HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

18. کتاب الاوائل

الطحاوي

5721

۵۷۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ حَمْزَۃَ الزُّبَیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ حَازِمٍ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ قَالَ الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِہِمْ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی اِجَازَۃِ الْعُمْرَی وَجَعَلُوْہَا رَاجِعَۃً اِلَی الْمُعْمِرِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُعْمَرِ لَہٗ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : اِنَّمَا وَقَعَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰذَا عَلَی الشُّرُوْطِ الَّتِی قَدْ أَبَاحَ الْکِتَابُ اشْتِرَاطَہَا وَجَائَ تْ بِہٖ السُّنَّۃُ وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ .فَأَمَّا مَا نَہٰی عَنْہٗ الْکِتَابُ أَوْ نَہَتْ عَنْہٗ السُّنَّۃُ فَہُوَ غَیْرُ دَاخِلٍ فِیْ ذٰلِکَ. أَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ حَدِیْثِ بَرِیْرَۃَ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَہُوَ بَاطِلٌ وَاِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ .وَمَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ مَا کَانَ مَنْصُوْصًا فِیْہِ أَوْ مَا قَالَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا وَجَبَ قَبُوْلُہُ لِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِذْ یَقُوْلُ فِیْہِ مَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْھُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہٗ فَانْتَہُوْا .وَلَیْسَ کُلُّ شَرْطٍ یَشْرِطُہُ الْمُسْلِمُوْنَ یَدْخُلُ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِہِمْ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ لَجَازَ الشَّرْطَانِ فِی الْبَیْعِ اللَّذَانِ قَدْ نَہٰی عَنْہُمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ مُعَارِضًا لِذٰلِکَ وَلِقَوْلِہٖ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَہُوَ بَاطِلٌ وَاِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ .فَلَمَّا لَمْ یَجْعَلْ ذٰلِکَ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی وَاِنَّمَا جَعْل عَلَی خَاص مِنِ الشُّرُوْطِ وَقَدْ وَقَفْنَا عَلَیْہَا وَعَرَفْنَاہَا فَأَعْلَمَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہٖ الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِہِمْ أَنَّہُمْ عِنْدَ تِلْکَ الشُّرُوْطِ الَّتِی قَدْ أَجَازَ لَہُمْ اشْتِرَاطَہَا حَتّٰی لَا یَجِبَ لِمَنْ ہِیَ لَہُمْ عَلَیْہِ نَقْضُہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٥٧٢٠: ولید بن رباح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں۔ ابن ابی داؤد نے اپنے اسناد کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان اپنی شروط پر پورے اترنے والے ہیں۔ (بخاری فی الاجارہ باب ٢‘ ابوداؤد فی الاقضیہ باب ١٢) امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : فقہاء کی ایک جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ عمریٰ جائز ہے اور جس کے لیے وہ چیز عمر بھر کے لیے دی جائے گی وہ اس کی موت کے بعد اس کی طرف لوٹ آئے گی انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے وہ شرائط مراد ہیں جن کو قرآن مجید اور سنت جائز قرار دے اس پر سب کا اتفاق ہے جن شرائط کی ممانعت کتاب و سنت سے ثابت ہو وہ اس میں داخل و شامل نہیں کیا فریق اول والے احباب کو یہ نظر نہیں آتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث بریرہ میں یہ بات فرمائی کہ جو شرائط قرآن مجید کے مطابق نہ ہوں وہ باطل ہیں خواہ وہ سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں اور قرآن مجید کے مطابق وہ شرائط ہیں جن کے متعلق نصوص وارد ہیں یا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلائی ہیں اس لیے کہ ان کو قبول کرنا بھی کتاب اللہ کی وجہ سے ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہوا “ (الحشر ٧) یہ بات نہیں کہ جو شرط بھی مسلمان لگا لیں وہ اس قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے کیونکہ اگر اس طرح ہوتا تو سودے میں وہ شرائط جائز ہوتیں جن سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا اور یہ حدیث اس کے معارض بنتی اور اس صورت میں آپ کے اس قول کے بھی خلاف ہوتی ” کل شرط “ الحدیث جو جو شرط کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے اگرچہ وہ سو شرائط ہوں جب آپ نے اس کا یہ معنی نہیں لیا بلکہ اس سے خاص شرائط مراد لی ہیں جن سے ہم واقف و مطلع ہوچکے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد سے ہمیں یہ بتلا دیا ” المسلمون عند شروطہم “ یعنی مسلمان انہی شرائط پر رہیں گے جن کی ان کو اجازت دی گئی ہے وہ ایسی شرائط نہ لگائیں جن کا توڑنا لازم ہوجائے خود ارشاد نبوت اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الاجارہ باب ١٤‘ ابو داؤد فی الاقضیہ باب ١٢۔
عمری بروزن فعلی : عمر بھر کے لیے کوئی چیز دے دینا۔
فریق اول : اگر کسی کو عمر بھر کے لیے چیز دی تو موت کے بعد وہ دینے والے کی طرف لوٹ آئے گی۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ عمر بھر کے لیے چیز دینے پر وہ مالک بن جائے گا اس کو واپس نہ کیا جائے۔
فریق اول کا مؤقف اور دلیل : جس کو عمر بھر کے لیے چیز دی گئی ہے اس کی موت کے بعد وہ واقف کی طرف لوٹ آئے گی۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
ارشادِ نبوت سے اس کی تائید :

5722

۵۷۲۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ قَالَ : ثَنَا کَثِیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزَنِیّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِہِمْ اِلَّا شَرْطًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا .فَدَلَّ ہٰذَا أَنَّ الشُّرُوْطَ الَّتِی الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَہَا ہِیَ بِخِلَافِ ہٰذِہِ الشُّرُوْطِ الْمُسْتَثْنَاۃِ .وَکَانَتِ الشُّرُوْطُ فِی الْعُمْرَی قَدْ وَقَّفَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بُطْلَانِہَا فِیْ آثَارٍ قَدْ جَائَ تْ عَنْہٗ مَجِیْئًا مُتَوَاتِرًا .
٥٧٢١: کثیر بن عبداللہ المزنی نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے دادا سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔ مسلمان اپنی شرائط پر قائم رہیں گے سوائے اس شرط کے جو کسی حرام کو حلال کر دے یا کسی حرام کو حلال کرے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ شرائط جن پر مسلمانوں کا قائم رہنا ضروری ہے وہ ان مستثنیٰ شرائط کے علاوہ ہیں اور عمریٰ میں لگائی جانے والی شرائط کے بطلان کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متواتر روایات میں اطلاع دی ہے ہم چند آثار نقل کرتے ہیں۔ بطلان عمریٰ کی روایات :
تخریج : ترمذی فی الاحکام باب ١٧۔

5723

۵۷۲۲: فَمِنْہَا مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍوْ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ أَمِیْرًا کَانَ عَلَی الْمَدِیْنَۃِ یُقَالُ لَہٗ طَارِقٌ قَضٰی بِالْعُمْرَی لِلْوَارِثِ عَنْ قَوْلِ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٧٢٢: سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے ایک امیر کا نام طارق تھا اس نے وارث کے لیے عمریٰ کا فیصلہ کیا اس نے حضرت جابر عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دلیل بنایا۔
تخریج : مسلم فی الہبات ٢٩‘ مسند احمد ٣؍٣٨١‘ ٥؍١٨٢۔

5724

۵۷۲۳: أَخْبَرَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍوْ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ حَجَرٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی بِالْعُمْرَی لِلْوَارِثِ .فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْعُمْرَی لِلْوَارِثِ فَقَطَعَ بِذٰلِکَ شَرْطَ الْعُمْرَی .فَقَالَ الْأَوَّلُوْنَ : فَلَمْ یُبَیِّنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ذٰلِکَ الْوَارِثَ وَارِثَ مَنْ ہُوَ مَعَہٗ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ وَارِثَ الْمُعْمِرِ .قِیْلَ لَہٗ : ہٰذَا مُحَالٌ عِنْدَنَا لِأَنَّہٗ اِنَّمَا کَانَ الذِّکْرُ عَلٰی شَیْئٍ قَدْ جُعِلَ لِلْمُعْمَرِ حَیَاتَہُ عَلٰی أَنْ یَعُوْدَ بَعْدَ الْمَوْتِ اِلَی الْمُعْمِرِ فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ لِلْوَارِثِ أَیْ: جَعَلَ لِوَارِثِ الْمُعْمَرِ مَا قَدْ کَانَ اشْتَرَطَ فِیْہِ الْمُعْمِرُ أَنْ لَا یَکُوْنَ مِیْرَاثًا .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ بَحْرِ بْنِ مَطَرٍ ۔
٥٧٢٣: حجر نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمریٰ کے متعلق وارث کے لیے فیصلہ فرمایا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وارث کو عمریٰ دینے کا فیصلہ فرمایا اور عمریٰ کی شرط کو باطل قرار دیا۔ روایت میں وارث کی وضاحت نہیں کہ کون ہے وہ وارث جس کے ساتھ وہ رہتا ہے یا معمر کا وارث مراد ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا یہ بات ہمارے ہاں ناممکن ہے کیونکہ یہاں تک اس چیز کا تذکرہ ہے جو معمر کو زندگی بھر کے لیے دی گئی ہے اور اس شرط پر دی گئی ہے کہ معمر کی طرف لوٹے گی معمر کے ورثاء کو نہ ملے گی اب مطلب یہی ہے کہ معمر کے ورثاء کو ملے گی معمر کی وراثت نہ ہوگی اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : نسائی فی العمریٰ باب ١‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٣۔

5725

۵۷۲۴: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُو النَّضْرِ ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْمَرَ شَیْئًا حَیَاتَہٗ فَہُوَ لَہٗ وَلِوَارِثِہِ .فَدَلَّ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰذَا عَلَی الْوَارِثِ الْمَحْکُوْمِ بِہَا لَہٗ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا أَنَّہٗ وَارِثُ الْمُعْمَرِ .
٥٧٢٤: طاوس نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اپنی زندگی کے لیے کوئی چیز کسی کو دی وہ اس کے لیے اور اس کے ورثاء کے لیے ہے۔ اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ جس وارث کے لیے فیصلہ کیا وہ معمر کا وارث ہے (اور شرط باطل ہے)
تخریج : نسائی فی الرقی باب ٢‘ والعمریٰ باب ٢‘ ٤‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٣‘ مسند احمد ٢‘ ٣٤؍٧٣‘ ٣‘ ٢٩٣؍٣١٧۔
حاصل روایت : اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ جس وارث کے لیے فیصلہ کیا وہ معمر کا وارث ہے (اور شرط باطل ہے)

5726

۵۷۲۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ حُجْرَ بْنَ قَیْسٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَی مِیْرَاثٌ .
٥٧٢٥: طاوس کہتے ہیں کہ حجر بن قیس نے بتلایا کہ زید بن ثابت (رض) نے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمریٰ وراثت ہے۔ (مرنے والے کی اولاد کو ملے گی)
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ٣٢‘ مسلم فی الہبات ٣٠؍٣١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٨٥‘ ترمذی فی الاحکام باب ١٥‘ نسائی فی الرقبیٰ باب ٢‘ والعمریٰ باب ١‘ ٢‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٤‘ مسند احمد ١؍٢٥٠‘ ٢‘ ٣٤٧؍٤٢٩‘ ٣‘ ٢٩٧؍٣١٩‘ ٤؍٩٧‘ ٥‘ ٨؍١٣۔

5727

۵۷۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوُسٍ الْمَدَرِیِّ عَنْ حُجْرٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبِیْلُ الْعُمْرٰی سَبِیْلُ الْمِیْرَاثِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَہٰذَا أَیْضًا مَعْنَاہُ مِثْلُ مَا قَبْلَہٗ۔
٥٧٢٦: حجر نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمریٰ کا طریق کار میراث والد ہے۔ یہ روایت بھی اس کے ہم معنی ہے۔

5728

۵۷۲۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیْ عَنْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَی جَائِزَۃٌ لِأَہْلِہَا .فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : أَہْلُہَا ہُمْ الَّذِیْنَ أَعْمَرُوْہَا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٥٧٢٧: محمد بن علی نے حضرت معاویہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ عمریٰ معمر کے گھر والوں کے لیے انعام ہے۔ فریق اول کہتے ہیں کہ اس روایت میں اہلھا سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے عمریٰ کیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٦٨‘ ٣؍٣٠٣‘ ٤‘ ٩٩‘ ٥‘ ١٣؍٢٢‘ ١٨٩۔
ایک استدلال :
فریق اول کہتے ہیں کہ اس روایت میں اہلھا سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے عمریٰ کیا ہے۔
جواب : یہ روایت ملاحظہ کریں۔

5729

۵۷۲۸: أَنَّ فَہْدًا حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ بْنُ یَعِیْشَ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ قَالَ : قَالَ لِیْ مُعَاوِیَۃُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرَی فَہِیَ لَہٗ یَرِثُہَا مِنْ عَقِبِہٖ مَنْ یَرِثُہُ .فَدَلَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی أَنَّ أَہْلَہَا الَّذِیْنَ جَازَتْ لَہُمْ ہُمُ الْمُعْمَرُوْنَ لَا الْمُعْمِرُوْنَ .
٥٧٢٨: محمد بن حنفیہ کہنے لگے مجھے حضرت معاویہ نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جس نے عمریٰ کیا تو معمر اس چیز کا مالک ہے اور اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس کے وارث ہوں گے (عمریٰ کرنے والا نہیں) اس روایت سے معلوم ہوا کہ اہلھا سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو انعام دیا گیا وہ معمر ہیں۔
تخریج : مسلم فی الہبات ٢١؍٢٢‘ نسائی فی العمریٰ باب ٣‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٣‘ مسند احمد ٣؍٣٦٠۔

5730

۵۷۲۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَی لِمَنْ وُہِبَتْ لَہٗ .
٥٧٢٩: یحییٰ بن ابی سلمہ نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ عمریٰ کا وہی مالک ہے جس کو وہ ہبہ کیا گیا۔
تخریج : مسلم فی الہبات ٢٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٨٥‘ نسائی فی العمریٰ باب ٤‘ مسند احمد ٣‘ ٣٠٤؍٣٩٣۔

5731

۵۷۳۰: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَیْ عَنْ ہِشَامِ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یَحْیَی فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٧٣٠: یحییٰ نے ہشام بن ابی عبداللہ عن یحییٰ روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5732

۵۷۳۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٧٣١: طاوس نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5733

۵۷۳۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْسِکُوْا عَلَیْکُمْ أَمْوَالَکُمْ لَا تَعْمُرُوْہَا فَمَنْ أَعْمَرَ أَحَدًا شَیْئًا فَہُوَ لَہٗ .
٥٧٣٢: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے اموال اپنے پاس روک کر رکھو ان کو عمریٰ مت بناؤ۔ جس نے کوئی چیز عمریٰ بنائی وہ اسی معمر کی ہوگی۔
تخریج : نسائی فی العمریٰ باب ٢‘ مسند احمد ٣‘ ٣٠٢؍٣١٧۔

5734

۵۷۳۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا عُمْرَی فَمَنْ أَعْمَرَ شَیْئًا فَہُوَ لَہٗ فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : فَنَحْنُ لَا نُنْکِرُ أَنْ یَکُوْنَ الْعُمْرَی لِمَنْ أَعْمَرَہَا وَاِنَّمَا قُلْنَا : اِنَّہَا تَرْجِعُ اِلَی الْمُعْمِرِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُعْمَرِ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی فِیْمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْآثَارِ عَنِ الْعُمْرَی .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ نَہٰی عَنْہَا وَہِیَ تَجْرِیْ کَمَا عُقِدَتْ وَلٰـکِنَّہٗ نَہٰی عَنْہَا لِأَنَّہَا تَجْرِیْ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ . قَالَ فَمَنْ أَعْمَرَ شَیْئًا فَہُوَ لَہٗ فَأَرْسَلَ ذٰلِکَ وَلَمْ یَقُلْ فَہُوَ لَہٗ مَا دَامَ حَیًّا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہَا لَہٗ کَسَائِرِ مَالِہِ فِیْ حَیَاتِہٖ وَبَعْدَ مَمَاتِہٖ۔فَہٰذَا مَعْنَی مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ جَعَلَہَا جَائِزَۃً أَیْ جَائِزَۃً لِلْمُعْمَرِ فِیْہَا بَعْدَ ذٰلِکَ أَبَدًا .وَمِمَّا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ جَعَلَہَا جَائِزَۃً
٥٧٣٣: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمریٰ درست نہیں جس نے کردیا وہ شئی معمر کی ہوجائے گی۔ قائلین مسلک اول سے کہتا ہے ہمیں اس سے انکار نہیں کہ عمریٰ معمر کا ہوتا ہے بس ہم تو اتنی بات کہتے ہیں کہ وہ معمر کی طرف معمر کی موت کے بعد لوٹ جائے گا۔ تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار میں عمریٰ سے منع فرمایا ہے یہ بات ناممکن ہے کہ منع بھی فرمایا جائے اور اس کو برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ وہ تو اس کے مخالف ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” من اعمر شیئا فہو لہ “ کو مطلق طور پر فرمایا مادام حیا کی قید نہ لگائی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اس کے لیے دیگر تمام اموال کی طرح ہوگی زندگی میں اور موت کے بعد بھی۔ عمریٰ ایک انعام ہے۔ عمری کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جائز (انعام) قرار دیا روایت یہ ہے۔

5735

۵۷۳۴: مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعُمْرَی جَائِزَۃٌ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ وَأَحْمَدَ بْنَ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَانَا قَالَا :
٥٧٣٤: حسن نے سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمریٰ انعام ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٨٢‘ ترمذی فی الاحکام باب ١٥‘ نسائی فی الرقی باب ٢‘ والعمریٰ باب ١؍٢‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٤‘ مسند احمد ١؍٢٥٠‘ ٢؍٣٤٧‘ ٣‘ ٢٩٧؍٣٩٢‘ ٤‘ ٩٧؍٩٩‘ ٥‘ ٨؍٢٢۔
مزید دلیل ابن ابی داؤد و احمد بن دازد کی روایت ہے۔

5736

۵۷۳۵: ثَنَا أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ قَالَ : قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ ہِشَامٍ مَا تَقُوْلُ فِی الْعُمْرَیْ؟ .فَقُلْتُ لَہٗ : حَدَّثَنِی النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ بَشِیْرِ بْنِ نَہِیْکٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَی جَائِزَۃٌ .قَالَ الزُّہْرِیُّ : اِنَّہَا لَا تَکُوْنُ عُمْرٰی حَتّٰی تُجْعَلَ لَہٗ وَلِعَقِبِہٖ .فَقَالَ لِعَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ : مَا تَقُوْلُ ؟ فَقَالَ : حَدَّثَنِیْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَی مِیْرَاثٌ .فَہٰذَا عَطَائٌ وَقَتَادَۃُ جَمِیْعًا قَدْ جَعَلَاہَا جَائِزَۃً لِلْمُعْمَرِ مَوْرُوْثَۃً عَنْہٗ وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمَا الزُّہْرِیُّ وَاِنَّمَا قَالَ لَا یَکُوْنُ عُمْرٰی یَکُوْنُ ہٰذَا حُکْمَہَا حَتّٰی تُجْعَلَ لِلْمُعْمَرِ وَلِعَقِبِہٖ فَتَکُوْنَ کَمَا لَہٗ وَتَکُوْنَ مَوْرُوْثَۃً عَنْہٗ کَمَا یُوْرَثُ سَائِرُ أَمْوَالِہِ عَنْہٗ وَاِنْ کَانَ مَنْ یَرِثُہَا عَنْہٗ فِیْہِمْ خِلَافَ عَقِبِہٖ عَلٰی مَا حَدَّثَہٗ أَبُوْ سَلَمَۃَ وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا عَلٰی صِحَّۃِ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ
٥٧٣٥: قتادہ کہنے لگے مجھ سے سلیمان بن ہشام نے دریافت کیا کہ عمریٰ کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا بشیر بن نہیک نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ عمریٰ انعام ہے۔ زہری کہتے ہیں یہ عمریٰ بنتا ہی اسی وقت ہے جبکہ اس کو اس کے اور س کے پیچھے والے لوگوں کے لیے مقرر کردیا جائے۔ انھوں نے عطاء بن ابی رباح سے کہا عمریٰ کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ تو انھوں نے فرمایا مجھے جابر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ عمریٰ میراث ہے۔ یہ عطاء اور قتادہ ہیں ان دونوں نے اس کو انعام اور میراث قرار دیا اور زہری نے ذرا ان انکار نہیں کیا بلکہ انھوں نے یہ کہا کہ عمریٰ جس کا یہ حکم ہے وہ منعقد ہی تب ہوگا جبکہ وہ معمر اور اس کے ورثاء کے لیے اس کو مقرر نہ کیا جائے اور وہ دیگر اموال کی طرح میراث میں شامل ہوگا اگرچہ وہ ورثاء غیر اولاد ہوں جیسا کہ ابو سلمہ نے بیان کیا ہم عنقریب یہ بات اسی باب میں اپنے مقام پر درج کریں گے ان شاء اللہ۔
تخریج : سابقہ روایت ملاحظہ ہو۔
اس کی مؤقف کی صحت پر دلالت کرنے والی روایات :

5737

۵۷۳۶: یُوْنُسَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَعْمُرُوْا وَلَا تَرْقُبُوْا فَمَنْ أَعْمَرَ شَیْئًا أَوْ أَرْقَبَہُ فَہُوَ لِلْوَارِثِ اِذَا مَاتَ۔
٥٧٣٦: عطاء نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ نہ عمریٰ بناؤ اور نہ مراقبہ ۔ رقبٰی کا مطلب یہ ہے میں نے تمہیں اپنا گھر دے دیا اگر تو مجھ سے پہلے مرگیا تو یہ میری طرف لوٹ آئے گا اور اگر میں مرگیا تو وہ تیرا ہوگا۔ جس نے کوئی چیز بطور عمریٰ دی وہ معمر کے مرجانے پر اس کے ورثاء کو ملے گی۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٨٦‘ نسائی فی العمریٰ باب ١‘ ٢‘ الرقبیٰ باب ٣‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٤‘ مسند احمد ٢‘ ٣٤؍٧٣‘ ٥؍١٨٩۔

5738

۵۷۳۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْسِکُوْا عَلَیْکُمْ أَمْوَالَکُمْ لَا تُفْسِدُوْہَا فَاِنَّہٗ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرَی فَہِیَ لَہٗ حَیًّا وَمَیِّتًا وَلِعَقِبِہٖ .
٥٧٣٧: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اپنے اموال اپنے لیے روک کر رکھو اور ان کو مت بگاڑو۔ جس نے عمریٰ کیا وہ زندگی اور موت کے بعد اسی کا ہے اور اس کے بعد اس کے ورثاء کو ملے گا۔
تخریج : مسلم فی الہبات ٢٦‘ مسند احمد ٣؍٣١٢۔

5739

۵۷۳۸: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرٰی حَیَاتِہِ فَہِیَ لَہٗ فِیْ حَیَاتَہٗ وَلِوَرَثَتِہِ بَعْدَ مَوْتِہِ
٥٧٣٨: ابوالزبیر سے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے زندگی کے لیے عمریٰ کیا وہ زندگی میں معمر کا ہے اور موت کے بعد اس کے ورثاء کا ہے۔

5740

۵۷۳۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : نَحَلَ رَجُلٌ مِنَّا أُمَّہُ نُحْلَی لَہٗ حَیَاتَہَا فَلَمَّا مَاتَتْ فَقَالَ أَنَا أَحَقُّ بِنُحْلِیْ فَقَضٰی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا مِیْرَاثٌ .قَالَ ابْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ حُمَیْدٌ ہٰذَا رَجُلٌ مِنْ کِنْدَۃَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ کَشَفَتْ لَنَا ہٰذِہِ الْآثَارُ مُرَادَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْآثَارِ الَّتِی قَبْلَہَا وَأَنَّہَا عَلٰی مَا وَصَفْنَا مِنْ التَّأْوِیْلِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا وَقَدْ رُوِیَتْ فِی الْعُمْرَی أَیْضًا آثَارٌ بِغَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ .فَمِنْہَا
٥٧٣٩: حمید نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے اپنی والدہ کو عطیہ دیا اور اس کی زندگی تک دیا جب وہ فوت ہوگئیں تو کہنے لگا میں اپنے عطیے کا زیادہ حقدار ہوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی خدمت میں فیصلہ گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے اس کو میراث قرار دیا ابن ابی شیبہ کہتے ہیں یہ حمید کندہ میں سے ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ان روایات نے شروع باب میں مندرج روایت کا مفہوم کھول دیا اور یہ روایات ہماری تاویل کے بالکل مطابق ہیں عمریٰ کے متعلق دیگر الفاظ سے بھی روایات وارد ہیں ملاحظہ ہوں۔
دیگر الفاظ سے عمریٰ کے متعلق روایات :

5741

۵۷۴۰: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَیُّمَا رَجُلٍ أَعْمَرَ عُمْرَی لَہٗ وَلِعَقِبِہٖ فَاِنَّہَا لِلَّذِیْ یُعْطَاہَا لِأَنَّہٗ أَعْطٰی عَطَائً وَقَعَتْ فِیْہِ الْمَوَارِیْثُ .
٥٧٤٠: ابو سلمہ نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے عمریٰ بنایا وہ معمر اور اس کے ورثاء کے لیے ہے وہ اسی کا ہے جس کو دیا گیا کیونکہ اس نے یہ ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث جاری ہوتی ہے۔
تخریج : مسلم فی الہبات ٢١؍٢٢‘ نسائی فی العمریٰ باب ٣‘ ابن ماجہ فی الہبات باب ٣‘ مسند احمد ٣؍٣٦٠۔

5742

۵۷۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا لَیْثٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ .ح
٥٧٤١: لیث نے ابن شہاب سے روایت کی ہے۔

5743

۵۷۴۲: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا لَیْثٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ أَعْمَرَ رَجُلًا عُمْرَی لَہٗ وَلِعَقِبِہٖ فَقَدْ قَطَعَ قَوْلُہٗ حَقَّہُ فِیْہَا وَہِیَ لِمَنْ أَعْمَرَہَا وَلِعَقِبِہٖ .
٥٧٤٢: ابو سلمہ نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے عمریٰ بنایا تو وہ عمریٰ اس معمر اور اس کے ورثاء کا ہے۔ معمر کے قول نے اس کے حق کو اس میں منقطع کردیا وہ اسی کا ہے جس کو عمریٰ کیا گیا اور اس کے ورثاء کو ملے گا۔

5744

۵۷۴۳: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرَی فَہِیَ لَہٗ وَلِعَقِبِہٖ بَتَّہُ لَا یَجُوْزُ لِلْمُعْطِیْ فِیْہَا شَرْطٌ وَلَا ثَنِیَّا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرَی لَہٗ وَلِعَقِبِہٖ فَہِیَ لِلَّذِیْ عَمَرَہَا لَا تَرْجِعُ اِلَی الْمُعْطِیْ بِشَرْطٍ وَلَا ثُنْیَا لِأَنَّہٗ أَعْطَیْ عَطَائً وَقَعَتْ فِیْہِ الْمَوَارِیْثُ .فَقَالَ الَّذِیْنَ أَجَازُوْا الشَّرْطَ فِی الْعُمْرَی : بِہٰذَا نَقُوْلُ اِذَا وَقَعَتِ الْعُمْرَی عَلَی ہٰذَا لَمْ تَرْجِعْ اِلَی الْمُعْطِیْ أَبَدًا وَاِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْہَا ذِکْرُ الْعَقِبِ فَہِیَ رَاجِعَۃٌ اِلَی الْمُعْطِیْ بَعْدَ زَوَالِ الْمُعْمَرِ .قَالُوْا : وَہٰذَا أَوْلَی مِمَّا رَوٰی عَطَائٌ وَأَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ لِأَنَّ أَبَا سَلَمَۃَ زَادَ عَلَیْہِمَا قَوْلَہٗ وَلِعَقِبِہٖ وَلَیْسَ ہُوَ بِدُوْنِہِمَا وَالزِّیَادَۃُ أَوْلَی .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا لَلْآخَرِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْعُمْرٰی حَدِیْثٌ غَیْرُ حَدِیْثِ أَبِیْ سَلَمَۃَ ہٰذَا لَکَانَ فِیْہِ أَکْثَرُ الْحُجَّۃِ لِلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ : اِنَّ الْعُمْرَی لَا تَرْجِعُ اِلَی الْمُعْمِرِ أَبَدًا وَلَا یَجُوْزُ شَرْطُہُ .وَذٰلِکَ أَنَّ الْعُمْرَی لَا تَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ اِمَّا أَنْ تَکُوْنَ دَاخِلَۃً فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِہِمْ فَیَنْفُذُ لِلْمُعْمَرِ فِیْہَا الشَّرْطُ عَلٰی مَا شَرَطَہُ لَا یَبْطُلُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ کَمَا یَنْفُذُ الشُّرُوْطُ مِنَ الْمُوْقِفِ فِیْمَا وَقَفَ أَوْ تَکُوْنُ خَارِجَۃً مِنَ الْمُعْمِرِ دَاخِلَۃً فِیْ مِلْکِ الْمُعْمَرِ فَیَصِیرُ بِذٰلِکَ فِیْ سَائِرِ مَالِہِ وَیَبْطُلُ مَا شَرَطَ عَلَیْہِ فِیْہَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَاِذَا الْعُمْرٰی اِذَا أُوْقِعَتْ عَلٰی أَنَّہَا لِلْمُعْمَرِ وَلِعَقِبِہٖ فَمَاتَ وَلَہٗ عَقِبٌ وَزَوْجَۃٌ أَوْ أَوْصَی بِوَصَایَا أَوْ کَانَ عَلَیْہِ دَیْنٌ أَنَّ تِلْکَ الْأَشْیَائَ تَنْفُذُ فِیْہَا کَمَا تَنْفُذُ فِیْ مَالِہِ وَلَا یَمْنَعُہَا الشَّرْطُ الَّذِیْ کَانَ مِنَ الْمُعْمِرِ فِیْ جَعْلِہِ اِیَّاہَا لَہٗ وَلِعَقِبِہٖ وَزَوْجَتُہُ لَیْسَتْ مِنْ عَقِبِہٖ وَلَا غُرَمَاؤُہُ وَلَا أَہْلُ وَصَایَاہُ .وَکَذٰلِکَ لَوْ مَاتَ الْمُعْمَرُ وَلَا عَقِبَ لَہٗ لَمْ یَرْجِعْ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ اِلَی الْمُعْمِرِ .فَلَمَّا کَانَ مَا وَصَفْنَا کَذٰلِکَ کَانَتْ کَذٰلِکَ أَبَدًا یَجُوْزُ عَلٰی مَا جَعَلَہَا عَلَیْہِ الْمُعْمِرُ وَیَبْطُلُ شَرْطُہُ الَّذِی اشْتَرَطَ فِیْہَا وَلَا یَنْفُذُ مِنْہُ قَلِیْلٌ وَلَا کَثِیْرٌ وَیَخْرُجُ مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِہِمْ فَیَکُوْنُ شُرُوْطُہَا لَیْسَتْ مِنِ الشُّرُوْطِ الَّتِیْ عَنَاہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .وَہٰذَا الْقَوْلُ الَّذِیْ صَحَّحْنَاہُ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلُ ذٰلِکَ
٥٧٤٣: زہری نے ابو سلمہ سے انھوں نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ جس نے عمریٰ بنایا وہ معمر اور اس کے ورثاء کے لیے ہے معطی کی کسی شرط کا اس میں اعتبار نہیں اور نہ استثناء ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ان آثار میں یہ بات بالکل واضح آگئی کہ عمریٰ ایک ایسا عطیہ ہے جو معمر کا حق بن گیا اب وہ دینے والے کی شرط کے مطابق اس کی طرف نہ لوٹے گا اور نہ اس میں استثناء چلے گا وہ ایسا عطیہ ہے جس میں میراث جاری ہوگی۔ جب عمریٰ اسی شرط سے ہو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ معطی کی طرف لوٹایا نہ جائے گا اور جب اس میں ورثاء کا تذکرہ نہ ہو تو معمر کے مرنے کے بعد وہ معطی کی طرف لوٹ آئے گا اور یہ روایت عطاء ابوالزبیر کی ان روایات سے اولیٰ ہے جو انھوں نے جابر (رض) سے نقل کی ہیں کیونکہ ابو سلمہ کی روایت میں ” ولعقبہ “ کا اضافہ ہے اور دیگر روایات میں نہیں اضافہ والی روایت اولیٰ ہے وہ ہمارے معاون بن رہی ہے۔ اس کے جواب میں اگر وہ کہیں کہ عمریٰ کے متعلق ابو سلمہ کی روایت کے علاوہ اور کوئی روایت اس طرح مروی نہیں گویا منفرد ہے مگر ہم عرض کریں گے یہ ہماری دلیل زیادہ ہے کہ عمریٰ معمر کی طرف نہ لوٹایا جائے گا اور اس کی شرط بھی جائز نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عمریٰ کی دو صورتیں ہیں۔ نمبر ١ یا تو یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول میں داخل ہے ” المسلمون عند شروطہم “ اس میں معمر کے لیے اس کی شرط نافذ ہوجائے گی اور اس میں سے کوئی چیز باطل نہ ہوگی جیسا کہ وقف کرنے والے کی شرط موقوف میں نافذ ہوتی ہے۔ ! اور عمریٰ معطی کی ملک سے خارج ہو کر معمر کی ملک میں داخل ہوگا تو اس طرح وہ اس کے باقی مال کے ساتھ مل جائے گا اور جو شرط رکھی ہے وہ باطل ہوجائے گی۔ ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا تو دیکھا کہ جب عمریٰ معمر اور اس کی اولاد کے لیے واقع ہوتا ہے پھر وہ مرجاتا ہے اس کی اولاد اور بیوی موجود ہوتے ہیں یا وہ کچھ وصیت کرجاتا ہے یا اس پر کچھ قرض ہوتا ہے تو یہ تمام باتیں اسی طرح نافذ ہوتی ہیں جیسے اس کے اپنے مال میں نافذ ہوتی ہیں معمر کی طرف سے کوئی شرط اس میں رکاوٹ نہیں بنتی کہ وہ مال اس کے لیے یا اس کی اولاد کے لیے ہو۔ اس کی بیوی جن کے لیے وصیت کی اور قرض دار اس کے عقب نہیں ہیں اور اس طرح اگر وہ معمر مرجائے اور اس کا کوئی عقب نہ ہو تو معمر کی طرف کوئی چیز نہیں لوٹتی۔ جب بات اس طرح ہے جیسے ہم نے بیان کی تو ہمیشہ اسی طرح ہونا چاہیے کہ معمر کا عمریٰ درست ہو اور اس نے جو شرط رکھی ہے وہ باطل ہو خواہ کوئی شرط بڑی ہو یا چھوٹی نافذ نہ ہو اور وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول سے نکل جائے گا کہ مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں اس کی شرط ان شرائط میں سے نہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد ہے یہ قول جس کی تصحیح ہم نے بیان کی ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔

5745

۵۷۴۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ - وَسَأَلَہٗ رَجُلٌ عَنْ رَجُلٍ وَہَبَ لَہٗ رَجُلٌ نَاقَۃً حَیَاتَہٗ فَنَتَجَتْ أَیْ وَلَدَتْ فَقَالَ : ہِیَ لَہٗ وَأَوْلَادُہَا فَسَأَلْتُہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ فَقَالَ : ہِیَ لَہٗ حَیًّا وَمَیِّتًا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٥٧٤٤: حبیب بن ابی ثابت (رض) نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ سے ایک شخص نے اس آدمی کے متعلق پوچھا جس نے زندگی بھر کے لیے کسی کو اونٹنی دی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو انھوں نے فرمایا وہ اونٹنی اور اس کی اولاد اسی شخص کے لیے ہے میں نے بعد میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا وہ اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد بھی اسی کے لیے ہے۔
بہرحال عمریٰ نہ چاہیے اگر کسی نے کردیا تو وہ مال معطی کی طرف نہ لوٹ سکے گا خواہ معطی کی زندگی میں معمر کی موت واقع ہو یا بعد میں بلکہ وہ معمر اور اس کے ورثاء کا مال ہے وراثت کی طرح تقسیم ہوگا۔

5746

۵۷۴۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ وَسَعِیْدُ بْنُ سُفْیَانَ الْجَحْدَرِیُّ قَالَا : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ أَصَابَ أَرْضًا بِخَیْبَرَ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَأْمِرُہُ فَقَالَ اِنِّیْ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْہَا فَکَیْفَ تَأْمُرُنِی .قَالَ اِنْ شِئْتُ حَبَسْتُ أَصْلَہَا لَا تُبَاعُ وَلَا تُوْہَبُ قَالَ أَبُوْ عَاصِمٍ وَأَرَاہُ قَالَ لَا تُوْرَثُ .قَالَ تَصَدَّقْ بِہَا فِی الْفُقَرَائِ وَالْقُرْبَی وَالرِّقَابِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَالضَّعِیْفِ لَا جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِیَہَا أَنْ یَأْکُلَ مِنْہَا غَیْرَ مُتَمَوِّلٍ قَالَ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُحَمَّدٍ فَقَالَ : غَیْرَ مُتَأَثِّلٍ .
٥٧٤٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) کو خیبر میں ایک زمین ملی وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مشورہ لینے حاضر ہوئے تو عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے ایک زمین خیبر میں پائی ہے اس سے بہتر مال میں نے کبھی نہیں پایا آپ اس کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں آپ نے فرمایا اگر پسند کرو تو اس کی اصل کو روک لو جو نہ فروخت کی جاسکے اور نہ ہبہ کی جاسکے۔
ابو عاصم راوی کہتے ہیں کہ ” لاتورث “ کے لفظ فرمائے کہ نہ اس میں وراثت چلے چنانچہ انھوں نے اس کو فقراء اور قرابت دار اور غلاموں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر اور ضعفاء کے لیے اس کو صدقہ کردیا کہ جو اس کا متولی اور ان پر خرچ کرے اور اس میں سے خود کھا سکتا ہے مگر اس میں سے مال لے نہیں سکتا۔ میں نے یہ لفظ متمول کا لفظ ذکر کیا تو انھوں نے غیر متاثل فرمایا۔ (مال کو جمع کرنے والا) ۔
تخریج : بخاری فی الشروط باب ١٩‘ والوصایا باب ٢٨‘ والایمان باب ٣٣‘ مسلم فی الوصیۃ ١٥‘ ابو داؤد فی الوصایا باب ١٣‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٦‘ نسائی فی الاحب اس باب ٢‘ ابن ماجہ فی الصدقات باب ٤‘ مسند احمد ٢؍١١‘ ١٢۔
اللغات : غیر متمول۔ جو مال نہ لے۔ متاثل۔ مال جمع کرنے والا۔ مؤثل۔ قدیم۔ یستامر۔ مشورہ کرنا۔
اس میں دو رائے ہیں۔
نمبر 1: اگر کسی نے اپنے بیٹے پوتوں پر گھر وقف کیا پھر فی سبیل اللہ وقف کیا تو وہ اب فی سبیل اللہ ہوگا فروخت نہیں وہ سکتا اس قول کو امام ابو یوسف ‘ محمد اہل بصرہ ‘ اہل مدینہ رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی : یہ تمام مال میراث ہو کر تقسیم ہوگا وقف درست نہ ہوگا بیماری کی حالت میں وصیت ثلث مال میں نافذ ہوگی۔ پھر فریق اول کا باہمی اختلاف ہے کہ موقوفہ مال پر قبضہ ہوگیا تو وقف ہے یا نہ بھی قبضہ ہوا تب بھی وقف شمار ہوگا۔

5747

۵۷۴۶: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَمِّی قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ الْمُطَّلِبِ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ اسْتَشَارَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِمَالِہِ بِثَمْغٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقْ بِہٖ تَقْسِمُ ثَمَرَہُ وَتَحْبِسُ أَصْلَہٗ لَا تُبَاعُ وَلَا تُوْہَبُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَوْقَفَ دَارِہِ عَلَی وَلَدِہِ وَوَلَدِ وَلَدِہِ ثُمَّ مَنْ بَعْدَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَنَّ ذٰلِکَ جَائِزٌ وَأَنَّہَا قَدْ خَرَجَتْ بِذٰلِکَ مِنْ مِلْکِہِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا سَبِیْلَ لَہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ اِلٰی بَیْعِہَا وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَأَہْلِ الْبَصْرَۃِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ مِنْہُمْ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَزُفَرُ بْنُ الْہُذَیْلِ رَحِمَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِمَا فَقَالُوْا : ہٰذَا کُلُّہُ مِیْرَاثٌ لَا یَخْرُجُ مِنْ مِلْکِ الَّذِی أَوْقَفَہُ بِہٰذَا السَّبَبِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا شَاوَرَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ فِیْ ذٰلِکَ قَالَ لَہٗ حَبِّسْ أَصْلَہَا وَسَبِّلْ الثَّمَرَۃَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَمَرَہٗ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ یَخْرُجُ بِہٖ مِنْ مِلْکِہِ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ لَا یُخْرِجُہَا مِنْ مِلْکِہِ وَلٰـکِنَّہَا تَکُوْنُ جَارِیَۃً عَلٰی مَا أَجْرَاہَا عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ مَا تَرَکَہَا وَیَکُوْنُ لَہٗ فَسْخُ ذٰلِکَ مَتَی شَائَ .کَرَجُلٍ جَعَلَ لِلّٰہِ عَلَیْہِ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِثَمَرَۃِ نَخْلِہِ مَا عَاشَ فَیُقَالُ لَہٗ : أَنْفِذْ ذٰلِکَ وَلَا یُجْبَرُ عَلَیْہِ وَلَا یُؤْخَذُ بِہٖ اِنْ شَائَ وَاِنْ أَبَی .وَلٰـکِنْ اِنْ أَنْفَذَ ذٰلِکَ فَحَسَنٌ وَاِنْ مَنَعَہُ لَمْ یُجْبَرْ عَلَیْہِ .وَکَذٰلِکَ وَرَثَتُہُ مِنْ بَعْدِہِ اِنْ أَنَفَذُوْا ذٰلِکَ عَلٰی مَا کَانَ أَبُوْھُمْ أَجْرَاہُ عَلَیْہِ فَحَسَنٌ وَاِنْ مَنَعُوْھُ کَانَ ذٰلِکَ لَہُمْ .وَلَیْسَ فِیْ بَقَائِ حَبْسِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ اِلَی غَایَتِنَا ہٰذِہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِہِ نَقْضُہُ .وَاِنَّمَا الَّذِیْ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ لَہُمْ نَقْضُہُ لَوْ کَانُوْا خَاصَمُوْا فِیْہِ بَعْدَ مَوْتِہِ فَمُنِعُوْا مِنْ ذٰلِکَ .وَلَوْ جَازَ ذٰلِکَ لَکَانَ فِیْہِ الْعُمْرَی مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْأَوْقَافَ لَا تُبَاعُ .وَلٰـکِنْ اِنَّمَا جَائَ نَا تَرْکُہُمْ لِوَقْفِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ یَجْرِیْ عَلٰی مَا کَانَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ أَجْرَاہُ عَلَیْہِ فِیْ حَیَاتِہٖ وَلَمْ یَبْلُغْنَا أَنَّ أَحَدًا مِنْہُمْ عَرَضَ فِیْہِ بِشَیْئٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ لَہٗ نَقْضُہُ
٥٧٤٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ عمر (رض) نے اپنے مال کے صدقہ کرنے کے متعلق جو مقام ثمغ میں تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشورہ کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اس طرح صدقہ کر دو کہ اس کا پھل تقسیم کیا جائے گا اور اصل اسی طرح برقرار رہے گا وہ نہ فروخت کیا جاسکے گا اور نہ ہبہ کیا جائے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جماعت علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کسی نے اپنی اولاد ‘ بیٹے ‘ پوتوں پر ایک گھر وقف کردیا پھر ان کے بعد اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کردیا۔ تو یہ درست ہے اب وہ ان کی ملک سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی طرف منتقل ہوگیا اس کو فروخت کرنے کی کوئی سبیل نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا آثار سے معلوم ہوتا ہے یہ امام ابو یوسف ‘ محمد ‘ اہل مدینہ ‘ اہل بصرہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔ دوسروں نے کہا یہ سب میراث ہے اس سب سے واقف کی ملک سے نہ نکلے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر نے آپ سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا اس کے اصل کو روک لو اور اس کے پھل کو وقف کر دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بات فرمائی اس سے جہاں اس سے یہ مراد لینا جائز ہے کہ وہ اس کی ملک سے نکل جائے گی وہاں یہ بھی جائز ہے کہ ایسا کرنے سے یہ اس کی ملک سے خارج نہ ہو لیکن وہ اس طریقہ پر جاری ہوئی جس پر انھوں نے اسے جاری کیا اور جب وہ چاہیں اس کو فسخ کرنے کا ان کو حق حاصل ہے۔ جس طرح وہ آدمی جس نے اپنی زندگی تک اپنے درخت کھجور کا پھل اللہ تعالیٰ کے وقف کیا ہے اسے کہا جائے گا اس کو نافذ کرو۔ مگر اس پر جبر نہ کیا جائے گا اور نہ اس پر کوئی مواخذہ کیا جائے گا خواہ دے یا انکار کرے۔ لیکن اگر اس نے اس کو نافذ کیا تو بہت خوب کیا اور اگر روک لیا تو اس پر جبر نہیں۔ اسی طرح اس کے ورثاء کا بھی یہی حکم ہے اگر وہ اس کو اپنے والد کے طریقہ پر جاری رکھیں تو خوب ہے اور اگر روک لیں تو اس کا ان کو اختیار ہے۔ باقی حضرت عمر (رض) کے وقف کے ہمارے زمانہ تک باقی رہنے میں یہ کوئی دلیل نہیں کہ ان کے ورثاء کو اس کے توڑنے کا حق حاصل نہ تھا وقف کو توڑنے کا اختیار نہ ہونے کی دلیل تب ہوتی جبکہ آپ کی وفات کے بعد وہ جھگڑا کرتے اور اس سے ان کو منع کیا جاتا اگر ایسا ہوتا تو یہ عمریٰ ہوجاتا جو اس بات پر دلالت کرتا کہ اوقاف کو فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہمارے سامنے جو روایات ہیں ان میں صرف یہ بات ہے کہ حضرت عمر (رض) کے وقف کو اسی حال پر چھوڑا گیا تاکہ اسی طرح جاری رہے جس طرح حضرت عمر (رض) اپنی زندگی میں اس کو جاری کر گئے تھے ہمیں یہ بات نہیں پہنچی کہ ان میں سے کسی نے بھی اعتراض کیا ہو اور حضرت عمر (رض) سے یہ روایت بھی وارد ہے کہ آپ کو اس کے توڑنے کا اختیار تھا۔
حضرت عمر (رض) سے توڑنے کے اختیار والی روایت :

5748

۵۷۴۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ زِیَادِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : لَوْلَا أَنِّیْ ذٰکَرْتُ صَدَقَتِیْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ نَحْوِ ہٰذَا لَرَدَدْتُہَا .فَلَمَّا قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ ہٰذَا دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ نَفْسَ الْاِیقَافِ لِلْأَرْضِ لَمْ یَکُنْ یَمْنَعُہٗ مِنِ الرُّجُوْعِ فِیْہَا وَأَنَّہٗ اِنَّمَا مَنَعَہُ مِنِ الرُّجُوْعِ فِیْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُ فِیْہَا بِشَیْئٍ وَفَارَقَہُ عَلَی الْوَفَائِ بِہٖ فَکَرِہَ أَنْ یَرْجِعَ عَنْ ذٰلِکَ کَمَا کَرِہَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ أَنْ یَرْجِعَ بَعْدَ مَوْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ الَّذِیْ کَانَ فَارَقَہُ عَلَیْہِ أَنْ یَفْعَلَہٗ وَقَدْ کَانَ لَہٗ أَنْ لَا یَصُوْمَ .ثُمَّ ہٰذَا شُرَیْحٌ وَہُوَ قَاضِیْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِی الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ قَدْ رُوِیَ عَنْہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٧٤٧: ابن شہاب نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر میں نے اپنے صدقہ کا تذکرہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ کیا ہوتا یا اس قسم کی بات فرمائی تو میں اس کو واپس لوٹا لیتا۔ جب حضرت عمر (رض) نے یہ بات فرمائی تو اس سے اس بات پر دلالت مل گئی کہ زمین کو فقط وقف کردینے سے اس کا حق رجوع ختم نہیں ہوتا۔ آپ کو رجوع سے اس بات نے روکا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو ایک بات کا حکم فرمایا اور آپ ان سے اس حالت میں جدا ہوئے کہ وہ اسے پورا کرنے والے تھے تو اس وجہ سے آپ نے اس کو واپس لینا ناپسند کیا جیسا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان صیام سے رجوع پسند نہ کیا جنہیں وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدائی کے وقت رکھا کرتے تھے۔ حالانکہ آپ کو روزہ نہ رکھنے کا اختیار تھا۔ پھر یہ قاضی شریح ہیں جو حضرت عمر ‘ عثمان و علی (رض) کے زمانہ میں ان کی طرف سے قاضی رہے ان کا ارشاد سنئے۔
قاضی شریح (رح) کا قول :

5749

۵۷۴۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ : سَأَلْت شُرَیْحًا عَنْ رَجُلٍ جَعَلَ دَارِہِ حَبْسًا عَلَی الْآخَرِ فَالْآخَرُ مِنْ وَلَدِہِ فَقَالَ : اِنَّمَا أَقْضِی وَلَسْتُ أُفْتِی قَالَ : فَنَاشَدْتُہٗ فَقَالَ : لَا حَبْسَ عَلَی فَرَائِضِ اللّٰہِ .وَہٰذَا لَا یَسَعُ الْقُضَاۃَ جَہْلُہُ وَلَا یَسَعُ الْأَئِمَّۃَ تَقْلِیْدُ مَنْ یَجْہَلُ مِثْلَہٗ۔ثُمَّ لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مُنْکِرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا مِنْ تَابِعِیہِمْ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ۔
٥٧٤٨: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ میں نے شریح (رح) سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جس نے اپنا مکان دوسرے شخص کو وقف کردیا اور وہ دوسرا آدمی اس کی اولاد سے ہے تو انھوں نے فرمایا اس کے متعلق میں فیصلہ کرتا ہوں فتویٰ نہیں دیتا۔ عطاء کہتے ہیں میں نے ان کو قسم دی تو فرمانے لگے اللہ تعالیٰ کے فرائض (احکام توریث) اترنے کے بعد اولاد پر وقف نہیں ہوتا اور اس بات سے قاضیوں کو جاہل رہنے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی ائمہ مقتدیٰ کے لیے گنجائش ہے کہ وہ ایسے جاہل شخص کی پیروی کریں پھر شریح (رح) کی اس بات کا صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) نے انکار نہیں کیا۔
مزید برآں حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔

5750

۵۷۴۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَخِیْ عِیْسَیْ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - بَعْدَمَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃُ النِّسَائِ وَأُنْزِلَ فِیْہَا الْفَرَائِضُ - نَہٰی عَنِ الْحَبْسِ .
٥٧٤٩: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوہ نساء کے نزول کے بعد سنا کہ اس میں فرائض اتارے گئے ہیں اور (اولاد پر) وقف سے منع کردیا گیا ہے۔

5751

۵۷۵۰: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ وَعَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٧٥٠: عمرو بن خالد اور یحییٰ بن عبداللہ نے عبداللہ بن لہیعہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5752

۵۷۵۱: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ فَذَکَر بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٧٥١: ابن ابی مریم نے ابن لہیعہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5753

۵۷۵۲: حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَا : قَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ہٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ وَبِہٖ أَقُوْلُ .قَالَ رَوْحٌ : قَالَ لِی أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَقَدْ حَدَّثَنِیْہِ الدِّمَشْقِیُّ یَعْنِی : عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ یُوْسُفَ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ .فَأَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ الْأَحْبَاسَ مَنْہِیٌّ عَنْہَا غَیْرُ جَائِزَۃٍ وَأَنَّہَا قَدْ کَانَتْ قَبْلَ نُزُوْلِ الْفَرَائِضِ بِخِلَافِ مَا صَارَتْ عَلَیْہِ بَعْدَ نُزُوْلِ الْفَرَائِضِ فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَاِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ وَأَبَا یُوْسُفَ وَزُفَرَ وَمُحَمَّدًا رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَجَمِیْعَ الْمُخَالِفِیْنَ لَہُمْ وَالْمُوَافِقِیْنَ قَدْ اتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا وَقَفَ دَارِہِ فِیْ مَرَضِہِ عَلَی الْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِینِ ثُمَّ تُوُفِّیَ فِیْ مَرَضِہِ ذٰلِکَ جَائِزٌ مِنْ ثُلُثِہِ وَأَنَّہَا غَیْرُ مَوْرُوْثَۃٍ عَنْہٗ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ ہَلْ یَدُلُّ عَلٰی أَحَدِ الْقَوْلَیْنِ ؟ فَکَانَ الرَّجُلُ اِذَا جَعَلَ شَیْئًا مِنْ مَالِہِ مِنْ دَنَانِیْرَ أَوْ دَرَاہِمَ صَدَقَۃً فَلَمْ یَنْفُذْ ذٰلِکَ حَتّٰی مَاتَ أَنَّہٗ مِیْرَاثٌ وَسَوَائٌ جَعَلَ ذٰلِکَ فِیْ مَرَضِہِ أَوْ فِیْ صِحَّتِہِ اِلَّا أَنْ یَجْعَلَ ذٰلِکَ وَصِیَّۃً بَعْدَ مَوْتِہِ فَیَنْفُذُ ذٰلِکَ بَعْدَ مَوْتِہِ مِنْ ثُلُثِ مَالِہِ کَمَا یَنْفُذُ الْوَصَایَا .فَأَمَّا اِذَا جَعَلَہٗ فِیْ مَرَضِہِ وَلَمْ یُنْفِذْہُ لِلْمَسَاکِینِ بِدَفْعِہِ اِیَّاہُ اِلَیْہِمْ فَہُوَ کَمَا جَعَلَہٗ فِیْ صِحَّتِہٖ وَکَانَ جَمِیْعُ مَالِہِ یَفْعَلُہُ فِیْ صِحَّتِہِ فَیَنْفُذُ مِنْ جَمِیْعِ مَالِہِ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ مِلْکٌ مِثْلُ الْعَتَاقِ وَالْہِبَاتِ وَالصَّدَقَاتِ ہُوَ الَّذِیْ یَنْفُذُ اِذَا فَعَلَہٗ فِیْ مَرَضِہِ مِنْ ثُلُثِ مَالِہِ وَکَانَ الْوَاقِفُ اِذَا وَقَفَ فِیْ مَرَضِہِ دَارِہِ أَوْ أَرْضَہُ وَجَعَلَ آخِرَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَانَ ذٰلِکَ جَائِزًا بِاتِّفَاقِہِمْ مِنْ ثُلُثِ مَالِہِ بَعْدَ وَفَاتِہِ لَا سَبِیْلَ لِوَارِثِہِ عَلَیْہِ .وَلَیْسَ ذٰلِکَ بِدَاخِلٍ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَبْسَ عَلَی فَرَائِضِ اللّٰہِ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ سَبِیْلُہُ اِذَا وَقَفَ فِی الصِّحَّۃِ فَیَکُوْنُ نَافِذًا مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ عَلَیْہِ سَبِیْلٌ بَعْدَ ذٰلِکَ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَاِلَی ہٰذَا أَذْہَبُ وَبِہٖ أَقُوْلُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ لَا مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ لِأَنَّ الْآثَارَ فِیْ ذٰلِکَ قَدْ تَقَدَّمَ وَصْفِیْ لَہَا وَبَیَانُ مَعَانِیْہَا وَکَشْفُ وُجُوْہِہَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَتَخْرَجُ الْأَرْضُ بِالْوُقُوْفِ مِنْ مِلْکِ رَبِّہَا بِوَقْفِہِ اِیَّاہَا لَا اِلَی مِلْکِ مَالِکٍ ؟ قِیْلَ لَہٗ : وَمَا تُنْکِرُ مِنْ ہٰذَا وَقَدْ اتَّفَقْتُ أَنْتَ وَخَصْمُک عَلَی الْأَرْضِ یَجْعَلُہَا صَاحِبُہَا مَسْجِدًا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَیُخَلِّیْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہَا أَنَّہَا قَدْ خَرَجَتْ بِذٰلِکَ مِنْ مِلْکِہِ لَا اِلَی مِلْکِ مَالِکٍ وَلٰـکِنْ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَاَلَّذِیْ یَلْزَمُ مُحَالِفَک فِیْمَا احْتَجَجْتُ عَلَیْہِ بِمَا وَصَفْنَا یَلْزَمُک فِیْ ہٰذَا مِثْلُہٗ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنَیْ نَہْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَبْسِ الَّذِیْ رَوَیْتُہٗ عَنْہٗ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ قَالَ النَّاسُ فِیْ ذٰلِکَ قَوْلَیْنِ : أَحَدَہُمَا الْقَوْلُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عِنْدَ رِوَایَتِنَا اِیَّاہُ .وَالْآخَرُ أَنَّ ذٰلِکَ أُرِیْدَ بِہٖ مَا کَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَفْعَلُوْنَہُ مِنَ الْبُحَیْرَۃِ وَالسَّائِبَۃِ وَالْوَصِیْلَۃِ وَالْحَامِ .فَکَانُوْا یَحْبِسُوْنَ مَا یَجْعَلُوْنَہُ کَذٰلِکَ فَلَا یُوَرِّثُوْنَہُ أَحَدًا فَلَمَّا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃُ الْفَرَائِضِ وَبَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْہَا الْمَوَارِیْثَ وَقَسَمَ الْأَمْوَالَ عَلَیْہَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَبْسَ .ثُمَّ تَکَلَّمَ الَّذِیْنَ أَجَازُوا الصَّدَقَاتِ الْمَوْقُوْفَاتِ فِیْہَا بَعْدَ تَثْبِیتِہِمْ اِیَّاہَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ : ہِیَ جَائِزَۃٌ قُبِضَتْ مِنَ الْمُصَدِّقِ بِہَا أَوْ لَمْ تُقْبَضْ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا یُنْفِذُہَا حَتّٰی یُخْرِجَہَا مِنْ یَدِہِ وَیَقْبِضَہَا مِنْہُ غَیْرُہُ وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .فَاحْتَجْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ قَوْلًا صَحِیْحًا فَرَأَیْنَا أَشْیَائَ یَفْعَلُہَا الْعِبَادُ عَلَی ضُرُوْبٍ .فَمِنْہَا الْعَتَاقُ یَنْفُذُ بِالْقَوْلِ لِأَنَّ الْعَبْدَ اِنَّمَا یَزُوْلُ مِلْکُ مَوْلَاہُ عَنْہٗ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .وَمِنْہَا الْہِبَاتُ وَالصَّدَقَاتُ لَا تَنْفُذُ بِالْقَوْلِ حَتّٰی یَکُوْنَ مَعَہُ الْقَبْضُ مِنْ الَّذِیْ مَلَّکَہَا لَہٗ۔فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ حُکْمَ الْأَوْقَافِ بِأَیِّہَا ہِیَ أَشْبَہُ فَنَعْطِفَہُ عَلَیْہِ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا وَقَفَ أَرْضَہُ أَوْ دَارِہِ فَاِنَّمَا یَمْلِکُ الَّذِی أَوْقَفَہَا عَلَیْہِ مَنَافِعَہَا وَلَمْ یَمْلِکْ مِنْ رَقَبَتِہَا شَیْئًا اِنَّمَا أَخْرَجَہَا مِنْ مِلْکِ نَفْسِہِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ نَظِیْرُ مَا أَخْرَجَہٗ مِنْ مِلْکِہِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَکَمَا کَانَ ذٰلِکَ لَا یَحْتَاجُ فِیْہِ اِلَی قَبْضٍ مَعَ الْقَوْلِ کَانَ کَذٰلِکَ الْوُقُوْفُ لَا یَحْتَاجُ فِیْہَا اِلَی قَبْضٍ مَعَ الْقَوْلِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّ الْقَبْضَ لَوْ أَوْجَبْنَاہُ فَاِنَّمَا کَانَ الْقَابِضُ یَقْبِضُ مَا لَمْ یَمْلِکْ بِالْوَقْفِ فَقَبْضُہُ اِیَّاہُ وَغَیْرُ قَبْضِہِ اِیَّاہُ سَوَائٌ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .
٥٧٥٢: روح اور محمد بن خزیمہ دونوں نے کہا احمد بن صالح (رح) نے کہا یہ حدیث صحیح ہے اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ احب اس ممنوع ہے اور بدنا جائز ہے اور ہبہ فرائض کے احکام اترنے سے پہلے کی بات ہے نزول فرائض کے بعد اس کا حکم تبدیل ہوگیا۔ آثار کے پیش نظر اس باب کا حکم یہی ہے۔ اب نظر سے ملاحظہ ہو کہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ زفر و محمد رحمہم اللہ اور تمام مخالف و موافق اس بات پر متفق ہیں کہ جب کسی آدمی نے اپنا گھر اپنے ایام مرض میں فقراء و مساکین کے لیے وقف کیا پھر وہ اپنی اسی بیماری میں مرگیا تو اس کا یہ وقف اس کے ثلث مال میں جائز قرار دیا جائے گا اور یہ ثلث اس کی طرف سے وراثت نہ بنے گا اب ہم نے دیکھا کہ آیا یہ بات کسی ایک قول کی دلیل بنتی ہے تو غور و فکر سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص جب اپنا مال جو دراہم و دنانیر کی صورت میں ہے اس میں سے کچھ صدقہ کرتا ہے مگر اس کے اجراء سے پہلے وہ مرجاتا ہے تو اس کا یہ تمام مال وراثت ہوگا خواہ اس کو اس نے بیماری کی حالت میں صدقہ کیا تھا یا صحت کی حالت میں۔ البتہ اگر اس بات کو اس کی موت کے بعد والی وصیت قرار دیا جائے تو وہ تہائی مال میں سے نافذ ہوجائے گی جس طرح کہ باقی وصایا نافذ ہوتی ہیں اگر وہ بیماری میں ایسا کرے لیکن ابھی مساکین کو نہ دیا ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو حالت صحت میں ایسا کرنے کا ہوتا ہے اور حالت صحت میں جو کچھ کرے گا وہ تمام مال میں سے نافذ ہوگا اور وہ اس کے بعد اس کا مالک نہ رہے گا جس طرح کہ آزاد کرنا ‘ ہبہ کرنا ‘ صدقہ دینا وغیرہ اور جب ان کو بیماری کی حالت میں کرے گا تو مال کے تہائی حصے سے نافذ ہوں گی اور مرض کی حالت میں اپنا مکان یا زمین وقف کرے اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرے تو اس کی موت کے بعد تہائی مال سے یہ جائز ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے اس پر ورثا کا کوئی حق نہ ہوگا اور یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول میں داخل نہ ہوگا کہ ” لاحبس علی فرائض اللہ “ کہ فرائض اللہ میں وقف نہیں یعنی ورثاء کے لیے وقف نہیں۔ پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ صحت کی حالت میں وقف کرنے کا بھی یہی حکم ہو وہ تمام مال سے نافذ ہوگا اور اس کے بعد اس کا کوئی اختیار نہ ہوگا یہ تقاضا نظر ہے۔ ” والی ہذا اذہب وبہ اقول من طریق النظر من طریق الآثار “ میرا رجحان اور قول بھی بطری ققیاس یہی ہے البتہ بطریق آثار ان کے معانی کی وضاحت میں اور بیان وجوہ میں اپنا رجحان ذکر کردیا گیا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ تم وقف کی وجہ سے زمین کو اس کے مالک کی ملکیت سے نکالتے ہو لیکن کسی کی ملکیت میں دینے کو تیار نہیں۔ ان کو جواب میں کہے کہ تم اس بات کا کیوں کر انکار کرسکتے ہو جبکہ تم اور تمہارے مخالفین سب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین کو مسجد بناتا ہے اور جو مسلمانوں اور زمین کے درمیان سے ہٹ جاتا ہے تو اس سے وہ زمین اس کی ملکیت سے نکل جاتی ہے مگر کسی دوسرے کی ملکیت میں بھی داخل نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ملک میں آجاتی ہے تو تمہاری اس دلیل سے جو الزام تمہارے مخالفین پر ہوتا ہے وہی تم پر بھی لازم ہوتا ہے۔ (فما ہو جوابکم فہو جوابنا) اگر کوئی معترض کہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں ممانعت حبس کا کیا معنی ہے۔ ان کو جواب میں کہے کہ محدثین کے اس سلسلہ میں دو قول ہیں۔ نمبر ١ اس روایت کے تذکرہ میں ہم نے ذکر کیا ہے روایت ٥٧٤٩۔ نمبر اس سے اہل جاہلیت کا عمل مراد ہے یعنی بحیرہ سائبہ ‘ ووصیلہ ‘ حام وغیرہ مراد ہیں وہ اپنے ان اعمال کو وقف خیال کرتے تھے اور کسی کو اس کا وارث قرار نہ دیتے تھے جب احکام وراثت والی سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے وراثت و اموال کے احکام بیان فرمائے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وقف نہیں۔ جنہوں نے صدقات موقوفہ کی اس ہمارے بیان کردہ طریقے کے مطابق اجازت دی انھوں نے اس سلسلے میں اختلاف کیا۔ نمبر ١ امام ابو یوسف (رح) وغیرہ انھوں نے اس کو جائز قرار دیا جس کو صدقہ کردیا گیا خواہ اس پر قبضہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ ! امام مالک ابن ابی لیلیٰ ‘ محمد بن حسن رحمہم اللہ نے فرمایا جب تک وہ چیز اس کے قبضہ سے فار غ نہ ہو اور دوسرا آدمی اس پر قبضہ نہ کرے یہ جائز نہیں ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ہم نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ ان اقوال میں غور کر کے صحیح قول کو نکالا جائے۔ میں نے غور کیا کہ بندوں کے تصرفات کئی قسم کے ہیں۔ آزاد کرنا اور یہ صرف کہنے سے نافذ ہوجاتا ہے اور مالک کی ملک سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملک میں داخل ہوجاتا ہے۔ ہبہ اور صدقہ کرنا وہ صرف قول سے نافذ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے ساتھ اس آدمی کی طرف سے قبضہ کروانا ثابت نہ ہوجائے جس نے اس کو ہبہ کیا ہے معطی موہوب لہ کو اس کا مالک بنا دے۔ اب قابل غور یہ ہے کہ وقف کا حکم کس سے مشابہت رکھتا ہے تاکہ اس کی طرف مائل کردیا جائے تو ہم نے دیکھا کہ جب کوئی شخص اپنی زمین اور مکان کو وقف کرتا ہے تو وہ جس پر وقف کرتا ہے وہ اس کے منافع کا مالک بنتا ہے اس مال کی ذات کا مالک نہیں بنتا کیونکہ وہ واقف اس چیز کو اپنی ذاتی ملک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی ملک میں دیتا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اس چیز کی مثل ہے جس کو اپنی ملکیت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی ملک میں دے دیا۔ تو جس طرح کہ عتاق کا تعلق صرف قول سے ہے قبضہ کا محتاج نہیں بالکل اسی طرح وقف میں بھی قول کے ساتھ قبضہ کی چنداں ضرورت نہیں کہ اگر ہم قبضہ کو لازم قرار دیں تو قبضہ کرنے والا اس چیز پر قبضہ کرے گا جس کا وقف کی وجہ سے وہ مالک نہیں ہوا۔ فلہذا اس کا قبضہ کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہوئے پس ان دونوں دلیلوں سے امام ابو یوسف (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔
امام طحاوی (رح) نے پہلی مرتبہ : الی ہذا اذہب وبہ اقول من طریق النظر لاطریق الاثارہ فرمایا ورنہ اب تک اپنا رجحان اس انداز سے کہیں ظاہر نہیں فرمایا۔ بطریق اثر تو اس کو ترجیح دی کہ صاحب میراث کے لیے یہ وقف جائز نہیں دوسری میراث کی طرح تقسیم ہوگا البتہ بطریق نظر درست ہے یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ (مترجم)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔