HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

23. فیصلوں کا بیان

الطحاوي

5961

۵۹۶۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ یَہُوْدِیًّا وَیَہُوْدِیَّۃً حِیْنَ تَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ أَہْلَ الذِّمَّۃِ اِذَا أَصَابُوْا شَیْئًا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی لَمْ یَحْکُمْ عَلَیْہِمُ الْمُسْلِمُوْنَ حَتّٰی یَتَحَاکَمُوْا اِلَیْہِمْ وَیَرْضَوْا بِحُکْمِہِمْ فَاِذَا تَحَاکَمُوْا اِلَیْہِمْ کَانَ الْاِمَامُ مُخَیَّرًا اِنْ شَائَ أَعْرَضَ عَنْہُمْ فَلَمْ یَنْظُرْ فِیْمَا بَیْنَہُمْ وَاِنْ شَائَ حَکَمَ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِقَوْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاِنْ جَائُوْک فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا: عَلَی الْاِمَامِ أَنْ یَحْکُمَ بَیْنَہُمْ بِأَحْکَامِ الْمُسْلِمِیْنَ فَکُلَّمَا وَجَبَ عَلَی الْاِمَامِ أَنْ یُقِیْمَہُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ فِیْمَا أَصَابُوْا مِنَ الْحُدُوْدِ وَجَبَ عَلَیْہِ أَنْ یُقِیْمَہُ عَلٰی أَہْلِ الذِّمَّۃِ غَیْرَ مَا اسْتَحَلُّوْا بِہٖ فِیْ دِیْنِہِمْ کَشُرْبِہِمُ الْخَمْرَ وَمَا أَشْبَہَہُ وَأَنَّ ذٰلِکَ یَخْتَلِفُ حَالُہُمْ فِیْہِ وَحَالُ الْمُسْلِمِیْنَ یُعَاقَبُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ وَأَہْلُ الذِّمَّۃِ لَا یُعَاقَبُوْنَ عَلَیْہِ مَا خَلَا الرَّجْمَ فِی الزِّنَا فَاِنَّہٗ لَا یُقَامُ عِنْدَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الذِّمَّۃِ لِأَنَّ الْأَسْبَابَ الَّتِیْ یَجِبُ بِہَا الْاِحْصَانُ فِی قَوْلِہِمْ أَحَدُہَا الْاِسْلَامُ .فَأَمَّا مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْعُقُوْبَاتِ الْوَاجِبَاتِ فِی انْتِہَاکِ الْحُرُمَاتِ فَاِنَّ أَہْلَ الذِّمَّۃِ فِیْہِ کَأَہْلِ الْاِسْلَامِ وَیَجِبُ عَلَی الْاِمَامِ أَنْ یُقِیْمَہُ عَلَیْہِمْ وَاِنْ لَمْ یَتَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ کَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ أَنْ یُقِیْمَہُ عَلٰی أَہْلِ الْاِسْلَامِ وَاِنْ لَمْ یَتَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا أَنَّہٗ اِنَّمَا أَخْبَرَ فِیْہِ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ الْیَہُوْدَ حِیْنَ تَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ .وَلَمْ یَقُلْ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّمَا رَجَمْتہمْ لِأَنَّہُمْ تَحَاکَمُوْا اِلَیَّ .وَلَوْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَعُلِمَ أَنَّ الْحَکَمَ مِنْہُ اِنَّمَا یَکُوْنُ اِلَیْہِ بَعْدَ أَنْ یَتَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ وَأَنَّہُمْ اِذَا لَمْ یَتَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ لَمْ یَنْظُرْ فِیْ أُمُوْرِہِمْ .وَلٰـکِنَّہٗ لَمْ یَجِئْ اِنَّمَا جَائَ عَنْہُ أَنَّہٗ رَجَمَہُمْ حِیْنَ تَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ .فَاِنَّمَا أَخْبَرَ عَنْ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحُکْمِہِ اِذْ تَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ وَلَمْ یُخْبِرْ عَنْ حُکْمِہِمْ عِنْدَہُ قَبْلَ أَنْ یَتَحَاکَمُوْا اِلَیْہِ ہَلْ یَجِبُ عَلَیْہِمْ فِیْہِ اِقَامَۃُ الْحَدِّ أَمْ لَا ؟ .فَبَطَلَ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ دَلَالَۃٌ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ رَأْیِہٖ۔ ثُمَّ نَظَرْنَا فِیْمَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟ .فَاِذَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ
٥٩٦٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک یہودی مرد و عورت کو سنگسار کیا جبکہ وہ آپ کے پاس فیصلہ لائے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اہل ذمہ جب کسی ایسے فعل کے مرتکب ہوں جو حدود تک پہنچنے والا ہو تو مسلمان ان کے متعلق اس وقت تک فیصلہ نہیں کرسکتے جب تک وہ ان کو حاکم تسلیم نہ کرلیں اور ان کے فیصلے کو پسند کریں جب وہ فیصل بنائیں گے تو امام کو اختیار ہے۔ خواہ ان سے اعراض کرے اور ان کے مابین معاملات پر توجہ نہ کرے اور اگر وہ چاہے تو فیصلہ کر دے انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے دوسری دلیل یہ آیت ہے۔ ” فان جاء وک فاحکم بینہم اواعرض عنہم “ (المائدہ : ٤٢) دوسروں نے کہا امام پر لازم ہے کہ ان کے مابین اسلام کے احکام کے مطابق فیصلہ کرے تو جب حاکم پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں پر حدود کو قائم کرے تو اس پر یہ بھی لازم ہے کہ ذمیوں پر بھی حدود کو قائم کرے سوائے اس عمل کے جس کو وہ اپنے دین میں حلال سمجھتے ہوں جیسا کہ شراب نوشی کرنا یا اس جیسے دوسرے کام۔ اس سلسلے میں ان کی حالت مسلمانوں سے مختلف ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو تو اس قسم کے افعال پر سزا دی جائے گی اور انھیں دی جاتی۔ البتہ ذمیوں کو زنا کی صورت میں رجم نہ کیا جائے گا کیونکہ احصان کے اسباب میں سے ایک سبب مسلمان ہونا بھی ہے۔ (اور احصان نہ ہو تو رجم نہیں البتہ تعزیر ہوگی) مگر جو سزائیں حرمت کے توڑنے کے سلسلہ میں دی جاتی ہیں ان میں ذمی لوگ مسلمانوں کی طرح ہیں اور حاکم کے لیے ضروری ہے کہ پھر ان پر حدود کو قائم کرے اگر اپنا مقدمہ حاکم کے پاس نہ لے جائیں جس طرح اس پر لازم ہے کہ مسلمانوں پر حدود کو قائم کرے اگرچہ وہ ان کے پاس مقدمہ نہ لے جائیں۔ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت سے انھوں نے دلیل لی ہے۔ انھوں نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو رجم کیا جب کہ وہ اپنا مقدمہ آپ کی خدمت میں لائے۔ اس وقت آپ نے یہ نہیں فرمایا میں تمہارا فیصلہ کرتا ہوں کیونکہ تم اپنا مقدمہ میرے پاس لائے ہو۔ اگر یہ بات ہوتی تو پھر معلوم ہوجاتا کہ آپ کا فیصلہ ان کے مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد ہوا اور اگر وہ اپنا مقدمہ نہ لاتے تو آپ ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرتے مگر یہ بات مروی نہیں ہے۔ آپ سے تو صرف اس قدر مروی ہے کہ آپ نے اس وقت رجم کیا جب وہ اپنا مقدمہ لائے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل اور فیصلے کی خبر دی جبکہ وہ اپنا مقدمہ آپ کی خدمت میں لائے اور آپ کے پاس مقدمہ لانے سے پہلے کے فیصلے کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی کہ کیا اس صورت میں بھی حد کا قائم کرنا واجب ہے یا نہیں۔ تو اس صورت میں اس روایت کو حضرت ابن عمر (رض) اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دلیل میں لانا منع ہے۔
تخریج : روی بتغیر یسیر من اللفظ۔ مسلم فی الحدود ٢٧‘ ترمذی فی الحدود باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ١٠‘ مسند احمد ٢‘ ٦٢؍٦٣‘ ٤؍٣٥٥‘ ٥‘ ٩١؍٩٦‘ ١٠٤؍١٠٨۔
بقیہ روایات میں تذکرہ :
اب ہم غور کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ آثار میں کوئی چیز ایسی ملتی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے۔
بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اہل ذمہ اگر فیصلہ کرانے آئیں تو ان سے اعراض کرنا اور فیصلہ کردینا دونوں درست ہیں۔ اس کو امام احمد اور نخعی اور شافعی (رض) نے ایک قول میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا فریق کا قول یہ ہے کہ جب اہل ذمہ محرم جو موجب عقوبت ہو اس کا ارتکاب کریں مثلاً زنا سرقہ وغیرہ تو ان پر حد لازم ہے اس قول کو امام شافعی (رض) نے اختیار کیا اور امام احمد (رض) کا بھی ایک قول یہی ہے۔ (المغنی جلد ٨ ص ٢١٤)

5962

۵۹۶۱: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْخَیْثَمَۃَ زُہَیْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ الْیَہُوْدَ جَائُوْا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ مِنْہُمَا زَنَیَا .فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ائْتُوْا بِأَرْبَعَۃٍ مِنْکُمْ یَشْہَدُوْنَ .فَثَبَتَ بِہٰذَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ یَنْظُرُ بَیْنَہُمْ قَبْلَ أَنْ یَحْکُمَہُ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَۃُ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِمَا الزِّنَا لِأَنَّہُمَا جَمِیْعًا جَاحِدَانِ وَلَوْ کَانَا مُقِرَّیْنِ لَمَا احْتَاجَ مَعَ اِقْرَارِہِمَا اِلٰی أَرْبَعَۃٍ یَشْہَدُوْنَ .وَرُوِیَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٦١: شعبی نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ یہود اپنے ایک مرد و عورت کو لے کر حاضر ہوئے ان دونوں نے زنا کیا تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے لوگوں سے چار گواہ لاؤ۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ ان کے معاملات پر توجہ فرماتے تھے اس سے پہلے کہ وہ آپ کو فیصل بنائیں کہ جن پر دعویٰ زنا کیا گیا ہے کیونکہ وہ دونوں منکر تھے۔ اگر وہ اقراری ہوتے تو اقرار کے ساتھ چار گواہوں کی ضرورت نہ تھی۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦٠‘ المناقب باب ٢٦‘ والاعتصام باب ٦‘ التوحید باب ٥١‘ مسلم فی الحدود ٢٦؍٢٧‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢٣‘ والحدود باب ٢٥‘ دارمی فی الحدود باب ١٥‘ مالک فی الحدود ١‘ مسند احمد ٢‘ ٥؍١٧۔
روایت براء بن عازب (رض) :
اسی طرح کی روایت حضرت برائ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔

5963

۵۹۶۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : مُرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ بِرَجُلٍ قَدْ حُمِّمَ وَجْہُہُ وَقَدْ ضُرِبَ یُطَافُ بِہٖ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُ ہٰذَا قَالُوْا : زَنَی قَالَ فَمَا تَجِدُوْنَ فِیْ کِتَابِکُمْ قَالُوْا : یُحَمَّمُ وَجْہُہُ وَیُعَزَّرُ وَیُطَافُ بِہٖ .فَقَالَ أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ مَا تَجِدُوْنَ حَدَّہُ فِیْ کِتَابِکُمْ ؟ فَأَشَارُوْا اِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ فَسَأَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ نَجِدُ فِی التَّوْرَاۃِ الرَّجْمَ وَلٰـکِنَّہٗ کَثُرَ فِیْ أَشْرَافِنَا فَکَرِہْنَا أَنْ نُقِیْمَ الْحَدَّ عَلٰی سَفَلَتِنَا وَنَدَعَ أَشْرَافَنَا فَاصْطَلَحْنَا عَلٰی شَیْئٍ فَوَضَعْنَا ہٰذَا .فَرَجَمَہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَنَا أَوْلَی مَنْ أَحْیَا مَا أَمَاتُوْا مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ .فَفِیْ ہٰذَا مَا یَدُلُّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ لَہٗ أَنْ یَحْکُمَ بَیْنَہُمْ وَاِنْ لَمْ یُحَکِّمُوْھُ لِأَنَّ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہُمْ مَرُّوْا بِہٖ وَہُوَ مُحَمَّمٌ فَذَکَرَ بَاقِیَ الْحَدِیْثِ ثُمَّ رَجَمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا دَعَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - اِنْکَارًا لِمَا فَعَلُوْھُ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأْتُوْھُ فَرَدَّ أَمْرَہُمْ اِلَی حُکْمِ اللّٰہِ الَّذِی قَدْ عَطَّلُوْھُ وَغَیَّرُوْھُ - ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ لَہٗ أَنْ یَحْکُمَ فِیْمَا بَیْنَہُمْ حَکَّمُوْھُ أَوْ لَمْ یُحَکِّمُوْھُ .فَہٰذَا مَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ الدَّلَائِلِ عَلٰی مَا قَدْ تَکَلَّمْنَا عَلَیْہِ .وَأَمَّا قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَاِنْ جَائُ وْک فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ فَاِنَّ الَّذِیْ ذَہَبُوْا فِیْہِ اِلَی تَثْبِیتِ الْحُکْمِ یَقُوْلُوْنَ : ہِیَ مَنْسُوْخَۃٌ .
٥٩٦٢: عبداللہ بن مرہ نے حضرت برائ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ کے پاس سے ایک آدمی گزارا گیا جس کا چہرہ سیاہ کیا گیا تھا اور اس کو گھمایا اور پیٹا جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا اس کا کیا معاملہ ہے تو انھوں نے کہا اس نے زنا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا تمہاری کتاب میں کیا حکم ہے۔ انھوں نے اپنے میں سے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا تو اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تو وہ آدمی کہنے لگا ہم اپنی کتاب میں رجم کا حکم پاتے ہیں مگر ہم سرداروں میں زنا کی کثرت ہوگئی پس ہم نے اپنے کم درجہ لوگوں پر حد کا قیام بھی ناپسند کیا اور سرداروں کو بالکل چھوڑنا بھی ناپسند کیا ہم نے باہمی ایک چیز پر صلح کرلی اور اس سزا کو ختم کردیا آپ نے اس کو رجم کیا اور فرمایا جس حد کو انھوں نے مردہ کردیا میں اسے زندہ کرنے کا زیادہ حقدار ہوں۔ تو اس روایت میں یہ دلالت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق حاصل تھا کہ ان کے مابین فیصلہ کریں خواہ وہ آپ کو فیصل نہ بنائیں۔ یہ روایت بتلاتی ہے کہ ایسا شخص آپ کے پاس سے گزرا جس کا منہ سیاہ کیا گیا تھا پھر باقی روایت اسی طرح ہے۔ پھر آپ نے اس کو سنگ سار کیا۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس عمل کا انکار کرتے ہوئے جو آپ کے پاس آنے سے پہلے وہ کرچکے تھے آپ نے ان کو بلایا تو آپ نے ان کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پھیرا جس کو انھوں نے معطل کردیا تھا اور بدل ڈالا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ کو ان کے درمیان فیصلہ کا حق حاصل تھا خواہ وہ مقدمہ لائیں یا نہ لائیں۔ مذکورہ بالا روایات میں یہ دلائل موجود ہیں جن پر ہم نے گفتگو کی ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کی آیت ” فان جاؤک فاحکم بینہم او اعرض عنہم “ کا تعلق ہے تو جن کے ہاں یہ حکم ثابت ہے وہ اس آیت کو منسوخ مانتے ہیں۔
تخریج : مسلم فی الحدود ٢٨‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٥‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٨‘ مسند احمد ٤؍٢٨٦۔

5964

۵۹۶۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ السُّدِّیِّ عَنْ عِکْرَمَۃَ فَاِنْ جَائُوْک فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ قَالَ : نَسَخَتْہَا ہٰذِہِ الْآیَۃُ وَأَنْ اُحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَائَ ہُمْ .وَقَالَ الْآخَرُوْنَ : تَأْوِیْلُہَا وَأَنْ اُحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ اِنْ حَکَمْت فَلَمَّا اُخْتُلِفَ فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَکَانَتِ الْآثَارُ قَدْ دَلَّتْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ثَبَتَ الْحَکَمُ عَلَیْہِمْ عَلَی اِمَامِ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ تَرْکُہُ لِأَنَّ فِیْ حُکْمِہِ النَّجَاۃَ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیْعًا لِأَنَّ مَنْ یَقُوْلُ : عَلَیْہِ أَنْ یَحْکُمَ یَقُوْلُ قَدْ تَرَکَ مَا کَانَ عَلَیْہِ أَنْ یَفْعَلَہٗ۔وَمَنْ یَقُوْلُ : لَہٗ أَنْ لَا یَحْکُمَ یَقُوْلُ : قَدْ تَرَکَ مَا کَانَ لَہٗ تَرْکُہُ فَاِذَا حَکَمَ یَشْہَدُ لَہُ الْفَرِیْقَانِ جَمِیْعًا بِالنَّجَاۃِ وَاِذَا لَمْ یَحْکُمْ لَمْ یَشْہَدَا لَہٗ بِذٰلِکَ .فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَفْعَلَ مَا فِیْہِ النَّجَاۃُ بِالْاِتِّفَاقِ دُوْنَ مَا فِیْہِ ضِدَّ النَّجَاۃِ بِالْاِخْتِلَافِ .وَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ وُجُوْبِ الْحُکْمِ عَلَیْہِمْ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتُمْ لَا تَرْجُمُوْنَ الْیَہُوْدَ اِذَا زَنَوْا فَقَدْ تَرَکْتُمْ بَعْضَ مَا فِی الْحَدِیْثِ الَّذِی بِہٖ احْتَجَجْتُمْ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّ الْحَکَمَ کَانَ فِی الزُّنَاۃِ فِیْ عَہْدِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ ہُوَ الرَّجْمُ عَلَی الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ .وَکَذٰلِکَ کَانَ جَوَابُ الْیَہُوْدِیِّ الَّذِیْ سَأَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَدِّ الزَّانِیْ فِیْ کِتَابِہِمْ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اتِّبَاعُ ذٰلِکَ وَالْعَمَلُ بِہٖ لِأَنَّ عَلَی کُلِّ نَبِی اتِّبَاعُ شَرِیْعَۃِ النَّبِیِّ الَّذِیْ کَانَ قَبْلَہٗ حَتّٰی یُحْدِثَ اللّٰہُ شَرِیْعَۃً تَنْسَخُ شَرِیْعَتَہُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ فَرَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْیَہُوْدِیَّیْنِ عَلٰی ذٰلِکَ الْحُکْمِ وَلَا فَرْقَ حِیْنَئِذٍ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ .ثُمَّ أَحْدَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَرِیْعَۃً فَنَسَخَتْ ہٰذِہِ الشَّرِیْعَۃَ فَقَالَ وَاللَّاتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا .وَکَانَ ہٰذَا نَاسِخًا لِمَا کَانَ قَبْلَہٗ وَلَمْ یُفَرِّقْ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ .ثُمَّ نَسَخَ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ فَجَعَلَ الْحَدَّ ہُوَ الْاِیذَائَ بِالْآیَۃِ الَّتِیْ بَعْدَہَا وَلَمْ یُفَرِّقْ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بَیْنَ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِہٖ۔ ثُمَّ جَعَلَ لَہُنَّ سَبِیْلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَعْذِیْبُ عَامٍ وَالثَّیِّبُ جَلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ .فَرَّقَ حِیْنَئِذٍ بَیْنَ حَدِّ الْمُحْصَنِ وَحَدِّ غَیْرِ الْمُحْصَنِ الْجَلْدُ ثُمَّ اخْتَلَفَ النَّاسُ مِنْ بَعْدُ فِی الْاِحْصَانِ .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَکُوْنُ الرَّجُلُ مُحْصَنًا بِامْرَأَتِہٖ وَلَا الْمَرْأَۃُ مُحْصَنَۃً بِزَوْجِہَا حَتّٰی یَکُوْنَا حُرَّیْنِ مُسْلِمَیْنِ بَالِغَیْنِ قَدْ جَامَعَہَا وَہُمَا بَالِغَانِ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَالَ آخَرُوْنَ : یُحْصِنُ أَہْلُ الْکِتَابِ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَیُحْصِنُ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِیَّۃَ وَلَا تُحْصِنُ النَّصْرَانِیَّۃُ الْمُسْلِمَ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ فِی الْاِمْلَائِ فِیْمَا حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَا.فَاحْتَمَلَ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الرَّجْمُ أَنْ یَکُوْنَ ہٰذَا عَلَی کُلِّ ثَیِّبٍ وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی خَاص مِنْ الثَّیِّبِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَوَجَدْنَاہُمْ مُجْتَمِعِیْنَ أَنَّ الْعَبِیْدَ غَیْرُ دَاخِلِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ وَأَنَّ الْعَبْدَ لَا یَکُوْنُ مُحْصَنًا ثَیِّبًا کَانَ أَوْ بِکْرًا وَلَا یُحْصِنُ زَوْجَتَہُ حَرَّۃً کَانَتْ أَوْ أَمَۃً .وَکَذٰلِکَ الْأَمَۃُ لَا تَکُوْنُ مُحْصَنَۃً بِزَوْجِہَا حُرًّا کَانَ أَوْ عَبْدًا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الرَّجْمُ اِنَّمَا وَقَعَ عَلَی خَاص مِنْ الثَّیِّبِ لَا عَلَی کُلِّ الثَّیِّبِ .فَلَمْ یَدْخُلْ فِیْمَا أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ وَقَعَ عَلَی خَاص اِلَّا مَا قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ فِیْہِ دَاخِلٌ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْحُرَّیْنِ الْمُسْلِمَیْنِ الْبَالِغَیْنِ الزَّوْجَیْنِ اللَّذَیْنِ قَدْ کَانَ مِنْہُمَا الْجِمَاعُ مُحْصَنَیْنِ وَاخْتَلَفُوْا فِیْمَنْ سِوَاہُمْ .فَقَدْ أَحَاطَ عِلْمُنَا أَنَّ ذٰلِکَ قَدْ دَخَلَ فِی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الرَّجْمُ .فَأَدْخَلْنَا فِیْہِ وَلَمْ یُحِطْ عِلْمُنَا بِمَا سِوٰی ذٰلِکَ فَأَخْرَجْنَاہُ مِنْہُ .وَقَدْ کَانَ یَجِیْئُ فِی الْقِیَاسِ - لَمَّا کَانَتِ الْأَمَۃُ لَا تُحْصِنُ الْحُرَّ وَلَا یُحْصِنُہَا الْحُرُّ وَکَانَتْ ہِیَ فِیْ عَدَمِ اِحْصَانِہَا اِیَّاہُ کَہُوَ فِیْ عَدَمِ اِحْصَانِہِ اِیَّاہَا - أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ النَّصْرَانِیَّۃُ فَکَمَا ہِیَ لَا تُحْصِنُ زَوْجَہَا الْمُسْلِمَ کَانَ ہُوَ أَیْضًا کَذٰلِکَ لَا یُحْصِنُہَا .وَقَدْ رَأَیْنَا الْأَمَۃَ أَیْضًا - لَمَّا بَطَلَ أَنْ تُحْصِنَ الْمُسْلِمَ - بَطَلَ أَنْ یُحْصِنَ الْکَافِرَ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ .
٥٩٦٣: عکرمہ نے روایت کی ہے کہ ” فان جاؤک فاحکم بینہم او اعرض عنہن الایہ “ یہ اس آیت سے منسوخ ہے ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ہم الایۃ “ آیت { وان احکم ۔۔} کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ان کے مابین فیصلہ فرمائیں تو اس چیز کے ساتھ فیصلہ فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ جب اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہوا اور روایات کی دلالت مذکورہ گفتگو کی موافقت کرتی ہے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کا حاکم ان کے مابین فیصلہ کرے گا اور وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ تمام کے قول کے مطابق اس فیصلے میں نجات ہے۔ کیونکہ جو لوگ فیصلے کے حق میں ہیں وہ فرماتے ہیں اس نے اس عمل کو چھوڑ دیا جو اس پر لازم تھا۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ نہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس عمل کو چھوڑا ہے جس کے چھوڑنے کا اسے اختیار تھا اور جب وہ فیصلہ کرے گا تو دونوں فریق اس کے لیے نجات کی گواہی دیں گے اور جب وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو وہ نجات کی گواہی نہ دیں گے تو جس کام میں بالاتفاق نجات ہو اس کا کرنا اولیٰ ہے بجائے اس کام کے جس میں نجات کے خلاف بات اختلاف کے ساتھ ثابت ہو۔ یہ فیصلہ کرنے کا وجوب جو کہ مذکور ہوا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ آپ زانی یہودی کے متعلق رجم کے قائل نہیں پس تم نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔ تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے اگر زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) میں زنا کرنے والوں کی سزا رجم تھی خواہ وہ محصن ہوں یا غیر محصن۔ اسی طرح جس یہودی سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تھا کہ تمہاری کتاب میں زانی کی سزا کیا ہے تو اس نے بھی یہی جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں فرمایا۔ آپ پر اس حکم کی اتباع لازم تھی اور ہر پیغمبر (علیہ السلام) کو یہی حکم ہوتا ہے کہ وہ پہلے پیغمبر (علیہ السلام) کی شریعت پر چلے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو نئی شریعت دے کر اس حکم کو منسوخ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” اولئک الذین ہدی اللہ فبہدہم اقتدہ “ (الانعام : ٩٠) پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حکم سے دو یہودیوں کو سنگسار فرمایا۔ اس حکم میں محصن و غیر محصن کا فرق نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی شریعت اتار کر یہ حکم منسوخ کردیا فرمایا ” والٰتی یأتین الفاحشۃ من نساء کم “ (النسائ۔ ١٥) کہ وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں سے بےحیائی کا ارتکاب کریں ان پر چار گواہ بنا لو۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں موت تک روکے رکھو یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راہ پیدا کر دے۔ یہ حکم ماقبل کے لیے ناسخ تھا اور اس میں بھی محصن اور غیر محصن کی تفریق نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرمایا اور ایذاء کو حد قرار دیا گیا اور اس میں بھی محصن و غیر محصن میں فرق نہ رکھا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل مقرر فرمایا ” البکر بالبکر جلدمائۃ و تغریب عام والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم “ (ابن ماجہ فی الحدود باب ٧) کہ کنواری اور کنوارے کے زنا پر سو کوڑے اور ایک سال جالوطنی اور شادی شدہ کو شادی کے ساتھ زنا کی وجہ سے سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔ چنانچہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی حد میں فرق کردیا گیا۔ پھر علماء کا احصان کے متعلق اختلاف ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اپنی بیوی کی وجہ سے محصن نہ بنے گا اور نہ عورت اپنے خاوند سے محصنہ بن جائے گی جب تک کہ وہ دونوں مسلمان بالغ ہوں اور اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بلوغت کی عمر میں جماع کیا ہو۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ دوسری جماع کے ہاں اہل کتاب بھی کتابیہ سے محصن ہوگا اور مسلمان مسلمہ اور نصرانیہ سے محصن ہوجائے گا البتہ نصرانیہ مسلم سے محصنہ نہ بنے گی امالی میں امام ابو یوسف (رح) کا یہی قول ہے جیسا کہ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے بیان کیا ہے۔ اب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ثیب ثیبہ سے زنا کرے تو سنگسار کرنا ہے اس میں ہر ثیب کا احتمال ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خاص ثیب مراد ہو۔ ہم نے ان دونوں باتوں کو جمع ہوتے پایا۔ نمبر ١ غلام اس میں داخل نہیں اور غلام محصن نہیں ہوتا خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور اس کی بیوی بھی محصنہ نہ بنے گی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اسی طرح لونڈی اپنے خاوند کی وجہ سے محصنہ نہ کہلائے گی۔ خواہ اس کا خاوند آزاد ہو یا غلام۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو رجم ہے۔ اس سے خاص قسم کا ثیب مراد ہے ہر ثیب مراد نہیں۔ تو جس پر اجماع ہے کہ خاص ثیب مراد ہے اس میں صرف وہی داخل ہوگا جس کے داخل ہونے پر اجماع ہو اور ان حضرات کا اتفاق ہے کہ دو آزاد مسلمان بالغ میاں بیوی جو (کم از کم ایک بار) جماع کرچکے ہوں وہ محصن ہوں گے اس کے علاوہ میں اختلاف ہے تو ہمارے علم کے مطابق یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول ” الثیب بالثیب الرجم “ اس میں داخل ہے اور ہم نے اس کو داخل قرار دیا اس کے علاوہ کے متعلق ہمارے علم میں بات نہیں آسکی اس لیے ان کو اس حکم سے خارج کیا ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب لونڈی آزاد آدمی کو محصن نہیں بنا سکتی اور نہ ہی آزاد لونڈی کو محصنہ بنا سکتا ہے اور وہ مرد کو محصن نہ بنانے میں اس طرح ہے جس طرح وہ اس کو محصن نہ بنانے میں نصرانی عورت کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ جب وہ اپنے مسلمان خاوند کو محصن نہیں بنا سکتی تو وہ بھی اس کو محصنہ بنہ بنا سکے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لونڈی کا مسلمان کو محصن بنانا جب باطل ٹھہرا تو کافر کو محصن بنانا بھی باطل ہوگیا جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
فریق ثانی کہتا ہے : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ان کے مابین فیصلہ فرمائیں تو اس چیز کے ساتھ فیصلہ فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ جب اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہوا اور روایات کی دلالت مذکورہ گفتگو کی موافقت کرتی ہے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کا حاکم ان کے مابین فیصلہ کرے گا اور وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ تمام کے قول کے مطابق اس فیصلے میں نجات ہے۔
نمبر 1: کیونکہ جو لوگ فیصلے کے حق میں ہیں وہ فرماتے ہیں اس نے اس عمل کو چھوڑ دیا جو اس پر لازم تھا۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ نہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس عمل کو چھوڑا ہے جس کے چھوڑنے کا اسے اختیار تھا اور جب وہ فیصلہ کرے گا تو دونوں فریق اس کے لیے نجات کی گواہی دیں گے اور جب وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو وہ نجات کی گواہی نہ دیں گے تو جس کام میں بالاتفاق نجات ہو اس کا کرنا اولیٰ ہے بجائے اس کام کے جس میں نجات کے خلاف بات اختلاف کے ساتھ ثابت ہو۔ یہ فیصلہ کرنے کا وجوب جو کہ مذکور ہوا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
سوال : آپ زانی یہودی کے متعلق رجم کے قائل نہیں پس تم جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔
جواب : اگر زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) میں زنا کرنے والوں کی سزا رجم تھی خواہ وہ محصن ہوں یا غیر محصن۔ اسی طرح جس یہودی سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تھا کہ تمہاری کتاب میں زانی کی سزا کیا ہے تو اس نے بھی یہی جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں فرمایا۔ آپ پر اس حکم کی اتباع لازم تھی اور ہر پیغمبر (علیہ السلام) کو یہی حکم ہوتا ہے کہ وہ پہلے پیغمبر (علیہ السلام) کی شریعت پر چلے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو نئی شریعت دے کر اس حکم کو منسوخ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” اولئک الذین ہدی اللہ فبہدہم اقتدہ “ (الانعام۔ ٩٠)
پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حکم سے دو یہودیوں کو سنگسار فرمایا۔ اس حکم میں محصن و غیر محصن کا فرق نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی شریعت اتار کر یہ حکم منسوخ کردیا فرمایا ” والٰتی یأتین الفاحشۃ من نساء کم “ (النسائ۔ ١٥) کہ وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں سے بےحیائی کا ارتکاب کریں ان پر چار گواہ بنا لو۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں موت تک روکے رکھو یا پھر اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے کوئی راہ پیدا کر دے۔ یہ حکم ماقبل کے لیے ناسخ تھا اور اس میں بھی محصن اور غیر محصن کی تفریق نہ تھی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرمایا اور ایذاء کو حد قرار دیا گیا اور اس میں بھی محصن و غیر محصن میں فرق نہ رکھا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل مقرر فرمایا ” البکر بالبکر جلدمائۃ و تغریب عام والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم “ (ابن ماجہ فی الحدود باب ٧) کہ کنواری اور کنوارے کے زنا پر سو کوڑے اور ایک سال جالوطنی اور شادی شدہ کو شادی کے ساتھ زنا کی وجہ سے سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔ چنانچہ شادی اور غری شادی شدہ کی حد میں فرق کردیا گیا۔
احصان : پھر علماء کا احصان کے متعلق اختلاف ہوا۔
ایک جماعت : کچھ لوگوں نے کہا کہ اپنی بیوی کی وجہ سے محصن نہ بنے گا اور نہ عورت اپنے خاوند سے محصنہ بن جائے گی جب تک کہ وہ دونوں مسلمان بالغ ہوں اور اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بلوغت کی عمر میں زنا کیا ہو۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
دوسری جماعت : اہل کتاب بھی کتابیہ سے محصن ہوگا اور مسلمان مسلمہ اور نصرانیہ سے محصن ہوجائے گا البتہ نصرانیہ مسلم سے محصنہ نہ بنے گی امالی میں امام ابو یوسف (رح) کا یہی قول ہے جیسا کہ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے بیان کیا ہے۔
اب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ثیب ثیبہ سے زنا کرے تو سنگسار کرنا ہے اس میں ہر ثیب کا احتمال ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خاص ثیب مراد ہو۔
نظر طحاویسوال :
ہم نے ان دونوں باتوں کو جمع ہوتے پایا۔ نمبر ١ غلام اس میں داخل نہیں اور غلام محصن نہیں ہوتا خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور اس کی بیوی بھی محصنہ نہ بنے گی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اسی طرح لونڈی اپنے خاوند کی وجہ سے محصنہ نہ کہلائے گی۔ خواہ اس کا خاوند آزاد ہو یا غلام۔
پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو رجم ہے۔ اس سے خاص قسم کا ثیب مراد ہے ہر ثیب مراد نہیں۔ تو جس پر اجماع ہے کہ خاص ثیب مراد ہے اس میں صرف وہی داخل ہوگا جس کے داخل ہونے پر اجماع ہو اور ان حضرات کا اتفاق ہے کہ دو آزاد مسلمان بالغ میاں بیوی جو (کم از کم ایک بار) جماع کرچکے ہوں وہ محصن ہوں گے اس کے علاوہ میں اختلاف ہے تو ہمارے علم کے مطابق یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول ” الثیب بالثیب الرجم “ اس میں داخل ہے اور ہم نے اس کو داخل قرار دیا اس کے علاوہ کے متعلق ہمارے علم میں بات نہیں آسکی اس لیے ان کو اس حکم سے خارج کیا ہے۔
اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب لونڈی آزاد آدمی کو محصن نہیں بنا سکتی اور نہ ہی آزاد لونڈی کو محصنہ بنا سکتا ہے اور وہ مرد کو محصن نہ بنانے میں اس طرح ہے جس طرح وہ اس کو محصن نہ بنانے میں نصرانی عورت کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ جب وہ اپنے مسلمان خاوند کو محصن نہیں بنا سکتی تو وہ بھی اس کو محصنہ بنہ بنا سکے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لونڈی کا مسلمان کو محصن بنانا جب باطل ٹھہرا تو کافر کو محصن بنانا بھی باطل ہوگیا جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
` بَابُ الْقَضَائِ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ `
ایک گواہی کے ساتھ قسم سے فیصلہ
اموال میں قضا بالیمین مع شاہد کے متعلق دو قول ہیں۔
نمبر 1: امام مالک ‘ شافعی ‘ احمد رحمہم اللہ کے ہاں اگر ایک گواہ کے علاوہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہو تو دوسرے گواہ کی جگہ اس سے قسم لے کر قاضی فیصلہ کر دے گا۔ فریق ثانی کا مؤقف یہ ہے کہ اموال میں بھی حکم دوسرے معاملات کی طرح ہے ان میں دو گواہ ضروری ہیں اور قسم تو مدعیٰ علیہ پر ہے۔
تخریج : المرقات ج ٧‘ ٢٥٣‘ التعلیق ج ٤‘ ص ١٢٨۔

5965

۵۹۶۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَیْفُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمَکِّیُّ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ
٥٩٦٤: عمرو بن دینار نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم اور ایک شاہد سے فیصلہ فرمایا۔
تخریج : مسلم فی الاقضیہ ٣‘ ابو داؤد فی الاقضیہ باب ٢١‘ ترمذی فی الاحکام باب ١٣‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٣١‘ مالک فی الاقضیہ ٥؍٦‘ مسند احمد ١؍٣١٥‘ ٣؍٣٠٥‘ ٥؍٣٨٥۔

5966

۵۹۶۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٩٦٥: سہیل بن ابو صالح نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5967

۵۹۶۶: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ عَبْدُ الْعَزِیْزِ : وَنَسِیَہُ سَہْلٌ قَالَ حَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ عَنِّیْ
٥٩٦٦: عبدالعزیز بن محمد نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔
عبدالعزیز کہتے ہیں سہل نے بھول کر حدثنی ربیعہ عنی کہا۔

5968

۵۹۶۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ - یَعْنِی الْحِمَّانِیَّ - قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَالدَّرَاوَرْدِیُّ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ عَبْدُ الْعَزِیْزِ : فَلَقِیْتُ سُہَیْلًا فَسَأَلْتُہٗ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَلَمْ یَعْرِفْہُ .
٥٩٦٧: سلیمان بن بلال اور دراوردی نے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ عبدالعزیز کہتے ہیں کہ میں اس روایت کے متعلق سہیل سے ملا تو انھوں نے کہا میں اس روایت کو نہیں جانتا۔

5969

۵۹۶۸: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ الْحَکَمِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٩٦٨: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے یہ روایت نقل کی ہے اور انھوں نے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5970

۵۹۶۹: حَدَّثَنَا وَہْبَانُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھَمَّامٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ الثَّقَفِیُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٩٦٩: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا انھوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5971

۵۹۷۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَذْکُرْ جَابِرًا
٥٩٧٠: جعفر نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی اور انھوں نے جابر (رض) کا ذکر نہیں کیا۔

5972

۵۹۷۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٩٧١: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5973

۵۹۷۲: حَدَّثَنَا بَحْرٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی الْقَضَائِ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ فِیْ خَاص مِنَ الْأَشْیَائِ فِی الْأَمْوَالِ خَاصَّۃً وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ أَنْ یُقْضَی فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْأَشْیَائِ اِلَّا بِرَجُلَیْنِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَیْنِ وَلَا یُقْضَی بِشَاہِدٍ وَیَمِیْنٍ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْأَشْیَائِ قَالُوْا : أَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْھُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا ذُکِرَ فِیْہِ أَنَّہٗ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ فَقَدْ دَخَلَہٗ الضَّعْفُ الَّذِی لَا یَقُوْمُ بِہٖ مَعَہُ حُجَّۃٌ .وَأَمَّا حَدِیْثُ زَمْعَۃَ عَنْ سُہَیْلٍ فَقَدْ سَأَلَ الدَّرَاوَرْدِیُّ سُہَیْلًا عَنْہُ فَلَمْ یَعْرِفْہُ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ السُّنَنِ الْمَشْہُوْرَۃِ وَالْأُمُوْرِ الْمَعْرُوْفَۃِ اِذًا لَمَا ذَہَبَ عَلَیْہِ وَأَنْتُمْ قَدْ تُضَعِّفُوْنَ مِنَ الْأَحَادِیْثِ مَا ہُوَ أَقْوَی مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ بِأَقَلَّ مِنْ ہٰذَا .وَأَمَّا حَدِیْثُ عُثْمَانَ بْنِ الْحَکَمِ مِنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَیْلٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَمُنْکَرٌ أَیْضًا لِأَنَّ أَبَا صَالِحٍ لَا تُعْرَفُ لَہٗ رِوَایَۃٌ عَنْ زَیْدٍ .وَلَوْ کَانَ عِنْدَ سُہَیْلٍ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ مَا أَنْکَرَ عَلَی الدَّرَاوَرْدِیِّ مَا ذَکَرْتُمْ عَنْ رَبِیْعَۃَ وَیَقُوْلُ لَہٗ لَمْ یُحَدِّثْنِیْ بِہٖ أَبِیْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ وَلٰـکِنْ حَدَّثَنِیْ بِہٖ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مَعَ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ الْحَکَمِ لَیْسَ بِاَلَّذِیْ یَثْبُتُ مِثْلُ ہٰذَا بِرِوَایَتِہٖ۔ وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَمُنْکَرٌ لِأَنَّ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ لَا نَعْلَمُہُ یُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ بِشَیْئٍ فَکَیْفَ یَحْتَجُّوْنَ بِہٖ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا؟ .وَأَمَّا حَدِیْثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَابِرٍ فَاِنَّ عَبْدَ الْوَہَّابِ رَوَاہُ کَمَا ذَکَرْتُمْ .وَأَمَّا الْحُفَّاظُ مَالِکٌ وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ وَأَمْثَالُہُمَا فَرَوَوْہُ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَذْکُرُوْا فِیْہِ جَابِرًا وَأَنْتُمْ لَا تَحْتَجُّوْنَ بِعَبْدِ الْوَہَّابِ فِیْمَا یُخَالِفُ فِیْہِ الثَّوْرِیَّ وَمَالِکًا .ثُمَّ لَوْ لَمْ یُنَازَعْ فِیْ طَرِیْقِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَسَلِمَتْ عَلَی ہٰذِہِ الْأَلْفَاظُ الَّتِی قَدْ رُوِیَتْ عَلَیْہَا لَکَانَتْ مُحْتَمِلَۃً لِلتَّأْوِیْلِ الَّذِی لَا یَقُوْمُ لَکُمْ بِمِثْلِہَا مَعَہُ الْحُجَّۃُ .وَذٰلِکُمْ أَنَّکُمْ اِنَّمَا رَوَیْتُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ .وَلَمْ یُبَیِّنْ فِی الْحَدِیْثِ کَیْفَ کَانَ ذٰلِکَ السَّبَبُ وَلَا الْمُسْتَحْلِفُ مَنْ ہُوَ ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ یَمِیْنُ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .وَاِذَا ادَّعَی الْمُدَّعِی وَلَمْ یُقِمْ عَلَی دَعْوَاہُ اِلَّا شَاہِدًا وَاحِدًا فَاسْتَحْلَفَ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ فَرَوَیْ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ الْمُدَّعِیَ یَجِبُ لَہُ الْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ لَا بِحُجَّۃٍ أُخْرَی غَیْرَ الدَّعْوَی - لَا یَجِبُ لَہُ الْیَمِیْنُ اِلَّا بِہَا .کَمَا قَالَ قَوْمٌ : اِنَّ الْمُدَّعِیَ لَا یَجِبُ لَہُ الْیَمِیْنُ فِیْمَا ادَّعَیْ اِلَّا أَنْ یُقِیْمَ الْبَیِّنَۃَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَتْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ خُلْطَۃٌ وَلَبْسٌ فَاِنْ أَقَامَ عَلٰی ذٰلِکَ بَیِّنَۃً اسْتَحْلَفَ لَہٗ وَاِلَّا لَمْ یَسْتَحْلِفْ .فَأَرَادَ الَّذِیْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَنْ یَنْفِیَ ہٰذَا الْقَوْلَ وَیُثْبِتَ الْیَمِیْنَ بِالدَّعْوَی وَاِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَ الدَّعْوَی غَیْرُہَا فَہٰذَا وَجْہٌ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ یَمِیْنُ الْمُدَّعِی مَعَ شَاہِدِہِ الْوَاحِدِ لِأَنَّ شَاہِدَہُ الْوَاحِدَ کَانَ مِمَّنْ یُحْکَمُ بِشَہَادَتِہٖ وَحْدَہُ وَہُوَ خُزَیْمَۃُ بْنُ ثَابِتٍ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ عَدَلَ شَہَادَتَہُ بِشَہَادَۃِ رَجُلَیْنِ .
٥٩٧٢: عمرو بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایک گواہ اور قسم سے بعض خاص مالی معاملات میں فیصلہ فرمایا اور انھوں نے ان آثار کو بطور دلیل پیش کیا۔ فریق ثانی : کا کہنا ہی کسی بھی چیز میں ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ وہ فیصلہ نافذ ہوگا جو کہ دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے کیا جائے گا۔ جواب دلیل : یہ روایات جو آپ نے پیش کی یہ ضعیف روایت ہے اس کو بطور دلیل پیش نہیں کرسکتے۔ رہی زمعہ والی روایت جس کو سہیل سے نقل کیا گیا ہے تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ دراوردی نے خود سہیل سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں تو اس روایت کو نہیں جانتا اگر یہ روایت سنن مشہورہ سے ہوتی تو اس سے یہ معاملہ نہ ہوتا آپ تو اس سے زیادہ قوی روایات کو بھی ضعیف قرار دیتے ہو۔ عثمان بن حکم جس کو حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا گیا ہے وہ منکر ہے کیونکہ ابو صالح کی کوئی روایت حضرت زید (رض) سے معروف نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں سہیل کے پاس کوئی روایت ہوتی تو وہ دراوردی کے سامنے انکار نہ کرتے۔ ربیعہ کی روایت جس میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے والد نے تو یہ ابوہریرہ (رض) سے بیان نہیں کی مگر مجھے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے بیان کی حالانکہ عثمان بن حکم ایسا راوی نہیں ہے کہ جس کی روایت سے اس قسم کی بات ثابت ہو سکے۔ روایت ابن عباس (رض) بھی منکر ہے کیونکہ قیس بن سعد ہمارے علم کی حد تک تو عمرو بن دینار سے کچھ بھی روایت نہیں کرتے تو اس قسم کے معاملات میں وہ اس کی روایت سے کیسے دلیل بناتے ہیں ؟ جعفر بن محمد کی روایت جو انھوں نے اپنے والد کے واسطہ سے جابر (رض) سے نقل کی ہے۔ اس سند کے ساتھ تو اس کو عبدالوہاب نے نقل کیا۔ مگر حفاظ حدیث مالک ‘ سفیان جیسے علماء نے جعفر عن ابیہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کی اور جابر کا تذکرہ نہیں کیا اور عبدالوہاب کی روایت ثوری ومالک کے خلاف قابل حجت نہیں۔ اگر سند کی اس بحث سے قطع نظر کر کے روایت کو من و عن تسلیم کرلیا جائے پھر بھی اس میں احتمال تاویل ہونے کی وجہ سے تمہارے ہاں قابل حجت نہ بنے گی۔ تم نے یہ روایت بیان کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ کیا۔ روایت سے اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا اور نہ حلف اٹھانے والا معلوم ہے۔ ممکن ہے کہ وہ مفہوم ہو جو آپ نے مراد لیا اور یہ بھ ممکن ہے کہ اس سے مراد مدعیٰ علیہ کی قسم ہو۔ جب مدعی نے دعویٰ تو کردیا مگر اپنے دعویٰ پر فقط ایک گواہ پیش کرسکا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعیٰ علیہ سے قسم لے کر فیصلہ فرما ‘ دیا پس یہ روایت بیان کردی گئی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ مدعی کے لیے لازم ہے کہ اس کی خاطر مدعیٰ علیہ پر قسم آئے جبکہ دعویٰ کے لیے اور دلیل نہ ہو اور اس کے حق کے لیے قسم صرف اسی صورت میں لازم ہوگی۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مدعی کو اپنے حق کے لیے قسم لینا لازم نہیں سوائے اس صورت کے کہ وہ اس پر دلیل پیش کر دے کہ اس کے اور مدعیٰ علیہ کے درمیان گڑبڑ و اشتباہ تھا اگر وہ اس پر دلیل قائم کر دے تو اس کے لیے مدعیٰ علیہ سے حلف لیا جائے گا ورنہ نہیں۔ پس جس نے اس روایت کو بیان کیا اس کا مقصد اس بات کی نفی کرنا تھا کہ قسم تو صرف دعویٰ ہی سے ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ دعویٰ کے ساتھ کوئی اور بات نہ ہو۔ تو یہ اس حدیث کا باعث ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مدعی سے ایک گواہ کے ساتھ قسم لینا مراد ہو۔ کیونکہ اس کا ایک گواہ ان لوگوں سے ہو جس اکیلے کی گواہی سے فیصلہ ہوجاتا ہے اور وہ خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) ہیں کہ جن کی گواہی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔ روایت یہ ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایک گواہ اور قسم سے بعض خاص مالی معاملات میں فیصلہ فرمایا اور انھوں نے ان آثار کو بطور دلیل پیش کیا۔
فریق ثانی : کسی بھی چیز میں ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ وہ فیصلہ نافذ ہوگا جو کہ دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے کیا جائے گا۔
جواب دلیل : یہ روایت جو آپ نے پیش کی یہ ضعیف روایت ہے اس کو بطور دلیل پیش نہیں کرسکتے۔
نمبر 1: رہی زمعہ والی روایت جس کو سہیل سے نقل کیا گیا ہے تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ دراوردی نے خود سہیل سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں تو اس روایت کو نہیں جانتا اگر یہ روایت سنن مشہورہ سے ہوتی تو اس سے یہ معاملہ نہ ہوتا آپ تو اس سے زیادہ قوی روایات کو بھی ضعیف قرار دیتے ہو۔
نمبر 2: عثمان بن حکم جس کو حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا گیا ہے وہ منکر ہے کیونکہ ابو صالح کی کوئی روایت حضرت زید (رض) سے معروف نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں سہیل کے پاس کوئی روایت ہو تو وہ دراوردی کے سامنے انکار نہ کرتے۔
نمبر 3: ربیعہ کی روایت جس میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے والد نے تو یہ ابوہریرہ (رض) سے بیان نہیں کی مگر مجھے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے بیان کی حالانکہ عثمان بن حکم ایسا راوی نہیں ہے کہ جس کی روایت سے اس قسم کی بات ثابت ہو سکے۔
نمبر 4: روایت ابن عباس (رض) بھی منکر ہے کیونکہ قیس بن سعد ہمارے علم کی حد تک تو عمرو بن دینار سے کچھ بھی روایت نہیں کرتے تو اس قسم کے معاملات میں وہ اس کی روایت سے کیسے دلیل بناتے ہیں ؟
نمبر 4: جعفر بن محمد کی روایت جو انھوں نے اپنے والد کے واسطہ سے جابر (رض) سے نقل کی ہے۔ اس سند کے ساتھ تو اس کو عبدالوہاب نے نقل کیا۔ مگر حفاظ حدیث مالک ‘ سفیان جیسے علماء نے جعفر عن ابیہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کی اور جابر کا تذکرہ نہیں کیا اور عبدالوہاب کی روایت ثوری ومالک کے خلاف قابل حجت نہیں۔
دوسرا جواب : اگر سند کی اس بحث سے قطع نظر کر کے روایت کو من و عن تسلیم کرلیا جائے پھر بھی اس میں احتمال تاویل ہونے کی وجہ سے تمہارے ہاں قابل حجت نہ بنے گی۔ تم نے یہ روایت بیان کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ کیا۔ روایت اس کے سبب کا کہیں پتہ نہیں چلتا اور نہ حلف اٹھانے والا معلوم ہے۔ ممکن ہے کہ وہ مفہوم ہو جو آپ نے مراد لیا اور یہ بھ ممکن ہے کہ اس سے مراد مدعیٰ علیہ کی قسم ہو۔ جب مدعی نے دعویٰ تو کردیا مگر اپنے دعویٰ پر فقط ایک گواہ پیش کرسکا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعیٰ علیہ سے قسم لے کر فیصلہ فرمایا دیا پس یہ روایت بیان کردی گئی تاکہ لوگوں کو گو معلوم ہو کہ مدعی کے لیے لازم ہے کہ اس کی خاطر مدعیٰ علیہ پر قسم آئے جبکہ دعویٰ کے لیے اور دلیل نہ ہو اور اس کے حق کے لیے قسم صرف اسی طصورت میں لازم ہوگی۔
جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مدعی کو اپنے حق کے لیے قسم لینا لازم نہیں سوائے اس صورت کے وہ اس پر دلیل پیش کر دے کہ اس کے اور مدعیٰ علیہ کے درمیان گڑبڑ و اشتباہ تھا اگر وہ اس پر دلیل قائم کر دے تو اس کے لیے مدعیٰ علیہ سے حلف لیا جائے گا ورنہ نہیں۔
نمبر 1: پس جس نے اس روایت کو بیان کیا اس کا مقصد اس بات کی نفی کرنا تھی کہ قسم تو صرف دعویٰ ہی سے ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ دعویٰ کے ساتھ کوئی اور بات نہ ہو۔ تو یہ اس حدیث کا باعث ہے۔
نمبر 2: یہ بھی ممکن ہے کہ مدعی سے ایک گواہ کے ساتھ قسم لینا مراد ہو۔ کیونکہ اس کا ایک گواہ ان لوگوں سے ہو جس اکیلے کی گواہی سے فیصلہ ہوجاتا ہے اور وہ خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) ہیں کہ جن کی گواہی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔ روایت یہ ہے۔

5974

۵۹۷۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمَارَۃُ بْنُ خُزَیْمَۃَ الْأَنْصَارِیُّ أَنَّ عُمَرَ حَدَّثَہٗ وَہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِیْ فَاسْتَتْبَعَہُ لِیُقْبِضَہُ ثَمَنَ فَرَسِہٖ۔ فَأَسْرَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَشْیَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِیُّ فَطَفِقَ رِجَالٌ یَعْتَرِضُوْنَ الْأَعْرَابِیَّ فَیُسَاوِمُوْنَہُ بِالْفَرَسِ لَا یَشْعُرُوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَہُ حَتّٰی زَادَ بَعْضُہُمُ الْأَعْرَابِیَّ فِی السَّوْمِ عَلَی ثَمَنِ الْفَرَسِ الَّذِی ابْتَاعَہُ بِہٖ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَنَادَی الْأَعْرَابِیُّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنْ کُنْتُ مُبْتَاعًا لِہٰذَا الْفَرَسِ فَابْتَعْہُ وَاِلَّا بِعْتُہُ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ سَمِعَ نِدَائَ الْأَعْرَابِیِّ فَقَالَ أَوَلَیْسَ قَدْ ابْتَعْتُہٗ مِنْک ؟ فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ : لَا وَاللّٰہِ مَا بِعْتُک .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلَی قَدْ ابْتَعْتُہٗ مِنْک .فَطَفِقَ النَّاسُ یَلْوُوْنَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْأَعْرَابِیِّ وَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ وَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ یَقُوْلُ : ہَلُمَّ شَھِیْدًا یَشْہَدُ لَک أَنِّیْ قَدْ بَایَعْتُک مِمَّنْ جَائَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَقَالُوْا لِلْأَعْرَابِیِّ وَیْلَک اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَقُوْلُ اِلَّا حَقًّا حَتّٰی جَائَ خُزَیْمَۃُ فَاسْتَمَعَ لِمُرَاجَعَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمُرَاجَعَۃِ الْأَعْرَابِیِّ وَہُوَ یَقُوْلُ ہَلُمَّ شَھِیْدًا یَشْہَدُ لَک أَنِّیْ قَدْ بَایَعْتُک .فَقَالَ خُزَیْمَۃُ : أَنَا أَشْہَدُ أَنَّک قَدْ بَایَعْتُہٗ .فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی خُزَیْمَۃَ فَقَالَ بِمَ تَشْہَدُ ؟ فَقَالَ بِتَصْدِیقِک یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ شَہَادَۃَ خُزَیْمَۃَ بِشَہَادَۃِ رَجُلَیْنِ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ الشَّاہِدُ الَّذِی قَدْ ذَکَرْنَا قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ خُزَیْمَۃَ بْنَ ثَابِتٍ فَیَکُوْنَ الْمَشْہُوْدُ لَہٗ بِشَہَادَتِہٖ وَحْدَہُ مُسْتَحِقًّا لِمَا شَہِدَ لَہٗ کَمَا یَسْتَحِقُّ غَیْرُہُ بِالشَّاہِدَیْنِ مِمَّا شَہِدَا لَہٗ بِہٖ فَادَّعَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ الْخُرُوْجَ مِنْ ذٰلِکَ الْحَقِّ اِلَی الْمُدَّعِی فَاسْتَحْلَفَہُ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذٰلِکَ وَأُرِیْدَ بِنَقْلِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ لِیُعْلَمَ أَنَّ الْمُدَّعِیَ اِذَا أَقَامَ الْبَیِّنَۃَ عَلَی دَعْوَاہُ وَادَّعَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ الْخُرُوْجَ مِنْ ذٰلِکَ الْحَقِّ اِلَیْہِ - أَنَّ عَلَیْہِ الْیَمِیْنَ مَعَ بَیِّنَتِہٖ۔فَہٰذِہِ وُجُوْہٌ یَحْتَمِلُہَا مَا جَائَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَضَائِہِ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ .فَلَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَأْتِیَ اِلَی خَبَرٍ قَدْ احْتَمَلَ ہٰذِہِ التَّأْوِیْلَاتِ فَیَعْطِفَہُ عَلٰی أَحَدِہَا بِلَا دَلِیْلٍ یَدُلُّہُ عَلٰی ذٰلِکَ مِنْ کِتَابٍ أَوْ سُنَّۃٍ أَوْ اِجْمَاعٍ ثُمَّ یَزْعُمُ أَنَّ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ مُخَالِفٌ لَمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَکَیْفَ یَکُوْنُ مُخَالِفًا لَمَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَأَوَّلَ ذٰلِکَ عَلَی مَعْنًیْ یَحْتَمِلُ مَا قَالَ ؟ .بَلْ مَا خَالَفَ اِلَّا تَأْوِیْلَ مُخَالِفِہِ بِحَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُخَالِفْ شَیْئًا مِنْ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہُ مَا
٥٩٧٣: عمارہ بن خزیمہ انصاری نے روایت کی کہ عمر (رض) نے بیان کیا یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا۔ وہ آپ کے پیچھے چلا تاکہ گھوڑے کی قیمت وصول کرے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز تیز چلے اور بدو سست رفتاری سے چلا کچھ لوگ اس کو ملنے لگے اور اس سے گھوڑے کا سودا کر رہے تھے ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا سودا کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نے بدو کو اس سے زیادہ کی پیش کش کی جس پر آپ نے خریدا تھا۔ تو بدو نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دی کہ اگر آپ نے گھوڑا خریدنا ہو تو خرید لو ورنہ میں اس کو فروخت کروں گا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدو کی آواز سن کر فرمایا کیا یہ میں تم سے خرید نہیں چکا ہوں ؟ اس نے کہا نہیں۔ اللہ کی قسم میں نے یہ آپ کو نہیں بیچا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں۔ میں یہ تم سے خرید چکا ہوں۔ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بدو کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر بات کو لوٹا رہے تھے۔ بدو کہنے لگا تم گواہ لاؤ جو یہ گواہی دے کہ یہ گھوڑا میں نے آپ کو فروخت کردیا ہے جو مسلمان موقعہ پر آئے وہ بدو کو کہنے لگے تم پر افسوس ہے ! بلاشبہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سچی بات ہی فرماتے ہیں (یہ بات ہوتی رہی) یہاں تک کہ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) آئے اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب اور بدو کے جواب کو سنا کہ وہ کہتا جا رہا تھا گواہ لاؤ جو گواہی دے کہ آپ نے مجھ سے اس کا سودا کرلیا ہے خزیمہ کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس سے یہ گھوڑا خریدا ہے۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خزیمہ کی طرف توجہ فرماتے ہوئے کہا تم کس طرح گواہی دیتے ہو ؟ تو انھوں نے جواب دیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی تصدیق کی وجہ سے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خزیمہ (رض) کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔ پس اگر گواہ اس طرح کا ہو جس کا ہم نے تذکرہ کیا ممکن ہے کہ وہ حضرت خزیمہ بن ثابت (رض) ہوں تو ان کی صرف ایک گواہی ہی اس چیز کا حقدار بنا دیتی ہے جیسا کہ دوسرے دو گواہوں سے حقدار بنتے ہیں۔ جب مدعا علیہ نے مدعی کے اپنے حق سے بری الذمہ ہونے کا دعویٰ کیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس (مدعیٰ علیہ) کو اس بات پر قسم دی۔ اس روایت کے ذکر کرنے سے مقصد یہ بتلانا ہے کہ مدعی جب اپنے دعویٰ پر گواہ قائم کر دے اور مدعیٰ علیہ یہ دعویٰ کرے کہ مدعیٰ علیہ اپنا حق حاصل کرچکا ہے تو اب گواہی کی موجودگی میں اس مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ پس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ اس میں ان وجوہ کا احتمال ہے۔ اب کسی شخص کو کب یہ مناسب ہے کہ وہ ایسی روایت پیش کرے جس میں ان تاویلات کا احتمال ہو پھر کسی ایسی دلیل کے بغیر سے کسی ایک معنی پر محمول کرے جس پر قرآن و سنت یا اجماع سے دلالت نہ پائی جاتی ہو۔ پھر یہ گمان کرنے لگے کہ جو شخص اس کا مخالف ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایت کا مخالف ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ وہ کس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایت کا مخالف ہوسکتا ہے جبکہ اس نے وہ معنی مراد لیا جس کا حدیث میں احتمال ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس نے اپنے مخالف کی ان تاویلات کی مخالفت کی ہے جو اس نے حدیث کے ضمن میں بیان کیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت علی (رض) کی روایت ملاحظہ ہو۔

5975

۵۹۷۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ عَنْ عَلِی قَالَ اِذَا بَلَغَکُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیْثٌ فَظُنُّوْا بِہٖ الَّذِی ہُوَ أَہْنَأُ وَالَّذِی ہُوَ أَہْدَی وَالَّذِی ہُوَ أَبْقَی وَالَّذِی ہُوَ خَیْرٌ
٥٩٧٤: ابو عبدالرحمن سلمی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے جب تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی روایت پہنچے اس کا وہ معنی خیال میں لاؤ جو زیادہ سہل و آسان زیادہ راہنمائی والا زیادہ باقی رہنے والا اور بہتر ہو۔

5976

۵۹۷۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَأَبُو الْوَلِیْدِ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرٍو فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ وَالَّذِی ہُوَ خَیْرٌ .فَہٰکَذَا یَنْبَغِی لِلنَّاسِ أَنْ یَفْعَلُوْا وَأَنْ یُحْسِنُوْا تَحْقِیْقَ ظُنُوْنِہِمْ وَلَا یَقُوْلُوْنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَّا بِمَا قَدْ عَلِمُوْھُ فَاِنَّہُمْ مَنْہِیُّوْنَ عَنْ ذٰلِکَ مُعَاقَبُوْنَ عَلَیْہِ .وَکَیْفَ یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْمِلَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ ہٰذَا الْمُخَالِفُ وَقَدْ وَجَدْنَا کِتَابَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یَدْفَعُہُ ثُمَّ السُّنَّۃَ الْمُجْمَعَ عَلَیْہَا تَدْفَعُہُ أَیْضًا ؟ .فَأَمَّا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ فَاسْتَشْہِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ وَقَالَ وَأَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُمْ .وَقَدْ کَانُوْا قَبْلَ نُزُوْلِ ہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ لَا یَنْبَغِی لَہُمْ أَنْ یَقْضُوْا بِشَہَادَۃِ أَلْفِ رَجُلٍ وَلَا أَکْثَرَ مِنْہُمْ وَلَا أَقَلَّ لِأَنَّہٗ لَا یُوْصَلُ بِشَہَادَتِہِمْ اِلٰی حَقِیْقَۃِ صِدْقِہِمْ .فَلَمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَا ذَکَرْنَا قَطَعَ بِذٰلِکَ الْعُذْرَ وَحَکَمَ بِمَا أَمَرَ بِہٖ عَلٰی مَا تَعَبَّدَ بِہٖ خَلْقَہُ وَلَمْ یَحْکُمْ بِمَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ لَمْ یَدْخُلْ فِیْمَا تَعَبَّدُوْا بِہٖ .أَمَّا السُّنَّۃُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہَا فَہِیَ أَنْ لَا یَحْکُمَ بِشَہَادَۃِ جَارٍ اِلَی نَفْسِہِ مَغْنَمًا وَلَا دَافَعَ عَنْہَا مَغْرَمًا .فَالْحُکْمُ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ عَلٰی مَا حَمَلَ عَلَیْہِ ہٰذَا الْمُخَالِفُ لَنَا حَدِیْثُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ حُکْمٌ لِمُدَّعِیْ یَمِیْنِہِ فَذٰلِکَ حُکْمٌ لِجَارٍ اِلَی نَفْسِہِ بِیَمِیْنِہٖ۔ فَہٰذِہِ سُنَّۃٌ مُتَّفَقٌ عَلَیْہَا تَدْفَعُ الْحُکْمَ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ مَعَ مَا قَدْ دَفَعَہُ أَیْضًا مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی . فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَصْرِفَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی مَا یُوَافِقُ کِتَابَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالسُّنَّۃَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہَا لَا اِلٰی مَا یُخَالِفُہَا أَوْ یُخَالِفُ أَحَدَہُمَا .وَلَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَصًّا مَا یَدْفَعُ الْقَضَائَ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ عَلٰی مَا ادَّعَیْ ہٰذَا الْمُخَالِفُ لَنَا .
٥٩٧٥: وہب اور ابوالولید دونوں نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے عمرو پھر اپنی سند سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ ” والذی ہو خیر “ کے الفاظ مذکور نہیں۔ اسی طرح لوگوں کو ایسا کرنا اور اپنے گمانوں کو عمدہ بنانا چاہیے ان کو اچھی طرح معلوم ہونے کے بغیر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کوئی بات نہ کہنی چاہیے۔ کیونکہ ان کو اس بات سے منع کیا گیا ہے اور اس پر ان کو سزا بھی دی جائے گی کس کے لیے کس طرح مناسب ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کی وہ مراد بتلائے جو کہ ہمارے مخالف نے لی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اس مفہوم کی تردید کرتا ہے پھر متفق علیہ سنت بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیں واشہدوا شہیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان (البقرہ۔ ٢٨٢) اور فرمایا ” واشہدوا ذوی عدل منکم “ (الطلاق۔ ٢) ان دو آیات کے نزول سے پہلے ان کے لیے جائز نہ تھا کہ وہ ایک ہزار مردوں یا ان سے کم اور زیادہ کی گواہی سے فیصلہ کرتے کیونکہ ان کی گواہی سے پتہ نہیں چلتا کہ کون حقیقت میں سچا ہے۔ جب یہ مذکورہ بالا آیات نازل فرمائیں تو عذر جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اتنی تعداد کا ذکر فرمایا جو عبادت کو قائم کرسکے اس سے کم کا حکم نہیں فرمایا کیونکہ وہ ان کی (اجتماعی) عبادت کی تعداد میں داخل نہیں۔ اتفاقی سنت کے بھی خلاف ہے : اتفاقی سنت یہ ہے کہ ایسے شخص کی گواہی سے فیصلہ نہ کیا جائے جو اپنے لیے نفع کھینچنے والا ہو اور نہ اس کی گواہی سے جو اپنے اوپر سے تاوان کو دور کرنے والا ہو۔ پس ایک گواہ کے ساتھ قسم کے ذریعہ فیصلہ کرنا جیسا کہ ہمارے مخالف نے اس روایت کا مفہوم لیا ہے کہ اس میں مدعی کی قسم کا ذکر ہے یہ تو قسم کے ساتھ اپنے لیے نفع حاصل کرنے والے کے حق میں فیصلہ کرنے کے مترادف ہے تو یہ متفق علیہ سنت ہے جو گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلہ کرنے کو رد کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہم نے قرآن مجید کا حکم بیان کیا ہے وہ بھی اس کی نفی کرتا ہے پس ہمارے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کو اس معنی پر محمول کریں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتفاقی سنت اور قرآن مجید کے مطابق ہو۔ اس معنی پر محمول نہ کرنا چاہیے جو اس سنت یا ان میں سے کسی ایک کے مخالف ہو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واضح طور پر روایت وارد ہے جو ایک گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلے کی نفی کرتی ہے جس کا دعویٰ ہمارے مخالف کو ہے۔
ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ کے خلاف روایت :

5977

۵۹۷۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ جَمِیْعًا قَالَا : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہٗ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ فِیْ أَرْضٍ .فَقَالَ أَحَدُہُمَا : اِنَّ ہٰذَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ انْتَزَأَ عَلٰی أَرْضِہِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَہُوَ امْرُؤُ الْقِیسِ بْنُ عَائِشٍ الْکَنَدِیُّ وَخَصْمُہُ رَبِیْعَۃُ بْنُ عَبْدَانَ .فَقَالَ لَہٗ : بَیِّنَتُک فَقَالَ : لَیْسَ لِیْ بَیِّنَۃٌ قَالَ : یَمِیْنُہُ قَالَ : اِذًا یَذْہَبُ بِہَا قَالَ : لَیْسَ لَک اِلَّا ذٰلِکَ .فَلَمَّا قَامَ لِیَحْلِفَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اقْتَطَعَ أَرْضًا ظَالِمًا لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ
٥٩٧٦: علقمہ بن وائل نے حضرت وائل بن حجر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا کہ دو آدمی حاضر ہوئے جو زمین کے متعلق باہمی جھگڑ رہے تھے ان میں سے ایک نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے زمانہ جاہلیت میں میری زمین پر قبضہ کیا اور وہ شخص امرء القیس بن عائش کندی تھا اور اس کا مخالف ربیعہ بن عبدان تھا آپ نے اس سے فرمایا پھر وہ قسم اٹھائے گا اس نے کہا اس طرح تو وہ زمین لے جائے گا۔ آپ نے فرمایا تمہارے لیے تو یہی ہے کہ (گواہ پیش کرو) جب قسم اٹھانے کے لیے کھڑا ہوا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ظلم کے طور پر کوئی زمین حاصل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوں گے۔
تخریج : مسلم فی الایمان ٢٢٤‘ مسند احمد ٤؍٣١٧۔

5978

۵۹۷۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ کِنْدَۃَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ ہٰذَا قَدْ غَلَبَنِیْ عَلٰی أَرْضٍ کَانَتْ لِی .فَقَالَ الْکِنْدِیُّ : ہِیَ أَرْضِی فِیْ یَدِی أَزْرَعُہَا لَیْسَ لَہٗ فِیْہَا حَقٌّ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِیِّ أَلَکَ بَیِّنَۃٌ ؟ فَقَالَ : لَا .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُحَلِّفُہٗ؟ فَقَالَ : اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ یَمِیْنٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ لَک مِنْہُ اِلَّا ذٰلِکَ .فَانْطَلَقَ لِیُحَلِّفَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَا أَنَّہٗ اِنْ حَلَفَ عَلٰی مَالِکِ ظَالِمًا لِیَأْکُلَہٗ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَنْہُ مُعْرِضٌ .
٥٩٧٧: علقمہ بن وائل نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضر موت کا ایک شخص اور ایک کندی شخص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے حضرمی نے کہا۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے میری زمین پر قبضہ جما لیا ہے۔ کندی نے کہا۔ وہ میری زمین ہے جو میرے قبضہ میں ہے میں اس کو کاشت کرتا ہوں اس کا اس میں کچھ بھی حق نہیں ہے۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے حضرمی ! تم گواہ رکھتے ہو۔ اس نے کہا نہیں جناب نبی اکررم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس سے قسم لے لو۔ حضرمی نے کہا اس کی قسم کا اعتبار نہیں۔
جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے لیے اس کی طرف سے یہی ہوسکتا ہے۔ وہ کندی قسم اٹھانے لگا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا سنو ! اگر یہ تمہارے مال کے متعلق اس کو ظلماً کھا جانے کے لیے (جھوٹی) قسم اٹھائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا وہ اس سے منہ موڑنے والا ہوگا۔
تخریج : مسلم فی الایمان ٢٢٣‘ ابو داؤد فی الایمان باب ١‘ والاقضیہ باب ٢٦‘ ترمذی فی الاحکام باب ١٢۔

5979

۵۹۷۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ ہٰذَا غَلَبَنِیْ عَلٰی أَرْضٍ کَانَتْ لِی .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمِیْنُک أَوْ یَمِیْنُہُ لَیْسَ لَکُمْ فِیْہِ اِلَّا ذٰلِکَ دَلَّ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَسْتَحِقُّ شَیْئًا بِغَیْرِ الْبَیِّنَۃِ فَہٰذَا یَنْفِی الْقَضَائَ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ .وَالَّذِی ہُوَ أَوْلَی بِنَا أَنْ نَحْمِلَ وَجْہَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ تَأْوِیْلُہُ مِنَ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ عَلٰی مَا یُوَافِقُ ہٰذَا لَا عَلٰی مَا یُخَالِفُہُ .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاہُمْ لَادَّعَیْ نَاسٌ دِمَائَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَہُمْ وَلٰـکِنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْیَمِیْنَ لَا یَکُوْنُ أَبَدًا اِلَّا عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِالْاِسْنَادِ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ .وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا فَاِنَّہٗ یُغْنِیْنَا عَنْ ذِکْرِ أَکْثَرِ فَسَادِ قَوْلِ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلَی الْقَضَائِ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ .فَجَعَلُوْا ذٰلِکَ فِی الْأَمْوَالِ خَاصَّۃً دُوْنَ سَائِرِ الْأَشْیَائِ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یُقْضَی بِیَمِیْنٍ وَشَاہِدٍ فِیْ غَیْرِ الْأَمْوَالِ کَانَ حُکْمُ الْأَمْوَالِ فِی النَّظَرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَدْ
٥٩٧٨: جندل بن والق نے ابوالاحوص سے پھر اس نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ حضرمی کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ میری زمین پر قابض ہوگیا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیری قسم یا اس کی قسم کے علاوہ اس میں اور کوئی چیز تمہارے لیے نہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ دلیل کے علاوہ اور کسی چیز کا وہ حقدار نہیں ہے۔ یہ بات ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلے کی نفی کرتی ہے زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اس روایت کا وہ مفہوم لیں جو دیگر روایات کے موافق ہے۔ وہ نہیں جو اس کے مخالف ہو۔ حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر لوگوں کو ان کے فقط دعویٰ پردے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسرے آدمیوں کے خونوں اور اموال کے مدعی بن بیٹھیں گے۔ لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قسم ہمیشہ مدعیٰ علیہ پر ہوتی ہے یہ روایت اسناد کے ساتھ پہلے ذکر کر آئے۔ جہاں تک قیاس کا تعلق ہے فریق اول کے قول کے فاسد ہونے کے لیے قیاس کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے کہ ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ کردیا جائے کیونکہ انھوں نے بھی اس حکم کو اموال سے خاص کیا ہے (دوسرے امور میں وہ بھی جواز کے قائل نہیں) پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ غیر اموال میں قسم اور ایک گواہ کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تو اب قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اموال کا حکم بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

5980

۵۹۷۹: حَدَّثَنَا وَہْبَانُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھَمَّامٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ مُعَاوِیَۃ أَوَّلُ مَنْ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ وَکَانَ الْأَمْرُ عَلَی غَیْرِ ذٰلِکَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٥٩٧٩: ابن ابی الذئب نے زہری سے بیان کیا کہ سب سے پہلا آدمی جس نے قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ کیا وہ حضرت معاویہ (رض) تھے۔ حالانکہ پہلے معاملہ اس کے خلاف تھا۔ واللہ اعلم۔

5981

قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ یَرُدُّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعِی .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَسْتَحْلِفُ الْمُدَّعِی وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ یَسْتَحْلِفُ فَاِنْ حَلَفَ اسْتَحَقَّ مَا ادَّعَی بِحَلِفِہِ وَاِنْ لَمْ یَحْلِفْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ شَیْئٌ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ فِی الْقَسَامَۃِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْأَنْصَارِ تُبَرِّئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا فَقَالُوْا : کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ ؟ .فَقَالُوْا : قَدْ رَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَیْمَانَ الَّتِی جَعَلْنَاہَا فِی الْبَدْئِ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِمْ فَجَعَلَہَا عَلَی الْمُدَّعِیْنَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَالَ أَتُبْرِئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا لَمْ یَکُنْ مِنَ الْیَہُوْدِ رَدُّ الْأَیْمَانِ عَلَی الْأَنْصَارِ فَیَرُدُّہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ حُجَّۃً لِمَنْ یَرٰی رَدَّ الْیَمِیْنِ فِی الْحُقُوْقِ .اِنَّمَا قَالَ أَتُبْرِئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا ؟ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ : کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ ؟ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ الْقَسَامَۃِ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی النَّکِیرِ مِنْہُ عَلَیْہِمْ اِذْ قَالُوْا کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ فَقَالَ لَہُمْ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ کَمَا قَالَ : أَیَدَّعُوْنَ وَیَسْتَحِقُّوْنَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ہٰذَیْنِ الْوَجْہَیْنِ لَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْمِلَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا دُوْنَ الْآخَرِ اِلَّا بِبُرْہَانٍ یَدُلُّہُ عَلٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْمَا سِوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنَ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فَاِذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ رَوٰی عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لَوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاہُمْ لَادَّعٰی نَاسٌ دِمَائَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَہُمْ وَلٰـکِنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْمُدَّعِیَ لَا یَسْتَحِقُّ بِدَعْوَاہُ دَمًا وَلَا مَالًا وَاِنَّمَا یَسْتَحِقُّ بِہَا یَمِیْنَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ خَاصَّۃً .ہٰذَا حَدِیْثٌ ظَاہِرُ الْمَعْنَی وَلَا لَنَا أَنْ نَحْمِلَ مَا خَفِیَ عَلَیْنَا مَعْنَاہُ مِنَ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ عَلٰی ذٰلِکَ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَاِنَّا رَأَیْنَا الْمُدَّعِیَ الَّذِیْ عَلَیْہِ أَنْ یُقِیْمَ الْحُجَّۃَ عَلَی دَعْوَاہُ لَا تَکُوْنُ حُجَّتُہُ تِلْکَ حُجَّۃً جَارَّۃً اِلَی نَفْسِہِ مَغْنَمًا وَلَا دَافِعَۃً عَنْہَا مَغْرَمًا .فَلَمَّا وَجَبَتِ الْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ فَرَدُّوْہَا عَلَی الْمُدَّعِی فَاِنِ اسْتَحْلَفْنَا الْمُدَّعِیَ جَعَلْنَا یَمِیْنَہُ حُجَّۃً لَہٗ وَحَکَمْنَا لَہٗ بِحُجَّۃٍ کَانَتْ مِنْہُ ہُوَ بِہَا جَارٌّ اِلَی نَفْسِہِ مَغْنَمًا وَہٰذَا خِلَافُ مَا تَعَبَّدَ بِہٖ الْعُبَّادُ فَبَطَلَ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّمَا نَحْکُمُ لَہٗ بِیَمِیْنِہِ وَاِنْ کَانَ بِہَا جَارًّا اِلَی نَفْسِہٖ لِأَنَّ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ قَدْ رَضِیَ بِذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : وَہَلْ یُوْجِبُ رِضَا الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ زَوَالُ الْحُکْمِ عَنْ جِہَتِہٖ؟ .أَرَأَیْتُ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قَالَ مَا ادَّعَیْ عَلَی فُلَانٍ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ مُصَدَّقٌ فَادَّعَیْ عَلَیْہِ دِرْہَمًا فَمَا فَوْقَہُ ہَلْ یُقْبَلُ ذٰلِکَ مِنْہٗ؟ أَرَأَیْتُ لَوْ قَالَ قَدْ رَضِیتُ بِمَا شَہِدَ بِہٖ زَیْدٌ عَلَیَّ لِرَجُلٍ فَاسِقٍ أَوْ لِرَجُلٍ جَار اِلَی نَفْسِہِ بِتِلْکَ الشَّہَادَۃِ مَغْنَمًا شَہِدَ زَیْدٌ عَلَیْہِ بِشَیْئٍ ہَلْ یُحْکَمُ بِذٰلِکَ عَلَیْہٖ؟ .فَلَمَّا کَانُوْا قَدْ اتَّفَقُوْا أَنَّہٗ لَا یَحْکُمُ عَلَیْہِ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ وَأَنَّ رِضَاہُ فِیْ ذٰلِکَ وَغَیْرَ رِضَاہُ سَوَائٌ وَأَنَّ الْحُکْمَ لَا یَجِبُ فِیْ ذٰلِکَ وَاِنْ رَضِیَ اِلَّا بِمَا کَانَ یَجِبُ لَوْ لَمْ یَرْضَ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا یَمِیْنُ الْمُدَّعِی لَا یَجِبُ لَہٗ بِہَا حَقٌّ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ وَاِنْ رَضِیَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ بِہٖ بِذٰلِکَ .وَالْحُکْمُ بِیَمِیْنِہِ بَعْدَ رِضَاہُ بِہَا کَحُکْمِہَا قَبْلَ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا بُطْلَانَ رَدِّ الْیَمِیْنِ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ وَہٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ .
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : مدعیٰ علیہ کی طرف سے مدعی پر قسم لوٹانے کے سلسلہ میں اختلاف ہے ایک فریق کہتا ہے کہ مدعی سے قسم نہ لی جائے اور دوسرے فریق کا قول یہ ہے کہ اس سے قسم لی جائے اگر قسم اٹھائے تو اس چیز کا حقدار ہوجائے گا جس کا اس نے دعویٰ کیا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو اس کو کچھ نہ ملے گا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ جس کو سہل بن ابی حثمہ (رض) سے باب القسامہ میں نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو فرمایا یہود تو پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ انصار نے عرض کیا کہ آپ کافروں کی قسم کس طرح قبول فرمائیں گے ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا پھر تم قسم اٹھاؤ گے کہ مستحق بن سکو ؟ یہ عین ممکن ہے کہ قسامۃ کا یہ حکم ہو (کہ مدعی پر قسم لوٹائی جاسکتی ہو) اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے یہ بات بطور انکار فرمائی جبکہ انھوں نے کہا کہ کافروں کی قسم کس طرح قابل قبول ہوگی ؟ تو آپ نے فرمایا پھر تم مستحق بننے کے لیے قسم اٹھاؤ گے (یعنی ایسا مت کرو) جیسا کہ فرمایا أیدعون ویستحقون ؟ “ کیا وہ فقط دعویٰ سے حقدار بن جائیں گے (یعنی ایسا نہ ہوگا) جب اس میں دونوں احتمال ہیں تو کسی فریق کو اس کے متعلق حق نہیں کہ اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے پیش کرے سوائے اس صورت کے جب اور کوئی دلیل مل جائے اب آثار مرویہ پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کرنے پردے دیا جائے (گواہ طلب نہ کئے جائیں) تو بہت سے لوگ دوسرے فقط لوگوں کے خون و اموال کے دعویدار بن بیٹھیں گے لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مدعی فقط دعویٰ سے خون یا مال کا حقدار نہ بن جائے گا۔ اس کو مدعیٰ علیہ کی قسم حقدار بنائے گی۔ یہ روایت ابن عباس (رض) ظاہری معنی ر کھیتی ہے ہمیں مناسب نہیں کہ ہم اس کا وہ مفہوم لے لیں جو اس روایت کا ہے جس کا معنی مخفی ہے۔ غورفکر اور قیاس کے طریقہ پر اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ مدعی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کا ثبوت مہیا کرے اور اس کی وہ دلیل ایسی نہ ہونی چاہیے جو صرف اس کی طرف نفع کو کھینچنے والی ہو اور نہ ایسی ہو کہ جو اس سے تاوان کو دفع کرنے والی ہو (مدعی نے ایسی دلیل پیش کردی) پس جب مدعا علیہ پر قسم لازمہو گئی اور اس نے اس کو مدعی کی طرف لوٹا دیا تو پھر ہم اگر مدعی سے قسم لیں تو یا ہم نے اس کی قسم کو اس کے حق میں حجت بنادیا اور گویا ہم نے اس کے حق میں ایسی دلیل سے فیصلہ کیا جس کے ذریعہ وہ اپنی طرف نفع کو کھینچتا ہے اور یہ نیک بندوں کے طریقہ کے مخالف ہے۔ اس لیے یہ باطل ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ ہم قسم کے ذریعہ اس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں اگرچہ وہ اس کے ساتھ اپنے لیے نفع کھینچنے والا ہے کیونکہ مدعا علیہ اس پر راضی ہے۔ تو اس کے جواب میں کہے کیا مدعا علیہ کی رضامندی اس کی طرف سے حکم کے زوال کو لازم کرسکتی ہے۔ مثلاً آپ فرمائیں اگر کوئی آدمی کہے کہ فلاں آدمی مجھ پر جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں پھر وہ فلاں اس پر ایک درہم یا زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے تو کیا اس سے یہ بات قبول کی جائے گی اور یہ فرمائیں کہ اگر وہ کہے کہ زید نے مجھ پر جو گواہی دی ہے میں اس پر راضی ہوں حالانکہ وہ گواہی دینے والا فاسق یا ظالم ہے اور اس سے وہ مال اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے چنانچہ زید نے کسی چیز کی اس پر گواہی بھی دے دی کیا اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا۔ پس جب اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کے مطابق کسی چیز کا فیصلہ بھی نہ کیا جائے گا اور مدعا علیہ کا راضی ہونا یا راضی نہ ہونا برابر ہے اور حکم یہاں لازم نہ ہوگا خواہ وہ پسند کرے حکم وہی لازم ہوگا جو لازم ہونا چاہیے خواہ وہ راضی نہ بھی ہو۔ پس مدعی کی قسم کا بھی یہی حکم ہے۔ اس قسم سے اس کا کوئی حق ثابت نہیں ہوسکتا مدعا علیہ پر ثابت نہ ہوگا خواہ مدعا علیہ اس پر راضی بھی ہوجائے اور اس کی قسم سے فیصلہ رضامندی کے بعد بھی وہی حکم رکھتا ہے۔ جو پہلے تھا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدعی پر قسم لوٹانے والی بات درست نہیں ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ (عبارت مدعا علیہ لکھا ہے یہاں مدعی ہونا چاہیے جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے مدعا علیہ پر قسم میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے واللہ اعلم)
اس باب میں امام طحاوی (رح) ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ والے قول کی تردید کی روایت کا صحیح مفہوم بتلایا۔
مدعی سے قسم لی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں دو قول معروف ہیں۔ نمبر ١ مدعی سے قسم نہ لی جائے اس قول کو احناف نے اختیار کیا۔
فریق ثانی : امام مالک و شافعی و جمہور کا قول یہ ہے کہ مدعی پر قسم کو لوٹایا جاسکتا ہے جبکہ مدعا علیہ اس بات کو پسند کرے وہ قسم دے کر اس چیز کا حقدار ہوجائے گا۔
تخریج : کذا فی المرقات والتعلیق ج ٤‘ ١٥٤۔
فریق ثانی : مدعی پر قسم کو لوٹایا جاسکتا ہے اگر مدعا علیہ اس کو پسند کرے تو وہ چیز لازم ہوجائے گی اس کی دلیل سہل بن ابی حثمہ (رض) کی روایت ہے جو باب القسامۃ میں گزری۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : مدعیٰ علیہ کی طرف سے مدعی پر قسم لوٹانے کے سلسلہ میں اختلاف ہے ایک فریق کہتا ہے کہ مدعی سے قسم نہ لی جائے اور دوسرے فریق کا قول یہ ہے کہ اس سے قسم لی جائے اگر قسم اٹھائے تو اس چیز کا حقدار ہوجائے گا جس کا اس نے دعویٰ کیا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو اس کو کچھ نہ ملے گا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ جس کو سہل بن ابی حثمہ (رض) سے باب القسامہ میں نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو فرمایا یہود تو پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ انصار نے عرض کیا کہ آپ کافروں کی قسم کس طرح قبول فرمائیں گے ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا پھر تم قسم اٹھاؤ گے کہ مستحق بن سکو ؟
تخریج : بخاری فی الادب باب ٨٩‘ مسلم فی القسامہ ١؍٣‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٨‘ نسائی فی القسامہ باب ٤۔
نمبر 1: یہ عین ممکن ہے کہ قسامۃ کا یہ حکم ہو (کہ مدعی پر قسم لوٹائی جاسکتی ہو)
نمبر 2: اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے یہ بات بطور انکار فرمائی جبکہ انھوں نے کہا کہ کافروں کی قسم کس طرح قابل قبول ہوگی ؟ تو آپ نے فرمایا پھر تم مستحق بننے کے لیے قسم اٹھاؤ گے (یعنی ایسا مت کرو) جیسا کہ فرمایا أیدعون ویستحقون ؟ “ کیا وہ فقط دعویٰ سے حقدار بن جائیں گے (یعنی ایسا نہ ہوگا)
جب اس میں دونوں احتمال ہیں تو کسی فریق کو اس کے متعلق حق نہیں کہ اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے پیش کرے سوائے اس صورت کے جب اور کوئی دلیل مل جائے اب آثار مرویہ پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔
آثار پر نگاہ :
حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کرنے پردے دیا جائے (گواہ طلب نہ کئے جائیں) تو بہت سے لوگ دوسرے فقط لوگوں کے خون و اموال کے دعویدار بن بیٹھیں گے لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔
حاصل : اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مدعی فقط دعویٰ سے خون یا مال کا حقدار نہ بنے گا۔ اس کو مدعیٰ علیہ کی قسم حقدار بنائے گی۔ یہ روایت ابن عباس (رض) ظاہری معنی رکھتی ہے ہمیں مناسب نہیں کہ ہم اس کا وہ مفہوم لے لیں جو اس روایت کا ہے جس کا معنی مخفی ہے۔
نظر طحاویسوال :
غور و فکر اور قیاس کے طریقہ پر اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ مدعی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کا ثبوت مہیا کرے اور اس کی وہ دلیل ایسی نہ ہونی چاہیے جو صرف اس کی طرف نفع کو کھینچنے والی ہو اور نہ ایسی ہو کہ جو اس سے تاوان کو دفع کرنے والی ہو (مدعی نے ایسی دلیل پیش کردی)
پس جب مدعا علیہ پر قسم لازم ہوگئی اور اس نے اس کو مدعی کی طرف لوٹا دیا تو پھر ہم اگر مدعی سے قسم لیں تو یا ہم نے اس کی قسم کو اس کے حق میں حجت بنادیا اور گویا ہم نے اس کے حق میں ایسی دلیل سے فیصلہ کیا جس کے ذریعہ وہ اپنی طرف نفع کو کھینچتا ہے اور یہ نیک بندوں کے طریقہ کے مخالف ہے۔ اس لیے یہ باطل ہے۔
سوال : ہم قسم کے ذریعہ اس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں اگرچہ وہ اس کے ساتھ اپنے لیے نفع کھینچنے والا ہے کیونکہ مدعا علیہ اس پر راضی ہے۔
جواب : کیا مدعا علیہ کی رضامندی اس کی طرف سے حکم کے زوال کو لازم کرسکتی ہے۔ مثلاً آپ فرمائیں اگر کوئی آدمی کہے کہ فلاں آدمی مجھ پر جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں پھر وہ فلاں اس پر ایک درہم یا زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے تو کیا اس سے یہ بات قبول کی جائے گی اور یہ فرمائیں کہ اگر وہ کہے کہ زید نے مجھ پر جو گواہی دی ہے میں اس پر راضی ہوں حالانکہ وہ گواہی دینے والا فاسق یا ظالم ہے اور اس سے وہ مال اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے چنانچہ زید نے کسی چیز کی اس پر گواہی بھی دے دی کیا اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا۔
پس جب اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کے مطابق کسی چیز کا فیصلہ بھی نہ کیا جائے گا اور مدعا علیہ کا راضی ہونا یا راضی نہ ہونا برابر ہے اور حکم یہاں لازم نہ ہوگا خواہ وہ پسند کرے حکم وہی لازم ہوگا جو لازم ہونا چاہیے خواہ وہ راضی نہ بھی ہو۔ پس مدعی کی قسم کا بھی یہی حکم ہے۔ اس قسم سے اس کا کوئی حق ثابت نہیں ہوسکتا مدعا علیہ پر ثابت نہ ہوگا خواہ مدعا علیہ اس پر راضی بھی ہوجائے اور اس کی قسم سے فیصلہ رضامندی کے بعد بھی وہی حکم رکھتا ہے۔ جو پہلے تھا۔
حاصل کلام : پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدعی پر قسم لوٹانے والی بات درست نہیں ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ (عبارت میں مدعا علیہ لکھا ہے یہاں مدعی ہونا چاہیے جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے مدعا علیہ پر قسم میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے واللہ اعلم)
یہاں امام طحاوی (رح) نے فریق اول کے مذہب کو ترجیح مگر سابقہ ترتیب کے خلاف فریق مغلوب کو بعد میں لائے۔ اس باب میں یہ ثابت کیا گیا کہ مدعی پر قسم کسی صورت نہیں لوٹائی جاسکتی۔ اس سے فیصلہ وہی رہے گا جو قسم سے پہلے تھا۔ مدعا علیہ پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔ خواہ مدعا علیہ قسم پر راضی ہو یا نہ۔

5982

۵۹۸۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ: ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ قَالَ : ثَنَا جَابِرُ بْنُ سَمُرَۃَ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِالْجَابِیَۃِ فَقَالَ قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَقَامِی فِیْکُمُ الْیَوْمَ فَقَالَ أَحْسِنُوْا اِلٰی أَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَفْشُوَا الْکَذِبُ حَتّٰی یَشْہَدَ الرَّجُلُ عَلَی الشَّہَادَۃِ لَا یُسْأَلُہَا وَحَتّٰی یَحْلِفَ الرَّجُلُ عَلَی الْیَمِیْنِ لَا یُسْتَحْلَفُ
٥٩٨٠: عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے مروی ہے کہ مقام جابیہ میں حضرت عمر (رض) نے ہمیں خطبہ دیا آپ نے ذکر کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جس طرح آج میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور آپ نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کرام سے حسن سلوک کرو پھر ان لوگوں سے جو ان کے قریب ہیں (تابعین) پھر جو ان سے قریب ہیں (تبع تابعین) پھر جھوٹ پھیل جائے گا۔ یہاں تک کہ آدمی گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی اور قسم بھی طلب کے بغیر کھائے گا۔
تخریج : ترمذی فی الفتن باب ٧‘ والشہادات باب ٤‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٢٧‘ مسند احمد ١؍١٨۔
اگر کسی شخص کے پاس کسی معاملے کی گواہی موجود ہو تو وہ مطالبہ کے بعد دے یا پہلے دے اس سلسلہ میں دو فریق ہیں۔
نمبر 1: جو شخص مطالبہ سے پہلے گواہی دے وہ قابل مذمت ہے۔
نمبر 2: مطالبہ سے قبل گواہی دینے والا قابل مدح و ستائش ہی نہیں بلکہ ماجور ہے۔

5983

۵۹۸۱: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : أَحْسِنُوْا اِلٰی أَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَفْشُوَا الْکَذِبُ
٥٩٨١: جریر بن حازم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی پھر اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی صرف ان الفاظ کا فرق ہے : ” أَحْسِنُوْا اِلٰی أَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَفْشُوَا الْکَذِبُ “۔

5984

۵۹۸۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ قُرَّۃَ الْمُزَنِیّ قَالَ : سَمِعْت کَہْمَسًا یَقُوْلُ : سَمِعْت عُمَرَ یَقُوْلُ فَذَکَرَ نَحْوَ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیْ أَحْمَدَ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَنْ شَہِدَ بِالشَّہَادَۃِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا مَذْمُوْمٌ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ ہُوَ مَحْمُوْدٌ مَأْجُوْرٌ عَلٰی مَا کَانَ مِنْہُ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ دَفْعِ مَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمْ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی یَشْہَدَ الرَّجُلُ عَلَی الشَّہَادَۃِ لَا یُسْأَلَہَا وَحَتّٰی یَحْلِفَ عَلَی الْیَمِیْنِ لَا یُسْتَحْلَفُ .فَمَعْنٰی ذٰلِکَ أَنْ یَشْہَدَ کَاذِبًا أَوْ یَحْلِفَ کَاذِبًا لِأَنَّہٗ قَالَ حَتّٰی یَفْشُوَ الْکَذِبُ فَیَکُوْنَ کَذَا وَکَذَا .فَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الَّذِیْ یَکُوْنُ اِذَا فَشَا الْکَذِبُ اِلَّا کَذِبًا وَاِلَّا فَلَا مَعْنَی لِذِکْرِہِ فَیَفْشُو الْکَذِبُ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ أَیْضًا بِمَا
٥٩٨٢: کھمس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو فرماتے سنا پھر ابو بکرہ نے ابو احمد سے جس طرح روایت کی ہے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : فریق اول کا مؤقف ہے جس نے مطالبہ سے پہلے گواہی دی وہ قابل مذمت ہے اور اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ دوسروں نے کہا طلب سے پہلے گواہی دینے والا صرف قابل تعریف ہی نہیں بلکہ وہ اس پر ماجور ہے۔ فریق اول کے مؤقف کا جواب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر جھوٹ پھیل جائے گا یہاں تک کہ آدمی ایک معاملے کی گواہی دے گا حالانکہ اس سے طلب نہ کی جائے گی اور وہ قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم طلب نہ کی جائے گی اس ارشاد کا فمہوم یہ ہے کہ لوگ جھوٹی گواہی دیں گے یا جھوٹی قسمیں کھائیں گے کیونکہ آپ نے تو جھوٹ کے پھیلانے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہوگا اور جھوٹ کا پھیلنا جھوٹ بولنے کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ ورنہ فیشفوا الکذب کے تذکرہ کا کوئی مطلب نہیں۔ فریق اول نے اپنے قول کی حمایت میں ان روایات سے بھی استدلال کیا ہے۔
تخریج : روایت ٥٩٩٠ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5985

۵۹۸۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوْقَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ خَطَبَہُمْ بِالْجَابِیَۃِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ أَکْرِمُوْا أَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی یَشْہَد الرَّجُلُ قَبَلَ أَنْ یُسْتَشْہَدَ .
٥٩٨٣: عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا اور فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ میرے صحابہ کرام کا اکرام کرو پھر ان لوگوں کا جو ان کے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر جھوٹ پھیل جائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کرنے سے پہلے گواہی دے گا۔

5986

۵۹۸۴: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَبِیْ أَوْفَیْ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُ أُمَّتِی الْقَرْنُ الَّذِی بُعِثْتُ فِیْہِمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ قَالَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَذَکَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا ؟ ثُمَّ یَفْشُو قَوْمٌ یَشْہَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْہَدُوْنَ وَیَنْذُرُوْنَ وَلَا یُوْفُوْنَ وَیَخُوْنُوْنَ وَلَا یُؤْتَمَنُوْنَ وَیَفْشُو فِیْہِمُ السَّمَنُ۔
٥٩٨٤: زرارہ بن ابی اوفیٰ نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کا سب سے بہتر زمانہ وہ ہے جس میں میری بعثت ہوئی ہے پھر ان لوگوں کا زمانہ جو ان سے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں راوی کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آیا تیسری مرتبہ بھی یہ بات دہرائی یا نہیں ؟ پھر ایسی قوم پھیل جائے گی جو گواہی دے گی حالانکہ ان سے گواہی طلب نہ کی جائے گی اور وہ نذریں مانیں گے اور ان کو پورا نہ کریں گے اور خیانت کریں گے اور امانت دار نہ ہوں گے ان میں موٹاپا پھیل جائے گا۔
تخریج : مسلم فی فضائل الصحابہ ٢١٠؍٢١١‘ ٢١٤؍٢١٥‘ ابو داؤد فی السنۃ باب ٩‘ مسند احمد ٢؍٣٢٨‘ ٥؍٣٢٧‘ ٦؍١٥٦۔

5987

۵۹۸۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنْ زَہْدَمِ بْنِ مُضَرِّسٍ الْجَرْمِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُمْ قَرْنِی ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَقَدْ ذَمَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِیْ یَشْہَدُ وَلَا یُسْتَشْہَدُ .قِیْلَ لَہُمْ : ہٰذَا عَلَی الَّذِی لَا یُسْتَشْہَدُ فِیْ بَدْئِ الْأَمْرِ فَیَکُوْنُ فِیْ شَہَادَتِہِ عِنْدَ الْحَاکِمِ شَاہِدًا بِمَا لَمْ یَشْہَدْ عَلَیْہِ وَلَا یَعْلَمُہُ .فَعَادَ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَی مَعْنَی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا
٥٩٨٥: زہدم بن مضرس جرمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سب سے بہتر زمانہ میرا ہے پھر اسی طرح روایت کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کو موقع مذمت میں ذکر فرمایا جو طلب گواہی کے بغیر گواہی دینے لگے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا ‘ اس سے مراد وہ آدمی ہے جس کو ابتداء میں گواہ نہ بنایا جائے پھر وہ حاکم کے پاس ایسی بات کی گواہی دیتا ہے جس پر اسے گواہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی وہ اسے جانتا ہے فلہذا اس روایت کا معنی پہلی روایت کی طرف لوٹ گیا۔
تخریج : بخاری فی الشہادات باب ٩‘ فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب ١‘ والرقاق باب ٧‘ والایمان باب ١٠؍٢٧‘ ترمذی فی الفتن باب ٤٥‘ واہشہادات باب ٤‘ والمناقب باب ٥٦‘ ابن ماجہ فی الحکام باب ٢٧‘ مسند احمد ١‘ ٣٧٨؍٤٧‘ ٢‘ ٢٢٨؍٤١٠‘ ٤‘ ٢٦٧؍٢٧٦‘ ٥؍٣٥٠۔
فریق اول کی ایک اور مستدل روایت :

5988

۵۹۸۶: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ سُلَیْمٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ أُمَیَّۃَ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ أُمُّ سَلَمَۃَ أَنَّہَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یُکَذَّبُ فِیْہِ الصَّادِقُ وَیُصَدَّقُ فِیْہِ الْکَاذِبُ وَیُخَوَّنُ فِیْہِ الْأَمِیْنُ وَیُؤْتَمَنُ فِیْہِ الْخَوْنُ وَیَشْہَدُ فِیْہِ الْمَرْئُ وَاِنْ لَمْ یُسْتَشْہَدْ وَیَحْلِفُ الْمَرْئُ وَاِنْ لَمْ یُسْتَحْلَفْ .
٥٩٨٦: مصعب بن عبداللہ بن ابی امیہ نے حضرت امّ سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا لوگوں پر ایک ایسا وقت آجائے گا جس میں سچا آدمی بھی جھوٹ بولے گا اور جھوٹا سچ بولے گا اور امانت دار خیانت کرے گا اور خائن لوگوں کو امین بنایا جائے گا اور گواہی طلب کرنے کے بغیر آدمی گواہی دے گا اور حلف اٹھوانے کے بغیر آدمی حلف اٹھائے گا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الفتن باب ٢٤‘ مسند احمد ٢‘ ٢٩١؍٣٣٨‘ ٣؍٢٢٠۔

5989

۵۹۸۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ح وَ
٥٩٨٧: ابن مرزوق نے عفان سے انھوں نے حماد سے روایت نقل کی ہے۔

5990

۵۹۸۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ قَالَا جَمِیْعًا عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُ أُمَّتِی قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ لَا أَدْرِی أَذَکَرَ الثَّالِثَۃَ أَمْ لَا ثُمَّ یَخْلُفُ بَعْدَہُمْ خُلُوْفٌ یُعْجِبُہُمْ السَّمَانَۃُ وَیَشْہَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْہَدُوْنَ .
٥٩٨٨: عبداللہ بن شقیق نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے بہتر زمانہ میرا ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں مجھے معلوم نہیں آیا انھوں نے تیسری مرتبہ بھی ذکر کیا یا نہیں۔ پھر ان کے بعد نالائق لوگ آئیں گے ان کو موٹاپا پسند ہوگا اور ان سے گواہی طلب نہ کی جائے گی مگر وہ گواہی دیں گے۔
تخریج : مسلم فی فضائل الصحابہ ١٢٣‘ مسند احمد ٢‘ ٢٢٨؍٤١٠۔

5991

۵۹۸۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُسْہِرٍ قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِیْلَ عَنْ بِلَالِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ أُمَّتُک خَیْرٌ ؟ قَالَ أَنَا وَقَرْنِی .قَالَ : قُلْنَا ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ ثُمَّ الْقَرْنُ الثَّانِی قَالَ : قُلْنَا ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ الْقَرْنُ الثَّالِثُ .قَالَ : قُلْنَا ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ ثُمَّ یَأْتِی قَوْمٌ یَشْہَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْہَدُوْنَ وَیَحْلِفُوْنَ وَلَا یُسْتَحْلَفُوْنَ وَیُؤْتَمَنُوْنَ وَلَا یُؤَدُّوْنَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَالْکَلَامُ فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذَا ہُوَ الْکَلَامُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ تَأْوِیْلِ الْآثَارِ الَّتِیْ فِی الْفَصْلِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٨٩: عمرو بن شرحبیل نے بلال بن سعد سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی امت کے سب سے بہتر لوگ کون ہیں آپ نے فرمایا میں اور میرا زمانہ۔ راوی کہتے ہیں ہم نے عرض کیا پھر کون سا ؟ فرمایا دوسرا زمانہ پھر ہم نے کہا پھر کون سا ؟ فرمایا تیسرا زمانہ (تیسری صدی) راوی کہتے ہیں ہم نے کہا پھر کونسا ؟ آپ نے فرمایا : پھر ایسے لوگ آئیں گے جو گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہ کی جائے گی اور وہ قسمیں اٹھائیں گے۔ حالانکہ ان سے قسم نہ اٹھوائی جائے گی اور وہ امین بنائے جائیں گے اور وہ امانتوں کو ادا نہ کریں گے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں اس روایت کی تاویل وہی ہے جو سابقہ آثار کی کرچکے۔ دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ان روایات سے بھی استدلال کیا گیا۔

5992

۵۹۹۰: بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ وَسُلَیْمَانَ أَی الْأَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُبَیْدَۃَ أَی السَّلْمَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَخْلُفُ قَوْمٌ یَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَتَہُمْ
٥٩٩٠: عبیدہ سلمانی نے عبداللہ سے انھوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے۔ پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے ان کی گواہی ان کی قسموں سے سبقت کرنے والی ہوگی اور ان کی قسمیں گواہی سے سبقت کرنے والی ہوں گی۔
تخریج : بخاری فی الرقاق باب ٧‘ مسند احمد ١‘ ٣٧٨؍٤٣٨‘ ٤‘ ٢٦٧؍٢٧٦۔

5993

۵۹۹۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِکِّیتٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٩٩١: ابراہیم نے عبیدہ سے پھر انھوں نے حضرت عبداللہ سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5994

۵۹۹۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ الْجَرِیْرِیُّ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْلَۃَ قَالَ : کُنْتُ أَسِیْرُ مَعَ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ وَہُوَ یَقُوْلُ اللّٰہُمَّ أَلْحِقْنِیْ بِقَرْنِی الَّذِی أَنَا مِنْہُ ثَلَاثًا وَأَنَا مَعَہٗ۔ فَقُلْت وَأَنَا فَدَعَا لِیْ ثُمَّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ خَیْرُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ الْقَرْنُ الَّذِی بُعِثْتُ فِیْہِمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَکُوْنُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَاتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَاتِہِمْ
٥٩٩٢: عبداللہ بن مولہ کہتے ہیں کہ میں حضرت بریدہ اسلمی (رض) کے ساتھ جا رہا تھا اور وہ یہ دعا کرتے تھے ” اللہم الحقنی بقرنی الذی انامنہ “ اے اللہ مجھ سے میرا وہ ساتھی ملا دے جس سے میں ہوں۔ یہ تین مرتبہ دھرایا میں نے کہا اور میں۔ پھر میرے لیے دعا فرمائی پھر کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اس امت کا سب سے بہتر زمانہ وہ ہے جس میں میری بعثت ہوئی پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر ایسے لوگ آئیں گے ان کی گواہی ان کی قسموں سے سبقت کرنے والی ہوگی اور ان کی قسمیں ان کی گواہی سے آگے بڑھنے والی ہوں گی۔
تخریج : روایت ٥٩٩٠ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5995

۵۹۹۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِی الْجُعْفِیُّ عَنْ زَائِدَۃَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ خَیْثَمَۃَ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَخْلُفُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَاتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَاتِہِمْ .
٥٩٩٣: خیثمہ نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ سب سے بہتر میرے زمانہ والے لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر کچھ لوگ قسمیں اٹھائیں گے ان کی گواہی ان کی قسموں سے اور قسمیں گواہی سے سبقت کرنے والی ہوں گی۔
تخریج : مسند احد ١؍٣٧٨‘ ٤٣٨؍٤٤٢‘ ٤؍٢٦٧‘ ٢٧٦‘ ٢٧٨۔

5996

۵۹۹۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَزَادَ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ مَرَّۃً أُخْرَی ثُمَّ یَأْتِی قَوْمٌ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَی الَّذِیْنَ احْتَجُّوْا بِہٰذِہِ الْآثَارِ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ ہٰذِہِ الشَّہَادَۃَ لَمْ یُرِدْ بِہَا الشَّہَادَۃَ عَلَی الْحُقُوْقِ وَاِنَّمَا أُرِیْدَ بِہَا الشَّہَادَۃُ فِی الْأَیْمَانِ وَقَدْ رُوِیَ مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ
٥٩٩٤: ابوبکر بن عیاش نے عاصم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے اور اس روایت میں ثم الذین یلونہم ایک مرتبہ اضافہ ہے اس کے بعد ثم یأتی قوم ہے۔ ان روایات میں جس شہادت کا تذکرہ ہے اس سے شہادت علی الحقوق مراد نہیں ہے اور ابراہیم نخعی (رح) سے ایسی بات منقول ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔

5997

۵۹۹۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا شَیْبَانُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ ؟ قَالَ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ یَجِیْئُ قَوْمٌ یَسْبِقُ شَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ یَمِیْنَہُ وَیَمِیْنُہُ شَہَادَتَہُ .قَالَ اِبْرَاھِیْمُ : کَانَ أَصْحَابُنَا یَنْہَوْنَنَا وَنَحْنُ غِلْمَانٌ أَنْ نَحْلِفَ بِالشَّہَادَۃِ وَالْعَہْدِ .فَدَلَّ ہٰذَا مِنْ قَوْلِ اِبْرَاھِیْمَ أَنَّ الشَّہَادَۃَ الَّتِیْ ذٰمَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَاحِبَہَا ہِیَ قَوْلُ الرَّجُلِ أَشْہَدُ بِاَللّٰہِ مَا کَانَ کَذَا عَلَی مَعْنَی الْحَلِفِ فَکَرِہَ ذٰلِکَ کَمَا یُکْرَہُ الْحَلِفُ لِأَنَّہٗ مَکْرُوْہٌ لِلرَّجُلِ الْاِکْثَارُ مِنْہُ وَاِنْ کَانَ صَادِقًا .فَنَہٰی عَنِ الشَّہَادَۃِ الَّتِی ہِیَ حَلِفٌ کَمَا نَہٰی عَنِ الْیَمِیْنِ اِلَّا أَنْ یُسْتَحْلَفَ بِہَا فَیَکُوْنَ حِیْنَئِذٍ مَعْذُوْرًا .وَلَعَلَّہٗ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِالشَّہَادَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا الْحَلِفَ عَلٰی مَا لَمْ یَکُنْ لِقَوْلِہٖ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ فَتَکُوْنُ تِلْکَ الشَّہَادَۃُ شَہَادَۃَ کَذِبٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَفْضِیْلِ الشَّاہِدِ الْمُبْتَدِئِ بِالشَّہَادَۃِ
٥٩٩٥: ابراہیم نے عبیدہ سے انھوں نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا میرے زمانہ والے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر کچھ لوگ ایسے آئیں گے جن کی گواہی ان کی قسم سے سبقت کرنے والی ہوگی اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت کرنے والی ہوگی۔ ابراہیم کہتے ہیں جب ہم بچے تھے تو ہمارے احباب ہمیں شہادت و عہد کے ساتھ قسم اٹھانے سے منع کرتے تھے۔ ابراہیم کا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شہادت کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذمت فرمائی اس سے مراد کسی آدمی کا اس طرح بطر حلف کہنا ہے ” اشہد باللہ ماکان کذا ‘ پس اس کو ناپسند کیا گیا جیسا کہ حلف کو بھی ناپسند کیا گیا اگرچہ آدمی سچا ہو مگر اسے ایسا بار بار کہنا ناپسندیدہ حرکت ہے۔ پس شہادت والے حلف سے روکا گیا جیسا کہ قسم سے روکا گیا ہاں اگر اس سے حلف اٹھوایا جائے گا تو اس وقت وہ معذور شمار ہوگا۔ ممکن ہے اس مذکورہ شہادت سے مراد ایسے کام پر قسم کھانا ہو جو وقوع پذیر نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ نے فرمایا پھر جھوٹ پھیل جائے گا پس اس گواہی سے مراد جھوٹی گواہی ہوگی۔
تخریج : بخاری فی الشہادات باب ٩‘ والایمان باب ١٠‘ مسلم فی فضائل الصحابہ ٢١٠؍٢١١‘ ترمذی فی المناقب باب ٥٦‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٢٧‘ مسند احمد ١؍٤١٧‘ ٥؍٣٥٧۔
شہادت میں پہل کرنے والے کی فضیلت :

5998

۵۹۹۶: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِیْ عَمْرَۃَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ الشُّہَدَائِ ؟ الَّذِیْ یَأْتِی بِشَہَادَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَ عَنْہَا أَوْ یُخْبِرَ بِشَہَادَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا .قَالَ مَالِکٌ : الَّذِیْ یُخْبِرُ بِشَہَادَتِہٖ وَلَا یَعْلَمُ بِہَا الَّذِی ہِیَ لَہٗ أَوْ یَأْتِی بِہَا الْاِمَامَ فَیَشْہَدُ بِہَا عِنْدَہُ وَجَعَلَہٗ خَیْرَ الشُّہَدَائِ .فَأَوْلَی بِنَا أَنْ نَحْمِلَ الْآثَارَ الْأُوَلَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا مِنْ تَأْوِیْلِ کُلِّ أَثَرٍ مِنْہَا حَتّٰی لَا تَتَضَادَّ وَلَا تَخْتَلِفَ وَلَا یَدْفَعَ بَعْضُہَا بَعْضًا .فَتَکُوْنُ الْآثَارُ الْأُوَلُ عَلَی الْمَعَانِی الَّتِیْ ذٰکَرْنَا وَتَکُوْنَ ہٰذِہِ الْآثَارُ الْأُخَرُ عَلَی تَفْضِیْلِ الْمُبْتَدِئِ بِالشَّہَادَۃِ مَنْ ہِیَ لَہٗ أَوْ الْمُخْبِرُ بِہَا الْاِمَامُ .وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَوُا الْاِمَامَ فَشَہِدُوْا ابْتِدَائً مِنْہُمْ أَبُوْبَکْرَۃَ وَمَنْ کَانَ مَعَہُ حِیْنَ شَہِدُوْا عَلَی الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ فَرَأَوْا ذٰلِکَ لِأَنْفُسِہِمْ لَازِمًا وَلَمْ یُعَنِّفْہُمْ عُمَرُ عَلٰی ابْتِدَائِہِمْ اِیَّاہُ بِذٰلِکَ بَلْ سَمِعَ شَہَادَاتِہِمْ .وَلَوْ کَانُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَذْمُوْمِیْنَ لَذَمَّہُمْ مَنْ سَأَلَکُمْ عَنْ ہٰذَا ؟ أَلَا قَعَدْتُمْ حَتّٰی تُسْأَلُوْا ؟ .فَلَمَّا سَمِعَ مِنْہُمْ وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ عُمَرُ وَلَا أَحَدٌ مِمَّنْ کَانَ بِحَضْرَتِہِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ فَرْضَہُمْ کَذٰلِکَ وَأَنَّ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ ابْتِدَائً لَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ مَحْمُوْدٌ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ
٥٩٩٦: ابو عمرہ انصاری نے زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بہترین گواہ نہ بتلاؤں پھر فرمایا جو مطالبہ کرنے سے پہلے گواہی دے اور مطالبہ سے پہلے اپنی شہادت کی خبر اور اطلاع دے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں جو اپنی گواہی کی خبر دے جبکہ صاحب حق کو اس کی گواہی کا علم بھی نہ ہو یا امام و حاکم کے پاس آ کر وہ گواہی دے تو اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بہترین گواہ قرار دیا ہے۔ ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ ان آثار کی وہ تاویل کی جائے جو ہم نے ذکر کی ہے تاکہ آثار میں تضاد و تخالف نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کی تردید نہ کریں۔ پس آثار اول سے پہلا معنی اور بعد والے آثار سے دوسرا معنی مراد ہوگا کہ شہادت کی ابتداء کرنے والا افضل ہے یا خود امام کو اپنی گواہی کی اطلاع دینے والا افضل ہے اور صحابہ کرام سے اس فعل کا کرنا خود ثابت ہے چنانچہ وہ امام کے پاس آئے اور انھوں نے ابتداء گواہی دی ان صحابہ (رض) میں ابو بکرہ (رض) ہیں اور جو ان کے ساتھ تھے جبکہ انھوں نے حضرت مغیرہ (رض) کے متعلق گواہی دی۔ انھوں نے اسے ضروری قرار دیا حضرت عمر (رض) نے ابتداء شہادت پر ان کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی بلکہ ان کی گواہی کو سنا اگر ان کا یہ فعل قابل مذمت ہوتا تو ان کی ضرور مذمت کرتے اور اس طرح فرماتے ” من سالکم عن ہذا ؟ الا قعدتم حتی تسالوا ؟ “ جب حضرت عمر (رض) نے ان کی یہ بات سنی اور انکار نہیں فرمایا اور دیگر مجلس میں موجود اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی نے بھی نکیر نہیں فرمائی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کا یہی فریضہ تھا اور جس نے ابتداء بالشہادت کی جبکہ اس سے مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تو اس کا یہ فعل قابل مدح ہے اس سلسلہ میں یہ روایات بھی وارد ہیں۔

5999

۵۹۹۷: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ وَسَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَا : حَدَّثَنَا السَّرِیُّ بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْکَرِیْمِ بْنُ رَشِیدٍ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَشَہِدَ عَلَی الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ فَتَغَیَّرَ لَوْنُ عُمَرَ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَشَہِدَ فَتَغَیَّرَ لَوْنُ عُمَرَ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَشَہِدَ فَتَغَیَّرَ لَوْنُ عُمَرَ حَتّٰی عَرَفْنَا ذٰلِکَ فِیْہِ وَأَنْکَرَ لِذٰلِکَ .وَجَائَ آخَرُ یُحَرِّکُ بِیَدَیْہِ فَقَالَ : مَا عِنْدَک یَا سَلْخَ الْعِقَابِ ؟ وَصَاحَ أَبُو عُثْمَانَ صَیْحَۃً تُشْبِہُ بِہَا صَیْحَۃَ عُمَرَ حَتّٰی کَرَبْتُ أَنْ یُغْشٰی عَلَیَّ .قَالَ : رَأَیْتُ أَمْرًا قَبِیْحًا قَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ یُشَمِّتِ الشَّیْطَانَ بِأُمَّۃِ مُحَمَّدٍ فَأَمَرَ بِأُولٰئِکَ النَّفَرِ فَجُلِدُوْا .
٥٩٩٧: ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور اس نے حضرت مغیرہ (رض) کے متعلق گواہی دی تو اس کی بات سن کر حضرت عمر (رض) کا رنگ بدل گیا پھر دوسرا آیا اور اس نے گواہی دی تو حضرت عمر (رض) کا رنگ بدل گیا۔ پھر ایک اور آیا اور اس نے گواہی دی تو حضرت عمر (رض) کا رنگ بدل گیا۔ یہاں تک کہ اس کا اثر آپ کے چہرہ پر معلوم ہونے لگا آپ اس بات کو انوکھا خیال کیا اور ایک اور شخص آیا جو اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہا تھا آپ نے فرمایا اے سزا کو کھینچ کر دور کرنے والے تیرے پاس کیا خبر ہے۔ ابو عثمان راوی نے زور سے چیخ ماری جو حضرت عمر (رض) کی چیخ کے مشابہہ تھی یہاں تک کہ مجھے بیہوشی کا خطرہ ہوا۔ وہ کہنے لگا میں نے ایک بری بات دیکھی ہے حضرت عمر (رض) نے کہا الحمدللہ اللہ کا شکر ہے جس نے شیطان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت پر خوش ہونے کا موقع نہیں دیا۔ پھر اس گروہ کو کوڑے مارنے کا حکم دیا چنانچہ ان لوگوں کو کوڑے لگائے گئے۔

6000

۵۹۹۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَیْسَرَۃَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ : شَہِدَ عَلَی الْمُغِیْرَۃِ أَرْبَعَۃٌ فَنَکَلَ زِیَادُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ فَجَلَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الثَّلَاثَۃَ وَاسْتَتَابَہُمْ فَتَابَ الْاِثْنَانِ ، وَأَبَی أَبُوْبَکْرَۃَ أَنْ یَتُوْبَ فَکَانَ یَقْبَلُ شَہَادَتَہُمَا حِیْنَ تَابَا وَکَانَ أَبُوْبَکْرَۃَ لَا تُقْبَلُ شَہَادَتُہُ لِأَنَّہٗ أَبَی أَنْ یَتُوْبَ وَکَانَ مِثْلَ الصَّوْمِ مِنَ الْعِبَادَۃِ .
٥٩٩٨: ابراہیم بن میسرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ مغیرہ (رض) کے متعلق چار آدمیوں نے گواہی دی ان میں سے زیاد بن ابی سفیان نے اس بات سے انکار کیا تو حضرت عمر (رض) نے تینوں کو کوڑے لگائے اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تو ان میں سے دو نے توبہ کرلی مگر ابو بکرہ نے توبہ سے انکار کیا تو جب ان دو نے توبہ کرلی تو ان کی گواہی کو قبول کرلیا جانے لگا اور ابو بکرہ کی گواہی قبول نہ کی جاتی تھی۔ کیونکہ انھوں نے تو توبہ سے انکار کیا تھا۔ (اور یہ توبہ نہ کرنا) عبادت سے باز رہنے کی طرح تھا۔

6001

۵۹۹۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُمَیْعٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُو الطُّفَیْلِ قَالَ : أَقْبَلَ رَہْطٌ مَعَہُمْ امْرَأَۃٌ حَتّٰی نَزَلُوْا فَتَفَرَّقُوْا فِیْ حَوَائِجِہِمْ فَتَخَلَّفَ رَجُلٌ مَعَ امْرَأَۃٍ فَرَجَعُوْا وَہُوَ بَیْنَ رِجْلَیْہَا فَشَہِدَ ثَلَاثَۃٌ مِنْہُمْ أَنَّہُمْ رَأَوْہُ یَہُبُّ کَمَا یَہُبُّ الْمِرْوَدُ فِی الْمُکْحُلَۃِ .وَقَالَ الرَّابِعُ : أَحْمِیْ سَمْعِی وَبَصَرِی لَمْ أَرَہُ یَہُبُّ فِیْہَا رَأَیْتُ سِخْتَلَیْہِ یَعْنِیْ خُصْیَتَیْہِ یَضْرِبَانِ اسْتَہَا وَرِجْلَاہَا مِثْلُ أُذُنَیْ حِمَارٍ .وَعَلَی مَکَّۃَ یَوْمَئِذٍ نَافِعُ بْنُ الْحَارِثِ الْخُزَاعِیُّ وَکَتَبَ اِلَی عُمَرَ .فَکَتَبَ عُمَرُ اِنْ شَہِدَ رَابِعٌ بِمِثْلِ مَا شَہِدَ الثَّلَاثَۃُ فَقَدِّمْہُمَا أَجْلِدْہُمَا وَاِنْ کَانَا مُحْصَنَیْنِ فَارْجُمْہُمَا وَاِنْ لَمْ یَشْہَدَا اِلَّا بِمَا کَتَبْتُ بِہٖ اِلَیَّ فَاجْلِدْ الثَّلَاثَۃَ وَخَلِّ سَبِیْلَ الرَّجُلِ .قَالَ : فَجَلَدَ الثَّلَاثَۃَ وَأَخْلَیْ سَبِیْلَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ .فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ شَہِدَ بَعْضُہُمُ ابْتِدَائً وَقَبِلَہَا بَعْضُہُمْ وَحَضَرَ ذٰلِکَ أَکْثَرُہُمْ فَلَمْ یُنْکِرْ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اتِّفَاقِہِمْ جَمِیْعًا عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی وَثَبَتَ أَنَّ مَعَانِیَ الْآثَارِ الْأُوَلِ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ مَعَانِیْہَا الَّتِی وَصَفْنَاہَا فِیْ مَوَاضِعِہَا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ .
٥٩٩٩: ولید بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مجھے حضرت ابوالطفیل نے بیان کیا کہ ایک گروہ آیا اور ان کے ساتھ ایک عورت تھی یہاں تک کہ وہ ایک مقام پر اترے اور اپنی اپنی ضروریات کے لیے چلے گئے ایک مرد عورت کے ساتھ پیچھے رہ گیا جب وہ واپس لوٹے تو وہ اس کے دونوں پاؤں کے درمیان تھا ان میں سے تین نے گواہی دی کہ انھوں نے اسے اس طرح گھسا ہوا پایا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں گھسی ہوئی ہوتی ہے چوتھے نے کہا میں اپنے کانوں اور آنکھوں کو صحیح خیال کرتا ہوں میں نے اسے گھسا ہوا نہیں دیکھا میں نے اس کے خصیتین کو دیکھا کہ وہ عورت کی سرین سے لگے ہوئے تھے اور اس کے پاؤں گدھے کے دو کانوں کی طرح تھے ان دنوں مکہ مکرمہ کے حاکم حضرت نافع بن حارث خزاعی (رض) تھے انھوں نے یہ معاملہ حضرت عمر (رض) کی طرف لکھ بھیجا۔ تو حضرت عمر (رض) نے جواب میں فرمایا اگر چوتھا آدمی بھی ان تینوں کی طرح گواہی دے تو ان دونوں کو لا کر کوڑے مارو اور اگر وہ دونوں شادی شدہ ہوں تو پھر ان کو سنگ سار کر دو اور اگر گواہی کی نوعیت وہی ہو جو تم نے تحریر کی ہے تو تینوں کو (تہمت کی وجہ سے) کوڑے لگاؤ اور اس مرد (اور عورت) کا راستہ چھوڑ دو ۔ راوی کہتے ہیں کہ ان تینوں کو کوڑے لگائے گئے اور مرد و عورت کا راستہ چھوڑ دیا گیا۔ یہ صحابہ کرام (رض) ہیں ان میں سے بعض ہیں جنہوں نے گواہی کی خود ابتداء کی اور بعض نے اس کو قبول کیا اور ان کی موجودگی میں یہ معاملہ ہوا مگر انھوں نے اعتراض نہیں کیا پس ان سب کا اتفاق اس معنی پر دلالت کرتا ہے اور اس سے پہلی روایات کے وہ معانی بھی ثابت ہوگئے جو ہم نے پہلے بیان کئے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

6002

۶۰۰۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : أَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ زَیْنَبَ بِنْتَ أَبِیْ سَاحَۃَ وَأُمَّہَا أُمُّ سَلَمَۃَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّ أُمَّہَا أُمُّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَلَبَۃَ خِصَامٍ عِنْدَ بَابِہٖ فَخَرَجَ اِلَیْہِمْ فَقَالَ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَاِنَّہٗ یَأْتِی الْخَصْمُ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَکُوْنَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِیَ لَہٗ بِذٰلِکَ وَأَحْسِبُ أَنَّہٗ صَادِقٌ فَمَنْ قَضٰیْتُ لَہٗ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ہِیَ قِطْعَۃٌ مِنَ النَّارِ فَلْیَأْخُذْہَا أَوْ لِیَدَعْہَا .
٦٠٠٠: زینب نے اپنی والدہ امّ سلمہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو آپ ان لوگوں کی طرف تشریف لائے اور فرمایا میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس جھگڑا کرنے والے آتے ہیں ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ فصیح وبلیغ ہو اور میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں اور میرے خیال میں وہ سچا ہو۔ فلہذا میں جس شخص کے لیے کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے پس اب وہ اس کو لے لے یا چھوڑ دے (اس پر موقوف ہے)
تخریج : بخاری فی المظالم باب ١٦‘ والاحکام باب ٢٩؍٣١‘ مسلم فی الاقضیہ ٥۔
فریق اول کا قول یہ ہے کہ حاکم اگر کسی چیز کو باطن کے مطابق خیال کر کے فیصلہ کر دے اور باطن اس کے خلاف ہو تو اس کا فیصلہ نافذ العمل نہ ہوگا اس قول کو امام ابو یوسف (رح) نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا قول : حاکم جب بظاہر صحیح گواہی کے مطابق فیصلہ کر دے تو اس کا فیصلہ ظاہر و باطن میں نافذالعمل ہوگا اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔

6003

۶۰۰۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ الْأُوَیْسِیُّ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٠٠١: صالح نے ابن شہاب سے پھر انھوں اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6004

۶۰۰۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ زَیْنَبَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ اِلَیَّ وَاِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہِ فَأَقْضِیَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْہُ فَمَنْ قَضٰیْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْئًا فَاِنَّمَا أَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِنَ النَّارِ فَلَا یَأْخُذْہُ
٦٠٠٢: زینب نے امّ سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میرے پاس جھگڑا لاتے ہو اور بلاشبہ میں انسان ہوں ممکن ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے سے اپنی دلیل بیان کرنے میں زیادہ عمدہ ہو تو میں جو کچھ اس سے سنوں اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ فلہذا جس کے لیے میں اس کے مسلمان بھائی کے حق کا فیصلہ کروں گویا میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں پس وہ اسے نہ لے۔
تخریج : بخاری فی الشہادات باب ٢٧‘ والاحکام باب ٢٠‘ والحیل باب ١٠‘ مسلم فی الاقضیہ ٤‘ ابو داؤد فی الاقضیہ باب ٧‘ ترمذی فی الاحکام باب ١١‘ و نسائی فی القضاۃ باب ١٣؍٣٣‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٥‘ مالک فی الاقضیہ ١‘ مسند احمد ٦‘ ٢٠٣؍٢٩٠‘ ٣٠٨؍٣٢٠۔

6005

۶۰۰۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦٠٠٣: محمد بن عمرو بن ابی سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6006

۶۰۰۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ سَمِعَہُ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : جَائَ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ یَخْتَصِمَانِ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَوَارِیْثَ بَیْنَہُمَا قَدْ دُرِسَتْ لَیْسَتْ بَیْنَہُمَا بَیِّنَۃٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَاِنَّہٗ یَأْتِی الْخَصْمُ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَکُوْنَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِیَ لَہٗ بِذٰلِکَ وَأَحْسِبُ أَنَّہٗ صَادِقٌ فَمَنْ قَضٰیْتُ لَہٗ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ہِیَ قِطْعَۃٌ مِنَ النَّارِ فَلْیَأْخُذْہَا أَوْ لِیَدَعْہَا .فَبَکَی الرَّجُلَانِ وَقَالَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا حَقِّی لِأَخِی .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا اِذْ فَعَلْتُمَا ہٰذَا فَاذْہَبَا فَاقْتَسِمَا وَتَوَخَّیَا الْحَقَّ ثُمَّ اسْتَہِمَا ثُمَّ لِیُحْلِلْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمَا صَاحِبَہُ .
٦٠٠٤: عبداللہ بن نافع مولیٰ امّ سلمہ (رح) نے امّ سلمہ (رض) روایت کی ہے کہ دو انصاری آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں وراثت کا ایک جھگڑا لائے جو کہ مٹ چکی تھی اور ان کے دونوں کے پاس کوئی دلیل بھی نہ تھی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایک انسان ہوں میرے ہاں جھگڑے والے آتے ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے زیادہ بلیغ بات کرنے والا ہو اور میں اس کی بات پر فیصلہ کر دوں اور اس کو سچا گمان کروں۔ تو جس کے لیے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کروں وہ اس کے لیے آگ کا ٹکڑا ہے۔ پس وہ اس کو لے لے (اگر اس کا حق بنتا ہے) یا اس کو چھوڑ دے۔ پس (اس بات کو سن کر) دونوں آدمی رو پڑے اور ہر ایک پکار اٹھا میرا حق میرے بھائی کا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم نے ایسا کردیا ہے تو اب جاؤ اور اس کو آپس میں بانٹ لو۔ حق کے متعلق غور کرو اور پھر قرعہ اندازی کر کے اس کے بعد ہر ایک دوسرے کے لیے اسے حلال قرار دے دے۔
تخریج : بخاری فی الاحکام باب ٢٩؍٣١‘ مسلم فی الاقضیہ ٥۔

6007

۶۰۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : أَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٠٠٥: عثمان بن عمر نے اسامہ بن زید (رض) سے پھر ان کی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی گئی۔

6008

۶۰۰۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ کُلَّ قَضَائٍ قَضٰی بِہٖ حَاکِمٌ مِنْ تَمْلِیکِ مَالٍ أَوْ اِنَالَۃِ مِلْکٍ عَنْ مَالٍ أَوْ مِنْ اِثْبَاتِ نِکَاحٍ أَوْ مِنْ حِلِّہِ بِطَلَاقٍ أَوْ بِمَا أَشْبَہَہُ أَنَّ ذٰلِکَ کُلَّہٗ عَلٰی حُکْمِ الْبَاطِنِ وَأَنَّ ذٰلِکَ فِی الْبَاطِنِ کَہُوَ فِی الظَّاہِرِ وَجَبَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا حَکَمَ بِہٖ الْحَاکِمُ .وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ فِی الْبَاطِنِ عَلَی خِلَافِ مَا شَہِدَ بِہٖ الشَّاہِدَانِ وَعَلَی خِلَافِ مَا حَکَمَ بِہٖ بِشَہَادَتِہِمَا عَلَی الْحُکْمِ الظَّاہِرِ لَمْ یَکُنْ قَضَائُ الْقَاضِی مُوْجِبًا شَیْئًا مِنْ تَمْلِیکٍ وَلَا تَحْرِیْمٍ وَلَا تَحْلِیْلٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ تَمْلِیکِ مَالٍ فَہُوَ عَلٰی حُکْمِ الْبَاطِنِ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَضٰیْتُ لَہٗ بِشَیْئٍ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ فَلَا یَأْخُذْہُ فَاِنَّمَا أَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِنَ النَّارِ .وَمَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ قَضَائٍ بِطَلَاقٍ أَوْ نِکَاحٍ بِشُہُوْدٍ ظَاہِرُہُمُ الْعَدَالَۃُ وَبَاطِنُہُمُ الْجُرْحَۃُ فَحَکَمَ الْحَاکِمُ بِشَہَادَتِہِمْ عَلَی ظَاہِرِہِمْ الَّذِیْ تَعَبَّدَ اللّٰہَ أَنْ یَحْکُمَ بِشَہَادَۃِ مِثْلِہِمْ مَعَہُ فَذٰلِکَ یَحْرُمُ فِی الْبَاطِنِ کَحُرْمَتِہِ فِی الظَّاہِرِ .وَالدَّلِیْلُ عَلَی ہٰذَا مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُتَلَاعِنَیْنِ .
٦٠٠٦: عبداللہ بن نافع الصائغ نے اسامہ بن زید پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ حاکم جو بھی فیصلہ کرے اس سے کسی مال کا مالک بنانا ہو یا کسی مال سے ملک کو زائل کرنا ہو۔ نکاح کو ثابت کرنا یا طلاق کے ذریعہ نکاح کو فسخ کرنا ہو یا اس سے ملتا جلتا کوئی بھی حکم ہو۔ یہ تمام احکام باطن پر محمول ہوتے ہیں اور باطن میں بھی ظاہر کے مطابق ہوتے ہیں اس سے حاکم کا فیصلہ لازم ہوجاتا ہے اور اگر یہ باطن میں اس بات کے مخالف ہو جس کی گواہوں نے گواہی دی ہے اور جو ان کی گواہی پر بظاہراً فیصلہ ہوا ہے باطن میں بھی اس کے بھی خلاف ہوں تو قاضی کسی چیز کو واجب نہیں کرسکتا نہ تو وہ مالک بنا سکتا ہے اور نہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دے سکتا ہے۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے اس قول کو اختیار کرنے والوں میں امام ابو یوسف (رح) بھی ہیں۔ فریق ثانی نے ان کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ جہاں تک مالک بنانے کے فیصلے کا تعلق ہے تو وہ باطل کے حکم پر ہوگا جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں جس شخص کے لیے اس کے بھائی کے حق سے فیصلہ کروں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ البتہ جو معاملہ نکاح و طلاق سے متعلق ہو تو وہ ایسے گواہوں سے ثابت ہے جو ظاہر میں اصحاب عدل ہیں مگر ان کا باطن مجروح ہے اور حاکم ان کے ظاہر کو دیکھ کر گواہی پر فیصلہ کر دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان جیسے لوگوں کی گواہی پر فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا تو یہ باطن میں بھی اسی طرح قابل احترام ہوگا جیسے کہ ظاہر میں قابل احترام ہے۔ اس پر دلیل وہ روایت ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لعان کے سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے۔
حدیث متلاعنین :

6009

۶۰۰۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : فَرَّقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَخَوَیْ بَنِی الْعَجْلَانِ وَقَالَ لَہُمَا حِسَابُکُمَا عَلَی اللّٰہِ اللّٰہُ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَکُمَا کَاذِبٌ لَا سَبِیْلَ لَک عَلَیْہَا .قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَدَاقِی الَّذِی أَصْدَقْتُہَا ؟ قَالَ لَا مَالَ لَک عَلَیْہَا اِنْ کُنْتُ أَصَدَقْتُ عَلَیْہَا فَہُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتُ مِنْ فَرْجِہَا وَاِنْ کُنْتُ کَاذِبًا عَلَیْہَا فَہُوَ أَبْعَدُ لَک مِنْہُ
٦٠٠٧: سعید بن جبیر نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو عجلان کے دو آدمیوں کے درمیان تفریق کردی اور ان کو فرمایا کہ تمہارا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ (اے مرد) تمہارا اس عورت پر کوئی حق نہیں۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے اس مال کا کیا بنے گا جو میں نے بطور مہر ادا کیا آپ نے ارشاد فرمایا تمہارے لیے اس کے ذمہ اب کوئی مال نہیں۔ اگر تم نے اس کے متعلق سچ کہا تو وہ اس چیز کے بدلے میں ہے جو تم نے اس کی شرمگاہ کو اپنے حق میں حلال کیا اور اگر تو نے جھوٹ بولا ہے تو وہ تجھ سے بہت دور ہے۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ٣٢؍٣٣‘ مسلم فی اللعان ٦؍٧‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٧‘ نسائی فی الطلاق باب ٤٣‘ مسند احمد ٢؍٤۔

6010

۶۰۰۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ سَمِعَ سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ یَقُوْلُ : شَہِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَیْنَ الْمُتَلَاعِنَیْنِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَذَبْتُ عَلَیْہَا اِنْ أَمْسَکْتُہَا .
٦٠٠٨: زہری نے سہل بن سعد (رض) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرائی۔ اس آدمی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں اسے رکھوں تو گویا میں نے اس کے متعلق جھوٹ کہا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٧‘ دارمی فی النکاح باب ٣٩۔

6011

۶۰۰۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا ہِلَالٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّ عُوَیْمِرًا الْعَجْلَانِیَّ جَائَ اِلَی عَاصِمِ بْنِ عَدِی الْأَنْصَارِیِّ فَقَالَ لَہٗ : أَرَأَیْتُ یَا عَاصِمُ لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا أَیَقْتُلُہُ فَتَقْتُلُوْنَہُ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ ؟ سَلْ لِیْ عَنْ ذٰلِکَ یَا عَاصِمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمُ اِلٰی أَہْلِہِ جَائَ ہُ عُوَیْمِرٌ فَقَالَ : یَا عَاصِمُ مَاذَا قَالَ لَک رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ .فَقَالَ عَاصِمٌ : یَا عُوَیْمِرُ لَمْ تَأْتِنِیْ بِخَیْرٍ فَقَدْ کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَۃَ الَّتِیْ سَأَلْتُہٗ عَنْہَا .فَقَالَ : عُوَیْمِرٌ لَا أَنْتَہِیْ حَتّٰی أَسْأَلَہٗ عَنْہَا .فَأَقْبَلَ عُوَیْمِرٌ حَتّٰی أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَرَأَیْتُ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا أَیَقْتُلُہُ فَتَقْتُلُوْنَہُ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْکَ وَفِیْ صَاحِبَتِکَ اذْہَبْ فَائْتِ بِہَا .قَالَ سَہْلٌ : فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَیْمِرٌ : کَذَبْتُ عَلَیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ أَمْسَکْتُہَا فَطَلَّقَہَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ یَأْمُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : فَکَانَتْ سُنَّۃَ الْمُتَلَاعِنَیْنِ
٦٠٠٩: ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بتلایا کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی انصاری (رض) کے پاس آیا اور اسے کہا میرے لیے یہ مسئلہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر دو کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے۔ (اگر وہ ایسا کرلے) تو پھر تم اسے قتل کرو گے یا وہ کیا کرے ؟ جب عاصم (رض) اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے تو عویمر آئے اور کہا اے عاصم ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا۔ حضرت عاصم کہنے لگے۔ اے عویمر تو میرے پاس اچھی بات نہیں لایا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند کیا جو کہ میں نے آپ سے دریافت کی۔ عویمر کہنے لگے میں خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مسئلہ دریافت کروں گا پھر حضرت عویمر خود دربار نبوت میں حاضر ہوئے اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما تھے۔ عویمر نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرمایئے ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو وہ کیا کرے اسے قتل کر دے (پھر آپ اس کے قاتل کو قتل کردیں گے یا وہ کیا کرے ؟ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق حکم نازل فرمایا ہے۔ جاؤ اور اسے لے آؤ! حضرت سہل فرماتے ہیں کہ پھر ان دونوں نے لعان کیا۔ میں بھی اس وقت صحابہ کرام کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر تھا جب وہ دونوں فارغ ہوئے تو حضرت عویمر (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹ باندھا ہے چنانچہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے سے پہلے ہی تین طلاقیں دے دیں۔
ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ لعان کرنے والے کے متعلق یہی طریقہ ہے۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ٤‘ والحدود ٤٣‘ مسلم فی اللعان ١‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٢٧‘ نسائی فی الطالق باب ٧‘ دارمی فی النکاح باب ٣٩‘ مالک فی الطلاق ٣٤‘ مسند احمد ٥؍٣٣١۔

6012

۶۰۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا الْمَاجِشُوْنِ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : جَائَ نِیْ عُوَیْمِرٌ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ عَلِمَ الْکَاذِبُ مِنْہُمَا بِعَیْنِہِ لَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَہُمَا وَلَمْ یُلَاعِنْ لَوْ عَلِمَ أَنَّ الْمَرْأَۃَ صَادِقَۃٌ لَحَدَّ الزَّوْجَ لَہَا بِقَذْفِہِ اِیَّاہَا .وَلَوْ عَلِمَ أَنَّ الزَّوْجَ صَادِقٌ لَحَدَّ الْمَرْأَۃَ بِالزِّنَا الَّذِیْ کَانَ مِنْہَا .فَلَمَّا خَفِیَ الصَّادِقُ مِنْہُمَا عَلَی الْحَاکِمِ وَجَبَ حُکْمٌ آخَرُ فَحَرَّمَ الْفَرَجَ عَلَی الزَّوْجِ فِی الْبَاطِنِ وَالظَّاہِرِ وَلَمْ یَرُدَّ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ الْبَاطِنِ .فَلَمَّا شَہِدَا فِی الْمُتَلَاعِنَیْنِ ثَبَتَ أَنَّ کَذٰلِکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا وَالْقَضَائُ بِمَا لَیْسَ فِیْہِ تَمْلِیکُ أَمْوَالٍ أَنَّہٗ عَلٰی حُکْمِ الظَّاہِرِ لَا عَلٰی حُکْمِ الْبَاطِنِ وَأَنَّ حُکْمَ الْقَاضِیْ یَحْدُثُ فِیْ ذٰلِکَ التَّحْرِیْمِ وَالتَّحْلِیْلِ فِی الظَّاہِرِ وَالْبَاطِنِ جَمِیْعًا وَأَنَّہٗ خِلَافُ الْأَمْوَالِ الَّتِیْ تُقْضَی بِہَا عَلٰی حُکْمِ الظَّاہِرِ وَہِیَ فِی الْبَاطِنِ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ .فَتَکُوْنُ الْآثَارُ الْأُوَلُ ہِیَ فِی الْقَضَائِ بِالْأَمْوَالِ وَالْآثَارُ الْأُخَرُ ہِیَ فِی الْقَضَائِ بِغَیْرِ الْأَمْوَالِ مِنْ ثَبَاتِ الْعُقُوْدِ وَحِلِّہَا حَتّٰی تَتَّفِقَ مَعَانِیْ وُجُوْہِ الْآثَارِ وَالْأَحْکَامِ وَلَا تَتَضَادَّ .وَقَدْ حَکَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُتَبَایِعَیْنِ اِذَا اخْتَلَفَا فِی الثَّمَنِ وَالسِّلْعَۃُ قَائِمَۃٌ أَنَّہُمَا یَتَحَالَفَانِ وَیَتَرَادَّانِ .فَتَعُوْدُ الْجَارِیَۃُ اِلَی الْبَائِعِ وَیَحِلُّ لَہٗ فَرْجُہَا وَیَحْرُمُ عَلَی الْمُشْتَرِی .وَلَوْ عَلِمَ الْکَاذِبُ مِنْہُمَا بِعَیْنِہِ اِذًا لَقَضٰی بِمَا یَقُوْلُ الصَّادِقُ وَلَمْ یَقْضِ بِفَسْخِ بَیْعٍ وَلَا بِوُجُوْبِ حُرْمَۃِ فَرْجِ الْجَارِیَۃِ الْمَبِیْعَۃِ عَلَی الْمُشْتَرِی .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا کَانَ کَذٰلِکَ کُلُّ قَضَائٍ بِتَحْرِیْمٍ أَوْ تَحْلِیْلٍ أَوْ عَقْدِ نِکَاحٍ أَوْ حِلِّہِ عَلٰی مَا حَکَمَ الْقَاضِی فِیْہِ فِی الظَّاہِرِ لَا عَلٰی حُکْمِہِ فِی الْبَاطِنِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .
٦٠١٠: سہل بن سعد (رض) نے عاصم (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے پاس عویمر (رض) آئے پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین سے جھوٹ بولنے والے کا علم ہوتا تو آپ ان کے مابین تفریق نہ فرماتے۔ اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ عورت یقیناً سچی ہے تو لعان نہ کراتے اور قذف کی وجہ سے خاوند کو حد لگاتے۔ اور اگر قطعی طور پر آپ کو معلوم ہوتا کہ مرد سچا ہے تو عورت کو زنا کی وجہ سے زنا کی حد جاری فرماتے کیونکہ وہ اس سے صادر ہوا۔ پس جب حاکم پر یہ بات مخفی ہو کہ ان میں سے سچا کون ہے تو دوسرا حکم یعنی لعان نافذ ہوتا ہے اور پر عورت کی شرمگاہ خاوند پر ظاہراً اور باطناً دونوں طرح حرام ہوتی ہے اور اسے باطنی حکم کی طرف لوٹایا نہیں جاتا۔ تو ان دونوں روایات سے جب دونوں لعان کرنے والوں کے متعلق یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ باقی صورتوں میں بھی حکم یہی رہے گا اور جن صورتوں میں اموال کا مالک بنانا نہیں ہوتا وہ ظاہر کے حکم پر ہوتا ہے باطن کے حکم پر نہیں ہوتا اور اس میں قاضی کا فیصلہ دونوں صورتوں میں تحریم و تحلیل دونوں کو پیدا کرتا ہے اور یہ حکم ان موال کے خلاف ہے جن میں ظاہر کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے اور وہ باطن میں اس کے خلاف ہوتا ہے۔ فلہذا پہلی روایات اموال کے فیصلہ سے متعلق ہیں اور دوسری فریق ثانی کی پیش کردہ روایات عقود وغیرہ ثابت کرنے اور ختم کرنے سے متعلق ہوں گی تاکہ روایات کے معانی میں اور احکام میں موافقت ہو اور تضاد نہ ہو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کے مابین جو فیصلہ فرمایا جو کہ آپس میں سودا کرتے تھے کہ اگر ان کے مابین قیمت میں اختلاف ہوجائے اور سامان (مبیع قائم ہو تو وہ ایک دوسرے کو قسم دیں اور سودا واپس کردیا جائے اسی طرح لونڈی فروخت کرنے والے کی طرف لوٹا دی جائے گی اور اس کے لیے اس کی شرمگاہ حلال ہوگی اور خریدار پر حرام ہوگی اور اگر اسے معلوم ہو کہ فلاں شخص جھوٹا ہے تو اس وقت وہ سچ بولنے والے کے قول کا اعتبار کر کے اس پر فیصلہ کر دے گا اور بیع کو فسخ کرنے کا فیصلہ نہ کرے گا اور نہ ہی فروخت کی جانے والی لونڈی کی شرمگاہ کو خریدار کے لیے حرام قرار دے گا۔ تو جب یہ فیصلہ اس طرح ہے جس طرح ہم نے بیان کیا ہے تو حرام یا حلال ٹھہرانے عقد نکاح کرنے یا اسے توڑنے (طلاق دینے) سے متعلق فیصلہ بھی اسی طرح ہوگا۔ کہ قاضی اس کے ظاہری حکم کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ باطنی حکم کے مطابق نہ ہوگا۔ یہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

6013

۶۰۱۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِیُّ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزِّنْجِیُّ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْبَیْلَمَانِیِّ قَالَ : کُنْتُ بِمِصْرَ فَقَالَ لِیْ رَجُلٌ : أَلَا أَدُلُّک عَلٰی رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَذَہَبَ بِیْ اِلٰی رَجُلٍ فَقُلْتُ :مِمَّنْ أَنْتَ یَرْحَمُک اللّٰہٗ؟ فَقَالَ : أَنَا سُرَّقٌ فَقُلْتُ :رَحِمَک اللّٰہُ مَا یَنْبَغِی لَک أَنْ تُسَمَّی بِہٰذَا الْاِسْمِ وَأَنْتَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمَّانِیْ سُرَّقًا فَلَنْ أَدَعَ ذٰلِکَ أَبَدًا .قُلْتُ :وَلِمَ سَمَّاک سُرَّقًا ؟ قَالَ : لَقِیَتْ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ بِبَعِیْرَیْنِ لَہٗ یَبِیْعُہُمَا فَابْتَعْتُہُمَا مِنْہُ وَقُلْتُ لَہٗ : انْطَلَقَ مَعِیْ حَتّٰی أُعْطِیَک فَدَخَلْتُ بَیْتِی ثُمَّ خَرَجْتُ مِنْ خَلَفٍ لِیْ وَقَضٰیْتُ بِثَمَنِ الْبَعِیْرَیْنِ حَاجَتِی وَتَغَیَّبْتُ حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّ الْأَعْرَابِیَّ قَدْ خَرَجَ .فَخَرَجَتْ وَالْأَعْرَابِیُّ مُقِیْمٌ فَأَخَذَنِیْ فَقَدَّمَنِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہٗ الْخَبَرَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَک عَلٰی مَا صَنَعْتُ؟ قُلْتُ :قَضٰیْتُ بِثَمَنِہِمَا حَاجَتِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .قَالَ فَاقْضِہِ قَالَ : قُلْتُ لَیْسَ عِنْدِی قَالَ أَنْتَ سُرَّقٌ اذْہَبْ بِہٖ یَا أَعْرَابِیُّ فَبِعْہُ حَتّٰی تَسْتَوْفِیَ حَقَّک .قَالَ : فَجَعَلَ النَّاسَ یَسُوْمُوْنَہُ فِیْ وَیَلْتَفِتُ اِلَیْہِمْ فَیَقُوْلُ : مَاذَا تُرِیْدُوْنَ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : نُرِیْدُ أَنْ نَبْتَاعَہُ مِنْکَ، فَنُعْتِقُہُ قَالَ : فَوَاللّٰہِ اِنْ مِنْکُمْ أَحَدٌ أَحْوَجُ اِلَیْہِ مِنِّیْ اذْہَبْ فَقَدْ أَعْتَقْتُک .
٦٠١١: زید بن اسلم نے عبدالرحمن بن بیلمانی سے روایت ہے کہ میں مصر میں تھا کہ ایک شخص نے مجھے کہا کیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی کے بارے میں تمہاری راہنمائی نہ کروں پھر وہ مجھے ایک شخص کے پاس لے گیا میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے آپ کون ہیں۔ انھوں نے کہا میں سرق ہوں میں نے کہا آپ پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ آپ کو یہ نام رکھنا مناسب نہ تھا۔ کیونکہ آپ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں انھوں نے فرمایا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا نام سرق رکھا ہے لہٰذا میں اسے کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا میں نے پوچھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کا نام سرق کیوں رکھا ہے انھوں نے فرمایا میں نے ایک دیہاتی شخص سے ملاقات کی اس کے پاس دو اونٹ تھے وہ انھیں بیچنا چاہتا تھا میں نے اس سے دونوں اونٹ خرید لیے اور اسے کہا کہ میرے ساتھ چل میں تجھے ادا کروں میں اپنے گھر میں داخل ہوا پھر میں اپنے مویشی خانہ کی طرف سے نکل گیا اور اونٹوں کی قیمت اپنی ضرورت پر خرچ کردی اور غائب ہوگیا یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ دیہاتی چلا گیا ہوگا تو میں باہر نکلا (دیکھا تو) دیہاتی کھڑا تھا اس نے مجھے پکڑا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آیا میں نے آپ کو واقعہ عرض کردیا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا میں نے عرض کیا کہ میں نے ان کی قیمت اپنی ضرورت میں خرچ کردی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا اسے ادا کر دو میں نے عرض کیا میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا تم سرق ہو۔ اے اعرابی ! اس کو لے جا کر فروخت کر دو حتیٰ کہ تم اپنا حق پورا وصول کرلو۔ اس پر صحابہ کرام میری بولی لگانے لگے اور وہ آدمی ان کی طرف دیکھتا تھا اور پوچھتا تھا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے تو وہ کہتے ہم اسے تم سے خریدنا چاہتے ہیں اس نے کہا اللہ کی قسم تم میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ اس کی حاجت نہیں رکھتا جاؤ میں نے تمہیں آزاد کردیا۔
مقروض کو قرض خواہوں کے مطالبہ پر غلام بنا کر فروخت نہیں کیا جاسکتا اس کے پاس موجود مال کو ان پر تقسیم کردیا جائے گا اور بقیہ کے لیے وہ انتظار کریں۔

6014

۶۰۱۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الرَّزَّاقِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ : حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ قَالَ : لَقِیْتُ رَجُلًا بِالْاِسْکَنْدَرِیَّۃِ یُقَالُ لَہٗ سُرَّقٌ فَقُلْتُ :مَا ہٰذَا الْاِسْمُ ؟ فَقَالَ : سَمَّانِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِمْت الْمَدِیْنَۃَ فَأَخْبَرْتُہُمْ أَنَّہٗ یَقْدُمُ لِیْ مَالٌ فَبَایَعُوْنِیْ فَاسْتَہْلَکْتُ أَمْوَالَہُمْ فَأَتَوْا بِی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتَ سُرَّقٌ فَبَاعَنِیْ بِأَرْبَعَۃِ أَبْعِرَۃٍ .فَقَالَ لَہٗ غُرَمَاؤُہُ : مَا یَصْنَعُ بِہٖ ؟ قَالَ أُعْتِقُہُ قَالُوْا : مَا نَحْنُ بِأَزْہَدَ فِی الْآخَرِ مِنْک فَأَعْتَقُوْنِی .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ بَیْعُ الْحُرِّ فِی الدَّیْنِ وَقَدْ کَانَ ذٰلِکَ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ یَبْتَاعُ مَنْ عَلَیْہِ دَیْنٌ فِیْمَا عَلَیْہِ مِنْ الدَّیْنِ اِذَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ مَالٌ یَقْضِیْہِ عَنْ نَفْسِہِ حَتّٰی نَسَخَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ فَقَالَ : وَاِنْ کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلَی مَیْسَرَۃٍ .وَقَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ فِی الَّذِی ابْتَاعَ الثِّمَارَ فَأُصِیْبَ بِہَا فَکَثُرَ دَیْنُہُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقُوْا فَتَصَدَّقَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَبْلُغْ ذٰلِکَ وَفَائَ دَیْنِہٖ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذُوْا مَا وَجَدْتُمْ وَلَیْسَ لَکُمْ اِلَّا ذٰلِکَ .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِاِسْنَادِہِ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا .فَفِی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِغُرَمَائِہِ لَیْسَ لَکُمْ اِلَّا ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ لَا حَقَّ لَہُمْ فِیْ بَیْعِہِ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَبَاعَہُ لَہُمْ کَمَا بَاعَ سُرَّقًا فِیْ دَیْنِہٖ لِغُرَمَائِہِ وَہٰذَا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ جَمِیْعًا رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .
٦٠١٢: زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اسکندریہ میں ایک آدمی سے میری ملاقات ہوئی جس کو سرق کہتے تھے میں نے اس سے پوچھا یہ کیسا نام ہے اس نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا یہ نام رکھا ہے میں مدینہ منورہ میں آیا اور ان لوگوں کو بتلایا کہ میرے پاس مال آنے والا ہے۔ پس میرے ساتھ لین دین کرو۔ میں نے ان کا مال ہلاک کردیا (یعنی خرچ کر ڈالا) پھر وہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آئے آپ نے فرمایا تم سرق ہو۔ آپ نے مجھے چار اونٹوں کے بدلے فروخت کردیا۔ اس (خریدنے والے) سے قرض خواہوں نے پوچھا اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گے اس نے کہا اسے آزاد کروں گا انھوں نے کہا ہم آخرت کے سلسلے میں تجھ سے زیادہ بےرغبت نہیں ہیں یعنی آخرت ہمیں بھی مطلوب ہے چنانچہ ان سب نے مجھے آزاد کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت میں قرض کے بدلے آزاد کو فروخت کردینے کا تذکرہ ہے جو ابتداء اسلام میں جائز تھا۔ مقروض کو قرض کے بدلے فروخت کردیا جاتا تھا جبکہ اس کے پاس مال نہ ہوتا جس سے وہ قرض کی رقم ادا کرسکے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور فرمایا : ” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ وان تصدقوا خیرلکم ان کنتم “ (البقرہ : ٢٨٠) کہ تنگدست کو خوشحالی تک مہلت دی جائے۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے متعلق فیصلہ فرمایا جس نے پھل خریدے اور آفت سے وہ تباہ ہوگئے اور اس پر بہت قرض ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے بھائی صدقہ کرو اس پر صدقہ کرنے کے باوجود اس کا قرض ادا نہ ہوسکا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اس کے پاس ہے وہ لے لو اور اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہ ہوگا یہ روایت ہم پہلے اسناد کے ساتھ ذکر کر آئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض خواہوں کو یہ فرمایا کہ تمہارے لیے صرف یہی ہے اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اس کو فروخت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ اسے ان کی خاطر فروخت کردیتے جیسا کہ حضرت سرق کو قرض خواہوں کے لیے قرض میں فروخت کیا تھا۔ یہ تمام اہل علم کا قول ہے۔ اس باب میں امام طحاوی (رح) نے یہ ذکر کیا کہ مقروض کو قرض کے بدلے فروخت نہیں کرسکتے اس کے پاس موجود چیز قرض خواہوں کو بانٹ دی جائے گی وہ تنگدستی دور ہونے تک انتظار کریں۔

6015

۶۰۱۳: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ یُوْسُفُ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ قَالَ: ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ اِسْحَاقَ بْنِ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَجُلًا جَائَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اِنَّ لِیْ مَالًا وَعِیَالًا وَاِنَّ لِأَبِیْ مَالًا وَعِیَالًا وَاِنَّہٗ یُرِیْدُ أَنْ یَأْخُذَ مَالِیْ اِلٰی مَالِہٖ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْتَ وَمَالُک لِأَبِیک .
٦٠١٣: ابن المنکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا میرے پاس مال اور عیال ہیں اور میرے والد کے بھی عیال اور مال ہے اور وہ میرا مال اپنے مال کے ساتھ ملانا چاہتا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی التجارات باب ٦٤‘ مسند احمد ٢‘ ١٧٩؍٢٠٤‘ ٢١٤۔
علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو بیٹا کمائے وہ تمام والد کا ہے ۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے : جو بیٹا کمائے وہ اسی کا ہوگا باپ کا اس میں دخل نہ ہوگا اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) اور صاحبین (رح) نے اختیار کیا ہے۔
فریق اول : بیٹے کی کمائی والد کی ملک ہے جیسا کہ اس روایت کا ظاہر دلالت کررہا ہے۔

6016

۶۰۱۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنَّ لِیْ مَالًا وَلِیْ وَلَدًا یُرِیْدُ أَنْ یَجْتَاحَ مَالِی .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْتَ وَمَالُک لِأَبِیک اِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوْا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ مَا کَسَبَہُ الْاِبْنُ مِنْ مَالٍ فَہُوَ لِأَبِیْھَاوَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا کَسَبَ الْاِبْنُ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ لَہٗ خَاصَّۃً دُوْنَ أَبِیْھَا.وَقَالُوْا قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰذَا لَیْسَ عَلَی التَّمْلِیکِ مِنْہُ لِلْأَبِ کَسْبُ الْاِبْنِ وَاِنَّمَا ہُوَ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِی لِلِابْنِ أَنْ یُخَالِفَ الْأَبَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ وَأَنْ تَجْعَلَ أَمْرَہُ فِیْہِ نَافِذًا کَأَمْرِہِ فِیْمَا یَمْلِکُ .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ أَنْتَ وَمَالُک لِأَبِیک فَلَمْ یَکُنْ الْاِبْنُ مَمْلُوْکًا لِأَبِیْھَابِاِضَافَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُ فَکَذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ مَالِکًا لِمَالِہِ بِاِضَافَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْہِ .
٦٠١٤: عمرو بن شعیب نے اپنے والد انھوں نے اپنے دادا سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی عرض کرنے لگا میرے پاس مال ہے اور میرا والد میرا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی سے ہے۔ پس تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو بیٹا کمائے وہ اس کے باپ کا مال ہے اور انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ دوسرے فریق کا مؤقف یہ ہے کہ بیٹا جو کمائے وہ صرف اسی کا ہوگا باپ کا نہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کا مطلب بیٹے کی کمائی کا والد کو مالک بنانا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو مناسب نہیں ہے کہ وہ اس مال کے متعلق باپ کے کسی حکم کی مخالفت کرے۔ بلکہ اسے اس کا حکم اس میں نافذ کرنا چاہیے جیسا کہ وہ اپنی ملکیت میں حکم نافذ کرتا ہے۔ ذرا غور تو فرمائیں کہ آپ نے فرمایا تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس نسبت کرنے سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ بیٹا باپ کا مملوک بن جاتا ہے۔ اسی طرح اس اضافت سے وہ مال کا بھی مالک نہ بنے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٧٧‘ نسائی فی البیوع باب ١‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٦٤‘ مسند احمد ٢؍٢١٤‘ ٦‘ ٤١؍٢٠١۔
مفہوم نسبت کی مزید وضاحت :

6017

۶۰۱۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا نَفَعَنِیْ مَالٌ قَطُّ مَا نَفَعَنِیْ مَالُ أَبِیْ بَکْرٍ .فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : اِنَّمَا أَنَا وَمَالِیْ لَک یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .فَلَمْ یُرِدْ أَبُوْبَکْرٍ بِذٰلِکَ أَنَّ مَالَہٗ مِلْکٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنَہُ وَلٰـکِنَّہٗ أَرَادَ أَنَّ أَمْرَہُ یَنْفُذُ فِیْہِ وَفِیْ نَفْسِہٖ۔ فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ أَنْتَ وَمَالُک لِأَبِیک فَہُوَ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرُمَ أَمْوَالُ الْمُسْلِمِیْنَ کَمَا حَرُمَ دِمَاؤُہُمْ وَلَمْ یُسْتَثْنَ فِیْ ذٰلِکَ وَالِدًا وَلَا غَیْرَہُ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ
٦٠١٥: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا کہ ابوبکر (رض) کے مال نے فائدہ دیا تو اس پر ابوبکر (رض) کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اور میرا مال آپ ہی کا ہے۔ اس سے حضرت ابوبکر (رض) کی مراد یہ نہیں کہ ان کا مال ان کی ملکیت سے نکل کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت میں داخل ہوگیا اور ان کی اپنی ملک اس پر نہیں رہی۔ بلکہ اس کا صاف مطلب یہی ہے آپ کا حکم اس مال اور جان میں نافذ ہے۔ اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی کہ تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے۔ کا بھی یہی مفہوم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے مال کو اسی طرح قابل احترام قرار دیا جیسا کہ ان کے خون کو قابل عزت قرار دیا اور اس سلسلے میں والد وغیرہ کو مستثنیٰ نہیں فرمایا۔ حرمت مال و خون کی روایات یہ ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی المقدمہ باب ١١‘ مسند احمد ٢‘ ٢٥٣؍٣٦٦۔

6018

۶۰۱۶: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ح
٦٠١٦: ابو بکرہ نے ابو داؤد سے بیان کیا۔

6019

۶۰۱۷: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَیَعْقُوْبُ بْنُ اِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ مُرَّۃَ بْنِ شَرَاحِیْلَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَحْسِبُہُ قَالَ فِیْ غَزْوَتِیْ ہٰذِہِ قَالَ : قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ہَلْ تَدْرُوْنَ أَیَّ یَوْمٍ ہٰذَا ؟ قَالُوْا : نَعَمْ یَوْمُ النَّحْرِ قَالَ صَدَقْتُمْ یَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ .قَالَ ہَلْ تَدْرُوْنَ أَیَّ شَہْرٍ ہٰذَا ؟ قَالُوْا : نَعَمْ ذُو الْحِجَّۃِ قَالَ صَدَقْتُمْ شَہْرُ اللّٰہِ الْأَصَمُّ .ہَلْ تَدْرُوْنَ أَیَّ بَلَدٍ ہٰذَا ؟ قَالُوْا : نَعَمُ الْمَشْعَرُ الْحَرَامُ قَالَ صَدَقْتُمْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَحْسِبُہُ قَالَ : وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا .
٦٠١٧: مرہ بن شراحیل کہتے ہیں کہ مجھے ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا اور میرا خیال ہے کہ انھوں نے اس طرح فرمایا ہمارے اس غزوہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ یہ قربانی کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا۔ یہ حج اکبر کا دن ہے پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کون سا مہینہ ہے۔ انھوں نے عرض کیا جی ہاں یہ ذوالحجہ کا مہینہ ہے آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ اللہ تعالیٰ کا اصم مہینہ ہے کیا تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے۔ انھوں نے کہا ہاں۔ یہ مشعر حرام ہے آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا پھر فرمایا بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال یہ ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح تمہارے اس ماہ اور تمہارے اس شہر میں آج کے دن کی حرمت و عزت ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤١٢۔

6020

۶۰۱۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ الْبَکْرَاوِیُّ ہُوَ ابْنُ خَلِیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ یَوْمَ النَّحْرِ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اِنَّ أَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ وَدِمَائَ کُمْ حَرَامٌ بَیْنَکُمْ فِیْ مِثْلِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ مِثْلِ بَلَدِکُمْ ہٰذَا أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ .
٦٠١٨: عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں جو یوم نحر کو آپ نے ارشاد فرمایا۔ یہ بات فرمائی۔ ” ان اموالکم “ بیشک تمہارے اموال اور عزتیں اور تمہارے خون اپنے درمیان حرام ہیں جیسا کہ آج کا دن تمہارے اس شہر میں حرمت والا ہے۔ سنو ! تم میں سے موجود غیر موجود کو یہ پیغام پہنچا دے۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٩؍٣٧‘ والاضاحی باب ٥‘ والمغازی باب ٧٧‘ مسلم فی القسامہ ٢٩؍٣٠‘ ترمذی فی الفتن باب ٢‘ تفسیر سورة ٩‘ ابن ماجہ فی المناسک باب ٧٦‘ دارمی فی المناسک باب ٧٢‘ مسند احمد ١؍٢٣٠‘ ٤؍٣٣٧‘ ٥‘ ٧٣‘ ٤٠‘ ٣٩‘ ٧٢۔

6021

۶۰۱۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِی قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَوْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ وَأُرَاہُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اِنَّ أَعْظَمَ الْأَیَّامِ حُرْمَۃً ہٰذَا الْیَوْمُ وَاِنَّ أَعْظَمَ الشُّہُوْرِ حُرْمَۃً ہٰذَا الشَّہْرُ وَاِنَّ أَعْظَمَ الْبُلْدَانِ حُرْمَۃً ہٰذَا الْبَلَدُ وَاِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ ہٰذَا الْیَوْمِ وَہٰذَا الشَّہْرِ وَہٰذَا الْبَلَدِ ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا : نَعَمْ قَالَ : اللّٰہُمَّ اشْہَدْ .
٦٠١٩: ابو صالح نے حضرت ابو سعید خدری (رض) یا حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے اور میرا خیال یہ ہے کہ ابو سعید خدری (رض) ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا بلاشبہ عظمت کے لحاظ سے سب سے بڑا دن یہ دن ہے اور عظمت کے لحاظ سے سب سے زیادہ عظمت والا یہ مہینہ ہے اور عظمت کے لحاظ سے سب سے زیادہ عظمت والا شہر یہ ہے۔ بیشک تمہارے خون اور مال تم پر اس طرح معظم ہیں جس طرح آج کا یہ دن عظمت والا ہے اور یہ مہینہ عظمت والا اور یہ شہر عظمت والا ہے کیا میں نے پیغام خداوندی پہنچا دیا انھوں نے کہا جی ہاں۔ تو آپ نے کہا اے اللہ تو گواہ رہنا۔

6022

۶۰۲۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَہُمْ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَالَ أَلَا اِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ اِلٰی أَنْ تَلْقَوْا رَبَّکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا
٦٠٢٠: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا لوگو ! سنو ! بلاشبہ تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔ یہاں تک کہ تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو (یعنی فوت آئے) یہ اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں آج کا دن حرمت والا ہے۔

6023

۶۰۲۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا دُحَیْمُ بْنُ الْیَتِیْمِ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا ہِشَامُ بْنُ الْغَارِ الْجُرَشِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٠٢١: نافع نے ابن عمر (رض) سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا۔ پھر اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

6024

۶۰۲۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا رَبِیْعَۃُ بْنُ کُلْثُوْمِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبِی قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَادِیَۃَ الْجُہَنِیَّ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٠٢٢: کلثوم بن جبر کہتے ہیں کہ میں نے ابو غادیہ جہنی (رض) سے سنا کہ ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6025

۶۰۲۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَارِفِ بْنِ شَبِیْبِ بْنِ عُرْوَۃَ أَبُو عُرْوَۃَ عَنْ شَبِیْبِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ : خَطَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُرْمَۃَ الْأَمْوَالِ کَحُرْمَۃِ الْأَبْدَانِ .فَکَمَا لَا یَحِلُّ أَبْدَانُ الْأَبْنَائِ لِلْآبَائِ اِلَّا بِالْحُقُوْقِ الْوَاجِبَۃِ فَکَذٰلِکَ لَا یَحِلُّ لَہُمْ أَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِالْحُقُوْقِ الْوَاجِبَۃِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : نُرِیْدُ أَنْ یُوْجَدَ مَا ذَکَرْتُ فِی الْأَبِ مَنْصُوْصًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قُلْتُ :
٦٠٢٣: شبیب بن عروہ نے سلیم بن عمرو بن احوص (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے دن خطبہ ارشاد فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کی حرمت کو بدن کی حرمت کی طرح قرار دیا پس جس طرح بیٹوں کے ابدان اباء کے لیے حلال نہیں مگر حقوق واجبہ کے ذریعہ بالکل اسی طرح اولاد کے اموال بھی ان کے لیے حقوق واجبہ کے بغیر حلال نہیں۔ اگر کوئی معترض کہے کہ آپ نے جو بات ذکر فرمائی ہے یہ منصوص چاہیے (فقط قیاس بلادلیل تو معتبر نہیں)
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کی حرمت کو بدن کی حرمت کی طرح قرار دیا پس جس طرح بیٹوں کے ابدان اباء کے لیے حلال نہیں مگر حقوق واجبہ کے ذریعہ بالکل اسی طرح اولاد کے اموال بھی ان کے لیے حقوق واجبہ کے بغیر حلال نہیں۔
سوال : آپ نے جو بات ذکر فرمائی ہے یہ منصوص چاہیے (فقط قیاس بلادلیل تو معتبر نہیں)
جواب : لیجئے منصوص ملاحظہ ہو۔ فتدبر و تشکر

6026

۶۰۲۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ أَیُّوْبَ عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِیِّ عَنْ عِیْسَی بْنِ ہِلَالٍ الصَّدَفِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ : أُمِرْتُ بِیَوْمِ الْأَضْحَیْ عِیْدٍ جَعَلَہٗ اللّٰہُ لِہٰذِہِ الْأُمَّۃِ .فَقَالَ الرَّجُلُ : أَفَرَأَیْتُ اِنْ لَمْ أَجِدْ اِلَّا مَنِیْحَۃَ ابْنِیْ أَفَأُضَحِّی بِہَا .قَالَ : لَا وَلٰـکِنَّک تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِکَ وَأَظْفَارِکَ وَتَقُصُّ شَارِبَکَ وَتَحْلِقُ عَانَتَک فَذٰلِکَ تَمَامُ أُضْحِیَّتِک عِنْدَ اللّٰہِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا قَالَ ہٰذَا الرَّجُلُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أُضَحِّی بِمَنِیْحَۃِ ابْنِیْ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا .وَقَدْ أَمَرَہُ أَنْ یُضَحِّیَ مِنْ مَالِہِ وَحَضَّہُ عَلَیْہِ - دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ مَالِ ابْنِہِ خِلَافُ مَالِہٖ .مَعَ أَنَّ أَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا حَمْلُ ہٰذِہِ الْآثَارِ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی لِأَنَّ کِتَابَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یُوْصِیکُمُ اللّٰہُ فِیْ أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ ثُمَّ قَالَ وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ .فَوَرَّثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ غَیْرَ الْوَلَدِ مَعَ الْوَالِدِ مِنْ مَالِ الْاِبْنِ فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ الْمَالُ لِلْأَبِ فِیْ حَیَاۃِ الْاِبْنِ ثُمَّ یَصِیرُ بَعْضُہٗ لِغَیْرِ الْأَبِ .قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصِی بِہَا أَوْ دَیْنٍ فَجَعَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَوَارِیْثَ لِلْوَالِدِ وَغَیْرِہِ بَعْدَ قَضَائِ دَیْنٍ اِنْ کَانَ عَلَی الْمَیِّتِ وَبَعْدَ اِنْفَاذِ وَصَایَاہُ مِنْ ثُلُثِ مَالِہٖ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْأَبَ لَا یَقْضِی مِنْ مَالِہِ دَیْنَ ابْنِہِ وَلَا یُنَفِّذُ وَصَایَا أَبِیْھَامِنْ مَالِہِ فَفِیْ ذٰلِکَ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ الْاِبْنَ اِذَا مَلَکَ مَمْلُوْکَۃً حَلَّ لَہٗ أَنْ یَطَأَہَا وَہِیَ مِمَّنْ أَبَاحَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہٗ وَطْأَہَا بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَلَوْ کَانَ مَالُہُ لِأَبِیْہَ اِذًا لَحُرُمَ عَلَیْہِ وَطْئُ مَا کَسَبَ مِنَ الْجَوَارِیْ کَحُرْمَۃِ وَطْئِ جِوَارِی أَبِیْھَاعَلَیْہِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلَی انْتِفَائِ مِلْکِ الْأَبِ لِمَالِ الْاِبْنِ وَأَنَّ مِلْکَ الْاِبْنِ فِیْہِ ثَابِتٌ دُوْنَ أَبِیْھَا.وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .
٦٠٢٤: عیسیٰ بن ہلال صدفی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو فرمایا کہ مجھے قربانی کے دن کو عید بنانے کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اس امت کے لیے عید بنایا ہے اس نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا کیا خیال ہے اگر میرے پاس صرف اپنے بیٹے کی دودھ والی اونٹنی ہو کیا میں اس کی قربانی کرسکتا ہوں آپ نے فرمایا نہیں۔ لیکن تم اپنے بال اور ناخن کاٹ لو اور اپنی مونچھوں کے بال لے لو اور زیر ناف کو صاف کرو۔ پس یہی اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہاری قربانی کی تکمیل ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ذرا توجہ فرمائیں کہ جب یہ کہتا ہے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں اپنے بیٹے کی دودھ والی اونٹنی کی قربانی کرسکتا ہوں ؟ آپ نے منع فرمایا بلکہ اسے اس کے اپنے مال سے قربانی کا حکم فرمایا اس سے یہ دلالت مل گئی کہ بیٹے کے مال کا حکم اپنے مال کے حکم سے مختلف ہے۔ ہمارے لیے سب سے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ان آثار کا یہ معنی لیا جائے کیونکہ قرآن مجید کی دلالت اسی کے لیے راہنمائی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” یوصیکم اللہ فی اولادکم “ (النساء ١١) پھر فرمایا ” ولابویہ لکل واحد منہما السدس “ (النساء : ١١) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس والد کے ساتھ اولاد کے علاوہ کو بیٹے کے ترکہ میں حصہ دار بنایا ہے اگر مال بیٹے کی زندگی میں ہی والد کا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ زندگی کے بعد اس کا کچھ حصہ باپ کے علاوہ کی طرف چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین “ (النساء : ١٢) اللہ تعالیٰ نے میراث میں قضاء دین کے بعد والد اور دوسروں کا حصہ مقرر فرمایا جو کہ اس کے ثلث مال میں بطور وصیت نافذ ہوگا۔ باپ کے مال سے بیٹے کا قرضہ ادا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی والد کی وصیت بیٹے کے مال میں نافذ ہوسکتی ہے۔ اس میں ہمارے قول پر دلالت پائی جاتی ہے (کہ باپ بیٹے کے مال کا مالک نہیں بنتا) جب بیٹا کسی لونڈی کا مالک بن جائے تو اس کو اس سے وطی حلال ہے اور یہ موطؤہ لونڈی اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حلال کی ہے فرمایا ” والذین ہم لفروجہم حافظون الاعلی ازواجہم او ماملکت ایمانہم “ (المؤمنون ٦) اگر وہ والد کا مال ہوتا تو اس پر ان لونڈیوں سے وطی حرام ہوتی جو بھی اپنی کمائی میں سے حاصل کرتا جس طرح کہ والد کی لونڈیوں سے بیٹے کو وطی حرام ہے۔ یہ ہے کہ اس سے ثابت ہوگیا کہ باپ بیٹے کے مال کا مالک نہیں اور بیٹا ہی اپنے مال کا مالک ہے نہ کہ والد۔ (اگر وہ اس کی اپنی ملک یمین تھی تو حرمت وطی چہ معنی دارد فتدبر) یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے۔
تخریج : نسائی فی الضحایا باب ٢‘ مسند احمد ٢؍١٦٩۔
یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) نے فریق ثانی کے مؤقف کو دلائل نقلیہ سے جو واضح کیا ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ والد بیٹے کے مال کا مالک نہیں حق استعمال و تصرف الگ چیز ہے۔ (مترجم)

6027

۶۰۲۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، قَالَتْ : دَخَلَ مُجَزِّزٌ الْمُدْلِجِیُّ ، عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَأَی أُسَامَۃَ وَزَیْدًا ، وَعَلَیْہِمَا قَطِیْفَۃٌ قَدْ غَطَّیَا رُئُ وْسَہُمَا ، فَقَالَ : اِنَّ ہٰذِہِ الْأَقْدَامَ ، بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ ، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسْرُوْرًا .
٦٠٢٥: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مجزز مدلجی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں داخل ہوئے چنانچہ اس سے اسامہ اور زید (رض) کو ایک دھاری دار چادر میں لپٹے دیکھا ان کے سر ڈھنپے ہوئے تھے تو وہ کہنے لگا یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں بڑے خوش خوش داخل ہوئے۔
تخریج : بخاری فی الفرائض باب ٣١‘ مسلم فی الرضاع ٣٩‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٣١‘ نسائی فی الطلاق باب ٨١‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٢١‘ مسند احمد ٦؍٣٨۔
قیافہ شناس کی بات کے مطابق نسب کا فیصلہ ہوسکتا ہے اس قول کو بعض علماء نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے قیافہ شناس کے قول کا نہ نسب میں اعتبار ہے اور نہ دیگر معاملات میں۔ اس قول کو ائمہ ثلاثہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

6028

۶۰۲۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسْرُوْرًا ، تَبْرُقُ أَسَارِیْرُ وَجْہِہٖ، فَقَالَ أَلَمْ تَرٰی أَنَّ مُجَزِّزًا ، نَظَرَ آنِفًا اِلَی زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ وَأُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، فَقَالَ : اِنَّ بَعْضَ ہٰذِہِ الْأَقْدَامِ ، مِنْ بَعْضٍ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَاحْتَجَّ قَوْمٌ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَزَعَمُوْا أَنَّ فِیْہِ مَا قُدِّرَ لَہُمْ أَنَّ الْقَافَۃَ ، یُحْکَمُ بِقَوْلِہِمْ ، وَیَثْبُتُ بِہٖ الْأَنْسَابُ .قَالُوْا : وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَأَنْکَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مُجَزِّزٍ ، وَلَقَالَ لَہٗ : وَمَا یُدْرِیْکَ ؟ .فَلَمَّا سَکَتَ ، وَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہٖ، دَلَّ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ ، مِمَّا یُؤَدِّیْ اِلٰی حَقِیْقَۃٍ ، یَجِبُ بِہَا الْحُکْمُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ أَنْ یُحْکَمَ بِقَوْلِ الْقَافَۃِ فِیْ نَسَبٍ ، وَلَا غَیْرِہٖ۔ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ سُرُوْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِ مُجَزِّزٍ الْمُدْلِجِیِّ ، الَّذِیْ ذٰکَرُوْا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ ، لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا تَوَہَّمُوْا ، مِنْ وَاجِبِ الْحُکْمِ بِقَوْلِ الْقَافَۃِ ، لِأَنَّ أُسَامَۃَ قَدْ کَانَ نَسَبُہٗ، ثَبَتَ مِنْ زَیْدٍ قَبْلَ ذٰلِکَ .وَلَمْ یَحْتَجَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی قَوْلِ أَحَدٍ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَمَا کَانَ دُعِیَ أُسَامَۃُ فِیْمَا تَقَدَّمَ اِلَی زَیْدٍ .اِنَّمَا تَعَجَّبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنْ اِصَابَۃِ مُجَزِّزٍ ، کَمَا یَتَعَجَّبُ مِنْ ظَنِّ الرَّجُلِ الَّذِیْ یُصِیْبُ بِظَنِّہٖ، حَقِیْقَۃَ الشَّیْئِ الَّذِی ظَنَّہٗ وَلَا یَجِبُ الْحُکْمُ بِذٰلِکَ .فَتَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْاِنْکَارَ عَلَیْہٖ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَتَعَاطَ بِقَوْلِہٖ ذٰلِکَ ، اِثْبَاتَ مَا لَمْ یَکُنْ ثَابِتًا فِیْمَا تَقَدَّمَ ، فَہٰذَا مَا یَحْتَمِلُہُ ہٰذَا الْحَدِیْثُ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ أَمْرِ الْقَافَۃِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مَا یَدُلُّ عَلَی غَیْرِ ہٰذَا .
٦٠٢٦: ابن شہاب نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں بڑے خوش خوش تشریف لائے آپ کے چہرہ مبارک کے بل خوشی سے چمک رہے تھے اور فرمایا کیا تم نے غور نہیں کیا کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید (رض) کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں (یعنی باپ بیٹے کے پاؤں ہیں اور ملتے جلتے ہیں) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس روایت سے بعض لوگوں نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ قیافہ شناس لوگوں کے قول سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور اس سے نسب بھی ثابت ہوجائے گا اگر یہ بات نہ ہوتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجزز کی بات کا انکار کرتے اور اس کو ضرور فرماتے تمہیں کیا معلوم ہے ؟ پس جب آپ نے خاموشی اختیار فرمائی اور انکار نہیں فرمایا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اس کی یہ بات حقیقت کی نشاندہی کرنے والی ہے اس پر حکم و فیصلہ لازم ہے۔ نسب میں اہل قیافہ کے قول کا اعتبار نہیں اور دوسرے معاملات میں بھی یہی حکم ہے۔ مجزز مدلجی کی بات پر جناب عائشہ صدیقہ (رض) نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس خوشی کا تذکرہ کیا ہے اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اہل قیافہ کی بات پر عمل واجب ہے۔ کیونکہ اسامہ (رض) کا نسب تو زید (رض) سے اس سے پہلے ہی ثابت تھا۔ اس میں آپ کو کسی کے قول کی حاجت نہ تھی اگر یہبات نہ ہوتی تو اسامہ بن زید کہہ کر نہ پکارے جاتے۔ بس اتنی بات ہے کہ آپ کو تعجب اس بات پر ہوا کہ مجزز نے اپنے قیافہ درست بات کو پا لیا یہ اسی طرح جیسا کہ کوئی آدمی اپنے گمان کے درست بیٹھنے پر تعجب کرتا ہے اور اس سے کسی چیز پر حکم لگانا لازم نہیں آتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قول پر انکار کو اس لیے ترک فرمایا کہ آپ کا اس سے پہلے ہی ثابت شدہ چیز کو کوئی ثابت کرنا مقصود نہ تھا۔ اس بات کا احتمال اس روایت میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہے جو حضرت عائشہ (رض) نے قیافہ شناسوں کے متعلق نقل فرمایا ہے۔ روایت یہ ہے۔ دیکھیں ان روایات میں حضرت عمر (رض) نے قیافہ شناس کے قیافہ کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ پس ہم نے مجزز کی روایت میں ہم نے جو تاویل کی ہے یہ اس کے موافق ہے۔ اس روایت میں تو تمہارے قول کے بطلان کی دلیل موجود ہے کہ قیافہ شناس نے کہا یہ ان دونوں سے ہے تو حضرت عمر (رض) نے اس طرح قرار نہ دیا اور اس بچے کو فرمایا ان میں سے جس سے چاہو مل جاؤ۔ جیسا کہ کسی ایک بچے پر دو آدمی دعویٰ کریں پھر ایک اقرار کرے تو واجب ہے کہ بچہ اسی کا قرار دیا جائے۔ تو جب حضرت عمر (رض) نے اس سے اس بچے کے حکم کی طرف لوٹایا جس پر دو آدمی دعویٰ کریں اور حاکم کے پاس قیافہ شناس نہ ہو۔ آپ نے اسے قیافہ شناس کے قول کی طرف نہیں لوٹایا تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ قیافہ شناسوں کے قول سے کسی کا نسب ثابت نہیں ہوتا۔ صحیح سند سے حضرت عمر (رض) کا قول یہ ہے کہ یہ بچہ دونوں سے ہے۔
تخریج : بخاری فی المناقب باب ٢٣‘ فضل فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب ١٧‘ مسلم فی الرضاع ٣٨؍٤٠‘ ابو داؤد فی الطلاق باب ٣١‘ ترمذی فی الولاء باب ٥‘ نسائی فی الطلاق باب ٥١‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٢١‘ مسند احمد ٦؍٨٢۔

6029

۶۰۲۷: حَدَّثَنَا ابْنُ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ ، أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، أَخْبَرَتْہُ أَنَّ النِّکَاحَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ عَلٰی أَرْبَعَۃِ أَنْحَائٍ : .فَمِنْہُ أَنْ یَجْتَمِعَ الرِّجَالُ الْعَدَدُ ، عَلَی الْمَرْأَۃِ ، لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَائَ ہَا ، وَہُنَّ الْبَغَایَا ، وَکُنَّ یَنْصِبْنَ عَلٰی أَبْوَابِہِنَّ رَایَاتٍ فَیَطَؤُہَا کُلُّ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہَا ، فَاِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ حَمْلَہَا ، جُمِعَ لَہُمُ الْقَافَۃُ ، فَأَیُّہُمْ أَلْحَقُوْھُ بِہٖ ، کَانَ أَبَاہٗ، وَدُعِیَ ابْنَہٗ، لَا یَمْتَنِعُ مِنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا بَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ ، ہَدَمَ ذٰلِکَ النِّکَاحَ الَّذِیْ کَانَ یَکُوْنُ فِیْہِ ذٰلِکَ الْحُکْمُ ، وَأَقَرَّ النَّاسَ عَلَی النِّکَاحِ الَّذِی لَا یَحْتَاجُ فِیْہِ اِلَی قَوْلِ الْقَافَۃِ ، وَجَعَلَ الْوَلَدَ لِأَبِیْہَ الَّذِیْ یَدَّعِیْہٖ، فَیَثْبُتُ نَسَبُہٗ بِذٰلِکَ ، وَنُسِخَ الْحُکْمُ الْمُتَقَدِّمُ ، الَّذِیْ کَانَ یُحْکَمُ فِیْہِ بِقَوْلِ الْقَافَۃِ .وَقَدْ کَانَ أَوْلَادُ الْبَغَایَا ، الَّذِیْنَ وُلِدُوْا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، مَنْ ادَّعَی أَحَدًا مِنْہُمْ فِی الْاِسْلَامِ ، لَحِقَ بِہٖ .
٦٠٢٧: عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار قسم کا ہوتا تھا۔
نمبر 1: کئی آدمی ایک عورت کے پاس جاتے وہ کسی کو بھی اپنے سے منع نہ کرتی یہ زانیہ عورتوں کا طریق کار تھا۔ وہ اپنے دروازوں پر بطور نشان جھنڈے لگاتی تھیں ہر جانے والا ان سے وطی کرتا جب کسی سے حمل ٹھہر جاتا پھر وہ بچہ جنتی تو قیافہ شناس جمع ہو کر اس بچے کو کسی کے ساتھ ملا دیتے وہی اس کا باپ شمار ہوتا تھا اور وہ اس کا بچہ کہلاتا اس سے نسبت سے منع نہ کیا جاتا تھا جب اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا تو آپ نے اس قسم نکاح کو ختم کردیا آپ نے اس نکاح کو برقرار رکھا جس میں کسی قیافہ شناس کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بچہ اس کے والد کے لیے قرار دیا جاتا جو اس کا مدعی ہوتا تھا اور اسی سے اس کا نسب ثابت ہوتا اور وہ پہلا حکم جس میں قیافہ شناس کے ول سے فیصلہ ہوتا آپ نے اس کو منسوخ کردیا اور ان زانیہ عورتوں کی جو اولاد دور جاہلیت میں پیدا ہوئی اسلام میں جس نے اس کا دعویٰ کیا اس کے ساتھ اس کو ملا دیا گیا۔

6030

۶۰۲۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ .
٦٠٢٨: مالک نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا ہے۔

6031

۶۰۲۹: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا أَنَسٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : مَالِکٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، وَقَالَ أَنَسٌ : أَخْبَرَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ ، أَنَّ عُمَرَ کَانَ یُنِیطُ أَہْلَ الْجَاہِلِیَّۃِ بِہِنَّ مَنْ ادَّعَی بِہِمْ فِی الْاِسْلَامِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یُلْحَقُوْنَ بِہِمْ بِقَوْلِ الْقَافَۃِ ، فَیَکُوْنُ قَوْلُہُمْ کَالْبَیِّنَۃِ ، الَّتِیْ تَشْہَدُ عَلٰی ذٰلِکَ .فَلَوْ کَانَ قَوْلُہُمْ مُسْتَعْمَلًا فِی الْاِسْلَامِ ، کَمَا کَانَ مُسْتَعْمَلًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، اِذًا لَمَا قَالَتْ عَائِشَۃُ : اِنَّ ذٰلِکَ مِمَّا ہُدِمَ ، اِذَا کَانَ قَدْ یَجِبُ بِہٖ عُلِمَ أَنَّ الصَّبِیَّ مِمَّنْ وَطِئَ أَمَۃً مِنْ الرِّجَالِ فَفِیْ نَسْخِ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ قَوْلَہُمْ : لَمْ یَجِبْ بِہٖ حُکْمٌ بِثُبُوْتِ النَّسَبِ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی بِقَوْلِہِمْ أَیْضًا بِمَا
٦٠٢٩: سلیمان بن یسار نے بتلایا کہ حضرت عمر (رض) اہل جاہلیت کو ان لوگوں کے ساتھ ملا دیتے تھے جو اسلام کے زمانہ میں ان کا دعویدار بنتا۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ قیافہ شناس لوگوں کے قول سے (ان دعویٰ کرنے والوں) کے ساتھ نہیں ملاتے تھے کہ ان کے قول کو گواہی کہیں جس سے وہ گواہی دیتے اگر زمانہ جاہلیت کی طرح اسلام میں بھی یہ طریق مستعمل ہوتا تو حضرت عائشہ (رض) یہ نہ فرماتیں کہ یہ طریقہ اسلام میں ختم ہوگیا بلکہ اس سے یہ بات معلوم کرنا ضروری تھا کہ یہ بچہ وطی کرنے والے مردوں میں سے کس کا ہے۔ تو اس کے منسوخ ہونے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان قیافہ شناسوں کے قول سے ثبوت نسب کا فیصلہ واجب نہیں۔
فریق اول کی ایک اول دلیل : سلیمان بن یسار کی یہ روایت ہے۔

6032

۶۰۳۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، أَنَّ رَجُلَیْنِ أَتَیَا عُمَرَ ، کِلَاہُمَا یَدَّعِی وَلَدَ امْرَأَۃٍ .فَدَعَا لَہُمَا رَجُلًا مِنْ بَنِیْ کَعْبٍ ، قَائِفًا ، فَنَظَرَ اِلَیْہِمَا ، فَقَالَ لِعُمَرَ : لَقَدْ اشْتَرَکَا فِیْہِ فَضَرَبَہُ عُمَرُ بِالدِّرَّۃِ ، ثُمَّ دَعَا الْمَرْأَۃَ ، فَقَالَ : أَخْبِرِینِیْ خَبَرَکَ ، قَالَتْ : کَانَ ہٰذَا لِأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ یَأْتِیہَا ، وَہِیَ فِیْ اِبِلِ أَہْلِہَا فَلَا یُفَارِقُہَا ، حَتّٰی تَظُنَّ أَنْ قَدْ اسْتَمَرَّ بِہَا حَمْلٌ ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ عَنْہَا فَأَہْرَاقَتْ عَلَیْہِ دَمًا ، ثُمَّ خَلَفَہَا ذَا ، تَعْنِی الْآخَرَ ، فَلَا یُفَارِقُہَا حَتّٰی اسْتَمَرَّ بِہَا حَمْلٌ ، لَا یَدْرِی مِمَّنْ ہُوَ ، فَکَبَّرَ الْکَعْبِیُّ ، فَقَالَ عُمَرُ لِلْغُلَامِ وَالِ أَیَّہُمَا شِئْت .
٦٠٣٠: سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے دونوں ایک عورت کے بچے سے متعلق دعویٰ کر رہے تھے آپ نے بنو کعب کے ایک قیافہ شناس کو بلایا اس نے دونوں کو دیکھا اور حضرت عمر (رض) کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ دونوں اس بچے میں شریک ہیں تو حضرت عمر (رض) نے اس کو درہ سے مارا۔ پھر عورت کو بلا کر فرمایا مجھے اپنی خبر بتاؤ اس نے کہا یہ ان دو میں سے ایک کا ہے وہ اس کے پاس آیا جبکہ وہ اپنے گھریلو اونٹوں کے پاس تھی۔ وہ اس سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے گمان کیا کہ اسے حمل ٹھہر گیا ہے پھر وہ اس سے پھر گیا۔ اس نے اس پر خون بہا یا (حیض آیا) پھر وہ دوسرا اس کے پاس آیا وہ جدا نہ ہوا حتیٰ کہ اسے حمل ٹھہر گیا۔ نامعلوم یہ کس کا ہے تو کعبی قیافہ شناس نے اللہ اکبر کہا اور حضرت عمر (رض) نے بچے سے فرمایا ان میں سے جس سے چاہے مل جا۔
تخریج : مالک فی الاقضیہ ٢٢۔

6033

۶۰۳۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، عَنْ مَالِکٍ حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٠٣١: یحییٰ بن سعدی نے سلیمان سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6034

۶۰۳۲: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : أَتَیْ رَجُلَانِ اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یَخْتَصِمَانِ فِیْ غُلَامٍ مِنْ وِلَادَۃِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، یَقُوْلُ ہٰذَا : ہُوَ ابْنِیْ، وَیَقُوْلُ ہٰذَا : ہُوَ ابْنِی .فَدَعَا لَہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَائِفًا مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ ، فَسَأَلَہٗ عَنِ الْغُلَامِ ، فَنَظَرَ اِلَیْہِ الْمُصْطَلِقِیُّ ، ثُمَّ قَالَ لِعُمَرَ : وَالَّذِی أَکْرَمَکَ، اِنَّہُمَا قَدْ اشْتَرَکَا فِیْہِ جَمِیْعًا .فَقَامَ اِلَیْہِ عُمَرُ فَضَرَبَہٗ بِالدِّرَّۃِ حَتّٰی ضَجَعَ ثُمَّ قَالَ : وَاللّٰہِ، لَقَدْ ذَہَبَ بِک النَّظَرُ اِلَی غَیْرِ مَذْہَبٍ .ثُمَّ دَعَا أُمَّ الْغُلَامِ فَسَأَلَہَا ، فَقَالَتْ : اِنَّ ہٰذَا لِأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ ، قَدْ کَانَ غَلَبَ عَلَیَّ النَّاسُ ، حَتّٰی وَلَدْتُ لَہٗ أَوْلَادًا ، ثُمَّ وَقَعَ بِیْ عَلٰی نَحْوِ مَا کَانَ یَفْعَلُ ، فَحَمَلْت ، فِیْمَا أَرَی ، فَأَصَابَنِیْ ہِرَاقَۃٌ مِنْ دَمٍ ، حَتّٰی وَقَعَ فِیْ نَفْسِی أَنْ لَا شَیْئَ فِیْ بَطْنِیْ، ثُمَّ اِنَّ ہٰذَا الْآخَرَ ، وَقَعَ بِی ، فَوَاللّٰہِ مَا أَدْرِی مِنْ أَیِّہِمَا ہُوَ ؟ .فَقَالَ عُمَرُ لِلْغُلَامِ اتَّبِعْ أَیَّہُمَا شِئْت فَاتَّبَعَ أَحَدَہُمَا .قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ حَاطِبٍ : فَکَأَنِّیْ أَنْظُرُ اِلَیْہِ مُتَّبِعًا لِأَحَدِہِمَا ، فَذَہَبَ بِہٖ .وَقَالَ عُمَرُ : قَاتَلَ اللّٰہُ أَخَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ .قَالُوْا : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ عُمَرَ حَکَمَ بِالْقَافَۃِ ، فَقَدْ وَافَقَ مَا تَأَوَّلْنَا فِیْ حَدِیْثِ مُجَزِّزٍ الْمُدْلِجِی .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ أَنَّ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلَی بُطْلَانِ مَا قَالُوْا ، وَذٰلِکَ أَنَّ فِیْہٖ، أَنَّ الْقَائِفَ قَالَ ہُوَ مِنْہُمَا جَمِیْعًا .فَلَمْ یَجْعَلْہُ عُمَرُ کَذٰلِکَ ، وَقَالَ لَہٗ : وَالِ أَیَّہُمَا شِئْت عَلٰی مَا یَجِبُ فِیْ صَبِی ادَّعَاہُ رَجُلَانِ فَاِنْ أَقَرَّ أَحَدُہُمَا ، کَانَ أَبَاہٗ، فَلَمَّا رَدَّ عُمَرُ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ الصَّبِیِّ الْمُدَّعِیْ اِذَا ادَّعَاہُ رَجُلَانِ ، وَلَمْ یَکُنْ بِحَضْرَۃِ الْاِمَامِ قَائِفٌ ، لَا اِلَی قَوْلِ الْقَائِفِ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْقَافَۃَ لَا یَجِبُ بِقَوْلِہِمْ ثُبُوْتُ نَسَبٍ مِنْ أَحَدٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ أَیْضًا مِنْ وُجُوْہٍ صِحَاحٍ ، أَنَّہٗ جَعَلَہٗ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ جَمِیْعًا .
٦٠٣٢: یحییٰ بن حاطب نے اپنے والد سے نقل کیا کہ دو آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہونے والے ایک بچے سے متعلق جھگڑ رہے تھے ایک کہتا تھا کہ یہ میرا لڑکا ہے اور دوسرا کہتا کہ یہ میرا لڑکا ہے حضرت عمر (رض) نے قبیلہ بنو مصطلق کے ایک قیافہ شناس کو بلایا اور اس بچے کے متعلق دریافت کیا۔ مصلطقی نے بچے کی طرف دیکھا پھر حضرت عمر (رض) سے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت سے نوازا ہے یہ دونوں اس بچے میں شریک ہیں۔ حضرت عمر (رض) اس کی طرف اٹھے اور اس کو درہ لگایا یہاں تک کہ وہ لیٹ گیا۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم ! تجھے نظر دوسری طرف لے گئی ہے پھر بچے کی ماں کو بلایا اور اس سے دریافت فرمایا اس نے کہا یہ ان میں سے ایک مرد کا ہے یہ لوگوں پر غالب آیا اور میں نے اس کے لیے کئی بچے جنے ہیں۔ پھر وہ عادت کے مطابق مجھ سے ہم بستر ہوا میں اپنے خیال میں حاملہ ہوگئی لیکن مجھے خون آیا یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ میرے پیٹ میں کچھ بھی نہیں پھر یہ دوسرا مجھ سے ہم بستر ہوا پھر اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان میں سے کس کا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے لڑکے سے فرمایا ان میں سے جس کے ساتھ چاہو جاؤ۔ وہ لڑکا ایک کے ساتھ چلا گیا حضرت عبدالرحمن بن حاطب کہتے ہیں کہ گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ ان میں سے ایک کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے اور وہ اسے لے گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” قاتل اللہ اخا بنی مصطلق “ (یہ کلمہ مدح و مذمت دونوں کے لیے ہوسکتا ہے) ۔

6035

۶۰۳۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ تَوْبَۃَ الْعَنْبَرِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلَیْنِ اشْتَرَکَا فِیْ ظَہْرِ امْرَأَۃٍ ، فَوَلَدَتْ ، فَدَعَا عُمَرُ الْقَافَۃَ فَقَالُوْا : أَخَذَ الشَّبَہَ مِنْہُمَا جَمِیْعًا فَجَعَلَہٗ بَیْنَہُمَا .
٦٠٣٣: شعبی نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ دو آدمی ایک عورت کی پشت میں شریک ہوئے پھر اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا حضرت عمر (رض) نے قیافہ شناسوں کو بلایا انھوں نے کہا یہ ان دونوں کے مشابہہ ہے تو آپ نے ان دونوں کے درمیان کردیا ( کہ جس کے ساتھ چاہے وہ بچہ چلا جائے)

6036

۶۰۳۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، نَحْوُہُ .قَالَ : فَقَالَ لِیْ سَعِیْدٌ : لِمَنْ تَرَی مِیْرَاثَہٗ؟ قَالَ ہُوَ لِآخِرِہِمَا مَوْتًا .
٦٠٣٤: قتادہ نے سعید بن مسیب سے انھوں نے عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ شعبی کہتے ہیں کہ مجھے سعید بن مسیب نے کہا تم بتلاؤ اس کی میراث کس کو ملے گی۔ فرمایا : جو ان میں آخر میں مرے۔

6037

۶۰۳۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَوْفُ بْنُ أَبِیْ جَمِیْلَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَضٰی فِیْ رَجُلٍ ادَّعَاہُ رَجُلَانِ ، کِلَاہُمَا یَزْعُمُ أَنَّہٗ ابْنُہٗ، وَذٰلِکَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .فَدَعَا عُمَرُ أُمَّ الْغُلَامِ الْمُدَّعَی ، فَقَالَ أُذَکِّرُک بِاَلَّذِیْ ہَدَاک لِلْاِسْلَامِ ، لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ .قَالَتْ : لَا وَالَّذِیْ ہَدَانِیْ لِلْاِسْلَامِ ، مَا أَدْرِی لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ أَتَانِیْ ہٰذَا أَوَّلَ اللَّیْلِ ، وَأَتَانِیْ ہٰذَا آخِرَ اللَّیْلِ ، فَمَا أَدْرِی لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ .قَالَ : فَدَعَا عُمَرُ مِنَ الْقَافَۃِ أَرْبَعَۃً ، وَدَعَا بِبَطْحَائَ فَنَثَرَہَا ، فَأَمَرَ الرَّجُلَیْنِ الْمُدَّعِیَیْنِ فَوَطِئَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِقَدَمٍ ، وَأَمَرَ الْمُدَّعَی فَوَطِئَ بِقَدَمٍ ، ثُمَّ أَرَاہُ الْقَافَۃَ قَالَ : اُنْظُرُوْا فَاِذَا أَتَیْتُمْ فَلَا تَتَکَلَّمُوْا ، حَتّٰی أَسْأَلَکُمْ قَالَ : فَنَظَرَ الْقَافَۃُ ، فَقَالُوْا : قَدْ أَثْبَتْنَا ، ثُمَّ فَرَّقَ بَیْنَہُمْ ، ثُمَّ سَأَلَہُمْ رَجُلًا رَجُلًا قَالَ : فَتَقَادَعُوْا ، یَعْنِیْ فَتَبَایَعُوْا ، کُلُّہُمْ یَشْہَدُ أَنَّ ہٰذَا لَمِنْ ہٰذَیْنِ .قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : یَا عَجَبًا لِمَا یَقُوْلُ ہٰؤُلَائِ ، قَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّ الْکَلْبَۃَ تُلَقَّحُ بِالْکِلَابِ ذَوَاتِ الْعَدَدِ ، وَلَمْ أَکُنْ أَشْعُرُ أَنَّ النِّسَائَ یَفْعَلْنَ ذٰلِکَ قَبْلَ ہٰذَا، اِنِّیْ لَا أَرُدُّ مَا یَرَوْنَ ، اذْہَبْ فَہُمَا أَبَوَاک .
٦٠٣٥: ابوالمہلب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک ایسے لڑکے متعلق فیصلہ فرمایا جس کے متعلق دو آدمی دعویدار تھے ان میں سے ہر ایک اسے اپنا بیٹا خیال کرتا تھا اور یہ زمانہ جاہلیت کا عمل تھا۔ حضرت عمر (رض) نے اس لڑکے کی ماں کو بلایا اور فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے تجھے اسلام کی ہدایت بخشی۔ یہ لڑکا ان میں سے کس کا ہے اس نے کہا مجھے اس ذات کی قسم ! جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی میں نہیں جانتی کہ وہ ان میں سے کس کا ہے۔ یہ شخص میرے پاس رات کے پہلے حصہ میں آیا اور وہ شخص رات کے پچھلے حصہ میں آیا پس مجھے معلوم نہیں یہ کس کا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے چار قیافہ شناسوں کو بلایا پھر کنکریاں منگوا کر ان کو پھیلا دیا پھر دونوں دعویٰ کرنے والوں کو حکم دیا کہ وہ ان کنکریوں پر اپنا قدم رکھ کر ان کو روندیں پھر جس بچے پر دعویٰ تھا اس کو حکم دیا کہ وہ کنکریوں کو روندے اس نے بھی روندا۔ پھر قیافہ شناسوں نے اسے دیکھا پھر فرمایا اس کو دیکھو لیکن جب واپس لوٹو تو اس وقت کلام مت کرو۔ جب تک میں کلام نہ کروں اور سوال نہ کروں۔ راوی کہتے ہیں کہ قیافہ شناسوں نے دیکھا تو کہنے لگے ہم سمجھ گئے۔ ہم نے محفوظ کرلیا پھر ان کو جدا کر کے ایک ایک سے دریافت کیا۔ راوی کا بیان ہے وہ سب اس پر متفق ہوگئے اور ہر ایک نے گواہی دی کہ یہ لڑکا ان دونوں کا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں یہ بڑا عجیب ہے میں جانتا تھا کہ کتیا بہت سے کتوں سے حاملہ ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ عورتیں بھی ایسا کرتی ہیں۔ ان کی رائے کو رد نہ کروں گا۔ جاؤ یہ دونوں تمہارے باپ ہیں۔

6038

۶۰۳۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیَی ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ رَجُلَیْنِ اشْتَرَکَا فِیْ ظَہْرِ امْرَأَۃٍ ، فَوَلَدَتْ لَہُمَا وَلَدًا ، فَارْتَفَعَا اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَدَعَا لَہُمَا ثَلَاثَۃً مِنَ الْقَافَۃِ ، فَدَعَا بِتُرَابٍ فَوَطِئَ فِیْہِ الرَّجُلَانِ وَالْغُلَامُ .ثُمَّ قَالَ لِأَحَدِہِمْ : اُنْظُرْ ، فَنَظَرَ ، فَاسْتَقْبَلَ وَاسْتَعْرَضَ ، وَاسْتَدْبَرَ ، ثُمَّ قَالَ : أُسِرُّ أَوْ أُعْلِنُ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : بَلْ أَسِرَّ .فَقَالَ : لَقَدْ أَخَذَ الشَّبَہَ مِنْہُمَا جَمِیْعًا ، فَمَا أَدْرِی لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ فَأَجْلَسَہُ .ثُمَّ قَالَ لِلْآخَرِ أَیْضًا : اُنْظُرْ ، فَنَظَرَ ، وَاسْتَقْبَلَ ، وَاسْتَعْرَضَ ، وَاسْتَدْبَرَ ، ثُمَّ قَالَ : أُسِرُّ أَوْ أُعْلِنُ ؟ قَالَ : بَلْ أَسِرَّ .قَالَ لَقَدْ أَخَذَ الشَّبَہَ مِنْہُمَا جَمِیْعًا ، فَلَا أَدْرِی لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ وَأَجْلَسَہُ .ثُمَّ أَمَرَ الثَّالِثَ فَنَظَرَ ، فَاسْتَقْبَلَ ، وَاسْتَعْرَضَ وَاسْتَدْبَرَ ، ثُمَّ قَالَ : أُسِرُّ أَمْ أُعْلِنُ ؟ .قَالَ : لَقَدْ أَخَذَ الشَّبَہَ مِنْہُمَا جَمِیْعًا ، فَمَا أَدْرِی لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ .فَقَالَ عُمَرُ : اِنَّا نَعْرِفُ الْآثَارَ بِقَوْلِہَا ثَلَاثًا ، وَکَانَ عُمَرُ قَالَہَا ، فَجَعَلَہٗ لَہُمَا ، یَرِثَانِہِ وَیَرِثُہُمَا .فَقَالَ لِیْ سَعِیْدٌ : أَتَدْرِیْ عَنْ عَصَبَتِہٖ؟ قُلْتُ :لَا ، قَالَ : الْبَاقِی مِنْہُمَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَیْسَ یَخْلُو حُکْمُہٗ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ بِالدَّعْوَی لِأَنَّ الرَّجُلَیْنِ ادَّعَیَا الصَّبِیَّ وَہُوَ فِیْ أَیْدِیہِمَا ، فَأَلْحَقَہُ بِہِمَا بِدَعْوَاہُمَا ، أَوْ یَکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ .فَکَانَ الَّذِیْنَ یَحْکُمُوْنَ بِقَوْلِ الْقَافَۃِ ، لَا یَحْکُمُوْنَ بِقَوْلِہِمْ اِذَا قَالُوْا : ہُوَ ابْنُ ہٰذَیْنِ .فَلَمَّا کَانَ قَوْلُہُمْ کَذٰلِکَ ، ثَبَتَ عَلَی قَوْلِہِمَا ، أَنْ یَکُوْنَ قَضَائُ عُمَرَ بِالْوَلَدِ لِلرَّجُلَیْنِ ، کَانَ بِغَیْرِ قَوْلِ الْقَافَۃِ .وَفِیْ حَدِیْثِ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ : فَقَالَ الْقَافَۃُ لَا نَدْرِی لِأَیِّہِمَا ہُوَ ؟ فَجَعَلَہٗ عُمَرُ بَیْنَہُمَا .وَالْقَافَۃُ لَمْ یَقُوْلُوْا : ہُوَ ابْنُہُمَا ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ عُمَرَ ، أَثْبَتَ نَسَبَہُ مِنَ الرَّجُلَیْنِ بِدَعْوَاہُمَا ، وَلِمَا لَہُمَا عَلَیْہِ مِنَ الْیَدِ ، لَا بِقَوْلِ الْقَافَۃِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ کَمَا ذَکَرْتُہٗ ، فَمَا کَانَ احْتِیَاجُ عُمَرَ اِلَی الْقَافَۃِ ، حَتّٰی دَعَاہُمْ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : یَحْتَمِلُ ذٰلِکَ عِنْدَنَا ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ، أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَعَ بِقَلْبِہٖ أَنَّ حَمْلًا لَا یَکُوْنُ مِنْ رَجُلَیْنِ ، فَیَسْتَحِیلُ اِلْحَاقُ الْوَلَدِ بِمَنْ یَعْلَمُ أَنَّہٗ لَمْ یَلِدْہٗ، فَدَعَا الْقَافَۃَ ، لِیَعْلَمَ مِنْہُمْ ، ہَلْ یَکُوْنُ وَلَدٌ یُحْمَلُ بِہٖ مِنْ نُطْفَتَیْ رَجُلَیْنِ أَمْ لَا ؟ وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا ، فِیْ حَدِیْثِ أَبِی الْمُہَلَّبِ .فَلَمَّا أَخْبَرَہُ الْقَافَۃُ بِأَنَّ ذٰلِکَ قَدْ یَکُوْنُ ، وَأَنَّہٗ غَیْرُ مُسْتَحِیلٍ ، رَجَعَ اِلَی الدَّعْوَی الَّتِیْ کَانَتْ مِنَ الرَّجُلَیْنِ ، فَحَکَمَ بِہَا ، فَجَعَلَ الْوَلَدَ ابْنَہُمَا جَمِیْعًا ، یَرِثُہُمَا وَیَرِثَانِہٖ، فَذٰلِکَ حُکْمٌ بِالدَّعْوَی ، لَا بِقَوْلِ الْقَافَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ،
٦٠٣٦: قتادہ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کی ہے کہ دونوں آدمی ایک عورت کی پشت میں شریک ہوئے اس نے ان دونوں کے لیے ایک بچہ جنا۔ وہ دونوں اپنا مقدمہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں لائے۔ آپ نے تین قیافہ شناسوں کو بلایا اور مٹی منگوائی ان دونوں آدمیوں اور اس لڑکے نے اس مٹی کو روندا پھر ان میں سے ایک قیافہ شناس سے فرمایا دیکھو ! میں نے دیکھا وہ آگے بڑھا۔ دائیں بائیں پھرا اور پیچھے ہٹا پھر کہا کہ پوشیدہ کہوں یا اعلانیہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا پوشیدہ کہو۔ اس نے کہا اسے ان دونوں سے مشابہت ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کس کا ہے۔ آپ نے اسے بٹھایا پھر دوسرے سے فرمایا دیکھو اس نے دیکھا آگے بڑھا دائیں بائیں ہوا اور پیچھے ہٹا پھر کہنے لگا پوشیدہ کہوں یا ظاہر۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا پوشیدہ کہو۔ اس نے کہا اس کی ان دونوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ یہ ان میں سے کس کا ہے آپ نے اس کو بھی بٹھا دیا پھر تیسرے کو حکم فرمایا اس نے دیکھا آگے بڑھا اور ادھر ادھر ہوا اور پیچھے ہٹا پھر کہنے لگا کہ پوشیدہ کہوں یا اعلانیہ۔ آپ نے فرمایا ظاہر کہو۔ اس نے کہا یہ ان دونوں سے مشابہت رکھتا ہے مجھے معلوم نہیں یہ ان دونوں میں سے کس کا ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہم نشانات کی پہچان رکھتے ہیں اور آپ بھی قیافہ شناس تھے آپ نے یہ بچہ دونوں کا قرار دیا وہ دونوں اس کے وارث ہوں گے اور وہ ان دونوں کا وارث ہوگا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب مجھ سے فرمانے لگے تم بتاؤ اس کا وارث کون ہے میں نے کہا مجھے معلوم نہیں تو آپ نے فرمایا جو ان میں سے زندہ رہے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ہم نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں حکم کی دو صورتیں ہیں۔ نمبر 1: دعویٰ کے ساتھ ہوگا کیونکہ دونوں مردوں نے بچے کا دعویٰ کیا جبکہ وہ ان کے قبضہ میں تھا تو حضرت عمر (رض) نے ان کے دعویٰ کی وجہ سے ان کے ساتھ ملا دیا۔ نمبر 2: آپ نے بذات خود یہ فیصلہ فرمایا تو گویا وہ لوگ جو قیافہ شناسوں کے قول کے مطابق فیصلہ کرتے تھے وہ ان کے قول پر اس صورت میں فیصلہ نہیں کرتے تھے جبکہ وہ یہ کہیں کہ وہ ان کا بیٹا ہے تو جب ان کے قول کی یہ صورت ہے تو ان دونوں کے قول کے مطابق ثابت ہوا کہ حضرت عمر (رض) کا فیصلہ قیافہ شناسوں کے قول کے بغیر تھا اور روایت ابن مسیب میں ایسی بات ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ قیافہ شناس کہنے لگے ہم نہیں جانتے کہ یہ کس کا ہے تو حضرت عمر (رض) نے اس کو ان دونوں کا قرار دیا حالانکہ قیافہ والوں نے یہ نہ کہا تھا کہ دونوں کا بیٹا ہے۔ پس اس سے ثبوت میسر آگیا کہ حضرت عمر (رض) اس لڑکے کا نسب دونوں کے ساتھ اس لیے ثابت کیا کیونکہ وہ دونوں مدعی تھے اور دونوں کا اس پر قبضہ تھا۔ قیافہ شناسوں کے قول کی وجہ سے نہیں۔ اگر بات اس طرح ہے جس طرح آپ نے کہی تو پھر قیافہ شناسوں کو بلانے کی چنداں حاجت نہ تھی۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ اس بات کا احتمال ہے واللہ اعلم کہ حضرت عمر (رض) کے دل میں یہ بات آئی ہو کہ یہ حمل ان دونوں سے نہیں ہے۔ پس بچے کو ایسے شخص سے ملانا جس سے وہ پیدا نہ ہوا ہو ناممکن ہے پس آپ نے قیافہ والوں کو بلایا تاکہ ان سے معلوم کرلیں کہ کیا دو آدمیوں کے نطفہ سے ٹھہرنے والا حمل بھی بچہ بن جاتا ہے یا نہیں اور یہ بات ابوالمہلب والی روایت میں بیان ہوئی ہے جو مذکور ہوئی جب قیافہ والوں نے یہ خبر دی کہ کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے تو آپ نے اس دعویٰ کی طرف رجوع کیا جو ان دونوں کے درمیان تھا اور اس کے مطابق فیصلہ فرما دیا اور بچہ ان دونوں کے لیے قرار دیا۔ حضرت علی (رض) کا قول بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

6039

۶۰۳۷: مَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ مَوْلًی لِبَنِیْ مَخْزُوْمَۃَ قَالَ : وَقَعَ رَجُلَانِ عَلٰی جَارِیَۃٍ فِیْ طُہْرٍ وَاحِدٍ ، فَعَلِقَتِ الْجَارِیَۃُ ، فَلَمْ یُدْرَ مِنْ أَیِّہِمَا ہُوَ .فَأَتَیَا عُمَرَ یَخْتَصِمَانِ فِی الْوَلَدِ فَقَالَ عُمَرُ : مَا أَدْرِیْ کَیْفَ أَقْضِی فِیْ ہٰذَا ؟ .فَأَتَیَا عَلِیًّا ، فَقَالَ : ہُوَ بَیْنَکُمَا ، یَرِثُکُمَا وَتَرِثَانِہٖ، وَہُوَ لِلْبَاقِی مِنْکُمَا .فَہٰذَا حُکْمٌ بِالْوَلَدِ لِمُدَّعِیَیْہِ جَمِیْعًا ، فَجَعَلَہٗ ابْنَہُمَا ، وَلَمْ یَحْتَجْ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی قَوْلِ الْقَافَۃِ ، وَبِہٰذَا نَأْخُذُ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .
٦٠٣٧: سماک نے مولی بنی مخزومہ سے روایت کی ہے کہ دو آدمی ایک لونڈی پر ایک ہی طہر میں جا پڑے لونڈی حاملہ ہوگئی یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس کا ہے وہ دونوں بچے کے متعلق جھگڑا لے کر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت عمر (رض) نے فرمایا مجھے معلوم نہیں میں ان کے مابین کیسے فیصلہ کروں تم دونوں علی (رض) کے پاس جاؤ وہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے فرمایا وہ بچہ تم دونوں کے درمیان مشترک ہے وہ تمہارا وارث ہوگا اور تم دونوں میں سے بعد میں زندہ رہنے والے کے لیے اس کی وراثت ہے۔ یہ اس بچے کا حکم ہے جس کے متعلق دونوں دعویٰ رکھتے ہوں کہ اس کو دونوں کا بیٹا قرار دیا اور انھوں نے قیافہ شناسوں کی کوئی ضرورت نہ سمجھی۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
حاصل کلام : یہ اس بچے کا حکم ہے جس کے متعلق دونوں دعویٰ رکھتے ہوں کہ اس کو دونوں کا بیٹا قرار دیا اور انھوں نے قیافہ شناسوں کی کوئی ضرورت نہ سمجھی۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
اس میں امام طحاوی (رح) نے فریق ثانی کے قول کو ترجیح دی کہ اگر دو دعویدار ہوں تو وہ دونوں کا بیٹا ہوگا اس میں قیافہ شناسوں کی محتاجی نہ ہوگی اور وہ دونوں کا وارث ہوگا اور ان میں بعد والا اس کا وارث ہوگا۔

6040

۶۰۳۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَیُّمَا رَجُلٍ أَفْلَسَ فَأَدْرَکَ رَجُلٌ مَالَہٗ بِعَیْنِہِ فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ مِنْ غَیْرِہِ .
٦٠٣٨: ابوبکر بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی مفلس ہوجائے پھر فروخت کرنے والا آدمی اپنا مال اسی حالت میں پائے تو وہ اس کا دوسرے قرض خواہوں کی بنسبت زیادہ حقدار ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٧٤‘ مالک فی البیوع ٨٨۔
سامان خرید کر قبضہ کیا قیمت ادا نہ کی تھی کہ پہلے مرگیا تو ایک فریق علماء کا قول یہ ہے کہ فروخت کرنے والا اس سامان کا دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ حقدار ہے۔
فریق ثانی کا قول : تمام قرض خواہ مرنے والے کے تمام مال میں برابر حق رکھتے ہیں اگرچہ اس کی خریداری کے سامان میں خریدا ہوا سامان بعینہٖ باقی ہے اس قول کو ائمہ احناف رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔

6041

۶۰۳۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، ح .
٦٠٣٩: ابراہیم بن مرزوق نے وہب و بشر بن عمر سے روایت کی ہے۔

6042

۶۰۴۰: وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ نَہِیْکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا اشْتَرٰی عَبْدًا بِثَمَنٍ ، وَقَبَضَ الْعَبْدَ وَلَمْ یَدْفَعْ ثَمَنَہٗ، فَأَفْلَسَ الْمُشْتَرِی وَعَلَیْہِ دَیْنٌ ، وَالْعَبْدُ قَائِمٌ فِیْ یَدِہِ بِعَیْنِہٖ۔ أَنَّ بَائِعَہُ أَحَقُّ بِہٖ مِنْ غَیْرِہِ مِنْ غُرَمَائِ الْمُشْتَرِیَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ بَائِعُ الْعَبْدِ ، وَسَائِرُ الْغُرَمَائِ فِیْہِ سَوَائٌ ، لِأَنَّ مِلْکَہُ قَدْ زَالَ عَنِ الْعَبْدِ ، وَخَرَجَ مِنْ ضَمَانِہٖ، فَاِنَّمَا ہُوَ فِیْ مُطَالَبَۃِ غَرِیْمٍ مِنْ غُرَمَائِ الْمَطْلُوْبِ ، یُطَالِبُہٗ بِدَیْنٍ فِی ذِمَّتِہٖ، لَا وَثِیْقَۃٍ فِیْ یَدَیْہٖ، فَہُوَ وَہْمٌ فِیْ جَمِیْعِ مَالِہِمْ سَوَائٌ .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِہِمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ فَسَادِ مَا ذَہَبُوْا اِلَیْہٖ، وَاحْتَجُّوْا لِقَوْلِہِمْ مِنْ حَدِیْثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، أَنَّ الَّذِیْ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ فَأَصَابَ رَجُلٌ مَالَہٗ بِعَیْنِہِ وَاِنَّمَا مَالُہُ بِعَیْنِہٖ، یَقَعُ عَلَی الْمَغْصُوْبِ ، وَالْعَوَارِیِّ وَالْوَدَائِعِ ، وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ ، فَذٰلِکَ مَالُہُ بِعَیْنِہٖ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ مِنْ سَائِرِ الْغُرَمَائِ .وَفِیْ ذٰلِکَ جَائَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَاِنَّمَا یَکُوْنُ ہٰذَا الْحَدِیْثُ حُجَّۃً لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، لَوْ کَانَ فَأَصَابَ رَجُلٌ غَیْرَ مَالِہِ قَدْ کَانَ لَہٗ، فَبَاعَہُ مِنْ الَّذِی وَجَدَہُ فِیْ یَدِہٖ، وَلَمْ یَقْبِضْ مِنْہُ ثَمَنَہٗ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ مِنْ سَائِرِ الْغُرَمَائِ .وَہٰذَا الَّذِیْ یَکُوْنُ حُجَّۃً لَہُمْ ، لَوْ کَانَ لَفْظُ الْحَدِیْثِ کَذٰلِکَ .فَأَمَّا اِذَا کَانَ عَلٰی مَا رَوَیْنَا فِی الْحَدِیْثِ فَلَا حُجَّۃَ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ عَلَی الْوَدَائِعِ وَالْمَغْصُوْبِ ، وَالْعَوَارِیِّ وَالرُّہُوْنِ أَمْوَالِ الطَّالِبِیْنَ فِیْ وَقْتِ الْمُطَالَبَۃِ بِہَا ، وَذٰلِکَ کَمَا جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ سَمُرَۃَ .
٦٠٤٠: بشیر بن نھیک نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک فریق علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کوئی غلام خریدے اور اس پر قبضہ کرلے لیکن ابھی تک قیمت ادا نہ کرنے پایا تھا کہ مشتری مفلس ہوگیا اور اس پر قرض ہوگیا جبکہ غلام اسی طرح اس کے قبضہ میں موجود تھا تو فروخت کرنے والا دوسرے قرض خواہوں سے اس غلام کا زیادہ حقدار ہے۔ ان حضرات کا استدلال مندرجہ بالا روایات سے ہے۔ دوسروں نے کہا دوسرا فریق کہتا ہے کہ فروخت کرنے والا اور دوسرے قرض خواہ اس غلام کے سلسلے میں برابر حق رکھتے ہیں کیونکہ غلام سے اس کی ملک زائل ہوچکی اور وہ اس کی ضمان سے نکل چکا فلہذا فروخت کرنے والا مطالبہ کے وقت مطلوبہ کے قرض خواہوں میں سے ایک ہے وہ اپنے قرض کا مطالبہ کررہا ہے جو اس شخص کے ذمہ ہے اور اس نے اس کے پاس کوئی چیز بطور رہن بھی نہیں رکھی پس وہ اور باقی قرض خواہ اس کے تمام مال میں برابر کے حقدار ہیں۔ فریق اول کے قول کے فاسد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس روایت کے الفاظ کہ آدمی نے اپنے مال کو بعینہٖ پایا اور اس کا مال اسی طرح موجود ہے تو اس سے غصب کیا ہوا مال اور ادھار لیا ہوا مال اور امانات مراد ہیں اور یہ بعینہٖ اس کا مال ہے اور وہ دوسرے قرض خواہوں کی بنسبت اس کا زیادہ حقدار ہے اور یہ روایت اسی سلسلہ میں وارد ہوئی ہے فریق اول کے لیے دلیل اس وقت بنتی جب یہ الفاظ ہوتے کہ اس شخص نے اپنے مال کو اس طرح پایا جو اس کا تھا پھر اس نے اسے اس شخص پر فروخت کیا جس کے پاس اسے پایا اور اس نے ابھی تک اس کی قیمت پر قبضہ نہیں کیا تو وہ باقی قرض خواہوں کی بنسبت اس کا زیادہ حقدار ہے۔ تو اگر روایت اس طرح ہوتی تو ان کے لیے دلیل بن جاتی۔ مگر جس طرح ہم نے روایت کی ہے تو وہ ان کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ روایت کا تعلق مغصوبات ‘ ادھار پر حاصل کردہ اشیاء اور مرہونہ اشیاء سے متعلق ہے اس لیے کہ وہ مطالبہ کرنے والے کا اپنا مال ہے اور یہ اس طرح ہے جیسا کہ روایت سمرہ بن جندب (رض) میں وارد ہے۔

6043

۶۰۴۱: فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ عُقَیْلٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سُرِقَ لَہٗ مَتَاعٌ أَوْ ضَاعَ لَہٗ مَتَاعٌ وَوَجَدَہُ فِیْ یَدَیْ رَجُلٍ بِعَیْنِہٖ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ ، وَیَرْجِعُ الْمُشْتَرِیْ عَلَی الْبَائِعِ بِالثَّمَنِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : لَوْ کَانَ الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ مِنْ التَّأْوِیْلِ الَّذِی وَصَفْتُمْ ، اِذًا لَمَا کَانَ بِنَا اِلَی ذِکْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ مِنْ حَاجَۃٍ ، لِأَنَّ ہٰذَا یَعْلَمُہُ الْعَامَّۃُ ، فَضْلًا عَنِ الْخَاصَّۃِ فَالْکَلَامُ بِذٰلِکَ فَضْلٌ ، وَلَیْسَ مِنْ صِفَتِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکَلَامُ بِالْفَضْلِ ، وَلَا الْکَلَامُ بِمَا لَا فَائِدَۃَ مِنْہُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ ذٰلِکَ لَیْسَ بِفَضْلٍ ، بَلْ ہُوَ کَلَامٌ صَحِیْحٌ ، وَفِیْہِ فَائِدَۃٌ ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ أَعْلَمَہُمْ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَفْلَسَ وَجَبَ أَنْ یُقْسِمَ جَمِیْعَ مَا فِیْ یَدِہِ بَیْنَ غُرَمَائِہٖ، فَثَبَتَ مِلْکُ رَجُلٍ لِبَعْضِ مَا فِیْ یَدِہٖ، أَنَّہٗ أَوْلَی بِذٰلِکَ وَأَنَّ الَّذِیْ کَانَ فِیْ یَدِہِ قَدْ مَلَکَہُ وَغَرَّ فِیْہٖ، فَلَا یَجِبُ لَہٗ فِیْہِ حُکْمٌ اِذْ کَانَ مَغْرُوْرًا فَعَلَّمَہُمْ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، عَلَّمَہُمْ بِحَدِیْثِ سَمُرَۃَ ، وَنَفَی أَنْ یَکُوْنَ الْمَغْرُوْرُ الَّذِیْ یُشْکِلُ حُکْمُہُ عِنْدَ الْعَامَّۃِ یَسْتَحِقُّ بِذٰلِکَ الْغُرُوْرِ شَیْئًا ، فَہٰذَا وَجْہٌ لِہٰذَا الْحَدِیْثِ صَحِیْحٌ .وَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : وَیُرْوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ غَیْرِ ہٰذَا الْوَجْہٖ، بِأَلْفَاظٍ غَیْرِ أَلْفَاظِ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .
٦٠٤١: زید بن عقیل نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کا سامان چوری ہوجائے یا اس کا سامان ضائع ہوجائے اور بعینہٖ وہ سامان کسی آدمی کے پاس پالے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اپنے ثمن کے لیے بائع کی طرف رجوع کرے گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اگر روایت اسی طرح ہے جیسا کہ تم نے بیان کیا یعنی تم نے جو تاویل کی ہے تو پھر جناب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس بات کو ذکر کرنے کا کیا مقصد ہوگا اس بات کو عام لوگ بھی جانتے ہیں پھر خاص لوگوں کی کلام تو زائد ٹھہرے گی اور خصوصاً جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےفائدہ اور فضول کلام کرنے والے نہ تھے۔ یہ کب کہا گیا کہ فضول کلام ہے (نعوذباللہ منہ) بلکہ یہ عظیم فائدہ مند کلام ہے وہ اسی طرح کہ آپ نے یہ خبردار فرمایا کہ جب کوئی آدمی مفلس ہوجائے تو ضروری ہے کہ جو کچھ اس کے پاس موجود ہو وہ اس کے قرض خواہوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ سو آدمی کی ملک اس بعض مال میں جو اس کے ہاتھ میں ہے قائم ہوجائے گی اور وہ اس کا دوسروں سے زیادہ حقدار ہوگا اور اگر وہ شخص اس میں دھوکا سے مالک ہوا تو پھر اس میں اس کی ملک ثابت نہ ہوگی کیونکہ اس میں دھوکا پایا گیا پس اس ارشاد سے بھی وہی بات بتلانا مقصود ہے جو حدیث سمرہ میں کہی گئی ہے اور اس بات کی نفی کردی کہ دھوکا باز جس نے مال دھوکے سے حاصل کیا ہے عام لوگوں کے ہاں اس کا معاملہ اشکال والا ہے آپ نے واضح کردیا کہ وہ مال کا حق دار نہیں ہوگا پس اس صحیح حدیث کا یہ مفہوم ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ روایت اس کے علاوہ دیگر الفاظ سے بھی مروی ہے۔

6044

۶۰۴۲: فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی بِالسِّلْعَۃِ ، یَبْتَاعُہَا الرَّجُلُ ، فَیُفْلِسُ وَہِیَ عِنْدَہُ بِعَیْنِہَا ، لَمْ یَقْضِ صَاحِبُہَا مِنْ ثَمَنِہَا شَیْئًا ، فَہُوَ أُسْوَۃُ الْغُرَمَائِ .قَالَ أَبُوْبَکْرٍ : فَقَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ مَنْ تُوُفِّیَ وَعِنْدَہُ سِلْعَۃُ رَجُلٍ بِعَیْنِہَا ، وَلَمْ یَقْبِضْ مِنْ ثَمَنِہَا شَیْئًا ، فَصَاحِبُ السِّلْعَۃِ أُسْوَۃُ الْغُرَمَائِ .
٦٠٤٢: زہری نے روایت کیا کہ مجھے حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سامان کا فیصلہ فرمایا جس کو ایک آدمی نے خریدا پھر وہ خود مفلس ہوگیا اور وہ سامان بعینہٖ اس کے پاس موجود تھا اور اس نے اپنے فروخت کرنے والے کو قیمت کا کوئی حصہ نہ دیا تھا تو آپ نے فرمایا وہ آدمی قرض خواہوں کے ساتھ برابر کا حق دار ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جو آدمی اس حالت میں مرجائے کہ اس کے پاس بائع کا سامان بعینہٖ موجود تھا اور بائع نے اس سے اپنی قیمت کا ایک ذرہ بھی وصول نہیں کیا تھا تو یہ سامان والا دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ برابر کا حق دار ہے۔

6045

۶۰۴۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَیُّمَا رَجُلٍ ابْتَاعَ مَتَاعًا ، فَأَفْلَسَ الَّذِی ابْتَاعَہٗ، وَلَمْ یَقْبِضْ الَّذِیْ بَاعَہُ مِنْ ثَمَنِہِ شَیْئًا ، فَوَجَدَہُ بِعَیْنِہٖ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہٖ ، فَاِنْ مَاتَ الْمُشْتَرِی ، فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أُسْوَۃُ الْغُرَمَائِ .قَالُوْا : فَقَدْ بَانَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَرَادَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، الْبَاعَۃَ لَا غَیْرَہُمْ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ مُنْقَطِعٌ ، لَا یَقُوْمُ بِمِثْلِہِ حُجَّۃٌ .فَاِنْ قَالُوْا : اِنَّمَا قَبِلْنَاہٗ، وَاِنْ کَانَ مُنْقَطِعًا ، لِأَنَّہٗ بَیَّنَ مَا أَشْکَلَ فِی الْحَدِیْثِ الْمُتَّصِلِ .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ کَانَ یَنْبَغِی لَکُمْ - لَمَّا اضْطَرَبَ حَدِیْثُ أَبِیْ بَکْرَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ہٰذَا، فَرَوَاہٗ عَنْہُ الزُّہْرِیُّ کَمَا ذَکَرْنَا آخِرًا ، وَرَوَاہٗ عَنْہُ، عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ عَلٰی مَا وَصَفْنَا أَوَّلًا - اِنْ رَجَعُوْا اِلٰی حَدِیْثِ غَیْرِہٖ، وَہُوَ بَشِیْرُ بْنُ نَہِیْکٍ ، فَیَجْعَلُوْنَہُ ہُوَ أَصْلَ حَدِیْثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَیُسْقِطُوْنَ مَا خَالَفَہُ .وَاِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ ، عَادَتِ الْحُجَّۃُ الْأُوْلٰی عَلَیْکُمْ ، وَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا ذٰلِکَ ، کَانَ لِخَصْمِکُمْ أَیْضًا أَنْ یَقُوْلَ : ہٰذَا الْحَدِیْثُ الَّذِیْ رَوَاہُ الزُّہْرِیُّ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ ، فَفَرَّقَ فِیْہِ بَیْنَ حُکْمِ التَّفْلِیسِ وَالْمَوْتِ ، ہُوَ غَیْرُ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ فَیَکُوْنُ الْحَدِیْثُ الْأَوَّلُ عِنْدَہٗ، مُسْتَعْمَلًا مِنْ حَیْثُ تَأَوَّلَہٗ، وَیَکُوْنُ ہٰذَا الْحَدِیْثُ الثَّانِیْ، حَدِیْثًا مُنْقَطِعًا شَاذًّا ، لَا یَقُوْمُ بِمِثْلِہِ حُجَّۃٌ ، فَیَجِبُ تَرْکُ اسْتِعْمَالِہٖ .فَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، ہُوَ وَجْہُ الْکَلَامِ فِی الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ ، اِذَا بَاعَ مِنْ رَجُلٍ شَیْئًا ، کَانَ لَہٗ أَنْ یَحْبِسَہُ حَتّٰی یَنْقُدَہُ الثَّمَنَ .وَاِنْ مَاتَ الْمُشْتَرِی ، وَعَلَیْہِ دَیْنٌ ، فَالْبَائِعُ أُسْوَۃُ الْغُرَمَائِ .فَکَانَ الْبَائِعُ ، مَتَیْ کَانَ مُحْبِسًا لِمَا بَاعَ ، حَتّٰی مَاتَ الْمُشْتَرِی ، کَانَ أَوْلَی بِہٖ مِنْ سَائِرِ غُرَمَائِ الْمُشْتَرِی .وَمَتَی دَفَعَہُ اِلَی الْمُشْتَرِی وَقَبَضَہُ مِنْہٗ، ثُمَّ مَاتَ ، فَہُوَ وَسَائِرُ الْغُرَمَائِ فِیْہٖ، سَوَائٌ فَکَانَ الَّذِیْ یُوْجِبُ لَہُ الْاِنْفِرَادَ بِثَمَنِہٖ، دُوْنَ الْغُرَمَائِ - ہُوَ بَقَاؤُہٗ فِیْ یَدِہٖ۔ فَلِمَا کَانَ مَا وَصَفْنَا کَذٰلِکَ ، کَانَ کَذٰلِکَ ، اِفْلَاسُ الْمُشْتَرِی ، اِذَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ یَدِ الْبَائِعِ ، فَہُوَ أَوْلَی بِہٖ مِنْ سَائِرِ غُرَمَائِ الْمُشْتَرِی .وَاِنْ کَانَ قَدْ أَخْرَجَہٗ مِنْ یَدِہِ اِلٰی یَدِ الْمُشْتَرِی ، فَہُوَ وَسَائِرُ الْغُرَمَائِ فِیْہِ سَوَائٌ ، فَہٰذِہِ حُجَّۃٌ صَحِیْحَۃٌ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّا رَأَیْنَاہٗ، اِذَا لَمْ یَقْبِضْہُ الْمُشْتَرِی ، وَقَدْ بَقِیَ لِلْبَائِعِ کُلُّ الثَّمَنِ، أَوْ نَقَدَہُ بَعْضَ الثَّمَنِ، وَبَقِیَتْ لَہٗ عَلَیْہِ طَائِفَۃٌ مِنْہُ - أَنَّہٗ أَوْلَی بِالْعَبْدِ ، حَتّٰی یَسْتَوْفِیَ مَا بَقِیَ لَہٗ مِنَ الثَّمَنِ .فَکَانَ بِبَقَائِہِ فِیْ یَدِہٖ، أَوْلَی بِہٖ اِذَا کَانَ لَہٗ کُلُّ الثَّمَنِ أَوْ بَعْضُ الثَّمَنِ ، وَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ، فَجَعَلَ حُکْمَہُ حُکْمًا وَاحِدًا .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَأَجْمَعُوْا أَنَّ الْمُشْتَرِیَ اِذَا قَبَضَ الْعَبْدَ وَنَقَدَ الْبَائِعُ مِنْ ثَمَنِہِ طَائِفَۃً ، ثُمَّ أَفْلَسَ الْمُشْتَرِی ، أَنَّ الْبَائِعَ لَا یَکُوْنُ بِتِلْکَ الطَّائِفَۃِ الْبَاقِیَۃِ لَہٗ أَحَقَّ بِالْعَبْدِ مِنْ سَائِرِ الْغُرَمَائِ ، بَلْ ہُوَ وَہُمْ فِیْہِ سَوَائٌ .وَکَذٰلِکَ اِذَا بَقِیَ لَہٗ ثَمَنُہُ کُلُّہُ حَتّٰی أَفْلَسَ ، فَلَا یَکُوْنُ بِذٰلِکَ أَحَقَّ بِالْعَبْدِ مِنْ سَائِرِ الْغُرَمَائِ ، وَیَکُوْنُ ہُوَ وَہُمْ فِیْہِ سَوَائٌ .فَیَسْتَوِی حُکْمُہُ اِذَا بَقِیَ لَہٗ کُلُّ الثَّمَنِ عَلَی الْمُشْتَرِی ، أَوْ بَعْضُ الثَّمَنِ حَتّٰی أَفْلَسَ الْمُشْتَرِی ، کَمَا اسْتَوَیْ بَقَاؤُہُمَا جَمِیْعًا لَہٗ عَلَیْہٖ، حَتّٰی کَانَ الْمَوْتُ الَّذِی أَجْمَعُوْا فِیْہِ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَثَبَتَ بِالنَّظَرِ ، مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ .
٦٠٤٣: ابن شہاب نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس آدمی نے کوئی سامان خریدا پھر خریدار مفلس ہوگیا اور فروخت کرنے والے نے اس سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی وصول نہ کیا تھا فروخت کرنے والے نے اپنا سامان بعینہٖ اس کے پاس پایا تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے اگر خریدار مرگیا تو پھر سامان والا آدمی بقیہ قرض خواہوں کے ساتھ برابر کا حصے دار ہوگا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پہلی روایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد فروخت کرنے والے لوگ ہیں دوسرے لوگ مراد نہیں۔ یہ روایت منقطع ہے جو دلیل بننے کے قابل نہیں۔ فریق اول والے کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ منقطع ہے مگر حدیث متصل کا بیان بن جانے کی وجہ سے اس کو قبول کیا گیا ہے۔ تو ان کے جواب میں کہا جائے گا تمہیں مناسب یہ تھا کہ جب یہ روایت ابی بکر بن عبدالرحمن مفطرب ہے جیسا کہ اس کو زہری نے اسی طرح روایت کیا جیسے تم نے ذکر کیا اور ان سے عمر بن عبدالعزیز نے اس طرح روایت کی جیسے ہم نے پہلے بیان کی ہے تو تم کسی اور روایت کی طرف رجوع کرتے اور وہ حضرت بشیر بن نہیک (رض) کی روایت ہے اور اس کو حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کا اصل قرار دے کر اس کے مخالف روایت کو ساقط قرار دیتے اور اگر تم ایسا کرتے تو پھر دلیل تمہارے خلاف بن جاتی اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارے مخالف کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اس حدیث زہری میں مفلس ہوجانے اور موت کے درمیان فرق کیا گیا ہے وہ پہلی روایت کے خلاف ہے پس تمہارے مخالف کے ہاں پہلی روایت کی تاویل کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے گا اور یہ دوسری روایت منقطع اور شاذ ٹھہرے گی جس سے کوئی دلیل بھی قائم نہ ہو سکے گی پس اس کے استعمال کو ترک کردینا اور چھوڑ دینا ضروری ہوگا۔ اب تک جو کچھ ہم نے ذکر کیا یہ آثار مرویہ کو سامنے رکھ کر اس باب کا حکم ہے۔ بطریق نظر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے کو کوئی چیز فروخت کر دے تو اس کو حق پہنچتا ہے کہ قیمت وصول کرنے تک اس چیز کو اپنے پاس روک لے اور اگر خریدار مرجائے اور اس پر قرضہ ہو تو فروخت کرنے والا دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ جب فروخت کرنیوالے کو فروخت شدہ چیز روکنے کا حق ہے اور اس نے وہ چیز روک لی یہاں تک کہ خریدار مرگیا تو وہ اس چیز کا دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ حق دار ہے اور اگر اس نے وہ چیز مشتری کے حوالے کردی اور اس نے وہ قبضے میں کرلی پھر مشتری مرگیا تو اس صورت میں تمام قرض خواہ برابر کے شریک ہوں گے جو چیز اس کو ان سے الگ کرتی ہے وہ اس کا ثمن ہے اور یہ چیز باقی قرض خواہوں کے لیے نہیں اور وہ اس چیز کا اس کے ہاتھ میں اسی طرح باقی رہنا ہے پس جو کچھ ہم نے بیان کیا جب اس کی صورت اسی طرح ہے تو مشتری کے مفلس ہوجانے میں بھی حکم یہی ہونا چاہیے جب کہ بعینہٖ وہ غلام بائع کے ہاتھ میں موجود ہو تو وہ اس کا تمام قرض خواہوں میں زیادہ حق دار ہے اور اگر وہ غلام اس کے ہاتھ سے نکل کر مشتری کے ہاتھ میں چلا گیا تو وہ اور دیگر قرض خواہ برابر کے حق دار ہیں یہ درست دلیل ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم نے غور کیا کہ جب خریدار نے اس کو اپنے قبضے میں نہ لیا اور فروخت کرنے والے کی کل قیمت ابھی مشتری کے ذمے باقی ہے یا اس نے کچھ قیمت نقد ادا کردی اور باقی رقم اس کے ذمے ہے تو پھر بھی بیچنے والا قیمت کی کامل وصولی تک اس کا زیادہ حق دار ہے پس وہ اس چیز کے قبضہ میں ہونے کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے جب کہ تمام قیمت یا قیمت کا کچھ حصہ مشتری کے ذمہ باقی ہو ان دونوں صورتوں میں کوئی تفریق نہ کی جائے گی اور ان کا حکم ایک ہی قرار دیا جائے گا پس جب یہ بات اسی طرح ہے اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ مشتری جب غلام پر قبضہ کرلے اور خریدار اس کی قیمت کا کچھ حصہ نقد وصول کرلے پھر خریدار مفلس ہوجائے تو اس صورت میں فروخت کرنے والا بقیہ رقم میں دیگر قرض خواہوں کے مقابلہ میں اس غلام کا زیادہ حق دار نہیں بنے گا بلکہ تمام قرض خواہ برابر ہوں گے اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ جب غلام کی تمام قیمت باقی تھی اور خریدار مفلس ہوگیا تو اس صورت میں بھی دوسرے قرض خواہوں کے مقابلے میں وہ غلام کا زیادہ حق دار نہ ہوگا بلکہ سب قرض خواہ برابر ہوں گے پس حکم ایک جیسا ہوگا جبکہ تمام قیمت مشتری کے ذمہ باقی ہو یا بعض قیمت کے ذمہ ہوتے ہوئے مشتری مفلس ہوجائے جس طرح کہ اس کی موت کی صورت میں کل قیمت یا بعض قیمت کا باقی رہنا برابر ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اس پر سب کا اتفاق ہے اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا وہ قیاس سے بھی ثابت ہوگیا اور یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٧٤‘ مالک فی البیوع روایت نمبر ٨٧۔
اقوال تابعین (رض) سے تائید :

6046

۶۰۴۴: وَقَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ .
٦٠٤٤: شعبہ نے مغیرہ سے اور انھوں نے ابراہیم سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6047

۶۰۴۵: وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَشْعَبَ ، مَوْلَی آلِ حُمْرَانَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ أُسْوَۃُ الْغُرَمَائِ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٦٠٤٥: اشعث مولیٰ آل حمران نے حسن سے روایت کی ہے کہ وہ فروخت کرنے والا دیگر قرض خواہوں کے ساتھ برابر کا شریک ہوگا۔

6048

۶۰۴۶: ہَلْ تُقْبَلُ عَلَی الْقَرَوِیِّ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ نَافِعٌ وَیَزِیْدُ وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ الْہَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تُقْبَلُ شَہَادَۃُ الْبَدْوِیِّ عَلَی الْقَرَوِیِّ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ شَہَادَۃَ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ ، غَیْرُ مَقْبُوْلَۃٍ عَلٰی أَہْلِ الْحَضَرِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ ، مِمَّنْ یُجِیْبُ اِذَا دُعِیَ وَفِیْہِ أَسْبَابُ الْعَدَالَۃِ ، مَا فِیْ أَہْلِ الْعَدَالَۃِ مِنْ أَہْلِ الْحَضَرِ ، فَشَہَادَتُہُ مَقْبُوْلَۃٌ ، وَہُوَ کَأَہْلِ الْحَضَرِ .وَمِمَّنْ کَانَ مِنْہُمْ لَا یُجِیْبُ اِذَا دُعِیَ ، فَلَا تُقْبَلُ شَہَادَتُہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَائِرِ ذٰلِکَ ،
٦٠٤٦: عطاء بن یسار نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ شہری کے خلاف دیہاتی کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دیہاتیوں کی گواہی شہریوں کے خلاف ناقابل قبول ہے۔ انھوں نے اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ جو دیہاتی ان لوگوں سے ہو جو بلانے پر حاضر ہوجاتے ہیں تو ان میں وہ اسباب عدالت پائے جاتے ہیں جو شہریوں کے اہل عدالت میں پائے جاتے ہیں تو اس کی گواہی مقبول ہے اور وہ شہریوں کی طرح ہے اور جو دیہاتی بلانے پر حاضر نہیں ہوتے ان کی گواہی قابل قبول نہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں یہ روایات وارد ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الاقضیہ باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٣٠‘ بتغیر یسیر من الالفاض۔
شہریوں کے خلاف دیہاتی لوگوں کی گواہی قابل قبول نہ ہوگی اس قول سے ایسے دیہاتی مراد ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکموں سے سرکشی اختیار کرنے والے ہیں مختلف دینی کاموں کی طرف بلانے کے باوجود نہ آئے باقی جو دیہاتی فرمان بردار اور نیک ہوں ان کا یہ حکم نہیں ہے۔

6049

۶۰۴۷: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَدِمَتْ أُمُّ سُنْبُلَۃَ الْأَسْلَمِیَّۃُ ، وَمَعَہَا وَطْبٌ مِنْ لَبَنٍ ، تُہْدِیْہِ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَوَضَعَتْہُ عِنْدِی ، وَمَعَہَا قَدَحٌ لَہَا .فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَرْحَبًا وَسَہْلًا ، بِأُمِّ سُنْبُلَۃَ قَالَتْ : بِأَبِیْ وَأُمِّی ، أَہْدَیْتُ لَکَ وَطْبًا مِنْ لَبَنٍ .قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ عَلَیْکَ، صُبِّی لِیْ فِیْ ہٰذَا الْقَدَحِ فَصَبَّتْ لَہٗ فِی الْقَدَحِ فَلَمَّا أَخَذَہٗ، قُلْتُ : قَدْ قُلْتَ لَا أَقْبَلُ ہَدِیَّۃً مِنْ أَعْرَابِی .قَالَ أَعْرَابُ أَسْلَمَ یَا عَائِشَۃُ ، اِنَّہُمْ لَیْسُوْا بِأَعْرَابٍ وَلٰـکِنَّہُمْ أَہْلُ بَادِیَتِنَا ، وَنَحْنُ أَہْلُ حَاضِرَتِہِمْ ، اِذَا دَعَوْنَاہُمْ أَجَابُوْا ، وَاِذَا دَعَوْنَا أَجَبْنَاہُمْ ثُمَّ شَرِبَ .
٦٠٤٧: عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے ام سنبلہ اسلمیہ (رض) آئی اس کے ساتھ دودھ کی ایک مشک تھی وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کر رہی تھی اس نے وہ دودھ میرے پاس رکھ دیا اس کے پاس ایک پیالہ بھی تھا۔ اسی وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا ام سنبلہ کو ! مرحبا اور اھلاً و سھلاً ۔ اس نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے لیے دودھ کی ایک مشک ہدیہ کے طور پر لائی ہوں آپ نے فرمایا بارک اللہ علیک۔ اللہ تمہیں برکت دے۔ اس پیالے میں میرے لیے دودھ ڈالو۔ جب اس نے پیالے میں ڈال دیا اور آپ نے دست اقدس میں پکڑ لیا تو میں نے کہا آپ نے تو فرمایا تھا میں کسی اعرابی کا ہدیہ قبول نہ کروں گا۔
آپ نے فرمایا قبیلہ اسلم کے اعراب وہ عام اعراب نہیں وہ تو ہمارے جنگل کے لوگ ہیں اور ہم ان کے شہری ہیں جب ہم ان کو بلاتے ہیں تو وہ فوراً آجاتے ہیں اور جب وہ ہمیں بلاتے ہیں تو ہم ان کی معاونت کرتے ہیں پھر آپ نے وہ دودھ نوش فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٣٣‘ بنحوہ۔

6050

۶۰۴۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٠٤٨: یونس بن بکیر نے ابن اسحاق سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

6051

۶۰۴۹: حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نِیَارٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِنَحْوِہِ وَزَادَ فِیْ آخِرِہِ فَلَیْسُوْا بِأَعْرَابٍ فَأَخْبَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ : یُجِیْبُ اِذَا دُعِیَ ، فَہُوَ کَأَہْلِ الْحَضَرِ وَأَنَّ الْأَعْرَابَ الْمُتَقَوِّمِیْنَ ، الَّذِیْنَ لَا تُقْبَلُ ہَدَایَاہُمْ ، بِخِلَافِ ہٰؤُلَائِ ، وَہُمْ الَّذِیْنَ لَا یُجِیْبُوْنَ اِذَا دُعُوْا .فَمَنْ کَانَ کَذٰلِکَ ، لَمْ تُقْبَلْ شَہَادَتُہُمْ ، وَہُمْ الَّذِیْنَ عَنَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، فِیْمَا نَرَی ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ.
٦٠٤٩: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور اس کے آخر میں یہ اضافہ ہے۔ ” فلیسوا باعراب “ کہ وہ دوسرے دیہاتیوں کی طرح نہیں ہیں۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بتلایا جو دیہاتی بلاوے کے وقت آجاتے ہیں وہ شہریوں کے حکم میں ہیں اور وہ دیہاتی جن کے تحائف قبول نہ کئے جائیں وہ ان کے خلاف ہیں جو کہ بلاوے کے وقت نہیں آتے (بلکہ سرکشی کرتے ہیں)
پس جو دیہاتی اس طرح کا ہو اس کی گواہی قابل قبول نہ ہوگی اور حدیث ابوہریرہ (رض) میں یہی لوگ مراد ہیں جیسا کہ ہماری رائے ہے۔ واللہ اعلم۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔