HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

12. تاوان لینے کا بیان

الطحاوي

4884

۴۸۸۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ قَالَ حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ .ح
٤٨٨٤: اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی ہے۔

4885

۴۸۸۵: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مَکَّۃَ قَتَلَتْ ہُذَیْلٌ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ بِقَتِیْلٍ کَانَ لَہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ فَقَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ : مَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِیْلٌ فَہُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ اِمَّا أَنْ یَقْتُلَ وَاِمَّا أَنْ یُوْدَی وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ .وَقَالَ أَبُوْبَکْرَۃَ فِیْ حَدِیْثِہِ قَتَلَتْ خُزَاعَۃُ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ذِکْرُ مَا یَجِبُ فِی النَّفْسِ خَاصَّۃً وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ ذٰلِکَ .
٤٨٨٥: یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ کو فتح کردیا تو ہذیل قبیلہ کے لوگوں نے بنو لیث کے ایک آدمی کو قتل کردیا اور یہ قتل ایک مقتول کے بدلے میں تھا جو زمانہ جاہلیت میں پیش آیا تھا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے خطبہ میں فرمایا جس کا کوئی آدمی مقتول ہوگیا تو دو باتوں میں ایک کو اختیار کرسکتے ہیں یا تو قاتل کو قتل کریں یا اولیاء مقتول کو دیت دی جائے گی یہ الفاظ محمد بن عبداللہ کے ہیں۔ ابو بکرہ نے اپنی روایت میں اس طرح ذکر کیا : ” قتلت خزاعۃ رجلا من بنی لیث “ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک آدمی مار دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں صرف وہ بات مذکور ہے جو صرف قتل نفس کی صورت میں لازم آتی ہے حضرت ابو شریح خزاعی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جیسی روایت کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الجنایات باب ٨‘ واللقطہ باب ٧‘ والعلم باب ٣٩‘ مسلم فی الحج ٤٤٧‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٤‘ ترمذی فی الدیات باب ١٣‘ نسائی فی القسامۃ باب ٢٩‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٣‘ مسند احمد ٢؍٢٣٨۔
لغات : خیرالنظرین۔ دونوں ہم مثلوں میں سے زیادہ بہتر۔ ہذیل۔ مشہور قبیلہ عرب ہے۔ خزاعہ۔ عرب کا معروف قبیلہ ہے۔
امام طحاوی (رح) کا قول : اس روایت میں صرف وہ بات مذکور ہے جو صرف قتل نفس کی صورت میں لازم آتی ہے حضرت ابو شریح خزاعی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جیسی روایت کی ہے۔

4886

۴۸۸۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدٌ الْمَقْبُرِیُّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا شُرَیْحٍ الْکَعْبِیَّ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ خُطْبَتِہِ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ أَلَا اِنَّکُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَۃَ قَتَلْتُمْ ہٰذَا الْقَتِیْلَ مِنْ ہُذَیْلٍ وَاِنِّیْ عَاقِلُہُ فَمَنْ قُتِلَ لَہُ بَعْدَ مَقَالَتِی قَتِیْلٌ فَأَہْلُہُ بَیْنَ خِیْرَتَیْنِ بَیْنَ أَنْ یَأْخُذُوْا الْعَقْلَ وَبَیْنَ أَنْ یَقْتُلُوْا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ مِنْ غَیْرِ ہٰذَا الْوَجْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا دُوْنَ النَّفْسِ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٤٨٨٦: سعید مقبری کہتے ہیں کہ میں نے ابو شریح کعبی (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے روز اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔ اے بنو خراعہ سنو ! تم نے ہذیل کا یہ آدمی قتل کردیا ہے اور میں اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا۔ پس جو آدمی (آئندہ) قتل ہوگا اس کے ورثاء دو باتوں میں اختیار رکھتے ہیں دیت وصول کریں یا اس (قاتل) کو قتل کریں۔
تخریج : ابو داؤد فی الدیات باب ٤‘ مسند احمد ٦؍٣٨٥۔
لغات : عاقلہ۔ دیت ادا کرنے والا ہوں۔ بین خیرتین۔ وہ دو اختیاروں میں ہے حضرت ابو شریح (رض) سے نفس سے کم جنایت کے سلسلہ میں اسی طرح کی روایت مروی ہے۔ وہ روایت یہ ہے۔

4887

۴۸۸۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَیْلٍ عَنْ سُفْیَانَ بْنِ أَبِی الْعَوْجَائِ عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أُصِیْبَ بِدَمٍ أَوْ بِخَبْلٍ یَعْنِیْ بِالْخَبْلِ الْجِرَاحَ فَوَلِیُّہُ بِالْخِیَارِ بَیْنَ اِحْدَی ثَلَاثٍ بَیْنَ أَنْ یَعْفُوَ أَوْ یَقْتَصَّ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ فَاِنْ أَتَی الرَّابِعَۃَ فَخُذُوْا عَلَی یَدَیْہِ فَاِنْ قَبِلَ وَاحِدَۃً مِنْہُنَّ ثُمَّ عَدَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہُ النَّارُ خَالِدًا فِیْہَا مُخَلَّدًا .
٤٨٨٧: سفیان بن ابی عوجاء نے ابو شریح خزاعی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص قتل ہوجائے یا اس کو زخم پہنچے ۔ الخبل سے زخم مراد ہے۔ اس کے اولیاء کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔ معاف کر دے۔ بدلہ لے۔ دیت وصول کرے۔ اگر وہ کوئی چوتھی بات اختیار کرے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو یعنی منع کرو۔ اگر وہ ان تین باتوں میں ایک بات قبول کرنے کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے جہنم ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الدیات باب ٣‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٣‘ دارمی فی الدیات باب ١‘ بمثلہ۔
لغات : الخبل۔ زخم۔

4888

۴۸۸۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَبَّادٌ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْحَارِثُ بْنُ فُضَیْلٍ عَنْ سُفْیَانَ بْنِ أَبِی الْعَرْجَائِ عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ حُکْمَ الْجِرَاحِ الْعَمْدِ فِیْمَا یَجِبُ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِنَ الْقِصَاصِ وَالدِّیَۃِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا قُتِلَ عَمْدًا فَوَلِیُّہُ بِالْخِیَارِ بَیْن أَنْ یَعْفُوَ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ أَوْ یَقْتَصَّ رَضِیَ بِذٰلِکَ الْقَاتِلُ أَوْ لَمْ یَرْضَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَیْسَ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ اِلَّا بِرِضَائِ الْقَاتِلِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ أَنَّ قَوْلَہُ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی مَا قَالَ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی وَیَجُوْزُ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ اِنْ أُعْطِیَہَا کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ خُذْ بِدَیْنِک اِنْ شِئْتُ دَرَاہِمَ وَاِنْ شِئْتُ دَنَانِیْرَ وَاِنْ شِئْت عُرُوْضًا وَلَیْسَ یُرَادُ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ یَأْخُذُ ذٰلِکَ رَضِیَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الدَّیْنُ أَوْ کَرِہَ وَلٰـکِنْ یُرَادُ اِبَاحَۃُ ذٰلِکَ لَہُ اِنْ أُعْطِیَہُ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَمَا حَاجَتُہُمْ اِلَی ذِکْرِ ہَذَا ؟ قِیْلَ لَہٗ : لِمَا قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٤٨٨٨: سفیان بن ابی العوجاء نے ابو شریح (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر زخمی کرنے کا حکم جان بوجھ کر قتل کرنے کے حکم کی طرح ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں قصاص یا دیت لازم ہوتی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ جب کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کردیا گیا تو اس کے ولی کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ معاف کر دے یا دیت وصول کرے یا قصاص لے خواہ قاتل اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا قاتل کی مرضی کے بغیر وہ دیت کو اختیار نہیں کرسکتے۔ انھوں نے ” او یأخذ الدیۃ “ کو پیش کیا۔ اگرچہ اس سے وہ بات بھی مراد ہوسکتی جو آپ نے مراد لی ہے مگر اس میں ایک اور احتمال بھی ہے کہ دیت کا مطلقاً جواز مراد لیا جائے جبکہ اس کو دی جائے جیسا کہ محاورہ میں کسی شخص کو کہا جائے خذ بدینک ان شئت دراہم وان شئت دنانیر وان شئت عروضا “ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرض خواہ یہ چیز ضرور لے خواہ خواہ وہ اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔ بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کو اپنی مرضی سے پسند کرنے پر ان میں سے کسی چیز کے لینے کا جواز ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ ان کو اس بات کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح مروی ہے جیسا کہ یہ روایت ہے۔
لغات اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر زخمی کرنے کا حکم جان بوجھ کر قتل کرنے کے حکم کی طرح ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں قصاص یا دیت لازم ہوتی ہے۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ جب کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کردیا گیا تو اس کے ولی کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ معاف کر دے یا دیت وصول کرے یا قصاص لے خواہ قاتل اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایات سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : قاتل کی مرضی کے بغیر وہ دیت کو اختیار نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا ” او یأخذ الدیۃ “ کو پیش کیا۔ ! اگرچہ اس سے وہ بات بھی مراد ہوسکتی ہے جو آپ نے مراد لی ہے مگر اس میں ایک اور احتمال بھی ہے کہ دیت کا مطلقاً جواز مراد لیا جائے جبکہ اس کو دی جائے جیسا کہ محاورہ میں کسی شخص کو کہا جائے خذ بدینک ان شئت دراہم وان شئت دنانیر وان شئت عروضا “ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرض خواہ یہ چیز ضرور لے خواہ وہ اس پر راضی ہو یا نہ ہو بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کو اپنی مرضی سے پسند کرنے پر ان میں سے کسی چیز کے لینے کا جواز ہے۔
سوال : ان کو اس بات کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
جواب : حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح مروی ہے جیسا کہ یہ روایت ہے۔

4889

۴۸۸۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ الْقِصَاصُ فِیْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَمْ یَکُنْ فِیْہِمْ دِیَۃٌ .فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِہٰذِہِ الْأُمَّۃِ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلَی الْحَرُّ بِالْحُرِّ اِلَی قَوْلِہٖ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ أَخِیْہِ شَیْء ٌ وَالْعَفْوُ فِیْ أَنْ یَقْبَلَ الدِّیَۃَ فِی الْعَمْدِ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِنْ رَبِّکُمْ مِمَّا کَانَ کُتِبَ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ .فَأَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا أَنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ لَمْ یَکُنْ فِیْہِمْ دِیَۃٌ ، أَیْ : أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ حَرَامًا عَلَیْہِمْ أَنْ یَأْخُذُوْھُ أَوْ یَتَعَرَّضُوْا بِالدَّمِ بَدَلًا أَوْ یَتْرُکُوْھُ حَتّٰی یَسْفِکُوْھُ وَأَنَّ ذٰلِکَ مِمَّا کَانَ کُتِبَ عَلَیْہِمْ .فَخَفَّفَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ وَنَسَخَ ذٰلِکَ الْحُکْمَ بِقَوْلِہٖ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ أَخِیْہِ شَیْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَأَدَاء ٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ .مَعْنَاہُ اِذَا وَجَبَ الْأَدَائُ .وَسَنُبَیِّنُ مَا قِیْلَ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَبَیَّنَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلَی ہٰذِہِ الْجِہَۃِ فَقَالَ مَنْ قُتِلَ لَہُ وَلِیٌّ فَہُوَ بِالْخِیَارِ بَیْنَ أَنْ یَقْتَصَّ أَوْ یَعْفُوَ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ الَّتِیْ أُبِیْحَتْ لِہٰذِہِ الْأُمَّۃِ وَجَعَلَ لَہُمْ أَخْذَہَا اِذَا أُعْطَوْہَا ہَذَا وَجْہٌ یَحْتَمِلُہُ ہٰذَا الْحَدِیْثُ .وَلَیْسَ لِأَحَدٍ اِذَا کَانَ حَدِیْثٌ مِثْلَ ہَذَا یَحْتَمِلُ وَجْہَیْنِ مُتَکَافِئَیْنِ أَنْ یَعْطِفَہُ عَلٰی أَحَدِہِمَا دُوْنَ الْآخَرِ اِلَّا بِدَلِیْلٍ مِنْ غَیْرِہِ یَدُلُّ أَنَّ مَعْنَاہُ عَلٰی مَا عَطَفَہُ عَلَیْہِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : فَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ أَخِیْہِ شَیْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَأَدَاء ٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ الْآیَۃَ .فَأَخْبَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ أَنَّ لِلْوَلِیِّ أَنْ یَعْفُوَ أَوْ یَتَّبِعَ الْقَاتِلَ بِاِحْسَانٍ فَاسْتَدَلُّوْا بِذٰلِکَ أَنَّ لِلْوَلِیِّ - اِذَا عَفَا - أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ مِنَ الْقَاتِلِ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ اشْتَرَطَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ فِیْ عَفْوِہِ عَنْہُ .قِیْلَ لَہُمْ : مَا فِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ وَقَدْ یَحْتَمِلُ ذٰلِکَ وُجُوْہًا أَحَدُہَا مَا وَصَفْتُمْ .وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ أَخِیْہِ شَیْء ٌ عَلَی الْجِہَۃِ الَّتِیْ قُلْنَا بِرِضَائِ الْقَاتِلِ أَنْ یَعْفُوَ عَنْہُ عَلٰی مَا یُؤْخَذُ مِنْہُ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ فِی الدَّمِ الَّذِیْ یَکُوْنُ بَیْنَ جَمَاعَۃٍ فَیَعْفُو أَحَدُہُمْ فَیَتَّبِعُ الْبَاقُوْنَ الْقَاتِلَ بِحِصَصِہِمْ مِنْ الدِّیَۃِ بِالْمَعْرُوْفِ وَیُؤَدِّیْ ذٰلِکَ اِلَیْہِمْ بِاِحْسَانٍ .ہٰذِہِ تَأْوِیْلَاتٌ قَدْ تَأَوَّلَتِ الْعُلَمَائُ ہٰذِہِ الْآیَۃَ عَلَیْہَا فَلَا حُجَّۃَ فِیْہَا لِبَعْضٍ عَلَی بَعْضٍ اِلَّا بِدَلِیْلٍ آخَرَ فِیْ آیَۃٍ أُخْرَی مُتَّفَقٌ عَلٰی تَأْوِیْلِہَا أَوْ سُنَّۃٍ أَوْ اِجْمَاعٍ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ شُرَیْحٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ بِالْخِیَارِ بَیْنَ أَنْ یَعْفُوَ أَوْ یَقْتُلَ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ فَجَعَلَ عَفْوَہُ غَیْرَ أَخْذِہِ الدِّیَۃَ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ اِذَا عَفَا فَلَا دِیَۃَ لَہُ وَاِذَا کَانَ لَا دِیَۃَ لَہُ اِذَا عَفَا عَنِ الدَّمِ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ کَانَ وَجَبَ لَہُ ہُوَ الدَّمُ وَأَنَّ أَخْذَہُ الدِّیَۃَ الَّتِیْ أُبِیْحَتْ لَہُ ہُوَ بِمَعْنَی أَخْذِہَا بَدَلًا مِنَ الْقَتْلِ .وَالْاِبْدَالُ مِنَ الْأَشْیَائِ لَمْ نَجِدْہَا تَجِبُ اِلَّا بِرِضَائِ مَنْ تَجِبُ عَلَیْہِ وَرِضَائُ مَنْ تَجِبُ لَہٗ۔فَاِذَا ثَبَتَ ذٰلِکَ فِی الْقَتْلِ ثَبَتَ مَا ذَکَرْنَا وَانْتَفَی مَا قَالَ الْمُخَالِفُ لَنَا .وَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِیْمَا احْتَجَّ بِہٖ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ مَا یَدُلُّ عَلَیْہِ نَظَرْنَا : ہَلْ لِلْآخَرِیْنَ خَبَرٌ یَدُلُّ عَلٰی مَا قَالُوْا ؟ فَاِذَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَانَا قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ .ح .
٤٨٨٩: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ قصاص تو بنی اسرائیل میں تھا مگر ان میں دیت نہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس امت کو فرمایا : ” کتب علیکم القصاص۔۔۔ فمن عفی لہ من اخیہ شیء (البقرہ : ١٧٨) پس عفو یہ ہے کہ جان بوجھ کر قتل میں دیت کو قبول کرے یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف ہے جو کہ پہلی امتوں پر فرض کی گئی تھی۔ اس روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ دیت بنی اسرائیل میں نہیں تھی یعنی ان کے لیے دیت کا لینا یا قصاص کا ترک کرنا حرام تھا اور قصاص بذریعہ خون ان کے لیے لازم تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس امت پر آسانی فرمائی اور اپنے اس ارشاد سے : فمن عفی لہ من اخیہ شیء ف اتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان۔ پس جس کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے تو وہ دستور کے مطابق اس کا مطالبہ کرے اور (وہ) عمدہ انداز سے ادا کرے۔ تو اس آیت نے سابقہ حکم کو منسوخ کردیا۔ عمدگی کے ساتھ ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کی ادائیگی لازم ہو تو اچھے انداز سے ادا کر دے۔ اس سلسلہ میں گفتگو اسی باب میں ہم اپنے موقعہ پر ذکر کریں گے (ان شاء اللہ تعالیٰ ) تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو اس جہت سے بھی بیان فرمایا کہ جس کا کوئی رشتہ دار قتل ہوجائے تو اس کو اختیار ہے کہ قصاص لے یا معاف کر دے یا دیت کرلے جو کہ اس امت کے لیے حلال کی گئی اور جب ان کو دیت دی جائے تو ان کے لیے اس کا لینا جائز ہے۔ اس روایت میں اس بات کا بھی احتمال ہے (دوسرا فریق اوّل والا بھی) تو کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ جب کسی روایت میں اس طرح کے دو مساوی احتمال ہوں تو وہ ایک کو چھوڑ کر دوسرے پر محمول کرے۔ البتہ اس پر اگر کوئی دوسری دلیل پائی جائے جو اس معنی کے مراد ہونے پر دلالت کرے تو پھر وہی معنی لیا جائے گا جس پر دلیل کی دلالت ہے اور ایسی بات تلاش کرنی چاہیے جو ان میں سے ایک چیز پر دلالت کرے۔ فریق اوّل کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فمن عفی لہ من اخیہ شیء ف اتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتلائی ہے کہ ولی کو معاف کرنے اور قاتل سے اچھے انداز سے مطالبے کا حق حاصل ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ولی مقتول جب معاف کرے گا تو وہ قاتل سے دیت بھی لے سکتا ہے اگرچہ اس کو معاف کرتے وقت یہ شرط طے نہ کی گئی ہو۔ ان کو جواب میں عرض کریں گے کہ جو بات تم نے کہی ہے آیت میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ البتہ آیت میں کئی احتمالات ہیں ان میں سے ایک احتمال وہ ہے جس کا آپ نے تذکرہ کیا اور دوسرا احتمال وہ ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا کہ جس کو بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے کہ قاتل کی مرضی سے اس سے قصاص معاف کر دے اور اس کے بدلے دیت وصول کرے اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہ آیت اس خون سے متعلق ہو جو ایک جماعت کے مابین باہمی مشترک ہو اور ان میں سے ایک معاف کر دے تو باقی حضرات قاتل سے اپنے اپنے حصہ کی دیت اچھے انداز سے طلب کریں اور وہ بھی ان کو اچھے انداز سے ادا کرے۔ حاصل یہ ہوگیا کہ ان تمام معانی کو اس آیت سے متعلق علماء نے بیان کیا ہے مگر ان میں سے کسی کو دوسرے کے خلاف بطور حجت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک کہ کسی دوسری آیت کی دلیل نہ ملے جس کی تفسیر پر سب کا اتفاق ہو یا سنت و اجماع سے دلیل مل جائے۔ حضرت ابو شریح (رض) والی روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ معاف کر دے یا قصاص لے یا دیت وصول کرے تو معافی اور دیت کی ادائیگی کو ایک دوسرے سے الگ اور غیر قرار دیا گیا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ جب وہ معاف کر دے تو دیت نہ ہوگی اور جب خون معاف کرنے کی صورت میں دیت لازم نہ ہوئی تو اس سے یہ بات خود نکل آئی کہ جو چیز اصل واجب ہے وہ قصاص ہے اور دیت کے لینے کو تو بدل کے طور پر جائز قرار دیا گیا اور جو چیزیں بدل ہوا کرتی ہیں وہ ہماری تحقیق کے مطابق جن لوگوں پر لازم ہوں ان کی مرضی سے لازم ہوتی ہیں اور ان کی رضامندی ضروری ہے۔ پس جب قتل کے سلسلہ میں یہ بات ثابت ہوگئی تو جو ہم نے سابقہ سطور میں ذکر کیا وہ ثابت ہوگیا اور فریق اوّل کے دعویٰ کی نفی ہوگئی۔ جب فریق اوّل کے لیے اس بات پر کوئی دلیل نہ مل سکی تو اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا فریق ثانی کے ہاں کوئی ایسی روایت ہے جو اس پر دلالت کرے ؟ چنانچہ ابوبکرہ اور ابراہیم بن مرزوق کی سند سے یہ روایت موجود ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢ باب ٢٣‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٨‘ نسائی فی القسامہ باب ٢٧۔

4890

۴۸۹۰: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَا : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّضْرِ أَنَّ عَمَّتَہُ الرُّبَیِّعَ لَطَمَتْ جَارِیَۃً فَکَسَرَتْ ثَنِیَّتَہَا فَطَلَبُوْا اِلَیْہِمُ الْعَفْوَ فَأَبَوْا ، وَالْأَرْشَ ، فَأَبَوْا اِلَّا الْقِصَاصَ .فَاخْتَصَمُوْا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ .فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَتُکْسَرُ ثَنِیَّۃُ الرُّبَیِّعِ لَا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا تُکْسَرُ ثَنِیَّتُہَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا أَنَسُ کِتَابُ اللّٰہِ الْقِصَاصُ فَرَضِیَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا .وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ یَزِیْدُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ .فَلَمَّا کَانَ الْحُکْمُ الَّذِیْ حَکَمَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرُّبَیِّعِ لِلْمَنْزُوْعَۃِ ثَنِیَّتُہَا ہُوَ الْقِصَاصُ وَلَمْ یُخَیِّرْہَا بَیْنَ الْقِصَاصِ وَأَخْذِ الدِّیَۃِ وَہَاجَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ حِیْنَ أَبَیْ ذٰلِکَ ، فَقَالَ یَا أَنَسُ کِتَابُ اللّٰہِ الْقِصَاصُ فَعَفَا الْقَوْمُ فَلَمْ یَقْضِ لَہُمْ بِالدِّیَۃِ .ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ یَجِبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَسُنَّۃِ رَسُوْلِہِ فِی الْعَمْدِ ہُوَ الْقِصَاصُ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ یَجِبُ لِلْمَجْنِیِّ عَلَیْہِ الْخِیَارُ بَیْنَ الْقِصَاصِ وَبَیْنَ الْعَفْوِ مِمَّا یَأْخُذُ بِہٖ الْجَانِیْ اِذًا لَخَیَّرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْلَمَہَا مَا لَہَا أَنْ تَخْتَارَہُ مِنْ ذٰلِکَ .أَلَا تَرَی أَنَّ حَاکِمًا لَوْ تَقَدَّمَ اِلَیْہِ رَجُلٌ فِیْ شَیْئٍ یَجِبُ لَہُ فِیْہِ أَحَدُ شَیْئَیْنِ فَثَبَتَ عِنْدَہُ حَقُّہُ أَنَّہٗ لَا یَحْکُمُ لَہُ بِأَحَدِ الشَّیْئَیْنِ دُوْنَ الْآخَرِ وَاِنَّمَا یَحْکُمُ لَہُ بِأَنْ یَخْتَارَ مَا أَحَبَّ مِنْ کَذَا وَمِنْ کَذَا فَاِنْ تَعَدَّیْ ذٰلِکَ فَقَدْ قَصُرَ عَنْ فَہْمِ الْحُکْمِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْکَمُ الْحُکَمَائِ .فَلَمَّا حَکَمَ بِالْقِصَاصِ وَأَخْبَرَ أَنَّہٗ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الَّذِی فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ ہُوَ الْقِصَاصُ لَا غَیْرُہٗ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَجَبَ أَنْ یُعْطَفَ عَلَیْہِ حَدِیْثُ أَبِیْ شُرَیْحٍ وَأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَیُجْعَلَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمَا فَہُوَ بِالْخِیَارِ بَیْنَ أَنْ یَعْفُوَ أَوْ بَیْنَ أَنْ یَقْتَصَّ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ عَلَی الرِّضَائِ مِنَ الْجَانِیْ بِغُرْمِ الدِّیَۃِ حَتّٰی تَتَّفِقَ مَعَانِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ وَمَعْنَیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ النَّظَرَ یَدُلُّ عَلٰی مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی وَذٰلِکَ أَنَّ عَلَی النَّاسِ أَنْ یَسْتَحْیُوْا أَنْفُسَہُمْ .فَاِذَا قَالَ الَّذِی لَہُ سَفْکُ الدَّمِ قَدْ رَضِیتُ بِأَخْذِ الدِّیَۃِ وَتَرْکِ سَفْکِ الدَّمِ وَجَبَ عَلَی الْقَاتِلِ اسْتِحْیَائُ نَفْسِہِ فَاِذَا وَجَبَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أُخِذَ مِنْ مَالِہِ وَاِنْ کَرِہَ .فَالْحُجَّۃُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ عَلَی النَّاسِ اسْتِحْیَائَ أَنْفُسِہِمْ کَمَا ذَکَرْتُ بِالدِّیَۃِ وَبِمَا جَاوَزَ الدِّیَۃَ وَجَمِیْعَ مَا یَمْلِکُوْنَ .وَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْوَلِیَّ لَوْ قَالَ لِلْقَاتِلِ قَدْ رَضِیتُ أَنْ آخُذَ دَارَک ہٰذِہِ عَلٰی أَنْ لَا أَقْتُلَک أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَی الْقَاتِلِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللّٰہِ تَسْلِیْمُ ذٰلِکَ لَہُ وَحَقْنُ دَمِ نَفْسِہِ فَاِنْ أَبَی لَمْ یُجْبَرْ عَلَیْہِ بِاتِّفَاقِہِمْ عَلٰی ذٰلِکَ وَلَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُ ذٰلِکَ کُرْہًا فَیُدْفَعُ اِلَی الْوَلِیِّ .فَکَذٰلِکَ الدِّیَۃُ اِذَا طَلَبَہَا الْوَلِیُّ فَاِنَّہٗ یَجِبُ عَلَی الْقَاتِلِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَبِّہِ أَنْ یَسْتَحِیَ نَفْسَہُ بِہَا وَاِنْ أَبَیْ ذٰلِکَ لَمْ یُجْبَرْ عَلَیْہِ وَلَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُ کُرْہًا .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ قَوْلِہِمْ اِنَّ لِلْوَلِیِّ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ وَاِنْ کَرِہَ ذٰلِکَ الْجَانِی .فَنَقُوْلُ لَہُمْ : لَیْسَ یَخْلُو ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ وُجُوْہٍ ثَلَاثَۃٍ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ لِأَنَّ الَّذِی لَہٗ عَلَی الْقَاتِلِ ہُوَ الْقِصَاصُ وَالدِّیَۃُ جَمِیْعًا فَاِذَا عَفَا عَن الْقِصَاصِ فَأَبْطَلَہُ بِعَفْوِہِ کَانَ لَہٗ أَخْذُ الدِّیَۃِ .وَاِمَّا أَنْ یَکُوْنَ الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ الْقِصَاصُ خَاصَّۃً وَلَہٗ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ بَدَلًا مِنْ ذٰلِکَ الْقِصَاصِ .وَاِمَّا أَنْ یَکُوْنَ الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ أَحَدُ أَمْرَیْنِ اِمَّا الْقِصَاصُ وَاِمَّا الدِّیَۃُ یَخْتَارُ مِنْ ذٰلِکَ مَا شَائَ لَیْسَ یَخْلُو ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ ہٰذِہِ الثَّلَاثَۃِ الْوُجُوْہِ .فَاِنْ قُلْتُمْ : الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ الْقِصَاصُ وَالدِّیَۃُ جَمِیْعًا فَہٰذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یُوْجِبْ عَلٰی أَحَدٍ فَعَلَ فِعْلًا أَکْثَرَ مِمَّا فَعَلَ فَقَدْ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ .فَلَمْ یُوْجِبْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی أَحَدٍ بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ أَکْثَرَ مِمَّا فَعَلَ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ لَوَجَبَ أَنْ یُقْتَلَ وَیَأْخُذَ الدِّیَۃَ .فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ لَہُ بَعْدَ قَتْلِہِ أَخَذُ الدِّیَۃِ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِیْ کَانَ وَجَبَ لَہُ خِلَافُ مَا قُلْتُمْ .وَاِنْ قُلْتُمْ : اِنَّ الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ الْقِصَاصُ وَلٰـکِنْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ بَدَلًا مِنْ ذٰلِکَ الْقِصَاصِ فَاِنَّا لَا نَجِدُ حَقًّا لِرَجُلٍ یَکُوْنُ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ بِہٖ بَدَلًا بِغَیْرِ رِضَائِ مَنْ عَلَیْہِ ذٰلِکَ الْحَقُّ فَبَطَلَ ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا .وَاِنْ قُلْتُمْ : اِنَّ الَّذِی وَجَبَ لَہٗ أَحَدُ أَمْرَیْنِ : اِمَّا الْقِصَاصُ وَاِمَّا الدِّیَۃُ یَأْخُذُ مِنْہُمَا مَا أَحَبَّ وَلَمْ یَجِبْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ وَاحِدًا مِنْہُمَا دُوْنَ الْآخَرِ .فَاِنَّہٗ یَنْبَغِیْ اِذَا عَفَا عَنْ أَحَدِہِمَا بِعَیْنِہِ أَنْ لَا یَجُوْزَ عَفْوُہُ لِأَنَّ حَقَّہُ لَمْ یَکُنْ ہُوَ الْمَعْفُوَّ عَنْہُ بِعَیْنِہِ فَیَکُوْنُ لَہُ اِبْطَالُہُ اِنَّمَا کَانَ لَہٗ أَنْ یَخْتَارَہُ فَیَکُوْنُ ہُوَ حَقَّہُ أَوْ یَخْتَارُ غَیْرَہُ فَیَکُوْنُ ہُوَ حَقَّہُ فَاِذَا عَفَا عَنْ أَحَدِہِمَا قَبْلَ اخْتِیَارِہِ اِیَّاہُ وَقَبْلَ وُجُوْبِہٖ لَہُ بِعَیْنِہِ فَعَفْوُہُ بَاطِلٌ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ جُرِحَ أَبُوْھُ عَمْدًا فَعَفَا عَنْ جَارِحِ أَبِیْھَاثُمَّ مَاتَ أَبُوْھُ مِنْ تِلْکَ الْجِرَاحَۃِ وَلَا وَارِثَ لَہُ غَیْرُہُ أَنَّ عَفْوَہُ بَاطِلٌ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا عَفَا قَبْلَ وُجُوْبِ الْمَعْفُوِّ عَنْہُ لَہٗ۔فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ وَکَانَ الْعَفْوُ مِنَ الْقَاتِلِ قَبْلَ اخْتِیَارِہِ الْقِصَاصَ أَوْ الدِّیَۃَ جَائِزًا ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْقِصَاصَ قَدْ کَانَ وَجَبَ لَہُ بِعَیْنِہِ قَبْلَ عَفْوِہِ عَنْہُ وَلَوْلَا وُجُوْبُہٗ لَہُ اِذًا لَمَا کَانَ لَہُ اِبْطَالُہُ بِعَفْوِہِ کَمَا لَمْ یَجُزْ عَفْوُ الِابْنِ عَنْ دَمِ أَبِیْھَاقَبْلَ وُجُوْبِہٖ لَہٗ۔فَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا وَانْتِفَائِ ہٰذِہِ الْوُجُوْہِ الَّتِی وَصَفْنَا مَا یَدُلُّ أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَی الْقَاتِلِ عَمْدًا أَوْ الْجَارِحَ عَمْدًا ہُوَ الْقِصَاصُ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ مِنْ دِیَۃٍ وَغَیْرِہَا اِلَّا أَنْ یَصْلُحَ ہُوَ اِنْ کَانَ حَیًّا أَوْ وَارِثُہُ اِنْ کَانَ مَیْتًا ، وَالَّذِی وَجَبَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ عَلٰی شَیْئٍ ، فَیَکُوْنُ الصُّلْحُ جَائِزًا عَلٰی مَا اصْطَلَحَا عَلَیْہِ مِنْ دِیَۃٍ أَوْ غَیْرِہَا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٨٩٠: حمیدالطویل نے حضرت انس بن مالک بن نصر (رض) سے روایت ہے کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کو تھپڑ مار کر اس کا سامنے کا دانت توڑ دیا انھوں نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کردیا اور چٹی کا بھی انکار کردیا اور صرف قصاص چاہا۔ پھر وہ لوگ اپنا مقدمہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا حکم فرمایا تو انس بن نضر (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ربیع کے دانت توڑے جائیں گے نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اس ذات کی قسم ہے اس کا سامنے کا دانت نہ توڑا جائے گا اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے انس (رض) ! اللہ تعالیٰ کی کتاب تو قصاص کا حکم دیتی ہے پس وہ لوگ معافی پر راضی ہوگئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں۔ بعض روات نے دوسروں سے زائد الفاظ نقل کئے ہیں۔ جبکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس عورت کے دانت توڑے گئے تھے حضرت ربیع (رض) سے اس کا قصاص لینے کا فیصلہ فرمایا۔ اسے قصاص ودیت وصول کرنے کے درمیان اختیار نہیں دیا اور حضرت انس بن نضر (رض) نے جب انکار کرتے ہوئے اختلاف کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے انس ! اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تو قصاص کا حکم دیا گیا ہے تو ان لوگوں نے معاف کردیا پس آپ نے ان کے لیے دیت کا فیصلہ نہ فرمایا۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ قتل عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے) کی صورت میں قرآن مجید اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف قصاص ثابت ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے قصاص اور معافی میں اختیار ہوتا کہ وہ اس کے بدلے میں جرم کرنے والے سے کچھ لے لے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں اختیار دیتے اور انھیں بتلاتے کہ ان کو کیا کیا چیز اختیار کرنے کا حق ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی آدمی حاکم کے ہاں ایسا مقدمہ لے جائے جس میں اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز واجب ہوتی ہو۔ تو حاکم کے ہاں اس کا یہ حق ثابت ہوگا کہ وہ (حاکم) کسی ایک چیز کا فیصلہ کرے اور دوسری چیز کو ترک کر دے بلکہ وہ اس کے لیے اس طرح فیصلہ کرے گا کہ فلاں فلاں چیزوں میں سے جس کو چاہے پسند کر کے اختیار کرے۔ پھر اگر وہ حاکم زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے فیصلے کی سمجھ میں کوتاہی کی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصل ہیں۔ پھر جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا فیصلہ فرمایا اور بتلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس قسم کی صورت میں صرف قصاص ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب جب کہ یہ روایت ثابت ہوگئی جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا تو حضرت ابو شریح اور ابوہریرہ (رض) کی روایات کو اس کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ کہ جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں قصاص لینے ‘ معاف کرنے یا دیت لینے کے مباین اختیار کا تذکرہ ہے وہ مجرم کی رضامندی پر موقوف ہے کہ وہ تاوان کے طور پر دیت ادا کرے۔ تاکہ ان دونوں روایات کے معانی اور حدیث انس (رض) کا معنی ایک جیسا ہوجائے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ قیاس تو پہلے فریق کی تائید کا متقاضی ہے وہ اس طرح کہ لوگوں پر اپنی زندگی کی بقاء ضروری ہے تو جب وہ شخص جس کو خون بہانے کا حق ہے وہ کہے کہ میں دیت لینے پر راضی ہوں اور خون بہانے سے دست بردار ہوتا ہوں تو قاتل پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو زندہ بچائے۔ جب یہ اس پر لازم ہوگیا تو اب اس سے دیت لی جائے گی خواہ وہ اس کو ناپسندکرے۔ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ اگرچہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے خواہ دیت کے ساتھ چیز سے ہو جو دیت سے بڑھ جائے بلکہ اپنی تمام املاک سے ہو اور یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ولی قاتل کو کہے کہ میں اس بات پر راضی ہوں کہ میں تمہارا یہ مکان لے لوں اور تجھے قتل نہ کروں تو اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے قاتل پر لازم ہے کہ وہ مکان دے کر اپنی جان بچائے۔ مگر اس پر بھی سب متفق ہیں کہ قاتل پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف مکان اس سے لے کر ولی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ بالکل دیت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ جب مقتول کا ولی اس کا مطالبہ کرے تو دیانۃً قاتل پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ادائیگی کر کے اپنے نفس کو بچائے لیکن اگر وہ انکار کرے تو اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف وصولی نہ کی جائے گی۔ سوال : فریق اوّل کے قول کہ ولی کو دیت لینے کا حق ہے اگرچہ مجرم اس کو ناپسند کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم گزارش کریں گے کہ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حق اس لیے لازم ہے کہ قاتل پر قصاص اور دیت دونوں لازم ہیں جب اس نے قصاص معاف کر کے معافی کے سبب اس کو باطل کردیا تو اب اسے دیت لینے کا حق ہوگا۔ دوسرا یہ کہ قاتل پر صرف قصاص لازم ہوا تھا اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ قصاص کے بدلے دیت لے لے۔ تیسرا قاتل پر لازم تو دونوں میں سے ایک ہوا خواہ وہ قصاص ہو یا دیت۔ اس کی مرضی ہے کہ دونوں میں سے ایک کا چناؤ کرے ان صورتوں سے زائد کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ اب ہم آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ قصاص و دیت دونوں واجب ہیں تو یہ بات فاسد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی فعل کے کرنے والے پر اس کے فعل سے زائد کوئی چیز واجب نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین۔۔۔ (المائدہ : ٤٥) اور ہم نے ان پر جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘ کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ لازم کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تو اس کے فعل سے زائد بدلہ لازم نہیں کیا۔ اگر یہ بات اس طرح مان لی جائے تو پھر لازم آئے گا کہ وہ قاتل کو قتل بھی کرے اور دیت بھی وصول کرے۔ تو جب قصاص میں قتل کے بعد دیت نہیں لی جاسکتی تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جو کچھ لازم ہے وہ آپ کے قول کے مخالف ہے۔ نمبر 2: اور اگر تم یہ کہو کہ واجب تو صرف قصاص ہے مگر وہ اس کے عوض دیت لے سکتا ہے تو ہم شریعت میں ایسی صورت نہیں پاتے کہ کوئی حق والا اس کی مرضی کے خلاف جس کے ذمہ حق ہے اس کا بدل وصول کرے۔ پس یہ صورت بھی باطل ٹھہری۔ نمبر 3: اب صرف ایک صورت رہ گئی کہ دو میں سے ایک واجب ہے یا تو قصاص ہوگا یا دیت لی جائے گی لیکن صاحب حق کو کسی ایک کے پسند کا اختیار ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی کو لے کہ دوسری نہ لے سکتا ہو۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب دونوں میں سے کسی ایک معین کو معاف کردیا تو یہ معاف کرنا جائز نہ ہو۔ کیونکہ جو کچھ اس نے معاف کیا یہ اس کا معین حق نہ تھا۔ پس وہ اس کو باطل کرسکتا ہے اس کو اس بات کا حق تھا کہ وہ اس کو اختیار کرے (اگر وہ کرلیتا تو اس کا حق ہوجاتا) یا پھر دوسری کو اختیار کرتا تو وہ اس کا حق ہوجاتا۔ پس جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرے اور معینہ طور پر اس کے لازم ہونے سے پہلے دوسرے حق کو معاف کر دے تو یہ معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیا تم اس بات کو نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی کے والد کو جان بوجھ کر زخمی کردیا۔ اب بیٹے نے اپنے والد کو زخمی کرنے والے شخص کو معاف کردیا پھر اس کا والد اسی زخم سے مرگیا اور مرنے والے کا یہ معاف کرنے والا بیٹا اکلوتا وارث ہے تو اس بیٹے کا معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیونکہ اس نے معافی کا حق ملنے سے پہلے معاف کردیا۔ پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے جب اس کا معاملہ اسی طرح ہے اور قصاص یا دیت لینے سے پہلے قاتل کو معاف کرنا جائز ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ معاف کرنے سے پہلے صرف قصاص واجب تھا اور اگر وہ واجب نہ ہوتا تو وہ معافی کے ذریعہ اسے باطل نہ کرسکتا جیسا کہ بیٹا اپنے باپ کا خون اس وقت تک معاف نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اس کے لیے واجب نہ ہو۔ پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس کے ثبوت اور ان تین وجوہ کی نفی جن کو ہم نے بیان کیا ہے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جناب بوجھ کر قتل کرنے والے یا جان بوجھ کر زخمی کرنے والے پر قصاص واجب ہے کوئی دوسری چیز (دیت وغیرہ) لازم نہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ زندہ ہونے کی صورت میں قاتل خود اور اس کے مرجانے کی صورت میں اس کے ورثا کسی چیز پر باہمی صلح کرلیں تو وہ چیز واجب ہوگی اور دیت یا کسی دوسری چیز پر صلح جائز ہوگی۔ یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلح باب ٨‘ تفسیر سورة ٢‘ باب ٢٣‘ سورة ٥‘ باب ٦‘ مسلم فی القسامہ ٢٣‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٢٨‘ نسائی فی القسامۃ باب ١٦‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ١٦‘ مسند احمد ٣‘ ١٢٨؍١٦٧۔
لغات : لطمت۔ تھپڑ مارنا۔ الثنیہ۔ سامنے والے دانت۔ الارش۔ دیت۔ لاوالذی۔ یہ الفاظ انس (رض) کے فضل و رحمت پر کامل یقین کی بنیاد پر کہے کہ وہ معافی کی صورت پیدا فرما دیں گے چنانچہ اسی طرح ہوا۔ یہ شرع کو حاشاوکلا رد کرنے کے لیے نہیں۔
جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس عورت کے دانت توڑے گئے تھے حضرت ربیع (رض) سے قصاص لینے کا فیصلہ فرمایا۔ اسے قصاص ودیت وصول کرنے کے درمیان اختیار نہیں دیا اور حضرت انس بن نضر (رض) نے جب انکار کرتے ہوئے اختلاف کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے انس ! اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تو قصاص کا حکم دیا گیا ہے تو ان لوگوں نے معاف کردیا پس آپ نے ان کے لیے دیت کا فیصلہ نہ فرمایا۔
پس اس سے ثابت ہوگیا کہ قتل عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے) کی صورت میں قرآن مجید اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف قصاص ثابت ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے قصاص اور معافی میں اختیار ہوتا کہ وہ اس کے بدلے میں جرم کرنے والے سے کچھ لے لے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں اختیار دیتے اور انھیں بتلاتے کہ ان کو کیا کیا چیز اختیار کرنے کا حق ہے۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی آدمی حاکم کے ہاں ایسا مقدمہ لے جائے جس میں اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز واجب ہوتی ہو۔ تو حاکم کے ہاں اس کا یہ حق ثابت ہوگا کہ وہ (حاکم) کسی ایک چیز کا فیصلہ کرے اور دوسری چیز کو ترک کر دے بلکہ وہ اس کے لیے اس طرح فیصلہ کرے گا کہ فلاں فلاں چیزوں میں سے جس کو چاہے پسند کر کے اختیار کرے۔ پھر اگر وہ حاکم زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے فیصلے کی سمجھ میں کوتاہی کی۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصل ہیں۔ پھر جب جناب رسول اللۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا فیصلہ فرمایا اور بتلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس قسم کی صورت میں صرف قصاص ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
نوٹ : اب جب کہ یہ روایت ثابت ہوگئی جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا تو حضرت ابو شریح اور ابوہریرہ (رض) کی روایات کو اس کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ کہ جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں قصاص لینے ‘ معاف کرنے یا دیت لینے کے مباین اختیار کا تذکرہ ہے وہ مجرم کی رضامندی پر موقوف ہے کہ وہ تاوان کے طور پر دیت ادا کرے۔ تاکہ ان دونوں روایات کے معانی اور حدیث انس (رض) کا معنی ایک جیسا ہوجائے۔
سوال : اگر کوئی یہ کہے کہ قیاس تو پہلے فریق کی تائید کا متقاضی ہے وہ اس طرح کہ لوگوں پر اپنی زندگی کی بقاء ضروری ہے تو جب وہ شخص جس کو خون بہانے کا حق ہے وہ کہے کہ میں دیت لینے پر راضی ہوں اور خون بہانے سے دست بردار ہوتا ہوں تو قاتل پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو زندہ بچائے۔ جب یہ اس پر لازم ہوگیا تو اب اس سے دیت لی جائے گی خواہ وہ اس کو ناپسندکرے۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے خواہ دیت کے ساتھ چیز سے ہو جو دیت سے بڑھ جائے بلکہ اپنی تمام املاک سے ہو اور یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ولی قاتل کو کہے کہ میں اس بات پر راضی ہوں کہ میں تمہارا یہ مکان لے لوں اور تجھے قتل نہ کروں تو اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے قاتل پر لازم ہے کہ وہ مکان دے کر اپنی جان بچائے۔
مگر اس پر بھی سب متفق ہیں کہ قاتل پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف مکان اس سے لے کر ولی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔
بالکل دیت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ جب مقتول کا ولی اس کا مطالبہ کرے تو دیانۃً قاتل پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ادائیگی کر کے اپنے نفس کو بچائے لیکن اگر وہ انکار کرے تو اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف وصولی نہ کی جائے گی۔
اعتراض : فریق اوّل کے قول کہ ولی کو دیت لینے کا حق ہے اگرچہ مجرم اس کو ناپسند کرے۔
جواب ہم گزارش کریں گے کہ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حق اس لیے لازم ہے کہ قائل پر قصاص اور دیت دونوں لازم ہیں جب اس نے قصاص معاف کر کے معافی کے سبب اس کو باطل کردیا تو اب اسے دیت لینے کا حق ہوگا۔ دوسرا یہ کہ قاتل پر صرف قصاص لازم ہوا تھا اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ قصاص کے بدلے دیت لے لے۔ تیسرا قاتل پر لازم تو دونوں میں سے ایک ہوا خواہ وہ قصاص ہو یا دیت۔ اسی کی مرضی ہے کہ دونوں میں سے ایک کا چناؤ کرے ان صورتوں سے زائد کوئی صورت نہیں بن سکتی۔
اب ہم آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ قصاص و دیت دونوں واجب ہیں تو یہ بات فاسد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی فعل کے کرنے والے پر اس کے فعل سے زائد کوئی چیز واجب نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین۔۔۔ (المائدہ : ٤٥) اور ہم نے ان پر جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘ کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ لازم کیا۔
پس اللہ تعالیٰ نے تو اس کے فعل سے زائد بدلہ لازم نہیں کیا۔ اگر یہ بات اس طرح مان لی جائے تو پھر لازم آئے گا کہ وہ قاتل کو قتل بھی کرے اور دیت بھی وصول کرے۔
تو جب قصاص میں قتل کے بعد دیت نہیں لی جاسکتی تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جو کچھ لازم ہے وہ آپ کے قول کے مخالف ہے۔
نمبر 2: اور اگر تم یہ کہو کہ واجب تو صرف قصاص ہے مگر وہ اس کے عوض دیت لے سکتا ہے تو ہم شریعت میں ایسی صورت نہیں پاتے کہ کوئی حق والا اس کی مرضی کے خلاف جس کے ذمہ حق ہے اس کا بدل وصول کرے۔ پس یہ صورت بھی باطل ٹھہری۔
نمبر 3: اب صرف ایک صورت رہ گئی کہ دو میں سے ایک واجب ہے یا تو قصاص ہوگا یا دیت لی جائے گی لیکن صاحب حق کو کسی ایک کے پسند کا اختیار ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی کو لے کہ دوسری نہ لے سکتا ہو۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب دونوں میں سے کسی ایک معین کو معاف کردیا تو یہ معاف کرنا جائز نہ ہو۔ کیونکہ جو کچھ اس نے معاف کیا یہ اس کا معین حق نہ تھا۔ پس وہ اس کو باطل کرسکتا ہے اس کو اس بات کا حق تھا کہ وہ اس کو اختیار کرے (اگر وہ کرلیتا تو اس کا حق ہوجاتا) یا پھر دوسری کو اختیار کرتا تو وہ اس کا حق ہوجاتا۔ پس جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرے اور معینہ طور پر اس کے لازم ہونے سے پہلے دوسرے حق کو معاف کر دے تو یہ معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیا تم اس بات کو نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی کے والد کو جان بوجھ کر زخمی کردیا۔ اب بیٹے نے اپنے والد کو زخمی کرنے والے شخص کو معاف کردیا پھر اس کا والد اسی زخم سے مرگیا اور مرنے والے کا یہ معاف کرنے والا بیٹا اکلوتا وارث ہے تو اس بیٹے کا معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیونکہ اس نے معافی کا حق ملنے سے پہلے معاف کردیا۔
خلاصہ کلام : جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے جب اس کا معاملہ اسی طرح ہے اور قصاص یا دیت لینے سے پہلے قاتل کو معاف کرنا جائز ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ معاف کرنے سے پہلے صرف قصاص واجب تھا اور اگر وہ واجب نہ ہوتا تو وہ معافی کے ذریعہ اسے باطل نہ کرسکتا جیسا کہ بیٹا اپنے باپ کا خون اس وقت تک معاف نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اس کے لیے واجب نہ ہو۔
پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس کے ثبوت اور ان تین وجوہ کی نفی جن کو ہم نے بیان کیا ہے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والے یا جان بوجھ کر زخمی کرنے والے پر قصاص واجب ہے کوئی دوسری چیز (دیت وغیرہ) لازم نہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ زندہ ہونے کی صورت میں قاتل خود اور اس کے مرجانے کی صورت میں اس کے ورثا کسی چیز پر باہمی صلح کرلیں تو وہ چیز واجب ہوگی اور دیت یا کسی دوسری چیز پر صلح جائز ہوگی۔
یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا ہے۔

4891

۴۸۹۱: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ یَہُوْدِیًّا رَضَّ رَأْسَ صَبِیْ بَیْنَ حَجَرَیْنِ فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرَضَّ رَأْسُہُ بَیْنَ حَجَرَیْنِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَلَّدُوْھُ وَقَالُوْا : یُقْتَلُ کُلُّ قَاتِلٍ بِمَا قُتِلَ بِہٖ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : کُلُّ مَنْ وَجَبَ عَلَیْہِ قَوَدٌ لَمْ یُقْتَلْ اِلَّا بِالسَّیْفِ .وَقَالُوْا : ہٰذَا الْحَدِیْثُ الَّذِیْ رَوَیْتُمُوْھُ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی أَنَّ ذٰلِکَ الْقَاتِلَ یَجِبُ قَتْلُہُ لِلّٰہِ اِذْ کَانَ اِنَّمَا قَتَلَ عَلَی مَالٍ قَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ فِیْ بَعْضِ الْحَدِیْثِ .
٤٨٩١: قتادہ (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ ایک یہودی نے ایک بچے کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل ڈالا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں ‘ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ قاتل کو اسی چیز سے قتل کیا جائے گا جس چیز سے اس نے قتل کیا۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا جس شخص پر قصاص لازم ہوا ہو اس کو صرف تلوار سے قتل کیا جائے گا۔ فریق اوّل کے مؤقف کا جواب یہ ہے کہ مندرجہ بالا روایت جس سے آپ نے استدلال کیا اس میں احتمال ہے کہ ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کا قتل واجب ہے اس لیے کہ اسے مال کی خاطر قتل کیا گیا اور یہ حدیث و اضح موجود ہے۔
تخریج : بخاری فی الخصومات باب ١‘ والوصایا باب ٥‘ والدیات باب ٤‘ ١٢‘ مسلم فی القسامہ ١٧‘ ابو داؤد فی الدیات باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الدیات۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد : بعض علماء کا قول یہ ہے کہ قاتل کو اسی چیز سے قتل کیا جائے گا جس چیز سے اس نے قتل کیا۔ انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : جس شخص پر قصاص لازم ہوا ہو اس کو صرف تلوار سے قتل کیا جائے گا۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : مندرجہ بالا روایت جس سے آپ نے استدلال کیا اس میں احتمال ہے کہ ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا قتل اللہ تعالیٰ کی خاطر لازم سمجھا ہو (جیسا کسی ڈاکو کا قتل) اس لیے کہ اس نے مال کی خاطر اس بچے کو قتل کیا تھا اس کا ثبوت مندرجہ ذیل روایات میں ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

4892

۴۸۹۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأُوَیْسِیُّ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ عَدَا یَہُوْدِیٌّ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰیْ جَارِیَۃٍ فَأَخَذَ أَوْضَاحًا کَانَتْ عَلَیْہَا ، وَرَضَخَ رَأْسَہَا .فَأَتَی بِہَا أَہْلُہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِیَ فِیْ آخِرِ رَمَقٍ وَقَدْ أُصْمِتَتْ وَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَتَلَک ؟ أَفُلَانٌ ؟ لِغَیْرِ الَّذِیْ قَتَلَہَا فَأَشَارَتْ بِرَأْسِہَا أَیْ : لَا .فَقَالَ لِرَجُلٍ آخَرَ غَیْرَ الَّذِیْ قَتَلَہَا ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِہَا أَیْ : لَا فَقَالَ فَفُلَانٌ لِقَاتِلِہَا ، فَأَشَارَتْ أَیْ : نَعَمْ .فَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسَہُ بَیْنَ حَجَرَیْنِ .فَاِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ دَمَ ذٰلِکَ الْیَہُوْدِیِّ قَدْ وَجَبَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا یَجِبُ دَمُ قَاطِعِ الطَّرِیْقِ لِلّٰہِ تَعَالٰی .فَکَانَ لَہٗ أَنْ یُقْتَلَ کَیْفَ شَائَ بِسَیْفٍ أَوْ بِغَیْرِ ذٰلِکَ وَالْمُثْلَۃُ حِیْنَئِذٍ مُبَاحَۃٌ کَمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعُرَنِیِّیْنَ .
٤٨٩٢: ہشام بن زید نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے ایک یہودی نے ایک بچی پر زیادتی کی کہ اس کے پازیب اتار لیے جو اس نے زیب تن کر رکھے تھے اور اس کا سر دو پتھروں سے کچل دیا۔ اس بچی کے اعزاء اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے ابھی اس میں زندگی کے آثار باقی تھے اور اس کی زبان بند ہوچکی تھی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں کس نے قتل کیا ؟ کیا فلاں نے ؟ قاتل کے علاوہ کا نام لیا تو اس نے سر سے انکار کا اشارہ کیا پھر ایک اور کا نام لیا جو قاتل کے علاوہ تھا اس نے اپنے سر سے انکار کا اشارہ کیا۔ تو آپ نے فرمایا فلاں اور اس کے قاتل کا نام لیا تو اس نے سر سے ہاں کا اشارہ کیا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔ اگر یہودی کا خون اللہ تعالیٰ کی خاطر لیا گیا ہوتا جیسا کہ ڈاکو کا خون کرنا لازم ہوتا ہے تو پھر آپ کے لیے اسے جس طرف مناسب ہوتا تلوار یا کسی اور چیز سے قتل جائز تھا اور اس وقت تو مثلہ بھی جائز تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرینہ کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ اس پر مندرجہ روایات دلالت کر رہی ہیں۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ٢٤‘ نسائی فی القسامۃ باب ١٣‘ مسند احمد ٣؍٢٦٢۔
اگر یہودی کا خون اللہ تعالیٰ کی خاطر لیا گیا ہوتا جیسا کہ ڈاکو کا خون کرنا لازم ہوتا ہے تو پھر آپ کے لیے اسے جس طرح مناسب ہوتا تلوار یا کسی اور چیز سے قتل جائز تھا اور اس وقت تو مثلہ بھی جائز تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرینہ کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔
اس پر مندرجہ روایات دلالت کر رہی ہیں۔

4893

۴۸۹۳: فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَدِمَ ثَمَانِیَۃُ رَہْطٍ مِنْ عُکْلٍ فَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِیْنَۃَ فَبَعَثَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی ذٰوْدٍ لَہٗ فَشَرِبُوْا مِنْ أَلْبَانِہَا .فَلَمَّا صَحُّوْا ارْتَدُّوْا عَنِ الْاِسْلَامِ وَقَتَلُوْا رَاعِیَ الْاِبِلِ وَسَاقُوْا الْاِبِلَ .فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ آثَارِہِمْ فَأُخِذُوْا فَقَطَعَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَلَ أَعْیُنَہُمْ وَتَرَکَہُمْ حَتَّی مَاتُوْا .
٤٨٩٣: ابو قلابہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ عکل قبیلہ کے آٹھ آدمی آئے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کے موافق نہ آنے کی وجہ سے وہ بیمار ہوگئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اونٹوں کے گلہ کی طرف بھیجا پس انھوں نے ان کے دودھ استعمال کئے۔ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو اسلام سے پھرگئے اور انھوں نے اونٹوں کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانک کرلے گئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے ان کو پکڑ لیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں لگائی گئیں اور ان کو (میدان میں) اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔
تخریج : بخاری فی الحدود باب ١٥‘ (المحاربین باب ١) مسلم فی القسامۃ ٩‘ ١٤‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣‘ ترمذی فی الطہارۃ باب ٥٥‘ نسائی فی التحریم باب ٧‘ ٨‘ ٩‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٠‘ مسند احمد ٣‘ ١٦٣؍١٧٧‘ ١٩٨۔
لغات : عکل۔ ایک عرب قبیلہ ہے۔ استوخم۔ ہوا کا موافق نہ ہونا۔ ذود۔ تین سے دس تک اونٹ۔ بعث۔ مقرر کرنا۔ بھیجنا۔ آثار۔ نشان قدم۔ سمل گرم سلاخ کا آنکھ میں لگانا۔

4894

۴۸۹۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٤٨٩٤: حمیدالطویل نے حضرت انس بن مالک (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

4895

۴۸۹۵: حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَنَسٍ اِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ : ہُمْ مِنْ عُکْلٍ قَطَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَّرَ أَعْیُنَہُمْ
٤٨٩٥: ابو قلابہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے : انما جزاؤالذین یحاربون اللہ ورسولہ۔ (المائدہ : ٣٣) حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ محاربہ والے لوگ عکل سے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ہاتھوں ‘ پاؤں کو کاٹا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں لگائیں۔
تخریج : روایت ٤٨٩٨ کی تخریج ملاحظہ کریں۔
لغات : سمر۔ گرم سلاخ آنکھ میں لگانا۔

4896

۴۸۹۶: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ .ح .وَحَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ صُہَیْبٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَّرَ أَعْیُنَہُمْ وَتَرَکَہُمْ حَتَّی مَاتُوْا
٤٨٩٦: عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو کاٹ دیا گیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخین لگائیں گئیں اور ان کو (میدان میں) چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔

4897

۴۸۹۷: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : أَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنْ حَی مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَأَسْلَمُوْا وَبَایَعُوْھُ قَالَ : فَوَقَعَ النَّوْمُ وَہُوَ الْبِرْسَامُ ، فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہٰذَا الْوَجَعُ قَدْ وَقَعَ ، فَلَوْ أَذِنْتُ لَنَا فَخَرَجْنَا اِلَی الْاِبِلِ فَکُنَّا فِیْہَا ؟ یَعْنِی : قَالَ نَعَمْ اُخْرُجُوْا فَکُوْنُوْا فِیْہَا .قَالَ : فَخَرَجُوْا فَقَتَلُوْا أَحَدَ الرَّاعِیَیْنِ وَذَہَبُوْا بِالْاِبِلِ قَالَ : وَجَائَ الْآخَرُ وَقَدْ خَرَجَ ، فَقَالَ : قَدْ قَتَلُوْا صَاحِبِیْ وَذَہَبُوْا بِالْاِبِلِ .قَالَ : وَعِنْدَہُ شُبَّانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَرِیْبٌ مِنْ عِشْرِیْنَ. قَالَ: فَأَرْسَلَ اِلَیْہِمْ الشُّبَّانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَعَثَ مَعَہُمْ قَائِفًا فَقَصَّ آثَارَہُمْ فَأَتَی بِہِمْ فَقَطَعَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَّرَ أَعْیُنَہُمْ فَفَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعُرَنِیِّیْنَ مَا فَعَلَ بِہِمْ مِنْ ہٰذَا فَلَمَّا حَلَّ لَہٗ مِنْ سَفْکِ دِمَائِہِمْ فَکَانَ لَہٗ أَنْ یَقْتُلَہُمْ کَیْفَ أَحَبَّ وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ تَمْثِیْلًا بِہِمْ لِأَنَّ الْمُثْلَۃَ کَانَتْ حِیْنَئِذٍ مُبَاحَۃً ثُمَّ نُسِخَتْ بَعْدَ ذٰلِکَ وَنَہٰی عَنْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَفْعَلَہَا .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ فَعَلَ بِالْیَہُوْدِیِّ مَا فَعَلَ مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ بَعْدَ نَسْخِ الْمُثْلَۃِ .وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَرَ مَا وَجَبَ عَلَی الْیَہُوْدِیِّ مِنْ ذٰلِکَ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَلٰـکِنَّہٗ رَآہٗ وَاجِبًا لِأَوْلِیَائِ الْجَارِیَۃِ فَقَتَلَہُ لَہُمْ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ قَتَلَہُ کَمَا فَعَلَ لِأَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ الَّذِیْ کَانَ وَجَبَ عَلَیْہِ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ الَّذِیْ کَانَ وَجَبَ عَلَیْہِ ہُوَ سَفْکُ الدَّمِ بِأَیِّ شَیْئٍ مِمَّا شَائَ الْوَلِیُّ بِسَفْکِہِ بِہٖ فَاخْتَارُوْا الرَّضْخَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ہٰذِہِ وُجُوْہٌ یَحْتَمِلُہَا ہٰذَا الْحَدِیْثُ وَلَا دَلَالَۃَ مَعَنَا یَدُلُّنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بَعْضَہَا دُوْنَ بَعْضٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَتَلَ ذٰلِکَ الْیَہُوْدِیَّ بِخِلَافِ مَا کَانَ قَتَلَ بِہٖ الْجَارِیَۃَ .
٤٨٩٧: معاویہ بن قرہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ سے ایک گروہ آیا پھر انھوں نے اسلام قبول کیا اور بیعت کی۔ ان کو برسام کی بیماری لاحق ہوئی تو انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں یہ درپیش آگئی۔ اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اونٹوں کی طرف نکل جائیں اور وہاں رہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جی ہاں ! جا کر وہاں رہو۔ راوی کہتے ہیں وہ (مدینہ سے) نکل کر وہاں چلے گئے اور انھوں نے ایک چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ دوسرا چرواہا آیا اور وہ نکل چکے تھے تو انھوں نے کہا ان لوگوں نے میرے ساتھی کو قتل کردیا ہے اور وہ اونٹوں کو ہانک کرلے گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ کے پاس انصار کے قریباً بیس نوجوان موجود تھے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف نوجوانوں کی جماعت کو خوجی سمیت بھیجا۔ اس جماعت نے ان کے نشانہائے قدم کا پیچھا کر کے ان کو پکڑ لیا اور وہ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں لگائی گئیں۔ عرنیین کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو انھوں نے چرواہوں کے ساتھ کیا تھا جب آپ کو ان کا خون بہانا درست تھا تو ان کو مرضی کے مطابق قتل کرنا درست تھا بیشک ان کا قتل مثلہ کے ساتھ تھا کیونکہ مثلہ اس وقت تک مباح تھا۔ پھر اس کے بعد منسوخ ہوا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ممانعت کردی اب کسی کو کرنا جائز نہیں ہے۔ نمبر 1: ممکن ہے کہ یہودی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ اسی کی وجہ سے کیا پھر یہ بھی مثلہ کے منسوخ ہونے کے بعد منسوخ ہوگیا ہو۔ نمبر 2: یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کے خیال میں یہودی پر یہ قتل اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے واجب نہ ہوا ہو بلکہ آپ کے علم میں یہ لونڈی کے ورثاء کے لیے واجب ہوا تھا اس لیے ان کے حق کے طور پر آپ نے اسے قتل کیا۔ نمبر 3: اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ نے اس کو اسی طرح قتل کیا جیسے اس نے قتل کیا تھا کیونکہ اس پر یہی واجب تھا۔ نمبر$: اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض اس کا خون بہانا لازم ہو اور ولی کو اس میں اختیار ہو جس چیز کے ساتھ چاہے خون بہا لے تو اولیاء نے کچلنا پسند کیا چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی پسند پر ایسا کیا۔ اس روایت میں ان تمام وجوہ کا احتمال ہے اور ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طریقے کی بجائے دوسرا طریقہ کیوں اختیار فرمایا۔ بلکہ آپ سے تو یہ بھی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی کو اس طریقے کے خلاف قتل کیا جس سے اس نے بچی کو قتل کیا تھا۔ جیسا اس روایت میں آیا ہے۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٣٦‘ الحدود باب ١٨‘ الدیات باب ٢٢‘ الوضو باب ٦٦‘ مسلم فی القسامہ ١٠؍١١‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٣‘ ترمذی فی الطہارۃ باب ٥٥‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٩٠‘ التحریم باب ٧‘ ٨‘ ٩‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٠‘ مسند احمد ٣‘ ١٠٧؍١٦٣‘ ١٧٠؍١٧٧‘ ١٩٨؍٢٠٥‘ ٢٨٧؍٢٩٠۔
عرنیین کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو انھوں نے چرواہوں کے ساتھ کیا تھا جب آپ کو ان کا خون بہانا درست تھا تو ان کو مرضی کے مطابق قتل کرنا درست تھا بیشک ان کا قتل مثلہ کے ساتھ تھا کیونکہ مثلہ اس وقت تک مباح تھا۔ پھر اس کے بعد منسوخ ہوا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ممانعت کردی اب کسی کو کرنا جائز نہیں ہے۔
یہودی سے قصاص والی روایت میں احتمالات :
نمبر 1: ممکن ہے کہ یہودی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ اسی کی وجہ سے کیا پھر یہ بھی مثلہ کے منسوخ ہونے کے بعد منسوخ ہوگیا ہو۔
نمبر 2: یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کے خیال میں یہودی پر یہ قتل اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے واجب نہ ہوا ہو بلکہ آپ کے علم میں یہ لونڈی کے ورثاء کے لیے واجب ہوا تھا اس لیے ان کے حق کے طور پر آپ نے اسے قتل کیا۔
نمبر 3: اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ نے اس کو اسی طرح قتل کیا جیسے اس نے قتل کیا تھا کیونکہ اس پر یہی واجب تھا۔
نمبر 4: اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض اس کا خون بہانا لازم ہو اور ولی کو اس میں اختیار ہو جس چیز کے ساتھ چاہے خون بہا لے تو اولیاء نے کچلنا پسند کیا چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی پسند پر ایسا کیا۔
نوٹ : اس روایت میں ان تمام وجوہ کا احتمال ہے اور ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طریقے کی بجائے دوسرا طریقہ کیوں اختیار فرمایا۔ بلکہ آپ سے تو یہ بی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی کو اس طریقے کے خلاف قتل کیا جس سے اس نے بچی کو قتل کیا تھا۔ جیسا اس روایت میں ہے۔

4898

۴۸۹۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِی دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ یَعْلَی مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَفْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَکَانَ ثِقَۃً وَرَفَعَ بِہٖ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْیَہُوْدِ رَضَخَ رَأْسَ جَارِیَۃٍ عَلٰی حُلِیْ لَہَا فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرْجَمَ حَتَّی قُتِلَ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَتَلَ ذٰلِکَ الْیَہُوْدِیَّ رَجْمًا ، بِقَتْلِہِ الْجَارِیَۃَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْأَثَرِ وَفِیْمَا نُقَدِّمُہُ مِنَ الْآثَارِ وَہُوَ رَضْخُہُ رَأْسَہَا ، وَالرَّجْمُ قَدْ یُصِیْبُ الرَّأْسَ وَغَیْرَ الرَّأْسِ فَقَدْ قَتَلَہُ بِغَیْرِ مَا کَانَ قَتَلَ بِہٖ الْجَارِیَۃَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ فَعَلَ کَانَ حَلَالًا یَوْمَئِذٍ ثُمَّ نُسِخَ بِنَسْخِ الْمُثْلَۃِ. فَمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَسْخِ الْمُثْلَۃِ ۔
٤٨٩٨: ابو قلابہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک بچی کے سر کو اس کے زیورات حاصل کرنے کے لیے پتھر سے کچل دیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس وقت تک پتھر مارنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی کو بچی کے قتل کی وجہ سے پتھروں سے ہلاک کیا جیسا کہ پہلی روایات میں مذکور ہوا کہ اس نے اس بچی کا سر کچل دیا تھا اور سنگساری تو سر پر بھی ہوتی ہے اور دوسرے جسم کے حصوں پر بھی تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہودی کا قتل اس طریقے سے نہ تھا جس طرح اس نے بچی کو قتل کیا تھا پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ نے ان دنوں جو کچھ کیا یہ ان دنوں جائز تھا پھر مثلہ کی منسوخی سے یہ بھی منسوخ ہوگیا۔
تخریج : مسلم فی القسامۃ ١٦‘ ابو داؤد فی الحدود باب ٢٣‘ والدیات باب ١٠‘ نسائی فی التحریم باب ٩‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٩‘ مسند احمد ٣؍١٦٣‘ ٥؍٢١٧۔

4899

۴۸۹۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُجَثَّمَۃِ وَالْمُجَثَّمَۃِ : اَلشَّاۃُ تُرْمٰی بِالنَّبْلِ حَتّٰی تُقْتَلَ .
٤٨٩٩: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجثمہ سے منع فرمایا۔ مجثمہ بکری کو تیروں کے نشانے سے قتل کرنے کو کہتے ہیں۔
لغات : مجثمہ۔ پالتو جانور کو تیروں کا نشانہ بنانا۔
تخریج : بخاری فی الذبائح باب ٢٥‘ ابو داؤد فی الاشربہ باب ١٤‘ ترمذی فی الصید باب ٩‘ والاطعمہ باب ٢٤‘ نسائی فی الصید باب ٢٨‘ الضحایا باب ٤١‘ ٤٤‘ دارمی فی الاضاحی باب ١٣‘ ١٨‘ ٢٧‘ مسند احمد ١‘ ٢٢٦؍٢٤١‘ ٢؍٣٦٦‘ ٣؍٣٢٣‘ ٤؍١٢٧‘ ٦؍٤٤٥۔

4900

۴۹۰۰: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ .ح .وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ الْغُدَانِیُّ قَالَا : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَتَّخِذُوْا شَیْئًا فِیْہِ الرُّوْحُ غَرَضًا .
٤٩٠٠: سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس چیز میں روح ہو اس کو نشانہ زنی کے لیے مت استعمال کرو۔
تخریج : مسلم فی الصید ٥٨؍٦٠‘ ترمذی فی الصید باب ٩‘ نسائی فی الضحایا باب ٤١‘ ابن ماجہ فی الذبائح باب ١٠‘ مسند احمد ١‘ ٢١٦؍٢٧٣‘ ٢؍٨٦۔
لغات : غرضا۔ کسی چیز کو نشانہ بنانے کے لیے گاڑنا۔

4901

۴۹۰۱: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٩٠١: یزید بن ہارون نے شعبہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

4902

۴۹۰۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ وَسِمَاکٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ قَالَ أَحَدُہُمَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٩٠٢: عاصم احول اور سماک نے عکرمہ سے ان دونوں میں سے ایک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے اور وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔

4903

۴۹۰۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٩٠٣: سماک نے عکرمہ سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4904

۴۹۰۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ : حَدَّثَنِی الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَوْ مُجَاہِدٍ قَالَ مَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِدَجَاجَۃٍ قَدْ نُصِبَتْ تُرْمَی فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَی أَنْ یُمَثَّلَ بِالْبَہَائِمِ .
٤٩٠٤: سعید بن جبیر یا مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو کھڑا کر کے نشانہ لگا رہے تھے تو ابن عمر (رض) نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ آپ نے حیوانات کا مثلہ کرنے یا باندھ کر ان کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الذبائح باب ١٠۔
لغات : یمثل۔ مثلہ کرنا۔ باندھ کر یا گاڑ کر نشانہ بنانا۔

4905

۴۹۰۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمِّی وَہُوَ ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنِ الْحَارِثِ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ أَنَّ بَکْرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہُمَا عَنْ أَبِیْھَاعَنِ ابْنِ یَعْلَی أَنَّہٗ قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ فَأُتِیَ بِأَرْبَعَۃِ أَعْلَاجٍ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَمَرَ بِہِمْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ فَقُتِلُوْا صَبْرًا بِالنَّبْلِ .فَبَلَغَ ذٰلِکَ أَبَا أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیَّ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَیْ عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ کَانَتْ دَجَاجَۃٌ مَا صَبَرْتُہَا .فَبَلَغَ ذٰلِکَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ فَأَعْتَقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ .
٤٩٠٥: ابن یعلی طائی بیان کرتے ہیں کہ ہم عبدالرحمن بن خالد بن ولید (رض) کے ساتھ جہاد میں تھے تو دشمن کی طرف سے چار عجمی کافر لائے گئے حضرت عبدالرحمن کے حکم پر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کو تیروں سے قتل کیا گیا یہ بات حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ آپ باندھ کر قتل سے منع فرماتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر مرغی بھی ہوتی تو میں اسے باندھ کر قتل نہ کرتا۔ حضرت عبدالرحمن (رض) کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے چار غلام آزاد کئے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١٢٠‘ دارمی فی الاضاحی باب ١٣‘ مسند احمد ٥؍٤٢٢۔
لغات : اعلاج۔ جمع علج۔ عجمی سردار۔ قتل صبرا۔ باندھ کر قتل کرنا۔

4906

۴۹۰۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ عَنْ بَکْرٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٩٠٦: ابن اسحاق نے بکر سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

4907

۴۹۰۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِیْدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عُبَیْدِ بْنِ یَعْلَی عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ صَبْرِ الدَّابَّۃِ .قَالَ أَبُوْ أَیُّوْبَ: وَلَوْ کَانَتْ دَجَاجَۃً مَا صَبَرْتُہَا۔
٤٩٠٧: عبید بن تعلی طائی نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانور کو باندھ کر نشانہ بنانے سے منع فرماتے۔ حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ اگر وہ مرغی بھی ہوتی تو میں اس کو نشانہ نہ بناتا۔
تخریج : تخریج ٤٩٠٥ کو ملاحظہ کریں۔

4908

۴۹۰۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُنَا فَیَأْمُرُنَا بِالصَّدَقَۃِ وَیَنْہَانَا عَنِ الْمُثْلَۃِ .
٤٩٠٨: حسن نے عمران بن حصین (رض) سے انھوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خطبہ دیتے تو صدقہ کا حکم فرماتے اور مثلہ سے منع فرماتے۔
تخریج : بخاری فی المظالم باب ٣٠‘ الذبائح باب ٢٥‘ المغازی باب ٣٦‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ١١٠‘ الحدود باب ٣‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٢٤‘ مسند احمد ٤؍٢٤٦‘ ٤٢٨؍٤٢٩‘ ٤٤٠؍٤٤٥‘ ٥؍١٢‘ ٢٠۔

4909

۴۹۰۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ثَنَا سَمُرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ قَالَ : قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُطْبَۃً اِلَّا أَمَرَنَا فِیْہَا بِالصَّدَقَۃِ وَنَہَانَا فِیْہَا عَنِ الْمُثْلَۃِ .
٤٩٠٩: حسن نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے نقل کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جو خطبہ دیا اس میں صدقہ کی ترغیب اور مثلہ کی ممانعت فرمائی ۔

4910

۴۹۱۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ قَالَ : قَالَ سَمُرَۃُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَلَّمَا قَامَ فِیْنَا یَخْطُبُ اِلَّا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَۃِ وَنَہَانَا عَنِ الْمُثْلَۃِ .
٤٩١٠: حسن نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں ہمیں صدقہ کا حکم نہ فرمایا ہو اور مثلہ سے نہ روکا ہو۔

4911

۴۹۱۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُصْبَرَ الْبَہَائِمُ .
٤٩١١: ہشام بن یزید نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ حیوانات کو باندھ کر نشانہ بنایا جائے۔
تخریج : بخاری فی الذبائح باب ٢٥‘ مسلم فی الصید باب ٥٨‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ١١‘ فی الضحایا باب ٧٩‘ مسند احمد ٢؍٩٤‘ ٣؍١١٧‘ ١٧١؍١٩١۔

4912

۴۹۱۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ یَعْنِی : ابْنَ مَالِکٍ عَنْ مَسْلَمَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الثَّقَفِیِّ قَالَ : ثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ صَفِیَّۃَ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُثْلَۃِ
٤٩١٢: مغیرہ بن صفیہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے مثلہ سے منع فرمایا۔

4913

۴۹۱۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ شِبَاکٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ ہُنَیِّ بْنِ نُوَیْرَۃَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَحْسَنُ النَّاسِ قِتْلَۃً أَہْلُ الْاِیْمَانِ
٤٩١٣: علقمہ نے حضرت عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ مسلمان بہترین طریقے پر قتل کرنے والے ہیں (یعنی جن مقامات پر شرع کی طرف سے قتل کا حکم ہو وہاں انسان حیوان کو دکھ دینے کے بغیر قتل کرنے والے ہیں سوائے ان مقامات کے جہاں عبرت مقصود ہو) ۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ١١٠‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٣٠‘ مسند احمد ١؍٣٩٣۔

4914

۴۹۱۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ وَلَمْ یَذْکُرْ شَیْئًا عَنْ ہُنَیْ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔فَقَدْ ثَبَتَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ نَسْخُ الْمُثْلَۃِ بَعْدَ أَنْ کَانَتْ مُبَاحَۃً عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ حَدِیْثِ الْعُرَنِیِّیْنَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : لَمْ یَدْخُلْ مَا اخْتَلَفْنَا نَحْنُ وَأَنْتُمْ فِیْہِ مِنَ الْقِصَاصِ فِیْ ہٰذَا لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ .قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ یُرَادُ بِہَا ہٰذَا الْمَعْنٰی اِنَّمَا أُرِیْدَ بِہَا مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا رَوَاہُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .
٤٩١٤: علقمہ نے حضرت عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ان روایات سے مثلہ کا نسخ ثابت ہوگیا جبکہ وہ پہلے مباح تھا جیسا روایت عرنیین میں ذکر ہوا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ان روایات میں جو کچھ ذکر ہوا اور ہمارے اور تمہارے درمیان جو مختلف ہے وہ تو اس میں داخل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ فان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم ‘ (النحل ١٢٦) اگر تم بدلہ لو تو مثل سے بدلہ لو۔ جو تمہیں تکلیف پہنچائی گئی۔ تو اسے کہا جائے گا آیت سے یہ معنی مراد نہیں جو آپ نے مراد لیا ہے بلکہ اس کا مفہوم وہ ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) اور ابن عباس (رض) کی روایات ہم ذکر کرتے ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات سے مثلہ کا نسخ ثابت ہوگیا جبکہ وہ پہلے مباح تھا جیسا روایت عرنیین میں ذکر ہوا۔
سوال : روایات میں جو کچھ ذکر ہوا اور ہمارے اور تمہارے درمیان جو مختلف ہے وہ تو اس میں داخل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ فان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم ‘ (النحل ١٢٦) اگر تم بدلہ لو تو مثل سے بدلہ لو۔ جو تمہیں تکلیف پہنچائی گئی۔
جواب : آیت سے یہ معنی مراد نہیں جو آپ نے مراد لیا ہے بلکہ اس کا مفہوم وہ ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) اور ابن عباس (رض) کی روایات ہم ذکر کرتے ہیں۔

4915

۴۹۱۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا قُتِلَ حَمْزَۃُ وَمُثِّلَ بِہٖ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَئِنْ ظَفِرْتُ بِہِمْ لَأُمَثِّلَنَّ بِسَبْعِیْنَ رَجُلًا مِنْہُمْ .فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِیْنَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلْ نَصْبِرُ .
٤٩١٥: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت حمزہ قتل ہوگئے اور ان کا مثلہ کردیا گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لہو خیر للصابرین “ (النحل ١٢٦) تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ ہم صبر کریں گے۔

4916

۴۹۱۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ .ح .وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ قَالَا : ثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّیُّ عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلٰی حَمْزَۃَ حِیْنَ اُسْتُشْہِدَ فَنَظَرَ اِلٰی أَمْرٍ لَمْ یَنْظُرْ قَطُّ اِلٰی أَمْرٍ أَوْجَعَ لِقَلْبِہٖ مِنْہُ .فَقَالَ : یَرْحَمُک اللّٰہُ اِنْ کُنْتُ لِوُصُوْلًا لِلرَّحِمِ ، فَعُوْلًا لِلْخَیْرَاتِ ، وَلَوْ لَا حُزْنٌ مِنْ بَعْدِک لَسَرَّنِیْ أَنْ أَدَعَک حَتّٰی تُحْشَرَ مِنْ أَفْوَاجٍ شَتَّی وَأَیْمُ اللّٰہِ لَأُمَثِّلَنَّ بِسَبْعِیْنَ مِنْہُمْ مَکَانَک .فَنَزَلَ عَلَیْہِ جَبْرَائِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بَعْدُ بِخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ النَّحْلِ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِیْنَ اِلٰی آخِرِ السُّوْرَۃِ فَصَبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَفَّرَ عَنْ یَمِیْنِہِ .فَاِنَّمَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ فِیْ ہٰذَا الْمَعْنَی لَا فِی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْتَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لَا قَوَدَ اِلَّا بِالسَّیْفِ .
٤٩١٦: ابو عثمان نہدی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہادت کے بعد حضرت حمزہ (رض) کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے آپ نے ایسا منظر دیکھا جو کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا اور ایسی چیز دیکھی جس نے آپ کے قلب اطہر کو دکھی کردیا تو آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے تم صلہ رحمی کرنے والے ‘ خوب بھلائی کے کام کرنے والے تھے اگر مجھے تمہارے بعد والوں کے غم کا خطرہ نہ ہوتا تو مجھے یہ بات اچھی لگتی تھی کہ میں تمہیں چھوڑ دیتا یہاں تک کہ تمہارا حشر (جانوروں کی) مختلف افواج سے ہوتا اور اللہ کی قسم تمہارے بجائے ان میں سے میں ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔ اسی وقت جبرائیل (علیہ السلام) آئے جبکہ آپ ابھی کھڑے تھے۔ سورة نحل کی یہ اختتامی آیات لائے۔ ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لہو خیرللصابرین “ (النحل : ١٢٦) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبر کیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا۔ اس آیت کا تو یہ مفہوم ہے نہ کہ وہ جو آپ نے بیان فرمایا بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔
” لاقود الا بالسیف “ کہ قصاص صرف تلوار سے ہے۔

4917

۴۹۱۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِیْ عَازِبٍ عَنِ النُّعْمَانِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا قَوَدَ اِلَّا بِالسَّیْفِ .فَدَلَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ الْقَوَدَ لِکُلِّ قَتِیْلٍ مَا کَانَ ، لَا یَکُوْنُ اِلَّا بِالسَّیْفِ وَقَدْ جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَیْضًا .
٤٩١٧: ابو عازب نے حضرت نعمان (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قصاص صرف تلوار سے ہے۔ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ ہر مقتول کا قصاص تلوار سے ہوگا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور بھی روایات آئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جیسے یہ دو روایتیں ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٥۔
حاصل روایات : یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ ہر مقتول کا قصاص تلوار سے ہوگا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور بھی روایات آئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جیسے یہ دو روایتیں ہیں۔

4918

۴۹۱۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِجِرَاحٍ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَسْتَأْنُوْا بِہَا سَنَۃً
٤٩١٨: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس زخمی لائے گئے آپ نے حکم فرمایا کہ ان کے زخموں کے ٹھیک ہونے کا سال بھر انتظار کرو۔
لغات : یستأنوا۔ انتظار کرنا۔ مہلت دینا۔

4919

۴۹۱۹: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ عَنْبَسَۃَ ابْنِ سَعِیْدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یُسْتَقَادُ مِنَ الْجُرْحِ حَتّٰی یَبْرَأَ .فَلَوْ کَانَ یُفْعَلُ بِالْجَانِیْ کَمَا فَعَلَ کَمَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لَمْ یَکُنْ لِلِاسْتِیْنَائِ مَعْنًی لِأَنَّہٗ یَجِبُ عَلَی الْقَاطِعِ قَطْعُ یَدِہِ اِنْ کَانَتْ جِنَایَتُہُ قَطْعًا ، بَرَأَ مِنْ ذٰلِکَ الْمَجْنِیُّ عَلَیْہِ أَوْ مَاتَ .فَلَمَّا ثَبَتَ الْاِسْتِیْنَائُ لِیُنْظَرَ مَا یَئُوْلُ اِلَیْہِ الْجِنَایَۃُ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا یَجِبُ فِیْہِ الْقِصَاصُ ہُوَ مَا یَئُوْلُ اِلَیْہِ الْجِنَایَۃُ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ .فَاِنْ طَعَنَ طَاعِنٌ فِیْ یَحْیَی بْنِ أَبِی أُنَیْسَۃَ وَأَنْکَرَ عَلَیْنَا الِاحْتِجَاجَ بِحَدِیْثِہِ فَاِنَّ عَلِیَّ بْنَ الْمَدِیْنِیِّ قَدْ ذَکَرَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّہٗ أَحَبُّ اِلَیْہِ فِیْ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ .
٤٩١٩: شعبی نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زخم کا قصاص زخموں کے درست ہونے تک نہ لیا جائے۔ اسی طرح قاتل کے ساتھ کرنا ضروری تھا جیسا اس نے مقتول کے ساتھ کیا تو پھر زخمیوں کو مہلت دینے کا کوئی معنی نہیں۔ کیونکہ ہاتھ کاٹنے والے پر اس کے ہاتھ کا کاٹنا ضروری ہے۔ اگر اس کا جرم ہاتھ کاٹنا ہے تو زخمی اس سے بری ہو یا مرجائے اس کا تو کچھ تعلق نہیں۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کو مہلت دی جائے تاکہ جنایت کا انجام معلوم ہو تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصاص اسی میں ہے جس پر جنایت انجام پذیر ہوگی۔ کسی اور صورت میں نہ ہوگی۔ آپ نے ٤٩١٨ روایت پیش کی ہے۔ اس کا راوی یحییٰ بن ابی انیسہ مطعون ہے اس کی روایت سے استدلال درست نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢١٧‘ میں ال الفاظ سے ہے۔ فاذا برئت جراحتہ استقاد۔
فریق اوّل کا جواب : اگر اسی طرح قاتل کے ساتھ کرنا ضروری تھا جیسا اس نے مقتول کے ساتھ کیا تو پھر زخمیوں کو مہلت دینے کا کوئی معنی نہیں۔ کیونکہ ہاتھ کاٹنے والے پر اس کے ہاتھ کا کاٹنا ضروری ہے۔ اگر اس کا جرم ہاتھ کاٹنا ہے تو زخمی اس سے بری ہو یا مرجائے اس کا تو کچھ تعلق نہیں۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کو مہلت دی جائے تاکہ جنایت کا انجام معلوم ہو تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصاص اسی میں ہے جس پر جنایت انجام پذیر ہوگی۔ کسی اور صورت میں نہ ہوگی۔
سوال : آپ نے ٤٩١٨ روایت پیش کی ہے۔ اس کا راوی یحییٰ بن ابی انیسہ مطعون ہے اس کی روایت سے استدلال درست نہیں۔
جواب : علی بن مدینی نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا ہے کہ زہری کی روایت میں محمد بن اسحاق کی بجائے یحییٰ بن ابی انیسہ زیادہ پسند ہے پس اعتراض بےمحل ہے۔

4920

۴۹۲۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ الثَّقَفِیُّ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَۃَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذَّبْحَ وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ وَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِأَنْ یُحْسِنُوْا الْقِتْلَۃَ وَأَنْ یُرِیْحُوْا مَا أَحَلَّ اللّٰہُ لَہُمْ ذَبْحَہُ مِنَ الْأَنْعَامِ فَمَا أَحَلَّ لَہُمْ قَتْلَہٗ مِنْ بَنِی آدَمَ فَہُوَ أَحْرَی أَنْ یُفْعَلَ بِہٖ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : لَا یُسْتَأْنَی بُرْئُ الْجِرَاحِ وَخَالَفَ مَا ذَکَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ فَکَفَی بِہٖ جَہْلًا فِیْ خِلَافِہِ کُلُّ مَنْ تَقَدَّمَہٗ مِنَ الْعُلَمَائِ .وَ عَلٰی ذٰلِکَ فَاِنَّا نُفْسِدُ قَوْلَہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَذٰلِکَ اِنَّا رَأَیْنَا رَجُلًا لَوْ قَطَعَ یَدَ رَجُلٍ خَطَأً فَبَرَأَ مِنْہَا وَجَبَتْ عَلَیْہِ دِیَۃُ الْیَدِ وَلَوْ مَاتَ مِنْہَا وَجَبَتْ عَلَیْہِ دِیَۃُ النَّفْسِ وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ فِی الْیَدِ شَیْء ٌ وَدَخَلَ مَا کَانَ یَجِبُ فِی الْیَدِ فِیْمَا وَجَبَ فِی النَّفْسِ .فَصَارَ الْجَانِیْ کَمَنْ قُتِلَ وَلَیْسَ کَمَنْ قُطِعَ وَصَارَتِ الْیَدُ لَا یَجِبُ لَہَا حُکْمٌ اِلَّا وَالنَّفْسُ قَائِمَۃٌ وَلَا یَجِبُ لَہَا حُکْمٌ اِذَا کَانَتْ النَّفْسُ تَالِفَۃً .فَصَارَ النَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ اِذَا قَطَعَ یَدَہٗ عَمْدًا فَاِنْ بَرَأَ فَالْحُکْمُ لِلْیَدِ وَفِیْہَا الْقَوَدُ وَاِنْ مَاتَ مِنْہَا فَالْحُکْمُ لِلنَّفْسِ وَفِیْہَا الْقِصَاصُ لَا فِی الْیَدِ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ حُکْمِ الْخَطَأِ . وَیَدْخُلُ أَیْضًا عَلَی مَنْ یَقُوْلُ : اِنَّ الْجَانِیَ یُقْتَلُ کَمَا قُتِلَ أَنْ یَقُوْلَ اِذَا رَمَاہُ بِسَہْمٍ فَقَتَلَہٗ أَنْ یَنْصِبَ الرَّامِیَ فَیَرْمِیَہُ حَتّٰی یَقْتُلَہٗ، وَقَدْ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَبْرِ ذِی الرُّوْحِ فَلَا یَنْبَغِی أَنْ یُصْبَرَ أَحَدٌ لِنَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ وَلٰـکِنْ یُقْتَلُ قَتْلًا لَا یَکُوْنُ مَعَہُ شَیْء ٌ مِنَ النَّہْیِ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ نَکَحَ رَجُلًا فَقَتَلَہُ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا یَجِبُ لِلْوَلِیِّ أَنْ یَفْعَلَ بِالْقَاتِلِ کَمَا فَعَلَ وَلٰـکِنْ یَجِبُ لَہٗ أَنْ یَقْتُلَہُ لِأَنَّ نِکَاحَہُ اِیَّاہُ حَرَامٌ عَلَیْہِ .فَکَذٰلِکَ صَبْرُہُ اِیَّاہُ فِیْمَا وَصَفْنَا حَرَامٌ عَلَیْہِ وَلٰـکِنْ لَہُ قَتْلُہُ کَمَا یُقْتَلُ مَنْ حَلَّ دَمُہُ بِرِدَّۃٍ أَوْ بِغَیْرِہَا .ہَذَا ہُوَ النَّظْرُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .غَیْرَ أَنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ لَا یُوْجِبُ الْقَوَدَ عَلَی مَنْ قُتِلَ بِحَجَرٍ وَسَنُبَیِّنُ قَوْلَہُ ہَذَا وَالْحُجَّۃُ لَہُ فِیْ بَابِ شِبْہُ الْعَمْدِ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٩٢٠: ابوالاشعث نے حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت کی کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے احسان کو ہر چیز میں لازم قرار دیا۔ پس جب تم قتل کرو تو اچھے انداز سے قتل کرو اور جب کسی (جانور ) کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور مناسب یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ اچھے طریقے سے قتل کریں اور جن جانوروں کا ذبح کرنا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جائز رکھا ہے ان سے یہ سلوک کرنا نہایت مناسب ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ زخم کے درست ہونے کا انتظار کرنے کی کیا حاجت ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم صحیح روایات ذکر کر آئے اس سے ان کی مخالفت لازم آئے گی اور اس کی جہالت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ علماء متقدمین کا مخالف ہے بلکہ قیاس کے اعتبار سے بھی اس کی بات غلط ہے۔ ملاحظہ کریں۔ ہم نے غور کر کے دیکھا کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی دوسرے آدمی کا ہاتھ کاٹ دے اور وہ درست ہوجائے تو اس پر ہاتھ کی دیت لازم ہوتی ہے اور اگر وہ اس کی وجہ سے مرجائے تو اس پر ایک جان کی دیت لازم ہوتی ہے اور ہاتھ کے سلسلہ میں کچھ لازم نہیں آتا۔ ہاتھ کے سلسلہ میں لازم ہونے والی سزا نفس و جان کی چٹی میں لازم ہونے والی سزا میں داخل ہوجاتی ہے اور جرم کرنے والا قاتل کی طرح ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ کاٹنے والے کی طرح نہیں رہتا۔ ہاتھ کا حکم صرف اس صورت میں لازم ہوتا ہے جبکہ انسانی جان باقی ہو اور اگر اس کی جان ضائع ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم واجب نہیں ہوتا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب وہ جان بوجھ کر ہاتھ کاٹے تو حکم اسی طرح ہو اگر وہ درست ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم لگے گا اور اس میں دیت ہے اور اگر اس سے مرجائے تو نفس کا حکم ہوگا اور اس میں قصاص لازم ہوگا ہاتھ کا بدلہ نہ ہوگا۔ خطاء کے سلسلہ میں ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے۔ اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ جناب اگر آپ کہتے ہیں کہ اسی طرح قتل کرنا لازم ہے تو آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرمائیں گے جس نے کسی کو تیر مار کر ہلاک کردیا تو کیا آپ تیر مارنے والے کو کھڑا کر کے تیر مارنے کا حکم دیں گے حالانکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا کر کے کسی بھی جاندار کو تیر مارنے کی صاف ممانعت فرمائی ہے۔ اس موقعہ پر تو آپ یہی فرمائیں گے کہ جس طریقے پر اس کو قتل کی ممانعت نہ کی گئی ہو اس طریقے پر قتل کیا جائے۔ ذرا غور کرو کہ اگر کوئی مرد کسی مرد سے بدفعلی کرے اور اس کی وجہ سے اس کو ہلاک کر دے تو مقتول کے ولی کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قاتل کے ساتھ وہی فعل کرے جو اس نے کیا بلکہ قاتل پر لازم ہے کہ وہ اس کو صرف قتل کرے۔ کیونکہ قاتل کے ساتھ بدفعلی کرنا بھی حرام ہے اور اسے باندھ کر اس کو ہلاک کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا صرف اس کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ جس طرح اس شخص کو قتل کیا جاتا ہے جس کا خون مرتد ہونے یا کسی اور وجہ سے مباح ہوچکا ہو۔ قیاس کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں پتھر سے ہلاک کرنے والے پر بدلہ واجب نہیں۔ ہم آپ کے اس قول اور دلیل کو باب شبہ عمد میں ان شاء اللہ بیان کریں گے۔
تخریج : مسلم فی الصید ٥٧‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ١١‘ ترمذی فی الدیات باب ١٤‘ نسائی فی الضحایا باب ٢٢‘ ٢٦؍٢٧‘ ابن ماجہ فی الذبائح باب ٣‘ دارمی فی الاضاحی باب ١٠‘ مسند احمد ٤‘ ١٢٣؍١٢٤۔
لغات : القتلہ۔ حالت قتل۔ یریح۔ آرام پہنچانا۔
جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ اچھے طریقے سے قتل کریں اور جن جانوروں کا ذبح کرنا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جائز رکھا ہے ان سے یہ سلوک کرنا نہایت مناسب ہے۔
ایک اعتراض :
زخم کے درست ہونے کا انتظار کرنے کی کیا حاجت ہے۔
جواب : گزشتہ صفحات میں ہم صحیح روایات ذکر کر آئے اس سے ان کی مخالفت لازم آئے گی اور اس کی جہالت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ علماء متقدمین کا مخالف ہے بلکہ قیاس کے اعتبار سے بھی اس کی بات غلط ہے۔ ملاحظہ کریں۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور کر کے دیکھا کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی دوسرے آدمی کا ہاتھ کاٹ دے اور وہ درست ہوجائے تو اس پر ہاتھ کی دیت لازم ہوتی ہے اور اگر وہ اس کی وجہ سے مرجائے تو اس پر ایک جان کی دیت لازم ہوتی ہے اور ہاتھ کے سلسلہ میں کچھ لازم نہیں آتا۔ ہاتھ کے سلسلہ میں لازم ہونے والی سزا نفس و جان کی چٹی میں لازم ہونے والی سزا میں داخل ہوجاتی ہے اور جرم کرنے والا قاتل کی طرح ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ کاٹنے والے کی طرح نہیں رہتا۔ ہاتھ کا حکم صرف اس صورت میں لازم ہوتا ہے جبکہ انسانی جان باقی ہو اور اگر اس کی جان ضائع ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم واجب نہیں ہوتا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب وہ جازن بوجھ کر ہاتھ کاٹے تو حکم اسی طرح ہو اگر وہ درست ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم لگے گا اور اس میں دیت ہے اور اگر اس سے مرجائے تو نفس کا حکم ہوگا اور اس میں قصاص لازم ہوگا ہاتھ کا بدلہ نہ ہوگا۔ خطاء کے سلسلہ میں ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے۔ اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔
فریق اوّل پر ایک سوال :
جناب اگر آپ کہتے ہیں کہ اسی طرح قتل کرنا لازم ہے تو آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرمائیں گے جس نے کسی کو تیر مار کر ہلاک کردیا تو کیا آپ تیر مارنے والے کو کھڑا کر کے تیر مارنے کا حکم دیں گے حالانکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا کر کے کسی بھی جاندار کو تیر مارنے کی صاف ممانعت فرمائی ہے۔
اس موقعہ پر تو آپ یہی فرمائیں گے کہ جس طریقے پر اس کو قتل کی ممانعت نہ کی گئی ہو اس طریقے پر قتل کیا جائے۔
ذرا غور ککرو کہ اگر کوئی مرد کسی مرد سے بدفعلی کرے اور اس کی وجہ سے اس کو ہلاک کر دے تو مقتول کے ولی کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قاتل کے ساتھ وہی فعل کرے جو اس نے کیا بلکہ قاتل پر لازم ہے کہ وہ اس کو صرف قتل کرے۔ کیونکہ قاتل کے ساتھ بدفعلی کرنا بھی حرام ہے اور اسے باندھ کر اس کو ہلاک کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا صرف اس کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ جس طرح اس شخص کو قتل کیا جاتا ہے جس کا خون مترد ہونے یا کسی اور وجہ سے مباح ہوچکا ہو۔ قیاس کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں پتھر سے ہلاک کرنے والے پر بدلہ واجب نہیں۔ ہم آپ کے اس قول اور دلیل کو باب شبہ عمد میں ان شاء اللہ بیان کریں گے۔

4921

۴۹۲۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ قَاسِمِ ابْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ جَوْشَنٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَوْسٍ السَّدُوْسِیِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ أَلَا اِنَّ قَتِیْلَ خَطَأِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ ، فِیْہِ دِیَۃٌ مُغَلَّظَۃٌ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ مِنْہَا أَرْبَعُوْنَ خِلْفَۃً فِیْ بُطُوْنِہَا أَوْلَادُہَا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالُوْا : لَا قَوَدَ عَلَی مَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِعَصًا أَوْ حَجَرٍ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ مِنْہُمْ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا فَقَالُوْا : اِذَا کَانَتِ الْخَشَبَۃُ مِثْلُہَا یَقْتُلُ فَعَلَی الْقَاتِلِ بِہَا الْقِصَاصُ وَذٰلِکَ عَمْدٌ .وَاِنْ کَانَ مِثْلُہَا لَا یَقْتُلُ فَفِیْ ذٰلِکَ الدِّیَۃُ وَذٰلِکَ شِبْہُ الْعَمْدِ .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْمَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْنَا أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَا اِنَّ قَتِیْلَ خَطَأِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ ، فِیْہِ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا قَالُوْا ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الْعَصَا الَّتِیْ لَا تَقْتُلُ مِثْلُہَا الَّتِیْ ہِیَ کَالسَّوْطِ الَّذِی لَا یَقْتُلُ مِثْلُہٗ .فَاِنْ کَانَ أَرَادَ ذٰلِکَ فَہُوَ الَّذِیْ قُلْنَا ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ أَرَادَ ذٰلِکَ وَأَرَادَ مَا قُلْتُمْ أَنْتُمْ فَقَدْ تَرَکْنَا الْحَدِیْثَ وَخَالَفْنَاہُ .فَنَحْنُ بَعْدُ لَمْ نُثْبِتْ خِلَافَنَا لِہٰذَا الْحَدِیْثِ اِذْ کُنَّا نَقُوْلُ : اِنَّ مِنَ الْعَصَا مَا اِذَا قُتِلَ بِہٖ لَمْ یَجِبْ بِہٖ عَلَی الْقَاتِلِ قَوَدٌ .وَہٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ حَمَلْنَا عَلَیْہِ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَوْلَی مِمَّا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ؛ لِأَنَّ مَا حَمَلْنَاہُ عَلَیْہِ لَا یُضَادُّ حَدِیْثَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِیجَابِہٖ الْقَوَدَ عَلَی الْیَہُوْدِیِّ الَّذِیْ رَضَخَ رَأْسَ الْجَارِیَۃِ بِحَجَرٍ .وَمَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی یُضَادُّ ذٰلِکَ وَیَنْفِیْہِ .وَلَأَنْ یُحْمَلَ الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا یُوَافِقُ بَعْضُہٗ بَعْضًا أَوْلَی مِنْ أَنْ یُحْمَلَ عَلٰی مَا یُضَادُّ بَعْضُہٗ بَعْضًا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتَ قَدْ قُلْتُ اِنَّ حَدِیْثَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہَذَا مَنْسُوْخٌ فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ فَکَیْفَ أَثْبَتَّ الْعَمَلَ بِہٖ ہَاہُنَا ؟ قِیْلَ لَہٗ : لَمْ نَقُلْ اِنَّ حَدِیْثَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہَذَا مَنْسُوْخٌ مِنْ جِہَۃِ مَا ذَکَرْتُ وَقَدْ ثَبَتَ وُجُوْبُ الْقَوَدِ وَالْقَتْلِ بِالْحَجَرِ فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ .وَاِنَّمَا قُلْتُ :اِنَّ الْقِصَاصَ بِالْحَجَرِ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَنْسُوْخًا لِمَا قَدْ ذَکَرْتُ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ .فَحَدِیْثُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ اِیجَابِ الْقَوَدِ عِنْدَنَا غَیْرُ مَنْسُوْخٍ .وَفِیْ کَیْفِیَّۃِ الْقَوَدِ الْوَاجِبِ قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَنْسُوْخًا عَلٰی مَا فَسَّرْنَا وَبَیَّنَّا فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلَّذِیْنَ قَالُوْا : اِنَّ الْقَتْلَ بِالْحَجَرِ لَا یُوْجِبُ الْقَوَدَ فِیْ دَفْعِ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَوْجَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَتْلِ فِیْ ذٰلِکَ حَقًّا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَجَعَلَ الْیَہُوْدِیَّ کَقَاطِعِ الطَّرِیْقِ الَّذِیْ یَکُوْنُ مَا وَجَبَ عَلَیْہِ حَدًّا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَاِنَّ قَاطِعَ الطَّرِیْقِ اِذَا قَتَلَ بِحَجَرٍ أَوْ بِعَصًا وَجَبَ عَلَیْہِ الْقَتْلُ فِیْ قَوْلِ الَّذِیْ یَزْعُمُ أَنَّہٗ لَا قَوَدَ عَلَی مَنْ قَتَلَ بِعَصًا ، وَقَدْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَہْلِ النَّظَرِ .وَقَدْ قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْخِنَاقِ اِنَّ عَلَیْہِ الدِّیَۃَ وَأَنَّہٗ لَا یُقْتَلُ اِلَّا أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ فَیُقْتَلُ وَیَکُوْنُ ذٰلِکَ حَدًّا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتَلَ الْیَہُوْدِیَّ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِأَنَّہٗ وَجَبَ عَلَیْہِ الْقَتْلُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا یَجِبُ عَلَی قَاطِعِ الطَّرِیْقِ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَاِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : کُلُّ مَنْ قَطَعَ الطَّرِیْقَ فَقَتَلَ بِعَصًا أَوْ حَجَرٍ أَوْ فَعَلَ ذٰلِکَ فِی الْمِصْرِ یَکُوْنُ حُکْمُہٗ فِیْمَا فَعَلَ حُکْمَ قَاطِعِ الطَّرِیْقِ ، وَکَذٰلِکَ الْخَنَّاقُ الَّذِیْ قَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ أَنَّہٗ یُقْتَلُ .وَقَدْ کَانَ یَنْبَغِی فِی الْقِیَاسِ عَلَی قَوْلِہٖ : أَنْ یَکُوْنَ یَجِبُ عَلَی مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً الْقَتْلُ وَیَکُوْنُ ذٰلِکَ حَدًّا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا یَجِبُ اِذَا فَعَلَہُ مِرَارًا لِأَنَّا رَأَیْنَا الْحُدُوْدَ یُوْجِبُہَا انْتِہَاکُ الْحُرْمَۃِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً ثُمَّ لَا یَجِبُ عَلَی مَنْ انْتَہَکَ تِلْکَ الْحُرْمَۃَ ثَانِیَۃً اِلَّا مَا وَجَبَ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِہَا فِی الْبَدْئِ .فَکَانَ النَّظْرُ فِیْمَا وَصَفْنَا أَنْ یَکُوْنَ الْجَانِی الْخَنَّاقُ کَذٰلِکَ أَیْضًا وَأَنْ یَکُوْنَ حُکْمُہٗ فِیْ أَوَّلِ مَرَّۃٍ ہُوَ حُکْمَہُ فِیْ آخِرِ مَرَّۃٍ ہَذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا مَا یَرْفَعُ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حُجَّۃٌ عَلَی مَنْ یَقُوْلُ مَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِحَجَرٍ فَلَا قَوَدَ عَلَیْہِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ قَوْلِہٖ ہَذَا
٤٩٢١: عقبہ بن اوس سدوسی ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ نے اپنے خطبہ میں فرمایا سنو ! شبہ عمد کا مقتول وہ ہے جو کوڑے لاٹھی اور پتھر سے قتل ہوجائے اس میں دیت مغلظہ یعنی سو اونٹ ہیں جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جس شخص نے کسی کو لاٹھی یا پتھر سے ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے یہ بات کہنے والوں میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں۔ فریق ثانی میں امام ابو یوسف (رح) محمد (رح) بھی شامل ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسی لکڑی ہو جو ہلاک کردیتی ہو تو اس میں قاتل پر قصاص ہے اور یہ قتل عمد میں شامل ہے اور اگر لکڑی ایسی نہ ہو جس سے عموماً ہلاکت ہوتی ہے تو اس میں دیت ہے اور یہ شبہ عمد ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ارشاد گرامی لوگو ! سنو ! شبہ عمد کوڑے ‘ عصا اور پتھر سے قتل کرنا ہے اور اس میں سو اونٹ دیت ہے۔ اس میں آپ کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وہ لاٹھی مراد لی ہو جو ہلاک نہیں کرتی اور وہ اس کوڑے کی طرح ہے جس سے ہلاکت واقع نہیں ہوتی اور اگر یہی بات ہو تو پھر ہماری بات ثابت ہوگئی اور اگر آپ کی مراد یہ نہ ہو بلکہ وہ بات ہو جو تم کہہ رہے ہو تو گویا پھر ہم نے روایت کو ترک کردیا اور اس کے خلاف کیا حالانکہ ہم نے حدیث کی مخالفت نہیں کی اس لیے کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بعض لاٹھیاں ایسی ہیں کہ ان سے ہلاکت کے سبب قاتل پر قصاص لازم نہیں ہوتا۔ ہمارا یہ معنی فریق اوّل کے معنی سے بہتر ہے کیونکہ اس طرح وہ حضرت انس (رض) والی روایت جس میں یہودی پر قصاص لازم قرار دیا گیا جس نے بچی کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اور فریق اوّل کا معنی روایت انس (رض) کے خلاف ہے اور اس کی نفی کرتا ہے۔ حدیث کا ایسا مفہوم لینا جس سے روایات ایک دوسرے کے موافق ہوں اس معنی لینے سے بہتر ہے جس سے روایات میں تضاد ہو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے تو گزشتہ باب میں کہا تھا کہ روایت انس (رض) منسوخ ہے اور یہاں اس سے اس عمل کو ثابت کر رہے ہیں۔ تو اس کے جواب میں کہے ہم عرض کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کی روایت اس جہت سے منسوخ ہے جس سے آپ کہتے ہیں اور جس کا ذکر آپ نے کیا۔ جبکہ اس روایت سے قصاص اور پتھر سے ہلاک کرنے کا وجوب ثابت ہو رہا ہے میں نے تو وہاں یہ کہا تھا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ پتھر کے ساتھ قصاص لینا منسوخ ہوچکا ہو۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں میں نے دلیل بھی ذکر کی ہے تو ہمارے نزدیک حضرت انس (رض) والی روایت قصاص کے وجوب کے سلسلہ میں منسوخ نہیں ہے۔ البتہ واجب قصاص کس طریقہ سے لیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں منسوخ ہونے کا احتمال ہے جیسا کہ گزشتہ باب میں ہم نے وضاحت کی ہے۔ حدیث انس (رض) میں یہ بھی احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قتل میں حق خداوندی کے طور پر قصاص کو لازم کیا ہو اور یہودی کو بمنزلہ ڈاکو کے قرار دیا جس پر اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد لاگو ہوتی ہے۔ ان کو جواب میں کہیں گے کہ اگر آپ کی بات کو اسی طرح تسلیم کرلیا جائے تو وہ ڈاکو جس نے پتھر یا لاٹھی سے کسی کو ہلاک کیا تو آپ بھی اس کے متعلق مانتے ہیں (حالانکہ لاٹھی کے ساتھ قتل کی صورت میں قصاص آپ کے ہاں واجب نہیں ہے) مجتہدین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ ادھر امام ابوحنیفہ (رح) گلا گھونٹ کر مارنے والے پر دیت کو لازم کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جب تک وہ اس فعل کا ارتکاب متعدد بار نہ کرے اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور کئی بار کرنے سے اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا۔ اب ہم (فریق ثانی) بھی یہی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کا قتل اس لیے کیا ہو کہ اس کا قتل اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہوگیا تھا جیسا کہ ڈاکو کا قتل واجب ہوتا ہے۔ اگر یہ بات اسی طرح ہے تو پھر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ جو آدمی ڈاکہ زنی کرے اور لاٹھی یا پتھر سے لوگوں کو ہلاک کرے یا شہر کے اندر یہ (ڈاکہ زنی وغیرہ) کرے تو اس کا حکم ڈاکو جیسا ہوگا اور اسی طرح اس کلا دبا کر ہلاک کرنے والے کا حکم ہے جس نے متعدد بار یہ حرکت کی ہو کہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ اب امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر قیاس کا تقاضا یہ ہے۔ کہ جو شخص ایک مرتبہ اس طرح کرے اس کا قتل بھی واجب و لازم ہو اور یہ قتل اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے طور پر اس پر لاگو ہوگا جیسا کہ متعدد بار کرنے سے اس پر لازم ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدود کو لازم کرنے والی چیز ایک مرتبہ قابل احترام چیز کی حرمت کا گرا دینا ہے تو اس حرمت کے پہلی مرتبہ گرانے سے جو حد لازم ہوتی ہے وہی کئی مرتبہ گرانے سے لازم ہوتی ہے۔ اب ہم نے جو کچھ بیان کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہ کہ گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے والے کا حکم بھی یہی ہو اور جو حکم پہلی بار سے لازم ہو متعدد بار کرنے سے وہی حکم ہو اس باب میں قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ اب ہماری بات کے ثابت ہونے سے حضرت انس (رض) کی روایت کا اس شخص کے خلاف حجت ہونا ختم ہوجاتا ہے جس کا قول یہ ہے کہ جس شخص نے پتھر سے کسی کو ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی ایک اور دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : نسائی فی القسامہ باب ٣٣‘ مسند احمد ٢؍١١‘ ١٠٣‘ ٣؍٤١٠۔
فریق اوّل کا مؤقف : جو لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے ہلاک کرے اس پر قصاص نہیں بلکہ دیت کاملہ ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
امام طحاوی (رح) کا قول : کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جس شخص نے کسی کو لاٹھی یا پتھر سے ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے یہ بات کہنے والوں میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : فریق ثانی میں امام ابو یوسف (رح) محمد (رح) بھی شامل ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسی لکڑی ہو جو ہلاک کردیتی ہو تو اس میں قاتل پر قصاص ہے اور یہ قتل عمد میں شامل ہے اور اگر لکڑی ایسی نہ ہو جس سے عموماً ہلاکت ہوتی ہے تو اس میں دیت ہے اور یہ شبہ عمد ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی لوگو ! سنو ! شبہ عمد کوڑے ‘ عصاء اور پتھر سے قتل کرنا ہے اور اس میں سو اونٹ دیت ہے۔ اس میں آپ کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وہ لاٹھی مراد لی ہو جو ہلاک نہیں کرتی اور وہ اس کوڑے کی طرح ہے جس سے ہلاکت واقعہ نہیں ہوتی اور اگر یہی بات ہو تو پھر ہماری بات ثابت ہوگئی اور اگر آپ کی مراد یہ نہ ہو بلکہ وہ بات ہو جو تم کہہ رہے ہو تو گویا پھر ہم نے روایت کو ترک کردیا اور اس کے خلاف کیا حالانکہ ہم نے حدیث کی مخالفت نہیں کی اس لیے کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بعض لاٹھیاں ایسی ہیں کہ ان سے ہلاکت کے سبب قاتل پر قصاص لازم نہیں ہوتا۔
ہمارا یہ معنی فریق اوّل کے معنی سے بہتر ہے کیونکہ اس طرح وہ حضرت انس (رض) والی روایت جس میں یہودی پر قصاص لازم قرار دیا گیا جس نے بچی کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اور فریق اوّل کا معنی روایت انس (رض) کے خلاف ہے اور اس کی نفی کرتا ہے۔
حدیث کا ایسا مفہوم لینا جس سے روایات ایک دوسرے کے موافق ہوں اس معنی لینے سے بہتر ہے جس سے روایات میں تضاد ہو۔
M: آپ نے تو گزشتہ باب میں کہا تھا کہ روایت انس (رض) منسوخ ہے اور یہاں اس سے اس عمل کو ثابت کر رہے ہیں۔
جوابہم عرض کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کی روایت اس جہت سے منسوخ ہے جس سے آپ کہتے ہیں اور جس کا ذکر آپ نے کیا۔ جبکہ اس روایت سے قصاص اور پتھر سے ہلاک کرنے کا وجوب ثابت ہو رہا ہے میں نے تو وہاں یہ کہا تھا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ پتھر کے ساتھ قصاص لینا منسوخ ہوچکا ہو۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں میں نے دلیل بھی ذکر کی ہے تو ہمارے نزدیک حضرت انس (رض) والی روایت قصاص کے وجوب کے سلسلہ میں منسوخ نہیں ہے۔ البتہ واجب قصاص کس طریقہ سے لیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں منسوخ ہونے کا احتمال ہے جیسا کہ گزشتہ باب میں ہم نے وضاحت کی ہے۔
فریق اوّل کی دلیل کی طرف ایک اشارہ :
حدیث انس (رض) میں یہ بھی احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قتل میں حق خداوندی کے طور پر قصاص کو لازم کیا ہو اور یہودی کو بمنزلہ ڈاکو کے قرار دیا جس پر اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد لاگو ہوتی ہے۔
جواب اگر آپ کی بات کو اسی طرح تسلیم کرلیا جائے تو وہ ڈاکو جس نے پتھر یا لاٹھی سے کسی کو ہلاک کیا تو آپ بھی اس کے متعلق مانتے ہیں (حالانکہ لاٹھی کے ساتھ قتل کی صورت میں قصاص آپ کے ہاں واجب نہیں ہے) کہ اس ڈاکو کا قتل واجب ہے مجتہدین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔
ادھر امام ابوحنیفہ (رح) گلا گھونٹ کر مارنے والے پر دیت کو لازم کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جب تک وہ اس فعل کا ارتکاب متعدد بار نہ کرے اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور کئی بار کرنے سے اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا۔
اب ہم (فریق ثانی) بھی یہی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کا قتل اس لیے کیا ہو کہ اس کا قتل اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہوگیا تھا جیسا کہ ڈاکو کا قتل واجب ہوتا ہے۔ اگر یہ بات اسی طرح ہے تو پھر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ جو آدمی ڈاکہ زنی کرے اور لاٹھی یا پتھر سے لوگوں کو ہلاک کرے یا شہر کے اندر یہ (ڈاکہ زنی وغیرہ) کرے تو اس کا حکم ڈاکو جیسا ہوگا اور اسی طرح اس کا گلا دبا کر ہلاک کرنے والے کا حکم ہے جس نے متعدد بار یہ حرکت کی ہو کہ اس کو قتل کیا جائے گا۔
اب امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر قیاس کا تقاضا یہ ہے۔ کہ جو شخص ایک مرتبہ اس طرح کرے اس کا قتل بھی واجب و لازم ہو اور یہ قتل اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے طور پر اس پر لاگو ہوگا جیسا کہ متعدد بار کرنے سے اس پر لازم ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدود کو لازم کرنے والی چیز ایک مرتبہ قابل احترام چیز کی حرمت کا گرا دینا ہے تو اس حرمت کے پہلی مرتبہ گرانے سے جو حد لازم ہوتی ہے وہی کئی مرتبہ گرانے سے لازم ہوتی ہے۔
اب ہم نے جو کچھ بیان کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہ کہ گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے والے کا حکم بھی یہی ہو اور جو حکم پہلی بار سے لازم ہو متعدد بار کرنے سے وہی حکم ہو اس باب میں قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ اب ہماری بات کے ثابت ہونے سے حضرت انس (رض) کی روایت کا اس شخص کے خلاف حجت ہونا ختم ہوجاتا ہے جس کا قول یہ ہے کہ جس شخص نے پتھر سے کسی کو ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے۔
فریق اوّل کی طرف سے ایک اور دلیل :
حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی ایک اور دلیل یہ روایت ہے۔

4922

۴۹۲۲: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ ہُذَیْلٍ فَضَرَبَتْ اِحْدَاہُمَا الْأُخْرٰی بِحَجَرٍ فَقَتَلَتْہَا وَمَا فِیْ بَطْنِہَا فَاخْتَصَمُوْا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَضَی أَنَّ دِیَۃَ جَنِیْنِہَا عَبْدٌ أَوْ وَلِیْدَۃٌ وَقَضَی بِدِیَۃِ الْمَرْأَۃِ عَلَی عَاقِلَتِہَا وَوَرِثَہَا وَلَدُہَا وَمَنْ مَعَہُمْ .فَقَالَ حَمَلُ بْنُ مَالِکِ بْنِ النَّابِغَۃِ الْہُذَلِیُّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، کَیْفَ أَغْرَمُ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَکَلَ وَلَا نَطَقَ وَلَا اسْتَہَلَّ ؟ فَمِثْلُ ذٰلِکَ بَطَلَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا ہٰذَا مِنْ اِخْوَانِ الْکُہَّانِ مِنْ أَجْلِ سَجْعِہِ الَّذِیْ سَجَعَہٗ .
٤٩٢٢: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو ہلاک کردیا۔ قبیلہ ہذیل کے لوگ یہ جھگڑا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اس حمل کے بچے کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے اور عورت کی دیت اس عورت قاتلہ کے خاندان پر ڈال دی اور اس (مقتولہ) عورت کے بچے اور دیگر رشتہ داروں کو اس کا وارث قرار دیا۔ اس پر حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس کی دیت کیسے دوں جس بچے نے نہ پیا نہ کھایا نہ بات کی اور نہ ہی کوئی چیخ ماری۔ اس قسم کا خون تو باطل ہوتا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن مالک کے مسجع کلام کی وجہ سے فرمایا یہ تو کاہنوں کے بھائیوں میں سے ہے۔ (کیونکہ اس کا یہ کلام شرع کے خلاف تھا)
تخریج : بخاری فی الطب باب ٤٦‘ مسلم فی القسامہ باب ٣٦‘ ابو داؤد فی الدیات باب ١٩‘ نسائی فی القسامہ باب ٤٠‘ دارمی فی الدیات باب ٢١‘ مسند احمد ٢؍٥٣٥‘ ٥؍٣٢٧۔

4923

۴۹۲۳: حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ نَضْلَۃَ الْخُزَاعِیِّ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ امْرَأَتَیْنِ ضَرَبَتْ اِحْدَاہُمَا الْأُخْرٰی بِعَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ فَقَتَلَتْہَا .فَقَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالدِّیَۃِ عَلَی عَصَبَۃِ الْقَاتِلَۃِ وَقَضَی مَا فِیْ بَطْنِہَا بِغُرَّۃٍ وَالْغُرَّۃُ عَبْدٌ أَوْ أَمَۃٌ .فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ أَغْرَمُ مَنْ لَا طَعِمَ وَلَا شَرِبَ وَلَا صَاحَ وَلَا اسْتَہَلَّ وَمِثْلُ ذٰلِکَ یُطَلُّ .فَقَالَ سَجْعٌ کَسَجْعِ الْأَعْرَابِ .
٤٩٢٣: عبید بن نضلہ خزاعی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی چوب سے مار کر ہلاک کردیا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتلہ کے خاندان پر دیت لازم فرمائی اور جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا اس کے لیے ایک غرہ کا فیصلہ فرمایا اور غرہ لونڈی یا غلام کو کہتے ہیں۔
اس پر ایک دیہاتی کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اس کی دیت دوں جس نے نہ کھایا نہ پیا نہ چیخ ماری (جو زندگی کی علامت ہے) اور نہ آواز نکالی اس طرح کا خون تا باطل ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے دیہاتیوں کی طرح تک بندی کی ہے۔ (یعنی یہ تک بندی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں نہیں چلتی)
تخریج : روایت ٤٩١٧ کی تخریج پیش نظر رہے۔

4924

۴۹۲۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا زَائِدَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ نَضْلَۃَ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَہٰذِہِ الْآثَارُ تُخْبِرُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقْتُلُ الْمَرْأَۃَ الْقَاتِلَۃَ بِالْحَجَرِ وَلَا بِعَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ وَعَمُوْدُ الْفُسْطَاطِ یَقْتُلُ مِثْلُہٗ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَا قَوَدَ عَلٰی مَنْ قَتَلَ بِخَشَبَۃٍ وَاِنْ کَانَ مِثْلُہَا یَقْتُلُ. فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ خَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ قَالَ : فَقَدْ رَوٰی حَمَلٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَ ہٰذَا فَذَکَرَ۔
٤٩٢٤: عبید بن نضلہ نے حضرت مغیرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ فریق اوّل والے کہتے ہیں کہ ان روایات سے ثابت ہوا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتلہ عورت کو پتھر یا خیمے کی چوب سے قتل نہیں کیا حالانکہ خیمے کی چوب ان چیزوں سے ہے جن سے قتل کیا جاسکتا ہے تو یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جو آدمی لکڑی سے قتل کیا جائے اس کا قصاص نہیں اگرچہ اس جیسی لکڑی سے قتل کیا جاسکتا ہو۔ پتھر یا لاٹھی وغیرہ سے ہلاکت کی صورت میں قصاص ہوگا یہ امام ابو یوسف (رح) محمد (رح) کا قول ہے۔ دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔ حمل بن مالک (رض) کی روایات اس کے خلاف موجود ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔
لغات : الفسطاط۔ خیمہ۔ غرہ۔ غلام یا لونڈی۔ سجع۔ تک بندی۔

4925

۴۹۲۵: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوٗسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَشَدَ النَّاسَ أَیْ سَأَلَہُمْ وَأَقْسَمَ عَلَیْہِمْ قَضَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَنِیْنِ .فَقَامَ حَمَلُ بْنُ مَالِکِ بْنِ النَّابِغَۃِ فَقَالَ : اِنِّیْ کُنْتُ بَیْنَ امْرَأَتَیْنِ وَاِنَّ اِحْدَاہُمَا ضَرَبَتِ الْأُخْرَی بِمِسْطَحٍ فَقَتَلَتْہَا وَجَنِیْنَہَا فَقَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَنِیْنِ بِغُرَّۃٍ وَأَنْ تُقْتَلَ مَکَانَہَا .
٤٩٢٥: طاؤس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ حضرت عمر (رض) لوگوں کو قسم دے کر پوچھا۔ کہ ماں کے پیٹ کے بچے کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کیا تھا تو حمل بن مالک (رض) نے کھڑے ہو کر کہا میں دو عورتوں کے درمیان کھڑا تھا ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمہ کی کیل والی لاٹھی ماری اور اس کو اور اس کے پیٹ کے بچے کو ہلاک کردیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنین کے بدلے غلام یا لونڈی دینے کا حکم فرمایا اور اس کے قتل کے بدلے قتل کا حکم فرمایا۔
لغات : مسطح۔ خیمہ کی چوب ‘ بیلن ‘ تیز لکڑی۔

4926

۴۹۲۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمَخْزُوْمِیُّ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوٗسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہُ وَأَنْ تُقْتَلَ مَکَانَہَا .فَہٰذَا حَمَلُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَرْوِیْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَتَلَ الْمَرْأَۃَ بِاَلَّتِی قَتَلَتْہَا بِالْمِسْطَحِ .فَقَدْ خَالَفَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَالْمُغِیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْمَا رَوَیَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَضَائِہِ بِالدِّیَۃِ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَدْ تَکَافَأَتِ الْأَخْبَارُ فِیْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا تَکَافَأَتْ وَاخْتَلَفَتْ وَجَبَ النَّظْرُ فِیْ ذٰلِکَ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ قَوْلًا صَحِیْحًا فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ .فَوَجَدْنَا الْأَصْلَ الْمُجْمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ مَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِحَدِیْدَۃٍ عَمْدًا فَعَلَیْہِ الْقَوَدُ وَہُوَ آثِمٌ فِیْ ذٰلِکَ وَلَا کَفَّارَۃَ عَلَیْہِ فِیْ قَوْلِ أَکْثَرِ الْعُلَمَائِ .وَاِذَا قَتَلَہُ خَطَأً فَالدِّیَۃُ عَلَی عَاقِلَتِہٖ وَالْکَفَّارَۃُ عَلَیْہِ وَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ فَکَانَتِ الْکَفَّارَۃُ تَجِبُ حَیْثُ یَرْتَفِعُ الْاِثْمُ .وَتَرْتَفِعُ الْکَفَّارَۃُ حَیْثُ یَجِبُ الْاِثْمُ .وَرَأَیْنَا شِبْہَ الْعَمْدِ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الدِّیَۃَ فِیْہِ وَأَنَّ الْکَفَّارَۃَ فِیْہِ وَاجِبَۃٌ وَاخْتَلَفُوْا فِیْ کَیْفِیَّتِہَا مَا ہِیَ ؟ فَقَالَ قَائِلُوْنَ : ہُوَ الرَّجُلُ یَقْتُلُ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا بِغَیْرِ سِلَاحٍ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہُوَ الرَّجُلُ یَقْتُلُ الرَّجُلَ بِالشَّیْئِ الَّذِی لَا یَرَی أَنَّہٗ یَقْتُلُہُ کَأَنَّہٗ یَتَعَمَّدُ ضَرْبَ رَجُلٍ بِسَوْطٍ أَوْ بِشَیْئٍ لَا یَقْتُلُ مِثْلَہٗ۔فَیَمُوْتُ مِنْ ذٰلِکَ فَہٰذَا شِبْہُ الْعَمْدِ عِنْدَہُمْ .فَاِنْ کَرَّرَ عَلَیْہِ الضَّرْبَ بِالسَّوْطِ مِرَارًا حَتّٰی کَانَ ذٰلِکَ مِمَّا قَدْ یَقْتُلُ مِثْلُہٗ کَانَ ذٰلِکَ عَمْدًا وَوَجَبَ عَلَیْہِ فِیْہِ الْقَوَدُ .وَکُلُّ مَنْ جَعَلَ مِنْہُمْ شِبْہَ الْعَمْدِ عَلٰی جِنْسٍ مِنْ ہٰذَیْنِ الْجِنْسَیْنِ أَوْجَبَ فِیْہِ الْکَفَّارَۃَ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْکَفَّارَۃَ فِیْمَا قَدْ أَجْمَعَ عَلَیْہِ الْفَرِیْقَانِ تَجِبُ حَیْثُ لَا یَجِبُ الْاِثْمُ وَتَنْتَفِیْ حَیْثُ یَکُوْنُ الْاِثْمُ وَکَانَ الْقَاتِلُ بِحَجَرٍ أَوْ بِعَصًا أَوْ مِثْلِ ذٰلِکَ یَقْتُلُ عَلَیْہِ اِثْمُ النَّفْسِ وَہُوَ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَبِّہِ کَمَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِحَدِیْدَۃٍ وَکَانَ مَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِسَوْطٍ لَیْسَ مِثْلُہٗ یَقْتُلُ غَیْرَ آثِمٍ اِثْمَ الْقَتْلِ وَلٰـکِنَّہٗ آثِمٌ اِثْمَ الضَّرْبِ فَکَانَ اِثْمُ الْقَتْلِ فِیْ ہٰذَا عَنْہُ مَرْفُوْعًا لِأَنَّہٗ لَمْ یَرُدَّہُ وَاِثْمُ الضَّرْبِ عَلَیْہِ مَکْتُوْبٌ لِأَنَّہٗ قَصَدَہُ وَأَرَادَہُ .فَکَانَ النَّظْرُ أَنْ یَکُوْنَ شِبْہُ الْعَمْدِ الَّذِیْ قَدْ أُجْمِعَ أَنَّ فِیْہِ کَفَّارَۃً فِی النَّفْسِ ہُوَ مَا لَا اِثْمَ فِیْہِ وَہُوَ الْقَتْلُ بِمَا لَیْسَ مِثْلُہٗ یَقْتُلُ الَّذِیْ یَتَعَمَّدُ بِہٖ الضَّرْبَ وَلَا یُرَادُ بِہٖ تَلَفُ النَّفْسِ فَیَأْتِیْ ذٰلِکَ عَلَی تَلَفِ النَّفْسِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٤٩٢٦: طاوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے مگر انھوں نے ان تقتل مکانھا “ کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔ یہ حضرت حمل بن مالک (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چوب خیمہ سے قتل کرنے والی عورت کا قصاص میں مقتول ہونا بیان فرما رہے ہیں یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) اور مغیرہ (رح) کی روایات کے خلاف ہے جس میں انھوں نے دیت کا فیصلہ نقل کیا ہے۔ اب جب کہ روایات آپس میں مقابل آگئیں تو قول صحیح کو نکالنے کے لیے غور و فکر ضروری ہوا۔ ہم نے جب غور کیا تو ایک اتفاقی قاعدہ ہاتھ آیا وہ یہ ہے کہ جو آدمی کسی کو جان بوجھ کر کسی لوہے کی چیز سے قتل کر دے تو اس پر قصاص ہے اور وہ گناہ گار بھی ہوگا لیکن اکثر علماء کے نزدیک اس پر کفارہ لازم نہیں اور اگر وہ غلطی سے قتل کر دے تو اس کے خاندان پر دیت لازم ہوگی اور اس پر کفارہ لازم ہوگا گناہ نہیں ہوگا اور جہاں گناہ لازم ہوگا وہاں کفارہ نہ ہوگا۔ اب دوسری طرف شبہ عمد کو دیکھیں کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس میں دیت لازم ہوگی اور اس میں کفارہ لازم ہے البتہ شبہ عمد کی تعریف میں اختلاف ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ ایک تعریف یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو جان بوجھ کر کسی ہتھیار کے بغیر قتل کر دے۔ کسی آدمی کا کسی دوسرے شخص کو کسی ایسی چیز سے ہلاک کرنا کہ اس کے خیال میں وہ اس سے ہلاک نہیں ہوگا گویا وہ کسی آدمی کو قصداً کوڑا یا کوئی دوسری ایسی چیز مارتا ہے کہ اس جیسی چیز سے ہلاکت عموماً واقع نہیں ہوتی پھر وہ آدمی اس سے مرجاتا ہے تو یہ شبہ عمد کہلاتا ہے اور اگر اس نے کوڑے سے بار بار ضرب لگائی یہاں تک کہ وہ اس چیز کی طرح ہوگیا جس کو قتل کیا جاتا ہے تو یہ عمد بنے گا اور اس پر قصاص لازم ہوگا۔ حاصل یہ ہوا کہ جس نے ان دونوں اقوال میں سے کسی ایک کے مطابق قرار دیا انھوں نے کفارے کو لازم قرار دیا۔ غور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں گروہوں کے ہاں کفارہ اس جگہ لازم ہوتا ہے جہاں گناہ نہیں ہوتا اور جہاں گناہ ہوتا ہے وہاں کفارے کی نفی ہوجاتی ہے اور جو شخص پتھر یا لاٹھی یا اس کی مثل کسی چیز سے قتل کرے اس پر گناہ ہوگا اور وہ گناہ اس کے اور اس کے رب کے مابین ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی کو لوہے کی چیز سے قتل کر دے اور وہ شخص جس نے کسی آدمی کو کوڑے سے قتل کیا کہ اس جیسے کوڑے سے قتل نہیں کیا جاتا تو اس کو قتل کا سا گناہ تو نہ ملے گا مگر ضرب کے گناہ جیسا گناہ ہوگا تو گویا قتل کا گناہ اس سے اس سلسلہ میں اٹھا لیا گیا کیونکہ اس کا ارادہ قتل کا نہ تھا اور ضرب کا گناہ اس پر لکھا جائے گا کیونکہ اس نے اس کا قصد و ارادہ کیا ہے۔ تو قیاس یہی ہوا کہ شبہ عمد جس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس میں کفارہ نفس ہے یہ وہ ہے جس میں گناہ نہیں اور وہ ایسی چیز سے قتل کرنا ہے جس سے عام طور پر قتل واقع نہیں ہوتا خواہ جان بوجھ کر مارا جائے اور اس سے ہلاکت نفس بھی مقصود نہیں ہوتی۔ مگر پھر اس چیز سے ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔ اس قیاس سے فریق ثانی یعنی امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) کا قول اس کی حمایت میں منقول ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
یہ حضرت حمل بن مالک (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چوب خیمہ سے قتل کرنے والی عورت کا قصاص میں مقتول ہونا بیان فرما رہے ہیں یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) اور مغیرہ (رح) کی روایات کے خلاف ہے جس میں انھوں نے دیت کا فیصلہ نقل کیا ہے۔ اب جب کہ روایات آپس میں مقابل آگئیں تو قول صحیح کو ناکالنے کے لیے غور و فکر ضروری ہوا۔
نظر اعتبار :
ہم نے جب غور کیا تو ایک اتفاقی قاعدہ ہاتھ آیا وہ یہ ہے کہ جو آدمی کسی کو جان بوجھ کر کسی لوہے کی چیز سے قتل کر دے تو اس پر قصاص ہے اور وہ گناہ گار بھی ہوگا لیکن اکثر علماء کے نزدیک اس پر کفارہ لازم نہیں اور اگر وہ غلطی سے قتل کر دے تو اس کے خاندان پر دیت لازم ہوگی اور اس پر کفارہ لازم ہوگا گناہ نہیں ہوگا اور جہاں گناہ لازم ہوگا وہاں کفارہ نہ ہوگا۔ اب دوسری طرف شبہ عمد کو دیکھیں کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس میں دیت لازم ہوگی اور اس میں کفارہ لازم ہے البتہ شبہ عمد کی تعریف میں اختلاف ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔۔
قول اوّل : ایک تعریف یہ ہے کہ شخص دوسرے شخص کو جان بوجھ کر کسی ہتھیار کے بغیر قتل کر دے۔
دوسرا قول : کسی آدمی کا کسی دوسرے شخص کو کسی ایسی چیز سے ہلاک کرنا کہ اس کے خیال میں وہ اس سے ہلاک نہیں ہوگا گویا وہ کسی آدمی کو قصداً گوڑا یا کوئی دوسری ایسی چیز مارتا ہے جس جیسی چیز سے ہلاکت عموماً واقع نہیں ہوتی پھر وہ آدمی اس سے مرجاتا ہے تو یہ شبہ عمد کہلاتا ہے اور اگر اس نے کوڑے سے بار بار ضرب لگائی یہاں تک کہ وہ اس چیز کی طرح ہوگیا جس کو قتل کیا جاتا ہے تو یہ عمد بنے گا اور اس پر قصاص لازم ہوگا۔
تو قیاس یہی ہوا کہ شبہ عمد جس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس میں کفارہ نفس ہے یہ وہ ہے جس میں گناہ نہیں اور وہ ایسی چیز سے قتل کرنا ہے جس سے عام طور پر قتل واقع نہیں ہوتا خواہ جان بوجھ کر مارا جائے اور اس سے ہلاکت نفس بھی مقصود نہیں ہوتی۔ مگر پھر اس چیز سے ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔
اس قیاس سے فریق ثانی یعنی امام ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) کا قول اس کی حمایت میں منقول ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

4927

۴۹۲۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْبِرْکِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ قَالَ : حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ الْجُشَمِیُّ عَنْ حِرْوَۃَ بْنِ حُمَیْدٍ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَعْمِدُ أَحَدُکُمْ فَیَضْرِبُ أَخَاہُ مِثْلَ آکِلَۃِ اللَّحْمِ قَالَ الْحَجَّاجُ : یَعْنِی الْعَصَا ثُمَّ یَقُوْلُ لَا قَوَدَ عَلَیَّ لَا أُوْتَی بِأَحَدٍ فَعَلَ ذٰلِکَ اِلَّا أَقَدْتُہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ.
٤٩٢٧: حروہ بن حمید نے اپنے والد سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کو مارنے کا ارادہ کرتا ہے۔ پس اسے گوشت کھانے والی چیز سے مارتا ہے۔ حجاج نے کہا گوشت کھانے والی سے مراد لاٹھی ہے پھر وہ کہتا ہے مجھ پر قصاص نہیں۔ جو شخص ایسے فعل کا ارتکاب کرے گا اور وہ میرے پاس لایا جائے گا تو میں اس سے قصاص لوں گا۔ حضرت علی (رض) سے اس کے خلاف قول منقول ہے۔ (جروہ بن حمیل یا حروہ بن حمید)

4928

۴۹۲۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیِّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ شِبْہُ الْعَمْدِ بِالْعَصَا وَالْحَجَرِ الثَّقِیْلِ وَلَیْسَ فِیْہِمَا قَوَدٌ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ .
٤٩٢٨: عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ شبہ عمد جو لاٹھی ‘ بھاری پتھر سے ہو ان میں قصاص نہیں ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)

4929

قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : لَمَّا ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّفْسَ قَدْ یَکُوْنُ فِیْہَا شِبْہُ عَمْدٍ کَانَ کَذٰلِکَ فِیْمَا دُوْنَ النَّفْسِ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ الْآثَارَ الَّتِی قَدْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِیْ فِیْہَا أَلَا اِنَّ قَتِیْلَ خَطَأِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ فِیْہِ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ مِنْہَا أَرْبَعُوْنَ خِلْفَۃً فِیْ بُطُوْنِہَا أَوْلَادُہَا .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّفْسِ مَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْمَا دُوْنَ النَّفْسِ مَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ وَہُوَ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ بِاِسْنَادِہِ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْکِتَابِ فِیْ خَبَرِ الرُّبَیِّعِ أَنَّہَا لَطَمْتُ جَارِیَۃً فَکَسَرْتُ ثَنِیَّتَہَا فَاخْتَصَمُوْا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقِصَاصِ .وَقَدْ رَأَیْنَا اللَّطْمَۃَ اِذَا أَتَتْ عَلَی النَّفْسِ لَمْ یَجِبْ فِیْہَا قَوَدٌ وَرَأَیْنَاہَا فِیْمَا دُوْنَ النَّفْسِ قَدْ أَوْجَبَتِ الْقَوَدَ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ فِی النَّفْسِ شِبْہُ عَمْدٍ أَنَّہٗ فِیْمَا دُوْنَ النَّفْسِ عَمْدٌ عَلَی تَصْحِیْحِ ہٰذِہِ الْآثَارِ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت ہوگیا کہ کبھی قتل نفس میں شبہ عمد بھی ہوتا ہے تو نفس سے کم میں بھی شبہ عمد ہوگا اور وہ دلیل کے طور پر ان روایات کو لائے جن کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کو نقل کیا ہے جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شبہ عمد کا مقتول تو وہ ہے جو کوڑے لاٹھی اور پتھر سے مارا گیا ہو۔ اس میں سو اونٹ لازم ہیں۔ جن میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی : ” الا ان قتیل خطاء العمد بالسوط والعصا والحجر ‘ فیہ مائۃ من الابل ‘ منہا اربعون خلفۃ فی بطونہا اولادھا “ ہماری دلیل یہ ہے کہ نفس کے سلسلہ میں تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو مروی ہے وہ یہی ہے مگر نفس سے کم میں اس کے خلاف روایات وارد ہیں۔ جیسا کہ ربیع (رض) کی روایت اپنی اسناد کے ساتھ اس کتاب کے شروع میں مذکور ہوچکی ہے کہ انھوں نے ایک لڑکی کو مکا مار کر اس کے سامنے والے دانت توڑ دیئے۔ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں معاملہ پیش کیا تو آپ نے قصاص کا حکم فرمایا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب کوئی آدمی تھپڑ سے ہلاک ہوجائے تو اس میں قصاص نہیں اور نفس سے کم میں قصاص کو لازم کیا گیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی جو نفس کے سلسلہ میں شبہ عمد ہے خواہ وہ نفس سے کم ہے وہ عمد شمار ہوگا۔ ان آثار کی تصحیح کا یہی تقاضا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : روایات ٤٨٩٠ ملاحظہ کرلیں۔

4930

۴۹۲۹: قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ وَزَادَ قَالَ : فَسَأَلَہٗ فَأَقَرَّ بِمَا ادَّعَتْ فَرَضَخَ رَأْسَہُ بَیْنَ حَجَرَیْنِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : قَدْ رَوَیْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْکِتَابِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا سَأَلَ الْجَارِیَۃَ الَّتِیْ رُضِخَ رَأْسُہَا مَنْ رَضَخَ رَأْسَکَ أَفُلَانٌ ہُوَ ؟ فَأَوْمَتْ بِرَأْسِہَا أَیْ نَعَمْ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَضْخِ رَأْسِہِ بَیْنَ حَجَرَیْنِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَزَعَمُوْا أَنَّہُمْ قَلَّدُوْھُ وَقَالُوْا : مَنْ ادَّعَی - وَہُوَ فِیْ حَالِ الْمَوْتِ - أَنَّ فُلَانًا قَتَلَہُ ثُمَّ مَاتَ قَبْلَ قَوْلِہٖ فِیْ ذٰلِکَ وَقَتَلَ الَّذِیْ ذٰکَرَ أَنَّہٗ قَتَلَہٗ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَ الْیَہُوْدِیَّ فَأَقَرَّ بِمَا ادَّعَتِ الْجَارِیَۃُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ فَقَتَلَہُ بِاِقْرَارِہِ لَا بِدَعْوَی الْجَارِیَۃِ .فَاعْتَبَرْنَا الْآثَارَ الَّتِیْ قَدْ جَائَ تْ فِیْ ذٰلِکَ : ہَلْ نَجِدُ فِیْہَا عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ دَلِیْلًا ؟ فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ
٤٩٢٩: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ بلکہ اس میں یہ الفاظ زائد بھی ہیں۔ ” فسألہ فاقربما اوعت فرضخ رأسہ بین حجرین “ ۔
فریق ثانی کا مؤقف : فقط مقتول کے اس دعویٰ پر قصاص میں قتل نہ کیا جائے گا جب تک قاتل اقرار نہ کرلے۔
فریق اوّل کا جواب : عین ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی سے استفسار فرمایا جس کا دعویٰ وہ لڑکی کر رہی تھی پھر اس کے اقرار پر اس کو قتل کیا فقط بچی کے دعویٰ پر قتل نہیں کیا۔
فیصلے کی آسان راہ :
اب ہمیں اس سلسلہ کی روایات کو دیکھنا ہے کہ آیا کسی ایک طرف کی تعیین کے لیے کوئی دلیل پائی جاتی ہے۔ چنانچہ روایت ملاحظہ ہو۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) کا زیادہ میلان اگرچہ قول ثانی کی طرف نظر آتا ہے کہ نقلی دلیل کے علاوہ اس کے لیے نظری دلائل بھی پیش کئے۔ مگر آخر میں صحابہ کرام کے دو باہمی متضاد قول ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کسی ایک فیصلہ پر وہ نہیں پہنچے۔ واللہ اعلم۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : ہم پہلے ٤٨٩٢ میں نقل کر آئے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس بچی سے دریافت کیا جس کا سر کچلا گیا تھا کہ کس نے تمہارا سر کچلا ہے کیا فلاں شخص نے ؟ تو اس نے سر سے اشارہ کیا جی ہاںً تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سر دو پتھروں کے مابین کچلنے کا حکم دیا۔
فریق اوّل کا دعویٰ : اس روایت پر عمل کا دعویٰ کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اگر کوئی موت کے وقت کہے کہ فلاں نے مجھے قتل کیا ہے پھر وہ مرجائے تو اس کی بات اس سلسلہ میں قبول کی جائے گی اور اس شخص کو جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا ہے قتل کیا جائے گا۔

4931

۴۹۳۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ یَہُوْدِیًّا رَضَخَ رَأْسَ جَارِیَۃٍ بَیْنَ حَجَرَیْنِ فَقِیْلَ لَہَا : مَنْ فَعَلَ بِک ہَذَا ؟ أَفُلَانٌ ؟ أَفُلَانٌ ؟ حَتّٰی ذٰکَرُوْا الْیَہُوْدِیَّ فَأُتِیَ بِہٖ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَضَخَ رَأْسَہُ بَیْنَ حَجَرَیْنِ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا قَتَلَہُ بِاِقْرَارِہِ بِمَا ادَّعَیْ عَلَیْہِ لَا بِدَعْوَی الْجَارِیَۃِ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ ادَّعَیْ عَلٰی رَجُلٍ دَعْوَی قَتْلًا أَوْ غَیْرَہُ فَسَأَلَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ عَنْ ذٰلِکَ فَأَوْمَأَ بِرَأْسِہِ أَیْ : نَعَمْ أَنَّہٗ لَا یَکُوْنُ بِذٰلِکَ مُقِرًّا. فَاِذَا کَانَ اِیْمَائُ الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ بِرَأْسِہِ لَا یَکُوْنُ مِنْہُ اِقْرَارًا یَجِبُ بِہٖ عَلَیْہِ حَقٌّ کَانَ اِیْمَائُ الْمُدَّعِی بِرَأْسِہِ أَحْرَی أَنْ لَا یُوْجِبَ لَہُ حَقًّا .
٤٩٣٠: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اس سے پوچھا گیا تمہارے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ؟ کیا فلاں نے کیا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ انھوں نے یہودی کا تذکر کیا پس اس کو (پکڑ کر) لایا گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا پس اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔ اس حدیث میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اقرار پر اسے قتل کیا فقط لڑکی کے دعویٰ پر قتل نہیں فرمایا اور جس بات پر اجماع ہے اس میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے۔ ذرا غور کرو : اگر کوئی شخص کسی کے متعلق قتل کا دعویٰ کرے یا کوئی اور پھر مدعی علیہ سے پوچھاجائے اور وہ سر سے اشارہ کر دے کہ جی ہاں ! تو اس سے وہ اقرار کرنے والا شمار نہ ہوگا۔ تو جب مدعیٰ علیہ کا اپنے سر سے اشارہ اقرار معتبر نہیں بنتا کہ اس سے اس پر کوئی چیز لازم ہو۔ تو فقط مدعی کے اشارے سے حق کا لازم نہ ہونا زیادہ مناسب ہے۔
اس حدیث میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اقرار پر اسے قتل کیا فقط لڑکی کے دعویٰ پر قتل نہیں فرمایا اور جس بات پر اجماع ہے اس میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے۔
ذرا غور کرو : اگر کوئی شخص کسی کے متعلق قتل کا دعویٰ کرے یا کوئی اور پھر مدعا علیہ سے پوچھا جائے اور وہ سر سے اشارہ کر دے کہ جی ہاں ! تو اس سے وہ اقرار کرنے والا شمار نہ ہوگا۔ تو جب مدعیٰ علیہ کا اپنے سر سے اشارہ اقرار معتبر نہیں بنتا کہ اس سے اس پر کوئی چیز لازم ہو۔ تو فقط مدعی کے اشارے سے حق کا لازم نہ ہونا زیادہ مناسب ہے۔ جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

4932

۴۹۳۱: وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاہُمْ لَادَّعَیْ نَاسٌ دِمَائَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَہُمْ وَلٰـکِنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .فَمَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعْطَی أَحَدٌ بِدَعْوَاہُ دَمًا أَوْ مَالًا وَلَمْ یُوْجِبْ لِلْمُدَّعَی فِیْہِ بِدَعْوَاہُ اِلَّا بِالْیَمِیْنِ .فَہٰذَا حُکْمُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَاِنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ رَجُلًا لَوْ ادَّعَی فِیْ حَالِ مَوْتِہِ أَنَّ لَہٗ عَلٰی رَجُلٍ دَرَاہِمَ ثُمَّ مَاتَ أَنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ مَقْبُوْلٍ مِنْہُ وَأَنَّہٗ فِیْ ذٰلِکَ کَہُوَ فِیْ دَعْوَاہُ فِیْ حَالِ الصِّحَّۃِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ہُوَ فِیْ دَعْوَاہُ الدَّمَ فِیْ تِلْکَ الْحَالِ کَہُوَ فِیْ دَعْوَاہُ ذٰلِکَ فِیْ حَالِ الصِّحَّۃِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٩٣١: ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر لوگوں کو فقط دعویٰ سے دے دیا جائے (طلب ثبوت نہ ہو) تو ضرور بضرور کچھ آدمی ‘ آدمیوں کے خون اور اموال کے دعویٰ دار بن جائیں گے لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں اس بات سے منع کردیا کہ کسی کو اس کے فقط دعویٰ خون یا مال کے ساتھ اس کو قبول سے منع فرمایا اور مدعی کے لیے اس کے دعویٰ کی وجہ سے مدعیٰ علیہ پر فقط قسم لازم کی گئی ہے۔ آثار کے معانی کی تصحیح کے اعتبار سے اس کا حکم یہی ہے۔ طریق نظر سے جائزہ لیں وہ اس طرح ہے کہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص مرتے وقت دعویٰ کرے کہ فلاں شخص کے ذمہ اس کے کچھ درہم ہیں پھر وہ مرجائے تو اس کی یہ بات قبول نہ کی جائے گی۔ اس کا یہ دعویٰ حالت صحت کے دعویٰ کی طرح ہوگا۔ (قبول نہ کیا جائے گا) (دلیل پر دارومدار ہوگا) پس تقاضا قیاس یہ ہے کہ اس حالت میں دعویٰ خون کا بھی وہی حال ہو اور وہی حکم ہو جو حالت صحت میں اس قسم کے دعویٰ کا ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣‘ باب ٣‘ مسلم فی الاقضیہ ١ نسائی فی القضاۃ باب ٣٦‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ٧‘ مسند احمد ١‘ ٣٤٣؍٣٥١۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد نے اس بات سے منع کردیا کہ کسی کو اس کے فقط دعویٰ خون یا مال کے ساتھ اس کو قبول سے منع فرمایا اور مدعی کے لیے اس کے دعویٰ کی وجہ سے مدعیٰ علیہ پر فقط قسم لازم کی گئی ہے۔ آثار کے معانی کی تصحیح کے اعتبار سے اس کا حکم یہی ہے۔ نظر طحاوی (رح) :
طریق نظر سے جائزہ لیں وہ اس طرح ہے کہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص مرتے وقت دعویٰ کرے کہ فلاں شخص کے ذمہ اس کے کچھ درہم ہیں پھر وہ مرجائے تو اس کی یہ بات قبول نہ کی جائے گی۔ اس کا یہ دعویٰ حالت صحت کے دعویٰ کی طرح ہوگا۔ (قبول نہ کیا جائے گا) (دلیل پر دارومدار ہوگا) پس تقاضا قیاس یہ ہے کہ اس حالت میں دعویٰ خون کا بھی وہی حال ہو اور وہی حکم ہو جو حالت صحت میں اس قسم کے دعویٰ کا ہوتا ہے۔

4933

۴۹۳۲: وَقَدْ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ قَالَ : کُنْتُ عَامِلًا لِابْنِ الزُّبَیْرِ عَلَی الطَّائِفِ فَکَتَبْتُ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فِی امْرَأَتَیْنِ کَانَتَا فِیْ بَیْتٍ تَخْرِزَانِ حَرِیْرًا لَہُمَا فَأَصَابَتْ اِحْدَاہُمَا یَدَ صَاحِبَتِہَا بِالْاِشْفَی فَجَرَحَتْہَا فَخَرَجَتْ وَہِیَ تَدْمَی وَفِی الْحُجْرَۃِ حِدَاتٌ فَقَالَتْ : أَصَابَتْنِیْ فَأَنْکَرَتْ ذٰلِکَ الْأُخْرَی .فَکَتَبْتُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَکَتَبَ اِلَیَّ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی أَنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ أُعْطُوْا بِدَعْوَاہُمْ لَادَّعَیْ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ دِمَائَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَہُمْ فَادْعُہَا فَاقْرَأْ ہٰذِہِ الْآیَۃَ عَلَیْہَا اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا الْآیَۃَ فَقَرَأْتُ عَلَیْہَا الْآیَۃَ فَاعْتَرَفَتْ .قَالَ نَافِعٌ : فَحَسِبْتُ أَنَّہٗ قَالَ : فَبَلَغَ ذٰلِکَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَرَّہُ .أَفَلَا تَرَی أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَدْ رَدَّ حُکْمَہَا فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی حُکْمِ سَائِرِ مَا یَدَّعِی النَّاسُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٤٩٣٢: ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زید کی طرف سے طائف کے علاقہ کا حاکم تھا میں نے حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں دو عورتوں کا مقدمہ لکھ بھیجا کہ وہ دونوں ایک گھر میں ریشم (کا کپڑا) سی رہی تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کے ہاتھ میں سوئی چبھو دی اور اس کو زخمی کردیا وہ باہر نکلی اور اس وقت خون بہہ رہا تھا اس وقت کچھ لوگ حجرہ میں باتیں کر رہے تھے۔ اس نے کہا کہ اس عورت نے مجھے زخمی کیا ہے دوسری نے اس سے انکار کردیا تو میں نے یہ معاملہ حضرت ابن عباس (رض) کی طرف لکھ بھیجا تو انھوں نے مجھے لکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعیٰ علیہ پر فقط قسم سے فیصلہ فرمایا ہے اور اگر لوگوں کو محض دعویٰ پردے دیا جائے تو لوگ دوسروں کے خونوں اور مالوں کا دعویٰ کریں گے۔ تم اس عورت کو بلا کر اس کے سامنے یہ آیت تلاوت کرو۔ ” ان الذین یشترون بعہد اللہ و ایمانہم ثمنا قلیلا “ (آل عمران : ٧٧) میں نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی تو اس نے اعتراف کرلیا۔ دیکھئے حضرت ابن عباس (رض) نے اس زخمی عورت کا حکم تمام باتوں میں ان تمام چیزوں کی طرف لوٹا دیا جن کا لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
حضرت نافع (رح) کہتے ہیں کہ میرا خیال یہ ہے کہ یہ بات حضرت ابن عباس (رض) کو پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے۔
دیکھئے حضرت ابن عباس (رض) نے اس زخمی عورت کا حکم تمام باتوں میں ان تمام چیزوں کی طرف لوٹا دیا جن کا لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
دعویٰ کا حکم عام معاملات کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے مدعیٰ علیہ پر سوائے قسم کے کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔ ہاں اگر دعویٰ کی شہادت مل جائے تو اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔

4934

۴۹۳۳: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ .ح وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطٌ عَنْ مُطَرِّفٍ بْنِ طَرِیْفٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ قَالَ: سَأَلْتُ عَلِیًّا : ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِوَی الْقُرْآنِ ؟ .فَقَالَ وَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ مَا عِنْدَنَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِوَی الْقُرْآنِ وَمَا فِیْ ہٰذِہٖ الصَّحِیْفَۃِ .قَالَ : قُلْتُ وَمَا فِیْ ہٰذِہٖ الصَّحِیْفَۃِ ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفِکَاکُ الْأَسِیْرِ وَأَنْ لَا یُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا قَتَلَ الْکَافِرَ مُتَعَمِّدًا لَمْ یُقْتَلْ بِہٖ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یُقْتَلُ بِہٖ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا الْکَلَامَ الَّذِیْ حَکَاہُ أَبُوْجُحَیْفَۃَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَکُنْ مُنْفَرِدًا وَلَوْ کَانَ مُنْفَرِدًا لَاحْتَمَلَ مَا قَالُوْا وَلٰـکِنَّہٗ کَانَ مَوْصُوْلًا بِغَیْرِہٖ۔
٤٩٣٣: شعبی نے ابو جحیفہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے حضرت علی (رض) سے پوچھا کیا تمہارے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قرآن مجید کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے۔ تو انھوں نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے دانے کو چیرا (اور اس سے نباتات نکالی) اور جاندار کو بنایا ہمارے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے سوائے قرآن مجید کے کوئی چیز نہیں اور وہ جو اس صحیفہ میں ہے میں نے کہا اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا دیت اور قیدی کو چھڑانے کے احکام اور اس کے احکام کہ کسی مؤمن کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣٩‘ الجہاد باب ١٧١‘ الدیات باب ٢٤؍٣١‘ ترمذی فی الدیات باب ١٦‘ نسائی فی القسامہ باب ١٣‘ دارمی فی الدیات باب ٥‘ مسند احمد ١؍٧٩۔
لغات : فلق الحبۃ۔ دانے کو چیرا۔ برأ۔ پیدا کیا۔ نسمہ۔ نفس ‘ ہر جاندار۔
امام طحاوی (رح) کا قول : ایک جماعت فقہاء کا خیال یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا انھوں نے مندرجہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔

4935

۴۹۳۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی عَنِ ابْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ : انْطَلَقْتُ أَنَا وَالْأَشْتَرُ اِلَی عَلِیْ فَقُلْنَا ہَلْ عَہِدَ اِلَیْکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدًا لَمْ یَعْہَدْہُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ؟ قَالَ : لَا اِلَّا مَا کَانَ فِیْ کِتَابِیْ ہَذَا فَأَخْرَجَ کِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَیْفِہِ فَاِذَا فِیْہِ الْمُؤْمِنُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ وَیَسْعَی بِذِمَّتِہِمْ أَدْنَاہُمْ وَہُمْ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلٰی نَفْسِہِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ .فَہٰذَا ہُوَ حَدِیْثُ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِتَمَامِہٖ وَالَّذِیْ فِیْہِ مِنْ نَفْیِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ بِالْکَافِرِ ہُوَ قَوْلُہٗ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ مَعْنَاہُ عَلٰی مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ مَعْنَاہُ عَلٰی مَا ذَکَرُوْا لَکَانَ ذٰلِکَ لَحْنًا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْعَدُ النَّاسِ مِنْ ذٰلِکَ وَلَکَانَ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذِیْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہٖ۔ فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ لَفْظُہُ کَذٰلِکَ وَاِنَّمَا ہُوَ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ عَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ ذَا الْعَہْدِ ہُوَ الْمَعْنِیُّ بِالْقِصَاصِ .فَصَارَ ذٰلِکَ کَقَوْلِہٖ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ بِکَافِرٍ .وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ ذَا الْعَہْدِ کَافِرٌ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْکَافِرَ الَّذِیْ مَنَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقْتَلَ بِہٖ الْمُؤْمِنُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ہُوَ الْکَافِرُ الَّذِی لَا عَہْدَ لَہٗ۔فَہٰذَا مِمَّا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یُقْتَلُ بِالْکَافِرِ الْحَرْبِیِّ وَأَنَّ ذَا الْعَہْدِ الْکَافِرِ الَّذِیْ قَدْ صَارَ لَہُ ذِمَّۃٌ لَا یُقْتَلُ بِہٖ أَیْضًا .وَقَدْ نَجِدُ مِثْلَ ہَذَا کَثِیْرًا فِی الْقُرْآنِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِسَائِکُمْ اِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ .فَکَانَ مَعْنٰی ذٰلِکَ وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ اِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ فَقَدَّمَ وَأَخَّرَ .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ اِنَّمَا مُرَادُہُ فِیْہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ بِکَافِرٍ فَقَدَّمَ وَأَخَّرَ .فَالْکَافِرُ الَّذِیْ مُنِعَ أَنْ یُقْتَلَ بِہٖ الْمُؤْمِنُ ہُوَ الْکَافِرُ غَیْرُ الْمُعَاہَدِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : قَوْلُہٗ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ اِنَّمَا مَعْنَاہُ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ فَانْقَطَعَ الْکَلَامُ ثُمَّ قَالَ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ کَلَامًا مُسْتَأْنَفًا أَیْ : وَلَا یُقْتَلُ الْمُعَاہَدُ فِیْ عَہْدِہِ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِنَّمَا جَرَی فِی الدِّمَائِ الْمَسْفُوْکِ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ لِأَنَّہٗ قَالَ الْمُسْلِمُوْنَ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ تَتَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ وَیَسْعَی بِذِمَّتِہِمْ أَدْنَاہُمْ ثُمَّ قَالَ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ فَاِنَّمَا أَجْرَی الْکَلَامَ عَلَی الدِّمَائِ الَّتِیْ تُؤْخَذُ قِصَاصًا وَلَمْ یَجْرِ عَلٰی حُرْمَۃِ دَمٍ بِعَہْدٍ فَیُحْمَلُ الْحَدِیْثُ عَلٰی ذٰلِکَ فَہٰذَا وَجْہٌ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِنَّمَا رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ أَنَّہٗ رُوِیَ عَنْ غَیْرِہِ مِنْ طَرِیْقٍ صَحِیْحٍ فَہُوَ کَانَ أَعْلَمَ بِتَأْوِیْلِہٖ .وَتَأْوِیْلُہُ فِیْہِ اِذْ کَانَ مُحْتَمِلًا عِنْدَکُمْ یَحْتَمِلُ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْتُمْ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَعْنَاہُ فِی الْحَقِیْقَۃِ ہُوَ مَا تَأَوَّلَہٗ عَلَیْہِ .
٤٩٣٤: قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں اور اشتر حضرت علی (رض) کی خدمت میں گئے اور پوچھا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے کوئی وعدہ لیا ہے جو عام لوگوں سے نہ لیا گیا ہو۔ انھوں نے فرمایا نہیں مگر وہ جو میری اس کتاب میں ہے۔ پھر انھوں نے اپنی تلوار کی نیام سے ایک کتاب (لکھی تحریر) نکالی جس میں تحریر تھا کہ ایمان والوں کے خون باہم برابر ہیں اور ان کے عہد کے لیے ادنیٰ مسلمان بھی کوشش کرسکتا ہے۔ مسلمان کفار کے خلاف ایک قوت ہیں۔ مؤمن کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ کسی معاہدے والے کو معاہدے کے دوران قتل کیا جائے۔ جس نے دین میں کوئی نئی بات نکالی (جس کی دین میں اصل نہیں) تو اس کا وبال اسی پر ہوگا اور جس نے کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ تفصیلی روایت یہ ہے حضرت علی (رض) کے جس ارشاد میں کافر کے بدلے مؤمن کے قتل کی نفی ہے وہ آپ کا یہ ارشاد ہے۔ ” لایقتل مؤمن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ “ اب ان الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کا وہ معنی مراد لینا محال و ناممکن ہے کیونکہ اگر وہ معنی ہو جو فریق اوّل نے ذکر کیا تو یہ بات غلط ثابت ہوگی حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور تھے۔ پھر عبارت اس طرح ہوتی۔ ” یقتل مؤمن بکافر ولا ذی عہد فی عہدہ “ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے اور نہ ہی معاہدے والے کافر کو بدلے دوران عہد قتل کیا جائے۔ جب الفاظ اس طرح نہیں ہیں بلکہ الفاظ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ ہیں تو اس سے ثابت ہوگیا کہ قصاص میں ذوالعہد سے مراد ذمی ہے۔ اب مفہوم اس طرح ہوگا۔ ” لایقتل مؤمن ولا ذو عہد فی عہدہ بکافر “ کہ کوئی مؤمن اور ذمی عہد کے دوران کافر (حربی) کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ معاہدہ والا بھی کافر ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس کافر کے بدلے میں مؤمن کے قتل سے منع فرمایا وہ حربی وغیرہ ذمی کافر ہے اور اس پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کافر حربی کے قتل کے بدلے مؤمن کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاسکتا رہا وہ کافر جو ذمی ہے اس کو ذمی ہونے کی وجہ سے حربی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جاسکتا اور عبارت میں اس قسم کی تقدیم و تاخیر والی عبارات قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ارشاد الٰہی ہے۔ ” واللآئی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر واللآئی لم یحضن “ (الطلاق ٤) اب اس آیت کا معنی یہ ہے ” واللآئی لم یحضن ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر “ کہ وہ عورتیں جو آئسہ ہیں اور وہ عورتیں جن کو حیض نہیں آیا اگر ان کی عدت میں تمہیں شک ہو تو پھر ان کی عدت تین ماہ ہے۔ پس مقدم و موخر کیا۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” لا یقتل مؤمن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مقصد یہ ہے (واللہ اعلم) کہ کسی مؤمن اور کسی ذمی کو اس کے عہد کے دوران کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے تو عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے پس جس کافر کے بدلے مؤمن کو قتل کرنے سے منع کیا اس سے مراد کافر حربی یعنی جس سے کوئی عہد و پیمان نہ ہو وہ ہے کہ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” لا یقتل مؤمن بکافر “ یہ کلام فرما کر کلام منقطع کردی پھر فرمایا ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ تو یہ جملہ مستانفہ ہے اس کا ماقبل سے تعلق نہیں ہے اب مطلب یہ ہوا کہ ” ولا یقتل المعاہد فی عہدہ “ کہ کسی معاہدہ والے کو دوران عہد قتل نہ کیا جائے۔ اس خون سے متعلق ہے جو کسی کے بدلے میں بہایا جائے کیونکہ آپ نے فرمایا مسلمانوں کو اپنے غیر پر قوت و غلبہ حاصل ہے اور ان کے عہد کو پورا کرنے کے لیے ادنیٰ ترین بھی کوشش کرے۔ پھر فرمایا ” لایقتل مؤمن۔۔۔ تو یہ کلام اس خون سے متعلق ہے جو قصاص کے طور پر بہایا جائے اور معاہدے کی وجہ سے خون کی حرمت کے بارے میں یہ کلام جاری نہیں ہوا۔ فلہذا اس روایت کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ یہ روایت حضرت علی (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ صحیح سند کے ساتھ کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہے پس حضرت علی (رض) اس کی تاویل کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی تاویل تمہارے ہاں ان دو معانی کا احتمال رکھتی ہے جو تم نے ذکر کئے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حقیقت میں اس کا معنی وہی ہوگا جو خود حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (دلیل یہ روایت ہے)
تخریج : ابو داؤد فی الدیات باب ١١‘ واہجہاد باب ١٤٧‘ نسائی فی القسامۃ باب ٩‘ ١٣‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢١‘ مسند احمد ١‘ ١١٩؍١٢٢‘ ٢‘ ١٨٠؍١٩٢‘ ١٩٤؍٢١١۔
لغات : عہد الیہ۔ وعدہ کرنا۔ وصیت کرنا۔ تتکافأ۔ برابر۔ محدثا۔ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے والا۔
تفصیلی روایت یہ ہے کہ حضرت علی (رض) کے جس ارشاد میں کافر کے بدلے مؤمن کے قتل کی نفی ہے وہ آپ کا یہ ارشاد ہے۔ ” لایقتل مؤمن بکافروا لا ذو عہد فی عہدہ “ اب ان الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کا وہ معنی مراد لینا محال و ناممکن ہے کیونکہ اگر وہ معنی ہو جو فریق اوّل نے ذکر کیا تو یہ بات غلط ثابت ہوگی حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے زیادہ وعدہ کا پاس کرنے والے تھے۔ پھر عبارت اس طرح ہوتی۔ ” یقتل مؤمن بکافر ولا ذی عہد فی عہدہ “ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے اور نہ ہی معاہدے والے کافر کو بدلے دوران عہد قتل کیا جائے۔
جب الفاظ اس طرح نہیں ہیں البتہ الفاظ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ ہیں تو اس سے ثابت ہوگیا کہ قصاص میں ذوالعہد سے مراد ذمی ہے۔ اب مفہوم اس طرح ہوگا۔ ” لایقتل مؤمن ولا ذو عہد فی عہدہ بکافر “ کہ کوئی مؤمن اور ذمی عہد کے دوران کافر (حربی) کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا۔
اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ معاہدہ والا بھی کافر ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس کافر کے بدلے میں مؤمن کے قتل سے منع فرمایا وہ حربی وغیر ذمی کافر ہے اور اس پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کافر حربی کے قتل کے بدلے مؤمن کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاسکتا رہا وہ کافر جو ذمی ہے اس کو ذمی ہونے کی وجہ سے حربی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جاسکتا۔
اور عبارت میں اس قسم کی تقدیم و تاخیر والی عبارات قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ارشاد الٰہی ہے۔ ” واللآئی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر واللآئی لم یحضن “ (الطلاق : ٤)
اب اس آیت کا معنی یہ ہے : ” واللآئی لم یحضن ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر “ کہ وہ عورتیں جو آئسہ ہیں اور وہ عورتیں جن کو حیض نہیں آیا اگر ان کی عدت میں تمہیں شک ہو تو پھر ان کی عدت تین ماہ ہے۔ پس مقدم و موخر کیا۔
اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” لا یقتل مؤمن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مقصد یہ ہے (واللہ اعلم) کہ کسی مؤمن اور کسی ذمی کو اس کے عہد کے دوران کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے تو عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے پس جس کافر کے بدلے مؤمن کو قتل کرنے سے منع کیا اس سے مراد کافر حربی یعنی جس سے کوئی عہد و پیمان نہ ہو وہ ہے۔
ایک اعتراض :
کہ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” لا یقتل مؤمن بکافر “ یہ کلام فرما کر کلام منقطع کردیا پھر فرمایا ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ تو یہ جملہ مستانفہ ہے اس کا ماقبل سے تعلق نہیں ہے اب مطلب یہ ہوا کہ ” ولا یقتل المعاہد فی عہدہ “ کہ کسی معاہدہ والے کو دوران عہد قتل نہ کیا جائے۔
جوابنمبر 1: یہ روایت اس خون سے متعلق ہے جو کسی کے بدلے میں بہایا جائے کیونکہ آپ نے فرمایا مسلمانوں کو اپنے غیر پر قوت و غلبہ حاصل ہے اور ان کے عہد کو پورا کرنے کے لیے ادنیٰ ترین بھی کوشش کرے تو وہ بھی رد نہ کی جائے گی۔ پھر فرمایا ” لایقتل مؤمن۔۔۔ تو یہ کلام اس خون سے متعلق ہے جو قصاص کے طور پر بہایا جائے اور معاہدے کی وجہ سے خون کی حرمت کے بارے میں یہ کلام جاری نہیں ہوا۔ فلہذا اس روایت کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔
نمبر 2: یہ روایت حضرت علی (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ صحیح سند کے ساتھ کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہے پس حضرت علی (رض) اس کی تاویل کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی تاویل تمہارے ہاں ان دو معانی کا احتمال رکھتی ہے جو تم نے ذکر کئے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حقیقت میں اس کا معنی وہی ہوگا جو خود حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (دلیل یہ روایت ہے)

4936

۴۹۳۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہٗ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ قَالَ - حِیْنَ قُتِلَ عُمَرُ - مَرَرْتُ عَلٰی أَبِیْ لُؤْلُؤَۃَ وَمَعَہٗ ہَُرْمُزَانُ .فَلَمَّا بَغَتَہُمْ ثَارُوْا فَسَقَطَ مِنْ بَیْنِہِمْ خَنْجَرٌ لَہٗ رَأْسَانِ مُمْسَکُہُ فِیْ وَسَطِہٖ۔ قَالَ : قُلْتُ فَانْظُرُوْا لَعَلَّہٗ الْخَنْجَرُ الَّذِیْ قَتَلَ بِہٖ عُمَرَ فَنَظَرُوْا فَاِذَا ہُوَ الْخَنْجَرُ الَّذِی وَصَفَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ .فَانْطَلَقَ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ حِیْنَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمَعَہُ السَّیْفُ حَتَّی دَعَا الْہُرْمُزَانَ فَلَمَّا خَرَجَ اِلَیْہِ قَالَ : انْطَلِقْ حَتّٰی تَنْظُرَ اِلَی فَرَسٍ لِیْ ثُمَّ تَأَخَّرَ عَنْہُ، اِذَا مَضَیْ بَیْنَ یَدَیْہِ عَلَاہُ بِالسَّیْفِ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ السَّیْفِ قَالَ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ قَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ وَدَعَوْتُ حُفَیْنَۃَ وَکَانَ نَصْرَانِیًّا مِنْ نَصَارَی الْحِیْرَۃِ فَلَمَّا خَرَجَ اِلَیَّ عَلَوْتُہُ بِالسَّیْفِ فَصَلْتُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، ثُمَّ انْطَلَقَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فَقَتَلَ ابْنَۃَ أَبِیْ لُؤْلُؤَۃَ صَغِیْرَۃً تَدَّعِی الْاِسْلَامَ .فَلَمَّا اُسْتُخْلِفَ عُثْمَانُ دَعَا الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارَ فَقَالَ : أَشِیْرُوْا عَلَیَّ فِیْ قَتْلِ ہٰذَا الرَّجُلِ الَّذِیْ فَتَقَ فِی الدِّیْنِ مَا فَتَقَ .فَاجْتَمَعَ الْمُہَاجِرُوْنَ فِیْہِ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ یَأْمُرُوْنَہُ بِالشِّدَّۃِ عَلَیْہِ وَیَحُثُّوْنَ عُثْمَانَ عَلَی قَتْلِہِ وَکَانَ فَوْجُ النَّاسِ الْأَعْظَمِ مَعَ عُبَیْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُوْنَ لِحُفَیْنَۃَ وَالْہُرْمُزَانِ أَبْعَدُہُمَا اللّٰہُ فَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ الِاخْتِلَافُ .ثُمَّ قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ قَدْ أَعْفَاک اللّٰہُ مِنْ أَنْ تَکُوْنَ بَعْدَمَا قَدْ بُوْیِعْتَ وَاِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یَکُوْنَ لَک عَلَی النَّاسِ سُلْطَانٌ فَأَعْرَضَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ .وَتَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ خُطْبَۃِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَوَدَی الرَّجُلَیْنِ وَالْجَارِیَۃَ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَتَلَ حُفَیْنَۃَ وَہُوَ مُشْرِکٌ وَضَرَبَ الْہُرْمُزَانَ وَہُوَ کَافِرٌ ثُمَّ کَانَ اِسْلَامُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَأَشَارَ الْمُہَاجِرُوْنَ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ عَلَی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِقَتْلِ عُبَیْدِ اللّٰہِ وَعَلِیٌّ فِیْہِمْ .فَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ یُرَادُ بِہٖ غَیْرُ الْحَرْبِیِّ ثُمَّ یُشِیْرُ الْمُہَاجِرُوْنَ وَفِیْہِمْ عَلِیٌّ عَلَی عُثْمَانَ بِقَتْلِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بِکَافِرٍ ذِیْ عَہْدٍ وَلٰـکِنْ مَعْنَاہُ ہُوَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ اِرَادَتِہِ الْکَافِرَ الَّذِی لَا ذِمَّۃَ لَہٗ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَتَلَ بِنْتًا لِأَبِیْ لُؤْلُؤَۃَ صَغِیْرَۃً تَدَّعِی الْاِسْلَامَ فَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ اِنَّمَا اسْتَحَلُّوْا سَفْکَ دَمِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بِہَا لَا بِحُفَیْنَۃَ وَالْہُرْمُزَانِ .قِیْلَ لَہٗ : فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ أَرَادَ قَتَلَہُ بِحُفَیْنَۃَ وَالْہُرْمُزَانِ وَہُوَ قَوْلُہُمْ أَبْعَدَہُمَا اللّٰہُ .فَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَرَادَ أَنْ یَقْتُلَہُ بِغَیْرِہِمَا وَیَقُوْلُ النَّاسُ لَہُ أَبْعَدَہُمَا اللّٰہُ ثُمَّ لَا یَقُوْلُ لَہُمْ اِنِّیْ لَمْ أُرِدْ قَتْلَہُ بِہٰذَیْنِ اِنَّمَا أَرَدْت قَتْلَہُ بِالْجَارِیَۃِ وَلٰـکِنَّہٗ أَرَادَ قَتْلَہُ بِہِمَا وَبِالْجَارِیَۃِ .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ فَکَثُرَ فِیْ ذٰلِکَ الِاخْتِلَافُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنَّمَا أَرَادَ قَتْلَہُ بِمَنْ قَتَلَ وَفِیْہِمُ الْہُرْمُزَانُ وَحُفَیْنَۃُ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مَا صَحَّ عَلَیْہِ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ مَعْنَیْ حَدِیْثِہِ عَلَی الْأَوَّلِ عَلٰی مَا وَصَفْنَا فَانْتَفَی أَنْ یَکُوْنَ فِیْہِ حُجَّۃٌ تَدْفَعُ أَنْ یُقْتَلَ الْمُسْلِمُ بِالذِّمِّیِّ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ أَیْضًا رُشْدَہُ مَا قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ کَانَ مُنْقَطِعًا .
٤٩٣٥: سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ جب حضرت عمر (رض) شہید کردیئے گئے تو میں ابو لؤلؤ کے پاس سے اس حال میں گزرا کہ ہرمزان اس کے پاس تھا جب میں نے ان کا پیچھا کیا تو وہ اٹھ گئے ان کا خنجر گر پڑاجس کے دوسرے تھے اس کا دستہ درمیان میں تھا عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے کہا۔ ذرا غور سے دیکھو شاید یہ وہی خنجر ہے جس کے ساتھ اس نے عمر (رض) کو قتل کیا۔ انھوں نے جب غور سے دیکھا تو وہ وہی خنجر تھا جس کو عبدالرحمن نے بیان کیا تھا۔ جب عبیداللہ بن عمر نے یہ بات سنی تو وہ تلوار لے کر چلا یہاں تک کہ ہرمزان کو بلایا۔ جب وہ ان کی طرف نکل کر آیا تو انھوں نے کہا چلو۔ تاکہ تم میرے گھوڑے کی دیکھ بھال کرو۔ پھر اس کے پیچھے ہو لیے جب وہ ان کے سامنے چل پڑا تو تلوار سے اس پر وار کیا جب اس کو تلوار لگ گئی تو اس نے لاالٰہ الا اللہ پڑھا۔ اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ عبیداللہ (رض) نے حفینہ کو نصرانی ہونے کی حالت میں قتل کیا اور ہرمزان کو جب ضرب ماری تو وہ کافر تھا پھر اس کے بعد اسلام لایا تو مہاجرین جن میں علی المرتضیٰ (رض) بھی تھے کہا کہ عبیداللہ کو ان کے بدلے قتل کیا جائے۔ اب یہ بات ناممکن نظر آتی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو فرمائیں ” لایقتل مؤمن بکافر “ اور کافر سے غیر حربی کافر مراد ہو اور پھر مہاجرین (رض) جن میں خود علی (رض) بھی ہوں وہ عثمان (رض) کو ذمی کافر کے بدلے عبیداللہ (رض) کے قتل کا مشورہ دیں (حالانکہ ” لایقتل مؤمن “ والی روایت کے راوی خود علی المرتضیٰ (رض) ہیں) اس روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبیداللہ (رض) نے ابو لؤلؤ کی چھوٹی بچی کو بھی قتل کردیا جو اسلام کا دم بھرتی تھی۔ یہ کہنا درست ہوا کہ مہاجرین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عبیداللہ کے خون کو بہانا حفینہ اور ہرمزان کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لڑکی کی وجہ سے درست قرار دیا۔ اس حدیث میں ایسا قرینہ موجود ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مہاجرین (رض) کا مقصود حفینہ اور ہرمزان کے بدلے قتل کرنا تھا وہ ” ابعدہما اللہ “ کا کلمہ ہے پس یہ کہنا ممکن نہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے ان دونوں کے علاوہ کسی اور کے بدلے قتل کا ارادہ فرمایا۔ جبکہ لوگ کہہ رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دفع کردیا پھر آپ ان کے جواب میں یہ نہیں فرماتے کہ میں تو ان دو کے بدلے میں قتل کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ لڑکی کے بدلے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ بلکہ آپ عبیداللہ (رض) کو ان دو اور لڑکی کے بدلے قتل (قصاص میں) کرنا چاہتے تھے۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ آپ نے فرمایا ” فکثر فی ذلک الاختلاف “ کہ اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوگیا ہے۔ تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت عثمان (رض) نے ان کے قتل کا ارادہ انہی مقتولین کے بدلے میں کیا تھا جن میں ہرمزان اور حفینہ تھے۔ مذکورہ بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث کا درست مفہوم وہی ہے جو پہلے ہم نے بیان کیا اس سے اس بات کی نفی ہوگئی کہ اس روایت میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہو جو مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل کے مخالف ہو اور اس مفہوم کی موافقت یہ روایت بھی کر رہی ہے جو اگرچہ منقطع ہے۔
تشریح عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حفینہ کو بلایا یہ حیرہ کا نصرانی باشندہ تھا جب وہ باہر نکل آیا تو میں نے اس کو تلوار ماری وہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لگی۔ پھر عبیداللہ نے جا کر ابو لولوہ کی چھوٹی بیٹی کو قتل کردیا جو اسلام کی دعویدار تھی۔ جب حضرت عثمان (رض) خلیفہ بنے تو انھوں نے مہاجرین و انصار کو بلایا اور فرمایا تم مجھے اس آدمی کے متعلق مشورہ دو ۔ جس نے دین میں اجتماعیت کو چیر کر رکھ دیا ہے۔
مہاجرین نے ایک بات پر اتفاق کیا وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ ان پر سختی کی جائے اور وہ عثمان (رض) کو عبیداللہ کے قتل پر آمادہ کر رہے تھے اور لوگوں کی اکثریت عبیداللہ کے ساتھ تھی وہ کہہ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ہرمزان اور حفینہ سے جان چھڑا دی۔ پس اس سلسلہ میں اختلاف ہوا پھر عمرو بن عاص (رض) کہنے لگے اے امیرالمؤمنین ! عبیداللہ سے اعراض کریں کیونکہ یہ معاملہ آپ کی بیعت خلافت سے پہلے پیش آیا اور اس وقوعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا۔ حضرت عمرو (رض) کی اس تقریر کے بعد لوگ منتشر ہوگئے اور دونوں آدمیوں اور لڑکی کی دیت ادا کی گئی۔
اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ عبیداللہ (رض) نے حفینہ کو نصرانی ہونے کی حالت میں قتل کیا اور ہرمزان کو جب ضرب ماری تو وہ کافر تھا پھر اس کے بعد اسلام لایا تو مہاجرین جن میں علی المرتضیٰ (رض) بھی تھے کہتے تھے کہ عبیداللہ کو ان کے بدلے قتل کیا جائے۔ اب یہ بات ناممکن نظر آتی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو فرمائیں ” لایقتل مؤمن بکافر “ اور کافر سے غیر حربی کافر مراد ہو اور پھر مہاجرین (رض) جن میں خود علی (رض) بھی ہوں وہ عثمان (رض) کو ذمی کافر کے بدلے عبیداللہ (رض) کو قتل کا مشورہ دیں (حالانکہ ” لایقتل مؤمن “ والی روایت کے راوی خود علی المرتضیٰ (رض) ہیں)
ایک اعتراض :
اس روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبیداللہ (رض) نے ابو لولوۃ کی چھوٹی بچی کو بھی قتل کردیا جو اسلام کا دم بھرتی تھی۔ یہ کہنا درست ہوا کہ مہاجرین رضوان علیہم عبیداللہ (رض) کو بہانا درست قرار دیا نہ کہ حفینہ اور ہرمزان کی وجہ سے۔
جواب اس حدیث میں ایسا قرینہ موجود ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مہاجرین (رض) کا مقصود حجینہ اور ہرمزان کے بدلے قتل کرنا تھا وہ ” ابعدہما اللہ “ کا کلمہ ہے پس یہ کہنا ممکن نہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے ان دونوں کے بغیر کسی اور کے بدلے قتل کا ارادہ فرمایا۔ جبکہ لوگ کہہ رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دفع کردیا پھر آپ ان کے جواب یہ نہیں فرماتے کہ میں تو ان دو کے بدلے میں قتل کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ لڑکی کے بدلے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ بلکہ آپ عبیداللہ (رض) ان دو اور لڑکی کے بدلے قتل (قصاص میں) کرنا چاہتے تھے۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ آپ نے فرمایا ” فکثر فی ذلک الاختلاف “ کہ اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوگیا ہے۔ تو اس اے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت عثمان (رض) نے ان کے قتل کا ارادہ انہی مقتولین کے بدلے میں کیا تھا جن میں ہرمزان اور حفینہ تھے۔ مذکورہ بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث کا درست مفہوم وہی ہے جو پہلے ہم نے بیان کیا اس سے اس بات کی نفی ہوگئی کہ اس روایت میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہو جو مسلمان کو ذمہ کے بدلے قتل کے مخالف ہو اور اس مفہوم کی موافقت یہ روایت بھی کر رہی جو اگرچہ منقطع ہے۔

4937

۴۹۳۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْبَیْلَمَانِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ قَتَلَ مُعَاہَدًا مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ فَأَمَرَ بِہٖ فَضُرِبَ عُنُقُہُ وَقَالَ أَنَا أَوْلَی مَنْ وَفَّی بِذِمَّتِہِ .
٤٩٣٦: ربیعہ بن ابو عبدالرحمن نے عبدالرحمن بن بیلمانی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک ذمی کو قتل کیا تھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو اس کی گردن اڑا دی گئی اور فرمایا جس نے ہمارے ساتھ ذمہ داری کو پورا کیا تو اس کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا میں زیادہ حقدار ہوں۔

4938

۴۹۳۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَلَّامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ حُمَیْدٍ الْمَدَنِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔وَالنَّظْرُ عِنْدَنَا شَاہِدٌ لِذٰلِکَ أَیْضًا وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْحَرْبِیَّ دَمَہُ حَلَالٌ وَمَالَہُ حَلَالٌ ، فَاِذَا صَارَ ذِمِّیًّا حَرُمَ دَمُہُ وَمَالُہُ کَحُرْمَۃِ دَمِ الْمُسْلِمِ وَمَالِ الْمُسْلِمِ .ثُمَّ رَأَیْنَا مَنْ سَرَقَ مِنْ مَالِ الذِّمِّیِّ مَا یَجِبُ فِیْہِ الْقَطْعُ ، قُطِعَ کَمَا یُقْطَعُ فِیْ مَالِ الْمُسْلِمِ .فَلَمَّا کَانَتِ الْعُقُوْبَاتُ فِی انْتِہَاکِ الْمَالِ الَّذِیْ قَدْ حَرُمَ بِالذِّمَّۃِ کَالْعُقُوْبَاتِ فِی انْتِہَاکِ الْمَالِ الَّذِیْ حَرُمَ بِالْاِسْلَامِ کَانَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَیْضًا أَنْ تَکُوْنَ الْعُقُوْبَۃُ فِی الدَّمِ الَّذِیْ قَدْ حَرُمَ بِالذِّمَّۃِ کَالْعُقُوْبَۃِ فِی الَّذِیْ قَدْ حَرُمَ بِالْاِسْلَامِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْعُقُوْبَاتِ الْوَاجِبَاتِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَۃِ الْأَمْوَالِ قَدْ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَبَیْنَ الْعُقُوْبَاتِ الْوَاجِبَاتِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَۃِ الدَّمِ ، وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْعَبْدَ یَسْرِقُ مِنْ مَالِ مَوْلَاہُ فَلَا یُقْطَعُ وَیَقْتُلُ مَوْلَاہُ فَیُقْتَلُ ، فَفَرَّقَ بَیْنَ ذٰلِکَ فَمَا تُنْکِرُوْنَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ قَدْ فَرَّقَ بَیْنَ مَا یَجِبُ فِی انْتِہَاکِ مَالِ الذِّمِّیِّ وَدَمِہٖ؟ قِیْلَ لَہٗ : ہَذَا الَّذِیْ ذٰکَرْت قَدْ زَادَ مَا ذَہَبْنَا اِلَیْہِ تَوْکِیدًا لِأَنَّکَ ذَکَرْتُ أَنَّہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْعَبْدَ لَا یُقْطَعُ فِیْ مَالِ مَوْلَاہُ وَأَنَّہٗ یُقْتَلُ بِمَوْلَاہُ وَبِعَبِیْدِ مَوْلَاہُ .فَمَا وَصَفْتُ مِنْ ذٰلِکَ کَمَا ذَکَرْتُ فَقَدْ خَفَّفُوْا أَمْرَ الْمَالِ وَوَکَّدُوْا أَمْرَ الدَّمِ فَأَوْجَبُوْا الْعُقُوْبَۃَ فِی الدَّمِ حَیْثُ لَمْ یُوْجِبُوْہَا بِالْمَالِ .فَلَمَّا ثَبَتَ تَوْکِیدُ أَمْرِ الدَّمِ وَتَخْفِیْفُ أَمْرِ الْمَالِ ثُمَّ رَأَیْنَا مَالَ الذِّمِّیِّ یَجِبُ فِی انْتِہَاکِہِ عَلَی الْمُسْلِمِ مِنَ الْعُقُوْبَۃِ کَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ مَالِ الْمُسْلِمِ کَانَ دَمُہٗ أَحْرَی أَنْ یَکُوْنَ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَتِہِ مِنَ الْعُقُوْبَۃِ مَا یَکُوْنُ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَۃِ دَمِ الْمُسْلِمِ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ ذِمِّیًّا لَوْ قَتَلَ ذِمِّیًّا ثُمَّ أَسْلَمَ الْقَاتِلُ أَنَّہٗ یُقْتَلُ بِالذِّمِّیِّ الَّذِیْ قَتَلَہُ فِیْ حَالِ کُفْرِہِ وَلَا یُبْطِلُ ذٰلِکَ اِسْلَامُہُ .فَلَمَّا رَأَیْنَا الْاِسْلَامَ الطَّارِئَ عَلَی الْقَتْلِ لَا یُبْطِلُ الْقَتْلَ الَّذِیْ کَانَ فِیْ حَالِ الْکُفْرِ وَکَانَتِ الْحُدُوْدُ تَمَامُہَا أَحَدُہَا وَلَا یُوْجَدُ عَلٰی حَالٍ - لَا یَجِبُ فِی الْبَدْئِ مَعَ تِلْکَ الْحَالِ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ قَتَلَ رَجُلًا وَالْمَقْتُوْلُ مُرْتَدٌّ أَنَّہٗ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ شَیْء ٌ وَأَنَّہٗ لَوْ جَرَحَہُ وَہُوَ مُسْلِمٌ ثُمَّ ارْتَدَّ - عِیَاذًا بِاَللّٰہِ - فَمَاتَ لَمْ یُقْتَلْ .فَصَارَتْ رِدَّتُہُ الَّتِیْ تَقَدَّمَتِ الْجِنَایَۃَ وَالَّتِی طَرَأَتْ عَلَیْہَا فِیْ دَرْئِ الْقَتْلِ - سَوَائً .فَکَانَ کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ أَنْ یَکُوْنَ الْقَاتِلُ قَبْلَ جِنَایَتِہٖ وَبَعْدَ جِنَایَتِہِ سَوَائً .وَلَمَّا کَانَ اِسْلَامُہُ بَعْدَ جِنَایَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُقْتَلَ بِہَا لَا یَدْفَعُ عَنْہُ الْقَوَدَ کَانَ کَذٰلِکَ اِسْلَامُہُ الْمُتَقَدِّمُ لِجِنَایَتِہِ لَا یَدْفَعُ عَنْہُ الْقَوَدَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٩٣٧: محمد بن ابی حمیدالمدنی نے محمد بن منکدر سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ہمارے ہاں قیاس بھی اسی کی تائید کرتا ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حربی کافر کا خون حلال ہے اور اس کا مال بھی حلال ہے۔ جب وہ ذمی بن جاتا ہے تو پھر اس کا مال اور جان دونوں حرام ہوجاتے ہیں اور ان کی حرمت مسلمان کے مال و جان کی طرح ہوتی ہے پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو آدمی ذمی کا اتنا مال چوری کرے جس پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے تو اس چور کا ہاتھ اسی طرح کاٹا جائے گا جس طرح کسی مسلمان کا مال چوری کرنے سے کاٹا جاتا ہے تو جب ذمی کے مال کی حرمت توڑنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کے مال کی حرمت توڑنے میں لازم ہے تو قیاس اسی بات کو چاہتا ہے کہ ذمی کے خون کی حرمت توڑنے والے کو بھی وہی سزا ملے جو مسلمان کا خون بہانے والے کو ملتی ہے۔ مال کی حرمت توڑنے اور خون کی حرمت توڑنے کی سزاؤں میں فرق ہے وہ اس طرح کہ جب غلام اپنے مالک کے مال سے چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اور اگر وہ اپنے مالک کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ دونوں کی سزاؤں میں فرق ہے تو پھر تم اس بات کا بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ذمی کے مال کی حرمت توڑنے اور اس کے خون کی حرمت توڑنے کی سزا میں فرق ہے۔ آپ کی یہ بات تو ہماری بات کی تائید مزید کر رہی ہے۔ کیونکہ تم نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مالک کا مال چوری کرنے پر غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا لیکن اس کو قتل کرنے کی صورت میں اسے قتل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ غلام مالک کے غلاموں کو قتل کر دے تب بھی قتل کیا جائے گا تو بقول تمہارے انھوں نے مال کے معاملے میں آسانی اور خون کے معاملے میں سختی رکھی ہے چنانچہ قتل کی صورت میں سزا کو لازم قرار دیا اور چوری کے معاملے میں لازم قرار نہیں دیا تو خون کے معاملے کی تائید اور مالی معاملے کی آسانی ثابت ہوگئی پھر ہم نے دیکھا کہ ذمی کا مال چوری کرنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کا مال چوری کرنے میں دی جاتی ہے تو پھر یہ بات بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگئی کہ ذمی کو قتل کی صورت میں وہی سزا دی جائے جو مسلمان کے قتل کی صورت میں دی جاتی ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی ذمی کسی ذمی کو قتل کر دے پھر وہ قاتل اسلام قبول کرلے تو اس کو ذمی مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے گا جس کو حالت کفر میں اس نے قتل کیا۔ اسلام کی وجہ سے قتل کا قصاص باطل نہ ہوگا۔ جب ہم نے دیکھا کہ قتل کے بعد والا اسلام حالت کفر میں پائے جانے والے قتل کو باطل نہیں کرتا اور تمام حدود یکساں ہیں وہ ایسی حالت میں نہیں پائی جاتیں کہ اس حالت کے ہوتے ہوئے ابتداء میں لازم نہ ہوں۔ ذرا غور تو کرو۔ کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے اور مقتول مرتد ہو تو قاتل پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور وہ اگر کسی مسلمان کو زخمی کر دے پھر وہ (خدانخواستہ) مرتد ہو کر مرجائے تو اس زخمی کرنے والے کو قتل نہ کیا جائے گا پس ثابت ہوا کہ اس کا جنایت سے پہلے مرتد ہونا اور بعد میں مرتد ہونا دونوں قصاص میں قتل کو ساقط کرنے میں برابر ہیں۔ پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جرم کرنے سے پہلے اور بعد میں قاتل کا حکم ایک جیسا ہو تو جب جنایت کے بعد اور قصاص سے پہلے اس کا مسلمان ہونا اس سے قصاص کو ساقط نہیں کرتا تو اسی طرح جنایت سے پہلے کا اسلام بھی قصاص کو ساقط نہیں کرتا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
ہمارے ہاں قیاس بھی اسی کی تائید کرتا ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حربی کافر کا خون حلال ہے اور اس کا مال بھی حلال ہے۔ جب وہ ذمی بن جاتا ہے تو پھر اس کا مال اور جان دونوں حرام ہوجاتے ہیں اور ان کی حرمت مسلمان کے مال و جان کی طرح ہوتی ہے پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو آدمی ذمی کا اتنا مال چوری کرے جس پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے تو اس چور کا ہاتھ اسی طرح کاٹا جائے گا جس طرح کسی مسلمان کا مال چوری کرنے سے کاٹا جاتا ہے تو جب ذمی کے مال کی حرمت توڑنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کے مال کی حرمت توڑنے میں لازم ہے تو قیاس اسی بات کو چاہتا ہے کہ ذمی کے خون کی حرمت توڑنے والے کو بھی وہی سزا ملے جو مسلمان کا خون بہانے والے کو ملتی ہے۔
ایک اعتراض :
مال کی حرمت توڑنے اور خون کی حرمت توڑنے کی سزاؤں میں فرق ہے وہ اس طرح کہ جب غلام اپنے مالک کے مال سے چور کرتا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اور اگر وہ اپنے مالک کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ دونوں کی سزاؤں میں فرق ہے تو پھر تم اس بات کا بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ذمی کے مال کی حرمت توڑنے اور اس کے خون کی حرمت توڑنے کی سزا میں فرق ہے۔
جواب آپ کی یہ بات تو ہماری بات کی تائید مزید کر رہی ہے۔ کیونکہ تم نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مالک کا مال چوری کرنے پر غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا لیکن اس کو قتل کی صورت میں اسے قتل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر وہ غلام مالک کے غلاموں کو قتل کر دے تب بھی قتل کیا جائے گا تو بقول تمہارے انھوں نے مال کے معاملے میں آسانی اور خون کے معاملے میں سختی رکھی ہے چنانچہ قتل کی صورت میں سزا کو لازم قرار دیا اور چوری کے معاملے میں لازم قرار نہیں دیا تو خون کے معاملے کی تائید اور مالی معاملے کی آسانی ثابت ہوگئی پھر ہم نے دیکھا کہ ذمی کا مال چوری کرنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کا مال چوری کرنے میں دی جاتی ہے تو پھر یہ بات بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگئی کہ ذمی کو قتل کی صورت میں وہی سزا دی جائے جو مسلمان کے قتل کی صورت میں دی جاتی ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی ذمی کسی ذمی کو قتل کر دے پھر وہ قاتل اسلام قبول کرلے تو اس کو ذمی مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے گا جس کو حالت کفر میں اس نے قتل کیا۔ اسلام کی وجہ سے قتل کا قصاص باطل نہ ہوگا۔
جب ہم نے دیکھا کہ قتل کے بعد والا اسلام حالت کفر میں پائے جانے والے قتل کو باطل نہیں کرتا اور تمام حدود یکساں ہیں وہ ایسی حالت میں نہیں پائی جاتیں کہ اس حالت کے ہوئے ہوئے ابتداء میں لازم نہ ہوں۔
ذرا غور تو کرو۔ کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے اور مقتول مرتد ہو تو قاتل پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور وہ اگر کسی مسلمان کو زخمی کر دے پھر وہ (خدانخواستہ) مرتد ہو کر مرجائے تو اس زخمی کرنے والے کو قتل نہ کیا جائے گا پس ثابت ہوا کہ اس کا جنایت سے پہلے مرتد ہونا اور بعد میں مرتد ہونا دونوں قصاص میں قتل کو ساقط کرنے میں برابر ہیں۔
پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جرم کرنے سے پہلے اور بعد میں قاتل کا حکم ایک جیسا ہو تو جب جنایت کے بعد اور قصاص سے پہلے اس کا مسلمان ہونا اس سے قصاص کو ساقط نہیں کرتا تو اسی طرح جنایت سے پہلے کا اسلام بھی قصاص کو ساقط نہیں کرتا۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔

4939

۴۹۳۸: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ عَنْ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ قَالَ : قَتَلَ رَجُلٌ مِنِ الْمُسْلِمِینَ رَجُلًا مِنِ الْعِبَادِ فَذَہَبَ أَخُوْھُ اِلَی عُمَرَ فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ یُقْتَلَ فَجَعَلُوْا یَقُوْلُوْنَ : اُقْتُلْ جُبَیْرُ فَیَقُوْلُ حَتَّی یَجِیئَ الْغَیْظُ قَالَ : فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ یُوْدِی وَلَا یُقْتَلَ .فَہَذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَأَی أَیْضًا أَنْ یُقْتَلَ الْمُسْلِمُ بِالْکَافِرِ کَتَبَ بِہٖ اِلَی عَامِلِہِ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ .فَہَذَا - عِنْدَنَا - مِنْہُمْ عَلَی الْمُتَابَعَۃِ مِنْہُمْ لَہُ عَلَی ذٰلِکَ وَکِتَابُہُ بَعْدَ ہَذَا لَا یُقْتَلُ فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ عَلَی أَنَّہٗ کَرِہَ أَنْ یُبِیحَہُ دَمَہُ لَمَا کَانَ مِنْ وُقُوْفِہِ عَنْ قَتْلِہِ وَجَعَلَ ذٰلِکَ شُبْہَۃَ مَنْعِہِ بِہَا مِنِ الْقَتْلِ وَجَعَلَ لَہُ مَا یُجْعَلُ فِی الْقَتْلِ الْعَمْدِ الَّذِیْ تَدْخُلُہُ شُبْہَۃٌ وَہُوَ الدِّیَۃُ .وَقَدْ قَالَ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا قَتَلَ الذِّمِّیَّ قَتْلَ غِیلَۃٍ عَلَی مَالِہِ أَنَّہٗ یُقْتَلُ بِہٖ .فَاِِذَا کَانَ ہَذَا عِنْدَہُمْ خَارِجًا مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ ؟ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَشْتَرِطْ مِنِ الْکُفَّارِ أَحَدًا .فَکَمَا کَانَ لَہُمْ أَنْ یُخْرِجُوْا مِنِ الْکُفَّارِ مَنْ أُرِیدَ مَالُہُ کَانَ لِمُخَالِفِیْہِمْ أَنْ یَخْرُجَ أَیْضًا مَنْ وَجَبَتْ ذِمَّتُہُ .
٤٩٣٨: عبدالملک بن میسرہ نے حضرت نزال بن سبرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے عباد قبائل (بطون عرب کے قبائل جو نصرانی ہوگئے تھے) کے ایک آدمی کو قتل کردیا اس کا بھائی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے لکھا کہ اس کو قتل کیا جائے صحابہ کرام کہنے لگے۔ اے جبیر اس کو قتل کر دو ۔ تو جبیر کہنے لگے ذرا رک جاؤ یہاں تک کہ مجھے غصہ آئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ اس کی دیت دی جائے اور اس (قاتل) کو قتل نہ کیا جائے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے یہی رائے دی کہ اس مسلمان کو اس کافر (ذمی) کے بدلے میں قتل کیا جائے اور یہ بات صحابہ کرام کے سامنے لکھ بھیجی اس پر کسی ایک نے بھی انکار نہیں فرمایا اور ہمارے نزدیک یہ بات ان کی متابعت کی وجہ سے تھی۔ البتہ ان کا بعد والا خط کہ جس میں ” لایقتل “ لکھا تھا تو اس میں یہ احتمال ہے کہ مقتول کے قتل کی کیفیت کی اطلاع پانے پر آپ نے قتل کو درست نہ سمجھا اور اس قتل کو قتل شبہ قرار دیا جس کی بناء پر آپ قتل سے رک گئے اور اس کے لیے وہی مقرر فرما دیا جو قتل عمد میں شبہ آجانے سے لازم ہوتا ہے یعنی دیت۔ علماء اہل مدینہ کا قول یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی ذمی کو اس کا مال حاصل کرنے کے لیے دھوکے سے قتل کر دے تو اس کو بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ تو جب علماء اہل مدینہ کے ہاں یہ چیز ” لا یقتل مسلم بکافر “ والے حکم سے خارج ہے۔ حالانکہ روایت علی (رض) میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافر کے ساتھ کوئی شرط عائد نہیں فرمائی۔ تو جس طرح فریق اوّل نے کفار میں سے اس کافر کا حکم خارج کردیا جس کا مال چھیننے کا ارادہ کیا گیا ہو تو ان کے مخالف (فریق ثانی) کو بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ کافروں میں سے ان کو خارج کردیں جن سے عہد کو پورا کرنا لازم ہے۔ یعنی ذمی کافر۔ مسلمان قاتل کو ذمی کے بدلے قتل کیا جائے گا اس کے مال و جان کی ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے۔ البتہ کافر حربی کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے گا۔
یہ حضرت عمر (رض) انھوں نے یہی رائے دی کہ اس مسلمان کو اس کافر (ذمی) کے بدلے میں قتل کیا جائے اور یہ بات صحابہ کرام کے سامنے لکھ بھیجی اس پر کسی ایک نے بھی انکار نہیں فرمایا اور ہمارے نزدیک یہ بات ان کی متابعت کی وجہ سے تھی۔
البتہ ان کا بعد والا خط کہ جس میں ” لایقتل “ لکھا تھا تو اس میں یہ احتمال ہے کہ مقتول کے قتل کی کیفیت کی اطلاع پانے پر آپ نے قتل کو درست نہ سمجھا اور اس قتل کو قتل شبہ قرار دیا جس کی بناء پر آپ قتل سے رک گئے اور اس کے لیے وہی مقرر فرما دیا جو قتل عمد میں شبہ آجانے سے لازم ہوتا ہے یعنی دیت۔
اہل مدینہ کا قول اور فریق اوّل کے مؤقف کا الزامی جواب :
علماء اہل مدینہ کا قول یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی ذمی کو اس کا مال حاصل کرنے کے لیے دھوکے سے قتل کر دے تو اس کو بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ تو جب علماء اہل مدینہ کے ہاں یہ چیز ” لا یقتل مسلم بکافر “ والے حکم سے خارج ہے۔ حالانکہ روایت علی (رض) میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافر کے ساتھ کوئی شرط عائد نہیں فرمائی۔ تو جس طرح فریق اوّل نے کفار میں سے اس کافر کا حکم خارج کردیا جس کا مال چھیننے کا ارادہ کیا گیا ہو تو ان کے مخالف (فریق ثانی) کو بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ کافروں میں سے ان کو خارج کردیں جن سے عہد کو پورا کرنا لازم ہے۔ یعنی ذمی کافر۔
حاصل روایت : مسلمان قاتل کو ذمی کے بدلے قتل کیا جائے گا اس کے مال و جان کی ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے۔ البتہ کافر حربی کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے گا۔

4940

۴۹۳۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ سَمِعَ بُشَیْرَ بْنَ یَسَارٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ قَالَ : وُجِدَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَہْلٍ قَتِیْلًا فِیْ قَلِیْبٍ مِنْ قُلُبِ خَیْبَرَ .فَجَائَ أَخُوْھُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَہْلٍ وَعَمَّاہُ حُوَیِّصَۃُ وَمُحَیِّصَۃُ ابْنَا مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَہَبَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ لِیَتَکَلَّمَ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکُبْرَ الْکُبْرَ فَتَکَلَّمَ أَحَدُ عَمَّیْہِ اِمَّا حُوَیِّصَۃُ وَاِمَّا مُحَیِّصَۃُ تَکَلَّمَ الْکَبِیْرُ مِنْہُمَا .قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَہْلٍ قَتِیْلًا فِیْ قَلِیْبٍ مِنْ قُلُبِ خَیْبَرَ وَذَکَرَ عَدَاوَۃَ یَہُوْدٍ لَہُمْ .قَالَ : أَفَتُبَرِّئُک یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا أَنَّہُمْ لَمْ یَقْتُلُوْھُ؟ قَالَ : قُلْتُ وَکَیْفَ نَرْضَی بِأَیْمَانِہِمْ وَہُمْ مُشْرِکُوْنَ ؟ قَالَ فَیُقْسِمُ مِنْکُمْ خَمْسُوْنَ أَنَّہُمْ قَتَلُوْھُ قَالُوْا: کَیْفَ نَقْسِمُ عَلٰی مَا لَمْ نَرَ ؟ فَوَدَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِہِ .
٤٩٣٩: بشیر بن یسار سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن سہل (رض) کو خیبر کے ایک کنوئیں میں مقتول پایا اس کا بھائی عبدالرحمن بن سہل اور اس کے دونوں چچا حویصہ اور محیصہ بن مسعود (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عبدالرحمن بات کرنے لگے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ فرمایا بڑا۔ بڑا یعنی بڑا بات کرے۔ چنانچہ دونوں چچاؤں حویصہ ‘ حویصہ (رض) میں سے ایک نے بات کی ان میں سے بڑے نے بات کی۔ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے عبداللہ بن سہل کو خیبر کے ایک کنوئیں میں مقتول پایا ہے۔ انھوں نے اپنے ساتھ یہود کی عداوت کا تذکرہ فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا یہود کی پچاس قسمیں کہ انھوں نے قتل نہیں کیا تم سے ان کو بری کردیں گی ؟ میں نے عرض کیا ہم ان کی قسمیں کس طرح تسلیم کرلیں گے جبکہ وہ مشرک ہیں آپ نے فرمایا پھر تمہارے پچاس آدمی قسم اٹھائیں کہ انھوں نے ہی قتل کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہم اس پر کس طرح قسمیں اٹھائیں کہ انھوں نے ہی قتل کیا ہے۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے عبداللہ کی دیت ادا فرمائی۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ٨٩‘ الجزیہ باب ١٢‘ القسامہ باب ١‘ ٣‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٨‘ ترمذی فی الدیات باب ٢٢‘ نسائی فی القسامہ باب ٤‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٨‘ مسند احمد ٤؍٢‘ ٣۔
لغات : القسامہ۔ قسم اٹھانا۔

4941

۴۹۴۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہٗ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَہْلٍ الْأَنْصَارِیَّ وَمُحَیِّصَۃَ بْنَ مَسْعُوْدٍ خَرَجَا اِلَی خَیْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِیْ حَوَائِجِہِمَا فَقُتِلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَہْلٍ فَبَلَغَ مُحَیِّصَۃَ .فَأَتَیْ ہُوَ وَأَخُوْھُ حُوَیِّصَۃُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَہْلٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَہَبَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ لِیَتَکَلَّمَ لِمَکَانِہِ مِنْ أَخِیْہِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَبِّرْ کَبِّرْ .فَتَکَلَّمَ حُوَیِّصَۃُ وَمُحَیِّصَۃُ فَذَکَرَا شَأْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَہْلٍ فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْلِفُوْنَ خَمْسِیْنَ یَمِیْنًا أَوْ تَسْتَحِقُّوْنَ دَمَ قَاتِلِکُمْ أَوْ صَاحِبِکُمْ ؟ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمْ نَشْہَدْ وَلَمْ نَحْضُرْ .قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفَتُبَرِّئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا ؟ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ .قَالَ مَالِکٌ : قَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ فَزَعَمَ بُشَیْرٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدَاہُ مِنْ عِنْدِہِ ۴۹۴۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدٍ الطَّائِیُّ عَنْ بُشَیْرٌ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ سَہْلُ بْنُ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِہِ انْطَلَقُوْا اِلَی خَیْبَرَ فَتَفَرَّقُوْا فِیْہَا فَوَجَدُوْا أَحَدَہُمْ قَتِیْلًا .فَقَالُوْا لِلَّذِیْنَ وَجَدُوْھُ عِنْدَہُمْ : قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا قَالُوْا : وَاللّٰہِ مَا قَتَلْنَا وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا .فَانْطَلَقُوْا اِلَی نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، انْطَلَقْنَا اِلَی خَیْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِیْلًا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکُبْرَ الْکُبْرَ فَقَالَ لَہُمْ تَأْتُوْنَ بِالْبَیِّنَۃِ عَلَی مَنْ قَتَلَ ؟ قَالُوْا : مَا لَنَا بَیِّنَۃٌ .قَالَ أَفَیَحْلِفُوْنَ لَکُمْ ؟ قَالُوْا : لَا نَرْضَی بِأَیْمَانِ الْیَہُوْدِ .فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَبْطُلَ دَمَہٗ فَوَدَاہُ بِمِائَۃٍ مِنْ اِبِلِ الصَّدَقَۃِ .
٤٩٤٠: بشیر بن یسار نے خبر دی کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود (رض) خیبر گئے دونوں اپنی ضروریات کے سلسلے میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو حضرت عبداللہ بن سہل (رض) کو شہید کردیا گیا یہ بات حضرت محیصہ (رض) کو پہنچی تو وہ خود اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل (رض) بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے حضرت عبدالرحمن (رض) نے اپنے بھائی کے سلسلے میں بات کرنا چاہی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بار فرمایا بڑا ‘ بڑا ‘ یعنی بڑے کو بات کرنے دو ۔ چنانچہ حضرت حویصہ اور محیصہ (رض) نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ ذکر کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا۔ کیا تم پچاس قسمیں اٹھاتے ہو۔ کہ تم اپنے قاتل کے خون یا ساتھی کے خون کے حقدار بن جاؤ؟ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو ہم واقعہ کے گواہ ہیں اور نہ موقع پر موجود تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا یہود کی پچاس قسموں پر تم دست بردار ہوسکتے ہو۔ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم کافروں کی قسمیں کیسے قبول کریں۔
امام مالک کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ بشیر کا خیال یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے دیت ادا فرمائی۔
تخریج : تخریج ٤٩٣٤ کو ملاحظہ کریں۔

4942

۴۹۴۱: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدٍ الطَّائِیُّ عَنْ بُشَیْرٌ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ سَہْلُ بْنُ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِہِ انْطَلَقُوْا اِلَی خَیْبَرَ فَتَفَرَّقُوْا فِیْہَا فَوَجَدُوْا أَحَدَہُمْ قَتِیْلًا .فَقَالُوْا لِلَّذِیْنَ وَجَدُوْھُ عِنْدَہُمْ : قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا قَالُوْا : وَاللّٰہِ مَا قَتَلْنَا وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا .فَانْطَلَقُوْا اِلَی نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، انْطَلَقْنَا اِلَی خَیْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِیْلًا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکُبْرَ الْکُبْرَ فَقَالَ لَہُمْ تَأْتُوْنَ بِالْبَیِّنَۃِ عَلَی مَنْ قَتَلَ ؟ قَالُوْا : مَا لَنَا بَیِّنَۃٌ .قَالَ أَفَیَحْلِفُوْنَ لَکُمْ ؟ قَالُوْا : لَا نَرْضَی بِأَیْمَانِ الْیَہُوْدِ .فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَبْطُلَ دَمَہٗ فَوَدَاہُ بِمِائَۃٍ مِنْ اِبِلِ الصَّدَقَۃِ .
٤٩٤١: حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی جس کو سہل بن حثمہ کہا جاتا تھا۔ انھوں نے خبر دی کہ میری قوم کا ایک گروہ خیبر کی طرف گیا اور وہاں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ پھر انھوں نے اپنے میں سے ایک آدمی کو وہیں مقتول پایا۔ تو جن لوگوں کے ہاں اسے پایا تھا۔ انھیں کہنے لگے کہ تم نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے انھوں نے کہا۔ اللہ کی قسم ! ہم نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں یہ حضرات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا۔ یا نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم خیبر کی طرف گئے تو ہم نے اپنے ایک ساتھی کو وہاں مقتول پایا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے بڑا ‘ بڑا یعنی بڑا بات کرے۔ پھر آپ نے ان سے فرمایا قاتل کے خلاف گواہ لاؤ۔ انھوں نے عرض کیا ہمارے پاس گواہ نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ اگر وہ تمہارے سامنے قسمیں اٹھائیں تو (قبول کرلو گے) انھوں نے عرض کیا ہم یہودیوں کی قسموں پر اعتبار نہیں کرتے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خون کا باطل ہونا ناپسند فرمایا اور صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک سو اونٹ سے دیت ادا فرمائی۔

4943

۴۹۴۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْ لَیْلَی بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَنَّہٗ أَخْبَرَہُ رِجَالٌ مِنْ کُبَرَائِ قَوْمِہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَہْلٍ وَمُحَیِّصَۃَ خَرَجَا اِلَی خَیْبَرَ مِنْ جُہْدٍ أَصَابَہُمْ فَأَتَی مُحَیِّصَۃُ فَأَخْبَرَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَہْلٍ قُتِلَ وَطُرِحَ فِیْ فَقِیْرٍ أَوْ عَیْنٍ .فَأَتَیْ یَہُوْدًا فَقَالَ أَنْتُمْ وَاللّٰہِ قَتَلْتُمُوْھُ فَقَالُوْا : وَاللّٰہِ مَا قَتَلْنَاہُ .فَأَقْبَلَ حَتَّی قَدِمَ عَلَی قَوْمِہِ فَذَکَرَ لَہُمْ ذٰلِکَ ثُمَّ أَقْبَلَ ہُوَ وَأَخُوْھُ حُوَیِّصَۃُ وَہُوَ أَکْبَرُ مِنْہُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَہْلٍ .فَذَہَبَ مُحَیِّصَۃُ لِیَتَکَلَّمَ وَہُوَ الَّذِیْ کَانَ بِخَیْبَرَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمُحَیَّصَۃَ کَبِّرْ کَبِّرْ یُرِیْدُ السِّنَّ .فَتَکَلَّمَ حُوَیِّصَۃُ قَبْلُ ثُمَّ تَکَلَّمَ مُحَیِّصَۃُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِمَّا أَنْ یَدُوْا صَاحِبَکُمْ وَاِمَّا أَنْ یُؤْذِنُوْا بِحَرْبٍ .فَکَتَبَ اِلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ فَکَتَبُوْا اِنَّا وَاللّٰہِ مَا قَتَلْنَاہُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحُوَیِّصَۃَ وَمُحَیِّصَۃَ وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ دَمَ صَاحِبِکُمْ ؟ قَالُوْا : لَا ، قَالَ : أَفَتَحْلِفُ لَکُمْ یَہُوْدُ ؟ قَالُوْا : لَیْسُوْا بِمُسْلِمِیْنَ .فَوْدَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِہِ فَبَعَثَ اِلَیْہِمْ بِمِائَۃِ نَاقَۃٍ حَتّٰی أُدْخِلَتْ عَلَیْہِمْ الدَّارَ .قَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ خَیْبَرَ کَانَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ لِأَنَّہُمْ افْتَتَحُوْہَا وَکَانَتِ الْیَہُوْدُ عُمَّالَہُمْ فِیْہَا .فَلَمَّا وُجِدَ فِیْہَا ہٰذَا الْقَتِیْلُ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقَسَامَۃَ فِیْہِ عَلَی الْیَہُوْدِ السُّکَّانِ لَا عَلَی الْمَالِکِیْنَ .قَالَ : فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ : کُلُّ قَتِیْلٍ وُجِدَ فِیْ دَارٍ أَوْ أَرْضٍ فِیْہَا سَاکِنٌ مُسْتَأْجِرٌ أَوْ مُسْتَعِیْرٌ فَالْقَسَامَۃُ فِیْ ذٰلِکَ وَالدِّیَۃُ عَلَی السَّاکِنِ لَا عَلٰی رَبِّہَا الْمَالِکِ .وَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ یَقُوْلَانِ : الدِّیَۃُ وَالْقَسَامَۃُ فِیْ ذٰلِکَ عَلَی الْمَالِکِ لَا عَلَی السَّاکِنِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِہِمَا عَلٰی أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَتِیْلَ لَمْ یَذْکُرْ لَنَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ وُجِدَ بِخَیْبَرَ بَعْدَمَا اُفْتُتِحَتْ أَوْ قَبْلَ ذٰلِکَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُصِیْبَ فِیْہَا بَعْدَمَا اُفْتُتِحَتْ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ کَمَا قَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُصِیْبَ فِیْ حَالِ مَا کَانَتْ صُلْحًا بَیْنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَہْلِہَا .فَاِنْ کَانَ مَوْجُوْدًا فِیْ حَالِ مَا کَانَتْ صُلْحًا قَبْلَ أَنْ تُفْتَتَحَ فَلَا حُجَّۃَ لِأَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ لَیْلَی بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ مَا یَدُلُّ أَنَّہَا کَانَتْ یَوْمَئِذٍ صُلْحًا ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ فِیْہِ : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْأَنْصَارِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اِمَّا أَنْ یَدُوْا صَاحِبَکُمْ وَاِمَّا أَنْ یُؤْذِنُوْا بِحَرْبٍ وَلَا یُقَالُ ہَذَا اِلَّا لِمَنْ کَانَ فِیْ أَمَانٍ وَعَہْدٍ فِیْ دَارٍ ہِیَ صُلْحٌ بَیْنَ أَہْلِہَا وَبَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ.
٤٩٤٢: سہل بن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ مجھے قوم کے بوڑھے لوگوں نے خبر دی کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ (رض) تنگدستی کی وجہ سے خیبر کی طرف چلے گئے۔ محیصہ (رض) (اپنے ٹھکانے پر) آئے تو ان کو اطلاع ملی کہ عبداللہ کو قتل کر کے ایک اجاڑ کنوئیں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے۔ محیصہ (رض) یہود کے پاس آئے اور فرمایا اللہ کی قسم ! تم نے اس کو قتل کیا ہے۔ تو انھوں نے جواب دیا۔ اللہ کی قسم ہم نے اس کو قتل نہیں کیا۔ محیصہ (رض) وہاں سے چل کر اپنی قوم کے پاس (مدینہ میں) آئے اور ان کو اس بات کا تذکرہ کیا پھر وہ اور اس کا بڑا بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے۔ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ خیبر مسلمانوں کا تھا کیونکہ وہ اس کو فتح کرچکے تھے اور یہودی بطور عمال وہاں رہتے تھے۔ جب خیبر میں مقتول پایا گیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں کے رہنے والے یہود پر قسامت کو لازم کیا۔ مالکوں پر لازم نہیں کیا۔ پس یہی حکم ہر اس مقتول کا ہوگا جو کسی گھر میں پایا جائے یا کسی زمین میں پایا جائے اس میں رہائشی لوگ خواہ مستأجر ہوں یا مستعیر ہوں تو اس کے متعلق قسامت کا یہی حکم ہوگا۔ رہائشی کے ذمہ دیت لازم ہوگی مکان و زمین کے مالک پر نہ ہوگی۔ فریق ثانی امام ابوحنیفہ (رح) و محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ دیت و قسامت مالک پر ہوگی مکین پر نہ ہوگی۔ امام ابو یوسف (رح) کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ وہ مقتول جس کا تذکرہ روایت میں پایا جاتا ہے اس کے متعلق اس روایت میں یہ مذکور نہیں کہ یہ واقعہ فتح خیبر کے بعد کا ہے یا پہلے کا۔ یہ بھی امکان ہے فتح کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہو اس صورت میں تو امام ابو یوسف (رح) کی دلیل بن سکتی ہے اور اگر یہ واقعہ فتح سے پہلے کا ہے تو پھر اس روایت میں امام ابو یوسف (رح) کی کوئی دلیل نہیں۔ امام ابو یوسف (رح) کی طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ ابو لیلیٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمن کی روایت میں ایسی دلالت پائی جاتی ہے جس سے اس کا ایام صلح میں پیش آنا ثابت ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو فرمایا ” اما ان یدواصاحبکم واما ان یؤذنوابحرب “ اور یہ کلمات اسی کو کہے جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ صلح ہو۔ اور سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے اس کو واضح طور پر نقل کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الاحکام باب ٣٨‘ مسلم فی القسامہ ٦‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٨‘ نسائی فی القسامہ باب ٣‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٨‘ مالک فی القسامہ ١‘ مسند احمد ٤؍٣۔

4944

۴۹۴۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَہْلٍ بْنِ زَیْدٍ وَمُحَیِّصَۃَ بْنَ مَسْعُوْدِ بْنِ زَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ مِنْ بَنِیْ حَارِثَۃَ خَرَجَا اِلَی خَیْبَرَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِیَ یَوْمَئِذٍ صُلْحٌ وَأَہْلُہَا یَہُوْدُ فَتَفَرَّقَا لِحَاجَتِہِمَا .فَقُتِلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَہْلٍ فَوُجِدَ فِیْ شِرْبِہٖ مَقْتُوْلًا فَدَفَنَہٗ صَاحِبُہُ ثُمَّ أَقْبَلَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ .فَمَشٰی أَخُو الْمَقْتُوْلِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَہْلٍ وَمُحَیِّصَۃُ وَحُوَیِّصَۃُ فَذَکَرُوْا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَأْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَہْلٍ وَکَیْفَ قُتِلَ .فَزَعَمَ بُشَیْرُ بْنُ یَسَارٍ وَہُوَ یُحَدِّثُ عَمَّنْ أَدْرَکَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لَہُمْ تَحْلِفُوْنَ خَمْسِیْنَ یَمِیْنًا وَتَسْتَحِقُّوْنَ دَمَ قَتِیْلِکُمْ أَوْ صَاحِبِکُمْ ؟ .فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مَا شَہِدْنَا وَلَا حَضَرْنَا .قَالَ أَفَتُبَرِّئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا ؟ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ فَزَعَمَ بُشَیْرٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَلَہٗ۔ فَبَیَّنَ لَنَا ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّہَا کَانَتْ فِیْ وَقْتِ وُجُوْدِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَہْلٍ فِیْہَا قَتِیْلًا دَارَ صُلْحٍ وَمُہَادَنَۃٍ فَانْتَفٰی بِذٰلِکَ أَنْ یَلْزَمَ أَبَا حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدًا شَیْء ٌ مِمَّا اِحْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمَا أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ لِأَنَّ فَتْحَ خَیْبَرَ اِنَّمَا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ .قَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ : وَالنَّظْرُ یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْنَا أَیْضًا .وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الدَّارَ الْمُسْتَأْجَرَۃَ وَالْمُسْتَعَارَۃَ فِیْ یَدِ مُسْتَأْجِرِہَا وَمُسْتَعِیْرِہَا لَا فِیْ یَدِ رَبِّہَا .أَلَا تَرَی أَنَّہُمَا وَرَبَّہَا لَوْ اخْتَلَفَا فِیْ ثَوْبٍ وُجِدَ فِیْہَا أَنَّ الْقَوْلَ فِیْہِ قَوْلُہُمَا لَا قَوْلُ رَبِّ الدَّارِ .فَکَذٰلِکَ مَا وُجِدَ فِیْہَا مِنَ الْقَتْلَی فَہُمْ مَوْجُوْدُوْنَ فِیْہَا وَہِیَ فِیْ یَدِ مُسْتَأْجِرِہَا وَیَدِ مُسْتَعِیْرِہَا لَا فِیْ یَدِ رَبِّہَا .فَمَا وَجَبَ بِذٰلِکَ مِنْ قَسَامَۃٍ وَدِیَۃٍ فَہِیَ عَلَی مَنْ ہِیَ فِیْ یَدِہِ لَا عَلَی مَنْ لَیْسَتْ فِیْ یَدِہِ وَاِنْ کَانَ مَلَّکَہَا لَہٗ۔فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ قَالَ : رَأَیْتُ اِجْمَاعَہُمْ قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ الْقَسَامَۃَ تَجِبُ عَلَی الْمَالِکِ لَا عَلَی السَّاکِنِ .وَذٰلِکَ أَنَّ رَجُلًا وَامْرَأَتَہُ لَوْ کَانَتْ فِیْ أَیْدِیْہِمَا دَارٌ یَسْکُنَانِہَا وَہِیَ لِلزَّوْجِ فَوُجِدَ فِیْہَا قَتِیْلٌ کَانَتِ الْقَسَامَۃُ وَالدِّیَۃُ عَلَی عَاقِلَۃِ الزَّوْجِ خَاصَّۃً دُوْنَ عَاقِلَۃِ الْمَرْأَۃِ .وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ أَیْدِیَہُمَا عَلَیْہِمَا وَأَنَّ مَا وُجِدَ فِیْہَا مِنْ ثِیَابٍ فَلَیْسَ أَحَدُہُمَا أَوْلَی بِہٖ مِنَ الْآخَرِ اِلَّا لِمَعْنًی لَیْسَ مِنْ قِبَلِ الْمِلْکِ وَالْیَدِ فِیْ شَیْئٍ .فَلَوْ کَانَتِ الْقَسَامَۃُ یُحْکَمُ بِہَا عَلَی مَنْ الدَّارُ فِیْ یَدِہِ لَحُکِمَ بِہَا عَلَی الْمَرْأَۃِ وَالرَّجُلِ جَمِیْعًا لِأَنَّ الدَّارَ فِیْ أَیْدِیْہِمَا وَلِأَنَّہُمَا سَکَنَاہَا .فَلَمَّا کَانَ مَا یَجِبُ فِیْ ذٰلِکَ عَلَی الزَّوْجِ خَاصَّۃً دُوْنَ الْمَرْأَۃِ اِذْ ہُوَ الْمَالِکُ لَہَا کَانَتِ الْقَسَامَۃُ وَالدِّیَۃُ فِیْ کُلِّ الْمَوَاضِعِ الْمَوْجُوْدِ فِیْہَا الْقَتْلٰی عَلٰی مَالِکِہَا لَا عَلٰی سَاکِنِہَا .
٤٩٤٣: سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید انصاری یہ قبیلہ بنی حارثہ سے تھے یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں خیبر کی طرف گئے اور یہ صلح کا زمانہ تھا۔ وہاں یہودی رہتے تھے۔ یہ دونوں اپنی ضرورت کی وجہ سے الگ الگ ہوگئے پھر عبداللہ بن سہل (رض) کو قتل کردیا گیا اور وہ اپنے گھاٹ پر مقتول پائے گئے ان کے ساتھی نے ان کو دفن کردیا اور پھر وہ مدینہ طیبہ آئے ان مقتول کے بھائی عبدالرحمن بن سہل اور حضرت محیصہ اور حویصہ (رض) تینوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عبداللہ بن سہل (رض) کا واقعہ ذکر کیا اور بتایا کہ وہ کیسے قتل ہوئے بشیر بن یسار جوان صحابہ کرام سے نقل کرتے ہیں جن سے ان کی ملاقات ہوئی وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا کیا تم پچاس قسمیں اٹھاتے ہو اور اپنے مقتول کے خون کے حقدار ٹھہرتے ہو آپ نے قتیلکم فرمایا یا صاحبکم فرمایا۔ انھوں نے جواب دیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے نہ دیکھا اور نہ موجود تھے آپ نے فرمایا کیا تم سے پچاس قسمیں اٹھا کر یہودی بری الذمہ ہوسکتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم کافروں کی قسموں کا کیسے اعتبار کرسکتے ہیں ؟ بشیر بن یسار راوی کا خیال یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی دیت دی۔ اس روایت نے ہمارے لیے وضاحت کردی کہ جب عبداللہ بن سہل (رض) کے قتل کا واقعہ پیش آیا اس وقت خیبر فتح ہوچکا تھا اور یہ زمانہ صلح تھا اس سے فریق اوّل کی طرف سے امام ابو یوسف (رح) کے خلاف پیش آنے والا اعتراض رفع ہوگیا امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں کہ قیاس کی تائید بھی ہمارے ساتھ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو گھر اجرت پر یا بطور ادھار لیا گیا ہو وہ کرایہ دار یا ادھرا لینے والے کے پاس ہوتا ہے مالک کے پاس نہیں ہوتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ اگر وہ دونوں اور مالک مکان کسی کپڑے میں جھگڑا کریں جو وہاں ملا۔ تو ان دونوں کا قول معتبر ہوگا مالک مکان کی بات نہ مانی جائے گی اسی طرح جو مقتول وہاں پائے جائیں گے اور وہ گھر کرایہ دار یا ادھار والے کے قبضہ میں ہو مالک کے قبضہ میں نہ ہو تو اب جو قسم یا دیت لازم ہوگی تو وہ ان پر لازم ہوگی جن کے قبضہ میں مکان ہے اس پر نہیں کہ جس کا قبضہ نہیں اگرچہ وہ اس کی ملک میں ہے۔ امام محمد (رح) نے اس سلسلہ میں دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے متعلق علماء کا اجماع ہے کہ قسم مالک پر واجب ہوتی ہے رہائش پذیر نہیں وہ اس طرح کہ اگر ایک مکان خاوند اور اس کی بیوی کے پاس ہو اور وہ مکان خاوند کا ہو پھر وہاں کوئی مقتول پایا جائے تو قسم اور دیت صرف خاوند کے رشتہ داروں پر ہوگی عورت کے رشتہ داروں پر نہیں ہوگی۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ مکان ان دونوں کے قبضہ میں ہے اور اگر وہاں کپڑا پایا جائے تو ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ حقدار نہ مانا جائے گا۔ البتہ یہ اپنے مقام پر ہے کہ جو چیز اس کی ملک اور قبضے میں ہوگی تو وہ اس کا وہ حقدار ہوگا۔ پس اگر قسم اس شخص پر ڈالی جاتی جس کے قبضہ میں مکان ہے تو عورت اور مرد دونوں پر آتی کیونکہ مکان تو دونوں کے قبضے میں ہے اور اس کے ساتھ وہ دونوں وہاں رہائش پذیر ہیں تو جب اس صورت میں جو کچھ بھی لازم ہوتا ہے وہ صرف خاوند پر پازم ہوتا ہے عورت پر نہیں کیونکہ وہی مالک ہے۔ تو جہاں بھی مقتول پایا جائے قسم اور دیت مالک پر ہوگی وہاں کے رہائش پذیر لوگوں پر نہیں۔
حاصل روایت : اس روایت نے ہمارے لیے وضاحت کردی کہ جب عبداللہ بن سہل (رض) کے قتل کا واقعہ پیش آیا اس وقت خیبر فتح ہوچکا تھا اور یہ زمانہ صلح تھا اس سے فریق اوّل کی طرف سے امام ابو یوسف (رح) کے خلاف پیش آنے والا اعتراض رفع ہوگیا امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں کہ قیاس کی تائید بھی ہمارے ساتھ ہے۔
نظر یوسفی (رح) :
ہم دیکھتے ہیں کہ جو گھر اجرت پر یا بطور ادھار لیا گیا ہو وہ کرایہ دار یا ادھار لینے والے کے پاس ہوتا ہے مالک کے پاس نہیں ہوتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ اگر وہ دونوں اور مالک مکان کسی کپڑے میں جھگڑا کریں جو وہاں ملا۔ تو ان دونوں کا قول معتبر ہوگا مالک مکان کی بات نہ مانی جائے گی اسی طرح جو مقتول وہاں پائے جائیں گے اور وہ گھر کرایہ دار یا ادھار والے کے قبضہ میں ہو مالک کے قبضہ میں نہ ہو تو اب جو قسم یا دیت لازم ہوگی تو وہ ان پر لازم ہوگی جن کے قبضہ میں مکان ہے اس پر نہیں کہ جس کا قبضہ نہیں اگرچہ وہ اس کی ملک میں ہے۔
امام محمد (رح) کی طرف سے جواب :
اس کے متعلق علماء کا اجماع ہے کہ قسم مالک پر واجب ہوتی ہے رہائش پذیر پر نہیں وہ اس طرح کہ اگر ایک مکان خاوند اور اس کی بیوی کے پاس ہو اور وہ مکان خاوند کا ہو پھر وہاں کوئی مقتول پایا جائے تو قسم اور دیت صرف خاوند کے رشتہ داروں پر ہوگی عورت کے رشتہ داروں پر نہیں ہوگی۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ مکان ان دونوں کے قبضہ میں ہے اور اگر وہاں کپڑا پایا جائے تو ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ حقدار نہ مانا جائے گا۔
البتہ یہ اپنے مقام پر ہے کہ جو چیز اس کی ملک اور قبضے میں ہوگی تو وہ اس کا حقدار ہوگا۔ پس اگر قسم اس شخص پر ڈالی جائے جس کے قبضہ میں مکان ہے تو عورت اور مرد دونوں پر آتی کیونکہ مکان تو دونوں کے قبضے میں ہے اور اس کے ساتھ وہ دونوں وہاں رہائش پذیر ہیں تو جب اس صورت میں جو کچھ بھی لازم ہوتا ہے وہ صرف خاوند پر لازم ہوتا ہے عورت پر نہیں کیونکہ وہی مالک ہے۔ تو جہاں بھی مقتول پایا جائے قسم اور دیت مالک پر ہوگی وہاں کے رہائش پذیر لوگوں پر نہیں۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) کے طرز و انداز سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا میلان فریق ثانی کی طرف ہے مگر دلائل کا زور بتلا رہا ہے کہ وہ امام ابو یوسف (رح) کے حامی ہیں یا اس سلسلہ میں دونوں طرف کے دلائل ذکر کر کے فیصلہ مخاطب پر چھوڑ دیا۔ واللہ اعلم۔

4945

۴۹۴۴: مَا قَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ الْأَزْمَعِ أَنَّہٗ قَالَ لِعُمَرَ : أَمَا تَدْفَعُ أَمْوَالُنَا أَیْمَانَنَا وَلَا أَیْمَانُنَا عَنْ أَمْوَالِنَا قَالَ لَا وَعَقَلَہٗ۔ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الْقَتِیْلِ الْمَوْجُوْدِ فِیْ مَحَلَّۃِ قَوْمٍ کَیْفَ الْقَسَامَۃُ الْوَاجِبَۃُ فِیْہٖ؟ فَقَالَ قَوْمٌ : یَحْلِفُ الْمُدَّعٰی عَلَیْہِمْ بِاللّٰہِ مَا قَتَلْنَا فَاِنْ أَبَوْا أَنْ یَحْلِفُوْا اُسْتُحْلِفَ الْمُدَّعُوْنَ وَاسْتَحَقُّوْا مَا ادَّعَوْا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ الَّذِیْ ذَکَرْنَا فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ یُسْتَحْلَفُ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِمْ فَاِذَا حَلَفُوْا غَرِمُوْا الدِّیَۃَ .وَقَالُوْا : قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ ؟ اِنَّمَا کَانَ عَلَی النَّکِیرِ مِنْہُ عَلَیْہِمْ کَأَنَّہٗ قَالَ أَتَدَّعُوْنَ وَتَأْخُذُوْنَ ؟ وَذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُمْ أَفَتُبَرِّئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا بِاَللّٰہِ مَا قَتَلْنَا .فَقَالُوْا : کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ ؟ .أَیْ : اِنَّ الْیَہُوْدَ وَاِنْ کَانُوْا کُفَّارًا فَلَیْسَ عَلَیْہِمْ فِیْمَا تَدَّعُوْنَ عَلَیْہِمْ غَیْرَ أَیْمَانِہِمْ .وَکَمَا لَا یُقْبَلُ مِنْکُمْ - وَاِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِیْنَ - أَیْمَانُکُمْ فَتَسْتَحِقُّوْنَ بِہَا کَذٰلِکَ لَا یَجِبُ عَلَی الْیَہُوْدِ بِدَعْوَاکُمْ عَلَیْہِمْ غَیْرُ أَیْمَانِہِمْ .وَالدَّلِیْلُ عَلَیْ صِحَّۃِ ہَذَا التَّأْوِیْلِ مَا قَدْ حَکَمَ بِہٖ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِہٖ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ .وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ عِنْدَ الْأَنْصَارِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مِنْ ذٰلِکَ عِلْمٌ وَلَا سِیَّمَا مِثْلُ مُحَیِّصَۃَ وَقَدْ کَانَ حَیًّا یَوْمَئِذٍ وَسَہْلُ بْنُ أَبِیْ حَثْمَۃَ وَلَا یُخْبِرُوْنَہُ بِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ : لَیْسَ ہٰکَذَا قَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنَا عَلَی الْیَہُوْدِ .فَمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ
٤٩٤٤: حارث بن ازمع نے حضرت عمر (رض) کو کہا کہ کیا ہمارے مال ہماری قسموں کو دور نہیں کرتے اور کیا ہماری قسمیں ہمارے مالوں کی وجہ سے دفع نہیں ہوتیں آپ نے فرمایا نہیں اور آپ نے ان پر دیت کو لازم کردیا۔
فریق اوّل کا استدلال : انھوں نے حضرت سہل بن ابو حثمہ (رض) والی روایت سے استدلال کیا جس کو ہم نے گزشتہ باب میں مختلف اسناد سے ذکر کیا۔
فریق ثانی کا قول : صرف مدعیٰ علیہم قسم اٹھائیں جب وہ قسم اٹھالیں تو اب وہ تاوان ادا کریں انھوں نے اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدعیوں کو یہ فرمانا : ” اتحلفون وتستحقون “ یہ بطور انکار تھا کہ کیا تم صرف قسم کھا کر اپنے مقتول کے حقدار بنتے ہو۔ یعنی مطلب یہ تھا کہ کیا فقط دعویٰ سے مستحق بننا چاہتے ہو (ایسا نہ ہوگا دلیل چاہیے) اور اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کیا یہودی پچاس قسموں کے ساتھ تم سے برأت حاصل کرلیں کہ وہ یہ کہیں اللہ کی قسم ! ہم نے قتل نہیں کیا تو انصار نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم کافروں کی قسم کیسے قبول کرلیں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نے فرمایا کیا پھر تم قسم کھا کر اس کے مستحق بننا چاہتے ہو ؟ یعنی اس میں شبہ نہیں کہ یہودی کافر ہیں۔ لیکن ان کے خلاف دعویٰ میں تم صرف ان کو قسم دے سکتے ہو۔ تو باوجود تمہارے مسلمان ہونے کے جس طرح تم صرف قسم سے دیت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ تو یہود کے خلاف بھی تمہارے دعویٰ سے فقط قسم ان پر لازم ہوگی اور کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔
اس مؤقف کی دلیل : اس دعویٰ کی صحت پر حضرت عمر (رض) کا وہ فیصلہ شاہد ہے جو آپ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام کی موجودگی میں کیا اور ان میں سے کسی نے بھی ان پر انکار نہیں کیا اور یہ بات ناممکن ہے کہ انصار کو اس بات کا علم ہو اور پھر انھوں نے خبر نہ دی ہو خصوصاً حضرت محیصہ (رض) جیسے لوگ جو ان دنوں زندہ تھے اور سہل بن ابو حثمہ (رض) بھی زندہ تھے انھوں نے اس فیصلہ فاروقی پر یہ نہیں کہا کہ فیصلہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ آپ نے یہودیوں کے خلاف اور ہمارے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ (ان کا نہ کہنا درستی کی واضح دلیل ہے) روایت عمر (رض) یہ ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کسی قوم کے محلہ میں مقتول پایا جائے تو وہاں اس قسم کی کیا صورت ہوگی جو کہ لازم ہوچکی ہے علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جن کے خلاف دعویٰ ہے یعنی مدعیٰ علیہ قسم کھائیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! ہم نے قتل نہیں کیا اور اگر وہ قسم سے انکار کریں تو پھر مدعی لوگوں سے قسم لی جائے گی وہ اپنے دعویٰ کے مستحق ہوں گے۔ فریق اوّل نے حضرت سہل بن ابو حثمہ (رض) والی روای سے استدلال کیا جس کو ہم نے گزشتہ باب میں مختلف اسناد سے ذکر کیا۔ فریق ثانی کا کہنا ہے کہ صرف مدعیٰ علیہم قسم اٹھائیں جب وہ قسم اٹھالیں تو اب وہ تاوان ادا کریں انھوں نے اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدعیوں کو یہ فرمایا۔ ” اتحلفون وتستحقون “ یہ بطور انکار تھا کہ کیا تم صرف قسم کھا کر اپنے مقتول کے حقدار بنتے ہو۔ یعنی مطلب یہ تھا کہ کیا فقط دعویٰ سے مستحق بننا چاہتے ہو (ایسا نہ ہوگا دلیل چاہیے) اور اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کیا یہودی پچاس قسموں کے ساتھ تم سے برأت حاصل کرلیں کہ وہ یہ کہیں اللہ کی قسم ! ہم نے قتل نہیں کیا تو انصار نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم کافروں کی قسم کیسے قبول کرلیں۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نے فرمایا کیا پھر تم قسم کھا کر اس کے مستحق بننا چاہتے ہو ؟ یعنی اس میں شبہ نہیں کہ یہودی کافر ہیں۔ لیکن ان کے خلاف دعویٰ میں تم صرف ان کو قسم دے سکتے ہو۔ تو باوجود تمہارے مسلمان ہونے کے جس طرح تم صرف قسم سے دیت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ تو یہود کے خلاف بھی تمہارے دعویٰ سے فقط قسم ان پر لازم ہوگی اور کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ اس مؤقف کی دلیل : اس دعویٰ کی صحت پر حضرت عمر (رض) کا وہ فیصلہ شاہد ہے جو آپ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام کی موجودگی میں کیا اور ان میں سے کسی نے بھی ان پر انکار نہیں کیا اور یہ بات ناممکن ہے کہ انصار کو اس بات کا علم ہو اور پھر انھوں نے خبر نہ دی ہو خصوصاً حضرت محیصہ (رض) جیسے لوگ جو ان دنوں زندہ تھے اور سہل بن ابو حثمہ (رض) بھی زندہ تھے انھوں نے اس فیصلہ فاروقی پر یہ نہیں کہا کہ فیصلہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ آپ نے یہودیوں کے خلاف اور ہمارے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ (ان کا نہ کہنا درستی کی واضح دلیل ہے) روایت عمر (رض) یہ ہے۔

4946

۴۹۴۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ اِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ الْأَزْمَعِ قَالَ : قُتِلَ قَتِیْلٌ بَیْنَ وَادَعَۃَ وَحَی آخَرَ وَالْقَتِیْلُ اِلَی وَادَعَۃَ أَقْرَبُ .فَقَالَ عُمَرُ لِوَادَعَۃَ : یَحْلِفُ خَمْسُوْنَ رَجُلًا مِنْکُمْ : بِاَللّٰہِ مَا قَتَلْنَا وَلَا نَعْلَمُ قَاتِلًا ثُمَّ أَغْرِمُوْا الدِّیَۃَ .فَقَالَ لَہُ الْحَارِثُ : نَحْلِفُ وَتُغَرِّمُنَا ؟ فَقَالَ : نَعَمْ .
٤٩٤٥: حضرت حارث بن ازمع کہتے ہیں کہ بنو وداعہ اور ایک دوسرے قبیلے کے درمیان ایک شخص قتل ہوگیا وہ مقتول بنو وداعہ کے زیادہ قریب تھا تو حضرت عمر (رض) نے وداعہ قبیلہ کو کہا تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھائیں کہ ہم نے قتل نہیں کیا اور نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں پھر تم دیت ادا کرو۔ حارث نے کہا ہم قسم بھی کھائیں اور دیت بھی ادا کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔

4947

۴۹۴۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ عَنْ أَبِیْ جَرِیْرٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ الْحَارِثِ الْوَادِعِیِّ قَالَ : أَصَابُوْا قَتِیْلًا بَیْنَ قَرْیَتَیْنِ فَکَتَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ .فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ قِیْسُوْا بَیْنَ الْقَرْیَتَیْنِ فَأَیُّہُمَا کَانَ اِلَیْہِ أَدْنَی فَخُذُوْا خَمْسِیْنَ قَسَامَۃً فَیَحْلِفُوْنَ بِاَللّٰہِ ثُمَّ غَرَّمَہُمْ الدِّیَۃَ .قَالَ الْحَارِثُ : فَکُنْتُ فِیْمَنْ أَقْسِمُ ثُمَّ غَرِمْنَا الدِّیَۃَ .فَہٰذِہِ الْقَسَامَۃُ الَّتِیْ حَکَمَ بِہَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ أَنَّہٗ قَالَ لَوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاہُمْ لَادَّعَیْ نَاسٌ دِمَائَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَہُمْ وَلٰـکِنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .فَسَوَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ الْأَمْوَالِ وَالدِّمَائِ وَحَکَمَ فِیْہَا بِحُکْمٍ وَاحِدٍ فَجَعَلَ الْیَمِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہِ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَعْنَیْ حَدِیْثِ سَہْلٍ أَیْضًا عَلٰی مَا قَدْ تَأَوَّلْنَاہُ عَلَیْہِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ہَذَا عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَاہُمْ بِالْبَیِّنَۃِ فَلَمَّا ذَکَرُوْا أَنْ لَا بَیِّنَۃَ لَہُمْ قَالَ أَفَیَحْلِفُوْنَ لَکُمْ ؟ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا کَانَ مِنْ حُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ہُوَ ہَذَا وَکَانَ مَا زَادَ عَلَیْہِ مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ وَأَبِیْ لَیْلَی بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ لَیْسَ عَلَی الْحُکْمِ وَلٰـکِنْ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ تَأَوَّلْنَاہُمَا عَلَیْہِ .ثُمَّ ہَذَا الزُّہْرِیُّ قَدْ عَلِمَ بِقَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقَسَامَۃِ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ
٤٩٤٦: حارث وداعی بیان کرتے ہیں کہ ایک مقتول لوگوں نے دو بستیوں کے درمیان پایا تو انھوں نے اس سلسلہ میں حضرت عمر (رض) کی طرف لکھا۔ تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ دونوں کے مابین فاصلہ کی پیمائش کرو جو ان میں قریب تر ہو اس میں سے پچاس آدمیوں سے قسم لو۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائیں پھر تاوان دیت ان سے وصول کرو۔ یہ قسامت جس کے متعلق اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ کیا یہ اس روایت کے موافق ہے جس کو ہم نے ٤٩٢٦ میں نقل کیا کہ ” لو یعطی الناس بدعواہم لادعی ناس دماء رجال واموالہم تکن الیمین علی المدعا علیہ “ تو اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اموال و دماء میں برابری فرمائی ہے اور ان کا ایک ہی حکم دیا ہے ان دونوں میں قسم کو مدعیٰ علیہ پا ڈالا گیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ حدیث سہل (رض) کا معنی بھی وہی ہے جو ہم نے تاویل بیان کی ہے اور اس پر مزید دلالت وہ روایت بھی کر رہی ہے جس کو ہم نے بشیر بن یسار عن سہل بن ابی حثمہ (رض) نقل کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دلیل لانے کا حکم فرمایا جب انھوں نے دلیل سے اپنی عاجزی ظاہر کی۔ تو آپ نے فرمایا کیا وہ تمہارے لیے قسمیں اٹھا دیں ؟ مذکورہ باتیں دلالت کرتی ہیں کہ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم تو اس سلسلہ میں یہی ہے بقیہ یحییٰ بن سعید اور ابو یعلیٰ کی روایت میں اضافہ پایا جاتا ہے وہ فیصلہ نہیں لیکن ان کا مفہوم وہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ پھر امام زہری (رح) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قسامت کے سلسلہ میں فیصلے کا علم تھا جیسا کہ اس روایت میں ہے۔
تشریح حارث کہتے ہیں کہ میں بھی قسم اٹھانے والوں میں سے تھا پھر تاوان کے طور پر دیت دی۔

4948

۴۹۴۷: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُوَیْدٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أُنَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْقَسَامَۃَ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَأَقَرَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا کَانَتْ عَلَیْہِ وَقَضَی بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أُنَاسٍ فِیْ قَتِیْلٍ ادَّعَوْہُ عَلَی الْیَہُوْدِ
٤٩٤٧: ابن شہاب نے ابو سلمہ اور سلیمان بن یسار سے انھوں نے انصار میں سے بعض اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قسامت کا رواج تھا چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسامت کا ہی فیصلہ اس مقتول کے متعلق فرمایا جس کا دعویٰ یہود کے خلاف تھا۔
تخریج : نسائی فی القسامہ باب ٢‘ مسند احمد ٤؍١٢‘ ٥؍٣٧٥۔

4949

۴۹۴۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلْمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَسُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ عَنْ أُنَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔ثُمَّ قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی الْقَسَامَۃِ أَیْضًا
٤٩٤٨: زہری نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار سے اور انھوں نے انصار کے ان لوگوں سے جنہوں نے صحبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا اسی طرح نقل کیا ہے۔ پھر زہری نے قسامت کے سلسلہ میں فرمایا۔

4950

۴۹۴۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِالْقَسَامَۃِ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِمْ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْقَسَامَۃَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِمْ لَا عَلَی الْمُدَّعِیْنَ عَلٰی مَا بَیَّنَ الزُّہْرِیُّ فِیْ حَدِیْثِہِ ہَذَا . وَاِنَّمَا کَانَ أَخَذَ الْقَسَامَۃَ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ ہَذَا مِمَّا أَخَذَہُ عَنْہُمْ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِمَّا فَعَلَہُ وَحَکَمَ بِہٖ بِحَضْرَۃِ سَائِرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ عَنْہُمْ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُنْکِرٌ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٩٤٩: ابن ابی الذئب نے زہری (رح) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعا علیہم پر قسامت کا فیصلہ فرمایا۔ قسامت مدعا علیہم کے ذمہ ہے مدعی پر نہیں جیسا کہ زہری کے اس قول سے معلوم ہو رہا ہے۔ تو زہری نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار سے اور انھوں نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حکم قسامت اخذ کیا اور یہ بات اس اثر فاروقی کے عین مطابق ہے جس کو انھوں نے کیا اور اس کے مطابق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے اصحاب کے ہوتے ہوئے انھوں نے فیصلہ کیا اور ان کے سامنے کسی نے انکار نہیں کیا۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : قسامت مدعا علیہم کے ذمہ ہے مدعی پر نہیں جیسا کہ زہری کے اس قول سے معلوم ہو رہا ہے۔ تو زہری نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار سے اور انھوں نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حکم قسامت اخذ کیا اور یہ بات اس اثر فاروقی کے عین مطابق ہے جس کو انھوں نے کیا اور اس کے مطابق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے اصحاب کے ہوتے ہوئے انھوں نے فیصلہ کیا اور ان کے سامنے کسی نے انکار نہیں کیا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ قسامت کی ذمہ داری مدعیٰ علیہ پر ہے مدعی پر نہیں۔ مدعی اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرے ورنہ مدعا علیہ سے قسم لے۔

4951

۴۹۵۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُوَیْدٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ نَاقَۃً لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ دَخَلَتْ حَائِطًا فَأَفْسَدَتْ فِیْہِ فَقَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَہْلِ الْحَائِطِ لِحِفْظِہَا بِالنَّہَارِ وَعَلٰی أَہْلِ الْمَوَاشِیْ مَا أَفْسَدَتْ مَوَاشِیْہِمْ بِاللَّیْلِ
٤٩٥٠: حرام بن محیصہ نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری کی اونٹنی ایک احاطے میں داخل ہوئی اور اس سے اس میں نقصان کردیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باغ والوں کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ وہ دن کو اپنے باغ کی حفاظت کریں اور مویشی والے اس نقصان کا تاوان ادا کریں جو رات کے وقت ان کے جانور کر جائیں۔
مؤقف فریق اوّل : دن کے وقت مویشی جو نقصان کرے اس کا تاوان نہیں البتہ رات کے وقت جانور کے کئے ہوئے نقصان کا تاوان ہوگا جیسا اس روایت میں ہے۔

4952

۴۹۵۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ حَرَامِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ أَنَّ نَاقَۃً لِلْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ دَخَلَتْ حَائِطًا لِرَجُلٍ فَأَفْسَدَتْ فِیْہِ فَقَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلٰی أَہْلِ الْحَوَائِطِ حِفْظَہَا بِالنَّہَارِ وَأَنَّ مَا أَفْسَدَتِ الْمَوَاشِیْ بِاللَّیْلِ ضَمَانٌ عَلٰی أَہْلِہَا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا : مَا أَصَابَتِ الْبَہَائِمُ نَہَارًا فَلَا ضَمَانَ عَلٰی أَحَدٍ فِیْہِ وَمَا أَصَابَتْ لَیْلًا ضَمِنَ أَرْبَابُ تِلْکَ الْبَہَائِمِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا ضَمَانَ عَلٰی أَرْبَابِ الْمَوَاشِیْ فِیْمَا أَصَابَتْ مَوَاشِیْہِمْ فِی اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ اِذَا کَانَتْ مُنْفَلِتَۃً .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٤٩٥١: حرام بن سعد بن محیصہ کہتے ہیں کہ براء بن عازب (رض) کی اونٹنی ایک آدمی کے باغ میں رات کو داخل ہوئی اور اس نے اس میں نقصان کردیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا باغ والے دن کو باغ کی حفاظت کر اور رات کو جو مویشی نقصان کر جائیں اس کا ضمان مویشیوں کے مالکوں پر ہوگا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے ان آثار کو اختیار کیا اور انھوں نے کہا کہ دن کے وقت مویشی جو نقصان کریں اس کا کسی پر ضمان نہ ہوگا اور جو نقصان وہ رات کو کریں تو ان جانوروں کے مالکوں پر ضمان آئے گا انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔ دوسرے علماء کا مؤقف یہ ہے کہ مویشی مالکوں پر ضمان نہیں خواہ ان کے مویشی دن کو نقصان کریں یا رات کو جب کہ وہ جانور کھلے چھوڑے ہوئے ہوں انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٩٠‘ ابن ماجہ فی الاحکام باب ١٣‘ مالک فی الاقضیہ ٣٦‘ مسند احمد ٥؍٤٣٦۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے ان آثار کو اختیار کیا اور انھوں نے کہا کہ دن کے وقت مویشی جو نقصان کریں اس کا کسی پر ضمان نہ ہوگا اور جو نقصان وہ رات کو کریں تو ان جانوروں کے مالکوں پر ضمان آئے گا انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کا مؤقف یہ ہے کہ مویشی مالکوں پر ضمان نہیں خواہ ان کے مویشی دن کو نقصان کریں یا رات کو جب کہ وہ جانور کھلے چھوڑے ہوئے ہوں انھوں نے مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کیا ہے۔

4953

۴۹۵۲: بِمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَضْرَمِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَرَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ : ثَنَا مُجَالِدٌ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلسَّائِمَۃُ عَقْلُہَا جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ .
٤٩٥٢: شعبی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چرنے والے جانور کا تاوان معاف ہے اور کان گرنے سے جو لوگ مرجائیں ان کا تاوان معاف ہے۔
تخریج : دارمی فی الدیات باب ١٩‘ مسند احمد ٣؍٣٣٠‘ ٣٥٤۔
لغات : جبار۔ تاوان معاف ہے۔ المعدن۔ کان منفلۃ۔ آزاد پھرنے والے۔

4954

۴۹۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ وَأَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَجْمَائُ جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ .
٤٩٥٣: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حیوان (کے نقصان) کا تاوان معاف ہے اور کان (گرنے سے مرنے والوں) کا تاوان معاف ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦٦‘ الدیات باب ٢٩‘ ٢٨‘ المساقاۃ باب ٣‘ مسلم فی الحدود ٤٥؍٤٦‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٢٧‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ١٦‘ والاحکام باب ٣٧‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٢٨‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢٧‘ مالک فی العقول ١٢‘ دارمی فی الدیات باب ١٩‘ والزکوۃ باب ٣٠‘ مسند احمد ٢؍٢٢٨‘ ٢٥٤؍٢٨٥‘ ٤٠٦؍٤١١‘ ٤٥٤؍٤٧٥‘ ٥؍٣٢٧۔
لغات : العجماء۔ حیوان۔ جبار۔ تاوان نہ ہوگا۔

4955

۴۹۵۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ لَہُ السَّائِلُ : یَا أَبَا مُحَمَّدٍ مَعَہُ أَبُوْ سَلْمَۃَ ؟ فَقَالَ : اِنْ کَانَ مَعَہُ فَہُوَ مَعَہٗ۔
٤٩٥٤: سعید نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے ان کو سائل نے کہا۔ اے ابو محمد ! کیا سعید کے ساتھ ابو سلمہ نے بھی روایت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر وہ ان کے ساتھ ہیں تو پھر ساتھ ہیں۔

4956

۴۹۵۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٩٥٥: عبداللہ بن عبداللہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4957

۴۹۵۶: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوْ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٩٥٦: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4958

۴۹۵۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٤٩٥٧: عبدالوہاب بن عطاء نے محمد بن عمرو سے روایت کی ہے۔ پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

4959

۴۹۵۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٤٩٥٨: ابن سیرین نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4960

۴۹۵۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔،
٤٩٥٩: محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

4961

۴۹۶۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٤٩٦٠: محمد بن زیاد نے نقل کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

4962

۴۹۶۱: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ ذَکْوَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ یَرْفَعُہُ مِثْلَہٗ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَصَابَتِ الْعَجْمَائُ جُبَارًا وَالْجُبَارُ : ہُوَ الْہَدَرُ فَنَسَخَ ذٰلِکَ مَا تَقَدَّمَ مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُحَیِّصَۃَ وَاِنْ کَانَ مُنْقَطِعًا لَا یَکُوْنُ - بِمِثْلِہِ عِنْدَ الْمُحْتَجِّ بِہٖ - عَلَیْنَا حُجَّۃٌ .وَاِنْ کَانَ الْأَوْزَاعِیُّ قَدْ وَصَلَہٗ فَاِنَّ مَالِکًا وَالْأَثْبَاتُ مِنْ أَصْحَابِ الزُّہْرِیِّ قَدْ قَطَعُوْھُ .وَمَعَ ذٰلِکَ فَاِنَّ الْحُکْم الْمَذْکُوْرَ فِیْہِ مَأْخُوْذٌ مِنْ حُکْمِ سُلَیْمَانَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الْحَرْثِ اِنْ نَفَشَتْ فِیْہِ الْغَنَمُ .فَحَکَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ الْحُکْمِ حَتّٰی أَحْدَثَ اللّٰہُ لَہٗ ہٰذِہِ الشَّرِیْعَۃَ فَنَسَخَتْ مَا قَبْلَہَا .فَمَا دَلَّ عَلٰی ہَذَا الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ جَابِرٍ وَأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ بَعْدَمَا فِیْ حَدِیْثِ حَرَامِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ مِنْ قَوْلِہٖ فَقَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلٰی أَہْلِ الْمَوَاشِیْ حِفْظَ مَوَاشِیْہِمْ بِاللَّیْلِ وَعَلٰی أَہْلِ الزَّرْعِ حِفْظَ زَرْعِہِمْ بِالنَّہَارِ .فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَاشِیَۃَ اِذَا کَانَ عَلٰی رَبِّہَا حِفْظُہَا مَضْمُوْنًا مَا أَصَابَتْ وَاِذَا لَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا حِفْظُہَا غَیْرَ مَضْمُوْنٍ مَا أَصَابَتْ فِیْ ذٰلِکَ ضَمَانٌ فَأَوْجَبَ فِیْ ذٰلِکَ ضَمَانَ مَا أَصَابَ الْمُنْفَلِتَۃُ بِاللَّیْلِ اِذْ کَانَ عَلٰی صَاحِبِہَا حِفْظُہَا .ثُمَّ قَالَ فِیْ حَدِیْثِ الْعَجْمَائُ جَرْحُہَا جُبَارٌ فَکَانَ مَا أَصَابَتْ فِی انْفِلَاتِہَا جُبَارًا فَصَارَتْ لَوْ ہَدَمَتْ حَائِطًا أَوْ قَتَلَتْ رَجُلًا لَمْ یَضْمَنْ صَاحِبُہَا شَیْئًا وَاِنْ کَانَ عَلَیْہِ حِفْظُہَا حَتّٰی لَا تَنْفَلِتَ اِذَا کَانَتْ مِمَّا یَخَافُ عَلَیْہِ مِثْلَ ہَذَا فَلَمَّا لَمْ یُرَاعِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وُجُوْبَ حِفْظِہَا عَلَیْہِ وَرَاعَی انْفِلَاتَہَا فَلَمْ یُضَمِّنْہُ فِیْہَا شَیْئًا مِمَّا أَصَابَتْ رَجَعَ الْأَمْرُ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی اسْتِوَائِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا أَصَابَتْ لَیْلًا أَوْ نَہَارًا اِذَا کَانَتْ مُنْفَلِتَۃً فَلَا ضَمَانَ عَلٰی رَبِّہَا فِیْہِ وَاِنْ کَانَ ہُوَ سَیَّبَہَا فَأَصَابَتْ شَیْئًا فِیْ فَوْرِہَا أَوْ فِیْ سَیْبِہَا ضَمِنَ ذٰلِکَ کُلَّہٗ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ وَہُوَ أَوْلَی مَا حُمِلَتْ عَلَیْہِ ہٰذِہِ الْآثَارُ لِمَا ذَکَرْنَا وَبَیَّنَّا .
٤٩٦١: عبدالرحمن بن اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے مرفوع روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کا تاوان معاف کیا ہے جس کو جانور نقصان پہنچائیں جبار باطل اور معاف کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے ابو محیصہ (رض) کی روایت میں مذکور تاوان منسوخ ہوگیا۔ اگر وہ روایت سند کے لحاظ سے منقطع ہے تو اس قسم کی روایت سے ہمارے خلاف استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اوزاعی نے اس کو اتصال سے بیان کیا ہے مگر اصحاب زہری اور امام مالک اور ان کے پختہ شاگردوں نے اس کو انقطاع سے بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ یہ حکم حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حرث والے فیصلہ سے ماخوذ ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی سے یہ فیصلہ فرمایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ شریعت محمدیہ کا یہ نیا حکم اتار کر سابقہ کو منسوخ کردیا۔ اس پر دلالت حضرت جابر اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایات کر رہی ہیں کہ یہ روایات حرام بن محیصہ کی روایت کے بعد ہیں ابن محیصہ کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اہل مویشی پر رات کو ان کی حفاظت لازم ہے اور کھیتی والوں پر دن کے وقت کھیتی کی حفاظت ضروری ہے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مویشیوں کے نقصان کو مالک کے لیے اس صورت میں قابل تاوان قرار دیا جبکہ ان کے مالکوں پر ان کی حفاظت لازم ہو اور اگر ان پر ان کی حفاظت ضروری نہ ہو تو نقصان ناقابل تاوان ہوگا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت کھلے رہنے والے جانوروں کے پہنچائے ہوئے نقصان کو قابل تاوان قرار دیا کیونکہ ان کے مالکوں کو ان کی حفاظت لازم قرار دی گئی پھر دوسرے ارشاد میں فرمایا جانوروں کا کیا ہوا نقصان معاف ہے اور اب ان کے کھلے رہنے کی صورت میں نقصان معاف ہوگا فلہذا اب وہ اگر باغ اجاڑ دیں یا کسی شخص کو ہلاک کردیں تو ان کا مالک کسی چیز کا ضامن نہ ہوگا۔ اگرچہ مالک پر ان کی حفاظت ضروری تھی کہ وہ ان کو کھلے نہ چھوڑے جب کہ ان سے اس قسم کا خطرہ ہو۔ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں ان کی حفاظت کے ضروری ہونے کی رعایت نہیں فرمائی بلکہ جانوروں کے کھلے رہنے کی رعایت فرمائی کہ وہ کسی نقصان کے ضامن نہ ہوں گے تو اس سلسلے میں دن رات کا معاملہ برابر ہوا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جانور کھلے ہوں تو رات کو نقصان پہنچائیں یا دن کو ان کے مالکوں پر کوئی تاوان نہ ہوگا اور اگر (جانور بندھے ہوئے تھے اور) مالک نے خود چھوڑا اور وہ اس وقت یا بعد میں کھلے رہنے کی صورت میں کچھ کھا گئے۔ تو مالک اس تمام نقصان کا تاوان ادا کرے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ ان تمام روایات کو اس معنی پر محمول کرنا جو کہ ہم نے بیان کیا ہے زیادہ بہتر ہے۔
طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کا تاوان معاف کیا ہے جس کو جانور نقصان پہنچائیں جبار باطل اور معاف کرنے کو کہتے ہیں۔
نمبر 1: اس سے ابو محیصہ (رض) کی روایت میں مذکور تاوان منسوخ ہوگیا۔
نمبر 2: اگر وہ روایت سند کے لحاظ سے منقطع ہے تو اس قسم کی روایت سے ہمارے خلاف استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اوزاعی نے اس کو اتصال سے بیان کیا ہے مگر اصحاب زہری اور امام مالک اور ان کے پختہ شاگردوں نے اس کو انقطاع سے بیان کیا ہے۔
نمبر 3: اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ یہ حکم حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حرث والے فیصلہ سے ماخوذ ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی سے یہ فیصلہ فرمایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ شریعت محمدیہ کا یہ نیا حکم اتار کر سابقہ کو منسوخ کردیا۔ اس پر دلالت حضرت جابر اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایات کر رہی ہیں کہ یہ روایات حرام بن محیصہ کی روایت کے بعد ہیں ابن محیصہ کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اہل مویشی پر رات کو ان کی حفاظت لازم ہے اور کھیتی والوں پر دن کے وقت کھیتی کی حفاظت ضروری ہے۔
تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مویشیوں کے نقصان کو مالک کے لیے اس صورت میں قابل تاوان قرار دیا جبکہ ان کے مالکوں پر ان کی حفاظت لازم ہو اور اگر ان پر ان کی حفاظت ضروری نہ ہو تو نقصان ناقابل تاوان ہوگا۔
تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کے وقت کھلے رہنے والے جانوروں کے پہنچائے ہوئے نقصان کو قابل تاوان قرار دیا کیونکہ ان کے مالکوں کو ان کی حفاظت لازم قرار دی گئی پھر دوسرے ارشاد میں فرمایا جانوروں کا کیا ہوا نقصان معاف ہے اور اب ان کے کھلے رہنے کی صورت میں نقصان معاف ہوگا فلہذا اب وہ اگر باغ اجاڑ دیں یا کسی شخص کو ہلاک کردیں تو ان کا مالک کسی چیز کا ضامن نہ ہوگا۔ اگرچہ مالک پر ان کی حفاظت ضروری تھی کہ وہ ان کو کھلے نہ چھوڑے جب کہ ان سے اس قسم کا خطرہ ہو۔
نوٹ : جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں ان کی حفاظت کے ضروری ہونے کی رعایت نہیں فرمائی بلکہ جانوروں کے کھلے رہنے کی رعایت فرمائی کہ وہ کسی نقصان کے ضامن نہ ہوں گے تو اس سلسلے میں دن رات کا معاملہ برابر ہوا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جانور کھلے ہوں تو رات کو نقصان پہنچائیں یا دن کو ان کے مالکوں پر کوئی تاوان نہ ہوگا اور اگر (جانور بندھے ہوئے تھے اور) مالک نے خود چھوڑا اور وہ اس وقت یا بعد میں کھلے رہنے کی صورت میں کچھ کھا گئے۔ تو مالک اس تمام نقصان کا تاوان ادا کرے گا۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ ان تمام روایات کو اس معنی پر محمول کرنا جو کہ ہم نے بیان کیا ہے زیادہ بہتر ہے۔
حاصل روایت : کھلے رہنے والے جانور کے نقصان کو ہدر قرار دیا گیا ہے اور جس جانور کو خود چھوڑا جائے اس کے نقصان کا مالک تاوان بھرے گا امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثانی کی طرف ہے البتہ یہ باب نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے۔

4963

۴۹۶۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ امْرَأَتَیْنِ مِنْ ہُذَیْلٍ رَمَتْ اِحْدَاہُمَا الْأُخْرَی فَطَرَحَتْ جَنِیْنَہَا فَقَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغُرَّۃِ عَبْدٍ أَوْ وَلِیْدَۃٍ .
٤٩٦٢: ابو مسلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو گرایا تو اس کا حمل گرگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں ایک غلام یا لونڈی (دینے) کا فیصلہ فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الفرائض باب ١١‘ الدیات باب ٢٥؍٢٦‘ الطب باب ٤٦‘ مسلم فی القسامہ باب ٣٤؍٣٨‘ ابو داؤد فی الدیات باب ١٩‘ ترمذی فی الدیات باب ١٥‘ والفرائض باب ١٩‘ نسائی فی القسامۃ باب ٣٩؍٤٠‘ ابن ماجہ فی الفرائض باب ١١‘ دارمی فی الفرائض باب ٢٠‘ مالک فی العقول ٦‘ مسند احمد ١‘ ٣٦٤‘ ٣٩٨؍٥٣٩‘ ٤‘ ٨٠؍٢٥٣‘ ٥؍٣٢٦۔

4964

۴۹۶۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ عَنْ أَبِیْھَاعَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ جَنِیْنِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِیْ لِحْیَانَ سَقَطَ مَیِّتًا بِغُرَّۃٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ وَأَنَّ الَّتِی قَضَیْ عَلَیْہَا بِالْغُرَّۃِ تُوُفِّیَتْ فَقَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ مِیْرَاثَہَا لِبَنِیْہَا وَزَوْجِہَا وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَی عَصَبَتِہَا .
٤٩٦٣: حضرت سعید بن المسیب نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو لحیان کی ایک عورت کے جنین کے بارے میں جو گرگیا ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ فرمایا اور وہ عورت بھی مرگئی تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کے بیٹوں اور خاوند کو ملے گی اور اس کی دیت (قاتلہ کے) رشتہ داروں کے ذمہ ہوگی۔
تخریج : بخاری فی الفرائض باب ١١‘ مسلم فی القسامۃ ٣٥‘ ابو داؤد فی الدیات باب ١٩‘ ترمذی فی الفرائض باب ١٩‘ نسائی فی القسامۃ باب ٤٠؍٤١‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ١٥‘ مسند احمد ٢؍٥٣٩۔
لغات : غرۃ۔ عمدہ مال۔ گھوڑا ‘ اونٹ ‘ غلام ‘ لونڈی۔ العقل۔ تاوان۔ الجنین۔ پیٹ کا حمل۔

4965

۴۹۶۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَضَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَنِیْنِ بِغُرَّۃٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ .فَقَالَ الَّذِیْ قَضَیْ عَلَیْہِ أَنَعْقِلُ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَکَلَ وَلَا صَاحَ فَاسْتَہَلَّ فَمِثْلُ ذٰلِکَ یُطَلُّ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ ہَذَا یَقُوْلُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ، فِیْہِ غُرَّۃٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَۃٌ .
٤٩٦٤: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرنے والے حمل کے متعلق ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ فرمایا ہے تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ کھایا نہ پیا نہ چیخا نہ چلایا تو ایسا خون معاف ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا یہ شاعرانہ بات کررہا ہے۔ اس کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے۔
تخریج : ترمذی فی الدیات باب ١٥‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ١١‘ مسند احمد ٢؍٤٩٨۔
بقول شاعر۔ یعنی یہ شاعرانہ تک بندی ہے جو ناقابل توجہ ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔