HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

21. شفعہ کا بیان۔

الطحاوي

5850

۵۸۴۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہٗ، أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَۃُ فِیْ کُلِّ شِرْکٍ بِأَرْضٍ أَوْ رَبْعٍ أَوْ حَائِطٍ لَا یَصْلُحُ أَنْ یَبِیْعَ حَتّٰی یَعْرِضَ عَلَی شَرِیْکِہِ فَیَأْخُذَ أَوْ یَدَعَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الشُّفْعَۃَ لَا تَکُوْنُ اِلَّا بِالشَّرِکَۃِ فِی الْأَرْضِ أَوْ الْحَائِطِ أَوْ الرَّبْعِ وَلَا یَجِبُ بِالْجِوَارِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : الشُّفْعَۃُ فِیْمَا وَصَفْتُمْ وَاجِبَۃٌ لِلشَّرِیْکِ الَّذِی لَمْ یُقَاسِمْ ثُمَّ ہِیَ مِنْ بَعْدِہِ وَاجِبَۃٌ لِلشَّرِیْکِ الَّذِی قَاسَمَ بِالطَّرِیْقِ الَّذِی قَدْ بَقِیَ لَہٗ فِیْہِ الشِّرْکُ ثُمَّ ہِیَ مِنْ بَعْدِہِ وَاجِبَۃٌ لِلْجَارِ الْمُلَازِقِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا الْأَثَرَ اِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الشُّفْعَۃُ فِیْ کُلِّ شِرْکٍ بِأَرْضٍ أَوْ رَبْعٍ أَوْ حَائِطٍ .وَلَمْ یَقُلْ : اِنَّ الشُّفْعَۃَ لَا تَکُوْنُ اِلَّا فِیْ کُلِّ شِرْکٍ فَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ نَفْیًا أَنْ یَکُوْنَ الشُّفْعَۃُ وَاجِبَۃً بِغَیْرِ الشِّرْکِ .وَلٰـکِنَّہٗ اِنَّمَا أَخْبَرَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہَا وَاجِبَۃٌ فِیْ کُلِّ شِرْکٍ وَلَمْ یَنْفِ أَنْ تَکُوْنَ وَاجِبَۃً فِیْ غَیْرِہِ وَقَدْ جَائَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ زَادَ عَلَی مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٥٨٤٩: ابوالزبیر نے خبر دی کہ انھوں نے جابر (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شفعہ کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے جو زمین یا مکان یا باغ میں شریک ہو۔ اس کو فروخت کرنا جائز نہیں یہاں تک کہ وہ اپنے شریک پر پیش کرے پھر وہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ شفعہ صرف زمین ‘ باغ یا مکان میں شراکت کی صورت میں جائز ہے پڑوس سے لازم نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا تمہارے کہنے کے مطابق شفعہ صرف اس شراکت میں ثابت ہوگا جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ پھر دوسرے اس شریک کو حق ہوگا جس نے اس راستہ کی تقسیم کی ہو جس میں شراکت باقی ہے پھر اس کے بعد متصل پڑوسی کو حاصل ہوگا۔ تمہارے بیان کردہ اثر میں صرف اس قدر ہے کہ شفعہ مشترک زمین ‘ مکان یا باغ میں ہے یہ تو نہیں کہا گیا کہ انہی میں ہے اور دوسروں میں نہ ہوگا ہر شراکت میں اس کا وجوب ثابت ہوا ‘ اس کے علاوہ میں وجوب کی نفی نہیں اور حضرت جابر (رض) کی روایت دوسرے طریق سے وارد ہے اس میں اضافہ موجود ہے۔
تخریج : مسلم فی المساقات ١٣٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٧٣‘ نسائی فی البیوع باب ٨٠؍١٠٩‘ مسند احمد ٣؍٣١٦۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ شفعہ صرف زمین ‘ باغ یا مکان میں شراکت کی صورت میں جائز ہے پڑوس سے لازم نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : تمہارے کہنے کے مطابق شفعہ صرف اس شراکت میں ثابت ہوگا جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ پھر دوسرے اس شریک کو حق ہوگا جس نے اس راستہ کی تقسیم کی ہو جس میں شراکت باقی ہے پھر اس کے بعد متصل پڑوسی کو حاصل ہوگا۔
فریق اول کا جواب : تمہارے بیان کردہ اثر میں صرف اس قدر ہے کہ شفعہ مشترک زمین ‘ مکان یا باغ میں ہے یہ تو نہیں کہا گیا کہ انہی میں ہے اور دوسروں میں نہ ہوگا ہر شراکت میں اس کا وجوب ثابت ہوا اس کے علاوہ میں وجوب کی نفی نہیں اور حضرت جابر (رض) کی روایت دوسرے طریق سے وارد ہے اس میں اضافہ موجود ہے۔
دوسری سند سے روایت جابر (رض) :
شفعہ کا معنی کسی شئی کو مثل سے ملانا اور فقہ میں شراکت یا پڑوس کی وجہ سے بتکلف کسی چیز کے ملانے کا دعویٰ کرنا۔ اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ ! جو پڑوسی خرید کی گئی زمین میں شریک نہیں اس کے لیے شفع کا کوئی حق نہیں اس قول کو امام مالک (رح) و شافعی (رح) اور احمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔ " شرکت جو ار کی وجہ سے بھی شفعہ ہے یہ ائمہ احناف کا قول ہے۔
تخریج : کذا فی البذل ج ٤‘ ٢٩١‘ والاشعۃ ج ٢‘ ٦٢۔

5851

۵۸۵۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَۃِ جَارِہِ فَاِنْ کَانَ غَائِبًا انْتَظَرَ اِذَا کَانَ طَرِیْقُہُمَا وَاحِدًا .
٥٨٥٠: عطاء بن ابی رباح نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پڑوسی اپنے پڑوسی پر شفعہ کا زیادہ حق رکھتا ہے اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٧٣‘ ابن ماجہ فی الشفعہ باب ٢‘ مسند احمد ٣؍٣٥٣۔

5852

۵۸۵۱: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ قَالَ : ثَنَا عَطَائٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٥٨٥١: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5853

۵۸۵۲: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِیجَابُ الشُّفْعَۃِ فِی الْبَیْعِ الَّذِی لَا شِرْکَ فِیْہِ بِالشِّرْکِ فِی الطَّرِیْقِ فَلَا یُجْعَلُ وَاحِدٌ مِنْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ مُضَادًّا لِلْحَدِیْثِ الْآخَرِ وَلٰـکِنْ یَثْبُتَانِ جَمِیْعًا وَیُعْمَلُ بِہِمَا .فَیَکُوْنُ حَدِیْثُ أَبِی الزُّبَیْرِ فِیْہِ اِخْبَارٌ عَنْ حُکْمِ الشُّفْعَۃِ لِلشَّرِیْکِ فِی الَّذِی بِیْعَ مِنْہُ مَا بِیْعَ .وَحَدِیْثُ عَطَائٍ فِیْ ذٰلِکَ اِخْبَارٌ عَنْ حُکْمِ الشُّفْعَۃِ فِی الْمَبِیْعِ الَّذِی لَا شَرِکَۃَ لِأَحَدٍ فِیْہِ بِالطَّرِیْقِ .وَقَالَ أَصْحَابُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : فَاِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَنْفِیْ مَا ادَّعَیْتُمْ .
٥٨٥٢: عطاء نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس روایت میں مبیع میں حق شفعہ کو لازم کیا گیا ہے۔ جس کو صرف راستہ کی شرکت کے علاوہ شرکت حاصل نہ ہو پس ان دونوں روایات کا باہمی تضاد نہیں بلکہ دونوں ثابت ہو کر واجب العمل ہیں۔ ابوالزبیر والی روایت میں شریک کے لیے شفعہ کے حق کا ثبوت ہے جس میں سے جو فروخت ہوا سو فروخت ہوا۔ روایت عطاء میں اس مبیع کا ذکر ہے جس میں راستہ کی شرکت ہو۔ فریق اول نے اپنے مؤقف کے لیے ان روایات سے استدلال کیا ہے جو فریق ثانی کے مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔
فریق اوّل کا ایک استدلال :
فریق اول نے اپنے مؤقف کے لیے ان روایات سے استدلال کیا ہے جو فریق ثانی کے مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔

5854

۵۸۵۳: فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ مَالِکٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیْدٍ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِیْمَا لَمْ یُقْسَمْ فَاِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ فَلَا شُفْعَۃَ .
٥٨٥٣: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفعہ کا فیصلہ اس زمین میں فرمایا جو تقسیم نہیں کی گئی جب حدود متعین ہوجائیں تو کوئی شفعہ کا حق نہیں۔
تخریج : بخاری فی الشفعہ باب ١‘ مسلم فی المساقاۃ ١٣٤‘ نسائی فی البیوع باب ١٠٩‘ ابن ماجہ فی الشفعہ باب ٣٠‘ مالک فی الشفعہ ١‘ مسند احمد ٣؍٣٩٩۔

5855

۵۸۵۴: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ مَالِکٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ مِثْلَہٗ۔
٥٨٥٤: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5856

۵۸۵۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی قَتِیْلَۃَ الْمَدَنِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیْدٍ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ مِثْلَہٗ۔
٥٨٥٥: سعید اور ابو سلمہ دونوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5857

۵۸۵۶: حَدَّثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ الْمَاجِشُوْنِ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَنَفَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَنْ تَکُوْنَ الشُّفْعَۃُ تَجِبُ اِذَا حُدَّتِ الْحُدُوْدُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ - عَلٰی أَصْلِ الْمُحْتَجِّ بِہٖ عَلَیْنَا - لَا یَجِبُ بِہٖ حُجَّۃٌ لِأَنَّ الْأَثْبَاتَ مِنْ أَصْحَابِ مَالِکٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اِنَّمَا رَوَوْہُ عَنْ مَالِکٍ مُنْقَطِعًا لَمْ یَرْفَعُوْھُ اِلٰی أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٥٨٥٦: عبدالملک بن عبدالعزیز ماجشون نے مالک سے انھوں نے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ حد بندی کیے جانے تک شفعہ ہے جب حد بندی کردی گئی تو شفعہ کا موقع ختم ہوگیا۔ اس روایت سے استدلال تب درست ہوتا جب کہ یہ روایت ثابت ہوتی امام مالک (رح) نے اس کو منقطع نقل کیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) تک اتصال ثابت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو۔
طریق استدلال : حد بندی کردینے جانے تک شفعہ ہے جب حد بندی کردی گئی تو شفعہ کا موقعہ ختم۔
جواب : اس روایت سے استدلال تب درست ہوتا جب کہ یہ روایت ثابت ہوتی امام مالک (رح) نے اس کو منقطع نقل کیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) تک اتصال ثابت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو۔

5858

۵۸۵۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ وَالْقَعْنَبِیُّ قَالَا : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِیْمَا لَمْ یُقْسَمْ فَاِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ فَلَا شُفْعَۃَ .
٥٨٥٧: ابن شہاب نے سعید بن مسیب سے روایت کی انھوں نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا جس کو تقسیم نہ کیا گیا تھا جب حدود لگا دی جائیں تو شفعہ نہیں ہے۔
تخریج : روایت ٥٨٥٤ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

5859

۵۸۵۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ مِثْلَہٗ۔فَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ مَقْطُوْعًا وَالْمَقْطُوْعُ - عِنْدَہُمْ - لَا تَقُوْمُ بِہٖ حُجَّۃٌ .ثُمَّ لَوْ ثَبَتَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ وَاتَّصَلَ اِسْنَادُہُ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ - عِنْدَنَا - مَا یُخَالِفُ الْحَدِیْثَ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .لِأَنَّ الَّذِیْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِنَّمَا ہُوَ قَوْلُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِیْمَا لَمْ یُقْسَمْ .فَکَانَ بِذٰلِکَ مُخْبِرًا عَمَّا قَضٰی بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ فَلَا شُفْعَۃَ وَکَانَ ذٰلِکَ قَوْلًا مِنْ رَأْیِہِ لَمْ یَحْکِہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَاِنَّمَا یَکُوْنُ ہٰذَا الْحَدِیْثُ حُجَّۃً عَلَی مَنْ ذَہَبَ اِلَی وُجُوْبِ الشُّفْعَۃِ بِالْجِوَارِ لَوْ کَانَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الشُّفْعَۃُ فِیْمَا لَمْ یُقْسَمْ فَاِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ فَلَا شُفْعَۃَ .فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ نَفْیًا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَا قَدْ قُسِمَ أَنْ تَکُوْنَ فِیْہِ الشُّفْعَۃُ .وَلٰـکِنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِنَّمَا أَخْبَرَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلِمَہٗ مِنْ قَضَائِہِ ثُمَّ نَفَی الشُّفْعَۃَ بِرَأْیِہِ بِمَا لَمْ یَعْلَمْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ حُکْمًا وَعَلِمَہُ غَیْرُہٗ۔ ثُمَّ قَدْ رَوَی مَعْمَرٌ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنِ الزُّہْرِیِّ فَخَالَفَ مَالِکًا فِیْ مَتْنِہِ وَفِیْ اِسْنَادِہٖ۔
٥٨٥٨: مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے ابن مسیب اور ابی سلمہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ جب اس روایت کا مقطوع ہونا ثابت ہوگیا تو فریق اول کے ہاں مقطوع قابل حجت نہیں۔ بالفرض اگر یہ روایت متصل سند سے ثابت ہوجائے تو پھر بھی اس میں ہماری روایت کے خلاف کوئی دلیل نہیں جو کہ ہم عطاء عن جابر (رض) نقل کر آئے ہیں کیونکہ اس روایت میں ابوہریرہ (رض) کا قول ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر تقسیم شدہ میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا۔ تو اس سے انھوں نے اس بات کی اطلاع دی ہے جو کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا پھر اس میں فرمایا اذا وقعت الحدود فلا شفعۃ “ اور ان کا اجتہادی قول ہے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ نقل کیا نہ نسبت کی۔ اس روایت کو اس وقت ان لوگوں کے خلاف دلیل میں پیش کیا جاسکتا ہے جو پڑوس کی وجہ سے حق شفعہ کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ اس طرح فرمایا ہوتا کہ شفعہ اس میں ہے جو تقسیم نہ ہوا ہو۔ جب حدود قائم کردی گئیں اس وقت شفعہ نہیں ہے۔ تو اس صورت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے منقسم چیز میں شفعہ نہ ہونے کی نفی ہوتی۔ لیکن ابوہریرہ (رض) نے یہاں اس فیصلے کی اطلاع دی جو انھوں نے معلوم کیا۔ پھر انھوں نے اپنی رائے و اجتہاد سے شفعہ کی نفی کی جس کا انھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے علم حاصل نہ ہوا اور دوسرے حضرات کو معلوم ہوا۔ اس روایت کو معمر نے زہری سے روایت کیا مگر وہ روایت متن و سند دونوں کے لحاظ سے امام مالک سے مختلف ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5860

۵۸۵۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادَۃَ قَالَ : ثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِیْ کُلِّ مَا لَمْ یُقْسَمْ فَاِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ وَصُرِفَتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَۃَ .
٥٨٥٩: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر غیر منقسم چیز کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ جب اس کی حدود مقرر ہوجائیں اور راستے پھیر دیئے جائیں تو اب شفعہ نہیں ہوسکتا۔
تخریج : بخاری فی الحبل باب ١٤‘ والشر کہ باب ٨؍٩‘ والشفعہ باب ١‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٧٣‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٣‘ نسائی فی البیوع باب ١٠٩‘ ابن ماجہ فی الشفعہ باب ٣‘ مالک فی الشفعہ ١؍٤‘ مسند احمد ٣‘ ٢٩٦؍٣٩٩۔

5861

۵۸۶۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ نَفْیُ الشُّفْعَۃِ بَعْدَ وُقُوْعِ الْحُدُوْدِ وَصَرْفِ الطُّرُقِ وَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی ثُبُوْتِہَا قَبْلَ صَرْفِ الطُّرُقِ وَاِنْ حُدَّتِ الْحُدُوْدُ .فَقَدْ وَافَقَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ حَدِیْثَ عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ وَزَادَ عَلٰی مَا رَوَی مَالِکٌ فَہُوَ أَوْلَی مِنْہُ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا حَدِیْثُ مَالِکٍ أَنْ یَکُوْنَ عَنِیَ بِوُقُوْعِ الْحُدُوْدِ الَّتِیْ نُفِیَتْ بِوُقُوْعِہَا الشُّفْعَۃُ فِی الدُّوْرِ وَالطُّرُقِ .فَیَکُوْنُ الْمَبِیْعُ لَا شِرْکَ لِأَحَدٍ فِیْہِ وَلَا فِیْ طَرِیْقِہٖ۔ فَیَکُوْنُ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِثْلَ مَعْنَیْ حَدِیْثِ مَعْمَرٍ وَہُوَ أَوْلَی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ وَہُوَ وَحَدِیْثُ مَعْمَرٍ .وَقَدْ رَوَی ابْنُ جُرَیْجٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ مَا یُوَافِقُ مَا رَوَی مَعْمَرٌ .
٥٨٦٠: عبدالرزاق نے معمر سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں حدود کے واقع ہو چکنے کے بعد شفعہ کی نفی ہے اسی طرح راستوں کے مختلف کردینے کے بعد نفی شفعہ ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ راستے مختلف کرنے سے پہلے خواہ حد بندی ہوجائے شفعہ درست ہے اور عبدالملک نے عطاء سے جو روایت کی ہے وہ اس کے موافق ہے اور مالک (رح) کی روایت پر اضافہ ہے۔ پس وہ اس سے اولیٰ ہے۔ اگرچہ روایت مالک (رح) میں یہ احتمال بھی ہے کہ مکانات اور راستوں کی جس حد بندی سے شفعہ کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسا مبیع ہے جس میں کسی کی شرکت نہیں اسی طرح راستہ میں بھی شرکت نہ ہو۔ تو اس طرح اس روایت کا مفہوم روایت معمر کی طرح ہوگیا اور اس معنی پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ بلکہ ابن جریج نے خود زہری سے ایسی روایت نقل کی ہے جو معمر کی روایت کے موافق ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5862

۵۸۶۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا حُدَّتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَۃَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْتُ وُجُوْبَ الشُّفْعَۃِ بِالشَّرِکَۃِ فِی الدُّوْرِ وَالْأَرْضِیْنَ وَبِالشِّرْکِ فِی الطَّرِیْقِ اِلَی ذٰلِکَ فَمِنْ أَیْنَ أَوْجَبْت الشُّفْعَۃَ بِالْجِوَارِ ؟ قِیْلَ لَہٗ : أَوْجَبْتُہَا
٥٨٦١: ابن شہاب نے ابن مسیب سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب راستوں کی حد بندی کردی جائے تو اس وقت شفعہ نہیں ہے۔ جیسا کہ تم نے ذکر کیا شفعہ شرکت فی المکان اور زمین اور شرکت راہ سے تو لازم ہوتا ہے یہ جوار والا شفعہ کہاں سے نکال لیا۔ ان روایات سے واجب ہوا ہے۔
تخریج : نسائی فی البیوع باب ١٠٩‘ متغیر یسیر من الالفاظ۔
سوال : جیسا کہ تم نے ذکر کیا شفعہ شرکت فی المکان اور نومین اور شرکت راہ سے تو لازم ہوتا ہے یہ جوار والا شفعہ کہاں سے نکال لیا۔
جواب : ان روایات سے واجب ہوا ہے۔

5863

۵۸۶۲: بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَحْرٍ الْقَطَّانُ وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ قَالَا : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ .
٥٨٦٢: قتادہ نے انس (رض) سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھر کا پڑوسی وہ گھر کا زیادہ حقدار ہے۔
تخریج : ترمذی فی الاحکام باب ٣١؍٣٣‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٧٣‘ مسند احمد ٤‘ ٣٨٨؍٣٩٠‘ ٥‘ ٣٣‘ ٨؍١٢۔

5864

۵۸۶۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَلِیٌّ وَأَحْمَدُ قَالَا : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِشُفْعَۃِ الدَّارِ .
٥٨٦٣: قتادہ نے انس (رض) سے انھوں نے سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھر کا پڑوسی وہ گھر کے شفعہ کا زیادہ حق رکھتا ہے۔

5865

۵۸۶۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٨٦٤: ہمام نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

5866

۵۸۶۵: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَأَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٨٦٥: شعبہ نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5867

۵۸۶۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ وَقَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ وَلَمْ یَذْکُرْ سَمُرَۃُ
٥٨٦٦: حمید و قتادہ سے انھوں نے حسن سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ اس میں سمرہ کا تذکرہ نہیں ہے۔

5868

۵۸۶۷: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ ح .
٥٨٦٧: ابن ابی عمران نے احمد بن جناب سے روایت کی ہے۔

5869

۵۸۶۸: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَحْرٍ وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ قَالَا : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ یُوْنُسَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٨٦٨: یونس نے حسن سے انھوں نے سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5870

۵۸۶۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ہُوَ الثَّوْرِیُّ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنِ الْحَکَمِ عَمَّنْ سَمِعَ عَلِیًّا وَعَبْدَ اللّٰہِ یَقُوْلَانِ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجِوَارِ .
٥٨٦٩: حکم نے اس سے روایت کی جس نے علی و عبداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمسائیگی سے (شفعہ کا) فیصلہ فرمایا۔ یہ روایات ثابت کر رہی ہیں کہ ہمسائیگی سے شفعہ لازم ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ یہ پڑوسی شریک ہو اس لیے کہ شریک کو جار کہا جاتا ہے۔ حدیث میں تو کوئی چیز ایسی نہیں جو اس پر دلالت کرے جو آپ نے ذکر کی لیکن ابو رافع سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پڑوسی ہے جو کہ شریک نہ تھا۔
تخریج : نسائی فی البیوع باب ١٠٩‘ ابن ماجہ فی الشفعہ باب ٢‘ بتغیر یسیر من اللفظ۔

5871

۵۸۷۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ حَیَّانَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ وُجُوْبُ الشُّفْعَۃِ بِالْجِوَارِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہٰذَا الْجَارُ شَرِیْکًا فَاِنَّہٗ قَدْ یُقَالُ لِلشَّرِیْکِ جَارٌ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِی الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْتُ وَلٰـکِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْجَارَ ہُوَ الَّذِی لَا شَرِکَۃَ لَہٗ۔
٥٨٧٠: ابو حیان نے اپنے والد سے انھوں نے عمرو بن حریث سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
حاصل کلام : یہ روایات ثابت کر رہی ہیں کہ ہمسائیگی سے شفعہ لازم ہے۔
سوال : یہ عین ممکن ہے کہ یہ پڑوسی شریک ہو اس لیے کہ شریک کو جار کہا جاتا ہے۔
جواب : حدیث میں تو کوئی چیز ایسی نہیں جو اس پر دلالت کرے جو آپ نے ذکر کی لیکن ابو رافع سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پڑوسی ہے جو کہ شریک نہ تھا۔

5872

۵۸۷۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِیْدِ قَالَ : أَتَانِی الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی أَحَدِ مَنْکِبَیْ فَقَالَ : انْطَلِقْ بِنَا اِلٰی سَعْدٍ .فَأَتَیْنَا سَعْدَ بْنَ أَبِیْ وَقَّاصٍ فِیْ دَارِہِ فَجَائَ أَبُو رَافِعٍ فَقَالَ لِلْمِسْوَرِ : أَلَا تَأْمُرْ ہٰذَا ؟ یَعْنِی : سَعْدًا أَنْ یَشْتَرِیَ مِنِّیْ بَیْتَیْنِ فِیْ دَارِی .فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللّٰہِ لَا أَزِیْدُک عَلٰی أَرْبَعِ مِائَۃِ دِیْنَارٍ مُقَطَّعَۃٍ أَوْ مُنَجَّمَۃٍ .فَقَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ لَقَدْ أُعْطِیتُ بِہٖ خَمْسَ مِائَۃِ دِیْنَارٍ نَقْدًا وَلَوْلَا أَنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِہٖ مَا بِعْتُک .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ ذٰلِکَ الْجَارَ الَّذِیْ عَنَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ الْجَارُ الَّذِیْ تَعْرِفُہُ الْعَامَّۃُ وَمَنْ أَعْطَاکَ أَنَّ الشَّرِیْکَ یُقَالُ لَہٗ : جَارٌ ؟ وَأَیْنَ وَجَدْت ہٰذَا فِیْ لُغَاتِ الْعَرَبِ ؟ فَاِنْ قَالَ : لِأَنِّیْ قَدْ رَأَیْتُ الْمَرْأَۃَ تُسَمَّی جَارَۃَ زَوْجِہَا .قِیْلَ لَہٗ : صَدَقْت قَدْ سُمِّیَتِ الْمَرْأَۃُ جَارَۃَ زَوْجِہَا لَیْسَ لِأَنَّ لَحْمَہَا مُخَالِطٌ لِلَحْمِہٖ وَلَا دَمَہَا مُخَالِطٌ لِدَمِہٖ وَلٰـکِنْ لِقُرْبِہَا مِنْہُ .فَکَذٰلِکَ الْجَارُ سُمِّیَ جَارًا لِقُرْبِہٖ مِنْ جَارِہِ لَا لِمُخَالَطَتِہِ اِیَّاہُ فِیْمَا جَاوَرَہٗ بِہٖ .وَأَنْتَ فَقَدْ زَعَمْتُ أَنَّ الْآثَارَ عَلَی ظَاہِرِہَا فَکَیْفَ تَرَکْت الظَّاہِرَ فِیْ ہٰذَا وَمَعَہُ الدَّلَائِلُ وَتَعَلَّقْتُ بِغَیْرِہِ مِمَّا لَا دَلَالَۃَ مَعَہٗ؟ ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَیْضًا مِنْ اِیجَابِہٖ الشُّفْعَۃَ بِالْجِوَارِ وَتَفْسِیْرُہُ ذٰلِکَ الْجِوَارَ .
٥٨٧١: عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ میرے پاس مسور بن مخرمہ آئے اور اپنا ہاتھ میرے ایک کندھے پر رکھ کر کہا میرے ساتھ سعد کے پاس چلو ! چنانچہ ہم سعد بن ابی وقاص (رض) کے مکان پر پہنچے تو اچانک ابو رافع آئے اور مسور (رض) کو کہنے لگے کیا تم اس کو نہیں کہتے یعنی سعد کو یہ میرے گھر کے دو کمرے خریدے ‘ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس پڑوسی کا ہم نے تذکرہ کیا اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معروف و معلوم پڑوسی مراد لیا ہے۔ اب آپ کو کس نے بتلایا کہ شریک کو جار کہا جاتا ہے اور آپ نے لغت عرب میں کہاں ڈھونڈا کہ شریک پر جار بولا جاتا ہے۔ سعد کہنے لگے۔ اللہ کی قسم ! میں چار سو دینا رقسط وار سے زیادہ نہ دوں گا انھوں نے مقطعۃ کا لفظ استعمال کیا یا منجمہ کا (دونوں ہم معنی ہیں) انھوں نے کہا سبحان اللہ ! مجھے تو پانچ سو دینار نقد مل رہے ہیں۔ اگر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات نہ سنی ہوتی ” الجار احق بسقبہٖ “ پڑوسی قرب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔ تو میں تم پر فروخت نہ کرتا۔ عورت کو جارۃ زوجہا بولا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ عورت کو جارۃ زوجہا سے تعبیر کرتے ہیں مگر اس وجہ سے نہیں کہ اس کا گوشت خاوند سے ملا ہوا ہے اور نہ یہ مراد ہے کہ مرد کا خون اس کے خون سے ملا ہے بلکہ قرب کی وجہ سے بول دیا جاتا ہے پس اسی طرح جار کو جار کہنے کی وجہ اپنے پڑوسی کے قریب ہونا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ جس میں قریب ہیں اس میں وہ آپس میں خلط ملط بھی ہیں۔ آپ کے تو خیال شریف میں آثار کو ہمیشہ ظاہر پر محمول کرتے ہیں مگر یہاں آپ نے ظاہر کیوں چھوڑ دیا جبکہ اس کے دلائل بھی موجود ہیں اور غیر ظاہر سے مسئلے کو متعلق کردیا جس کی کوئی ادنیٰ دلالت بھی نہیں ؟ پھر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جوار کی وجہ سے شفعہ کا ثبوت موجود ہے اور اس کی تفسیر اس روایت میں ملاحظہ کرلیں۔
تخریج : بخاری فی الشفعہ باب ٢‘ الحیل باب ١٤؍١٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٧٣‘ نسائی فی البیوع باب ١٠٩‘ ابن ماجہ فی الشفعہ باب ٢‘ مسند احمد ٦‘ ١٠؍٣٩٠۔

5873

۵۸۷۲: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِیْدِ عَنْ أَبِیْھَا الشَّرِیْدِ بْنِ سُوَیْدٍ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَرْضٌ لَیْسَ فِیْہَا لِأَحَدٍ قَسْمٌ وَلَا شَرِیْکٌ اِلَّا الْجِوَارَ بِیْعَتْ قَالَ الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِہٖ .فَکَانَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقْبِہٖ جَوَابًا لِسُؤَالِ الشَّرِیْدِ اِیَّاہُ عَنْ أَرْضٍ مُنْفَرِدَۃٍ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ فِیْہَا وَلَا طَرِیْقَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْجَارَ الْمُلَازِقَ تَجِبُ لَہٗ الشُّفْعَۃُ بِحَقِّ جِوَارِہٖ۔ فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا رَوَیْنَا مِنَ الْآثَارِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وُجُوْبُ الشُّفْعَۃِ بِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْ مَعَانٍ ثَلَاثَۃٍ بِالشِّرْکِ فِی الْبَیْعِ بِیْعَ مِنْہُ مَا بِیْعَ وَبِالشِّرْکِ فِی الطَّرِیْقِ اِلَیْہِ وَبِالْمُجَاوَرَۃِ لَہٗ۔فَلَیْسَ یَنْبَغِیْ تَرْکُ شَیْئٍ مِنْہَا وَلَا حَمْلُ بَعْضِہَا عَلَی التَّضَادِّ وَاِذَا کَانَتْ قَدْ خَرَجَتْ عَلَی الْاِتِّفَاقِ مِنَ الْوُجُوْہِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا عَلٰی مَا شَرَحْنَا وَبَیَّنَّا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ جَعَلْت ہٰؤُلَائِ الثَّلَاثَۃَ شَفْعًا بِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ ذٰکَرْتُ فَلِمَ أَوْجَبْت الشُّفْعَۃَ لِبَعْضِہِمْ دُوْنَ بَعْضٍ اِذَا حَضَرُوْا وَطَالَبُوْا بِہَا وَقَدَّمْتُ حَقَّ بَعْضِہِمْ فِیْہَا عَلٰی حَقِّ بَعْضٍ وَلَمْ تَجْعَلْہَا لَہُمْ جَمِیْعًا اِذْ کَانُوْا کُلُّہُمْ شُفَعَائَ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : لِأَنَّ الشَّرِیْکَ فِی الشَّیْئِ الْمَبِیْعِ خَلِیطٌ فِیْہِ وَفِی الطَّرِیْقِ اِلَیْہِ فَمَعَہُ مِنَ الْحَقِّ فِی الطَّرِیْقِ مِثْلُ الَّذِیْ مَعَ الشَّرِیْکِ فِی الطَّرِیْقِ .وَمَعَہُ اخْتِلَاطُ مِلْکِہِ بِالشَّیْئِ الْمَبِیْعِ وَلَیْسَ ذٰلِکَ مَعَ الشَّرِیْکِ فِی الطَّرِیْقِ فَہُوَ أَوْلَی مِنْہُ وَمِنَ الْجَارِ الْمُلَازِقِ .وَمَعَ الشَّرِیْکِ فِی الطَّرِیْقِ شَرِکَۃٌ فِی الطَّرِیْقِ وَمُلَازَقَۃٌ لِلشَّیْئِ الْمَبِیْعِ فَمَعَہُ مِنْ أَسْبَابِ الشُّفْعَۃِ مِثْلُ الَّذِیْ مَعَ الْجَارِ الْمُلَازِقِ وَمَعَہُ أَیْضًا مَا لَیْسَ مَعَ الْجَارِ الْمُلَازِقِ مِنْ اخْتِلَاطِ حَقِّ مِلْکِہِ فِی الطَّرِیْقِ بِمِلْکِہِ فِیْہِ فَلِذٰلِکَ کَانَ - عِنْدَنَا - أَوْلَی بِالشُّفْعَۃِ مِنْہُ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٨٧٢: عمرو بن شرید نے اپنے والد حضرت شرید بن سوید (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی زمین جس میں کسی کا حصہ نہ تھا اور نہ کوئی شریک تھا۔ بس پڑوسی تھا وہ فروخت کردیا گیا آپ نے فرمایا پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔ یہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ متصل پڑوسی کے لیے پڑوسی ہونے کی وجہ سے شفعہ کا حق ثابت ہے۔ اس باب میں جو روایات ذکر کی گئیں ان سے یہ ثابت ہوا کہ چنچ وجوہ سے حق شفعہ ثابت ہوتا ہے۔ نمبر ١ جو چیز فروخت ہو رہی ہے اس میں شرکت ہو۔ ! اس کی طرف جانے والے راستہ میں شرکت ہو۔ نمبر ٣ اس جگہ کے ساتھ پڑوس حاصل ہو۔ ان میں سے کسی ایک چیز کو بھی چھوڑنا جائز نہیں اور ان کو ایک دوسرے سے متضاد بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ ان وجوہ کی بنیاد پر جو ہم نے وضاحت سے ذکر کی ہیں روایات باہم متفق ہیں۔ تم نے مذکورہ اسباب کی وجہ سے ہر سہ کو شفعہ کا حقدار قرار دیا ہے تو تم نے بعض کو چھوڑ کر دوسرے بعض کے لیے شفعہ کیوں کر ثابت کردیا جبکہ وہ تمام حاضر ہو کر مطالبہ کریں تو اس طرح تم نے بعض کو بعض پر مقدم کیا اور جب وہ تمام ہی شفعہ کے حقدار ہیں تو تم نے سب کو حق کیوں نہ دیا۔ اس طرح اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اول یعنی شریک اس فروخت ہونے والی چیز میں حصہ دار ہے تو گویا وہ اس چیز اور اس کے راستہ دونوں میں شریک ہے پس اس کو راستہ کا حق حاصل ہے جس طرح کہ راستہ میں شریک کو یہ حق حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو فروخت ہونے والی چیز میں ملک کی شرکت بھی حاصل ہے اور راستے میں شریک کو یہ چیز حاصل نہیں ہے پس وہ راستہ میں شریک اور پڑوسی دونوں سے مقدم و اولیٰ ہوگا اور جو راستہ میں شریک ہے اس کو اس شرکت کے ساتھ ساتھ فروخت ہونے والی چیز کے ساتھ راستہ کا اتصال حاصل ہے جو کہ اسباب شفعہ میں سے ہے اور پڑوس بھی حاصل ہے اس لیے وہ پڑوسی پر مقدم ہے کہ اس کو راستہ کی ملکیت حاصل ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں یہ پڑوسی سے مقدم ہوگا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : روایت ٥٨٧١ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔
قاضی شریح (رح) کا تائیدی قول :

5874

۵۸۷۳: وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ شُرَیْحٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ شُرَیْحٍ وَأَشْعَثَ أَظُنُّہُ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : الْخَلِیطُ أَحَقُّ مِنِ الشَّفِیعِ وَالشَّفِیعُ أَحَقُّ مِمَّنْ سِوَاہُ .
٥٨٧٣: محمد نے شریح سے اور میرے خیال میں اشعث نے شعبی اور انھوں نے شریح سے نقل کیا کہ شریک شفیع سے زیادہ حقدار ہے اور شفیع دوسروں سے زیادہ حقدار ہے۔

5875

۵۸۷۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ یُوْنُسَ وَہِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدٍ ح
٥٨٧٤: ہشیم نے یونس و ہشام سے دونوں نے محمد سے روایت کی ہے۔

5876

۵۸۷۵: وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ شُرَیْحٍ مِثْلَہٗ۔
٥٨٧٥: ہشام نے محمد سے انھوں نے شریح سے اسی طرح روایت کی ہے۔

5877

۵۸۷۶: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَحِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ الشُّفْعَۃُ شُفْعَتَانِ شُفْعَۃٌ لِلْجَارِ وَشُفْعَۃٌ لِلشَّرِیْکِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ہٰذَا
٥٨٧٦: جابر نے عامر سے انھوں نے شریح سے نقل کیا شفعہ دو طرح کا ہے۔ نمبر ١ پڑوش کا شفعہ۔ نمبر ٢ شریک کا شفعہ۔
سوال : حضرت عثمان (رض) کا قول تو اس کے مخالف ہے۔ (ملاحظہ ہو)

5878

۵۸۷۷: فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ أَبِیْ ثَعْلَبَۃَ عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : قَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا مُکَائَلَۃَ اِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ فَلَا شُفْعَۃَ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَ ہٰذَا عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَمَا ذَکَرْتُ وَلَیْسَ فِیْہِ - عِنْدَنَا - حُجَّۃٌ لَک لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ : اِذَا حُدَّتِ الْحُدُوْدُ مِنَ الْحُقُوْقِ کُلِّہَا وَأُدْخِلَ الطَّرِیْقُ فِیْ ذٰلِکَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ مُوَافِقًا لِمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ اِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ وَصُرِفَتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَۃَ .وَلَوْ کَانَ عَلٰی مَا تَأَوَّلْتُمُوْھُ عَلَیْہِ لَکَانَ قَدْ خَالَفَہُ فِیْ ذٰلِکَ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ وَالْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ وَأَبُو رَافِعٍ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُمْ فِیْمَا مَضَی مِنْ ہٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ
٥٨٧٧: منصور بن ابی ثعلبہ نے ابان بن عثمان (رح) سے نقل کیا کہ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا جب حدود واقع ہوجائیں تو حق والے کا حق نہ روکا جائے اور نہ شفعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ قول حضرت عثمان (رض) سے اس طرح بھی مروی ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا اور اس میں بھی تمہاری دلیل موجود نہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ جب حدود مقرر ہوجائیں یعنی تمام حقوق کی اور اس میں راستہ بھی ڈال دیا جائے۔ (تو اس وقت شفعہ نہیں) تو یہ روایت تو ہماری روایت کے موافق بن گئی جیسا کہ جابر (رض) کی روایت مذکور ہوئی۔ (اذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعۃ) اگر بقول آپ کے اس کی تاویل وہی ہو جو آپ کر رہے ہیں تو روایات سعد اور مسور بن مخرمہ اور ابو رافع (رض) اس کے خلاف ہوں گی۔ حضرت عمر (رض) سے بھی اس بارے میں مروی ہے۔
جواب : یہ قول حضرت عثمان (رض) سے اس طرح بھی مروی ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا اور اس میں بھی تمہاری دلیل موجود نہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ جب حدود مقرر ہوجائیں یعنی تمام حقوق کی اور اس میں راستہ بھی ڈال دیا جائے۔ (تو اس وقت شفعہ نہیں) تو یہ روایت تو ہماری روایت کے موافق بن گئی جیسا کہ جابر (رض) کی روایت مذکور ہوئی۔ (اذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعۃ) اگر بقول آپ کے اس کی تاویل وہی ہو جو آپ کر رہے ہیں تو روایات سعد اور مسور بن مخرمہ اور ابو رافع (رض) اس کے خلاف ہوں گی۔
روایت حضرت عمر (رض) :

5879

۵۸۷۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُوْہِبٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَوْنِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ وَعَرَفَ النَّاسُ حُقُوْقَہُمْ فَلَا شُفْعَۃَ .فَقَدْ وَافَقَ ہٰذَا مَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَاحْتَمَلَ مَا احْتَمَلَہٗ حَدِیْثُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٨٧٨: عون بن عبیداللہ بن ابی رافع نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جب حد بندی کردی جائے اور لوگ اپنے اپنے حقوق پہچان لیں تو اس وقت کوئی شفعہ نہیں۔
حاصل : تو ہم نے جو حضرت عثمان (رض) سے نقل کیا یہ روایت عمر (رض) اس کے موافق ہوگئی اور اس کی وجہ سے حدیث عثمان (رض) کا سا احتمال اس میں بھی ہوگا۔
اس کے مخالف حضرت عمر (رض) کا قول :

5880

۵۸۷۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَتَبَ اِلَی شُرَیْحٍ أَنْ یَقْضِیَ بِالشُّفْعَۃِ لِلْجَارِ الْمُلَازِقِ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ أَنَّ الشُّفْعَۃَ تَجِبُ بِالشِّرْکِ فِی الطَّرِیْقِ .
٥٨٧٩: ابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے شریح کی طرف لکھا کہ متصل پڑوسی کے لیے شفعہ کے حق کا فیصلہ کیا جائے اور ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شریک فی الطریق کے لیے شفعہ ثابت کیا۔
روایت ابن عباس (رض) :

5881

۵۸۸۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ قَالَ : ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ السُّکَّرِیِّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّرِیْکُ شَفِیعٌ وَالشُّفْعَۃُ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ .
٥٨٨٠: ابن ابی ملیکہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شریک شفیع ہے اور شفعہ ہر چیز میں ہے۔
تخریج : ترمذی فی الاحکام باب ٣٤۔

5882

۵۸۸۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِدْرِیْسَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ .فَلَمَّا کَانَ الشَّرِیْکُ فِی الطَّرِیْقِ یُسَمَّی شَرِیْکًا کَانَ دَاخِلًا فِیْ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّہٗ لَا تَقُوْلُ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ لِأَنَّہٗ یُوْجِبُ الشُّفْعَۃَ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ مِنْ حَیَوَانٍ وَغَیْرِہِ وَأَنْتَ لَا تُوْجِبُ الشُّفْعَۃَ فِی الْحَیَوَانِ .قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ ہٰذَا عَلٰی مَا ذَکَرْت اِنَّمَا مَعْنَی الشُّفْعَۃِ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ أَیْ : فِی الدُّوْرِ وَالْعَقَارِ وَالْأَرَضِیْنَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ مَا قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٥٨٨١: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا۔ جب راستہ میں شریک کو شریک کہا جاتا ہے تو وہ اس میں داخل ہوگا (جو شفع کرسکتے ہیں) اگر یہ کہا جائے کہ تم یہ روایت پیش کر رہے ہو حالانکہ تم ہر چیز میں تو شفعہ کے قائل نہیں مثلاً حیوان وغیرہ۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اس طرح اس روایت کا مفہوم نہیں اس کا مفہوم یہ ہے۔ شفعہ ہر چیز میں ہے یعنی تمام گھروں ‘ بنجر و آباد زمینوں میں اور اس کی دلیل ابن عباس (رض) کی یہ روایت ہے۔

5883

۵۸۸۲: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ: ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ: ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسَیْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَا شُفْعَۃَ فِی الْحَیَوَانِ .
٥٨٨٢: عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں حیوان میں شفعہ نہیں۔
تخریج : بخاری فی الشفعہ باب ١‘ مسلم فی المساقاۃ ١٣٤‘ نسائی فی البیوع باب ١٠٨‘ ابن ماجہ فی الشفعہ باب ٣‘ دارمی فی البیوع باب ٨٣‘ مالک فی الشفعہ ١‘ مسند احمد ٣؍٣٧٢‘ ٥؍٣٢٦۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔