HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

10. قسموں اور نذروں کا بیان

الطحاوي

4634

۴۶۳۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ وَقَعْتُ بِأَہْلِیْ فِیْ رَمَضَانَ قَالَ لَہٗ أَعْتِقْ رَقَبَۃً قَالَ : مَا أَجِدُہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ قَالَ : مَا أَسْتَطِیْعُ ، قَالَ فَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا قَالَ : مَا أَجِدُہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ : فَأَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِکْتَلٍ فِیْہِ قَدْرُ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا تَمْرًا ، فَقَالَ خُذْہَا فَتَصَدَّقْ بِہٖ قَالَ : أَعَلٰی أَحْوَجَ مِنِّیْ وَأَہْلِ بَیْتِیْ؟ قَالَ فَکُلْہُ أَنْتَ وَأَہْلُ بَیْتِکَ، وَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہٗ، وَاسْتَغْفِرْ اللّٰہَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْاِطْعَامَ فِیْ کَفَّارَاتِ الْأَیْمَانِ اِنَّمَا ہُوَ مُدٌّ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الرَّجُلَ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، أَنْ یُطْعِمَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ، خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا ، فَاَلَّذِیْ یُصِیْبُ کُلَّ مِسْکِیْنٍ مِنْہُمْ ، مُدٌّ مُدٌّ قَالُوْا : وَقَدْ ذَہَبَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ کَفَّارَاتِ الْأَیْمَانِ اِلَی مَا قُلْنَا .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٤٦٣٤: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی عرض کرنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے رمضان (کے دن) میں اپنی بیوی سے جماع کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک گردن آزاد کر دو ۔ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس نہیں ہے آپ نے فرمایا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ اس نے کہا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دو ۔ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ صاع کے برابر کھجوریں تھیں پس آپ نے فرمایا اس کو لے کر صدقہ کر دو ۔ اس نے کہا کیا اپنے اور اپنے گھر والوں سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا پھر تم اور تمہارے گھر والے ان کو کھالیں اور اس کی بجائے ایک دن کا روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ کفارہ قسم میں ہر مسکین کے لیے ایک مد کھانا ہے کیونکہ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو حکم فرمایا کہ ساٹھ مساکین کو پندرہ صاع کھانا دے تو اس حساب سے ہر مسکین کو ایک ایک مد ملے گا اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کفارہ قسم میں اسی بات کو اختیار کرنے والی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الصیام باب ٣٠‘ والہبۃ باب ١١‘ والنفقات باب ١٣‘ والکفارات باب ٢‘ ٤‘ مسلم فی الصوم ٨١‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٣٧‘ ترمذی فی الصوم باب ٢٨‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ١٤‘ مسند احمد ٢؍٢٤١۔
امام طحاوی (رح) کا قول : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ کفارہ قسم میں ہر مسکین کے لیے ایک مد کھانا ہے کیونکہ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو حکم فرمایا کہ ساٹھ مساکین کو پندرہ صاع کھانا دے تو اس حساب سے ہر مسکین کو ایک ایک مد ملے گا اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کفارہ قسم میں اسی بات کو اختیار کرنے والی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔
لغات : کفارات جمع کفارہ۔ یہ گناہ گار کے گناہ کو ڈھانپ لیتا ہے اس لیے اس کو کفارہ کہتے ہیں اس کے متعلق علماء کے مندرجہ ذیل مؤقف ہیں۔
فریق اوّل : ہر مسکین کو ایک مد غلہ وغیرہ دیا جائے گا اس کی دلیل یہ روایت ہے جو آئندہ سطور میں مذکور ہے۔

4635

۴۶۳۵: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، أَنَّ أَبَا حَازِمٍ حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : فِیْ کَفَّارَاتِ الْأَیْمَانِ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ ، کُلُّ مِسْکِیْنٍ مُدٌّ بَیْضَائُ
٤٦٣٥: ابو جعفر مولیٰ ابن عباس (رض) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کفارات قسم میں دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ ہر مسکین کو ایک مد بیضاء دیا جائے گا۔
لغات : مد بیضاء۔ بڑے مد کا نام ہے۔

4636

۴۶۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، مِثْلَہٗ۔
٤٦٣٦: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4637

۴۶۳۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ کَانَ اِذَا کَفَّرَ یَمِیْنَہٗ فَأَطْعَمَ عَشْرَۃَ مَسَاکِیْنَ بِالْمُدِّ الْأَصْغَرِ .رَأَی أَنَّ ذٰلِکَ یُجْزِیْ عِنْدَہُ
٤٦٣٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جب وہ اپنی قسم کا کفارہ دیتے تو دس مساکین کو مد اصغر سے کھانا کھلاتے اور ان کا خیال یہ تھا کہ یہ ان کے ہاں کفایت کرنے والا ہے۔
لغات : مد اصغر۔ چھوٹا مد۔

4638

۴۶۳۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ مَنْ حَلَفَ بِیَمِیْنٍ فَوَکَّدَہَا ثُمَّ حَنِثَ فَعَلَیْہِ عِتْقُ رَقَبَۃٍ ، أَوْ کِسْوَۃُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِیْنٍ فَلَمْ یُوَکِّدْہَا ، ثُمَّ حَنِثَ ، فَعَلَیْہِ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ ، لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ مُدٌّ مِنْ حِنْطَۃٍ
٤٦٣٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ وہ کہا کرتے تھے جس نے قسم اٹھائی پھر اس کو موکد کیا پھر قسم توڑ دی تو اس پر ایک گردن کا آزاد کرنا لازم ہے یا دس مساکین کے کپڑے۔ جس نے قسم اٹھائی مگر اس کو موکد نہ کیا پھر اس کو توڑا تو اس کے ذمہ دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ ہر مسکین کو ایک مد گندم کا ادا کرے۔
تخریج : مالک فی النذور ١٢‘ ١٣۔

4639

۴۶۳۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ یَحْیَیْ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہٗ قَالَ یُجْزِی فِیْ کَفَّارَۃِ الْیَمِیْنِ مُدٌّ مِنْ حِنْطَۃٍ ، لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ .
٤٦٣٩: ابو سلمہ نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ کفارہ قسم میں ہر مسکین کے لیے گندم کا ایک مد کفایت کرنے والا ہے۔

4640

۴۶۴۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الْخَلِیْلُ بْنُ مُرَّۃَ ، أَنَّ یَحْیَی بْنَ أَبِیْ کَثِیْرٍ حَدَّثَہٗ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یُجْزِی فِی الْاِطْعَامِ فِیْ کَفَّارَۃِ الْأَیْمَانِ اِلَّا مُدَّیْنِ مُدَّیْنِ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ ، وَیُجْزِی مِنَ التَّمْرِ صَاعٌ کَامِلٌ ، وَکَذَا مِنِ الشَّعِیْرِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا عَلِمَ حَاجَۃَ الرَّجُلِ ، أَعْطَاہُ مَا أَعْطَاہُ مِنَ التَّمْرِ ، لِیَسْتَعِیْنَ بِہٖ فِیْمَا وَجَبَ عَلَیْہِ، لَا عَلٰی أَنَّہٗ جَمِیْعُ مَا وَجَبَ عَلَیْہِ، کَالرَّجُلِ یَشْکُو اِلَی الرَّجُلِ ضَعْفَ حَالِہٖ ، وَمَا عَلَیْہِ مِنْ الدَّیْنِ ، فَیَقُوْلُ لَہٗ : خُذْ ہٰذِہِ الْعَشَرَۃَ الدَّرَاہِمَ فَاقْضِ بِہَا دَیْنَکَ، لَیْسَ عَلٰی أَنَّہَا تَکُوْنُ قَضَائً عَنْ جَمِیْعِ دَیْنِہٖ، وَلٰـکِنْ عَلٰی أَنْ یَکُوْنَ قَضَائً بِمِقْدَارِہَا مِنْ دَیْنِہٖ۔ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِقْدَارُ مَا یَجِبُ مِنِ الطَّعَامِ فِیْ کَفَّارَۃٍ مِنَ الْکَفَّارَاتِ ، وَہِیَ مَا یَجِبُ فِیْ حَلْقِ الرَّأْسِ فِی الْاِحْرَامِ مِنْ أَذًی ، فَجَعَلَ ذٰلِکَ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ
٤٦٤٠: خلیل بن مرہ نے یحییٰ بن کثیر سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے اسی طرح بیان کی ہے۔ دیگر حضرات نے اس میں ان کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کفارہ قسم میں ہر مسکین کو دو مد (گندم) دے اور کھجور اور جو سے مکمل صاع دیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آدمی کی محتاجی کا علم ہوا تو آپ نے جتنی کھجوریں تھیں اس کو دے دیں تاکہ ان سے اپنے ذمہ جو چیز لازم ہوئی اس کو ادا کرے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے ذمہ یہی واجب تھا جیسا کوئی آدمی کسی کو اپنی تنگدستی بتلائے اور قرض بیان کرے تو وہ یہی کہتا ہے یہ دس درہم تو لو اور اس سے اپنا قرض ادا کرو۔ یہ اس طور پر نہیں کہ اس کے سارے قرضہ کی ادائیگی کے لیے یہی کافی ہے بلکہ اس کے قرض میں سے ایک مقدار کی ادائیگی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفارات میں جس قدر طعام لازم ہوتا ہے اس کی مقدار سے متعلق روایات وارد ہیں وہ حالت احرام میں تکلیف کی وجہ سے جو آدمی اپنے بال منڈوائے تو اس میں ہر مسکین کے لیے گندم کے دو مد مقرر کئے گئے ہیں۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
فریق ثانی کا مؤقف : کفارہ قسم میں ہر مسکین کو دو مد (گندم) کھلائے اور کھجور اور جو سے مکمل صاع دیا جائے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : عین ممکن ہے کہ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آدمی کی محتاجی کا علم ہوا تو آپ نے جتنی کھجوریں تھیں اس کو دے دیں تاکہ ان سے اپنے ذمہ جو چیا لازم ہوئی اس کو ادا کرے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے ذمہ یہی واجب تھا جیسا کوئی آدمی کسی کو اپنی تنگدستی بتلائے اور قرض بیان کرے تو وہ یہی کہتا ہے یہ دس درہم تو لو اور اس سے اپنا قرض ادا کرو۔ یہ اس طور پر نہیں کہ اس کے سارے قرضہ کی ادائیگی کے لیے یہی کافی ہے بلکہ اس کے قرض میں سے ایک مقدار کی ادائیگی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفارات میں جس قدر طعام لازم ہوتا ہے اس کی مقدار سے متعلق روایات وارد ہیں وہ حالت احرام میں تکلیف کی وجہ سے جو آدمی اپنے بال منڈوائے تو اس میں ہر مسکین کے لیے گندم کے دو مد مقرر کئے گئے ہیں۔
روایات ملاحظہ ہوں۔

4641

۴۶۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُغَفَّلٍ ، قَالَ : قَعَدْتُ اِلَیْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ فِی الْمَسْجِدِ فَسَأَلْتُہٗ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ فَفِدْیَۃٌ مِنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ فَقَالَ : فِیْ أُنْزِلَتْ ، حُمِلْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالْقَمْلُ یَتَنَاثَرُ عَلَی وَجْہِی ، فَقَالَ مَا کُنْتُ أَرَی أَنَّ الْجَہْدَ بَلَغَ بِک ہَذَا وَبَلَغَ بِکَ مَا أَرَی فَنَزَلَتْ فِیْ خَاصَّۃً وَلَکُمْ عَامَّۃً ، فَأَمَرَنِیْ أَنْ أَحْلِقَ رَأْسِی ، وَأَنْسُکُ نُسُکَہٗ، وَأَصُوْمُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ، أَوْ أُطْعِمُ سِتَّۃَ مَسَاکِیْنَ ، لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ حِنْطَۃٍ
٤٦٤١: عبدالرحمن بن الاصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے میں کعب بن عجرہ (رض) کے ساتھ مسجد میں بیٹھا تھا تو میں نے ان سے اس آیت کے متعلق سوال کیا ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک “ (البقرہ ١٩٦) وہ کہنے لگے میرے بارے میں اتری۔ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سوار کر کے لے جایا گیا میرا حال یہ تھا کہ جوئیں میرے چہرے پر بکھری جا رہی تھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میرا گمان نہ تھا کہ تکلیف تمہیں اس حالت تک پہنچائے گی اور اس حالت تک پہنچائے گی جو میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ آیت خاص میرے بارے میں اتری اور اس کا حکم تمہارے لیے عام ہے پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سر منڈوا دوں اور ایک دم بطور قربانی دوں اور تین دن کے روزے رکھوں یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دوں ہر مسکین کو نصف صاع گندم دوں۔
تخریج : بخاری فی المحہر باب ٧‘ والمغازی باب ٣٥‘ تفسیر سورة ٢‘ باب ٢٢‘ والطب باب ١٦‘ مسلم فی الحج ٨٠؍٨٥‘ ترمذی فی تفسیر سورة ٢‘ باب ٢١‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٨٦‘ مسند احمد ٤؍٢٤٢۔

4642

۴۶۴۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنِ ابْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ وَأَطْعِمْ فَرَقًا ، فِیْ سِتَّۃِ مَسَاکِیْنَ
٤٦٤٢: عبداللہ بن مغفل نے کعب بن عجرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ مختلف ہیں۔ اطعم فرقا فی ستۃ مساکین

4643

۴۶۴۳: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ کَعْبُ بْنُ عُجْرَۃَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ کُلَّ مِسْکِیْنٍ ، نِصْفَ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ
٤٦٤٣: عامر شعبی نے کعب بن عجرہ سے اسی طرح کی روایت کی ہے صرف یہ الفاظ مختلف ہیں۔ کل مسکین ‘ نصف صاع من تمر “

4644

۴۶۴۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ کَعْبٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرْ التَّمْرَ .
٤٦٤٤: ابو لیلیٰ نے کعب سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور کھجور کا تذکرہ نہیں کیا۔

4645

۴۶۴۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ شُرَیْحٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَکَرِیَّا ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ .ح
٤٦٤٥: فریابی نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے۔

4646

۴۶۴۶: وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ ، قَالَا جَمِیْعًا عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦٤٦: ابو ایوب نے مجاہد سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4647

۴۶۴۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦٤٧: عبدالکریم جزری نے مجاہد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4648

۴۶۴۸: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦٤٨: ابو بشر نے مجاہد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4649

۴۶۴۹: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : أَنَا مَالِکٌ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦٤٩: حمید بن قیس نے مجاہد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4650

۴۶۵۰: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُفْیَانَ الْجَحْدَرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦٥٠: ابن عون نے مجاہد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4651

۴۶۵۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٤٦٥١: یحییٰ بن جعدہ نے کعب بن عجرہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4652

۴۶۵۲: یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّہٗ لَیْسَ عِنْدِی مَا أَنْسُکُ بِہٖ .
٤٦٥٢: محمد بن کعب قرظی نے کعب بن عجرہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور اس میں یہ بھی اضافہ ہے وقد علم انہ لیس عندی ما انسک بہ اور یہ جان لیا کہ میرے پاس وہ مال موجود نہیں جس سے میں قربانی کروں۔

4653

۴۶۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ بْنِ مَالِکٍ الْجَزَرِیِّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ الزِّیَادَۃَ ، الَّتِیْ فِیْہِ، عَلٰی مَا فِی الْأَحَادِیْثِ الَّتِی قَبْلَہٗ۔فَکَانَ الَّذِی أَمَرَہٗ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْاِطْعَامِ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ - مَعَ تَوَاتُرِہَا - ہُوَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ حِنْطَۃٍ ، لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ ، وَأَجْمَعُوْا عَلَی الْعَمَلِ بِذٰلِکَ ، فِیْ کَفَّارَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ .وَجَائَ عَنْہُ فِیْ اِطْعَامِ الْمَسَاکِیْنِ فِی الظِّہَارِ مِنَ التَّمْرِ ،
٤٦٥٣: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے کعب بن عجرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا جو گزشتہ احادیث میں پایا جاتا ہے۔ ان آثار میں جس اطعام کا حکم دیا گیا ہے وہ ہر مسکین کے لیے نصف صاع گندم ہے اور اس کے عمل پر اجماع ہے اس آدمی کے متعلق جو سر منڈوائے جبکہ احرام کی حالت میں ہو اور ظہار کے کفارہ میں کھجور کا تذکرہ ہے جیسا کہ روایت عبادہ بن صامت (رض) ۔
حاصل روایت : ان آثار میں جس اطعام کا حکم دیا گیا ہے وہ ہر مسکین کے لیے نصف صاع گندم ہے اور اس کے عمل پر اجماع ہے اس آدمی کے متعلق جو سر منڈوائے جبکہ احرام کی حالت میں ہو اور ظہار کے کفارہ میں کھجور کا تذکرہ ہے جیسا کہ روایت عبادہ بن صامت (رض) ہے۔

4654

۴۶۵۴: مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا فَرْوَۃُ ، عَنْ أَبِی الْمُغِیْرَۃِ ، قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَّامٍ ، حَدَّثَتْنِیْ خَوْلَۃُ ابْنَۃُ مَالِکِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ بْنِ أَخِیْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعَانَ زَوْجَہَا حِیْنَ ظَاہَرَ مِنْہَا بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ ، وَأَعَانَتْہُ ہِیَ بِعَرَقٍ آخَرَ ، وَذٰلِکَ سِتُّوْنَ صَاعًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقْ بِہٖ وَقَالَ اتَّقِی اللّٰہَ وَارْجِعِیْ اِلَی زَوْجِک .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ اِطْعَامُ کُلِّ مِسْکِیْنٍ فِیْ کُلِّ الْکَفَّارَاتِ ، مِنَ الْحِنْطَۃِ نِصْفُ صَاعٍ ، وَمِنَ التَّمْرِ صَاعٌ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٦٥٤: خولہ بنت مالک بن ثعلبہ جو کہ عبادہ بن صامت کی بھتیجی ہیں وہ روایت کرتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے خاوند کی اس وقت ایک فرق کھجور سے اعانت فرمائی جبکہ اس نے مجھ سے ظہار کیا اور ایک فرق سے میری اعانت فرمائی اور یہ ساٹھ صاع ہوگئے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو صدقہ کر دو اور فرمایا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے خاوند کی طرف لوٹ آؤ۔
تقاضاء نظر : تمام کفارات میں اطعام مسکین گندم کا نصف صاع اور کھجور کا ایک صاع ہونا قیاس و نظر کا تقاضا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) کی ایک جماعت سے یہ ثابت ہے۔

4655

۴۶۵۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیْقِ بْنِ سَلْمَۃَ ، عَنْ یَسَارِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ لِیْ عُمَرُ اِنِّیْ أَحْلِفُ أَنْ لَا أُعْطِیَ أَقْوَامًا ، ثُمَّ یَبْدُو لِی أَنْ أُعْطِیَہُمْ ، فَاِذَا رَأَیْتنِیْ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ، فَأَطْعِمْ عَنِّیْ عَشَرَۃَ مَسَاکِیْنَ ، کُلَّ مِسْکِیْنٍ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ
٤٦٥٥: یسار بن نمیر کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں بعض اوقات بعض لوگوں کے متعلق نہ دینے کا حلف اٹھالیتا ہوں پھر مجھے دینا بہتر معلوم ہوتا ہے تو ایسا معلوم ہونے پر ان کو میں دے دیتا ہوں۔ کفارہ قسم میں دس مساکین کو کھانا کھلا دیتا ہوں۔ ہر مسکین کو ایک صاع کھجور دیتا ہوں۔

4656

۴۶۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سُلَیْمٍ ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ ، عَنْ یَسَارِ بْنِ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُمَرَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ عَشَرَۃَ مَسَاکِیْنَ ، لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ نِصْفُ صَاعِ حِنْطَۃٍ أَوْ صَاعُ تَمْرٍ
٤٦٥٦: یسار بن نمیر حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کرتے ہیں۔ البتہ اس روایت میں یہ ہے عشرہ مساکین لکل مسکین نصف صاع گندم یا نصف صاع کھجور۔

4657

۴۶۵۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، عَنْ یَسَارٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ
٤٦٥٧: ابو وائل نے یسار سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے اور یہ اضافہ ہے اوصاعًا من تمر او صاعًا من شعیر کھجور یا جو کا ایک صاع۔

4658

۴۶۵۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ ، عَنْ یَسَارٍ ، مِثْلَہٗ۔
٤٦٥٨: ابو وائل نے یسار بن نمیر پھر انھوں نے اسی کی مثل روایت نقل کی۔

4659

۴۶۵۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ہِلَالُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ ، عَنْ یَسَارٍ ، مِثْلَہٗ۔
٤٦٥٩: ابو وائل نے یسار بن نمیر سے اسی کی مثل روایت کی ہے۔

4660

۴۶۶۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ الْوَلِیْدِ ، وَعَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلْمَۃَ ، عَنْ عَلِیْ فِیْ کَفَّارَاتِ الْأَیْمَانِ ، فَذَکَرَ نَحْوًا مِمَّا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ
٤٦٦٠: عبداللہ بن سلمہ نے علی (رض) سے کفارات قسم کے سلسلہ میں روایت بیان کی پھر انھوں نے اسی طرح ذکر کیا جیسا عمر (رض) سے مروی ہے۔

4661

۴۶۶۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِیْ کَفَّارَۃِ الْیَمِیْنِ ، قَالَ : نِصْفُ صَاعٍ مِنْ حِنْطَۃٍ .وَہٰذَا خِلَافُ مَا رَوَیْنَا ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ہَذَا .فَہٰذَا عُمَرُ ، وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَدْ جَعَلَا الْاِطْعَامَ فِیْ کَفَّارَاتِ الْأَیْمَانِ مِنَ الْحِنْطَۃِ مُدَّیْنِ مُدَّیْنِ ، لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ ، وَمِنِ الشَّعِیْرِ وَالتَّمْرِ ، صَاعًا صَاعًا ، فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ .وَکَذٰلِکَ کُلُّ اِطْعَامٍ فِیْ کَفَّارَۃٍ أَوْ غَیْرِہَا ، ہَذَا مِقْدَارُہٗ، عَلٰی مَا أُجْمِعَ مِنْ کَفَّارَۃِ الْأَدْنَی .وَقَدْ شَدَّ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ بَیَّنَّاہُ فِیْ کِتَابِ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ ، مِنْ مِقْدَارِہَا ، وَمَا ذَکَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .
٤٦٦١: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے قسم کے کفارہ کے سلسلہ میں ذکر کیا کہ نصف صاع گندم ہے۔ یہ روایت اس کے خلاف ہے جو ہم ابتداء باب میں ابن عباس (رض) سے نقل کر آئے یہ حضرت عمر (رض) اور علی (رض) ہیں کہ انھوں نے قسم کے کفارات میں گندم دو دو مد ہر مسکین کے لیے ذکر کی اور جو اور کھجور ایک ایک صاع بتلایا ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ ہر اطعام جو کفارہ یا غیر کفارہ میں ہو وہ اسی مقدار سے ہوگا اور کم از کم مقدار فدیہ جس پر اجماع ہے وہ یہی ہے پہلے باب صدقۃ الفطر میں ہم نے اس کو دلائل سے خوب پختہ کردیا اور وہاں ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے بھی اس کو ثابت کردیا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایت : یہ روایت اس کے خلاف ہے جو ہم ابتداء باب میں ابن عباس (رض) سے نقل کر آئے یہ حضرت عمر (رض) اور علی (رض) ہیں کہ انھوں نے قسم کے کفارات میں گندم دو دو مد ہر مسکین کے لیے ذکر کی اور جو اور کھجور ایک ایک صاع بتلایا ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ ہر اطعام جو کفارہ یا غیر کفارہ میں ہو وہ اسی مقدار سے ہوگا اور کم از کم مقدار فدیہ جس پر اجماع ہے وہ یہی ہے پہلے باب صدقۃ الفطر میں ہم نے اس کو دلائل سے خوب پختہ کردیا اور وہاں ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے بھی اس کو ثابت کردیا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

4662

۴۶۶۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّہْرُ ہٰکَذَا ، وَہٰکَذَا ، وَہٰکَذَا وَنَقَصَ فِی الثَّالِثَۃِ أُصْبُعًا .
٤٦٦٢: محمد بن سعد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہینہ اتنا ‘ اتنا اور اتنا ہے اور تیسری بار ایک انگلی کم کردی۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١١‘ ١٣‘ والطلاق باب ٢٥‘ مسلم فی الصیام ٤؍١٠‘ ١٢؍١٣‘ ١٥؍١٦‘ ٢٣؍٢٦‘ ٢٦؍٢٧‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٤‘ نسائی فی الصیام باب ١٦؍١٧‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٨‘ مسند احمد ١؍١٨٤‘ ٢‘ ٢٨؍٤٣‘ ٥٢‘ ٨١‘ ١٢٢‘ ١٢٩‘ ٣‘ ٣٢٩؍٣٣٤‘ ٥‘ ٤٢۔

4663

۴۶۶۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِیْ یَعْقُوْبَ قَالَ : تَذَاکَرْنَا عِنْدَ أَبِی الضُّحَی الشَّہْرَ .فَقَالَ بَعْضُنَا : تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ ، وَقَالَ بَعْضُنَا : ثَلَاثُوْنَ .قَالَ أَبُو الضُّحَی : حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ : أَصْبَحْنَا یَوْمًا وَنِسَائُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْکِیْنَ ، عِنْدَ کُلِّ امْرَأَۃٍ مِنْہُنَّ أَہْلُہَا .فَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَصَعِدَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِیْ غُرْفَۃٍ لَہٗ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ ، فَلَمَّا رَأَیْ ذٰلِکَ ، انْصَرَفَ .فَدَعَاہُ بِلَالٌ ، فَدَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَطَلَّقْت نِسَائَ ک ؟ قَالَ : لَا ، وَلٰـکِنْ آلَیْتُ مِنْہُنَّ شَہْرًا فَمَکَثَ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ لَیْلَۃً ، ثُمَّ نَزَلَ ، فَدَخَلَ عَلَی نِسَائِہِ .
٤٦٦٣: ہشام بن اسماعیل دمشقی کہتے ہیں کہ ہمیں مروان بن معاویہ نے ابو یعقوب سے بیان کیا کہ ہم نے ابوالضحیٰ کے پاس مہینے کے متعلق مذاکرہ کیا ہم میں سے بعض نے کہا انتیس یوم بعض نے تیس دن بتلائے۔ ابوالضحیٰ کہنے لگے ہمیں ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ایک صبح کو ہم نے دیکھا کہ ازواج مطہرات رو رہیں تھیں اور ہر زوجہ محترمہ کے عزیزواقارب اس کے پاس تھے۔ اتنے میں عمر (رض) آگئے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اوپر کے کمرے میں حاضر ہوئے انھوں نے آپ کو سلام کیا مگر ان کو کسی نے جواب نہ دیا انھوں نے پھر سلام کیا مگر ان کو کسی نے جواب نہ دیا۔ جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ واپس لوٹے۔ تو اسی وقت ان کو بلال (رض) نے بلا لیا۔ پس عمر (رض) خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پہنچے۔ تو عمر (رض) نے سوال کیا کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ لیکن میں نے ایک ماہ کے لیے ان کے گھر نہ جانے کی قسم اٹھالی ہے چنانچہ آپ نے انتیس راتیں اپنے بالا خانے میں قیام فرمایا اور پھر ازواج کے ہاں تشریف لائے۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٢٧‘ المظالم باب ٦٥‘ النکاح باب ٨٣‘ مسلم فی الطلاق ٣٤۔

4664

۴۶۶۴: حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : ثَنَا آدَم ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا جَبَلَۃُ بْنُ سُحَیْمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّہْرُ ہٰکَذَا ، وَہٰکَذَا ، وَہٰکَذَا وَضَمَّ اِبْہَامَہُ فِی الثَّالِثَۃِ
٤٦٦٤: جبلہ بن سحیم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہنے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ اپنا انگوٹھا ساتھ ملایا۔
تخریج : ٤٦٦٢ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4665

۴۶۶۵: حَدَّثَنَا بَکْرٌ ، قَالَ : ثَنَا آدَم ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ عَمْرٍوْ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ، یَذْکُرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٦٥: سعید بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) کو کہتے سنا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح ذکر فرما رہے تھے۔

4666

۴۶۶۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ ، فَاِذَا رَأَیْتُمُوْھُ ، فَصُوْمُوْا ، وَاِذَا رَأَیْتُمُوْھُ فَأَفْطِرُوْا فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہٗ۔وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذَا أَیْضًا آثَارًا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہَذَا .
٤٦٦٦: نافع نے ابن عمر (رض) روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے پس جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم چاند دیکھ لو تو افطار کرو پھر اگر چاند چھپ جائے تو اندازہ کرو یعنی تیس پورے کرو۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ٥؍١١‘ مسلم فی الصیام ٦؍٩‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٨‘ ٤‘ ٧‘ ترمذی فی الصوم باب ٢‘ نسائی فی الصیام باب ٩؍١٣‘ ١٧‘ ابن ماجہ فی الصیام باب ٧‘ دارمی فی الصوم باب ٢؍٥‘ موطا فی الصیام ١‘ ٢‘ ٣‘ مسند احمد ٢؍٥‘ ١٣‘ ٦٣‘ ٢٥٩؍٢٦٣‘ ٤٣٩؍٤٣٨‘ ٤٥٤؍٤٦٩‘ ٣؍٢٢٩‘ ٤؍٢٣‘ ٣٢١‘ ٥؍٤٢؍٦؍١٤٩۔
تنبیہہ : ہم نے اس سلسلہ کے آثار پہلے بھی اپنی اسی کتاب میں درج کئے ہیں۔

4667

۴۶۶۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْحَکَمِ السُّلَمِیَّ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آلَی مِنْ نِسَائِہِ شَہْرًا ، فَأَتَاہُ جِبْرِیْلُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ ، الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ .
٤٦٦٧: ابوالحکم سلمی نے ابن عباس (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات سے ایک ماہ کا ایلاء کیا پھر آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مہینہ انتیس دنوں کا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١١‘ الصلاۃ باب ١٨‘ النکاح باب ٩١‘ ٩٢‘ الطلاق باب ٢١‘ والایمان باب ٢٠‘ والمظالم باب ٢٥‘ ترمذی فی الطلاق باب ٢١‘ نسائی فی الطلاق باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الطلاق باب ٢٤؍٢٨‘ مسند احمد ٣؍٢٠٠۔

4668

۴۶۶۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلَّامٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ .
٤٦٦٨: ابو سلمہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے (یعنی کبھی)
تخریج : ٤٦٦٥ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4669

۴۶۶۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ صَیْفِیْ أَنَّ عِکْرَمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَخْبَرَہٗ أَنَّ أُمَّ سَلْمَۃَ أَخْبَرَتْہٗ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَفَ أَنْ لَا یَدْخُلَ عَلَی بَعْضِ أَہْلِہِ شَہْرًا ، فَلَمَّا مَضَی تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ یَوْمًا غَدَا عَلَیْہِمْ ، أَوْ رَاحَ .فَقِیْلَ لَہٗ : حَلَفْتُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَیْہِنَّ شَہْرًا ، فَقَالَ اِنَّ الشَّہْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ یَوْمًا .
٤٦٦٩: عکرمہ بن عبدالرحمن نے بتلایا کہ حضرت امّ سلمہ (رض) نے مجھے خبر دی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم اٹھائی کہ اپنی بعض ازواج کے ہاں ایک ماہ داخل نہ ہوں گے جب انتیس دن گزر گئے تو آپ ان زوجہ محترمہ (رض) کے ہاں صبح یا شام کو تشریف لائے آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے تو ایک ماہ اپنی ازواج کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١١‘ النکاح باب ٩٢‘ مسلم فی الصوم ٢٥‘ مسند احمد ٦؍١٠٥‘ ٣١٥۔

4670

۴۶۷۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ اِسْحَاقَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : ہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِسَائَ ہُ شَہْرًا ، وَکَانَ یَکُوْنُ فِی الْعُلُوِّ ، وَیَکُنَّ فِی السُّفْلِ ، فَنَزَلَ اِلَیْہِنَّ فِیْ تِسْعٍ وَعِشْرِیْنَ .فَقَالَ رَجُلٌ : اِنَّکَ مَکَثْتُ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ لَیْلَۃً ، فَقَالَ اِنَّ الشَّہْرَ ہٰکَذَا ، وَہٰکَذَا ، بِأَصَابِعِ یَدَیْہِ، وَہٰکَذَا وَقَبَضَ فِی الثَّالِثَۃِ اِبْہَامَہُ
٤٦٧٠: ابوالزبیر نے جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کو ایک ماہ کیلئے چھوڑ دیا اور آپ بالا خانے میں رہتے تھے اور ازواج مطہرات نچلے حجرات میں رہائش پذیر تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتیس دنوں بعد اتر کر ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ تو ایک آدمی نے کہا آپ تو انتیس راتیں ٹھہرے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہینہ اتنا ‘ اتنا اور اتنا ہوتا ہے آپ نے انگلیوں سے اشارہ فرمایا اور آخری مرتبہ انگوٹھے کو ساتھ ملا لیا۔
لغات : مشربہ۔ بالا خانہ۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٣٢٩۔

4671

۴۶۷۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرًا ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٧١: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے سنا پھر اسی طرح روایت بیان کی۔

4672

۴۶۷۲: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : آلَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِہٖ، فَأَقَامَ فِیْ مَشْرُبَۃٍ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ ، ثُمَّ نَزَلَ .فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، آلَیْتَ شَہْرًا ، فَقَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا حَلَفَ لَا یُکَلِّمُ رَجُلًا شَہْرًا ، فَکَلَّمَہُ بَعْدَ مُضِیِّ تِسْعَۃٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا ، أَنَّہٗ لَا یَحْنَثُ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : اِنْ کَانَ حَلَفَ مَعَ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ ، فَہُوَ عَلٰی ذٰلِکَ الشَّہْرِ الَّذِیْ کَانَ ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا أَوْ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا ، وَاِنْ کَانَ حَلَفَ فِیْ بَعْضِ شَہْرٍ فَیَمِیْنُہُ عَلَی ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِالْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ ، فَاِذَا رَأَیْتُمُوْھُ فَصُوْمُوْا ، وَاِذَا رَأَیْتُمُوْھُ فَأَفْطِرُوْا ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا .أَفَلَا تَرَاہُ قَدْ أَوْجَبَ عَلَیْہِمْ - اِذَا غُمَّ - ثَلَاثِیْنَ ، وَجَعَلَہٗ عَلَی الْکَمَالِ حَتّٰی یَرَوْا الْہِلَالَ ذٰلِکَ ؟ وَکَذٰلِکَ فَعَلَ أَیْضًا فِیْ شَعْبَانَ أَمَرَ بِالصَّوْمِ بَعْدَمَا یُرَی ہِلَالُ شَہْرِ رَمَضَانَ ، فَاِذَا أُغْمِیَ عَلَیْہِمْ ، لَمْ یَصُوْمُوْا ، وَکَانَ شَعْبَانُ عَلَی الثَّلَاثِیْنَ اِلَّا أَنْ یَنْقَطِعَ ذٰلِکَ بِرُؤْیَۃِ الْہِلَالِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، غَیْرُ مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .
٤٦٧٢: حمید نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کے ہاں نہ جانے کی قسم اٹھائی پس آپ انتیس روز بالا خانہ میں مقیم ہوگئے پھر اتر کر ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ انھوں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے تو ایک ماہ کی قسم اٹھائی تھی تو آپ نے فرمایا مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جب کوئی آدمی یہ قسم اٹھالے کہ وہ ایک ماہ کلام نہ کرے گا پھر اس نے انتیس روز گزرنے پر کلام کرلیا تو وہ حانث نہ ہوگا اور انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اگر اس نے چاند دیکھتے ہی قسم اٹھائی تھی تو وہ اس ماہ سے متعلق ہوگی جو تیس روز کا ہوتا ہے یا انتیس روز کا ہوتا ہے اور اگر اس نے مہینے کے چند دن گزرنے پر قسم اٹھائی تھی تو پھر اس کی قسم تیس روز گنتی کے ہوں گے اور ان کی دلیل وہ روایت ہے جس کو ابتداء بات میں ذکر کیا گیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں فرمایا : الشہر تسع و عشرون کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے پس جب تم چاند کو دیکھو تو روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کرو۔ پھر اگر چاند (بادل سے) چھپ جائے تو تیس روز کی گنتی پوری کرو۔ ذرا روایت میں غور کرو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند چھپ جانے کی صورت میں تیس دن کی گنتی کو لازم کیا اور اس کو کامل ماہ قرار دیا یہاں تک کہ وہ چاند دیکھ لیں اسی طرح شعبان کے سلسلے میں بھی فرمایا کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر روزے رکھیں اور جب وہ ان پر چھپ جائے تو روزہ نہ رکھیں اور شعبان تیس روز کا شمار ہوگا مگر یہ کہ چاند دکھائی دینے کی وجہ سے یہ مدت کم ہوجائے ۔ اس روایت کے علاوہ روایات بھی وارد ہیں جن کو ذکر کیا جاتا ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جب کوئی آدمی یہ قسم اٹھالے کہ وہ ایک ماہ کلام نہ کرے گا پھر اس نے انتیس روز گزرنے پر کلام کرلیا تو وہ حانث نہ ہوگا اور انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اگر اس نے چاند دیکھتے ہی قسم اٹھائی تھی تو وہ اس ماہ سے متعلق ہوگی جو تیس روز کا ہوتا ہے یا انتیس روز کا ہوتا ہے اور اگر اس نے مہینے کے چند دن گزرنے پر قسم اٹھائی تھی تو پھر اس کی قسم تیس روز گنتی کے ہوں گے اور ان کی دلیل وہ روایت ہے جس کو ابتداء باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
طریق استدلال : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں فرمایا الشہر تسع و عشرون کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے پس جب تم چاند کو دیکھو تو روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کرو۔ پھر اگر چاند (بادل سے) چھپ جائے تو تیس روز کی گنتی پوری کرو۔
تخریج : ٤٦٦٦ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
ذرا روایت میں غور کرو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند چھپ جانے کی صورت میں تیس دن کی گنتی کو لازم کیا اور اس کو کامل ماہ قرار دیا یہاں تک کہ وہ چاند دیکھ لیں اسی طرح شعبان کے سلسلے میں بھی فرمایا کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد روزے کا حکم فرمایا اور جب وہ ان پر چھپ جائے تو روزہ نہ رکھیں اور شعبان تیس روز کا شمار ہوگا مگر یہ کہ چاند دکھائی دینے کی وجہ سے یہ مدت کم ہوجائے ۔ اس روایت کے علاوہ روایات بھی وارد ہیں جن کو ذکر کیا جاتا ہے۔

4673

۴۶۷۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : حَلَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَیَہْجُرُنَا شَہْرًا، فَدَخَلَ عَلَیْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّکَ حَلَفْتُ أَنْ لَا تُکَلِّمَنَا شَہْرًا ، وَاِنَّمَا أَصْبَحْتُ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، فَقَالَ اِنَّ الشَّہْرَ لَا یَتِمُّ .فَأَخْبَرَ أَنَّہٗ اِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ ، لِنُقْصَانِ الشَّہْرِ، فَہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ حَلَفَ عَلَیْہِنَّ مَعَ غُرَّۃِ الْہِلَالِ فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ ، وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ہٰذَا، مَا ہُوَ أَبْیَنُ مِنْ ہٰذَا ۔
٤٦٧٣: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ تک ہمیں چھوڑے رکھنے کی قسم اٹھائی پھر انتیس روز گزرنے پر آپ ہمارے ہاں تشریف لائے ہم نے خدمت میں گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے تو ایک ماہ تک ہم سے ہمکلام نہ ہونے کی قسم اٹھائی تھی اور آپ نے تو انتیس روز پورے کئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (بعض اوقات) مہینہ پورا نہیں ہوتا۔ (یہ اسی طرح ہے) اس روایت میں بتلا دیا کہ آپ نے مہینے کے کم ہونے کی وجہ سے ایسا کیا اس سے یہ دلیل مل گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند دیکھتے ہی ان کے ہاں نہ جانے کی قسم اٹھائی تھی اور ہم بھی یہی بات کہتے ہیں اس سلسلہ میں تو واضح تر روایات وارد ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔
حاصل روایات : اس روایت میں بتلا دیا کہ آپ نے مہینے کے کم ہونے کی وجہ سے ایسا کیا اس سے یہ دلیل مل گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند دیکھتے ہی ان کے ہاں نہ جانے کی قسم اٹھائی تھی اور ہم بھی یہی بات کہتے ہیں اس سلسلہ میں تو واضح تر روایات وارد ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

4674

۴۶۷۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہٖ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : وَقَوْلُہُمْ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ الشَّہْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ لَا وَاللّٰہِ مَا کَذٰلِکَ قَالَ ، أَنَا - وَاللّٰہِ - أَعْلَمُ بِمَا قَالَ فِیْ ذٰلِکَ ، اِنَّمَا قَالَ حِیْنَ ہَجَرَنَا لَأَہْجُرَکُنَّ شَہْرًا .فَجَائَ حَتّٰی ذَہَبَ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ لَیْلَۃً .فَقُلْتُ :یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، اِنَّکَ أَقْسَمْتَ شَہْرًا ، وَاِنَّمَا غِبْتُ عَنَّا تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ لَیْلَۃً .فَقَالَ اِنَّ شَہْرَنَا ہٰذَا، کَانَ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ لَیْلَہٗ۔فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ یَمِیْنَہٗ کَانَتْ مَعَ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ہٰذَا شَیْء ٌ .
٤٦٧٤: ہشام نے اپنے والد عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام کا یہ کہنا کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اللہ کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح نہیں فرمایا۔ اللہ کی قسم مجھے خبر ہے جو آپ نے اس سلسلے میں فرمایا بلاشبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں چھوڑتے وقت فرمایا میں ایک ماہ تمہیں چھوڑے رکھوں گا اور ہوا یہ کہ انتیس راتیں گزریں تھیں کہ آپ تشریف لے آئے تو میں نے کہا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے تو ایک ماہ کی قسم اٹھائی تھی اور آپ ہم سے انتیس راتیں غائب رہے اس پر آپ نے فرمایا ہمارا یہ مہینہ انتیس راتوں کا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ کی قسم چاند دیکھتے ہی تھی اور حضرت عمر (رض) سے بھی اس سلسلہ میں مروی ہے۔ وہ ملاحظہ ہو۔

4675

۴۶۷۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، وَابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ سِمَاکٍ أَبِیْ زُمَیْلٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَذَکَرَ اِیْلَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِہٖ، وَأَنَّہٗ نَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِیْنَ وَقَالَ اِنَّ الشَّہْرَ قَدْ یَکُوْنُ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ،
٤٦٧٥: عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کا تذکرہ کیا جو بیویوں کے سلسلہ میں آپ نے اٹھائی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتیس تاریخ کو نیچے اتر آئے اور فرمایا مہینہ کبھی انتیس دنوں کا ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس سلسلہ میں مروی ہے :

4676

۴۶۷۶: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ الشَّہْرَ یَکُوْنُ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ ، وَیَکُوْنُ ثَلَاثِیْنَ ، وَاِذَا رَأَیْتُمُوْھُ فَصُوْمُوْا ، وَاِذَا رَأَیْتُمُوْھُ فَأَفْطِرُوْا ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ ، فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ .فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ اِنَّمَا یَکُوْنُ تِسْعًا وَعِشْرِیْنَ بِرُؤْیَۃِ الْہِلَالِ قَبْلَ الثَّلَاثِیْنَ .فَقَدْ دَلَّتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ ، لِمَا کَشَفْتُ عَمَّا ذَکَرْنَا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ الْحَسَنِ۔
٤٦٧٦: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے پس جب تم چاند کو دیکھ لو۔ تو روزہ رکھو اور جب تم چاند کو دیکھ لو تو افطار کرلو پھر اگر چاند چھپ جائے تو گنتی کو پورا کرلو۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اطلاع دی ہے کہ انتیس دن کا مہینہ تیس یوم سے پہلے چاند دیکھنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (ورنہ گنتی میں تو تیس کا شمار کیا جائے گا) اس آثار سے دلالت مل گئی کہ جو بات ہم نے بیان کی وہ درست ہے اور یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے اور حضرت حسن بصری (رح) کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : بخاری فی الصوم باب ١١‘ مسلم فی الصیام ٣٠‘ نسائی فی الصیام باب ١٢؍١٣‘ ١٧؍٣٧‘ دارمی فی الصوم باب ١؍٢ مسند احمد ٢‘ ٤٢٢؍٤٣٠۔
حاصل روایت : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اطلاع دی ہے کہ انتیس دن کا مہینہ تیس یوم سے پہلے چاند دیکھنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (ورنہ گنتی میں تو تیس کا شمار کیا جائے گا)
اس آثار سے دلالت مل گئی کہ جو بات ہم نے بیان کی وہ درست ہے اور یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے اور حضرت حسن بصری (رح) کا بھی یہی قول ہے۔

4677

۴۶۷۷: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، فِیْ رَجُلٍ نَذَرَ أَنْ یَصُوْمَ شَہْرًا .قَالَ : اِنِ ابْتَدَأَ لِرُؤْیَۃِ الْہِلَالِ صَامَ لِرُؤْیَتِہٖ، وَأَفْطَرَ لِرُؤْیَتِہٖ، وَاِنِ ابْتَدَأَ فِیْ بَعْضِ الشَّہْرِ ، صَامَ ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ .
٤٦٧٧: اشعث نے حسن (رح) سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جس نے نذر مانی کہ وہ ایک ماہ روزہ رکھے گا تو انھوں نے فرمایا اگر اس نے روزے کی ابتداء رویت ہلال سے کی اور اس کو دیکھ کر روزہ شروع کیا تو افطار بھی چاند دیکھ کر کرے گا اور اگر اس نے روزے کی ابتداء چند دن گزرنے سے کی تو تیس دن کے روزے پورے کرے۔ واللہ اعلم۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) فریق ثانی کے مسلک کو پہلے روایات سے ثابت کیا اور پھر اقوال صحابہ اور تابعین سے اس کی تائید کی۔ ہکذا عادتہ سالفۃ جزاہ اللہ ۔ مترجم

4678

۴۶۷۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ ، عَنْ حَبِیْبٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ یَوْمَ الْفَتْحِ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنِّیْ نَذَرْت - اِنْ فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکَ مَکَّۃَ - أَنْ أُصَلِّیَ فِیْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ .فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلِّ ہَاہُنَا فَأَعَادَہَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَأْنُک اِذًا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الَّذِیْ نَذَرَ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْ غَیْرِہٖ۔ فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ مَنْ جَعَلَ لِلّٰہِ عَلَیْہِ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْ مَکَان ، فَصَلّٰی فِیْ غَیْرِہِ أَجْزَأَہُ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .غَیْرَ أَنَّ أَبَا یُوْسُفَ قَدْ قَالَ فِیْ اِمْلَائِہِ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُصَلِّیَ فِیْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، فَصَلّٰی فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، أَوْ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْزَأَہُ ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّہٗ صَلَّی فِیْ مَوْضِعٍ ، الصَّلَاۃُ فِیْہِ أَفْضَلُ مِنِ الصَّلَاۃِ فِیْ مَوْضِعِ الَّذِی أَوْجَبَ الصَّلَاۃَ فِیْہِ عَلٰی نَفْسِہٖ۔ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یُصَلِّیَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، فَصَلّٰی فِیْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، لَمْ یُجْزِہِ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ صَلَّی فِیْ مَکَان لَیْسَ لِلصَّلَاۃِ فِیْہِ مِنَ الْفَضْلِ مَا لِلصَّلَاۃِ فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ الَّذِی أَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہٖ الصَّلَاۃَ فِیْہِ .وَاحْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٦٧٨: عطاء نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے یہ نذر مان رکھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو فتح فرمایا تو میں بیت المقدس میں نماز پڑھوں گا جناب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا اس جگہ نماز پڑھ لو اس نے اپنا سوال دو ‘ تین مرتبہ دہرایا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تو جان اور تیرا کام۔ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو جس نے بیت المقدس میں نماز کی نذر مان رکھی تھی۔ دوسری جگہ پڑھنے کا حکم دیا اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام کی نذ رمانے کہ وہ فلاں مقام پر نماز ادا کرے گا اور اس نے اس کی بجائے دوسری جگہ نماز پڑھ لی تو اس کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے اسی روایت کو دلیل بنایا ہے۔ البتہ امام ابو یوسف (رح) نے امالی ابو یوسف میں تحریر فرمایا جس آدمی نے یہ نذر مانی کہ وہ بیت المقدس میں نماز ادا کرے گا پھر اس نے بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرلی یا مسجد نبوی میں نماز ادا کرلی تو اس کے لیے یہ نماز کافی ہوجائے گی۔ کیونکہ اس نے ایسی جگہ میں نماز ادا کی ہے جو اس جگہ سے افضل ہے جہاں نذر کی اس نے نیت کی ہے اور جس نے اس طرح نذر کی کہ وہ مسجد حرام میں نماز ادا کرے گا اور اس نے بیت المقدس میں نماز ادا کرلی تو اس کے لیے کافی نہ ہوگی کیونکہ اس نے ایسی جگہ نماز ادا کی ہے جو اس سے فضیلت میں کم ہے جس کی اس نے نذر مان رکھی تھی۔ انھوں نے اس سلسلہ میں ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الایمان باب ٢٠‘ دارمی فی النذور باب ٤‘ مسند احمد ٣؍٣١٣۔
امام طحاوی (رح) کا قول : اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو جس نے بیت المقدس میں نماز کی نذر مان رکھی تھی۔ دوسری جگہ پڑھنے کا حکم دیا اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام کی نذ رمانے کہ وہ فلاں مقام پر نماز ادا کرے گا اور اس نے اس کی بجائے دوسری جگہ نماز پڑھ لی تو اس کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے اسی روایت کو دلیل بنایا ہے۔
فریق ثانی : البتہ امام ابو یوسف (رح) نے امالی ابو یوسف میں تحریر فرمایا جس آدمی نے یہ نذر مانی کہ وہ بیت المقدس میں نماز ادا کرے گا پھر اس نے بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرلی یا مسجد نبوی میں نماز ادا کرلی تو اس کے لیے یہ نماز کافی ہوجائے گی۔ کیونکہ اس نے ایسی جگہ میں نماز ادا کی ہے جو اس جگہ سے افضل جہاں نذر کی اس نے نیت کی ہے۔
نمبر 2: اور جس نے اس طرح نذر کی کہ وہ مسجد حرام میں نماز ادا کرے گا اور اس نے بیت المقدس میں نماز ادا کرلی تو اس کے لیے کافی نہ ہوگی کیونکہ اس نے ایسی جگہ نماز ادا کی ہے جو اس سے فضیلت میں کم ہے جس کی اس نے نذر مان رکھی تھی۔
انھوں نے اس سلسلہ میں ان روایات سے استدلال کیا ہے۔

4679

۴۶۷۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ الزُّبَیْدِیِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَکَمِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ .
٤٦٧٩: عمرو بن حکم نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز پڑھنا مسجد حرام کے علاوہ دیگر مقامات میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔
تخریج : بخاری فی مسجد مکہ باب ١‘ مسلم فی الحج ٥٠٥؍٥١٠‘ ترمذی فی المواقیت ١٢٦‘ والمناقب باب ٦٧‘ نسائی فی المناسک باب ١٢٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٩٥؍١٩٨‘ مالک فی القبلہ ١٩‘ مسند احمد ٢؍١٦‘ ٢٩؍٥٢‘ ٦٨؍١٢٢‘ ٢٣٩؍٣٨٦‘ ٣٩٧؍٤٦٨‘ ٤٨٥؍٤٩٩‘ ٤؍٥۔

4680

۴۶۸۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیٌّ وَشُجَاعٌ .ح .
٤٦٨٠: علی بن معبد نے مکی اور شجاع سے روایت کی۔

4681

۴۶۸۱: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ قَالَ : ثَنَا مَکِّیٌّ ، قَالَا : ثَنَا مُوْسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ مُدْرِکٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨١: عروہ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل فرمائی ہے۔

4682

۴۶۸۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ عَنْ مُوْسَی الْجُہَنِیِّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٢: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4683

۴۶۸۳: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا ، مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ ، یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٣: ابراہیم بن معبد بن عبداللہ بن معبد بن عباس نے میمونہ امّ المؤمنین (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4684

۴۶۸۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٤: لیث نے نافع سے پھر اس نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4685

۴۶۸۵: حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ غَالِبٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ مُوْسَی : وَحَدَّثَنِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَبُوْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٥: نافع نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4686

۴۶۸۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ سَہْمِ بْنِ مِنْجَابٍ عَنْ قَزَعَۃَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٦: قزعہ نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4687

۴۶۸۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٧: زہری نے سعید بن المسیب سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4688

۴۶۸۸: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَلْمَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٨٨: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4689

۴۶۸۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَیْدٍ .ح .
٤٦٨٩: ابن وہب نے افلح بن حمید سے روایت نقل کی۔

4690

۴۶۹۰: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ .ح .
٤٦٩٠: ابن مرزوق نے ابو عامر سے روایت نقل کی۔

4691

۴۶۹۱: وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَا : ثَنَا أَفْلَحُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْبَکْرِ بْنُ حَزْمٍ عَنْ سَلْمَانَ الْأَغَرِّ ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٩١: ابوبکر بن حزم نے سلمان الاغر سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4692

۴۶۹۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ رَبَاحٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٩٢: ابو عبداللہ اغر نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4693

۴۶۹۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنْ سَلْمَانَ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٩٣: سلیمان الاغر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4694

۴۶۹۴: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْقَطَوَانِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلْمَانَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٩٤: عبداللہ بن سلمان نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4695

۴۶۹۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ہِلَالٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٦٩٥: محمد بن ہلال نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4696

۴۶۹۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَیَّاشٍ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا صَالِحٍ : ہَلْ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَذْکُرُ فَضْلَ الصَّلَاۃِ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : لَا وَلٰـکِنْ حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَارِظٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ فَضَّلَ الصَّلَاۃَ فِیْ مَسْجِدِہِ عَلَی الصَّلَاۃِ فِیْ غَیْرِہِ بِأَلْفِ صَلَاۃٍ غَیْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ لَا فَضْلَ لِصَلَاۃٍ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ عَلَی الصَّلَاۃِ فِیْ مَسْجِدِہِ أَوْ تَکُوْنَ الصَّلَاۃُ فِیْ أَحَدِہِمَا أَفْضَلَ مِنِ الصَّلَاۃِ فِی الْآخَرِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَاِذَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَدْ۔
٤٦٩٦: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے ابو صالح سے دریافت کیا کہ کیا تم نے جناب ابوہریرہ (رض) کو مسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت بیان کرتے سنا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ لیکن مجھے ابراہیم بن عبداللہ قارظ نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات اسی طرح بیان کرتے سنا ہے۔ طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد نبوی میں نماز کو مسجد حرام کے دوسرے تمام مقام پر نماز سے ایک ہزار درجہ افضل قرار دیا۔ پس اس میں یہ احتمال پیدا ہوا کہ مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز پر مسجد حرام میں پڑھی جانے والی نماز کو فضیلت نہ ہو یا ان دونوں میں سے کسی میں نماز دوسری مسجد میں پڑھی جانے والی نماز سے افضل ہو۔ پس اس سلسلے میں ہم نے غور کیا مندرجہ ذیل روایات میسر آئیں۔
نوٹ : طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد نبوی میں نماز کو مسجد حرام کے علاوہ دوسرے تمام مقام پر نماز سے ایک ہزار درجہ افضل قرار دیا۔
پس اس میں یہ احتمال پیدا ہوا کہ مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز پر مسجد حرام میں پڑھی جانے والی نماز کو فضیلت نہ ہو یا ان دونوں میں سے کسی میں نماز دوسری مسجد میں پڑھی جانے والی نماز سے افضل ہو۔
پس اس سلسلے میں ہم نے غور کیا مندرجہ ذیل روایات میسر آئیں۔

4697

۴۶۹۷: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ حَبِیْبٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، وَصَلَاۃٌ فِیْ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنْ مِائَۃِ صَلَاۃٍ فِیْ ہٰذَا .
٤٦٩٧: حبیب معلم نے عطاء بن زبیر سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں نماز وہ دوسری مساجد میں نماز سے سوائے مسجد حرام کے ہزار گنا افضل ہے اور مسجد حرام میں نماز مسجد نبوی کے مقابلے میں ایک سو گنا افضل ہے۔ (گویا بقیہ مساجد سے ایک لاکھ گنا افضل ہے)

4698

۴۶۹۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ زِیَادُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ عَتِیْقٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .قَالَ سُفْیَانُ فَیَرَوْنَ أَنَّ الصَّلَاۃَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَۃِ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ اِلَّا فِیْ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنَّمَا فَضَّلَہٗ عَلَیْہِ بِمِائَۃِ صَلَاۃٍ .
٤٦٩٨: سلیمان بن عتیق کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا ہے پھر اسی طرح کی روایت نقل کی مگر اس کو مرفوع بیان نہیں کیا۔ سفیان ثوری کہتے ہیں اب علماء کا خیال یہ ہے کہ مسجد حرام میں نماز دوسرے مقام پر نماز سے ایک لاکھ گنا افضل ہے اور مسجد نبوی سے سو گنا افضل ہے۔

4699

۴۶۹۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاۃٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَۃِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ .قَالَ : فَلَمَّا کَانَ فَضْلُ الصَّلَاۃِ فِیْ بَعْضِ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدِ عَلَی بَعْضِ ، مَا قَدْ ذُکِرَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ لَمْ یَجُزْ لِمَنْ أَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہِ صَلَاۃً فِیْ شَیْئٍ مِنْہَا اِلَّا أَنْ یُصَلِّیَہَا حَیْثُ أَوْجَبَ أَوْ فِیْمَا ہُوَ أَفْضَلُ مِنْہُ مِنَ الْمَوَاضِعِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٍ عَلٰی أَہْلِ ہٰذَا الْقَوْلِ أَنَّ مَعْنَی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَلَی الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ لَا عَلَی النَّوَافِلِ .أَلَا تَرَیْ اِلَی قَوْلِہٖ فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ بْنِ سَعْدٍ لَأَنْ أُصَلِّیَ فِیْ بَیْتِیْ أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّیَ فِی الْمَسْجِدِ .وَقَوْلُہٗ فِیْ حَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ خَیْرُ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہِ اِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ وَذٰلِکَ أَنَّہٗ حِیْنَ أَرَادَ أَنْ یَقُوْمَ بِہِمْ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِی التَّطَوُّعِ .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ .فَلَمَّا رُوِیَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا کَانَ تَصْحِیْحُ الْآثَارِ یُوْجِبُ أَنَّ الصَّلَاۃَ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِیْ لَہَا الْفَضْلُ عَلَی الصَّلَاۃِ فِی الْبُیُوْتِ ہِیَ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ ہِیَ خِلَافُ ہٰذِہٖ الصَّلَاۃِ ، وَہِیَ الْمَکْتُوْبَۃُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ فَسَادُ مَا احْتَجَّ بِہٖ أَبُوْ یُوْسُفَ وَثَبَتَ أَنَّ مَنْ أَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہِ صَلَاۃً فِیْ مَکَانٍ فَصَلَّاہَا فِیْ غَیْرِہِ أَجْزَأَہُ فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِذَا رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا قَالَ : لِلّٰہِ عَلَیَّ أَنْ أُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَالصَّلَاۃُ الَّتِیْ أَوْجَبَہَا قُرْبَۃٌ حَیْثُ مَا کَانَتْ فَہِیَ عَلَیْہِ وَاجِبَۃٌ .ثُمَّ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْمَوْطِنِ الَّذِی أَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہِ أَنْ یُصَلِّیَہَا فِیْہِ ہَلْ یَجِبُ عَلَیْہِ کَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ تِلْکَ الصَّلَاۃُ أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَاہُ لَوْ قَالَ لِلّٰہِ عَلَیَّ أَنْ أَلْبَثَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سَاعَۃً لَمْ یَجِبْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ اللُّبْثُ ہُوَ لَوْ فَعَلَہُ قُرْبَۃً .فَکَانَ اللُّبْثُ وَاِنْ کَانَ قُرْبَۃً لَا یَجِبُ بِاِیجَابِ الرَّجُلِ اِیَّاہُ عَلٰی نَفْسِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ کَانَ مَنْ أَوْجَبَ لِلّٰہِ عَلٰی نَفْسِہِ صَلَاۃً فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَجَبَتْ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ اللُّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ۔
٤٦٩٩: عطاء بن ابی رباح نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری اس مسجد میں نماز دوسرے مقام کی مساجد میں نماز سے ایک ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام کی نماز دوسرے مقام کی نماز سے سو گنا افضل ہے۔ نماز کے ادا کرنے میں جب ان مساجد میں سے بعض کو بعض پر فضیلت ہے جیسا کہ آثار میں مذکور ہے تو جس شخص نے ان میں سے کسی مسجد میں اپنے اوپر نماز کو لازم کیا ہو۔ اسے دوسرے مقام پر پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اسی مقام پر ادا کرنا ضروری ہے یا پھر ایسے مقام پر جو اس سے افضل ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) فرماتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد صلوۃ فی مسجدی۔۔۔ کا مطلب یہ ہے اس سے فرض نمازیں مراد ہیں نہ کہ نوافل۔ جیسا کہ عبداللہ بن سعد (رض) کی روایت میں ہے کہ اگر میں اپنے گھر میں نماز ادا کروں تو وہ مجھے مسجد میں نماز سے زیادہ محبوب ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد جو حدیث زید بن ثابت میں ہے۔ آدمی کی سب سے بہتر نماز (یعنی نفلی) اپنے گھر میں ہے سوائے فرض نماز کے اور یہ بات اس وقت فرمائی جبکہ ان کو رمضان المبارک کے مہینہ میں قیام رمضان کی ترغیب دی اس کے متعلق آثار ہم دوسرے مقام پر ذکر کر آئے ہیں۔ جب یہ ارشادات اس طرح مروی ہیں تو آثار کی تصحیح اس بات کو لازم کرتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں جس نماز کو گھر کی نمازوں پر فضیلت حاصل ہے وہ اس نماز کے علاوہ یعنی فرض نماز ہے۔ اس سے امام یوسف (رح) نے جو استدلال کیا ہے اس کی غلطی ثابت ہوئی اور یہ بات پختہ طور پر ثابت ہوگئی کہ جس شخص نے اپنے اوپر کسی جگہ نماز پڑھنا لازم کرلیا اور اس کو کسی دوسرے مقام پر ادا کیا تو وہ ادائیگی کافی ہوجائے گی۔ آثار کے پیش نظر تو اس بات کا حکم یہی ہے۔ البتہ نظری انداز سے بھی حکم ظاہر کرتے ہیں۔ بغور دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم مجھ پر مسجد حرام میں دو رکعت پڑھنا لازم ہے تو جس نماز کو اس نے بطور تقرب لازم کیا ہے وہ اس پر واجب ہوگئی خواہ جہاں بھی پڑھے اب ہم اس میں یہ غور کرنا چاہتے ہیں کہ جس جگہ نماز پڑھنے کی اس نے نذر مانی ہے تو کیا وہ اسی طرح واجب ہے جس طرح پر یہ نماز (مسجد حرام) واجب ہے یا نہیں تو ہم نے اس کو دیکھا کہ اگر اس نے اس طرح کہا اللہ کی قسم میں مسجد حرام میں ایک گھڑی ٹھہروں گا تو یہ اس پر واجب نہ ہوگا اگرچہ یہ ٹھہرنا وہ عبادت کے طور پر کرتا۔ پس یہ ٹھہرنا اگر بالفرض قربت و عبادت بھی ہوتا تب بھی آدمی کے اپنے نفس پر واجب کرنے سے واجب نہ ہوتا۔ جب یہ بات اسی طرح ہے جو ہم نے ذکر کی ہے تو اب وہ شخص جس نے قسم سے اپنے اوپر مسجد حرام کی نماز لازم کی ہے اس پر نماز تو لازم ہوجائے گی۔ مگر اس پر مسجد حرام میں ٹھہرنا لازم نہ ہوگا۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے اور یہ ابوحنیفہ ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ واللہ اعلم۔
جب ان مساجد میں سے بعض کو بعض پر فضیلت ہے جیسا کہ آثار میں مذکور ہے تو جس شخص نے ان میں سے کسی مسجد میں اپنے اوپر نماز کو لازم کیا ہو۔ اسے دوسرے مقام پر پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اسی مقام پر ادا کرنا ضروری ہے یا پھر ایسے مقام پر جو اس سے افضل ہو۔
فریق اوّل کی طرف سے جواب : امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد صلوۃ فی مسجدی۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس سے فرض نمازیں مراد ہیں نہ کہ نوافل۔
جیسا کہ عبداللہ بن سعد (رض) کی روایت میں ہے کہ اگر میں اپنے گھر میں نماز ادا کروں تو وہ مجھے مسجد میں نماز سے زیادہ محبوب ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد جو حدیث زید بن ثابت میں ہے۔ آدمی کی سب سے بہتر نماز (یعنی نفلی) اپنے گھر میں ہے سوائے فرض نماز کے اور یہ بات اس وقت فرمائی جبکہ ان کو رمضان المبارک کے مہینہ میں قیام رمضان کی ترغیب دی اس کے متعلق آثار ہم دوسرے مقام پر ذکر کر آئے ہیں۔
جب یہ ارشادات اس طرح مروی ہیں تو آثار کی تصحیح اس بات کو لازم کرتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں جس نماز کو گھر کی نمازوں پر فضیلت حاصل ہے وہ اس نماز کے علاوہ یعنی فرض نماز ہے۔ اس سے امام یوسف (رح) نے جو استدلال کیا ہے اس کی غلطی ثابت ہوئی اور یہ بات پختہ طور پر ثابت ہوگئی کہ جس شخص نے اپنے اوپر کسی جگہ نماز پڑھنا لازم کرلیا اور ان کو کسی دوسرے مقام پر ادا کیا تو وہ ادائیگی کافی ہوجائے گی۔ آثار کے پیش نظر تو اس بات کا حکم یہی ہے۔ البتہ نظری انداز سے بھی حکم ظاہر کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
بغور دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم مجھ پر مسجد حرام میں دو رکعت پڑھنا لازم ہے تو جس نماز کو اس نے بطور تقرب لازم کیا ہے وہ اس پر واجب ہوگئی خواہ جہاں بھی پڑھے اب ہم اس میں یہ غور کرنا چاہتے ہیں کہ جس جگہ نماز پڑھنے کی اس نے نذر مانی ہے تو کیا وہ اسی طرح واجب ہے جس طرح پر یہ نماز (مسجد حرام) واجب ہے یا نہیں تو ہم نے اس کو دیکھا کہ اگر اس نے اس طرح کہا اللہ کی قسم میں مسجد حرام میں ایک گھڑی ٹھہروں گا تو یہ اس پر واجب نہ ہوگا اگرچہ یہ ٹھہرنا وہ عبادت کے طور پر کرتا۔ پس یہ ٹھہرنا اگر بالفرض قربت و عبادت بھی ہوتا تب بھی آدمی کے اپنے نفس پر واجب کرنے سے واجب نہ ہوتا۔
جب یہ بات اسی طرح ہے جو ہم نے ذکر کی ہے تو اب وہ شخص جس نے قسم سے اپنے اوپر مسجد حرام کی نماز لازم کی ہے اس پر نماز تو لازم ہوجائے گی۔ مگر اس پر مسجد حرام میں ٹھہرنا لازم نہ ہوگا۔
اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے اور یہ ابوحنیفہ ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ واللہ اعلم۔

4700

۴۷۰۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْہِقْلُ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْیَمَامِیِّ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ حُمَیْدًا الطَّوِیْلَ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ : مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ یُہَادَیْ بَیْنَ ابْنَیْنِ لَہٗ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوْا : نَذَرَ أَنْ یَمْشِیَ فَقَالَ : اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِیٌّ عَنْ تَعْذِیْبِ ہَذَا نَفْسَہٗ وَأَمَرَہٗ أَنْ یَرْکَبَ أَیْ لِعَجْزِہٖ عَنِ الْمَشْیِ .
٤٧٠٠: حمیدالطویل نے خبر دی ہے کہ میں نے انس (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک ایسے آدمی کے پاس سے ہوا جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے چل رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتلایا کہ اس نے نذر مانی ہے کہ چل کر (بیت اللہ) جائے گا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کے اپنے آپ کو عذاب دینے سے بری الذمہ ہے آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم فرمایا (کیونکہ وہ چلنے سے عاجز تھا)
تخریج : بخاری فی الایمان باب ٣١‘ مسلم فی النذر ٩‘ ابو داؤد فی الایمان باب ١٩‘ ترمذی فی النذور باب ١٠‘ نسائی فی الایمان باب ٤٢‘ مسند احمد ٣‘ ١١٤؍٨٣‘ ٢٣٥؍٢٧١۔

4701

۴۷۰۱: حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٠١: ربیع جیزی نے عبداللہ بن صالح سے اسی طرح روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

4702

۴۷۰۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حُمَیْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٧٠٢: یحییٰ بن حمید نے ثابت بن انس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4703

۴۷۰۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَنْصُوْرٍ عَنْ دُخَیْنٍ الْحَجْرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِیِّ قَالَ : نَذَرَتْ أُخْتِیْ أَنْ تَمْشِیَ اِلَی الْکَعْبَۃِ حَافِیَۃً حَاسِرَۃً .فَأَتٰی عَلَیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَا بَالُ ہٰذِہٖ؟ قَالُوْا : نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِیَ اِلَی الْکَعْبَۃِ حَافِیَۃً حَاسِرَۃً .فَقَالَ : مُرُوْہَا فَلْتَرْکَبْ وَلْتَخْتَمِرْ . قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : مَنْ نَذَرَ أَنْ یَحُجَّ مَاشِیًا أُمِرَ أَنْ یَرْکَبَ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ غَیْرُ ذٰلِکَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : یَرْکَبُ کَمَا جَائَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَاِنْ کَانَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ لِلّٰہِ عَلَیَّ مَعْنَی الْیَمِیْنِ فَعَلَیْہِ مَعَ ذٰلِکَ ، کَفَّارَۃُ یَمِیْنٍ لِأَنَّ مَعْنَی لِلّٰہِ عَلَیَّ قَدْ یَکُوْنُ فِیْ مَعْنَی وَاللّٰہِ لِأَنَّ النَّذْرَ مَعْنَاہُ مَعْنَی الْیَمِیْنِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ فِی النَّذْرِ کَفَّارَۃَ یَمِیْنٍ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ
٤٧٠٣: دخین الحجری نے عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت کی ہے کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ ننگے سر اور ننگے پاؤں بیت اللہ جائے گی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا اسے کیا ہے انھوں نے بتلایا کہ اس نے کعبہ تک ننگے سر ننگے پاؤں چلنے کی نذر مانی ہے۔ ارشاد فرمایا۔ اس کو کہو کہ سوار ہوجائے اور دوپٹہ پہنے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ جس آدمی نے یہ نذر مان لی کہ وہ پیدل حج کرے گا تو اسے سوار ہونے کا حکم ہوگا اس کے علاوہ اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اسے یہ چاہیے کہ وہ سوار ہوجائے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا۔ اب اگر اللہ علی سے قسم مقصود تھی تو اس کے ذمہ قسم کا کفارہ بھی ہوگا کیونکہ بعض اوقات یہ الفاظ قسم کے لیے آتے ہیں کیونکہ نذر و قسم کا ایک ہی مطلب ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں حدیث مروی ہے کہ ان فی النذر کفارۃ یمین کہ نذر میں قسم کا کفارہ ہے چند روایات یہ ہیں۔
تخریج : ترمذی فی النذور باب ١٧‘ باختلاف یسیر من اللفظ و لتختمر۔
لغات : حاسرۃ۔ ننگے سر بلادوپٹے کے ہونا۔ حافیہ۔ ننگے پاؤں ہونا۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ جس آدمی نے یہ نذر مان لی کہ وہ پیدل حج کرے گا تو اسے سوار ہونے کا حکم ہوگا اس کے علاوہ اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے کہ وہ سوار ہوجائے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا۔ اب اگر اللہ علی سے قسم مقصود تھی تو اس کے ذمہ قسم کا کفارہ بھی ہوگا کیونکہ بعض اوقات یہ الفاظ قسم کے لیے آتے ہیں کیونکہ نذر و قسم کا ایک ہی مطلب ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں حدیث مروی ہے کہ ان فی النذر کفارۃ یمین کہ نذر میں قسم کا کفارہ ہے چند روایات یہ ہیں۔

4704

۴۷۰۴: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَیْرِ التَّمِیْمِیِّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا نَذْرَ فِیْ غَضَبٍ ، وَکَفَّارَتُہُ کَفَّارَۃُ یَمِیْنٍ
٤٧٠٤: محمد بن زبیر تمیمی نے اپنے والد سے انھوں نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ غصے میں نذر نہیں ہوتی اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔
تخریج : نسائی فی الایمان باب ٤١‘ مسند احمد ٤؍٤٣٣‘ ٤٣٩۔

4705

۴۷۰۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٠٥: حماد بن زید نے محمد بن زبیر سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت کی ہے۔

4706

۴۷۰۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ الْمُنْقِرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ الزُّبَیْرِ الْحَنْظَلِیُّ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٠٦: یحییٰ بن کثیر نے محمد بن زبیر حنظلی سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4707

۴۷۰۷: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنَ الْمَرْوَزِیُّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ قَالَ : ثَنَا عُبَادَۃُ بْنُ الْعَوَامّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الزُّبَیْرِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٠٧: عبادہ بن العوام نے محمد بن الزبیر سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4708

۴۷۰۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ .ح
٤٧٠٨: ابو عسان نے خالد بن عبداللہ سے روایت کی ہے۔

4709

۴۷۰۹: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَا : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الزُّبَیْرِ الْحَنْظَلِیُّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَجُلٍ عَنْ عِمْرَانَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٧٠٩: محمد بن الزبیر حنظلی نے اپنے والد سے انھوں نے ایک آدمی سے انھوں نے عمران (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4710

۴۷۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ أُوَیْسٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ عَتِیْقٍ وَمُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ الَّذِیْ کَانَ یَسْکُنُ الْیَمَامَۃَ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا سَلْمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُخْبِرُ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا نَذْرَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَکَفَّارَتُہُ کَفَّارَۃُ یَمِیْنٍ .
٤٧١٠: یحییٰ بن ابی کثیر جو یمامہ میں مقیم تھا اس نے بیان کیا کہ انھوں نے سنا کہ انھوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معصیت کی نذر درست نہیں۔ اس کا کفارہ قسم والا کفارہ ہے۔

4711

۴۷۱۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ کَعْبِ بْنِ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِمَاسَۃَ الْمَہْدِیِّ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ
٤٧١١: ابوالخیر نے عقبہ بن عامر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔
تخریج : مسلم فی النذر ١٢‘ ابو داؤد فی الایمان باب ٢٥‘ ترمذی فی النذور باب ٤‘ نسائی فی الایمان باب ٤١‘ مسند احمد ٤؍١٤٤‘ ١٤٦‘ ١٤٧۔

4712

۴۷۱۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ یُحَدِّثُ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : أَشْہَدُ لَسَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : مَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَمْ یُسَمِّہٖ فَکَفَّارَتُہٗ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ
٤٧١٢: خالد بن سعید نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جس نے کوئی نذ ربغیر نام لیے مان لی تو اس کا کفارہ قسم والا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الکفارات باب ١٧‘ بنحوہ۔

4713

۴۷۱۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْمَعَافِرِیُّ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْحُبُلِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّ أُخْتَہُ نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِیَ اِلَی الْکَعْبَۃِ حَافِیَۃً غَیْرَ مُخْتَمِرَۃٍ فَذَکَرَ ذٰلِکَ عُقْبَۃُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرْ أُخْتَکَ فَلْتَرْکَبْ وَلْتَخْتَمِرْ ، وَلْتَصُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ
٤٧١٣: ابو عبدالرحمن الحبلی نے عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کی ہمشیرہ نے بیت اللہ کی طرف ننگے پاؤں ننگے سر چلنے کی نذر مانی تو عقبہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ذکر کردی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی بہن کو کہو کہ وہ سوار ہوجائے اور دوپٹہ پہنے اور تین ایام کے روزے رکھے۔
تخریج : ترمذی فی النذرور باب ١٧۔

4714

۴۷۱۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زَحْرٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا سَعِیْدٍ الرُّعَیْنِیَّ یَذْکُرُ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، مِثْلَہٗ۔
٤٧١٤: ابو سعید رعینی نے عقبہ بن عامر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4715

۴۷۱۵: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْیَحْصُبِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَتِلْکَ الثَّلَاثَۃُ الْأَیَّامِ اِنَّمَا کَانَتْ کَفَّارَۃً لِیَمِیْنِہَا الَّتِیْ کَانَتْ بِہَا حَالِفَۃً ، بِقَوْلِہٖ لِلّٰہِ عَلَیَّ أَنْ أَحُجَّ مَاشِیَۃً وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ
٤٧١٥: ابو سعید یحصبی نے عبداللہ بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ تین روزے اس کی قسم کا کفارہ بن جائیں گے جو قسم اس نے ” لِلّٰہِ عَلَیَّ أَنْ أَحُجَّ مَاشِیَۃً “ کہہ کر اٹھائی ہے اور اس پر یہ روایت ابن عباس (رض) دلالت کرتی ہے۔

4716

۴۷۱۶: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ شَرِیْکٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ مَوْلٰی آلِ طَلْحَۃَ عَنْ کُرَیْبٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ أُخْتِیْ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ مَاشِیَۃً .فَقَالَ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَصْنَعُ بِشَقَائِ أُخْتِکَ شَیْئًا لِتَحُجَّ رَاکِبَۃً وَتُکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِہَا .وَخَالَفَ ہٰؤُلَآئِ أَیْضًا آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ نَأْمُرُ ہَذَا الَّذِیْ نَذَرَ أَنْ یَحُجَّ مَاشِیًا أَنْ یَرْکَبَ وَیُکَفِّرَ یَمِیْنَہٗ اِنْ کَانَ أَرَادَ یَمِیْنًا ، وَنَأْمُرُہٗ مَعَ ہٰذَا، بِالْہَدْیِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ شَیْبَۃَ قَدْ
٤٧١٦: کریب نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آ کر کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری بہن نے پیدل حج کی نذر مانی ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تیری بہن کو مشقت میں ڈال کر کیا کرے گا۔ اسے سوار ہو کر حج کرنا چاہیے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ دوسروں نے کہا پیدل حج کی نذر ماننے والے کو ہم کہیں گے کہ وہ سوار ہوجائے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے جبکہ اس نے قسم کا ارادہ کیا ہو اور اس کے ساتھ ہم اس کو ہدی کا بھی حکم دیں گے ان کی مستدل یہ روایات ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الایمان باب ١٩‘ ترمذی فی النذور باب ١٧‘ مسند احمد ١؍٣١٠۔

4717

۴۷۱۷: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیَیْ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہٗ أَنَّ أُخْتَہُ نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِیَ اِلَی الْکَعْبَۃِ حَافِیَۃً نَاشِرَۃً شَعْرَہَا .فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرْہَا فَلْتَرْکَبْ وَلْتَخْتَمِرْ وَلْتُہْدِ ہَدْیًا .
٤٧١٧: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عقبہ بن عامر (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور بتلایا کہ ان کی بہن نے قسم اٹھائی ہے کہ کعبہ کی طرف ننگے پاؤں پیدل ‘ بال بکھیر کر بیت اللہ کی طرف جائے گی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حکم فرمایا کہ وہ سر پر دوپٹہ لے اور ایک ہدی بھی دے۔

4718

۴۷۱۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِیِّ قَالَ : نَذَرَتْ أُخْتِیْ أَنْ تَمْشِیَ اِلَی الْکَعْبَۃِ فَأَتٰی عَلَیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَا لِہٰذِہٖ؟ قَالُوْا : نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِیَ اِلَی الْکَعْبَۃِ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنْ مَشْیِہَا مُرْہَا فَلْتَرْکَبْ وَلِتُہْدِ بَدَنَۃً .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِالْہَدْیِ لِمَکَانِ رُکُوْبِہَا .فَتَصْحِیْحُ ہٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا یُوْجِبُ أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَحُجَّ مَاشِیًا أَنْ یَرْکَبَ اِنْ أَحَبَّ ذٰلِکَ وَیُہْدِیَ ہَدْیًا لِتَرْکِہِ الْمَشْیَ ، وَیُکَفِّرَ عَنْ یَمِیْنِہِ لِحِنْثِہِ فِیْہَا .وَبِہٰذَا کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، یَقُوْلُوْنَ .وَأَمَّا وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّ قَوْمًا قَالُوْا : لَیْسَ الْمَشْیُ فِیْمَا یُوْجِبُہُ نَذْرٌ لِأَنَّ فِیْہِ تَعَبًا لِلْأَبْدَانِ وَلَیْسَ الْمَاشِیْ فِیْ حَالِ مَشْیِہِ فِیْ حُرْمَۃِ اِحْرَامٍ ، فَلَمْ یُوْجِبُوْا عَلَیْہِ الْمَشْیَ وَلَا بَدَلًا مِنَ الْمَشْیِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْحَجَّ فِیْہِ الطَّوَافُ بِالْبَیْتِ وَالْوُقُوْفُ بِعَرَفَۃ وَبِجَمْعٍ .وَکَانَ الطَّوَافُ مِنْہُ مَا یَفْعَلُہُ الرَّجُلُ فِیْ حَالِ اِحْرَامِہٖ وَہُوَ طَوَافُ الزِّیَارَۃِ .وَمِنْہُ مَا یَفْعَلُہُ بَعْدَ أَنْ یَحِلَّ مِنْ اِحْرَامِہٖ، وَہُوَ طَوَافُ الصَّدْرِ .وَکَانَ ذٰلِکَ کُلُّہُ مِنْ أَسْبَابِ الْحَجِّ قَدْ أُرِیْدَ أَنْ یَفْعَلَہُ الرَّجُلُ مَاشِیًا وَکَانَ مَنْ فَعَلَہٗ رَاکِبًا مُقَصِّرًا وَجُعِلَ عَلَیْہِ الدَّمُ .ہَذَا اِذَا کَانَ فَعَلَہُ لَا مِنْ عِلَّۃٍ .وَاِنْ کَانَ فَعَلَہٗ مِنْ عِلَّۃٍ ، فَاِنَّ النَّاسَ مُخْتَلِفُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا شَیْئَ عَلَیْہِ وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَالَ بَعْضُہُمْ : عَلَیْہِ دَمٌ وَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ - عِنْدَنَا - لِأَنَّ الْعِلَلَ اِنَّمَا تُسْقِطُ الْآثَامَ فِی انْتِہَاکِ الْحُرُمَاتِ ، وَلَا تُسْقِطُ الْکَفَّارَاتِ .أَلَا تَرَی أَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی قَالَ : وَلَا تَحْلِقُوْا رُئُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ وَکَانَ حَلْقُ الرَّأْسِ حَرَامًا عَلَی الْمُحْرِمِ فِیْ اِحْرَامِہِ اِلَّا مِنْ عُذْرٍ فَاِنْ حَلَقَہُ فَعَلَیْہِ الْاِثْمُ وَالْکَفَّارَۃُ ، وَاِنْ اُضْطُرَّ اِلَیْ حَلْقِہِ فَعَلَیْہِ الْکَفَّارَۃُ وَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ .فَکَانَ الْعُذْرُ یَسْقُطُ بِہٖ الْآثَامُ ، وَلَا یَسْقُطُ بِہٖ الْکَفَّارَاتُ فَکَانَ یَجِبُ فِی النَّظَرِ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ اِذَا کَانَ مَنْ طَافَہُ رَاکِبًا لِلزِّیَارَۃِ لَا مِنْ عُذْرٍ فَعَلَیْہِ دَمٌ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ مَنْ طَافَہُ مِنْ عُذْرٍ رَاکِبًا کَذٰلِکَ أَیْضًا .فَہٰذَا حُکْمُ النَّظَرِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قِیَاسُ قَوْلِ زُفَرَ .وَلٰـکِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ وَأَبَا یُوْسُفَ وَمُحَمَّدًا ، لَمْ یَجْعَلُوْا عَلَی مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ رَاکِبًا مِنْ عُذْرٍ شَیْئًا .فَلَمَّا ثَبَتَ بِالنَّظَرِ مَا ذَکَرْنَا کَانَ کَذٰلِکَ الْمَشْیُ لِمَا رَأَیْنَاہٗ، قَدْ یَجِبُ بَعْدَ فَرَاغِ الْاِحْرَامِ اِذْ کَانَ مِنْ أَسْبَابِہٖ کَمَا یَجِبُ فِی الْاِحْرَامِ ، کَانَ کَذٰلِکَ الْمَشْیُ الَّذِیْ قَبْلَ الْاِحْرَامِ مِنْ أَسْبَابِ الْاِحْرَامِ ، حُکْمُہٗ حُکْمُ الْمَشْیِ الْوَاجِبِ فِی الْاِحْرَامِ .فَکَمَا کَانَ عَلٰی تَارِکِ الْمَشْیِ الْوَاجِبِ فِی الْاِحْرَامِ دَمٌ کَانَ عَلٰی تَارِکِ ہٰذَا الْمَشْیِ الْوَاجِبِ قَبْلَ الْاِحْرَامِ دَمٌ أَیْضًا وَذٰلِکَ وَاجِبٌ عَلَیْہِ فِیْ حَالِ قُوَّتِہِ عَلَی الْمَشْیِ وَفِیْ حَالِ عَجْزِہٖ عَنْہُ فِیْ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ أَیْضًا ، وَذٰلِکَ دَلِیْلٌ لَنَا صَحِیْحٌ عَلٰی مَا بَیَّنَّاہُ مِنْ حُکْمِ الطَّوَافِ بِالْحَمْلِ فِیْ حَالِ الْقُوَّۃِ عَلَیْہِ وَفِیْ حَالِ الْعَجْزِ عَنْہُ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِذَا وَجَبَ عَلَیْہِ الْمَشْیُ بِاِیجَابِہٖ عَلٰی نَفْسِہِ أَنْ یَحُجَّ مَاشِیًا وَکَانَ یَنْبَغِیْ اِذَا رَکِبَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ مَعْنَی مَا لَمْ یَأْتِ بِمَا أَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہِ فَیَکُوْنُ عَلَیْہِ أَنْ یَحُجَّ بَعْدَ ذٰلِکَ مَاشِیًا فَیَکُوْنُ کَمَنْ قَالَ لِلّٰہِ عَلَیَّ أَنْ أُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ قَائِمًا فَصَلَّاہُمَا قَاعِدًا. فَمِنَ الْحُجَّۃِ عِنْدَنَا عَلَی قَائِلِ ہٰذَا الْقَوْلِ أَنَّا رَأَیْنَا الصَّلَوَاتِ الْمَفْرُوْضَاتِ الَّتِیْ عَلَیْنَا أَنْ نُصَلِّیَہَا قِیَامًا وَلَوْ صَلَّیْنَاہَا قُعُوْدًا لَا نُعْذَرُ وَجَبَ عَلَیْنَا اِعَادَتُہَا وَکُنَّا فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یُصَلِّہَا .وَکَانَ مَنْ حَجَّ مِنَّا حَجَّۃَ الْاِسْلَامِ الَّتِیْ یَجِبُ عَلَیْنَا الْمَشْیُ فِی الطَّوَافِ لَہَا ، فَطَافَ ذٰلِکَ الطَّوَافَ رَاکِبًا ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی أَہْلِہِ لَمْ یُجْعَلْ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَطُفْ وَیُؤْمَرْ بِالْعَوْدِ بَلْ قَدْ جُعِلَ فِیْ حُکْمِ مَنْ طَافَ وَأَجْزَأَہُ طَوَافُہُ ذٰلِکَ اِلَّا أَنَّہٗ جُعِلَ عَلَیْہِ دَمٌ لِتَقْصِیْرِہٖ۔ فَکَذٰلِکَ الصَّلَاۃُ الْوَاجِبَۃُ بِالنَّذْرِ وَالْحَجُّ الْوَاجِبُ بِالنَّذْرِ ، ہُمَا مَقِیْسَانِ عَلَی الصَّلَاۃِ وَالْحَجِّ الْوَاجِبَیْنِ بِاِیجَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَمَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مِمَّا یَجِبُ بِاِیجَابِ اللّٰہِ یَکُوْنُ الْمُقَصِّرُ فِیْہِ فِیْ حُکْمِ تَارِکِہِ کَانَ کَذٰلِکَ مَا یُوْجِبُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ الْجِنْسِ بِاِیجَابِہٖ اِیَّاہُ عَلٰی نَفْسِہِ فَقَصَّرَ فِیْہِ، یَکُوْنُ بِتَقْصِیْرِہِ فِیْہِ فِیْ حُکْمِ تَارِکِہٖ، فَعَلَیْہِ اِعَادَتُہُ .وَمَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مِمَّا یَجِبُ بِاِیجَابِ اللّٰہِ عَلَیْہِ مُقَصِّرٌ فِیْہِ فَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ اِعَادَتُہُ وَلَمْ یَکُنْ بِذٰلِکَ التَّقْصِیْرِ فِیْ حُکْمِ تَارِکِہِ کَانَ کَذٰلِکَ مَا وَجَبَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ الْجِنْسِ بِاِیجَابِہٖ اِیَّاہُ عَلٰی نَفْسِہِ فَقَصَّرَ فِیْہِ، فَلَا یَکُوْنُ بِذٰلِکَ التَّقْصِیْرِ فِیْ حُکْمِ تَارِکِہِ فَیَجِبُ عَلَیْہِ اِعَادَتُہُ وَلٰـکِنَّہٗ فِیْ حُکْمِ فَاعِلِہِ وَعَلَیْہِ لِتَقْصِیْرِہِ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ مِنَ التَّقْصِیْرِ فِیْ أَشْکَالِہِ مِنْ الدِّمَائِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٧١٨: عکرمہ نے عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے نقل کیا کہ میری بہن نے بیت اللہ کی طرف چلنے کی نذر مانی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا اس کو کیا ہے ؟ انھوں نے بتلایا کہ اس نے بیت اللہ کی طرف پیدل جانے کی نذر مانی ہے تو آپ نے اس کو فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے چلنے سے بے پروا ہیں اس کو سواری کا حکم دو اور اونٹ بطور ہدی دے۔ یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ہدی کا حکم دیا یہ اس کے سواری کرنے کی وجہ سے ہے۔ پس ان تمام آثار کی تصحیح کا تقاضا یہ ہے کہ جس نے پیدل حج کی نذر مانی ہو اگر پسند کرے تو وہ سوار ہوجائے اور پیدل چلنے کو چھوڑ دینے کی وجہ سے ہدی دے اور قسم توڑنے کی وجہ سے قسم کا کفارہ ہوگا۔ امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول یہی ہے۔ اس سلسلہ میں تقاضا نظریہ ہے کہ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ پیدل چلنے کو لازم کرلینا یہ نذر میں شامل نہیں ہے کیونکہ اس میں بدن کی تھکاوٹ ہے اور پیدل چلنے والا چلتے ہوئے حرمت احرام میں بھی نہیں ہے اسی وجہ سے انھوں نے پیدل چلنے والے پر نہ تو پیدل چلنے کو لازم کیا اور نہ چلنے کے بدلے کسی چیز کو لازم کیا۔ ہم نے اس میں جب غور کیا تو دیکھا کہ حج میں طواف بیت اللہ ‘ وقوف عرفات اور وقوف مزدلفہ ہے اور طواف کی دو حالتیں ہیں ایک وہ ہے جس کو وہ حالت احرام میں کرتا ہے اور وہ طواف زیارت ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو احرام سے حلال ہونے کے بعد کرتا ہے اور وہ طواف صدر ہے اور یہ تمام ارکان حج سے ہیں کبھی آدمی ان کو پیدل چل کر کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس وقت وہ سواری کی حالت میں کرنے سے کوتاہی کرنے والا شمار ہوگا اور اس پر دم لازم آئے گا اور یہ اس وقت ہے جبکہ سوار ہونا بغیر کسی بیماری وغیرہ کے ہو اور اگر اس کا یہ فعل کسی بیماری کی وجہ سے ہو تو پھر اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں اس پر کچھ بھی لازم نہ آئے گا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ اس پر دم لازم ہوگا اور نظر و قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ (ہمارے ہاں) اس کی دلیل یہ ہے کہ حرمات کی توہین کے سلسلہ میں ثابت ہونے والے گناہ کو اسباب ساقط کرتے ہیں مگر اس پر لازم ہونے والے کفارات کو ساقط نہیں کرتے۔ ذرا غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ۔ (البقرہ : ١٩٦) احرام کی حالت میں محرم کو سر منڈوانا حرام تھا البتہ عذر کی صورت میں جائز تھا پس اگر اس نے حلق کردیا تو اس پر گناہ اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے اور اس کو حلق کے لیے مجبوری پیش آگئی تو اس پر کفارہ تو ہوگا مگر اس پر گناہ لازم نہ ہوگا۔ پس عذر نے گناہوں کو ساقط کردیا مگر عذر کفارات کو ساقط نہیں کرسکتے۔ پس نظر کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ طواف بیت اللہ کا بھی یہی حکم ہو جبکہ کسی نے بلاعذر طواف زیارت سوار ہونے کی حالت میں کیا۔ پس اس پر ایک دم لازم ہوگا البتہ جس نے عذر کی وجہ سے سوار ہو کر طواف کیا ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اس باب میں امام زفر (رض) کے قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اس شخص پر کوئی چیز لازم نہیں کرتے بیت اللہ کا طواف زیارۃ عذر کی وجہ سے سوار ہو کر کرلے۔ پس جب یہ اسی طرح ثابت ہوگیا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا تو پیدل چلنے کا بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات احرام سے فراغت کے بعد لازم ہوتا ہے اس لیے کہ یہ اس کے اسباب و شرائط سے ہے۔ جیسا کہ یہ احرام میں لازم ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ پیدل چلنا جو احرام سے پہلے اسباب احرام سے تھا۔ تو اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو احرام میں لازم چلنے کا ہوتا ہے۔ پس نتیجتاً جس طرح احرام میں لازم چلنے کو چھوڑنے کی وجہ سے دم آتا ہے اسی طرح اس واجب مشی کو جو احرام سے پہلے ہے چھوڑنے کی وجہ سے بھی دَم لازم آئے گا اور پیدل چلنے پر طاقت ہونے کی حالت میں جب یہ اس پر لازم ہے اور مشی سے عجز کی حالت میں بھی لازم ہوگی یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا بھی قول ہے اور یہ ہمارے لیے اس بات کی دلیل ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے کہ قوت کی حالت میں سواری یا عجز کی حالت میں سواری دونوں حالتوں میں اس کا حکم برابر ہے۔ اگر کسی نے پیدل حج کی نذر مانی تو اس پر پیدل حج لازم ہے سوار ہونے کی صورت میں وہ اس بات پر عمل کرنے والا شمار نہ ہوگا جس بات کو اس نے اپنے اوپر لازم کیا ہے اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ بعد میں پیدل حج کرے پس اس وقت وہ اس آدمی کی طرح ہوجائے گا جو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لیے دو رکعت کھڑے ہو کر پڑھنا لازم ہے (پھر وہ بیٹھ کر پڑھے تو اس پر اعادہ لازم ہے) ہم گزارش کریں گے کہ ہم نے غور کیا تو نمازوں کو دو قسم پر پایا کچھ نمازیں ایسی ہیں جو کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہیں اگر ان کو ہم کسی عذر کے بغیر بیٹھ کر ادا کریں تو ہم پر ان کا لوٹانا واجب ہوگا اور ہم اس شخص کے حکم میں ہوں جس نے اس نماز کو ادا ہی نہیں کیا (جیسے فرائض) اور ہم میں جو آدمی فرض حج ادا کرے جس میں پیدل طواف لازم ہے اور وہ سوار ہو کر طواف کرتا ہے پھر وہ اپنے گھر واپس لوٹ آتا ہے تو اس کو طواف نہ کرنے والے کے حکم میں شمار نہ کیا جائے گا اور نہ یہ کہا جائے گا کہ وہ واپس لوٹ جائے بلکہ اس کو اس آدمی کی طرح قرار دیں گے جس نے طواف کیا اور اس کا یہ طواف اس کے لیے کافی ہوگیا۔ البتہ اس (طواف ) میں کوتاہی کی وجہ سے اس پر قربانی لازم ہوجائے گی بالکل اسی طرح جو نماز اور حج نذر کی وجہ سے لازم ہوا اسے اس نماز اور حج پر قیاس کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے فرض و لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہوا ہے۔ پس جو شخص اس عبادت میں جو اللہ تعالیٰ نے لازم کی ہے کوتاہی کرنے والا ہوگا وہ چھوڑنے والے کے حکم میں ہے۔ اسی طرح جو اس عبادت کی جنس و قسم سے جو اس نے خود اپنے اوپر لازم کی ہیں اور پھر ان میں کوتاہی کا مرتکب ہوا تو اس کو چھوڑنے والے کے حکم میں ہوگا اور اس پر اس (عبادت) کو لوٹانا لازم ہوگا
تخریج : ترمذی فی النذور باب ١٠۔
حاصل روایات : یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ہدی کا حکم دیا یہ اس کے سواری کرنے کی وجہ سے ہے۔
پس ان تمام آثار کی تصحیح کا تقاضا یہ ہے کہ جس نے پیدل حج کی نذر مانی ہو اگر پسند کرے تو وہ سوار ہوجائے اور پیدل چلنے کو چھوڑ دینے کی وجہ سے ہدی دے اور قسم توڑنے کی وجہ سے قسم کا کفارہ ہوگا۔
امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول یہی ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اس سلسلہ میں تقاضا نظریہ ہے کہ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ پیدل چلنے کو لازم کرلینا یہ نذر میں شامل نہیں ہے کیونکہ اس میں بدن کی تھکاوٹ ہے اور پیدل چلنے والا چلتے ہوئے حرمت احرام میں بھی نہیں ہے اسی وجہ سے انھوں نے پیدل چلنے والے پر نہ تو پیدل چلنے کو لازم کیا اور نہ چلنے کے بدلے کسی چیز کو لازم کیا۔
ہم نے اس میں جب غور کیا تو دیکھا کہ حج میں طواف بیت اللہ ‘ وقوف ‘ عرفات اور وقوف مزدلفہ ہے اور طواف کی دو حالتیں ہیں ایک وہ ہے جس کو وہ حالت احرام میں کرتا ہے اور وہ طواف زیارت ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو احرام سے حلال ہونے کے بعد کرتا ہے اور وہ طواف صدر ہے اور یہ تمام ارکان حج سے ہیں کبھی آدمی ان کو پیدل چل کر کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس وقت وہ سواری کی حالت میں کرنے سے کوتاہی کرنے والا شمار ہوگا اور اس پر دم لازم آئے گا اور یہ اس وقت ہے جبکہ سوار ہونا بغیر کسی بیماری وغیرہ کے ہو اور اگر اس کا یہ فعل کسی بیماری کی وجہ سے ہو تو پھر اس میں اختلاف ہے۔
نمبر 1: بعض کہتے ہیں اس پر کچھ بھی لازم نہ آئے گا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نمبر 2: اس پر دم لازم ہوگا اور نظر و قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ (ہمارے ہاں) اس کی دلیل یہ ہے کہ حرمات کی توہین کے سلسلہ میں ثابت ہونے والے گناہ کو تو اسباب ساقط کرتے ہیں مگر اس پر لازم ہونے والے کفارات کو ساقط نہیں کرتے۔
ذرا غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ۔ (البقرہ ١٩٦) احرام کی حالت میں محرم کو سر منڈوانا حرام تھا البتہ عذر کی صورت میں جائز تھا پس اگر اس نے حلق کردیا تو اس پر گناہ اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے اور اس کو حلق کے لیے مجبوری پیش آگئی تو اس پر کفارہ تو ہوگا مگر اس پر گناہ لازم نہ ہوگا۔
پس عذر نے گناہوں کو ساقط کردیا مگر عذر کفارات کو ساقط نہیں کرسکتے۔ پس نظر کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ طواف بیت اللہ کا بھی یہی حکم ہو جبکہ کسی نے بلاعذر طواف زیارت سواری کی حالت میں کیا۔ پس اس پر ایک دم لازم ہوگا البتہ جس نے عذر کی وجہ سے سوار ہو کر طواف کیا ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اس باب میں امام زفر (رض) کے قیاس کا تقاضا یہی ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اس شخص پر کوئی چیز لازم نہیں کرتے بیت اللہ کا طواف زیارت عذر کی وجہ سے سوار ہو کر کرلے۔
پس جب یہ اسی طرح ثابت ہوگیا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا تو پیدل چلنے کا بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات احرام سے فراغت کے بعد لازم ہوتا ہے اس لیے کہ یہ اس کے اسباب و شرائط سے ہے۔ جیسا کہ یہ احرام میں لازم ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ پیدل چلنا جو احرام سے پہلے اسباب احرام سے تھا۔ تو اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو احرام میں لازم چلنے کا ہوتا ہے۔ پس نتیجتاً جس طرح احرام میں لازم چلنے کو چھوڑنے کی وجہ سے دَم آتا ہے اسی طرح اس واجب مشی کو جو احرام سے پہلے ہے اس پر بھی لازم آئے گا اور پیدل چلنے پر طاقت ہونے کی حالت میں جب یہ اس پر لازم ہے اور چلنے سے عجز کی حالت میں بھی لازم ہوگا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا بھی قول ہے اور یہ ہمارے لیے اس بات کی دلیل ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے کہ قوت کی حالت میں سواری یا عجز کی حالت میں سواری دونوں حالتوں میں اس کا حکم برابر ہے۔
سوال : اگر کسی نے پیدل حج کی نذر مانی تو اس پر پیدل حج لازم ہے سوار ہونے کی صورت میں وہ اس بات پر عمل کرنے والا شمار نہ ہوگا جس بات کو اس نے اپنے اوپر لازم کیا ہے اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ بعد میں پیدل حج کرے پس اس وقت وہ اس آدمی کی طرح ہوجائے گا جو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لیے دو رکعت کھڑے ہو کر پڑھنا لازم ہے (پھر وہ بیٹھ کر پڑھے تو اس پر اعادہ لازم ہے)
جواب : ہم گزارش کریں گے کہ ہم نے غور کیا تو نمازوں کو دو قسم پایا کچھ نمازیں ایسی ہیں جو کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہیں اگر ان کو ہم کسی عذر کے بغیر بیٹھ کر ادا کریں تو ہم پر ان کا لوٹانا واجب ہوگا اور ہم اس شخص کے حکم میں ہوں گے جس نے اس نماز کو ادا ہی نہیں کیا (جیسے فرائض) اور ہم میں جو آدمی فرض حج ادا کرے جس میں پیدل طواف لازم ہے اور وہ سوار ہو کر طواف کرتا ہے پھر وہ اپنے گھر واپس لوٹ آتا ہے تو اس کو طواف نہ کرنے والے کے حکم میں شمار نہ کیا جائے گا اور نہ یہ کہا جائے گا کہ وہ واپس لوٹ جائے بلکہ اس کو اس آدمی کی طرح قرار دیں گے جس نے طواف کیا اور اس کا یہ طواف اس کے لیے کافی ہوگیا۔ البتہ اس (طواف میں) کوتاہی کی وجہ سے اس پر قربانی لازم ہوجائے گی بالکل اسی طرح جو نماز اور حج نذر کی وجہ سے لازم ہوا اسے اس نماز اور حج پر قیاس کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے فرض و لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہوا ہے۔
پس جو شخص اس عبادت کو جو اللہ تعالیٰ نے لازم کی ہے کوتاہی کرنے والا ہوگا وہ چھوڑنے والے کے حکم میں ہے۔ اسی طرح جو اس عبادت کی جنس و قسم سے ہو جو اس نے خود اپنے اوپر لازم کی ہیں اور پھر ان میں کوتاہی کا مرتکب ہوا تو اس کو چھوڑنے والے کے حکم میں ہوگا اور اس پر اس (عبادت) کو لوٹانا لازم ہوگا۔
اور جو عبادت اللہ تعالیٰ کے واجب کرنے سے واجب ہوئی اور پھر اس نے اس میں کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے اور وہ اس میں کوتاہی کی وجہ سے اسے چھوڑنے والا قرار نہیں پاتا۔ تو اس جنس کی عبادت کا یہی حکم ہے جس کو اس نے خود اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ پھر اس میں کوتاہی کی تو وہ اس کوتاہی کی وجہ سے چھوڑنے والے کے حکم میں نہ ہوگا اور اس پر لوٹانا بھی واجب نہیں۔ بلکہ وہ کرنے والے کے حکم میں ہے اور اس کوتاہی کی وجہ سے وہی قربانی لازم ہوگی جو اس جیسی عبادت میں کوتاہی کی وجہ سے لازم ہوتی ہے۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

4719

۴۷۱۹: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ نَذَرْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ أَعْتَکِفَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ فِ بِنَذْرِکَ .
٤٧١٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو اپنی نذر کو پورا کر۔
تخریج : بخاری فی العتکاف باب ٥‘ ١٥؍١٦‘ الایمان باب ١٩‘ مسلم فی الایمان ٢٧؍٢٨‘ ابو داؤد فی الایمان باب ٢٥‘ ترمذی فی النذور باب ١٢‘ نسائی فی الایمان باب ٣٦‘ مسند احمد ٢؍٢٠‘ ١٥٣۔

4720

۴۷۲۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْحَنْظَلِیُّ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَرَاہُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ نَذَرْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ نَذْرًا وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ ، فَقَالَ فِ بِنَذْرِک .
٤٧٢٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی میرا خیال ہے کہ یہ عمر (رض) کی طرف سے ہے کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی پھر اسلام آگیا تو آپ نے فرمایا تو اپنی نذر کو پورا کرو۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٧۔

4721

۴۷۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ أَنَّ أَیُّوْبَ حَدَّثَہٗ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَہٗ ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَہٗ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِالْجِعْرَانَۃِ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ نَذَرْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ أَعْتَکِفَ یَوْمًا فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اذْہَبْ فَاعْتَکِفْ یَوْمًا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہِ فِیْ حَالِ شِرْکِہِ مِنْ اعْتِکَافٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ شَیْئٍ مِمَّا یُوْجِبُہُ الْمُسْلِمُوْنَ لِلّٰہٖ، ثُمَّ أَسْلَمَ - أَنَّ ذٰلِکَ وَاجِبٌ عَلَیْہِ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٧٢١: نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جبکہ آپ جعرانہ میں تھے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک دن مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جا کر ایک دن کا اعتکاف کرو۔
تخریج : مسلم فی الایمان ٢٨۔
بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کسی آدمی نے حالت شرک و کفر میں اپنے اوپر اعتکاف ‘ صدقہ یا ایسا عمل لازم کیا جس کو مسلمان کرتے ہیں پھر وہ اسلام لے آیا تو یہ اس کے ذمہ واجب ہے اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔

4722

۴۷۲۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ الْأَیْلِیِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَ اللّٰہَ فَلَا یَعْصِہِ
٤٧٢٢: قاسم بن محمد نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کسی طاعت کی نذر مانے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہیے اور جس نے معصیت کی نذر مانی تو وہ اسے مت اختیار کرے۔
تخریج : بخاری فی الایمان باب ٢٨‘ ٣١‘ ابو داؤد فی الایمان باب ١٩‘ ترمذی فی النذور باب ٢‘ نسائی فی الایمان باب ٢٧‘ ابن ماجہ فی الکفارات باب ١٦‘ مالک فی النذور ٨‘ مسند احمد ٦؍٣٦‘ ٤١‘ ٢٣٤۔

4723

۴۷۲۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٢٣: عثمان بن عمر کہتے ہیں کہ ہمیں مالک نے اپنی اسناد سے اسی طرح ذکر کیا ہے۔

4724

۴۷۲۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٢٤: عبیداللہ بن عمر نے طلحہ بن عبدالملک نے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

4725

۴۷۲۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٢٥: مالک نے طلحہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4726

۴۷۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ الْمُنْقِرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَ اللّٰہَ فَلَا یَعْصِہٖ .
٤٧٢٦: محمد بن ابان نے قاسم سے انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے جس نے اللہ تعالیٰ کی معصیت کی نذر مانی ہو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔
تخریج : ٤٧٢٢ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

4727

۴۷۲۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٧٢٧: حرب بن شداد نے یحییٰ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی کی مثل روایت نقل کی ہے۔

4728

۴۷۲۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ کَعْبٍ الْحَلَبِیُّ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ عَنِ ابْنِ حَرْمَلَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا النَّذْرُ مَا اُبْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ .قَالُوْا : فَلَمَّا کَانَتِ النُّذُوْرُ اِنَّمَا تَجِبُ اِذَا کَانَتْ مِمَّا یُتَقَرَّبُ بِہٖ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَلَا تَجِبُ اِذَا کَانَتْ مَعَاصِیَ اللّٰہِ وَکَانَ الْکَافِرُ اِذَا قَالَ لِلّٰہِ عَلَیَّ صِیَامٌ أَوْ قَالَ لِلّٰہِ عَلَیَّ اعْتِکَافٌ فَہُوَ لَوْ فَعَلَ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ بِہٖ مُتَقَرِّبًا اِلَی اللّٰہِ وَہُوَ فِیْ وَقْتِ مَا أَوْجَبَہٗ اِنَّمَا قَصَدَ بِہٖ اِلٰی رَبِّہِ الَّذِیْ یَعْبُدُہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَذٰلِکَ مَعْصِیَۃٌ .فَدَخَلَ ذٰلِکَ فِیْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ . وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ فِ بِنَذْرِکَ لَیْسَ مِنْ طَرِیْقِ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ وَاجِبًا عَلَیْہِ وَلٰـکِنْ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ سَمَحَ فِیْ حَالِ مَا نَذَرَہُ أَنْ یَفْعَلَہٗ فَہُوَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَفْعَلَہُ الْآنَ عَلٰی أَنَّہٗ طَاعَۃٌ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَکَانَ مَا أَمَرَہٗ بِہٖ خِلَافَ مَا اِذَا کَانَ أَوْجَبَہُ ہُوَ عَلٰی نَفْسِہِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٤٧٢٨: عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک نذر اس چیز کی جائز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کی جائے۔ انھوں نے فرمایا جب نذر ان چیزوں کی درست ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کیا جاتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت کے کاموں سے ہو تو نذر لازم نہیں ہوتی اور کافر نے جب یہ کہا : اللہ علی صیام ی اللہ علی اعتکاف “ پھر وہ اس کو کرے بھی تو اس کو اس سے تقرب الی اللہ مقصود نہیں اس نے جس وقت اس کو اپنے ذمہ واجب کیا تو اس وقت اس کا اس سے ان کو خوش کرنا مقصود ہے جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتا ہے اور غیر اللہ کی پوجا معصیت ہے۔ پس یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد لا نذر فی معصیۃ میں داخل ہو کر ممنوع ٹھہرے گا۔ ان کو کہا جائے گا کہ آپ نے جس روایت سے استدلال کیا ہے کہ اے عمر (رض) تم اپنی نذر پوری کرو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بطور وجوب نہ تھا لیکن انھوں نے جب یہ نذر مانی تھی تو اس وقت کرنے سے گریز کیا اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں تھے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اب کرنے کا حکم دیا اس طور پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طاعت ہے۔ پس آپ نے جس کو پورا کرنے کا حکم دیا یہ اس کے خلاف تھا جبکہ انھوں نے اس کو اپنے نفس پر واجب کیا تھا۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍١٨٣۔
فریق ثانی کا طریق استدلال : جب نذر ان چیزوں کی درست ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کیا جاتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت کے کاموں سے ہو تو نذر لازم نہیں ہوتی اور کافر نے جب یہ کہا اللہ علی صیام ی اللہ علی اعتکاف “ پھر وہ اس کو کرے بھی تو اس کو اس سے تقرب الی اللہ مقصود نہیں اس نے جس وقت اس کو اپنے ذمہ واجب کیا تو اس وقت اس کا اس سے ان کو خوش کرنا مقصود ہے جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتا ہے اور غر اللہ کی پوجا معصیت ہے۔ پس یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : لا نذر فی معصیۃ میں داخل ہو کر ممنوع ٹھہرے گا۔
فریق اوّل کا مؤقف کا جواب : آپ نے جس روایت سے استدلال کیا ہے کہ اے عمر (رض) تم اپنی نذر پوری کرو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بطور وجوب نہ تھا لیکن انھوں نے جب یہ نذر مانی تھی تو اس وقت کرنے سے گریز کیا اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں تھے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اب کرنے کا حکم دیا اس طور پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طاعت ہے۔ پس آپ نے جس کو پورا کرنے کا حکم دیا یہ اس کے خلاف تھا جبکہ انھوں نے اس کو اپنے نفس پر واجب کیا تھا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔