ‘ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ پس یہ بات نہیں ہے کہ جو شخص عمرہ میں داخل ہو اور عمرہ کرنے کی قدرت بھی ہو اور وہ اسے جان بوجھ چھوڑ دے تو اس پر قضاء لازم نہ ہو اور وہ شخص جو اپنے اوپر لازم کرنے کے بغیر اس کو شروع کرے تو وہ بغیر عذر کے اسے مکمل کرنے کے بغیر چھوڑ نہیں سکتا اور اگر وہ کسی عذر یا بلا عذر اسے ترک کردے تو اس پر قضاء ہے۔ تو نظر کا تقاضا یہی چاہتا ہے کہ نماز اور روزے کا یہی حکم ہو کہ جو شخص ان کو شروع کر دے اس کو بلا عذر چھوڑنا جائز نہیں اور بلا عذر چھوڑنے سے قضاء لازم ہوگی ۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول بھی اسی طرح ہے اور بہت سے صحابہ کرام (رض) سے یہ مروی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٦٩؍١٧٠‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٧١‘ نسائی فی الصیام باب ٦٧‘ مسند احمد ٦؍٤٩‘ ٢٠٧۔
حاصل روایت : اس روایت میں قضا کا لازم ہونا ثابت ہو رہا ہے اور یہ حدیث عائشہ (رض) کے موافق ہے اور ام ہانی (رض) والی روایت میں اس کے خلاف کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ یہ روایت موقوف ہے تو اس میں کچھ قباحت نہیں جبکہ مرفوع روایت عائشہ بنت طلحہ اس کے موافق ہے پس یہ قول اس کے مخالف قول سے بہتر ہے جبکہ وہاں نہ مرفوع روایت ہے اور نہ موقوف۔ دوسری بات یہ ہے کہ جریر بن حازم کی روایت سے موقوف ہونے میں جو جہالت تھی اس کا ازالہ ہونے کی وجہ سے یہ روایت مرفوع کی طرح ہوگئی پس اس پر اشکال درست نہیں اب نظر کے لحاظ سے اس بات کو بیان کیا جاتا ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
بندوں پر اشیاء کے وجوب کی دو صورتیں ہیں نمبر ١ وجوب قولی اور وجوب فعلی اور یہ ان عبادات ‘ نماز ‘ صدقہ ‘ روزہ ‘ حج ‘ عمرہ سب میں درست ہے چنانچہ جو آدمی اس طرح کہے : للہ علی کذا و کذا تو سب کے ہاں اس پر اس کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے یہ تو قول سے اپنے اوپر لازم کرنا ہے بالکل اسی طرح ان افعال میں داخل ہو کر ان کو لازم کرلینا مثلاً حج ‘ عمرہ ان میں جو احرام باندھ کر داخل ہوجائے اس کی تکمیل سب مانتے ہیں اور ان کی تکمیل اسی طرح ضروری قرار دیتے ہیں جس طرح کوئی ۔۔۔علی حجۃ کہہ کر اس پر لازم ہوجاتا ہے اب نماز اور روزے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ جب عملاً ان میں داخل ہوجائے تو توڑ دینے سے اس پر تکمیل لازم ہونی چاہیے۔
ایک اشکال :
حج وعمرہ جن کی ابتداء کے بعد تکمیل کو لازم کیا جاتا ہے کیونکہ ان کو شروع کرنے کے بعد نکلنے کی اور کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ وہ ان کو پورا کرے مثلاً احرام باندھنے والا اگر حج کو فاسد کردیتا ہے تو اسے حج کے ارکان میں آخر تک شرکت کرنا لازم ہے اسی جگہ احرام کو توڑ نہیں سکتا۔ اگرچہ اگلے سال اس پر حج کی قضا بھی لازم ہے۔
باقی رہی نماز و روزہ تو ان میں نکلنے کا راستہ موجود ہے جب چاہے نکل جائے پس ان کو اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے جو کسی طرح درست نہیں۔
u: حج وعمرہ کا حکم اگرچہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا تاہم اس بات کو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جس شخص نے جماع کر کے اپنے حج وعمرہ کو فاسد کردیا ہے اس پر دونوں کی قضا لازم ہے اور قضا کا لازم ہونا اور قضا میں اس کا مصروف ہونا اسی وقت ممکن ہے جبکہ پہلے ان سے خارج ہو یقیناً آپ نے حاجی اور معتمر کے ہر فاسد شدہ حج یا عمرہ کی قضا کو لازم کردیا ہے حاجی یا عمرہ کرنے والے کے حج یا عمرہ کو فاسد کردینے کی وجہ سے حاجی یا عمرہ کرنے والا قضا کرنا چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو بہرصورت اس کو قضا کرنا پڑے گا فلہذا حج وعمرہ جن کو وہ قضا کررہا ہے یہ اس اصل حج وعمرہ کا بدل ہے جو اس پر داخل ہونے یا شروع کرنے کی وجہ سے لازم ہوچکا تھا۔ بطور نذر داخل ہونے سے پہلے اپنے اوپر واجب کرنے کی وجہ سے نہیں ہے یعنی لزوم قول کی وجہ سے لازم نہیں ہوا بلکہ فعلی طور پر لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہوا ہے۔
پس جس وقت حج وعمرہ کا احرام باندھا تھا اس وقت سے حج یا عمرہ اس پر لازم ہوجائے اور ان دونوں کو چھوڑ دینے کے عدم جواز کی علت وہی ہوئی جو تم نے ذکر کی اور اگر علت مذکورہ نہ ہوتی تو حج یا عمرہ کرنے والے کو حج وعمرہ سے اسی وقت خارج ہوجانا جائز ہوتا جس طرح نمازی کے لیے نماز سے اور روزہ دار کے لیے روزہ سے امور مفسدہ کے پیش آنے پر نکلنا جائز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تو اس کی قضا بھی اس پر لازم نہ ہوئی اس لیے کہ وہ ارکان حج یا عمرہ سے نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔
پس جب فاسد کرنے والے معاملات سے حج یا عمرہ کو فاسد کرنے کے بعد رکان حج کی تکمیل میں باقی رہنا اس پر قضا کے وجوب کو باطل نہیں کرتا اور وہ اس شخص کے حکم میں ہوجاتا ہے جس نے نذر وغیرہ سے اپنے اوپر اس کو لازم یا واجب کرلیا ہو جس کی وجہ سے اس پر حج کی تکمیل لازم ہوچکی ہے ۔
بالکل اسی طرح نظر و قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ جس نے نماز و روزہ کو شروع کے بعد فاسد کردیا ہو اس پر قضا لازم واجب ہوجائے۔

ایک اور انداز سے :
عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد سب کے ہاں اس کا چھوڑ دینا درست ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ روایت عائشہ (رض) میں وارد ہے کہ آپ نے اس کو فرمایا تم عمرہ کو ترک کر دو اور حج کے ارکان مکمل کرنے کے بعد احرام کھول دو چنانچہ انھوں نے اسی طرح کیا مگر اس کے باوجود جو آدمی عمرہ ادا کرسکتا ہے اس کو عمرہ ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر اس نے ترک کردیا تو قضا لازم ہوجائے گی پس معلوم ہوا کہ نفلی عمرہ شروع کرنے کے بعد فاسد کرنے سے قضا لازم ہوجاتی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اعذار مختلف ہیں بعض اعذار طبعیہ اور فطریہ ہیں جس طرح حیض و نفاس تو اس قسم کے عذر پیش آنے کی صورت میں ترک عمرہ سے قضا لازم نہیں ہے دوسری قسم کے وہ اعذار ہیں جو خارجی اسباب سے پیش آئیں اژدحام ‘ بھیڑ کی وجہ سے طواف و سعی کی قدرت نہ پاسکا اور عرفات کا دن آگیا اور یہ عمرہ چھوڑ کر چلا گیا تو اس قسم کے اعذار کی صورت میں ترک عمرہ قضا کو لازم کرنے والا ہے۔ پس اس قسم کے اعذار پیش آجائیں اور عمرہ ترک ہوجائے تو عمرہ کی قضا لازم ہوگی۔ تیسری قسم کے عذر وہ ہیں جو اپنے اختیار میں ہیں مثلاً نفلی عمرہ کا احرام باندھا پھر شہوت نے غلبہ کیا عمرہ ادا کرنے سے قبل جماع کرلیا تو قضا واجب ہے تو بالکل اسی پر قیاس کرتے ہوئے نفل نماز و نفل روزہ بھی شروع سے واجب ہوجاتے ہیں پس جو شخص ان دونوں کو شروع کرے اس کے لیے بلاعذر شدید کے باطل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر عذر یا بلاعذر تکمیل سے پہلے باطل کر دے گا تو اس پر قضا و لازم ہوجائے گی نظر کا تقاضاہ بھی یہی ہے اور ہمارے علماء امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول بھی یہی ہے۔

3412

۳۴۱۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ أَخْبَرَ أَصْحَابَہٗ أَنَّہٗ صَائِمٌ ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْہِمْ وَرَأْسُہٗ یَقْطُرُ فَقَالُوْا : أَوْ لَمْ تَکُ صَائِمًا ؟ قَالَ (بَلَی وَلٰـکِنِّیْ مَرَّتْ جَارِیَۃٌ لِیْ فَأَعْجَبَتْنِیْ فَأَصَبْتُہَا وَکَانَتْ حَسَنَۃً ہَمَمْتُ بِہَا وَأَنَا قَاضِیْہَا یَوْمًا آخَرَ) .
٣٤١٢: سعید بن ابی الحسن نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے اپنے احباب کو بتلایا کہ ان کا روزہ ہے پھر گھر سے باہر تشریف لائے تو ان کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے انھوں نے کہا کیا آپ روزہ سے نہ تھے انھوں نے کہا کیوں نہیں لیکن میرے پاس سے میری لونڈی کا گزر ہوا تو وہ مجھے پسند آئی میں نے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اس کا قصد کیا اور قربت کرلی بقیہ میں اپنے روزے کی اور دن قضا کرلوں گا۔

3413

۳۴۱۳ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرْجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِی زِیَادُ بْنُ الْجَصَّاصِ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ : صُمْتُ یَوْمَ عَرَفَۃَ فَجَہَدَنِی الصَّوْمُ فَأَفْطَرْتُ فَسَأَلَتْ عَنْ ذٰلِکَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَ (یَوْمًا آخَرَ مَکَانَہٗ) .
٣٤١٣: زیاد بن جصاص نے انس بن سیرین سے بیان کیا کہ میں نے عرفہ کے دن روزہ رکھا مجھے روزے نے پریشان کیا تو میں نے روزہ افطار کردیا چنانچہ اس کے متعلق میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا اس کی جگہ دوسرے دن سے قضا کرلو۔
حاصل روایات : نفل روزے کو توڑ دینا تو درست ہے مگر اس کی قضا لازم ہوگی۔

3414

۳۴۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا : أَبُوْ سَعِیْدٍ الْأَشَجُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدٍ سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانَ الْأَزْدِیُّ الْأَحْمَرُ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ صِلَۃَ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَمَّارٍ فَأُتِیَ بِشَاۃٍ مَصْلِیَّۃٍ فَقَالَ لِلْقَوْمِ : کُلُوْا فَتَنَحّٰی رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ وَقَالَ : إِنِّیْ صَائِمٌ قَالَ : عَمَّارٌ : مَنْ صَامَ الْیَوْمَ الَّذِیْ یُشَکُّ فِیْہِ فَقَدْ عَصَیْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَرِہَ قَوْمٌ صَوْمَ الْیَوْمِ الَّذِیْ یُشَکُّ فِیْہِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَلَمْ یَرَوْا بِصَوْمِہِ تَطَوُّعًا بَأْسًا قَالُوْا : وَإِنَّمَا الصَّوْمُ الْمَکْرُوْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ہُوَ الصَّوْمُ عَلٰی أَنَّہٗ مِنْ رَمَضَانَ فَأَمَّا تَطَوُّعًا فَلاَ بَأْسَ بِہٖ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ قَوْلِہٖ (لَا تَتَقَدَّمُوْا رَمَضَانَ بِیَوْمٍ وَلَا بِیَوْمَیْنِ إِلَّا أَنْ یُوَافِقَ ذٰلِکَ صَوْمًا کَانَ یَصُوْمُہٗ أَحَدُکُمْ فَلْیَصُمْہٗ).
٣٤١٤: عمرو بن قیس نے ابو اسحاق سے انھوں نے صلہ سے نقل کیا کہ ہم عمار بن یاسر (رض) کے ہاں تھے چنانچہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انھوں نے لوگوں کو فرمایا کھاؤ اس وقت قوم میں سے ایک آدمی ایک طرف ہوگیا اور کہنے لگا میں روزے سے ہوں تو عمار (رض) نے فرمایا جس نے یوم شک کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے شک کے دن روزے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ مگر دوسروں نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نفلی روزہ رکھ لینے میں کچھ حرج نہیں ‘ ان کا کہنا یہ ہے کہ جس مکروہ روزے کا تذکرہ اس روایت میں ہے وہ رمضان المبارک کی نیت سے روزہ رکھنا ہے۔ جب کہ نفلی روزے میں کچھ قباحت نہیں ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے استدلال کیا ہے جس کو ہم دوسرے مقام پر ذکر کرچکے ہیں۔ کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ” لا تتقد موا رمضان ببوم ولا بیومین الا ان یوافق ذلک صومًا کان یصومہ احدکم فلیصمہ “ کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھو مگر یہ کہ وہ اس روزے کے موافق ہوجاتے جو وہ رکھتا تھا تو وہ روزہ رکھ لے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصوم باب ١٠‘ ترمذی فی الصوم باب ٣۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کا مطلب یہی ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا مطلقاً مکروہ ہے اور نفلی روزہ تو خاص طور پر منع ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
نفلی روزہ کی نیت سے روزے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔
روایت بالا کا مفہوم :
فریق اوّل نے نفلی روزے کے سلسلے میں اس سے جو استدلال کیا وہ درست نہیں روایت سے اس روزے کی ممانعت کی گئی ہے جو رمضان کی نیت سے رکھا جائے گا اور اس کی کراہت میں تو کوئی شبہ نہیں باقی نفلی روزے کے جواز کی دلیل یہ روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتتقدموا رمضان بیوم ولا بیومین الا ان یوافق ذلک صوما کان یصومہ احدکم فلیصمہ “ ۔ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھو مگر یہ کہ وہ تم میں کسی کی عادت کے موافق آجائے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١٤‘ مسلم فی الصیام روایت ٢١‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٧‘ ترمذی فی الصوم باب ٢‘ ٤‘ ٣٨۔
یعنی رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ مت رکھو مگر اس صورت میں کہ روزے رکھنے کی عادت ہو اور اس عادت کے موافق وہ دن بھی آگیا تو اس کو رکھ لے۔
نوٹ : یہ ہے کہ رمضان کی نیت سے تو شک کے دن روزہ درست نہیں البتہ نفلی روزے میں کوئی حرج نہیں ہے واللہ اعلم۔
انتیس کو مطلع صاف نہ ہو اور چاند کا کوئی شرعی ثبوت نہ ہو تو اگلے دن کو یوم شک کہا جائے گا۔ آیا اس دن نفل روزہ رکھنا درست ہے یا نہیں۔
نمبر 1: امام شافعی (رح) اور سفیان ثوری (رح) ابن مبارک یوم شک میں نفل روزہ مطلقاً مکروہ قرار دیتے ہیں۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ ‘ احمد ‘ مالک رحمہم اللہ بھی نفل روزہ کے جواز کے قائل ہیں۔ باقی رمضان کی نیت سے روزہ مکروہ تحریمی ہوگا اور امام شافعی کے ہاں درست ہی نہ ہوگا قضا رمضان وغیرہ کی نیت سے روزہ سب کے ہاں مکروہ ہے شک والی نیت سے بالکل روزہ نہ ہوگا رمضان اور نفل کے درمیان دائر نیت سے بھی مکروہ ہے۔ خواص یا معمول والے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ مطلق نفل کے متعلق اختلاف یہ ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف :
یوم شک میں نفل روزہ کسی بھی نیت سے مکروہ ہے۔ دلیل یہ روایت ہے۔
حاصل روایات : روزے کے بعد اس کا لانا مناسب ہے روزے سال میں ایک مرتبہ فرض ہیں تو یہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے حج کا معنی قصد کرنا ہے مگر شرع میں مخصوص ایام میں مخصوص افعال کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد کرنا حج کہلاتا ہے گزشتہ اقوام میں بھی حج تھا اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی کے عملی اعتراف کا نام حج ہے کہ کفن پہن کر اس کے دروازے کا سوالی بنتا ہے یہ فنائیت کا انتہائی مقام ظاہر کرتا ہے ہجرت سے قبل ہر سال آپ نے بھی حج کیا البتہ ٩ ھ میں حج فرض ہونے کے بعد آپ نے صرف حجۃ الوداع ہی کیا بیت المعمور کی سیدھ میں زمین پر بننے والا اولین گھر بیت اللہ ہے زمین کا اولین حصہ جس کو پانی سے ظاہر کیا گیا وہ بیت اللہ والا حصہ ہے حج کے لازم ہونے کے لیے مالدار آزاد مسلمان ہونے کے ساتھ راستے کا پرامن ہونا اور صحت مند ہونا ضروری ہے اولین فرصت میں حج ادا کرنا چاہیے استطاعت کے باوجود تاخیر سے گناہ گار ہوگا مگر حج قضا نہ ہوگا عمرہ سنت مؤکدہ ہے امام شافعی (رح) اس کو واجب کہتے ہیں موجودہ باب میں عورت کے سفر کی شرعی حیثیت اور پھر سفر حج میں محرم لازم ہوگا یا محرم کے نہ پائے جانے کی صورت میں اس سے حج ساقط ہوگا اس مسئلہ میں شدید اختلافی آرا ہیں امام طحاوی نے چھ مذاہب کی طرف اشارات کئے ہیں۔
نمبر 1: عامر شعبی و اہل ظواہر کے ہاں عورت کو بلامحرم شرعی مطلقا سفر حج ہو یا دیگر جائز نہیں۔
نمبر 2: عطاءؒ ایک ٢٣ کلومیٹر منزل سے کم مسافت بلامحرم و زوج کرسکتی ہے اس سے زیادہ نہیں۔
نمبر 3: ایک دن رات سے کم مسافت بلامحرم و زوج کرسکتی ہے خواہ قابل اطمینان عورتوں اور مردوں کے ساتھ ہو یہ امام شافعی (رح) ومالک (رح) کا مسلک ہے متاخرین احناف کا فتویٰ اسی کے موافق ہے۔
نمبر$: حسن بصری (رح) و قتادہ (رح) کے ہاں دو دن رات کی مسافت بلامحرم جائز ہے۔
نمبر%: امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) تین دن رات کا سفر بلامحرم و زوج کرسکتی ہے اگر اس سے زیادہ مسافت ہو تو حج بھی بلامحرم فرض نہ ہوگا۔
نمبر &: زہری (رح) اور امام شافعی (رح) ومالک (رح) کے ہاں بلامحرم و زوج اس کے سفر میں حج نہیں امام احمد کا قول بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔
فریق اوّل : بغیر محرم شرعی عورت کا سفر کسی بھی غرض سے ہو جائز نہیں اس کو طحاوی (رح) نے فذھب قوم الی ان المرأۃ تسافر سے ذکر کیا ہے۔

3415

۳۴۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : (خَطَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَقَالَ لَا تُسَافِرِ امْرَأَۃٌ إِلَّا وَمَعَہَا ذُوْ مَحْرَمٍ وَلَا یَدْخُلْ عَلَیْہَا رَجُلٌ إِلَّا وَمَعَہَا ذُو مَحْرَمٍ .فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ قَدِ اکْتَتَبْتُ فِیْ غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا وَقَدِ أَرَدْتُ أَنْ أَحُجَّ بِامْرَأَتِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُحْجُجْ مَعَ امْرَأَتِک)
٣٤١٥: عمرو نے ابو معبد مولیٰ ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ ابن عباس (رض) فرماتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا کوئی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو اور نہ اس کے پاس کوئی آدمی جائے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا ذی محرم نہ ہو ایک آدمی اٹھا اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں فلاں غزوہ میں مکاتب بنایا گیا ہوں اور میں اپنی بیوی کے ساتھ حج کا ارادہ کرتا ہوں اس سوال کے جواب میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٤‘ والصید باب ٢٦‘ والصلاۃ فی مسجد مکہ باب ٦‘ والصوم باب ٦٧‘ مسلم فی الحج ٤١٣‘ ٤٢٤‘ ترمذی الرضاع باب ١٥‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧‘ مالک فی الاسیذان ٣٧‘ مسند احمد ١؍٢٢‘ ٢؍١٣‘ ١٩‘ ٣؍٣٤‘ ٤٥‘ ٥٢‘ ٧١‘ ٧٧۔

3416

۳۴۱۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ عَمْرٍو فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٤١٦: ابن وہب نے ابن جریج سے انھوں نے عمرو سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3417

۳۴۱۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ عَنْ أَبِیْ مَعْبَدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٤١٧: ابن جریج نے عمرو بن دینار سے انھوں نے ابو معبد سے انھوں نے ابن عباس (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3418

۳۴۱۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَا تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ إِلَّا وَمَعَہَا ذُو مَحْرَمٍ) قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمَرْأَۃَ لَا تُسَافِرُ سَفَرًا قَرِیْبًا وَلاَ بَعِیْدًا إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : کُلُّ سَفَرٍ ہُوَ دُوْنَ الْبَرِیْدِ فَلَہَا أَنْ تُسَافِرَ بِلَا مَحْرَمٍ وَکُلُّ سَفَرٍ یَکُوْنُ بَرِیْدًا فَصَاعِدًا فَلَیْسَ لَہَا أَنْ تُسَافِرَ إِلَّا بِمَحْرَمٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٤١٨: سعید بن ابی سعیدالمقبری نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کے ساتھ ذی رحم محرم نہ ہو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں۔ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت بلا محرم سفر نہ کرے خواہ وہ سفر قریب ہو یا دور ۔ ان کی مستدل یہ روایات ہیں مگر دوسرے حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عورت ایک برید کے برابر سفر محرم کرسکتی ہے اور ایک برید سے زیادہ سفر محرم کے بغیر درست نہیں ان کی دلیل ان روایات سے ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی عورت کو کسی حال میں دور یا نزدیک تھوڑا یا زیادہ سفر بلا محرم نہ کرنا چاہیے ان روایات میں ممانعت مطلق ہے پس بلامحرم عورت کو سفر میں نہ جانا چاہیے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
ایک برید سے کم سفر تو بلامحرم جائز ہے اس سے زائد جائز نہیں اس کو طحاوی نے خالفہم فی ذلک آخرون سے ذکر کیا ہے۔

3419

۳۴۱۹ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ ہُوَ الضَّرِیْرُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلْمَۃَ قَالَ : أَنَا سُہَیْلُ بْنُ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تُسَافِرُ امْرَأَۃٌ بَرِیْدًا إِلَّا مَعَ زَوْجٍ أَوْ ذِیْ رَحِمٍ مَحْرَمٍ)
٣٤١٩: سعید بن ابی سعیدالمقبری نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی عورت ایک برید تک سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا ذی رحم محرم نہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی المناسک باب ٢۔

3420

۳۴۲۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ سُہَیْلٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالُوْا : فَفِیْ تَوْقِیْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَرِیْدَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ مَا دُوْنَہُ بِخِلَافِہٖ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : اِذَا کَانَ سَفَرٌ ہُوَ دُوْنَ الْیَوْمِ فَلَہَا أَنْ تُسَافِرَ بِلَا مَحْرَمٍ وَکُلُّ سَفَرٍ یَکُوْنُ یَوْمًا فَصَاعِدًا فَلَیْسَ لَہَا أَنْ تُسَافِرَ إِلَّا بِمَحْرَمٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٤٢٠: معلی بن اسد کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالعزیز بن المختار نے انھوں نے سہیل سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک برید کے فاصلہ کو مقرر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سے کم فاصلہ کا حکم اس کے خلاف ہے۔ مگر دوسرے حضرات نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ایک دن سے کم سفر ہو تو عورت محرم کے بغیر بھی سفر کرسکتی ہے مگر ایک دن یا زیادہ کا سفر ہو تو محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتی ۔ انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
حاصل روایات ایک برید سے کم سفر میں محرم کی ضرورت نہیں اس سے زائد سفر میں محرم ضروری ہے اس میعاد کو مقرر کرنا اس سے کم مقدار کو خارج اور بقیہ تمام کو داخل کرتا ہے۔
فریق ثالث کا مؤقف :
اگر سفر ایک دن رات سے کم ہو تو بلامحرم سفر درست ہے اس سے زائد ہو تو بلامحرم جائز نہیں آج کل کے فساد زمانہ کی وجہ سے متا ٔخرین احناف نے اسی پر فتویٰ دیا ہے اسی کو طحاوی (رح) نے خالفہم فی ذلک آخرون سے تعبیر کیا ہے۔ دلائل یہ روایات ہیں۔

3421

۳۴۲۱ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ تُسَافِرُ یَوْمًا فَمَا فَوْقَہٗ إِلَّا وَمَعَہَا ذُوْ حُرْمَۃٍ)
٣٤٢١: ابو سعید نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک دن یا اس سے زائد کا سفر بلاذی رحم محرم کرے۔

3422

۳۴۲۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ (فَمَا فَوْقَہٗ)
٣٤٢٢: ابن ابی ذئب نے مقبری سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا البتہ ” فما فوقہ “ کے الفاظ نقل نہیں کئے۔

3423

۳۴۲۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٤٢٣: مالک نے سعید مقبری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

3424

۳۴۲۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ .ح
٣٤٢٤: حسین بن نصر کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے سنا ان کو ابن ابی ذئب نے خبر دی۔

3425

۳۴۲۵ : وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ قَالُوْا : فَفِیْ تَوْقِیْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہُ بِخِلَافِہٖ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : کُلُّ سَفَرٍ ہُوَ دُوْنَ اللَّیْلَتَیْنِ فَلَہَا أَنْ تُسَافِرَہٗ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ وَکُلُّ سَفَرٍ یَکُوْنُ لَیْلَتَیْنِ فَصَاعِدًا فَلَیْسَ لَہَا أَنْ تُسَافِرَہٗ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٣٤٢٥: ابن ابی ذئب نے مقبری عن ابیہ سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک دن کو متعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے کم مدت کا حکم اس کے خلاف ہے۔ مگر دیگر علماء نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ دو راتوں سے کم مدت کا سفر عورت بغیر محرم کرسکتی ہے مگر دو راتوں سے زیادہ کا سفر محرم کے بغیر درست نہیں ۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔
حاصل روایات : ان روایات میں ایک دن کی تعیین اس بات کو ثابت کرتی ہے اس سے کم سفر ہو تو پھر محرم کے بغیر سفر کرسکتی ہے۔
فریق رابع کا مؤقف و دلائل :
ہر وہ سفر جس کی مقدار دو راتوں سے کم ہو اس کے لیے بلامحرم سفر درست ہے دو راتیں یا اس سے زائد سفر بلامحرم نہیں کرسکتی یہ حسن و قتادہ کا قول ہے ان کا تذکرہ خالفہم فی ذلک آخرون سے کیا ہے۔

3426

۳۴۲۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ قَزَعَۃَ مَوْلٰی زِیَادٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (لَا تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ مَسِیْرَۃَ لَیْلَتَیْنِ إِلَّا مَعَ زَوْجٍ أَوْ ذِیْ مَحْرَمٍ) .
٣٤٢٦: قزعہ مولی زیاد نے ابو سعیدالخدری (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ کوئی عورت دو راتوں کی راہ اس وقت تک سفر مت کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا خاوند نہ ہو یا ذی رحم محرم نہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الصید باب ٢٦‘ مسلم فی الحج ٤١٦؍٤١٩۔

3427

۳۴۲۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالُوْا : فَفِیْ تَوْقِیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ لَیْلَتَیْنِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ مَا ہُوَ دُوْنَہُمَا بِخِلَافِ حُکْمِہِمَا وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : کُلُّ سَفَرٍ یَکُوْنُ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ فَصَاعِدًا فَلَیْسَ لَہَا أَنْ تُسَافِرَ إِلَّا مَعَ مَحْرَمٍ وَکُلُّ سَفَرٍ یَکُوْنُ دُوْنَ ذٰلِکَ فَلَہَا أَنْ تُسَافِرَ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٤٢٧: علی بن معبد نے عبیداللہ بن عمرو سے انھوں نے عبدالملک سے پس انھوں نے اسی طرح اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے دو کا وقت مقرر فرمایا اس سے یہ دلیل مل گئی کہ اس سے کم وقت کا سفر اور حکم رکھتا ہے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہر وہ سفر جو تین ایام یا اس سے زیادہ کا سفر محرم کے بغیر نہیں کرسکتی اور اس سے کم مدت کا سفر وہ بلا محرم کرسکتی ہے اور انھوں نے اس روایت کو اپنا مستدل بنایا ہے۔
حاصل روایات : ان روایات میں د و راتوں کی تعیین اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے کم سفر ہو تو ذی رحم محرم کی حاجت نہیں اور اگر اتنا یا اس سے زیادہ ہو تو یہ جائز نہیں
فریق خامس کا مؤقف :
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کے ہاں تین دن رات سے کم کی مسافت کے لیے سفر میں محرم کی ضرورت نہیں اس سے زائد کے لیے لازم ہے دلیل یہ روایات ہیں۔

3428

۳۴۲۸ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ أَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ إِلَّا مَعَ مَحْرَمٍ)
٣٤٢٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن کا سفر بغیر محرم کے کرے۔
تخریج : بخاری فی تقصیرالصلاۃ باب ٤‘ مسلم فی الحج ٤١٣۔

3429

۳۴۲۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْکَرِیْمِ بْنُ مَالِکٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٤٢٩: عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے انھوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے عبداللہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3430

۳۴۳۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ أَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ إِلَّا مَعَ رَجُلٍ یَحْرُمُ عَلَیْہَا نِکَاحُہٗ) .
٣٤٣٠: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کسی ایسے شخص کے بغیر کرے جس کا اس سے نکاح جائز نہیں۔
تخریج : مسلم فی الحج ٤٢٢۔

3431

۳۴۳۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسَی وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ سَفَرًا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَہَا زَوْجُہَا أَوْ ابْنُہَا أَوْ أَخُوہَا أَوْ ذُو رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنْہَا) غَیْرَ أَنَّ ابْنَ نُمَیْرٍ قَالَ فِیْ حَدِیْثِہٖ (فَوْقَ ثَلاَثٍ)
٣٤٣١: ابو صالح نے ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی عورت تین دن کا سفر اپنے خاوند یا بیٹے یا بھائی یا ذی رحم محرم کے ساتھ کرے ابن نمیر نے کہا فوق ثلاث تین دن سے زائد۔
تخریج : مسلم فی الحج ٤٢٣‘ ابو داؤد فی المناسک باب ٢‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧۔

3432

۳۴۳۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَقَالَ (سَفَرَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ) .
٣٤٣٢: ابی نے اعمش سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی اور یہ الفاظ ہیں سفر ثلاثہ ایام۔ تین دن کا سفر۔

3433

۳۴۳۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ أَبُوْ سَلْمَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا سُہَیْلٌ عَنْ أَبِیْہِ وَعَنِ الْمَقْبُرِیِّ حَدَّثَاہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَفَعَہُ قَالَ (لَا تُسَافِرِ امْرَأَۃٌ فَوْقَ ثَلاَثِ لَیَالٍ إِلَّا مَعَ بَعْلٌ أَوْ ذِیْ رَحِمٍ مَحْرَمٍ) ) قَالُوْا : فَفِیْ تَوْقِیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ الثَّلَاثَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ مَا دُوْنَ الثَّلَاثِ بِخِلَافِ ذٰلِکَ وَمِمَّنْ قَالَ بِھٰذَا الْقَوْلِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی فَقَدْ اتَّفَقَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ کُلُّہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَحْرِیْمِ السَّفَرِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ عَلَی الْمَرْأَۃِ بِغَیْرِ ذِیْ مَحْرَمٍ وَاخْتَلَفَتْ مَا دُوْنَ الثَّلَاثِ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَوَجَدْنَا النَّہْیَ عَنِ السَّفَرِ بِلَا مَحْرَمٍ مَسِیْرَۃَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ فَصَاعِدًا ثَابِتًا بِھٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا وَکَانَ تَوْقِیْتُہُ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ فِیْ ذٰلِکَ اِبَاحَۃَ السَّفَرِ دُوْنَ الثَّلَاثِ لَہَا بِغَیْرِ مَحْرَمٍ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا کَانَ لِذِکْرِہِ الثَّلَاثَ مَعْنًی .وَنَہَی نَہْیًا مُطْلَقًا وَلَمْ یَتَکَلَّمْ بِکَلَامٍ یَکُوْنُ فَضْلًا وَلٰکِنَّہٗ ذَکَرَ الثَّلَاثَ لِیُعْلَمَ أَنَّ مَا دُوْنَہَا بِخِلَافِہَا وَہٰکَذَا الْحَکِیْمُ یَتَکَلَّمُ بِمَا یَدُلُّ عَلٰی غَیْرِہِ لِیُغْنِیَہُ عَنْ ذِکْرِ مَا یَدُلُّ کَلَامُہٗ ذٰلِکَ عَلَیْہِ وَلَا یَتَکَلَّمُ بِالْکَلَامِ الَّذِیْ لَا یَدُلُّ عَلٰی غَیْرِہِ وَہُوَ یَقْدِرُ أَنْ یَتَکَلَّمَ بِکَلَامٍ یَدُلُّ عَلٰی غَیْرِہِ وَھٰذَا تَفَضُّلٌ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ اِذْ آتَاہُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ الَّذِیْ لَیْسَ فِیْ طَبْعِ غَیْرِہِ الْقُوَّۃُ عَلَیْہِ ثُمَّ رَجَعْنَا إِلٰی مَا کُنَّا فِیْہِ فَلَمَّا ذَکَرَ الثَّلَاثَ وَثَبَتَ بِذِکْرِہِ إِیَّاہَا اِبَاحَۃُ مَا ہُوَ دُوْنَہَا ثُمَّ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ مَنْعِہَا مِنَ السَّفَرِ مِنْ دُوْنِ الثَّلَاثِ مِنَ الْیَوْمِ وَالْیَوْمَیْنِ وَالْبَرِیْدِ فَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْ تِلْکَ الْآثَارِ وَمِنَ الْأَثَرِ الْمَرْوِیِّ فِی الثَّلَاثِ مَتَیْ کَانَ بَعْدَ الَّذِی خَالَفَہُ نَسَخَہُ إِنْ کَانَ النَّہْیُ عَنْ سَفَرِ الْیَوْمِ بِلَا مَحْرَمٍ بَعْدَ النَّہْیِ عَنْ سَفَرِ الثَّلَاثِ بِلَا مَحْرَمٍ فَہُوَ نَاسِخٌ لَہٗ وَإِنْ کَانَ خَبَرُ الثَّلَاثِ ہُوَ الْمُتَأَخِّرَ عَنْہُ فَہُوَ نَاسِخٌ لَہٗ فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ أَحَدَ الْمَعَانِی الَّتِیْ دُوْنَ الثَّلَاثِ نَاسِخَۃٌ لِلثَّلَاثِ أَوْ الثَّلَاثَ نَاسِخَۃٌ لَہَا فَلَمْ یَخْلُ خَبَرُ الثَّلَاثِ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ ہُوَ الْمُتَقَدِّمَ أَوْ یَکُوْنَ ہُوَ الْمُتَأَخِّرَ .فَإِنْ کَانَ ہُوَ الْمُتَقَدِّمَ فَقَدْ أَبَاحَ السَّفَرَ أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثٍ بِلَا مَحْرَمٍ ثُمَّ جَائَ بَعْدَہُ النَّہْیُ عَنْ سَفَرِ مَا ہُوَ دُوْنَ الثَّلَاثِ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ فَحَرَّمَ مَا حَرَّمَ الْحَدِیْثُ الْأَوَّلُ وَزَادَ عَلَیْہِ حُرْمَۃً أُخْرَی وَہُوَ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الثَّلَاثِ فَوَجَبَ اسْتِعْمَالُ الثَّلَاثِ عَلٰی مَا أَوْجَبَہُ الْأَثَرُ الْمَذْکُوْرُ فِیْہِ .وَإِنْ کَانَ ہُوَ الْمُتَأَخِّرَ وَغَیْرُہُ الْمُتَقَدِّمَ فَہُوَ نَاسِخٌ لِمَا تَقَدَّمَہُ وَاَلَّذِیْ تَقَدَّمَہُ غَیْرُ وَاجِبٍ الْعَمَلِ بِہِ فَحَدِیْثُ الثَّلَاثِ وَاجِبٌ اسْتِعْمَالُہٗ عَلَی الْأَحْوَالِ کُلِّہَا وَمَا خَالَفَہُ فَقَدْ یَجِبُ اسْتِعْمَالُہٗ إِنْ کَانَ ہُوَ الْمُتَأَخِّرَ وَلَا یَجِبُ إِنْ کَانَ ہُوَ الْمُتَقَدِّمَ فَاَلَّذِیْ قَدْ وَجَبَ عَلَیْنَا اسْتِعْمَالُہٗ وَالْأَخْذُ بِہٖ فِی الْوَجْہَیْنِ أَوْلَی مِمَّا قَدْ یَجِبُ اسْتِعْمَالُہٗ فِیْ حَالٍ وَتَرْکُہُ فِیْ حَالٍ وَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْمَرْأَۃَ لَیْسَ لَہَا أَنْ تَحُجَّ اِذَا کَانَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ الْحَجِّ مَسِیْرَۃُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ إِلَّا مَعَ مَحْرَمٍ‘ فَإِذَا عَدِمَتِ الْمَحْرَمَ وَکَانَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ مَکَّۃَ الْمَسَافَۃُ الَّتِیْ ذَکَرْنَا فَہِیَ غَیْرُ وَاجِدَۃٍ لِلسَّبِیْلِ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْہَا الْحَجُّ بِوُجُوْدِہٖ وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ (لَا بَأْسَ بِأَنْ تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ) وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا
٣٤٣٣: سہیل نے اپنے والد اور مقبری سے دونوں نے ابوہریرہ (رض) اور ابوہریرہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ کوئی عورت تین رات سے زیادہ سفر نہ کرے مگر کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا ذی رحم محرم ہو۔ ان علماء کا کہنا یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد میں تین دن کی تعیین فرمائی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سے کم کا حکم اس کے خلاف ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ تو ان تمام آثار میں یہ بات بالا تفاق ثابت ہے کہ عورت کے لیے تین دن کا سفر بلامحرم تین دن سے کم میں اختلاف ہے ہم نے اس میں غور کر کے دیکھا کہ محرم کے بغیر تین دن یا اس سے زائد سفر کی ممانعت ان روایات سے ثابت ہے اور ان روایات میں تین دن کا تعین یہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ عورت تین دن سے کم مدت کا سفر بغیر محرم کے کرسکتی ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو تین دن کے تعین کا چنداں فائدہ نہ ہوتا ممانعت تو مطلق ہے اور آپ نے کوئی کلام نہیں فرمایا بلکہ صرف تین کا ذکر کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سے کم مدت کا حکم اس کے خلاف ہے۔ دانا آدمی کی گفتگو اسی طرح کی ہوتی ہے جو غیر پر بھی دلالت کرتی ہے اور جس پر اس کا کلام دلالت کرتا ہے تاکہ اس کے بیان کی ضرورت نہ رہے اور جو بات اس کے غیر پر دلالت نہیں کرتی اس کے ساتھ وہ کلام نہیں کرتا ۔ حالانکہ وہ اس بات پر قادر ہوتا ہے کہ ایسی گفتگو کرے جو اس کے غیر پر بھی دلالت کرے اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان ہے کہ آپ کو جو امع کلم کا وصف خاص عنایت فرمایا جب کہ کسی دوسرے کی فطرت میں یہ قوت مطابقت نہیں۔ ہم دو بارہ زیر وبحث موضوع کی طرف آتے ہیں کہ جب آپ نے تین کا ذکر فرمایا تو اس سے کم مدت کے سفر کا جواز خود ثابت ہوگیا۔ پھر آپ سے ایک دن دو دن اور ایک برید سفر کی ممانعت بھی روایات میں آئی ہے۔ ان تمام روایات میں اور تین دن کے متعلق روایت میں سے جو بعد میں ثابت ہوگی وہ ماقبل کم مدت کے لیے ناسخ ہوگی۔ اگر بلا محرم عورت کے ایک دن سفر کی ممانعت تین دن سفر والی روایت سے مؤخر ہو تو وہ اس کے لیے ناسخ ہوگی اور تین دن والی روایت بعد والی ثابت ہو تو یہ ناسخ ہوگی۔ اس سے ثابت ہوا کہ تین دن سے کم مدت کے سلسلہ میں جو کچھ روایات میں آیا ہے۔ ان میں سے کوئی روایت تین دن کے لیے ناسخ نہ ہوگی اور تین دن والی ان کے لیے ناسخ ہوگی۔ تین دنوں کے متعلق روایات ان دو باتوں سے خالی نہیں وہ مقدم ہوگی یا مؤخر ۔ اگر وہ مقدم ہو بلا محرم تین دن کا سفر جائز ہوگا پھر بلا محرم تین دن سے کم مدت کے سفر کے سلسلہ میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اس سے وہ کچھ حرام ہوا جو پہلی روایت سے حرام تھا اور مزید ایک حرمت بڑھا دی اور وہ یہ مدت ہے جو اس کے اور تین دنوں کے درمیان ہے۔ پس تین کا استعمال اس پر لازم ہوا جیسا کہ مذکورہ روایت اس کے وجوب کو ثابت کرتی ہے۔ اور اگر وہ متاخر ہو اور اس کے علاوہ روایات مقدم ہو تو یہ ان مقدم روایات کی ناسخ ہوگی اور مقدم پر عمل لازم نہ ٹھہرے گا ۔ پس تین پر عمل تو بہرحال واجب ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ اگر متاخر ہے۔ تو اس پر عمل لازم ہے۔ مگر مقدم ہونے کی صورت میں اس پر عمل لازم نہیں ۔ تو وہ بات جس پر عمل کرنا اور اس کو اختیار کرنا دونوں صورتوں میں واجب ہے اور وہ اس سے اولیٰ ہے۔ جس پر عمل کسی صورت میں واجب ہوتا ہے اور کسی صورت میں واجب نہیں ہوتا ۔ جو کچھ ہم نے عرض کیا اس کے ثابت ہونے کی صورت میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے مسکن اور مقام حج کے درمیان تین دن کا فاصلہ ہو تو محرم کے بغیر اس کو حج کرنا جائز نہیں اور اگر کہ مکرمہ اور اس کے مابین مذکورہ مسافت تو وہ راستہ کی طاقت رکھنے والوں میں شامل نہ ہوگی جس کے پائے جانے کی وجہ سے حج فرض ہوتا ہے۔ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ عورت کو بلا محرم سفر حج میں کچھ حرج نہیں ہے۔ انھوں نے دو روایات سے استدلال کیا ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
حاصل روایات : تین دن کو خاص طور پر ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سے کم کا حکم اس کے خلاف ہے ان تمام روایات میں تین کی تعیین کھلے طور پر موجود ہے جبکہ دیگر روایات جو اس سے کم مدت کو بیان کر رہی ہیں وہ مختلف ہیں۔
سابقہ روایات کا جواب جن کو فریق اوّل ‘ دوم ‘ سوم ‘ چہارم میں پیش کیا ہے ان تمام روایات میں غور سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر محرم کے جس سفر کی ممانعت ہے وہ تین دن یا اس سے زائد سفر سے متعلق ہیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تین دن مقرر کرنا اس بات کو خود ثابت کررہا ہے کہ تین دن رات سے کم مسافت وہ بغیر محرم کرسکتی ہے اگر اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر تین دن کی قید کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا پس اس قید کا تقاضہ یہی ہے کہ تین دن سے کم سفر کو بلامحرم مباح قرار دیا جائے اور تین دن اور اس سے زائد سفر کو ناجائز قرار دیا جائے۔
ممانعت مطلق ہے اور زائد سے متعلق کلام نہیں فرماتی لیکن تین کا ذکر اس لیے کردیا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اس سے کم میں حکم اس کے خلاف ہے حکیم کا کلام اسی طرح ہوتا ہے کہ دوسری بات کے ذکر پر دلالت کرتے ہوئے اس کے تذکرے سے بےنیاز کردیتی ہے اور وہ ایسی کلام نہیں کرتا جس میں دوسری چیزوں کے متعلق دلالت نہ ہو اور آپ کو ایسی کلام پر قدرت تھی جو دوسری بات پر دلالت کرنے والی ہو یہ آپ کا معجزہ ہے کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم سے نوازا ہے جس کی کسی دوسرے میں طاقت نہیں۔
اب ہم اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں کہ تین کا تذکرہ کر کے اس سے کم کا مباح ہونا ثابت کردیا تو تین والی روایات کے تذکرہ نے اس کم والی روایات میں مذکورہ مدت کو منسوخ کردیا مگر نسخ کے لیے تو مقدم و مؤخر کا معلوم ہونا ضروری ہے اگر تین سے کم مدت والی روایات کا زمانہ بعد کا ثابت ہوجائے تو وہ ناسخ بن جائیں گی اور اگر ثلاث والی روایات کا زمانہ بعد والا ثابت ہوجائے تو وہ ناسخ بن جائیں گے ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر تین والی روایات کی دو صورتیں بنیں گی۔ مقدم ہو یا مؤخر۔
اگر مقدم مانیں تو تین دن سے کم مدت والا سفر بغیر محرم کے مباح ہوگیا پھر اس سے کم مدت کی ممانعت بغیر محرم کے ثابت ہوئی تو اس سے تین دن کا سفر بلامحرم حرام تھا اب اس پر حرمت میں اضافہ ہوا کہ تین کی بجائے دو کی حرمت رہ گئی تو تین کی حرمت تو اپنے مقام پر برقرار رہی۔ اور اگر تین کو زمانہ کے لحاظ سے متا ٔخر مانیں اور دوسروں کو مقدم مانیں کہ اولاً ایک دن کی اباحت پھر دو دن کی کردی گئی اور پھر اس کو بڑھا کر تین دن کردیا گیا تو یہ تمام کی ناسخ بن جائے گی تو اس صورت میں بھی تین سے کم واجب العمل نہ رہیں۔
پس اس سے تین والی روایت ہر حال میں واجب العمل رہی اور دوسری روایات تین والی روایت سے متاخر ہوں تو واجب العمل رہیں اور اگر مقدم ہوں تو واجب العمل نہ رہیں اب ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اس روایت کو لیں جو ہر صورت میں قابل استعمال ہے بجائے اس کے کہ ایسی روایت اختیار کریں جو بعض صورتوں میں قابل استعمال ہو اور بعض میں نہ ہو اب جب کہ ہم تین دن والی روایت کو ثابت کرچکے تو اس سے یہ دلیل میسر آگئی کہ عورت کو اس وقت تک حج جائز نہیں جبکہ اس کا سفر بیت اللہ سے تین دن رات یا اس سے زائد ہو جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو اگر محرم نہ ہو اور فاصلہ تین دن رات کا ہو تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوگی جو استطاعت نہیں رکھتے اور جب استطاعت ہوگی تو حج لازم ہوگا۔
فریق سادس کا مؤقف : ابن شہاب زہری وغیرہ کا ہے کہ بلامحرم شرعی عورت کو عام سفر اور سفر حج کی اجازت ہے بلکہ نیک مرد یا دیگر عورتوں کے ساتھ وہ سفر کرسکتی ہے۔ دلیل یہ ہے۔

3434

۳۴۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا سَمِعَتْہَا تَقُوْلُ فِی الْمَرْأَۃِ تَحُجُّ وَلَیْسَ مَعَہَا ذُو مَحْرَمٍ فَقَالَتْ : مَا لِکُلِّہِنَّ ذُو مَحْرَمٍ
٣٤٣٤: ابن شہاب نے عمرہ سے اس نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتی تھیں عورت اس وقت بھی حج کرے جبکہ اس کے ساتھ محرم نہ ہو کیونکہ ہر عورت کو محرم میسر نہیں۔

3435

۳۴۳۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ عَنِ اللَّیْثِ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ حَدَّثَہٗ عَنْ عَمْرَۃَ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أُخْبِرَتْ أَنَّ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ یُفْتِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَا یَصْلُحُ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تُسَافِرَ إِلَّا وَمَعَہَا مَحْرَمٌ) " فَقَالَتْ (مَا لِکُلِّہِنَّ ذُو مَحْرَمٍ) فَإِنَّ الْحُجَّۃَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ تَوَاتَرَتْ بِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہِیَ حُجَّۃٌ عَلٰی کُلِّ مَنْ خَالَفَہَا فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ الْحَجَّ لَمْ یَدْخُلْ فِی السَّفَرِ الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ فِیْ تِلْکَ الْآثَارِ فَالْحُجَّۃُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَائِلِ حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذَکَرِہِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ اِذْ یَقُوْلُ : خَطَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ (لَا تُسَافِرِ امْرَأَۃٌ إِلَّا مَعَ مَحْرَمٍ .فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : إِنِّیْ أَرَدْتُ أَنْ أَحُجَّ بِامْرَأَتِی وَقَدْ اکْتَتَبْتُ فِیْ غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا قَالَ اُحْجُجْ بِامْرَأَتِک) فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہَا لَا یَنْبَغِیْ لَہَا أَنْ تَحُجَّ إِلَّا بِہٖ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ " وَمَا حَاجَتُہَا إِلَیْکَ لِأَنَّہَا تَخْرُجُ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَنْتَ فَامْضِ لِوَجْہِک فِیْمَا اکْتَتَبْت " فَفِیْ تَرْکِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْمُرَہُ بِذٰلِکَ وَأَمْرِہٖ أَنْ یَحُجَّ مَعَہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہَا لَا یَصْلُحُ لَہَا الْحَجُّ إِلَّا بِہِ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : قَدْ رَوَیْتُمْ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَا تُسَافِرِ امْرَأَۃٌ مَسِیْرَۃَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ) وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ مِنْ قَوْلِہٖ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ فَذَکَرَ۔
٣٤٣٥: ابن شہاب نے عمرہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ ابو سعید خدری (رض) فتویٰ دیتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورت کے لیے اس وقت تک سفر درست نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ محرم نہ ہو تو اس پر عائشہ (رض) نے فرمایا ہر عورت کا تو محرم نہیں ہوتا۔ ان مستدلین کے خلاف دلیل وہ کثیر روایات ہیں جن کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ حج کا سفر اس سفر میں شامل ہی نہیں جس کی بلا محرم ممانعت کی گئی ہے تو ان کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ حضرت ابن عباس (رض) کی وہ روایت جو اس باب کی ابتداء میں مذکور ہوچکی ہے وہ تمہارے جواب کے لیے کافی ہے کہ اس میں مذکور ہے ‘ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا عورت اپنے محرم ہی کے ساتھ سفر کرے۔ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت میں اپنی بیوی سمیت حج کرنا چاہتا ہوں اور فلاں غزوہ میں میرا نام درج کیا گیا ہے۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ عورت کو اپنے محرم کے بغیر حج درست نہ تھا اگر یہ بات نہ ہوتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو فرما دیتے کہ اسے تو تیری ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حج کرے گی تو اپنے مقررہ غزوہ کی طرف چلے جا۔ آپ کے غزوہ ترک کرانے اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کا حکم دینے میں دلیل یہ ہے کہ اس کو حج اپنی بیوی کے ساتھ ضروری ہے۔ (ممکن ہے پھر محرم میسر نہ ہو) ایک معترض کا کہنا یہ ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کوئی عورت تین دن کی مسافت پر محرم کے علاوہ سفر نہ کرے ۔ مگر ان کا اپنا فتویٰ اس کے مخالف ہے ملاحظہ ذیل ہو۔
u: حضرت عائشہ (رض) کا قول جب متواتر روایات مرفوعہ کے خلاف ہے تو اس کو ترک کردیا جائے گا اور ان روایات کو لیا جائے گا نیز موقعہ قیاس کا نہیں پس نقل کو ترجیح حاصل ہوگی۔
سرسری اشکال :
ان روایات میں جس سفر کی ممانعت کی گئی ہے وہ عام سفر ہیں حج ان میں داخل نہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
u: سفر حج کا اس سے مستثنیٰ کہنا درست نہیں ہم باب کی ابتداء میں روایات ابن عباس (رض) نقل کر آئے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ حج کر ارادہ رکھتا ہوں اور فلاں غزوہ میں ‘ میں نے اپنے آقا سے مکاتبت کرلی ہے تو کیا بدل کتابت کو جمع کرنا زیادہ ضروری ہے یا میں حج پر چلا جاؤں آپ نے فرمایا تم حج پر جاؤ۔
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت کو بلامحرم حج درست نہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو فرماتے کہ تمہاری ضرورت نہیں وہ مسلمانوں کے قافلہ کے ساتھ حج کرے آپ کا اسے اپنی بیوی کے ساتھ حج کا حکم دینا یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اس کا حج محرم کے بغیر نہ ہوگا۔
دوسرا اشکال :
تم نے ابن عمر (رض) کی زبانی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا عورت تین دن رات کا سفر بغیر محرم کے نہ کرے۔ حالانکہ ابن عمر (رض) کا فتویٰ اس کے خلاف منقول ہے۔ وہ ملاحظہ کرلیں۔
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اپنی آزاد کردہ لونڈیوں کے ساتھ سفر کرتے تھے جبکہ ان کے ساتھ ان کا کوئی محرم نہ ہوتا تھا حالانکہ آزاد کردہ لونڈی تو غیر محرم کے حکم میں ہے۔ اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ یہ روایت اس کے مخالفت جو ہم نے ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہم نے مطلق ممانعت نقل نہیں ہے کہ عورت کوئی ساسفر بھی بلا محرم نہ کرے بلکہ ہم نے حضرت ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے عورت کو محرم کے علاوہ تین دن کا سفر کرنے سے منع فرمایا ہے ‘ تو اس میں محرم کے بغیر تین دن کی مسافت پر سفر کرنے کی ممانعت ہے اور اس سے کم مسافت کا سفر درست ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ ان کے ساتھ محرم کے بغیر لونڈیوں کا سفر وہ سفر ہو جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کردہ ممانعت میں داخل نہیں۔ دوسرے علماء نے بلا محرم سفر کے مباح پر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی یہ روایت پیش کی ہے کہ وہ بلا محرم سفر کرتی تھیں روایت ذیل میں ہے۔

نوٹ : یہ روایت اس کے خلاف نہیں چونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں یہ مذکور نہیں کہ ہر تھوڑے زیادہ سفر کے لیے محرم لازم ہے بلکہ ابن عمر (رض) والی روایت میں تین دن رات کی ممانعت ہے اور اس سے کم سفر کے مباح ہونے میں کلام نہیں پس سفر جس کا تذکرہ آپ کی پیش کردہ روایت میں ہے وہ مباح سفر سے ہے پس دونوں میں تضاد نہیں۔

3436

۳۴۳۶ : مَاحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرٍ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ کَانَ یُسَافِرُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الْمَوَالِیَاتُ لَہٗ لَیْسَ مَعَہُنَّ ذُو مَحْرَمٍ قِیْلَ لَہٗ : مَا ھٰذَا بِخِلَافٍ لِمَا رَوَیْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّا لَمْ نَرْوِ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہْیًا أَنْ تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ سَفَرًا أَیَّ سَفَرٍ کَانَ إِلَّا بِمَحْرَمٍ وَلٰـکِنَّا رَوَیْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی أَنْ تُسَافِرَ الْمَرْأَۃُ سَفَرًا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ فَکَانَ ذٰلِکَ نَاہِیًا لَہَا عَنِ السَّفَرِ الَّذِیْ مِقْدَارُ مَسَافَتِہِ الثَّلَاثُ إِلَّا بِمَحْرَمٍ وَمُبِیْحًا لَمَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہُ مَسَافَۃً بِغَیْرِ مَحْرَمٍ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ السَّفَرُ الَّذِیْ کَانَ یُسَافِرُہُ مَعَہٗ ہَٰؤُلَائِ الْمَوَالِیَاتُ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ ہُوَ السَّفَرُ الَّذِیْ لَمْ یَدْخُلْ فِیْمَا نَہٰی عَنْہُ مَا رَوَیْنَا عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحْتَجَّ آخَرُوْنَ فِیْ اِبَاحَۃِ السَّفَرِ لِلْمَرْأَۃِ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ بِمَا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تُسَافِرُ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ۔
٣٤٣٦: نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اپنی آزاد کردہ لونڈیوں کے ساتھ سفر کرتے تھے جبکہ ان کے ساتھ ان کا کوئی محرم نہ ہوتا تھا حالانکہ آزاد کردہ لونڈی تو غیر محرم کے حکم میں ہے۔ اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ یہ روایت اس کے مخالفت جو ہم نے ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہم نے مطلق ممانعت نقل نہیں ہے کہ عورت کوئی ساسفر بھی بلا محرم نہ کرے بلکہ ہم نے حضرت ابن عمر (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے عورت کو محرم کے علاوہ تین دن کا سفر کرنے سے منع فرمایا ہے ‘ تو اس میں محرم کے بغیر تین دن کی مسافت پر سفر کرنے کی ممانعت ہے اور اس سے کم مسافت کا سفر درست ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ ان کے ساتھ محرم کے بغیر لونڈیوں کا سفر وہ سفر ہو جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کردہ ممانعت میں داخل نہیں۔ دوسرے علماء نے بلا محرم سفر کے مباح پر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی یہ روایت پیش کی ہے کہ وہ بلا محرم سفر کرتی تھیں روایت ذیل میں ہے۔

3437

۳۴۳۷ : فَحَدَّثَنِیْ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُقَاتِلٍ الرَّازِیِّ لَا أَعْلَمُہُ إِلَّا عَنْ حَکَّامٍ الرَّازِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ (ہَلْ تُسَافِرُ الْمَرْأَۃُ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ ؟) فَقَالَ : لَا نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُسَافِرَ امْرَأَۃٌ مَسِیْرَۃَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَہَا زَوْجُہَا أَوْ أَبُوہَا أَوْ ذُو رَحِمٍ مِنْہَا قَالَ حُکَّامٌ : فَسَأَلْتُ الْعَرْزَمِیَّ فَقَالَ : لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ .
٣٤٣٧: یہ روایت حکام الرازی نے محمد بن مقاتل رازی سے نقل کی ہے کہ میں نے ابوحنیفہ (رح) سے پوچھا کہ کیا عورت بغیر محرم کے سفر کرسکتی ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا نہیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین دن رات کا سفر عورت اپنے خاوند یا والد یا ذی رحم محرم کے ساتھ کرے حکام کہتے ہیں میں نے عرزمی سے سوال کیا تو اس نے کہا اس میں کچھ حرج نہیں۔ اور یہ روایت نقل کردی۔

3438

۳۴۳۸ : حَدَّثَنِیْ عَطَاء ٌ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَانَتْ تُسَافِرُ بِلَا مَحْرَمٍ قَالَ : فَأَتَیْتُ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَأَخْبَرْتُہٗ بِذٰلِکَ فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ لَمْ یَدْرِ الْعَرْزَمِیُّ مَا رَوَیْ کَانَ النَّاسُ لِعَائِشَۃَ مَحْرَمًا فَمَعَ أَیِّہِمْ سَافَرَتْ فَقَدْ سَافَرَتْ مَعَ مَحْرَمٍ وَلَیْسَ النَّاسُ لِغَیْرِہَا مِنَ النِّسَائِ کَذٰلِکَ وَکُلُّ الَّذِیْ أَثْبَتْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ مَنْعِ الْمَرْأَۃِ مِنَ السَّفَرِ مَسِیْرَۃَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ إِلَّا مَعَ مَحْرَمٍ وَمِنْ اِبَاحَۃِ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لَہَا مِنَ السَّفَرِ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ وَمِنْ أَنَّ الْمَرْأَۃَ لَا یَجِبُ عَلَیْہَا فَرْضُ الْحَجِّ إِلَّا بِوُجُوْدِہَا الْمَحْرَمَ مَعَ وُجُوْدِ سَائِرِ السَّبِیْلِ الَّذِیْ یَجِبُ بِوُجُوْدِہَا فَرْضُ الْحَجِّ .قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٤٣٨: عطاء نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ بغیر محرم کے سفر کرتی تھیں راوی کہتا ہے میں ابوحنیفہ (رح) کے پاس آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی تو ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا عرزمی کو اس روایت کا مفہوم سمجھ نہ آیا حضرت عائشہ (رض) تو سب کی ماں تھیں اور تمام لوگ ان کے محرم تھے تو ان میں سے جس کے ساتھ انھوں نے سفر کیا تو محرم کے ساتھ کیا دوسری عورتوں کا حکم ان جیسا نہیں۔ پس ان کے فعل سے استدلال باطل ہے۔ اس باب میں ہم نے جو کچھ ثابت کیا کہ عورت تین دن کا سفر بلا محرم نہیں کرسکتی اور اس سے کم سفر بلا محرم بھی درست ہے۔ اسی طرح عورت پر حج کی فرضیت کی شرط محرم کا وجود ہے اور یہ استطاعت سبیل میں شامل ہے جس کی وجہ سے اس پر حج فرض ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں تین دن یا اس سے زیادہ بلامحرم سفر کی ممانعت اور اس سے کم سفر کا بلامحرم جواز اور اگر حج کا سفر زیادہ ہو تو اس عورت پر حج لازم نہیں یہ سب ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ ٧ شوال ١٤٢٨ ھ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔