HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

1. پاکی کا بیان

الطحاوي

1

۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ بْنِ رَاشِدِ ڑ الْبَصَرِیُّ قَالَ : ثَنَاالْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَاحَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّہٗ یُلْقٰی فِیْہِ الْجِیَفُ وَالْمَحَائِضُ فَقَالَ إِنَّ الْمَائَ لَا یَنْجُسُ )۔
١: حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیر بضاعہ سے وضو فرماتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں متعفن مردار اور حیض والے کپڑوں کے ٹکڑے ڈالے جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٤ حدیث ٦٦، ترمذی فی الطہارۃ باب ٤٩ نمبر ٦٦، ابن ماجہ فی الطہارۃ باب الرخصۃ بفضل وضوء المرأۃ حدیث ٣٧٠، نسائی فی المیاہ باب ٢، دارقطنی فی سننہ کتاب الطہارۃ ١؍٣١۔
اللغات : بضاعہ۔ یہ مدینہ منورہ میں دار بنی ساعدہ کا مشہور کنواں ہے۔ الجیف۔ جمع جیفۃ۔ مردہ لاش، متعفن مردار۔ محائض۔ جمع محیضۃ۔ حیض کے خون سے ملوث کپڑے کا ٹکڑا۔
خلاصۃ المرام : پانی میں نجاست گرنے سے جب تک اس کے تین اوصاف میں سے کسی میں تبدیلی نہ ہو خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ ‘ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ ! اس کو امام مالک ‘ سعید بن المسیّب ‘ ابراہیم نخعی ‘ عکرمہ (رح) نے اختیار کیا ہے۔ " پانی میں نجاست گرجائے اگر قلیل ہو تو وہ ناپاک ہوجائے گا اور اگر زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے اس وقت ناپاک ہوگا جب تین اوصاف میں سے ایک وصف بدلے۔ اس کو شوافع ‘ حنابلہ و احناف (رح) نے اختیار کیا ہے۔ (بدائع و بدایۃ المجتہد)

2

۲ : حَدَّثَنَا ِابْرَاہِیْمُ بْنُ أَبُوْ دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ الْأَسَدِیُّ قَالَا : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدِ ڑالْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ سَلِیْطِ بْنِ أَیُّوْبَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ قَالَ : (قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، إِنَّہٗ یُسْتَقٰی لَکَ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ وَہِیَ بِئْرٌ یُطْرَحُ فِیْہَا عَذِرَۃُ النَّاسِ ، وَمَحَائِضُ النِّسَائِ ، وَلَحْمُ الْکِلَابِ فَقَالَ إِنَّ الْمَائَ طَہُوْرٌ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْ).
٢ : حضرت ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ آپ کے لیے پینے کا پانی بیر بضاعہ سے لایا جاتا ہے اور وہ ایسا کنواں ہے جس میں انسانی غلاظت، حیض کے چیتھڑے، کتوں کا گوشت وغیرہ پھینکا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک پانی پاک ہے اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔
اللغات : عذرۃ الناس۔ پائخانہ۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٤ حدیث : ٦٧، نسائی فی المیاہ باب ٢

3

۳ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاہِیْمَ الْبِرْکِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمِ ڑالْقَسْمَلِیُّ قَالَ : ثَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِیْ نَوْفٍ عَنِ ابْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (انْتَہَیْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، أَتَتَوَضَّأُ مِنْہَا وَہِیَ یُلْقٰی فِیْہَا مَا یُلْقٰی مِنَ النَّتْنِ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَائُ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْ).
٣ : حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ میں آپ کی خدمت میں اس وقت پہنچا جب کہ آپ بیر بضاعہ سے وضو فرما رہے تھے میں نے گزارش کی کیا آپ بیر بضاعہ سے وضو فرما رہے ہیں ؟ جبکہ یہ وہ کنواں ہے جس میں متعفن چیزیں ڈالی جاتی ہیں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی۔
اللغات : النتن۔ بدبودار چیز۔
تخریج : ابو داؤد باب ٣٤ کتاب الطھارۃ، نسائی فی المیاہ باب ٢ ترمذی فی الطھارۃ باب ٤٩ ابن ماجہ فی الطھارۃ ٣٧٠،

4

۴ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ: ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ یَحْیَی الْأَسْلَمِیِّ عَنْ أُمِّہٖ قَالَتْ : ( دَخَلْنَا عَلٰی سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ فِیْ أَرْبَعِ نِسْوَۃٍ فَقَالَ لَوْ سَقَیْتُکُمْ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ لَکَرِہْتُمْ ذٰلِکَ وَقَدْ سَقَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہَا بِیَدَیَّ )
٤ : ابو یحییٰ اسلمی اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں چار عورتوں کے ساتھ حضرت سہل بن سعد (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو وہ فرمانے لگے اگر میں تمہیں بیر بضاعہ کا پانی پلاؤں تو تم ناپسند کرو گی حالانکہ میں نے خود اس کنوئیں کا پانی اپنے ہاتھ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پلایا۔
اللغات : سقی یسقی۔ پینا پلانا۔
تخریج : دارقطنی فی سننہ کتاب الطھارۃ ١؍٣٢، الطبرانی فی المعجم الکبیر ٦؍٢٠٧ مسند احمد ٥؍٣٣٧، ٣٣٨،

5

۵ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ یَحْیٰی قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ النَّخَعِیُّ عَنْ طَرِیْفِ ڑ الْبَصَرِیِّ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ جَابِرٍ أَوْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ (کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرِنَا فَانْتَہَیْنَا اِلٰی غَدِیْرٍ وَجِیْفَۃٍ فَکَفَفْنَا وَکَفَّ النَّاسُ حَتّٰی أَتَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لَکُمْ لَا تَسْتَقُوْنَ ؟ فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، ھٰذِہِ الْجِیْفَۃُ ، فَقَالَ اسْتَقُوْا ، فَإِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْئٌ فَاسْتَقَیْنَا وَارْتَوَیْنَا )فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ ، فَقَالُوْا : لَا یُنَجِّسُ الْمَائَ شَیْ وَقَعَ فِیْہِ ، إِلَّا أَنْ یُغَیِّرَ لَوْنَہٗ، أَوْ طَعْمَہٗ، أَوْ رِیْحَہٗ ، فَأَیُّ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ ، فَقَدْ نَجِسَ الْمَائُ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنََ فَقَالُوْا أَمَّا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ فَلَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْہِ لِأَنَّ بِئْرَ بُضَاعَۃَ قَدِ اخْتَلَفَتْ فِیْہَا مَا کَانَتْ فَقَالَ قَوْمٌ کَانَتْ طَرِیْقًا لِلْمَائِ إِلَی الْبَسَاتِیْنِ فَکَانَ الْمَائُ لَا یَسْتَقِرُّ فِیْہَا فَکَانَ حُکْمُ مَائِہَا کَحُکْمِ مَائِ الْأَنْہَارِ وَھٰکَذَا نَقُوْلُ فِیْ کُلِّ مَوْضِعٍ کَانَ عَلٰی ھٰذِہِ الصِّفَۃِ وَقَعَتْ فِیْ مَائِہِ نَجَاسَۃٌ فَلَا یَنْجُسُ مَاؤُہٗ إِلَّا أَنْ یَغْلِبَ عَلٰی طَعْمِہٖ أَوْ لَوْنِہٖ أَوْ رِیْحِہٖ أَوْ یَعْلَمُ أَنَّہَا فِی الْمَائِ الَّذِیْ یُؤْخَذُ مِنْہَا ، فَإِنْ عَلِمَ ذٰلِکَ کَانَ نَجَسًا ، وَإِنْ لَمْ یَعْلَمْ ذٰلِکَ کَانَ طَاہِرًا .وَقَدْ حُکِیَ ھٰذَا الْقَوْلُ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ عَنِ الْوَاقِدِیِّ ، حَدَّثَنِیْہِ أَبُوْ جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعِ ڑالثَّلْجِیِّ عَنِ الْوَاقِدِیِّ أَنَّہَا کَانَتْ کَذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ النَّجَاسَۃَ اِذَا وَقَعَتْ فِی الْبِئْرِ فَغَلَبَتْ عَلٰی طَعْمِ مَائِہَا أَوْ رِیْحِہِ أَوْ لَوْنِہِ ، أَنَّ مَائَ ہَا قَدْ فَسَدَ .وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ بِئْرِ بُضَاعَۃَ مِنْ ھٰذَا شَیْ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ فَقِیْلَ لَہٗ : إِنَّہُ یُلْقٰی فِیْہَا الْکِلَابُ وَالْمَحَائِضُ فَقَالَ (إِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجِّسُہُ شَیْئٌ ).وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ بِئْرًا لَوْ سَقَطَ فِیْہَا مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ لَکَانَ مَحَالًا أَنْ لَا یَتَغَیَّرَ رِیْحُ مَائِہَا وَطَعْمُہٗ، ھٰذَا مِمَّا یُعْقَلُ وَیُعْلَمُ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ وَقَدْ أَبَاحَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَائَ ہَا وَأَجْمَعُوا أَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ وَقَدْ دَاخَلَ الْمَائَ التَّغْیِیْرُ مِنْ جِہَۃٍ مِنَ الْجِہَاتِ اللَّاتِیْ ذَکَرْنَا ؛ اسْتَحَالَ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنْ یَکُوْنََ سُؤَالُہُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مَائِہَا وَجَوَابُہُ إِیَّاہُمْ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا أَجَابَہُمْ ، کَانَ وَالنَّجَاسَۃُ فِی الْبِئْرِ .وَلَکِنَّہُ - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - کَانَ بَعْدَ أَنْ أُخْرِجَتَ النَّجَاسَۃُ مِنَ الْبِئْرِ فَسَأَلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ : ہَلْ تَطْہُرُ بِإِخْرَاجِ النَّجَاسَۃِ مِنْہَا فَلَا یَنْجُسُ مَاؤُہَا الَّذِیْ یَطْرَأُ عَلَیْہَا بَعْدَ ذٰلِکَ ؟ وَذٰلِکَ مَوْضِعٌ مُشْکِلٌ لِأَنَّ حِیْطَانَ الْبِئْرِ لَمْ تُغْسَلْ وَطِیْنُہَا لَمْ یَخْرُجْ فَقَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجَّسُ) یُرِیْدُ بِذٰلِکَ الْمَائَ الَّذِیْ طَرَأَ عَلَیْہَا بَعْدَ إِخْرَاجِ النَّجَاسَۃِ مِنْہَا لَا أَنَّ الْمَائَ لَا یَنْجُسُہٗ اِذَا خَالَطَتْہُ النَّجَاسَۃُ وَقَدْ رَأَیْنَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (الْمُؤْمِنُ لَا یَنْجُسُ)۔
٥ : حضرت جابر یا حضرت ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے چلتے ہوئے ہم ایک جوہڑ کے پاس پہنچے جس کے پاس مردار بھی پڑا تھا ہم نے اور دیگر لوگوں نے وہاں کے پانی کے استعمال سے ہاتھ روک لیا یہاں تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا۔ تم پانی پلاتے کیوں نہیں ؟ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ : یہ مردار پڑا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانی پیؤ پلاؤ بلاشبہ پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی پس ہم نے پانی پیا اور سیر ہوگئے۔ علماء کی ایک جماعت نے ان مذکورہ آثار کو اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پانی میں جو چیز بھی گرجائے وہ پانی کو نجس نہیں کرسکتی سوائے اس صورت کے کہ اس کا رنگ ذائقہ اور بو تبدیل ہوجائے۔ ان میں سے جو علامت پائی جائے گی اس سے پانی نجس ہوجائے گا ۔ علماء کی دوسری جماعت نے اس کی مخالفت کی ہے چنانچہ انھوں نے فرمایا گزشتہ روایت میں تم نے بیربضاعہ کا ذکر کیا اس میں تمہارے حق میں کوئی دلیل نہیں ملتی کیونکہ بیر بضاعہ کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں بعض لوگوں نے کہا یہ باغات کی طرف جانے والے راستہ میں پڑتا تھا اور پانی اس میں مستقل طور پر نہ ٹھہرتا تھا۔ پس اس کے پانی کا حکم دریا کے پانی جیسا ہے اور ہم اسی طرح ہر اس مقام پر حکم دیں گے جو اس صفت پر مشتمل ہوگا کہ اگر اس کے پانی میں نجاست پڑجائے تو اس کا پانی پلید نہ ہوگا سوائے اس صورت کے کہ اس کے ذائقہ یا رنگ یا بو پر نجاست کا غلبہ ہوجائے یا جہاں سے پانی لیا جا رہا ہے اس کا نجس ہونا معلوم ہوجائے تو وہ پانی نجس شمار ہوگا۔ اور اگر ایسا معلوم نہیں ہوا تو وہ پانی پاک شمار ہوگا یہ قول جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اس کو بیئر بضاعہ کے سلسلے میں امام واقدی (رح) نے نقل کیا ہے چنانچہ ہمارے استاد احمد نے ابو عبداللہ محمد بن شجاع ثلجی نے واقدی سے بیئر بضاعہ کے متعلق اس طرح نقل کیا ہے اور اس میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نجاست جب کنوئیں میں گرکر اس کے پانی کے ذائقہ بو یا رنگ کو بدل ڈالے تو اس کا پانی پلید ہوجائے گا اور بیئر بضاعہ میں اس ان میں سے کوئی چیز نہیں پائی جاتی اس میں صرف اتنی بات ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیئر بضاعہ کے بارے میں یہ بتا کر سوال کیا گیا کہ اس میں کتے اور حیض والے کپڑے ڈالے جاتے ہیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پانی کوئی چیز بھی پلید نہیں کرسکتی اور ہم بخوبی جانتے ہیں اگر کسی بھی کنوئیں میں کوئی ایسی چیز گرجائے جو اس سے بہت کم ہو تو یہ بات ناممکن ہے کہ اس کنوئیں کے پانی کی بو اور ذائقہ اور رنگ تبدیل نہ ہو اتنی بات تو عقل اور تجربہ سے جانی پہچانی ہے جب یہ بات اسی طرح ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے اس کے پانی کو مباح قرار دیا ہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ان مذکورہ اطراف میں سے کسی لحاظ سے پانی میں تبدیلی آگئی (ـاور پھر اس کو استعمال کیا گیا) اور ہر چیز بھی ہمارے ہاں ناممکن ہے (واللہ اعلم) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) نے اس پانی کے متعلق سوال کیا ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ جواب دیا ہو جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا اور نجاست بھی کنوئیں میں موجود ہو (واللہ اعلم) لیکن یہ تمام بات کنوئیں سے نجاست نکال دینے کے بعد تھی اور انھوں نے سوال بھی اس سلسلے میں کیا کہ آیا کہ کنوئیں سے نجاست نکال دینے کے بعد وہ پانی پلید نہیں ہوتا جو اس کے بعد کنوئیں میں سے نکلے اور یہ مشکل بات ہے کیونکہ کنوئیں کی دیواریں نہ دھوئی گئیں اور نہ اس کی مٹی نکالی گئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا کہ پانی پلید نہیں ہوتا یعنی اس سے مراد وہی پانی تھا جو نجاست کے نکالنے کے بعد تازہ نکلا ہے یہ معنی نہیں تھا کہ پانی اس وقت بھی پلید نہیں جب اس کے ساتھ نجاست مل گئی چنانچہ ہمارے سامنے اسی انداز کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (الْمُؤْمِنُ لَا یَنْجُسُ ) ہے ۔
اللغات : غدیر سیلاب گہری وادی میں جو پانی چھوڑ جائے اور رکا ہوا پانی۔
خلاصہ روایات : ان مذکورہ بالا پانچوں روایات کا حاصل یہ ہے کہ پانی قلیل ہو یا کثیر تبدیلی ٔوصف کے بغیر نجاست گرنے سے ناپاک نہ ہوگا۔
مذاہب ِائمہ و امام طحاوی (رح) :
1 پانی میں نجاست کے پڑجانے سے جب تک اس کے اوصاف میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو وہ ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی قلیل مقدار میں ہو یا کثیر یہ امام مالک ‘ سعید بن مسیب اور ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے۔
دوسری جماعت :
" قلیل پانی نجاست گرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے کثیر پانی نجاست کے پڑنے سے اس وقت ناپاک ہوگا جبکہ اس کا ایک وصف بدل جائے امام شافعی و امام احمد بن حنبل اور ائمہ احناف اسی طرف گئے ہیں پھر امام شافعی (رح) کے ہاں قلتین سے کم مقدار ماء قلیل اور قلتین اور اس سے زائد کثیر ہے اور احناف قلیل و کثیر کی مقدار صاحب معاملہ کی رائے پر چھوڑتے ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد :
مذکورہ بالا تشریح تو امام طحاوی کے اشارہ کو سمجھانے کے لیے کی گئی ہے وہ پہلی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک جماعت نے ان آثار کو سامنے رکھ کر کہا کہ پانی اس وقت تک ناپاک نہیں ہوتا جب تک اس کا رنگ یا ذائقہ یا بو میں سے کوئی وصف نہ بدل جائے جب ایک بدل جائے گا تو پانی نجس ہوجائے گا۔
نمبر ٢ : دوسرے ائمہ کے قول کی طرف اشارہ وخالفہم فی ذلک آخرون سے کردیا کہ دیگر ائمہ نے اس سے اختلاف کیا ہے اگلی سطور میں پہلے قول کے متعدد جوابات دیئے ہیں
پہلے مسلک کے جوابات :
جواب نمبر ١: روایات میں جس بیر بضاعہ کا تذکرہ ہے اس سے مسلک نمبر اول کا استدلال درست نہیں کیونکہ بیر بضاعہ کی کیفیت کے متعلق علماء کے قول بہت مختلف ہیں بعض کا قول یہ ہے کہ وہ کنواں باغات کی سیرابی کا کام دیتا تھا باغات کی طرف پانی جانے والے راستہ میں واقع تھا اس میں پانی برقرار نہیں رہتا تھا بلکہ منتقل ہوتا رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ نہروں کے پانی کی طرح جاری پانی کے حکم میں تھا اس بات کی تصدیق ہمارے استاذ ابو جعفر احمد نے شجاع ثلجی کی وساطت سے واقدی سے نقل کی ہے۔
اور جو پانی ماء جاری کے حکم میں ہو اس کے متعلق ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر اس میں نجاست گرجائے تو وہ اس وقت تک نجس نہیں ہوتا جب تک اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ نہ بدل جائے یا اس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس سے حاصل کئے جانے والے پانی میں وہ نجاست مل کر آرہی ہے اگر ایسا معلوم ہو تو وہ نجس ہے ورنہ وہ پانی پاک رہے گا۔
جواب نمبر ٢: دوسری دلیل یہ ہے کہ اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ نجاست کنوئیں میں گر کر پانی کے ذائقہ یا بو یا رنگ کو بدل دے تو وہ بالاتفاق نجس ہوجائے گا مذکورہ بالا روایات میں سے کسی روایت میں بھی یہ قید موجود نہیں تمہاری یہ قید قیاس سے ہوسکتی ہے تو قلیل و کثیر والی قید کیوں معتبر نہیں۔
جواب نمبر ٣: جب بالاتفاق اوصاف کی تبدیلی سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے تو بیر بضاعہ جیسا چھوٹا کنواں تو کیا ایسے چار کنوؤں میں ایک مردار کتا گرجائے تو سب کو متعفن کر دے گا پس ذرا سی سمجھ والا بیر بضاعہ والی روایت کے ظاہر سے استدلال نہیں کرسکتا کیونکہ ان چیزوں کے گرنے سے تغیر نہ ہونا محال و ناممکن ہے جب یہ بات اسی طرح ہے حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے پانی کو مباح قرار دیا اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ پانی میں کسی بھی اعتبار سے تغیر ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے استعمال کا حکم دیں۔
جواب نمبر ٤ واللہ اعلم۔ ہمارے نزدیک یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام (رض) بیر بضاعہ کے متعلق ایسے وقت میں سوال کر رہے ہوں جبکہ یہ نجاسات اس میں موجود ہوں بلکہ (واللہ اعلم) ۔ یہ سوال کنوئیں سے ان نجاسات کے نکالے جانے کے بعد سے متعلق تھا کہ آیا وہ کنواں اور اس میں نیا نکلنے والا پانی پاک ہوجائے گا جبکہ کنوئیں کی دیواریں نہیں دھوئی گئیں اور نہ گابھ نکالی گئی۔ تو اس پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان الماء لا ینجس “ الماء سے وہی پانی مراد ہے جو کنوئیں کی غلاظت سے صفائی کے بعد اس میں ظاہر ہوا ہے یہ معنی نہیں کہ نجاست پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا اور یہ ارشاد نبوت علی اسلوب الحکیم ہے جیسا ان روایات میں ہے : ان المسلم لا ینجس اور ان الارض لاینجس۔ ان روایات کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان نجاست لگنے کے باوجود ناپاک نہیں ہوتا اور زمین نجاست پڑنے کے باوجود ناپاک نہیں ہوتی بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ ازالہ نجاست کے بعد وہ پاک ہوجاتے ہیں ہمیشہ ناپاک نہیں رہتے کہ پاک نہ ہو سکیں۔ واللہ اعلم
یہاں امام طحاوی (رح) نے دو روایتیں ذکر فرمائی ہیں جو کہ لا ینجسہ کے مفہوم کی وضاحت کے لیے ہیں ۔
حَدَّثَنَاہُ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَدِیٍّ عَنْ حُمَیْدٍ ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ ( أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَقِیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ فَمَدَّ یَدَہٗ إِلَیَّ فَقَبَضْتُ یَدَیَّ عَنْہُ وَقُلْتُ إِنِّیْ جُنُبٌ فَقَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا یَنْجُسُ ) وَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ( إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَنْجُسُ ) ۔
: حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حالت میں ملا کہ مجھے غسل جنابت کی حاجت تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک میری طرف بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا میں تو حالت جنابت میں ہوں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا یَنْجُسُ ۔ مطلب یہ کہ مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٣، مسلم فی الحیض ١١٥؍١١٦‘ مسند احمد ٢؍٢٣٥؍٣٨٣‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٧٣، بیہقی السنن الکبریٰ ١؍١٨٩۔
لطیف طرز استدلال :
جنابت والے شخص کا نماز کی ادائیگی کے لحاظ سے تمام جسم حکماً ناپاک ہے۔ مگر کھانے پینے اور مصافحہ کے لحاظ سے سوائے نجاست والے مقام کے تمام جسم پاک ہے بالکل اسی طرح جب تک کنوئیں میں نجس پانی اور اشیاء ہیں تو حکماً تمام کنواں ناپاک ہے جب ناپاک پانی نکال لیا تو اب نیا پانی اور کنوئیں کی دیواریں اور گابھ سب پاک ہیں۔
پس لاینجس کا یہ معنی نہ ہوا کہ کوئی نجس چیز اس کو ناپاک نہیں کرسکتی۔
دوسری روایت : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان الارض لاتنجس ۔

6

۶ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ الْبَکْرَاوِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُقَیْلِ ڑالدَّوْرَقِیُّ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ ( أَنَّ وَفْدَ ثَقِیفٍ لَمَّا قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ لَہُمْ قُبَّۃً فِی الْمَسْجِدِ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، قَوْمٌ أَنْجَاسٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّہٗ لَیْسَ عَلَی الْأَرْضِ مِنْ أَنْجَاسِ النَّاسِ شَیْئٌ ؛ إِنَّمَا أَنْجَاسُ النَّاسِ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ) .فَلَمْ یَکُنْ مَعْنٰی قَوْلِہٖ (الْمُسْلِمُ لَا یَنْجُسُ) یُرِیْدُ بِذٰلِکَ أَنَّ بَدَنَہٗ لَا یَنْجُسُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ النَّجَاسَۃُ ، إِنَّمَا أَرَادَ أَنَّہٗ لَا یَنْجُسُ لِمَعْنًی غَیْرِ ذٰلِکَ .وَکَذٰلِکَ قَوْلُہُ ( الْأَرْضُ لَا تَنْجُسُ ) لَیْسَ یَعْنِیْ بِذٰلِکَ أَنَّہَا لَا تَنْجُسُ، وَإِنْ أَصَابَتْہَا النَّجَاسَۃُ .وَکَیْفَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ، وَقَدْ أَمَرَ بِالْمَکَانِ الَّذِیْ بَالَ فِیْہِ الْأَعْرَابِیُّ مِنَ الْمَسْجِدِ أَنْ یُصَبَّ عَلَیْہِ ذَنُوْبٌ مِنْ مَائٍ؟
٦: حضرت حسن بصری (رح) بیان کرتے ہیں کہ جب وفد ثقیف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو ان کے لیے مسجد (کے صحن) میں خیمہ لگا دیا گیا اس پر صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یہ ناپاک لوگ ہیں (کافر ہیں) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین پر لوگوں کی (باطنی) نجاستوں سے کچھ اثر نہیں پڑتا بلاشبہ ان کی (باطنی) نجاستوں کا اثر ان کے دلوں میں ہوتا ہے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد المسلم لا ینجس اس کا یہ معنی نہیں کہ اس کا بدن بھی پلید نہیں ہوتا اگرچہ اس کو نجاست پہنچ جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ اور معنی کے لحاظ سے یہ پلید نہیں ہوتا اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کہ زمین پلید نہیں ہوتی اس کا یہ مطلب نہیں اگر زمین کو نجاست پہنچ جائے تب بھی پلید نہیں ہوتی یہ کیسے کہا جاسکتا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد کے اس مقام پر جہاں بدو نے پیشاب کردیا تھا پانی کے ڈول بہانے کا حکم دیا۔
طریق استدلال :
مشرک کے جسم پر اگر ظاہری نجاست نہ ہو تو اس کے متعلق دو اعتبار ہیں نمبر ١: اگر اس کا جسم زمین پر لگ جائے تو زمین پاک رہے گی۔ نمبر ٢ : باطن اور دل کے لحاظ سے وہ نص قطعی ” انما المشرکون نجس “ سے ناپاک اور پلید ہے۔
نتیجہ : یہ ہوا کہ اس ارشاد میں ان الارض لا تنجس یا لیس علی الارض من انجاس الناس شیٔ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو ان کی باطنی نجاست پلید نہ کرے گی اسی طرح المسلم لا ینجس میں حکمی نجاست سے اس کا ظاہری بدن ناپاک نہ ہوگا کہ وہ مصافحہ کے قابل نہ رہے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زمین ظاہری نجاست کے گرنے سے بھی ناپاک نہیں ہوتی اور مسجد کے اس مقام پر جہاں اعرابی نے پیشاب کردیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی کے ڈول بہانے کا حکم کیوں فرمایا ؟ جیسا کہ ان چار روایات سے ثابت ہے۔

7

۷ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ الْیَمَامِیُّ قَالَ ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ قَالَ حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ : (بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُلُوْسًا اِذْ جَائَ أَعْرَابِیٌّ فَقَامَ یَبُوْلُ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَہْ مَہْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعُوْہُ فَتَرَکُوْہُ حَتّٰی بَالَ ، ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَاہُ فَقَالَ لَہٗ : إِنَّ ھٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَیْئٍ مِنْ ھٰذَا الْبَوْلِ وَالْعَذِرَۃِ ، إِنَّمَا ہِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَالصَّلَاۃِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ .قَالَ عِکْرِمَۃُ : أَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَرَ رَجُلًا فَجَائَ ہُ بِدَلْوٍ مِنْ مَائٍ فَشَنَّہٗ عَلَیْہِ).
٧ : حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں دریں اثناء کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک بدو آیا اور وہ مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کہا رک رک : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑدو۔ صحابہ کرام (رض) نے اس سے تعرض نہ کیا یہاں تک کہ وہ پیشاب کرچکا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلا کر فرمایا۔ بلاشبہ یہ مساجد پیشاب و پائخانہ جیسی غلاظت کے مناسب نہیں بلاشبہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر ‘ نماز اور قراءت قرآن مجید کے لیے بنائی گئی ہیں۔ عکرمہ کی روایت میں اوکما قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یا جیسا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) کے الفاظ اور یہ الفاظ زائد ہیں : فامر رجلاً فجاء ہ بدلو من مائٍ فشنہ علیہ “ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو حکم فرمایا (کہ وہ پانی لائے تو) وہ آپ کے پاس پانی کا ایک ڈول لایا اور اس پر بہا دیا۔
اللغات : اعرابی : بدو۔ اس کا نام ذوالخویصرہ تمیمی ہے۔ لا تصلح : مناسب نہیں ۔ العذرۃ : پائخانہ۔
تخریج : بخاری عن انس بن مالک فی الوضوء باب ٥٧‘ مسلم فی الطھارۃ حدیث ١٠٠ عن ابی ہریرہ فی الوضوء باب ٥٨ ۔

8

۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَذْکُرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہٗ "إِنَّ ھٰذِہِ الْمَسَاجِدَ" إِلٰی آخِرِ الْحَدِیْثِ وَرَوٰی طَاوٗسٌ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِمَکَانِہٖ أَنْ یُحْفَرَ)۔
٨ : حضرت انس (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ یہ الفاظ اس میں نہیں ” ان ھذہ المساجد “ تا آخرالحدیث۔
فرق روایت :
یہ روایت یحییٰ بن سعید نے نقل کی ہے جبکہ طاؤس کی روایت میں اس طرح ہے : ان النبی ا امر بمکانہ ان یحفر۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ کو کھودنے کا حکم فرمایا (کہ گندی مٹی کو کھود کر باہر پھینک دیا جائے)
اللغات : یحفر۔ حفر یحفر : زمین کھودنا۔
تخریج : ایضًا ۔
(زمین کی پاکیزگی میں احناف کا قول نمبر ١ پانی ڈال دیں اور زمین خشک ہوجائے نمبر ٢ گندی مٹی کو کھود کر پھینک دیا جائے) ۔

9

۹ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرَۃَ بَکَّارُ بْنُ قُتَیْبَۃَ الْبَکْرَاوِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عُمَرَ بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ طَاوٗسٍ بِذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ أَیْضًا ۔
٩ : عمر بن دینار نے طاؤس سے اس کو روایت کیا جبکہ یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٨ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

10

۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْحِمَّانِیُّ قَالَ ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ سَمْعَانَ بْنِ مَالِکِ ڑالْأَسَدِیِّ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : ( بَالَ أَعْرَابِیٌّ فِی الْمَسْجِدِ فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصُبَّ عَلَیْہِ دَلْوٌ مِنْ مَائٍ ، ثُمَّ أَمَرَ بِہٖ فَحَفَرَ مَکَانَہُ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَانَ مَعْنٰی قَوْلِہٖ (إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَنْجُسُ) أَیْ أَنَّہَا لَا تَبْقَیْ نَجِسَۃً اِذَا زَالَتِ النَّجَاسَۃُ مِنْہَا لَا أَنَّہٗ یُرِیْدُ أَنَّہَا غَیْرُ نَجِسَۃٍ فِیْ حَالِ کَوْنِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہُ فِیْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ ( إِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْئٌ ) لَیْسَ ہُوَ عَلٰی حَالِ کَوْنِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا ؛ إِنَّمَا ہُوَ عَلٰی حَالِ عَدَمِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا .فَھٰذَا وَجْہُ قَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ ( الْمَائُ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْئٌ) - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - وَقَدْ رَأَیْنَاہُ بَیَّنَ ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ .
١٠ : ابو وائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا (کہ اس پر پانی ڈالا جائے تو) اس پر پانی کا ایک ڈول بہا دیا گیا پھر (پانی جذب ہونے کے بعد) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ کو کھودنے کا حکم فرمایا۔ ابو جعفر (رح) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد : (ان الارض لا تنجس) کا معنی یہ ہے کہ زمین سے جب نجاست دور کردی جائے تو وہ نجس باقی نہیں رہتی یہ معنی نہیں ہے کہ نجاست کے ہونے کے باوجود وہ پلید نہیں ہوتی چنانچہ اس طرح بیر بضاعہ کے بارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (ان الماء لاینجسہ) نجاست کہ اس میں رہنے کی صورت میں نہیں بلکہ وہ نجاست کے نہ ہونے کی صورت میں ہے یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی (الماء یجنس) وجہ سے ۔ (واللہ اعلم) چنانچہ یہ وضاحت ہم نے اس حدیث کے علاوہ میں پائی ہے۔
اللغات : صب۔ پانی کا بہنا ‘ بہانا۔
تخریج : دار قطنی کتاب الطھارۃ ١؍١٣٢
تبصرہ طحاوی (رح) :
اس سے معلوم ہوا کہ ان الارض لا تنجس “ کا مطلب یہ ہے کہ جب نجاست زائل کردی جائے تو زمین ناپاک نہیں رہتی یہ مطلب نہیں کہ نجاست کے پائے جانے کی شکل میں وہ مقام ناپاک نہیں ہوتا۔
بالکل اسی طرح بیر بضاعہ کا معاملہ ہے کہ ان الماء لا ینجسہ شیٔ“ میں نجاست کے کنوئیں میں موجود ہونے کی حالت کا تذکرہ نہیں بلکہ نجاست کے نکال دیئے جانے کے بعد والی حالت کا ذکر ہے۔ ہم نے لا ینجسہ شیٔ کی جو وجہ بیر بضاعہ کے متعلق بیان کی ہے یہ اور کئی روایات سے بھی ثابت ہے جو ہمارے اس بیان کی تصدیق کرتی ہیں ان کو ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

11

۱ ۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِیُّ ، وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ بْنُ الصَّلْتِ الْبَغْدَادِیُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَزِیْدَ الْمُقْرِیْئُ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَوْنٍ یُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّہٗ قَالَ: (نُہِیَ، أَوْ نَہٰی أَنْ یَبُوْلَ الرَّجُلُ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ أَوِ الرَّاکِدِ ثُمَّ یُتَوَضَّأُ مِنْہُ أَوْ یُغْتَسِلُ مِنْہُ).
١ ١: حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یا کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا دائم کے لفظ فرمائے یا راکد کے (ہر دو کا معنی یکساں ہے) کہ پھر اس سے وضو یا غسل کرے۔
اللغات : الدائم : دوام و ہمیشگی۔ الراکد : رکنا ‘ ٹھہرنا۔
تخریج : اس روایت کو متعدد اسانید سے مسلم فی باب الطھارۃ نمبر ٩٤‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٥١۔ نسائی فی الطھارۃ ١؍٤٩ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٢٥‘ مسند احمد ٢؍٢٨٨‘ ٤٦٤‘ ٥٣٢‘ ٤؍٢٤١‘ ٣٥٠ میں ذکر کیا ہے۔

12

۱۲ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدِ بْنِ نُوْحِ ڑالْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرِ ڑالسَّہْمِیُّ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ الَّذِیْ لَا یَجْرِیْ ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْہِ).
١٢ : حضرت ابوہریرہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے ہیں تم میں سے کوئی ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں جو کہ نہ چلتا ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اس میں غسل کرنے لگے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٦٨ مسلم فی الطھارۃ حدیث نمبر ٩٤‘ ٩٥‘ ٩٦۔ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٦‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٥١‘ نسائی فی الطھارۃ ١؍٤٩‘ باب الماء الدائم ‘ والغسل ١؍١٩٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٢٥‘ دار می فی الوضوء باب ٥٤‘ مسند احمد ٢؍٢٥٩‘ ٢٦٥‘ ٢٨٨‘ ٣١٦‘ ٣٤٦‘ ٣٦٢‘ ٣٩٤‘ ٤٣٣‘ ٤٦٤‘ ٤٩٢‘ ٥٢٩‘ ٥٣٢‘ ٣؍٣٤١‘ ٣٥٠‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٤١‘ بیہقی السنن الکبرٰی ١؍٩٧‘ ٢٥٦‘ مستدرک ١؍١٦٨

13

۱۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی أَبُوْ مُوْسَی الصَّدَفِیُّ قَالَ أَخْبَرَنِیْ أَنَسُ بْنُ عِیَاضِ ڑاللَّیْثِیُّ عَنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَبِیْ ذُبَابٍ وَہُوَ رَجُلٌ مِنَ الْأَزْدِ ؛ عَنْ عَطَائِ بْنِ مِیْنَائَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ ثُمَّ یَتَوَضَّأُ مِنْہُ أَوْ یَشْرَبُ).
١٣ : حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی ہرگز کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ پھر اس سے وضو کرنے لگے یا اسے پینے لگے۔
تخریج : سابقہ روایت نمبر ١٣ والی ملاحظہ فرمائیں۔

14

۱۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بُکَیْرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ حَدَّثَہٗ أَنَّ أَبَا السَّائِبِ مَوْلٰی ہِشَامِ بْنِ زَہْرَۃَ ، حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( لَا یَغْتَسِلُ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ وَہُوَ جُنُبٌ فَقَالَ کَیْفَ یَفْعَلُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ؟ فَقَالَ : یَتَنَاوَلُہٗ تَنَاوُلًا).
١٤ : حضرت ابوہریرہ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے ہیں کوئی جنابت والا شخص تم میں سے کھڑے پانی میں غسل نہ کرے ایک سائل نے کہا اے ابوہریرہ (رض) پھر وہ کیسے غسل کرے تو ابوہریرہ (رض) کہنے لگے پانی کو الگ لے کر (غسل کرے تاکہ پانی کھڑے پانی میں نہ ملے)
تخریج : روایت نمبر ١٣ ملاحظہ کریں۔

15

۱۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ الْحَکَمِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عُثْمَانَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ الَّذِیْ لَا یَجْرِیْ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ مِنْہُ).
١٥ : حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے ہیں ” کہ تم میں سے کوئی ہرگز اس کھڑے پانی میں جو نہ چلتا ہو پیشاب نہ کرے “ اور پھر اس میں غسل کرنے لگے۔
تخریج : روایت نمبر ١٣ ملاحظہ کریں۔

16

۱۶: وَکَمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرِ بْنِ الْمَعَادِ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ رَحِمَہُ اللّٰہُ ، وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٦: گزشتہ روایت عبدالرحمن نے اپنے والد ابوالزناد سے نقل کی اور یہ روایت سفیان نے ابی الزناد سے نقل کی ہے ابوالزناد نے اپنی سند کے ساتھ ابوہریرہ (رض) سے ہی نقل کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ١٣ ملاحظہ فرمائیں۔

17

۱۷: حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجُ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ الَّذِیْ لَا یَجْرِیْ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ مِنْہُ).
١٧: حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے ہیں ” تم میں سے کوئی بھی ہرگز رکے ہوئے نہ بہنے والے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ پھر اس سے غسل کرنے لگے۔
تخریج : روایت نمبر ١٣ میں ملاحظہ فرمائیں۔

18

۱۸: حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ وَہْبُ اللّٰہِ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ قَالَ : سَمِعْت ابْنَ عَجْلَانَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الرَّاکِدِ وَلَا یَغْتَسِلُ فِیْہِ).
١٨ : حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ” ہرگز تم میں سے کوئی رُکے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ اس میں غسل (جنابت) کرے۔ “
تخریج : روایت نمبر ١٣ میں ملاحظہ ہو۔

19

۱۹: حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذِ ڑ الْعُصْفُرِیُّ قَالَ حَدَّثَنِیْ إدْرِیْسُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : ( وَلَا یَغْتَسِلُ فِیْہِ جُنُبٌ).
١٩: حضرت ابوہریرہ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کرتے ہیں البتہ ان الفاظ کا فرق ہے ولا یغتسل فیہ جنب “ یعنی اس میں کوئی جنابت والا غسل نہ کرے۔
تخریج : تخریج روایت نمبر ١٣ میں ملاحظہ فرمائیں۔

20

۲۰: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ ( نَہَی أَنْ یُبَالَ فِی الْمَائِ الرَّاکِدِ ثُمَّ یَتَوَضَّأُ فِیْہِ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا خَصَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَائَ الرَّاکِدَ الَّذِیْ لَا یَجْرِیْ دُوْنَ الْمَائَ الْجَارِیْ، عَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّہٗ إِنَّمَا فَصَلَ ذٰلِکَ لِأَنَّ النَّجَاسَۃَ تُدَاخِلُ الْمَائَ الَّذِیْ لَا یَجْرِی ، وَلَا تَدَاخُلُ الْمَائِ الْجَارِی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ غَسْلِ الْاِنَائِ مِنْ وُلُوْغِ الْکَلْبِ مَا سَنَذْکُرُہٗ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی نَجَاسَۃِ الْاِنَائِ وَنَجَاسَۃِ مَائِہِ وَلَیْسَ ذٰلِکَ بِغَالِبٍ عَلٰی رِیْحِہٖ وَلَا عَلٰی لَوْنِہٖ، وَلَا عَلٰی طَعْمِہٖ. فَتَصْحِیْحُ مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ یُوْجِبُ فِیْمَا ذَکَرْنَا مِنْ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ مَعَانِیْ حَدِیْثِ بِئْرِ بُضَاعَۃَ مَا وَصَفْنَا لِتَتَّفِقَ مَعَانِیْ ذٰلِکَ ، وَمَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ ، وَلَا تَتَضَادَّ .فَھٰذَا حُکْمُ الْمَائِ الَّذِیْ لَا یَجْرِیْ اِذَا وَقَعَتْ فِیْہِ النَّجَاسَۃُ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ غَیْرَ أَنَّ قَوْمًا وَقَّتُوْا فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَقَالُوْا : اِذَا کَانَ الْمَائُ مِقْدَارَ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَحْمِلْ خَبَثًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ۔
٢٠ : حضرت جابر (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا کہ پھر اسی سے وضو کرنے لگے۔ امام ابو جعفر (رح) فرماتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا پانی جو نہ چلے اسے جاری پانی سے الگ قرار دیا اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں اس لیے فرق کیا کیونکہ نجاست اس پانی میں جو جاری نہ ہو ‘ داخل ہوجاتی ہے اور جاری پانی میں اس کا اثر نہیں پڑتا اور یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس برتن کے دھونے کے سلسلے میں مروی ہے جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو اسے ہم عنقریب اسی کتاب میں ان شاء اللہ اپنے موقع پر ذکریں گے ۔ یہ بات برتن اور اس کے پانی کے پلید ہونے کی کھلی دلیل ہے حالانکہ وہاں بو ‘ رنگ اور ذائقہ کا برتن یا پانی کے پلید ہونے میں کوئی اثر نہیں پس ان آثار کے معانی کو صحیح اپنے مقام پر رکھنے سے وہی چیز ثابت ہوتی ہے جس کو ہم نے اس باب میں بیئر بضاعہ والی حدیث کے معانی کی وضاحت میں ذکر کردیا ہے تاکہ اس سے ان آثار اور ان آثار کے معانی میں یکسانیت پیدا ہوجائے اور تضاد نہ رہے پس یہ اس پانی کا حکم ہے کہ جو نہ چلتا ہو اور اس میں نجاست گرجائے البتہ بعض لوگوں نے کوئی مقدار مقرر کی ہے چنانچہ انھوں نے کہا جب پانی دو قلوں کی مقدار کو پہنچ جائے تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا اور اس سلسلے میں انھوں نے ان روایات سے دلیل پیش کی۔
تخریج : روایت نمبر ١٣ میں گزری ملاحظہ کرلی جائے۔
حاصل روایات عشرہ :
حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کو نو اسناد سے ذکر کیا دسویں روایت حضرت جابر (رض) سے نقل کی ان تمام روایات کا ماحصل قریب ایک ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے اور غسل جنابت سے ممانعت کی گئی ہے تاکہ گندگی کے پڑنے سے وہ پانی وضو و غسل کے لیے ناقابل استعمال نہ ہوجائے چنانچہ علامہ طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے اور رکے ہوئے پانی کو جو کہ نہ بہتا ہو جاری پانی سے الگ قرار دیا اس سے یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ جدا کرنے کی وجہ یہی ہے کہ نہ بہنے والے پانی میں نجاست اثر پذیر ہوتی ہے جبکہ وہ قلیل ہو اور جاری کے حکم میں نہ ہو اور کثیر پانی اور جاری پانی میں نجاست اثر نہیں کرتی جب تک رنگ بو ذائقہ نہ بدل جائے یا نجاست چلو میں نہ آنے لگے۔
اس بات پر بطور تنویر دلیل کے وہ روایت ہے جس کو حدیث ولوغ کلب کہا جاتا ہے اسے ہم دوسرے مقام پر ذکر کریں گے اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ برتن والا پانی قلیل ہے اور کتے کے منہ ڈالنے سے رنگ ‘ بو ‘ ذائقہ کا بدلنا پایا ہی نہیں گیا اس سے ثابت ہوگیا کہ پانی کے ناپاک ہونے کے لیے وصف کا بدلنا شرط نہیں۔
تطبیق : پس جماعت اول کی پیش کردہ روایات جو بیر بضاعہ سے متعلق ہیں اور ان روایات میں تضاد کے ختم کرنے کی صورت یہی ہے کہ بیر بضاعہ والی روایات کو جاری پانی پر محمول کیا جائے یا گندگی کے نکالنے کے بعد والے تازہ پانی سے متعلق سوال پر محمول کیا جائے کہ ازالہ نجاست کے بعد پانی ناپاک نہیں رہتا اور ان روایات کو قلیل رکا ہوا پانی تسلیم کیا جائے جو کہ جاری کے حکم میں نہیں اسی طرح ولوغ کلب والی روایت کہ قلیل پانی میں تغیر اوصاف کی بھی چنداں ضرورت نہیں وہ حکم کثیر اور جاری پانی کے لیے ہے اس طرح روایات کا باہمی تضاد بالکل ختم ہوجاتا ہے۔
(عقلی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفاست و طہارت کا خیال کر کے روایات کا مفہوم ظاہر ہے۔ واللہ یحب المتطھرین۔
ص : ٢٢ غیر ان قوما وقتوا فی ذلک شیئا۔ فقالوا ان کان الماء مقدار قلتین لم یحمل خبثًا۔
یہاں سے امام طحاوی ایک دوسرے اختلاف کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو مسئلہ اول میں جماعت نمبر ٢ کے مابین پایا جاتا ہے اپنے مزاج کے مطابق پہلے قالوا سے ان کے نکتہ اختلاف کو ذکر کیا اور پھر ان کے دلائل ذکر کئے پھر مسلک منصور کے جوابات و دلائل بیان کئے گئے ہیں۔
نکتہ اختلاف :
امام شافعی و احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے ہاں قلیل پانی دو قلہ سے کم کم مقدار ہے اور دو قلے اور اس سے زیادہ کثیر ہے اور اسی کا حکم رکھتا ہے کہ اس پر نجاست کا اثر رنگ ‘ بو ‘ ذائقہ کی صورت میں جب تک ظاہر نہ ہو ناپاک نہ ہوگا۔
احتجوا فی ذلک سے ان کے دلائل ذکر کئے جو کہ چھ روایات ہیں پانچ مرفوع اور ایک موقوف ہے امام طحاوی نے روات کی طرف چنداں تعرض نہیں کیا۔ جس کو تفصیل درکار ہو وہ امانی الاحبار اور بذل المجہود جلد : ١ کو ملاحظہ کرے۔

21

۲۱: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابِقِ ڑ الْخَوْلَانِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُسَامَۃَ حَمَّادُ بْنُ أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ کَثِیْرِ ڑ الْمَخْزُوْمِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْمَائِ وَمَا یَنُوْبُہٗ مِنَ السِّبَاعِ ، فَقَالَ : اِذَا بَلَغَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ فَلَیْسَ یَحْمِلُ الْخَبَثَ).
٢١ : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ذکر کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پانی کے متعلق دریافت کیا گیا جس پر درندوں کی آمد ورفت ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب پانی دو قلہ تک پہنچ جائے تو وہ گندگی سے متاثر نہیں ہوتا یعنی پاک رہتا ہے۔
اللغات : قلہ : اس کے چار مشہور معانی ہیں ! مٹکا " قد آدم #پہاڑ کی چوٹی $چیز کا بلند حصہ۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٣ /٦٣‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٥/ ٦٧‘ نسائی فی الطھارۃ ١؍٤٦ باب ٤٣‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٥‘ الدارمی فی الوضوء باب ٥٥ مسند احمد ٢؍٢٣‘ ٢٧‘ ١٠٧‘ دارقطنی فی السنن ١؍١٩‘ ٢١‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٦ مستدرک ١؍١٣٢‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٤٤۔

22

۲۲: وَکَمَا حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِیْہِ ( عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سُئِلَ عَنِ الْحِیَاضِ الَّتِیْ بِالْبَادِیَۃِ تُصِیْبُ مِنْہَا السِّبَاعُ فَقَالَ : اِذَا بَلَغَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَحْمِلْ خَبَثًا).
٢٢ : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگل کے ان جوہڑوں سے متعلق پوچھا گیا جن سے درندے پانی پیتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب پانی دو قلے تک پہنچ جائے تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا یعنی ناپاک نہیں ہوتا۔
اللغات : تصیب منھا : اس سے درندے پانی پیتے ہیں۔
تخریج : روایت نمبر ٢٢ کی تخریج ملاحظہ فرمائیں۔

23

۲۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، ثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادِ ڑ الْمُہَلَّبِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٣ : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نمبر ٢٢ جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٢ میں دیکھ لی جائے۔

24

۲۴: وَکَمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانِ بْنِ یَزِیْدَ الْبَصَرِیُّ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٤ : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٢ والی ملاحظہ کرلی جائے۔

25

۲۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَنَّ عَاصِمَ بْنَ الْمُنْذِرِ أَخْبَرَہُمْ قَالَ : کُنَّا فِیْ بُسْتَانٍ لَنَا أَوْ بُسْتَانٍ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ ، صَلَاۃُ الظُّہْرِ ، فَقَامَ إِلٰی بِئْرِ الْبُسْتَانِ فَتَوَضَّأَ مِنْہُ وَفِیْہِ جِلْدُ بَعِیْرٍ مَیِّتٍ فَقُلْتُ : أَتَتَوَضَّأُ مِنْہُ وَھٰذَا فِیْہِ ؟ فَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ : أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( اِذَا کَانَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَنْجُسْ).
٥ ٢: حماد بن سلمہ کا بیان ہے کہ ہمیں عاصم بن منذر نے بتلایا کہ ہم اپنے یا عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) کے باغ میں تھے تو نماز کا وقت آگیا اور یہ نماز ظہر تھی تو عبیداللہ باغ کے کنوئیں کی طرف گئے اور اس سے وضو کیا حالانکہ اس میں مردہ اونٹ کی کھال پڑی تھی میں نے کہا کیا اس کے ہوتے ہوئے آپ اس میں وضو کر رہے ہیں تو عبیداللہ نے جواباً فرمایا میرے والد عبداللہ نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب پانی دو قلے ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوتا۔
اللغات : لم ینجس : ناپاک و نجس نہیں ہوتا۔
تخریج : روایت نمبر ٢٢ کی تخریج پیش نظر رکھی جائے۔

26

۲۶: وَکَمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَرْفَعْہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَوْقَفَہُ عَلَی ابْنِ عُمَرَ .فَقَالَ : ہَؤُلَائِ الْقَوْمُ اِذَا بَلَغَ الْمَائُ ھٰذَا الْمِقْدَارَ ، لَمْ یَضُرَّہٗ مَا وَقَعَتْ فِیْہِ مِنَ النَّجَاسَۃِ ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلٰی رِیْحِہِ أَوْ طَعْمِہٖ أَوْ لَوْنِہٖ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ ھٰذَا ، فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الَّتِیْ صَحَّحْنَاہَا أَنَّ ہَاتَیْنِ الْقُلَّتَیْنِ لَمْ یُبَیِّنْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا مِقْدَارُہُمَا .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مِقْدَارُہُمَا ، قُلَّتَیْنِ مِنْ قِلَالِ ہَجَرَ ، کَمَا ذَکَرْتُمْ ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَا قُلَّتَیْنِ ، أُرِیْدَ بِہَا قُلَّتَا الرَّجُلِ ، وَہِیَ قَامَتْہٗ، فَأُرِیْدَ اِذَا کَانَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ أَیْ قَامَتَیْنِ لَمْ یَحْمِلْ نَجَسًا لِکَثْرَتِہٖ وَلِأَنَّہٗ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ فِیْ مَعْنَی الْأَنْہَارِ .فَإِنْ قُلْتُمْ : إِنَّ الْخَبَرَ عِنْدَنَا عَلٰی ظَاہِرِہِ ، وَالْقِلَالُ ہِیَ قِلَالُ الْحِجَازِ الْمَعْرُوْفَۃِ .قِیْلَ لَکُمْ : فَإِنْ کَانَ الْخَبَرُ عَلٰی ظَاہِرِہٖ کَمَا ذَکَرْتُمْ ، فَإِنَّہٗ یَنْبَغِیْ أَنْ یَکُوْنَ الْمَائُ اِذَا بَلَغَ ذٰلِکَ الْمِقْدَارَ لَا یَضُرُّہُ النَّجَاسَۃُ ، وَإِنْ غَیَّرَتْ لَوْنَہٗ أَوْ طَعْمَہُ أَوْ رِیْحَہٗ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَالْحَدِیْثُ عَلٰی ظَاہِرِہٖ فَإِنْ قُلْتُمْ ، فَإِنَّہٗ وَإِنْ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَدْ ذَکَرَہُ فِیْ غَیْرِہِ ، فَذَکَرْتُمْ مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنِ الْأَحْوَصِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( الْمَائُ لَا یُنَجِّسُہُ شَیْئٌ ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلٰی لَوْنِہِ أَوْ طَعْمِہِ أَوْ رِیْحِہِ).قِیْلَ لَکُمْ : ھٰذَا مُنْقَطِعٌ ، وَأَنْتُمْ لَا تُثْبِتُوْنَ الْمُنْقَطِعَ وَلَا تَحْتَجُّوْنَ بِہٖ فَإِنْ کُنْتُمْ قَدْ جَعَلْتُمْ قَوْلَہُ فِی الْقُلَّتَیْنِ عََلٰی خَاصٍّ مِنَ الْقُلَالِ جَازَ لِغَیْرِکُمْ أَنْ یَجْعَلَ الْمَائَ عََلٰی خَاصٍّ مِنَ الْمِیَاہِ ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ عِنْدَہُ عَلٰی مَا یُوَافِقُ مَعَانِیَ الْآثَارِ الْأَوَّلِ وَلَا یُخَالِفُہَا .فَإِذَا کَانَتَ الْآثَارُ الْأُوَلِ الَّتِیْ قَدْ جَائَ تْ فِی الْبَوْلِ فِی الْمَائِ الرَّاکِدِ وَفِیْ نَجَاسَۃِ الْمَائِ الَّذِیْ فِی الْاِنَائِ مِنْ وُلُوْغِ الْہِرِّ فِیْہِ عَامًّا ، لَمْ یُذْکَرْ مِقْدَارُہٗ، وَجَعَلَ عَلٰی کُلِّ مَائٍ لَا یَجْرِیْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا فِیْ حَدِیْثِ الْقُلَّتَیْنِ ہُوَ عَلَی الْمَائِ الَّذِیْ یَجْرِی وَلَا یُنْظَرُ فِیْ ذٰلِکَ إِلَی مِقْدَارِ الْمَائِ کَمَا لَمْ یُنْظَرْ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا إِلٰی مِقْدَارِہٖ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ شَیْئٌ مِنَ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَھٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ صَحَّحْنَا عَلَیْہِ مَعَانِی ھٰذِہِ الْآثَارِ ، ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ تَقَدَّمَہُمْ مَا یُوَافِقُ مَذْہَبَہُمْ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٢٦ : حماد بن سلمہ نے پہلی روایت جیسی سند سے نقل کیا ہے مگر اس روایت کو ابن عمر سے موقوف نقل کیا ہے مرفوع نہیں کیا۔ علماء کی اس جماعت نے یہ فرمایا جب پانی اتنی مقدار کو پہنچ جائے تو اس میں جتنی بھی نجاست پڑجائے اسے نقصان نہیں دے گی سوائے اس کے جب نجاست کی بو ‘ ذائقہ یا رنگ پانی پر غالب آجائے اور انھوں نے اس سلسلے میں ابن عمر (رض) کی اسی روایت کو دلیل بنایا ہے ان کے خلاف پہلے قول والے علماء کی دلیل یہ ہے جس کو ہم نے صحیح قرار دیا کہ ان آثار میں ان دو قلوں کی مقدار ہمارے سامنے صحیح واضح نہیں ہوتی جیسا کہ تم نے بیان کیا دوسری طرف اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا قد ہو تو اس صورت میں یہ مراد لیا جائے گا کہ پانی کی مقدار آدمی کے دو قد کے برار ہو تو وہ نجاست کو کثرت کی وجہ سے نہیں اٹھاتا اور اس لیے بھی کہ وہ نہر کے معنی میں ہوجائے گا اگر تم یوں کہتے ہو کہ یہ روایات ہمارے نزدیک ظاہر پر ہیں اور اس سے مرا د حجاز کے معروف مٹکے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر تمہارے کہنے کے مطابق روایات اپنے ظاہر پر ہے تو پھر مناسب یہ ہوگا کہ جب پانی اس مقدار کو پہنچ جائے تو اس کو نجاست نقصان نہ دے اگرچہ اس کا رنگ ‘ ذائقہ اور بو بدل جائے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں ان چیزوں کا ذکر نہیں فرمایا تو حدیث اپنے ظاہر پر ہوگی پس اگر تم یہ کہو کہ اگرچہ اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ذکر نہیں فرمایا مگر اور جگہ میں تو اس کا ذکر فرمایا ہے اور تم اس روایت کو ذکر کرو کہ راشد ابن سعد نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : (الماء لا ینجسہ شئ۔۔۔) یعنی پانی کو کوئی چیز پلید نہیں کرسکتی جو چیز اس کے رنگ ‘ ذائقہ اور بو کو بدل دے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ منقطع روایت ہے اور منقطع کو جب تم ثابت تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس سے استدلال کو درست مانتے ہو۔ پس اگر تم نے قلتین والی روایت میں خاص قلے مرادلیے ہیں تو تمہارے علاوہ دوسروں کو بھی حق ہے کہ پانی کو وہ خاص پانی قرار دیں پس یہ اس طرح پہلے آثار کے معانی کے موافق ہوجائے گا اور مخالف نہ رہے گا اگر پہلے آثار جو کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کے سلسلہ میں اور اس پانی کے نجس ہونے کے سلسلہ میں جو برتن میں ہو اور اس میں بلی منہ ڈال دے عام ہیں اور ان میں مقدار کا تذکرہ نہیں اور پانی کو ہر رکے ہوئے پانی کے سلسلہ میں قرار دیا جائے گا تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ قلتین والی روایت میں بہتا ہوا پانی مراد ہے اور اس میں بھی پانی کی مقدار کو اسی طرح پیش نظر نہ رکھیں گے جیسا کہ پہلی روایت میں پیش نظر نہیں رکھا گیا تاکہ اس باب میں آنے والی روایات آپس میں متضاد نہ ہوں۔ یہ مفہوم وہ ہے جس سے آثار کے معانی ہمارے نزدیک صحیح رہ سکتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے اور اس سلسلے میں پہلے ہی رواۃ سے جو ان کے مذہب کے موافق روایات گذری ہیں ایک اور روایت اس سلسلے میں وارد ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔
تخریج : حسب سابق روایت ٢٢ میں ملاحظہ کریں۔
توجہ طلب بات :
ان چھ روایات میں مدار سند تین راوی ہیں نمبر ١ ولید بن کثیر نمبر ٢ محمد بن اسحاق نمبر ٣ حماد بن سلمہ۔ چنانچہ حماد بن سلمہ ‘ حماد بن سلمہ سے تین اور محمد بن اسحاق سے دو اور ولید بن کثیر سے ایک روایت منقول ہے ان میں دو ضعیف اور حماد بن سلمہ معتبر راوی ہیں۔
حاصل روایان : ان روایات کا ماحصل یہ ہے کہ جب پانی اس مقدار کو پہنچ جائے تو نجاست سے اس کو ضرر نہ ہوگا اور وہ ناپاک نہ ہوگا مگر صرف اس صورت میں جبکہ گندگی کی بدبو ‘ رنگ ‘ ذائقہ غالب آجائے۔ احتجوا سے مسلک راجح (احناف) کی طرف سے جوابات دے رہے ہیں۔
جواب : ان آثار میں قلتین کی مقدار کی تعیین نہیں کی گئی لغت سے اس کی تعیین مشکل ہے ممکن ہے کہ قلتین سے مقام حجر کے دو قلے مراد ہوں جیسا تم کہتے ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس سے دو قد انسانی کے برابر پانی مراد ہو تو روایت ابن عمر کا مطلب یہ ہوگا کہ جب پانی دو قد انسانی کے برابر ہوجائے تو کثرت کی وجہ سے نجاست کو نہ اٹھائے گا یعنی نجاست اس پر اثر انداز نہ ہوگی کیونکہ وہ اس وقت نہر جاری کے حکم میں ہوگا اور اس میں کسی کو بھی کلام نہیں۔
سوال : اس حدیث میں اگرچہ مقدار کا تذکرہ موجود نہیں ہے مگر روایت سے اپنے ظاہر کے مطابق قلال حجاز مراد لیے جائیں گے جن کی طرف ذہن فوراً منتقل ہوتا ہے۔
جواب : ہم عرض کریں گے کہ اگر تمہارے بقول خبر اپنے ظاہر پر ہے تو پھر یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پانی جب اس مقدار کو پہنچ جائے تو نجاست اس کے لیے قطعاً کسی صورت بھی مضر نہیں خواہ اس کا رنگ ‘ بو ‘ ذائقہ ہی کیوں نہ بدل جائے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی اس روایت میں ذکر نہیں فرمایا۔ پس حدیث اپنے ظاہر پر ہوئی (حالانکہ آپ اس کے قائل نہیں) ۔
ایک اور سوال :
یہ تسلیم کرلیا کہ اگرچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں اس کو ذکر نہیں کیا مگر دیگر روایات میں تو مذکور ہے راشد بن سعد کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ((الماء لا ینجسہ شیٔ الا ما غلب علی لونہ اوطعمہ اور یحہ)) اس روایت کو ابن ماجہ نے باب ٧٦ فی الطہارت اور دارقطنی نے اپنی سنن ١؍٢٨‘ ٢٩ پر ذکر کیا ہے اب آپ کا جواب درست نہ رہا ۔
جواب : راشد بن سعد کی روایت منقطع ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں اور شوافع کے ہاں جب منقطع قابل استدلال نہیں تو اسے آگے بطور حجت پیش کرنا کیسے درست ہوگا۔
ایک اور انداز سے :
اگر قلتین والی روایت میں قلال سے خاص قسم کے قلال حجریہ مراد لیے گئے ہیں تو دوسروں کے لیے بھی راستہ مل گیا کہ وہ قلہ کے پانی سے خاص پانی یعنی جاری پانی مراد لیں جو کہ کثیر ہے اور اس سے پہلے حضرت ابوہریرہ (رض) اور جابر (رض) والی روایات میں ماء راکد اور دائم سے ماء قلیل مراد ہو تاکہ روایات کا باہمی تعارض ختم ہوجائے۔ واللہ اعلم۔ ماء راکد میں پیشاب کی ممانعت والی روایات اور برتن میں کتے کے منہ ڈالنے والی روایات عام ہیں ان میں مقدار کا تذکرہ پایا نہیں جاتا مگر ان کو قلیل مقدار کھڑے پانی پر محمول کیا ہے جو کہ بالاتفاق ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ حدیث قلتین کو ہم جاری پانی پر محمول کریں اور پانی کی مقدار سے یہاں بھی قطع نظر کرلیں جیسا کہ ماء راکد والی روایات میں اس سے قطع نظر کی گئی ہے تاکہ روایات میں تضاد باقی نہ رہے۔
حاصل یہ ہے :
کہ روایات کا یہ تطبیقی معنی ہمارے ائمہ احناف حضرت ابوحنیفہ (رح) ‘ ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ہے کہ ماء کثیر کا دارومدار مبتلا ہونے والے کی رائے پر ہے اور کنوئیں کا پانی نجاست گرنے سے بلاتغیر اوصاف بھی ناپاک ہوجائے گا تو ماء قلتین کیونکر ناپاک نہ ہوگا اس کے لیے مندرجہ ذیل آثار شاہد ہیں۔

27

۲۷: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرٌ عَنْ عَطَائٍ أَنَّ حَبَشِیًّا وَقَعَ فِیْ زَمْزَمَ ، فَمَاتَ فَأَمَرَ ابْنُ الزُّبَیْرِ فَنُزِحَ مَاؤُہَا فَجَعَلَ الْمَائَ لَا یَنْقَطِعُ ، فَنَظَرَ فَإِذَا عَیْنٌ تَجْرِیْ مِنْ قِبَلِ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ حَسْبُکُمْ .
٢٧ : عطائؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی زمزم میں گرپڑا اور مرگیا تو عبداللہ بن زبیر (رض) نے زمزم کے تمام پانی کو نکالنے کا حکم دیا وہ نکال دیا گیا مگر نیچے سے پانی منقطع نہیں ہو رہا تھا اچانک ان کی نگاہ پڑی تو ایک چشمہ حجر اسود کی جانب سے پھوٹ رہا تھا پس ابن زبیر (رض) نے فرمایا تمہیں موجودہ پانی کا نکال دینا کافی ہوگیا۔
اللغات : نزح۔ پانی نکالنا۔ قبل جانب ‘ حسبکم۔ کافی ہے۔ یہ اسم فعل ہے۔

28

۲۸: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ .ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .ثَنَا سُفْیَانُ ، أَخْبَرَنِیْ جَابِرٌ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ : وَقَعَ غُلَامٌ فِیْ زَمْزَمَ فَنُزِفَتْ ، أَیْ نُزِحَ مَاؤُہَا .
٢٨ : جابر نے ابوالطفیل سے نقل کیا کہ زمزم میں ایک غلام گرپڑا پس اس کا تمام پانی نکالا گیا۔
اللغات : نزفت۔ یہ بھی نزح کے معنی میں ہے پانی نکالنا۔
تخریج : دراقطنی فی السنن ١؍٣٣۔

29

۲۹: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ ابْنِ السَّائِبِ عَنْ مَیْسَرَۃَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ فِیْ بِئْرٍ وَقَعَتْ فِیْہَا فَأْرَۃٌ فَمَاتَتْ .قَالَ یُنْزَحُ مَاؤُہَا .
٢٩ : میسرہ بیان کرتے ہیں کہ علی (رض) نے اس کنوئیں کے متعلق جس میں چوہا گر کر مرجائے فرمایا اس کا تمام پانی نکالا جائے گا۔

30

۳۰: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامِ ڑالرُّعَیْنِیُّ .قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ .قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَعْیَنَ .عَنْ عَطَائِ عَنْ مَیْسَرَۃَ وَزَاذَانَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِذَا سَقَطَتِ الْفَأْرَۃُ، أَوِ الدَّابَّۃُ فِی الْبِئْرِ ، فَانْزَحْہَا حَتّٰی یَغْلِبَکَ الْمَائُ .
٣٠ : میسرہ اور زاذان نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے فرمایا جب چوہا یا کوئی جانور کنوئیں میں گرپڑے تو تم اس کا تمام پانی نکال دو یہاں تک کہ پانی تم پر غالب آجائے یعنی غالب گمان ہوجائے کہ تمام پانی نکل گیا ہے۔

31

۳۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَبِی الْمُہَزِّمِ قَالَ سَأَلْنَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ عَنِ الرَّجُلِ یَمُرُّ بِالْغَدِیْرِ : أَیَبُوْلُ فِیْہِ قَالَ : لَا ، فَإِنَّہٗ یَمُرُّ بِہٖ أَخُوْہُ الْمُسْلِمُ فَیَشْرَبُ مِنْہُ وَیَتَوَضَّأُ ، وَإِنْ کَانَ جَارِیًا فَلْیَبُلْ فِیْہِ إِنْ شَائَ .
٣١ : ابوالمہزم کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جس کا گزر جوہڑ کے پاس سے ہو کیا وہ اس میں پیشاب کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اسی جوہڑ پر اس کے مسلمان بھائی کا گزر ہوگا تو وہ اس سے (ضرورت پڑنے پر) پیئے گا اور وضو کرے گا (اگر اس نے پیشاب کردیا تو وہ ناپاک ہوگیا جبکہ وہ پانی جاری نہیں یا جاری کے حکم میں نہیں) اور اگر وہ جاری ہو تو اگر وہ چاہے تو اس میں پیشاب کرسکتا ہے (جاری پانی نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک رنگ وغیرہ نہ بدلے)
اللغات : الغدیر۔ جوہڑ ‘ تالاب۔ فلیبل۔ یہ صیغہ امر ہے وہ پیشاب کرے۔

32

۳۲: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ : قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ مِثْلَہٗ۔
٣٢ : ایوب نے محمد (رح) کے واسطہ سے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

33

۳۳: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الطَّیْرِ وَالسِّنَّوْرِ وَنَحْوِہِمَا .یَقَعُ فِی الْبِئْرِ .قَالَ ( یُنْزَحُ مِنْہَا أَرْبَعُوْنَ دَلْوًا).
٣٣ : زکریّا نے امام شعبی (رح) نے پرندہ ‘ بلی اور ان جیسے جانوروں کے متعلق نقل کیا کہ اگر وہ کنوئیں میں گرجائیں تو چالیس ڈول نکالے جائیں گے۔
اللغات : السنور۔ بلی۔ ینزح۔ کنوئیں سے پانی نکالنا۔

34

۳۴: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ .قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ زَکَرِیَّا عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ( یُنْزَحُ مِنْہَا أَرْبَعُوْنَ دَلْوًا).
٣٤ : زکریّا نے امام شعبی (رح) سے نقل کیا (کہ جس کنوئیں میں ایسا جانور گر کر مرجائے) اس سے چالیس ڈول نکالے جائیں گے۔

35

۳۵: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَبُرَۃَ الْہَمْدَانِیِّ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : یَدْلُوْمِنْہَا سَبْعِیْنَ دَلْوًا۔
٣٥ : عبداللہ بن ہبرہ ہمدانی نے امام شعبی (رح) سے نقل کیا (کہ ایسے کنوئیں سے) ستّر ڈول نکالے۔
اللغات : یدلو منھا۔ ڈول نکالنا۔

36

۳۶: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثِ ڑالنَّخَعِیُّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَبُرَۃَ الْہَمْدَانِیِّ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : سَأَلْنَاہُ عَنِ الدَّجَاجَۃِ تَقَعُ فِی الْبِئْرِ فَتَمُوْتُ فِیْہَا قَالَ : یُنْزَحُ مِنْہَا سَبْعُوْنَ دَلْوًا .
٣٦ : عبداللہ بن سبرہ ہمدانی نے امام شعبی (رح) سے نقل کیا کہ ہم نے ان سے سوال کیا اگر مرغی کنوئیں میں گر کر مرجائے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا ستّر ڈول نکالے جائیں گے۔
اللغات : الدجاجہ۔ مرغی۔

37

۳۷: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا مُغِیْرَۃُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فِی الْبِئْرِ یَقَعُ فِیْہِ الْجُرَذُ أَوِ السِّنَّوْرُ فَیَمُوْتُ ؟ قَالَ : یَدْلُوْمِنْہَا أَرْبَعِیْنَ دَلْوًا ، قَالَ الْمُغِیْرَۃُ حَتّٰی یَتَغَیَّرَ الْمَائُ۔
٣٧ : مغیرہ نے ابراہیم (رح) سے اس کنوئیں کے متعلق پوچھا جس میں چوہا یا بلی گر کر مرجائے تو کیا حکم ہے فرمایا چالیس ٤٠ ڈول نکالے جائیں جب تک پانی متغیر نہ ہو۔
اللغات : الجرذ۔ چوہا ‘ السنور۔ بلی۔

38

۳۸: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فِی فَأْرَۃٍ وَقَعَتْ فِیْ بِئْرٍ ، قَالَ : ( یُنْزَحُ مِنْہَا قَدْرُ أَرْبَعِیْنَ دَلْوًا).
٣٨ : مغیرہ نے ابرہیم (رح) سے اس کنوئیں سے متعلق دریافت کیا جس میں چوہا گر کر مرجائے تو انھوں نے فرمایا اس سے چالیس ڈول نکالے جائیں گے۔

39

۳۹: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ فِی الْبِئْرِ تَقَعُ فِیْہِ الْفَأْرَۃُ قَالَ یُنْزَحُ مِنْہَا دِلَائٌ ۔
٣٩ : مغیرہ نے ابراہیم (رح) سے اس کنوئیں کے متعلق دریافت کیا جس میں چوہا گر کر مرجائے ؟ تو انھوں نے فرمایا اس سے چند ڈول نکالے جائیں گے۔
اللغات : دلاء جمع دلو : ڈول۔

40

۴۰: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ سُلَیْمَانَ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ دَجَاجَۃٍ وَقَعَتْ فِیْ بِئْرٍ فَمَاتَتْ قَالَ یُنْزَحُ مِنْہَا قَدْرُ أَرْبَعِیْنَ دَلْوًا أَوْ خَمْسِیْنَ ، ثُمَّ یُتَوَضَّأُ مِنْہَا .فَھٰذَا مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَابِعِیْہِمْ ، قَدْ جَعَلُوْا مِیَاہَ الْآبَارِ نَجِسَۃً بِوُقُوْعِ النَّجَاسَاتِ فِیْہَا وَلَمْ یُرَاعُوْا کَثْرَتَہَا وَلَا قِلَّتَہَا ، وَرَاعُوا دَوَامَہَا وَرُکُوْدَہَا ، وَفَرَّقُوْا بَیْنَہَا وَبَیْنَ مَا یَجْرِیْ مِمَّا سِوَاہَا .فَإِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ مَعَ مَا تَقَدَّمَہَا مِمَّا رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ذَہَبَ أَصْحَابُنَا فِی النَّجَاسَاتِ الَّتِیْ تَقَعُ فِی الْآبَارِ وَلَمْ یَجُزْ لَہُمْ أَنْ یُخَالِفُوْہَا لِأَنَّہٗ لَمْ یُرْوَ عَنْ أَحَدٍ خِلَافُہَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَأَنْتُمْ قَدْ جَعَلْتُمْ مَائَ الْبِئْرِ نَجِسًا بِوُقُوْعِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا فَکَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ لَا تَطْہُرَ تِلْکَ الْبِئْرُ أَبَدًا لِأَنَّ حِیْطَانَہَا قَدْ تَشَرَّبَتْ ذٰلِکَ الْمَائَ النَّجِسَ ، وَاسْتَکَنَّ فِیْہَا ، فَکَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ تُطَمَّ .قِیْلَ لَہٗ : لَمْ تَرَ الْعَادَاتِ جَرَتْ عَلٰی ھٰذَا قَدْ فَعَلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ مَا ذَکَرْنَا فِیْ زَمْزَمَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرُوْا ذٰلِکَ عَلَیْہِ وَلَا أَنْکَرَہٗ مَنْ بَعْدَہُمْ ، وَلَا رَأٰی أَحَدٌ مِنْہُمْ طَمَّہَا وَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِنَائِ الَّذِیْ قَدْ نَجِسَ مِنْ وُلُوْغِ الْکَلْبِ فِیْہِ ؛ أَنْ یُغْسَلَ ؛ وَلَمْ یَأْمُرْ بِأَنْ یُکْسَرَ ؛ وَقَدْ شَرِبَ مِنَ الْمَائِ النَّجَسِ .فَکَمَا لَمْ یُؤْمَرْ بِکَسْرِ ذٰلِکَ الْاِنَائِ ، فَکَذٰلِکَ لَا یُؤْمَرُ بِطَمِّ تِلْکَ الْبِئْرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْاِنَائَ یُغْسَلُ ، فَلِمَ لَا کَانَتِ الْبِئْرُ کَذٰلِکَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الْبِئْرَ لَا یُسْتَطَاعُ غَسْلُہَا ، لِأَنَّ مَا یُغْسَلُ بِہٖ یَرْجِعُ فِیْہَا وَلَیْسَتْ کَالْاِنَائِ الَّذِیْ یُہْرَاقُ مِنْہُ مَا یُغْسَلُ بِہٖ .فَلَمَّا کَانَتَ الْبِئْرُ مِمَّا لَا یُسْتَطَاعُ غَسْلُہَا وَقَدْ ثَبَتَ طَہَارَتُہَا فِیْ حَالٍ مَا .وَکَانَ کُلُّ مَنْ أَوْجَبَ نَجَاسَتَہَا بِوُقُوعِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا وَقَدْ أَوْجَبَ طَہَارَتَہَا بِنَزْحِہَا وَإِنْ لَمْ یُنْزَحْ مَا فِیْہَا مِنْ طِیْنٍ .فَلَمَّا کَانَ بَقَائُ طِیْنِہَا فِیْہَا ، لَا یُوْجِبْ نَجَاسَۃَ مَا یَطْرَأُ فِیْہَا مِنَ الْمَائِ وَإِنْ کَانَ یَجْرِی عَلٰی ذٰلِکَ الطِّیْنِ کَانَ اِذَا مَا بَیْنَ حِیْطَانِہَا أَحْرٰی أَنْ لَا یَنْجُسَ ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مَأْخُوْذًا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، لَمَا طَہُرَتْ حَتّٰی تُغْسَلَ حِیْطَانُہَا وَیَخْرُجَ طِیْنُہَا وَیُحْفَرَ فَلَمَّا أَجْمَعُوْا أَنَّ نَزْحَ طِیْنِہَا وَحَفْرَہَا غَیْرُ وَاجِبٍ، کَانَ غَسْلُ حِیْطَانِہَا أَحْرَی أَنْ لَا یَکُوْنَ وَاجِبًا .وَھٰذَا کُلُّہٗ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٠ : حماد بن سلمہ نے ابو سلیمان (رح) سے دریافت کیا اگر مرغی کنوئیں میں گر کر مرجائے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا چالیس ڈول یا پچاس ڈول کی مقدار پانی نکال دیں پھر اس سے وضو کرلیں۔ یہ جن اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تابعین (رح) نے روایت کیا انھوں نے کنووں کے پانیوں کو نجاسات کے پڑجانے سے نجس قرار دیا اور اس میں قلت اور کثرت کی رعایت نہیں کی بلکہ پانی کے دوام اور رکنے کی رعایت کی ہے اور انھوں نے چلنے والے پانی کو دیگر پانیوں سے الگ قرار دیا ہے۔ ان روایات کی طرف ان روایات سمیت جو ان سے پہلے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہیں ہمارے علماء کنووں میں گرنے والی نجاستوں کے سلسلے میں اس طرف گئے ہیں۔ ان کو ان روایات کی مخالفت بھی جائز نہیں کیونکہ کسی سے بھی ان کی مخالفت منقول نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تم نے کنویں کے پانی کو نجاست پڑنے سے نجس (پلید) قرار دیا۔ تو اس سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کنواں کبھی بھی پاک نہ ہو کیونکہ اس کی دیواروں میں وہ پلید پانی سرایت کرچکا اور ان میں جاگزین ہوچکا۔ پس کنویں کی پاکیزگی کے لیے مناسب ہے کہ کنویں ہی کو پاٹ دیا جائے۔ اسے جواب میں یہ کہا جائے گا یہ چیز عادات سے ثابت نہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے اصحاب پیغمبر کی موجودگی میں وہ عمل کیا جو ہم نے پیچھے ذکر کیا ہے اور ان میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور نہ ہی بعد والوں میں سے کسی نے انکار کیا اور نہ ان میں سے کسی نے اس کے پاٹنے کی رائے دی بلکہ خود جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس برتن کو جس میں سے کتے نے پانی لیا تھا یہ حکم فرمایا کہ اس کو دھو دیا جائے اور آپ نے توڑنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ پلید پانی پیالے میں سرایت کرچکا ہے تو جس طرح اس برتن کے توڑنے کا حکم نہیں اسی طرح اس کنویں کے پاٹنے کا حکم بھی نہ دیا جائے گا۔ پھر اگر کوئی یہ کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ برتنوں کو تو دھویا جاتا ہے لیکن کنووں کو آج تک دھوتے نہیں دیکھا گیا تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ کنویں کا دھونا ممکن نہیں کیونکہ اس میں جس پانی سے دھویا جائے گا وہ دوبارہ لوٹ کر اسی میں جائے گا۔ وہ برتن کی طرح نہیں ہے کہ جس میں دھوئے ہوئے پانی کو بہا دیا جاتا ہے پس جب کنواں ان چیزوں میں سے ہوگیا جن کا دھونا ممکن نہیں اور اس کی طہارت جس حال میں بھی ہو وہ ثابت ہوگئی اور ہر وہ شخص جس نے نجاست کے گر جانے سے اس کی نجاست کا حکم لگایا تھا تو اس میں سے پانی کے نکال لیے جانے کے بعد اس کا پاک ہونا لازم ہوگیا۔ اگرچہ اس کی مٹی کو نہیں نکالا گیا۔ جب اس کی مٹی کا اس میں باقی رہنا وہ اس میں تازہ نکلنے والے پانی کی نجاست کو واجب نہیں کرتا۔ خواہ وہ اسی مٹی پر ہی چل رہا ہو تو اس کی دیواروں کا نجس نہ ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا۔ اگر بطور نظر کے یہ بات مان لی جائے تو وہ پاک ہی نہیں ہوا چہ جائیکہ اس کی دیواروں کو دھو دیا جائے اور اس کی مٹی کو نکال دیا جائے اور پاٹ دیا جائے۔ پس جب اس پر سب متفق ہیں کہ اس کی مٹی اور کھدائی واجب نہیں تو اس کی دیواروں کا دھونا بدرجہ اولیٰ واجب نہ ہوگا اور یہ سب امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل کلام : اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تابعین کے آثار واضح کر رہے ہیں کہ نمبر ١ نجاسات کے پڑنے سے کنوؤں کا پانی ناپاک ہوجاتا ہے نمبر ٢ اس میں انھوں نے قلت و کثرت کی رعایت نہیں کی بلکہ دوام و رکود (رکنا) کی رعایت کی ہے اور جاری پانی کو دوسرے پانیوں سے الگ شمار کیا ہے ان آثار سے اور جو اس سے پہلے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث نقل کی ہیں ہمارے علماء ان نجاسات کے سلسلے میں اس طرف گئے ہیں جو کنوؤں میں گرجاتی ہیں اور ان کو ان روایات کی مخالفت جائز بھی نہیں کیونکہ کسی سے بھی ان روایات کے خلاف قول منقول نہیں۔
ایک اعتراض :
نجاست کے گرنے سے تم نے کنوئیں کو ناپاک قرار دیا تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کنواں کبھی پاک نہ ہو خواہ سارا پانی اس میں سے نکال لیا جائے کیونکہ کنوئیں کی دیوار میں نجس پانی سرایت کرچکا اور جاگزین ہوچکا کنوئیں کو پاک کرنے کی بجائے پاٹ دینا مناسب ہوگا۔
S: عادۃً کنواں پاٹ ڈالنے کی بات دیکھنے میں نہیں آئی اور کنوئیں سے ناپاک پانی کے نکالنے والا عمل عبداللہ بن زبیر (رض) نے صحابہ کرام اور تابعین کی موجودگی میں کیا جبکہ زمزم میں ایک حبشی غلام گر کر مرگیا تھا اور کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا اور نہ پاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور نہ تابعین و تبع تابعین میں سے کسی نے دیا اور نہ کسی نے پاٹ ڈالنے کی رائے دی اور خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولوغ کلب والے برتن کے متعلق حکم فرمایا کہ اس کو دھویا جائے اس کو توڑنے کا حکم نہیں فرمایا حالانکہ اس برتن میں نجس پانی سرایت کرچکا ہے پس جس طرح اس برتن کے توڑنے کا حکم (بالاتفاق) نہیں دیا جاتا اسی طرح کنوئیں کے پاٹ ڈالنے کا بھی حکم نہ دیا جائے گا۔
اعتراض نمبر ٢:
برتن کو تو دھونے کی بات آپ خود تسلیم کر رہے ہیں تو کنویں کو کیوں دھونے کے قائل نہیں ہوتے۔
الجواب : برتن کو بار بار دھو کر اس کا پانی پلٹ دیا جاتا ہے کنوئیں کی دیواریں دھونے سے پانی پھر اسی میں لوٹ جائے گا جب نکالیں گے تو پھر دیواروں پر پڑجائے گا پس اس کے دھونے کی طاقت نہیں۔ (اگر آپ کرسکتے ہیں تو کرتے جائیں ہم منع نہیں کرتے) جب کنوئیں کا دھونا استطاعت سے بڑھ کر ہے اور اس کی طہارت اسی حالت میں ہی ثابت ہے نیز جو لوگ نجاست کے گرنے سے اس کی نجاست کے قائل ہیں انھوں نے ناپاک پانی نکالنے کے بعد کنوئیں کی طہارت کو لازم قرار دیا ہے خواہ کنوئیں کی گابھ نہ نکالی جائے تو حاصل جواب یہ ہوا کہ جب گابھ کا موجود رہنا تازہ نکلنے والے پانی کی نجاست کو لازم نہیں کرتا خواہ وہ پانی گابھ پر بہہ کر آ رہا ہو بلکہ وہ بالکل پاک قرار دیا جاتا ہے تو جو کچھ اس کی دیواروں کے درمیان سرایت کر جانے والا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ نجس نہ رہے۔

دلیل عقلی :
ذرا غور سے سوچیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مناسب تو یہی ہے کہ جب تک کنوئیں کی دیواروں کو نہ دھویا جائے اور گابھ کو نہ نکالا جائے اور گہرائی میں اس کو نہ کھودا جائے تو اس وقت تک کنواں پاک نہ ہو مگر اس پر سب نے اتفاق کرلیا کہ گابھ کا نکالنا اور مزید کھدائی کرنا لازم نہیں بلکہ اس کی حاجت نہیں تو دیواروں کا دھونا بھی واجب و لازم نہ ہونا چاہیے۔
یہی امام ابوحنیفہ (رح) ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
` بَابُ سُوْرِ الْہِرِّ `
بلّی کا جوٹھا
سو ٔر :۔ جوٹھا پانی۔ اس کی علماء نے سات قسمیں بیان کی ہیں :
قسم حکم
! مسلمان کا جوٹھا ۔ بالاتفاق پاک ہے۔
" جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ بالاتفاق پاک ہے۔
# کافر کا جوٹھا ۔ اس میں اختلاف ہے۔
$ خنزیر کا جوٹھا ۔ بالاتفاق ناپاک ہے۔
% کتے کا جوٹھا ۔ اس میں اختلاف ہے۔
& گھر میں رہنے والے درندوں ‘ بلی ‘ چوہا ‘ سانپ وغیرہ کا جوٹھا ۔ طاہر یا مکروہ (آگے بحث ہوگی)
' خچر گدھے کا جوٹھا ۔ مکروہ ہے
اختلافِ ائمہ (رح) :
نمبر ١: امام شافعی ‘ مالک و احمد (رح) اور دیگر علماء بلی کے جو ٹھے کو بالکل طاہر قرار دیتے ہیں نمبر ٢ : امام ابوحنیفہ حسن بصری ‘ ابن سیرین (رح) طاہر تو نہیں بلکہ مکروہ ہے امام طحاوی کے ہاں کراہت تحریمی ہے۔

41

۴۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ حُمَیْدَۃَ بِنْتِ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ عَنْ کَبْشَۃَ بِنْتِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ وَکَانَتْ تَحْتَ ابْنِ أَبِیْ قَتَادَۃَ أَنَّ أَبَا قَتَادَۃَ دَخَلَ عَلَیْہَا فَسَکَبَتْ لَہٗ وَضُوْئً ا .فَجَائَ تْ ہِرَّۃٌ فَشَرِبَتْ مِنْہُ فَأَصْغٰی لَہَا أَبُوْ قَتَادَۃَ الْاِنَائَ حَتّٰی شَرِبَتْ .قَالَتْ کَبْشَۃُ فَرَآنِیْ أَنْظُرُ إِلَیْہِ فَقَالَ : أَتَعْجَبِیْنَ یَا ابْنَۃَ أَخِیْ؟ قَالَتْ قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( إِنَّہَا لَیْسَتْ بِنَجَسٍ ، إِنَّہَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ أَوِ الطَّوَّافَاتِ) .
٤١ : کبشہ بنت کعب جو کہ ابن ابی قتادہ کی زوجہ ہیں وہ نقل کرتی ہیں کہ ابو قتادہ میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے ان کے لیے برتن میں وضو کا پانی ڈالا اسی وقت بلی نکل کر اس برتن سے پانی پینے لگی تو ابو قتادہ نے اس کی طرف برتن کو جھکا دیا (تاکہ وہ اچھی طرح پانی پی لے) چنانچہ اس نے پانی پی لیا۔ کبشہ کہتی ہیں کہ مجھے ابو قتادہ نے تعجب کی نگاہ سے دیکھتے پایا تو فرمایا اے بھتیجی ! کیا تم اس پر تعجب کر رہی ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! تو اس پر ابو قتادہ کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” یہ نجس نہیں “ بیشک یہ تم پر آنے جانے اور گھومنے والے جانوروں سے ہے “
اللغات : سکبت لہ۔ ڈالنا۔ بہانا۔ اصغی لھا۔ جھکانا ‘ مائل کرنا۔ طوافین۔ طواف کی جمع ہے بہت گھومنے اور چکر لگانے والا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٨‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٦٩ نسائی فی الطھارۃ باب ٥٣‘ والمیاہ باب ٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣٢‘ موطا فی الطھارۃ روایت نمبر ١٣‘ مسند احمد ٥؍٢٩٦‘ ٣٠٣‘ ٣٠٩‘

42

۴۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ جَدِّہٖ أَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ رَأَیْتُہٗ یَتَوَضَّأُ فَجَائَ الْہِرُّ فَأَصْغٰی لَہٗ حَتّٰی شَرِبَ مِنِ الْاِنَائِ فَقُلْتُ : یَا أَبَتَاہُ، لِمَ تَفْعَلُ ھٰذَا ؟ فَقَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ، أَوْ قَالَ : ہِیَ مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ).
٤٢ : کعب بن عبدالرحمن اپنے دادا ابو قتادہ (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان کو وضو کرتے دیکھا اچانک ایک بلی آ نکلی تو انھوں نے اس کی طرف برتن جھکا دیا یہاں تک کہ اس نے برتن سے پانی پیا میں نے کہا ابا جی ! آپ یہ کیوں کرتے ہیں ؟ تو ابو قتادہ کہنے لگے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کرتے تھے یا یہ کہا کہ یہ تم پر گھومنے والے جانوروں سے ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٤١ کی مندرجہ بالا تخریج ملاحظہ کرلیں۔

43

۴۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الرِّجَالِ عَنْ أُمِّہٖ عَمْرَۃَ عَنْ ( عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْاِنَائِ الْوَاحِدِ وَقَدْ أَصَابَتِ الْہِرُّ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ).
٤٣ : حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن سے غسل کرلیا کرتے تھے حالانکہ اس پانی سے بلی پہلے پی چکی ہوتی تھی۔ تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ ‘ باب ٣٢‘ دارقطنی فی السنن کتاب الطھارۃ ١؍٦٩۔

44

۴۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ أَبِی الرِّجَالِ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٤ : عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اس کی مثل روایت نقل کی ۔

45

۴۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرِو ڑ الْخُرَاسَانِیُّ قَالَ : ثَنَا صَالِحُ بْنُ حَیَّانَ قَالَ : ثَنَا عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصْغِی الْاِنَائَ لِلْہِرِّ وَیَتَوَضَّأُ بِفَضْلِہِ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَلَمْ یَرَوْا بِسُؤْرِ الْہِرِّ بَأْسًا وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ ، أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَکَرِہُوہُ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، أَنَّ حَدِیْثَ مَالِکٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ، لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْہِ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَنَّہَا لَیْسَتْ بِنَجَسٍ ، إِنَّہَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ أَوِ الطَّوَّافَاتِ .لِأَنَّ ذٰلِکَ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ ، کَوْنُہَا فِی الْبُیُوْتِ وَمُمَاسَّتُہَا الثِّیَابَ .فَأَمَّا وُلُوْغُہَا فِی الْاِنَائِ .فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ ذٰلِکَ یُوجِبُ النَّجَاسَۃَ أَمْ لَا .وَإِنَّمَا الَّذِیْ فِی الْحَدِیْثِ مِنْ ذٰلِکَ ، فِعْلُ أَبِیْ قَتَادَۃَ .فَلَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُّحْتَجَّ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدْ یَحْتَمِلُ الْمَعْنَی الَّذِیْ یُحْتَجُّ بِہٖ فِیْہِ وَیُحْتَمَلُ خِلَافُہٗ ، وَقَدْ رَأَیْنَا الْکِلَابَ کَوْنُہَا فِی الْمَنَازِلِ غَیْرَ مَکْرُوْہٍ .وَسُؤْرُہَا مَکْرُوْہٌ فَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ قَتَادَۃَ أُرِیْدَ بِہِ الْکَوْنُ فِی الْمَنَازِلِ لِلصَّیْدِ وَالْحِرَاسَۃِ وَالزَّرْعِ .وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی حُکْمِ سُؤْرِہَا ، ہَلْ ہُوَ مَکْرُوْہٌ أَمْ لَا .وَلَکِنَّ الْآثَارَ الْأُخَرَ عَنْ عَائِشَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا اِبَاحَۃُ سُؤْرِہَا .فَنُرِیْدُ أَنْ نَنْظُرَ ہَلْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُخَالِفُہَا ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .فَإِذَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (طَہُوْرُ الْاِنَائِ اِذَا وَلَغَ فِیْہِ الْہِرُّ أَنْ یُغْسَلَ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ) قُرَّۃُ شَکَّ .وَھٰذَا حَدِیْثٌ مُتَّصِلُ الْاِسْنَادِ، فِیْہِ خِلَافُ مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، وَقَدْ فَصَّلَہَا ھٰذَا الْحَدِیْثُ لِصِحَّۃِ إِسْنَادِہٖ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا الْأَمْرُ یُؤْخَذُ مِنْ جِہَۃِ الْاِسْنَادِ فَإِنَّ الْقَوْلَ بِھٰذَا أَوْلٰی مِنَ الْقَوْلِ بِمَا خَالَفَہٗ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّ ہِشَامَ بْنَ حَسَّانَ قَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ فَلَمْ یَرْفَعْہُ ، وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سُؤْرُ الْہِرَّۃِ یُہْرَاقُ وَیُغْسَلُ الْاِنَائُ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ .قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ فِیْ ھٰذَا مَا یَجِبُ بِہٖ فَسَادُ حَدِیْثِ قُرَّۃَ ، لِأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سِیْرِیْنَ قَدْ کَانَ یَفْعَلُ ھٰذَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یُوْقِفُہَا عَلَیْہِ ، فَإِذَا سُئِلَ عَنْہَا : ہَلْ ہِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ رَفَعَہَا .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْہَرَوِیُّ .قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَتِیْقٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّہٗ کَانَ اِذَا حَدَّثَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فَقِیْلَ لَہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ کُلُّ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَإِنَّمَا کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ لِأَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، لَمْ یَکُنْ یُحَدِّثُہُمْ إِلَّا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَغْنَاہُ مَا أَعْلَمَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ ، أَنْ یَرْفَعَ کُلَّ حَدِیْثٍ یَرْوِیْہِ لَہُمْ مُحَمَّدٌ عَنْہُ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ اتِّصَالُ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ھٰذَا ، مَعَ ثَبْتِ قُرَّۃَ وَضَبْطِہِ وَإِتْقَانِہِ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ مَوْقُوْفًا مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الطَّرِیْقِ ، وَلَکِنَّہٗ غَیْرُ مَرْفُوْعٍ .
٤٥: عروہ بن زبیر (رض) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلی کے پانی پینے کے لیے اس کی طرف برتن جھکا دیتے اور اس کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرما لیتے۔
اللغات : فضل۔ بچا ہوا۔
تخریج : دارقطنی فی سنۃ کتاب الطھارۃ ١؍٧٠
حاصل روایان : علامہ ابو جعفر طحاوی (رح) فرماتے ہیں فقہاء کی ایک جماعت جن میں ائمہ ثلاثہ کے علاوہ امام یوسف (رح) بھی شامل ہیں اس طرف گئے ہیں کہ بلی کے جو ٹھے میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ روایات و آثار بالا سے ظاہر ہو رہا ہے۔
تسامح : امام محمد (رح) کا نام شاید غلطی سے درج ہوگیا کیونکہ کتاب الآثار امام محمد ١؍٨٣ باب الوضوء میں اس کے خلاف ہے۔
خالفھم فی ذلک آخرون : یہاں سے پہلی جماعت کے دلائل کا جواب ذکر کرتے ہیں یاد رہے کہ پہلی جماعت کے دلائل کا حاصل یہ ہے کہ پانچ روایات جن کو حضرت ابو قتادہ اور عائشہ صدیقہ (رض) سے مختلف اسناد سے نقل کیا گیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بلی کا بچا ہوا پانی پاک ہے اسے مکروہ یا ناپاک نہیں کہا جاسکتا۔
جواب نمبر ١: اسحاق بن عبداللہ والی روایت کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ وہ گھروں میں آنے جانے والے جانوروں سے ہے اس کے بستر اور کپڑے کو لگ جانے سے بستر ناپاک نہ ہوگا پانی میں منہ ڈالنے کے بعد اس کے بچے ہوئے پانی کا تو روایت میں تذکرہ ہی نہیں پس روایت اس موضوع سے تعلق نہیں رکھتی چہ جائیکہ لاینجس سے اس کے پاک ہونے کی دلیل بنائیں۔
نمبر ٢ : دوسری روایت ابو قتادہ میں ان کا فعل مذکور ہے اور دوسرے صحابی کا فعل اگر اس کے خلاف ہو تو پھر ان دونوں میں جو قرآن و سنت سے قریب تر ہوگا وہ اختیار کیا جائے گا اور وہ فعل ابوہریرہ (رض) ہے۔
الجواب نمبر ٣: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول لاینجس میں جب دو احتمال ہیں کپڑوں کو لگ جانے سے ان کا نجس نہ ہونا اور برتن میں منہ ڈالنے سے اس پانی کا ناپاک نہ ہونا تو دو اطراف کا احتمال رکھنے والی روایت کو ایک کے ثبوت کی دلیل بنانا درست نہ ہوا۔
اس پر تنویر دلیل کے طور پر فرماتے ہیں کہ گھروں میں حفاظت اور شکار کے لیے کتوں کا رکھنا مکروہ نہیں ان کا خشک جسم کپڑے کو ٹکرا جائے تو کپڑا ناپاک نہ ہوگا ان کا جوٹھا ناپاک اور مکروہ ہے بالکل اسی طرح بلی کا گھروں میں چوہوں اور سانپوں سے حفاظت کے لیے آنا جانا تو درست ہوگا مگر اس کا جوٹھا مکروہ رہے گا پس ان روایات میں جو ٹھے کا حکم مذکور نہیں کہ وہ مکروہ ہے یا نہیں۔
الجواب ٤: البتہ وہ آثار جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہیں ان میں یہ تو مذکور ہے کہ اس کا جوٹھا قابل استعمال ہے اگرچہ سند کے لحاظ سے یہ روایت نہایت کمزور ہے مگر اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم اس کے بالمقابل صحیح روایت موجود پاتے ہیں جس کو ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب برتن میں بلی منہ ڈال جائے تو برتن کی پاکیزگی ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دھونے سے ہوگی قرہ بن خالد راوی کو شک ہے کہ ان کے استاذابن سیرین نے مرۃً فرمایا یا مرتین۔
تخریج : ابو داؤد و فی الطھارۃ باب ٣٧ نمبر ٧٢‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٦٨ روایت نمبر ٩‘ دارقطنی فی سننہ کتاب الطھارۃ ١؍٦٤۔
محاکمہ :
یہ روایت صحیحہ ہے اس کی سند متصل ہے اس نے ان روایات کی تفصیل کردی کہ آثار مذکورہ بالا کا مفہوم وہ ہے جو اس روایت کی روشنی میں ہوگا اور اگر سند کی طرف جائیں گے تو تب بھی اسی روایت کو ترجیح دینا پڑے گی۔
ایک اہم اشکال :
آپ تو اس روایت کو متصل السند کہہ رہے ہیں جبکہ معاملہ اس کے خلاف ہے ہشام بن حسان اپنے استاذ محمد بن سیرین سے اس کو موقوف نقل کر رہے ہیں جو اس طرح ہے : ہشام بن حسان عن محمد عن ابی ہریرہ (رض) قال سورالھرۃ یھراق ویغسل الاناء مرۃ او مرتین “ ۔
حل اشکال :
محمد بن سیرین حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایات نقل کرتے ہوئے کبھی ان کو مرفوع نقل کرتے ہیں اور کبھی موقوف جب ان سے سوال کیا جاتا کہ آپ اس کو موقوف نقل کر رہے ہیں تو وہ اس کو مرفوع نقل کرتے اور فرماتے میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایات نقل کروں خواہ وہ موقوف ہوں یا مرفوع وہ سب ابوہریرہ (رض) کی مرفوع روایات ہیں موقوف ذکر کرنے میں مرفوع سے بےنیازی ہوجاتی ہے پس اس روایت کا موقوف نقل ہونا چنداں محل اعتراض نہ ہوا یہ بات ابراھیم بن ابی داؤد نے اپنی سند کے ساتھ ابن سیرین سے نقل کی ہے پس اس روایت کا اتصال ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ قرہ بن خالد کا محدثین میں ثبت اور ضبط و اتقان مشہور و معروف ہے نیز روایت کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں۔

46

۴۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحِ ڑالسَّمَّانِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ " یُغْسَلُ الْاِنَائُ مِنَ الْہِرِّ، کَمَا یُغْسَلُ مِنَ الْکَلْبِ "
٤٦ : ابو صالح السمان (رح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ بلی کے برتن میں منہ ڈالنے سے برتن کو اسی طرح دھویا جائے گا جیسا کتے کے منہ ڈالے ہوئے برتن کو۔
تخریج : بیہقی ١؍٣٧٦ دارقطنی ١؍٦٨۔

47

۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ خَیْرِ بْنِ نُعَیْمٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ مِثْلَہٗ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَابِعِیْہِمْ .
٤٧ : ابو صالح (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کا قول نقل کیا ہے۔
اور یہ صحابہ کرام اور تابعین کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔

48

۴۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ ڑ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِیْہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَتَوَضَّأُ بِفَضْلِ الْکَلْبِ وَالْہِرِّ .وَمَا سِوٰی ذٰلِکَ فَلَیْسَ بِہٖ بَأْسٌ .
٤٨ : نافع (رح) ، ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ کتے اور بلی کے جو ٹھے پانی سے وضو نہ کرتے تھے اور فرماتے ان کے علاوہ گھروں میں رہنے والے جانوروں کے جو ٹھے میں کوئی حرج نہیں۔ امام ابوجعفر طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان آثار کی طرف ایک جماعت گئی ہے اس لیے انھوں نے بلی کے جو ٹھے میں کوئی حرج قرار نہیں دیا اور جو حضرات اس طرف گئے ہیں ان میں امام ابویوسف اور امام محمد (رح) ہیں۔ دوسرے علماء نے ان کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے اس کو مکروہ قرار دیا۔ چنانچہ پہلے قول والے حضرات کے خلاف ان کی دلیل اسحق بن عبداللہ والی روایت ہے (ہم ان سے یہ عرض کریں گے کہ تمہارے حق میں جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : ((انہا من الطوافین علیکم او الطوافات)) میں اس کے نجس نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں یہ بھی جائز ہے کہ اس کا گھروں میں رہنا مراد لیا گیا ہو اور کپڑوں کو چھونا مراد ہو بقیہ برتن میں اس کا منہ مارنا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے اس کا نجس ہونا یا نجس نہ ہونا ثابت ہو۔ حدیث کے اندر تو حضرت ابوقتادہ (رض) کا فعل ذکر کیا گیا ہے۔ پس مناسب نہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے جو دو معنوں کا احتمال رکھنے والا ہے اس سے ایک طرف دلیل بنائی جائے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتوں کا گھر کے اندر رکھنا ناجائز نہیں اور ان کا جوٹھا پلید ہے تو یہ بھی جائز ہے کہ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث ابی قتادہ میں جو ارشاد آیا ہے اس کا گھروں میں شکار ‘ نگہبانی اور کھیتی کے لیے پالنا مراد لیا جائے۔ اس میں اس کے جو ٹھے کے حکم کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیا وہ پلید ہے یا نہیں ؟ لیکن دوسرے آثار جو عائشہ صدیقہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیے ہیں ان میں اس کے جو ٹھے کا مباح ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ کیا جناب احمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے مخالف کوئی بات مروی ہے ‘ چنانچہ ہم نے غور کیا تو حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت جناب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی سامنے آئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلی جب پانی والے برتن میں منہ ڈال دے تو اس کی پاکیزگی یہ ہے کہ اسے ایک یا دو مرتبہ دھو دیا جائے۔ قرۃ کو ان دونوں الفاظ میں سے ایک کے بارے میں شک ہے اس حدیث کی سند متصل ہے۔ یہ حدیث پہلے آثار میں جو کچھ ہے اس کے خلاف ہے اور انھوں نے اس روایت کو صحت سند کی وجہ سے الگ ذکر کیا۔ اگر آپ اس بات کو سند کے لحاظ سے لیں تو یہ قول اس کے مخالف دیگر اقوال سے اولیٰ ہے اگر اس کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس روایت کو ہشام بن حسان نے ابن سیرین سے مرفوع نقل نہیں کیا اور انھوں نے اس میں وہ بیان کیا جو ابوبکرہ نے ہمیں وہب بن جریر کے واسطہ سے ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا ہے کہ بلّی کے جو ٹھے کو بہا دیا جائے اور برتن کو ایک یا دو مرتبہ دھو دیا جائے اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرۃ کی روایت فاسد ہے کیونکہ محمد ابن سیرین حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں کبھی اس کو موقوف بیان کرتے ہیں ‘ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے تو وہ اس کو مرفوع نقل کردیتے ہیں اس کی دلیل وہ روایت ہے جو ابراہیم بن ابوداؤد کی سند سے ابن سیرین نے اس طرح ذکر کی کہ جب وہ ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے تو ان سے پوچھا جاتا کہ کیا یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ؟ تو وہ کہتے ہر حدیث ابوہریرہ (رض) کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اور وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کیونکہ ابوہریرہ (رض) ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی روایت بیان کرتے تھے۔ پس ابن ابی داؤد کی روایت میں ان کے اس اعلان نے اس بات سے بےنیاز کردیا کہ ہر وہ حدیث جس کو وہ روایت کریں وہ ابوہریرہ (رض) سے مرفوع ہی نقل کریں۔ پس اس سے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کا اتصال ثابت ہوگیا اور اس کے ساتھ ساتھ قرۃ کا ضابط اور متقن ہونا بھی ثابت ہوگیا۔ پھر یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس سند کے علاوہ بھی موقوف مروی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں۔

49

۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ یَحْیَی الْأُشْنَانِیُّ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ قَالَ: " لَا تَوَضَّؤُوْا مِنْ سُؤْرِ الْحِمَارِ وَلَا الْکَلْبِ وَلَا السِّنَّوْرِ " .
٤٩ : نافع ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا گدھے ‘ کتے اور بلی کے جو ٹھے سے وضو مت کرو۔
تخریج : مصنف عبدالرزاق ٣٣٨؍٣٣٩‘ ابن ابی شیبہ ١؍٢٩۔

50

۵۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ سَعِیْدٍ قَالَ اِذَا وَلَغَ السِّنَّوْرُ فِی الْاِنَائِ فَاغْسِلْہُ مَرَّتَیْنِ وَثَلَاثًا .
٥٠: قتادہ نے سعید سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا جب بلی کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو دو مرتبہ یا تین مرتبہ دھو ڈالو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٢؍٣٣

51

۵۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ .قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ قَتَادَۃَ .عَنِ الْحَسَنِ .وَسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی السِّنَّوْرِ یَلِغُ فِی الْاِنَائِ قَالَ : أَحَدُہُمَا یَغْسِلُہٗ مَرَّۃً .وَقَالَ الْآخَرُ : یَغْسِلُہٗ مَرَّتَیْنِ .
٥١ : قتادہ نے حسن بصری اور سعید بن المسیب (رح) سے سوال کیا اگر بلی برتن میں منہ مارے تو کیا حکم ہے تو ایک نے فرمایا ایک مرتبہ دھو ڈالو اور دوسرے نے فرمایا یا دو مرتبہ دھو ڈالو۔ (معلوم ہوتا ہے کہ دو والا قول سعید کا ہے واللہ اعلم)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٣٢

52

۵۲ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْکَیْسَانِیُّ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ کَانَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ وَالْحَسَنُ یَقُوْلَانِ " اغْسِلِ الْاِنَائَ ثَلَاثًا " یَعْنِیْ مِنْ سُؤْرِ الْہِرِّ .
٥٢ : قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت سعید ابن المسیب (رح) اور حسن بصری (رح) فرماتے تھے کہ برتن کو بلی کے جو ٹھے سے تین مرتبہ دھویا جائے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٩٩ باب سورالھمرۃ۔

53

۵۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ حُرَّۃَ عَنِ الْحَسَنِ فِیْ ہِرٍّ وَلَغَ فِیْ إِنَائٍ أَوْ شَرِبَ مِنْہُ قَالَ " یُصَبُّ وَیُغْسَلُ الْاِنَائُ مَرَّۃً " .
٥٣ : ابو حرہ نے حسن بصری (رح) سے سوال کیا کہ بلی جس برتن میں منہ ڈال دے یا اس سے پانی پی لے اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اس پانی کو گرا دیا جائے اور برتن کو ایک مرتبہ دھویا جائے۔

54

۵۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ الْقَطَّانُ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ ، قَالَ حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ أَنَّہٗ سَأَلَ یَحْیَی بْنَ سَعِیْدٍ عَمَّا لَا یَتَوَضَّأُ بِفَضْلِہِ مِنَ الدَّوَابِّ ، فَقَالَ : الْخِنْزِیْرُ وَالْکَلْبُ وَالْہِرُّ ۔ وَقَدْ شَدَّ ھٰذَا الْقَوْلُ النَّظَرَ الصَّحِیْحَ ، وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا اللَّحْمَانِ عَلٰی أَرْبَعَۃِ أَوْجُہٍ . 1 فَمِنْہَا لَحْمٌ طَاہِرٌ مَأْکُوْلٌ ، وَہُوَ لَحْمُ الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ ، فَسُؤْرُ ذٰلِکَ کُلُّہٗ طَاہِرٌ، لِأَنَّہٗ مَاسَّ لَحْمًا طَاہِرًا ۔ 2 وَمِنْہَا لَحْمٌ طَاہِرٌ غَیْرُ مَأْکُوْلٍ وَہُوَ لَحْمُ بَنِیْ آدَمَ وَسُؤْرُہُمْ طَاہِرٌ ، لِأَنَّہٗ مَاسَّ لَحْمًا طَاہِرًا ۔ 3 وَمِنْہَا لَحْمٌ حَرَامٌ ، وَہُوَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَالْکَلْبِ ، فَسُؤْرُ ذٰلِکَ حَرَامٌ ، لِأَنَّہٗ مَاسَّ لَحْمًا حَرَامًا۔ فَکَانَ حُکْمُ مَا مَاسَّ ھٰذِہِ اللَّحْمَانِ الثَّلَاثَۃَ کَمَا ذَکَرْنَا ، یَکُوْنُ حُکْمُہُ حُکْمَہَا فِی الطَّہَارَۃِ وَالتَّحْرِیْمِ 4 وَمِنَ اللَّحْمَانِ أَیْضًا لَحْمٌ قَدْ نَہَی عَنْ أَکْلِہِ ، وَہُوَ لَحْمُ الْحُمُرِ الْأَہْلِیَّۃِ وَکُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ أَیْضًا۔ وَمِنْ ذٰلِکَ السِّنَّوْرُ ، وَمَا أَشْبَہَہُ ، فَکَانَ ذٰلِکَ مَنْہِیًّا عَنْہُ ، مَمْنُوْعًا مِنْ أَکْلِ لَحْمِہِ بِالسَّنَۃِ .وَکَانَ فِی النَّظَرِ أَیْضًا سُؤْرُ ذٰلِکَ حُکْمُہُ حُکْمُ لَحْمِہِ ، لِأَنَّہٗ مَاسَّ لَحْمًا مَکْرُوْہًا ، فَصَارَ حُکْمُہُ حُکْمَہٗ کَمَا صَارَ حُکْمُ مَا مَاسَّ اللَّحْمَانِ الثَّلَاثَ الْأُوَلَ حُکْمَہَا . فَثَبَتَ بِذٰلِکَ کَرَاہَۃُ سُؤْرِ السِّنَّوْرِ ، فَبِھٰذَا نَأْخُذُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .
٥٤ : یحییٰ بن ایوب کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید (رح) بن المسیب سے سوال کیا کہ کن جانوروں کے جو ٹھے سے وضو نہ کیا جائے تو انھوں نے فرمایا خنزیر ‘ کتا ‘ بلی۔ اس قول کو نظر صحیح نے اور پختہ کردیا۔ اس لیے کہ ہم نے دیکھا کہ گوشت چار قسم کے ہیں :! بعض گوشت طاہر بھی ہیں اور یہ کھایا بھی جاتا ہے۔ یہ اونٹ ‘ گائے ‘ بکری کا گوشت ہے۔ ان سب کا جوٹھا پاک ہے کیونکہ یہ پاک گوشت کو چھونے والا ہے۔ " بعض گوشت پاک ہیں مگر کھائے نہیں جاتے اور وہ اولاد آدم کا گوشت ہے ان کا جوٹھا بھی پاک ہے کیونکہ یہ بھی پاک گوشت کو چھونے والا ہے۔#ایک گوشت حرام ہے اور وہ خنزیر اور کتے کا گوشت ہے پس ان کا جوٹھا بھی حرام ہے کیونکہ یہ حرام گوشت کو چھونے والا ہے پس ان گوشت کی تینوں اقسام کو جو چیز چھونے والی ہے اس کا حکم وہی ہے جو ہم نے بیان کردیا چنانچہ اس طہارت اور تحریم میں اس کا حکم ایک جیسا ہوگا۔$ایک گوشت وہ ہے کہ جس کے کھانے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور وہ گھریلو گدھے کا گوشت اور اسی طرح ہر پھاڑنے والے ‘ کچلی والے درندے کا گوشت ہے اور اسی سے بلّی اور اس کے مشابہہ جانور بھی ہیں تو یہ ممنوع ہوگا اور اس کی کھانے کی ممانعت سنت سے ثابت ہوگی تو نظر و فکر کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان کے جو ٹھے کا حکم ان کے گوشت جیسا ہو کیونکہ وہ مکروہ گوشت کو چھونے والا ہے۔ پس اس کے جو ٹھ کا حکم اسی طرح ہوا جس طرح خود اس کے گوشت کا حکم ہے اور پہلے تین قسم کے گوشت کو چھونے والے پانی کا حکم ان کے گوشت جیسا ہوگا۔ اس سے بلّی کے جو ٹھے کی کراہت ثابت ہوگئی اور اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
حاصل کلام : ان نو روایات و آثار سے ظاہر ہوا کہ بلی کا جوٹھا پانی جس برتن میں ہو اس کو ایک سے تین مرتبہ تک دھو کر صاف کیا جائے اس سے اس کی کم از کم کراہت ثابت ہوتی ہے۔
ایک دوسرا انداز یا طحاوی (رح) کی عقلی دلیل :
گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جوٹھا گوشت کے حکم میں ہوتا ہے اگر گوشت پاک تو جوٹھا بھی پاک اور وہ ناپاک تو جوٹھا بھی ناپاک کیونکہ جوٹھا اس سے چھو کر نکلتا ہے گوشت چار قسم پر ہے نمبر ١ طاہر ماکول نمبر ٢ طاہر غیر ماکول نمبر ٣ نجس حرام نمبر ٤ حرام غیر ماکول۔
نمبر ١ طاہر ماکول گوشت وہ ہے جو پاک ہے اور کھایا جاتا ہے جیسے اونٹ ‘ گائے ‘ بکری ‘ بھیڑ ‘ دنبہ ‘ حلال گوشت پرندے ان سب کا گوشت جس طرح ہے ان کا جوٹھا بھی پاک ہے کیونکہ وہ پاک گوشت سے مس کر کے نکلا ہے۔
نمبر ٢ طاہر غیر ماکول گوشت تو پاک ہے مگر کھانا ممنوع ہے وہ انسانی گوشت ہے ان کا جوٹھا پاک ہے کیونکہ وہ پاک گوشت کو چھو کر نکلا ہے۔
نمبر ٣ حرام و نجس گوشت : یہ کتے اور خنزیر کا گوشت ہے ان کا جوٹھا ناپاک ہے کیونکہ وہ حرام گوشت کو چھو کر برآمد ہوا ہے۔
پس ان تین اقسام کے گوشت کو مس کرنے والے پانی کا حکم وہی ہے جو اوپر ذکر کردیا گیا کہ طہارت و تحریم میں دونوں کا حکم یکساں ہے۔
نمبر ٤ دو گوشت ایسے ہیں جن کی ممانعت سنت و حدیث سے ثابت ہے ترمذی جلد ثانی میں نمبر ١ پالتو گدھے ‘ نمبر ٢ پنجے والے اور کچلی والے درندے خواہ وہ پرند ہوں یا چوپائے۔ ان کا گوشت حرام کیا گیا اور بلی بھی انہی میں شامل ہے پس یہ منہی عنہ میں سے ہوگی اس کے گوشت کی حرمت سنت سے ثابت ہوگی۔
اور یہ بات تو ہم کہہ آئے کہ جو ٹھے کا حکم گوشت والا ہے کیونکہ وہ مکروہ گوشت کو چھو کر نکلا ہے جیسا کہ پہلی تینوں اقسام میں ظاہر کیا جا چکا ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ بلی کا جوٹھا مکروہ ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : احناف میں بعض کراہت تحریمی کے قائل ہیں اور بعض تنزیہی کے۔ واللہ اعلم۔

55

۵۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ ذَکْوَانَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( اِذَا وَلَغَ الْکَلْبُ فِی الْاِنَائِ فَاغْسِلُوْہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ) .
٥٥ : حضرت ابوہریرہ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے ہیں جب برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤ۔
خلاصۃ الزام : کتے کے جو ٹھے سے متعلق تین قول ائمہ سے منقول ہیں نمبر ١ نجس اور اس کے جو ٹھے برتن کو رگڑنا اور پھر سات مرتبہ دھونا واجب ہے۔ نمبر ٢ نجس ہے عام نجاسات کی طرح تین دفعہ دھونا کافی ہے۔ نمبر ٣ پاک ہے۔
قول اول : گوشت کی طرح جوٹھا بھی ناپاک ہے اس سے برتن کو صاف کرنے کے لیے سات مرتبہ دھونا واجب ہے جن میں پہلی یا آخری مرتبہ مٹی سے مانجھنا بھی لازم ہے یہ امام شافعی (رح) و احمد (رح) کا قول ہے۔
قول دوم : جوٹھا بھی گوشت کی طرح ناپاک ہے اور اس سے برتن عام نجاسات کی طرح تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے یہ ائمہ احناف کا قول ہے۔
قول سوم : جوٹھا پاک ہے اس سے دھونے کا حکم تعبدی ہے یہ امام مالک و اہل ظواہر کا قول ہے۔
قول اول والوں کے دلائل مندرجہ ذیل روایات ہیں :
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣٣‘ مسلم فی الطھارۃ حدیث ٩٠؍٩٠‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٧‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٦٨‘ نسائی فی الطھارۃ ١؍٥٦‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣١‘ دارمی فی الوضوء باب ٥٩‘ مسند احمد ٢ ٢٤٥؍٢٥٣‘ ٢٦٥؍٢٧١‘ ٣١٤؍٣٩٨‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٤٠‘ دارقطنی فی سننہ کتاب الطھارۃ ١؍٦٥۔

56

۵۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ ثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٥٦ : ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے۔

57

۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ ثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ ( أُوْلَاہُنَّ بِالتُّرَابِ).
٥٧ : محمد نے ابوہریرہ (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے اور یہ اضافہ بھی ہے اولاھن بالتراب کہ اول مرتبہ مٹی سے مانجھنا ہے یہ ایوب کی محمد بن سیرین سے روایت ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٠۔

58

۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ قُرَّۃَ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٥٨ : حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے یہ قرہ کی محمد بن سیرین سے روایت ہے۔

59

۵۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ قَالَ : سُئِلَ سَعِیْدٌ عَنِ الْکَلْبِ یَلِغُ فِی الْاِنَائِ ، فَأَخْبَرَنَا عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (أُوْلَاہَا أَوْ السَّابِعَۃُ بِالتُّرَابِ) شَکَّ سَعِیْدٌ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْأَثَرِ ، فَقَالُوْا : لَا یَطْہُرُ الْاِنَائُ اِذَا وَلَغَ فِیْہِ الْکَلْبُ حَتّٰی یُغْسَلَ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُوْلَاہُنَّ بِالتُّرَابِ .کَمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : یُغْسَلُ الْاِنَائُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَمَا یُغْسَلُ مِنْ سَائِرِ النَّجَاسَاتِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہٗ .
٥٩: حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے صرف ان الفاظ کا فرق ہے۔ ” اولاھا اوالسابعۃ بالتراب “ یہ سعید راوی کو شک ہے کہ قتادہ نے کیا لفظ ذکر کئے۔ بعض لوگ اس اثر کی طرف گئے ہیں اور کہا کہ جب کتا کسی برتن میں مُنہ ڈال دے تو وہ برتن تب تک پاک نہ ہوگا جب تک سات مرتبہ نہ دھویا جائے ان میں پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ جیسا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرے علماء نے ان کے اس قول کی مخالفت کی ہے اور کہا کہ برتن کو اس سے بھی اسی طرح دھویا جائے گا جیسا کہ اور نجاسات سے دھویا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ان روایات کو دلیل بنایا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں۔ ان میں ایک وہ روایت ہے جس کو سلیمان نے او زاعی سے نقل کیا ہے۔
حاصل روایات : حضرت ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت پانچ مختلف اسناد سے مروی ہے ان تمام روایات سے سات مرتبہ دھونے کا ثبوت مل رہا ہے اور ان میں پہلی بار مٹی سے مانجھنا بھی ‘ اس سے ثابت ہوا کہ جب تک کتے کے جو ٹھے برتن کو سات مرتبہ نہ دھوئیں پاک نہ ہوگا۔
خالفہم فی ذلک آخرون سے قول دوم کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں اس قول کا حاصل یہ ہے کہ عام نجاسات کی طرح تین مرتبہ دھونے سے برتن پاک ہوجائے گا اس کی دلیل مندرجہ چھ روایات ہیں۔

60

۶۰ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ حَدَّثَنِیْ ابْنُ شِہَابٍ قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ کَانَ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( اِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ مِنَ اللَّیْلِ فَلَا یُدْخِلُ یَدَہٗ فِی الْاِنَائِ حَتّٰی یَفْرُغَ عَلَیْہِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَإِنَّہٗ لَا یَدْرِیْ أَحَدُکُمْ أَیْنَ بَاتَتْ یَدُہٗ).
٦٠ : حضرت سعید بن المسیّب کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہا کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی رات کو بیدار ہو تو وہ اپنا ہاتھ برتن میں مت ڈالے جب تک کہ اس پر دو ‘ تین مرتبہ پانی نہ ڈال لے وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات کو کون کون سی جگہ لگا ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٢٦‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٨٨‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٤٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ١٩‘ نسائی فی الطھارۃ فی الترجمہ والغل باب ٢٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٠‘ مالک فی الطھارۃ روایت ٩ مسند احمد ٢؍٢٤١‘ ٢٥٣؍٢٥٩‘ ٢٦٥؍٢٨٤‘ ٣٤٨‘ ٣٨٢‘ ٣٩٥‘ ٤٠٣‘

61

۶۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ قَالَا ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ ابْنُ شِہَابٍ عَنْ سَعِیْدٍ وَأَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٦١ : سعید و ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے۔

62

۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ أَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٦٢ : ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے۔

63

۶۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ وَأَبِیْ رَزِیْنٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ ( فَلْیَغْسِلْ یَدَیْہِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا).
٦٣ : ابو صالح اور ابو رزین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے البتہ یہ الفاظ مختلف ہیں فلیغسل یدیہ مرتین اوثلاثا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھو لے۔

64

۶۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ؛ عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ عَنْ عَمْرٍو عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٦٤ : ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے۔

65

۶۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ إِسْمَاعِیْلَ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ ( أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا قَامَ مِنَ النَّوْمِ أَفْرَغَ عَلٰی یَدَیْہِ ثَلَاثًا).قَالُوْا : فَلَمَّا رُوِیَ ھٰذَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الطَّہَارَۃِ مِنَ الْبَوْلِ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا یَتَغَوَّطُوْنَ ( أَیْ یَقْضُوْنَ حَاجَتَہُمْ ) وَیَبُوْلُوْنَ وَلَا یَسْتَنْجُوْنَ بِالْمَائِ فَأَمَرَہُمْ بِذٰلِکَ اِذَا قَامُوْا مِنْ نَوْمِہِمْ لِأَنَّہُمْ لَا یَدْرُوْنَ أَیْنَ بَاتَتْ أَیْدِیْہِمْ مِنْ أَبْدَانِہِمْ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَتْ فِیْ مَوْضِعٍ قَدْ مَسَحُوْہُ مِنَ الْبَوْلِ أَوَ الْغَائِطِ فَیَعْرَقُوْنَ فَتَنْجُسُ بِذٰلِکَ أَیْدِیْہِمْ فَأَمَرَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَسْلِہَا ثَلَاثًا وَکَانَ ذٰلِکَ طَہَارَتُہَا مِنَ الْغَائِطِ أَوِ الْبَوْلِ إِنْ کَانَ أَصَابَہَا .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ یَطْہُرُ مِنَ الْبَوْلِ وَالْغَائِطِ وَہُمَا أَغْلَظُ النَّجَاسَاتِ، کَانَ أَحْرٰی أَنْ یَطْہُرَ بِمَا ہُوَ دُوْنَ ذٰلِکَ مِنَ النَّجَاسَاتِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ھٰذَا ؛ مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ مِنْ قَوْلِہِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فِی الْاِنَائِ یَلَغُ فِیْہِ الْکَلْبُ أَوَ الْہِرُّ ، قَالَ (یُغْسَلُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) .فَلَمَّا کَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ قَدْ رَأَی أَنَّ الثَّلَاثَۃَ یَطْہُرُ الْاِنَائُ مِنْ وُلُوْغِ الْکَلْبِ فِیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا ذَکَرْنَا ثَبَتَ بِذٰلِکَ نَسْخُ السَّبْعِ ، لِأَنَّا نُحْسِنُ الظَّنَّ بِہٖ فَلَا نَتَوَہَّمُ عَلَیْہِ أَنَّہُ یَتْرُکُ مَا سَمِعَہٗ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا إِلَی مِثْلِہِ وَإِلَّا سَقَطَتْ عَدَالَتُہُ فَلَمْ یُقْبَلْ قَوْلُہٗ وَلَا رِوَایَتُہٗ .وَلَوْ وَجَبَ أَنْ یُعْمَلَ بِمَا رَوَیْنَا فِی السَّبْعِ وَلَا یُجْعَلُ مَنْسُوْخًا لَکَانَ مَا رَوٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُغَفَّلِ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْلٰی مِمَّا رَوٰی أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ لِأَنَّہٗ زَادَ عَلَیْہِ .
٦٥ : سالم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت نقل کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیند سے بیدار ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈالتے۔ انھوں نے کہا کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیشاب سے طہارت کرنے میں یہ روایات آئی ہیں کیونکہ وہ لوگ پاخانہ اور پیشاب کر کے استنجاء نہ کرتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم فرمایا کہ جب وہ اپنی نیند سے بیدار ہوں تو چونکہ انھیں معلوم نہیں کہ ان کا ہاتھ ان کے بدن میں کس جگہ لگا ؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایسی جگہ میں چھو گیا ہو جو پیشاب اور پاخانے والی ہو اور پسینہ آنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ پلید ہوجائیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تین مرتبہ دھونے کا حکم دیا اور پیشاب اور پاخانے کے وقت جب وہ ہاتھ کو لگ جائے تو اس کی طہارت اسی طرح ہے پس جب پیشاب اور پاخانے سے ہاتھ تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے حالانکہ یہ دونوں نجاست غلیظہ ہیں تو یہ زیادہ لائق ہے کہ جو نجاست اس سے کم درجہ ہو اس میں وہ پاک ہو اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے اس قول میں مروی ہے جو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد فرمایا کہ کہ اسماعیل بن اسحق نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے برتن کے بارے میں نقل کیا کہ جب اس میں کتا یا بلی مُنہ ڈال دے تو فرمایا تین مرتبہ دھویا جائے گا۔ جب حضرت ابوہریرہ (رض) کا خیال یہ ہے کہ کتے کے پانی میں منہ ڈالنے سے برتن تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اور دوسری طرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے وہ روایت کی جو ہم نے ذکر کی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ سات مرتبہ کا دھونا منسوخ ہوچکا کیونکہ ہم حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں اور یہ وہم بھی نہیں کرسکتے کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو چھوڑ دیا ہو سوائے اس کے جو ہم نے بیان کیا ‘ ورنہ ان کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور ان کا قول اور روایت قابل قبول نہ ہوگی۔ اگر بالفرض سات والی روایت پر عمل کو واجب قرار دیا جائے اور اس کو منسوخ نہ کہا جائے تو جو روایت حضرت عبداللہ بن مغفل نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے وہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ اس میں اس کی نسبت اضافہ ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٤٥ باب غسل الیدین
حاصل روایات : حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت پانچ اسناد اور روایت ابن عمر (رض) ایک سند سے ذکر کی گئی ہے ان روایات سے نیند سے بیدار ہونے والے کو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین مرتبہ دھونا کافی قرار دیا گیا ہے چنانچہ علامہ فرماتے ہیں کہ جن علماء نے ان روایات کو بنیاد بنایا وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام پیشاب و پائخانہ سے فراغت حاصل کرتے تو ڈھیلوں پر اکتفاء کرتے پانی سے استنجاء کا رواج کم و بیش تھا پس آپ نے حکم فرمایا کہ جب تم نیند سے بیدار ہو تو ہاتھ پانی میں ڈالنے سے پہلے دھو لو چونکہ یہ معلوم نہیں کہ نیند کی حالت میں ہاتھ بدن کے کس حصہ کو لگا ہو ممکن ہے پیشاب و پائخانہ والے مقامات پر بھی لگا ہو اور پیشاب و پائخانہ کو ڈھیلے وغیرہ سے صاف کرنے کے باوجود پسینہ آنے کی وجہ سے محل پر معمولی نجاست کے اثرات سے ہاتھ ملوث ہوجائیں پس احتیاطاً نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کو تین مرتبہ دھو لینے کا حکم فرمایا یہ تین دفعہ دھونا پیشاب و پائخانہ کی نجاست سے پاک کر دے گا۔
جبکہ یہ غلیظ ترین نجاسات تین دفعہ دھونے سے وہ جگہ پاک ہوجاتی ہے تو اس سے کم درجہ کی نجاسات تین دفعہ دھو ڈالنے سے وہ جگہ یا برتن بدرجہ اولیٰ پاک ہوجائے گا اور اس کی تائید کے لیے حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہ ارشاد جس کو عطائؒ نے نقل کیا کافی ہے ” کہ جس برتن میں کتا یا بلی منہ ڈال دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا اس کو تین مرتبہ دھویا جائے گا “
جواب شوافع نمبر ١: راوی کا عمل و فتویٰ اس روایت کے خلاف ہے جس کو قول اول کے عنوان سے نقل کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سات مرتبہ دھونے کا وجوب ساقط و منسوخ ہوگیا تبھی انھوں نے اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دیا ورنہ ان کی عدالت مجروح ہو کر روایت و فتویٰ دونوں ناقابل عمل ہوجائیں گے (حاشامنہ)
نمبر ٢: اگر اس جواب کو تم نہیں مانتے بلکہ ناقص کے مقابلے میں (سات) کامل کو ضروری قرار دیتے ہو تو پھر اس سے زائد آٹھ وہ اس سے زیادہ کامل ہیں ان پر عمل اس سے زیادہ بہتر ہوگا اور وہ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) کی روایت میں ہے ملاحظہ کریں۔

66

۶۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ وَوَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَا ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغَفَّلِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ ثُمَّ قَالَ مَالِیْ وَالْکِلَابُ ثُمَّ قَالَ اِذَا وَلَغَ الْکَلْبُ فِیْ إِنَائِ أَحَدِکُمْ فَلْیَغْسِلْہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ ، وَعَفِّرُوا الثَّامِنَۃَ بِالتُّرَابِ).
٦٦ : مطرف بن عبداللہ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” مالی والکلاب “ مجھے کتوں سے کیا واسطہ۔ یعنی ان کو قتل کرنا چھوڑ دو ۔ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے اور آٹھویں مرتبہ اسے مٹی سے مانجھو۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ روایت نمبر ٩٣‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٥٢ والمیاہ باب ٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣١‘ دارمی فی الوضوء باب ٥٩‘ احمد فی المسند ٤؍٧٦‘ ٥؍٥٦۔

67

۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا وَہْبٌ عَنْ شُعْبَۃَ ؛ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُغَفَّلِ قَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ یُغْسَلُ سَبْعًا وَیُعَفَّرُ الثَّامِنَۃَ بِالتُّرَابِ ، وَزَادَ عَلٰی أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، وَالزَّائِدُ أَوْلَی مِنَ النَّاقِصِ .فَکَانَ یَنْبَغِیْ لِھٰذَا الْمُخَالِفِ لَنَا أَنْ یَقُوْلَ : لَا یَطْہُرُ الْاِنَائُ حَتّٰی یَغْسِلَ ثَمَانِیَ مَرَّاتٍ ، السَّابِعَۃَ بِالتُّرَابِ وَالثَّامِنَۃَ کَذٰلِکَ لِیَأْخُذَ بِالْحَدِیْثَیْنِ جَمِیْعًا فَإِنْ تَرَکَ حَدِیْثَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغَفَّلِ فَقَدْ لَزِمَہٗ مَا أَلْزَمَہُ خَصْمُہٗ فِیْ تَرْکِہِ السَّبْعَ الَّتِیْ قَدْ ذَکَرْنَا وَإِلَّا فَقَدْ بَیَّنَّا أَنَّ أَغْلَظَ النَّجَاسَاتِ یَطْہُرُ مِنْہَا غَسْلُ الْاِنَائِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ؛ فَمَا دُوْنَہَا أَحْرَی أَنْ یُطَہِّرَہٗ ذٰلِکَ أَیْضًا .وَلَقَدْ قَالَ الْحَسَنُ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رَوٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُغَفَّلِ ۔
٦٧ : شعبہ نے بھی عبداللہ بن مغفل (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ یہ عبداللہ بن مغفل (رض) ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سات مرتبہ دھونے والی اور آٹھویں مرتبہ مٹی کے ساتھ صاف کرنے والی روایت نقل کرتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت پر اضافہ فرماتے ہیں اور زائد روایت ناقص سے اولیٰ ہے چنانچہ ہمارے اس مخالف کے لیے اولیٰ یہ ہے کہ وہ اس طرح کہے کہ برتن اس وقت تک پاک نہیں ہوتا جب تک آٹھ مرتبہ نہ دھویا جائے اور ان میں ساتویں بار مٹی اور آٹھویں بار بھی مٹی سے ہوتا کہ دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے اور اگر وہ حدیث عبداللہ بن مغفل کو ترک کرتے ہیں تو اس پر بھی وہی لازم ہوگا جو سات والی روایت کے چھوڑنے سے ان کے مخالف پر لازم ہوگا ۔ یہ روایت ہم ذکر کرچکے اور ہم نے بیان کردیا کہ غلیظ ترین نجاستوں سے برتن تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے تو اس سے کم درجہ نجاستیں اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ پانی ان کو پاک کر دے اور حسن بصری نے وہی بات کہی ہے جو حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے مروی ہے۔
الزامی جواب :
علامہ فرماتے ہیں اگر آپ زائد کو کم پر ترجیح کی وجہ قرار دیتے ہیں تو عبداللہ بن مغفل (رض) کی روایت اس اعتبار سے زیادہ حقدار ہے کہ اس پر عمل کیا جائے کیونکہ اس میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے آٹھویں مرتبہ کا اضافہ ہے۔
اب دو میں سے ایک بات اختیار کرنی ہوگی نمبر ١ روایت ابوہریرہ (رض) کو اضافہ والی روایت سے منسوخ مانا جائے یا دونوں روایات پر عمل کے لیے آٹھ مرتبہ دھونا لازم قرار دیا جائے اور آٹھویں اور ساتویں مرتبہ مٹی سے مانجھنے کو طہارت کے لیے ضروری قرار دیا جائے اور ایک روایت کے ترک پر جو جواب آپ کا ہوگا وہی ہمارا ہے ورنہ وہ صورت تسلیم کرلو جو ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کی کہ تین دفعہ دھونا ضروری ہو اور باقی مباح ہو تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔
ایک اشکال :
عبداللہ بن مغفل (رض) کی روایت پر تو کسی نے بھی عمل نہیں کیا پس اس سے استدلال درست نہیں۔
حل اشکال :
حضرت حسن بصری (رح) جو جلیل القدر تابعین سے ہیں وہ اسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔

68

۶۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ حَیْوَۃَ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ ( اِذَا وَلَغَ الْکَلْبُ فِی الْاِنَائِ غُسِلَ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَالثَّامِنَۃُ بِالتُّرَابِ) .وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ فَقَدْ کَفَانَا الْکَلَامُ فِیْہِ مَا بَیَّنَّا مِنْ حُکْمِ اللُّحْمَانِ فِیْ بَابِ سُؤْرِ الْہِرِّ .وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ فِی الْکَلْبِ یَلَغُ فِی الْاِنَائِ أَنَّ الْمَائَ طَاہِرٌ وَیُغْسَلُ الْاِنَائُ سَبْعًا وَقَالُوْا إِنَّمَا ذٰلِکَ تَعَبُّدٌ ، تَعَبَّدْنَا بِہٖ فِی الْآنِیَۃِ خَاصَّۃً .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا سُئِلَ عَنِ الْحِیَاضِ الَّتِیْ تَرِدُہَا السِّبَاعُ فَقَالَ اِذَا کَانَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَحْمِلْ خَبَثًا) .فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ اِذَا کَانَ دُوْنَ الْقُلَّتَیْنِ حَمَلَ الْخُبْثَ وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَمَا کَانَ لِذِکْرِ الْقُلَّتَیْنِ مَعْنًی وَلَکَانَ مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہُمَا وَمَا ہُوَ أَکْثَرُ سَوَائٌ .فَلَمَّا جَرَی الذِّکْرُ عَلَی الْقُلَّتَیْنِ ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہُمَا خِلَافُ حُکْمِ مَا ہُوَ دُوْنَہُمَا .فَثَبَتَ بِھٰذَا مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ وُلُوْغَ الْکَلْبِ فِی الْمَائِ یُنَجِّسُ الْمَائَ .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٦٨ : ابو حیوہ نقل کرتے ہیں (کہ حضرت حسن سے ولوغ کلب کا مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے) فرمایا ” جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو سات مرتبہ دھوؤ اور آٹھویں مرتبہ مٹی سے مانجھ دو “ امام احمد (رح) کا فتویٰ بھی اسی طرح منقول ہے۔ البتہ نظر و فکر کے طور پر اس سلسلے میں ہمیں وہ کلام کافی ہے جو باب ” سو ٔر الہر “ میں گوشتوں کے سلسلے میں بیان کیا گیا۔ بعض لوگوں نے کتے کے متعلق جبکہ وہ برتن میں مُنہ ڈال دے یہ بات کہی ہے کہ پانی تو پاک ہے مگر برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے گا اور انھوں نے یہ کہا کہ یہ حکم تعبدی ہے جس کو ہم خاص طور پر برتنوں کے سلسلے میں بطور تعمیل حکم ادا کریں گے۔ ان کے خلاف ہمارے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بطور دلیل موجود ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان جوہڑوں کے متعلق جن پر درندے آتے جاتے ہیں دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب پانی دو قلوں کی مقدار کو پہنچ جائے تو وہ نجاست کو نہیں اٹھاتا تو اس ارشاد سے یہ دلالت مل گئی کہ جب وہ دو مٹکوں سے کم ہوگا تو نجاست کو اٹھائے گا اگر یہ بات تسلیم نہ کی جائے تو مٹکوں کے تذکرے کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا اور اس صورت میں اس سے کم اور زیادہ حکم میں یکساں ہیں۔ جب دو قلوں کا تذکرہ فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کا حکم ان سے کم پانی کے حکم کے خلاف ہے۔ پس اس قول رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوگیا کہ کتے کا پانی میں مُنہ ڈالنا پانی کو پلید کردیتا ہے اور اس باب میں جو کچھ ہم نے بیان کیا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
گوشت کا حکم جو کہ باب سو ٔرالہر میں ذکر کر آئے وہ عقلی طور پر یہاں بھی کفایت کرتا ہے جب فریقین گوشت کی نجاست کے قائل ہیں تو اس سے مس کرنے والا جوٹھا پانی اس کے حکم میں کیونکر نہ ہوگا۔ واللہ اعلم۔
وقد ذھب قوم : سے قول ثالث کی طرف اشارہ کر کے اس کا جواب ذکر کر رہے ہیں کہ کتے کا جوٹھا پاک ہے امام مالک کے متعلق منقولہ اقوال میں سے مشہور قول یہ ہے اسی کے پیش نظر جواب دیا گیا ہے۔
مالکیہ پر اشکال اور ان کا جواب :
جب جوٹھا پاک ہے تو پھر برتن کو سات ‘ آٹھ اور تین مرتبہ دھونے کا حکم روایات میں چہ معنی دارد ؟ ان کی طرف سے جواب یہ دیا گیا کہ برتن کو سات مرتبہ وغیرہ دھونے کا حکم تعبدی ہے اور یہ تعبدی حکم برتنوں کے ساتھ خاص ہے۔ (واللہ اعلم)
اپنے مزاج و انداز کے برعکس یہاں مالکیہ کے دلائل کو ذکر نہیں کیا ایک جواب دے کر گزر گئے اسی لیے بعض نے ان کے جواب کو توجیہ القول بما لا یرضی بہ القائل قرار دیا کہ حدیث قلتین جب احناف کے ہاں مضطرب المتن ہے تو اس سے ہم پر الزام درست نہیں مگر بندہ کے نزدیک اسہل توجیہ یہ ہے کہ قلتین والی روایت کے اضطراب سے قطع نظر اتنی بات تو سب روایات سے ثابت ہے کہ مقدار کی یہ پابندی اس سے کم مقدار کے فرق کو ظاہر کرنے کے لیے لگائی گئی ہے ورنہ درندوں کے آنے جانے سے اگر کوئی فرق پیدا نہ ہوتا تھا تو جواب میں ایک خاص مقدار کی پابندی کی کیا ضرورت تھی بس اتنا کہنا کافی تھا ” وہ پاک ہے “ اس پابندی سے ظاہر کیا گیا کہ کم پر دوسرا حکم لگ گیا اور وہ ناپاکی کا ہے اور کتا بھی من جملہ درندوں کا حکم رکھتا ہے تو اس کا جوٹھا کیوں ناپاک نہ ہوگا۔ واللہ اعلم۔
پس ارشاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوا کہ ولوغ کلب سے پانی نجس ہوجاتا ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) ، ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔

69

۶۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ عَاصِمِ ڑالْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ ( نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَغْتَسِلَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ الْمَرْأَۃِ وَالْمَرْأَۃُ بِفَضْلِ الرَّجُلِ وَلٰـکِنْ یَشْرَعَانِ جَمِیْعًا).
٦٩ : حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ مرد عورت کے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کریں لیکن یہ کہ دونوں اکٹھا شروع کریں۔
اللغات : یشرعان۔ یہ یشرع کا تثنیہ ہے۔ ابتداء کرنا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٤٠‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٤٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٤٦‘ والمیاہ باب ١١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣٤‘ مسند احمد ٤؍١١٠؍١١١‘ ٢١٣‘ ٥؍٦٦‘ ٣٦٩۔ سنن دارقطنی کتاب الطھارۃ ١؍١١٦؍١١٧۔
مسلمان کا جوٹھا بالاتفاق پاک ہے بشرطیکہ اسی لمحہ شراب نہ پی ہو غیر مسلم کے جو ٹھے کے متعلق اختلاف ہے کہ آیا پاک ہے یا نجس ہے یا مکروہ ہے مسلمان مرد کا جوٹھا اور بچا ہوا عورت کے لیے یا عورت کا بچا ہوا مرد کے لیے یا اکٹھا یا الگ استعمال کیا ہوا جائز ہے یا نہیں اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں
نمبر ١ : عورت کیلئے مرد کا بچا ہوا پانی جائز نہیں اور مرد کیلئے عورت کا بچا ہوا پانی جائز نہیں حسن بصری و اوزاعی رحمہما اللہ کے ہاں صرف اس صورت میں جائز ہے جب کہ دونوں ساتھ ساتھ ہوں ابن المنذر کا یہ قول ہے ذھب قوم سے ان کی طرف اشارہ ہے۔
نمبر ٢ : امام ابوحنیفہ (رح) مالک (رح) و شافعی (رح) اور جمہور کے ہاں ہر ایک کے لیے جو ٹھے اور بچے ہوئے پانی کا استعمال مطلق طور پر درست ہے۔ خالفہم آخرون سے یہی مراد ہیں۔
قول اوّل کے دلائل :
چار روایات ہیں جن میں سے ایک حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) سے اور دوسری کسی اور صحابی (رض) سے مروی ہے اور تیسری و چوتھی دونوں حضرت حکم غفاری (رض) سے مروی ہیں۔

70

۷۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ؛ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَوْدِیِّ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ لَقِیْتُ مَنْ صَحِبَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا صَحِبَہٗ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ أَرْبَعَ سِنِیْنَ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٧٠ : حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں میں ایسے شخص سے ملا جس نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی طرح چار سال تک نبوت کی صحبت اٹھائی تھی (ان سے میں نے استفسار کیا تو انھوں نے) فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور پہلی روایت کی مثل روایت نقل کی۔

71

۷۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ عَاصِمِ ڑالْأَحْوَلِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَاجِبٍ یُحَدِّثُ عَنِ الْحَکَمِ الْغِفَارِیِّ قَالَ ( نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ الْمَرْأَۃِ أَوْ بِسُؤْرِ الْمَرْأَۃِ ) لَا یَدْرِیْ أَبُوْ حَاجِبٍ أَیُّہُمَا قَالَ .
٧١ : حضرت حکم غفاری (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی عورت کے بچے ہوئے یا جو ٹھے پانی سے وضو کرے ابو حاجب کو شک ہے کہ حضرت حکم (رض) نے سو ٔرالمرأہ فرمایا یا فضل المراۃ فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١١‘ ترمذی ١؍١٩

72

۷۲ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَیْمَانَ عَنْ سَوَادَۃَ بْنِ عَاصِمٍ أَبُوْ حَاجِبٍ عَنِ الْحَکَمِ الْغِفَارِیِّ قَالَ : ( نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ سُؤْرِ الْمَرْأَۃِ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَکَرِہُوْا أَنْ یَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ الْمَرْأَۃِ أَوْ تَتَوَضَّأُ الْمَرْأَۃُ بِفَضْلِ الرَّجُلِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا لَا بَأْسَ بِھٰذَا کُلِّہٖ وَکَانَ مِمَّا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٧٢ : حضرت حکم غفاری (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کے جو ٹھے پانی کے استعمال سے منع فرمایا۔ ابوجعفر کہتے ہیں کہ بعض علماء ان آثار کی طرف گئے ہیں اور انھوں نے عورت سے بچے ہوئے پانی سے وضو کو یا مرد کے بچے ہوئے پانی سے وضو کو مکروہ قرار دیا ہے دیگر علماء نے اس سلسلے میں ان کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے کہا اس میں سے کسی میں بھی کچھ حرج نہیں اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا ہے۔
حاصل روایات : کہ عورت کا جوٹھا یا استعمال شدہ پانی مرد کو استعمال کرنا ممنوع ہے اور اسی طرح عورت کو بھی ان کا مختصر جواب یہ ہے پہلے حکم تھا پھر منسوخ ہوا نمبر ٢ کراہت تنزیہی مراد ہے واللہ اعلم۔
فریق ثانی قول نمبر ٢:
کہ ہر ایک کو استعمال جائز ہے انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا۔ روایات کی تعداد چودہ ہے۔

73

۷۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ مُعَاذَۃَ امْرَأَۃٍ ؛ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَغْتَسِلُ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ).
٧٣ : حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ٤٦‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٤٥‘ غسل باب ٩۔ مسند احمد ٦؍١٧١؍١٧٢‘ بیہقی سنن کبرٰی ١؍١٨٧‘ ابن خزیمہ فی صحیحہ ص ٢٥١۔

74

۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عَاصِمٍ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٤: عاصم نے اپنی اسناد کے ساتھ مندرجہ روایت جیسی روایت نقل کی ہے۔

75

۷۵ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْمُقْرِئِ قَالَ ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٥ ٧: عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

76

۷۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ.
٧٦ : عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

77

۷۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٧٧ : عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔

78

۷۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ عَنْ حُرَیْثٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ مَسْرُوْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٧٨ : عروہ نے مسروق سے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

79

۷۹ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أُمِّہِ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٧٩ : منصور بن عبدالرحمن نے اپنی والدہ سے والدہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔

80

۸۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ ثَنَا شَیْبَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ عَنْ ( أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ).
٨٠ : زینب نے اپنی والدہ امّ سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ کہتی ہیں کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔
تخریج : بخاری کتاب الحیض باب ٥‘ ٦١‘ مسلم فی الحیض حدیث نمبر ٥٩‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٤٥‘ دارمی فی الوضوء باب ٦٨‘ سنن کبرٰی بیہقی ٤؍٢٣٤۔

81

۸۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَخْبَرَتْنِیْ (مَیْمُوْنَۃُ أَنَّہَا کَانَتْ تَغْتَسِلُ ہِیَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ).
٨١ : ابن عباس (رض) نے میمونہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل فرماتے تھے۔
تخریج : مسلم فی الحیض روایت ٤٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٤٦‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٤٥‘ سنن کبرٰی بیہقی کتاب الطھارۃ ١؍١٨٨۔

82

۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ ( عَائِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ).
٨٢ : اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔

83

۸۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانِ ڑ الْبَصَرِیُّ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ قَالَ ثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِیْ مَعْرُوْفٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٨٣ : عطاء نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٢٦٨۔

84

۸۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ أَنَا سَعِیْدُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ ہُرْمُزِ ڑالْأَعْرَجَ یَقُوْلُ حَدَّثَنِیْ نَاعِمٌ مَوْلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مِرْکَنٍ وَاحِدٍ نَفِیْضُ عَلٰی أَیْدِیْنَا حَتَّی نُنْقِیَہَا ثُمَّ نُفِیْضُ عَلَیْنَا الْمَائَ).
٨٤: ناعم مولیٰ امّ سلمہ نے حضرت امّ سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی ٹب سے غسل کرتے تھے ہم پہلے اپنے ہاتھوں پر پانی بہا کر ان کو صاف کرتے پھر ہم اپنے اوپر پانی ڈالتے۔
اللغات : المرکن۔ لگن ‘ ٹب۔
تخریج : نسائی ١؍٤٧

85

۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ؛ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٨٥ : اس روایت کو عثمان بن عمر نے شعبہ کی سند سے نقل کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٩‘ مسند احمد ٣؍١١٢‘ ١١٦‘ ٢٠٩۔
حاصل روایات : ان روایات میں ایک برتن سے غسل کرنا ثابت ہوتا ہے اگر ایک کے بعد دوسرے کا غسل ثابت ہو تو پھر یہ قول اول کے خلاف دلیل بنیں گی مگر احتمال یہ بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں غسل کیا ہو اس لیے اس کے مطابق قول ثانی کی دلیل نہ بنی امام طحاوی نے اسی بات کو اختیار کیا ہے اصل تنازع تو ایک کے بعد دوسرے کے وضو غسل کرنے میں ہے۔

86

۸۶ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ ہُوَ وَالْمَرْأَۃُ مِنْ نِسَائِہٖ مِنَ الْاِنَائِ الْوَاحِدِ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ھٰذَا عِنْدَنَا حُجَّۃٌ عَلٰی مَا یَقُوْلُ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَا یَغْتَسِلَانِ جَمِیْعًا .وَإِنَّمَا التَّنَازُعُ بَیْنَ النَّاسِ اِذَا ابْتَدَأَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ الْآخَرِ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ۔
٨٦ : شعبہ نے عبداللہ بن جابر (رض) کے واسطہ سے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج میں ایک عورت ایک برتن سے غسل فرماتے تھے۔ اس کا ثبوت علی بن معبد کی روایت میں مذکور ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں ان روایات میں قول اول کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ غسل اکٹھے کرتے ہوں اور لوگوں کے درمیان نزاع اس بات میں ہے کہ جب ایک ان میں سے دوسرے سے پہلے ابتداء کرے چنانچہ اس سلسلہ میں ہم نے غور کیا۔

87

۸۷ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ عَنْ سَالِمٍ ( عَنْ أُمِّ صَبِیَّۃَ الْجُہَنِیَّۃِ قَالَ وَزَعَمَ أَنَّہَا قَدْ أَدْرَکَتْ وَبَایَعَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ اخْتَلَفَتْ یَدِیْ وَیَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْوُضُوْئِ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ) .
٨٧ : علی بن معبد نے اپنی سند کے ساتھ ام صبیہ جہینیہ (رض) سے نقل کیا ہے سالم کا خیال یہ ہے کہ اس عورت نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پایا اور آپ کی بیعت کی ہے وہ نقل کرتی ہیں کہ وضو کے لیے ایک برتن میں میرا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دست مبارک برتن میں یکے بعد دیگرے آتے جاتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٩‘ حدیث ٧٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣٥‘

88

۸۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ عَنْ سَالِمِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ أُمِّ صَبِیَّۃَ الْجُہَنِیَّۃِ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ أَحَدَہُمَا قَدْ کَانَ یَأْخُذُ مِنَ الْمَائِ بَعْدَ صَاحِبِہٖ .
٨٨: سالم بن نعمان نے ام صبیہ جھینیہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١١ ۔
نوٹ : ان دونوں روایات سے صاف ظاہر ہے کہ وضو کے پانی کا لینا ایک دوسرے کے بعد تھا۔

89

۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ ثَنَا أَبَانُ بْنُ سُمْعَۃَ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنْ ( عَائِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ یَبْدَأُ قَبْلِیْ) .فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ سُؤْرَ الرَّجُلِ جَائِزٌ لِلْمَرْأَۃِ التَّطْہِیْرُ بِہٖ .
٨٩ : عکرمہ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتی تھیں کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کرتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے پہلے غسل شروع فرماتے۔
تخریج : بیہقی ١؍٢٩٠
نوٹ : یہ روایت واضح دلیل ہے کہ عورت کو مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا جائز ہے۔

90

۹۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَیْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ : کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ تَخْتَلِفُ فِیْہِ أَیْدِیْنَا مِنَ الْجَنَابَۃِ) .
٩٠ : قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل جنابت کرتے اس برتن میں ہمارے ہاتھ (پانی کے لئے) ایک دوسرے سے آگے پیچھے داخل ہوتے۔
تخریج : بخاری ١؍١٠٣

91

۹۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنِ قَعْنَبٍ قَالَ ثَنَا أَفْلَحُ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٩١ : ربیع جیزی نے اپنی سند کے ساتھ افلح سے اور انھوں نے قاسم کے واسطہ سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت نقل کی۔

92

۹۲ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑ الْعَقَدِیُّ قَالَ ثَنَا أَفْلَحُ فَذَکَرَا مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٩٢ : افلح نے قاسم سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی۔

93

۹۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کُنْتُ أُنَازِعُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْغُسْلَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ مِنَ الْجَنَابَۃِ.
٩٣ : اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتی تھیں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک برتن سے جنابت کے لیے منازعہ کرتی تھی۔ (یعنی کبھی چلو آپ پہلے بھرتے کبھی میں)
تخریج : نسائی فی الطھارۃ باب ١٤٥‘ والغسل باب ٩۔

94

۹۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ ڑالْکَیْسَانِیُّ قَالَ ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَا یَغْتَسِلَانِ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ یَغْتَرِفُ قَبْلَہَا وَتَغْتَرِفُ قَبْلَہٗ.
٩٤: عروہ (رح) حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ (رض) اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کرتے کبھی آپ پہلے چلو بھرتے اور کبھی عائشہ صدیقہ (رض) پہلے چلو بھرتی تھیں۔
تخریج : نسائی فی الطھارۃ باب ١٤٥‘ والغسل باب ٩‘ مسند احمد ٦؍١٩٣‘ ٢٨١؍٢٣١۔

95

۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ مُبَارَکِ بْنِ فَضَالَۃَ عَنْ أُمِّہٖ عَنْ مُعَاذَۃَ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ فَأَقُوْلُ أَبْقِ لِیْ، أَبْقِ لِیْ).
٩٥ : معاذہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کرتی ہیں کہ وہ فرماتی ہیں میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کرتے اور میں کہتی میرے لیے پانی باقی چھوڑ دیں میرے لیے پانی باقی چھوڑ دیں۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٩١۔

96

۹۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنُ الرَّبِیْعِ اللُّؤْلُؤِیُّ قَالَ ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَی قَالَ ثَنَا الْمُبَارَکُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٩٦ : مبارک نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

97

۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ یَزِیْدَ الرِّشْکِ عَنْ مُعَاذَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٩٧ : معاذہ نے عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

98

۹۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ( أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اغْتَسَلَتْ مِنْ جَنَابَۃٍ فَجَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَتْ لَہٗ ، فَقَالَ إِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْئٌ) .فَقَدْ رَوَیْنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ تَطَہُّرُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ بِسُؤْرِ صَاحِبِہٖ فَضَادَّ ذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ فَوَجَبَ النَّظَرُ ہَاہُنَا لِنَسْتَخْرِجَ بِہٖ مِنَ الْمَعْنَیَیْنِ الْمُتَضَادَّیْنِ مَعْنًی صَحِیْحًا .فَوَجَدْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ أَنَّ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَۃَ اِذَا أَخَذَا بِأَیْدِیْہِمَا الْمَائَ مَعًا مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یُنَجِّسُ الْمَائَ .وَرَأَیْنَا النَّجَاسَاتِ کُلَّہَا اِذَا وَقَعَتْ فِی الْمَائِ قَبْلَ أَنْ یَتَوَضَّأَ مِنْہُ أَوْ مَعَ التَّوَضُّؤِ مِنْہُ أَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ سَوَائٌ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ؛ وَکَانَ وُضُوْئُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ مَعَ صَاحِبِہٖ لَا یُنَجِّسُ الْمَائَ عَلَیْہِ کَانَ وُضُوْئُ ہٗ بَعْدَہٗ مِنْ سُؤْرِہٖ فِی النَّظَرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِھٰذَا مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الْفَرِیْقُ الْآخَرُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٩٨ : ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ آپ کی ازواج میں سے کوئی زوجہ محترمہ جنابت سے غسل کر رہی تھیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور اسی پانی سے وضو فرمانے لگے تو اس زوجہ نے عرض کی (کہ اس پانی سے تو میں نے غسل جنابت کیا ہے) تو ارشاد فرمایا (اس طرح) پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔ (یعنی غسل جنابت کا بچا ہوا پانی ناپاک نہیں ہوتا) ان آثار میں مرد و عورت میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے کے جو ٹھے پانی سے طہارت کرنا ثابت ہوتا ہے اور یہ روایات اس باب کی ابتداء میں ہماری منقولہ روایات کے خلاف ہیں۔ پس یہاں نظر و فکر ضروری ہوئی تاکہ ان متضاد معانی میں سے ہم صحیح معانی نکال سکیں۔ چنانچہ اس اصل پر ہم نے سب کو متفق پایا کہ جب مرد و عورت اپنے ہاتھوں سے برتن میں سے اکٹھا پانی لیں تو یہ چیز پانی کو پلید نہیں کرتی اور ہم نے تمام نجاسات پر غور کیا کہ جب وہ پانی میں وضو کرنے سے پہلے یا وضو کرنے کے وقت میں گرجائیں تو دونوں کا حکم ایک جیسا ہے جب یہ بات تسلیم شدہ ہے تو ہر ایک مرد و عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ وضو کرنا پانی کو نجس نہیں کرے گا تو غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے وضو کرلینے کے بعد اس کا باقی ماندہ پانی بھی وہی حکم رکھتا ہے پس اس سے دوسرے فریق والے علماء کا مؤقف ثابت ہوگیا اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد بن حسن (رح) کا قول ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٦٢
حاصل روایات : ان بارہ روایات میں مرد کے بچے ہوئے پانی سے عورت کا غسل و وضو کرنا اور عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کا وضو و غسل کرنا ثابت ہو رہا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اب ان روایات کا مفہوم اس باب کے شروع میں ذکر کردہ روایات کے مخالف اور متضاد ہے اب لازم آیا کہ اس تضاد کے ازالہ کے لیے دو متضاد معانی سے ایسا معنی غور و فکر سے نکالا جائے جس سے تضاد ختم ہوجائے پس ہم عرض کرتے ہیں کہ اس بات پر تو دونوں اقوال کے علماء متفق ہیں کہ جب عورت و مرد اکٹھے برتن سے ایک وقت میں ہاتھ ڈال کر پانی لیں تو وہ پانی کسی کے نزدیک بھی نجس نہیں ہوتا بلکہ پاک رہتا ہے۔
ایک کلیہ تمام نجاسات کے بارے میں پایا جاتا ہے کہ نجاست پانی میں وضو سے پہلے گرجائے یا وضو کے دوران گرجائے پانی کا حکم یکساں رہتا ہے جب یہ بات اسی طرح ہے تو مرد و عورت میں سے ہر ایک کا وضو دوسرے کے ساتھ ہو تو پانی نجس نہیں ہوتا تو ایک دوسرے کے بعد بچے ہوئے پانی سے بھی نجس نہیں ہونا چاہیے بلکہ پہلے کی طرح پاک رہنا چاہیے تاکہ حکم کلی ایک جیسا رہے۔
پس اس سے قول ثانی خوب ثابت ہوگیا اور وہی امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔

99

۹۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا وُہَیْبٌ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ حَرْمَلَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا ثِفَالِ ڑ الْمُرِّیَّ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَبَاحَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ بْنِ حُوَیْطِبٍ یَقُوْلُ حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتِیْ أَنَّہَا سَمِعَتْ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَا وُضُوْئَ لَہٗ ، وَلَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ )
٩٩ : رباح بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے میری دادی نے بیان کیا کہ انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اس کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں اس کا وضو نہیں جس نے اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٤٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤١‘ مسند احمد ٢؍٤١٨‘ ٤؍٧٠‘ ٥؍٣٨٢‘ مستدرک ١؍١٤٦‘ ١٤٧‘ ٢٦٩‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍٤١‘ ٤٣‘ ٢٧؍٣٧٩۔
تسمیہ علی الوضوء کے متعلق دو مسلک معروف ہیں۔
نمبر ١ امام احمد بن حنبل اور اہل ظواہر اس کے وجوب کے قائل ہیں کہ اس کے بغیر اس کا وضو نہ ہوگا۔
نمبر ٢ امام ابوحنیفہ (رح) مالک (رح) ‘ شافعی (رح) ‘ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں سنت یا مستحب ہے۔
مسلک اول کے دلائل :
اس سلسلہ میں تین روایات ذکر کی گئی ہیں۔

100

۱۰۰ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ أَبِیْ ثِفَالِ ڑالْمُرِّیِّ قَالَ : سَمِعَتْ رَبَاحَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ یَقُوْلُ حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتِیْ أَنَّہَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ .
١٠٠ : رباح بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میری دادی نے بتلایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ اس کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣٨٢۔

101

۱۰۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ أَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنِ ابْنِ حَرْمَلَۃَ عَنْ أَبِیْ ثِفَالِ الْمُرِّیِّ عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعَامِرِیِّ عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ لَمْ یُسَمِّ عَلٰی وُضُوْئِ الصَّلَاۃِ فَلَا یُجْزِیْہِ وُضُوْئُ ہٗ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا مَنْ لَمْ یُسَمِّ عَلٰی وُضُوْئِہٖ فَقَدْ أَسَائَ وَقَدْ طَہُرَ بِوُضُوْئِہٖ ذٰلِکَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
١٠١ : ابن ثوبان نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی وساطت سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ جس نے نماز والے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی تو اس کا وضو درست نہیں اور اس سلسلہ میں انھوں نے ان ہی روایات کو پیش کیا ہے۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کیا اور یہ کہا کہ ” جس نے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی اس نے برا کیا اور اس وضو سے وہ پاک ہوگیا “ اس کے لیے مندرجہ روایات سے انھوں نے دلیل بیان کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٣٢
حاصل روایات : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام یعنی تسمیہ کے بغیر وضو نہ ہوگا۔

102

۱۰۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ حُضَیْنٍ أَبِیْ سَاسَانَ عَنِ (الْمُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُدٍ أَنَّہٗ سَلَّمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ وُضُوْئِہِ قَالَ إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ إِلَّا أَنِّیْ کَرِہْتُ أَنْ أَذْکُرَ اللّٰہَ إِلَّا عَلٰی طَہَارَۃٍ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَرِہَ أَنْ یَذْکُرَ اللّٰہَ إِلَّا عَلٰی طَہَارَۃٍ وَرَدَّ السَّلَامَ بَعْدَ الْوُضُوْئِ الَّذِیْ صَارَ بِہٖ مُتَطَہِّرًا .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ قَدْ تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ .وَکَانَ قَوْلُہٗ " لَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یُسَمِّ " یُحْتَمَلُ أَیْضًا مَا قَالَہُ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی وَیُحْتَمَلُ " لَا وُضُوْئَ لَہٗ " أَیْ لَا وُضُوْئَ لَہٗ مُتَکَامِلًا فِی الثَّوَابِ ، کَمَا قَالَ ( لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ الَّذِیْ تَرُدُّہُ التَّمْرَۃُ وَالتَّمْرَتَانِ وَاللُّقْمَۃُ وَاللُّقْمَتَانِ ) فَلَمْ یُرَدُّ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمِسْکِیْنٍ خَارِجٍ مِنْ حَدِّ الْمَسْکَنَۃِ کُلِّہَا حَتّٰی تَحْرُمَ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ .وَإِنَّمَا أَرَادَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِالْمِسْکِیْنِ الْمُتَکَامِلِ فِی الْمَسْکَنَۃِ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَ دَرَجَتِہٖ فِی الْمَسْکَنَۃِ دَرَجَۃٌ .
١٠٢ : مہاجر بن قُنفد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا جبکہ آپ وضو فرما رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہ دیا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو سے فارغ ہوچکے تو فرمایا ” تمہارے سلام کا جواب دینے میں مجھے کوئی چیز مانع نہ تھی مگر میں نے بلاطہارت اللہ تعالیٰ کا نام لینا پسند نہ کیا۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طہارت کے بغیر اللہ کا نام لینا ناپسند فرمایا اور سلام کا جواب بھی وضو کے بعد طہارت کے ساتھ دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اللہ کا نام لینے سے پہلے وضو کیا اور رہا آپ کا یہ ارشاد کہ اس آدمی کا وضو نہیں جس نے بسم اللہ نہیں پڑھی۔ اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے جس کو پہلے قول والوں نے اختیار کیا اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس کا وضو ثواب کے اعتبار سے کامل نہیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کامل مسکین وہ نہیں جسے ایک کھجور یا دو کھجور اور ایک لقمہ یا دو لقمے دروازے سے واپس کردیں۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ مسکینوں کی حدود سے خارج ہے یہاں تک کہ اس پر صدقے کو حرام قرار دیا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسا کامل مسکین نہیں کہ جس کے بعد مسکینی کا کوئی درجہ نہ ہو۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٣٤٥
علامہ فرماتے ہیں :
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طہارت کے بغیر اللہ تعالیٰ کا نام لینا پسند نہ فرمایا اور وضو سے جب طہارت حاصل ہوچکی تو آپ نے سلام کا جواب مرحمت فرمایا اس سے یہ بات خود سامنے آگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کا نام زبان پر لانے سے پہلے وضو کیا اگر وضو سے طہارت حاصل نہیں ہوتی تو طہارت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا نام لینا کیا معنی رکھتا ہے۔
جواب دلیل :
قول اول کے قائلین کی دلیل میں د وپہلو ہیں نمبر ١: ایک یہ بھی ممکن ہے کہ وضو بالکل نہ ہو نمبر ٢: اور یہ بھی ممکن ہے کمال ثواب کی نفی ہو نفس شیٔ کی نفی نہ ہو اس کی احادیث میں کثرت سے مثالیں موجود ہیں امام طحاوی نے دو کا تذکرہ فرمایا ہے۔ نمبر ١: لیس المسکین الذی تردہ التمرۃ والتمرتان واللقمۃ واللقمتان “ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ مسکین بلکہ حد مسکنت سے باہر ہے یہاں تک کہ اس کو صدقہ نہ دیا جائے اور وہ صدقہ کا حقدار نہ رہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مسکنت میں کامل درجہ کا نہیں کہ جس کے بعد مسکنت کا کوئی درجہ نہ رہ جاتا ہو۔
نمبر ٢ یہ ارشاد بھی لیس المؤمن الذی یبیت شبعان وجارہ جائع “ کی طرح ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ہمسایہ کا خیال نہ کرنے کی وجہ سے ایمان سے نکل کر کفر میں داخل ہوگیا بلکہ مراد یہ ہے کہ کمال ایمان کا تقاضا یہ نہیں کہ ہمسائے کے دکھ سکھ کا خیال نہ ہو۔

103

۱۰۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْہَجَرِیِّ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ بِالطَّوَّافِ الَّذِیْ تَرُدُّہُ التَّمْرَۃُ وَالتَّمْرَتَانِ وَاللُّقْمَۃُ وَاللُّقْمَتَانِ قَالُوْا فَمَنِ الْمِسْکِیْنُ ؟ قَالَ الَّذِیْ یَسْتَحْیٖ أَنْ یَسْأَلَ ، وَلَا یَجِدُ مَا یُغْنِیْہِ وَلَا یُفْطَنُ لَہٗ فَیُعْطٰی).
١٠٣ : حضرت عبداللہ (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ کامل مسکین وہ نہیں کہ جس کو ایک یا دو کھجوریں اور ایک لقمہ اور دو لقمے لوٹا دیتے ہیں صحابہ کرام نے استفسار کیا پھر مسکین کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اصل مسکین وہ ہے جس کو حاجت کے لیے سوال کرتے ہوئے حیاء آتی ہے مگر وہ اتنا بھی نہیں پاتا جو اس کو مستغنی کر دے اور نہ لوگ اس کو ضرورت مند جانتے ہیں کہ اس کو دیں۔
اللغات : ترد۔ لوٹانا۔ یستحیی۔ حیاء کرنا۔ شرم محسوس کرنا۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٣‘ تفسیر سورة ٢ باب ٤٨‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٧٦‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٢‘ مالک فی موطا فی صفۃ النبی ا روایت ٧‘ مسند احمد ١؍٣٨٤‘ ٤٤٦‘ ٢؍٣١٦۔

104

۱۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٠٤ : سفیان نے ابرہیم سے نقل کیا اور انھوں نے اپنی اسناد سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔

105

۱۰۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ ذُؤَیْبٍ عَنْ أَبِی الْوَلِیْدِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
١٠٥ : ابوالولید نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی وساطت سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا ہے۔

106

۱۰۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَیَّاشِ ڑ الْحِمْصِیُّ عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
١٠٦ : عبدالرحمن اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح ارشاد نقل کیا ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٣٣٣

107

۱۰۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، أَوْ کَمَا قَالَ ( لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یَبِیْتُ شَبْعَانَ وَجَارُہٗ جَائِعٌ).
١٠٧ : اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا یا جیسا کہ فرمایا کہ وہ شخص مؤمن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔
تخریج : معجم کبیرالطبرانی ١٢؍١٥٤‘ مستدرک حاکم ٤؍١٦٧‘ مسند ابو یعلی ٢؍١٣٦۔

108

۱۰۸ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ بَشِیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُسَاوِرِ أَوِ ابْنِ أَبِی الْمُسَاوِرِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یُعَاتِبُ ابْنَ الزُّبَیْرِ فِی الْبُخْلِ وَیَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یَبِیْتُ شَبْعَانَ وَجَارُہٗ إِلٰی جَنْبِہٖ جَائِعٌ ) فَلَمْ یُرِدْ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمُؤْمِنٍ إِیْمَانًا خَرَجَ بِتَرْکِہٖ إِیَّاہُ إِلَی الْکُفْرِ ، وَلَکِنَّہٗ أَرَادَ بِہٖ أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ أَعْلَیْ مَرَاتِبِ الْاِیْمَانِ، وَأَشْبَاہُ ھٰذَا کَثِیْرَۃٌ ، یَطُوْلُ الْکِتَابُ بِذِکْرِہَا .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (لَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یُسَمِّ) لَمْ یُرِدْ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمُتَوَضِّئٍ وُضُوْئً ا لَمْ یَخْرُجْ بِہِ مِنَ الْحَدَثِ، وَلَکِنَّہٗ أَرَادَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمُتَوَضِّیُٔ وُضُوْئً ا کَامِلًا فِیْ أَسْبَابِ الْوُضُوْئِ الَّذِیْ یُوْجِبُ الثَّوَابَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مِنَ الْمَعَانِیْ مَا وَصَفْنَا وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دَلَالَۃٌ یَقْطَعُ بِہَا لِأَحَدِ التَّأْوِیْلَیْنِ عَلَی الْآخَرِ وَجَبَ أَنْ یَجْعَلَ مَعْنَاہُ مُوَافِقًا لِمَعَانِیْ حَدِیْثِ الْمُہَاجِرِ ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوُضُوْئَ بِلَا تَسْمِیَۃٍ یَخْرُجُ بِہٖ الْمُتَوَضِّئُ مِنَ الْحَدَثِ إِلَی الطَّہَارَۃِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا أَشْیَائَ لَا یَدْخُلُ فِیْہَا إِلَّا بِکَلَامٍ .مِنْہَا الْعُقُوْدُ الَّتِیْ یَعْقِدُہَا بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ مِنَ الْبِیَاعَاتِ وَالْاِجَارَاتِ وَالْمُنَاکَحَاتِ وَالْخُلْعِ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَشْیَائُ لَا تَجِبُ إِلَّا بِأَقْوَالٍ وَکَانَتِ الْأَقْوَالُ مِنْہَا إِیْجَابٌ ، لِأَنَّہُ یَقُوْلُ ( قَدْ بِعْتُک ، قَدْ زَوَّجْتُکِ ، قَدْ خَلَعْتُکِ).فَتِلْکَ أَقْوَالٌ فِیْہَا ذِکْرُ الْعُقُوْدِ .وَأَشْیَائُ تَدْخُلُ فِیْہَا بِأَقْوَالٍ وَہِیَ الصَّلَاۃُ وَالْحَجُّ ، فَتَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ بِالتَّکْبِیْرِ، وَفِی الْحَجِّ بِالتَّلْبِیَۃِ .فَکَانَ التَّکْبِیْرُ فِی الصَّلَاۃِ وَالتَّلْبِیَۃُ فِی الْحَجِّ رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِہَا .ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی التَّسْمِیَۃِ فِی الْوُضُوْئِ ، ہَلْ تُشْبِہُ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَرَأَیْنَاہَا غَیْرَ مَذْکُوْرٍ فِیْہَا إِیْجَابُ شَیْئٍ کَمَا کَانَ فِی النِّکَاحِ وَالْبُیُوْعِ .فَخَرَجَتِ التَّسْمِیَۃُ لِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ مَا وَصَفْنَا ، وَلَمْ تَکُنْ التَّسْمِیَۃُ أَیْضًا رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِ الْوُضُوْئِ کَمَا کَانَ التَّکْبِیْرُ رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِ الصَّلَاۃِ ، وَکَمَا کَانَتِ التَّلْبِیَۃُ رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِ الْحَجِّ ، فَخَرَجَ أَیْضًا بِذٰلِکَ حُکْمُہَا مِنْ حُکْمِ التَّکْبِیْرِ ، وَالتَّلْبِیَۃُ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ : إِنَّہٗ لَا بُدَّ مِنْہَا فِی الْوُضُوْئِ کَمَا لَا بُدَّ مِنْ تِلْکَ الْأَشْیَائِ فِیْمَا یُعْمَلُ فِیْہِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الذَّبِیْحَۃَ لَا بُدَّ مِنَ التَّسْمِیَۃِ عِنْدَہَا ، وَمَنْ تَرَکَ ذٰلِکَ مُتَعَمِّدًا لَمْ تُؤْکَلْ ذَبِیْحَتُہُ ، فَالتَّسْمِیَۃُ أَیْضًا عَلَی الْوُضُوْئِ کَذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : مَا ثَبَتَ فِی حُکْمِ النَّظَرِ أَنَّ مَنْ تَرَکَ التَّسْمِیَۃَ عَلَی الذَّبِیْحَۃِ مُتَعَمِّدًا أَنَّہَا لَا تُؤْکَلُ ، لَقَدْ تَنَازَعَ النَّاسُ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : تُؤْکَلُ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا تُؤْکَلُ .فَأَمَّا مَنْ قَالَ تُؤْکَلُ فَقَدْ کَفَیْنَا الْبَیَانَ لِقَوْلِہٖ وَأَمَّا مَنْ قَالَ لَا تُؤْکَلُ ، فَإِنَّہٗ یَقُوْلُ : إِنْ تَرَکَہَا نَاسِیًا تُؤْکَلُ ، وَسَوَائٌ عِنْدَہٗ کَانَ الذَّابِحُ مُسْلِمًا أَوْ کَافِرًا، بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ کِتَابِیًّا .فَجُعِلَتْ التَّسْمِیَۃُ ہَاہُنَا فِیْ قَوْلِ مَنْ أَوْجَبَہَا فِی الذَّبِیْحَۃِ ، إِنَّمَا ہِیَ لِبَیَانِ الْمِلَّۃِ .فَإِذَا سَمَّی الذَّبْحَ صَارَتْ ذَبِیْحَتُہٗ مِنْ ذَبَائِحِ الْمِلَّۃِ الْمَأْکُوْلَۃِ ذَبِیْحَتُہَا وَإِذَا لَمْ یُسَمِّ جُعِلَتْ مِنْ ذَبَائِحِ الْمِلَلِ الَّتِیْ لَا تُؤْکَلُ ذَبَائِحُہَا .وَالتَّسْمِیَۃُ عَلَی الْوُضُوْئِ لَیْسَ لِلْمِلَّۃِ إِنَّمَا ہِیَ مَجْعُوْلَۃٌ لِذِکْرٍ عَلٰی سَبَبٍ مِنْ أَسْبَابِ الصَّلَاۃِ فَرَأَیْنَا مِنْ أَسْبَابِ الصَّلَاۃِ ، الْوُضُوْئَ وَسَتْرَ الْعَوْرَۃِ ، فَکَانَ مَنْ سَتَرَ عَوْرَتَہٗ لَا بِتَسْمِیَۃٍ ، لَمْ یَضُرَّہُ ذٰلِکَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ مَنْ تَطَہَّرَ أَیْضًا ، لَا بِتَسْمِیَۃٍ ، لَمْ یَضُرَّہٗ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٠٨ : ابن ابی المساور یا عبداللہ بن المساور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو سنا کہ وہ ابن الزبیر کو بخل کے متعلق عتاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ کامل مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر رات گزارے جبکہ اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔ پس اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ اس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے کفر کی طرف نکل گیا ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ایمان کے اعلیٰ درجات میں نہیں ہے۔ اس کی امثلہ بہت ہیں جن کا تذکرہ کریں تو کتاب طویل ہوجائے گی۔ پس اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : ((لا وضو لمن لم یسم)) کہ جس نے بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو کامل نہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ایسا وضو کرنے والا نہیں جس سے وہ حدث سے نہ نکلا ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ایسا کامل وضو کرنے والا نہیں جو اسباب وضو میں ثواب کو لازم کرتا ہے۔ پس جب یہ روایت ان معانی کا احتمال رکھتی ہے جو ہم نے بیان کیے ہیں تو پھر کسی ایک تاویل کے لیے قطعی دلالت نہ ملی تو اب لازم ہوگیا کہ اس حدیث کے ایسے معانی لیے جائیں جو حدیث مہاجر کے موافق ہوں تاکہ دونوں میں تضاد نہ رہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ کے بغیر کیا جانے والا وضو ایسا ہے جس سے وضو کرنے والا حدث سے طہارت کی طرف نکل جاتا ہے۔ باقی غور و فکر کے لحاظ سے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کئی عقود ایسے جانتے ہیں جن میں آدمی اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک ایسا کلام نہ کرے جس کو لوگ ایک دوسرے سے بیع و اجارہ ‘ نکاح ‘ خلع وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں یہ اشیاء اس وقت لازم ہوتی ہیں جب گفتگو کی جائے کیونکہ کہتے ہیں کہ میں نے تجھے یہ چیز فروخت کی ‘ میں نے تجھ سے نکاح کیا ‘ میں نے تجھ سے خلع کیا یہ وہ اقوال ہیں کہ جن میں عقود کا تذکرہ ہے اور ایسی اشیاء ہیں جن میں کلام سے داخل ہوتا ہے اور وہ نماز و حج ہیں ‘ نماز میں تکبیر اور حج میں تلبیہ کے ذریعہ داخل ہوتا ہے بلکہ تکبیر نماز میں اور حج میں تلبیہ ارکان ہیں۔ ہم دوبارہ وضو میں تسمیہ کے مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں کہ آیا یہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کسی گونہ مشابہ ہے۔ پس ہم نے دیکھا کہ اس میں کسی شئی کا واجب کرنا تو مذکور نہیں جیسا کہ نکاح اور بیوع وغیرہ میں تھا۔ پس بسم اللہ جن کو ہم نے بیان کیا ان کے حکم سے نکل گئی اور غور سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ وضو کے ارکان میں سے بھی نہیں جیسا کہ تکبیر نماز میں اور تلبیہ حج میں رکن ہے۔ پس تسمیہ کا حکم تکبیر و تلبیہ کے حکم سے بھی خارج ہوگیا۔ پس اس سے اس شخص کا قول غلط ثابت ہوگیا جو اس بات کا مدعی ہے کہ یہ وضو میں اسی طرح لازم ہے جس طرح ان متعلقہ اشیاء میں وہ چیزیں لازم ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ذبیحہ میں تو بسم اللہ لازم ہے اور جو شخص بوقت ذبح اسے جان بوجھ کر ترک کر دے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے گا پس وضو میں بھی تسمیہ کا یہی حکم ہے۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ نظر و فکر سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر تسمیہ کو چھوڑ دیا اس کے نہ کھانے کے متعلق لوگوں کا باہمی اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسے کھایا جائے جبکہ دوسرے کہتے ہیں اسے نہ کھایا جائے گا جو لوگ کہتے ہیں کہ کھایا جائے تو ان کے قول کے لیے ہمارا بیان کافی ہے اور جو شخص نہ کھانے کا قائل ہے۔ وہ یہ تفصیل کرتا ہے کہ اگر بھول کر چھوڑ دیا جائے تو کھالیا جائے اور اس کے نزدیک یہ بات برابر ہے کہ ذبح کرنے والا کافر ہو یا مسلمان مگر اس کافر کے لیے کتابی ہونا ضروری ہے۔ پس بسم اللہ کو یہاں اس شخص کے قول کے مطابق جو اسے ذبح کے وقت واجب قرار دیتا ہے تو ذبیحہ بیان قلت کے لیے ہے جب ذبح کرنے والا ذبح کے وقت تسمیہ ادا کرے تو یہ ان لوگوں کے ذبیحہ میں شامل ہوگا جن کا ذبیحہ کھایا جاتا ہے اور جب بسم اللہ نہ پڑھی گئی تو یہ ذبیحہ ان لوگوں کے ذبیحہ سے ہوگا جن کا ذبیحہ کھایا نہیں جاتا اور وضو میں بسم اللہ کسی ملت کے اظہار کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کو ایسا ذکر قرار دیا جائے گا جو اسباب نماز میں سے ایک اسباب پر اختیار کیا جائے۔ چنانچہ ہم نے نماز کے اسباب میں سے وضو اور ستر عورت کو پایا۔ پس جس شخص نے اپنے ستر کو بسم اللہ پڑھے بغیر ڈھانپ لیا تو اسے ترک تسمیہ سے کچھ بھی نقصان نہ ہوگا پھر مزید غور کیا تو یہ بات پائی کہ جس شخص نے طہارت حاصل کی مگر اس نے بسم اللہ نہ پڑھی تو اس کو کچھ بھی نقصان نہ ہوا ۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن حسن (رح) کا مختار قول ہے۔
تخریج : مسند ابو یعلٰی موصلی ٢؍١٣٦‘ حاکم ٤؍١٦٧‘ معجم کبیر الطبرانی ١٢؍١٥٤ بخاری فی کتاب الادب
حاصل روایات : ان روایات میں کمال کی نفی مذکور ہے ذات کی نفی نہیں بالکل اسی طرح ” لا وضوء لمن لم یسم “ شروع باب کی روایت میں کمال کی نفی ہے یہ مراد نہیں کہ سرے سے اس کا وضو ہوتا ہی نہیں کہ جس سے وہ حدث سے پاک ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ کامل وضو کرنے والا نہیں جو ثواب کو لازم کرتا ہے۔
جب اس حدیث میں دونوں معانی کا احتمال ہے اور کسی ایک تاویل کی تعیین کے لیے کوئی دلالت موجود نہیں تو لازم ہے کہ اس کا ایسا معنی لیا جائے جو حدیث مہاجر کے موافق ہو اور متضاد نہ ہو پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بغیر بسم اللہ کے اگر وضو کیا جائے گا تو وضو کرنے والا حدث سے نکل جائے گا اور طہارت میں داخل ہوجائے گا۔
نظر طحاوی :
اگر عقل و فکر سے سوچا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کئی اشیاء میں کلام ہی سے داخل ہوتے ہیں مثلاً بیع و شرائ ‘ اجارہ ‘ نکاح و طلاق اور خلع وغیرہ اور ان کے ہم مثل معاملات یہ اشیاء اقوال سے لازم ہوتی ہیں اور قول ہی ان کے سلسلے میں ایجاب سمجھا جاتا ہے مثلاً بائع کہتا ہے بعتک ‘ زوجتک ‘ خلعتک۔ یہ سارے معاھدات کے اقوال ہیں۔
نمبر ٢: بعض اشیاء جن میں اقوال سے داخلہ ہوتا ہے مثلاً نماز ‘ حج وغیرہ ہیں نماز میں تکبیر اور حج میں تلبیہ داخلے کا ذریعہ ہیں نماز میں تکبیر اور حج میں تلبیہ ارکان ہیں۔
اب اس تفصیل کے بعد وضو میں بسم اللہ کی طرف لوٹتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ آیا وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں سے کسی کے ساتھ کچھ بھی مشابہت رکھتا ہے ؟ تو ہم نے دیکھا کہ ” بسم اللہ فی الوضو “ میں کسی چیز کا ایجاب مذکور نہیں ہے جیسا کہ نکاح اور بیوع میں ہے۔
پس بسم اللہ قاعدہ مذکورہ کے تحت نہ آئی اور بسم اللہ وضو کے ارکان میں کوئی رکن بھی نہیں جیسا کہ تکبیر نماز میں اور تلبیہ حج میں رکن ہیں تو اس کا حکم ارکان والا بھی نہ ہوا تو اس سے ان لوگوں کی بات غلط ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ یہ وضو کی ضروری معمول بہا چیزوں سے ہے۔
ایک اشکال :
ذبح کے وقت بسم اللہ ضروری ہے جس نے بسم اللہ جان بوجھ کر ترک کردی اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے گا پس وضو میں بھی بسم اللہ کا حکم ذبیحہ والا ہے۔
حل اشکال :
تسمیہ عندالوضوکو تسمیہ عندالذبح پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ علت مشترک نہیں اس کی تفصیل یہ ہے تسمیہ کے عمداً ترک کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے امام مالک عمدونسیان میں متروک التسمیہ کو حرام کہتے ہیں نمبر ٢: حنابلہ و شوافع ہر دو صورت میں حلال کہتے ہیں نمبر : ٣ احناف عمداً میں ناجائز قرار دیتے ہیں پس جن کے ہاں وہ ذبیحہ حلال ہے تو پھر ترک تسمیہ عمداً وضو میں بھی وضو کو باطل نہ کرے گا رہے وہ لوگ جو عمد میں حلال نہیں کہتے مگر نسیان میں حلال کہتے ہیں خواہ ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی۔ اب جن کے ہاں تسمیہ ذبیحہ میں واجب ہے تو وہ تفاوت ملت کے لیے ہے پس اگر اس نے ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا تو وہ ان ملت والوں سے ہے جن کا ذبیحہ حلال ہے اور اگر نہ لیا تو وہ ایسے مذہب والوں میں سے ہے جن کا ذبیحہ کھایا نہیں جاتا اور یہاں وضو میں تسمیہ تفاوت ملت کے لیے نہیں بلکہ اسباب نماز میں سے ایک سبب کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی قسم سے ہے اسباب صلوۃ میں ستر عورت ‘ طہارت مکان ‘ استقبال قبلہ وغیرہ ہیں ان میں سے کسی میں بھی بسم اللہ واجب نہیں اگر اس نے ستر عورت کو اختیار کرلیا مگر بسم اللہ نہ پڑھی تو اسے کوئی فرق نہ پڑے گا پس وضو میں بسم اللہ واجب نہ ہوگی کیونکہ یہ بھی اسباب صلوۃ سے ہے جس آدمی نے طہارت حاصل کی مگر بسم اللہ نہ پڑھی تو اس کی طہارت میں قطعاً فرق نہ ہوگا خواہ طہارت مکان ہو یا کپڑے ہو۔ طہارت وضو کا بھی یہی حکم ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔

109

۱۰۹ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ قَالَ ثَنَا عَلْقَمَۃُ بْنُ خَالِدٍ ؛ أَوْ خَالِدُ ابْنُ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ( عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ ھٰذَا طَہُوْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).
١٠٩ : عبدخیر حضرت علی (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور پھر فرمایا یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو ہے۔
اللغات : طھور۔ یہاں وضو کے معنی میں ہے۔ اس کا معنی طہارت و پاکیزگی بھی ہے۔
تخریج : نسائی فی الطہارۃ باب ٧٣‘ مسند احمد ١؍١٣٥‘ ابن ابی شیبہ ١؍٨ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣٤‘ حدیث نمبر ٤٤‘ مگر الفاظ یہ ہیں۔ عن علی ان النبی ا توضاء ثلاثا ثلاثاً “
خلاصہ الزام : وضو کے اعضاء کو دھونے کے متعلق دو قول ہیں۔
نمبر ١: تین مرتبہ دھونا مسنون ہے اس سے کم خلاف سنت ہے۔
نمبر ٢: ائمہ ثلاثہ اور جمہور کے ہاں تین مرتبہ مسنون دو مرتبہ مباح اور ایک مرتبہ فرض ہے۔

110

۱۱۰ : حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ قَالَ ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ ثَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِیْ حَیَّۃَ الْوَادِعِیِّ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
١١٠ : ابو حیہ وادعی نے حضرت علی مرتضیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو اسی طرح تھا۔
تخریج : ترمذی ١؍١٧

111

۱۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ أَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ عَنْ عَبْدَۃَ بْنِ أَبِیْ لُبَابَۃَ عَنْ شَقِیْقٍ قَالَ ( رَأَیْتُ عَلِیًّا وَعُثْمَانَ تَوَضَّآ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، وَقَالَا : ھٰکَذَا کَانَ یَتَوَضَّأُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).
١١١ : شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی و عثمان (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے تین مرتبہ اعضاء دھو کر وضو کیا اور دونوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح وضو کرتے تھے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٦‘ بخاری فی الوضوء باب ٢٤

112

۱۱۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یَحْیَی الصُّوْرِیُّ قَالَ ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ قَالَ ثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١١٢ : ھیثم بن جمیل کہتے ہیں کہ ہمیں ابن ثوبان نے بیان کیا اور انھوں نے اپنی اسناد سے اس کی مثل ذکر کیا۔

113

۱۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ الْحَنَفِیُّ قَالَ ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یَحْیٰی عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ ( عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَقَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ھٰکَذَا).
١١٣ : عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے تین تین مرتبہ اعضاء کو دھویا اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٢٤‘ مسلم فی الطھارۃ حدیث نمبر ٣

114

۱۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ سُبَیْعٍ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ) فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ مَرَّۃً مَرَّۃً .
١١٤ : حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین تین مرتبہ وضو کیا۔ ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٩‘ دارقطنی فی السنن ١؍٨٩۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے تین تین مرتبہ اعضاء وضو کو دھونا ثابت ہوتا ہے فرضیت کی طرف ایک اشارہ بھی نہیں ملتا ورنہ ایک ایک مرتبہ کا تذکرہ روایات میں نہ ہوتا۔
قول ثانی سے متعلق پانچ روایات ہیں جن میں ایک مرتبہ کا تذکرہ ہے۔

115

۱۱۵ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ ثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ شُرَحْبِیْلَ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّۃً مَرَّۃً).
١١٥ : حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک ایک مرتبہ وضو کرتے دیکھا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٥‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣٢۔

116

۱۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ ( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِوُضُوْئِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّۃً مَرَّۃً أَوْ قَالَ تَوَضَّأَ مَرَّۃً مَرَّۃً)
١١٦ : عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) فرمانے لگے کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو نہ بتلا دوں (انہوں نے کہا کیوں نہیں تو فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو) ایک ایک مرتبہ تھا یا اس طرح فرمایا آپ نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا یعنی اعضائے وضو کو دھویا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٥‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣٢

117

۱۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحِ ڑ الْوُحَاظِیُّ قَالَ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ ( تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّۃً مَرَّۃً).
١١٧ : مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٧۔

118

۱۱۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَۃَ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١١٨ : ابن ابی نجیح نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

119

۱۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو ؛ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَرَأَیْتُہٗ غَسَلَ مَرَّۃً مَرَّۃً) فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ مَرَّۃً مَرَّۃً ؛ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ مِنْہُ مِنْ وُضُوْئِہٖ ثَلَاثًا ثَلَاثًا إِنَّمَا ہُوَ لِاِصَابَۃِ الْفَضْلِ لَا الْفَرْضِ ۔
١١٩ : ابو رافع منقول ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین تین مرتبہ وضو کرتے اور آپ کو ایک ایک مرتبہ اعضاء دھوتے دیکھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان مروی روایات سے یہ ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو وضو تین تین مرتبہ ہے وہ فضیلت کے حصول کے لیے ہے ‘ فرض کی ادائیگی کے لیے نہیں۔
تخریج : سنن دارقطنی ١؍٨١۔
حاصل روایات : ان روایات سے ایک ایک مرتبہ دھونا ثابت ہوتا ہے اگر تین سے کم کی اجازت نہ ہوتی تو ایک ایک کا تذکرہ آپ کے قول و عمل میں نہ ملتا پس اس سے ثابت ہوا کہ تین تین مرتبہ دھونا فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے ہے فرض نہیں اور ایک ایک مرتبہ فرض ہے کہ اس سے کم ثابت نہیں۔
البتہ ترمذی ‘ نسائی کی روایت : فمن زاد او نقص فقد ظلم و تعدٰی۔ اس کا مطلب مرۃ مرۃ والی روایات کو سامنے رکھ کر تین پر اضافہ کرنے والا ظلم وتعدی کرنے والا ہے یا شرط کے ہر ایک فعل کا جزاء کے ایک ایک فعل سے تعلق ہے من زاد کا تعلق تعدی سے اور نقص کا تعلق ظلم سے ہے کہ جس نے تین پر اضافہ کیا وہ حد سے آگے بڑھا اور جس نے کم کیا اس نے اپنے ثواب میں کمی کی۔ (واللہ اعلم) یہ ثانی تاویل روایت ابو داؤد باب ٥٢ نمبر ١٣٥ میں موجود ہے روایت نمبر ١٦٧ ملاحظہ ہو۔

120

۱۲۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَعَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالُوْا : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی الْمَازِنِیِّ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَاصِمِ ڑ الْمَازِنِیِّ ( عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَخَذَ بِیَدِہٖ فِیْ وُضُوْئِہٖ لِلصَّلَاۃِ مَائً فَبَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِہٖ ثُمَّ ذَہَبَ بِیَدِہِ إِلٰی مُؤَخَّرِ الرَّأْسِ ثُمَّ رَدَّہُمَا إِلَی مُقَدَّمِہٖ) .قَالَ مَالِکٌ: ھٰذَا أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِیْ ذٰلِکَ ، وَأَعَمُّہٗ فِیْ مَسْحِ الرَّأْسِ .
١٢٠ : حضرت عبداللہ بن زید مازنی (رض) کہتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے لیے وضو کے دوران ہاتھ میں پانی لیا اور سر کے اگلی جانب سے ہاتھ رکھ کر پھر اپنے ہاتھوں کو سر کے پچھلی جانب لے گئے پھر دونوں ہاتھوں کو سر کی اگلی جانب کی طرف لوٹایا۔ امام مالک اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں یہ ان تمام روایات میں اعلی روایت ہے اور مسح رأس کے سلسلہ میں عام ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣٨‘ مسلم فی الطھارۃ حدیث ١٨‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢٤‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٧٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٥١‘ مالک فی الطھارۃ حدیث ١‘ مسند احمد ٤؍٣٨؍٣٩،
خلاصہ الزام : سر کے مسح کی کتنی مقدار وضو میں فرض ہے اس میں دو قول ہیں۔
نمبر ١: امام مالک (رح) و دیگر ائمہ کے نزدیک تمام سر کا مسح فرض ہے۔
نمبر ٢: دوسرا قول ائمہ ثلاثہ اور جمہور محدثین و فقہاء کا ہے کہ تمام سر کا مسح تو مسنون ہے اور کمال فضیلت ہے البتہ بعض حصہ کا مسح فرض ہے۔

121

۱۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ ثَنَا أُبَیٌّ وَحَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ لَیْثٍ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ (رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِہٖ حَتّٰی بَلَغَ الْقَذَالَ مِنْ مُقَدَّمِ عُنُقِہٖ) .
١٢١ : طلحہ بن مصرف اپنے والد اور مصرف اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر کے اگلی جانب سے مسح شروع کیا یہاں تک کہ گدی تک پہنچے جو گردن کا بالائی حصہ ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ مسند احمد ٣؍٤٨١‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٦،

122

۱۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ لَیْثٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٢٢ : عبدالوارث بن سعید نے لیث سے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح نقل کیا ہے۔

123

۱۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَحْرٍ قَالَ ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْعَلَائِ عَنْ أَبِی الْأَزْہَرِ (عَنْ مُعَاوِیَۃَ أَنَّہٗ أَرَاہُمْ وُضُوْئَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا بَلَغَ مَسْحَ رَأْسِہٖ، وَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی مُقَدَّمِ رَأْسِہٖ ثُمَّ مَرَّ بِہِمَا حَتّٰی بَلَغَ الْقَفَا ، ثُمَّ رَدَّہُمَا حَتّٰی بَلَغَ الْمَکَانَ الَّذِیْ مِنْہُ بَدَأَ).فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ إِلٰی أَنَّ مَسْحَ الرَّأْسِ کُلِّہٖ وَاجِبٌ فِیْ وُضُوْئِ الصَّلَاۃِ ، لَا یُجْزِئُ تَرْکُ شَیْئٍ مِنْہُ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوا الَّذِیْ فِی آثَارِکُمْ ھٰذِہِ إِنَّمَا ہُوَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ رَأْسَہُ کُلَّہُ فِیْ وُضُوْئِہِ لِلصَّلَاۃِ فَھٰکَذَا نَأْمُرُ الْمُتَوَضِّئَ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ فِیْ وُضُوْئِہِ لِلصَّلَاۃِ وَلَا نُوْجِبُ ذٰلِکَ بِکَمَالِہٖ عَلَیْہِ فَرْضًا .وَلَیْسَ فِیْ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْہُ لِأَنَّہٗ فَرْضٌ فَقَدْ رَأَیْنَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا لَا أَنَّ ذٰلِکَ فَرْضٌ لَا یُجْزِئُ أَقَلُّ مِنْہُ ، وَلَکِنْ مِنْہُ فَرْضٌ وَمِنْہُ فَضْلٌ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْآثَارِ الدَّالَّۃِ عَلٰی مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ فِی الْفَرْضِ فِیْ مَسْحِ الرَّأْسِ أَنَّہٗ عَلٰی بَعْضِہِ مَا قَدْ ۔
١٢٣ : ابوازھر بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو دکھلایا جب وہ مسح سر تک پہنچے تو انھوں نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے سر کے اگلی جانب رکھا پھر ان کو گزرارتے ہوئے گردن تک پہنچے پھر ان کو اسی مقام کی طرف پھیرتے ہوئے لوٹایا جہاں سے شروع کیا تھا ۔ بعض علماء کا مسلک ہے کہ نماز کے وضو میں تمام سر کا مسح فرض ہے۔ اس میں سے کسی حصہ کا ترک جائز نہیں ہے۔ انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا اور ان سے دیگر علماء نے اختلاف کرتے ہوئے کہا مندرجہ پیش کردہ آثار میں سے صرف اس قدر بات ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے وضو میں تمام سر پر مسح کیا پس ہم بھی وضو کرنے والے کو کہتے ہیں کہ وہ بھی نماز کے وضو میں اس کو اختیار کرے۔ مگر ہم تمام سر کے مسح کو فرض قرار نہیں دیتے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو اس بات کو ثابت کرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام سر کا مسح اس لیے کیا کہ وہ فرض ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین تین مرتبہ وضو فرمایا مگر اس لیے نہیں کہ تین تین مرتبہ وضو فرض ہے اور اس سے کم جائز نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کا کچھ حصہ ایک بار دھونا فرض ہے۔ اس سے کم جائز نہیں بلکہ اس لیے کہ اس میں سے کچھ ایک بار دھونا فرض ہے اور تین مرتبہ دھونا باعث فضیلت ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات بھی وارد ہیں کہ جن سے اس فریق کا مؤقف ثابت ہوتا ہے جو اس طرف گئے ہیں کہ مسح سر میں بعض حصہ فرض ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘
حاصل روایات : مذکورہ بالا روایات سے سر کی اگلی جانب سے لے کر گدی تک مسح میں استیعاب ثابت ہو رہا ہے چنانچہ امام مالک (رح) وغیرہ فرماتے ہیں کہ پورے سر کا مسح فرض ہے جیسا کہ ظاہر روایات بتلا رہا ہے اس میں سے کسی حصہ کا ترک نہ کرنا اس کی فرضیت کو ظاہر کرتا ہے۔
دلیل کا جواب :
ان روایات میں نماز کے لیے کئے جانے والے وضو میں تمام سر کا مسح ثابت ہو رہا ہے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ نماز کے لیے وضو کرنے والا ایسا کرے مگر ان آثار میں سے کوئی اثر بھی فرضیت کو ثابت نہیں کرتا ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے تین تین مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا مگر وہ اس بناء پر نہیں کہ وہ فرض ہے کہ اس سے کم تر جائز نہ ہو بلکہ اس میں سے کچھ فرض اور کچھ زائد ہے جو کمال فضیلت کے حصول کے لیے ہے۔ اسی وجہ سے ایک ایک مرتبہ بھی ثابت ہے جو کہ فرض ہے اس سے کم ثابت نہیں بالکل اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے آثار ثابت ہیں جن میں سر کے مسح کی وہ مقدار جو کہ فرض ہے وہ مذکور ہے اور وہ بعض حصہ سر ہے معلوم ہوا کہ بعض فرض ہے۔

124

۱۲۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ عَمْرِو بْنِ وَہْبٍ الثَّقَفِیِّ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ فَمَسَحَ عَلٰی عِمَامَتِہٖ وَمَسَحَ بِنَاصِیَتِہٖ ۔
١٢٤ : عمرو بن وہب ثقفی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر پر عمامہ تھا پس اپنے عمامہ کو چھوا (پیچھے کی طرف ہٹایا) اور اپنے سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ حدیث ٨٣‘ مگر اس میں الفاظ کا معمولی فرق ہے ” توضا ‘ فمسح ناصیتہ وعلی العمامہ وعلی الخفین “

125

۱۲۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ عَامِرٍ عَنِ ابْنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِیْہِ وَابْنِ عَوْنٍ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ عَمْرِو بْنِ وَہْبٍ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ رَفَعَہٗ إِلَیْہِ قَالَ ( کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاۃِ ، فَمَسَحَ عَلٰی عِمَامَتِہِ وَقَدْ ذَکَرَ النَّاصِیَۃَ بِشَیْئٍ).فَفِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلٰی بَعْضِ الرَّأْسِ وَہُوَ النَّاصِیَۃُ ، وَظُہُوْرُ النَّاصِیَۃِ دَلِیْلُ أَنَّ بَقِیَّۃَ الرَّأْسِ حُکْمُہٗ حُکْمُ مَا ظَہَرَ مِنْہُ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ الْحُکْمُ قَدْ ثَبَتَ بِالْمَسْحِ عَلَی الْعِمَامَۃِ لَکَانَ کَالْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ ، فَلَمْ یَکُنْ إِلَّا وَقَدْ غُیِّبَتِ الرِّجْلَانِ فِیْہِمَا وَلَوْ کَانَ بَعْضُ الرِّجْلَیْنِ بَادِیًا ، لَمَا أَجْزَأَہٗ أَنْ یَغْسِلَ مَا ظَہَرَ مِنْہُمَا وَیَمْسَحَ عَلٰی مَا غَابَ مِنْہُمَا فَجَعَلَ حُکْمَ مَا غَابَ مِنْہُمَا مُضَمِّنًا بِحُکْمِ مَا بَدَأَ مِنْہُمَا فَلَمَّا وَجَبَ غَسْلُ الظَّاہِرِ وَجَبَ غَسْلُ الْبَاطِنِ فَکَذٰلِکَ الرَّأْسُ لِمَا وَجَبَ مَسْحُ مَا ظَہَرَ مِنْہُ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ مَسْحُ مَا بَطَنَ مِنْہُ لِیَکُوْنَ حُکْمُ کُلِّہٖ حُکْمًا وَاحِدًا کَمَا کَانَ حُکْمُ الرِّجْلَیْنِ اِذَا غُیِّبَتْ بَعْضُہَا فِی الْخُفَّیْنِ حُکْمًا وَاحِدًا .فَلَمَّا اکْتَفَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ یَمْسَحُ النَّاصِیَۃَ عَلَیْ مَسْحِ مَا بَقِیَ مِنَ الرَّأْسِ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْفَرْضَ فِیْ مَسْحِ الرَّأْسِ ہُوَ مِقْدَارُ النَّاصِیَۃِ وَأَنَّ مَا فَعَلَہٗ فِیْمَا جَاوَزَ بِہِ النَّاصِیَۃَ فِیْمَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ کَانَ دَلِیْلًا عَلَی الْفَضْلِ لَا عَلَی الْوُجُوْبِ حَتَّی تَسْتَوِیَ ھٰذِہِ الْآثَارُ وَلَا تَتَضَادَّ ، فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طُرُقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا رَأَیْنَا الْوُضُوْئَ یَجِبُ فِیْ أَعْضَائٍ .فَمِنْہَا مَا حُکْمُہٗ أَنْ یُغْسَلَ ، وَمِنْہَا مَا حُکْمُہُ أَنْ یُمْسَحَ .فَأَمَّا مَا حُکْمُہٗ أَنْ یُغْسَلَ فَالْوَجْہُ وَالْیَدَانِ وَالرِّجْلَانِ فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُ غَسْلَہُمَا .فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ مَا وَجَبَ غَسْلُہٗ مِنْ ذٰلِکَ فَلَا بُدَّ مِنْ غَسْلِہٖ کُلِّہِ وَلَا یُجْزِئُ غَسْلُ بَعْضِہٖ دُوْنَ بَعْضٍ وَکُلَّمَا کَانَ مَا وَجَبَ مَسْحُہُ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ الرَّأْسُ .فَقَالَ قَوْمٌ حُکْمُہٗ أَنْ یُمْسَحَ کُلُّہُ کَمَا تُغْسَلُ تِلْکَ الْأَعْضَائُ کُلُّہَا ، وَقَالَ آخَرُوْنَ یُمْسَحُ بَعْضُہُ دُوْنَ بَعْضِہٖ.فَنَظَرْنَا فِی حُکْمِ الْمَسْحِ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَرَأَیْنَا حُکْمَ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ .فَقَالَ قَوْمٌ یُمْسَحُ ظَاہِرُہُمَا دُوْنَ بَاطِنِہِمَا ، وَقَالَ آخَرُوْنَ یُمْسَحُ ظَاہِرُہُمَا دُوْنَ بَاطِنِہِمَا .فَکُلٌّ قَدْ اتَّفَقَ أَنَّ فَرْضَ الْمَسْحِ فِیْ ذٰلِکَ ہُوَ عَلٰی بَعْضِہِمَا دُوْنَ مَسْحِ کُلِّہِمَا .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ مَسْحِ الرَّأْسِ ، ہُوَ عَلٰی بَعْضِہٖ دُوْنَ بَعْضٍ ، قِیَاسًا وَنَظَرًا ، عَلٰی مَا بَیَّنَّا مِنْ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ؛ وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ .
١٢٥ : عمرو بن مصعب نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے نماز کے لیے وضو کیا پس آپ نے اپنے عمامہ پر مسح فرمایا اور انھوں نے کچھ ناصیہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر مبارک کے بعض حصہ پر مسح فرمایا اور وہ پیشانی والا حصہ ہے اور پیشانی کا ظاہر ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سر کے بقیہ حصے کا حکم وہ پیشانی کے ظاہر حصہ جیسا ہے کیونکہ اگر عمامہ پر مسح سے حکم ثابت ہوجاتا تو پھر اس کا حکم موزوں کے مسح جیسا ہوتا اور وہاں تو موزوں میں پاؤں چھپے ہوتے ہیں اگر بالفرض دونوں پاؤں کا بعض حصہ ظاہر ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ ان کے ظاہر حصہ کو وہ دھوئے اور اس میں سے جو غائب ہو اس پر مسح کرے تو اس میں سے جو حصہ غائب ہوتا ہے تو اس کے حکم کو ان دونوں پاؤں سے ظاہر ہوجانے والے حصہ سے ملا دیا۔ پس جب کہ اس کے ظاہر کا دھونا لازم ہوا تو باطن کا دھونا بھی لازم ہوا۔ پس اسی طرح سر کے سلسلہ میں جب ظاہر ہونے والے حصہ کے مسح کو لازم قرار دیا تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ حصہ جو اس میں سے چھپا ہے اس پر مسح جائز نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پوشیدہ حصہ کا مسح جب جائز نہیں تو چھپے ہوئے حصہ کا مسح بھی جائز نہیں تاکہ تمام کا حکم یکساں ہو جیسا کہ دونوں پاؤں کا کچھ حصہ موزوں میں چھپا دیا جائے تو ایک حکم رکھتا ہے۔ پس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں فقط پیشانی کے مسح پر بقیہ سر پر مسح کی بجائے اکتفاء کیا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ سر کے مسح میں فرض مسح کی مقدار پیشانی کی مقدار ہے اور دیگر آثار میں آپ نے اس سے تجاوز کر کے بقیہ سمیت تمام کا مسح کیا ہے وہ فضیلت کی دلیل ہے نہ کہ وجوب کی تاکہ اس باب میں آنے والے آثار و روایات کا حکم یکساں ہوجائے اور ان میں اضافہ نہ رہے۔ پھر غور و فکر کے انداز سے ہم نے دیکھا کہ وضو چند اعضاء میں لازم ہے ان میں بعض اعضاء وہ ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ ان کو دھویا جائے اور بعض وہ ہیں جن کا حکم مسح کا ہے۔ جن اعضاء کو دھونے کا حکم دیا وہ چہرہ ‘ بدن اور دونوں پاؤں ہیں اور یہ ان حضرات کے قول کے مطابق ہے جو ان کے دھونے کو فرض مانتے ہیں مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جن کو دھونا ضروری ہے تو ان میں تمام عضو کا دھونا ضروری ہے اور یہ قطعاً جائز نہیں کہ کچھ کو دھو لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا اور ان میں سے جن کا مسح واجب ہے وہ سر ہے۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ اس کا حکم یہ ہے کہ تمام سر پر مسح کیا جائے جیسا کہ اعضاء مغسولہ میں تمام کو دھویا جاتا ہے اور دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ بعض کا مسح کیا جائے گا اور بعض کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اب ہم نے ان چیزوں پر غور کیا جن میں مسح کا حکم ہے کہ ان کی کیفیت کیا ہے چنانچہ ہم نے مسح موزوں پر مسح کو دیکھا اس میں یہ اختلاف ہے کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح کیا جائے گا اور دوسری جماعت کہتی ہے کہ ان کے ظاہر پر تو مسح کیا جائے مگر ان کے نچلے حصہ کو چھوڑ دیا جائے گا پھر ان میں سے ہر ایک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مقدار مسح جو کہ فرض ہے وہ اس کا بعض حصہ ہے دونوں موزوں کے تمام پر مسح لازم نہیں۔ پس نظر و فکر اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سر کے مسح کا بھی یہی حکم ہو اور وہ بعض حصہ ہے تمام نہیں۔ یہی قیاس و نظر چاہتا ہے جیسا کہ ہم نے وضاحت کردی اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد بن حسن (رح) کا مذہب ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد والوں (صحابہ (رض) وتابعین (رح) ) سے بھی ایسی روایات وارد ہیں جو اس کے موافق ہیں۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ روایت ٨٣‘
حاصل روایات : ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر مبارک کے کچھ حصہ پر مسح کیا اور وہ ناصیہ ہے اور ناصیہ کا ظاہر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بقیہ سر کا وہی حکم ہے جو سر کے ظاہر حصہ (ناصیہ) کا ہے ۔
مسح علی العمامہ سے صورت استدلال :
مسح علی العمامہ کا حکم اگر ثابت ہوتا تو وہ مسح علی الخفین کی طرح ہوتا مگر وہ اس طرح تو نہیں کیونکہ مسح خفین میں دونوں پاؤں بالکل غائب ہیں اور یہاں پگڑی سے ناصیہ کی مقدار حصہ کھلا ہوا ہے اگر مسح خفین میں کچھ حصہ پاؤں کا ظاہر ہوتا تو یہ قطعاً درست نہ تھا کہ پاؤں کے ظاہر حصہ کو دھو لیا جائے اور خفین میں غائب پر مسح کیا جائے اور دونوں میں غائب کے حکم کو ظاہر کے حکم سے ملا ہوا بنادیا جاتا جب ظاہر کا دھونا واجب ہوا تو اندر کا دھونا بھی واجب ہوا پس مسح راس میں اسی طرح جب ظاہر ہونے والے حصہ پر مسح واجب ہے تو یہ ثابت ہوا کہ اندر والے حصہ پر مسح جائز نہیں تاکہ حکم ایک جیسا رہے جیسا کہ مسح خفین میں پاؤں کا حکم تھا کہ جب اس کا بعض حصہ خفین میں غائب کردیا گیا تو حکم کی یکسانیت کے لیے مسح کا حکم دیا گیا پس مسح علی العمامہ والے حصہ سے استدلال تو درست نہ ہوا کہ تمام سر کو دھو دیا جائے جیسا پورے پاؤں کو دھویا جاتا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے سر کو کچھی نہیں دھویا۔
مسح ناصیہ والے حصہ سے استدلال :
کیا جائے تو کوئی اشکال نہیں ہوتا بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں ناصیہ پر مسح فرض ہے اور زائد کمال فضیلت ہے کیونکہ اس ارشاد میں جب ناصیہ پر اکتفاء ہے تو مقدار فرض یہی ہے اس سے زائد مقدار جو آثار میں وارد ہے فضل کی دلیل ہے وجوب کی نہیں اس سے روایات کا تضاد ختم ہوجاتا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اگر غور کریں تو اعضاء وضو دو طرح کے ہیں نمبر ١ مغسولہ نمبر ٢ ممسوحہ اعضاء مغسولہ یہ ہیں چہرہ ‘ دونوں ہاتھ ‘ دونوں پاؤں۔ اعضاء ممسوحہ سر ہے۔
اعضاء مغسولہ کے متعلق اتفاق ہے کہ جب دھونا لازم ہو تو تمام کو دھویا جائے یہ نہیں کہ بعض کو دھو لیا اور بعض پر مسح کرلیا۔
اور اعضاء ممسوحہ میں سر ہے تو اس کے متعلق امام مالک (رح) نے پورے سر کا مسح لازم کیا جیسا کہ پورے عضو کو دھویا جاتا ہے اور بقیہ ائمہ نے بعض حصہ کا مسح کرنے کا حکم دیا۔
اب مسح پر غور کیا کہ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ تو مسح علی الخفین پر ہماری نگاہ پڑی مگر وہ مختلف فیہ ہے بعض نے ظاہر پر مسح کا حکم دیا اور باطن پر بھی اور دوسروں نے کہا ان کے ظاہر پر مسح کرے باطن پر نہیں مگر سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بعض پر مسح فرض ہے تمام پر نہیں پس غور و فکر کے بعد ہم کہتے ہیں کہ مسح رأس کا حکم بھی اسی طرح ہے کہ وہ بعض پر ہے بعض کو چھوڑ کر۔ قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے جیسا ہم کہہ آئے امام ابوحنیفہ (رح) و ابی یوسف (رح) و محمد بن الحسن (رح) کا یہی قول ہے اور صحابہ کرام (رض) سے یہ بات مروی ہے اثر ملاحظہ ہو۔

126

۱۲۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّبَیْدِیِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ کَانَ یَمْسَحُ بِمُقَدَّمِ رَأْسِہٖ اِذَا تَوَضَّأَ .
١٢٦ : حضرت سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ جب وضو کر تیسر کے اگلے حصہ یعنی ناصیہ پر مسح کرتے ۔
تخریج : ابن ابی شیبہ۔ ١؍١٦

127

۱۲۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا أَبُوْ کُرَیْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَ ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ رُکَانَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْخَوْلَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ (دَخَلَ عَلَیَّ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ أَرَاقَ الْمَائَ فَدَعَا بِإِنَائٍ فِیْہِ مَائٌ فَقَالَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَلَا أَتَوَضَّأُ لَک کَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ ؟ قُلْتُ بَلٰی فِدَاک أَبِیْ وَأُمِّیْ.فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا ذَکَرَ فِیْہِ أَنَّہٗ أَخَذَ حَفْنَۃً ہِیَ مِلْئُ الْکَفَّیْنِ مِنْ مَائٍ بِیَدَیْہِ جَمِیْعًا فَصَکَّ أَیْ ضَرَبَ بِہِمَا وَجْہَہٗ ثُمَّ الثَّانِیَۃُ مِثْلُ ذٰلِکَ ثُمَّ الثَّالِثَۃُ ، ثُمَّ أَلْقَمَ اِبْہَامَیْہِ أَیْ جَعَلَ اِبْہَامَیْہِ فِی الْأُذُنَیْنِ کَاللُّقْمَۃِ فِی الْفَمِ مَا أَقْبَلَ مِنْ أُذُنَیْہِ ثُمَّ أَخَذَ کَفًّا مِنْ مَائٍ بِیَدِہِ الْیُمْنٰی فَصَبَّہَا عَلٰی نَاصِیَتِہٖ ثُمَّ أَرْسَلَہَا تَسْتَنُّ أَیْ تَسِیْلُ عَلٰی وَجْہِہٖ ثُمَّ غَسَلَ یَدَہُ الْیُمْنَی إِلَی الْمِرْفَقِ ثَلَاثًا وَالْیُسْرٰی مِثْلُ ذٰلِکَ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَہٗ وَظُہُوْرَ أُذُنَیْہِ).فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی ھٰذَا الْأَثَرِ ، فَقَالُوْا : مَا أَقْبَلَ مِنَ الْأُذُنَیْنِ فَحُکْمُہٗ حُکْمُ الْوَجْہِ یُغْسَلُ مَعَ الْوَجْہِ ، وَمَا أَدْبَرَ مِنْہُمَا فَحُکْمُہٗ حُکْمُ الرَّأْسِ یُمْسَحُ مَعَ الرَّأْسِ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ یَمْسَحُ مُقَدَّمَہُمَا وَمُؤَخَّرَہُمَا مَعَ الرَّأْسِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ۔
١٢٧ : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں حضرت علی (رض) بن ابی طالب تشریف لائے اور وہ پیشاب سے فارغ ہوئے تھے انھوں نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا اور فرمانے لگے اے ابن عباس ! کیا میں تمہارے سامنے اسی طرح وضو نہ کروں جس طرح میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے پایا میں نے کہا کیوں نہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر انھوں نے طویل روایت نقل کی جس میں تذکرہ ہے کہ انھوں نے پانی سے اپنے دو چلو بھرے پھر ان کو اپنے چہرے پر مارا پھر دوسری مرتبہ اور تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کیا پھر انھوں نے اپنے دونوں انگوٹھے اس طرح کئے جیسے منہ میں لقمہ ڈالتے وقت کرتے ہیں اور ان کو اپنے دونوں کانوں کے اگلے حصہ میں ڈالا پھر اپنے دائیں ہاتھ میں پانی لے کر اپنی پیشانی پر ڈالا پھر اسے چہرے پر بہنے کے لیے چھوڑ دیا پھر اپنا دایاں ہاتھ تین مرتبہ کہنی سمیت دھویا اور بایاں بھی اسی طرح دھویا پھر اپنے سر پر مسح کیا اور اپنے کانوں کی پچھلی جانب مسح کیا۔ بعض علماء کا اس روایت پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ کانوں کا جو حصہ سامنے کی جانب ہے اس کا حکم تو چہرے والا ہے اسے چہرے کے ساتھ دھویا جائے گا اور جو اس میں سے پچھلا حصہ ہے اس کا حکم سر والا ہے اس کا سر کے ساتھ مسح کریں گے۔ علماء کی دوسری جماعت نے اس سلسلہ میں ان سے اختلاف کیا ہے اور انھوں نے کہا دونوں کان سر سے ہیں ان کے اگلے اور پچھلے حصہ پر سر کے ساتھ ہی مسح کیا جائے گا۔ انھوں نے ان روایات سے دلیل لی ہے۔
امام طحاوی نے اس باب میں کیفیت مسح علی الاذنین کو بیان کیا ہے اس میں معروف دو قول ہیں نمبر ١ عامر شعبی ‘ ابن سیرین اور نخعی (رح) وغیرہ کا ہے کہ اگلا حصہ چہرے کے ساتھ دھلنے کے حکم میں ہے اور پچھلا حصہ سر کے ساتھ مسح کے حکم میں ہے۔
نمبر ٢ دوسرا قول ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کا ہے کہ کان سر کے ساتھ مسح کے حکم میں ہیں۔
اللغات : اراق المائ۔ پیشاب کرنا۔ حفنۃ دونوں چلو جمع کرنا۔ صک۔ چہرے پر مارنا۔ القم ابھامیہ۔ دونوں انگوٹھوں کو لقمہ لینے کی طرح بنانا۔ صب۔ بہنا۔ بہانا۔ تستن۔ ٹپککر بہنا۔ ظہور اذن۔ کان کا پچھلا حصہ۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ مسند احمد ١؍٨٣
حاصل روایات : کانوں کا اگلا حصہ چہرہ کے ساتھ دھویا اور صاف کیا اور پچھلا حصہ سر کے مسح کے ساتھ مسح کیا اس سے ثابت ہوا کہ سامنے کا حکم چہرے والا اور مؤخر کا حکم سر والا ہے۔
جواب دلیل :
ابن عباس (رض) کی روایت کے خلاف خود ان کا فتویٰ آئندہ سطور میں مذکور ہے جو کہ ان کی روایت کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے فتدبر۔
قول ثانی کے دلائل
کانوں کا مسح کیا جائے گا۔

128

۱۲۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ عَامِرٍ عَنْ شَقِیْقِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ ( عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ وَأُذُنَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا ، وَقَالَ ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ).
١٢٨ : شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے وضو کیا اور اپنے سر پر اور دونوں کانوں کے اگلے اور پچھلے حصہ پر مسح کیا اور فرمایا اسی طرح میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١ روایت ١٠٨‘ ١٠٩

129

۱۲۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ قَالَ ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ قَالَ ثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ وَأُذُنَیْہِ) .
١٢٩ : ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا اور اپنے سر اور دونوں کانوں پر مسح کیا۔

130

۱۳۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً .
١٣٠: عبدالعزیز نے بیان کیا انھوں نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح کی روایت نقل کی البتہ اس میں فرمایا مرۃ واحدۃ۔ کہ مسح ایک مرتبہ کیا۔

131

۱۳۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنِ ڑ الْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ، ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَیْسَرَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِ یَکْرِبَ یَقُوْلُ ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ فَلَمَّا بَلَغَ مَسْحَ رَأْسِہٖ وَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی مُقَدَّمِ رَأْسِہٖ ثُمَّ مَرَّ بِہِمَا حَتّٰی بَلَغَ الْقَفَا ثُمَّ رَدَّہُمَا حَتّٰی بَلَغَ الْمَکَانَ الَّذِیْ مِنْہُ بَدَأَ وَمَسَحَ بِإِذُنَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً) .
١٣١ : حضرت مقدام بن معدی کرب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے دیکھا جب آپ مسح راس تک پہنچے تو آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو سر کے اگلی جانب رکھا پھر ان کو گزارتے ہوئے گردن تک لائے پھر ان کو لوٹاتے ہوئے اسی جگہ لے گئے جہاں سے شروع کیا تھا اور اپنے کانوں کے ظاہر و باطن کا ایک مرتبہ مسح کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١ روایت نمبر ١٢١

132

۱۳۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ أَنَا ابْنُ أَبِیْ لَہِیْعَۃَ عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ (رَأٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ رَأْسَہٗ وَأُذُنَیْہِ دَاخِلَہُمَا وَخَارِجَہُمَا).
١٣٢ : عباد بن تمیم انصاری اپنے والد تمیم انصاری (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے سر اور کانوں کے اندر باہر کا مسح کیا۔
تخریج : تاریخ البخاری ‘ احمد ‘ ابن ابی شیبہ والطبرانی۔

133

۱۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ ثَنَا أَبِیْ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ ثَنَا حَبِیْبُ ڑالْأَنْصَارِیُّ قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَہُوَ حَبِیْبُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ جَدِّ حَبِیْبٍ ھٰذَا ؛ قَالَ : ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِوَضُوْئٍ فَدَلَکَ أُذُنَیْہِ حِیْنَ مَسَحَہُمَا).
١٣٣ : حبیب کے دادا عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا آپ نے کانوں کا مسح کرتے ہوئے دونوں کانوں کو مَلا۔

134

۱۳۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (أَنَّ رَجُلًا أَتٰی نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ کَیْفَ الطَّہُوْرُ؟ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ فَأَدْخَلَ أُصْبُعَیْہِ السَّبَّابَتَیْنِ أُذُنَیْہِ فَمَسَحَ بِإِبْہَامَیْہِ ظَاہِرَ أُذُنَیْہِ وَبِالسَّبَّابَتَیْنِ ڑ بَاطِنَ أُذُنَیْہِ).
١٣٤ : عمرو بن شعیب اپنے دادا یعنی عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا وضو کس طرح کریں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا اور اس سے وضو کیا پس آپ نے اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں سبابہ انگلیاں داخل فرمائیں اور انگوٹھوں سے کان کے باہر کی جانب اور شہادت والی انگلیوں سے اندرونی حصہ کا مسح کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥٢ روایت ١٣٥‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٨٤‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٨‘

135

۱۳۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ أُذُنَیْہِ مَعَ الرَّأْسِ، وَقَالَ الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ).
١٣٥ : ابو امامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا اور سر کے ساتھ دونوں کانوں کا بھی مسح کیا اور فرمایا : الاذنان من الراس کہ کان سر کا حکم رکھتے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ حدیث نمبر ١٢٤‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢٩ حدیث نمبر ٣٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٥٣ حدیث نمبر ٤٤٤‘ سنن دارقطنی ١؍١٠٣‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍٦٦۔

136

۱۳۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنِ الرُّبَیِّعِ ابْنَۃِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَائَ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ عِنْدَہَا فَمَسَحَ رَأْسَہٗ عَلٰی مَجَارِی الشَّعْرِ وَمَسَحَ صُدْغَیْہِ وَأُذُنَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا).
١٣٦ : حضرت ربیع بنت معوذ بن عفرائ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ہاں وضو کیا اور اپنے سر پر بالوں کے مقامات پر مسح کیا اور دونوں کنپٹیوں پر اور کانوں کے اندر و باہر کی جانب مسح کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١ روایت ١٢٨‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢٦ روایت نمبر ٣٤‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٥١ روایت ٤٣٨‘

137

۱۳۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُنْقِذِ ڑ الْعُصْفُرِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیُٔ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ أَیُّوْبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَجْلَانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٧ : سعید کہتے ہیں کہ ابن عجلان نے مجھے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت بیان کی۔

138

۱۳۸ : حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْمُرَادِیُّ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ أَبُو الْأَسْوَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٨ : بکر بن مضر کہتے ہیں کہ مجھے ابن عجلان نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی۔

139

۱۳۹ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٣٩ : ہمام کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن عجلان نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

140

۱۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الرُّبَیِّعِ قَالَتْ : ( أَتَانَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَوَضَّأَ فَمَسَحَ ظَاہِرَ أُذُنَیْہِ وَبَاطِنَہُمَا).
١٤٠ : حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا پس اپنے کانوں کے ظاہروباطن پر مسح کیا۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٥٩ ترمذی ١؍١٥ ابن ماجہ ١؍٣٥

141

۱۴۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الرُّبَیِّعِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ حُکْمَ الْأُذُنَیْنِ مَا أَقْبَلَ مِنْہُمَا وَمَا أَدْبَرَ مِنَ الرَّأْسِ ، وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْآثَارُ بِذٰلِکَ ، مَا لَمْ تَتَوَاتَرْ بِمَا خَالَفَہٗ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ الْمُحْرِمَۃَ لَیْسَ لَہَا أَنْ تُغَطِّیَ وَجْہَہَا وَلَہَا أَنْ تُغَطِّیَ رَأْسَہَا وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ لَہَا أَنْ تُغَطِّیَ أُذُنَیْہَا ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا ، وَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَہُمَا حُکْمُ الرَّأْسِ فِی الْمَسْحِ لَا حُکْمُ الْوَجْہِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ لَمْ یَخْتَلِفُوْا أَنَّ مَا أَدْبَرَ مِنْہُمَا یُمْسَحُ مَعَ الرَّأْسِ وَاخْتَلَفُوْا فِیْمَا أَقْبَلَ مِنْہُمَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْأَعْضَائَ الَّتِیْ قَدِ اتَّفَقُوْا عَلٰی فَرْضِیَّتِہَا فِی الْوُضُوْئِ ہِیَ ؛ الْوَجْہُ وَالْیَدَانِ وَالرِّجْلَانِ وَالرَّأْسُ .فَکَانَ الْوَجْہُ یَغْسَلُ کُلَّہٗ، وَکَذٰلِکَ الْیَدَانِ ، وَکَذٰلِکَ الرِّجْلَانِ ، وَلَمْ یَکُنْ حُکْمُ شَیْئٍ مِنْ تِلْکَ الْأَعْضَائِ خِلَافَ حُکْمِ بَقِیَّتِہِ .بَلْ جُعِلَ حُکْمُ کُلِّ عُضْوٍ مِنْہَا حُکْمًا وَاحِدًا ، فَجُعِلَ مَغْسُوْلًا کُلُّہُ ، أَوْ مَمْسُوْحًا کُلُّہٗ .وَاتَّفَقُوْا أَنَّ مَا أَدْبَرَ مِنَ الْأُذُنَیْنِ فَحُکْمُہُ الْمَسْحُ ، فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَقْبَلَ مِنْہُمَا کَذٰلِکَ ، وَأَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ الْأُذُنَیْنِ کُلُّہٗ حُکْمًا وَاحِدًا کَمَا کَانَ حُکْمُ سَائِرِ الْأَعْضَائِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا .فَھٰذَا وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
١٤١ : حضرت ربیع بن معو ّذ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان آثار سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کانوں کے اگلے اور پچھلے حصہ کا حکم وہی ہے جو سر کا ہے اور اس سلسلہ میں اس قدر کثیر آثار سے وارد ہے جو اس کے مخالف قول والوں کو حاصل نہیں ہیں یہ تو روایات کے اعتبار سے اس باب کا حکم ہے۔ اب نظر و فکر کا لحاظ ملاحظہ ہو ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اس بارے میں متفق ہیں کہ احرام باندھنے والی عورت کو چہرہ ڈھانپنا درست نہیں ہے اس کو سر کے ڈھانپنے کا حکم ہے اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ وہ کانوں کے ظاہر و باطن دونوں کو ڈھانپے۔ پس اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ مسح کے سلسلہ میں ان کا وہی حکم ہے جو سر کا ہے ‘ ان کا چہرے والا حکم نہیں ہے۔ دوسری دلیل ملاحظہ ہو ہم نے غور کیا کہ علماء کا اس سلسلہ میں قطعا ً اختلاف نہیں ہے کہ سر کے ساتھ کانوں کے پچھلی جانب کا بھی مسح کیا جائے گا۔ علماء کا اختلاف سامنے والے حصہ میں ہے جیسا ہم نے بیان کردیا۔ جب اس مسئلے کو گہری نگاہ سے جانچا تو ہم نے ان اعضاء کو دیکھا جن کی وضو میں فرضیت پر سب کا اتفاق ہے۔ وہ چہرہ ‘ ہاتھ ‘ پاؤں اور سر ہے۔ چہرہ تو مکمل دھویا جاتا ہے اور ہاتھوں اور پاؤں کا حال اس سے مختلف نہیں۔ ان اعضاء کے کسی حصہ کا حکم دوسرے حصہ سے الگ نہیں ہے بلکہ تمام عضو کا ایک ہی حکم ہے کہ یا تو تمام کو دھویا جاتا ہے یا پھر مکمل عضو پر مسح کیا جاتا ہے اور اس میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ کانوں کے پچھلے حصہ کا حکم ان پر مسح کرنا ہے۔ فلہذا قیا س اس بات کو چاہتا ہے کہ کانوں کے اگلی جانب والے حصہ کا حکم بھی یہی ہو تاکہ پورے کان کا حکم ایک ہی ہو جیسا کہ بقیہ تمام اعضاء کا حکم ہے جن کو ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس باب میں بطریق نظر یہی حکم ہے اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کی ایک عظیم جماعت کا بھی یہی قول ہے۔
حاصل روایات : یہ چودہ روایات آٹھ صحابہ کرام سے مروی ہیں ان تمام روایات میں آپ کا واضح فعل موجود ہے کہ آپ نے کانوں کے اگلے اور پچھلے حصہ کا مسح کیا امام طحاوی فرماتے ہیں کہ کانوں کے ظاہر و باطن پر مسح کی روایات اس قدر کثرت سے ہیں کہ دوسری روایات اس کے مقابل میں بہت قلیل ہیں پس انہی روایات پر عمل کیا جائے گا۔
نظر طحاوی یا دلیل دوم
وہ عورت جو احرام باندھے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ چہرے کو نہ ڈھانپے البتہ اس کے لیے سر کو ڈھانپنا لازم ہے اور تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت حالت احرام میں اپنے کانوں کے ظاہر و باطن کو ڈھانپے پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دونوں کانوں کا حکم مسح میں بھی سر ہی کا ہے جیسا کہ ڈھانپنے میں سر کا ہے چہرے کا حکم نہیں کہ اندرون کو دھو لیا جائے۔
دلیل ثالث :
ایک اور طرز سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں تو سب کا اتفاق ہے کہ کانوں کے ظاہر کا حکم سر کے ساتھ مسح ہی کا ہے اگلی جانب میں اختلاف کرنے والوں نے اختلاف کیا ہے تو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وضو میں جن اعضاء کی فرضیت پر اتفاق ہے وہ چہرہ دونوں ہاتھ ‘ دونوں پاؤں اور سر ہے۔ چہرہ تو تمام دھویا جاتا ہے اور ہاتھ بھی اسی طرح ہیں اور پاؤں بھی دھونے میں ان کے ساتھ ہی ہیں ان اعضاء میں سے کوئی عضو ایسا نہیں کہ اس کے بقیہ کا حکم اس کے دوسرے حصہ کے خلاف ہو بلکہ سارے عضو کا ایک ہی حکم ہے یا تو پورا مغسول ہے یا ممسوح ہے اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ کانوں کے پچھلے حصہ کا مسح ہی ہے پس نظروفکر کا تقاضا یہ ہے کہ کانوں کے اندرونی حصہ کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے تاکہ کانوں کا حکم ایک رہے جیسا کہ بقیہ اعضاء میں ایک ہے یہ بات ہم نے اس سلسلہ میں بطور نظر کہی اور یہی ائمہ احناف امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
دلیل رابع :
صحابہ کرام (رض) کی عظیم الشان جماعت کا یہ قول ہے۔

142

۱۴۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ أُذُنَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا مَعَ رَأْسِہٖ وَقَالَ : إِنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ یَأْمُرُ بِالْأُذُنَیْنِ .
١٤٢ حمید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور دونوں کانوں کے ظاہروباطن کا سر کے ساتھ مسح کیا اور حمید کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کانوں کے متعلق یہ حکم دیتے تھے۔
تخریج : دارقطنی ١؍١١٢

143

۱۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدٌ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٤٣: حمید نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ١؍١٠٦

144

۱۴۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ أُذُنَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ رَوٰی عَنْ عَلِیٍّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ ؛ وَرَوٰی عَنْہُ عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا رَوَیْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الثَّانِیْ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ ؛ ثُمَّ عَمِلَ ہُوَ بِذٰلِکَ وَتَرَکَ مَا حَدَّثَہٗ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنْ نُسْخَ مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ ، قَدْ کَانَ ثَبَتَ عِنْدَہٗ .
١٤٤ : ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں کانوں کے ظاہروباطن کا مسح کیا۔
ایک اشارہ :
یہ ابن عباس (رض) ہیں جن کی روایت شروع باب میں قول اول کی دلیل کے طور پر گزری کہ انھوں نے حضرت علی (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کانوں کے اندرونی حصہ کا دھونا اور بیرونی حصہ کا مسح نقل کیا ہم دوسرے قول کی تائید میں چودہ روایات نقل کر آئے جن میں ابن عباس (رض) کی روایت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے کہ آپ نے کانوں کے ظاہروباطن کا مسح کیا اور یہ روایت آپ کے سامنے ہے جو ابن عباس (رض) کے عمل کو بتلا رہی ہے جب راوی کا اپنا عمل روایت کے خلاف ہو تو وہ صاف نسخ کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ فتدبر۔

145

۱۴۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ ثَنَا أَبِیْ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ ( الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ فَامْسَحُوْہُمَا).
١٤٥ : نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے (الاذنان من الراس) کان سر کے حکم میں ہیں پس تم ان دونوں کا مسح کیا کرو۔
تخریج : سنن دارقطنی ١؍٩٧‘ ٩٨‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٧

146

۱۴۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ عَنْ غَیْلَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ (الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ).
١٤٦ : غسلان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ کان سر سے ہیں یعنی اس کے حکم میں ہیں۔
تخریج : دارقطنی ١؍٩٧‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٧

147

۱۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَمْسَحُ أُذُنَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا ، یَتَتَبَّعُ بِذٰلِکَ الْغُضُوْنَ
١٤٧ : نافع کہتے ہیں ابن عمر (رض) اپنے دونوں کانوں کے ظاہروباطن کا مسح کرتے اور اس میں کان کی سلوٹ کو خوب ٹٹولتے۔
اللغات : تتبع : ٹٹولنا۔ لغضون : کان کی سلوٹ۔
اللغات : کانوں کے مسح کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) مسنون کا قول کرتے ہیں اور امام احمد وجوب کا اور اسی طرح امام احمد (رح) ماء جدید سے مسح اذن کو مسنون کہتے ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) ہر دو طرح سے جواز کے قائل ہیں۔

148

۱۴۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ قَالَ : ( رَأَیْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلَّی الظُّہْرَ ثُمَّ قَعَدَ لِلنَّاسِ فِی الرَّحْبَۃِ ثُمَّ أُتِیَ بِمَائٍ فَمَسَحَ بِوَجْہِہٖ وَیَدَیْہِ وَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ وَرِجْلَیْہِ وَشَرِبَ فَضْلَہٗ قَائِمًا ثُمَّ قَالَ : إِنَّ نَاسًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ ھٰذَا یُکْرَہُ وَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ وَھٰذَا وُضُوْئُ مَنْ لَمْ یُحْدِثْ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ - عِنْدَنَا - دَلِیْلٌ أَنَّ فَرْضَ الرِّجْلَیْنِ ہُوَ الْمَسْحُ لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّہٗ قَدْ مَسَحَ وَجْہَہٗ ، فَکَانَ ذٰلِکَ الْمَسْحُ ہُوَ غَسْلٌ فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مَسْحُہٗ بِرِجْلِہٖ أَیْضًا کَذٰلِکَ .
١٤٨ : نزال سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی مرتضیٰ (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے نماز ظہر ادا کی پھر لوگوں کی ملاقات کے لیے وسیع جگہ میں بیٹھ گئے پھر ان کے پاس پانی لایا گیا انھوں نے اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر ملا اور سر اور دونوں پاؤں کا مسح کیا اور جو بچ رہا اسے کھڑے ہو کر پیا پھر فرمایا کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ مکروہ و ناپسندیدہ ہے بلاشبہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہ وہ اسی طرح کرتے جیسا میں نے کیا اور یہ اس کا وضو ہے جس کا وضو نہ ٹوٹا ہو۔ (کہ اعضاء کو تروتازہ کرلے) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس روایت میں پاؤں پر مسح کے فرض ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں صرف اس قدر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چہرے کا مسح فرمایا اور یہ مسح درحقیقت ملنے کے بغیر دھونا ہے پس اس بات کا احتمال ہے کہ پاؤں کے مسح کا معنی بھی ملنے کے بغیر دھونا ہو جیسا کہ ان روایات میں ہے۔
قول طحاوی (رح) :
اس روایت میں ہمارے نزدیک کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جس کو پاؤں کے مسح کی فرضیت کے لیے پیش کرسکیں کیونکہ روایت میں تو چہرے پر ملنے کا تذکرہ ہے اور وہ چہرہ دھونے کو کہتے ہیں اسی طرح پاؤں پر ملنے کا مطلب بھی اسی طرح ہے۔
تخریج : بخاری فی الاشربہ باب ١٦‘ ابو داؤد فی الاشربہ باب ١٣‘ روایت نمبر ٣٧١٨ نسائی فی الطھارۃ باب ١٠٢ ١؍٨٧۔
نوٹ : جب پاؤں پر موزے نہ ہوں تو پاؤں کے دھونے کا حکم ہے یا مسح کا ؟
فریق اول : بعض نے مسح اور دھونے میں اختیار اور بعض نے مسح کا وجوب نقل کیا ہے (یہ اہل ظواہر و تشیع کا مذہب ہے)
فریق دوم : پاؤں کو دھونا ضروری ہے ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے۔

149

۱۴۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ کُرَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ رُکَانَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْخَوْلَانِیِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : (دَخَلَ عَلَیَّ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ اَرَاقَ الْمَائَ فَدَعَا بِوَضُوْئٍ فَجِئْنَاہُ بِإِنَائٍ مِنْ مَائٍ فَقَالَ : یَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَلَا أَتَوَضَّأُ لَک کَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ ؟ قُلْتُ : بَلٰی فِدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ ، فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا .قَالَ : ثُمَّ أَخَذَ بِیَدَیْہِ جَمِیْعًا حَفْنَۃً مِنْ مَائٍ فَصَکَّ بِہَا عَلٰی قَدَمِہِ الْیُمْنٰی وَالْیُسْرٰی کَذٰلِکَ).
١٤٩ : حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس علی (رض) تشریف لائے اور وہ پیشاب سے فارغ ہو کر آئے تھے چنانچہ انھوں نے پانی منگوایا ہم ان کے پاس ایک برتن میں پانی لے گئے پھر فرمانے لگے اے ابن عباس کیا میں تمہیں اس طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں جیسا میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے دیکھا ہے میں نے کہا ضرور بتلائیں میرے ماں ‘ باب آپ پر قربان ہوں۔ چنانچہ ابن عباس (رض) نے اسی طرح کیفیت وضو والی طویل روایت نقل کی جس کے آخر میں ہے کہ پھر آپ نے دونوں ہاتھوں میں پانی لیا اور اس کو اپنے دائیں اور بائیں قدم پر مارا (یعنی پاؤں کو نوبت بنوبت دھویا) ۔
اللغات : صک۔ پانی کا منہ پر زور سے مارنا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ روایت نمبر ١١٧‘

150

۱۵۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِلْئَ کَفِّہٖ مَائً فَرَشَّ بِہٖ عَلٰی قَدَمَیْہِ وَہُوَ مُتَنَعِّلٌ .
١٥٠ : ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا پھر آپ نے پانی کا چلو بھر کر اپنے دونوں قدموں پر چھڑک لیا اس وقت آپ نعل مبارک پہنے ہوئے تھے۔

151

۱۵۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ عَنْ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ عَنْ (عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلٰی ظَہْرِ الْقَدَمِ وَقَالَ : لَوْلَا أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہٗ لَکَانَ بَاطِنُ الْقَدَمِ أَحَقَّ مِنْ ظَاہِرِہٖ).
١٥١ : عبد خیر حضرت علی مرتضیٰ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے وضو کیا پھر قدم کے ظاہر حصہ پر مسح کیا اور کہنے لگے اگر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو پاؤں کا اندرونی حصہ اس کے ظاہر سے مسح کا زیادہ حقدار تھا۔
تخریج : سنن دارقطنی ١؍١٩٩

152

۱۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ اللِّہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ نَافِعٍ عَنْ ( ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ کَانَ اِذَا تَوَضَّأَ وَنَعْلَاہُ فِیْ قَدَمَیْہِ ، مَسَحَ ظُہُوْرَ قَدَمَیْہِ بِیَدَیْہِ ، وَیَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ھٰکَذَا).
١٥٢ : نافع ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ جب وضو کرتے اس حالت میں کہ وہ اپنے پاؤں پر جوتے پہنے ہوتے تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے پاؤں کی پشت پر مسح کرتے اور کہتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج : مسند بزاز

153

۱۵۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ : أَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ یَحْیَی بْنِ خَلَّادٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَمِّہٖ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ أَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ حَتّٰی قَالَ ( إِنَّہٗ لَا تَتِمُّ صَلَاۃُ أَحَدِکُمْ حَتّٰی یُسْبِغَ الْوُضُوْئَ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَیَغْسِلُ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ وَیَمْسَحُ بِرَأْسِہٖ وَرِجْلَیْہِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ).
١٥٣ : یحییٰ بن خلاد اپنے چچا رفاعہ بن رافع (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رفاعہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے تھے رفاعہ نے مکمل روایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخر میں فرمایا کہ کسی کی نماز اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک کہ اسی طرح مکمل وضو نہ کرلے جیسا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے پس اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئے اور اپنے سر اور پاؤں کا ٹخنوں سمیت مسح کرے۔
تخریج : ابو داؤد و فی الصلاۃ باب ١٤٤ حدیث نمبر ٨٥٨‘ نسائی فی سنن کبرٰی کتاب التطبیق باب ٧٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ و سننھا باب ٥٧ حدیث نمبر ٤٦٠

154

۱۵۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی الْقَدَمَیْنِ ) ، وَأَنَّ عُرْوَۃَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا وَقَالُوْا: ھٰکَذَا حُکْمُ الرِّجْلَیْنِ یُمْسَحَانِ ، کَمَا یُمْسَحُ الرَّأْسُ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یُغْسَلَانِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ بِمَا۔
١٥٤ : عباد بن تمیم اپنے چچا (عبداللہ بن زید انصاری (رض)) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا اور دونوں پاؤں پر مسح کیا ابوالاسود کہتے ہیں کہ عروہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ علماء کی ایک جماعت یہی کہتی ہے کہ پاؤں کا حکم مسح کرنا ہے جیسا کہ سر پر مسح کیا جاتا ہے۔ علماء کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ پاؤں کو دھوئیں گے ان کی دلیل یہ مرویات ہیں۔
تخریج : ابن خزیمہ ١؍١٠١
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پاؤں پر بھی اسی طرح مسح کیا جائے گا جیسا سر پر کیا جاتا ہے یہ ان علماء کی روایات ہیں جو پاؤں کے لیے مسح کو اصل قرار دیتے ہیں امامیہ کے لیے استدلال کی کوئی راہ نہیں کیونکہ ان کے ہاں تو ترتیب الٹ ہے۔
قول ثانی :
جو پاؤں میں دھونے کو اصل مانتے ہیں ان کی مستدل روایات مذکور ہوں گی پھر جوابات دیئے جائیں گے۔

155

۱۵۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ قَالَ : ثَنَا عَلْقَمَۃُ بْنُ خَالِدٍ ، أَوْ خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ قَالَ ( دَخَلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الرَّحْبَۃَ ثُمَّ قَالَ لِغُلَامِہٖ : اِیْتِنِیْ بِطَہُوْرٍ فَأَتَاہُ بِمَائٍ وَطَسْتٍ ، فَتَوَضَّأَ فَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، وَقَالَ : ھٰکَذَا کَانَ طَہُوْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).
١٥٥ : عبد خیر کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) گھر کے صحن میں داخل ہوئے پھر اپنے غلام کو فرمایا پانی لاؤ وہ آپ کے پاس پانی اور تھال لایا پس آپ نے وضو کیا اور اپنے پاؤں کو تین تین مرتبہ دھویا اور فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو اسی طرح تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ ١١٢؍١١٣‘ ١١٢‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣٧‘ روایت ٩‘ ٤٨‘

156

۱۵۶ : حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیْ حَیَّۃَ الْوَادِعِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
١٥٦ : ابوحیہ وادعی نے حضرت علی (رض) کے واسطہ سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی جیسی روایت نقل کی۔

157

۱۵۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٥٧ : ابو اسحاق نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍١٦

158

۱۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَالِکِ بْنِ عُرْفُطَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ خَیْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٥٨ : عبد خیر نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد

159

۱۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یَحْیٰی عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ ( عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّہٗ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ھٰکَذَا).
١٥٩ : عبیداللہ بن جعفر ‘ عثمان بن عفان (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے وضو کیا پھر اپنے دونوں پاؤں تین مرتبہ دھوئے اور فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا۔
تخریج : بخاری کتاب الوضوء باب ٢٤ کتاب الصوم باب ٢٧‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٣‘ ٥‘ ٦‘ ٧‘ ٨‘ ٩۔ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١ روایت ١٠٦۔

160

۱۶۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَا : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ عَطَائَ ابْنَ یَزِیْدَ اللَّیْثِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلٰی عُثْمَانَ أَخْبَرَہٗ عَنْ عُثْمَانَ مِثْلَہٗ .
١٦٠ : عطاء بن یزید نے خبر دی کہ حمران مولیٰ عثمان نے مجھے عثمان (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری کتاب الوضوء باب ٢٤‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٣‘ ٤‘ ٨‘ ٩۔

161

۱۶۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیْسٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی زَیْدِ بْنِ دَارَۃَ بَیْتَہٗ فَسَمعَنِیْ وَأَنَا أُمَضْمِضُ فَقَالَ لِیْ : یَا أَبَا مُحَمَّدٍ ، قُلْتُ : لَبَّیْکَ فَقَالَ أَلَا أُخْبِرُکَ عَنْ وُضُوْئِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ : بَلٰی ، قَالَ ( رَأَیْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عِنْدَ الْمَقَاعِدِ دَعَا بِوَضُوْئٍ ، فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، فَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی وُضُوْئِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی وُضُوْئِیْ) .
١٦١ : محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں زید بن دارہ کی خدمت میں ان کے گھر گیا انھوں نے میرے مضمضہ کی آواز سنی تو مجھے فرمایا اے ابو محمد میں نے لبیک کہی تو فرمایا کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کے متعلق نہ بتلاؤں میں نے کہا کیوں نہیں ضرور بتلائیں کہنے لگے میں نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کو وضو کے مقام کے پاس دیکھا کہ انھوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور تین تین مرتبہ ہر عضو کو دھویا اور آخر میں اپنے پاؤں کو بھی تین مرتبہ دھویا پھر فرمایا جو یہ چاہتا ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو دیکھے تو وہ میرا یہ وضو دیکھ لے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٧٤‘ مسند احمد ١؍١٤١۔

162

۱۶۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ ڑالْحَنَفِیُّ قَالَ : ثَنَا کَثِیْرُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : ثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَنْطَبِ ڑ الْمَخْزُوْمِیُّ عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ (أَنَّ عُثْمَانَ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَقَالَ : لَوْ قُلْتُ إِنَّ ھٰذَا وُضُوْئُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقْتُ).
١٦٢ : حمران بن ابان کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے وضو کیا پھر اپنے پاؤں کو تین تین مرتبہ دھویا اور کہنے لگے اگر میں یہ کہوں کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو ہے تو میں ایسا کہنے میں سچا ہوں۔
تخریج : مسند ابو یعلٰی

163

۱۶۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَمْرٍو الْمُعَافِرِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ زَیْدٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ الْمُسْتَوْرِدَ بْنَ شَدَّادِ ڑالْقُرَشِیَّ یَقُوْلُ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْلُکُ بِخِنْصَرِہٖ مَا بَیْنَ أَصَابِعِ رِجْلَیْہِ) وَھٰذَا لَا یَکُوْنُ إِلَّا فِی الْغُسْلِ ، لِأَنَّ الْمَسْحَ لَا یَبْلُغُ فِیْہِ ذٰلِکَ ، إِنَّمَا ہُوَ عَلٰی ظُہُوْرِ الْقَدَمَیْنِ خَاصَّۃً .
١٦٣: عبداللہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مستورد بن شداد قرشی (رض) کو یہ کہتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ وہ اپنی چھنگلیا کے ساتھ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان والی جگہ کو مل رہے تھے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
یہ پاؤں دھونے کی حالت میں تو ممکن ہے کیونکہ مسح میں اس حد تک نوبت نہیں آتی بلکہ وہ تو دونوں پاؤں کے اوپر والے حصہ پر ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥٩ روایت نمبر ١٤٨‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣٠ روایت ٤٠‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٥٤‘ روایت ٤٤٦‘ مسند احمد ٤؍٣٣۔

164

۱۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ فَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا).
١٦٤ : عبداللہ اپنے دادا حضرت ابو رافع قبطی (رض) مولیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے دیکھا کہ آپ نے اپنے پاؤں کو تین مرتبہ دھویا۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍٨١‘ ١٦٥

165

۱۶۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنِ الرُّبَیِّعِ قَالَتْ : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِیْنَا فَیَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاۃِ ، فَیَغْسِلُ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا).
١٦٥ : عبداللہ بن محمد ‘ حضرت ربیع (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لاتے اور نماز کے لیے وضو فرماتے تو اپنے پاؤں کو (آخر میں) تین تین مرتبہ دھوتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١ روایات ١٢٦‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢٥‘ روایت ٣٣‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٥٢ روایت ٤٤۔

166

۱۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا ، وَغَسَلَ وَجْہَہٗ ثَلَاثًا ، وَذِرَاعَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، وَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ، وَوَضَّأَ قَدَمَیْہِ).
١٦٦ : عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا پس تین دفعہ مضمضہ و استنشاق کیا اور اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا اور بازو بھی تین مرتبہ دھوئے اور سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں قدموں کو دھویا۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ١٦‘ ١٨‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٧٨‘ ٧٩‘ فی الصلاۃ روایت ١٠٥ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١‘ والترجل باب ٧‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٥٨‘ ٦٥‘ ٧٥‘ والغسل باب ١٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣٩‘ دارمی فی الوضوء باب ٤١‘ مالک فی الطھارۃ روایت ٧‘ مسند احمد ١؍١١٠‘ ١٢٤‘ ١٢٧‘ ١٢٩‘ ٤؍١١٤‘ ١٣٢‘ ٢٤٥‘ ٢٤٨‘ ٥؍٢٥٨‘ ٢؍٩٦‘ ١٦١‘

167

۱۶۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ : کَیْفَ الطَّہُوْرُ؟ فَدَعَا بِمَائٍ ، فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، وَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ، وَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : ھٰکَذَا الْوُضُوْئُ، فَمَنْ زَادَ عَلٰی ھٰذَا أَوْ نَقَصَ ، فَقَدْ أَسَائَ وَظَلَمَ).
١٦٧ : عمرو بن شعیب اپنے داد ا عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وضو کے متعلق پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا اور تین تین مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا اور سر پر مسح کیا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے پھر فرمایا وضو اس طرح ہوتا ہے جس نے تین تین سے اضافہ کیا اس نے بہت برا کیا اور جس نے کمی کی اس نے اپنے حق میں کمی کی۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥٢‘ نمبر ١٣٥‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٠٤ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٤٨‘ روایت ٤٤٢‘ مسند احمد ٢؍١٨٠

168

۱۶۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَا : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی الْمَازِنِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ (قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَاصِمٍ : ہَلْ تَسْتَطِیْعُ أَنْ تُرِیَنِیْ کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ ؟ فَدَعَا بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ وَغَسَلَ رِجْلَیْہِ).
١٦٨ : یحییٰ مازنی نے حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے کہا کہ کیا تم مجھے دکھلا سکتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے وضو کرتے تھے تو انھوں نے پانی منگوایا پھر وضو کیا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣٩‘ ٤١‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ١٨ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥١ روایت ١١٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢٢‘ روایت ٢٨‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٨١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ روایت ٤٣٤‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍٦٣ سنن دارقطنی ١؍٨١‘ صحیح ابن خزیمہ ١٥٦۔

169

۱۶۹ : حَدَّثَنَا بَحْرٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ ( أَنَّ أَبَا جُبَیْرِ ڑ الْکِنْدِیَّ قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَہٗ بِوَضُوْئٍ ، فَقَالَ تَوَضَّأَ یَا أَبَا جُبَیْرٍ فَبَدَأَ بِفِیْہِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَبْدَأْ بِفِیْکَ ، فَإِنَّ الْکَافِرَ یَبْدَأُ بِفِیْہِ وَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَائٍ ، فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ وَغَسَلَ رِجْلَیْہِ).
١٦٩ : حضرت ابو جبیر کندی (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے پس اس کو آپ نے پانی لانے کا حکم فرمایا اور پھر فرمایا اے ابو جبیر ! وضو کر تو انھوں نے اپنے منہ سے شروع کیا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے منہ سے مت شروع کرو کافر اپنے منہ سے ابتداء کرتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا اور اس سے تین تین مرتبہ اعضاء کو دھویا پھر سر مبارک کا مسح کیا اور اپنے دونوں قدم مبارک دھوئے۔
تخریج : سنن کبرٰی بیہقی ١؍٤٦؍٤٧

170

۱۷۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا آدَمُ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .قَالَ فَہْدٌ : فَذَکَرْتُہٗ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَالِحٍ ، فَقَالَ : سَمِعْتُہٗ مِنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ .فَھٰذِہِ الْآثَارُ ، قَدْ تَوَاتَرَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ غَسَلَ قَدَمَیْہِ فِیْ وُضُوْئِہٖ لِلصَّلَاۃِ ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا مَا یَدُلُّ أَنَّ حُکْمَہُمَا الْغَسْلُ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
١٧٠ : لیث بن سعد نے حضرت معاویہ سے پھر اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ فہد راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کا تذکرہ عبداللہ بن صالح سے کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے اس کو معاویہ بن صالح سے خود سنا ہے۔ یہ روایاتِ کثیرہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت کر رہی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے وضو میں اپنے قدمین شریفین کو دھویا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی مرویات بھی آئی ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ان کا حکم دھونا ہے۔ بعض روایات حاضر خدمت ہیں۔
اندازِ اوّل :
علامہ طحاوی (رح) فرماتے ہیں : یہ کثیر روایات جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت کر رہی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے لیے جو وضو فرمایا اس میں اپنے قدمین شریفین کو دھویا اور اس طرح سے وضو میں قدمین کا دھونا فعل مبارک سے ثابت ہوا اور ایسی روایات بھی کثرت سے موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کا حکم ہی دھونا ہے ان میں سے کچھ روایات پیش خدمت ہیں۔
پاؤں کے وظیفہ دھونے پر چھ مستدلات ذکر کی جاتی ہیں۔

171

۱۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، وَابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَا : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ( اِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِنُ ؛ فَغَسَلَ وَجْہَہٗ خَرَجَتْ مِنْ وَجْہِہٖ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ نَظَرَ إِلَیْہَا بِعَیْنِہٖ‘ فَإِذَا غَسَلَ یَدَیْہِ‘ خَرَجَتْ مِنْ یَدَیْہِ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ بَطَشَتْہَا یَدَاہُ ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَیْہِ ، خَرَجَتْ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ مَشَتْ إِلَیْہَا رِجْلَاہُ).
١٧١ : ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مسلمان یا مؤمن بندہ وضو کرتا ہے پس اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے ہر وہ غلطی دھل جاتی ہے جس کا ارتکاب اس نے اپنی آنکھوں سے کیا جب بازو دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے وہ گناہ دھل جاتا ہے جو اس کے ہاتھوں کے تھامنے سے ہوا اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس سے اس کا ہر وہ گناہ دھل جاتا ہے جس کی طرف اس کے قدم چل کر گئے ہیں۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ روایت ٣٦‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢ روایت ٢ مسند احمد ٢؍٣٠٣‘ شرح السنہ للبغوی ١؍٣٢٢

172

۱۷۲ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ أَنَا مُوْسَی بْنُ یَعْقُوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبَّادُ بْنُ أَبِیْ صَالِحِ ڑالسَّمَّانُ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَاہُ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ ، فَیَغْسِلُ سَائِرَ رِجْلَیْہِ ، إِلَّا خَرَجَ مَعَ قَطْرِ الْمَائِ کُلُّ سَیِّئَۃٍ مَشٰی بِہِمَا إِلَیْہَا).
١٧٢ : ابو صالح السمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلمان وضو کرے اور اپنے دونوں پاؤں کامل طور پر دھوئے تو پانی کے قطرات کے ساتھ اس کا ہر وہ گناہ دھل جاتا ہے جس کی طرف وہ ان پاؤں سے چل کر گیا۔

173

۱۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبَّادِ ڑ الْعَبْدِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : مَا أَدْرَاکُمْ حَدَّثَنِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجًا وَاِفْرَادًا ( مَا مِنْ عَبْدٍ یَتَوَضَّأُ فَیُحْسِنُ الْوُضُوْئَ ، فَیَغْسِلُ وَجْہَہٗ حَتّٰی یَسِیْلَ الْمَائُ عَلٰی ذَقَنِہٖ ، ثُمَّ یَغْسِلُ ذِرَاعَیْہِ حَتّٰی یَسِیْلَ الْمَائُ عَلٰی مِرْفَقَیْہِ ، وَیَغْسِلُ رِجْلَیْہِ حَتّٰی یَسِیْلَ الْمَائُ مِنْ قِبَلِ کَعْبَیْہِ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ، إِلَّا غُفِرَ لَہٗ مَا سَلَفَ مِنْ ذَنْبِہٖ).
١٧٣ : عباد عبدی (رض) کہتے ہیں تمہیں کیا معلوم جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انفرادی اور اجتماعی حالت میں مجھے فرمایا جو بندہ اچھی طرح وضو کرے ‘ پس اپنا چہرہ اس طرح دھوئے کہ پانی اس کی ٹھوڑی پر بہنے لگے پھر اپنے دونوں بازو اس قدر دھوئے کہ پانی اس کی کہنیوں پر بہہ جائے اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے یہاں تک کہ پانی اس کے ٹخنوں کی جانب سے ہو کر بہہ جائے پھر وہ دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کے گزشتہ گناہ (صغیرہ) بخش دیئے جاتے ہیں۔
تخریج : مجمع الزوائد ١؍٥٢٠‘ جماع المسانید ٧؍٧٣

174

۱۷۴ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَشِیْشِ ڑ الْبَصَرِیُّ قَالَ أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٧٤ : ابو الولید کہتے ہیں کہ ہمیں قیس نے روایت بیان فرمائی پھر اپنی اسناد سے قیس نے سابقہ روایت کی طرح روایت بیان کی ہے۔
تخریج : مجمع الزوائد ١ / ٥٢٠۔

175

۱۷۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِیُّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ السِّمْطِ أَنَّہٗ قَالَ : مَنْ یُحَدِّثُنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ .فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (اِذَا دَعَا الرَّجُلُ بِطَہُوْرِہِ فَغَسَلَ وَجْہَہٗ ، سَقَطَتْ خَطَایَاہُ مِنْ وَجْہِہٖ وَأَطْرَافِ لِحْیَتِہٖ، فَإِذَا غَسَلَ یَدَیْہِ سَقَطَتْ خَطَایَاہُ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِہٖ، فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِہٖ سَقَطَتْ خَطَایَاہُ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِہٖ ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَیْہِ ، خَرَجَتْ خَطَایَا رِجْلَیْہِ مِنْ بُطُوْنِ قَدَمَیْہِ).
١٧٥ : شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کہا کون ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بیان کرے گا چنانچہ عمرو بن عبسہ کہنے لگے میں نے جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جب آدمی نے اپنے لیے پانی منگوا کر اس سے اپنا چہرہ دھویا تو اس کی وجہ سے اس کے چہرے اور ڈاڑھی کی اطراف والے گناہ دھل جاتے ہیں اور جب اس نے دونوں ہاتھوں کو دھویا تو اس کے گناہ اس کی انگلیوں کے پورے تک گرجاتے ہیں پھر جب اس نے سر کا مسح کیا تو اس کے بالوں کی نوک تک کے گناہ گرگئے اور جب اس نے اپنے پاؤں کو دھویا تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ اس کے پاؤں کے تلووں سے بھی ساقط ہوگئے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٥

176

۱۷۶ : حَدَّثَنَا بَحْرٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیْبٍ وَأَبِیْ یَحْیٰی وَأَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ قَالَ : (قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ الْوُضُوْئُ ؟ قَالَ : اِذَا تَوَضَّأْتَ فَغَسَلْتَ یَدَیْکَ ثَلَاثًا خَرَجَتْ خَطَایَاک مِنْ بَیْنَ أَظْفَارِک وَأَنَامِلِکَ ، فَإِذَا مَضْمَضْتَ وَاسْتَنْشَقْتَ فِیْ مَنْخَرَیْکَ وَغَسَلْتَ وَجْہَکَ وَذِرَاعَیْکَ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ وَغَسَلْتَ رِجْلَیْکَ إِلَی الْکَعْبَیْنِ اغْتَسَلْتُ مِنْ عَامَّۃِ خَطَایَاکَ).فَھٰذِہِ الْآثَارُ تَدُلُّ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ الرِّجْلَیْنِ فَرْضُہُمَا الْغَسْلُ ، لِأَنَّ فَرْضَہُمَا ، لَوْ کَانَ ہُوَ الْمَسْحُ ، لَمْ یَکُنْ فِیْ غَسْلِہِمَا ثَوَابٌ. أَلَا تَرٰی أَنَّ الرَّأْسَ الَّذِیْ فَرْضُہُ الْمَسْحُ لَا ثَوَابَ فِیْ غَسْلِہٖ ، فَلَمَّا کَانَ فِیْ غَسْلِ الْقَدَمَیْنِ ثَوَابٌ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ فَرْضَہُمَا ہُوَ الْغَسْلُ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ.
١٧٦ : حضرت ابو امامہ باہلی (رض) حضرت عمرو بن عبسہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کس طرح کیا جائے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم وضو کے لیے اپنے ہاتھ تین مرتبہ دھوتے ہو تو تیرے گناہ تیرے پوروں اور انگلیوں کے درمیان سے نکل جائیں گے اور جب تم مضمضمہ کرتے ہو اور ناک میں پانی چڑھاتے ہو اور اپنے چہرے کو دھوتے ہو اور بازؤں کو کہنیوں سمیت دھوتے ہو اور اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ گے تو تیری عمومی غلطیاں (صغیرہ گناہ) دھل جائیں گی۔ یہ آثار اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ پاؤں میں اصل فرض دھونا ہے۔ اگر بالفرض یہ مسح ہوتا تو ان کے دھونے میں ثواب نہ ملتا کیا تم دیکھتے نہیں کہ سر پر مسح فرض ہے اور سر کو دھونے میں کوئی ثواب نہیں ہے۔ اس سے یہ راہنمائی مل گئی کہ پاؤں میں فرض دھونا ہی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات وارد ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔
تخریج : نسائی باب الطھارۃ باب ١٠٧۔
حاصل روایات : ان تمام روایات میں طریقہ وضو بتلایا گیا اور ان تمام روایات میں پاؤں کے متعلق دھونے ہی کا تذکرہ ہے ۔
دوسرا انداز۔۔۔: علامہ طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
ان تمام آثار سے ماسبق روایات سمیت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دونوں پاؤں میں اصل فرض دھونا ہے کیونکہ اگر اصل فرض مسح ہوتا تو دھونے میں چنداں ثواب نہ ہوتا ذرا توجہ فرمائیں کہ سر میں اصل فرض مسح ہی ہے چنانچہ اس کے دھو لینے میں کوئی ثواب نہیں پس جب ان روایات میں پاؤں کے دھونے میں ثواب بیان کیا گیا تو اس سے بطور دلالت ثابت ہوا کہ قدمین میں فرض ان کا دھونا ہی ہے اور یہ دلالت ہم نے خود تجویز نہیں کی بلکہ احادیث نبویہ علٰی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے چنانچہ احادیث ذیل کا مطالعہ فرمائیں۔

177

۱۷۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ کَرِبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قَدَمِ رَجُلٍ لَمْعَۃً لَمْ یَغْسِلْہَا فَقَالَ : وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ).
١٧٧ : سعید نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کے پاؤں میں خشک نشان پایا جو دھونے سے رہ گیا تھا تو آپ نے فرمایا ایسی ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣‘ روایت ٣٠‘ والوضوء باب ٢٧‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٢٥‘ ٢٦‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٤٦‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٣١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٨٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٥٥‘ دارمی فی الوضوء باب ٣٥‘ مالک فی الطھارۃ روایت ٥‘ مسند احمد ٢؍١٩٣‘ ٤؍١٩١‘ ٥؍٤٣٥‘ ٦؍٨٤۔ سنن کبرٰی بیہقی ١؍٦٩، عبدالرزاق ٦٢‘ ٦٣۔

178

۱۷۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ کَرِبٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوْئَ)۔
١٧٨ : سعید نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے خوب پانی ڈال کر وضو کیا کرو (تاکہ کوئی حصہ دھونے سے نہ رہ جائے)
تخریج : ابن ماجہ ١؍٣٦

179

۱۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ قَالَ : ثَنَا سَالِمٌ مَوْلَی الْمَہْرِیِّ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تُنَادِیْ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ أَسْبِغِ الْوُضُوْئَ ، فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ).
١٧٩ : مہری کے مولیٰ سالم بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عبدالرحمن کو آوازدے رہی تھیں خوب پانی ڈال کر وضو کرو اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ان ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے (جو دھونے سے رہ جائیں)
تخریج : مسلم ١؍١٢٤

180

۱۸۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَقُوْلُ ( یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ ) فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٨٠ : ابو سلمہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو فرماتے سنا اے عبدالرحمن ! پھر اوپر والی روایت جیسی روایت نقل کی۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٥٨

181

۱۸۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ سَالِمِ ڑالدَّوْسِیِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
١٨١ : سالم دوسی نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٨٤

182

۱۸۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ قَالَ : أَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدَ اللّٰہِ مَوْلٰی شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ دَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَہَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٨٢ : ابوالاسود کہتے ہیں مجھے شداد بن الھاد کے مولیٰ ابو عبداللہ نے بیان کیا کہ میں امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کے ہاں حاضر ہوا اس وقت ان کے پاس حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر (رض) بیٹھے تھے پھر انھوں نے اوپر والی روایت کی طرح روایت نقل کی۔
تخریج : مسلم ١؍١٢٤

183

۱۸۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سُہَیْلٌ بْنُ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ).
١٨٣ : ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ آپ نے فرمایا ان ایڑیوں کے لیے قیامت کے دن آگ کی ہلاکت ہوگی۔ (جو وضو کرتے ہوئے خشک رہ گئیں)
تخریج : مسلم ١؍١٢٥

184

۱۸۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الْقَاسِم رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ).
١٨٤ : محمد بن زیاد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے۔
تخریج : بخاری ١؍٧٣

185

۱۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
١٨٥ : شعبہ نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٣٠‘ مسلم ١؍١٢٥

186

۱۸۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ عَنْ حَیْوَۃَ بْنِ شُرَیْحٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَیْدِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ وَبُطُوْنِ الْأَقْدَامِ مِنَ النَّارِ).
١٨٦ : حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود فرماتے سنا ان ایڑیوں کے لیے (جو وضو میں تر نہ ہوں) اور ان قدموں کے تلوؤں کے لیے (جو تر نہ ہوں) آگ کی ہلاکت ہے یعنی انھیں آگ میں جلایا جائے گا۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٩١‘ ١٧٨٥٨

187

۱۸۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَا : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
١٨٧ : عقبہ بن مسلم کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن الحارث بن جزء کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر روایت بالا جیسی روایت نقل کی۔
تخریج : مجمع الزوائد ١؍٥٤٨

188

۱۸۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافٍ، عَنْ أَبِیْ یَحْیٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ).
١٨٨ : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے (جو وضو میں خشک رہ جائیں)
تخریج : ابو داؤد ١؍١٣‘ نسائی ١؍٣٠‘ ابن ماجہ ١؍٣٦۔

189

۱۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافٍ ، عَنْ أَبِیْ یَحْیٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی قَوْمًا تَوَضَّئُوْا وَکَأَنَّہُمْ تَرَکُوْا مِنْ أَرْجُلِہِمْ شَیْئًا فَقَالَ : (وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوْئَ).
١٨٩ : ابو یحییٰ نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا گویا انھوں نے پاؤں کے کچھ حصہ کو دھونے میں چھوڑ دیا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے کامل وضو کرو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٠١

190

۱۹۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافٍ عَنْ أَبِیْ یَحْیٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : (سَافَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَأَتٰی عَلٰی مَائٍ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ فَحَضَرَتِ الْعَصْرُ فَتَقَدَّمَ أُنَاسٌ فَانْتَہَیْنَا إِلَیْہِمْ وَقَدْ تَوَضَّئُوْا وَأَعْقَابُہُمْ تَلُوْحُ لَمْ یَمَسَّہَا مَائٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوْئَ).
١٩٠ : ابو یحییٰ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ سے مدینہ کا سفر کیا مکہ و مدینہ کی درمیانی منزل میں ایک پانی پر آپ وارد ہوئے اور عصر کا وقت ہوگیا کچھ لوگ آگے بڑھ گئے (اور وہ پانی پر پہلے پہنچے) پس جب ہم ان تک پہنچے تو وہ وضو سے فارغ ہوچکے تھے اور ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں ان کو پانی نے نہ چھوا تھا اس پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے کامل وضو کرو۔ (کہ پاؤں وغیرہ کا کوئی حصہ دھلنے سے نہ رہ جائے)
تخریج : ابن حبان ٢؍١٩٦‘ مسلم ١؍١٢٥

191

۱۹۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَاہَکَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : ( تَخَلَّفَ عَنَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفْرَۃٍ سَافَرْنَاہَا فَأَدْرَکَنَا وَقَدْ أَرْہَقَتْنَا صَلَاۃُ الْعَصْرِ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ وَنَمْسَحُ عَلٰی أَرْجُلِنَا فَنَادٰی بِلَالٌ وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا).
١٩١ : عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ نماز عصر کا وقت قریب ہوگیا اور ہم نے وضو کیا اور اپنے پاؤں پر پانی ملا یعنی مسح کیا (جس سے پاؤں کے بعض حصے خشک رہ گئے) تو حضرت بلال (رض) نے (جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے) دو یا تین مرتبہ پکار کر کہا ان ایڑیوں کے لیے آگ میں جلنا ہے (جو وضو میں خشک رہ گئیں)
اللغات : رھق۔ قریب ہونا
تخریج : ١؍٢٣ بخاری ‘ مسلم ١؍١٢٥

192

۱۹۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَکَرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو أَنَّہُمْ کَانُوْا یَمْسَحُوْنَ حَتّٰی أَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِسْبَاغِ الْوُضُوْئِ وَخَوَّفَہُمْ فَقَالَ (وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ). فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ الْمَسْحِ الَّذِیْ کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہٗ قَدْ نَسَخَہُ مَا تَأَخَّرَ عَنْہُ مِمَّا ذَکَرْنَا ، فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا لِمَنْ غَسَلَ رِجْلَیْہِ فِیْ وُضُوْئِہِ مِنَ الثَّوَابِ ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہُمَا مِمَّا یُغْسَلُ وَأَنَّہُمَا لَیْسَتَا کَالرَّأْسِ الَّذِیْ یُمْسَحُ وَغَاسِلُہٗ لَا ثَوَابَ لَہٗ فِیْ غَسْلِہٖ .وَھٰذَا الَّذِیْ ثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی : (وَأَرْجُلَکُمْ) [المائدۃ : ۶] فَأَضَافَہُ قَوْمٌ إِلٰی قَوْلِہٖ تَعَالٰی (وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ ) قَصْرًا عَلَیْ مَعْنَی (وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ) .وَأَضَافَہُ قَوْمٌ إِلٰی قَوْلِہٖ ( فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ) [المائدۃ : ۶] فَقَرَئُ وْا (وَأَرْجُلَکُمْ) نَسَقًا عَلٰی قَوْلِہِ" فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاغْسِلُوْا أَیْدِیَکُمْ وَاغْسِلُوْا أَرْجُلَکُمْ " عَلَی الْاِضْمَارِ وَالنَّسَقِ .وَقَدِ اخْتَلَفَ فِیْ ذٰلِکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ دُوْنَہُمْ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
١٩٢ : ابو داؤد کہتے ہیں کہ ہمیں ابو عوانہ نے بیان کیا پھر اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ بات بیان فرمائی کہ صحابہ کرام (رض) پاؤں کا مسح کرتے تھے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کامل طور پر وضو کرنے کا حکم فرمایا اور ان کو یہ فرما کر ڈرایا کہ ایسی ایڑیوں کے لیے جہنم کی خرابی ہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ وہ مسح کا حکم جس کو وہ کیا کرتے تھے اس کو بعد والے مذکورہ حکم نے منسوخ کردیا اس باب کا یہ حکم تو روایات کو سامنے رکھ کر ہے باقی نظر و فکر کی راہ سے یہ ہے کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پاؤں دھونے والے کے ثواب کی روایات ذکر کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ان اعضاء میں سے ہیں جن کو دھویا جاتا ہے۔ یہ سر کی طرح نہیں ہیں کہ جس پر مسح کیا جاتا ہے اور اس کے دھونے والے کو کچھ ثواب نہیں ہے اور یہ جو ان آثار سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔ علماء نے آیت : { وارجلکم } کی تفسیر میں اختلاف کیا ہے۔ ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ اس کا تعلق وامسحوا بروسکم سے ہے اور امسحوا بروسکم وارجلکم کا ایک ہی معنی ہے۔ جبکہ دوسری جماعت نے اس کی نسبت فاغسلوا وجوھکم و ایدکم الی المرافق کی طرف کر کے اس کو منصوب پڑھا ہے۔ ای اغسلوا ارجلکم کہ تم اپنے پاؤں کو دھوؤ۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) کا اختلاف ہے جو مندرجہ ذیل روایات سے واضح ہوجائے گا۔
تخریج : مسند ابو عوانہ
حاصل روایات اور امام طحاوی (رح) کا ارشاد :
ان تمام روایات بالا سے پاؤں کے دھونے میں کچھ حصہ چھوٹ جانے پر آگ کے عذاب کی دھمکی موجود ہے۔
تیسرا رخ :
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے بیان کیا کہ وہ لوگ وضو میں پاؤں پر پانی کو ملتے اور مسح کرتے تھے یہاں تک کہ آپ نے ان کو خوب پانی ڈالنے اور کامل وضو کرنے کا حکم فرمایا اور ان کو ڈرایا کہ ” ویل للاعقاب من النار “ کہ وہ ایڑیاں آگ کی حقدار ہیں۔
یہ روایات اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہیں کہ مسح کا حکم پہلے تھا جو مابعد والے ارشاد سے منسوخ ہوگیا یہ بات تو آثار کے انداز سے ثابت ہو رہی ہے گویا قول اول کی روایات کا جواب کثیر روایات سے دے دیا مزید کی حاجت نہیں عیاں راچہ بیان۔ بطور تفنن طبع عقلی دلیل بھی ملاحظہ ہو۔
چوتھا رخ یا نظر طحاوی (رح) :
گزشتہ روایات میں پاؤں کے دھونے پر گناہوں کے جھڑنے اور ثواب ملنے کا تذکرہ ہے معلوم ہوا کہ اس کا الٹ کرنے پر ثواب نہیں جیسا کہ سر کے مسح کرنے پر ثواب کا تذکرہ ہے اگر کوئی اس کی بجائے سر کو دھو ڈالے تو کوئی ثواب نہ ملے گا نیز یہ بھی معلوم ہوگیا یہ دونوں ممسوحات سے نہیں بلکہ مغسولات سے ہیں واللہ اعلم۔
ان آثار سے ثابت شدہ مسئلہ ہی ہمارے ائمہ ثلاثہ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا مسلک ہے۔
اختلاف دوم کی تفصیل :
باب کے اختتام پر امام طحاوی گزشتہ روایات میں بیان کردہ مسئلہ میں اختلاف کی وجہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔
وجہ اوّل : ارجل ‘ ارجل کی لام کے نیچے کسرہ یا فتحہ پڑھا جائے گا۔
وجہ ثانی : لام پر فتحہ پڑھیں یہ صحابہ کرام (رض) کا متفقہ طرز عمل کیا ہے ۔
وجہ اول : حضرت حسن بصری (رض) اور عکرمہ وغیرہ لام پر کسرہ کے قائل ہیں اسی لیے وہ کسرہ کو جوار یا عطف کو نسق کے طور پر قرار دیتے ہیں۔ جس کو حضرت حسن بصری اور شعبی (رح) وغیرہ نے اختیار کیا خواہ قریبی فعل کی وجہ سے وامسحوا برؤسکم وارجلکم۔ عبارت کے ظاہری مفہوم کا اعتبار ان کے مستدل کی روایات کو دوسری روایات کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے جو ان کے سابقہ انداز کے خلاف ہے روایت ٢٠٢ اور ٢٠٣ البتہ قراءت جر کی ہے ان روایات کا ترجمہ وہیں کیا جائے گا۔
وجہ ثانی : ارجلکم کی لام پر فتحہ پڑھیں گے اس قراءت کو بہت سے صحابہ وتابعین نے اختیار کیا جن میں عبداللہ بن مسعود ‘ عبداللہ بن عباس (رض) اور عروہ بن زبیر اور مجاہد کا آخری قول وغیرہ اس قراءت کو دس اسناد سے ذکر کیا گیا ہے۔

193

۱۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زَرٍّ ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ قَرَأَ ( وَأَرْجُلَکُمْ ) بِالْفَتْحِ .
١٩٣ : زر (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اَرْجُلَکُمْ کو لام کے فتحہ سے پڑھا۔
تخریج : الدرالمنثور ٢؍٢٦٢۔ بیہقی ١؍١١٥

194

۱۹۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیْدٍ ، وَوُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ خَالِدِ ڑ الْحَذَّائِ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّہٗ قَرَأَہَا کَذٰلِکَ ۔
١٩٤ : عکرمہ کہتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) اَرْجُلَکُمْ کو لام کے فتحہ سے پڑھا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٠

195

۱۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَہٗ .
١٩٥ : یوسف بن مہران نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح قراءت فتحہ نقل کی ہے۔

196

۱۹۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : سَمِعْت ہِشَامًا یَقُوْلُ : أَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ قَرَأَہَا کَذٰلِکَ وَقَالَ ( عَادَ إِلَی الْغُسْلِ).
١٩٦ : عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے فتحہ کی قراءت نقل کی اور کہا (کہ ضمیر غسل کی طرف راجع ہے)

197

۱۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : رَجَعَ الْقُرْآنُ إِلَی الْغُسْلِ وَقَرَأَ ( وَأَرْجُلَکُمْ ) وَنَصَبَہَا .
١٩٧ : قیس نے مجاہد (رح) سے نقل کیا ضمیر کو غسل کی طرف لوٹایا اور پڑھا نصب کے ساتھ وارجلکم (یہ مجاہد کا آخری قول ہے)
تخریج : بیہقی ١؍١١٦

198

۱۹۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
١٩٨ : ابو داؤد کہتے ہیں ہمیں حماد نے اپنی اسناد سے اسی طرح بیان کیا کہ (قراءت نصب سے ہے)

199

۱۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ مِثْلَہٗ .
١٩٩ : ہشام نے اپنے والد عروہ سے اسی طرح نصب پڑھنا نقل کیا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٢٦ بیہقی ١؍١١٥

200

۲۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ التَّیَّاحِ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ مِثْلَہٗ .
٢٠٠ : ابوالتیاح نے شہر بن حوشب سے اسی طرح نصب نقل کیا ہے۔

201

۲۰۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عَاصِمٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِالْمَسْحِ وَالسُّنَّۃُ بِالْغَسْلِ .
٢٠١ : عاصم نے شعبی (رح) سے نقل کیا کہ قرآن مجید بظاہر مسح کا حکم لایا مگر طریقہ نبوی اس میں پاؤں کا دھونا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارات ١؍١٩ عبدالرزاق ١؍١٩

202

۲۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الْأَعْرَجُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : أَنَّہٗ قَرَأَہَا ( وَأَرْجُلِکُمْ ) خَفَضَہَا .
٢٠٢ : حمید الاعرج نے مجاہد سے نقل کیا کہ انھوں نے ارجلکم کو کسرہ سے پڑھا۔

203

۲۰۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ عَنْ قُرَّۃَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ قَرَأَہَا کَذٰلِکَ ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَغْسِلُوْنَ فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٢٠٣ : قرہ نے حسن بصری سے نقل کیا کہ وہ ارجلکم کو لام کے کسرہ سے پڑھتے تھے۔ اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت سے روایت وارد ہے کہ وہ پاؤں کو دھویا کرتے تھے ان میں سے بعض روایات یہ ہیں۔
حاصل روایات : گزشتہ آٹھ روایات و آثار ارجلکم میں لام کے فتحہ کو اور ٢٠١ سے ٢٠٣ تک تین آثار ارجلکم کی لام پر کسرہ کو ثابت کرتی ہیں۔
نکتہ : امام طحاوی (رح) اس اختلاف قراءت کو نقل کرنے کے بعد پاؤں دھونے والی آٹھ روایات نقل کر کے یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ قراءت کے اس اختلاف سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ پاؤں پر مسح کے لیے کسرہ والی روایت سے تائید مل گئی بلکہ وہ کسرہ والی قراءت کا قائل ہونے کے باوجود وہ پاؤں کو دھونے کے قائل ہیں کسی رافضی کے استدلال کی گنجائش نہیں۔

204

۲۰۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ قُلْتُ لِلْأَسْوَدِ : أَکَانَ عُمَرُ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، کَانَ یَغْسِلُہُمَا غَسْلًا .
٢٠٤ : ابراہیم کہتے ہیں میں نے اسود سے دریافت کیا کیا عمر فاروق (رض) پاؤں کو دھویا کرتے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ! وہ ان کو خوب مل کر دھوتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٩

205

۲۰۵ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِیْرَۃَ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : تَوَضَّأَ عُمَرُ فَغَسَلَ قَدَمَیْہِ .
٢٠٥ : مغیرہ نے ابرہیم سے نقل کیا کہ عمر فاروق (رض) نے وضو کیا اور اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔

206

۲۰۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَبِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَغْسِلُ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا .
٢٠٦ : ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو دیکھا کہ وہ اپنے دونوں پاؤں کو (وضو میں) تین تین مرتبہ دھوتے تھے۔
تخریج : ابو عوانہ ٢٩؍٣٦٤ (ابو حمزہ یا ابو جمرہ)

207

۲۰۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُجْمِرِ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَتَوَضَّأُ مَرَّۃً وَکَانَ اِذَا غَسَلَ ذِرَاعَیْہِ کَادَ أَنْ یَبْلُغَ نِصْفَ الْعَضُدِ وَرِجْلَیْہِ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ .فَقُلْتُ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ أُرِیْدُ أَنَّ أُطِیْلَ غُرَّتِیْ، إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( إِنَّ أُمَّتِیْ یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْئِ ، وَلَا یَأْتِیْ أَحَدٌ مِنَ الْأُمَمِ کَذٰلِکَ).
٢٠٧ : ابن المجمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھوتے ہیں جب وہ اپنے بازو دھوتے تھے تو قریب نصف عضو تک دھوتے اور اسی طرح دونوں پاؤں دھوتے تو نصف پنڈلی تک دھوتے میں نے ان سے اس سلسلہ میں عرض کیا تو فرمانے لگے میں یہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میرا سفید نشان طویل ہو اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ میری امت قیامت کے دن وضو کی وجہ سے روشن اعضاء والی ہوگی (جیسا ابلق گھوڑوں میں پنج کلیان گھوڑا پہچانا جاتا ہے ‘ امت ان اعضاء وضو کے روشن ہونے سے پہچانی جائے گی) اور کوئی امت بھی اس طرح نہ آئے گی۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٣٥‘ ترمذی فی الجمعۃ باب ٧٤‘ روایت ٢٨‘ مسند احمد ١؍٢٨٢‘ ٢٩٦‘ ٢؍٣٦٢‘ سنن کبرٰی للبیہقی ١؍٥٧‘

208

۲۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہٗ ذَکَرَ لَہُ الْمَسْحَ عَلَی الْقَدَمَیْنِ فَقَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَغْسِلُ رِجْلَیْہِ غَسْلًا وَأَنَا أَسْکُبُ عَلَیْہِ الْمَائَ سَکْبًا .
٢٠٨ : ابو عوانہ نے ابو بشر سے بیان کیا اور ابو بشر نے مجاہد سے نقل کیا کہ میں نے ان کے سامنے پاؤں پر مسح کا ذکر کیا تو مجاہد فرمانے لگے کہ ابن عمر (رض) اپنے پاؤں کو خوب دھو رہے تھے اور میں ان پر پانی بہاتا جا رہا تھا۔
تخریج : مصنف ابن بی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٩

209

۲۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِثْلَہٗ .
٢٠٩ : ابو بشر نے مجاہد سے اور مجاہد نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

210

۲۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْمَاجِشُوْنِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ کَانَ یَغْسِلُ رِجْلَیْہِ اِذَا تَوَضَّأَ .
٢١٠ : عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جب وہ وضو کرتے تو اپنے پاؤں کو دھوتے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٢٥

211

۲۱۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : أَبَلَغَکَ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ مَسَحَ الْقَدَمَیْنِ ؟ قَالَ : لَا .وَقَدْ زَعَمَ زَاعِمٌ أَنَّ النَّظَرَ یُوْجِبُ مَسْحَ الْقَدَمَیْنِ فِیْ وُضُوْئِ الصَّلَاۃِ قَالَ : لِأَنِّیْ رَأَیْتُ حُکْمَہُمَا بِحُکْمِ الرَّأْسِ أَشْبَہَ لِأَنِّیْ رَأَیْتُ الرِّجْلَ اِذَا عُدِمَ الْمَائُ فَصَارَ فَرْضُہُ التَّیَمُّمُ یُیَمَّمُ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ وَلَا یُیَمَّمُ رَأْسَہٗ وَلَا رِجْلَیْہِ .فَلَمَّا کَانَ عَدَمُ الْمَائِ یُسْقِطُ فَرْضَ غَسْلِ الْوَجْہِ وَالْیَدَیْنِ إِلٰی فَرْضٍ آخَرَ وَہُوَ التَّیَمُّمُ ، وَیَسْقُطُ فَرْضُ الرَّأْسِ وَالرِّجْلَیْنِ لَا إِلٰی فَرْضٍ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ الرِّجْلَیْنِ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ کَحُکْمِ الرَّأْسِ لَا کَحُکْمِ الْوَجْہِ وَالْیَدَیْنِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا أَشْیَائَ یَکُوْنُ فَرْضُہَا الْغُسْلُ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ ثُمَّ یَسْقُطُ ذٰلِکَ الْفَرْضُ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْمَائِ لَا إِلٰی فَرْضٍ ، مِنْ ذٰلِکَ الْجُنُبِ ، عَلَیْہِ أَنْ یَغْسِلَ سَائِرَ بَدَنِہِ بِالْمَائِ فِیْ حَالِ وُجُوْدِہٖ وَإِنْ عُدِمَ الْمَائُ وَجَبَ عَلَیْہِ التَّیَمُّمُ فِیْ وَجْہِہِ وَیَدَیْہِ .فَأَسْقِطَ فَرْضُ حُکْمِ سَائِرِ بَدَنِہٖ بَعْدَ الْوَجْہِ وَالْیَدَیْنِ لَا إِلَیْ بَدَلٍ ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ بِدَلِیْلِ أَنَّ مَا سَقَطَ فَرْضُہٗ مِنْ ذٰلِکَ لَا إِلٰی بَدَلٍ کَانَ فَرْضُہٗ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ ہُوَ الْمَسْحَ فَکَذٰلِکَ أَیْضًا لَا یَکُوْنُ سُقُوْطُ فَرْضِ الرِّجْلَیْنِ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْمَائِ لَا إِلَیْ بَدَلٍ ، بِدَلِیْلِ أَنَّ حُکْمَہُمَا کَانَ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ ہُوَ الْمَسْحُ .فَبَطَلَتْ بِذٰلِکَ عِلَّۃُ الْمُخَالِفِ اِذَا کَانَ قَدْ لَزِمَہٗ فِیْ قَوْلِہٖ ، مِثْلُ مَا أَلْزَمَ خَصْمَہٗ۔
٢١١ : عبدالملک سے روایت ہے کہ میں نے عطاء سے سوال کیا کہ کیا تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی صحابی کے متعلق روایت ملی ہے کہ انھوں نے اپنے پاؤں پر مسح کیا ہو تو عطاء کہنے لگے کوئی روایت نہیں پہنچی۔ کسی شخص کو یہ گمان گزر سکتا ہے کہ نظر و فکر تو نماز کے وضو میں پاؤں کے مسح کو لازم کرتی ہے اس لیے کہ ان کا حکم سر کے حکم سے مشابہت رکھتا ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جب کسی کے پاس پانی نہ ہو تو اس پر تیمم لازم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں پر تو تیمم کرے گا مگر سر پر تیمم نہ کرے گا اور نہ ہی پاؤں پر۔ پس جب پانی کا نہ ملنا چہرے اور ہاتھوں سے دھونے کی فرضیت کو ساقط کر کے دوسرا فرض تیمم مقرر کرتا ہے اور پاؤں اور سر کے فرض کو بالکل ساقط کردیتا ہے اور کوئی دوسرا فرض اس کی جگہ مقرر نہیں کرتا۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ دو پاؤں کا حکم پانی کے ملنے کی صورت میں سر کے حکم کی طرح ہے ‘ چہرے اور دونوں ہاتھوں کے حکم کی طرح نہیں ہے۔ ان کے جواب میں ہماری دلیل یہ ہے کہ ہم دیکھ پاتے ہیں کہ پانی کے ملنے کی صورت میں بعض اشیاء کا دھونا فرض ہوتا ہے پھر پانی نہ پانے کی صورت میں وہ فرض کسی دوسرے فرض کی طرف ساقط نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم جنابت والے شخص کو دیکھتے ہیں کہ اس پر لازم ہے کہ پانی کے ملنے کی صورت میں تمام بدن کو دھوئے اور جب پانی میسر نہ ہو تو اس وقت اس کے لیے چہرے اور بازوؤں کا تیمم اس پر لازم ہے تو چہرے اور بازو کے علاوہ باقی تمام جسم کے دھونے کی فرضیت بغیر کسی بدل کے ساقط ہوگئی۔ پس یہ اس بات کی دلیل نہ بن سکی کہ جس کی فرضیت کسی بدل کی طرف ساقط نہ ہو تو پانی کے ملنے کی صورت میں اس کا مسح فرض ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں پاؤں کی فرضیت کا بلا بدل ساقط ہونا ہے۔ اس دلیل کی بنیاد پر نہیں کہ ان کا حکم پانی کے ملنے کی صورت میں مسح تھا۔ پس اس کے نتیجہ میں فریق مخالف کی وہ علت ہی باطل ٹھہری اس لیے کہ اس نے اپنے مخالف پر اپنی بات سے جو کچھ لازم کیا تھا وہ خود اس پر لازم آگیا۔
حاصل روایات : ان تمام آثار و روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اختلاف قراءت کے باوجود تمام صحابہ (رض) وتابعین (رح) پاؤں کو دھونے ہی کے قائل ہیں۔
ایک عقلی اعتراض :
ممکن ہے کہ مسح قدمین کا کوئی قائل یہ کہے کہ وضو میں مسح قدمین تو لازم ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہاتھوں اور چہرے کا عمل دھونے میں ایک جیسا اور سر اور پاؤں کا عمل مسح میں ایک جیسا ہے اور جب پانی نہ ہو تو ہاتھوں اور چہرے کا عمل بدل میں ایک جیسا رہا اور سر اور پاؤں کا عدم بدل میں ایک جیسا رہا کہ ان دونوں کا بدل ساقط ہوا پس ثابت ہوا کہ پانی کے ہوتے ہوئے بھی دونوں کا حکم مسح ہوگا۔

الجواب یا نظر طحاوی :
آپ کا قاعدہ کلیہ درست نہیں کیونکہ بہت سی اشیاء ایسی ہیں جن میں پانی ہونے کی حالت میں جن اعضاء کا دھونا فرض تھا مگر پانی نہ پائے جانے کی حالت میں وہ بالکلیہ ساقط ہوگئے کسی بدل کی طرف منتقل نہیں ہوئے ان میں سے ایک جنابت والا آدمی ہے کہ اس کو لازم ہے کہ پانی پانے کی صورت میں تمام بدن دھوئے اور جب پانی نہ ہو تو اس کے لیے تیمم میں صرف چہرہ اور دونوں ہاتھوں پر مٹی کا ملنا بدل ہے بقیہ تمام جسم کسی بدل کے بغیر ساقط ہوگیا۔
اب جناب فیصلہ فرمائیں کہ پانی ہونے کی حالت میں آپ اپنے قیاس کے مطابق صرف چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے سے غسل جنابت کے درست ہونے کا حکم فرمائیں گے یا پھر اپنے قاعدہ کلیہ کو ساقط کریں گے۔
پس ثابت ہوا کہ سقوط الی بدل اور سقوط بلا بدل مسح قدمین کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور تیمم میں فرض قدمین کا سقوط بلابدل سر پر مسح کے حکم سے یکسانیت ثابت نہیں کرسکتا۔ پس مخالف کی علت کے بطلان سے اس کا اعتراض بھی باطل ہوگیا۔

212

۲۱۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ڑالْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ ، فَلَمَّا کَانَ الْفَتْحُ صَلَّی الصَّلَوَاتِ بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ .
٢١٢ : بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے لیے وضو کرتے جس دن مکہ فتح ہوا اس دن آپ نے پانچوں نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔ پس یہ درست ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن بریدہ (رض) والی روایت میں مذکورہ عمل و فضیلت کے حصول کے لیے فرمایا اس بناء پر نہیں کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واجب و لازم تھا اور حضرت انس (رض) کی روایت بھی مذکورہ قول پر دلالت کرتی ہے۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٤٥ روایت ٦١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٠٠‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٢ روایت ٥١٠‘ دامی فی الوضوء باب ٣۔
خلاصہ الزام : مقیم کو ہر نماز کے لیے نیا وضو ضروری ہے اصحاب ظواہر اور شیعہ کا یہی مذہب ہے جبکہ جمہور فقہاء و محدثین اور ائمہ اربعہ کے ہاں مسافر و مقیم کے لیے نیا وضو حصول فضیلت کا باعث ہے۔
امام طحاوی (رح) نے مذہب نمبر ١ میں فریق اول کے دلائل کا تذکرہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل روایات ذکر فرمائیں ہیں۔

213

۲۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ وَأَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : ( صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ ، وَمَسَحَ عَلٰی خُفَّیْہِ .فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ : صَنَعْتَ شَیْئًا - یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ - لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہٗ .فَقَالَ : عَمْدًا فَعَلْتُہٗ ، یَا عُمَرُ).
٢١٣ : حضرت بریدہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن پانچوں نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں اور موزوں پر مسح فرمایا اس پر عمر (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے آج ایسا عمل کیا جو پہلے نہ کرتے تھے آپ نے فرمایا میں نے اے عمر (رض) ! قصداً ایسا کیا ہے۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ روایت ٨٦‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٦٥‘ روایت ١٧٢‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٤٥‘ روایت ٦١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٠٠‘ مسند احمد ٥؍٣٥٠‘ ٣٥١۔

214

۲۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا عَلْقَمَۃُ عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیْہِ ، ( عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْحَاضِرِیْنَ یَجِبُ عَلَیْہِمْ أَنْ یَتَوَضَّئُوْا لِکُلِّ صَلَاۃٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَکْثَرُ الْعُلَمَائِ ، فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ الْوُضُوْئُ إِلَّا مِنْ حَدَثٍ .وَکَانَ مِمَّا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا یُوَافِقُ مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا۔
٢١٤ : حضرت بریدہ (رض) نے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے لیے وضو فرماتے تھے۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ مقیم افراد پر واجب ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کریں اور انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔ علماء کی اکثریت نے ان کی مخالفت کی ہے۔ پس انھوں نے کہا کہ وضو تو اسی پر واجب ہے جو بےوضو ہو اور ان کے مسلک کی تائید جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ روایت ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٣٨‘ باب الوضو لکل صلوۃ
حاصل روایات : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے جو کہ حالت اقامت کا عمل ہے اور فتح کے دن والا عمل سفر کی حالت میں ہے پس مسافر ساری نمازیں ایک وضو سے بھی پڑھ سکتا ہے بظاہر اہل ظواہر نے ان روایات کو اپنا مستدل بنایا ہے۔
مسلک دوم :
حدث پیش آنے کی صورت میں تو وضو واجب ہے مگر وضو ہوتے ہوئے ہر نماز کے لیے وضو واجب نہیں مسافر کے لیے فریق مخالف نمبر ١ بھی اس کا قائل ہے اور مقیم کے لیے دیگر روایات کافی ثبوت ہیں ان روایات میں فضیلت کے لیے وضو کا احتمال ہے پس استدلال درست نہیں۔
روایات ملاحظہ ہوں۔

215

۲۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ وَابْنُ جُرَیْجٍ ، وَابْنُ سَمْعَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : ( ذَہَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی امْرَأَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَمَعَہٗ أَصْحَابُہٗ فَقَرَّبَتْ لَہُمْ شَاۃً مَصْلِیَّۃً فَأَکَلَ وَأَکَلْنَا ثُمَّ حَانَتِ الظُّہْرُ فَتَوَضَّأَ وَصَلّٰی ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی فَضْلِ طَعَامِہٖ فَأَکَلَ، ثُمَّ حَانَتَ الْعَصْرُ فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ صَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ بِوُضُوْئِہِ الَّذِیْ کَانَ فِیْ وَقْتِ الظُّہْرِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ وُضُوْئُ ہٗ لِکُلِّ صَلَاۃٍ عَلٰی مَا رَوَی ابْنُ بُرَیْدَۃَ ، کَانَ ذٰلِکَ عَلَی الْتِمَاسِ الْفَضْلِ لَا عَلَی الْوُجُوْبِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہَلْ فِیْ ھٰذَا مِنْ فَضْلٍ فَیَلْتَمِسُ قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ۔
٢١٥ : حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک انصاریہ کے ہاں اپنے بعض صحابہ (رض) سمیت تشریف لے گئے اس انصاریہ (رض) نے آپ کی خدمت میں بکری کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا جس میں سے آپ نے کھایا اور ہم نے بھی کھایا پھر ظہر کا وقت ہوگیا تو آپ نے وضو کیا اور نماز ادا فرمائی پھر بقیہ کھانے کی طرف دوبارہ لوٹے اور اسے کھایا پھر عصر کا وقت ہوگیا تو آپ نے صحابہ کو نماز پڑھائی اور دوبارہ وضو نہیں کیا۔ امام ابوجعفر طحاوی (رح) ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ روایت بتلا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر و عصر کی نماز ظہر والے وضو سے ادا فرمائی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرنا حصول فضیلت کے لیے ہو ‘ وجوب و لزوم کے طور پر نہ ہو۔ جیسا کہ ابن بریدہ (رض) کی روایت میں موجود ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہنے لگے کہ اس میں کیا فضیلت ہے کہ جس کو تلاش کیا جائے ؟ تو ہم عرض کریں گے جی ہاں ! اس میں فضیلت ملاحظہ ہو۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٥٩ روایت ٨٠۔
طحاوی فرماتے ہیں یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ آپ نے ظہر و عصر کو ایک وضو سے ادا فرمایا اور وہ ظہر والا وضو تھا اور گزشتہ روایات کے متعلق جیسا کہہ آئے کہ وہ حصول فضیلت کے لیے تھا نہ کہ وجوب کے لیے جیسا کہ فریق اول کو دھوکا ہوا۔
سوال : کیا یہ بھی فضیلت ہے کہ جس کو حاصل کرنا ہے۔
جواب : یہ بالکل فضیلت ہے جو مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہے۔

216

۲۱۶ : قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ عَنْ أَبِیْ غُطَیْفِ ڑالْہُذَلِیِّ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الظُّہْرَ فَانْصَرَفَ فِیْ مَجْلِسٍ فِیْ دَارِہٖ فَانْصَرَفْتُ مَعَہٗ حَتّٰی اِذَا نُوْدِیَ بِالْعَصْرِ دَعَا بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجْتُ مَعَہٗ فَصَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مَجْلِسِہٖ وَرَجَعْتُ مَعَہٗ حَتَّی اِذَا نُوْدِیَ بِالْمَغْرِبِ دَعَا بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ .فَقُلْتُ لَہٗ : أَیُّ شَیْئٍ ھٰذَا یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ؟ الْوُضُوْئُ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ ؟ فَقَالَ : وَقَدْ فَطِنْتُ لِھٰذَا مِنِّی ؟ لَیْسَتْ بِسُنَّۃٍ إِنْ کَانَ لَکَافٍ وُضُوْئِی لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ صَلَوَاتِی کُلَّہَا ؛ مَا لَمْ أُحْدِثْ ؛ وَلٰـکِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : ( مَنْ تَوَضَّأَ عَلَی طُہْرٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِذٰلِکَ عَشْرَ حَسَنَاتٍ) فَفِیْ ذٰلِکَ رَغِبْتُ یَا ابْنَ أَخِیْ.فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا فَعَلَ مَا رَوٰی عَنْہُ ابْنُ بُرَیْدَۃَ لِاِصَابَۃِ ھٰذَا الْفَضْلِ، لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ کَانَ وَاجِبًا عَلَیْہِ .وَقَدْ رَوٰی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَیْضًا ، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .
٢١٦ : ابو غطیف ھذلی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر وہ گھر میں اپنے بیٹھنے کی جگہ آگئے میں بھی ان کے ساتھ آیا یہاں تک کہ جب عصر کی اذان ہوئی تو انھوں نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر وہ بھی نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا اور عصر کی نماز ان کی معیت میں پڑھ کر اپنی مجلس کی طرف لوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ جب مغرب کی اذان ہوئی تو انھوں نے پانی منگوا کر وضو کیا میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن یہ کیا ہے ؟ ہر نماز کے لیے وضو ؟ تو فرمانے لگے کیا تو میری یہ بات سمجھ گیا ؟ یہ سنت نہیں ہے اگرچہ میرا صبح کی نماز والا وضو تمام نمازوں کے لیے کافی ہے جب تک کہ میں حدث میں مبتلا نہ ہوں لیکن میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے طہارت (وضو ہوتے ہوئے) وضو کیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے بدلے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔ اے میرے بھتیجے اسی وجہ سے میں نے اس کی طرف رغبت و شوق کا اظہار کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٣٢‘ روایت ٦٢‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٤٤‘ روایت ٥٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٣‘ روایت ٥١٢۔
امام طحاوی (رح) کا اشارہ :
حضرت بریدہ (رض) والی روایت سے کئے جانے والے استدلال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے حصول فضیلت کے لیے ہر نماز کے لیے وضو کیا بالکل اسی طرح حضرت بریدہ (رض) نے اس فضیلت کے حصول کے لیے ایسا کیا ہو اس بناء پر نہیں کہ وضو ہر نماز کے لیے فرض واجب تھا اور اس پر استشہاد کے لیے مندرجہ ذیل روایت ملاحظہ ہو۔

217

۲۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : ( أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ مِنْہُ فَقُلْتُ لِأَنَسٍ : أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ .قُلْتُ : فَأَنْتُمْ ؟ قَالَ : کُنَّا نُصَلِّی الصَّلَوَاتِ بِوُضُوْئٍ). فَھٰذَا أَنَسُ قَدْ عَلِمَ حُکْمَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَرَ ذٰلِکَ فَرْضًا عَلٰی غَیْرِہٖ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ وَہُوَ وَاجِبٌ ثُمَّ نُسِخَ ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، ہَلْ نَجِدُ شَیْئًا مِنَ الْآثَارِ یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی .
٢١٧ : عمرو بن عامر حضرت انس (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں وضو کا پانی لایا گیا آپ نے اس سے وضو کیا میں نے انس (رض) سے سوال کیا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے لیے وضو فرماتے تھے ؟ تو انھوں نے جواب دیا جی ہاں میں نے کہا کیا تم بھی ؟ تو انس کہنے لگے ہم تمام نمازیں ایک وضو سے پڑھتے تھے۔ یہ حضرت انس (رض) ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل سے وہی حکم معلوم کیا جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اور انھوں نے اس کو دوسروں پر فرض قرار نہیں دیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ کہا کہ اس وقت یہ واجب تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ اس بات پر غور کرنے کے لیے ہم ایسے آثار تلاش کرتے ہیں جو اس معنیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٥٤
امام طحاوی (رح) کا اشارہ :
یہ روایت جو ہم نے حضرت انس (رض) کے حوالہ سے نقل کی ہے اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کا تذکرہ ہے حضرت انس (رض) نے اس فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وضو کو ہر نماز کے لیے نہ فرض سمجھا اور نہ فرض قرار دیا بلکہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے فضل سمجھا۔
ایک احتمال :
فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس طرح حصول فضل کا احتمال ہے تو یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آپ پر پہلے واجب ہو اور پھر منسوخ ہوگیا ہو اس احتمال کی تائید میں آثار میں تلاش کرنے پر مندرجہ ذیل ابو داؤد کی روایت سامنے آئی۔

218

۲۱۸ : فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لَہٗ : أَرَأَیْتَ تَوْضُّؤُ ابْنُ عُمَرَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ ، طَاہِرًا کَانَ أَوْ غَیْرَ طَاہِرٍ ؟ عَمَّ ذَاکَ ؟ قَالَ حَدَّثَتْنِیْہِ أَسْمَائُ ابْنَۃُ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ : أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ حَنْظَلَۃَ بْنِ أَبِیْ عَامِرٍ حَدَّثَہَا : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْوُضُوْئِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ طَاہِرًا کَانَ أَوْ غَیْرَ طَاہِرٍ ؛ فَلَمَّا شَقَّ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أَمَرَ بِالسِّوَاکِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ).وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَرٰی أَنَّ بِہٖ قُوَّۃً عَلٰی ذٰلِکَ ؛ فَکَانَ لَا یَدَعُ الْوُضُوْئَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَمَرَ بِالْوُضُوْئِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ ثُمَّ نَسَخَ ذٰلِکَ ، فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْوُضُوْئَ یُجْزِئُ مَا لَمْ یَکُنِ الْحَدَثُ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ إِیْجَابُ السِّوَاکِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ ؛ فَکَیْفَ لَا تُوْجِبُوْنَ ذٰلِکَ وَلَا تَعْمَلُوْنَ بِکُلِّ الْحَدِیْثِ ؛ اِذَا کُنْتُمْ قَدْ عَمِلْتُمْ بِبَعْضِہٖ. قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُصَّ بِالسِّوَاکِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ دُوْنَ أُمَّتِہٖ. وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا ہُمْ وَہُوَ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائٌ وَلَیْسَ یُوْصَلُ إِلٰی حَقِیْقَۃِ ذٰلِکَ إِلَّا بِالتَّوْقِیفِ .فَاعْتُبِرْنَا ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ شَیْئًا یَدُلُّنَا عَلَی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَإِذَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ۔
٢١٨ : محمد بن یحییٰ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کیا تم نے اپنے والد کو ہر نماز کے لیے وضو کرتے دیکھا ہے خواہ وہ وضو سے ہوتے یا حدث کی حالت میں ہوتے ؟ وہ ایسا کس وجہ سے کرتے تھے ؟ (اس پر) عبداللہ کہنے لگے مجھے اسماء بنت زید (رض) بن خطاب نے بیان کیا کہ ان کو عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر نے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کا حکم ہوا خواہ پہلے وضو ہو یا نہ ہو جب یہ بات آپ پر گراں ہوگئی تو پھر ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم دیا (گویا وضو کا حکم ہر نماز کے لیے منسوخ کردیا گیا) جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ جب تک وضو نہ ٹوٹے اس وقت تک پہلا وضو کافی ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس روایت میں تو ہر نماز کے لیے مسواک کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور تم اس کو واجب نہیں سمجھتے تاکہ مکمل حدیث پر عمل ہو اور جبکہ تم اس کے بعض حصہ پر عمل کرتے ہو۔ اس کو یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ مسواک کا ہر نماز کے لیے واجب ہونا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خاص ہو نہ کہ امت کے لیے اور یہ بھی درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) اس سلسلہ میں برابر ہوں۔ اس بات کی حقیقت کی طرف پہنچنا اسی وقت ممکن ہے جب اس سلسلے میں پوری واقفیت حاصل کریں۔ پس ہم نے سوچا کہ کیا کوئی روایت ہمیں ایسی مل جاتی ہے جو اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٢٥‘ روایت ٤٨‘
امام طحاوی (رح) کا اشارہ :
ابن عمر (رض) خیال کرتے تھے کہ ان کو اس بات کی ہمت ہے پس وہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے اور ترک نہ فرماتے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر نماز کے لیے وضو کا حکم تھا پھر بعد میں یہ منسوخ ہوگیا اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جب تک حدث پیش نہ آئے سابقہ وضو کفایت کر جائے گا۔
ایک اعتراض :
تم حدیث پر مکمل عمل کے دعویدار ہو حالانکہ حدیث بالا سے تو ہر نماز کے لیے مسواک کا وجوب ثابت ہو رہا ہے تم اس کی سنیت کے قائل ہو تو حدیث کے ایک حصہ پر عمل کرتے اور دوسرے کو چھوڑتے ہو۔
جواب : ہر نماز کے لیے مسواک کا وجوب آپ کی ذات گرامی کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ وضو کا عمل بھی آپ کے ساتھ خاص تھا امت کے لیے ایسا حکم نہ تھا ورنہ صحابہ کرام بھی ضرور ایسا کرتے اس میں روایات کی طرف رجوع کرنا ہوگا کیونکہ اس کا دارومدار ثبوت پر ہے جو ثابت ہوجائے وہ سر آنکھوں پر چنانچہ روایات ملاحظہ ہوں۔

219

۲۱۹ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَسَارٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَلِیٍّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِیْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ).
٢١٩ : ابو رافع نے حضرت علی بن معبد (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
تخریج : بخاری باب الجمعہ باب ٩ والصوم باب ٢٧‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٤٢‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٢٥‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ١٨‘ مسند احمد ١؍٨٠‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍٣٧‘ ابن خزیمہ ١؍١٧٤‘

220

۲۲۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَسَارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : ثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ .
٢٢٠ : عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم سے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی ہی روایت نقل فرمائی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٩٦

221

۲۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَلَفِ ڑالْغِفَارِیُّ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ ، مَا کَتَبْنَاہُ إِلَّا عَنِ ابْنِ مَرْزُوْقٍ .
٢٢ : نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح ارشاد فرمایا ہے۔
قول طحاوی (رح) :
یہ روایت غریب ہے ہم نے اس کو ابن مرزوق کی سند سے لکھا ہے۔
(ابن مرزوق کی روایت میں نکارت پائی جاتی ہے)
تخریج : معجم الکبیر ١٢؍٢٨٧

222

۲۲۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا أَبَیٌّ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ ابْنِ الْحَارِثِ التَّمِیْمِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٢ : ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے زید بن خالد (رض) اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی بات نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٧‘ ترمذی ١؍١٢‘ ١٣

223

۲۲۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ ڑ الْمَقْبُرِیُّ عَنْ عَطَائٍ مَوْلٰی أُمِّ صَبِیَّۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٣ : عطاء مولیٰ ام صبیہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : بیہقی ١؍٥٨

224

۲۲۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَا : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِیْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ).
٢٢٤ : حمید بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔
تخریج : بیہقی ١؍٥٧‘ باختلاف قلیل من اللفظ۔

225

۲۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِیْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ وُضُوْئٍ )
٢٢٥ : حمید بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ان کو ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔
تخریج : بیہقی ١؍٥٧‘ ایضا التمھید ٧؍١٩٤

226

۲۲۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ؛ قَالَ : أَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ؛ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ؛ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ؛ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِیْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ).
٢٢٦ : ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
تخریج : ترمذی ١؍١٢

227

۲۲۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ: ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ سَعِیْدِ ڑالْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٢٧ : سعید المقبری نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٢٥

228

۲۲۸ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، یَرْفَعُہٗ .مِثْلَہٗ .فَثَبَتَ بِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِیْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ ) أَنَّہٗ لَمْ یَأْمُرْہُمْ بِذٰلِکَ وَأَنَّ ذٰلِکَ لَیْسَ عَلَیْہِمْ ؛ وَأَنَّ فِی ارْتِفَاعِ ذٰلِکَ عَنْہُمْ - وَہُوَ الْمَجْعُوْلُ بَدَلًا مِنَ الْوُضُوْئِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ - دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْوُضُوْئَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِمْ وَلَا أُمِرُوْا بِہٖ وَأَنَّ الْمَأْمُوْرَ بِہٖ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُوْنَہُمْ وَأَنَّ حُکْمَہٗ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ غَیْرَ حُکْمِہِمْ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَقَدْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ ارْتِفَاعِ وُجُوْبُ الْوُضُوْئِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ؛ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْوُضُوْئَ طَہَارَۃً مِنْ حَدَثٍ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الطَّہَارَاتِ مِنَ الْأَحْدَاثِ کَیْفَ حُکْمُہَا ؟ وَمَا الَّذِیْ یُنْقِضُہَا ؟ فَوَجَدْنَا الطَّہَارَاتِ الَّتِیْ تُوْجِبُہَا الْأَحْدَاثُ عَلٰی ضَرْبَیْنِ : فَمِنْہَا الْغُسْلُ ، وَمِنْہَا الْوُضُوْئُ ، فَکَانَ مَنْ جَامَعَ أَوْ أَجْنَبَ ، وَجَبَ عَلَیْہِ الْغُسْلُ ، وَکَانَ مَنْ بَالَ أَوْ تَغَوَّطَ ، وَجَبَ عَلَیْہِ الْوُضُوْئُ .فَکَانَ الْغُسْلُ الْوَاجِبُ بِمَا ذَکَرْنَا لَا یُنْقِضُہٗ مُرُوْرُ الْأَوْقَاتِ وَلَا یُنْقِضُہٗ إِلَّا الْأَحْدَاثُ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ الطَّہَارَۃِ مِنَ الْجِمَاعِ وَالْاِحْتِلَامِ کَمَا ذَکَرْنَا ، کَانَ فِی النَّظَرِ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ الطَّہَارَاتِ مِنْ سَائِرِ الْأَحْدَاثِ کَذٰلِکَ وَأَنَّہٗ لَا یَنْقُضُ ذٰلِکَ مُرُوْرُ وَقْتٍ کَمَا لَا یَنْقُضُ الْغُسْلَ مُرُوْرُ وَقْتٍ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّا رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوا أَنَّ الْمُسَافِرَ یُصَلِّی الصَّلَوَاتِ کُلِّہَا بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ یُحْدِثْ .وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوْا فِی الْحَاضِرِ فَوَجَدْنَا الْاَحْدَاثَ مِنَ الْجِمَاعِ وَالْاِحْتِلَامِ وَالْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَکُلَّ مَا اِذَا کَانَ مِنَ الْحَاضِرِ کَانَ حَدَثًا یُوْجِبُ بِہٖ عَلَیْہِ طَہَارَۃً ، فَإِنَّہٗ اِذَا کَانَ مِنَ الْمُسَافِرِ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا وَجَبَ عَلَیْہِ مِنَ الطَّہَارَۃِ مَا یَجِبُ عَلَیْہِ لَوْ کَانَ حَاضِرًا .وَرَأَیْنَا طَہَارَۃً أُخْرٰی یُنْقِضُہَا خُرُوْجُ وَقْتٍ وَہِیَ الْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ ؛ فَکَانَ الْحَاضِرُ وَالْمُسَافِرُ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً ؛ یَنْقُضُ طَہَارَتُہُمَا خُرُوْجُ وَقْتٍ مَا ؛ وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ الْوَقْتُ فِیْ نَفْسِہِ مُخْتَلِفًا فِی الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ؛ وَإِنَّمَا یَنْقُضُ طَہَارَۃُ الْحَاضِرِ مِنْ ذٰلِکَ یَنْقُضُ طَہَارَۃُ الْمُسَافِرِ ، وَکَانَ خُرُوْجُ الْوَقْتِ عَنِ الْمُسَافِرِ لَا یَنْقُضُ طَہَارَۃً ، کَانَ خُرُوْجُہٗ عَنِ الْمُقِیْمِ أَیْضًا کَذٰلِکَ ، قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا مِنْ ذٰلِکَ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٢٨ : اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوع روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا۔ پس اس قول : ((لولا ان اشق علی امتی)) یعنی اگر میری امت پر گرانی نہ ہوتی تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دیتا حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم نہیں دیا اور ان پر لازم بھی نہیں اور اس کے ختم کردینے میں جبکہ یہ ہر نماز کے لیے وضو کا بدل ہے تو اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو ان پر لازم نہیں تھا اور نہ اس کا حکم ملا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف حکم تھا اور اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ان سے مختلف تھا اس باب کی روایات کہ معنی کی تصحیح اسی طریق سے ہے اور اس سے ہر نماز کے لیے وضو لازم ہونے کے حکم کا اٹھ جانا بھی ثابت ہوگیا۔ بطور نظر و فکر کے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ وضو حدث سے طہارت کا کام دیتا ہے جب ہم احداث سے طہارتیں حاصل کرنے پر غور کرتے ہیں کہ ان کا حکم کیا ہے اور کونسی چیز طہارت کو توڑنے والی ہے تو ہم نے ایسی طہارتیں پائیں جو حدث سے لازم ہوتی ہیں ‘ ان کو دو قسم پر پایا۔ ایک ان میں سے غسل اور دوسرا وضو ہے۔ پس جس شخص نے جماع کیا یا اسے احتلام ہوا تو اس پر غسل لازم ہے اور جس نے پیشاب یاپاخانہ کیا تو اس پر وضو واجب ہے اور اس غسل واجب کو جس کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا اوقات کا گزرنا نہیں توڑتا ‘ اس کو توڑنے والی چیز صرف حدث ہے۔ پس جب یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ طہارت کا حکم جماع اور احتلام کی حالت میں ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا تو غور و فکر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تمام طہارتوں کا حکم تمام احداث سے اسی طرح ہو کہ ان طہارتوں کو غسل کی طرح وقت کا گزرنا نہ توڑے ایک اور دلیل یہ ہے کہ ہم نے علماء کرام کو اس بات پر متفق پایا کہ مسافر ایک وضو سے تمام نمازیں پڑھے جب تک کہ حدث لاحق نہ ہو۔ مقیم کے بارے میں ان کو مختلف الرائے پایا۔ ہم نے غور کیا کہ احداث یہ چیزیں ہیں : جماع ‘ احتلام ‘ پیشاب و پاخانہ۔ ان میں سے جو چیز مقیم کو پیش آئے گی اس پر طہارت کو لازم کر دے گی۔ اس لیے کہ جب وہ مسافر تھا تو اس پر اسی طرح ہی لازم تھا اور اسی پر وہی طہارت لازم تھی جو مقیم ہونے کی حالت میں اس پر لازم ہوتی ‘ ہمیں ایک اور ایسی طہارت ملی جسے وقت کا نکلنا توڑ دیتا ہے اور اس میں مقیم و مسافر دونوں اس بات میں برابر ہیں کہ وقت کا نکلنا ان کی طہارت کو باطل کر دے۔ اگرچہ فی نفسہٖ وقت مقیم و مسافر کا الگ الگ ہو۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو ہم نے ذکر کیا وہ اسی طرح ہی ہے اور جو چیز مقیم کی طہارت کو توڑنے والی ہے وہی مسافر کی طہارت کو توڑنے والی ہے اور وقت کا نکل جانا جیسے مسافر کی طہارت کو نہیں توڑتا اسی طرح مقیم کی طہارت کو بھی نہیں توڑتا۔ قیاس و نظر تو ہمارے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا مسلک ہے اور یہی بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ (رض) اور تابعین (رح) کی جماعت نے کہی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٦ مسلم ١؍١٢٨ بخاری ١؍٣٠٣
امام طحاوی (رح) کا ارشاد :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی : لو لا ان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک عند کل صلوۃ “ جس کو اوپر دس اسناد سے ذرا اختلاف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت پر لازم نہیں فرمایا (البتہ ترغیب دی) اور یہ حکم امت پر لازم بھی نہ تھا پھر اس کے منسوخ ہونے کی بات ان سے کیونکر منقول ہوتی۔
بلکہ وہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہر نماز کے وضو کے بدلے لازم کیا گیا۔
اور یہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو صحابہ کرام پر لازم نہ تھا اور نہ ہی ان کو اس کا حکم دیا گیا وہ حکم تو آپ کی ذات کے ساتھ خاص تھا اور اس سلسلہ میں آپ کا حکم دوسرے لوگوں سے مختلف تھا اگر باب کی روایات میں اس وجہ کو ملحوظ رکھا جائے تو روایات میں بآسانی موافقت ہوسکتی ہے اور اس سے یہ بات پورے طور پر ثابت ہوگئی کہ ہر نماز کے لیے وجوب وضو کا حکم آپ سے بھی اٹھا لیا گیا۔
طحاوی (رح) کی نظری دلیل نمبر ١:
ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وضو حدث سے طہارت کا نام ہے اب احداث سے طہارات کے احکام پر غور کیا تاکہ ہمیں طہارت کا حکم اور طہارت کو توڑنے والی چیزوں کا بخوبی علم ہوجائے غور کرنے پر طہارات کی کل دو قسمیں پائیں۔
نمبر ! غسل نمبر " وضو
غسل :
ان لوگوں پر لازم ہے جو جنابت و جماع میں مبتلا ہوں۔
وضو :
ان لوگوں پر واجب ہے جو پیشاب و پائخانہ وغیرہ سے فارغ ہوں ذرا غور کرنے سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ غسل واجب جب کرلیا تو اوقات کا گزرنا اس کو نہیں توڑ سکتا غسل کے ٹوٹنے کی وہی صورتیں ہیں جو مذکور ہوئیں اور اوپر یہ بات ثابت ہوچکی کہ طہارت اکبر یعنی غسل کا حکم نجاست اکبر یعنی جماع و احتلام کے ساتھ خاص ہے اور فکرونظر کا فیصلہ یہی بنتا ہے کہ تمام احداث صغیرہ کبیرہ سے طہارت کا حکم اسی طرح ہونا چاہیے کہ وہ بھی غسل کی طرح فقط مرور زمانہ سے ٹوٹنے نہ پائے۔

دلیل ثانی ایک اور انداز سے توجہ فرمائیں :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مسافر پانچوں نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھ سکتا ہے جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے البتہ مقیم کے متعلق اختلاف کیا گیا ہم نے دیکھا کہ مقیم کے متعلق حدث کو لازم کرنے والی چیزیں جماع ‘ احتلام ‘ پیشاب و پائخانہ ہے اور مسافر کے لیے بھی یہی ہیں مسافر پر بھی ان چیزوں سے طہارت لازم ہے جن سے مقیم کو لازم ہے البتہ طہارت کی ایک اور قسم مسح علی الخفین (موزوں پر مسح) ایسی ہے جس کے لیے وقت کا نکلنا بھی ناقض ہے اور اس میں مسافر و مقیم حکم میں یکساں ہیں اگرچہ مسافر و مقیم کے لیے وقت کی طوالت و قصر کا تو فرق ہے مگر طہارت کے ٹوٹنے میں قطعاً فرق نہیں۔
پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس چیز سے مسافر کی طہارت ٹوٹتی ہے اسی سے مقیم کی طہارت بھی ٹوٹتی ہے ان کے مابین نقض طہارت میں کوئی فرق نہیں مسافر کے لیے خروج وقت ناقض طہارت نہیں تو مقیم کے لیے پھر قیاس و نظر کے لحاظ سے کس طرح خروج وقت مبطل طہارت ہوگا۔ فتدبر۔
یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) محمد (رح) کا قول ہے اور صحابہ وتابعین کی ایک کثیر جماعت کا یہی قول ہے جیسا مندرجہ روایات و آثار سے ظاہر ہے۔

229

۲۲۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَبِیْ عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ أَصْحَابَ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ تَوَضَّؤُوْا وَصَلُّوا الظُّہْرَ .فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ قَامُوْا لِیَتَوَضَّئُوا فَقَالَ لَہُمْ : ( مَا لَکُمْ ؟ أَحْدَثْتُمْ ؟ ) فَقَالُوْا : لَا ، فَقَالَ : ( الْوُضُوْئُ مِنْ غَیْرِ حَدَثٍ ، لِیُوْشِکَ أَنْ یَقْتُلَ الرَّجُلُ أَبَاہُ ، وَأَخَاہُ ، وَعَمَّہُ ، وَابْنَ عَمِّہٖ ، وَہُوَ یَتَوَضَّأُ مِنْ غَیْرِ حَدَثٍ).
٢٢٩ : حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کے ساتھیوں نے وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی جب عصر کا وقت آیا تو وہ ووضو کے لیے اٹھنے لگے تو ابو موسیٰ اشعری (رض) فرمانے لگے تمہیں کیا ہوا ؟ کیا تمہارا وضو ٹوٹ گیا ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں تو کہنے لگے بغیر حدث کے وضو کرنے میں اس قدر اہتمام کرنا اسی طرح کی محرومی ہے کہ جیسا وارث اپنے مورث کو قتل کر کے وراثت سے اپنے کو محروم کرے۔ مثلاً بیٹا باپ کو یا اپنے بھائی یا چچا یا ابن عم کو قتل کر دے وغیرہ۔

230

۲۳۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ : کُنَّا نُصَلِّی الصَّلَوَاتِ کُلَّہَا بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ نُحْدِثْ .
٢٣٠ : عمرو بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے سنا وہ فرماتے تھے ہم تو تمام نمازیں اس وقت تک ایک وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے جب تک ہمیں حدث پیش نہ آتی تھی۔
تخریج : بخاری : ١ / ٨٧

231

۲۳۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ .ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ .ثَنَا شُعْبَۃٌ قَالَ .
٢٣١ : عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کرتے جب تک کہ ان کو حدث پیش نہ آتی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٣

232

۲۳۲ : أَخْبَرَنِیْ مَسْعُوْدُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، أَنَّ سَعْدًا کَانَ یُصَلِّی الصَّلَوَاتِ کُلَّہَا بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ ، مَا لَمْ یُحْدِثْ .حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ عِکْرِمَۃَ ، وَزَادَ وَکَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ ، وَیَتْلُو ( اِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَلَیْسَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ - عِنْدَنَا - دَلِیْلٌ عَلَی وُجُوْبِ الْوُضُوْئِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہُ ذٰلِکَ عَلَی الْقِیَامِ وَہُمْ مُحْدِثُوْنَ .أَلَا تَرٰی أَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوا أَنَّ حُکْمَ الْمُسَافِرِ ہُوَ ھٰذَا ؟ أَوْ أَنَّ الْوُضُوْئَ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ حَتّٰی یُحْدِثَ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ ھٰذَا حُکْمُ الْمُسَافِرِ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ وَقَدْ خُوطِبَ بِہَا کَمَا خُوطِبَ الْحَاضِرُ ، ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ الْحَاضِرِ فِیْہَا کَذٰلِکَ أَیْضًا .وَقَدْ قَالَ ابْنُ الْفَغْوَائِ : إِنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا أَحْدَثُوا لَمْ یَتَکَلَّمُوْا حَتّٰی یَتَوَضَّئُوا ، فَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ ( اِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ ) فَأَخْبَرَ أَنَّ ذٰلِکَ إِنَّمَا ہُوَ الْقِیَامُ إِلَی الصَّلَاۃِ بَعْدَ حَدَثٍ .
٢٣٢ : عبدالصمد کہتے ہیں کہ ہمیں شعبہ نے اپنی اسناد سے اسی طرح ذکر کیا البتہ انھوں نے سند میں عکرمہ کا ذکر نہیں کیا اور یہ اضافہ روایت میں فرمایا علی بن ابی طالب (رض) ہر نماز کے لیے وضو کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے تھے : اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ [المائدۃ ] امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک تو اس آیت میں ہر نماز کے لیے وضو کے واجب ہونے کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ یہ ارشاد نماز کی تیاری کے لیے اس حالت میں ہو جبکہ وہ بےوضو ہو۔ کیا اس بات پر تم سب فقہاء کو متفق نہیں پاتے کہ مسافر کے لیے یہی حکم ہے اور حدث کے بغیر اس پر وضو لازم نہیں پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسافر کا یہ حکم اس آیت سے ثابت ہے تو جس طرح اس سے مسافر کو خطاب کیا گیا اس طرح مقیم کو بھی خطاب کیا گیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقیم کا حکم بھی مسافر کی طرح ہے۔ ابن فغواء نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) جب بےوضو ہوجاتے تو بغیر وضو کے کلام نہ کرتے۔ بس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : { اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ } [المائدۃ ] کہ یہ بتلا دیا کہ یہ حکم حدث کے بعد نماز کی طرف جانے کے وقت ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٤ عبدالرزاق ١؍٥٨
طحاوی (رح) کا ارشاد :
اس کا دوسرا حصہ خلاف نظر آتا ہے تو اس کا جواب دے رہے ہیں نمبر ١: کہ آیت میں وجوب وضو لکل صلوۃ کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ بات جائز ہے کہ اس سے وہ قیام مراد لیا جائے جو حالت حدث والا ہو کیا تم اس بات کو نہیں دیکھتے کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مسافر کا بھی یہی حکم ہے یا اس پر بھی وضو اسی وقت واجب ہے جب وہ حالت حدث میں ہو جب یہ حکم مسافر کا ثابت ہوگیا تو اس کا مخاطب مسافر کی طرح مقیم بھی ہے۔ نمبر ٢: عمرو بن الفغواء نے تو نقل کیا کہ وہ لوگ جب بےوضو ہوجاتے تو اس وقت تک گفتگو نہ کرتے جب تک وضو نہ کرلیتے پس یہ آیت نازل ہوئی : اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصّلٰوۃِ [المائدۃ : ٦] اور ان کو بتلایا کہ یہ وضو اس وقت ضروری ہے جبکہ حدث کے بعد نماز کی طرف جانے کا ارادہ ہو جیسا باب الحیض میں آئے گا۔ نمبر ٣: اس روایت کا ایک جواب اس روایت سے ہے جس میں علی (رض) کا بیان کنت رجلاً مزائً تو اس عارضہ کی وجہ سے آپ ہر نماز کے ساتھ وضو کرتے نہ کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو فرض ہے۔
مزید تین آثار ایک وضو سے تمام نمازیں پڑھنے سے متعلق پیش کر رہے ہیں۔

233

۲۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ مَرَّۃً أُخْرٰی قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مَسْعُوْدِ بْنِ عَلِیٍّ بِذٰلِکَ وَلَمْ یَذْکُرْ عِکْرِمَۃَ .
٢٣٣ : شعبہ نے مسعود بن علی سے اوپر والی روایت بیان کی مگر عکرمہ کا تذکرہ نہیں کیا۔

234

۲۳۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ : أَنَّ شُرَیْحًا کَانَ یُصَلِّی الصَّلَوَاتِ کُلَّہَا بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ .
٢٣٤ : محمد کہتے ہیں کہ شریح (رح) تمام نمازیں ایک وضو سے ادا کرتے تھے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ کتاب الطھارات ١؍٢٩

235

۲۳۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرٰی بِذٰلِکَ بَأْسًا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔
٢٣٥ : یزید بن ابراہیم نے بیان کیا کہ حضرت حسن بصری (رح) اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے کہ تمام نمازیں ایک وضو سے ادا کریں۔ واللہ اعلم۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٤ نمبر ٢٨٤ تا ٢٩٧

236

۲۳۶ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أُمَیَّۃُ بْنُ بِسْطَامٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ خَلِیْفَۃَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ ، أَنَّ ( عَلِیًّا أَمَرَ عَمَّارًا أَنْ یَسْأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَذْیِ فَقَالَ : یَغْسِلُ مَذَاکِیْرَہُ وَیَتَوَضَّأُ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ غَسْلَ الْمَذَاکِیْرِ وَاجِبٌ عَلَی الرَّجُلِ اِذَا أَمَذَی وَإِذَا بَالَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْأَثَرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی إِیْجَابِ غَسْلِ الْمَذَاکِیْرِ ، وَلَکِنَّہُ لِیَتَقَلَّصَ الْمَذْیُ فَلَا یَخْرُجُ .قَالُوْا : وَمِنْ ذٰلِکَ مَا أَمَرَ بِہٖ الْمُسْلِمُوْنَ فِی الْہَدْیِ اِذَا کَانَ لَہٗ لَبَنٌ أَنْ یَنْضَحَ ضَرْعَہُ بِالْمَائِ ، لِیَتَقَلَّصَ ذٰلِکَ فِیْہِ ، فَلَا یَخْرُجُ .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً بِمَا یَدُلُّ عَلٰی مَا قَالُوْا فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٢٣٦ : رافع بن خدیج نقل کرتے ہیں علی مرتضی (رض) نے عمار (رض) کو کہا کہ وہ جناب سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذی کا حکم دریافت کرلے۔ چنانچہ دریافت کرنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے مزاکیرکو دھو ڈالے اور وضو کرلے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی کو مذی آجائے یا پیشاب کی حالت ہو تو اسے اعضاء تناسل کا دھو لینا ضروری ہے۔ انھوں نے مذکورہ بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے اعضاء تناسل کے دھونے سے وجوب ثابت نہیں ہوتا بلکہ منی کو نکلنے سے روکنے کا طریقہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی نظیر وہ حکم ہے جس کا مسلمانوں کو ہدی کے سلسلے میں جبکہ وہ دودھ والا جانور ہو حکم دیا گیا کہ اس کے تھنوں پر ٹھنڈا پانی چھڑکا جائے تاکہ دودھ نکلنے سے رک جائے اور ہماری اس بات کے ثبوت میں مندرجہ ذیل آثار شاہد ہیں۔
تخریج : نسائی فی الطھارۃ ١؍٣٦‘ باب ١١١ المعجم الکبیرالطبرانی ١؍٢٨٥
اس اثر کو دلیل بنا کر کہا گیا کہ جب مذی آئے یا پیشاب کیا جائے تو مزاکیر کو مکمل دھونا واجب ہے۔
جواب : امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ مزاکیہ کے دھونے کا حکم اس طور پر واجب نہ تھا کہ اس سے مذی نکلی ہے بلکہ انقطاع مذی اور مزاکیر کے سکیڑنے کے لیے یہ حکم کیا گیا اس کی نظیر موجود ہے کہ جب ہدی و قربانی کا جانور دودھ والا ہو تو مالک کو تھنوں پر پانی چھڑکنا چاہیے تاکہ تھن سکڑ جائیں اور دودھ منقطع ہوجائے یہ بھی اسی طرح ہے تاکہ مذی کا نکلنا رک جائے۔
جمہور اہلسنّت کے ہاں منی ناپاک ہے ائمہ ثلاثہ کے ہاں اس سے پاکیزگی کے لیے چھینٹے اور دھونا تجویز کیا جبکہ احناف دھونے اور ڈھیلے دونوں سے پاک ہونے کے قائل ہیں اس باب میں بتلاتے ہیں کہ بعض ائمہ یعنی امام مالک ابن حنبل (رح) کے ہاں خروج مذی کے بعد قضیب اور خصیتین دونوں کو دھونا ضروری ہے اور احناف و شوافع صرف موضع نجاست کے دھونے کو کافی قرار دیتے ہیں۔

237

۲۳۷ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَا : ثَنَا عَمْرُو ابْنُ مُحَمَّدِ ڑالنَّاقِدُ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدَۃُ ابْنُ حُمَیْدٍ عَنَِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ( کُنْتُ رَجُلًا مَذَّائً فَأَمَرْتُ رَجُلًا یَسْأَلُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ فِیْہِ الْوُضُوْئُ).
٢٣٧ : حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں حضرت علی (رض) فرمانے لگے میں بہت مذی والا تھا میں نے ایک آدمی کو کہا کہ وہ اس کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرے (انہوں نے دریافت کیا) تو آپ نے فرمایا اس میں فقط وضو ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٤٣

238

۲۳۸ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُنْذِرٍ أَبِیْ یُعْلَی الثَّوْرِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ قَالَ سَمِعْتہ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : ( کُنْتُ أَجِدُ مَذْیًا ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ أَنْ یَسْأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ ، وَاسْتَحْیَیْتُ أَنْ أَسْأَلَہٗ لِأَنَّ ابْنَتَہٗ عِنْدِی ، فَسَأَلَہٗ ، فَقَالَ : إِنَّ کُلَّ فَحْلٍ یُمْذِیْ ، فَإِذَا کَانَ الْمَنِیُّ فَفِیْہِ الْغُسْلُ ، وَإِذَا کَانَ الْمَذْیُ فَفِیْہِ الْوُضُوْئُ).
٢٣٨ : محمد بن حنیفہ (رح) اپنے والد حضرت (علی مرتضیٰ (رض)) سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے مذی آتی تھی تو میں نے مقداد کو کہا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کریں اور مجھے پوچھنے سے حیاء مانع ہوا کیونکہ آپ کی بیٹی میرے گھر تھی مقداد نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر مذکر کو مذی آتی ہے جب مذی آئے تو اس میں وضو ہے اور جب منی ہو تو اس میں غسل ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٢‘ روایت ٢١١‘ مسند احمد ٤؍٣٤٢

239

۲۳۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ ، عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ( کُنْتُ رَجُلًا مَذَّائً وَکَانَتْ عِنْدِیْ بِنْتُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَوَضَّأْ وَاغْسِلْہُ).
٢٣٩ : ابو عبدالرحمن نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ مجھے مذی بہت آتی تھی اور آپ کی بیٹی میرے نکاح میں تھی پس میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیغام بھیج کر (مسئلہ دریافت) کیا تو ارشاد فرمایا وضو کرلو اور اسے دھو ڈالو۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٥١‘ والوضوء باب ٣٤‘ مسلم فی الحیض روایت ١٧‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٢‘

240

۲۴۰ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ ( سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَذْیِ ، فَقَالَ فِیْہِ الْوُضُوْئُ ، وَفِی الْمَنِیِّ الْغُسْلُ).
٢٤٠ : عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذی کے متعلق پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا اس میں وضو اور منی میں غسل لازم ہے۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٣‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٠‘ مسند احمد ١؍٨٧‘ ١١٠۔

241

۲۴۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ( عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنْتُ رَجُلًا مَذَّائً فَکُنْتُ اِذَا أَمَذَیْت اغْتَسَلْتُ ، فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ فِیْہِ الْوُضُوْئُ).
٢٤١ : ھانی بن ہانی نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے فرمایا مجھے بہت مذی آتی تھی جب مجھے مذی آتی تو میں غسل کرتا پس میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس میں وضو لازم ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٢‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١١١

242

۲۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ، قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ ح .
٢٤٢ : یہ روایت ابن خزیمہ نے اپنی سند کے ساتھ اسرائیل کے واسطہ سے انھوں نے اپنی سند سے حضرت علی مرتضی (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٠٨

243

۲۴۳ : وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٤٣ : ربیع المؤذن نے اپنی سند سے اسرائیل سے اور اس نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٠٨

244

۲۴۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ قَالَ : ثَنَا الرُّکَیْنُ بْنُ الرَّبِیْعِ الْفَزَارِیّ عَنْ حُصَیْنِ بْنِ قَبِیْصَۃَ ، عَنْ ( عَلِیٍّ قَالَ : کُنْتُ رَجُلًا مَذَّائً فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِذَا رَأَیْتُ الْمَذْیَ ، فَتَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَکَرَک ، وَإِذَا رَأَیْتُ الْمَنِیَّ فَاغْتَسِلْ).
٢٤٤ : حصین بن قبیصہ نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے تھے میں بہت زیادہ مذی والا آدمی تھا پس میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا جب تم مذی دیکھو تو وضو کرلو اور اپنے قضیب کو دھو لو اور جب تم منی دیکھو تو غسل کرلو۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣٤‘ مسلم فی الحیض روایت نمبر ١٧ ابو داؤد ١؍٢٧

245

۲۴۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَائِشَ بْنِ أَنَسٍ قَالَ : (سَمِعْتُ عَلِیًّا عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ : کُنْتُ رَجُلًا مَذَّائً ؑفَأَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْیَیْتُ مِنْہُ ، لِأَنَّ ابْنَتَہٗ کَانَتْ تَحْتِی ، فَأَمَرْتُ عَمَّارًا فَسَأَلَہٗ فَقَالَ : یَکْفِیْ مِنْہُ الْوُضُوْئُ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : أَفَلَا تَرٰی أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا ذَکَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَوْجَبَہُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ ، ذَکَرَ وُضُوْئَ الصَّلَاۃِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا کَانَ سِوَی وُضُوْئِ الصِّلَائِ مِمَّا أَمَرَ بِہٖ، فَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ لِغَیْرِ الْمَعْنَی الَّذِیْ وَجَبَ لَہٗ وُضُوْئُ الصَّلَاۃِ .وَقَدْ رَوٰی سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی ھٰذَا أَیْضًا .
٢٤٥ : عائش بن انس کہتے ہیں میں نے حضرت علی (رض) کو منبر پر فرماتے سنا مجھے بہت مذی آتی تھی میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کا ارادہ کیا مگر مجھے حیاء مانع نبی کیونکہ آپ کی بیٹی میرے نکاح میں تھی تو میں نے عمار کو کہا (ان کے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا) مذی آنے پر وضو کافی ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ علی المرتضیٰ (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے فقط نماز کے وضو کو واجب قرار دیا۔ پس اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ وضو کے علاوہ جس بات کا حکم دیا گیا وہ اس وجہ سے نہیں تھا جس سے مذی کی صورت میں وضو کو واجب فرمایا۔ چنانچہ سہل ابن حنیف (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے وہ اس بات کو واضح طور پر ثابت کرتی ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣٤‘ مسلم فی الحیض روایت ١٧
حاصل روایات : نوطرق سے روایت علی (رض) کو پیش کیا گیا اور اس سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوگئی کہ مذی سے فقط وضو ہے۔ اور ایک روایت میں واضح طور پر ذکر کا دھونا بھی مذکور ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خصیتین کا دھونا لازم نہیں ہے اگر کہیں مذکور ہو تو وہ مذی کے منقطع کرنے کے طور پر ہے اور وضو سے وضو صلوۃ ہی مراد ہے۔

سائل کون ؟
حضرت علی (رض) نے حضرت مقداد اور عمار (رض) کو کہا ان میں سے کسی نے سوال کیا وکیل کا فعل مؤکل کا شمار ہوتا ہے اس لیے بعض روایات میں حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے اس کی نسبت اپنی طرف کردی۔ (ابن حجر (رح) )
امام طحاوی فرماتے ہیں ان روایات سے ثابت ہوا کہ نماز کے وضو کے علاوہ جس چیز کا حکم ان میں ملتا ہے وہ درجہ وجوب میں نہیں صرف وضو ہی واجب ہے اور ہماری اس بات کی تائید مندرجہ روایات کر رہی ہیں۔

246

۲۴۶ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، وَسُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَا : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، أَنَّہُ ( سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَذْیِ ، فَقَالَ : فِیْہِ الْوُضُوْئُ).فَأَخْبَرَ أَنَّ مَا یَجِبُ فِیْہِ ، ہُوَ الْوُضُوْئُ ، وَذٰلِکَ یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ عَلَیْہِ مَعَ الْوُضُوْئِ غَیْرُہٗ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مَا یُوَافِقُ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فَذَکَرَ ۔
٢٤٦ : عبید بن السباق نے حضرت سہل بن حنیف (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذی کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا اس میں وضو لازم ہے۔ پس آپ نے اس بات کی اطلاع دی کہ جو چیز اس میں لازم ہے وہ وضو ہے اور اس سے اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ اس پر وضو کے علاوہ کوئی چیز ہو اور اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حضرت عمر (رض) سے تو ایسی روایت آئی ہے جو پہلے حضرات کے موافق ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٥٥‘ روایت ٢١٠‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٣‘ روایت ١١٥‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٠‘ روایت ٥٠٦‘ دارمی فی الوضوء باب ٤٩‘ ابن شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٩١
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں اس روایت سے یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ مذی میں وضو ہی واجب ہے اور کوئی چیز واجب نہیں۔
ایک اشکال :
حضرت عمر فاروق (رض) کے فتویٰ میں شرمگاہ کے علاوہ خصیتین کا دھونا بھی مذکور ہے روایت یہ ہے۔

247

۲۴۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : أَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیُّ ، أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ رَبِیْعَۃَ الْبَاہِلِیَّ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِیْ عُقَیْلٍ ، فَکَانَ یَأْتِیْہَا فَیُلَاعِبُہَا .فَسَأَلَ عَنْ ذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ : اِذَا وَجَدْتُ الْمَائَ فَاغْسِلْ فَرْجَکَ وَأُنْثَیَیْکَ، وَتَوَضَّأْ وُضُوْئَ ک لِلصَّلَاۃِ .قِیْلَ لَہٗ : یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ وَجْہُ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا صَرَفْنَا إِلَیْہِ وَجْہَ حَدِیْثِ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِمَّنْ بَعْدَہٗ ، مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ ۔
٢٤٧ سلیمان بن ربیعہ باہلی نے بنی عقیل کی ایک عورت سے نکاح کیا وہ اس کے ہاں جاتے اور ملاعبت کرتے (جس سے مذی خارج ہوتی تو انھوں نے) حضرت عمر (رض) سے سوال کیا کہ میں مذی کا پانی پاتا ہوں تو آپ نے فرمایا جب پانی پاؤتو اپنی شرمگاہ اور خصیتین کو دھولو اور پھر نماز والا وضو کرلو۔ اس کو یہ کہا جائے گا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا وہی مطلب ہو جو ہم نے رافع بن خدیج کی روایت کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ صحابہ (رض) اور تابعین (رح) کی ایک جماعت اسی کے موافق کہتی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٩١۔
جواب : اس روایت کا بھی وہی مطلب ہے جو حضرت رافع بن خدیج والی روایت کا بیان کیا گیا کہ شرمگاہ ا دھونا لازم تھا اور باقی خصیتین کا دھونا خروج مذی کو روکنے اور مزاکیر کے سکیڑنے کے لیے تھا۔ اور اس مفہوم کی موافقت صحابہ وتابعین کے مندرجہ اقوال سے پائی جاتی ہے۔

248

۲۴۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ۔
٢٤٨ : مؤمل بن اسماعیل نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان ثوری (رح) نے اسی کے موافق نقل کیا ہے۔

249

۲۴۹ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا ہِلَالُ بْنُ یَحْیَی بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، کِلَاہُمَا عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ مُوَرِّقِ ڑالْعِجْلِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ( ہُوَ الْمَنِیُّ وَالْمَذْیُ وَالْوَدْیُ).فَأَمَّا الْمَذْیُ وَالْوَدْیُ فَإِنَّہٗ یَغْسِلُ ذَکَرَہُ وَیَتَوَضَّأُ ، وَأَمَّا الْمَنِیُّ ، فَفِیْہِ الْغُسْلُ .
٢٤٩ : مورق العجلی نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا انھوں نے فرمایا مرد سے نکلنے والی تین چیزیں منی ‘ مذی ‘ ودی ہیں مذی اور ودی میں اپنے قضیب کو دھوئے اور وضو کرلے اور منی کی صورت میں غسل ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٩٢

250

۲۵۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِیْ جَمْرَۃَ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنِّیْ أَرْکَبُ الدَّابَّۃَ فَأُمْذِیَ .فَقَالَ : اغْسِلْ ذَکَرَکَ وَتَوَضَّأْ وُضُوْئَ ک لِلصَّلَاۃِ .أَفَلَا تَرٰی أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِیْنَ ذَکَرَ مَا یَجِبُ فِی الْمَذْیِ ذَکَرَ الْوُضُوْئَ خَاصَّۃً وَحِیْنَ أَمَرَ أَبَا جَمْرَۃَ أَمَرَہٗ مَعَ الْوُضُوْئِ بِغَسْلِ الذَّکَرِ .
٢٥٠ : ابو جمرہ کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) سے کہا کہ میں جانور پر سواری کرتا ہوں تو مذی آنے لگی ہے انھوں نے فرمایا اپنے قضیب کو دھولو اور نماز کے لیے وضو کرو۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ ابن عباس (رض) نے مذی سے لازم ہونے والی چیز کا جب ذکر کیا تو انھوں نے ابوحمزہ کو خاص طور وضو کے ساتھ اپنے عضو تناسل کو دھونا کا حکم دیا۔
تخریج : : عبدالرزاق ١؍١٥٨

ذرا غور فرمائیں :
کہ ابن عباس (رض) نے ابو جمرہ کو مذی کی صورت میں وضو کو واجب قرار دیا اور وضو کے ساتھ صرف قضیب کو دھونے کا حکم دیا معلوم ہوا کہ اور کسی چیز کا دھونا واجب نہ تھا۔

251

۲۵۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صُبَیْحٍ عَنِ الْحَسَنِ فِی الْمَذْیِ وَالْوَدْیِ ، قَالَ : ( یَغْسِلُ فَرْجَہٗ ، وَیَتَوَضَّأُ وُضُوْئَ ہُ لِلصَّلَاۃِ).
٢٥١ : ربیع بن صبیح نے حسن بصری (رح) نے مذی و ودی کے متعلق نقل کیا کہ اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور نماز کے لیے وضو کرلے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٩٢

252

۲۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : اِذَا أَمَذَی الرَّجُلُ ، غَسَلَ الْحَشَفَۃَ وَتَوَضَّأَ وُضُوْئَ ہُ لِلصَّلَاۃِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ ، فَقَدْ ثَبَتَ بِہٖ مَا وَصَفْنَا .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا رَأَیْنَا خُرُوْجَ الْمَذْیِ حَدَثًا ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی خُرُوْجِ الْأَحْدَاثِ ، مَا الَّذِیْ یَجِبُ بِہٖ ؟ .فَکَانَ خُرُوْجُ الْغَائِطِ ، یَجِبُ بِہٖ غَسْلُ مَا أَصَابَ الْبَدَنَ مِنْہُ ، وَلَا یَجِبُ غَسْلُ مَا سِوٰی ذٰلِکَ إِلَّا التَّطَہُّرَ لِلصَّلَاۃِ .وَکَذٰلِکَ خُرُوْجُ الدَّمِ مِنْ أَیِّ مَوْضِعٍ مَا خَرَجَ ، فِیْ قَوْلِ مَنْ جَعَلَ ذٰلِکَ حَدَثًا .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، خُرُوْجُ الْمَذْیِ الَّذِیْ ھُوَ حَدَثٌ ، لَا یَجِبُ فِیْہِ غُسْلٌ ، غَیْرَ الْمَوْضِعِ الَّذِیْ أَصَابَہٗ مِنَ الْبَدَنِ غَیْرَ التَّطَہُّرِ لِلصَّلَاۃِ ، فَثَبَتَ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا ذَکَرْنَا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٥٢ : زیادہ بن فیاض نے سعید بن جبیر سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا جب آدمی کو مذی آجائے تو حشفہ کو دھوئے اور نماز والا وضو کرے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں اس باب کے آثار کے معانی کی تصحیح کا یہی طریقہ ہے جو ہم نے بیان کیا اور اس سے وہی بات ثابت ہوئی جو ہم نے بیان کی۔ نظر و فکر کے لحاظ سے ہم عرض کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ مذی کا نکلنا وضو کو توڑنے کا باعث ہے۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ احداث کے نکلنے سے کیا چیز لازم ہوتی ہے تو پیشاب ‘ پاخانہ کے نکلنے سے بدن کے اسی حصے کا دھونا ضروری ہے جہاں نجاست پہنچتی ہے اس کے علاوہ بدن کا دھونا واجب نہیں مگر یہ کہ نماز کے لیے وہ پوری طہارت کرنا چاہتا ہو۔ اسی طرح جسم کے کسی مقام سے خون کا نکلنا۔ یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جو خون کے نکلنے کو حدث قرار دیتے ہیں۔ پس نظر تقاضا یہ ہے کہ منی کا نکلنا بھی حدث ہے اسی سے بھی اس جگہ کے علاوہ جہاں بدن میں لگے اور کسی مقام کا دھونا لازم نہیں۔ البتہ نماز کے لیے مکمل طہارت ضروری ہے۔ پس بطور نظر کے بھی ہماری بات ثابت ہوگئی۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد بن حسن (رح) کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٨٨
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ روایات کی رو سے یہ صورت ہی درست ہے جس سے روایات کے معانی درست رہتے ہیں۔
امام طحاوی (رح) نظری دلیل پیش کرتے ہیں
غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خروج نجاست خواہ وہ پائخانہ ہو یا پیشاب ‘ ودی ‘ یا جن کے ہاں خون و پیپ وغیرہ موجب حدث ہیں اور ان تمام میں موضع گنگی کے دھونے کے علاوہ اور کسی مقام کا دھونا لازم نہیں البتہ نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے مذی کا نکلنا بھی حدث ہے تو اس میں بھی اسی مقام کا دھونا لازم ہونا چاہیے نہ کہ غیر کا جس طرح روایات سے یہ مسئلہ ثابت ہے تو نظر سے بھی ثابت ہوگیا یہی امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن الحسن (رح) اور علمائے شوافع کا مسلک ہے۔
` بَابُ حُکْمِ الْمَنِیِّ ہَلْ ہُوَ طَاہِرٌ أَمْ نَجَسٌ `
کیا منی پاک ہے ؟
خلاصۃ الزام : منی : جسم انسانی سے نکلنے والا سفیدی مائل گاڑھا پانی جو شہوت کے ساتھ جوش سے نکلے مرد و عورت دونوں میں منی کا مادہ پایا جاتا ہے بس رنگتوں میں تھوڑا بہت فرق ہے : یخرج من بین الصلب الترائب احناف و مالکیہ کے ہاں تمام حیوانات کی منی ناپاک ہے شوافع و حنابلہ کے ہاں غیر انسان میں پاک و ناپاک کے دونوں قول ملتے ہیں۔
زیر بحث باب میں انسانی منی کے متعلق گفتگو ہوگی اس میں دو معروف مسالک ہیں نمبر شوافع و حنابلہ اس کو رینٹھ کی طرح قرار دے کر پاک کہتے ہیں اسی وجہ سے اس کے پانی میں پڑجانے سے اس کی ناپاکی کے قائل نہیں۔
مسلک ٢: احناف موالک و دیگر علماء کا ہے کہ منی ناپاک ہے اس کا دھونا واجب ہے البتہ امام مالک کے ہاں چھینٹا مارنا بھی کافی ہے خشک منی کو احناف کھرچ دینے سے کپڑے کو پاک قرار دیتے ہیں۔

253

۲۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ (ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ : أَنَّہٗ کَانَ نَازِلًا عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَاحْتَلَمَ ، فَرَأَتْہُ جَارِیَۃٌ لِعَائِشَۃَ ، وَہُوَ یَغْسِلُ أَثَرَ الْجَنَابَۃِ مِنْ ثَوْبِہٖ ، أَوْ یَغْسِلُ ثَوْبَہٗ ، فَأَخْبَرَتْ بِذٰلِکَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : لَقَدْ رَأَیْتنِیْ وَمَا أَزِیْدُ عَلٰی أَنْ أَفْرُکَہُ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).
٢٥ : ہمام بن الحارث کہتے ہیں کہ وہ حضرت عائشہ (رض) کے ہاں مہمان تھا اتفاقاً ان کو احتلام ہوگیا حضرت عائشہ (رض) کی لونڈی نے ان کو دیکھ لیا کہ وہ احتلام کے اثر کو کپڑے سے دھو رہے ہیں یا کپڑے کو دھو رہے ہیں لونڈی نے اس کی اطلاع حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو دی تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا میں نے اپنے کو اس طرح کرتے پایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے میں منی کو کھرچ دیا کرتی تھی۔ (یعنی خشک ہونے کی صورت میں دھوتی نہ تھی)
تخریج : مسلم فی الطھارۃ روایت ١٠٥‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٤‘ روایت ٣٧١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٨٧‘ مسند احمد ٦؍٣٥‘ دارقطنی ١؍١٢٥

254

۲۵۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ شُعْبَۃُ : أَنَا عَنِ الْحَکَمِ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٥٤ : شعبہ نے حکم سے روایت کی اور پھر حکم نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٣٥

255

۲۵۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نَحْوَہٗ۔
٢٥٥ : زید بن ابی انیسہ نے حکم سے اور حکم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

256

۲۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
٢٥٦ : اعمش نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے ہمام سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍٣١

257

۲۵۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ ، عَنْ زَیْدٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٢٥٧ : زید نے اعمش سے اور اعمش نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

258

۲۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : أَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ ، وَہَمَّامٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِثْلَہٗ .
٢٥٨ : ابراہیم نے اسود بن یزید اور ہمام سے اور انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت قتل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٤٠

259

۲۵۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٢٥٩ : منصور نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے ہمام سے اور ہمام نے عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٥٦

260

۲۶۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : ( لَقَدْ رَأَیْتنِیْ وَمَا أَزِیْدُ عَلٰی أَنْ أَحُتَّہُ مِنَ الثَّوْبِ فَإِذَا جَفَّ دَلَّکْتہ).
٢٦٠ : ہمام نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اس روایت میں وما ازید علی ان احتہ من الثوب فاذا جف دلکتہ ‘ میں اس سے زیادہ کچھ نہ کرتی کہ اس کو کپڑے سے چھیل دیتی اور جب وہ خشک ہوجاتا تو اس کو مل دیتی۔
اللغات : احتہ۔ حت یحت۔ چھیلنا ‘ دلکتہ۔ دلک۔ ملنا مائل ہونا۔
تخریج : ابو داؤد الطیاسی ١؍٢٩٩

261

۲۶۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنُ أَسْمَائَ قَالَ : ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ ( عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : لَقَدْ رَأَتْنِیْ عَائِشَۃُ ، وَأَنَا أَغْسِلُ جَنَابَۃً مِنْ ثَوْبِیْ فَقَالَتْ : لَقَدْ رَأَیْتنِیْ وَإِنَّہٗ لَیُصِیْبُ ثَوْبَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا یَزِیْدُ عَلٰی أَنْ یَفْعَلَ بِہٖ ھٰکَذَا تَعْنِیْ یَفْرُکُہُ).
٢٦١ : اسود کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے دیکھا کہ میں اپنے کپڑے سے جنابت دھو رہا ہوں تو ارشاد فرمایا مجھے تو یہ معلوم ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے کو جنابت پہنچ جاتی تو ہم اس کو اسی طرح کرتے اور بس ان کی مراد یہ تھی کہ ہم فقط اس کو خوب مل دیتے۔
اللغات : یفرکہ۔ کسی چیز کو اس قدر ملنا کہ چھلکے سے نکل آئے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٠١

262

۲۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا دُحَیْمٌ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ عَطَائٍ ، ( عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کُنْتُ أَفْرُکُہٗ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعْنِی الْمَنِیَّ).
٢٦٢ : عطاء نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی کہ میں جناب رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے اس کو (منی کو) چھیل دیا کرتی تھی۔
تخریج : بزاز

263

۲۶۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ عَنْ أَبِیْ مَخْلَدٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .
٢٦٣ : حارث بن نوفل حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کرتے ہیں۔
تخریج : نسائی ١؍٥٦

264

۲۶۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی السِّرِّیِّ قَالَ : ثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کُنْتُ أَفْرُکُ الْمَنِیَّ مِنْ مِرْطِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ مِرْطُنَا یَوْمَئِذٍ الصُّوْفُ).
٢٦٤ : عروہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر سے منی کو چھیل دیا کرتی تھی ہماری چادر اس وقت اون کی ہوتی تھی۔
اللغات : مرط جمع مروط۔ چادر ‘ ازار۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٦٣

265

۲۶۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیْمِ الْبَرْقِیُّ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کُنْتُ أَفْرُکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِذَا کَانَ یَابِسًا ، وَأَغْسِلُہُ أَوْ أَمْسَحُہُ ، اِذَا کَانَ رَطْبًا ) شَکَّ الْحُمَیْدِیُّ .
٢٦٥ : عمرہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ وہ فرماتی تھیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے منی کو چھیل دیتی تھی جبکہ وہ خشک ہوجاتی اور جب وہ تر ہوتی تو میں اس کو دھو ڈالتی یا پونچھ دیتی یہ حمیدی کو شک ہے کہ کون سے لفظ بشر نے فرمائے۔
تخریج : دارقطنی ١؍١٣١

266

۲۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ بُرْدٍ أَخِیْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ أَبِی شَقَّالَۃَ النَّخَعِیِّ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : ( کُنْتُ أَفْرُکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ). قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّحَاوِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہُ : فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ إِلٰی أَنَّ الْمَنِیَّ طَاہِرٌ ، وَأَنَّہٗ لَا یُفْسِدُ الْمَائَ وَإِنْ وَقَعَ فِیْہِ ، وَأَنَّ حُکْمَہٗ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمُ النُّخَامَۃِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ ہُوَ نَجَسٌ ، وَقَالُوْا : لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ ، لِأَنَّہَا إِنَّمَا جَائَ تْ فِیْ ذِکْرِ ثِیَابٍ یَنَامُ فِیْہَا وَلَمْ تَأْتِ فِیْ ثِیَابٍ یُصَلِّیْ فِیْہَا وَقَدْ رَأَیْنَا الثِّیَابَ النَّجِسَۃَ بِالْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَالدَّمِ لَا بَأْسَ بِالنَّوْمِ فِیْہَا وَلَا تَجُوْزُ الصَّلَاۃُ فِیْہَا ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْمَنِیُّ کَذٰلِکَ .وَإِنَّمَا یَکُوْنُ ھٰذَا الْحَدِیْثُ حُجَّۃً عَلَیْنَا لَوْ کُنَّا نَقُوْلُ : لَا یَصْلُحُ النَّوْمُ فِی الثَّوْبِ النَّجَسِ فَإِذَا کُنَّا نُبِیْحُ ذٰلِکَ وَنُوَافِقُ مَا رَوَیْتُمْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، وَنَقُوْلُ مِنْ بَعْدُ ، لَا یَصْلُحُ الصَّلَاۃُ فِیْ ذٰلِکَ ، فَلَمْ نُخَالِفْ شَیْئًا مِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ جَائَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْمَا کَانَتْ تَفْعَلُ بِثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْہِ اِذَا أَصَابَہُ الْمَنِیُّ مَا
٢٦٦ : ابو شقالہ نخعی نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتی تھیں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے منی کو چھیل دیا کرتی تھی (جبکہ وہ خشک ہوجاتی) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ منی پاک ہے اور یہ پانی کو ناپاک نہیں کرتی جب پانی میں گرجائے اور اس کا حکم رینٹھ والا ہے۔ مندرجہ بالا آثار کو انھوں نے دلیل بنایا۔ دیگر علماء نے ان سے اس سلسلے میں اختلاف کیا اور انھوں نے اس کو نجس قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ ان آثار میں تمہارے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ روایات نیند والے کپڑوں کے سلسلے میں وارد ہیں ‘ نماز کی ادائیگی والے کپڑوں کے متعلق نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پیشاب ‘ پاخانے اور خون سے ملوث کپڑوں میں نیند کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ ان میں نماز درست نہیں۔ منی کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ احادیث ہمارے خلاف تب دلیل بن سکتیں اگر ہم یہ کہتے کہ نجس کپڑوں میں سونا درست نہیں ہے۔ جب ہم اس کو مباح قرار دیتے ہیں اور جو تم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایتیں نقل کی ہیں ان کی موافقت کرتے ہیں اور اس کے خلاف یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسے کپڑوں میں نماز درست نہیں تو ہم اس سلسلے میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی بات کی مخالفت کرنے والے نہیں ٹھہرتے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس سلسلے کا وہ عمل مروی ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نماز والے کپڑوں کو جب منی پہنچ جاتی تو وہ اختیار فرماتی تھیں۔
تخریج : (ابو سفانہ یا ابو شقالہ) نخب الافکار)
حاصل روایات : ان روایات سے اس قدر معلوم ہوتا ہے منی خشک ہونے کی صورت میں کپڑے سے چھیل دی جاتی اور تر ہوتی تو دھو دی جاتی یا پونچھ دی جاتی اس سے ثابت ہوا کہ دھونا لازم نہیں جب دھونا لازم نہیں تو منی پاک ہے پس اگر پانی میں پڑجائے تو وہ پلید نہ ہوگا یہ رینٹھ کی طرح ہے یہ فریق اول کے دلائل کا حاصل ہے۔
جواب : امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں فریق ثانی منی کو ناپاک کہتا ہے اور تر ہونے کی صورت میں دھونے اور خشک ہونے کی صورت میں چھیلنے کو بھی درست قرار دیتا ہے ان کے قول کو اختیار کرنے کی صورت میں ان روایات کا جواب یہ ہے کہ ان میں ہمارے خلاف دلیل بالکل نہیں کیونکہ ان میں جن کپڑوں کا تذکرہ وارد ہے وہ ثیاب نیند ہیں نہ کہ ثیاب صلوۃ ۔ ثیاب نوم میں خشک منی کو کھرچ ڈالنے کے بعد اسی میں سو جانے میں کوئی حرج نہیں نماز والے کپڑوں کے سلسلہ میں یہ چیز وارد نہیں ہوئی بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ پائخانہ پیشاب و خون والے کپڑوں میں سونا ممنوع نہیں البتہ ان میں نماز کے جواز کا کوئی قائل نہیں پس نماز والے کپڑوں میں منی کا بھی وہی حکم ہونا چاہیے یہ روایات ہمارے خلاف دلیل نہیں بن سکتیں یہ اس وقت ہمارے خلاف ہوتیں جب ہم کہتے کہ نجس کپڑے کے ساتھ نیند کرنا درست نہیں۔ جب ہم اس کے قائل ہیں تو ہم بھی ان روایات کے عامل ہیں البتہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ان کپڑوں میں نماز درست نہیں نماز والے کپڑوں کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا طرز عمل کیا تھا وہ ملاحظہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل روایات پر غور کریں۔

267

۲۶۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَبِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ أَغْسِلُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاۃِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَائِ لَفِیْ ثَوْبِہٖ).
٢٦٧ : سلیمان بن یسار حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں وہ فرماتی تھیں میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے منی کو دھوتی تھی پس آپ نماز کے لیے نکلتے اور پانی کے اثرات کپڑے میں ظاہر ہوتے تھے۔
اللغات : بقع الماء پانی کا اثر جو ساتھ والے حصہ سے مختلف ہو مراد خشک نہ ہونا ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٦٤‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ١٠٨‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٤‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٦‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٨٦‘ مسند احمد ٦؍١٤٢‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٢؍٤١٨۔

268

۲۶۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ عَمْرٍو ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ۔
٢٦٨ ابو معاویہ نے عمرو سے اور عمرو بن میمون نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٤٨

269

۲۶۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا عَمْرٌو .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰکَذَا کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَفْعَلُ بِثَوْبِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْہِ ، تَغْسِلُ الْمَنِیَّ مِنْہُ وَتَفْرُکُہٗ مِنْ ثَوْبِہٖ الَّذِیْ کَانَ لَا یُصَلِّیْ فِیْہِ .وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ ، مَا رُوِیَ عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ .
٢٦٩ : یزید بن ہارون نے عمرو بن میمون سے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کپڑے کو دھو ڈالتیں جب نماز والے کپڑے کو منی پہنچ جاتی اور جس کپڑے میں نماز ادا نہ فرماتے اس سے منی کھرچ ڈالتیں اور حضرت امّ حبیبہ (رض) سے بھی اسی کے موافق یہ روایت وارد ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٤٢
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ان روایات ثلاثہ سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) آپ کے نماز والے کپڑے کو دھو ڈالتیں اور سونے والے کپڑے سے منی کو چھیل دیتی تھیں اور یہی بات حضرت ام حبیبہ (رض) کی روایات سے بھی ثابت ہو رہی ہے ملاحظہ ہو۔

270

۲۷۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَکْرِ بْنِ مُضَرَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ سُوَیْد بْنِ قَیْسٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ خَدِیْجٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ : أَنَّہُ ( سَأَلَ أُخْتَہٗ أُمَّ حَبِیْبَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِی الثَّوْبِ الَّذِیْ یُضَاجِعُک فِیْہِ ؟ فَقَالَتْ نَعَمْ اِذَا لَمْ یُصِبْہُ أَذًی).
٢٧٠ : حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) سے سوال کیا کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کپڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے جس میں تمہارے ساتھ آرام فرماتے وہ کہنے لگیں جی ہاں اسی میں نماز پڑھ لیتے اگر اس کو کوئی گندگی (منی وغیرہ) نہ پہنچی ہوتی۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٧٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٨٣‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٠٢۔

271

۲۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرٌو ، وَابْنُ لَہِیْعَۃَ ، وَاللَّیْثُ عَنْ یَزِیْدَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا ، مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ .
٢٧١ : عمرو بن میمون اور ابن الہیعہ اور لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : طبرانی کبیر ٢٣؍٢٢٠
خود حضرت عائشہ (رض) سے بھی اسی کے موافق روایت وارد ہے جو ذیل میں ملاحظہ ہو۔

272

۲۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُصَلِّیْ فِی لُحُفِ نِسَائِہِ).
٢٧٢ : عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج کی لپٹنے والی بڑی چادروں میں نماز نہ پڑھتے تھے۔
اللغات : لحف ‘ لحف و لحاف۔ لپٹنے والی بڑی چادر۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٢‘ ترمذی فی الحمعۃ باب ٦٧‘ نسائی فی الزینۃ باب ١١٥۔

273

۲۷۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ أَشْعَثَ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : فِی لُحُفِنَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یَکُنْ یُصَلِّیْ فِی الثَّوْبِ الَّذِیْ یَنَامُ فِیْہِ اِذَا أَصَابَہُ شَیْئٌ مِنَ الْجَنَابَۃِ ، وَثَبَتَ أَنَّ مَا ذَکَرَہُ الْأَسْوَدُ وَہَمَّامٌ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إِنَّمَا ہُوَ فِیْ ثَوْبِ النَّوْمِ ، لَا فِیْ ثَوْبِ الصَّلَاۃِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَہْلِ الْقَوْلِ الْأَوَّلِ عَلٰی أَہْلِ الْقَوْلِ الثَّانِیْ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٧٣ : شعبہ نے اشعث سے اور انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر لحف کی بجائے لحفنا کا لفظ ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان مذکورہ روایات سے ثابت ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے کپڑے میں نماز نہ ادا فرماتے تھے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیند کرتے جبکہ جنابت میں سے کوئی چیز اس کپڑے کو لگ جاتی اور اسود و ہمام نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے جو روایت کی وہ نیند والے کپڑے ہیں ‘ نماز والے کپڑے نہیں۔ پہلے قول والوں کی دوسرے قولوں والے لوگوں کے خلاف دلیل مندجہ ذلیل روایات ہیں۔
طحاوی (رح) کہتے ہیں ان روایات سے بھی اس بات کی تائید مل گئی کہ آپ اس کپڑے میں جس میں آرام فرماتے اگر جنابت وغیرہ سے کوئی چیز اس کو لگ جاتی تو آپ اس میں نماز نہ پڑھتے پس حضرت عائشہ (رض) کی وہ روایات جو ہمام و اسود نے نقل کی ہیں ان کا تعلق نیند والے کپڑوں سے ہے نماز والے کپڑوں سے متعلق نہیں ہے۔ روایت نمبر ٢٧٠ سے خاص طور پر اور دیگر روایات سے منی کا ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کو حیض کی طرح اَذٰی سے تعبیر فرمایا ہے۔

274

۲۷۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ أَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ عَنْ ( عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ أَفْرُکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَابِسًا بِأَصَابِعِیْ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ فِیْہِ وَلَا یَغْسِلُہُ).
٢٧٤ : ابراہیم نے علقمہ اور اسود سے اور انھوں نے عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں خشک منی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے انگلیوں سے چھیل دیا کرتی تھی پھر آپ اس میں نماز پڑھتے اور اس کپڑے کو دھوتے نہ تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٤‘ مسند احمد ٦؍١٢٥‘ ١٣٢۔

275

۲۷۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلہ .
٢٧٥ : ابراہیم نے ہمام سے اور انھوں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

276

۲۷۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَسُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَا : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ ( عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ أَفْرُکُہٗ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یُصَلِّیْ فِیْہِ).
٢٧٦ : ابراہیم نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں (خشک) منی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے سے چھیل دیا کرتی تھی پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے تھے۔

277

۲۷۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا قَزَعَۃُ بْنُ سُوَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدٌ الْأَعْرَجُ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .
٢٧٧ : مجاہد نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو عوانہ ١؍١٧٣ ببعض لفظہ

278

۲۷۸ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ مَیْمُوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِثْلَہٗ .قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّہَا کَانَتْ تَفْرُکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ الصَّلَاۃِ ، کَمَا تَفْرُکُہٗ مِنْ ثَوْبِ النَّوْمِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَلَیْسَ فِیْ ھٰذَا عِنْدَنَا دَلِیْلٌ عَلٰی طَہَارَتِہِ ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَتْ تَفْعَلُ بِہٖ ھٰذَا ، فَیَطْہُرُ بِذٰلِکَ الثَّوْبُ وَالْمَنِیُّ فِیْ نَفْسِہِ نَجَسٌ کَمَا قَدْ رُوِیَ فِیْمَا أَصَابَ النَّعْلَ مِنَ الْأَذَی .
٢٧٨ : قاسم بن محمد نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ آثار ظاہر کر رہے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نماز والے کپڑوں سے بھی منی کو اسی طرح کھرچ دیا کرتی تھیں جیسا کہ نیند والے لباس سے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان روایات میں ہمارے نزدیک کوئی ایک روایت بھی منی کی طہارت کو ثابت نہیں کرتی ‘ اس لیے کہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ اس طرح کھرچ دیتی ہوں کہ جس سے کپڑا پاک ہوجاتا ہو۔ رہی منی تو وہ نجس ہے جیسا کہ جوتے کو نجاست لگنے کے سلسلہ میں مروی ہے۔
تخریج : الطیاسی ١؍٢٠٢
خلاصہ روایات خمسہ :
ان روایات بالا سے معلوم ہوا کہ خشک منی کو کپڑے سے کھرچ دیا جائے تو کپڑا پاک ہوجاتا ہے اور اس میں نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ نیند والے کپڑے پر منی لگ کر خشک ہوجائے تو اس کو بھی چھیل دینے سے کپڑا پاک ہوجائے گا اور نماز پڑھی جاسکے گی۔
اشکال : فریق اول کے علماء کہتے ہیں جب صرف کھرچنے پر اکتفا کر کے بغیر دھوئے آپ نماز پڑھ لیا کرتے تھے تو ثابت ہوا کہ منی پاک ہے۔
حل اشکال : ان روایات میں تو منی کے پاک ہونے کی دلیل نہیں ہے منی ناپاک ہے اسے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں نمبر ایک دھو ڈالیں نمبر دو رگڑ کر اس کے آثار کو دور کردیا جائے اس کی نظیر جوتا ہے جس کو اذیٰ پہنچ جائے تو زمین پر رگڑنے سے وہ پاک ہوجائے گا پس روایات میں رگڑنے کا تذکرہ اس کا ثبوت نہیں کہ وہ منی پاک ہے جیسے کہ رگڑ کر جوتے کے پاک ہوجانے سے کوئی بھی گندگی کو پاک نہیں کہتا۔ اسی طرح ہم منی کے سلسلے میں عرض کریں گے کہ وہ فی نفسہ نجس ہو اور کپڑے سے اس کا ازالہ رگڑنے سے ہوجائے اور وہ کپڑا پاک شمار ہو۔
مس اذیٰ والی روایت اس طرح ہے۔

279

۲۷۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِیْدِ ڑ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( اِذَا وَطِیَٔ أَحَدُکُمَ الْأَذَیْ بِخُفِّہٖ ، أَوْ بِنَعْلِہِ ، فَطَہُوْرُہُمَا التُّرَابُ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَانَ ذٰلِکَ التُّرَابُ یُجْزِئُ عَنْ غَسْلِہِمَا، وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی طَہَارَۃِ الْأَذَی فِیْ نَفْسِہِ .فَکَذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا فِی الْمَنِیِّ ، یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ حُکْمُہُ عِنْدَ ہُمَا کَذٰلِکَ یَطْہُرُ الثَّوْبُ بِإِزَالَتِہِمْ إِیَّاہُ عَنْہُ بِالْفَرْکِ وَہُوَ فِیْ نَفْسِہِ نَجَسٌ ، کَمَا کَانَ الْأَذَی یَطْہُرُ النَّعْلُ بِإِزَالَتِہِمْ إِیَّاہُ عَنْہَا ، وَہُوَ فِیْ نَفْسِہِ نَجَسٌ .فَاَلَّذِیْ وَقَفْنَا عَلَیْہِ مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فِی الْمَنِیِّ ، ہُوَ أَنَّ الثَّوْبَ یَطْہُرُ مِمَّا أَصَابَہٗ مِنْ ذٰلِکَ بِالْفَرْکِ اِذَا کَانَ یَابِسًا وَیُجْزِیُٔ ذٰلِکَ مِنَ الْغُسْلِ وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ھٰذَا ، دَلِیْلٌ عَلَی حُکْمِہِ ہُوَ فِیْ نَفْسِہِ ، أَطَاہِرٌ ہُوَ أَمْ نَجَسٌ ؟ .فَذَہَبَ ذَاہِبٌ إِلَی أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ - عِنْدَہَا - نَجَسًا ، وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٧٩ : سعید مقبری حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا موزہ یا جوتا ایذاء (پائخانہ وغیرہ) سے ملوث ہوجائے تو مٹی ان کے لیے طہارت کا باعث ہے (مٹی سے رگڑے جانے کے بعد پاک ہوجائیں گے) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ مٹی ان دونوں کو دھونے کے بجائے خود پاک کرتی ہے۔ اس میں بذات خود نجاست کے پاک ہونے کی تو کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح جو کچھ ہم نے منی کے متعلق نقل کیا ہے ‘ ممکن ہے کہ ان کے ہاں اس کا حکم بھی اسی طرح ہو کہ اسے کھرچ کر دور کردینے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے لیکن بذات خود وہ ناپاک ہے جس طرح جوتے سے نجاست کا ازالہ کردیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے حالانکہ نجاست بذات نجس و ناپاک ہی ہو۔ ہمیں ان آثار مرویہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ منی اگر کپڑے کو لگ جائے تو کپڑے کو اس سے پاک کرنے کا ایک طریقہ کھرچنا بھی ہے جبکہ منی خشک ہوجائے اور یہ چیز اس کے دھونے کی بجائے کفایت کر جائے گی۔ ان میں سے کسی بھی روایت میں ذاتی لحاظ سے منی کا حکم موجود نہیں کہ وہ پاک ہے یا ناپاک۔ چنانچہ اس کی نجاست کی طرف جانے والے علماء نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ایسی روایت بیان کی ہے جو ان کے ہاں اس کے نجس ہونے کو ثابت کرتی ہے ‘ روایت ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٧‘ روایت ٣٨٥
مٹی سے موزے وغیرہ کا بغیر دھوئے پاک ہوجانا پائخانہ کی طہارت کی دلیل نہیں اسی طرح منی سے بغیر دھوئے صرف رگڑ سے کپڑے کا پاک ہونا اس کی طہارت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
حاصل کلام : یہ ہے کہ روایات بالا سے منی کے طاہر یا نجس ہونے کا کوئی حکم بھی معلوم نہیں ہوتا۔

280

۲۸۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ فِی الْمَنِیِّ اِذَا أَصَابَ الثَّوْبَ " اِذَا رَأَیْتَہٗ فَاغْسِلْہُ وَإِنْ لَمْ تَرَہُ فَانْضَحْہُ " .
٢٨٠ : قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے منی کے متعلق فرمایا جبکہ وہ کپڑے کو لگ جائے تو فرمایا جب تم دیکھو اس کو خوب دھو ڈالو اگر نظر آئے اور جب نظر نہ آئے تو دھو لو۔
اللغات : فانضحہ۔ نضح دھونے کے معنی میں آتا ہے ہے چھڑکنا نہیں۔

281

۲۸۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٨١ : اسی طرح شعبہ نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

282

۲۸۲ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَنَا أَبُوْ بَکْرٍ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَمَّتِی تُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَۃَ مِثْلَہٗ .
٢٨٢ : ابوبکر بن حفص نے اپنی پھوپھی سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

283

۲۸۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ قَالَ : فَھٰذَا ، قَدْ دَلَّ عَلَیْ نَجَاسَتِہِ عِنْدَہَا .قِیْلَ : لَہُ مَا فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْتُ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ حُکْمُہُ عِنْدَہَا ، حُکْمُ سَائِرِ النَّجَاسَاتِ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَالدَّمِ ، لَأَمَرَتْ بِغَسْلِ الثَّوْبِ کُلِّہٖ اِذَا لَمْ یَعْرِفْ مَوْضِعَہٗ مِنْہٗ .أَلَا تَرٰی أَنَّ ثَوْبًا لَوْ أَصَابَہُ بَوْلٌ فَخَفِیَ مَکَانُہٗ أَنَّہٗ لَا یُطَہِّرُہُ النَّضْحُ وَأَنَّہٗ لَا بُدَّ مِنْ غَسْلِہٖ کُلِّہِ ، حَتّٰی یَعْلَمَ طَہُوْرَہُ مِنَ النَّجَاسَۃِ .فَلَمَّا کَانَ حُکْمُ الْمَنِیِّ - عِنْدَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا - اِذَا کَانَ مَوْضِعُہُ مِنَ الثَّوْبِ ، غَیْرَ مَعْلُوْمٍ - النَّضْحُ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَہٗ ، کَانَ عِنْدَہَا ، بِخِلَافِ سَائِرِ النَّجَاسَاتِ وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، فَرُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٨٣ : شعبہ نے اپنی اسناد سے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے منی کے نجس ہونے کی دلالت مل گئی ‘ اس کے جواب میں اسے کہا جائے گا کہ جو کچھ آپ ذکر کر رہے ہیں اس میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ بقول آپ کے اگر ان کے ہاں اس کا حکم پیشاب ‘ پائخانہ ‘ خون والا ہے تو وہ ضرور تمام کپڑے کو دھونے کا حکم کرتیں اس لیے کہ اس کی جگہ نامعلوم تھی۔ ذرا آپ خود غور فرمائیں کہ اگر کسی کپڑے کو پیشاب کے قطرات پہنچ جائیں اور اس کی جگہ مخفی ہو تو اس پر فقط پانی کا بہا دینا اس کو پاک نہیں کرسکتا بلکہ پورے کپڑے کو دھونا ضروری ہے تاکہ نجاست سے اس کا پاک ہونا ظاہر ہوجائے۔ جب منی کا حکم حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ہاں فقط پانی بہا دینا ہے جبکہ کپڑے میں اس کی جگہ معلوم نہ ہو ‘ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کے ہاں اس کا حکم تمام نجاستوں سے مختلف ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا بھی اس میں اختلاف روایات میں آیا ہے۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فی نفسہٖ منی ان کے ہاں ناپاک ہے۔
S: ان روایات میں تو نجاست منی کی دلیل نہیں پائی جاتی اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر منی کا حکم بھی ان کے ہاں دیگر نجاسات بول و براز اور خون کی طرح ہوتا تو وہ نجاست کا مقام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے تمام کپڑے کو دھونے کا حکم فرمائیں کیونکہ جب کسی کپڑے کو پیشاب لگ جائے اور اس کی جگہ یقینی طور پر معلوم نہ ہو تو اس سارے حصے یا سارے کپڑے کو دھونا لازم ہے تاکہ نجاست سے اس کے پاک ہونے کا یقین ہوجائے۔
مگر یہاں منی لگنے کا مقام نامعلوم ہونے کی صورت میں انھوں نے نضح کا حکم دیا ہے پس اس سے یہ امر واضح ہوگیا کہ اس کا حکم ان کے ہاں دیگر نجاسات کی طرح نہیں ہے۔
آسان توضیح :
یہ کہ کپڑا اپنے اصل کے لحاظ سے پاک ہے اور اس پر یقین ہے اور نجاست کا معاملہ مشکوک ہے اور شک سے یقین بدل نہیں سکتا اس لیے انھوں نے پانی چھڑکنے کا حکم رفع وساوس کے لیے کیا ہے۔
ایک وضاحت :
منی کے سلسلہ میں صحابہ کرام (رض) کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے مندرجہ روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں۔

284

۲۸۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ أَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ ، أَنَّہٗ کَانَ یَفْرُکُ الْجَنَابَۃَ مِنْ ثَوْبِہٖ .فَھٰذَا یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ ، کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ لِأَنَّہُ - عِنْدَہُ - طَاہِرٌ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ کَمَا یُفْعَلُ بِالرَّوْثِ الْمَحْکُوْمِ مِنَ النَّعْلِ لَا لِأَنَّہُ - عِنْدَہُ - طَاہِرٌ .
٢٨٤ : مصعب اپنے والد سعد (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے کپڑے سے جنابت کو کھرچ دیتے تھے۔ اس عمل میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اپنے کپڑے سے اس کو اس لیے کھرچتے تھے اور وہ ان کے ہاں طاہر ہے اور ان کے فعل میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جوتے سے لگے ہوئے گوبر کو زمین پر رگڑ دینے کی طرح خیال کرتے ہیں۔ اس بناء پر نہیں کہ وہ ان کے ہاں پاک ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٤
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
اس روایت میں دو احتمال ہیں نمبر ١: منی کو وہ کھرچ ڈالتے دھونے کی ضرورت نہ خیال کرتے تھے کیونکہ یایھا الذین امنوا اب جب کہ وہ ان کے ہاں پاک تھی۔ نمبر ٢: یہ بھی احتمال ہے کہ وہ نجس خیال کرتے ہوں مگر جس طرح گوبر جوتے پر لگ جائے تو زمین پر رگڑنے سے وہ پاک ہو اسی طرح منی سے کپڑا بھی کھرچنے سے پاک ہوجاتا ہے۔

285

۲۸۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَاطِبٍ أَنَّہٗ اعْتَمَرَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی رَکْبٍ ، فِیْہِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ ، وَأَنَّ عُمَرَ عَرَّسَ بِبَعْضِ الطَّرِیْقِ ، قَرِیْبًا مِنْ بَعْضِ الْمِیَاہِ .فَاحْتَلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ کَادَ أَنْ یُصْبِحَ ، فَلَمْ یَجِدْ مَائً فِی الرَّکْبِ ، فَرَکِبَ حَتّٰی جَائَ الْمَائَ ، فَجَعَلَ یَغْسِلُ مَا رَأَی مِنَ الِاحْتِلَامِ ، حَتّٰی أَسْفَرَ .فَقَالَ لَہٗ عَمْرٌو : أَصْبَحْتُ ، وَمَعَنَا ثِیَابٌ ، فَدَعْ ثَوْبَکَ ، فَقَالَ عُمَرُ : بَلْ أَغْسِلُ مَا رَأَیْتُ وَأَنْضَحُ مَا لَمْ أَرَہٗ.
٢٨٥ : یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ عمرہ کیا اس قافلے میں حضرت عمرو بن العاص (رض) بھی تھے ۔ حضرت عمر (رض) نے ایک پانی کے قریب رات کے پچھلے حصہ میں قیام کیا حضرت عمر (رض) کو احتلام ہوگیا صبح قریب ہوگئی قافلے میں پانی موجود نہ تھا پس آپ سوار ہو کر پانی کے پاس آئے پس احتلام کے اثر کو اپنے کپڑے سے دھونے لگے یہاں تک کہ سپیدا ہوگیا عمر (رض) کہنے لگے آپ نے صبح کردی ہمارے پاس کپڑے ہیں (وہ لے لیں) اور اپنے کپڑے کو (فی الحال) رہنے دیں تو عمر (رض) نے کہا میں احتلام کا جو اثر نظر آتا ہے اس کو دھوتا ہوں اور جو نظر نہیں آتا (محض شبہ پڑتا ہے) وہاں پانی چھڑکتا ہوں (تاکہ وسوسہ نہ ہو)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٣‘ عبدالرزاق ١؍٣٧٠

286

۲۸۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ زَیْدِ بْنِ الصَّلْتِ أَنَّہٗ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِلَی الْجَرْفِ فَنَظَرَ ، فَإِذَا ہُوَ قَدْ احْتَلَمَ وَلَمْ یَغْتَسِلْ فَقَالَ : وَاللّٰہِ مَا أَرَانِیْ إِلَّا قَدْ احْتَلَمْتُ ، وَمَا شَعَرْتُ ، وَصَلَّیْت وَمَا اغْتَسَلْتُ ، فَاغْتَسَلَ ، وَغَسَلَ مَا رَأَی فِیْ ثَوْبِہٖ وَنَضَحَ مَا لَمْ یَرَہٗ .فَأَمَّا مَا رَوَی یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عُمَرَ ، فَہُوَ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ عُمَرَ فَعَلَ مَا لَا بُدَّ لَہٗ مِنْہُ ، لِضِیْقِ وَقْتِ الصَّلَاۃِ وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أَحَدٌ مِمَّنْ کَانَ مَعَہُ ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی مُتَابَعَتِہِمْ إِیَّاہُ عَلٰی مَا رَأَی مِنْ ذٰلِکَ .وَأَمَّا قَوْلُہُ " وَأَنْضَحُ مَا لَمْ أَرَہُ بِالْمَائِ " فَإِنَّ ذٰلِکَ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ " وَأَنْضَحُ مَا لَمْ أَرَ مِمَّا أَتَوَہَّمُ أَنَّہٗ أَصَابَہُ ، وَلَا أَتَیَقَّنُ ذٰلِکَ " حَتّٰی یَقْطَعَ ذٰلِکَ عَنْہُ الشَّکَّ فِیْمَا یُسْتَأْنَفُ وَیَقُوْلُ : ھٰذَا الْبَلَلُ مِنَ الْمَائِ .
٢٨٦: زید بن ا ّ لصلت کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ مقام جرف کی طرف گیا آپ نے اپنے کپڑے کو دیکھا تو احتلام کا اثر نظر آیا حالانکہ آپ نے غسل نہ کیا تھا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم مجھے احتلام ہوگیا ہے اور مجھے معلوم بھی نہیں ہوا اور میں نے نماز پڑھ لی حالانکہ میں نے غسل نہ کیا تھا پس آپ نے غسل کیا اور کپڑے پر جہاں احتلام کا اثر نظر آیا اس کو دھو ڈالا اور جہاں نظر نہ آیا وہاں پانی چھڑک دیا۔ فاروقِ اعظم (رض) کے اس عمل میں یہ احتمال ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ میں اس مقام پر پانی چھڑک لیتا ہوں جہاں کوئی نجاست کا اثر نظر تو نہیں آتا لیکن پہنچنے کا وہم ہے تاکہ یہ شک جو ہے منقطع ہوجائے اور دوبارہ لوٹانے کا وہم ہو تو وہ یہ سمجھیں کہ یہ پانی کی تری ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٨٢
حضرت عمر (رض) کے طرز عمل سے منی کا ناپاک ہونا تو بالکل ظاہر ہے اور دیگر حضرات کا نکیر نہ کرنا بھی تائید کی دلیل ہے البتہ نضح کا معاملہ تو وہ دفع وسوسہ کے لیے تھا تاکہ جہاں اثر جنابت یقینی معلوم ہو تو اس کو دھو لیا جائے اور جہاں اثر نہ ہو اور پھر وسوسہ اندازی کے خطرہ سے بچنے کے لیے وہاں پانی چھڑک دیا تاکہ معلوم ہو کہ یہ تو پانی کا اثر ہے پس اس سے ظاہر ہوا کہ وہ منی کو نجس سمجھتے تھے۔

287

۲۸۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ - فِی الْمَنِیِّ یُصِیْبُ الثَّوْبَ - " إِنْ رَأَیْتَہٗ فَاغْسِلْہُ ، وَإِلَّا فَاغْسِلِ الثَّوْبَ کُلَّہٗ " .فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَرَاہُ نَجَسًا۔
٢٨٧: طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا جب منی کپڑے کو لگ جائے تو اسی مقام کو دھو ڈالو ورنہ تمام کپڑے کو دھو ڈالو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٢
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) یقیناً اسے نجس خیال کرتے ہیں۔

288

۲۸۸ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ حَبِیْبٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ " امْسَحُوْا بِإِذْخِرٍ " .فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ یَرَاہُ طَاہِرًا .
٢٨٨: سعید بن جبیر حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کرتے ہیں (کہ وہ منی کے متعلق فرمانے لگے) اس کو اذخر کے ساتھ پونچھ دو ۔ اس میں یہ دلالت ہے کہ وہ اس کو پاک قرار دیتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٥
طحاوی (رح) کہتے ہیں اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ منی ان کے ہاں پاک ہے۔

289

۲۸۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، نَحْوَہٗ۔
٢٨٩ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٨٣ ٩٢٤

290

۲۹۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْمَنِیِّ یُصِیْبُ الثَّوْبَ قَالَ " انْضَحْہُ بِالْمَائِ " .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِالنَّضْحِ ، الْغُسْلَ ، لِأَنَّ النَّضْحَ قَدْ یُسَمَّیْ غَسْلًا ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( إِنِّی لَأَعْرِفُ مَدِیْنَۃً یَنْضَحُ الْبَحْرُ بِجَانِبِہَا ) یَعْنِیْ یَضْرِبُ الْبَحْرُ بِجَانِبِہَا .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عُمَرَ ، أَرَادَ غَیْرَ ذٰلِکَ .
٢٩٠: جبلہ بن سحیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسی منی کے متعلق سوال کیا جو کپڑے کو لگ جائے تو فرمایا اس کو پانی سے دھو ڈال۔ اس میں یہ بھی جائز ہے کہ نضح کا معنی غسل (ڈھونا) ہو کیونکہ نضح کا غسل پر بھی اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ((انی اعرف مدینۃ لیضح البحر بجانبھا)) یعنی میں ایک ایسے شہر کو جانتا ہوں جس کے ایک کنارے کو سمندر ٹکراتا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ابن عمر (رض) نے اس سے اور کچھ مراد لی ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٣
اس روایت میں دو احتمال ہیں نمبر ١: نضح سے دھونا مراد لیا جائے کیونکہ نضح اس معنی میں مستعمل ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” انی لاعرف مدینۃ ینضح البحر بجانبھا “ اس روایت کو مسند احمد ١؍٤٤ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے نقل کیا گیا ہے۔ اور ابن عمر (رض) سے مسند احمد ٢؍٣٠ میں ” عمان “ کے اضافے کے ساتھ مذکور ہے معنی یہ ہے میں ایک ایسے شہر کو جانتا ہوں جس کے پہلو میں سمندر لہریں مارتا ہے۔

دوسرا احتمال :
ممکن ہے کہ ابن عمر (رض) کی مراد چھڑکنا ہو۔

291

۲۹۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَۃَ وَأَنَا عِنْدَہٗ ، عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّیْ فِی الثَّوْبِ الَّذِیْ یُجَامِعُ فِیْہِ أَہْلَہٗ ، قَالَ : صَلِّ فِیْہِ ، إِلَّا أَنْ تَرَی فِیْہِ شَیْئًا فَتَغْسِلُہُ وَلَا تَنْضَحُہُ ، فَإِنَّ النَّضْحَ لَا یَزِیْدُہُ إِلَّا شَرًّا .
٢٩١ عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے اس وقت سوال کیا گیا جبکہ میں ان کے پاس تھا کیا کوئی مرد اس کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے جس کپڑے میں لپٹ کر وہ اپنے گھر والوں سے جماع کرتا ہے انھوں نے فرمایا اس میں اگر کوئی گندگی کا نشان نہ پائے تو نماز پڑھ لے اور اگر کوئی نشان پائے تو اسے دھو ڈالے اور اس پر پانی نہ چھڑکے کہ چھڑکنے سے گندگی میں اضافہ کرے (یعنی پھیلاؤ ہوجائے) گا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٣

292

۲۹۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ قَالَ : ثَنَا السِّرِّیُّ بْنُ یَحْیٰی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ بْنِ رَشِیْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنْ قَطِیْفَۃٍ أَصَابَتْہَا جَنَابَۃٌ لَا یَدْرِیْ أَیْنَ مَوْضِعُہَا ، قَالَ : اغْسِلْہَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَلَمَّا اخْتَلَفَ فِیْہِ ھٰذَا الِاخْتِلَافَ ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْمَا رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَلِیْلٌ عَلَی حُکْمِہِ کَیْفَ ہُوَ ؟ اعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَوَجَدْنَا خُرُوْجَ الْمَنِیِّ حَدَثًا أَغْلَظَ الْأَحْدَاثِ ، لِأَنَّہُ یُوْجِبُ أَکْبَرَ الطَّہَارَاتِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْأَشْیَائِ الَّتِیْ خُرُوْجُہَا حَدَثٌ کَیْفَ حُکْمُہَا فِیْ نَفْسِہَا ؟ .فَرَأَیْنَا الْغَائِطَ وَالْبَوْلَ ، خُرُوْجُہُمَا حَدَثٌ ، وَہُمَا نَجَسَانِ فِیْ أَنْفُسِہِمَا .وَکَذٰلِکَ دَمُ الْحَیْضِ وَالِاسْتِحَاضَۃِ ، ہُمَا حَدَثٌ ، وَہُمَا نَجَسَانِ فِیْ أَنْفُسِہِمَا ، وَدَمُ الْعُرُوْقِ کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ کُلَّ مَا کَانَ خُرُوْجُہُ حَدَثًا ، فَہُوَ نَجَسٌ فِیْ نَفْسِہِ ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ خُرُوْجَ الْمَنِیِّ حَدَثٌ ، ثَبَتَ أَیْضًا أَنَّہُ فِیْ نَفْسِہِ نَجَسٌ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْہِ ، غَیْرَ أَنَا اتَّبَعْنَا فِی اِبَاحَۃِ حُکْمِہِ - اِذَا کَانَ یَابِسًا - مَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٩٢: عبدالکریم بن رشید کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے اس چادر کے متعلق دریافت کیا گیا جس کو جنابت لگ جائے مگر جگہ معلوم نہ ہو تو فرمایا اس چادر کو دھو ڈالے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب اس مسئلہ میں یہ اختلاف ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات میں کوئی دلیل بھی اس کے حکم کو ثابت نہیں کرتی کہ وہ کیا ہے ؟ تو اب ہم نے غور و فکر سے اس کو جانچا تو ہمیں یہ معلوم ہوا کہ منی کا نکلنا سخت قسم کے احداث میں سے ہے کیونکہ اس سے سب سے بڑی طہارت کا استعمال لازم ہوجاتا ہے اب ہمیں ان اشیاء کو دیکھنا چاہیے جن کا نکلنا باعث حدث ہے کہ ان کا حکم ذاتی لحاظ سے کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے پیشاب و پاخانہ کے نکلنے کو حدیث ہونا معلوم کرلیا اور یہ دونوں ذاتی لحاظ سے گندگی ہیں ‘ اسی طرح حیض و استحاضہ بھی حدث ہیں اور وہ ذاتی لحاظ سے پلید ہیں اور غور کرنے سے رگوں کا خون بھی یہی حکم رکھتا ہے۔ پس جب یہ بات ثابنت ہوچکی کہ جس چیز کا نکلنا حدث ہو وہ ذاتی لحاظ سے نجس ہے اور یہ بات تو ثابت ہوچکی کہ منی کا نکلنا حدث ہے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یہ ذاتی طور پر نجس ہے۔ غور و فکر کا یہی تقاضا ہے ‘ البتہ ہم نے اس کے رگڑنے کو جب کہ وہ خشک وہ مباح قرار دیا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کے اتباع کے پیش نظر ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٣۔
حضرت جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک (رض) کے ارشادات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ منی ناپاک ہے اس کا دھونا ضروری ہے۔
حاصل روایات یہ ہے :
کہ حضرت ابن عباس (رض) کے فتویٰ سے منی کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے اور حضرت عمر (رض) ، ابوہریرہ (رض) ، جابر بن سمرہ (رض) ، انس بن مالک (رض) کے فتاویٰ جات سے اس کا ناپاک ہونا ظاہر ہوتا ہے اور حضرت سعد اور عبداللہ بن عمر (رض) کے اقوال میں ہر دو قول کی گنجائش ہے جب صحابہ کرام (رض) کے مابین یہ اختلاف پایا گیا اور کوئی صریح قولی روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد نہیں تو اب کسی فیصلہ پر پہنچنے کے لیے ہمیں نظر و فکر کی ضرورت ہے۔
طحاوی کی نظری دلیل :
جسم سے نکلنے والی ان چیزوں کا جائزہ لیا جو کہ حدث کا باعث بنتی ہیں چنانچہ پائخانہ ‘ پیشاب ‘ حیض کا اور استحاضہ ‘ نفاس کا خون ‘ رگوں سے نکلنے والا خون ‘ یہ تمام خود بھی نجس ہیں اور حدث کا باعث ہیں تو یہ بات نظری طور پر ثابت ہوگئی کہ جس چیز کا خروج باعث حدث ہو وہ نجس ہے اور یہ بات تو مسلم ہے کہ منی کا خروج حدث کا قوی باعث ہے تو یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ وہ بذات خود بھی نجس ہے اس امت کے لیے احکام کے سلسلہ میں آسانی کی گئی اس لیے جب وہ خشک ہوجائے تو اس کے کھرچ دینے سے سہولت کے لیے کپڑے کو پاک قرار دیا گیا اور وہ روایات میں موجود ہے اس کی اتباع ضروری ہے۔
یہی ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔

293

۲۹۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا أَبَیٌّ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ اڑلْمُعَلِّمُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِ ڑ الْجُہَنِیِّ ، أَنَّہُ (سَأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ عَنِ الرَّجُلِ یُجَامِعُ ، فَلَا یُنْزِلُ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ إِلَّا الطُّہُوْرُ ثُمَّ قَالَ : سَمِعْتہ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).قَالَ : وَسَأَلْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ ، وَالزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ ، وَطَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ وَأُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، فَقَالُوْا ذٰلِکَ .قَالَ : وَأَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُرْوَۃُ أَنَّہٗ سَأَلَ أَبَا أَیُّوْبَ ، فَقَالَ ذٰلِکَ .
٢٩٣: نمبر ١: حضرت زید بن خالد الجہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان (رض) سے دریافت کیا کہ جو آدمی جماع کرے اور انزال نہ ہو ؟ تو انھوں نے جواب دیا اس پر وضو لازم ہے پھر کہنے لگے یہ بات میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے زید کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب اور زبیر بن العوام اور طلحہ بن عبیداللہ ‘ ابی بن کعب (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دی۔
زید کہتے ہیں مجھے ابو سلمہ نے بتلایا کہ انھیں عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ابو ایوب انصاری سے یہی سوال کیا تو انھوں نے اسی طرح جواب دیا۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٩‘ مسلم فی الحیض روایت ٨٦‘
خلاصہ الزام : التقاء ختانین سے جمہور الضار غسل کے شروع میں قائل نہ تھے جمہور مہاجرین غسل کے قائل تھے دور فاروقی میں اجماع صحابہ (رض) سے یہ فیصلہ ہوا کہ التقاء ختانین سے غسل واجب ہے۔ نمبر ٢ زمانہ تابعین میں داؤد ظاہری اور عطاء بن رباح وغیرہ التقاء ختانین کی وجہ سے غسل کے وجوب کے قائل نہ تھے جبکہ جمہور فقہاء اور ائمہ اربعہ التقاء ختانین کی وجہ سے غسل کے قائل تھے۔
فریق اول : کی مستدل روایات جو نو صحابہ کرام (رض) سے دس اسناد کے ساتھ ترتیب وارد ذکر کی گئی ہیں۔

294

۲۹۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ عَلِیًّا ، وَلَا سُؤَالَ عُرْوَۃَ أَبَا أَیُّوْبَ .
٢٩٤: موسیٰ کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالوارث نے اپنی اسناد سے اسی طرح بیان کیا مگر انھوں نے حضرت علی (رض) اور ابو ایوب (رض) کے سوال کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج : مسند البزاز ٢؍١٣

295

۲۹۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنِ الْحُسَیْنِ ڑ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ یَحْیٰی ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ ( زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عُثْمَانَ عَنِ الرَّجُلِ یُجَامِعُ أَہْلَہٗ ، ثُمَّ یَکْسَلُ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ غُسْلٌ .فَأَتَیْت الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَأُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَقَالَا مِثْلَ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).
٢٩٥: عطاء بن یسار نے زید بن خالد سے زید کہتے ہیں میں نے حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا کہ جو شخص اپنے گھر والوں سے جماع کرے پھر انزال نہ ہو تو انھوں نے جواب دیا اس پر غسل نہیں پھر میں زبیر بن العوام اور ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا تو انھوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔
اللغآت : کسل ‘ یکسل ‘ الاکسال ‘ جماع بلاانزال۔
تخریج : بیہقی ١؍٢٥٤

296

۲۹۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ.
٢٩٦: موسیٰ کہتے ہیں کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے اپنی اسناد سے اسی طرح بیان فرمایا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٨٧

297

۲۹۷ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَیْسَ فِی الْاِکْسَالِ إِلَّا الطُّہُوْرُ).
٢٩٧: ہشام نے اپنے والد عروہ سے نقل کیا عروہ نے حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت ابی بن کعب (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا کہ جماع بلا انزال میں صرف وضو لازم ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٩٠۔ مسند احمد ٥؍١١٣ مسلم ١؍١٥٥

298

۲۹۸ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ قَالَ : أَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : ( سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ یُجَامِعُ فَیَکْسَلُ .قَالَ یَغْسِلُ مَا أَصَابَہُ وَیَتَوَضَّأُ وُضُوْئَ ہُ لِلصَّلَاۃِ).
٢٩٨ : عروہ نے ابو ایوب انصاری اور ابی بن کعب (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو بیوی سے جماع کرے مگر انزال نہ ہو تو آپ نے فرمایا وہ اس گندگی کو جو اسے پہنچی دھو ڈالے اور نماز کی طرح کا وضو کرلے۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٩‘ مسلم فی الحیض روایت نمبر ٨٤ مالک فی الطھارۃ روایت ٧٣‘ مسند احمد ٥؍١١٤۔

299

۲۹۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ عِیَاضٍ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ قَالَ : قُلْتُ لِاِخْوَانِی مِنَ الْأَنْصَارِ : أَنْزِلُوْا الْأَمْرَ کَمَا تَقُوْلُوْنَ ، الْمَائُ مِنَ الْمَائِ ، أَرَأَیْتُمْ إِنْ اغْتَسَلَ ؟ فَقَالُوْا : لَا واَللّٰہِ ، حَتّٰی لَا یَکُوْنَ فِیْ نَفْسِک حَرَجٌ مِمَّا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔
٢٩٩: حضرت ابو سعید الخدری (رض) کہتے ہیں میں نے اپنے انصاری بھائیوں کو کہا معاملے کو اس کے مقام پر اتارو جیسا تم کہتے ہو الماء من الماء یعنی منی سے غسل ہے تمہارا غسل کے متعلق کیا خیال ہے ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں۔ اللہ
کی قسم ! تاکہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے متعلق تنگی نہ رہے۔
تخریج : مسند السراج (تخب الافکار)

300

۳۰۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ ذَکْوَانَ ، أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ ، فَدَعَاہُ ، فَخَرَجَ إِلَیْہِ وَرَأْسُہُ یَقْطُرُ مَائً ، قَالَ : لَعَلَّنَا أَعْجَلْنَاک قَالَ : نَعَمْ .قَالَ : فَإِذَا أُعْجِلْتُ أَوْ أُقْحِطْتَ أَیْ فُقِدَ مَاؤُک فَعَلَیْکَ الْوُضُوْئُ).
٣٠٠: حضرت ابو سعید (رض) کہتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک انصاری کے گھر کے پاس سے ہوا آپ نے اس کو بلایا وہ گھر سے اس حال میں نکلا کہ اس کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے آپ نے فرمایا شاید ہم نے تجھے جلدی میں ڈال دیا اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا جب تم جلدی میں ڈالے جاؤ یا بلاخروج منی فارغ ہونا پڑے تو تم پر صرف وضو ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٣٤‘ مسلم فی الحیض روایت ٨٣‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١٠‘ روایت ٦٠٦‘ مسند احمد ٣؍٢١‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍١٦٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٩

301

۳۰۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( الْمَائُ مِنَ الْمَائِ).
٣٠١: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابو سعید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الماء من الماء یعنی منی سے غسل ہے۔
تخریج : مسلم فی الحیض ٨١‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘ روایت ٢١٧‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٣١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١٠‘ دارمی فی الوضوء باب ٧٤‘ مسند احمد ٥؍٤١٦۔

302

۳۰۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ قَالَ ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ سُعَادٍ عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ ۔
٣٠٢: عبدالرحمن بن سعاد نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جس نے شرمگاہ میں وطی کی مگر انزال نہ ہوا تو اس پر غسل لازم نہیں اور اس کی دلیل میں اس نے ان روایات کو پیش کیا ہے۔ دوسرے لوگوں نے ان سے اختلاف کیے اور انھوں نے کہا کہ اس پر غسل لازم ہے اگرچہ انزال نہ ہو اور اس سلسلہ میں انھوں نے روایات سے استدلال کیا۔
تخریج : نسائی فی الطھارۃ باب ١٣١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١٠‘ ٦٠٧‘

303

۳۰۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا الْعَلَائُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانَ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : ( بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَأَبْطَأَ، فَقَالَ : مَا حَبَسَک ؟ قَالَ : کُنْتُ أَصَبْتُ مِنْ أَہْلِیْ ، فَلَمَّا جَائَ رَسُوْلُک ، اغْتَسَلْتُ ، وَلَمْ أُحْدِثْ شَیْئًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْمَائُ مِنَ الْمَائِ ، وَالْغُسْلُ عَلَیْ مَنْ أَنْزَلَ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ وَطِیَٔ فِی الْفَرْجِ ، فَلَمْ یُنْزِلْ ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ غُسْلٌ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : عَلَیْہِ الْغُسْلُ ، وَإِنْ لَمْ یُنْزِلْ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٣٠٣: حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری کی طرف پیغام بھیجا اس نے دیر کی آپ نے فرمایا تم نے کیوں دیر کی ؟ اس سے کہا جب آپ کا قاصد پہنچا میں اپنے گھر والوں سے مصروف تھا میں نے صرف غسل کیا اور کوئی کام نہیں کیا (اور حاضر خدمت ہوگیا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الماء من الماء یعنی منی کے خروج سے غسل واجب ہے اور غسل اس پر لازم ہے جسے انزال ہو۔
تخریج : مسلم فی الحیض باب ٨١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٣١‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘
حاصل روایات :
ان تمام روایات کو سامنے رکھ کر یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اگر جماع کرنے والے کو انزال نہ ہو تو اس پر غسل واجب نہیں ہوتا علماء کے فریق اول نے انہی روایات سے احتجاج کیا ہے ان میں دو طرح کی روایات ہیں ایک جن میں الماء من الماء کا مجمل جملہ ہے اس کا مطلب ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ احتلام سے متعلق ہے اور جن میں عدم غسل کی تصریح ہے تو اس کے بالمقابل زیادہ صحیح وہ روایات ہیں جن میں غسل کا تذکرہ ہے۔

304

۳۰۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، وَسُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَا : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ (عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا سُئِلَتْ عَنِ الرَّجُلِ یُجَامِعُ فَلَا یُنْزِلُ .فَقَالَتْ : فَعَلْتُہٗ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاغْتَسَلْنَا مِنْہُ جَمِیْعًا).
٣٠٤: قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ ان سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو اپنی بیوی سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو فرمایا میں نے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجامعت کے بعد غسل کیا ہے۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٠‘ مسند احمد ٦؍٤٧‘ ٦٨۔ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٨٥‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍١٦٤‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١١‘ روایت ٦٠٨۔

305

۳۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرِ بْنِ مَطَرِ ڑ الْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح ۔
٣٠٥: سلیمان بن حرب نے کہا کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

306

۳۰۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا الْتَقَی الْخِتَانَانِ ، اغْتَسَلَ )
٣٠٦: عبدالعزیز بن نعمان کہتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جماع کرتے تو غسل فرماتے۔
اللغات : الختانان۔ لڑکے اور لڑکی کے ختنے کا مقام۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٨‘ مسلم فی الحیض روایت ٨٨‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٠‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١١١‘ دارمی فی الوضوء باب ٧٥‘ مالک فی الطھارۃ نمبر ٧١‘ مسند احمد ‘ ٤٧‘ ٩٧‘ ١١٢‘
یہ روایت ان کتب میں معمولی اختلاف لفظ کے ساتھ اس طرح ہے ” اذا التقی الختان الختان فقد وجب الغسل “۔

307

۳۰۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : ( ذَکَرَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا الْتَقَی الْخِتَانَانِ أَیُوْجِبُ الْغُسْلَ ؟ فَقَالَ أَبُوْ مُوْسَی : أَنَا آتِیکُمْ بِعِلْمِ ذٰلِکَ ، فَنَہَضَ ، وَتَبِعْتہ ، حَتّٰی أَتٰی عَائِشَۃَ ، فَقَالَ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ ، إِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أَسْأَلَک عَنْ شَیْئٍ ، وَأَنَا أَسْتَحْیِیْ أَنْ أَسْأَلَکِ ، فَقَالَتْ : سَلْ ، فَإِنَّمَا أَنَا أُمُّکَ .قَالَ : اِذَا الْتَقَی الْخِتَانَانِ ، أَیَجِبُ الْغُسْلُ ؟ .فَقَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا الْتَقَی الْخِتَانَانِ ، اغْتَسَلَ).
٣٠٧: سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذا التقی الختانان کا ذکر کیا کہ آیا اس سے غسل لازم ہوتا ہے یا نہیں ؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کہنے لگے میں اس کے متعلق صحیح بات پیش کروں گا وہ اٹھ کر چلے میں ان کے پیچھے گیا وہ چلتے چلتے حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے اے ام المؤمنین ! میں ایک مسئلہ آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اور مجھے سوال کرتے ہوئے حیاء آتی ہے انھوں نے فرمایا پوچھو۔ میں تمہاری ماں ہوں تو ابو موسیٰ کہنے لگے اذا التقی الختانان سے کیا غسل واجب ہوتا ہے ؟ تو فرمانے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جماع کرتے تو غسل فرماتے۔
تخریج : بخاری فی الغسل والطھارۃ مسلم فی الحیض روایت ٨٨‘ یتصرف یسیر من اللفظ ‘

308

۳۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠٨: حجاج کہتے ہیں ہمیں حماد نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٢٤٨ ۔

309

۳۰۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عِیَاضُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْقُرَشِیُّ ، وَابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ الْمَکِّیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : أَخْبَرَتْنِیْ أُمُّ کُلْثُوْمٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، أَنَّ (رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ یُجَامِعُ أَہْلَہٗ ثُمَّ یَکْسَلُ : ہَلْ عَلَیْہِ مِنْ غُسْلٍ ؟ وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا جَالِسَۃٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّیْ لَأَفْعَلُ ذٰلِکَ أَنَا وَھٰذِہِ ، ثُمَّ نَغْتَسِلُ).قَالُوْا : فَھٰذِہِ الْآثَارُ تُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَغْتَسِلُ اِذَا جَامَعَ ، وَإِنْ لَمْ یُنْزِلْ .فَقِیْلَ لَہُمْ : ھٰذِہِ الْآثَارُ إِنَّمَا تُخْبِرُ عَنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَفْعَلَ مَا لَیْسَ عَلَیْہِ ، وَالْآثَارُ الْأُوَلُ تُخْبِرُ عَمَّا یَجِبُ ، وَمَا لَا یَجِبُ ، فَہِیَ أَوْلَی .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ ، عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، أَنَّ الْآثَارَ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ ، عَلٰی ضَرْبَیْنِ : فَضَرْبٌ مِنْہُمَا : ( الْمَائُ مِنَ الْمَائِ ) لَا غَیْرُ ، وَضَرْبٌ مِنْہُمَا : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا غُسْلَ عَلَیْ مَنْ أَکْسَلَ حَتّٰی یُنْزِلَ).فَأَمَّا مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْہِ ذِکْرُ (اَلْمَائُ مِنَ الْمَائِ) فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ مُرَادَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ ، قَدْ کَانَ غَیْرَ مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .
٣٠٩: ام کلثوم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنے گھر والوں سے جماع کرے اور پھر انزال کے بغیر عورت سے الگ ہوجائے کیا اس پر غسل ہوگا اس وقت حضرت عائشہ (رض) بیٹھی تھیں آپ نے فرمایا میں اور یہ مجامعت کرتے ہیں پھر ہم غسل کرتے ہیں۔ ان علماء نے کہا کہ یہ آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ خبر دے رہے ہیں کہ آپ جماع کے بعد غسل فرماتے ‘ خواہ انزال نہ ہو۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک فعل بتلاتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایسا فعل کریں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لازم نہ ہو اور پہلے آثار اس کی خبر دیتے ہیں کہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لازم ہے اور لازم نہیں پس وہ اختیار کرنے میں اولیٰ ہیں۔ دوسرے قول والوں کی دلیل پہلے قول والوں کے خلاف یہ ہے کہ جن آثار کو ہم نے اس باب کی فصل اوّل میں نقل کیا اس کی دو قسمیں ہیں ایک قسم تو یہ ہے : ((الماء من المائ)) کہ پانی پانی سے ہے نہ اور کچھ یعنی انزال کی صورت میں غسل ہے اور دوسری قسم کے آثار وہ ہیں جن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غسل اسی پر ہے جس کو انزال ہو۔ رہی وہ روایت جس میں پانی پانی سے ہے کا تذکرہ ہے تو ابن عباس (رض) نے اس سے اور مراد بیان کی ہے جو پہلے قول والوں کے خلاف ہے ‘ چنانچہ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مسلم فی الحیض روایت ٨٩‘ ١٥٦
خلاصہ روایات :
ان روایات سے یہ بخوبی طور پر معلوم ہوگیا کہ جب آپ جماع کرتے خواہ انزال ہو یا نہ ہو آپ غسل فرماتے تھے۔
اشکال : فقیل لھم سے ان چھ روایات سے متعلق اشکال پیش کر رہے ہیں فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غسل کا ثبوت جماع کے بعد مل گیا مگر عین ممکن ہے کہ آپ بطور فضیلت ایسا کرتے ہوں غسل واجب نہ ہو اور پہلی روایات تو وجوب و عدم وجوب دونوں کو ظاہر کر رہی ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے جواب :
شروع میں پیش کی جانے والی روایات دو قسم پر مشتمل ہیں۔
قسم اول :
میں صاف مذکور ہے کہ جب انزال نہ ہو تو جماع کرنے والے پر غسل نہیں۔
قسم دوم :
دوسری روایات میں الماء من الماء مذکور ہے مگر ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کا تعلق احتلام سے ہے کہ اگر کوئی خواب میں جماع کرتا دیکھے مگر کپڑے پر کوئی چیز نہ پائے تو اس پر غسل نہیں وہ روایت یہ ہے۔

310

۳۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ دَاوٗدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَوْلُہُ ( الْمَائُ مِنَ الْمَائِ ) إِنَّمَا ذٰلِکَ فِی الْاِحْتِلَامِ ، اِذَا رَأٰی أَنَّہُ یُجَامِعُ ثُمَّ لَمْ یُنْزِلْ ، فَلَا غُسْلَ عَلَیْہِ .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ وَجْہَہٗ ، غَیْرُ الْوَجْہِ الَّذِیْ حَمَلَہُ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فَضَادَّ قَوْلُہُ قَوْلَہُمْ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ فِیْمَا بَیَّنَ فِیْہِ الْأَمْرَ ، وَأَخْبَرَ فِیْہِ بِالْقَصْدِ أَنَّہٗ لَا غُسْلَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ ، حَتّٰی یَکُوْنَ الْمَائُ ، فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ .
٣١٠: عکرمہ کہتے ہیں جناب ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ انما الماء من الماء یہ احتلام سے متعلق ہے اگر کسی نے اپنے کو خواب میں جماع کرتے دیکھا اگر اس کو انزال نہ ہو تو اس پر غسل نہیں ہے۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٨١‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٩۔
اب ابن عباس (رض) نے جب روایت کا محمل بتلا دیا تو فریق اول کے پاس اس سے دلیل کا موقعہ نہ رہا۔
اب دوسری قسم کی روایات کہ اکسال میں غسل نہیں ان کے متعلق گزارش یہ ہے کہ ان سے قوی تر روایات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں جو ان کے متضاد ہیں۔

311

۳۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ( اِذَا قَعَدَ بَیْنَ شُعَبِہَا الْأَرْبَعِ ، ثُمَّ اجْتَہَدَ ، وَجَبَ الْغُسْلُ).
٣١١: ابو رافع حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مرد جماع کے لیے عورت کی رانوں کے مابین بیٹھ جائے اور کوشش کرے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٢٨‘ مسند احمد ٢؍٥٢٠‘ بخاری فی الغسل باب ٢٨‘ مسلم فی الحیض روایت ٨٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١٢٨‘ دارمی فی الوضوء باب ٧٥‘ مسند احمد ٢؍٣٩٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٥‘ شرح السنۃ للبغوی ص ٢٤٢‘

312

۳۱۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ الْبَغْدَادِیُّ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ وَأَبَانُ عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣١٢: ہمام وابان نے قتادہ سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٤٧

313

۳۱۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ .
٣١٣: ابو رافع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٣٤

314

۳۱۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ( اِذَا قَعَدَ بَیْنَ شُعَبِہَا الْأَرْبَعِ ثُمَّ أَلْزَقَ الْخِتَانَ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ).
٣١٤: سعید بن المسیب نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مرد جماع کے لیے عورت کے رانوں کے مابین بیٹھ جائے پھر دونوں ختان ایک دوسرے سے چمٹا دیئے جائیں تو غسل لازم ہوگیا۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٨‘ مسلم فی الحیض روایت ٨٧‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘ تخریج بالا پیش نظر ہو۔ اللغات : شعبھا الاربع۔ ھا کی ضمیر عورت کی طرف ہے ‘ ٹانگیں اور دونوں ہاتھ ٹانگیں اور فخذین۔ الزق۔ لزق چمٹنا ‘

315

۳۱۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذِہِ الْآثَارُ تُضَادُّ الْآثَارَ الْأُوَلَ ، وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی النَّاسِخِ مِنْ ذٰلِکَ مَا ہُوَ ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .فَإِذَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ۔
٣١٥: جناب عروہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ختان ختان کی طرف تجاوز کر جائے تو غسل لازم ہوگیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آثار پہلے آثار کے خلاف ہیں اور ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ان کے ناسخ ہونے کی دلیل بن سکے پس جب ہم نے دیکھ بھال کی تو یہ روایات مل گئیں۔
ختان سے مرد و عورت کی شرمگاہ مراد ہے۔ تج اور سے دخول مراد ہے۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٠‘ روایت ١٠٨‘
حاصل روایات :
التقائے ختانین سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ روایات خمسہ پہلی روایات کے متضاد ہیں مگر بنظر انصاف میں پہلی روایات کے منسوخ ہونے کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا۔
جواب دوم :
دلائل نسخ کو غور سے ملاحظہ فرمائیں۔

316

۳۱۶ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یُوْنُسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : إِنَّمَا کَانَ الْمَائُ مِنَ الْمَائِ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ ، فَلَمَّا أَحْکَمَ اللّٰہُ الْأَمْرَ ، نَہٰی عَنْہُ .
٣١٦: سہل بن سعد حضرت ابی بن کعب (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ابی فرماتے تھے انما الماء من الماء کا حکم ابتداء اسلام میں تھا جب اللہ تعالیٰ نے معاملے کو پختہ کردیا تو اس سے منع کردیا گیا۔ (یہ روایت ابی کا جواب خود انہی کی روایت سے ہوگیا)
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘ ٣١٤؍٣١٥‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨١‘ ١١٠؍١١١‘

317

۳۱۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِسِ قَالَ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ حَدَّثَنِیْ بَعْضُ مَنْ أَرْضٰی ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ ڑ السَّاعِدِیِّ أَنَّ أُبَیَّ بْنَ کَعْبِ ڑ الْأَنْصَارِیَّ أَخْبَرَہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْمَائَ مِنَ الْمَائِ رُخْصَۃً فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ ، ثُمَّ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ ، وَأَمَرَ بِالْغُسْلِ).
٣١٧: سہل بن سعد الساعدی کہتے ہیں کہ ابی بن کعب (رض) نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء اسلام میں انماالماء من الماء کی رخصت عنایت فرمائی پھر اس سے منع کردیا گیا اور غسل کا حکم دیا گیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٣‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨١‘

318

۳۱۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ بِالْفَتْحِ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَقِیْلٌ ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ سَہْلُ بْنُ سَعْدِ ڑ السَّاعِدِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا أُبَیٌّ یُخْبِرُ أَنَّ ھٰذَا ہُوَ النَّاسِخُ لِقَوْلِہِ ( الْمَائُ مِنَ الْمَائِ).وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا أَیْضًا .
٣١٨: ہہل بن سعد الساعدی کہتے ہیں مجھے ابی بن کعب (رض) نے اسی طرح کی روایت نقل فرمائی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اطلاع دے رہے ہیں کہ یہ روایت الماء من الماء کو ناسخ ہے اور ان سے اس کے بعد بھی اس کا قول مروی ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٢٤٨‘
نسخ کی روایات ثلاثہ کے بعد مزید روایات ملاحظہ ہوں۔

319

۳۱۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ أَنَّہٗ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الرَّجُلِ یُصِیْبُ أَہْلَہٗ ، ثُمَّ یَکْسَلُ وَلَا یُنْزِلُ ، فَقَالَ زَیْدٌ : یَغْتَسِلُ .فَقُلْتُ لَہٗ : إِنَّ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، کَانَ لَا یَرٰی فِیْہِ الْغُسْلَ .فَقَالَ زَیْدٌ : أَنَّ أُبَیًّا قَدْ نَزَعَ ( رَجَعَ ) عَنْ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یَمُوْتَ .
٣١٩: محمود بن لبید ہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت (رض) سے سوال کیا کہ جو آدمی اپنے اہل سے جماع کرے مگر انزال نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو زید کہنے لگے وہ غسل کرے۔
میں نے سوال کیا کہ حضرت ابی بن کعب (رض) تو اس میں غسل کے قائل نہیں حضرت زید (رض) نے جواب دیا حضرت ابی (رض) نے موت سے پہلے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٨‘

320

۳۲۰ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا أُبَیٌّ قَدْ قَالَ ھٰذَا ، وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ ، فَلَا یَجُوْزُ ھٰذَا عِنْدَنَا إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ نَسْخُ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٣٢٠: مالک (رح) نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا یحییٰ نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ ابی (رض) ہیں جنہوں نے یہ بات فرمائی ہے ‘ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف قول نقل کیا ہے۔ پس یہ ہمارے نزدیک اسی وقت درست ہوسکتا ہے جبکہ ان کے ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا نسخ ثابت ہے۔
٢٩٧‘ ٢٩٨ کے نسخ کی دلیل :
حضرت ابی بن کعب (رض) کا جب امر اول سے رجوع ثابت ہوگیا تو یہ نسخ کی کھلی علامت ہے۔
دوسرے بڑے راوی عثمان بن عفان (رض) ہیں ان کے متعلق روایت ملاحظہ فرمائیں۔

321

۳۲۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوْا یَقُوْلُوْنَ : اِذَا مَسَّ الْخِتَانُ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ .فَھٰذَا عُثْمَانُ أَیْضًا یَقُوْلُ ھٰذَا ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُہُ ، فَلَا یَجُوْزُ ھٰذَا إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ النَّسْخُ عِنْدَہُ.
٣٢١: سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ جناب عمر (رض) اور عثمان بن عفان (رض) اور عائشہ صدیقہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ختان ختان کو چھو لے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ یہ حضرت عثمان (رض) ہیں جو کہ یہی کہہ رہے ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔ پس یہ اسی وقت درست ثابت ہوسکتا ہے جبکہ نسخ ان کے ہاں ثابت ہو۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٨‘ مسلم فی الحیض روایت نمبر ٨٨‘
روایت ٢٩٣‘ کا نسخ ٢٩٥ سے :
یہ حضرت عثمان (رض) ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایت نقل کر رہے ہیں جو امر اول میں گزری اور خود فتویٰ اس کے خلاف دے رہے ہیں جو اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے۔

322

۳۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدُ ڑ الصَّائِغُ قَالَ : ثَنَا حَبِیْبُ بْنُ شِہَابٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ مَا یُوْجِبُ الْغُسْلَ .فَقَالَ : اِذَا غَابَتَ الْمُدَوَّرَۃُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ ، مَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ ، فَھٰذَا أَیْضًا دَلِیْلٌ عَلَیْ نَسْخِ ذٰلِکَ .
٣٢٢: شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا چیز مرد و عورت پر غسل کو واجب کرتی ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا جب حشفہ غائب ہوجائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات بھی وارد ہیں جو ان روایات کے مخالف ہیں جو ہم نے اس باب میں ذکر کی ہیں۔ پس یہ بھی ان کے نسخ کی دلیل ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٦
روایت ٣٠٣ کے نسخ کی دلیل :
یہ ابوہریرہ (رض) ہیں جو پہلے وہ نقل کر رہے ہیں اور پھر یہ فتویٰ اس کے خلاف جاری کر رہے ہیں جو کہ پہلے حکم کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے۔

323

۳۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ الْجَمَلِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : کَانَ رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُفْتُوْنَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا جَامَعَ الْمَرْأَۃَ ، وَلَمْ یُنْزِلْ ، فَلَا غُسْلَ عَلَیْہِ ، وَکَانَ الْمُہَاجِرُوْنَ ، لَا یُتَابِعُوْنَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ .فَھٰذَا یَدُلُّ عَلَیْ نَسْخِ ذٰلِکَ أَیْضًا ، لِأَنَّ عُثْمَانَ ، وَالزُّبَیْرَ ، ہُمَا مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ ، وَقَدْ سَمِعَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُمَا فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ ثُمَّ قَدْ قَالَا بِخِلَافِ ذٰلِکَ ، فَلَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ مِنْہُمَا إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ النَّسْخُ عِنْدَہُمَا .ثُمَّ قَدْ کَشَفَ ذٰلِکَ ، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ ، فَلَمْ یَثْبُتْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ ، فَحَمَلَ النَّاسَ عَلٰی غَیْرِہِ وَأَمَرَہُمْ بِالْغُسْلِ ، وَلَمْ یَعْتَرِضْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَحَدٌ ، وَسَلَّمُوْا ذٰلِکَ لَہٗ ، فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلَی رُجُوْعِہِمْ أَیْضًا إِلٰی قَوْلِہٖ .
٣٢٣: حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ بعض انصار یہ فتویٰ دیتے تھے کہ جب مرد اپنی بیوی سے جماع کرے اور اس کو انزال نہ ہو تو اس پر غسل لازم نہیں اور مہاجرین اس سلسلہ میں ان کی اتباع نہ کرتے تھے۔ یہ بھی ان کے نسخ کی دلیل ہے کیونکہ عثمان و زبیر (رض) دونوں مہاجرین سے ہیں اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ بات سن پائی ہے جو ہم نے اس باب کی ابتداء میں نقل کی ہے۔ پھر انھوں نے اس کے خلاف بات کہی حالانکہ یہ بات ان سے اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ ان کے ہاں نسخ ثابت ہو۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اس بات کو مہاجرین و انصار کے مجمع میں کھول دیا اور ان کے ہاں یہ بات ثابت و قائم نہ تھی اس لیے انھوں نے لوچگوں کو دوسری بات پر آمادہ کیا اور غسل کا حکم فرمایا اور ان پر کسی نے اعتراض نہ کیا اور اسے تسلیم کرلیا یہ ان کے حضرت عمر (رض) کے قول کی طرف رجوع کی دلیل ہے۔
دلیل رجوع اور ارشاد طحاوی (رح) :
یہ بھی نسخ کی دلیل ہے کیونکہ عثمان اور زبیر (رض) دونوں مہاجرین سے تھے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ سنا جو شروع میں روایت کیا گیا پھر دونوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے خلاف بات کہیں بس ایک ہی صورت ہے انھوں نے اس کا منسوخ ہونا آپ سے سنا تب یہ فتویٰ دیا۔
پھر حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں جن میں مہاجرین و انصار ہر دو موجود تھے اس بات کو کھولا ان کے ہاں یہ بات ثابت نہ ہوئی تو انھوں نے دوسری بات پر آمادہ کیا اور غسل کا حکم فرمایا اور کسی ایک نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا اور ان کی بات کو تسلیم کرلیا یہ بجائے خود ان انصار کے رجوع کی دلیل ہے۔
اس کی تفصیل اس طرح ہے۔

324

۳۲۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبَۃَ قَالَ : سَمِعْت عُبَیْدَ بْنَ رِفَاعَۃَ الْأَنْصَارِیَّ یَقُوْلُ : کُنَّا فِیْ مَجْلِسٍ فِیْہِ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَتَذَاکَرْنَا الْغُسْلَ مِنَ الْاِنْزَالِ .ؑفَقَالَ زَیْدٌ : مَا عَلٰی أَحَدِکُمْ اِذَا جَامَعَ فَلَمْ یُنْزِلْ إِلَّا أَنْ یَغْسِلَ فَرْجَہٗ ، وَیَتَوَضَّأَ وُضُوْئَ ہُ لِلصَّلَاۃِ .فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَجْلِسِ ، فَأَتَیْ عُمَرَ فَأَخْبَرَہٗ بِذٰلِکَ .فَقَالَ عُمَرُ لِلرَّجُلِ اذْہَبْ أَنْتَ بِنَفْسِکََ فَائْتِنِیْ بِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ أَنْتَ الشَّاہِدَ عَلَیْہِ .فَذَہَبَ فَجَائَ بِہٖ ، وَعِنْدَ عُمَرَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْہِمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ عَدُوُّ نَفْسِک ، تُفْتِی النَّاسَ بِھٰذَا ؟ فَقَالَ زَیْدٌ أَمْ وَاللّٰہِ مَا ابْتَدَعْتہ وَلَکِنِّی سَمِعْتہ مِنْ عَمَّایَ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ وَمِنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ .فَقَالَ عُمَرُ لِمَنْ عِنْدَہٗ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَقُوْلُوْنَ ؟ فَاخْتَلَفُوْا عَلَیْہِ .فَقَالَ عُمَرُ : یَا عِبَادَ اللّٰہِ ، فَمَنْ أَسْأَلُ بَعْدَکُمْ وَأَنْتُمْ أَہْلُ بَدْرِ ڑ الْأَخْیَارُ ؟ فَقَالَ لَہٗ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ : فَأَرْسِلْ إِلَی أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّہٗ إِنْ کَانَ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ ، ظَہَرَتْ عَلَیْہِ .فَأَرْسَلَ إِلٰی حَفْصَۃَ فَسَأَلَہَا فَقَالَتْ : لَا عِلْمَ لِیْ بِذٰلِکَ ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ : اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عِنْدَ ذٰلِکَ : لَا أَعْلَمُ أَحَدًا فَعَلَہٗ ، ثُمَّ لَمْ یَغْتَسِلْ إِلَّا جَعَلْتُہٗ نَکَالًا .
٣٢٤: عبید بن رفاعہ انصاری کہتے ہیں کہ ہم حضرت زید بن ثابت (رض) کے پاس بیٹھے تھے ہم نے انزال سے غسل کے سلسلہ میں باہمی مذاکرہ کیا تو زید بن ثابت (رض) کہنے لگے جب تم میں سے کوئی جماع کرے اور اسے انزال نہ ہو تو وہ اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور نماز کے لیے جس طرح وضو کیا جاتا ہے اسی طرح وضو کرے۔
اہل مجلس کا ایک شخص اٹھ کر حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی حضرت عمر (رض) نے اسی آدمی کو کہا تم بذات خود جاؤ اور ان کو میرے پاس لے آؤ تاکہ بذات خود تو ان پر گواہ بن جائے وہ جا کر زید بن ثابت (رض) کو لے آیا اس وقت عمر (رض) کے پاس اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حضرت علی بن ابی طالب اور معاذ بن جبل (رض) بیٹھے تھے۔
حضرت عمر (رض) کہنے لگے تو اپنی جان کا دشمن ہے تو لوگوں کو یہ فتویٰ دیتا ہے ؟ زید (رض) کہنے لگے اللہ کی قسم میں نے اس کو خود نہیں گھڑا بلکہ اپنے دونوں چچا رفاعہبن رافع اور ابو ایوب انصاری (رض) سے سنا ہے۔
حضرت عمر (رض) نے اپنے قریب اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو انھوں نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا۔
تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اے اللہ کے بندو ! تم ہی اہل بدر ہو میں تمہارے علاوہ اور کس سے سوال کروں ؟ تو اس پر حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے رائے کہ امہات المؤمنین ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کریں اگر ان کے پاس اس سلسلہ میں کوئی چیز ہوگی تو آپ پر ظاہر ہوجائے گی حضرت عمر (رض) نے حضرت حفصہ (رض) کی طرف پیغام بھیجا انھوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا پھر حضرت عائشہ (رض) کے ہاں پیغام بھیجا تو انھوں نے کہا اذا جاوزالختان الختان فقد وجب الغسل کہ ختان کے مل جانے سے غسل واجب ہوجاتا ہے اس وقت حضرت عمر (رض) نے فرمایا اب میں جس کسی کے متعلق سنو گا کہ اس نے ایسا کیا مگر غسل نہیں کیا تو اس کو سخت سزا دے کر دوسروں کے لیے عبرت کا نمونہ بنا دوں گا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٧‘

325

۳۲۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إدْرِیْسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ح .
٣٢٥: اس روایت کو ابن ادریس نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن اسحاق سے بیان کیا اور انھوں نے اپنی سند سے روایت ذکر کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍١١٥

326

۳۲۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشُ بْنُ الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : إِنِّیْ لَجَالِسٌ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، اِذْ جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ ، ھٰذَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ یُفْتِی النَّاسَ فِی الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَۃِ بِرَأْیِہِ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَعْجِلْ عَلَیَّ بِہٖ ، فَجَائَ زَیْدٌ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : قَدْ بَلَغَنِی مِنْ أَمْرِک أَنْ تُفْتِیَ النَّاسَ بِالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَۃِ بِرَأْیِک فِیْ مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہٗ زَیْدٌ أَمْ وَاللّٰہِ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، مَا أَفْتَیْت بِرَأْیِی ، وَلٰکِنِّی سَمِعْتُ مِنْ أَعْمَامِی شَیْئًا فَقُلْتُ بِہٖ .فَقَالَ : مِنْ أَیِّ أَعْمَامَکَ ؟ فَقَالَ : مِنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، وَأَبِیْ أَیُّوْبَ ، وَرِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ .فَالْتَفَتَ إِلَیَّ عُمَرُ فَقَالَ : مَا یَقُوْلُ ھٰذَا الْفَتَی ؟ قَالَ قُلْتُ : إِنَّا کُنَّا لَنَفْعَلُہُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَا نَغْتَسِلُ .قَالَ : أَفَسَأَلْتُمَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ ؟ فَقُلْتُ : لَا .قَالَ عَلَیَّ بِالنَّاسِ ، فَاتَّفَقَ النَّاسُ أَنَّ الْمَائَ لَا یَکُوْنُ إِلَّا مِنَ الْمَائِ ، إِلَّا مَا کَانَ مِنْ عَلِیٍّ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ فَقَالَا : اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ .فَقَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَا أَجِدُ أَحَدًا أَعْلَمُ بِھٰذَا مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنْ أَزْوَاجِہِ .فَأَرْسَلَ إِلٰی حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ : لَا عِلْمَ لِیْ .فَأَرْسَلَ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ : " اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ " .فَتَحَطَّمَ عُمَرُ ، وَقَالَ : لَئِنْ أُخْبِرْت بِأَحَدٍ یَفْعَلُہُ ثُمَّ لَا یَغْتَسِلُ لَأَنْہَکْتہ عُقُوْبَۃً ( أَیْ لَمَا لِنْتُ فِیْ عُقُوْبَتِہِ).
٣٢٦: عبید بن رفاعہ اپنے والد رفاعہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ہاں بیٹھا تھا اچانک ان کے ہاں ایک آدمی وارد ہوا اور کہنے لگا اے امیرالمؤمنین ! یہ زید بن ثابت غسل جنابت کے متعلق اپنی رائے سے فتویٰ دیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا ان کو جلد میرے پاس لاؤ وہ ان کو جلد لے آیا تو عمر (رض) نے کہا مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم لوگوں کو غسل جنابت کے متعلق اپنی رائے سے مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں فتویٰ دیتے ہو زید (رض) کہنے لگے سنو ! اللہ کی قسم اے امیرالمؤمنین میں اپنی رائے سے فتویٰ نہیں دیا بلکہ میں نے اپنے چچاؤں سے جو کچھ سنا وہی کہا عمر (رض) نے دریافت کیا تم نے اپنے کون سے چچاؤں سے سنا زید (رض) نے کہا میں نے ابی بن کعب ‘ ابو ایوب انصاری رفاعہ بن رافع (رض) سے سنا ہے۔
عمر (رض) ۔ میری طرف متوجہ ہو کر یہ نوجوان کیا کہتا ہے ؟
رفاعہ (رض) ۔ میں نے کہا ہم زمانہ نبوت میں ایسے کرتے تھے پھر غسل نہ کرتے تھے۔
عمر (رض) ۔ کیا تم نے اس سلسلے میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا۔
رفاعہ (رض) ۔ میں نے کہا نہیں۔
عمر (رض) ۔ اور لوگوں کو لاؤ پس اور لوگوں نے بالاتفاق کہا الماء لایکون الامن الماء یعنی صرف خروج منی سے غسل ہے۔
معاذ اور علی (رض) نے کہا : اذا جاوز الختان الختان فقد وجب الغسل کہ تجاوز ختان سے غسل لازم ہے۔ وہ کہنے لگے اے امیرالمؤمنین ! ازواج مطہرات کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کا اس سلسلہ میں سب سے زیادہ علم ہے انھوں نے حضرت حفصہ (رض) سے پوچھا حفصہ (رض) نے کہا مجھے اس بات کا علم نہیں ہے۔ پھر حضرت عائشہ (رض) کی طرف پیغام بھیجا۔
حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اذا جاوزالختان الختان فقد وجب الغسل
کہ تجاوز ختان سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
اس سے عمر (رض) جوش میں آگئے اور فرمایا اگر مجھے کسی کے متعلق اطلاع ملی کہ وہ جماع بلاانزال کرتا ہے اور پھر غسل نہیں کرتا تو میں اسے سزا دینے میں کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍١١٥
اللغات : تحطم یہ الحطمہ سے ہے جس کا معنی آگ ہے یعنی غضبناک ہونا انھکتہ۔ نھک نھکًا۔ سخت سزا دینا۔
(س)

327

۳۲۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَعْمَرُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ قَالَ : تَذَاکَرَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الْغُسْلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : ( اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ ) وَقَالَ بَعْضُہُمْ : " إِنَّمَا الْمَائُ مِنَ الْمَائِ " .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : قَدْ اخْتَلَفْتُمْ عَلَیَّ وَأَنْتُمْ أَہْلُ بَدْرِ ڑ الْأَخْیَارُ ، فَکَیْفَ بِالنَّاسِ بَعْدَکُمْ ؟ فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، إِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ ذٰلِکَ ، فَأَرْسِلْ إِلَی أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلْہُنَّ عَنْ ذٰلِکَ .فَأَرْسَلَ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ : " اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ " .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عِنْدَ ذٰلِکَ : لَا أَسْمَعُ أَحَدًا یَقُوْلُ ( الْمَائُ مِنَ الْمَائِ ) إِلَّا جَعَلْتہ نَکَالًا .فَھٰذَا عُمَرُ ، قَدْ حَمَلَ النَّاسَ عَلٰی ھٰذَا ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مُنْکِرٌ .وَقَوْلُ رِفَاعَۃَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ إِسْحَاقَ فَقَالَ النَّاسُ : ( الْمَائُ مِنَ الْمَائِ ) یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ لَمْ یَقْبَلْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی مَا حَمَلُوْہُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .فَلَمَّا لَمْ یُثْبِتُوا لَہٗ ذٰلِکَ تَرَکَ قَوْلَہُمْ ، فَصَارَ إِلٰی مَا رَآہُ ہُوَ وَسَائِرُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ آخَرِیْنَ مِنْہُمْ ، مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٣٢٧: عبیداللہ بن عدی بن الخیار کہتے ہیں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کے پاس غسل جنابت کے سلسلہ میں باہمی مذاکرہ کیا بعض نے اذا جاوز الختان الختان فقد وجب الغسل سے غسل کو لازم کہا جبکہ دوسروں نے ” انما الماء من المائ “ سے عدم وجوب بتلایا۔ حضرت عمر (رض) کہنے لگے چنے ہوئے اہل بدر جب تم میرے سامنے یہ اختلاف کر رہے ہو تو تمہارے علاوہ لوگوں کا حال کیا ہوگا اس پر علی بن ابی طالب (رض) نے کہا اے امیرالمؤمنین ! اگر آپ اس مسئلہ کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں پیغام بھیج کر دریافت کرلیں تو حضرت عمر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کی طرف پیغام بھیج کر دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا جب ختان ختان کی طرف تجاوز کر جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے اس پر عمر (رض) نے کہا میں جس کسی کو الماء من الماء کہتا سنوں گا میں اس کو سزا دوں گا۔ پھر یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے صحابہ کرام (رض) کے سامنے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا اور ان میں سے کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا اور رہا ررفاعہ کا قول الماء من الماء تو اس میں یہ احتمال ہے کہ عمر (رض) نے اس کو قبول نہیں کیا کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس کو ابن عباس (رض) والی روایت پر محمول کریں جب وہ حضرات اس بات کو ثابت نہ کرسکے تو آپ نے ان کی بات کو چھوڑ دیا اور آپ نے اسی بات کو اختیار کیا جو کہ آپ کی اور باقی صحابہ کرام (رض) کی رائے تھی اور دیگر صحابہ (رض) سے بھی اس سلسلے میں آپ کی موافقت مروی ہے۔
تتمہ دلیل :
یہ حضرت عمر (رض) جو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں وجوب غسل کا قول کر رہے ہیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا یہ اجماع صحابہ کی کافی دلیل نہیں رہا معاملہ رفاعہ (رض) والی روایت الماء من الماء تو وہ دو احتمال رکھتی ہے ایک وہ جس پر رفاعہ (رض) نے محمول کیا مگر عمر (رض) نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ عائشہ (رض) والی روایت کو اختیار کیا دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ احتلام پر محمول ہے اور ختان والی روایت خاص اس موضوع سے متعلق ہے جب رفاعہ (رض) اپنی روایت سے وہ مفہوم ثابت نہ کرسکے تو پھر عمر (رض) دیگر تمام اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وجوب غسل کو بالاجماع لازم قرار دیا۔

328

۳۲۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، قَالَ اجْتَمَعَ الْمُہَاجِرُوْنَ : أَنَّ مَا أَوْجَبَ عَلَیْہِ الْحَدَّ مِنَ الْجَلْدِ وَالرَّجْمِ ، أَوْجَبَ الْغُسْلَ أَبُوْ بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، وَعُثْمَانُ ، وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .
٣٢٨: ابو جعفر نے محمد بن علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ تمام مہاجرین اور خلفاء اربعہ ابوبکر و عمر ‘ عثمان و علی (رض) نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جس جماع سے حد رجم ‘ جلد ثابت ہوجاتی ہے اس سے غسل واجب ہوجاتا ہے اور وہ غیبوبت حشفہ والا جماع ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٦‘

329

۳۲۹ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِی الرَّجُلِ ( یُجَامِعُ فَلَا یُنْزِلُ ) قَالَ : اِذَا بَلَغْتَ ذٰلِکَ اغْتَسَلْتَ.
٣٢٩: ابراہیم نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس آدمی کے متعلق جو جماع کرے مگر انزال نہ ہو سوال کیا تو فرمایا جب تم ایسا کرو تو غسل کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٦‘

330

۳۳۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .
٣٣٠: ابراہیم نے علقمہ سے اور انھوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کا قول نقل کیا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٨٤

331

۳۳۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ( اِذَا خَلَفَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ).
٣٣١: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا جب ختان ختان کی طرف تجاوز کر جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٨‘ ٩‘

332

۳۳۲ : حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ الصَّقْعَبِ بْنِ زُہِیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : کَانَ أَبِیٌّ یَبْعَثُنِیْ إِلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، قَبْلَ أَنْ أَحْتَلِمَ ، فَلَمَّا احْتَلَمْت جِئْتُ فَنَادَیْتُ ، فَقُلْتُ : مَا یُوْجِبُ الْغُسْلَ ؟ فَقَالَتْ : اِذَا الْتَقَتِ الْمُوَاسِیْ۔
٣٣٢: عبداللہ بن الاسود کہتے ہیں مجھے ابی (رض) بلوغت کی عمر سے پہلے حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجتے جب میں بالغ ہوگیا تو ان کی خدمت میں آیا اور (دروازے کے باہر سے) آواز دی کون سی چیز غسل کو واجب کرتی ہے تو انھوں نے فرمایا جب مواسی مل جائیں۔ (یہ دونوں ختان کے باہمی ملنے سے کنایہ ہے)
اللغات : مواسی جمع موسیٰ : استرہ مراد مونڈھنے والی جگہ۔
تخریج : طبقات الکبرٰی ٦؍٢٩٤ تاریخ کبیر ٥؍٢٥٢

333

۳۳۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا یُوْجِبُ الْغُسْلَ .فَقَالَتْ : ( اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ).
٣٣٣: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ کون سی چیز غسل کو لازم کرتی ہے ؟ تو فرمانے لگیں جب ختان ختان کی طرف تجاوز کر جائے تو غسل لازم ہوجاتا ہے۔
تخریج : (العدنی فی مسندہ موقوفا)

334

۳۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ ، عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : اِذَا الْتَقَی الْخِتَانَانِ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ .
٣٣٤ : میمون بن مہران نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ختان آپس میں مل جائیں تو غسل فرض ہوجاتا ہے۔

335

۳۳۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : اِذَا خَلَفَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ .
٣٣٥: نافع نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی جب ختان ‘ ختان سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٨٦

336

۳۳۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ ثَنَا : مُسَدِّدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ ثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا ، صِحَّۃَ قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ إِلَی وُجُوْبِ الْغُسْلِ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَمْ یَخْتَلِفُوا أَنَّ الْجِمَاعَ فِی الْفَرْجِ الَّذِیْ لَا إِنْزَالَ مَعَہُ - حَدَثٌ .فَقَالَ قَوْمٌ : ہُوَ أَغْلَظُ الْأَحْدَاثِ ، فَأَوْجَبُوْا فِیْہِ أَغْلَظَ الطَّہَارَاتِ ، وَہُوَ الْغُسْلُ .وَقَالَ قَوْمٌ : ہُوَ کَأَخَفِّ الْأَحْدَاثِ ، فَأَوْجَبُوْا فِیْہِ أَخَفَّ الطَّہَارَاتِ ، وَہُوَ الْوُضُوْئُ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ إِلَی الْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ : ہَلْ ہُوَ أَغْلَظُ الْأَشْیَائِ فَنُوْجِبُ فِیْہِ أَغْلَظَ مَا یَجِبُ فِیْ ذٰلِکَ فَوَجَدْنَا أَشْیَائَ یُوْجِبُہَا الْجِمَاعُ ، وَہُوَ فَسَادُ الصِّیَامِ وَالْحَجِّ ، فَکَانَ ذٰلِکَ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ إِنْزَالٌ ، وَیُوْجِبُ ذٰلِکَ فِی الْحَجِّ ، الدَّمَ ، وَقَضَائَ الْحَجِّ ، وَیُوْجِبُ فِی الصِّیَامِ ، الْقَضَائَ وَالْکَفَّارَۃَ ، فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُہَا .وَلَوْ کَانَ جَامَعَ فِیْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ ، وَجَبَ عَلَیْہِ فِی الْحَجِّ دَمٌ فَقَطْ ، وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ فِی الصِّیَامِ شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یُنْزِلَ ، وَکُلُّ ذٰلِکَ مُحَرَّمٌ عَلَیْہِ فِیْ حَجِّہِ وَصِیَامِہٖ ، وَکَانَ مَنْ زَنَیْ بِامْرَأَۃٍ حُدَّ ، وَإِنْ لَمْ یُنْزِلْ وَلَوْ فَعَلَ ذٰلِکَ عَلَی وَجْہِ شُبْہَۃٍ ، فَسَقَطَ بِہَا الْحَدُّ عَنْہُ ، وَجَبَ عَلَیْہِ الْمَہْرُ .وَکَانَ لَوْ جَامَعَہَا فِیْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ ، لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ حَدٌّ وَلَا مَہْرٌ ، وَلَکِنَّہُ یُعَزَّرُ اِذَا لَمْ تَکُنْ ہُنَاکَ شُبْہَۃٌ .وَکَانَ الرَّجُلُ اِذَا تَزَوَّجَ الْمَرْأَۃَ فَجَامَعَہَا جِمَاعًا لَا خَلْوَۃَ مَعَہُ فِی الْفَرْجِ ثُمَّ طَلَّقَہَا ، کَانَ عَلَیْہِ الْمَہْرُ أَنْزَلَ أَوْ لَمْ یُنْزِلْ ، وَوَجَبَتْ عَلَیْہَا الْعِدَّۃُ وَأَحَلَّہَا ذٰلِکَ لِزَوْجِہَا الْأَوَّلِ .وَلَوْ جَامَعَہَا فِیْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ لَمْ یَجِبْ فِیْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، وَکَانَ عَلَیْہِ فِی الطَّلَاقِ نِصْفُ الْمَہْرِ ، إِنْ کَانَ سَمَّیْ لَہَا مَہْرًا ، أَوَ الْمُتْعَۃُ اِذَا لَمْ یَکُنْ سَمَّیْ لَہَا مَہْرًا .فَکَانَ یَجِبُ فِیْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ وَصَفْنَا ، الَّتِیْ لَا إِنْزَالَ مَعَہَا أَغْلَظُ مَا یَجِبُ فِی الْجِمَاعِ الَّذِیْ مَعَہُ الْاِنْزَالُ ، مِنَ الْحُدُوْدِ وَالْمُہُوْرِ ، وَغَیْرِ ذٰلِکَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، ہُوَ فِی حُکْمِ الْأَحْدَاثِ ، أَغْلَظُ الْأَحْدَاثِ ، وَیَجِبُ فِیْہِ أَغْلَظُ مَا یَجِبُ فِی الْأَحْدَاثِ ، وَہُوَ الْغُسْلُ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّا رَأَیْنَا ھٰذِہِ الْأَشْیَائَ الَّتِیْ وَجَبَتْ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ ، فَإِذَا کَانَ بَعْدَہَا الْاِنْزَالُ لَمْ یَجِبْ بِالْاِنْزَالِ حُکْمٌ ثَانٍ ، وَإِنَّمَا الْحُکْمُ لِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ .أَلَا تَرٰی أَنَّ رَجُلًا لَوْ جَامَعَ امْرَأَۃً جِمَاعَ زِنَائٍ ، فَالْتَقَی خِتَانَاہُمَا ، وَجَبَ الْحَدُّ عَلَیْہِمَا بِذٰلِکَ ، وَلَوْ أَقَامَ عَلَیْہِمَا حَتّٰی أَنْزَلَ لَمْ یَجِبْ بِذٰلِکَ عَلَیْہِ عُقُوْبَۃٌ ، غَیْرُ الْحَدِّ الَّذِیْ وَجَبَ عَلَیْہِ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ الْجِمَاعُ عَلَی وَجْہِ شُبْہَۃٍ ، فَوَجَبَ عَلَیْہِ الْمَہْرُ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ ، ثُمَّ أَقَامَ عَلَیْہَا حَتّٰی أَنْزَلَ ، لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ الْاِنْزَالِ شَیْئٌ ، بَعْدَمَا وَجَبَ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ وَکَانَ مَا یُحْکَمُ بِہٖ فِیْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ عَلَیْ مَنْ جَامَعَ فَأَنْزَلَ ، ہُوَ مَا یُحْکَمُ بِہٖ عَلَیْہِ اِذَا جَامَعَ وَلَمْ یُنْزِلْ ، وَکَانَ الْحُکْمُ فِیْ ذٰلِکَ ہُوَ لِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ لَا لِلْاِنْزَالِ الَّذِیْ یَکُوْنُ بَعْدَہٗ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ الْغُسْلُ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْ مَنْ جَامَعَ وَأَنْزَلَ ، ہُوَ بِالْتِقَائِ الْخِتَانَیْنِ لَا بِالْاِنْزَالِ الَّذِیْ یَکُوْنُ بَعْدَہٗ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ الَّذِیْنَ قَالُوْا : إِنَّ الْجِمَاعَ یُوْجِبُ الْغُسْلَ، کَانَ مَعَہُ إِنْزَالٌ ، أَوْ لَمْ یَکُنْ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، وَعَامَّۃِ الْعُلَمَائِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی فِیْ ذٰلِکَ :
٣٣٦: زر نے حضرت علی (رض) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ روایت جو ہم نے ذکر کیں یہ ان لوگوں کے قول کو درست ثابت کرتی ہیں جو دو شرمگاہوں کے ملنے سے غسل کو واجب کہتے ہیں۔ روایات کے لحاظ سے اس باب کی یہی صورت ہے۔ نظر و فکر کے لحاظ سے جو صورت ہے وہ عرض کرتے ہیں ‘ ہم نے دیکھا کہ اس بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ شرمگاہ میں جماع جس میں انزال نہ ہو حدث شمار ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو حدث غلیظہ قرار دیا اور بڑی طہارت کو اس کے لیے لازم کردیا اور وہ غسل ہے اور دوسروں نے اس کو حدث خفیف قرار دیا ‘ انھوں نے خفیف طہارت کو لازم قرار دیا اور وہ وضو ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ ہم دو شرمگاہوں کے ملنے پر غور کریں کہ آیا وہ ان سخت اشیاء میں سے ہے کہ جس سے بڑی طہارت کو لازم کیا جائے۔ پس جب ہم نے ان چیزوں کو دیکھا جو جماع سے لازم ہوتی ہیں اور وہ روزے اور حج کا فاسد ہوجانا ہے اور اس کا سبب دو شرمگاہوں کا ملنا ہی ہے خواہ اس کے ساتھ انزال نہ ہو اور حج میں اس سے دَم بھی لازم ہوجاتا ہے اور حج کی قضا بھی لازم ہوجاتی ہے اور روزے میں قضا اور کفارہ ان لوگوں کے قول میں جو اس کو لازم قرار دیتے ہیں اور اگر اس نے فرج کے علاوہ جماع کیا تو حج میں فقط اس پر دم لازم آتا ہے اور روزے میں اس پر کوئی چیز لازم نہیں آتی سوائے اس صورت میں کہ اس کو انزال ہوجائے اور یہ دونوں ہی چیزیں حج اور روزے میں اس کے لیے حرام ہیں اور وہ شخص جس نے کسی عورت کے ساتھ زنا کیا اس پر حد لگے گی اگرچہ انزال نہ ہوا ہو اور اگر اس نے یہی فعل شبہ کے طور پر کیا تو اس سے حد ساقط ہوگی اور اس پر مہر لازم ہوگا اور اگر اس نے اس عورت کے ساتھ فرج کے علاوہ جماع کیا تو نہ اس پر حد لازم ہوگی اور نہ مہر اس کے ذمہ آئے گا بلکہ اس پر تعزیر آئے گی جبکہ وہ وطی شبہ والی نہ ہو اور اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا پھر اس سے بغیر خلوت کے شرمگاہ میں جماع کیا ‘ پھر اسے طلاق دیدی تو اس پر مہر لازم آئے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو اور عورت پر عدت واجب ہوگی اور پہلے خاوند کے لیے یہ عورت حلال ہوجائے گی اور اگر اس نے شرمگاہ کے علاوہ میں جماع کیا تو اس پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا اور طلاق کی صورت میں نصف مہر لازم آجائے گا اگر اس نے مہر مقرر کیا ہے اور فقط کپڑوں کا جوڑا لازم آئے گا جبکہ مہر مقرر نہ کیا ہو۔ یہ چیزیں جو ہم نے بیان کیں ان میں یہ حکم انزال کے بغیر واجب ہوتا ہے اور یہ شدید ترین حکم ہے جو ایسے جماع کی صورت میں لازم ہوتا ہے جس کے ساتھ انزال ہو یعنی حدود و مہر وغیرہ۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ احداث کے سلسلے میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا اور سخت ترین حدث لازم ہوگا اور ازالہ حدث کے لیے سخت ترین حکم یعنی غسل لازم ہوگا۔ دوسری دلیل : ہم نے ان اشیاء پر غور کیا جو دو شرمگاہوں کے ملنے سے لازم آتی ہیں جبکہ اس کے بعد انزال ہو تو انزال سے اس پر کوئی نیا حکم لازم نہیں ہوتا ‘ وہی حکم ہے جو دو شرمگاہوں کے ملنے پر ہوگا۔ ذرا غور کرو ایک آدمی نے اگر ایک عورت سے زنا کیا اور ان کی شرمگاہیں مل گئیں تو اس سے ان دونوں پر حد لازم ہوگئی۔ اگر وہ اس وقت تک رکا یہاں تک کہ اس کو انزال ہوگیا تو اس پر حد کے علاوہ جو شرمگاہوں کے ملنے سے لازم ہوئی اور کوئی سزا لازم نہ ہوگی اور اگر یہ جماع وطی شبہ کے طور پر ہو تو شرمگاہوں کے ملنے سے اس پر مہر لازم ہوجائے گی۔ پھر اگر وہ اتنی دیر رکا کہ اس کو انزال ہوگیا تو انزال کی وجہ سے اس چیز کے علاوہ جو شرمگاہوں کے ملنے سے اور کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور اس پر وہی حکم لگے گا جو اس جماع پر لگتا ہے جس میں انزال ہوا ہو اور وہ وہی حکم ہے جو اس جماع کا ہے جو بغیر انزال کے ہو تو حکم کا دارومدار اس میں شرمگاہوں کامل جانا ہوا نہ وہ انزال جو اس کے بعد ہوا۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ غسل جو جماع بالانزال سے ہوا لازم ہوا وہ شرمگاہوں کے ملنے کی وجہ سے ہے بعد والے انزال کی وجہ سے نہیں۔ پس اس سے ان لوگوں کی بات ثابت ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ جماع غسل کو لازم کرتا ہے ‘ خواہ اس کے ساتھ انزال ہو یا نہ ہو۔ یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن حسن (رح) اور عام علماء کا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٨٦‘
طحاوی (رح) فرماتے ہیں التفائے ختانین سے جو حضرات وجوب غسل کے قائل ہیں ان کے قول پر بطور تنویر دلیل کے یہ آثار شاہد ہیں آثار کی روشنی فریق اول کے دلائل کا جواب اور فریق دوم کے مؤقف کی پختگی اظہر من الشمس ہوچکی اب دلیل نقلی کے بعد دلیل عقلی پیش کی جاتی ہے۔
طحاوی (رح) کی نظری و فکری دلیل :
اس بارے میں تمام کا اتفاق ہے کہ جماع فی الفرج مطلقاً حدث کا باعث ہے اسی وجہ سے بعض لوگوں نے اس کو شدید ترین احداث میں سے قرار دیا اور اس کے لیے طہارت کی کامل ترین صورت غسل کو لازم قرار دیا اور دوسروں نے اس کو احداث خفیفہ کی طرح قرار دے کر اس پر خفیف طہارت یعنی وضو کو لازم کہا۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس بات پر نگاہ ڈالیں کہ آیا التقاء ختانین شدید ترین چیزوں میں سے ہے تاکہ اس سے طہارت کے لیے کامل ترین طہارت کو لازم قرار دیا جائے یا اس کا عکس۔
بنظر غائر معلوم ہوا کہ جماع کے نتیجہ میں روزہ اور حج فاسد ہوجاتا ہے اور یہ جماع التقائے ختانین والا ہے خواہ اس میں انزال ہو یا نہ ہو اور حج میں اسی کے نتیجہ میں دم بھی دینا پڑے گا اور قضاء حج بھی لازم ہوگی اور روزے میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔ دوسری طرف فرج کے علاوہ اگر کوئی حج میں جماع کرے تو اس پر فقط دم لازم آتا ہے حج فاسد نہیں ہوتا اور روزے میں مادون الفرج جماع میں انزال نہ ہو تو کوئی چیز لازم نہیں۔ انزال کی صورت میں روزہ فاسد فقط قضاء لازم ہے حالانکہ جماع فی الفرج اور مادون الفرج آدمی کے لیے حج و روزہ کی صورت میں دونوں حرام ہیں۔
نمبر ٣: اسی طرح جس نے کسی عورت سے زنا کیا اس پر حد لازم ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو اور اگر زنا وطی بالشبھہ کی صورت میں ہو تو حد ساقط ہوجائے گی مگر اس پر مہر لازم ہوجائے گا۔
اور اس کا دوسرا پہلو سامنے لائیں کہ اگر اس نے فرج کے علاوہ کسی عورت سے زنا کیا تو اس پر حد واجب نہ ہوگی اور وطی بالشبہ میں مہر لازم نہ ہوگا۔ البتہ وطی بالشبہہ کے علاوہ صورت میں تعزیر کا مستحق ہوگا ۔ ٤: گر کسی آدمی نے بلاخلوت اپنی بیوی سے فرج میں جماع کیا پھر اسے طلاق دے دی اس کو انزال ہوا یا نہ ہوا بہرصورت اس پر کامل مہر لازم ہوگا اور اس عورت پر عدت بھی لازم ہوگی اور پہلے خاوند کے لیے بھی حلال ہوجائے گی۔
اور اس کے بالمقابل نگاہ ڈالیں کہ فرج کے علاوہ میں جماع کرنے سے اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور طلاق دینے کی صورت میں اس پر مہر بھی نصف پڑے گا جبکہ مہر مقرر کیا گیا ہو۔
مہر مقرر نہ ہو تو متعہ یعنی کپڑوں کا حیثیتی جوڑا دے کر رخصت کردیا جائے گا۔
نمبر ٥: ان تمام چیزوں میں جماع بلاانزال میں بھی حدود و مہور کے سلسلہ میں وہی شدید ترین حکم ہے جو جماع بالانزال میں ہے معلوم ہوا کہ دونوں اس لحاظ سے برابر ہیں پس احداث میں بھی دونوں کا حکم کامل ترین طہارت ہونا چاہیے جو کہ غسل ہے اور ان میں اس اعتبار سے چنداں تفاوت نہ ہونا چاہیے۔
دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں :
التقاء ختانین سے جو چیزیں لازم ہوئی ہیں اگر بالفرض اس کے بعد انزال ہوجائے تو اس انزال سے وہی حکم رہے گا اس میں تبدیلی نہ آئے گی جو التقاء ختانین میں تھا۔
اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کے ساتھ جماع کیا اور دونوں کے ختان مل گئے تو اس سے دونوں پر حد لازم ہوگی اور اگر دونوں پر حد قائم کردی گئی اور اسی دوران انزال ہوگیا تو ان دونوں پر حد کے علاوہ عقوبت کے طور پر اور کوئی چیز لازم نہ ہوگی جو حد کہ التقاء ختانین سے لازم ہوتی تھی۔
اور جماع وطی بالشبہہ سے تو التقاء ختانین سے ہی مہر لازم ہوجائے گا اگر وہ مرد اسی حالت پر رکا رہا تآنکہ انزال ہوگیا اور اس انزال سے اس پر کوئی نئی چیز لازم نہ ہوگی ان مواقع میں جماع بالانزال اور جماع بلاانزال کا حکم یکساں نظر آتا ہے اور حکم کی بنیاد التقاء ختانین ہے نہ کہ وہ انزال جو بعد میں پیش آیا۔
پس بنظر غائر یہی معلوم ہوا کہ جماع و انزال والے پر غسل کا باعث التقاء ختانین ہے وہ انزال نہیں جو التقاء کے بعد پیش آیا پس ان لوگوں کا قول اس سے مزید پختہ ہوگیا جو مطلقاً جماع کو غسل کا سبب قرار دیتے ہیں خواہ اس کے ساتھ انزال ہو یا نہ ہو۔
یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ حضرت ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) اور جمہور علماء (رح) کا مسلک ہے۔

337

۳۳۷ : أَنَّ فَہْدًا حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ ، عَنْ زَیْدٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، ہُوَ ابْنُ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ قَالَ : سَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَخْطُبُ فَقَالَ : إِنَّ نِسَائَ الْأَنْصَارِ تُفْتِیْنَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا جَامَعَ فَلَمْ یُنْزِلْ ، فَإِنَّ عَلَی الْمَرْأَۃِ الْغُسْلَ ، وَلَا غُسْلَ عَلَیْہِ ، وَإِنَّہٗ لَیْسَ کَمَا أَفْتَیْنَ ، وَإِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّ الْأَنْصَارَ کَانُوْا یَرَوْنَ أَنَّ الْمَائَ مِنَ الْمَائِ ، إِنَّمَا ہُوَ فِی الرِّجَالِ الْمُجَامِعِیْنَ ، لَا فِی النِّسَائِ الْمُجَامِعَاتِ ، وَأَنَّ الْمُخَالَطَۃَ تُوْجِبُ عَلَی النِّسَائِ الْغُسْلَ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہَا إِنْزَالٌ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْاِنْزَالَ یَسْتَوِیْ فیْہِ حُکْمُ النِّسَائِ وَالرِّجَالِ ، فِیْ وُجُوْبِ الْغُسْلِ عَلَیْہِمْ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ الْمُخَالَطَۃِ الَّتِیْ لَا إِنْزَالَ مَعَہَا ، یَسْتَوِیْ فیْہَا حُکْمُ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ ، فِیْ وُجُوْبِ الْغُسْلِ عَلَیْہِمْ .
٣٣٧: ابو صالح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خطبہ دیتے سنا کہ وہ فرما رہے تھے کہ انصار کی عورتیں فتویٰ دیتی ہیں کہ مرد جب جماع کرے اور انزال نہ ہو تو عورت پر غسل لازم ہے اور مرد پر غسل نہیں حالانکہ بات اس طرح نہیں جیسا وہ کہتی ہیں بلکہ جب ختان ختان سے مل جائے تو غسل لازم ہوجاتا ہے۔
طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس اثر سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انصار کا خیال تھا کہ الماء من الماء یعنی انزال سے غسل لازم ہوتا ہے اور یہ صرف مردوں کے سلسلہ میں کہتے تھے عورتوں کے سلسلہ میں فقط جماع کو غسل کی وجہ قرار دیتے تھے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
حالانکہ انزال کا حکم مردوں اور عورتوں کے سلسلہ میں یکساں ہے یکساں طور پر اس سے غسل لازم آتا ہے۔
بنظر غائر اس جماع کا حکم جس میں انزال نہ ہو یکساں ہونا چاہیے کہ مرد و عورت دونوں پر غسل لازم ہو۔ واللہ اعلم۔
` بَابُ أَکْلِ مَا غَیَّرَتَ النَّارُ ، ہَلْ یُوْجِبُ الْوُضُوْئَ أَمْ لَا ؟ `
آگ سے پکی چیز کھا لینے سے وضو لازم ہے یا نہیں
خلاصہ الزام : قرن اول میں صحابہ کرام کی ایک جماعت جس میں حضرت ابو موسیٰ اشعری و انس زید بن ثابت ‘ عائشہ صدیقہ ‘ ابوہریرہ (رض) شامل ہیں آگ سے پکی چیز کھا لینے کو ناقض وضو قرار دیتے تھے جبکہ حضرات خلفاء اربعہ ابن عباس ‘ امّ سلمہ ‘ ابو سعید ٠ تذکرہ کیا اور خالفہم میں دوسروں کا۔
تفصیلات ملاحظہ ہوں۔

338

۳۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ مَطَرِ ڑ الْوَرَّاقِ ، قَالَ : قُلْتُ عَمَّنْ أَخَذَ الْحَسَنُ ( الْوُضُوْئُ مِمَّا غَیَّرَتِ النَّارُ ) ؟ .قَالَ : أَخَذَہُ الْحَسَنُ عَنْ أَنَسٍ، وَأَخَذَہُ أَنَسٌ عَنْ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، وَأَخَذَہُ أَبُوْ طَلْحَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٣٣٨: ہمام کہتے ہیں کہ میں نے مطر الوراق سے کہا کہ حسن نے آگ سے پکی چیز سے وضو کا ٹوٹنا کس سے لیا ہے تو وہ کہنے لگے حسن نے انس (رض) سے اور انس نے ابو طلحہ سے اور ابو طلحہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے۔
تخریج : معجم کبیر طبرانی ٥؍٩٨‘

339

۳۳۹ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الزُّہْرِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ أَبِیْہِ ، وَہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ، وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْقَارِیُٔ ، عَنْ أَبِیْ طَلْحَۃَ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ( عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَکَلَ ثَوْرَ أَقِطٍ فَتَوَضَّأَ مِنْہُ ) ، قَالَ عَمْرٌو : وَالثَّوْرُ الْقِطْعَۃُ .
٣٣٩: عبداللہ القاری نے ابو طلحہ (رض) صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے پنیر کا ٹکڑا کھایا پھر اس سے وضو کیا۔
اللغات : ثور : ٹکڑا۔ الافظ : پنیر۔ سخت جما ہوا دہی۔
تخریج : معجم کبیر لطبرانی ٥؍١٠٥‘

340

۳۴۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تَوَضَّئُوْا مِمَّا غَیَّرَتِ النَّارُ) .
٣٤٠: فرید بن ثابت (رض) نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آگ سے پکا ہو اس سے وضو کرو۔
تخریج : مسلم فی الحیض روایت ٩٠‘

341

۳۴۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٤١: عبدالرحمن بن خالد نے ابن شہاب سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر الطبرانی ٥؍١٢٨ نمبر ٤٨٣٥

342

۳۴۲ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَقِیْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٣٤٢: عقیل نے ابن شہاب سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍١٨٨

343

۳۴۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَقِیْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ أَنَّہٗ سَأَلَ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ عَنْ ذٰلِکَ ، فَقَالَ عُرْوَۃُ : سَمِعْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٤٣: عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ وہ فرماتیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح سنا پھر اسی طرح سے روایت نقل کی۔
تخریج : مسلم ٢؍١٥٦

344

۳۴۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ أَبَا سَعِیْدِ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ ، أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ دَخَلَ عَلٰی أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَتْ لَہٗ بِسَوِیْقٍ ، فَشَرِبَ ، ثُمَّ قَالَتْ : یَا ابْنَ أَخِیْ تَوَضَّأْ ، فَقَالَ : إِنِّیْ لَمْ أُحْدِثْ شَیْئًا فَقَالَتْ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ).
٣٤٤: ابو سعید بن ابو سفیان ام حبیبہ (رض) کی خدمت میں گئے انھوں نے ان کے لیے ستو منگوائے ابو سعید نے پئے پھر فرمانے لگیں اے بھتیجے وضو کرو ابو سعید کہنے لگے میں نے کوئی فعل حدث نہیں کیا تو وہ فرمانے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو چیز آگ سے پک جائے اس سے وضو کرو۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧٥‘ ١٩٥‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٢١‘ ١٢٢‘ ایضاً مسند احمد ٦؍٣٢٧

345

۳۴۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَکْرِ بْنِ مُضَرَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ الْأَخْنَسِ ، عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : ( یَا ابْنَ أُخْتِی).
٣٤٥: ابو سفیان بن سعید نے ام حبیبہ (رض) سے تمام روایت اسی طرح نقل کی ہے البتہ اتنے الفاظ کا فرق ہے یا ابن اختی اے میرے بھانجے ! کے الفاظ ہیں۔
تخریج : نسائی ١؍٤٠‘ باب الوضو مما غیرت النار۔

346

۳۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٣٤٦: عبدالرحمن بن خالد کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٣؍٢٣٩

347

۳۴۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( تَوَضَّئُوا مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ ، وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ).
٣٤٧: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمایا آگ سے پکی چیز سے وضو کرو اگرچہ وہ پنیر کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الحیض روایت ٩٠‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٥٨‘ روایت ٧٩‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧٥‘ روایت ١٩٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٢١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٦٥‘ روایت ٤٨٥‘ مصنف عبدالرزاق باب ٦٦١‘ بیہقی ١؍١٥٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍٥٠‘ مسند احمد ٢؍٤٧٠‘ ٤٧٨‘ ٥٠٣‘

348

۳۴۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ( تَوَضَّئُوا مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ).
٣٤٨ : حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم آگ سے پکی چیز سے وضوکرو خواہ وہ پنیر کا ٹکڑا کیوں نہ ہو۔

349

۳۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( تَوَضَّئُوْا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ ، وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ ) فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، فَإِنَّا نَدَّہِنُ بِالدُّہْنِ وَقَدْ سُخِّنَ بِالنَّارِ ، وَنَتَوَضَّأُ بِالْمَائِ وَقَدْ سُخِّنَ بِالنَّارِ .فَقَالَ : یَا ابْنَ أَخِیْ ، اِذَا سَمِعْتُ الْحَدِیْثَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَا تَضْرِبْ لَہٗ الْأَمْثَالَ .
٣٤٩: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آگ سے پکی چیز سے وضو کرو خواہ پنیر کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس پر ابن عباس (رض) کہنے لگے اے ابوہریرہ (رض) ہم تیل لگاتے ہیں اور وہ بھی آگ سے گرم کیا ہوتا ہے۔ اور پانی سے وضو کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی آگ سے گرم کیا ہوتا ہے اس پر ابوہریرہ (رض) نے جواباً کہا اے بھتیجے ! جب تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سن لو تو پھر اس کے لیے مثالیں مت بیان کرو۔
تخریج : ترمذی ١؍٢٤‘ باب الوضوئ ‘ غیرت النار۔

350

۳۵۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ قَالَ : ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ یَعْقُوْبَ أَنَّ عِرَاکَ بْنَ مَالِکٍ أَخْبَرَہُ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ).
٣٥٠: عراک بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کو میں نے فرماتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا آگ سے پکی چیز سے وضو کرو۔
تخریج : مسند سراج (نخب الافکار)

351

۳۵۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَارِظٍ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَتَوَضَّأُ عَلَی ظَہْرِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ : أَکَلْتُ مِنْ أَثْوَارِ أَقِطٍ ، فَتَوَضَّأْتُ ، إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ( تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ).
٣٥١: ابراہیم بن عبداللہ بن قارظ کہتے ہیں میں نے جناب ابوہریرہ (رض) کو مسجد کی چھت پر وضو کرتے دیکھا پھر فرمایا میں نے پنیر کے ٹکڑے کھائے تھے تب میں نے وضو کیا ہے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا تم اس چیز سے وضو کرو (یعنی استعمال کے بعد) جو آگ سے پکی ہو۔
تخریج : نسائی ١؍٣٩‘ باب الوضو غیرت النار

352

۳۵۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٣٥٢: عبدالرحمن بن خالد نے ابن شہاب سے اور ابن شہاب نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٥٦‘ باب الوضو مما مست النار

353

۳۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ حَنْطَبٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٥٣: مطلب بن حنطب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی جیسی روایت نقل کرتے ہیں۔
تخریج : نسائی ١؍٣٩ باب الوضو مماحت النار (نحب الافکار)

354

۳۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ حُسَیْنِ ڑ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ یَحْیٰی ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٣٥٤: حسین المعلم نے یحییٰ سے اور یحییٰ نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند سراج (نحب الافکار)

355

۳۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی الرَّبِیْعِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، مَوْلَی مُعَاوِیَۃَ قَالَ : أَتَیْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَیْتُ النَّاسَ مُجْتَمِعِیْنَ عَلَی شَیْخٍ یُحَدِّثُہُمْ ، قُلْتُ مَنْ ھٰذَا ؟ قَالُوْا : سَہْلُ بْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ ، فَسَمِعْتہ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ( مَنْ أَکَلَ لَحْمًا فَلْیَتَوَضَّأْ )
٣٥٥: قاسم مولیٰ معاویہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں آیا میں نے انھیں ایک شیخ پر جمع دیکھا جو ان کو احادیث بیان فرما رہے تھے میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انھوں نے بتلایا یہ حضرت سہل بن حنظلیہ (رض) ہیں میں نے ان کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے گوشت کھایا اسے وضو کرنا چاہیے۔
تخریج : طبرانی معجم کبیر ٦؍٩٨‘ مسند احمد ٤؍١٨٠‘

356

۳۵۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کُنَّا نَتَوَضَّأُ مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ ، وَنُمَضْمِضُ مِنَ اللَّبَنِ ، وَلَا نُمَضْمِضُ مِنَ التَّمْرِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی الْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا وُضُوْئَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ .
٣٥٦: ایوب نے ابو قلابہ سے اور ابو قلابہ نے اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے تھے ہم آگ سے پکی ہوئی چیز (کھا کر) وضو کرتے اور دودھ پی کر مضمضمہ کرتے اور کھجور کھا کر کلی نہ کرتے تھے۔ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ جس چیز کو آگ تبدیل کر دے اس سے وضو لازم ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے ان روایات کو دلیل میں پیش کیا جبکہ دوسرے علماء نے اس کی مخالفت کی اور انھوں نے کہا کہ ان میں سے کسی چیز سے وضو لازم نہیں اور وہ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو اختیار کرنے والے ہیں۔
تخریج : پہلے جزء کو مصنف ابن ابی شیبہ نے کتاب الطھارۃ ١؍٥١ میں ذکر کیا ہے۔

حاصل روایات : آگ سے پکی چیز استعمال کرنے کے بعد وضو کیا جائے گا حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سات اسناد سے اور زید بن ثابت (رض) کی روایت تین اسناد سے اور حضرت ابو طلحہ کی روایت دو اسناد سے اور روایت حضرت عائشہ ‘ سہل بن حنظلیہ اور روایت بذریعہ ابو قلابہ عن ابو عزا (رض) ایک ایک سند سے اور روایت ام حبیبہ (رض) تین اسناد سے ذکر کی ہے۔

357

۳۵۷ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ح وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکَلَ کَتِفَ شَاۃٍ ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٥٧: عطاء بن یسار حضرت ابن عباس (رض) سے اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بکری کا شانہ استعمال فرمایا پھر نماز ادا فرمائی اور وضو نہ کیا۔ تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٥٠‘ مسلم فی الحیض روایت ٩١‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧٤‘ روایت ١٨٧‘ موطا مالک فی الطھارۃ ١٩‘ مسند احمد ١؍٢٦٧؍٢٨١‘ ٣٦٦؍٢٨٠؍٢‘

358

۳۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ .ؑثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، فَذَکَرَ نَحْوَہُ بِإِسْنَادِہٖ .
٣٥٨: روح بن قاسم نے زید بن اسلم سے اور انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : طبرانی فی الکبیر ١؍٣١١

359

۳۵۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنِ عَطَائٍ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الزُّبَیْرِ الْحَنْظَلِیُّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْعَبَّاسِ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ
٣٥٩: حضرت علی نے اپنے والد ابن عباس (رض) سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٥٨‘

360

۳۶۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یَحْیَی الصُّوْرِیُّ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٦٠: حضرت علی نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : معجم الکبیر ١٠؍٢٨٠

361

۳۶۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمُرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٦١: یحییٰ بن یعمر نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٦١‘ ابو داؤد ١؍٢٥

362

۳۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْ نُعَیْمٍ ( ہُوَ وَہْبُ بْنُ کَیْسَانَ ) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : ( أَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُبْزًا وَلَحْمًا ) ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٣٦٢: محمد بن عمرو نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روٹی اور گوشت کھایا اور پھر بقیہ اسی طرح روایت نقل کی۔
تخریج : المعجم الکبیر ١٠؍٣٢٤

363

۳۶۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ الدُّؤَلِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، أَنَّہٗ دَخَلَ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمًا فِیْ بَیْتِ مَیْمُوْنَۃَ ، فَضَرَبَ عَلٰی یَدِی وَقَالَ : ( عَجِبْتُ مِنْ نَاسٍ یَتَوَضَّئُوْنَ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ ، وَاللّٰہِ لَقَدْ (جَمَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ یَوْمًا ثِیَابَہٗ ، ثُمَّ أُتِیَ بِثَرِیْدٍ ، فَأَکَلَ مِنْہَا ، ثُمَّ قَامَ فَخَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ ، وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٦٣: محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے کے ہاں گیا جبکہ وہ حضرت ام المؤمنین میمونہ (رض) کے ہاں تھے انھوں نے میرے دونوں ہاتھوں پر ہاتھ مارا اور کہنے لگے مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو آگ سے پکی چیز (کھا لینے) پر وضو کرتے ہیں اللہ کی قسم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن تیاری فرمائی پھر آپ کے لیے ثرید لایا گیا آپ نے اس میں سے کھایا پھر آپ نماز کے لیے نکل کر تشریف لائے اور وضو نہ کیا۔
تخریج : ١٠؍٣٢٤ معجم الکبیر

364

۳۶۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، وَالرَّبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَا : ثَنَا أَسَدٌ ح۔
٣٦٤: بکر بن ادریس نے آدم بن ابی ایاس سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٣؍٢٨٦

365

۳۶۵ : وَحَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ ح وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَوْنٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ الثَّقَفِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ یُحَدِّثُ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ ، فَنَشَلَتْ لَہٗ کَتِفًا ، فَأَکَلَ مِنْہَا ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی ، وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٦٥: ابو عون محمد بن عبداللہ الثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن شداد بن الہاد کو امّ سلمہ (رض) سے یہ روایت بیان کرتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کی خدمت میں ایک دستی ہنڈیا میں سے نکال کر پیش کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہ فرمایا۔
اللغات : فشل : ہنڈیا میں سے ہاتھ سے روٹی نکالنا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣١٧‘ المعجم الکبیر ٢٣؍٢٨٦

366

۳۶۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ أَبِیْ عَوْنٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شَدَّادٍ یَقُوْلُ : سَأَلَ مَرْوَانُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ عَنِ الْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتِ النَّارُ ، فَأَمَرَہُ بِہٖ ثُمَّ قَالَ : ( کَیْفَ نَسْأَلُ أَحَدًا ، وَفِیْنَا أَزَوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ).فَأَرْسَلُوْا إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوْہَا ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ .
٣٦٦: ابو عون کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن شداد کو کہتے سنا کہ مروان نے ابوہریرہ (رض) سے پوچھا جس کو آگے نے پکایا ہو (اس کے استعمال سے) وضو کا کیا حکم ہے ؟ تو انھوں نے وضو کا حکم دیا پھر مروان کہنے لگے ہم اور کسی سے کیوں پوچھیں ؟ جبکہ ہم میں ازواج مطہرات موجود ہوں چنانچہ سب نے بالاتفاق حضرت امّ سلمہ (رض) کی طرف پیغام بھیج کر ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا پھر انھوں شعبہ جیسی روایت بالا نقل کی۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٣٠٦

367

۳۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْسُفَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ ( أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : قَرَّبْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَنْبًا مَشْوِیًّا ، فَأَکَلَ مِنْہُ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٦٧: سلیمان بن یسار نے امّ سلمہ (رض) سے روایت نقل کی کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھنے گوشت کا ایک ٹکڑا پیش کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کھایا اور وضو نہ کیا۔
تخریج : ترمذی فی الاطعمہ باب ٢٧‘ روایت ١٨٢٩‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٢٢‘ مسند احمد ٦؍٣٠٧

368

۳۶۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ ، قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ ( أُتِیْنَا وَمَعَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِطَعَامٍ ، فَأَکَلْنَا ثُمَّ قُمْنَا إِلَی الصَّلَاۃِ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ أَحَدٌ مِنَّا ، ثُمَّ تَعَشَّیْنَا بِبَقِیَّۃِ الشَّاۃِ ، ثُمَّ قُمْنَا إِلَی صَلَاۃِ الْعَصْرِ ، وَلَمْ یَمَسَّ أَحَدٌ مِنَّا مَائً).
٣٦٨: عبداللہ بن محمد بن عقیل حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں کھانا کھانے کے لیے آئے پس ہم نے کھانا کھایا پھر نماز کے لیے اٹھ گئے اور ہم میں سے کسی نے بھی وضو نہ کیا پھر ہم نے بقیہ بکری سے پچھلے پہر کا کھانا کھایا پھر ہم نے نماز عصر کے لیے اٹھ گئے اور ہم میں سے کسی نے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔
تخریج : ابو داؤد الطیاسی ١؍٢٣٣

369

۳۶۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٦٩: عبداللہ بن عمرو نے عبداللہ بن محمد سے روایت نقل کی اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ترمذی مثلہ ١؍٢٤

370

۳۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (دَعَتْنَا امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَذَبَحَتْ لَنَا شَاۃً ، وَذَکَرَ الْحَدِیْثَ ، وَرَشَّتْ لَنَا صُوَرًا فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالطَّہُوْرِ ، فَأَکَلْنَا ثُمَّ صَلَّی ، وَلَمْ یَتَوَضَّأْ۔
٣٧٠: محمد بن المنکدر حضرت جابر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے ہماری دعوت کی اس نے ہمارے لیے ایک بکری ذبح کی اور اس انصاریہ نے ہمارے لیے کھجور کا گچھا بھی لا کر رکھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کے لیے پانی منگوایا (جو لایا گیا پھر آپ نے اس سے وضو فرمایا) پھر ہم نے (کھانا تیار ہونے پر) کھانا کھایا پھر کھانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز (ظہر) ادا فرمائی اور وضو نہ فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ روایت ١٨٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٥٩ نمبر ٨٠‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ روایت ١٨٩‘ سنن کبرٰی للبیہقی ١؍١٥٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٧
اللغات : رش۔ چھڑکنا۔ بہانا۔ صور : کھجور کا گچھا۔

371

۳۷۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنْ ( مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : حَدِّثِیْنِیْ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ ، فَقَالَتْ : قَلَّ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِیْنَا إِلَّا قَلَیْنَا لَہٗ جَنَّۃً تَکُوْنُ بِالْمَدِیْنَۃِ ، فَیَأْکُلُ مِنْہَا وَیُصَلِّی وَلَا یَتَوَضَّأُ).
٣٧١: محمد بن المنکدر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ازواج میں سے کسی کے ہاں میں داخل ہوا اور میں نے گزارش کی (اماں) مجھے آگے س پکی چیز کا حکم بتلاؤ تو وہ فرمانے لگیں بہت کم ایسا ہوتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لاتے اور مدینہ میں خاص اگنے والا دانہ آپ کے لیے نہ ابالتے ہوں اور آپ اس سے تناول نہ فرماتے ہوں یعنی اکثر لوبیا جیسا دانہ ہم ابالتے تو آپ ہمارے ساتھ تناول فرماتے اور نماز ادا فرماتے اور وضو نہ کرتے۔
تخریج : بخاری کتاب البیوع باب ٥٧‘
اللغات : قلینا : اُبالنا۔ حبہ : دانہ۔ (لوبیا ‘ چنے کی طرح)

372

۳۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی فُلَانَۃَ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ سَمَّاہَا وَنَسِیْت .قَالَتْ : ( دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعِنْدِیْ بَطْنٌ شَاۃٍ مُعَلَّقٌ فَقَالَ لَوْ طَبَخْت لَنَا مِنْ ھٰذَا الْبَطْنِ کَذَا وَکَذَا .قَالَتْ : فَصَنَعْنَاہُ فَأَکَلَ ، وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٧٢: محمد بن المنکدر کہتے ہیں کہ میں فلاں زوجہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا عمارہ کہتے ہیں محمد نے مجھے نام بتلایا تھا مگر مجھے نام بھول گیا اور پھر بقیہ روایت اسی طرح نقل کی ہے کہ میرے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے میرے پاس بطن کا گوشت لٹکا ہوا تھا آپ نے فرمایا اگر تم اس میں سے ہمارے لیے اس طرح اس طرح پکاتیں تو مناسب تھا ام المؤمنین کہتی ہیں ہم نے پکایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تناول فرمایا اور وضو نہ کیا۔
اللغات : سمٰی : نام بتانا ۔ بطن : پیٹ (پیٹھ یا پسلیوں کا گوشت)

373

۳۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِیْ عَمَّارٍ عَنْ ( أُمِّ حَکِیْمٍ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَکَلَ کَتِفًا فَأَذِنَہُ بِلَالٌ بِالْأَذَانِ ، فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ) .
٣٧٣: عمار بن ابی عمار نے ام حکیم سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے اور کندھے کا گوشت استعمال فرمایا پھر بلال (رض) نے اذان کی اطلاع دی تو آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہ فرمایا۔
تخریج : معجم الکبیر للطبرانی ٢٥؍٨٤ مسند احمد ٦؍٤١٦

374

۳۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ وَرَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالُوْا : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا فَائِدٌ مَوْلٰی عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ .( طُبِخَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَطْنُ شَاۃٍ ، فَأَکَلَ مِنْہَا ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ ، وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٧٤: عبیداللہ بن علی کے مولیٰ فائد عبیداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ عبیداللہ نے اپنے دادا سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بکری کی پیٹھ کا گوشت پکایا اور اس میں سے آپ نے تناول فرمایا پھر عشاء کی نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
تخریج : معجم کبیر للطبرانی ٢٥؍٨٤۔

375

۳۷۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ ، وَلَمْ یَذْکُرَ الْعِشَائَ .
٣٧٥: مغیرہ بن ابی رافع نے ابو رافع سے نقل کیا اور ابو رافع (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے فرق یہ ہے کہ اس میں عشاء کا تذکرہ نہیں ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٥١ من کان لا یتوضاء فی ما مست النار۔

376

۳۷۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سَالِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ حُمَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَتْنِی ہِنْدُ بِنْتُ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ ، عَنْ عَمَّتِہَا قَالَتْ ( زَارَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَکَلَ عِنْدَنَا کَتِفَ شَاۃٍ ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٧٦: ہند بنت سعید اپنی پھوپھی (یعنی ابو سعید خدری (رض) کی ہمشیرہ) سے نقل کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے پھر آپ نے ہمارے ہاں بکری کا شانہ تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور نماز ادا فرمائی اور وضو نہ کیا۔
تخریج : ابو نعیم ‘ ابوبکر اشیبانی فی الاحاد والمثانی ٦؍١٤٩

377

۳۷۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّبَیْدِیِّ قَالَ : ( أَکَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فِی الْمَسْجِدِ قَدْ شُوِیَ ، ثُمَّ أُقِیْمَتْ الصَّلَاۃُ فَمَسَحْنَا أَیْدِیَنَا بِالْحَصْبَائِ ، ثُمَّ قُمْنَا نُصَلِّی وَلَمْ نَتَوَضَّأْ).
٣٧٧: عبداللہ بن الحارث زبیدی کہتے ہیں ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد میں کھانا کھایا جو بھنا ہوا گوشت تھا پھر جماعت کھڑی ہوگئی ہم نے اپنے ہاتھ کنکریوں سے پونچھ لیے پھر اٹھ کر ہم نماز پڑھنے لگے اور ہم نے وضو نہ کیا۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٤؍٤٤٥۔
اللغات : شوٰی بھوننا۔ الحصباء کنکریاں

378

۳۷۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأُوَیْسِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ أَنَّ أَبَاہُ قَالَ ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُ ذِرَاعًا ، یَحْتَزُّ مِنْہَا فَدُعِیَ إِلَی الصَّلَاۃِ ، فَقَامَ فَطَرَحَ السِّکِّیْنَ ، فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).
٣٧٨: جعفر بن عمرو کہتے ہیں کہ میرے والد عمرو بن امیہ (رض) فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دستی کا گوشت کھاتے دیکھا جو آپ کے کھانے سے ہل رہی تھی پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ فوراً اٹھے اور چاقو کو پھینک دیا اور نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٥٠‘ والجھاد باب ٩٢‘ مسلم فی الحیض روایت ٣‘ ٩٢‘ ترمذی فی الاطعمہ باب ٣٣‘ روایت ١٨٣٦‘ دارمی فی الوضوء باب ٥٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٤٨‘ مسند احمد ٤؍١٣٩؍١٧٩‘
اللغات : ذراع : دستی۔ طرح : پھینکنا۔

379

۳۷۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ یَسَارٍ ، مَوْلٰی بَنِیْ حَارِثَۃَ أَنَّ سُوَیْد بْنَ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَہٗ أَنَّہُ ( خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ خَیْبَرَ ، حَتَّی اِذَا کَانَ بِالصَّہْبَائِ ، وَہِیَ مِنْ أَدْنَی خَیْبَرَ نَزَلَ فَصَلَّی الْعَصْرَ ، ثُمَّ دَعَا بِالْأَزْوَادِ ، فَلَمْ یُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِیْقِ فَأَمَرَ بِہٖ فَتُرِّیَ ، فَأَکَلَ وَأَکَلْنَا ، ثُمَّ قَامَ إِلَی الْمَغْرِبِ ، فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ) .
٣٧٩: بنی حارثہ کے مولیٰ بشیر بن یسار کہتے ہیں کہ سوید بن النعمان (رض) نے مجھے بیان کیا کہ خیبر والے سال میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں نکلا جب آپ مقام صہباء میں پہنچے یہ خیبر کے قریب جگہ ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں اترے اور نماز عصر ادا فرمائی پھر آپ نے زاد راہ منگوائے تو آپ کے پاس ستو لائے گئے آپ نے ان کو بنانے کا حکم دیا وہ تیار کئے گئے پس آپ نے کھائے اور ہم نے بھی کھائے پھر آپ نماز مغرب کے لیے اٹھے تو آپ نے مضمضمہ کیا اور نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔
تخریج : بخاری فی الوض باب ٤‘ ٥١‘ والجہاد باب ١٢٣‘ والاطعمہ باب ٧‘ المغازی باب ٣٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٦٦‘ ٤٩٢‘ مالک فی الطھارۃ ٢٠‘ مسند احمد ٣؍٤٨٨‘ مصنف عبدالرزاق ٦٩١‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٤٨۔

380

۳۸۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ یَحْیٰی ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ بِإِسْنَادِہٖ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ ( وَہِیَ مِنْ أَدْنٰی خَیْبَرَ) .
٣٨٠: حماد نے یحییٰ سے پھر یحییٰ نے اپنی سند سے تمام روایت بالا کی طرح نقل کی البتہھی من ادنی خیبر کے لفظ نہیں ہیں۔
تخریج : ایضًا

381

۳۸۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا الْجُعَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہٗ قَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکَلَ کَتِفًا ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ ) ۔
٣٨١: حسن بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عمرو بن عبیداللہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے دستی کا گوشت کھایا پھر آپ نماز پڑھانے کھڑے ہوگئے اور وضو نہ کیا۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٣٤٧

382

۳۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَابِتٍ وَغَیْرِہِ مِنْ مَشْیَخَۃِ بَنِیْ عَبْدِ الْأَشْہَلِ ، عَنْ ( أُمِّ عَامِرِ بْنِ یَزِیْدَ ، امْرَأَۃٍ ، مِمَّنْ بَایَعَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا جَائَ تْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیْ مَسْجِدِ بَنِیْ عَبْدِ الْأَشْہَلِ ، فَعَرَّقَہُ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ ، مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ أَکْلُ مَا مَسَّتِ النَّارُ حَدَثًا ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَتَوَضَّأْ مِنْہٗ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَمَرَ بِہٖ مِنَ الْوُضُوْئِ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، ہُوَ وُضُوْئُ الصَّلَاۃِ ، وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ غَسْلُ الْیَدِ ، لَا وُضُوْئُ الصَّلَاۃِ ، إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ عَنْہُ بِمَا رَوَیْنَا أَنَّہٗ تَوَضَّأَ ، وَأَنَّہٗ لَمْ یَتَوَضَّأْ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَا الْآخِرُ مِنْ ذٰلِکَ ، فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، وَأَبُوْ أُمَیَّۃَ ، وَأَبُوْ زُرْعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ ، قَدْ حَدَّثُوْنَا ، قَالُوْا۔
٣٨٢: ام عامر بنت یزید (رض) ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی وہ کہتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہڈی والی بوٹی پیش کی جبکہ آپ مسجد بنی عبدالاشہل میں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دانتوں کے ذریعہ گوشت کاٹا پھر آپ نماز پڑھانے کھڑے ہوگئے اور آپ نے وضو نہ فرمایا۔ ان آثار میں یہ بات ثابت ہوتی ہے جس سے آگ سے پکی ہوئی چیز کے ناقض وضو ہونے کی نفی ہوتی ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وضو نہیں فرمایا اور عین ممکن ہے کہ پہلے آثار میں جس وضو کا حکم ہو وہ نماز و الا حکم ہو اور یہ بھی ممکن ہے اس کہ اس سے ہاتھوں کا دھونا مراد ہے ‘ نماز والا وضو نہ ہو مگر یہ کہ آپ سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے وضو کیا اور وضو نہیں بھی کیا۔ پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے آخری عمل کو معلوم کرلیں۔
تخریج : معجم الکبیر للطبرانی ٢٥؍١٤٨؍١٤٩‘ مسند احمد ٦؍٣٧٢
اللغات : عرق : گوشت والی ہڈی ‘ عرق : دانتوں سے گوشت ہڈی سے اتارنا۔
حاصل روایات : ان چھبیس روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے آگ سے پکی ہوئی چیز استعمال کرنے کے بعد نیا وضو نہیں کیا بلکہ سابقہ وضو سے نماز ادا فرمائی۔
ان میں عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت تو سات اسناد اور جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت تین اسناد اور اسی طرح امّ سلمہ کی روایت تین اسناد اور ابو رافع کی روایت دو اسناد اسی طرح سوید بن نعمان دو اسناد اور کسی ام المؤمنین کی روایت دو سندوں اور ام حکیم ‘ ابو سعید خدری ‘ عبداللہ بن حارث ‘ عمرو بن امیہ ‘ عمرو بن عبیداللہ کی روایات ایک ایک سند سے ذکر کی ہیں۔
دلیل کا نیا رخ اور فریق اول کی دلیل کی کمزوری :
پیش کردہ روایات محتمل ہیں نمبر ١: وضو سے مراد نماز والا وضو نمبر ٢: وضو سے فقط ہاتھ منہ دھونا مراد ہو۔ نماز والا وضو مراد نہ ہو اور فریق دوم کی روایات وضو نہ کرنے میں واضح ہیں مگر اس بات کی مزید تحقیق کے لیے کہ دونوں میں آخری عمل کون سا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اخیر میں ثابت ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل روایات کو ملاحظہ کریں جن کو ابو زرعہ۔ ابو امیہ اور ابن ابی داؤد نے بیان کیا ہے۔

383

۳۸۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانَ آخِرُ الْأَمْرَیْنِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، تَرْکُ الْوُضُوْئِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ
٣٨٣: محمد بن المنکدر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آخری چیز آگے سے پکی چیز کھا لینے پر وضو کا نہ کرنا تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧٤‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٢٢‘ سنن کبر بیہقی ١؍١٥٥

384

۳۸۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکَلَ ثَوْرَ أَقِطٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ أَکَلَ بَعْدَہُ کَتِفًا فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ).فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ آخِرَ الْأَمْرَیْنِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہُوَ تَرْکُ الْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ ، وَأَنَّ مَا خَالَفَ ذٰلِکَ ، فَقَدْ نُسِخَ بِالْفِعْلِ الثَّانِیْ .ھٰذَا إِنْ کَانَ مَا أَمَرَ بِہٖ مِنَ الْوُضُوْئِ ، یُرِیْدُ بِہٖ وُضُوْئَ الصَّلَاۃِ .وَإِنْ کَانَ لَا یُرِیْدُ بِہٖ وُضُوْئَ الصَّلَاۃِ ، فَلَمْ یَثْبُتْ بِالْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ أَنَّ أَکْلَ مَا غَیَّرَتِ النَّارُ حَدَثٌ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ ، أَنَّ أَکْلَ مَا مَسَّتِ النَّارُ ، لَیْسَ بِحَدَثٍ .وَقَدْ رَوٰی ذٰلِکَ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا .
٣٨٤: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پنیر کا ٹکڑا کھایا اور وضو کیا پھر اس کے بعد دستی کا گوشت کھایا اور نماز پڑھائی اور (تازہ) وضو نہیں فرمایا۔ ان مذکورہ روایات سے یہ ثابت ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری عمل آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے کے بعد وضو نہ کرنا تھا اور جو اس کے خلاف روایات ہیں وہ اس دوسرے فعل سے منسوخ ہوگئیں یہ اس وقت ہے جبکہ وہ وضو جس کا حکم آپ نے دیا نماز والا وضو مراد لیا جائے اور اگر اس سے نماز والا وضو مراد نہ ہو جبکہ پہلی حدیث سے یہ بات ثابت نہیں کہ آگ سے پکی ہوئی چیز ناقض وضو ہے ‘ ہمارے ذکر کردہ آثار کی تصحیح یہی ثابت کرتی ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کا کھا لینا حدث نہیں ہے اور اس کو صحابہ کرام (رض) کی بہت بڑی جماعت نے بیان کیا ہے۔
تخریج : ابن حبان ٢؍٢٢٩
جیسا کہ اوپر کہہ آئے ان روایات نے ثابت کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آخری ثابت ہونے والا عمل آگ سے پکی چیز کھا لینے پر وضو نہ کرنا ہے اور جو آثار اولیٰ میں وارد ہے وہ منسوخ ہوچکا پس روایات منسوخہ سے استدلال درست نہ ہوا یہ اس صورت میں جواب ہے جبکہ الوضو سے وضو صلوۃ مراد لیا جائے۔
اور اگر احتمال ثانی کو سامنے رکھیں تو پہلی روایات اپنے مقام پر بلانسخ درست ہیں کہ اس سے وضو صلوۃ مراد نہیں بلکہ فقط ہاتھ منہ دھونا مراد ہے پس روایات اولیٰ سے آگ سے پکی چیز کو کھا لینے پر حدث ہی ثابت نہیں چہ جائیکہ اس کے بعد نیا وضو ثابت کرنے کی حاجت ہو۔
دلیل کا ایک اور رخ :
مما مست النار کا کھانا حدث ہی نہیں وضو کی حاجت تو موقعہ حدث پر ہوتی ہے مندرجہ ذیل احادیث اس پہلو کو روشن کرتی ہیں۔

385

۳۸۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِیْ مَعْرُوْفٍ ، عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ح ۔
٣٨٥: عطاء کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍١٦٧

386

۳۸۶ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ح
٣٨٦: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٥٢

387

۳۸۷ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ح .
٣٨٧: ابو بشر نے سلیمان بن قیس اور انھوں نے حضرت جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

388

۳۸۸ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ح .
٣٨٨: عمرو بن دینار نے جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے

389

۳۸۹ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ح .
٣٨٩: سفیان نے عمرو سے اور عمرو نے جابر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍١٦٧

390

۳۹۰ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : أَکَلْنَا مَعَ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خُبْزًا وَلَحْمًا ، ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .وَفِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدٍ خَاصَّۃً " وَأَکَلْنَا مَعَ عُمَرَ خُبْزًا وَلَحْمًا ، ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ وَلَمْ یَمَسَّ مَائً " .
٣٩٠: عبداللہ بن محمد بن عقیل کہتے ہیں کہ جابر (رض) نے فرمایا ہم نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ روٹی گوشت کھایا پھر نماز ادا کی اور انھوں نے وضو نہ کیا اور عبداللہ بن محمد کی روایت میں خاص طور پر یہ بات موجود ہے کہ ہم نے عمر (رض) کے ساتھ گوشت روٹی کھائی پھر وہ نماز کے لیے اٹھے اور انھوں نے پانی کو چھوا بھی نہیں۔
تخریج : سنن کبرٰی بیہقی ١؍١٥٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٤٧‘ مسند احمد ٣؍٣٠٤

391

۳۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ ڑ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٣٩١: محمد بن المنکدر نے حضرت جابر (رض) سے اور انھوں نے حضرت ابوبکر ‘ عمر (رض) سے اسی طرح کا عمل نقل کیا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٥١

392

۳۹۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ : أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْ نُعَیْمٍ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : رَأَیْتُ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیْقَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَکَلَ لَحْمًا ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .
٣٩٢: وہب بن کی ان کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے ابوبکر صدیق (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے گوشت کھایا پھر نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔
تخریج : بیہقی ١؍٣٤٣

393

۳۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، قَالَ : قَالَ لِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ ہِشَامٍ : إِنَّ ھٰذَا لَا یَدَعُنَا ( یَعْنِی الزُّہْرِیَّ ) أَنْ نَأْکُلَ شَیْئًا إِلَّا أَمَرَنَا أَنْ نَتَوَضَّأَ مِنْہٗ .فَقُلْتُ : سَأَلْتُ عَنْہُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ فَقَالَ : اِذَا أَکَلْتہ فَہُوَ طَیِّبٌ ، لَیْسَ عَلَیْکَ فِیْہِ وُضُوْئٌ فَإِذَا خَرَجَ فَہُوَ خَبِیْثٌ عَلَیْکَ فِیْہِ الْوُضُوْئُ .فَقَالَ : مَا أَرَاکُمَا إِلَّا قَدْ اخْتَلَفْتُمَا ، فَہَلْ بِالْبَلَدِ مِنْ أَحَدٍ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، أَقْدَمُ رَجُلٍ فِی جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ .قَالَ مَنْ ہُوَ ؟ قُلْتُ : عَطَائٌ فَأَرْسَلَ ، فَجِیْئَ بِہٖ فَقَالَ : إِنَّ ہَذَیْنِ قَدِ اخْتَلَفَا عَلَیَّ فَمَا تَقُوْلُ ؟ فَقَالَ : حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ، ثُمَّ ذَکَرَ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٣٩٣: قتادہ کہتے ہیں مجھے سلیمان بن ہشام نے کہا کہ یہ معنی زہری کوئی چیز کھلائے بغیر نہیں چھوڑتا اور ہمیں پھر اس سے وضو کرنا پڑتا ہے میں نے کہا میں نے تو سعید بن مسیب سے اس کے متعلق سوال کیا تو وہ کہنے لگے جب تم نے پاکیزہ چیز کھائی تو تم پر وضو نہیں اور جب وہ چیز نکلے جو گندی ہو تو اس کی وجہ سے تم پر وضو لازم ہے وہ کہنے لگے تم دونوں کے مسئلہ میں اختلاف ہوگیا ہے کیا اس شہر میں کوئی ایسا آدمی ہے جس سے استفسار کیا جائے ؟ میں نے کہا ہاں ! جزیرہ عرب کا سب سے بڑا عالم۔ اس نے کہا وہ کون ؟ میں نے کہا وہ عطاء ہیں۔ چنانچہ ان کی طرف پیغام بھیج کر ان کو منگوایا گیا تو اس نے کہا ان دو آدمیوں نے میرے مسئلہ کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے تم کیا فتویٰ دیتے ہو ؟ عطاء کہنے لگے ہمیں جابر بن عبداللہ نے بیان کیا پھر انھوں نے ابوبکر صدیق (رض) سے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٦٤

394

۳۹۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَابِرٌ أَنَّہٗ رَأَی أَبَا بَکْرٍ فَعَلَ ذٰلِکَ .
٣٩٤: ولید بن مسلم نے اوزاعی سے اور انھوں نے عطاء سے اور عطاء کہتے ہیں مجھے حضرت جابر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍١٧١

395

۳۹۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَمَّادٍ وَمَنْصُوْرٍ وَسُلَیْمَانُ وَمُغِیْرَۃُ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ وَعَلْقَمَۃَ خَرَجَا مِنْ بَیْتِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ یُرِیْدَانِ الصَّلَاۃَ فَجِیْئَ بِقَصْعَۃٍ مِنْ بَیْتِ عَلْقَمَۃَ ، فِیْہَا ثَرِیْدٌ وَلَحْمٌ فَأَکَلَا فَمَضْمَضَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ وَغَسَلَ أَصَابِعَہُ ، ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ .
٣٩٥: شعبہ نے حماد ‘ منصور ‘ سلیمان ‘ مغیرہ سے اور انھوں نے ابراہیم سے نقل کیا کہ ابن مسعود اور علقمہ دونوں حضرت عبداللہ بن مسعود کے گھر سے نکلے وہ نماز کے لیے جانا چاہتے تھے ان کے لیے اچانک علقمہ کے گھر سے ایک بڑی پر ات گوشت کے ثرید کی لائی گئی دونوں نے اس میں سے کھایا ابن مسعود (رض) نے مضمضمہ کیا اور اپنی انگلیاں دھوئیں پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ‘ کتاب الطہارۃ ١ / ٦٩

396

۳۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْأَعْمَشِیِّ ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ " لَأَنْ أَتَوَضَّأَ مِنْ الْکَلِمَۃِ الْمُنْتِنَۃِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَوَضَّأَ مِنَ اللُّقْمَۃِ الطَّیِّبَۃِ " .
٣٩٦: ابراہیم تیمی اپنے والد سے اور وہ ابن مسعود (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا فحش کلمہ سے وضو کرنا مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں پاکیزہ لقمہ سے وضو کروں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٣٤‘

397

۳۹۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، وَصَفْوَانِ بْنِ سُلَیْمٍ أَنَّہُمَا أَخْبَرَاہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْہَدِیْرِ أَنَّہٗ تَعَشَّیْ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .
٣٩٧: محمد بن ابراہیم بن الحارث التیمی نے ربیعہ بن عبداللہ بن الھدیر سے نقل کیا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ عشاء کا کھانا کھایا پھر آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔
تخریج : موطا امام محمد ‘ ومالک ١؍٥٩

398

۳۹۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ سَعِیْدِ ڑ الْمَازِنِیِّ عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ عُثْمَانَ أَکَلَ خُبْزًا وَلَحْمًا ، وَغَسَلَ یَدَیْہِ ، ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .
٣٩٨: ضمرہ بن سعید المازنی نے ابان بن عثمان (رض) سے اور ابان نے حضرت عثمان (رض) کے متعلق نقل کیا کہ عثمان (رض) نے روٹی اور گوشت کھایا اور اپنے ہاتھ دھوئے پھر ان کو اپنے چہرے پر مل لیا پھر نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔
تخریج : بیہقی ١؍٢٤٣‘ موطا امام محمد ١؍٥٩

399

۳۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ أُوَیْسٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ حُنَیْنٍ قَالَ : رَأَیْتُ عُثْمَانَ أُتِیَ بِثَرِیْدٍ فَأَکَلَ ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ ، ثُمَّ غَسَلَ یَدَہُ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّیْ بِالنَّاسِ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .
٣٩٩: عتبہ بن مسلم نے عبید بن حنین سے نقل کیا عبید کہتے ہیں میں نے حضرت عثمان (رض) کو دیکھا کہ ان کے لیے ثرید لایا گیا اور انھوں نے اس میں سے کھایا پھر مضمضمہ کیا پھر اپنے ہاتھ کو دھویا پھر لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوگئے اور وضو نہ کیا۔

400

۴۰۰: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ نَوْفَلِ بْنِ أَبِیْ عَقْرَبِ ڑ الْکِنَانِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ أَکَلَ خُبْزًا رَقِیْقًا وَلَحْمًا ، حَتّٰی سَالَ الْوَدَکُ عَلٰی أَصَابِعِہٖ ‘ فَغَسَلَ یَدَہُ وَصَلَّی الْمَغْرِبَ .
٤٠٠: ابو نوفل بن ابو عقرب الکنانی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے چپاتی اور گوشت کھایا یہاں تک کہ چربی ان کی انگلیوں پر بہہ پڑی پھر اپنے ہاتھ دھو کر نماز مغرب ادا فرمائی۔

401

۴۰۱: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أُتِیَ بِجَفْنَۃٍ مِنْ ثَرِیْدٍ وَلَحْمٍ عِنْدَ الْعَصْرِ ، فَأَکَلَ مِنْہَا ، فَأُتِیَ بِمَائٍ ، فَغَسَلَ أَطْرَافَ أَصَابِعِہٖ ‘ ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .
٤٠١: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کے پاس گوشت کے ثرید کا ایک بڑا پیالہ لایا گیا اس وقت عصر کا وقت تھا آپ نے اس میں سے کھایا پھر پانی لایا گیا تو اس سے اپنی انگلیوں کے اطراف کو دھویا پھر نماز ادا کی اور وضو نہ کیا۔

402

۴۰۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ السَّبِیْعِیِّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : دَخَلَ قَوْمٌ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَأَطْعَمَہُمْ طَعَامًا ، ثُمَّ صَلَّیْ بِہِمْ عَلٰی طِنْفِسَۃٍ فَوَضَعُوْا عَلَیْہَا وُجُوْہَہُمْ وَجِبَاہَہُمْ ، وَمَا تَوَضَّئُوْا .
٤٠٢: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ابن عباس (رض) کے پاس آئے آپ نے ان کو کھانا کھلایا پھر ان کو ایک چٹائی پر ان کو نماز پڑھائی انھوں نے اسی چٹائی پر اپنے چہرے اور پیشانیاں رکھیں اور انھوں نے وضو نہ کیا۔ (حالانکہ جابجا چٹائی پر کھانے کے نشان تھے)
اللغات : الطنفسۃ : قالین۔

403

۴۰۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ لِأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " مَا تَقُوْلُ فِی الْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتِ النَّارُ " ؟ .قَالَ : تَوَضَّأْ مِنْہُ، قَالَ : فَمَا تَقُوْلُ فِی الدُّہْنِ وَالْمَائِ الْمُسَخَّنِ ، یُتَوَضَّأُ مِنْہُ ؟ .فَقَالَ : أَنْتَ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ دَوْسٍ .قَالَ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، لَعَلَّک تَلْتَجِیُٔ إِلَی ھٰذِہِ الْآیَۃِ ( بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ).
٤٠٣: سعید بن ابی بردہ نے اپنے والد ابو بردہ سے نقل کیا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے حضرت حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہا آگ سے پکی چیز (کھا لینے پر وضو) کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے تم اس سے وضو کرو۔ ابن عمر (رض) کہنے لگے گرم تیل اور گرم پانی کے متعلق کیا کہتے ہو کیا ان سے وضو کیا جائے گا ؟ تو حضرت ابوہریرہ (رض) کہنے لگے : انت رجل من قریش وانا رجل من دوس آپ بڑی عقل والے ہم کم سمجھ۔ اس پر ابن عمر (رض) کہنے لگے شاید تم اس آیت کا سہارا لے رہے ہو۔ بل ھم قوم خصمون (الزخرف)

404

۴۰۴: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ " لَا تَتَوَضَّأْ مِنْ شَیْئٍ تَأْکُلُہُ " .
٤٠٤: مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا جس چیز کو کھاؤ اس سے وضو مت کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ٤٩

405

۴۰۵: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَبِیْ غَالِبٍ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ ، أَنَّہٗ أَکَلَ خُبْزًا وَلَحْمًا ، فَصَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ ، وَقَالَ : الْوُضُوْئُ مِمَّا یَخْرُجُ ، وَلَیْسَ مِمَّا یَدْخُلُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَہَؤُلَائِ الْأَجِلَّۃُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا یَرَوْنَ فِیْ أَکْلِ مَا غَیَّرَتِ النَّارُ وُضُوْئً ا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ آخَرِیْنَ مِنْہُمْ مِثْلُ ذٰلِکَ ، مِمَّنْ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ ( عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَمَرَ بِالْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ).فَمِنْ ذٰلِکَ .
٤٠٥: حماد کہتے ہیں کہ ابو غالب نے ابو امامہ (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے روٹی اور گوشت کھایا پھر نماز پڑحی اور وضو نہ کیا اور فرمانے لگے نکلنے والی چیز (بول ‘ براز ‘ خون ‘ سے وضو ہے پیٹ میں کھائی جانے والی چیز سے وضو نہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جلیل القدر اصحاب ہیں جن کے ہاں آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے کے بعد وضو نہیں ہے اور دوسرے صحابہ (رض) سے جو انہی کے مثل ہیں انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے پر وضو کا حکم دیا۔
یہ حضرت ابوطلحہ اور حضرت ابو ایوب ہیں ‘ جنہوں نے آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا اور ہم نے ان دو حضرات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق وضو کا حکم دیا اور ہمارے نزدیک یہ تضاد (عمل) نہیں ہوسکتا۔ سوائے اس صورت کہ جو انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے روایت کیا۔ اس کا منسوخ ہونا ثابت ہوچکا ‘ روایات کے لحاظ سے اس باب کی یہی صورت ہے۔ غور و فکر کے لحاظ سے اب ملاحظہ فرمائیں کہ ہم بہت ساری چیزیں ایسی دیکھتے ہیں کہ جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان کے کھانے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں جبکہ وہ آگ سے پکی ہوں ؟ اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آگ پر پکانے سے پہلے ان کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ کیا آگ کا کوئی ایسا حکم ہے کہ جب یہ چیزوں تک پہنچ جائے تو وہ حکم اس چیز کی طرف منتقل ہوجاتا ہے چنانچہ ہم نے خالص پانی کو دیکھا کہ وہ پاک ہے اور اس سے فرض ادا کیے جاتے ہیں ‘ پھر ہم نے دیکھا کہ جب اس کو گرم کرلیا جائے اور یہ ان چیزوں میں شامل ہوجائے جو آگ سے پکتی ہیں تو طہارت میں اس کا حکم وہی ہے جو آگ پر پکنے سے پہلے ہو اور آگ نے اس میں کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی کہ جس سے اس کا حکم بدل کر ابتداء والے حکم سے مختلف ہوجائے۔ تو نظر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکیزہ کھانا جس کے کھانے سے آگ پر پکنے سے پہلے حدث لازم نہیں آتا تو جب اسے آگ نے چھو لیا تو آگ اس کو اس کی اپنی حالت سے نہ بدلے گی اور نہ اس کا حکم اور ہوگا بلکہ آگ کے چھونے کے بعد اس کا حکم وہی رہے گا۔ قیاس و نظر یہی چاہتے ہیں جو ہم نے عرض کردیا۔ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن حسن (رح) کا یہی مسلک ہے۔ بعض لوگوں نے بکری اور اونٹ کے گوشت میں فرق کیا اور اونٹ کا گوشت کھا لینے سے وضو کو لازم کیا اور بکری کے گوشت سے لازم نہیں کیا۔
حاصل روایات : ان اکیس روایات و آثار سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اجلہ صحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگ سے پکی چیز استعمال کرلینے سے وضو لازم قرار نہ دیتے تھے ان صحابہ میں ابوبکر و عمرو عثمان ابن عباس اور ابن عمر ابو امامہ (رض) جیسے جلیل القدر حضرات شامل ہیں۔
شروع باب میں جن حضرات صحابہ کرام کی روایات اس کے خلاف نقل کی گئی تھیں یہاں ان کے فتاویٰ پیش کئے جا رہے ہیں جو روایات بالا کی تائید کرتے ہیں یہ ان روایات کے نسخ کی دلیل ہے۔

406

۴۰۶: مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ .ثَنَا بِشْرُ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زَیْدِ ڑ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : " بَیْنَا أَنَا وَأَبُوْ طَلْحَۃَ الْأَنْصَارِیُّ وَأُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ أُتِیْنَا بِطَعَامٍ سُخِّنَ ، فَأَکَلْنَا ، ثُمَّ قُمْتُ إِلَی الصَّلَاۃِ فَتَوَضَّأْتَ فَقَالَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہٖ : أَعِرَاقِیَّۃٌ ؟ ثُمَّ انْتَہَرَانِیْ فَعَلِمْتُ أَنَّہُمَا أَفْقَہُ مِنِّی " .
٤٠٦ عبدالرحمن بن زید انصاری کہتے ہیں مجھے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میں اور ابو طلحہ انصاری ‘ ابی بن کعب (رض) بیٹھے تھے ہمارے پاس گرم کھانا لایا گیا ہم نے اس میں سے کھایا پھر میں جب نماز کے لیے اٹھا تو میں نے وضو کیا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کیا تو عراقی بن گیا ہے ؟ پھر انھوں نے مجھے اس پر ڈانٹا پس میں نے سمجھ لیا کہ وہ دونوں مجھ سے بڑے فقیہہ ہیں۔
تخریج : بیہقی ١؍٢٤٤

407

۴۰۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زَیْدِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدِمَ مِنَ الْعِرَاقِ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .وَزَادَ ( فَقَامَ أَبُوْ طَلْحَۃَ وَأُبَیُّ فَصَلَّیَا وَلَمْ یَتَوَضَّآ).
٤٠٧: عبدالرحمن بن زید انصاری کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) عراق سے تشریف لائے پھر اسی سابقہ روایت کی طرح روایت نقل کی ہے اور یہ اضافہ بھی ہے فقام ابو طلحہ وابی فصلیا ولم یتوضیا کہ وہ دونوں اٹھے اور نماز ادا کی اور انھوں نے وضو نہ کیا (یعنی تازہ وضو نہ کیا)
تخریج : موطا مالک باب ٩ باب الوضو ممامست النار

408

۴۰۸: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ إِسْمَاعِیْلُ بْنُ رَافِعٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ النِّیْلِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زَیْدِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ أَکَلَتْ أَنَا وَأَبُوْ طَلْحَۃَ ، وَأَبُوْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیُّ طَعَامًا قَدْ مَسَّتْہُ النَّارُ ، فَقُمْت لَأَنْ أَتَوَضَّأَ ، فَقَالَا لِیْ " أَتَتَوَضَّأُ مِنَ الطَّیِّبَاتِ ؟ لَقَدْ جِئْت بِہَا عِرَاقِیَّۃً " .فَھٰذَا أَبُوْ طَلْحَۃَ وَأَبُوْ أَیُّوْبَ ، قَدْ صَلَّیَا بَعْدَ أَکْلِہِمَا مِمَّا غَیَّرَتِ النَّارُ ، وَلَمْ یَتَوَضَّئَا ، وَقَدْ رَوَیَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَمَرَ بِالْوُضُوْئِ مِنْ ذٰلِکَ فِیْمَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُمَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .فَھٰذَا لَا یَکُوْنُ - عِنْدَنَا - إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ نَسْخُ مَا قَدْ رَوَیَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ عِنْدَہُمَا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا ھٰذِہِ الْأَشْیَائَ الَّتِیْ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ أَکْلِہَا أَنَّہُ یَنْقُضُ الْوُضُوْئَ أَمْ لَا اِذَا مَسَّتْہَا النَّارُ ؟ وَقَدْ أُجْمِعَ أَنَّ أَکْلَہَا قَبْلَ مُمَاسَّۃِ النَّارِ إِیَّاہَا لَا یَنْقُضُ الْوُضُوْئَ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ ، ہَلْ لِلنَّارِ حُکْمٌ یَجِبُ فِی الْأَشْیَائِ اِذَا مَسَّتْہَا فَیَنْتَقِلُ بِہٖ حُکْمُہَا إِلَیْہَا فَرَأَیْنَا الْمَائَ الْقَرَاحَ طَاہِرًا تُؤَدَّیْ بِہٖ الْفُرُوضُ .ثُمَّ رَأَیْنَاہُ اِذَا سُخِّنَ فَصَارَ مِمَّا قَدْ مَسَّتْہُ النَّارُ أَنَّ حُکْمَہٗ فِی طَہَارَتِہِ عَلٰی مَا کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ مُمَاسَّتِہِ النَّارَ إِیَّاہُ ، وَأَنَّ النَّارَ لَمْ تُحْدِثْ فِیْہِ حُکْمًا یَنْتَقِلُ بِہٖ حُکْمُہُ إِلَیْ غَیْرِ مَا کَانَ عَلَیْہِ فِی الْبَدْئِ .فَلَمَّا کَانَ مَا وَصَفْنَا کَذٰلِکَ ، کَانَ فِی النَّظَرِ أَنَّ الطَّعَامَ الطَّاہِرَ الَّذِیْ لَا یَکُوْنُ أَکْلُہُ قَبْلَ أَنْ تَمَسَّہُ النَّارُ ، حَدَثًا اِذَا مَسَّتْہُ النَّارُ لَا تَنْقُلُہُ عَنْ حَالِہِ ، وَلَا تُغَیِّرُ حُکْمَہٗ ، وَیَکُوْنُ حُکْمُہُ بَعْدَ مَسِیْسِ النَّارِ إِیَّاہُ ، کَحُکْمِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ قِیَاسًا وَنَظَرًا ، عَلٰی مَا بَیَّنَّا .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ فَرَّقَ قَوْمٌ بَیْنَ لُحُوْمِ الْغَنَمِ وَلُحُوْمِ الْاِبِلِ .فَأَوْجَبُوْا فِیْ أَکْلِ لُحُوْمِ الْاِبِلِ الْوُضُوْئَ ، وَلَمْ یُوْجِبُوْا ذٰلِکَ فِیْ أَکْلِ لُحُوْمِ الْغَنَمِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٠٨: عبدالرحمن بن زید الانصاری نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا کہ میں اور ابو طلحہ ‘ ابو ایوب انصاری نے کھانا کھایا جو آگ سے پکا ہوا تھا میں وضو کرنے کھڑا ہوا تو وہ دونوں مجھے کہنے لگے کیا تم پاکیزہ چیزوں کو استعمال کر کے بھی وضو کرتے ہو ؟ تجھ میں عراقیت کا اثر ہوگیا۔ یہ حضرت ابوطلحہ اور حضرت ابو ایوب ہیں ‘ جنہوں نے آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا اور ہم نے ان دو حضرات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق وضو کا حکم دیا اور ہمارے نزدیک یہ تضاد (عمل) نہیں ہوسکتا۔ سوائے اس صورت کہ جو انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے روایت کیا۔ اس کا منسوخ ہونا ثابت ہوچکا ‘ روایات کے لحاظ سے اس باب کی یہی صورت ہے۔ غور و فکر کے لحاظ سے اب ملاحظہ فرمائیں کہ ہم بہت ساری چیزیں ایسی دیکھتے ہیں کہ جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان کے کھانے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں جبکہ وہ آگ سے پکی ہوں ؟ اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آگ پر پکانے سے پہلے ان کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ کیا آگ کا کوئی ایسا حکم ہے کہ جب یہ چیزوں تک پہنچ جائے تو وہ حکم اس چیز کی طرف منتقل ہوجاتا ہے چنانچہ ہم نے خالص پانی کو دیکھا کہ وہ پاک ہے اور اس سے فرض ادا کیے جاتے ہیں ‘ پھر ہم نے دیکھا کہ جب اس کو گرم کرلیا جائے اور یہ ان چیزوں میں شامل ہوجائے جو آگ سے پکتی ہیں تو طہارت میں اس کا حکم وہی ہے جو آگ پر پکنے سے پہلے ہو اور آگ نے اس میں کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی کہ جس سے اس کا حکم بدل کر ابتداء والے حکم سے مختلف ہوجائے۔ تو نظر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکیزہ کھانا جس کے کھانے سے آگ پر پکنے سے پہلے حدث لازم نہیں آتا تو جب اسے آگ نے چھو لیا تو آگ اس کو اس کی اپنی حالت سے نہ بدلے گی اور نہ اس کا حکم اور ہوگا بلکہ آگ کے چھونے کے بعد اس کا حکم وہی رہے گا۔ قیاس و نظر یہی چاہتے ہیں جو ہم نے عرض کردیا۔ ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن حسن (رح) کا یہی مسلک ہے۔ بعض لوگوں نے بکری اور اونٹ کے گوشت میں فرق کیا اور اونٹ کا گوشت کھا لینے سے وضو کو لازم کیا اور بکری کے گوشت سے لازم نہیں کیا۔
تخریج : عبدالرزاق ق؍١٧٠‘ باختلاف قلیل من اللفظ
گزشتہ صفحات میں ابو طلحہ انصاری ‘ ابی بن کعب ‘ ابو ایوب انصاری (رض) سے روایات نقل کی گئیں تو ان چیزوں کے کھانے کے بعد پہلے وضو کے قائل تھے ان روایات میں انہی کی زبان سے ان کا فتویٰ نقل کردیا جو اس کے خلاف ہے راوی کا فتویٰ روایت کے خلاف ہو تو روایت منسوخ قرار دی جاتی ہے پس ان حضرات کی روایات کو منسوخ ماننے کے علاوہ چارہ کار نہیں یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کریں اب احناف کی طرف سے آثار میں موافقت کی یہی صورت نکل سکتی ہے۔
نظری دلیل کو ملاحظہ فرمائیں :
یہ اشیاء کہ جن کے کھا لینے پر اختلاف ہوا ہے ان میں غور کرنا چاہیے کہ آیا آگ کے مس کرنے کے بعد وہ وضو کو توڑتی ہیں یا نہیں ؟ اس بات پر اتفاق ہے کہ آگے میں پکنے سے پہلے ان کا استعمال ناقض وضو نہ تھا اب ہم چاہتے ہیں کہ اس بات پر غور کریں کہ آیا آگ میں کوئی ایسا حکم ہے جو آگ کے چھونے سے پہلے اور تھا اور جب آگ نے چھو لیا تو اب آگے کی وجہ سے حکم بدل گیا چنانچہ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خالص پانی جب پاک ہو تو اس سے فرائض ادا کئے جاتے ہیں پھر جب اسے گرم کرلیا جائے تو آگ سے گرم کرنے پر وہ ممامست النار تو ہوگیا مگر اس کے متعلق حکم طہارت میں چنداں تفاوت نہیں ہوا بلکہ طہارت ہی کا حکم رہا آگ کی وجہ سے کوئی نیا حکم نہیں آیا جو ابتدا سے مختلف ہو۔
جب ہم طاہر کھانے پر نظر ڈالیں تو آگ پر پکنے سے پہلے اور بعد حکم ایک جیسا نظر آتا ہے آگ کے چھونے سے پہلے بھی وہ حدث نہ تھا کہ آگ کے چھو لینے کے بعد بھی حدث نہیں آگ نے اس کے حکم میں تغیر نہیں کیا تو قیاس و نظر سے بھی ثابت ہوگیا کہ ممامست النار کے استعمال پر وضو نہ ہونا چاہیے۔
یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ امام ابو یوسف (رح) و محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔
کیا بکری اور اونٹ کے گوشت کا حکم مختلف ہے ؟
کیا ان دونوں گوشتوں میں فرق ہے ؟ بعض حضرات نے فرق کیا اور اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کو لازم کہا اور بکری کا گوشت کھانے پر نہیں۔
فرق کا مقصود :
یہ ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو واجب ہے اور بکری کا گوشت کھانے کے بعد واجب نہیں امام احمد و اسحاق بن راہویہ اونٹ کے گوشت کا کھانا ناقض وضو مانتے ہیں اور ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہاء و محدثین ناقض نہیں مانتے۔

409

۴۰۹: بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : ثَنَا سِمَاکٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ ثَوْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ : ( سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْاِبِلِ ؟ .قَالَ : نَعَمْ قِیْلَ أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ ؟ قَالَ : لَا).
٤٠٩: جعفر بن ابی ثور نے جابر بن سمرہ سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کیا اونٹوں کے گوشت سے وضو کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ بکری کے گوشت سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧١‘ مسند احمد ٥؍٩٨‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍١٥٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٤٦‘ ٤٧

410

۴۱۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ ثَوْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٤١٠: ابو ثور نے حضرت جابر (رض) سے اور حضرت جابر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی روایت نقل کی ہے۔

411

۴۱۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، ثَنَا الْحَجَّاجُ ، ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ جَدِّہٖ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، أَنَّ ( رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ ؟ قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَعَلْتُ ، وَإِنْ شِئْت لَمْ تَفْعَلْ .قَالَ : قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْاِبِلِ ؟ قَالَ نَعَمْ).
٤١١: جعفر نے اپنے دادا جابر بن سمر (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ ! کیا ہم بکری کے گوشت سے وضو کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا اگر چاہو تو کرلو اور نہ چاہو تو نہ کرو یعنی لازم نہیں۔
عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اونٹ کے گوشت سے وضو کروں فرمایا جی ہاں۔
تخریج : مسلم فی الحیض روایت ٩٧‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧١‘ مسند احمد ٥؍١٠٢‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍١٥٨

412

۴۱۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا ، أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ ثَوْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ الْوُضُوْئُ لِلصَّلَاۃِ بِأَکْلِ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْوُضُوْئُ الَّذِیْ أَرَادَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہُوَ غَسْلُ الْیَدِ .وَفَرَّقَ قَوْمٌ بَیْنَ لُحُوْمِ الْاِبِلِ ، وَلُحُوْمِ الْغَنَمِ فِیْ ذٰلِکَ ، لِمَا فِی لُحُوْمِ الْاِبِلِ مِنَ الْغِلَظِ ، وَمِنْ غَلَبَۃِ وَدَکِہَا عَلٰی یَدِ آکِلِہَا فَلَمْ یُرَخِّصْ فِیْ تَرْکِہِ عَلَی الْیَدِ وَأَبَاحَ أَنْ لَا یَتَوَضَّأَ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ لِعَدَمِ ذٰلِکَ مِنْہَا .وَقَدْ رَوَیْنَا فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ أَنَّ آخِرَ الْأَمْرَیْنِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ( تَرْکُ الْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتَ النَّارُ).فَإِذَا کَانَ مَا تَقَدَّمَ مِنْہُ ہُوَ الْوُضُوْئُ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ ، وَفِیْ ذٰلِکَ لُحُوْمُ الْاِبِلِ وَغَیْرِہَا ، کَانَ فِیْ تَرْکِہِ ذٰلِکَ تَرْکُ الْوُضُوْئِ مِنْ لُحُوْمِ الْاِبِلِ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْاِبِلَ وَالْغَنَمَ ، سَوَائً فِی حِلِّ بَیْعِہِمَا وَشُرْبِ لَبَنِہِمَا ، وَطَہَارَۃِ لُحُوْمِہِمَا ، وَأَنَّہٗ لَا تَفْتَرِقُ أَحْکَامُہُمَا فِیْ شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنَّہُمَا ، فِیْ أَکْلِ لُحُوْمِہِمَا سَوَائٌ .فَکَمَا کَانَ لَا وُضُوْئَ فِیْ أَکْلِ لُحُوْمِ الْغَنَمِ ، فَکَذٰلِکَ لَا وُضُوْئَ فِیْ أَکْلِ لُحُوْمِ الْاِبِلِ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤١٢: جعفر بن ابی ثور نے جابر بن سمرہ (رض) سے اور جابر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔ دوسرے حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان چیزوں میں سے کسی کے کھا لینے سے نماز والا وضو لازم نہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ وضو جس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے اور بعض لوگوں نے اونٹ اور بکری کے گوشت میں فرق کیا ہے کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ زیادہ ہے اور چکناہٹ کے ہاتھ پر لگ جانے کی وجہ سے اس کے ہاتھ پر باقی رہنے کی رخصت نہیں دی اور بکری کا گوشت کھا لینے کے بعد وضو نہ کرنے کو درست قرار دیا کیونکہ اس میں چکناہٹ نہیں۔ ہم پہلے سلسلہ میں جابر والی روایت نقل کرچکے کہ آپ کا آخری عمل آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے کے بعد وضو کو ترک کرنا تھا۔ جب گزشتہ روایات والا وضو ہے جو آگ سے پکی ہوئی چیز کے بارے میں منقول ہے تو اس میں اونٹ وغیرہ کا گوشت بھی آجاتا ہے اور اس وضو کے چھوڑنے میں اونٹ کے گوشت کے بعد وضو کا چھوڑنا بھی شامل ہے ‘ اس باب کا یہ حکم تو روایات کے انداز سے ہے۔ باقی نظر و فکر کے لحاظ سے ہم عرض کرتے ہیں کہ ہم نے غور کیا کہ اونٹ اور بکری بیع کے حلال ہونے اور دودھ کے پینے اور گوشت کی طہارت میں برابر ہیں اور ان تینوں قسم کے احکام میں ان میں کوئی فرق نہیں پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے گوشت کھانے کا حکم بھی اسی طرح ہو (برابر ہو) جس طرح بکری کا گوشت کھا لینے سے وضو لازم نہیں اونٹ کے گوشت میں بھی اسی طرح وضو نہیں اور ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد بن حسن (رح) کا یہی قول ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے اونٹ اور بکری کے گوشت کا فرق بھی معلوم ہوا کہ اونٹ کا گوشت کھا لینے سے وضو ضروری ہے اور بکری کا گوشت کھانے سے نہیں۔
فریق اوّل :
کے علماء کا مقصود یہی ہے یہ تمام روایات جابر بن سمرہ (رض) سے ہی وارد ہیں۔
ائمہ ثلاثہ اور جمہور علماء کا قول ان دونوں گوشتوں میں دسومت اور چکناہٹ کا ضرور فرق ہے مگر کسی کے کھانے پر بھی وضو لازم نہیں۔
اس کی پہلی وجہ :
یہ ہے کہ وضو کا لفظ جو ان روایات میں وارد ہوا اس سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد غسل ید ہے اور اس میں کسی کو کلام نہیں۔
وجہ دوم :
یہ دونوں گوشت باہمی فرق ضرور رکھتے ہیں مگر غلبہ وسومت اور قلت چکناہٹ کی وجہ سے کھانے والے کے ہاتھوں پر لگی چربی کو ہاتھوں پر باقی رہنے کی اجازت نہ دی گئی۔
شروع باب میں ہم روایت نقل کر آئے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری عمل آگ سے پکی ہوئی چیز کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنے کا عمل ہے اور شروع میں حکم تھا پھر نہیں رہا اب آگ پر پکنے والی اشیاء میں اونٹ و بکری کا گوشت سب برابر ہیں گویا آخر میں ان میں سے کسی چیز کے کھا لینے پر وضو نہ کرنا تھا۔
روایات کی موافقت کے لیے تو اسی طرح آثار سے حکم ثابت ہوگا۔
نظر طحاوی :
نظر و فکر سے دیکھا جاتا ہے کہ اونٹ بکری ان تمام چیزوں میں برابر ہیں نمبر ایک بیع کی حلت نمبر دو شرب لبن نمبر تین طہارت لحم وغیرہ تو کسی چیز میں بھی ان کے احکام الگ نہ ہونے چاہئیں پس تقاضا نظر و فکر بھی یہ ہے کہ ان کے گوشت کھا لینے کا حکم بھی یکساں ہونا چاہیے جیسا بکری کا گوشت کھا لینے کے بعد وضو لازم نہیں اسی طرح اونٹ کا گوشت کھا لینے پر بھی وضو نہ چاہیے یہی حضرت امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔

413

۴۱۳: حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، أَنَّہٗ تَذَاکَرَ ہُوَ وَمَرْوَانُ ، الْوُضُوْئَ مِنْ مَسِّ الْفَرْجِ ، فَقَالَ مَرْوَانُ : حَدَّثَتْنِیْ بُسْرَۃُ بِنْتُ صَفْوَانَ ، أَنَّہَا سَمِعْتْ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُ بِالْوُضُوْئِ مِنْ مَسِّ الْفَرْجِ ) ، فَکَانَ عُرْوَۃُ لَمْ یَرْفَعْ بِحَدِیْثِہَا رَأْسًا .فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَیْہَا شُرْطِیًّا ، فَرَجَعَ فَأَخْبَرَہُمْ أَنَّہَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُ بِالْوُضُوْئِ مِنْ مَسِّ الْفَرْجِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْأَثَرِ ، وَأَوْجَبُوا الْوُضُوْئَ مِنْ مَسِّ الْفَرْجِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا وُضُوْئَ فِیْہِ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فَقَالُوْا : فِیْ حَدِیْثِکُمْ ھٰذَا أَنَّ عُرْوَۃَ لَمْ یَرْفَعْ بِحَدِیْثِ بُسْرَۃَ رَأْسًا .فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہَا عِنْدَہٗ فِیْ حَالِ مَنْ لَا یُؤْخَذُ ذٰلِکَ عَنْہَا ، فَفِیْ تَضْعِیْفِ مَنْ ہُوَ أَقَلُّ مِنْ عُرْوَۃَ بُسْرَۃَ ، مَا یَسْقُطُ بِہٖ حَدِیْثُہَا ، وَقَدْ تَابَعَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ غَیْرُہٗ .
٤١٣: زہری نے عروہ سے بیان کیا عروہ کہتے ہیں میں نے اور مروان نے باہمی مس ذکر سے وضو کے متعلق مذاکرہ کیا مروان نے کہا مجھے بسرہ بنت صفوان نے بیان کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شرمگاہ کے چھو لینے پر وضو کا حکم فرماتے سنا عروہ نے بات سن کر اس کی طرف بالکل توجہ نہ کی مروان نے اپنا ایک سپاہی بھیج کر بسرہ سے استفسار کرایا تو وہ سپاہی لوٹ کر بتلانے گا کہ بسرہ (رض) نے ہی یہ کہا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شرمگاہ چھو لینے پر وضو کا حکم فرماتے سنا ہے۔ بعض لوگ اس روایت کی بناء پر اس طرف گئے ہیں کہ انھوں نے شرمگاہ کو چھو لینے سے وضو کو لازم قرار دیا۔ دوسروں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وضو نہیں ہے اور انھوں نے پہلے قول والوں کے خلاف دلیل دیتے ہوئے کہا کہ تمہاری روایت میں یہ موجود ہے کہ عروہ نے بسرہ کی روایت کی طرف توجہ دی۔ اگر یہ اسی طرح ہے تو گویا عروہ کے نزدیک وہ اس حالت والوں میں سے ہے جن کی روایت نہیں لی جاتی۔ عروہ سے کم درجے کا آدمی بھی اگر بسرہ کو ضعیف قرار دیدے تو تب بھی اس کی روایت ساقط ہوجاتی ہے چہ جائیکہ عروہ خود ہو اور عروہ کی متابعت اس سلسلہ میں اور لوگوں نے بھی کی ہے۔
خلاصہ الزام : فرج سے مرد و عورت کی شرمگاہ اور کبھی دبر بھی مراد ہوتی ہے مگر یہاں صرف مرد کی شرمگاہ یعنی ذکر مراد ہے ائمہ ثلاثہ اور سعید بن مسیب و زہری (رح) مس ذکر بلا حائل کو ناقض وضو مانتے ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری، حسن بصری (رح) مس ذکر سے عدم نقض وضو کے قائل ہیں۔
تخریج : من مس فرجہ فلیتوضا ” فعلیہ الوضو “ کے الفاظ سے ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٦٩‘ روایت ١٨١‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٦١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١١٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٦٣‘ مالک فی الطھارۃ روایت ٥٨‘ مسند احمد ٦؍٤٠٦‘ سنن کبرٰی بیہقی ١؍١٢٨‘ معجم کبیر للطبرانی ٢٤؍٤٨٧‘ مصنف عبدالرزاق ٤١٢‘ مستدرک حاکم ١؍١٣٦‘ شرح السنہ للبغوی ١٦٥‘ للبیہقی مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٣۔
فریق ثانی کی طرف سے روایت پر اعتراضات
نمبر ١: حضرت عروہ نے اس روایت کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی اس لیے کہ حضرت بسرہ (رض) ان کے ہاں ان رواۃ سے ہیں جن سے روایت نہیں لی جاتی۔ عروہ سے کم درجے کا آدمی بھی اگر ان کی تضعیف کر دے تب بھی ان کی روایت قابل استدلال نہیں رہتی بلکہ ساقط ہوجاتی ہے۔
نمبر ٢: عروہ کے علاوہ لوگوں نے اس کی تضعیف کی ہے چنانچہ ابن وہب کہتے ہیں کہ مجھے یزید نے بتلایا کہ ربیعہ فرمانے لگے اگر میں خون یا دم حیض میں انگلی رکھ دوں تو میرا وضو نہ ٹوٹے گا تو مس ذکر تو دم سے کم تر ہے۔ (اس سے کس طرح وضو ٹوٹ جائے گا) ربیعہ کہا کرتے تھے تم اس قسم کی روایات سے استدلال کرتے ہو بسرہ کی روایت پر کیوں کر عمل ہوسکتا ہے جبکہ اگر وہ بالمشافہ اس جوتے کے متعلق گواہی دے دے تو میں ان کی شہادت کو قبول نہ کروں گا دین کا رکن نماز ہے اور نماز کا دارومدار طہارت پر ہے تو کیا صحابہ کرام میں اس دین کو قائم کرنے والا بسرہ (رض) کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ؟ دراصل بسرہ کو ارشاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مطلب سمجھ نہ آیا۔
نمبر ٣: ابن زید کہتے ہیں ہمارے تمام مشائخ کا اتفاق ہے کہ مس ذکر سے وضو واجب نہیں۔
نمبر ٤: عروہ کا روایت کی طرف توجہ نہ کرنا بسرہ (رض) کی قلت صحبت رسول کی وجہ سے تھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود مروان ان کے ہاں مقبول راوی نہیں اور پھر مجہول شرطی کا بیان تو اس کی تائید کی بجائے تضعیف کو بڑھا رہا ہے۔
نمبر ٥: عروہ کے ہاں مروان خود غیر مقبول راوی ہے تو اس کا سپاہی اس سے کہیں بڑھ کر ناقابل قبول ہے پھر اس سے کچھ آگے بڑھ کر بات یہ ہے کہ زہری نے اس کو عروہ سے خود نہیں سنا بلکہ تدلیس کی اور عبداللہ بن ابی بکر جو ان کے استاد ہیں ان کو حذف کردیا۔
نمبر ٦: زہری کی بذات خود عروہ سے روایت جو درجہ رکھتی ہے وہ عبداللہ بن ابی بکر کے واسطے والی روایت وہ درجہ نہیں رکھتی کیونکہ وہ خود ناپختہ غیر متفن راوی ہے خود امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ سے میں نے سنا کہ جب ہم کسی کو ایسے گروہ سے روایت نقل کرتے دیکھتے جو عبداللہ بن ابی بکر کے درجہ کا ہو تو ہم اس کا مذاق کرتے کیونکہ یہ لوگ حدیث کو جانتے بھی نہ تھے ابن عیینہ تو بڑے درجہ کے آدمی ہیں ان سے کم درجہ کے آدمی کا بیان بھی ان لوگوں کے ضعف کے لیے کافی ہے۔ ایک اعتراض : یہاں تم نے عبداللہ بن ابی بکر کا ضعف بیان کیا یہ دوسری سند سے ثابت ہے کہ ابن شہاب نے خود ابوبکر بن محمد اور انھوں نے عروہ سے نقل کی ہے جو یہ ہے۔ الجواب : امام زہری کے استاذ دراصل ابوبکر بن محمد ہیں اور ان کو چھپا کر تدلیس کی ہے اور مدلس کی روایت خود غیر مقبول ہے۔ اعتراض نمبر ٢: اس روایت کو ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے اور ہشام تو ایسا راوی ہے جس میں کسی کو کلام نہیں روایت اس طرح ہے۔
اس کی دلیل یہ روایت ہے :

414

۴۱۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ زَیْدٌ، عَنْ رَبِیْعَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : لَوْ وَضَعْتُ یَدِیْ فِیْ دَمٍ أَوْ حَیْضَۃٍ، مَا نُقِضَ وُضُوْئِیْ، فَمَسُّ الذَّکَرِ أَیْسَرُ أَمُ الدَّمُ أَمِ الْحَیْضَۃُ؟ قَالَ وَکَانَ رَبِیْعَۃُ یَقُوْلُ لَہُمْ : وَیْحَکُمْ، مِثْلُ ھٰذَا یَأْخُذُ بِہٖ أَحَدٌ، وَنَعْمَلُ بِحَدِیْثِ بُسْرَۃَ؟ وَاللّٰہِ لَوْ أَنَّ بُسْرَۃَ شَہِدَتْ عَلٰی ھٰذِہِ النَّعْلِ، لَمَا أَجَزْتُ شَہَادَتَہَا، إِنَّمَا قِوَامُ الدِّیْنِ الصَّلَاۃُ، وَإِنَّمَا قِوَامُ الصَّلَاۃِ، الطَّہُوْرُ، فَلَمْ یَکُنْ فِیْ صَحَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یُقِیْمُ ھٰذَا الدِّیْنَ إِلَّا بُسْرَۃُ؟ قَالَ ابْنُ زَیْدٍ: عَلٰی ھٰذَا أَدْرَکْنَا مَشْیَخَتَنَا، مَا مِنْہُمْ وَاحِدٌ یَرٰی فِیْ مَسِّ الذَّکَرِ وُضُوْئً ا وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا تَرَکَ أَنْ یَرْفَعَ بِذٰلِکَ رَأْسًا لِأَنَّ مَرْوَانَ - عِنْدَہٗ - لَیْسَ فِیْ حَالِ مَنْ یَجِبُ الْقَبُوْلُ عَنْ مِثْلِہٖ فَإِنَّ خَبَرَ شُرَطِیِّ مَرْوَانَ عَنْ بُسْرَۃَ، دُوْنَ خَبَرِہٖ ہُوَ عَنْہَا .فَإِنْ کَانَ مَرْوَانُ خَبَرُہُ فِیْ نَفْسِہٖ - عِنْدَ عُرْوَۃَ - غَیْرُ مَقْبُوْلٍ، فَخَبَرُ شُرْطِیِّہٖ إِیَّاہُ عَنْہَا کَذٰلِکَ أَحْرٰی أَنْ لَا یَکُوْنَ مَقْبُوْلًا، وَھٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا لَمْ یَسْمَعْہُ الزُّہْرِیُّ مِنْ عُرْوَۃَ، إِنَّمَا دَلَّسَ بِہٖ وَذٰلِکَ أَنَّ یُوْنُسَ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ، قَالَ : الْوُضُوْئُ مِنْ مَسِّ الذَّکَرِ .قَالَ مَرْوَانُ : أَخْبَرَتْنِیْہِ بُسْرَۃُ بِنْتُ صَفْوَانَ، فَأَرْسَلَ إِلَیْ بُسْرَۃَ فَقَالَتْ: ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَا یُتَوَضَّأُ مِنْہُ فَذَکَرَ مَسَّ الذَّکَرِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : (فَصَارَ ھٰذَا الْأَثَرُ إِنَّمَا ہُوَ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ عُرْوَۃَ) .فَقَدْ حَطَّ بِذٰلِکَ دَرَجَۃً لِأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِیْ بَکْرٍ لَیْسَ حَدِیْثُہٗ عَنْ عُرْوَۃَ، کَحَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ، وَلَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ- عِنْدَہُمْ - فِیْ حَدِیْثِہٖ بِالْمُتْقِنِ.
٤١٤ : زید بن ربیعہ نے بیان کیا کہ اگر میں اپنا ہاتھ کسی خون میں یا حیض کے خون میں رکھوں تو میرا وضو نہ ٹوٹے گا کیا عضو تناسل کو ہاتھ لگانا یا خون یا حیض والے خون کو لگانا برابر ہے ؟ وہ کہتے کہ ربیعہ فرمایا کرتے تھے کہ تم پر بہت زیادہ افسوس ہے۔ کیا کوئی اس جیسی روایت کو لیتا ہے۔ ہم بسرہ کی روایت کو جانتے ہیں ‘ اللہ کی قسم اگر بسرہ اس جوتے کے متعلق گواہی دے تو میں اس کی گواہی کو قبول نہ کرونگا۔ نماز دین کا ستون ہے اور نماز کا ستون طہارت ہے۔ کیا اس دین کو بسرہ کے سوا اور کوئی قائم کرنے والا نہیں۔ ابن زید کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے مشائخ کو اسی بات پر پایا کہ ان میں کوئی بھی عضو تناسل کو چھو لینے سے وضو کا قائل نہیں اور اگر اس بات کی طرف عروہ کا توجہ نہ کرنا اس بناء پر لیا جائے کہ مروان ان کے ہاں ان آدمیوں میں سے نہیں تھا جس کی روایت قبول کی جائے تو مروان کے سپاہی کی روایت بسرہ سے وہ تو اس سے بھی کم تر ہے۔ پس اگر مروان کی اطلاع ذاتی لحاظ سے عروہ کے ہاں نامقبول ہے تو اس کے سپاہی کی خبر کا نامقبول ہونا تو زیادہ مناسب ہے پھر اس روایت میں ایک بات یہ بھی ہے کہ زہری نے اس کو عروہ سے نہیں سنا بلکہ اس نے تدلیس کی ہے۔ فریق ثانی کی طرف سے روایت پر اعتراضاتنمبر ١: حضرت عروہ نے اس روایت کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی اس لیے کہ حضرت بسرہ (رض) ان کے ہاں ان رواۃ سے ہیں جن سے روایت نہیں لی جاتی۔ عروہ سے کم درجے کا آدمی بھی اگر ان کی تضعیف کر دے تب بھی ان کی روایت قابل استدلال نہیں رہتی بلکہ ساقط ہوجاتی ہے۔ نمبر ٢: عروہ کے علاوہ لوگوں نے اس کی تضعیف کی ہے چنانچہ ابن وہب کہتے ہیں کہ مجھے یزید نے بتلایا کہ ربیعہ فرمانے لگے اگر میں خون یا دم حیض میں انگلی رکھ دوں تو میرا وضو نہ ٹوٹے گا تو مس ذکر تو دم سے کم تر ہے۔ (اس سے کس طرح وضو ٹوٹ جائے گا) ربیعہ کہا کرتے تھے تم اس قسم کی روایات سے استدلال کرتے ہو بسرہ کی روایت پر کیوں کر عمل ہوسکتا ہے جبکہ اگر وہ بالمشافہ اس جوتے کے متعلق گواہی دے دے تو میں ان کی شہادت کو قبول نہ کروں گا دین کا رکن نماز ہے اور نماز کا دارومدار طہارت پر ہے تو کیا صحابہ کرام میں اس دین کو قائم کرنے والا بسرہ (رض) کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ؟ دراصل بسرہ کو ارشاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مطلب سمجھ نہ آیا۔ نمبر ٣: ابن زید کہتے ہیں ہمارے تمام مشائخ کا اتفاق ہے کہ مس ذکر سے وضو واجب نہیں۔ نمبر ٤: عروہ کا روایت کی طرف توجہ نہ کرنا بسرہ (رض) کی قلت صحبت رسول کی وجہ سے تھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود مروان ان کے ہاں مقبول راوی نہیں اور پھر مجہول شرطی کا بیان تو اس کی تائید کی بجائے تضعیف کو بڑھا رہا ہے۔ نمبر ٥: عروہ کے ہاں مروان خود غیر مقبول راوی ہے تو اس کا سپاہی اس سے کہیں بڑھ کر ناقابل قبول ہے پھر اس سے کچھ آگے بڑھ کر بات یہ ہے کہ زہری نے اس کو عروہ سے خود نہیں بلکہ تدلیس کی اور عبداللہ بن ابی بکر جو ان کے استاد ہیں ان کو حذف کردیا۔ نمبر ٦: زہری کی بذات خود عروہ سے روایت جو درجہ رکھتی ہے وہ عبداللہ بن ابی بکر کے واسطے والی روایت وہ درجہ نہیں رکھتی کیونکہ وہ خود ناپختہ غیر متفن راوی ہے خود امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عینہ سے میں نے سنا کہ جب ہم کسی کو ایسے گروہ سے روایت نقل کرتے دیکھتے جو عبداللہ بن ابی بکر کے درجہ کا ہو تو ہم اس کا مذاق کرتے کیونکہ یہ لوگ حدیث کو جانتے بھی نہ تھے ابن عینیہ تو بڑے درجہ کے آدمی ہیں ان سے کم درجہ کے آدمی کا بیان بھی ان لوگوں کے ضعف کے لیے کافی ہے۔ ایک اعتراض : یہاں تم نے عبداللہ بن ابی بکر کا ضعف بیان کیا یہ دوسری سند سے ثابت ہے کہ ابن شہاب نے خود ابوبکر بن محمد اور انھوں نے عروہ سے نقل کی ہے جو یہ ہے۔ الجواب : امام زہری کے استاذ دراصل ابوبکر بن محمد ہیں اور ان کو چھپا کر تدلیس کی ہے اور مدلس کی روایت خود غیر مقبول ہے۔ اعتراض نمبر ٢: اس روایت کو ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے اور ہشام تو ایسا راوی ہے جس میں کسی کو کلام نہیں روایت اس طرح ہے۔ ابن شہاب نے عبداللہ بن ابی بکر بن محمد سے انھوں نے عروہ بن زبیر سے انھوں نے مروان بن الحکم سے اس نے کہا مس ذکر سے وضو لازم ہے۔ مروان کہنے لگا مجھے بسرہ بنت صفوان نے اس کی اطلاع دی ہے۔ تو اس نے اپنا ایک سپاہی بسرہ کے پاس بھیجا تو اس نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان چیزوں کا ذکر کیا کہ جن سے وضو کیا جاتا ہے تو اس میں مس ذکر کو بھی بیان فرمایا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اثر بھی زہری نے عبداللہ بن ابوبکر کے واسطے سے عروہ سے بیان کیا ہے۔ اس سے اس کا ایک اور درجہ کم ہوگیا کیونکہ عبداللہ بن ابی بکر کی روایت عروہ سے زہری کی عروہ سے روایت جیسی نہیں اور عبداللہ بن ابی محدثین کے ہاں حدیث میں پختہ راوی نہیں۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے :

415

۴۱۵: لَقَدْ حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَزِیْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ الشَّافِعِیَّ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ابْنَ عُیَیْنَۃَ یَقُوْلُ : کُنَّا اِذَا رَأَیْنَا الرَّجُلَ یَکْتُبُ الْحَدِیْثَ عِنْدَ وَاحِدٍ، مِنْ نَفَرٍ سَمَّاہُمْ، مِنْہُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ، سَخِرْنَا مِنْہُ، لِأَنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْرِفُوْنَ الْحَدِیْثَ .وَأَنْتُمْ فَقَدْ تُضَعِّفُوْنَ مَا ہُوَ مِثْلُ ھٰذَا بِأَقَلَّ مِنْ کَلَامِ مِثْلِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : إِنَّ الَّذِیْ بَیْنَ الزُّہْرِیِّ وَبَیْنَ عُرْوَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، أَبُوْ بَکْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ .
٤١٥: مجھے یحییٰ نے ابن وزیر سے بیان کیا کہ میں نے امام شافعی (رح) کو یہ کہتے سنا کہ ابن عیینہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم کسی آدمی کو فلں جماعت کی حدیث لکھتا دیکھتے ہیں جن کے ابن عیینہ نے نام گنوائے ان میں عبداللہ بن ابوبکر بھی شامل تھا تو ہم اس سے مذاق کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ حدیث کو نہیں جانتے اور تمہارا حال یہ ہے کہ پہلے قول والے لوگوں کو تم ایسے ہی لوگوں کے قول سے ضعیف قرار دیتے ہو جو مرتبہ میں ابن عیینہ سے کم ہوتے ہیں۔ دوسروں نے کہا کہ اس حدیث میں عروہ اور زہری کے درمیان ابوبکر بن محمد ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں :
یہ اثر بھی زہری نے عبداللہ بن ابی بکر بن عروہ نے بیان کیا ہے تو اس کا درجہ زہری عن عروہ کی بنسبت اور گرگیا جبکہ ابن عیینہ فرماتے تھے جب ہم کسی کو عبداللہ بن ابی بکر جیسے لوگوں سے روایت لکھتا دیکھتے تو ہم اس سے مذاق کرتے کیونکہ عبداللہ جیسے لوگ حدیث کو نہ جانتے تھے۔
اعتراض :
یہ تم نے ابن عیینہ کی بات سن کر حدیث کو ساقط کردیا جبکہ یہ دوسری سند سے ثابت ہے جو کہ حاضر ہے۔

416

۴۱۶: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ، قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُرْوَۃُ عَنْ بُسْرَۃَ بِنْتِ صَفْوَانَ، أَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (یَتَوَضَّأُ الرَّجُلُ مِنْ مَسِّ الذَّکَرِ) .فَإِنْ قَالُوْا : فَقَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ أَیْضًا، ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ، وَہِشَامٌ، فَلَیْسَ مِمَّنْ یُتَکَلَّمُ فِیْ رِوَایَتِہٖ بِشَیْئٍ .ثُمَّ ذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سَأَلَنِیْ مَرْوَانُ عَنْ مَسِّ الذَّکَرِ، فَقُلْتُ : لَا وُضُوْئَ فِیْہِ .فَقَالَ مَرْوَانُ : فِیْہِ الْوُضُوْئُ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ أَبِیْ بَکْرٍ الَّذِیْ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ مَہْدِیٍّ .
٤١٦ : ابن شہاب نے ابوبکر بن محمد سے ‘ اس نے عروہ سے انھوں نے بسرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے اپنی شرمگاہ کو چھو لیا وہ وضو کرے۔ اعتراض ٢: یہ روایت ہشام نے اپنے والد عروہ کے واسطہ سے بیان کی ہے جو کہ ثقہ راوی ہے۔ روایت یہ ہے : حماد بن سلمہ نے ہشام سے ‘ انھوں نے عروہ سے بیان کیا کہ مجھ سے مروان نے شرمگاہ کو چھو لینے کا مسئلہ پوچھا تو میں نے کہا اس میں وضو نہیں تو مروان نے کہا اس میں وضو لازم ہے۔ پھر ابوبکر کی سند والی روایت جو شروع باب میں حسین بن مہدی کے حوالہ سے گزری ذکر کی۔

417

۴۱۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ہِشَامٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : فَأَنْکَرَ ذٰلِکَ عُرْوَۃُ .
٤١٧: اسی طرح دوسری سند کے ساتھ اس طرح نقل کی گئی ہے محمد بن خزیمہ نے حجاج سے اور انھوں نے حماد اور انھوں نے ہشام سے اس کے بعد بقیہ سند سابقہ ہی ہے البتہ اس روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں : ” فانکر ذلک عروۃ “ عروہ نے اس بات کا انکار کیا۔

418

۴۱۸: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ ہِشَامٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٤١٨: حسین بن نصر نے یوسف بن عدی سے اور انھوں نے علی بن مسہر سے اور انھوں نے ہشام سے ان کی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

419

۴۱۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُمَحِیُّ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ بُسْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : " اِذَا مَسَّ أَحَدُکُمْ ذَکَرَہٗ، فَلَا یُصَلِّیَنَّ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ .
٤١٩: یونس نے ابن وہب سے اور انھوں نے سعید بن عبدالرحمن الجمحی سے اور انھوں نے ہشام بن عروہ اور ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے بسرہ اور بسرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جب کوئی تم میں سے اپنے ذکر کو چھو لے تو وضو کیے کے بغیر نماز نہ پڑھے۔
تخریج : ابو داؤد و فی الطھارۃ باب ٦٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٦١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١١٧‘ والغسل باب ٣٠‘ دارمی فی الوضوء باب ٥٠‘ مالک فی الطھارۃ حدیث ٥٨‘ مسند احمد ٦؍٤٠٦

420

۴۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ: ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ مَرْوَانَ، عَنْ بُسْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ. قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ ہِشَامَ بْنَ عُرْوَۃَ أَیْضًا، لَمْ یَسْمَعْ ھٰذَا مِنْ أَبِیْہِ، وَإِنَّمَا أَخَذَہٗ مِنْ أَبِیْ بَکْرٍ أَیْضًا، فَدَلَّسَ بِہٖ عَنْ أَبِیْہِ .
٤١٩: یحییٰ بن صالح نے ابن ابی الزناد سے اور انھوں نے ہشام سے اور ہشام نے اپنے والد سے اور عروہ نے مروان سے اور مروان نے بسرہ (رض) سے بسرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی جیسی روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات :
ان روایات نے ہشام سے سند کو ثابت کر کے سند کی کمزوری دور کردی ہے۔
الجواب : ہشام کی جو روایت پیش کی گئی وہ بھی تدلیس سے خالی نہیں ہشام نے اپنے والد سے تو سنا نہیں بلکہ ابوبکر بن محمد سے سنا جن کا ضعف ظاہر ہے ہشام نے اپنے استاد کی کمزوری کی وجہ سے عروہ کا ذکر کر کے تدلیس کردی پس یہ روایت بھی معتبر نہ رہی سابقہ کے درجے میں چلی گئی جیسا کہ یہ روایت ثابت کر رہی ہے ملاحظہ ہو۔

421

۴۲۱: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، أَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ مَرْوَانَ، ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ عَلٰی مَا ذَکَرَہُ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، وَابْنُ خُزَیْمَۃَ، فَرَجَعَ الْحَدِیْثُ إِلَی أَبِیْ بَکْرٍ أَیْضًا. فَإِنْ قَالُوْا : فَقَدْ رَوَاہُ عَنْ عُرْوَۃَ أَیْضًا غَیْرُ الزُّہْرِیِّ، وَغَیْرُ ہِشَامٍ، فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٤٢١: ہشام کہتے ہیں مجھے ابوبکر بن محمد نے عروہ سے نقل کیا کہ عروہ مروان کے ساتھ بیٹھے تھے پھر ابن ابی عمران اور ابن خزیمہ کی طرح روایت نقل کی ہے تو ثابت ہوگیا کہ سند تو یہاں بھی لوٹ کر ابوبکر بن محمد پر آگئی۔
اشکال : یہ زہری اور ہشام کی اسناد میں کمزوری نکل آئی تو کیا ہوا یہ روایت دیگر طرق سے ثابت ہے چنانچہ ملاحظہ ہو۔

422

۴۲۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَرَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَا : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، أَنَّہٗ سَمِعَ عُرْوَۃَ یَذْکُرُ عَنْ بُسْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قِیْلَ لَہُمْ : کَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ فِیْ ھٰذَا بِابْنِ لَہِیْعَۃَ، وَأَنْتُمْ لَا تَجْعَلُوْنَہٗ حُجَّۃً لِخَصْمِکُمْ، فِیْمَا یَحْتَجُّ بِہٖ عَلَیْکُمْ؟ وَلَمْ أُرِدْ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ الطَّعْنِ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، وَلَا عَلَی ابْنِ لَہِیْعَۃَ، وَلَا عَلٰی غَیْرِہِمَا وَلٰـکِنِّیْ أَرَدْتُّ بَیَانَ ظُلْمِ الْخَصْمِ .فَثَبَتَ وَہَائُ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ، بِالَّذِیْ دَخَلَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ عُرْوَۃَ، وَوَہَائُ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ أَیْضًا، وَہِشَامٍ بِالَّذِیْ بَیْنَ عُرْوَۃَ، وَبُسْرَۃَ، لِأَنَّ عُرْوَۃَ لَمْ یَقْبَلْ ذٰلِکَ، وَلَمْ یَرْفَعْ بِہٖ رَأْسًا، وَقَدْ سَقَطَ الْحَدِیْثُ بِأَقَلَّ مِنْ ھٰذَا وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ، بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ: ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، أَنَّہٗ سَمِعَ رَجُلًا یُحَدِّثُ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .قِیْلَ لَہُمْ : کَفٰی بِکُمْ ظُلْمًا أَنْ تَحْتَجُّوْا بِمِثْلِ ھٰذَا .وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ،
٤٢٢: ابن لہیعہ نے ابوالاسود سے نقل کیا کہ انھوں نے عروہ سے یہ بات سنی کہ وہ بسرہ (رض) سے اور بسرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی : من مس ذکرہ فلیتوضاء ۔ ان سے کہا جائے گا کہ ابن لہیعہ کی روایت سے تم کس طرح دلیل بناتے ہو جبکہ تم اس کو اپنے مخالفین کے لیے دلیل نہیں مانتے ہو جب یہ ان روایتوں کو بیان کرے جو تمہارے خلاف ہوں میرا مقصود اس سے ذرّہ بھر بھی عبداللہ بن ابی بکر اور ابن لہیعہ وغیرہ پر طعن کرنا نہیں بلکہ میرا مقصد مخالف کی زیادتی کو بیان کرنا ہے پس زہری کی حدیث کا کمزور ہونا اس شخص کی وجہ سے ہوا جو عروہ اور زہری کے درمیان داخل ہوا۔ اسی طرح زہری کی روایت کی کمزوری اور ہشام کی کمزوری جو کہ عروہ اور بسرہ کے درمیان ہے کیونکہ حضرت عروہ نے اس کو قبول نہیں کیا اور نہ توجہ دی اور حدیث تو اس سے کم درجہ کی تنقید سے ساقط ہوجاتی ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہاری طرف سے زیادتی کے لیے کافی ہے کہ تم اس جیسی روایت کو دلیل بناؤ۔
الجواب : یہ سند تو جناب لائے مگر اس میں ایک ایسا راوی ہے جو آپ کے ہاں بھی قابل احتجاج نہیں چہ جائیکہ آپ ہمارے الزام کے لیے اسے پیش کریں وہ ابن لھیعہ ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
مجھے مندرجہ بالا بیان سے عبداللہ بن ابی بکر یا علی بن لھیعہ یا اور دیگر پر طعن مقصود نہیں بلکہ مستدلین کے ظلم کا ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کتنی دھاندلی سے کام لیا گیا۔
روایت زہری کا ضعف اس واسطہ کے سبب ہوا جو عروہ اور ان کے درمیان پیش آیا اور پھر زہری و ہشام کی روایات کی کمزوری اس کے واسطہ کے سبب ہوئی جو عروہ اور بسرہ کے درمیان پیش آیا کیونکہ عروہ نے تو اس بات کو قبول ہی نہ کیا اور نہ اس کی طرف کان دھرا اور روایت تو اس سے کم درجہ کی علت سے ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے۔
ایک اشکال :
اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں روایت یہ ہے۔
ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نقل کیا کہ یحییٰ نے ایک آدمی سے سنا جو مسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عروہ سے عن عائشہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح نقل کررہا تھا۔
الجواب :
یہ روایت جس کا راوی مجہول ہے وہ ہمارے خلاف کیسے حجت ہوسکتی ہے کیا یہ بےانصافی کی انتہا نہیں کہ جس قسم کی روایت کو خود قابل احتجاج نہیں سمجھتے اس کو ہمارے خلاف دلیل کے طور پر پیش کرتے ہو۔
ایک اور اشکال :
یہ روایت تو سابقہ قابل اعتراض روایت سے یکسر خالی ہے اور روایت بھی زید بن خالد الجھنی (رض) سے ہے۔

423

۴۲۳: بِمَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : ثَنَا أُبِیْ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (مَنْ مَسَّ فَرْجَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ) .
٤٢٣: محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب سے اور انھوں نے عروہ عن زید بن خالد الجہنی (رض) نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” من مس فرجہ فلیتوضأ“ ۔
تخریج : نسائی فی الغسل باب ٣٠‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٦٣‘ دارمی فی الوضوء باب ٥٠‘ مسند احمد ٥؍١٩٤۔
یہ روایت دوسری سند سے ملاحظہ فرمائیں۔

424

۴۲۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قِیْلَ لَہٗ أَنْتَ لَا تَجْعَلُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ حُجَّۃً فِیْ شَیْئٍ، اِذَا خَالَفَہٗ فِیْہِ مِثْلُ مَنْ خَالَفَہٗ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، وَلَا اِذَا انْفَرَدَ .وَنَفْسُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مُنْکَرٌ وَأَخْلِقْ بِہٖ أَنْ یَکُوْنَ غَلَطًا، لِأَنَّ عُرْوَۃَ حِیْنَ سَأَلَہٗ مَرْوَانُ، عَنْ مَسِّ الْفَرْجِ، فَأَجَابَہٗ مِنْ رَأْیِہٖ (أَنْ لَا وُضُوْئَ فِیْہِ) .فَلَمَّا قَالَ لَہٗ مَرْوَانُ، عَنْ بُسْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ، قَالَ لَہٗ عُرْوَۃُ : (مَا سَمِعْتُ بِہٖ) وَھٰذَا بَعْدَ مَوْتِ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ بِکَمْ مَا شَائَ اللّٰہُ فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یُنْکِرَ عُرْوَۃُ عَلٰی بُسْرَۃَ، مَا قَدْ حَدَّثَہٗ إِیَّاہُ، زَیْدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَإِنِ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٤٢٤: عبدالاعلی نے ابن اسحاق سے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا تم محمد بن اسحق کو کسی چیز میں دلیل نہیں بناتے ہو جبکہ اس کے خلاف ایسے لوگ ہوں جو اس حدیث میں ہیں اور نہ اس وقت جب وہ منفرد ہوں اور ذاتی لحاظ سے یہ روایت منکر ہے اور عین ممکن ہے غلط ہو کیونکہ عروہ سے جب مروان نے سوال کیا کہ مَس فرج کا کیا حکم ہے ؟ تو انھوں نے اپنی رائے سے جواب دیا کہ اس سے وضو نہیں پھر جب مروان نے بسرہ کی سند سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ذکر کیا تو عروہ نے اس کو جواب دیا کہ میں نے اس کو نہیں سنا اور یہ واقعہ زید بن خالد کی موت کے عرصہ بعد کا ہے تو یہ کیسے جائز ہے کہ عروہ بسرہ کے سامنے اس روایت کا انکار کردیں جس کو خود انھوں نے زید بن خالد کے واسطے سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو۔
الجواب :
نمبر ١: پیش کردہ روایت کی دونوں سندوں میں محمد بن اسحاق ہے وہ انفرادی طور پر کسی روایت کو بیان کرے اس وقت بھی قابل احتجاج نہیں اور جب ثقہ کے بالمقابل ہوگا تو پھر کیسے قابل حجت ہوگا۔
نمبر ٢: نفس روایت منکر ہے جو کہ غلط قرار دیئے جانے کے لائق ہے کیونکہ عروہ نے خود مروان کے سوال پر کہ مس فرج سے وضو کیا جائے تو انھوں نے لا وضوء فیہ کا فتویٰ دیا اور جب مروان نے آگے سے بسرہ والی روایت پیش کی تو انھوں نے ” ما سمعت “ کہہ کر مسترد کردیا۔
نمبر ٣: زید بن خالد کی وفات کے متعلق کئی اقوال ہیں ایک قول ٥٠ ھ کا ہے تو اس صورت میں ان کی وفات کے بعد مکالمہ پیش آیا ہو تو پھر زید بن خالد سے خود سنی ہوئی روایت کا انکار خود اس کا منکر ہونا ثابت کرتا ہے اور اگر ان کی وفات ٦٨‘ ٧٨‘ ٧٢‘ میں سے جس سن میں ہوئی مروان والا مکالمہ ان کی زندگی (مروان کی وفات ٦٥) میں پیش آیا تو اس روایت کو ماسمعت کہہ کر رد کرنا منکر ہونے کی دلیل ہے۔ واللہ اعلم۔
ایک اشکال کا مزید اضافہ :
ہم اس روایت کو عمرو بن شریح کی سند سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کر رہے ہیں۔
اب تو منکر کہنے کی گنجائش نہ رہی۔ روایتیں یہ ہیں۔

425

۴۲۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ أُوَیْسٍ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبَۃَ الْأَشْہَلِیُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَیْحٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٤٢٥: ابراہیم بن اسماعیل نے عمرو بن شریح سے اور انھوں نے ابن شہاب اور انھوں نے عروہ عن عائشہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

426

۴۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْفَرْوِیُّ إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ قِیْلَ لَہُمْ : أَنْتُمْ لَا تُسْرِعُوْنَ خَصْمَکُمْ أَنْ یَحْتَجَّ عَلَیْکُمْ بِمِثْلِ عُمَرَ بْنِ شُرَیْحٍ، فَکَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِہٖ أَنْتُمْ عَلَیْہِ؟ .ثُمَّ ذٰلِکَ أَیْضًا - فِیْ نَفْسِہٖ مُنْکَرٌ لِأَنَّ عُرْوَۃَ، لَمَّا أَخْبَرَہٗ مَرْوَانُ عَنْ بُسْرَۃَ بِمَا أَخْبَرَہٗ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ، لَمْ یَکُنْ عَرَفَہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ، لَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، وَلَا عَنْ غَیْرِہَا .فَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ،
٤٢٦: ابن ابی داؤد نے الفروی اسحاق بن محمد سے اور انھوں نے ابراہیم بن اسماعیل سے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ان سے عرض کیا جائے گا کہ تم فریق مخالف ہو عمر بن شریح جیسے راوی کی روایت سے استدلال کی اجازت نہیں دیتے تو خود اس کو ان کے خلاف دلیل میں کس طرح پیش کرو گے ؟ پھر ذاتی لحاظ سے یہ روایت منکر ہے کیونکہ عروہ کو جب مروان نے حضرت بسرہ والی روایت سنائی تو عروہ نے اس کو نہ جانا نہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اور نہ ہی کسی غیر سے۔ پھر اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں۔
الجواب : اس سند میں عمرو بن شریح خود ایسا راوی ہے جو جناب کے ہاں قابل احتجاج نہیں تو ہمارے متعلق اس کا پیش کرنا درست ہوا۔
نمبر ٢: جب یہ روایت سرے سے خود منکر ہے مروان کے سامنے سب اس کے سننے کا انکار کر رہے ہیں نہ انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے سنی اور نہ کسی اور سے عروہ کا انکار اس کی مذکورہ بالا اسناد سے منکر ہونے کی کافی دلیل ہے۔
ایک اشکال جدید کا اضافہ :
ہم اس روایت کو ایک ایسی سند سے پیش کرتے ہیں جس میں عروہ نہیں ہے اور سند بھی درست ہے پس روایت کو درست تسلیم کرنا ہوگا روایت یہ ہے۔

427

۴۲۷: بِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا دُحَیْمُ بْنُ الْیَتِیْمِ، قَالَ ثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .قِیْلَ لَہُمْ : صَدَقَۃُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ھٰذَا - عِنْدَکُمْ ضَعِیْفٌ، فَکَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِہٖ؟ وَہِشَامُ بْنُ زَیْدٍ، فَلَیْسَ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الَّذِیْنَ یَثْبُتُ بِرِوَایَتِہِمْ مِثْلُ ھٰذَا .وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٤٢٧: یزید بن سنان نے دحیم بن الیتیم سے اور انھوں نے عمرو بن ابی سلمہ سے اور انھوں نے صدقہ بن عبداللہ سے اور اس نے ہشام بن زید سے اور اس نے نافع عن ابن عمر (رض) عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ ان کو جواب دیا جائے گا کہ یہ صدقہ بن عبداللہ تمہارے ہاں بھی ضعیف ہے۔ اس کو ہمارے خلاف کیسے دلیل بناتے ہو اور ہشام بن زبیر ان علم والوں میں سے نہیں جن کی روایت سے اس قسم کی بات ثابت ہو سکے۔ اگر وہ اس روایت کو پیش کریں۔
الجواب بالصواب :
جناب نئی سند میں تو یک نہ شد دو شد والا سلسلہ ہوگیا اب تک ایک ایک راوی پر جرح چلی آرہی تھی یہاں تو صدقہ بن عبداللہ راوی تو تمہارے ہاں بھی ضعیف ہے اس کو ہمارے خلاف حجت میں پیش کرنا یقیناً زیادتی ہوگی اور ہشام بن زید ان روات میں سے نہیں جن کی روایت سے اس قسم کی منکر روایت ثابت ہو سکے۔
اشکالِ جدید :
لو اب تو ماننا پڑے گا کہ یہ روایت درست ہے کیونکہ ایک ایسی سند مل گئی جو قابل اعتراض صدقہ بن عبداللہ راوی سے مبرا ہے مسئلہ تو حل ہوگیا۔ روایت یہ ہے۔

428

۴۲۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ : ثَنَا الْعَلَائُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (مَنْ مَسَّ فَرْجَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ) .قِیْلَ لَہُمْ : کَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِالْعَلَائِ ھٰذَا، وَہُوَ - عِنْدَکُمْ - ضَعِیْفٌ؟ .وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا۔
٤٢٨: عمرو بن خالد نے علاء بن سلیمان سے اور انھوں نے زہری سے اور اس نے سالم سے اور سالم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے جناب عبداللہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ” من مس فرجہ فلیتوضأ“ ۔ ان کو یہ جواب دیا جائے تم علاء کو کیسے دلیل میں پیش کرتے ہو ؟ وہ تو تمہارے ہاں بھی ضعیف ہے۔ اگر وہ یہ روایت پیش کریں۔
الجواب :
واقعتا آپ نے نئی سند سے روایت پیش فرمائی مگر یہاں پھر وہی مسئلہ پیش آگیا کہ جناب علاء بن سلیمان تو ایسا راوی ہے جو آپ کے ہاں ضعیف ہے ایسے روات سے منکر روایت کیونکر درست ہوگی۔
اشکال آخر :
ابن عمر (رض) کی روایات میں اگر ضعف نکل آیا تو کیا ہوا خود حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ روایت ثابت ہو رہی ہے۔
مندرجہ روایت سنئے۔

429

۴۲۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسَی الْقَزَّازُ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : (مَنْ أَفْضٰی بِیَدِہٖ إِلٰی ذَکَرِہٖ؟ لَیْسَ بَیْنَہُمَا سِتْرٌ وَلَا حِجَابٌ، فَلْیَتَوَضَّأْ) .قِیْلَ لَہُمْ : یَزِیْدُ ھٰذَا - عِنْدَکُمْ - مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ، لَا یَسْتَوِیْ حَدِیْثُہٗ شَیْئًا فَکَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِہٖ؟ .وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٤٢٩: معن بن عیسیٰ القزاز نے یزید بن عبدالملک سے اور اس نے المقبری سے اور مقبری نے حضرت ابوہریرہ عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح روایت نقل کی ہے۔ ” من افضٰی بیدہ الی ذکرہ لیس بینھما ستر ولا حجاب فلیتوضائ “ جس نے اپنا ہاتھ اپنے ذکر تک ایسی حالت میں پہنچایا کہ ان کے درمیان پردہ حائل نہ تھا اسے وضو کرنا چاہیے۔ ان کو یہ کہا جائے گا یہ یزید تمہارے ہاں منکر الحدیث ہے۔ اس کی روایت کسی کام کی نہیں پھر اس سے کیسے حجت پکڑتے ہو ؟ اگر وہ یہ روایت پیش کریں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٣٣‘ بیہقی سنن کبرٰی ٢؍١٣١‘ دارقطنی فی سننہ ١؍١٤٧۔
الجواب :
روایت بالا میں تو ایسا راوی آیا ہے جو آپ کے ہاں منکرالحدیث ہے اور محدثین کے ہاں اس کی روایت ایک ذرہ بھر قیمت نہیں رکھتی چہ جائیکہ تم اس کو ہمارے خلاف حجت میں استعمال کرو۔
اشکال :
یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) چھوڑتے ہوئے ہم جابر بن عبداللہ کی نئی سند والی روایت پیش کرتے ہیں اب تو تسلیم کرلو روایت یہ ہے۔

430

۴۳۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا دُحَیْمٌ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعِ ڑ الصَّائِغُ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِیْثِ یُوْنُسَ عَنْ مَعْنٍ .قِیْلَ لَہُمْ : ھٰذَا الْحَدِیْثُ کُلُّ مَنْ رَوَاہُ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، یَقْطَعُہٗ وَیُوْقِفُہٗ عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ .فَمِنْ ذٰلِکَ
٤٣٠: عبداللہ بن نافع الصائغ نے ابن ابی ذئب سے اور انھوں نے عقبہ بن عبدالرحمن سے اور انھوں نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے اور اس نے جابر بن عبداللہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مندرجہ بالا جیسی روایت نقل کی ہے۔
حفاظ حدیث جنہوں نے اس روایت کو ابن ابی ذئب سے نقل کیا انھوں نے موقوف نقل کیا ہے جیسا مندرجہ روایت ملاحظہ کرنے سے بخوبی علم ہوجائے گا۔

431

۴۳۱ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ عُقْبَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَہٰؤُلَائِ الْحُفَّاظُ، یُوْقِفُوْنَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَیُخَالِفُوْنَ فِیْہِ ابْنَ نَافِعٍ، وَہُوَ عِنْدَکُمْ حُجَّۃٌ عَلَیْہِ وَلَیْسَ ہُوَ بِحُجَّۃٍ عَلَیْہِمْ .فَکَیْفَ تَحْتَجُّوْنَ بِحَدِیْثٍ مُنْقَطِعٍ فِیْ ھٰذَا، وَأَنْتُمْ لَا تُثْبِتُوْنَ الْمُنْقَطِعَ؟ وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٣١: ابو عامر نے کہا ہمیں ابن ابی ذئب نے عقبہ سے اور انھوں نے محمد بن عبدالرحمن عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ حفاظِ حدیث اس روایت کو محمد بن عبدالرحمن پر موقوف قرار دیتے ہیں اور اس میں ابن نافع کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ تو تمہارے ہاں بھی ابن عبدالرحمن کے خلاف حجت ہے۔ ابن عبدالرحمن ان کے خلاف حجت نہیں پھر تم ایک منقطع روایت کیسے دلیل بناتے ہو حالانکہ تم منقطع روایت کو ثابت نہیں مانتے۔ اگر وہ اس روایت کو دلیل میں لائیں۔
الجواب :
اب بنظر انصاف فرمائیں کہ یہ روایت حفاظ حدیث کے ہاں موقوف ہے اور ان سب کی روایت عبداللہ بن نافع الصائغ کے خلاف ہے پس اس میں رفع درست نہ ہوا اور موقوف سرے سے آپ کے ہاں قابل حجت نہیں تو ہمارے خلاف حجت کیسے بنا سکتے ہیں۔
اشکال :
اگر یہ روایت موقوف تھی تو متصل روایت حضرت ام حبیبہ (رض) سے دو اسناد کے ساتھ پیش کی جاتی ہے تاکہ آپ کو تسلی ہو۔
روایات یہ ہیں :

432

۴۳۲ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَیُوْنُسُ وَرَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالُوْا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ عَنِ الْہَیْثَمِ بْنِ حُمَیْدٍ قَالَ أَخْبَرَنِی الْعَلَائُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مَکْحُوْلٍ، عَنْ عَنْبَسَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (مَنْ مَسَّ فَرْجَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ) .
٤٣٢: عبداللہ بن یوسف نے ہیثم بن حمید سے اور انھوں نے علاء بن الحارث سے اور انھوں نے مکحول سے اور مکحول نے عنبسہ بن ابی سفیان اور عنبسہ نے ام حبیبہ (رض) ام المؤمنین سے اور انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح نقل کیا آپ نے فرمایا : من مس فرجہ فلیتوضأ“ ۔

433

۴۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُسْہِرٍ، عَنِ الْہَیْثَمِ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قِیْلَ لَہُمْ : ھٰذَا حَدِیْثٌ مُنْقَطِعٌ أَیْضًا، لِأَنَّ مَکْحُوْلًا، لَمْ یَسْمَعْ مِنْ عَنْبَسَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ شَیْئًا۔
٤٣٣: ابن ابی داؤد نے ابو مسہر سے اور انھوں نے ہیثم سے اور ہیثم نے اپنی سند سے پوری روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ ان کو یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ مکحول نے عتبہ بن ابی سفیان سے کچھ بھی نہیں سنا۔
الجواب بالصواب :
محترم یہ روایت بھی تو سابقہ سقم سے خالی نہیں منقطع ہے کیونکہ مکحول نے عنبسہ بن ابی سفیان سے ایک حرف تک نہیں سنا چہ جائیکہ اتنی بڑی روایت۔
نمبر ٢: یہ لیجئے خود جناب ابن ابی داؤد کا بیان۔
ابن ابی داؤد نے ہمیں بیان کیا کہ میں نے ابو مسہر کو یہ بات کہتے سنا (کہ مکحول نے عنبسہ سے کوئی چیز نہیں سنی)
اور تم ابو مسہر کے قول کو بطور دلیل پیش کر رہے ہو اور اس کا یہ پہلو چھوڑ جاتے ہو۔
آخری اشکال :
ان تمام اسناد روایات کو چھوڑ کر ہم عبداللہ بن عمرو کی روایت پیش کرتے ہیں جو کہ کافی دلیل ہے روایت یہ ہے۔

434

۴۳۴ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مُسْہِرٍ یَقُوْلُ ذٰلِکَ، وَأَنْتُمْ تَحْتَجُّوْنَ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا بِقَوْلِ أَبِیْ مُسْہِرٍ .وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسٰی، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ الْمَخْزُوْمِیِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ : أَنَّ (بُسْرَۃَ سَأَلَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتِ : الْمَرْأَۃُ تَضْرِبُ بِیَدِہَا فَتُصِیْبَ فَرْجَہَا؟ قَالَ : تَتَوَضَّأُ، یَا بُسْرَۃُ) .
٤٣٤: عبداللہ بن المؤمل المخزومی نے عمرو بن شعیب سے اور انھوں نے عن ابیہ عن جدہ نقل کیا کہ بسرہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود سوال کیا عورت اپنا ہاتھ جسم پر پھیرے اور اس کا ہاتھ شرمگاہ کو لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اے بسرہ وضو کرلے۔

435

۴۳۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْخَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ الْفَوْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ عَنِ الزُّبَیْدِیِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَیُّمَا رَجُلٍ مَسَّ فَرْجَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ، وَأَیُّمَا امْرَأَۃٍ مَسَّتْ فَرْجَہَا فَلْتَتَوَضَّأْ) قِیْلَ لَہُمْ : أَنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَیْبٍ، لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیْہِ شَیْئًا، وَإِنَّمَا حَدِیْثُہٗ عَنْہُ، عَنْ صَحِیْفَۃٍ، فَھٰذَا - عَلٰی قَوْلِکُمْ - مُنْقَطِعٌ، وَالْمُنْقَطِعُ فَلَا یَجِبُ بِہٖ عِنْدَکُمْ حُجَّۃٌ .فَقَدْ ثَبَتَ فَسَادُ ھٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا، الَّتِیْ یَحْتَجُّ بِہَا مَنْ یَذْہَبُ إِلٰی إِیْجَابِ الْوُضُوْئِ مِنْ مَسِّ الْفَرْجِ .وَقَدْ رُوِیَتْ آثَارٌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخَالِفُ ذٰلِکَ .فَمِنْہَا ۔
٤٣٥: بقیہ نے الزبیدی سے اور انھوں نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ایما رجل مس فرجہ فلیتوضأ“ وایما امراۃ مست فرجھا فلتتوضأ“ ۔ اسے جواب دیا جائے گا کہ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے کوئی روایت نہیں سنی بلکہ ان کے صحیفہ سے دیکھ کر روایت کی ہے ‘ تمہارے بقول یہ منقطع ہے اور منقطع سے تمہارے ہاں حجت قائم نہیں ہوسکتی۔ ان روایات کی کمزوری ذکر کردی گئی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایات مروی ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٢٣‘ دارقطنی ١؍١٤٧‘
ان دونوں روایات سے صراحتاًصحت سند کے ساتھ مس فرج پر وضو کا حکم ثابت ہوگیا۔
الجواب :
تمہارا اپنا خیال ہے کہ عمرو بن شعیب نے اپنے والد شعیب سے کچھ نہیں سنا انھوں نے جتنی روایات ان سے بیان کی ہیں وہ تمام تر اپنے والد کے تیار کردہ صحیفہ سے بیان کی ہیں پس تمہارے اپنے قول کے مطابق یہ منقطع ہے اور منقطع قابل حجت نہیں پس ہم پر الزام نہ رہا۔
حاصل روایات : جو بیس روایات مختلف اسناد سے پیش کی گئیں جن میں نو بسرہ (رض) تین عائشہ صدیقہ (رض) دو زید بن خالد (رض) دو ابن عمر (رض) ایک حضرت ابوہریرہ (رض) اور ایک جابر (رض) ایک محمد بن عبدالرحمن تین ام حبیبہ دو عمرو بن شعب (رض) کی طرف اسناد سے ذکر ہوئیں مگر ان کی اسناد میں سقم کی وجہ سے کوئی روایت قابل احتجاج نہ نکلی بلکہ روایات کا منکر و منقطع و موقوف ہونا محقق ہوا واللہ اعلم۔
پس مس ذکر و فرج سے وضو پر استدلال کمزور ثابت ہوا۔
فریق دوم :
کی پیش کردہ روایات ملاحظہ ہوں۔

436

۴۳۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ قَیْسِ ابْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ (سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفِیْ مَسِّ الذَّکَرِ وُضُوْئٌ ؟ قَالَ : لَا) .
٤٣٦: سفیان نے محمد بن جابر اور انھوں نے قیس بن طلق سے قیس نے اپنے والد طلق (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کیا مس ذکر میں وضو ہے آپ نے فرمایا نہیں۔ تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٧٠‘ روایت ١٨٢‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٦٢‘ ٨٥‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١١٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ ٤٨٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٥‘ سنن دارقطنی ١؍١٤٩‘ بیہقی سنن کبرٰی ١؍٣٥٥‘ مصنف عبدالرزاق ٤٢٦‘ مسند احمد ٤؍٢٣۔

437

۴۳۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ۔
٤٣٧: محمد بن جابر (رض) نے اپنی اسناد کے ساتھ اس طرح روایت نقل کی ہے۔

438

۴۳۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ اللُّؤْلُؤِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ، عَنْ عُتْبَۃَ ح .
٤٣٨: اسد ایوب سے اور ایوب نے عتبہ سے اپنی اسناد کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔

439

۴۳۹ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ عُتْبَۃَ، عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ۔
٤٣٩: قیس نے طلق (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

440

۴۴۰ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَدْرٍ السُّحَیْمِیِّ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
٤٤٠: قیس نے طلق (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

441

۴۴۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ : قَالَ : ثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، وَخَلَفُ بْنُ الْوَلِیْدِ، وَأَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، وَسَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ قَیْسٍ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٤٤١: حضرت قیس نے اپنے والد حضرت طلق (رض) کی وساطت سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

442

۴۴۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا مُلَازِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَدْرٍ، عَنْ قَیْسِ ابْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِیْہِ، (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سَأَلَہٗ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، مَا تَرٰی فِیْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَکَرَہٗ، بَعْدَمَا تَوَضَّأَ؟ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلْ ہُوَ إِلَّا بِضْعَۃٌ مِنْک؟ أَوْ مُضْغَۃٌ مِنْکَ) .فَھٰذَا حَدِیْثُ مُلَازِمٍ، صَحِیْحٌ مُسْتَقِیْمُ الْاِسْنَادِ، غَیْرُ مُضْطَرِبٍ فِیْ إِسْنَادِہٖ، وَلَا فِیْ مَتْنِہٖ، فَہُوَ أَوْلٰی- عِنْدَنَا - مِمَّا رَوَیْنَاہُ، أَوَّلًا مِنَ الْآثَارِ الْمُضْطَرِبَۃِ فِیْ أَسَانِیْدِہَا .وَلَقَدْ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْعَظِیْمِ الْعَنْبَرِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ الْمَدِیْنِیِّ یَقُوْلُ: حَدِیْثُ مُلَازِمٍ ھٰذَا، أَحْسَنُ مِنْ حَدِیْثِ بُسْرَۃَ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا الْبَابُ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ الْاِسْنَادِ وَاسْتِقَامَتِہِ، فَحَدِیْثُ مُلَازِمٍ ھٰذَا، أَحْسَنُ إِسْنَادًا .وَإِنْ کَانَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّا رَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ، أَنَّ مَنْ مَسَّ ذَکَرَہٗ بِظَہْرِ کَفِّہٖ، أَوْ بِذِرَاعَیْہِ، لَمْ یَجِبْ فِیْ ذٰلِکَ وُضُوْئٌ .فَالنَّظَرُ أَنْ یَکُوْنَ مَسُّہُ إِیَّاہُ بِبَطْنِ کَفِّہِ کَذٰلِکَ .وَقَدْ رَأَیْنَاہُ لَوْ مَسَّہٗ بِفَخِذِہٖ، لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ وُضُوْئٌ ، وَالْفَخِذُ عَوْرَۃٌ .فَإِذَا کَانَتْ مُمَاسَّتُہٗ إِیَّاہُ بِالْعَوْرَۃِ، لَا تُوْجِبُ عَلَیْہِ وُضُوْئً ا فَمُمَاسَّتُہُ إِیَّاہُ بِغَیْرِ الْعَوْرَۃِ أَحْرٰی أَنْ لَا تُوْجِبَ عَلَیْہِ وُضُوْئً ا .فَقَالَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی إِیْجَابِ الْوُضُوْئِ مِنْہُ : فَقَدْ أَوْجَبَ الْوُضُوْئَ فِیْ مُمَاسَّتِہٖ بِالْکَفِّ، أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٤٢: قیس بن طلق نے عن ابیہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کیا کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا اس آدمی کے سلسلہ میں کیا حکم ہے جس نے وضو کے بعد اپنے ذکر کو چھو لیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تمہارے جسم کا ایک حصہ ہی تو ہے آپ نے بضعہ یا مضغہ کا لفظ استعمال فرمایا۔ یہ ملازم راوی کی روایت صحیح اور درست ہے اس کی سند اور متن میں اضطراب نہیں۔ یہ ان روایات سے اولیٰ ہے جن مضطرب روایات کو ہم پہلے ذکر کر آئے۔ علی بن المدینی فرماتے تھے کہ ملازم کی روایت بسرہ کی روایت سے بہت زیادہ اچھی ہے اگر سند کی مضبوطی کے لحاظ سے اس باب کو لیا جائے تو ملازم کی روایت سند کے لحاظ سے بہت اعلیٰ ہے۔ اور اگر تم بطریق نظر دیکھنا چاہتے ہو تو ملاحظہ کریں کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر عضو تناسل کو ہتھیلی کی پچھلی جانب یا اپنے دونوں بازوؤں سے چھوا جائے تو اس سے وضو لازم نہیں ہوتا تو سوچ کا تقاضا یہ ہے کہ ہتھیلی کی اندرونی جانب سے بھی یہی حکم ہونا چاہیے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر اس نے اپنی ران سے اس کو چھو لیا تو تب بھی اس پر وضو لازم نہیں آتا حالانکہ ران تو ستر ہے تو اس کے ساتھ عضو تناسل کا چھو جانا جب وضو کو لازم نہیں کرتا تو ستر کے علاوہ جسم کے دوسرے کسی حصے کو اس کا چھو لینا اس بات کے زیادہ مناسب ہے کہ اس سے وضو لازم نہ ہو جو لوگ اس سے وضو کو واجب قرار دیتے ہیں تو انھوں نے ہتھیلی سے اس کے چھو لینے سے وضو کو واجب قرار دیا ہے ان میں صحابہ کرام (رض) شامل ہیں ‘ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : روایت نمبر ٤٣٦ والی ملاحظہ فرمائیں ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ نسائی دارقطنی مسند احمد مصنف عبدالرزاق ابن ابی شیبہ بیہقی۔
ملازم (رح) کی یہ روایت صحیح الاسناد ہے اس کی سند میں کسی قسم کا اضطراب نہیں یہ ان تمام آثار مضطر بہ سے عمل کی زیادہ حقدار ہے علامہ علی بن المدینی (رح) کہا کرتے تھے ملازم کی یہ روایت بسرہ (رض) کی روایت سے بہت زیادہ بہتر ہے۔
پس اگر ہم اسناد کے لحاظ سے مسئلہ کو اختیار کریں تو تب بھی ملازم کی روایت سند و استقامت کے لحاظ سے احسن ہے پس اس کو اختیار کرنا اولیٰ و اعلیٰ ہے اور اگر بطریق نظر جانچنا ہو تو وہ بھی بنظر انصاف دیکھ لیں۔
نظر طحاوی :
غور فرمائیں کہ مس ذکر اگر ہاتھ کی پشت یا بازو وغیرہ سے ہو تو کسی کے ہاں بھی اس سے وضو لازم نہیں پس نظرانصاف سے یہی معلوم ہوتا ہے باطن ہتھیلی سے چھو لینے سے بھی حکم وہی رہنا چاہیے کیونکہ عضو ہونے میں تو دونوں برابر ہیں نیز ملاحظہ فرمائیں کہ اگر کسی نے اپنے ہاتھ سے ران کو چھو لیا تو اس پر کسی کے ہاں بھی وضو واجب نہیں حالانکہ ران بھی تو عورت و ستر ہے اور خود ذکر کے ران سے چھو جانے سے بھی وضو لازم نہیں آتا تو ہاتھ جو کہ عورت و ستر بھی نہیں اس کے ساتھ چھو جانے سے وضو کیونکر لازم ہوگا۔ فتدبر۔
ایک اہم اعتراض :
یہاں جناب کی عقلیات و قیاسات نہیں چلتے اصل مسئلے کا تعلق نقلاً ثبوت سے ہے ہم سعد بن ابی وقاص ‘ عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن عباس (رض) کا فتویٰ اس عمل کے ثبوت پر پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو۔

443

۴۴۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَنْبَأَنِی الْحَکَمُ، قَالَ : سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ یَقُوْلُ " کُنْتُ أُمْسِکُ الْمُصْحَفَ عَلٰی أَبِیْ فَمَسِسْتُ فَرْجِیْ، فَأَمَرَنِیْ أَنْ أَتَوَضَّأَ " .
٤٤٣: حکم کہتے ہیں میں نے مصعب بن سعد بن ابی وقاص کو فرماتے سنا کہ میں اپنے والد کے لیے قرآن مجید تھامے ہوئے کھڑا تھا میرا ہاتھ اپنی شرمگاہ کو لگ گیا تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں وضو کروں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٣۔

444

۴۴۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، یَقُوْلَانِ فِی الرَّجُلِ یَمَسُّ ذَکَرَہٗ؟ قَالَا : یَتَوَضَّأُ قَالَ : شُعْبَۃُ، فَقُلْتُ لِقَتَادَۃَ: عَمَّنْ ھٰذَا؟ فَقَالَ : عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ ۔
٤٤٤: قتادہ کہتے ہیں کہ ابن عمرو (رض) اور ابن عباس (رض) اس آدمی کے متعلق جو اپنی شرمگاہ کو چھو لے یہ فتویٰ دیتے کہ وہ آدمی وضو کرے شعبہ کہتے ہیں میں نے قتادہ کو کہا یہ روایت کس سے تم نے نقل کی ہے وہ کہنے لگے میں نے عطاء بن ابی رباح کی وساطت سے بیان کی ہے۔

445

۴۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ رَآہُ صَلّٰی صَلَاۃً لَمْ یَکُنْ یُصَلِّیْہَا .قَالَ: فَقُلْتُ لَہٗ : مَا ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ؟ قَالَ " إِنِّیْ مَسِسْتُ فَرْجِیْ، فَنَسِیْتُ أَنْ أَتَوَضَّأَ " .
٤٤٥: زہری نے سالم سے اور سالم نے عبداللہ بن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ میں نے ان کو ایسی نماز پڑھتے دیکھا جو پہلے نہ دیکھا تھا تو میں نے ان سے سوال کیا یہ کون سی نماز آپ ادا فرماتے ہیں ؟ کہنے لگے میں نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگا لیا تھا اور میں وضو کرنا بھول گیا تھا (اب وضو کر کے نماز دھرا رہا ہوں)
تخریج : مالک فی الطھارۃ روایت ٦٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٣۔

446

۴۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، مِثْلَہٗ .
٤٤٦: حماد نے ایوب سے اور انھوں نے نافع عن ابن عمر (رض) اس جیسی روایت نقل کی ہے۔

447

۴۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : صَلَّیْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ، أَوْ صَلّٰی بِنَا ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ سَارَ، ثُمَّ أَنَاخَ لَہٗ .فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، إِنَّا قَدْ صَلَّیْنَا فَقَالَ : إِنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَدْ عَرَفَ ذٰلِکَ، وَلَکِنِّیْ مَسِسْتُ ذَکَرِیْ قَالَ : فَتَوَضَّأَ وَأَعَادَ الصَّلَاۃَ .قِیْلَ لَہُمْ : أَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْہُ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ، فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْہِ، خِلَافُ مَا رَوَاہُ عَنْہُ الْحَکَمُ .
٤٤٧: ابو عوانہ نے ابراہیم بن المہاجر عن مجاہد روایت نقل کی ہے کہ مجاہد کہتے ہیں ہم نے ابن عمر (رض) کے ساتھ نماز ادا کی (یا یہ الفاظ تھے) ہمیں ابن عمر (رض) نے نماز پڑھائی پھر وہ چل دیئے پھر کچھ دیر کے بعد اپنے اونٹ کو بٹھایا میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن ! ہم نماز تو ادا کرچکے (اب ٹھہرنے کا کیا مقصد ہے) انھوں نے کہا ابو عبدالرحمن ! اس بات کو سمجھتا ہے لیکن میں نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگا لیا تھا مجاہد کہتے ہیں پھر انھوں نے وضو کیا اور نماز کا اعادہ کیا (ہم نے بھی کیا) ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر تم نے مصعب بن سعد کی یہ روایت نقل کی ہے تو حکم نے ان سے اس کے خلاف روایت نقل کی ہے۔
الجواب :
روایت حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) آپ نے جس سند سے روایت کی ہے اس میں حکم نے مصعب سے نقل کی ہے اس میں امرنی ان اتوضأ کے الفاظ ہیں مگر اس کے برخلاف اسماعیل بن محمد نے مصعب بن سعد سے جو روایت نقل کی اس میں ہاتھ پر مٹی مل لینے یا ہاتھ دھونے کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو اس روایت کے مطلب کو واضح کرتے ہیں کہ اتوضأ سے مراد ہاتھ کا دھونا ہے نہ کہ نماز والا وضو کرنا۔ روایت درج ذیل ہے۔

448

۴۴۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ " کُنْتُ آخُذُ عَلٰی أَبِی الْمُصْحَفَ، فَاحْتَکَکْتَ فَأَصَبْتَ فَرْجِیْ " فَقَالَ : أَصَبْتَ فَرْجَک؟ قُلْتُ " نَعَمْ احْتَکَکْتُ " .فَقَالَ : اغْمِسْ یَدَک فِی التُّرَابِ، وَلَمْ یَأْمُرْنِیْ أَنْ أَتَوَضَّأَ .وَرُوِیَ عَنْ مُصْعَبٍ أَیْضًا أَنَّ أَبَاہُ أَمَرَہٗ بِغَسْلِ یَدِہٖ .
٤٤٨: اسماعیل بن محمد عن مصعب بن سعد۔ مصعب کہتے ہیں میں اپنے والد کا مصحف اٹھائے ہوئے تھا مجھے کھجلی ہوئی کھجلاتے ہوئے میرا ہاتھ شرمگاہ تک پہنچا والد صاحب نے فرمایا تیرا ہاتھ شرمگاہ کو بھی پہنچا ہے میں نے جواب دیا ہاں میں نے شرمگاہ کو کھجلایا ہے تو انھوں نے فرمایا مٹی میں اپنے ہاتھ لتھیڑ لو اور مجھے وضو کا حکم نہیں فرمایا اور دوسری روایت میں موجود ہے کہ مجھے حکم دیا کہ میں اپنا ہاتھ دھو لوں۔ روایت ملاحظہ ہو۔

449

۴۴۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ، قَالَ : وَحَدَّثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ " قُمْ فَاغْسِلْ یَدَک " .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْوُضُوْئُ الَّذِیْ رَوَاہُ الْحَاکِمُ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ مُصْعَبٍ، ہُوَ غَسْلُ الْیَدِ، عَلٰی مَا بَیَّنَہٗ عَنْہُ الزُّبَیْرُ بْنُ عَدِیٍّ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ الرِّوَایَتَانِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ سَعْدٍ مِنْ قَوْلِہٖ" إِنَّہٗ لَا وُضُوْئَ فِیْ ذٰلِکَ " .
٤٤٩: اسماعیل بن ابی خالد عن الزبیری بن عدی عن مصعب بن سعد نے اسی طرح روایت کی ہے البتہ یہ الفاظ مختلف ہیں : قم فاغسل یدک اٹھو اور اپنا ہاتھ دھو ڈالو۔
ان روایات کی موافقت کے لیے مصعب کی زبیر بن عدی والی روایت کو سامنے رکھنا ہوگا مزید برآں خود حضرت سعد (رض) سے وضو کی نفی والی روایات مسئلہ کو صاف کردیتی ہیں۔ روایات ملاحظہ ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ وضو جس کو حکم نے مصعب سے نقل کیا اس سے مراد ہاتھ کا دھونا ہو جیسا کہ اس کو زبیر بن عدی نے بیان کیا تاکہ دونوں روایتوں کا تضاد نہ رہے۔ حضرت سعد کی روایت میں ارشاد ہے کہ اس میں وضو نہیں۔

450

۴۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ، قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ، قَالَ : سُئِلَ سَعْدٌ عَنْ مَسِّ الذَّکَرِ، فَقَالَ " إِنْ کَانَ نَجِسًا فَاقْطَعْہُ لَا بَأْسَ بِہٖ " ۔
٤٥٠: اسماعیل بن ابی خالد عن قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ سعد سے شرمگاہ کے چھونے کا سوال کیا گیا تو فرمایا اگر وہ نجس ہے تو کاٹ ڈالو اس کو ہاتھ لگ جانے میں حرج نہیں۔ جب روایات کی تفتیش کی تو ثابت ہوگیا کہ عضو تناسل کو چھونے میں وضو نہیں۔ رہی وہ روایات جن کو ابن عباس (رض) نے اس پر وضو کے واجب ہونے سے متعلق بیان کی ہیں تو ان سے اس کے خلاف روایات بھی مذکور ہیں ‘ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٤۔

451

۴۵۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِسَعْدٍ : إِنَّہُ مَسَّ ذَکَرَہٗ، وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ، فَقَالَ : اقْطَعْہُ إِنَّمَا ہُوَ بِضْعَۃٌ مِنْک .فَھٰذَا سَعْدٌ، لَمَّا کُشِفَتْ الرِّوَایَاتُ عَنْہُ، ثَبَتَ عَنْہُ أَنَّہٗ لَا وُضُوْئَ فِیْ مَسِّ الذَّکَرِ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ إِیْجَابِ الْوُضُوْئِ فِیْہِ، فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ .
٤٥١: اسماعیل بن ابی خالد عن قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سعد کو کہا کہ میں نے اپنی شرمگاہ کو چھو لیا جبکہ میں نماز میں تھا تو آپ نے فرمایا وہ تیرے جسم کا حصہ ہے اگر اتنا ہی ناپاک ہے تو اسے کاٹ ڈالو۔
حاصل روایات : ان روایات بالا نے حضرت سعد (رض) کے متعلق یہ بات صاف کردی کہ وہ شرمگاہ کو چھو لینے سے وضو کو لازم قرار نہیں دیتے۔
روایت ابن عباس (رض) کا جواب :
حضرت ابن عباس (رض) سے متعلق بھی معاملہ کچھ اسی طرح ہے اس روایت بالا کے خلاف کئی روایات ان کے فتویٰ کی صورت میں موجود ہیں ملاحظہ ہوں۔

452

۴۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ : ثَنَا عَطَائٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (مَا أُبَالِیْ إِیَّاہُ مَسِسْتُ أَوْ أَنْفِیْ) .
٤٥٢: عکرمہ بن عمار کہتے ہیں ہمیں عطاء نے ابن عباس (رض) کے متعلق نقل فرمایا کہ انھوں نے فرمایا مجھے اس بات کی پروا نہیں آیا شرمگاہ کو چھوا جائے یا ناک کو (حکماًدونوں برابر ہیں)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٤

453

۴۵۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ شُعْبَۃَ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٤٥٣: شعبہ مولیٰ ابن عباس نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں ‘ ان سے اس روایت کے خلاف جو قتادہ نے عطاء سے نقل کی اور روایات اس کے برعکس آئی ہیں۔ ہم تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ابن عمر (رض) کے علاوہ اور کوئی بھی اس کا حامی نہیں۔ صحابہ (رض) کی اکثریت نے ان کے اس فتویٰ سے اختلاف کیا ہے۔ مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔

454

۴۵۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرٰی فِیْ مَسِّ الذَّکَرِ وُضُوْئً ا .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَدْ رُوِیَ عَنْہُ غَیْرُ مَا رَوَاہُ قَتَادَۃُ، عَنْ عَطَائٍ عَنْہٗ .فَلَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْتَیْ بِالْوُضُوْئِ مِنْہُ، غَیْرَ ابْنِ عُمَرَ .وَقَدْ خَالَفَہٗ فِیْ ذٰلِکَ أَکْثَرُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٥٤: سعید بن جبیر نے عن ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ وہ شرمگاہ کے چھونے پر وضو کو واجب قرار نہ دیتے تھے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں ان سے قتادہ والی سابقہ روایت کے خلاف عطاء اور سعید بن نبی ر عن ابن عباس (رض) کی روایات اس کے خلاف ہیں جس سے ان کا وضو کا قائل نہ ہونا صاف معلوم ہوتا ہے جب روایت کے خلاف راوی کا فتویٰ ہو تو وہ روایت مرجوح اور قابل عمل نہ ہوگی۔ ہم صحابہ کرام (رض) اجمعین کی عظیم جماعت میں ابن عمر (رض) کے علاوہ کسی کا فتویٰ نہیں پاتے جو شرمگاہ کو چھو لینے پر وضو کو لازم کرتا ہو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٥٢
حلاصل کلام :
یہ ابن عباس (رض) ہیں ان سے قتادہ والی سابقہ روایت کے خلاف عطاء اور سعید بن نبی ر عن ابن عباس (رض) کی روایات اس کے خلاف ہیں جس سے ان کا وضو کا قائل نہ ہونا صاف معلوم ہوتا ہے جب روایت کے خلاف راوی کا فتویٰ ہو تو وہ روایت مرجوح اور قابل عمل نہ ہوگی۔
روایت ابن عمر (رض) :
ہم صحابہ کرام (رض) اجمعین کی عظیم جماعت میں ابن عمر (رض) کے علاوہ کسی کا فتویٰ نہیں پاتے جو شرمگاہ کو چھو لینے پر وضو کو لازم کرتا ہو۔
بطور نمونہ ہم چند صحابہ کرام (رض) کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔

455

۴۵۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ قَالَ : أَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ قَابُوْسٍ عَنْ أَبِیْ ظَبْیَانَ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : (مَا أُبَالِیْ أَنْفِیْ مَسِسْتُ أَوْ أُذُنِیْ أَوْ ذَکَرِیْ) .
٤٥٥: ظبیان نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا مجھے کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا ۔ ناک ‘ کان کو چھونے اور شرمگاہ کو چھونے میں۔

456

۴۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ قَیْسِ بْنِ السَّکَنِ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ (مَا أُبَالِیْ ذَکَرِیْ مَسِسْتُ فِی الصَّلَاۃِ أَوْ أُذُنِیْ أَوْ أَنْفِیْ) .
٤٥٦: قیس بن السکن نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مجھے اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا کہ نماز میں میں اپنی ناک یا کان یا شرمگاہ کو چھوؤں۔

457

۴۵۷ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ قَیْسٍ قَالَ سَمِعْتُ ہُزَیْلًا یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ نَحْوَہٗ۔
٤٥٧: ابوقیس فرماتے ہیں کہ میں نے ہزیل کو سنا کہ وہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کرتے ہیں۔

458

۴۵۸ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا الْأَعْمَشُ عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ قَیْسِ بْنِ السَّکَنِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، مِثْلَہٗ .
٤٥٨: قیس بن السکن عبداللہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کرتے ہیں۔

459

۴۵۹ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا سُلَیْمَانُ الشَّیْبَانِیُّ، عَنْ أَبِیْ قَیْسٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .أَخْبَرَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ ح .
٤٥٩: ابو قیس نے پھر اس نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور ابو احمد الزبیری نے سعد سے اور انھوں نے عمیر بن سعید سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

460

۴۶۰ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : کُنْتُ فِیْ مَجْلِسٍ فِیْہِ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَذُکِرَ مَسُّ الذَّکَرِ فَقَالَ : (إِنَّمَا ہُوَ بِضْعَۃٌ مِنْکَ، مِثْلُ أَنْفِیْ أَوْ أَنْفِکَ. وَإِنَّ لِکَفِّکَ مَوْضِعًا غَیْرَہٗ) .أَخْبَرَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ إِیَادٍ عَنْ لَقِیْطٍ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ قَیْسٍ ح .
٤٦٠: مسعر نے عمیر بن سعید سے نقل کیا کہ میں عمار بن یاسر (رض) کی مجلس میں تھا تو شرمگاہ کے چھونے کا تذکرہ ہوا تو انھوں نے فرمایا وہ تمہارے جسم کا ایک حصہ ہے جیسا کہ ناک ‘ کان وغیرہ البتہ اپنے ہاتھ کو اس کی بجائے اور جگہ میں استعمال کرو۔ اسی طرح ابو عامر نے کہا کہ ہمیں سفیان نے ایاد بن لقیط سے اور انھوں نے براء بن قیس سے نقل کیا۔ (مضمون یہی ہے)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٤‘ دارقطنی فی السنن ١؍١٥٠۔

461

۴۶۱ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شُعْبَۃَ، عَنْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ سَدُوْسِیًّا یُحَدِّثُ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ قَیْسٍ ح .
٤٦١: ابو شعبہ نے منصور سے وہ کہتے ہیں میں نے ایک سدوسی کو براء بن قیس سے یہ روایت بیان کرتے سنا۔

462

۴۶۲ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ إِیَادِ بْنِ لَقِیْطٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُوْلُ : (مَا أُبَالِیْ إِیَّاہُ مَسِسْتُ أَوْ أَنْفِیْ) .
٤٦٢: براء بن قیس کہتے ہیں میں نے حذیفہ (رض) کو فرماتے سنا میں تو اس میں فرق محسوس نہیں کرتا کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگاؤں یا ناک کو۔

463

۴۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ح .
٤٦٣: حماد نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

464

۴۶۴ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْمُخَارِقِ بْنِ أَحْمَدَ، عَنْ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَحْوَہٗ۔
٤٦٤: مخارق بن احمد نے حذیفہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

465

۴۶۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِیْ رَزِیْنٍ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ خَمْسَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْہُمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ، وَحُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ، وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ، وَرَجُلٌ آخَرُ أَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَرَوْنَ فِیْ مَسِّ الذَّکَرِ وُضُوْئً ا ۔
٤٦٥: حسن نے پانچ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جن میں علی بن ابی طالب ‘ عبداللہ بن مسعود ‘ حذیفہ بن الیمان اور عمران بن حصین (رض) اور ایک اور صحابی (رض) ہیں وہ تمام شرمگاہ کو چھو لینے سے وضو کے قائل نہیں۔

466

۴۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ح .
٤٦٦: حجاج نے کہا حماد نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

467

۴۶۷ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ نَحْوَہٗ۔
٤٦٧: حسن نے عمران بن حصین (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

468

۴۶۸ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا حُمَیْدُ ڑالطَّوِیْلُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ مِثْلَہٗ .فَإِنْ کَانَ یَجِبُ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا تَقْلِیْدُ ابْنِ عُمَرَ، فَتَقْلِیْدُ مَنْ ذَکَرْنَا، أَوْلٰی مِنْ تَقْلِیْدِ ابْنِ عُمَرَ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَالْحَسَنِ .
٤٦٨: حسن بن عمران بن حصین (رض) سے اسی کی مثل روایت نقل کی ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ اگر اس قسم کے مسائل میں ابن عمر (رض) کی تقلید لازم ہے تو جن صحابہ کرام (رض) کا ہم نے ذکر کیا ان کی تقلید ابن عمر (رض) سے زیادہ بہتر ہے اور تابعین (رح) یہی فرماتے ہیں ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : طبرانی کبیر ٩؍٢٤٨‘
لطیفہ : اگر آپ نے اس سلسلہ میں ابن عمر (رض) کی تقلید کرنا ہے تو پھر ان حضرات کی تقلید ان سے اولیٰ ہے پس ان کی روایت کو چھوڑ کر اس جم غفیر کی روایات کو لینا چاہیے۔
سعید بن مسیب (رح) کے قول کا جواب :
حضرت سعید بن المسیب کو فریق اوّل کا حامی سمجھا جاتا ہے یہاں ان کا فتویٰ نقل کر کے اس کی تردید کی گئی ہے اثر ملاحظہ ہو۔

469

۴۶۹ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرٰی فِیْ مَسِّ الذَّکَرِ وُضُوْئً ا .
٤٦٩: قتادہ نے سعید بن المسیب (رح) سے نقل کیا کہ وہ شرمگاہ کے چھو لینے میں وضو کے قائل نہیں۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍١٢٠

470

۴۷۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَہٗ .
٤٧٠: قتادہ نے حسن (رح) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٦٥

471

۴۷۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ الْفَرْجِ، فَإِنْ فَعَلَہٗ، لَمْ یَرَ عَلَیْہِ وُضُوْئً ا .
٤٧١: اشعث نے حسن (رح) سے نقل کیا وہ شرمگاہ کو بلاوجہ ہاتھ لگانا ناپسند کرتے تھے اور اگر کوئی کرلیتا تو اس پر وضو کو لازم قرار نہ دیتے تھے۔

472

۴۷۲ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا یُوْنُسُ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرٰی فِیْ مَسِّ الذَّکَرِ وُضُوْئً ا .فَبِھٰذَا نَأْخُذُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔
٤٧٢: یونس نے حسن سے نقل کیا کہ وہ شرمگاہ کو چھو لینے پر وضو کو لازم قرار نہ دیتے تھے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍١٢٠
حاصل کلام : چار آثار اور چودہ روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے نہ وضو ٹوٹتا ہے اور نہ نئے سرے سے کرنا پڑتا ہے جمہور صحابہ وتابعین کا یہی مسلک ہے اسی کو ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) نے اختیار فرمایا ہے۔
نوٹ : اس باب میں طحاوی (رح) نے سابقہ طرز کے خلاف ہر روایت کا جواب ساتھ ساتھ دیا ہے ورنہ عام طرز فریق مخالف کا تذکرہ بمعہ روایات کرتے ہیں پھر فریق ثانی کی طرف سے دلائل و جوابات دیتے ہیں لیکن یہاں ہر روایت کا جواب ساتھ ساتھ ہی نبٹاتے گئے ہیں۔
` بَابُ ” الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ “ کَمْ وَقْتُہٗ لِلْمُقِیْمِ وَالْمُسَافِرِ `
مقیم و مسافر کے لیے موزوں پر مسح کا حکم
خلاصہ الزام : مسح علی الخفین جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں تو علامت اہل سنت ہے روافض کے ہاں جائز نہیں اور یہ موزے کے اعلیٰ حصہ پر کیا جائے گا موزے پر مسح جائز ہے اور جو ربین ثخینین یا چمڑے کے تلے والے موزے پر درست ہے موزے پر موزہ معمولی پھٹا ہوا ہو تو مسح درست ہے موزے کا پاک ہونا ضروری ہے اور نواقض وضو اس کے بھی نواقض ہیں اور پاؤں کا موزے سے نکلنا بھی اس کو توڑ دیتا ہے مدت مسح امام مالک کے ہاں مقرر نہیں دیگر تمام ائمہ مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات کے قائل ہیں۔
یہاں مسح کی مدت پر بحث ہوگی
اور بس امام مالک (رح) وغیرہ دیگر علماء کی مستدل روایات و آثار۔

473

۴۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ رَزِیْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ عَنْ أُبَیِّ بْنِ عَمَّارٍ (وَصَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَارَۃُ الْقِبْلَتَیْنِ أَنَّہٗ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَمْسَحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ؟ قَالَ : نَعَمْ .قَالَ : یَوْمًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ : نَعَمْ، وَیَوْمَیْنِ .قَالَ : وَیَوْمَیْنِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ : نَعَمْ، وَثَلَاثًا .قَالَ : وَثَلَاثًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ : نَعَمْ، حَتّٰی بَلَغَ سَبْعًا ثُمَّ قَالَ: امْسَحْ مَا بَدَا لَکَ) .
٤٧٣: نُسی نے ابی بن عمار (رض) سے نقل کیا (انہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی ہے) وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں موزوں پر مسح کروں ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایک دن فرمایا ہاں اور دو دن ‘ میں نے کہا دو دن یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا نعم اور تین دن۔ میں نے کہا تین دن یارسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرمایا ہاں یہاں تک کہ آپ سات تک پہنچے پھر فرمایا جب تک ہو سکے مسح کرتے رہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٦١‘ روایت ١٥٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ وسننھا باب ٨٧‘ ٥٥٧‘ دارقطنی فی سننہ ١؍١٩٨۔

474

۴۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ، قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ رَزِیْنٍ، أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ قَطَنٍ، عَنْ عُبَادَۃَ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ عُمَارَۃَ قَالَ (وَکَانَ مِمَّنْ صَلّٰیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَتَیْنِ) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٤٧٤: عبادہ نے ابی بن عمارہ (رض) سے نقل کیا اور وہ ان لوگوں سے تھے (جو دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے والے تھے) انھوں نے اسی طرح پوری روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢١١

475

۴۷۵ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُفَیْرٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ رَزِیْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ، عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ قَطَنٍ، عَنْ عُبَادَۃَ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ عِمَارَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : لَا وَقْتَ لِلْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ، فِی السَّفَرِ وَلَا فِی الْحَضَرِ .قَالُوْا : وَقَدْ شَدَّ ذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا فَذَکَرُوْا مَا۔
٤٧٥: عبادہ نے ابی بن عمارہ (رض) سے انھوں نے نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ موزوں پر مسح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ‘ نہ ہی سفر کے لیے اور نہ اقامت کے لئے۔ انھوں نے فرمایا اس کی مزید تائید حضرت عمر بن خطاب (رض) کی روایت سے ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٢١

476

۴۷۶ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ عَلِیٍّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ اِتِّرَدْتُّ مِنَ الشَّامِ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَخَرَجْتُ مِنَ الشَّامِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَدَخَلْتُ الْمَدِیْنَۃَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ .فَدَخَلْتُ عَلٰی عُمَرَ، وَعَلَیَّ خُفَّانِ مُجَرْمَقَانِیَانِ، فَقَالَ لِیْ : مَتٰی عَہْدُک یَا عُقْبَۃُ بِخَلْعِ خُفَّیْکَ؟ فَقُلْتُ : لَبِسْتُہُمَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَھٰذَا الْجُمُعَۃُ فَقَالَ لِیْ : أَصَبْتُ السُّنَّۃَ .
٤٧٦: فریق اوّل نے ان روایات سے استدلال کیا اور اس ارشاد فاروقی کو تائید میں ذکر کیا کہتے ہیں کہ میں شام سے حضرت عمر (رض) کے پاس آیا میں بروز جمعہ شام سے نکلا اور مدینہ میں (آٹھویں دن) بروز جمعہ داخل ہوا میں عمر (رض) کے پاس گیا میں نے جر موقی موزے پہنے ہوئے تھے آپ نے مجھے فرمایا اے عقبہ ! تمہیں موزے اتارے کتنے دن ہوگئے ؟ میں نے کہا جمعہ کے دن پہنے تھے اور آج جمعہ کا دن ہے تو آپ نے فرمایا تو نے سنت کو پا لیا۔
تخریج : دارقطنی ١؍١٩٥‘ مصنفقہ ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٨٥

477

۴۷۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ، قَالَ : ثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَۃَ (قَاضِیْ أَہْلِ مِصْرَ) عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَکَمِ الْبَلَوِیِّ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ بِمِثْلِہٖ .
٤٧٧: عبداللہ بن الحکم البلوی نے عقبہ بن عامر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ١؍٤٢١‘ ١٣٣٤

478

۴۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرٌو، وَابْنُ لَہِیْعَۃَ، وَاللَّیْثُ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَکَمِ الْبَلَوِیِّ، أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ رَبَاحٍ اللَّخْمِیَّ، یُخْبِرُ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَقَالَ " أَصَبْتَ" وَلَمْ یَقُلْ " السُّنَّۃَ " .قَالُوْا : فَفِیْ قَوْلِ عُمَرَ ھٰذَا، لِعُقْبَۃَ " أَصَبْت السُّنَّۃَ " یَدُلُّ أَنَّ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِأَنَّ السُّنَّۃَ لَا تَکُوْنُ إِلَّا عَنْہٗ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یَمْسَحُ الْمُقِیْمُ عَلٰی خُفَّیْہِ، یَوْمًا وَلَیْلَۃً، وَالْمُسَافِرُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ .وَقَالُوْا : أَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْہُ عَنْ عُمَرَ مِنْ قَوْلِہٖ : (أَصَبْتَ السُّنَّۃَ) فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ عِنْدَہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّ السُّنَّۃَ قَدْ تَکُوْنُ مِنْہُ وَقَدْ تَکُوْنُ مِنْ خُلَفَائِہٖ. قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ) .
٤٧٨: عبداللہ بن الحکم البلوی کہتے ہیں کہ میں نے علی بن رباح لخمی سے سنا وہ حضرت عقبہ بن عامر (رض) کے متعلق بتلا رہے تھے پھر ان سے اسی طرح روایت نقل کی فرق یہ ہے اس میں اصبت فرمایا۔ سنت کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے اس ارشاد میں جو انھوں نے حضرت عقبہ (رض) کو فرمایا ” اصبت السنۃ “ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کیونکہ سنت آپ ہی کی ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کیا اور کہا مقیم کو موزے پر ایک دن رات مسح کا حکم ہے اور مسافر کے لیے تین دن رات کی اجازت ہے۔ رہی وہ روایت جو تم نے حضرت عمر (رض) سے ” اصبت السنۃ “ کی نقل کی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ان کے ہاں یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کیونکہ سنت کا اطلاق تو سنت خلفاء الراشدین پر خود قول رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ((علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین)) میں موجود ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٢٠٦
حاصل روایات : مسح خفین کی مقیم و مسافر کے لیے کوئی مدت متعین نہیں جب تک چاہے موزے اتارے بغیر مسح کرسکتا ہے۔
جواب : حضرت ابی بن عمارہ (رض) کی منفرد روایت صحابہ کرام (رض) کی متواتر روایات کے خلاف ہے۔
نمبر ٢: روایت عقبہ بن عامر (رض) میں ” اصبت السنۃ “ سے استدلال درست نہیں اس میں جہاں سنت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کا احتمال ہے وہاں سنت خلفاء ہونے کا بھی احتمال ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین ۔
تخریج : ابو داؤد باب ٥ حدیث ٤٦٠٧‘ ترمذی فی العلم باب ١٦‘ ٢٦٧٦‘ ابن ماجہ باب ٦‘ روایت ٤٢‘ دارمی فی المقدمہ باب ١٦‘ مسند احمد ٤؍١٢٦؍٧
سنت کے لفظ کا اطلاق خلفاء راشدین کے علاوہ صحابہ کے طریقہ پر بھی موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

479

۴۷۹ : حَدَّثَنَا بِہٖ أَبُوْ أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ قَالَ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ لِرَبِیْعَۃَ (فِیْ أُرُوْشِ أَصَابِعِ الْمَرْأَۃِ) یَا ابْنَ أَخِیْ، إِنَّہَا السُّنَّۃُ، یُرِیْدُ قَوْلَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ رَأٰیُ مَا قَالَ لِعُقْبَۃَ، وَہُوَ مِنَ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ، فَسَمّٰی رَأْیَہٗ ذٰلِکَ سُنَّۃً، مَعَ أَنَّہٗ قَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ الْمُتَوَاتِرَۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ، بِتَوْقِیْتِ الْمَسْحِ لِلْمُسَافِرِ وَالْمُقِیْمِ، بِخِلَافِ مَا جَائَ بِہٖ حَدِیْثُ أُبَیِّ بْنِ عُمَارَۃَ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
٤٧٩ : اور سعید بن مسیب جلیل القدر تابعی ہیں انھوں نے ربیعہ رائے کو عورت کی انگلیوں کی دیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا : یا ابن اخی۔ انھا السنۃ حالانکہ اس سے ان کی مراد حضرت زید بن ثابت کا فتویٰ کہ انگلی کی دیت دس اونٹ ہے کی طرف اشارہ کرنا تھا۔ پس حضرت عمر (رض) نے اپنی رائے کو سنت کہا۔ نمبر ٢: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعیین مدت والی متواتر روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ مؤول ہے۔ نمبر ٣: حضرت عقبہ نے جنگل بیابان میں یہ سفر کیا جس میں پانی نہ ملنے پر وہ مسلسل تیمم کرتے رہے تو تیمم میں موزے اتارنے کا کوئی معنی نہیں اسی کو اصبت السنۃ فرمایا : ھو الرای۔
تخریج : ابو داؤد ٤٦٠٧‘ ترمذی ٢٦٧٦‘ ابن ماجہ ٤٢‘ دارمی باب ١٦‘ مسند احمد ٤؍١٢٦

480

۴۸۰ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ، عَنْ شُرَیْحِ بْنِ ہَانِِیٍٔ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَیَوْمًا وَلَیْلَۃً لِلْمُقِیْمِ) یَعْنِی الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ .
٤٨٠: شریح بن ھانی نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن رات مسافر کے لیے اور ایک دن رات مقیم کے لیے موزہ پر مسح کے مقرر فرمائے۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ ٨٥‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٩٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٨٦‘ مسند احمد ١؍٩٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٧٧‘ بیہقی ١؍٢٧٢‘ شرح السنہ بغوی ٢٣٨‘ مصنفقہ عبدالرزاق ٧٨٩‘

481

۴۸۱ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ، عَنْ شُرَیْحِ بْنِ ہَانِیٍٔ قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا فَسَأَلْتُہٗ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ فَقَالَ : (کُنَّا نُؤْمَرُ اِذَا کُنَّا سَفْرًا أَنْ نَمْسَحَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ، وَإِذَا کُنَّا مُقِیْمِیْنَ فَیَوْمًا وَلَیْلَۃً) .
٤٨١: شریح بن ہانی نے اپنی سند سے ذکر کیا کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا اور پھر ان سے مسح علی الخفین کا مسئلہ پوچھا تو فرمایا جب ہم سفر میں ہوتے ہمیں حکم دیا جاتا کہ تین دن رات مسح کریں اور جب حالت اقامت میں ہوں تو ایک دن رات مسح کریں۔
تخریج : روایت نمبر ٤٨٠‘

482

۴۸۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ، عَنْ زُبَیْدٍ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ، عَنْ شُرَیْحِ بْنِ ہَانِیٍٔ قَالَ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا تَرَیْنَ فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ؟ فَقَالَتْ : (إِیْتِ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہُوَ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ مِنِّیْ، کَانَ یُسَافِرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ : (کُنَّا اِذَا کُنَّا سَفْرًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمِرْنَا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، وَثَلَاثَ لَیَالٍ) .
٤٨٢: حکم بن عتیبہ نے شریح بن ہانی سے نقل کیا کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا اے ام المؤمنین ! آپ مسح علی الخفین کے متعلق کیا فرماتی ہیں تو انھوں نے فرمایا تم حضرت علی (رض) کے ہاں جاؤ وہ اس مسئلے کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر کرتے تھے (چنانچہ میں ان کی خدمت میں آیا اور) میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا جب ہم سفر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے تو ہمیں حکم ہوتا کہ ہم تین دن رات اپنے موزے نہ اتاریں۔
تخریج : روایت نمبر ٤٨٠‘

483

۴۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ الْجَدَلِیِّ، عَنْ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ (جَعَلَ الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیَہُنَّ، وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمًا وَلَیْلَۃً) قَالَ : وَلَوْ أَطْنَبَ لَہُ السَّائِلُ فِیْ مَسْأَلَتِہٖ لَزَادَہٗ.
٤٨٣: ابو عبداللہ الجدلی نے حضرت خزیمہ بن ثابت (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسافر کیلئے موزے پر مسح کی مدت تین دن رات مقرر فرمائی اور مقیم کے لیے ایک دن رات ‘ کہتے ہیں اگر سائل اور طوالت مانگتا تو آپ بڑھا دیتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ با ٦١‘ ١٥٧‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٧١‘ ٥٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ ٥٥٣‘ مسند احمد ٥؍٢١٤‘

484

۴۸۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ وَجَرِیْرٌ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : (وَ لَو اسْتَزَدْنَاہُ لَزَادَنَا) .
٤٨٤: سفیان و جریر نے منصور سے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ ان الفاظ کا فرق : لَو اسْتَزَدْنَاہُ لَزَادَنَا۔ اگر ہم اور اضافہ طلب کرتے تو آپ بڑھا دیتے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٢١

485

۴۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ الْجَدَلِیِّ، عَنْ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ (جَعَلَ الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃً وَلَیَالِیَہُنَّ وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمًا وَلَیْلَۃً) ، قَالَ : وَلَوْ أَطْنَبَ لَہُ السَّائِلُ فِیْ مَسْأَلَتِہٖ لَزَادَہٗ .
٤٨٥: حکم نے ابراہیم اور اس نے ابو عبداللہ الجدلی سے انھوں نے خزیمہ بن ثابت (رض) سے روایت اسی طرح نقل کی ہے کہ مسافر کے لیے موزہ پر مسح کی مدت تین دن رات مقرر فرمائی اور مقیم کے لیے ایک دن رات راوی کہتے ہیں اگر سائل سوال میں طوالت کرتا تو آپ اضافہ فرما دیتے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍١٠٠

486

۴۸۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٤٨٦: حماد نے براہیم سے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍٩٥

487

۴۸۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، وَحَمَّادٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٨٧: الحکم و حماد نے ابراہیم سے اور انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢١٥

488

۴۸۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، وَأَبُوْ عَامِرٍ، قَالَا : ثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٨٨: حماد نے براہیم سے اور انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍٩٥

489

۴۸۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ح .
٤٨٩: سلیمان بن شعیب نے الخصیب سے اور انھوں نے ہمام سے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔

490

۴۹۰ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ: ثَنَا ہَدِیَّۃٌ قَالَ: ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ الْجَدَلِیِّ، عَنْ خُزَیْمَۃَ أَنَّہٗ شَہِدَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ذٰلِکَ.
٤٩١: ابو عبداللہ الجدلی نے خزیمہ (رض) سے نقل کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٢١٥

491

۴۹۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ خُزَیْمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٤٩١: عبداللہ نے خزیمہ سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍٩٥

492

۴۹۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَنَا الْحَکَمُ، وَحَمَّادٌ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٩٢: شعبہ نے الحکم و حماد سے اور انھوں نے ابراہیم سے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٤؍٩٥

493

۴۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزَنٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَکَمِ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشِ ڑ الْأَسَدِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ، قَالَ : (کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ مُرَادٍ، یُقَالُ لَہٗ صَفْوَانُ بْنُ عَسَّالٍ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنِّیْ أُسَافِرُ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ، فَأَفْتِنِیْ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ فَقَالَ : ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ لِلْمُسَافِرِ، وَیَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ لِلْمُقِیْمِ) :
٤٩٣: زربن حبیش الاسدی نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں خدمت نبوی میں بیٹھا تھا کہ مراد قبیلہ کا ایک آدمی آیا جس کو صفوان بن عسال کہتے تھے اور اس نے پوچھا یارسول اللہ ! میں مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کرتا رہتا ہوں مجھے مسح علی الخفین کے متعلق فرمائیں آپ نے فرمایا مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٧١‘ ٩٦‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٩٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب التوقیت فی المسح۔

494

۴۹۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ قَالَ : (أَتَیْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ فَقُلْتُ حَاکَ فِیْ نَفْسِیْ أَوْ فِیْ صَدْرِیْ، اَلْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، فَہَلْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا قَالَ : نَعَمْ کُنَّا اِذَا کُنَّا سَفْرًا أَوْ مُسَافِرِیْنَ، أُمِرْنَا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہَنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَۃٍ، وَلٰـکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ) .
٤٩٤: زر کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا میرے دل یا سینے میں یہ بات کھٹکی ہے کہ پیشاب و پائخانہ کے بعد مسح علی الخفین کا کیا حکم ہے کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی بات جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے تو وہ کہنے لگے جی ہاں ! ہم جب سفر میں ہوتے تو ہمیں حکم ملتا کہ تین دن رات کے لیے ہم اپنے موزے نہ اتاریں سوائے جنابت کی صورت کے لیکن پیشاب و پائخانہ میں ضرورت نہیں۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٧١ نمبر ٩٦‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٩٧‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٦٢‘

495

۴۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٤٩٥: حماد بن زید نے عاصم سے اور عاصم نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل فرمائی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٨؍٥٩

496

۴۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٤٩٦: عن عاصم بن بھدلہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٨؍٥٨

497

۴۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَوْقٍ، عَطِیَّۃُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْغَرِیْفِ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ خَلِیْفَۃَ عَنْ (صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ : بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَرِیَّۃٍ، فَقَالَ : لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثًا وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ مَسْحًا عَلَی الْخُفَّیْنِ) .
٤٩٧: ابوالغریف عبیداللہ بن خلیفہ نے کہا کہ صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ کے ساتھ روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا مسافر کیلئے تین دن رات اور مقیم کیلئے ایک دن رات موزوں پر مسح کرنا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٢٤١

498

۴۹۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ عَنْ مُہَاجِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ وَزَادَ (اِذَا لَبِسْتَہُمَا عَلٰی طَہَارَۃٍ) .
٤٩٨: عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور یہ الفاظ زائد ہیں جبکہ تم نے ان کو وضو کے ساتھ پہنا ہو۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٨٦‘ ٥٥٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٧٩۔

499

۴۹۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا دَاوٗدَ بْنُ عَمْرٍو الْحَضْرَمِیُّ عَنْ بِشْرِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْحَضْرَمِیِّ، عَنْ أَبِیْ إدْرِیْسَ الْخَوْلَانِیِّ قَالَ: ثَنَا عَوْفُ بْنُ مَالِکِ ڑ الْأَشْجَعِیُّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ فِی التَّوْقِیْتِ خَاصَّۃً وَزَادَ (أَنَّہٗ جَعَلَ ذٰلِکَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ) .
٤٩٩: بشر بن عبیداللہ الحضرمی نے ابو ادریس خولانی سے روایت نقل کی کہ عوف بن مالک الاشجعی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور یہ لفظ زائد ہیں : انہ جعل ذلک فی غزوۃِ تبوک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مدت مسح غزوہ تبوک کے موقع پر مقرر فرمائی۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٧٥

500

۵۰۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ دَاوٗدَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ :
٥٠٠: یحییٰ بن حسان نے ہشیم عن داؤد سے نقل کیا انھوں نے اپنی سند سے پوری روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١٨؍٤٠

501

۵۰۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ یَزِیْدَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَاہُ یَقُوْلُ (کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَہَبَ لِحَاجَتِہٖ، فَأَتَیْتُہٗ بِمَائٍ وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ شَامِیَّۃٌ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ، فَکَانَتْ سُنَّۃً لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ، وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ) .
٥٠١: عروہ بن المغیرہ نے حضرت مغیرہ (رض) سے سنا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے پھر میں آپ کے پاس پانی لایا آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا مسافر کے لیے آپ کا طریقہ تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات کا تھا۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٤٨‘ مسلم فی الطھارۃ ٨١‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٦٠‘ نمبر ١٥٠‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٧٤‘ نمبر ١٠٠‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٨٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١٠؍١٧٨۔

502

۵۰۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیْعَۃَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی (الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ لِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ، وَلِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ) .فَھٰذِہِ الْآثَارُ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالتَّوْقِیْتِ فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہَا وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ .فَلَیْسَ یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَتْرُکَ مِثْلَ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمُتَوَاتِرَۃِ إِلٰی مِثْلِ حَدِیْثِ أُبَیِّ بْنِ عُمَارَۃَ .وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ مِمَّا رَوَاہُ عُقْبَۃُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَإِنَّہٗ قَدْ تَوَاتَرَتِ الْآثَارُ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .
٥٠٢: علی بن ربیعہ نے علی بن ابی طالب (رض) سے نقل کیا کہ کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسح علی الخفین میں مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن رات مقرر فرمائے ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت تواتر کے ساتھ مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات کا وقت ثابت کر رہے ہیں پس ان روایات متواترہ کو ترک کر کے ابن ابی عمار (رض) کی طرف رجوع درست نہیں۔ حضرت عقبہ (رض) کی حضرت عمر (رض) سے منقولہ روایت کے برعکس حضرت عمر (رض) سے متواتر آثار توقیت مسح کے منقول ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ نمبر ٨٥‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٩٨‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٧٢‘ مصنف عبدالرزاق ٧٨٩‘ مسند احمد ١؍٩٦‘
حاصل روایات :
یہ تئیس روایات اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ مسافر کے لیے موزوں کی مدت مسح تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات ہے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
اب ان روایات متواترہ کو چھوڑ کر حدیث ابی بن عمارہ کی طرف جانا درست نہیں اور عقبہ بن عامر (رض) کی روایت میں حضرت عمر (رض) کے ارشاد سے استدلال بھی درست نہیں کیونکہ خود ان کے بہت سے اقوال اس کے خلاف موجود ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں :

503

۵۰۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : قُلْنَا لِبَنَانَۃَ الْجُعْفِیِّ وَکَانَ أَجْرَأَنَا عَلٰی عُمَرَ " سَلْہُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ " فَسَأَلَہٗ فَقَالَ : " لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ " .
٥٠٣: عمران بن مسلم نے سوید بن غفلہ سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم نے بنانہ جعفی کو کہا اور یہ فاروق (رض) سے سوال کرنے میں ہم سب سے زیادہ جری تھے کہ تم حضرت عمر (رض) سے مسح علی الخفین سے متعلق سوال کرو (میں نے سوال کیا) تو انھوں نے فرمایا مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات (مدت ہے) ۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٧٩۔

504

۵۰۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، قَالَ : ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ سُوَیِْد بْنِ غَفَلَۃَ أَنَّ بَنَانَۃَ سَأَلَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ " امْسَحْ عَلَیْہِمَا یَوْمًا وَلَیْلَۃً".
٥٠٤: سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ بنانہ جعفی نے حضرت عمر (رض) سے مسح علی الخفین کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا تم (چونکہ مقیم ہو) ایک دن رات مسح کرو۔

505

۵۰۵ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سُوَیِْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : أَتَیْنَا عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَأَلَہٗ بَنَانَۃُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : " لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ، وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ " .
٥٠٥: عمران بن مسلم نے سوید بن غفلہ سے نقل کیا کہ ہم عمر (رض) کی خدمت میں آئے ان سے بنانہ جعفی نے مسح علی الخفین کے متعلق سوال کیا تو عمر (رض) نے فرمایا مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات (مدت ہے) ۔

506

۵۰۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ بَنَانَۃَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٥٠٦: اسود نے بنانہ جعفی سے انھوں نے حضرت عمر (رض) اسی طرح کا سوال و جواب نقل کیا ہے۔
تخریج : البیہقی ١؍٤١٦

507

۵۰۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ بَنَانَۃَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٥٠٧: اسود نے بنانہ جعفی سے انھوں نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : کتاب الآثار امام محمد ١؍١١

508

۵۰۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ حَمَّادٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٥٠٨: ہشام نے حماد سے اپنی اسناد سے اور حماد نے اسی طرح اپنی اسناد سے ذکر کیا۔

509

۵۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ قَالَ .ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٥٠٩ : اسود نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

510

۵۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْأَصْبَہَانِیُّ، قَالَ : أَنَا حَفْصِیٌّ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ " مَنْ أَدْخَلَ قَدَمَیْہِ وَہُمَا طَاہِرَتَانِ فَلْیَمْسَحْ عَلَیْہِمَا إِلٰی مِثْلِ سَاعَتِہٖ مِنْ یَوْمِہٖ وَلَیْلَتِہِ .
٥١٠ : عاص نے ابو عثمان سے نقل کیا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جس نے اپنے دونوں پاؤں کو وضو کی حالت میں موزے میں داخل کیا وہ موزوں پر اس دن رات کی اس گھڑی تک مسح کرتا رہے۔ (یعنی چوبیس گھنٹے)
تخریج : بیہقی نمبر ١٣١٤

511

۵۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : کَتَبَ إِلَیْنَا عُمَرُ فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ (لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ) .فَھٰذَا عُمَرُ قَدْ جَائَ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا، مَا یُوَافِقُ مَا رَوَیْنَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّوْقِیْتِ لِلْمُسَافِرِ وَلِلْمُقِیْمِ وَقَدْ یَحْتَمِلُ حَدِیْثُ عُقْبَۃَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْکَلَامُ، کَانَ مِنْ عُمَرَ، لِأَنَّہٗ عَلِمَ أَنَّ طَرِیْقَ عُقْبَۃَ، الَّذِیْ جَائَ مِنْہُ طَرِیْقٌ لَا مَائَ فِیْہِ .فَکَانَ حُکْمُہٗ أَنْ یَتَیَمَّمَ : فَسَأَلَہٗ : مَتٰی عَہْدُک بِخَلْعِ خُفَّیْکَ، اِذَا کَانَ حُکْمُک ہُوَ التَّیَمُّمُ، فَأَخْبَرَہٗ بِمَا أَخْبَرَہٗ .وَھٰذَا الْوَجْہُ أَوْلٰی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ ھٰذَا الْحَدِیْثُ لِیُوَافِقَ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سِوَاہُ وَلَا یُضَادُّہٗ. وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ عُمَرَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُوَافِقُ مَا رَوَیْنَا فِی التَّوْفِیْقِ .
٥١١: زید بن وہب نے نقل کیا کہ عمر (رض) نے ہماری طرف مسح علی الخفین کے سلسلہ میں لکھا کہ مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات کی اجازت ہے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں کہ ان سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے موافق روایات مروی ہیں جن میں مسح کی اسی طرح توقیت ہے۔ نیز حدیث عقبہ میں ایک اور احتمال پایا جاتا ہے کہ جناب عمر (رض) سے معلوم کیا کہ حضرت عقبہ (رض) ایسے راستے سے آتے ہیں جو سنسانہ ہے اور اس میں نہیں ملتا تو اس کا حکم تیمم ہی تھا۔ اس لیے انھوں نے عقبہ (رض) سے پوچھا کہ تمہیں جوتے اتارے کتنا عرصہ ہوا ؟ جبکہ یہاں تو تیمم ہی ہے تو حضرت عقبہ (رض) نے ان کو خبر دی جو کچھ خبر دی اور یہ تاویل پہلی تاویل سے بہتر ہے تاکہ حضرت عمر (رض) کی روایت کے موافق ہوجائے اور باہمی تضاد نہ رہے۔ ہم نے جو کچھ تطبیق کے سلسلہ میں ذکر کیا یہ حضرت عمر (رض) کے علاوہ دیگر صحابہ کرام (رض) سے مروی ہے ‘ مرویات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٦٣‘ عبدالرزاق ١؍٢٠٦
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ حضرت عمر (رض) کہ جن سے ان روایات متواترہ کے مطابق فتویٰ موجود ہے کہ جس میں مقیم و مسافر کے لیے مدت کی تعیین پائی جاتی ہے۔
روایت کا جواب ایک اور رخ سے :
روایت عقبہ (رض) میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ کلام عمر (رض) کا ہو کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس راستے سے وہ مدینہ آتے ہیں اس میں پانی نہیں ہے عقبہ کے لیے وہاں حکم تیمم کا تھا اس لیے انھوں نے پوچھا تمہیں موزے اتارے کتنے دن گزرے اس لیے کہ تمہارے لیے حکم ہی تیمم کا تھا تو عقبہ (رض) نے ان کو یہی اطلاع دی تو انھوں نے فرمایا ” اصبت السنۃ “ اس پر روایت کو محمول کرنا اولیٰ ہے تاکہ ان کے اقوال کے خلاف نہ ہو۔
مدت مسح کی تعیین کے سلسلہ میں دیگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی بہت سی روایات وارد ہیں یہاں چند ذکر کی جاتی ہیں۔

512

۵۱۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ ہَانِیٍٔ قَالَ : (أَتَیْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَسَأَلْتُہَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ فَقَالَتْ إِیْتِ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَإِنَّہٗ أَعْلَمُہُمْ بِوُضُوْئِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُسَافِرُ مَعَہٗ فَأَتَیْتُہٗ فَسَأَلْتُہٗ، فَقَالَ : یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ لِلْمُقِیْمِ، وَثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ لِلْمُسَافِرِ) .
٥١٢: شریح بن ہانی کہتے ہیں میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا اور ان سے مسح علی الخفین کے متعلق مسئلہ دریافت کیا تو وہ فرمانے لگیں تم علی (رض) کے پاس جاؤ ان کو وضو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خوب علم ہے وہ آپ کے ساتھ سفر کرتے تھے چنانچہ میں ان کی خدمت میں آیا اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا ایک دن رات مقیم کے لیے اور مسافر کے لیے تین دن رات ہوں گے۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ نمبر ٨٥

513

۵۱۳ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ قَالَ : جَعَلَ عَبْدُ اللّٰہِ الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ لِلْمُسَافِرِ، وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمًا .
٥١٣: ابراہیم التیمی نے حارث بن سوید سے نقل کیا کہ عبداللہ مسح علی الخفین کو مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات مقرر کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٧٩

514

۵۱۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : (سَافَرْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَکَانَ لَا یَنْزِعُ خُفَّیْہِ ثَلَاثًا) .
٥١٤: ابراہیم نے عمرو بن الحارث سے نقل کیا ‘ وہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ کے ساتھ سفر کیا چنانچہ وہ (سفر میں) تین دن رات اپنا موزہ نہ اتارتے تھے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٢٠٧

515

۵۱۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُوْسَی بْنِ سَلَمَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ، قَالَ : (لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْہِنَّ، وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ) .
٥١٥: موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے مسح علی الخفین کے متعلق استفسار کیا تو فرمایا مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات کافی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٨٢‘ بیہقی ١؍٤١٦

516

۵۱۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ :
٥١٦: ابوالولید نے شعبہ سے پھر شعبہ نے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المحلی ١؍٣٢٥

517

۵۱۷ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ أَخْبَرَنِیْ غَیْلَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ ذٰلِکَ .
٥١٧: ہشیم کہتے ہیں مجھے غیلان بن عبداللہ نے بتلایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو اسی طرح فرماتے سنا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٨٠

518

۵۱۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہَدِیَّۃُ قَالَ : ثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْکِیْنٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٥١٨: ُ ہدیہ کہتے ہیں کہ سلام بن مسکین نے عبدالعزیز سے اور انھوں نے انس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

519

۵۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ قَطَنٍ عَنْ أَبِیْ زَیْدِ ڑ الْأَنْصَارِیِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ .
٥١٩: حماد نے بیان کیا سعید بن قطن سے اور انھوں نے ابو زید انصاری (رض) سے اور انھوں نے ایک صحابی (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ (ابو زید کا نام عمرو بن اخطب (رض) ہے)

520

۵۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ یُوْنُسَ، وَقَتَادَۃَ، عَنْ مُوْسَی بْنِ سَلَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .فَھٰذِہٖ أَقْوَالُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدِ اتَّفَقَتْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنَ التَّوْقِیْتِ فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ لِلْمُسَافِرِ وَالْمُقِیْمِ .فَلَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یُخَالِفَ ذٰلِکَ .وَھٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ أَیْضًا، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٥٢٠: قتادہ نے موسیٰ بن سلمہ سے اور انھوں نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال ہیں یہ تمام اقوال موزے پر مسح کے مقیم و مسافر کے متعلق وقت کے مقرر ہونے پر متفق ہیں۔ پس ان کی مخالفت کسی کو درست نہیں۔ یہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات :
ان مزید تائیدی روایات سے بھی موزوں پر مسح کی مدت کا مقرر ہونا معلوم ہوتا ہے یہ تمام مدت مسح کی توقیت پر متفق ہیں پس ان سے تخلف جائز نہیں۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔
لطیفہ : مسح علی الخفین کا مسئلہ ٦٧ صحابہ (رض) سے مروی ہے۔ (کذا فی نخب الافکار ج ١)

521

۵۲۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ سَعِیْدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ عَنْ حُصَیْنٍ أَبِیْ سَاسَانَ، عَنْ (الْمُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، أَنَّہٗ سَلَّمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ وُضُوْئِہٖ قَالَ : إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ إِلَّا أَنِّیْ کَرِہْتُ أَنْ أَذْکُرَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا عَلٰی طَہَارَۃٍ) .
٥٢١: حصین ابی ساسان نے مہاجر بن قُنفذ (رض) سے نقل کیا وہ کہتے ہیں میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا جبکہ آپ وضو کر رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب نہ دیا جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی مگر میں نے بلاطہارت اللہ تعالیٰ کا ذکر مناسب نہ سمجھا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨‘ نمبر ١٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٣٣‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٢٧‘ نمبر ٣٥٠‘
خلاصہ الزام : فریق اوّل : امام حسن بصری ‘ مجاہد عکرمہ (رح) کے ہاں حدث اصغر ہو یا اکبر کسی حالت میں اذکار ‘ سلام ‘ تلاوت قرآن وغیرہ کچھ بھی جائز نہیں اس کے لیے وضو ضروری ہے۔
فریق ثانی : محدثین (رح) کے ہاں سلام کے علاوہ بقیہ اذکار و تلاوت کے لیے وضو لازم ہے سلام کا جواب تیمم سے بھی درست ہے۔
فریق ثالث : تمام اذکار و تلاوت بلا وضو جائز ہے مگر حائضہ اور جنبی کے لیے مکمل آیت کی تلاوت جائز نہیں ضرورت کے لیے الگ الگ حرف پڑھے جاسکتے ہیں۔
یہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماء (رح) کا مسلک ہے۔
فریق اوّل کا مسلک احادیث کی روشنی میں :

522

۵۲۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : أَنَا حُمَیْدَۃُ وَغَیْرُہٗ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الْمُہَاجِرِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَبُوْلُ، أَوْ قَالَ : مَرَرْتُ بِہٖ وَقَدْ بَالَ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ، حَتّٰی فَرَغَ مِنْ وُضُوْئِہٖ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیَّ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَذْکُرَ اللّٰہَ تَعَالٰی بِشَیْئٍ إِلَّا وَہُوَ عَلٰی حَالٍ یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَنْ سُلِّمَ عَلَیْہِ، وَہُوَ عَلٰی حَالِ حَدَثٍ، تَیَمَّمَ وَرَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَإِنْ کَانَ فِی الْمِصْرِ وَقَالُوْا فِیْمَا سِوَی السَّلَامِ، مِثْلَ قَوْلِ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی، وَکَانَ مِمَّا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٥٢٢: حسن نے مہاجر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت (پیشاب) میں مصروف تھے یا ایسے حال میں آپ کے پاس سے گزرا کہ آپ قضاء حاجت سے فارغ ہوچکے تھے تو میں نے سلام کیا آپ نے میرے سلام کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ اپنے وضو سے فارغ ہوگئے تو میرے سلام کا جواب دیا۔ علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کا ذکر صرف اس وقت درست ہے جبکہ وہ ایسی حالت میں ہو جس سے نماز ادا کرسکتا ہو۔ مگر دوسرے علماء کو ان سے اختلاف ہے ‘ وہ کہتے ہیں جس کو سلام کیا جائے اور وہ اس وقت بےوضو ہو تو تیمم کر کے ان کے سلام کا جواب دے اگر وہ شہر میں ہو اور سلام کے علاوہ دیگر اذکار میں ان کا قول پہلے علماء کی طرح ہے۔ یہ روایات مستدل ہیں۔
تخریج : ابو داؤد باب ٨‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٣٣‘ ابن ماجہ ٣٥٠
حاصل روایات :
ان دونوں روایات کو مستدل بنا کر حسن بصری وغیرہ (رح) کہتے ہیں کہ جیسا ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلام کا جواب بھی آپ نے بلاوضو نہیں دیا پس اذکار اور سلام کے لیے بھی وضو ضروری ہے۔
دوسرا فریق :
محدثین کی جماعت کہتی ہے کہ سلام کا جواب اگرچہ پانی ہو مگر جلدی جواب کی خاطر تیمم کر کے دیا جاسکتا ہے۔ اور سلام کے علاوہ میں ان کے ہاں بھی وضو لازم ہے۔

523

۵۲۳ : حَدَّثَنَا بِہٖ رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتِ ڑ الْعَبْدِیُّ ح .وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ وَسُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَا : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ : ثَنَا نَافِعٌ قَالَ : انْطَلَقْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَاجَۃٍ لِابْنِ عُمَرَ، فَقَضٰی حَاجَتَہٗ، فَکَانَ مِنْ حَدِیْثِہٖ یَوْمَئِذٍ أَنَّہٗ قَالَ : (مَرَّ رَجُلٌ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سِکَّۃٍ مِنَ السِّکَکِ، وَقَدْ خَرَجَ مِنْ غَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ حَتّٰی کَادَ الرَّجُلُ أَنْ یَتَوَارٰی فِی السِّکَّۃِ، فَضَرَبَ بِیَدَیْہِ عَلَی الْحَائِطِ، فَتَیَمَّمَ لِوَجْہِہٖ، ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَتَیَمَّمَ لِذِرَاعَیْہِ، قَالَ : ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَقَالَ : أَمَا إِنَّہٗ لَمْ یَمْنَعْنِیْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْکَ السَّلَامَ إِلَّا أَنِّیْ کُنْتُ لَسْتُ بِطَاہِرٍ) .
٥٢٣: محمد بن ثابت کہتے ہیں کہ ہمیں نافع نے بیان کیا کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ ابن عباس (رض) کے ہاں کسی کام کیلئے گئے انھوں نے ہمارا کام پورا کردیا ان کا اس دن کا واقعہ اس طرح ہوا کہ ایک آدمی کا گزر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہوا جبکہ آپ کسی گلی میں تھے اور آپ اسی وقت قضائے حاجت (بول یا براز) سے فارغ ہوئے تھے اس آدمی نے آپ کو سلام کیا آپ نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ آدمی گلی کا موڑ مڑنے لگا تو آپ نے تیمم کے لیے دونوں ہاتھوں کی ضرب چہرے کے لیے لگائی اور دوسری ضرب بازو کے لیے لگا کر تیمم کیا پھر اس آدمی کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا میاں سنو ! مجھے سلام کا جواب دینے میں صرف یہ چیز رکاوٹ بنی کہ میں طہارت سے نہ تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨ روایت ١٦

524

۵۲۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ (رَجُلًا سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَبُوْلُ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ حَتّٰی أَتٰی حَائِطًا فَتَیَمَّمَ) .
٥٢٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حالت میں سلام کیا کہ آپ پیشاب میں مصروف تھے آپ نے جواب نہ دیا یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور تیمم کر کے اس کا جواب دیا۔
تخریج : مسلم فی الحیض ١١٥‘ ابو داؤد فی الطھارۃ ١٦‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٢٧‘ نمبر ٣٥٣‘ دارمی فی الاستیذان باب ١٣‘

525

۵۲۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ہُرْمُزَ عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یَقُوْلُ : أَقْبَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَسَارٍ، مَوْلٰی مَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی دَخَلْنَا عَلٰی أَبِی الْجَہْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّۃِ الْأَنْصَارِیِّ .فَقَالَ أَبُو الْجَہْمِ : (أَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ، فَلَقِیَہٗ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَرُدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ، حَتّٰی أَقْبَلَ عَلَی الْجِدَارِ فَمَسَحَ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ).
٥٢٥: عبدالرحمن بن ہرمز نے ابن عباس (رض) کے مولیٰ عمیر سے نقل کیا کہ وہ کہنے لگے میں اور عبداللہ بن یسار مولیٰ میمونہ (رض) ابوالجہم بن الحارث بن الصمہ انصاری (رض) کے ہاں گئے ابو جہم نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیر جمل کی طرف سے تشریف لا رہے تھے کہ ان کو ایک آدمی ملا اور اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ آپ نے دیوار کی طرف رخ فرما کر تیمم فرمایا پھر اس کے سلام کا جواب مرحمت فرمایا۔
تخریج : بخاری فی التیمم باب ٢‘ مسلم فی الحیض ١١٤‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٢ ٣٢٩‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٩٤‘ مسند احمد ٤؍١٦٩‘

526

۵۲۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ، عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ ڑالنَّاقِدُ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .فَقَالُوْا فَبِھٰذِہِ الْآثَارِ رَخَّصَنَا لِلَّذِیْ یُسَلَّمُ عَلَیْہِ وَہُوَ غَیْرُ طَاہِرٍ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَرُدَّ السَّلَامَ، لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ جَوَابًا لِلسَّلَامِ .وَھٰذَا کَمَا رَخَّصَ قَوْمٌ فِی التَّیَمُّمِ لِلْجِنَازَۃِ وَلِلْعِیْدَیْنِ، اِذَا خِیْفَ فَوْتُ ذٰلِکَ اِذَا تُشُوْغِلَ بِطَلَبِ الْمَائِ لِوُضُوْئِ الصَّلَاۃِ. وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٥٢٦: ابن اسحاق نے عبدالرحمن الاعرج اور انھوں نے عمیر مولیٰ ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ان آثار سے یہ رخصت ثابت ہوئی کہ جس کو سلام کیا جائے اگر وہ پاک نہ ہو تو تیمم کر کے سلام کا جواب دے تاکہ سلام کا جواب ہوجائے اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ کچھ علماء نے جنازہ اور عیدین کے فوت ہونے کا خطرہ ہو یا پانی کی تلاش میں مشغولیت سے نماز کے چلے جانے کا ڈر ہو تو تیمم کو جائز قرار دیا اور یہ روایات بیان کیں۔
حاصل روایات :
ان چاروں روایات میں تیمم کر کے سلام کے جواب کا ذکر موجود ہے معلوم ہوا کہ سلام میں ضرورۃً تیمم شہر کے اندر بھی کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ میں وضو بہرحال ضروری ہے۔
اور سلام کی نظیر جنازہ و عیدین ہیں کہ جب ان کے فوت ہونے کا خطرہ ہو تو تیمم کر کے نماز میں شامل ہوجائے کہ ان کا بدل نہیں۔

527

۵۲۷ : مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوْبَ الْمَوْصَلِیُّ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ زِیَادٍ، عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الرَّجُلِ تَفْجَؤُہُ الْجَنَازَۃُ، وَہُوَ عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ قَالَ " یَتَیَمَّمُ وَیُصَلِّیْ عَلَیْہَا " .
٥٢٧: مغیرہ بن زیاد نے عطاء سے اور انھوں نے ابن عباس (رض) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو اچانک جنازہ میں حاضر ہو اور وہ وضو نہ رکھتا ہو تو فرمایا تیمم کر کے نماز جنازہ پڑھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ٣؍٣٠٥‘

528

۵۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مُغِیْرَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ وَعَبْدِ الْمَلِکِ، عَنْ عَطَائٍ، وَزَکَرِیَّا عَنْ عَامِرٍ وَیُوْنُسَ عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَہٗ .
٥٢٨: عامر و یونس نے حسن سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

529

۵۲۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ مِثْلَہٗ .
٥٢٩: شعبہ نے منصور سے انھوں نے ابراہیم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

530

۵۳۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ مِثْلَہٗ .
٥٣٠: منصور نے ابراہیم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

531

۵۳۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ مِثْلَہٗ.
٥٣١: حماد نے ابراہیم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

532

۵۳۲ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ یُوْنُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ وَعَبْدِ الْمَلِکِ، عَنْ عَطَائٍ نَحْوَہٗ۔
٥٣٢: ابراہیم و عبدالملک نے عطاء سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

533

۵۳۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالاَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ .
٥٣٣: عباد بن راشد نے حسن کو سنا کہ اسی طرح فرماتے تھے۔

534

۵۳۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ، أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ مِثْلَہٗ، قَالَ : وَقَالَ لِیَ اللَّیْثُ مِثْلَہٗ .
٥٣٤: یونس نے ابن شہاب سے اسی طرح روایت نقل کی اور کہا کہ مجھے لیث نے بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

535

۵۳۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرِ ڑ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیْدِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ عُتْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا کَانَ قَدْ رَخَّصَ فِی التَّیَمُّمِ فِی الْأَمْصَارِ خَوْفَ فَوْتِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ، وَفِیْ صَلَاۃِ الْعِیْدَیْنِ لِأَنَّ ذٰلِکَ اِذَا فَاتَ لَمْ یُقْضَ .قَالُوْا فَکَذٰلِکَ رَخَّصْنَا فِی التَّیَمُّمِ فِی الْأَمْصَارِ لِرَدِّ السَّلَامِ، لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ جَوَابًا لِلْمُسْلِمِ، لِأَنَّ ذٰلِکَ اِذَا لَمْ یُفْعَلْ فَلَمْ یَرُدَّ السَّلَامَ حِیْنَئِذٍ فَاتَ ذٰلِکَ، وَإِنْ رَدَّ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ بِجَوَابٍ لَہٗ وَأَمَّا مَا سِوٰی ذٰلِکَ، مِمَّا لَا یُخَافُ فَوْتُہٗ، مِنَ الذِّکْرِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ، فَلَا یَنْبَغِیْ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ أَحَدٌ إِلَّا عَلٰی طَہَارَۃٍ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ أَنْ یَذْکُرَ اللّٰہَ تَعَالٰی فِی الْأَحْوَالِ کُلِّہَا، مِنَ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا، وَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِیْ ذٰلِکَ، خِلَافُ الْجَنَابَۃِ وَالْحَیْضِ، فَإِنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ لِصَاحِبِہِمَا أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٥٣٥: عبدالملک بن ابی عتبہ نے حکم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ پس جب نماز جنازہ اور عیدین کے فوت ہوجانے کے خطرہ سے شہروں میں تیمم جائز ہے کیونکہ ان نمازوں کا بدل نہیں اسی طرح ہم نے سلام کا جواب دینے کے لیے تیمم درست قرار دیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے گا اور سلام کا جواب نہ دے گا تو سلام فوت ہوجائے گا اور بالفرض اگر وہ جواب بعد میں دے تو وہ سلام کرنے والے کا جواب نہ بنا اس کے علاوہ بقیہ اذکار و قراءت جن کے فوت ہونے کا خطرہ نہیں تو وہ بلا وضو کرنے کے درست نہیں۔ علماء کی ایک اور جماعت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ان تمام احوال میں اس کو ذکر کرنے میں چنداں حرج نہیں جب جنابت وغیرہ ہو۔ البتہ جنابت و حیض و نفاس کی حالت میں قراءت قرآن نہیں کی جاسکتی ان کی مستدل مندرجہ روایات ہیں۔
حاصل روایات : ان نو روایات سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ نماز جنازہ وغیرہ کے فوت ہونے کے خطرے سے تیمم کر کے جنازہ پڑھنا درست ہے بس سابقہ روایات میں یہ سلام کا جواب دینے کی نظیر ہے اس کا جواب بھی تیمم کر کے دینا جائز ہے تاکہ مسلم کا جواب پاکیزگی کی حالت میں ہو اگر وہ تیمم نہ کرے گا تو سلام فوت ہوجائے گا اور بعد میں کرنے سے وہ جواب نہ بنے گا بقیہ اذکار و قراءت قرآن میں فوت ہونے کا چنداں خطرہ نہیں پس ان کو بلاطہارت کرنا کسی صورت درست نہیں۔
فریق ثالث کا مؤقف اور مستدل روایات :
ذکر الٰہی تو جنابت وغیرہ تمام حالات میں درست ہے اور قراءت قرآن جنابت و حیض میں درست نہیں ورنہ بلاوضو درست ہے۔

536

۵۳۶ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلِمَۃَ قَالَ : (دَخَلْتُ عَلٰی عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَّا، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ فَبَعَثَہُمَا فِیْ وَجْہٍ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّکُمَا عِلْجَانِ فَعَالِجَا عَنْ دِیْنِکُمَا قَالَ : ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ، ثُمَّ خَرَجَ فَأَخَذَ حَفْنَۃً مِنْ مَائٍ فَمَسَحَ بِہَا وَجَعَلَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَرَآنَا کَأَنَّا أَنْکَرْنَا عَلَیْہِ ذٰلِکَ فَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ مِنَ الْخَلَائِ فَیُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ، وَیَأْکُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ، وَلَمْ یَکُنْ یَحْجِزُہٗ عَنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ ، لَیْسَ الْجَنَابَۃَ) .
٥٣٦: عمرو بن مرہ نے عبداللہ بن سلمہ سے نقل کیا کہ میں اور ایک آدمی حضرت علی (رض) کے ہاں گئے اور بنی اسد کا ایک آدمی اس موقع پر تھا ان دونوں کو حضرت علی (رض) نے کسی کام بھیجا پھر فرمایا تم دونوں خوب مضبوط دین کے اعمال محنت سے کرنا پھر بیت الخلاء گئے پھر نکلے اور پانی کا ایک چلو لیا ہاتھوں کو دھو کر قرآن مجید پڑھنے لگے تو ہمیں ان کی اس حالت پر تعجب ہوا تو وہ فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت الخلاء سے نکلتے اور ہمیں قرآن مجید پڑھاتے اور ہمارے ساتھ گوشت کھاتے اور اس سے کوئی چیز بھی آپ کو نہ روکتی بلکہ کھانے پینے سے تو جنابت بھی نہ روکتی۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٩٠‘ نمبر ٢٢٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ١١١‘ نمبر ١٤٦‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٧٠‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١٠٥‘ نمبر ٥٩٤‘ مسند احمد ١؍١٠٧‘

537

۵۳۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَمَۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْضِیْ حَاجَتَہٗ فَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ) .
٥٣٧: شعبہ کہتے ہیں ہمیں عمرو بن مرہ نے بتلایا کہ میں نے عبداللہ بن سلمہ سے سنا ‘ انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی البتہ الفاظ میں یہ فرق ہے : کان رسول اللہ ا یقضی حاجتہ فیقرأ القرآن ‘ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت سے فارغ ہوتے پس قرآن پڑھتے۔

538

۵۳۸ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ، وَسُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٥٣٨: عبدالرحمن بن زیاد نے بیان کیا کہ شعبہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے

539

۵۳۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٥٣٩: محمد بن خزیمہ نے بیان کیا کہ حجاج نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

540

۵۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ حَفْصٍ، قَالَ ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ : قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ عَلٰی کُلِّ حَالٍ إِلَّا الْجَنَابَۃَ) .
٥٤٠: اعمش کہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ نے عبداللہ بن سلمہ کے واسطے سے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنابت کے علاوہ ہر حالت میں تلاوت قرآن مجید فرماتے تھے۔

541

۵۴۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ السُّوْسِیُّ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ عَلٰی کُلِّ حَالٍ إِلَّا الْجَنَابَۃَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ، فَفِیْمَا رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِبَاحَۃُ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ، وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ کَذٰلِکَ، وَمَنْعُ الْجُنُبِ مِنْ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ خَاصَّۃً .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْمَا یَدُلُّ عَلٰی اِبَاحَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی غَیْرِ طَہَارَۃٍ،
٥٤١: یحییٰ بن عیسیٰ نے ابن ابی لیلیٰ سے اور انھوں نے عمرو سے انھوں نے عبداللہ بن سلمہ سے انھوں نے علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنابت کے علاوہ ہر حالت میں قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ ہم نے روایت کیا ہے اس سے بلا وضو قراءت قرآن اور ذکر اللہ کی اباحت ثابت ہوتی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغیر طہارت کے ذکر کرنے پر دلالت کرتے ہیں۔
حاصل روایات : ان چھ روایات سے بغیر وضو ذکراللہ اور قراءت قرآن کا جواز معلوم ہو رہا ہے اور قرآن مجید کے متعلق جنابت والے کی ممانعت خاص طور پر نکل رہی ہے اس سے ثابت ہوا کہ ذکراللہ بلا وضو بھی مباح ہے اس کے لیے تائیدی روایات ملاحظہ ہوں۔

542

۵۴۲ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ظَبْیَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَبَسَۃَ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَا مِنِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ یَبِیْتُ طَاہِرًا عَلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ، فَیَتَعَارُّ مِنَ اللَّیْلِ، یَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالٰی شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ) .
٥٤٢: اعمش نے شمر بن عطیہ سے اور انھوں نے شہر بن حوشب سے بیان کیا کہ ابو ظبیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلمان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے طہارت سے رات گزارے رات کو بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرما دیتے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٩٧‘ نمبر ٥٠٤٢‘ ابن ماجہ فی الدعاء باب ١٦‘ نمبر ٣٨٨١‘ مسند احمد نمبر ١١٣؍٤‘ ٢٣٥؍٥‘ نسائی فی عمل الیوم واللبیہ نمبر ٨٠٥؍٨٠٦‘ ٨٠٧؍٨٠٨‘

543

۵۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَعَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ، وَثَابِتٌ، فَحَدَّثَ عَاصِمٌ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِیْ ظَبْیَۃَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہٗ " عَلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ " قَالَ ثَابِتٌ : قَدِمَ عَلَیْنَا فَحَدَّثَنَا ھٰذَا الْحَدِیْثَ، وَلَا أَعْلَمُہٗ إِلَّا یَعْنِیْ أَبَا ظَبْیَۃَ .قُلْتُ لِحَمَّادٍ، عَنْ مُعَاذٍ؟ قَالَ : عَنْ مُعَاذٍ .
٥٤٣: ابوطبیہ نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ ان الفاظ کا فرق ہے ” علی ذکراللہ “ کے لفظ اس روایت میں نہیں ہیں۔
ثابت کہتے ہیں ہمارے ہاں ابو ظبیہ آئے اور یہ روایت بیان کی تو میں نے حماد سے کہا کہ کیا معاذ بن جبل (رض) سے یہ روایت درست ہے تو انھوں نے کہا جی ہاں درست ہے۔
(عبارت میں قدم کا فاعل ابو ظبیہ ہے۔ قلت کے قائل ثابت ہی ہیں)

544

۵۴۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُوْدِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَھٰذَا أَیْضًا بَعْدَ النَّوْمِ، فَفِیْ ذٰلِکَ اِبَاحَۃُ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی بَعْدَ الْحَدَثِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ .
٥٤٤: زید بن ابی انیسہ نے عاصم بن ابی النجود سے اور انھوں نے شمر بن عطیہ سے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور یہ روایت بھی نیند کے بعد یعنی حدث کی حالت میں ذکراللہ کی اباحت بتلا رہی ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی یہ روایات آئی ہیں۔

545

۵۴۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ أَحْیَانِہٖ) .فَفِیْ ھٰذَا اِبَاحَۃُ ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ حَالَۃِ الْجَنَابَۃِ، وَلَیْسَ فِیْہِ، وَلَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ظَبْیَۃَ مِنْ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ شَیْئٌ .وَفِیْ حَدِیْثِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَیَانُ فَرْقِ مَا بَیْنَ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ، وَذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فِیْ حَالِ الْجَنَابَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا فِی النَّہْیِ عَنْ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ فِیْ حَالِ الْجَنَابَۃِ،
٥٤٥: خالد بن سلمہ نے عروہ سے اور عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے تھے۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جنابت کی حالت میں ذکر اللہ مباح ہے ‘ اس روایت اور ابوظبیہ کی روایت میں قرآن مجید کی قراءت کا تذکرہ نہیں اور حضرت علی (رض) کی روایت میں عام ذکر اللہ اور قراءت قرآن کا جنابت کی حالت میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا حالانکہ جنابت کی حالت میں قراءت قرآن کی ممانعت روایات سے ثابت ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری کتاب الحیض باب ٧‘ والاذان باب ٩‘ مسلم فی الحیض نمبر ١١٧‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٩‘ نمبر ١٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١ مسند احمد ٦؍٧٠‘ ١٥٣‘ بیہقی ١؍٩٠‘
حاصل روایات : اس روایت اور گزشتہ روایت ابو طبیہ میں قرآن مجید کی قراۃ کا تذکرہ بحالت جنابت مذکور نہیں ہے بلکہ ایسی روایات موجود ہیں جن میں قرآن مجید کی قراءت سے واضح ممانعت موجود ہے۔

546

۵۴۶ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (لَا یَقْرَأُ الْجُنُبُ وَلَا الْحَائِضُ الْقُرْآنَ) .
٥٤٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنابت والے اور حائضہ قرآن مجید کی تلاوت نہ کریں ۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ باب ٩٨‘ ١٣١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١٠٥‘ نمبر ٥٩٦۔

547

۵۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ح، وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سُلَیْمَانَ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ أَبِی الْکَنُوْدِ، عَنْ مَالِکِ بْنِ عُبَادَۃَ الْغَافِقِیِّ، قَالَ : (أَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جُنُبٌ، فَأَخْبَرْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَجَرَّنِیْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّ ھٰذَا أَخْبَرَنِیْ أَنَّک أَکَلْتَ وَأَنْتَ جُنُبٌ .قَالَ : نَعَمْ، اِذَا تَوَضَّأْتَ أَکَلْتَ وَشَرِبْتَ، وَلَکِنِّیْ لَا أُصَلِّیْ، وَلَا أَقْرَأُ حَتّٰی أَغْتَسِلَ) .فَفِیْ ہٰذَیْنِ الْأَثَرَیْنِ مَنْعُ الْجُنُبِ مِنْ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ، وَفِیْ أَحَدِہِمَا مَنْعُ الْحَائِضِ مِنْ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ .بِمَا فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ، مَعَ مَا فِیْ حَدِیْثِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِذِکْرِ اللّٰہِ، وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ فِیْ حَالِ الْحَدَثِ غَیْرِ الْجَنَابَۃِ وَالْحَیْضِ .وَأَنَّ قِرَائَ ۃَ الْقُرْآنِ خَاصَّۃً، مَکْرُوْہَۃٌ فِیْ حَالِ الْجَنَابَۃِ وَالْحَیْضِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ أَیُّ ھٰذِہِ الْآثَارِ تَأَخَّرَ؟ فَنَجْعَلَہٗ نَاسِخًا لِمَا تَقَدَّمَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
٥٤٧: عبداللہ بن سلیمان نے ثعلبہ بن ابی الکنود سے اور انھوں نے مالک بن عبادہ الغافقی (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنابت کی حالت میں کھایا میں نے عمر بن خطاب کو یہ بات بتلائی تو وہ مجھے کھینچ کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے اور کہنے لگے یارسول اللہ ! اس نے مجھے بتلایا ہے کہ آپ نے حالت جنابت میں کھایا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں جب میں وضو کرلیتا ہوں تو کھا پی لیتا ہوں لیکن میں اس وضو سے نماز نہیں پڑھتا اور نہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں جب تک کہ غسل نہ کرلوں۔ ان ہر دو روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنابت والے آدمی کو قرآن مجید پڑھنا ممنوع ہے۔ ایک روایت میں حیض والی عورت کے لیے ممانعت کا ثبوت ہے۔ حضرت علی (رض) کی روایت سے معلوم ہوا کہ بےوضگی کی حالت میں قرات قرآن کی ممانعت نہیں ہے اور حیض و جنابت کی حالت میں خاص طور پر قرآن مجید کی قراءت مکروہ تحریمی ہے۔ اب ہم نظری طور پر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان روایات میں آخری حکم والی روایت کونسی ہے ؟ تاکہ ہم اس سے پہلی روایات کے لیے ناسخ قرار دیں۔ ان روایات کو دیکھئے۔
تخریج : طبرانی معجم کبیر ١؍٢٩٥‘ دارقطنی ١؍١١٩
حاصل روایت : ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ حالت جنابت میں قرآن مجید کی قراءت اور نماز درست نہیں اسی طرح عورت کو حالت حیض میں بھی دونوں ممنوع ہیں۔
اور پہلے علی (رض) کی روایت گزری اس سے حالت حدث میں ذکراللہ اور قراءت قرآن کی اجازت ثابت ہوئی بشرطیکہ وہ حدث اکبر جنابت و حیض وغیرہ نہ ہو قرآن مجید کی تلاوت خاص طور پر حالت جنابت و حیض میں درست نہیں۔
اب ان آثار میں اگر تقدیم و تاخیر معلوم ہوجائے تو پھر موخر کو ناسخ بنا کر نتیجہ پر پہنچنا آسان ہے۔

548

۵۴۸ : فَإِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ کُرَیْبٍ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ، عَنْ شَیْبَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَلْقَمَۃَ بْنِ الْفَغْوَائِ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَہْرَاقَ الْمَائَ إِنَّمَا نُکَلِّمُہٗ فَلَا یُکَلِّمُنَا، وَنُسَلِّمُ عَلَیْہِ فَلَا یَرُدُّ عَلَیْنَا، حَتّٰی نَزَلَتْ (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ)۔) .فَأَخْبَرَ عَلْقَمَۃُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّ حُکْمَ الْجُنُبِ کَانَ عِنْدَہٗ، قَبْلَ نُزُوْلِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ، أَنْ لَا یَتَکَلَّمَ وَأَنْ لَا یَرُدَّ السَّلَامَ، حَتَّی نَسَخَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ، فَأَوْجَبَ بِہَا الطَّہَارَۃَ عَلٰی مَنْ أَرَادَ الصَّلَاۃَ خَاصَّۃً .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حَدِیْثَ أَبِی الْجَہْمِ، وَحَدِیْثَ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْمُہَاجِرِ، مَنْسُوْخَۃٌ کُلُّہَا، وَأَنَّ الْحُکْمَ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مُتَأَخِّرٌ عَنِ الْحُکْمِ الَّذِیْ فِیْہَا .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا،
٥٤٨: عبداللہ بن علقمہ (رض) بن الفغواء نے اپنے والد سے نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ اھراق الماء یعنی پیشاب سے فارغ ہوجاتے تو ہم آپ سے باتیں کرتے آپ ہماری باتوں کا جواب نہ دیتے ہم سلام کرتے تو آپ سلام کا جواب نہ دیتے یہاں تک کہ یہ آیت اتری : { یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ }(المائدہ) پس علقمہ نے اس روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خبر دی کہ اس آیت کے اترنے سے پہلے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں جنابت والے کا حکم یہ تھا کہ وہ نہ تو کلام کرے اور نہ سلام کا جواب دے یہاں تک کہ اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ پس اس آیت کے ذریعہ اس شخص پر طہارت کو خاص طور پر لازم کیا گیا جو نماز کا ارادہ رکھتا ہو۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابوجہم ‘ ابن عمر ‘ حضرت علی ‘ ابن عباس اور مہاجر (رض) کی روایت حکم کے لحاظ سے متاخر ہے اور اس بات کی نشاندہی فرمائی ہے۔
تخریج : طبرانی معجم کبیر ١؍٦۔
حاصل روایات : اس روایت میں حضرت علقمہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت کردی کہ جنابت کا حکم اس آیت مائدہ کے نزول سے پہلے یہ تھا کہ نہ تو گفتگو کی جائے اور نہ سلام کا جواب دیا جائے۔
نمبر ١: اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے یہ حکم منسوخ کردیا اور طہارت کا حکم اس کے لیے لازم قرار دیا جو نماز ادا کرنا چاہتا ہو۔
نمبر ٢: اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ ابوالجہم ‘ ابن عمر ‘ ابن عباس اور مہاجر بن قنفذ (رض) والی تمام روایات منسوخ ہیں اور حضرت علی (رض) والی روایت میں جو حکم موجود ہے وہ ان روایات میں مذکورہ حکم سے مؤخر ہے اور اس کی مزید تائید مقصود ہو تو مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ کریں۔

549

۵۴۹ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : سَمِعْتُ سَلَمَۃَ بْنَ کُہَیْلٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ یَقْرَآنِ الْقُرْآنَ، وَہُمَا عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ .
٥٤٩: سلمہ بن کھیل نے سعید بن جبیر سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابن عمر (رض) قرآن مجید کی تلاوت کرتے جبکہ وضو کے بغیر بھی ہوتے۔
تخریج : مصنف کتاب الطھارۃ کتاب الطھارۃ ١؍١٠٣‘

550

۵۵۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ نَحْوَہٗ۔
٥٥٠: شعبہ نے سلمہ بن کھیل سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت کو نقل کیا ہے۔

551

۵۵۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ح
٥٥١: خالد بن عبدالرحمن نے حماد بن سلمہ سے پھر حماد نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

552

۵۵۲ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٥٥٢: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

553

۵۵۳ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالصَّیْرَفِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ حِزْبَہٗ وَہُوَ مُحْدِثٌ .
٥٥٣: عبداللہ بن بریدہ نے ابن عباس (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ اپنا روزانہ کا وظیفہ (ذکر) وضو کے بغیر پڑھ لیا کرتے تھے۔

554

۵۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِی الْأَزْرَقُ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہٗ أَبَانُ، قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذَا أَہْرَقْتُ الْمَائَ اَذْکُرُ اللّٰہَ؟ قَالَ : أَیُّ شَیْئٍ اِذَا أَہَرَقْتَ الْمَائَ؟ قَالَ : اِذَا بُلْتُ، قَالَ : (نَعَمْ، اُذْکُرُ اللّٰہَ) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوَیَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَمْ یَرُدَّ السَّلَامَ فِیْ حَالِ الْحَدَثِ حَتّٰی یَتَیَمَّمَ، وَہُمَا فَقَدْ قَرَآ الْقُرْآنَ فِیْ حَالِ الْحَدَثِ .وَلَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ عِنْدَنَا، إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ النَّسْخُ أَیْضًا عِنْدَہُمَا .وَقَدْ تَابَعَہُمَا عَلٰی مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ مِنْ ھٰذَا، قَوْمٌ.
٥٥٤: حجاج نے کہا کہ حماد کہتے ہیں کہ مجھے ازرق بن قیس نے ابان نامی آدمی کے واسطہ سے اطلاع دی کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا جب میں پیشاب کروں کیا میں ذکر کرسکتا ہوں ؟ تو انھوں نے فرمایا : ” اھرقت المائ “ کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا جب میں پیشاب کروں۔ آپ نے فرمایا ہاں تو ذکر کرسکتے ہو۔ یہ ابن عباس اور ابن عمر (رض) جنہوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو نہ ہونے کی حالت میں سلام کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جب تک تیمم نہ کرلیا حالانکہ ان دونوں سے حدث و بےوضو ہونے کی حالت میں قرآن مجید کا پڑھنا ثابت ہے اور ہمارے ہاں یہ تبھی درست ہوسکتا ہے جبکہ ان کے ہاں نسخ ثابت ہوچکا ہو۔ کچھ علماء نے ان کے قول کو اپنایا ہے۔
قابل التفات :
نمبر ١: یہ ہے کہ تمام روایات حدث کی حالت میں ذکراللہ اور قراءت قرآن کو درست قرار دے رہی ہیں۔
نمبر ٢: یہی عبداللہ بن عمر اور ابن عباس (رض) پہلے روایت کر رہے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت حدث میں تیمم کے بغیر سلام کا جواب نہیں دیا اور یہ دونوں حالت حدث میں ذکراللہ اور قراءت قرآن کا فتویٰ دے رہے ہیں ہمارے نزدیک یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ ہم پہلی روایت کو منسوخ مانیں اور مقدم مانیں اور ان کے اس فتویٰ کو مؤخر حکم مانیں ورنہ وہ طرز پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کیونکر کرسکتے ہیں۔
ہم یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ اس کی تائید میں یہ روایات پڑھ لو۔

555

۵۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَمَّادِ ڑ الْکُوفِیِّ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ یُقْرِئُ رَجُلًا، فَلَمَّا انْتَہَی إِلٰی شَاطِیِٔ الْفُرَاتِ کَفَّ عَنْہُ الرَّجُلُ .فَقَالَ لَہٗ : مَا لَک؟ قَالَ : أَحْدَثْتُ، قَالَ : اقْرَأْ فَجَعَلَ یَقْرَأُ، وَجَعَلَ یَفْتَحُ عَلَیْہِ .
٥٥٥: حماد الکوفی ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) ایک آدمی کو قرآن مجید پڑھاتے تھے جب فرات کے کنارے پر پہنچے تو آدمی پڑھتے پڑھتے خاموش ہوگیا آپ نے اسے فرمایا تم کیوں خاموش ہوگئے اس نے کہا میر اوضو ٹوٹ گیا انھوں نے فرمایا پڑھو چنانچہ وہ پڑھنے لگا اور آپ اس کو لقمے دینے لگے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٠٤۔

556

۵۵۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمِ ڑ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَزْرَۃَ، عَنْ سَلْمَانَ أَنَّہٗ أَحْدَثَ فَجَعَلَ یَقْرَأُ .فَقِیْلَ لَہٗ : أَتَقْرَأُ وَقَدْ أَحْدَثْتَ؟ قَالَ : نَعَمْ، إِنِّیْ لَسْتُ بِجُنُبٍ .
٥٥٦: عاصم الاحول نے عزرہ سے انھوں نے سلمان سے روایت کی ہے کہ ان کا وضو ٹوٹ گیا تو یہ مسلسل پڑھتے رہے۔ کسی نے کہا اے سلمان ! تمہارا وضو ٹوٹ گیا اور تم پھر بھی تلاوت کر رہے ہو کہنے لگے ہاں۔ اس لیے کہ میں جنابت کی حالت میں نہیں ہوں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١٠؍١٠٣

557

۵۵۷ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : سَأَلْتُ قَتَادَۃَ عَنِ الرَّجُلِ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَہُوَ غَیْرُ طَاہِرٍ .فَقَالَ : سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُوْلُ : کَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رُبَّمَا قَرَأَ السُّوْرَۃَ وَہُوَ غَیْرُ طَاہِرٍ .
٥٥٧: عبدالرحمن بن زیاد نے شعبہ سے ‘ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے قتادہ سے پوچھا کہ جو آدمی قرآن مجید پڑھ رہا ہو اور اس کا وضو جاتا رہے تو فرمایا میں نے سعید بن المسیب کو فرماتے سنا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بسا اوقات سورة پڑھتے اور اس وقت ان کا وضو نہیں ہوتا تھا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٠٣‘

558

۵۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سَعِیْدٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٥٥٨: سعید نے ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

559

۵۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَقَدْ ثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ مَا رَوَیْنَا، نَسْخُ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَمَنْ تَابَعَہٗ، وَثُبُوْتُ حَدِیْثِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی مَا قَدْ شَدَّہٗ مِنْ أَقْوَالِ الصَّحَابَۃِ .فَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ فَنَکْرَہُ لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ قِرَائَ ۃَ الْآیَۃِ تَامَّۃً، وَلَا نَرٰی بِذٰلِکَ بَأْسًا لِلَّذِیْ عَلٰی غَیْرِ وُضُوْئٍ، وَلَا نَرٰی لَہُمْ جَمِیْعًا بَأْسًا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ مَنْعِ الْجُنُبِ أَیْضًا مِنْ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ، مَا یُوَافِقُ مَا قُلْنَا .
٥٥٩: حدثنا حجاج قال حدثنا ہمام عن قتادہ نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ہماری روایت کردہ احادیث سے حضرت ابن عباس (رض) اور ان کے پیروکاروں کی روایت کا نسخ ثابت ہو رہا ہے اور حضرت علی (رض) کی روایت کے ثبوت سے اور صحابہ کرام (رض) کے اقوال سے اس کی مزید پختگی ظاہر ہوتی ہے۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ جنبی اور حائض کے لیے قرآنِ مجید کی آیت کو پورا پڑھنا مکروہ قرار دیتے ہیں اور بےوضو آدمی کے لیے قراءت قرآن مجید میں کچھ حرج نہیں سمجھتے اور ذکر اللہ میں تو ہم بےوضو ‘ حائض ‘ جنبی کسی کے لیے بھی کچھ حرج نہیں خیال کرتے اور حضرت عمر (رض) سے جنابت والے کو قراءت قرآنی سے روکنا خود منقول ہے اور وہ ہمارے قول کے موافق ہے۔
حاصل کلام : ان روایات و آثار سے اس بات کی مزید تائید ہوگئی کہ حدیث ابن عباس (رض) وغیرہ منسوخ ہے اور حضرت علی (رض) والی روایت کی ان اقوال صحابہ اور تابعین سے تائید ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے ہمارے ہاں قرآن مجید کی مکمل آیت ضرورت کیلئے پڑھنا بھی درست نہیں ہاں ایک ایک لفظ الگ الگ مجبوراً پڑھ سکتے ہیں البتہ بلاوضو ذکراللہ اور قراءت قرآن میں کوئی حرج نہیں جنابت والے کے لیے قراءت قرآن مجید کی ممانعت میں حضرت فاروق اعظم (رض) کا قول ملاحظہ ہو۔

560

۵۶۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالصَّیْرَفِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِیْقٍ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَکْرَہُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ وَہُوَ جُنُبٌ .
٥٦٠: شقیق نے نقل کیا کہ عبیدہ کہتے ہیں کہ عمر (رض) جنابت کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کو ناپسند کرتے تھے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١٠؍١٠٤۔

561

۵۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ : ثَنَا اَبِیْ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَھٰذَا عِنْدَنَا أَوْلٰی مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِمَا قَدْ وَافَقَہٗ مِمَّا قَدْ رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِیْ حَدِیْثِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأَبِیْ مُوْسٰی، وَمَالِکِ بْنِ عُبَادَۃَ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا، مَا یَدُلُّ عَلٰی خِلَافِ مَا رَوَاہُ نَافِعٌ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتِ ڑالَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ فِیْ کِتَابِنَا ھٰذَا .
٥٦١: ابی نے کہا کہ اعمش نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ہمارے ہاں یہ حضرت ابن عباس (رض) کے قول سے اولیٰ ہے کیونکہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ارشادات کے عین موافق ہے جو حضرت علی ‘ ابن عمر ‘ ابو موسیٰ اشعری اور مالک بن عبادہ (رض) سے مروی ہے اور یہی امام الہمام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت وارد ہے جو نافع کی ابن عباس (رض) والی روایت جس کو محمد بن ثابت نے نقل کیا ہے اس کے مخالف ہے۔ اس روایت کو ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔
تخریج : دارقطنی ١؍١٦٢‘
حاصل کلام : ان دونوں روایتوں سے بھی اس بات کی تائید ہوگئی کہ جنابت والے کے لیے قراءت قرآن درست نہیں ہے اور یہ حضرت علی ‘ ابن عمر ‘ ابو موسیٰ ‘ مالک بن عبادہ (رض) کی روایات کے موافق و مؤید ہے پس یہ ابن عباس (رض) کے قول سے زیادہ بہتر ہے ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا قول یہی ہے اور ابن عباس (رض) کے قول کا منسوخ ہونا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کا اپنا قول اور عمل اس کے خلاف منقول ہے جو واضح نسخ کی علامت ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فرمایا جبکہ آپ سے کہا گیا : الا تتوضأ تو فرمایا : لا ارید الصلٰوۃ فاتوضأ“ اس سے ظاہر فرما دیا کہ وضو تو نماز کے لیے کیا جاتا ہے ذکر کے لیے ضروری نہیں۔

562

۵۶۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْخَلَائِ، فَطَعِمَ، فَقِیْلَ لَہٗ : أَلَا تَتَوَضَّأُ فَقَالَ : إِنِّیْ لَا أُرِیْدُ أَنْ أُصَلِّیَ فَأَتَوَضَّأَ) .
٥٦٢: عمرو بن دینار نے سعید بن الحویرث کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت الخلاء سے نکلے اور آپ نے کھایا آپ کو کہا گیا آپ وضو نہیں کریں گے ؟ تو جواب میں فرمایا میں نماز کا ارادہ نہیں رکھتا کہ میں وضو کروں۔
تخریج : مسلم فی الحیض روایت ١١٨؍١١٩

563

۵۶۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٥٦٣: ابن جریج نے کہا مجھے سعید بن الحویرث نے بتلایا اور پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بالا جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٦٢

564

۵۶۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٥٦٤: روح بن القاسم نے نقل کیا کہ عمرو بن دینار نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند الکشی

565

۵۶۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَمْرٍو، مِثْلَہٗ بِأَسْنَادِہٖ .أَفَلَا تَرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قِیْلَ لَہٗ " أَلَا تَتَوَضَّأُ؟ " فَقَالَ : " لَا أُرِیْدُ الصَّلَاۃَ فَأَتَوَضَّأَ " فَأَخْبَرَ أَنَّ الْوُضُوْئَ إِنَّمَا یُرَادُ لِلصَّلَاۃِ، لَا لِلذِّکْرِ .فَھٰذَا مُعَارِضٌ لَمَا رَوَیْنَاہُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ .وَھٰذَا أَوْلٰی، لِأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَمِلَ بِہٖ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَدَلَّ عَمَلُہٗ بِہٖ، عَلٰی أَنَّہٗ ہُوَ النَّاسِخُ .فَإِنْ عَارَضَ فِیْ ذٰلِکَ مُعَارِضٌ بِمَا۔
٥٦٥: خالد بن عبدالرحمن نے نقل کیا کہ حماد بن سلمہ نے عمرو سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ وضو نہیں فرمائیں گے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا جب میں نماز کا ارادہ کرتا ہوں تو وضو کرتا ہوں۔ پس آپ نے بتایا کہ وضو نماز کے لیے کیا جاتا ہے ذکر کے لیے ضرورت نہیں۔ یہ روایت اس باب کی ابتداء میں آنے والی روایت ابن عباس (رض) کے خلاف ہے اور یہ اس سے اولیٰ ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس پر ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد عمل کیا پس ان کے عمل سے یہ واضح دلالت مل گئی کہ پہلے والی روایت منسوخ ہے۔ اگر کوئی اس پر اعتراض میں یہ روایت پیش کرے۔
تخریج : ابو داؤد الطیاسی ٣٦١‘ طبرانی فی الکبیر ١٢؍٦٤
حاصل کلام : یہ روایات ابن عباس (رض) ان کی پہلی روایت کے نسخ کی کافی دلیل ہیں۔
ایک اشکال کا جائزہ :
اگر کوئی اس روایت کو ذکر کر کے کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو جب بیت الخلاء سے فارغ ہوتے تو نماز والا وضو فرماتے اس روایت سے وہ روایت متضاد ہے جو تم حضرت عائشہ (رض) سے بیان کرتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرتے تھے۔
روایت یہ ہے :

566

۵۶۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : أَنَا زُہَیْرٌ، قَالَ : ثَنَا جَابِرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (مَا أَتٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَلَائَ إِلَّا تَوَضَّأَ حِیْنَ یَخْرُجُ مِنْہُ، وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ) .قَالُوْا : فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی فَسَادِ مَا رَوَیْتُمُوْہُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ أَحْیَانِہِ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْتُ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ یَتَوَضَّأُ اِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَائِ وَلَا یَتَوَضَّأُ اِذَا بَالَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ الْحِیْنُ، حِیْنَ حَدَّثَ قَدْ کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْہِ .فَیَکُوْنُ مَعْنٰی قَوْلِہَا " کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْ کُلِّ أَحْیَانِہٖ " أَیْ فِیْ حِیْنِ طَہَارَتِہٖ وَحَدَثِہٖ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ الْآثَارُ .مَعَ أَنَّہٗ قَدْ خَالَفَ ذٰلِکَ حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَالَ " لَا أُرِیْدُ الصَّلَاۃَ فَأَتَوَضَّأَ " .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَتَوَضَّأُ إِلَّا وَہُوَ یُرِیْدُ الصَّلَاۃَ .فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مَا حَضَرَتْ مِنْہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنَ الْوُضُوْئِ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ، إِنَّمَا ہُوَ لِاِرَادَتِہِ الصَّلَاۃَ، لَا لِلْخُرُوْجِ مِنَ الْخَلَائِ .وَیُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ إِخْبَارًا مِنْہَا عَمَّا کَانَ یَفْعَلُ قَبْلَ نُزُوْلِ الْآیَۃِ، وَمَا فِیْ حَدِیْثِ خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ إِخْبَارًا مِنْہَا بِمَا کَانَ یَفْعَلُ بَعْدَ نُزُوْلِ الْآیَۃِ، حَتّٰی یَتَّفِقَ مَا رُوِیَ عَنْہَا، وَمَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِہَا وَلَا یَتَضَادَّ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ .
٥٦٦: عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جب بھی آپ بیت الخلاء میں گئے اس سے فارغ ہو کر آپ نے نماز والا وضو فرمایا۔ معترضین کا کہنا یہ ہے کہ یہ روایت تو اس روایت کے خلاف ہے جو تم حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کرتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہر وقت ذکر کرتے تھے۔ ان سے عرض کیا جائے گا اس میں تمہارے مقصد کی کوئی دلیل نہیں عین ممکن ہے کہ آپ ہر حالت میں ذکر کرتے ہوں یعنی طہارت اور بےوضوگی دونوں حالتوں میں ذکر کرتے ہوں۔ تاکہ روایات کا تعارض جاتا رہے اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضرت ابن عباس (رض) والی روایت کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نماز کا جب ارادہ کرتا ہوں تو اس وقت وضو کرتا ہوں وہ اس روایت کے مخالف ہے۔ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ آپ ارادہ نماز کے وقت وضو کرتے تھے اور ممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے جس وضو کا بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد تذکرہ کیا ہے وہ نماز کے ارادہ سے ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس آیت کے اترنے سے پہلے حال کی خبر دی ہو اور وہ جو خالد بن سلمہ (رض) کی روایت میں آپ کا جو عمل مذکور ہے وہ نزول آیت کے بعد والا عمل ہو تاکہ اس سے حضرت عائشہ (رض) کی روایت اور دیگر روایات میں موافقت ہوجائے اور تضاد بالکل ختم ہوجائے۔
الجواب : بیت الخلاء سے فراغت پر وضو کرتے اور پیشاب کے فوراً بعد وضو نہ کرتے اور اس حالت میں ذکر کرتے۔
نمبر ٢: ” یذکُرُ اللّٰہ فی کل احیانہ “ کا مطلب یہ ہے کہ طہارت و حدث میں ذکر برابر کرتے یہ مفہوم اس لیے لیا تاکہ آثار کا تضاد ختم ہوجائے۔
نمبر ٣: یہ روایت حدیث ابن عباس (رض) ” لا ارید الصلٰوۃ فاتوضأ“ جو گزشتہ سطور میں مذکور ہے اس کے خلاف ہے پس ان آثار میں موافقت کی وہی صورت ہے جو ہم نے عرض کی کہ جب نماز کا ارادہ ہوتا تب آپ وضو فوراً فرما لیتے ورنہ اسی حالت میں (آسانی امت کے لئے) ذکر فرماتے ہر ذکر کے لیے وضو میں امت پر گرانی ہے۔
نمبر ٤: ممکن ہے کہ حضرت عائشہ (رض) والی روایت میں جس وضو کا تذکرہ ہے وہ ارادہ صلوۃ ہی کے لیے ہو اس لیے نہیں کہ آپ بیت الخلاء سے ابھی نکلے ہیں اور اس کی وجہ سے وضو ضروری ہے۔
نمبر ٥: اور یہ بھی ممکن ہے کہ نزول آیت سے پہلے والی حالت کی اطلاع مقصود ہو اور خالد بن سلمہ والی روایت میں نزول آیت کے بعد والی حالت کا اظہار مقصود ہو۔ تاکہ روایات کا باہمی تضاد باقی نہ رہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کا اس باب میں مقصود اصلی تو پہلی روایات کے نسخ کو ثابت کرنا ہے اسی وجہ سے ناسخ روایات کی تائیدات کثرت سے پیش کی گئیں نیز انہی روایات کے روات کے فتاویٰ پیش کئے تاکہ ان کے ہاں سے بھی نسخ کا ثبوت میسر ہو اور دلیل نظری سے صرف نظر کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔

567

۵۶۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ حَرْبِ بْنِ أَبِی الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ (النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ فِی الرَّضِیْعِ : یُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِیَۃِ، وَیُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلَامِ) .
٥٦٧: ابو الاسود نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ پیتے بچے کے متعلق فرمایا کہ لڑکی کے پیشاب کو خوب دھویا جائے گا اور لڑکے کے پیشاب پر معمولی پانی ڈالا جائے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٥‘ نمبر ٣٧٧‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٧٧‘ نمبر ٦١٠‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٧‘ ٥٢٥‘ مسند احمد ١؍٧٦؍٩٧۔
خلاصہ الزام : دودھ پیتے بچے اور بچی کے پیشاب کے حکم اور اس سے طہارت میں ائمہ فقہاء کے دو گروہ ہیں۔
فریق اوّل : جس میں امام شافعی و حنبل ومالک (رح) شامل ہیں جو بچے کے پیشاب کو پاک قرار دیتے ہیں اور کپڑے پر لگ جانے کی صورت میں اس پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی قرار دیتے ہیں جبکہ بچی کا پیشاب ناپاک اور اس کے لیے کپڑے کو دھونا لازم ہے۔
فریق دوم : میں امام ابوحنیفہ ‘ جمہور فقہاء و محدثین ہیں وہ دونوں کے پیشاب کو یکساں قرار دیتے اور بہر دو صورت کپڑا دھونے کو لازم قرار دیتے ہیں۔

568

۵۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَابُوْسِ بْنِ الْمُخَارِقِ، عَنْ لُبَابَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ : أَنَّ (الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، بَالَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ : أَعْطِنِیْ ثَوْبَکَ أَغْسِلْہُ فَقَالَ : إِنَّمَا یُغْسَلُ مِنَ الْأُنْثٰی، وَیُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّکَرِ) .
٥٦٨: قابوس بن المخارق نقل کرتے ہیں لبابہ بنت الحارث (رض) کہتی ہیں کہ حسین بن علی (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیشاب کردیا تو میں نے کہا آپ اپنا کپڑا مجھے دیں تاکہ میں اسے دھو ڈالوں آپ نے فرمایا مونث کے پیشاب والا کپڑا خوب دھویا جاتا ہے اور مذکر بچے کے پیشاب پر پانی ڈال دیا جاتا ہے۔ (لبابہ یہ امّ فضل زوجہ عباس (رض) کا نام ہے اور حضرت حسین کی رضاعی ماں ہیں) ۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٥‘ نمبر ٣٧٥‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٧‘ نمبر ٥٢٢‘ مسند احمد ٦؍٣٣٩۔

569

۵۶۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ.
٥٦٩: ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابوالاحوص پھر اس نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

570

۵۷۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ، وَاللَّیْثُ، وَعَمْرٌو، وَیُوْنُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ، عَنْ (أُمِّ قَیْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ : أَنَّہَا أَتَتْ بِابْنٍ لَہَا لَمْ یَأْکُلِ الطَّعَامَ، إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَجْلَسَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حِجْرِہٖ، فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِہٖ، فَدَعَا بِمَائٍ، فَنَضَحَہٗ وَلَمْ یَغْسِلْہُ) .
٥٧٠: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے نقل کیا کہ ام قیس بنت محصن (رض) اپنے ایک دودھ پیتے بچے کو خدمت نبوت میں لے کر آئیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا اور مل کر نہ دھویا۔
تخریج : بخاری فی الوض باب ٥٩‘ مسلم فی الطھارۃ حدیث ١٠٤‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٥‘ نمبر ٣٧٤‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٥٤‘ نمبر ٧١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٨٨‘ دارمی فی الوضوء باب ٦٣‘ مالک فی الطھارۃ نمبر ١١٠‘ مسند احمد ٦؍٣٥٦‘ معجم کبیر للطبرانی ٢٥؍٤٣٥‘ مصنف عبدالرزاق ١٤٨٥‘ سنن کبرٰی بیہقی ٢؍٤١٤۔

571

۵۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٥٧١: سفیان نے کہا کہ زہری نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

572

۵۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ، قَالَ : أَنَا زَائِدَۃُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ (أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَبِیٍّ یُحَنِّکُہٗ وَیَدْعُو لَہٗ، فَبَالَ عَلَیْہِ، فَدَعَا بِمَائٍ، فَنَضَحَہٗ وَلَمْ یَغْسِلْہُ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی التَّفْرِیْقِ بَیْنَ حُکْمِ بَوْلِ الْغُلَامِ، وَبَوْلِ الْجَارِیَۃِ قَبْلَ أَنْ یَأْکُلَا الطَّعَامَ .فَقَالُوْا : بَوْلُ الْغُلَامِ طَاہِرٌ، وَبَوْلُ الْجَارِیَۃِ نَجِسٌ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَسَوَّوْا بَیْنَ بَوْلَیْہِمَا جَمِیْعًا، وَجَعَلُوْہُمَا نَجِسَیْنِ .وَقَالُوْا: قَدْ یَحْتَمِلُ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (بَوْلُ الْغُلَامِ یُنْضَحُ) إِنَّمَا أَرَادَ بِالنَّضْحِ صَبُّ الْمَائِ عَلَیْہِ .فَقَدْ تُسَمِّی الْعَرَبُ ذٰلِکَ نَضْحًا وَمِنْہُ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنِّیْ لَأَعْرِفُ مَدِیْنَۃً یَنْضَحُ الْبَحْرُ بِجَانِبِہَا، فَلَمْ یَعْنِ بِذٰلِکَ النَّضْحِ الرَّشَّ .وَلَکِنَّہٗ أَرَادَ یَلْزَقُ بِجَانِبِہَا .قَالُوْا : وَإِنَّمَا فَرَّقَ بَیْنَہُمَا، لِأَنَّ بَوْلَ الْغُلَامِ یَکُوْنُ فِیْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ، لِضِیْقِ مَخْرَجِہٖ، وَبَوْلُ الْجَارِیَۃِ یَتَفَرَّقُ، لِسَعَۃِ مَخْرَجِہٖ .فَأَمَرَ فِیْ بَوْلِ الْغُلَامِ بِالنَّضْحِ : یُرِیْدُ صَبَّ الْمَائِ فِیْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ، وَأَرَادَ بِغَسْلِ بَوْلِ الْجَارِیَۃِ أَنْ یُتَتَبَّعَ بِالْمَائِ، لِأَنَّہٗ یَقَعُ فِیْ مَوَاضِعَ مُتَفَرِّقَۃٍ، وَھٰذَا مُحْتَمَلٌ لِمَا ذَکَرْنَاہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ بَعْضِ الْمُتَقَدِّمِیْنَ، مَا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٥٧٢: عروہ نے بتلایا کہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک بچہ تخنیک کے لیے اور دعا کے لیے لایا گیا اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر پانی بہایا اس کو مل کر نہ دھویا۔ (تخنیک : کوئی چیز چبا کر بچے کے مُنہ میں ڈالنا یہ مسنون ہے) امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء کا خیال یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کا حکم مختلف ہے اور یہ فرق کھانا کھانے سے پہلے تک ہے۔ چنانچہ ان کا قول یہ ہے کہ لڑکے کا پیشاب پاک ہے اور لڑکی کا پیشاب نجس ہے۔ علمائے کرام کی دوسری جماعت اس کے خلاف ہے۔ چنانچہ انھوں نے دونوں کو حکم میں برابر قرار دیا اور دونوں کو نجس قرار دیا اور پہلے قول والوں کے جواب میں یہ فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : ((بول الغلام ینضح)) میں احتمال ہے۔ نضح کا معنی بہانا ہے۔ عرب کے ہاں اس کا استعمال پایا جاتا ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : ((انی لا عرف مدینۃ ینضح البحر بجانبھا)) سے بہنا مراد ہے یہاں چھڑکنا معنی نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس لحاظ سے فرق ہے کہ لڑکے کا پیشاب ایک دہانے سے خارج ہوتا ہے کیونکہ نکلنے کا مقام چھوٹا ہوتا ہے اور لڑکی کا پیشاب وسیع مخرج سے نکلتا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑکے کے پیشاب میں پانی کے فقط بہا دینے کا حکم فرمایا اور لڑکی کے پیشاب کے سلسلہ میں پہ در پہ پانی ڈالنے کا حکم فرمایا کیونکہ وہ الگ الگ مقام پر پڑتا ہے اور ہمارا مذکورہ احتمال بعض تابعین (رح) سے منقول ہے جو اسی معنی کو ثابت کرتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٥٩‘ مسلم فی الطھارۃ ١٠١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٨٨‘ مالک فی الطھارۃ ١١٠‘ بیہقی سنن کبریٰ ٢؍٤١٤‘ مصنفقہ عبدالرزاق ١٤٨٩۔
حاصل روایات : ان روایات ستہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر پانی ڈالنے میں مبالغہ نہ کیا جائے گا بلکہ بہا دیا یا چھڑ ک دیا جائے گا اور لڑکی کے پیشاب میں خوب دھویا جائے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کے پیشاب میں نجاست نہیں لڑکی کے پیشاب میں نجاست ہے اسی وجہ سے اس سے طہارت بھی اچھے انداز سے حاصل ہوگی ان روایات میں لڑکے کے لیے نضح کا حکم ہے غسل کا حکم صرف لڑکی کے لیے فرمایا۔ دونوں کے حکم میں فرق دونوں کے نجاست و طہارت کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
ان تمام روایات میں نضح کا لفظ وارد ہے اس پر تمام روایات کا مدار ہے اگر اس کے معنی کی تحقیق ہوجائے تو توافق روایات کا آسان حل نکل آئے گا۔
لفظ نضح کی تحقیق :
نمبر ١: نضح کا معنی بہانا ہے پس بول الغلام ینضح کا معنی یہ ہے لڑکے کے پیشاب پر پانی بہا دیا جائے۔
نمبر ٢: اہل عرب بہانے کو نضح کہتے ہیں جیسا اس ارشاد نبوی میں ہے انی لاعرف مدینۃ ینضح البحر بجانبھا میں ایک ایسے شہرکو جانتا ہوں جس کے ایک جانب پانی بہہ رہا ہے اور نہریں مارتا ہے۔
نمبر ٣: چھڑکنا بھی آتا ہے۔
نمبر ٤: غسل خفیف جیسا کہ بخاری میں دم حیض کے متعلق نضح کا لفظ آیا ہے۔
سوال : اگر اس کا معنی بھی دھونا ہے تو الگ لفظ لانے کی ضرورت کیا تھی۔
جواب : الگ لفظ لانے میں حکمت یہ ہے کہ ان کی نوعیت میں فرق ہے لڑکے کا پیشاب مخرج تنگ ہونے کی وجہ سے ایک جگہ گرے گا نیز اس میں تعفن بھی کم ہے اور لڑکی کا پیشاب مخرج کی وسعت کی وجہ سے کئی جگہ پڑے گا اور اس میں غلاظت و تعفن بھی زیادہ ہے اس لیے لڑکے کے لیے فقط پانی بہا دینے والا لفظ لایا گیا کہ مبالغہ غسل کی ضرورت نہیں اور لڑکی کے لیے مسلسل مل کر دھونے کا حکم دیا گیا۔
ہم نے یہ کوئی نیا مفہوم نہیں لیا بلکہ تابعین سے یہ بات ثابت ہے ہم دو ثبوت پیش کرتے ہیں۔

573

۵۷۳ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، أَنَّہٗ قَالَ : (الرَّشُّ بِالرَّشِّ، وَالصَّبُّ بِالصَّبِّ، مِنَ الْأَبْوَالِ کُلِّہَا) .
٥٧٣: قتادہ کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب (رح) نے فرمایا تمام ابوال کے سلسلہ میں اگر معمولی چھینٹ پڑجائے تو اس پر پانی کا چھینٹا دیا جائے اور اگر پیشاب بہہ جائے تو اس پر پانی بہایا جائے۔

574

۵۷۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ قَالَ : (بَوْلُ الْجَارِیَۃِ یُغْسَلُ غَسْلًا، وَبَوْلُ الْغُلَامِ یُتَّبَعُ بِالْمَائِ) .أَفَلَا تَرٰی أَنَّ سَعِیْدًا قَدْ سَوّٰی بَیْنَ حُکْمِ الْأَبْوَالِ کُلِّہَا مِنَ الصِّبْیَانِ وَغَیْرِہِمْ؟ فَجَعَلَ مَا کَانَ مِنْہُ رَشًّا، یَطْہُرُ بِالرَّشِّ، وَمَا کَانَ مِنْہُ صَبًّا، یَطْہُرُ بِالصَّبِّ .لَیْسَ أَنَّ بَعْضَہَا عِنْدَہٗ طَاہِرٌ، وَبَعْضَہَا غَیْرُ طَاہِرٍ، وَلٰکِنَّہَا کُلَّہَا عِنْدَہٗ نَجَسَۃٌ وَفَرْقٌ بَیْنَ التَّطَہُّرِ مِنْ نَجَاسَتِہَا عِنْدَہٗ، بِضِیْقِ مَخْرَجِہَا وَسَعَتِہٖ .ثُمَّ أَرَدْنَا بَعْدَ ذٰلِکَ، أَنْ نَنْظُرَ فِی الْآثَارِ الْمَأْثُوْرَۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ہَلْ فِیْہَا مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَإِذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ۔
٥٧٤ : حسن نے فرمایا لڑکی کے پیشاب کو خوب مل کر دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی بہا دیا جائے۔ ان دونوں آثار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ پیشابوں کا حکم برابر ہے خواہ بچہ ہو یا بچی البتہ معمولی چھینٹے پر پانی کے چھینٹے کافی ہیں اور پیشاب کے بہہ جانے پر پانی بہایا جائے گا اور لڑکی کے پیشاب کو دھونے میں مبالغہ کیا جائے گا معلوم ہوا کہ ان میں وجہ فرق تنگی مخرج ہے نہ کہ طہارت و نجاست۔ کیا آپ غور نہیں کرتے کہ سعید (رح) نے تمام بچوں کے پیشاب کو برابر قرار دیا۔ پھر انھوں نے جو چھینٹوں کی صورت میں گرتا ہے اس کے لیے پانی چھڑکنے کو کافی قرار دیا اور جو زور سے بہنے والے ہیں ان کو پانی بہا دینے سے پاک قرار دیا۔ ایسا نہیں کہ بعض کو انھوں نے پاک کہا ہو اور دوسروں کو ناپاک قرار دیا ہو بلکہ ان کے ہاں تمام پلید اور گندگی ہیں ‘ صرف ان کی نجاست کے ازالہ میں ان کے ہاں فرق ہے۔ اس کا سبب مخرج کی تنگی اور وسعت ہے۔ اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ منقولہ آثار پر نگاہ ڈالیں تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ آیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کوئی چیز ایسی منقول ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ پس تلاش پر یہ آثار سامنے آئے۔

575

۵۷۵ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ فَیَدْعُوْلَہُمْ، فَأُتِیَ بِصَبِیٍّ مَرَّۃً، فَبَالَ عَلَیْہِ، فَقَالَ : صُبُّوْا عَلَیْہِ الْمَائَ صَبًّا) .
ہشام بن عروہ عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دعا کے لیے بچوں کو لایا جاتا آپ ان کے لیے دعا فرماتے ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک بچہ لایا گیا جس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا تو آپ نے فرمایا : صبوا علیہ الماء صبًا اس پر اچھی طرح پانی بہا دو ۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٤٦۔

576

۵۷۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَازِمٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٥٧٦: حدثنا اسد قال حدثنا محمد بن حازم پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

577

۵۷۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِصَبِیٍّ، فَبَالَ عَلَیْہِ، فَأَتْبَعَہُ الْمَائَ، وَلَمْ یَغْسِلْہُ) .
٥٧٧: حدثنا عبدہ بن سلیمان عن ہشام عن ابیہ عن عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک بچہ لایا گیا اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا تو آپ نے اس پر پانی بہا دیا اور اس کو مل کر نہیں دھویا۔

578

۵۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ : " وَلَمْ یَغْسِلْہُ " .وَإِتْبَاعُ الْمَائِ حُکْمُہٗ حُکْمُ الْغَسْلِ، أَلَا تَرٰی أَنَّ رَجُلًا لَوْ أَصَابَ ثَوْبَہٗ عَذِرَۃٌ، فَأَتْبَعَہَا الْمَائَ حَتّٰی ذَہَبَ بِہَا، أَنَّ ثَوْبَہٗ قَدْ طَہُرَ .وَقَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ زَائِدَۃُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ فَقَالَ فِیْہِ (فَدَعَا بِمَائٍ، فَنَضَحَہٗ عَلَیْہِ) .وَقَالَ مَالِکٌ، وَأَبُوْ مُعَاوِیَۃَ، وَعَبْدَۃُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ : (فَدَعَا بِمَائٍ، فَصَبَّہٗ عَلَیْہِ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ النَّضْحَ - عِنْدَہُمُ - الصَّبُّ .
٥٧٨: مالک نے ہشام سے بیان کیا اور ہشام نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی البتہ اس میں لم یغسلہ “ کا لفظ نہیں ہے اور پے در پے پانی بہانے کا حکم دھونے کا ہے کیا تم غور نہیں کرتے کہ اگر کسی آدمی کے کپڑے کو گندگی لگ جائے اور اس پر وہ پے در پے پانی ڈالے جس سے وہ گندگی دور ہوجائے تو اس کا کپڑا پاک ہوگیا۔ اس روایت کو زائدہ نے ہشام سے نقل کیا ہے اور اس کے الفاظ ((فدعا بماء فنضحہ علیہ)) ہیں اور مالک (رح) کی ہشام سے جو روایت ہے اس میں ((فصبہ علیہ)) کے الفاظ ہیں۔ اس سے یہ ثبوت مہیا ہوگیا کہ ان کے نزدیک نضح کو صبّ کے معنی میں لیا جاتا ہے۔
اس روایت کو زائدہ نے ہشام بن عمرو سے بھی نقل کیا اس میں یہ لفظ ہیں ” فدعا بماء فنضحہ علیہ “ اور مالک ‘ عبدہ ‘ ابو معاویہ عن ہشام بن عروہ میں یہ لفظ ہیں ” فدعا بماء فصبہ علیہ “
قابل غور حقیقت :
روایت عائشہ (رض) میں ” اتبعہ المائ “ کے الفاظ ہیں پے درپے پانی ڈالنے کا حکم غسل ہی کا ہے اگر کسی آدمی کے کپڑے کو گوبر یا پائخانہ لگ جائے تو اس پر مسلسل پانی بہانے سے گندگی دھل جائے گی اور کپڑا پاک ہوجائے گا اور ان روایات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ نضح کا معنی صب کا آتا ہے۔

579

۵۷۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ شِہَابٍ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ عِیْسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ : (کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِیْئَ بِالْحَسَنِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَبَالَ عَلَیْہِ، فَأَرَادَ الْقَوْمُ أَنْ یُعَجِّلُوْہُ، فَقَالَ : ابْنِیْ ابْنِیْ .فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ بَوْلِہٖ، صَبَّ عَلَیْہِ الْمَائَ) .
٥٧٩: عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ حضرت ابو لیلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا تھا حضرت حسن (رض) کو لایا گیا تو انھوں نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا صحابہ کرام (رض) نے جلدی سے اسے پکڑنا چاہا تو آپ نے فرمایا میرے بیٹے کو رہنے دو جب پیشاب کرلیا تو اس پر پانی بہا دیا گیا (یہاں صب کا لفظ ہے)
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٢٠

580

۵۸۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا وَکِیْعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٥٨٠: وکیع نے ابن ابی لیلیٰ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

581

۵۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ صَالِحٍ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسٰی، عَنْ جَدِّہٖ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی بَطْنِہٖ، أَوْ عَلٰی صَدْرِہٖ، حَسَنٌ أَوْ حُسَیْنٌ، فَبَالَ عَلَیْہِ حَتّٰی رَأَیْتُ بَوْلَہٗ أَسَارِیْعَ فَقُمْنَا إِلَیْہِ، فَقَالَ : دَعُوْہُ فَدَعَا بِمَائٍ فَصَبَّہٗ عَلَیْہِ) .
٥٨١: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والد ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا تھا آپ کے پیٹ یا سینے پر حسن یا حسین تھے تو انھوں نے آپ کے اوپر پیشاب کردیا یہاں تک کہ میں نے سینے پر پیشاب کے چلنے کو دیکھا ہم اس کو اٹھانے کے لیے اٹھے تو آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو پھر پانی منگوایا اور سینہ پر بہا دیا۔ (یہاں بھی صبہ علیہ کا لفظ ہے)

582

۵۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ سِمَاکٍ، عَنْ قَابُوْسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ : (لَمَّا وُلِدَ الْحُسَیْنُ، قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَعْطِنِیْہِ، أَوْ ادْفَعْہُ إِلَیَّ فَلِأَکْفُلْہُ أَوْ أُرْضِعْہُ بِلَبَنِیْ فَفَعَلَ .فَأَتَیْتُہٗ بِہٖ فَوَضَعَہٗ عَلَی صَدْرِہٖ فَبَالَ عَلَیْہِ فَأَصَابَ إزَارَہٗ، فَقُلْتُ لَہٗ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَعْطِنِیْ إزَارَک أَغْسِلْہٗ .قَالَ : إِنَّمَا یُصَبُّ عَلٰی بَوْلِ الْغُلَامِ، وَیُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِیَۃِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذِہٖ أُمُّ الْفَضْلِ فِیْ حَدِیْثِہَا ھٰذَا، إِنَّمَا یُصَبُّ عَلٰی بَوْلِ الْغُلَامِ .وَفِیْ حَدِیْثِہَا الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ، إِنَّمَا یُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَاہُ کَذٰلِکَ، ثَبَتَ أَنَّ النَّضْحَ الَّذِیْ أَرَادَ بِہٖ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ، ہُوَ الصَّبُّ الْمَذْکُوْرُ ہَاہُنَا، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ الْأَثَرَانِ .وَھٰذَا أَبُوْ لَیْلٰی فَلَمْ یَخْتَلِفْ عَنْہُ أَنَّہٗ (رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَبَّ عَلَی الْبَوْلِ الْمَائَ) .فَثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ حُکْمَ بَوْلِ الْغُلَامِ ہُوَ الْغَسْلُ، إِلَّا أَنَّ ذٰلِکَ الْغَسْلَ، یُجْزِئُ مِنْہُ الصَّبُّ، وَأَنَّ حُکْمَ بَوْلِ الْجَارِیَۃِ ہُوَ الْغَسْلُ أَیْضًا .وَفَرَّقَ فِی اللَّفْظِ بَیْنَہُمَا وَإِنْ کَانَا مُسْتَوِیَیْنِ فِی الْمَعْنٰی، لِلْعِلَّۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا، مِنْ ضِیْقِ الْمَخْرَجِ وَسَعَتِہٖ. فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ، وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّا رَأَیْنَا الْغُلَامَ وَالْجَارِیَۃَ، حُکْمُ أَبْوَالِہِمَا سَوَائٌ، بَعْدَمَا یَأْکُلَانِ الطَّعَامَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ أَیْضًا سَوَائً قَبْلَ أَنْ یَأْکُلَا الطَّعَامَ، فَإِذَا کَانَ بَوْلُ الْجَارِیَۃِ نَجِسًا فَبَوْلُ الْغُلَامِ أَیْضًا نَجِسٌ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٥٨٢: قابوس بیان کرتے ہیں ام الفضل (رض) کہتی ہیں کہ جب حسین پیدا ہوئے تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ مجھے دیں یا میرے حوالہ کریں میں اس کی کفالت کروں گی یا اپنا دودھ پلاؤں گی آپ نے میرے سپرد کردیا ایک دن میں ان کو لے کر آئی تو آپ نے اسے اپنے سینے پر رکھا تو اس نے پیشاب کردیا جو آپ کے ازار کو پہنچا میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اپنا ازار عنایت فرمائیں تاکہ میں اسے دھو ڈالوں آپ نے فرمایا لڑکے کے پیشاب پر پانی بہایا جاتا ہے اور بچی کے پیشاب کو مل کر دھویا جاتا ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ امّ الفضل (رض) کی روایت میں ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر پانی بہایا جائے اور انہی سے فصل اوّل میں مذکورہ روایت میں ((ینضح)) کا لفظ ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر پانی بہایا جائے۔ جب بات اسی طرح ہے جو ہم نے عرض کردی تو اس سے ثابت ہوگیا کہ حدیث اول میں ((نضح)) کا معنی بہانا ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہے تاکہ دونوں آثار کا تضاد ختم ہو اور یہ ابولیلیٰ بھی ان سے موافق بات کہہ رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیشاب پر پانی کو بہایا۔ پس ان آثار سے ثابت ہوا کہ لڑکے کے پیشاب کا حکم بھی دھونا ہے مگر اس دھونے سے صرف اس پر پانی بہانا کافی ہوجائے گا اور لڑکی کے پیشاب میں (مَل کر) دھونا ہوگا۔ ان دونوں الفاظ میں تو فرق ہے مگر معنی میں دونوں یکساں ہیں اور اس کی علّت وہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔ ایک کا مخرج تنگ اور دوسرے کا وسیع ہے۔ آثار کے پیش نظر تو اس بات کا یہی حکم ہے۔ اب غور و فکر کے انداز سے ملاحظہ ہو۔ ہم نے لڑکے اور لڑکی کے معاملے میں غور کیا ان کے پیشاب کا حکم برابر ہے جبکہ یہ کھانا کھانے لگ جائیں۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے بھی حکم برابر ہونا چاہیے جب لڑکی کا پیشاب پلید ہے تو لڑکے کا پیشاب بھی پلید ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٣٥‘ نمبر ٣٧٥‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٧٧‘ نمبر ٥٢٢۔
حاصل روایات : ان آٹھ روایات میں ینضح کی جگہ یصب کا لفظ استعمال ہو رہا ہے جو واضح دلیل ہے کہ اس سے پانی بہانا مراد ہے نہ کہ چھڑکنا۔
جواب نمبر ١ روایت نمبر ٥٦٨: جو کہ ام الفضل کی روایت ہے اس کا جواب بھی ان روایات سے ہوگیا کہ انہی کی روایت میں ینضح کی جگہ یصب کا لفظ واضح طور پر آ رہا ہے جو اس روایت کے معنی کو متعین کررہا ہے ورنہ دونوں روایات میں تضاد لازم آئے گا۔
نمبر ٢: اور یہ ابو لیلیٰ (رض) ہیں انھوں نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف بات نقل نہیں کی بلکہ یہی دیکھا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیشاب پر پانی بہایا ہے۔
نتیجہ : ان آثار سے یہ بات معلوم ہوئی کہ لڑکے کا حکم بھی دھونا ہے البتہ وہ دھونا ‘ بہا دینا ہے اور لڑکی کے پیشاب کا حکم بھی دھونا ہے۔
حکمت ِخاصہ :
اگرچہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں اور معنی میں بھی برابر ہیں مگر ذرا سے فرق کی وجہ سے دونوں کے لیے الفاظ الگ الگ لائے گئے وہ فرق مخرج کا تنگ اور وسیع ہونا ہے جیسا پہلے ہم اشارہ کرچکے آثار کے ذریعہ تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست میں فرق نہیں دونوں نجس ہیں البتہ دھونے کی کیفیت میں فرق ہے اور نضح کا لفظ جہاں آیا وہ صب کے معنی میں ہے۔
آ خر میں دلیل عقلی و فکری پیش کی جاتی ہے :
نظر طحاوی (رح) :
کھانا کھانے کے بعد سب کے ہاں حکم دونوں کے پیشاب کا یکساں ہے ذرا بھی فرق نہیں پس عقلی لحاظ سے یہ بات زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے کھانا کھانے سے پہلے بھی دونوں کا حکم یکساں ہو اگر لڑکی کا پیشاب ناپاک ہے تو لڑکے کا بھی ناپاک ہو اور دھونے میں بھی ایک جیسا ہو۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔

583

۵۸۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ حَنَشِ ڑالصَّنْعَانِیِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنَّ (ابْنَ مَسْعُوْدٍ خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجِنِّ، فَسَأَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَعَک یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ مَائٌ ؟ قَالَ : مَعِیْ نَبِیْذٌ فِیْ إدَاوَتِیْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُصْبُبْ عَلَیَّ فَتَوَضَّأَ بِہٖ، وَقَالَ : شَرَابٌ وَطَہُوْرٌ) .
٥٨٣: حنش صنعانی حضرت ابن عباس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لیلۃ الجن میں گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سوال کیا کیا ابن مسعود تمہارے پاس پانی موجود ہے ؟ انھوں نے عرض کیا میرے مشکیزہ میں نبیذ موجود ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے ہاتھ پر انڈیلو چنانچہ اس سے آپ نے وضو کیا اور آپ نے فرمایا وہ مشروب اور آلہ وضو ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٣٧‘ نمبر ٣٨٥‘ دارقطنی ١؍٧٦۔
خلاصہ الزام : نبیذ : کھجور کو پانی میں بھگونے سے جو پانی بنے گا وہ نبیذ کہلاتا ہے نبیذ میں اگر مٹھاس پیدا ہوگئی مگر نشہ پیدا نہ ہوا تو اس کے متعلق وضو میں اختلاف ہے جس میں نشہ آجائے اس سے بالاتفاق ناجائز اور جس میں مٹھاس نہ ہو اس سے بالاتفاق جائز ہے۔
مذاہب ائمہ فریق اوّل :
امام ابوحنیفہ (رح) اور سعید بن المسیب (رح) کے ہاں سفر میں اس سے وضو جائز ہے تیمم درست نہیں۔
فریق دوم : امام ابو یوسف (رح) شافعی (رح) مالک (رح) ابن حنبل خود طحاوی (رح) کے ہاں جائز نہیں بلکہ تیمم ضروری ہے۔

584

۵۸۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَلِیُّ بْنُ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ، مَوْلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجِنِّ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَاجَ إِلٰی مَائٍ یَتَوَضَّأُ بِہٖ وَلَمْ یَکُنْ مَعَہٗ إِلَّا النَّبِیْذُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَمْرَۃٌ طَیِّبَۃٌ، وَمَائٌ طَہُوْرٌ فَتَوَضَّأَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ) صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ مَنْ لَمْ یَجِدْ إِلَّا نَبِیْذَ التَّمْرِ فِیْ سَفَرِہٖ تَوَضَّأَ بِہٖ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : لَا یُتَوَضَّأُ بِنَبِیْذِ التَّمْرِ، وَمَنْ لَمْ یَجِدْ غَیْرَہٗ، تَیَمَّمَ، وَلَا یَتَوَضَّأُ بِہٖ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ أَبُوْ یُوْسُفَ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَہْلِ ھٰذَا الْقَوْلِ عَلٰی أَہْلِ الْقَوْلِ الْأَوَّلِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ إِنَّمَا رُوِیَ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ، مِنَ الطُّرُقِ الَّتِیْ وَصَفْنَا، وَلَیْسَتْ ھٰذِہِ الطُّرُقُ، طُرُقًا تَقُوْمُ بِہَا الْحُجَّۃُ عِنْدَ مَنْ یَقْبَلُ خَبَرَ الْوَاحِدِ، وَلَمْ یَجِیْٔ، أَیْضًا الْمَجِیْئَ الظَّاہِرَ .فَیَجِبُ عَلٰی مَنْ یَسْتَعْمِلُ الْخَبَرَ اِذَا تَوَاتَرَتِ الرِّوَایَاتُ بِہٖ .فَھٰذَا مِمَّا لَا یَجِبُ اسْتِعْمَالُہٗ، لِمَا ذَکَرْنَا، عَلٰی مَذْہَبِ الْفَرِیْقَیْنِ الَّذَیْنِ ذَکَرْنَا .وَلَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ، لَمْ یَکُنْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلََتئِذٍ .
٥٨٤: ابو رافع مولیٰ عمر (رض) نے حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ عبداللہ لیلۃ الجن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کی ضرورت پیش آئی اور ابن مسعود کے پاس نبیذ کے علاوہ کچھ نہ تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھجور پاکیزہ اور پانی پاک ہے پس اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو فرمایا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ جس شخص کے پاس سفر میں ایسا پانی موجود ہو جس میں کھجوریں بھگوئی گئی ہوں اور اس کے علاوہ پانی نہ ہو تو وہ اس کے ساتھ وضو کرے انھوں نے ان آثار سے استدلال کیا ہے۔ اس جواز کے قائلین میں امام ابوحنیفہ (رح) کا نام بھی آتا ہے۔ مگر دیگر علماء نے اس کے برعکس کہا کہ بھگوئی ہوئی کھجور والے پانی سے وضو جائز نہیں۔ جو اس کے سوا نہ پائے وہ تیمم کرے۔ وہ اس سے بالکل وضو نہ کرے۔ اس قول کو امام ابویوسف (رح) نے اختیار کیا۔ انھوں نے پہلے قول کو اختیار کرنے والوں کے خلاف یہ دلیل پیش کی کہ ابن مسعود (رض) کی وہ روایت جس کو آپ استدلال میں پیش کرتے ہیں اور اس کے لیے جتنی اسناد پیش کی ہیں وہ ان لوگوں کے ہاں بھی جو خبر واحد کو حجت مانتے ہیں قابل حجت نہیں ہیں کیونکہ راوی کا بیان پوری وضاحت سے پایا نہیں جاتا تاکہ متواتر طرق سے آئی ہوئی روایت کو قبول کرلیا جاتا۔ پس دونوں فریق کے ہاں اس روایت پر عمل درست نہ ہوا البتہ ابوعبیدہ بن عبداللہ (رض) کے بیان کردہ اثر میں ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) لیلۃ الجن میں موجود ہی نہ تھے۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍٧٧۔
حاصل روایات : سفر میں پانی نہ ملنے کی صورت میں نبیذ تمر سے وضو جائز ہے اس وقت تیمم نہ کیا جائے گا جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو ہی فرمایا ۔
فریق دوم : کا مؤقف یہ ہے کہ نبیذ تمر سے وضو جائز نہیں تیمم کیا جائے گا۔
فریق اوّل کی روایات کا جواب نمبر ١:
جن اسناد سے یہ روایات وارد ہیں وہ خبر واحد ہیں اور کمزور ہیں خبر واحد سے حجت اس وقت پکڑی جاتی ہے جبکہ روایات کثرت سے ہوں پس اس خبر واحدکو نبیذ سے وجوب وضو کے لیے پیش نہیں کرسکتے ۔ اس کی سند میں ابن لہیعہ اور دوسری میں علی بن زید بن جدعان کمزور راوی ہیں خبر واحد سے کتاب اللہ پر اضافہ جب تک تو اتر نہ ہو نہیں ہوسکتا۔
جواب نمبر ٢: ابو عبید بن عبداللہ جن کی روایت نقل کی گئی ان سے خود ایسی روایات ثابت ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) لیلۃ الجن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ تھے۔

585

۵۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ : قُلْتُ لِأَبِیْ عُبَیْدَۃَ : (أَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجِنِّ .فَقَالَ : لَا) .
٥٨٥: عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبید کو کہا کیا عبداللہ بن مسعود (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لیلۃ الجن میں موجود تھے تو انھوں نے جواب دیا نہیں۔

586

۵۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَلَمَّا انْتَفٰی عِنْدَ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ أَنَّ أَبَاہُ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَتئِذٍ، وَھٰذَا أَمْرٌ لَا یَخْفَی مِثْلُہٗ عَلٰی مِثْلِہٖ، بَطَلَ بِذٰلِکَ مَا رَوَاہُ غَیْرُہٗ مِمَّا یُخْبِرُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ لَیْلَتئِذٍ، اِذْ کَانَ مَعَہٗ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : الْآثَارُ الْأُوَلُ أَوْلٰی مِنْ ھٰذَا لِأَنَّہَا مُتَّصِلَۃٌ، وَھٰذَا مُنْقَطِعٌ لِأَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ، لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیْہِ شَیْئًا .قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ مِنْ ھٰذِہِ الْجِہَۃِ احْتَجَجْنَا بِکَلَامِ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ، إِنَّمَا احْتَجَجْنَا بِہٖ لِأَنَّ مِثْلَہٗ، عَلَی تَقَدُّمِہٖ فِی الْعِلْمِ، وَمَوْضِعِہٖ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ، وَخُلْطَتِہٖ لِخَاصَّتِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ - لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ مِثْلُ ھٰذَا مِنْ أُمُوْرِہٖ .فَجَعَلْنَا قَوْلَہٗ ذٰلِکَ حُجَّۃً فِیْمَا ذَکَرْنَاہُ، لَا مِنَ الطَّرِیْقِ الَّذِیْ وُضِعَتْ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ مِنْ کَلَامِہٖ بِالْاِسْنَادِ الْمُتَّصِلِ، مَا قَدْ وَافَقَ مَا قَالَ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ .
٥٨٦: وہب نے کہا شعبہ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ جب ابن مسعود (رض) کے بیٹے نے اپنے والد کے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہونے کی نفی کردی تو یہ ایسی چیز ہے جو ان کے بیٹے پر مخفی نہیں رہ سکتی تو ان سے دوسروں کا یہ روایت کرنا کہ ابن مسعود (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تھے اور آپ نے نبیذ سے وضو کیا۔ اگر کوئی شخص معترض ہو کہ پہلے آثار اس اثر کے مقابلے میں اولیٰ ہیں کیونکہ وہ متصل ہیں اور یہ منقطع ہے کیونکہ ابوعبیدہ نے اپنے والد سے کوئی روایت نہیں سنی۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے ‘ اس دلیل میں ہم نے ابو عبید کے قول کو دلیل نہیں بنایا بلکہ ہم نے ان سے اس لیے استدلال کیا کہ ان جیسا علم میں فوقیت رکھنے والا شخص جس کو اپنے والد کے ہاں قرب کا درجہ میسر ہو اس سے یہ معاملہ کیونکر مخفی رہ سکتا ہے۔ ہم نے اس طور پر ان سے استدلال کیا ہے اس طور پر استدلال نہیں کیا گیا جو معترض کے پیش نظر ہے بلکہ ہم نے ابن مسعود (رض) سے ان کا کلام متصل سند کے ساتھ بھی روایت کیا ہے جو ابوعبید کے قول کی موافقت میں ہے چنانچہ ملاحظہ ہو۔
حاصل جواب :
یہ ہوا کہ جب ابو عبید خود اپنے والد کے متعلق لیلۃ الجن میں جانے کی نفی کر رہے ہیں تو جس بات پر بنیاد تھی وہ ختم ہوگئی پس ان روایات سے نبیذ تمر سے جواز وضو کا استدلال باطل ہوگیا۔
ایک اشکال :
یہ دونوں اثر سند کے لحاظ سے منقطع ہیں کیونکہ ابو عبید کا اپنے والد سے سماع ثابت نہیں۔
الجواب : ہم نے اس لحاظ سے استدلال نہیں کیا بلکہ اس لحاظ سے کیا ہے کہ ایسے بڑے عالم کے بیٹا ہونے کے حوالے سے اور ان سے گھر میں میل جول کے لحاظ سے ایسے آدمی پر ایسی چیز مخفی نہیں رہ سکتی بلکہ اس سے کچھ آگے بڑھ کر ہم عرض کرتے ہیں۔
خود صحیح روایت سے ابن مسعود (رض) سے ان کی غیر موجودگی کا اقرار پایا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں

587

۵۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ خَالِدِ ڑ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : لَمْ أَکُنْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجِنِّ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّیْ کُنْتُ مَعَہٗ .
٥٨٧: علقمہ نے کہا عبداللہ (رض) کہتے ہیں میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لیلۃ الجن میں موجود نہ تھا اور میری چاہت تھی کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٥٢۔

588

۵۸۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِیْ زَائِدَۃَ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ .عَامِرٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (ہَلْ کَانَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجِنِّ أَحَدٌ؟) فَقَالَ : لَمْ یَصْحَبْہُ مِنَّا أَحَدٌ، وَلَکِنْ فَقَدْنَاہُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقُلْنَا : اُسْتُطِیْرَ أَوْ اُغْتِیْلَ فَتَفَرَّقْنَا فِی الشِّعَابِ وَالْأَوْدِیَۃِ نَلْتَمِسُہٗ، وَبِتْنَا بِشَرِّ لَیْلَۃٍ بَاتَ بِہَا قَوْمٌ نَقُوْلُ : اُسْتُطِیْرَ، أَمْ اُغْتِیْلَ .فَقَالَ : (إِنَّہٗ أَتَانِیْ دَاعِی الْجِنِّ، فَذَہَبْتُ أُقْرِئُہُمُ الْقُرْآنَ) فَأَرَانَا آثَارَہُمْ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ قَدْ أُنْکَرَ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْجِنِّ .فَھٰذَا الْبَابُ إِنْ کَانَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ صِحَّۃِ الْاِسْنَادِ، فَھٰذَا الْحَدِیْثُ، الَّذِیْ فِیْہِ الْاِنْکَارُ أَوْلٰی، لِاسْتِقَامَۃِ طَرِیْقِہٖ وَمَتْنِہٖ، وَثَبْتِ رُوَاتِہٖ. وَإِنْ کَانَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ، أَنَّہٗ لَا یُتَوَضَّأُ بِنَبِیْذِ الزَّبِیْبِ، وَلَا بِالْخَلِّ، فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ نَبِیْذُ التَّمْرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَائُ أَنَّ نَبِیْذَ التَّمْرِ اِذَا کَانَ مَوْجُوْدًا فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ، أَنَّہٗ لَا یُتَوَضَّأُ بِہٖ لِأَنَّہٗ لَیْسَ بِمَائٍ .فَلَمَّا کَانَ خَارِجًا مِنْ حُکْمِ الْمِیَاہِ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ، کَانَ کَذٰلِکَ ہُوَ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْمَائِ .وَحَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدِ ڑالَّذِیْ فِیْہِ التَّوَضُّؤُ بِنَبِیْذِ التَّمْرِ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ بِہٖ، وَہُوَ غَیْرُ مُسَافِرٍ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا خَرَجَ مِنْ مَکَّۃَ یُرِیْدُہُمْ، فَقِیْلَ إِنَّہُ تَوَضَّأَ بِنَبِیْذِ التَّمْرِ فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ، وَہُوَ فِیْ حُکْمِ مَنْ ہُوَ بِمَکَّۃَ، لِأَنَّہٗ یُتِمُّ الصَّلَاۃَ، فَہُوَ أَیْضًا فِیْ حُکْمِ اسْتِعْمَالِہِ ذٰلِکَ النَّبِیْذَ ہُنَالِکَ فِیْ حُکْمِ اسْتِعْمَالِہِ إِیَّاہُ بِمَکَّۃَ .فَلَوْ ثَبَتَ ھٰذَا الْأَثَرُ أَنَّ النَّبِیْذَ مِمَّا یَجُوْزُ التَّوَضُّؤُ بِہٖ فِی الْأَمْصَارِ وَالْبَوَادِی، ثَبَتَ أَنَّہٗ یَجُوْزُ التَّوَضُّؤُ لَا بِہٖ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ، وَفِیْ حَالِ عَدَمِہِ .فَلَمَّا أَجْمَعُوْا عَلَی تَرْکِ ذٰلِکَ، وَالْعَمَلِ بِضِدِّہِ، فَلَمْ یُجِیْزُوْا التَّوَضُّؤَ بِہٖ فِی الْأَمْصَارِ، وَلَا فِیْمَا حُکْمُہٗ حُکْمُ الْأَمْصَارِ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ تَرْکُہُمْ لِذٰلِکَ الْحَدِیْثِ، وَخَرَجَ حُکْمُ ذٰلِکَ النَّبِیْذِ، مِنْ حُکْمِ سَائِرِ الْمِیَاہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ التَّوَضُّؤُ بِہٖ فِیْ حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ، وَہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٥٨٨: علقمہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) سے پوچھا گیا کیا لیلۃ الجن میں کوئی آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا تو انھوں نے کہا ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا لیکن ایک رات ہم نے آپ کو گم پایا تو ہم نے کہا آپ کو جن اٹھا کرلے گئے یا دھوکا سے شہید کردیا گیا چنانچہ ہم وادیوں اور گھاٹیوں میں منتشر ہو کر آپ کو تلاش کرنے لگے اور ہم نے وہ رات بڑی پریشانی سے گزاری ہم کہہ رہے تھے کہ جن اٹھا کرلے گئے یا دھوکے سے قتل کردیئے گئے (آپ واپس تشریف لائے تو فرمایا) میرے پاس جنات کا داعی آیا تو میں ان کو قرآن مجید پڑھانے گیا پھر آپ نے ان کے نشانات ہمیں دکھائے۔ یہ ابن مسعود (رض) ہیں جو لیلۃ الجن میں اپنے متعلق انکار کر رہے ہیں کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ تھے۔ اگر اسناد کی درستی کا لحاظ کیا جائے تو انکار والی روایت سند و متن روایت کے لحاظ سے پختہ ہے۔ اب اگر آپ غور و فکر سے دیکھنا چاہتے ہیں تو آئیے۔ ہم اس بات پر تمام کو متفق پاتے ہیں کہ سرکہ ‘ نبیذ ‘ کشمش سے وضو نہ کیا جائے گا۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ نبیذ کھجور بھی اس سے مختلف نہ ہو۔ علماء اس پر متفق ہیں کہ جب پانی کی موجودگی میں نبیذ تمر موجود ہو تو اس سے وضو نہ کیا جائے گا کیونکہ وہ مطلق پانی نہیں ہے۔ پس جب وہ خالص پانی کی موجودگی میں پانیوں کی فہرست سے خارج ہے تو پانی نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ اپنے حکم پر رہے گی۔ رہی وہ روایت جس میں نبیذ تمر سے وضو کا تذکرہ پایا جاتا ہے اس میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وضوء فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت حالت سفر میں نہ تھے بلکہ مکہ سے صرف جنات کو تبلیغ کرنے نکلے تھے۔ پس اسے کہا جائے گا کہ نبیذ تمر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس موقع پر وضو کرنا وہ عین مکہ میں وضو کرنے کے حکم میں ہے۔ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز مکمل پڑھی۔ اگر یہ اثر ثابت ہوجائے تو نبیذ ان چیزوں سے ثابت ہوجائے گا جن سے شہروں اور وادیوں اور جنگلوں میں وضو درست ہے جبکہ پانی بھی موجود ہو۔ پس جب اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ پانی کے ہوتے ہوئے اس پر عمل متروک ہے اور اس کی ضد پر عمل کیا جاتا ہے اور شہروں اور اس کے حکم والے علاقوں میں جب اس سے وضو جائز نہیں تو اس سے ثابت ہوگیا کہ اس نبیذ کا حکم پانیوں کے حکم سے نکل جانے کی بناء پر یہ روایت ترک کی گئی۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ اس سے کسی حال میں بھی وضو جائز نہیں اور یہ امام ابویوسف (رح) کا قول ہے اور ہمارے ہاں نظر و فکر کا یہی تقاضا ہے ‘ واللہ اعلم۔
تخریج : مسلم فی الصلاۃ روایت ١٥٠؍١٥١۔
حاصل کلام : ان دونوں روایات سے خود ابن مسعود (رض) کا لیلۃ الجن کی حاضری سے انکار ثابت ہوگیا تو اب ان روایات کے جواب کی ضرورت نہ رہی اگر سنداً نظر کریں تو تب بھی یہ دونوں روایتیں فریق اوّل کی روایات سے اولیٰ ہیں پس ان کو ترجیح ہوگی۔
نظر طحاوی :
نمبر ١: سب کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ نبیذ کشمش اور سرکہ وغیرہ سے وضو درست نہیں تو تقاضا نظر یہی ہے کہ نبیذ تمر سے بھی وضو درست نہیں ہونا چاہیے۔
نمبر ٢: اس پر سب علماء کا اتفاق ہے کہ پانی کی موجودگی میں اس سے وضو جائز نہیں کیونکہ یہ پانی نہیں تو پانی کی موجودگی میں پانی کے حکم سے جو خارج ہو اسے عدم ماء کی صورت میں بھی خارج رہنا چاہیے۔
فریق اوّل پر ایک اعتراض :
جس روایت سے تم نبیذ تمر سے وضو ثابت کر رہے ہو اس میں آپ کے مکہ سے باہر جانے کا تذکرہ ہے آپ مسافر نہ تھے اور مکہ کے مضافات میں اس وضو کا حکم مکہ میں وضو کا ہے کیونکہ وہاں نماز قصر نہیں کی جاتی اگر بالفرض یہ دونوں روایات ثابت بھی ہوجائیں تو اس سے ماننا پڑے گا کہ شہر و جنگل ہر جگہ وضو جائز ہے اور شہروں میں پانی کا وجود ثابت ہے تو اس سے وضو وہاں بھی درست ماننا ہوگا جس کے آپ بھی قائل نہیں جب اس کے ترک پر اجماع ہے تو اس کی ضد پر عمل کیا جائے گا اور ان کو شہروں اور جو ان کے حکم میں ہیں ان میں اس حدیث کو چھوڑنا پڑے گا جب نبیذ کا حکم پانی سے مختلف ہوا تو کسی حال میں بھی اس کا جواز ثابت نہ ہو سکے گا امام ابو یوسف اور جمہور فقہاء (رح) کا یہی مسلک ہے جو روایت و نظر سے ثابت ہے۔
ایک اہم بات :
امام (رح) سے اس روایت کے متعلق رجوع ثابت ہے پس اس کے متعلق جواب اور جواب الجواب کی ضرورت نہیں۔

589

۵۸۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح .
٥٨٩: ابراہیم بن مرزوق اور ابو بکرہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو داؤد نے اور ان کو حماد بن سلمہ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١؍٢٢٢‘ ابو داؤد ١؍٢٢
خلاصہ الزام : نعل : جس کے نچلی طرف تلا ہو اور اوپر کی جانب چمڑے کے باریک تسمے لگے ہوں اس میں دو فریق ہیں۔
فریق اوّل : عبداللہ بن عمر اور خزیمہ بن اوس (رض) ابن حزم ظاہری اس نعل اور چپل کے اوپر مسح کو جائز قرار دیتے ہیں۔
فریق دوم : جمہور فقہاء امت اور محدثین اور جمہور صحابہ (رض) اس نعل و چپل کے اوپر مسح کو جائز قرار نہیں دیتے۔

590

۵۹۰ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ، عَنْ (أَوْسِ بْنِ أَبِیْ أَوْسٍ قَالَ : رَأَیْتُ أَبِیْ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلٰی نَعْلَیْنِ لَہٗ .فَقُلْتُ لَہٗ : أَتَمْسَحُ عَلَی النَّعْلَیْنِ؟ فَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ عَلَی النَّعْلَیْنِ) .
٥٩٠: اوس بن ابی اوس کہتے ہیں کہ میں نے ابو اوس (رض) کو دیکھا کہ وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا میں نے ان سے پوچھا کیا آپ نعلین پر مسح کرتے ہیں تو کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نعلین پر مسح کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٩‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٩٠‘ بیہقی فی سنن کبرٰی ١؍٢٨٧۔

591

۵۹۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ، عَنْ (أَوْسِ بْن أَبِیْ أَوْسٍ قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِیْ فِیْ سَفَرٍ وَنَزَلْنَا بِمَائٍ مِنْ مِیَاہِ الْأَعْرَابِ، فَبَالَ فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلٰی نَعْلَیْہِ .فَقُلْتُ لَہٗ أَتَفْعَلُ ھٰذَا .فَقَالَ : مَا أَزِیْدُکَ عَلٰی مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی الْمَسْحِ عَلَی النَّعْلَیْنِ، کَمَا یُمْسَحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ، وَقَالُوْا : قَدْ شَدَّ، ذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٩١: اوس بن ابی اوس (رض) سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ سفر میں تھا ہم ایک تالاب کے پاس اترے انھوں نے پیشاب سے فراغت حاصل کی پھر وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا میں نے کہا کیا آپ نعلین پر مسح کرتے ہیں انھوں نے کہا میں اس فعل میں اضافہ نہیں کررہا جس پر میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جس طرح موزوں پر مسح کیا جاتا ہے اسی طرح جوتوں پر بھی مسح کیا جائے گا اور اس کی دلیل کے طور پر انھوں نے کہا اس بات کی تائید حضرت علی (رض) کی مندرجہ ذیل روایت سے ہوتی ہے۔
تخریج : طبرانی ١؍٢٢٢‘ مسند احمد ٤؍١٠۔

592

۵۹۲ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، وَوَہْبٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ أَبِیْ ظَبْیَانَ، أَنَّہٗ رَأٰیْ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَالَ قَائِمًا، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ، فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلٰی نَعْلَیْہِ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَخَلَعَ نَعْلَیْہِ، ثُمَّ صَلّٰی .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : لَا نَرَی الْمَسْحَ عَلَی النَّعْلَیْنِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلٰی نَعْلَیْنِ تَحْتَہُمَا جَوْرَبَانِ، وَکَانَ قَاصِدًا بِمَسْحِہٖ ذٰلِکَ إِلٰی جَوْرَبَیْہِ، لَا إِلٰی نَعْلَیْہِ وَجَوْرَبَاہُ مِمَّا لَوْ کَانَا عَلَیْہِ بِلَا نَعْلَیْنِ، جَازَ لَہٗ أَنْ یَمْسَحَ عَلَیْہِمَا، فَکَانَ مَسْحُہٗ ذٰلِکَ مَسْحًا أَرَادَ بِہٖ الْجَوْرَبَیْنِ، فَأَتَیْ ذٰلِکَ عَلٰی الْجَوْرَبَیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ فَکَانَ مَسْحُہٗ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ ہُوَ الَّذِیْ تَطَہَّرَ بِہٖ، وَمَسْحُہٗ عَلَی النَّعْلَیْنِ فَضْلٌ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ ۔
٥٩٢: سلمہ بن کہیل ابو ظبیان سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا پھر پانی منگوایا اور اس سے وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور اپنے نعلین اتار کر نماز ادا فرمائی۔ دیگر علماء نے اس سلسلہ میں ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ جوتوں پر ہرگز مسح جائز نہیں ‘ اس کی دلیل کے طور پر انھوں نے کہا ہے کہ یہ بات بالکل ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوتوں پر مسح موزوں کی بناء پر کیا ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دراصل موزوں پر مسح کیا نہ کہ جوتوں پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موزے بھی اس چیز سے بنے ہوئے ہوں گے جن کو جوتوں کے بغیر پہنا جائے تو ان پر مسح ہوسکتا ہے تو جوتوں پر مسح سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا موزوں پر مسح کرنا تھا۔ پس حصول طہارت کے لیے تو مسح موزوں پر تھا اور جوتوں کا مسح زائد تھا اور ہمارے قول کی شہادت مندرجہ ذیل روایت دے رہی ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٩٠۔
حاصل روایات :
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نعلین پر مسح درست ہے جیسا کہ ان صحابہ (رض) کا عمل ظاہر کررہا ہے۔
فریق ثانی :
نعلین پر مسح مستقلاً درست نہیں۔
روایات کا جواب :
ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نعلین کے نیچے جو راب پہن رکھے ہوں اور اصل مسح جو راب پر تھا چنانچہ اس کے لیے نعل اتارنے کی چنداں ضرورت نہیں نعل سمیت مسح کرلیا تو اصل مسح جراب کا ہے جو غسل کی جگہ کام دیتا ہے نعلین پر مسح تو زائد چیز ہے مندرجہ ذیل روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

593

۵۹۳ : مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، عَنْ أَبِیْ سِنَانٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَسَحَ عَلَی جَوْرَبَیْہِ وَنَعْلَیْہِ) .
٥٩٣: ضحاک بن عبدالرحمن نے ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جو ربین بمع نعلین پر مسح کیا۔
تخریج : المعجم الکبیر ‘ ابو داؤد ١, ٢١‘ ترمذی ١؍٢٩۔

594

۵۹۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ، عَنْ أَبِیْ قَیْسٍ، عَنْ ہُذَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیْلَ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہٖ .فَأَخْبَرَ أَبُوْ مُوْسٰی وَالْمُغِیْرَۃُ، عَنْ مَسْحِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی نَعْلَیْہِ، کَیْفَ کَانَ مِنْہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِیْ ذٰلِکَ وَجْہٌ آخَرُ .
٥٩٤: ہذیل بن شرحبیل نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا۔ تو حضرت ابو موسیٰ اشعری و مغیرہ بن شعبہ (رض) نے خبر دی کہ آپ کے اپنے نعلین مبارک پر مسح کرنے کی کیا صورت تھی اور ابن عمر (رض) سے ایک اور وجہ بھی مروی ہے۔
حاصل روایات :
ان دونوں روایتوں سے مسح نعلین کی ایک صورت سامنے آئی کہ اصل جو ربین پر مسح تھا ان پر زائد مسح ہوجاتا ہے۔
ابن عمر (رض) کی روایت سے ایک صورت سامنے آتی ہے جو کہ ویل للاعقاب من النار سے منسوخ شدہ ہے روایت ملاحظہ ہو۔

595

۵۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ اللِّہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ فُدَیْکٍ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ (ابْنَ عُمَرَ کَانَ اِذَا تَوَضَّأَ وَنَعْلَاہُ فِیْ قَدَمَیْہِ، مَسَحَ عَلٰی ظُہُوْرِ قَدَمَیْہِ بِیَدَیْہِ وَیَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ھٰکَذَا) .فَأَخْبَرَ ابْنُ عُمَرَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ فِیْ وَقْتٍ مَا کَانَ یَمْسَحُ عَلٰی نَعْلَیْہِ، یَمْسَحُ عَلٰی قَدَمَیْہِ) .فَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَا مَسَحَ عَلٰی قَدَمَیْہِ، ہُوَ الْفَرْضُ، وَمَا مَسَحَ عَلٰی نَعْلَیْہِ کَانَ فَضْلًا .فَحَدِیْثُ أَبِیْ أَوْسٍ، یَحْتَمِلُ عِنْدَنَا مَا ذَکَرَ فِیْہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْحِہِ عَلٰی نَعْلَیْہِ، أَنْ یَکُوْنَ کَمَا قَالَ أَبُوْ مُوْسٰی، وَالْمُغِیْرَۃُ، أَوْ کَمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ .فَإِنْ کَانَ کَمَا قَالَ أَبُوْ مُوْسٰی وَالْمُغِیْرَۃُ، فَإِنَّا نَقُوْلُ بِذٰلِکَ، لِأَنَّا لَا نَرٰی بَأْسًا بِالْمَسْحِ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ، اِذَا کَانَا صَفِیْقَیْنِ قَدْ قَالَ ذٰلِکَ : أَبُوْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٌ .وَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، فَإِنَّہٗ کَانَ لَا یَرَیْ ذٰلِکَ حَتّٰی یَکُوْنَا صَفِیْقَیْنِ، وَیَکُوْنَا مُجَلَّدَیْنِ، فَیَکُوْنَانِ کَالْخُفَّیْنِ .وَإِنْ کَانَ کَمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ، فَإِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِثْبَاتَ الْمَسْحِ عَلَی الْقَدَمَیْنِ، فَقَدْ ثَبَتَ ذٰلِکَ، وَمَا عَارَضَہُ وَمَا نَسَخَہُ فِیْ بَابِ فَرْضِ الْقَدَمَیْنِ .فَعَلٰی أَیِّ الْمَعْنَیَیْنِ کَانَ وَجْہُ حَدِیْثِ أَوْسِ بْنِ أَبِیْ أَوْسٍ، مِنْ مَعْنَیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی، وَالْمُغِیْرَۃِ، وَمِنْ مَعْنَیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ، فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ عَلَی جَوَازِ الْمَسْحِ عَلَی النَّعْلَیْنِ .فَلَمَّا احْتَمَلَ حَدِیْثُ (أَوْسٍ) مَا ذَکَرْنَا، وَلَمْ یَکُنْ فِیْہِ حُجَّۃٌ فِی جَوَازِ الْمَسْحِ عَلَی النَّعْلَیْنِ، الْتَمِسْنَا ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، لِنَعْلَمَ کَیْفَ حُکْمُہٗ؟ فَرَأَیْنَا الْخُفَّیْنِ اللَّذَیْنِ قَدْ جَوَّزَ الْمَسْحَ عَلَیْہِمَا اِذَا تَخَرَّقَا، حَتّٰی بَدَتَ الْقَدَمَانِ مِنْہُمَا أَوْ أَکْثَرُ الْقَدَمَیْنِ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہٗ لَا یُمْسَحُ عَلَیْہِمَا .فَلَمَّا کَانَ الْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ إِنَّمَا یَجُوْزُ اِذَا غَیَّبَا الْقَدَمَیْنِ، وَیَبْطُلُ ذٰلِکَ اِذَا لَمْ یُغَیِّبَا الْقَدَمَیْنِ، وَکَانَتِ النَّعْلَانِ غَیْرَ مُغَیَّبَیْنِ لِلْقَدَمَیْنِ، ثَبَتَ أَنَّہُمَا کَالْخُفَّیْنِ اللَّذَیْنِ لَا یُغَیِّبَانِ الْقَدَمَیْنِ ۔
٥٩٥: ابن ابی ذئب نافع (رح) سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) جب وضو کرتے اور ان کے نعل قدموں میں ہی ہوتے تو جتنا قدم کا حصہ ظاہر ہوتا اس پر مسح کرلیتے اور کہتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کرتے تھے اس سے یہ معلوم ہوا کہ بقول ابن عمر (رض) آپ کسی وقت قدمین پر مسح کرتے نعلین پر مسح نہ کرتے تھے۔ تو حضرت ابن عمر (رض) نے اطلاع دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قدمین شریفین پر مسح کرتے ہوئے جوتوں پر مسح فرما لیتے۔ اس میں اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قدمین پر مسح تو بقدر فرض کیا اور جوتوں پر جو مسح کیا وہ زائد تھا۔ پس ابو اوس (رض) والی روایت ہمارے ہاں وہی احتمال رکھی ہے جو حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) و ابو موسیٰ (رض) کی روایت میں مذکور ہوا یا پھر جیسا کہ ابن عمر (رض) کی روایت میں جو مذکور ہے پس اگر ابو موسیٰ اور مغیرہ (رض) والی روایت والا مفہوم لیا جائے تو ہم اس طرح عرض کریں گے کہ ہمارے ہاں بھی ان جرابوں پر مسح کرنے میں کچھ حرج نہیں جبکہ وہ گاڑھی موٹی ہوں اور یہ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔ باقی امام ابوحنیفہ (رح) اس کو اس وقت تک جائز قرار نہیں دیتے جب تک کہ وہ دونوں موٹی اور چمڑے کے تلے والی نہ ہوں۔ اس صورت میں وہ موزوں کی مانند ہوں گے۔ اور اگر ابن عمر والی روایت کا مفہوم لیا جائے تو اس میں قدمین پر مسح کا اثبات ہے۔ باب فرض القدمین میں ہم اس کے معارض اور ناسخ کو ذکر کر آئے۔ پس اس روایت اوس بن ابی اوس کو ابو موسیٰ اور مغیرہ (رض) والی روایت کے معنی میں لیں یا روایت ابن عمر (رض) کے معنی میں لیں کسی صورت میں جوتوں پر مسح کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا۔ پس جب اوس (رض) والی روایت محتمل ثابت ہوگئی اور جوتوں پر مسح کے جواز کی کوئی صورت نہ مل سکی تو اب اس کو بطور غور و فکر دیکھا تاکہ اس کا حکم ظاہر ہوجائے پس غور کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ موزے جن پر مسح کے جواز کو ثابت کیا گیا جب وہ اس قدر پھٹ جائیں کہ دونوں اقدام یا ان کا اکثر حصہ ظاہر ہوجائے تو سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ان پر مسح نہ کیا جائے گا جب مسح موزہ میں یہ شرط ہے کہ ان پر مسح اس وقت جائز ہے جب اس میں پاؤں چھپ جائے اور جب دونوں پاؤں ظاہر ہوجائیں خواہ پھٹنے یا نکالنے کی وجہ سے تو ان پر مسح جائز نہ رہا۔ تو جوتے میں تو دونوں قدم کا اکثر حصہ غائب نہیں ہوتا پس اس سے خود یہ ثابت ہوگیا کہ یہ ان موزوں کی طرح ہیں جن میں پاؤں نہیں چھپتا (پس بالاتفاق ان پر مسح جائز نہ ہوا) ۔
تخریج : ابن حجر فی الدرایہ ١؍٨٣۔
ایک جواب :
ممکن ہے کہ قدمین پر مسح فرض ہو جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مسح درست تھا تاآنکہ آپ نے ویل للاعقاب من النار کی وعید فرمائی اور یہ منسوخ ہوگیا اور نعلین پر مسح تو زائد چیز تھی۔
حدیث ابو اوس کا جواب :
نمبر ١: اس میں جس مسح کا تذکرہ ہے اس کی کیفیت وہی ہے جو روایت ابو موسیٰ اور مغیرہ (رض) میں مذکور ہے اگر یہی تاویل مان لی جائے تو ہمیں بھی قطعاً انکار نہ ہوگا مسح جو ربین ثخنین پر صاحبین کے ہاں مسح درست ہے جراب منعل میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) صرف جو ربین منعلین پر مسح کے قائل ہیں۔
نمبر ٢: ابن عمر (رض) والی صورت روایت اوس میں مانی جائے تو اس سے مسح قدمین کا اثبات ہوگا جو کہ پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا جیسا ہم گزشتہ فریضہ قدمین میں ثابت کرچکے۔
بہرحال دونوں میں سے کسی پر محمول کریں مسح نعلین کا مستقلاً ثبوت کسی طور پر بھی نہیں۔ یہ روایت کے لحاظ سے جواب دیا گیا۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم غور کرتے ہیں کہ خفین پر مسح کا جواب پختہ روایات سے ثابت ہے اور موزے کے لیے شرط یہ ہے کہ پھٹا ہوا نہ ہو کہ جس سے قدمین کا اکثر حصہ اور پورا قدم ظاہر ہو اور اگر زیادہ پھٹا ہوا ہو تو موزے پر مسح جائز نہیں بلکہ اس کے بقا کے لیے موزے کا پاؤں پر باقی رہنا ضروری ہے ورنہ موزہ اترنے سے مسح جاتا رہے گا تو نعل کی صورت میں تو پاؤں کا اکثر حصہ باہر ہے تو ان پر مسح کیونکر درست ہوسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں یہ ان موزوں کے مشابہ ہیں جن میں قدم غائب نہیں ہوتا اور ان پر کسی کے ہاں بھی مسح درست نہیں۔

596

۵۹۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ السَّقَطِیُّ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ حَازِمٍ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِیْ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (أُمَّ حَبِیْبَۃَ بِنْتَ جَحْشٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، کَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ، وَأَنَّہَا اُسْتُحِیْضَتْ حَتّٰی لَا تَطْہُرَ، فَذُکِرَ شَأْنُہَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ : لَیْسَتْ بِالْحَیْضَۃِ، وَلٰـکِنَّہَا رَکْضَۃٌ مِنَ الرَّحِمِ، لِتَنْظُرْ قَدْرَ قُرُوْئِہَا الَّتِیْ تَحِیْضُ لَہَا، فَلْتَتْرُکِ الصَّلَاۃَ، ثُمَّ لِتَنْظُرْ مَا بَعْدَ ذٰلِکَ، فَلْتَغْتَسِلْ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ وَتُصَلِّیْ) .
٥٩٦: عمرہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتی ہیں کہ ام حبیبہ (رض) بنت جحش عبدالرحمن بن عوف کی بیوی تھیں ان کو استحاضہ آتا تھا پاکیزگی نہ ہوتی تھی عبدالرحمن (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی حالت ذکر کی تو آپ نے فرمایا وہ حیض نہیں بلکہ وہ رحم کی حرکت ہے وہ اپنے حیض کے دنوں کا انتظار کرے اور ان دنوں میں نماز چھوڑ دے (جب وہ دن ختم ہوں) تو بعد میں دیکھے کیا کیفیت ہے ہر نماز کے لیے غسل کرے اور نماز ادا کرے۔
تخریج : مسلم فی الحیض ٦٤‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٣٤‘ دارمی فی الوضوء باب ٩٤‘ مسند احمد ٦؍١٤١‘ مستدرک حاکم ١؍١٧٣‘ بیہقی سنن کبرٰی ١؍٣٤٨۔
خلاصہ الزام : طبعی طور پر عورت کو آنے والا خون حیض کہلاتا ہے اس میں نماز ‘ روزہ ‘ جماع ہر چیز منع ہے غیر طبعی خون جو ان ایام مقررہ کے علاوہ میں آئے وہ مستحاضہ ہے اس میں وطی کا جواز اور نماز روزے کا حکم ہے زمانہ نبوت میں جن عورتوں کو یہ عارضہ لاحق تھا ان کی تعداد بارہ بتلائی جاتی ہے مستحاضہ کی کئی اقسام ہیں : ! جن کو ابتدائً یہ عارضہ ہو ۔ " عادت بن جائے ۔#دم حیض سے الگ خون پہچانا جائے ۔$معلوم نہ ہو کہ کتنے دنوں حیض ہے اسی طرح استحاضہ۔ اس موقع پر ایام استحاضہ میں نماز کے لیے طہارت کا مسئلہ زیر بحث آئے گا اس میں تین فریق ہیں۔
نمبر ١: قتادہ مجاہد ‘ عکرمہ کے ہاں ہر نماز کے لیے غسل لازم ہوگا۔
نمبر ٢: ابراہیم نخعی وغیرہ کے ہاں دو نمازوں کے لیے جمع صوری کے ساتھ ایک غسل کیا جائے گا۔
نمبر ٣: جمہور ائمہ اور فقہاء سبعہ مدینہ کے ہاں ہر نماز کے لیے نیا وضو کیا جائے گا۔ فقہاء سبعہ حسن بصری ‘ ابن المسیب ‘ عروہ ‘ قاسم ‘ ابن رباح ‘ محمد بن علی ‘ سالم)

597

۵۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ (أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ جَحْشٍ کَانَتْ اُسْتُحِیْضَتْ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَإِنْ کَانَتْ لَتَغْتَمِسُ فِی الْمِرْکَنِ، وَہُوَ مَمْلُوْئٌ مَائً، ثُمَّ تَخْرُجُ مِنْہُ، وَإِنَّ الدَّمَ لِغَالِبُہٗ، ثُمَّ تُصَلِّیْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمُسْتَحَاضَۃَ تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَرْوِیِّ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ، وَبِفِعْلِ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ جَحْشٍ عَلٰی عَبْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
٥٩٧: عروہ نے کہا حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو ایام نبوت میں استحاضہ کی حالت ہوگئی تھی تو اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ مستحاضہ ایّام حیض میں نماز چھوڑ دے پھر ہر ہر نماز کے لیے غسل کرے۔ انھوں نے اپنی دلیل میں حضرت امّ حبیبہ بنت جحش (رض) کے عمل اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کو پیش کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١١٠‘ ٢٩٢۔

598

۵۹۸ : حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیْزِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی النُّعْمَانُ، وَالْأَوْزَاعِیُّ، وَأَبُوْ مَعْبَدٍ حَفْصُ بْنُ غَیْلَانَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ، وَعَمْرَۃُ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (اُسْتُحِیْضَتْ أُمُّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتُ جَحْشٍ، فَاسْتَفْتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ھٰذِہِ لَیْسَتْ بِحَیْضَۃٍ، وَلَکِنَّہٗ عِرْقٌ فَتَقَہٗ اِبْلِیْسُ، فَإِذَا أَدْبَرَتِ الْحَیْضَۃُ، فَاغْتَسِلِیْ وَصَلِّیْ، وَإِذَا أَقْبَلَتْ، فَاتْرُکِیْ لَہَا الصَّلَاۃَ .قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : فَکَانَتْ أُمُّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَکَانَتْ تَغْتَسِلُ أَحْیَانًا فِیْ مِرْکَنٍ، فِیْ حُجْرَۃِ أُخْتِہَا زَیْنَبَ، وَہِیَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی إِنَّ حُمْرَۃَ الدَّمِ لِتَعْلُوَ الْمَائَ، فَتُصَلِّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا مَنَعَہَا ذٰلِکَ مِنَ الصَّلَاۃِ) .
٥٩٨: عروہ وعمرہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے روایت کی کہ ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو استحاضہ پیش آیا تو اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا آپ نے فرمایا یہ حیض نہیں بلکہ یہ رگ کا خون ہے جس کو ابلیس نے چیر دیا ہے جب ایام حیض گزر جائیں تو غسل کرو اور نماز ادا کرو اور پھر ایام حیض آجائیں تو نماز کو ترک کر دو ۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں اور کبھی کبھی ٹب میں غسل کرتیں اور اپنی بہن زینب کے حجرہ میں غسل کرتیں بعض اوقات خون کی سرخی پانی پر بلند بھی ہوجاتی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم بھی ہوتا مگر آپ اس کو نماز سے نہ روکتے (گویا یہ آپ کا نہ روکنا خود جواز کا ثبوت ہوا)
تخریج : بخاری فی الحیض باب ١٩ ٢٨٨‘ مسلم فی الحیض ٦٢‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٠٨‘ نمبر ٢٨٢‘ باب ١٠٩‘ نمبر ٢٨٥‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٩٣‘ نمبر ١٢٩‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٣٤‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١٥‘ ١١٦‘ مالک فی الطھارۃ نمبر ١٠٤‘ مسند احمد ٦؍٨٣‘ ١٢٩‘۔

599

۵۹۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، وَعَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (أُمَّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتَ جَحْشٍ اُسْتُحِیْضَتْ سَبْعَ سِنِیْنَ فَسَأَلَتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ، فَأَمَرَہَا أَنْ تَغْتَسِلَ وَقَالَ : إِنَّ ھٰذِہٖ عِرْقٌ وَلَیْسَتْ بِالْحَیْضَۃِ فَکَانَتْ ہِیَ تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ) .
٥٩٩: عروہ وعمرہ کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش (رض) سات سال تک استحاضہ میں مبتلا رہیں انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں استفسار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ غسل کریں اور فرمایا یہ رگ کا خون ہے یہ حیض نہیں وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔

600

۶۰۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .قَالَ اللَّیْثُ : لَمْ یَذْکُرِ ابْنُ شِہَابٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أُمَّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنْ تَغْتَسِلَ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ) .
٦٠٠: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح سے روایت نقل کی ہے۔
راوی لیث کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے یہ بات ذکر نہیں کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام حبیبہ (رض) کو حکم دیا کہ وہ ہر نماز کے وقت غسل کرے۔

601

۶۰۱ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیِّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إدْرِیْسَ، قَالَ : أَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ، سَمِعَ ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .
٦٠١: ابن شہاب عن عمرۃ بنت عبدالرحمن عن عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی فی المعرفہ ٢؍١٦١۔

602

۶۰۲ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ وَلَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ اللَّیْثِ .قَالُوْا : فَھٰذِہٖ (أُمُّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ کَانَتْ تَفْعَلُ ھٰذَا فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہَا بِالْغُسْلِ، فَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَہَا، عَلَی الْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ) .وَقَدْ قَالَ ذٰلِکَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَفْتَیَا بِذٰلِکَ .
٦٠٢: عمرہ نے عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور اس میں لیث کا قول مذکور نہیں فریق اوّل کا کہنا یہ ہے کہ ام حبیبہ (رض) یہ عمل غسل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے کرتیں تھیں ام حبیبہ کے ہاں اس سے ہر نماز کے لیے غسل مراد تھا اور یہی بات جناب علی (رض) اور ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی کہی اور اسی پر فتویٰ دیا پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے لیے یہی حکم تھا۔

603

۶۰۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِیْ حَسَّانَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ : أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِکِتَابٍ، بَعْدَمَا ذَہَبَ بَصَرُہُ فَدَفَعَہٗ إِلَی ابْنِہٖ فَتَتَرْتَرَ فِیْہِ، فَدَفَعَہٗ إِلَیَّ فَقَرَأْتُہٗ، فَقَالَ لِابْنِہٖ : أَلَا ہَذْرَمَتْہُ کَمَا ہَذْرَمَہُ الْغُلَامُ الْمِصْرِیُّ؟ .فَإِذَا فِیْہِ : " بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، مِنْ امْرَأَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، أَنَّہَا اُسْتُحِیْضَتْ، فَاسْتَفْتَتْ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَأَمَرَہَا أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُصَلِّیَ " .فَقَالَ : " اللّٰہُمَّ لَا أَعْلَمُ الْقَوْلَ إِلَّا مَا قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " ثَلَاثَ مَرَّاتٍ .قَالَ قَتَادَۃُ، وَأَخْبَرَنِیْ عَزْرَۃُ، عَنْ سَعِیْدٍ أَنَّہٗ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الْکُوْفَۃَ أَرْضٌ بَارِدَۃٌ، وَأَنَّہٗ یَشُقُّ عَلَیْہَا الْغُسْلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فَقَالَ : لَوْ شَائَ اللّٰہُ لَابْتَلَاہَا بِمَا ہُوَ أَشَدُّ مِنْہُ .
٦٠٣: حسان سعید بن جبیر (رح) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ابن عباس (رض) کے پاس ایک خط لائی یہ اس زمانے کی بات ہے جب ان کی نگاہ جا چکی تھی انھوں نے اپنے بیٹے کو دیا تو اس کی کلام میں ڈھیلا پن تھا جس سے ان کو بات سمجھ نہ آئی تو انھوں نے خط میرے حوالہ کیا تو میں نے پڑھا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو فرمایا تم نے اس کو اس طرح جلدی کیوں نہ پڑھا جیسا اس مصری لڑکے نے پڑھا ہے اس خط کا مضمون یہ تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ من امراۃ من المسلمین انہا استحیضت فاستفتت علیا (رض) فامرھا ان تغتسل و تصلی کہ ایک عورت کو استحاضہ کی تکلیف ہے اس نے علی (رض) سے مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے غسل کر کے اسے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
اس پر ابن عباس (رض) فرمانے لگے میں اس کے متعلق وہی بات جانتا ہوں جو علی (رض) نے کہی ہے یہ بات تین مرتبہ دھرائی۔
قتادہ نے کہا کہ مجھے عزرہ نے سعید سے نقل کیا کہ انھوں نے سوال کیا کہ حضرت کوفہ تو ٹھنڈا علاقہ ہے اور اس پر ہر نماز کیلئے غسل گراں ہوجائے گا تو آپ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس کو اس سے زیادہ سخت بیماری میں مبتلا کردیتا۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٣٠٥ ابن ابی شیبہ ١؍١١٩۔

604

۶۰۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ : أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْکُوْفَۃِ اُسْتُحِیْضَتْ، فَکَتَبَتْ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، تُنَاشِدُہُمْ اللّٰہَ وَتَقُوْلُ : إِنِّیْ امْرَأَۃٌ مُسْلِمَۃٌ أَصَابَنِیْ بَلَائٌ ، إِنَّمَا اُسْتُحِضْت مُنْذُ سَنَتَیْنِ، فَمَا تَرَوْنَ فِیْ ذٰلِکَ؟ فَکَانَ أَوَّلُ مَنْ وَقَعَ الْکِتَابُ فِیْ یَدِہِ، ابْنُ الزُّبَیْرِ فَقَالَ: مَا أَعْلَمُ لَہَا إِلَّا أَنْ تَدَعَ قُرُوْئَ ہَا، وَتَغْتَسِلُ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ وَتُصَلِّیْ، فَتَتَابَعُوْا عَلَی ذٰلِکَ .
٦٠٤: ابو الزبیر نے سعید بن جبیر سے نقل کیا کہ ایک عورت اہل کوفہ میں سے استحاضہ میں مبتلا ہوئی اس نے عبداللہ بن عمر (رض) اور عبداللہ بن عباس (رض) اور عبداللہ بن زبیر (رض) کو خط لکھا ان کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر وہ کہہ رہی تھی میں ایک مسلمان عورت ہوں مجھ پر دو سال سے یہ بیماری وارد ہوئی ہے کہ میں استحاضہ کا شکار ہوں اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا فتویٰ دیتے ہیں سب سے پہلے یہ خط ابن زبیر (رض) کے ہاتھ لگا انھوں نے کہا جہاں تک میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے حیض کے دنوں کو چھوڑ کر بقیہ ایام میں ہر نماز کے لیے غسل کر کے نماز پڑھے سب نے اسی فتویٰ کی تصدیق و پیروی کی۔
اللغات : الترترہ۔ تیز کلامی ‘ قرأۃ میں ڈھیلا پن۔ ہذرمنہ۔ تیز پڑھنا۔ تناشدھم۔ قسم دینا۔ تتابع۔ پیروی کرنا۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٣٠٨۔

605

۶۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَاصَّۃً مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : تَدَعُ الصَّلَاۃَ، أَیَّامَ حَیْضِہَا .فَجَعَلَ أَہْلُ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ عَلَی الْمُسْتَحَاضَۃِ، أَنْ تَغْتَسِلَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ لَمَا ذَکَرْنَاہُ مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْہَا أَنْ تَغْتَسِلَ لِلظُّہْرِ وَالْعَصْرِ غُسْلًا وَاحِدًا تُصَلِّیْ بِہِ الظُّہْرَ فِیْ آخِرِ وَقْتِہَا وَالْعَصْرَ فِیْ أَوَّلِ وَقْتِہَا، وَتَغْتَسِلُ لِلْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ غُسْلًا وَاحِدًا، تُصَلِّیْہِمَا بِہٖ، فَتُؤَخِّرُ الْأُوْلٰی مِنْہُمَا، وَتُقَدِّمُ الْآخِرَۃَ، کَمَا فَعَلَتْ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، وَتَغْتَسِلُ لِلصُّبْحِ غُسْلًا .وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی۔
٦٠٥: سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے خاص طور پر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اتنی بات ہے کہ یہ الفاظ زائد ہیں تدع الصلوٰۃ ایام حیضھا کہ ایام حیض میں نماز ترک کر دے۔ جن علماء نے اس قول کو اختیار کیا انھوں نے اس کو غسل کا پابند بنایا جو کہ ہر نماز کے لیے اسے کرنا ہوگا۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس پر لازم یہ ہے کہ ظہر و عصر کے لیے ایک غسل کرے اور اس سے ظہر آخری وقت میں اور عصر اول وقت میں ادا کرے اور مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل کرے مغرب کو مؤخر کرے اور عشاء کو اول وقت میں ادا کرے جیسا کہ اس نے ظہر و عصر کے سلسلہ میں کیا اور فجر کے لیے مستقل غسل کرے اور انھوں نے اپنے استدلال میں ان روایات کو پیش کیا۔
حاصل روایات :
ان دس روایات سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ مستحاضہ کے لیے نماز کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل کرے گی۔
فریق ثانی کا مؤقف :
فریق ثانی کا مؤقف یہ ہے کہ ایام حیض کے علاوہ ہر روز تین بار غسل کرے ایک فجر کے لیے اور ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کر کے اول وقت میں دونوں کے لیے ایک غسل اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو اول وقت میں کر کے ایک غسل کرے۔

606

۶۰۶ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَ : (سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا مُسْتَحَاضَۃٌ فَقَالَ : لِتَجْلِسْ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتُؤَخِّرُ الظُّہْرَ وَتُعَجِّلُ الْعَصْرَ، وَتَغْتَسِلُ وَتُصَلِّیْ، وَتُؤَخِّرَ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلَ الْعِشَائَ، وَتَغْتَسِلْ وَتُصَلِّیْ، وَتَغْتَسِلْ لِلْفَجْرِ) .
٦٠٦: قاسم بن محمد نے کہا کہ زینب بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اسے خون استحاضہ کی شکایت ہے تو آپ نے فرمایا ایام حیض میں نماز روزے سے رک جائے پھر (ان دنوں کے بعد) غسل کرے اور ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلد پڑھے اور غسل کر کے دونوں نمازیں پڑھے اور مغرب میں تاخیر کرے اور عشاء کو جلدی ادا کرنے کے لیے غسل کر کے دونوں نمازیں ادا کرے اور فجر کے لیے غسل کرے۔
تخریج : طبرانی فی الکبیر ٢٤؍٥٦۔

607

۶۰۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہِ، (أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اُسْتُحِیْضَتْ، فَسَأَلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : قَدْرَ أَیَّامِہَا) .
٦٠٧: عبدالرحمن بن القاسم اپنے والد قاسم سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مسلمان عورت کو مرض استحاضہ نے آلیا چنانچہ لوگوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا پھر اسی طرح روایت ذکر کی مگر اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ” قد رایامھا “ اپنے دنوں کی مقدار۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٤١‘ تعلیقاً ۔

608

۶۰۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ امْرَأَۃً اُسْتُحِیْضَتْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُمِرَتْ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ تَرْکَہَا الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، وَلَا أَیَّامَ حَیْضِہَا .
٦٠٨: قاسم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نقل کرتی ہیں کہ ایک عورت کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں استحاضہ کی تکلیف ہوگئی پس آپ نے حکم دیا پھر اسی طرح روایت نقل کی صرف ان الفاظ کا فرق ہے کہ حیض کے دنوں میں اس کے ترک نماز کا تذکرہ نہیں ہے۔
تخریج : نسائی ١؍٤٥‘ الدارمی ١؍٢٢٢

609

۶۰۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ سُہَیْلٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ (أَسْمَائَ ابْنَۃِ عُمَیْسٍ قَالَتْ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتِ أَبِیْ حُبَیْشٍ اُسْتُحِیْضَتْ مُنْذُ کَذَا کَذَا، فَلَمْ تُصَلِّ .فَقَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ، ھٰذَا مِنَ الشَّیْطَانِ، لِتَجْلِسْ فِیْ مِرْکَنٍ فَإِذَا رَأَتْ صُفْرَۃً فَوْقَ الْمَائِ، فَلْتَغْتَسِلْ لِلظُّہْرِ وَالْعَصْرِ غُسْلًا وَاحِدًا، ثُمَّ تَغْتَسِلْ لِلْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ غُسْلًا وَاحِدًا، وَتَتَوَضَّأْ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ) .فَقَوْلُہٗ : (وَتَتَوَضَّأْ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ) یَحْتَمِلُ أَنْ تَتَوَضَّأَ لِمَا یَکُوْنُ مِنْہَا مِنَ الْأَحْدَاثِ الَّتِیْ تُوْجِبُ نَقْضَ الطَّہَارَاتِ، وَیَحْتَمِلُ أَنْ تَتَوَضَّأَ لِلصُّبْحِ .فَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی خِلَافِ مَا تَقَدَّمَہٗ، مِنْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ وَسُفْیَانَ .قَالُوْا : فَھٰذِہِ الْآثَارُ قَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا ذَکَرْنَا، فِی جَمْعِ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، وَفِی جَمْعِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، وَإِفْرَادِ الصُّبْحِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ .فَبِھٰذَا نَأْخُذُ، وَہُوَ أَوْلٰی مِنَ الْآثَارِ الْأُوَلِ، الَّتِیْ فِیْہَا ذِکْرُ الْأَمْرِ بِالْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ لِأَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ھٰذَا نَاسِخٌ لِذٰلِکَ .فَذَکَرُوْا
٦٠٩: عروہ بیان کرتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ بنت ابی حبیش اتنے عرصہ سے استحاضہ کی تکلیف میں ہے اور اس نے نماز نہیں پڑھی آپ نے فرمایا عجیب بات ہے یہ شیطانی حرکت ہے اسے ٹب میں بیٹھنا چاہیے جب پانی پر زردی کا غلبہ پائے یعنی خون کے اثرات نہ رہیں تو ظہر و عصر کے لیے ایک غسل کرے پھر مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل کرے اور ان کے مابین وضو کرے۔ اس میں احتمال یہ ہے کہ وہ ان احداث میں جو طہارت کو توڑنے والی ہیں ان سے بھی وضو کرے اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ صبح کے لیے وضو کرے۔ آثار متقدمہ میں جو بات گزری اس کے خلاف کچھ بھی دلیل نہیں جن کو شعبہ و سفیان نے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں یہ آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح مروی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ایک غسل میں ظہر و عصر اور ایک میں مغرب و عشاء کو جمع کرے اور صبح کے لیے ایک غسل کرے۔ ہم اس کو اختیار کرتے ہیں اور یہ قول پہلے آثار میں منقول بات سے اولیٰ ہیں جن میں ہر نماز کے لیے غسل کا حکم ہے کیونکہ یہ روایات سے ثابت ہوچکا کہ یہ پہلی روایات کو منسوخ کرنے والی ہے۔ ناسخ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : ابو داؤد باب ١١١‘ ٢٩٦‘ ١؍٤١‘ المعجم الکبیر ٢٤؍١٣٩
تتوضأ فیما بین ذلک کے متعلق دو احتمال ہیں کہ اگر دونوں نمازوں کے درمیان حدث لاحق ہوجائے تو اس کے لیے وضو کرے اور فجر کے لیے غسل کرے۔
نمبر ٢: فجر کی نماز کے لیے غسل کی بجائے وضو کرے۔
ان میں پہلا احتمال متعین کی طرح ہے کیونکہ وہ شعبہ اور سفیان کی روایت میں صاف مذکور ہے۔
خلاصہ روایات :
یہ چاروں آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کے لیے تین مرتبہ غسل کرنا پڑے گا۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں :
ان آثار کو اختیار کرنا پہلے آثار پر عمل سے اولیٰ ہے کیونکہ وہ پہلے حکم تھا پھر یہ حکم اتارا گیا اس نسخ کے لیے واضح دلالالت قائم ہیں۔

610

۶۱۰ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : إِنَّمَا ہِیَ (سَہْلَۃُ ابْنَۃُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، اُسْتُحِیْضَتْ، وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُہَا بِالْغُسْلِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ فَلَمَّا أَجْہَدَہَا ذٰلِکَ أَمَرَہَا أَنْ تَجْمَعَ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ فِیْ غُسْلٍ وَاحِدٍ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ فِیْ غُسْلٍ وَاحِدٍ، وَتَغْتَسِلَ لِلصُّبْحِ) .قَالُوْا : فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ ھٰذَا الْحُکْمَ نَاسِخٌ لِلْحُکْمِ الَّذِیْ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ، لِأَنَّہٗ إِنَّمَا أَمَرَ بِہٖ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَصَارَ الْقَوْلُ بِہٖ أَوْلٰی مِنَ الْقَوْلِ بِالْآثَارِ الْأُوَلِ .قَالُوْا : وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ .فَذَکَرُوْا
٦١٠: قاسم کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سھلہ بنت سہیل کو استحاضہ کی شکایت ہوئی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرماتے رہے جب اس کو اس بات نے عاجز کردیا تو پھر آپ نے اس کو ظہر و عصر ایک غسل سے اور مغرب و عشاء ایک غسل سے اور فجر ایک غسل سے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ انھوں نے فرمایا اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ حکم اس حکم کو منسوخ کرنے والا ہے جو کہ پہلے آثار میں وارد ہوا ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم اس کے بعد دیا پس یہ قول اس قول سے بہتر ہوا جو پہلے آثار میں پایا جاتا ہے اور انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت علی (رض) سے یہ بات وارد ہوئی ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٤١۔
فریق دوم : کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ حکم پہلے کا ناسخ ہے کیونکہ روایت سے صاف طور پر اس کا بعد میں ہونا معلوم ہو رہا ہے پس اس کو اختیار کرنا منسوخ پر عمل سے اولیٰ ہے۔
نمبر ٢: گزشتہ آثار میں حضرت علی اور ابن عباس (رض) کے فتاویٰ کو تائید میں پیش کر کے بات کو پختہ کیا گیا تھا تو انھوں نے انہی کے ایسے آثار پیش کر دے جو پہلے قول سے متضاد اور دوسرے قول کے عین موافق ہیں یہ بھی نسخ کی مزید دلیل بن گئی۔

611

۶۱۱ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ رَجَائٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ تْہُ امْرَأَۃٌ مُسْتَحَاضَۃٌ تَسْأَلُہٗ، فَلَمْ یُفْتِہَا، وَقَالَ لَہَا : سَلِیْ غَیْرِی .قَالَ : فَأَتَتْ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَأَلَتْہُ، فَقَالَ لَہَا : لَا تُصَلِّیْ مَا رَأَیْتِ الدَّمَ، فَرَجَعَتْ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبَرَتْہُ، فَقَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ : إِنْ کَادَ لَیُکَفِّرُکِ .قَالَ : ثُمَّ سَأَلْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : (تِلْکَ رِکْزَۃٌ مِنَ الشَّیْطَانِ، أَوْ قُرْحَۃٌ فِی الرَّحِمِ، اغْتَسِلِیْ عِنْدَ کُلِّ صَلَاتَیْنِ مَرَّۃً، وَصَلِّ) .قَالَ : فَلَقِیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدُ، فَسَأَلْتُہٗ، فَقَالَ : مَا أَجِدُ لَک إِلَّا مَا قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ.
٦١١: سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک مستحاضہ عورت آئی اور ان سے استحاضہ کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے فرمایا میرے علاوہ اور کسی سے پوچھو وہ عورت ابن عمر (رض) کی خدمت میں آئی اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا جب تک خون دیکھو نماز نہ پڑھو وہ ابن عباس (رض) کی طرف لوٹی تو انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے قریب تھا کہ وہ تمہیں کفر (ترک صلوۃ) پر آمادہ کردیتے۔ سعید کہتے ہیں پھر میں نے علی (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا یہ شیطان کی ایڑی لگنے سے ہے یا پھر رحم کے زخم سے ہر دو نمازوں کے لیے غسل کر کے نماز پڑھ لیا کرو سعید کہتے ہیں پھر میں ابن عباس (رض) کو ملا تو انھوں نے فرمایا میں تیرے اس سوال کا وہی جواب پاتا ہوں جو علی (رض) نے کہا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٢٠۔

612

۶۱۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : قِیْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ بَارِدَۃٌ .قَالَ : تُؤَخِّرُ الظُّہْرَ، وَتُعَجِّلُ الْعَصْرَ، وَتَغْتَسِلُ لَہُمَا غُسْلًا وَاحِدًا، وَتُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلُ الْعِشَائَ، وَتَغْتَسِلُ لَہُمَا غُسْلًا، وَتَغْتَسِلُ لِلْفَجْرِ غُسْلًا فَذَہَبَ ہٰؤُلَائِ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا: تَدَعُ الْمُسْتَحَاضَۃُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ وَتُصَلِّیْ. وَذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی۔
٦١٢: قیس بن سعد نے کہا کہ مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا ہمارا علاقہ ٹھنڈا ہے فرمایا ظہر کو موخر اور عصر کو مقدم کر کے ان کے لیے مستحاضہ ایک غسل کرے اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی کر کے ان کے لیے ایک غسل کرے اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ پس یہ علماء ان آثار کو اختیار کرنے والے ہیں۔ علماء کی ایک اور جماعت اس میں ان کی مخالف ہے۔ چنانچہ انھوں نے فرمایا کہ مستحاضہ عورت حیض کے ایّام میں نماز ترک کرے پھر اس سے ایک غسل کرے اور آئندہ ہر نماز کے لیے وضو کر کے نماز اد ا کرتی رہے۔ چنانچہ ان آثار سے انھوں نے استدلال کیا۔
تخریج : الدارمی ١؍٢٢٥۔
حاصل روایات : ان ساتوں روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر دو نمازوں کو صورۃً جمع کر کے ان کے لیے ایک غسل کیا جائے گا اور ان دونوں نمازوں کے لیے درمیان میں اگر حدث لاحق ہو پھر وضو کیا جائے گا۔
نمبر ٢: ان سے پہلی روایات کا منسوخ ہونا ظاہر ہے ان میں بعض روایات ان صحابہ کرام (رض) سے بھی ہیں جن کی روایات فریق اوّل نے پیش کی ہیں تو تقدیم و تاخیر معلوم ہوجانے سے ان کا منسوخ ہونا ظاہر ہوا۔
فریق سوم : کا مؤقف مستحاضہ ایام حیض میں نماز و روزہ سے رک جائے پھر ان کے ختم ہونے پر غسل کرے اور آئندہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے۔

613

۶۱۳ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ السُّوْسِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی قَالَ : ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (فَاطِمَۃَ بِنْتَ أَبِیْ حُبَیْشٍ أَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؛ إِنِّیْ أُسْتَحَاضُ فَلَا یَنْقَطِعُ عَنِّی الدَّمُ، فَأَمَرَہَا أَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا ثُمَّ تَغْتَسِلَ وَتَتَوَضَّأَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَتُصَلِّیَ وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَی الْحَصِیْرِ قَطْرًا) .
٦١٣: عروہ کی حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئیں اور کہنے لگیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے جو منقطع ہونے کا نام نہیں لیتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو ایام حیض میں نماز ترک کر دے پھر (اس سے فراغت پر) غسل کرے اور ہر نماز کے لیے وضو کرے خواہ خون کے قطرات نماز والی چٹائی پر ٹپکتے رہیں۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٦٣‘ والحیض باب ٢٤‘ مسلم فی الحیض باب ٦٢‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٠٧‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٩٣‘ نسائی فی الحیض باب ٣‘ ٤‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١٥‘ دارمی فی الوضوء باب ٨٤‘ مسند احمد ٦؍٨٢‘ ١٢٨؍١٨٧‘ مصنف عبدالرزاق ١١٦٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٢٥‘ دارقطنی ١؍٢٠٦۔ بیہقی فی سنن کبرٰی ١؍٣٢٣۔

614

۶۱۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَزِیْدَ الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ
٦١٤: حدثنا صالح بن عبدالرحمن قال حدثنا عبداللہ بن یزید المقریء ثنا ابوحنیفہ نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بیہقی ١؍٥٠٧۔

615

۶۱۵ : ح وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ ؛ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (فَاطِمَۃَ بِنْتَ أَبِیْ حُبَیْشٍ أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : إِنِّیْ أَحِیْضُ الشَّہْرَ وَالشَّہْرَیْنِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ ذٰلِکَ لَیْسَ بِحَیْضٍ وَإِنَّمَا ذٰلِکَ عِرْقٌ مِنْ دَمِکِ؛ فَإِذَا أَقْبَلَ الْحَیْضُ فَدَعِی الصَّلَاۃَ وَإِذَا أَدْبَرَ فَاغْتَسِلِیْ لِطُہْرِکِ ؛ ثُمَّ تَوَضَّئِیْ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ) .
٦١٥: حدثنا ابو نعیم ثنا ابوحنیفہ عن ہشام عن عروہ نے بتلایا کہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگیں مجھے مہینہ اور دو مہینے خون حیض آتا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ حیض نہیں وہ تیری خونی رگ ہے جب حیض کے دن آجائیں تو تو نماز کو چھوڑ دے اور جب حیض ختم ہوجائے تو غسل طہارت کرو اور آئندہ ہر نماز کے لیے ایک وضو کرتی رہو۔
تخریج : تخریج نمبر ٦١٣ ملاحظہ کریں مسند السراج

616

۶۱۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : قَرَأْتُ عَلَی شَرِیْکٍ عَنْ أَبِی الْیَقِظَانِ
٦١٦: یحییٰ بن یحییٰ نے شریک بن ابی الیقظان سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍٣٣۔

617

۶۱۷ : ح وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ ؛ عَنْ أَبِی الْیَقْظَانِ ؛ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (الْمُسْتَحَاضَۃُ تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ حَیْضِہَا ؛ ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ وَتَصُوْمُ وَتُصَلِّیْ) .قَالُوْا : وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ ؛ فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ أَبِی الْیَقْظَانِ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .یَعْنِی مِثْلَ حَدِیْثِہٖ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا .قَالَ : فِیْمَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ھٰذَا الْقَوْلِ .فَعَارَضَہُمْ مُعَارِضٌ فَقَالَ : أَمَّا حَدِیْثُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی الَّذِیْ رَوَاہُ عَنْ ہِشَامٍ ؛ عَنْ عُرْوَۃَ فَخَطَأٌ .وَذٰلِکَ أَنَّ الْحُفَّاظَ ؛ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ رَوَوْہُ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ، فَذَکَرُوْا
٦١٧: ثابت نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مستحاضہ ایام حیض میں نماز چھوڑ دے پھر غسل کرے اور ہر نماز کے لیے وضو کرے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ انھوں نے فرمایا حضرت علی (رض) سے اس سلسلہ میں روایت وارد ہے جس کو فہد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت علی (رض) سے عدی بن ثابت جیسی روایت نقل کی ہے جس کو فصل اول میں ہم ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت علی (رض) سے بیان کرچکے۔ ان پر ایک معترض نے اعتراض کیا کہ ابوحنیفہ (رح) کی اپنی سند کے ساتھ عروہ سے روایت غلط ہے کیونکہ حفاظ حدیث نے اس کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے اور اس کا متن بھی اس سے مختلف بیان کیا گیا ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١١١‘ ٢٩٧‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٩٤‘ ١٢٦‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١١٥‘ دارمی فی الوضوء باب ٨٤‘ ١؍٤٢‘ مسند احمد ٦؍٤٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٢٨۔
روایات علی (رض) :
اس روایت کو عدی بن ثابت عن ابیہ عن علی (رض) کی سند سے پہلی روایات میں ذکر کر آئے ہیں اور ایک روایت اسی سند سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منقول ہے تو اب حضرت علی (رض) سے ایک روایت غسل لکل صلوۃ ایک روایت غسل لصلاتین اور ایک روایت وضو لکل صلوۃ کی منقول ہے ہم ان میں سے وہ روایت لیں گے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فاطمہ بنت ابی حبیش اور خود جناب علی (رض) سے ثابت ہے اور وہ وضو لکل صلوۃ ہے۔ فتدبر۔
ایک اشکال :
امام ابوحنیفہ (رح) کی روایت میں توضی عند کل صلوۃ کے الفاظ ہیں جو کہ ہشام کے حفاظ شاگردوں کی روایات کے خلاف نہیں پس یہ مندرج روایت ہے۔
ملاحظہ ہو :

618

۶۱۸ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرٌو ؛ وَسَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ؛ وَمَالِکٌ ؛ وَاللَّیْثُ ؛ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ؛ أَنَّہٗ أَخْبَرَہُمْ عَنْ أَبِیْہِ ؛ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ (فَاطِمَۃَ ابْنَۃَ أَبِیْ حُبَیْشٍ جَائَ تْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ تُسْتَحَاضُ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ- وَاللّٰہِ - مَا أَطْہَرُ .أَفَأَدَعُ الصَّلَاۃَ أَبَدًا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا ذٰلِکَ عِرْقٌ ؛ وَلَیْسَتْ بِالْحَیْضَۃِ ؛ فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَیْضَۃُ فَاتْرُکِی الصَّلَاۃَ، وَإِذَا ذَہَبَ قَدْرُہَا، فَاغْسِلِیْ عَنْکِ الدَّمَ ثُمَّ صَلِّیْ) .
٦١٨: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئیں اور ان کو استحاضہ کا مرض تھا عرض کرنے لگیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں قسم بخدا پاک ہی نہیں ہوتی کیا میں نماز ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ایک رگ ہے حیض نہیں جب حیض کے دن شروع ہوں تو نماز چھوڑ دو اور جب اتنے دن ختم ہوجائیں تو غسل کر کے پھر نماز ادا کرو۔

619

۶۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ أَبِیْہِ وَہِشَامٍ، کِلَیْہِمَا عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ .فَھٰکَذَا رَوَی الْحُفَّاظُ، ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، لَا کَمَا رَوَاہُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ، أَنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَۃَ، قَدْ رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ، عَنْ ہِشَامٍ، فَزَادَ فِیْہِ حَرْفًا یَدُلُّ عَلٰی مُوَافَقَتِہٖ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٦١٩: ابو الزناد اور ہشام دونوں نے عروہ سے روایت کی اور حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے یہ دو نمونے اس بات کے لیے کافی ہیں ابوحنیفہ (رح) کی روایت میں ثم توضئی عند کل صلوۃ کے لفظ زائد اور مدرج ہیں۔ حفاظ روات نے اس کو اس طرح روایت کیا تو یہ روایت ہشام بن عروہ سے ثابت ہوئی نہ جس طرح امام ابوحنیفہ (رح) نے نقل کی ہے ‘ ان کے خلاف دلیل یہ ہے کہ حماد بن سلمہ نے اس روایت کو ہشام سے نقل کیا ہے۔ پس اس نے اس میں ایک حرف زائد کردیا جو کہ امام ابوحنیفہ (رح) کی موافقت پر دلالت کرتی ہے ۔
حل اشکال :
حماد بن سلمہ مشہور حفاظ حدیث سے ہیں انھوں نے یہ روایت ہشام سے اسی اضافہ کے ساتھ نقل کی ہے جو ابوحنیفہ (رح) کی روایت میں ہے۔

620

۶۲۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِیْثِ یُوْنُسَ، عَنِ ابْنِ وَہْبٍ، وَحَدِیْثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوٗدَ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَإِذَا ذَہَبَ قَدْرُہَا، فَاغْسِلِیْ عَنْکِ الدَّمَ، وَتَوَضَّئِیْ وَصَلِّیْ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِالْوُضُوْئِ مَعَ أَمْرِہٖ إِیَّاہَا بِالْغُسْلِ، فَذٰلِکَ الْوُضُوْئُ، ہُوَ الْوُضُوْئُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فَھٰذَا مَعْنٰی حَدِیْثِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَیْسَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عِنْدَکُمْ، فِیْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، بِدُوْنِ مَالِکٍ وَاللَّیْثِ وَعَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا صِحَّۃُ الرِّوَایَۃِ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ أَنَّہَا تَتَوَضَّأُ فِیْ حَالِ اسْتِحَاضَتِہَا لِوَقْتِ کُلِّ صَلَاۃٍ) .إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہٗ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ، لِنَعْلَمَ مَا الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُعْمَلَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ؟ فَکَانَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ، (أَنَّہٗ أَمَرَ أُمَّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتَ جَحْشٍ بِالْغُسْلِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ) .فَقَدْ ثَبَتَ نَسْخُ ذٰلِکَ، بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْفَصْلِ الثَّانِیْ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ، فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ عَنِ الْوَہْبِیِّ، فِیْ أَمْرِ (سَہْلَۃَ بِنْتِ سُہَیْلٍ، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَمَرَہَا بِالْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَلَمَّا أَجْہَدَہَا ذٰلِکَ أَمَرَہَا أَنْ تَجْمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِغُسْلٍ، وَبَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، بِغُسْلٍ، وَتَغْتَسِلُ لِلصُّبْحِ غُسْلًا) .فَکَانَ مَا أَمَرَہَا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ، نَاسِخًا لَمَا کَانَ أَمَرَہَا بِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ، مِنَ الْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ، کَیْفَ مَعْنَاہُ؟ فَإِذَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ، قَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْہِ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ الَّتِیْ اُسْتُحِیْضَتْ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاخْتُلِفَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِیْ ذٰلِکَ .فَرَوٰی الثَّوْرِیُّ عَنْہُ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِذٰلِکَ، وَأَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا .وَرَوَاہُ ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَیْضًا، عَنْ أَبِیْہِ، وَلَمْ یَذْکُرْ زَیْنَبَ، إِلَّا أَنَّہٗ وَافَقَ الثَّوْرِیَّ فِیْ مَعْنٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ، فَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الْجَمْعِ بَیْنَ کُلِّ صَلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ فِیْ أَیَّامِ الْاِسْتِحَاضَۃِ خَاصَّۃً .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ أَیَّامَ الْحَیْضِ، کَانَ مَوْضِعُہَا مَعْرُوْفًا .ثُمَّ جَائَ شُعْبَۃُ، فَرَوَاہُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَمَا رَوَاہُ الثَّوْرِیُّ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَیَّامَ الْأَقْرَائِ وَتَابَعَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ .فَلَمَّا رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ کَمَا ذَکَرْنَا، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ، کَشَفْنَاہُ، لِنَعْلَمَ مِنْ أَیْنَ جَائَ الِاخْتِلَافُ، فَکَانَ ذِکْرُ أَیَّامِ الْأَقْرَائِ فِیْ حَدِیْثِ الْقَاسِمِ عَنْ زَیْنَبَ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ عَائِشَۃَ، فَوَجَبَ أَنْ یَجْعَلَ رِوَایَتَہُ عَنْ زَیْنَبَ، غَیْرَ رِوَایَتِہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَکَانَ حَدِیْثُ زَیْنَبَ الَّذِیْ فِیْہِ ذِکْرُ الْأَقْرَائِ، حَدِیْثًا مُنْقَطِعًا لَا یَثْبُتُہُ أَہْلُ الْخَبَرِ لِأَنَّہُمْ لَا یَحْتَجُّوْنَ بِالْمُنْقَطِعِ وَإِنَّمَا جَائَ انْقِطَاعُہٗ، لِأَنَّ زَیْنَبَ لَمْ یُدْرِکْہَا الْقَاسِمُ وَلَمْ یُوْلَدْ فِیْ زَمَنِہَا، لِأَنَّہَا تُوُفِّیَتْ فِیْ عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَہِیَ أَوَّلُ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَاۃً بَعْدَہُ وَکَانَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ہُوَ الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ ذِکْرُ الْأَقْرَائِ، إِنَّمَا فِیْہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الْمُسْتَحَاضَۃَ أَنْ تَجْمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ) ، عَلٰی مَا فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ، وَلَمْ یُبَیِّنْ أَیُّ مُسْتَحَاضَۃٍ ہِیَ؟ فَقَدْ وَجَدْنَا اسْتِحَاضَۃً قَدْ تَکُوْنُ عَلٰی مَعَانِیْ مُخْتَلِفَۃٍ .فَمِنْہَا أَنْ یَکُوْنَ مُسْتَحَاضَۃً، قَدِ اسْتَمَرَّ بِہَا الدَّمُ، وَأَیَّامُ حَیْضِہَا مَعْرُوْفَۃٌ لَہَا .فَسَبِیْلُہَا أَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ حَیْضِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلَ وَتَتَوَضَّأَ بَعْدَ ذٰلِکَ .وَمِنْہَا أَنْ یَکُوْنَ مُسْتَحَاضَۃً، لِأَنَّ دَمَہَا قَدِ اسْتَمَرَّ بِہَا، فَلَا یَنْقَطِعُ عَنْہَا، وَأَیَّامُ حَیْضِہَا قَدْ خَفِیَتْ عَلَیْہَا .فَسَبِیْلُہَا أَنْ تَغْتَسِلَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، لِأَنَّہَا لَا یَأْتِیْ عَلَیْہَا وَقْتٌ إِلَّا احْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ فِیْہِ حَائِضًا أَوْ طَاہِرًا مِنْ حَیْضٍ أَوْ مُسْتَحَاضَۃً، فَیُحْتَاطُ لَہَا فَتُؤْمَرُ بِالْغُسْلِ.وَمِنْہَا أَنْ تَکُوْنَ مُسْتَحَاضَۃٌ، قَدْ خَفِیَتْ عَلَیْہَا أَیَّامَ حَیْضِہَا، وَدَمُہَا غَیْرُ مُسْتَمِرٍّ بِہَا، یَنْقَطِعُ سَاعَۃً، وَیَعُوْدُ بَعْدَ ذٰلِکَ ھٰکَذَا ہِیَ فِیْ أَیَّامِہَا کُلِّہَا .فَتَکُوْنُ قَدْ أَحَاطَ عِلْمُہَا أَنَّہَا فِیْ وَقْتِ انْقِطَاعِ دَمِہَا، اِذَا اغْتَسَلَتْ حِیْنَئِذٍ، غَیْرُ طَاہِرٍ مِنْ حَیْضٍ، طُہْرًا یُوْجِبُ عَلَیْہَا غُسْلًا .فَلَہَا أَنْ تُصَلِّیَ فِیْ حَالِہَا تِلْکَ مَا أَرَادَتْ مِنَ الصَّلَوَاتِ بِذٰلِکَ الْغُسْلِ إِنْ أَمْکَنَہَا ذٰلِکَ .فَلَمَّا وَجَدْنَا الْمَرْأَۃَ قَدْ تَکُوْنُ مُسْتَحَاضَۃً بِکُلِّ وَجْہٍ مِنْ ھٰذِہِ الْوُجُوْہِ، الَّتِیْ مَعَانِیْہَا مُخْتَلِفَۃٌ، وَأَحْکَامُہَا مُخْتَلِفَۃٌ، وَاسْمُ الْمُسْتَحَاضَۃِ یَجْمَعُہَا وَلَمْ نَجِدْ فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ذٰلِکَ، بَیَانُ اسْتِحَاضَۃِ تِلْکَ الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہَا بِمَا ذَکَرْنَا، أَیُّ مُسْتَحَاضَۃٍ ہِیَ؟ لَمْ یَجُزْ لَنَا أَنْ نَحْمِلَ ذٰلِکَ عَلٰی وَجْہٍ مِنْ ھٰذِہِ الْوُجُوْہِ، دُوْنَ غَیْرِہٖ، إِلَّا بِدَلِیْلٍ یَدُلُّنَا عَلٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ دَلِیْلًا؟
٦٢٠: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی جیسا یونس عن ابن وہب اور جیسا حدیث محمد بن علی عن سلیمان بن داؤد نقل کی ہے صرف اتنا الفاظ کا فرق ہے : فاذا ذہب قدرھا فاغسلی عنک الدم وتوضئی و صلی۔ ہم نے جو ذکر کیا اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستحاضہ کے متعلق اس روایت کی صحت ثابت ہوگئی کہ وہ استحاضہ کی حالت میں ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ مگر اس باب میں جو روایات شروع میں مذکور ہوئیں وہ بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس سے متعلق غور و فکر کے تقاضے کو سامنے لائیں تاکہ ہمارے سامنے یہ ظاہر ہوجائے کہ کس پر عمل کرنا مناسب ہے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس باب کی ابتداء میں جو امّ حبیبہ (رض) بنت جحش کو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت غسل کرو۔ پس اس کا نسخ تو اس باب کی فصل دوم میں منقولہ روایات جو ابن ابی داؤد نے سہلہ بنت سہل (رض) سے نقل کی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا جب اس بات نے ان کو تھکا دیا تو اس کو حکم دیا کہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ایک غسل سے اور نماز صبح کے لیے مستقل غسل کرے پس آپ نے اس کو جو حکم فرمایا اس سے پہلے والا حکم منسوخ ہوگیا یعنی ہر نماز کے لیے غسل۔ پس ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ کی روایات پر ہم نظر ڈالیں کہ ان کا مفہوم کیا ہے ؟ چنانچہ عبدالرحمن بن قاسم نے اس مستحاضہ کے متعلق روایت نقل کی جس کو استحاضہ کی تکلیف زمانہ نبوت میں پیش آئی اور عبدالرحمن سے اس سلسلہ میں روایات مختلف ہیں۔ چنانچہ ثوری نے زینب بنت جحش (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس بات کا حکم دیا کہ ایّام حیض میں نماز کو چھوڑ دے۔ اسے ابن عیینہ نے عبدالرحمن سے اپنے والد کی وساطت سے ذکر کیا اور اس نے زینب کا تذکرہ نہیں کیا البتہ مفہوم حدیث میں ثوری کی موافقت کی ہے اور وہ ایّام استحاضہ میں دو نمازوں کو ایک غسل سے جمع کر کے ادا کرنا ہے پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان کے ایّام حیض معروف و مشہور تھے۔ پھر شعبہ نے قاسم کی وساطت کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت کی جیسا کہ ثوری و ابن عیینہ نے کی البتہ اس نے ایّام حیض کا تذکرہ نہیں کیا اور ابن اسحق نے بھی اسی طرح روایت کی۔ جب یہ روایت اس مذکور طریق سے وارد ہے جس کا حاصل اختلاف ہے اب ہم اس کو مقام اختلاف جاننے کے لیے جانچتے ہیں ‘ ملاحظہ ہو۔ قاسم نے زینب (رض) سے جو روایت کی ہے اس میں ایّام حیض کا تذکرہ ہے مگر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں۔ پس ضروری ہوگیا کہ اس کی زینب (رض) والی روایت کو اس کی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت سے الگ جانا جائے ‘ پھر زینب (رض) والی روایت جس میں ایّام حیض کا تذکرہ ہے تو وہ منقطع روایت ہے اسے اہل اصول ثابت نہیں مانتے کیونکہ وہ منقطع کو قابل حجت قرار نہیں دیتے اور انقطاع کا موقع یہ ہے کہ قاسم کی زینب سے ملاقات ثابت نہیں بلکہ قاسم کی ولادت بھی اس کی وفات کے بعد ہوئی کیونکہ اس کی وفات خلافت فاروقی میں ہوئی اور ازواج مطہرات (رض) میں یہ پہلی زوجہ محترمہ ہیں جنہوں نے آپ کے بعد وفات پائی اور روایت عائشہ صدیقہ (رض) میں ایّام حیض کا تذکرہ نہیں اس میں یہ ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ کو حکم فرمایا کہ وہ دو نمازوں کو ایک غسل سے جمع کر کے پڑھے اور اس روایت میں یہ واضح نہیں کہ اس سے کونسی مستحاضہ مراد ہے اس لیے کہ تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ مستحاضہ کئی قسم ہیں : ! بعض مستحاضہ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا خون دائمی جاری رہتا ہے اور ان کے ایّام حیض معلوم و معروف ہوتے ہیں۔ پس ان کے لیے تو مسئلہ آسان ہے کہ ایّام حیض میں نماز کو ترک کر دے ‘ غسل کرلے اور پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ " بعض مستحاضہ کا خون منقطع نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے مگر اس کے ایّام حیض اسے معلوم نہیں پس اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے گی کیونکہ اس کے ہر وقت میں یہ احتمال ہے کہ وہ اس میں حائضہ ہو یا حیض سے پاک ہو یا مستحاضہ ہو۔ پس اس کے متعلق احتیاط سے کام لیا جائے گا اور اسے غسل کا حکم دیا جائے گا۔#بعض مستحاضہ وہ ہیں جن پر ان کے ایّام حیض تو مخفی ہوتے ہیں مگر ان کا خون دائمی نہیں بلکہ کبھی تو منقطع ہوتا ہے اور کبھی لوٹ آتا ہے۔ وہ تمام اوقات میں یہ اپنے طور پر جانتی ہیں کہ اس کا خون ابھی منقطع ہوگا۔ جب وہ غسل کرتی ہے تو اس وقت وہ حیض سے پاکیزگی والے طہر کی طرح پاک نہیں ہوتی کہ جس طہر کی بناء پر اس پر غسل کو لازم کیا جائے۔ پس اس کے لیے صورت یہ ہوگی کہ اسے اپنی اس حالت میں نماز ادا کرنی ہوگی۔ اسی غسل سے جس قدر نمازیں وہ ادا کرنا چاہتی ہے اگر اسے یہ ممکن ہو۔ جب ہم نے دیکھا عورت بعض اوقات ہر اعتبار سے مستحاضہ ہوتی ہے جبکہ ہر صورت کا حکم الگ الگ ہے اور اس کے احکام بھی مختلف ہیں اور مستحاضہ کا نام سب کو شامل ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں اس عورت کے استحاضہ کی وضاحت بھی نہیں کہ جس کے بارے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ حکم دیا جس کا ہم نے تذکرہ کیا کہ وہ کونسی مستحاضہ ہے۔ پس ہمارے لیے یہ درست نہیں کہ ہم ان اقسام میں سے کسی ایک پر دوسرے کو چھوڑ کر اس کو محمول کرسکیں۔ جب تک کہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔ پس ہم نے اس سلسلے میں غور و فکر کی کہ آیا اس کی کوئی دلیل میسر ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ دلیل پا لی۔
پس اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو وضو کا حکم دینے کے ساتھ غسل کا حکم فرمایا اور یہ وہی وضو ہے جو ہر نماز کے لیے اور غسل سے وہی غسل ہے جو ایام حیض کی مقدار گزرنے پر ہوگا اور ابوحنیفہ (رح) کی روایت کا بھی یہی معنی ہے اور حماد بن سلمہ کا مرتبہ تمہارے ہاں مالک (رح) و لیث (رح) و عمرو (رح) بن الحارث سے کم نہیں ہے۔
حاصل روایات :
آٹھ روایات سے یہ بات مشترک طور پر ثابت ہوگئی کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے گی۔
فریق سوم کی طرف سے فریقین کو جوابات :
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شروع باب کی روایات جو فریق نمبر اوّل و ثانی نے پیش کی ہیں اور فریق ثالث کی روایات ان میں سے کس پر کیوں کر عمل ہو۔ چنانچہ پہلی روایات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا اور اس کی تنسیخ سہلہ بنت سہیل والی روایت سے ثابت ہوچکی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ان کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا اور جب ان پر گراں گزرا تو اس حکم کو منسوخ فرما کر دو نمازوں کے لیے ایک غسل کا حکم فرمایا کل پانچوں نمازوں کے لیے تین غسل کا حکم فرمایا پس آپ کا یہ حکم پہلے کے لیے ناسخ تھا۔
اب اس روایت کا حال ملاحظہ ہو جو جمع بین الصلاتین میں پیش کی جاتی ہے اس کا مدار عبدالرحمن بن قاسم پر ہے۔
نمبر ١: کبھی وہ اپنے والد سے اس طرح بیان کرتے ہیں یہ اس مستحاضہ عورت کے متعلق ہے جو عہد نبوت میں استحاضہ میں مبتلا ہوئی۔
نمبر ١: ان کے شاگرد ثوری نے ان سے روایت کرتے ہوئے اس کو زینب بنت جحش قرار دیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حیض کے دنوں میں نماز چھوڑنے کا حکم دیا۔
نمبر ٢: سفیان بن عیینہ نے انہی سے روایت کرتے ہوئے زینب کا ذکر نہیں کیا مگر بقیہ متن حدیث میں ثوری جیسی روایت نقل کی اور وہ ایک غسل میں دو نمازوں کا ایام استحاضہ میں جمع کرنا ہے معلوم ہوا کہ یہ کوئی ایسی عورت تھی جس کے ایام حیض مقرر تھے۔
نمبر ٣: شعبہ نے اس کو ثوری کی طرح حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا البتہ ایام حیض کا انھوں نے تذکرہ نہیں کیا۔
نمبر ٤: مگر محمد بن اسحاق نے اس روایت کو متابعت شعبہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا مگر مستحاضہ سہلہ بنت سہل کا ذکر کیا۔
نمبر ٥: جب اس حدیث کے متن میں اس قدر اختلاف ہوا تو اب ہمیں تلاش کرنا ہے کہ یہ اختلاف کہاں سے آیا پس غور سے معلوم ہوا کہ ایام حیض کا ذکر حدیث قاسم عن زینب میں تو موجود ہے مگر قاسم عن عائشہ میں نہیں ہے تو ضروری ہے کہ ان روایتوں کو دو قرار دیا جائے پس حدیث زینب جس میں ایام حیض کا تذکرہ ہے وہ حدیث منقطع ہے منقطع قابل حجت نہیں انقطاع کی وجہ یہ ہے کہ قاسم کی زینب سے ملاقات نہیں ہوئی بلکہ ان کی وفات زمانہ عمر بن خطاب (رض) میں ہوئی یہ آپ کی پہلی زوجہ محترمہ ہیں جن کی وفات آپ کے بعد ہوئی اور قاسم اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے تھے پس یہ فریق ثالث کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔
اب حدیث عائشہ (رض) اس میں ایام حیض کا تذکرہ نہیں اس میں یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ کو حکم فرمایا کہ وہ ایک غسل میں دو نمازیں پڑھ لیں مگر اس میں یہ مذکور نہیں کہ وہ مستحاضہ کون ہے ؟
ہم نے استحاضہ کو مختلف حالتوں میں پایا۔
نمبر ١: مستحاضہ کا خون تو دائمی ہو مگر ایام حیض معین ہوں اس کا حکم یہ ہے کہ ایام حیض میں نماز چھوڑ دے پھر ایّام گزرنے پر غسل کرلے اور آئندہ ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔
نمبر ٢: مستحاضہ کا دم تو دائمی ہے مگر ایام حیض بھی نامعلوم ہیں تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے کیونکہ اس کے ہر وقت میں طہر اور دم حیض کا احتمال یا استحاضہ کا احتمال ہے پس احتیاطاً ہر نماز کے لیے غسل کا حکم ہوگا۔
نمبر ٣: مستحاضہ کے ایام حیض نامعلوم ہوں مگر خون مستمر نہ ہو بلکہ منقطع ہو چل پڑتا ہو پھر لوٹ آتا ہو اب اس عورت کو اس قدر علم تو ہے کہ کب اس کا خون تھوڑی دیر کے لیے بند ہوتا ہے جب وہ اس وقت غسل کرے تو وہ حیض سے پاک ہونے والی تو نہیں کہ اس پر غسل کو لازم کیا جائے اب اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اسی حالت میں نماز پڑھے اور اسی غسل سے جتنی ممکن ہو نمازیں ادا کرے۔
جب غور کیا تو مستحاضہ کے لفظ کو سب میں مشترک پایا مگر انواع و احکام کے لحاظ سے ان کو مختلف پایا تو اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیث عائشہ (رض) میں متعین طور پر ان میں سے کون سی مستحاضہ مراد ہے اب اس تعیین کے لیے مزید دلیل کی ضرورت ہے۔

621

۶۲۱ : فَإِذَا بَکْرُ بْنُ إدْرِیْسَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا آدَمُ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَیْسَرَۃَ وَالْمُجَالِدُ بْنُ سَعِیْدٍ وَبَیَانٌ، قَالُوْا : سَمِعْنَا عَامِرَ الشَّعْبِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ قُمَیْرٍ، امْرَأَۃَ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ : تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ حَیْضِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ غُسْلًا وَاحِدًا، وَتَتَوَضَّأُ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ .
٦٢١: عامر شعبی نے قمیر مسروق کی بیوی سے روایت کی اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ انھوں نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا وہ ایام حیض میں نماز ترک کر دے پھر ایک غسل کرے اور آئندہ ہر نماز کیلئے وضو کرتی رہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١١١‘ ٩٩٢۔

622

۶۲۲ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ فِرَاسٍ وَبَیَانٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِہَا الَّذِیْ أَفْتَتْ بِہٖ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ حُکْمِ الْمُسْتَحَاضَۃِ أَنَّہَا تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَمَا ذَکَرْنَا أَنَّہَا تَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ، وَمَا ذَکَرْنَا أَنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ کُلُّہُٗ عَنْہَا - ثَبَتَ بِجَوَابِہَا ذٰلِکَ، أَنَّ ذٰلِکَ الْحُکْمَ ہُوَ النَّاسِخُ لِلْحُکْمَیْنِ الْآخَرَیْنِ لِأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ - عِنْدَنَا - عَلَیْہَا أَنْ تَدَعَ النَّاسِخَ، وَتُفْتِیَ بِالْمَنْسُوْخِ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ، لَسَقَطَتْ رِوَایَتُہَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ ھٰذَا ہُوَ النَّاسِخُ لِمَا ذَکَرْنَا، وَجَبَ الْقَوْلُ بِہٖ، وَلَمْ یَجُزْ خِلَافُہَا .ھٰذَا وَجْہٌ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَعَانِی ھٰذِہِ الْآثَارِ عَلَیْہِ .وَقَدْ یَجُوْزُ فِیْ ھٰذَا وَجْہٌ آخَرُ، یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ فَاطِمَۃَ ابْنَۃِ أَبِیْ حُبَیْشٍ لَا یُخَالِفُ مَا رُوِیَ عَنْہُ، فِیْ أَمْرِ سَہْلَۃَ ابْنَۃِ سُہَیْلٍ لِأَنَّ فَاطِمَۃَ ابْنَۃَ أَبِیْ حُبَیْشٍ، کَانَتْ أَیَّامُہَا مَعْرُوْفَۃً، وَسَہْلَۃَ کَانَتْ أَیَّامُہَا مَجْہُوْلَۃً إِلَّا أَنَّ دَمَہَا یَنْقَطِعُ فِیْ أَوْقَاتٍ، وَیَعُوْدُ فِیْ أَوْقَاتٍ وَہِیَ قَدْ أَحَاطَ عِلْمُہَا أَنَّہَا لَمْ تَخْرُجْ مِنَ الْحَیْضِ بَعْدَ غُسْلِہَا إِلٰی أَنْ صَلَّتِ الصَّلَاتَیْنِ جَمِیْعًا .فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، فَإِنَّا نَقُوْلُ بِالْحَدِیْثَیْنِ جَمِیْعًا، فَنَجْعَلُ حُکْمَ حَدِیْثِ فَاطِمَۃَ عَلٰی مَا صَرَفْنَاہُ إِلَیْہِ، وَنَجْعَلُ حُکْمَ حَدِیْثِ سَہْلَۃَ، عَلٰی مَا صَرَفْنَاہُ أَیْضًا إِلَیْہِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَقَدْ رُوِیَ مُخْتَلِفًا .فَبَعْضُہُمْ یَذْکُرُ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِالْغُسْلِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ، وَلَمْ یَذْکُرْ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا) .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَہَا بِذٰلِکَ، لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ الْمَائُ عِلَاجًا لَہَا، لِأَنَّہَا تُقَلِّصُ الدَّمَ فِی الرَّحِمِ، فَلَا یَسِیْلُ .وَبَعْضُہُمْ یَرْوِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا أَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ الْعِلَاجَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ مَا ذَکَرْنَا فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا، لِأَنَّ دَمَہَا سَائِلٌ دَائِمُ السَّیَلَانِ، فَلَیْسَتْ صَلَاۃٌ إِلَّا یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ عِنْدَہَا طَاہِرًا مِنْ حَیْضٍ لَیْسَ لَہَا أَنْ تُصَلِّیَہَا إِلَّا بَعْدَ الْاِغْتِسَالِ، فَأَمَرَہَا بِالْغُسْلِ لِذٰلِکَ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا ہُوَ مَعْنٰی حَدِیْثِہَا، فَإِنَّا کَذٰلِکَ - نَقُوْلُ أَیْضًا فِیْمَنِ اسْتَمَرَّ بِہَا الدَّمُ، وَلَمْ تَعْرِفْ أَیَّامَہَا .فَلَمَّا احْتَمَلَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ مَا ذَکَرْنَا وَرَوَیْنَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ قَوْلِہَا بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا وَصَفْنَا ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ حُکْمُ الْمُسْتَحَاضَۃِ، الَّتِیْ لَا تَعْرِفُ أَیَّامَہَا، وَثَبَتَ أَنَّ مَا خَالَفَ ذٰلِکَ، مِمَّا رُوِیَ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مُسْتَحَاضَۃٍ، اسْتِحَاضَتُہَا، غَیْرُ اسْتِحَاضَۃِ ھٰذِہِ، أَوْ فِیْ مُسْتَحَاضَۃٍ، اسْتِحَاضَتُہَا مِثْلُ اسْتِحَاضَۃِ ھٰذِہِ .إِلَّا أَنَّ ذٰلِکَ - عَلٰی أَیِّ الْمَعَانِیْ کَانَ - فَمَا رُوِیَ فِیْ أَمْرِ فَاطِمَۃَ ابْنَۃِ أَبِیْ حُبَیْشٍ، أَوْلٰی لِأَنَّ مَعَہُ الْاِخْتِیَارَ مِنْ عَائِشَۃَ لَہٗ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ عَلِمَتْ مَا خَالَفَہُ، وَمَا وَافَقَہٗ مِنْ قَوْلِہٖ .وَکَذٰلِکَ أَیْضًا مَا رَوَیْنَاہُ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ أَنَّہَا تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ وَمَا رَوَیْنَاہُ عَنْہُ أَنَّہَا تَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ وَمَا رَوَیْنَاہُ عَنْہُ أَنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ إِنَّمَا اخْتَلَفَتْ أَقْوَالُہٗ فِیْ ذٰلِکَ لِاخْتِلَافِ الْاِسْتِحَاضَۃِ الَّتِیْ أَفْتٰی فِیْہَا بِذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رَوَوْا عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِی اغْتِسَالِہَا لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فَوَجْہُ ذٰلِکَ عِنْدَنَا أَنَّہَا کَانَتْ تَتَعَالَجُ بِہٖ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ، وَہِیَ الَّتِیْ یُحْتَجُّ بِہَا فِیْہِ .ثُمَّ اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّہَا تَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ تَتَوَضَّأُ لِوَقْتِ کُلِّ صَلَاۃٍ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَزُفَرَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ تَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَلَا یَعْرِفُوْنَ ذِکْرَ الْوَقْتِ فِیْ ذٰلِکَ .فَأَرَدْنَا نَحْنُ أَنْ نَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَرَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہَا اِذَا تَوَضَّأَتْ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ، فَلَمْ تُصَلِّ حَتّٰی خَرَجَ الْوَقْتُ، فَأَرَادَتْ أَنْ تُصَلِّیَ بِذٰلِکَ الْوُضُوْئِ - أَنَّہٗ لَیْسَ ذٰلِکَ لَہَا حَتَّی تَتَوَضَّأَ وُضُوْئً ا جَدِیْدًا .وَرَأَیْنَاہَا لَوْ تَوَضَّأَتْ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ فَصَلَّتْ، ثُمَّ أَرَادَتْ أَنْ تَتَطَوَّعَ بِذٰلِکَ الْوُضُوْئِ کَانَ ذٰلِکَ لَہَا مَا دَامَتْ فِی الْوَقْتِ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ الَّذِیْ یَنْقُضُ تَطَہُّرَہَا ہُوَ خُرُوْجُ الْوَقْتِ، وَأَنَّ وُضُوْئَ ہَا یُوْجِبُہُ الْوَقْتُ لَا الصَّلَاۃُ، وَقَدْ رَأَیْنَاہَا لَوْ فَاتَتْہَا صَلَوَاتٌ، فَأَرَادَتْ أَنْ تَقْضِیَہُنَّ کَانَ لَہَا أَنْ تَجْمَعَہُنَّ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ وَاحِدَۃٍ بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ .فَلَوْ کَانَ الْوُضُوْئُ یَجِبُ عَلَیْہِمَا لِکُلِّ صَلَاۃٍ، لَکَانَ یَجِبُ أَنْ تَتَوَضَّأَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ الْفَائِتَاتِ .فَلَمَّا کَانَتْ تُصَلِّیْہِنَّ جَمِیْعًا بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوُضُوْئَ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْہَا، ہُوَ لِغَیْرِ الصَّلَاۃِ، وَہُوَ الْوَقْتُ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی، أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الطَّہَارَاتِ تَنْتَقِضُ بِأَحْدَاثٍ، مِنْہَا الْغَائِطُ، وَالْبَوْلُ .وَطَہَارَاتٍ تَنْتَقِضُ بِخُرُوْجِ أَوْقَاتٍ، وَہِیَ الطَّہَارَۃُ بِالْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ، یَنْقُضُہَا خُرُوْجُ وَقْتِ الْمُسَافِرِ وَخُرُوْجُ وَقْتِ الْمُقِیْمِ .وَھٰذِہِ الطَّہَارَاتُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہَا، لَمْ نَجِدْ فِیْمَا یَنْقُضُہَا صَلَاۃً، إِنَّمَا یَنْقُضُہَا حَدَثٌ، أَوْ خُرُوْجُ وَقْتٍ .وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ طَہَارَۃَ الْمُسْتَحَاضَۃِ، طَہَارَۃٌ یَنْقُضُہَا الْحَدَثُ وَغَیْرُ الْحَدَثِ .فَقَالَ قَوْمٌ : ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ غَیْرُ الْحَدَثِ، ہُوَ خُرُوْجُ الْوَقْتِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہُوَ فَرَاغٌ مِنْ صَلَاۃٍ، وَلَمْ نَجِدَ الْفَرَاغَ مِنَ الصَّلَاۃِ حَدَثًا فِیْ شَیْئٍ غَیْرَ ذٰلِکَ، وَقَدْ وَجَدْنَا خُرُوْجَ الْوَقْتِ حَدَثًا فِیْ غَیْرِہٖ .فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ أَنْ نَرْجِعَ فِیْ ھٰذَا الْحَدَثِ الْمُخْتَلَفِ فِیْہِ، فَنَجْعَلَہٗ کَالْحَدَثِ الَّذِیْ قَدْ أُجْمِعَ عَلَیْہِ وَوُجِدَ لَہٗ أَصْلٌ وَلَا نَجْعَلَہُ کَمَا لَمْ یُجْمَعْ عَلَیْہِ، وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ أَصْلًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّہَا تَتَوَضَّأُ لِکُلِّ وَقْتِ صَلَاۃٍ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔
٦٢٢: سفیان نے فراس وبیان سے ‘ وہ شعبی سے اور شعبی نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ پس جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے وہ روایت وارد ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حکم مستحاضہ کے متعلق وہ یہی فتویٰ دیتی تھیں کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے اور وہ جو ہم نے بیان کیا کہ وہ دو نمازوں کو ایک غسل کے ساتھ جمع کرے اور اسی طرح جو ہم نے بیان کیا کہ ایّام حیض میں اپنی نماز چھوڑ دے۔ پھر غسل کر کے ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ یہ تمام تر باتیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہیں تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے جواب سے ثابت ہوا کہ یہ آخری حکم پہلے دو حکموں کو منسوخ کرنے والا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ ناسخ کو چھوڑ کر منسوخ پر فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ اگر یہ بات تسلیم نہ کی جائے تو ان کی روایت ساقط ہوجائے گی۔ پس جب اس بنیاد پر جو ہم نے ذکر کی اس کا ناسخ ہونا ثابت ہوگیا۔ تو اب اس کو اختیار کرنا ضروری ہوا اور اس کی مخالفت جائز نہ رہی۔ یہ وہ صورت ہے جس سے ان آثار کے معانی درست ہوسکتے ہیں اور اس میں ایک اور صورت بھی بن سکتی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ فاطمہ بنت حبیش نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے وہ حضرت سہلہ کی روایت کے خلاف نہیں کیونکہ فاطمہ کے ایّام حیض معروف تھے اور سہلہ کے ایّام نامعلوم تھے البتہ اتنا فرق ضرور تھا کہ سہلہ کا خون کسی وقت منقطع ہوجاتا اور پھر کسی وقت جاری ہوجاتا۔ اس لیے ان کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ وہ غسل کے بعد بھی حیض سے فارغ نہیں ہوئیں۔ چہ جائیکہ وہ اس سے دو نمازیں پڑھیں۔ اگر یہ بات اسی طرح ہے تو ہم ان دونوں روایات کے بارے میں یہ عرض کرسکتے ہیں کہ حضرت فاطمہ والی روایت کا حکم اسی قسم پر لگے گا کہ جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ یعنی ایسی عورت جس کے ایّام حیض معلوم ہوں اور سہلہ والی روایت کا رخ اس طرف پھیرا جائے جو ہم نے ذکر کیا یعنی جس عورت کے ایّام معلوم نہ ہو سکیں۔ اب رہی وہ روایت جس کو حضرت امّ حبیبہ (رض) نے روایت کیا ہے تو وہ روایت بھی مختلف روات نے مختلف نقل کی ہے۔ چنانچہ بعض نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امّ حبیبہ (رض) کو ہر نماز کے وقت غسل کا حکم دیا۔ مگر اس میں ان کے ایّام حیض کا تذکرہ موجود نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نے امّ حبیبہ (رض) کو یہ حکم پانی کے ذریعہ معالجہ کی خاطر دیا ہو کیونکہ پانی رحم کے اندر خون کو روک دیتا ہے اور وہ بہنا بند ہوجاتا ہے۔ بعض دوسرے روات حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو یہ حکم فرمایا کہ وہ اپنے ایّام حیض میں نماز کو چھوڑ دے اور پھر ہر نماز کے لیے غسل کرتی رہیں۔ اگر یہ روایت اسی طرح مان لی جائے تو عین ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ذریعے ان کے علاج کا ارادہ فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہی ہو جو ہم گزشتہ فصل میں ذکر کرچکے ہیں کیونکہ ان کا خون تو ہر وقت بہتا تھا۔ پس کوئی نماز بھی ایسی نہیں تھی کہ جس کے بارے میں یہ احتمال نہ ہو کہ اس میں حیض سے وہ پاک ہیں۔ پس اس کے لیے یہی مناسب تھا کہ وہ غسل کے بعد اس کو ادا کرے۔ اس لیے آپ نے اس کو غسل کا حکم فرمایا۔ پس اگر ان کی روایت کا یہی مطلب ہو تو ہم یہی بات ان سب عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں جن کا خون جاری رہتا ہو اور ان کے ایّام معلوم نہ ہوں۔ جب ان روایات میں یہ احتمالات موجود ہیں جو ہم نے بیان کردیئے اور ہم نے یہ بھی ذکر کردیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ فتویٰ دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مستحاضہ کا حکم یہی ہے کہ جس کے ایّام معلوم نہ ہوں اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی اس کے برعکس جو کچھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستحاضہ کے بارے میں مروی ہے تو اس کے استحاضہ کی ‘ اس سے الگ صورت مراد ہے یا اس کا استحاضہ اسی استحاضہ کی طرح ہے مگر یہ کہ کونسا معنی مراد ہے۔ آیا جو فاطمہ بنت حبیش کے معاملے میں مروی ہے تو وہ اولیٰ ہے کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے اسی کو اختیار فرمایا حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کونسا قول اس کے موافق یا مخالف ہے۔ اسی طرح جو ہم نے مستحاضہ کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے اور وہ جو ہم نے انہی سے روایت نقل کی ہے کہ وہ دو نمازوں کو ایک غسل کے ساتھ جمع کرے اور وہ جو انہی سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ حیض کے دنوں میں نمازوں کو ترک کر دے پھر غسل کر کے ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے حضرت علی (رض) کے اقوال مستحاضہ عورتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے فتویٰ میں مختلف ہیں۔ رہی وہ روایت جو حضرت امّ حبیبہ (رض) سے مروی ہے کہ ہر نماز کے وقت غسل کرے تو ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بطور علاج کے آپ نے فرمایا تھا۔ یہ تو اس باب کا حکم ان آثار کو سامنے رکھ کر تھا جن کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے ‘ پھر اس میں دوسرا اختلاف ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے جبکہ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ زفر ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا ہے۔ علماء کی ایک اور جماعت نے یہ کہا ہے کہ ہر نماز کے لیے وہ عورت وضو کرے اس سلسلے میں وہ وقتی ذکر کو نہیں پہچانتے۔ پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے صحیح قول کو ظاہر کریں۔ چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر اس عورت نے نماز کے وقت میں وضو کیا مگر نماز ادا نہ کی۔ یہاں تک کہ اس کا وقت جاتا رہا۔ اب اس نے اسی وضو سے نماز پڑھنا چاہی تو اس کے لیے یہ جائز نہیں جب تک کہ وہ نیا وضو نہ کرے اور ہم یہ بات بھی پاتے ہیں کہ اگر اس نے نماز کے وقت میں وضو کرلیا پھر نماز ادا کی پھر اسی وضو سے نفل پڑھنا چاہے تو جب تک وقت ہے اس کو نوافل کی ادائیگی جائز ہے جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس چیز نے اس کی طہارت کو زائل کیا ہے وہ وقت کا نکلنا ہے اور اس کا وضو اس کو وقت لازم کرتا ہے ‘ نماز نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر اس کی کئی نمازیں فوت ہوجائیں اور اس کا ارادہ یہ ہوا کہ وہ ان کی قضا کرلے تو اس کو ایک نماز کے وقت میں ان تمام نمازوں کا ایک وضو سے جمع کرنا جائز ہے۔ اگر اس پر ہر نماز کے لیے وضو لازم ہوتا تو پھر ضروری تھا کہ ہر فوت شدہ نماز کے لیے وہ وضو کرتی۔ پس جب ان سب کی ادائیگی ایک وضو سے ہوگئی تو اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ وہ وضو جو اس پر لازم ہوا وہ نماز کے لیے نہیں بلکہ وقت کے لیے ہے۔ دوسری دلیل ملاحظہ ہو : ہم یہ بات بھی پاتے ہیں کہ طہارتیں حدث سے ٹوٹ جاتی ہیں اور احداث یہ ہیں : بول و برواز اور بعض طہارتیں ایسی ہیں جو وقت کے نکلنے سے ٹوٹتی ہیں ‘ وہ موزوں پر مسح کی طہارت ہے کہ مسافر یا مقیم کے لیے وقت کا نکلنا طہارت مسح کو باطل کردیتا ہے ‘ ان طہارتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے۔ ان طہارتوں کو توڑنے والی چیزوں میں ہم نماز کو نہیں پاتے بلکہ صرف حدث یا وقت کے نکل جانے کو پاتے ہیں اور یہ بات تو ثابت ہوچکی کہ مستحاضہ کی طہارت ایسی طہارت ہے جو حدث اور غیر حدث دونوں سے ٹوٹتی ہے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ غیر حدث جس سے یہ ٹوٹ جاتی ہے وہ وقت کا نکل جانا ہے جبکہ دوسروں نے یہ کہا کہ وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے مگر ہم نماز سے فارغ ہونے کو اس کے علاوہ اور کسی چیز میں حدث نہیں پاتے۔ جبکہ وقت کے نکلنے کو اور کئی چیزوں میں حدث تسلیم کیا گیا ہے۔ پس اس میں بہتر یہی ہے کہ ہم اس حدث میں بھی اسی طرح رجوع کریں اور اس کو ایسا حدث بنائیں جس پر سب کا اتفاق ہے اور اس کی اصل پائی جاتی ہو اور اس کو ایسا حدث نہ بنائیں جس پر اتفاق نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی اصل ہے۔ پس اس سے ان علماء کا قول ثابت ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت نماز کے لیے وضو کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
فیصلہ :
اب جب حضرت عائشہ (رض) نے وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مستحاضہ کے سلسلہ میں یہ فتویٰ دیا کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے تو اب سابقہ روایات کہ مستحاضہ ہر نماز کے لیے غسل کرے اور یہ روایت کہ دو نمازیں ایک غسل سے پڑھے اور یہ روایت کہ وہ ایام حیض میں نماز چھوڑ دے پھر غسل کرے اور ہر نماز کے لیے غسل کرے یہ تمام روایات انہی سے مروی ہیں ان کے اس فتویٰ نے ثابت کردیا کہ پہلی دونوں روایات منسوخ ہیں اور ناسخ کے ہوتے ہوئے منسوخ پر عمل درست نہیں وہ اگر ناسخ کو چھوڑ کر منسوخ کا فتویٰ دیتیں تو ان کی روایات ہی ساقط ہوجاتیں پس جب ناسخ ہونا ظاہر ہوگیا اس پر فتویٰ لازم اور اس کی مخالفت جائز نہیں یہ روایات پر عمل کی بہترین صورت ہے۔
ایک دوسری صورت :
بھی ہوسکتی ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش والی روایت کو اس پر محمول کریں کہ وہ معتادہ تھیں اس لیے وضو لکل صلوۃ کا حکم فرمایا اور سہلہ بنت سہیل کے ایام حیض نامعلوم اور خون کبھی بند ہوتا اور کبھی جاری ہوتا اس لیے ان کو دو نمازوں کو ایک غسل سے پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جب محمل الگ الگ ہوئے تو تضاد نہ رہا۔
روایت ام حبیبہ (رض) کا جواب : توجیہ اوّل :
اس روایت کو مختلف وجوہ سے بیان کیا گیا ہے۔
بعض نے حضرت عائشہ (رض) کے واسطہ سے ذکر کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا اور ایام حیض کا اس میں تذکرہ نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ حکم غسل ان کے لیے بطور علاج ہو کیونکہ پانی اپنی ٹھنڈک سے رحم کے خون کو بند کرتا ہے اور اس کا قرینہ ان کا ٹب میں بیٹھ کر کافی دیر نہانے والی روایت ہے۔
نمبر ٢: بعض نے اس روایت کو بواسطہ عائشہ (رض) نقل کیا مگر اس میں حکم یہ ہے کہ وہ حیض کے ایام میں نماز کو چھوڑ دے پھر ہر نماز کے لیے غسل کرے اگر یہ روایت اسی طرح ہو تو اس کو غسل کا حکم بطور علاج ہو ‘ یہ بھی عین ممکن ہے۔
غسل کا حکم بطور علاج ہو :
نمبردو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مستحاضہ مستمرۃ الدم ہوں تو ان کی ہر نماز اسی طرح شمار ہوگی گویا ابھی وہ حیض سے پاک ہوئی ہیں اس لیے غسل کے بعد ہی ان کو نماز کی اجازت ہوگی اس وجہ سے آپ نے اس کو غسل لکل صلوۃ کا حکم فرمایا۔ جب ان کی روایت کی یہ توجیہ ہوئی تو وہ عورت جس کا خون مستمر ہو اور ایام حیض معلوم نہ ہوں اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔

ایک جدید توجیہ :
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا فتویٰ زمانہ نبوت کے بعد کا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ غسل لکل صلوۃ والی روایت میں ایسی مستحاضہ کا ذکر ہے جس کے ایام حیض معلوم و معروف ہوں اور عائشہ (رض) کی مرفوع روایت میں ایسی مستحاضہ کا ذکر ہے جو اس کے علاوہ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ وضو لکل صلوۃ ، معتادہ کے حق میں ہے جیسے فاطمہ بنت ابی حبیش یا پھر وہ روایت اس مستحاضہ سے متعلق ہو جس کے ایام تو معروف نہیں مگر وہ طہر متخلل کی وجہ سے اس عورت کی طرح ہوجاتی ہے جس کے ایام حیض ہی غیر متعین ہیں مگر کبھی استحاضہ کا خون بند ہونے کی وجہ سے وہ معتادہ کے مشابہہ بن جاتی ہے کہ جب خون آنا بند ہو تو وہ ایک غسل سے جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتی ہے اب یہ تین صورتیں بن گئیں تو فتویٰ کس روایت کے موافق قرار دیں گے۔
غور سے معلوم ہوا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کی روایت فتویٰ سے جوڑ رکھتی ہے کہ فتویٰ زمانہ نبوت کے بعد کا ہے تو حضرت عائشہ (رض) کو فتویٰ کے موافق و مخالف دونوں روایات کا علم تھا اس علم کی روشنی میں ان کا وضو لکل صلوۃ کا فتویٰ دینا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کے خلاف روایات یا تو عورتوں کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہیں یا تمام تر منسوخ ہیں۔
روایات علی (رض) کا جائزہ :
حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح تینوں قسم کی روایات وارد ہوئی ہیں کہ وہ غسل لکل صلوۃ نمبر ٢ غسل لصلاتین نمبر ٣ وضو لکل صلوۃ البتہ ایام حیض میں نماز بالکل ترک کرے گی تو یہ روایات سوائے آخری روایت کے فتویٰ کے خلاف ہیں پس یہی کہیں گے کہ مستحاضہ کے حالات کے اختلاف سے روایت و فتویٰ مختلف ہے۔
ایک اعتراض :
ضمنی طور پر پیدا ہوا کہ اوپر آپ نے ان کی روایات کی توجیہ تو احوال کے اختلاف سے کردی مگر ام حبیبہ (رض) تو ایک ہی عورت ہے ان کے متعلق روایات کے اختلاف کا کیا مطلب ہے وہ معتادہ سمجھی جائیں یا متحیرہ مستمرۃ الدم۔
الجواب :
وہ درحقیقت معتادہ ہیں رہی وہ روایات جن میں ایام حیض کا تذکرہ موجود نہیں تو ان سے آپ ان پر متحیرہ کا حکم لاگو نہیں کرسکتے رہا حکم غسل تو بطور علاج ہے نہ کہ بطور حکم شرعی۔
آثار کو سامنے رکھ کر ہم نے یہ توجیہات ذکر کردیں۔
اختلاف دوم :
ہر نماز کے لیے وضو یا ہر وقت نماز کے لیے وضو ؟ دو روایتیں۔
نمبر ١: امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد و احمدر حمہم اللہ کے ہاں وقت صلوۃ کے لیے وضو کیا جائے گا۔
نمبر ٢: امام شافعی و سفیان ثوری و احمد (رح) ہر فرض نماز کے لیے وضو کرنا لازم ہے۔
ان دونوں اقوال میں صحیح قول کی وضاحت کے لیے غوروخوض ضروری ہے غور سے معلوم ہوا کہ ہر دو کے ہاں یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ مستحاضہ عورت کسی ایک وقت کی نماز کے لیے وضو کرے اور نماز نہ پڑھے مگر اس وقت جبکہ اس نماز کا وقت فوت ہوجائے تو اسی وضو سے خروج وقت کے بعد کوئی نماز ادا کرنا جائز نہیں بلکہ تجدید وضو لازم ہے۔
نمبر ٢: دوسری بات یہ بھی ظاہر ہوئی کہ اگر وہ وقت کے اندر وضو کرے اور نماز ادا کرے پھر وقت کے دوران اسی وضو سے نوافل و سنن ادا کرے تو بالاتفاق یہ جائز ہے اور اس کے نوافل درست ہیں نتیجہ فکریہ نکل آیا کہ خروج وقت نے اس کی طہارت کو توڑ دیا ادائیگی نماز نے نہیں توڑا ورنہ فرائض کے بعد اس کو نوافل کی قطعاً گنجائش نہ ہوتی پس روایت میں وضو لکل صلوۃ سے لوقت کل صلوۃ مراد ہے۔
ایک الزامی دلیل :
اگر اس کی کئی نمازیں فوت ہوجائیں اور وہ ان کو اد ا کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ ان تمام فوت شدہ نمازوں کو اکٹھا ایک نماز کے وقت میں ایک وضو سے ادا کرے اور دوسری طرف آپ کے ہاں ہر نماز کے لیے وضو لازم ہے وقتی کے لیے الگ وضو کیا جائے اور فائتہ کے لیے الگ کیا جائے اور متعدد فوت شدہ کو ایک وضو سے ادا کرنا جائز ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نماز سے فراغت وضو کے لیے ناقض نہیں ورنہ فوت شدہ میں ہر ایک کے لیے الگ وضو کرنا لازم ہوتا جو کہ آپ کے نزدیک بھی لازم نہیں تو ہر نماز کے وقت کے لیے وضو لازم ہوا۔
نظر طحاوی (رح) سے آخری دلیل :
پوری فکروسوچ سے ہم نے جانچا کہ طہارت دو قسم کی ہے۔
نمبر ١: وہ طہارت جو پیشاب و پائخانہ سے ٹوٹتی ہے۔
نمبر ٢: وہ طہارت جو وقت کے نکلنے سے ٹوٹتی ہے مثلاً مسح خفین۔ مسافر و مقیم کا وقت ایک دن رات اور تین دن رات پورے ہونے سے خود ٹوٹ جاتا ہے ان طہارتوں پر سب کا اتفاق ہے ہم نے کوئی ایسی طہارت نہ پائی جس کو نماز توڑ دے بلکہ طہارات کا ناقض حدث اور خروج وقت ہی پایا گیا اب آمدم برسر مطلب مستحاضہ کے باب میں دیکھا کہ اس کی طہارت کو حدث بھی توڑتا ہے اور غیر حدث بھی۔ اب غیر حدث جو اس کی طہارت کا ناقض ہے وہ کیا چیز ہے ایک گروہ نے تو خروج وقت قرار دیا دوسروں نے کہا وہ خروج وقت نہیں بلکہ فراغ صلوۃ ہے اب ان دونوں میں فیصلہ کے لیے نظیر کی تلاش کی تو خرورج وقت کی نظیر مل گئی کہ وہ مسح علی الخفین ہے مگر فراغت صلوۃ کی نظیر میسر نہ آئی۔
پس بطور عقل بھی فراغ نماز کو ناقض قرار نہیں دے سکتے اس لیے خرورج وقت کو ناقض وضو قرار دینا بہرحال اولیٰ ہوگا اس عقلی دلیل سے ان حضرات کی بات کو مزید تقویت مل جاتی ہے جو ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کو ضروری قرار دیتے ہیں یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے اپنے مزاج و طرز کے خلاف راجح قول کو اول نقل کیا حالانکہ اس کا کتاب میں یہ طرز چلا آ رہا ہے کہ پہلے مرجوح اقوال کو ذکر کرتے ہیں اور آخر میں راجح قول لاتے ہیں جیسا کہ اس باب کے مسئلہ اول کے سلسلہ میں بخوبی ظاہر ہے۔

623

۶۲۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : (قَدِمَ نَاسٌ مِنْ عُرَیْنَۃَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ، فَاجْتَوَوْہَا .فَقَالَ : لَوْ خَرَجْتُمْ إِلٰی ذَوْدٍ لَنَا، فَشَرِبْتُمْ مِنْ أَلْبَانِہَا) .قَالَ : وَذَکَرَ قَتَادَۃُ أَنَّہٗ قَدْ حَفِظَ عَنْہُ، أَبْوَالَہَا .
٦٢٣: حمید نے انس (رض) سے نقل کیا کہ عرینہ کے کچھ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ آئے ان کو وہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ آپ نے فرمایا فلاں جگہ ہمارے اونٹ ہیں (تم وہاں چلے جاؤ) اور ان کے دودھ کو استعمال کرو قتادہ کہتے ہیں میں نے اپنے استاذ سے ابوال کا لفظ یاد کیا ہے۔
اللغات : اجتوٰی۔ آب و ہوا کا ناموافق ہونا۔ ابوال جمع بول پیشاب۔
تخریج : بخاری تفسیر المائدہ باب ٥‘ مسلم فی القسامہ نمبر ٩۔
نمبر ١: غیر ماکول اللحم اور انسانی پیشاب بالاتفاق ناپاک و نجس ہیں ماکول اللحم کے متعلق اختلاف ہے۔
فریق اوّل : اس میں امام محمد ‘ احمد ‘ مالک ‘ نخعی (رح) وغیرہ علماء اس کو پاک قرار دیتے ہیں۔
فریق دوم : امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ شافعی (رح) ان کو نجس مانتے ہیں۔
نمبر ٢: اسی طرح جان کے خطرہ کے وقت حرام سے تداوی بالاتفاق جائز ہے اگر خطرہ جان نہ ہو تو اس میں نمبر ١: امام ابوحنیفہ ‘ محمد ‘ شافعی (رح) کے ہاں مطلقاً ناجائز ہے۔
نمبر ٣: امام مالک و ابو یوسف طحاوی (رح) کے نزدیک ضرورت میں درست ہے۔

624

۶۲۴ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنِ قَعْنَبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ وَقَتَادَۃَ وَحُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ وَقَالَ: (مِنْ أَلْبَانِہَا وَأَبْوَالِہَا) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ بَوْلَ مَا یُؤْکَلُ لَحْمُہٗ طَاہِرٌ، وَأَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ، کَحُکْمِ لَحْمِہٖ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ .وَقَالُوْا : لَمَّا جَعَلَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَوَائً لِمَا بِہِمْ، ثَبَتَ أَنَّہٗ حَلَالٌ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ حَرَامًا، لَمْ یُدَاوِہِمْ بِہٖ، لِأَنَّہٗ دَائٌ لَیْسَ بِشِفَائٍ، کَمَا قَالَ فِیْ حَدِیْثِ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ .
٦٢٤: ثابت و قتادہ وحمید نے انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور من البانھا وابوالھا کے دونوں لفظ لائے ہیں۔ بعض علماء کا یہ مذہب ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے اور اس کا حکم ان کے گوشت والا ہے یہ امام محمد بن الحسن کا قول ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی دوائی کے طور پر اس کو تجویز فرمایا تو اس سے اس کا حلال ہونا ثابت ہوگیا کیونکہ اگر یہ حرام ہوتا تو آپ ان کے علاج کے لیے تجویز نہ فرماتے کیونکہ حرام تو بیماری ہے ‘ شفاء نہیں۔ جیسے علقمہ بن وائل کی روایت میں صاف وارد ہے۔
حاصل روایات :
امام محمد (رح) و دیگر علماء کہتے ہیں ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جب ابوال پینے کا حکم دیا تو اس سے اس کا حلال ہونا ثابت ہوا اور اگر یہ حلال نہ ہوتا تو ان کو تداوی کی اجازت نہ دی جاتی کیونکہ حرام میں شفاء نہیں بلکہ وہ خود بیماری ہے پس ثابت ہوا کہ پیشاب ماکول اللحم پاک ہے تبھی استعمال کا حکم دیا ورنہ تو حرام سے تداوی کی کسی صورت اجازت نہیں اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

625

۶۲۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ :
٦٢٥: یحییٰ بن حسان نے کہا کہ حماد بن سلمہ نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

626

۶۲۶ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ (طَارِقِ بْنِ سُوَیْدِ ڑ الْحَضْرَمِیِّ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّ بِأَرْضِنَا أَعْنَابًا نَعْتَصِرُہَا، فَنَشْرَبُ مِنْہَا، قَالَ : لَا فَرَاجَعْتُہٗ فَقَالَ : لَا .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّا نَسْتَشْفِیْ بِہَا الْمَرِیْضَ قَالَ : ذَاکَ دَائٌ ، وَلَیْسَ بِشِفَائٍ) وَکَمَا قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَغَیْرُہٗ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٢٦: علقمہ بن وائل نے بیان کیا کہ حضرت طارق بن سوید الحضرمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری سرزمین میں انگور ہوتے ہیں ہم ان کو نچوڑتے ہیں کیا ہم اس سے پی لیا کریں فرمایا نہیں میں نے دوبارہ سوال کیا تو آپ نے پھر فرمایا نہیں میں نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اسے مریضوں کو پلاتے ہیں تاکہ بیماری درست ہو آپ نے فرمایا وہ تو بیماری ہے شفاء نہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور دیگر اصحاب رسول کی روایات میں وارد ہے۔
تخریج : مسلم فی الاشربہ ١٢‘ ابو داؤد فی الطب باب ١١‘ ٣٨٧٣‘ ترمذی فی الطب باب ٨‘ ٢٠٤٦‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٧‘ ٣٥٠٠‘ باختلاف قلیل من الالفاظ۔
اسی طرح عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے۔

627

۶۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ فِیْ رِجْسٍ، أَوْ فِیْمَا حَرَّمَ، شِفَائً .
٦٢٧: ابو الاحوص نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے پلید یا حرام چیز میں شفاء نہیں رکھی۔
تخریج : المعجم الکبیر ٩؍١٨٤

628

۶۲۸ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ قَالَ : اشْتَکٰی رَجُلٌ مِنَّا فَنُعِتَ لَہٗ السُّکْرُ، فَأَتَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ فَسَأَلْنَاہُ، فَقَالَ : إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَجْعَلْ شِفَائَ کُمْ فِیْمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ .
٦٢٨: عاصم نے بیان کیا کہ حضرت ابو وائل (رض) کہتے ہیں ایک آدمی ہم میں بیمار ہوگیا اسے نشے کی خبر دی گئی (اس سے صحت ہوجائے گی) تو ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں آئے اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں تمہاری شفاء نہیں رکھی۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٥؍٣٨

629

۶۲۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا " اللّٰہُمَّ لَا تَشْفِ مَنِ اسْتَشْفٰی بِالْخَمْرِ " .قَالُوْا : فَلَمَّا ثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ الشِّفَائَ لَا یَکُوْنُ فِیْمَا حُرِّمَ عَلَی الْعِبَادِ، ثَبَتَ بِالْأَثَرِ الْأَوَّلِ الَّذِیْ جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَوْلَ الْاِبِلِ فِیْہِ دَوَائً، أَنَّہٗ طَاہِرٌ غَیْرُ حَرَامٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٦٢٩: عطاء کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے دعا کی : اللہم لا تشف من استشفٰی الخمر ۔ اے اللہ ! جو شراب سے شفاء حاصل کرلے اس کو شفاء نہ دے۔ جب ان آثار سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو چیز بندوں پر حرام کی گئی اس میں شفا نہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے پیشاب کو دوائی کے لیے تجویز فرمایا جیسا کہ پہلی روایت میں وارد ہے ‘ پس ثابت ہوا کہ یہ طاہر ہے ‘ حرام نہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں اور بھی روایات مروی ہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٥؍٣٨
حاصل آثار :
ان پانچوں آثار سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ حرام میں شفاء نہیں اور پہلے آثار میں ان کو اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کرنے کا حکم فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ وہ حرام بھی نہیں اور نجس بھی نہیں بلکہ طاہر ہے اور اس وجہ سے اس کو پینے کا حکم دیا۔

630

۶۳۰ : مَا حَدَّثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ ہُبَیْرَۃَ، عَنْ حَنَشِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (إِنَّ فِیْ أَبْوَالِ الْاِبِلِ وَأَلْبَانِہَا شِفَائً لِذِرْبَۃِ بُطُوْنِہِمْ) .قَالُوْا : فَفِیْ ذٰلِکَ تَثْبِیْتُ مَا وَصَفْنَا أَیْضًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : أَبْوَالُ الْاِبِلِ نَجِسَۃٌ، وَحُکْمُہَا حُکْمُ دِمَائِہَا لَا حُکْمُ أَلْبَانِہَا وَلُحُوْمِہَا .وَقَالُوْا : أَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْہُ فِیْ حَدِیْثِ الْعُرَنِیِّیْنَ، فَذٰلِکَ إِنَّمَا کَانَ لِلضَّرُوْرَۃِ، فَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ مُبَاحٌ فِیْ غَیْرِ الضَّرُوْرَۃِ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ أُبِیْحَتْ فِی الضَّرُوْرَاتِ، وَلَمْ تُبَحْ فِیْ غَیْرِ الضَّرُوْرَاتِ، وَرُوِیَتْ فِیْہَا الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٣٠: حنش بن عبداللہ نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اونٹوں کے ابوال اور البان میں پیٹ کی خرابی کا علاج ہے۔ علماء فرماتے ہیں یہ حدیث اس بات کو ثابت کر رہی ہے جو ہم نے بیان کی مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اونٹوں کا پیشاب پلید ہے اور ان کا حکم وہی ہے جو ان کے خون کا حکم ہے نہ کہ دودھ اور گوشت کا۔ رہی وہ حدیث عرنیین جو تم نے ذکر کی تو وہ ایک ضرورت تھی بلا ضرورت وہ اس کے مباح ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ہم بہت سی چیزیں ایسی پاتے ہیں جن کو ضرورت کے موقع پر مباح کیا گیا مگر بلا ضرورت مباح نہیں ہیں اور اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات موجود ہیں۔
اللغات : الذربۃ ۔ بدہضمی معدہ کا مرض۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٩٣۔ المعجم الکبیر ١٢؍١٨٤۔
تمام روایات کا حاصل :
دو باتیں ہیں اونٹوں کا پیشاب پاک ہے۔ نمبر دو اس کو دوائی کے طور پر استعمال کرنا اسی طرح درست ہے جیسا عام چیزوں کو۔ اگر وہ پاک نہ ہو تو شراب کی طرح اس سے تداوی (علاج) بھی درست قرار نہ دیا جاتا۔
فریق ثانی کا مؤقف :
اونٹوں کے پیشاب نجس ہیں اور ان کا حکم ان کے خون جیسا ہے دودھ اور گوشت جیسا نہیں۔
جوابات :
روایت عرنیین میں اس کے استعمال کی اجازت ضرورۃً ہے اس میں بلاضرورت اس کے مباح ہونے کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ بہت سی اشیاء ہیں جن کو ضرورۃً مباح کیا گیا مگر وہ بلاضرورت مباح نہیں اس کی نظیریں احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بکثرت پائی جاتی ہیں ایک نظیر پیش کی جاتی ہے ملاحظہ کریں۔

631

۶۳۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا ہَمَّامٌ
٦٣١: یزید بن ہارون نے کہا کہ ہمیں ہمام نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی۔

632

۶۳۲ : ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : أَنَا قَتَادَۃُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ (الزُّبَیْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ شَکَوْا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقَمْلَ، فَرَخَّصَ لَہُمَا فِیْ قَمِیْصِ الْحَرِیْرِ، فِیْ غَزَاۃٍ لَہُمَا .قَالَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : فَرَأَیْتُ عَلَی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا قَمِیْصًا مِنْ حَرِیْرٍ) .فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدْ أَبَاحَ الْحَرِیْرَ لِمَنْ أَبَاحَ لَہٗ اللُّبْسَ مِنَ الرِّجَالِ، لِلْحَکَّۃِ الَّتِیْ کَانَتْ بِمَنْ أَبَاحَ ذٰلِکَ لَہٗ فَکَانَ ذٰلِکَ مِنْ عِلَاجِہَا، وَلَمْ یَکُنْ فِی اِبَاحَتِہٖ ذٰلِکَ لَہُمْ لِلْعِلَّۃِ الَّتِیْ کَانَتْ بِہِمْ مَا یَدُلُّ أَنَّ ذٰلِکَ مُبَاحٌ فِیْ غَیْرِ تِلْکَ الْعِلَّۃِ .فَکَذٰلِکَ أَیْضًا مَا أَبَاحَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْعُرَنِیِّیْنَ لِلْعِلَلِ الَّتِیْ کَانَتْ بِہِمْ، فَلَیْسَ فِی اِبَاحَۃِ ذٰلِکَ لَہُمْ، دَلِیْلٌ أَنَّ ذٰلِکَ مُبَاحٌ فِیْ غَیْرِ تِلْکَ الْعِلَلِ .وَلَمْ یَکُنْ فِیْ تَحْرِیْمِ لُبْسِ الْحَرِیْرِ مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ حَلَالًا فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ، وَلَا أَنَّہٗ عِلَاجٌ مِنْ بَعْضِ الْعِلَلِ .وَکَذٰلِکَ حُرْمَۃُ الْبَوْلِ فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ، لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ، أَنَّہٗ حَرَامٌ فِیْ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ (قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْخَمْرِ إِنَّہٗ دَائٌ وَلَیْسَ بِشِفَائٍ) إِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا یَسْتَشِفُّوْنَ بِہَا، لِأَنَّہَا خَمْرٌ، فَذٰلِکَ حَرَامٌ .وَکَذٰلِکَ مَعْنٰی قَوْلِ عَبْدِ اللّٰہِ - عِنْدَنَا - إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، لَمْ یَجْعَلْ شِفَائَ کُمْ فِیْمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ، إِنَّمَا ہُوَ لَمَّا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ بِالْخَمْرِ، لِاِعْظَامِہِمْ إِیَّاہَا .وَلِأَنَّہُمْ کَانُوْا یَعُدُّوْنَہَا شِفَائً فِیْ نَفْسِہَا، فَقَالَ لَہُمْ : إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَجْعَلْ شِفَائَ کُمْ فِیْمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ .فَھٰذِہٖ وُجُوْہُ ھٰذِہِ الْآثَارِ .فَلَمَّا احْتَمَلَتْ مَا ذَکَرْنَا، وَلَمْ یَکُنْ فِیْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی طَہَارَۃِ الْأَبْوَالِ، احْتَجْنَا أَنْ نَرْجِعَ فَنَلْتَمِسَ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَنَعْلَمَ کَیْفَ حُکْمُہٗ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَإِذَا لُحُوْمُ بَنِیْ آدَمَ، کُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّہَا لُحُوْمٌ طَاہِرَۃٌ وَأَنَّ أَبْوَالَہُمْ حَرَامٌ نَجِسَۃٌ، فَکَانَتْ أَبْوَالُہُمْ - بِاتِّفَاقِہِمْ - مَحْکُوْمًا لَہَا بِحُکْمِ دِمَائِہِمْ، لَا بِحُکْمِ لُحُوْمِہِمْ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ تَکُوْنَ کَذٰلِکَ أَبْوَالُ الْاِبِلِ، یَحْکُمُ لَہَا بِحُکْمِ دِمَائِہَا، لَا بِحُکْمِ لُحُوْمِہَا، فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ أَبْوَالَ الْاِبِلِ نَجِسَۃٌ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَدْ اخْتَلَفَ الْمُتَقَدِّمُوْنَ فِیْ ذٰلِکَ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ
٦٣٢: قتادہ بیان کرتے ہیں کہ انس (رض) نقل کرتے ہیں کہ حضرت زبیر اور عبدالرحمن بن عوف نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جو وں کی شکایت کی تو آپ نے ان کو ریشمی کپڑے کے استعمال کی اس غزوہ میں اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود ان میں سے ہر ایک کو ریشمی قمیص پہنے دیکھا۔ یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جنہوں نے ریشم کو ان لوگوں کے لیے پہننا مباح کردیا جن کو خارش کی تکلیف تھی اور یہ ان کے لیے بطور علاج تھا۔ ان کے لیے مباح کرنے میں کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ جو اس بات کا ثبوت بن سکے کہ یہ کسی اور بیماری میں بھی مباح ہے۔ بالکل اسی طرح جن وجوہ کی بناء پر عرنیین کے لیے آپ نے پیشاب کو مباح قرار دیا۔ وہ وجوہ انہی میں پائی جاتی تھیں ‘ ان کے لیے مباح کرنے میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے ان اسباب کے علاوہ میں بھی اس کو مباح قرار دیا جائے اور ریشم کے پہننے کی حرمت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس بات کے منافی ہو کہ وہ ضرورت کی حالت میں حلال ہے اور نہ ہی یہ موجود ہے کہ وہ بعض اسباب میں علاج ہے۔ بعینہٖ پیشاب کی حرمت ضرورت کے احوال کے علاوہ یہی حکم رکھتی ہے اس میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں کہ جس سے اس کا ضرورت کی حالت میں حرام ہونا ثابت ہو۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ شراب کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ یہ بیماری ہے شفا نہیں۔ وہ اس بناء پر ہے کہ وہ لوگ اس کو ذریعہ شفاء سمجھتے تھے اور کیونکہ وہ نشے والی ہے اور نشہ حرام ہے اور حضرت عبداللہ (رض) کے قول کا بھی ہمارے نزدیک یہی معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز میں تمہاری شفا مقرر نہیں کی جو حرام ہو۔ اسی بنیاد پر کہ وہ شراب کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے اور بڑا محترم قرار دیتے تھے اور اس کو ذاتی لحاظ سے شفا دینے والی سمجھتے تھے آپ نے ان کو فرمایا کہ اللہ جل جلالہ نے تمہاری شفا اس میں مقرر نہیں کی جس کو تم پر حرام کردیا ہو۔ ان آثار کی یہی صورتیں بنتی ہیں جب مذکورہ احتمال اس میں موجود ہے تو پیشاب کی طہارت کی دلیل نہ رہی۔ پس ہمیں اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ہم غور و فکر کر کے اس بات کو تلاش کریں تاکہ ہمارے سامنے اس کا حکم ظاہر ہوجائے۔ چنانچہ ہم نے غور کیا تو اولاد آدم کے گوشت کو بالاتفاق پاک پایا اور ان کے بول کو حرام و نجس پایا اور ان کے پیشاب کا حکم بالاتفاق ان کے خون والا ہے نہ کہ گوشت والا۔ پس غور و فکر کا تقاضا یہی ہے کہ اونٹوں کے پیشاب کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے جو ان کے خون کا حکم ہے نہ وہ جو ان کے گوشت کا حکم ہے پس ہماری مذکورہ بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ اونٹوں کا پیشاب نجس و پلید ہے۔ نظر کا تقاضا بھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا قول بھی یہی ہے ‘ متقدمین کا اس سلسلے میں اختلاف ہے جو مندرجہ ذیل روایات سے ظاہر ہوگا۔
تخریج : بخاری فی العباس باب ٢٩‘ مسلم فی اللبس والزینۃ روایت ٢٤‘ ابن ماجہ فی الطب باب ١٧‘ نمبر ٣٥٩٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب العقیقہ ٨؍١٦٧۔
حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ میں نے خود ان کو ریشمی قمیص زیب تن کئے دیکھا اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں میں خارش والے کے لیے بھی ریشم کو مباح قرار دیا اور یہ مباح کرنا بطور علاج ہے اس میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ یہ اس بیماری کے علاوہ ویسے مباح ہوجائے۔
بالکل اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرنیین کی بیماری کی وجہ سے ابوال کے استعمال کی ان کو اجازت دی اس میں قطعاً اس بات کی دلیل نہیں کہ اس مرض کے علاوہ بھی ان کے لیے یہ حلال ہوگیا اور ریشم پہننے کی حرمت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس بات کی نفی کرے کہ یہ ضرورت کے لیے بھی حلال نہیں ہے اور بعض بیماریوں کے علاج میں استعمال کی نفی کرے۔
اسی طرح پیشاب کی بلاضرورت حرمت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ وہ حالت ضرورت میں بھی حرام ہے۔
روایت نمبر ٢: انہ داء لیس بشفائ “ کا مطلب یہ ہے کہ کفار عرب زمانہ جاہلیت میں شراب سے شفاء حاصل کرتے تھے کیونکہ وہ شراب ہے اس کی عظمت کو دلوں سے مکمل طور پر مٹانے کے لیے یہ بات فرمائی کہ اس میں بالکل شفاء نہیں بلکہ یہ باعث مرض ہے۔ باقی باعث شفاء نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی مرض میں ضرورۃ اس کا استعمال درست نہ ہو۔
روایت نمبر ٣: ابن عباس (رض) ابوال الابل والبانھا شفاء لضرب بطونہم ابوال ابل میں فساد معدہ کے لیے شفاء ہے اس روایت کو پیشاب کے پاک ہونے کے لیے پیش کرنا درست نہیں کیونکہ کسی چیز کا باعث شفاء ہونا اس کے نہ پاک ہونے کی دلیل ہے اور نہ حلال ہونے کی۔
نظر طحاوی (رح) :
ان تمام آثار میں ان جہات کی وضاحت سے معلوم ہوگیا کہ طہارت ابوال پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں تو ہمیں فکر کو دوڑانے کی حاجت ہوئی تاکہ عقلی نظائر سے اس کا حکم معلوم کرلیں چنانچہ ہم نے غور کیا کہ انسانوں کا گوشت بالاتفاق پاک ہے اور ان کے ابوال (پیشاب) بالاتفاق حرام اور نجس ہیں تو گویا ان کے ابوال کو خون کا حکم ملا ہے گوشت کا نہیں۔
اسی طرح اونٹ کے ابوال کو خون کا حکم دیا گیا نہ کہ گوشت کا پس اس سے ثابت ہوا کہ اونٹ کا پیشاب نجس ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
حرام اشیاء سے تداوی کا حکم :
اس میں نمبر ایک امام ابوحنیفہ (رح) شافعی (رح) کے ہاں مطلق طور پر حرام سے علاج ناجائز ہے۔ نمبردو امام مالک و ابو یوسف (رح) کے ہاں حرام سے علاج درست ہے امام طحاوی (رح) شراب کے علاوہ سے علاج کو درست مانتے ہیں۔
فقہاء کے اس اختلاف کی وجہ تابعین (رح) کے اقوال کا اختلاف ہے۔

633

۶۳۳ : مَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ : ثَنَا جَابِرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : لَا بَأْسَ بِأَبْوَالِ الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ، أَنْ یُتَدَاوٰی بِہَا .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ لِأَنَّہَا - عِنْدَہٗ - حَلَالٌ طَاہِرَۃٌ، فِی الْأَحْوَالِ کُلِّہَا کَمَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَبَاحَ الْعِلَاجَ بِہَا لِلضَّرُوْرَۃِ، لَا لِأَنَّہَا طَاہِرَۃٌ فِیْ نَفْسِہَا، وَلَا مُبَاحَۃٌ فِیْ غَیْرِ حَالِ الضَّرُوْرَۃِ .
٦٣٣: جابر نے بیان کیا کہ محمد بن علی (رح) کہتے ہیں اونٹوں بکریوں وغیرہ کے ابوال کو علاج کے لیے استعمال کرنا درست ہے۔ عین ممکن ہے کہ انھوں نے یہ مؤقف اس لیے اختیار کیا ہو کہ وہ ان کے ہاں تمام احوال میں حلال اور پاک ہے جیسا کہ امام محمد (رح) کا قول ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ضرورت کی خاطر بطور علاج مباح کیا ہو۔ اس بناء پر نہیں کہ یہ ذاتی طور پر پاک ہے اور ضرورت کے علاوہ بھی یہ مباح ہے۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍١٢٨
اس روایت کے دو مفہوم ہیں نمبر ایک علاج کے لیے استعمال کی وجہ حلال و طاہر ہونا ہو جیسا کہ امام محمد (رح) کا قول ہے۔ دوسرا یہ بھی عین ممکن ہے ضرورۃ علاج کے لیے مباح کیا ہو اس بناء پر نہیں کہ یہ فی نفسھا پاک ہے اور ضرورت کے علاوہ موقع پر بھی مباح ہے۔

634

۶۳۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : کَانُوْا یَسْتَشِفُّوْنَ بِأَبْوَالِ الْاِبِلِ، لَا یَرَوْنَ بِہَا بَأْسًا .فَقَدْ یَحْتَمِلُ ھٰذَا أَیْضًا مَا احْتَمَلَ قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٦٣٤: منصور نے بیان کیا کہ ابراہیم کہتے ہیں وہ لوگ ابوال ابل کو بطور علاج استعمال کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔ اس میں بھی وحی احتمال ہے جو محمد بن علی کے قول میں ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٥؍٥٦ اس قول میں بھی وہی دو احتمال ممکن ہیں جو محمد بن علی (رح) کے قول میں اوپر مذکور ہوئے۔

635

۶۳۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : کُلُّ مَا أُکِلَتْ لَحْمُہُ، فَلَا بَأْسَ بِبَوْلِہٖ .فَھٰذَا حَدِیْثٌ مَکْشُوفُ الْمَعْنٰی .
٦٣٥: عطائ (رح) کہتے ہیں ہر وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍١٢٨‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٠٩
اس قول کا معنی واضح ہے کہ ماکول اللحم کا پیشاب پاک ہونے کی وجہ سے بطور علاج استعمال کیا جاسکتا ہے۔

636

۶۳۶ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا آدَم قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یُوْنُسَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَرِہَ أَبْوَالَ الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ، أَوْ کَلَامًا ھٰذَا مَعْنَاہُ .
٦٣٦: حضرت حسن (رح) نے اونٹ گائے بکری کے پیشاب کو مکروہ قرار دیا یا اسی مفہوم کا ارشاد ہے۔
تخریج : کتاب الآثار امام محمد ١؍١٥۔
حاصل کلام : ان آثار مختلفہ سے پیشاب ماکول اللحم کے متعلق علاج کے لیے استعمال کا جواز ثابت ہوتا ہے البتہ پاک ہونے کی دلیل نہیں نکل سکتی۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) نے ان اقوال کو بلاتبصرہ چھوڑ دیا ہم بھی گزشتہ بحث پر اکتفاء کرتے ہیں۔

637

۶۳۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ (عَمَّارٍ قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ نَزَلَتْ آیَۃُ التَّیَمُّمِ، فَضَرَبْنَا ضَرْبَۃً وَاحِدَۃً لِلْوَجْہِ ثُمَّ ضَرَبْنَا ضَرْبَۃً لِلْیَدَیْنِ إِلَی الْمَنْکِبَیْنِ ظَہْرًا وَبَطْنًا) .
٦٣٧: عبداللہ بن عباس (رض) نے نقل کیا کہ حضرت عمار کہتے ہیں کہ جب آیت تیمم نازل ہوئی تو میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا ہم نے ایک ضرب چہرے کے لیے لگائی پھر ایک ضرب ہاتھوں کے لیے کندھوں تک ظاہر و باطن پر پھیرنے کے لیے لگائی۔
تخریج : بخاری فی التیمم مسلم فی الحیض ١١٠‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢١‘ روایت ٣١٨‘ ٣١٩‘ ترمذی فی الطھارۃ با ١١٠‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٩٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ ٥٦٩‘ مسند احمد ٤؍٢٦٤‘ بیہقی فی السنن ١؍٢١٠‘ دارقطنی فی السنن ١؍١٨٢۔
خلاصہ الزام : تیمم کا معنی قصد ہے اس میں ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نیت کو شرط قرار دیتے ہیں امام زفر (رح) اس کے قائل نہیں تیمم میں امام ابوحنیفہ و شافعی ‘ جمہور فقہاء و محدثین (رح) دو ضربات کے قائل ہیں مگر امام احمد ‘ محمد (رح) کے نزدیک ایک ضرب سے دونوں پر تیمم کیا جائے گا تیمم یہ مکمل ہاتھوں کا وظیفہ ہے جیسا کہ زہری (رح) کا قول ہے اور امام احمد ومالک رسغین (گٹے) تک کہتے ہیں جبکہ جمہور فقہاء و محدثین احناف و شوافع کہنیوں تک کا وظیفہ قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل : یعنی امام زہری کا مؤقف کہ تیمم دو ضربیں ہیں ہاتھ بغل و کندھے تک محل تیمم ہے۔

638

۶۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَمُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأُوَیْسِیُّ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٦٣٨: شہاب نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

639

۶۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ قَالَ : أَنَا جُوَیْرِیَۃُ، عَنْ مَالِکٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ (عَمَّارٍ قَالَ : تَمَسَّحْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالتُّرَابِ، فَمَسَحْنَا وُجُوْہَنَا وَأَیْدِیَنَا إِلَی الْمَنَاکِبِ) .
٦٣٩: عبداللہ نے حضرت عمار (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مٹی سے مسح کیا پس ہم نے اپنے چہروں پر ملا اور ہاتھوں پر کندھوں تک تیمم کیا۔
تخریج : نسائی

640

۶۴۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ، أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِیْہِ ؛ عَنْ عَمَّارٍ مِثْلَہٗ .
٦٤٠: ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ عبیداللہ بن عبداللہ نے اپنے والد سے اور انھوں نے عمار بن یاسر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

641

۶۴۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ قَالَ ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْہِ ؛ عَنْ (عَمَّارٍ قَالَ : تَیَمَّمْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَنَاکِبِ) .
٦٤١: عبیداللہ نے حضرت عمار (رض) بن یاسر سے نقل کیا ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں کندھوں تک تیمم کیا۔
تخریج : مسند البزاز ٤؍٢٣٩۔

642

۶۴۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ؛ عَنْ (عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ ؛ فَہَلَکَ عِقْدٌ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ؛ فَطَلَبُوہُ حَتّٰی أَصْبَحُوْا ؛ وَلَیْسَ مَعَ الْقَوْمِ مَائٌ ؛ فَنَزَلَتِ الرُّخْصَۃُ فِی التَّیَمُّمِ بِالصَّعِیْدِ ؛ فَقَامَ الْمُسْلِمُوْنَ ؛ فَضَرَبُوْا بِأَیْدِیْہِمْ إِلَی الْأَرْضِ ؛ فَمَسَحُوْا بِہَا وُجُوْہَہُمْ وَظَاہِرَ أَیْدِیْہِمْ إِلَی الْمَنَاکِبِ ؛ وَبَاطِنَہَا إِلَی الْآبَاطِ) .
٦٤٢: عن الزہری عن عبیداللہ بن عبداللہ عن عمار بن یاسر (رض) ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا پس انھوں نے تلاش کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا پس مٹی کے ساتھ تیمم کی اجازت نازل ہوئی چنانچہ مسلمان اٹھے اور انھوں نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مار کر اپنے چہروں پر مل لیا اور اپنے ہاتھوں کے ظاہر پر کندھوں تک اور باطن پر بغلوں تک مل لیا۔
تخریج : ابو داؤد

643

۶۴۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ ؛ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَا : ثَنَا الْأُوَیْسِیُّ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، فَقَالُوْا : ھٰکَذَا التَّیَمُّمُ، ضَرْبَۃٌ لِلْوَجْہِ، وَضَرْبَۃٌ لِلذِّرَاعَیْنِ إِلَی الْمَنَاکِبِ وَالْآبَاطِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَافْتَرَقُوْا فِرْقَتَیْنِ .فَقَالَتْ فِرْقَۃٌ مِنْہُمْ : (التَّیَمُّمُ لِلْوَجْہِ وَالْیَدَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ) وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ مِنْہُمْ : (التَّیَمُّمُ لِلْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ) .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِہَذَیْنِ الْفَرِیْقَیْنِ عَلَی الْفِرْقَۃِ الْأُوْلٰی، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ لَمْ یَذْکُرْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ أَنْ یَتَیَمَّمُوْا کَذٰلِکَ، وَإِنَّمَا أَخْبَرَہُمْ عَنْ فِعْلِہِمْ .فَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ تَکُوْنَ الْآیَۃُ لَمَّا أُنْزِلَتْ لَمْ تُنْزَلْ بِتَمَامِہَا، وَإِنَّمَا أُنْزِلَ مِنْہَا (فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا) [المائدۃ : ۶] وَلَمْ یُبَیِّنْ لَہُمْ کَیْفَ یَتَیَمَّمُوْنَ .فَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَہُمْ عَلَی کُلٍّ مِمَّا فَعَلُوْا مِنَ التَّیَمُّمِ، لَا وَقَّتَ فِیْ ذٰلِکَ وَقْتًا، وَلَا عُضْوًا مَقْصُوْدًا بِہٖ إِلَیْہِ بِعَیْنِہٖ، حَتّٰی نَزَلَتْ بَعْدَ ذٰلِکَ (فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ مِنْہُ) وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْنَا مِنْ ذٰلِکَ۔
٦٤٣: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ عمار بن یاسر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ تیمم اس طرح ہے کہ ایک ضرب تو چہرے کے لیے اور ایک ضرب بازوؤں ‘ کندھوں اور بغل تک کے لیے ہوگی۔ علماء کی دوسری جماعت نے ان کی اس سلسلہ میں مخالفت کی ہے۔ پھر ان کی دو جماعتیں ہیں ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ تیمم چہرے کے لیے اور دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت کیا جائے گا اور ایک گروہ کہتا ہے کہ تیمم چہرے اور دو ہتھیلیوں پر ہے۔ ان دونوں گروہوں نے پہلے گروہ کے خلاف یہ دلیل پیش کی ہے کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح تیمم کا حکم نہیں کیا ‘ صرف ان کو صحابہ کرام (رض) کے ایک عمل کی اطلاع دے دی ہے۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ جب آیت اتری تو مکمل نہ اتری ہو اور اس میں { فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا } تک اتری ہو اور ان کو یہ وضاحت نہ کی گئی کہ کس طرح انھوں نے تیمم کرنا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام (رض) کے ہاں وہی طریقہ سامنے آیا جو انھوں نے اختیار کیا اس کے لیے نہ تو کوئی عضو مقرر تھا اور نہ اس کے لیے کوئی وقت مقرر تھا۔ یہاں تک کہ آیت کا یہ حصہ : { فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ مِّنْہُ } نازل ہوا اور اس پر دلالت کے لیے یہ روایات شاہد ہیں۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ تیمم دو ضربیں ہیں ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب بازوؤں کے لیے جن کی حد بالائی جانب میں کندھے اور نچلی جانب میں بغل تک ہوگی۔
فریق دوم :
دو جماعتوں میں منقسم ہوگیا چنانچہ ایک فریق کہتا ہے کہ تیمم کی ضرب اول چہرے اور دوسری ضرب ہاتھوں پر کہنیوں سمیت پھیرنے کے لیے ہے۔ اور دوسرا فریق کہتا ہے چہرے کے لیے ایک ضرب اور دوسری ضرب کفین کے لیے گٹوں تک ہے۔
جواب روایات :
حضرت عمار (رض) کی روایات میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس طرح تیمم کا فرمایا بلکہ ان کے فعل تیمم کی خبر دی ہے پس اس سے بغل تک تیمم کی دلیل نہیں بن سکتی۔
نمبر ٢: جب آیت تیمم اتری تو مکمل ایک مرتبہ نازل نہیں ہوئی بلکہ : { فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا } [المائدہ : ٦] کا ٹکڑا پہلے اترا اس میں تیمم کا حکم تو اتارا گیا مگر اس کی کیفیت واضح نہ کی گئی بلکہ نہ تو تیمم کا وقت مقرر کیا گیا اور نہ عضو معین کی تحدید کی گئی یہاں تک کہ آیت کا حصہ :{ فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ ١ } [المائدہ : ٦] اتری اور اس بات کا ثبوت اس روایت عائشہ (رض) سے ہوتا ہے جس کو ہم پیش کرتے ہیں۔

644

۶۴۴ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ عُرْوَۃَ یُخْبِرُہٗ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَۃٍ لَہٗ حَتَّی اِذَا کُنَّا بِالْمُعَرَّسِ، قَرِیْبًا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ، نَعَسْت مِنَ اللَّیْلِ، وَکَانَتْ عَلَیَّ قِلَادَۃٌ تُدْعَی السِّمْطَ، تَبْلُغُ السُّرَّۃَ، فَجَعَلَتْ أَنْعَسُ، فَخَرَجَتْ مِنْ عُنُقٰی .فَلَمَّا نَزَلْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ، قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ خَرَّتْ قِلَادَتِی مِنْ عُنُقٰی .فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ أُمَّکُمْ قَدْ ضَلَّتْ قِلَادَتَہَا، فَابْتَغُوہَا .فَابْتَغَاہَا النَّاسُ، وَلَمْ یَکُنْ مَعَہُمْ مَائٌ ، فَاشْتُغِلُوْا بِابْتِغَائِہَا إِلٰی أَنْ حَضَرَتْہُمْ الصَّلَاۃُ، وَوَجَدُوا الْقِلَادَۃَ، وَلَمْ یَقْدِرُوْا عَلٰی مَائٍ .فَمِنْہُمْ مَنْ تَیَمَّمَ إِلَی الْکَفِّ، وَمِنْہُمْ مَنْ تَیَمَّمَ إِلَی الْمَنْکِبِ، وَبَعْضُہُمْ عَلَی جَسَدِہٖ. فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ آیَۃُ التَّیَمُّمِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ نُزُوْلَ آیَۃِ التَّیَمُّمِ، کَانَ بَعْدَمَا تَیَمَّمُوْا ھٰذَا التَّیَمُّمَ الْمُخْتَلَفَ، الَّذِیْ بَعْضُہٗ إِلَی الْمَنَاکِبِ فَعَلِمْنَا تَیَمُّمَہُمْ، أَنَّہُمْ لَمْ یَفْعَلُوْا ذٰلِکَ إِلَّا وَقَدْ تَقَدَّمَ عِنْدَہُمْ أَصْلُ التَّیَمُّمِ، وَعَلِمْنَا بِقَوْلِہَا : فَأَنْزَلَ اللّٰہُ آیَۃَ التَّیَمُّمِ أَنَّ الَّذِیْ نَزَلَ بَعْدَ فِعْلِہِمْ ہُوَ صِفَۃُ التَّیَمُّمِ .فَھٰذَا وَجْہُ حَدِیْثِ عَمَّارٍ عِنْدَنَا .وَمِمَّا یَدُلُّ أَیْضًا، عَلٰی أَنَّ ھٰذِہِ الْآیَۃَ تَنْفِیْ مَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ ہُوَ الَّذِیْ رَوٰی ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوَیْ غَیْرُہٗ عَنْہُ فِی التَّیَمُّمِ الَّذِیْ عَمِلَہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ خِلَافَ ذٰلِکَ .
٦٤٤: ابو الاسود نے بیان کیا کہ میں نے عروہ کو یہ خبر حضرت عائشہ (رض) سے بیان کرتے سنا کہ ہم ایک غزوہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں لوٹ رہے تھے جب ہم ایک منزل پر رات کے پچھلے حصہ میں آرام کے لیے اترے جو مدینہ سے قریب تھی تو رات کی وجہ سے مجھے اونگھ آگئی میرے ہاں سمط نامی ہار تھا جو گلے میں ڈالنے سے ناف تک پہنچنے والا تھا اونگھ کی شدت کی وجہ سے وہ میری گردن سے نکل گیا اور گرگیا جب میں نماز صبح کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اتری تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گردن سے میرا ہار گرپڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرما دیا تمہاری ماں کا ہار گم ہوگیا ہے اسے تلاش کرو لوگ اس کی تلاش میں لگ گئے لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا ادھر تلاش میں نماز کا وقت آگیا ہار مل گیا لیکن پانی میسر نہ آیا بعض نے گٹوں تک تیمم کیا اور بعض نے کندھے تک تیمم کیا اور بعض نے تمام جسم پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم اتار دی۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوگیا کہ آیت کا نزول اس عمل کے بعد ہوا ہے جس میں اختلاف کیا جا رہا ہے کہ بعض نے کندھوں تک تیمم کیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اصل تیمم تو ان کے ہاں ثابت شدہ تھا۔ رہا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا یہ ارشاد کہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ آیت تیمم کے بعد انھوں نے جو عمل کیا وہ تیمم کا اصل طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں حضرت عمار (رض) کی روایت کا یہی مطلب ہے اور اس پر دلالت کے لیے آیت ہی کو دیکھ لو کہ وہ ان کے عمل کی نفی کر رہی ہے اور دوسری طرف عما ربن یاسر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے عمل کے خلاف روایت نقل کی ہے۔ روایات ملاحظہ کریں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢١ نمبر ٣١٧ ۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ آیت تیمم کا کچھ حصہ اتر چکا تھا اسی کے مطابق انھوں نے پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کیا اور سب نے اپنے اپنے انداز سے کیا کیونکہ ابھی کوئی مقررہ کیفیت نہ اتری تھی فانزل اللہ ایۃ التیمم کا مطلب یہ ہوا کہ تیمم کی مکمل کیفیت نازل فرما دی معلوم ہوا کہ یہ تیمم آیت کا بقیہ حصہ اترنے سے پہلے کا واقعہ ہے اور حضرت عمار (رض) کی روایت میں یہی کیفیت سابقہ مذکور ہے اور اس پر مزید ثبوت درکار ہو تو خود حضرت عمار (رض) کی روایت اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو۔

645

۶۴۵ : فَمِنْہُ مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ، عَنْ سَعِیْدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی، عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ (عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ سَأَلَ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّیَمُّمِ، فَأَمَرَہٗ بِالْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ) .
٦٤٥: عبدالرحمن بن ابزی بیان کرتے ہیں کہ عمار بن یاسر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تیمم کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چہرے اور کفین کا حکم دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢١‘ ٣٢٧۔

646

۶۴۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : سَمِعْتُ ذِرَّ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّ (رَجُلًا أَتٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : إِنِّیْ کُنْتُ فِیْ سَفَرٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدِ الْمَائَ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : لَا تُصَلِّ فَقَالَ عَمَّارٌ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، أَمَا تَذْکُرُ أَنِّیْ کُنْتُ أَنَا وَإِیَّاکَ فِیْ سَرِیَّۃٍ، فَأَجْنَبْنَا، فَلَمْ نَجِدَ الْمَائَ، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَرَّغْتُ فِی التُّرَابِ .فَأَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاہُ، فَقَالَ : أَمَّا أَنْتَ، فَکَانَ یَکْفِیْکَ وَقَالَ بِیَدَیْہِ، فَضَرَبَ بِہِمَا، وَنَفَخَ فِیْہِمَا، وَمَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ وَکَفَّیْہِ .فَفَعَلَ عَمَّارٌ) - اِذْ تَمَرَّغَ - یُرِیْدُ بِذٰلِکَ، التَّیَمُّمَ، وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ بَعْدَ نُزُوْلِ الْآیَۃِ، فَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ، لِأَنَّہٗ عَمِلَ عَلٰی أَنَّ التَّیَمُّمَ لِلْجَنَابَۃِ، غَیْرُ التَّیَمُّمِ لِلْحَدَثِ ؛ حَتّٰی عَلَّمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمَا سَوَائٌ .
٦٤٦: عبدالرحمن بن ابزی بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کے ہاں آیا اور کہنے لگا کہ میں سفر میں تھا مجھے نہانے کی حاجت ہوگئی مگر مجھے پانی نہ ملا تو عمر (رض) نے کہا تو نماز مت پڑھ عمار کہنے لگے اے امیرالمؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک سریہ میں تھے پھر ہمیں جنابت کی حالت پیش آگئی ہم نے پانی نہ پایا آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر تمام جسم پر مٹی مل لی پھر ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا تجھے اتنا کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتے اور ان پر پھونک مارتے اور ان کو چہرے اور ہتھیلیوں پر مل لیتے۔ پس حضرت عمار (رض) کا عمل کہ وہ تیمم کا ارادہ کر کے خود مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتے۔ اگر آپ کا یہ عمل نزول آیت کے بعد تھا تو ہمارے ہاں انھوں نے یہ عمل اس لیے کیا کہ وہ جنابت اور حدث کو الگ الگ خیال کرتے تھے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے بتلایا کہ دونوں کے لیے تیمم ایک جیسا ہے۔
تخریج : بخاری فی التیمم باب ٨‘ مسلم فی الحیض ١١٠‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢١‘ ٣٢٢‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٩٨‘ مسند احمد ٤؍٢٦٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٥٩۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں عمار بن یاسر کا فعل ہے جس میں انھوں نے جسم کو مکمل مٹی میں ملوث کیا اگر تو نزول آیت سے بعد کی بات ہے تو یہ ان کا فعل ہے جس کا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم نہیں فرمایا کیونکہ انھوں نے سمجھا کہ یہ تیمم جنابت ‘ حدث کے تیمم سے مختلف ہے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا کہ تیمم دونوں کا برابر ہے۔

647

۶۴۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا زَائِدَۃُ وَشُعْبَۃُ ؛ عَنْ حُصَیْنٍ ؛ عَنْ أَبِیْ مَالِکٍ عَنْ عَمَّارٍ أَنَّہٗ قَالَ : (إِلَی الْمِفْصَلِ) وَلَمْ یَرْفَعْہُ .
٦٤٧: زائدہ و شعبہ نے حصین عن ابی مالک عن عمار (رض) نقل کیا کہ عمار (رض) نے تیمم گٹوں تک فرمایا مگر اس روایت کو مرفوع قرار نہیں دیا۔
تخریج : بیہقی فی الکبرٰی ١؍٣٢٣‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٤٧۔

648

۶۴۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی عَنْ أَبِیْہِ ؛ (عَنْ عَمَّارٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ : إِنَّمَا یَکْفِیْکَ أَنْ تَقُوْلَ ھٰکَذَا) وَضَرَبَ الْأَعْمَشُ بِیَدَیْہِ الْأَرْضَ ثُمَّ نَفَخَہُمَا وَمَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ وَکَفَّیْہِ .
٦٤٨: عبدالرحمن بن ابزی نے حضرت عمار سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا تیرے لیے اتنا کافی تھا کہ تم اس طرح ہو (یعنی کرو) اعمش نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک لگا کر ان کو اپنے چہرے اور کفین پر مل لیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٤٦‘ ابو داؤد ١؍٤٦۔

649

۶۴۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْحَکَمُ عَنْ ذَرٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی عَنْ أَبِیْہِ عَنْ (عَمَّارٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ : إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْکَ ھٰکَذَا) وَضَرَبَ شُعْبَۃُ بِکَفَّیْہِ إِلَی الْأَرْضِ وَأَدْنَاہُمَا مِنْ فِیْہِ ؛ فَنَفَخَ فِیْہِمَا ثُمَّ مَسَحَ وَجْہَہٗ وَکَفَّیْہِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : ھٰکَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ فِیْ إِسْنَادِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی، عَنْ أَبِیْہِ، وَإِنَّمَا ہُوَ عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْہِ .
٦٤٩: عبدالرحمن بن ابزی نے حضرت عمار سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا تمہیں اس طرح کرنا کافی تھا اور شعبہ نے اپنی ہتھیلیوں سے زمین پر ضرب لگائی اور پھر ان کو اپنے منہ سے قریب کیا اور ان پر پھونک ماری اور پھر ان کو اپنے چہرے اور کفین پر پھیرلیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن خزیمہ نے عبدالرحمن سے اور انھوں نے اپنے والد ابزیٰ سے روایت کی ہے اور اصل میں وہ ذر کے واسطہ سے ذر نے عبدالرحمن سے اور اس نے اپنے والد سے نقل کی ہے ۔
تخریج : مسند اسحاق بن راہویہ۔

650

۶۵۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ سَلَمَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ ذِرًّا یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی عَنْ أَبِیْہِ نَحْوَہٗ۔قَالَ سَلَمَۃُ لَا أَدْرِیْ، بَلَغَ الذِّرَاعَیْنِ أَمْ لَا .
٦٥٠: عبدالرحمن بن ابزی نے اسی طرح روایت نقل کی ہے سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں ذرا عین تک پہنچے یا نہ پہنچے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٤٦۔

651

۶۵۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَنْ أَبِیْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزَی مِثْلَہٗ .وَزَادَ (فَمَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ إِلٰی أَنْصَافِ الذِّرَاعِ) .
٦٥١: ابو مالک نے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ یہ اضافہ ہے ان کو اپنے چہرے اور نصف بازو تک مل لیا۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٤٦۔

652

۶۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَقَدِ اضْطَرَبَ عَلَیْنَا حَدِیْثُ عَمَّارٍ ھٰذَا، غَیْرَ أَنَّہُمْ جَمِیْعًا، قَدْ نَفَوْا أَنْ یَکُوْنَ قَدْ بَلَغَ الْمَنْکِبَیْنِ وَالْاِبْطَیْنِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ انْتِفَائُ مَا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیْہِ، أَوْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَثَبَتَ أَحَدُ الْقَوْلَیْنِ الْآخَرَیْنِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، فَإِذَا أَبُوْ جُہَیْمٍ قَدْ رَوٰی (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ یَمَّمَ وَجْہَہٗ وَکَفَّیْہِ) .فَذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِمَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّ التَّیَمُّمَ إِلَی الْکَفَّیْنِ .وَرَوٰی نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ تَیَمَّمَ إِلٰی مِرْفَقَیْہِ) .وَقَدْ ذَکَرْتُ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ جَمِیْعًا فِیْ بَابِ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ لِلْحَائِضِ .
٦٥٢: سفیان نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ حضرت عمار (رض) کی یہ روایت مضطرب ہے البتہ سب راویوں نے کندھوں اور بغلوں تک مسح کی نفی کی ہے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ ان سے عبیداللہ یا ابن عباس (رض) والی روایت منتفی ہے اور آخری دو اقوال میں سے ایک قول ثابت ہوگیا۔ اب ہم نے غور کیا تو حضرت ابوجہیم (رض) کی روایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل گئی کہ آپ نے اپنے چہرے اور بازوؤں پر مسح کیا۔ پس یہ کھلی دلیل بن گئی کہ تیمم کفین تک ہے اور نافع نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہنیوں سمیت تیمم فرمایا۔ میں نے ان دونوں روایات کو باب قراء ۃ القرآن للحائض میں ذکر کردیا ہے۔
روایت حضرت عمار (رض) پر جرح :
روایت عمار (رض) میں اضطرابات ہیں جن کی تفصیل عرض کرنے سے پہلے ان روایات کا حاصل عرض کرتے ہیں۔
حاصل روایات :
ان تمام روایات میں کندھے اور بغل کی نفی مکمل طور پر ثابت ہے اس سے حضرت عمار (رض) کی پہلی روایت کا نسخ تو ظاہر ہوگیا اسی طرح اس سے عبیداللہ بن مسعود اور ابن عباس (رض) کی روایت کی نفی بھی ہوگئی اب دو آخری باتوں میں سے ایک کے ثبوت کو دیکھا جائے گا۔
اضطرابات :
ہمارے استاذ محمد بن خزیمہ نے اپنی سند میں اس طرح نقل کیا عبدالرحمن بن ابزٰی عن ابیہ حالانکہ وہ (ابزٰی مراد ہے) ذر عن ابن عبدالرحمن عن ابیہ ہے۔
روایت نمبر ١: سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ عن ابیہ یہاں ابیہ سے مراد عبدالرحمن ہے۔
روایت نمبر ٢: ذر کی روایت اسی طرح ہے۔
نمبر ٣: میں ابو مالک نے عمار سے براہ راست نقل کی ہے۔
نمبر ٤: میں سلمہ نے سعید بن عبدالرحمن اور عبدالرحمن نے عمار سے نقل کی۔
نمبر ٥: میں ذر نے عبدالرحمن بن ابزٰی عن ابیہ عبدالرحمن اپنے والد ابزیٰ کے واسطہ سے عمار سے نقل کی۔
نمبر ٦: میں ذر نے ابن عبدالرحمن بن ابزی یعنی عبدالرحمن نے عمار سے نقل کی۔
نمبر ٧: سلمہ نے ابو مالک عن عبدالرحمن بن ابزی اور ابزی نے عمار سے نقل کی ہے۔
نمبر ٨: اس میں بھی اسی طرح ہے۔
ایک نگاہ توجہ :
ابو جہم (رض) کی روایت میں چہرے اور یدین کا تذکرہ ہے کفین کا لفظ نہیں اور گٹوں تک ہے اس روایت سے گٹوں تک کے قائلین نے استدلال کیا ہے اور دوسری روایت ابن عباس (رض) ہے جس میں مرفقین تک تیمم کا ثبوت ہے یہ دونوں روایتیں قراۃ القرآن للحائض میں ذکر ہو چکیں دوسری روایت مرفقین کے قائلین کی دلیل ہے اس کی تائید کے لیے حضرت اسلع تمیمی کی روایت ذکر کی جا رہی ہے۔

653

۶۵۳ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یُوْسُفُ، عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ بَدْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عَنْ جَدِّیْ، عَنْ (أَسْلَعَ التَّمِیْمِیِّ قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ، فَقَالَ لِیْ: یَا أَسْلَعَ قُمْ فَارْحَلْ لَنَا .قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَصَابَتْنِیْ بَعْدَک جَنَابَۃٌ، فَسَکَتَ عَنِّیْ حَتّٰی أَتَاہُ جِبْرَائِیْلُ بِآیَۃِ التَّیَمُّمِ فَقَالَ : لِیْ یَا أَسْلَعَ قُمْ فَتَیَمَّمْ صَعِیْدًا طَیِّبًا، ضَرْبَتَیْنِ، ضَرْبَۃً لِوَجْہِک وَضَرْبَۃً لِذِرَاعَیْکَ، ظَاہِرِہِمَا وَبَاطِنِہِمَا .فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَی الْمَائِ، قَالَ : یَا أَسْلَعَ، قُمْ فَاغْتَسِلْ) .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِی التَّیَمُّمِ کَیْفَ ہُوَ، وَاخْتَلَفَتْ ھٰذِہِ الرِّوَایَاتُ فِیْہِ، رَجَعْنَا إِلَی النَّظَرِ فِیْ ذٰلِکَ، لِنُسْتَخْرَجَ بِہٖ مِنْ ھٰذِہِ الْأَقَاوِیْلِ قَوْلًا صَحِیْحًا .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ، فَوَجَدْنَا الْوُضُوْئَ عَلَی الْأَعْضَائِ الَّتِیْ ذَکَرَہَا اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہٖ، وَکَانَ التَّیَمُّمُ قَدْ أَسْقَطَ عَنْ بَعْضِہَا، فَأَسْقَطَ عَنِ الرَّأْسِ وَالرِّجْلَیْنِ، فَکَانَ التَّیَمُّمُ ہُوَ عَلٰی بَعْضِ مَا عَلَیْہِ الْوُضُوْئُ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ : إِنَّہٗ إِلَی الْمَنَاکِبِ، لِأَنَّہٗ لَمَّا بَطَلَ عَنِ الرَّأْسِ وَالرِّجْلَیْنِ، وَہُمَا مِمَّا یُوَضَّأُ کَانَ أَحْرٰی أَنْ لَا یَجِبَ عَلٰی مَا لَا یُوَضَّأُ .ثُمَّ اُخْتُلِفَ فِی الذِّرَاعَیْنِ، ہَلْ یُیَمَّمَانِ أَمْ لَا؟ .فَرَأَیْنَا الْوَجْہَ یُیَمَّمُ بِالصَّعِیْدِ، کَمَا یُغْسَلُ بِالْمَائِ، وَرَأَیْنَا الرَّأْسَ وَالرِّجْلَیْنِ لَا یُیَمَّمُ مِنْہُمَا شَیْئٌ .فَکَانَ مَا سَقَطَ التَّیَمُّمُ عَنْ بَعْضِہٖ سَقَطَ عَنْ کُلِّہٖ، وَکَانَ مَا وَجَبَ فِیْہِ التَّیَمُّمُ کَانَ کَالْوُضُوْئِ سَوَائً، لِأَنَّہٗ جُعِلَ بَدَلًا مِنْہٗ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ بَعْضَ مَا یُغْسَلُ مِنَ الْیَدَیْنِ فِیْ حَالِ وُجُوْدِ الْمَائِ یُیَمَّمُ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْمَائِ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ التَّیَمُّمَ فِی الْیَدَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا مِنْ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی. وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٦٥٣: حضرت اسلع تمیمی کہتے ہیں میں ایک سفر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تھا آپ نے مجھے فرمایا اے اسلع اٹھو اور ہمارے کجاوہ کو باندھو میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے آپ کے بعد جنابت پہنچ گئی ہے آپ تھوڑی دیر خاموش رہے یہاں تک کہ جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس تیمم کی آیت لائے تو آپ نے مجھے فرمایا اے اسلع ! اٹھو اور پاکیزہ مٹی سے تیمم کرلو جو کہ دو ضربیں ہیں ایک ضرب تمہارے چہرے کے لیے اور دوسری ضرب تمہارے بازوؤں کے لیے بازوؤں کے ظاہر و باطن دونوں طرف (ہاتھ پھیرنا ہوگا) جب ہم پانی تک پہنچے تو فرمایا اے اسلع اٹھو ! اور غسل کرو۔ پس جب تیمم کی کیفیت میں اختلاف ہوا اور روایات مختلف ہوئیں تو ہم نے نظر و فکر کو دوڑایا تاکہ ان اقوال میں سے صحیح ترین تک راہ پاسکیں ‘ جانچتے ہوئے ہم نے اس بات کو پایا کہ وضو ان تمام اعضاء کا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا البتہ تیمم نے بعض اعضاء کو ساقط کردیا ‘ سر اور دونوں پاؤں کو ساقط کیا گیا۔ پس حاصل یہ ہوا کہ اعضاء وضو میں سے بعض پر تیمم کا حکم ہوا پس اس سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہوگئی جو کندھوں تک تیمم کے قائل ہیں کیونکہ جب سر اور پاؤں اعضائے وضو میں سے ساقط کردیئے تو جو حصہ وضو میں بھی دھونا لازم نہیں اس کا تیمم سے ساقط ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا۔ پھر بازوؤں کے متعلق اختلاف ہوا کہ ان پر تیمم کیا جائے گا یا نہ کیا جائے گا تو ہم نے چہرے کو اس طرح پایا کہ اس پر مٹی سے تیمم کیا جاتا ہے جیسا کہ وضو میں اسے پانی سے دھوتے ہیں اور سر اور پاؤں کا تیمم نہیں کیا جاتا تو تیمم جو چیز کسی ایک عضو سے ساقط کرے گا وہ تمام اعضاء سے ساقط ہوگا اور جن میں تیمم واجب ہوا تھا وضوء کا حکم بھی یہی تھا کیونکہ وہ ایک دوسرے کا بدل ہیں۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہاتھوں کا بعض حصہ جو پانی ملنے کی صورت میں دھویا جاتا ہے تو پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم بھی اسی حصہ کا ہوگا جو وضو میں دھویا جاتا ہے۔ تو اس سے ثابت ہوگیا کہ ہاتھوں کا تیمم کہنیوں سمیت ہے۔ قیاس و فکر یہی چاہتے ہیں یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور حضرت ابن عمر (رض) اور جابر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍١٧٩‘ معجم کبیر لطبرانی ١؍٢٩٨۔
نظر طحاوی (رح) :
تیمم کی کیفیت میں روایات جب مختلف ہوئیں تو ہم نے نظر کی طرف رجوع کیا تاکہ ہم ان میں سے صحیح قول تک پہنچ سکیں چنانچہ ہم نے وضو کو دیکھا جس کا تذکرہ کتاب اللہ میں موجود ہے تیمم میں اس کے بعض حصے کو ساقط کردیا اور بعض کو باقی رکھا گیا سر اور پاؤں کو مکمل طور پر ساقط کیا تو جن اعضاء کو وضو میں دھویا جاتا ہے ان کے بعض پر تیمم ہوا پس جو منا کب تک کہتے ہیں ان کا قول باطل ہوگیا کیونکہ اعضاء وضو میں بھی کم کر کے جب دو کو باقی رکھا گیا تو جن کا وضو میں دھونا لازم نہ تھا ان پر تیمم کا نہ ہونا تو بدرجہ اولیٰ مناسب ہوگا۔
ذراعین میں اختلاف :
امام مالک و حنبل (رح) کے نزدیک گٹوں تک لازم ہے اور تمام ائمہ و جمہور فقہاء کے ہاں مرفقین تک تیمم ہوگا۔
فریق ثانی کی عقلی دلیل :
اس پر نظر ڈالنے سے مندرجہ ذیل بات سامنے آتی ہے چہرے پر تیمم کیا جاتا ہے جیسا کہ اسے وضو میں دھویا جاتا ہے اور سر اور پاؤں میں سے کسی پر تیمم نہیں تیمم وضو کا بدل ہے اور اصل میں سے جس چیز کو بدل میں ساقط کیا تو مکمل ساقط کیا اور جس کو بدل میں قائم رکھا اس کو مکمل قائم رکھا پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی بازو کا جتنا حصہ وضو میں دھویا جاتا ہے تیمم میں بھی اسی حصہ پر تیمم کیا جائے گا اس قیاس سے ثابت ہوا کہ تیمم مرفقین تک ہی ہونا چاہیے کہ بغلوں تک۔
یہی امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔

شک :
روایات میں لفظ یدین وغیرہ موجود ہے اور آپ قیاس سے اس کو مسترد کر رہے ہیں۔
الجواب :
یہ بات صحابہ کرام (رض) اور تابعین (رح) سے ثابت ہے روایات ملاحظہ ہوں۔

654

۶۵۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، وَعَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ التَّیَمُّمِ .فَضَرَبَ بِیَدَیْہِ إِلَی الْأَرْضِ وَمَسَحَ بِہِمَا یَدَیْہِ وَوَجْہَہٗ وَضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَمَسَحَ بِہِمَا ذِرَاعَیْہِ .
٦٥٤: عبیداللہ بن عمر اور عبدالکریم الجزری نے نافع سے نقل کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے تیمم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان کو اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر ملا اور دوسری ضرب لگائی اور اس کو اپنی دونوں کلائیوں پر مل لیا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٥٨‘ بیہقی ١؍٣١٨۔

655

۶۵۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْکَنَّاسِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ رَوَّادٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٦٥٥: نافع نے بن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

656

۶۵۶ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٦٥٦: ہشام بن عروہ نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

657

۶۵۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَقْبَلَ مِنَ الْجَرْفِ حَتّٰی اِذَا کَانَ بِالْمِرْبَدِ، تَیَمَّمَ صَعِیْدًا طَیِّبًا فَمَسَحَ بِوَجْہِہٖ وَیَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ، ثُمَّ صَلّٰی .
٦٥٧: مالک نے نافع سے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) جرف کے مقام سے لوٹ رہے تھے جب مربد کے پاس پہنچے تو پاکیزہ مٹی سے تیمم کیا پس اپنے چہرے پر ملا اور دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت ملا پھر نماز ادا کی۔
اللغات : المربد۔ کھجور خشک کرنے کا میدان۔
تخریج : موطا مالک ١؍١٩‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٤٦‘ دارقطنی ١؍١٨٨۔

658

۶۵۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا عُزْرَۃُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : أَصَابَتْنِیْ جَنَابَۃٌ، وَإِنِّیْ تَمَعَّکْتُ فِی التُّرَابِ .فَقَالَ : أَصِرْتَ حِمَارًا، وَضَرَبَ بِیَدَیْہِ إِلَی الْأَرْضِ فَمَسَحَ وَجْہَہٗ، ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدَیْہِ إِلَی الْأَرْضِ فَمَسَحَ بِیَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ، وَقَالَ : ھٰکَذَا التَّیَمُّمُ .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ الْحَسَنِ .
٦٥٨: حضرت ابوالزبیر جابر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے بتایا کہ مجھے جنابت پہنچ گئی ہے اور میں نے اپنے کو مٹی میں لت پت کرلیا ہے انھوں نے فرمایا کیا تو گدھا بن گیا پھر انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان کو چہرے پر مل لیا پھر دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان کو کلائیوں پر کہنیوں سمیت مل لیا اور فرمایا تیمم اس طرح ہوتا ہے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ ١؍١٥٩‘ دارقطنی ١؍١٨٩۔
اسی طرح کی روایت حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہے۔
روایت حسن (رح) :

659

۶۵۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ قَالَ : " ضَرْبَۃٌ لِلْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ، وَضَرْبَۃٌ لِلذِّرَاعَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ " .
٦٥٩: حسن (رح) نے کہا کہ ایک ضرب تو چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے اور دوسری ضرب بازوؤں پر کہنیوں سمیت کے لئے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٥٨۔

660

۶۶۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ، ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ، عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَہٗ، وَلَمْ یَقُلْ " إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ "
٦٦٠: بوالاشہب نے حسن (رح) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے مگر اس میں الی المرفقین کا لفظ نہیں ہے۔
حاصل روایات :
ان روایات میں ابن عمر (رض) جابر (رض) اور حسن بصری (رح) سے یہ بات نقل کی گئی کہ وہ تیمم کہنیوں سمیت کرتے تھے پس اس عمل صحابہ اور تابعین کے لیے عقلی دلیل کو معاون دلیل سمجھا جائے۔ واللہ اعلم
حاصل روایات : اس باب میں ترتیب تو برقرار رکھی گئی راجح مسلک کے لیے ایک روایت اور ایک تائید پیش فرمائی مگر دلیل عقلی جو زوردار انداز سے لائے پھر خلاف معمول روایات مسلک راجح کو آخر باب میں ذکر کیا۔

661

۶۶۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُحْرِزٍ قَالَ: ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ: ثَنَا أَبِیْ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ طَاؤُوْسٍ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : ذَکَرُوْا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: (اغْتَسِلُوْا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَاغْسِلُوْا رُئُ وْسَکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَکُوْنُوْا جُنُبًا، وَأَصِیْبُوْا مِنَ الطِّیْبِ) .فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَمَّا الْغُسْلُ فَنَعَمْ، وَأَمَّا الطِّیْبُ، فَلَا أَعْلَمُہٗ.
٦٦١: طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جمعہ کے دن غسل کرو اور اپنے سروں کو دھو لو خواہ حالت جنابت نہ ہو اور خوشبو لگاؤ ابن عباس (رض) یہ سن کر فرمانے لگے غسل تو ٹھیک ہے باقی رہی خوشبو اس کے متعلق مجھے معلوم نہیں۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٦‘ مسلم فی الجمعہ روایت ٨‘ مسند احمد ١؍٣٣٠۔
خلاصہ الزام : جمعہ کے دن غسل واجب ہے یا سنت ؟
نمبر ١: تابعین کی ایک جماعت جس میں حسن بصری ‘ سفیان ثوری ‘ عطاء (رح) وجوب کے قائل ہیں۔
نمبر ٢: ائمہ اربعہ تمام فقہاء و محدثین سنیت کے قائل ہیں۔

662

۶۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ، قَالَ : أَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: قَالَ طَاؤُوْسٌ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٦٦٢: زہری کہتے ہیں کہ طاؤس کہنے لگے میں نے ابن عباس (رض) سے کہا پھر انھوں نے اوپر والی روایت کی طرح روایت بیان کی۔
تخریج : بخاری ١؍٣٠٢‘ نحوہ۔

663

۶۶۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنْ طَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٦٦٣: طاؤس نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٨٠۔

664

۶۶۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ قَالَ : سَمِعْتُ (رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَقَالَ أَمَرَنَا بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٦٦٤: یحییٰ بن وثاب (رح) کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ ابن عمر (رض) سے پوچھ رہا تھا کہ جمعہ کے دن غسل کا کیا حکم ہے۔ تو انھوں نے فرمایا ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا حکم فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤٧۔

665

۶۶۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ، قَالَا : سَمِعْنَا ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : " سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ " .
٦٦٥: یحییٰ بن وثاب اور نافع دونوں نے کہا کہ ہم نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے۔ (جیسا اوپر روایت میں ہے)
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍٤٣٣۔

666

۶۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، أَنَّہٗ سَمِعَ نَافِعًا یُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٦٦٦: شعبہ نے حکم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نافع کو ابن عمر (رض) سے یہ روایت بیان کرتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٧٦۔

667

۶۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ حَدِیْثِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٦٦٧: زہری نے حدیث سالم بن عبداللہ سے انھوں نے حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات بیان کی۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٦۔

668

۶۶۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٦٦٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی بات بیان فرمائی۔
تخریج : موطا مالک ١؍٣٦۔

669

۶۶۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٦٦٩: نافع نے ابن عمر (رض) انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٧٨۔

670

۶۷۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٦٧٠: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روایت بیان کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍٣٠٥‘ ابن الج اور د فی المنتقٰی ١؍٨٠۔

671

۶۷۱ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ أَبُوْ بِشْرِ ڑ الْبَغْدَادِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٦٧١: عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٧٩۔

672

۶۷۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ : أَلَمْ تَسْمَعُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : (اِذَا جَائَ أَحَدُکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ)؟
٦٧٢: ابو سلمہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو منبر پر یہ فرماتے سنا کیا تم نے جناب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے نہیں سنا کہ جب جمعہ کا دن آئے تو غسل کرلیا کرو۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٢؍٢٦‘ مسلم فی الجمعہ نمبر ٢٠١‘ ٣‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٣‘ نمبر ٤٩٢‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٨٠‘ دارمی فی الصلاۃ باب ١٩٠‘ مسند احمد ٢؍٩‘ ٣٧‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٩٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٩٣۔

673

۶۷۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : ثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَۃَ، عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ نَافِعٍ مَوْلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ: (عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ الرَّوَاحُ إِلَی الْجُمُعَۃِ وَعَلٰی مَنْ رَاحَ إِلَی الْمَسْجِدِ الْغُسْلُ)۔
٦٧٣: نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے انھوں نے حفصہ (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ہر مسلمان بالغ کو جمعہ ادا کرنا لازم ہے اور جو مسجد میں جائے اس پر غسل لازم ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٧‘ ٣٤٢‘ نسائی فی الجمعہ باب ٢‘ طبرانی فی المعجم الکبیر ٢٣؍١٩٥‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٣؍١٧١۔

674

۶۷۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَیَزِیْدُ بْنُ مَوْہَبٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّادِ ڑ الْبَصَرِیُّ، قَالُوْا : حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٦٧٤: یحییٰ بن عبداللہ اور یزید بن موہب اور عبداللہ بن عباد البصری تینوں نے کہا کہ ہمیں مفضل نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٢٣؍١٩٥۔

675

۶۷۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ : ثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَیْبَۃَ عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیْبٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِالْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ) .
٦٧٥: طلق بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن الزبیر نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن غسل کا حکم فرماتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٦‘ مسلم فی الجمعہ ٦‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٣٤٨۔

676

۶۷۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ یَغْتَسِلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَأَنْ یَتَطَیَّبَ مِنْ طِیْبٍ إِنْ کَانَ عِنْدَہٗ) .
٦٧٦: سعید بن ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی انصاری صحابی سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے اور خوشبو لگائے اگر اس کے پاس ہو۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٢‘ معجم فی الجمعہ باب ٩‘ مصنف عبدالرزاق ٣؍١٩٦‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ٣؍١٨٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ٢؍٩٤۔

677

۶۷۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ،
٦٧٧: خالد بن عبداللہ نے کہا داؤد نے داؤد بن ابی ہند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

678

۶۷۸ : ح وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَالِدٍ، عَنْ دَاوٗدَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (الْغُسْلُ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ کُلِّ أُسْبُوْعٍ یَوْمًا، وَہُوَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ) .
٦٧٨: ابو الزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر مسلمان پر ہفتے میں ایک مرتبہ غسل واجب ہے اور وہ جمعہ کا دن ہے۔
تخریج : نسائی فی السنن الکبرٰی کتاب الجمعہ باب ٨۔

679

۶۷۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (الْغُسْلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ) .
٦٧٩: عطاء بن یسار نے کہا حضرت ابو سعید الخدری (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بات کو پہنچاتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر لازم ہے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٦١‘ والجمعہ باب ٢‘ ٣‘ والشہادات باب ١٨‘ مسلم فی الجمعہ نمبر ٤‘ ٧‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٣٤١‘ نسائی فی الجمعہ باب ٢‘ ٦‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٨٠‘ نمبر ١٠٨٩‘ مالک فی الجمعہ روایت ٢‘ ٤‘ دارمی الصلاۃ باب ١٩٠‘ مسند احمد ٣؍٦‘ بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٩٤‘ ٣؍١٨٨۔

680

۶۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ صَفْوَانَ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٦٨٠: مالک عن صفوان بن سلیم نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍٩٩٢‘ مسند عبداللہ بن یوسف۔

681

۶۸۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ مِنَ الْحَقِّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ یَغْتَسِلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَأَنْ یَمَسَّ مِنْ طِیْبٍ، إِنْ کَانَ عِنْدَ أَہْلِہٖ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُمْ طِیْبٌ فَإِنَّ الْمَائَ طِیْبٌ) .قَالَ : أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی إِیْجَابِ الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَیْسَ الْغُسْلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِوَاجِبٍ، وَلَکِنَّہٗ مِمَّا قَدْ أَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِمَعَانٍ قَدْ کَانَتْ .
٦٨١: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے اور خوشبو لگائے اگر اس کے اہل کے ہاں ہو۔ اگر خوشبو ہو تو پانی ہی خوشبو ہے۔ (وہ صفائی کر دے گا) امام طحاوی (رح) نے فرمایا ایک قوم کا کہنا یہ ہے کہ جمعہ کے دن غسل واجب ہے اور انھوں نے دلیل میں ان روایات کو پیش کیا مگر دوسروں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کے دن غسل واجب نہیں لیکن جمعہ کے دن غسل بعض مقاصد کی خاطر کیا جائے گا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو ابن عباس (رض) کی روایت سے نقل کی گئی ہیں۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٩٢۔
حاصل روایات :
ان اکیس روایات سے جو مختلف اسناد کے ساتھ مختلف صحابہ کرام (رض) سے مروی ہیں ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کا حکم تاکیدی ہے اسی وجہ سے فریق اوّل نے اس کو واجب قرار دیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
جمعہ کے دن غسل واجب نہیں بلکہ اس کے حکم دینے کے کچھ اسباب ہیں جو مندرجہ ذیل روایات سے بخوبی معلوم ہوجائیں گے یہ گویا فریق اوّل کا جواب بھی بن جائے گا۔

682

۶۸۲ : فَمِنْہَا : مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ ذٰلِکَ
٦٨٢: ابن ابی مریم نے کہا الدر اور دی نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

683

۶۸۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ، ح .وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ، قَالَ : ثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ أَبِیْ عَمْرٍو، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : (سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ أَوَاجِبٌ ہُوَ قَالَ : لَا وَلَکِنَّہٗ طَہُوْرٌ وَخَیْرٌ، فَمَنِ اغْتَسَلَ، فَحَسَنٌ، وَمَنْ لَمْ یَغْتَسِلْ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ بِوَاجِبٍ وَسَأُخْبِرُکُمْ کَیْفَ بَدَأَ، کَانَ النَّاسُ مَجْہُوْدِیْنَ یَلْبَسُوْنَ الصُّوْفَ، وَیَعْمَلُوْنَ عَلٰی ظُہُوْرِہِمْ، وَکَانَ الْمَسْجِدُ ضَیِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ، إِنَّمَا ہُوَ عَرِیشٌ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ یَوْمٍ حَارٍّ، وَقَدْ عَرِقَ النَّاسُ فِیْ ذٰلِکَ الصُّوْفِ، حَتَّی ثَارَتْ رِیَاحٌ، حَتّٰی آذٰی بَعْضُہُمْ بَعْضًا .فَوَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ الرِّیَاحَ فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ، اِذَا کَانَ ھٰذَا الْیَوْمُ، فَاغْتَسِلُوْا، وَلْیَمَسَّ أَحَدُکُمْ أَمْثَلَ مَا یَجِدُ مِنْ دُہْنِہٖ وَطِیْبِہٖ .قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : ثُمَّ جَائَ اللّٰہُ بِالْخَیْرِ وَلَبِسُوْا غَیْرَ الصُّوْفِ، وَکُفُّوا الْعَمَلَ، وَوَسِعَ مَسْجِدَہُمْ) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُخْبِرُ أَنَّ ذٰلِکَ الْأَمْرَ الَّذِیْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْغُسْلِ، لَمْ یَکُنْ لِلْوُجُوْبِ عَلَیْہِمْ، وَإِنَّمَا کَانَ لِعِلَّۃٍ، ثُمَّ ذَہَبَتْ تِلْکَ الْعِلَّۃِ فَذَہَبَ الْغُسْلُ، وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَأْمُرُ بِالْغُسْلِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ذٰلِکَ شَیْئٌ .
٦٨٣: الدر اور دی نے عمرو بن ابی عمرو بن عکرمہ سے روایت کی ہے کہ جناب ابن عباس (رض) سے غسل جمعہ کے سلسلہ میں دریافت کیا گیا کہ آیا وہ واجب ہے یا نہیں۔ تو انھوں نے فرمایا نہیں لیکن وہ پاکیزگی اور بہت بہتر ہے پس جس نے غسل کیا اس نے خوب کیا اور جس نے غسل نہ کیا اس پر ضروری نہیں میں تمہیں اس کی ابتداء کا سلسلہ ذکر کرتا ہوں لوگ محنت و مزدوری کرتے اون کے کپڑے عموماً استعمال کرتے اور اپنی پشتوں پر بوجھ اٹھاتے مسجد نبوی کی چھت نیچی اور نمازیوں کے لیے مسجد چھوٹی تھی بس وہ ایک چھپر کی صورت میں تھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت گرمی کے ایک دن میں تشریف لائے لوگ اس اون میں پسینے سے شرابور تھے گندی ہوا اٹھی جس سے ایک دوسرے کو ایذاء پہنچی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ریاح کو محسوس فرمایا تو آپ نے فرمایا اے لوگو ! جب یہ دن آئے تو غسل کرلیا کرو اور ہر ایک تم میں جو اچھی خوشبو اور تیل پائے وہ اس کو لگائے (اور مسجد میں آئے) ابن عباس (رض) کہنے لگے پھر اللہ تعالیٰ وسعت لے آئے اور انھوں نے اون کے علاوہ دوسرے کپڑے پہن لیے اور محنت و مزدوری بھی کم ہوگئی اور مسجد بھی وسیع ہوگئی۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول روایات میں غسل وجوب کے لیے نہ تھا بلکہ یہ بعض اسباب کی بناء پر تھا پھر وہ اسباب جاتے رہے تو تاکید غسل بھی جاتی رہی۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات کرنے والوں میں سے ایک ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل کا حکم دیتے تھے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی اس سلسلہ میں کچھ مروی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٨‘ نمبر ٣٥٣۔
طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ابن عباس (رض) جو غسل کے حکم کی نوعیت بتلا رہے ہیں اور یہ بتلا رہے ہیں کہ یہ حکم وجوب کے لیے نہ تھا بلکہ اس کا یہ سبب تھا جب علت نہ رہی تو وجوب نہ رہا۔
فریق اوّل کی مستدل روایات میں یہ بھی ان حضرات میں شامل ہیں جنہوں نے امر غسل کا تذکرہ فرمایا ہے اب ان کا فتویٰ اس کے خلاف خود اس کے نسخ کی دلیل ہے۔ فتدبر۔
روایت حضرت عائشہ k
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی اس سلسلہ میں روایت وارد ہے۔

684

۶۸۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، ح .وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ عَنْ یَحْیٰی، قَالَ : سَأَلْتُ عَمْرَۃَ عَنْ غُسْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ، فَذَکَرَتْ أَنَّہَا سَمِعَتْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَقُوْلُ کَانَ النَّاسُ عُمَّالَ أَنْفُسِہِمْ، فَیَرُوْحُوْنَ بِہَیْئَاتِہِمْ فَقَالَ لَوِ اغْتَسَلْتُمْ " .فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، تُخْبِرُ بِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا کَانَ نَدَبَہُمْ إِلَی الْغُسْلِ، لِلْعِلَّۃِ الَّتِیْ أَخْبَرَ بِہَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، وَأَنَّہٗ لَمْ یَجْعَلْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ حَتْمًا، وَہِیَ أَحَدُ مَنْ رَوَیْنَا عَنْہَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِالْغُسْلِ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَقَعْ عِنْدَہٗ، مَوْقِعَ الْفَرْضِ .
٦٨٤: عبیداللہ نے یحییٰ کہتے ہیں میں نے عمرہ سے جمعہ کے دن غسل کے سلسلہ میں سوال کیا اس نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) کو فرماتے سنا کہ لوگ خود اپنا کام کاج کرتے تھے وہ اپنی اسی حالت میں مسجد میں آجاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو غسل کا حکم فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٦‘ مسلم فی الجمعہ نمبر ٦‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٨‘ نمبر ٣٥٢‘ مسند احمد ٦؍٦٢‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٥٣١٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ نمبر ٢؍٩٥۔
ارشاد طحاوی (رح) :
حضرت عائشہ (رض) نے اس روایت میں یہ خبر دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو غسل کی طرف اسی علت کی وجہ سے متوجہ کیا جس کا تذکرہ سابقہ روایت میں ابن عباس (رض) کرچکے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ان پر واجب نہیں فرمایا۔
سابقہ روایت کے جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فریق اوّل نے ان کی روایت کو مستدل بنایا تھا اور امر سے وجوب مراد لے لیا تھا مگر انھوں نے خود اس کا معنی استحباب بتلایا۔
حاصل روایات :
ان دونوں روایتوں نے حکم کی نوعیت کو ظاہر کردیا کہ لزوم کا سبب یہ تھا جب سبب رفع ہوا تو لزوم نہ رہا اس سے فریق اوّل کی روایات کا جواب بھی ہوگیا۔
اکابر صحابہ (رض) کے ہاں یہ حکم وجوب کے لیے نہ تھا۔

685

۶۸۵ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَیْنَمَا ہُوَ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، اِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ : لَہٗ عُمَرُ " الْآنَ حِیْنَ تَوَضَّأْتَ " .فَقَالَ : مَا زِدْتُ حِیْنَ سَمِعْتُ الْأَذَانَ، عَلٰی أَنْ تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ جِئْتُ .فَلَمَّا دَخَلَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ذَکَرْتُہٗ، فَقُلْتُ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ : أَنَا سَمِعْتُ مَا قَالَ قَالَ وَمَا قَالَ؟ قُلْتُ : قَالَ مَا زِدْتُ عَلٰی أَنْ تَوَضَّأْتُ حِیْنَ سَمِعْتُ النِّدَائَ ثُمَّ أَقْبَلْتُ .فَقَالَ : أَمَا إِنَّہٗ قَدْ عَلِمَ أَنَّا أُمِرْنَا بِغَیْرِ ذٰلِکَ، قُلْتُ مَا ہُوَ؟ قَالَ : الْغُسْلُ .قُلْتُ : أَنْتُمْ - أَیُّہَا الْمُہَاجِرُوْنَ - الْأَوَّلُوْنَ أَمِ النَّاسُ جَمِیْعًا، قَالَ : لَا أَدْرِیْ.
٦٨٥: محمد بن سیرین نے ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے جبکہ ایک آدمی آیا وہ مسجد میں داخل ہوا تو ان سے عمر (رض) نے فرمایا اس وقت تم نے وضو کیا ہے۔
انھوں نے کہا میں نے جب اذان سنی تو صرف وضو کر کے میں آگیا جب امیرالمؤمنین داخل ہوئے تو میں نے ان سے تذکرہ کیا میں نے کہا اے امیرالمؤمنین میں نے اس کی بات سنی انھوں نے کہا اس نے کیا کہا ہے ؟ میں نے کہا اس نے کہا ہے کہ میں نے جوں ہی اذان سنی تو وضو کر کے مسجد آگیا ہوں تو امیرالمؤمنین کہنے لگے ان کو معلوم ہے کہ ہمیں اس کے علاوہ کا حکم ہے میں نے کہا وہ علاوہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا وہ غسل ہے میں نے پوچھا کیا تم مہاجرین اولین کو حکم ہے یا سب لوگوں کو انھوں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٢‘ مسلم فی الجمعہ نمبر ٤‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٣‘ نمبر ٤٩٤‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ٢٩٢٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ ٢؍٩٤۔

686

۶۸۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَخْطُبُ .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَیَّۃُ سَاعَۃٍ ھٰذِہٖ؟ فَقَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوْقِ، فَسَمِعْتُ النِّدَائَ، فَمَا زِدْتُ عَلٰی أَنْ تَوَضَّأْت .فَقَالَ : عُمَرُ الْوُضُوْئُ أَیْضًا؟ وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِالْغُسْلِ؟ .قَالَ : مَالِکٌ وَالرَّجُلُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٦٨٦: ابن شہاب نے سالم بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہوئے جبکہ حضرت عمر (رض) خطبہ دے رہے تھے عمر (رض) نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا یہ آنے کا کون سا وقت ہے ؟ انھوں نے کہا اے امیرالمؤمنین ! میں بازار سے واپس لوٹا تو میں نے اذان سنی پس میں وضو کر کے مسجد میں آگیا ہوں عمر کہنے لگے وضو صرف ! تم جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے غسل کا حکم فرماتے تھے مالک کہتے ہیں یہ آنے والے عثمان بن عفان (رض) تھے۔
تخریج : گزشتہ تخریج ملاحظہ ہو۔

687

۶۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ، قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ عَنْ مَالِکٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ مَالِکٍ، أَنَّہٗ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٦٨٧: سالم نے اپنے والد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس روایت میں مالک کا یہ قول مذکور نہیں کہ وہ عثمان (رض) ہیں۔
تخریج : بخاری ١؍٣٣٠‘ مسلم ١؍٢٨٠۔

688

۶۸۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِثْلَہٗ .
٦٨٨: سالم نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٩۔

689

۶۸۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٦٨٩: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٨٠۔

690

۶۹۰ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : بَیْنَمَا عُمَرُ یَخْطُبُ النَّاسَ اِذْ دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَعَرَّضَ لَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَالَ : مَا بَالُ رِجَالٍ یَتَأَخَّرُوْنَ بَعْدَ النِّدَائِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٦٩٠: یحییٰ نے بتلایا کہ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ (رض) نے بتلایا کہ حضرت عمر (رض) خطبہ دے رہے تھے جبکہ عثمان بن عفان (رض) داخل ہوئے تو عمر (رض) نے ان کی طرف تعریض کرتے ہوئے فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اذان کے بعد تاخیر کرتے ہیں پھر اس کے بعد اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : روایت ٦٨٥ کی تخریج ملاحظہ ہو۔ مسند احمد ١؍٤٦۔

691

۶۹۱ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ الْأَوَّلِیْنَ، دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَعُمَرُ یَخْطُبُ، فَنَادَاہُ عُمَرُ : " أَیَّۃُ سَاعَۃٍ ھٰذِہٖ؟ فَقَالَ : مَا کَانَ إِلَّا الْوُضُوْئُ ثُمَّ الْاِقْبَالُ، فَقَالَ : عُمَرُ وَالْوُضُوْئُ أَیْضًا؟ وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّا کُنَّا نُؤْمَرُ بِالْغُسْلِ؟ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ غَیْرُ مَعْنًی، یَنْفِیْ وُجُوْبَ الْغُسْلِ .أَمَّا أَحَدُہُمَا : فَإِنَّ عُثْمَانَ لَمْ یَغْتَسِلْ وَاکْتَفٰی بِالْوُضُوْئِ .وَقَدْ قَالَ عُمَرُ : قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا بِالْغُسْلِ " .وَلَمْ یَأْمُرْہُ عُمَرُ أَیْضًا بِالرُّجُوْعِ ؛ لِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ بِالْغُسْلِ .فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْغُسْلَ الَّذِیْ کَانَ أَمَرَ بِہٖ لَمْ یَکُنْ - عِنْدَہُمَا - عَلَی الْوُجُوْبِ، وَإِنَّمَا کَانَ لِعِلَّۃِ مَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، أَوْ لِغَیْرِ ذٰلِکَ .وَلَوْلَا ذٰلِکَ مَا تَرَکَہٗ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَمَا سَکَتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ أَمْرِہٖ إِیَّاہُ بِالرُّجُوْعِ، حَتّٰی یَغْتَسِلَ، وَذٰلِکَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْنَ قَدْ سَمِعُوْا ذٰلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا سَمِعَہٗ عُمَرُ، وَعَلِمُوْا مَعْنَاہُ الَّذِیْ أَرَادَہُ فَلَمْ یُنْکِرُوْا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا، وَلَمْ یَأْمُرُوْا بِخِلَافِہٖ .فَفِیْ ھٰذَا، إِجْمَاعٌ مِنْہُمْ عَلٰی نَفْیِ وُجُوْبِ الْغُسْلِ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْ طَرِیْقِ الْاِخْتِیَارِ وَإِصَابَۃِ الْفَضْلِ .
٦٩١: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مہاجرین اولین میں سے مسجد میں اس وقت آئے جب عمر (رض) خطبہ دے رہے تھے ان کو عمر (رض) نے آواز دے کر کہا یہ آنے کا کیا وقت ہے ؟ تو انھوں نے کہا بس میں وضو کر کے مسجد آگیا ہوں عمر کہنے لگے صرف وضو ؟ جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ ہمیں تو غسل کا حکم ملا تھا۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں جو اس بات کی اطلاع دے رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو خاص سبب کی وجہ سے غسل کی ترغیب دی جس کی خبر حضرت ابن عباس (رض) دے رہے ہیں۔ آپ نے ان پر غسل کو لازم نہیں کیا تھا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بھی ان منجملہ روایت سے ہیں جن سے فصل اوّل میں روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ جمعہ کے دن غسل کا حکم فرماتے اور حضرت عمر (رض) سے بھی یہ روایت وارد ہوئی ہے کہ یہ فرض کی جگہ نہ تھا۔ حضرت ابوجعفر طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ان آثار میں اور اعتبار سے وجوبِ غسل کی نفی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے غسل نہ فرمایا اور وضو پر اکتفاء کیا حالانکہ ان کو حضرت عمر (رض) نے یہ بھی کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں غسل کا حکم فرماتے تھے مگر حضرت عمر (رض) نے ان کو غسل کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی وجہ سے واپسی کا حکم نہیں دیا ‘ اس میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ان دونوں کے ہاں بھی یہ غسل وجوب کے لیے نہ تھا یہ ان اسباب کی بناء پر تھا جن کا تذکرہ حضرت ابن عباس (رض) ‘ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ارشادات میں گزرا یا ان کے علاوہ اسباب کی بناء پر۔ اگر یہ نہ ہوتا تو عثمان (رض) اسے کبھی نہ چھوڑتے جب حضرت عمر (رض) نے ان کو غسل کے لیے واپس لوٹنے کا حکم دینے کی بجائے خاموشی اختیار فرمائی اور یہ واقعہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں پیش آیا جو حضرت عمر (رض) کی طرح یہ بات خود سننے والے تھے اور اس کا مفہوم جاننے والے تھے جو حضرت عمر (رض) کا مقصود تھا اس لیے انھوں نے اس کو انوکھا نہیں سمجھا اور نہ اس کی مخالفت میں کسی بات کا حکم دیا تو اس سے وجوبِ غسل پر اجماعِ سکوتی منعقد ہوگیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ارشاد مروی ہے جو اس معنی کا مؤید ہے کہ یہ غسل فضیلت کو پانے کے لیے مرضی پر موقوف تھا۔
تخریج : روایت ٦٨٥ کی تخریج ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات :
ان ساتوں روایات سے معلوم ہوا کہ غسل کا حکم تو تھا مگر اس کے وجوب کا حکم نہ تھا اس کی دلیل یہ ہے معنی یہاں وجہ کے معنی دے رہا ہے۔
نمبر ١: حضرت عثمان (رض) نے غسل نہیں کیا بلکہ وضو پر اکتفاء کیا اور عمر (رض) نے ان کو یہ تو یاد دلایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں غسل کا حکم فرماتے تھے (مگر اس حکم سے وجوب ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ثبوت وجوب کی صورت میں عمر (رض) ان کو واپس لوٹ جانے کا حکم فرماتے حالانکہ انھوں نے ان کو واپسی کا حکم نہیں دیا بلکہ وضو پر اکتفا کیا اگر امر وجوب کے لیے ہوتا تو وہ ان کو ضرور واپسی کا حکم فرماتے۔
نمبر ٢: اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان دونوں کے ہاں امر وجوب کے لیے نہ تھا بلکہ اس کی وجہ وہ علت تھی جو روایت ابن عباس (رض) عائشہ (رض) میں بیان ہوچکی۔
نمبر ٣: اگر امر وجوب کے لیے ہو تو تو خود عثمان (رض) بھی اس کو ترک نہ کرتے اور وضو پر اکتفاء نہ کرتے جب عمر (رض) نے بھی ان کو یاد تو دلایا مگر غسل کے لیے لوٹنے کا نہیں کہا اور یہ باتیں صحابہ کرام کے مجمع کے سامنے ہوئیں جنہوں نے غسل جمعہ کی روایت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی جیسا کہ عمر (رض) نے سنا تھا انھوں نے اس کی وہی وجہ سمجھی جو ان دونوں نے سمجھی ‘ انکار نہ کیا اور نہ اس کے خلاف کیا تو وجوب غسل جمعہ کی نفی پر اجماع سکوتی منعقد ہوگیا پس امر کو وجوب کے معنی میں لینا درست نہ ہوا۔
نمبر ٤: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور اختیار اور فضیلت کے حصول کے لیے حکم فرمایا تھا اور اس کی دلیل احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ پس یہ احادیث بھی نفی وجوب کے لیے کافی ثبوت ہیں۔

692

۶۹۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ الْحَضْرَمِیُّ، قَالَ : ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صُبَیْحٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَعَنْ یَزِیْدَ الرَّقَاشِیِّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَبِہَا وَنَعِمَتْ، وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ حَسَنٌ) :
٦٩٢: حسن و یزیدالرقاشی دونوں نے حضرت انس (رض) سے روایت نقل کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو کافی اور خوب ہے اور جس نے غسل کیا تو غسل بہت ہی عمدہ ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٢٨: نمبر ٣٥٤‘ ترمذی فی الجمعہ باب ٥‘ نمبر ٤٩٧‘ نسائی فی الجمعہ باب ٩‘ ابن ماجہ فی الاقامۃ باب ٨١‘ نمبر ١٠٩١‘ دارمی فی الصلاۃ باب نمبر ١٩٠‘ مسند احمد ٥؍١٥٠٨؍١٦٠١١۔

693

۶۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ، قَالَ ثَنَا ہَمَّامٌ .
٦٩: ابن ابی داؤد نے کہا ہمیں عفان نے اور اس نے ہمام سے اس کی سند کے ساتھ مکمل روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٤٣٦۔

694

۶۹۴ : ح وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ) .
٦٩٤: حسن نے حضرت سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : الدارمی ١؍٤٣٤۔

695

۶۹۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدِ ڑ الْبَغْدَادِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ : أَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صُبَیْحٍ وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ یَزِیْدَ الرَّقَاشِیِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٦٩٥: یزید الرقاشی نے کہا کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مجمع الزوائد ٢؍٣٩٢۔

696

۶۹۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْعَطَّارُ قَالَ : أَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ .
٦٩٦: ابو سفیان نے کہا کہ جابر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن عدی فی الکامل ٥؍٣٤٧۔

697

۶۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ حُلِیِّ الْحِمْصِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی الضَّحَّاکُ بْنُ حُمْرَۃَ الْأَمْلُوْکِیُّ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَبِہَا وَنَعْمَتْ، وَقَدْ أَدَّی الْفَرْضَ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ) .فَبَیَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْفَرْضَ ہُوَ الْوُضُوْئُ، وَأَنَّ الْغُسْلَ أَفْضَلُ لِمَا یَنَالُ بِہٖ مِنَ الْفَضْلِ لَا عَلٰی أَنَّہٗ فَرْضٌ .فَإِنِ احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ وُجُوْبِ ذٰلِکَ، بِمَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ وَسَعْدٍ وَأَبِیْ قَتَادَۃَ، وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٦٩٧: حسن نے کہا کہ انس بن مالک (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اچھا اور بہتر ہے اس نے اپنے فریضہ کو ادا کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں واضح کردیا کہ وضو فرض ہے اور غسل افضل ہے اس شخص کے لیے جو فضیلت کو حاصل کرنا چاہتا ہو نہ یہ کہ وہ فرض ہے۔ اگر کوئی وجوب کے لیے یہ دلیل پیش کرے جس کی حضرت علی ‘ سعد ‘ ابوقتادہ ‘ ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے۔
تخریج : تخریج ٦٩٢ کو ملاحظہ کریں۔
ضروری تنبیہ :
اس حدیث میں تو صاف فرما دیا گیا کہ فرض وضو ہے اور غسل افضل ہے تاکہ زائد ثواب پالے ۔
حاصل روایات : ان روایات ستہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کا غسل فرض نہیں بلکہ حصول فضیلت کے لیے ہے پس لفظ امر سے فرضیت پر استدلال درست نہ ہوا ورنہ ان روایات کی کوئی تاویل نہ ہو سکے گی۔
ایک اہم اعتراض :
حضرت علی ‘ سعد ‘ ابو قتادہ ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو وجوب غسل پر دلالت کرتی ہیں۔

698

۶۹۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ : کُنْتُ قَاعِدًا مَعَ سَعْدٍ، فَذَکَرَ الْغُسْلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ .فَقَالَ ابْنُہٗ : فَلَمْ أَغْتَسِلْ، فَقَالَ سَعْدٌ : مَا کُنْتُ أَرٰی مُسْلِمًا یَدَعُ الْغُسْلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ .
٦٩٨: یزید بن ابی زیاد نے کہا کہ عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا انھوں نے جمعہ کے دن کے غسل کا تذکرہ فرمایا ان کے بیٹے نے کہا میں نے تو غسل نہیں کیا تو سعد (رض) نے فرمایا میں تو نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ کو چھوڑے گا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٩٤۔

699

۶۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ عَنْ زَاذَانَ، قَالَ : سَأَلْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ الْغُسْلِ، فَقَالَ : اغْتَسِلْ اِذَا شِئْت .فَقُلْتُ : إِنَّمَا أَسْأَلُک عَنِ الْغُسْلِ الَّذِیْ ھُوَ الْغُسْلُ قَالَ : یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، وَیَوْمُ عَرَفَۃَ، وَیَوْمُ الْفِطْرِ، وَیَوْمُ الْأَضْحٰی .
٦٩٩: عمرو بن مرہ نے کہا کہ زاذان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ غسل کا کیا حکم ہے تو فرمایا اگر چاہو تو غسل کرلو میں نے کہا میں نے تو خاص غسل یعنی غسل جمعہ کا سوال کیا ہے آپ نے فرمایا جمعہ کے دن عرفہ کے دن فطر کے دن اور عیدالاضحی کے دن غسل کرو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٩٤۔

700

۷۰۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عُمَرَ وَعَنْ طَاوٗسٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : " حَقُّ اللّٰہِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ کُلِّ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ، یَغْتَسِلُ، وَیَغْسِلُ مِنْہُ کُلَّ شَیْئٍ، وَیَمَسُّ طِیْبًا إِنْ کَانَ لِأَہْلِہٖ " .
٧٠٠: سفیان نے بتلایا کہ عمرو بن طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا ہے اللہ تعالیٰ کا حق ہر مسلمان پر سات دنوں میں لازم ہے کہ وہ غسل کرے اور جسم سے ہر چیز دھوئے اور خوشبو لگائے اگر اس کے اہل کے ہاں ہو۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ١٢‘ مسلم فی الجمعہ ٩‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍٩٥۔

701

۷۰۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ، أَنَّ مُصْعَبَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَہٗ، أَنَّ ثَابِتَ بْنَ أَبِیْ قَتَادَۃَ حَدَّثَہٗ، أَنَّ أَبَا قَتَادَۃَ قَالَ لَہٗ : اغْتَسِلْ لِلْجُمُعَۃِ، فَقَالَ لَہٗ " قَدِ اغْتَسَلْتُ لِلْجَنَابَۃِ " .
٧٠١: لیث نے بتلایا کہ یزید بن ابی حبیب کہتے ہیں کہ مصعب بن ثابت نے بیان کیا کہ ثابت بن ابی قتادہ نے مجھے بیان کیا کہ ابو قتادہ (رض) نے مجھے فرمایا جمعہ کے لیے غسل کرو انھوں نے کہا میں تو جنابت کا غسل کرچکا۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ ٢؍١٠٠۔

702

۷۰۲ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَبْدَۃَ بْنِ أَبِیْ لُبَابَۃَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یُحْدِثُ بَعْدَمَا یَغْتَسِلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَیَتَوَضَّأُ، وَلَا یُعِیْدُ الْغُسْلَ .قِیْلَ لَہٗ : أَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَا دَلَالَۃَ فِیْہِ عَلَی الْفَرْضِ، لِأَنَّہٗ لَمَّا قَالَ لَہٗ زَاذَانُ إِنَّمَا أَسْأَلُک عَنِ الْغُسْلِ الَّذِیْ ھُوَ الْغُسْلُ، أَیْ الَّذِیْ فِیْ إصَابَتِہِ الْفَضْلُ قَالَ : " یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، وَیَوْمُ الْفِطْرِ، وَیَوْمُ النَّحْرِ، وَیَوْمُ عَرَفَۃَ " فَقَرَنَ بَعْضَ ذٰلِکَ بِبَعْضٍ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرَ مَعَ غُسْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ، لَیْسَ عَلَی الْفَرْضِ، فَکَذٰلِکَ غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ سَعْدٍ مِنْ قَوْلِہِ : " مَا کُنْتُ أَرَی أَنَّ مُسْلِمًا یَدَعُ الْغُسْلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ " أَیْ لِمَا فِیْہِ مِنَ الْفَضْلِ الْکَبِیْرِ مَعَ خِفَّۃِ مُؤْنَتِہٖ. وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ قَوْلِہِ " حَقُّ اللّٰہِ وَاجِبٌ، عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یَغْتَسِلُ فِیْ کُلِّ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ " .فَقَدْ قَرَنَ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ " وَلْیَمَسَّ طِیْبًا إِنْ کَانَ لِأَہْلِہِ " فَلَمْ یَکُنْ مَسِیْسُ الطِّیْبِ عَلَی الْفَرْضِ، فَکَذٰلِکَ الْغُسْلُ .فَقَدْ سَمِعَ عُمَرَ یَقُوْلُ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : مَا ذَکَرْنَاہُ، وَلَمْ یَأْمُرْہُ بِالرُّجُوْعِ بِحَضْرَتِہٖ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ، فَذٰلِکَ أَیْضًا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ عِنْدَہٗ کَذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ، مِمَّا ذَکَرْنَا عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ فَہُوَ إرَادَۃٌ مِنْہُ لِلْقَصْدِ بِالْغُسْلِ إِلَی الْجُمُعَۃِ، لِاِصَابَۃِ الْفَضْلِ فِیْ ذٰلِکَ ؛ وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی خِلَافَ ذٰلِکَ .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ، ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٧٠٢: سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ نے عبدالرحمن سے نقل کیا کہ وہ جمعہ کے دن کا غسل کر کے حدیث بیان فرماتے پھر وضو کرتے (اگر ضرورت ہوتی) غسل کا اعادہ نہ فرماتے۔ اس اعتراض کرنے والے کو کہا جائے گا کہ حضرت علی (رض) کی روایت میں فرضیت غسل جمعہ کی کوئی دلالت بھی نہیں کیونکہ جب ان سے زاذان نے کہا کہ میں آپ سے اس غسل کا پوچھ رہا ہوں جو کہ غسل ہے یعنی جس کو کرنے سے فضیلت ملتی ہے تو آپ نے فرمایا وہ جمعہ ‘ عیدین اور یوم عرفہ کا غسل ہے۔ آپ نے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پیش کیا جبکہ اس کے ساتھ مذکورہ غسل فرض نہیں تو غسل جمعہ کا بھی حکم انہی کی طرح ہے۔ رہی روایت سعد جس کے الفاظ یہ ہیں کہ میرے تو تصور میں بھی یہ بات نہیں کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ کو چھوڑتا ہو یعنی اس بناء پر کہ اس کی فضیلت بہت اور مشقت معمولی ہے۔ باقی حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت کہ وہ اللہ تعالیٰ کا لازم ہونے والا حق ہے کہ ہر مسلمان کو ہفتہ میں ایک مرتبہ غسل کرنا چاہیے انھوں نے اس کو اس جملے کے ساتھ جوڑا کہ اگر گھر والوں کی خوشبو پائے تو وہ بھی لگاتے ـ(جب اپنے پاس نہ ہو) اور خوشبو کا لگانا جب فرض نہیں تو غسل جمعہ بھی فرض نہیں اور انھوں نے حضرت عمر (رض) کی وہ بات سنی جو انھوں نے حضرت عثمان (رض) کو کہی جس کا تذکرہ ہم کر آئے اور پھر ان کے سامنے حضرت عثمان (رض) کو واپسی کا حکم بھی نہ دیا اور نہ انھوں نے ان کے اس فعل کو انوکھا جانا یہ اس بات کی ان کے لیے مزید دلیل ہے کہ ان کے نزدیک بھی اس کا حکم اسی طرح (فضیلت والا) ہے۔ رہی ابوقتادہ (رض) والی روایت جس کا گزشتہ سطور میں تذکرہ کر آئے اس کی مراد یہ تھی کہ جمعہ کے دن اپنے قصد سے آدمی غسل کرے تاکہ اس فضیلت کو پالے اور ہم نے عبدالرحمن بن ابزی سے اس کے خلاف قول بھی ذکر کیا ہے۔ اس باب میں ہم نے جو کچھ بیان کیا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل روایات : ان میں کوئی روایت بھی ایسی نہیں جس سے وجوب پر استدلال کیا جاسکے ہم تفصیل سے عرض کردیتے ہیں۔
نمبر ١: حضرت علی (رض) کی روایت میں غسل جمعہ کی فرضیت پر کوئی دلالت نہیں کیونکہ جب زاذان نے ان سے دریافت کیا کہ میں تم سے بڑے غسل کے بارے میں دریافت کررہا ہوں جس کو کرنے میں بڑی فضیلت ہے تو انھوں نے چند اور غسل ایسے ملا دیئے جو کسی کے ہاں بھی فرض نہیں یوم الفطر ‘ یوم النحر ‘ یوم عرفہ اور یوم جمعہ۔ جب دوسرے فرض نہیں تو جمعہ کا غسل کس طرح فرض ہوا۔
نمبر ٢: حضرت سعد والی روایت کہ میرے خیال میں تو کوئی مسلمان جمعہ کا غسل نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ بات اس کی فضیلت کی طرف اشارہ کے لیے فرمائی نہ کہ بیان وجوب کے لیے گویا وہ بتلا رہے تھے کہ معمولی سی تکلیف کی وجہ سے عظیم فضیلت سے کیوں کر محروم ہو۔
نمبر ٣: وہی حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت ” حق اللہ واجب “ تو غسل کے ساتھ ” لیمس طیبا “ کو ملانا خود دلیل ہے کہ غسل جمعہ اسی طرح فضیلت کی بات ہے جس طرح خوشبو لگانا ورنہ فرضیت خوشبو کا تو کوئی قائل نہیں۔
نمبر ٣: حضرت عمر (رض) نے عثمان (رض) کو جو کچھ فرمایا وہاں حضرت ابوہریرہ (رض) موجود تھے انھوں نے بھی ان کے قول کا انکار نہیں کیا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے ہاں بھی غسل جمعہ فرض نہ تھا۔
نمبر ٤: اب رہی روایت ابو قتادہ (رض) تو ان کا مقصود فضیلت غسل کی طرف متوجہ کرنا ہے اور اگر فرض ہوتا تو غسل جنابت والی بات کو وہ لوٹائے اور غسل کا دوبارہ حکم دیتے تو انھوں نے سمجھ لیا کہ اس نے فضیلت غسل جمعہ تو پا لی ہے۔ اعادہ کی حاجت نہیں ہے ورنہ فرض لوٹاتے ہونے کی صورت میں اعادہ فرض ہے۔
نیز عبدالرحمن بن ابزیٰ کی روایت اس کے خلاف ہم ذکر کرچکے ہیں غسل جمعہ کے بعد اگر ان کو حدث پیش آجاتا تو وہ وضو کرتے غسل کا اعادہ نہ فرماتے۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
اس باب میں مؤقف فریق ثانی کے طور پر جو کچھ بیان کیا وہی امام ابی حنیفہ (رح) ‘ ابی یوسف (رح) ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے نظر طحاوی کو بیان نہیں کیا احادیث کے دلائل و جوابات پر اکتفا کیا ہے۔

703

۷۰۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ح .وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ) .
٧٠٣: اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ڈھیلے سے استنجاء کرے تو وہ طاق کا لحاظ رکھے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٢٥‘ ٢٦‘ مسلم فی الطھارۃ روایت ٢٠؍٢٢‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٩‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٢١‘ مالک فی الطھارۃ ٤‘ مسند احمد ٢؍٢٣٦‘ ٢٥٤‘ ٢٧٧‘ ٢٧٨‘ ٣٠٨‘ ٣١٥‘ ٣١٤‘ ٣٣٩‘ ٣٤٠‘۔
خلاصہ الزام : استجمار۔ ڈھیلوں سے استنجاء کرنا اس میں گندگی کے مقام کی صفائی تو بالاتفاق واجب ہے اور طاق عدد کا لحاظ بہتر ہے آیا تین ڈھیلے ضروری ہیں یا کم و بیش ہوسکتے ہیں اس میں اختلاف ہے اسی کو یہاں بیان کرتے ہیں امام شافعی ‘ احمد (رح) کے ہاں تین پتھروں کا استعمال لازم ہے امام مالک ‘ ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ کے ہاں تین ڈھیلے مستحب ہیں۔

704

۷۰۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِیْ إدْرِیْسَ الْخَوْلَانِیِّ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.
٧٠٤: ابو دریس الخولانی نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

705

۷۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنْ عَائِذُ اللّٰہِ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُوْلُ مِثْلَہٗ .
٧٠٥: زہری سے عائذ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح فرماتے سنا (جیسا اوپر والی روایت ہے)
تخریج : مسلم ١؍١٢٤‘ نسائی ١؍٢٧۔

706

۷۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِیْ إدْرِیْسَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٧٠٦: مالک بن انس عن ابن شہاب عن ابی ادریس عن ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٣٣‘ ابن ماجہ ١؍٣٣۔

707

۷۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا اِذَا أَتٰی أَحَدُنَا الْغَائِطَ بِثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ) .
٧٠٧: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں حکم فرماتے جب ہم پیشاب و پائخانہ کریں تو تین پتھر استعمال کیا کریں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ١٩ نمبر ٣٥‘ ابو عوانہ ١؍١٧١۔

708

۷۰۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قُرْطٍ، أَنَّہٗ سَمِعَ عُرْوَۃَ یَقُوْلُ : حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا خَرَجَ أَحَدُکُمْ إِلَی الْغَائِطِ، فَلْیَذْہَبْ بِثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ یَسْتَنْظِفُ بِہَا، فَإِنَّہَا سَتَکْفِیْہِ) .
٧٠٨: ابو حازم نے مسلم بن قرط سے روایت کی ہے کہ انھوں نے عروہ کو فرماتے سنا کہ مجھے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم پائخانہ کی طرف جاؤ تو تین پتھر ساتھ لے جاؤ جن سے نظافت حاصل کرو وہ اس کے لیے کفایت کر جائیں گے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٢١‘ نمبر ٤٠‘ نسائی فی الطھارۃ ١؍١٧ باب ٤٠‘ دارقطنی فی السنن ١؍٥٤۔

709

۷۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ح .
٧٠٩: شعبہ نے منصور سے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ٧؍٣٧۔

710

۷۱۰ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلٰی مَنْصُوْرٍ ح .
٧١٠: شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے منصور پر یہ روایت پڑھی انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : طبرانی ٧؍٣٧۔

711

۷۱۱ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ مَنْصُوْرٍ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافٍ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ) .
٧١١: ہلال بن یساف نے سلمہ بن قیس سے انھوں نے ابن قیس (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا جو استنجاء کرے وہ تین ڈھیلے استعمال کرے۔
تخریج : روایت نمبر ٧٠٣ کی تخریج ملاحظہ کرلیں نسائی ١؍١٧۔

712

۷۱۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیْسٰی، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ ح .
٧١٢: ابو بکرہ نے بتایا کہ صفوان بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ محمد بن عجلان نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٣۔

713

۷۱۳ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الْکُوفِیُّ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ قَالَ : ثَنَا الْقَعْقَاعُ بْنُ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا بِثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ) ، یَعْنِیْ فِی الْاِسْتِجْمَارِ .
٧١٣: ابو صالح نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تین پتھروں کے استعمال کا حکم فرماتے یعنی استنجاء کے لئے۔
تخریج : روایت ٧٠٧ کو ملاحظہ کریں نسائی ١؍١٦۔

714

۷۱۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خُزَیْمَۃَ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ عَنْ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فِی الْاِسْتِجْمَارِ بِثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ لَیْسَ فِیْہَا رَجِیْعٌ) .
٧١٤: عمارہ بن خزیمہ نے بیان کیا کہ خزیمہ بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استنجاء کے سلسلہ میں تین ڈھیلوں کا حکم فرمایا جن میں گوبر نہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٢١ نمبر ٤١‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١٦‘ ١؍٢٧ دارمی فی الوضوء باب ١١ مسند احمد ٥؍٢١٣‘ ٢١٥‘ ٤٣٧؍٤٣٨‘ ٤٣٩۔

715

۷۱۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ، قَالَ : ثَنَا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ، قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ (سُلَیْمَانَ، قَالَ : نُہِیْنَا أَنْ نَکْتَفِیَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ) .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْاِسْتِجْمَارَ لَا یُجْزِئُ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا ذَکَرْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ .ؓوَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا اسْتَجْمَرَ بِہٖ مِنْہَا فَأَنْقٰی بِہِ الْأَذٰی، ثَلَاثَۃً کَانَتْ أَوْ أَکْثَرَ مِنْہَا أَوْ أَقَلَّ، وِتْرًا کَانَتْ أَوْ غَیْرَ وِتْرٍ، کَانَ ذٰلِکَ طُہْرَہٗ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ أَمْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِیْ ھٰذَا بِالْوِتْرِ، یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی الْاِسْتِحْبَابِ مِنْہُ لِلْوِتْرِ، لَا عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ غَیْرَ وِتْرٍ لَا یُطَہِّرُ .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہِ التَّوْقِیْتَ الَّذِیْ لَا یُطَہِّرُ مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہٗ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ، ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ؟۔
٧١٥: عبدالرحمن بن یزید نے کہا کہ سلمان (رض) نے فرمایا ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ ہم تین سے کم ڈھیلوں پر اکتفاء کریں۔ کچھ علماء اس طرف گئے ہیں تین پتھروں سے کم تعداد کے ساتھ استنجاء کافی نہیں ‘ انھوں نے اس سلسلہ میں ان آثار سے خصوصاً استدلال کیا ہے۔ مگر علماء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ جس قدر پتھروں سے وہ استنجاء کرے ان سے ازالہ نجاست ہو خواہ تین ہوں یا زیادہ یا کم طاق ہو یا جفت اس سے طہارت حاصل ہوجائے گی اور اس سلسلہ میں ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں طاق کا حکم فرمایا اور اس میں احتمال یہ ہے کہ طاق کا عدد بطور استحباب ہو یہ نہیں کہ اگر طاق عدد نہ ہوں تو اس سے طہارت حاصل نہ ہوگی اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کا اس تعداد کو مقرر فرمانا اس لیے ہو کہ اس سے کم میں طہارت حاصل نہیں ہوتی۔ پس ہم نے اس میں غور و فکر کی کہ آیا کوئی روایت ایسی موجود ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو تو یونس (رح) کی یہ روایت مل گئی ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ ٥٧۔
حاصل روایات : ان تیرہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ استنجاء کے لیے تین پتھر استعمال کرنے ضروری ہیں کم نہیں ہوسکتے۔
فریق ثانی کا مؤقف :
جو آدمی استنجاء کرے اس کے لیے اصل مقصود تو مقام ایذاء کا صاف کرنا ہے وہ تین ڈھیلوں یا اس سے کم و بیش سے دور ہو خواہ وہ طاق ہوں یا جفت اس سے طہارت حاصل ہوجائے گی۔
فریق اوّل کو جواب :
روایات بالا میں طاق عدد کا حکم اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ طاق عدد میں استحباب مراد ہو یہ مقصد نہیں کہ اگر عدد طاق نہ ہوں تو پھر مقام ایذاء صاف نہ ہوگا۔
دوسرا احتمال وہی ہے کہ تین کی تعداد مقرر ہے اس کے بغیر حصول طہارت نہیں اب فیصلہ پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ روایات پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے کہ وہ ان احتمالین میں سے کس کی تائید کرتی ہیں۔

716

۷۱۶ : .فَإِذَا یُوْنُسُ، قَدْ حَدَّثَنَا، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا ثَوْرُ بْنُ یَزِیْدَ عَنْ حُصَیْنِ ڑ الْحُبْرَانِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنِ اکْتَحَلَ، فَلْیُوْتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ، وَمَنْ لَا، فَلَا حَرَجَ وَمَنِ اسْتَجْمَرَ، فَلْیُوْتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ، وَمَنْ تَخَلَّلَ فَلْیَلْفِظْ وَمَنْ لَاکَ بِلِسَانِہٖ فَلْیَبْتَلِعْ، مَنْ فَعَلَ ھٰذَا فَقَدْ أَحْسَنَ، وَمَنْ لَا، فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَتَی الْغَائِطَ فَلْیَسْتَتِرْ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ إِلَّا کَثِیْبًا یَجْمَعُہٗ، فَلْیَسْتَتِرْ بِہٖ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَتَلَاعَبُ بِمَقَاعِدِ بَنِیْ آدَمَ) .
٧١٦: حصین الجرانی نے ابو سعید سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو تم میں سے سرمہ لگائے وہ طاق کا لحاظ کرے جس نے طاق کا لحاظ کرلیا اس نے خوب کیا اور جس نے نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں (اسی طرح) جو استنجاء کرے تو وہ طاق کا لحاظ رکھے جس نے ایسا کیا اس نے خوب کام کیا اور جس نے خلال کیا وہ دانتوں سے نکلی چیز کو پھینک دے اور جس نے زبان سے کوئی چیز چاٹ کر نکالی اسے نگل لے جس نے ایسا کیا اس نے خوب کیا اور جس نے نہ کیا تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور جو شخص پائخانہ کے لیے جائے تو وہ چھپ کر کرے اگر کوئی جگہ میسر نہ آئے ریت کا چھوٹا ٹیلہ بنا کر اس کی اوٹ لے لے اس لیے کہ شیطان بنی آدم کی شرمگاہوں سے کھیلتا اور مذاق اڑاتا ہے۔
تخریج : روایت ٧٠٣ کی تخریج ملاحظہ کریں۔ ابو داؤد ١؍٦۔

717

۷۱۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ : ثَنَا حُصَیْنٌ الْحِمْیَرِیُّ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَعْدِ ڑ الْخَیْرُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .وَزَادَ (مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ، وَمَنْ لَا، فَلَا حَرَجَ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بِالْوِتْرِ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ، اسْتِحْبَابًا مِنْہُ لِلْوِتْرِ، لَا أَنَّ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ الْفَرْضِ الَّذِیْ لَا یُجْزِئُ إِلَّا ہُوَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٧١٧: ابو سعد الخیر نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ یہ الفاظ زائد ہیں : من استحمر فلیوتر من فعل فقد احسن ومن لا فلاحرج۔ جو استنجاء کرے تو وہ طاق پتھر استعمال میں لائے جس نے اس طرح کیا اس نے خوب کیا اور جس نے نہ کیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ پس اس سے یہ دلالت میسر آئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طاق کا حکم بطور استحباب دیا بطور فرض نہیں کہ اس کے بغیر حصول طہارت ہی نہ ہو اور حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت سے ہماری تائید ہوتی ہے ‘ ملاحظہ کریں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٧١۔

718

۷۱۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ، عَنْ زُہَیْرٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَی الْغَائِطَ فَقَالَ : ائْتِنِیْ بِثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ فَالْتَمَسْتُ فَلَمْ أَجِدْ إِلَّا حَجَرَیْنِ وَرَوْثَۃً، فَأَلْقَی الرَّوْثَۃَ وَأَخَذَ الْحَجَرَیْنِ وَقَالَ : إِنَّہَا رِکْسٌ) .
٧١٨: اسو دنے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا آپ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا مجھے تین پتھر لادو میں نے پتھر تلاش کئے تو وہاں دو پتھر بمشکل ملے اور ایک گوبر کی مینگنی پائی (میں وہ لے آیا) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مینگنی کو پھینک دیا اور دونوں پتھروں کو لے لیا اور فرمایا یہ گوبر گندگی ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضوء باب ٢١‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ١٣‘ ١٧‘ نسائی فی الطھارۃ باب ٣٧‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١٦‘ مسند احمد ١؍٣٨٨‘ ٤١٨‘ ٤٦٥۔
اللغات : روثہ۔ گوبر کی مینگنی۔ رکس۔ گندگی۔ پلیدی۔

719

۷۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ عَبَّادٍ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ قَالَا قَالَ : ابْنُ مَسْعُوْدٍ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَعَدَ لِلْغَائِطِ، فِیْ مَکَانٍ لَیْسَ فِیْہِ أَحْجَارٌ لِقَوْلِہٖ : لِعَبْدِ اللّٰہِ (نَاوِلْنِیْ ثَلَاثَۃَ أَحْجَارٍ) .وَلَوْ کَانَ بِحَضْرَتِہٖ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ ، لَمَا احْتَاجَ إِلٰی أَنْ یُنَاوِلَہٗ مِنْ غَیْرِ ذٰلِکَ الْمَکَانِ. فَلَمَّا أَتَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ بِحَجَرَیْنِ وَرَوْثَۃٍ، فَأَلْقَی الرَّوْثَۃَ، وَأَخَذَ الْحَجَرَیْنِ، دَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اسْتِعْمَالِہِ الْحَجَرَیْنِ، وَعَلٰی أَنَّہٗ قَدْ رَأٰی أَنَّ الْاِسْتِجْمَارَ بِہِمَا یُجْزِئُ مِمَّا یُجْزِئُ مِنْہُ الْاِسْتِجْمَارُ بِالثَّلَاثِ .لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ لَا یُجْزِئُ الْاِسْتِجْمَارُ بِمَا دُوْنَ الثَّلَاثِ، لَمَا اکْتَفٰی بِالْحَجَرَیْنِ وَلَأَمَرَ عَبْدَ اللّٰہِ أَنْ یَبْغِیَہٗ ثَالِثًا .فَفِیْ تَرْکِہِ ذٰلِکَ، دَلِیْلٌ عَلَی اکْتِفَائِہٖ بِالْحَجَرَیْنِ - فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْغَائِطَ وَالْبَوْلَ اِذَا غُسِلَا بِالْمَائِ مَرَّۃً، فَذَہَبَ بِذٰلِکَ أَثَرُہُمَا أَوْ رِیْحُہُمَا حَتّٰی لَمْ یَبْقَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ أَنَّ مَکَانَہُمَا قَدْ طَہُرَ .وَلَوْ لَمْ یَذْہَبْ بِذٰلِکَ لَوْنُہُمَا وَلَا رِیْحُہُمَا، اُحْتِیْجَ إِلٰی غُسْلِہٖ ثَانِیَۃً .فَإِنْ غُسِلَ ثَانِیَۃً فَذَہَبَ لَوْنُہُمَا وَرِیْحُہُمَا، طَہُرَ بِذٰلِکَ، کَمَا یَطْہُرُ بِالْوَاحِدَۃِ .وَلَوْ لَمْ یَذْہَبْ لَوْنُہُمَا وَلَا رِیْحُہُمَا یُغْسَلُ مَرَّتَیْنِ، اُحْتِیْجَ إِلَی أَنَّ الْغَسْلَ بَعْدَ ذٰلِکَ حَتّٰی یَذْہَبَ لَوْنُہُمَا وَرِیْحُہُمَا .فَکَانَ مَا یُرَادُ فِی غَسْلِہِمَا ہُوَ ذَہَابُہُمَا بِمَا أَذْہَبَہُمَا، مِنَ الْغُسْلِ، وَلَمْ یَرِدْ فِیْ ذٰلِکَ مِقْدَارٌ مِنَ الْغُسْلِ مَعْلُوْمٌ لَا یُجْزِئُ مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہٗ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الْاِسْتِجْمَارُ بِالْحِجَارَۃِ، لَا یُرَادُ مِنَ الْحِجَارَۃِ فِیْ ذٰلِکَ مِقْدَارٌ مَعْلُوْمٌ لَا یُجْزِئُ الْاِسْتِجْمَارُ بِأَقَلَّ مِنْہُ، وَلَکِنْ یُجْزِئُ مِنْ ذٰلِکَ مَا أَذْہَبَ بِالنَّجَاسَۃِ، مِمَّا قَلَّ أَوْ کَثُرَ .وَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٧١٩: اور بو سحاق نے نقل کیا کہ علقمہ واسود دونوں نے کہا کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اسی طرح کی روایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ اس روایت میں اس بات پر دلالت ہے کہ آپ قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہ بیٹھے جہاں پتھر نہ تھے اس لیے کہ آپ نے ابن مسعود (رض) کو فرمایا مجھے تین پتھر لا کر دو ۔ اگر وہاں پتھر ہوتے تو دوسرے سے منگوانے کی چنداں حاجت نہ تھی۔ عبداللہ (رض) نے آپ کی خدمت میں دو پتھر اور مینگنی پیش کی۔ آپ نے پتھر لے لیے اور مینگنی کو پھینک دیا۔ اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ آپ نے دو پتھر استعمال فرمائے اور دوسری یہ دلالت ملی کہ آپ ان دو پتھروں سے استنجاء کو کافی سمجھتے تھے جو تین کی جگہ کام دے جائیں۔ اگر تین کے بغیر استنجاء درست نہ ہوتا تو آپ دو پتھروں پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ ابن مسعود (رض) کو حکم فرماتے کہ تیسرا پتھر بھی تلاش کر کے لاؤ۔ آپ کا تیسرا پتھر کو چھوڑ دینا دو پتھروں کے کافی ہونے کو ثابت کرتا ہے ‘ آثار کے معنی کو درست کرنے کی خاطر اس باب کا راستہ یہ ہے۔ غور و فکر کے انداز سے ملاحظہ کریں۔ ہم نے بول و براز کے متعلق غور کیا کہ اگر ان کو پانی کے ساتھ دھویا جائے تو ان کا اثر اور بدبو وغیرہ دور ہوجاتی ہے یہاں تک کہ وہاں کوئی چیز نہیں رہتی تو وہ جگہ یا کپڑا پاک ہوجاتا ہے اور اگر اس سے ان کا رنگ اور بو زائل نہ ہو تو دوبارہ دھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر دو مرتبہ دھو ڈالنے سے اس کی رنگت اور بدبو چلی جائے تو اس صورت میں بھی پاک ہوجائے گا جس طرح کہ ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوگیا تھا۔ اگر دو مرتبہ دھونے سے بھی رنگت اور بو کا ازالہ نہیں ہوتا تو پھر ایک بار پھر دھونے کی حاجت پڑے گی تاکہ ان نجاستوں کی رنگت اور بول زائل ہوجائے۔ گویا دھونے سے جو چیز مقصود ہے وہ ان نجاسات کا ازالہ ہے جس قدر دھونے سے ازالہ ہوجائے دھونے کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے کہ اس سے کم کفایت نہ کرتا ہو (بلکہ اتنی مقدار کو پورا کرنا ضروری ہو) ۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ پتھروں سے ازالہ نجاست کے وقت بھی پتھروں کی مقررہ مقدار معلوم نہیں کہ ان سے کم کے ساتھ استنجاء نہ ہوسکتا ہو بلکہ جس قدر پتھر کافی ہوں جن سے ازالہ نجاست ہو خواہ کم ہوں یا زیادہ ‘ قیاس اسی بات کو چاہتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا یہی قول ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٥٣
حاصل روایات :
ان چار روایات نے احتمال اول کی جانب کو متعین کردیا کہ آثار اول میں طاق کا حکم استحباب کے لیے ہے بطور فرض نہیں کہ اس کے بغیر حصول طہارت نہ ہو حدیث ابن مسعود (رض) نے تو اس بات کو مزید کھول دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پائخانہ کے لیے ایسی جگہ میں جہاں پتھر نہ تھے تین پتھر لانے کا حکم فرمایا اگر یہ تین کا عدد لزوم کے لیے ہوگا تو عبداللہ کے دو پتھر اور ایک مینگنی لانے پر دو پتھروں پر اکتفاء نہ فرماتے اور دور سے لانے کی بھی ضرورت تبھی پیش آئی کہ سامنے پتھر نہ تھے دو کے استعمال سے ثابت ہوگیا کہ ان سے بھی استنجاء اسی طرح جائز ہے جس طرح تین سے اگر تین لازم ہوتے تو دو پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ عبداللہ کو تیسرا پتھر تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جو کہ آپ نے نہیں کیا گویا تیسرے کے استعمال کا ترک خود عدم وجوب ثلاث کی واضح دلیل ہے۔
جو کچھ آثار کی توفیق کے لیے مناسب تھا ہم نے یہاں تک لکھا۔
اب بطریق نظر ملاحظہ ہو۔ تاکہ تنویر دلیل کا کام دے۔
نظر طحاوی (رح) :
پیشاب و پائخانہ کے متعلق غور کیا کہ جب ان کو ایک مرتبہ پانی سے دھو ڈالتے ہیں اور اس مقام پر اس کا اثر اور بدبو وغیرہ میں سے کوئی چیز نہیں رہتی تو وہ جگہ یا کپڑا پاک ہوجاتا ہے اور اگر اس سے ان کا رنگ اور بدبو نہ جائے تو دوبارہ دھونے کی ضرورت پڑتی ہے اگر دوسری بار دھونے سے بدبو وغیرہ چلی گئی تو وہ پاک ہوگیا جیسا کہ ایک بار دھونے سے اگر یہ کیفیت حاصل ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے اور اگر دوسری بار دھونے سے بھی اس کی بدبو اور رنگ نہ گیا اس کو اس وقت تک دھوتے رہیں گے جب تک بدبو اور رنگ کا ازالہ نہ ہوجائے تو گویا اس کے دھونے کا مقصود پائخانہ کی جسامت اور بدبو اور رنگ کا ازالہ ہے اس سے غسل کی کوئی تعداد مقصود نہیں کہ جس سے کم پر اکتفا درست نہ ہو۔
پس تقاضا نظریہ ہے کہ استنجاء بالا حجار میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے کہ پتھروں کی مخصوص تعداد متعین نہیں کہ جس سے کم میں استنجاء جائز نہ ہو بس اس قدر ہو جس سے گندگی کا ازالہ ہو خواہ کم ہوں یا زیادہ۔
یہی نظر و فکر کا تقاضا ہے اور ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا یہی مسلک ہے۔

720

۷۲۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ بْنِ سُنَّۃَ الْخُزَاعِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی أَنْ یَسْتَطِیْبَ أَحَدٌ بِعَظْمٍ أَوْ بِرَوْثَۃٍ) .
٧٢٠: ابو عثمان بن سنۃ الخزاعی نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی ہڈی یا گوبر سے پاکیزگی حاصل کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٢٠‘ نمبر ٣٩‘ دارقطنی فی السنن ١؍٥٦۔
خلاصہ الزام : ہڈی اور گوبر سے استنجاء ہوتا ہی نہیں بلکہ کرنا نہ کرنا برابر ہے اس کو امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ نے اختیار کیا ۔ ٢: کرلیا تو دوبارہ استنجاء کی ضرورت نہیں مگر بعض علل کی وجہ سے ممنوع کیا گیا اس لیے ان کے ساتھ کرنے میں کراہت ہے۔

721

۷۲۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ (سَلْمَانَ قَالَ : نُہِیْنَا أَنْ نَسْتَنْجِیَ بِعَظْمٍ أَوْ رَجِیْعٍ) .
٧٢١: عبدالرحمن بن یزید نے کہا کہ سلمان (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں ہڈی اور گوبر ‘ انسانی غلاظت سے استنجاء کرنے سے منع کیا گیا۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ ٥٧۔

722

۷۲۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ إِسْحَاقَ الْأَنْصَارِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہٰی أَنْ یَسْتَطِیْبَ أَحَدٌ بِعَظْمٍ أَوْ رَوْثَۃٍ أَوْ جِلْدٍ) .
٧٢٢: عبداللہ بن عبدالرحمن نے ایک صحابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہڈی یا گوبر یا چمڑے کے ساتھ استنجاء سے منع فرمایا۔
تخریج : دارقطنی فی السنن ١؍٥٦۔

723

۷۲۳ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ ح .
٧٢٣: سفیان بن عیینہ نے محمد بن عجلان سے اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : اخرجہ العدنی (نخب الافکار) بیہقی ١؍١٨١۔

724

۷۲۴ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ، قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ، قَالَ
٧٢٤: صفوان نے کہا کہ ابن عجلان نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

725

۷۲۵ : : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ ح وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَفَّانُ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی أَنْ یَسْتَنْجِیَ بِرَوْثٍ أَوْ رِمَّۃٍ) ، وَالرِّمَّۃُ : الْعِظَامُ .
٧٢٥: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ گوبر یا بوسیدہ ہڈی سے استنجاء کیا جائے۔

726

۷۲۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ وَہِشَامٌ الرُّعَیْنِیُّ قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ، عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ شُیَیْمَ بْنَ بَیْتَانِ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ (رُوَیْفِعَ بْنَ ثَابِتِ ڑ الْأَنْصَارِیَّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ یَا رُوَیْفِعَ بْنَ ثَابِتٍ ؛ لَعَلَّ الْحَیَاۃَ سَتَطُوْلُ، بِکََ فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّ مَنِ اسْتَنْجٰی بِرَجِیْعِ دَابَّۃٍ أَوْ عَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا مِنْہُ بَرِیْئٌ).قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّہٗ لَا یُسْتَنْجٰی بِالْعِظَامِ، وَجَعَلُوا الْمُسْتَنْجِیَ بِہَا فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَسْتَنْجِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَمْ یَنْہَ عَنْ الْاِسْتِنْجَائِ بِالْعَظْمِ لِأَنَّ الْاِسْتِنْجَائَ بِہٖ لَیْسَ کَالْاِسْتِنْجَائِ بِالْحَجَرِ وَغَیْرِہٖ، وَلَکِنَّہٗ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ جُعِلَ زَادًا لِلْجِنِّ فَأَمَرَ بَنُوْ آدَمَ أَنْ لَا یَقْذُرُوْہُ عَلَیْہِمْ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ
٧٢٦: عیاش بن عباس سے روایت ہے کہ شییم بن بیتان نے مجھے بتلایا کہ میں نے رویفع بن ثابت انصاری (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا اے رویفع بن ثابت ! شاید تو طویل زندگی پائے تو تم لوگوں کو اطلاع کر دو کہ جس نے گوبر سے یا ہڈی سے استنجاء کیا میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بری ہوں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ ہڈیوں سے استنجاء نہ کیا جائے چنانچہ انھوں نے ہڈیوں کو ان چیزوں سے قرار دیا جن سے استنجاء نہیں ہوتا اور ان روایات سے استدلال کیا ہے۔ علماء کی دوسری جماعت کا مشرب یہ ہے کہ ہڈی کے ساتھ استنجاء کی ممانعت اس بناء پر نہیں کہ ان سے کیا جانے والا استنجاء استنجاء شمار نہ ہوگا بلکہ اس کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جنابت کا کھانا ہے۔ پس آپ نے اولاد آدم کو حکم فرمایا کہ ہڈی کو نجاست کے ساتھ ملوث نہ کریں ‘ ان روایات میں یہ مضمون موجود ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٢٠‘ نمبر ٣٦‘ نسائی فی الزینۃ باب : ١٢
حاصل روایات :
ان روایات میں گوبر ‘ غلاظت انسانی اور ہڈی کے ساتھ استنجاء کی ممانعت فرمائی گئی ہے اس ممانعت کو دیکھ کر فریق اوّل اس بات کے قائل ہوئے کہ ان چیزوں سے استنجاء ہوتا ہی نہیں اگر کرلیا جائے تو وہ استنجاء شمار نہ ہوگا۔
فریق دوم کا مؤقف :
ہڈی اور گوبر وغیرہ سے استنجاء کی ممانعت کی وجہ یہ نہیں کہ ان سے استنجاء کرنے سے استنجاء ہوتا ہی نہیں بلکہ اس کی وجہ دوسری ہے جو احادیث میں خود موجود ہے وہ جنات کا کھانا ہے پس اولاد آدم کو حکم دیا گیا کہ ان کے استعمال کی چیز کو گندا نہ کریں۔

727

۷۲۷ : مَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَسْتَنْجُوْا بِعَظْمٍ وَلَا رَوْثٍ فَإِنَّہَا أَزْوِدَۃُ إِخْوَانِکُمُ الْجِنِّ) .
٧٢٧: علقمہ نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہڈی سے استنجاء نہ کرو اور نہ ہی گوبر سے اس لیے کہ یہ تمہارے بھائی (اسلامی) جنات کا کھانا ہے۔
تخریج : ترمذی فی الطھارۃ ١٨؍١٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍١٥٥۔

728

۷۲۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّہٗ قَالَ : (سَأَلَتِ الْجِنُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ آخِرِ لَیْلَۃٍ لَقِیَہُمْ فِیْ بَعْضِ شِعَابِ مَکَّۃَ، الزَّادَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ عَظْمٍ یَقَعُ فِیْ أَیْدِیکُمْ، قَدْ ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، أَوْفَرُ مَا یَکُوْنُ لَحْمًا، وَالْبَعْرُ یَکُوْنُ عَلَفًا لِدَوَابِّکُمْ فَقَالَ : إِنَّ بَنِیْ آدَمَ یُنَجِّسُوْنَہُ عَلَیْنَا فَعِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا تَسْتَنْجُوْا بِرَوْثِ دَابَّۃٍ وَلَا بِعَظْمٍ، إِنَّہٗ زَادُ إِخْوَانِکُمْ مِنَ الْجِنِّ) .
٧٢٨: علقمہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جنات نے (اسلام لانے کے بعد) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی رات کے آخری حصہ میں جبکہ آپ مکہ کی کسی گھاٹی میں ان سے ملے تو اپنے لیے زاد کا سوال کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر وہ ہڈی جو تمہارے ہاتھ آئے گی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہوگا تو اس پر پہلے سے بڑھ کر گوشت پیدا کردیا جائے گا اور مینگنی پر تمہارے جو پایوں کا چارا اگا دیا جائے گا انھوں نے شکایت کی کہ اولاد آدم اس کو پلید کر کے ہمارے استعمال کے قابل نہیں رہنے دیتے اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے مسلمانو ! تم گوبر سے استنجاء نہ کرو اور نہ ہڈی سے اس لیے کہ یہ تمہارے جن بھائیوں کا کھانا ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔

729

۷۲۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ ڑ الْأَزْرَقِیُّ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، عَنْ جَدِّہِ، عَنْ (أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اتَّبَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ فِیْ حَاجَۃٍ لَہٗ وَکَانَ لَا یَلْتَفِتُ فَدَنَوْتُ مِنْہُ، فَاسْتَأْنَسْتُ وَتَنَحْنَحْت .فَقَالَ : مَنْ ھٰذَا؟ فَقُلْتُ : أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ فَقَالَ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ابْغِنِیْ أَحْجَارًا أَسْتَطِیْبُ بِہِنَّ وَلَا تَأْتِنِیْ بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثٍ قَالَ : فَأَتَیْتَہٗ بِأَحْجَارٍ أَحْمِلُہَا فِیْ مَلَاۃٍ فَوَضَعْتُہَا إِلٰی جَنْبِہٖ، ثُمَّ أَعْرَضْتُ عَنْہٗ .فَلَمَّا قَضٰی حَاجَتَہُ اتَّبَعْتُہٗ فَسَأَلْتُہٗ عَنِ الْأَحْجَارِ وَالْعَظْمِ وَالرَّوْثَۃِ فَقَالَ : إِنَّہٗ جَائَ نِیْ وَفْدُ نَصِیْبِیْنَ مِنَ الْجِنِّ - وَنِعْمَ الْجِنُّ ہُمْ - فَسَأَلُوْنِی الزَّادَ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ لَہُمْ أَنْ لَا یَمُرُّوْا بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثٍ إِلَّا وَجَدُوْا عَلَیْہِ طَعَامًا) .
٧٢٩: احمد بن محمد الازرقی کہتے ہیں ہمیں عمرو بن یحییٰ بن سعید نے اپنے دادا سعید سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چل دیا جبکہ آپ قضائے حاجت کے لیے نکلے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے (بلکہ سیدھے چلتے جاتے تھے) میں نے چاہا کہ میری پہچان ہوجائے میں نے بتکلف کھانسا۔ تو آپ نے توجہ کرتے ہوئے فرمایا تم کون ہو ؟ میں نے کہا حضرت ابوہریرہ (رض) ہوں آپ نے فرمایا اے حضرت ابوہریرہ (رض) میرے لیے پتھر تلاش کر کے لاؤ تاکہ ان سے میں استنجاء کروں میرے پاس ہڈی اور گوبر مت لانا۔ چنانچہ میں آپ کے پاس پتھر لایا جن کو میں بھر کر اٹھا لایا اور آپ کے پہلو میں رکھ کر پھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک طرف ہٹ گیا جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوچکے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے چل دیا اور میں نے پتھروں ‘ ہڈی اور گوبر کے متعلق سوال کیا (کہ پتھر سے استنجاء جائز اور ان دونوں سے کیوں کر ممنوع ہے) آپ نے فرمایا نصیبین کے جنات کا ایک وفد میرے پاس آیا اور وہ بہت اچھے جنات تھے اور انھوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ ہمیں زاد راہ مہیا کیا جائے تو میں نے جناب باری میں دعا کی کہ ان کا گزر جس گوبر اور ہڈی پر ہو اس پر ان کا (اور ان کے چوپایوں) کا کھانا مہیا کردیا جائے۔
تخریج : بخاری فی الطھارۃ باب ٢٠۔

730

۷۳۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا سُوَیْدُ بْنُ سَعِیْدٍ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیٰی؛ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَثَبَتَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا نَہٰی عَنْ الْاِسْتِنْجَائِ بِالْعِظَامِ لِمَکَانِ الْجِنِّ لَا لِأَنَّہَا لَا تُطَہِّرُ کَمَا یُطَہِّرُ الْحَجَرُ .وَجَمِیْعُ مَا ذَہَبْنَا إِلَیْہِ مِنَ الْاِسْتِنْجَائِ بِالْعِظَامِ أَنَّہٗ یُطَہِّرُ .قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٧٣٠: سوید بن سعید کہتے ہیں ہمیں عمرو بن یحییٰ نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ ان آثار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہڈی کے ساتھ استنجاء کی ممانعت جنابت کی وجہ سے فرمائی۔ اس بناء پر نہیں کہ یہ پتھروں کی طرح طہارت کا فائدہ نہیں دیتی۔ ہڈی کے ساتھ استنجاء کے سلسلہ میں ہم نے جو کچھ بیان کیا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد بن الحسن (رح) کا قول ہے۔
تخریج : بیہقی ١؍١٧٤۔
حاصل روایات : ان روایات سے ممانعت کی علت معلوم ہوتی ہے کہ اس وجہ سے منع کیا گیا کہ وہ مسلمان جنات کا کھانا ہے اس لیے نہیں کہ اگر اس سے استنجاء کیا جائے تو وہ درست نہ ہوگا اور اس سے پتھر کی طرح طہارت حاصل نہ ہوگی پس فریق اوّل نے جو علت بیان کی وہ درست ثابت نہ ہوسکی۔
ہمارے امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف و محمد بن الحسن (رح) کا اس سلسلہ میں یہی مسلک ہے۔

731

۷۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، ح : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ، (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَنَامُ وَہُوَ جُنُبٌ وَلَا یَمَسُّ الْمَائَ) .
٧٣١: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنابت کی حالت میں سو رہتے اور پانی کو بالکل نہ چھوتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٩‘ نمبر ٢٢٨‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٧٨‘ نمبر ١١٧؍١١٨۔
خلاصہ الزام : اس میں تین مسائل ذکر کئے ہیں : ! حالت جنابت میں سونا ‘ " کھانا پینا ‘ #جماع کرنا۔
مسئلہ اوّل : اس میں امام یوسف و سعید بن المسیب (رح) وغیرہ حالت جنابت میں وضو کا کوئی فائدہ نہیں مانتے۔ نمبردو ائمہ اربعہ اور امام محمد جمہور فقہاء و محدثین جنابت والے کے وضو کو مستحب مانتے ہیں۔
مسئلہ دوم : کھانے پینے کے لیے وضو واجب ہے یہ ظاہر یہ کا مذہب ہے۔ نمبر ٢: وضو مستحب ہے یہ ابوحنیفہ ‘ حسن بصری ‘ شافعی (رح) کا مذہب ہے۔
مسئلہ سوم : دوبارہ جماع کے لیے وضو واجب ہے یہ حسن بصری ‘ ابن سیرین ‘ عکرمہ (رح) کا قول ہے۔ نمبر ٢: ائمہ اربعہ و جمہور فقہاء کے ہاں وضو واجب نہیں بطور نظافت مستحب ہے۔
مسئلہ نمبر ١ فریق اوّل کا مؤقف حالت جنابت میں وضو کا فائدہ نہیں :

732

۷۳۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، قَالَ ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَجَعَ مِنَ الْمَسْجِدِ، صَلّٰیْ مَا شَائَ اللّٰہُ، ثُمَّ مَالَ إِلٰی فِرَاشِہٖ وَإِلٰی أَہْلِہٖ، فَإِنْ کَانَتْ لَہٗ حَاجَۃٌ قَضَاہَا، ثُمَّ یَنَامُ کَہَیْئَتِہٖ، وَلَا یَمَسُّ الْمَائَ) .
٧٣٢: اسود نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسجد سے واپس لوٹتے تو دیر تک پڑھتے رہتے پھر بستر پر تشریف لاتے اور گھر والوں کی طرف متوجہ ہوتے اگر حاجت محسوس کرتے تو پوری کرتے پھر اپنی اسی حالت میں سو رہتے اور پانی کو بالکل نہ چھوتے۔
تخریج : عبدالرزاق ١؍٢٨٠۔

733

۷۳۳ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَیْفٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجْنِبُ، ثُمَّ یَنَامُ، وَلَا یَمَسُّ مَائً، حَتّٰی یَقُوْمَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَیَغْتَسِلَ) .
٧٣٣: اسود بن یزید عائشہ (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت جنابت میں ہوتے پھر سو رہتے اور پانی کو ہاتھ تک نہ لگاتے یہاں تک کہ اس کے بعد (بوقت تہجد) اٹھتے اور غسل فرماتے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٦٤‘ ابن ماجہ ١؍٤٣

734

۷۳۴ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٧٣٤: ابوبکر بن عیاش نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
ابن ماجہ ١؍٤٣۔

735

۷۳۵ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ، قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .
٧٣٥: ابو اسحاق نے اپنی سند سے روایت نقل کی۔

736

۷۳۶ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ ؛ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا، وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلَیْہِ، أَبُوْ یُوْسُفَ، فَقَالُوْا : أَلَا نَرٰی بَأْسًا أَنْ یَنَامَ الْجُنُبُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَتَوَضَّأَ لِأَنَّ التَّوَضُّؤَ لَا یُخْرِجُہٗ مِنْ حَالِ الْجَنَابَۃِ إِلٰی حَالِ الطَّہَارَۃِ . وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا : یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاۃِ قَبْلَ أَنْ یَنَامَ، وَقَالُوْا : ھٰذَا الْحَدِیْثُ غَلَطٌ لِأَنَّہٗ حَدِیْثٌ مُخْتَصَرٌ، اخْتَصَرَہٗ أَبُوْ إِسْحَاقَ، مِنْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فَأَخْطَأَ فِی اخْتِصَارِہٖ إِیَّاہٗ .وَذٰلِکَ
٧٣٦: ابو اسحاق نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ اس طرف علماء کی ایک جماعت گئی ہے جن میں امام ابو یوسف (رح) بھی شامل ہیں ‘ ان کا کہنا یہ ہے کہ جنبی کو بلا وضو سونے میں چنداں حرج نہیں کیونکہ اس کا یہ وضو سے جنابت اسے طہارت کی طرف نہیں لے جاسکتا۔ دوسری جماعت علماء نے ان سے اختلاف کراتے ہوئے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ سونے سے پہلے نماز والا وضو کرے۔ انھوں نے اس روایت کو غلط قرار دیا کیونکہ یہ مختصر ہے۔ ابو اسحق نے اس کو طویل روایت سے مختصر کرنے میں غلطی کی ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍٣٢۔
حاصل روایات : ان چھ روایات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پانی چھونے کے بغیر سونا ثابت ہوتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جنابت والے کو وضو کا فائدہ نہیں کیونکہ وہ اسے حالت جنابت سے نکال نہیں سکتا۔
فریق دوم کا مؤقف :
وضو مستحب ہے اس کی شاہد یہ روایات ہیں۔
فریق اوّل کا جواب :
نمبر ١: حدیث جس کو ابو اسحاق نے مختصر نقل کیا ہے اس اختصار میں غلطی کی ہے تفصیلی روایت ہم پیش کرتے ہیں۔
روایت ابو اسحاق بالتفصیل یہ ہے۔

737

۷۳۷ : أَنَّ فَہْدًا حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ قَالَ أَتَیْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ یَزِیْدَ، وَکَانَ لِیْ أَخًا وَصَدِیْقًا .فَقُلْتُ یَا أَبَا عَمْرٍو، حَدِّثْنِیْ مَا حَدَّثَتْکَ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أُمُّ الْمُؤْمِنِیْنَ، عَنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ : قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنَامُ أَوَّلَ اللَّیْلِ وَیُحْیِیْ آخِرَہٗ، ثُمَّ إِنْ کَانَتْ لَہٗ حَاجَۃٌ قَضٰی حَاجَتَہٗ، ثُمَّ یَنَامُ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّ مَائً فَإِذَا کَانَ عِنْدَ النِّدَائِ الْأَوَّلِ، وَثَبَ وَمَا قَالَتْ قَامَ فَأَفَاضَ عَلَیْہِ الْمَائَ) ، وَمَا قَالَتْ (اغْتَسَلَ وَأَنَا أَعْلَمُ مَا تُرِیْدُ) (وَإِنْ کَانَ جُنُبًا تَوَضَّأَ وُضُوْئَ الرَّجُلِ لِلصَّلَاۃِ) .فَھٰذَا الْأَسْوَدُ بْنُ یَزِیْدَ قَدْ أَبَانَ فِیْ حَدِیْثِہٖ لَمَا ذَکَرْنَاہُ بِطُوْلِہٖ أَنَّہٗ (کَانَ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَنَامَ وَہُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ) وَأَمَّا قَوْلُہَا (فَإِنْ کَانَتْ لَہٗ حَاجَۃٌ قَضَاہَا، ثُمَّ یَنَامُ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّ مَائً) فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ قُدِّرَ ذٰلِکَ عَلَی الْمَائِ الَّذِیْ یَغْتَسِلُ بِہٖ لَا عَلَی الْوُضُوْئِ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ غَیْرُ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَوَضَّأُ وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ) :
٧٣٧: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے ہاں آیا وہ میرے بھائی اور دوست تھے میں نے ان سے کہا اے ابو عمرو ! مجھے وہ روایت سناؤ جو تمہیں عائشہ صدیقہ ام المؤمنین (رض) نے سنائی جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز سے متعلق ہے تو وہ کہنے لگے کہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے پہلے حصہ میں سو رہتے اور پچھلے میں جاگتے پھر اگر آپ کو گھر والوں سے حاجت ہوتی تو وہ پوری کرتے پھر پانی چھونے سے پہلے سو رہتے جب اذان تہجد کا وقت ہوتا تو اچھل کر اٹھ بیٹھتے (حضرت عائشہ نے وثب کا لفظ فرمایا قام نہیں فرمایا) پھر اپنے اوپر پانی بہاتے اور انھوں نے اغتسل کا لفظ نہیں فرمایا میں ان کی مراد کو جانتا ہوں اگر حالت جنابت ہوتی تو وضو کرتے جیسا کہ نماز کا وضو کیا جاتا ہے۔ یہ اسود بن یزید ہے جس کی روایت کو ہم نے تفصیل سے نقل کیا ہے کہ جب آپ نیند کا ارادہ فرماتے اور حالت جنابت میں ہوتے تو نماز والا وضو فرما لیتے۔ رہا ان کا یہ قول ” فان کانت لہ حاجۃ “ کہ اگر آپ کو اپنے اہل سے حاجت ہوتی تو اسے پورا فرماتے اور پانی کو چھونے سے پہلے سو جاتے ‘ اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد پانی کی وہ مقدار ہے جس سے غسل کیا جاتا ہے نہ کہ وضو والا پانی اور یہ بات ابو اسحق کے علاوہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز والا وضو کرتے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٠١؍٢٠٢‘ مسند احمد ٦؍١٠٢۔
اب اس تفصیلی روایت سے ثابت ہوا کہ جنابت کی حالت میں سونے سے قبل نماز والا وضو فرماتے پس تفصیلی روایت کے مطابق اجمالی مطلب لیا جائے گا۔
جواب نمبر ٢: کہ حاجت کے بعد آپ پانی چھونے سے پہلے سو رہتے اس سے مراد پانی کی وہ مقدار ہے جس سے غسل کیا جائے نہ کہ وضو والا پانی اور یہ بات بھی ہم ابو اسحاق کے علاوہ روات کی روایات سے ثابت کرتے ہیں پس فریق اوّل کو اس سے بھی استدلال کا کوئی موقعہ نہیں ہے۔

738

۷۳۸ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَزْرُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - اِذَا أَرَادَ أَنْ یَنَامَ أَوْ یَأْکُلَ وَہُوَ جُنُبٌ یَتَوَضَّأُ) ثُمَّ رَوٰی عَنِ الْأَسْوَدِ مِنْ رَأْیِہٖ مِثْلَ ذٰلِکَ .
٧٣٨: اسود سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ فرماتے یا کھانے کی خواہش ہوتی اور آپ حالت جنابت میں ہوتے تو آپ وضو کرلیتے پھر یہ روایت اسود سے اپنے طریقے سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٥؍٢٧‘ مسلم فی الحیض نمبر ٢١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٦٥‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ نمبر ٥٨٤: بیہقی فی السنن الکبرٰی ١؍٢٠٠‘ مصنف عبدالرزاق نمبر ١٠٧٣۔

739

۷۳۹ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِیْرَۃَ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : قَالَ الْأَسْوَدُ اِذَا أَجْنَبَ الرَّجُلُ فَأَرَادَ أَنْ یَنَامَ، فَلْیَتَوَضَّأْ .فَاسْتَحَالَ - عِنْدَنَا - أَنْ تَکُوْنَ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ حَدَّثَتْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، بِأَنَّہٗ کَانَ یَنَامُ وَلَا یَمَسُّ مَائً ثُمَّ تَأْمُرُہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ بِالْوُضُوْئِ، وَلٰـکِنَّ الْحَدِیْثَ فِیْ ذٰلِکَ مَا رَوَاہُ اِبْرَاہِیْمُ .وَقَدْ رَوٰی غَیْرُ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْہَا مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٧٣٩: اسود نے کہا کہ جب آدمی جنابت کی حالت میں ہو اور وہ سونا چاہے تو وہ وضو کرے۔ ہمارے ہاں یہ بات ناممکنات میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سامنے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ بیان کرتی ہوں کہ حالت جنابت میں آپ پانی کو چھونے کے بغیر سو جاتے پھر (اسود یہ سن کر) لوگوں کو وضو کا حکم دے لیکن ابراہیم کی روایت میں اور اسود کے علاوہ راوی نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے وہ بات بیان کی جو اس کی موافقت کرتی ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
روایت اسحق کا جواب نمبر : ٢‘
طحاوی فرماتے ہیں ‘ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ اسود کو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے کان ینام ولا یمس ماء روایت کیا ہو اور ان کو وضو کا حکم دیتی ہوں بلکہ درست روایت وہی ہے جو ابراہیم نے اسود سے نقل کی ابو اسحاق کو غلطی لگی ہے اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اسود کے علاوہ راوی نے بھی اسی ابراہیم والی روایت کی طرح روایت نقل کی ہے۔

740

۷۴۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ وَاللَّیْثُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَنَامَ - وَہُوَ جُنُبٌ - تَوَضَّأَ وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ) .
٧٤٠: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ فرماتے اور آپ حالت جنابت میں ہوتے تو نماز والا وضو فرماتے۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ٢١‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٧‘ نمبر ٢٢٢۔

741

۷۴۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٧٤١: ابو سلمہ نے عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جیسی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری ١؍١١٠۔

742

۷۴۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ ثَنَا الْوَلِیْدُ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ یَحْیَی ؛ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٤٢: اوزاعی نے یحییٰ سے اپنے اسناد سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٢٨۔

743

۷۴۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ، قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ .
٧٤٣: عروہ کہتے ہیں عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٨٥۔

744

۷۴۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، وَزَادَ (وَیَغْسِلُ فَرْجَہُ) .
٧٤٤: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور یہ لفظ زائد ہیں۔ ویغسل فرجہ کہ آپ استنجاء بھی فرما لیتے تھے۔

745

۷۴۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ أَبَا عَمْرٍو، مَوْلٰی عَائِشَۃَ أَخْبَرَہٗ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِیْثِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ .فَھٰذَا غَیْرُ الْأَسْوَدِ، قَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُوَافِقُ مَا رَوٰی اِبْرَاہِیْمُ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رَوٰی عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ قَوْلِہَا، مِثْلُ ذٰلِکَ .
٧٤٥: ابوالزبیر نے جابر سے نقل کیا کہ ابو عمرو مولیٰ عائشہ (رض) نے بتلایا کہ حضرت عائشہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اسی طرح نقل کیا جیسا زہری عن ابی سلمہ میں منقول ہے۔ یہ حضرات اسود کے علاوہ ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق وہ بیان کر رہے ہیں جو ابراہیم نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بیان فرمایا اور خود حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا اپنا قول بھی اس کی مثل منقول ہے۔
حاصل روایات :
یہ اسود کے علاوہ روات حضرت عائشہ (رض) عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی نقل کر رہے ہیں جو روایت ابراہیم کے موافق ہے جو کہ ابراہیم عن الاسود عن عائشہ عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کی گئی ہے اور خود عائشہ (رض) کا قول بھی اس کی موافقت میں منقول ہے پھر روایت ابو اسحاق کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے یا تو اس کا مفہوم ان روایات کے موافق لیں یا وہ راویہ کے بیان کے بعد ساقط الاعتبار ہے۔

746

۷۴۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تَقُوْلُ " اِذَا أَصَابَ أَحَدُکُمُ الْمَرْأَۃَ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یَنَامَ فَلَا یَنَامُ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ " .
٧٤٦: عروہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتی تھیں جب تم میں سے کوئی بیوی کے قریب جائے پھر وہ سونا چاہتا ہو تو وہ وضو سے پہلے نہ سوئے اور وضو بھی نماز والا کرے۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٦٠؍٦٣۔

747

۷۴۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : أَنَا ہِشَامٌ، قَالَ أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ وَزَادَ " فَإِنَّہٗ لَا یَدْرِیْ لَعَلَّ نَفْسَہٗ تُصَابُ فِیْ نَوْمِہٖ .فَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ عِنْدَہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ھٰذَا، ثُمَّ تُفْتِیْ بِھٰذَا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا، فَسَادُ مَا رُوِیَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، مِمَّا ذَکَرْنَا، وَثَبَتَ مَا رَوٰی اِبْرَاہِیْمُ، عَنِ الْأَسْوَدِ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ مَا أَرَادَ أَبُوْ إِسْحَاقَ فِیْ قَوْلِہٖ" وَلَا یَمَسُّ مَائً " یَعْنِی الْغُسْلَ، فَإِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ، قَدْ رُوِیَ عَنْہُ مِنْ ھٰذَا شَیْئًا ۔
٧٤٧: ہشام نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے : ” فَإِنَّہٗ لَا یَدْرِیْ لَعَلَّ نَفْسَہٗ تُصَابُ فِیْ نَوْمِہٖ “ اسے کیا معلوم کہ اسے اسی نیند میں موت آجائے۔ پس یہ بات ناممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مخالف بات ہو پھر وہ اس کے ساتھ فتویٰ بھی دیں۔ پس ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے ابو اسحق والی روایت کا بگاڑ ثابت ہوگیا اور ابراہیم کی اسود والی روایت ثابت ہوگئی اور ایک احتمال ابو اسحق کی روایت ” لا یمس مائً “ میں یہ ہے کہ غسل نہ کرتے تھے اور اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس طرح کی روایت کی ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍٦٣۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : حضرت عائشہ (رض) کے فتویٰ سے صاف نظر آگیا کہ یہ بات تو ناممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل ان کو اس کے خلاف معلوم ہو اور وہ اس کے الٹ فتویٰ دیں پس ابو اسحاق عن الاسود کی روایت کی غلطی ظاہر ہوگئی اور ابراہیم عن الاسود کی روایت درست ثابت ہوگئی۔

ابو اسحاق کے قول : وَلَا یَمَسُّ مَائً میں ایک دوسرا احتمال :
غسل نہ کرنے سے کنایہ ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نے ابو اسحاق سے اس طرح کی روایت نقل کی ہے ملاحظہ ہو۔

748

۷۴۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَۃَ، قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَمُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیِّ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجَامِعُ، ثُمَّ یَعُوْدُ وَلَا یَتَوَضَّأُ، وَیَنَامُ وَلَا یَغْتَسِلُ) .فَکَانَ مَا ذَکَرَ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَفْعَلُہٗ اِذَا جَامَعَ قَبْلَ نَوْمِہٖ، ہُوَ الْغُسْلُ، فَذٰلِکَ لَا یَنْفِی الْوُضُوْئَ .وَقَدْ رُوِیَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ ذٰلِکَ .
٧٤٨: یحییٰ بن ایوب عن ابی حنیفہ و موسیٰ بن عقبہ نے ابو اسحق ہمدانی سے اور انھوں نے اسود بن یزید سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جماع کرتے پھر دوبارہ کرتے اور وضو (درمیان میں) نہ کرتے اور سو رہتے اور غسل نہ کرتے۔ پس یہ جو روایت میں آپ کا کسی کام کو نہ کرنا مذکور ہے کہ جب آپ نیند سے پہلے جماع کرتے اس سے مراد غسل ہے اور یہ وضو کے منافی نہیں اور ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی روایت کی ہے۔
حاصل روایات : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ جو منقول ہے کہ آپ نہیں کرتے تھے جبکہ نیند سے پہلے جماع کرتے تو اس سے مراد غسل کا فعل ہے اور یہ بات وضو کے منافی نہیں ہے۔

749

۷۴۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدِ ڑ الْفَرَائِضِیُّ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ (عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَیَنَامُ أَحَدُنَا وَہُوَ جُنُبٌ قَالَ : نَعَمْ، وَیَتَوَضَّأُ) .
٧٤٩: سالم نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ کہ عمر (رض) نے سوال کیا یارسول اللہ ! کیا حالت جنابت میں سونے کی اجازت ہے تو آپ نے فرمایا ہاں البتہ وضو کرلے۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٧‘ مسلم فی الحیض نمبر ٢٥‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٦‘ نمبر ١٢٢‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٦٦‘ مالک فی الطھارۃ نمبر ٧٦۔

750

۷۵۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ، وَزَادَ (وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلٰوۃٍ) .
٧٥٠: نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ ” وضوء ہٗ للصلاۃ “ کہ (نماز والا وضو کرے) کے الفاظ زائد ہیں۔
تخریج : نسائی ١؍٥٠۔

751

۷۵۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُفْیَانَ الْجَحْدَرِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ .
٧٥١: نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٤٣۔

752

۷۵۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ، وَزَادَ (وَاغْسِلْ ذَکَرَکَ) .
٧٥٢: عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ ” اغسل ذکرک “ کے الفاظ اس سے زائد ہیں کہ استنجاء کرلو۔
تخریج : نسائی ١؍٥٠‘ ابو داؤد ١؍٢٩۔

753

۷۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ح .
٧٥٣: ابن مرزوق نے ابو حذیفہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تخریج : مسند العدنی۔

754

۷۵۴ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ ح .
٧٥٤: علی بن شیبہ نے بو نعیم سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍١١٦۔

755

۷۵۵ : وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ، ثُمَّ أَجْمَعُوْا جَمِیْعًا فَقَالُوْا : عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٥٥: پھر تمام نے سفیان بواسطہ عبداللہ بن دینار ان کی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔
تخریج : دارمی ١؍١٣٤

756

۷۵۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .وَرُوِیْ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ وَأَبِیْ سَعِیْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا، مِثْلَ ذٰلِکَ.
٧٥٦: مالک نے عبداللہ بن دینار سے اسی طرح اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری و مسلم ١؍١١٠‘ باسناد آخر ١؍١٤٤۔

757

۷۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَطَائِ ڑ الْخُرَاسَانِیِّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمُرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ : (رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِلْجُنُبِ، اِذَا أَرَادَ أَنْ یَنَامَ، أَوْ یَشْرَبَ، أَوْ یَأْکُلَ، أَنْ یَتَوَضَّأَ وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ) .
٧٥٧: یحییٰ بن یعمر نے حضرت عمار بن یاسر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنابت والے کو رخصت دی ہے کہ جب وہ سوئے یا کھائے یا پئے تو وہ نماز والا وضو کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٨‘ نمبر ٢٢٥‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ٨٨‘ روایت نمبر ١٢٠۔

758

۷۵۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ وَنَافِعُ بْنُ یَزِیْدَ، نَحْوَ ذٰلِکَ، عَنِ ابْنِ الْہَادِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَصَبْتُ أَہْلِیْ وَأُرِیْدُ النَّوْمَ قَالَ تَوَضَّأْ وَارْقُدْ) .فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجُنُبِ اِذَا أَرَادَ النَّوْمَ، بِمَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ نَفَرٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ مِنْ بَعْدِہٖ، مِنْہُمْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ عَنْہَا، مِنْ رَأْیِہَا فِیْمَا تَقَدَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ .
٧٥٨: یحییٰ بن ایوب و نافع بن یزید نے اسی طرح ابن الھاد عن عبداللہ بن خباب (رض) اور ابو سعید خدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں اپنے اہل سے تمتع کروں اور سونے کا ارادہ ہو تو کیا حکم ہے فرمایا وضو کر کے سو جاؤ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں کہ جنابت والا جب سونے کا ارادہ کرے (تو وضو کر کے سوئے) اس سلسلہ میں روایات متواتر ہیں اور صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت نے آپ کے بعد اس کو بیان کیا ان میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں ‘ ہم نے ان کی رائے اس سلسلہ میں زید بن ثابت سے روایت کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ٩٩‘ نمبر ٥٨٦۔

759

۷۵۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ، عَنِ ابْنِ ہُبَیْرَۃَ، عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ اِذَا تَوَضَّأَ الْجُنُبُ قَبْلَ أَنْ یَنَامَ، فَقَدْ بَاتَ طَاہِرًا .فَھٰذَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ یُخْبِرُ أَنَّہٗ اِذَا تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ یَنَامَ، ثُمَّ نَامَ کَانَ کَمَنْ قَدِ اغْتَسَلَ، قَبْلَ أَنْ یَنَامَ، فِی الثَّوَابِ الَّذِیْ یُکْتَبُ لِمَنْ بَاتَ طَاہِرًا .وَقَدْ ذَکَرْنَا حَدِیْثَ الْحَکَمِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَأْکُلَ وَہُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ) ، وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ .فَذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا قَوْمٌ، فَقَالُوْا لَا یَنْبَغِیْ لِلْجُنُبِ أَنْ یَطْعَمَ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ، فَقَالُوْا لَا بَأْسَ أَنْ یَطْعَمَ وَإِنْ لَمْ یَتَوَضَّأْ .وَکَانَ لَہُمْ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٧٥٩: قبیصہ بن ذویب نے بیان کیا کہ زید بن ثابت (رض) نے فرمایا جب جنابت والے نے نیند سے پہلے وضو کرلیا تو گویا اس نے طہارت کی حالت میں رات گزاری۔ یہ حضرت زید بن ثابت (رض) بتاتے ہیں کہ جب سونے سے پہلے وضو کر کے سو جائے تو وہ ثواب میں اس شخص کی طرح ہے جس نے غسل کے ساتھ طہارت کی حالت میں رات گزاری۔ ہم نے حکم کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنابت کی حالت میں کوئی چیز کھانے کا ارادہ کرتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کرتے۔ حضرت ابوسعید (رض) سے اس کے موافق روایت ہے۔ ایک جماعت اسی طرف گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلا وضو جنبی کو کسی چیز کا کھانا درست نہیں۔ دیگر علماء نے ان کی اس بات میں مخالفت کرتے ہوئے کہا اگرچہ وضو نہ بھی کرے تب بھی کھانے میں کچھ حرج نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے جو فہد نے روایت کی۔
حاصل روایات : یہ حضرت زید بن ثابت (رض) ہیں جو یہ بتلا رہے ہیں کہ جب کسی جنابت والے نے سونے سے پہلے وضو کرلیا پھر وہ سو گیا تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے سونے سے پہلے غسل کرلیا ہو اور اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا پاکیزگی کی حالت میں رات گزارنے والا ہو یہ تمام روایات ثابت کرتی ہیں کہ جنابت والے کو سونے سے پہلے نماز والا وضو کرلینا مستحب ہے۔
مسئلہ نمبر ٢: جنابت والے کو کھانے پینے سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے یہ ظاہریہ کا مذہب ہے یہ فریق اوّل ہے اور امام ابوحنیفہ و شافعی دیگر جمہور فقہاء وضو کو مستحب قرار دیتے ہیں یہ مسلک اعتدال والے فریق ثانی ہیں۔
دلیل فریق اوّل : وہ روایت ہے جس کو نمبر ٧٣٨ میں حکم عن ابراہیم عن الاسود عن عائشہ (رض) سے ذکر کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنابت کی حالت میں ہوتے تو وضو فرماتے اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی اس کے موافق روایت ہے۔
بعض علماء کا قول : یہ ہے یہاں ابو سعید خدری کی بجائے عمار بن یاسر (رض) ہونا چاہیے کیونکہ ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں صرف نیند کا تذکرہ ہے اور عمار بن یاسر (رض) کی روایت میں کھانے کا تذکرہ موجود ہے روایت نمبر ٧٥٧۔ ممکن ہے کہ ابو سعید خدری (رض) کی کسی اور روایت کی طرف اشارہ ہو جو یہاں مذکور نہ ہو۔
فریق دوم کا مؤقف کہ کھانے پینے کے لیے وضو مستحب ہے واجب نہیں اگر بلا وضو بھی کھالے تو حرج نہیں ہے۔
دلیل نمبر ١: یہ روایت عائشہ صدیقہ (رض) سے ہے۔

760

۷۶۰ : أَنَّ فَہْدًاحَدَّثَنَا قَالَ أَخْبَرَنِیْ سُحَیْمٌ الْحَرَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ الْأَیْلِیُّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَرَادَ أَنْ یَأْکُلَ وَہُوَ جُنُبٌ غَسَلَ کَفَّیْہِ) .فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ مَا ذَکَرْنَا، وَرُوِیَ عَنْہَا خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا مِمَّا رَوَیْنَا عَنْہَا أَنَّہٗ کَانَ یَتَوَضَّأُ وُضُوْئَ ہٗ لِلصَّلَاۃِ، فَلَمَّا تَضَادَّ ذٰلِکَ، احْتَمَلَ عِنْدَنَا، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنْ یَکُوْنَ وُضُوْئُ ہٗ حِیْنَ کَانَ یَتَوَضَّأُ فِی الْوَقْتِ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْبَابِ أَنَّہٗ کَانَ اِذَا رَأَی الْمَائَ لَمْ یَتَکَلَّمْ، فَکَانَ یَتَوَضَّأُ لِیَتَکَلَّمَ فَیُسَمِّی وَیَأْکُلُ ثُمَّ نَسَخَ ذٰلِکَ، فَغَسَلَ کَفَّیْہِ لِلتَّنْظِیْفِ، وَتَرَکَ الْوُضُوْئَ .کَذٰلِکَ وُضُوْئُ ہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ النَّوْمِ، یَحْتَمِلُ أَنَّہٗ کَانَ یَفْعَلُہُ أَیْضًا لِیَنَامَ عَلٰی ذِکْرٍ، ثُمَّ نَسَخَ ذٰلِکَ، فَأُبِیْحَ لِلْجُنُبِ ذِکْرُ اللّٰہِ، فَارْتَفَعَ الْمَعْنَی الَّذِیْ لَہٗ تَوَضَّأَ .وَقَدْ رَوَیْنَا فِیْ غَیْرِ مَوْضِعٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْخَلَائِ فَقِیْلَ لَہٗ : أَلَا تَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ : أُرِیْدُ الصَّلَاۃَ فَأَتَوَضَّأُ) ، فَأَخْبَرَ أَنَّہٗ لَا یَتَوَضَّأُ إِلَّا لِلصَّلَاۃِ .فَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا نَفْیُ الْوُضُوْئِ عَنِ الْجُنُبِ اِذَا أَرَادَ النَّوْمَ أَوَ الْأَکْلَ أَوْ الشُّرْبَ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی نَسْخِ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَوٰی مَا ذَکَرْنَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ جَوَابِہٖ لِعُمَرَ .ثُمَّ جَائَ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٧٦٠: عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنابت کی حالت میں کھانے کا ارادہ فرماتے تو اپنے دست مبارک کو دھو لیتے۔ جو روایت ہم نے ذکر کی یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے اور ان سے اس کے خلاف روایت بھی وارد ہوئی ہے جس میں یہ آیا ہے کہ آپ نماز والا وضو فرما لیتے۔ اب جبکہ دونوں میں تضاد ہوگیا تو اس میں ہمارے ہاں یہ احتمال ہے ‘ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ یہ وضو والی بات اس زمانے کی ہے جب آپ پانی دیکھتے تو گفتگو بھی وضو کر کے فرماتے۔ پھر بسم اللہ پڑھتے اور کھانا کھاتے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفائی کے لیے اپنے دونوں ہاتھ دھو لیتے اور وضو کو ترک کردیا۔ نیند کے وقت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کی یہی کیفیت تھی۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اس لیے کرتے تھے تاکہ ذکر اللہ کے ساتھ نیند کریں۔ پھر یہ منسوخ ہوگیا۔ اس جنابت والے کے لیے ذکر اللہ کو مباح کیا گیا۔ پس اس سے وہ مقصد ختم ہوا جس کے لیے آپ نے وضو کیا۔ اس کے علاوہ دوسرے مقام پر ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت الخلاء سے باہر تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کریں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : جب میں نماز کا ارادہ کروں گا تو وضو کرونگا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں بتلایا کہ میں نماز ہی کے لیے وضو کرتا ہوں پس اس میں جنابت والے سے وضو کے متعلق نفی ہے جبکہ وہ سونے ‘ کھانے پینے کا ارادہ کرتا ہو اور اس کے نسخ پر دلالت کرنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت ہے جس کو ہم نے بیان کردیا کہ وہ حضرت عمر (رض) کے جواب میں آپ نے فرمائی۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابن عمر (رض) کا قول اس طرح ہے۔
تخریج : ابو داؤد و فی الطھارۃ باب ٨٧ نمبر ٢٢٣‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٦٤۔
حاصل کلام : روایت بالا جس سے فریق اوّل نے استدلال کیا وہ بھی عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے اور فریق دوم کا مستدل بھی حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے اس کے خلاف بھی روایت موجود ہے جس میں تذکرہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز والا وضو فرما لیتے تھے۔ جب ان روایات میں تضاد آگیا تو اس میں احتمال یہ ہے کہ شروع میں حکم تھا جیسا گفتگو کے سلسلہ میں بھی موجود ہے کہ پانی موجود ہوتا تو وضو کر کے کلام فرماتے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا گویا یہ شروع اسلام کا معاملہ ہے اور ہاتھوں کا دھونا تنظیف کے لیے ہے اور وضو کو بھی ترک کردیا گیا کہ لزوم نہ رہا۔
سونے کے وقت وضو کا بھی یہی حال ہے کہ آپ اس کو اس لیے اختیار فرماتے تاکہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے سوئیں شروع اسلام میں یہ حکم تھا پھر منسوخ ہوگیا جنابت والے کے لیے ذکراللہ کی اجازت دے دی گئی پس وہ مقصد جس کے لیے وضو کیا تھا وہی اٹھ گیا یعنی لازم نہ رہا۔
نمبر ٢: پہلے ہم حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت ذکر کر آئے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلاء سے باہر تشریف لائے آپ سے پوچھا کیا آپ وضو فرمائیں گے ؟ تو فرمایا جب میں نماز کا ارادہ کرتا ہوں تو وضو کرلیتا ہوں۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ١١٩‘ دارمی فی الوضوء باب ٧٩‘ والاطعمہ باب ٣٥‘ مسند احمد ١؍٢٢٢‘ ٢٨٢۔
اس ارشاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلا دیا کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے اس روایت سے جنابت والا جب سونے کا ارادہ کرے یا کھانا پینا چاہے تو اس کے لیے بھی وضو کی نفی ثابت ہوگئی۔
نمبر ٣: اس کے نسخ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابن عمر (رض) نے اسی بات کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عمر (رض) کے ایک سوال کے جواب میں نقل کیا ہے پھر انہی ابن عمر (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ فتویٰ منقول ہے وہ یہ ہے۔

761

۷۶۱ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَیُّوْبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (اِذَا أَجْنَبَ الرَّجُلُ، وَأَرَادَ أَنْ یَأْکُلَ أَوْ یَشْرَبَ أَوْ یَنَامَ، غَسَلَ کَفَّیْہِ، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْہَہٗ وَذِرَاعَیْہِ، وَغَسَلَ فَرْجَہٗ، وَلَمْ یَغْسِلْ قَدَمَیْہِ) فَھٰذَا وُضُوْئٌ غَیْرُ تَامٍّ .وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ فِیْ ذٰلِکَ بِوُضُوْئٍ تَامٍّ، فَلَا یَکُوْنُ ھٰذَا إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ النَّسْخُ لِذٰلِکَ عَنْہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِی الرَّجُلِ یُجَامِعُ أَہْلَہٗ ثُمَّ یُرِیْدُ الْمُعَاوَدَۃَ۔
٧٦١: نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں جب آدمی جنابت کی حالت میں ہو اور کھانے پینے کا ارادہ کرے یا سونا چاہے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے اور مضمضمہ اور استنشاق کرلے اور اپنے چہرے کو دھوئے اور بازو دھوئے اور شرمگاہ کو دھوئے اور پاؤں نہ دھوئے۔ یہ وضو کامل نہیں ہے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں مکمل وضو کا حکم فرمایا ہے اور یہ بات اسی وقت درست رہ سکتی ہے جب کہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکا ہو حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شخص کے متعلق مروی ہے جو اپنی زوجہ سے دوبارہ جماع کرنا چاہتا ہے ‘ ملاحظہ ہو۔
تخریج : مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطھارۃ ١؍٦٠؍٦١۔
اس روایت میں ابن عمر (رض) نے جس وضو کا ذکر کیا وہ غیر تام ہے کیونکہ وضو کی تکمیل تو پاؤں دھونے سے ہوتی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو وضو تام کا حکم فرمایا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ہاں وضو والا حکم منسوخ ہوچکا تبھی تو وضو سے وہ ہاتھ منہ دھونا لغوی وضو مراد لے رہے ہیں ورنہ وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے پس اس سے استدلال درست نہ ہوا۔
مسئلہ نمبر ٣: جنابت والا جماع کی طرف دوبارہ عود کرے تو آیا اس کو وضو لازم ہے ابن سیرین اور حسن بصری اور ظاہریہ کے ہاں واجب ہے یہی فریق اوّل ہے اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کے ہاں لازم نہیں تقاضا نظافت ہے اور مستحب ہے۔

762

۷۶۲ : مَا حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا أَتٰی أَحَدُکُمْ أَہْلَہٗ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یَعُوْدَ فَلْیَتَوَضَّأْ) .
٧٦٢: ابو التوکل نے بتلایا کہ ابوسعید الخدری (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے اہل کے ساتھ قربت کرے پھر وہ بار دیگر جماع کرنا چاہتا ہو تو اسے وضو کرنا چاہیے۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ١٧‘ ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٥‘ نمبر ٢٢٠‘ ترمذی فی الطھارۃ باب ١٠٧‘ نمبر ١٤١‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٦٨‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ نمبر ٥٨٧۔

763

۷۶۳ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ یَعْقُوْبَ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَاصِمٍ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَ بِھٰذَا فِیْ حَالِ مَا کَانَ الْجُنُبُ لَا یَسْتَطِیْعُ ذِکْرَ اللّٰہِ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ فَأَمَرَ بِالْوُضُوْئِ لِیُسَمِّیَ عِنْدَ جِمَاعِہٖ، کَمَا أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ، ثُمَّ رَخَّصَ لَہُمْ أَنْ یَتَکَلَّمُوْا بِذِکْرِ اللّٰہِ وَہُمْ جُنُبٌ، فَارْتَفَعَ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُجَامِعُ ثُمَّ یَعُوْدُ وَلَا یَتَوَضَّأُ) ، قَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْبَابِ .فَھٰذَا، عِنْدَنَا نَاسِخٌ لِذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یَطُوْفُ عَلٰی نِسَائِہِ، فَکَانَ یَغْتَسِلُ کُلَّمَا جَامَعَ وَاحِدَۃً مِنْہُنَّ وَذَکَرَ فِیْ ذٰلِکَ .
٧٦٣: شعبہ نے عاصم سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ پس یہ بھی درست ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت دیا ہو جب جنابت والا بلا وضو ذکر نہ کرسکتا تھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کا حکم فرمایا جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث کے علاوہ دوسری روایت میں یہ بات فرمائی ہے۔ پھر ان کو ذکر اللہ زبان سے کرنے کی اجازت ملی جبکہ وہ حالت جنابت میں ہوں۔ پس یہ حکم اٹھ گیا اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جماع کرتے پھر دوبارہ جماع کرتے اور اس کے لیے وضو نہ کرتے۔ ہم نے یہ روایت اس باب کے علاوہ اور کسی مقام پر ذکر کردی ہے۔ پس یہ ہمارے نزدیک اس کو نسخ کرنے والی ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ اپنی تمام ازواج (رض) کے ہاں چکر لگاتے اور جماع کے بعد غسل کرتے اور یہ روایت اس سلسلہ میں مذکور ہے۔
فریق اوّل کو جواب : یہ اس زمانے کی بات ہو کہ جب جنابت والے کو ذکراللہ کی اجازت نہ تھی بلکہ اس کے لیے وضو کا حکم تھا جیسا کہ کئی احادیث میں موجود ہے پھر جنابت کی حالت میں کلام اور ذکراللہ کی اجازت دے دی گئی آیت وضو سے یہ چیزیں منسوخ ہوگئیں۔
نمبر ٢: یہ بھی ممکن ہے کہ وضو سے لغوی معنی مراد ہو پس اس سے وجوبِ وضو پر استدلال درست نہیں۔
فریق ثانی کی دلیل روایت حضرت عائشہ (رض) :
حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج سے جماع کرتے پھر دوبارہ کرتے اور وضو نہ کرتے پس یہ روایت حضرت عائشہ (رض) اور ابو سعید الخدری (رض) کی روایت کے لیے ناسخ بن جائے گی۔
ایک اعتراض : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مروی ہے کہ آپ اپنی ازواج سے قربت فرماتے اور ہر ایک سے جماع کے لیے الگ غسل فرماتے۔ وہ روایت یہ ہے۔

764

۷۶۴ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ، قَالَ ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ وَأَبُو الْوَلِیْدِ قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح۔
٧٦٤: عفان بن مسلم اور ابوالولید دونوں نے کہا ہمیں حماد بن سلمہ نے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ اسے یہ جواب دیا جائے گا ۔ اس روایت میں غسل کے لازم ہونے پر دلالت کرنے والی ایک بات بھی نہیں اس لیے بھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ زیادہ پاکیزگی اور ستھرائی اور طہارت والی بات ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات بھی وارد ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام بیویوں کے ہاں تشریف لے گئے اور آخر میں ایک ہی غسل فرمایا۔

765

۷۶۵: وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبَ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ، عَنْ عَمَّتِہِ سَلْمَیْ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا طَافَ عَلٰی نِسَائِہٖ فِیْ یَوْمٍ، فَجَعَلَ یَغْتَسِلُ عِنْدَ ھٰذِہٖ وَعِنْدَ ھٰذِہٖ. فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَوْ جَعَلْتہ غُسْلًا وَاحِدًا فَقَالَ ھٰذَا أَزْکٰی وَأَطْہَرُ وَأَطْیَبُ) قِیْلَ لَہٗ : فِیْ ھٰذَا مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ عَلَی الْوُجُوْبِ، لِقَوْلِہٖ (ھٰذَا أَزْکَی وَأَطْیَبُ وَأَطْہَرُ) .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ طَافَ عَلٰی نِسَائِہٖ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ .
٧٦٥: سلمیٰ رافع (رض) سے نقل کرتی ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ایک دن میں اپنی تمام ازواج سے قربت فرماتے تو ہر ایک کے ہاں غسل فرماتے۔ آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی غسل فرماتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ زیادہ پاکیزگی اور طہارت و ستھرائی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطھارۃ باب ٨٥‘ نمبر ٢١٩‘ ابن ماجہ فی الطھارۃ باب ١٠٢‘ مسند احمد ٦؍٨‘ ١٠‘ ٢٩١۔
الجواب نمبر ١: پس اس کے جواب میں کہا جائے گا یہاں تو وجوب کی دلالت موجود نہیں بلکہ ازکی ‘ اطہر ‘ اطیب کے صیغے خود استحباب کو ظاہر کر رہے ہیں۔
نمبر ٢: اور یہ بات خود متعدد روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے تمام عورتوں سے جماع فرمانے کے بعد آخر میں ایک غسل فرمایا ہے روایات ملاحظہ ہوں۔

766

۷۶۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَبَحْرٌ قَالَا : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ ح .
٧٦٦: عیسیٰ بن یونس نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔
تخریج : ابو داؤد ١؍٢٩۔

767

۷۶۷ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِی الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ (رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَافَ عَلٰی نِسَائِہٖ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ) .
٧٦٧: زہری نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام ازواج کے ہاں ایک ہی غسل کے ساتھ چکر لگایا۔
تخریج : مسلم فی الحیض ٢٨‘ نسائی فی الطھارۃ باب ١٦٩‘ مسند احمد ١٨٩؍٢٢٥۔

768

۷۶۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٧٦٨: انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٨٤۔

769

۷۶۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قُلْ : ثَنَا سُفْیَانُ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٧٦٩: سفیان نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ماجہ ١؍٤٤۔

770

۷۷۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٧٧٠: حمید نے نقل کیا کہ انس (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ١؍١٣٦۔

771

۷۷۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ح .
٧٧١: حماد بن سلمہ نے اپنی سند سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : الدارمی ١؍١٣٣۔

772

۷۷۲ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ڑالتَّیْمِیُّ، قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٧٧٢: حماد بن سلمہ نے ثابت سے انھوں نے انس (رض) سے پھر انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٦١۔

773

۷۷۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ، قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ، قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ۔
٧٧٣: حدثنا شعبہ عن ہشام بن زید عن انس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تخریج : مسلم ١؍١٤٤۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جب تمام ازواج سے قربت کے بعد ایک غسل پر اکتفا فرمایا گیا تو یہ دلیل ہے کہ ہر جماع کے بعد نہ وضو لازم ہے اور نہ ہر جماع کے بعد دوسرے جماع سے پہلے وضو یا غسل ضروری ہے پس یہ روایات ظاہر کرتی ہیں کہ وجوب کا استدلال اس روایت سے درست نہیں۔
خلاصہ الزام : طہارت نماز کے لیے شرط ہے اس کا مکمل بیان کرنے کے بعد نماز کو شروع کیا نماز کے لیے علامت اور اسلام کے شعائر میں سے اذان ہے اس وجہ سے اذان کو پہلے ذکر کیا۔ کتاب الصلوٰۃ میں ٧٢ باب اور ١٨٩٤ روایات ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔